تقریباً ۶۰ برس کی جلا وطنی کے بعد شام میں اخوان المسلمون کے دوسرے بڑے راہ نما اور یورپ میں اخوان کے شامی نژاد قائد استاد عصام عطار ( ۱۹۲۷ء- ۲۰۲۴ء)۲مئی بروز جمعہ جرمنی کے شہر’ آخین ‘میں۹۷ سال کی عمر میں اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے : انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون !
داعی ،ادیب ، شاعر ،مفکر اور شام کی پارلیمان کے سابق رکن عصام عطار۱۹۲۷ء میں دارالحکومت دمشق کے ایک علمی اور مذہبی خانوادے میںپیدا ہوئے ۔ان کے والد محمد رضا عطار شام کے بڑے عالم اور قاضی تھے ۔ دمشق کی جامع مسجد الاموی میں ان کے دروس اور خطبے باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے ۔ان کا خانوادہ عثمانی خلافت اور سلطان عبد الحمید کا حامی تھا۔چنانچہ شام کے گورنر جمال پاشا نے ان کے والد محمد رضا عطار کو دیگر افراد کے ساتھ ایک فرضی مقدمہ میں پھانسی کی سزا سنائی مگروہ ملک سے باہر نکل جانے میں کامیاب ہوگئے۔
عصام عطار نے طالب علمی کے زمانے میں ایک انجمن تشکیل دی تھی جو فلاحی ،اصلاحی اور خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش رہتی ۔ شیخ عصام اور ان کے متعدد رفقا جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے دمشق کے مضافات کی مختلف بستیوں میں جایا کرتے ۔ کالج کے زمانے میں ہی عرب کے معروف ادیبوںمثلاً مصطفےٰ صادق رافعی ،طہٰ حسین ،عباس محمود عقاد، احمد امین ، سلامہ موسیٰ اوراحمد حسن زیات کی تصانیف ، ادبی رجحانات اور ذاتی افکار کا خوب مطالعہ کرلیا تھا ۔ ۱۹۴۵ء میں مصری عالم، مصنف اور اخوان رہ نمامصطفےٰ السباعی(۱۹۱۵ء- ۱۹۶۴ء) کے ذریعے اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ ۱۹۵۵ء میں دمشق میں منعقد ہونے والی’مؤ تمر عالم اسلامی‘ [تاسیس:۱۹۲۶ء]کی اُس بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہوئے جس میں شام کے معروف اہل علم اور سیاسی رہ نمامثلاً محمد المبارک، معروف الدوالیبی اور مصطفےٰ زرقاء و غیرہ بھی موجود تھے۔کانفرنس میں عصام عطار کو ’مؤتمر عالم اسلامی‘ کا سکریٹری جنرل مقرر کیا گیا تھا۔
عصام عطار نے ۱۹۵۱ء میںشامی حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے میں حصہ لیا ۔ اس سے قبل چالیس کے عشرے میں اخوان نے شام پر مسلط فرانسیسی سامراج کے خلا ف مسلح جدو جہد میں حصہ لیا تھا۔ آزادی کے بعد اخوان شام کے سیاسی عمل میں شامل ہوگئی ۔۱۹۴۹ء میںاس کے تین اراکین پارلیمان میں پہنچے، جب کہ ۱۹۶۱ء میںاس کے اراکینِ پارلیمان کی تعداد دس تھی۔ لیکن۱۹۶۳ء میں سیکولرزم اور سوشل ازم کی داعی بعث پارٹی نے جب بزورِ قوت جمہوری حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ جمایا، تو شام میںاخوان کے دوسرے مرشد عام شیخ عصام عطار نے بعث پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف عوامی تحریک منظم کی ۔
۱۹۵۴ء میں جب اخوان کے مرشد عام حسن الہضیبی اور محمد حامد ابو النصر وغیرہ نے شام کا دورہ کیا تو مصطفےٰ سباعی اور سعید رمضان کے ساتھ عوامی جلسے منعقد کیے، جن میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ اخوان کے دوسرے مرشد عام حسن الہضیبی ، عبد القادر عودہ، محمد فرغلی اور یوسف طلعت ان کے رفیقوں میں شامل تھے ۔مصر کے ایک ممتاز قانون دان، صحافی، دانشوراور امام حسن البنا (۱۹۰۶ء- ۱۹۴۹ء)کے انتہائی معتمد، ان کے داماد اوریورپ میں الاخوان المسلمون کے بانی سعید رمضان (۱۲؍ اپریل ۱۹۲۶ء- ۴؍اگست ۱۹۹۵ء)عصام عطار کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔
عصام عطار ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ء تک شام میں اخوان المسلمون کے سربراہ رہے۔ فرانسیسی استعمار اورفوجی انقلاب کے بعدمطلق العنان حکمران حافظ الاسد کے خلاف حزبِ اختلاف کی سب سے نمایاں آواز اور تحریک مزاحمت کی علامت تھے ۔ ۱۹۶۴ء میں ملک بدر کیے گئے ۔ لبنان ، مصر ، اردن اور کویت وغیرہ میں بھی وقت گزارا۔سید قطب اور محمود محمدشاکر اور عبد الوہاب عزام وغیرہ سے اسی زمانے میں ملاقاتیں کیں۔ ۱۹۷۰ء سے مستقل طور پر جرمنی میں مقیم تھے۔ عربی ان کی مادری زبان تھی ‘مگر انگریزی ، جرمن اور فرانسیسی زبانوںپر بھی عبور تھا ۔ ان کی تصانیف میں: lبلادنا الاسلامیۃ و صراع النفوذ ، l الایمان و اثرہ فی تربیۃ الفرد والمجتمع ، lثورۃ الحق ، l ازمۃ روحیۃ وغیرہ قابلِ ذکر اور اہمیت کی حامل ہیں ۔
بیسویں صدی کے چھٹے عشرے میںشام کی الاخوان المسلمون سے وابستہ افراد نے ہالینڈ کی سرحد پر واقع جرمن شہر’ آخین ‘کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا،جہاں شامی نژادمسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آبادتھی ۔ شامی اخوان کے سر براہ عصام العطار بھی شامی حکمرانوں کے مظالم سے بچ کر آخین میں آکر آباد ہوئے اور ایک اسلامی مرکز قائم کیا ۔ بعد میں رفتہ رفتہ اخوان کے بہت سے رفقاء وہاں جمع ہوگئے اور ایک قوت بن کر اُبھرے۔ جرمنی میں موجود مصری اور شامی اخوان کے درمیان تعلقات بہت مضبوط اور گہرے ہیں۔ اس کے علاوہ میونخ سے شائع ہونے والے عربی میگزین الاسلام کے ایڈیٹر احمد وان ڈینفرکا تعلق بھی آخین سے ہی تھا۔
استاذ خلیل احمد حامدی نے اپنی تصنیف تحریک اسلامی کے عالمی اثرات میں استاذ عصام العطار کے بارے میں لکھا تھا: ’’وہ جرمنی کے شہر آخین میں دعوتِ حق کی اشاعت میں مسلسل سرگرمِ عمل ہیں ۔ ان کی زیر ادارت ایک عربی ماہ نامہ الرائد بھی نکل رہا ہے جو یورپ کے اندر عربوں اور بالخصوص نوجوانوں کی فکری رہنمائی اور ذہنی تربیت میں اہم کردار ادا کررہا ہے‘‘۔ ستمبر ۱۹۷۹ء میںمولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒکی وفات کے بعد شیخ عصام نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے عربی میں ایک قصیدہ لکھا تھا، جس کا یہ شعربطور خاص ملاحظہ کریں ؎
انتَ المَنارۃُ لِلاِسلامِ اِنْ خبطتَ
سفینۃُ الفِکرِ فِی داج مِن الرّیبِ
(آپ اسلام کا روشن منارہ ہیں، جب فکر کا سفینہ شک و ریب کی تاریکی میں جاٹکرائے)۔
یورپ کے دیگر ممالک کی بہ نسبت جرمنی میں اخوان المسلمون زیادہ مؤثر اور فعال ہے۔ ۶۰ کے عشرے میں مصر اور مشرق وسطیٰ کے ہزاروں مسلمان طلبہ جوجرمنی کی یونی ورسٹیوں میں تعلیم کی غرض سے داخل ہوئے تھے، ان کی بڑی تعداد نے وہیں سکونت اختیار کرلی اور اخوان سے وابستہ ہوکر اس کے پروگرام کو آگے بڑھایا ۔متعدد شہروں میں اسلامک سوسائٹیاں بنا کر فلاحی، رفاہی اور دینی کاموں کو منظم کیا ،حتیٰ کہ بہت جلد جرمنی کے ۳۰ سے زیادہ شہروں میں اسلامی مراکز قائم ہوگئے ۔ سعید رمضان ، غالب ہمت اور عصام عطار نے جرمن مسلم تنظیموں اور اخوان کی قیادت کے درمیان تعلقات اور روابط کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
جرمن مسلم معاشرے میں اخوان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ جب چند برس قبل پہلے منتخب مصری صدر محمد مرسی (۲۰؍ اگست ۱۹۵۱ء-۱۷جون ۲۰۱۹ء)کا حراست میں انتقال ہوا تو جرمنی کی ۳۰۰ سے زیادہ مساجد کے ائمہ نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرائی تھی ۔
’جرمن اسلامک کمیونٹی‘(I.C.G ) اخوان سے وابستہ ملک کی قدیم تنظیموں میں سے ایک ہے۔ جرمنی کی بیش تر مساجد’ آئی سی جی‘ سے منسلک ہیں ۔ ’ آئی سی جی ‘یورپ میں اسلامی تنظیموں کی یونین کی ایک اہم رکن ہے، جو اخوان کی برادر تنظیموں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے ۔ واضح رہے کہ جرمنی میں ۹۰۰ مساجد اور تقریباً ۰ ۳ لاکھ ترک مسلمان مقیم ہیں ۔ بیش تر مساجد کاانتظام ’ترک اسلامی یونین برائے مذہبی امور‘کے ہاتھ میں ہے ۔جرمن شہر میونخ ،ہم برگ ، برلن، سٹوٹکارڈوغیرہ میں بھی اسلامی مراکز اور مساجد قائم ہیں۔ اس کے علاوہ آخین میں متحرک بلال سینٹر کے نگراں اور منتظم استاذ عصام العطارتھے۔
عصام عطار کی اہلیہ بنان طنطاوی، سیّد قطب شہید ؒکے ہم درس، معروف عرب عالم ، ادیب، مصنف ،مؤرخ اور صحافی علی بن محمدطنطاوی( ۱۹۰۹ء -۱۹۹۹ء) کی صاحب زادی تھیں، جنھیں شام کی خفیہ پولیس کے اہل کاروںنے محض ۳۷ برس کی عمر میں۱۷ مارچ۱۹۸۱ء کو جرمن شہر آخین میںان کے گھر میںگولی مار کرشہید کردیا تھا۔ استاد عصام عطار نے داعیہ اورمصنفہ زوجہ کی شہادت کے بعد ایک غم انگیز مرثیہ لکھا تھا، جو اُن کے دیوان میں ’رحیل‘ کے عنوان سے موجود ہے۔
یورپ میں تحریک اسلامی کی آبیاری اور نشوو نما میںبنیادی کردار ادا کرنے والے اور اخوان کی پہلی نسل سے متعلق بزرگ قائد استاد عصام عطار کو۳ مئی۲۰۲۴ء کو جرمنی کے شہر’ آخین‘ میں اخوان سے منسلک سیکڑوں سوگوار مرد و خواتین کی موجودگی میںسپرد خاک کیا گیا ۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات کو بلند کرے، آمین!
پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو سیّد علی شاہ گیلانی [۲۹ستمبر ۱۹۲۹ء- یکم ستمبر۲۰۲۱ء] کی عمر اٹھارہ سال کے قریب تھی۔ وہ اورینٹل کالج، لاہور میں زیر تعلیم تھے اور پاکستان کی آزادی کا سورج اُن کی آنکھوں کے سامنے طلوع ہوا ۔ پھر وہ ریاست جموں وکشمیر کی آزادی کا خواب لے کر واپس سوپور آئے اور تمام عمر اس خواب کی تعبیر کے لیے جد وجہد کرتے رہے۔
سیّد علی شاہ گیلانی پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، لیکن آج مجھے اُن کے بارے میں صرف اپنے ذاتی مشاہدات اور احساسات لکھنے ہیں___گیلانی صاحب کے ساتھ میری پہلی ملاقات جولائی ۲۰۰۱ء میں ہوئی۔یہ اُس زمانے کی بات ہے جب پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف [م:۵فروری ۲۰۲۳ء]، بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی [م: ۱۶؍اگست ۲۰۱۸ء]کے ساتھ مذاکرات کے لیے دہلی پہنچے ہوئے تھے۔ میں روزنامہ اوصاف اسلام آباد کا ایڈیٹر تھا اور پاک بھارت مذاکرات کے اس تاریخی عمل پر روزانہ دہلی سے کالم لکھ کر بھیجتا تھا۔
ہم موریہ شیرٹن ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ایک دن میں نے شکیل ترابی صاحب کے ذریعے دہلی میں حریت کانفرنس کے دفتر فون کیا او رسید علی شاہ گیلانی صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ غلام محمد بٹ صاحب کے ذریعے وقت طے ہوا اور ہم دونوں حُریت کانفرنس کے دفتر پہنچ گئے۔یہ ایک چھوٹا سا دفتر تھا۔ہم گیلانی صاحب سے علیحدہ ملنا چاہتے تھے۔ ہمارے لیے ایک علیحدہ کمرے میں ملاقات کا بندوبست ہوگیا، لیکن اسی دوران وہاں پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب بھی آگئے اور پھر مولوی عباس انصاری صاحب [م: ۲۵؍اکتوبر ۲۰۲۲ء]بھی آگئے۔انصاری صاحب کچھ دیر بعد چلے گئے، لیکن پروفیسر عبدالغنی صاحب موجود رہے۔جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ ان مذاکرات کی مخالفت کررہی تھی اور سید علی شاہ گیلانی بھی اس طریقِ کار پر خوش نہ تھے۔ تاہم، پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب مذاکرات کی حمایت کررہے تھے۔
ہم درحقیقت علی گیلانی صاحب سے اُن کے تحفظات جاننے آئے تھے۔گیلانی صاحب کی پاکستان سے محبت اور وفاداری غیر مشروط تھی، لیکن وہ جنرل پرویزمشرف کو سب پاکستانیوںکا ترجمان نہیں سمجھتے تھے۔انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’’بھارتی حکومت نے حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات کی بہت کوشش کی، لیکن ہم نے مذاکرات سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان ایک فریق ہے۔ ہم پاکستان کے بغیر مذاکرات نہیں کریںگے‘‘۔گیلانی صاحب نے بڑے دُکھی لہجے میں کہا کہ ’’ہم سے مایوس ہوکر بھارتی سرکار نے پاکستان کے حکمرانوں سے رابطہ کیا اور پاکستان نے ہمیں مذاکرات میں شامل کیے بغیر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی‘‘۔
گیلانی صاحب نے جے کے ایل ایف کی طرح کھل کر مذاکرات کی مخالفت نہیں کی، لیکن وہ مجھے بار بار یہ کہتے رہے کہ ’’جنرل پرویزمشرف پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر کی نزاکتوں کو نہیں سمجھتے‘‘۔اُنھیں یہ شکوہ بھی تھا:’’۲۰۰۰ء میں جنرل مشرف نے مجاہدین کی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر سیز فائر کرانے کی کوشش کی اور اب حُریت کانفرنس کو شامل کیے بغیر بھارت سے مذاکرات کیے جارہے ہیں، جس سے حُریت کانفرنس کے تقسیم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے‘‘۔ اس طویل ملاقات کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں،لیکن اس ملاقات میں گیلانی صاحب کے اخلاص اور جموں و کشمیر کی آزادی کے ساتھ اُن کی کمٹ منٹ کو دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا۔
سیّد علی شاہ گیلانی کے ساتھ دوسری ملاقات دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنراشرف جہانگیر قاضی صاحب کی رہائش گاہ پر ہوئی، جہاں پاکستان سے جانے والے صحافیوں کے اعزاز میں عشائیہ تھا۔ یہاں دہلی کی جامع مسجد کے امام سیّد عبداللہ بخاری [۱۹۲۲ء-۲۰۰۹ء]نے میرے سامنے گیلانی صاحب کے بارے میں کچھ سخت باتیں کیں اور کہا کہ ’’گیلانی صاحب آزادی کی بات نہیں کرتے بلکہ جہاد کی بات کرتے ہیں،جس سے بھارتی مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں‘‘۔
گیلانی صاحب قریب ہی کھڑے تھے۔میںنے اُنھیں متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ذرا سنیے، یہ بخاری صاحب کیا کہہ رہے ہیں ؟ گیلانی صاحب نے امام عبداللہ بخاری سے کہا:’’اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں جموں وکشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور ایک متنازعہ خطے میں آزادی کی بات کرنا کوئی جرم نہیں‘‘۔ اس پر عبداللہ بخاری صاحب نے غصے میں کہا:’’کشمیر بھارت کا حصہ ہے، آپ پاکستان چلے جائیں‘‘۔ یہ سُن کر ’حریت کانفرنس‘ میں جموں و کشمیر پیپلزلیگ کے سربراہ شیخ عبدالعزیز [م:۱۱؍اگست ۲۰۰۸ء]کو تائو آگیا ،انھوں نے کہ ’’ہم کشمیر کو آزاد ضرور کرائیں گے اور پھر تمھیں ویزا لے کر کشمیر آنا پڑے گا‘‘۔ یہ سُن کر بخاری صاحب وہاں سے کھسک گئے۔ گیلانی صاحب مجھے ایک کونے میںلے گئے اور کہا:’’پاکستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے نہیں ہٹنا چاہیے، چناب فارمولے یا کسی اور فارمولے پر بات نہیںکرنی چاہیے‘‘۔
’مشرف واجپائی مذاکرات‘ کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اورہم پاکستان واپس آگئے۔ لیکن اس کے بعد بھی محترم سیّد علی گیلانی صاحب سے فون پر رابطہ رہتا تھا۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ ء کو نیو یارک اور واشنگٹن میں حملوں کے بعد مشرف نے افغان پالیسی تبدیل کی تو گیلانی صاحب کا خیال تھا کہ ’’اس پالیسی کا پاکستان کو نقصان ہوگا‘‘۔مشرف نے گیلانی صاحب کو پیغام بھیجا کہ ’’پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں‘‘۔ایک دن گیلانی صاحب نے فون پر بڑے دُکھی لہجے میں کہا: ’’میںتو اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتا ہوں، لیکن مشرف صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان کا آپ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
مشرف کی طرف سے بلوچستان میں فوجی طاقت کے استعمال سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوگئی تھی۔ گیلانی صاحب، بلوچ بھائیوں کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے۔ وہ جو بھی کہتے اور کرتے تھے اُس میں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھتے تھے اور پاکستان کے طاقت ور حکمرانوں کی ناراضی کو بالکل خاطر میںنہیںلاتے تھے۔ اُن کی اسی حق گوئی کے باعث حریت کانفرنس میں گروپ بندی کرادی گئی۔
وہ ایک طرف بھارتی حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ تھے تو دوسری طرف جنرل مشرف کی حکومت اُن سے ناراض تھی، لیکن اُنھوں نے مشرف کی ناراضی کو پاکستان سے اپنی محبت پر اثرانداز نہیںہونے دیا۔ کچھ عرصے کے بعد اُنھوںنے میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کے ساتھ مل کر کشمیری قیادت کو متحد کردیا۔ اس اتحاد سے گھبراکر بھارتی حکومت نے اُن سمیت کئی کشمیری رہنمائوں کو پھر نظر بند کردیا۔گیلانی صاحب کی قید وبند ۱۹۶۲ ء میں شروع ہوئی اور ۲۰۲۱ء میں اُن کی وفات کے بعد اُن کے جسد خاکی کو بھی اطمینان سے دفنانے نہ دیا گیا۔
فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور بھارت نے کنٹرول لائن پہ کمانڈروں کی سطح پر سیز فائر کا اعلان کیا، تو گیلانی صاحب نے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ ’’جس معاہدے سے قبل کشمیری قیادت کو نہ پوچھا جائے وہ دیر پا ثابت نہیں ہوگا۔ انڈیا کے حکمرانوں کی طرف سے یہ قدم محض اپنے اُوپر دبائو کم کرنے کے لیے ایک ہتھکنڈے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔اس لیے پاکستان کو ایسے نمایشی اقدامات میں پھنسنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اور عالمی سطح پر کشمیریوں کے تسلیم شدہ حق خود ارادیت کے لیے ہی ثابت قدمی کا ثبوت دینا چاہیے‘‘___گیلانی صاحب دنیا سے چلے گئے اور وہ مقتدر حضرات جنھوں نے بھارت کے ساتھ سیزفائر کیا تھا، آج پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشوں پر چیخ پکار کررہے ہیں اورگیلانی صاحب ایک دفعہ پھر سچے ثابت ہوگئے۔
علی گیلانی صاحب کی محبت پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے تھی۔وہ پاکستان کے حکمرانوں سے ڈکٹیشن نہیںلیتے تھے کہ ڈکٹیشن لینے والے حریت پسند نہیں ہوتے بلکہ غلامی پسند ہوتے ہیں۔ کشمیریوں پر آج ایک مشکل وقت ہے۔یہ مشکل وقت ان شاء اللہ ایک دن ختم ہوجائے گااور مؤرخ لکھے گا کہ ایک مرد قلندر سید علی شاہ گیلانی ؒ تھا، جو آخری وقت تک دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرتا رہا۔
گیلانی ؒصاحب کو زیادہ تکلیف اپنے دشمنوں کی سازشوں سے نہیں تھی بلکہ زیادہ تکلیف اپنوں کی سازشوں سے تھی۔ اُنھوں نے پاکستان کی محبت اور تحریک آزادی کے مفاد میں اس موضوع پر اپنی زبان نہیں کھولی، لیکن تاریخ خاموش نہیںرہے گی۔
میںبڑی عاجزی سے اُن سب افراد سے گزارش کرتا ہوں، جنھوں نے آخری دنوں میں گیلانی صاحب کو دُکھ پہنچائے، کہ وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں اور ممکن ہوتو اپنی غلطیوں کا کھل کر اعتراف کرلیں۔آج نہیں تو کل، سیّدعلی گیلانی صاحب کو دُکھ دینے والے بے نقاب ہوجائیں گے۔گیلانی صاحب کو تاریخ سرخرو کرے گی اور اُنھیں دُکھ دینے والوں کے پاس ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔(خصوسی تحریر کشمیر الیوم ،اکتوبر ۲۰۲۱ء)
زندگی اور موت، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کا ایک نہایت طاقت ور اور ہماری روزانہ مصروفیات میں بار بار سامنے آنے والا مظہر ہے۔ لیکن اللہ کی ان دونوں نشانیوں یعنی ’زندگی‘ اور ’موت‘ پر ہم غور نہیں کرتے۔ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور بہت ہی قریبی رفیقوں کے ساتھ ربط و تعلق اور نامہ و پیام کی شاہراہ پر چلتے چلتے ان میں سے اچانک کسی ایک نہایت عزیز ہستی کے وجود کو موجود سے ناموجود بنتا دیکھتے ہیں۔ ۱۱نومبر ۲۰۲۲ء کو ہمیں اپنے نہایت عزیز، محترم، صاحبِ فہم و دانش بھائی ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے انتقال کی خبر سننا پڑی ___ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ کے اندر تحریکِ اسلامی نے پے درپے صدمات برداشت کیے ہیں، جن میں حاشرفاروقی، حسین خان، مولانا محمد یوسف اصلاحی، علامہ یوسف القرضاوی اور مولانا جلال الدین عمری نمایاں ہیں۔
نجات اللہ صدیقی کے پیکر میں ایک بڑے قیمتی انسان کو اللہ تعالیٰ نے اسلامی تہذیب اور تحریک اسلامی کے قافلے کا دل کش محور بنایا تھا۔وہ عمر میں مجھ سے تقریباً سات ماہ بڑے تھے [پ:۲۱؍اگست ۱۹۳۱ء] اور یہ اُن کی خوش قسمتی تھی کہ شروع ہی سے انھیں بہت اچھی تعلیمی سمت پر سفر کا آغاز کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ یہ تعلیمی مواقع کوئی بڑے معروف اداروں یا بڑا باوسائل پس منظر نہیں رکھتے تھے۔ سائنس کی تعلیم کے ساتھ انھوں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۳ء تک عربی زبان و ادب کا بھرپور فہم حاصل کیا۔ پھر مدرسۃ الاصلاح، اعظم گڑھ میں مولانا اختر احسن اصلاحی کی رہنمائی میں قرآن فہمی کی دولت پائی۔ ازاں بعد گریجوایشن اوّل پوزیشن میں پاس کی، اسی طرح ۱۹۶۰ء میں علی گڑھ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے بھی اوّل پوزیشن ہی سے پاس کیا۔
۱۹۴۹ء میں علی گڑھ آئے تو مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال اورالبلاغ کو پڑھا، پھر مولانا اشرف علی تھانوی کے بہشتی زیور کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ اسی دوران میں مولانا مودودی کے دو لیکچر ان کی نظر سے گزرے۔ پہلا لیکچر ’نیا نظامِ تعلیم‘ (۵جنوری ۱۹۴۱ء) ندوۃ العلماء لکھنؤ اور دوسرا وہ مضمون کہ جس میں مولانا نے علی گڑھ یونی ورسٹی کے نظامِ کار کی اصلاح کے لیے تجاویز دی تھیں۔ ان دو تحریروں نے نوعمر نجات اللہ کی زندگی کا دھارا بدل دیا اور انھیں زندگی بھر کے لیے تحریک ِ اسلامی سے وابستہ کر دیا۔
۱۹۵۵ء ہی سے میری اُن سے خط کتابت شروع ہوئی، جس میں اسلام اور تحریک اسلامی کے بڑے بنیادی مسائل پر تبادلۂ خیالات ہوتا رہا۔ اصل میں اُس وقت نجات اللہ صدیقی نے Islamic Thought کے نام سے ایک علمی پرچے کا آغاز کیا، جس نے اہلِ علم کی توجہ کھینچ لی۔ عمر اگرچہ اُس وقت اُن کی محض ۲۵برس تھی، لیکن دین اسلام کوپیش کرنے کے لیے ایک پُرجوش جذبہ ان کے پورے وجود میں موجزن تھا۔ اسی زمانے میں ہم یہاں کراچی سے Student's Voice کے بعد New Era اور Voice of Islam کی صورت میں پیغامِ حق کی وضاحت میں مصروف تھے، جس میں ظفر اسحاق انصاری اور مجھے، اہلِ علم کو اس جانب متوجہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بہرحال اسلامک تھاٹ کا ہمیں شدت سے انتظار رہتا تھا۔
مثال کے طور پر نجات اللہ صاحب کو اس بات کا شدت سے احساس تھا اور اس احساس میں، مَیں اُن سے متفق تھا کہ ہمیں اسلام کو پیش کرتے وقت قرآن و سنت اور سیرت و تاریخ اور عقل و فطرت، اور باہمی تجربات و مشاورت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے موجودہ حالات کا تجزیہ کرنا ہے۔ پھر آخرت کی جوا ب دہی کے کڑے معیار کو ہرلمحہ دل و دماغ پر تازہ رکھتے ہوئے، عصرحاضر میں معاملات کی باریکیوں کو سمجھنا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر رائے دینا ہے، کیونکہ یہی تجدید دین کا راستہ ہے اور اسی راستے سے تحریک اسلامی، انقلاب کی راہیں کشادہ کرسکتی ہے، اور موجودہ زمانے میں دین کی مصلحت کو پیش کرسکتی ہے۔
ان موضوعات پر ہمارا یہ خیال اُس وقت بھی تھا اور آج بھی یہی خیال ہے کہ اگر ہم مذکورہ پیراڈائم (مثالیہ) کو اختیار کرنے کے بجائے روایتی طور پر روایتی علما ہی کی طرف رجوع کرتے رہے، یا اُسی طرزِ فکر کے سامنے ساکن کھڑے ہوکر رہ گئے تو دین کی فطری منشا اور دین کے حرکی و انقلابی پہلو کو مجروح کردیں گے یا کھو بیٹھیں گے۔ نجات اللہ کہا کرتے تھے کہ اسلامی تحریک، ایمان و ایقان کی بنیادوں پر ہرحال میں جم کر کھڑا رہنے کے بعد کسی ایک لگے بندھے لائحہ عمل کی پابند نہیں ہے۔ اس کے لیے اوّلین کام یہی ہے کہ وہ مقاصد ِ اسلام یا مقاصد ِ شریعت سے پختگی کے ساتھ وابستہ ہو۔ باہم مشاوت اور کھلے عالمی مکالمے کے بعد تجربات سے سیکھ کر اور کھلے دل و دماغ سے واقعات کا تجزیہ کرکے، نئے حالات میں، دینی روح کے مطابق اپنی بات کو نئے انداز سے، نئے مخاطبین کے سامنے رکھتے ہوئے حاضر دماغی، دانش مندی اور بھرپور فعالیت کو قدم قدم ساتھ رکھے۔
نجات اللہ اس احساس کے ساتھ کچھ تیزگام بھی تھے، جس کے نتیجے میں انھیں بعض صورتوں میں تنقید و احتساب کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے برعکس ہم ایک طرح کی احتیاط پسندی کے پابند رہے یا قدرے سُست گام۔
نجات اللہ بھائی جب بھی ملتے تو یہ پہلو زیربحث لاتے کہ مسلم معاشروں میں اصلاح کار کے لیے آواز بلند کرنے والے سبھی لوگ بدنیت اور دین کے دشمن نہیں ہیں۔ ہمیں ان کو دوطبقوں میں تقسیم کرکے دیکھنا چاہیے:
نجات اللہ صدیقی بھائی کو بجاطور پر یہ شکایت تھی کہ ہمارا طبقۂ علما، دین کو پیش کرتے وقت معاشرے اور اہلِ حل و عقد کی توجہ ان اُمور کی جانب مبذول نہیں کراتا، جن میں شامل ہیں: عدل کا قیام، عام سطح پر کفالت کا نظام، معاشی ترقی کا منصفانہ نظام، سود سے پاک اور قابلِ اعتماد معیشت کی اجتماعی اسکیمیں، زندگی کے اجتماعی نظام اور انتظام میں دیانت داری، دولت کی منصفانہ تقسیم، وراثت میں خاص طور پر خواتین کے معاشی مفادات کا تحفظ اور ہرفرد کا ہرسطح پر اعلیٰ کارکردگی دکھانا۔ ظاہر ہے کہ جب زندگی کے ان نہایت اہم اُمور کو نظرانداز کرکے محض لگی بندھی باتیں دُہرائیں گے تو انسانی معاشرے پر اسلام کی منشا و مرضی کے مطابق کوئی گہرا نقش مرتب نہیں کرسکیں گے۔
پھر نجات اللہ صدیقی، ظفراسحاق انصاری، خرم جاہ مراد، سعید رمضان، محمدعمر چھاپرا، اور ہمارے درمیان یہ پہلو بھی اکثر فکرمندی کا عنوان بنتا کہ مسلم معاشروں میں دین کے گہرے رُسوخ کو پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی کے کارکن لگے بندھے طریق کار پر جمود کا شکار ہونے کے بجائے نئی راہیں سوچیں۔ دوسروں سے چھوٹے اور جزوی اختلافات کو نظرانداز کرکے رواداری اور خوش خلقی کا راستہ اپنائیں، اوردین کے بڑے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انسانیت کی خدمت، ترجیحات کی درستی اور تعمیری کردار کو گہرے علم اور معیاری عمل سے ترقی دیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ جدید بنکاری نظام کی سودی اجارہ داری کو چیلنج کرتے ہوئے جس پہلے شخص نے پوری ایمانی کمٹ منٹ اور تخلیقی دانش کے ساتھ بلاسودی بنکاری کے خدوخال پیش کیے، تو وہ شخصیت پروفیسر نجات اللہ صدیقی ہی ہیں، اور ان کی اسی تعمیری اور علمی کاوش کے اعتراف میں انھیں ۱۹۸۲ء میں ’بین الاقوامی فیصل ایوارڈ‘ ملا۔
انھوں نے چھوٹی بڑی ۶۳ کتب تحریر کیں، جن میں معاشیات کی اسلامی تشکیل پر ان کی تحقیقات و تخلیقات کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں انھوں نے امام ابویوسف کی بلندپایہ تاریخی اور ضخیم کتاب، کتاب الخراج کا عربی سے اُردو ترجمہ اسلام کا نظامِ محاصل کے نام سے کیا، اور پھر ۱۹۶۳ء میں سیّد قطب شہید کی معرکہ آرا کتاب العدالۃ الاجتماعیۃ کا عربی سے اُردو ترجمہ اسلام میں عدل اجتماعی کے عنوان سے کیا۔ ان دونوں کتابوں کے ترجمہ و تدوین کے ساتھ نہایت عالمانہ مقدمے تحریر کیے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان تراجم سے اُردوخواں طبقے نے قرارواقعی استفادہ نہیں کیا۔
نجات اللہ صدیقی بنیادی طور پر استاد، محقق، مفکر اور تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔ انھوں نے افسانے اور ادبی تنقید بھی لکھی۔ میری اُن سے پہلی ملاقات دہلی میں ۱۹۵۶ء میں ہوئی، اورپھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ عمربھر جاری رہا۔ ہمارے درمیان مختلف علمی موضوعات اور تدابیر پر اتفاق اور اختلافات بھی رہے، لیکن اسلامی معاشیات کی تشکیل نو میں جو خدمت انھوں نے انجام دی ہے، اس نے انھیں ہم میں سب سے ممتاز کردیا۔ اسلام کے مآخذ سے مکمل وفاداری کے ساتھ دورِحاضر میں ان کے اطلاق کے باب میں جدید تجربات وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ بلاشبہہ، تحریکِ اسلامی کے مفکرین میں نجات اللہ بھائی کو اس کا شعور، میرے خیال میں سب سےزیادہ تھا۔ اس ضمن میں کبھی کبھار وہ اعتدال کی راہ سے کچھ ہٹتے تو دکھائی دیتے، لیکن الحمدللہ وہ کبھی اس سے دُور نہیں گئے۔
یہ بھی ایک حُسنِ اتفاق ہے کہ ۱۹۶۱ء میں پہلے میں، کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات میں لیکچرر مقرر ہوا، اور پھر اسی سال نجات اللہ صدیقی، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے شعبہ معاشیات میں لیکچرر منتخب ہوئے۔ اسی طرح مجھے صدر ایوب کے دورِ حکومت میں ۶جنوری ۱۹۶۴ء کو، اور انھیں اندراگاندھی کی ’جمہوری آمریت‘ میں ۴جولائی ۱۹۷۵ء کو سنت ِ یوسفی کی سعادت نصیب ہوئی، اور ایک عرصہ جیل میں گزارا۔ ہمارے باہم تعلقات اور اسلامی معاشیات کو درپیش چیلنجوں سے جڑی نشستوں اور تحریک اسلامی کے مسائل سےوابستہ یادوں کا یہ گلدستہ ۱۱نومبر کو بکھر گیا۔ اللہ کریم ان کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے ، اور جو کام وہ چھوڑ گئے ہیں، اسے آگے بڑھانے کے لیے نوجوانوں کو سرگرمی سے خدمات انجام دینے کی توفیق بخشے، آمین! رہا معاملہ نجات اللہ بھائی کا تو ان کے لیے، ان کا کام ایک صدقۂ جاریہ ہے، اور ان شاء اللہ، ربِّ کعبہ ان کی اس خدمت پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتارہے گا۔
برادرم اسماعیل الفاروقی نے کینیڈا اور امریکا میں قیام کے دوران بحیثیت مسلمان اپنی ہستی پر غور کرنے اور اپنی اصل شناخت کو دریافت کرنے پر پوری توجہ دی۔ ان کو صہیونی غاصبوں کے ہاتھوں اپنے گھربار اور مادرِوطن کو چھوڑنا پڑا تھا۔ انھوں نے جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل اور مغربی طاقتوں کی یلغار کے دوران اُردن، شام اور مصر کی شکست، بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے اور عرب قومیت کے شرمناک زوال کا مشاہدہ کیا تھا۔
غریب الوطنی کے اس زمانے میں الفاروقی نے آزادی کے ان مواقع کی قدر کی، جن سے وہ مغرب کی علمی دُنیا سے استفادہ کررہے تھے۔ پھر فکری، ثقافتی، سیاسی اور سامراجی جبر کی ناقابلِ قیاس گرفت اور اُمت مسلمہ اور دوسری متاثرہ اقوام پر کثیرجہتی غلامی کے تباہ کن اثرات کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہ سامراجی طاقتوں کے دُہرے معیارات کو پردۂ سیمیں کے پیچھے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پھر انھوں نے امریکا میں تعلیم کی غرض سے آنے والے نوجوان مسلمانوں [مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن- MSA : ۱۹۶۲ء] کے انقلابی تصورات سے حرارت لی۔ اس طرح مسلمانوں اور انسانیت کے نئے مستقبل کی تعمیر کی منظم کوششوں کے حلقۂ اُلفت سے وہ وابستہ ہوئے۔
اسماعیل الفاروقی نے نوجوانوں کی اس روح پرور دنیا [MSA]میں، خود کو بڑا بے تکلف اور بہت آسودہ خاطر محسوس کیا۔ وہ ان میں سے ایک ہوگئے اور ان نوجوانوں نے بھی جذبۂ سپاس سے انھیں ایک شفیق معلّم اور دُور اندیش قائد کی حیثیت سے دیکھا۔ میں یہ لکھ کر کوئی انکشاف نہیں کروں گا، اگر اپنے دو عزیز ترین بھائیوں ڈاکٹر احمد توتونجی [پ: ۱۹۴۱ءعراق] اور ڈاکٹر عبدالحمید ابوسلیمان [م:۱۸؍اگست ۲۰۲۱ء] کے کردار کو ضبط تحریر میں لائوں۔ ان دو قیمتی ساتھیوں کی دل سوزی نے اس عمل کو باثمر بنایا۔ الفاروقی کے لیے فی الواقع یہ رفاقت بڑی رحمت و برکت کا ذریعہ بنی۔ وہ اب اس دنیا میں مضبوط قدموں سے واپس آگئے تھے کہ جس دنیا سے ان کا ازلی تعلق تھا۔ زندگی کے آخری دو عشروں کے دوران انھوں نے ایک پختہ کار اسلامی اسکالر، اسلامی تعلیمات کے ایک محترم استاد، ایک منفرد داعی اور اسلام کے ایک سچے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انھوں نے شعوری اور روحانی تبدیلی کے اس سفر کو ان خوب صورت الفاظ میں بیان کیا ہے:
میری زندگی میں ایک وقت تھا… جب مجھے فکری سطح پر یہ ثابت کرنا تھا کہ میں اپنی جسمانی اور شعوری بقا، مغرب سے جیت سکتا ہوں۔ لیکن جب اس مقصد میں قدرے کامیابی حاصل کرلی، تو پھر یہ ہدف بھی میرے لیے بے معنی ہوکر رہ گیا۔
میں نے خود سے سوال کیا:
’میں کون ہوں؟ ایک فلسطینی، ایک فلسفی یا ایک آزاد خیال انسانیت کا حامل؟ ‘
میرے داخلی وجود نے جواب دیا:
’مَیں مسلمان ہوں‘۔
برادرم الفاروقی اس داخلی تبدیلی کو، دوسرے انداز میں اپنے دوست کے نام ایک خط میں، جو انھوں نے اپنی شہادت سے صرف ۲۶دن قبل یکم مئی ۱۹۸۶ء کو لکھا، یوں بیان کرتے ہیں:
بیروت کی امریکی یونی ورسٹی سے گریجویشن کے بعد میں نے فلسطین میں ’عرب کوآپریٹو سوسائٹیز‘ میں رجسٹرار، اور پھر گلیلی کے صوبے میں انتظامی افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ جب جیش الانقلابی قائم کی گئی، تب میں شمالی خطے میں انتظامی گورنر کی حیثیت سے کام کررہا تھا، جو اس وقت تک دشمنوں کے ہاتھوں سے محفوظ تھے۔
اسی دوران مزید پڑھائی کے لیے امریکا چلا گیا۔ مغربی فلسفے میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد میں اسلامی علوم کے ورثے سے دُوری اور اپنی جاہلیت کی کیفیت سے آگاہ ہوا۔ چنانچہ واپسی پر الازہر یونی ورسٹی میں نئے سرے سے سیکھنے کے لیے داخلہ لیا۔ لیکن یہ بہت ہی خصوصی تیز تر پروگرام تھے، گویا کہ ان تین برسوں پر پھیلا وقت، جو الازہر کے کیمپس میں گزار رہا تھا، اس میں ایک مزید ڈاکٹریٹ کر رہا تھا۔ اس کے بعد مختلف یونی ورسٹیوں میں مطالعہ اسلامی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمت کی۔ اسی دوران امریکا میں طلبہ کی اسلامی تحریک [یعنی MSA]سے وابستگی نے مجھے وہ سوچ عطا کی، جس کا مقصد امریکا میں مسلمان نوجوانوں کے اخلاق و کردار کی تربیت اور ان کے اسلامی تصورات کو مزید گہرا کرنے کے ساتھ اسلامی فکر کی ترویج اور اس کا فروغ تھا۔ یہی ہے وہ سرگرمی ،جس میں، الحمدللہ آج تک مصروفِ عمل ہوں۔
اطالوی نژاد امریکی پروفیسر ڈاکٹر جان ایل ایسپوزیٹو [پ:۱۹۴۰ء] جو اسماعیل راجی الفاروقی کے براہِ راست شاگرد بھی رہے، وہ الفاروقی کی زندگی کے اس پہلو کو یوں بیان کرتے ہیں:
وہ ایک مرکز کے گرد متحرک، تخلیقی مفکر، مقابلہ کرنے والے دل آویز فرد اور میدانِ کار میں لگن سے کام کرنے والے انسان تھے۔ اسلام اور اسلام کی تعلیمات کا جوہر ان کے عقیدے، پیشے اور صلاحیت میں رَچ بس گیا تھا۔ ان کی زندگی کو اختصار سے بیان کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ محتاط لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق مطلوب مسلمان وہ ہے، جو سرتسلیم خم کرکے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرے۔ اسماعیل الفاروقی واقعی ایک مجاہد تھے۔
پروفیسر اسپوزیٹو کے گراں قدر الفاظ میں صرف یہ اضافہ کروں گا:
اسماعیل راجی الفاروقی نے اپنی علمی زندگی کا آغاز ایک مسلمان عرب قوم پرست کی حیثیت سے کیا، الحمدللہ، آخرکار وہ ایک اسلامی داعی کی حیثیت میں دُنیا سے رخصت ہوئے۔وہ ایک ثابت قدم مجاہد کے طور پر زندہ رہے اور اسی مشن سے وابستگی کی وجہ سے شہادت پائی۔
تریپولی میں ملاقات کے بعد ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ سرگرم رابطہ ۲۷مئی ۱۹۸۶ء کی اس رات تک رہا کہ جب وہ اور ان کی اہلیہ امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہروینکوٹ میں ایک قاتل کی خنجرزنی کے زخموں کی تاب نہ لاکر ربّ کے حضور پیش ہو گئے۔
میں دی اسلامک فائونڈیشن، لیسٹر اور ’اسلامک کونسل آف یورپ‘ میں سرگرم تھا۔ انھوں نے اسلامی دعوت کی اساس اور حرکیات پر کانفرنسوں اور سیمی ناروں کے ایک سلسلے کی نہ صرف کامیاب منصوبہ بندی کی، بلکہ اس کی تنظیم میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اسی سلسلے کے توسیعی منصوبۂ عمل کے تحت: اسلام میں بنیادی حقوق کے اعلامیے کی تیاری، ایک مثالی اسلامی دستور کے بنیادی خدوخال اور اسلام اور مسئلۂ فلسطین کی وضاحت کے باب میں گراں قدر حصہ ڈالا۔
جون ۱۹۷۶ء سے عیسائی مشن کی تنظیمChambesy Dialogue Consultation اور اسلامی دعوۃ کے موضوع پر ہم نے ایک ساتھ کام کیا۔’ورلڈ کانگریس آف چرچز‘ (WCC) جنیوا ، دی اسلامک فائونڈیشن لسٹر(برطانیہ) اور ’مطالعہ برائے اسلام اور عیسائی مسلم تعلقات‘ سیلیوک کالج برمنگھم (برطانیہ) نے اس منصوبے پر مشترکہ کاوش کی تھی۔ اس مشاورت کا مَیں شریک چیئرمین تھا۔ اسماعیل الفاروقی اس تاریخی مشاورت میں ایک محور کی حیثیت رکھتے تھے۔ عیسائی اخلاقیات پر اسماعیل الفاروقی کی کتابChristian Ethics کو عیسائی اسکالروں نے ’’ایک متاثر کن شاہکار قرار دیا‘‘۔
اس مشاورت کا حتمی اعلامیہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ اعلامیہ ایک صاحب ِ فکروعمل مسلمان کی سوچ کا مظہر تھا، جسے زیادہ تر الفاروقی ہی نے لکھا تھا اور جس کو حتمی اعلامیے کی بنیاد کے طور پر دونوں مذاہب کے علما نے قبول کیا تھا۔ ’مسلم ،عیسائی مکالمے‘ کی عالمی تحریک میں یہ پہلا ٹھوس قدم تھا کہ جس میں مسلمانوں کا نقطۂ نظر اتنے مؤثر طریقے سے اور کسی عصبیت کے بغیر اور حقیقت پسندانہ انداز میں اتنے بڑے فورم پر پیش کیا گیا تھا۔ اس دستاویز کو دی اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے ۱۹۸۲ء میں شائع بھی کیا تھا۔
افسوس کہ اس تاریخی دستاویز کو مستقبل کے ’مسلم، عیسائی مکالمات‘ کی بنیاد نہیں بنایا جاسکا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں مذاہب کی برادریوں کی توجہ اصل مسائل اور تشویش کے اُمور سے ہٹ گئی، اور پوری قوت محض بے جان مذہبی لفاظی، بے معنی تواضع اور نمائشی خوش خلقی کی طرف مڑگئی۔ الفاروقی بھائی نے بڑی جرأت سے مشاورت میں اپنا نقطۂ نظر ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
یہ درست ہے کہ نوآبادیاتی نظام اور توسیع پسندانہ ذہنیت ایک منفی قوت ہے۔ اس مشاورت میں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی طاقت کے دائروں کے اندر بات کرنے کے وہ طریقے اور ذرائع دریافت کریں، اور یہ دیکھیں کہ ہم کیا حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں؟ میں ذاتی طور پر اس شخص کے ساتھ بحث کرنے کو تیار نہیں ہوں، جو یہ دلیل دیتا ہے کہ ’آج کل انڈونیشیا میں کوئی نوآبادتی جبر نہیں ہے‘۔ میں یہاں پر اپنی اس تشویش کا برملا اظہار کرتا ہوں کہ انڈونیشیا میں عیسائی مشنری تحریک اور نوآبادتی جبر کے درمیان گہرے رابطے موجود ہیں۔ اگر آپ کو یہ منظر دکھائی نہیں دیتا کہ تنزانیا اور انڈونیشیا میں سامراجی طاقتیں عیسائیوں کو کس انداز سے استعمال کر رہی ہیں تو پھر ہمیں مکالمہ جاری رکھنے کی کوئی ٹھوس بنیاد اور ضرورت دکھائی نہیں دیتی ہے۔
ڈاکٹر اسماعیل الفاروقی نے مزید کہا:
عیسائی مبلغین کے طرزِعمل کا ضابطہ تیار کرنا پہلی چیز نہیں ہے کہ جس پر ہمیں تشویش ہو، یہ دوسرے مرحلے کا تقاضا ہے۔ پہلا مرحلہ لازمی طور پر باہمی اعتماد کا فہم ہے۔ یہ بات عیسائی مبلغین سے، جو مسلمانوں کے مقابلے میں تبلیغی سرگرمیوں میں بہت آگے رہے ہیں اور جن کی مشنری سرگرمیوں کی تاریخ گذشتہ کئی عشروں کے دوران ایسے واقعات و حادثات سے بھری پڑی ہے، کہ وہ مسلمانوں کی نظروں میں شکوک پیدا کرتی ہیں۔ اس تاریخ کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ پھر اس عزم کا بھی اظہار کریں کہ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے آیندہ مثبت قدم اُٹھایا جائے گا۔ یہ کام مسلمانوں کے ساتھ تعاون کے اصول و ضوابط مرتب کرنے اور طریق کار کی تیاری کے لیے مل بیٹھنے سے قبل ہونا چاہیے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ بین المذاہب کانفرنسوں کے اس حتمی بیان میں مسلمانوں کی تشویش کو واضح الفاظ میں یوں منظور کیا گیا تھا:
اس مشاورت میں مسلمان مندوبین نے بڑی لگن کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا، لیکن جناب اسماعیل الفاروقی کی خدمات فیصلہ کن تھیں۔ الفاروقی نے ۲۵ کتابیں تصنیف کیں، اور ایک سو سے زیادہ تحقیقی مقالات لکھے۔ لیکن میری نظر میں ان کا ممتاز ترین اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کارنامہ ان کی تین کتب ہیں:
برادرم الفاروقی شہید، اسلامی روح کا لب ِ لباب چند الفاظ میں اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’اس میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی تہذیب کا جوہر اسلام ہے، اور اسلام کی روح التوحید ہے۔ یہ التوحید ہی ہے جو اسلامی تہذیب کو اس کی ثقافت دیتی ہے‘‘۔ (التوحید،ص ۱۷)
اسماعیل الفاروقی کے ہاں اسلام کا تصور، ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر ہی ہے، جو آئینے کی طرح صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اسلام، دنیا میں زندگی گزارنے کا طریقہ ہے۔ اسلام کا اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے کہ زندگی اللہ کی مرضی کے تحت، اپنے اور معاشرے کے ساتھ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ گزاری جائے‘‘۔
اسلامی تاریخ اور اسلامی قانون کے کردار پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اسماعیل الفاروقی لکھتے ہیں: ’’انھوں نے مسلم دنیا کو ادارے، اخلاق، طرزِزندگی اور کلچر دیا۔ انھوں نے تمام نسلوں اور ثقافتوں کے مسلمانوں کو ایک ہی نظریے کے تحت تعلیم دی اور ایک ہی نصب العین کے تحت ایک برتر قوت میں باہم جوڑ دیا۔ اسلامی قوانین کی بنیادی قوت نے کامیابی کے ساتھ اتحاد کو فروغ دیا اور تفریق کے ان تمام خطرات کو روک دیا، جن میں مسلم تاریخ کی چودھویں صدی میں غیرملکی طاقتوں کی فتوحات بھی شامل ہیں۔ یہ بجا ہے کہ شریعت یا اسلامی قانون دونوں ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کے اتحاد میں ہراول دستے اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی ہے وہ حقیقت، جو اُمت مسلمہ کو عالم گیر اخوت بنادیتی ہے‘‘۔
برادرم الفاروقی کے ہاں اُمت کا نصب العین بڑا واضح ہے: ’’ظاہری طور پر اُمت کی نشوونما کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے۔ اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی مرضی کے اظہار کا ذریعہ ہے، جس کا مقصد اس اُمت کے ذریعے زمان و مکان کی حقیقت کی تلاش ہے اور دُنیا کے سامنے اس حقیقت کا اظہار ہے، جو اللہ تعالیٰ کی حتمی وحی کی بنیاد، اس کی مرضی کے ذریعے اس نکتے کی تشکیل کرتی ہے، اور جہاں خدائی کائنات رضائے الٰہی کے اظہار کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جیساکہ قرآن میں اُمت مسلمہ کے وجود کا مقصد بیان کیا گیا ہے: ’’تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو‘‘۔
برادرم الفاروقی، اسلام کے اداراتی کردار اور اسلام کے مستقبل کی وضاحت کرتے ہیں:
اسلام وہ واحد مذہب ہے ، جس نے زیادہ تر مذاہب کا مقابلہ انھی کے مضبوط مراکز اور ماحول میں کیا، خواہ یہ مقابلہ افکار و خیالات کے میدان میں تھا یا تاریخ کے میدانِ جنگ میں۔ اسی طرح اسلام ان تمام معرکوں میں شریک رہا، خواہ وہ روحانی تھے یا سیاسی۔ یوں اسلام نے اپنے نظام کو مکمل کیا ، اور یہ آج بھی تمام محاذوں پر بڑی مضبوطی کے ساتھ معرکہ آرا ہے۔ مزیدبرآں اسلام وہ واحد مذہب ہے، جس نے یہودیت، عیسائیت، ہندومت اور بدھ مت کے ساتھ بین المذہبی اور بین الاقوامی آویزش کے تمام معرکوں میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی، جو ان مذاہب کے ساتھ برپا ہوئے۔
یہ واحد مذہب ہے، جس نے دنیابھر میں مغربی نوآبادیاتی نظام اور سامراجیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تمام کوششوں کو جھونک دیا، جس کے نتیجے میں یہ نوآبادیاتی نظام ٹکڑے ٹکڑے ہوا۔اسلام آج بھی فکری سطح پر ترقی کر رہا ہے اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے پھیل رہا ہے، اور کسی بھی دوسرے مذہب کے مقابلے میں اس میں شامل ہونے والوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ یہی وہ مذہب ہے، جس کے دشمنوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح یہی وہ مذہب ہے جس کو سب سے زیادہ غلط سمجھا گیا ہے۔
اسماعیل الفاروقی نے دسمبر ۱۹۸۱ء میں کوالالمپور میں منعقدہ ۱۵ویں صدی ہجری کانفرنس میں اپنے مقالے Dawah in the West: Promise and Trial میں یہ پُرجوش اپیل کی:
آج ہجری صدی کو منانے کا مقصد، درحقیقت انسانیت کو اس تہذیب کی طرف متوجہ کرنا ہے، جو فطرت سے بغاوت کے نتیجے میں خوار و زبوں ہے۔ چودہ سوسال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور ایک صحت بخش عالمی نظام (World Order) عطا کیا۔ آج تڑپتی انسانیت کو اس الٰہی نظامِ جہاں سے زیادہ کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے.... مسلمان بھائی پہلے اس کو قائم کریں اور اس کے بعد انسانیت سے اپیل کریں کہ وہ ان کی صفوں میں شامل ہوجائیں، تاکہ امن اور انصاف، تقویٰ اور نیکی کے نئے عالمی نظام کے لیے جدوجہد ثمربار ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ، دلیل اور مثال کے ساتھ عمل کا حکم دیتا ہے۔ ہم سب اس ربِ ذوالجلال کی وحی کے قابل خود کو ثابت کیوں نہیں کرسکتے؟
برادرم اسماعیل الفاروقی مستقبل بین اور مستقبل ساز سوچ کے مالک تھے۔ وہ کسی پُرسکون لائبریری کے اسکالر نہیں تھے۔ اپنی زندگی کے آخری دو عشروں میں وہ جس تبدیلی کے خواہش مند تھے، اس کا انھیں پورا شعور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم دُنیا کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے متحرک رہے۔ اُمت کے پاس موجودہ تمام وسائل، خاص طور پر نوجوانوں کو بروئے کار لانے کے لیے اور اسلامی نظامِ جہاں کے قیام کے لیے وہ شب و روز اور مسلسل جدوجہد میں مصروف رہے۔ وہ مسلمانوں کی ان قومی، سیاسی قیادتوں کے بھی نقاد تھے، جنھوں نے اس کردار اور ذمہ داری کی ادائی سے مجرمانہ حد تک پہلوتہی برتی تھی، وہ بنیادی ذمہ داری کہ جو دین اور تاریخ نے ان پر ڈالی تھی۔ الفاروقی نے بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا:
عالم اسلام کی قومی حکومتوں نے (جو خواہ دستوری بادشاہتیں ہوں، جمہوری یا فوجی آمرانہ حکومتیں ہوں) جتنی بھی حالیہ زمانے میں اصلاحات کی ہیں، وہ زیادہ تر ریت پر تعمیر کی گئی ہیں۔ مسلم دُنیا میں ’جدیدیت‘ اس لیے ناکام ہوگئی کہ یہ مغرب زدہ تھی اور جو مسلمانوں کو ان کے ماضی سے الگ کررہی تھی، اور ہم وطن مسلمانوں کو مغربی انسان کی بگڑی ہوئی صورت (caricature) میں ڈھالنا چاہتی تھی۔
اُمت مسلمہ کی موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لیے ان کا نسخہ بڑا سادہ اور تیربہدف ہے۔ انھوں نے مکمل تبدیلی پر زور دیا، لیکن اس طریق کار کی کلید ان کے نزدیک دعوت، تعلیم اور اس میں بھی زیادہ اہم کام علم (knowledge)کو اسلامی رنگ میں رنگنا ہے:
اسلام کی عالمی اُمت اس قوت سے دوبارہ نہیں اُٹھ پائے گی، یا اُمت ِ وسط نہیں بنے گی جب تک وہ ا پنے مقصد ِ زندگی، اس کے کردار، اس کی تقدیر، یعنی اسلام پر عمل نہیں کرے گی۔ یہ اُمت صرف اللہ کا خلیفہ بن کر اور اسلام کے صحیح تصور کے ساتھ وابستگی ہی سے گردوپیش میں پھیلے ہوئے چیلنج کا جواب دے سکتی ہے۔
برادرم اسماعیل الفاروقی نے جس لائحہ عمل کی نشان دہی کی ہے، اس کے اہم اجزائے ترکیبی میں تعلیم کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا، کردار سازی کی طرف متوجہ ہونا، خاندان کی حفاظت کرنا، معیشت کی مضبوطی و خودانحصاری، معاشرے اور طرزِحکومت کے اداروں کی شریعت کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق اصلاح اور تعمیر کرنا شامل ہے۔ اسی طرح ہرسطح پر دعوتِ حق اس مشن کے لیے لازمی طاقت، روحانی زندگی کا حصول، اخلاقیات کی قوت، مادی وسائل کے تمام ذرائع کا استعمال اور ان کی نشوونما میں تیزی لانا شامل ہے۔
چونکہ اس تبدیلی کے لیے انھوں نے خود جدوجہد کی ہے، اسی لیے ان کا لائحہ عمل ہمہ پہلو ہے، جیساکہ انھوں نے توحید: نظریہ اور زندگی کے لیے اس کی دلالت میں بیان کیا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں شعوری انقلاب کے لیے خاص طور پر یکسو اور وقف تھے۔ ایسا شعوری انقلاب جو مکمل تبدیلی کے لیے عمل کی قوت سے سرشاری عطا کرتا ہے۔ اس ضرورت کا احساس بیدار کرنے کے لیے انھوں نے مسلم دنیا کے تمام دانش وروں سے دل سوز اپیل کی تھی، جو ان کی شہادت کے بعد امریکن جرنل آف اسلامک سوشل سائنسز (AJISS)میں شائع ہوئی:
ہمارے سامنے انتہائی اہم کام ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم کب تک اپنے آپ کو روٹی کے ان چند ٹکڑوں پر راضی اور مطمئن رکھیںگے، جو مغرب ہماری طرف پھینک رہا ہے۔ آج یہی وقت ہے کہ ہم اپنا اصل کردار سمجھیں اور اسے ادا کریں۔ صحت مند اور عادل معاشرے کی تشکیل کے ماہرین کی حیثیت سے ہمیں اپنی ترتیب اور تربیت کا جائزہ لینا اور اُسے قرآن اور سنت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ہمارے اجداد نے تاریخ، قانون اور ثقافت میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ مغرب نے اس ورثے کو ہم سے عاریتاً لیا اور اس کو سیکولر قالب میں ڈھال دیا۔ کیا اس کے لیے کچھ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہم آگے بڑھ کر اس کو حاصل کریں اور پھر اسی طرح اس کو اسلامی بنادیں؟
مختصر ترین الفاظ میں برادرم اسماعیل راجی الفاروقی کی یہی وصیت ہے۔ میں دعا اور اُمید کرتا ہوں کہ مسلم دانش ور، ان کی پیشہ ورانہ تنظیمیں اور عام طور پر اسلامی تحریکیں، وقت کی اس فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لازماً پہل کریں گی۔
(انگریزی سے ترجمہ: عارف الحق عارف / سلیم منصور خالد)
انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دو کردار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں :
ممکن ہے کہ مؤخرالذکر افراد، تعداد میں کم، بظاہر غیرمؤثر اور بے اختیار ہوں، بلکہ ان کو ایذا رسانی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہو، لیکن بالآخر یہی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے، اور تہذیبی تبدیلی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسی تبدیلی کہ جس سے انسانی خیالات، معاشرے، ثقافت اور تاریخ کی صحت مند صورت گری ہوتی ہے۔
برادرم اسماعیل راجی الفاروقی، اس دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں اسلامی فکرودانش کے آسمان پر جلوہ افروز ہوئے۔ نوجوانی ہی میں انھوں نے اسلامی علوم میں اعلیٰ فراست رکھنے والے ایک دانش ور اور بلندپایہ عالم کی حیثیت سے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ایسے بلندمرتبت فاضل تھے، جو ایک طرف اسلامی فکر، تہذیب اور ثقافت کے قدیم اور جدید مستند مآخذ سے واقف تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو انھوں نے خداداد صلاحیت کے بل پر مغربی فلسفے، معاشرتی علوم کی ترتیب، تقابل مذاہب اور تاریخ کے میدان میں گہری تجزیاتی بصیرت بھی حاصل کی تھی۔ یہ چیز فی الحقیقت ایک نادر خوبی ہے۔
اسماعیل فاروقی زبان و بیان پر مضبوط گرفت رکھنے، جذبات کے غلبے سے آزاد اور متحمل و منصف مزاج مقرر تھے۔ وہ ایسے مؤثر نثرنگار تھے، جنھوں نے اپنے نتائجِ فکر اور خیالات سے بڑی وضاحت اور مضبوط استدلال کے ساتھ عہدِحاضر کی فکرودانش کو مخاطب کیا۔ ان کی تقریروں اور تحریروں نے علمی پختگی، سائنسی اپروچ، معقولیت پسندی، ادبی چاشنی اور ہوش مندی سے آراستہ جوش و جذبے کے بل پر نوجوانوں اور حق کی متلاشی دو نسلوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے ایک علمی شخصیت، ایک شفیق استاد، ایک راست فکر مفکر اور ایک مستقبل بین مبلغ کی حیثیت سے اپنے اعلیٰ فکروفن کا لوہا منوایا۔ الفاروقی کی جامع علمی خدمات کو دیکھتے ہوئے میں انھیں امریکا اور یورپ میں اسلامی احیا کا معمار سمجھتا ہوں۔ اس امتیازی حیثیت اور رہنمائی کے منصب تک پہنچنے کے لیے انھیں ایک بڑا طویل سفر کرنا پڑا۔
اسماعیل راجی الفاروقی، یکم جنوری ۱۹۲۱ء کو فلسطین کے تاریخی اور ثقافتی شہر جافا کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے خاندان کے گہوارے میں حاصل کی۔ ان کے والد گرامی فلسطین میں ایک قابلِ احترام شخصیت اور عالم فاضل قاضی تھے۔ الفاروقی کی شخصیت پر والدصاحب کی عظمت نے پہلا اور گہرا تاثر قائم کیا۔ ان کی شخصیت کی تعمیر میں اسلامی تربیت کے روایتی دانش کدوں، یعنی مسجد اور مدرسے نے نوجوانی میں اسلامی اقدار سے اُن کی وابستگی پختہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی دُنیوی تعلیم کا آغاز ایک فرانسیسی کیتھولک تعلیمی ادارے ’کالج ڈیسس الفریر [تاسیس: ۱۸۸۲ء] سے ہوا، جب کہ اعلیٰ تعلیم امریکن یونی ورسٹی بیروت [تاسیس: ۱۸۶۶ء]، اور پھر امریکا کی انڈیانا یونی ورسٹی [تاسیس: ۱۸۲۰ء] اور ہارورڈ یونی ورسٹی [تاسیس: ۱۶۳۶ء] سے تکمیل کو پہنچی۔
الفاروقی نے علومِ اسلامیہ کی تعلیم الازہر یونی ورسٹی قاہرہ [تاسیس:۹۷۲ء]سے بھی حاصل کی۔ بعدازاں میکگل یونی ورسٹی، مانٹریال [تاسیس: ۱۸۲۱ء] کی علومِ الٰہیات فیکلٹی میں عیسائیت اور یہودیت پر ایک ریسرچ فیلو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس طرح انھوں نے دونوں طرح کے نظام ہائے تعلیم (مغربی اور اسلامی) سے یکساں طور پر استفادہ کیا۔ فلسفہ، مذاہب اور تاریخ کا تقابلی موازنہ اور اسلامی علوم میں تحقیق، ان کی زندگی کا مقصد اور ان کی مہارت کے شعبے بن گئے۔ امریکا میں انھوں نے ۶۴-۱۹۶۳ء تک شکاگو یونی ورسٹی میں، ۱۹۶۴-۱۹۶۸ء کے دوران سایراکیوز یونی ورسٹی اور آخر میں [۱۹۶۸-۱۹۸۶ء] ٹیمپل یونی ورسٹی فلاڈلفیا میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔
اسماعیل الفاروقی نے فلسفہ اور تقابل مذاہب اور تاریخ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کرکے انسانی افکار سے آگہی اور ثقافت کے مطالعے کو یہ سمت عطا کرنے کی کوشش کی کہ، اسلام کے اعلیٰ مقاصد، بہترین اقدار اور اصولوں کی روشنی میں ثقافتی تشکیل نو کی جانی چاہیے، تاکہ دنیا میں امن اور عدل کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس منزل کے حصول کے لیے انھوں نے نظامِ عالم (World Order) کو اسلامی تصور میں ڈھالنے کے لیے جدوجہد کی۔ عظیم مہم جوئی پر مبنی یہ کام انھوں نے ایک اسلامی اسکالر کی حیثیت سے کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور پورے عزم سے وہ جانب ِ منزل رواں رہے۔
برادرم الفاروقی کے ساتھ میرا شعوری ربط و تعلق ۱۹۶۱ء میں اس وقت قائم ہوا، جب انھوں نے ایک نوجوان اسکالر اور ایک مہمان فیلو کے طور پر ڈاکٹر فضل الرحمٰن [م: ۲۶جولائی ۱۹۸۸ء] کے ساتھ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، کراچی سے وابستگی اختیار کی۔
اسلامک آئیڈیالوجی کونسل کے قیام [۱۹۶۲ء] سے قبل پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی [م: ۲۳جنوری ۱۹۸۱ء] کی سربراہی میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کراچی یہ خدمات انجام دے رہا تھا۔ قریشی صاحب کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے اور میں اس وقت وہاں معاشیات کی تدریس سے وابستہ تھا۔ ڈاکٹر قریشی ہی کی دعوت پر ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ پھر یہ رابطہ زندگی بھر شعوری تعاون، ذاتی دوستی بلکہ صحیح معنوں میں حقیقی برادرانہ رشتے میں ڈھل گیا۔ الحمدللہ، ۳۵ برس سے زیادہ عرصے تک پھیلا رہا۔
کراچی میں الفاروقی کا قیام ۱۹۶۱ء سے۱۹۶۳ء تک رہا۔ تب ہم تقریباً ہرہفتے ملاقات کرتے، جو اکثر ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب کے ہاں ہوتی۔ ہم دونوں نے ڈاکٹر صاحب سے اپنے نقطۂ نظر میں اختلاف کے باوجود، مسلسل شعوری رابطے، باہمی اعتماد، احترام اور ہم نشینی میں یہ زمانہ بسر کیا۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب تو تیزی سے اس سمت میں رواں دواں رہے، جس کو مستشرقین ’اسلامی جدیدیت‘ کہتے ہیں۔ دوسری جانب اسماعیل الفاروقی معقولیت اور جدیدیت کے طاقت ور اثر میں سانس لینے کے باوجود، اسلامی احیا کے شان دار دور کی بازیافت کے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔ یہ صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ خود کو دو دنیائوں کے درمیان بٹا ہوا پاتے ہیں۔
اس بات کو قدرے وضاحت کے ساتھ یوں پیش کیا جاسکتا ہے، کہ اسلام ہمارا مشترکہ بندھن ہے، مگر برسرِ زمین دیکھیں تو اُمت کا حال اور مستقبل: پریشانی، بدحالی اور انتشار کا عکس پیش کرتا ہے۔ اس لیے فطری سی بات تھی کہ عصرِحاضر میںمسلمانوں کی پریشان کن صورت حال کے مختلف مظاہر، علمی، سماجی، دفاعی، ثقافتی اور سیاسی پہلو ہمارے بحث مباحثوںکے مرکزی موضوعات ہوا کرتے تھے۔ اسماعیل الفاروقی اپنی تعمیر کے اس شعوری مرحلے میں اسلامی مآخذ سے پختہ وابستگی کے باوجود وہ ’عربیت‘ (Arabism) اور ’مسلم جدیدیت‘ کی لہر کے زیراثر بھی تھے۔ ایک طرف اسلام کے ساتھ ان کی وفاداری ظاہر تھی، اور دوسری طرف اُمت مسلمہ کی حالت زار کا منظرنامہ انھیں تڑپاتا تھا۔ تاہم، وہ محض نوحہ خوانی کرنے اور پھر مایوسی کی چادر اُوڑھ کر سوجانے والوں میں سے نہ تھے، بلکہ مسلم ملت کے شعوری دیوالیہ پن اور روحانی تنزل کے اس کہرام کی تشخیص کے لیے فکرمند تھے۔ نوآبادیاتی طاقتوں کے غلبے، مغربی سوچ اور خیالات کے مقابلے میں قابلِ عمل متبادل پیش کرنے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ مسلم دانش وروں اور رہنمائوں کی ناکامی پر کڑھتے اور مضطرب رہتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ سماجی اور مکالماتی مجلسیں انھی موضوعات کے دائرے میں گھومتیں۔ ہم ان اُمور اور ان سے پیدا ہونے والی تشویش پر مدلل منطقی اسلوب میں اور بعض اوقات جذباتی انداز میں بھی بحث کرتے۔ الفاروقی، مسلم عرب پس منظر اور نوجوانی کے جوش و ولولے میں، اور مَیں تجدید ِاسلام کے ایک صورت گر اور آج کی نام نہاد اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ کے رُوپ میں اس مکالمے کا حصہ دار ہوتا تھا۔ الفاروقی کے ’عروبہ‘ کا تصور مغربی سیکولر قومیت سے مغلوب نہیں تھا۔ یہودیت اور عیسائیت کے مطالعے نے ان کو اسلامی سوچ کے ساتھ مربوط کردیا تھا۔ تاہم، محسوس ہوتا کہ بعض اوقات ’عرب ازم‘ کا حوالہ ان کے جذبات کو گرفت میں لے ہی لیتا تھا۔ ان پُرجوش بحثوں میں مجھے، جو ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب اور الفاروقی بھائی سے عمر میںچھوٹا تھا، نہ صرف برداشت کیا جاتا بلکہ بعض مواقع پر بحث میں میرے رویّے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ فکری اختلاف نے ہمارے شعوری رابطوں کو کبھی ختم نہ ہونے دیا۔ یہاں تک کہ بحث مباحثے کا ٹکرائو بھی ہمارے دوستانہ اور نیازمندانہ تعلقات کو شاہراہ سے نہ اُتار سکا۔ ان فکری پنجہ آزمایوں نے درحقیقت ہماری دوستی کے بندھن کو مزید مضبوط بنایا، اور مختلف زاویۂ نظر رکھنے کے باوجود ہمیشہ مکالمہ جاری رکھنے کو خوشی خوشی قبول کیا کہ ہمارے درمیان زیربحث موضوعات پر بہت مشترک اور وسیع بنیادیں تھیں۔
کچھ عرصہ گزرا تو برادرم اسماعیل الفاروقی واپس کینیڈا چلے گئے۔ ڈاکٹرفضل الرحمٰن صاحب اسلام آباد منتقل ہوگئے اور جدیدیت کی طرف آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ تقریباً ۱۰سال تک میرا اور الفاروقی کا آپس میں براہِ راست رابطہ نہ رہا۔ حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء میں تریپولی (لیبیا) میں مسلم نوجوانوں کے بارے میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقعے پر اچانک ہماری ملاقات ہوگئی۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر محبت اور یگانگت کے جذبات میں بے قابو ہوگئے۔ میں دوسرے مندوبین کے ساتھ تریپولی کے اس ہوٹل کی راہداری اور استقبالیے کے درمیان کھڑا تھا، جہاں ہم نے ٹھیرنا تھا۔ اچانک مَیں نے دیکھا کہ برادرم اسماعیل الفاروقی میری طرف چلے آرہے ہیں اور مجھے دیکھ کر وہ خوشی سے بلندآواز میں پکار اُٹھے: ’برادر خورشید‘ اور پھر وہ بغل گیر ہونے کے لیے دوڑ پڑے۔ یہ ایک ایسا جذباتی لمحہ تھا کہ ہم دونوں کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئیں۔ گرم جوشی اور خوشی کے اس بے ساختہ اور والہانہ اظہار نے راہداری میں موجود سبھی مندوبین کو بہت متاثر کیا۔ شیخ احمد صلاح جمجوم [م:۲۰۱۰ء] اس جذباتی مِلن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ میں بعدازاں جب بھی ان سے ملا، انھوں نے ہمیشہ ’بھائی الفاروقی‘ کے الفاظ اور ’برادر خورشید‘ کو ان کے جذباتی لہجے کی ہوبہو نقل کرتے ہوئے دہرایا۔ وہ دن اور آج کا دن، یہ الفاظ میرے دل میں پیوست ہیں۔ یہ چیز ہمیشہ ایک خزانے کے طور پر میری یادداشتوں میں موجود رہے گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ ہماری اس جذباتی ملاقات کے چند منٹ بعد قریبی مسجدسے مغرب کی اذان بلند ہوئی۔ خاص طور پر ہم میں سے ان لوگوں کی، جو یورپ اور امریکا سے آئے تھے، خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی، جنھوں نے دل کو پگھلا دینے اور نماز کی طرف دعوت دینے والی اس دل آویز آواز کو برسوں کے بعد سنا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا کہ الفاروقی زاروقطار رو رہے ہیں۔ میری طرف دیکھتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں پکار اُٹھے: ’’اللہ کی قسم،اگر میں امریکا کا طویل سفر کرکے صرف یہی آواز سننے کے لیے آتا تو محسوس کرتا کہ مجھے اس مشقت کا بہت زیادہ پھل مل گیا ہے‘‘۔اس جملے کی ادائی، الفاظ کی ترتیب اور روحانی تڑپ نے اصل الفاروقی کے باطن کو ظاہر کردیا تھا۔ یہ تھی اسلام کے ساتھ ان کی گہری وابستگی اور اسلامی شعائر کے لیے ان کا جوش، ولولہ اور کشش۔ آنسوئوں کی برکھا میں ان کی آنکھیں روشنی اور خوشی سے دمک رہی تھیں۔ ان کا چہرہ روحانی مسرت سے جگمگا رہا تھا۔ اذان کا ہرلفظ ہمارے دلوں میں خوشبو اور زندگی کی طرح رَچ گیا تھا۔ کیسی یادگار تھی ہماری باہم ملاقات، اور اسی لمحے اذان کی اس پکار کا بلند ہونا، اللہ اکبر!
وہ چند دن جو تریپولی میں گزارے۔ انھوں نے ہمارے تعلق کو ایک نئی جہت عطا کی۔ اب ہم دونوں اسلامی احیا کے ایک ہی دھارے پر رواں دواں تھے۔ الفاروقی اُس مشکل دوراہے سے آگےنکل آئے تھے، اور اسلام کی وکالت میں ہم سے بھی آگے تھے۔ بعد کے برسوں میں ہمارا یہ قریبی تعلق ایک مشترک فکروعمل کی صراطِ مستقیم پر استوار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبۂ اسلام کی تاریخی جدوجہد میں حقیقی شراکت دار اور ایک دوسرے کا مددگار بنادیا تھا۔ الفاروقی کا جو شعوری، روحانی اور نظریاتی سفر ’مسلم عرب‘ کی حیثیت سے شروع ہوا تھا، اس نے انھیں تاریخی تبدیلی کے ذریعے ’اسلامی عرب‘ میں بدل دیا تھا۔ امریکا میں ان کے قیام کے زمانے اور مغرب میں پھیلے ہوئے اسلاموفوبیائی تلخ مباحثوں نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا تھا، الحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔ (جاری)
( انگریزی سے ترجمہ: عارف الحق عارف / سلیم منصور خالد)
انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ ماہ و سال کا سفر اسے آخرت کا سبق بھی بھلا دیتا ہے، لیکن نہایت قریبی ساتھیوں، اور خاص طور پر لڑکپن کے زمانے سے ہمدرد اور ہمہ دم دوستوں کی رحلت، بڑی شدت سے آخرت کی حقیقت یاد دلاتی ہے۔ برادرم محمدحاشرفاروقی کی جدائی (۱۱جنوری ۲۰۲۲ء) کے صدمے سے ابھی نہیں نکلا تھا کہ بھائی حسین خان کے انتقال کی خبر نے نڈھال کر دیا__ انا لِلّٰہِ وانا الیہ رٰجعون
میری یادداشت کے سامنے وہ منظر تازہ ہوگیا کہ ۱۹۵۱ءمیں خالق دینا ہال میں مولانا مودودیؒ کی تقریر سننے کے بعد روشن چہرے اور پُرعزم جذبوں سے سرشار ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی، جو دل و جان سے جمعیت کے ساتھ وابستگی رکھنے اور دعوت کو سمجھنے کے لیے جوش و ولولہ لیے ہوئے تھا۔ اس نوجوان کا نام حسین خان تھا، جو حیدرآباد دکن سے ہجرت کرکے پچھلے ہی سال کراچی آئے تھے۔
چند ہی ملاقاتوں کے بعد میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ نوجوان تعلیم میں بھی اچھے ہیں، مطالعے کا بھی بہترین ذوق رکھتے ہیں اور طلبہ سیاسیات کے رموز کو بھی بہت خوبی سے جانتے پہچانتے اور بصیرت کے ساتھ آگے بڑھ کر کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ عبداللہ جعفر صدیقی بھائی نے ان کی تربیت پر حسب ِ ذوق خصوصی توجہ دی، یوں بہت جلد جمعیت کے رکن بنے اور کراچی جمعیت کےاہل الرائے رفقا میں شمار ہونے لگے۔
جب ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۵ء کے دوران میں ارکانِ جمعیت نے مجھے نظامت اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی، تو میں نے حسین خان بھائی کو جمعیت کا مرکزی سیکرٹری (معتمدعمومی) مقرر کیا۔ انھوں نے بڑی دل جمعی کے ساتھ جمعیت کی تنظیم کو مضبوط بنانے اور مقامات سے رابطہ رکھنے اور اُمیدوارانِ رکنیت کی تربیت کانظام وضع کرنے کے لیے دن رات ایک کرکے اپنی بہترین صلاحیتیں لگادیں۔ اس طرح انھوں نے نظامت کی ذمہ داری میں شراکت کا حق ادا کیا۔
پھر میرے بعد اکتوبر ۱۹۵۵ء میں حسین خان اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے، اور اگلے سیشن کے لیے بھی ۱۹۵۶ء میں انھی کا انتخاب ہوا۔ لیکن انھوں نے جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے مرکزی شوریٰ کے سامنے یہ عرض داشت رکھی کہ مجھے نظامت ِاعلیٰ کی ذمہ داری سے فارغ کر دیا جائے، میں مشرقی پاکستان میں جاکر جمعیت کی دعوت و تنظیم کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل انھوں نے ۱۹۵۶ء میں مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران یہ دیکھا کہ تنگ نظر بنگلہ قوم پرستی اور سوشلسٹ تحریک کے بالمقابل، مختلف تعلیمی اداروں میں اُن کی تقاریر نے وہاں کے طلبہ پر اچھا نقش چھوڑا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے گھربار کا آرام ترک کرنے اور تعلیم چھوڑ کر مشرقی پاکستان منتقلی کا فیصلہ کرکے شوریٰ کو اپنی رائے کی تائید پر قائل کرلیا۔ یوں مرکزی مجلس شوریٰ نے ان کی جگہ برادرم ابصار عالم کو ناظم اعلیٰ منتخب کرلیا اور یہ ڈھاکا چلے گئے۔
ڈھاکا پہنچ کر انھوںنے وہاں کے مقامی رفقا محمدعلی کو ناظم مشرقی پاکستان اور قربان علی کو معتمد صوبہ مقرر کرکے، ان کے ایک معاون کے طور پر کام شروع کر دیا، اور ترجیحی طور پر بنگلہ زبان سیکھنےپر توجہ دی۔ انھی کی تجویز پر ڈھاکا میں مستحق اور نادار طلبہ کے لیے ایک ہاسٹل قائم کیا گیا، جہاں سے جمعیت کو بڑے ہونہار کارکن ملے، جنھوں نے تحریک کے لیے شان دار خدمات انجام دیں۔
حسین خان کی ان روز و شب کی سرگرمیوں سے مشرقی پاکستان جمعیت کی جڑیں مضبوط ہوگئیں۔ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ارکان نے لاہور میں سالانہ اجتماع کے دوران نظامت ِاعلیٰ کا انتخاب بھی عجیب صورت میں کیا۔ ۸؍اکتوبر کو پاکستان میں تو مارشل لا لگ گیا، مگر اپنے پروگرام کے مطابق ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳؍اکتوبر کے گیارھویں سالانہ اجتماع کے لیے کچھ ارکان لاہور پہنچ گئے۔ حالات کی سنگینی دیکھ کر، جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے حسین خان بھائی کو ناظم اعلیٰ منتخب کرلیا۔ ساتھ میں مارشل لا نے جمعیت پر پابندی عائد کردی، اور یہ پابندی کا دور جون ۱۹۶۲ء کو مارشل لا کے اختتام پر ختم ہوا، تب اکتوبر ۱۹۶۲ء کو شیخ محبوب علی جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ یوں حسین خان نے ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۲ء تک پابندی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے بڑے کٹھن حالات میں یہ ذمہ داری ادا کی۔
عملی زندگی میں قدم رکھا تو انھوں نے چٹاگانگ کو اپنا مستقر بنایا۔ حسین خان بھائی کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کمیونسٹوں اور قوم پرستوں سے گریز کے بجائے، ان سے مکالمہ رکھنے، تعلقات بنانے، اپنی بات ان تک پہنچانے اور ان کی حکمت ِعملی کو سمجھ کر تحریک کے لیے راہیں کشادہ کرنے کی دُھن میں رہتے۔ اس لیے بلاشبہہ مشرقی پاکستان میں سب سے پہلے خواجہ محبوب الٰہی بھائی نے جمعیت کے کام کو آگے بڑھایا، لیکن اس کو مضبوط بنیادوں پر تناور درخت حسین بھائی نے بنایا۔
چٹاگانگ میں کاروں کی کمپنی کی ملازمت کے دوران بہت سے تحریکی رفقا کو ملازمتیں دلائیں اور چٹاگانگ میں تحریک کے کام پر اپنا گہرا نقش مرتسم کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈھاکا میں خرم بھائی کی توجہ سے تحریک کے کارکنوں پر تربیت کا رنگ نمایاں تھا اور چٹاگانگ میں حسین بھائی کے ہاتھوں سیاسی اور اجتماعی اُمور میں آگے بڑھنے کا ذوق گہرا تھا۔ چٹاگانگ میں جماعت اسلامی کے فیصلے اور حسین خان بھائی کے ذوق کے مطابق انھیں مزدوروں میں کام کی ذمہ داری سونپی گئی، جہاں انھوں نے چٹاگانگ ریلوے میں کمیونسٹ مزدور یونین کو ۲۰برس بعد شکست سےدوچار کیا۔ بہرحال، ۱۹۶۵ء میں ٹوکیو یونی ورسٹی میں اکنامکس میں داخلہ لیا، اور پھر تادمِ آخر جاپان ہی کے ہوکر رہ گئے۔
جاپان میں ان سے قبل عبدالرحمٰن صدیقی صاحب اور عراق کے ڈاکٹر صالح مہدی سامرائی دعوتِ دین کی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ یاد رہے صالح مہدی، زرعی کالج فیصل آباد میں زیرتعلیم تھے، اور یہیں سے میرے رابطے میں آئے،جنھیں مَیں عربی اور انگریزی میں مولانا محترم کی کتب بھیجتا رہا اور جب ’مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن، جاپان‘ کی دعوت پر حسین بھائی ٹوکیو پہنچے، تو اب یہ قافلۂ راہِ حق تین ساتھیوں پر مشتمل ہوگیا۔
یہاں جاپان کے نومسلم حاجی عمرمیتا نے رسالہ دینیات کا جاپانی میں ترجمہ کیا، جو آج تک ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوچکا ہے۔ قبل ازیں قرآن کریم کے جاپانی زبان میں پانچ چھے غیرمستند ترجمے شائع ہورہے تھے۔حسین خان بھائی نے جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے صدر عبدالکریم سائتو اور حاجی عمرمیتا کے ساتھ مشورہ کیا کہ درست ترجمۂ قرآن شائع کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ہرہفتے اکٹھے ہوکر حسین بھائی، حاجی عمر مرحوم کو تفہیم القرآن سے جاپانی میں ترجمۂ قرآن کے لیے معاونت دیتے۔ یوں پانچ سال کی مسلسل کوشش کے بعد، فی الحقیقت مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن کو جاپانی میں رواں اور مستند ترجمۂ قرآن کا رُوپ دینے کا کارنامہ انجام دیا۔
گذشتہ کئی برسوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ تفہیم القرآن کا جاپانی میں ترجمہ مکمل کرلیں۔ اس مقصد کے لیے جتنی پیش رفت ہوتی، اسے وہ شائع کر دیتے، مگر یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔
عزیزم سلیم منصور نے مجھے بتایا ہے کہ تین ماہ پہلے دسمبر میں حسین خان بھائی نے انھیں فون پر تاکید سے کہا کہ ’’پاکستان میں بی ایس، ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل، پی ایچ ڈی اور ہائرایجوکیشن کے طلبہ و طالبات تک تفہیم القرآن پہنچانے کا بجٹ بتائیں اور ان تک پہنچانے کی اسکیم بنا کر بھیجیں‘‘۔ میں نے بتایا کہ یہ تعداد چار لاکھ نفوس تک ہے، اور اس مقصد کے لیے ڈھائی ارب روپے سے زیادہ اخراجات ہوں گے تو وہ کہنے لگے: ٹھیک ہے، مجھے متعلقہ پریس کی تفصیل بھیجیں کہ کہاں رقم بھجوائوں اور اس بجٹ میں جو رائلٹی بنتی ہے، سب سے پہلے وہ مولانا محترم کے بچوں کو دوں گا‘‘۔ انھیں کہا کہ ’’چین، ترکی یا بیروت سے کام ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان میں نہ تو کوئی پریس اتنا بڑا کام کرسکتا ہے اور نہ جلدبندی اور کاغذ کی فراہمی آسانی سے ممکن ہوگی‘‘ تو کہنے لگے: ’’میرے لیےان تینوں ملکوں میں معاملہ کرنا زیادہ آسان ہوگا‘‘۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ کام بڑا بھاری تھا، اور اس کے لیے نقشۂ کار اس سے بھی زیادہ کٹھن تھا۔ نتیجہ یہ کہ میں کچھ نہ کرسکا‘‘___ اس واقعے سے آپ ان کی لگن اور قرآن سےمحبت کا پیمانہ دیکھ سکتے ہیں۔
حسین خان، جاپان میں پاکستان کے عوامی سفیر تھے اور دعوتِ دین کے رہبر اور مسلم اُمہ کے مسائل و مشکلات کو پیش کرنے والے دلِ بے تاب۔ دسمبر ۱۹۶۸ء میں جب مَیں نے ماہ نامہ چراغِ راہ کراچی سوشلزم نمبر شائع کیا تو اُس میں انھوں نے ایک علمی مقالہ ’سوشلزم اور معاشی ترقی‘ تحریر کیا۔ جسے مولانا مودودیؒ نے بہت مفید تحریر قرار دیا۔ وہ علمی کتب خریدنے، پڑھنے اور ان سے قیمتی نکات کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ آج اپنے مرحوم بھائی کو یاد کر رہا ہوں تو ۷۰برس کا سفر آنکھوں کے سامنے آگیا ہے۔ وہ ۲فروری ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے اور ۱۹مارچ ۲۰۲۲ء کو زندگی کا سفر مکمل کرکے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خطائوں کو معاف فرمائے اور صدقاتِ جاریہ میں برکت عطا فرمائے، آمین!
اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے تحت زندگی دیتا اور اپنے طے شدہ قانون کے مطابق اس فانی زندگی کو واپس لے لیتا ہے۔ لیکن امر واقعہ ہے کہ کچھ سعید روحوں کی موت واقعی زندگی کو بے رنگ بناتی اور رنج وغم کی گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کی زندگیاں صرف اللہ کی راہ میں اور اللہ سے اپنے عہدو فا کو نبھانے میں گزرتی ہیں ۔ایسی ہی ایک نہایت پیاری شخصیت حاشربھائی بھی تھے، جو ۱۱ جنوری ۲۰۲۲ءکو ۹۲برس کی عمر میں ربّ کے حضور پیش ہو گئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
میرے شفیق بھائی حاشر فاروقی کا انتقال، جہاں مسلم اُمہ کے لیے ایسا بڑا نقصان ہے کہ جس کا عام لوگوں کو ادراک نہیں، وہیں میرے لیے ذاتی طور پر شدید صدمہ ہے کہ تقریباً ۷۰ برس پر پھیلے تحریکی زندگی اور ذاتی تعلقات کا ایک روشن باب ختم ہو گیا۔ وہ میرے بڑے بھائی کی طرح تھے۔ایک ہم دم دیرینہ تھے، علمی کاموں میں مدد کرنے والے شفیق مدد گار تھے، اور سب سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں اللہ کے لیے محبت کرنے اور دعائیں دینے والے فرد تھے۔
زندگی کے اتنے طویل سفر میں میں نے حاشر فاروقی بھائی کو اسلام کا انسانِ مطلوب، امت کا درد مندفرد اور ایک سچا پاکستانی پایا۔ وہ اپنی نوعیت کے ایک عظیم صحافی ہی نہیں تھے بلکہ ایک مفکر، علمی منصوبہ ساز ،حوصلہ بڑھانے والے دست گیر اور راہیں سُجھانے والے ہمدرد رہنما بھی تھے۔ اسلام کی صحیح ترجمانی کسی خوف اور مصلحت کے بغیر ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انھوں نے اسلام کو اس رنگ میں پیش کیا جس میں قرآن، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے سلف نے پیش کیا ہے اور لبرل طبقے کے انحرافات اور مغربی فکر کے تحت کیے جانے والے سمجھوتوں (Compromises) کا پردہ چاک کیا ۔ پھر اُمت مسلمہ کاہردُکھ اور اس کا ہر مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا اور وہ اس کے بے باک ترجمان تھے۔ ان کا عالم یہ تھا کہ دنیا کے کسی حصے میں بھی مسلمانوں پر کوئی ظلم ہوتا تووہ تڑپ اُٹھتے تھے اور ان کا قلم مظلوم کی دادرسی کے لیے تلوار کی کاٹ ثابت ہوتا تھا۔ امیرمینائی کے بقول:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
میں گواہی دیتا ہوں اور ایک خلق اس پر گواہ ہے کہ دینِ اسلام سے ان کی وابستگی بدن میں دوڑنے والے خون کی مانند تھی۔ اسلامی نظریۂ حیات کی توضیح و تبلیغ اورمسلمانوں کے مقدمے کی پیش کاری کی خاطر وہ زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے، اور اسی راستے پر چلتے ہوئے آخری سانس لیا:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۲۳ۙ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
اسلام پر ہونے والے حملوں اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر وہ محض تڑپنے کی حد تک نہیں رہتے تھے، بلکہ اپنی اس تڑپ کو عمل اور تحریر میں ڈھال دیتے تھے۔ گویا کہ دیکھتے ،سنتے، دوا کرتے اور دعا دیتے ہوئے اپنا عملی حصہ ادا کرتے تھے۔ اور یہ سب کام نہایت قلیل مادی ومعاشی وسائل کے باوجود انجام دیتے تھے ۔ وہ اس انتظار میں نہیں رہتے تھے کہ کون کیا کرتا ہے، بلکہ اس بارے میں فکر مند ہوتے تھے کہ وہ اپنی قوت اورصلاحیت کس حد تک اس مقصد کے لیے نچوڑ دینے کے لیے کتنا وقت صرف کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے گذشتہ صدی کے اواخر میں سلمان رشدی کی شیطانی ہزلیات کا جس تحقیقی ،علمی، تحریکی، تنظیمی ،اور ابلاغی سطح پر حاشر بھائی نے تعاقب کیا، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک امڈتی ہوئی مغربی گستاخانہ لہر سے آگاہ کیا، اس کے ہم گواہ ہیں۔ یہ کوشش ان کے لیے صدقۂ جاریہ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
حاشر بھائی زمانہ طالب علمی ہی سے مسلم کاز سے وابستہ تھے۔ علامہ اقبال ،حسن البنا شہید، قائد اعظم اور مولانا مودودی رحمہم اللہ کے افکار سے گہرے ربط وتعلق نے انھیں روحِ عصر سے جوڑدیا تھا۔اس فکر ی تعلق نے انھیں دین وملت سے مربوط کیا، اور غیرت وعمل سے سینچا۔ برطانیہ کے امپیریل کالج میں وہ علم الحشرات(Entomology) میں ڈاکٹریٹ کے لیے گئے، لیکن مسلمانوں کی حالتِ زار نے انھیں اپنا کیرئیر قربان کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کی خدمت ہی کو اصل کیریئر بنانے پر دل کی گہرائیوں سے مجبور کردیا۔ اس طرح وہ مسلمانوں کے خاموش سپہ سالار بننے کی راہوں پر چلنے کے لیے یکسو ہوگئے۔ ابتداء میں برطانیہ آنے والے مسلمان طالب علموں سے ربط وتعلق بڑھایا اور انھیں علمی مہارت کے ساتھ ،امت اور اسلام سے وابستگی پر ابھارنے کے لیے تدابیر سوچنا شروع کیں۔ الحمد للہ ،اس ضمن میں ان کی کوششوں میں اللہ تعالیٰ نے برکت عطا کی۔ انھوں نے فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس اسلامک سوسائٹی (FOSIS)، یوکے اسلامک مشن (UKIM)، مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ (MET)،مسلم ایڈ، دی اسلامک فائونڈیشن ،مسلم کونسل آف بریٹن (MCB) وغیرہ کی تنظیم وتوسیع کے لیے بہ یک وقت کارکن اور رہنما کا کردار ادا کیا۔
گذشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں اُمت مسلمہ پر دُنیا بھر کے اشتراکی،صہیونی، برہمن اور ملحدیلغار کرنے لگے تو فاروقی صاحب نے اُمت کے دفاع کے لیے سوچا کہ اُمتِ مسلمہ کے ان تمام مسائل کو، ایک جسد واحد کی طرح دیکھا اور پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے تخلیقی ذہن، خوب صورت اسلوب تحریر، مستقبل بین نظر اور تحقیقی ذوق سے کام لیتے ہوئے لندن سے ایک رسالہ نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ اس میدان میں حاشربھائی کی غیرمعمولی فکر مندی اور عمل پسندی کا گواہ بھی ہوں اور ان کامعاون اور ساتھی بھی۔ مالی وسائل ،تحریر وتحقیق اور کتب ورسائل کی فراہمی کے لیے ہاتھ بٹا نے کا اللہ تعالیٰ نے مقدور بھر موقع دیا اور اس سلسلے میں خود مولانا مودودیؒ اور چودھری غلام محمدمرحوم کی تائید اور رہنمائی حاصل تھی۔ اس کے نتیجے میں ایک خواب مئی ۱۹۷۱ء میں پندرہ روزہ Impact International کے نام سے شرمندۂ تعبیر ہوا، اور بہت جلد، دنیا کے تقریباً اسّی ممالک میں متعارف ہوکر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ مگر وائے افسوس کہ ۳۵ برس تک جدوجہد کرنے کے بعدمالی مشکلات کے سبب یہ رسالہ بند ہو گیا۔
امپـیکٹ کسی حکومت یا جماعت کا ترجمان نہیں صرف اور صرف اسلام اور مسلم اُمت کا ترجمان تھا۔ اس کا اصل ہدف جہاں اسلام کو اس کی اصل شکل میں مغربی اور خصوصیت سے انگریزی دان دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، وہیں مسلمانوں کے افکار و مسائل اور اُن پر کیے جانے والے مظالم کی بے باک ترجمانی تھا۔ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امپـیکٹ نے ’مسلم ویو پوائنٹ‘ کے مقابلے میں ہمیشہ ’مسلم ویو پوائنٹس‘ (Muslim View Points) کی اصطلاح استعمال کی، جو آزادیِ رائے اور افکار میں نظریاتی حدود کے اندر تنوع کی غمّاض تھی۔ یہ صحافت میں ایک بڑی روشن مثال تھی کہ صداقت و دیانت کے ساتھ حقیقی تنوع کا اظہار ہی زندگی کے ہمہ پہلوئوں کو اُجاگر کرسکتا ہے۔
۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر بھارتی یلغار نے انھیں مضطرب کیا، اور جب دسمبر میں پاکستان کا مشرقی بازو ٹوٹا تو اس کی ٹوٹ پھوٹ کو انھوں نے اپنی ذات میں اسی طرح محسوس کیا، جس طرح محسوس کرنے کا حق ہے۔ لیکن فاروقی بھائی نے اس مسئلے کے مابعد اثرات سے پاکستان کو نکالنے کے لیے اپنی ذمہ داری بھی ادا کی، اور مغربی دنیا کے مرکزی اخبار ات، ریڈیو سروسز کے ساتھ ساتھ یورپ اور بڑے ممالک کے پالیسی سازوں کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کیا۔ یہ کام اداروں کے کرنے کا تھا، مگر فاروقی بھائی نے مختلف اوقات میں اپنے رفقا برادرم سلیم صدیقی، غزالی خاں، عبدالواحد حامداور اوصاف فاروقی وغیرہ کی مدد سے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی سچی تصویریں مضبوط دلائل وبراہین کے ساتھ پیش کیں۔
حاشر فاروقی بھائی ایک ایثار پیشہ ،قناعت پسند اور سچے صحافی تھے ۔مقصد کی لگن کا دوسرانام حاشر فاروقی تھا۔ ذاتی مفاد کی قربانی دینے کی ایک اعلیٰ مثال تھے، اور عملاً مغربی دنیا میں مسلم صحافت کے حدی خواں تھے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے جو راہیں دکھائیں اورجو نقشۂ کار پیش کیا ، آنے والی نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ ان راستوں کو روشن کریں۔ ہم نے ایک حاشرفاروقی بھائی کی جدائی دیکھی ہے۔ اللہ کے کرم سے اگر درجن بھر حاشر فاروقی اس محاذ کو سنبھالنے کے لیے آمادۂ کار ہوجائیں تو ان شا ءاللہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے مسائل پوری قوت سے دنیا کے سامنے نہ صرف نمایاں ہونے لگیں گے بلکہ امت میں یکجہتی بھی پیدا ہوگی ۔
اللہ کی زمین پر، اللہ کے بندوں کو، اللہ کی بتائی ہوئی راہ پر چلانے والے انسان خوش نصیب ہوتے ہیں۔ لکھنے اور سنانے والے تو ہزاروں ہیں، مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے والے تھوڑے ہیں۔ ایسے ہی کم یاب لوگوں میں مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کا نام مدتوں یادوں کا عنوان بنارہے گا۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی ۹جولائی ۱۹۳۲ء کو ضلع اٹک (صوبہ پنجاب،پاکستان) کے قصبے ’پرملی‘ میں پیدا ہوئے اور ابھی چار سال کے تھے کہ ۱۹۳۶ء میں ان کے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا عبدالقدیم (م:۱۹۸۹ء) اپنے بچوں سمیت بریلی (یوپی) منتقل ہوگئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور سے حاصل کی، پھر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں چار برس تک زیرتعلیم رہے،جہاں مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم (۱۹۰۱ء-۱۹۵۸ء) کی شاگردی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ اختر احسن وہی ہیں، جن کے بارے میں مولانامودودی نے لکھا ہے: ’’مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب فی الواقع اس زمانے کے اولیاء اللہ میں سے تھے‘‘۔
محمد یوسف صاحب ۱۹۵۱ءمیں مولانا مودودی کی تحریروں سے آشنا ہوئے۔ اصلاحی صاحب، جماعت اسلامی سے متعارف ہونے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں نے گیارہ سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا۔ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد میرے والدمحترم چاہتے تھے کہ میں صرف علم دین حاصل کروں۔ ہمارے محلّے میں ایک صاحب پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔ وہ آتے جاتے مجھے کوئی نہ کوئی کتاب مطالعے کے لیے دے دیا کرتے تھے، لیکن میں ان کی دی ہوئی کتاب کبھی پڑھتا نہیں تھا، اور کتاب لاکر الماری میں رکھ دیا کرتا تھا۔ چندروز بعد وہ مجھ سے کتاب کے بارے پوچھتے تو کتاب لاکر واپس کر دیتا، اور وہ ایک دوسری کتاب دے دیتے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک دن نہ جانے کس موڈ میں، میں نے ان کی دی ہوئی ایک کتاب اُٹھائی اور پڑھ ڈالی۔ اس کتاب نے تو میرے خیالات میں ایک انقلاب برپا کر دیا،اور اندر کی دنیا تہ و بالا کرڈالی۔ اس کتاب کا نام تنقیحات تھا، اور مصنف کا نام سیّدابوالاعلیٰ مودودی تھا‘‘۔
۱۹۵۴ء میں جماعت اسلامی ہند کے رکن بن گئے اور ۱۹۵۹ء سے رام پور کو اپنا مستقل مستقر بنا لیا۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے طویل عرصے تک رکن رہے۔ مولانا ابوسلیم عبدالحئی (م: ۱۶ جولائی ۱۹۸۷ء) نے رام پور (اترپردیش) میں جامعہ الصالحات کے نام سے طالبات کی ایک بہترین دینی، اقامتی درس گاہ قائم کی۔ ان کے انتقال کے بعد توسّل خان صاحب اور پھر آخر دم تک محمد یوسف اصلاحی صاحب کی نگرانی میں یہ درس گاہ پورے ہند میں ایک مثالی درس گاہ کے طور پر اپنی پہچان رکھتی اور خدمات انجام دے رہی ہے۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب ۲۱دسمبر ۲۰۲۱ء کو انتقال فرماگئے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مولانا کے انتقال کو اسلام اور اسلامی تحریکات کے لیے بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سعادت اللہ حسینی کے بقول: ’’مولانا محمد یوسف مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نہایت مقبولِ عام کتابیں ہیں، جنھوں نے بلامبالغہ کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کی کتاب آدابِ زندگی نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اَن گنت مسلمان گھروں کی بک شیلف کا لازمی حصہ ہے۔ مائیں اپنی بچیوں کو شادیوں کے موقعے پر اس کتاب کا تحفہ اس اُمید کے ساتھ دیتی ہیں کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگیاں سلیقہ مند اور اسلامی آداب کی آئینہ دار ہوں گی۔ مولانا مرحوم کی کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہرطبقے میں مقبول ہیں۔ آسان، سادہ، لیکن دل کش زبان اور پُرکشش اسلوب میں بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترسیل و ابلاغ کا جو ملکہ، اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو عطاکیا تھا، اس کی نظیر مشکل ہی سے نظر آتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر زاہد حسین بخاری (واشنگٹن) نے بتایا کہ ’’ایک روز مَیں نے مولانا اصلاحی صاحب سے کہا کہ آپ کی ہر تقریر کے تین حصے ہوتے ہیں، مگر موضوعات الگ الگ‘‘۔فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے کہا: ’’آپ کی تقریر کے پہلے حصے میں قرآن، حدیث اور سیرت پاکؐ کا لازمی حوالہ ہوتا ہے۔ دوسرے حصے میں آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا امریکا آنا، اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ یہاں اسلام کے داعی اور اسلامیت کا نمونہ اورحُسنِ معاشرت کی بہترین مثال بنیں گے، تو آخرت میں کامیاب و کامران ہوں گے۔ اور تیسرے حصے میں آپ کسی نہ کسی حوالے سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا حوالہ ضرور دیتے ہیں‘‘۔
ایک تقریر میں دُنیا کی حقیقت اور فرد کی ذمہ داری مولانا اصلاحی صاحب نے ان لفظوں میں سمجھائی: ’’کویت کے محل پر ایک جملہ لکھا ہے: لَوْ دَامَتْ لِغَیرِکَ مَا وَصَلَتْ اِلَیْکَ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر یہ [دُنیا] کسی اور کے لیے دائمی ہوتی تو تم کو کبھی نہ ملتی‘‘۔ مراد یہ کہ اگر یہ محل تیرے پچھلوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ہوتا تو تجھے نہ ملتا، اور تجھے اس لیے ملا ہے کہ پچھلے رخصت ہوگئے۔ جب ان کے لیے ہمیشہ کے لیے نہیں تھا، تو تجھے بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ تیرے لیے بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے کہ تیرے بھی جانشین رخصت کا انتظار کر رہے ہیں۔بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ باپ رخصت ہو تو سارے کارخانے اور کاروبار کا مَیں مالک بن جائوں۔ پھر اس کا بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ یہ رخصت ہوجائے تو میں اس کا مالک بن جائوں۔ یہ دُنیا اسی طرح چل رہی ہے۔ ہمارے سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہماری زندگی کا زمانہ کیسا گزرا؟ کل ہم نہیں ہوں گے ، تو اللہ کرے ہمارا یہ زمانہ ایسے گزرے کہ لوگ کہیں: کچھ لوگ تھے کہ جنھوں نے نیکیاں پھیلائیں اور بھلائیاں پروان چڑھائیں اور وہ انھیں یاد کرکے دُعائیں دیں کہ اللہ ان کی عاقبت اچھی کرے‘‘۔
اکثر اوقات کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے: ’’جماعت اسلامی والو! تم خوش قسمت ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے، جس نے اپنی کتاب تمھارے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔ جب وہ ناراض ہوگا تو یہ کتاب [قرآن] تمھارے ہاتھوں سے لے لے گا‘‘۔ آپ نے اس ایک جملے سے اللہ کی نعمت کی قدر اور اللہ کے فضل سے محرومی و بربادی کا راستہ واضح کر دیا۔
مولانا یوسف اصلاحی دل کش بزرگی اور علم و فضل کی بلندی کے باوجود، ایک خوش گوار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی سنجیدگی میں وقار اور سماجی روابط میں دل بستگی تھی۔ لہجے میں نرمی کے باوجود، جملوں میں بلا کی قوت اور داخلی دنیا کو ہلادینے کی صلاحیت تھی۔ مجلس میں آپ شرکاء کی حوصلہ افزائی کرتے کہ سوال پوچھے جائیں اور اگر کسی چیز کے بارے میں معلومات کم ہوتیں تو بلاتکلف کہہ دیتے، ’’یہ بات معلوم نہیں لیکن معلومات حاصل کرکے بتادوں گا‘‘۔
مولانا اصلاحی کبھی کبھی اپنے وطنِ مالوف کا دورہ کیا کرتے تھے۔ آخری مرتبہ ۲۰۱۶ء میں آئے اور ایک ہفتہ لاہور میں، دوسرا ہفتہ اپنے گائوں (پرملی، حضرو) میں گزارا۔ قرب و جوار کے لوگ اُن کی زیارت و ملاقات کے لیے اُمڈ آئے۔ ہرنزدیکی گائوں اور قصبے سے مطالبہ تھا کہ مولانا آئیں اور خطاب کریں۔
آپ نے اپنے پیچھے علم دین اور بہترین انسانی زندگی گزارنے کے اسالیب اور اسباق کا ایک خزانہ چھوڑا ہے، جو مدتوں علم کے متلاشیوں کی تسکین کا باعث بنا رہے گا۔ انھوں نے جو کچھ لکھا، اُردو میں لکھا، اور کیا شان دار اُردو میں لکھا ،ایسی شاندارکہ پڑھتے ہوئے جس میں شیرینی کی سی حلاوت کا احساس ہوتا ہے۔
مولانا مودودیؒ ان کی تحریروں کے قدردان تھے۔ انھوں نے ۲؍اگست ۱۹۶۷ء کو اُن کے نام خط میں لکھا: ’’قرآنی تعلیمات کا سیٹ موصول ہوا۔ آپ نے یہ ایک بڑا مفید مجموعہ مرتب کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور خلقِ خدا کو اس سے فائدہ پہنچائے‘‘۔پھر ۲۳جنوری ۱۹۷۸ء کو لکھا: ’’میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ نے سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو مختصر کتاب [داعی اعظمؐ] لکھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو‘‘۔ دل گواہی دیتا ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کی یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے اکتوبر۱۹۷۲ء میں رام پور سے ماہ نامہ ذکریٰ کا اجرا کیا، اور اسے اپریل ۲۰۰۴ء سے ماہ نامہ ذکریٰ جدید کے نام سے دہلی سے شائع کیا جارہا ہے۔ اس میں لکھنے والوں کی تربیت اور پڑھنے والوں کی رہنمائی کا وافر سامان موجود ہے۔ یہ پرچہ اس اعتبار سے بہت قیمتی ماخذ ہے کہ اس میں تسلسل سے لکھی جانے والی تحریریں اصلاحی صاحب کی کتب کا ذریعہ بنیں۔بہت سی تصانیف میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: l قرآنی تعلیمات lتفہیم الحدیث lداعی اعظمؐ lگلدستۂ حدیثlآدابِ زندگی lاسلامی توحید lفقہ اسلامی lآسان فقہ lشمع حرم lسچا دین lحُسنِ معاشرت lشعورِ حیات lخاندانی استحکام lروشن ستارے lمسائل کا اسلامی حل lحج اور اس کے مسائل وغیرہ۔
عصرحاضر میں اسلامی نفسیات کے نظریہ ساز اور محقق پروفیسر ڈاکٹر مالک بدری، ۸ فروری ۲۰۲۱ء کے روز اللہ کو پیارے ہوگئے۔ پروفیسر بدری علمی دُنیا میں اسلامی نفسیات کے باوا آدم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ نفسیات پر اپنی کتابوں، تحقیق اور علم نفسیات کو اسلامی فکر کی روشنی میں کمال کے درجے پر پہنچانے کی وجہ سے اپنے وطن سوڈان کی سرحدوں سے نکل کر عالمی اُفق پر چھا گئے۔ ان کی تحقیقات کو بین الاقوامی یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ تحقیقی مراکز نے سراہا ہے۔ انھیں ذہانت، بصیرت اور نفسیات کے مطالعے میں خدمات کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جو لوگ انھیں ذاتی طور پر جانتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ وہ کھلا دل اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے روح اور دل کی تطہیر کے بارے میں نہ صرف اسلامی نفسیات کی تعلیم و تربیت بانٹی بلکہ وہ خود ایک نیک روح تھے۔
پروفیسر مالک بدری نے اپنی زندگی اسلامی نفسیات کی ترقی کے لیے وقف کر دی تھی۔ ۸۹سال کی عمر میں اپنے آخری چند مہینوں تک وہ لیکچر دیتے، مشاورتوں میں حصہ لیتے اور اپنی آخری کتاب پر کام کرتے رہے۔ان کی علمی میراث ان کی بنیادی تصانیف، ان کے طلبہ اور اسلامی نفسیات کے شعبے کو آگے بڑھانے کے لیے شروع کیے ہوئے کاموں کی صورت میں موجود ہے۔ انھوں نے بہت سے ممالک میں نفسیات کے شعبے قائم کیے اور نفسیات کی تعلیم دی۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد میں نفسیات کے بانی پروفیسر تھے اور گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح کے نصابات میں اسلامی نفسیات /مسلم نفسیات کو متعارف کروانے کا محرک تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر مالک بابیکر بدری ۱۶ فروری ۱۹۳۲ء کو دریائے نیل کے کنارے پر واقع رفاعہ شہر میں پیدا ہوئے۔ آپ سوڈان کے ایک قابلِ احترام عالمِ دین شیخ بابیکر بدری کے بیٹے تھے، جنھوں نے سوڈان میں خواتین کی تعلیم کے کے لیے بہت دل جمعی سے کوششیں کیں، اور۱۹۶۶ء میں ’الاحفاد خواتین یونی ورسٹی، خرطوم‘ کی بنیاد رکھی۔
پروفیسر مالک بدری نے ۱۹۵۶ء میں امریکی یونی ورسٹی، بیروت سے نفسیات میں گریجویشن کی، اور اسی یونی ورسٹی سے ۱۹۵۸ء میں نفسیات و تعلیم میں ایم اے کیا۔ بعدازاں ۱۹۶۱ء میں لیسٹر یونی ورسٹی، برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اور ۱۹۶۶ء میں پوسٹ ڈاکٹریٹ، مڈل سیکس ہسپتال اور میڈیکل کالج سے کی۔ ’جبا یونی ورسٹی اور خرطوم یونی ورسٹی کے شعبہ ہائے تعلیم میں ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۷ء میں برٹش سائیکالوجیکل سوسائٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۶۵ء میں اردن یونی ورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور صدرِ شعبہ ، ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۱ء تک یونی ورسٹی آف ریاض، امام محمد بن سعود یونی ورسٹی میں پروفیسر کے علاوہ رہنمائی اور نفسیاتی مشاورتی یونٹ کے ڈائریکٹر رہے۔ ملائشیا کی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں ابنِ خلدون مسند کے ممتاز پروفیسر اور اسلامی نفسیات کی بین الاقوامی تنظیم کے بانی اور صدر رہے۔ افریقہ اور ایشیا میں متعدد شہروں میں کلینکل سائیکالوجی کے شعبے قائم کیے۔ انھوں نے ۲۰۱۷ء میں ’انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف اسلامک سائیکالوجی‘ (IAIP) کی بنیاد رکھی۔
ڈاکٹر بدری نے بہت سی کتابیں اور بلندپایہ تحقیقی مضامین عربی اور انگریزی زبانوں میں لکھے ہیں، جو ان کی متعدد کتابوں میں شامل ہیں:
lCulture and Islamic Adaptation Psychology, lThe Dilemma of Muslim Psychologists, lContemplation: An Islamic Psychospiritual Study, lThe AIDS Crisis: An Islamic Sociocultural Perspective.
آپ کے کام نے علم نفسیات میں تخصص کے ایک نئے شعبے کو متعارف کروایا، اور سوڈان، سعودی عرب، پاکستان، ملائیشیا، ترکی، پوری مغربی اور مسلم دنیا پر اس کا بہت اثر مرتب ہوا۔ آج دنیا بھر میں اسلامی نفسیات کے حوالے سے متعدد کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کورسوں، ورکشاپوں، کتابوں، نظریاتی اور کلینیکل ایپلی کیشنز ہیں، جو سبھی اسلامی نفسیات کے شعبے کی تعمیروترقی کے لیے وقف ہیں۔ ان سب کا نقطۂ آغاز ڈاکٹر بدری ہیں۔
ڈاکٹر مالک بدری درس و تدریس میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو رول ماڈل قرار دیتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے انھیں جدید اسلامی نفسیات کی تحریک کو زندہ کرنے اور اسلامی روح کو نفسیات میں واپس لانے کی کوشش میں کردار ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
راقم کو پروفیسر مالک بدری نے ۲۰۱۲ء میں امام محمد یونی ورسٹی، ریاض میں ملاقات کے دوران بتایا کہ ’’۱۹۶۰ء کے عشرے کے وسط میں، مَیں نے کویت سے لے کر افغانستان اور پھر لاہور پاکستان تک کا سفر اپنی کار پر کیا تھا ۔ لاہور جانے کا واحد مقصد مولانا مودودیؒ سے ملاقات تھا‘‘ [تفصیلات دیکھیے: ’سیّد مودودیؒ: ایک مشاہدہ، ایک موازنہ‘، ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء]۔ وہ مولانا مودودیؒ اور سیّدقطب شہیدؒ کی تعلیمات سے بہت متاثر تھے۔ اسلامی اصولوں کے فروغ کے لیے جنابِ مالک بدری مرحوم کا ٹھاٹھیں مارتا جذبہ، بے مثال اور قابلِ ستایش نمونہ تھا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ زندگی میں انسان بہت سے اُتارچڑھائو، صدمات اور خوشیوں کو قریب سے دیکھتا اور برداشت کرتا ہے۔ لیکن بعض واقعات اور حوادث اس قدر گہرے اور دُوررس اثرات کے حامل ہوتے ہیں کہ حیرت اور صدمے کے الفاظ ان کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ اس کیفیت میں بالخصوص اپنے دوستوں، رفیقوں اورمحترم شخصیتوں کی جدائی بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔
۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۱ء کو پاکستان کے مایہ ناز سائنس دان جناب عبدالقدیرخاں کا انتقال ہوا تو لوحِ ذہن پر واقعات و حوادث کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اُبھر آیا۔
یہ ۱۹۵۲ء کی بات ہے، جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا ناظم تھا۔ تب، کھوکھراپار کے راستے، بے سروسامانی کے عالم میں بھوپال سے ہجرت کرکے آنے والے ایک درازقامت طالب علم سے ملاقات ہوئی۔ جس کی شرافت، نجابت اور شائستگی کا نقش پہلی ملاقات ہی میں ثبت ہوگیا۔ یہ نوجوان طالب علم ڈی جے سائنس کالج میں ایف ایس سی میں زیرتعلیم تھا اور والدین و اساتذہ کی دینی تربیت کے باعث، جمعیت کے رفقا سے قریب تر ہوگیا۔ آگے چل کر یہی نوجوان ڈاکٹر اے کیوخاں کے نام سے پاکستان کے جوہری پروگرام کا سرتاج بنا۔
اُس زمانے میں عبدالقدیر خاں کی وابستگی جمعیت کے اجتماعات میں شرکت، ہمارے ترجمان Student's Voice کی اشاعت و ترویج، مستحق طالب علموں کی تعلیمی مدد اور سماجی سرگرمیوں میں ہم قدم ہونے تک تھی۔ اسی دوران ایک روز انھوں نے مجھ سے کہا: ’’میں جمعیت کا رُکن بننا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے اُن کے ذوقِ مطالعہ کو جاننے کے باوجود یہ کہا کہ ’’نصاب رکنیت کی مزید کتب کا مطالعہ کرلیجیے‘‘۔ تاہم، بعد میں وہ تنظیم میں اور زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے، لیکن جمعیت کی اجتماعی سرگرمیوں سے اپنے زمانۂ طالب علمی میں وابستہ رہے۔ تعلیم مکمل کرکے پہلے مقامی طور پر کراچی میں ملازمت کی اور بعد میں بیرونِ پاکستان چلے گئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیرخاں کے احوالِ زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ لیکن یہاں میں ان کے بارے میں ان کی زندگی کے چند ایسے اوراق پیش کرنا چاہتا ہوں ، جو لکھنے والوں کی نظروں سے بالعموم اوجھل رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سب سے پہلے ۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر صاحب کو ایٹمی پروگرام سے متعلق قومی ادارے KRL کی سربراہی سے سبک دوش کرکے صدر کا مشیر مقرر کیا گیا۔ مگر ۳۱جنوری ۲۰۰۴ء کو انھیں اچانک اس منصب سے الگ کرکے نظربند کردیا گیا، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھیں امریکا کے حوالے کیے جانے کی باتیں منظرعام پر آئیں۔
ڈاکٹرصاحب کو نظربند کرنے کے بعد، ان کے خلاف کردارکشی کی مہم چلائی گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور کیسے ہوا؟ چونکہ یہ معاملہ بہت نازک ہے، اس لیے اپنی روایت سے ہٹ کر، سینیٹ آف پاکستان میں اپنی چند تقریروں کے اقتباسات، سینیٹ کے ریکارڈ سے پیش کر رہا ہوں، جن سے معاملے کی نزاکت کی تفہیم ممکن ہوسکے گی۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اس سے قبل ’ڈی بریفنگ‘ (De-briefing) کا معاملہ شروع کیا گیا تھا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ڈی بریفنگ صرف جاسوسوں کی ہوتی ہے لیکن ہم نے اس اصطلاح کو اپنے ان محسنوں کے لیے استعمال کیا ہے، جو اس ملک کی سلامتی و خودمختاری اور اس کے دفاع کو مؤثر بنانے کے لیے ہرقیمت پر قربانی دیتے ہیں۔ پھر ’ڈی بریفنگ‘ کے اس نام نہاد عمل کو بھی ہم نے بالاقساط کیا۔ پہلے تو دو سائنس دانوں کو اُٹھایا اور کہا کہ ’’اے کیوخان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔ لیکن پھر جس شخص نے اس ملک پر سب سے بڑا احسان کیا اور جس نے اس کے لیے بڑی قربانیاں دیں، اس کو تسلسل سے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ سارے اقدامات نہایت ہی اہانت اور ذلت آمیز طریقے سے کیے گئے۔ یہ مسئلہ اپوزیشن یا محض حکومت کا بھی نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ حکومت، فوج، پارلیمنٹ ہم سب کا مشترک معاملہ ہے۔ اس ملک کا تحفظ اور اس کی ایٹمی دفاعی صلاحیت کا تحفظ ہی نہیں اس صلاحیت کی ترقی بھی ہمارا مشترکہ ایجنڈا ہے۔ اس لیے کہ دفاعی صلاحیت ایک منجمد نہیں بلکہ متحرک تصور ہے۔ اس پر حالات کی مناسبت سے نظرثانی کرنی پڑتی ہے، وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے ہوئے اس کے لیے تحقیق و ترقی کا انتظام ناگزیر اور ضروری ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے سائنس دانوں کا تعاون اور ضروری وسائل کی فراہمی اور وہ تمام طریقے اختیار کرنا ضروری ہیں، جو دُنیا کی پابندیوں کے باوجود ہم نے اپنی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ماضی میں بھی کیے ہیں اور آیندہ بھی کرنے پڑیں گے۔
یہ بڑی زیادتی اور بڑا ظلم ہے، جو آپ ان محترم سائنس دان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ جو شخص باہر کی ایک بڑی تنخواہ چھوڑ کر اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ، اپنے ملک کو بچانے کے لیے آیا، وہ بلاشبہہ سائنس دانوں اور انجینیروں کی ایک ٹیم کا حصہ ہے۔ اس ٹیم میں جو جوہری قائد تھے، ان کا نام ڈاکٹر اے کیوخان ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ آپ ایک طرف اس کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ یہ میرا ’ہیرو‘ ہے۔ یہ کون سا طریقہ ہے؟
میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں فوجی قیادت اور عوام کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے۔ اے کیوخان اور ان کے ساتھی سائنس دان قوم کے ہیرو اور محسن ہیں۔ آج تک وژن یہ تھا کہ سائنس دان، اے کیوخان اور فوجی قیادت ساتھ ساتھ ہیں اور سب احترام کی نظر سے دیکھے جارہے تھے لیکن آج آپ نے ان کے درمیان ایک تصادم پیدا کرکے پوری قوم کے سامنے اس وژن کو منتشر کردیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خاں ایک قومی اثاثہ اور ہمارے محسن ہیں۔میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ان پر کیا الزامات لگائے گئے ہیں اور ان الزامات کی حقیقت یا پس منظر کیا ہے اور کون کیا کھیل کھیل رہا ہے؟ اس وقت میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارا ایک بہت بڑا قومی اثاثہ ہیں اور اس کو اس طریقے سے نظربند رکھنا اور معقول علاج معالجے کی سہولتیں نہ دینا، ایک قومی جرم ہوگا۔اس لیے دردمندی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم یہ مسئلہ پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر اُٹھائیں۔ بلکہ یہ کہوں گا کہ اسے پوری اُمت مسلمہ کے ایک مسئلے کے طور پر لیں، اس لیے کہ ڈاکٹر خان صرف پاکستان کا نہیں پوری اُمت مسلمہ کا اثاثہ ہیں۔
ماضی میں جو کچھ ہوا ، وہ اپنی جگہ ، لیکن ان کی جان بچانا، ان کو مناسب سہولتیں دینا، اور حبس اور گھٹن کی کیفیت سے نکالنا جس میں وہ گرفتار ہیں، ہماری ذمہ داری ہے۔ میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور قوم کے جذبات کا احترام کرے۔ بیرونی حکومتوں کے اپنے مفادات ہیں۔ جوہری افزدودگی کے حوالے سے کس کس نے کیا کیا ہے، یہ آپ کو معلوم ہے۔ اب تو یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ بھارت اس میں ملوث ہے۔ دوسری جانب آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ جنوبی کوریا اپنے وسائل سے اس کام کو کر رہا ہے لیکن ایک خاص سیکنڈل کے ذریعے جنوبی کوریا کے ساتھ ہمیں ملوث کیا جارہا ہے۔ تاہم، میں مطالبہ کروں گا کہ حکومت اس ایوان میں ہمارے سامنے سارے حقائق رکھے۔
حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ ’’ہم نے ڈاکٹر اے کیوخان کی رہایش کے باہر جو مشین لگائی ہے یہ ان کی حفاظت کے لیے ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ان سے ملنے کے لیے کوئی نہیں آسکتا‘‘۔ مزید یہ کہ ’’بیوی اور شوہر وہاں رہ رہے ہیں اور ان سے صرف ان کی بیٹی مل سکتی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ نواسی کو کیوں نہیں آنے دیا جاتا۔ کیا وہ اپنے نانا کو مارنے کے لیے کوئی اسلحہ، کوئی ہتھیار لائے گی؟ چلیے میں سیکورٹی کے لیے نگرانی کے ایک نظام کی ضرورت مان لیتا ہوں، لیکن مسئلہ ہے ملاقاتوں سے منع کرنے کا، ذہنی اذیت اور قید تنہائی کا اور طرح طرح کی ان دھمکیوں کا جو ڈاکٹر صاحب کو دی جارہی ہیں۔
یہاں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جناب جنرل پرویز مشرف نے دی گارڈین [لندن] کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں سرعام یہ بات کہی ہے کہ ’’اے کیوخان کا مسئلہ ختم ہوگیا‘‘۔ اس سے پہلے انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ ’’ان پر صرف ملک سے باہر جانے پر پابندی ہے، ملک میں نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے‘‘۔ [فوجی ترجمان]شوکت سلطان صاحب نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ’’ان کے اعزہ ان سے مل سکتے ہیں‘‘ لیکن میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ ان کے قریبی اعزہ، حتیٰ کہ ان کی بہن اور بھائی تک کو ملنے نہیں دیا گیا۔ گذشتہ دنوں جب ایک اور سائنس دان ڈاکٹر فاروق کو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت رہا کیا گیا ہے تو ان کو بھی اپنے گھر میں نظربند کردیا گیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ’’اب یہ باب بند ہوچکا ہے‘‘، لیکن فی الحقیقت جو دبائو، اذیت اور جوسلوک ان لوگوں کے ساتھ کیا جارہا ہے وہ ایک قومی ذلّت ہے۔
بلاشبہہ ایٹمی ہتھیار کی تیاری ایک ٹیم کا کام تھا۔ اس میں کسی کو انکار نہیں ہے، سب کا حصہ ہے اور اسی لیے ہم تمام سائنس دانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب کارنامہ ڈاکٹر اے کیوخان کی سربراہی میں ہوا ہے۔ ہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ کس نے وہ نیا طریقہ ڈیزائن کیا اور اس ملک کو دیا۔ جس پروسیس کو امریکا نے اکیس سال میں حاصل کیا تھا، اس کی ٹیم نے سات سال میں کرکے اس قوم کو دے دیا۔ ایسے فرد اور اس جیسے افراد کی آج بھی ہمیں ضرورت ہے اور کل بھی ہوگی۔
خدا کے لیے امریکا پربھروسا نہ کیجیے۔ امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے کانگریس کی کمیٹی کے سامنے اپنے بیان کے اندر صاف الفاظ میں یہ کہا کہ ’’ہم نے یہ یقین کرلیا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے کبھی بھی کسی ایسے ہاتھ میں نہیں جاسکتے، جو اسے غلط استعمال کرسکے‘‘۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ امریکا کو کیا حق ہے اس بات کا اور امریکا کا یہ دعویٰ کہ ’’ہم نے یہ یقینی بنایا‘‘۔ پاکستان کا اپنا ’کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم‘ ہے اور وہ اچھا ہے اور اسے آیندہ بھی محفوظ ترین ہونا چاہیے لیکن امریکا کا یہ دعویٰ کرنا، بہت ہی خطرناک چیز ہے۔ ان حالات کے اندر میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر اے کیوخان کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے، وہ کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ خدا کے لیے وہ راستہ اختیار کیجیے جو قومی غیرت ہی نہیں قومی تحفظ اور سلامتی کا تقاضا ہے۔
میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اے کیوخان کو دی جانے والی سہولتوں کے بارے میں جو دعویٰ کیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ اخبار میں جو خبر آئی ہے وہ کچھ اور بتاتی ہے۔ آج کے نوائے وقت میں حکومت کی طرف سے جو ایک سطری تردید دی گئی ہے کہ اے کیوخان پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، میں اس کو چیلنج کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں جناب چیئرمین! کہ آپ کی سربراہی میں یا ڈپٹی چیئرمین کی سربراہی میں وسیم سجاد، ایس ایم ظفر، میاںرضا ربانی اور مجھے موقع دیا جائے کہ ایک وفد کی صورت میں ہم جاکر اے کیوخان سے ملیں اور پوچھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے، اور اس ہائوس کو آکر بتائیں کہ صورتِ حال کیا ہے؟خبر کی جھوٹی تردید اسی طرح کی جارہی ہے، جس طرح امریکا نے وزیرستان پر حملہ کیا اور ہمارے ترجمان نے تحقیق کے بغیر یہ کہتے ہوئے تردید کردی کہ نہیں یہ پاکستان کی سرزمین پر نہیں ہوا، جب کہ پولیٹیکل ایجنٹ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ پاکستان کی سرزمین پر ہوا ہے۔
یہی معاملہ اے کیوخان کے حوالےسے بھی ہورہا ہے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ تردید غلط ہے اور مطالبہ کرتا ہوں جناب چیئرمین، کہ آپ کی سربراہی میں ہم جانا چاہتے ہیں تاکہ انھیں ملیں اور دیکھیں کہ کیا پوزیشن ہے اور ایوان کو بتائیں اور اس طریقے سے اپنے ملک میں اپنے محسنین، اپنے سائنس دان جو پوری اُمت مسلمہ کا سرمایہ ہیں، ان کی حفاظت میں اپنا کردارادا کریں۔
یہ ایوان امریکی ایوانِ نمایندگان کے بعض ممبروں کی اس غیرضروری رائے زنی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جس میں انھوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں پوچھ گچھ اور تفتیش کے لیے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو امریکا کے حوالے کیا جائے۔
ہم اس اقدام کو پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کی صریح خلاف ورزی اور اپنے معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کا جوہری پروگرام ہمارے دفاع کے لیے انتہائی ضروری ہے اور کسی کے خلاف نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے اور بین الاقوامی سیاست میں اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔
ہم ڈاکٹر عبدالقدیرخان اوردیگر سائنس دانوں کی کردارکشی کی واضح الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، جس کا مقصد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ پاکستانی قوم ایٹمی ٹکنالوجی، ہتھیاروں کی تیاری اور توانائی کی سیکورٹی کے میدان میں قابلِ ذکر پیش رفت کے لیے اپنے سائنس دانوں کی مقروض ہے۔ تمام پاکستانی، اپنے سائنس دانوں کو احترام اورقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات ہیں اور میں اپنے تمام ساتھیوں کا بے حد ممنون ہوں کہ سینیٹ قوم کے ان جذبات کو زبان دے رہی ہے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم دنیا کے تمام ممالک سے دوستی اور تعاون کا تعلق رکھنا چاہتے ہیں لیکن عزّت کے ساتھ اور اپنی آزادی اور اپنی ریاست کی خودمختاری کے مکمل تحفظ کے ساتھ۔
امریکا نے جو یہ رویہ اختیار کیا ہے کہ وہ جس کی چاہتا ہے ٹانگ کھینچتا ہے، جس کی چاہتا ہے بے عزّتی کرتا ہے، جس ملک کی چاہتا ہے، خودمختاری کے خلاف اقدامات کرتا ہے اور پاکستان میں باجوڑ ہو یا ہمارے دوسرے علاقے ہوں، ان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پاکستان پر دبائو ڈالتا ہے۔
اس قرارداد کی صورت میں سینیٹ ایک بہت بڑی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ یہ اپنے سائنس دانوں کی عزّت، حفاظت اور اپنی خودمختاری کی حفاظت اور اعلان ہے کہ ہم ان معاملات کے اندر کسی کو مداخلت کرنے یا اپنے حقوق میں دست اندازی کرنے کا موقع نہیں دیں گے اور پوری دنیا کے مسلمان بلکہ پوری دنیا کے عوام اس استعماری کوشش کی مزاحمت کریں گے۔
سینیٹ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے، بلکہ میں کہوں گا کہ پورے ملک کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے میں نے اس قرارداد کو پیش کیا ہے۔
جناب چیئرمین! میں اپنی اس تحریک استحقاق میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ ڈاکٹر اے کیوخان میرے ذاتی دوست ہیں اور میرے ان کے اُس وقت سےروابط ہیں، جب وہ طالب علم تھے اور ہندستان سے آنے کے بعد میرے چھوٹے بھائی کی حیثیت سے ڈی جے کالج میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے یورپ میں قیام، پاکستان واپسی اور پھر آنے والے دنوں میں اس ملک کے لیے انھوں نے جو عظیم خدمات انجام دیں، اس پورے زمانے میں ہمارے بڑے گہرے اور اعتماد کے مراسم رہے۔ اگر آپ نے آج کے اخبار The Nation میں جنرل زاہد کا مضمون پڑھا ہو تو انھوں نے ہماری ایٹمی صلاحیت کی پوری کہانی بیان کی ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہمیں یہ جو استعداد حاصل ہوئی ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس شخص کو یہ توفیق نہ دیتا تو ہم کبھی حاصل نہیں کرسکتے تھے‘‘۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’میں (جنرل زاہد) اس پورے معاملے میں شروع سے لے کر آخر تک وابستہ رہا ہوں اور ان (ڈاکٹر عبدالقدیرخاں) پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ، ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس ساری بات کو ہرہرمرحلے پر پیش نظر رکھنا انتہائی اہم ہے‘‘۔
اس وقت ہمارا وہ محسن [اے کیوخاں] کینسر کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس ایوان نے ایک بار نہیں، کئی بار ان کی رہائی کا مطالبہ اور اس کی صحت یابی کے لیے دُعا بھی کی ہے۔ اسی پس منظر میں آپریشن کے بعد میں ان سے ملنے کے لیے جانا چاہتا تھا۔ میں چیئرمین سینیٹ،جناب محمد سومرو صاحب کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اس سلسلے میں ذاتی دلچسپی لی اور خود ٹیلی فون کیا۔ لیکن جناب والا! اس موقع پر یہ سوا ل اُٹھانا ضروری ہے کہ ملک میں کس کی حکومت ہے؟ صدر کی یا ایجنسیوں کی؟ میری جانب سے درخواست کے بعد سینیٹ کا سٹاف چوبیس گھنٹے کوشش کرتا رہا اور یہ ایک اُمیدوبیم کی کیفیت تھی۔ بالآخر، رات سوا بارہ بجے مجھے ٹیلی فون آیا کہ ہم آپ کو ناوقت تکلیف دے رہے ہیں، ہمیں ابھی اطلاع ملی ہے کہ اجازت مل گئی ہے۔ آپ صبح چلے جایئے اور گیارہ بجے کے بعد آپ کی ملاقات ہوجائے گی۔ اور جیساکہ پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ میں دس منٹ کم گیارہ پر وہاں پہنچ گیا اور ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کیا۔ دوسری جانب یہ اطلاع بھی موجود تھی کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخاں میرا انتظار کر رہے تھے۔ان کی بیٹی میرے انتظار میں وہیں موجود تھی۔ اس کے ساتھ ہی جنرل چوہان بھی ان کے پاس بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے، لیکن ان متعلقہ ذمہ داران اور ان کے عملے نے ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرا کر بھی مجھے ملنے کا موقع نہیں دیا۔
جناب والا! میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی ذات کے بارے میں، اپنی سولہ سال کی سینیٹ کی ممبرشپ میں کبھی بھی میں نے کوئی تحریکِ استحقاق پیش نہیں کی ہے۔ اگر تحریکِ استحقاق پیش کی ہیں تو مسائل پر کی ہیں اور ان پر کی ہیں جن کی وجہ سے سینیٹ کے قواعد کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ آج میں سینیٹ کے ساتھ ساتھ یہ ذاتی استحقاق کی خلاف ورزی بھی پیش کر رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ سینیٹ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ اس ایوان کی خودمختاری، اس کے وقار اور اس کے اختیار کا مسئلہ ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں یا ان کے بڑے ہوں یا چھوٹے، میں سب کی عزّت کرتا ہوں، لیکن اگر ان کا یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کے احکام کو نہ مانیں، اجازت دینے کے بعد اس پر عمل نہ کریں، تو پھر کون کہاں سے انصاف حاصل کرے گا؟
سینیٹ کے ریکارڈ سے یہ جو چند اوراق پیش کیے گئے ہیں، ان میں جنرل پرویز مشرف کے عہد ِ حکومت کے کچھ پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری زندگی پاکستان کی خدمت کے لیے وقف کر دی، اور اتنی حساس ذمہ داری کی ادائیگی کے نتیجے میں اپنی آزادی سے دست بردار ہونا پسند کرلیا، مگر قوم کی آزادی کے تحفظ کے لیے ایٹمی پروگرام کو ایک رُخ دینے میں کامران رہے۔
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک المیہ تو یہ بھی ہوا کہ جب مئی ۱۹۹۸ء میں کامیاب ایٹمی دھماکے کیے گئے تو اُس وقت وزیراعظم محمدنواز شریف صاحب نے اچانک انھیں پس پردہ دھکیل دیا، جس کا سبب ڈاکٹر صاحب کے خیال میں اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ نواز شریف صاحب نے محسوس کیا ہوگا یا اُن کے کسی مشیر نے ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہوگی کہ قوم مجھے متبادل لیڈر کے طور پر کہیں قبول نہ کربیٹھے۔ اسی حفظِ ماتقدم کے طور پر نوازشریف صاحب نے اچانک ڈاکٹر صاحب کا بلیک آئوٹ شروع کر دیا، جس پر قوم، ذرائع ابلاغ اور ہرسوچنے سمجھنے والا فرد حیران و پریشان تھا۔ بعدازاں، فوجی حاکم پرویز مشرف صاحب نے جو کچھ کیا، اس کا احوال اُوپر اشاروں کنایوں میں بیان کیا جاچکا ہے۔
زندگی کے آخری زمانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے اپنی پوری توجہ تعلیم، صحت اور رفاہِ عامہ کے کاموں کے لیے مختص کردی تھی۔ پھر حددرجہ افسوس ناک یہ منظر ہم نے دیکھا کہ اُن کے دمِ واپسیں صدر، وزیراعظم اور مسلح افواج کے چیف تک جنازے میں نہ آئے۔ اس طرزِعمل کا کیا مطلب لیا جائے؟ کیا ہم سوال کرسکتے ہیں کہ یہ کس کی ہدایت تھی یا کس کا خوف تھا؟
۶ مئی ۲۰۲۱ء کو یہ خبر کشمیری عوام پر قیامت بن کے ٹوٹی کہ زیر حراست مزاحمتی تحریک کے مخلص ترین قائد جناب محمد اشرف خان صحرائی جموں کے ہسپتال میں انتقال کر گئے: اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ اس طرح سے کشمیر کی تحریک آزادی کے ایک اور قائد کی جدوجہد کا باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
مرحوم صحرائی صاحب کو ۲۰۲۰ء میں اپنے بیٹے شہید جنید صحرائی کی شہادت کے ٹھیک دو ماہ بعد جموں وکشمیر میں نافذ کالے قانون ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت پس زندان ڈال دیا گیا تھا۔ واضح رہے یہ ایک ایسا بے رحم قانون ہے جس میں دو سال تک بغیر کسی عدالتی کارروائی کے کسی بھی شخص کوپابند سلاسل رکھا جاسکتا ہے۔ صحرائی صاحب مرحوم کے اہلِ خانہ نے اسے قتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم کو انتظامیہ کی جانب سے کوئی طبی امداد نہیں دی گئی، جب کہ وہ کئی امراض میں پہلے ہی مبتلا تھے۔ میڈیا کو دیئے گئے بیانات میں ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ’’میرے والد نے اپنی وفات سے چند دن قبل مجھے فون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے لیے یہاں کسی دوائی وغیرہ کا انتظام نہیں ہے۔ میں چند دنوں سے شدید بیمار ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومت مجھے یہاں مارنے کے لیے ہی لائی ہے، اس لیے آپ میری رہائی کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں اُنھیں ترک کر دیں۔ مجھے یہ ایسے رہاکرنے والے نہیں ہیں۔آپ اپنے معمول کے کام کاج میں مصروف ہو جائیں ‘‘۔
محترم صحرائی صاحب کے انتقال پر کئی ہند نواز سیاسی لیڈروں نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے حکومت پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا :
اشرف صحرائی کی اچانک موت کے بارے میںجان کر بہت صدمہ ہوا۔ انھی کی طرح ان گنت سیاسی قیدیوںاور جموں وکشمیرکے دیگر نظر بندوں کو بھی اپنے نظریا ت اور افکار کے لیے مکمل طور جیل میں ڈالنے کا عمل جاری ہے۔ آج کے ہندستا ن میںاختلاف رائے کی وجہ سے ایک شخص اپنی زندگی کی قیمت ادا کرتا ہے۔
پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا:
انھیں قید میں کیوں مرنا پڑا نہ کہ اپنے پیاروں اور رشتہ داروں میں۔کیا ہم اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ علیل بزرگ شخص ریاست کے لیے خطرہ ہے؟ صحرائی صاحب ایک سیاسی رہنما تھے، دہشت گرد نہیں ۔
آل پارٹیزحریت کانفرنس نے اظہار تعزیت کرتے ہو ئے کہا کہ:’’ جموں وکشمیر کے لوگوں نے ایک مخلص، قابل اور ایمان دار لیڈرکوکھو دیا ہے ‘‘
محترم اشرف صحرائی کے فرزند راشد خان صحرائی نے دی وائر نیو ز پورٹل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ:’’ان کے طبی معائنے اور علاج کے لیے تین درخواستیں دائر کی تھیں،جس میں ان کی مزید دیکھ بھال کے لیے جموں یا سرینگرکی جیلوں میں منتقل کر نے کی درخواست بھی تھی کہ اہل خانہ کو ان سے ملنے دیا جائے‘‘۔ راشد صحرائی نے کہا کہ ’’درخواستوں پر نظر ثانی کے لیے جج مسلسل دیر کرتا رہا‘‘۔
اس عظیم اور بے با ک قائد کی زندگی عزیمت اور قربانیوں کی لازوال داستانوں سے پُرہے۔ مرحوم قائد کی پیدایش شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی خوب صورت ترین وادیٔ لولاب میں ۱۹۴۴ء کو ہوئی۔وہی لولاب جہاں عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت اور محدث علامہ انور شاہ کشمیریؒ [۱۸۷۵ء-۱۹۳۳ء]نے آنکھ کھولی تھی۔ جس وادی کے متعلق شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایک مشہور نظم بھی ’اے وادیٔ لولاب‘ عنوان کے تحت لکھی ہے۔ موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گائوں میں حاصل کی۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے گریجوشن کی۔ آپ بچپن سے ہی دینی مزاج کے حامل تھے اور دینی کتابوں کے مطالعے سے بھی خاصا شغف رکھتے تھے۔ قرآن کریم کا گہرا مطالعہ تھا۔ ایک فیس بُک ساتھی نے مطالعہ قرآن کے حوالے سے ایک پوسٹ میں مرحوم کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ :’’قرآن کا گہرا مطالعہ تھا اور تفاسیر پر بھی نظر تھی۔ جب درسِ قرآن پیش کرتے تھے تو بالکل بھی روایتی انداز کا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اُن کا پہلا درس ’اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر‘ کے تربیتی پروگرام میں سُنا۔اس وقت میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ درس آج تک میرے ذہن میں مستحضر ہے۔کیا ہی دل چسپ اندازِ بیان تھا۔ قرآنی آیات کی توضیح و تشریح ایسے کرتے تھے کہ لگتا تھا کہ قرآن آج ہی نازل ہو ا ہے ۔وہ اپنے دروسِ قرآن میں زمانے کے تطابق کا خاص خیال رکھتے تھے ۔ایسے درس پیش کرتے جیسے موتیوں سے ہمارے دامن بھررہے ہوں‘‘۔
اشرف صاحب کا گھرانہ ابتدا سے ہی تحریک اسلامی سے وابستہ تھا۔مرحوم کے گھر سے دوبڑے بھائی جماعت اسلامی جموں وکشمیرکے بنیادی ارکان میں سے تھے، جن کی وساطت سے محترم صحرائی صاحب کو بھی جماعت اسلامی سے آشنائی ہوئی۔ جماعت کے دفتر واقع کپواڑہ میں ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ اسی دوران میں ان کی ملاقات اُس دور میں فعال ترین کارکن سید علی گیلانی صاحب سے ہوئی۔ گیلانی صاحب کا کہنا ہے کہ: میری قربت صحرائی صاحب سے قدرتی طور پر کچھ زیادہ ہی ہونے لگی۔ جب کبھی بھی ہمارا کپواڑہ آنا جانا ہوتا تھا تو میں محترم موصوف کے گھر جایا کرتا تھا۔ ابھی صحرائی صاحب دسویں جماعت میں ہی تھے کہ اُن کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ’یہ ہاز چھی حوالہ‘ یعنی اب یہ (صحرائی صاحب) آپ کے حوالے ہیں ۔ اور اس کے بعد تحریک اسلامی کے یہ دونوں سرفروش تا عمر حالات کے سرد و گرم کا مقابلہ جاں فشانی سے کرتے رہے۔
صحرائی صاحب تحریک اسلامی کے مخلص ترین اور بے باک قائد تسلیم کیے جاتے تھے۔ موصوف نے اپنی ساری زندگی کو تحریک اسلامی کے لیے وقف کردیا ۔ جموں وکشمیر کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ کو وجود بخشنے میں صحرائی صاحب کا خاصا بنیادی کردار تھا۔ کشمیر کے ایک رسالے کو اپنے ایک انٹرویو میں اسلامی جمعیت طلبہ کے وجود میں آنے کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ’’انھی دنوں زالورہ، بارہمولہ میں جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے مولانا شیخ سلیمان مرحوم (شیخ محمد سلیمان مرحوم نے ضلعی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک جماعت کے اپنے فرائض بڑے اخلاص اور محنت سے انجام دیے، خاص کر ارکان وذمہ داران کی تربیت کے حوالے سے انھوں نے کافی کام کیا) کے گھر پر جولائی ۱۹۷۷ءمیں مجلس شوریٰ کا اجلاس چار دن تک جاری رہا، جہاں میں [صحرائی صاحب] بھی شامل تھااور گیلانی صاحب بھی۔ جماعت کو سیاسی طور پر وادی میں جو نقصان اٹھانا پڑا اس پر زبردست بحث و مبا حثہ ہوا، یہاں تک کہ امیر جماعت کو بھی تبدیل کرنے پر بات ہوئی۔ شوریٰ میں محترم سیدعلی گیلانی صاحب سے کہا گیا کہ آپ امیر جماعت کی حیثیت سے کام کریں، لیکن جونہی انھوں نے یہ بات سُنی، انھوںنے اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور انتہائی غصے کی حالت میں کہا کہ: ’’کیا میں امیر جماعت بننے کے لائق ہوں؟‘‘
’’ اس شوریٰ میں یوتھ فیڈریشن کا رول بھی زیر بحث آیا اور اس پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی کہ جماعت کو نوجوانوں کے لیے ایک تنظیم قائم کرنی چاہیے۔ اس کے لیے وہاں موجود کسی نے میرا نام پیش کیا اور بتایا کہ محمد اشرف صحرائی نوجوانوں کے ساتھ مل جل کر کام کرتے رہتے ہیں۔ میں اجلاس کی کارروائی لکھ رہا تھا۔ جب یہ فیصلہ ہوا کہ صحرائی صاحب نوجوانوں کو منظم کریں گے۔ اس کے بعد اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ اس تنظیم کا کیا نام رکھا جائے؟ وہاں پر موجودا رکانِ شوریٰ نے مختلف نام تجویز کیے۔میں نے اپنی رائے یہ پیش کی کہ جب سید مودودیؒ نے پاکستان میں ۱۹۴۸ء میں طلبہ تنظیم قائم کی تو انھوں نے اس کانام ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ رکھا تھا کیوں نہ ہم بھی اسی مناسبت سے اس کا نام ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ ہی رکھیں ۔شوریٰ میں امیر جماعت سمیت تمام لوگ اس نام پر متفق ہوئے اور نوجوانوں کو منظم کرنے کے لیے جماعت نے مجھے [تنظیمی ذمہ داریوں سے] فارغ کیا۔ اس کے بعد میں نے ۱۹۷۷ء میں جمعیت کے لیے کام کا آغاز کیا۔ اس وقت میری عمر تقریباً ۳۲ یا ۳۳سال تھی اور ساتھ ہی اس کے لیے ایک دفتر کا بھی انتظام کیا‘‘۔(یہ انٹرویو ۲۰۱۴ء میں ضبط تحریر میں لایا گیا ہے )۔
بہرکیف، اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے پہلے ناظم اعلیٰ محترم مرحوم صحرائی صاحب مقرر ہوئے ۔اس کے بعد موصوف نے جموں وکشمیر میں طلبہ میں دعوت کا کام شروع کر دیا۔ انفرادی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ مختصر فولڈر اور لٹریچر کو یہاں کے تعلیمی اداروں تک پہنچایا۔ عوامی اجتماعات بھی منعقد کرائے جن میں سے ۱۵؍اور۱۶ جولائی ۱۹۷۸ء کو جمعیت کا دو روزہ اجتماع انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔اس اجتماع میں محترم شیخ تجمل الاسلام نے جو کہ اُس وقت معتمد عام (سیکرٹری جنرل) تھے، مذکورہ اجتماع میں ڈائس انچارچ کے فرائض انجام دیے ۔یہ دو روزہ اجتماع سرینگر کی گول مارکیٹ میں منعقد ہوا۔ اس طرح سے محترم صحرائی صاحب نے اپنی جوانی کے دنوں کو بھی تحریکی کام کے لیے وقف کر دیا۔ وہ پہلی بار ۱۹۶۵ء میں گرفتار ہوئے ، تب آپ کی عمر محض ۲۱ سال تھی۔
موئے مقدس کی گمشدگی کے متعلق کشمیر میں زوردار احتجاجی تحریک برپا تھی۔ احتجاجیوں کا مطالبہ تھا کہ موئے مقدس کو بازیاب کیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قید کردیا۔ اس ظلم کے خلاف ردعمل میں محترم صحرائی صاحب نے بارہمولہ پٹن کی ایک مسجد میں جمعہ کے موقع پر ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے حکومتِ وقت کو للکارا اور اُن کی جمہوریت کے کھوکھلے دعوئوں کا پول کھول کے رکھ دیا۔ اس بیان کے اگلے دن ۲۱سال کی عمر میں انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں قیدِ تنہائی کے ایام موصوف نے وہاں ملنے والی ایک کتاب زرِ گُل پڑھنے میں گزارے۔ وہ اتنی بار پڑھی کہ ذہن میں محفوظ ہو گئی ۔
تقریر کے ساتھ ساتھ موصوف تحریر کے جوہر بھی دکھاتے رہے جس کی ایک کڑی کے طور پر ۱۹۶۹ء میں طلوع کے نام سے جماعت کی مدد سے ایک رسالہ شائع کیا ۔اس میں بڑی ہی بے باکی سے کفر اور سامراجی طاقتوں کو آئینہ دکھاتے رہے اور ساتھ ہی جمہوریت کے حقیقی معنوں سے بھی عوام الناس کو آشنا کرتے رہے۔ لیکن اس کا انجام اس رسالے پر حکومت کی طرف سے پابندی کی صورت میں ہوا۔
صحرائی صاحب کی زندگی میں نشیب و فرازآتے رہے لیکن راہ عزیمت سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ تحریک اسلامی کے ہمراہ مقصد کی لگن اور اسلام کی اقامت کے لیے جدوجہد کے لیے مرمٹنے کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے صحرائی صاحب کو جماعت میں سب سے پہلے بانڈی پورہ، کپواڑہ اور بارہمولہ (اُس دور میں یہ تینوں اضلاع ایک ضلع تھا اور آج الگ الگ ہیں) کے امیر ضلع کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کے بعد مرکز جماعت میں شعبہ سیاسیات کا سربراہ اور پھر نائب امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی ذمہ داریاں سپرد کی گئیں۔ ان فرائض کو انجام دینے میں کسی سُستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ غرض صحرائی صاحب اپنی ذات میں ایک تحریک تھے، صحرائی ایک نظریہ اور فکر کا نام ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کو بھی مزاحمتی تحریک کے نام وقف کر دیا تھا۔
ایک مرحلے پر جماعت اسلامی جموں وکشمیر کو محسوس ہوا کہ مزاحمتی تحریک کے لیے جماعت اسلامی سے الگ نظم، عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے صحرائی صاحب اور سیّد علی گیلانی صاحب کا رول انتہائی اہم تھا۔۲۰۰۴ء میں تحریک حُریت کا وجود عمل میں لایا گیا ۔جہاں سے گیلانی صاحب اور صحرائی صاحب نے مزاحمتی تحریک کو رواں دواں کیا۔ اس مزاحمتی جدوجہد کے دوران محترم صحرائی صاحب نے مسئلہ کشمیر کے متعلق وہی موقف اختیار کیا، جو عام کشمیریوں کا ہے۔
صحرائی صاحب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اہلِ کشمیر کے حق خود ارادیت پر زور دیتے تھے۔ حکومت کو بھی بار بار کہتے آ رہے تھے کہ فوجی طاقت کے ذریعے آپ کشمیریوں کے نہ دل جیت پائیں گے اور نہ کشمیر کو۔ لہٰذا بھارت کو چاہیے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو پُر امن طریقے سے حل کرنے میں پہل کرے تا کہ دونوں اطراف سے انسانی جانوں کازیاں نہ ہو اور عوام پُر امن زندگی گُزار سکیں۔لیکن ہم سب یہ دیکھ چُکے ہیں کہ بھارتی حکومتوں کی طرف سے اس مسئلے کو طول دینے کے نتائج کتنی خطرناک شکل میں سامنے آرہے ہیں ۔ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد بندوق کی طرف راغب ہورہی ہے اور گھروں کے گھر اُجڑ رہے ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم اور بزرگ والدین اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو کھو رہے ہیں۔ بستیوں کی بستیاں ویران اور قبرستان آباد ہو رہے ہیں۔
۲۰۱۸ء میں محترم صحرائی صاحب کے فرزند جنید صحرائی نے بھی کشمیری عوام کی مظلومیت کے حق میں بندوق اُٹھائی۔ جنید کے بندوق اُٹھانے کے بعد ایک مقامی صحافی نے محترم اشرف صاحب سے سوال کیا کہ ’’کیا آپ اپنے بیٹے کو بندوق چھوڑ کے گھر آنے کی اپیل نہیں کر سکتے؟‘‘ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میں کیوں اپیل کروں گا، کیامیں بے ضمیر ہوں؟ کیا شیخ محمد عبداللہ ہوں؟ میں بخشی ہوں؟ میں قاسم ہوں؟میں غلام رسول کار بھی تو نہیں ہوں۔ میں خدا کا وہ بندہ ہوں جس کی رگ رگ میں آزادی کی تڑپ موجود ہے‘‘۔ اس سے موصوف کی اپنے مقصدکے ساتھ کمٹ منٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے مجاہد صحرائی نے میڈیا کے ایک نمایندے کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے والد صاحب نے ہمیں ایک نصیحت کی تھی کہ آپ سودی کاروبار یا سود کھانے سے وابستہ نہیں ہوں گے او ر آپ کو سرکاری نوکری نہیں کرنی۔ اس لیے کہ آگر آپ سرکارکے ملازم ہوں گے تو مجھے آپ کے بدلے ہر جگہ سر جھکانا پڑے گا‘‘ ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنید صحرائی ۱۹ مئی ۲۰۱۹ء کے دن سرینگر میں ایک خونیں معرکے میں جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق ہونے کے بعد جنید صحرائی کی میت بھی دیگر عسکریت پسندوں کی لاشوں کی طرح اُن کے لواحقین کو نہیں دی گئی، بلکہ جنیدشہید کو اپنے گھر سے دور پہلگام میںدفنا دیا گیا۔ تعزیت پر آنے والوں کی ایک بھیڑ میں فون پر کسی عزیز کے ساتھ محترم صحرائی صاحب مرحوم اپنے بیٹے کی شہادت کو علامہ شبلی نعمانیؒ کے ان اشعار کے ساتھ بیان کر رہے تھے کہ :
عجم کی مدح کی ،عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے یوں چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتمؐ
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
یہ الفاظ ۱۹مارچ ۲۰۱۸ء کو تحریک ِ حُریت کے مقرر ہونے والے چیئرمین محمد اشرف صحرائی جیسے عظیم انسان کی زبان سے ہی نکل سکتے ہیں ۔ابھی لوگ محترم صحرائی صاحب کے بیٹے کی تعزیت کے لیے آرہے تھے کہ انتظامیہ نے امن و امان کا مسئلہ بتاتے ہوئے ۷۸ سالہ بزرگ جو کہ مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے کو جموں کی ایک جیل میں ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت پابند سلاسل کر دیا۔
صحرائی صاحب پہلے سے ہی کافی علیل تھے۔ اس کے باوجود اُنھیں جموں کی جیل میں رکھا گیا۔ ایک نیوز پورٹل کے ساتھ موصوف کے فرزند نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ہمیں ہر ہفتے دومرتبہ فون کیا کرتے تھے لیکن گذشتہ دس دنوں سے کوئی فون نہیں آیا۔ آخری مرتبہ جب بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ صحت ٹھیک نہیں ہے ۔دراصل یہ مجھے یہاں مارنے کے لیے لائے ہیں‘‘۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق محترم صحرائی صاحب کی صحت اچانک بگڑ گئی، جس کے سبب اُنھیں جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں علاج کے لیے لایا ہی گیا تھا کہ جہاں وہ اپنے اہل خانہ سے دُور، داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انتظامیہ نے انھیں سرینگر کے مزار شہداء میں دفنانے کی اجازت نہ دی۔جس کی وجہ سے اُن کو اپنے آبائی گائوں ٹکی پورہ لولاب، کپواڑہ میں اپنے مختصر اہلِ خانہ کی موجودگی میں سپردِ خاک کیا گیا۔
ابھی صحرائی صاحب کی جدائی کے غم میں ہی اہل خانہ نڈھال تھے کہ مرحوم کے دوبیٹوں کو ’غیر قانونی سرگرمیاںکے ایکٹ‘( UAPA)قانون کے تحت یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا کہ ’’انھوں نے صحرائی صاحب کے جنازے کے دوران غیر قانونی اور ملک دشمن نعرہ بازی کی ہے‘‘۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق: ’’۵ مئی ۲۰۲۱ء کو محمد اشرف صحرائی کے دونوں بیٹوں، مجاہدصحرائی اور راشد صحرائی کو اپنے گھر واقعہ برزلہ، سرینگر سے گرفتار کر کے کپواڑہ منتقل کر کے داخل زنداںکیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہاں جنازے میں موجود۲۰؍ افراد کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔غرض یہ کہ صحرائی صاحب کی وفات کے بعد بھی اُن کے گھر سے قربانیوں اور عزیمت کی لازوال داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔نہیں معلوم کہ نہ جھکنے اور نہ بکنے والے اس مرد مجاہد کے اہل خانہ کو ابھی آزمایشوں کے کن کن مراحل سے گُزرنا پڑے گا۔ اللہ تعالی مرحوم صحرائی صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما ئے اور اُن کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!
مولانا وحید الدین خان مرحوم کے حوالے سے ذاتی یادوں اور مشاہدات کا ایک سلسلہ ہے۔ نئی دہلی میں ۳۰برسوں پر پھیلے قیام کے دوران مجھے، مولانا سے کبھی بالمشافہ گفتگو کرنے اور کبھی ان کے درس میں بیٹھنے کا موقع ملتا رہا۔ اس طالب علمانہ ربط و تعلق سے متعلق چند واقعات کا ریکارڈ پر آنا ضروری ہے۔ مولانا وحیدالدین خان بلاشبہہ ایک قابلِ ذکر شخصیت تھے۔ میں زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے ماہنامہ الرسالہ کا قاری رہا ہوں۔ اپنے نقطۂ نظر کو جس سہل ،نپے تلے، منفرد اور سائنسی انداز میں وہ مشکل ترین موضوعات کو قارئین کے دماغ میں اُتارتے تھے، وہ انھی کا خاصہ تھا۔
مولانا صاحب سے میری پہلی ملاقات ۹۰ کے عشرے میں ہوئی، جب میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی وارد ہوا۔ نظام الدین ویسٹ میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا دفتر تھا۔ میں کسی کام سے دفتر گیا تھا تو وہاں پر پونا یونی ورسٹی شعبۂ صحافت کے ایک طالب علم عبدالباری مسعود ، (آج کل ایک معروف صحافی) سے ملاقات ہوئی۔ ابتدائی تعارف کے بعد ، انھوں نے بتایا کہ ’’مولانا وحیدالدین خان صاحب سے ملاقات کے لیے آج کا وقت طے ہے‘‘۔ میں بھی خان صاحب کو بالمشافہ دیکھنے کے شوق میں ان کے تین رکنی قافلے میں شامل ہوگیا۔ ان کی کوٹھی پر پہنچے۔ وہ مسند لگائے ہوئے تھے، اور سامنے ڈیسک پر کاغذوں کا ڈھیر تھا۔ پورے کمرے میں کتابیں، قومی اور بین الاقوامی جرید ے ترتیب کے ساتھ سجے ہوئے تھے۔
ابتدائی نوعیت کا تعارف ختم ہوتے ہی اچانک خود انھوں نے عبدالباری صاحب سے سوال کیا کہ ’’آخر آپ کیوں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’میں الرسالہ کا قاری اور آپ سے متاثر ہوں‘‘۔اس پر انھوں نے فوراً یہ سوال پوچھا کہ’’ الرسالہ میں کون سی بات آپ کو اچھی لگتی ہے، اور کس نے آپ کو متاثر کیا ہے؟‘‘ابھی ان کی جانب سے تفتیش کا سلسلہ جاری تھا کہ تبلیغی مرکز سے ایک وفد کمرے میں داخل ہوا، تو ہمیں دم لینے کا موقع ملا۔ و ہ وفدبھی مہاراشٹرا سے تعلق رکھتا تھا اور ان کو کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دینے آیا تھا ۔ اس لیے گفتگو اب تبلیغ اور اس کے طریق کار کی طرف مڑگئی۔
ان دنوں ’بابری مسجد کمیٹی ‘اور اس کے روح رواں سید شہاب الدین [ ۱۹۳۵ء- ۲۰۱۷ء]، مولانا صاحب کے نشانے پر ہوا کرتے تھے۔ اس ملاقات میں بھی انھوں نے شہاب الدین صاحب پر بھرپور وار کیے اور بتایا کہ ’’علامہ اقبال [م:۱۹۳۸ء]کی طرح شہاب الدین بھی مسلمانوں کا استحصال کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔ اس پہلی ملاقات میں ہی مجھے یہ انداز ہو گیا تھا کہ وسعت علم کے باوجود وہ ایک طرح کے ’معلوماتی تکبر‘ (Information Arrogance) کا شکار ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی جلدوں اور ٹائم، نیوز ویک رسالوں کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ’’ الرسالہ کی تیاری کے لیے ان سبھی بیش قیمت کتابوں و رسائل کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور اس میں زر کثیر خرچ ہوتا ہے‘‘۔
اس ملاقات کے بعد بھی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ان سے متعدد بار ملنا ہوا۔ نمازِ عصر کے بعد وہ اپنے اسی کمرے میں ملتے تھے یا اتوار کے روز صبح ان کا درس ہوتا تھا، جو نمازِ ظہر پر ختم ہو تا تھا۔ یہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار درس کے دوران انھوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہونے والی فتوحات پر نکتہ چینی کی۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’اُن فتوحات کی وجہ سے دعوت کا کام دب گیا‘‘۔ اسی طرح ان کی ایک دلیل یہ تھی: ’’صلاح الدین ایوبی اور صلیبی جنگو ں کی وجہ سے یورپ میں اسلام کے دعوتی پیغام کو نقصان پہنچا‘‘۔ عراق اور افغانستان میں امریکا اورناٹو افواج کی جانب سے مسلط کردہ خونیں جنگ کو وہ ’خدائی آپریشن‘ کا نام دیتے تھے۔
بھارت میں ہندو مسلم فسادات ہوتے، تو وہ اس میں مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے تھے۔ معلوم نہیں کس ذریعے سے حاصل کردہ اطلاعات کی بنیاد پر ان کا کہنا ہوتا تھا: ’’فسادات کی ابتدا مسلمان کرتے ہیں‘‘۔ یہ بات سنتے ہوئے میں نے ایک بار ہمت کرکے ان سے پوچھا کہ ’’یہ نتیجہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا ہے؟ سوال پوچھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے کئی بار فسادات کی کوریج کرنے کا موقع ملا ہے اور میں نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ جانی اور مالی نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتاہے۔ آخر اپنے آ پ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیوں کوئی اپنا سر آگ میں جھونکے گا؟‘‘ اسی طرح ان کا موقف تھا کہ ’’بابری مسجد سے مسلمانوں کو دست بردار ہونا چاہیے، اور وہاں پر ایک عالی شان رام مندر بنانے میں معاونت کرنی چاہیے‘‘۔ خان صاحب کی اس تجویز یا خواہش کے مطابق اب تو اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔ لیکن کیا اس سے قوم پرست ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں کمی واقع ہوئی ہے؟ بلکہ وہ تو اب شیرہوکر دیگر مساجد کو بھی مندر بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کشمیری مسلمانوں کے ساتھ تو سچ پوچھئے خان صاحب کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بجائے آزادی کی تحریک کے، ان کو اپنے کردار و تبلیغ سے وہاں موجود سات لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا چاہیے‘‘۔ یاد رہے، خان صاحب کے رسالے الرسالہ کی سب سے زیادہ فروخت کشمیر میں ہی ہوتی تھی۔ بلاشبہہ کچھ لوگ تو واقعی خریدتے تھے، مگر کشمیریوں کے گھروں کی تلاشی آپریشنوں کے دوران بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ آئے ہوئے انٹیلی جنس کے افراد اس رسالے کو نوجوانوں میں بانٹتے بھی تھے۔ سوپور کی جامع مسجد کے پاس بارڈر سکیورٹی فورس کا بینکر تھا۔ ایک روز نماز جمعہ سے قبل مسجد میں داخل ہونے والوں کو بینکر کا ایک سپاہی الرسالہ اور مولانا کا ایک تحریر کردہ پمفلٹ بانٹ رہا تھا اور تاکید کر رہا تھا کہ ’’اس اسلام کو اپنا کر پاکستان والا اسلام ترک کردیں‘‘۔ میرے لیے اس سپاہی کے ساتھ بحث کا تو کوئی موقع نہیں تھا، مگر دہلی واپس آکر میں نے یہ واقعہ براہِ راست مولانا صاحب کے گوش گزار کیا۔ انھوں نے میری اس آنکھوں دیکھی رُوداد کے جواب میں کہا: ’’کشمیریوں نے میر سید علی ہمدانی کے مشن کو فراموش کردیا ہے‘‘۔
یہ غالباً ۲۰۱۵ءکی بات ہے کہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید کچھ کشمیری صحافیوں کے ہمراہ دہلی آئے۔ انھوں نے مولانا صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ چونکہ بطور ممبر اسمبلی وہ کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا ایک چہرہ تھے، اسی لیے ان کا اصرار تھا کہ ’’مولانا صاحب سے جموں و کشمیر کی صورت حال کے بارے میں رائے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے کچھ مفید اور قابل عمل اقدامات کے لیے ہم رہنمائی حاصل کریں گے‘‘۔ خیر ان کی کوٹھی پر پہنچ کر پہلے تو ہم نے درس میں شرکت کی۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال و جواب کا دل چسپ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد مولانا صاحب نے انجینئر عبدالرشید صاحب کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور بھارتی آئین کے تحت کشمیر اسمبلی میں رکنیت حاصل کرنے پر ان کو سراہا۔ علیک سلیک کے بعد ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورت حال، خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حوالے سے ان کا نقطۂ نظر جاننا چاہا۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا کہ ’’کشمیری ’امن‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ گذشتہ کئی عشروں کے دوران ان کی جد و جہد غلط تھی‘‘۔ عبدالرشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ’’ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کا قیام کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ ’’انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنا آپ لوگوں کی ذہنی اختراع ہے‘‘۔
مولانا صاحب کے بقول: ’’کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازعہ کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں‘‘۔ ممبر اسمبلی نے ان سے سوال کیا کہ ’’جموں وکشمیر کے تنازعے کو تو خود بھارتی لیڈر ہی اقوام متحدہ میں لے گئے تھے، اس میں کشمیریوں کا کیاقصور ہے؟ وہ بے چارے تو صرف وعدہ پورا کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔ یہ بات سننا تھا کہ مولانا صاحب غصّے سے لال پیلے ہوگئے اور ہال چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظارکے بعد ہم بھی وہاں سے واپس چلے آئے۔
انڈین سپریم کورٹ کی طرف سے ۱۹۹۵ءمیں ’ہندو توا‘ کو مذہب کے بجائے بھارتی کلچر کی علامت اور ایک نظریۂ زندگی قرار دینے کے پیچھے مولانا کی سوچ کارفرما تھی۔ ۱۹۹۰ءکے انتخابات میں مہاراشٹرا میں شیو سینا کے لیڈر بال ٹھاکرے [م:۲۰۱۲ء]، منوہرجوشی [پ:۱۹۳۷ء] اور کئی دیگر اراکین کی طر ف سے انتخابی جلسوں میں ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے مذہبی نعرے اور مذہبی شعار کے کھلم کھلا استعمال کرنے پر ’ری پرزنٹیشن آف دی پیپلز ایکٹ ۱۹۵۱ء‘ کے تحت ان کو ناا ہل قرار دیتے ہوئے، انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کی گئی، جس کو بمبئی ہائی کورٹ نے درست قرار دیا۔ لیکن جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچا ، جہاں جسٹس جے ایس ورما [م:۲۰۱۳ء] کی قیادت میں ایک بنچ نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو دمودر ساورکر [م:۱۹۶۶ء]، ایم ایس گولوالکر [م:۱۹۷۳ء]کی تصنیفات سے استدلال کرنے کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ’ہندو توا‘ کو نظریۂ زندگی قرار دے کر ہندو انتہا پسندی کو جواز فراہم کردیا۔
اس کیس کی سماعت کے دوران ہی معروف قانون دان اے جی نورانی صاحب کی دلیل تھی کہ ’’عدالت مولانا وحید الدین خان کی تحریروں کی غلط تشریح کر رہی ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مولانا اگرخود عدالت میں پیش ہو کر یا کسی تحریر کے ذریعے یہ موقف اختیار کریں، تو شاید کورٹ کو ساورکر یا ایم ایس گولوالکر کو ریفر کرنا پڑے گا‘‘۔ عدالت کا یہ فیصلہ بہت دُور رس اہمیت کا حامل تھا۔ اسی فیصلے نے انتخابی جلسوں میں ’جے شری رام‘ کے نعروں کوجواز بخش کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کیا۔ اگرچہ مولانا وحیدالدین خان صاحب کا نجی محفلوں میں یہ موقف تو تھا کہ ’’میری تحریروں کی غلط تشریح ہو رہی ہے‘‘، لیکن اپنی تحریروں کی درست تعبیروتشریح کے لیے کبھی کوئی عملی قدم انھوں نے کیوں نہیں اٹھایا؟ یہ معاملہ اُن کے دم واپسیں تک ایک راز ہی رہا۔ بقول نورانی صاحب اسی فیصلے کی وجہ سے بطور انعام جسٹس ورما کو دو سال بعد چیف جسٹس اور بعد میں قومی انسانی حقوق کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے مولانا وحیدالدین صاحب کو ۲۰۰۰ء میں تیسرا اعلیٰ سویلین ایوارڈ’پدما بھوشن‘ سے سرفراز کیا۔ جنوری ۲۰۲۱ء میں وزیراعظم نریندر مودی حکومت نے ان کو ’پدما و بھوشن‘ سے نوازا۔
ہندو فسطائی تنظیموں ، خاص طور پر آر ایس ایس کے ساتھ ان کے خاصے دوستانہ تعلقات تھے۔ اگرچہ ایسے سماجی تعلقات رکھنا کوئی غلط بات نہیں ہے، مگر مولانا اس دوستی میں بہت دُور نکل گئے تھے۔ تقریباً بیس برس قبل آر ایس ایس کے ایک چوٹی کے لیڈراور ویشوا ہندو پریشد کے جنرل سیکرٹری پروین بائی توگڑیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار میں نے پوچھا کہ ’’ مسلمان ، جو بھارت کے مکین ہیں، ان کے مستقبل کے بار ے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلمانوں سے ہم کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ ’’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ان کا کہنا تھاکہ ’’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں۔ مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ ’’یہ دیکھو، دوسرے مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘‘۔
گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں، ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے ایس سدرشن [م:۲۰۱۲ء] سے ملنے، ان کے صدر دفتر ناگ پور گیا، جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کو کم کرنے کے لیے اُن کے سامنے مسلمانوں کا نقطۂ نظر رکھنا تھا۔اس وفد کے ایک رکن کے بقول ’’جب ہم نے سدرشن صاحب سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ اور کیا رسہ کشی کے ماحول کا جواب، دوستانہ ماحول سے نہیں دیا جاسکتا ہے؟‘‘ تو اس کے جواب میں کے سدرشن صاحب نے مسلم وفد کو بتایا ’’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے ایک شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ لوگ (مسلمان) کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے۔ آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘‘۔ ’اسلام ہی حق ہے‘ کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جانا شروع ہوچکا ہے۔ مگر غور کرنے کا مقام ہے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے خود ایمان کی بنیادوں کا کیا حشر ہوگا! آر ایس ایس کی ایسی فکری یلغار کا جواب دینے کے لیے مولانا وحیدالدین خان صاحب نے کیا کبھی کوئی عملی قدم اُٹھایا؟ یہ بات اسلامیانِ ہند کے علم میں نہیں ہے۔
مولانا وحیدالدین، سہل اور سائنسی اندازِ تحریر اور امن و امان پر زور صرف کرنے کی وجہ سے بھارتی میڈیا کے بھی لاڈلے تھے۔ جب کبھی ادارتی صفحات کے ایڈیٹروں کو اسلام کے حوالے سے مضمون کی ضرورت ہوتی تو ان کی جانب سے حکم ملتا تھا کہ’’ مولانا وحیدالدین سے رابطہ کرکے ان سے مضمون لکھوایا جائے‘‘۔اگر کبھی مولانا کے بجائے میں ان کے فاضل صاحبزادے اور ملّی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب کا نام تجویز کرتا تو ادارتی صفحے کے انچارج پارسا وینکٹیشورا راوہ اور مونوبینا گپتا، انکار کرتے ہوئے مولانا ہی کے مضمون پر اصرار کرتے تھے۔
اپنی تعلیم ختم ہونے کے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھا، تو ایک دن خان صاحب سے درخواست کی کہ اردو اخبار قومی آواز میں رپورٹر کی جگہ خالی ہے، شاید آپ کی سفارش سے کام بن جائے، تو ان کا جواب تھا کہ ’’کبھی اردو اخبار کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’کسی انگریزی اخبار میں اگر چپراسی کی بھی نوکری کرنی پڑے تو اس کو فوقیت دینا‘‘۔ اسی طرح ایک بار علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر سیّد حامد [م: ۲۰۱۴ء] اور مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی [م:۱۹۹۹ء] نے ملک گیر سطح پر چندہ جمع کرکے مسلمانوںکے ایک قومی انگریزی اخبار کی اشاعت کا بیڑا اُٹھایا۔ یہ اخبار پہلے ہفتہ وار One Nation Chronicle اور بعد میں ماہ نامہ کی صورت میں Nation and The World کے نام سے منظر عام پر آکر غروب بھی ہو گیا۔ تاہم، اس کی تیاری کے دوران میں نے اس پرچے میں ملازمت کے لیے مولانا صاحب سے سفارش کی درخواست کی۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’یہ اخبار زیا دہ دیر چلنے والا نہیں ہے۔ بس انگریزی مین اسٹریم میڈیا کا دامن تھام کر جرنلزم کی سیڑھیاں طے کر لو‘‘۔ سوچتا ہوں کہ ان کا مشورہ نہایت ہی مناسب تھا۔
وہ مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ہوسکتے تھے اور شاید وہ کوئی بڑا رول بھی ادا کرسکتے تھے، مگر افسوس، اکثر معاملات میں وہ خاصے دُور چلے گئے تھے۔ جس میانہ روی کی و ہ تلقین کرتے تھے، وہ خود ان کے ہاں موجود نہیں تھی۔ کبھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے موقف کی آبیاری کے لیے بی جے پی کے آلۂ کار بنے ہوئے تھے اور اپنے دعووں کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کرتے تھے۔وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ دعا ہے کہ اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرکے، ان کی مغفرت فرمائے۔