یاد رفتگان


زندگی کے سفر میں گزرنے والا ہرماہ و سال، جانے والے عزیزوں ، دوستوں اور حددرجہ قیمتی انسانوں کی جدائی کا دُکھ دیتا ہےاور باربار زندگی کی ناپایداری کا احساس دلاتا ہے۔ ہرجدائی ایک زخم ہے لیکن کچھ تو اتنے گہرے ہیں کہ ان کی ٹیسیں بے چین کرتی رہتی ہیں اور گاہے مایوسی کے سائے بھی تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ لیکن جلد ہی خالق کائنات کا حکم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی قدم جما دیتی ہے اور یہ سبق دیتی ہے کہ ہرفرد نے جانا ہے۔ وہ آیا بھی حکمِ الٰہی سے تھا اور گیا بھی خالق کی مرضی سے ہے۔ اللہ کی حکمت ہی غالب ہے، لیکن چشم کا اَشک بار ہونا بھی انسان کی فطری مجبوری ہے۔

ایسے قیمتی افراد میں بہت سی عظیم ہستیاں شامل ہیں۔ تاہم، چودھری غلام محمد صاحب مرحوم [م:۲۹جنوری ۱۹۷۰ء]کی یاد ہروقت ساتھ رہتی ہے، جنھوں نے تحریک ِ اسلامی کی دعوت کودنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لیے افریقہ، عالمِ عرب، جنوبی ایشیا، مشرق بعید اور یورپ و امریکا کے لیے بامعنی منصوبہ سازی کی، حالانکہ ا ن کے چوبیس گھنٹے کراچی میں جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص تھے۔ چودھری صاحب کے ساتھ جن حضرات نے، ان کے دست و بازو کی حیثیت سے تحریک اسلامی کے پیغام کو دُنیابھر میں پھیلایا، ان کے تذکرے میں محترم مسعود عالم ندوی [م: ۱۶مارچ ۱۹۵۴ء]، محترم عاصم الحداد [م: ۱۱؍اپریل ۱۹۸۹ء]اور جناب خلیل احمد حامدی [م: ۲۵ نومبر ۱۹۹۴ء] نمایاں ہیں۔ ان حضراتِ گرامی کی پے درپے جدائی نے دل توڑا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانۂ غیب سے کوئی نہ کوئی بندوبست فرما دیا۔ اسی ضمن میں میرے لیے چھوٹے بھائی اور عزیز بیٹے کی مانند عبدالغفار عزیز اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئے۔ ان سے رفاقت کا ۳۰برسوں پر پھیلا زمانہ یوں لگتا ہے کہ ایک لمحے میں سمٹ گیا اور وہ ۵؍اکتوبر ۲۰۲۰ء کو اپنے ربّ کے بلاوے پر ہمیں چھوڑ کر، اللہ کے حضور پیش ہوگئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

عبدالغفارعزیز بھائی کو یاد کرتا ہوں تو میرے ذہن میں ان کا خوب صورت، صحت مند اور توانا سراپا اُبھرتا ہے۔ ایساسراپا جو خوش خلقی، حُسنِ اخلاق، فروتنی، ہمدردی، لگن، اپنائیت اور جذبۂ دعوت سے سرشار ہے۔ان کی زندگی، خدمات اور کارکردگی پر نظر ڈالتا ہوں تو سورہ آل عمران کی آخری آیت نظروں کے سامنے آجاتی ہے:
 ترجمہ:’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پاؤگے‘‘۔

اس میں اہلِ ایمان کے لیے فلاح کی خوش خبری ہے، مگر چار شرائط کے ساتھ، یعنی صبر، ثابت قدمی، دین کی خدمت کے لیے کمربستہ رہنا اور تقویٰ جو نام ہے مقصد زندگی اور دین کے غلبے کی جدوجہد کے لیے استقامت اور استمرار کا۔ باطل کے مقابلے میں ہم قدم رفقا کے ساتھ مل کر، ایک دوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھانا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے عبدالغفار عزیز کو صبر، ثابت قدمی، خدمت ِدین کے لیے کمر بستگی، اور تقویٰ___ ان چاروں خصوصیات کے اعتبار سے اللہ کا سچا بندہ اور دین کا مخلص خادم پایا۔

دعوتِ حق اور ایک بندئہ مومن کی کامیابی کی یہ چاروں صفات بے حد اہم ہیں۔ تاہم مَیں دیگر تین اعلیٰ صفات کے ساتھ دعوتِ دین کے کاموں کے لیے کمربستہ رہنے پر خصوصی توجہ کو بہت اہم سمجھتا ہوں، جنھیں بدقسمتی سے بالعموم نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مطالعہ، تحقیق، محنت، تیاری اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اقدامات شامل ہیں۔ اس پہلو سے میں نےعزیزی عبدالغفار میں وہ کیفیت دیکھی، جو تحریک کی بڑی بنیادی ضرورت ہے۔ آج مطالعے، تحقیق، جستجو اور خوب سے خوب تر کی تلاش پر وہ توجہ نہیں دی جارہی، جو قرآن کا تقاضا اور تاریخ کا مطالبہ ہے۔ مجھے حالیہ تحریکی زندگی میں عزیزی حسن صہیب مراد [م: ۱۰ستمبر ۲۰۱۸ء] اور عزیزی عبدالغفار عزیز میں یہ کیفیت نظرآئی اور مجھے توقع تھی اور ہرلمحہ یہی دُعا تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سے دین کی خدمت لے۔لیکن ہوتا وہی ہے جو خالق و مالک کو مطلوب ہے۔ یہ دونوں ہی ہم سے رخصت ہوگئے۔ تحریک کی قیادت، نوجوان کارکنوں اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو اس سلسلے میں بڑی فکرمندی اور عملی کاوش کی ضرورت ہے۔ اللہ کا قانون ہے کہ وہ توکّل اور صبرومصابرت کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور تحقیق و جستجو اور مخالف پر علمی اور عملی برتری کو بھی جدوجہد کے لیے ضروری قرار دیتا ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طرف پوری توجہ دیں۔ عبدالغفار عزیز نے اس سلسلے میں ایک روشن مثال چھوڑی ہے۔

انھوں نے نوجوانی ہی میں، بہت سے روشن معاشی امکانات کو چھوڑتے ہوئے، اور کیرئیر کی قربانی دے کر، اپنا پورا مستقبل تحریک اسلامی کے سپرد کردیا کہ تحریک دین حق کی جدوجہد میں انھیں جہاں اور جس طرح کام کرنے کی ہدایت کرے گی، وہ پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھیں گے۔ ہمارے اس عابد و زاہدبھائی نے واقعی پلٹ کر نہیں دیکھا۔

یاد رہے کہ عبدالغفار عزیز، جماعت اسلامی کے بڑے مخلص رہنما حکیم عبدالرحمان عزیز مرحوم (سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ) کے صاحبزادے تھے۔ گویا کہ انھوں نے تحریک کے ماحول میں آنکھیں کھولیں، لیکن عملاً ان کی ابتدائی تربیت میں براہِ راست جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی بڑا کردار نہیں تھا۔ ثانوی درجۂ تعلیم کے بعد ان کی فکری، دینی اور تعلیمی تربیت الاخوان المسلمون کے دامنِ محبت میں ہوئی، جب وہ علّامہ محمدیوسف القرضاوی صاحب کے   حلقۂ اثر میں زیرتعلیم تھے اور قطر کی درس گاہوں میں پڑھ رہے تھے۔ اخوان سے گہرے ربط نے ان کی شخصی تعمیر اور صلاحیتوں میں نکھار میں اہم کردار ادا کیا۔ قرآن کریم سے گہرا تعلق اور اذکار و اوراد سے عملی وابستگی ایسی کہ جیسے سانسوں کی آمدورفت، اللہ کی کبریائی اور احسانات کے اعتراف سے بندھی ہو۔ یہ چیز بھی اخوان سے تعلق کا عظیم عطیہ تھا، جسے انھوں نے اپنایا۔ اُردو زبان کا بہترین ذوق، انگریزی پر اچھی قدرت اور عربی زبان وادب سے عشق کی حد تک وابستگی نے ان میں اظہاروبیان کی قدرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔

عزیزی عبدالغفار کی شخصیت کے تحریک اسلامی اور اس کی قیادت سے تعلق کا ایک یادگار واقعہ اس وقت رُونما ہوا، جب بے نظیر صاحبہ کے دورِ وزارتِ عظمیٰ اور جناب نصیراللہ بابر کے  زمانۂ وزارتِ داخلہ میں، بحالی جمہوریت تحریک کے دوران، اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی پُرامن ریلی ہوئی۔ ریلی کے بعد میرے گھرسے اسلام آباد پولیس نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی قیادت میں، محترم امیرجماعت قاضی حسین احمد صاحب اور مجھے گرفتار کیا۔ عجیب منظر تھا کہ ہم نہتے افراد کو گرفتار کرنے کے لیے سو کے قریب مسلح پولیس اہل کار، ہمارے گھر اور گھر کی عقبی گلیوں پر قابض تھے۔ جب پولیس ہمیں لے جانے لگی تو عبدالغفار عزیز نے بڑھ کر ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ ’’مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ محترم امیرجماعت کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور میں ان کی خدمت کے لیے اختیاری گرفتاری پیش کرتا ہوں‘‘۔ جس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے عبدالغفار عزیز کو ہمارے ساتھ لے جانے کا حکم دے دیا اور ہمیں سملی ڈیم کے گیسٹ ہاؤس میں لے جایا گیا ، جہاں ہم نے مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کیں۔ یہ اور بات ہے کہ نصف شب کے بعد ہمیں رہا کردیا گیا، لیکن جس طرح عبدالغفارعزیز نے امیر جماعت کی رفاقت کا حق ادا کیا، اس کا نقش کبھی دل سے محو نہیں ہوسکتا۔

ملّت اسلامیہ کے مسائل و مشکلات، اسلامی تحریکوں کے معاملات اور کارکردگی پر گہری نظر نے، انھیں ملکوں اور قوموں کی تقسیم سے بالاتر حیثیت دے کر ملّت کا عزیز، ہمدرد اور مددگار بنا دیا تھا۔
مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر، مسئلہ شیشان ہو یا تقسیم سوڈان کا المیہ، مشرقی تیمور کی مسیحی تخلیق ہو یااراکان، بوسنیا، کوسووا ، سنکیانگ میں مسلمانوں کی نسل کشی، بنگلہ دیش میں تحریک اسلامی کے رفقا کے لیے پھانسیوں اور قیدوجبر کی کالی آندھی ہو یا بھارت میں مسلمانوں پر تنگ ہوتی زمین، مصرمیں اخوان المسلمون کی جدوجہد، تحریک و انتخابات میں کامیابی اور داروگیر کا سلسلہ ہو یا شام میں  قتل عام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، تاجکستان، ترکی، مراکش، تیونس، الجزائر اور صومالیہ میں تحریک اسلامی کو درپیش چیلنج ہو یا یورپ میں پھیلی ہوئی تحریک اسلامی کی تنظیموں میں رابطہ کاری، ہرجگہ عبدالغفار عزیز ایک تازہ دم، ہمہ تن اور اَن تھک رہبراور مددگار کی حیثیت سے یوں کندھے سے کندھا ملا کر چلتے دکھائی دیتے، کہ جیسے وہ انھی ہم مقصد ساتھیوں کے ساتھ مدتوں سے سرگرمِ کار چلے آرہے ہیں۔
اس ضمن میں وہ قلم سے، تقریر سے، ملاقاتوں سے، ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر مکالموں اور مذاکروں کے ذریعے اور سوشل میڈیا پر تائید و ہمدردی اور ظالم کی مذمت کے لیے میدان میں ہروقت چوکس کھڑے رہتے اور درست موقف پوری قوت سے بیان کرتے ہوئے منظر پر چھا جاتے۔ عالمِ اسلام سے ان کی کمٹ منٹ رسمی نوعیت سے بالاتر اور جسم میں دوڑتے لہو کی مانند تھی۔

عالمِ اسلام کے مسائل اوربحرانوں پر انھوں نے ترجمان القرآن میں نہایت قیمتی مضامین لکھے، جو مصدقہ معلومات اور لکھنے والے کی براہِ راست معاملات کی جڑوں تک رسائی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ یہ مضامین مجرد معلومات سے آگے بڑھ کر جذبات کی گرمی اور عمل کی لگن کو بھی انگیخت کرتے۔ وہ مختلف ممالک میں بروئے کار اسلامی تحریکوں کے اندرونی بحرانوں اور تنظیمی مناقشوں کو حل کرنے کی صلاحیت اور بصیرت رکھتے تھے۔ میں نے انھیں مختلف درجات اور حلقوں میں مشاورت کے دوران بے لاگ اور صاف صاف راہِ عمل کی نشان دہی کرتے دیکھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ  وہ حفظ ِ راز اور حفظ ِ مراتب کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔

عالمی محاذ پر پاکستان کے قومی موقف کو پیش کرنے اور پاکستان کے نظریے کا دفاع کرنے اور تاریخ کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی پروپیگنڈے کی تردید کے میدان میں ان کی خدمات بے پناہ ہیں۔ بلاشبہہ انھوں نے پاکستان کے ایک رضاکار سفیر کا کردار ادا کیا۔
نہ صرف ماہ نامہ ترجمان القرآن ، بلکہ تحریک اسلامی نے عالمی سطح پر ان کی شخصیت سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر یہ اللہ کی مرضی کہ عبدالغفار عزیز بھائی ربّ کے بلاوےپر لبیک کہتے ہوئے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہم سے رخصت ہوگئے۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے، اور ان کی رحلت سے جو خلا واقع ہوا ہے، اسے پُر کرنے کا انتظام فرمائے، آمین!

سیّد منور حسن کا دنیا سے رخصت ہونا ہم سب کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور موت سے کسی کو مفر نہیں۔ ۲۶جون سے آج تک کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ پیارے منور بھائی کا خیال دل و دماغ سے اوجھل ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے، اور انھیں جنّت کے اعلیٰ مقامات پر اَبدی زندگی سے سرفراز فرمائے،آمین!

حقیقت یہ ہے کہ منور بھائی، تحریک ِ اسلامی کا قیمتی سرمایہ اور دورِ حاضر میں اسلام کی ایک قیمتی متاع تھے۔ مجھے ان کے ساتھ ۶۰سال بہت قریب اور ہرحیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا، یعنی: ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے، تحریک کے ایک کارکن اور ساتھی کی حیثیت سے، میرے ساتھ علمی کام کرنے والے ایک معاون کی حیثیت سے، اور میرے امیر کی حیثیت سے۔ الحمدللہ، ہرحیثیت سے ہمارا تعلق احترام، محبت اور تعاون کا رہا ہے۔ انھیں ہرحیثیت میں ایک بہت اچھا انسان اور ایک بڑا سچا مسلمان اور تحریک اسلامی کا ایک مخلص اور بہترین خادم پایا۔ بلکہ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ اللہ سے تعلق کو مضبوط تر بنانے، مقصد کی لگن میں یکسو ہونے، اور شہادتِ حق کے راستے پر ثبات و استقامت سے جدوجہد میں اپنے آپ کو گھلادینے کی منزل پر جاپہنچے تھے۔    اسی طرح جہاں دنیا کو اسلام کے رنگ میں ڈھالنے کا جذبہ، کوشش اور تڑپ تھی، وہیں دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے کنارہ کشی، سادگی، اخلاص، للہیت، قناعت اور درویشی ان کی زندگی کے امتیازی پہلو تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں منور بھائی کی زندگی میں سلف کی زندگی کی ایک جھلک نظر آتی تھی۔

۱۹۶۰ء میں جب وہ عزیزی آصف صدیقی کی دعوتی مساعی کے نتیجے میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے،  اسی وقت سے میرا اُن سے قریبی تعلق رہا۔ شروع میں ایک زیرتربیت ساتھی اور اجتماعی مطالعے میں شریک کی حیثیت سے ربط قائم ہوا۔ ۱۹۶۲ء میں جب محترم چودھری غلام محمد مرحوم کے ایما اور داعی تحریک مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی سرپرستی میں کراچی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی قائم کی گئی تو وہ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم تھے۔ اس وقت انھوں نے ایم اے سوشیالوجی کیا تھا۔ تب اپنے نوجوان ساتھیوں کی جو پہلی ٹیم بطور اسسٹنٹ میں نے بنائی، اس میں وہ شامل تھے۔ اکتوبر۱۹۶۴ء میں وہ شیخ محبوب علی بھائی کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے  ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور نظامت اعلیٰ سے فارغ ہوتے ہی جماعت اسلامی کے رکن بنے اور کراچی جماعت کے نظم کو اپنی خدمات پیش کردیں۔ اسی دوران ۱۹۶۸ء میں مَیں برطانیہ چلا گیا تو اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے سیکرٹری کی حیثیت سے انھوں نے اس علمی و تحقیقی ادارے کا نظم سنبھالا۔ انگریزی ماہنامے The Critarion اور پھر Universal Message کے مدیر رہے۔ایک مدت تک کراچی جماعت کے قیم اور پھر کراچی جماعت کے امیر بنے۔ ازاں بعد ۱۹۹۲ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے قیم بنے۔ ۲۰۰۹ء میں امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے اور پھر امارت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے بعد ۲۰۱۴ء میں دوبارہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی میں آخری لمحات تک علمی اور اجتماعی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

منور بھائی کو میری اور برادرم ڈاکٹر انیس احمد کی طرح مولانا مودودیؒ کی یہ محبت حاصل رہی کہ وہ ہم کو پیار سے خورشیدمیاں، انیس میاں اور منور میاں کہا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد نذیر احمد قریشی صاحب کی طرح منوربھائی کے والد محترم سیّد اخلاق حسن صاحب بھی مولانا کے قیام دہلی کے زمانے کے احباب میں سے تھے اور آخری وقت تک ان کے گہرے ذاتی تعلقات رہے۔

منور بھائی کی زندگی کا سب سے غالب پہلو مقصدیت ہے۔ جس پیغام اور دعوت کو انھوں نے شعور کے ساتھ قبول کیا، پھر زندگی بھر اس پر وہ یکسو ہوگئے۔ جس چیز کو انھوں نے حق سمجھ کر اپنی زندگی کا مقصد بنالیا، آخر دم تک اس سےوفاداری کا حق ادا کیا، اس کے لیے جدوجہد کرتے رہے، اس کے لیے قربانی دی اور ایسی سعادت کی زندگی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ تج دیا۔

دوسری قابلِ رشک خوبی اعلیٰ درجے کا نظم و ضبط (ڈسپلن) تھا۔ ان کی زندگی میں جو بے پناہ نظم پایاجاتا تھا، اس کی مثال سوائے چند لوگوں کے، مَیں کہیںاور نہیں دیکھ سکا۔ ان میں اپنے تمام کاموں کو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دینے کی صلاحیت پائی جاتی تھی۔ وہ ایک ایک لمحہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے سوچتے، پروگرام بناتے اور پھر اس پر عمل درآمد کرتے تھے۔ یعنی منصوبہ سازی، جائزہ، نفاذ اور تنظیمی ڈھانچے کی تیاری۔

مجھے اس بات کا بہت دُکھ ہے کہ آج تحریک میں علمی ذوق کم ہورہا ہے اور مطالعہ تو اس سے بھی کم ہے۔ دوسری طرف منور بھائی کو دیکھتا ہوں تو گو انھوں نے لکھا کم ہے، لیکن ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کی تقریر میں گہرائی اور جذبہ تھا۔ گفتگو میں علمی وژن، حاضردماغی اور دلیل تھی۔ وہ تحریک کے مسائل و معاملات پر مسلسل غوروفکر کرتے تھے کہ یہی ہمارا شعار ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔

منور بھائی ایک غیرمعمولی مقرر تھے۔ فطری خطابت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز فرمایا تھا۔ تقریر میں وہ سحر باندھ دیتے تھے۔ برجستگی اور مزاح سے، بڑے نپے تلے جملوں اور کم الفاظ میں بڑی بات کہنا ان کا طرئہ امتیازتھا۔ بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ وہ بڑے خوش الحان اور خوش گلو بھی تھے۔ کلامِ اقبال پڑھنے اور سنانے کا شان دار ذوق رکھتے تھے۔

مقصدیت، قیادت، اَن تھک جدوجہد اور محنت کے ساتھ ساتھ نماز سے تعلق میں عشق کی کیفیت کا مظہر تھے۔ عبادت میں خشوع و خضوع کی جو چاشنی میں نے ان کے لڑکپن سے ان میں دیکھی، وہ مثالی تھی۔ کراچی میں ان کوایک ایک مسجد کا پتا تھا کہ کس مسجد میں کس وقت نماز ہوتی تھی؟ اگر کسی ایک مسجد میں جماعت سے نماز چھوٹ جاتی تھی تو دوسری مسجد میں جاکر باجماعت پڑھتے تھے۔ اس پہلو سے منور بھائی اس دور میں الحمدللہ ثم الحمدللہ، اس کی ایک اچھی مثال تھے۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ لَا شَرِيْكَ لَہٗ۝۰ۚ (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔

 تحریک کی قیادت کے دوران ایک طرف انھوں نے بحیثیت امیر اپنی راے کا برملا اظہار کیا، تو وہاں دوسری طرف شوریٰ اور عاملہ نے جو بات طے کردی، انھوں نے پوری وفاداری کے ساتھ اس پر عمل کیا ۔ اپنی امارت کے دوران دعوت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دینے کے ساتھ، طاغوت کی شیطنت کو بے نقاب کرنے میں لمحہ بھر غافل نہ رہے۔

اسی طرح منوربھائی تحریک اسلامی کے تمام طبقات خصوصاً علماے کرام، اساتذہ، صحافتی برادری، ادیبوں،دانش وروں ،مزدور تنظیموں اور یونینوں سےربط اور رہنمائی کے لیے ہروقت مستعد رہتے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان انھیں حددرجہ محبوب تھے، جن کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے دامے، درمے اور سخنے، وہ ان کے ہم قدم رہتے۔ پھر ہزاروں کارکنوں سے بالکل ذاتی سطح پر خط، ملاقات اور پیغام کے ذریعے رابطہ رکھ کر انھیں مقصد ِ زندگی سے جڑے رہنے کے لیے اُبھارتے رہتے تھے۔ یہ فرائض، ان کی منصبی ذمہ داریوں کا حصہ نہ تھے، لیکن ان کے جذبے کا عملی مظہر تھے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں ان کو ایک مجاہد فی سبیل اللہ پایا۔ مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ ان کا شمار، اللہ کے ان خوش نصیب بندوں میں ہوگا، جن کے لیے قرآن نے فرمایا ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ  فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ۙ (احزاب ۳۳:۲۳)ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی اور قربانیوں کو قبول فرمائے، ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، انھیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ انھوں نے اُمت مسلمہ کے لیے، تحریک اسلامی کے لیے اور دعوتِ حق سے وابستہ افراد کی زندگیوں کو مسلسل جدوجہد کے جذبے سے سرشار کرنے کے لیے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ اللہ تعالیٰ  ہم سب کو ان کی نیک اور اچھی روایات کا احترام کرنے اور اس روش پر چلنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اور ہم سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔ ہمیں دینِ حق پر قائم رکھے اور ایمان پر خاتمہ کرے۔ دعوتِ دین کی تحریک میں، ملک میں اور اُمت اسلامیہ میں، ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ اس خلا کو پُر کرنے کا سامان کردے، آمین!

عالمِ عرب کے عظیم اسلامی مفکر ڈاکٹر محمدعمارہ علمی و فکری کارناموں سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد ۲۸ فروری ۲۰۲۰ء کی شام ۸۹سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ ڈاکٹر محمد عمارہ ۸دسمبر ۱۹۳۱ء کو مصر کے کفر الشیخ نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کیا۔ قاہرہ یونی ورسٹی سے اسلامیات میں گریجوایشن اور ایم اے کیا۔ وہیں سے ۱۹۷۵ میں اسلامی فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کئی علمی اداروں سے بحیثیت رکن وابستہ تھے، جن میں مصرکی مجلس اعلیٰ براے اسلامی امور، ہیئت کبار علما ازہر، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ (IIIT)، اور مجمع البحوث الاسلامیۃ، جامعہ ازہر نمایاں ہیں۔ آپ نے مجلۃ الازھر کی ادارت کی خدمات بھی انجام دیں۔

 ڈاکٹر محمد عمارہ نے تقریباً ایک سو کتابیں لکھیں اور علمی، تحقیقی اور فکری مجلات کے لیے متعدد مضامین سپردِ قلم کیے۔ بہت سی علمی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور علمی و فکری کاموں کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ وہ روزانہ ۱۸ گھنٹے مطالعہ و تحریر میں صرف کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’اگر عالم اسلام کے صرف سو علما و مفکرین بھی اپنے آپ کو علمی و فکری کاموں کے لیے وقف کردیں تو اس دور کا فکری منظرنامہ بالکل تبدیل ہوجائے گا‘‘۔

ڈاکٹر صاحب کی پرورش اور تربیت اگرچہ ازہر کے دینی پس منظر میں ہوئی، لیکن چونکہ شروع ہی سے وہ سماجی انصاف اور مصر پر غیر ملکی تسلط سے آزادی کے بڑے علَم بردار تھے، اس لیے کمیونسٹ تحریک اور مارکسی فکر سے متاثرہوئے اور اس تحریک کی نمایاں شخصیت بن گئے۔ اسی بنیاد پر تقریباً چھے سال تک جیل میں رہے۔ جیل کی زندگی میں انھوں نے اپنے افکار کاتنقیدی جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’سماجی مسائل کا صحیح حل مارکسیت اورطبقاتی کش مکش میں نہیں بلکہ اسلام میں ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی مارکسی فکر و تحریک سے وابستگی نے انھیں اس بات کا موقع دیا کہ وہ مغرب کے مادی افکار کوگہرائی کے ساتھ سمجھیں اور ان پر مضبوط تنقیدکرسکیں۔ وہ خود اسے مشیت ِ خداوندی سمجھتے تھے کہ ’’اس طرح وہ مارکسی فکر کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کا تریاق بھی سوچ سکے‘‘۔یہی وجہ ہے سیکولر اور مارکسی حضرات نے ڈاکٹر صاحب کو شدید دشمنی کا ہدف بنایا۔ ڈاکٹر عمارہ خِیَارُھُمْ فِیْ الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ  [ان میں سے جاہلیت کے زمانے میں جو بہتر تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد بھی بہتر ہے] کے مصداق سیکولرزم کے کیمپ سے نکلنے کے بعد اسلام کے بہترین داعی اور ترجمان ثابت ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں نمایاں فکری تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ وہ اپنی فکری لغزشوں کو تسلیم کرنے اور اپنے افکار سے رجوع کرنے میں عار نہیں محسوس کرتےتھے۔ یہ علمی جرأت آج بہت سے علما و مفکرین میں دکھائی نہیں دیتی۔ وہ ان تبدیلیوں کو فکری پختگی اور ارتقا سے موسوم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عمارہ کے نزدیک ’’فکری ارتقا انسانی زندگی کی علامت ہے اور جو لوگ فکری جمود کو اپنا شیوہ بنالیتے ہیں، وہ مُردہ اور بے جان جسم ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کے ایک مرحلے پر امام حسن البنا اور مولانا مودودی پر بھی تنقید کی اور پھر اپنے موقف سے رجوع بھی کیا۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ پر تنقید کے بعد انھوں نے اپنی پوزیشن پر نظرثانی کی اور کہا کہ ’’اگر ان کے تجدیدی کاموں کو حکومت کی مدد حاصل ہوتی تو آج امت کی صورتِ حال کچھ اور ہوتی‘‘۔ عرب قومیت سے مارکسیت اور مارکسیت سے اسلام تک کا سفر اسی کشادہ ذہنی کی وجہ سے ان کے لیے ممکن ہوسکا۔ اس دوران وہ ہمیشہ آزادیِ وطن اور سماجی انصاف کے علَم بردار رہے۔

 علامہ محمد غزالی [۹۶-۱۹۱۷ء] ڈاکٹر محمد عمارہ کو ’اسلام کا عظیم داعی اوراسلامی تعلیمات کا پاسبان‘ ' بتاتے ہیں۔ علامہ محمد یوسف قرضاوی [پ:۹ستمبر ۱۹۲۶ء] ڈاکٹر محمد عمارہ کو ’اسلامی سرحدوں کا نگہبان‘ قرار دیتے ہیں۔ اس سے جہاں ڈاکٹر عمارہ کی فکری عظمت کا احساس ہوتا ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ علما اپنے معاصرین کی علمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں کس قدر فیاض ہیں۔

ڈاکٹر محمد عمارہ نے فکری محاذ پر کئی کارنامے سرانجام دیے۔ انھوں نے اسلام پر اٹھائے جانے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا۔ مغربی افکار کے حملوں کا جواب بھی دیا۔ فکر اسلامی کے قدیم و جدید دھاروں پر لکھا۔ کئی کتابیں لکھ کر اسلام کے روشن پہلووں کو واضح کیا۔ محمد غزالی، حسن البنا اور ابوالاعلیٰ مودودی جیسی تجدیدو احیاے دین کی علَم بردار شخصیات اور ان کے کام کو بھی موضوع بنایا۔

ڈاکٹر عمارہ نے کئی ایسے مفکرین کی اسلامی خدمات پر روشنی ڈالی، جنھیں عموماً ’مغرب زدہ‘ تصور کیا جاتا ہے اور بتایا کہ ’’وہ فی نفسہٖ فکر اسلامی سے وابستہ ہیں۔ مشہور عرب ادیب طہٰ حسین کو سیکولر اور مغربیت زدہ لوگ اپنے لیے نمونہ مانتے ہیں اور اسلام پسندحلقہ انھیں مغربیت کا داعی سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر عمارہ نے طہٰ حسین کی پوری زندگی کا جائزہ لے کر بتایا کہ کس طرح وہ فکری ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد آخرکاراسلام کی طرف لوٹ آئے۔ اسی طرح جمال الدین افغانی، محمدعبدہٗ، رفاعۃ طہطاوی، قاسم امین، عبد الرحمن کواکبی جیسی شخصیات کی تحریروں کو الاعمال الکاملہ کے عنوان سے جمع کیا اور ان پر تحقیقی کام کرکے ان کے سلسلے میں شکوک و شبہات کو دور کیا اور فکراسلامی میں ان کی خدمات کو واضح کیا۔ یہ بڑا نازک اور مشکل کام تھا، لیکن کمالِ احتیاط کے ساتھ ڈاکٹر عمارہ نے سرانجام دیا۔ انھوں نے تصنیف و تالیف سے ہٹ کر فکری موضوعات پر فرج فودہ اور نصرحامد ابوزید جیسے سیکولر دانش وروں سے مکالمے اور مباحثے بھی کیے۔

ڈاکٹر عمارہ کے طرزِ فکرو تحقیق میں اعتدال کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ وہ فکر اسلامی میں أصالت (اسلام کے جوہر اور ثوابت سے وابستگی)اور معاصرت (عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی) دونوں کو ضروری سمجھتے تھے۔ وہ امت کے مکاتب فکر میں تقلیدی سوچ کے مخالف اور افکار مغرب کی کاسہ لیسی کے بھی خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’امت کے دانشورقطبیت (polarization)کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ صرف اسلامیات کے ماہر ہیں، لیکن مغربی افکار کوسمجھنے اور ان کا جواب دینے پر قادر نہیں ہیں اورکچھ لوگ مغربی افکار سے واقف ہیں، لیکن اسلام سے ناواقف ہیں۔ اس چیز نے اسلامی فکر کی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے‘‘۔ ڈاکٹر عمارہ نے اپنے علمی کام کے ذریعے اسی بات کی کوشش کی ہے کہ اسلام اور مغربی افکار دونوں کا مطالعہ کریں اور مغربی افکار کے مقابلے میں بجاطور پر اسلام کی بالادستی کو واضح کریں۔

ڈاکٹر عمارہ نے اپنی کتاب تحریر المرأۃ بین الاسلام و الغرب میں عورت کی آزادی کے سلسلے میں معتدل موقف اختیار کیا ہے۔ وہ مغربی سماج کے طرز پر عورت کی بلاحدود و ضوابط آزادی کے بھی خلاف تھے اور دین داری کے نام پر اسے مکمل طور پر محبوس کردینے کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر عمارہ کہتے ہیں کہ سدِّ ذرائع کے اصول میں غیر ضروری توسع حلال کو حرام کرنے کا موجب بنتا ہے۔ ان کے نزدیک بعض اوقات سماجی وسیاسی سرگرمیوں عورتوں کی شرکت، معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسلام کچھ شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر عمارہ نے عورت کی گواہی، میراث میں عورتوں کا حصہ، مرد کی قوامیت جیسے نازک مسائل پر بحث کرکے، اشکالات کے تشفی بخش جوابات دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عورت کی گواہی ہمیشہ آدھی نہیں ہوتی۔ وہ شھادۃ(قاضی کی عدالت میں عورت کے گواہ بننے) اوراشھاد( لین دین کے معاملے میں عورت کو گواہ بنانے )میں فرق کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عورت کی گواہی سے متعلق سورۂ بقرہ کی آیت کا تعلق لین دین کے معاملے میں گواہ بنانے سے ہے۔ رہا عدالت میں گواہی کا معاملہ تو اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ بعض حالات میں عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے، بعض حالات میں صرف عورت کی گواہی قبول کی جائے گی اور بعض حالات میں صرف مرد کی گواہی قبول کی جائے گی‘‘۔ اسی طرح میراث کے معاملے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’میراث کی تقسیم میں ایک بنیاد قرابت داری ہے۔ قرآن کی رُو سے بعض حالات میں عورت کو مرد کے برابر حصہ ملتا ہے اوربعض حالات میں عورت کو مرد کا نصف حصہ ملتاہے‘‘۔

ڈاکٹر عمارہ نے اسلامی تحریکات کے مسائل، طریق کار اور مستقبل پربھی لکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’اسلامی تحریکات سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ الجھ کر رہ گئی ہیں، جس سے اصلاحی کام اور سماجی انصاف کے مسائل و معاملات اور چیلنج متاثر ہوئے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر عمارہ نے اسلام میں فنون لطیفہ کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اسلام جمالیاتی قدروں کو پسند کرتا ہے اور فنون لطیفہ کا دشمن نہیں ہے‘‘۔ ان کے نزدیک ’’غنائیت اصلاًحرام نہیں بلکہ اس وقت حرام ہوتی ہے، جب وہ حرام کاموں کے ارتکاب کا وسیلہ بنے‘‘۔  ڈاکٹر عمارہ اپنے پیچھے ایک بڑا علمی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی وفات سے علمی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی فکری خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔

۲۲ فروری ۲۰۲۰ء بروز ہفتہ ،بوقتِ سحر حفیظ الرحمٰن احسن اپنے ربّ کے پاس چلے گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ احسن ان کا تخلص تھا،وہ شاعر تھے مگر شاعر کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھے۔ استاد، ادیب، نقاد، مقرر،منتظم۔ابتدائی دور میں وہ ـ’حفیظ الرحمٰن غازی پسروری‘ کے نام سے لکھتے تھے۔ وہ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۴ء کو پسرور (ضلع سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔

ان کا علمی و ادبی ذوق پروان چڑھانے میں زیادہ دخل دو شخصیتوں کا رہا۔اوّل: اسکول کے زمانے میں جناب طاہر شادانی(استاد گورنمنٹ ہائی سکول پسرور)اور مرے کالج سیالکوٹ کے دورِ طالب علمی میں پروفیسر آسی ضیائی۔

 انٹر میڈیٹ کے زمانے (۱۹۵۰ء-۱۹۵۲ ء)میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے۔ یہ وابستگی،جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت پر منتج ہوئی۔بی اے میں انھوں نے عربی کے مضمون میں (علامہ اقبال کی طرح)یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔مزید تعلیم کے لیے وظیفہ ملا۔ انھوں نے(بوساطت اسلامیہ کالج لاہور)۱۹۵۹ء میں یونی ورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا اورتیسری پوزیشن حاصل ہوئی۔بعد ازا ں ایم اے اردو بھی کر لیا۔گورنمنٹ کالج لائل پور[فیصل آباد]، گورنمنٹ کالج سرگودھا،مرے کالج سیالکوٹ اوراشاعتِ تعلیم کالج لاہور میں عربی اور اردو کے استاد رہے ۔۱۹۶۶ء میں وہ مستقلاً لاہور آگئے اور باقاعدہ درس و تدریس چھوڑ کر امین جاوید صاحب کے تعاون سے اشاعتی ادارے ’ایوانِ ادب‘کی بنیاد رکھی۔تعلیم و تعلّم سے ان کا رشتہ اس صورت میں برقرار رہاکہ انھوں نے انٹر میڈیٹ کے لازمی مضمون اردو کے لیے تحسینِ اردو مرتب کی، اور بچوں کے لیے بھی نظم و نثر کی چندخوب صورت کتابیں شائع کیں۔

حفیظ صاحب کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے دروسِ قرآن و حدیث کو فیتہ بند (taperecord) کرنے کا اہتمام بڑی محبت اور ثابت قدمی سے کیا۔ پھر ان دروس کو کیسٹ کے ذریعے مولانا کی آواز میں ہزاروں لاکھوں افراد تک پہنچایا۔ مولانا سے محبت کے اس تعلق کو انھوں نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح واضح کیا ہے: ’’دسمبر۱۹۴۶ء کے آخری ایام میں سیالکوٹ کے قصبے مرادپور میں جماعت اسلامی لاہور کمشنری کا دوروزہ اجتماع ہوا اور مَیں داداجان کے ساتھ اس اجتماع میں شریک ہوا۔ اس اجتماع میں مولانا کا تاریخی خطبہ ’شہادتِ حق‘ (۱۳دسمبر ۱۹۴۶ء) سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس اجتماع کی بدولت مجھے مولانا کو مسلسل دو روز تک دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، اور اس طرح ان کی شخصیت کا ایک گہرا نقش میرے نہاں خانۂ شعور میں ثبت ہوگیا‘‘۔

راقم اپریل ۱۹۶۴ء میں سرگودھا سے لاہور آکر پنجاب یونی ورسٹی ایم اے اردوکی جماعت اوّل میں داخل ہوا۔باری تعالیٰ ہفت روزہ آئین لاہور کے مدیر مظفر بیگ (۱۹۳۵ء-۱۹۹۹ء)کو غریقِ رحمت کرے (آمین)،انھوں نے راقم الحروف کو مولانامودودیؒ کے دروس قرآن و حدیث اور دیگر خطبات کو قلم بند (رپورٹنگ)کرنے پر مامور کیا۔اس سلسلے میں راقم کے مرتب کردہ چند دروس اور خطبے آئین میں شائع ہوئے۔چند ایک تحریریں ماہنامہ ترجمان القرآن  لاہور میں بھی نقل ہوئی ہیں۔

غالباً ۱۹۶۶ء سے حفیظ صاحب مولانا کے دروس فیتہ بند (ٹیپ) کرنے لگے تھے۔ ان کے پاس جہازی سائز کا ایک ٹیپ ریکارڈر تھا،جو باہر سے گراموفون معلوم ہوتا تھا۔ان کے مرتب کردہ دروس آئین  میں شائع ہونے لگے۔ بعض جلسوں میں مولانا کے خطبات وہ ٹیپ کرتے اور راقم انھیں مرتب کرنا اور آئین  میں شائع ہوتے۔ترتیب و تدوین کا کام کبھی تو راقم ۲۳ وُولنر ہاسٹل میں کرتا اور جب کبھی ہاسٹل بند ہوتا (جیسے جنوری ۱۹۶۶ ء میں اعلانِ تاشقند پر ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہونے پر ہوسٹل بند کر دیے گئے تھے)تو پھر یہ کام حفیظ صاحب کے دفتر نسبت روڈ میں ہوتا تھا۔

مظفر بیگ مرحوم نے ۱۹۶۵ء میں راقم کو سید مودودی کی عصری مجالس کی رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی۔بعد ازاں ’۵ اے ذیلدار پارک ‘کے اس سلسلے میں خود بیگ صاحب اور حفیظ الرحمٰن صاحب بھی شامل ہو گئے۔ان مجالس کی رُودادیں تین حصوں میں بارہا چھپ چکی ہیں۔غالباً ۱۹۷۶ ء میں حفیظ صاحب ،جناب نعیم صدیقی مرحوم کے علمی و ادبی رسالے سیارہ سے رضاکارانہ طور پر وابستہ ہوگئے اور انھوں نے نعیم صاحب کاخوب ہاتھ بٹایا۔یہاں تک کہ نعیم صاحب نے رسالہ مستقلاً ان کے سپرد کر دیااور انھوں نے اسے بڑی مہارت اور کامیابی سے جاری رکھا۔سیارہ نے بعض یادگار نمبر شائع کیے(اقبال نمبر تین بار،سید مودودی نمبر ایک بار)۔ اسلامی اور تعمیری ادب کے فروغ میں مجلّہ سیارہ  لاہور کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ سیارہ  کے سلسلے میں وہ اپنے حلقۂ احباب سے بھی مدد لیتے۔ مثال کے طور پر ایک بار مجھے خط میں لکھا کہ جگن ناتھ آزاد اور معین الدین عقیل سے مضامین کا تقاضا کیجیے اور کرتے رہیے کہ ان دونوں سے راقم کا مسلسل رابطہ رہتا تھا۔

 ۱۹۸۹ ء کی بات ہے ۔احباب میں سیارہ  کا نعیم صدیقی نمبر نکالنے کی تجویز گردش کر رہی تھی۔ ظفر حجازی صاحب نے ’نعیم صدیقی نمبر‘ کا ایک مفصل خاکہ بنا کر حفیظ صاحب کو ارسال کیا۔ حفیظ صاحب نے جواب میں لکھا:’’آپ نے جو سنہری تجاویز پیش کر کے مجھے ان پہ عمل در آمد کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے،اسے آپ کے حُسنِ ظن یا پھر حُسنِ تخیل کا شاہکار قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔اگر اسی طرح کی مکتوب آرائی منصوبوں کی تکمیل کا کبھی بھی وسیلہ بن سکتی تو میں بخوشی روزانہ آپ کی خدمت میں ایک ایسا ہی طویل محبت نامہ لکھنے کی ذمہ داری قبول کر لیتا‘‘۔

احسن صاحب زبان و بیان اور قواعد و انشا پر بخوبی دسترس رکھتے تھے۔اشاعت کے لیے موصول ہونے والے شعری اور نثری مسوًدوں کی نوک پلک سنوارنے میں خاصا وقت صرف کرتے تھے۔اس ضمن میں اگر کہیں اپنی معلومات میں کمی محسوس کرتے تو بلاتکلف اپنے دوستوں سے تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے۔ایوان ادبِ میں بعد دوپہر ان کے قریبی احباب جمع ہوتے ، پروفیسر جعفر بلوچ،ڈاکٹر تحسین فراقی،افضل آرش، شیدا کاشمیری،انور میر،طاہر شادانی اور کبھی کبھار راقم بھی حاضری دیتا۔ سیارہ  یا حلقہ ادب یا کسی اور موضوع پر مشاورت کے لیے وہ احباب کو ازخود بھی بلالیتے اور احباب بڑی مسرت سے حاضر ہو جاتے۔

 مولانا مودودی کے دروسِ قرآن و حدیث کی نشرواشاعت میں ،ایک مرحلہ ایسا آیا، جب انھوں نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کے مشورے اور اعانت سے الابلاغ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مگر چند کرم فرماؤں نے اسے مقدموں میں اُلجھا دیا۔ بہرحال اعلیٰ عدلیہ نے حفیظ الرحمٰن صاحب کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس طرح خاصا وقت ضائع ہوجانے کے بعد مولانا مودودی کی آواز میں کیسٹوں کی نشرواشاعت ہونے لگی۔لیکن کیسٹ کا دور ختم ہوا اور یہ ادارہ بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔

ہمارے ایک مشترکہ دوست تھے عبدالرحمٰن بزمی(م: ۱۴نومبر ۲۰۰۵ء) شاعر اور ادیب اور حفیظ صاحب کی طرح ہی اعلیٰ درجے کا علمی و ادبی ذوق رکھتے تھے۔ ان کے ورثا نے بزمی صاحب کا مجموعۂ کلام چھپوانا چاہا۔لندن ہی میں مقیم ایک مشترکہ دوست (جاوید اقبال خواجہ، م:۸؍اپریل ۲۰۱۹ء)کی وساطت سے ترتیب و تدوین اوراہتمام اشاعت کا قرعہ میرے نام نکلا۔ حفیظ صاحب فنِ شاعری کے کم و کیف سے بخوبی واقف تھے اور راقم اناڑی۔ چنانچہ راقم نے تدوین کی ذمہ داری حفیظ صاحب کو سونپ دی۔انھوں نے بڑی محنت سے مجموعہ:حرفِ تمنا مرتب کیا ،جو ۲۰۱۱ء میں منشورات لاہور سے شائع ہوا۔

مرحوم پروفیسر فروغ احمد (م:۲نومبر ۱۹۹۴ء)بھی اپنی وفات سے دو تین برس پہلے اپنے کلام کی تدوین و اشاعت کی ذمہ داری مجھے سونپ گئے تھے۔ حفیظ صاحب نے اس کی پروف خوانی کے علاوہ حسب ضرورت اصلاح و تصحیح بھی کر دی۔میری مصروفیات کی وجہ سے ’کلیاتِ کلام فروغ احمد‘ ابھی تک شائع نہیں ہو سکا(پروف محفوظ ہیں مگر کمپوزنگ تلاش طلب ہے)۔

غالباً ۱۹۸۱ء میں لاہور کے بعض ادب دوستوں نے ،حلقۂ ارباب ذوق کے باوجود، اسلام دوست اور تعمیر پسند مصنّفین کا ایک نیا ادبی فورم بنانے کی ضرورت محسوس کی ۔ان میں ڈاکٹر تحسین فراقی، جناب حفیظ الرحمٰن احسن، افضل آرش اور جعفر بلوچ پیش پیش تھے۔چند ایک مشاورتوں کے نتیجے میں ’حلقۂ ادب ‘قائم ہو گیااور اس کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس ہر منگل کی شام چائنیز لنچ ہوم میں ہونے لگے۔اس کی مجلسِ عاملہ میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ،حفیظ صاحب ،سراج منیر،شہباز ملک اور راقم شامل تھے(شاید کچھ اور احباب بھی)۔پروفیسر آسی ضیائی حلقے کے صدراور حفیظ الرحمٰن احسن نائب صدر ، تحسین فراقی سیکرٹری اورسلیم منصور خالدجائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے، جو مسلسل تین برس تک باقاعدگی سے اجلاسوں کی کارروائی قلم بند کر کے پیش کرتے رہے۔پھر آفتا ب ثاقب اور ان کے بعد اصغرعابدنے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ اس حلقے کو چلانے میں حفیظ الرحمٰن احسن کا بنیادی اور فعال کردار رہا۔ان کا دفتر(ایوانِ ادب، حبیب بلڈنگ، اردو بازار لاہور) سیارہکے ساتھ حلقے کا دفتر بھی تھا۔وہیں دو ماہی یا سہ ماہی پروگرام بناتے اور اس کا سائیکلوسٹائل نکلوا کر یا کتابت کرا کے، نقول پھیلاتے ۔ وہ خود بھی اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔اکثر وبیش تر وہ مقررہ وقت سے پہلے مجلس گاہ میں پہنچ جاتے۔ حلقہ ۱۹۸۹ء تک چلتا رہا۔

 حالیہ دنوں میں مجھے حلقے کے ۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۹ء دو ماہی پروگراموں پر مشتمل کاغذات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ان سے پتا چلتا ہے کہ لاہور کے بیش تر اہم اور سینئر مصنّفین اور شعرا حسب پروگرام اپنی نگارشات پیش کرتے رہے۔چند نام:میرزا ادیب،جیلانی بی اے،عبداللہ قریشی،نعیم صدیقی،   شیخ منظور الٰہی، عبدالعزیز خالد، انجم رومانی، ڈاکٹر وحید قریشی، صلاح الدین محمود، عبدالکریم عابد، حفیظ تائب، حمیدجالندھری، جیلانی کامران،پروفیسر فروغ احمد،انتظار حسین، سیّد امجد الطاف، مقبول بیگ بدخشانی، رحمان مذنب، غلام الثقلین نقوی، اکرم جلیلی،سائرہ ہاشمی، سراج منیر، ہارون الرشید، سہیل عمر، عطاء الحق قاسمی، فضل الرحمان، یونس احقر، امجد طفیل وغیرہ۔

ادارہ معارفِ اسلامی لاہور نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے سیرتِ سرورِ عالم ؐ کے مدنی دور پر مشتمل ،سیرت کاتیسرا حصہ مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ابتدائی مرحلے پر لوازمہ مولانا عبدالوکیل علوی [م:۱۱جنوری ۲۰۱۶ء] نے جمع کیا، جسے حفیظ صاحب نے مرتب و مدوّن کیا اور حد درجہ تحقیق و تدقیق سے کام لیتے ہوئے نہایت محنت سے اس میں نیا لوازمہ شامل کیا ۔نظر ثانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں آخری تدوین کی ذمے داری مجھے سونپی گئی، جس پر خاصا وقت صرف کیا اور مزید لوازمے کی شمولیت سے اسے حتمی شکل دی۔

۴۰برس کی رفاقت کے بعد اپریل ۱۹۹۴ء میں جماعت اسلامی سے الگ ہوکر ’تحریک اسلامی‘ تنظیم میں شامل ہوگئے۔ تاہم، اہل جماعت سے بھی تعلق برقرار رکھا، اور اس دیرینہ تعلق کو آخر وقت تک بڑے اعتدال سے نبھاتے رہے۔  مولانا مودودی کے ریکارڈ شدہ خطبات پر مشتمل انھوں نے کتاب الصوم ، فضائلِ قرآن مرتب کی۔ علاوہ ازیں   ۵-اے ذیلدار پارک، سوم اسلام کا سرچشمہ  قوت جماعت اسلامی اور مشرقی پاکستان ان کی اہم مرتبات ہیں۔

قرآنِ مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ ایمان کے سلسلے میں ہدایت دی گئی کہ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝۸۸ (الحجر۱۵:۸۸)(تم ان [مومنین] کے لیے اپنی شفقت کے بازو پھیلا دو)۔ اور آپؐ کے بارے میں یہ گواہی دی گئی کہ لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲۸  (التوبہ ۹:۱۲۹) (تمھارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے، جس کو تمھاری ہرتکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمھاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے، جو مومنوں کے لیے انتہائی شفیق اور نہایت مہربان ہے)۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بارے میں یہ گواہی دی کہ کوئی مصافحہ کرتا تو آپؐ اُس کا ہاتھ نہیں چھوڑتے تھے، جب تک وہ الگ نہ کرلے۔ جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ کوئی آپؐ سے بات کرتا ،تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے اور ہرفرد یہی تصور کرتا کہ آپؐ مجھ کو ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۲؍اپریل سہ پہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا پیرو اس دنیاے فانی سے رخصت ہوا، جس کے بارے میں اس وقت بلامبالغہ ہزاروں لوگ یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ وہ سب سے زیادہ مجھے چاہتا تھا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ اسوے کی پیروی کا بہترین عملی نمونہ، اپنی معاصر شخصیات میں، ہم نے سابق امیرجماعت اسلامی ہند مولانا محمد سراج الحسن  رحمۃ اللہ علیہ میں دیکھا ہے۔

گرم جوش محبت اور بے لوث رفاقت، مولانا مرحومؒ کی دل نواز شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ ان کے وجود کی گرمی اور شخصیت کی مٹھاس کو ہرملنے والا ملاقات کی پہلی ساعت ہی میں محسوس کرلیتا۔ آنے والے کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے، نظرپڑتے ہی گرم جوشی سے گلے لگا لیتے۔ دیر تک سینے سے لگا کر انتہائی اپنائیت سے گفتگو کا آغاز فرماتے۔ ان کے کشادہ سینے اور اس سے کہیں زیادہ وسیع قلب کی گہرائیوں میں شکوے، شکایتیں اور مسائل و اُلجھنیں، آنِ واحد میں تحلیل ہوکر غائب ہوجاتیں۔ خوے دل نوازی اور جانِ پُرسوز کس طرح قائدین کی سب سے بڑی طاقت بن جاتی ہے، اس کا عملی مشاہدہ مولانا سراج الحسن کی سحرانگیز شخصیت میں کیا جاسکتا تھا۔

مرحوم قائدؒ نہ کوئی بڑے عالم دین تھے، نہ شعلہ نوا مقرر، اور نہ نام وَر دانش ور، نہ ان کے پاس اُونچی ڈگریاں تھیں اورنہ تحقیقی یا دل چسپ تصنیفات کا ذخیرہ۔ لیکن ذہانت ، معاملہ فہمی، دُوراندیشی، فکری توازن وغیرہ کے ساتھ اُن کا اصل اثاثہ ان کی انسان نوازی، اخلاقی بلندی اور تعلقات کی گرم جوشی تھا۔ ان اوصاف نے ان کی شخصیت میں غیرمعمولی کشش اور جاذبیت پیدا کردی تھی۔ اس اثاثے کو اللہ کے دین کی اشاعت اور جدوجہد کے لیے انھوں نے بہت شان دار طریقے سے استعمال کیا۔ تحریکی کارکن، ان سے مل کر لوٹتے تو نئی توانائی اور جوشِ عمل سے سرشار ہوتے۔ عام و خاص مسلمان ملتے تو تحریک کا اچھا اثر قبول کرتے،دُوریاں ختم ہوتیں اور تحریک کااثر بڑھتا۔ غیرمسلم ملتے تو اسلام، اس کی دعوت اور اس کے پیغام کے بارے میں ان کی راے بہترہوجاتی۔ ان سب نتائج کے اثرات پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں اوربرسوں بعد آج بھی لوگ ان کو یاد کرتے ہیں۔ اللہ غریق رحمت فرمائے اور جو محبتیں انھوں نے اللہ کے بے شماربندوں پر اور اس کے دین کے مخلص کارکنوں پر لٹائی ہیں، اس کا عظیم صلہ اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمتوں کے نزول کے ذریعے عطا فرمائے، آمین!

محمد سراج الحسن صاحب ، ملک کی آزادی سے پندرہ سال پہلے، ریاست حیدرآباد دکن کے ایک دُورافتادہ قصبے میں ، ایک متمول زمیندارگھرانے میں جناب ابوالحسن کے ہاں ۳مارچ ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے۔ ’جوالاگیرہ ‘(Jawalagera)نامی یہ قصبہ اب کرناٹک کے ضلع رائچور کے تعلقہ سندھنور میں واقع ہے۔ بچپن میں کسی بااثر راجا سے خاندانی تنازعے کی وجہ سے انھیں برسوں چھپ کر رہنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کی باقاعدہ تعلیم منقطع ہوگئی۔ اسی دوران اسلامی لٹریچر کے گہرے مطالعے کا موقع ملا اور تحریک اسلامی سے تعارف حاصل ہوا۔ نظربندی کی طویل مدت سے آزاد ہوئے تو اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد کا سودا سر میں سماچکا تھا۔ کم عمری میں رکن جماعت بنے اور ۲۶ سال کی عمر میں کرناٹک کے امیرحلقہ بنائے گئے۔ اس کے بعد پوری زندگی اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد اور قربانیوں میں گزار دی۔ گھر کے آرام اور پُرتعیش طرزِ زندگی کو چھوڑ کر، ریاست کرناٹک کے دُوردراز کے علاقوں کے پُرمشقت دورے شروع کردیے۔ سیکڑوں خاندانوں کو متاثر کیا۔ بے شمار کارکن تیار کیے، اَن گنت لوگوں کے دلوں میں تحریک کی شناسائی، ہمدردی اور تعلق خاطر کے بیج بوئے۔ خود انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ اپنی دولت اس راہ میں کھپاکر اور متاعِ زندگی خدا کی راہ میں لٹاکر بے نیازی اور استغنا کی قابلِ رشک شان کے ساتھ، فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔

اس وقت ذہن کے اسکرین پر بہت سی تصویریں چل رہی ہیں۔ عجیب و غریب ، حیرت انگیز لیکن نہایت حسین اور دل نواز۔ میری ان سے پہلی ملاقات، ایک اجتماع میں اس وقت ہوئی جب میں ۱۸سال کی عمر کا ’اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن‘ (SIO)میں ایک گمنام کارکن تھا۔ اس ملاقات کے بعد وہ کبھی میرا نام نہیں بھولے۔ پھر جگہ جگہ ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ایس آئی او کا کُل ہند صدر بنا تو کئی سال ان کے سایۂ شفقت میں مرکز کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ اُس وقت مرکز کے جن ذمہ داروں سے ملنے اور بے تکلف بات کرنے میں ہم ایس آئی او کے کارکنوں کو کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی، ان میں ایک نمایاں نام خود امیرجماعت سراج الحسن صاحب کا تھا۔ ہم وقت لیے بغیر پہنچ جاتے، بے تکلف بات کرتے۔ کبھی اپنے دفتر ایس آئی او میں بھی دعوت دینے کی جسارت کرتے۔ ہلکی پھلکی تنقید اور تیکھے سوالات بھی کرڈالتے۔ کبھی مولانا کی باتوں سے متفق ہوتے، کبھی نہیں ہوتے، لیکن ان کے پاس سے کبھی مایوس یا دل شکستہ نہ لوٹتے۔ مولانا تحریک کے اُمور پر بھی بات کرتے، علمی و فکری مسائل پر بھی گفتگو ہوتی، لیکن ساتھ ہی بڑے غیرمحسوس انداز میں ہماری ذاتی زندگیوں کے بہت سے اُمور بھی زیربحث لے آتے۔ تعلیم کے بارے میں پوچھتے۔ والدین کے بارے میں سوال کرتے اور خاص بات یہ ہے کہ جو کچھ ہم ان سے کہتے، انھیں یاد بھی رکھتے تھے۔

یہ بات ہمارے نوجوان رفقا کے لیے انتہائی تعجب کا باعث ہوتی تھی کہ امیرجماعت کو ایک عام کارکن کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کا باپ بیمار ہے یا اس کا پورا خاندان اس کے بہن کے رشتے کے حوالے سے متفکر ہے، یا اسے انجینیرنگ کے دو فلاں فلاں پرچے پاس کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے، یا وہ کئی دنوں سے نوکری کی تلاش میں پریشان ہے۔ وہ صرف سوالات ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ اُس کے ذاتی مسائل کو حل کرنے میں ممکنہ تعاون بھی کرتے۔ میری اس وقت تک شادی نہیں ہوئی تھی۔ کئی رشتوں کی نشان دہی کی۔ ایک آدھ رشتے کے بارے میں والد صاحب مرحوم سے بھی بات کی۔ مولانا مرحوم کی شخصیت، خوے دل نوازی کی ایسی بے شمار اداؤں کا مرقع تھی۔

مولانا سراج الحسن صاحب کو معلوم ہوتا کہ ہمیں کوئی سفر درپیش ہے تو ٹکٹ کے بارے میں پوچھتے۔ ریزرویشن کے کنفرمیشن کے بارے میں معلوم کرتے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں ہدایات دیتے: ’’فلاں اسٹیشن سے فلاں اسٹیشن کےدرمیان چوریاں بہت ہوتی ہیں، دھیان رکھنا۔ فلاں ٹرین میں کھانا اچھا نہیں ملتا، ساتھ میں ٹفن لے لینا، فلاں روٹ پر دن میں عام مسافر بھی ریزرو ڈبوں میں چڑھ جاتے ہیں۔ رات ہی میں نیند اچھی مکمل کرلینا، وغیرہ‘‘۔

ملک بھر میں پھیلے ہوئے سیکڑوں لوگوں سے وہ پوسٹ کارڈوں کے ذریعے ربط میں رہتے۔ سفروحضر میں ہروقت ان کے پاس پوسٹ کارڈوں کا ایک بنڈل ساتھ ساتھ ہوتا۔ روزانہ کا کچھ حصہ خطوط لکھنے میں صرف ہوتا۔ جہاں جاتے دفتر یا ہوٹل کے بجاے اپنے رفقا کے گھروں میں قیام کو پسند فرماتے۔ ٹرین سے طویل سفر پر نکلتے تو راستے میں آنے والے اسٹیشنوں کے رفقا کو خبر کردیتے۔ وہ خوشی و مسرت کے ساتھ ملاقات کے لیے آتے۔ بعض اوقات آدھی رات کو بھی اُٹھ کر، اسٹیشن پر آنےوالے رفقا سے ملاقاتیں کرتے۔ کھانے پینے کی پسند بہت سادہ تھی۔ مرچی کے پکوڑے، جوار کی روٹی، اس جیسی سادی چیزوں کو اپنی مرغوب ترین چیزیں کہتے۔ رفقا ان سادی چیزوں کو لاکر اور کھلاکر بے حد خوشی محسوس کرتے۔یہ سب بھی تعلقات کے استحکام کے انوکھے انداز تھے، جنھیں بہت خوب صورتی سے برتتے تھے۔

غالباً ۲۰۰۲ء کی بات ہے، ایس آئی او کی کوئی کُل ہند مہم چل رہی تھی۔ میرے مسلسل دورے ہورہے تھے۔ ایک دفعہ بھوپال میں رات کا پروگرام کرکے مجھے اگلے دن میرٹھ میں ایک بڑے پروگرام کی صدارت کے لیے جانا تھا۔ رات بھوپال اسٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ میرٹھ کے لیے جس ٹرین کا ریزرویشن تھا، اس کی روانگی منسوخ ہوگئی ہے۔ کسی طرح دلی کا ٹکٹ بنایا گیا۔ وقت تنگ تھا۔ دلی سے میرٹھ، پروگرام کے وقت پر، اسی صورت میں پہنچ سکتے تھے، جب ٹرین وقت پر چلے۔ اسٹیشن پر فوری طور پر کار مل جائے اور دلی سے میرٹھ کا سفر تیزی سے مکمل ہوجائے لیکن کار اس وقت ہمارے پاس نہیں تھی۔ دلی میں موجود رفقا نے مرکز جماعت پہنچ کر درخواست کی اور یہ واقعات امیرجماعت کے علم میں آگئے۔ اس کے بعد مولانا کی بے چینی کا جو عالم تھا، وہ مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ فون کرکے معلوم کیا کہ برتھ کنفرم ہوئی ہے یا نہیں؟ پھر دلی پہنچنے کے بعد فون آیا کہ کیا مرکز کی گاڑی وقت پر آگئی تھی؟ پھر میرٹھ پہنچنے کی اطلاع، پھر پروگرام میں بروقت پہنچ جانے کی اور پروگرام کے بخیروخوبی مکمل ہونے کی اطلاع، یہ سب اطلاعات وہ حاصل کرتے رہے۔ اور واپس آتے ہی حاضر ہونے کی ہدایت فرمائی اور تفصیل سے سفر کی رُودادسنی۔ شفقت، اپنائیت اور دل بستگی کا یہ انداز اللہ اللہ!

اسی طرح کا ایک واقعہ چند سال پہلے اس وقت پیش آیا، جب مولانا کو امارت سے فارغ ہوئے کافی عرصہ گزرچکا تھا۔ میرے ایک عزیز کا ایک پیچیدہ آپریشن ہونا تھا اور مَیں انھیں لے کر ، حیدرآباد سے مولانا کی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوا تھا۔ ہمارے گھر کی بعض خواتین بھی ساتھ تھیں۔ شام میں دُعا سے فارغ ہونے کے بعد، مولانا نے پہلے رات میں آرام کرکے صبح جانے کے لیے کہا۔ہم نے مصروفیات کی وجہ سے معذرت کی تو فرمایا کہ ’’رات رُک نہیں سکتے تو پھر اب فوری نکل جاؤ، خواتین کے ساتھ دیر رات کا سفر مناسب نہیں‘‘۔ فوری طور پر ناشتے کا سامان منگوایا اور بغیر کسی تکلف کے، خود عجلت کرکے رخصت کردیا۔ یہ بھی مولانا کا مخصوص انداز تھا۔

انھیں روایتوں کی پاس داری سے زیادہ اپنے رفقا کے آرام اور ان کی بھلائی کی فکر رہتی اور اس معاملے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ مہمان کی مرضی کے خلاف اس کی پلیٹ میں باصرار کھانا ڈالنا اور اس کے کاموں میں حرج کرکے اس کو اپنے یہاں روکنا وغیرہ، ان کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور ناشائستہ حرکتیں تھیں۔ اس زمانے میں یہ بات مشہور تھی کہ مولانا کی یادداشت کافی متاثر ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود یہ عالم تھا کہ حیدرآباد پہنچتے ہی مولانا کا فون آگیا کہ ’’کیسے پہنچے؟‘‘ اپنے عزیز کے آپریشن کی جو تاریخ اور وقت بتایا تھا، اس وقت فون، پھر آپریشن مکمل ہوتے ہی فون اور پھر ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کی تاریخ کو فون۔ عام کارکنوں سے یہ تعلق کسی مصنوعی کوشش کے ذریعے پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے، جو رؤف و رحیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکاروں کو وہ عطا کرتا ہے۔

ایک قائد تحریک کو بنیادی طور پر تین کام کرنے پڑتے ہیں: تحریک کے وژن اور سمت کا تعین، اس کے لیے افراد کار کی تربیت، اور اس کے حصول کے لیے مؤثر تنظیمی ماڈل___ سراج الحسن صاحب نے ان تینوں محاذوں پر بہت سے نئے تجربات کیے۔ان تجربات کا گہرا اور سنجیدہ مطالعہ ہونا چاہیے۔ ان کے وژن میں دعوتِ دین کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اپنی تقریروں کے ذریعے انھوں نے پوری جماعت میں اس کا شعور بیدار کیا۔ غیرمسلموں سے تعلقات و روابط کے نمونے خود بھی قائم کیے اور جماعت کو بھی اس کے لیے آمادہ کیا ۔ اس کے لیے کئی ادارے وجود میں لائے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان، ماضی پر فخر، بادشاہوں کے کارناموں کے تذکروں اور اپنے آپ میں رہنے کے بجاے، ا س وقت کی اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں اور دعوتِ دین کے کام پر تمام توجہات کو مرکوز کردیں۔ دعوت کے کام کے لیے جس اخلاص، بے لوثی، قومی یا فرقہ وارانہ اور تاریخی عصبیتوں سے بالاتری وغیرہ درکار تھی، مولانا کی ذات، خود بھی اس کا نمونہ تھی اور وہ اپنی تقریروں سے ان صفات کو اپنے رفقا میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔

محترم سراج الحسن صاحب کا تنظیمی ماڈل کئی امتیازی خصوصیات کا حامل تھا۔ زیادہ سے زیادہ مشاورت اس ماڈل کی اہم خصوصیت تھی۔ کثرتِ مشورہ سے بعض لوگ پریشان بھی ہوجاتے، اور معترض بھی ہوتے لیکن مولانا نے ہمیشہ مشاورت کو بہت اہمیت دی۔ اسی طرح ان کے ماڈل کی ایک خصوصیت اختیارات کی تقسیم کارتھی۔ اپنے بہت سے کام اور اختیارات انھوں نے اپنے معاونین کو ڈیلی گیٹ (تفویض)کیے اور کام کے بھرپور مواقع ان کو فراہم کیے۔

وہ جانتے تھے کہ ہر کام وہ خود بھی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ علمی و فکری رہنمائی کے لیے انھوں نے مولانا سیّد جلال الدین عمری، ڈاکٹر فضل الرحمان فریدیؒ اور ڈاکٹر عبدالحق انصاریؒ جیسی بلندپایہ علمی شخصیتوں کو آگے بڑھایا۔ تنظیمی اُمور میں محمد شفیع مونس صاحب اور محمد جعفر صاحب پر بھرپور اعتماد کیا۔ ملّی و سیاسی اُمور میں شفیع مونسؒ صاحب، سیّد محمد یوسفؒ صاحب، عبدالقیوم ؒ صاحب جیسے لوگوں کو کام کے بھرپور مواقع فراہم کیے۔ اس طرح اجتماعی قیادت کی ایک پوری کہکشاں مرکز جماعت میں روشن کر دی۔

نوجوانوں اور نئے لوگوں کو آگے لانا اور ان کو ذمہ داریاں دینا، اس تنظیمی ماڈل کی تیسری اہم خصوصیت تھی۔ اپنی پہلی اور دوسری میقات میں جو امراے حلقہ انھوں نے مقرر کیے، یہ سارے تقررات ان کے بڑے جرأت مندانہ فیصلے تھے۔ اکثر امراے حلقہ، اپنے اپنے حلقوں میں نہایت جونیئر تھے۔ لیکن ان کو آگے بڑھا کر انھوں نے جماعت کو تازہ دم کیا اور نئی توانائی اور قوت فراہم کی۔

نوجوانوں کی تربیت کے لیے ان کا انداز بھی نرالا تھا۔ ایک انوکھی روایت، دوروں میں نوجوان امراے حلقہ کو ساتھ رکھنے کی تھی۔ وہ کثرت سے دورے کرتے اور ریاستوں کے دُور دراز مقامات اور دیہات میں بھی تشریف لے جاتے۔ اس موقعے پر نوجوان امراے حلقہ کو ضرور ساتھ رکھتے۔ اس کے ذریعے امراے حلقہ کو ملک کے مختلف مقامات پر ہورہے اچھے تجربات سے روشناس کراتے۔ اپنے ساتھ رکھ کر اپنی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتے اور تنظیمی مسائل اور تحریکی کاموں کے آداب اور طورطریقوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنے اور سیکھنے کے موقعے بھی فراہم کرتے۔

بحیثیت صدر ایس آئی او مجھے بھی بعض دوروں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ دوروں کے علاوہ دہلی میں جب سرکردہ شخصیتوں سے ملاقات یا اہم اجلاسوں میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے تو اس وقت بھی مجھے طلب فرماتے۔ بعض اہم اور حساس اجلاسوں میں بھی ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا۔ اجلاسوں میں پوری طرح اہمیت دیتے۔ دیگر بڑی شخصیتوں سے تعارف کراتے۔ کئی دفعہ بات کرنے کا بھی موقع فراہم کرتے۔ اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نوجوانی کے اس دور میں تنظیمی اور قیادتی تربیت کے عمل میں ان صحبتوں سے غیرمعمولی فائدہ ہوا ہے۔

۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۱ء کی ایک میقات میں مجھے ان کے ساتھ مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن رہنے اور ساتھ میں اجلاسوں میں شرکت کرنے کا بھی موقع ملا۔ وہ میری پیدایش سے پہلے سے مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن چلے آرہے تھے۔ میری تحریکی و تنظیمی تربیت انھی کے بلکہ ان کے بعض شاگردوں کے زیرسایہ ہوئی تھی۔ لیکن کبھی شوریٰ کے مباحث کے دوران ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ان قدآور بزرگوں کی موجودگی میں ہم کو بات کرنے میں کوئی تکلف یا دشواری درپیش ہے۔ ہم آزادانہ بات کرتے اور تجویزیں پیش کرتے رہتے۔ اُن کی اور دیگر بزرگوں کی باتوں سے اختلاف بھی کرتے۔ بعض وقت گرما گرم بحثیں بھی کرتے اور وہ بڑی خوش دلی سے سنتے، سراہتے یا بڑی نرم دلی سے وضاحت کرکے اختلاف کو دُور کر دیتے۔یہ صالح شورائی روایات تحریک ِ اسلامی کے کلچر کی بہت بڑی خصوصیت ہے، جو مولاناؒ جیسے وسیع الظرف بزرگوں ہی کی روایت اور صدقۂ جاریہ ہے۔

اللہ سے گہرے تعلق اور اس کے بندوں سے گہرے روابط کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے۔ اللہ کی محبت ہی انسانوں کے اندر سچی انسان نوازی پیدا کرتی ہے۔ مولانا مرحومؒ کے تعبدی پہلو کو دوروں اور اسفار کے موقعوں پر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تہجد کے وقت اُٹھنے کی عادت انھوں نے مصروف سے مصروف دنوں میں بھی نہیں چھوڑی۔ صبح کاذب سے پہلے اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے غسل اور نماز اور باقاعدہ تلاوت سے اُن کے دن کی شروعات ہوتی۔ ذکر و اذکار کے معمول کی بھی سختی سے پابندی کرتے۔ اللہ نے بعض مخصوص بیماریوں کی شفا ان کے دم اور دُعا میں رکھی تھی۔ بواسیر، آدھے سر کا درد اور اس جیسے بعض امراض کے مریض ان کی دُعاؤں سے فوری شفایاب ہوجاتے۔ وہ جہاں بھی جاتے، ایسے مریض ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ہرجگہ پرانے سے پرانے امراض کی شفایابی کی حیرت ناک داستانیں سننے کو ملتیں۔

اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق ، اس کے بندوں سے بے پناہ محبت، تمام انسانوں کی ہدایت اور فلاح و کامرانی کی حرص، زندگی کا اعلیٰ و ارفع مقصد اور اس کی خاطر جان نچھاور کرنے اور اپنا سب کچھ لگا دینے اور لٹا دینے کا حوصلہ و جذبہ ___ یہی مومنانہ اوصاف شخصیتوں کو بلندی عطا کرتے ہیں۔ مولانا سراج الحسن مرحوم و مغفور اس حوالے سے یقینا بہت اُونچے اور بہت بلندوبالا کردار کے مالک تھے۔

دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کی عظیم قربانیوں اور محنت و جدوجہد کو قبول فرمائے، اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین!

عصرِحاضر جسے زعم ہے کہ وہ’جدید‘ ہے، لیکن ظلم و زیادتی کے باب میں یہ ’جدید‘ اُتنا ہی بھیانک اور قدیم ہے، جتنا کہ ظلم و ستم سے لتھڑا تاریک ماضی ہوا کرتا تھا۔ ظلم کی طرف داری اور ظلم کی پردہ داری کےلیے عصرِحاضر کے مقتدر ملکوں، طبقوں اور ’غیرسرکاری تنظیموں‘ کی سیاہ کاری کا گندا کھیل برابر عروج پر ہے۔ اس ظلم کی ایک شرم ناک مثال بنگلہ دیش میں موجودہ عشرے میں برابر پیش کی جارہی ہے۔ لیکن عالمی ادارے، ملکوں کے حکمران اور انسانی حقوق کے ’سوداگر‘ سب خاموشی سے آنکھیں بند کیے دکھائی دیتے ہیں۔ ظلم کے اس طوفان نے ایک اور سعید روح مولانا عبدالسبحان کو نگل لیا ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالسبحان ۱۹فروری ۱۹۳۶ء کو مومن پارہ، ضلع پبنہ مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی نعیم الدین احمد ایک دینی اسکالر تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم رام چندر پور سے حاصل کی، ۱۹۵۲ءمیں مدرسہ عالیہ سراج گنج سے فاضل اور ۱۹۵۴ء میں کامل کی سند اس اعزاز سے حاصل کی کہ مدرسہ بورڈ کے مشرقی پاکستان بھر کے امتحان میں ساتویں پوزیشن پر آئے۔ بنگلہ کے علاوہ، عربی، اُردو میں دسترس کے ساتھ انگریزی اور فارسی کا اچھا فہم رکھتے تھے۔ فاضل کی سند لیتے ہی خداداد قابلیت کی بنیاد پر ، اپنے مدرسے میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے لگے، اور اس کے ساتھ مزید تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کی کتب اورکلامِ اقبال سے والہانہ عشق پیدا ہوا، اورپھر جماعت اسلامی کے قافلے کے ہراوّل دستے میں دعوت، تربیت اور خدمت پر مبنی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ مولانا عبدالسبحان ضلع پبنہ میں جماعت اسلامی کے دعوت و تنظیم میں تاسیسی رہنما تصور کیے جاتے تھے۔
۱۹۶۵ء میں پبنہ شہر منتقل ہوگئے، جہاں جماعت کے تنظیمی اور رفاہی نظم و ضبط کے ذمہ دار مقرر ہوگئے اور کچھ ہی عرصہ بعد جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی حکمرانوں کی بے تدبیری، سیاست دانوں کی خودغرضی اوربھارتی پشت پناہی سے شروع ہونے والی بدامنی اور تخریب کاری کے دوران امن کمیٹی پبنہ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس دوران مولانا عبدالسبحان نے غیربنگالی اہلِ وطن کو عوامی لیگی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل و غارت سے بچانے کے لیے اپنی جان تک داؤ پر لگادی اور تخریب کاری روکنے کے لیے شہری سطح پر انتظامات کیے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہجرت کرکے مغربی پاکستان آگئے اور پھر ۱۹۷۵ء میں واپس بنگلہ دیش چلے گئے۔
۲۰۰۱ء کے پارلیمانی انتخابات میں پبنہ سے پانچویں بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور اس کے دو سال بعد۲۰۰۳ء میں ، یعنی ۱۹۷۱ء کے ۳۲برس بعد عوامی لیگ نے ان کے خلاف اچانک ایک فوجداری ’مقدمہ‘ درج کرا دیا، جس میں کہا گیا کہ:’’ اپریل تا اکتوبر ۱۹۷۱ء انھوں نے ۴۵۰؍افراد کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔ گھروں کو آگ لگائی اور لوٹ مار کی‘‘۔ جب حسینہ واجد (عوامی لیگ) کی حکومت ایک باقاعدہ سازش کے تحت قائم کی گئی تو اس حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف تواترکے ساتھ مقدمات چلانے کے لیے ۲۰۱۰ء میں نام نہاد کرائمز ٹریبونل (ICT) بنائے۔
اِس شیطانی کھیل کو آگے بڑھانے کے لیے ۲۰ستمبر ۲۰۱۲ء کو، جب مولانا عبدالسبحان ڈھاکہ سے اپنے گھر پبنہ شہر جارہے تھے کہ راستے میں پڑنے والے بنگ بندو پُل پر انھیں گرفتار کرلیا گیا، اور یہ بتایا گیا: ’’۲۰۰۳ء کے قائم شدہ مقدمے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ اگلے روز خصوصی ٹریبونل میں پیش کرکے مقدمے کی کارروائی شروع کی۔
اس خانہ ساز عدالت نے ۳۱دسمبر ۲۰۱۳ء کو مقدمے کا ڈراما شروع کیا اور ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو آپ کو سزاے موت سنائی۔ ۱۸مارچ ۲۰۱۵ء کو مولانا عبدالسبحان نے جھوٹے مقدمے، یک طرفہ کارروائی اور سرکاری گواہوں پر جرح کرنے کے حق کو سلب کرنے کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی۔ظاہر ہے کہ جب سب چیزیں ہی ایک جہل اور حددرجہ جعل پر مبنی تھیں تو شریک ِ جرم بنگلہ دیش سپریم کورٹ کیسے اپیل کا میرٹ پرفیصلہ دیتی؟ یوں اپیل مسترد ہوئی اور  مولانا عبدالسبحان تب سے اب تک جیل کی پھانسی گھاٹ کوٹھڑی میں قید تھے اور کسی بھی وقت تختۂ دار کے لیے بلیک وارنٹ کے اجرا کے منتظر تھے۔
بڑھاپے اور مسلسل قید کی وجہ سے مولانا عبدالسبحان متعدد امراض کے شکارہوچکے تھے۔ ۲۴جنوری ۲۰۲۰ء کو جب صحت کی حالت بہت زیادہ بگڑگئی تو جیل حکام کی سفارش پرڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں ۱۴فروری ۲۰۲۰ء کو دن ڈیڑھ بجے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر ، بزرگ پارلیمنٹیرین ، دینی رہنما اور ۸۴سال کے بزرگ مولانا عبدالسبحان انتقال فرماگئے۔ یوں ۱۹۷۱ء میں برہمنی سامراجیت کےخلاف کھڑے رہنے اور پھر آخردم تک بھارت کی طفیلی اور ’را‘ کی پروردہ حکومت کے سامنے ڈٹ کر دیوار بننے اور اسلامی اُمت کے موقف کی تائید کرنے والے مجاہد نے جان کانذرانہ دے کر عہد ِ وفا نبھایا۔  
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جو انسانی حقوق کے نام پر دکان سجاتے ہیں، انھیں نہ ایسے بے معنی فوجداری مقدمات میں کوئی خرابی نظر آتی ہے، نہ انھیں جعلی عدالتی عمل میں کچھ قباحت دکھائی دیتی ہے، اور نہ ایسی اموات اور پھانسیوں پر ان کے ضمیر پہ کچھ بار پڑتا ہے۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے تعزیتی بیان میں کہا: ’’مولانا عبدالسبحان صاحب ایک متنازعہ اور سیاسی تعصب سے آلودہ انتقامی مقدمے میں جعلی اور عوامی لیگی گواہیوں کی بنیاد پر سزاے موت سے منسوب کیے گئے۔ وہ گذشتہ آٹھ برس سے جیل میں قید تھے۔ حالانکہ ۱۹۷۲ء سے لے کر اب سے چند برس پہلے تک، بنگلہ دیش میں کبھی کسی نے، مولانا عبدالسبحان کو کسی فوجداری جرم کا ملزم قرار نہیں دیا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے بنگلہ دیش کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور دینی ترقی کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ بنگلہ دیش میں اسلامی شعائر کی سربلندی اور عدل و انصاف کا دور دورہ دیکھنا ان کا خواب تھا۔ ایک مدت سے وہ شدید بیمار تھے۔ اہلِ خانہ نے بار بار اپیل کی کہ انھیں علاج کی سہولت مہیا کی جائے، لیکن موجودہ حکومت نے   کسی اپیل پر دھیان نہ دیا۔ اور جب حالت بہت بگڑگئی تو چند روز کے لیے اس طرح ہسپتال بھیجا کہ علاج ان کے لیے بے معنی ہو کر رہ گیا‘‘۔

اللہ تعالیٰ اپنے کچھ بندوں کے ساتھ خصوصی احسان کرتاہے تو ان کو کفر و شرک کی گمراہیوں سے نکال کر رشد وہدایت کی راہ سے نوازتا ہے۔ ایسے ہی خوش نصیبوں میں ایک بڑا نام ڈاکٹر ولفریڈ ہوف مین ہیں جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد اپنا نام مراد ہوف مین رکھا۔ وہ مراد ہوف مین، جو قبولِ اسلام کے بعد بے لاگ اسلامی مفکر کی حیثیت سے مغرب کے اُفق پر جلوہ افروز ہوئے۔ مترجم قرآن، مصنف، تجزیہ نگار، داعی، مفکر اور ایک سفارت کار کی حیثیت سے نہ صرف عیسائی دنیا میں بلکہ عالم اسلام میں بھی مشہور ومعروف ہیں۔
  مراد ہوف مین ۶جولائی ۱۹۳۱ء کو اُسچا فنبرگ (جرمنی) کے ایک کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے نیو یارک میں یونین کالج سے گریجویشن کی اور پھر میونخ یونی ورسٹی سے قانون میں Contempt of Court Publication under American and German Law کے موضوع پر ۵ ۱۹۷ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس کے بعد NATOکے انفارمیشن ڈائرکٹر کے طور پر تعینات رہے، اور ۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۷ء تک برسلز میں انفارمیشن ڈائرکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ موصوف پہلے(۱۹۸۳-ء۱۹۹۰ء)الجیریا اور بعدازاں(۱۹۹۰ء-۱۹۹۴ء) مراکش میں جرمنی کے سفیر جیسی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔
-   قبولِ اسلام :مراد ہوف مین ۲۵؍ دسمبر ۱۹۸۰ء کو مشرف بہ اسلام ہوئے۔ قبولِ اسلام کے متعلق انھوں نے ماہنامہ الدعوۃ  کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:’’ سفارت کاری نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں نے مغربی فکر و تہذیب کا گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کیا ۔ اسلام کے متعلق میرا علم سطحی معلومات پر مبنی تھا‘‘۔ وہ اپنی کتاب Journey to Makkah میں لکھتے ہیں: ’’میں ۱۹۶۲ء میں الجیریا کے جرمن سفارت خانے میں تعینات تھا۔ اس دوران میں نے اسلام کے متعلق پڑھنا شروع کیا۔ میں اس مذہب کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کا متمنی تھا، جس کے ۱۰لاکھ متبعین نے اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ ۱۹۶۲ ء میں الجیریا کے عوام آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ پھر میں نے اسلام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان سیکھی اور قرآن مقدس کو پڑھنا شروع کیا ،اور جوں جوں اس کی گہرائیوں میں اترتا گیا، اس کے ساتھ تعلق خاطر پختہ سے پختہ تر ہوتا گیا۔ یوں اس کتاب انقلاب کے ساتھ میرا یہ تعلق قائم ودائم ہوگیا۔ یہ مقدس کتاب علم وفکر کا  محور اور دل کی جملہ بیماریوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہے‘‘۔
مراد ہوف مین نے ایک انٹرویو میں بتایا: ’’یوں اسلام نے میری روحانی ضرورتوں کو اطمینان اور یک سوئی کے ساتھ میری زندگی کو متوازن بنا دیا۔اور سب سے حیرت انگیز تجربہ یہ ہوا کہ قبولِ اسلام کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے مجھے گلے سے لگالیا‘‘۔ انھوں نے ۱۹۸۰ء میں پہلا عمرہ کیا۔ جب وہ جدہ کے پاسپورٹ آفس پہنچے تو اچانک ان کے پاس ایک افسر آیا اور ان کی آنکھیں نم تھیں۔ اس نے انھیں گلے سے لگایا اور کہا: ’میرا اسلامی بھائی‘۔ پھر جب مَیں نے ’ناٹو‘کے  صلاح کار کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تو اسلام کے خلاف مغرب کے بُرے عزائم اور فریب کاریوں کا پتا چلا۔ ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یورپ کی نوجوان نسل عیسائیت سے کیوں دُوری اختیار کرتی جارہی ہے؟ تو جواب ملا: ’’ان کو کسی متبادل کی تلاش ہے‘‘۔ اسی لیے مَیں نے ۱۹۸۵ء میں اپنی پہلی کتاب ایک جرمن مسلم کاروزنامچہ (Diary of German Muslim) لکھی اور ۱۹۹۳ء میں اسلام  بطور  متبادل (Islam the Alternative) شائع کی‘‘۔
اسلام بطور متبادل میں جب انھوں نے مغرب کو دعوت دی کہ آپ اسلام کے جھنڈے تلے ہی زندگی گزاریں تو جرمنی میں سیاست دانوں، پادریوں ، صحافیوں اور نام نہاد حقوقِ نسواں کے علَم برداروں نے ان کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں ’بنیاد پرست‘ کہا۔ ہوف مین نے سفارت کاری سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ ترکی میں قیام کیااور اپنا سارا وقت دعوتی کام پر صرف کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر وتہذیب کی پستی وزوال پر علمی سطح کا کام کیا ۔ یہ کتاب فوکویاما کی کتاب The End of Historyکا جواب ہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں:’’اسلام پوری انسانیت کے لیے متبادل نظام ہے‘‘۔ ۱۹۹۶ء میں ان کی کتاب Islam-2000 کے عنوان کے تحت شائع ہوئی۔ ۱۹۹۶ء میں مکہ کا سفر (Journey to Makkah) اور ۲۰۰۰ء میں ’اسلام تیسرے ہزاریےمیں‘ (Islam in the Third Milliennium)جیسی علمی کتابیں شائع ہوئیں، جو جرمن، عربی اور انگریزی میں بھی دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے قرآن مجید کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا ہے، جو ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔
مراد ہوف مین بین الاقوامی سطح کے علمی وفکری جرائد میں لکھتے رہے ہیں، جس میں برطانیہ کا  Encounter اور American Journal of Social Science قابل ذکر ہیں۔ موصوف   ’دی اسلامک فاؤنڈیشن‘ برطانیہ کے رسالے The Muslim World Book Reviewکے مستقل تبصرہ نگاروں میں شامل رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر کتابوں اور مقالات کا موضوع مـغربی دنیا میں اسلام کی نمایندگی ہے۔ ۲۰۰۷ء میں انھوں نے آپ کے اور ہمارے درمیان مشترکہ نقطۂ نظر کے عنوان سے ایک کھلا خط لکھا، جس میں مسیحی دنیا کو بہت سی مشتر کہ باتوں پر متوجہ ہونے کے لیے اُبھارا گیا۔ ۱۳جنوری ۲۰۲۰ء کو یہ عظیم داعی خالقِ حقیقی سے جاملے ،انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔

ڈاکٹر مراد ہوف مین افکار کے آئینے میں

-   اسلام ایک متبادل : ’’دنیاے انسانیت کے لیے اسلام ایک نجات دہندہ دین ہے، جو  وحی الٰہی پر مبنی ہے ۔اسلام نے ابتدا ہی سے انسانی مسائل کو حل کیا اور عصر حاضر کے مسائل کا حل بھی اسلام ہی کے پاس ہے، اور اسلام ہی اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُمید کی واحد کرن ہے ‘‘۔
’’لاریب، دنیا کا مستقبل اسلام کے سائے میں ہے ۔ اسلام کو بطورِ متبادل پیش نہ کرنے کی ذمہ دار مغربی مراکز دانش، میڈیا اور مذہبی مقتدرہ پر تو ہے ہی، لیکن اس کے برابر ذمہ دار مسلمان بھی ہیں۔ اسلام مادہ پرستانہ زندگی پر ایک شدید چوٹ ہے اور مغرب میں مادہ پرستانہ سوچ عروج پر ہے، جس کا شکار مغرب کا ہر فرد ہے۔ تاہم، وہاں اب اس مادہ پرست زندگی سے ہر فرد تنگ آچکا ہے جس کاوہ برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغرب اب اللہ پر ایمان رکھنے کے بجاے مادیت، ترقی، فحاشی، ہم جنسی اور انسانی حقوق کی پامالی پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مغرب کو پتا ہے کہ اسی پیغام میں انسانیت کے مصائب اور مسائل کا حل ہے اور اسلام ہی پیغام رحمت ہے، جو زمان و مکان کی قید سے مبرا ہے‘‘۔ (Al-Dawah,2003)
-   دعوتِ دین ، ذرائع ابلاغ اور اسلوب : ’’مغرب میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، اس لیے ان سے یہ کہنا آسان بات نہیں ہے کہ اللہ نے فلاں فلاں بات کہی ہے اور وہ مان جائیں۔ اس مقصد کے لیے آپ کو قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ سائنسی اسلوب اختیار کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے ان کو اللہ اور اللہ کے وجود پر ایمان لانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ہمارے پاس جو لٹریچر موجود ہے، وہ پوری طرح اس ضرورت کا شافی جواب نہیں ہےکہ جس کی ضرورت ہے۔لہٰذا، جدید اسلوب میں لٹریچر تیار کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
اسی طرح مغر ب سے مکالمے کی آج کئی گنا زیادہ ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو خود سے پیش قدمی کر نی چاہیے۔ہمیں اکیسویں صدی میں رہناہے اور اسلام کی نمایندگی کرنی ہے، نہ کہ پیش آمدہ چیلنج کے مقابلے میں فرار کی راہ اختیار کرنی ہے۔ جن لوگوں تک پیغامِ حق ابھی تک نہیں پہنچا ،ان تک یہ پیغام بہم پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور اس کے لیے ان تمام معروف اورجدید ذرائع کو بروے کار لانے کی ضرورت ہے جو آج کل میسر ہیں‘‘۔ (ایضاً)
’’پہلے اپنے آپ کو اُن کے لیے قابلِ قبول بنایئے کہ جن کو دعوت دینی ہے، اور پھر ان تک پیغامِ رحمت پہنچائیں۔ یہ دعوت کا سب سے کار آمد اور مفید پہلو ہے۔داعی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مشرق اور مغرب دونوں کی فکر و علوم سے واقف ہو۔ اس طرح مغربی زبان اور تہذیب سے بھی بخوبی واقف ہو تاکہ ان تک صحیح اور مؤثر انداز سے بات پہنچا سکے۔ اسلام دنیاے انسانیت کے لیے کوئی نیا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ انبیاے کرام کے تسلسل کا ایک حصہ ہے۔ اسلام حضرت عیسٰیؑ ہی کے طریق کار کا ایک مظہر ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عیسائی دنیا نے ان مسیحی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا بلکہ ان میں بے شمار تحریفات بھی کیں۔ بعد کے ادوار میں بھی عیسائی راہبوں اور عالموں نے تحریفات کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ جان پال نے عیسائیت کی پوری تصویر بدل کے  رکھ دی، جس کے نتیجے میں آج کی عیسائیت درحقیقت سینٹ پال کی تعلیمات اور خرافات کا مرکب بن گئی ہے ۔اسلام کا کردار یہ ہے کہ وہ عیسائیت کو اصل مقام کی طرف واپس لایا اور اس کے    ان تمام خرافات اور تحریفات کی نشان دہی کی، جس کی وجہ سے عیسائت فکری انحراف اور انتشار کی شکار ہوئی۔ اب ضرورت ہے کہ ان کے پاس اس الٰہیاتی ہدایت اور انبیاے کرام کی دعوت کی آخری قسط (Episode) کو سائنٹفک اسلوب میں پہنچایا جائے‘‘۔
-   احیاے اسلام اور تجدید: مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’تجدید اور احیا وقت کی    اہم ترین ضرورت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ تجدید کا کام اسلام کے کن موضوعات پر ہوگا؟  یہ ایک اہم سوال ہے۔ اسلام میں تجدید کا کام عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق بنانا ہوگا۔ عقائد، عبادات اور اخلاقیات کو چھوڑ کر اس کے تہذیبی پہلوؤں پر تجدید کا کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔
 ’’معیاری اور ہمہ جہت نصاب میں قرآن ،تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت اور علم کلام کے  ساتھ ساتھ عصری علوم کو شامل کیا جائے۔ قرآن کے مطالعے کے ساتھ کائنات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ دراصل ان دونوں کا مطالعہ ہمارے فکر و عمل میں توازن قائم رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔اور میرا یقین ہے کہ احیاے اسلام کا آغاز یورپ سے ہوگا‘‘۔
-   مغربی فکر و تہذیب کا زوال: مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’مغربی تہذیب اپنی ساخت کے اعتبار سے کامل شربن چکی ہے۔ اس انسانیت خور تہذیب میں منشیات کے ساتھ ساتھ ٹی وی اور انٹرنیٹ بھی شامل ہے ۔مغرب کی اس بے شرم اور روح فرسا تہذیب کی اندرونی صورتِ حال پر اپنے ایک لیکچر میں لکھتے ہیں:’’ مغرب میں طلاق کی شرح خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں آدھے گھر مجرد فرد چلا رہے ہیں، جس میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جو بچہ تو چاہتی ہیں، لیکن شوہر نہیں ۔بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد بن باپ کے پل رہی ہے۔ بہت سے بچے ذہنی عدم توازن کا شکار ہیں ۔انسان نے خدا کے تصور سے دامن چھڑا کر خود کو ہرشے کا معیار قرار دے لیا۔ مذہب تیزی سے انسان کا ذاتی معاملہ بنتا چلا گیا۔ سائنسی علوم نے اس کی جگہ لے لی اور نتیجہ یہ کہ سائنٹزم اور ریشنلزم (Scientism and Rationalism) خود ساختہ مذاہب کا درجہ اختیار کر گئے‘‘۔
-   حقوق نسواں اور اسلام : مراد ہوف مین کہتے ہیں:’’دنیا میں اسلام کے سوا ہرمذہب اور تحریک نے صنفِ نازک کو استحصال کے سوا کچھ بھی نہیں دیا اور صرف اسلام نے ہی ان کو ان تمام حقوق سے نوازا، جن کی وہ حق دارہیں اور جو ان کی فطرت کے عین مطابق ہیں‘‘۔
’’عورت کے حقِ خودارادیت اور مردوں سے کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے کے نتیجے میں، مغرب اب بے تحاشا مسائل کا سامنا کر رہا ہے ۔بچوں کو رحم مادر ہی میں گلا گھونٹ دینے کا نعرہ مغرب کا ہی ہے اور جس پر وہ فخر کے ساتھ رُوبہ عمل بھی ہے‘‘ ۔دورِ جاہلیت اور دورِ حاضر کے درمیان فرق کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’دورِجاہلیت میں بچپن میں ہی لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا، جب کہ دورِ جدید میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ تو اب لڑکوں کا بھی اسقاط حمل کے ذریعے سے گلا گھونٹا جا رہا ہے‘‘ ۔مراد ہوف مین کہتے ہیں کہ ’’دنیا میں نصف سے زیادہ آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ کوئی بھی قوم یا تہذیب، جو ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے میں ناکام رہے گی، اسے بالآخر خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مغرب میں مردوں کے برعکس دوشیزاؤں کے اسلام کی طرف زیادہ مائل ہونے کے باوجود بحیثیت مجموعی مغرب میں عورتیں، اسلام سے بہت حد تک شدید بُغض رکھتی ہیں۔ جس کی وجہ محض یہ غلط فہمیاں ہیں کہ اسلام مردوں کا مذہب ہے اور اگر مسلمان مردوں نے ہرجگہ خواتین کو قرآن کے عطاکردہ حقوق دیے ہوتے، تو ہمیں اس غلط فہمی کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘‘۔
’’یہ حقیقت ہے کہ روایت پسند مسلم معاشروں نے اپنی عورتوں کو کئی قرآنی حقوق نہیں دیے۔  کیا ہم بھول گئے کہ قرآن کو ہم تک منتقل کرنے والوں میں حضرت حفصہؓ بنت عمر الخطاب بھی ہیں،یا یہ کہ ایک عورت نے مسجد نبوی میں جمعہ کے خطبے میں امیرالمومنین کو عین خطبے کے درمیان روک کر ان پر تنقید کی تھی؟‘‘
-   اسلام اور جمہوریت: مغرب ہی کیا عالم اسلام میں بھی سب سے زیادہ جو  موضوعِ بحث ہے، وہ اسلام اور جمہوریت ہے ۔اس حوالے سے بعض اسلامی مفکرین اور اسکالرز اسلام اور جمہوریت کو دو متضاد شے قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض ان دونوں کو ہم آہنگ ٹھیراتے ہیں۔ مراد ہوف مین ثانی الذکر طبقے سے تعلق رکھتے اور لکھتے ہیں کہ ’’منطقی طور پر سب سے پہلے مسلمانوں کو اس غلط تصور کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ جو لوگ اسلام اور جمہوریت کو باہم متضاد سمجھتے ہیں، وہ نہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ جمہوریت کے بارے میں۔ دنیا کو سب سے پہلے جمہوری اصول اسلام نے سکھائے ہیں۔ ایک چھوٹی اکائی سے لے کر پارلیمنٹ تک اسلام نے ٹھوس اصولوں کو متعین کیا ہے۔ ہم ،جنھوں نے سب سے پہلے اپنا خلیفہ منتخب کیا اور اسے دنیا کے سامنے بھرپور دلیل بنایا کہ خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین دنیا کی تاریخ میں پہلے منتخب سربراہانِ مملکت تھے‘‘ــ۔
 ان کے نزدیک: ’’اسلام جمہوریت کا جو تصور پیش کرتا ہے، اس میں حاکمیت الٰہیہ کو مرکزی مقام حاصل ہے اور قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے،جس میں تبدیلی کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔اسلامی جمہوریت میں کوئی بھی پارلیمان اپنے اہل دستور، یعنی قرآن و سنت میں دیے گئے خدائی احکامات کو اپنے تمام تر قانونی اختیار کے باوجود تبدیل نہیں کر سکے گی۔ اسلام میں جمہوریت نہ مذہبی علَم برداروں کی ہوتی ہے نہ سیکولر علَم برداروں کی بلکہ یہ نظریاتی حکومت ہوتی ہے، جس کا دستورِ اساسی قرآن مجید ہوتا ہے‘‘ (Islam 2000 ،ص۱۲)۔
مراد ہوف مین کا کہنا ہے کہ ’’دنیا میں ہرشخص نے کسی دوسرے شخص سے فیض حاصل کیا اور ہر شخص نے کسی دوسرے شخص کی کامیابیوں پر عمارت کھڑی کی‘‘ ۔موصوف کے نزدیک ’’اسلام تصادم کا قائل نہیں، بلکہ افہام و تفہیم سے تہذیبوں کو آگے بڑھاتا ہے‘‘ ۔

ہمارے عزیز دوست اور سرپرست محترم عبدالرشید صدیقی، ۲۳دسمبر ۲۰۱۹ء کو انتقال فرما گئے: اِنَّـا لِلّٰہِ  وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ! مجھے اُن کے ساتھ ۱۹۸۵ء سے بہت قریب رہ کر کام کرنے کا موقع ملا، خصوصاً ’ینگ مسلمز‘ (YM)، اسلامک سوسائٹی آف بریٹن (ISB) اور یوکے اسلامک مشن (UKIM) میں تو وہ ہمارے مربی، استاد اور رہنما تھے۔ اُن کی پارسائی، للہیت، بلندخلقی، فروتنی، مخلصانہ سرپرستی اور محبت آگیں رفاقت، وہ جوہری خوبیاں تھیں، جنھوں نے مجھے بے پناہ متاثر کیا اور دینی جذبے کی آنچ سے روشناس کرایا۔
وہ نجی ملاقاتوں میں اور زندگی کے رسمی اور غیررسمی مراحل اور مواقع پر قرآنِ عظیم کی آیات، احادیث کے اسباق اور سیرتِ طیبہ کے واقعات کو بروقت اور اس قدر دل نشین انداز سے تازہ کرتے، سدابہار مسکراہٹ سے دُہراتے اور اس پیارے انداز سے دل میں اُتارتے کہ جی چاہتا: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ وہ مزید کچھ بتائیں اور ان مقدس تعلیمات کے زیرسایہ وقت گزارنے کا موقع عنایت فرمائیں۔ یہ تو ایک بڑا روشن پہلو ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو میں نے ذاتی زندگی کے معاملات اور بحرانوں اور پریشانیوں میں رہنمائی کے لیے جب بھی ان سے رجوع کیا، تو انھوں نے کمالِ شفقت، بڑے خلوص، سراپا ہمدردی اور دُور اندیشی سے میری دست گیری کی۔ ان کی راے ہمیشہ صائب، مضبوط اور متوازن ہوتی۔
عبدالرشید صدیقی صاحب ستمبر ۱۹۳۲ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۳ء میں نقل مکانی کرکے برطانیہ تشریف لائے۔ اُن کی صالح فطرت نے انھیں یہاں پہنچنے کے پہلے ہی روز سے اسلامی تنظیموں سے وابستہ رکھا، اور پھر اس دیارِغیر میں انھوں نے زندگی کے ۶۰برس، دعوتِ دین، تزکیہ و تربیت اور تحقیق و تالیف کی سرگرمیوں میں اس طرح گزارے کہ ان کا نام برطانیہ میں خدمت ِ دین کا استعارہ بن گیا۔ مذکورہ بالا تینوں تنظیموں میں بڑا اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ طویل مدت تک دی اسلامک فاؤنڈیشن،لیسٹر (TIF) اور مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن (MIHE) کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن بھی رہے۔ مزید یہ کہ ۵۵برس تک ان اداروں کی رہنمائی اور نگرانی کے لیے بہت سی مرکزی ذمہ داریاں بھی ادا کیں، جن میں سینیر نائب صدر، سیکرٹری جنرل، سربراہ شعبۂ دعوت اور صدر شعبۂ منصوبہ سازی شامل ہیں۔
عبدالرشید صدیقی صاحب اپنے حُسنِ اخلاق، اَن تھک ریاضت، کامل یکسوئی، اعلیٰ تحقیقاتی قابلیت کے سبب اور اس سے بڑھ کر مطالعۂ قرآن اور مطالب ِ قرآن میں گہری نظر کی وجہ سے ہم سب کے مرکز نگاہ بن گئے تھے۔ وہ دعوتِ دین اور تربیت ِدین کی مصروفیتوں میں دلی سکون اور طمانیت محسوس کرتے تھے۔
انھوں نے اپنی زندگی کے سفر میں اہم موڑ کی نشان دہی ان لفظوں میں کی ہے: ’’بمبئی میں کالج کی تعلیم کے دوران میں زندگی کے معاملات اور سماجی مسائل سے لاتعلق سا تھا۔ اسی دوران میں میرے ایک عزیز دوست ذاکر علی صدیقی نے مجھے مولانا مودودیؒ کی کتب سے متعارف کرایا، جن کے مطالعے نے طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ اسی زمانے میں جماعت اسلامی کے ممتاز مربی مولانا شمس پیرزادہؒ کے حلقۂ درسِ قرآن میں باقاعدگی سے شریک ہونے لگا۔ امرواقعہ ہے کہ ان بلندپایہ اور علم وفضل سے مالا مال دروسِ قرآن نے نقطۂ نظر اور مقصد ِ زندگی میں یک سر تبدیلی پیدا کردی اور یہ شعور دیا کہ قرآن صرف پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ غوروفکر کرنے اور زندگی کو اس کے زیراثر گزارنے کے لیے ہے۔ اسی سلسلۂ درس میں مجھے معلوم ہوا کہ قرآن کریم اس وقت تک سمجھ میں آنہیں سکتا، جب تک کہ سنت اور حدیث کے فہم سے انسان کورا اور لاتعلق ہو۔ اس پہلو نے مجھے دینی علوم کی روشنی میں پڑھنے، سمجھنے، لکھنے اور سمجھانے کی راہیں دکھائیں‘‘۔
محترم صدیقی صاحب نے مزید بتایا: ’’شروع میں تو اجلاسوں کی رپورٹیں لکھنے اور پریس ریلیز مرتب کرنے کا کام بڑے شوق سے کرتا رہا۔ پھر اسٹڈی سرکلز چلانے میں مصروف ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی درسِ قرآن دینے پر زور دیا جانے لگا۔ طبیعت میں جھجک تھی اور آواز بھی کچھ تیز تھی، اس لیے حوصلہ نہیں پاتاتھا۔ تاہم، ۲۵برس کی عمر میں بمبئی جیسے بڑے شہر میں ناظم مقرر کردیا گیا۔ اس ذمہ داری نے لازمی طور پر وہاں درس دینے اور اسٹڈی سرکل چلانے کے لیے مطالعے میں وسعت پیدا کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک، مؤثر انداز میں ابلاغ کی ذمہ داری  ادا کرنے پر اُبھارا،جس نے بہت سی صلاحیتوں کو اُجاگر کیا‘‘۔
یاد رہے زندگی کے ابتدائی عرصے میں عبدالرشید صدیقی صاحب نے معاشیات، سیاسیات اور قانون کی تعلیم بمبئی یونی ورسٹی سے حاصل کی تھی۔ اس کے بعد لندن میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کی سند ِ فضیلت لی۔ وہ لیسٹر یونی ورسٹی میں ۱۹۶۶ء سے ۱۹۹۷ء تک لائبریرین کے منصب پر خدمات انجام دیتے رہے۔ اس مدت میں یونی ورسٹی میں جمعہ کا خطبہ دینے کی ذمہ داری بھی باقاعدگی سے ادا کرتے رہے۔
بقول صدیقی صاحب: ’’جب برطانیہ آیا تو اسلامک مشن کی تشکیل کے بعد اس کے ترجمان پیغام کا مدیر مقرر ہوا۔ اداریہ نویسی کے ساتھ مضامین لکھنے، لکھوانے اور خبروں کو مرتب کرنے کی لازمی مشق بھی شروع ہوئی۔ اس چیز نے لکھنے اور لکھوانے کی منصوبہ سازی کی تربیت دی‘‘۔
تحریرو تصنیف کے ذیل میں عبدالرشید صدیقی صاحب نے بہت قیمتی کتب صدقۂ جاریہ کے طور پر چھوڑی ہیں، جن میں: *Living in Allah's Presence *Treasurers of the Quran *Key to al-Fatihah *Key to Al-Imran *Tazkiyah: The Islamic Path of Self-Development *Quranic Keywords: A Reference Guide *Lift up Your Hearts *Man and Destiny *Shariah: A Divine Code of Life  وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح انھوں نے مختلف اسکالروں کی کتب کو بہت اعلیٰ معیار پر مرتب و مدون کیا۔(ترجمہ: س م خ)

جب سے مصر کے واحد منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی خبر ملی، تو دنیا میں ان کے آخری لمحات کی تفصیل کا انتظار تھا۔ الحمدللہ، شہید کی اہلیہ محترمہ نجلاء محمد مرسی سے فون پر گفتگو ہوئی، اور پھر ان کے صاحبزادے احمد محمد مرسی سے بھی رابطہ ہوا،وہ بتارہے تھے کہ:
’’ ہمیں والد صاحب کی وفات کے دس گھنٹے بعد جیل میں ان کی میت کے پاس لے جایا گیا اور چہرے پر پڑی چادر ہٹائی گئی، تو ہم سب کو ایک دھچکا لگا، اور چہرے پر شدید تناؤ، غصّے اور بیماری کے اثرات نمایاں تھے۔ ہم نے مغفرت کی دُعائیں کرتے ہوئے، وہاں بڑی تعداد میں موجود فوجی اور پولیس افسروں سے کہا کہ وہ تجہیز و تکفین کے لیے اہل خانہ کو ان کے ساتھ اکیلے چھوڑ دیں، جسے انھوںنے مان لیا۔ اس ربّ کی قسم! جس نے یہ کائنات پیدا کی جیسے ہی جنرل سیسی کے      وہ گماشتے کمرے سے نکلے، ہم سب حیران رہ گئے کہ ابّو کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ تناؤ کی بجاے سکون اور پیلاہٹ کے بجاے نور طاری ہونے لگا۔ یہ کوئی ابّو کی کرامت نہیں، اللہ کی طرف سے ہم سب کے لیے بشارت اور ڈھارس کا سامان تھا۔ گویا ابّو نے صرف  اپنی حیات ہی میں ان جابروں کے سامنے جھکنے سے انکار نہیں کیا تھا، اپنی وفات کے بعد بھی وہ ان کے مظالم پر احتجاج کررہے تھے‘‘۔
’’گذشتہ تین برس سے قید میرے بھائی اسامہ محمد مرسی کو بھی تجہیز و تکفین اور جنازے میں شرکت کے لیے اسی اثناء میں اجازت دے دی گئی۔ ہم نے مل کر ابّو کو غسل دینا شروع کیا، ابّو کے چہرے پر اطمینان اور مسکراہٹ میں مسلسل اضافہ ہورہاتھا۔ ادھر ہم غسل و کفن دے کر فارغ ہوئے ادھر مؤذن نے فجر کی اذان بلند کی۔ یہ ہمارے لیے ایک اور بشارت تھی، کیونکہ ابّو نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، انھوں نے کبھی فجر کی اذان گھر میں نہیںسنی تھی۔ وہ اذان فجر سے کافی پہلے مسجد چلے جاتے تھے۔  اب وہ گذشتہ چھے سال سے قید تنہائی میں تھے، تو وہاں بھی خود ہی اذان دیتے اور خود ہی اکیلے باآواز بلند نماز ادا کرتے تھے۔ ہم اہل خانہ نے جیل میں باجماعت نماز فجر ادا کی، پھر اکیلے ہی وہیں ان کی نماز جنازہ پڑھی او رسخت فوجی پہرے میں ان کی میت لے کر قبرستان روانہ ہوگئے‘‘۔
’’ابّو کی وصیت تھی کہ انھیں ان کے بزرگوں کے ساتھ مصر کے ضلع شرقی کے آبائی گاؤںمیں دفن کیا جائے، مگر جنرل سیسی نے اس وصیت پر عمل درآمد کی اجازت نہ دی اور قاہرہ کے مضافات میں واقع النصر شہر کے قبرستان میں تدفین کا حکم سنایا۔ یہاں اللہ نے ہمیں ایک اور بشارت سے نوازا۔ ہم نے انھیں الاخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف کے پہلو میں دفن کیا۔ ہم نے ابّو کو قبر میں لٹانے کے بعد آخری بار چہرہ دیکھا ،تو اب وہ بلا مبالغہ چودھویں کے چاند کی طرح دمک رہا تھا۔ ابّو کی تدفین کے لیے جیسے ہی مرحوم مرشد عام محمد مہدی عاکف کی قبر کھولی گئی تو اس دن کی آخری بشارت عطا ہوئی (واضح رہے کہ مصر میں قبریں زمین میں کھود کر نہیں، قبروں کے حجم کے چھوٹے کمرے بناکر اس کے کچے فرش پر میت سپرد خاک کر دی جاتی ہے اور دروازہ اینٹوں سے چُن دیا جاتا ہے)۔  دو سال قبل ابّو ہی کی طرح جیل میں بیماریوں اور حکمرانوں کی سفاکی کا شکار ہوکر جامِ شہادت نوش کرجانے والے مرشد عام کا جسد خاکی، دو سال بعد بھی بالکل اسی طرح تروتازہ اور کفن اسی طرح اُجلا اور سلامت تھا۔ ابّو کو ان سے خصوصی محبت تھی۔ ابّو سے ہماری آخری ملاقات گذشتہ سال ستمبر میں ہوئی تھی۔ صرف ۲۰ منٹ کی اس ملاقات میں بھی انھوں نے سب سے پہلے مرحوم محمد مہدی عاکف صاحب کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ ہم نے جب انھیں بتایا کہ وہ تو تقریباً ایک سال قبل اللہ کو پیارے ہوگئے تھے، تو ابّو کو بہت دکھ ہوا۔ وہ ان کے لیے دُعائیں کرتے رہے اور پھر کہنے لگے ان شاء اللہ حوض نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اکٹھے ہوں گے۔ اب اللہ نے دونوں کو قبر میں بھی تاقیامت اکٹھا کردیا، ان شاء اللہ جنتوں میں بھی اکٹھے رہیں گے‘‘۔
مصر کے واحد منتخب صدر محمد مرسی کی وفات کے بعد ہر روز ان کی کوئی نہ کوئی نئی خوبی اور نیکی دنیا کے سامنے آرہی ہے۔ ان کی صاحبزادی شیما نے بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ: ’’صدر منتخب ہونے کے بعد وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کی عزت و وقار کے بارے میں پہلے سے بھی زیادہ حساس ہوگئے تھے۔ ایک روز نماز جمعہ کے لیے جانے کی تیاری کررہے تھے۔ اچانک ان کے سیکریٹری کا فون آیا کہ: ’’امریکی صدر اوباما کے دفتر سے فون آرہاہے، وہ ابھی اسی وقت ۱۰ منٹ کے لیے آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے دفتر والے بتارہے ہیں کہ پھر اس کے بعد صدر اوباما کے پاس وقت نہیں ہوگا‘‘۔ صدر محمد مرسی نے کہا: ’’انھیں بتادیں کہ اس وقت میرا اپنے اللہ سے ملاقات کا وقت طے ہے، اس وقت بات نہیں ہوسکتی۔ اگر آج ان کے پاس وقت نہیں ہے، تو میں بھی فارغ ہوکر جب وقت ہوگا انھیں اطلاع کروادوں گا۔ انھیں یہ بھی بتادیں کہ یہ رابطہ ۱۰ منٹ نہیں صرف پانچ منٹ کے لیے ہوسکے گا‘‘۔ اتنا کہہ کر ابّو نے فون بند کردیا۔ میں یہ سن کر اور ابّو کو دیکھ کر ہنس دی، تو وہ کہنے لگے کہ: ’’یہ لوگ ہمارے ساتھ غلاموں کی طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ اب مصر کو ایک آزاد مسلم ملک کی طرح جینا سیکھنا ہوگا‘‘۔
ایک جانب وہ عالمی طاقت کے سربراہ کے سامنے اس قدر خوددار تھے، تو دوسری جانب اپنے بھائیوں اور عام مسلمانوں کے سامنے اتنے ہی منکسر المزاج۔ اُردن کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ: ’’صدر محمد مرسی کی شہادت کے وقت میں جرمنی میں تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ پھولوں کے ایک چھوٹے سے کھوکھے کے باہر ان کی تصویر آویزاں ہے۔ مجھے تعجب ہوا اور میں کھوکھے کے اندر چلا گیا۔ اندر دیکھا تو اس دکان والے نے صدر مرسی کے ساتھ اپنی کئی اور تصاویر لگائی ہوئی تھیں۔ میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ صدر مرسی جرمنی کی دورے پر آرہے تھے۔ میں نے آمد سے ایک روز قبل سفارت خانے فون کرکے بتایا کہ میں فلاں کھوکھے کا مالک بول رہا ہوں۔ مصر کا ایک مسیحی ہوں اور صدر مرسی سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ سفارت خانے والوں نے میرا نمبر لے کر فون بند کردیا۔ اگلی صبح میں نے دکان کھولی تو اس وقت ششدر رہ گیا کہ صدر مرسی کسی پروٹوکول کے بغیر خود میرے کھوکھے کے باہر کھڑے تھے۔ مجھے لے کر ساتھ والے چائے خانے پر بیٹھ گئے اور پوچھا کہ کیوں یاد کیا تھا؟ میں نے کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ آپ کی جیت کے بعد مصر کے قبطی مسیحیوں کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ کہنے لگے بیرون ملک مقیم ایک مسیحی بھائی کا پیغام ملنے پر میں خود حاضر ہوگیا ہوں تو بھلا مصر کی ۱۰ فی صد مسیحی آبادی کے بارے میں کیسے تساہل برت سکتا ہوں؟ بس اس کے بعد سے صدر محمد مرسی میرے ہیرو ہیں‘‘۔
امریکا میں دورانِ تعلیم ان کے رہایشی علاقے میں رہنے والے ایک سعودی دوست نے بتایا کہ: ’’امریکی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے بعد انھیں اسی یونی ورسٹی میں تدریس کی شان دار ملازمت مل گئی۔ دوران تعلیم اور پھر یونی ورسٹی کے پروفیسر بن جانے کے بعد بھی، وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ نماز فجر سے پہلے مسجد آجاتے تھے۔ میاں بیوی مل کر مسجد کے طہارت خانوں سمیت مسجد کی صفائی کرتے، نماز تہجد پڑھتے اور باجماعت نماز فجر کے بعد گھر واپس جاتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ مؤذن یا امام صاحب بروقت نہ پہنچ پاتے تو حافظ قرآن محمد مرسی ہی اذان یا امامت کے فرائض انجام دیتے‘‘۔
شہید صدر کو یہ تواضع اور انکساری اپنے والدین سے حاصل ہوئی تھی۔ تمام اہل قصبہ باہم محبت میں گندھے ہوئے تھے۔ ان کے والد صاحب کا نام محمد تھا۔ اس نام سے انھیں اتنی محبت تھی کہ انھوں نے سب سے بڑے بیٹے کا نام بھی محمد ہی رکھا۔ ان کے تمام ذاتی کاغذات میں اور صدر منتخب ہونے کے اعلان کے وقت بھی جب ان کا مکمل نام پکارا گیا، تو یہی تھا: محمد محمد مرسی عیسٰی العیاط۔
۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۰ء میں ہونے والے انتخابات میں انھوں نے الاخوان المسلمون کی طرف سے حصہ لیا اور حسنی مبارک حکومت کی تمام تر دھاندلی کے باوجود رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ۲۰۰۵ء کے انتخابات میں پھر حصہ لیا۔ انھیں تمام اُمیدواران میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ ان کے اور دوسرے نمبر پر آنے والے اُمیدوار کے ووٹوں میں بہت واضح فرق تھا، لیکن حسنی مبارک انتظامیہ نے نتائج تسلیم کرنے کے بجاے، ان کے حلقے میں دوبارہ انتخاب کروادیے اور پھر ان کے بجاے ان سے ہارنے والے کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ دنیا کے بہترین پارلیمنٹیرین کا اعزاز پانے والے جناب محمد مرسی کا ’جرم‘ یہ تھا کہ گذشتہ دو اَدوار میں انھوں نے حکومتی وزرا کی کارکردگی اور ملک میں جاری کرپشن کا کڑا مؤاخذہ کیا تھا۔ انھوں نے ۲۰۰۴ء میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک قومی پلیٹ فارم تشکیل دیا۔ جنوری ۲۰۱۱ میں جب مصری عوام کی   بے مثال قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حسنی مبارک کا ۳۰ سالہ دور ختم ہوا، تو ڈاکٹر محمد مرسی نے ملک کی ۴۰ دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاتے ہوئے ’جمہوری اتحاد براے مصر‘ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۳۰ ؍اپریل ۲۰۱۱ء کو الاخوان المسلمون کی مجلس شوریٰ نے اپنی سیاسی جدوجہد کے لیے ’ آزادی اور انصاف پارٹی‘ کے نام سے الگ جماعت بنانے اور ڈاکٹر محمد مرسی کو اس کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس پارٹی نے تمام تر اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود پارلیمانی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی۔
ان کی دینی، سیاسی اور پارلیمانی صلاحیتوں کی طرح ان کی تعلیمی اور تدریسی صلاحیتوں کی شہرت بھی اتنی نمایاں تھی کہ جب ۱۹۸۵ء میں مصر واپس آکر الزقازیق یونی ورسٹی میں تدریس کی خدمات انجام دینے لگے، تو انھیں کئی عالمی یونی ورسٹیوں اور اداروں نے مشورے اور مختلف تحقیقی منصوبوں میں شرکت کے لیے مدعو کیا۔ خود ’ناسا‘ نے بھی مختلف تجربات میں انھیں شریک کیا۔
۳۰ جون ۲۰۱۲ء سے ۳ جولائی ۲۰۱۳ء تک کے اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں،صدر محمدمرسی کو اصل مقتدر قوتوں کی طرف سے شدید مزاحمت اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک میں اچانک گیس اور تیل کا بحران کھڑا کردیا گیا۔ یہ مصنوعی بحران پیدا کرنے کے لیے کئی بار یہ ہوا کہ تیل سپلائی کرنے والے ٹینکروں کو صحرا میں لے جا کر ان کا تیل بہا دیا گیا۔ گیس کے سلنڈر اور چینی بڑے بڑے گوداموں میں ذخیرہ کردی گئی۔ ایک غیر جانب دار تحقیقی ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان کے دورِ اقتدار کے ایک سال کے دوران ان پر تین بار قاتلانہ حملوں کی سازشیں پکڑی گئیں۔ منظم مخالفانہ ابلاغی مہمات چلائی گئیں۔ پھر جب ان تمام سازشوں کے نتیجے میں مصری تاریخ کے اکلوتے منتخب صدر کا تختہ اُلٹ دیا گیا تو چند گھنٹوں میں لوڈشیڈنگ، گیس و پٹرول کی فراہمی سمیت سارے مسائل کسی جادوئی چھڑی سے حل ہونے لگے۔ چند نمایاں ممالک کی طرف سے بھی اربوں ڈالر اور مفت تیل کے عطیات کی بارش ہونے لگی۔   یہ الگ بات ہے کہ آج تک اربوں ڈالر وں کی جاری بارش کے باوجود مصر مسلسل تباہی اور ناقابلِ بیان اقتصادی بدحالی کا شکار ہے۔
صدر محمد مرسی نے اپنے ایک سالہ دور میں کرپشن، قومی خزانے سے لوٹ مار اور ظلم و جبر کے خاتمے اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے وہ بنیادی اقدام اُٹھائے تھے کہ اگر وہ اپنا عہدصدارت مکمل کرلیتے تو مصر اس وقت یقینا ایک جبر و استبداد اور تباہی و بدحالی کی علامت بن جانے کے بجاے آزادی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہوتا۔ یہی ان کا بنیادی جرم تھا۔ لیکن ان کا اصل اور سنگین جرم یہ تھا کہ وہ پڑوس میں واقع سرزمین قبلۂ اول پر صہیونی قبضہ کسی صورت تسلیم کرنے والے نہیں تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا وہ ویڈیو کلپ آپ آج بھی سن سکتے ہیں، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہم نے صدر مرسی سے رابطہ کرکے معاملات طے کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن انھوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کردیا۔ پھر ہم نے ’مصری دوستوں‘ کے ساتھ مل کر ان کا تختہ اُلٹ دیا‘‘۔
صدر محمد مرسی نے اپنے ایک سالہ دور اقتدار ہی میں ملک کو وہ دستور دیا، جس کی تیاری میں بلامبالغہ ملک کے تمام نمایندوں کو شریک کیا گیا۔ ۱۰۰ رکنی دستوری کونسل نے ایک ایک شق پر باقاعدہ ووٹنگ کرواتے ہوئے ۲۳۶ شقوں پر مشتمل دستوری مسودہ تیار کیا۔ اصل مقتدر قوتوں کی سرپرستی میں اس کے خلاف بھی طوفان کھڑا کردیا گیا۔ سپریم دستوری عدالت نے نومنتخب قومی اسمبلی صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے قبل تحلیل کردی۔ اب سازش یہ تھی کہ نہ صرف نومنتخب سینیٹ بھی توڑ دی جائے، بلکہ صدر کا انتخاب بھی چیلنج کرتے ہوئے ملک و قوم کی سب قربانیاں خاک میں ملادی جائیں۔ اس موقعے پر مجبور ہوکر صدر نے ایک چار نکاتی آرڈی ننس جاری کیا، جس کے اہم ترین نکات دو تھے۔ عوامی ریفرنڈم کے ذریعے دستور کی منظوری تک سینیٹ کو نہیں توڑا جاسکتا اور دستور منظور ہونے تک صدر کے کسی فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ بس اسی آرڈی ننس کو آج تک بعض لوگ صدر مرسی اور اخوان کی فرعونیت کا الزام لگاتے ہوئے جھوٹے پروپیگنڈے کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ صدر نے دستوری کونسل کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ ان کی عدم موجودگی میں اس آرڈی ننس کاجائزہ لے کر جو بھی فیصلہ کرے گی، انھیںمنظور ہوگا۔ کونسل نے آرڈی ننس منسوخ کرنے کی سفارش کی تو صدر نے آرڈی ننس منسوخ کردیاتھا۔
شہید صدر کی اہلیہ نے درست کہا کہ بظاہر صدر محمد مرسی کو چھے سال قید تنہائی اور مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن عملاً انھوںنے سات سال یہ ظلم و ستم برداشت کیا۔ صدارت کا ایک سال بھی درحقیقت قید ہی کا ایک سال تھا۔
المیہ یہ ہے کہ مصر کو خاک و خون میں نہلادینے اور ناکامی و نامرادی کی بدترین مثال بنادینے والے حکمران اس موقعے پر بھی شہید صدر پر اعتراضات کا وہی راگ الاپ رہے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت مصری وزیر اوقاف کی طرف سے مساجد کے تمام ائمہ و خطبا کے نام جاری حکم نامے کی کاپی پڑی ہے۔ حکم یہ جاری کیا گیا ہے کہ: ’’خطبۂ جمعہ میں سابق صدر محمدمرسی کے جرائم پر تفصیل سے بات کی جائے، اور بلند آواز میں ان کے لیے بددُعائیں کی جائیں، تاکہ اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو‘‘۔ تمام عمر قرآن کے زیر سایہ گزارنے والا صدر محمد مرسی تو اب ان ظالموں کے ہرستم سے آزاد و بالاتر ہوگیا لیکن یہ حکم نامہ خود ان ظالم حکمرانوں اور ان کے بدقسمت دلالوں کا قبیح چہرہ بے نقاب کررہا ہے۔
مصری عوام کو صدر محمد مرسی کی نماز جنازہ کی اجازت نہیں دی گئی،لیکن وہ شاید تاریخ حاضر کی اکلوتی شخصیت ہیں کہ دنیا بھر میں لاکھوں نہیں کروڑوں اہل ایمان نے جن کی غائبانہ نمازِ جنازہ  سب سے زیادہ مرتبہ ادا کی۔ بددُعاؤں کا سرکلر جاری کرنے والے وزیر اور اس کے روسیاہ آقا جنرل سیسی کو شاید یاد نہیں رہا کہ دُعا اور بددُعا کا تعلق سرکلر سے نہیں، دلوں سے ہوتا ہے اور آج اللہ نے دنیا بھر میں اپنے شہید بندے کے لیے محبت و احترام کی ہوائیں چلا دی ہیں۔ یہی اس کا وعدہ بھی ہے: اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۝  (مریم۱۹: ۹۶) ’’یقینا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں عنقریب رحمٰن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا‘‘۔
ایک اہم اور تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ مظلوم صدر محمد مرسی تو اپنی نیکیوں اور خطاؤں سمیت اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ اب وہ ہر طرح کے ظلم و ستم سے بھی نجات پاگئے، لیکن اس لمحے بھی مصر کی جیلوں میں ۶۰ ہزار سے زائد بے گناہ قدسی نفوس گذشتہ چھے سال سے بدترین مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میںعالمی جامعات سے فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حفاظ کرام بھی شامل ہیں۔ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور خواتین بھی۔ اب تک ان میں سے ۹۰۰کے قریب قیدی تشدد اور مظالم کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں۔ یہ ۶۰ ہزار فرشتہ سیرت انسان عالمی ضمیر کے منہ پر مصری آمر کی جانب سے ایک طمانچہ ہیں۔ کیا حقوق انسانی، توہین رسالت تک کی اجازت چاہنے کے لیے آزادیِ راے کی دہائیاں دینے والے عالمی ادارے، اس پر بھی زبان کھولیں گے؟
 

عباسی مدنی

معروف مسلم سپہ سالار اور جلیل القدر تابعی حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ کی جاے پیدایش مکہ مکرمہ ہے، لیکن قبر الجزائر میں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ ہجرت سے   ایک سال قبل آپ پیدا ہوئے تھے۔ صحابی ہونے کا شرف تو حاصل نہ ہوا، لیکن ایمان لانے کے بعد پوری زندگی میدان جہاد میں گزاردی۔ مصر و سوڈان سے لے کر سینی گال تک کے افریقا میں نُورِاسلام کا پہنچنا دیگر صحابہ کرامؓ کے علاوہ آپ کا صدقۂ جاریہ بھی ہے۔الجزائر کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع جس قصبے میں آپ مدفون ہیں، اس کا نام ہی سیدی عقبہ رکھ دیا گیا۔
کئی صدیوں بعد اسی بستی (سیدی عقبہ) میں ۲۸ فروری ۱۹۳۱ کو ایک شخصیت نے جنم لیا، جنھیں دنیا عباسی مدنی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ دنیا میں آئے تو کئی افریقی ممالک کی طرح الجزائر پر بھی فرانس کا قبضہ تھا۔ تعلیم اور جوانی کی منزلیں طے کرنے کے ساتھ ساتھ وہ فکر و شعور کے مدارج بھی طے کررہے تھے۔ ۲۳ سال کی عمر کو پہنچے تو ۱۹۵۴ میں فرانسیسی تسلط سے نجات کے لیے الجزائری عوام کی عظیم الشان جدوجہد ِآزادی شروع ہوگئی۔ یہ نوجوان عباسی بھی اس تحریک کا فعال حصہ بن گئے۔ کچھ روز بعد ہی فرانسیسی قابض فوج نے انھیں گرفتار کرلیا۔ پھر آٹھ سال جیل میں گزارنے کے بعد انھیں جیل سے اس وقت ہی آزادی ملی، جب ۱۹۶۲ میں خود الجزائر کو فرانسیسی قید سے آزادی حاصل ہوئی۔ تب یہ بات طے شدہ تھی کہ اگر الجزائر کی آزادی میں مزید کچھ عرصہ بھی تاخیر ہوجاتی تو عباسی مدنی سمیت کئی اسیرانِ آزادی کو پھانسی دے دی جاتی۔
جیل اور فرانس کی غلامی سے آزادی کے بعد انھوں نے مزید تعلیمی منازل طے کیں۔ ۱۹۷۸ء میں برطانیا سے پی ایچ ڈی کی اور دارالحکومت الجزائر (الجزائر کے دارالحکومت کا نام بھی الجزائر ہی ہے) کی بوزریعہ یونی ورسٹی میں تدریس سے وابستہ ہوگئے اور ساتھ ہی ساتھ دعوت و اصلاح کی جدوجہد بھی کرتے رہے۔ اس وقت ملک میں قانونی لحاظ سے صرف حکمران پارٹی ہی کو سرگرمیوں کی اجازت تھی۔ اخوان سمیت مختلف تحریکیں کام تو کرتی تھیں، لیکن انھیں کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔
آخرکار ایک عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ملک سے یک جماعتی نظام ختم ہوا۔ ۳نومبر ۱۹۸۸ء کو الجزائر میں سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی تو عباسی مدنی نے ڈاکٹر علی بلحاج اور ڈاکٹر عبدالقادر الحشانی جیسی دینی و قومی شخصیات کے ساتھ مل کر ۱۸فروری ۱۹۸۹ء کو اسلامی فرنٹ، الجبہۃ الاسلامیۃ للانقاذ (FIS) تشکیل دیا، جسے ستمبر ۱۹۸۹ء کو قانونی طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ اگلے برس ۱۲جون ۱۹۹۰ء کو بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ اسلامی فرنٹ نے ۱۵۳۹ بلدیاتی اداروں میں سے ۹۵۳ میں، اور ۴۸ بڑے شہروں میں سے ۳۲ میں کامیابی حاصل کرلی۔ اگلے برس دسمبر ۱۹۹۱ء میں قومی انتخابات کا پہلا مرحلہ عمل میں آیا تو اسلامی فرنٹ نے ۲۳۱  نشستوں میں سے ۱۸۸نشستیں حاصل کرلیں۔ 
اسلامی فرنٹ کا یہ کامیابی حاصل کرنا ایسا سنگین جرم تھا کہ جس کی پاداش میں اگلے پورے ۱۰برس الجزائر کو خون میں نہلا دیا گیا۔ الجزائری فوج نے عوامی راے پر ڈاکا ڈالا، جس پر عوام نے احتجاج کیا۔ جنوری ۱۹۹۲ء سے پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ فرنٹ کے ۲۰ ہزار کارکنان سمیت بڑی تعداد میں شہری گرفتار کرلیے گئے۔ پھر درجنوں نامعلوم مسلح تنظیمیں ظہور پذیر ہونے لگیں۔ الجزائری تاریخ میں ان دس برسوں کو خونیں عشرہ یا سرخ عشرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی دوران ایک دوسرے کی تکفیر کا فتنہ متعارف کروادیا گیا۔ جمہوریت کی دعوے دار سب مغربی قوتوں نے فوجی انقلاب کی سرپرستی کرتے ہوئے بالواسطہ یا بلاواسطہ ان مسلح تنظیموں کی سرپرستی کی۔ 
عباسی مدنی سمیت اسلامی فرنٹ اور دیگر اسلامی تحریکوں کی ساری قیادت یا تو جیلوں میں بند کردی گئی تھی یا شہید۔ نام نہاد عدالتی کارروائی کے بعد عباسی مدنی کو نقص امن کے نام نہاد الزام میں ۱۲ سال قید کی سزا سنادی گئی۔ ۷سال قید کے بعد ۶۲ سالہ مدنی صاحب کی صحت زیادہ خراب ہوگئی تو جولائی ۱۹۹۷ء میں جیل سے نکال کر گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ جہاں انھیں قید کے باقی پانچ سال دنیا سے منقطع رکھا گیا۔ فرنٹ کے دوسرے اور تیسرے نمبر کے رہنما علی بلحاج اور عبدالقادر الحشانی بھی ساتھ ہی رہا ہوئے۔ الحشانی کو دوسال بعد نامعلوم عناصر نے شہید کردیا، جب کہ شعلہ نوا خطیب علی بلحاج کو آج تک آئے دن گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عباسی مدنی ۱۲ سالہ قید کی مدت پوری ہونے کے بعد علاج کے لیے ملائیشیا چلے گئے اور وہاں سے قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل ہوگئے، جہاں ۲۴ ؍اپریل ۲۰۱۹ء کو انتقال کرگئے، اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
مناسب ہوگا کہ اس موقع پر اسلامی سالویشن فرنٹ (FIS) کی تشکیل و پس منظر کا مختصر جائزہ بھی لے لیا جائے۔ یہ ذکر تو آگیا کہ ۱۹۸۹ء سے پہلے ملک میں صرف ایک ہی پارٹی، یعنی حکمران جماعت کو کام کی اجازت تھی۔ لیکن غیر رسمی اور غیر علانیہ طور پر مختلف سیاسی و نظریاتی اطراف اپنی اپنی جدوجہد کررہی تھیں۔ اسلامی سوچ رکھنے والے عناصر تین حصوں میں منقسم تھے۔ الاخوان المسلمون کی عالمی تنظیم کے حصے کے طور پر جناب محفوظ نحناح کی سربراہی میں سرگرمیاں جاری تھیں۔ اخوان کے ہم خیال لیکن عالمی تنظیم سے الگ جناب عبداللہ جاب اللہ الگ جماعت رکھتے تھے۔ معروف اسلامی مفکر مالک بن نبی کی فکر سے منسلک لوگ الجزائر کی مرکزی جامع مسجد کو اپنا مستقر بنائے ہوئے تھے۔ 
نومبر ۱۹۸۲ء میں ان تمام علماے کرام او رقائدین نے جمع ہوکر ملک پر مسلط آمریت، الحاد اور کرپشن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ۱۴مطالبات پر مشتمل ایک ایجنڈے کا اعلان کیا، جن میں نفاذ شریعت، بالخصوص اقتصادی نظام میں اسلامی اصلاحات، عدلیہ میں اصلاحات اور ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات سرفہرست تھے۔ اس ایجنڈے میں ملک کی اہم اور حساس ذمہ داریوں پر اسلام دشمن عناصر کے واضح نفوذ کی بھی مذمت کی گئی تھی۔ مشترک ایجنڈے کے لیے مشترک سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا، یہاں تک کہ ۵؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کا دن آن پہنچا۔اس روز پوری قوم نے سڑکوں پر آکر جبرو استبداد سے لتھڑے نظام حکومت سے بغاوت کا اعلان کردیا۔ ۱۹۶۲ میں فرانسیسی قبضے سے آزادی کے بعد سے لے کر آج تک الجزائر کا اصل اقتدار و اختیار فوجی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ ۵؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کو اس عظیم الشان عوامی تحریک نے مقتدر قوتوں کو عوامی مطالبات ماننے پر مجبور کردیا۔ عوام اور ذرائع ابلاغ کو اظہار راے کی آزادی دی گئی۔ سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت ملی۔
سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت ملنے پر ۱۸ فروری ۱۹۸۹ کو اسلامی فرنٹ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اخوان کے ساتھیوں نے محفوظ نحناح کی سربراہی میں ’تحریک پُرامن معاشرہ‘    حرکۃ المجتمع الاسلامی (حماس) اور عبداللہ جاب اللہ نے تحریک نہضت اسلامی  الجزائر بنانے کا اعلان کردیا۔ اخوان کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ: ’’عارضی طور پر اکٹھے ہوکر جماعت بنانے والوں کی کامیابی بھی عارضی ہوگی۔ اس لیے ہم اپنے دعوتی و تربیتی نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کی جدوجہد ہی جاری رکھیں گے‘‘۔ ۹۰ء کے بلدیاتی اور ۹۱ء کے قومی انتخابات میں اگرچہ اخوان کو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ تاہم، اسلام پسند ووٹروں کی غالب اکثریت نے کرپشن سے نجات اور ملک میں پہلی بار تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہوکر اسلامی فرنٹ کو ووٹ دیے۔ اسلامک فرنٹ (FIS) پر پابندی، گرفتاریوں اور پھر خوں ریزی کے دور میں فرنٹ کی ساری تنظیم بکھر گئی۔
اس وقت ملک میں کئی جماعتیں سرگرم عمل ہیں، جن میں سرفہرست اخوان کی ’تحریک پُرامن معاشرہ‘ (حمس) ہے۔ ملک پر اب بھی اصل اور مکمل اختیار فوج کو حاصل ہے۔ کرپشن کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ الجزائر اس وقت ایک دوراہے پر ہے۔ بے مثال عوامی تحریک کی وجہ سے بوتفلیقہ اقتدار کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ عوامی دھرنا اور تحریک ہنوز جاری ہے۔ تحریک کا مطالبہ ہے کہ حقیقی عوامی نمایندوں کو اقتدار کی منتقلی یقینی بنانے کے لیے فوجی عہدے داران سمیت بوتفلیقہ کے تمام مددگار مستعفی ہوں۔ ملک کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔
مرحوم عباسی مدنی نے وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین مادر وطن کی آغوش میں کی جائے لیکن عبوری حکومت نے اس کی اجازت نہ دی اور قطر ہی میں نماز جنازہ ادا کردی گئی۔ خود امیر قطر سمیت بڑی تعداد میں لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔ ساتھ ہی الجزائر میں سوشل میڈیا اور عوامی تحریک کے پروگراموں میں میت وطن واپس لانے کا مطالبہ شروع ہوگیا،حکومت کو بالآخر واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ جمعرات ۲۴ ؍اپریل کو دوحہ میں انتقال ہوا تھا۔ اتوار ۲۸ ؍اپریل کو الجزائر میں تدفین ہوئی۔ اس موقعے پر ترک صدر طیب اردوان نے مرحوم کے کفن میں رکھنے کے لیے ۱۳۰سال پرانے غلاف کعبہ کا ایک قیمتی ٹکڑا بھجوایا۔ یہ غلاف کعبہ معروف عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کی یادگار تھا۔ طیب اردوان نے یہ سوغات عباسی مدنی مرحوم کے صاحبزادے سلیم عباسی کو بھجواتے ہوئے پیغام دیا کہ: ’یہ نایاب تحفہ برادر اسلامی ملک الجزائر میں جہد مسلسل کی ایک علامت کے لیے ترک قوم کی دُعاؤں کی علامت ہے‘۔
الجزائر میں عباسی مدنی مرحوم کا جنازہ اٹھا تو تاحد نگاہ، پُرجوش لاکھوں عوام بیک زبان اور بلند آواز ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے: لا الہ إلا اللہ محمد رسول اللہ۔ علیھا  نحیا و علیھا نموت ۔ فی سبیلھا نجاھد و علیھا نلقی اللہ۔ ’’ہم لا اِلٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی خاطر زندہ ہیں۔ اسی پر مریں گے، اسی کی خاطر جہاد جاری رکھیں گے اور اسی پر اپنے اللہ سے جا ملیں گے‘‘۔ یہ پُرعزم نعرے اس حقیقت کا اعلان تھے کہ الجزائری عوام کی غالب اکثریت آج بھی دین اسلام کی شیدائی ہے۔ وہ ملک و قوم کو اسی کلمے کے سایے تلے تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہے۔


ڈاکٹر عبداللطیف العربیات

اُردن کا ٹی وی چینل الاخوان المسلمون اُردن کے ۸۶ سالہ رہنما اوراردنی پارلیمنٹ میں تین بار اسپیکر رہنے والے عبداللطیف عربیات کا انٹرویو کررہا تھا۔سوال پوچھا گیا: ’’آپ نے اعلیٰ دینی و قومی خدمات انجام دیں، اب آپ کی کوئی اور تمنا و خواہش؟‘‘ کہنے لگے: ’’بس یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے اور آخری سانس تک اقامت دین کے لیے جدوجہد کی توفیق عطا کیے رکھے‘‘۔ چند ہی روز بعد جناب عربیات نماز جمعہ کے لیے مسجد پہنچے، ابھی خطیب جمعہ منبر پر نہیں بیٹھے تھے۔ مسجد کے ہال میں کھڑے ہوکر خلاف معمول ایک بار چھت کی جانب دیکھا اور نماز شروع کردی۔ ابھی چند ہی لمحے اپنے رب سے مناجات کی تھیں کہ بیٹھ گئے اور روح جنتوں کی طرف پرواز کرگئی۔ 
جناب عبداللطیف عربیات ۱۹۳۳ء میں اُردن کے شہر السلط میں پیدا ہوئے۔ ۱۷برس کی عمر میں الاخوان المسلمون سے وابستہ ہوگئے۔ پہلے اُردن میں تعلیم حاصل کی، پھر بغداد یونی ورسٹی عراق سے گریجویشن کی اور بعد میں ٹیکساس یونی ورسٹی امریکا سے ایم اے اور پی ایچ ڈی۔ اُردن واپس لوٹنے پر وزارت تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ اُردن کے نظام تعلیم اور تعلیمی نصاب میں انھوں نے اور ان کے قریبی ساتھی، اخوان کے ایک اور انتہائی باصلاحیت ذمہ دار  ڈاکٹر اسحاق فرحان مرحوم نے بہت بنیادی اور دور رس اصلاحات کیں۔ 
ڈاکٹر عبداللطیف ۱۹۸۱ء میں اخوان کی جانب سے نہ صرف رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے بلکہ اپنی دل نواز شخصیت کے باعث لگاتار تین بار اسمبلی کے اسپیکر منتخب کیے گئے۔ اخوان نے دعوت و تربیت اور سیاسی اُمور کو الگ الگ کرتے ہوئے جبہۃ العمل الاسلامی  کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تو ڈاکٹر عبداللطیف عربیات کو اس کی سربراہی سونپی گئی۔ اُردن کے شاہ حسین نے قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنائی، جس کے ذمے ایک میثاقِ ملّی پر ملک کے مختلف مکاتب ِ فکر کو اکٹھا کرنے کا کام سونپا گیا۔ ڈاکٹر عربیات کو پہلے اس کمیٹی کا رکن، ۱۹۸۹ء میں اس کا سیکریٹری اور ۱۹۹۵ء میں اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
۲۰۱۶ء میں اُردن کے اخوان ایک بڑے اندرونی خلفشار کا شکار ہوگئے۔ ایک سابق سربراہ نے مزید کئی ذمہ داران کے ہمراہ تنظیم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اخوان ہی کے نام سے الگ جماعت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ نام اور جماعت کے اثاثہ جات کے بارے میں عدالتی دعوے تک نوبت جاپہنچی۔ اس موقعے پر بعض اطراف سے کوشش کی گئی کہ ڈاکٹر عربیات اخوان کے ایک دھڑے کے مرکزی ذمہ دار بنادیے جائیں۔ انھوں نے یہ کہہ کر ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا کہ: ’’تنظیم کی صفوں میں یک جہتی اور سمع و طاعت کا نظام وہ سرخ لکیر ہے جسے نہ تو کسی بھی صورت عبور کیا جاسکتا ہے اور نہ ملیا میٹ‘‘۔
 مرحوم سے راقم کی کئی ذاتی یادیں بھی وابستہ ہیں۔ سوڈان کے دار الحکومت خرطوم میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہورہی تھی جہاں فلسطین، کشمیر اور افغانستان سمیت مختلف موضوعات زیربحث تھے۔ مرکزی سیشن کی صدارت ڈاکٹر عربیات کررہے تھے۔ مجھے کشمیر، افغانستان اور پاکستان کے بارے میں بات کرنا تھی۔ مختصر وقت جلد ختم ہوگیا تو گزارش کی کہ اس بھرپور عرب کانفرنس میں ایک عجمی مسلمان کو، ایک منٹ اضافی دے دیا جائے۔ صدر مجلس قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’عجمی چونکہ عربوں سے اچھی عربی بول رہا ہے اس لیے اضافی وقت نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ اضافی وقت تو نہ ملا، لیکن یہ واقعہ آیندہ ہماری ہر ملاقات کا عنوان بن گیا۔ جس مجلس میں ملتے خوش گوار لہجے، مسکراتے چہرے سے ملتے اور اس واقعے کا ذکر کرتے تو جواب میں عرض کرتا کہ ایک کامیاب اسپیکر کے طور پر ایک منٹ بھی اضافی وقت نہ دے کر سب کے ساتھ یکساں معاملہ رکھا۔ یقینا سچ فرمایا رب ذوالجلال نے: يُؤْتِي الْحِكْمَۃَ مَنْ يَّشَاۗءُ ۝۰ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۶۹)’’جسے چاہتا ہے دانائی عطا کرتا ہے اور جسے دانائی عطا ہوئی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبداللطیف عربیات کی وفات پر جتنا دکھ ان کے دوستوں اور احباب کو ہوا، اتنا ہی صدمہ اور افسوس ان کے مخالفین کو بھی ہوا۔
ان کی وفات پر اُردن سے تحریک کے ایک بزرگ اپنے جذبات بیان کررہے تھے۔ انھوں نے اطلاع تو اپنے ایک عزیز دوست اور عظیم شخصیت کی وفات کی دینا تھی، لیکن مرحوم اور  قبلۂ اوّل کا ذکر لازم و ملزوم تھا۔ کہنے لگے: ’’بچپن سے ہمارا ایک معمول ہے کہ فلسطینی سرحد پر واقع تمام بستیوں کے تحریکی کارکنان ہر نمازِ جمعہ کے بعد کسی ایسی جگہ جاکر کھڑے ہوتے ہیں جو بیت المقدس سے قریب تر ہو۔ بظاہر یہ ایک بچکانہ عمل لگتا ہے، لیکن ہر نماز جمعہ کے بعد ۳۶۰ کلومیٹر طویل سرحد کی ہر بستی کے لوگوں کا سرحد پر آکر آزادیِ اقصیٰ کی دُعا کرنا ایک پیغام بھی ہوتا ہے اور تجدِید عزم بھی۔۷۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل سے نہ تو دست بردار ہوئے اور نہ ہوسکتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی کی اس جدوجہد میں ساری عمر گزر گئی، لیکن الحمدللہ ہم نے بے وفائی نہیں کی۔ ہم اقصیٰ و بیت المقدس کی یہ امانت اپنی نسلوں کو منتقل کررہے ہیں۔ ۲۶؍ اپریل کو ہم نماز جمعہ کی ادایگی کے بعد فلسطینی سرحد پر جانے کے لیے بسوں میں بیٹھ رہے تھے کہ جناب عبداللطیف عربیات کی وفات کی اطلاع ملی۔ ہم سب اہلِ قافلہ اجتماعی طور پر ان کے لیے دُعاگو ہوگئے۔ رب ذوالجلال اپنے بندے کو اعلیٰ علیین میں نمایاں مقام  عطا فرما،آمین!

سرخ و سپید نورانی چہرہ، گردن کو ڈھانپتی ہوئی سفید براق داڑھی، دائمی مسکراہٹ اور بے تکلف شخصیت کے مالک، یہ تھے جناب ڈاکٹر محمد صیام۔ بچپن ہی سے قرآن و سنت اور نیک لوگوں سے تعلق و محبت نے ان کے لیے رب ذوالجلال کی لازوال نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیے۔ پانچ سال تک قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ کے خطیب رہے۔ ۱۵ فروری ۲۰۱۹ء بروز جمعہ سوڈان میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دُعا اور یقین ہے کہ اللہ کی رحمت نے آگے بڑھ کر استقبال کیا ہوگا۔
جناب ڈاکٹر محمد محمود صیام ۱۹۳۵ء میں مصر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمود صیام کا تعلق فلسطین کے قصبے ’الجورۃ‘ سے تھا۔ تلاش معاش کے لیے مصر کے صوبہ ’الشرقیہ‘ میں جابسے۔ ایک مصری گھرانے میں شادی ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد والدین نے واپس فلسطین جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ اسی دوران فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے اسے صہیونی ریاست اسرائیل بنادینے کا اعلان کردیا گیا۔ بچپن کی وہ تلخ یادیں ان کے دل و دماغ پر نقش تھیں۔ ان کے ساتھ سفروحضر میں کئی ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ آئیے ان کی کہانی خود انھی کے بیان کیے گئے واقعات کی روشنی میں سنتے ہیں:
میں چھے سال کا تھا جب ہم اپنے والدین کے ہمراہ آبائی گاؤں ’الجورۃ‘ واپس چلے گئے۔ آئے دن ہمیں سننے کو ملتا تھا کہ یہودی ہمارے گاؤں سمیت پورے ملک پر قبضہ کرکے ہمیں وہاں سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ میں بارہ سال کی عمر کو پہنچا تو ایک روز زندگی کے یہ تلخ ترین لمحات دیکھنا پڑگئے۔ یہودیوں نے ہمارے گاؤں پر قبضہ کرلیا تھا۔ دیگر آبادیوں کی طرح ہمیں بھی فوراً اپنا گھربار چھوڑ کر وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا گیا۔ اس دور کی تلخ یادوں میں سے ایک یہ ناقابل فہم اور  تلخ حقیقت بھی مجھے یاد ہے کہ ہمیں جب اپنے گھروں سے نکالا گیا، اس سے چند روز قبل وہاں مصری فوج کے دستے آئے اور انھوں نے تلاشی لیتے ہوئے تمام شہریوں سے ہر طرح کا اسلحہ ضبط کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کا تحفظ ہم کریں گے لیکن امن و امان کی حفاظت کے لیے آپ لوگ اپنا ہر طرح کا اسلحہ ہمیں جمع کروادیں۔ اسلحہ مصری افواج کو جمع کروادیے جانے کے بعد صہیونی لشکر آئے اور انھوں نے خوں ریزی کرتے ہوئے ہمیں وہاں سے نکال باہر کیا۔ ہم پر ہر طرف سے فائرنگ شروع کردی گئی تو سارے گاؤں والے گھربار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد مجھے ایک اونٹ پر سوار کردیا گیا۔ اس لٹے پٹے قافلے کو مزید خوف زدہ کرنے کے لیے برطانوی فوج کے جہاز انتہائی نیچی پرواز کرتے ہوئے مسلسل ہمارے اوپر سے گزر رہے تھے، تاکہ ہم جلد از جلد اس پورے علاقے سے دور نکل جائیں۔ بعض اوقات جہاز اتنا نیچے آجاتے تھے کہ لگتا تھا، ہمیں اچک کر لے جائیں گے۔ ایک بار جہاز نے نیچے غوطہ لگایا تو میں نے خوف زدہ ہوکر اُونٹ سے چھلانگ لگا دی۔ اسی طرح بھاگتے دوڑتے ہم کئی گھنٹے پیدل چلنے کے بعد غزہ شہر جاپہنچے۔ وہاں کئی مہاجر کیمپ قائم ہوچکے تھے۔ ہم بھی ایک مہاجر کیمپ میں چلے گئے۔ ہماری طرح وہاں موجود ہر شخص یہی سوچ اور اُمید رکھتا تھا کہ حملے اور قتل و غارت کے یہ دن جلد ختم ہوجائیں گے۔ ہم سب جلد اپنے اپنے گھر واپس چلے جائیں گے۔ ہم نے اپنے گھروں کی چابیاں سنبھال رکھی تھیں اور ہر کوئی پیچھے رہ جانے والے مویشیوں اور کھڑی فصلوں کے بارے میں فکر مند تھا۔
دن ہفتوں اور ہفتے مہ و سال میں بدلنے لگے، لیکن فلسطین کے مختلف مہاجر کیمپوں میں بسنے والے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو اپنے علاقوں اور گھروں کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم غزہ کے ایک قصبے ’خان یونس‘ میں سمندر کنارے واقع ایک کیمپ میں رہ رہے تھے۔ ہمارے بڑوں نے وہیں ہمارے لیے عارضی سکول قائم کردیے تھے۔ ہم اپنے ساتھ ابتدائی کتابوں اور کاپیوں کے علاوہ ایک ایک اینٹ یا پتھر بھی لے کر جاتے تھے تاکہ ان پر بیٹھ کر   پڑھ سکیں۔ اس عالم میں بھی ہم صہیونی حملوں سے محفوظ نہیں تھے۔ ان کے جہاز آئے دن آکر ہمارے مہاجر کیمپوں پر بھی فائرنگ کردیتے تھے۔ اسی طرح کے ایک حملے میں ایک دن میرے والدصاحب کو بھی شہید کردیا گیا۔ وہ اس وقت مہاجرین میں کھانا تقسیم کررہے تھے۔
مہاجر کیمپ میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے مختلف ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لینا شروع کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان سرگرمیوں کا اہتمام کرنے والوں کا تعلق الاخوان المسلمون سے تھا۔ ہم نے قرآن کریم حفظ کیا۔ ہمیں مختلف کھیلوں اور ورزشوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔جناب احمد یاسین بھی ہمارے ہم جولیوں میں شامل تھے۔ ہم شام کے وقت ساحل سمندر پر دوڑ لگانے اور لمبی چھلانگیں لگانے کا مقابلہ کرتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ ایک ساتھی رکوع کے عالم میں کھڑا ہوجاتا، ہم دور سے دوڑ کر آتے اور اسے چھوئے بغیر اس کے اوپر سے کود جاتے۔ کبھی ایک نہیں دو دو اور تین تین نوجوان اکٹھے کھڑے ہوتے اور ہم ان کے اوپر سے چھلانگ لگالیتے۔ ایک روز اسی طرح کی چھلانگ لگاتے ہوئے ہمارا دوست احمد یاسین گردن کے بل جاگرا، سخت چوٹ لگی۔ ہم اسے اٹھاکر ان کے گھر لے گئے۔ پانی گرم کرکے مسلسل ٹکور کرتے رہے، لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا اور بالآخر وہ مفلوج ہوگئے۔ اللہ کی قدرت کہ ایک روز اسی مفلوج شخص نے اللہ کے حکم و توفیق سے پوری فلسطینی قوم کو ایک نئی زندگی دے دی۔
غزہ کے مہاجر کیمپ ہی کی یہ یادیں بھی دل میں تازہ ہیں کہ ہمارے اساتذہ ہمیں تقاریر کی تربیت بھی دیا کرتے۔ کبھی یہ ہوتا کہ کسی چھوٹی کشتی میں سوار ہوکر ہم کھلے سمندر میں چلے جاتے۔ ہمارے اساتذہ ہمیں فی البدیہ تقریر کرنے کے لیے کوئی موضوع دیتے اور کہتے کہ یہ سمندر کی موجیں، موجیں نہیں آپ کے سامعین ہیں۔ آپ نے ان سے خطاب کرنا ہے۔ ہم تقریر کرتے اور ہمارے اساتذہ ساتھ ساتھ اپنا تبصرہ نوٹ کرتے جاتے۔ اس وقت کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ سمندر کی لہروں سے کیے جانے والے یہ خطاب بالآخر قبلۂ اوّل کے منبر پہ خطبات جمعہ کی بنیاد بنیں گے۔
غزہ کے مہاجر کیمپ سے اپنے گھروں کو واپسی تو نہ ہوسکی لیکن ہم کسی طرح وہاں سے نکل کر مصر اور پھر کویت پہنچ گئے۔ وہاں میں نے باقی تعلیم مکمل کی اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگیا۔ ۳۰ سال تدریس کا موقع حاصل رہا۔ پھر مکہ مکرمہ کی اُم القریٰ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے اسکالر شپ مل گیا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ہم واپس غزہ لوٹ گئے۔ شیخ احمد یاسین نے وہاں ’اسلامی یونی ورسٹی غزہ‘ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ۱۹۸۳ میں مجھے وہاں تدریس اور پھر یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر چُن لیا گیا۔
۱۹۸۴ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ میں خطابت کا شرف عطا کردیا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی بار مسجد اقصیٰ کے منبر پر کھڑا ہوا تو دل لرز رہا تھا اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ یہ قبلۂ اوّل ہی نہیں مقبوضہ قبلۂ اوّل ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور پھر صلاح الدین ایوبیؒ نے اسے صلیبیوں کے قبضے سے آزاد کروایا تھا، لیکن اس وقت پھر صہیونی قبضے میں ہے۔ ہم نے یہاں صرف اللہ کے حضور سجدہ ریز ہی نہیں ہونا،قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے فریضۂ جہاد کو بھی زندہ کرنا ہے۔ مجھے چار برس تک مسجداقصیٰ میں خطابت کا اعزاز حاصل رہا۔ ۲۸ جولائی ۱۹۸۸ء کو صہیونی افواج نے اس سے محروم کرتے ہوئے مجھے وہاں سے نکال دیا۔ اس دن خود یہودی سرکاری ذرائع کے مطابق مسجد اقصیٰ میں ۲ لاکھ ۴۰ ہزار اہل ایمان نے نماز جمعہ ادا کی تھی۔ مجھے وہاں سے نکالتے ہوئے یہ بچکانہ الزام لگایا گیا کہ: ’’تحریک حماس کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات میں لکھتا ہوں‘‘۔
مختلف مجالس میں سنائی گئی اس آپ بیتی سے شیخ محمد صیام کی زندگی کسی حد تک سامنے آجاتی ہے۔ ان سے ملاقاتوں کے دوران ان کی شخصیت کے کئی دیگر روح پرور پہلو اس تصویر کو مکمل کرتے ہیں۔ اسلامی تحریک کے اکثر ذمہ داران و کارکنان کی طرح شیخ محمد صیام بھی قرآن کریم کا ایک نسخہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ جب بھی اور جہاں بھی موقع ملتا وہ اس کی تلاوت کرتے ہوئے خالق دو جہاں سے محو گفتگو ہوجاتے۔ یہ بھی کئی بار دیکھا کہ وہ تلاوت مکمل کرنے کے بعد   نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اُمتی کے لیے مغفرت، رحمت اور نصرت کی طویل دُعائیں کرتے۔ اُمت کے مظلوموں کا ذکر ہوتا تو فلسطین ، کشمیر، مصر، شام، افغانستان، ہر خطے کا ذکر کرتے۔ اپنے اعزہ و اقارب کا ذکر شروع کرتے تو ماں باپ سے لے کر ان کی نسبت سے ایک ایک رشتے کا ذکر کرتے۔ اس وقت ان کے اساتذہ کی قسمت پر بھی رشک آتا کہ جب وہ ان کا نام لے لے کر انھیں بھی ان پس از تلاوت دُعاؤں میں یاد کرتے۔ آج جب وہ دُعائیں کرنے والی ربانی شخصیت خود دُعاؤں کی محتاج ہوگئی ہے تو یقین ہے کہ اللہ رحیم و کریم نے انھیں بھی دُعائیں کرنے والوں کا ایک عظیم صدقۂ جاریہ عطا کیا ہوگا۔ان کا ایک بیٹا محمود اور ۸ بیٹیاں تھیں، لیکن ان کے لیے صرف ان کی صلبی اولاد ہی نہیں، ان کی فکری و روحانی اولاد بھی یقینا دُعاگو ہوگی۔ ڈاکٹر محمد صیام ایک شان دار شاعر بھی تھے۔ ان کے پانچ دیوان (دعائم الحق، ملحمۃ البراعم (۱۰حصے)۔ میلاد اُمۃ ، سقوط الرفاق ،  دیوان الانتفاضۃ) مقصدیت سے بھرپور شاعری کا قیمتی خزانہ ہیں۔ یہ صرف شعری دیوان نہیں مسئلہ فلسطین کی تاریخ اور سرزمین اقصیٰ کی آزادی کی نوید ہیں۔
اتفاق دیکھیے کہ ۱۵ فروری کو ان کی وفات سے ایک دن پہلے پولینڈ کے دارالحکومت وارسو   (Warsaw ) میں ایک اہم عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا اہتمام امریکی صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔ دنیا کے ۷۰ ممالک کو دعوت دی گئی، جن میں سے ۶۰ شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا: Peace and Security in the Middle East ’مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کانفرنس‘۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر مائک پنس سمیت اکثر مغربی دانش وروں نے اسے ایک اہم اور تاریخی موقع قرار دیا۔ ان کا ارشاد تھا:

It was a truly historic gathering at the dinner last night Arab and Israeli leaders gathered in the same room to talk about deeply common and shared interests

یہ کانفرنس واقعی ایک تاریخی اجتماع ہے۔ گذشتہ رات عشائیے میں عرب اور اسرائیلی رہنما ایک ہی کمرے میں اکٹھے تھے تاکہ سب مل کر اپنے اہم ترین مشترک مفادات پر تبادلۂ خیال کرسکیں۔ 
اس کانفرنس میں اکثر ممالک کی نمایندگی نسبتاً کم درجے کے ذمہ دار کررہے تھے، لیکن اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو خود شریک تھا۔ اس نے کانفرنس کے دوران مختلف عرب ذمہ داران و نمایندگان سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔ روس، فرانس اور جرمنی سمیت کئی دیگر اہم ممالک شریک نہیں ہوئے۔ خود فلسطینی اتھارٹی نے بھی اس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس مسئلۂ فلسطین سے کھلواڑ کرنے کے لیے ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے دو وجوہ کی بنا پر  اسے ایک کامیاب کانفرنس قرار دیا۔ ایک یہ کہ کئی ایسے عرب ممالک جو اس سے پہلے اسرائیلی قیادت کے ساتھ صرف خفیہ روابط رکھے ہوئے تھے، اب ان تعلقات کا کھلم کھلا اعلان کررہے ہیں۔  دوسرا یہ کہ کانفرنس میں ساری دنیا بالخصوص مسلم ممالک کو یہ کہہ دیا گیا کہ خطے کی سلامتی کے لیے اصل خطرہ سرزمین فلسطین پر اسرائیلی قبضہ و مظالم نہیں، ایرانی ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔ 
کئی تجزیہ نگار یہ توقع ظاہر کررہے تھے کہ اس کانفرنس میں Deal of the Century  صدی کی سب سے بڑی سودے بازی پر مشتمل امریکی منصوبے کا اعلان کردیا جائے گا، لیکن  بوجوہ اس کا اعلان نہیں کیا گیا۔ البتہ امریکی صدر کے یہودی داماد اور مشرق وسطیٰ کے لیے ان کی خصوصی مشیر جیرڈ کوشنر نے اعلان کیا ہے کہ صدی کی اس سب سے بڑی ڈیل کا اعلان ۱۹؍ اپریل کو ہونے والے اسرائیلی عام انتخابات کے بعد کیاجائے گا۔
تمام تر امریکی دعوؤں کے باوجود وارسو کانفرنس اپنے شرکا اور نتائج کے لحاظ ہی سے ناکام نہیں قرار دی جارہی بلکہ اس میں کئی اندرونی تنازعے بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اپنی انتخابی مہم کو تقویت دینے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نے خود میزبان ملک پولینڈ ہی کو رگید ڈالا۔ اس نے کہا کہ ’’میں یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ پولینڈ نے (یہودیوں کے قتل عام میں) نازیوں کا ساتھ دیا تھا۔ہم تاریخ کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسے نہ کسی کو تبدیل کرنے دیں گے اور   نہ مخفی ہی رہنے دیں گے‘‘۔ اس بیان پر پولینڈ کے صدر سمیت مختلف ذمہ داران حکومت نے سخت احتجاج کیا اور دونوں ملکوں کے مابین یہ تنازع مزید تند بیانات کا سبب بن رہا ہے۔
وارسو کانفرنس میں اسرائیلی وزیراعظم اور دس عرب ملکوں کے نمایندگان اکٹھے تھے کہ ڈاکٹر محمد صیام اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اگرچہ دونوں واقعات کا باہم کوئی تعلق نہیں، لیکن ادھر اس کانفرنس کی بازگشت جاری تھی کہ مرحوم کی رحلت پر ان کے وہ بہت سارے اشعار و نظمیں بڑے پیمانے پر مضامین و پیغامات عرب میڈیا کا حصہ بننے لگے کہ جن میں وہ سرزمین اقصیٰ کی یقینی آزادی کا پیغام دیتے ہیں۔ وارسو کانفرنس جیسی عالمی کانفرنسوں کا ذکر ہو یا شیخ احمد یاسین سمیت شہدا فلسطین کی طویل فہرست، خطیب اقصیٰ اس مناسبت سے اپنے جان دار، عوامی شاعری کے ذریعے، اُمت مسلمہ کو قبلۂ اوّل کا پیغام یاد دلاتے ہیں۔ ۹۰ کی دہائی میں بھی اسی طرح کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی تو ڈاکٹر محمد صیام نے اس موقعے پر کئی انقلابی نظمیں کہیں۔ یہ تحریر ان میں سے اکثر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ 
قدرے نرم الفاظ میں کہا گیا ایک بند یہ تھا:
یَاأیہا العربُ الکِرام
أمَا لہذا اللَّیلِ آخِر
أفیُترکُ الشَّعبُ الفِلَسطِینیُّ
فِی المیدانِ حائِر
أین السُّیوفُ الیَعرُ بِیَّاتُ
الصَّقِیلاتُ بَواتِر
أَتَحَوَّلَت تِلکَ السُّیوفُ
اِلی التَّدَابُرِ وَ التَّنَاحُر
أَم أَنَّ ’واعُربَاہ‘ مَا
عَادَت تُؤَثِّر فِی الضَّمائر

[اے معزز عرب حضرات! کیا اس سیاہ رات کا کوئی اختتام نہیں؟ کیا حیران و پریشان فلسطینی عوام کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا جائے گا؟ وہ چمکتی ہوئی تیز دھار عرب تلواریں کہاں رہ گئیں؟ کیا اب وہ تلواریں صرف باہمی قتل و غارت کے لیے وقف ہوگئیں؟ یا پھر اب بھائی چارے کی کوئی پکار، ضمیروں پر اثر نہیں کرتی]۔
پھر فلسطینی قوم کی طرف سے اعلان کرتے ہیں:
لَا لَن نُہَاجِرَ کَالطُّیور
مَہما تَکَدَّسَتِ الشُّرُور
وَ لَسَوفَ نَصمُدُ فَوقَ أَرضِ
بِلادِنَا مِثلَ الصُّخُور
نَبنِی کَمَا بَنَت الجُدُودُ
لَنَاعَلیٰ مَرِّ الدُّھُور
وَ لَسَوفَ نَدفَعُ عَن حِمَانا
کَلَّ عَادٍ أو مُغِیر
بِالنَّابِ ۔ إن عَزَّ السِّلّاخُ
وَبِالمَخَالِبِ کَا الصُّقُور

[شر و مصائب جتنے بھی جمع ہوجائیں، ہم پرندوں کی طرح ہجرت نہیں کرجائیں گے۔ ہم مضبوط چٹانوں کی طرح اپنی سرزمین پر ہی ڈٹے رہیں گے۔ جس طرح ہمارے آبا و اجداد نے تعمیر کی، ہم بھی اپنے ان مضبوط بازوؤں سے جو نہ کبھی تھکتے ہیں اور نہ بزدلی سے آشنا ہیں، تعمیر کرتے رہیں گے۔ ہم ہر جارح اور حملہ آور کے مقابلے میں اپنے گھر کا دفاع کریں گے۔ اگر کوئی ہتھیار نہ بھی ملا تو ہم (شیروں کی طرح) اپنے جبڑوں اور شاہینوں کی طرح اپنے پنجوں سے اپنی سرزمین کا دفاع کریں گے]۔ 
شیخ محمد صیام مرحوم کے یہ اشعار صرف اشعار نہیں،قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے کوشاں مجاہد فلسطینی قوم کا اعلانِ لازوال ہے!

۵جنوری ۲۰۱۹ء میں یہاں لسٹر [برطانیہ]میں نمازِ فجر کی تیاری کے لیے اُٹھا ہی تھا کہ  ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور برادر عزیز سلیم منصور خالد نے یہ دل خراش اطلاع دی کہ ’’محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔بے ساختہ میری زبان سے نکلا: An Era is over۔ ہماری تحریکی تاریخ کا ایک اہم باب اپنے اختتام کو پہنچا۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب ان خوش نصیب ساتھیوں میں سے تھے، جنھیں قیامِ پاکستان سے پہلے تحریک ِ اسلامی کی رکنیت اختیار کرنے اور دارالاسلام میں ہجرت کرکے منتقل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ بلاشبہہ مولانا مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں دینِ حق کی دعوت  اس کی اصل شکل میں پیش کرنے اور عملاً اس دعوت کی بنیاد پر اصلاح اور اجتماعی انقلاب کی تحریک برپاکرنے کی سعادت سے نوازا، اور انھوں نے اپنی زندگی کے شب و روز اس خدمت کے لیے وقف کر دیے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن سعید روحوں نے مولانا محترم کی دعوت پر لبیک کہا اور قیامِ جماعت اور اس کے بعد کے برسوں تحریک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، ان میں سے ہرشخص زمین کے نمک اور پہاڑی کے چراغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
مجھے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کی سعادت ۱۹۵۰ء میں اور جماعت اسلامی کی رکنیت کے حلف پڑھنے کا اعزاز ۱۹۵۶ء میں حاصل ہوا۔ مَیں اس حیثیت سے بڑا خوش نصیب ہوں کہ مجھے جماعت کے سابقون الاولون میں سے ایک معقول تعداد کی رفاقت نصیب ہوئی، اور ان سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا۔ پھر ان میں سے کچھ کے ساتھ، خصوصیت سے محترم میاں طفیل محمدصاحب،    مولانا مسعودعالم ندوی صاحب، مولاناعبدالغفار حسن صاحب، ملک نصراللہ خاں عزیز صاحب، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، سیّدعبدالعزیز شرقی صاحب، خان سردار علی خان صاحب، چودھری غلام محمدصاحب، حکیم اقبال حسین صاحب، چودھری علی احمدخاں صاحب، مولانا معین الدین خٹک صاحب، ملک غلام علی صاحب، نعیم صدیقی، سیّد اسعد گیلانی اور چودھری رحمت الٰہی صاحب کے ساتھ بہت قریب ہونے اور ان سے بے حدوحساب استفادے کا موقع ملا ہے۔ ان کا پیار اور سرپرستی میری زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔ ان کا وژن، ا ن کی مقصدیت اور اس باب میں یکسوئی، دین اور تحریک سے ان کی وفاداری، دیانت، امانت، معاملہ فہمی، صبروتحمل اور حکمت و تدبر کی تابناکی میرے لیے مشعل راہ رہی ہیں۔ اپنے اپنے انداز میں ہر ایک سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا اور مجھے جو تھوڑی بہت خدمت انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی، اس میں ان حضراتِ گرامی قدر کی رہنمائی اور رفاقت کا بڑا دخل ہے۔ مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی تو سرفہرست ہیں، لیکن اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ ان میں سے ہربزرگ اور ساتھی کے مجھ پر بے پناہ احسان ہیں۔ 
یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں، جنھوں نے مولانا محترم کے دستِ راست کی حیثیت سے اس تحریک کے قیام اور تشکیل و ترقی میں اہم کردار اداکیا ہے اور جو کچھ تحریک آج ہے، اللہ کے فضلِ خاص کے بعد، ان سب محسنوں کی محنت، خدمت اور کاوش کا حاصل ہے اور ان کے رخصت ہوجانے کے باوجود ان کی برکات سے یہ تحریک ہمیشہ فیض یاب ہوتی رہے گی۔ کسی نے مولاناابوالکلام آزاد مرحوم سے تاج محل کی مضبوطی اور حُسن کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے برملا کہا کہ: ’’اس کا حُسن اور اس کی مضبوطی ہردو کا انحصار اُن پتھروں پر ہے جو نظر نہیں آرہے، لیکن جو اس کی بنیاد میں ہیں اور اسے تھامے ہوئے ہیں۔ مولانا محترم اور ان کے ان ساتھیوں کا معاملہ بھی تحریک کی بنیاد ہی کا سا ہے اور ان شاء اللہ ان مضبوط بنیادوں پر یہ تحریک ہمیشہ قائم رہے گی، بشرطیکہ ہم اور ہمارے بعد آنے والے اللہ سے وفاداری، مقصد کے باب میں یکسوئی، اور دعوت اور تنظیم کے اُصولوں پر قائم رہیں اور دیانت اور حکمت سے اپنا فریضہ انجام دیتے رہیں:
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝۲۸ۭ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا۝۰ۡسِيْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ۝۰ۚۖۛ وَمَثَلُہُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ۝۰ۣۚۛ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِہٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ۝۰ۭ وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۝۲۹ (الفتح ۴۸:۲۸-۲۹) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گےاُنھیں رکوع وسجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوش نودی کی طلب میں مشغول پائوگے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے اُن کی صفت تورات میں، اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفّار اُن کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجرکا وعدہ فرمایا ہے۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب تحریک کے ان سابقون الاولون میں سے آخری چراغ تھے۔ ان کی وفات پر بے ساختہ میرے دل سے ایک باب اور ایک عہد کے ختم ہونے کی فریاد نکلی، کہ:

داغ چراغ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اِک شمع رہ گئی تھی ، سو وہ بھی خموش ہے

یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ تحریک کی کتابِ زندگی اور میدانِ دعوت کھلے ہوئے ہیں اور ان شاء اللہ کھلے رہیں گے۔ایک باب ضرور مکمل ہوا ہے، لیکن وہ نئے ابواب کا پیش خیمہ اور ان کے لیے  مشعلِ راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چودھری رحمت الٰہی صاحب کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ان کی قبر کو روشن اور ان کو جنت کے اعلیٰ مقامات سے سرفراز فرمائے اور جو صدقات جاریہ وہ چھوڑ گئے ہیں، انھیں جاری رکھے اور ان کے لیے بلند درجات کا ذریعہ بنائے، آمین!
چودھری رحمت الٰہی صاحب ضلع جہلم میں ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوئے اور ۵جنوری ۲۰۱۹ء کو لاہور میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ گریجویشن تک تعلیم حاصل کر کے برٹش انڈین فوج میں ملازمت اختیار کی اور نان کمیشنڈ افسر کی حیثیت سے ۶،۷ سال فوجی خدمات انجام دیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جنوب مشرقی ایشیا خصوصیت سے ملایا (جو اَب ملایشیا ہے) میں وقت گزرا۔ نماز، روزے کی پابندی اس زمانے میں بھی کی اور اس کی پاداش میں کورٹ مارشل اور قید کی سزا بھی بھگتی۔  مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے غالباً ۴۶-۱۹۴۵ء میں شناسائی ہوئی۔ دسمبر ۱۹۴۶ء میں سیالکوٹ میں فوجی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مولانا کے جلسے میں شرکت کی اور شہادتِ حق پر مولانا کی شہرئہ آفاق تقریر سنی، اور اسی وقت یہ عزم کرلیا کہ اب زندگی انگریزکی فوج میں نہیں، اللہ کے سپاہی کی حیثیت سے گزارنی ہے۔ فوج نے بھی ڈسپلنری کارروائی کی اور اس طرح طوقِ غلامی سے نجات پاکر نوجوان سپاہی دارالاسلام میں مولانا مودودی کے ساتھ قافلۂ حق میں شریک ہوگیا۔ 
۱۹۴۷ء کے اوائل میں رکنیت اختیار کی اور اپنے کو جماعت کے حوالے کر دیا۔ تقسیمِ ہند کے موقعے پر دارالاسلام میں مہاجرین کی دیکھ بھال، پھر لاہور کی طرف ہجرت اور وہاں مہاجر کیمپوں میں جماعت کی طرف سے خدمت اور امداد کی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ کچھ عرصے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئے اور یہاں مولانا مسعود عالم ندوی اور جناب عبدالجبار غازی کی شاگردی اختیار کی اور خصوصیت سے عربی اور دینی علوم کے حصول کو منزل بنایا۔ بدقسمتی سے یہ انتظام زیادہ عرصہ نہ چل سکا تو کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں ایک سرکاری دفتر میں ملازمت اختیار کرلی، لیکن پھر ۱۹۵۰ء کے صوبہ پنجاب و بہاول پورکے انتخابات کے موقعے پر تحریکی خدمات کے لیے پنجاب آگئے اور اس کی پاداش میں ملازمت سے فارغ کر دیے گئے۔ ویسے بھی اس زمانے میں سرکاری دفاتر سے جماعت سے متعلق افراد کی چھانٹی ہورہی تھی۔ 
اس کے بعد کراچی میں حکیم اقبال حسین صاحب، شیخ سلطان احمد صاحب اور صادق حسین صاحب کے دواساز ادارے سے وابستہ ہوگئے۔پھر محترم چودھری غلام محمدصاحب کے ساتھ مل کر ٹنڈوالٰہ یار میں زراعت کے شعبے سے وابستگی اختیار کرلی۔ جہاں تک مجھے علم ہے زراعت سے ان کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں باقی رہا، لیکن عملاً ۱۹۵۳ء سے ان کا زیادہ وقت جماعت کے مرکزی نظام میں گزرا۔ تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں جو ابتلا جماعت پر پڑی اور مولانا مودودی کو سزاے موت اور مرکزی قیادت کی گرفتاری سے آزمایش کا جو دور آیا اس میں شیخ سلطان احمد صاحب کی امارت جماعت اسلامی پاکستان میں چودھری رحمت الٰہی صاحب نے بحیثیت قیم گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 
یہی وہ زمانہ ہے جب مجھے پہلی مرتبہ ان سے ملنے اور اس کے بعد مسلسل ان سے ربط میں رہنے کا موقع ملا۔ مَیں اس زمانے میں پہلے صوبہ سندھ میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم تھا اور پھر اگست ۱۹۵۳ء میں ناظم اعلیٰ منتخب ہوا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب ایک سال تک قیم جماعت رہے اور اس کے بعد پھر کچھ عرصے کے لیےدواساز کمپنی ’آئی ساکو‘ اور پھر زراعت سے وابستہ رہے۔ ۱۱دسمبر ۱۹۶۳ء سے عملاً جماعت سے ہمہ وقتی طور پر وابستہ ہوگئے، جو سلسلہ ۲۰۰۹ء تک مختلف شکلوں میں جاری رہا۔ 
کراچی اور سندھ کے قیام کے دوران انھوں نے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر ایم اے بھی کیا اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئے۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب اور سیّد اسعد گیلانی صاحب نے میری ذاتی لائبریری سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ یہ ایک بڑی چشم کشا اور قابلِ توجہ خوبی تھی کہ جماعت کے اوّلین ارکان میں سے ہر فرد کا مَیں نے کتاب سے بڑے قریبی رشتے کا مشاہدہ کیا۔ بلالحاظ اس کے کہ ان کے پاس ڈگری تھی یا نہیں، یا کس شعبۂ زندگی سے وہ متعلق ہیں۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب فوج کے پس منظر سے آئے تھے، چودھری علی احمد خاں صاحب پولیس سروس سے آئے تھے، چودھری غلام محمد صاحب صرف میٹرک تھے اور ریلوے سروس سے آئے تھے،  مگر ان میں ہر ایک سنجیدہ مطالعے کا شوقین تھا۔ صرف جماعت کا لٹریچر تو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ہی، وہ تفسیر، حدیث، فقہ، سیاست، تاریخ، بین الاقوامی اُمور، مذہب، اشتراکیت، ادب، مغربی تہذیب اور جدید مباحث پر بصد ذوق و شوق کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ آج جہاں وطنِ عزیز میں بحیثیت مجموعی کتاب کا کردار کم ہو رہا ہے، وہیں خود تحریک میں بھی کتاب سے رشتہ کمزور ہوگیا ہے اور اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب نے محترم سلطان احمد صاحب کی امارت میں ایک سال، اور پھر محترم مولانا مودودی صاحب کی امارت میں سات سال، ازاں بعد محترم میاں طفیل محمد کی امارت میں پانچ سال بحیثیت قیم جماعت خدمات انجام دیں۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب کے دور میں ۱۹۷۹ء سے ۲۰۰۹ تک نائب امیر جماعت رہے۔ ۱۹۶۴ء میں جماعت پر پابندی کے دور میں وہ عملاً جماعت کے کرتا دھرتا تھے اور ساری قانونی اور سیاسی جنگ انھی کی قیادت میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ جماعت کے نصف درجن سے زیادہ اہم اداروں کے سربراہ یا کسی بھی مفوضہ ذمہ داری پر مامور رہے اور ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو بہترین صلاحیت، دیانت، معاملہ فہمی ،حکمت اور خوش اسلوبی سے انجام دیا۔اس طرح جماعت کی تاریخ کے بڑے حصے پر(یعنی تقریباً ۶۳برس)  ان کی  گراں قدر خدمات کے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب سے میرا  ذاتی طور پر بڑا گہر ا تعلق رہا ہے، جو ۱۹۵۳ء سے ان کی آخری بیماری تک کے طویل عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ میرے لیے وہ ایک بڑے بھائی اور تحریکی قائد تھے، مگر انھوں نے ہمیشہ جس محبت اور عزت سے معاملہ کیا، وہ میرے لیے زندگی کا سرمایہ اور ان کے کردار کا روشن ستارہ ہے۔ انھوں نے کبھی مجھے اپنے سے کم عمر محسوس نہیں ہونے دیا اور یہ ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔ 
تحریک کے جس وژن کو انھوں نے جوانی میں قبول کیا تھا، پورے اعتماد اور یکسوئی کے ساتھ وہ اس پر قائم رہے اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ پیش آمدہ معاملات پر غوروفکر کرتے اور مسائل کا حل نکالتے رہے۔معاملہ فہمی، حالات کا تجزیہ، ٹھنڈے دل و دماغ سے معاملات پر غور کرنا اور سارے ممکنہ پہلوئوں کا ادراک کرکے راے قائم کرلینا اور جو راے سوچ بچار کے نتیجے میں قائم کرلیں اسے دلیل اور سلیقے سے،کسی رو رعایت کے بغیر پیش کرنا ان کا معمول تھا۔ دوسرے کی بات کو سننا اور اس پر غور کرنا، اتفاق یا اختلاف کو دلیل کے ساتھ معقول انداز میں اور بڑے توازن کے ساتھ بیان کرنا اور پھر جو بات سب کے اتفاق یا کثرت راے سے طے ہوجائے، اس پر دیانت داری اور انہماک سے عمل کرنا___ یہ ان کا طریقہ تھا۔ میں نے انھیں کبھی اُونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ کئی معاملات پر میری اور ان کی، یا ان کی اور امیرجماعت کی راے میں اختلاف ہوا، لیکن اختلاف کو جس سلیقے سے انھوں نے پیش کیا، وہ اتنا عمدہ تھا کہ  اس کا نقش دل سے کبھی دُور نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح مجھے اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ چند معاملات پر بعد میں ثابت ہوا اور خود مَیں نے اعتراف کیا کہ ان کی راے صحیح اور میری یا میرے دوسرے ساتھیوں کی راے درست نہیں تھی۔ اس سلسلے میں ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا بائیکاٹ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اگر چودھری رحمت الٰہی صاحب کی راے پر عمل ہوتا تو مجھے اعتراف ہے کہ وہ تحریک اور ملک کے لیے کہیں بہتر ہوتا۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب اپنے مقصد ِ زندگی کے بارے میں نہایت یکسو تھے اور  اسی وجہ سے اپنے وژن اور معاملات کی تفہیم کے باب میں بہت واضح ذہن رکھتے تھے۔ تحریک کے متعلق ان کی راست فکری بے حد نمایاں اورمتاثرکن تھی۔ ان کی دیانت اور امانت اور جماعت کے اثاثوں کے بارے میں حساسیت اپنی مثال آپ تھی۔ اجتماعی زندگی کے معاملات میں اعتدال اور میانہ روی ان کا طرئہ امتیاز تھا۔ سادگی، صفائی اور نظافت ان کے مزاج کے مظاہر تھے۔ معاملات میں مشاورت، دوسرے کی راے کو سننا، اس پر غور کرنا اور سلیقے سے ردعمل ظاہر کرنا ان کا شعار اور مشاورت کے نظام کو فروغ دینے میں ممدومعاون تھا۔وہ تحمل اور بُردباری کا ایک نہایت قابلِ قدر نمونہ تھے اور اصول اور ضابطے کی پاسداری میں اپنی مثال آپ تھے۔ اقبال کے الفاظ میں اگر مَیں ان کی شخصیت کا خلاصہ بیان کروں تو کہہ سکتا ہوں کہ:

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز

ان کی شخصیت کے دو پہلو مزید ایسے ہیں، جن کا ذکر کیے بغیر بات نامکمل رہے گی۔    مَیں نے اُن میں Crisis Management (یعنی بحرانی صورتِ حال سے نمٹنے) کی غیرمعمولی صلاحیت کا بار بار مشاہدہ کیا۔ ایک انسان کا اور خصوصیت سے ایک قائد اور ذمہ دار شخص کا سب سے بڑا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اسے کسی بحران یا چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خواہ اندرونی ہو یا بیرونی۔ میں نے محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب کو بحران کی دونوں صورتوں میں بڑا متحمل، متوازن، معاملہ فہم اور مشکلات اور غلط فہمیوں میں سے راستہ نکالنے والا پایا۔ 
اس ضمن میں میرا پہلا تجربہ اس وقت سے متعلق ہے جب مَیں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا اور ڈاکٹر اسراراحمد بھائی نے ایک زوردار تقریر کر کے جمعیت کو اندرونی طور پر بڑے تنظیمی بحران سے دوچار کر دیا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب اس وقت قیم جماعت تھے، اگرچہ وہ بلاواسطہ اس کمیٹی میں نہیں تھے جس نے معاملات کا جائزہ لے کر اس بحران سے جمعیت کو محفوظ کیا۔ لیکن ذاتی طور پر میں پہلی مرتبہ ان سے اس موقعے پر ملا اور ان کی گفتگو اور دلائل سے دل پر بڑا گہرا نقش ثبت ہوا۔ اسرار بھائی کے خیال میں حالات کا تقاضا یہ تھا کہ: ’’جماعت اور جمعیت کو ایک نظم میں آنا چاہیے‘‘۔ لیکن چودھری رحمت الٰہی صاحب نے بڑے سلیقے اور ٹھنڈے انداز میں جداگانہ نظم کی حکمتوں پر روشنی ڈالی اور اس سے مجھے بہت تقویت محسوس ہوئی۔ 
پھر جب ۱۹۶۴ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی پر پابندی لگی تو اس موقعے پر پوری قانونی اور سیاسی لڑائی میں چودھری رحمت الٰہی صاحب کا کردار قائدانہ تھا۔ جماعت کے اندر نظم کو قائم رکھنا اور جماعت کے باہر کے عناصر سے ربط اور ان سے تعاون کا حصول،    اے کے بروہی صاحب اور پوری قانونی ٹیم کو ضروری معلومات فراہم کرنا اور ان سے قانونی معاملات طے کرنا، پھر اسی پس منظر میں ملک کی دوسری سیاسی قوتوں کو جمع کر کے ’متحدہ حزبِ اختلاف‘ (Combined Opposition Parties - COP) کا قیام اور اس میں جماعت کا کردار، اور پھر محترمہ فاطمہ جناح کو صدر جنرل ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی اُمیدوار کے لیے لانا، اس کے لیے جماعت کے اندر اور باہر فضا ہموار کرنا، اس مقصد کے لیے مولانا مودودی اور جماعت کی زیرحراست قیادت سے ربط و مشورہ___ یہ پورا دور غیرمعمولی دبائو، کش مکش، اشتعال اور تنازعے کا دور تھا۔ تاہم، چودھری رحمت الٰہی صاحب نے جس سمجھ داری، تحمل، حکمت اور تحریکی وفاداری کے ساتھ یہ معرکہ سر کیا، اس نے دل میں ان کے مقام کو بلند اور محکم کر دیا۔ 
اسی طرح جب ۱۹۹۴ء میں کچھ خاص اندرونی حالات کی وجہ سے محترم قاضی حسین احمد صاحب سخت دل برداشتہ ہوکر جماعت کی امارت سے مستعفی ہوگئےتھے۔ ان چند مہینوں میں بھی قائم مقام امیر کی حیثیت سے محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب نے تمام معاملات کو حکمت و دانائی اور دستورِ جماعت کے فریم ورک میں رہتے ہوئے سلجھایا اور محترم قاضی صاحب نے پھر انتخابِ امارت کے بعد ذمہ داری سنبھالی۔ 
بیرونِ ملک بھی ایک اسلامی تحریک کے اندرونی خلفشار کے عالم میں اس کے ارکان نے محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور مجھے معاملات کو سلجھانے کی ذمہ داری سونپی اور میں نے دیکھا کہ اللہ کے فضل اور چودھری صاحب کی بالغ نظری کی وجہ سے ایک ہفتے ہی میں معاملات کو سنبھال لیا گیا۔ یہ ان کی غیرمعمولی صلاحیت اور خدمت تھی۔جزاھم اللہ خیر الجزاء۔
دوسرا تذکرہ ہے ان کے اس کردار کا، جو بحیثیت وزیربجلی اور توانائی انھوں نے انجام دیا۔ مجھے ان کے ساتھ پاکستان قومی اتحاد کی مرکز میں حکومت میں آٹھ ماہ گزارنے کا موقع ملا۔ ڈیڑھ مہینے تک میں ان کے اور پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب اور برادرم محموداعظم فاروقی کے ساتھ واپڈا گیسٹ ہائوس میں رہا ہوں، جو انھی کی وزارت کے تحت تھا۔ وہ خود تقریباً پانچ مہینے وہاں رہے اور پروفیسر عبدالغفور صاحب اور محموداعظم فاروقی صاحب وزارت کے پورے زمانے میں وہیں مقیم رہے۔ وزارت اور کابینہ میں اور عوام اور انتظامیہ کے ساتھ نیز فوجی قیادت کے ساتھ، جس طرح وہ معاملہ کرتے تھے اور جس اعتماد اور خوب صورتی سے اپنی راے کا اظہار کرتے تھے، وہ نہایت متاثرکن تھا۔ حالاں کہ ہم سب کا حکومت میں یہ پہلا تجربہ تھا لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جماعت سے متعلق چاروں وزرا نے اپنے اپنے شعبوں میں، اور بحیثیت مجموعی ان تمام افراد پر جن سے سابقہ پیش آیا ایک منفرد مثال قائم کی۔ 
صلاحیت ِکار اور دیانت دونوں پہلوئوں سے اپنے نقوش چھوڑے اور پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک ہی بار ایسا ہوا ہے کہ جب وزیروں نے استعفا دے کر حکومت چھوڑی ہو، اور وزارت کے لوگوں نے اجتماعی طور پر دعوت کی شکل میں رخصت کرنے کا اہتمام کیا ہو۔ جماعت کے چاروزرا کے علاوہ کسی دوسرے وزیر کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، اور اس سے پہلے اور اس کے بعد اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزارت میں آنے کے وقت خوش آمدید کہنے کی مثالیں تو موجود ہیں،  لیکن وزارت چھوڑتے وقت اس طرح رخصت کرنے کی مثال کم از کم ہمارے ملک میں تو نہیں۔ محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب کے وزارت چھوڑنے پر وزارت کے اسٹاف کو سخت افسوس تھا۔ واپڈا کے اس وقت کے چیئرمین فضل رزاق صاحب جو صوبہ سرحد کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل فضل حق کے بھائی تھے، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، وہ بھی ان سے متاثر تھے اور ہمیشہ ان کا ذکر احترام سے کرتے تھے:

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

جماعت کا ۱۹۵۸ء کے انتخاب کے لیے جو منشور مرتب ہوا، اس کا پہلا ڈرافٹ جس کمیٹی نے بنایا، اس کے سربراہ بھی چودھری رحمت الٰہی صاحب تھے اور اس کمیٹی میں چودھری غلام محمد صاحب اور مجھے اس کی رکنیت کا شرف حاصل ہے۔آخری ڈرافٹ بہرحال مولانا مودودی نے مرتب فرمایا تھا، لیکن اس میں ہمارے ڈرافٹ کا بڑا حصہ شامل تھا۔ ایک مدت تک مرکزی مجلس شوریٰ کی قرارددوں کو جو کمیٹی مرتب کرتی یا آخری شکل دیتی رہی، اس میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب، چودھری رحمت الٰہی صاحب اور مجھے یہ خدمت انجام دینے کی سعادت حاصل رہی۔چودھری صاحب کی اُردو تحریر جامع، مختصر اور واضح ہوتی تھی اور جس تحریر کو وہ دیکھ لیتے تھے اس کے بارے میں اطمینان ہوجاتا تھا کہ وہ نقص سے پاک ہے۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب اپنے خاندان اور اس سے بڑھ کر اپنے وسیع تر نظریاتی اور تحریکی خاندان کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت تھے۔ موت برحق ہے اور کسی کو بھی اس سے مفر نہیں، لیکن ان کے اُٹھ جانے سے جو خلا واقع ہوا ہے اس کا بھرنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ مگر یقین ہے کہ اللہ کے دین کی یہ دعوت دنیا کے آخری لمحے تک کے لیے ہے اور جس ربّ نے یہ رہنمائی کمالِ مہربانی سے عنایت فرمائی ہے، وہ برابر ایسے افراد بھی ذمہ داری کے مناصب پر مامور کرتا رہے گا، جو دین حق کو اس کی اصل شکل میں، اپنے دور کے حالات کی اصلاح اور تشکیل نو کے لیے برپا کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دُعا ہے کہ ہمارے رخصت ہونے والے بھائی پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا رہے اور ان کی اس ابدی زندگی کو روشن اور تابناک بنائے، آمین!