وابستگانِ اُردو زبان و ادب خصوصاً ادب اسلامی سے دل چسپی رکھنے والوں اور تحریکِ اسلامی کے حلقوں کے لیے ڈاکٹر سیّد عبدالباری (شبنم سبحانی) کی رحلت (یکم ستمبر ۲۰۱۳ء) ایک بڑا الم ناک سانحہ ہے۔ وہ ایک بلند پایہ ادیب، نقاد اور شاعر تھے۔ بنیادی طور پر وہ ایک معلم تھے اور اس حیثیت سے انھوں نے ہزاروں تلامذہ کی تعلیم و تربیت کی۔ وہ تحریک ادب اسلامی ہند کے قافلہ سالاروں میں سے تھے۔ مسلسل ۲۴ برس وہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر اور تقریباً ۳۷ برس سیکرٹری جنرل رہے۔
سیّد عبدالباری ۷ ستمبر ۱۹۳۷ء کو یو پی کے ضلع فیض آباد کے ایک قصبے ٹانڈا میں پیدا ہوئے۔ گورکھ پور یونی ورسٹی سے بی اے کیا۔ پھر وہیں سے ایم اے اُردو اور ایم اے انگریزی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ایم اے اُردو میں انھوں نے لکھنؤ یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعد ازاں اسی لکھنؤ یونی ورسٹی سے انھیں اُردو میں پی ایچ ڈی کی سند عطا ہوئی۔ اس سے پہلے چند سال تک وہ رام پور کی ثانوی درس گاہ اور مدرسۃ الاصلاح سراے میر، اعظم گڑھ سے عربی زبان و ادب کی تحصیل کرتے رہے تھے۔ مدرسۃ الاصلاح میں انھیں عروج احمد قادری، جلیل احسن ندوی اور صدر الدین اصلاحی جیسے علما سے کسبِ فیض کا موقع ملا اور رام پور میں انھیں مائل خیرآبادی، مولانا عبدالحی، افضل حسین اور مولانا حامد علی کی راہ نمائی حاصل رہی۔
ابتدا میں وہ انگریزی کے لیکچرر رہے۔ بعدازاں اودھ یونی ورسٹی فیض آباد سے ملحق گنپت سہاے پوسٹ گریجویٹ کالج سلطان پور میں طویل عرصے تک اُردو کے استاد رہے اور یہیں سے بطور صدر شعبہ اُردو وظیفہ یاب ہوئے۔
درس و تدریس کے ساتھ شاعری اور تنقید ادب کے شعبوں میں بھی ان کا قلم برابر رواں رہا۔ ان کا قلمی نام ’شبنم سبحانی‘ تھا۔ ۲۰۰۹ء میں ۵۵ سال کی منتخب نظموں کا مجموعہ فکر انگیز شائع کیا۔ ان نظموں میں فن پر فکر کو فوقیت دی گئی ہے۔ لیکن بیش تر منظومات سے ان کی شاعری کی تاثیر، اس کی فنی دل کشی اور فکر انگیزی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان کا دوسرا شعری مجموعہ طرب خیز غزلوں پر مشتمل ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی شاعری ایمان و یقین اور امید و روشنی کی شاعری ہے اور قاری کو حوصلہ، عزم اور ولولہ عطا کرتی ہے۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں، نہایت کامیاب مشقِ سخن کی ہے۔
بعدازاں شاعری سے قدرے بے رخی برتتے ہوئے وہ نثر نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ’شبنم سبحانی‘ نے قلم رکھ دیا اور ’سیّد عبدالباری‘ نے قلم سنبھال لیا۔ بقول ڈاکٹر نیاز سلطان پوری: ’’شاعر پر نثر نگار غالب آگیا اور اپنے اصل نام سے انھوں نے کتابیں لکھنی شروع کیں‘‘۔
بیسویں صدی کی ۱۴ممتاز شخصیات سے ملاقاتوں اور گفتگوئوں کی رُوداد انھوں نے ملاقاتیں کے عنوان سے ۲۰۰۳ء میں شائع کی۔ یہ انٹرویو (مصاحبے) دوام اور دوامِ نو کے زمانۂ ادارت میں، تمام حضرات سے ان کے مستقر پر حاضر ہوکرلیے گئے۔ ان میں قاری محمد طیب، عبدالماجد دریا بادی، محمد مسلم، بدر الدین طیب جی، مولانا صدر الدین اصلاحی، ڈاکٹر سیّد محمود، مولانا ابو اللیث اصلاحی اور سیّد ابوالحسن علی ندوی شامل ہیں۔ یہ مصاحبے، روایتی انداز کے سوال و جواب تک محدود نہیں۔ وہ بھرپور انداز سے شخصیت کا تعارف کراتے ہیں۔ (ان تعارفات میں وہ ایک کامیاب مرقع نگار اور خاکہ نویس کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں) اور ان شخصیات کی قیام گاہوں تک پہنچنے کی رودادِ سفر بیان کرتے ہیں۔ یوں ان مصاحبوں کو پڑھتے ہوئے سفرنامے کا لطف بھی محسوس ہوتا ہے۔ ۱۹۴۷ء کے بعد بھارت کی سیاست کے نشیب و فراز اور بطور اقلیت مسلمانوں کی زندگی اور ان کی جدوجہد کے حوالے سے ملاقاتیں نہایت اہم ہے، بلکہ اس کی حیثیت حوالے کی ایک کتاب کی ہے۔
۲۰۰۹ء ہی میں سیّد عبدالباری صاحب نے انوکھے لوگ، نرالی باتیں شائع کی جو بیسویں صدی کی ۲۰ ’نرالی شخصیتوں‘ کے خاکوں اور ان کے افکار و خیالات پر مشتمل ۲۰ مضامین کا مجموعہ ہے۔’انوکھے لوگوں‘ میں مولانا حسین احمد مدنی، سیّد مودودی، حکیم اجمل خان، سیّد محمود، ابوالکلام، حسرت موہانی، آیت اللہ خمینی، صدر الدین اصلاحی، مولانا دریا بادی اور ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خاکے (یا مضامین) تعارفی و سوانحی ہیں اور تنقیدی و تبصراتی بھی۔ زیادہ تر انھوں نے شخصیات کے محاسن بیان کیے ہیں اور معائب سے صرفِ نظر کیا ہے۔
لکھنؤ کا شعر و ادب ان کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھوں نے گورکھپور یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اسی تسلسل میں انھوں نے لکھنؤ کے ادب کا معاشرتی و ثقافتی پس منظر (۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء) کے عنوان سے ایک اور کتاب شائع کی جسے وہ خود اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کا ’دوسرا حصہ‘ قرار دیتے ہیں۔
تنقیدی مقالات کے پانچ مجموعے (ادب اور وابستگی، کاوش نظر، نقد نوعیار، آداب شناخت، افکار تازہ) ان سے یادگار ہیں۔ آداب شناخت پر اظہار خیال کرتے ہوئے، اُردو تحقیق و تنقید کی نامور اور بزرگ شخصیت ڈاکٹر محمودالٰہی نے لکھا: ’’ان کی تحریر پختہ اور فکر نہایت مستحکم ہے۔ وہ حق و ناحق، خیر و شر کا ایک متعین پیمانہ رکھتے ہیں۔ اسلامیات کے گہرے مطالعے کا اثر ان کی تحریروں پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے قلم کو جاہ و منصب کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اخلاص کے ساتھ ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے ہیں‘‘۔
سیّد عبدالباری کی فکر و سوچ اور قلمی کاوشوں کا دائرہ شعر و ادب تک محدود نہ تھا۔ وہ اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود اور مسلمانوں کے مسائل پر بھی سوچتے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے سیکڑوں مضامین اور کالم لکھے۔ مزید برآں چند ایسی کتابیں بھی شائع کیں جن کا تعلق مسلم معاشرے میں اخلاقی و دینی اقدار کی ترویج اور افراد امت کی تربیت ذہنی و دینی سے ہے، مثلاً: اسماے حسنٰی اور کردار سازی‘ جمہوریت، انسان دوستی اور اسلام‘ اسلام میں آدابِ اختلاف وغیرہ۔
ڈاکٹر سیّد عبدالباری فکری اعتبار سے ادب اسلامی کے علم بردار تھے۔ جیسا کہ ابتدا میں ذکر آچکا ہے، انھوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر اور سیکرٹری کی حیثیت سے چھے دہائیوں تک خدمات انجام دیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر شکیب ارسلان کے بقول: ’وہ ایک پھرتیلے اور active شخص تھے‘۔ ادب اسلامی کے وابستگان کو متحرک کرنے کے لیے وہ خطوط نگاری اور مضمون نویسی کے ذریعے برابر کوششیں کرتے رہے۔ حیاتِ مستعار کے آخری عشرے میں انھوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے ترجمان ماہنامہ پیش رفت دہلی کی ادارت کا فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ آخری زمانے میں وہ آل انڈیا ملّی کونسل کے ماہنامے ملّی اتحاد سے بھی منسلک رہے اور اپنے رشحاتِ فکر سے قارئین کی ذہنی آبیاری اور ان کی راہ نمائی کرتے رہے۔
سیّد عبدالباری سے راقم کے قلمی رابطے کا آغاز ۶۰ کے عشرے میں ہوا تھا۔ ان کی وفات سے چندماہ پہلے تک خط کتابت رہی اور کبھی ٹیلی فون پر تبادلۂ خیال بھی ہوتا رہا۔ ہمارے درمیان تصانیف کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ___ (اس تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں)۔
اُردو شعر و ادب کی دنیا بڑی حد تک پاکستان اور بھارت کے دو الگ الگ ایسے خطوں میں منقسم ہے جن کے بیش تر شاعر، ادیب اور نقاد افسوس ناک حد تک ایک دوسرے سے ناآشنا ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کے ادبی حلقوں میں سیّد عبدالباری (شبنم سبحانی) کا نام کسی قدر اجنبی محسوس ہو تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ خود بھارت کے نقادوں اور تاریخ نویسوں نے شبنم سبحانی کے تخلیقی ادب اور ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں کو نظر انداز کیا ہے۔ اس پر بھی تعجب نہیں ہے کیوں کہ مرحوم شبنم سبحانی ادب میں صالح فکر اور اخلاقی اقدار کے علم بردار تھے۔
اُردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر اختر الواسع نے بہت اچھی بات کہی ہے: ’جو آیاہے، اُسے جانا ہی ہے لیکن ایسے کثیر الجہات لوگ جو معلم بھی ہوں، ادیب بھی، صحافی و نقاد بھی ہوں اور کسی حد تک سیاسی میدان میں سرگرم عمل بھی، اُن کا اُٹھ جانا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالباری (شبنم سبحانی) کی وفات ایک ایسا ہی حادثۂ فاجعہ ہے۔ بس یہی دعا ہے کہ ؎
آسماں ’اس کی‘ لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
برادر محترم عبدالقادر مُلّا شہید کے غم کو ابھی دو مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ مولانا ابوالکلام محمدیوسف کے دورانِ حراست رحلت کی خبر دل پر بجلی بن کر گری۔ اس طرح بنگلہ دیش، تحریک اسلامی اور اُمت مسلمہ اپنے ایک اور نام وَر خادم سے محروم ہوگئی : اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
مولانا اے کے ایم یوسف کو یہ اعزازبھی حاصل ہوا کہ میرے علم کی حد تک جماعت اسلامی کے وہ پہلے قائد ہیں جنھوں نے جیل میں جاں جانِ آفریں کے سپرد کی ۔ یوں وہ ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بے گناہی کا اعلان اور حق کی خاطر اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کا پورے عزم اور اعتماد سے دفاع کرتے ہوئے اپنے رب سے ملاقات کے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ الحمدللہ ۸۸سال کے اس جواں عزم رکھنے والے مجاہد نے کسی موقعے پر بھی کوئی کمزوری نہ دکھائی اور اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو سچا کر دکھایا:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچاکر دکھایا___ اور ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
مولانا ابوالکلام محمد یوسف ۲فروری ۱۹۲۶ء کو بنگلہ دیش کے ایک گائوں راجیہ (سارن کھالہ) ضلع باگرہاٹ میں پیدا ہوئے اور ۹فروری ۲۰۱۴ء کوشمیور سنٹرل جیل ڈھاکہ میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد بنگلہ بندھو میڈیکل یونی ورسٹی ہسپتال لے جاتے ہوئے ربِ حقیقی سے جاملے۔ بنگلہ دیش کی منتقم حکومت نے ان کو ۱۲مئی ۲۰۱۳ء کو جنگی جرائم کے جھوٹے الزامات کے نام پر گرفتار کیا تھا۔ دل کا دورہ پڑنے کے بعد، پولیس انھیں قریب ترین ہسپتال میں لے جانے کے بجاے ایک دُور کے ہسپتال لے کر گئی اور وہاں پہنچتے پہنچتے وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ؎
یہ خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں، جو صرفِ بہارا ں ہوتے ہیں
مولانا ابوالکلام محمد یوسف نے ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں حاصل کی پھر اسی سفر کو جاری رکھا تاآنکہ ۱۹۵۲ء میںدینی تعلیم کی اعلیٰ ترین سند ممتاز المحدثین حاصل کر کے ایک معلم اور داعی کی حیثیت سے عملی کردار کا آغاز کیا۔ مدرسہ عالیہ سے بھی دینی علوم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر دینی مدارس میں تدریس کی ذمہ داریاں ادا کیں اور اعلیٰ تدریسی و انتظامی صلاحیتوں کے سبب ۱۹۵۸ء میں مدرسے کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ دورانِ تعلیم ہی میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے استفادہ کیا اور پھر تحریکِ اسلامی میں رچ بس گئے۔ مولانا عبدالرحیمؒ مشرقی پاکستان میں بنگلہ بولنے والے پہلے رکن جماعت اسلامی تھے اور مولانا ابوالکلام محمد یوسف کو دوسرا رکن ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ ۱۹۵۶ء میں کھلنا ضلع کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں مرکزی مجلس شوریٰ میں منتخب ہوئے اور ۱۹۷۱ء تک اس ذمہ داری کو بہ حُسن و خوبی ادا کیا۔ اس زمانے میں مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کے سیکرٹری اور نائب امیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
پاکستان قومی زندگی میں مولانا ابوالکلام محمد یوسف کی سیاسی جدوجہد کا آغاز ۱۹۶۲ء میں مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کا رُکن منتخب ہونے سے ہوا۔ ۸جون ۱۹۶۲ء کو حلف لے کر غیرجماعتی ایوان میں کلمۂ حق بلند کرنے کا آغاز کیا۔ وہ ۱۹۶۹ء تک اسمبلی کے رکن رہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان ڈاکٹر محمد مالک کی صوبائی حکومت میں چند ہفتوں کے لیے وزیرمال بھی رہے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء کے سانحہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد قیدوبند کی صعوبتوں کو جھیلا، جس سے دسمبر ۱۹۷۵ء میں نجات ملی۔ پھر زندگی کے آخری سال میں ایک بار حسینہ واجد کی آتشِ انتقام کا نشانہ بن کر پابند سلاسل ہوئے اور نام نہاد وارکرائمز ٹربیونل کی انتقامی کارروائی سے پہلے ہی حکم ربانی کے تحت باعزت اور نہ ختم ہونے والی رہائی حاصل کرلی ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
مولانا اے کے ایم یوسف مرحوم سے میری ملاقاتوں اور پھر قریبی تحریکی تعلق کاآغاز ۱۹۶۲ء ہی سے ہوا جب وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر اسمبلی میں جماعت اسلامی ہی نہیں، بلکہ تمام دینی اور تعمیری قوتوں کی آواز بن گئے۔ مشرقی پاکستان سے جماعت کی حمایت سے تین ارکان منتخب ہوئے تھے___ دو ارکان اور ایک متفق: یعنی مولانا ابوالکلام محمدیوسف اور جناب عبدالخالق صاحب رکن جماعت تھے اور بیرسٹر اخترالدین صاحب متفق اور ہم نوا مگر پوری طرح جماعت کے نظم کے پابند اور اس کی فکر کے ترجمان۔ البتہ اسمبلی میں مولانا ابوالکلام محمدیوسف جماعت کے پارلیمانی لیڈر کا کردار ادا کرتے تھے۔ اخترالدین احمد انگریزی اور مولانا بنگالی میں اور کبھی کبھی بنگالی اور اُردو میں اظہارِ خیال فرماتے تھے۔ وہ اپنی تقاریر میں ہمیشہ دلائل کے ساتھ قومی اُمور پر جماعت اسلامی کے موقف کو پورے اعتماد اور وقار سے پیش کرتے تھے۔ وہ طبعاً بڑے لطیف مزاج تھے، اور اپنے اس ذوق کو موقع بہ موقع بڑی خوب صورتی سے استعمال کرتے تھے اور سب اس سے لطف اُٹھاتے تھے۔ جہاں تک بنگلہ زبان کا تعلق ہے مولانا محمد یوسف اس کے شعلہ بیان مقرر تھے نیز اُردو میں بھی وہ بڑی روانی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
جماعت اسلامی کے پارلیمانی کردار کا آغاز مولانا محمد یوسف نے ۱۱جون ۱۹۶۲ء کو مولوی تمیزالدین صاحب کے اسپیکر منتخب ہونے پر مبارک باد میں کی جانے والی تقریر سے کیا اور پارلیمانی بحث پر تحریکی فکر کے نقوش مرتسم کردیے۔ اس پہلی تقریر میں قیامِ پاکستان کے اصل مقصد، یعنی اسلامی نظام کے قیام کا بھرپور انداز میں اظہار کیا۔ فوجی ڈکٹیٹر محمد ایوب خان کے جس دستور کے تحت یہ اسمبلی بنی تھی، اس پر تنقید کی، اسے ایک غیراسلامی دستور قرار دیا اور بڑے لطیف انداز میں کہا کہ بس اس دستور کا ایک خوش آیند پہلو یہ ہے کہ اس میں ترمیم ہوسکتی ہے اور ان شاء اللہ وہ ہم جلد کریں گے اور اسے اسلام کے مطابق ڈھال کر دم لیں گے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار جناب عبدالخالق نے بھی کیا۔ انھوں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں یہ بات بھی کہہ دی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اصل رشتہ اسلام کا ہے اور صرف اسلام کے مطابق انصاف ہی کی بنیاد پر یہ ملک ترقی کرسکتا ہے، نیز یہ کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے سیاسی جماعتوں کی بحالی اور ان کا بھرپور کردار ضروری ہے۔
صدرفیلڈمارشل ایوب خان نے اپنی قوت کے نشے میں ۱۹۶۲ء کے دستور سے قراردادِ مقاصد خارج کردی تھی۔ مملکت کا نام جو ۱۹۵۶ء سے دستور میں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ تھا بدل کر صرف ’جمہوریہ پاکستان‘ کردیا تھا اور قانون سازی کے سلسلے میں قرآن وسنت کی جگہ صرف ’اسلام‘ کا ذکر کیا تھا اور عدالتوں کے ذریعے اس شق کے نفاذ کو (justiciable ) دستور میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
جماعت اسلامی اور ہم آواز اسلامی قوتوں کی مساعی کے نتیجے میں پہلے ہی مہینے سیاسی جماعتوں کا قانون بڑی رد و کد کے بعد وضع کیا گیا۔ جولائی ۱۹۶۲ء میں سیاسی جماعتیں بحال ہوئیں اور اس بحث کے دوران اسلام کو ملک کی آئیڈیالوجی کے طور پر بھی ایوبی آمریت کے کارندوں کی ساری رکاوٹوں کے باوجود منظور کرایا گیا۔ اس کا موقع اس طرح پیدا کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری قرار دیاگیا تھا کہ ’’وہ پاکستان کی سالمیت کو مجروح کرنے والی کسی سرگرمی میں ملوث‘‘ نہیں ہوں گی،جب کہ مولانا ابوالکلام محمدیوسف اور دوسرے اسلام پسند ارکان کے اصرار پر اس شرط کے ساتھ ’نظریۂ پاکستان کی مخالفت‘ کو بھی شامل کیا گیا اور پھر واضح الفاظ میں نظریۂ پاکستان کی یہ وضاحت بھی شامل کی گئی کہ اسلام ہی نظریۂ پاکستان ہے۔
قومی اسمبلی میں کی جانے والی بحث کا یہ حصہ بڑا چشم کشا ہے۔ اس وقت کے وزیرقانون جناب سابق جسٹس محمد منیر تھے، جو پنجاب کے ۱۹۵۳ء کے فسادات کے سلسلے میں تیار کی جانے والی رپورٹ کے مصنف تھے اور پاکستان کی اسلامی اساس کے منکر تھے۔ انھی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کا یہ بل متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوا۔ سب کمیٹی نے، جس میں بیرسٹر اخترالدین احمدصاحب تھے، متفقہ طور پر ’پاکستان آئیڈیالوجی‘ کا لفظ اضافہ کیا۔ اسمبلی میں ترمیم کے ذریعے اس وضاحت کا مزید اضافہ کیا گیا کہ پاکستان آئیڈیالوجی کے معنی اسلام ہیں۔ سیکولر طبقے سے یہ اضافہ ہضم نہیںہو رہا تھا اور طرح طرح کے حیلے بہانے کیے گئے لیکن بالآخر اس ترمیم کو منظور کرنا پڑا۔ اس طرح ۱۹۶۲ء میں، نہ کہ ۱۹۶۹ء میں جنرل شیرعلی یا ۱۹۷۷ء میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اسلامی آئیڈیالوجی بحیثیت پاکستان آئیڈیالوجی ان ہی الفاظ میں قانون کا حصہ بنی، اور پھر اسمبلی اور تمام اہم مناصب پر مامور افراد کے حلف کا حصہ بنی۔
اس کامیابی میں مولانا ابوالکلام محمدیوسف کا دوسرے اہم ارکان کے ساتھ بڑا نمایاں حصہ تھا۔ بالآخر سابق جسٹس منیر کو بھی شرمسار ہوکر اس ترمیم کو ایوان کی مرضی کے طور پر تسلیم کرنا پڑا اور ان کے مندرجہ ذیل الفاظ کارروائی ہی کا نہیں تاریخ کا حصہ بن گئے۔افسوس کا مقام ہے کہ اس واقعے کے سات سال بعد شائع ہونے والی کتاب From Jinnah to Zia جس کے مصنف بھی یہی سابق جسٹس محمد منیرہیں، وہ اس میں ایک بار پھر وہی راگ الاپتے نظر آئے کہ: ’پاکستان، نیز اسلامی آئیڈیالوجی کے ’مسلط‘ کرنے کا کام جنرل ضیاء الحق نے انجام دیا جو محمدعلی جناح کے تصور کے برعکس تھا‘۔ لیکن نتیجہ یہ ہے کہ اسمبلی کے ایوان میں سابق جسٹس منیر کے یہ الفاظ ان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں جو کبھی مٹایا نہ جاسکے گا:
تحریک پیش کی جاتی ہے کہ ’’بل کی دفعہ ۲کے پیرا (c) کے بعد درج ذیل پیرا شامل کیا جائے:
(d) آئیڈیالوجی آف پاکستان کا مطلب ہے اسلام
مسٹر محمد منیر: جناب عالی! اصل بل میں لفظ ’آئیڈیالوجی‘ شامل نہیں تھا اور جب مَیں یہ بل ڈرافٹ کر رہا تھا تو میں نے اس سوال پر غور کیا کہ لفظ ’آئیڈیالوجی‘ شامل ہو یا نہ ہو؟ مَیں نے آخری فیصلہ یہ کیا کہ اس لفظ کو شامل نہ کیا جائے کیوں کہ مَیں محسوس کرتا ہوں کہ الفاظ ’پاکستان کی آئیڈیالوجی‘ کی تعریف کرنا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ لیکن سلیکٹ کمیٹی نے اس لفظ کو شامل کیا ہے اور اب یہ ایک ترمیم ہے کہ الفاظ ’پاکستان کی آئیڈیالوجی‘ کی تعریف اس طرح کی جائے کہ اس کا مطلب اسلام ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں اس لفظ سے مکمل طور پر بے تعلق ہوں کہ لفظ ’آئیڈیالوجی‘ یہاں ہو یا لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کو حذف کردیا جائے، یا لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کی تعریف اسلام کے لفظ سے کی جائے۔ مَیں یہ ایوان پر چھوڑتا ہوں۔(قومی اسمبلی پاکستان کی کارروائی، ۱۱ جولائی ۱۹۶۲ء، ص ۱۳۳۴)
مولانا ابوالکلام محمدیوسف نے دستور میں پہلی ترمیم کے سلسلے میں بھی بڑا مثبت بلکہ جارحانہ کردار ادا کیا اور بالآخر اسمبلی کو پاکستان کا اصل نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ بحال کرنا پڑا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ دستور اپنی اصل شکل میں دستور کا دیباچہ بنائی گئی۔ قانون سازی کے باب میں ’اسلام‘ کی جگہ اصل الفاظ ’قرآن وسنت‘ بحال کیے گئے اور ان سے متصادم قانون سازی پر پابندی لگائی گئی۔ نیز ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ڈھالنے کی ان شقوں کو بحال کیا گیا جو ۱۹۵۶ء کے دستور میں تھیں، مگر ۱۹۶۲ء کے دستور میں ان کو عملاً غیرمؤثر کردیا گیا تھا۔ دستور میں اس بنیادی ترمیم میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ گیا، لیکن جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی، مفتی محمود صاحب اور مسلم لیگ کے کچھ ارکان کی مشترکہ کوششوں سے ۲جولائی ۱۹۶۲ء ہی کو ایک قرارداد اسمبلی میں پیش کی گئی اور ۳جولائی کو اسے متفقہ طور پر منظور کرایا گیا کہ: ’’ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کیا جائے گا‘‘۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار جن لوگوں نے ادا کیا، ان میں محمد ایوب، میاں عبدالباری اور مفتی محمود کے ساتھ ساتھ مولانا یوسف، جناب عبدالخالق صاحب اور بیرسٹر اخترالدین احمد نے ادا کیا اور سابق جسٹس محمد منیرصاحب پیچ و تاب کھاتے رہے مگر ع
رہ گئے وہ بھی ہاں کرتے کرتے!
مولانا ابوالکلام محمدیوسف نے اسمبلی میں جو تقاریر کی ہیں، وہ ان کی بالغ نظری، جرأتِ ایمانی اور پاکستان اور تحریک اسلامی سے وفاداری کی روشن نظیر ہیں۔ ان میں انھوں نے خارجہ پالیسی، بجٹ سازی، اُمور حکمرانی (governance)، غرض ہر مسئلے پر کلام کیا اور قدرتِ کلام کا مظاہرہ کیا ہے۔ بجٹ پر ان کی تقاریر اسلامی اور معاشی ہردواعتبار سے بڑا مبسوط و مربوط تبصرہ ہیں۔ ان تقاریر میں انھوں نے صرف سود، اسراف اور غلط معاشی ترجیحات ہی پر احتساب نہیں کیا ہے، بلکہ زندگی کے ہرشعبے پر کلام کیا ہے۔
اسی طرح خارجہ پالیسی پر ان کی کئی تقاریربڑی چشم کشا ہیں، جن میں انھوں نے خارجہ پالیسی کے عدم توازن کا بھانڈا پھوڑا۔ سفارت خانوں کی کارکردگی پر احتساب کیا ہے ۔ امریکا کی گودمیں بیٹھ جانے پر شدید تنقید کی ہے اور امریکا کے ناقابلِ اعتبار دوست ہونے کی حقیقت بیان کی۔ خصوصیت سے جب ۱۹۶۲ء میں امریکا نے پاکستان سے کیے گئے وعدوں کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کو اسلحے کی سپلائی شروع کی تو اس پر ان کی تنقید بڑی بھرپور اور جامع ہے۔ انھوں نے روس اور چین سے تعلقات کو نظرانداز کرنے اور صرف امریکا پر بھروسا کرنے پر سخت گرفت کی۔ اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا ہے کہ امریکا نے سیٹو اور سینٹو میں پاکستان کی شرکت سے لے کر ۱۹۶۲ء تک، یعنی ۱۰سال میں جو امداد دی، بھارت کو صرف تین مہینے میں اس سے ۸گنا زیادہ کااسلحہ فراہم کیا۔ یہ بھی یاد دلایا کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی اپنا یہ وعدہ بھول گئے کہ پاکستان سے مشورے کے بغیر بھارت کو کوئی اسلحہ فراہم نہیں کریں گے۔ بڑے لطیف انداز میں انھوں نے کہا کہ امریکا کی پاکستان سے دوستی ہم پاکستانیوں کی مرغی سے دوستی کی طرح ہے کہ جب دل چاہا مرغی کو ذبح کر کے دسترخوان کی زینت بناڈالا۔
۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۹ء تک مشرقی پاکستان کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی تھیں۔ مولانا محمدیوسف نے ان پر بھی بھرپور کلام کیا ہے۔ سوالات کی شکل میں بھی اور بحث اور دوسرے مواقع پر اپنی تقاریرکے اندر بھی۔ تعجب ہوتا ہے کہ حج تک کے معاملے میں ناانصافی کی گئی۔ اپریل ۱۹۶۳ء کے ایک سوال کے جواب میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان سے حج کے لیے جانے والوں میں ایک اور چار کی نسبت تھی اور ۱۹۶۳ء میں مشرقی پاکستان سے صرف ۴۸۰۰حاجی جاسکے، جب کہ اس سال مغربی پاکستان سے حج کے لیے جانے والوں کی تعداد ۱۱۳۰۰ تھی۔ اسی طرح ہرشعبے میں ملازمتوں میں، ترقیاتی اخراجات میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میں مشرقی پاکستان کے حقوق پامال کیے جارہے تھے۔ یہ آواز جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی نے ساٹھ کے عشرے میں اُٹھائی، جو تاریخ کا حصہ ہے۔
مسلمانانِ پاکستان ’ریڈ کراس سوسائٹی‘ (سرخ صلیب) کے نام پر ہمیشہ سے معترض تھے۔ اس میں عیسائی مشنری اور سامراجی سیاسی رشتے کی جو جھلک نظر آتی ہے، اس سے خلاصی چاہتے تھے۔ ۷۰ کے عشرے میں غالباً جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ریڈکراس سوسائٹی کا نام تبدیل کرکے اسے پاکستان ریڈکریسنٹ (ہلالِ احمر) سوسائٹی قرار دیا گیا، لیکن کم لوگوں کو علم ہے کہ اس تبدیلی کا سب سے پہلے مطالبہ مولانا محمد یوسف نے اسمبلی میں اپریل ۱۹۶۳ء میں کیا تھا اور عملاً۱۳؍اپریل ۱۹۶۳ء کو ایک بل اس تبدیلی کے لیے اسمبلی میں داخل کردیا تھا، جس پر بحث کے دوران ارکان کی بڑی تعداد نے اس کی تائید کی۔ اس تائیدی لہر سے خائف ہوکر اس وقت کی حکومت نے بڑی چال بازی کے ساتھ اس بل کو کمیٹی کے سپرد کردیا، لیکن جب بھی نام میں یہ تبدیلی ہوئی اس کا اصل اعزاز مولانامحمدیوسف ہی کو جاتا ہے۔
اسی طرح وقت بے وقت آرڈی ننس جاری کرکے حکمرانی کرنے پر بھی مولانا محمد یوسف نے اسمبلی میں بھرپور تنقید کی اور لطیف انداز میں کہا کہ ہم تو مطالبہ کر رہے تھے: ’’بھارت میں ۵۰کے قریب آرڈی ننس فیکٹریاں ہیں، جہاں سے اسلحہ تیار ہو رہا ہے اور بڑی مشکل سے ایک اسلحہ ساز فیکٹری کا پاکستان میں آغاز ہوا،لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے دوسری نوعیت کی تین آرڈی ننس فیکٹریاںکھولی ہوئی ہیں اور یہ تینوں ہمہ وقتی گولہ باری کررہی ہیں: ایک ایوانِ صدر سے اور دو گورنر ہائوسز سے۔ یہ آرڈی ننس فیکٹریاں اسمبلی میں قانون سازی کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اسمبلی کے دو سیشنوں کے درمیان گیارہ گیارہ اور سات سات گولے داغے جارہے ہیں۔ یہ اسمبلیوں کے حق پر کھلی دست درازی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے‘‘۔ اس سلسلے میں ان کی سب سے مؤثر اور دل چسپ تقریر ۲۷بومبر ۱۹۶۳ء کو اسمبلی میں ہوئی، جس نے ایوان کو کشت ِ زعفران بنادیا۔
اسی طرح آمریت پر انسانی حقوق کی پامالی اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاریوں پر انھوں نے باربار کڑی تنقید کی اور صدر ایوب کو خطاب کر کے ایک بار یہاں تک کہا کہ: ’’جمہوریت ڈنڈے کے ذریعے نہیں آتی، اور اگر ڈنڈا یہ کام کرسکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کو انبیا ؑ بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، جو تعلیم و تلقین کے ذریعے انسانوں کو بدلتے اور دنیا میں امن و آشتی اور انصاف کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں بلکہ صرف ڈنڈا نازل فرما دیتے‘‘۔ قبائلی علاقوں میں انتظامی قوانین (FCR) پر بھی انھوں نے بھرپور تنقیدکی۔ عدلیہ کی آزادی اور سیاست سے ججوں کے دُور رہنے پر بھی انھوں نے باربار کلام کیا اورسابق جج محمدمنیر کی موجودگی میں یہاں تک کہا کہ: ’’عدلیہ کی آزادی کے لیے یہ ایک خطرہ ہے کہ جج وزیر بن جائیں اور وزیر جج بننے کے لیے کوشاں ہوں۔ ان کی دُوری ہی عدلیہ کی آزادی کی ضمانت ہے‘‘۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی کے ارکان نے ہردور میں: ۶۲-۱۹۶۹ء ، ۷۲-۱۹۷۶ء اور ۱۹۸۵ء سے اب تک جو کردار ادا کیاہے وہ قوم کے سامنے لایا جائے۔ نئی نسلوں کو حتیٰ کہ جماعت کے اپنے حلقوں میں لوگوں کو احساس نہیں کہ اس سلسلے میں جو بات جماعت آج کہہ رہی ہے کس دیانت اور استقامت کے ساتھ اس نے ہر دور میں وہی بات کہی ہے۔
مولانا محمد یوسف سے میرے تعلقات ۵۲سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو ایک اچھا انسان، ایک سچا مسلمان ، اور محب ِ وطن پاکستانی ،اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بنگلہ دیش اور سب سے بڑھ کر تحریکِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کا خادم پایا۔ ان کی طبیعت بے حد سادہ، ان کی باتوں میں خلوص کی خوشبو، اور ان کے معاملات میں دیانت اور خیرخواہی کا جذبہ فراواں پایا جاتا تھا۔ ان کی تنقید میں اصلاح کی جستجو ہوتی تھی۔ حق کی جدوجہد میں ہردور میں انھوں نے استقامت دکھائی۔ خدمت ِ خلق ان کا شعار تھا۔ کسانوں کے حالات میں بہتری لانے اور مساجد اور مدارس کے قیام میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ۴۰۰ سے زیادہ مساجد، مدارس اور یتیم خانے ان کی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہوئے، جو ان کے لیے صدقۂ جاریہ کے طور پر ان شاء اللہ ان کے حسنات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ وہ ان خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں، جن کے بارے میں ہمارے مالک نے فرمایاہے:
یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo (الفجر ۸۹: ۲۷-۳۰) اے نفس مطمئن! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔
۲۶ دسمبر ۲۰۱۲ء کو عزیزی سید طلحہ حسن کے ولیمے میں شرکت کے لیے کراچی گیا اور اس مبارک تقریب سے فارغ ہوکر قصرناز میں قدم ہی اُٹھا تھا کہ یہ دل خراش ایس ایم ایس موصول ہوا کہ برادرم محترم و مکرم پروفیسر عبدالغفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں __ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
کراچی کے سفر کے مقاصد میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کی عیادت سرفہرست تھی۔ تقریب میں ان کے صاحب زادے عزیزی طارق سے ۲۷دسمبر کو ان کے گھر آنے کا پروگرام طے کیا تھا لیکن کیا خبر تھی کہ ۲۷ کو عیادت نہیں، تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا ہوگا اور اسی شام ان کے جنازے میں شرکت کرکے ، ان کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنا ہوگا___ لیکن یہ تو صرف محاورہ ہے، ہمیشہ یہاں کون رہا ہے، جلد یا بدیر، ہر ایک کو اس سفر پر روانہ ہونا ہے، بس دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آنے والی زندگی میں اپنے فضل و کرم سے اپنے ان بندوں کی رفاقت نصیب فرمائے جو اس کے جوارِرحمت میں ہوں۔
پروفیسر عبدالغفور احمد تحریکِ اسلامی کا قیمتی سرمایہ اور ملک و ملّت کا زریں اثاثہ تھے۔ تعلیم و تدریس، دعوت و تبلیغ اور خدمت اور سیاست، ہر میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ۱۱جون ۱۹۲۷ء کو یوپی کے مشہور علمی اور دینی گہوارے بریلی میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونی ورسٹی سے ۱۹۴۸ء میں ایم کام کی سند حاصل کی اور اسی سال اسلامیہ کالج لکھنؤ میں بطور لیکچرار اپنے تدریسی کردار کا آغاز کیا۔ اگلے ہی سال ہجرت کر کے کراچی آئے اور ایک پرائیویٹ تجارتی ادارے میں اکاؤنٹ کے شعبے میں ذمہ داری سنبھالی۔ پھر اُردو کالج میں تجارت اور حسابیات (Accounting) کے لیکچرار کی اضافی ذمہ داری سنبھال لی اور یہ سلسلہ ۱۹۶۱ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹس اور جناح انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۲ء تک جاری رہا جس کے بعد قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ہمہ وقتی بنیاد پر پارلیمنٹ اور جماعت اسلامی کی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے۔
مولانا مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی کی دعوت سے طالب علمی کے دور ہی میں روشناس ہوئے۔ غالباً ۱۹۴۴ء میں ان کے کالج کے ایک قریب ترین دوست جناب انوریار خاں نے مولانا محترم کی کتاب خطبات ان کو دی جس نے ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ مولانا کا بیش تر لٹریچر پڑھ ڈالا لیکن جماعت سے ان کا باقاعدہ تعلق کراچی میں ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا۔ جلد ہی کراچی کی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۸ء میں جماعت اسلامی نے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں شرکت کی۔ ۱۰۰ میں سے ۲۳نشستوں پر جماعت نے انتخاب لڑا اور الحمدللہ ۲۳ کی ۲۳نشستیں جیت لیں۔ غفورصاحب کارپوریشن میں جماعت کے گروپ لیڈر مقرر ہوئے اور اس طرح ملک کے سب سے اہم شہر کے سیاسی اُفق پر ایک روشن ستارے کے طور پر نمودار ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوئے، پھر کراچی کے امیر بنے (۱۹۷۲ء تا۱۹۷۷ء) اور ۱۹۷۹ء سے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور اس کی سیاسی کمیٹی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ جنرل ایوب کے دور میں ۱۹۶۴ء میں امیرجماعت اور مرکزی شوریٰ کے تمام ارکان کے ساتھ ساڑھے نومہینے جیل میں رہے۔۱۹۷۰ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں بھی ساری دھاندلی کے علی الرغم جماعت کے ۹ منتخب ارکان میں شامل تھے، اور ۱۹۷۲ء سے قومی اسمبلی میں دستور سازی، جمہوریت کے تحفظ، ختم نبوت اور نظامِ مصطفی کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) اور پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) (۱۹۷۷ء تا ۱۹۷۹ء) کے سیکرٹری جنرل رہے۔ ۱۹۷۸ء تا۱۹۷۹ء میں وفاقی وزیرپیداوار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۵ء تک سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ پروفیسر صاحب نے پاکستان کے سیاسی حالات پر آٹھ کتابیں مرتب کیں جو پاکستان کی تاریخ کا ایک مستند ماخذ ہیں۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب سے میرا پہلا تعلق تو شاگرد اور استاد کے رشتے سے ہے۔ گو مَیں نے بلاواسطہ ان سے پڑھا نہیں لیکن جب میں گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکانومکس میں بی کام کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو وہ اُردو کالج اور کچھ دوسرے پروفیشنل اداروں میں پڑھا رہے تھے اور میرے استاد متین انصاری صاحب کے قریبی دوست تھے جس واسطے سے مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ بی کام میں وہ میرے ممتحن بھی رہے اور اس طرح بلاواسطہ استاد بھی ہوگئے۔ نیز جماعت میں میرے سینیر تھے، اور مَیں نے تحریکی زندگی اور ملکی سیاست دونوں کے سلسلے میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ۱۹۶۴ء میں ساڑھے نو مہینے ہمیں جیل میں ایک ہی کمرے میں باقی ساتھیوں کے ساتھ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی جس کا مفصل ذکر تذکرۂ زنداں میں آیا ہے۔ میرے لیے وہ بڑا قیمتی تجربہ اور پروفیسر عبدالغفور صاحب کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا ایک نادر موقع تھا۔ میں نے ان کو ایک نفیس، باذوق، خداترس، محبت کرنے والا، بے غرض اور راست باز انسان پایا جو اپنے چھوٹوں سے بھی کچھ ایسا معاملہ کرتا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا۔ مَیں نے ان ۶۰برسوں میں ان سے شفقت، محبت اور عزت کا جو حصہ پایا وہ زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مقام کو بلند تر کرے کہ ان سے ہم نے یہ سیکھا کہ انسانوں سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔ دوست تو دوست ان کا تو عالم یہ تھا کہ ان کے مخالف بھی ان کو اپنا سمجھتے تھے اور انھوں نے بھی اختلاف کو کبھی ذاتی تعلقات اور باہم محبت و احترام کے رشتوں میں در آنے کا موقع نہیں دیا۔ نفرت اور دشمنی کا تو دُور دُور تک کوئی وجود ہی نہ تھا ؎
ساز دل توڑ کے بھی، چھیڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا
غفور صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی سادگی، نفاست، انکسار، محبت اور شفقت تھا۔ تصنع کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی کے کسی پہلو میں مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ سلیقے اور نرمی سے بات کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ اختلاف میں شائستگی اور دوسرے کے موقف کا احترام ان کا طریقہ تھا۔ انھوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد سے بالا ہوکر اپنے اجتماعی تعلقات کو استوار کیا، اور ہرشخص کے ساتھ عزت اور مروت کا رویہ اختیار کیا جس نے ہردل میں خود ان کے لیے عزت و احترام کا چشمہ رواں کردیا۔
ملک کی سیاسی زندگی میں ان کا کردار بڑا نمایاں ہے۔ جمہوریت کے فروغ اور اسلام کی ترجمانی کا فریضہ انھوں نے بڑی حکمت، بے باکی اور بے غرضی سے انجام دیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جو کچھ بھی تھا اس کو سنبھالنے اور ایک نئی زندگی دینے کے لیے جو جدوجہد ۱۹۷۲ء کے بعد قومی اسمبلی میں اور اس کے باہر ہوئی، اس میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کا جو اثر تحریکِ اسلامی اور اس کے بہی خواہوں پر پڑا تھا، اس کا جس سمجھ داری اور جرأت سے انھوں نے مقابلہ کیا وہ ہماری تحریکی اور ملکی زندگی کا ایک تابناک باب ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کے بنانے میں ان کا اور اس وقت کی حزبِ اختلاف کے ارکان کا بڑا تاریخی کردار ہے۔ ۱۹۷۲ء ہی میں ایک پہلے سے بنائے ہوئے مسودۂ دستور کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر ایک قسم کی سول آمریت کا خطرہ ایک حقیقت بنتا نظر آرہا تھا،لیکن ایک چھوٹی سی اپوزیشن نے جس میں پروفیسر عبدالغفور احمد، مولانا ظفر احمد انصاری ، مولانا مفتی محمود ، خان عبدالولی خان ، جناب شیرباز مزاری، مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہم نے بڑی حکمت کے ساتھ اس مجوزہ دستور کو صرف ایک عبوری دستور کے طور پر تسلیم کرکے وقت کے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک دستوری کمیٹی بنا ئیں بلکہ نئے دستور کی تدوین کا کام کریں۔ اس میں جناب ذوالفقار علی بھٹو، جناب محمود علی قصوری اور جناب عبدالحفیظ پیرزادہ کا بھی اہم کردار رہا اور یہ معجزہ رُونما ہوا کہ ۱۹۷۳ء میں ایک متفقہ دستور بن سکا جس نے اب تک پاکستان کے سیاسی نظام کو ساری دراندازیوں اور سیاسی اور عسکری طالع آزمائیوں کی زوردستیوں کے باوجود جمہوریت کی پٹڑی پر قائم رکھا ہے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد کا اس پورے عمل میں ایک مرکزی کردار تھا۔
اسی طرح سیاسی اختلافات کے باوجود، سیاسی قوتوں کو منظم کرنے اور متعین مقاصد کے لیے اتحاد قائم کرنے اور ان کی بنیاد پر تحریک چلانے کے باب میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کاکردار منفرد تھا۔ دستور سازی اور پھر سیاسی تحریکات میں ان کے کردار کو دیکھ کر جناب الطاف گوہر اور جناب خالد اسحق جیسے افراد نے میرے اور دوسرے دسیوں افراد کے سامنے یہ راے ظاہر کی تھی کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت پروفیسر عبدالغفور صاحب جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو یہ ملک دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے، بلکہ الطاف گوہر نے تو ڈان کے اپنے ایک مضمون میں ان کو پاکستان کے لیے مطلوب وزیراعظم تک کی حیثیت سے پیش کیا۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی اور شدید اختلافات کے درمیان مشترکہ باتوں پر اتفاق راے پیدا کرنے کی صلاحیت کے دوست اور دشمن سب قائل تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہرحلقے میں ان کی عزت تھی۔ جماعت کے اندرونی معاملات میں بھی پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سیاسی اُمور میں زیادہ نمایاں تھا۔ مَیں ۱۹۵۷ء میں مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوا۔ اس وقت تک مرکزی شوریٰ کی قراردادیں خود مولانا مودودی ہی مرتب فرماتے تھے۔ اس کے بعد محترم نعیم صدیقی، محترم صدیق الحسن گیلانی، محترم اسعد گیلانی اور مجھے اس عمل میں شریک کیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار بڑھتا گیا اور گذشتہ ۳۰برسوں میں سیاسی قراردادوں پر ان کی چھاپ واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ سیاسی قرارداد شوریٰ کی سب سے اہم قرارداد ہوتی ہے اور اس کو شوریٰ کی پوری بحث کو سامنے رکھ کر مرتب کیا جاتا ہے۔ ارکانِ شوریٰ کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے لیکن جس کمیٹی نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے اس نے پروفیسر عبدالغفور احمد کی سربراہی میں کام کیا ہے۔ محترم چودھری رحمت الٰہی اور مجھے اس کمیٹی میں کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔ایک مدت تک اولین مسودہ پروفیسر عبدالغفور صاحب ہی تیار کیا کرتے تھے۔ پھر باقی کمیٹی کے ارکان اپنا حصہ شامل کرتے تھے۔ اس کے بعد امیرجماعت قرارداد کو دیکھتے تھے اور آخیر میں شوریٰ میں ارکان کے مشوروں سے کمی یا اضافہ کیا جاتا تھا۔ گو، یہ ایک اجتماعی عمل تھا لیکن اس میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کا کردار بہت ہی اہم تھا اور ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب جماعت اسلامی کے ان چند لوگوں میں سے تھے جن کو مولانا مودودیؒ سے براہِ راست استفادے کا موقع ملا، اور پھر جن کو محترم میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کی خدمات ۶۲سال کی طویل مدت پر پھیلی ہوئی ہیں جن کا احاطہ ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ ان کی قبر کو جنت کا گوشہ بنادے، انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے مقام کو بلند تر فرمائے اور جو خلا ان کے رخصت ہوجانے سے ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے، انسان سب فانی ہیں لیکن یہ دین، اسلامی تحریک، اور خیراور فلاح کی جدوجہد وہ سلسلہ ہے جسے قیامت تک جاری رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دعوت اور اس پیغام کو مضبوط اور مؤثر بنائے تاکہ ظلمتیں چھٹیں اور نورِ حق غالب ہوکر رہے۔ آمین!
میں اکتوبر کے مہینے میں لسٹر، انگلستان میں زیرعلاج تھا کہ ۳۱؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو یہ غم ناک اطلاع ملی کہ ہماری محترم بہن اور دورِحاضر میں اسلام کی بے باک ترجمان محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا ہے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ ان کی نصف صدی سے زیادہ پر پھیلی ہوئی دینی، علمی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کواپنے جوارِرحمت میں اعلیٰ مقامات سے نوازے۔
محترمہ مریم جمیلہ سے میرا تعارف وائس آف اسلام کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کے امریکا کے قیام کے دوران ہی ہوچکا تھا اور ہم ان کے مضامین شائع کر رہے تھے۔ پھر جون ۱۹۶۲ء میں پاکستان آمد کے موقع پر جن تین افراد نے کیماڑی کی بندرگاہ پر ان کا استقبال کیا، ان میں مَیں بھی شامل تھا۔ میرے ساتھ محترم چودھری غلام محمد صاحب اور برادر غلام حسین عباسی ایڈووکیٹ بھی تھے۔ ہم محترم مولانا مودودی کی ہدایت کے مطابق ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے مامور تھے اور کراچی میں ان کے قیام اور پروگرام کے ذمہ دار تھے۔ انھوں نے نیویارک سے پاکستان کی ہجرت کا یہ سفر ایک مال بردار جہاز (cargo ship) میں طے کیا تھا اور غالباً کسٹم اور امیگریشن کی وجہ سے پہلے دن انھیں اترنے نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں انھیں ایک رات مزید جہاز پر ہی گزارنا پڑی۔ اگلے دن ہم انھیں گھر لے آئے۔ ان کے قیام کا انتظام برادرم غلام حسین عباسی کے بنگلے پر کیا گیا تھا اور اسی رات کا کھانا میرے گھر پر تھا۔ پھر مرحوم ابراہیم باوانی صاحب اور عباسی صاحب کے گھر پر کئی محفلیں ہوئیں۔ اس طرح ان سے وہ ربط جو علمی تعاون کے ذریعے قائم ہوا تھا، اب ذاتی واقفیت اور بالمشافہ تبادلۂ خیال اور ربط اور ملاقات کے دائرے میں داخل ہوگیا۔
کراچی میں ان کا قیام مختصر رہا اور وہ چند ہی دن میں لاہور منتقل ہوگئیں۔ جب تک وہ مولانا محترم کے گھر میں مقیم رہیں، لاہور کے ہرسفر کے دوران ان سے بات چیت ہوتی رہی۔ پھر عملاً ملاقات کا سلسلہ ٹوٹ گیا مگر علمی تعلق قائم رہا، اور ان کے انتقال سے چند ماہ قبل تک خط و کتابت کا سلسلہ رہا جس کا بڑا تعلق اسلامک فائونڈیشن لسٹر اور اس کے مجلے مسلم ورلڈ بک ریویو (MWBR) کے سلسلے میں ان کے قلمی تعاون سے رہا۔۵۰برس پر محیط ان تعلقات میں ذاتی سطح پر کبھی کوئی کشیدگی رُونما نہیں ہوئی۔ البتہ علمی امور پر ہمارے درمیان وسیع تر اتفاق راے کے ساتھ بڑا مفید اختلاف بھی رہا حتیٰ کہ اسلامک فائونڈیشن کے مجلے Encounter میں میرے ایک مضمون Man and Civilization in Islam پر انھوں نے ایک تنقیدی مقالہ لکھا جس کا مَیں نے اسی شمارے میں جواب بھی تحریر کیا۔ یہ سب بڑے دوستانہ ماحول میں ہوا اور الحمدللہ ہمارے باہمی اعتماد او ر تعاون کا رشتہ مضبوط اور خوش گوار رہا جو ہمارے پُرخلوص اور خالصتاً لِلّٰہ تعلق کی ایک روشن مثال ہے اور اُمت کے درمیان اختلاف کے رحمت ہونے کی نبوی بشارت کا ایک ادنیٰ مظہر ہے۔ ان کی آخری تحریر جو امریکا سے شائع ہونے والی ایک کتاب Children of Dust: A Portrait of a Muslim Youngman، از علی اعتراز (Ali Eteraz) پر ان کا تبصرہ ہے جو MWBR کے جنوری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہونے والا ہے اور جس کا آخری جملہ یہ ہے: "The semi - fiction of this story will certainly give the reader a negative picture of Pakistani youth today. (یہ نیم افسانوی کہانی یقینا قاری کو آج کی پاکستانی نوجوان نسل کی منفی تصویر دکھائے گی)۔
اسی طرح ان کے شوہر برادرم محترم محمد یوسف خان صاحب سے بھی میرا تعلق ۱۹۵۱ء سے ہے جب میں جمعیت میں تھا اور وہ جماعت کے سرگرم رکن تھے۔ الحمدللہ یہ رشتہ بھی بڑا مستحکم رہا اور اس طرح شوہر اور بیوی دونوں ہی سے میرا تعلق خاطر رہا۔ محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ میرے نام اپنے خطوط میں اپنے شوہر کا ذکر "My Khan Sahab" [میرے خان صاحب] سے کیا کرتی تھیں جو محبت اور مودّت کے جذبات کے ترجمان ہیں۔ ان خطوط میں ترجمان القرآن کے ’اشارات‘ کے بارے میں یوسف خان صاحب کے احساسات سے مجھے مطلع کرتی تھیں۔ یوسف خان صاحب کو ٹیلی فون پر تعزیتی جذبات پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ غم میں ایسے نڈھال تھے کہ بات نہ ہوسکی، البتہ ان کے صاحب زادے تک اپنے غم و اندوہ کے جذبات پہنچا دیے اور آج ان صفحات میں اس عظیم خاتون کے بارے میں اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کررہا ہوں۔
مریم جمیلہ جن کا ماں باپ کا دیا ہوا نام مارگریٹ مارکس تھا، نیویارک کے ایک سیکولر یہودی گھرانے میں ۲۳ مئی ۱۹۳۴ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے روچسٹر یونی ورسٹی میں ۱۹۵۱ء میں داخلہ لیا۔ علم و ادب اور میوزک اور تصویرکشی (painting)سے طبعی شغف تھا۔ فلسفہ اور مذہب بڑی کم عمری ہی سے ان کے دل چسپی کے موضوعات تھے، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ حق کی تلاش اور زندگی کی معنویت کی تفہیم ان کی فکری جستجو کا محور رہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اسلام سے ان کا اولین تعارف یونی ورسٹی کے کورس کے ایک ابتدائی مضمون Judaism in Islam کے ذریعے ہوا، جو ایک یہودی استاد ابراہم اسحق کاٹش پڑھاتا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ اسلام کو یہودیت کا چربہ ثابت کرے لیکن تعلیم و تدریس کے اس عمل میں موت اور زندگی بعد موت کے مسئلے پر مریم جمیلہ اس کے خیالات سے خصوصی طور پر متاثر ہوئیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں اس کا ذکر اس طرح کیا:
نومبر ۱۹۵۴ء کی ایک صبح، پروفیسر کاٹش نے اپنے لیکچر کے دوران ناقابلِ تردید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حضرت موسٰی ؑنے توحید کی جو تعلیمات دی ہیں اور جو الوہی قانون ان پر نازل ہوا ہے ناگزیر ہے۔ اگر اخلاقی قوانین خالصتاً انسان کے بنائے ہوئے ہوں، جیساکہ اخلاقی کلچر اور دیگر الحادی اور دہریت پر مبنی فلسفوں میں بیان کیا جاتا ہے، تو وہ محض ذاتی راے اور ذوق، متلون مزاجی ، سہولت اور ماحول کی بنا پر تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ مکمل انتشار ہوگا جس کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی زوال برپا ہوسکتا ہے۔ آخرت پر ایمان، جیساکہ ربی تلمود میں بیان کرتے ہیں، پروفیسر کاٹش نے دلائل دیتے ہوئے کہا، کہ محض ایک خوش گمانی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی تقاضا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف وہ لوگ جو پختگی سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو روزِ قیامت خدا کے حضور پیش ہونا ہے، اور زمین پر اپنی زندگی کے تمام اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی اور اس کے مطابق جزا و سزا کا سامنا کرنا ہوگا، صرف وہی اپنی ذات پر اتنا قابو رکھیں گے کہ اُخروی خوشنودی کے حصول کے لیے عارضی خوشیوں کو قربان اور مصائب کو برداشت کرسکیں۔
یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ جس طرح یہودی پروفیسر کے یہ الفاظ نوعمر مارگریٹ مارکس کے دل و دماغ پر مرتسم ہوگئے اور زندگی کا رُخ متعین کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا، اسی طرح مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جس پہلے مضمون نے ان کے قلب و نظر کو روشن کیا وہ ’زندگی بعد موت‘ کا میرا کیا ہوا ترجمہ تھا، جو جنوبی افریقہ کے مجلے Muslim Digest میں شائع ہوا تھا۔ مریم جمیلہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان چیزوں کو اچھی طرح سمجھا جائے جو ان کی زندگی کا رُخ متعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی اپنی بے تاب روح اور تلاشِ حق کی جستجو، اور حقیقت کی وہ تفہیم جو توحید اور آخرت کے تصور پر مبنی ہے، جس میں زندگی کو خانوں میں بانٹنے کی کوئی گنجایش نہیں اور جس کے نتیجے میں انسان ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو۔البقرہ ۲:۲۰۸)کا نمونہ اور زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کرنے میں زندگی کا لطف اور آخرت کی کامیابی تلاش کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو زندگی میں یکسوئی پیدا کرتی ہے۔ تبدیلی کے لیے انسان کو آمادہ ہی نہیں کرتی بلکہ مطلوب کو موجود بنانے ہی کو زندگی کا مشغلہ بنا دیتی ہے اور بڑی سے بڑی آزمایش میں اس کا سہارا بن جاتی ہے۔ مریم جمیلہ نے امریکا کی پُرآسایش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت، اور بڑی سادہ اور مشکلات سے بھرپور لیکن دل کو اطمینان اور روح کو شادمانی دینے والے راستے کو اختیار کیا اور پوری مستعدی، استقامت اور خوش دلی کے ساتھ سفر حیات کو طے کیا۔ یہ سب اسی ایمان، آخرت کی کامیابی کے شوق، اور انسانی زندگی کو اللہ کے حوالے تصور کرنے کے جذبے کا کرشمہ ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں بڑی کم عمری کے عالم میں مسلم دنیا کے علمی اُفق پر رُونما ہوئیں اور بہت جلد انھوں نے ایک معتبر مقام حاصل کرلیا۔ انھوں نے اسلام کے اس تصور کو جو قرآن و سنت کی اصل تعلیمات پر مبنی ہے اور جو زندگی کے ہرپہلو کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیروتشکیل کا داعی ہے، بڑے مدلل انداز میں پیش کیا اور وقت کے موضوعات اور اس دور کے فکری چیلنجوں کی روشنی میں کسی مداہنت کے بغیر اسلام کی دعوت کو پیش کیا ۔ اس باب میں ان کو یہ منفرد حیثیت حاصل تھی کہ وہ نہ صرف ایک مسلمان صاحب ِ علم خاتون اور داعیہ تھیں، بلکہ امریکی ہونے کے ناتے مغربی تہذیب سے پوری طرح آشنا تھیں اور ان کی حیثیت Insider یعنی شاہدُ مِنھم کی تھی۔
ان کو موضوع اور زبان دونوں پر قدرت حاصل تھی اور وہ اپنی بات بڑے جچے تلے انداز میں مسکت دلائل کے ساتھ بڑی جرأت سے پیش کرتی تھیں۔ ۳۰ سے زیادہ کتابوں کی مصنفہ تھیں اور ان کے علاوہ بیسیوں مضامین اور تبصرے ان کے قلم سے نکلے۔ سیدولی نصر نے دی اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف اسلامک ورلڈ میں ان پر اپنے مقالے میں بجا طور پر یہ لکھا ہے کہ اپنے پاکستان کے قیام کے دوران انھوں نے دورِجدید میں اسلام کے تحریکی تصور کی بڑی عمدگی کے ساتھ ترجمانی کی۔ خصوصیت سے اسلام اور مغربی تہذیب کے بنیادی فرق اور جداگانہ نقطہ ہاے نظر کو انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ موضوع بنایا اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے افکارونظریات کو متاثر کیا۔ ان کے الفاظ میں :
مریم جمیلہ نے ۱۹۶۲ء میں پاکستان کا سفر کیا اور لاہور میں مولانا مودودی کے گھرانے میں شامل ہوگئیں۔ جلد ہی انھوں نے جماعت اسلامی کے ایک رکن محمد یوسف خان سے بطور ان کی دوسری بیوی کے شادی کرلی۔ پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کے بعد انھوں نے اپنی پوری زندگی میں بہت سی مؤثر کتابیں لکھیں جن میں جماعت اسلامی کے نظریے کو ایک منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کو اسلام اور مغرب کے درمیان بحث سے خصوصی دل چسپی تھی جو مولانا مودودی کی فکر کا مرکزی تصور نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے۔ انھوں نے مغرب کے خلاف اسلامی استدلال کو مزید اُجاگر کیا اور عیسائیت، یہودیت، اور سیکولر مغربی فکر پر احیائی تنقید کو منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کی اہمیت ان کے مشاہدات کے زور میں نہیں ہے بلکہ اس اسلوبِ بیان میں ہے جس میں وہ اندرونی طور پر ایک مربوط مثالیے کو مغرب کے احیائی استرداد کے لیے پیش کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ان کے اثرات جماعت اسلامی کے دائرے سے بہت آگے تک جاتے ہیں۔پوری مسلم دنیا میں احیائی فکر کے ارتقا میں ان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ کی چند تعبیرات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور خود انھوں نے بھی اُن اہلِ علم سے کہیں کہیں اختلاف کیا ہے جن کے افکار و نظریات نے خود ان کے ذہن اور فکر کی تعمیر میں اہم حصہ لیا ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بحیثیت مجموعی ان کی ۵۰سالہ علمی کاوش ہماری فکری تاریخ کا ایک روشن باب ہے، اور خصویت سے مغربی تہذیب پر ان کی تنقید ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے قلم میں بڑی جان تھی اور انھوں نے ایمان اور یقین کے ساتھ دین کے پیغام کو پیش کیا اور تمام انسانوں کو کفر، الحاد، بے یقینی، اخلاقی بے راہ روی اور سماجی انتشار اور ظلم و طغیان کی تباہ کاریوں سے بچانے کے گہرے جذبۂ خیرخواہی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا جو کارِرسالت کا طرئہ امتیاز ہے۔ قرآن نے رجال کے بارے میں جو شہادت دی ہے وہ نساء کے باب میں بھی اتنی ہی سچی ہے کہ :
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)، ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کے دو پہلو ہیں جن کو سمجھنا مفید ہوگا۔ ایک ان کی علمی شخصیت ہے جس میں بلاشبہہ انھوں نے اپنی مسلسل محنت اور سلاست فکر کے باعث ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ انھوں نے مغربی فکروتہذیب پر بڑے علمی انداز میں محاکمہ کیا اور اس کے طلسم کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فلسفہ، مذہبیات اور عمرانیات کے اہم ترین موضوعات کے ساتھ انفرادی زندگی اور اجتماعی معاملات میں اسلام کی رہنمائی کو بڑے صاف الفاظ میں بیان کیا اور فکرِاسلامی کی ترویج و تبلیغ کے باب میں اہم خدمات انجام دیں۔ اس کے ساتھ ان کی کوشش تھی کہ اسلام کے پیغام کو ہرانسان تک پہنچائیں، اور اسے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے راستے پر لانے کی کوشش کریں۔ اس طرح علمی اور فکری خدمات کے ساتھ ان کا دامن دعوتی اور تبلیغی مساعی سے بھی بھرا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا شاہکار وہ خط ہے جو انھوں نے اپنے والدین کو لکھا اور جس کا ایک ایک لفظ صداقت پر مبنی، دعوتِ حق کی تڑپ کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ان کی شخصیت اور مقصدحیات کو سمجھنے کے لیے یہ خط بہترین کلید ہے۔ اس کا بڑا خوب صورت ترجمہ کرنل (ریٹائرڈ) اشفاق حسین نے مریم جمیلہ کے خطوط پر مبنی ایک طرح کی خودونوشت کے ترجمے امریکا سے ہجرت میں کیا ہے اور اس سے چند اقتباس ایک آئینہ ہے جن میں مریم جمیلہ کے فکروفن اور جذبے اور اخلاص کی حقیقی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔
مریم جمیلہ لکھتی ہیں:’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ معاشرہ جس میں آپ کی پرورش ہوئی ہے اور جس میں آپ نے اپنی پوری زندگی گزار دی ہے، بڑی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور مکمل تباہی کے قریب ہے۔ درحقیقت ہماری تہذیب کا زوال بھی جنگ ِ عظیم کے وقت ہی ظاہر ہوناشروع ہوگیا تھا لیکن دانش وروں اور ماہرین عمرانیات کے سوا کسی کو احساس نہیں ہوا کہ کیا ہو رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اور خاص طور پر پچھلے دوعشروں میں یہ اتنی تیزی سے زوال کے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی شخص اسے مزید نظرانداز نہیں کرسکتا۔
’’زندگی کے معاملات اور رویوں میں کسی قابلِ احترام اور قابلِ قبول معیار کے نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی بے راہ روی،تفریحی ذرائع ابلاغ پر مبنی کج روی، بوڑھوں سے ناروا سلوک، طلاق کی روزافزوں شرح جو اتنی بڑھ چکی ہے کہ نئی نسل کے لیے پایدار اور خوش گوار ازدواجی زندگی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ غلط کاریاں، فطری ماحول کی تباہی، نایاب اور قیمتی وسائل کا بے محابا ضیاع، امراضِ خبیثہ اور ذہنی بیماریوں کی وبائیں، منشیات کی لت، شراب نوشی، خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان، جرائم، لُوٹ مار، حکومتی اداروں میں بے ایمانی اور قانون کا عدم احترام___ ان تمام خرابیوں کی ایک ہی وجہ ہے۔
’’اور وہ وجہ ہے لامذہبیت اور مادیت پر مبنی نظام کی ناکامی___، نیک ماورائی، اعلیٰ و ارفع مذہبی نظام سے دُوری اور اخلاقی قدروں کا ناپیدا ہونا___ اعمال کا دارومدار عقیدوں پر ہوتا ہے کیونکہ نیت ہی درست نہ ہو توعمل ہمیشہ ناکام ہوتا ہے.....
’’اگر زندگی ایک سفر ہے تو کیا یہ حماقت نہیں ہوگی کہ بندہ راستے میں آنے والی منزلوں پر آرام دہ ایام اور خوش گوار ٹھکانوں کی فکر تو کرے، لیکن سفر کے اختتام کے بارے میں کچھ نہ سوچے؟ آخر ہم کیوں پیدا ہوئے تھے؟ اس زندگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا مقصد ہے؟ آخر ہمیں مرنا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ موت کے بعد کیا معاملہ ہونا ہے؟
’’ابو! آپ نے ایک سے زائد بار مجھے بتایا ہے کہ آپ کسی روایتی مذہب کو اس لیے قبول نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ الہامی مذہب جدید سائنس سے متضاد چیز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے ہمیں ساری دنیا کے بارے میں بہت معلومات فراہم کی ہیں، ہمیں آرام و آسایشات اور سہولتیں فراہم کی ہیں، اس نے ہماری کارکردگی میں اضافہ کیا ہے اور ان بیماریوں کے علاج دریافت کیے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتی تھیں، لیکن سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتی اور نہیں بتا سکتی کہ زندگی اور موت کا کیا مطلب ہے۔ سائنس ہمیں ’کیا اور کیسے‘ کا جواب تو دیتی ہے لیکن ’کیوں‘ کے سوال کاکبھی کوئی جواب نہیں دیتی۔ کیا سائنس کبھی یہ بتا سکتی ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط؟ کیا نیکی ہے، کیا برائی؟ کیا خوب صورت ہے اور کیا بدصورت؟ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے لیے کس کو جواب دہ ہیں؟ مذہب ان سارے سوالوں کے جواب دیتا ہے۔
’’آج امریکا کئی لحاظ سے قدیم روم کے زوال و شکست کے آخری مرحلوں سے گزر رہا ہے۔ سوچ اور فکر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ لامذہبیت ہمارے معاشرتی نظام کی مستحکم بنیاد ثابت نہیں ہوسکی۔ وہ مضطرب ہوکر مختلف سمتوں میں اس بحران کا حل تلاش کر رہے ہیں لیکن انھیں ابھی تک نہیں پتا کہ یہ حل انھیں کہاں سے ملے گا۔ یہ تشویش چند ماہرین عمرانیات تک محدود نہیں ہے۔ قومی یک جہتی کی ٹوٹ پھوٹ کی بیماری براہِ راست آپ کو، مجھے اور ہم میں سے ہر ایک کو متاثر کررہی ہے.....
’’آج امریکی باشندے، جوان ہوں یا بوڑھے بڑی تندہی سے رہنمائی کی تلاش میں ہیں۔ تلخ تجربوں کے بعد انھیں پتا چلا ہے کہ زندگی کے کسی مقصد اور صراطِ مستقیم کی طرف قابلِ اعتماد رہنمائی کے بغیر شخصی آزادیاں اور وہ ساری سہولتیں جو امریکیوں کو حاصل ہیں، لایعنی اور اپنی ذات کی تباہی کے مترادف ہیں۔سیکولرازم اور مادیت امریکیوں کو ان کی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کسی طرح کی مثبت اور تعمیری، اخلاقی قدریں فراہم نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت اور صہیونیت کے ہاتھوں ناکامی کے بعد امریکا میں زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ نومسلم اسلام میں ایک پاکیزہ، صحت مند، صاف ستھری اور دیانت دار زندگی کا سراغ پاتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک موت سے ہرچیز ختم نہیں ہوجاتی بلکہ وہ اس کے بعد آخرت میں ہمیشہ رہنے والی نعمتوں، پایدار ذہنی سکون اور دائمی خوشیوں کی توقع رکھتے ہیں۔
’’قرآن مقدس اور رسولِ خدا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مستند احادیث میں پائی جانے والی یہ ہدایت و رہنمائی صدیوں سے مشرق کے دُورافتادہ علاقوں کی نسلوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ آج مغرب کو جو معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی مسائل درپیش ہیں، ان کا حل بھی ہدایت کے انھی سرچشموں میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں اسلام میں سردمہری، خالق سے دُوری یا خالق کی بے نیازی کے احساسات نہیں پائے جاتے۔ مسلمان ایک ایسے خدا پر یقین رکھتے ہیں جس میں اپنائیت ہے۔ جس نے نہ صرف اس کائنات کو پیدا کیا بلکہ وہ اس کے نظم و نسق کا بھی ذمہ دار ہے اور وہی اس کا حکمران ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کا بہت خیال رکھتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ ہم سب سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی قریب ہے.....
’’آپ دونوںکافی طویل عمر پاچکے ہیں اور بہت کم مہلت باقی رہ گئی ہے۔ اگر آپ فوراً عمل کریں تو زیادہ تاخیر نہیں ہوگی۔ اگر آپ کا فیصلہ مثبت ہو تو پاکستان میں اپنے پیارے لوگوں سے آپ کا نہ صرف خونی رشتہ ہوگا بلکہ ایمان کا رشتہ بھی قائم ہوجائے گا۔ آپ نہ صرف اس دنیا میں ان سے محبت کرسکیں گے بلکہ ہمیشہ رہنے والی زندگی میں بھی آپ ہمارے ساتھ ہوں گے.....
’’میں ایک بیٹی کی حیثیت سے، جسے آپ سے محبت ہے، آخروقت تک چاہوں گی کہ آپ اس بُرے نصیب سے بچ جائیں لیکن فیصلہ صرف آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کو مکمل اختیار ہے کہ آپ اس دعوت کو قبول کریں یا مسترد کردیں۔ آپ کے مستقبل کا انحصار اس انتخاب پر ہے جو آپ نے اب کرنا ہے۔
اپنی ساری محبتوں اور نیک خواہشات کے ساتھ۔
آپ کی وفادار بیٹی، مریم جمیلہ‘‘۔ (امریکا سے ہجرت، ص ۲۰-۲۵)
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کا دوسرا پہلو ان کی شخصی زندگی ہے جو خود ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب انھوں نے اسلام کی حقانیت کو پالیا اور اپنے آپ کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم کرلیا تو پھر انھوں نے اپنے کو خود اپنوں کے درمیان اجنبی محسوس کیا۔ امریکا میں وہ اپنے کو انمل بے جوڑ محسوس کرنے لگیں اور مسلمان سوسائٹی اور اسلامی زندگی کی تلاش میں انھوں نے پاکستان ہجرت اسی جذبے سے کی جس جذبے سے مکہ کے مسلمانوں نے مدینہ کے لیے ہجرت کی تھی اور پھر مدینہ ہی کے ہوکر رہ گئے تھے۔ گو ان کی تمام توقعات پوری نہیں ہوئیں لیکن انھوں نے پاکستان کو اپنا گھر بنالیااور مڑ کر امریکا جانے کے بارے میں کبھی ایک بار بھی نہ سوچا، بلکہ برادرم یوسف خان صاحب نے ان کو بار بار مشورہ دیا مگر انھوں نے اس طرف ذرا بھی رغبت ظاہر نہ کی۔ امریکا میں ان کے رہن سہن کا معیار امریکی معیار سے بھی اوسط سے کچھ بہتر ہی تھا لیکن پاکستان میں جس عسرت اور سادگی سے انھوں نے زندگی گزاری اور صبروثبات کا جو مظاہرہ کیا وہ قرونِ اولیٰ کے لوگوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایک شادی شدہ شخص سے بخوشی رشتۂ ازدواج استوار کیا، اپنی ’سوکن‘ کے ساتھ اس طرح مل جل کر رہیں کہ یک جان اور دو قالب کا نمونہ پیش کیا۔ دونوں کے غالباً چودہ پندرہ بچے بھی ایک دوسرے سے شیروشکر رہے اور سب ہی بچے بڑی ماں (محترمہ شفیقہ صاحبہ) کو اماں اور چھوٹی ماں (محترمہ مریم جمیلہ) کو آپا کہتے تھے اور مریم جمیلہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر بھی محترمہ شفیقہ صاحبہ، جن کا انتقال چند برس ہی قبل ہوا تھا، کی قبر کے پاس ہو۔ مادہ پرستی اور نام و نمود کی فراوانی کے اس دور میں درویشی اور اسلامی صلۂ رحمی کی ایسی مثال اسلام ہی کا ایک معجزہ ہے، جس کی نظیر آج کے دور میں بھی دیکھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی اس نیک بی بی کے طفیل ہم سب کو حاصل ہوئی ع
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
۳؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی شام نماز عصرسے پہلے بڑی دل خراش اطلاع ملی کہ ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری انتقال فرماگئے،انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، حسنات کو شرف قبولیت بخشے،جنت الفردوس عطا فرمائے،اور پسماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے۔آمین!
موصوف طویل قیام کے بعد ۱۸؍ستمبر کو امریکا سے علی گڑھ واپس آگئے تھے۔ طبیعت ٹھیک ہی تھی البتہ پیروں میں درد کی شکایت تھی۔ ۳؍اکتوبر کو نماز ظہر ادا کی، دوپہر کے کھانے سے فراغت کے بعد سینے میں درد کی شکایت کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے درد نے شدت اختیار کرلی اور موصوف پلنگ پر لیٹے لمبی سانسیں لینے لگے۔ دواخانے لے جارہے تھے کہ راستے ہی میں روح پرواز کرگئی۔ ۴؍اکتوبر کی صبح۳۰:۹بجے جامع مسجد، سرسید نگر ، میں محترم امیر جماعت مولانا سید جلال الدین عمری نے نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ اسی مسجد سے متصل شوکت منزل قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ جس میں ذمہ داران مرکز ، شہر کی بااثر شخصیا ت کے علاوہ اطراف کے مقامات سے رفقاے تحریک نے شرکت کی۔ ڈاکٹر عبد الحق انصاری ؒ کے انتقال سے تحریک اسلامی کی علمی و فکر ی ضروریات کو پورا کرنے والی ایک نہایت ہی معتبر شخصیت اب ہمارے درمیان نہیں رہی۔اللہ تعالیٰ اس کی تلافی فرمائے اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عنایت کرے۔آمین!
ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری ،۱۹۳۱ء کو تمکوہی ، مشرقی یوپی میں پیدا ہوئے۔موصوف علیم الدین انصاری مرحوم کے بڑے صاحب زادے تھے۔ان کے علاوہ پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹرصاحب ؒ کے دو بھائیوں اور ایک بہن کا انتقال ہوا ہے۔دو بھائی امریکا میں رہتے ہیں۔ ایک بھائی ان کے آبائی وطن میں ہیںاور ہمشیرہ کلکتہ میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر صاحب ؒ کی اہلیہ محترمہ رابعہ ہیں۔اور چار بیٹیاں عذرا، زہرہ، سلمی، شیما، اور ایک بیٹاخالد ہے۔
ڈاکٹر صاحبؒ کی ابتدائی تعلیم گائوں کے مدرسہ میں ہوئی۔ ۱۹۴۹ء میں اسلامیہ کالج سے انٹر کیا۔اسی دوران تحریک اسلامی سے متعارف ہوئے۔پھر ندوۃ العلما سے عا لمیت کا کورس کیا۔ مرکز کی جانب سے رام پور میں قائم درس گاہ اسلامی میں تین سال(۵۳-۱۹۵۱)تعلیم کے حصول میں صرف کیے۔آپ کے اساتذہ میں مولانا صدرالدین اصلاحیؒ ، مولانا عبد السمیع قدوائی ؒ، مولانا عبد الغفار ندویؒ ، مولانا اختر احسن اصلاحی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔۱۹۵۷ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا اور ۱۹۵۹ء میں فلسفے میں ایم اے۔ ابن مسکویہ کے فلسفہ اخلاق (Ethical Philosophy of Mishkawi) پر ڈاکٹریٹ کی ڈگر ی حاصل کی۔فراغت کے بعد شانتی نکیتن یونی ورسٹی، مغربی بنگال میں لیکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی دوران مشہور مستشرق ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ سے ملاقات ہوئی اور ان کی دعوت پر ۱۹۷۲ء میں آپ نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے ’ماسٹرز ان تھیالوجی‘ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی تدریسی خدمات ملک اور بیرون ملک میں رہی ہیں۔ سعودی عرب اور سوڈان قابل ذکر ہیں۔ اس دوران آپ نے کئی زبانوں کو ضرورت کے لحاظ سے سیکھا، جرمن ، فرنچ، سنسکرت،یونانی اور عبرانی۔ عربی، انگریزی اور ہندی زبانوںمیں تو آپ کو دست رس حاصل تھی۔
موصوفؒ اپنے طالب علمی ہی کے زمانے سے جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، اور اپنے تعلیمی ارتقا کی طرح تحریکی سرگرمیو ں کو بھی اسی نہج پر جاری رکھا۔ مغربی بنگال کے اس وقت کے امیر حلقہ جناب عبد الفتاح ؒ سے بڑا خصوصی لگائو تھا۔ انھی کی ہدایت کے مطابق مختلف سرگرمیاں انجام دیتے۔ قریبی حلقوں ، بہا ر اور یوپی کے بھی مختلف اجتماعات میں شرکت ہوتی۔
ڈاکٹر عبد الحق ؒ اصلاً ایک محقق تھے جنھوں نے صرف نری تحقیق پر انحصار نہیں کیا کہ کسی موضوع کی تہہ تک جاکر اس کی گتھیاں سلجھانے کی حد تک اپنے کام کو محدود رکھتے، بلکہ اپنی تحقیق کو مقصدیت سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی،اور یہی آپ کے علمی کارناموں کا طرہ ٔ امتیاز ہے۔اصل میں کسی فرد کے کارناموں کو ایک صحت مند نظریہ ہی تاریخی بناسکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اور مولانامودودیؒ کے کارناموں کی آفاقیت کی وجہ ان کا صاف و شفاف نظریہ ہی تو ہے۔ اس لیے بجاطور پر ڈاکٹر عبدالحق ؒ کو ایک نظریہ شناس محقق کہا جاسکتا ہے جن کے علمی وتحقیقی کارنامے ،ان شاء اللہ تحریک اسلامی کی علمی ضروریات کی تکمیل کرتے رہیں گے۔اس امر کی مزید صراحت مرحوم کی تصانیف کے جائزے سے ہوتی ہے۔
ایک ایسا ماحول جہاں زندگی کا مقصد واضح نہیں، اور اگر ہے بھی تو افراط وتفریط کا شکار، اس تناظر میں ’مقصد زندگی کا اسلامی تصور‘ کو موصوفؒ نے بڑے ہی توازن کے ساتھ بیان کیا ہے، جس کو پڑھنے کے بعد کسی قسم کی الجھن باقی نہیں رہتی۔تصوف میں غلو اور روحانیت کے غیرمتوازن تصورات کے برعکس بڑے پُرزور انداز سے تصوف کے ان قابل تقلید پہلوئوں کو اُبھارا جو فی الواقع روحانی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ تصوف اور شریعت اس لحاظ سے ان کی ایک معرکہ آرا تصنیف قرار دی جاسکتی ہے جس میں بڑے ہی مدلل انداز سے اسلام مخالف پہلوئوں کی وضاحت بھی ہے اور بڑی صراحت کے ساتھ اچھے پہلوئوں کو ابھارابھی گیا ہے۔ملت اسلامیہ اور بالخصوص جماعت اسلامی کے حلقوں میں جو روایتی انداز سے مصلحین امت کے سلسلے میں راے قائم ہے، اور ان سے عقیدت و محبت کا جو تعلق ہے، اس تناظر میں مجددین امت کا مختلف پہلوئوں سے تعارف کرایا۔ امام ابن تیمیہ ؒ ،امام غزالی، ؒمجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ وغیرھم سے متعلق انھوں نے بڑے ہی واضح انداز سے ان امور و مسائل کو بیان کیا ہے جس سے ملت میں ان حضرات سے معنوی استفادے کا ایک فطری جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ مجدیدین اُمت اور تصوف
اس موضوع پر ایک اہم اضافہ مانا جاسکتا ہے۔ آگے چل کر آپ نے مجددین کی فہرست میں مولانا مودودیؒ کو بھی شامل کرلیا، اور افادات مودودیؒ اس ضمن میں ایک بامعنی تصنیف ہے۔ آپؒ کے نزدیک قریبی دور میں چار اہم مجددین قرار پائے۔امام ابن تیمیہؒ، امام غزالیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور مولانا مودودیؒ ۔نوجوانوں کی تربیت کے لیے ان چاروں مجددین کاتفصیلی مطالعہ کرایا ۔ اس تاکید کے ساتھ کہ ان کے افکار و خیالات کا مطالعہ، احیاے اسلام کے لیے کیا جانا چاہیے ۔ کسی شخص کے افکار کو قطعی نہ سمجھنا چاہیے، جہا ں کھٹک محسوس ہو،وہاں ٹھیر کر غور وفکر کرنااور صحت مند تبادلۂ خیال کا ایک ماحول بنانا چاہیے۔ ہندستا ن جیسے تکثیری سماج میں قومی یک جہتی کا کیا مفہوم اور تقاضے ہیں، ان کی کتاب قومی یک جہتی اور اسلام، بخوبی واضح کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ؒ کا امام ابن تیمیہ ؒکا انتخاب بڑا بامعنی محسوس ہوتا ہے،جن کے معاشرت و سیاست سے متعلق افکار و خیالات سے استفادے کے لیے آپ نے قابل قدر کوشش کی ہے۔
تزکیۂ نفس سے متعلق بنیادوں کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر صاحب ؒ نے انسان کے حقیقی تصور پر زور دیا ہے کہ وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ امام ابن تیمیہؒ کے حوالے سے فرماتے کہ علم اور خیروشر کی تمیزسے انسان خلیفہ بنتا ہے۔ اس ضمن میں دوسرا اہم پہلو قرآنی اصولوں کی وضاحت تھاجس کے تحت وہ سورئہ حدید کی آیت ۱۰ کا ذکر فرماتے۔اور تیسرا اہم پہلورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ تزکیہ سے متعلق تھا۔ آپ کے علمی کارناموں میںفارابیؒ، ابن تیمیہ ؒ ،ابن مسکویہؒ اور طحاویؒ پر کام قابلِ قدر ہے۔ آپ کی انگریزی تصانیف میں بڑی گہرائی و گیرائی محسوس ہوتی ہے بہ نسبت اردو زبان میں لکھی گئی کتابوں کے۔ آپ کے مختلف مقالہ جات ملک کی نام وَر یونی ورسٹیوں کے علاوہ امریکا اور لندن کے معروف اداروں سے بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔پنجاب یونی ورسٹی کے ربع صدی کے تقریب کے موقع پر جو خصوصی مجلہ شائع ہوا اس میں ڈاکٹر صاحب ؒ کا مضمون Mysticism and Islamکو بڑا نمایاں مقام حاصل ہوا جس کو بعد میںمزید اضافے کے ساتھ شائع کیا گیا۔
آپ کی شخصیت میں روحانی پہلوبڑا نمایاں محسوس ہوتا تھا۔ علم اور عمل کا ایک حسین امتزاج تھے، اور یہی تاثر مرحوم کے دیرینہ رفقا کا بھی ہے۔علم و عمل کے اس تال میل کا بعض معاملات میں ہم نے بھی مشاہدہ کیا ہے۔ جیسے اللہ سے گہرا تعلق ،جو مختلف اوقات میں ظاہر ہوتا تھا۔ راہِ خدا میں سرگرمی کا ذکر ہوتو خدا کی مدد کا دل نشین انداز سے ذکر فرماتے۔ علم و فہم کے لیے فضل ربانی کا بڑی اہمیت سے ذکر فرماتے۔فرائض کی ادایگی کے بعد بڑی دیر تک اپنی جگہ بیٹھے تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے۔
کسی اجتماع میں ڈاکٹر صاحبؒ کی آنکھوںمیں کم ہی آنسو آتے تھے ،لیکن جہاں تعلق باللہ سے متعلق کوئی واقعہ ہو تو آنکھیں فوری نم ہوجاتیں۔دوران تعلیم حضرت ابراہیم ؑکے آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ ذکر کرتے تو آپ پررقت طاری ہوجاتی ،خصوصاً اس وقت جب یہ ذکر ہوتا کہ حضرت ابراہیم ؑ آگ میں ہیں اور فرشتہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی تلقین کرتا ہے، تو آپؑ فرماتے ہیں کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح غار ثور میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کہنا لاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا،آپ کے اوپر اسی طرح کی کیفیت طاری کرتا۔آپ کے علمی سفر کو دیکھ کر بجا طور پر کہاجا سکتا ہے کہ اس کے مطابق عمل ہی نے آپ کو ایک بلند مرتبہ عنایت فرمایا ہے۔ علمی و فکری ارتقا کے لیے لازم علم و عمل کا حسین امتزاج کیا ہی خوب راز ہے،جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واضح فرماتے ہیں: اَلْعِلْمُ اِمَامُ الْعَمَلِ وَاْلعَمَلُ تَاِبعُہٗ،علم ، عمل کا امام ہے اور عمل اس کا تابع۔
فوکس، علم کے حصول کے لیے یہ آپ کا ہم سب سے بڑا خاص مطالبہ تھا۔ اس کے لیے موصوف کبھی کبھی سنجیدگی کے الفاظ بھی کہا کرتے۔ صرف پڑھا ئی پر دھیان دینے کی تاکید کرتے۔اگر کسی وجہ سے ٹیسٹ میں نمبر کم آتے تو فوری اپنے چیمبر میں طلب کرتے اور خوب ڈانٹتے۔ پھر وہی یکسوئی کی تلقین فرماتے۔ ادھر ادھر گھومنے کی اجازت بالکل نہیں تھی۔ اور کہتے کہ ہم تمھیں تحریک کے لیے ہی تیار کررہے ہیں ،کورس بڑا بھاری ہے، اس لیے ہر دن کو اہم سمجھو،پڑھائی پر دھیان دو۔ ہم تمام طلبہ کی خواہش تھی کہ پٹنہ میںمنعقد ہونے والی اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (ISO) کی پہلی نارتھ انڈیاکانفرنس (نومبر۱۹۹۶ئ)میں شریک ہوں لیکن موصوف نے منع فرمایا اور کہا کہ یہ وقت اپنے آپ کو تحریک کے لیے تیار کرنے کا ہے۔فلاں فلاں مضامین باقی ہیں اور فلاں مقام سے فلاں صاحب پڑھانے آرہے ہیں۔پڑھائی پر توجہ دو۔
کُل ہند تربیتی اجتماع منعقدہ چینئی (۲تا ۴جنوری۲۰۱۲ئ)میں منتظمین نے ہمارے قیام کا انتظام استاد محترمؒ کے ساتھ فرمایاتھا۔ یہ قیام موصوف سے تفصیلی استفادے کا آخری موقع تھا۔ اس وقت ڈاکٹرصاحب ؒکی طبیعت ناساز تھی۔ کمرے میں زیادہ تر خاموش ہی رہا کرتے تھے۔ پیروں میں شدید درد رہتا،پائوں دبانے کی خواہش ظاہر کی تو منع کرتے۔ اس دوران ویلفیئر پارٹی کے قیام، وابستگان جماعت کی تربیت، علمی وفکری برتری کے لیے ترجیحات کا تعین، اسلام کو ایک متبادل کی حیثیت سے پیش کرنے کے طریقوں پر گفتگو کا موقع ملتا رہا۔ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ان ثقیل موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کا موقع نہ مل سکا، البتہ جو بھی آپ سے سنا اس سے بڑی حد تک اطمینان ہوا۔اس موقع پر موصوف ؒ نے قرآن اور احادیث رسولؐ پر ہمارا جو کام ہوا ہے اس سے متعلق استفسار کیا، مسودہ دیکھ کر انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا اور دعا دی۔ ان کا ایک خاص وصف نوجوان کی تربیت اور ان کی پیش رفت دیکھ کر انتہائی خوشی کا اظہار کرناتھا۔ یہ موضوع انھیں اتنا عزیز تھا کہ اس کا ذکر جب ایس آئی او کے اجتماعات میں کرتے توآپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔استادمحترم ؒکی نصیحتوں میں تین باتیں بڑی تکرار سے بیان ہوتی تھیں۔ انھی باتوں کو آپ نے بحیثیت امیر جماعت ،تمام ہی وابستگان کے لیے مختلف اوقات میں بیان فرمایا : ۱- تعلق باللہ ۲-علمی وفکری برتری ۳- اخلاقی برتری۔
ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی ؒکے بعد ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری ؒکا انتقال ، تحریک اسلامی کی علمی و فکری برتری کے لیے مطلوب افراد کی شدید قلت کا تقاضا کر رہا ہے۔ہمارے سابقین نے اپنے میدان میں مہارت حاصل کرتے ہوئے دین اسلام کی جس باوقار انداز سے ،ملک اور بیرونِ ملک نمایندگی فرمائی، وہی اب تحریک اسلامی کی تیسری نسل کا طرہ ٔ امتیاز ہونا چاہیے۔بلاشبہہ تحریک اسلامی اپنے افکار کی گہرائی، اپنی حکمت عملی کی بالیدگی کے ذریعے جس تیزی سے وسعت اختیارکرتی جارہی ہے، ’جیالوں‘ کی ضرورت کا احساس کراتی ہے۔ ایسے لوگ جن کے لیے تحریک ایک جنون بن جائے۔ جن کے لیے تحریک سے وابستگی رات اوردن ان تھک جدوجہد کے ہم معنی ہوجائے ۔ نصب العین کے واضح شعور سے سرشار اپنے مستقبل سے بڑھ کرتحریک کے مستقبل کی فکر کرنے والے ہوجائیں ۔ا ستاد محترم ؒ کی رحلت سے یہی سبق ملاکہ تحریک اسلامی سے والہانہ شغف ہو اور اپنی تمام تر صلاحیتوں سے اسے تقویت پہنچانے کی ہر دم فکر و کوشش۔آج تحریک اسلامی جن حالات میں اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہے اس کے لیے فضل الرحمن فریدی ؒ اور عبد الحق انصاری ؒ جیسے اپنے میدان کے ماہرین کی ضرورت ہے۔دونوں کی رحلت کے بعد تحریک میں اس بات پر سنجیدگی سے غوروفکر ہونا چاہیے کہ کس طرح مختلف سطحوں پر افراد کی تربیت کا نظم ہوسکتا ہے۔ اس کے بغیر تحریک کا اپنے مقصد کے حصول میں محسوس پیش رفت کرنا ممکن نہیں۔
مرزا شوق نے کتنی سچی بات کہی ہے ؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ جو دنیا میں آیا وہ جانے ہی کے لیے آیا،کسی کو ا س سے مفر نہیں۔ سابق امیر ضلع راولپنڈی، سابق ایم این اے، سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ راجا محمد ظہیر خان بھی اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو وفا کرگئے۔ ۲؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو وہ اپنے رب کے حضور پہنچ گئے، انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
جماعت اسلامی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کش مکش ان کا طرۂ امتیاز ۔ان کی ساری زندگی دعوت کے ابلاغ میں گزری۔ دعوتی خطوط کا خاص اہتمام کرتے ۔ دعوتی کام کو جماعتی زندگی کی جان قرار دیتے۔ دعوت اور تربیت پر خصوصی توجہ دیتے۔ ایک مردِدرویش، جس کا ظاہر و باطن ایک تھا، جو خوش گفتار ، خوش پوشاک اور خوش خوراک تھا۔ دعوتِ دین کے لیے ہمہ وقت مصروفِ کار اور سرگرم رہنے والا جفاکش آدمی تھا۔ اﷲ نے ان کو بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے نواز اتھااور انھوںنے اپنی ان خوبیوں کو اﷲ کے دین کی اقامت کے لیے خوب استعمال کیا۔ وہ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ،پاک دل و پاک باز انسان تھے۔ حقیقت میں وہ بے چین روح تھے۔ ان کی شخصیت بے پناہ خوبیوں کا مرقع تھی، جن کو وہ اقامت دین کے لیے استعمال میں لاتے۔ ان کے مقاصد جلیل اور ادا دلفریب تھی۔ اقبا ل کے کتنے ہی اشعار ان پر راست آتے ہیں۔ جماعت میں آنے سے پہلے بلدیہ میں ملازم رہے۔ سینما دیکھنے کے شوقین تھے، مگر جب جماعت کا لٹریچر پڑھا اور جماعت میں آگئے تو سینما کا منہ نہیں دیکھا۔ کبھی کبھی کہتے تھے کہ ایک سینما دیکھنے والا، آج امیر ضلع ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس طرح کایا پلٹ ہوگی اور زندگی کا رنگ ڈھنگ بدل جائے گا۔ یہ خدا کی دین ہے جسے دے۔
انھوں نے اقامت دین کے اس راستے کی طرف قدم بڑھائے تو پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ۔ مشکلات برداشت کیں ، لاٹھیاں کھائیں ، جیل گئے ، مگر جواس راستے پر چلنے کا عزم ایک مرتبہ کیا تو پھر پر تمام عمر ثابت قدمی ، اُولو العزمی اور استقامت کے ساتھ اس راستے پر چلتے رہے۔ ’’وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے‘‘ ان کا خاص وصف قرار پایا۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں ’مرجع خلائق‘ تھے، خلق خدا کی خدمت کرنے والے اور ان کے حقوق کے لیے لڑ جانے والے، مجلسی انسان تھے۔ لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے ،گپ شپ کرتے اور انھیں اپنا بنالیتے۔ تحریکی گپ شپ ان کا خصوصی وصف تھا جس سے دل سوزی و رعنائی کا اظہار ہوتا۔ سید مودودیؒ کے ساتھ بھی ان کاقریبی تعلق اور خصوصی رابطہ رہا۔ گوجر خاں سے ملاقات اور عصری مجالس میں شرکت کے لیے خاص طور پر لاہور آتے، اور سید سے براہ راست کسب فیض کرتے۔
راجا محمد ظہیر خان ۱۹۷۳ء میںجماعت کے رکن بنے۔ ۱۹۸۳ء میں پہلی مرتبہ امیر ضلع اور ۸۸میںپہلی مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے۔امیر ضلع بنے تو راولپنڈی کا قریہ قریہ اور گائوں گائوں چھان مارا۔ گوجر خان کے گردو نواح میں پیدل، سائیکل اور گاڑی کے ذریعے ہر جگہ پہنچے۔ رات کو کہیں جگہ مل جاتی فبہا ورنہ مسجد میں قیام کرتے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ دو تین ساتھی مل کر صبح سویرے گائوں سے نکل جاتے۔ کھیتوں، دکانوں، بازاروں اور گھروں میں ملاقاتیں کرتے ۔ لٹریچر ان کے ساتھ ہوتا جسے تقسیم کرتے جاتے۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس دوران اس قافلہ میں نئے ساتھی شامل ہوجاتے اور پرانے ساتھی واپس لوٹتے جاتے مگر راجا صاحب ہر قافلے اور وفد کے ساتھ ہوتے بلکہ اس کی جان ہوتے ۔ دعوتی ملاقاتوں کے دوران رابطے میں آنے والوں کو دعوتی خطوط لکھتے، ذاتی رابطہ رکھتے ۔ دعوتی ملاقاتوں کے دوران معاشرے کے چیدہ چیدہ اور مضبوط لوگ تلاش کرتے۔ نوجوان ان کا خاص ہدف ہوتے۔ محبت کا اظہار کرتے اور نوجوان ان کے ساتھ وابستہ ہوتے چلے جاتے۔ وہ ان کے ساتھ روابط رکھتے ان کو جماعت کی رکنیت کے مراحل طے کراتے۔ رکن بننے والوں سے خو د آخری ملاقات کرتے ۔ اسی طرح کارکنان کے ذاتی مسائل ہوں یا خاندان کے دل چسپی لیتے،جماعتی مسائل کے ساتھ گھریلو اور ذاتی مسائل تک سے واقفیت حاصل کرتے، رہنمائی کرتے اور اس دوران گھر کے جن افراد سے رابطہ ہوتا ان کو بھی مسلسل اپنے رابطے میں رکھتے۔ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ترغیب اورحوصلہ دلاتے۔ جو ان کو ایک مرتبہ مل لیتا انھی کا ہوجاتا۔ مکمل توجہ اور انہماک سے ان کی بات سنتے ۔ بچے اور بوڑھے اور جوان یکساں ان سے متاثرے ہوتے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا تعلق محسوس کرتے ۔ دل کی بات کرتے۔
انھوں نے اپنے دور امارت تحصیل گوجر خان کے زمانے میں اسلامی بستیاں بسانے اور قرآن و سنت کے مطابق بستیوں کا ماحول بنانے پر کام کا آغاز کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بستیوں کے رہنے والے اپنے ماحول کو اﷲ کے دین کے رنگ میں رنگیں ۔ اپنے ذاتی اور اجتماعی فیصلے قرآن و سنت کی روشنی میں کریں۔ زمین کے تنازعات ہوں یا عزیز واقارب اور رشتہ داروں کے گھر ، گلی ، محلہ یا عدالت و تھانہ کے، ان کی کوشش تھی کہ یہ سارے مسائل ان اسلامی بستیوں میں جرگے کے ذریعے اسلامی شریعت کے مطابق حل ہوں اور اس کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔
وہ ضلع راولپنڈی کے۱۰سال تک امیررہے۔ اس زمانے میں انھوں نے ضلع بھر میں دعوت کے کام کو خو ب پھیلایا۔ ان کے نزدیک سید مودودیؒکے لٹریچر کی تقسیم دعوت کا بہترین اور عمدہ ذریعہ تھا۔ اس کا خاص اہتمام کرتے۔ وہ ایم این اے منتخب ہونے کے بعد عوامی مسائل کے حل کے ساتھ دعوت کے ابلاغ کے لیے متحرک رہتے۔ لوگوں کے مادی مسائل کے ساتھ ساتھ وہ ان کے روحانی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ ایم این اے بنے تو اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی زمین فروخت کرتے رہے۔ لیکن ان کے ضمیر نے کبھی یہ گوارا نہ کیا تھا کہ وہ کمیشن کھائیں یا لقمۂ حرام سے فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے تنگی ترشی تو برداشت کی مگر رزق حلال کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔
بطور امیر ضلع نہایت شفیق اور مہربان انسان تھے۔ دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ بہت اچھے رہے۔ کبھی اُف تک نہیں کہا۔ نماز کے سخت پابند تھے۔ صبح سب سے پہلے مسجد میں پہنچتے۔ صحافیوں کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے رہے۔ معروف صحافی مختار حسن صاحب نے کسی موقع پر کہا کہ راجا صاحب امیر ضلع بنے تو ہم صحافیوںکو بھی جماعت کے دفتر آنے کا موقع ملا، ورنہ اس سے پہلے جماعت کے دفتر کم ہی آنا ہوتا۔
وہ گفتگو بہت اچھی کرتے ، قرآن و حدیث سے مزین، اشعار کا استعمال ، دلسوزی، ان کی گفتگو کے خاص جوہر تھے جو صرف الفاظ کے پیکر نہیں تراشتے بلکہ ان کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ ایسے ہوتا تھا جیسے دل سے نکل رہا ہے۔ ان کی گفتگو اور عمل جذبۂ اخلاص سے معمور ہوتے۔ ضلع راولپنڈی اور اس کے گردو نواح بالخصوص کشمیر تک میں درس قرآن اور خطاب کے لیے بلائے جاتے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو شخصیت بھی وجیہہ عطا فرمائی تھی۔ اپنی شخصیت کو بھی وہ اقامت دین کے لیے استعمال میں لاتے۔ وہ اصلاً فنا فی التحریک تھے۔ خطہ پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے راجا محمد ظہیر خان اس خطے میں تحریک اسلامی کی مضبوط او ر توانا آواز تھے۔ وہ بہادر اور جری انسان تھے۔ جو دل میں ہوتا وہی زبان پر ہوتا اور اس کے اظہار سے نہ چوکتے۔ چاہے اس کے لیے انھیں کتنی ہی قربانی دینا پڑے۔جہاں ان کی شخصیت وجیہہ اور حسین و جمیل تھی وہیں وہ اچھے لباس کے بھی شائق تھے۔ ان کا لباس ان کے اعلیٰ ذوق کا آئینہ دار ہوتا ۔وہ خوش خوراک تھے اور کھانے کا بھی خوب ذوق رکھتے تھے لیکن اس ضمن میں خاص احتیاط کرتے۔ یہ اخراجات اپنی جیب سے کرتے اور اس کا خاص اہتمام کرتے، کہ ان اخراجات کا بار جماعت پر نہ پڑے۔ کھانے پینے کی اچھی اچھی دکانوں کا ان کو پتا ہوتا۔ ان کی اس نفاست کے چرچے قومی اسمبلی میں بھی رہے۔ اچھا کھاتے، خوب کھاتے اور کھانے کا حق ادا کرتے۔ شوریٰ کے اجلاسوں میں بھی ان کی راے بہت نپی تلی ہوتی۔ ان کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ قرآن وحدیث کے مطالعے کے ساتھ اسلامی تحریک، اور دنیاے اسلام کے حوالے سے عمدہ معلومات ان کے پاس ہوتیں جن کو وہ اپنی گفتگو کا حصہ بناتے۔
راجا محمد ظہیر رخصت ہوگئے ہیں۔ سید مودودیؒ کے چمن کے پھول،پرانے بادہ کشانِ محبت رخصت ہوتے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے فریضہ اقامت دین کی جدوجہد کو اختیار کیا تو اخلاص ، مکمل آمادگی اور جذبہ صادق کے ساتھ۔ اور اپنی تمام صلاحیتیں اور قابلیتیں اس راستے میں لگادیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو منزل کی جانب مسلسل بڑھتے رہنے اور چلتے چلے جانے کا سراغ دے گئے۔ وہ اپنے حصے کی شمع روشن کرگئے اور ہمیں یہ پیغام دے گئے ہیں کہ اب تمھیں روشنی کے اس سفر کو جاری رکھنا ہے۔
نام نہاد عدالتی کارروائی کا ڈراما ختم ہوا اور عظیم مفسر قرآن سید قطب کو ناکردہ گناہ کے جرم میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ سزا پر عمل درآمد بھی حتمی تھا، لیکن ظالم آخری لمحے بھی اپنے قدموں میں جھکانا اور اسلامی تحریک کے خلاف مزید سازشیں تیار کرنا چاہتے تھے۔ سیدصاحب سے کہا گیا: ’’اگر اعترافِ جرم کرلو اور معافی مانگ لو تو یہ سارا عذاب انعامات میں بدل جائے گا‘‘۔ مفسرِقرآن نے دوٹوک جواب دیا: ’’میری جو انگلی ہرنماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے وہ ایسا ایک حرف بھی لکھنے کو تیار نہیں جس سے ڈکٹیٹرکی حکمرانی تسلیم کرنے کا عندیہ ملتا ہو‘‘۔ کہا گیا: ’’تو پھر موت کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ جواب ملا: ’’الحمدللہ… میں نے شہادت حاصل کرنے کے لیے ہی تو گذشتہ ۱۵برس جدوجہد کی ہے‘‘۔
’’فوجی جیل کے سربراہ حمزہ البسیونی نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور پھانسی کا حکم نامہ اور اس پر صدرِمملکت کی مہرتصدیق دکھاتے ہوئے کہا: ’’اگر تمھارا بھائی حکومت کی بات مان لے تو یہ یقینی موت اب بھی ٹل سکتی ہے‘‘۔ کچھ توقف کے بعد مزید کہا: ’’تمھارے بھائی کی موت صرف تمھارے لیے نہیں، پورے مصر کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگی۔ میں تو تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ہم چند گھنٹوں بعد اس جیسی شخصیت کھو دیں گے۔ ہم کسی بھی طرح، کسی بھی حیلے وسیلے سے تمھارے بھائی جیسی عظیم ہستی کو بچانا چاہتے ہیں… دیکھو اس کے چند الفاظ اسے یقینی موت سے بچا سکتے ہیں… اور اسے یہ الفاظ لکھنے پر صرف اور صرف تم آمادہ کرسکتی ہو… بنیادی طور پر مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ اسے تمھارے علاوہ کوئی دوسرا قائل نہیں کرسکتا… بس چند الفاظ ہیں اور سارا معاملہ طے ہوجائے گا… اسے صرف یہ لکھنا ہے کہ ’’یہ تحریک (اخوان) کسی بیرونی طاقت سے منسلک تھی‘‘۔ بس اتنا لکھنے سے بات ختم ہوجائے گی اور سید قطب کو خرابیِ صحت کی بنا پر رہا کردیا جائے گا۔
میں نے جواب دیا: ’’لیکن تم بھی جانتے ہو اور خود جمال عبدالناصر بھی جانتا ہے کہ اخوان کسی بیرونی طاقت سے وابستہ نہیں ہیں‘‘۔
حمزہ البسیونی نے جواب دیا: ’’بالکل، مَیں جانتا ہوں، بلکہ ہم سب جانتے ہیں کہ مصر میں صرف آپ لوگوں کی تحریک ہی ہے جو خالصۃ للّٰہ اپنے دین کی خاطر کوشاں ہے۔ آپ لوگ مصر کے بہترین لوگ ہیں، ہم تو بس سید قطب کو پھانسی سے بچانے کے لیے ان سے یہ لکھوانا چاہتے ہیں‘‘۔
یہ کہتے ہوئے اور میری کسی بات کا انتظار کیے بغیر، وہ اپنے نائب صفوت الروبی سے مخاطب ہوا: ’’صفوت! اسے اس کے بھائی کے پاس لے جائو‘‘۔
میں بھائی جان کے پاس لے جائی گئی اور سلام دعا کے بعد ان لوگوں کا پیغام جوں کا توں پہنچا دیا۔ انھوں نے زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر نگاہیں میرے چہرے پر گاڑ دیں، جیسے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ کیا یہ صرف ان کا پیغام ہے یا میری راے بھی اس میں شامل ہے۔ الحمدللہ! میں نگاہوں کے اشارے سے انھیں یہ بتانے میں کامیاب ہوگئی کہ یہ میری راے نہیں، صرف ان کا پیغام ہے۔
اس پر بھائی جان گویا ہوئے: خدا کی قسم! اگر اس بات میں کوئی بھی صداقت ہوتی تو پوری روے زمین پر کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو مجھے یہ بات لکھنے سے روک سکتی۔ لیکن آپ جانتی ہیں کہ یہ سراسر ایک جھوٹا الزام ہے اور میں ہرگز… ہرگز جھوٹ نہیں کہہ سکتا۔
یہ جواب سن کر صفوت الروبی درمیان میں بولا: ’’تو گویا یہ تمھارا حتمی فیصلہ ہے؟ سیدصاحب نے جواب دیا: ’’ہاں، بالکل‘‘۔ صفوت یہ سن کر اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’اچھا ٹھیک ہے… پھر تمھاری مرضی‘‘۔ قدرے توقف کے بعد کہا: ’’چلو تم دونوں بہن بھائی تھوڑی دیر ملاقات کرلو‘‘۔
صفوت کے چلے جانے پر میں نے بھائی کو ساری بات بتائی کہ کس طرح انھوں نے پھانسی کا حکم نامہ دکھاتے ہوئے مجھے آپ کو قائل کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ بھائی نے پھر پوچھا: کیا تم بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتی ہو۔ میں نے جواب دہرایا: نہیں۔ بھائی جان کہنے لگے: ’’زندگی کے فیصلے رب ذوالجلال کے ہاتھ میں ہیں۔ جو لوگ خود کو بھی کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، وہ میری مہلت حیات میں کوئی ادنیٰ کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ ہرشے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اللہ نے ان ظالموں کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے۔
دونوں قیدی بہن بھائیوں کے درمیان یہ آخری ملاقات تھی۔ دونوں کی اس سے پہلی ملاقات بھی جیل ہی میں ہوئی تھی۔ اس کا ذکر مرحومہ زینب الغزالی نے اپنی کتاب روداد قفس میں یوں کیا ہے۔ واضح رہے کہ زینب الغزالی اور حمیدہ قطب ایک ہی کوٹھڑی میں قید تھیں: ’’سیدقطب اور ان کے دو ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے پانچ روز بعد ہماری کوٹھڑی کے دروازے پر اچانک دستک ہوئی، دروازہ کھلا تو سید قطب بھائی اندر آئے۔ ان کے ساتھ جیل کے دو اعلیٰ افسر ابراہیم اور صفوت الروبی بھی تھے۔ ابراہیم تو انھیں ہمارے پاس چھوڑ کر چلا گیا لیکن صفوت وہیں رہا۔ ہم نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا: خوش آمدید۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ تشریف لائے، آج تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوا۔ سیدقطب بیٹھ گئے اور زندگی کی حقیقت اور موت کے مقررہ وقت کے بارے میں گفتگو کرنے لگے: ’’موت و حیات کافیصلہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی طاقت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ ہم ہرصورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلے تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔ ہمیں صرف اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے‘‘… ان کی یہ گفتگو سن کر صفوت غصے میں آگیا اور بھناتے، بڑبڑاتے ہماری ملاقات ختم کروا دی۔ امام قطب نے ایک نظر ہمیں دیکھا اور جاتے جاتے پھر دہرایا: ’’ہمیں کسی صورت صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا‘‘۔ بہن بھائیوں کے درمیان ہونے والی آخری ملاقات کی رات، ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کی صبح سید قطب کو پھانسی دے دی گئی۔
حمیدہ چھے بہن بھائیوں میں سیدصاحب کی سب سے چھوٹی بہن تھیں۔ ۱۹۳۷ء میں پیدا ہوئیں۔ تعلیم کے دوران ہی ان کی کئی ادبی کاوشیں بھی شائع ہوئیں۔ بھائی اخوان سے وابستہ ہوا تو باقی پورا خاندان بھی تحریک سے وابستہ ہوگیا۔ حمیدہ نے اخوان کے رسالے الاخوان المسلمون میں کئی تحریریں لکھیں۔ ان کی ایک کتاب رات کے جنگل میں سفر بھی شائع ہوچکی ہے۔
۱۹۵۴ء میں اخوان پر ابتلا کے پہاڑ توڑے گئے تو وہ زینب الغزالی اور دیگرخواتین کے ساتھ مل کر گرفتارشدگان کے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال میں لگ گئیں۔ حمیدہ اپنے اسیر بھائی سید قطب اور اخوان کی قیادت کے مابین رابطے کا ذریعہ بھی بنیں۔ سیدقطب کی شہرۂ آفاق کتاب معالم فی الطریق یعنی جادہ و منزل کا مسودہ بھی انھی کے ذریعے جیل سے باہر آسکا۔ سید قطب کی گرفتاری کے ان ۱۰ برسوں میں حمیدہ قطب نے ایک مخلص بہن اور مثالی کارکن کا فریضہ انجام دیا۔ دل کا شدید دورہ پڑنے پر سیدقطب کو مئی ۱۹۶۴ء میں رہا کردیا گیا لیکن ابھی تقریباً ایک سال ہی گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں پھر گرفتار کرلیا گیا۔اس بار صرف انھیں ہی نہیں، حمیدہ کو بھی قید کردیا گیا۔ جیل میں ان پر ناقابلِ بیان تشدد کیا گیا اور پھر ۱۰سال قیدبامشقت کی سزا سنا دی گئی لیکن پھرچھے سال چارماہ کی قید کے بعد ۱۹۷۲ء میں رہا کردی گئیں۔ حمیدہ پر چارالزامات عائد کیے گئے: lتم نے سید قطب اور زینب الغزالی کے مابین ہدایات اور معلومات کا تبادلہ کیا lتم نے جادہ و منزل کا مسودہ جیل سے باہر منتقل کیا l تم نے اخوان کے ذمہ داران یوسف ھواش اور علی عشماوی کے درمیان معلومات کا تبادلہ کیا lتم نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک اسیرانِ تحریک کے خاندانوں کی مدد کی۔
سوے دار جانے والے بھائی کو کامل صبروثبات سے رخصت کرنے اور اس نازک موقع پر کسی طرح کی کمزوری کا اظہار نہ کرنے والی بہن نے ان سب الزامات کو قبول کیا اور بھائی کی شہادت کے بعد بھی پانچ سال سے زائد عرصہ جیل میں رہیں۔ گرفتاری کے وقت ان کی عمر۲۹برس تھی اور وہ ابھی غیرشادی شدہ تھیں۔
عظیم مفسر قرآن بھائی کی یہ عظیم مجاہد بہن ۱۳جولائی ۲۰۱۲ء بروز جمعہ قیدحیات سے بھی رہائی پاگئیں۔ یقینا شہیدبھائی نے جنت کی دہلیزوں پر استقبال کیا ہوگا۔ ع
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
سید غلام اکبر (۱۶ مارچ ۱۹۳۵ئ-۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ئ) ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ مختلف بیماریوں کے شکار ہونے کے باوجود اُن کی خوش مزاجی میں آخر وقت تک کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔شگفتہ مزاجی اُن کی شخصیت کا حصہ تھی۔ تعلیم اور پیشہ کے لحاظ سے مکینیکل اور الیکٹریکل انجینیر تھے ۔ حیدرآباد سے انجینئرنگ کی دو ڈگریاں حاصل کر نے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے روس گئے اور اینٹی کروزین انجینئرنگ میں تخصص کیا۔ روس میں تعلیم کے دوران روسی زبان کی بول چال میں اتنی مہارت حاصل کر لی، کہ اس لیاقت کی وجہ سے کلکتہ کی ایک بڑی کمپنی جس کے معاملات روس کی ایک کمپنی سے تھے، اس میں اُنھیں اچھی ملازمت ملی ۔ کلکتہ کے قیام کے دوران ہی وہ جماعت اسلامی سے زیادہ قریب ہوئے۔ یوں تو جماعت سے اُن کی قربت پہلے سے تھی اور اسی وجہ سے دفتر حلقہ مغربی بنگال شام کے اوقات میں اکثرجایا کرتے تھے اور اپنے مزاج کے مطابق وہاں کا ماحول گلزار بنا رہتا تھا۔ ایک شام اُس وقت کے امیر حلقہ عبدالفتاح مرحوم نے ان سے فرمایا: ’’ایسا لگتا ہے کہ آپ نے جماعت کا قریبی مطالعہ نہیں کیاہے۔ آپ یہاں مکتبے سے جماعت کی رودادیں خرید لیں اور اُن کامطالعہ کرلیں تو اچھا ہے‘‘۔ موصوف نے رودادیں حاصل کرلیں اور اُن کا مطالعہ کر ڈالا۔ اُن کے مطالعے اور تحریر و تقریر کی رفتاربہت تیز تھی۔ جس تیزی سے ان کا ذہن کام کرتا تھا اُسی تیزی سے وہ گفتگو کرتے تھے اور قدم بھی ویسے ہی تیز اُٹھاتے تھے۔
رودادجماعت کے مطالعے کے بعد ان کا تحریک سے رشتہ پختہ شعور کے ساتھ قائم ہوگیا۔ ۱۹۹۱ء میں جماعت کے رکن بن گئے۔ رودادجماعت کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ یہ اپنے قاری کے اندر تحریکی شعور اور اسپرٹ پیدا کر دیتی ہے۔ ا س کے مطالعے کے بغیر تحریکی شعور میں پختگی نہیں آتی اور نہ کام کی صحیح اسپرٹ کا رکن کے اندر پیدا ہو پاتی ہے۔ موصوف کو مطالعے کا شوق تھا۔ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ مختلف علوم و فنون پر جو بھی کتاب ملتی، اسے خریدتے بھی اورپڑھتے بھی۔ ان کا ذاتی دارالمطالعہ کئی الماریوں پر مشتمل تھا۔ دینی و تحریکی لٹریچر کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ قرآن کی تفاسیر ، سیرت پر مختلف مصنفین کی کتابیں اور احادیث کی مختلف کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کا لٹریچر جو بھی اردو و انگریزی زبان میں دستیاب تھا بالعموم ان کے مطالعے میںآچکا تھا، اور تقریباً تمام اسلامی تحریکوں کی اہم شخصیات سے بھی ملاقات او رتبادلۂ خیال کا اُنھیں شرف حاصل ہو اتھا۔ علمی موضوعات پر اہل علم اور اہم شخصیات کو بھی اُن سے تبادلۂ خیال کرنے میں خوشی ہوتی تھی۔ ان کے روابط ہندستان، پاکستان ،بنگلہ دیش، سری لنکا ، کشمیر ، ایران ، ترکی، سوڈان، ملایشیا، انڈونیشیا، عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک ، برطانیہ ، امریکا ، کنیڈا وغیرہ کے تحریکی افراد و ذمہ داران اور بعض دیگر اہم شخصیات اور بعض ممالک کے سربراہان سے بھی رہے ۔ لوگ ان سے گرچہ جماعتی رشتے سے متعارف ہوتے تھے لیکن اُنھیں شخصی طور سے بھی یاد رکھتے تھے۔
میٹھے کے بہت شوقین تھے۔ شوگر کے مریض ہونے کے باوجود مٹھائیوں کا بہت کثرت سے استعمال کرتے تھے اور اس میں بھی اُن کا اعلیٰ ذوق نمایاں تھا۔ عمدہ قسم کی کھجور اکثر استعمال میں رہتی تھی، خوب کھاتے تھے اور خوب کھلاتے تھے، بلکہ کھانے سے زیادہ کھلانے کا شوق تھا۔ جیب میں ہمیشہ عمدہ قسم کی ٹافیاں بھری رہتی تھیں اور راہ چلتے بچوں پر بھی اس کی عنایتیں ہوتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ ان کے پیر کے زخم نے جب خطرناک صورت اختیار کر لی تو ڈاکٹر نے کہاکہ اب میٹھا لازماً چھوڑنا پڑے گا ورنہ اگر دوا سے تین چار دنوں میں مزید یہ انفکشن نہ رکا توپیر کاٹنا پڑے گا۔ وہ اس احساس سے بہت مغموم نظر آئے کہ اپاہج ہو کر زندہ رہنا پڑے گالیکن چند ہی گھنٹوں میں وہ اس احساس سے باہر نکل آئے اور مٹھائی منھ میں رکھتے ہوئے خوش مزاجی سے فرمایا کہ پیر کٹنے سے زیادہ غم اس بات کا رہے گا کہ ایک پیر کی خاطر مٹھائی کی نعمت سے محروم ہو گیا اور یہ مجھے منظور نہیں۔ کہتے تھے میٹھے سے توبہ کرنے کے بجائے میٹھاکھا کر توبہ کی جائے تو بارگاہ الٰہی میں زیادہ مقبول عمل ہوگا اور جنت میں کھانے کے لیے میٹھا ہی ملے گا۔ اس لیے اس کی مشق نہیں چھوٹنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں شہد کی نہروں کے قریب رکھے اور من پسند میٹھے پھل عطا فرمائے۔ آمین!
شوگر کے مرض نے ان کے اعضاے رئیسہ کو بھی متاثر کر رکھا تھا، قلب و جگر کے ساتھ ساتھ گردہ بھی متاثر ہو گیا تھا۔ سوفی صد پیس میکر (pacemaker) پر تھے۔ اس کے باوجود دل کے آپریشن کرانے پڑے تھے اور ایک سے زیادہ مرتبہ ہارٹ اٹیک کے شکار ہو چکے تھے ۔اُن کا انتقال بھی ہارٹ اٹیک ہی کی وجہ سے ہوا ،گرچہ انھیں اسپتال میں گردہ کی ڈایلیسس کے لیے داخل کرنا پڑا تھا لیکن وہاں پہنچ کر اُن پر قلب کا جان لیوا حملہ ہوا۔ ۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون
کلکتہ کی ملازمت کے بعد موصوف نے بوکارو اسٹیل پلانٹ میں، جو اُس وقت ریاست بہار میں تھا اوراب جھارکھنڈ میں ہے، کئی سال ملازمت کی ۔اس کے بعد سعودی عرب تشریف لے گئے اور ریاض میں وزارتِ داخلہ میں ایک طویل عرصے تک بحیثیت انجینئر ملازمت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری سابق امیر جماعت اسلامی ہند کی قیادت میں، جب کہ وہ ریاض یونی ورسٹی میں استاد کے فرائض انجام دے رہے تھے، جماعتی رفقا کو منظم کرنے میں نمایاں کردار کیا۔ جب ڈاکٹر صاحب ہندستان واپس آگئے تو سعودی حلقے کی نظامت کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی ۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا جب سعودی حکومت کا رُخ جماعت کے لوگوں کے خلاف ہوگیا تو بعض دیگر رفقا کے ساتھ انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور قیدوبند کے اس مرحلے میں اُن کے رویے اورصاف گوئی سے تعینات افسر بہت متاثر رہا۔ چنانچہ وہ اُن سے برابر معافی طلب کرتا رہا اور حکومت کے احکام کی وجہ سے اپنی مجبوریوں کا اظہار کرتا رہا۔
جب سعودی حکومت نے انھیں ملک سے نکالنے کا حکم جاری کیا تو بہت ہی عزت و احترام کے ساتھ انھیں ہوائی جہاز تک پہنچایا۔ حکومت نے ان کی ملازمت کے سارے حقوق سلب کر لیے اور وہ تقریباً خالی ہاتھ اپنے وطن لوٹے اور اپنی خدمات مرکز جماعت کو پیش کر دیں، حالانکہ انھیں یہاں بعض کمپنیوں نے اچھی تنخواہ کی پیش کش کی لیکن انھوں نے اسے قبول نہیں کیااور بہت ہی قلیل اعزازیے پرسکریٹری تنظیم اور سکریٹری مالیات مرکز کے فرائض انجام دینے لگے۔ اس ذمہ داری پر تقریباً ۱۴ سال مامور رہے۔ شعبہ تنظیم اور شعبہ مالیات کے استحکام میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ اس دوران میں انھوں نے جماعت کی مالیات کے استحکام کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوں، بیماروں اور ہر طرح کے ضرور ت مندوں کے مسائل کو حل کرنے میں بڑی فکر مندی کا مظاہرہ کیا۔ جماعت کے معمولی کارکن سے لے کر بڑے سے بڑے ذمہ دار سے گہرا ذاتی تعلق رکھتے تھے اور سب کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لینا اور اُن کے کام آنا موصوف کا معمول تھا۔ ہر شخص ان سے اپنائیت کا احساس رکھتا تھا۔ اپنوں سے لے کر غیر تک ان سے امیدیں وابستہ رکھتے تھے اور کوئی مایوس ہو کر نہیںجاتا تھا۔ اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی جیب سے بھی ضرور ت مندوں کی مدد کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ لُٹنے اور لٹانے میں انھیں مزہ آتا تھا۔ حساب دانی میں بڑی مہارت تھی لیکن اپنے ذاتی پیسے بے حساب خرچ کرتے تھے ۔ ملک و بیرون ملک کی اونچی تنخواہوں والی ملازمت کے باوجود آخر تک اپنا کوئی مکان بنا سکے اور نہ کوئی قطعۂ زمین خریدا ، کرایے کے مکان سے ہی جنازہ اٹھا۔
سید غلام اکبر صاحب ہیومن ویلفیئر ٹرسٹ کے بھی سکریٹری تھے۔ اس ٹرسٹ کے تحت مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزکے فروغ کی بھی اُنھوں نے کامیاب کوشش کی۔ اس ٹرسٹ کے تحت قائم الشفاء اسپتال کی مینیجنگ کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے اور اسپتال کے قیام میں بھی اچھا کردار ادا کیا۔
موصوف کے لباس، وضع قطع اور دسترخوان کا معیار بھی بہت بلند تھا اور مہمان نوازی کا جذبہ بھی خوب تھا ۔ حیدرآباد میں رہتے اور کوئی وہاں پہنچتا اور جب وہ دہلی آتے اور کوئی یہاں آتا تو اس کی مہمان نوازی ضرور کرتے۔ ہم لوگ جب جماعت کے کام سے حیدرآباد جاتے اور شدید بیماری کی حالت میں ان کی عیادت کے لیے جاتے تو اُس وقت بھی بہ اصرار ایک وقت کے کھانے کی دعوت دیتے اور اس حالت میں بھی، جب کہ ان کے لیے بیٹھنا مشکل ہوتا خود بیٹھ کر پُرتکلف کھانا کھلانے سے باز نہ آتے تھے۔
اپنے ذاتی حالات اور معاملات و مسائل میں وہ بالکل بے فکر رہتے، لیکن جماعت کے معاملات و مسائل کی فکر ہر آن دامن گیر رہتی۔ بارہا جماعتی احوال پر گفتگو کرتے وقت انھیں آب دیدہ ہوتے دیکھا ہے ۔ذاتی معاملے میں انھیں صرف اُس وقت پریشان اور فکر مند دیکھا جب ڈاکٹر نے اُن کی اہلیہ محترمہ کو کینسر کے مرض کی تشخیص کی ،لیکن اس فکر مندی پر بھی انھوں نے جلد قابو پا لیا اور اُن کے علاج پر خصوصی توجہ دے کر الحمدللہ انھیں اس موذی مرض سے نجات دلائی۔ اُن کی بیوی بھی اُن کی بہترین رفیقۂ حیات ثابت ہوئیں۔ بہت ہی خاموش طبع اور خوش اخلاق اور شوہر کا ہرحال میں ساتھ دینے والی۔ بہت بڑے گھرانے سے آئی تھیں، محل نما مکان سے شوہر کے کرایے کے معمولی مکان میں آئیں اور پوری زندگی اسی حال میں گزار دی ۔دونوں بچے بھی ما شاء اللہ شاکر او رناصر اسم بامسمیٰ اور سعادت مند نکلے۔ تینوں بچیاں اور داماد بھی اُن سے بڑے بے تکلف اور اُن سے خوب پیار کرنے والے ملے ۔وہ بھی بیٹی داماد، پوتے پوتی، نواسی نواسے سب سے بہت بے تکلف رہتے تھے۔ ان سب سے اسی طرح ہنسی مذاق کرتے جیسے بے تکلف دوستوں سے کرتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ خلوت و جلوت ہر جگہ وہ باغ و بہار رہتے اور ماحول کو گلزار بنائے رہتے ۔ یقینا اُن کی یاد بہت دنوں تک ستاتی رہے گی اور انھیں بھولنا تو ممکن ہی نہیں۔
انسان کی خوبیاں اور خامیاں یا تو معاملات میں نمایاں ہوتی ہیں یا ہم سفری میں۔ معاملات کے تو الحمد للہ وہ صاف تھے ہی، کبھی کسی سے اُن پر کسی معاملے میں کوئی دعویٰ تو درکنار شکوہ بھی کرتے نہیں سنا گیا۔ کئی اسفار میں اُن کا ساتھ ہوا۔ ملک و بیرون ملک ہر جگہ سفر کے بہترین ساتھی ثابت ہوئے ۔ ہر وقت اپنے سفر کے ساتھی کا خیال اپنی ذات سے کہیں زیادہ رکھتے۔
اُن کے تعلقات اصحاب خیر سے خصوصاً بیرون ملک میں اچھے خاصے ہو گئے تھے، لیکن کبھی کسی سے کوئی ذاتی منفعت حاصل نہیں کی ۔ تحائف قبول کرنے میں بھی محتاط رہتے ۔ جماعتی وقار کا ہمیشہ خیال رہتا۔ جماعت کا تعارف ایسے احسن انداز میں کراتے کہ جماعت کی مالیات کے لیے لوگ پیش کش کرنے پر تیار ہو جاتے، لیکن ان کی طرف سے استغنا کا مظاہرہ ہوتا تھا، جس کی وجہ سے لوگ اُن کا بہت احترام کرتے تھے۔
کویت کی معروف صاحب ِخیر شخصیت شیخ عبداللہ علی المطوع مرحوم کو اُن کا غیر معمولی عقیدت مند پایا۔ لوگ ھیتہ الخیریہ کی میٹنگ میں شیخ مطوع سے ملنے کے لیے کوشاں تھے اور شیخ مطوع میٹنگ سے فارغ ہو کر شیخ اکبر شیخ اکبر پکارتے ہوئے سید غلام اکبر صاحب کے پیچھے دوڑتے نظر آئے۔شیخ مطوع کے انتقال کے بعد اُن کے صاحب زادے کا فون آیا کہ اُن کے والد نے اپنی ڈائری میںیہ لکھا ہے کہ خیر کے کاموں میں امداد کے سلسلے میں جو نام اُن کی ڈائری میں نہ ملیں ان افراد یا اداروں سے کیا اور کتنا تعاون کیا جائے، اس کے لیے مشورے میں سید غلام اکبر صاحب سے بھی رجوع کرو، چنانچہ بہ ا صرار انھیں کویت بلایا اور اُن سے مشورے کیے۔
موصوف بہت ہی خو ش خط اور خوش کلام تھے۔ بڑی مؤثر اور پوری تیاری کے ساتھ تقریر کرتے تھے۔ تقریر میں دلائل اور جذبات دونوں کا حسین امتزاج ہوتا تھا۔ تربیتی تقریر میں اکثر اُن پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور سامعین بھی آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ گجرات کے فساد کے بعد جب ہم لوگوںکا امریکا کا سفر ہوا، تو ہم جہاں کہیں بھی گئے اُن کی تقریر خواہ اُردو میں ہو یا انگریزی میں یکساں طور پر سامعین ان سے متاثر ہوتے اور اُن کی پیش کش کے انداز سے اس قدر متاثر ہوتے کہ بغیر کسی اپیل کے بڑھ بڑھ کر ریلیف کے لیے رقوم پیش کرتے ۔
حفظ مراتب کا بڑا خیال رکھتے ۔ عمر میں بہت بڑے ہونے کے باوجود اتنے احترام اور محبت سے پیش آتے کہ شرمندگی ہوتی۔ اُن کی وضع داری اور انکسار میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی۔ جب انسان زیادہ قریب ہوتا ہے اور بے تکلفی بڑھ جاتی ہے تو انسان کے کمزور پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ انسان خطا و نسیان کا پتلا ہے۔ جب کوئی اُن کی کسی کمزوری کی نشان دہی کرتا تو بڑی خندہ پیشانی سے اُس کا اعتراف کرتے اور کھلے دل سے اظہار معذرت کرتے۔ اُن کی یہ ادا بہت پسند آتی۔
یقینا ہماری طرح اُن کے اندر بھی کمزوریاں تھیں لیکن میرا خیال ہے کہ اگر جائزہ لیاجائے تو اُن کی کمزوریوں پر اُن کی خوبیاں بہت بھاری تھیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور بھلائیوں کا پلڑا بھاری رکھے۔ اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے،اعلیٰ علیین اور جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ آمین!جس وقت نماز جنازہ ہو رہی تھی، اُن کی میت ایک درخت کے سایے میں رکھی تھی اور درخت پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ بار بار خیال آرہا تھا اللہ تعالیٰ نے گویاانھیں بھی موصوف کے حق میں تسبیح و مناجات کی ہدایت فرمادی ہے۔ نماز جنازہ اُن کے بڑے لڑکے شاکر سلمہٗ نے پڑھائی جو انجینئر بھی ہیں اور حافظ قرآن بھی ۔ موصوف کے دونوں ہی بیٹے رکن جماعت ہیں۔ موصوف گرچہ دنیا سے خالی ہاتھ گئے لیکن سرمایۂ آخرت صالح اولاد کی شکل میںچھوڑ گئے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ صدقۂ جاریہ ثابت ہوں گے اور اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا ہی خوش نصیب بنائے۔ آمین!
مضمون نگار نائب امیر جماعت اسلامی ہند ہیں
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی قیادت کے ایک گلِ سرسبد اور عالمی اسلامی معاشی تحریک کے سرگرم رہنما برادر محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی طویل علالت کے بعد ۲۵ جولائی ۲۰۱۱ء کو علی گڑھ میں انتقال کر گئے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
ڈاکٹر فریدی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اسلام کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور پورے خلوص، دیانت اور مکمل سپردگی کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتیں اسی مشن کی تکمیل کے لیے وقف کر دیں اور پھر آخری لمحے تک وفاداری کے اس رشتے کو نبھایا۔ اس میں ان کے پیشِ نظر صرف اپنے رب کی خوشنودی تھی۔ ان شاء اللہ ان کا شمار ان سعید روحوں میں ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے مالک نے فرمایا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْـلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت کے بہترین مقامات و انعامات سے نوازے___ انھوں نے ہم سب کے لیے ایک اچھی مثال چھوڑی ہے اور جو چراغ ان کے قلم اور تحریکی مساعی نے روشن کیے ہیں، وہ ان کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ضوفشاں رہیں گے___ ان شاء اللہ تعالیٰ!
برادرم فضل الرحمن فریدی ۴؍اپریل ۱۹۳۲ء کو مچھلی شہر جون پور، یوپی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جون پور میں اور اعلیٰ تعلیم الٰہ آباد یونی ورسٹی اور علی گڑھ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ لیکن ان کی علمی زندگی اور تحریکی جدوجہد کا رُخ متعین کرنے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی ہند کے نظم سے وابستگی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ثانوی درس گاہ رام پور میں شرکت نے اس وابستگی کو اور پختہ کردیا۔ اس زمانے میں اصحابِ کہف کی طرح جن چند نوجوانوں نے باہر کی دنیا سے منہ موڑ کر ثانوی درس گاہ کو اپنی آماج گاہ بنایا، ان میں فضل الرحمن فریدی بھی شامل تھے۔ ان سب نے اپنے اپنے انداز میں اسلام اور تحریکِ اسلامی کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور ان کے اثرات صدقۂ جاریہ کی شکل میں تادیر جاری و ساری رہیں گے۔
فریدی صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۶ء میں دہلی میں ہوئی۔ میں خرم [خرم مراد] بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے بھوپال گیا تھا۔ وہاں ہم دونوں نے دہلی اور آگرے کا سفر کیا اور فریدی صاحب، برادرم نجات اللہ صدیقی اور برادرم عرفان احمد خاں دہلی تشریف لائے اور وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ان سے زندگی بھر کے لیے تعلقات استوار ہوگئے۔ فریدی صاحب اور نجات اللہ صاحب نے میری طرح معاشیات کے میدان کو اختیار کیا اور اس طرح ان دونوں بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی گذشتہ نصف صدی میں علمی اور دعوتی میدانوں میں تھوڑی بہت خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ فریدی صاحب سے دوسری ملاقات ۱۹۷۶ء میں پہلی عالمی کانفرنس براے اسلامی معاشیات کے موقعے پر مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ بعدازاں اُن کے سعودی عرب کے قیام کے دوران میں، ان سے مسلسل ملنے اور گھنٹوں تحریکی امور اور اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں پر تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہا۔ آخری ملاقات بحرین میں اسلامی معاشیات پر منعقد ہونے والی پانچویں کانفرنس میں ہوئی۔ اس کے بعد فقط ٹیلی فون پر رابطہ رہا۔ ۲۰۰۵ء میں دہلی میں اسلامک فنانس پر ایک کانفرنس منعقد ہونے والی تھی۔ فریدی صاحب کا بے حد اصرار تھا کہ میں اس میں کلیدی خطاب کروں لیکن ویزا نہ ملنے کے باعث مَیں دہلی نہ جاسکا اور ملاقات سے محروم رہا۔ زندگیِ نو کے وہ مدیر تھے اور اس رشتے سے ترجمان القرآن اور زندگیِ نو میں بڑا قریبی علمی تعاون رہا اور ہم ایک دوسرے کے علمی کام سے برابر استفادہ کرتے رہے۔
برادرم فضل الرحمن فریدی اُردو اور انگریزی میں ۳۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے سارے کام کا محور دو ہی موضوعات رہے___ اوّل: اسلامی معاشیات، دوم: تحریکِ اسلامی کی دعوت کے فکری اور عملی پہلو۔ ان کی نگاہ قدیم اور جدید دونوں علوم پر تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تجزیے اور تعبیر کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ معاشی تجزیے اور خصوصیت سے زری معاشیات (fiscal economics) میں ان کی خدمات بڑی گراں قدر ہیں۔ وہ اسلامی معاشیات کے اصل تصور کو نکھارنے والے لوگوں میں سے ہیں۔
میری اور نجات اللہ صدیقی بھائی کی طرح وہ ہرلمحے اس پہلو سے متفکر رہتے تھے کہ اسلامی معاشیات اپنے اصل وِژن کے ساتھ، جو اقامت ِدین کا ایک حصہ ہے، ترقی اور تنفیذ کے مراحل سے گزرے اور محض روایتی معاشیات کا ایک حصہ بن کر نہ رہ جائے۔ اسی طرح تحریکِ اسلامی اور فکرِ اسلامی کی تعبیر کا ہر وہ پہلو ان کی دل چسپی کا موضوع رہا جس کا تعلق اُمت ِمسلمہ کے اس کردار سے ہے جو اسے خصوصیت سے مسلم اقلیت والے ممالک میں ادا کرنا ہے، اور اصل مقصد سے وفاداری کے ساتھ اپنے مخصوص حالات میں اسلام کے کردار کو واضح اور متعین کرنا ہے۔
ان کی زندگی بڑی سادہ اور صاف ستھری تھی۔ فکری اعتبار سے میں نے ان کو فہم دین اور عصری مسائل کی تعبیر کے سلسلے میں بڑا بالغ نظر اور محتاط پایا۔ وہ اپنے فکری تجزیوں میں، اصل مقاصدِ شریعت سے مکمل وفاداری کے ساتھ جدید علوم سے استفادہ کرتے تھے اور اس نازک ذمہ داری کو میرے علم کی حد تک انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا۔
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور نئی نسل کے اہلِ علم و تحقیق کو اس راستے پر چلنے کی توفیق دے جس کے نقوش علمی دنیا کے فضل الرحمن فریدی ایسے سچے خادموں نے روشن کیے ہیں، آمین ثم آمین!
بیسویں صدی کی دوسری دہائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی، شعبان المعظم کا مہینہ تھا۔ یوپی کے شہر بریلی میں نواب مجتبیٰ علی خان کے گھر ایک بچی نے آنکھیں کھولیں۔ اس بچی کے پیدا ہونے پر گھر کے ہرفرد کی آنکھ اشک بار تھی۔ وجہ یہ تھی کہ بچی کے والد اس کی پیدایش سے چھے ماہ قبل محض ۳۵برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ اس وقت اس یتیم بچی کی بے نصیبی پر رونے والے یہ نہ جان سکتے تھے کہ خداے رحمن و رحیم اپنی قدرتِ کاملہ سے اس بچی کو خاندان کی سب سے خوش نصیب لڑکی بنا دیں گے اور روے زمین پر ہونے والے سب سے مبارک کام، اعلاے کلمۃ الحق اور شھدا علی الناس کے فریضے میں اس بچی سے مقدور بھر کام لیں گے، اور ۱۹مئی ۲۰۱۱ء کو جب اپنی بندی کو اپنی طرف واپس بلائیں گے، اس وقت ہزاروں لوگ ان کی جدائی میں آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ ان کی خوش نصیبی پر رشک کررہے ہوں گے___ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُo (ھود ۱۱:۱۰۷) ’’ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا‘‘۔
میری والدہ (مریم بیگم جنھیں لوگ بنت مجتبیٰ مینا کے نام سے جانتے ہیں) نے ساری زندگی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیدایشی یتیم ہونے کی نسبت کو اپنا سرمایۂ جاں سمجھا۔ وہ کہا کرتیں کہ جب میں سورئہ ضحی کی یہ آیات: اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی o وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی o وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی o (کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کر دیا۔ الضحٰی ۹۳:۶-۸)، پڑھتی ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ ہی سے مخاطب ہے۔
میں جب اپنی امی کی زندگی پر ایک غائرانہ نگاہ ڈالوں تو مہربان رب کے انتظامات دیکھ کر دل احساسِ تشکر سے معمور ہوجاتا ہے۔ امی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جس میں سیاسی بیداری، انگریز سے نفرت اور اپنی دینی اقدار کی حفاظت کا احساس کوٹ کوٹ کر بھراتھا۔ امی کے دادا نواب شفیع علی خاں کا تعلق صاحب ِ حیثیت مسلمانوں کے اس گروہ سے تھا جنھوں نے انگریز سے وفاداری کا تعلق استوار کرنے کے بجاے بغاوت کا راستہ اپنایا تھا۔ نتیجے میں تمام جایداد، مال اسباب ضبط ہوگیا تھا اور الٰہ آباد کے خسرو باغ میں پھانسی کا حکم سننے والوں میں شامل تھے۔
اس سیاسی بیداری اور دین سے محبت کا تسلسل مسلم لیگ سے والہانہ تعلق کی صورت میں ظاہر ہوا۔ امی کے بچپن میں جب قائداعظم محمدعلی جناح تحریکِ پاکستان کے دوران یوپی کا طوفانی دورہ کر رہے تھے تو امی کے چچا نواب سخاوت علی خان صاحب نے اپنے گھر کے احاطے میں مسلم لیگ کا جلسہ منعقد کروایا۔ امی کے بڑے بھائی نے ایک ریشمی رومال پر پاکستان کا نقشہ بنایا جسے امی کی چچازاد بہن نے کاڑھ کر قائداعظم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔
حساس دل، مسلمانوں کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ رکھنے والی، فطری ادبی و تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال اس لڑکی کو اللہ رب العزت نے اپنی ایک صالح بندی محترمہ آپا حمیدہ بیگم تک پہنچانے کا بندوبست اس طرح کیا کہ ۱۹۵۲ء میں امی اپنی والدہ اور بھائی کے ہمراہ پاکستان ہجرت کرکے آگئیں۔ امی اپنے تایازاد بھائی جناب ناصر سلطان علی خان کو اپنا بہت بڑا محسن اس لیے سمجھتی تھیں کہ نہ صرف انھوں نے اپنی چچی (امی کی والدہ کو) اپنے ساتھ رہنے پر آمادہ کیا بلکہ جماعت اسلامی سے تعارف اور تعلق کی بنیاد بھی بنے۔
ناصر سلطان صاحب سول انجینیرتھے اور محکمہ انہار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں وہ پانچ سال بہاول نگر رہے۔ یہیں سے امی نے جماعت اسلامی کے ساتھ عملی کام کی ابتدا کی اور بہاول نگر میں حلقۂ خواتین کی داغ بیل ڈالی۔ اسی زمانے میں تسنیم اور کوثر میں امی کا کلام چھپنا شروع ہوا۔ محترم نصراللہ خاں عزیز نے امی کی بے حد حوصلہ افزائی کی اور کئی دفعہ امی کی نظمیں سرورق پر بھی چھاپیں۔ یہاں ایک دفعہ پھر خوش قسمتی نے امی کا دامن تھاما اور ان کے لکھے ہوئے مضامین و اشعار محترمہ آپا حمیدہ بیگم کی نظر میں آگئے۔ انھوں نے فوری طور پر ان سے قلمی تعلق قائم کیا اور ان کو اپنی محبت کی زنجیر میں ایسا جکڑا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری زمانے تک اس محبت و شفقت و تربیت کی اسیر رہیں۔ ۱۹۵۲ء سے لے کر ۱۹۵۷ء تک یہ تعلق (سواے چند ملاقاتوں کے) قلمی طور پر قائم رہا۔ امی اس تعلق کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک نرم دل مصوّرہ نے اپنا بُرش اُٹھایا اور بڑی خوب صورتی سے میری شخصیت میں رنگ بھرنا شروع کیے۔ آپا حمیدہ بیگم نے ایک دفعہ ان کو خط میں لکھا: ’’مجھے بار بار آپ ہی کا خیال آتا ہے کہ آپ کی زندگی اچھی طرح گزرے۔ آپ اپنی شاعری کی وجہ سے لوگوں کا کھلونا نہ بن جائیں۔ حضرت فاطمہ بھی شاعرہ تھیں لیکن ان کی شاعری اپنے باپ کی محبت اور اطاعت کے لیے وقف تھی۔ پھر ان کی زندگی، دل چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی میں بھی وہی چیز ہو‘‘۔
آگے مزید لکھتی ہیں: ’’میرا خیال ہے جس کسی کو کسی شاعر سے سچی محبت ہوگی وہ اس کو یہی مشورہ دے گا کہ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو اسلام کی راہ میں لگائو۔ اس کی حدود کا پابند بنائو۔ اس وقت مجھے حلقۂ خواتین کی طرف سے دو جہاد بڑے اہم دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تو گھریلو زندگی اختیار کرنے پر رضامند ہوجانا اور دوسرے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے پوری طرح تیار ہوجانا۔ علمی ادبی کام اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن بنیادی نہیں۔ بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہمارا اصل مالک، ہمارا سب سے بڑا محسن، سب سے بڑا خیرخواہ اور ہماری محبت کا سب سے بڑھ کر جواب دینے والا ہم سے کیا چاہتا ہے کہ ہم کیسی زندگی گزاریں؟ اور پھر اس کے عائد کردہ فرائض کو نبھانا‘‘۔
انھوں نے اپنی مُرشد کی باتوں کو ایسی عقیدت سے تسلیم کیا کہ کبھی بطور شاعرہ اپنے کیریئر کو نہ اہم سمجھا نہ اس کے لیے محنت کی۔ اشعار وہ ساری زندگی ضرور کہتی رہیں مگر وہ بھی بتول اور نور کی ہی زینت بنے۔ ۱۹۵۷ء میں اپنی شادی کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو تن من دھن سے گھر کے محاذ پر مصروف کرلیا اور ایک قابلِ رشک شریکِ حیات، بامروت، متحمل مزاج بہو اور ایک آئیڈل ماں بن کر دکھایا، الحمدللہ۔
۱۹۵۷ء سے ۱۹۷۳ء تک امی نے لاہور میں سسرال ہونے کے باعث آپا حمیدہ بیگم کی صحبت سے فیض اُٹھایا۔ ’نئی نسل کی تربیت‘ امی کی ترجیحات میں سرفہرست تھی۔ اسی لیے آپا حمیدہ بیگم نے نور رسالے کی ذمہ داری ان کے سپرد کردی۔ اللہ کی خاص رحمت سے کم و بیش ۳۵سال تک انھوں نے اس رسالے کی ادارت کا فریضہ سرانجام دیا (ان کا دن گھر کے کاموں اور جماعت کے کاموں کے لیے مختص تھا تو راتیں نور کے کام کے لیے)۔ چند برسوں سے بڑھاپے اور خرابیِ صحت کے باعث انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا تھا مگر صدشکر کہ اللہ کی مہربانی سے ان کی اکلوتی بہو ذروہ احسن نے جو آپا سعیدہ احسن کی بیٹی اور آپا بنت الاسلام کی بھانجی بھی ہیں، اس کام کو بہت اچھے طریقے سے سنبھالا ہوا ہے۔
لاہور میں انھوں نے اپنی ازدواجی زندگی کے ۴۰سال گزارے۔ میرے والد محترم عبدالسلام خان امی کے لیے نیک طینت شوہر کے ساتھ ساتھ جماعتی محاذ پر بھی ہم مزاج ساتھی اور بہترین رفیقِ کار ثابت ہوئے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اباجی مرحوم کو حلقۂ خواتین کا نگران اور والدہ کو جماعت میں ادبی، دعوتی، تنظیمی اور سیاسی محاذوں پر ہمہ وقت سرگرم پایا۔ میری والدہ میرے فطری میلان کو دیکھتے ہوئے باوجود کم عمر ہونے کے مجھے اکثر اپنے ساتھ رکھتیں۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفیؐ سے لے کر ۱۹۸۵ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن تک، میری آنکھوں میں اپنی والدہ اور والد کی سرگرمیاں اور مصروفیات ایک فلم کی صورت میں گھوم رہی ہیں۔ کبھی جلوس پر گولی چلائے جانے کے نتیجے میں زخمیوں کو دیکھنے ہسپتال جایا جارہا ہے۔ کہیں جلسۂ عام میں خطاب ہو رہا ہے۔ کہیںلوگوں کو بیلٹ پیپر پر صحیح طریقے سے مہر لگانے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے۔ کبھی وارڈز اور زون کی فائلیں بنائی جارہی ہیں۔ کبھی ووٹر لسٹوں کی پڑتال ہورہی ہے۔ کبھی پولنگ ایجنٹوں کو بریفنگ دی جارہی ہے۔ این اے ۸۵ کے گلی کوچوں کا چپہ چپہ روزِ قیامت ان شاء اللہ میری والدہ کے قدموں کی گواہی دے گا۔ نوازشریف کے مقابلے میں سید اسعد گیلانی تھے۔ اس انتخابی مہم میں امی اور اباجی کا انہماک، لگن، محنت اور تگ و دو دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔
۸۰ کی دہائی میں میری والدہ محترمہ بیگم زبیدہ واصل کے ساتھ میونسپل کارپوریشن لاہور کی کونسلر بھی رہیں۔ حریم ادب کی محفل کا بھی دوبارہ سے اجرا کیا۔ اسلامی جمعیت طالبات سے خصوصی تعلق رکھنے کے باعث جمعیت کے پروگراموں اور مشاعروں میں ہمیشہ شرکت کی۔ جماعت اسلامی کی خواتین کی نمایندگی کرتے ہوئے ایوانِ صدر بھی گئیں۔ سیرت کانفرنسوں اور خواتین کانفرنسوں میں بھی شریک رہیں۔ جنگ فورم میں حدود آرڈی ننس پر اعتراضات کے حوالے سے حناجیلانی، عاصمہ جہانگیر اور مہناز رفیع جیسی خواتین کے مقابل بھی ڈٹی رہتیں۔ مقابل باوجود ڈھٹائی کے ان کے باوقار اور پُرسکون انداز سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہتا۔
۱۹۸۹ء میں مینارِ پاکستان پر ہونے والا اجتماعِ عام غالباً وہ آخری پروگرام تھا جس میں امی اور اباجی نے اپنے روایتی جوش و خروش سے حصہ لیا۔ قیمہ کے کیمپ میں بطور نائب قیمہ پاکستان ان کی موجودگی اور تمام پاکستان سے آئی ہوئی خواتین کا ان سے والہانہ ملنا آج بھی میرے دل کے البم میں محفوظ ہے۔
اس کے بعد امی نے دورِ آزمایش بھی دیکھا۔ غلط فہمیوں، خدشات، بدگمانیوں کی کچھ ایسی ہوا چلی کہ والدہ کے عزیز از جان شریکِ حیات اور امی کی دیرینہ ساتھی مخالف کیمپ میں جاکھڑے ہوئے۔ لیکن اس موقع پر بھی انھوں نے اپنی فہم و فراست کے مطابق جس بات کو اور موقف کو درست سمجھا اس پر قائم رہیں۔
۱۹۹۷ء میں میرے والد اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلٰیہِ رٰجِعُون۔ اس اصولی اختلاف کے باوجود امی نے اباجی کی خدمت اور خیال رکھنے میں ذرہ برابر کمی نہ آنے دی اور ان کی رحلت کے بعد بھی جنت الفردوس میں ان سے ملاقات کی دعائیں کرتی رہیں۔ امی کا کہنا تھا کہ’’ اللہ رب العالمین ہرایک سے اس کی نیت کے مطابق معاملہ کرے گا اور میں گواہی دیتی ہوں کہ تمھارے والد ایک نیک آدمی تھے‘‘۔
میرے شوہر ڈاکٹر عاصم پلاسٹک سرجری کے ایف سی پی یس پارٹ ٹو کی ٹریننگ کے سلسلے میں چار سال لاہور میں میوہسپتال میں تعینات رہے۔ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک مَیں امی کے ساتھ ہی رہی۔ جب ہماری فیصل آباد واپسی کا وقت ہوا تو والدہ نے کمالِ ہمت سے اپنے گھر کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی زندگی کے آخری ۱۰ سال انھوں نے اپنے بیٹے کے پاس گزارے۔ کبھی کراچی، کبھی اسلام آباد (گو دل میں لاہور اور اہلِ لاہور کی یاد آخر وقت تک چٹکیاں لیتی رہی)۔
یہ بھی حُسنِ اتفاق ہے کہ ۲۰۰۱ء تک امی نے عملی طور پر جماعت میں کام کیا اور اسی سال سے مَیں نے ان کی دیرینہ خواہش کے پیش نظر جماعت اسلامی میں عملی طور پر اپنا سفر شروع کیا۔ وہ جب بھی فیصل آباد آتیں، نہ صرف جماعت کے پروگراموں میں شریک ہوتیں بلکہ حریم ادب کا انعقاد بھی کرواتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی کا آخری حصہ بہت سکون، آسانی اور خوشی کے ساتھ گزروایا۔ وہ کبھی کسی کے لیے وجۂ تکلیف نہ بنیں (الحمدللہ)۔ آخر وقت تک جماعت اور جماعت کے کاموں سے ان کادلی تعلق رہا۔
۲۲مارچ کو وہ دبئی بڑی بہن کے پاس ان کے شدید اصرار کے نتیجے میں گئی تھیں۔ انٹرنیٹ پر گاہے بہ گاہے ان سے طویل گفتگو رہتی۔ آخری دفعہ غالباً ایک ہفتہ پہلے ان سے بات کی تو حسبِ معمول شگفتہ انداز میں بات کرتی رہیں۔ الوداع کہتے ہوئے اپنا پسندیدہ شعر دُہرایا ؎
خیری کن ای فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ در آید فلاں نماند
اللہ نے ان کی خواہش کے مطابق ان کو چلتے ہاتھ پیر، آخر وقت تک کی نماز پڑھوا کر اور بے ہوش ہونے سے پہلے تک کلمۂ طیبہ پڑھواتے ہوئے اپنے پاس بلایا۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر سب مجھے صبر کی تلقین کر رہے ہیں، ان کے نیک اعمال اور کردار کی گواہی دے رہے ہیں اور ان کے بلند درجات کی دعائیں کر رہے ہیں۔ لیکن میرا دل امی کے اس شعر کی تصویر بنا ہوا ہے ؎
گرداب سے بچنا مانجھی تم، پتوار سنبھالو نیا کے
اب ہر چہ بادا باد کہو کشتی سے کنارا چھوٹ گیا
موت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سب کے ساتھ یکساں معاملہ کرتی ہے اور بڑے اور چھوٹے، امیروغریب، عالم اور عامی، حکمران اور محکوم، سب کو برابر کردیتی ہے۔ اس حقیقت کو انگریزی محاورے death, the great leveler کے مختصر جملے میں بیان کیا گیا ہے،لیکن اس کلیے میں ایک دوسری حقیقت کو نظرانداز کردیا گیا ہے کہ موت وہ حقیقت بھی ہے جو جہاں سب کو زمین کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سلادیتی ہے، وہیں کچھ نفوس ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو موت ہی زندۂ جاوید بنادیتی ہے___ جن کی یاد حرزِ جاں بن جاتی ہے اور جن کے جلائے ہوئے چراغ روشنی کے مینار بن کر تاریکیوں کو مسلسل چھانٹنے اور فضا کو منور کرنے کا کام انجام دیتے ہیں، جو ہمارے درمیان سے اُٹھ کر بھی ہم سے دُور نہیں ہوتے ؎
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے
۲۷ فروری ۲۰۱۱ء کو عالمِ اسلام کی ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت اور ترکی میں اسلامی احیا کی جدید انقلابی تحریک کا میر کارواں پروفیسر نجم الدین اربکان بظاہر ہم سے رخصت ہوگیا، لیکن ترکی ہی نہیں، عالمِ اسلام میں روشنی کے ایسے چراغ جلا گیا جو تاریخ کی تاریک راہوں کو مدتوں منور رکھیں گے! ___ ان شاء اللہ تعالیٰ!
مصطفی کمال کے انتقال کے بعد بھی نظامِ زندگی انھی خطوط پر چلتا رہا، البتہ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد عوام کو کچھ جمہوری آزادیاں ملیں۔ سیاست میں اتاترک کی ری پبلکن پارٹی ہی کے بطن سے ڈیموکریٹک پارٹی نے جنم لیا اور عدنان میندریس کی قیادت میں دو پارٹی نظام اور دستوری حکومت کا ایک گونہ آغاز ہوا جس کے نتیجے میں عوام کو اپنے دینی اور تہذیبی جذبات کے اظہار کا کچھ موقع ملا۔ دینی شعائر پر جو پابندیاں تھیں وہ کم ہوئیں، اذان عربی زبان میں بحال ہوئی، قرآن اور دینی کتب سے رجوع بڑھا، دینی مدارس کا احیا امام خطیب اسکول کی شکل میں ہوا، اور اس طرح ترکی نے اپنی اصل شناخت کی طرف مراجعت کے سفرِ نوکا آغاز کیا۔ سیکولرنظام میں دراڑیں پڑنے لگیں اور اسے ’خطرے کی گھنٹی‘ سمجھتے ہوئے ملک کی سیکولر قوتوں نے، جن کے چار ستون فوج، بیوروکریسی، عدالت اور میڈیا تھے، مغربی اقوام کی مدد سے ترکی کی خود اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کے خلاف ایک نئی کش مکش اور تصادم کو فروغ دیا جس نے قوم کی صلاحیتوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ عدنان میندریس کو پھانسی دی گئی اور ۱۹۶۰ء سے فوجی انقلابات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس کا آخری مظہر فروری ۱۹۹۷ء کی فوجی مداخلت تھی۔
۲۴-۱۹۲۳ء سے ۱۹۹۷ء تک کے نظریاتی کش مکش کے اس دور میں عدنان میندریس کے چندسالہ شعلے کے علاوہ جن دو شخصیات نے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا کام کیا ان میں سب سے نمایاں بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۶ء-۱۹۶۰ء) اور نجم الدین اربکان (۱۹۲۶ء- ۲۰۱۱ء) ہیں۔ سعید نورسی نے شروع میں اتاترک کا ساتھ دیا لیکن جب اس نے سیکولرزم اور مغرب کی تقلید کا راستہ اختیار کیا، قومیت کے سیکولر تصور کو قوت کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کی، اور اسلام کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کا ایجنڈا شروع کیا، تو سعید نورسی نے اسے چیلنج کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن اسلام کی بنیادی دعوت اور پیغام کو زندہ رکھا اور تصوف کے سلسلۂ نقشبندی کے فروغ، دینی مدارس کے قیام اور اپنے خطوط اور تحریروں کے ذریعے اسلام کی شمع کو روشن اور عام آبادی کو دین سے وابستہ رکھنے کی خدمت انجام دی۔
علامہ اقبال نے مصطفی کمال پاشا کے لادینی نظام کے تجربے کے بارے میں جو گِلہ کیا تھا، نجم الدین اربکان نے اپنی ۴۰سالہ جدوجہد سے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا انقلابی کارنامہ انجام دیا۔ اقبال نے ترکی کے انقلابِ معکوس کے بارے میں کہا تھا ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
اور یہ کہ ؎
لادینی و لاطینی ، کس پیچ میں اُلجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا ، لا غَالِبَ اِلاَّ ھُوَ
اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو روحِ شرق کو ایک بار پھر جسدِ ترکی میں بیدار کرنے کی سعادت بخشی، وہ پروفیسر نجم الدین اربکان ہیں۔
نجم الدین اربکان ۲۹ ؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کو بحراسود کے ساحل پر واقع ایک پُرفضا شہر سینوپ (Sinop) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد صابری دولت عثمانیہ میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ابتدائی تعلیم طرابزون(Trabzon) میں اور ہائی اسکول کی تعلیم استنبول کے جدید طرز کے مدرسے Istanbul Lisrei میں ہوئی۔ پھر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں میکنیکل انجینیرنگ میں امتیاز کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی جس کی تکمیل جرمنی کی RWTH Aachen University میں ہوئی جہاں سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نیز عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے جرمنی کی ایک بڑی موٹر کمپنی Humbolt Dentzمیں کئی سال کام کیا اور اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ ڈیزل انجن ڈیزائن کے میدان میں نئی دریافت سامنے لائے، اور اُس ٹیم کے چیف انجینیر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں جس نے جرمنی کے مشہور Leopard IA Tankکو ڈیزائن کیا۔ اس اعلیٰ تعلیمی اور تجرباتی ریکارڈ کے ساتھ ترکی واپس آکر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۵ء تک تدریس کے فرائض انجام دیے اور پروفیسر کے درجے پر مامور رہے۔ اس زمانے میں ترکی میں موٹر انڈسٹری کے فروغ کے لیے بھی سرگرم رہے، اہم صنعتی اداروں میں بحیثیت مشیر کام کیا اور بالآخر ترکی کی صنعت و تجارت کے اعلیٰ ترین ادارے یونین آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے جنرل سیکرٹری اور ڈائرکٹر جنرل کی ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ اس زمانے میں انھیں ملک کے بااثر معاشی اداروں سے قریبی تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ سے خائف ہوکر ان کے ایک سابق کلاس فیلو اور برسرِاقتدار حکمران سلیمان ڈیمرل نے چیمبر سے ان کو فارغ کر دیا۔ یہی وہ موڑ تھا جب نجم الدین اربکان نے عملی سیاست میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
اللہ اپنے جس بندے سے جو کام لینا چاہتا ہے ، لے لیتا ہے۔ نجم الدین اربکان ترکی کی تاریخ کا رُخ ایک بار پھر اسلام اور اُمت مسلمہ کی طرف موڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ وہ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۷ء تک (ماسوا اُن ادوار کے، جب وہ قید میں تھے یا ان پر سیاست میں شرکت کرنے پر پابندی تھی) پارلیمنٹ کے رکن اور ایک اہم سیاسی پارٹی کے قائد رہے۔ دو بار نائب وزیراعظم اور ایک بار وزیراعظم رہے۔ آخری ۱۰، ۱۲ سال ان پر بہت سخت گزرے لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھے۔ مخالفین کے وار تو وہ ہمیشہ سہتے ہی رہے لیکن اس دور میں ان کو اپنوں سے بھی دُکھ پہنچے۔ اس کے باوجود ان کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ اکیسویں صدی میں ترکی کے کردار پر جس شخص کا سب سے نمایاں اثر ہے، اور رہے گا وہ نجم الدین اربکان ہیں۔ ان کی بعض آرا یا اقدام کے بارے میں دو رائیں ہوسکتی ہیں لیکن ان کے تاریخ ساز کارناموں کا اعتراف دوست اور دشمن سبھی کر رہے ہیں اور مستقبل کا مؤرخ یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ اربکان کی ۴۰سالہ نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی جدوجہد نے ترکی کے سیاسی اور تہذیبی سفر کے رُخ کو تبدیل کر دیا ہے۔
نجم الدین اربکان سے میرے تعلقات کی داستان بھی نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری پہلی ملاقات کراچی میں اس وقت ہوئی جب ۱۹۶۷ء میں وہ ترکی کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے۔ وہ بڑے اشتیاق سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے دفتر، واقع ناظم آباد میں تشریف لائے۔ پھر ہماری ملاقاتیں اسلامک کونسل آف یورپ کے اجتماعات میں بڑی باقاعدگی اور تسلسل سے ہوتی رہیں۔ میں نے ۱۹۶۶ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۰، ۱۵ مرتبہ ترکی کا دورہ کیا اور ہربار ان سے ملنے کا موقع ملا، حتیٰ کہ جب وہ نظربند تھے اس وقت بھی مجھے ان سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۹۹۰ء کی جنگِ خلیج کے موقع پر ،عالمی تحریکات کے وفد میں وہ ہمارے ساتھ تھے۔ اس وفد میں شامل محترم قاضی حسین احمد، ڈاکٹر حسن ترابی، راشد الغنوشی اور دنیا کی اسلامی تحریکات کے ۱۵قائدین نے اُردن، عراق، سعودی عرب اور ایران کا دورہ کیا تھا، تاکہ عرب دنیا کو اس تباہ کن جنگ سے بچایا جاسکے جس کے بادل منڈلا رہے تھے اور جو استعماری ایجنڈے کا اہم حصہ تھی۔ اربکان صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت پر پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ میری آخری ملاقات ان سے ۲۰۰۷ء میں ہوئی جب انھی کی دعوت پر ان کی رہنمائی میں کام کرنے والے تحقیقی ادارے Essam کی سالانہ کانفرنس میں مَیں نے کلیدی خطاب کی خدمت انجام دی تھی۔
پروفیسر نجم الدین اربکان کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے، اور حالات کے بہ چشم سر مطالعہ کرنے کے بعد جو چند باتیں میں اس موقع پر کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہیں:
ان کی زندگی کا پہلا دور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی تیاری کا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ وہ دین کا علم بھی رکھتے تھے۔ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے انھوں نے اپنے کو اس طرح تیار کرلیا تھا کہ مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتے تھے، جیساکہ اقبال نے کہا تھا ؎
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
نقشبندی سلسلے سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ عبادات میں شغف اور تواضع اور خدمت ان کی شخصیت کے دل رُبا پہلو تھے۔ بلاشبہہ انھیں اپنی راے پر بہت بھروسا ہوتا تھا لیکن خوش اخلاقی اور دوسروں کے ساتھ شفقت ان کے کردار کے نمایاں پہلو تھے۔ ان کے فکری کام کا ترکی سے باہر کے علمی حلقوں کو اندازہ نہیں لیکن اس میدان میں بھی ان کی اپنی خدمات کسی سے کم نہیں۔ خود ایک درجن کتابوں کے مصنف تھے اور درجنوں افراد کو تحقیق اور علمی کاموں پر لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ میکنیکل انجینیرنگ کے فطری اور عملی دونوں پہلوئوں پر ان کو مکمل عبور تھا، اور بات گہری سوچ اور عملی تجربات کی روشنی میں کرتے تھے۔
انھوں نے سیاسی اور نظریاتی تنظیم کا بھی ایک نیا اسلوب اختیار کیا۔ ملّی گورش کو ایک فکری، نظریاتی اور تہذیبی تحریک کے طور پر منظم اور متحرک کیا۔ خدمت کے میدان میں الگ ادارے بنائے، اور خود سیاسی جماعت کے تصور کو بدل کر رکھ دیا جس میں نظریاتی سیاست اور عوامی خدمت اور فلاح کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ طاقت ور اور مفاد پرست طبقوں کے طلسم کو عوامی رابطے، خدمتِ خلق اور معاشرے اور معیشت کی نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں کو منظم کرنے اور اپنی جدوجہد میں اپنا دست و بازو بناکر توڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تنظیم کی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، اور انھوں نے ان کا بھرپور استعمال کیا۔ روایت پرستی کی جگہ جدت اور سیاست کو ایک نیا آہنگ دیا جس میں عوامی مسائل کو مرکزیت دی گئی۔ مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کو انھوں نے اپنی سیاسی قوت کی بنیاد بنایا۔ انقرہ اور اِزمیر کے روایتی مراکزِ قوت (power-centres) کے مقابلے میں استنبول جیسے بڑے شہر اور پھر ملک بھر کے شہروں اور قصبات میں اپنی تنظیم کے تنظیمی ڈھانچے قائم کیے۔ بورسا کا تاریخی علاقہ ان کی قوت کا بڑا مرکز بن گیا۔ ۱۹۶۹ء میں صرف ایک نشست پارلیمنٹ میں لینے والے مجاہد نے ۱۹۷۳ء میں ملک کے کُل ووٹوں کا ۱۲ فی صد حاصل کر کے اسمبلی میں ۴۸ نشستیں حاصل کیں۔ ۱۹۸۵ء میں ووٹوں کی تائید گر کر ۷ فی صد رہ گئی لیکن پھر ۱۹۹۵ء میں ۲۱ فی صد ووٹوں کی بنیاد پر اتنی نمایندگی پارلیمنٹ میں حاصل کرلی کہ ایک دوسری جماعت سے اشتراک کی بنیاد پر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوسکے۔ آج کی جسٹس اینڈ ڈائیلاگ پارٹی خواہ ان سے جدا ہوچکی ہے مگر جو کچھ اس نے حاصل کیا ہے، وہ اُسی درخت کا پھل ہے جو پروفیسر نجم الدین اربکان نے لگایا تھا۔
بلاتمثیل یورپ کی تاریخ کا ایک دور ذہن کے اُفق پر اُبھر رہا ہے جس میں کارل مارکس نے اشتراکیت کا فلسفہ بڑی قوت کے ساتھ پیش کیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ عالمی کمیونسٹ تحریک کا بانی بنا اور عالمی انقلاب کی پیش گوئیاں کیں لیکن ۳۰سال کی جدوجہد کے بعد اس کی تحریک ایک فکری لنگر کی طرح تو موجود رہی مگر یورپ کی سیاست میں ارتعاش پیدا نہ کرسکا۔ البتہ اس کی خواہش کے علی الرغم خود اس کی ہی فکر کے بطن سے جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی وجود میں آئی، اور مغربی یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کی سیاسی لہر اُبھرتی چلی گئی جس نے مارکس کے افکار سے اپنا رشتہ تو باقی رکھا مگر تبدیلی کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ مارکس نے اس سے براء.ت کا اظہار کیا اور اپنی آخری تحریر Critique of the Gotha Programme (1883) میں اس پر کڑی تنقید کی، البتہ سوشل ڈیموکریٹس کا ردعمل کچھ یوں تھا ؎
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری تھی، کیا رہائی ہے
ترکی کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں بھی وہی تمام خصوصیات تھیں جو خصوصیت سے ترقی پذیر ممالک کی سیاست کی پہچان بن گئی ہیں، یعنی بااثر طبقات کا تسلط، میڈیا، فوج اور بیورکریسی کا کلیدی کردار، مغربی اقوام کی کاسہ لیسی اور ان ملکی اشرافیہ اور مغربی حکمرانوں کا گٹھ جوڑ، نیز عوام کا استعمال اور استحصال۔ نجم الدین اربکان نے متوسط طبقات کو زبان اور سیاسی کردار دیا۔ یہ انھی کی سوچ اور مساعی کا حاصل ہے کہ متوسط اور چھوٹے تاجر اور زراعت سے متعلق افراد متحرک ہوئے اور سیاسی مرکزی دھارے میں آگئے۔ ان کی تاریخی خدمات میں دینی شناخت کو ترکی قوم کی شناخت کی حیثیت سے اُبھارنا اور مغرب سے اچھے تعلقات کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے بھی شعوری طور پر علاقائی ممالک اور عرب اور اسلامی دنیا سے تعلقات کو استوار کرنا اور اجتماعی مفادات کے نئے رشتوں کو استوار کرنا، سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اور مغرب کی معاشی اور سیاسی بالادستی کے چنگل سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنا نمایاں ہیں۔ قومی مفاد پر کسی سمجھوتے کو راہ نہ پانے دینا، عوام سے رابطہ اور ان کی حکومت کو سیاسی جدوجہد کا حصہ بنانا، اور اس کے ساتھ اسلام کو زندگی کی صورت گری کرنے والی ایک قوت کی حیثیت سے پیش کرنا، اور یہ بتانا کہ جس طرح نماز اور روزہ اسلامی زندگی کا لازمی حصہ ہیں اسی طرح اجتماعی عدل، سماجی تعلقات اور کرپشن سے پاک سیاست بھی اسلام کا تقاضا ہے۔ سود ایک لعنت ہے، اس سے نجات اخلاقی ہی نہیں ایک معاشی ضرورت بھی ہے۔ مغربی سامراج اور صہیونی ایجنڈے کا مقابلہ کرنا بھی سیاسی جدوجہد کا اہم حصہ ہے___ یہ سب باتیں وہ ہیں جو ترکی کی سیاسی قیادت بھول چکی تھی اور قوم کا ایجنڈا مغربی تصورات اور مفادات کی روشنی میں بنایا جا رہا تھا۔ یہ اربکان ہی کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ سیاست کا انداز اور قوم کا ایجنڈا تبدیل ہوگیا ہے۔ گو، اب بھی مخالف قوتیں بڑی مضبوط اور شکست ماننے کو تیار نہیں، لیکن رنگِ محفل بدل گیا ہے۔
نجم الدین اربکان کا یہ بھی ایک کارنامہ ہے جس کا باہر کی دنیا میں لوگوں کو پوری طرح شعور نہیں ہے کہ تین میدانوں میں انھوں نے اپنی قوم کی ایسی خدمت انجام دی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا:
سیاست کے آہنگ کو بدلنا کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ ان کے مخالف بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ ترکی اب وہ نہیں رہا جو اربکان کے سیاست میں آنے سے پہلے تھا۔ امریکا کے بااثر علمی مجلے فارن پالیسی نے اربکان کے انتقال پر جو نوٹ لکھا ہے اس میں اپنی تمام اگرمگر کے باوجود وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ:
ترکی اربکان کے سیاسی ورثے کی وجہ سے اور اس کے باوجود ڈرامائی طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاشبہہ ترکی کی موجودہ سیاسی کیفیت، اربکان نے ترکی کے سیاسی نظام میں جو کچھ کیا، اس کا بلاواسطہ یا بہت سی صورتوں میں غیرارادی نتیجہ ہے۔ (فارن پالیسی آن لائن، یکم مارچ ۲۰۱۱ء)
اسی مضمون میں آگے چل کر اعتراف کیا گیا ہے:
آج ترکی جو کچھ ہے اس (اربکان) کے بغیر ہونا ممکن نہ تھا۔ ترکی اس کے چھوڑے ہوئے ورثوں کی وجہ سے زیادہ جمہوری اور زیادہ منقسم ہے۔ انھوں نے عوامی ضروریات کو اپیل کرنے اور سماجی تعاون کے حصول کے لیے جو کچھ سکھایا، ترکی کے قائدین اس کے لیے ان کے احسان مند ہیں۔ سیاسی شراکت اور مخالفوں کے ساتھ اشتراکِ عمل کے ان کے طے شدہ طرز نے بھی ان اُمیدوں کو قائم کیا کہ ترکی کے سیاسی نظام میں اسلام کو تعمیری کردار ادا کرنا ہے۔ (ایضاً)
اور اکانومسٹ، لندن یہ لکھنے پر مجبور ہوا ہے کہ:
ان کے سیکولر دشمن ان کو ایک خطرناک مذہبی انقلابی قرار دیتے ہیں، جب کہ انھیں ترکی کے اسلام پسندوں کے لیے ایک معتدل قوت کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ عرب دنیا ترکی کو ایک ممکنہ ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے۔ اربکان کے ورثے کو اب اہمیت حاصل ہے۔ (دی اکانومسٹ، ۳ مارچ ۲۰۱۱ء)
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ وہی فوج جس نے ہر بار اربکان کا راستہ روکا اور انھیں قید اور نااہلی کی صعوبتوں سے دوچار کیا، اس کا سربراہ جنرل ایسک کوسانور (Isik Kosaner) ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے الفاظ میں: ’’انھوں نے ہمارے ملک کے لیے سائنس اور سیاست کے میدان میں ایک قیمتی انسان کی طرح عظیم خدمات انجام دیں‘‘۔ (یکم مارچ ۲۰۱۱ء)
کسی نے سچ کہا___ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!
ترکی میں اسلامی نظامِ بنکاری کو رائج کرنے میں بھی اربکان کا بڑا کردار ہے۔ یہ انھی کا دیا ہوا ماڈل تھا جس کے نتیجے میں سیکولر ملک ہوتے ہوئے بھی بلاسود بنکاری کو قانونی تحفظ اور مواقع حاصل ہوئے۔ ترکی کا افراطِ زر جو ایک زمانے میں ۷۰۰ اور ۸۰۰ فی صد سالانہ تھا، اب ۵ اور ۶ فی صد کے دائرے میں آگیا ہے۔ قرضوں کا بار اب بھی کافی ہے مگر اب معاشی پالیسی بیرونی احکام اور مطالبات کی روشنی میں نہیں، بڑی حد تک ملک کے اپنے حالات اور ترجیحات کے مطابق ترتیب پاتی ہے۔ معاشی زندگی اور جدوجہد کا رُخ بدل گیا ہے اور ان تمام تبدیلیوں میں ترکی قوم کی مساعی کے ساتھ ان کو صحیح رُخ کی طرف رہنمائی کرنے والے اربکان کے افکار اور سیاسی اور معاشی پالیسی کے میدان میں کردار کا بڑا دخل ہے۔ ترکی ان ۵۰سال میں تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ اربکان نے D-8 ، یعنی ترقی پذیر آٹھ ملکوں کے اتحاد کا جو خواب دیکھا تھا اور جس کے لیے عملی اقدام کا آغاز کر دیا تھا۔ خدا کرے ترکی اس سلسلے میں خود آگے بڑھے اور عالمِ اسلام اور خود ترکی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائے، جن کی اربکان نے نشان دہی کی تھی۔ ۲۰۰۷ء میں، آخری ملاقات کے موقع پر D-8 کے منصوبے پر مشتمل کتاب مجھے اپنے دستخطوں سے دیتے وقت جو بات انھوں نے کہی تھی، میں اسے نہیں بھول سکتا۔ کتاب کی ایک مرکزی تصویر پر انگلی رکھ کر انھوں نے کہا: D-8 کے پہلے اجلاس میں جن آٹھ مسلمان حکمرانوں نے شرکت کی تھی، ذرا غور سے دیکھو ان میں سے کوئی بھی آج منصب ِ اقتدار پر نہیں۔ کیا اب بھی ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز نہیں کریں گے؟
_____________
انجینیر، استاد، مربی، قائد اور مجاہد نجم الدین اربکان کا سفرِ آخرت بھی ایک انفرادی شان رکھتا ہے۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ دولت عثمانیہ اور خلافت کے خاتمے کے بعد کسی سیاسی قائد کے جنازے میں عوام کی ایسی شرکت نہیں دیکھی گئی جیسی پروفیسر اربکان کے جنازے میں تھی۔ استنبول کی ۳ہزار مساجد نے جنازہ میں شرکت کا اعلان کیا اور سلطان فاتح مسجد میں اس مجاہد کی نمازِ جنازہ میں ۳۰لاکھ افراد نے شرکت کی۔ صدر مملکت، وزیراعظم، گرانڈ اسمبلی کا اسپیکر، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے قائد، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کے نمایندے، شمالی قبرص کی حکومت کے صدر اور وزیراعظم، حتیٰ کہ ترک افواج کی قیادت، سب نے شرکت کی اور اربکان کی اس خواہش کے احترام میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ان کا جنازہ معروف اسلامی روایات کے ساتھ اُٹھایا جائے اور سابق وزیراعظم اور سربراہِ حکومت کے جنازوں کے لیے جو سرکاری تام جھام ہوتا ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔ پروفیسر اربکان کا جنازہ عوام کے اعتماد اور محبت کا مظہر تھا اور استنبول کی جدید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ترکوں نے اس جنازے میں شرکت سے اربکان کو اپنا آخری سلام ہی پیش نہیں کیا بلکہ یہ جنازہ ایک ریفرنڈم بن گیا۔ ملک میں جو تبدیلی اربکان اور اس کے ساتھیوں کی مساعی کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، ترک عوام کی بڑی تعداد نے اس سے اپنی ہم آہنگی اور اس لہر کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ الحمدللہ اربکان کی موت بھی اس کی زندگی کی طرح اسلامی احیا کی تحریک کی علامت بن گئی ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں
اللہ تعالیٰ پروفیسر نجم الدین اربکان کی تمام مساعیِ جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے، ان کی خدمات کے عوض انھیں جنت کے اعلیٰ ترین مقام پر جگہ دے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے ___اور ترکی کو جس راستے پر گامزن کرنے میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ اس پر تیزرفتاری کے ساتھ گامزن رہے، اور ترکی اور عالمِ اسلام ایک بار پھر مل کر اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا سامان پیدا کریں، اور اقبال نے جو خواب دیکھا تھا وہ حقیقت کا روپ دھار لے ؎
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نُطقِ اعرابی
علامہ عنایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ ۱۹ستمبر ۲۰۱۰ء کو ۷۵برس کی عمر میں اس دارفانی سے رحلت فرما گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ ان کی وفات سے ملت اسلامیہ پاکستان اور جماعت اسلامی ایک مایہ ناز خطیب، مخلص اور بے لوث داعی الی اللہ سے محروم ہوگئی۔ علامہ صاحب علم و فضل، ذہانت و فطانت، فصاحت و بلاغت اور تحریر و تقریر کے میدان میں صفِ اوّل کی شخصیات میں شامل تھے۔
علامہ عنایت اللہ منڈی بہائوالدین کے ایک گائوں ہیڈ فقیریاں میں ۱۹۳۵ء میں پیدا ہوئے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ قرآن پاک ناظرہ مکمل کیا اور کچھ حصہ حفظ بھی کیا۔ مڈل اور میٹرک تک سکول کی تعلیم حاصل کی، پھر مدرسہ عربیہ چوکیرہ میں مولانا سید احمد شاہ کے مدرسے میں داخل ہوگئے جو مفکرِاسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے متاثر اور ان کے نظریۂ اقامت دین سے متفق تھے اور جید عالم دین، مبلغ، داعی اور مربی تھے۔
علامہ صاحب نے یہاں رہ کر علوم عربیہ و اسلامیہ کے ماہر اساتذہ اور مذاہب اسلامیہ اور ادیانِ باطلہ پر عبور رکھنے والے محققین سے استفادہ کیا۔ مذاہب اسلامیہ کا تعارف اور ادیانِ باطلہ کی تردید اس مدرسے کا امتیاز تھا۔ اسی لیے علامہ صاحب کو اس میدان میں سبقت حاصل تھی۔ موقوف علیہ (مشکوٰۃ جو حدیث کی ۱۰ کتب سے ماخوذ احادیث کا جامع مجموعہ ہے اور تفسیر جلالین اور ہدایۃ اوّلین و اخیرین اور شرح عقائد و تفسیر بیضاوی اور اصولِ تفسیر پر مشتمل نصاب ہے) سے فراغت حاصل کی۔ اس دوران میں ان کی زبان و بیان کی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آگئیں اور وہ اسٹیج کی زینت بن گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ علامہ کا لقب ان کے استاذ و مربی سید احمد شاہ چوکیروی نے طالب علمی کے دوران ہی میں انھیں دے دیا تھا اور یہ ان کے نام کا اسی زمانے سے مستقل حصہ بن گیا تھا اور پھر خطابت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ صحاح ستہ میں سندالاجازۃ خطابت کے دوران میں حاصل کی۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ سے دورہ تفسیر بھی اسی دوران میں شعبان و رمضان کے مہینے میں کیا اور تفسیری اسلوب اور مباحث اور مشکلات القرآن میں خصوصی قابلیت اور صلاحیت پیدا کی۔ فاضل فارسی و فاضل عربی کے امتحانات پاس کیے۔ میانوال رانجھا کے مشہور و معروف عالم دین استاذ العلما مولانا غلام رسول فاضل دیوبند اور مولانا سلطان محمود کٹھیالہ شیخان سے استفادہ کیا۔
آپ کے والد ایک متوسط درجے کے زمین دار تھے۔ فارسی زبان کا دینی نصاب پڑھا تھا اور اسے پڑھاتے تھے۔ علامہ صاحبؒ نے بھی یہ نصاب انھی سے پڑھا۔ والدہ کا نام فاطمہ بی بی تھا۔ علامہ صاحب پانچ سال کے تھے کہ فاطمہ بی بی کا انتقال ہوگیا۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ بھائی کا نام محمد شفیع، ایک بہن کا نام غلام عائشہ اور دوسری کا نام مریم بی بی تھا۔ مریم بی بی تقریباً ۹۰برس کی ہیں، جب کہ باقی بہن بھائی فوت ہوگئے ہیں۔ علامہ صاحبؒ کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ چھے بیٹے شادی شدہ اور دو بیٹے زیرتعلیم ہیں۔
فراغت کے بعد شاہی مسجد منڈی بہائوالدین میں خطابت کے منصب پر فائز ہوگئے لیکن بعد میں محکمہ اوقاف کے زیراہتمام مرکز کو چھوڑ کر مدنی مسجد میں منتقل ہوگئے اور ساری زندگی مدنی مسجد کے منبر سے منڈی بہائوالدین اور گردونواح کے مسلمانوں کو جواہر خطابت سے فیض یاب کرتے رہے۔ ان کو سننے والوں کا ایک مستقل حلقہ وجود میں آگیا جو ان سے گہری محبت اور عقیدت رکھتا تھا۔ منڈی بہائوالدین کی مدنی مسجد کو علامہ صاحبؒ کی بدولت پورے ملک میں شہرت حاصل ہوگئی۔ علامہ صاحب یہیں سے دعوتی اورتبلیغی دوروں پر روانہ ہوتے اور یہیں واپس آجاتے۔
مولانا گلزار احمد مظاہریؒ نے حضرت استاذ العلما مولانا محمد چراغ ؒ، مولانا مفتی سید سیاح الدین کاکاخیلؒ کی سرپرستی اور تعاون سے ۱۹۶۳ء میں جمعیت اتحاد العلما کی بنیاد ڈالی تو اس تنظیم میں جن علماے کرام کو شمولیت اور کام کی سعادت نصیب ہوئی ان میں علامہ عنایت اللہ صاحب سرفہرست تھے۔ جمعیت اتحاد العلما پاکستان کو جلد ہی علما کی تنظیموں میں نمایاں مقام حاصل ہوگیا۔ اس سے صفِ اوّل کی علمی شخصیات مولانا عبدالعزیزؒ کوئٹہ، مولانا معین الدین خٹک، مولانا گوہر رحمان، مولانا عنایت الرحمن، علامہ عبدالرشید ارشد، مولانا عبدالرحیم چترالی، مولانا نثار احمد اور بعض مشائخ منسلک ہوگئے، اور یہ تنظیم جماعت اسلامی کے لیے تقویت کا ذریعہ ثابت ہوئی۔
مولانا گلزار احمد مظاہریؒ مشرقی پاکستان [بنگلہ دیش]اور مغربی پاکستان کے دعوتی اور تبلیغی دورے پر جاتے۔ استاذ العلما حضرت مولانا محمد چراغ صاحب اور مفتی سید سیاح الدین ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔ بڑے مدارس کا دورہ اور ان کے اساتذہ سے ملاقاتیں اور بعض مدارس میں علما کے اجتماعات سے خطابات ہوتے۔ مشرقی پاکستان کے تقریباً تمام بڑے مدارس میں علما کے اجتماعات منعقد ہوئے اور ان سے خطابات کیے۔ مغربی پاکستان میں علما و مشائخ کنونشنز منعقد کیے گئے۔ بڑی بڑی دو روزہ، سہ روزہ کانفرنسیں منعقد کیں جن میں مولانا مظاہری کے ساتھ علامہ عنایت اللہ اور علامہ عبدالرشید ارشد کے خصوصی خطابات ہوتے تھے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات اور ۱۹۷۷ء کے انتخابات اور تحریک میں مولانا مظاہریؒ کے ساتھ مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل، علامہ عنایت اللہ، علامہ عبدالرشید ارشد اور علامہ غلام رسول راشدی نے بھرپور شرکت کی۔
جمعیت اتحاد العلما اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے علامہ عنایتؒ اللہ نے بامقصد خطابت کی۔ علما اور عوام کو ایک عقیدے اور نصب العین کے گرد جمع اور منظم کرنے میں حصہ لیا۔ اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کی۔ لہلہاتے کھیتوں کی طرح سرسبز و شاداب تنظیم کو کھڑا کرنے، اس کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ عنایتؒ اللہ اس قافلۂ انقلاب کے بہت بڑے حدی خواں تھے۔ ان کے نغموں نے اس قافلے کو جوش و جذبے اور عشق و محبت کے ساتھ رواں دواں رکھا۔ ان کے دور میں جماعت اسلامی نے جو مختلف مہمات اور عشرے ترتیب دیے، ان کو کامیاب بنانے کے لیے اور علما کو ان میں شریک کرنے کے لیے ملک بھر کے دورے کیے۔ علما کی شمولیت کی بدولت یہ مہمات مؤثر اور بارآور ثابت ہوئیں۔
علامہ صاحب اپنی ذہانت و فطانت اور قرآن و حدیث کے مضامین اور نصوص و آیات کے استحضار کی بنا پر ہرموضوع پر خطاب کے لیے تیار ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے سامعین کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ علامہ صاحب خود تحریر فرماتے ہیں: نوجوانوں کے ایک اجتماع میں تقریر کے لیے جو موضوع تجویز ہوا وہ تھا: ’سائنس اور اسلام‘۔ ایک خیال آیا کہ منتظمین سے کہہ دیا جائے کہ میں اس موضوع کا حق ادا کرنا تو دُور کی بات ہے، اس پر زیادہ دیر بول بھی نہ سکوں گا اور تیاری وغیرہ کا تکلف سفر میں کہاں ممکن ہوگا، لیکن دوسری سوچ نے اسے بھی تکلف ہی گردانا کہ نوجوانوں اور وہ بھی برطانیہ میں مقیم مسلم نوجوانوں سے کچھ نہ کہنے کے بجاے کچھ کہنا ہی مناسب ہے۔ زیادہ معلومات فراہم نہ ہوسکیں تو خطابت سے محظوظ ہوں گے۔ اسی خطابت ہی کا کرشمہ ہے کہ اس مسافر نے ہرقسم کے موضوعات پر خطابت کے جوہر دکھائے ہیں‘‘ (راقم کے نام ارسال کردہ مضمون سے اقتباس)۔ اس موضوع پر خطاب کے نکات میں انھوں نے قرآنِ پاک میں مذکور آیات انفس و آفاق کا تفصیل سے ذکر کیا اور ان کے تذکرے کا مقصد قرآن پاک کے حوالے سے ذکر کیا کہ َتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (الحشر ۵۹:۲۱) ’’یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنھیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ ان میں غوروفکر کریں‘‘۔ ان نشانیوں میں جو قومیں غور کرتی ہیں فلاح پاتی ہیں۔ غور سے مراد تحقیق و تجربہ ہے جسے آپ ریسرچ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا یہ خطاب علمی و تحقیقی نکات سے مزین ہے۔
علامہ صاحب حسنِ اخلاق، عزم و ہمت، جرأت و شجاعت اور صبرواستقامت کا پیکر تھے۔ ساری زندگی دین کی اشاعت و ترویج اور اس کی اقامت کے لیے جدوجہد اور تحریک کو منظم اور قوت بخشنے میں کھپا دی۔ اندرون و بیرون ملک سفروں میں رہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مسافر کہتے تھے۔ وَاعْبُدْ رَبُّکَ حَتّٰی یَاتَیکَ الْیَقِیْنَ کا پیکر بن کر سامنے آئے۔ عمر کے آخری چند برسوں میں بیماریوں کا شکار رہے لیکن ان کے صبر، خندہ پیشانی اور گفتگو میں کبھی بھی اس بات کا اظہار نہ ہوتا کہ وہ بیماری سے دوچار ہیں۔ دوستوں سے ملنا، ان کے احوال معلوم کرنا، ان کے لیے دعائیں اور حوصلہ افزائی کرنا اور کسی نے کچھ اعانت کردی ہو تو اس کا شکریہ ادا کرنا، ان کی عادت اور مزاج تھا جو آخر وقت تک قائم رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ اور جنت الفردوس میں انبیا، صدیقین اور شہدا و صالحین کی معیت نصیب فرمائے،آمین!