یاد رفتگان


موت سے کس کو مفر ہے اور اللہ کا فیصلہ ہر ذی روح کے لیے محکم ہے--- لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے لیے دل یہی کہتا ہے کہ اے کاش! انھیں اور مہلت مل جاتی‘ اور اے کاش! ہماری زندگی بھی ان کو مل جاتی۔ الاستاذ مصطفی مشہورؒ ان ہی چند نفوسِ قدسیہ میں سے تھے لیکن بالآخر وہ بھی ہمیں ہی نہیں ایک دنیا کو سوگوار چھوڑ کر ۸ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ مطابق ۱۴ نومبر ۲۰۰۲ء کو اپنے رب حقیقی سے جاملے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

الاخوان المسلمون کا مرشدعام اور لاکھوں انسانوںکے دلوں پر حکومت کرنے والا ۸۳ سالہ نوجوان تقریباً ۷۰ سال کی پُرآشوب تحریکی زندگی میں طوفانوں سے کھیلنے اور ظلم کے ستم زدہ انسانوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرنے کے بعد ابدی نیند سو گیا لیکن اس طرح کہ ۱۴ سال کی عمر میں جس تحریک سے روشناس ہوا تھا اور جس عظیم مجاہد امام حسن البنا شہیدؒ سے قرب حاصل کیا تھا‘ اور پھر ۱۹ سال کی عمر میں جو عہد امام شہیدؒ سے کیا تھا اس پر زندگی بھر سختی سے قائم رہا‘ قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ تشدد اور تعذیب کے زیورات سے بھی آراستہ ہوا‘ دعوت و تبلیغ کی مہمیں بھی سر کی‘ تحریر و تقریر کے معرکوںمیں بھی شادکام ہوا اور تنظیم و تربیت کے تمام ہی مراحل سے گزرا اور ہزاروں انسانوں کو گزارا اور بالآخر اپنا وہ عہد سچ کر ڈالا جو اپنے پیدا کرنے والے سے اپنے ایک چاہنے والے کے ہاتھ پر بیعت کر کے کیا تھا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً o لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ--- (الاحزاب ۳۳:۲۳-۲۴) ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے‘‘۔

اکتوبر کے آخری دنوں میں ‘ میں نے اپنے عزیز بھائی اور ساتھی ڈاکٹر احمد العسال کے اعزاز میں اسلام آباد میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر احمدالعسال نے اطلاع دی کہ ۲۹ اکتوبر کو مرشدعام الاستاذ مصطفی مشہور پر دل کا حملہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں بے ہوشی کے عالم میں ہیں۔ اسی لمحے ان کے لیے خصوصی دعائوں کا اہتمام کیا۔ پھر عمرہ کے موقع پر مکہ اور مدینہ میں اللہ کے حضور ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کیں‘ میں نے ہی نہیں ان کے ہزاروں مداحوں نے--- لیکن امر ربی ہر چیز پر غالب ہے۔ مدینہ ہی میں اطلاع ملی کہ ۸ رمضان المبارک کو ہمارے محبوب بھائی اور اُمت کے کاروان کے قائد اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے--- اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت و رحمت کی آغوش میں لے لے‘ ان کی خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے--- آمین!

الاستاذ مصطفی مشہورؒ ۱۹۱۹ء میں منہیا القمح السعدین (مشرقی مصر) میں پیدا ہوئے۔ آرٹس کالج قاہرہ سے فلکیات‘ رصدکاری میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ حکومت مصر کے شعبہ فلکیات میں ملازمت اختیار کی اور پھر جوانی ہی میں شب و روز تحریک اخوان المسلمون کی خدمت میں وقف کر دیے۔ تحریک سے ابتدائی تعارف ۱۹۳۳ء میں ہوا۔ پانچ سال تحریک کو سمجھنے اور اپنے کو اس کے لیے تیار کرنے میں لیے اور ۱۹۳۸ء میں امام حسن البنا شہیدؒ سے عہدِوفا باندھا۔ کچھ عرصہ تحریک کے نظام خاص سے وابستہ رہے۔ پہلی گرفتاری ۱۹۴۸ء میں شاہ فاروق کے دور میں ہوئی جو ۱۹۵۱ء تک جاری رہی۔ پھر ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے دور میں گرفتار ہوئے اور بدترین انسانی تعذیب کا نشانہ بنے مگر صبروثبات کا مجسمہ رہے۔ یہ دور ۱۹۶۴ء میں ختم ہوا لیکن پھر ۱۹۶۵ء میں انورالسادات کے دور میں تیسرا دور ابتلا شروع ہوا جو ۱۹۷۱ء تک جاری رہا۔ جوانی کے ۲۰ سال قیدوبند کی نذر ہوئے لیکن یہی دور اُن کی روحانی ترقی‘ قرآن سے شغف‘ اور مقصدِحیات پر محکمی سے قائم رہنے کا دور ثابت ہوا اور وہ اس طوفان سے نایاب گوہر بن کر نکلے۔

مجھے الاستاذ مصطفی مشہورؒ سے ملنے کی سعادت ۸۱-۱۹۸۰ء میں حاصل ہوئی جب وہ تحریک کے بیرونی کام کے انچارج اور عالم اسلام کی اسلامی تحریکات سے ربط کے ذمہ دار تھے۔ کویت‘ پیرس‘ استنبول‘ لندن‘ میونخ‘ قاہرہ‘ پاکستان‘ نہ معلوم کتنی جگہ اور کتنی مرتبہ ملنے کا موقع ملا۔ لیکن اس طرح کہ ’’وہ جب ملے ہیں تو ان سے ہر بار کی ہے الفت نئے سرے سے!‘‘

مصطفی مشہورؒ کی شخصیت میں بلا کی کشش بلکہ مقناطیست تھی۔ میانہ قد‘ گٹھا ہوا بدن‘ واضح نقوش‘ آنکھوں میں ذہانت اور محبت کی چمک اور ہاتھوں میں فولاد کی سی مضبوطی مگر ریشم کی سی نرمی --- ان کی پوری شخصیت اخوت اور محبت کی گرمی اور لطافت کا مرقع تھی! گفتگو آہستہ آہستہ ٹھنڈے انداز میں کرنے کے عادی مگر جب تقریر کرتے تو عربوں کی خطابت کا جادو جگاتے۔ تحریر اور تقریر دونوں میں ادبی نفاست کے حامل صاحب ِطرز ادیب‘ ۱۷ کتابوں کے مصنف‘ سیکڑوں مقالات ان کے قلم سے نکلے جو عالم اسلام کے عربی رسائل خصوصیت سے الدعوۃ اور الاخوان المسلمون میں شائع ہوئے اور نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہے۔ مصطفی مشہورؒ سب ہی حلقوں میں مقبول تھے مگر سب سے زیادہ نوجوانوں میں مقبول تھے جو ان کے گرویدہ رہتے ۔اور کیوں نہ رہتے کہ ان کی باتوں میں ایمان کا نور ہی نہیں جوانوں کا سا عزم اور جہاد اور غلبۂ دین کی خوشخبری ہوتی تھی۔

مجھے ان کے ساتھ تربیتی پروگراموں میں بھی شرکت کا موقع ملا اور تنظیمی اجتماعات میں بھی‘ عوامی ریلیز میں بھی اور بین الاقوامی علمی کانفرنسوں میں بھی۔ میں نے مصر میں ان کے ساتھ نوجوانوں کے ان اجتماعات میں بھی شرکت کی جہاں وہ نوجوانوں کے ساتھ نشید اسی شوق سے گاتے تھے جس سے نوجوان گاتے تھے۔ دریاے نیل میں ان کے ساتھ کشتی میں بھی سفر کیا اور اسکندریہ میں انجینروں کے حلقے کے کیمپ میں بھی قیام کیا۔ یورپ میں بھی ان کے ساتھ رہنے اور سفرکرنے کا موقع ملا اور پاکستان میں پشاور‘ اسلام آباد اور لاہور میں ساتھ وقت گزارا۔ ان کی شفقت اور محبت کے نقش دل پر مرتسم ہیں۔ اس ۲۰ سالہ تعلق میں ہر ملاقات کے بعد ان کی عظمت کا نقش اور بھی گہرا ہوا۔ ان کے خلوص اور محبت نے ان کا گرویدہ بنا لیا‘ ان کے جذبۂ جہاد اور شوق دعوت نے اسلاف کی یاد تازہ کی اور جس پیار اور گرمی اخوت سے انھوں نے ہمارے ساتھ ہمیشہ معاملہ کیا اس کا بیان مشکل ہے:

ساز دل چھیڑ کے بھی‘ توڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا

الاستاذ مصطفی مشہورؒ اخوان کے تیسرے مرشدعام شیخ عمرتلمسانی  ؒ کے دور میں بیرونی کام کے   ذمہ دار ہوئے اور اخوان کی عالمی تنظیم قائم کرنے اور چلانے پر مامور ہوئے۔ اسی حیثیت سے وہ ہمارے ساتھ بھی مربوط ہوئے اور ہم نے اسلامی تحریکات کے درمیان تعاون و تنسیق کی جو کوششیں بھی کیں وہ ان کی رہنمائی اور معیت میں کیں۔ اس زمانے میں ‘ میں جماعت کے بیرونی شعبے کا انچارج تھا۔ اس لیے ان سے بہت ہی قریبی ربط و تعلق رہا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں الاستاذ مصطفی مشہورؒ اخوان کے چوتھے مرشدعام استاد ابوحامد ابونصرؒ کے نائب مرشدعام اول بنے۔ یہ ذمہ داری انھوں نے ۱۰ سال نبھائی۔ ۱۹۹۶ء میں استاذ ابونصرؒ کے انتقال پر انھوں نے مرشدعام کی ذمہ داری سنبھالی جسے وہ آخری لمحے تک نبھاتے رہے اور اس طرح انجام دیتے رہے کہ پچھلے چند سال سے نقل و حرکت پر پابندی تھی‘ تقریر پر قدغن تھی لیکن وہ ایک لمحہ چین سے نہ بیٹھے۔ ہر ہفتے مضمون لکھتے رہے‘ ہر روز بلاناغہ دفتر جاکر بیٹھتے رہے تاکہ ایک دن کے لیے بھی نظم سے رشتہ کمزور نہ ہونے پائے۔ مجھ سے دوستوں کے ذریعے ربط آخری دنوں تک رہا۔

اخوان المسلمون کا ایک عظیم کارنامہ اُمت کو اور خصوصیت سے اس کے نوجوانوں کو قرآن سے جوڑنا ہے۔ جو تعلق ایک عام اخ کا قرآن سے ہے وہ قابل رشک ہے اور مصطفی مشہورؒ تو فنا فی القرآن تھے۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے اور قرآن سننے میں وہ لطف آتا تھا کہ کبھی کبھی تو یہ گمان ہوتا تھا کہ قرآن نازل ہو رہا ہے۔ سبحان اللہ!

مصطفی مشہورؒ کی شخصیت میں بلا کی دل آویزی تھی۔ تحمل اور بردباری‘ معاملہ فہمی اور اصابت رائے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ بارہا تجربہ ہوا کہ دو تحریکوں کے کارکنوں کے درمیان اگر کہیں کوئی مسئلہ پیش آیا ہے تو مصطفی مشہورؒ نے ہمیشہ انصاف کے ساتھ اور ہر حزبی جذبے سے بالا ہو کر اسے طے کیا۔ میں خود اس معاملے میں کئی بار پڑا اور خوش گوار تجربہ ہوا۔ جزاھم اللّٰہ جزا الخیر۔

مصطفی مشہورؒ کی خدمات کا احاطہ کرنا مشکل ہے مگر میری رائے میں ان کے تین کارنامے ایسے ہیں جو اس صدی میں تحریک اسلامی کی‘ خصوصیت سے عرب دنیا میں تحریک کی‘ تاریخ میں نمایاں رہیں گے۔

سب سے پہلے یہ کہ انھوں نے بڑے پُرآشوب دور میں تحریک کے پیغام ہی نہیں اس کے نظام کو عالمی بنیادوں پر استوار کیا اور وہ ہزاروں اخوان جو ہجرت کر کے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ گئے تھے ان کو پھر تحریک کے شیرازے میں منسلک کیا۔ یورپ‘ امریکہ‘ افریقہ‘ جنوب مشرقی ایشیا غرض ہر جگہ وہ گئے‘ لوگوں کو منظم و مجتمع کیا اور عالمی تحریک سے وابستہ کیا۔  ربط و اتصال کا مستقل نظام بنایا اور اس طرح عالمی اسلامی احیا کے موجودہ دور کی شیرازہ بندی کی۔ انھوں نے دعوت اور تنظیم دونوں میدانوں میں اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور بڑے خاموش اور منکسرانہ انداز میں۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو اور شہد کی مٹھاس تھی اور انھی ہتھیاروں سے انھوں نے تمام ہی انسانوں مگر خصوصیت سے تحریکی نوجوانوں کو نظم سے جوڑا اور نیا ولولہ دیا۔

ان کی دوسری عظیم خدمت وہ حکمت عملی اور طریق کار کی تبدیلی ہے جو ان کی قیادت میں مصر میں تحریک اخوان المسلمون میں آخری ۳۰ سال میں واقع ہوئی۔ بلاشبہہ اس میں وہ اکیلے نہیں تھے لیکن اس زمانے میں انھوں نے تحریک کو دعوت و تربیت کے ساتھ اجتماعی نظام میں جمہوری ذرائع سے تبدیلی اور دوسری سیاسی اور اجتماعی قوتوں کے ساتھ تعاون اور الحاق کے ذریعے تحریک کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کی۔ اخوان پرآج بھی مصر میں پابندی ہے مگر یہ ان کی حکمت عملی تھی کہ پیشہ وارانہ تنظیموں ہی کے ذریعے نہیں بلکہ مقامی کونسلوں اورپارلیمانی سیاست میں بھی اخوان کا ایک کردار نمایاں کر دیا۔ آج بھی ساری دھاندلیوں کے باوجود مصری پارلیمنٹ میں اخوان کے ۱۷ ارکان ہیں جو سب سے بڑی حزب اختلاف ہے۔ انھوں نے تشدد کے راستے سے کلی اجتناب کیا اور خصوصیت سے مصر میں برپا تحریکوں جن میں حزب التحریر اور جماعت تکفیر وہجرہ اہم ہیں سے ہٹ کر تحریک اسلامی کے مخصوص طریق کار کو نمایاں اور مستحکم کیا۔ اس باب میں     وہ فکری اعتبار سے بالکل یکسو تھے اور حالات کی صورت گری میں ان کا بڑا نمایاں کردار رہا ہے۔

تیسری چیز نوجوانوں سے ان کی محبت اور نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے اور تحریک میں سمو دینے کی ان کی صلاحیت تھی۔ میں نے ان کو ۸۳ سالہ نوجوان ان کے اسی خاص وصف کی بنیاد پر کہا۔ آج اخوان کی قیادت ۶۰ اور ۷۰ سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے مگر اخوان کی اصل قوت وہ ہزاروں لاکھوں نوجوان ہیں جو تحریک کے دست و بازو ہیں۔مصر کے اسکولوں‘ کالجوں اور یونی ورسٹیوں ہی میں نہیں ہر جگہ‘ قاہرہ کے ہوٹلوں کے ویٹرز میں بھی اخوان ہی کے نوجوانوں سے بات چیت کا موقع ملا اور مجھے یقین ہو گیا کہ جس ملک اور قوم کے نوجوانوں میں یہ دعوت رچ بس گئی ہے وہ ایک دن ضرور اسلامی انقلاب کی آماجگاہ بنے گی--- ان شاء اللہ!

مغربی میڈیا کو اس پر حیرت ہے کہ الاستاذ مصطفی مشہورؒ کے جنازے میں جن لاکھوں انسانوں نے شرکت کی ان کی اکثریت ۱۵ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ مجھے اس پر ذرا بھی حیرت نہیں بلکہ  یہ عین اس مشاہدے کے مطابق ہے جو میں نے خود قاہرہ اور اسکندریہ کے گلی کوچوں میں کیا۔

الاستاذ مصطفی مشہورؒ کی شخصیت ایک عہدساز شخصیت تھی۔ انھوں نے ۶۰ سال سے زیادہ تحریک اسلامی کی خدمت کی۔ جہاد افغانستان میں روحانی ہی نہیں جسمانی شرکت کی۔ اُمت کے ہر مسئلے پر انھوں نے مضبوط موقف اختیار کیا اور اپنے نقطۂ نظر کا برملا اظہار کیا۔ اُمت مسلمہ کا ہر مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا۔ فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ بوسنیا‘ فلپائن‘ اریٹریا‘ غرض ہر مسئلہ انھوں نے اس طرح اٹھایا جس طرح اس کے اٹھائے جانے کا حق ہے۔ وہ ایک ملک کے نہیں‘ پوری دنیا کے شہری تھے۔ وہ ایک تحریک کے نہیں تمام اسلامی تحریکات کے قائد تھے۔ وہ زمین پر نہیں دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ ان کے اٹھ جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جسے صرف رب اعلیٰ ہی پورا کر سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے اور اُمت کو ان جیسے خادموں سے نوازے تاکہ یہ قافلہ اپنی منزل مراد کی طرف کشاں کشاں پیش قدمی کر سکے۔ آمین!

 

میں پرنسٹن یونی ورسٹی میں ایک سیمی نار میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ برادرم مسلم سجاد کا فیکس موصول ہوا: ’’نعیم صدیقی بھی اللہ کو پیارے ہوئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ موت تو برحق ہے اور ہر لمحہ ہم سب کا تعاقب بھی کرتی رہتی ہے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ہمیشہ زندہ ہی دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور نعیم صاحب بھی ایسے چنیدہ افراد میں سے ایک تھے۔ میرے لیے ذاتی تعلقات کی نسبت سے ایک بڑے بھائی‘ فکری میدان میں رہنما‘ تحریکی زندگی میں قائد‘ علمی اور ادبی میدان میں ایک عہدساز شخصیت!

برادر محترم نعیم صدیقی کے انتقال کی خبر سے دل پر ایک اور پہلو سے بھی چوٹ لگی جس کا قلق مجھے ہمیشہ رہے گا۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں‘ میں آئی ایل ایم کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ کے لیے لاہور گیا۔ بعد میں جب اسلام آباد کے لیے روانہ ہو رہا تھا توکسی نے اطلاع دی کہ نعیم صاحب ایک حادثاتی چوٹ کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں۔ اتنا وقت نہ تھا کہ میں ان کو دیکھنے کے لیے جاسکتا۔ اس وقت ارادہ کیا کہ اگر ستمبر میں لاہور جانا ہوا تو ان سے ضرور ملوں گا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اب اس ملاقات کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔ ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل منصورہ میں سید مودودی انسٹی ٹیوٹ کی مجلس اعلیٰ کی میٹنگ میں ہوئی تھی۔ وہ محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میری درخواست پر علالت کے باوجود شرکت کے لیے تشریف لائے اور اپنے ساتھ ۵۰ برس کی یادوں کی سوغات بھی لائے۔ جماعت اسلامی سے قانونی رشتہ منقطع کرنے کے بعد بھی‘ وہ ہمارے لیے ویسے ہی محترم اور محبوب رہے جیسے پہلے تھے اور ان کی شفقت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ان کو دل کا مکین بنا دیا تھااور صرف ان کی علمی‘ ادبی اور تحریکی خدمات ہی نہیں بلکہ ان کی ذاتی صفات اور برادرانہ محبت کا میرے ہی نہیں ‘سیکڑوں افراد کے دلوں پر ایسا نقش ہے کہ ان کی وفات پر بے ساختہ یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ    ؎

بعد از وفات تربت ما در زمین مجو
درسینہ ہاے مردم عارف مزار ما ست

ہماری وفات کے بعد ہمیں زمین کے اندر قبروں میں مت تلاش کرو۔ ہم اہل معرفت کے دلوں میں رہتے ہیں۔

نعیم صاحب سے میرا پہلا تعارف جمعیت کے ابتدائی دور میں ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا پہلا مطبوعہ تعارف‘ جس سے مجھے جمعیت کو سمجھنے کا موقع ملا‘ ان ہی کا لکھا ہوا تھا۔ تعارف میں نے کراچی ہی میں پڑھ لیا تھا اور جب سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور گیا تو فطری طور پر مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے بعد جس شخص سے ملنے کا شوق تھا وہ نعیم صاحب تھے۔ اس لیے بھی کہ مولانا مودودی کی گرفتاری کے زمانے میں ترجمان القرآن کی ادارت انھوں نے کی تھی اور ان کے ’’اشارات ‘‘نے ہم سب کو بے حد متاثر کر رکھا تھا۔ خرم‘ ظفر اسحاق اور میں اپنے پہلے ناظم اعلیٰ ظفراللہ خان کے ساتھ نعیم صاحب سے ملنے گئے۔ پہلا تاثر ملا جلا تھا۔ ان کی تحریروں کو پڑھنے سے ایک بھاری بھرکم شخصیت کا تصور ذہن نے بنا لیا تھا۔ ملا تو اپنے سامنے ایک دبلے پتلے اور چہرے مہرے سے شرمیلے بزرگ کو پایا۔ لیکن تھوڑی ہی گفتگو میں ان کے جوہر کھلے۔ علمیت‘ متانت‘ جمعیت سے محبت اور نوجوانوں کے دل موہ لینے والے حسنِ بیان نے اپنا جادو چلا دیا اور یہ کیفیت ہو گئی کہ  ع

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

پھر نعیم صاحب کو کراچی میں جہانگیر پارک کے ایک تاریخی اجتماع میں سنا جس میں دو گھنٹے کی تقریر میں انھوں نے ’’معاشی ناہمواریوں کا اسلامی حل‘‘ پیش کیا۔ یہ تقریر علم اور خطابت کا شاہکار تھی اور یہی تقریر اس کتاب کی بنیاد بنی‘ جو اسی نام سے بعد میں شائع ہوئی۔ چراغ راہ سے بھی اسی زمانے میں رشتۂ ارادت استوار ہوا اور اس طرح نعیم صاحب بحیثیت مصنف‘ مقرر‘ ادیب‘ شاعر‘ تحریکی قائد ہمارے دل و دماغ پر چھاگئے۔ پھر جب میں ۱۹۵۷ء میں مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب ہوا تو اس وقت سے ۲۰۰۲ء تک نعیم صاحب سے بڑا قریبی تعلق رہا جس کی حسین یادیں میرا بہترین سرمایۂ حیات ہیں۔ یہ ان کی عظمت تھی کہ علم‘ عمر‘ تحریک‘ ہر اعتبار سے فوقیت رکھنے کے باوجود ہمارا تعلق دوستانہ اور برادرانہ رہا۔ ان کے ساتھ علمی اور تحریکی دونوں محاذوں پر کام کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن ہمیشہ انھوں نے اتنی عزت سے معاملہ کیا کہ خوردو بزرگ کا فرق باقی نہیں رہا۔

ہم تو انھیں صرف نعیم صدیقی ہی کے طور پر جانتے تھے۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ ان کا اصل نام فضل الرحمن ہے۔ ان کی پیدایش خان پور‘ تحصیل چکوال‘ ضلع جہلم میں ہوئی (۴ جون ۱۹۱۶ء)۔ جماعت اسلامی کے بانی ارکان میں سے تھے اور ۱۹۴۱ء ہی میں بستر بوریا لے کر اور مدرسے کی تعلیم نامکمل چھوڑ کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی دارالاسلام کی خانقاہ میں داخل ہو گئے اور پھر علم و ادب‘ تحقیق و صحافت‘ نظم و نثر ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔ نعیم صاحب ِایک صاحب طرز ادیب اور مشکل کُشا مفکر تھے۔

بلاشبہہ مولانا مودودی کو انھوں نے اپنا استاد‘ مرشد اور رول ماڈل بنایا لیکن اپنی تخلیقی انفرادیت (originality) کی بنا پر ہر میدان میں اپنا منفرد مقام بھی بنایا۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں انھوں نے گراںقدر خدمات انجام دیں۔ ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ محسن انسانیتؐ ہے جو سیرت نگاری میں ایک نئی روایت کی بنیاد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر ہر پہلو ہی سے کام ہواہے لیکن نعیم صاحب نے محسن انسانیتؐ کے ذریعے وہی خدمت انجام دی ہے جو تفسیرکے میدان میں مولانا مودودیؒ نے  تفہیم القرآن کی شکل میں انجام دی--- یعنی نبی کریمؐ کی زندگی بحیثیت داعی‘ قائدتحریک اسلامی اور عالمی انقلاب کے بانی۔ واقعات وہی ہیں جو ہر سیرت کی کتاب میں ملتے ہیں لیکن انھوں نے ان کی معنویت کو دورنبویؐ ہی نہیں آج کے دور سے ان کی نسبت اور مطابقت کے حوالے سے ایک نئی جہت دی ہے۔ ان کی یہ کتاب حق کے طالبان اور سیرت پر کام کرنے والوں کے لیے برسوں روشن چراغ رہے گی۔

انھوں نے اجتماعی علوم اور معاشرت و سیاست کے دسیوں موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور ہر میدان میں فکر اور اسلوب دونوں اعتبار سے پختگی کے ساتھ جس تخلیقی انفرادیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے۔ نعیم صاحب کا کمال ہے کہ ایک گھسے پٹے موضوع کو بھی زندہ جاوید بنا دیتے ہیں اور ایک جانی بوجھی بات کو بھی اس طرح بیان کرتے ہیںکہ اس میں ندرت اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔

افسانہ‘ رپورتاژ اور ادبی تنقید کے میدان میں بھی انھوں نے اپنا مقام پیدا کیا۔ وہ تحریک ادب اسلامی کے سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ شعر کے میدان میں بھی وہ بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں۔ ان کا پہلا شعر جس نے مجھے چونکا دیا تھا وہ وہ تھا جو چراغ راہ کی بندش کے بعد شائع ہونے والے شمارے کی لوح پر رقم تھا    ؎

گر ایک چراغ حقیقت کو گل کیا تم نے
تو موج دود سے صد آفتاب ابھریں گے

ان کی نظم ’’ہم لوگ اقراری مجرم ہیں‘‘ ایک زمانے تک ہم سب کے جذبات کی ترجمان رہی۔  نعیم صاحب کے یہاں حسن خیال اور حسن بیان دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے اور حرکت‘ جدوجہد‘  کش مکش اور روح جہاد ان پر مستزاد۔ وہ ایک اچھے شاعر ہی نہیں‘ ایک تحریکی شاعر بھی ہیں۔ جس طرح فیض احمد فیض کے یہاں شعری حسن کے ساتھ تحریکیت (گو ایک دوسرے پس منظر سے) پائی جاتی ہے‘ اسی طرح اسلامی انقلابیت کے پس منظر میں نعیم صاحب کا شعر ایک پیغام اور تبدیلی کی دعوت لیے ہوئے ہے۔ نعت کے میدان میں ان کی نعتیہ نظم ’’میںایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے ہوں؟‘‘ ایک منفرد کاوش اور روح کو تڑپا دینے والی چیز ہے:  محسن انسانیتؐ کا شعری خلاصہ!

مجھے ان کے ساتھ سب سے زیادہ قریب سے کام کرنے کا موقع  سیارہ ڈائجسٹ کے قرآن نمبر کی ترتیب کے وقت میسر ہوا۔ اس کی پہلی دو جلدیں ہماری مشترک کوشش ہیں اور آخری جلد صرف نعیم صاحب کی مرتب کردہ ہے۔ میں نے اپنے ذوق کے مطابق بس ایک علمی خزینہ مرتب کرنے کی کوشش کی (محمود فاروقی مرحوم‘ معروف شاہ شیرازی اور نثاراحمد میرے معاون تھے)۔ لیکن نعیم صاحب نے اپنی محنت سے اس پورے مجموعے کو چار چاند لگائے اور ادبی اور علمی دونوں اعتبار سے بیش بہا اضافے کیے۔

مرکزی شوریٰ کی قراردادیں پہلے مولانا محترم سید ابوالاعلیٰ مودودی خود مرتب فرمایا کرتے تھے۔ پھر یہ سعادت نعیم صاحب اور مجھے حاصل ہوئی۔ لیکن میں نے نعیم صاحب کو ایک استاد کا درجہ دیا اور وہ تھے بھی اس کے مستحق۔ میں نے اس زمانے میں ان سے بہت کچھ سیکھا (شاید طول نویسی سمیت--- جو ہم دونوں میں مشترک رہی!)۔

نعیم صاحب کا وہ دور ہمارے لیے بہت روحانی کرب کا باعث رہا جو جماعت سے ان کے قانونی تعلق کے ٹوٹ جانے پر منتج ہوا۔ الحمدللہ اس دور میں بھی اور اس کے بعد بھی ہمارا ذاتی تعلق کبھی متاثر نہ ہوا۔ جماعتی حیثیت سے بھی ان کا احترام اور ان کی فکر سے استفادہ اسی طرح جاری رہا بلکہ استعفے کے بعد چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میں امیر جماعت کے مشورے سے ان کے گھر جاکر ان سے ملے اور ذاتی ہی نہیں‘ تحریکی تعلق کو بھی جس شکل میں بھی ممکن ہو‘ جاری رکھنے کی درخواست کی۔ اس ملاقات میں انھوں نے خاص طور پر برادرم حفیظ الرحمن احسن کو بھی مدعو کیا۔

برادر محترم نعیم صدیقی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ذاتی شرافت اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ علمی‘ ادبی‘ ثقافتی‘ ہر میدان میں انھوں نے ایسی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جن کے اثرات ایک مدت تک جاری رہیں گے۔ وہ علم و ادب دونوں کے شہسوار تھے۔ تحقیق‘ تحریر‘ تقریر‘ مجلسی گفتگو‘ ہرمیدان میں ان کا ایک منفرد مقام تھا۔ اپنے ۵۰ سالہ تعلق پر نظرڈالتا ہوں تو میرتقی میرکی زبان میں ان کی روح کو گنگناتے ہوئے محسوس کرتا ہوں کہ     ؎

باتیں ہماری یاد رہیں‘ پھر باتیںایسی نہ سنیے گا
جو کہتے کسی کو سنیے گا‘ تو دیر تلک سر دھنیے گا

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے‘ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے‘ ان کے جلائے ہوئے چراغوں کو ہمیشہ ضوفشاں رکھے‘ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے‘ انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے‘ ان کے لواحقین کو صبرجمیل سے نوازے اور اس اُمت کو ان جیسے خادمان دین سے کبھی محروم نہ کرے۔ آمین!

 

ڈاکٹر محمد یعقوب مرحوم نے ایک طویل بھرپور عملی زندگی گزاری۔مکمل تحریکی شعور کے ساتھ      حق و باطل کی جنگ میں ہمہ وقت مصروف رہے۔ انھوں نے ہمیشہ یہ ثابت کیا کہ حق کی آواز میں طاقت ہوتی ہے‘ اور باطل کا وجود ہمیشہ بے وقعت اور قابل نفرت ہوتا ہے۔

وہ ضلع دیر کے علاقہ میدان میں ۲۵ جنوری ۱۹۲۷ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی محمد ایوب خاں نامور عالم دین تھے اور ’’خان استاد‘‘ کے نام سے معروف تھے۔مست خیل خاندان سے تعلق تھا۔ اس خاندان نے ہمیشہ انگریزی استعمار کی مزاحمت کی۔ نوابانِ دیر کی بھی ہمیشہ مخالفت کی۔

ڈاکٹر یعقوب مرحوم نے اپنے والد گرامی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ۱۹۵۰ء میں سندِ فضیلت حاصل کی۔ ۱۹۵۶ء میں میٹرک کا امتحان اور پھر منشی فاضل اور ایف اے کے امتحانات پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیے۔

دارالعلوم حقانیہ میں مفتی محمد یوسف مرحوم بھی استاد تھے۔ مولانا عبدالحق بانی مدرسہ کے پاس سید مودودیؒ کی کتابیں  خطبات‘ دینیات اور  تفہیم القرآن وغیرہ ہوتی تھیں۔ اِن کتب کے ذریعے   وہ مولانا مودودیؒ سے متعارف ہوئے۔ سید مودودیؒ سے ان کی پہلی ملاقات ۱۹۷۰ء میں ہوئی۔

ریاست دیر میں شخصی حکومت تھی‘ کسانوں کے اور عام شہریوں کے حقوق غصب کر لیے گئے تھے اور ظلم و جبر کا دور دورہ تھا۔ ڈاکٹر یعقوب نے دیر میں علما کرام اور شاگردوں کو جمع کیا‘ اورانھیں دعوت دی اور ’’تنظیم العلما‘‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ اس تنظیم کی سرگرمیوں سے علما اور عوام میں جماعت اسلامی کے اثرات اس قدر تیزی سے پھیلے کہ جب ریاست دیر کو ۱۹۶۹ء میں پاکستان میں ضم کیا گیا تو نواب دیر اور اُس کے فرزندوں کی یہ تجویز عوام میں پذیرائی حاصل نہ کر سکی کہ ریاست میں عوامی نمایندگی کے لیے نامزدگیاں ہوں۔ دیر کے نواب نے پانچ چھ صد صاحبان اثر و رسوخ کا اجلاس بلایا جس میں اس نے ’’سیاسی لوگوں‘‘ کو خطرناک لوگ کہا اورنامزدگیوں کا پروگرام پیش کیا۔ اس موقع پر اللہ کے اِس مجاہد نے نواب کو للکارا اور کہا کہ ’’حکومت پاکستان نے دیر کے عوام کو ووٹ کا حق دیا ہے‘ آپ کون ہوتے ہیں کہ اِس حق کو غصب کرنے کی تجویزیں دیں۔یہ لوگ جو آپ کے سامنے ہیں‘ آپ کے لوگ ہیں عوام کے نمایندے نہیں ہیں‘‘۔ نواب صاحب طیش میں آگئے اور ڈاکٹر صاحب کو سرزنش کرنے کی کوشش کی مگر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک نہ مانی اور آیندہ انتخابات میں پبلک پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ صاحب زادہ صفی اللہ‘ مولانا عبدالسلام اور ۱۰‘ ۱۵ رفقا میدان عمل میں کود پڑے۔

اُن کی زندگی میں سب سے اہم دور وہ ہے جس میں انھوں نے سرحد اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی گروپ کی نمایندگی کی۔ یہ ایک طویل چوتھائی صدی پر محیط دور ہے جس میں آپ نے اپنے گروپ کے ہمراہ ایسا جان دار کردار ادا کیا ہے‘ جس کی نظیر پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں سے پیش کرنا مشکل ہے۔

سرحد اسمبلی میں آپ کئی بار جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر پہنچے اور جماعت کے پارلیمانی گروپ کے لیڈر رہے۔ ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۳ء تک آپ اسمبلی کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۳ء تک آپ سرحد اسمبلی میں عوام کی نمایندگی کرتے رہے۔ کوئی بھی ایسا اہم مسئلہ نہیں بتایا جا سکتا جس پر انھوں نے اظہار خیال نہ کیا ہو۔ جب اسمبلی سیشن ہوتا تو صوبہ سرحد حکومت کے تمام محکمے اور اُن کے سربراہ دوسرے دن اخبارات دیکھتے کہ کہیں ڈاکٹر صاحب نے اُن کے محکمے کی گرفت تو نہیں کی۔

اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے آپ اور آپ کے رفقا کو پہلے پہل ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ لیکن جب اس طرح کام نہ نکلا تو اے این پی‘ پی پی پی اور نوازگورنمنٹ نے اپنے اپنے دور میں ماڈل ٹائون کے پلاٹ کی پیش کش کی۔ جسے آپ اور آپ کے رفقا نے ٹھکرا دیا۔

ڈاکٹر صاحب ایک فصیح و بلیغ مقرر‘ اعلیٰ پایے کے پارلیمنٹیرین‘ بہترین مدبر اور نہایت شریف النفس انسان تھے۔ وہ ایک باعمل صوفی‘ شب زندہ دار اور ذکروفکر میں مشغول رہنے والے انسان تھے۔ بے باکی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ اس میں اُن کی مثل کوئی نہ تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے آخری ۱۰ برسوں میں قلم سے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ داعی اور دعوت‘ اسلامی انقلاب کے امکانات اور ہماری ذمہ داریاں‘ تزکیہ و تربیت‘ الدعاء المستجاب اور تحریک اسلامی ضلع دیر‘ آپ کی تصانیف ہیں۔

مرحوم نے اپنے علاقے بلامبٹ میں خواتین کے لیے دینی مدرسہ بھی قائم کیا۔ الغرض ڈاکٹر صاحب علامہ اقبال کے اِس شعر کے مصداق اپنی زندگی گزار کر ہمارے لیے ایک نمونہ چھوڑ گئے     ؎

آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

 

بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی تحریک نے مشرق اور مغرب کے ہر ملک میں زندگی اور بیداری کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے کی اپنی اپنی خصوصیات اور اپنے اپنے تجربات ہیں لیکن ترکی اور ملایشیا دو ایسے ملک ہیں جہاں تجدید و احیا کی تحریک نے ایمان کو تازہ اور دلوں کو گرما دیا ہے۔

ملایشیا کی اسلامی تحریک کے قائدین سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ تھا اور ملایشیا ابھی برطانوی سامراج کی ایک کالونی اور صرف ملایا (Malaya)تھا۔ الاستاذ ابوبکر اس وقت اسلامی پارٹی کے سربراہ تھے اور ان موتمرات میں شریک ہوئے تھے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی میں منعقد ہو رہی تھیں۔ ربط و تعلق کا یہ سلسلہ ۱۹۷۳ء سے بہت گہرا ہو گیا جب طلبہ انجمنوں کے عالمی اسلامی وفاق (IIFSO) اور مسلم نوجوانوں کی عالمی اسمبلی (WAMY) میں ملایشیا کے نوجوان قائد انور ابراہیم نے نمایاں کردار ادا کرناشروع کیا۔ انور اس وقت وہاں کی نوجوانوں کی تنظیم آبیم (ABIM) کے صدر اور ملایشیا کے افق پر ایک اُبھرنے والے سورج کی مانند تھے۔ ۱۹۷۳ء ہی میں مجھے  پہلی مرتبہ ملایشیا جانے اور ان کی پوری ٹیم سے ملنے کا موقع ملا۔ جن حضرات نے پہلی ہی ملاقات میں متاثر کیا ان میں فاضل نور بھی تھے جو اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے۔ پھر اس کے صدر بنے۔ ملایشیا کی اسلامی تنظیم اور ایک اہم سیاسی قوت  پاس (Parti Islamic Malaysia) کے نائب صدر‘ رکن پارلیمنٹ‘ صدر اوربالآخر پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے اور ۶۵ سال کی عمر میں ۳۲ سال کی سرگرم تحریکی اورسیاسی جدوجہد کے بعد ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اپنے خالق سے جا ملے اور لاکھوں انسانوں کو سوگوار چھوڑ گئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

الاستاذ فاضل نور ۱۳ مارچ ۱۹۳۷ء کو ملایشیا کی ریاست کیداہ (Kedah) کے ایک مضافاتی علاقے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ ان کے دادا توان گرو حاجی ادریس الجرمانی ملک کے نام ور علما میں سے تھے۔ انھوں نے اپنے پوتے کی تعلیم و تربیت پرخصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدرسے میں حاصل کرنے کے بعد ایک دینی مدرسہ مکتب محمود میں دینی تعلیم حاصل کی اور پھر ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک جامع الازھر قاہرہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ واپسی پرکچھ عرصے مکتب محمود ہی میں تدریس کے فرائض انجام دے کر ملک کی مشہور ٹیکنیکل یونی ورسٹی (یو ٹی ایم) میں اسلامیات کے پروفیسر مقرر ہوئے جہاں ۱۹۷۸ء تک‘  جب ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا‘یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ فاضل نور نے عدالتی چارہ جوئی کی۔ گو کامیاب رہے لیکن پھر یونی ورسٹی کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ہمہ وقت سیاسی اور تحریکی زندگی میں سرگرم ہو گئے۔ ۱۹۸۰ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۹ء میں پاس کے صدر منتخب ہوگئے اور ۱۹۹۹ء میں ان کی قیادت میں پاس کی غیر معمولی کامیابیوں کے بعد جب قومی اسمبلی میں ان کو ۲۷ نشستیںحاصل ہوئیں تو ملک کی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے اور ملایشیا کے متوقع وزیراعظم کی حیثیت اختیار کرلی۔ فاضل نور کو دینی اورسیاسی ہرحلقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کو ایک اصول پسند‘ محنتی‘ بالغ نظر اور معتدل سیاسی لیڈر کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ ان کے جنازے کے جلوس سے ہوتا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی‘ بار بار نماز جنازہ ادا کرنی پڑی۔ کوالالمپور سے ان کے جسم کو کیداہ میں ان کے آبائی گائوں میں سپرد خاک کیا گیا۔ مبصرین کی گواہی ہے کہ ملایشیا کی حالیہ تاریخ میں جنازے میں عوامی شرکت کی ایسی مثال نہیں ملتی   ع

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر

امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنے ابتلا کے دور کے بعد برسراقتدار برخود غلط حکمرانوں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ موت کے وقت ہوگا (بینی وبینکم یوم الجنائز)۔  اس تاریخی جملے کے دونوں پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اصل فیصلہ موت کے بعد اللہ کے حضور اور اس کے رد و قبول سے ہوگا لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خدا کے فیصلے سے پہلے خود خلق موت پر کیسا خراج پیش کرتی ہے۔ فاضل نور کا جنازہ خلق کی طرف سے عقیدت‘ محبت اور قبولیت کابے مثال مظاہرہ تھا۔

الاستاذ فاضل نور قدیم اور جدید دونوں علوم کا مرقع تھے۔ عربی اور انگریزی دونوں پر قدرت رکھتے تھے۔ گو اپنے رفقاے کار الاستاذ عبدالہادی اوانگ (پاس کے نائب صدر ‘ ریاست ترنگانو کے وزیراعلیٰ اور اب فاضل نور کی جگہ   پاس کے صدر) اور الاستاذ نک عزیز (ریاست کلنتان کے وزیراعلیٰ) کی طرح شعلہ بیاں مقرر نہ تھے مگر اپنے خیالات کا اظہار بڑی روانی سے نہایت ٹھنڈے انداز میں اور دلیل کی قوت سے کرتے تھے اور اپنے مخاطبین کو قائل کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ انھوں نے بڑے نازک موقع پر نوجوانوں کی تحریک آبیم کی قیادت سنبھالی۔ یہ وہ وقت تھا جب انور ابراہیم نے مہاتیر محمد کی دعوت پر   اومنو (Umno) میں شرکت کرلی اور ملایشیا کی اسلامی تحریک ایک اندرونی چیلنج سے دوچار ہوگئی۔ فاضل نور اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے اور انور ابراہیم کے دست راست سمجھے جاتے تھے لیکن آبیم کا صدر منتخب ہوکر انھوں نے بڑی حکمت اور توازن سے معاملات کوسلجھایا اور انور کے مخالف اور حامی دونوں حلقوں میں نہ صرف اپنی ساکھ قائم کی بلکہ تحریک کو انتشار اور تقسیم سے بچا لیا۔ جب آبیم سے فارغ ہوئے تو سیدھے پاس میں شریک ہوئے اور اس کے نائب صدر اوربالآخر صدر منتخب ہوئے۔ آبیم اور پاس کو ایک دوسرے سے قریب رکھا اور انور ابراہیم جس حکمت عملی پر کاربند تھے اس کی راہ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ بنے‘ گو اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور پاس کو ایک آزاد اور متبادل سیاسی قوت کی حیثیت سے مضبوط سے مضبوط تر کرتے رہے۔

خود پاس  میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں بڑی اندرونی کش مکش تھی۔ داتو موسیٰ عصری کے دور میں پاس پر ایک طرف ملائی قومیت اور تشخص کا غلبہ رہا تو دوسری طرف برسرِاقتدار جماعت اومنو سے اشتراک اقتدارکا تجربہ (۷۹-۱۹۷۸ء) ہوا جو خاصا متنازع رہا۔ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا اور پھر پاس میں قیادت آہستہ آہستہ علما کے گروہ کوحاصل ہوئی جس میں الاستاذ عبدالہادی اوانگ اور ان کے رفقا کا بڑا کردار تھا۔ فاضل نور اسی مکتب فکر سے وابستہ تھے۔ بالآخر پارٹی کی قیادت پھر علما کوحاصل ہوئی۔ الاستاذ یوسف روا صدر بنے اور فاضل نور نائب صدر۔ یہ قیادت مسلسل محنت اور دعوت اور خدمت کے ذریعے پاس کو سیاست  کے قومی دھارے میں لانے میں کامیاب ہوئی۔ پہلے کلنتان کی ریاست میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر ترنگانو میں‘اور ۱۹۹۹ء میں مرکزی پارلیمنٹ میں ۲۰فی صد نشستیں جیت کر پاس اصل حزب اختلاف بنی۔ چونکہ یہ انتخاب متبادل فرنٹ کے نام پر لڑا گیا تھا اس لیے سب کو ساتھ لے کر چلے اور فاضل نور قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے۔

الاستاذ فاضل نور کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ۳۰ سال کے دوران ان سے درجنوں ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ علمی‘ انتظامی‘ سیاسی‘ اختلافی غرض ہر طرح کے امور پر دل کھول کر بات چیت کے مواقع ملے ہیں۔ میں نے ان کو ایک سلجھا ہوا انسان پایا۔ علمی حیثیت سے باوقار‘ سیاسی اعتبار سے متوازن اور صلح جو‘ اصول کے معاملے میں جری اور ثابت قدم لیکن سیاسی اورشخصی دونوں میدانوں میں ٹھنڈے اور معتدل۔ دوسرے کے نقطۂ نظر کوسننے‘ سمجھنے اور اس کا احترام کرنے والے اور تصادم کے مقابلے میں تعاون اور اختلاف کے باوجود متفق علیہ معاملات میں اشتراک کی روش اختیار کرنے والے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس نے تصادم سے بھرپور سیاسی فضا میں ان کو تعاون اور قدر مشترک کے متلاشی قائد کا مقام دیا۔ وہ جوڑنے والے تھے‘ کاٹنے والے نہیں‘ سعدی کے انسان مطلوب کا ایک عملی نمونہ:

تو براے وصل کردن آمدی
نے براے فصل کردن آمدی

انورابراہیم کے اومنو میں جانے اور پھر مہاتیر محمد کے غضب اور انتقام کا نشانہ بن کر طوق وسلاسل کے اسیر بننے کے دونوں ادوار میں فاضل نور نے بڑی حکمت‘ معاملہ فہمی‘ توازن و اعتدال‘ حقیقت پسندی‘ اصولوں سے وفاداری مگر شخصی معاملات میں احترام اور تعلق خاطرکے اہتمام کی بڑی اعلیٰ اور روشن مثال نہ صرف یہ کہ قائم کی بلکہ پوری تحریک اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس راہ پر لانے اور قائم رہنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہ ان کا خلوص اور قائدانہ صلاحیت ہی تھی جس نے ملایشیا کی اسلامی تحریک اور پوری قوم کو انصاف اور اعتدال کے راستے پر رکھا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ’’انصاف سب کے ساتھ ضروری ہے‘ سیاسی اتفاق اور اختلاف کو انصاف کے تقاضوں کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔

الاستاذ فاضل نور کی خدمات بے شمار ہیں لیکن یہ ان کا منفرد کارنامہ ہے کہ پاس میںعلما کی قیادت کے غلبے کے باوجود انھوں نے تحریک کو قدیم و جدید کی جنگ سے بچا لیا اورسب کو ساتھ لے کرچلے اور جماعت میں وحدت ‘ یک رنگی اور اعتماد باہمی کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ملایشیا کی سیاست میں ایک نازک مسئلہ ملائی شناخت (Malay Identity) کا ہے۔ ایک کروڑ ۱۰لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں ملائی شناخت کے لوگ بمشکل ۵۴ فی صد ہیں۔ چینی شناخت کے لوگوں کی تعداد ۳۰‘ ۳۵ فی صد ہے اور باقی کا تعلق ہندستان سے آنے والوں سے ہے جن میں ۹۰ فی صد ہندو یا سکھ ہیں۔ اس طرح تین بڑی قومیتیں اور پانچ بڑے مذہب اسلام‘ عیسائیت‘ چین کا روایتی مذہب‘ ہندومت اور سکھ ازم یہاں پائے جاتے ہیں۔

ملائی شناخت والے لوگ ۱۰۰ فی صد مسلمان ہیں اور شروع میں پاس کی شناخت صرف ملائی تھی۔ پھر اس کا ہدف اسلام کا اجتماعی نظام ہے۔ اس بنا پر قومی شناخت کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہو گیا تھا۔ الاستاذ یوسف روا اور پھر خاص کر الاستاذ فاضل محمد نور کے دور میں پاس اسلامی شناخت اور ملائی آبادی سے انصاف کے ساتھ باقی قومیتوں سے بھی قریب آئی ہے اور ایک قومی سیاسی قوت بن کر اُبھری ہے۔ آج بھی شریعت سے وفاداری ‘ اسلامی نظام کا قیام اور باقی تمام قومیتوں سے انصاف اور ان کے ساتھ شرکت اقتدار کے نازک ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پاس سرگرم عمل ہے۔ جن دوریاستوں میں اسے حکمرانی کا اختیار حاصل ہے ان میں اس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے اور اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی بڑی روشن مثال قائم کی ہے۔ یہ فاضل نورکا وہ کارنامہ ہے جو ملایشیا کے مستقبل کی صورت گری کے لیے ایک تاریخی عمل کی حیثیت سے جاری و ساری رہے گا اور صرف پاس اور ملایشیا ہی نہیں‘ پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک اچھا نمونہ بنے گا۔ میں  تحدیث نعمت کے طور پر یہ ذکر کر رہا ہوں کہ خود مجھے‘ الاستاذ یوسف قرضاوی‘ الاستاذ راشد غنوشی اور دوسرے ساتھیوں کو اس حکمت عملی کے دروبست سنوارنے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور یہ سب الاستاذ فاضل نور‘ الاستاذ عبدالہادی اوانگ‘ مصطفی علی اور نصرالدین جیسے ساتھیوں کی بالغ نظری اور معاملہ فہمی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ذٰلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔

الاستاذ فاضل نور صرف ملایشیا ہی نہیں پوری اُمت مسلمہ اور انسانیت کے خادم تھے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ بوسنیا‘ شیشان‘ کوسووا‘ منڈانو‘ پٹانی غرض جہاںبھی مسلمان آزادی‘ حقوق اور اسلامی اقدارکے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں اس میں استاذ فاضل نور کا وزن ہمیشہ اُمت کے پلڑے میں رہا اور اُمت کے ہر غم میں وہ برابر کے شریک رہے۔ افغانستان پر امریکہ کی بم باری ‘فلسطین میں اسرائیلی مظالم اور کشمیر میں بھارت کی مسلم کُشی کو وہ انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے تھے اور امریکہ کے حالیہ عالمی کردار پرسخت گرفت کرنے والوں میں سے تھے۔

یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جون ۲۰۰۲ء کے دوسرے ہفتے میں لسٹر میں اسلامک فائونڈیشن کی ایک کانفرنس میں عالم اسلام کے چند بہی خواہ ایک اہم علمی اجتماع میں شریک تھے جس میں ملایشیا سے محترم مصطفی کمال اورنصرالدین (پاسکے بین الاقوامی امور کے سربراہ اورسیکرٹری جنرل و ارکان پارلیمنٹ) شریک تھے۔ اس اجتماع کے بعد ہم سب کو ہالینڈ ایک دوسرے اجتماع میں جانا تھا کہ یہ خبر آئی کہ الاستاذ فاضل نور کے دل کا آپریشن ہواہے جو پوری طرح کامیاب نہیں رہا۔ مصطفی علی اور نصرالدین فوراً کوالالمپور کے لیے روانہ ہو گئے اور میں روزانہ ان سے جناب فاضل نور کی خیریت معلوم کرتا رہا۔ دو ہفتے زندگی اور موت کی کش مکش میں رہنے کے بعد ملایشیا کی اسلامی تحریک کا یہ سربراہ اور ہمارا عزیز دوست اور بھائی‘ الاستاذ فاضل نور ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اس جہان فانی سے ابدی زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری کمزوریوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے‘ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت کے اعلیٰ مقامات سے نوازے ‘اوراُمت کو ان جیسے خادمانِ دین سے نوازے جوحلقہ یاراں میں رحماء بینھم اور معرکہ حق و باطل میں فولاد کا کردار ادا کریں۔ آمین!

میرے لیے ان کی وفات ایک ذاتی سانحہ ہے اورپوری اُمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم خسارہ۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

 

عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت ‘ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ(WAMY) ‘ ریاض کے سیکرٹری جنرل اور مملکت سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے ممبر ڈاکٹر مانع بن حماد الجہنیؒ ۴ اگست ۲۰۰۲ء بروز اتوار صبح ساڑھے سات بجے ریاض ایئرپورٹ جاتے ہوئے کارکے حادثے میں انتقال کر گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون--- ان کی موت عالم اسلام کا ایک عظیم خسارہ ہے۔ ان کے اُٹھ جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو فوری طور پر پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ اس خلا کو پُرکرنے کا ساماں فرمائے۔

شیخ مانع الجہنیؒ ۱۹۴۳ء میں حجاز میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میںانھوں نے الیکٹرونک انجینیرنگ میں کئی ٹیکنیکل سرٹیفیکیٹس حاصل کیے۔ پھر طائف اسکول میں شام کی کلاسوں میں داخلہ لیا اور وہاں سے سیکنڈری اسکول کا امتحان پاس کیا اور پورے ملک میں اول آئے۔ ۱۹۷۲ء میں ریاض یونی ورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۷۶ء میں انڈیانا یونی ورسٹی‘ امریکہ سے ایم اے (انگریزی) کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۸۲ء میں وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۸۲ء سے ۱۹۹۳ء تک کنگ سعود    یونی ورسٹی ریاض کے شعبہ انگریزی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پرفائز رہے۔ ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۵ء تک اسی شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر کام کیا۔

ڈاکٹر مانع کو ابتدا ہی سے طلبہ کے معاملات سے دل چسپی رہی اور وہ متعدد طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیموں کے ممبر اور صدررہے۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۶ء تک وہ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل رہے۔ ۱۹۸۷ء سے اس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ ۱۹۹۷ء میں وہ سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے ممبر بنائے گئے۔ انتقال کے وقت تک وہ ان دونوں عہدوں پر فائز تھے۔

ڈاکٹرمانع نے بحیثیت سیکرٹری جنرل ’وامی‘ کے کاموں کو بڑی وسعت دی۔ ملک اور بیرون ملک میں اس کے متعدد علاقائی دفاتر قائم کیے۔ مسلم طلبہ اور نوجوانوں کو اسلامی دعوت اور خدمت خلق کے کام میں متحرک کرنے کے لیے متعدد بار پوری دنیا کے دورے کیے۔ متعدد اسلامی تنظیموں نے ’وامی‘ کی ممبرشپ اختیار کی‘ جن میں طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیمیں خاص ہیں۔ اس سے وابستہ تنظیموں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ باضابطہ ممبر تنظیموں کی تعداد ۴۵۵ ہے۔

ڈاکٹر مانع کو اُمت مسلمہ کے مسائل سے خصوصی دل چسپی رہی۔ مسلمان جہاں کہیں اقلیت میں ہیں ان کے معاملات میں وہ گہری دلچسپی لیتے رہے۔ چنانچہ ’وامی‘ کی چھٹی عالمی کانفرنس ’’الاقلیات المسلمہ‘‘ کے موضوع پر ریاض میں ہوئی تھی جس میں مسلمانوں کے تعلیمی‘ اقتصادی‘ ثقافتی اور تہذیبی مسائل زیربحث آئے۔ مسلم اقلیت پر مظالم کو دیکھ کر ان کا دل بے چین ہو جاتا تھا۔ بوسنیا‘ چیچنیا‘ کوسووا‘ برما‘ کشمیر اور افغانستان اور جہاں کہیں مسلمانوں پر مصیبت آئی ڈاکٹر مانع نے بروقت اس کی طرف مسلم دنیا کی توجہ مبذول کرائی اور فوراً ایک کمیٹی تشکیل دے کر ریلیف کا کام شروع کروایا۔ عالم اسلام کے خلاف جب بھی کوئی سازش ہوئی‘ اس کو بے نقاب کرنے میں سب سے پہلا بیان ڈاکٹر مانع ہی کا ہوا کرتا تھا۔ وہ نہایت جرأت مندقائد تھے اور حق بات کہنے میں ذرا بھی پس و پیش نہیں کرتے تھے۔

اقوام متحدہ کی طرف سے جب بھی ایسی عالمی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اسلامی تہذیب و روایات کے خلاف تجاویز پاس کی گئیں تو اس کی مخالفت میں سب سے پہلی اور سب سے مؤثر آواز ڈاکٹر مانع ہی کی بلند ہوتی۔ عالم گیریت اور ’’نیا عالمی نظام‘‘ کے تحت اسلام اور اسلامی تہذیب کے خلاف کچھ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو اسلام کی مدافعت کے لیے سب سے پہلے وہی سامنے آئے۔ ڈاکٹر مانع کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ عالم اسلام کے حالات سے باخبر رہتے تھے اور بوقت ضرورت فوراً مؤثر کارروائی شروع کردیتے تھے۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر انگریزی ادب کے اسکالر تھے لیکن تنظیمی امور میں ان کو خاص مہارت حاصل تھی۔ وہ تقسیم کار کے سائنٹیفک اصول پر عمل کرتے تھے۔ تمام اہم شعبوں کی نگرانی کے لیے انھوں نے الگ الگ کمیٹی بنا دی تھی اور وہ صرف اس کی سرپرستی کرتے تھے۔ ان کی نگاہ بہت ہی دُور رس تھی۔ ان ممالک میں جہاں مسلمان اکثر ناخواندہ ہیں اور غربت و افلاس کا شکار ہیں‘ عیسائی مشنریاں میڈیکل ریلیف کے نام پر مسلمانوں کو نصرانی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر مانع نے مسلم ڈاکٹروں کی کمیٹی بنائی تاکہ اس میدان میں وہ ریلیف پہنچائیں اور اپنا داعیانہ کردار ادا کریں۔ عالم اسلام کو جن سنگین حالات کا سامنا ہے وہ نہ صرف ان کو خوب سمجھتے تھے بلکہ مسلم دنیا اور بالخصوص مسلم نوجوانوں کو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار بھی کرنا چاہتے تھے۔ ’وامی‘ کی آٹھویں بین الاقوامی کانفرنس کا موضوع بھی یہی تھا۔ عالم گیریت کے نام پر عالم اسلام کو جن نئے خطرات کا سامنا ہے ان سے نبردآزماہونے کے لیے ’وامی‘ کی نویں عالمی کانفرنس کا انعقاد اسی موضوع پر اکتوبر میں ہونا طے پایا ہے۔

فلسطین کے مسئلے سے ان کو خاص دل چسپی تھی۔ القدس کے لیے وہ برابر آواز بلند کرتے رہے اور علمی‘ فکری اور عملی سطح پر ہر ممکن تعاون اہل انتفاضہ سے کرتے رہے۔ مجلہ المستقبل الاسلامی میں ان کے بیانات اور مضامین اس کی شہادت دیتے ہیں۔ یہی معاملہ کشمیر کے مسلمانوں کی جنگ آزادی سے تھا۔ اس سلسلے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ہندستانی مسلمانوں کے مسائل سے بھی وہ غافل نہیں رہے۔ موجودہ حکومت نے جب درسی کتابوں میں تاریخی حقائق کا چہرہ مسخ کرنا شروع کیا تو ڈاکٹر مانع نے اس کا سخت نوٹس لیا اور حکومت ہند کو اس علمی بددیانتی کی طرف توجہ دلائی۔ ہندستان اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مسائل میں ان کی غیر معمولی دلچسپی ہی تھی کہ انھوں نے حالات ناسازگار ہوتے ہوئے بھی ’وامی‘ کا علاقائی دفتر دہلی میں قائم کیا۔

ڈاکٹر مانع کا معمول تھا کہ وہ ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ تقریباً تمام عربی اور انگریزی روزناموں پر ایک طائرانہ نظر ضرور ڈالتے تھے۔ ان خبروں کوخاص طور پر پڑھتے تھے جو ’وامی‘ کے شعبہ بیرونی تعلقات اور انفارمیشن سیکرٹری یا کسی شعبے کے سیکرٹری نشان زد کر کے ان کے پاس بھیجتے تھے۔ ان کے پاس دفتری امور سے متعلق جتنے معاملات اور کاغذات پہنچتے تھے وہ روزانہ ان کو نپٹا دیا کرتے تھے خواہ اس کے لیے ان کو رات کے ۱۲ بجے تک رکنا پڑے یا دوپہر کا کھانا عصر کے وقت کھانا پڑے۔

کتب بینی ان کا خاص مشغلہ تھا۔ ریسرچ میگزین اور کتابوں سے ان کی دل چسپی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں ۱۵ ہزار سے زائد کتابیں ہوں گی ۔ جن کتابوں کی راقم الحروف نے ترتیب و درجہ بندی کرکے ان کی فہرست کمپیوٹر کی مدد سے تیار کی تھی ان کی تعداد ۱۱ ہزار ۳ سو ۵۵ ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں ان میں جو اضافہ ہوا وہ ان کے علاوہ ہے۔ سال میں ۲۵‘ ۳۰ مرتبہ بیرون ملک کا دورہ ہوتا تھا اور ہر دورے سے واپسی کے وقت ان کے ساتھ دو تین کارٹن کتابوں کے ضرورہوا کرتے تھے۔ کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا شوق ’’عشق‘‘ کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حافظہ بھی نہایت عمدہ دیا تھا اور بفضلہ تعالیٰ ذہنی وفکری سطح بھی نہایت بلند تھی۔ کئی کتابوں کا انھوں نے ترجمہ کیا اور متعدد مضامین اور کتابیں خود بھی لکھیں۔ سیمی نار اور کانفرنس کے مقالات اور ریڈیائی خطبات کی تعداد سیکڑوں میں ہو گی۔ یہ سب چیزیں’وامی‘ کی آرکائیو میں محفوظ ہیں۔ ان کی تین کتابوں کا اُردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ۱- اسلامی بیداری مستقبل کے تناظر میں (ترجمہ: مظہر سیدعالم)‘ ۲- اسلام اور امن عالم ‘۳- تضامن اسلامی اور مملکت سعودی عرب (ترجمہ: ڈاکٹر محمد سمیع اختر)۔

وہ نہایت خوش مزاج اور خوش اخلاق انسان تھے‘ عربوں کی مہمان نوازی اور خوش اخلاقی اور اسلامی روایات کے وہ امین تھے۔ راقم الحروف کو بارہا ان کے گھر پر ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ چائے کی ٹرے خود اُٹھا کرلاتے اور خود سے چائے بنا کر پیش کرتے۔ پیالی خالی بھی نہیں ہو پاتی تھی کہ دوسری بنا دیتے۔ یہ خوش اخلاقی ان کے سبھی بچوں اور تمام اہل خانہ میں پائی جاتی ہے۔

کفایت شعاری‘ سادگی‘ تواضع اور خاکساری ان کے مزاج کا خاصہ تھیں۔ ایک بار ’وامی‘ کی مسجد میں رحل بے ترتیب رکھے ہوئے تھے۔ کئی لوگ اس وقت مسجد میں موجود تھے جن سے وہ ان کو ترتیب سے رکھنے کے لیے کہہ سکتے تھے لیکن انھوں نے کسی کو حکم دینے کے بجائے خود ہی یہ کام انجام دیا۔ اور ایسا اکثر کرتے تھے کہ کسی کام کا دوسروں کو حکم دینے کے بجائے خود ہی آگے بڑھ کر ‘ کر ڈالتے۔ ایک مرتبہ جب شروع شروع میں لائبریری کی کتابوں کی ترتیب کا کام چل ہی رہا تھا‘ وہ تشریف لائے‘ ایک شیلف میں کتابیں ابھی بے ترتیب رکھی تھیں‘ خود کھڑے کھڑے ترتیب دی اور بغیر کچھ کہے چلے گئے۔ اسٹیشنری کے استعمال میں عام طور پر اہل عرب فضول خرچی کرتے ہیں اور اوراق برباد کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر مانع کو میں نے اس معاملے میں بڑا محتاط پایا۔ وہ ایک ورق کاغذ بھی برباد نہیں کرتے تھے۔ ٹیوب لائٹ بلاوجہ جلتی ہوئی دیکھتے توخود بجھا دیتے۔ جب تک دل کا آپریشن نہیں ہوا تھا مزدوروں اور کارکنوں کے ساتھ بھاری بوجھ اٹھانے میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔

خاکسار کا معمول ہے کہ کہیں کوئی اخبار کا ٹکڑا جس پر اللہ کا نام یا قرآنی آیت کے ہونے کا امکان ہو‘ اسے بڑی حفاظت سے اُٹھا کر کبھی اپنی جیب میں یا پھر ایسی اُونچی جگہ رکھ دیتا ہے جہاں وہ محفوظ رہے۔ ایک بار جب میں ان کی ذاتی لائبریری کو ترتیب دے رہا تھا تو انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ جو کتابیں مکرر (duplicate) ہیں ان کو ایک جگہ الگ کر دوں۔ میں نے مکرر کتابوں کو ایک جگہ ٹیبل پر رکھنا شروع کیا۔ قرآن پاک کے کچھ نسخے بھی مکررتھے جو معمولی کاغذ پر چھپے ہوئے خستہ حال تھے۔ میں نے ان نسخوں کوبھی ان مکررات کے ساتھ رکھ دیا۔ میں بھول گیا کہ یہ عام کتاب نہیں ہے بلکہ قرآن مجید ہے۔ ڈاکٹر مانع آئے تو قرآن پاک کے ان نسخوں کو وہاں سے اُٹھا کر الماری میں سب سے اُونچے شیلف میں سجا دیا۔ زندگی میںپہلی بار اپنے قد کے چھوٹے ہونے کا احساس شدت سے ہوا۔

راقم الحروف نے ان کو خوش مزاج اور خوش اخلاق پایا۔ ’وامی‘ کے اسٹاف سے وہ دوستانہ ماحول میںنہایت نرم لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔ طبیعت میں مزاح کا پہلو بھی تھا۔ ایک بار کتابوں کو ترتیب دیتے وقت ایک کتاب میں سونے کی ایک چوڑی ملی۔ میں نے اس کو میز پر رکھ دیا۔ دیکھا تو فرمایا کہ ’’محمود‘ یہ تمھاری تو نہیں ہے؟‘‘

جب بھی سفر پر جاتے میں ان کی خیر و عافیت سے واپسی کے لیے دعائیں کرتا‘ یہاں تک کہ وہ لوٹ آتے۔ ’’اے اللہ! ان کی ہر چیز میں برکت دے‘‘ یہ تو ان کے حق میں میری مستقل دعا تھی۔ انتقال کے دن بھی فجر کی نماز کے بعد ان کے حق میں یہی دعا کی تھی۔ خبر پرانی ہو گئی لیکن یقین نہیں آتا۔ دل کہتا ہے ایسے انسان کو مرنا نہیں چاہیے لیکن قدرت کا فیصلہ اٹل ہے۔ دل اُداس ہے‘ آنکھیں اشک بار ہیں لیکن زبان سے ہم وہی کہیںگے جس کی تعلیم حضور اقدسؐ نے دی ہے: انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

 

ریاست جموں و کشمیر میں جن اصحاب عزیمت نے تحریک مولانا اسلامی اور جدوجہد آزادی دونوں کی آبیاری اپنے خون اور پسینے سے کی‘ ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت مولانا حکیم غلام نبی کی تھی جو ۳فروری ۲۰۰۲ء کو تقریباً ۸۰ سال کی مجاہدانہ زندگی گزار کر رب حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

قسمت نگر کہ کشتۂ شمشیر عشق یافت
مر گے کہ زاہداں بہ دعا آرزو کنند

عشق و محبت کی شمشیر سے گھائل ہونے والے کی خوش قسمتی دیکھیے کہ اُسے موت ایسی نصیب ہوئی جس کی آرزو زاہد کرتے ہیں۔

غلام نبی وادیٔ کشمیر کے ایک چھوٹے سے خوب صورت گائوں مولوچترگام (ضلع پلوامہ) میں ایک معروف دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان رشد و ہدایت کا سرچشمہ تھا۔ نوجوان غلام نبی نے بھی علم دین کے حصول ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ کشمیر میں ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی اور دیوبند کے علمی سرچشموں سے ۱۵ سال پیاس بجھائی۔ دیوبند سے سندفضیلت حاصل کی اور دہلی سے طب و جراحت کی ڈگری لی۔ اس کے ساتھ جدید تعلیم کے زیور سے بھی اپنے آپ کو آراستہ کیا اور ایف اے کی سند امتیازی شان سے حاصل کی۔ اس طرح نوجوان غلام نبی مولانا حکیم غلام نبی بن کر وادیٔ کشمیر لوٹا۔ عربی‘ انگریزی‘ فارسی اور اُردو پر عبور اور اس پر مستزاد صاف ستھرا علمی اور ادبی ذوق--- تقریر اور تحریر دونوں پر قدرت‘ بلکہ تقریر کا تو یہ عالم کہ: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی!

علم دین‘ انگریزی تعلیم اور طب اور جراحی کی سندوں سے آراستہ یہ نوجوان دنیوی اعتبار سے ابھی اپنا مقام تلاش ہی کر رہا تھا کہ ایک اور ہی انقلاب اس کا منتظر تھا--- جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی کی دعوت پہنچ چکی تھی اور چند سرپھرے نہ صرف خود دُنیا کو بدلنے کا خواب دیکھ رہے تھے بلکہ ہر مضطرب روح کو اس آدرش کی خدمت کے لیے سرگرم کرنے کو کوشاں تھے۔ مولانا غلام احمد احرار کے ذریعے مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب خطبات اور دوسرے رسائل سے آشنا ہوئے۔ دیوبند کا یہ فارغ التحصیل پہلے تو اُردو کے ان رسالوں کی طرف ملتفت نہ ہوا لیکن جب ایک بار مطالعہ شروع کیا تو دل و دماغ میں ایک تلاطم برپا ہو گیا اور بقول حکیم صاحب:’’ان چھوٹی چھوٹی کتابوں نے تو میری کایا ہی پلٹ دی‘‘۔ مولانا سعدالدین امیر جماعت تھے۔ حکیم صاحب نے اپنے کو رکنیت کے لیے پیش کر دیا اور وہ دن اور ۳ فروری ۲۰۰۲ء کا دن‘ پوری زندگی تحریک اسلامی کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔

جماعت اسلامی کے قائم کردہ پرائمری اسکول کی مدرسی سے لے کر جماعت کی امارت اور تحریک آزادیٔ کشمیر کی قیادت تک--- ہر خدمت خلوص‘ تندہی اور استقامت سے‘ اور ہر معرکہ حکمت‘ جرأت اور مجاہدانہ شان سے سر کیا۔ ایثار اور قربانی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی‘ پوری زندگی فقر کے عالم میں گزاری‘ اپنے پورے گھرانے کو دین اور تحریک کا خادم بنایا‘ ایک جوان بیٹے ذبیح اللہ نے جام شہادت نوش کیا‘ باقی چار بیٹے اور دو بیٹیاں اپنے اپنے انداز میں تحریک میں سرگرم ہیں۔ جس طرح اپنے گھرانے کی فکر کی اسی طرح کشمیر کے ہر گھر کو دعوت اسلامی کے نور سے منور کرنے کے لیے شب و روز سرگرم رہے اور ایک نسل کو اسلام کی خدمت اور آزادی کے حصول کے لیے بیدار کر دیا۔

حکیم صاحب نے دعوت و تبلیغ‘ سیاسی جدوجہد اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے جہاد میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قیدوبند کی صعوبتوں کو خوشگواری سے انگیز کیا۔ پہلی گرفتاری ۱۹۶۲ء میں سیدعلی شاہ گیلانی کے ساتھ ہوئی اور پھر یہ سلسلہ ۱۹۹۰ء کے عشرے تک چلتا رہا۔ آخری زمانے میں بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھے مگر تحریک کو پیش آنے والے ہر معرکے اور ہر آزمایش میں استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔

مجھے حکیم صاحب کے ساتھ ایک بڑے نازک مرحلے پر چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ جن چیزوں کا نقش دل پر قائم ہے ان میں ان کا صاف ستھرا علمی ذوق‘ سادہ طبیعت‘ حسن اخلاق‘معاملہ فہمی اور تدبر‘ تحریکی اور سیاسی حالات کا گہرا ادراک‘ بڑے سے بڑے خطرے کو انگیز کرنے کی ہمت اور داعیہ اور یہ سب کچھ کمال درجے کے انکسار کے ساتھ۔ ان کی زندگی میں کشمیر کی اسلامی تہذیب کی پوری تصویر دیکھی جا سکتی تھی۔

حکیم غلام نبی صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت کو گھر گھر پھیلایا‘ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہے‘ اور بڑے نازک اور پرخطر حالات میں صبر واستقامت اور حکمت و تدبر سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور قدم قدم پر بیش بہا قربانیاں پیش کیں۔ قیدوبند‘ فقروفاقہ‘ گھر بار اور باغ و کھلیان کی تباہی‘ اولاد کی شہادت--- وہ کون سا زخم ہے جسے انھوں نے ہنستے ہوئے اور شکر کے جذبات کے ساتھ جسم کا زیور نہ بنایا:

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

مولانا حکیم غلام نبی کے انتقال کی خبر پوری ملت کشمیر پر بجلی کی طرح گری اور ہر گھر سوگوار اور ہر چشم اشکبار تھی۔ ہزاروں افراد نے اس عالم دین‘ تحریک اسلامی کے قائد اور جدوجہد آزادی کے مجاہد کو اس شان سے الوداع کہا کہ جنازے کا جلوس ان عزائم اور اہداف کے حق میں ایک استصواب بن گیا جن کے لیے حکیم صاحب نے زندگی بھر جدوجہد کی تھی:

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے