کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی اور یہ دنیا فرق و امتیاز کی جگہ ہے اور جب انسان‘ عالمِ زیست کی حدوں سے گزر جاتا ہے توموت سب کو برابر کر دیتی ہے--- بے بسی کہ دوسروںکے کاندھوں پر انحصار‘ لباسِ افتخارسب رخصت اور دو سادہ کپڑوں میں امیروغریب سب کا آخری سفر‘ اور محلات اور جھونپڑے سب ختم‘ دو گز زمین اور منوں مٹی تلے بسیرا سب کا مقدر۔ بات سچی ہے لیکن ایک پہلو ایسا بھی ہے جس میں فرق و امتیاز باقی رہتا ہے اور اس کا بھرپور اظہار بھی ہوتاہے۔ اور وہ یہ کہ دوسرے اس موت کو کس طرح دیکھتے ہیں‘ اس غم کو کس طرح محسوس کرتے ہیں اور جنازے کے آئینے میں رخصت ہونے والے کی تصویر کیا نقش چھوڑتی ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی نے بڑی خوب صورت بات کہی تھی کہ کچھ جنازے استصواب کی حیثیت رکھتے ہیں کہ خلقِ خدا اپنے خدا کے سامنے جانے والے کے بارے میں کیا شہادت پیش کرتی ہے۔ کراچی نے جو منظر ۱۲دسمبر ۲۰۰۳ء کو مولانا شاہ احمد نورانی کی نمازِ جنازہ میں دیکھا‘ وہ ایک عوامی استصواب سے کم نہ تھا۔ شاید قائداعظمؒ اور مولانا شبیراحمدعثمانی ؒ کے جنازے کے بعد اتنا بڑا صلوٰۃِ جنازہ کا نظارہ کراچی کی زمین پر نہیں دیکھا گیا۔ اس میں جوان اور بوڑھے‘ عالم اور عامی‘ امیر اور غریب‘ خادم اور مخدوم اور سب سے بڑھ کر ہر مسلک اور ہر مذہبی اور سیاسی رجحان سے وابستہ افراد کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ مرحوم کی مقبولیت اور خلقِ خدا کی ان سے محبت اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت‘ ان کی خدمات کا اعتراف اور ان کے رتبے اور مقام کا اظہار تھا۔ سچ ہے ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میںگیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم متحدہ مجلسِ عمل کے صدر‘ جمعیت علما ے پاکستان کے قائد‘ ورلڈ اسلامک مشن کے سربراہ‘ ایک ممتاز عالمِ دین اور شہرہ آفاق مبلغ اور داعی تھے۔ سینیٹ آف پاکستان میں متحدہ حزب اختلاف کے قائد اور عملاً ایوان میں لیڈر آف دی اپوزیشن کا کردار ادا کررہے تھے۔ ۱۰ دسمبر کو سینیٹ کے اجلاس اور متحدہ حزبِ اختلاف کی پریس کانفرنس میں شرکت کی۔ ہنستے بولتے رخصت ہوئے کہ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء کو ۱۲ بجے دن ایک اور پریس کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔ کسے خبر تھی کہ اس وقت جب انھیں اس پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے سینیٹ آنا تھا فرشتۂ رحمت رفیقِ اعلیٰ سے ملاقات کا پروانہ لے کر آجائے گا اور ایک ابدی سفرکی طرف ان کو لے جائے گا۔ دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے وہ اپنے مالک سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
مجھے حضرت شاہ احمد نورانی ؒسے ملنے کا پہلا موقع غالباً۵۳-۱۹۵۲ء میں نصیب ہوا جب ان کے برادرِ نسبتی اور میرے محترم اور مشفق بزرگ (جو مجھے چھوٹے بھائی کا درجہ دیتے تھے) ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کی معیت میں ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ میرا طالب علمی کا دور تھا۔ وائس آف اسلام جمعیت الفلاح کا انگریزی مجلہ تھا اور ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اس کے مدیر تھے‘ کمالِ شفقت سے انھوں نے وجودِ باری تعالیٰ پر میرا مضمون مجلے میں شائع کیا تھا۔ اس مجلے کے ذریعے مجھے برادر محترم فضل الرحمن انصاری سے قرب حاصل کرنے کا موقع ملا۔ انھی کے توسط سے سنگاپور سے شائع ہونے والے مجلہ Al-Islam سے واقفیت ہوئی جو حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ کی سرپرستی میں نکلتا تھا اور شاید اس دور میں انگریزی میں دعوتِ اسلامی کا بہترین ترجمان تھا ۔ اسی مجلے سے عظیم مبلغ حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب کی تحریروں اور سرگرمیوں سے واقفیت ہوئی تھی اور ملنے کا شوق تھا۔ پس یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ مولانا عبدالعلیم صدیقی کا انتقال غالباً ۱۹۵۴ء میں ہوا اور پھر ان کے مشن کو ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اور مولانا شاہ احمد نورانی نے اپنے اپنے انداز میں جاری رکھا۔
انگلستان میں قیام کے دوران مولانا شاہ احمد نورانی کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں سے زیادہ گہری واقفیت ہوئی۔ وہ اسلامک فائونڈیشن‘ لسٹر تشریف لائے اور بڑی شفقت سے ہمارے کام کی تحسین فرمائی۔ اسلام آباد میں بھی انتقال سے چند ماہ قبل اصرار کر کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز تشریف لائے اور اپنی دعائوں سے نوازا۔ بیرون ملک بھی‘ خصوصیت سے لندن میں بارہا ملاقاتیں ہوئیں لیکن سچی بات ہے کہ زیادہ قریب سے ان کو دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملی یکجہتی کونسل کے قیام کے بعد حاصل ہوا‘ اور پھر گذشتہ پورا سال تو اس طرح گزرا کہ سینیٹ اور متحدہ مجلسِ عمل کے کاموں کے سلسلے میں دن رات ان کے ساتھ رہنے اور مل کر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کی شفقت‘ محبت‘معاملہ فہمی‘ نرم گفتاری کے نقوش دل پر مرتسم ہیں اور یہ کہنے میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ ہر روز ان سے تعلق کو گہرا کرنے کا باعث ہوا۔ ان کے رخصت ہونے سے نہ صرف قومی زندگی بلکہ ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی ایک خلا واقع ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے جاری کردہ اچھے کاموں میں مزید برکت اور افزونی پیدا کر دے۔ آمین!
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ۱۷ رمضان المبارک ۱۳۴۶ھ (اپریل ۱۹۲۶ئ) میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کیا اور ۱۰ سال کی عمر سے تراویح میں باقاعدگی سے قرآنِ پاک سناتے رہے حتیٰ کہ آخری بار اِسی سال ختمِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ بقول مولانا نورانی اس پورے عرصے میں صرف دو سال بیماری کے باعث ختمِ قرآن نہ کرسکے۔ گویا ۶۵ سال قرآن سنایا… سبحان اللہ! جزاھم اللّٰہ خیر الجزائ۔ تعلیم عربک کالج میرٹھ اور الٰہ آباد یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ ۱۹۴۸ء سے والد مرحوم کے ساتھ تبلیغی سرگرمیوں میں شرکت کی اور غیرمسلموں تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے کے ساتھ ساتھ عیسائی پادریوں اور قادیانی مبلغوں سے مناظروں کا اہتمام بھی کیا اور کئی ہزار افراد کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی سعادت حاصل کی۔
۱۹۷۰ء میں سیاست میں قدم رکھا اور کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۷۶-۱۹۷۲ء والی اسمبلی میں ۱۹۷۳ء کے دستور کی تدوین اور ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے والی متفقہ قرارداد کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفیؐ میں ان کا مقام صفِ اول میں تھا۔ اس جدوجہد میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ۱۹۷۷ء میں سینیٹ میں منتخب ہوئے اور پھر دوبارہ ۲۰۰۳ء میں ایم ایم اے کے سربراہ کی حیثیت سے سینیٹ میں منتخب ہوئے۔ ۵۰سے زائد ملکوں کا دورہ کیا۔
مولانا شاہ احمد نورانی ایک جید عالم‘ ایک بالغ نظر مبلغ‘ ایک باکردار سیاسی قائد اور مدبر اور اسلامی اتحاد اور ملّی وحدت کے نقیب اور اس کی علامت تھے۔ جس حکمت‘ شفقت اور حسن تدبیر سے انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور انصاف اور اعتدال کے ساتھ ان کی قیادت فرمائی وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے جو آنے والوں کے لیے بھی ایک تابناک مثال رہے گا ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
آباد صاحب بیمار تو ایک عرصے سے تھے اور اسی سال فروری میں ان کی اہلیہ کے انتقال نے ان کی صحت اور ہمت دونوں ہی کو متاثر کیا تھا لیکن سارے مصائب کے باوجود وہ مرد درویش اس مقصد کی خدمت کے لیے بے چین تھا جس کے عشق نے اس کی جوانی اور بڑھاپے کے شب و روز اپنا لیے تھے۔ تحریک اسلامی کا یہ بوڑھا سپاہی جماعت اسلامی کی تاریخ اور مولانا مودودی کی سوانح لکھنے کے لیے بے چین تھا اور اپنا یہ کام اُدھورا چھوڑ کر ۲۹ ستمبر ۲۰۰۳ء کو رفیقِ اعلیٰ سے جاملا۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
آباد شاہ پوری صاحب سے میرا پہلا تعارف اس زمانے میں ہوا جب وہ اُردوڈائجسٹ سے وابستہ تھے (۱۹۶۴ئ-۱۹۸۰ئ)۔ اس سے پہلے وہ کوثراور تسنیم سے بھی وابستہ رہے لیکن اس دور میں میرا ان سے کوئی ربط نہ تھا۔ اُردو ڈائجسٹ میں ان کے مضامین نے چونکا دیا--- خصوصیت سے تاریخ‘ سیرت اور شخصیت نگاری کے میدان میں ان کی تحریریں بڑی دل نشیں‘ ایمان افروز اور آرزو کو بیدار کرنے والی تھیں۔ ان کی کتابوں میں مجھے سب سے زیادہ عزیز سید بادشاہ کا قافلہ ، پہاڑی کے چراغ اور اسلامی زندگی کی کہکشاں تھیں۔ تحریکی ادب میں آباد شاہ پوری کی یہ اہم خدمت ہے کہ انھوں نے دماغ کے ساتھ دل کی غذا کا بندوبست کیا اور نوجوانوں کو ولولۂ تازہ دینے کا کام انجام دیا۔
آباد شاہ پوری مرحوم کا اصل نام محمد خورشید الزماں تھا اور وہ تحصیل و ضلع خوشاب میں ۴جون ۱۹۲۳ء کو پیدا ہوئے۔ پہلے منشی فاضل‘ پھر پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو کی سند حاصل کی۔ اُردو‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی پر عبور تھا اور صحافت‘ شعروادب‘ تاریخ و سوانح اور تحقیق و تصنیف کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ عالمِ اسلام کے مسائل اور مسلمانوں کے حالات سے خصوصی دل چسپی تھی اور ان کی تحریر کے جس پہلو نے مجھے متاثر کیا‘ وہ تاریخی شعور کی روشنی‘ ادب کی چاشنی اور سب سے بڑھ کر امید اور جذبۂ کار کو بیدار کرنے والا ولولہ تھا۔ اس میں زندگی ہی زندگی اور جدوجہد ہی جدوجہد کا سماں نظر آتا تھا۔ آباد شاہ پوری زبان کی صحت کا بڑا خیال رکھتے تھے اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ ان کی زبان اُردوے معلی کا بہترین نمونہ تھی۔ الحمدللہ وہ کسی لسانی تعصب میں مبتلا نہیں تھے لیکن میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ وہ پنجاب کے اُردو کے ان خادموں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی تحریر پر مقامی محاورے کا کوئی سایہ نہیں پڑنے دیا اور ان کی نگارشات کے مطالعے سے یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ صاحب ِ نگارش کا تعلق کس خطے سے ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے پطرس کا ایک قول بطور جملۂ معترضہ کے لکھ دوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اہل زبان میں بحث ہو رہی تھی کہ ’’مجھے پشاور جانا ہے‘‘ اور ’’میں نے پشاور جانا ہے‘‘ دونوںمیں سے صحیح یا یوں کہہ لیجیے کہ فصیح کیا ہے تو پطرس نے کہا: فصیح تو ’’مجھے پشاور جانا ہے‘‘ ہی ہے مگر ’’میں نے پشاور جانا ہے‘‘ لکھنے والے کے بارے میں یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ آکہاں سے رہا ہے۔
مجھے آباد صاحب سے ۱۹۸۰ء کے بعد بہت قریب سے معاملہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ ایک عرصہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے وابستہ رہے اور اس کے بعد بھی اگرچہ ادارہ معارف اسلامی لاہور سے وابستہ تھے مگر واسطہ انسٹی ٹیوٹ ہی تھا۔ میں نے ان کو ایک بلند پایہ محقق‘ ایک بے لاگ نقاد‘ ایک روشن خیال ادیب‘ ایک مخلص ساتھی اور سب سے بڑھ کر ایک اچھا انسان پایا۔ دنیاطلبی کی کوئی جھلک ان کی زندگی میں نہ تھی اور آخری ایام میں جب وہ کام کرنے سے اپنے کو معذور پا رہے تھے تو یہ کہہ کر اعزازیہ لینے سے انکار کر دیا کہ میں کام نہیں کر پا رہا ہوں ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
آباد صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ۲۰ سال جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی سوانح حیات لکھنے کے لیے وقف کر دیے تھے۔ انھوں نے تحقیق کا حق ادا کیا اور لاکھوں صفحات کھنگال کر نوٹس تیار کیے۔ جماعت کی تاریخ کی وہ صرف دو جلدیں مرتب کرسکے۔ افسوس کہ پوری تیاری کے باوجود مولانا کی سوانح وہ ضبط ِ تحریر میں نہ لا سکے اور اپنی ساری تخلیق کا حاصل اپنے ساتھ ہی لے گئے جو اہلِ علم کے لیے بڑی محرومی ہے۔ اگر انھیں مولانا کی سوانح لکھنے کی مہلت مل جاتی تو یہ تحریکی ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہوتا۔ لیکن امرربی کے آگے کسی کو کیا مجال!
آباد صاحب شاعر بھی تھے لیکن میں اس راز سے ان کے انتقال کے بعد ہی واقف ہوسکا۔ ان کی جو چند نظمیں اب دیکھی ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اس میدان میں آگے بڑھتے تو خاصے کی چیزیں پیش کر سکتے تھے۔
آباد شاہ پوری ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جس چیز کو مقصدِ زندگی کے طور پر اختیار کیا‘ اس کے لیے پوری زندگی وقف کر دی اور آخری لمحے تک وفاداری کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی بہت سادہ‘ ان کی مصروفیات بہت متعین اور محدود‘ ان کے تعلقات وسیع مگر ان کے معمولات وقت گزاری اور یارباشی سے پاک۔ خاندانی اور تحریکی معاملات میں‘ مَیں نے ان کو بہت معاملہ فہم پایا اور انسانی تعلقات کے باب میں تو وہ اس پہلو سے منفرد تھے کہ اپنے اور پرائے ان سے مشورہ کرتے اور تنازعات میں ان کو ثالث بناتے اور وہ ہمیشہ حق و انصاف اور ہمدردی کے ساتھ معاملات کو نمٹاتے۔ کم گو تو وہ شاید ہمیشہ ہی سے تھے لیکن آخری عمر میں کچھ زیادہ ہی اپنے کاموں میں مگن ہوگئے تھے لیکن انسانی تعلقات اور حقوق کی ادایگی سے کبھی غافل نہ رہے۔ یہ وہ روایت ہے جو اب اٹھتی جا رہی ہے حالانکہ آج کے انسان کو اس کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ آباد صاحب برعظیم کی جس علمی‘ صحافتی اور ادبی روایت کا نمونہ تھے‘ وہ اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے ایک خلا محسوس کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کوقبول فرمائے اور انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین!
؎ جو بادہ کش تھے پرانے‘ وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقاے دوام لے ساقی
بلقان کی سرزمین پر اسلام کا علَم بلند کرنے اور بوسنیا ہرذی گووینا کی آزادی برقرار رکھنے میں مجاہدانہ کردار ادا کرنے والے علی عزت بیگووچ ۱۹ اکتوبر۲۰۰۳ء کو اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! اُن کی وفات سے بوسنیا ایک اعلیٰ پائے کے دانش ور‘ تجربہ کار قانون دان اور اصولوں کی جنگ لڑنے والے سیاست دان سے محروم ہو گیا ہے۔ مسلم دنیا عمومی طور پر اور اسلامی تحریکات خصوصی طور پر اُن کی جدائی پر ملول ہیں اور ربِ کریم کے حضور اُن کی سرخروئی کے لیے دُعاگو بھی۔
علی عزت بیگووچ ۸ اگست ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے۔ اِن کے اجداد بلغراد شہر کے رہنے والے تھے۔ علی کی پیدایش سراجیوو کے نواح میں ہوئی۔ جب ان کی عمر دو سال تھی تو اِن کا خاندان مستقلاً سراجیوو شہر میں مقیم ہوگیا۔ علی کے دادا فوجی تھے اور ان کی دادی ترکی سے تعلق رکھتی تھیں۔ علی کے والد ایک چھوٹی کمپنی میں ملازم تھے۔ علی پر اپنی والدہ کے بے انتہا اثرات تھے جوایک دین دار خاتون تھیں۔ انھوں نے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گراد کاک شہر کا رُخ کیا تاکہ فوج کی جبری بھرتی سے بچ سکیں۔
اُس زمانے میں یوگوسلاویہ پر کمیونسٹ حکمران تھے۔ مذہب سے برگشتہ کرنے والا لٹریچر اسکول میں لازماً پڑھایا جاتا تھا لیکن ماں کی تربیت کے سبب خدا مخالف‘ مذہب دشمن خیالات ان کے لیے اجنبی ہی رہے۔ ان کو مطالعے کا شوق تھا اور گریجوایشن سے پہلے وہ برگسان‘ کانٹ اور سپینگلر کی تحریروں کا مطالعہ کر چکے تھے۔ ۱۹۴۳ء میں گریجوایشن کا امتحان پاس کیا۔ وہ قانون کو پیشے کے طور پر اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن کاتب تقدیر نے اُن کے لیے قوم کی قیادت لکھ دی تھی۔ اُنھوں نے فوج میں بادلِ ناخواستہ شمولیت اختیار کی اور پھر اس کو خیرباد بھی کہہ دیا۔ قرآن‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخِ اسلام‘فکرِاقبال اور عیسائیت کا گہرا مطالعہ انھوں نے اپنے شوق سے کیا۔ پھر ان کا تعلق یوگوسلاویہ کے نوجوانوں کی تنظیم ’’ینگ مسلمز‘‘ کے ساتھ ہوگیا۔ زغرب‘ بلغراد اور سراجیوو یونی ورسٹی کے طلبہ اس کے رُوحِ رواں تھے۔ ۲۲برس کی عمر میں اُنھوں نے رسالہ مجاھدکی ادارت سنبھالی۔کمیونسٹوںنے یکے بعد دیگرے نمایاں طلبہ کو گرفتار کرلیا اور کئی نوجوانوں کو تختۂ دار تک پہنچا دیا۔ علی کو مختلف الزامات کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ قید کے دوران علی لکڑیاں کاٹتے رہے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ اس قید نے تخلیقی ذہن کے مالک اور شعروادب سے دل چسپی رکھنے والے علی کو جفاکش بنا دیا اور بعد میں وہ بڑی سے بڑی آزمایش کو مسکرا کر جھیلتے رہے۔ مذکورہ تنظیم باضابطہ طور پر رجسٹر نہ ہو سکی لیکن اس کی سرگرمیاں طویل عرصہ جاری و ساری رہیں۔
کمیونسٹوں کے ہاتھوںنوجوان طلبہ کی گرفتاریوں اور سزائوں کا دُوسرا دور ۱۹۴۹ء میں شروع ہوا۔ علی کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھیوں کو جس قدر سزائیں سنائی گئیں‘ اگر اُنھیں یک جا کردیا جائے تو کئی ہزار سال بن جاتے ہیں۔ علی نے قانون کی اعلیٰ ڈگری ۱۹۵۶ء میں حاصل کی۔ ۱۰برس تک وہ ایک تعمیراتی کمپنی سے بھی منسلک رہے اور اخبارات میں ان کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے۔
علی کے مُدلل مضامین مختلف جرائد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ وہ ’اسلامی ڈیکلریشن ‘کے نام سے یکجا کر دیے گئے اور کتابی صورت میں شائع ہوئے لیکن اِن کی اشاعت کے ۲۰ برس بعد حکومت ِ یوگوسلاویہ نے اِن مضامین کی بنا پر علی عزت اور ان کے ۱۳ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ اِن مضامین میں کہا گیا تھا کہ اپنے دین کی طرف پلٹنے اور رجوع کرنے سے مسلمان سُرخرو ہو سکتے ہیں۔ بغاوت کے زیرعنوان ۱۰۰ روز تک جاری رہنے والے اس مقدمے نے ’مقدمہ سرائیوو‘ کے نام سے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ علی کے خیالات کو بنیاد پرستی کی دعوت قرار دیا گیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۸۳ء کو ۱۹ سال کا ریکارڈ مرتب کرکے عدالت میں پیش کیا گیا کہ علی عزت اور بہمن عمرکتابوں کے ذریعے زیرزمین سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور موجودہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ علی کو ۱۴ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
علی عزت بوسنیا کے مسلم عوام کی حالت ِ زار پر پہلے بھی فکرمند رہتے تھے۔ قیدخانے میں پہنچ کر اُنھیں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا اندازہ بھی ہوگیا۔ جیل کے اندر ہی اُنھوں نے سیاسی جدوجہد کا تفصیلی خاکہ مرتب کرلیا۔ اس سے ۲۰‘۲۵ برس قبل علی عزت نے اسلام‘ عیسائیت‘دورِ جدید اور آیندہ لائحہ عمل کے زیرِعنوان چند مضامین لکھے تھے۔ دوسری بار قید ہونے کے بعد اُنھیں موقع مل گیا کہ اِن مضامین کو ازسرنو تحریر کریں۔ یہ مضامین کتابی شکل میں امریکہ سے Islam between East & West کے نام سے شائع ہوئے۔ امریکہ میں اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی شائع ہوئے جس سے علی عزت کی شہرت سمندرپار پہنچ گئی۔ مذکورہ کتاب کا اُردو ترجمہ ادارہ معارفِ اسلامی لاہور اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کش مکش کے نام سے شائع کرچکا ہے۔
چھ برس بعد علی عزت کو قید سے رہائی ملی۔ اُس وقت رُوس کے زوال کے بعدیوگوسلاویہ کی کمیونسٹ پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہو رہی تھی۔ علی عزت نے اپنے ۴۰دوستوں کے ہمراہ پارٹی فار ڈیموکریٹک ایکشن (SDA) قائم کی۔۲۷ مارچ ۱۹۹۰ء کو اس کا منشور منظرِعام پر آیا‘ انسانی و جمہوری اقدار کی بالادستی کی جدوجہد اس کا مطمح نظر ٹھیرا۔ اسی سال قومی انتخابات ہوئے تو بھرپور مہم چلائی گئی’’اپنی سرزمین اپنا نظریہ‘‘ اِن کا نعرہ تھا۔ اُس وقت یوگوسلاویہ کے صوبہ بوسنیا ہرذی گووینا میں رجسٹرڈ مسلمانوں کی تعداد ۲۲ لاکھ ۸۹ ہزار تھی۔ اسمبلی کی ۲۴۰ نشستوں میں سے ۸۶ پر علی عزت کے ساتھی کامیاب ہوئے اور یہ پارٹی قوت بن کر اُبھری۔
روس کے بعد یوگوسلاویہ میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہوا تو مقدونیہ‘ مانٹی نیگرو‘ کروشیا اور سلووینیا نے اسمبلی میں قراردادیں پاس کر کے آزادی کا اعلان کر دیا اور ان کے اعلانِ آزادی کا خیرمقدم کیا گیا۔ ان حالات میں بوسنیا کی اسمبلی نے بھی آزادی کی قرارداد پاس کرلی۔ ۲۲ مئی ۱۹۹۲ء کو یورپین یونین نے بوسنیا کی آزادی کو تسلیم کر کے ممبرشپ دے دی۔ بوسنیا کے لیے جو جھنڈا منتخب کیا گیا وہ ہسپانیہ کے مسلمانوں کا تھا جو وہ اپنے دورِ عروج میں استعمال کرتے رہے تھے۔ لیکن بوسنیا کی آزادی نے بلقان کے علاقے میں آگ اور خون کے ایک شرمناک سلسلے کا آغاز کر دیا۔ آرتھوڈوکس سربوں اور کروٹوں نے بوسنیا کے اعلان کو تسلیم نہ کیا۔ ۱۹۹۵ء تک بوسنیا دنیا کے اخبارات کی نمایاں ترین سرخیوں کا عنوان بنا رہا۔ ۲۲ لاکھ آبادی میں سے ۲ لاکھ مسلمان (جو ۵۱ ہزار مربع میل رقبے پر پھیلے ہوئے تھے) شہید کر دیے گئے۔ مسلمانوں کو تعذیب خانوں (Concentration Camps)میں رکھا گیا‘اُن کی عورتوں کی جبری اجتماعی آبروریزی جنگی تدبیر (war tactic)کے طور پر کی جاتی رہی‘ مسلمانوںکے دلوں میں خوف بٹھانے کے لیے حلقوم پھاڑ کر تڑپانے اور ہلاک کرنے (throat slitting)کا طریقہ متعارف کرایا گیا۔ یوگوسلاویہ کے جانشین سربیا کے صدر سلوبودان میلاسووچ اور رادوان کرادزچ نے ساری دنیا اور اس کے عالمی اداروں کو پسِ پُشت ڈال کر مسلمانوں کے شہر تباہ کر دیے‘ مسجدیں شہیدکر دیں‘ کوچہ و بازار خاک کر دیے۔ عالمی اداروں‘ مثلاً اقوامِ متحدہ کی امن فوج‘ یورپین یونین کمیشن اور دیگر فلاحی و رفاہی تنظیموں کو زچ کرکے رکھ دیا۔ مذاکرات کی میز پر بھی نئے نئے دائوپیچ آزمائے گئے‘ تبادلۂ آبادی‘ محفوظ مقامات (Safe Havens)‘ وسیع تر آزادی‘ وفاقی حکومت‘ چھ صوبے اور کتنی ہی تدابیر کے ذریعے بوسنیا کو آزادی سے دستبردار کرنے کی کوشش کی گئی۔ سراجیوو کا کئی سال محاصرہ رہا۔ موستار‘ بنجالوکا‘ اور دیگر شہروں اور چھوٹے بڑے قصبوں پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ حقیقی معنوں میں بلڈوزر پھیر دیے گئے۔ شمالی اوقیانوس معاہدہ عظیم (NATO) اور کئی مؤثرادارے اس نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے رہے کیونکہ خون یورپین کا نہیں یورپین مسلمان کا بہہ رہا تھا۔
پانچ برسوں میں نجانے کتنے مواقع آئے کہ جب یہ حکومت ختم ہو جاتی اور بوسنیا‘ سربیا کی گودمیں چلا جاتا لیکن ایک شخص تھا جس نے ہمت نہ ہاری اور وہ شخص بوسنیا کا صدر علی عزت بیگووچ تھا‘ جو ڈٹا رہا‘ سفارتی جنگ بھی لڑی‘ دیگر ممالک سے امداد و تعاون کے لیے درخواستیں بھی کرتا رہا‘ عالمی اداروں کے دروازے بھی کھٹکھٹاتا رہا‘ امن اور انصاف کی دُہائیاں دیتا رہا‘ اپنے عوام کے لاشوں کو دفناتا بھی رہا‘ بچ رہنے والوں کو پُرسہ دیتا رہا‘ فوج کی تنظیمِ نو کرتا رہا اور بالآخربوسنیا کو اس صدی کے المناک طوفانِ حوادث سے نکال کر آزادی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ بوسنیا کے عوام پر کیا گزری‘ کون کون سے معاہدے ہوتے رہے‘ کہاں کہاں کانفرنسیں ہوتی رہیں‘ عالمی چودھریوں اور شاطروں کا کیا کردار رہا‘ اس کی تفصیلات محمد الیاس انصاری نے اپنی کتابوں مقدمۂ بوسنیا اور سانحۂ بوسنیا میں فراہم کر دی ہیں۔
بوسنیا کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے علی عزت بیگووچ ایران‘ ترکی‘ اٹلی‘ فرانس‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ امریکہ اور ہر اُس جگہ گئے کہ جہاں انصاف مل سکتا تھا یا داد رسی ہو سکتی تھی۔ اپنی خودنوشت سوانح عمری Inescapable Questions میںانھوں نے اس دور کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ امیرجماعت ِ اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد جنگِ بلقان کے دوران ان سے جاکر دو بار ملے اور اُمت ِ مسلمہ کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ مذکورہ کتاب میں جو اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے شائع کی ہے‘ علی عزت نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ دُنیا بھر کے مسلمانوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کی اخلاقی پشت پناہی کی۔ جو ممالک سرکاری طور پر اُن کے لیے آواز بلند کرتے رہے اُن کی تفصیلات بھی درج ہیں۔
علی عزت بیگووچ نے ۱۴ دسمبر ۱۹۹۵ء کو Dayton کے مقام پر ہونے والے معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے بعد بلقان میں جنگ کا خاتمہ ہو گیا اور موجودہ بوسنیا وفاق وجود میں آیا۔ اس میں ایک صوبہ بوسنیائی سربوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ دوسرے صوبے میں مسلمانوں اور کروٹوں کی فیڈریشن ہے۔ اُن پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اصل مطلوب رقبے سے کم پر رضامندی کا اظہار کررہے ہیں لیکن اُن کے حالات ایسے ہی تھے جن کا قائداعظم محمدعلی جناح کو قیامِ پاکستان کے موقع پر سامنا تھا۔ بوسنیا کے مسلمانوں نے جو لازوال قربانیاں دی ہیں اُس کا اندازہ برعظیم سے ہجرت کرکے آنے اور خاندان کٹوانے والے بہتر سمجھ سکتے ہیں ۔ ۱۹۹۶ء میں بوسنیا کی صدارت کے لیے تین ممبران پر مبنی صدارتی کونسل میں علی عزت بھی شامل تھے۔ بعدازاں سال ۲۰۰۰ء میں اُنھوں نے مسلسل خرابیِصحت کی بنا پر استعفا دے دیا۔بوسنیا کے لوگ اُنھیں محبت کے ساتھ ’’باباجان‘‘ کہتے ہیں۔
علی عزت بیگووچ پر الزام تھا کہ وہ انتظامی مشینری پر قابو نہیں پا سکے ہیں اور ملک میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے بحالی کے لیے ملنے والی بڑی بڑی رقوم سرکاری مشینری اور افسرہضم کر رہے ہیں۔ اُن کے مخالفین یہ بھی کہتے تھے کہ وہ اپنے بیٹے بقربیگووچ کو بوسنیا کا صدر بنانا چاہتے ہیں۔ علی عزت نے ان الزامات کی تردید کی اور اُمید ظاہر کی کہ بوسنیا کو جو اندرونی مسائل درپیش ہیں اُن میں جلد کمی آجائے گی۔
بوسنیا کی آزادی کی جنگ کے دوران علی عزت کو کئی سربراہانِ مملکت سے بار بار ملنے اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا موقع ملا۔ انھیں امریکہ و یورپ کی یونی ورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ اسلام کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد علی عزت بیگووچ ہم سے رخصت ہوچکے ہیں اُن کی وفات کے بعد اُن کی پارٹی کے تین دھڑوں میں تقسیم ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں ‘تاہم آج بھی دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے وہ ہمت وجرأت کا مینارئہ نور ہیں ع
خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را
علی عزت بیگووچ ایک جملہ بار بار کہا کرتے تھے اوروہ ہمارے لیے بھی غوروفکر کی راہیں وا کرتا ہے کہ ’جب زندگی کا کوئی متعین مقصد نہ رہے تو زندہ رہنا بے معنی ہو جاتا ہے‘۔
جنوب مشرقی ایشیا کی نامور مسلم شخصیت الاستاذ سلامات ہاشم ۱۳ جولائی ۲۰۰۳ء کو انتقال فرما گئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! اُن کی وفات نہ صرف بنگسامورو مجاہدین اور مورو قومی محاذِ آزادی کے لیے ایک جانکاہ صدمہ ہے بلکہ عالمی اسلامی تحریکات بھی ایک عظیم قائد سے محروم ہوگئیں۔ مورو مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں الاستاذ سلاماتؒ نے جو تابناک تاریخ رقم کی ہے اُس کا ہمیشہ روشن حروف میں تذکرہ ہوتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے خصوصی انعام و اکرام سے نوازے۔ آمین!
سلامات ہاشم مرحوم ۷ جولائی ۱۹۴۲ء کو پگالونگان‘ مگندانو میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق ایک دینی خانوادے سے تھا‘ تاہم ابتدائی تعلیم و تربیت میںاُن کی والدہ نے اہم کردار ادا کیا۔ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد اُنھوں نے سیکنڈری اسکول میں تعلیم حاصل کی اور امتیازی نمبروں کے ساتھ سند حاصل کی‘ اس کے فوراً بعد ۱۹۵۸ء میں حج کی ادایگی کے لیے گئے تو مکّہ میں شیخ زواوی کی زیرِنگرانی تعلیمی مدارج طے کیے۔ مسجدالحرام میں قائم تدریسی حلقوں سے استفادہ کیا اور مدرسۃ الصولتیہ الدینیہ میں باضابطہ زیرِتعلیم رہے۔ دینی اُٹھان کی خشتِ اول والدہ کی تربیت تھی لیکن اقامت ِ دین کی جدوجہد کا عزم کعبۃ اللہ الحرام کے سائے تلے پختگی اختیار کرتا رہا۔
ایک برس بعد وہ قاہرہ پہنچ گئے جو اُس زمانے میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا سرگرم مرکز تھا۔ اُنھوں نے جامعۃ الازہر میں داخلہ لیا اور معھد البحوث الاسلامیہ سے ۱۹۶۳ء میں سندِفراغت حاصل کی۔ بعدازاں دینیات کالج سے عقیدہ اور فلسفہ کے مضامین کے ساتھ ۱۹۶۷ء میں گریجوایشن کیا اور ۱۹۶۹ء میں ایم اے پاس کیا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لیے اُن کا باضابطہ طالب علم کے طور پر اندراج ہو گیا۔ ابھی تحقیقی مقالے کی تسوید کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ اُنھیں وطن واپس لوٹنا پڑا۔ دورانِ قیامِ قاہرہ اُنھوں نے طلبہ کی دینی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کی اور جب وہ وطن واپس لوٹ رہے تھے اُس وقت اُن کی حیثیت ایک پُرجوش مقرر اور ہردل عزیز قائد ِطلبہ کی تھی۔ قاہرہ میں انھوں نے مختلف خطوں اور علاقوں سے آئے ہوئے مسلمانوں کی تہذیبی شناخت اور قومی خصائص سے براہِ راست شناسائی حاصل کی۔ اُمت کے مسائل سے آشنائی نے اُنھیں مسلم عالم دین سے انقلاب پسند قائد میں تبدیل کر دیا۔ جامعۃ الازہر میں وہ فلپائن مسلم طلبہ انجمن کے صدر اور ایشیائی طلبہ کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔
سلامات ہاشمؒ نے فلپائن کے مقبوضہ جزائر کے مسلم طلبہ کے‘ جو عرفِ عام میں بنگسا مورو کہلاتے ہیں‘ قاہرہ میں اجتماعات منعقد کیے اور وطن کی آزادی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔ ان کے اجلاسوں میں شریک ہونے والوں کے لیے ضروری تھا کہ اپنے جیب خرچ کا نصف حصہ آزادی وطن کی جدوجہد کے لیے وقف کریں۔ اُنھوں نے پاکستان‘ سعودی عرب‘ لیبیا اور کئی دیگر ممالک کے دورے بھی کیے۔
انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور تھائی لینڈ سے ملحقہ فلپائن کے جزائر کی مسلم آبادی عرصۂ دراز سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد ۶۰ لاکھ سے زیادہ ہے۔ سقوطِ غرناطہ کے ۲۹ سال بعد ۱۵۲۱ء میں ہسپانیہ نے ان جزائر کو اپنی کالونی بنالیا اور یہاں کے مسلمان ہسپانوی اقتدار کے خلاف ۳۷۷ برس جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے بعد ۴۰برس تک امریکی استعمار سے برسرِپیکار رہے۔فلپائن کی آزادی کے بعد یہ مسلم جزائر منیلا حکومت کے زیرِانتداب آگئے۔ ظالم فلپائنی حکومتوں نے تحریک آزادی کو دبانے کے لیے ہرممکن فوجی کارروائیاں کی ہیں اور ارویو کی موجودہ حکومت بھی تشدد سے تحریک کو کچلنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ بنگسامورو مسلمانوں پر جو قیامتیں ٹوٹتی رہی ہیں‘ افسوس اُمت مسلمہ اس سے بہت زیادہ آگاہ نہیں ہے!
مورو اسلامی محاذِ آزادی کی بنیاد سلامات ہاشمؒ نے ۱۹۶۲ء میں رکھی‘ نورمحمد میسواری کی مورو قومی محاذِ آزادی (MNLF) کی طرح یہ خِطّۂ وطن کی آزادی کی قوم پرستانہ تحریک نہیں ہے بلکہ اسلامی مملکت کے قیام کی ایک مبارک جدوجہد ہے اور اس کے وابستگان اسلامی حقوق و فرائض پر عمل کرتے ہیں۔ محاذِ آزادی‘ شریعت اسلامیہ کے حکمِ جہاد کی عملی تعبیر کا نام ہے۔ اگرچہ نورمحمد میسواری نے منیلا حکومت کے زیرِانتظام جزوی خودمختاری کے معاہدے پر دستخط کر کے ۱۴صوبوں پر حکومت بنا لی ہے ‘ تاہم سلامات ہاشم نے تمام جزائر کی مکمل آزادی تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا اور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک ظالم و غاصب فلپینی حکمرانوںکے خلاف عملی جدوجہد میں مصروف رہے۔
سلامات ہاشمؒ کی زیرِقیادت بنگسامورو عوام انھیں امیرالمجاہدین کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی اصلاح اور تربیت کے لیے ۲۰ سالہ پروگرام (۱۹۸۰ئ-۲۰۰۰ئ) ترتیب دیا گیا۔ اس منصوبے میں طے کیا گیا کہ آیندہ عرصے میں بنگسامورو عوام کی عمومی زندگی میں اسلامی طرزِ زندگی کو رواج دیا جائے گا۔ عسکری طور پر عوام الناس کو فوجی تربیت اور اسلحے کے استعمال کے بنیادی اصول سکھائے جائیں گے۔ انتظامی‘ تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں کو مضبوط تر بنایا جائے گا۔ مذکورہ مدت کے بعد ۵۰ سالہ منصوبہ عمل تیار کیا گیا جس کے اہم نکات میں انصاف کا قیام‘ مکمل آزادی‘ غربت‘ جہالت اور ناخواندگی سے نجات‘ باعزت حصولِ روزگار‘ مساوی حقوق کی فراہمی‘ اور بدعنوانی کا خاتمہ شامل ہے۔ ۲۹ ہزار تربیت یافتہ مجاہد اور مراوی‘ منڈانائو‘ سولوجزائر کی ۸۵ فی صد آبادی‘ آزادی کی جدوجہد میں سلامات ہاشم کے دیے ہوئے نقشے پر عمل پیرا ہے۔ سلامات نے جونسل تیار کی ہے وہ آخرکار اپنی منزل تک پہنچ کر رہے گی۔
بنگسامورو عوامی مشاورتی اسمبلی کے چیئرمین سید ایم لینگا نے مرحوم کے بارے میں لکھا ہے: ’’الاستاذسلامات ہاشم‘ بنگسامورو قوم کے امام اور امیرالمجاہدین تھے۔ اُن کی وفات سے ہم ایک قائد‘ ایک دوست بلکہ مورو تاریخ کے سب سے بڑے محسن سے محروم ہوگئے ہیں۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے بے انتہا محبت تھی۔ آپ ایک عام کسان کی سی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن کے نزدیک سب سے اہم چیز تقویٰ تھی۔ عالمی اسلامی تحریکات سے اُنھیں غایت درجہ محبت تھی‘‘۔
الاستاذ سلامات ہاشمؒ کو علم سے محبت تھی اور گھنے جنگل میں قائم ابوبکر کیمپ میں بھی اُنھوں نے وسیع لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ اُن کی ذات میں عالمِ دین کی شان بھی تھی اور پُرعزم قائد کی سوچ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اُن کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور اپنے آپ کو جہاد کے لیے پیش کرتے تھے۔ راقم کو الاستاذ سے ملاقات کا شرف ۱۹۸۵ء میں حاصل ہوا جب مولانا خلیل احمد الحامدی مرحوم و مغفور نے سید مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے ایک سال کے موقع پر ۱۰ روزہ تقریبات کا انعقاد کیا اور الاستاذ کو مدعو کیا۔ اس موقع پر ایک نشست میں سلامات ہاشمؒ نے مورو جدوجہد پر شرح و بسط سے عربی زبان میں روشنی ڈالی۔
وہ انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آزادی سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور اُنھوں نے اپنی زندگی جنگلوں‘ پہاڑوں اور دلدلوں میں اپنے مجاہدین کے ساتھ گزاری۔ مجاہدین اُن سے محبت کرتے تھے کیونکہ وہ اُن کے درمیان گھومتے پھرتے تھے‘ اُن کی تربیت کرتے تھے اور اُن جیسی مصائب بھری زندگی اُنھوں نے اختیار کیے رکھی تھی۔ مذاکرات‘ سرکاری مراعات اور آزادی کے بدلے شاہانہ زندگی کی بیسیوں پیش کشوں کا اُنھوں نے جواب تک دینا مناسب نہ سمجھا۔
مجاہدین کی ایک تربیتی نشست میں امیرالمجاہدین نے کہا تھا: ’’میں نے بنگسا مورو لوگوں کے دلوں میں جہاد کا بیج ڈال دیا ہے۔ میں زندہ نہ بھی رہا تب بھی جہاد جاری رہے گا اور آزادی کی منزل مل کررہے گی‘‘۔ آج یہ جہاد جاری ہے اور یقینا منزل مل کر رہے گی!
۷۰ کے عشرے میں الجزائر کے شہر الاصنام میں شدید زلزلہ آیا جس کی شدت سے شہر میں واقع جیل بھی تباہ ہو گئی۔ جیل کی تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے بچ جانے والے قیدیوں نے موقع غنیمت جانا اور فرار ہوگئے۔ لیکن ایک قیدی اس تباہ شدہ جیل کے ایک کونے میں بیٹھا جیل کے اہل کاروں کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ قیدی الجزائر کی اسلامی تحریک کے قائد الشیخ محفوظ نحناحؒ تھے جو ۱۹ جون ۲۰۰۳ء کو اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
حرکۃ مجتمع السلم (تحریک براے پُرامن معاشرہ) کا بانی سربراہ‘ لاکھوں دلوں پر حکومت کرنے والا قائد‘ ۳۳ سال کی پُرآشوب تحریکی زندگی میں طوفانوں سے کھیلنے اور ستم زدہ انسانوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرنے کے بعد ابدی نیندسو گیا۔ اس نے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ تشدد اور تعذیب کے زیورات سے بھی آراستہ ہوا‘ دعوت و تبلیغ کی مہمیں بھی سرکیں‘ خطابت کے معرکوں میں بھی شادکام ہوا اور تنظیم و تربیت کے تمام ہی مراحل سے خود بھی گزرااور ہزاروں انسانوں کو بھی گزارا۔
الشیخ محفوظ نحناح ؒ الجزائر کے شہر البلیدۃ میں ۱۹۴۲ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک تحریکی مدرسے سے حاصل کی۔ علم النفس میں بی اے کیا۔ آپ عمر کے ابتدائی حصے ہی میں اسلامی تحریک سے منسلک ہوگئے تھے۔ پھر اپنے شب و روز دعوت و تحریک کے لیے وقف کردیے۔
آپ نے سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۷۰ء میں حواری بومدین کی اشتراکی حکومت کے خلاف جدوجہد سے کیا۔ وہ اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر لوگوں میں جہادی لٹریچر تقسیم کرنے لگے۔ ۱۹۷۶ء میں حکومت کے خلاف ’’سازش‘‘ کرنے کے جرم کی پاداش میں آپ کو ۱۵ سال قید کی سزا سنائی گئی اور پسِ دیوارِ زنداں کر دیا گیا۔ لیکن چار سال بعد ہی‘ بومدین کے انتقال کے بعد ۱۹۸۰ء میں آپ کی رہائی عمل میں آئی۔
۱۹۸۹ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے الجزائر کی تاریخ سے‘ نیشنل فریڈم فرنٹ کی لادینی اشتراکی مطلق العنانیت کا ۲۷ سالہ دور اپنی تمام کارروائیوں سمیت حذف کر دیا گیا۔ اس فضا میں مسجد کا روایتی کردار لوٹ آیا اور کوچہ و بازار میں اسلامی تحریکوں کا علَم لہرانے لگا۔
شاذلی بن جدید کے دورِ حکومت میں جب سیاسی فضا میں آزادی کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں تو الشیخ محفوظؒ نے اپنے طریقۂ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر دعوت و تبلیغ کی طرف توجہ دی۔ اس دوران آپ کے اصلاحی افکار اُبھرکر سامنے آئے۔ آپ الجزائر کی مسجدوں میں جمعہ کے خطبات دیتے اور لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف حکمت ودانائی سے بلاتے۔ بالخصوص نوجوانوں کو اس بات پر اُبھارتے کہ تم درخت کی مانند ہوجائو کہ لوگ اسے پتھر مارتے ہیں لیکن وہ انھیں پھل دیتا ہے۔
۱۹۸۹ء میں آپ نے اپنے رفیق کار الشیخ محمد بوسلیمانی ؒ کے ساتھ مل کر ’’جمعیت ارشاد و اصلاح‘‘ کی بنیاد رکھی۔ آپ ’’رابطہ دعوتِ اسلامی‘‘ کے تاسیسی ارکان میں بھی شامل تھے جس کے سربراہ الشیخ محمد سحنون ہیں۔۱۹۹۱ء میں حرکۃ المجتمع الاسلامی (تحریک براے اسلامی معاشرہ) کی تاسیس کا اعلان کیا جس کا بعد میں نام بدل کر حرکۃ المجتمع السلم رکھا گیا کیونکہ ۱۹۹۷ء میں الجزائر میں ایک ایسا قانون نافذ کیا گیا جس کی رو سے کوئی پارٹی اپنے نام کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ کا لفظ نہیں لگا سکتی تھی۔
۱۹۹۱ء کے قومی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اسلامی فرنٹ نے عباس مدنی کی قیادت میں دوتہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی۔ یہ اسلامی انقلاب کا آغاز تھا۔ اسے الجزائر کی فوج کے سیکولر اور لبرل جنرل برداشت نہ کر سکے۔ فوج نے اگلا مرحلہ منسوخ کر دیا اور فرنٹ کی منتخب قیادت کو جیل میں ڈال دیا۔ اس موقع پر اسلامی قوتوں میں دو رائیں پیدا ہوگئیں۔ایک یہ کہ مسلح مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا اور الجزائری فوج نے اپنے ہی ڈیڑھ لاکھ شہریوں کا خون کرڈالا۔ دوسری رائے راستہ نکالنے اور مفاہمت کی تھی۔ محفوظ نحناحؒ اسی رائے کے قائل تھے۔ سیاسی خلفشار کے اس دور میں ان کی رواداری‘ اعتدال پسندی‘ بردباری اور معاملہ فہمی کی صفات اُبھر کر سامنے آئیں۔
انھوں نے الجزائری قوم کے تمام مسائل کا حل تعلیمات اسلام کی روشنی میں پیش کیا اور قومی سلامتی کے لیے تین چیزوں کو اہمیت دی۔ اول: اسلام‘ عربیت اور قبائل کی اہمیت۔ دوم: ملک کی تعمیر اور اصلاحِ معاشرہ میں بغاوت سے اجتناب۔ سوم: دعوت و تبلیغ کا کردار۔ الشیخ محفوظ نحناحؒ اس موقف کے خلاف تھے کہ مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے قتل و غارت گری‘ تخریب کاری اور معصوم جانوں کا قتل جائز ہے۔ آپ کی اسی سوچ کی وجہ سے آپ کے بارے میں یہ کہا گیا کہ آپ اسلامی تحریکوں کے خلاف غیراسلامی نظام کا ساتھ دے رہے ہیں۔
انھوں نے تشدد کے راستے سے اجتناب کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کے مخصوص طریق کار کو نمایاں اور مستحکم کیا۔ وہ سیاست میں بات چیت اور انسانی حقوق کی پاسداری اور اقلیتوں کے حقوق کے احترام پر یقین رکھتے تھے۔ یہ ان کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ اسلامی تحریک ایک سے زائد مرتبہ حکومت میں شریک ہوئی۔ انھوں نے اپوزیشن اور حکومت دونوں میں رہتے ہوئے تحریک کی دعوت کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے خود تو کوئی وزارت نہ لی لیکن تحریک کے نوجوانوں کو اس کی اجازت دی تاکہ اصلاحِ معاشرہ کے وہ کام کیے جا سکیں جو حکومت میں رہ کر ہی کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا یہ مقولہ بہت مشہور تھا کہ ہم حکومت میں شریک تو ہیں لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کا حصہ نہیں ہیں۔
۱۹۹۵ء میں الشیخ محفوظ نحناحؒ نے سابق صدر الیامین زروال‘ سعید سعدی اور نورالدین بوکروح کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لیا اور زروال کے بعد دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ان انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے تحریک براے پُرامن معاشرہ‘ الجزائر میں ایک متبادل سیاسی قوت بن کر اُبھری اور نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھنے لگیں کہ تحریک موجودہ نظام کا متوقع متبادل ہو سکتی ہے۔
انھیں سخت گیرموقف کے حامل گروہوں کی شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ جو حکومت کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرنے کے مخالف تھے۔ ان کے ساتھی نذیرمودی لکھتے ہیں کہ ’’مجھے آج تک وہ یادگار بحث نہیں بھولی جس میں ہم نے تحریک کے طریقۂ کار کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ الشیخ محفوظ نحناحؒنے حقیقت پسندی‘ مرحلہ وار منزل کی طرف رواں دواں ہونے اور ان ذرائع کے متعلق تفصیل سے بات کی جن کے ذریعے سے حکام اورقوم کے مابین تعلقات کو انسانی سطح پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ظلم و ستم کا سدباب ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد جمہوری اور شورائی نظام کے بارے میں سیرحاصل بحث ہوئی۔ ہمارے بعض ساتھی جمہوریت کا راستہ اختیار کرنے کو غلط اقدام قرار دیتے تھے۔ لیکن محفوظ نحناحؒ نے اس بات پر زور دیا کہ حکمت کا راستہ یہی ہے کہ موجودہ سیاسی آزادی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسی لیے جب ۱۹۹۲ء کی خوں ریز کارروائیاں شروع ہوئیں توآپ ان پر بڑے دل گرفتہ تھے۔ حالات جیسے بھی ہوں وہ اس رجحان کو ناپسند کرتے تھے اور افہام و تفہیم سے ہی معاملات حل کرنے کے خواہاں تھے۔
الجزائر کی اسلامی تحریک کے دودھڑوں کا متحد ہونا آپ کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا جو آپ کی زندگی میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ ان میں سے ایک کے سربراہ وہ خود تھے اور دوسرا دھڑا الشیخ عبداللہ جاب اللہ کی تحریک ہے۔ اگر نیتوں میں خلوص آجائے اور عزم پختہ ہو تو یہ خواب ان کی زندگی کے بعد بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔
آج جب اتحاد اُمت کے داعی الشیخ محفوظ نحناح ؒ اس دنیا میں نہیں رہے تو زخمی الجزائر کو ایسے اطبّا کی ضرورت ہے جو زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔ یہ اطبّا تحریک براے امن معاشرہ کے وہ نوجوان بھی ہوسکتے ہیں جن کے مربی الشیخ محفوظ نحناحؒ تھے اوراسلامک سالویشن فرنٹ کے وہ بزرگ بھی ہوسکتے ہیں جو دعوت و تبلیغ اور پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے اسلامی فرنٹ کے قائدین عباسی مدنی اور علی بلحاج کو ۱۲سال کی قید کے بعد رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اکانومسٹ (۱۲ جولائی ۲۰۰۳ئ)کے مطابق فوجی جنتا ان لیڈروں سے اب بھی اتنی خوف زدہ ہے کہ اس نے غیرملکی صحافیوں کو ان کی رہائی کی کوریج نہیں کرنے دی۔ رہائی بھی کیسی رہائی ہے کہ نہ جلسوں سے خطاب کرسکتے ہیں‘ نہ انتخابات میں کھڑے ہو سکتے ہیں‘ نہ کسی کی حمایت کرسکتے ہیں‘نہ ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمان حکمرانوں کو عقل دے اور ان پر رحم کرے!
بھارت کے نام ور اہل قلم ڈاکٹر ابن فرید (محمود مصطفی صدیقی) ۸ مئی ۲۰۰۳ء کی صبح‘ علی گڑھ میڈیکل کالج میں اپنے رب سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
ابن فرید کے ایک دیرینہ رفیق ڈاکٹر سید عبدالباری‘ جو خود بھی ایک معروف ادیب‘ شاعر اور نقاد ہیں اور ان دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامے پیش رفت کے مدیر ہیں‘ اُن کی رسمِ تدفین میں شریک رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابن فرید کا جسدِخاکی علی گڑھ سے ان کے آبائی وطن ظفر پور نزد ست رکھ (ضلع بارہ بنکی) لے جایا گیا اور علم و ادب کے اس تابناک پیکر کو ۹مئی ۲۰۰۳ء کو نمازِ فجرکے بعد’’ایک پُرفضا وادی میں چڑیوں کی چہکار‘ مور کی چنگاروں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان‘‘ ان کے آبائی قبرستان میں ان کی رفیقۂ حیات کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی اہلیہ امّ صہیب‘ رام پور سے خواتین کا ماہنامہ حجاب نکالتی تھیں۔ آخری زمانے میں ابن فرید‘ حجاب کے ادارتی اور انتظامی امور میں‘ اہلیہ کے شریک و معاون رہے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں امّ صہیب کا انتقال ابن فرید کے لیے‘ غیرمعمولی طور پر صدمہ انگیز ثابت ہوا۔ انھوں نے نومبر ۲۰۰۲ء میں حجاب بندکرنے کا اعلان کر دیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد‘ ڈاکٹر سیدعبدالباری کو رام پور بلا کر‘ اپنی دو درجن کتابوں کے مسودے ان کے حوالے کیے--- انھیں ہدایت کی کہ وہ ان کا نہایت محنت اور ذوق و شوق سے جمع کردہ ہزارہا اُردو اور انگریزی کتابوں اور رسالوں کا بیش قیمت ذخیرہ دہلی لے جا کر‘ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی لائبریری کو عطیہ کردیں۔ لگتا ہے آخری زمانے میں وہ سفرآخرت کی تیاری میں تھے: ’’انشا جی‘ اٹھو اب کوچ کرو‘‘۔
ڈاکٹر ابن فرید اُردو کے معروف ادیب‘ صاحب ِ طرزافسانہ نگار‘ اعلیٰ درجے کے محقق اور نقاد تھے۔ تحریک اسلامی ان کی روح اور فکر میں بسی ہوئی تھی۔ انھوں نے مغرب زدہ فحش اور بے ہودہ ادبی رجحانات کی تاریکی میں تعمیری ادب کا چراغ روشن کیا۔ وہ ادارئہ ادب اسلامی‘ ہند کے بانی صدر تھے۔ مختلف اوقات میں کئی علمی اور ادبی پرچوں (دانش‘ معیار‘ نئی نسلیں‘ ادیب اور انڈین جرنل آف سوشل سسٹم) کے مدیر رہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک معلم تھے۔ کئی برس تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر رہے‘ ایک مختصر عرصے کے لیے اسلامی درس گاہ رام پور میں اور چار سال (۱۹۸۴ئ-۱۹۸۸ئ) ملک عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔
وہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو ظفرپور‘ ضلع بارہ بنکی (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ضلع بارہ بنکی کے تعلق داروں میں سے تھے اور ننھیال بھی تعلقدار تھے مگر ابن فرید اس تعلقدارانہ حسب و نسب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ ان کے والد ایک معمولی زمیندار اور کثیرالعیال تھے۔ ابن فرید اور اُن کے دو بھائی میٹرک‘ ہائی اسکول کے مرحلے تک پہنچے تو ایک دن والد نے سب کو جمع کرکے کہا: ’’تم گیارہ بھائی بہن ہو‘ میں تم سب کو کیسے پڑھائوں؟‘‘ ابن فرید نے برجستہ کہا:’’ابو‘ میں ہائی اسکول سے آگے نہیں پڑھوں گا‘ اگر مجھے پڑھنا ہوگا تو اپنے طور پر پڑھوں گا‘‘۔ چنانچہ ہائی اسکول کے بعد انھوں نے ساری تعلیم اپنے وسائل سے حاصل کی۔ اُن کی باقی زندگی اس خوددارانہ اور پرعزم جدوجہد کی سبق آموز داستان ہے۔
وہ میٹرک کے فوراً بعد لکھنؤ کے ملٹری ریکارڈ آفس میں کلرک ہوگئے۔ پھر رائل انڈین فورس میں ایئرمین ہوگئے۔ یہ ملازمت دنیاوی اعتبار سے بہت اچھی تھی مگر ابن فرید کو رہ رہ کر خیال ستاتا تھا کہ اس طرح میں عمربھر ’’غیرتعلیم یافتہ‘‘ ہی رہوں گا۔ چنانچہ تین سال بعد‘ اس ملازمت سے جان چھڑائی اور دوبارہ بارہ بنکی میں کلرکی اختیار کی اور اس کے ساتھ پرائیویٹ طور پر پہلے انٹرمیڈیٹ اور پھر بی اے کیا۔ کلرکی کے کام سے انھیں بڑی الجھن ہوتی تھی۔ کہتے ہیں: ’’کلرکی سے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں اپنی زندگی کو سوکھے چمڑے کی طرح چبا رہا ہوں‘‘۔
حالات قطعی سازگار نہیں تھے لیکن اپنے پائوںپر کھڑا ہونے کے جذبے نے انھیں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد پر اُکسایا۔ علی گڑھ جا کر ایم اے نفسیات میں داخلہ لے لیا اور ایک مرحلے پر امتحانی داخلے کی فیس فراہم کرنے کے لیے بیوی کا زیور رہن رکھنا پڑا۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے نفسیات‘ انگریزی ادب اور عمرانیات میں ایم اے کیا۔ یکم اگست ۱۹۷۳ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ء میں عمرانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ابن فرید اپنی افتادِ طبع میں ایک کھرے‘ سچے اور ایک خوددار انسان تھے۔ بہت اچھی صلاحیتوں کے باوجود‘ انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے غیرمعمولی جدوجہد کرنی پڑی۔ ابن فرید کو خوشامد اور چاپلوسی سے نفرت تھی۔ مصلحت اندیشی کے وہ قائل نہ تھے اس لیے علی گڑھ یونی ورسٹی کی جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ ہمیشہ اجنبی اور تنہا (alien)رہے۔ وہ ۱۶ سال تک شعبۂ عمرانیات سے منسلک رہے۔ اتنے سالوں میں لوگ پروفیسراور صدر شعبہ ہو جاتے ہیں مگر ابن فرید اپنی تمام تر قابلیت‘ علم و فضل اور بلندپایہ تصنیفی و تالیفی کام کے باوجود مئی ۱۹۸۹ء میں‘ لیکچرر کے طور پر ہی ریٹائر ہوگئے۔ قدرناشناسی کی یہ ایک افسوس ناک مثال ہے۔
علی گڑھ میں ان کا مجموعی قیام ۳۲ برس بنتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’علی گڑھ نے مجھے اقبال کے اس شعر کے معنی بہت واضح انداز میں سمجھائے ہیں ؎
بہ خود خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی
چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بے باک است
اپنے آپ سے وابستہ رہ اور پہاڑوں کی طرح مستحکم ہوکر زندگی بسر کر۔ تنکے کی طرح زندگی بسر نہ کر کیونکہ ہوا تیز ہے اور شعلے بھڑک رہے ہیں۔
علی گڑھ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ رام پور میں مقیم ہوگئے تھے۔ حجاب میں اہلیہ کی معاونت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ جماعت اسلامی رام پور شہر کے امیربھی رہے۔ اس زمانے میں انھیں سکوتو یونی ورسٹی نائیجیریا اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ملائشیا میں عمرانیات کے پروفیسر کے طور پر بلایا گیا۔ لیکن وہ اپنی اور اہلیہ کی صحت کے مسائل کی وجہ سے ان پیش کشوں کو قبول نہ کر سکے۔
ابن فرید نے تقریباً نصف صدی تک ایک بھرپور علمی اور ادبی زندگی گزاری۔ ۵۰ کی دہائی میں وہ ایک باصلاحیت افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد انھوں نے بہت کچھ لکھا اور اُن کا قلم مختلف اصناف ادب میں رواں دواں رہا۔ ان کی تحریریں ایک پختہ ادبیت‘ نفسیاتی شعور‘ اور مقصدیت سے عبارت ہیں۔ ایک طرف بچوں اور خواتین کے لیے انھوں نے معاشرتی کہانیاں‘ افسانے اور ناول اور مقبولِ عام نفسیات (popular psychology) کی کتابیں لکھیں (بچے کی تربیت ‘ گھریلو جھگڑے‘ ہم کیسے رہیں؟ زندگی کا سلیقہ‘ چھوٹی بہو‘ تھوک کا مکان‘ گھمنڈی گرگٹ)۔ دوسری طرف بلندپایہ افسانے لکھے: (مجموعے: یہ جہاں اورہے‘ میں کا تعاقب‘ خوں آشام)۔ ادبی تنقید کے نفسیاتی اور عمرانی دبستان میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ دو مجموعے (میں‘ ہم اور ادب اور چہرہ پس چہرہ) چھپ چکے ہیں‘ جب کہ چار مجموعے ہنوز اشاعت طلب ہیں (صواب دید‘ ادب داد طلب‘ تحسین قدر‘ ادبی پیش نامے)۔ کچھ اور غیرمطبوعہ مسودے بھی طباعت کے لیے تیار ہیں۔ انگریزی میں وہ ڈاکٹر ایم ایم صدیقی کے نام سے لکھا کرتے تھے اور انگریزی میں تین چار کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔
ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو حصولِ علم کی ایک غیرمعمولی لگن اور اس سلسلے میں ہمیشہ تشنگی کا ایک احساس تھا۔ اس ضمن میں وہ عمر بھر ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کے احساس سے سرشار رہے۔ نفسیات‘ انگریزی ادب‘ اور عمرانیات میں تو انھوں نے ایم اے کیا تھا لیکن اپنے طور پر انھوں نے انتھروپولوجی‘ تاریخ‘ تہذیب اور اُردو ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ بی اے میں انھوں نے ہندو فلسفہ بطور اختیاری مضمون کے پڑھا۔ اپنے شوق سے انھوں نے بائبل کے مطالعے کے تین سرٹیفیکیٹ حاصل کیے۔ ان کی زندگی علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق تھی ؎
پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب
روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
تقریباً ربع صدی تک راقم کی اُن سے خط کتابت رہی۔ وہ اپنے پسندیدہ موضوعات پر نئی کتابوں اور چند پسندیدہ مصنفین کی تازہ کاوشوں کے ہمیشہ طلب گار رہتے تھے اور پھر ان پر اپنا مختصر تاثر بھی مجھے لکھ دیتے تھے۔ اپنی گوناگوں دل چسپیوں کی بنا پر ہی وہ بین العلومی مطالعے کے قائل تھے۔ ان کی ادبی تنقید میں بھی امتزاجی پہلو نمایاں ہے۔ ان کا علمی اور ادبی کارنامہ مکمل طور پر ابھی سامنے نہیں آسکا ہے۔
ابن فرید تحریک ادب اسلامی کی سربرآوردہ شخصیت تھے۔ وہ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے تاسیسی رکن تھے۔ پھر ایک عرصے تک اس کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۹۸ء کے اوائل میں وہ مصر میں منعقدہ ایک سیمی نار میں شرکت کے بعد وطن واپس ہوتے ہوئے کراچی اور پھر چار روز کے لیے لاہور میں رکے۔ یہاں بعض معروف ادیبوں اور نقادوں (ڈاکٹر وحید قریشی‘ سید اسعدگیلانی‘ جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹرانورسدید‘ڈاکٹر سلیم اختر‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ حفیظ الرحمن احسن‘ ڈاکٹر سہیل احمد خاں‘ جعفر بلوچ وغیرہ)سے ملے۔ وہ اپنے اس دورے سے بہت خوش تھے۔ ان سے راقم کی پہلی اور آخری ملاقات بھی ان کے اسی دورۂ لاہور کے موقع پر ہوئی۔ ۱۹۸۶ء میں جب میں بھارت گیا تو وہ اس وقت جدہ میں تھے۔ پھر ۱۹۹۷ء میں راقم کو برادرم ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ‘ دہلی یونی ورسٹی کے ایک سیمی نار میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ہم دونوں کا ابن فرید سے ملنے کو بہت جی چاہتا تھا‘ مگر دہلی سے رام پور جانے کی کوئی صورت نہ تھی کہ ویزا فقط دہلی کا ملا تھا‘ اور وہ بھی بڑی مشکل سے--- دہلی یونی ورسٹی کے مہمان خانے میںقیام کے دوران‘ ایک صبح رام پور سے ابن فرید کا فون آیا۔ انھوں نے معذرت کی کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر دہلی نہیں آسکتے۔ بہرحال چند منٹ گفتگو ہوگئی۔
ابن فرید کی زندگی ایک واضح نصب العین رکھنے والے باصلاحیت انسان کی‘ محنت و جفاکشی سے بھرپور جدوجہد کی زندگی تھی۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے (self made) لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے ۷۸ سال کی عمرپائی‘ کئی برس سے دل کے مریض تھے۔ مگر انھوں نے رخصت کا نہیں‘ عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اپنے پیچھے‘ قابل تحسین عمل و کردار کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے۔ خدا ان کی روح کو آسودہ رکھے۔ (آمین)
ابن فرید کے ایک دیرینہ رفیق ڈاکٹر سید عبدالباری‘ جو خود بھی ایک معروف ادیب‘ شاعر اور نقاد ہیں اور ان دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامے پیش رفت کے مدیر ہیں‘ اُن کی رسمِ تدفین میں شریک رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابن فرید کا جسدِخاکی علی گڑھ سے ان کے آبائی وطن ظفر پور نزد ست رکھ (ضلع بارہ بنکی) لے جایا گیا اور علم و ادب کے اس تابناک پیکر کو ۹مئی ۲۰۰۳ء کو نمازِ فجرکے بعد’’ایک پُرفضا وادی میں چڑیوں کی چہکار‘ مور کی چنگاروں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان‘‘ ان کے آبائی قبرستان میں ان کی رفیقۂ حیات کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی اہلیہ امّ صہیب‘ رام پور سے خواتین کا ماہنامہ حجاب نکالتی تھیں۔ آخری زمانے میں ابن فرید‘ حجاب کے ادارتی اور انتظامی امور میں‘ اہلیہ کے شریک و معاون رہے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں امّ صہیب کا انتقال ابن فرید کے لیے‘ غیرمعمولی طور پر صدمہ انگیز ثابت ہوا۔ انھوں نے نومبر ۲۰۰۲ء میں حجاب بندکرنے کا اعلان کر دیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد‘ ڈاکٹر سیدعبدالباری کو رام پور بلا کر‘ اپنی دو درجن کتابوں کے مسودے ان کے حوالے کیے--- انھیں ہدایت کی کہ وہ ان کا نہایت محنت اور ذوق و شوق سے جمع کردہ ہزارہا اُردو اور انگریزی کتابوں اور رسالوں کا بیش قیمت ذخیرہ دہلی لے جا کر‘ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی لائبریری کو عطیہ کردیں۔ لگتا ہے آخری زمانے میں وہ سفرآخرت کی تیاری میں تھے: ’’انشا جی‘ اٹھو اب کوچ کرو‘‘۔
ڈاکٹر ابن فرید اُردو کے معروف ادیب‘ صاحب ِ طرزافسانہ نگار‘ اعلیٰ درجے کے محقق اور نقاد تھے۔ تحریک اسلامی ان کی روح اور فکر میں بسی ہوئی تھی۔ انھوں نے مغرب زدہ فحش اور بے ہودہ ادبی رجحانات کی تاریکی میں تعمیری ادب کا چراغ روشن کیا۔ وہ ادارئہ ادب اسلامی‘ ہند کے بانی صدر تھے۔ مختلف اوقات میں کئی علمی اور ادبی پرچوں (دانش‘ معیار‘ نئی نسلیں‘ ادیب اور انڈین جرنل آف سوشل سسٹم) کے مدیر رہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک معلم تھے۔ کئی برس تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر رہے‘ ایک مختصر عرصے کے لیے اسلامی درس گاہ رام پور میں اور چار سال (۱۹۸۴ئ-۱۹۸۸ئ) ملک عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔
وہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو ظفرپور‘ ضلع بارہ بنکی (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ضلع بارہ بنکی کے تعلق داروں میں سے تھے اور ننھیال بھی تعلقدار تھے مگر ابن فرید اس تعلقدارانہ حسب و نسب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ ان کے والد ایک معمولی زمیندار اور کثیرالعیال تھے۔ ابن فرید اور اُن کے دو بھائی میٹرک‘ ہائی اسکول کے مرحلے تک پہنچے تو ایک دن والد نے سب کو جمع کرکے کہا: ’’تم گیارہ بھائی بہن ہو‘ میں تم سب کو کیسے پڑھائوں؟‘‘ ابن فرید نے برجستہ کہا:’’ابو‘ میں ہائی اسکول سے آگے نہیں پڑھوں گا‘ اگر مجھے پڑھنا ہوگا تو اپنے طور پر پڑھوں گا‘‘۔ چنانچہ ہائی اسکول کے بعد انھوں نے ساری تعلیم اپنے وسائل سے حاصل کی۔ اُن کی باقی زندگی اس خوددارانہ اور پرعزم جدوجہد کی سبق آموز داستان ہے۔
وہ میٹرک کے فوراً بعد لکھنؤ کے ملٹری ریکارڈ آفس میں کلرک ہوگئے۔ پھر رائل انڈین فورس میں ایئرمین ہوگئے۔ یہ ملازمت دنیاوی اعتبار سے بہت اچھی تھی مگر ابن فرید کو رہ رہ کر خیال ستاتا تھا کہ اس طرح میں عمربھر ’’غیرتعلیم یافتہ‘‘ ہی رہوں گا۔ چنانچہ تین سال بعد‘ اس ملازمت سے جان چھڑائی اور دوبارہ بارہ بنکی میں کلرکی اختیار کی اور اس کے ساتھ پرائیویٹ طور پر پہلے انٹرمیڈیٹ اور پھر بی اے کیا۔ کلرکی کے کام سے انھیں بڑی الجھن ہوتی تھی۔ کہتے ہیں: ’’کلرکی سے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں اپنی زندگی کو سوکھے چمڑے کی طرح چبا رہا ہوں‘‘۔
حالات قطعی سازگار نہیں تھے لیکن اپنے پائوںپر کھڑا ہونے کے جذبے نے انھیں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد پر اُکسایا۔ علی گڑھ جا کر ایم اے نفسیات میں داخلہ لے لیا اور ایک مرحلے پر امتحانی داخلے کی فیس فراہم کرنے کے لیے بیوی کا زیور رہن رکھنا پڑا۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے نفسیات‘ انگریزی ادب اور عمرانیات میں ایم اے کیا۔ یکم اگست ۱۹۷۳ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ء میں عمرانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ابن فرید اپنی افتادِ طبع میں ایک کھرے‘ سچے اور ایک خوددار انسان تھے۔ بہت اچھی صلاحیتوں کے باوجود‘ انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے غیرمعمولی جدوجہد کرنی پڑی۔ ابن فرید کو خوشامد اور چاپلوسی سے نفرت تھی۔ مصلحت اندیشی کے وہ قائل نہ تھے اس لیے علی گڑھ یونی ورسٹی کی جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ ہمیشہ اجنبی اور تنہا (alien)رہے۔ وہ ۱۶ سال تک شعبۂ عمرانیات سے منسلک رہے۔ اتنے سالوں میں لوگ پروفیسراور صدر شعبہ ہو جاتے ہیں مگر ابن فرید اپنی تمام تر قابلیت‘ علم و فضل اور بلندپایہ تصنیفی و تالیفی کام کے باوجود مئی ۱۹۸۹ء میں‘ لیکچرر کے طور پر ہی ریٹائر ہوگئے۔ قدرناشناسی کی یہ ایک افسوس ناک مثال ہے۔
بہ خود خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی
چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بے باک است
اپنے آپ سے وابستہ رہ اور پہاڑوں کی طرح مستحکم ہوکر زندگی بسر کر۔ تنکے کی طرح زندگی بسر نہ کر کیونکہ ہوا تیز ہے اور شعلے بھڑک رہے ہیں۔
علی گڑھ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ رام پور میں مقیم ہوگئے تھے۔ حجاب میں اہلیہ کی معاونت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ جماعت اسلامی رام پور شہر کے امیربھی رہے۔ اس زمانے میں انھیں سکوتو یونی ورسٹی نائیجیریا اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ملائشیا میں عمرانیات کے پروفیسر کے طور پر بلایا گیا۔ لیکن وہ اپنی اور اہلیہ کی صحت کے مسائل کی وجہ سے ان پیش کشوں کو قبول نہ کر سکے۔
ابن فرید نے تقریباً نصف صدی تک ایک بھرپور علمی اور ادبی زندگی گزاری۔ ۵۰ کی دہائی میں وہ ایک باصلاحیت افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد انھوں نے بہت کچھ لکھا اور اُن کا قلم مختلف اصناف ادب میں رواں دواں رہا۔ ان کی تحریریں ایک پختہ ادبیت‘ نفسیاتی شعور‘ اور مقصدیت سے عبارت ہیں۔ ایک طرف بچوں اور خواتین کے لیے انھوں نے معاشرتی کہانیاں‘ افسانے اور ناول اور مقبولِ عام نفسیات (popular psychology) کی کتابیں لکھیں (بچے کی تربیت ‘ گھریلو جھگڑے‘ ہم کیسے رہیں؟ زندگی کا سلیقہ‘ چھوٹی بہو‘ تھوک کا مکان‘ گھمنڈی گرگٹ)۔ دوسری طرف بلندپایہ افسانے لکھے: (مجموعے: یہ جہاں اورہے‘ میں کا تعاقب‘ خوں آشام)۔ ادبی تنقید کے نفسیاتی اور عمرانی دبستان میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ دو مجموعے (میں‘ ہم اور ادب اور چہرہ پس چہرہ) چھپ چکے ہیں‘ جب کہ چار مجموعے ہنوز اشاعت طلب ہیں (صواب دید‘ ادب داد طلب‘ تحسین قدر‘ ادبی پیش نامے)۔ کچھ اور غیرمطبوعہ مسودے بھی طباعت کے لیے تیار ہیں۔ انگریزی میں وہ ڈاکٹر ایم ایم صدیقی کے نام سے لکھا کرتے تھے اور انگریزی میں تین چار کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔
ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو حصولِ علم کی ایک غیرمعمولی لگن اور اس سلسلے میں ہمیشہ تشنگی کا ایک احساس تھا۔ اس ضمن میں وہ عمر بھر ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کے احساس سے سرشار رہے۔ نفسیات‘ انگریزی ادب‘ اور عمرانیات میں تو انھوں نے ایم اے کیا تھا لیکن اپنے طور پر انھوں نے انتھروپولوجی‘ تاریخ‘ تہذیب اور اُردو ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ بی اے میں انھوں نے ہندو فلسفہ بطور اختیاری مضمون کے پڑھا۔ اپنے شوق سے انھوں نے بائبل کے مطالعے کے تین سرٹیفیکیٹ حاصل کیے۔ ان کی زندگی علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق تھی ؎
پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب
روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
تقریباً ربع صدی تک راقم کی اُن سے خط کتابت رہی۔ وہ اپنے پسندیدہ موضوعات پر نئی کتابوں اور چند پسندیدہ مصنفین کی تازہ کاوشوں کے ہمیشہ طلب گار رہتے تھے اور پھر ان پر اپنا مختصر تاثر بھی مجھے لکھ دیتے تھے۔ اپنی گوناگوں دل چسپیوں کی بنا پر ہی وہ بین العلومی مطالعے کے قائل تھے۔ ان کی ادبی تنقید میں بھی امتزاجی پہلو نمایاں ہے۔ ان کا علمی اور ادبی کارنامہ مکمل طور پر ابھی سامنے نہیں آسکا ہے۔
ابن فرید تحریک ادب اسلامی کی سربرآوردہ شخصیت تھے۔ وہ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے تاسیسی رکن تھے۔ پھر ایک عرصے تک اس کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۹۸ء کے اوائل میں وہ مصر میں منعقدہ ایک سیمی نار میں شرکت کے بعد وطن واپس ہوتے ہوئے کراچی اور پھر چار روز کے لیے لاہور میں رکے۔ یہاں بعض معروف ادیبوں اور نقادوں (ڈاکٹر وحید قریشی‘ سید اسعدگیلانی‘ جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹرانورسدید‘ڈاکٹر سلیم اختر‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ حفیظ الرحمن احسن‘ ڈاکٹر سہیل احمد خاں‘ جعفر بلوچ وغیرہ)سے ملے۔ وہ اپنے اس دورے سے بہت خوش تھے۔ ان سے راقم کی پہلی اور آخری ملاقات بھی ان کے اسی دورۂ لاہور کے موقع پر ہوئی۔ ۱۹۸۶ء میں جب میں بھارت گیا تو وہ اس وقت جدہ میں تھے۔ پھر ۱۹۹۷ء میں راقم کو برادرم ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ‘ دہلی یونی ورسٹی کے ایک سیمی نار میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ہم دونوں کا ابن فرید سے ملنے کو بہت جی چاہتا تھا‘ مگر دہلی سے رام پور جانے کی کوئی صورت نہ تھی کہ ویزا فقط دہلی کا ملا تھا‘ اور وہ بھی بڑی مشکل سے--- دہلی یونی ورسٹی کے مہمان خانے میںقیام کے دوران‘ ایک صبح رام پور سے ابن فرید کا فون آیا۔ انھوں نے معذرت کی کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر دہلی نہیں آسکتے۔ بہرحال چند منٹ گفتگو ہوگئی۔
ابن فرید کی زندگی ایک واضح نصب العین رکھنے والے باصلاحیت انسان کی‘ محنت و جفاکشی سے بھرپور جدوجہد کی زندگی تھی۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے (self made) لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے ۷۸ سال کی عمرپائی‘ کئی برس سے دل کے مریض تھے۔ مگر انھوں نے رخصت کا نہیں‘ عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اپنے پیچھے‘ قابل تحسین عمل و کردار کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے۔ خدا ان کی روح کو آسودہ رکھے۔ (آمین)
ممتاز عالم دین‘ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر و سابق امیرصوبہ سندھ مولانا جان محمد عباسی طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
مولانا جان محمد عباسی ایک معروف عالم دین‘ حوصلہ مندقائد‘ مدبر‘ دُوراندیش اور منجھے ہوئے سیاست دان‘ مشفق و مربی رہنما‘ اقامت دین کے لیے جوانی سے وفات تک ایک ایک لمحہ وقف کرنے والے عظیم انسان تھے۔ یقینا انھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا اور اپنی نذر پوری کر دی۔
ابتدائی حالات: مولانا عباسیؒیکم جنوری ۱۹۲۵ء کو ‘ لاڑکانہ کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے بیڑوچانڈیو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مولانا غلام رسول اور دادا کا نام مولانا جان محمد تھا اور ان کا شمارعلاقے کے جید علما میں ہوتا تھا۔ مولانا عباسی مرحوم کے دادا مولانا جان محمد نے اپنے گائوں بیڑوچانڈیو میں مدرسہ دارالفیوض کی بنیاد رکھی جس کو ان کے فرزند غلام رسول (مولانا عباسیؒ کے والد) نے عروج پر پہنچایا۔ ان کے طلبہ کی کثیرتعداد اس وقت بھی ایران‘ افغانستان‘ سندھ اور بلوچستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ ۱۹۶۹ء میں علاقے کے بااثر لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے مولانا غلام رسول مرحوم‘ لاڑکانہ میں جاکرانی روڈ پر آکر مقیم ہوگئے اور یہاں اللہ والی مسجد اور دارالفیوض کے نام سے قرآن و سنت کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
مولانا عباسیؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی کے زیرنگرانی ہوئی۔ ابتدا میں انھوں نے انگریزی اسکول میں داخلہ لیا تھا لیکن دو تین سال کے بعد ان کے والد محترم نے انھیں عربی اور فارسی تعلیم کے لیے وقف کر دیا اور انگریزی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اپنے والد کے یہاں ہی انھوں نے درس نظامی مکمل کیا اور ان کی دستاربندی ہوئی۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد مولانا نے حصولِ علم کا سلسلہ جاری رکھا اور فلسفہ و عربی میں علامہ اقبالؒ کے استاد مولانا علی احمد کا کیپوتہ ساکن گائوں مارو کا کیپوتہ ضلع شکارپور کے یہاں اکتسابِ علم کے لیے تشریف لے گئے۔وہاں وہ چھ مہینے مقیم رہے اور اسی دوران تپ دق میں مبتلا ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ انھیں کوئٹہ بھیج دیا جائے۔ یوں وہ علاج کی غرض سے کوئٹہ چلے گئے۔ ان کے والد محترم کو ان کی تعلیم کی بے حد فکر رہتی تھی اس لیے قیامِ کوئٹہ کے دوران وہ مشہور دینی و روحانی درگاہ چشمہ شریف میں جید علما سے علم حاصل کرتے رہے۔ صحت یاب ہونے کے بعد وہ لاڑکانہ تشریف لے آئے اور اپنے والد محترم کی بنائی ہوئی مسجد و مدرسہ میں عوام الناس کے لیے درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی گفتگو‘ ٹھیرائو‘ شیرینی‘ روانی‘ شستگی اور بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہوتی۔ اگرچہ شعلہ بیاں مقرر نہیں تھے لیکن دلیل کی طاقت سے سامعین کے دلوں کو مسخر کرلیتے تھے۔ اس لیے تھوڑے عرصے میں ہی ان کے سلسلۂ درس نے مقبولیت حاصل کر لی اور شہرکے کونے کونے سے جوق در جوق لوگ ان کے درس میں شریک ہونے لگے۔
جماعت اسلامی سے تعارف: مولانا عباسی مرحوم ۱۹۴۸ء میں ہی مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی سے روشناس ہو چکے تھے۔ اس زمانے میں ایک رسالہ سندھی زبان میں نکلتا تھا‘ جس میں تفہیم القرآن کا سندھی ترجمہ قسط وار شائع ہوتا تھا۔ وہ قسطیں مولانا باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور پرچے کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ ۱۹۵۱ء میں اسلامی دستور کی مہم کے دوران وہ شکارپور تشریف لائے اور شکارپور جماعت اسلامی کے بانی استاد محترم پروفیسرسید محمد سلیمؒ کے گھر پر جو علوی محلہ ہاتھی در میں واقع تھا‘ ایک اجتماع میں شرکت کی۔
سب سے پہلے انھیں جماعت کی دعوت دینے والے اور جماعت میں شمولیت پر آمادہ کرنے والے فرد محمد الٰہی مرحوم ساکن ضلع سانگھڑسندھ تھے جو جہلم کے رہنے والے تھے اور پولیس کی ملازمت کے سلسلے میں سندھ آئے تھے۔محمد الٰہی مرحوم بہت متقی‘ اصول پرست اور باعمل انسان تھے۔ جماعت کے فدائی تھے۔ انھوں نے ہی مولانا جان محمد بھٹوؒ کو جماعت کی دعوت دی تھی۔
مولانا مودودیؒ سے پہلی ملاقات: ۱۹۵۲ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لاڑکانہ تشریف لائے۔جناح باغ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ مولانا عباسیؒکہا کرتے تھے کہ ’’مجھے اس بات پر شدید تعجب ہوا جب مولانا مودودیؒ نے سامعین کو سوال کرنے کی دعوت دی‘‘۔ اس لیے کہ اس زمانے میں سیاسی قائدین عام جلسوں میں سوالوں کے جوابات نہیں دیتے تھے۔
آگے چل کر مولانا عباسیؒ کے بچپن کے دوست اور پڑوسی عبدالسلام آرائیں مرحوم نے انھیں جماعت کا لٹریچر دیا۔ مولانا جان محمدبھٹو مرحوم جب جماعت میں شامل ہوگئے تو انھوں نے مولانا عباسی صاحب سے رابطہ رکھا اور انھیں جماعت میں عملاًشمولیت پر آمادہ کیا۔ اس طرح مولانا بھٹو مرحوم اور دیگر حضرات کی کوششوں سے وہ جماعت میں شامل ہوگئے۔
جماعتی زندگی کا آغاز: ۱۹۵۵ء میں مولانا عباسیؒ جماعت کے رکن بن گئے۔ ان کی تحریکی زندگی کا یہ ایک دل چسپ واقعہ ہے کہ جس اجتماع میں انھوں نے جماعت کی رکنیت کا حلف اُٹھایا‘ اسی وقت امیرشہر محمد ابراہیم قریشی نے ارکان کے سامنے اپنا استعفا پیش کرتے ہوئے پیش کش کی کہ چونکہ ایک اہل اور مجھ سے بہتر صائب الرائے اور باصلاحیت متحرک فرد رکن بن گیا ہے۔ اس لیے امیر اسی کو ہونا چاہیے۔ اس طرح کچھ عرصے کے بعد ان کو لاڑکانہ شہر کا امیر مقرر کیا گیا۔ یہ قریشی صاحب کا ایثار تھا جس کے لیے وہ اللہ کے یہاں یقینا اجر کے مستحق ہوںگے۔ امیر بننے کے بعد انھوں نے لاڑکانہ شہر میں تحریک کے کام کا آغاز پُرجوش اندازسے کر دیا۔ اسی سال انھیں ضلع لاڑکانہ کا امیر مقرر کیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں وہ خیرپور ڈویژن (موجودہ لاڑکانہ و سکھر ڈویژن) کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں ان کو حیدر آباد ریجن (کراچی کے علاوہ بقیہ سندھ) کا امیرمقرر کیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد وہ صوبہ سندھ کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۳ء میں انھیں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر کی اضافی ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ ۱۹۹۷ء تک ۲۷ برس صوبہ سندھ کے امیر اور زندگی کے آخری لمحات تک پاکستان کے نائب امیر رہے۔
سیاسی جدوجہد: مولانا زمانۂ طالب علمی سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ مسلم لیگ کے قائدین محمد ایوب کھوڑو اور قاضی فضل اللہ کے ساتھ تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔ ’ہاری کمیٹی‘ کے کچھ اجلاسوں میں بھی شریک ہوئے لیکن ان سے منسلک نہیں ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں بنیادی جمہوریت کے تحت منعقدہ بلدیاتی انتخاب میں اپنے محلے سے ممبر منتخب ہوئے۔ بعد میں یونین کمیٹی کرماہ باغ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ اسی دوران شہر لاڑکانہ کی میونسپل کمیٹی کے وائس چیئرمین کے عہدے کا انتخاب لڑا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی سخت مخالفت کی وجہ سے ایک ووٹ سے ہار گئے۔
۱۹۷۰ء کی قومی الیکشن میں ممتاز علی بھٹو اور قاضی فضل اللہ کے خلاف کھڑے ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کے قومی انتخاب میں جماعت نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سیاست کا انداز جاگیردارانہ‘ فاشسٹ سوچ کا آئینہ دار تھا۔ وہ اپنی سیاسی مخالفت کوبرداشت نہیں کرتے تھے۔ اس لیے مخالفین کے ساتھ نہایت غیر جمہوری‘ آمرانہ اور فاشسٹ رویے رکھتے تھے۔ دھونس‘ دھاندلی ‘جبروستم‘ گرفتاریاں اور اذیتیں دینا ان کا پسندیدہ فعل تھا۔ انھوں نے لاڑکانہ سے بلامقابلہ منتخب ہونے کے لیے مولانا عباسی اور ان کے چیدہ چیدہ رفقاے کار کوکاغذات نامزدگی جمع کرانے سے پہلے پولیس کے ذریعے اغوا کروا لیا اور لاڑکانہ دادو کی سرحد پر واقع گائوں ’سیری‘ کے ایک بنگلے میں رکھا۔ جب بھٹو کے بلامقابلہ منتخب ہونے کا اعلان کر دیا گیا تب ان کو رہائی ملی۔
بھٹو صاحب کی اس کارروائی نے ان کے خلاف دھاندلی کی تحریک کو بنیاد فراہم کر دی۔ ملکی و غیرملکی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو خوب کوریج دی اور یوں مولانا عباسی ملکی و بین الاقوامی سطح پر نمایاں ہوگئے۔
۱۹۸۵ء کے غیر جماعتی انتخاب میں انھیں پھر لاڑکانہ سے کھڑا کیا گیا۔ ان کا آخری الیکشن ۱۹۸۸ء کا قومی الیکشن تھا جس میں انھیں بے نظیر بھٹو کے مقابلے پر الیکشن لڑایا گیا۔ وہ اپنی بزرگی‘ صحت اور بعض دیگر وجوہات سے بے نظیر کے مقابلے میں کھڑا ہونے کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن جماعتی فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اس فیصلے کو تسلیم کیا۔ یہ تحریک میں سمع و اطاعت اور اخلاص کی اعلیٰ مثال ہے۔
مولانا عباسی مرحوم نے ۴۲ سال تک مسلسل امیر رہے۔ شہر کی امارت سے لے کر صوبے کی امارت تک۔ انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں جماعت کو صوبے میں ایک سیاسی قوت بنانے میں صرف کر دیں۔ اس سلسلے میں ان کی کوشش ہوتی تھی کہ سندھ کے بااثر طبقات میں نفوذ کیا جائے۔ سندھ کے کونے کونے میں وڈیروں‘ زمین داروں اور دیگر بااثرافراد سے مسلسل رابطے رکھتے تھے اور انھی جماعت کے قریب لانے کے لیے سرگرداں رہتے تھے۔
ضیاء الحق مرحوم نے ۱۹۸۵ء کے قومی انتخاب کے موقع پر جنرل جہانداد کے ذریعے انھیں سینیٹ اور ان کے بڑے صاحبزادے قربان علی عباسی کو صوبائی اسمبلی کی نشست سے کامیاب کروانے کا پیغام بھیجا۔ سندھ کی جاگیردارانہ سیاست میں بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا اور اپنے سیاسی مستقبل بنانے کا یہ سنہری موقع تھا لیکن انھوں نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور جماعت کے فیصلے کی روشنی میں انکار کر دیا۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِاقتدار کے خاتمے کے بعد فوجی حکومت نے سابقہ حکومت کے خلاف ٹی وی پر ایک مہم چلائی جس میں ’’ظلم کی داستانیں‘‘ کے نام سے بھٹودور کے مظالم کو ذرائع ابلاغ کی مدد سے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ مولانا‘ چونکہ بھٹو کے شہرسے تعلق رکھتے تھے اور ان کے اہم مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ اس لیے ایجنسیوں نے مولانا سے رابطہ کیا اور کہا گیا کہ وہ بھٹو کے خلاف ٹی وی کو ایک انٹرویو دیں۔ مولانا نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمارا بھٹو سے اختلاف اس کے غلط طریقہ سیاست کی وجہ سے تھا۔ اب‘ جب کہ وہ اقتدارمیں نہیں رہے ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ مخالف سے انتقام نہیں لیا اور اسے معاف کر دیا۔
تحریکی خدمات: مولانا جان محمدعباسی‘ صاحب ِ بصیرت اور صائب الرائے قائد تھے۔ تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان کے سیاسی تجزیے‘ تقاریر بہت پُرمغز اور مدلل ہوتی تھیں۔ اسلامی انقلاب کے لیے پُرامن اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کے سخت حامی تھے۔مولانا کی شخصیت میں حلم اور بردباری تھی۔ بڑی سی بڑی تنقید کو خندہ پیشانی سے سنتے تھے۔ کبھی مشتعل نہیں ہوتے تھے۔ معترضین کو بہت ہی دھیمے اور ٹھنڈے انداز سے دلیل سے مطمئن کرتے تھے۔ اگر کوئی سخت بات بھی کہنی ہوتی تو لطیفوں میں اور ہلکے پھلکے مزاح میں کہہ دیتے۔ دانائی اور حکمت کے بڑے بڑے موتی لطیفے سنا کر اور کہانیاں سنا کر بیان کرنا‘ ان کا طرئہ امتیاز تھا۔
جماعتی زندگی میں معاملہ فہم اور مردم شناس تھے۔ افراد کی چھوٹی موٹی خامیوں کو نظرانداز کرنے کے قائل تھے۔ اقبال نے قائد کے لیے جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ تمام کی تمام مولانا کے اندر ہمیں ملتی ہیں ؎
نگہ بلند‘ سخن دل نواز ‘ جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے
مولانا تمام طبقات کے افراد سے روابط رکھتے تھے لیکن قوم پرست عناصر کی سرگرمیوں کو اُمت اور ملک کے مفاد کے خلاف سمجھتے اور اس بارے میں سخت رائے رکھتے تھے۔ اس ضمن میں سندھ میں محمد بن قاسم سندھی ادبی سوسائٹی اور اشاعت اسلام سوسائٹی کی داغ بیل ڈالی۔ مولانا اس سوسائٹی کے سرپرست تھے۔ سندھ کے مسلمان ادیبوں‘ شاعروں اور اہل قلم کو اس سوسائٹی کے تحت منظم کیا گیا۔ تفہیم القرآن کے سندھی ترجمے و اشاعت کے لیے سندھ اسلامک پبلی کیشنز قائم کیا۔ ترجمے کی تکمیل پر مولانا کی خوشی دیدنی تھی۔
مولانا عباسی مرحوم سیاسی کام کے ساتھ ساتھ تحریکی لٹریچر کو سندھی زبان میں منتقل کرنے کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ مہران اکیڈمی کا قیام ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی انھوں نے مکمل سرپرستی کی اور اب الحمدللہ تحریکی لٹریچر کا بہت بڑا ذخیرہ سندھی زبان میں منتقل ہوچکا ہے۔
تحریکی زندگی میں کئی مرتبہ جیل بھی گئے۔ پہلی دفعہ تحریکِ ختم نبوت میں‘ دوسری بار جب جماعت پر پابندی عائد کی گئی اور پوری مرکزی شوریٰ کو پابندِ سلاسل کیا گیا۔ مولانا نے اس قیدوبند کے مرحلے کو بڑی استقامت اور حوصلے کے ساتھ کاٹا۔
ان میں ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ تحریک کے اندر اور باہر اپنے ذاتی دوستوں اور احباب سے قریبی تعلق بھی رکھتے تھے۔ شادی‘ تعزیت‘عیادت‘ غرض یہ کہ ہر موقع پر ان سے رفاقت نبھاتے تھے۔ اللّٰہ رفیق یحب الرفق فی الامور کلہ اس حدیث کی عملی تفسیر تھے۔ وفات سے چند ماہ پہلے سخت کمزوری‘ ضعف اور ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود لاڑکانہ گئے اور قرب و جوارمیں موجود اپنے پرانے دوستوں کی عیادت کی اور کہیں تعزیت کی۔ گھر والوں نے بھی روکا لیکن مولانا نے جواب دیا کہ میں اپنے پرانے دوستوں سے ضرور ملوں گا۔ کل کس نے دیکھی ہے۔
ان کی تحریکی زندگی میں بعض مشکل لمحات بھی آئے‘ جس دوران انھوں نے قیادت اور پالیسیوں سے اختلاف کیا اور کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن یہ ان کے کردار کی عظمت ہے کہ جماعت سے وابستہ رہے۔ پیوسہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ کے مصداق تحریک سے ساتھ نبھاتے رہے اور سمع و اطاعت کے جذبے سے ‘باوجود اختلاف کے جماعت کے فیصلوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے صوبے میں اس کی تنفیذکے سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مزاج اور رائے کے خلاف فیصلوں کو قبول کرنا اور ان کو لے کر چلنا ہی اصل سمع و اطاعت ہے۔
صوبہ سندھ کئی اعتبار سے ایک حساس صوبہ ہے۔ آبادی کے تناسب میں فرق اور شہری اور دیہی آبادی میں بڑے پیمانے پر تضادات کے باوجود انھوں نے جماعت کو مجتمع رکھا۔ اعتدال اور میانہ روی سے بڑے مشکل فیصلے اور نازک معاملات میں جماعت کی نہ صرف قیادت کی بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے سب کو ساتھ لے کر چلتے رہے۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ سندھ میں جماعت کو منظم‘ متعارف اور مضبوط کرنے والی دونوں شخصیات کے نام جان محمدتھے جن کو قائد ِ تحریک مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ’’جانان محمد‘‘کے لقب سے پکارتے تھے۔ مولانا جان محمدبھٹوؒ نے دعوتی میدان میں عظیم الشان خدمات سرانجام دیں۔ سیکڑوں لوگ جماعت میں شامل کیے۔ قریہ قریہ جماعت کی دعوت پہنچائی‘ جب کہ مولانا جان محمد عباسیؒ نے جماعت کو ایک سیاسی قوت بنایا‘ سیاسی طور پر متعارف کرایا اور منظم کیا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں سندھ میں جو نعرے بڑے مقبول ہوئے ‘ ایک ’’اسلامی بھٹو--- جان محمد بھٹو‘‘ اور دوسرا ’’سندھ کا غازی --- جان محمد عباسی‘‘۔
اللہ نے ان کو ایک اعزاز یہ بخشا کہ ان کا جواں سال بیٹا نجم الدین عباسی ۱۹۸۹ء میں جہادِ افغانستان میں خوست کے محاذ پر دورانِ جہاد شہید ہوا۔ یہ جماعت کے پہلے مرکزی رہنما ہیں جنھوں نے کفر کے خلاف اپنے لخت ِ جگر کاخون اللہ کی راہ میں بہایا۔
ان کے متعلق‘ سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید مرحوم نے ایک بار کسی محفل میں کہا تھا کہ ’’اگر جان محمد عباسی جیسے سیاسی ورکر مجھے سندھ میں مل جاتے تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا‘‘۔ یہ ایک مخالف کی گواہی ہے۔
ان کے اندر اخلاص‘ تحریک سے فنائیت کی حد تک تعلق اور اقامت دین کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا جذبہ وداعیہ اعلیٰ درجے میں موجود تھا۔ جوانی سے لے کر وفات تک ایک ہی مقصد کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ہمیشہ سفر میں رہنے کی وجہ سے اپنے گھر کو پوری طرح توجہ نہیں دے سکے۔ آخری ایام میں اس کا اظہار بھی کرتے کہ انھوں نے تحریک کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے دن رات محنت کی اور تحریکی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو وقت نہیں دے سکے۔ ان کی اولاد الحمدللہ‘ تحریک سے وابستہ ہے۔ ان کے ایک صاحبزادے شمس الدین عباسی ایڈووکیٹ جماعت کے رکن اور لاڑکانہ شہر کے امیر ہیں۔ان کے ایک داماد اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ سندھ کے سابق ناظم ڈاکٹر عبدالقادر سومرو ہیں جو اس وقت تحریک سے وابستہ ہیں۔ ان کے صاحبزادوں قربان علی عباسی‘ بدرانیس عباسی‘ شمس الدین عباسی نے ملاقات میں بتایا کہ مولانا اپنے بچوں کے لیے بہت ہی شفیق تھے۔ کبھی ڈانٹتے تک نہیں تھے۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرتی تو خاموش ہوجاتے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے ۔ ان کی لغزشوں سے صرفِ نظر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین!
جب ہم ۵-اے‘ ذیلدارپارک میں آپا جان کا درس سننے کے لیے آیا کرتے تھے تو اندر کھڑکی کے شیشے میں سے لان کی اسی جگہ پر مولانا مودودیؒ کرسی پر بیٹھے نظر آتے تھے جہاں آج ان کی میت رکھی جا رہی تھی۔ گھر کے اندرونی لان میں شامیانے کے نیچے قالینوں اور چاروں طرف کرسیوں پر خواتین تلاوت اور زیرلب باتوں میں مشغول تھیں۔
سوچتے سوچتے ذہن تقریباً ۵۰ برس پیچھے لوٹ گیا۔ جب پہلی بار ’’آپا جان‘‘ کو ایک بہت بڑے اجتماع میں دیکھا تھا۔ مولانا مودودیؒ جیل میں تھے اور وہ پوچھنے والوں سے کہہ رہی تھیں: ’’اللہ کی راہ میں جو مشکلات آئیں وہ مبارک ہوتی ہیں‘‘--- یہ جملہ میرے معصوم سے ذہن پر نقش ہوگیا اور زندگی کے کئی مواقع پر میں نے اس کی بازگشت سنی۔
بیگم مودودیؒ کے آبا و اجداد مغل شہنشاہ شاہجہان کے دور میں بخارا سے نقل مکانی کرکے دلّی آئے تھے۔ شاہجہان نے جامع مسجد دلّی کی امامت کے لیے اُنھیں بلایا تھا۔ موجودہ امام عبداللہ شاہ بخاری اِسی خانوادئہ سادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت سے لے آخر تک وہ لوگ دلّی میں آباد رہے۔ بیگم مودودیؒ ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئیں۔ گھر میں دادا اور چچا کے ہاں
کوئی بیٹی نہ ہونے کے باعث ان کی پیدایش بڑی پُرمسرت تھی۔ پرورش بڑے نازونعم میں ہوئی۔ اِن کے والد بہت متقی پرہیزگار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے انھیں کوئین میری اسکول میں بھیجا گیا۔ مگر تحریکِ خلافت کے موقع پر اکثر مسلم خاندانوں نے اپنے بچوں کو مشنری اسکولوں سے نکال لیا۔ ان کی آیندہ تعلیم گھر پر ہی ہوئی جو مڈل اور منشی فاضل تک محدود تھی۔ اُن کے ماموں اورینٹل کالج لاہور میں فارسی کے پروفیسر تھے جنھوں نے انھیں فارسی پڑھائی۔ فارسی میں اتنی دسترس ہوگئی کہ مادری زبان کی طرح لکھ‘ بول اور پڑھ سکتی تھیں۔ منشی فاضل میں ایک پرچہ عربی کا تھا۔ ماموں نے کہا کہ بیٹا سب سے اچھی عربی قرآنِ پاک میں ہے۔ اس طرح بقول اُن کے‘ قرآنِ پاک سے پہلا معنوی تعارف حاصل ہوا۔
بیگم مودودیؒ کی اپنے سسرال سے پہلے بھی رشتہ داری تھی۔ مولاناؒ کی والدہ اِن کی دادی کی سگی خالہ تھیں۔ آپس میں ملنا ملانا اور دیکھے بھالے خاندان تھے۔ اس لیے نسبت فوراً ہی طے ہو گئی۔ شادی سے پہلے اُنھوں نے مولاناؒ کی کوئی تحریر نہیں پڑھی تھی حتیٰ کہ الجمیعۃ اخبار بھی کبھی نہیں پڑھا تھا۔ اُن کا گھرانہ بہت ماڈرن تھا اور اِدھر کے لوگوں کا طرزِ زندگی ذرا مختلف تھا۔ خصوصاً مولاناؒ تو ذہنی طور پر بہت بدل رہے تھے۔ اس لیے جب مولاناؒ کی والدہ مرحومہ نے یہ بات پوچھی کہ تمھارے اِتنے دینی نظریات کی وجہ سے آپس میں کیسے گزارہ ہوگا تو مولاناؒ کا پُراعتماد جواب اُنھیں لاجواب کر گیا کہ اگر میں ایک لڑکی کا ذہن بھی نہ بدل سکا تو مجھے اپنا یہ کام ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
بیگم مودودیؒ کو ہم سب ’’آپا جان‘‘ کہتے اور وہ عمر اور مرتبے کے حساب سے لڑکیوں کو ’’بیٹا‘‘ اور خواتین کو ’’بی بی‘‘ کہتیں۔ بیٹیوں کی تربیت کے معاملے میں آپا جان نے پردے اور حیا و شرم کو بہت فوقیت دی۔ ۱۰ برس کی عمر میں اُنھیں نقاب اُوڑھا دیا۔ اسکول میں تعلیم نہیں دلوائی‘ گھر پر ٹیوٹر رکھی اور پھر میٹرک کے بعد کالج میں داخلے دلوائے۔ بچیوں کا گھر میں آنے والی خواتین کے اندر بیٹھنا بھی اُنھیں پسند نہیں تھا۔ کسی بچی کے بال نہیں کاٹے۔ چار پانچ سال کی عمر سے ہی کس کر چوٹیاں باندھیں اور نہایت عمدہ طریقے سے دوپٹہ اوڑھنا سکھایا۔ سلائی کڑھائی‘ سینا پرونا اور کھانا پکانا ہرچیز میں بچیوں کوماہر کیا۔ تشکیلِ جماعت اسلامی سے پہلے تین سال اسلامیہ پارک میں رہے۔ بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ پھر تقسیم کے بعددوبارہ جب یہاں آئے تو بچے بڑے ہوچکے تھے۔ سعیدہ احسن بتاتی ہیں کہ جب آپاجان نے ہمارے بڑے بھائی سے پردہ کیا تو بی بی (والدہ بنت الاسلام) کہنے لگیں محمودہ یہ تو تمھارے سامنے بڑا ہوا ہے۔ آپا جان نے بڑے اعتماد سے کہا: بی بی‘ بیٹا ہو یا بھائی‘ جہاں بات اللہ کے حکم سے ٹکرائے اُسے نہیں ماننا چاہیے۔ اس طرح حمیرا‘ اسماء جن لڑکوں بالوں سے کھیلتی گئی تھیں اُن سے اجنبی ہوکر الگ ہوگئیں حالانکہ ابھی اُن کے پردے کی عمر نہیں تھی۔ لیکن اُنھوں نے پردے کی اہمیت اس طرح دلوں میں بٹھا دی کہ وقت آنے پر وہ کوئی بحث مباحثہ نہ کرسکیں۔
آپا جان دمہ کی پرانی مریض تھیں۔ صحت کی کمزوری کے باعث اکثر اس کا حملہ ہوجاتا لیکن اُن کا سب سے اہم کام مولاناؒ کو ہر قسم کا جسمانی اور ذہنی سکون بہم پہنچانا تھا جس کی وجہ سے وہ اتنا بڑا کام کر گئے۔ وہ بھی ان کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ جن دنوں آپا جان کی طبیعت خراب ہوتی اُنھیں دفتر کے ساتھ والے کمرے میں لے آتے۔ گھر کی طرف سے دروازہ بند کر دیتے تاکہ بچے ڈسٹرب نہ کریں اور اندر سے اپنے دفتر کا دروازہ کھلا رکھتے۔ بعض اوقات لکھنے پڑھنے کاکام بستر کے پاس ہی لے آتے تاکہ طبیعت کا پتا رہے۔ آپا جان مولاناؒ کے صحت و آرام کا اس سے بھی زیادہ خیال رکھتیں۔ مولانا کا تمام دن گھڑی کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ صبح آٹھ بجے ناشتہ‘ دوپہر کا کھانا‘ سہ پہر کی چائے‘ رات کا کھانا سب وقت کے ساتھ طے تھا۔ عصرکی نماز کے بعد جب ٹوپی رکھنے کمرے میں آتے توآپا جان چائے کا کپ لیے کھڑی ہوتیں۔ ایک منٹ کی دیر بھی اُس میں نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ باہر عصری مجلس شروع ہوجاتی۔ کھانے کے بعد ذرا ساکچھ میٹھا‘ کچھ نہ ہو تو شہد۔ صبح ناشتہ کے بعد پان اور پھر دن بھر کا پان کا کوٹہ ڈبیا میں ڈال کر دینا۔ باورچی نہ ہو تو مولانا کا کھانا خود پکانا۔ خاص طور پر پھلکے‘ دلیہ انھیں بہت پسند تھا لیکن آپا جان ہمیشہ گھر میں پسواتیں۔ اُنھیں وہم رہتا کہ اِتنی تو مخالفت ہے‘ باہر سے پسوائی ہوئی چیز میں کوئی کچھ ملا نہ دے۔اِس طرح کھانے میں اُن کی پسندیدہ چیزیں خود اہتمام سے تیار کرلیتیں۔ اجتماعات میں صحیح وقت پر اُٹھ جاتیں کہ میاں کو کھانا دینا ہے۔
خود فرماتی ہیں: ’’مودودی صاحب سے جو جذبۂ ایمانی لیا تھا اُس کی طاقت مجھے لے کر چلتی رہی ورنہ نو بچے‘ ان کی تعلیم و تربیت‘ گھرداری‘ مہمان داری اور درس و تدریس--- آج بھی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ اتنے بڑے چھکڑے کو مجھ جیسی دھان پان اور نامکمل صحت کی عورت نے کیسے گھسیٹا---ظاہر ہے اس میں قوتِ ایمانی اور تائید ربانی ہی کا فضل تھا‘‘۔
آپا جان ایک نہایت منضبط‘ سلیقہ شعار اور سُگھڑخاتون تھیں۔ بہت نفاست پسند‘ صفائی پسند اور پاکیزہ صفت۔ یہ تمام سلیقہ اُنھوں نے آگے اپنی بچیوں میں اُتارا۔ آپاجان کا لباس ساڑھی تھا۔ بلائوز کی آستینیں کف والی اور کلائیوں تک ہوتیں۔ اونچا گریبان اور ساڑھی کے پلّو سے لپٹا ہوا سر۔ سوائے وقت ِ وضو کے کبھی بازو اور سر ننگا نہیں دیکھا۔ سعیدہ احسن کہتی ہیں میں کہا کرتی آپا جان آپ ساڑھی کو کام کے وقت کیسے سنبھالتی ہیں۔ وہ کہتیں آپ کا دوپٹہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ اسے کیسے سنبھالتی ہیں؟ بہرحال کئی لوگ اُن کی ساڑھی پر اعتراض کرتے۔ اچھرہ مین روڈ پر جس گھر میں درس دینے جاتیں اُنھیں ساڑھی پر اعتراض تھا۔ کہتے آپ شلوارقمیض پہنیں۔ آپا جان نے کہا میری ساڑھی باپردہ ہے میں تو یہی پہنوں گی۔ درس خواہ رکھو یا نہ رکھو۔ چنانچہ وہاں جانا چھوڑ دیا۔
مسلم ٹائون اور ماڈل ٹائون آپا جان کے ہفتہ وارحلقے تھے۔ ماڈل ٹائون تو ۲۶ سال گئیں۔ بڑا منضبط پروگرام ہوتا۔ ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل درسِ قرآن اور سوال و جواب۔ اس کے بعد وہ بہت روکنا چاہتیں مگر آپا جان اپنے وقت پر اُٹھ جاتیں کہ مولانا کا کھانا لیٹ نہ ہو جائے۔
۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۷ء تک آپا جان نے سیاسی جلسے بھی کیے۔ یہ اُن کی زندگی کے بڑے مصروف دن تھے۔ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتیں۔ ۷۷ء میں نو جماعتوں کا‘ پاکستان قومی اتحاد عمل میں آیا تھا۔ ماڈل ٹائون میں بہت بڑا جلسہ تھا۔ پانچ چھ ہزار کے قریب خواتین جمع تھیں کہ اسٹیج پر فوٹوگرافر آگئے۔ آپا جان نے برقعہ تو لیا ہوا ہی تھا۔ فوراً احتجاجاً اسٹیج سے اُتر کر اپنی گاڑی میں جابیٹھیں۔ مسلم لیگی خواتین کے کہنے پر واپس آئیں۔ جلسے میں جو بھگدڑ مچی ہوئی تھی وہ بھی ٹھیک ہوگئی اور سب خواتین جلسہ گاہ میں اپنی جگہ لوٹ آئیں۔
بھٹو کے خلاف تحریک میں ۹ اپریل ۱۹۷۷ء کے احتجاجی جلوس میں ساری جماعتوں کی خاتون سربراہان قیادت کر رہی تھیں۔ جیسے ہی آنسوگیس کے شیل پھینکے گئے اور لاٹھی چارج ہوا‘ سب جماعتوں کی خواتین پچھلی صفوں کی طرف بھاگیں۔ لیکن آپا جان اور باقی ارکانِ جماعت اگلی صفوں میں ہی رہیں۔ سب کو بیٹھ جانے کوکہا۔ بھاگنے سے روکا اور بڑی ہمت اور جرأت سے اس وقت کو گزارا۔ گولی چلنے سے جمعیت کے کئی لڑکے جو خواتین کی حفاظت کے لیے دو رویہ چل رہے تھے‘ شہید ہوئے۔ کچھ عرصے بعد پھرصاحبزادی محمودہ بیگم نے کہا کہ عورتوں کا جلوس دوبارہ نکالا جائے۔ اس پر آپا جان ذرا تلخ ہو گئیں۔ کہنے لگیں:’’بی بی جب عورتیں میدان میں آتی ہیں تو مرد جانیں دے کر اُن کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنے فالتو مرد نہیں ہیں‘‘۔
اس طرح جماعت کے اجتماع ۱۹۶۴ء میں مولانا کی تقریر کے آغاز میں ہی غنڈوں نے حملہ کیا۔ گولیاں چلنے کی آواز آئی اور خواتین کے کیمپ میں بوتلیں پھینکی گئیں۔ میرابڑا بچہ گودمیں تھا۔ سب کا خوف کے مارے برا حال تھا لیکن آپا جان اور آپا جی حمیدہ بیگم مسلسل سب کو تسلی دینے اور اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی تھیں اور خواتین کو وہاں سے نکلوا کر محفوظ مقامات پر پہنچانے کے بعد وہاں سے خود نکلیں۔
قیامِ پاکستان کے تقریباً ۱۴ ماہ بعد مولانا کی پہلی گرفتاری عمل میں آئی۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ سزاے موت کا بھی حکم ہوا۔ عورتیں اخبار پڑھ کر روتی ہوئی آ رہی تھیں۔ آپا جان نے سختی سے ڈانٹا کہ سزاے موت اللہ کی طرف سے تو نہیں۔ دیکھیں اللہ کا فیصلہ کیا آتا ہے۔ اس طرح لوگوں کو تسلی دی۔ بچے تمام اسکول گئے ہوئے تھے۔ خود وہ پُرسکون تھیں۔
جب بھی گرفتاریاں ہوتیں‘ کبھی جزع فزع نہ کرتیں۔ دوسرے گرفتار ہونے والے ارکان کے گھروں میں جاتیں ‘ اُنھیں تسلی دیتیں‘ مالی امداد جتنی ممکن ہوتی کرتیں اور صبروسکون سے رہنے کی تلقین بھی۔ ایسی پریشانی کے دنوں میں مرکز کی خواتین خود بھی آپا جان کے پاس رات کو جمع ہو جاتیں۔ وہ انھیں قرآن سناتیں‘ آزمایش کو برداشت نہ کرنے پر بہت خفا ہوتیں‘ سختی سے کہتیں کہ اگر مارپیٹ‘ بھوک اور پیاس برداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی تو اس راہ میں کیوں نکلے؟ پھر نرمی سے پٹھان کوٹ کی زندگی کا ذکر کرتیں کہ وہاں تو تنہائی‘ سانپ‘ بچھو اور گیدڑ تھے اور یہاں ہم سب اکٹھے ہیں۔ شوہروں کے جیلوں میں ہونے کے باعث ننھے ننھے بچوں کی معیت میں اِن خواتین کے لیے پریشانیاں تو بہت تھیں لیکن آپا جان اپنی جیلوں اور پھانسی کے تختوں کو بھول کر اُن کی تربیت اور تسلی میں لگ جاتیں:’’اللہ کے راز کبھی نہ کھولنا کہ آج تم فاقے سے ہو۔ بھوک کا حال کسی باپ‘ بھائی یا ساس سسر کے آگے نہ کھولنا‘ یہ اللہ کا راز ہے۔ تمہارا اجر مارا جائے گا اگر کسی کے آگے بھی یہ شکوہ کردیا۔ اللہ کا رحم اور اُس کی رضا لینے کے لیے زبان بند رکھو۔ گورنمنٹ کا شکوہ بھی نہ کرو کہ جیل میں ملنے نہیں دیتے‘‘۔
آپا جان کی خوش حالی کی زندگی تو دوچار سال میں ختم ہو گئی۔ پٹھان کوٹ کی زندگی نے دراصل اُن کو اُس ابتلا کے لیے تیار کیا جو آیندہ اُن پر آنے والی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ دادا ابا مرحوم نے اپنے خط میں میری شادی سے پہلے مولانا کو لکھا تھا کہ ہماری بیٹی محل میں بھی تمھارا ساتھ دے گی اور جھونپڑی میں بھی۔ یہ جملہ ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتا رہا اور اللہ کی رضا میں میری رہنمائی کرتا رہا۔
جماعت اسلامی کی رُکنیت آپا جان نے خود سوچ سمجھ کر اختیار کی لیکن اپنی صحت‘ مولانا کی خدمت‘ اور گھر کی ذمہ داریوں کے باعث کوئی تنظیمی ذمہ داری نہ لی۔ شروع میں اجتماعات کے لیے باہر بھی نکلتیں۔ بک اسٹال کی ذمہ داری بھی کبھی لے لیتیں۔ جماعت کے ارکان پر اُنھیں اِتنا بھروسا تھا کہ ایک دفعہ کہنے لگیں: اسٹال پر کاپی پنسل رکھ دو۔ لوگ کتابیں لیں اور پیسے رکھتے جائیں۔ پھر کہنے لگیں:رُکن جماعت کا ستون ہے۔ یہ بذاتِ خود ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے خواہ کوئی کرے یا نہ کرے۔ جماعت کا نقصان ہو رہا ہو‘ کارکن کم ہوں‘ مت انتظار کرو کہ کوئی آپ سے کہے۔ خود اپنا مورچہ سنبھال لو۔
آپا جان کا گھر دعوت کا مرکز تھا۔ تمام دن لوگ آتے جاتے رہتے۔ اُنھوں نے یہ نکتہ نہایت اچھی طرح سمجھ رکھا تھا کہ اس گھر کے دروازے لوگوں کے لیے ہروقت کھلے رہنے چاہییں۔ لہٰذا کبھی ماتھے پر بل نہ ڈالا۔ خواتین آتی رہتیں اور بیٹھتی جاتیں‘ آپاجان فرصت ملتے ہی حاضرہوجاتیں۔ روزانہ قرآن کی کلاس‘ ہفتہ وار درس‘ ماہانہ ادبی نشست‘ تربیت گاہیں‘ ناگہانی اور فوری اجتماعات۔ اسماء بتاتی ہیں کہ جمعہ کے روز نماز اور بعد میں درس سالہا سال ہوا ہے۔ مولانا مبارک مسجد میں جب تک جاتے رہے قرآنِ پاک اور مشکوٰۃ اُٹھائے ہمیشہ ساتھ ہوتیں کہ گھر میں فرصت نہیں ‘ وہیں میں اُن سے پڑھ لوں۔
مولانا کی وفات کے بعد آپا جان نے باہر نکلنا تقریباً ختم کر دیا۔ لیکن قرآنِ پاک کا محاذ اُسی طرح گرم تھا۔ اسماء کے میاں کی وفات کے کچھ سال بعد اُدھر چلی گئیں۔ وہاں بھی ۱۵‘ ۱۶ لوگوں کی روزانہ کلاس چلتی رہی۔ پچھلے سال مارچ میں جب معدے کا السر پھٹ گیا تو کلاس ختم کرنا پڑی۔ اسماء نے اپنے تمام پروگرام ختم کر کے ماں کی خدمت کو اپنا نصب العین بنالیا۔ کبھی کبھار کہتیں: ’’اسماء میں تم پر بوجھ ہوں‘‘۔ اسماء کہتیں: ’’اماں میں تو مزدور ہوں۔ اللہ سے اپنی مزدوری لے لوں گی‘‘۔ اس طرح سال بھر بستر پر رہیں۔ چھ بار ہسپتال لے جانا پڑا۔ آخری دنوں میں ایک بار اسماء سے نیم بے ہوشی میں کہا: ’’ماموں سے پوچھو‘ میں اُن سے پڑھنے آجائوں؟‘‘ یہ وہ ماموں تھے جنھوں نے اُنھیں فارسی پڑھائی تھی۔
آپا جان کی باتیں لکھتے وقت دل بے حد دُکھی ہو رہا ہے۔ احساسِ زیاں بڑھ گیا ہے۔ لیکن مولاناؒ کی بذلہ سنجی کا ایک واقعہ لکھے بغیر ختم کرنے کو دل نہیں چاہا۔ مولانا سے اگر خواتین ملنا چاہتیں تو برقعہ لے کر آپا جان کے ہمراہ بیٹھ جاتیں اور اپنے سوال و جواب اور مسائل پوچھتیں یا پردے کے پیچھے سے بات کرلیتیں۔
بھرپور مخالفتوں کے زمانہ میں گوجرانوالہ سے کچھ خواتین آئیں۔ مولانا اور آپا جان کے پاس بیٹھی شکوہ بھرے انداز میں کہنے لگیں: ’’آپ مخالفین کی کسی بات کا جواب دیتے‘ نہ تردید کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں نے مشہور کررکھا ہے کہ مودودی صاحب نے ایک سولہ سالہ لڑکی سے شادی کر رکھی ہے‘‘، آپا جان اِس الزام پر بہت ہنسیں۔ مولاناؒ اُن کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: ’’ٹھیک تو کہتے ہیں لیکن تھوڑی سی غلطی ہے۔ سولہ سالہ نہیں اٹھارہ سالہ!‘‘ (آپا جان کی عمر شادی کے وقت اٹھارہ سال تھی)۔
اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کونور سے بھر دے۔ اُن کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ (آمین)
عالِم کی موت عالَم کی موت کے مترادف ہے۔ موۃ العالِم موۃ العالَم، محض عربی زبان کا ایک مقولہ ہی نہیں انسانی زندگی کی ایک بڑی بنیادی حقیقت کا اعتراف اور اعلان ہے۔ زندگی صرف ہوا اور پانی کا نام نہیں‘ اس کا اصل جوہر علم کی روشنی ہے اور اہل علم میں سے کسی ایک چراغ کا بجھ جانا بھی انسانیت کے لیے بڑے خسارے کا معاملہ ہے چہ جائیکہ ایک بقعۂ نورسے محروم ہو جانا---! بلاشبہہ شیخ القرآن والحدیث مولانا گوہر رحمن کا ہمارے درمیان سے رخصت ہوجانا علمی دنیا کا ایک ناقابلِ تلافی خسارہ ہے اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کے علمی اور نظریاتی حلقے میں تو ایک ایسا خلا واقع ہوگیا ہے جسے برسوں محسوس کیا جائے گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محترم مولانا مودودیؒ اور جناب ملک غلام علیؒ کے اٹھ جانے کے بعد جس شخص نے ہر علمی محاذ پر تحقیق اور تفقہ کے جوہر دکھائے اور اپنا لوہا منوایا وہ مولانا گوہر رحمن ہی تھے اور ان کے انتقال سے ایسا لگتا ہے جیسے ع
مولانا گوہررحمن مرحوم سے ملاقاتوں اور بحث و استفادہ کا سلسلہ ۱۹۶۳ء میں ان کے مرکزی مجلس شوریٰ میں آنے سے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن زیادہ قریبی تعلق ۱۹۸۵ء میں ان کے قومی اسمبلی میں انتخاب سے بنا۔ شوریٰ کے اولین دور میں وہ نسبتاً کم گو تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا contribution بڑھتا گیا اور ہر میدان میں--- علمی‘ تنظیمی‘ دعوتی اور احتسابی--- انھوں نے اپنا منفرد مقام بنالیا۔گذشتہ ۲۰‘ ۲۵ سال میں مجھے ان کو بہت قریب سے دیکھنے‘ گھنٹوں ان سے بحث و گفتگو کرنے اور ان کی تحریروں کو بغور پڑھنے کا موقع ملا اور تعلق خاطر گہرے سے گہرا ہوتاچلا گیا۔ اس زمانے میں ان سے ہر ملاقات حتیٰ کہ ہر اختلاف کے بعد ان کی عظمت کا نقش اور بھی تابندہ ہوتا رہا۔ مولانا کے تبحرعلمی اور عظمت کردار دونوں نے ان کا گرویدہ بنا لیا۔ نصف صدی کے اس دریچے میں جتنا بھی دیکھتا ہوں ان کی علمی عظمت‘ اخلاقی وجاہت‘ تحریکی معاملات میں فہم و فراست اور دینی حمیت ہی کے نقوش نظر آتے ہیں۔ کچھ معاملات میں مولانا کے مزاج میں سختی بھی تھی لیکن اس کا تعلق ان کی ذات سے نہیں‘ دین اور تحریک کے مفاد اور اس کے مزاج کے تحفظ کے جذبے سے تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کے احکام کے بارے میں ان کی بے لاگ وفاداری کا غماض تھا۔ وہ ہمارے دور میں سلف کا نمونہ تھے اور تحریک کا قیمتی سرمایہ۔ ان کی تنقید اور ان کا احتساب ان کے علمی افادات سے کچھ کم ہماری متاع نہ تھے۔
مولانا گوہر رحمن ایک غریب مگر صاحب ِ علم دینی گھرانے میں مانسہرہ کے ایک چھوٹے سے گائوں (چمراسی درہ شنگلی) میں ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے۔ والد محترم مولوی شریف اللہ کے انتقال کے بعد‘ جو آبائی گائوں سے کوئی ۱۰ میل دُور کوبائی نام کے ایک گائوں میں امام تھے‘ عالم طفولیت ہی میں والدہ‘ ایک بھائی اور تین بہنوں کے ساتھ‘ دنیوی سہارے سے محروم ہو کر‘ ننھیال منتقل ہو گئے اور بڑی عسرت کی زندگی گزاری۔ ماں کی محبت اور محنت سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا‘ پرائمری تعلیم کے بعددینی تعلیم حاصل کی اور ۱۵ سال کی عمر میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کر لی۔ اس زمانے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’کھانا تو مسجد میں کسی نہ کسی طرح مل ہی جاتا تھا اگرچہ ہشت نگر کے گائوں شیخوتروسردھڑی کے دورانِ قیام میں بعض اوقات ہفتوں تک دن کا فاقہ کرنا پڑتا تھا لیکن کپڑوں اور جوتوں کے لیے اسباق کے اوقات کے بعد مزدوری کرتا تھا‘‘۔
ایسی پُرمشقت زندگی کے باوجود انھوں نے حصولِ علم میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا اور ۱۹۵۱ء میں تحصیل صوابی کی ایک مسجد میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔ پھر مولانا غلام اللہ خان مرحوم کے دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی اور دارالعلوم سلفیہ فیصل آباد میں مختصر مدت کے لیے درس وتدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد بالآخر مولانا غلام حقانی امیرجماعت اسلامی صوبہ سرحد کے مشورے سے ۱۹۶۷ء میں دارالعلوم تفہیم القرآن کی بنیاد ڈالی جو مولانا گوہر رحمن کی مسلسل محنت‘اللہ تعالیٰ کے فضل اور ساتھیوں کی تائید و معاونت سے آج صوبہ سرحد کی ایک عظیم جامعہ کا مقام حاصل کرچکی ہے۔ اس سے ہزاروں طلبا دین کا علم حاصل کر کے ملک ہی نہیں دنیا کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں۔ دارالعلوم تفہیم القرآن آج ایک منفرد تعلیمی ادارہ ہے جس میں مخلص اور صاحب ِ نظر اہل علم جمع ہیں اور جو قدیم کے ساتھ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔
مولانا گوہر رحمن کا جماعت اسلامی سے تعلق ۱۹۵۲ء میں قائم ہوا اور رکنیت کا رشتہ ۱۹۶۳ء میں استوار ہوا جس کے بعد وہ تحریک میں اہم سے اہم تر ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز ہوتے رہے۔ وہ ۱۹۶۳ء سے وفات تک مرکزی شوریٰ کے رکن رہے‘ کئی کمیٹیوں کے سربراہ بنے، ۱۲‘ ۱۳ سال صوبہ سرحد کے امیر رہے‘ جمعیت اتحادالعلما کے سرپرست اعلیٰ منتخب ہوئے اور ۱۹۸۷ء سے رابطہ المدارس کے صدر رہے۔ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۸ء تک مرکزی اسمبلی کے رکن رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے شریعت بل (مئی ۱۹۸۵ئ) کا مسودہ اسمبلی میں پرائیویٹ ممبرز بل کے طور پر پیش کیا جو سینیٹ میں شریعت بل کی بنیاد بنا۔ ملک میں نفاذِ شریعت کی تحریک کو پروان چڑھانے میں مولانا گوہر رحمن کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا۔
فکری اعتبار سے مولانا مرحوم اپنے کو دیوبندی مکتب ِ فکر کا حصہ سمجھتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے پورے علمی ورثے کے وارث تھے۔ طالب علمی ہی کے دور میں شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب تقویۃ الایمان سے متاثر ہوئے۔ امام ابن تیمیہؒ، امام ابن قیمؒ اور شاہ ولیؒ اللہ کی فکر میں رچ بس گئے۔ مولانا مودودیؒ کی کتاب الجہاد فی الاسلام، ان کو مولانا کے حلقے میں لے آئی اور وہ تحریک کی فکر کے صاحب ِ نظر ترجمان بن گئے۔ فقہ حنفی سے خصوصی نسبت کے باوجود ان کے خیالات میں بڑی وسعت تھی اور خود ایک مقام پر کہتے ہیں کہ ’’ذہن میں بحمدللہ جموداور گروہی عصبیت نہیں ہے‘‘۔ امام عبدالوہاب شعرانی ؒ کے مکاشفے نے جو انھوں نے اپنی کتاب المیزان الکبریٰ میں نقل فرمایا ہے‘ ذہن وفکر کی وسعت کو اور بڑھا دیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ علم رسولؐ کی مثال ایک بڑے اور وسیع حوض کی ہے جس کے چاروں طرف نالیاں ہیں اور ہر ایک میں اس کی وسعت کے مطابق حوض کا پانی بہہ رہا ہے۔ مگرایک بڑی نالی ہے جس میں سب سے زیادہ پانی بہہ رہاہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ بڑی نالی امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے اور باقی نالیاں دوسرے ائمہ کی فقہ ہے‘‘۔
مولانا گوہر رحمن نے دورۂ تفسیرقرآن کی روایت ۱۹۶۷ء سے قائم کی۔ پہلے‘ سال میں دو بار پورے قرآن کی تفسیر بیان فرماتے تھے۔پھر تحریکی ذمہ داریوں کی وجہ سے اسے سال میں ایک بار کر دیا۔ منصورہ میں ۱۰ سال ۱۵ شعبان سے ۲۷ رمضان تک ڈیڑھ مہینے میں ہر سال سیکڑوں مرد و خواتین کو مکمل قرآن کا درس دیا ۔ درس کا یہ سلسلہ روزانہ ۸ سے ۱۰ گھنٹے چلتا تھا جو محض روایتی درس قرآن نہ تھا بلکہ قرآن کے پیغام و معانی کے ساتھ عصری مسائل و معاملات پر ان تعلیمات کے اطلاق اور قرآن کی روشنی میں مطلوبہ انسان اور معاشرے کے قیام تک کے مباحث پر محیط ہوتا اورایمان‘ علم‘اخلاق اور تحریکیت‘ ہر ایک کو جلا بخشنے کا ذریعہ بنتا تھا۔
توحید اور اسلامی سیاست کے موضوع پر انھوں نے بڑی معرکہ آرا کتابیں تحریر کی ہیں جو اہل علم کے لیے ایک مدت تک سرمایۂ جان رہیں گی۔ ان کے مقالات اور وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں ریفرنسوں کا مجموعہ تفہیم المسائل کے عنوان سے پانچ جلدوں میں شائع ہوا ہے جو بیک وقت مولانا مودودیؒ کی تفہیمات اور رسائل و مسائل کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اپنے اپنے موضوع پر ہر تحریر معرکے کی چیز ہے۔ سود‘ اسلامی ریاست میں شوریٰ کا مقام‘ اسلام اور جمہوریت کے تعلق کی صحیح نوعیت‘ جدید اسلامی ریاست میں سیاسی جماعتوں کے وجود اور کردار کا مسئلہ‘ اقامت ِ دین کا حقیقی مفہوم اور غلبۂ دین کی جدوجہد کی اصل حیثیت وہ موضوعات جن پر مولانا نے صرف دادِ تحقیق ہی نہیں دی بلکہ بالغ نظری سے جدید حالات کو سامنے رکھ کر دین کے احکام کی تشریح کی ہے اور تطبیق کے میدان میں اجتہادی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جدید میڈیکل مسائل کے بارے میں بھی ان کی تحقیق روایت اور جدت کا امتزاج ہے۔ وہ جدید دور کے تقاضوں کا کھلے دل سے ادراک کرتے مگر روایت کے فریم ورک میں ان کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی رائے سے کہیں کہیں پورے ادب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی رائے کے وزن اور علمی ثقاہت کے بارے میں دو رائے ممکن نہیں۔ میں نے اسلامی سیاست کے طرز پر ’’اسلامی معیشت‘‘ پر لکھنے کے لیے ان سے بار بار درخواست کی لیکن بدقسمتی سے اس موضوع پر انھیں مربوط کتاب لکھنے کی مہلت نہ ملی۔ اگرچہ سود کی بحثوں میں معاشی معاملات پر انھوں نے اپنی جچی تلی آرا کا اظہار کیا ہے۔
مولانا گوہر رحمن بڑی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ دلیل کو سننے اور اس پر غور کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے‘ گو اپنی رائے پر دلیل کی بنیاد پر ہی قائم رہتے تھے۔ اجتماعی زندگی کے مسائل کے سلسلے میں افہام و تفہیم کے لیے آمادہ رہتے لیکن جدید کے ادراک کے باوصف اپنے کردار کو قدیم اور روایت ہی کی ترجمانی قرار دیتے۔ دعوت کے میدان میں بے حد سرگرم اور اَن تھک محنت کے عادی تھے۔ علم کا ایک بحربے کراں تھے اور الحمدللہ استحضار علمی کے باب میں منفرد تھے۔ بات منطقی ترتیب سے پیش کرتے اوردین کے معاملے میں کبھی مداہنت سے کام نہ لیتے۔ احتساب کے باب میں بھی ان کی گرفت مضبوط اور بے لاگ ہوتی۔ تدبیر کے معاملات میں اختلاف بھی پوری قوت سے کرتے اور پھر جو فیصلہ ہو جائے اس پر دیانت داری سے عمل کرتے‘ البتہ جس چیز کو شریعت کے باب میں راہ صواب کے مطابق نہ پاتے اس پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتے لیکن شریعت کے دائرے میں جو حل نکلتا اسے خوش دلی سے قبول کر لیتے۔ اپنے اختلاف کو کبھی ذاتی تعلقات پر اثرانداز نہ ہونے دیتے جو ان کے کردار کی عظمت کی نشانی ہے۔
مجھے مولانا گوہر رحمن سے متعدد امور پر علمی استفادے کا موقع ملا اور میں نے ان کو ہمیشہ ایک روشن دماغ صاحب ِ علم پایا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن سے استفادہ بھی ایک سعادت تھی اور اختلاف بھی ایک درس کا درجہ رکھتا تھا۔ تحریکی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آیا جس میں مولانا شدید اضطراب کا شکار تھے۔ کچھ چیزوں پر انھیں شدید عدمِ اطمینان تھا لیکن اس کے ساتھ تحریک سے وفاداری اور تعلق کے متاثر نہ ہونے دینے کی خواہش بھی تھی۔ ایک بہت ہی نازک مرحلے پر میں نے اور محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب نے مردان کا سفر صرف اس لیے کیا کہ مولانا کے نقطۂ نظر کو سمجھیں اور اختلاف کے باوجود تحریک سے تعلق کی استواری میں کمی نہ آنے کی درخواست کریں۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو اجرعظیم دے کہ اپنے انقباض کے باوجود ہماری اور دوسرے احباب کی کوششوں سے‘ اور سب سے بڑھ کر اللہ کے فضل و کرم سے‘ وہ اس دور سے جلد نکل آئے اور پھر اس کا کوئی سایہ ان کے تحریکی کردار پر باقی نہ رہا۔ جزاھم اللّٰہ خیرالجزائ۔
وہ کئی سال سے بیمار تھے۔ قوتِ کار برابر کم ہو رہی تھی۔ کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے تھے لیکن ان کے عزم اور شوقِ کار میں کوئی کمی نہ آئی۔ اپنی زندگی کے شوریٰ کے آخری اجلاس میں بھی شریک تھے اورکھڑے ہوکر تقریر فرمائی اور اپنے خیالات کا اظہار اسی شان سے اور دلیل اور جرأت سے کیا جو اُن کا شعار تھا۔ زیربحث موضوع پر اپنی جچی تلی رائے کا اظہار دلائل کے ساتھ اور نکات کی تعداد کے تعین کے ساتھ کیا۔ البتہ ان کی نقاہت اور آواز کے گلوگیر ہوجانے سے دل کودھچکا لگا اور ان کے لیے صحت اور درازیٔ عمر کی دعا کی۔ آخری ملاقات ان کے لائق فرزند ڈاکٹر عطاء الرحمن کی پارلیمانی لاج کی قیام گاہ پر جنوری کے مہینے میں ہوئی۔ کیا خبر تھی کہ اس کے بعد ان سے ملنے کی سعادت حاصل نہ ہوگی اور ۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو ان کے انتقال کی خبر ملے گی--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی گراں قدر خدمات کو قبول فرمائے‘ جو چراغ انھوں نے روشن کیے ہیں وہ تادیر روشن رہیں۔ ان کی کتب‘ ان کے خطبات‘ ان کے تیار کردہ انسان‘ اُس مشن کے فروغ کا ذریعہ بنیں جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کی اور جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت کے اعلیٰ مدارج میں جگہ دے اور ان کو اپنے مقرب بندوں کی معیت عطا فرمائے اور اس اُمت پر اپنا کرم جاری رکھے اور جو جگہ خالی ہوئی ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے۔ ان کے اُٹھ جانے سے اپنی محرومی کا احساس کچھ اور بھی شدید ہوگیا ہے ع
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
مولانا گوہر رحمن کا غم ابھی دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا کہ تحریک کے ایک اولیں خادم اور مثالی کارکن مولانا مصاحب علی کے انتقال (۱۷ اپریل ۲۰۰۳ئ) کی خبر نے غم و الم کو اور بھی گراں بار کر دیا۔ نئی نسل تو شاید ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو لیکن میں نے تو ان کو اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک کے سرگرم قائدین کی صف میں دیکھا ہے اور جماعت کے اولیں دور کا سراپا ان کے اور ان جیسے تحریکی رہبروں کی زندگی میں دیکھا ہے۔ اپنے جمعیت کے زمانے میں‘ نواب شاہ میں‘ مجھے ان سے ملنے اور ان کی شفقت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ پھر ۱۹۵۷ء سے مرکزی شوریٰ میں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس کا سب سے اہم حاصل ان کی دعوتی تڑپ اور اصلاحِ احوال کا شوق تھا۔ تحریک سے وفاداری‘ کام کی لگن‘ بے لوث تنقید اور محاسبہ‘ جرأتِ اظہار---کس کس بات کا انسان ذکر کرے۔ ایک طرف ذاتی شفقت اور محبت اور دوسری طرف بڑے سے بڑے انسان پر بھرپور تنقید اور احتساب۔ ان کا خلوص‘ ان کی یکسوئی‘ ان کی اصابت ِرائے‘ ہر ایک کا نقش دل پر مرتسم ہے۔
مولانا مصاحب علی مرحوم ہمارے لیے ایک مثالی کارکن اور ان لوگوں کا ایک نمونہ تھے جن کو سید مودودی کی انقلابی ؒتحریک نے سب سے پہلے متاثر کیا اور جو اس کا ہراول دستہ بنے۔ ان کی زندگی میں دنیا طلبی کا کوئی شائبہ نظر نہ آیا۔ انھوں نے دین‘ دعوت اور تحریک کے لیے اپنے اللہ سے عہد کر کے اپنے کو وقف کر دیا‘ اور پھر آخری لمحے تک انھوں نے اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کیا۔ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج (الاحزاب ۳۳:۲۳)
مولانا مصاحب علی ایک کھاتے پیتے گھرانے کے فرد تھے جو سب کچھ لٹا کر سندھ آئے لیکن تبادلے میں حاصل کی جا سکنے والی جایداد تک کے بارے میں ‘ جو ان کا حق تھا‘کسی کوشش اور تگ و دو سے مجتنب رہے۔ استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور جماعت اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ دعوت ان کی زندگی تھی اور قناعت ان کا شعار۔ اولاد کو بھی اسی راستے کی تعلیم دی اور عزیزی عبدالملک مجاہد اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے اور آج کل امریکہ میں سمعی و بصری ادارے سائونڈ وژن کے ذریعے خدمت دین کے لیے کوشاں ہیں۔ باقی اولاد بھی الحمدللہ دین اور تحریک کی خدمت کے لیے کوشاں ہے۔ مولانا مصاحب علی نے احیاے دین کی جدوجہد اور انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی پوری زندگی کو وقف کیا اور دنیا سے حتیٰ کہ تحریک سے کسی صلے کی تمنا نہیں کی۔ ان کی سوچ‘ ان کی تگ و دو‘ ان کے اضطراب اور احتساب‘ غرض ہرایک کا محور بس یہی تھا کہ جس چیز کو زندگی کا مشن بنایا ہے اس کے حصول کے لیے سب کچھ تج دیں ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
مولانامصاحب علی ہماری تاریخ کا ایک روشن باب تھے۔ ایک مدت سے صاحب ِ فراش تھے۔ آخری ملاقات ان کے صاحبزادے کے گھر پر پچھلے سال ہوئی۔ زبان بند تھی۔ بار بار بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ مگر جب ہوش آیا اور پہچانا تو بے حد خوش ہوئے۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کے ہاتھ سے اشاروں کو بھول نہیں سکتا۔ شفقت کا یہ عالم کہ اس عالم میں بھی بچوں کو تواضع کی ہدایات دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے‘ ان کے درجات کو بلند کرے اور انھیں جنت الفردوس سے نوازے ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
برعظیم پاک و ہند کے علمی اور دینی اُفق کو درخشاں کرنے والے تمام ستارے ایک ایک کر کے ڈوب گئے ہیں--- !
علامہ اقبال گئے‘ مولانا اشرف علی تھانوی گئے‘ مولانا ابوالکلام آزاد گئے‘ مولانا شبیراحمد عثمانی گئے‘ سید سلیمان ندوی گئے‘ مفتی محمد شفیع گئے‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی گئے‘ ڈاکٹر فضل الرحمن گئے‘ مولانا امین احسن اصلاحی گئے‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی گئے--- اور اب مشرق سے اُبھرنے والے اس سنہری سلسلے کا آخری تارہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مغرب کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو گیا--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
محمد حمیدؒاللہ ۱۶محرم الحرام ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹ فروری ۱۹۰۸ء حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ دولت آصفیہ ہی میں ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک کے مراحل طے کیے اور عثمانیہ یونی ورسٹی سے‘ جو برعظیم کی تاریخ میں اُردو کے محوری کردار اور اپنی اعلیٰ علمی روایات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی تھی ایم اے اور ایل ایل بی کی سندات امتیازی شان سے حاصل کر کے اسی جامعہ میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تقسیم ملک سے کچھ قبل اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے اور بون (Boun) یونی ورسٹی سے بین الاقوامی قانون کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر حمیدؒاللہ کی یہی تحقیق تھی جو بعد میں ضروری اضافوں کے ساتھ ان کی شہرہ آفاق تصنیف Muslim Conduct of State بنی۔جرمنی سے فرانس منتقل ہو گئے اور سوربون (Sorbonne) یونی ورسٹی سے عہدنبویؐ اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔
اس زمانے میں سقوطِ حیدرآباد (۱۹۴۸ئ) کا سانحہ رونما ہوا ۔ اس کے بعد پھر ڈاکٹر حمیداللہ پیرس ہی کے ہو کر رہ گئے۔ میرے استفسار پر ایک بار بتایا کہ میں دولت آصفیہ کے پاسپورٹ پر یورپ آیا تھا۔ پھر میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں۔ فرانسیسی شہریت بھی ساری عمر حاصل نہ کی۔ پناہ گزیں کی حیثیت پر تمام عمر قانع رہے اور محض وثیقہ راہ داری (travel documents) کے ذریعے عالمی سفر کرتے رہے جس کے تحت چھیماہ کے اندر اندر انھیں فرانس واپس آنا پڑتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی ملک کے بھی شہری نہ تھے بلکہ ذہنی اور مادی ہر دو اعتبار سے اس دنیا ہی کے شہری نہ تھے۔ ۷۰ سال بغیر پاسپورٹ کے گزارے اور بالآخروہاں چلے گئے جہاں کسی دنیوی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی--- ہاں ان کے پاس ایمان‘ عمل صالح اور علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کی جانے والی زندگی کا سرمایہ تھا اور یہی سب سے کام آنے والی چیز ہے۔
ڈاکٹر حمیداللہ مشرق اور مغرب کی نو زبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور چار میں (اُردو‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ عربی) بلاواسطہ تحریر و تقریر کی خدمت انجام دیتے تھے۔ مطالعہ اور گفتگو کی اعلیٰ استعداد جرمنی‘ اطالوی‘ فارسی‘ ترکی اور روسی زبانوں میں بھی حاصل تھی۔ پیرس کے مشہور تحقیقی مرکز Centre National de la Researche Scientifiqueسے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔
علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج کی فکر کی مہلت بھی نہ ملی اور امام ابن تیمیہؒ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھربار کے جھگڑے سے آزاد رہے اور صرف علم کا ورثہ چھوڑا۔ عالم اسلام کی چوٹی کی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے‘ خصوصیت سے جامعہ استنبول سے طویل عرصے تک متعلق رہے۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں بھی ۱۲ خطبات دیے جوخطبات بہاول پور کے عنوان سے شائع ہوئے اوران کا خوب صورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افضل اقبال نے کیا اور یہ The Emergence of Islam کے نام سے شائع ہوئے۔
میری نگاہ میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ مسلمانوں میں پہلے اور آخری مستشرق (orientalist) تھے۔ مستشرق میں ان کو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انھوں نے مستشرقین کے طریق تحقیق (methodology) پر ایسی ہی قدرت حاصل کر لی تھی جیسی غزالی نے یونانی فلسفے پر۔ وہ تحقیق اور طریق تالیف کے باب میں مستشرق ہوئے لیکن اس پہلو سے مستشرقین سے مختلف تھے کہ ان کا قبلہ درست تھا۔ ان کے اصل مآخذ قرآن و سنت اور مسلمانوں کے معتبر اہل علم کی تصانیف تھیں۔ انھوں نے اسلام کو‘ جیساکہ وہ ہے‘ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ البتہ تحقیق و تصنیف‘ تلاش و جستجو‘ نقد و احتساب کے ان تمام ذرائع کو کامیابی اور قدرت کے ساتھ استعمال کیا جو مستشرقین کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے ہیں اور اس طرح علمی میدان میں اہل مغرب کا جو قرض مسلمانوں پر تھا‘ اسے فرض کفایہ کے انداز میں ڈاکٹر صاحب نے چکا دیا اور ساتھ ساتھ وہ کیا جسے انگریزی محاورےpaying in the same coin کہا جاتا ہے۔ الحمدللہ!
ڈاکٹر حمیداللہ فکرونظر کے اعتبار سے ٹھیٹھ مسلمان تھے۔ انھوں نے سلف کے نقطۂ نظر کو پوری دیانت سے جدید زبان اور استشراق کے اسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیش کیا اور ایک حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلامی علوم اور دورِ جدید کے طلبا اور محققین کے درمیان ایک پُل بن گئے۔
ڈاکٹر حمیداللہ کی علمی دل چسپیوں کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور اس حیثیت سے ان کا کام کثیرجہتی (multi dimensional) تھا۔ انھوں نے تحقیق کے مختلف میدانوں میں بڑے معرکہ کی چیزیں پیش کیں لیکن شاید ان کی سب سے زیادہ دین (contribution) مسلمانوں کے بین الاقوامی قانون کے میدان میں ہے جس میں انھوں نے علمی دنیا سے یہ منوا لیا کہ بین الاقوامی قانون کے اصل بانی مسلمان فقہا اور علما ہیں‘ سترھویں صدی کے مغربی مفکرین نہیں۔ تدوین حدیث کے باب میں بھی ان کا کام بڑا وقیع ہے اور صحیفہ ھمام ابن مُنبّہ کی تالیف اور اشاعت ان کا بڑا کارنامہ ہے جس نے یہ ثابت کر دیا کہ حدیث کی کتابت دور رسالت مآبؐ اور دور خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئی تھی۔ یہ مسودہ ان کو جرمنی کی ایک لائبریری سے ملا جس کو مناسب انداز میں تدوین کرکے اور یہ دکھا کر کہ اس اولین مسودے میں لکھی ہوئی احادیث اور بعد کے مجموعوں میں پائی جانے والی احادیث میں کوئی فرق نہیں ‘ہے انھوں نے بڑے سائنسی انداز میں حدیث کی صحت کو منوانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی‘ آپؐ کے غزوات‘ سفرہجرت‘ خطوط اور وثائق کی تلاش اور ترتیب--- ان سب میدانوں میں ڈاکٹر حمیداللہ نے تحقیق اور تسوید کے وہ نقوش قائم کیے ہیں جو تادیر چراغ راہ رہیں گے۔
اسلامی فقہ کی تدوین اور خصوصیت سے امام ابوحنیفہؒ کی methodology پر ان کا کام راہ کشا حیثیت رکھتا ہے۔اسلامی قانون اور قانون روما کے فرق کو بھی انھوں نے بڑے قاطع دلائل سے ثابت کیا اور مستشرقین کے اس غبارے سے ہوا نکال دی کہ اسلامی قانون دراصل قانون روما سے ماخوذ ہے۔دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کے ترجموں کی معلومات کو جمع کرنا بھی ان کا ایک پسندیدہ موضوع تھا اور اس سلسلے میں ان کی کاوش اساسی اور بنیادی کوشش کا مقام رکھتی ہے۔ ان کے طرزِ تحقیق میں صرف کتابی محنت ہی شامل نہ تھی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرہجرت کی تحقیق میں انھوں نے پاپیادہ اور گھوڑے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس راستے پر عملاً سفر کیا جس سے حضورپاکؐ نے ہجرت فرمائی تھی اور اس طرح اس شاہراہ کو متعین کیا جو روایات میں دھندلی ہوگئی تھی۔ قرآن پاک اور سیرت مبارکہ ان کی زندگی کے صورت گر ہی نہ تھے‘ ان کی علمی دل چسپی کا بھی محور تھے۔
فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان ہی میں دو جلدوں میں سیرت پاکؐ کی تدوین بھی ان کے نمایاں کاموں میں سے ایک ہے۔ سیرت کی کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خود ہی کیا ہے جو شائع ہو گیا ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ مقالے اور مضامین ان کے قلم سے نکلے اور اہل علم کی تشنگی دُور کرنے کا ذریعہ بنے۔ یقینا ان کی چھوٹی بڑی کل کتب کی تعداد ۱۵۰ سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹر حمیداللہ سے میری پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب میں ابھی طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھا اور وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو اسلامی دستور سازی میں مدد دینے کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ مولانا سید سلیمان ندوی‘ مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفراحمد انصاری کے ساتھ مجلس تعلیمات اسلامی کے رکن تھے اور اسمبلی کی عمارت ہی کے ایک حصے میں ان کا دفتر تھا۔ ان کے علم کی وسعت اور اس کے رعب کے تحت میرے ذہن نے ان کی ایک تصویر بنا لی تھی لیکن ان کو دیکھ کر مجھ کو ایک دھچکا سا لگا۔ میں نے ان کو ایک دبلاپتلا اور سادہ سا فقیرمنش انسان پایا۔ اکہرا بدن‘ لمباقد‘ صاف رنگ‘ کتابی چہرہ‘ اوسط لمبائی کی مگر غیرکفی ڈاڑھی‘ پُرنور آنکھیں--- اور ان سب سے بڑھ کر انکسار کا مجسمہ‘ تواضع کا پتلا‘ سادگی کا پیکر اور جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ اسمبلی کے دفتر میں کرتے پاجامے میں ملبوس اور پائوں میں کھڑاوں--- پتا نہیں آج کی نسل اس شے سے واقف بھی ہے یا نہیں۔ ہمارے بچپن میں وضو کے لیے لکڑی کی سادہ سی چپل ہوتی تھی جسے کھڑاوں کہتے تھے اور جو بالعموم غسل خانے میں رکھی جاتی تھی۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہ آ سکتا تھا کہ کوئی اسمبلی کے دفتر میں کھڑاوں پہنے بیٹھا ہوگا۔
حیرانی کی یہ کیفیت چند ہی لمحات میں ان کی شفقت اور پیار سے بھری باتوں سے دُور ہو گئی اور تبحرعلمی کے ساتھ ان کا انکسار دل پر نقش ہوگیا۔ بات آہستہ آہستہ دھیمے لہجے میں‘ کچھ کچھ رک کر اور سر ہلا ہلا کر کرتے تھے مگر اس طرح کہ دل میں اتر جاتی تھی۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے اس وقت مجھے چونکا دیا جب چراغ راہ کے اسلامی قانون نمبر کی اشاعت پربالکل غیر متوقع طور پر ان کا تین صفحے کا خط موصول ہوا۔ اور تین صفحے بھی ایسے کہ ان میں ۱۰ صفحوں کا لوازمہ موجود تھا‘ کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہلکے کاغذ پر چھوٹے حروف میں اس طرح لکھتے تھے کہ مختصرحاشیے کے سوا ہر جگہ بھری ہوتی تھی۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات ان کی محنت تھی۔ اسلامی قانون نمبر پر بہت خوش تھے۔ بڑی فراخ دلی سے اس کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی بڑے انکسار سے لکھا کہ آپ کو زحمت سے بچانے کے لیے دوسرے ایڈیشن کے لیے کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی کر رہا ہوں--- اور اس طرح صفحہ اور سطرکے تعین کے ساتھ تین صفحوں میں انھوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی بے احتیاطی کی تلافی کا سامان کر دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے مگر کس دل سے لکھوں کہ اس کا بیشتر حصہ محفوظ نہ رہ سکا! آخری خط میری مختصر کتاب Family Life of Islam کے فرانسیسی ترجمے پر ان کی تصحیح و تنقید سے عبارت تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۴۸ء میں جو فلیٹ پیرس میں کراے پر لیا تھا‘ وہ ایک ایسی عمارت کی چوتھی منزل پر تھا جس میں لفٹ نہ تھی۔ انھوں نے پیرس کے قیام کے آخری ایام تک اسی میں سکونت رکھی۔ اس فلیٹ کا ایک ایک کونہ بشمول باورچی خانہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی دولت تھی۔ زندگی اتنی سادہ کہ کپڑے کے چند جوڑوں اور کھانے کے چند برتنوں کے سوا ان کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ کھانے کے بارے میں بھی اتنے محتاط تھے کہ حلال گوشت نہ ملنے کے باعث زمانہ طالب علمی میں ہی گوشت کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ سبزی اور پنیر پر گزارا کرتے تھے اور جب یہ شبہہ ہوا کہ پنیر میں بھی جانورکی آنتوں کی چربی استعمال ہوتی ہے تو اس سے بھی دست کش ہوگئے۔ علم و تقویٰ ‘ قناعت اور سادگی میں سلف کی مثال تھے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ متعدد علمی مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن سب سے زیادہ یادگار وہ مخیّم (تربیتی کیمپ) تھا جو فرانس میں ایک دیہاتی علاقے میں فرانس کی مسلمان طلبہ کی اسلامی تنظیم (UMSO) کے تحت منعقد ہوا تھا اور جس میں پانچ دن رات ہم نے ساتھ گزارے۔ ڈاکٹر صاحب بھی عام طلبہ کی طرح زمین پر سوتے اور اپنے برتن اپنے ہاتھ سے دھوتے تھے۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ کمالِ التفات سے ڈاکٹر صاحب نے میری تقاریر کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ فرمایا۔ جزاھم اللّٰہ خیرا الجزائ۔
وقت کی پابندی میں بھی ڈاکٹرصاحب اپنی مثال آپ تھے۔ اس کی کوئی دوسری مثال اگر میں دے سکتا ہوں تو وہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے۔ یہاں اس واقعے کا ذکر بھی شاید غیرمتعلق نہ ہو (اور اس کے راوی ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ ساتھی اور میرے بزرگ دوست احمد عبداللہ المسدوسی مرحوم ہیں) کہ حیدرآباد کا نوجوان حمیداللہ اپنی پوری طالب علمی کے دور میں صرف ایک بار کلاس میں تاخیر سے پہنچا (غیرحاضری کا تو سوال ہی نہ تھا) اور یہ وہ دن تھا جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ تدفین کے بعد یہ نوجوان سیدھا جامعہ گیا اور کلاس میں شریک ہوگیا ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
ڈاکٹر حمیداللہ صرف علم و تحقیق ہی کے مرد میدان نہ تھے‘ دعوت و تبلیغ میں بھی ڈوبے ہوئے تھے۔ پیرس کی جامع مسجد میں ایک مدت تک تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔ انفرادی ملاقاتوں سے لے کر تبلیغی دورے اور ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسیں--- ہر جگہ انھوں نے دعوت کا کام انجام دیا۔ فرانس میں وہ صرف شمالی افریقہ کے مسلمانوں کا ہی مرجع نہ تھے بلکہ فرانسیسی مسلمانوں کا بھی ایک حلقہ ان کے گرد قائم تھا۔ طلبہ اورنوجوانوں میں وہ بے حد مقبول تھے۔ وہ ان کو وقت دینے میں بے پناہ فراخ دل تھے۔
ڈاکٹر حمیداللہ سیاسی آدمی نہ تھے۔ اربابِ حکومت نے ان کو قریب لانے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ ان سے کنارہ کش رہے۔ علمی اور ادبی اعزازات سے ان کا پیچھا کیا لیکن وہ ہمیشہ ان سے دامن کش رہے۔ مجھے علم ہے کہ فیصل ایوارڈ میں ان کا نام آیا لیکن انھوں نے معذرت کرلی۔ پاکستان نے ہجری ایوارڈ ان کو پیش کیا مگر انھوں نے رسمی طور پر قبول کرنا پسند نہ کیا اور رقم اسلامک یونی ورسٹی کے لیے وقف کر دی۔ سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ آزاد حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدر آباد دکن کبھی واپس نہ آئے بلکہ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں تو بڑے دکھے دل سے کہا کہ میں اس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے۔
ڈاکٹرحمیداللہ اس وقت تک تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مصروف رہے جب تک قویٰ نے ساتھ دیا۔ جب بیماریوں نے اس طرح آلیا کہ یہ کام جاری نہ رکھ سکے تو اپنی جان سے قیمتی لائبریری علمی کاموں کے لیے وقف کر دی اور خود امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے۔ جب مجھے ایک اعلیٰ پاکستانی افسر اور سید حسین نصر کے توسط سے ان کی اس حالت کا علم ہوا تو میں نے کوشش کی کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں اور اس سلسلے میں صدرمملکت کو میں نے ایک خط بھی لکھا جس کا مثبت جواب ملا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے اعزہ کی پیش کش کو ترجیح دی اور فلوریڈا منتقل ہو گئے۔ افسوس پاکستان ان کے اس آخری دور میں ان کی خدمت کی سعادت سے محروم رہا۔ ۲۰۰۲ء کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک صدی (۹۵ سال) اس عالم ناپایدار میں گزار کر‘ علم و دعوت کی سیکڑوں شمعیں روشن کر کے‘ اللہ کا یہ بندہ اپنے رب کی طرف مراجعت کر گیا تاکہ عبادالرحمن کے ابدی مسکن کو پا لے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری لغزشوں سے صرفِ نظر کرے اور انھیں جنت کی بہترین وادیوں میں جگہ دے ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے