عربی کا مشہور اور بڑا سچا مقولہ ہے کہ ’’عالِم کی موت پورے عالَم کی موت کے مترادف ہے‘‘۔ دنیا میں روشنی علم اور اہلِ علم و تقویٰ کے وجود سے ہے اور زندگی میں سب سے بڑا خسارہ ارباب علم و تقویٰ کی محبت سے محرومی اور ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے‘ اور اگر رخصت ہونے والا عالِم شخصی طور پر آپ کا استاد‘ محسن اور مربی بھی ہو تو پھر یہ نقصان اور بھی سِوا ہوجاتا ہے۔ میرے لیے ہی نہیں‘ تحریک اسلامی‘ تحریک اہلِ حدیث اور عالمِ اسلام کے ہزاروں طالبانِ علم کے لیے استاد محترم مولانا عبدالغفارحسنؒ کا ۲۲ مارچ ۲۰۰۷ء کو اس دنیاے فانی سے ابدی زندگی کی طرف کوچ ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔ اِنَّا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی دینی‘ علمی‘ دعوتی اور تربیتی خدمات کو قبول فرمائے‘ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے‘ اور جنت میں ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ اللھم اغفرلہٗٗ وارحمہٗ۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ سے میری پہلی حقیقی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب وہ جماعت اسلامی کے شعبۂ تربیت کے ناظم مقرر ہوئے۔ میں اس وقت جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کو دیکھنے کا اس سے پہلے بھی بارہا موقع ملا تھا لیکن وہ سرسری سلام و دعا سے زیادہ نہ تھا‘ اس لیے اس کا کوئی خاص نقش دل و دماغ پر نہیں۔ البتہ ۱۹۵۴ء سے ملاقاتوں اور استفادے کا جو سلسلہ شروع ہو وہ میری زندگی کا بڑی قیمتی سرمایہ ہے۔ فطری طور پر جس پہلی ملاقات کا میں ذکر کررہا ہوں اس کا موضوع جمعیت کی تربیت گاہوں میں مولانا عبدالغفار حسنؒ کی شرکت اور ہمارے پورے تربیتی پروگرام کو مرتب کرنے کے لیے ان کے مشورے اور ہدایات تھیں۔ مولانا کے علم اور خصوصیت سے علمِ حدیث کا رعب تو پہلے سے تھا لیکن اس ملاقات کی سب سے نمایاں یاد مولانا کی طبیعت کی سادگی‘ جس پر معصومیت کی چھاپ نمایاں تھی اور غرورعلم کی جگہ کسرنفسی اور سب سے بڑھ کر طلبہ کے لیے شفقت اور ان کے سارے ہی مطالبات کو بے چوں و چراں تسلیم کرکے دل موہ لینے والی ادا تھی۔مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک بار بھی انھوں نے ہمارے کسی مطالبے کا جواب نفی میں دیا ہو۔
۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۶ تک مجھے مولانا مرحوم سے جمعیت کے پروگراموں کے سلسلے میں بارہا ملنے‘ گھنٹوں استفادہ کرنے‘ اور پھر دو روزہ تربیت گاہ سے بڑھ کر ایک ہفتہ اور دس دس دن کی تربیت گاہوں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ بالعموم وہ ہمارے ساتھ ہی قیام فرماتے۔ درسِ حدیث اور اصولِ حدیث تو ان کے خاص موضوع تھے ہی مگر درسِ قرآن اور تربیتی موضوعات پر بھی باقاعدہ تقاریر کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی نشستوں میں ہماری رہنمائی فرماتے اور کبھی کسی سوال پر کبیدہ خاطر نہ ہوتے۔ ان کے علم کے ساتھ ان کی سیرت‘ ان کی سادگی اور ان کی شفقت کا ہم سب پر گہرا اثر تھا۔ خرم بھائی [خرم مراد] تو ان کے گرویدہ تھے ہی‘ لیکن ہم سب بھی ان کی شخصیت کے اسیر تھے۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ کے جماعت میں آنے کے بعد بہت تھوڑا عرصہ قریبی تعلقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ ماچھی گوٹھ میں ان سے کئی بار گفتگو ہوئی اور معاملات کا حل نکالنے کے لیے ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر کوٹ شیرسنگھ کی طویل شوریٰ کے دوران جس میں نئے دستور کی تدوین ہوئی برابر ملاقاتیں رہیں۔ بدقسمتی سے اس کے بعد مولانا عبدالغفار حسنؒ جماعت سے مستعفی ہوکر مولانا عبدالرحیم اشرف کے ساتھ فیصل آباد چلے گئے لیکن الحمدللہ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ان سے ملنے اور استفادے کا موقع ملتا رہا۔ جب وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں استاذ حدیث تھے‘ اس زمانے میں مجھے پروفیسر عبدالغفور اور جناب صادق حسین کے ساتھ مسجدنبویؐ میں اعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہر روز ہی مولانا سے ملاقات ہوتی اور ہم ان سے استفادہ کرتے۔ کئی بار انھوں نے درسِ قرآن دیا اور ہمارے بہت سے سوالات کا جواب دیا اور اشکال کی گرہ کشائی فرمائی۔
جمعیت کے زمانے میں مولانا سے حدیث کا سبقاً سبقاً درس لینے کا موقع بھی ملا۔ تقریباً ۸۰احادیث ہم نے ان سے پڑھیں اور کمالِ شفقت سے ایک بار تربیت گاہ کے آخری پروگرام میں فرمایا کہ حدیث کی روایت کے سلسلے کی آخری کڑی وہ خود ہیں۔یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نسلاً بعد نسل ۲۴ سلسلوں سے‘ وہ چند احادیث جن کا انھوں نے ہمیں درس دیا ہے‘ بلافصل ہم تک بھی پہنچ گئی ہیں اور اس طرح مولانا عبدالغفار حسن کے توسط سے ہم بھی وہ خوش نصیب ہیں جو اپنی ساری کمزوریوں اور محرومیوں کے باوجود اس ذہبی سلسلہ سے مربوط ہوگئے ہیں۔ اس وقت مولانا کے اس فیض خاص پر ہم سب پھولے نہیں سمائے۔ بعد میں ان کی کتاب عظمتِ حدیث میں روایت کے اس پورے سلسلے کو دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی کہ اس طرح ہم کو بھی مولانا کے توسط اور ان کی شاگردی کی نسبت سے اس سلسلے کا دامن تھامنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ کی پیدایش ۲۰جولائی ۱۹۱۳ء کو ضلع رہتک (مشرقی پنجاب) میں ہوئی۔ انھوں نے دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے درس نظامی کی تکمیل اور دورہ حدیث کیا۔ پھر لکھنؤ یونی ورسٹی سے ۱۹۳۵ء میں فاضل ادب عربی اور ۱۹۴۰ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے مولوی فاضل کی سندات حاصل کیں۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی‘ مدرسہ رحمانیہ بنارس اور مدرسہ کوثرالعلم مالیرکوٹلہ میں درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔
ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا مودودیؒ سے تعلق قائم ہوا اور ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو گو تاسیسی اجلاس میں شریک نہ ہوسکے مگر خط کے ذریعے تاسیسی ارکان میں شامل ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان ہجرت کی۔ کچھ عرصہ راولپنڈی میں جماعت کی تربیت گاہ میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا مودودیؒ کی پہلی گرفتاری کے موقع پر ایک ماہ کے لیے قائم مقام امیرجماعت کی ذمہ داری ادا کی۔ اس کے بعد بھی دو بار قائم مقام امیرجماعت کی حیثیت سے تحریک کی خدمت اور قیادت کی۔ ۱۹۴۳ء سے مرکزی شوریٰ کے رکن رہے اور ۱۹۵۷ء تک جماعت سے وابستہ رہے۔ طریق کار کے بارے میں کچھ اختلاف اور انتخابی سیاست سے اصولی بے زاری کے سبب جماعت سے الگ ہوئے لیکن جماعت کے مقصد‘ یعنی اقامتِ دین کے باب میں کبھی کسی تحفظ کا اظہار نہیں کیا۔ جماعت کے اور خصوصیت سے مولانا مودودیؒ کے علمی کام کے ہمیشہ معترف رہے اور کلمۂ خیر کہتے رہے۔ یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے جماعت جمعیت کے بعد بھی وہ اپنے انداز میں اسی مقصد کی خدمت میں آخری وقت تک مصروف رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے لیے درس و تدریس کا راستہ اختیار کیا۔ فیصل آباد میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ اور مدینہ یونی ورسٹی میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں نوسال رہنمائی کے فرائض انجام دیے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران ۱۱ ماہ سنت یوسفی ادا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور جیل میں بھی درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کا اس طرح اہتمام کیا کہ جیل مدرسہ میں تبدیل ہوگیا۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ کی زندگی بڑی سادہ اور پاک صاف تھی۔ وہ سلف کا نمونہ تھے اور انھیں دیکھ کر اور ان سے گفتگو کرکے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا۔ ان کی حکمت بھری مگر بڑی آسان‘ ہلکی پھلکی اور دل نشین باتیں دل پر نقش ہوجاتی تھیں۔ توازن اور میانہ روی مولانا کی زندگی کا شعار تھی۔ کتاب ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ دنیا سے ان کو بس اتنی دل چسپی تھی جتنی روح اور بدن کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دنیا کو خدا کے دین کے مطابق بدلنے کے لیے جس جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے‘ وہ ان کی زندگی کا مشن تھا۔ میرا پہلا اور اصل رشتہ تو ان سے شاگردی اور تحریکی رفاقت کا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں یہ خوشی بھی لکھی ہوئی تھی کہ ان کے پوتے ڈاکٹر اسامہ حسن کا عقد میری بیٹی سلمیٰ سے ہوا اور اس طرح ہمارے خاندانوں میں بھی ارتباط کی ایک اور خوش گوار صورت پیدا ہوگئی۔
یہ مولانا عبدالغفار حسنؒ کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے خاندان میں کم از کم پانچ پشتوں تک علم کی شمع بلافصل روشن رہی ہے۔ ان کے دادا مولانا عبدالجبار عمرپوری بڑے جیدعالمِ دین اور استادعصر تھے۔ ان کے والد مولانا حافظ عبدالستار عمرپوری کم عمری کے باوجود علمی دنیا میں نام پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مولانا عبدالغفار حسنؒ خود اپنے عصر کے اہلِ علم و تقویٰ میں اُونچا مقام رکھتے ہیں اور ان کے صاحبزادے خصوصیت سے ڈاکٹر صہیب حسن‘ ڈاکٹر سہیل حسن اپنے اپنے میدان میں علم کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں۔ ان کا پوتا ڈاکٹراسامہ حسن انگلستان کی ایک یونی ورسٹی میں انفارمیشن ٹکنالوجی کا استاد ہے۔ وہ بھی‘ الحمدللہ علم دین کے حصول اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں سرگرم ہے۔ یہ اللہ کا بڑا فضل اور انعام ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے‘ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتی من یشاء۔
فون کی گھنٹی بجی‘ فون اٹھایا تو نبیلہ کی رندھی ہوئی آواز سنائی دی: باجی مسعودہ افضل فوت ہوگئیں۔ مجھے یقین نہ آیا۔ مسعودہ آپا کے گھر نمبر ملایا تو اُن کی بہو نے اس بات کی تصدیق کردی۔ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔یوں لگا جیسے میں گھنی چھائوں سے تپتے صحرا میں پہنچ گئی ہوں۔ گھریلو مسائل ہوں یا تحریکی مصروفیات‘ حقیقت میں وہ ہم دونوں بہنوں کے لیے گھنی چھائوں تھیں۔ کبھی سوچا ہی نہ تھا وہ اتنی جلدی آرام کی نیند سو جائیں گی۔ بھاگتی دوڑتی مسعودہ آپا ہروقت فاستقبوا الخیرات کی عملی تصویر بنی نظر آتیں۔ کبھی آرام سے بیٹھے‘ سوتے اور سستاتے ہوئے نہ دیکھا۔ اس وقت ملاقات کے لیے جانا ہے‘ اب درس دینا ہے‘ اب قرآن کلاس ہے‘ شام کو اجتماع ہے‘ اور ساتھ ساتھ گھروالوں کی دل جوئی‘ بچوں کی تربیت اور بہوؤں کو جماعت اسلامی کے ساتھ منسلک کرنے کی فکردامن گیر رہتی۔ اسی طرح بھاگتے دوڑتے بہت ساری بہنوں اور بیٹیوں کو روتا ہوا چھوڑ کر اللہ کے گھر اپنی ابدی قیام گاہ چلی گئیں۔
مسعودہ آپا کا تعلق تحریکی گھرانے سے تھا۔ آپا جی اُم زبیر رشتے میں ان کی خالہ لگتی تھیں۔ تاہم جماعت اسلامی کا لٹریچر اُنھوں نے اپنے بیٹوں کے ذریعے پڑھا۔ ابتدائی طور پر اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر ہوکر دعوت دین کا کام شروع کیا۔ بعد میں جماعت اسلامی کے ساتھ باقاعدہ منسلک ہوگئیں اور وقت گزرنے کے ساتھ جماعت کے ساتھ اُن کی محبت اور رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔حلقہ خواتین لاہور کی نائب ناظمہ بھی رہیں۔ انھوں نے باقاعدہ طالبہ کی حیثیت سے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ جب بی اے میں پہنچیں تو امتحانات سے قبل ہی شادی ہوگئی اور پھر گھریلو مصروفیات کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کرسکیں۔
اللہ نے اُنھیں بیٹی نہیں دی تھی مگر وہ سیکڑوں بیٹیوں کی ماں تھیں۔ لاہور میں پورے ٹائون شپ کے علاقے میں مسعودہ باجی سے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنے والی لڑکیاں اُنھیں بیٹیوں سے زیادہ عزیز تھیں۔ جو طالبہ ایک مرتبہ اُن کے درس میں آنا شروع کردیتی‘ اُ س سے ہمیشہ تعلق رکھتیں۔ خوشی غمی میں شرکت اور ضروریات کا خیال رکھنا‘ اخلاقی‘ فکری اور مالی امداد یہاں تک کہ اُس طالبہ کے تمام گھروالے بھی مداح ہوجاتے کہ تمھاری استاد تم سے کتنا پیار کرتی ہے۔ بہت ساری خواتین کو جماعت اسلامی کے پروگرام میں شرکت کی اجازت صرف مسعودہ باجی کے اخلاق کی وجہ سے مل جاتی تھی کہ تمھاری درس والی باجی نے بلایا ہے تو ہم انکار نہیں کرسکتے۔
انتخابات کے دنوں میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے جو لوگ بہت اعتراضات کرتے اور ووٹ دینے سے انکار کردیتے‘ جب اُن کے ہاں مسعودہ باجی چلی جاتیںتو گھروالے فوراً کہہ دیتے کہ اب آپ آگئی ہیں تو ہم انکار نہیں کرسکتے۔ ٹائون شپ کے حلقے میں جماعت کے ووٹ بنک میں ان کا کلیدی کردار تھا۔
اُن کی زندگی بھی قابلِ رشک تھی اور موت بھی۔ جمعہ کا مبارک دن‘ ہفتوں کی شدید گرمی کے بعد اللہ نے بارش برسائی اور موسم ٹھنڈا ہوگیا اور اُن کی وفات کے بعد مسلسل تین دن بارش ہوئی اور موسم خوش گوار رہا۔ اللہ نے روح سعید کی تمام علامتیں دکھا دیں تاکہ قریب کے افراد سمجھ لیں کہ اللہ کو کس طرح کے بندے پسند ہیں۔ انھیں ہر وقت ایک ہی فکر تھی کہ دین کی دعوت آگے پہنچ جائے۔ جس تک دعوت پہنچا دی ہے‘ اُسے جماعت اسلامی میں شامل کرلوں۔ اِسی مقصد کے لیے دوستی‘ اسی کے لیے رشتہ داری‘ اسی کے لیے محبت‘ اسی کے لیے خوشی اور غمی میں شرکت۔ دل جوئی‘ تحفے تحائف‘ ضرورت مند کی مدد‘ غرض ہر ذریعہ اختیار کرتیں۔ چپکے سے مدد کردیتی تھیں لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دینا کہ یہ جماعت اسلامی کی طرف سے ہے۔ کسی ضرورت مند کو ایک سوٹ بھی دیا تو یہ کہہ کر دیا کہ یہ جماعت اسلامی کی طرف سے ہے۔ کسی کو ڈھیر سامان بھی دیا تو یہی کہا۔
ہمیشہ ہرکام نظم سے پوچھ کر کیا۔ ڈسٹرکٹ کونسل کی ممبر منتخب ہوئیں تو کچھ حلقوں اور افراد کی طرف سے مطالبات آئے مگر انھوں نے یہی جواب دیا کہ جو میرا نظم کہے گا۔ زندگی کی آخری رات بھی اُن کا فون آیا کہ ناظمہ ضلع کا فون نہیں مل رہا تم بتائو مجھے کیا کرنا ہے۔ میں نے تو متعلقہ فرد سے کہہ دیا ہے کہ جیسا میرا نظم کہے گا‘ میں خود کوئی فیصلہ نہیں کروں گی۔
مسعودہ باجی سے ہمارا تعلق کوئی دو چار روز کا نہیںتھا۔ ۱۸برس پہلے کی بات ہے جب ہم لوگ ٹائون شپ منتقل ہوئے۔ اُس وقت پورے ٹائون شپ میں ایک رکن جماعت صفیہ آپا تھیں اور ہمارے گھر کے قریب مسعودہ باجی درسِ قرآن دیا کرتی تھیں۔ ایک دن جماعت اسلامی کا جھنڈا دیکھ کر ہمارے گھر آگئیں اور درس کی دعوت دی۔ اُس وقت تک ہم لوگ بھی کسی درس یا کلاس کے حلقے سے واقف نہ تھے۔ ابوجماعت کے کارکن تھے‘ اس لیے نام کی حد تک واقفیت تھی۔ جب ہم نے مسعودہ باجی کے درس میں جانا شروع کیا تو ایک دن وہ جمعیت طالبات کی ناظمۂ حلقہ کو ڈھونڈ لائیں اور ہم دونوں بہنوں کو جمعیت میں شامل کروا دیا۔ ہماری جمعیت میں شمولیت کے بعد بھی اُن کا یہ مطالبہ برقرار رہا کہ درس میں ضرور آنا ہے۔ اُن کی محبت اور چاہت کی وجہ سے جب تک وہ حلقہ قائم رہا ہم دونوں بہنیں باقاعدگی سے شریک ہوتی رہیں۔ اسی دوران حمیرا احتشام کراچی سے ٹائون شپ شفٹ ہوئیں تو ان تینوں نے مل کر ٹائون شپ کو جماعت اسلامی کا گڑھ بنا دیا۔ اس وقت ٹائون شپ کے حلقے میں ۱۸ خواتین ارکان اور ۳۰۰کے قریب کارکنان ہیں۔
جمعیت میں چلے جانے کے باوجود ہمارا مسعودہ باجی کے ساتھ اُسی طرح تعلق قائم رہا۔ دن میں بعض اوقات دو تین بار ملاقات ہوجاتی۔ ملاقاتیں کرنے اکٹھے نکلتے‘ درس دینے اکٹھے جاتے‘ خوشی غمی میں شرکت کرنے جاتیں تو ہم میں سے کسی ایک کو ساتھ لے جاتیں اور واپسی پر چھوڑنے آتیں تو دو چار منٹ ضرور بیٹھ کر جاتیں۔ شام کو پانچ بجے درس ہوتا تو تین بجے ہماری طرف آجاتیں۔ کہتیں تم لوگ تو سوتے نہیں ہو‘ بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ اُن کی گفتگو کبھی دنیاداری کی نہیں ہوتی تھی۔ جو کتاب پڑھی ہوتی اُس کے ڈائری پر لیے ہوئے نوٹس پڑھ کر سناتیں۔ اِسی طرح تفسیر کے نوٹس اور اکثر اوقات ڈائری پر پورے پورے واقعات لکھے ہوئے پڑھ کر سناتیں‘ تبادلۂ خیال کرتیں۔ اگر کوئی دنیاوی گفتگو یا کسی کی برائی کرنے کی کوشش کرتا تو اُسے منع کردیتیں۔ میں نے ۱۸سال کے عرصے میں کبھی انھیں کسی کی برائی کرتے نہیں سنا۔
ملاقاتوں کے لیے اکثر پیدل جاتیں اور بعض اوقات زیادہ چلنے سے پائوں میں چھالے پڑجاتے۔ جب ہم لوگ منع کرتے تو کہتیں یہ چھالے قیامت کے دن گواہی دیں گے۔ دوپہر میں جب تپتی دھوپ میں گھر سے نکلتیں تو ہمیشہ یہ کہتیں کہ اس کے بدلے اللہ جہنم کی آگ سے بچالے۔ اُنھیں ہرلمحے موت کی تیاری‘جنت کی طلب اور جہنم کا خوف دامن گیر رہتا۔
اگر کبھی اُن کے دوپٹے‘ پرس‘ ڈائری وغیرہ کی تعریف کردیتے تو فوراً اصرار کے ساتھ دے دیتیں کہ تمھیں پہنا ہوا تو یہ مجھ سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اگر کبھی کسی ضرورت کا تذکرہ کردیتے تو اُسے پورا کرنے کی دُھن سوار ہوجاتی۔ وفات سے دو دن پہلے میں نے کہا مسعودہ باجی دفتر کے لیے فی ظلال القرآن اور معارف القرآن لے دیں۔ کہنے لگیں رمضان میں مل جائے گا‘ ان شاء اللہ! زندگی کی آخری رات ان کا فون آیا: حمیرا‘ تم نے پتا نہیں کس خلوص سے مانگا تھا۔ فی ظلال القرآن کا سیٹ آگیا ہے‘ کل تمھارے دفتر پہنچا دوں گی اور کچھ دنوں میں معارف القرآن کا بھی آجائے گا۔
کسی پریشانی کا پتا چل جاتا تو بہت دعائیں کرتیں۔ تقریباً سال پہلے کی بات ہے میرے پاس گھریلو کام کے لیے معاون نہ تھی جب پتا چلا تو بہت دعائیں کرتیں‘ کوشش کرتیں پھر فون کر کے پوچھتیں حمیرا‘ کام والی مل گئی ہے؟ میں تو تمھارے لیے صلوٰۃ حاجت پڑھ کردعا کرتی ہوں کہ اللہ کرے تمھیں معاون مل جائے تاکہ تم دعوت دین کا کام سہولت سے کرسکو۔
جب بھی مجھے امی کی طرف جانا ہوتا تو ضرور ہی ملنے آتیں (حالانکہ مرکز میں بھی عموماً ملاقات ہوجاتی تھی)۔ اُنھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم ملنے آجائو‘ ہمیشہ خود ہی بھاگی ہوئی آتیں۔ اگر میں کہتی بھی کہ مسعودہ باجی‘ میں آجاتی ہوں تو کہتیں مجھے زیادہ اجر مل گیا اور تمھارا وقت بچ گیا۔ میں توسوچتی ہوں تمھاری بڑی مصروفیت ہے‘ اس لیے تمھیں مشکل نہ ہو‘ تمھارا وقت قیمتی ہے۔ جب بھی ملتیں تو بہت سارے کام اور منصوبے مع مسائل ہوتے جن پر گفتگو ہوتی۔ ہرچھوٹی بڑی بات پر جب مشورہ مانگتیں تو مجھے بڑی شرمندگی ہوتی۔ میں کہتی: مسعودہ باجی آپ تو میری استاد ہیں۔ آپ سے ہم نے قرآن سنا‘ آپ نے مجھے درس دینا‘ ملاقات کرنا سکھایا اور جمعیت اور جماعت کی دعوت دی۔ آپ اس طرح سے چھوٹی چھوٹی باتیں نہ پوچھا کریں۔ اس پر کہتیں کہ مجھے بات کرکے تسلی ہوجاتی ہے۔ بغیر مشورے کے کام کرنا مشکل لگتا ہے۔ یہ روش آخری دم تک رہی۔
وہ میری استاد بھی تھیں اور محسن بھی‘ ماں بھی تھیں اور دوست بھی۔ یقینا وہ نعمت بھری جنت میں چلی گئیں اور اپنے رب سے انعامات پا رہی ہوں گی۔ لیکن ہمارے لیے وہ ایک خلا چھوڑ گئیں جو کوئی اور پُر نہیں کرسکتا۔ اُن کے بہت سے محاسن ہیں جن کو لکھنا میرے جیسے کم علم کے لیے ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی سعی و جہد کو قبول فرمائے۔ اُن کی حقیقی اور روحانی اولاد کو اُن کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین
۱۸ جنوری بھی اب تحریکی زندگی کی یادوں میں ایک گراں لمحہ بن گیا ہے۔ لیجیے محترم بھائی سید فضل معبود بھی رخصت ہوئے! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
یہ خبر بجلی کی کوند کی طرح دل پر پڑی اور میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ جانتا ہوں کہ موت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بلاشبہہ ہر انسان فانی ہے اور ہم سب اس قافلے کے شریک ہیں۔ منزل تو وہی ہے‘ دنیا تو بس ایک درمیانی مرحلہ ہے لیکن اس سب سے بڑی حقیقت اور تقدیر سے اس ناگزیر ملاقات کو ہم بھولے رہتے ہیں۔ برادر محترم مولانا سید فضل معبود کے لیے فوری دعاے مغفرت کے بعد جو خیال دل و دماغ پر چھایا رہا وہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کے بارے میں اپنی غفلت کا احساس تھا۔ نہ معلوم کیوں ان کے انتقال کی خبر غیرمتوقع لگی اور اس کو اپنی بھول جان کر دل بے چین ہوگیا۔
فضل معبودصاحب سے میری پہلی ملاقات اسلامی جمعیت طلبہ کی نظامت اعلیٰ کے زمانے میں ہوئی۔ سرحد کے دورے پر آیا تو وہ پشاور کی جماعت کے امیر تھے اور جس محبت‘ شفقت اور بے تکلفی سے ملے وہ آج تک دل پر نقش ہے۔ میں نے جن استاد سے قرآن پاک پڑھا ان کا تعلق بھی صوبہ سرحد سے تھا۔ پھر سرحد کے متعدد افراد سے مختلف حیثیتوں سے ملاقات رہی اور تعلقات استوار ہوتے رہے۔ لیکن میں اپنے حقیقی احساسات کے اظہار میں بخل کا مرتکب ہوں گا اگر یہ نہ کہوں کہ وہ پہلے پشتون تھے جن کے بارے میں مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ پشتون تہذیب اور روایت کا نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر یوپی اور دلّی کی ثقافت کے بھی بہت سے پہلو لیے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر خورشیدالاسلام کا ایک معرکہ آرا مقالہ شبلی نعمانی پر ہے جس کا پہلا جملہ ہے:شبلی وہ پہلے یونانی ہیں جو ہندستان میں پیدا ہوئے۔ میں کوئی ایسی بات کہنے کی جسارت تو نہیں کرسکتا لیکن اپنے اس احساس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سید فضل معبود پشتون اور گنگاجمنا کی ثقافت کا سنگم تھے۔ زبان و بیان اور اظہار و ادا میں وہ دونوں ثقافتوں کا مرقع تھے اور کبھی ان کی زبان سے شین قاف اور تذکیر و تانیث میں کوئی لغزش محسوس نہیں کی۔ گفتگو میں نرمی اور مٹھاس‘ اُردو زبان کے اسرار و رموز کا ادراک‘ نکھرا ادبی ذوق‘ علمی بالیدگی اور ان سب کے ساتھ خلوص اور سادگی۔ فضل معبود کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ چھوٹوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کرنا اور ان کوعزت دینا کوئی ان سے سیکھے۔
مولانا فضل معبود یکم اپریل ۱۹۱۸ء کو ضلع مردان کے قریب ایک دیہات تہامت پور میں پیدا ہوئے۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ اُردو سے خصوصی شغف تھا اور اس زبان میں ایم اے کیا۔ ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے واقفیت ہوئی اور یہ رشتہ ۱۹۳۸ء میں قائم ہوا۔ ۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کے دوسرے کل .ُ ہند اجتماع میں جو پٹھان کوٹ میں منعقد ہوا‘ شرکت کی اور اپریل ۱۹۴۵ء میں جماعت کی رکنیت اختیار کی۔ جو عہد اپنے رب سے تجدید ایمان کے ساتھ کیا اسے آخری لمحے تک نبھایا اور ۱۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔
جماعت اسلامی میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے۔۱۹۴۶ء سے ۱۹۶۷ء تک پشاور شہر کے امیر رہے۔ ۱۹۵۰ء میں مرکزی شوریٰ کے رکن بنے اور ۲۰۰۰ء تک شوریٰ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ کچھ عرصہ ریلوے کے محکمے میں ملازمت کی۔ ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۴ء تک روزنامہ انجام پشاور کے سب ایڈیٹر رہے۔ تین بار سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کی خدمت کے صلے میں قیدوبند کی صعوبتیں ہنسی خوشی برداشت کیں۔ اس طرح دو سال سے زیادہ مدت جیل میں گزاری۔ کچھ عرصے مرکزی اُردو سائنس بورڈ کے ڈائرکٹر رہے۔بی ڈی ممبر بھی بنے اور الخدمت کے محاذ سے مریضوں کی دیکھ بھال کی۔ ریڈیو پاکستان سے پشتو اور اُردو میں دینی اور سماجی موضوعات پر تقاریر کا سلسلہ بھی ۱۹۶۰ء سے ۲۰۰۱ء تک جاری رہا۔ غرض اجتماعی زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا۔
الحمدللہ آج صوبہ سرحد تحریک اسلامی کا بڑا گہوارا ہے اور صوبے کے طول و عرض میں دعوتی ساتھیوں کی فصل بہار ہے۔ لیکن ایک مدت تک میرے لیے صوبہ سرحد نام تھا محترم خان سردار علی خان کا‘ محترم تاج الملوک کا اور سید فضل معبود کا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام اور اندازِکار۔ گویا ع
ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است
علمی اور ادبی ذوق‘ تحریکی اخوت اور ہمہ جہت ثقافتی دل چسپی کے اعتبار سے میرا سب سے زیادہ قرب برادرم فضل معبود ہی سے رہا۔ چراغِ راہ کی وجہ سے ایک خصوصی تعلق قائم ہوگیا۔ پھر شوراؤں میں ہمیں مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور باہمی استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ۱۹۶۴ء میں لاہور کی جیل میں ایک ہی بیرک میں ہم ساتھ رہے۔ میرے بزرگ ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی مجھ سے خوردوں والا معاملہ نہیں کیا۔ محبت کے ساتھ جو احترام انھوں نے دیا‘ اس نے مجھے ان کا گرویدہ کر دیا۔ اسلام سے وفاداری‘ مولانا مودودی سے محبت‘ تحریک کے منہج کے باب میں مکمل یک سوئی‘ دعوت اور تنظیم دونوں میں سلیقہ‘ طبیعت میں بلا کی نفاست‘ معاملات میں کھرا ہونا اور تعلقات میں خلوص کے ساتھ مٹھاس‘ ان کی شخصیت کے ناقابلِ فراموش پہلو تھے۔ تحریک کے سچے مزاج شناس تھے اور ۱۹۵۷ء کے ماچھی گوٹ کے معرکے میں ان کی یک سوئی اور پھر کوٹ لکھپت میں دستور جماعت کی تدوین میں ان کی معاونت‘ مَیں کبھی بھول نہیں سکتا۔
مولانا سید فضل معبود کو رسائل کے پورے پورے ریکارڈ رکھنے کا شوق تھا۔ مجھے ان کی ذاتی لائبریری دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس کتب و رسائل کا بڑا قیمتی ذخیرہ ہوگا۔ فضل معبود صاحب کا حافظہ بھی بہت اچھا تھا اور جب بھی ہمیں وقت ساتھ گزارنے کا موقع ملا ہے احساس ہوا کہ انھیں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خوب یاد رہتی تھیں۔صحت کی خرابی کے باعث آخری زمانے میں مجھے ان سے ملنے کا موقع نہیں ملا جس کا افسوس رہے گا۔
الحمدللہ انھوں نے بھرپور تحریکی زندگی گزاری اور اس پورے عرصے میں پاے استقامت میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور اپنے رب اور تحریکی ساتھیوں سے وفاداری کا معاملہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
موت سے کس کو رستگاری ہے مگر بعض افراد کی موت کچھ اس شان کی ہوتی ہے کہ اس کی یادیں دل میں بسی رہ جاتی ہیں۔ جانے والا چلا جاتا ہے مگر اپنے پیچھے اپنے اعلیٰ کارنامے اور خوش گوار یادیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتا ہے جو تادیر ذہن سے محو نہیں ہوپاتیں۔ محترم عبدالستار افغانی کی رحلت بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے۔ وہ جنھیں عوام نے شہر کی مثالی تعمیروترقی پر ’باباے کراچی‘ کا خطاب دیا تھا‘ آج ہم میں نہیں۔ ۱۱ شوال ۱۴۲۷ھ (۵ نومبر ۲۰۰۶ئ) کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے___ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
عبدالستار افغانی کے آباواجداد ۱۵۰ سال قبل افغانستان میں غازی امان اللہ خان کی بغاوت کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے۔ بعدازاں ان کے خاندان کے افراد ۵۰سال ممبئی میں گزارنے کے بعد کراچی آگئے۔ وہ ۱۹۳۰ء میں کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے بی ایف اسکول لیاری سے حاصل کی اور پھر جامعہ کراچی سے بی اے کیا۔ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا رجحان ان کے اندر اوائل عمری ہی سے موجود تھا۔ ابھی ان کی عمر صرف ۱۴سال تھی کہ وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور تادمِ مرگ اس سے وابستہ رہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے طویل عرصے تک وابستہ رہنے کی یہ ایک عظیم مثال ہے۔
سیاسی زندگی کا آغاز انھوںنے ۱۹۶۲ء میں ایوب خان کے زمانے میں بی ڈی سسٹم کا ممبر منتخب ہوکر کیا۔ پھر ایک عرصے تک وہ شہری کمیٹی کے رکن رہے مگر شہر کے سیاسی اُفق پر وہ اس وقت اُبھرکرسامنے آئے جب ۱۹۷۹ء میں‘ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں چارسال کے لیے کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ ستایش کی تمنا اور صلے کی امید سے بے نیاز ہوکر عوام کی بے لوث خدمت پر کراچی کے عوام نے انھیں ۱۹۸۳ء میں دوبارہ میئر منتخب کیا۔
ان کی اصول پسندی پر مبنی سیاست‘ حق گوئی و بے باکی اور عوامی خدمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے کے لیے ان کی شبانہ روز کاوشوں کے ان کے ہم نوا و ناقد‘ سب ہی قائل ہیں۔ ان کی میئرشپ میں کراچی کی تعمیروترقی کا جس قدر کام ہوا ہے‘ کراچی کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ: ’’میں کراچی کا میئر ہوں اور کراچی کا ہرعلاقہ اور ہربستی میری بستی ہے۔ ان بستیوںکا بسانا اور ان کو ترقی دلوانا میرا اولین فرض ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کی سیاسی جماعتیں اور عوام‘ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر ان کی خدمات کا اعتراف کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد میں شرکت عبدالستار افغانی کی ہردل عزیزی کا کھلا ثبوت ہے۔
عبدالستار افغانی کی موت صرف ایک شخص اور پارلیمنٹیرین ہی کی موت نہیں بلکہ ایک زریں عہد کے خاتمے کا بھی اعلان ہے۔ بلاشبہہ عبدالستار افغانی نے اپنے طرزِ حکومت سے عہدِقرون اولیٰ کی طرزِ حکمرانی کی یاد تازہ کردی۔ ان کی زندگی سادگی‘ ایثار‘ قربانی‘ جدوجہد‘ زہد‘ قناعت‘ صبروشکر اور سب سے بڑھ کر عوامی خدمت سے مملو تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قحط الرجال کے اس دور میں عبدالستار افغانی کا دم ہمارے لیے کسی نعمت ِ غیرمترقبہ سے کم نہ تھا ع
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
)۲(
کسے معلوم تھا کہ کراچی کی ایک غریب بستی کے ایک غریب خاندان کا سپوت‘ گندی گلیوں میں کھیلنے کودنے والا بچہ بڑا ہوکر عروس البلاد کراچی کا رئیس اور ڈیفنس و کلفٹن جیسے پوش علاقے کا رکن قومی اسمبلی بن جائے گا۔ قدرت نے انھیں بچپن ہی سے منفرد مزاج و ودیعت کردیا تھا۔ انھوں نے گلی ڈنڈا کھیلا اور کنچے بھی چلائے لیکن اپنی بستی کے عوام کی خدمت اور فلاحی کاموں میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ ابھی وہ میٹرک بھی نہ تھے کہ نوعمری میں شادی ہوگئی۔ ساتھ ساتھ جوتے کی ایک دکان میں انھیں بٹھا دیا گیا۔ یہیں سے ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔
سیاسی زندگی کا آغاز ایوب خان کی بنیادی جمہورت سے کیا۔ پھر کراچی کی تاریخ میں یہ منفرد اعزاز بھی انھیں حاصل ہوا کہ وہ بلدیۂ عظمیٰ کراچی کے دو مرتبہ میئر منتخب ہوئے۔ ان کی کامیابی کا راز ان کی اصول پسندی اور ضابطے کی پابندی تھی۔ کسی کی ترقی ہو یاکسی کا تقرر‘ کسی کا ٹھیکہ ہو یا کسی کا ذاتی کام‘ ضابطے کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ رشتہ دار ہوں یا پارٹی کے لوگ‘ دوست ہوں یا جنرلوں کی سفارش‘ ہمیشہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔
وہ ایک بااصول اور خوددار شخص تھے۔ اصولوں کے لیے اہلِ خانہ‘ عزیز واقربا اور خاندانی برادری کو بھی خاطر میں نہ لاتے‘ جو کہ ایک کڑی آزمایش ہوا کرتی ہے۔ اپنے بیٹے کی میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے سفارش محض اس لیے نہ کی کہ میں کسی کا حق نہیں مارنا چاہتا۔ بڑے بیٹے کا پیدایشی کارڈ اس لیے نہ بنایا اور صاف انکار کردیا کہ وہ میئر کی حیثیت سے کسی گم شدہ یا غائب شدہ ریکارڈ پر دستخط نہیں کرسکتے۔ خاندان کے اکثر لوگ ان سے اس بنا پر ناراض رہتے تھے کہ افغانی‘ میئر بن کر بھی ہمارے کام نہیں کرتا اور ہمارے بچوں کو ملازمتیں نہیں دیتا۔ مگروہ خلاف ضابطہ کام کرنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوئے۔
ایک بار ضیاء الحق کے ذاتی دوست صدر کی سفارش لے کر ان کے پاس آئے اور ایک کام کے ایگریمنٹ کے لیے کہا۔ افغانی صاحب نے جواب دیا کہ میں صدر کا ملازم نہیں ہوں بلکہ اہلِ کراچی کا خادم ہوں۔ میں وہ کروں گا جو شہر کے فائدے میں ہوگا‘ لہٰذا آپ صدر سے کہہ دیں کہ وہ یہ ایگریمنٹ خود کرلیں۔ جب ایم کیوایم نے کارپوریشن پر قبضہ کیا توانھوں نے بہت چھان پھٹک کی لیکن افغانی صاحب کا ایک معمولی فیصلہ بھی خلاف ضابطہ نہ پایا‘ اور بدعنوانی کا کوئی ایک الزام بھی عائد نہ کرسکے۔
نئے نئے میئر بنے تھے۔ کے ڈی اے کی گورننگ باڈی کے اجلاس میں ڈائرکٹر ظل احمد نظامی صاحب نے سب ممبران کے لیے پلاٹ کی تجویز پیش کی۔ افغانی صاحب نے کہا کہ میں اہلِ شہر کی خدمت کے لیے میئر بنا ہوں‘ اپنی خدمت کے لیے نہیں۔ چنانچہ یہ منصوبہ رہ گیا۔
ایک صاحب کا گڈانی ہلز پر قبضہ تھا۔ انھوں نے ۶۰۰گز کے ۵۰ پلاٹوں کی پیش کش کی جو افغانی صاحب نے مسترد کردی۔ آٹھ سالہ دور میں کتنے ہی ایسے واقعات ہوئے ہوں گے۔ آج‘ جب کہ سیاست اور منصب کا مطلب ہی مال کمانا ہوگیا ہے‘ ایسی درخشندہ مثالیں مستقبل کے لیے امید پیدا کرتی ہیں۔ ان کے کسی سوانح نگار کو تفصیل سے سب کچھ جمع کرنا چاہیے۔
عبدالستار افغانی صاحب بے باک و جرأت مند تھے۔ ایک بار ضیاء الحق کو اہالیانِ کراچی کی جانب سے فریئر گارڈن میں استقبالیہ دیا گیا۔ اس میں میئر کی حیثیت سے افغانی صاحب کو استقبالیہ خطاب کرنا تھا۔ گورنر عباسی نے افغانی صاحب کو لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کو دی۔ انھوں نے چند جملے اس تحریر میں سے پڑھے۔ پھر اسے ایک طرف رکھ کر وفاقی و صوبائی حکومتوں کے کراچی کے مفاد کے خلاف غیرمنصفانہ سلوک پر بھرپور روشنی ڈالی جس پر گورنر صاحب بہت ناراض ہوئے۔
میئرشپ کے دوران ایک ہی کار پر اکتفا کیا اور سرکاری گھر کو کبھی اپنا گھر نہیں بنایا۔ سرکاری گاڑی سے کے ایم سی کا جھنڈا اس لیے اُتروا دیا کہ مجھے خاص ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ سرکاری بنگلہ بھی یہ کہہ کر واپس کردیا کہ میں غریب آدمی ہوں اور عوام کا خادم ہوں‘ اے سی والے بنگلے کی عادت نہیں ڈالنا چاہتا۔ حرص و ہوس‘ جھوٹ اور فریب ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔
عبدالستار افغانی صاحب کو اپنامافی الضمیر پُرزور طریقہ سے ادا کرنے کی مہارت تھی۔ وہ ایک اچھے خطیب تھے۔ ان کا خطاب غیرضروری باتوں سے پاک ہوتا تھا۔ موضوع پر جچاتلا اظہارِخیال کرتے تھے۔
میئرشپ کے بعد ان کا سارا وقت جماعت اسلامی کراچی کے دفتر کے لیے وقف تھا۔ یہاں بھی اسی طرح آتے تھے جیسے کارپوریشن کے دفتر جاتے تھے۔ دفتر میں کوئی ہو یا نہ ہو‘ لیکن وقت اتنا ہی دیتے جتنا معمول تھا تاکہ کوئی سائل مایوس نہ لوٹ جائے۔ اکثر لوگ ذاتی کام سے یا بستی کے حوالے سے افغانی صاحب سے رجوع کرتے تھے۔ لوگوں کا کام اس طرح کرتے تھے جیسے کوئی ماتحت اپنے حاکم کا حکم بجا لا رہا ہو۔
عبدالستار افغانی صاحب ہمیشہ اپنی شناخت جماعت اسلامی کے حوالے سے کراتے تھے‘ حالانکہ شہر میں ان کی شخصیت کی اپنی نمایاں حیثیت تھی۔ افغانی صاحب ہر صاحب ِ فکر کی طرح تمام مسائل پر اپنی راے رکھتے تھے لیکن ایک کارکن کی طرح اطاعت کا جذبہ بدرجہ اتم تھا۔ تحریکی زندگی میں کئی بار قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ مگر اوائل عمری سے تحریک سے وابستہ ہوئے اور تادمِ آخر یہ وابستگی قائم رہی۔ ۱۹ مئی ۱۹۹۱ء کو جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ وہ مجسم تحریک تھے۔ذاتی حیثیت میں وہ ایک بہت ہی سادہ شخصیت تھے۔ لوگوں میں گھل مل کر رہتے تھے۔ طبیعت میں مزاح بھی پایا جاتا تھا اور بے تکلفی سے پیش آتے تھے۔ بروقت اشعار کا استعمال ان کی طبیعت کا خاصا تھا۔
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے قبل بظاہر تندرست تھے۔ کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ اتنی جلد رخصت ہوجائیں گے۔ لیکن گردوں کے مرض نے آلیا اور وہ اپنے رب سے ملاقات کے لیے چلے گئے___ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
یہ ان کی خدمات اور تحریکی مقام کا اعتراف تھا کہ محترم قاضی حسین احمد نے مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے دوران کراچی آکر نماز جنازہ پڑھائی اور اہلِ کراچی سے تعزیت کی۔
ہر جانے والا بہت سوںکو سوگوار چھوڑتا ہے لیکن ایسے کم ہی ہوتے ہیں جو پورے عالم کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔ ۳ستمبر ۲۰۰۶ء کو اُمت مسلمہ سے جداہونے والا مجاہد شیخ ابوبدرعبداللہ علی المطوع ایسے ہی چند نفوس میں سے تھا جس کے غم کو دنیاکے گوشے گوشے میںمحسوس کیا گیا‘ اور اُمت مسلمہ کا شاید ہی کوئی طبقہ یا گروہ ہو جس نے اس جدائی کو ذاتی غم کی طرح نہ محسوس کیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ شیخ ابوبدرؒ کی دعوت اسلامی اور خدمت خلق کی وہ مساعی ہیں جو ۶۰سال کے عرصے پر محیط ہیں اور جن کا مرکز و منبع خواہ کویت ہو مگر ان کی وسعت اور اثرانگیزی مشرق و مغرب اور شمال و جنوب‘ اس کرئہ ارض کے چپے چپے تک پھیلی ہوئی تھی۔ میرے علم میں نہیںکہ گذشتہ ۶۰ سالوں میں کسی ایک فرد کی مساعی اور اس کے ثمرات کو خصوصیت سے انفاق فی سبیل اللہ اور تعاونوا علی البر والتقوٰی کے میدان میں یہ وسعت حاصل ہوئی ہے۔ دنیاے اسلام میں جہاں کوئی کارخیر انجام دیا جا رہا ہے‘ اس میں ابوبدرؒ کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے ع
یہ رتبۂ بلند ملا‘ جس کو مل گیا
الاخ ابوبدر ۱۹۲۶ء میں کویت کے ایک خوش حال اور نہایت دین دار گھرانے میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک عام اسکول احمدیہ میںحاصل کی اور نوجوانی ہی میں اپنے والد محترم کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ عنفوان شباب ہی میں حسن البناشہیدؒاور ان کی تحریک اخوان المسلمون سے نسبت کا رشتہ استوار ہوگیا۔ وہ اوران کے بڑے بھائی شیخ عبدالعزیز المطوع ‘امام شہیدؒ کی دعوت سے متاثر تھے اور حج بیت اللہ کے موقع پر غالباً دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ان سے ملے اور پھر انھی کے ہوکر رہ گئے۔ کویت کے مخصوص حالات کی روشنی میں اخوان المسلمون کا باقاعدہ قیام تو عمل میں نہیں آسکا لیکن تحریک اخوان کا ایک مؤثر حلقہ وجود میں آگیا اور اسے ہر میدان میں روز افزوں ترقی حاصل ہوئی۔ اس کے قائد اور روح رواں الاخ ابوبدرؒ ہی تھے۔ اس حلقے نے اجتماعی تحریک کی شکل بھی اختیار کی مگر مقامی رنگ کے ساتھ۔ ۱۹۵۲ء میں جمعیۃ الارشاد کے نام سے کام کا آغاز کیا جس نے بالآخر ۱۹۶۳ء میں جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کی شکل اختیار کرلی اور یہ جمعیت کویت کی تحریک اسلامی کا گڑھ بن گئی۔ فکری‘ تربیتی‘ تعلیمی‘ دعوتی‘ سماجی‘ خدمتی اور بالآخر سیاسی جدوجہد کا مرکز و محوربنی اور کویت کی اجتماعی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔ اس وقت کویت کی پارلیمنٹ میں سب سے بڑا منتخب گروپ اسی فکر کا علم بردار ہے۔
شیخ ابوبدر کی دل چسپی‘ تعلیم اور تبلیغ میں پہلے دن سے رہی۔تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ انھوں نے دینی مجلوں کے اجرا کا بھی اہتمام کیا۔ سب سے پہلے الارشاد الاسلامیہ کا اجرا کیا۔ نوجوانوں کے لیے جمعیۃ کے نام سے ایک رسالہ نکالا لیکن ان کا سب سے اہم اور تاریخی کارنامہ ۱۹۷۰ء سے ہفت روزہ المجتمع کا اجرا ہے۔ یہ رسالہ کویت ہی نہیں پورے عالمِ عرب میں اسلامی دعوت اور فکر کا نقیب ہے اور وقت کے تمام مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر کا مؤثر ترین ترجمان ہے۔ شیخ ابوبدرؒنے کوشش کی کہ اس کی ادارت قابل ترین ہاتھوں میں ہو۔ عالمِ اسلام کے تمام ہی چوٹی کے اہلِ قلم اس کے لکھنے والوں میں شامل ہیں۔
الاخ ابوبدر عالم اسلام کی اہم ترین تنظیموں میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے اور ان کا شمار عالمی اسلامی تحریکوںکے ممتاز ترین قائدین میں ہوتا تھا۔ کویت کی جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کے وہ صدر تھے۔ رابطہ عالم اسلامی اور عالمی مساجدکونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ کویت کی اہم ترین فلاحی تنظیم الہیئہ الخیریۃ الاسلامیۃ العالمیۃ کے بانی رکن اور اس کی مجلس منتظمہ کے رکن تھے۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے بانی رکن اور اس کے قیام اور ترقی میں ان کا نمایاں کردار ہے۔ اسلامی دنیا کا کوئی اہم دعوتی‘ رفاہی‘ خدمتی‘ تعلیمی منصوبہ ایسا نہیںجس کی مالی معاونت اور فکری سرپرستی میں ابوبدر کا حصہ نہ ہو۔ وہ کویت کے متمول ترین افرادمیں سے تھے لیکن انھوں نے اپنی دولت کو صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ اس سے ساری دنیا کی دعوتی‘ رفاہی اور جہادی خدمات کی آبیاری کی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کویت ہی نہیںپورے عالمِ عرب میں بجاطور پرامام خیرالعمل کی حیثیت سے یادکیا جاتا ہے۔
الاخ ابوبدر سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۹ء میں ہوئی جب وہ پاکستان تشریف لائے اور محترم چودھری غلام احمد مرحوم کے ساتھ میرے غریب خانے پر کراچی جماعت کے قائدین کی ایک نشست میں شریک ہوئے۔ گذشتہ ۵۸سالوں میں مجھے ان سے دسیوں بار ملنے‘ ان کے ساتھ سفروحضر میں وقت گزارنے‘ سیمی ناروں‘ کانفرنسوں اور مخصوص نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا اور اس پورے زمانے میںایک بھی موقع شکایت اور رنجش کا پیدا نہ ہوا۔ حتیٰ کہ ان پُرآشوب ایام میں بھی جب کویت ایران پر عراق کے حملے کی حمایت کر رہا تھا اور ہم ایران کی تائید اور صدام کی مذمت کر رہے تھے لیکن یہ ابوبدر کا ظرف اور حق پرستی تھی کہ ہمارے تعلقات اورتعاون پر کوئی حرف نہ آیا۔ جہاد افغانستان‘ بوسنیا کی جدوجہد آزادی‘ فلسطین کا جہاد‘ کشمیر کی اسلامی مزاحمتی تحریک‘ ہرہرجدوجہد میں وہ دل و جان سے شریک تھے۔ صرف مالی معاونت ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر مشورے‘ شرکت اور رہنمائی میں وہ پیش پیش ہوا کرتے تھے۔
میں نے ابوبدر کو ایک بڑاعظیم انسان پایا۔ ان کے ظاہر و باطن میںکوئی فرق نہ تھا۔ ان کے سینے میں ایک دل دردمند‘ ان کا دماغ مشکل کشا‘اور ہمت ہمہ جوان تھی۔ دولت و ثروت نے ان کواور بھی انکساری کا نمونہ بنا دیا تھااور انھوںنے مال و دولت کو ایک خادم اورخیر کے فروغ کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ سادگی‘ ملنساری‘خدمت اور ایک حدتک عرب بدوانہ درویشی ان کا شعار تھی۔ وہ بڑی محبت کرنے والے انسان تھے اور ان کی شخصیت میں وہ شیرینی تھی کہ وہ بہت جلد سب کی محبت کامرکزو محور بن جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے کھرے انسان اوراصولوں کے معاملے میں سمجھوتہ نہ کرنے والے‘ اورحق بات کا پوری بے باکی سے اظہار کرنے والے تھے۔ دولت مند بالعموم بزدل ہوجاتے ہیں لیکن ابوبدر حق کے معاملے میں بڑے جری تھے اور بڑے سے بڑے حکمران کے سامنے حق بات کہنے میں ذرا بھی باک نہ محسوس کرتے تھے۔
پاکستان‘ مولانا مودودی ؒاورجماعت اسلامی سے ان کو بڑی محبت تھی‘ اور پاکستان پر آنے والی ہر آفت کادکھ انھوں نے ہمیشہ محسوس کیا جس طرح ایک محب وطن پاکستانی محسوس کرتا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک سے انھیں بے پناہ لگائوتھا‘ اور وہاں کے حالات‘ مسائل اور ضروریات میں وہ خود دل چسپی لیتے تھے۔
الاخ ابوبدر کی رسمی تعلیم زیادہ نہ تھی لیکن اپنے ذاتی ذوق اور خداداد صلاحیت سے انھوں نے علم و عمل‘ دونوں میدانوں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ سیاسی امور میں ان کی بصیرت کسی بڑے سے بڑے ماہر سے کم نہ تھی۔ حالات کا تجزیہ کرنے اور عالمی مسائل اور تحریکات پر ان کی نظر بڑی گہری تھی۔ میں نے مخصوص اجتماعات سے لے کر علمی مجالس اور کانفرنسوں میں ان کو بڑی سلجھی ہوئی مدلل بات کرتے ہوئے دیکھا‘ اور وہ ایک کامیاب تاجر ہی نہیں‘ ایک بالغ نظر سیاسی رہنما اور اسٹرے ٹیجک امور پر قادرالکلام مبصر بھی تھے۔
شیخ ابوبدر نے تجارت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ عرب دنیا کے چوٹی کے کامیاب تاجروں میں سے ایک تھے۔ لیکن ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف انھوں نے تجارت میں کبھی بددیانتی‘ اور کاروباری ہیرپھیر کا سہارا نہیںلیا اورحقیقی اسلامی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا‘ اور دوسری طرف ان کے کاروبار میں سود کی رتی بھر ملاوٹ نہ تھی۔ اس طرح انھوں نے یہ مثال قائم کر دی کہ سود کے بغیر بھی ایک تاجر اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو کثیر دولت ان کو دی اس کا بڑا حصہ انھوں نے دین حق کے پھیلانے‘ غریبوں اورفلاحی اداروں کی معاونت اور اقامت ِ دین اور جہاد آزادی کی تحریکوں کی آبیاری کرنے میں صرف کی۔ یوں ہمارے اپنے دور میں سلف صالحین کے دور کی وہ مثال قائم کی جس کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی کہ سچا ایمان دار تاجر قیامت کے روز نبیوں‘ صدیقوں اور شہدا کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
الاخ ابوبدر اللہ کے ان مخلص بندوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے رب سے جو عہد ِ وفا کیا تھا‘ اسے عملاً نبھا دیا اور آنے والوں کے لیے ایک روشن مثال قائم کر دی۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَـہٗ وَمِـنْھُمْ مَّنْ یَّـنْتَظِرُ ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳ :۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوںنے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچاکر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میںکوئی تبدیلی نہیں کی۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ الاخ ابوبدر ان لوگوںمیں سے تھے جو اللہ کو اپنا رب مان لینے کے بعد اس پر جم گئے اور اللہ کی اطاعت‘ اس کے دین کی سربلندی اور اس کی مخلوق کی خدمت میںساری زندگی اور اپنے سارے وسائل صرف کردیے۔ مسلمانوں کا ہرمسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا‘اور ہر غم ان کا اپنا غم تھا۔ ان کا عالم یہ تھاکہ ؎
خنجر چلے کسی پہ‘ تڑپتے ہیں ہم اسیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
میںنے کسی علاقائی عصبیت کا کوئی پرتو ان کے فکر اور ان کی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اسلام اور اُمت مسلمہ ان کی زندگی کا مرکز اور محور تھے اورانھی کی خدمت میں وہ مالکِ حقیقی سے جاملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اورانھیں جنت کے اعلیٰ ترین درجات میں جگہ دے۔ ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
اُردو دنیا کی ایک محترم اور معتبر شخصیت ‘ اُردو کے معروف اور جید نقاد اور بھارت کے نام ور مسلم دانش ور پروفیسر عبدالمغنی ۵ستمبر ۲۰۰۶ء کو پٹنہ میں انتقال کرگئے‘ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی رحلت اُردو دنیا خصوصاً بھارت کی اُردو تحریک کے لیے ایک نقصانِ عظیم ہے۔ اسی طرح وہاں کی تحریک ِ ادب اسلامی کے لیے (جس کے مرحوم ایک نمایاں سرپرست تھے) یہ ایک بڑا سانحہ ہے۔
ڈاکٹر عبدالمغنی مرحوم کا تعلق صوبہ بہار کے ایک علمی خانوادے سے تھا۔ مغلوں نے ان کے ایک بزرگ کو الٰہ آباد سے ’قاضی‘ بناکر اورنگ آباد (بہار) بھیجا تھا۔ ان کے والد قاضی سید عبدالرؤف دیوبند اور ندوہ کے فارغ التحصیل اور اورنگ آباد کے قاضی تھے۔ معارف ، اعظم گڑھ کے ابتدائی زمانے میں ان کے متعدد مضامین مذکورہ رسالے میں شائع ہوئے۔ خاندانی روایت کے مطابق والدنے عبدالمغنی کو بھی ’قاضی‘ بناناچاہا مگر وہ والد کی اس خواہش کی تکمیل نہ کرسکے۔ سات آٹھ برس تک مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد‘ یکے بعددیگرے اسکول‘ کالج اور یونی ورسٹی کے امتحانات بڑے امتیازات کے ساتھ پاس کیے۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے ہوا۔ کئی سال بعد انگریزی ہی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پٹنہ یونی ورسٹی کی ملازمت سے سبک دوش ہوئے تو انھیں بہار کی ایل این متھلا یونی ورسٹی دربھنگا کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ فرقہ پرستوں کو ایک مسلم وائس چانسلر ہضم نہ ہوسکا تو ان کے خلاف سازش کرکے‘ انھیں گرفتار کرا دیا مگر جلد ہی وہ تمام الزامات سے بری الذمہ ہوکر‘ باعزت طریقے سے رہا ہوگئے۔ ۳۱اگست ۱۹۹۹ء کو مجھے ایک خط میں لکھا: ’’اسلام پسندی کا ملزم آزاد ہے اور پہلے سے زیادہ معتبر و معروف‘ ہرفرقے اور حلقے میں‘ بلاامتیاز مذہب و ملّت‘‘۔
پروفیسر عبدالمغنی نہایت فعال‘ متحرک اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے نظریات میں بہت پختہ‘ واضح اور دوٹوک موقف رکھتے تھے اور تحریراً و تقریراً اس کے اظہار میں بے باک اور جری تھے۔ ہمیشہ بے جا مصلحتوں اور ذاتی مفادات سے بالا رہے۔ نہ صرف بات چیت بلکہ معاملات میں بھی کھرے تھے‘ اس لیے اُن سے معاملہ کرنے والے اُن سے دبتے بھی تھے اور ان کی عزت بھی کرتے تھے۔ راقم کو دو بار انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلی ملاقات تو ۲۶اپریل ۱۹۸۶ء کو دہلی میں ہوئی۔ دوسرا موقع اس وقت ملا‘ جب وہ پنجاب یونی ورسٹی کی اقبال کانگریس (نومبر ۱۹۹۸ئ) میں شرکت کے لیے چار روز کے لیے لاہور آئے۔ اس دوران میں‘ وقتاً فوقتاً ان سے ملاقاتیں اور باتیں ہوتی رہیں۔ کانفرنس کے علاوہ مختلف ادبی جلسوں اور گفتگوؤں‘ نیز اخبارات کے مصاحبوں (انٹرویو) میں بھی عبدالمغنی صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر‘ اپنے خیالات کا نہایت کھل کر اظہار کیا۔ بھارتی مسلمانوں کے مسائل‘ ہندوئوں کا معاندانہ رویہ‘ ہندستان میں اُردو زبان کا حال اور مستقبل‘ کشمیر کا مسئلہ‘ ادبی دھڑے بندیاں‘ پاکستانی معاشرے اور بعض نقادوں‘ افسانہ نگاروں اور شاعروں کے بارے میں انھوں نے بہت سے مسلّمات کے برعکس اپنی دوٹوک آراظاہر کیں اور قطعاً پروا نہیں کی کہ لوگ کیا کہیں گے اور اس کا ردعمل کیا ہوگا۔
اوّل: وہ بھارت میں اُردو زبان کی بقا اور اُس کی ترویج اور فروغ کے بہت بڑے حامی تھے۔ حامی اور نعرے لگانے والے تو اور بھی بہت سے لوگ ہیں لیکن عبدالمغنی صاحب نے کسی خوف‘ مصلحت اور مداہنت کے بغیر اُردو کے حق میں ایک بڑی تحریک چلا کر بہار میں ۱۹۸۰ء میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کرانے کا کارنامہ انجام دیا۔ وہ ابتدا سے تادمِ آخر انجمن ترقی اُردو بہار کے صدر رہے اور بالعموم‘ ہمیشہ بلامقابلہ ہی صدر منتخب ہوتے رہے۔
دوم: پروفیسر عبدالمغنی بھارت کی اسلامی ادبی تحریک کے ایک نمایاں سرپرست تھے۔ وہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے مجلسِ عاملہ کے رُکن اور اُس کے ادبی ترجمان پیش رفت کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔
سوم: وہ اُردو ادب کے سربرآوردہ نقاد تھے۔ عربی‘ فارسی اور مشرقی و دینی علوم کے ساتھ انگریزی ادب کے مطالعے بلکہ دیگر یورپی زبانوں کے ادب سے واقفیت نے ان کی تنقید میں ایک وزن اور وقار پیدا کردیا تھا۔ رسمی و روایتی اندازِ نقد و انتقاد سے ہٹ کر‘ ان کے تنقیدی تجزیوں میں ایک حقیقت پسندانہ قدر سنجی اور واضح نقطۂ نظر ملتا ہے۔ ان کے اوّلین تنقیدی مجموعے کا نام نقطۂ نظر (پٹنہ‘ ۱۹۶۵ئ) اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ وہ ادب کی سنجیدہ تنقید میں کسی نہ کسی نقطۂ نظر کو ضروری خیال کرتے تھے۔
چہارم: پروفیسر عبدالمغنی کی ایک حیثیت اپنے عہد کے ایک نام ور اقبال شناس کی بھی ہے جیساکہ اُوپر ذکر ہوا۔ انھوں نے نظم و نثر کی مختلف اصناف پر بہت کچھ لکھا مگر جس رغبت اور والہانہ انداز میں انھوں نے اقبال کے فکروفن کے مختلف گوشوں کو منور کیا‘ وہ ان کے ادبی و تنقیدی سرمایے میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اُردو اور انگریزی میں اقبالیات پر ان کی سات کتابیں‘ اس موضوع سے ان کی غیرمعمولی لگن کا ثبوت ہیں۔ اقبال کے فکروفن پر ان کی تنقید بڑی متوازن اور معتدل ہے اور وہ اقبال کی شاعری میں ان کے فکر کے ساتھ‘ ان کے فن کو بھی برابر کی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ علامہ اقبال کو عالمی سطح پر سب سے بڑا شاعر سمجھتے تھے۔ اپنے دورۂ پاکستان میں انھوں نے اس راے کا اظہار‘ مختلف مجالس اور اخبارات سے مکالموں اور مصاحبوں میں بھی بڑی شدّومد سے کیا۔
پروفیسر عبدالمغنی کی اُردو اور انگریزی تصانیف کی تعداد ۵۰ سے اُوپر ہے۔ ان کا آخری علمی کارنامہ: The Quran: An Authentic Modern Idiomatic English Translation ہے___ شبلی نعمانی‘ ابوالکلام آزاد اور سیدابوالاعلیٰ مودودی ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ مصنفین تھے۔ وہ بھارت کی بہت سی علمی‘ تعلیمی اور ادبی انجمنوں سے مختلف حیثیتوں سے وابستہ رہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر انھیں متعدد انعامات واعزاز پیش کیے گئے۔ اس مختصر تعارف میں اس کی تفصیل دینا مشکل ہے۔ خدا ان کی مغفرت کرے اور روح کو آسودہ رکھے‘ آمین!
سورت (انڈیا) کے ایک گائوں میں یکم جولائی ۱۹۱۸ء کو ایک بچہ نے آنکھ کھولی جس کا نام والدین نے احمد رکھا۔ خاندانی نام احمد حسین دیدات تھا۔ خاندان کاروباری پس منظر رکھتا تھا مگر جنگِ عظیم نے اکثر کاروبار ٹھپ کر دیے تھے۔ میمن برادری اور سورتی آبادی کا ایک حصہ جنوبی افریقہ میں مقیم تھا اور وہاں روزگار کے بہتر مواقع موجود تھے۔ اس خاندان کے سربراہ حسین دیدات اپنے بیٹے احمد کی پیدایش کے چند ماہ بعد جنوبی افریقہ چلے گئے تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ احمد دیدات بھی ۹ سال کی عمر میں اپنے باپ کے پاس نیٹال (جنوبی افریقہ) پہنچ گئے۔ ان کی والدہ اور باقی افراد خانہ سورت ہی میں مقیم تھے۔ والدہ اپنے بیٹے کی روانگی کے چند ہی ماہ بعد فوت ہوگئیں۔ شیخ دیدات اپنی والدہ کا تذکرہ جب بھی کرتے آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔
احمد دیدات کی تعلیم کچھ بھی نہ تھی مگر وہ بلا کے ذہین تھے۔ انھوں نے سٹینڈرڈ سکس (چھٹی کلاس) تک پڑھا مگر اپنے طور پر انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے اور لکھنے‘ پڑھنے کا عمل جاری رکھا۔ چھوٹی عمر ہی سے ایک سٹور میں ملازمت کرلی۔ اس علاقے میں بہت سے عیسائی مشن اور گرجاگھر سرگرمِ عمل تھے۔ پادری اور راہبہ خواتین اسٹور پر خریداری کے لیے آتے تو ساتھ تبلیغ بھی کرتے۔ کم سن احمد دیدات بڑا پکا مسلمان تھا۔ وہ اُن مبلغین سے سوال کرتا مگر اسے کوئی اطمینان بخش جواب نہ ملتا۔ اس نے اسلام کا مطالعہ کیا مگر اس سے زیادہ عیسائیت پر تحقیق شروع کر دی۔ بائیبل کو لفظ بہ لفظ حفظ کرنا کسی عیسائی بشپ کے بھی بس میں نہیں مگر احمد دیدات نے یہ کارنامہ کردکھایا۔ مولانا رحمت اللہ کی کتاب اظہار الحق نے احمد دیدات کی بڑی رہنمائی کی۔
ملازمت اور کاروبار کے بجاے قدرت نے اس ذہین مسلمان نوجوان کو اسلام کا مبلغ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اپنے طور پر تحقیق کرتا رہا اور سفیدفام اقلیت کے نظامِ جبر اور نسلی امتیاز کی ظالمانہ پالیسیوں کے باوجود نہایت جرأت اور دھڑلے سے بڑے بڑے پادریوں کو چیلنج کرنے لگا۔ پادریوں کو اپنی قادر الکلامی کا بڑا پندار تھا۔ وہ اس ’’انڈین بوائے‘‘ کے مقابلے پر مناظرے کے میدان میں اترے تو دنیا حیران رہ گئی کہ بڑے بڑے بت یوں بے بس ہو کر دھڑام سے زمین بوس ہونے لگے کہ حضرت ابراہیم ؑکی تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ شیخ دیدات نے انگریزی زبان میںکمال حاصل کیا اور پیدایشی طور پر وہ تھے بھی شعلہ نوا خطیب۔ ان کا خطاب سماں باندھ دیتا تھا اور ہمیشہ وہ مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے مناظروں کی روداد بھی لکھنا شروع کر دی۔ اسلام پر عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے علاوہ خود جارحانہ انداز اپناکر عیسائی مشنریوں پر بائیبل ہی کے حوالوں سے ایسے اعتراضات کیے کہ ان کے پاس کوئی جواب تھا‘ نہ اب تک ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ یہ انداز دعوت کے لیے کتنا مفید ہے‘ مگر ایک مرتبہ شیخ احمد دیدات نے خود اس کے جواب میں کہا کہ جنوبی افریقہ کے جس استحصالی اور نہایت جبرورعونت کے نظام میں انھوں نے اسلام کا دفاع شروع کیا تھا اس کے معروضی حالات ایسے تھے کہ کوئی اور چارئہ کار نہ تھا۔
۱۹۴۰ء تک احمد دیدات جنوب افریقی ممالک میں معروف مبلغ کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ جنوبی افریقہ میں ہندو اثرات بھی خاصے تھے اور مسٹرگاندھی نے تو اپنی سیاسی سوچ اور جدوجہد آزادی کا سارا منصوبہ بھی وہیں سے شروع کیا تھا۔ احمد دیدات جس طرح اسلام اور عیسائیت کا موازنہ کرنے میں محنت کررہے تھے اسی طرح تحریکِ پاکستان کی بھی اکھنڈ بھارت کے مقابلے میں کھل کر حمایت کرتے تھے۔ پاکستان بنا تو احمد دیدات پاکستان آگئے۔ تین سال یہاں مقیم رہے مگر محسوس کیا کہ ان کے لیے مفید کردارادا کرنے کے لیے جنوبی افریقہ ہی بہترین سرزمین ہے۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔
شیخ احمد دیدات نے ایک تحقیقی و تعلیمی ادارہ السلام انسٹی ٹیوٹ کے نام سے برائمار (جنوبی افریقہ) میں قائم کیا جہاں سے ہزاروں نوجوانوں نے اسلام اور عیسائیت کے موازنے اور عیسائی مشنریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر تعلیم حاصل کی۔ بلاشبہہ اس ادارے کی بڑی خدمات ہیں۔ ڈربن میں ایک جامع مسجد اور اسلامک پروپیگشن سنٹر کا قیام بھی مرحوم کا بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ہزاروں تقاریر کی وڈیو اور آڈیو کیسٹس دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ دو درجن کے قریب ان کی کتب کئی زبانوں میں منتقل ہوچکی ہیں۔ انھوں نے دنیا بھر میں سفر کیا۔ کئی ممالک نے ان کو ویزا دینے سے بھی انکار کیا۔ انھوں نے ویٹی کن میں پوپ جان پال سے ملاقات کی اور امریکا میں کئی عیسائی مناظرین سے مباحثے کیے۔ امریکا میں جمی سواگرٹ کے ساتھ ان کا مناظرہ پوری دنیا میں مشہور ہوا۔
خدمت و تبلیغ اسلام کے اعتراف کے طور پر مرحوم کو ۱۹۸۶ء میں کنگ فیصل عالمی انعام ملا۔ انھوں نے اسلامی ممالک میں جاکر جو لیکچر دیے ان کو بے پناہ پذیرائی ملی۔ جنوبی افریقہ کی تحریک آزادی کا ہیرو اور باباے قوم نیلسن منڈیلا ان کا بڑا مداح تھا۔ اس کے الفاظ میں سفیدفام سر پر غرور جنگِ آزادی کے نتیجے ہی میں سرنگوں ہوا مگر اس پر اوّلین چرکے احمد دیدات ہی نے لگائے تھے۔ منڈیلااپنے دورِ صدارت میں شیخ دیدات سے قریبی رابطہ رکھتا تھا۔
شیخ دیدات پر ۱۹۹۶ء میں فالج کا شدید حملہ ہوا۔ ان کا نچلا دھڑ تقریباً مکمل طور پر جامد ہوگیا تھا‘ زبان بھی بند ہوگئی مگر وہ ایک خاص مشین کے ذریعے اشاروں سے بات چیت کرتے تھے۔ مئی ۱۹۹۷ء میں جب میں جنوبی افریقہ گیا تو ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ ان کے بیٹے یوسف دیدات سے بھی پہلے سے تعارف تھا۔ انھوںنے استقبال کیا اور فوراً شیخ کے کمرے میں لے گئے۔ انھوں نے پہچان لیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھ سے کئی سوالات کیے۔ ان کے ہاں عیادت کے لیے بہت سے لوگ آئے تھے۔ میں نے شیخ دیدات کے ساتھ کینیا‘ تنزانیہ ‘ پاکستان اور خلیجی ریاستوں اور پاکستان میں کچھ وقت گزارا تھا۔ وہ سارے واقعات انھیں یاد تھے۔ ۹سال تک اس تکلیف دہ مرض کے ساتھ وہ زندہ رہے اور ۸۷ سال کی عمر میں ۸ اگست ۲۰۰۵ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں داخل کرے۔
عالمِ اسلام کی معروف عالمہ‘ مبلغہ اور دعوتِ اسلامی کی مجسم تصویر سیدہ زینب الغزالی (۱۹۱۷ئ-۲۰۰۵ئ) ۸۸سال کی عمر میں ایک پُرآشوب‘ ابتلا و آزمایش سے بھرپور‘ عزیمت و عظمت سے مالا مال اور ہر لحاظ سے سعید و کامیاب زندگی گزار کر ۸ اگست ۲۰۰۵ء کو خالقِ حقیقی سے جاملیں ___ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
زینب الغزالی مصر کے ایک گائوں میتِ عمر میں ایک کاشتکار گھرانے میں پیداہوئیں۔ ان کے والد بہت نیک نہاد مسلمان اور تاریخِ اسلام سے گہراشغف رکھتے تھے۔ بچپن ہی سے زینب کے سامنے تاریخِ اسلام اور سیرتِ صحابیاتؓ کے زریں واقعات کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجاہد صفت صحابیہ نُسیبہ بنتِ کعبؓ کو ان کے جہادی کارناموں کی وجہ سے اپنا آئیڈیل بنا لیا تھا۔ زینب الغزالیؒ کے عنفوانِ شباب میں مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ نوجوان زینب نے امام حسن البنّا کی دعوت کو اپنے دل کی آواز جانا اور اس دعوت کا حصہ بن گئیں۔ امام حسن البنّا سے اپنے بھائی کی معیت میں ملاقات کی اور انھی کی ہدایت پر ۱۹۴۸ء میں خواتین کو منظم کرنے کا کام جاری رکھا جو امام البنّا سے ملاقات سے قبل بھی وہ کر رہی تھیں۔ مردوں میں امام البنّا نے تحریک کی بنیاد رکھی تو خواتین میں یہ کارنامہ زینب الغزالی کے حصے میں آیا۔
زینب الغزالی نے خود ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا نام سیدات مسلمات تھا‘ جب کہ اخوان کا حلقہ خواتین اخوات مسلمات کے نام سے کام کر رہا تھا۔ کچھ حکمتوں اور مصالح کی وجہ سے انھوں نے اپنی تنظیم کو ختم کرنے یا اخوات میں ضم کرنے کے بجاے اسی نام سے کام جاری رکھا مگر اخوان سے بھرپور تعاون بھی کرتی رہیں۔ وہ بہت اچھی منتظم اور امام حسن البنّا ہی کی طرح نہایت مؤثر خطیبہ تھیں جو خواتین میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرنے میںکامیاب ہوئیں۔ یہ اخوان کی تحریک کا دل چسپ تاریخی واقعہ ہے کہ جب امام حسن البنّا نے سیدہ زینب کو اخوات میں شامل ہونے کی دعوت دی تو انھوں نے دلائل کے ساتھ انھیں قائل کیا کہ الگ تنظیم کے بھی کچھ فوائد ہیں۔ جب ۱۹۴۸ء میں سیدہ زینب نے اخوان پر ابتلا کو دیکھا تو امام البنّا کو پیش کش کی کہ وہ اخوات میں شامل ہونے پر آمادہ ہیں۔ اس موقع پر امام نے ان کو ہدایت دی اور قائل کیا کہ وہ اس تنظیم کو قائم رکھیں۔ یہ دونوں فیصلے اپنے اپنے وقت پر حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھے۔سیدات مسلمات تحریکی سوچ اور مکمل یک سوئی کے ساتھ مظلوموں کی امداد اور حاجت مندوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا اہم کام کرتی تھیں۔ دورِ ابتلا میں نہایت حکمت اور خاموشی کے ساتھ ان عظیم خواتین نے اخوانی گھرانوں کو بڑا سہارا دیے رکھا۔
زینب الغزالی نے اپنی رودادِ ابتلا میں ایسے ایسے واقعات بیان کیے ہیں کہ رونگٹے کھڑے اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ امام حسن البنّا کی شہادت سے قبل ان کو کسی نے بتا دیا تھا کہ حکومت کے کیا عزائم ہیں۔ شاہ فاروق کے عہد میں امام کی شہادت اور بعد میں فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والے طالع آزما کرنل جمال عبدالناصر کے اخوان کو بیخ و بُن سے اکھاڑ دینے کے حالات و واقعات انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہیں۔ اس دورِ ابتلا میں سیدہ زینب نے اخوان کے گھرانوں کی امداد اور دعوت کے میدان میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی داعیانہ ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کیا۔ وہ عورت تھیں مگر اللہ نے ان کو بے پناہ قوتِ ارادی اور عزمِ صمیم سے مالا مال کررکھا تھا۔ اخوان کے چھے قائدین ۱۹۵۴ء میں تختہ دار پر شہید کر دیے گئے۔ باقی ماندہ لوگ مرشدِعام دوم حسن الہضیبی کے ساتھ بدترین زنداں خانوں میں اذیت و کرب کی زندگی گزار رہے تھے۔ جیل سے باہر مردوں کے محاذ پر سید قطب اور خواتین کے حلقوں میں سیدہ زینب نے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔ سید قطب کو بھی ۱۹۵۶ء میں بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔ وہ ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پہ لٹکائے گئے۔
زینب الغزالی کی بھی نگرانی کی جاتی رہی تھی۔ ان کی گرفتاری ۲۰ اگست ۱۹۶۵ء کو بغاوت ہی کی فردِ جرم کے تحت عمل میں آئی۔ ایام حُیاتی (اُردو ترجمہ رودادِ قفس از مولانا خلیل احمد حامدیؒ) میں مرحومہ نے اپنے اُوپر ڈھائے جانے والے مظالم بیان کیے ہیں۔ ان پر کتے چھوڑے گئے جو ان کو بھنبھوڑتے رہے‘ ان کو تازیانے مار مار کر لہولہان کر دیا گیا۔ ان کی ٹانگ توڑ دی گئی‘ ان کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ وضو اور پینے کے لیے پانی تک نہ دیا گیا۔ رفعِ حاجت کے لیے بیت الخلا جانا بھی ممنوع تھا اور یہ کیفیت کئی روز تک رہی۔ آفرین ہے اس خاتون کی ہمت و عزیمت پر کہ ظالم ظلم توڑتے توڑتے تھک گئے مگراس نے باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ ترغیب کا ہرجال بھی پھیلایا گیا اور ترہیب کا آخری حربہ تک بھی استعمال میں لایا گیا۔ ان کے فالج زدہ خاوند محمدسالم کی کنپٹی پہ پستول رکھ کر محبوس و مظلوم زینب کے طلاق نامے پر دستخط کرنے پر مجبورکیا گیا۔ ان سے زبردستی دستخط کرائے جا رہے تھے توان کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’اے اللہ تو گواہ رہ‘ میں نے اپنی بیوی زینب الغزالی الجبیلی کو طلاق نہیں دی‘‘۔ (رودادِ قفس‘ ص ۲۷۵)
انھیں عمرقید کی سزا سنائی گئی مگر ناصر کی موت کے بعد سادات نے اخوانی زندانیوں کو رہا کرنا شروع کیا تو ۹ اگست ۱۹۷۱ء کو سیدہ زینب کی رہائی کا پروانہ جاری ہوگیا۔ اس وقت جیل میں ان کے ساتھ سید قطب کی عظیم بہن محترمہ حمیدہ قطب بھی مقید تھیں۔ زینب الغزالی نے حمیدہ قطب کو جیل میں چھوڑ کر رہا ہونے سے انکار کر دیا مگر کارندوں نے انھیں زبردستی جیل سے نکال باہر کیا اور عظیم سید قطب کی عظیم بہن نے بھی انھیں تسلی دی کہ وہ اطمینان سے جائیں‘ حمیدہ کے حوصلے اللہ کی توفیق سے پست نہ ہوں گے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۳۰۲-۳۰۳)
محترمہ زینب الغزالی کو چار مرتبہ خواب میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ جیل میں آنحضوؐر نے ان کو ان کے پیدایشی نام سے تین مرتبہ پکارا۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا نام زینب غزالی رکھا گیا تھا‘ الغزالی بعد میں معروف ہوگیا۔ آنحضوؐر نے زینب غزالی ہی کہہ کر پکارا اور تسلی دی کہ وہ آنحضوؐر کے نقشِ قدم پر چل رہی ہیں (ایضاً‘ ص ۷۸-۷۹)۔ یہ عظیم ترین اعزاز ہے۔
جیل سے رہائی کے بعد محترمہ زینب الغزالی اپنی وفات تک اخوان کی قیادت میں نمایاں شخصیت رہیں۔ امام حسن الہضیبیؒ‘ سید عمرتلمسانیؒ ،جناب محمد حامد ابوالنصرؒ، استاذ مصطفی مشہورؒ، جناب مامون الہضیبیؒ اور موجودہ مرشدعام الاخ محمد مہدی عاکف سبھی ان سے مشورے لیا کرتے تھے۔ وہ اخوان کی تحریک میں اس وقت مادرِ مشفق کا مقام رکھتی تھیں۔ ان کی زندگی قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ تھی۔ حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
مولاناابوالکلام آزاد نے ایک تقریر میں تاج محل کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کے حسن اور دلآویزی سے مبہوت انسانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اس حسن مجسم کی جتنی تعریف چاہے کرلو لیکن یہ نہ بھولو کہ اس کی شان و شوکت اور دلربائی مرہون منت ہے ان نظر نہ آنے والے پتھروں پر جو اس کی بنیاد میں پیوستہ ہیں اور فنِ تعمیر کے اس عجوبے کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں--- کشمیر کی تحریکِ آزادی کا معاملہ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ ۱۹۸۰ء کے وسط میں مقبوضہ کشمیر میں جو تحریکِ مزاحمت شروع ہوئی‘ اور ۱۹۸۹ء کے انتخابی معرکے کے بعد جس سیاسی جدوجہد نے جہاد آزادی کا روپ دھارا‘ اس کی قیادت اگر حزب المجاہدین اور دوسری جہادی تنظیمیں کر رہی ہیں‘ اور اس کی سیاسی رہنمائی کی سعادت سید علی گیلانی اور ان کے رفقاے کار کو میسر آئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے کئی اہم شخصیات کی وہ مساعی ہیں جو تاج محل کی نیو کے پتھروں کا درجہ رکھتی ہیں اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس تاریخی تحریک کی صورت گری میں ان کا بڑا حصہ ہے--- اور ان کا مقام اس سے اور بھی بلند ہوجاتا ہے کہ انھوں نے ساری خدمات اللہ کے لیے اور اپنی مظلوم قوم کی آزادی کے حصول کے لیے انجام دیں اور ہر نام و نمود سے بالا ہوکر!
مولانا عبدالباری مرحوم اس تحریکِ مزاحمت و جہاد کے گم نام بانیوں میں سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ مولانا عبدالباری ہی نے اس جدوجہد کی سرپرستی کے لیے مولانا سعدالدین مرحوم کو آمادہ کیا۔ ۱۹۸۰ء میں انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں تین ہفتے گزارے۔ کام کا ایک نقشہ ان کے ذہن میں تھا۔ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں اور جماعت اسلامی کی قیادت سے تحریکِ آزادی کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی۔ نئے خطوطِ کار مرتب کیے گئے۔ نوجوانوں نے کام شروع کر دیا۔ پھر ۱۹۸۳ء میں مولانا سعدالدین پاکستان تشریف لائے اور تحریک آزادی کے سلسلے میں اعلیٰ ترین سطح پر مشورے ہوئے اور بالآخر چار پانچ سال کی تیاری کے بعد ۱۹۸۸ء میں تحریک نے نئی کروٹ لی--- نوجوانوں میں ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ ڈاکٹر غلام نبی فائی‘ تجمل حسین اور ان کے رفقا کا کردار سب سے اہم تھا تو بزرگوں میں مولانا سعدالدین‘ سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی کا--- اور ان سب کے پیچھے جس شخص نے خاموشی‘ حکمت اور لگن کے ساتھ اس تحریک کے دروبست کی شیرازہ بندی کی وہ مولانا عبدالباری تھے‘ جو اس تحریک کو خاک و خون کی منزلیں طے کرتے دیکھتے ہوئے اور اس کے لیے دعائیں کرتے ہوئے ۲۶ فروری ۲۰۰۴ء کو اس دارفانی سے اپنے رب حقیقی کی طرف رخصت ہوگئے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالباری نے اکتوبر ۱۹۱۹ء میں وادی کشمیر کی تحصیل باندی پور (بارہ مولہ) کے ایک معزز دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ۱۸ سال کی عمر میں جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک میں شرکت اختیار کی‘ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں شرکت کی‘ اور تحریک کے ہرمرحلے میں مردانہ وار شریک رہے۔ ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو جس اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی ‘اس میں وہ بھی شریک تھے۔ ۱۹۴۷ء کے آخری ایام میں پاکستان ہجرت کی۔ بالاکوٹ میں چند سال قیام کے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئے۔
جماعت اسلامی سے ذہنی اور عملی رفاقت کے ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس آزاد کشمیر سے وابستگی جاری رکھی اور اس کے سینیرنائب صدر اور مجلس عاملہ کے فعال رکن رہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب جماعت اسلامی آزاد کشمیر قائم ہوئی تو اس کے صدر منتخب ہوئے اور یہ ذمہ داری۱۹۸۱ء تک انجام دی۔ جس لگن سے امیرجماعت کی حیثیت سے کام کیا‘ اسی لگن سے کرنل رشید عباس اور عبدالرشید ترابی کی امارت میں بحیثیت رکن خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۴ء میں کار کے ایک حادثے کے نتیجے میں صاحبِ فراش ہوگئے مگر اسلام‘ تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے اسی طرح فکرمند رہے اور آخری سانس تک اپنے رب سے وفاداری کا جوعہد کیا تھا اس پر قائم رہے۔
مجھے مولانا عبدالباریؒ سے ملنے کا پہلا موقع ۱۹۷۸ء میں ملا جب میں انگلستان سے اسلام آباد منتقل ہوا۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے دورے میں بھی ساتھ رہے۔ ان کے انگلستان اور سعودی عرب کے دوروںمیں بھی‘ مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا بھرپور موقع ملا۔ تحریکی مشاورتوں اور اجتماعات میں بھی ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے اس پورے عرصے میں مولانا عبدالباریؒ کو ایک بڑا صاف ستھر انسان پایا۔ اسلام کی دعوت‘ تحریک اسلامی کی خدمت‘ دینی تعلیم خصوصیت سے مساجد اور مدرسوں کی کفالت‘اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد‘ ان کے شب و روز کا مرکزومحور تھے۔ اس کے ساتھ اولاد کی تربیت اور ان کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلام اور تحریکِ اسلامی کے رنگ میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش‘ ان کی مساعی کا حاصل ہیں۔ سیاسی معاملات میں ان کی رائے بڑی صائب اور خصوصیت سے کشمیر کے حالات کا تجزیہ بڑا چشم کشا ہوتا تھا۔ خود مجھے تحریکِ آزادی کشمیر میں سراپا کھینچ لانے میں ان کا بھی حصہ ہے۔گو اس سلسلے میں مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ برادرم الیف الدین ترابی اور عزیزی حسام الدین کا بھی بڑا ہی موثر کردار رہا ہے۔
مولانا عبدالباری سے ۲۵ سالہ تعلق میں‘ میںنے محسوس کیا کہ ان کی زندگی میں تین چیزیں بڑی نمایاں ہیں۔ سب سے پہلی چیز ان کا اسلام اور تحریکِ اسلامی سے کمٹ منٹ ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک عقیدے اور نظامِ عبادت کے طور پر ہی قبول نہیں کیا تھا بلکہ اسے زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ اس کے لیے جدوجہد‘ قربانی اور اس پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی تڑپ اور جذبہ‘ ان کی پہچان بن گیا تھا۔ دین کو ہر شعبۂ زندگی میں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ مساجد اور مدارس کا قیام ہو یا دعوت و تحریک کی مساعی‘ صحافت ہو یا خطابت‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو بھی صلاحیتیں ودیعت کی تھیں اور جو بھی وسائل عطا کیے تھے‘ ان کو انھوں نے پوری دیانت اور دلجمعی کے ساتھ اللہ کی راہ میں صرف کیا اور بڑی کشادہ دلی کے ساتھ کیا۔ اور جب قضاے الٰہی سے وہ ایک حادثے کی بناپر صاحبِ فراش ہوگئے‘ تب بھی صبروشکر کی کیفیت میں ذرا فرق نہ آیا۔ انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ان کا دل‘ ان کے ہاتھ‘ ان کی آنکھ اور ان کی زبان‘ اللہ کے ذکر میں مصروف رہی۔
دوسری چیز پاکستان سے ان کی محبت اور شیفتگی تھی اور یہ محبت محض وطن کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ وہ پاکستان کو اسلام کا گھر اور قلعہ سمجھتے تھے اور مسجد کی طرح اس کی حفاظت اور خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔
مولانا عبدالباری ؒکے عشق کا تیسرا مرکز و محور کشمیر اور خصوصیت سے اس کی آزادی کی تحریک اور پاکستان سے اس کے الحاق کی خواہش اور کوشش تھی۔ یہ چیز ان کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز تھی‘ اور میں نے ان کو اس سے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ پایا خواہ اس کا تعلق کشمیر کاز کو سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کرنا ہو یا جہادی قوت کو متحرک کرنا ہو کشمیر کی آزادی کے لیے ان کی خدمات ایک زریں مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔
ان تینوں مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کو وقف کر دیا اور اپنی اولاد اور اپنے دوستوں‘ ساتھیوں اور رفقا کو آمادہ اور متحرک کیا۔ یہ کام انھوں نے ہمت اور بالغ نظری سے انجام دیا۔ انھوں نے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کے باب میں بے پناہ جرأت کا مظاہرہ کیا۔ کتنا ہی مضبوط دشمن ہو اور راہ کی مشکلات کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہوں‘ وہ اپنے مشن کے لیے جدوجہد میں سرگرم رہے۔ وہ مخالفتوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند تھے۔ انھیں اپنے اللہ پر اور اپنے مشن کی صداقت پر بھروسا تھا اور یہی ان کی طاقت اور استقامت کا راز تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور انھیں اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔آمین!
۱۱ فروری ۲۰۰۴ء کو جب میں آکس برج کے ہسپتال میں برادرم حاشر فاروقی اور برادرم کمال ھلباوی کے ساتھ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں اپنے عزیز بھائی اور تحریک آزادی کشمیر کے عظیم مجاہد ڈاکٹر ایوب ٹھاکرسے ملا‘ تودل ایک خطرے کے احساس سے کانپ رہا تھا اور زبان ارض وسما کے مالک سے التجا کر رہی تھی کہ اسلام کے اس سپاہی کو نئی زندگی دے اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے مزید مہلت دے جس میں اس نے اپنی طالب علمی‘ اپنی جوانی اور اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ ایوب ٹھاکر زبان سے کچھ کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے مگر اصرار کر کے کاغذمنگوایا اور کانپتے ہاتھوں سے مجھے گواہ بناکر لکھا کہ میری زندگی کا مقصد اسلام‘ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر ہے--- آکسیجن لگی ہوئی تھی لیکن قلب و نگاہ انھی مقاصد پر مرکوز تھے۔ ہاں‘ یہ بھی لکھا کہ میرے بیٹے مزمل کا خیال رکھنا‘ اسے اس راہ میں آگے بڑھنے کے لیے تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔
ایوب ٹھاکر مرحوم سے میری پہلی ملاقات ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے ایک تربیتی کیمپ میں ۱۹۸۰ء میں ہوئی‘ جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تھے اور سری نگر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس نوجوان نے اپنے خلوص‘ اپنی فکری اصابت اور مقصد سے اپنی لگن کے باب میں مجھے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں نوجوان ایوب ٹھاکر سے یہ پہلی ملاقات اہم سنگ میل ہے۔ ہم جتنے دن ساتھ رہے‘ ایک ہی موضوع ہماری گفتگو کا محور تھا--- کشمیر کے لیے کیا کیا جائے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کو اس کے لیے کیسے متحرک کیا جائے؟ اس پہلی ملاقات ہی میں ان کا جو نقش دل و دماغ پر مرتسم ہوا وہ اقبال کے اس جوان کا تھا جس کے بارے میں انھوں نے کہا تھا ؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
یہ ایوب ٹھاکر اور ان جیسے نوجوان ہی تھے جنھوں نے مجھے یہ یقین دیا کہ کشمیر کے مسلمان بھارت کی غلامی پر کبھی قانع نہیں ہوں گے‘ اور ان شاء اللہ ایک دن ان زنجیروں کو توڑکر رہیں گے جن میں انھیں پابندسلاسل کردیا گیا ہے۔ ایوب ٹھاکر کا وژن بہت صاف اور نقشۂ راہ بالکل واضح تھا۔ انھوں نے خود اس پر چل کر کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو اپنے خون اور پسینے سے سینچا اور عالمی سطح پر کشمیرکاز کو پیش کرنے میں جتنی خدمت انجام دی وہ دوسری کسی جماعت‘ گروہ‘ بلکہ مملکت کی خدمت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ایوب ٹھاکر کے وژن میں کشمیر کی آزادی‘ پاکستان سے اس کی وابستگی اور صرف اسلام کی بالادستی‘ ایک ہی حقیقت کے تین روپ اور ایک ہی منزل کے تین نشان تھے۔ اس سلسلے میں‘ میں نے ان کو کبھی کسی کنفیوژن کا شکار نہیں پایا۔ جس قوم نے ایوب ٹھاکر جیسا نوجوان‘ مجاہد اور مفکر پیدا کیا وہ ان شاء اللہ کبھی غلام نہیں رہ سکتی--- آزادی اور عزت کی زندگی اس کا مقدر ہے‘ وقت جتنا بھی لگے!
ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم مقبوضہ کشمیر کے قصبہ شوپیاں (اسلام آباد) میں ۱۹۴۹ء میں پیدا ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے ناظم اعلیٰ رہے۔ کشمیر یونی ورسٹی سے نیوکلیرفزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ سری نگر میں مسئلہ کشمیر پر ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کے ’جرم‘ میں گرفتار ہوئے اور ملازمت سے برطرف کیے گئے۔ ۱۹۸۱ء میں جدہ کی عبدالعزیز یونی ورسٹی میں استاد کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی اور پھر وہاں انھوں نے پانچ سال خدمات انجام دیں جس کے بعد ۱۹۸۶ء میں انگلستان منتقل ہوگئے جہاں تن‘ من دھن سے آزادی کشمیر کی جدوجہد میں شب و روز مشغول ہوگئے۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ میری ہی دعوت پر وہ انگلستان آئے‘ انٹرنیشنل سینٹر فار کشمیر اسٹڈیز قائم کیا‘ پھر ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے بانی صدر بنے‘ مرسی انٹرنیشنل اور جسٹس فائونڈیشن انھی کی محنتوں کا ثمرہ تھے۔ انگلستان‘ یورپ اور پوری دنیامیں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے موثر خدمات انجام دیں۔ خود مقبوضہ کشمیر میںتحریک کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
وہ عالمی سطح پر تحریک کے دماغ تھے اور دست و بازو بھی خود ہی فراہم کرتے تھے۔ ہندستانی حکومت نے ایک جھوٹے مقدمے میں ان کو گھیر لیا تھا (جس میں مجرموں کی فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا)‘ اور اسی بنیاد پر ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا گیا تھا‘ نیز بی جے پی کے دور حکومت میں ایل کے اڈوانی ان کے بطور قیدی واپسی (repatriation)کے لیے ذاتی طور پر کوشش کرتا رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی دسترس سے محفوظ رکھا۔ برطانیہ میں سیاسی‘ سفارتی اور علمی حلقوں میں انھوں نے بے پناہ کام کیا اور بڑی عزت کا مقام بنایا۔ مسلم کمیونٹی کو بھی متحرک کرنے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ امریکہ‘ یورپ اور عرب دنیا‘ ہر جگہ انھوں نے تحریکِ آزادی کشمیر کو متحرک کیا اور اس کی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔
ڈاکٹر ایوب ٹھاکرمرحوم بہت سلجھی ہوئی فکر کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اعلیٰ ذہنی اور تنظیمی صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کو انھوں نے اپنے مقصد کی خدمت کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ ادارہ سازی (institution making) کا بھی ان کو ملکہ حاصل تھا۔ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ مقصد کے لیے قربانی اور اَن تھک محنت ان کی شخصیت کے دلآویز پہلو تھے۔ تحریکِ اسلامی کے وفادار سپاہی تھے اور نازک سے نازک وقت پر بھی ان کی وفاداری پر کوئی آنچ نہ آئی ع
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو خود ہی خوب جانتا ہے اور اس کا ہر فیصلہ قبول‘ لیکن ایک پختہ کار انسان کی حیثیت سے ۵۵ سال کی عمر میں جدوجہد کے اس عالم میں جب کشتی بالکل منجدھار میں تھی‘ ان کا ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو رخصت ہو جانا‘ ایک ایسا نقصان ہے جس کا تصور بھی نہیں کیاتھا اور ان کے رخصت ہو جانے سے ایک ایسا خلا واقع ہوگیا ہے جس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
جس رب السمٰوٰت والارض نے یہ نعمت دی تھی‘ اس نے واپس لے لی ہے اور اس سے ہی دعا ہے کہ اس خلا کو پر کرے اور اس نقصان کی تلافی کا سامان بھی اپنے قبضۂ قدرت سے فرمائے اور اپنے اس مخلص اور وفادار بندے کی خدمات کو قبول فرمائے‘ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے‘ اور جس مظلوم قوم کی آزادی کی جدوجہد میں اس نے اپنی جان آفریں کے سپرد کی اس قوم کی اس جدوجہد کو کامیاب فرمائے کہ اس کی خاطر لاکھوں جانیں تلف ہوگئی ہیں اور ہزاروں جوانیاں لُٹ گئی ہیں۔میں نے ایوب ٹھاکر کو کبھی مایوس نہ پایا۔ وہ ہر حال میں اچھے مستقبل کی امیداور امنگ رکھتے تھے کہ ؎
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے
موت‘ توسب ہی کا مقدر ہے لیکن مرنے کے بعد بھی زندہ وہ رہتے ہیں جو اعلیٰ مقاصد کے حصول اور خیروفلاح کے فروغ کے لیے شب و روز صعوبتیں جھیلتے‘دشمنوں کے وار سہتے اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں تاکہ دنیا سے تاریکیاں چھٹیں‘ ماحول روشن ہو اور انسانوں کی زندگی اللہ کی بندگی اور اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کے لیے دنیوی اور اخروی فلاح کے حصول کی جدوجہد کی تابناکی سے معمور ہوسکے۔ یہ نفوس قدسیہ زمین کے نمک‘ اور پہاڑی کے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود ان کے کارنامے مشعل راہ اور ان کی زندگی روشنی کا مینار بن جاتی ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں لیکن ان کے نقوشِ راہ آنے والوں کے لیے سنگ میل ہوتے ہیں‘ اور اس طرح وہ مرکر بھی شہیدوں کی طرح زندہ ہی رہتے ہیں۔ قاہرہ کے ایک گوشے میں جمعۃ المبارک ۹ جنوری ۲۰۰۴ء کو ایسے ہی ایک ۸۳سالہ مرد مجاہد نے عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرح سفر کیا اور اس شان سے کیا کہ اپنے اور غیر‘ سب پکار اٹھے کہ اس نے اپنے رب سے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔۱؎ یہ مرد مجاہد عالمِ عرب کی سب سے اہم اسلامی تحریک اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام محمد مامون الہضیبی تھا--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
بیسویں صدی میں اُمت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سب سے نمایاں انعام عالمِ عرب میں حسن البنا شہیدؒ اور ان کی قیادت میں قائم ہونے والی اسلامی تحریک اخوان المسلمون‘ اور برعظیم پاک و ہند میں برپا ہونے والی تحریک جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ ان تحریکوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو ایمان کے نور سے منور کیا اور ان کو غلبۂ حق کی جاں گسل جدوجہد میں زندگی کا لطف پانے کا سلیقہ سکھا دیا۔
محمدمامون الہضیبیؒ نے ایک ایسے گوشے میں آنکھ کھولی جو علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کا گہوارا تھا۔ ان کے والد حسن الہضیبیؒ ایک نامور قانون دان اور اخوان المسلمون کے دوسرے مرشدعام ]۷۳-۱۹۵۱ئ[ تھے‘ جن کو حسن البنا شہیدؒکی جا نشینی کا شرف حاصل ہوا اور جنھوں نے تحریک کے مشکل ترین دور میں اس کی قیادت کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ اس خاندان کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حسن الہضیبیؒ کی گود میں پلنے والا مامون‘ اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام منتخب ہوا‘ گو اسے یہ خدمت انجام دینے کے لیے مہلت صرف ۱۴ مہینے کی مل سکی۔
محمد مامون الہضیبیؒ ۲۸ مئی ۱۹۲۱ء کو قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں کلیۃ الحقوق سے گریجویشن کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کر کے مصر کی عدالت استغاثہ (appellate court)میں بحیثیت جج تقرر حاصل کیا۔ وہ یہ خدمت ۱۹۶۵ء تک انجام دیتے رہے۔ ۱۹۶۵ء میں اخوان المسلمون کے باقاعدہ رکن نہ ہوتے ہوئے بھی ان کو پوری بے دردی سے جیل میں پھینک دیا گیا اور وہ چھے سال قیدوبند اور ظلم وتشدد کی مشقت خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے‘ اور اس دور میں تزکیہ نفس‘ روحانی ارتقا اور تحریکی شعور کی دولت سے مالا مال ہوتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں رِہا ہوئے اور جلد ہی باقاعدہ رکنیت اختیار کرکے تحریک میں سرگرم ہوگئے۔ الاستاذ عمرتلمسانیؒ (تیسرے مرشدعام: ۸۶-۱۹۷۳ئ) الاستاذ حامدابونصرؒ (چوتھے مرشدعام: ۹۶-۱۹۸۶ئ) اور مجاہد کبیرمصطفی مشہورؒ (پانچویں مرشدعام: ۱۹۸۶ئ-۲۰۰۲ئ) کے زمانے میں اخوان کے ترجمان (spokesman) اور پھر نائب مرشدعام کی ذمہ داریاں ادا کیں اور نومبر ۲۰۰۲ء میں مصطفی مشہور کی وفات کے بعد چھٹے مرشدعام منتخب ہوئے۔ مامون الہضیبیؒ کو ۱۹۷۱ء میں رہائی کے بعد ان کے عہدہ قضا پر بحال نہیں کیا گیا۔ تقریباً ۱۰سال انھوں نے سعودی عرب میں بحیثیت قانونی مشیر صرف کیے اور ۱۹۸۷ء میں مصر کی پارلیمنٹ میں سرکاری مخالفت کے باوجود آزاد امیدوار مگر عملاً اخوان کے نمایندے کے طور پر منتخب ہوکر قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں پھر منتخب ہوئے اور وفات کے وقت تک حزبِ اختلاف کے قائد تھے۔
مجھے محترم مامون الہضیبیؒ سے پہلی بار ملنے کا موقع ۱۹۷۴ء میں اس وقت حاصل ہوا جب ایک اہم تحریکی سلسلے میں برادرم خلیل احمد حامدیؒ کے ہمراہ پہلی بار قاہرہ گیا۔ شیخ عمر تلمسانیؒ (مرشدعام) سے بھی اس موقع پر ملاقات ہوئی۔ اس وقت مامون الہضیبیؒ صرف ایک پختہ کار قانون دان کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور تحریک میں کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتے تھے۔ اس کے برعکس سیف الاسلام (حسن البنا شہیدؒ کے صاحبزادے) اپنی نوجوانی کے باوجود اس وقت بھی توجہ کامرکز تھے۔ پھر ۱۹۸۵ء میں اور اس کے بعد دسیوں بار قاہرہ‘ استنبول‘ انگلستان اور نہ معلوم کہاں کہاں ان سے ملنے اور گھنٹوں مشاورت میں شریک ہونے کا موقع ملا۔
مامون الہضیبیؒ بڑے دھیمے مگر موثرانداز میں اپنی بات پیش کرتے تھے۔ انگریزی میں بھی اپنا مافی الضمیرخوش اسلوبی سے ادا کر لیتے تھے۔ دینی امور پر مجھے اُن سے زیادہ گفتگو کا موقع نہیں ملا لیکن سیاسی اور تحریکی معاملات پر میں نے ان کی فکر کو بہت واضح‘ پختہ اور سلجھا ہوا پایا۔ وہ جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے سختی سے حامی تھے اور سیاسی نظام اور عمل (process)کو تحریک اسلامی کے ایک اہم موثر میدانِ کار کے طور پر استعمال کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ ان کی تقریر میں منطقی ربط اور ٹھوس مواد ہوتا تھا اور وہ دلیل سے قائل کرنے اور دلیل سے قائل ہونے کی روایت کو مستحکم کرنے پر ہمیشہ کاربند رہے۔ مجھے ان کے ساتھ مصرکی پیشہ ورانہ تنظیموں کے اجتماعات میں بھی شرکت کا موقع ملا اور نوجوانوں کے تربیتی کیمپوں (مخیّم) میں بھی۔ میں نے ہرموقع پر ان کو صاحب الرائے اور توازن و اعتدال پر قائم پایا۔ وہ شوریٰ کے آدمی تھے اور ان کے ساتھ بحث و گفتگو ہمیشہ فکرکشا ہوتی تھی۔
اخوان کا ابتدائی دور برطانوی استعمار سے کش مکش کا دور ہے اور اس میں دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کش مکش اور جہاد (خصوصیت سے فلسطین کے محاذ پر) کا بھی بڑا نمایاں دخل ہے۔ حسن الہضیبیؒ کا دور ابتلا اور آزمایش کا دور ہے‘ جو کسی نہ کسی صورت میں اب تک چل رہا ہے۔ لیکن شیخ عمرتلمسانی ؒکے دور سے سیاسی نظام کے اندر دستوری اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کا منہج آہستہ آہستہ نمایاں ہوتا گیا اور تقویت پاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ مصطفی مشہورؒ کے دور میں وہ تبدیلی کا ماڈل بن گیا۔ اس منہج کو فکری اور عملی دونوں محاذوں پر تقویت اور رواج دینے میں محمدمامون الہضیبیؒ کا بڑا نمایاں حصہ ہے۔ مرشدعام منتخب ہونے کے بعد مامون الہضیبیؒ ہرہفتہ اخوان کے ہفت روزہ بلیٹن میں مضمون لکھتے تھے اور ان کی ان تحریروں کا نمایاں پہلو ان کا دین کے گہرے نہج کے ساتھ مصر اور دنیا کے حالات اور تحریک اسلامی کو درپیش مسائل اور معاملات کا حقیقت پسندانہ ادراک تھا۔
اگرچہ ان کی شخصیت کے اور بھی ایمان افروز پہلو ہیں‘ لیکن اب سے چند ماہ پہلے جب میں نے اسلامی تحریکوں سے وابستہ بزرگوں اور دوستوں کو خط لکھا کہ‘ مولانا مودودی مرحوم کی یاد میں ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت کے لیے مضمون لکھیں‘ تو دنیا بھر میں جس فرد نے سب سے پہلے‘ اور میرا خط ملنے کے آٹھویں روز مضمون عطا فرمایا‘ وہ محمد مامون ہی تھے۔ ’’اشاعت خاص‘‘ میں قارئین نے وہ مضمون ملاحظہ کیا ہوگا۔ عمر‘صحت‘ مصروفیات اور عرب مسلم دنیا پر امریکی یلغار کی اس فضا میں ایسا تجزیاتی اور محبت بھرا مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ مولانا مودودیؒ سے کتنی عقیدت اور ان کے بارے میں کتنی گہرائی سے معلومات رکھتے تھے۔
اخوان کی تحریک کا ایک بڑا نمایاں پہلو قرآن سے شغف‘ باہمی محبت و الفت اور انسانی تعلقات میں گرمی اور مٹھاس کا عنصر ہے۔ مامون الہضیبیؒ کے ۳۰ سالہ دور میں جو نقش سب سے نمایاں ہے‘ وہ ان کا ذاتی تعلق اور اپنائیت کا رویہ ہے‘ جو دل کو موہ لینے کا باعث ہوتا تھا۔ وہ اپنے رب کو پیارے ہوگئے لیکن ان کا مقام میرے جیسے ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کے دل میں ہے اور یہی ان کی عظمت کی دلیل اور ان کے نہ ختم ہونے والے فیضان کی نشانی ہے ؎
بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مجو
درسینہ ہاے مردمِ عارف مزارِ ماست
جب ہمارا انتقال ہو جائے تو ہماری قبر زمین میں تلاش نہ کرو‘ ہمارا مزار اہل معرفت کے دلوں میں ہے۔
بلاشبہہ خالد اسحاق نے قانون کی دنیا میں بڑا نام پیدا کیا اور دستوری اور قانونی امور پر ان کی نگارشات‘ مقدمات اور بیانات ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں اور ان کی رہنمائی میں اچھے قانون دانوں اور ججوں کی ایک ٹیم بھی ہماری عدالتوں کی زینت ہے۔ لیکن میری نگاہ میں ان کی اصل شناخت اسلام سے ان کی گہری وابستگی اور اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کی خواہش اور کاوش ہے۔ وہ بڑے پائے کے قانون دان تھے۔ اللہ بخش بروہی اور خالد اسحاق اپنے اپنے طور پر منفرد مقام رکھتے ہیں اور برسوں یاد کیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ پاکستان میں آیندہ بھی اچھے وکیل اور کشادہ ذہن مفکرین کی کھیپ تیار ہوتی رہے گی‘ لیکن جو چیز خالد اسحاق کو سب سے ممتاز کرتی ہے‘ وہ ان کی شخصیت کی ہمہ گیری اور فکر کے عمق اور وسعتوں کے ساتھ اسلام سے گہری وابستگی‘ اس کے پیغام کا فہم اور انسانی فکر میں اسلام کی مرکزیت کا شعور ہے۔ انھوں نے ساری زندگی اس مشن کے لیے خلوص‘ دیانت اور محنت سے جدوجہد کی ایک تابناک مثال قائم کی۔
خالد اسحاق اسلامی روایت کے جلو میں پاکستان کی دو علاقائی روایات کا سنگم تھے۔ ان کا خاندان پنجاب سے سندھ آیا تھا۔ ان کے والد سندھ میں سول سروس کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے‘ ان کی ساری تعلیم سندھ میں ہوئی اور وہ اُردو‘ پنجابی اور سندھی یکساں روانی سے بولتے تھے۔ انگریزی اور عربی پر بھی قدرت حاصل تھی‘ بلکہ دل چسپ بات یہ ہے کہ گو قانون ان کا اوڑھنا بچھونا تھا مگر ان کا ایم اے عربی زبان میں تھا۔
۱۹۲۶ء میں پیدا ہونے والے اس ہونہار بچے نے ۱۹۴۸ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ ۱۹۵۸ء میں مغربی پاکستان کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ۱۹۶۳ء میں ہمار ی تاریخ کا سب سے نوعمر ایڈووکیٹ جنرل بنا۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IRI) کے شعبہ قانون سے کئی برس وابستہ رہے اور قانون کی اسلامی تشکیلِ نو کے سلسلے میں تحقیق اور نگران کی خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے بھی دو بار رکن بنے اور سیکڑوں قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی اور نہایت خوبی اور عمدگی کے ساتھ اسلام کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی۔ ان کا رویہ خود اعتمادی اور ان کے فکر کا منہج قرآن سے وفاداری کے ساتھ دورِ جدید کے مسائل اور افکار کی روشنی میں اسلامی فکر کی ترجمانی کا تھا۔ دینی امور کی تعبیر میں ان کی آرا سے تو میں نے بارہا اختلاف کیا‘ لیکن ان کو کبھی اسلا م کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے نہیں پایا۔ اللہ‘ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ سے ان کی وابستگی پختہ اور ناقابل سمجھوتہ تھی اور یہی چیز ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ہے اور ان کی امتیازی شناخت اسی سے عبارت ہے۔
مجھے خالد اسحاق سے سب سے پہلے ۱۹۶۲ء میں ملنے کا موقع ملا اور یہ بھی ہمارے مشترک دوست اور اس وقت کے (یعنی ایوبی دور کے) قومی تعمیرنو بیورو کے نائب ڈائرکٹر مجیب انصاری مرحوم کے توسط سے ہوا۔ ماہ نامہ چراغِ راہ ہمارے اس ابتدائی تعارف کا ذریعہ بنا۔ پھر یہ تعلق دوستی اور اخوت کی سمت بڑھتا رہا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم اور ڈاکٹر اسماعیل فاروقی اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں آگئے اور ان کے ساتھ خالداسحاق سے روز و شب ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان ملاقاتوں میں گرما گرم بحثیں ہوتیں اور یوں اتفاق اور اختلاف کے ساتھ یہ تعلقات بتدریج گہرے ہوتے گئے۔
خالد اسحاق کے کردار کا سب سے متاثر کن پہلوان کی سادگی اور صاف گوئی تھی اور اختلاف کے باوجود ان کے ہاں برداشت کا وصف تھا۔ اس زمانے میں ان پر غلام احمد پرویز کے بھی اثرات تھے اور ان سے ذاتی تعلقات بھی تھے لیکن وہ پرویزکے ہم قافلہ کبھی نہ تھے۔چند موضوعات کو چھوڑ کر ان کی اسلامی فکر ‘توازن کا بہترین امتزاج تھی۔ مولانا مودودیؒ کی تصانیف اور خدمات کا انھوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور ان کے دل سے قائل تھے‘ اگرچہ چند امور پر ان کے اپنے تحفظات تھے۔ جب صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دیا تو یہ مسئلہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں پیش ہوا۔ خالداسحاق نے ایڈووکیٹ جنرل ہوتے ہوئے بھی اس کیس میں حکومت کے موقف کی تائید سے اجتناب کیا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے جب سوال کیا کہ آپ سرکار کے وکیل کا کردار ادا کررہے ہیں یا استغاثہ کا ‘ تو انھوں نے جرأت ایمانی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے سے استعفا دے دیا لیکن اپنے ضمیر کے خلاف مظلوم کو ظالم ثابت کرنے سے انکار کردیا۔
انگلستان کے قیام کے دوران بھی میرا ان سے گہرا ربط رہا۔ اسلامک کونسل آف یورپ کے پلیٹ فارم سے ہم نے جن دسیوں بین الاقوامی کانفرنسوں کا اہتمام کیا‘ وہ شریک ہوئے۔ انٹرنیشنل ڈیکلرنس آف اسلامک ہیومن رائٹس جس کا اعلان یونیسکو کے پلیٹ فارم سے کیا گیا تھا‘ اس کے مرتب کرنے میں انھوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ اسلامی معاشیات پر ہمارے پروگراموں میں بھی شریک رہے۔ مگر مجھے یہ قلق ہے کہ آخرِ عمر میں ربا کے مسئلے پر وہ کچھ اشکالات کا شکار ہوگئے‘ ورنہ ہم نے بڑی ہم آہنگی سے اسلام کی معاشی حکمت عملی اور خصوصیت سے عدل اجتماعی کے قیام کے لیے اسلام کے کردار پر مل کر کام کیا۔
خالد اسحاق اور ان کی اہلیہ محترمہ دونوں کو بالکل شروع ہی سے میں نے نماز کے معاملے میں بڑا ہی باقاعدہ اور مضبوط پایا۔ بیرونی کانفرنسوں میں‘ حتیٰ کہ ان کانفرنسوں میں بھی‘ جن کا اہتمام مغربی ادارے کرتے تھے‘ انھوں نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور ہر محفل میں اسے وقت پر ادا کرنے کی مثال قائم کی۔ یہ اپنے دین پر اعتماد اور اپنے طریقے کے بارے میں معذرت خواہانہ رویوں سے پاک ہونے کی دلیل ہے۔
خالد اسحاق صاحب کی زندگی کا یہ پہلو سب کے سامنے ہے کہ انھوں نے ٹیکس کے بارے میں کبھی نادہندگی یا غلط گوشوارے دینے کا رویہ اختیار نہیں کیا‘ اور شاید وہ بڑے بڑے صنعت کاروں سے بھی زیادہ ٹیکس ادا کرتے تھے۔ یہ ان کی دیانت اور قانون کی پاسداری کی روشن مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز میرے لیے متاثرکن تھی‘ وہ ان کا جذبۂ انفاق ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بہت سے غریب خاندان ان کے تعاون سے عزت کی زندگی گزار رہے تھے اور کتنے ہی لائق مگر وسائل سے محروم نوجوانوں نے ان کی مدد سے تعلیم کی منزلیں طے کیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ان مساعی کو قبول فرمائے اور ان کو اجرعظیم سے نوازے۔آمین!
خالد اسحاق کی لائبریری بھی ایک افسانوی اور مثالی (legendary) حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے اس لائبریری کو ایک کمرے سے بڑھ کر کئی کوٹھیوں اور فلیٹوں تک پھیلتے ہوئے بچشم سر دیکھا ہے۔ کتاب خالد اسحاق کی بہترین رفیق اور اصل جذبہ یا خبط (passion)تھی۔ میرے اندازے کے مطابق ۲لاکھ سے زاید کتب ان کے کتب خانے میں تھیں اور بلاشبہہ یہ پاکستان میں سب سے بڑی نجی لائبریری تھی۔ اے کے بروہی صاحب کے پاس بھی بڑی اچھی لائبریری تھی مگر کتب کی تعداد۴۰ یا۵۰ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ میری اپنی لائبریری میں بھی پاکستان اور لسٹرمیں ملا کر۲۵ ہزار تک کتابیں ہیں‘ لیکن خالد اسحاق اس معاملے میں ہم سب سے آگے تھے بلکہ شاید پوری مسلم دنیا میں سرفہرست تھے۔
خالد اسحاق کے گھر منعقد ہونے والی ہفتہ وار علمی نشست بھی کراچی کی ثقافتی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ تھی۔ فضل احمد کریم فضلی نے ماہانہ مشاعرے کی طرح ڈالی تھی اور خالداسحاق نے ہفتہ وار علمی نشست کی۔ یہ وہ ثقافتی روایت تھی جو کبھی برعظیم کی مسلم ثقافت کی پہچان تھی۔ کاش! دلی کے آخری مشاعرے کی طرح خالد اسحاق کی علمی محفل خواب و خیال نہ ہو جائے۔
خالد اسحاق نے جو خدمات ۱۹۷۳ء کے دستورسازی کے دور میں اور پھر ۱۹۷۶ء میں پاکستان قومی اتحاد (PNA)کی دستوری اور قانونی جدوجہد میں ادا کیں‘ وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ وہ اور جناب عامر رضا ایڈووکیٹ اصل قانونی دماغ تھے‘ جس کا توڑ ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور ان کی ٹیم سر توڑ کوششوں کے باوجود نہ کر سکی۔
خالداسحاق نے بڑے قیمتی مضامین لکھے ہیں۔ غالباً کتابیں تو ان کی دو تین ہی شائع ہوئی ہیں۔ Constitutional Limitation اور Islamic Principles of Economic Management ان میں نمایاں ہیں لیکن ان کے مضامین بلاشبہہ کئی سو ہونے چاہییں۔ ان کے احباب کا فرض ہے کہ ان کو مرتب کر کے شائع کرنے کا اہتمام کریں۔ ان کی لائبریری کی حفاظت کے لیے قومی سطح پر اقدام کیا جائے تاکہ یہ صدقہ جاریہ ضوفشاں رہے۔ ان کی زندگی اور کارناموں کو نئی نسل سے روشناس کرایا جائے ‘ اس لیے کہ وہ بلاشبہہ ایک نمونے کی حیثیت (role-model) کا درجہ رکھتے ہیں۔
خالداسحاق ۹ فروری ۲۰۰۴ء کو ہم سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! لیکن وہ اپنے افکار‘ اپنی خدمات اور اپنی یادوں کا ایسا خزانہ چھوڑ گئے کہ بقول میرؔ ؎
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
جو کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا