یاد رفتگان


کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ o وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰالِ وَالْاِِکْرَامِ o (الرحمٰن ۵۵: ۲۶-۲۷) ہر چیزجو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں جو صداقت بیان کی گئی ہے بارہا مطالعہ کے باوجود  ہم اسے اکثر بھول جاتے ہیں، لیکن بعض حادثات ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور اس وقت اس آیت کا مفہوم ذہن میں تازہ ہوتا ہے کہ ہرچیز جو اس دنیا میں ہے، فنا ہوجانے والی ہے اور صرف اللہ ذوالجلال والاکرام کی ذات باقی رہنے والی ہے۔ کل تک یہ بات وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ آج ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمارے ساتھ نہ ہوں گے۔

میں کراچی میں تھا جب ڈاکٹر محمود احمد غازی کے انتقال کی خبر ملی (۲۶ستمبر ۲۰۱۰ئ)۔ یہ خبر میرے لیے ناقابلِ یقین تھی۔ ابھی چند ہفتے قبل ہم نے رابطہ عالم اسلامی کے پچاسویں یومِ تاسیس کی تقریب میں مکہ مکرمہ میں شرکت کی، ایک ساتھ جہاز میں سفر کیا اور حرم شریف میں نمازوں میں شرکت کی تھی۔ مکہ مکرمہ جاتے وقت میں اور میری اہلیہ جہاز میں بیٹھے تھے کہ غازی صاحب جہاز میں داخل ہوئے اور مجھے دیکھ کر انتہائی گرم جوشی کے ساتھ جھک کر میری پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر یہ کہا کہ میں قطر میں تھا تو ڈاکٹر منذر قحف صاحب نے بااصرار کہا تھا کہ جب آپ ڈاکٹر انیس سے ملیں تو میری طرف سے ان کی پیشانی پر بوسہ دیں___ اللہ اکبر! کل کی بات ہے اور آج ہم ایک ایسے صاحب ِ علم سے محروم ہوگئے جو نہ صرف اپنے علم و تقویٰ بلکہ برادرانہ تعلق کی بنا پر ہمارے گھر کا ایک فرد تھا۔

۱۹۸۰ء میں جب بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد نے تصورسے نکل کر ایک قابل محسوس شکل اختیار کی تو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کو، جو اس سے قبل مختلف سرپرستیوں میں رہا تھا، یونی ورسٹی کا حصہ بنا دیا گیا اور مرحوم ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتا صاحب، جو ادارے کے سربراہ تھے اور ڈاکٹر محمود غازی جو ادارے میں ریڈر تھے مع دیگر محققین کے یونی ورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب ان سے ملاقات نہ ہوئی ہو۔ اکثر حسین حامد حسان صاحب جو اس وقت کلیہ شریعہ کے ڈین تھے اور بعد میں یونی ورسٹی کے صدر بنے، سرشام ہی مجھے ڈاکٹر حسن محمود الشافعی اور اکثر ڈاکٹر غازی کو اپنے گھر بلا لیتے اور رات گئے تک یونی ورسٹی کے بہت سے مسائل پر ہم سب مصروفِ مشورہ رہتے۔ دعوۃ اکیڈمی کا قیام ۱۹۸۳ء میں عمل میں آیا اور مجھے اس کا ڈائرکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جن افراد نے ہر مرحلے میں میرے ساتھ تعاون کیا ان میں ڈاکٹر حسن شافعی اور محمود غازی پیش پیش تھے۔ بعض وجوہ کی بنا پر میں دعوۃ اکیڈمی سے الگ ہوا تو ڈاکٹرغازی نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور جب میں دوبارہ اکیڈمی کا ڈائرکٹر جنرل بنا تو وہ اکثر یہ کہتے کہ میں آپ کا خلیفہ ہوں اور آپ میرے خلیفہ ہیں۔

ڈاکٹر غازی کی یادداشت غضب کی تھی اور برس ہا برس گزرنے کے بعد بھی واقعات کی ترتیب و تفصیل بیان کرنے میں انھیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب اثرانگیز خطیب اور پُرفکر تحریر کی بنا پر اس دور کے چند معروف اصحابِ علم میں سے تھے۔ ان کے قرآن کریم، حدیث، سیرت پاک، فقہ، شریعت اور معیشت و تجارت کے موضوع پر خطابات کتابی شکل میں طبع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتب میں قانون بین المالک، اسلام اور مغرب تعلقات، مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، اسلامی بنک کاری: ایک تعارف، ادب القاضی اور قرآن مجید، ایک تعارف شامل ہیں۔ وہ ایک دردمند دل رکھنے والے محقق، عالم، مفکر اور فقیہہ تھے۔

پاکستان میں سودی بنکاری سے نجات کے لیے جن لوگوں نے کام کیا اور خصوصاً      جب معاملہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں گیا اور پھر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس مسئلے کا   جائزہ لیا تو اس میں غازی صاحب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ فیڈرل شریعہ کورٹ میں جس طرح ڈاکٹر فدا محمدخان صاحب نے فیصلے کی تحریر میں کردار ادا کیا ایسے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس خلیل الرحمن صاحب اور ڈاکٹر غازی کا اہم کردار رہا۔

۸۰ کے عشرے میں جنوبی افریقہ میں قادیانیوں کے حوالے سے عدالتی کارروائی میں پاکستان کے جن اصحابِ علم نے عدالت ِ عالیہ کو اس مسئلے پر رہنمائی فراہم کی ان میں مولانا ظفراحمد انصاری، پروفیسر خورشید احمد صاحب، جسٹس افضل چیمہ صاحب مرحوم اور ڈاکٹر غازی کے نام  قابلِ ذکر ہیں۔ دعوۃ اکیڈمی کے ساتھ میرے طویل تعلق میں شاید ہی کوئی پروگرام ایسا ہو جس میں ملک کے اندر یا ملک سے باہر کوئی تربیتی کورس ہو اور اس میں ڈاکٹر غازی نے شرکت نہ کی ہو۔

ڈاکٹر غازی کو اُردو، عربی اور انگریزی میں خطاب کرنے میں عبور حاصل تھا۔ وہ فرانسیسی زبان بھی جانتے تھے۔ ڈاکٹر غازی نے صدر جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں مذہبی امور کے   وزیر کے فرائض بھی انجام دیے اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے صدر اور نائب صدر کے علاوہ یونی ورسٹی کی شریعہ اکیڈمی کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی علمی خدمات کی بنا پر انھیں ملک اور ملک سے باہر ایک معروف اسکالر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔

ڈاکٹر غازی ایک حلیم الطبع انسان تھے۔ اکثر اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی کی چھیڑچھاڑ سے خود بھی محظوظ ہوتے اور کبھی اپنے بڑے ہونے کے حق کو استعمال نہ کرتے۔ نجی محفلوں میں ان کی حاضر جوابی اور ذہانت ہمیشہ انھیں دیگر حاضرین سے ممتاز کرتی۔ مہمانوں کی تواضع میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ ان کی وفات نے جو خلا پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کی علمی صفوں میں پیدا کیا ہے وہ عرصے تک ان کی یاد کو تازہ رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے قرآن کریم سے تعلق اور دین کی اشاعت کے لیے خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین!

’’میں اور یوسف قرضاوی صاحب جامعہ ازہر کے ایک ہی اسکول کی جماعت نہم میں پڑھتے تھے۔ ایک روز ہم چھٹی کے وقت اسکول کے بڑے دروازے سے باہر نکلے تو سامنے ’اخوان اسکائوٹس‘ کے نوجوان نعرے لگا رہے تھے: ’’اللہ ہمارا مقصود ہے، رسول ہمارے رہبر و رہنما ہیں، قرآن ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں موت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے۔ پاس ہی ایک گاڑی سے اعلان کیا جا رہا تھا کہ آج رات مرشدعام حسن البنا خطاب فرمائیں گے، شرکت کی اپیل کی جاتی ہے۔ ہم دونوں تیزتیز قدموں سے گاڑی کے پیچھے ہی چلنا شروع ہوگئے۔ گاڑی اخوان المسلمون کے دفتر کے سامنے جاکر رُک گئی۔ ہم نے پروگرام کی تفصیل دریافت کی تو معلوم ہوا کہ امام البنا بھی اسی دفتر میں موجود ہیں۔ وہ اسی وقت پہنچے تھے۔ ہم دونوں نے سلام عرض کیا، انھوں نے نہ صرف شفقت کا اظہار کیا بلکہ تھوڑی دیر کے بعد کھانے میں بھی شریک ہونے کے لیے کہا۔ یہ امام البنا سے ہماری پہلی ملاقات اور الاخوان المسلمون سے ہمارا پہلا تعارف تھا!‘‘

بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے سابق سربراہ اور مصر کے اعلیٰ پائے کے  عالم و مربی ڈاکٹر احمد العسَّال راقم کو اپنی زمانۂ طالب علمی اور اخوان سے وابستگی کی یادیں سنا رہے تھے۔ آج ہمارے یہ انتہائی محترم و محسن مربی ۸۲ سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے تو ان سے وابستہ ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ ڈاکٹر احمد العسَّال مرحوم سے راقم کا پہلا تعارف دورانِ تعلیم ہوا تھا۔ قطر کے معہد دینی میں تفسیر و حدیث کی اکثر نصابی کتابوں پر مؤلف کا نام احمدالعسَّال لکھا ہوا تھا۔ تب ان کے بارے میں صرف یہی معلوم تھا کہ جامعۃ ازہر کے بڑے عالم دین ہیں، جو دین کا واضح اور جامع تصور رکھتے اور بہت مؤثر و آسان انداز سے طلبہ کو سمجھانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آیا تو کچھ عرصے کے بعد، اسلام آباد میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے ہاں ڈاکٹرصاحب سے پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پھر ملاقاتوں کا ایک تسلسل رہا اور   ان سے کسب ِ فیض کا سلسلہ بھی۔ ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل علامہ یوسف القرضاوی کی زیرسرپرستی قائم ہونے والے عالمی اتحاد العلما کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ہوئی۔ اخوان اور امام البنا سے اپنی یادوں کا تذکرہ مرحوم نے اسی آخری ملاقات میں کیا تھا۔

احمد العسَّال (مرحوم) ۱۶ مئی ۱۹۲۸ء کو مصر کے ضلع غربی بسیون کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ تقریباً ۱۰ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا جس پر انھیں شاہ فاروق میڈل ملا جو ۱۲سال سے کم عمر میں قرآن حفظ کرنے والوں کو دیا جاتا تھا۔ حفظ قرآن کے دوران ہی میں پرائمری کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ مختلف تعلیمی مراحل سے گزرتے ہوئے وہ جب جامعہ ازہر کی زیرنگرانی چلنے والے معہد دینی میں پہنچے تو وہاں (علامہ) یوسف القرضاوی ان کے ہم جماعت تھے۔

ڈاکٹر احمد العسَّال فرما رہے تھے: ’’معہد میں اخوان کے مکتب ارشاد (مجلسِ عاملہ) کے ایک رکن جناب بہی الخولی بھی پڑھاتے تھے۔ انھوں نے ہم دونوں (عسال،قرضاوی) سے ہرہفتے اتوار اور منگل کو ملاقات کا وقت طے کر دیا۔ پھر ہم گویا ان کی زیرتربیت اور ان کا ربط تھے۔ میں ۲۰سال کا تھا کہ ۱۹۴۸ء میں اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ ہم طلبہ نے اس پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا تو شیخ یوسف القرضاوی اور مجھ سمیت کئی ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ہماری پہلی گرفتاری تھی۔ جیل پہنچے تو اخوان کے کئی قائدین گرفتار تھے۔ شیخ محمد الغزالی اور امام البنا کے دست راست شیخ عبدالمعز عبدالستار بھی گرفتار شدگان میں شامل تھے۔ ہمیں ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل کیا جاتا رہا، تقریباً نو ماہ کے بعد رہا کیا گیا تو ہمارے سالانہ امتحانات گزر چکے تھے۔ ڈاکٹر طٰہٰ حسین اس وقت وزیرتعلیم تھے۔ مختلف کوششوں کے بعد گرفتار شدہ طلبہ کے لیے الگ سے امتحان کا انتظام کردیا گیا اور اس طرح الحمدللہ ہمارا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ گیا۔

جامعہ ازہر کی کلیہ شرعیہ میں داخل ہوئے، لیکن ۱۹۵۳ء میں دوبارہ گرفتار کرلیے گئے۔ ہمیں جنگی جیل میں رکھا گیا۔ ۱۹۵۶ء میں رہائی ہوئی اور اس کے بعد اپنی تعلیم مکمل کی۔ ڈاکٹر احمد العسَّال نے تو دورانِ گرفتاری تعذیب و تشدد کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس ضمن میں ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر جاسر العودہ کی ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔ اخوان المسلمون کے ایک انتہائی جلیل القدر رہنما عبدالقادر عودہ شہید کے بھتیجے ڈاکٹر جاسرعودہ لکھتے ہیں:’’تقریباً دو سال پہلے میرے محسن، میرے مربی اور میرے استاد، مرحوم احمد العسَّال نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ میں پہنچا تو انھوں نے خلافِ معمول بہت پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صرف میں اکیلا ہی کھانے پر مدعو تھا اور اتنا ڈھیر سارا انتظام کیا گیا تھا۔ پوچھا تو کہنے لگے: میں نے تمھارے لیے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے کیونکہ میں تمھارے چچا عبدالقادر عودہ شہید کے حسن سلوک کا جواب انھیں تو نہیں دے سکا، کم از کم تمھیں ہی دے دوں۔ ہم جنگی جیل میں گرفتار تھے، مجھ پر بے تحاشا تشدد کیا جارہا تھا۔ اسی دوران میں جیلر، عبدالقادر عودہ کو لے کر سامنے سے گزرے۔ انھوں نے مجھے دیکھا تو وہیں رُک گئے اور اپنے ساتھ جانے والے پولیس افسروں کو زوردار آواز میں ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’بے گناہ اور نیک سیرت نوجوان کو مار ہی دینا چاہتے ہو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ میری طرف بڑھے۔ میرے گال سے ایک لوتھڑا کٹ کر لٹک رہا تھا اور قریب تھا کہ وہ گال کٹ کر گرجاتا۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے لوتھڑے کو دوبارہ اپنی جگہ چپکایا اور کچھ دیر وہاں سے اُٹھنے سے انکار کر دیا۔ عبدالقادر عودہ شہید نے میرے ساتھ یہ احسان اس وقت کیا، جب خود انھیں کچھ روز بعد پھانسی پر لٹکاتے ہوئے شہید کیا جانا طے تھا۔ اسی طرح ان کا مجھ پر یہ بھی احسان ہے کہ ایک بار میں نے مقاصد ِ شریعت پر چھوٹی سی تحریر لکھی۔ انھوں نے اس کی بہت تعریف کرتے ہوئے میری حوصلہ افزائی کی۔ میں شہید کے احسانات کا بدلہ انھیں تو نہیں لوٹا سکا، البتہ انھیں یاد کرتے ہوئے آج تمھیں بلا لیا‘‘۔

ڈاکٹر عسَّال مرحوم نے کبھی اس تشدد کا ذکر نہ کیا تھا۔ جیل کے زمانے کا ذکر آ بھی جاتا تو بتاتے کہ ہم پر بہت سختی کی گئی۔ ہمیں ہر چیز سے محروم کر دیا گیا، حتیٰ کہ قرآن کریم اور دینی کتب سے بھی۔ گویا قرآن سے چند روز کی فرقت ہی سب سے بڑی سزا تھی جو انھیں ہمیشہ یاد رہتی، حالانکہ قرآن تو اکثر اسیروں کے سینوں میں محفوظ تھا اور ہمیشہ ورد زبان رہتا تھا۔

جیل سے رہائی اور تعلیم مکمل کرلینے کے بعد بھی احمد العسَّال کی آزمایشیں ختم نہیں ہوئیں۔ حکومت نے ان پر پابندی لگا دی کہ کہیں ملازمت نہیں مل سکتی۔ کچھ عرصہ پرائیویٹ اسکولوں میں عربی زبان اور دینی علوم کی تعلیم دیتے رہے، پھر انھیں اور شیخ یوسف القرضاوی کو جامعہ ازہر کے سربراہ شیخ شلتوت کے ایما پر ریاست قطر میں ملازمت مل گئی۔ اس دور کے بارے میں عسّال مرحوم فرماتے تھے: ’’ہم جب قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے تو وہاں بھی عرب قومیت کی تحریک جڑ پکڑ چکی تھی، بالخصوص طلبہ کے ذہن میں یہ خناس بھرا جا رہا تھا کہ عہدِاسلام لد چکا، اب عرب ازم کا زمانہ ہے۔ ہم نے آواز اٹھائی کہ نہیں، اسلام کسی صورت ختم نہیں ہوسکتا اور عرب قومیت اسلام کے بغیر نری جاہلیت ہے۔ اسلام، قرآن ہے، اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ہم نے پورا تعلیمی سال اسی موضوع پر تقاریر، کانفرنسوں اور مشاورتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہم نے عرب بعث ازم کا مطالعہ کر کے ان کی ایک ایک بات کا رد کیا‘‘۔ وہ کہتے تھے: ہم عربی زبان اور عرب تاریخ کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔ ہم کہتے: قرآن کریم کے بغیر عربی زبان زندہ ہی نہیں رہ سکتی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کی تاریخ کے بغیر کوئی تاریخ، تاریخ ہی نہیں کہلا سکتی۔

تعلیمی سال کے اختتام پر چھٹیاں ہوئیں۔ ہم مصر چھٹیاں گزارنے گئے تو وہاں بھی ہماری شکایات پہنچ چکی تھیں۔ مجھے اور شیخ یوسف قرضاوی صاحب کو پھر گرفتار کرکے تحقیقاتی ایجنسیوں کے سپرد کر دیا گیا۔ کسی کو ہمارے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ ہم سے پوچھ گچھ شروع ہوئی، ہم نے جواب دیا: ہم دونوں جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل ہیں، دین کی دعوت ہمارا فریضہ ہے، یہ بھی نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ خیر ہماری رہائی ہوئی لیکن جب چھٹیوں کے بعد واپس دوحہ قطر پہنچے تو ہمارے پاسپورٹ کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا گیا اور واپس مصر جانے کا کہا گیا، تاکہ دوبارہ گرفتار ہوجائیں۔ اس موقع پر میں نے مصر جانے کے بجاے برطانیہ جانے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا پروگرام بنا لیا، جب کہ قرضاوی صاحب قطر ہی میں رہے۔

۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۰ء تک میں برطانیہ رہا۔ اس دوران میں کیمبرج یونی ورسٹی سے اصولِ فقہ میں پی ایچ ڈی کی اور برطانیہ میں دعوتِ اسلامی کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا موقع ملا۔ پھر مجھے لیبیا جاکر دعوت و تربیت کی سرگرمیاں منظم کرنے کے لیے کہا گیا۔ وہاں پہنچا تو کچھ عرصے کے بعد کرنل قذافی کا انقلاب آگیا۔ وہاں سے سوڈان چلے جانے کو کہا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہاں جنرل جعفر نمیری کا انقلاب آگیا۔ بعدازاں میں ریاض یونی ورسٹی کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگیا۔ اس دوران میں مرشدعام عمر تلمسانی مرحوم نے مصر واپسی کا کہا۔ میں ملازمت چھوڑ کر مصر واپس چلا گیا۔ وہاں پھر گرفتاریوں کے لیے چھاپے پڑنا شروع ہوگئے اور مجھے دوبارہ ریاض یونی ورسٹی آنا پڑا۔ اسلام آباد میں اسلامی یونی ورسٹی کی بنیاد رکھی گئی تو مجھے بھی وہاں طلب کرلیا گیا، جہاں کچھ عرصے کے لیے یونی ورسٹی کا سربراہ رہنے کے علاوہ مختلف اوقات میں مختلف ذمہ داریاں ادا کیں اور ۲۰۰۳ء میں مصر واپس آگیا۔ اسلام آباد قیام کے دوران میں افغان مسئلے نے بھی بہت وقت لیا اور آخرکار اللہ تعالیٰ نے افغانستان کو روسی پنجے سے نجات عطا کی۔

طویل سفر کے بعد عالم ربانی، علم، حلم، شائستگی اور محبت کا پیکر، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو اور ہردم اصلاح و فلاح اُمت کے لیے فکرمند، فیصل مسجداسلام آباد کے خطیب اور پاکستان سے  والہانہ محبت رکھنے والے ڈاکٹر احمد العسَّال ۱۰جولائی ۲۰۱۰ء کو قاہرہ میں ابدی راحت پاگئے۔ بچپن کے ہم جولی، سفروسلاسل کے ساتھی اور کئی دعوتی کتابوں کی تیاری میں شریک مؤلف علامہ یوسف القرضاوی اتفاق سے اس وقت مصر ہی میں تھے۔ انھوں نے جگری دوست کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اخوان کی پوری قیادت نمازِ جنازہ میں شریک تھی۔ رہے دعا کرنے والے اور ان کے جنتی ہونے پر یقین رکھنے والے، تو وہ لاکھوں کی تعداد میں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر احمد العسَّال سے آخری ملاقات چند ماہ قبل ترکی کے شہر استنبول میں ہوئی تھی۔ وہاں علامہ یوسف القرضاوی صاحب کے قائم کردہ عالمی اتحاد العلما کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس تھا۔ دنیابھر سے آئے ۴۵ منتخب ارکان کی مجلس میں، حُسنِ اتفاق سے میری نشست ڈاکٹر احمد العسَّال کے پہلو میں تھی۔ دورانِ اجلاس جب بھی موقع ملتا یا کوئی وقفہ ہوتا، عسال مرحوم پاکستان کے بارے میں کوئی نہ کوئی استفسار کرتے۔ ایک ایک ساتھی،ایک ایک سیاسی جماعت، دینی ادارے اور افراد و شخصیات کے بارے میں پوچھتے اور پاکستان کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ اجلاس کے اختتام پر پھر الگ سے ایک تفصیلی نشست کی اور اخوان، جماعت کے علاوہ پاکستان، افغانستان اور کشمیر کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ بار بار یہ بھی کہا: پاکستان میں گزرنے والا عرصہ میری زندگی کا بہترین عرصہ ہے۔ پاکستان عالمِ اسلام کا اثاثہ ہے، اس اثاثے کی حفاظت  ہم سب کی مشترک ذمہ داری ہے___!

۱۴؍اپریل ۲۰۱۰ء میں سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ابھی راستہ ہی میں تھا کہ موبائل فون سے ’مختصر پیغام‘ پڑھ کر دل سے ایک آہ نکلی___ اسرار بھائی ایک عالم کو سوگوار چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

’مختصر پیغام‘ بھیجنے والے نے ڈاکٹر اسرار احمد کی حرکت ِ قلب کے بند ہونے سے انتقال کی خبر اور نمازِ جنازہ میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے آخری دیدار اور نمازِجنازہ میں شرکت سے محروم رہا، لیکن دل کی گہرائیوں سے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعائیں کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر بھر کی مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے، بشری لغزشوں سے عفوودرگزر فرمائے، ان کی قبر کو گوشۂ فردوس بنادے اور ابدی زندگی میں ان کو جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے نوازے، آمین، ثم آمین!

اسلامی جمعیت طلبہ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سب سے اہم زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور اہداف کا شعور اور رب کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے کا عزم، شوق، کوشش اور دین حق کی شہادت اور اس کے قیام کی جدوجہد کے لیے زندگی کو وقف کرنے کا عہد ہے۔ تاہم عام لوگوں کی نظر میں بظاہر ایک معمولی اور حقیقت میں بڑا ہی قیمتی احسان یہ بھی ہے، کہ اس کی آغوش میں شعور کی منزلیں طے کرنے والے ایک ایسے رشتۂ اخوت میں جڑ جاتے ہیں، جسے زمانے کی کروٹیں اور اختلافات کے طوفان بھی کمزور نہیں کرپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد ایک عالمِ دین، ایک داعیِ خیر، ایک معتبر شخصیت ہونے کے ساتھ’ڈاکٹر اسرار‘ ہی ہوں گے، لیکن میرے لیے اور جمعیت کی پوری برادری کے لیے        وہ اوّل و آخر اسرار بھائی تھے، ہیں اور رہیں گے  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

میری اور اسرار بھائی کی پہلی ملاقات ۱۹۵۰ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سالانہ اجتماع منعقدہ لاہور میں ہوئی۔ میں جمعیت کا نیا نیا رکن بنا تھا اور ساتھ ہی کراچی جمعیت کی نظامت کا بار ڈال دیا گیا تھا۔ اسراربھائی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے غالباً پہلے سال میں تھے۔ برادرم ظفراللہ خان جمعیت کے ناظم اعلیٰ تھے اور ہماری سرگرمیوں کا گہوارا محترم نصراللہ خان عزیز صاحب کا گھر تھا۔ اس ملاقات میں جن تین ساتھیوں نے بہت متاثر کیا ان میں نسیم بھائی، اسراربھائی اور مسلم سرحدی نمایاں تھے۔ اخوت کا جورشتہ اس موقع پر قائم ہوا، اس نے ساری عمر ہم کو ایک دوسرے کے لیے اسراربھائی اور خورشید بھائی ہی رکھا___ اگرچہ ۶۰سال کے اس طویل عرصے میں اتفاق اور اختلاف، قربت اور عدمِ ارتباط کے شیریں اور تلخ لمحات سفینۂ حیات کو ہچکولے دیتے رہے۔ جمعیت میں ہم نے چار سال ساتھ گزارے۔ ۱۹۵۰ء میں نسیم بھائی ناظم اعلیٰ بنے، ۱۹۵۱ء میں خرم بھائی، ۱۹۵۲ء میں اسرار بھائی، اور ۱۹۵۳ء میں یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ پھر جماعت اسلامی میں بھی ہمارا ساتھ رہا۔ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں میرے اور ان کے موقف میں بڑا فرق تھا، لیکن ذاتی محبت کا وہ رشتہ جو ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا وہ کبھی نہ ٹوٹا: الْحَمْدُلِلّٰہ عَلٰی ذٰلِکَ۔

اسرار بھائی اور مَیں ایک ہی سال اس دنیا میں آئے۔ وہ جمعیت میں میرے سینیر رہے۔ تقسیم سے قبل اسرار بھائی رہتک، ہریانہ میں ابتدائی تعلیم اور تحریکِ پاکستان میں شرکت کے مراحل سے گزرے۔ میں نے دہلی میں آنکھیں کھولیں اور وہاں تحریکِ پاکستان میں بھرپور شرکت کی۔ ہمارے یہ ابتدائی تجربات زندگی کے رُخ کو متاثر کرنے کا ذریعہ بنے لیکن اصل فیصلہ کن دور، اسلامی جمعیت طلبہ میں گزارے ہوئے چند سال ہی رہے۔ پہلے دن سے اسرار بھائی کی خطابت اور خوداعتمادی کا نقش دل پر ثبت ہوگیا۔

اللہ تعالیٰ نے اسرار بھائی کو دل و دماغ کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ علمی، دعوتی اور تنظیمی، تینوں اعتبار سے وہ منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ قرآن سے شغف اور زبان و بیان پر قدرت کے باب میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ بے پناہ خوداعتمادی کے حامل تھے جو کبھی کبھی   شدتِ اظہار میں غلط فہمی کا باعث بھی ہوجاتی تھی اور قائدانہ صلاحیت جو ان کو نمبر ایک پوزیشن سے کم پر ٹھیرنے نہیں دیتی تھی، ان کے مزاج اور کردار کی امتیازی شان تھے۔

وہ ایک اچھے اور مہربان ڈاکٹر تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے طبّی علاج معالجے سے کہیں بڑا کام لینا تھا۔ علامہ اقبال، مولانا مودودی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کی فکر اور شخصیت کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔ دین کا جامع تصور ان کے رگ و پے میں سماگیا تھا۔ پھر اپنی محنت اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فیضان سے انھوں نے قرآن کریم کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ اسلامی انقلاب کے طریق کار کے بارے میں انھوں نے مولانا مودودی کے تجزیے اور عملی جدوجہد سے اختلاف کیا، لیکن یہ حقیقت ہے جماعت سے رشتہ توڑ لینے کے باوجود وہ زندگی کے ہردور میں، اور اپنے آخری لمحے تک اسلام کے انقلابی تصورِ دین کے   علَم بردار رہے۔ اپنے علم اور ادراک کے مطابق پورے خلوص، یکسوئی اور جانفشانی کے ساتھ قرآن کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے اور دین کو غالب قوت بنانے کی جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی جہاد زندگانی میں جاں جانِ آفریں کے سپرد کی۔

اسرار بھائی نے جدید اور قدیم، دونوں علوم سے بھرپور استفادہ کیا اور اس علم کو دعوتِ دین کے لیے بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ ان کی شخصیت کے سب سے اہم پہلو ان کی یکسوئی، خوداعتمادی اور خدمتِ دین کے لیے خطابت تھے۔ قرآن کو انھوں نے اپنا وظیفۂ حیات بنا لیا تھا۔ اس کے پیغام کو گہرائی میں جاکر سمجھا تھا اور جس بات کو حق جانا اس پر نہ صرف خود قائم ہوئے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کے قیام کی منظم جدوجہد میں شریک کیا۔ ان کے درسِ قرآن کے پروگرام ملک اور ملک سے باہر دعوت کا اہم ذریعہ بنے۔ پھر الیکٹرانک میڈیا پر قرآن کے پیغام کو پھیلانے   کے لیے انھوں نے منفرد خدمات انجام دیں۔ بلاشبہہ ان کو اللہ تعالیٰ نے تحریر کی صلاحیت سے بھی نوازا تھا، تاہم ان کی تحریر میں بھی خطابت کی شان نمایاں رہی۔ جو کتابیں انھوں نے جم کر لکھی ہیں،       وہ ہراعتبار سے علمی شاہکار ہیں۔ البتہ ان کے لٹریچر کا بڑا حصہ ان کی تقاریر اور دروسِ قرآن کا مرہونِ منت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں اعلیٰ تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انھوں نے     اسلامی جمعیت طلبہ، انجمن خدام القرآن، تنظیم اسلامی اور عالمی تحریکِ خلافت کے ذریعے      اپنی بہترین صلاحیتیں دین کی خدمت میں صَرف کیں۔ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام تھا اور بلاشبہہ ان کی شعوری کوششوں کا بھی اس میں بڑا دخل تھا کہ ان کا پورا خاندان دین حق کی خدمت میں ان کا شریکِ سفر تھا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جو چراغ انھوں نے جلائے ہیں وہ ہمیشہ روشن رہیں۔ گذشتہ کئی سال سے ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ میری آخری ملاقات ان سے امریکا میں ہارٹ فورڈ سیمینری میں ہوئی، جہاں مجھے لیکچرز کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان کے حلقے سے چند نوجوانوں کے ذریعے جو میرے لیکچرز میں بھی شریک تھے، ان کے ساتھ ایک شام گزارنے کا موقع ملا۔ پروفیسر ابراہیم ابوربیعہ کے گھر پر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا اور پرانے تعلقات کی تجدید کی۔

اختلافی امور پر بھی ملک میں اور ملک سے باہر بھی بارہا بات ہوئی، لیکن محبت اور اعتماد  کا جو رشتہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا، وہ زندگی بھر قائم رہا۔ یہ سب اللہ کا فضلِ خاص اور طریق کار      کے بارے میں اختلاف کے باوجود اصل مقصد کے اشتراک اور باہمی اخوت اور اعتماد کا نتیجہ تھا۔ اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے    ؎

ساز دل چھیڑ کے بھی، توڑ کے بھی دیکھ لیا

اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کی

مولانا عبدالحق بلوچ دو سال کی صبرآزما علالت کے بعد جو زندگی اور موت کی کش مکش سے عبارت تھی، ۲۹ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ (۱۶ مارچ ۲۰۱۰ئ) ربِ حقیقی سے جا ملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

مولانا عبدالحق ۵ جنوری ۱۹۴۷ء کو مکران کے شمالی علاقے زمران میں پیدا ہوئے۔ وہ پیدایشی طور پر ہی ایک گردے سے محروم تھے، اس طرح صرف اس ایک گردے نے ۶۳ سال تک ان کا ساتھ دیا۔ آخری دو سال ڈائی لیسز پر زندگی گزار رہے تھے اور بالآخر ڈاکٹروں کے مشورے پر گردے کی تبدیلی (transplant) کا فیصلہ ہوا اور ان کے ایک صاحبزادے نے باپ کی زندگی بچانے کے لیے اپنا گردہ پیش کیا لیکن اللہ کا حکم کچھ اور تھا۔ جسم نے اس گردے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بالآخر مولانا نے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی، اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں اور اپنے خاندان ہی کو سوگوار نہیں چھوڑا، بلوچستان کے ہرطبقے اور ہرمسلک اور ہرسیاسی وفاداری کے حامل ہزاروں انسانوں کو اَشک بار چھوڑ کر عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف عازمِ سفر ہوگئے۔

مولانا عبدالحق سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ۱۹۸۵ء کی قومی اسمبلی میں تربت سے منتخب ہوکر پہنچے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں جماعت اسلامی کو نمایندگی ملی تھی۔ مولانا عبدالحق نے تربت سے قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کی نشستیں جیتی تھیں اور پھر مرکزی اسمبلی کی سیٹ کو رکھ کر قومی سطح پر انھوں نے ایک کامیاب کردار کا آغاز کیا۔ پھر ۱۹۸۸ء میں وہ صوبہ بلوچستان کے امیرجماعت اسلامی مقرر ہوئے اور یہ ذمہ داری انھوں نے ۱۵ سال تک بڑی حکمت اور جانفشانی سے انجام دی۔ ۲۰۰۳ء میں مرکزی نائب امیر کی ذمہ داری سنبھالی اور آخری لمحے تک صحت کی خرابی کے باوجود تحریکِ اسلامی اور ملک و ملّت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ آخری ایام میں بھی جب بیماری نے جسمانی قوت کو شدید مضمحل کردیا تھا تحریکِ اسلامی اور پاکستان کے مسائل کے بارے میں ان کی فکرمندی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔    اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبول سے نوازے، بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازے، آمین!

مولانا عبدالحق بلوچ ہر اعتبار سے ایک ایسے قومی اور تحریکی رہنما تھے جنھوں نے اپنے خلوص اور اپنی شب و روز کی محنت سے قیادت کے اعلیٰ مقامات کو حاصل کیا۔ ابتدائی زندگی دیہات کے زرعی ماحول میں گزاری۔ تعلیم کا آغاز اپنے شوق سے، زمین داری اور گلہ بانی کی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنے والد مولانا محمد حیات اور اپنے چچا مُلّا شفیع محمد کے دست شفقت پر کیا۔ تربت کے    ہائی اسکول سے میٹرک کی سند حاصل کرکے دینی تعلیم کے لیے کراچی منتقل ہوئے۔ یہاں پہلے مدرسہ مظہرالعلوم، لیاری میں ایک سال تعلیم حاصل کی اور پھر حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے دارالعلوم کراچی کورنگی میں داخلہ لیا جہاں سے وہ ۱۹۷۳ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔

مولانا مودودیؒ کی کتب سے والد محترم کی لائبریری ہی سے تعلق قائم ہوگیا تھا۔ پھر کراچی کے قیام کے دوران تحریک کا پورا لٹریچر پڑھا اور عملاً جمعیت اور جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ البتہ باقاعدہ رکنیت کا تعلق ۱۹۸۰ء میں قائم ہوا، اور پھر اپنے خلوص، محنت، مسلسل جدوجہد اور علمی اور تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک قومی سطح کے لیڈر کی حیثیت سے اپنے نقوش چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔

مولانا عبدالحق کی زندگی بڑی سادہ اور ہرقسم کے تصنع سے پاک تھی۔ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری نقش ان کی سادگی، اور ظاہر اور باطن کی یکسانی ہی کا اُبھرتا ہے۔ دنیا پرستی کا کوئی سایہ ان کی زندگی پر نظر نہیں آتا۔ مجھے اپنے ۲۵ سالہ ربط و تعلق میں دنیوی مفادات کے باب میں دل چسپی کا کوئی ایک واقعہ بھی یاد نہیں۔ روایتی دینی اور مشرقی تہذیب کا وہ ایک بے مثال نمونہ تھے اور حق کی تلاش، حق کا قبول اور حق کی راہ پر استقامت ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ علمی اعتبار سے میں نے ان کو بہت بلندمرتبہ انسان پایا۔ ان کا مطالعہ وسیع اور حافظہ اور استحضار قابلِ رشک تھا اور اس کے ساتھ بے مثال انکسار۔ ان کی گفتگو سے ادعاے علم کا دُور دُور بھی کوئی شائبہ کبھی محسوس نہیں ہوا لیکن میں نے علمی اعتبار سے ان کو بہت ہی محکم پایا۔ کتابوں سے ان کو غیرمعمولی شغف تھا۔ ۱۹۹۳ء میں کابل میں ایک ماہ ہمیں ایک ساتھ ایک کمرے میں رہنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں ان کی شخصیت کو سمجھنے کا نادر موقع ملا۔ سادگی کے ساتھ بذلہ سنجی اور لطیف مزاح ان کی شخصیت کا حصہ تھے لیکن ان سب سے مستزاد ان کا علمی شوق اور دعوت و خدمت کا جذبہ تھا۔ کابل کے قیام کے دوران صبح و شام میزائلوں کی بارش کے ماحول میں بھی وہ، پروفیسر ابراہیم اور یہ خاکسار بار بار کابل کے بازاروں میں پرانی کتابوں کے انبار میں گوہرمطلوب کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے، اور   مولانا عبدالحق کا انہماک ہم میں سب سے زیادہ تھا۔ مولانا کا علمی ذوق بہت ہی ستھرا اور متنوع تھا۔

بلوچستان اور ملک کے مسائل پر مولانا سے جب بھی بات کرنے کا موقع ملا ان کو بہت زیرک پایا۔ معلومات کا ایک خزانہ ان کے پاس ہوتا اور یہ صرف اخباری اطلاعات پر مبنی نہیں تھا۔ ان کا ذاتی ربط ہر مکتب ِ فکر اور ہر سیاسی نقطۂ نظر کے حامل افراد سے رہتا تھا اور اس طرح ان کے سامنے مسئلے کے تقریباً تمام ہی رُخ ہوتے اور سب جماعتوں اور گروہوں کی راے اور تجزیے سے  وہ واقف ہوتے تھے۔ سیاسی مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ وسعتِ نظر اور حقیقت پسندی بے حد ضروری ہے۔ ہمارے حلقے میں سب ساتھی اس کا پورا اہتمام نہیں کرتے لیکن مولانا عبدالحق کا ربط و تعلق ہرگروہ سے تھا اور وہ ان کے فکر اور تجزیے سے بخوبی واقف ہوتے تھے، بلکہ میں یہاں تک کہنے کی جسارت کروں گا کہ ان کو سب حلقوں کا اعتماد حاصل تھا اور یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کی سیاسی قیادت کو لازماً فکر کرنی چاہیے۔ ان کی وفات پر جس طرح جماعت اسلامی کے تمام کارکن اور قیادت افسردہ اور غم زدہ ہے، اسی طرح دوسرے سیاسی مسلک، حتیٰ کہ ان کے موقف کے بالکل برعکس راے رکھنے والے بھی ان کی کمی کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے لیے اَشک بار ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مسلک بقول ماہر القادری کچھ ایسا تھا کہ    ؎

وہ کوئی رند ہو، یا پارسا ہو

فقیروں کا تو یارانہ ہے سب سے

مولانا عبدالحق بلوچ کے انتقال پر جن تاثرات کا اظہار سید منور حسن، قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ نے کیا ہے اس سے ملتے جلتے جذبات ہی کا اظہار نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک، ڈاکٹر اسماعیل بلیدی اور بلوچ نیشنل فرنٹ کے ترجمانوں نے بھی کیا ہے۔ اسی طرح افغانستان اور ایران کے رہنمائوں نے بھی اس غم میں شرکت کا اسی طرح اظہار کیا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے ان کا جنازہ تربت کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں بلوچستان ہی نہیں تمام ملک سے سوگواروں نے شرکت کی اور نمازِ جنازہ پڑھانے کی ذمہ داری محترم نعمت اللہ خان صاحب نے انجام دی۔ اللہ تعالیٰ مولانا عبدالحق مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کی بیوہ اور بچوں کو اور تمام رشتہ داروں اور محبت کرنے والوں کو صبرجمیل سے نوازے، اور جو خلا ان کے اُٹھ جانے سے پیدا ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے، آمین!

میاں طفیل محمد ؒجماعت اسلامی کے اکابرین میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان جیسی شخصیت اور مزاج کے حامل لوگ اب خال خال دیکھنے کو ملیں گے۔الفاظ کا ذخیرہ زیادہ دیر تک اور دور تک ساتھ نہیں دیتا وگرنہ درویش صفت کہنا، فقیر منش کا عنوان دینا، سادگی کا ان پر ختم ہوجانا اور للہیت کا پیکر ہونا، مزید یہ کہ بے غرضی اور بے نفسی کا سراپا ہونا، ایسی صفات ہیں جو گفتگواور تحریرمیں باربار گنوائی گئی ہیں، فی الحقیقت میاں صاحب مرحوم ان تمام صفات اور خصوصیات کامرقع تھے۔

میاں صاحب پر اللہ کا کرم ہوا کہ ان کا تعارف سید مودودی ؒ سے ہو گیا اور مولاناؒ کو ایک بے ریا، محنتی ، فرض شناس اور حقیقی معنوں میں متقی کارکن میاں صاحبؒ کی صورت میں انعام خداوندی کے طور پر مل گیا۔ دنیوی لحاظ سے تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا تھا کہ شان دار تعلیمی کیرئیر، اپنی ریاست میں پہلا مسلمان وکیل جس کے سامنے بے شمار مواقع و امکانات ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے،اور ریاست کا راجا مُصر تھا کہ ہائی کورٹ کی ججی دلوا دے گا مگر وہ میاں طفیل محمد ہی کیا جو ان چیزوں میں الجھ جاتے۔یہ ساری باتیںفی الحقیقت ان کی نظر میں فروعات کی حیثیت رکھتی تھیں، اصل بات فریضۂ اقامتِ دین تھا۔یہی ان کی بابرکت زندگی کا نصب العین اور جلی عنوان بنا۔ اس نصب العین کی معرفت انھیںسیدمودودیؒ سے حاصل ہوئی۔اس لیے وہ ساری عمر کے لیے سید علیہ الرحمہ کے احسان مند بھی ہوئے اور نیاز مند بھی۔ میاں صاحب ؒ بلاشبہہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سامنے دنیااپنی ساری رعنائیوںکے ساتھ کھڑی تھی مگر اس مردِ درویش نے اس پر ایک نگہِ غلط انداز ڈالنا بھی گوارا نہ کیا۔سچ بھی یہی ہے کہ جو آدمی یکسو ہوجائے اور اپنے مقصدِ حیات کی معرفت حاصل کرلے، اس کے سامنے دنیا کی حیثیت مردار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ علامہ اقبالؒ نے میاں صاحب جیسے لوگوں کے لیے کہا تھا   ع

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے

بظاہر میاں صاحبؒ نے عسرت اور تنگ دستی کی زندگی گزاری مگر عشقِ الٰہی سے سرشار لوگوں کا نشہ کوئی ترشی اتار نہیں سکتی۔ سیدمودودی ؒ سے ان کی محبت اور عقیدت کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ  وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ میرے محسن ہیںاور مجھے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ہیں۔ جس شخص کے ذریعے انھوں نے زندگی کے نصب العین کو سمجھا اور زندگی کے مقاصد کو پہچانا اور جس شخص کے ذریعے ان میں دنیاداری سے بہت دور اپنے آپ کو بسانے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ بیدارہوا، اس کی قدرومنزلت، دل و دماغ کی دنیا میں اس کا مقام اور اس سے تعلّقِ خاطر ، بلاشبہہ یہ احسان شناسی ہے اور ساری عمر ’’مرہون منت‘‘ رہنے کا عنوان بھی۔یہ میاں طفیل محمدؒ کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسانی قدروں اور اخلاقیات کے ہر تقاضے کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔

میاں طفیل محمدؒ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبارسے پختہ راے کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔ راے قائم کرنے میں جس بصیرت و بصارت اور فراست کی ضرورت ہوتی ہے، میاں صاحب ان تمام حوالوں سے آراستہ و پیراستہ تھے،اور کبھی کبھی سخت گیری کی حد تک بھی اپنی راے پر عمل درآمدکے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ اپنی راے کو پیش کرنے اور کسی مجلس سے اس کی ہم نوائی حاصل کرنے میں جس ملکہ اورجن خصوصیات کی ضرورت پڑتی ہے،بظاہر      میاں صاحبؒ کی شخصیت میں ان کی کمی محسوس ہوتی تھی،اور وجہ یہ ہے کہ وہ معروف معنوں میں زبان آور یا چرب زبان نہیں تھے،اکل کھرے آدمی تھے۔ کم لوگ اس بات کو پوری طرح جانتے ہوں گے کہ میاں صاحب ؒ کی تحریر میں جو جامعیت اور شستگی تھی، ان کی زبان و بیان ہرگز اس کا پاسنگ نہ تھے۔ ان کی تحریر میں بلاغت ،سلاست اور جامعیت ، سبھی کچھ پایا جاتاہے۔ تقریریا گفتگو میں ان کا لہجہ کچھ اورتھا۔ ان کی تحریر میںبعض دفعہ تو سید مودودیؒ کا رنگ جھلکتا نظر آتا تھا۔ جن لوگوں نے میاں صاحب کی دست نوشت تحریر دیکھی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ اس میں بھی سیدمودودیؒ کے ساتھ مشابہت موجود تھی۔ اگر میاں صاحب لکھنا شروع کردیتے تو بلاشبہہ آسانی سے مصنّفین کی صف میں شامل ہو سکتے تھے مگر پھر جماعتی ذمہ داریاں کیسے پوری ہوتیں۔

اس میدان میں میاں صاحب کی شخصیت اپنے مقصد زندگی کے علاوہ باقی معاملات سے بے نیاز نظر آتی ہے۔ ابتدا ہی سے جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں، رپورٹوں، ان پر تبصروں اور معاملات و تنازعات کو نمٹانے میں اس حد تک ڈوب کر اپنے آپ کو پانے کا عمل جاری رہا کہ سرکھجانے کی فرصت میسر نہ آتی تھی، اس پر مستزاد تنظیمی دوروں، کارکنوں کی خبرگیری، ان کے دکھ درد سے آشنا ہونے اور ان کی سیرت و کردار کے ہر جھول کو دور کرنے میں میاں صاحب ؒاس قدر مصروف رہے کہ قلم و قرطاس کے ذریعے اپنی تحریر کاذوق لوگوں میں پیدا نہ کرسکے۔ جماعت اسلامی کی رودادوں میں اوربعض دیگرمقامات اور عنوانات کے حوالے سے ان کی بعض تحریریں یا تقریریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ان کے ذہنِ رسا کی گواہی دیتی ہیں۔ دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات میں ان کا مضمون اس کے باوجود کہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولاناامین احسن اصلاحیؒ کے مضامین کے ساتھ طبع ہواہے ،اپنی انفرادیت منواتا ہے اور ہر پڑھنے والے سے داد وصول کرتا ہے۔

مجھے ان کی کتابِ زیست کے اَن گنت اوراق اپنے سامنے کھلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی مربوط کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جیسے میاں صاحب ؒ نے نماز کو اپنی زندگی کا امام قرار دیاہواتھا۔انھیں نماز پڑھتا دیکھ کرپتا چلتا تھا کہ خاصانِ خدا کی نمازکیسی ہوتی ہے۔ ان کی کتابِ زندگی کی ورق گردانی کریں تو یہ بات واضح ہوجا ئے گی کہ ان کی زندگی کا محور نماز ہے اور نماز کے پرتوسے ان کی زندگی جگمگااٹھی ہے۔جس اہتمام و تیاری سے اور جس درجہ ڈوب کر انھیں ہمیشہ نماز پڑھتے دیکھا گیااورنماز کو باجماعت پڑھنے کی حرص کو ہمیشہ بیدار پایا گیا، ان کا یہ عمل دیکھنے والے کو مجسمۂ حیرت بنا دیتا تھا۔ میاں صاحب اپنی ذات میں اول و آخر جماعت تھے۔ نماز میں بھی باجماعت نماز کے حریص تھے۔ اور خشوع و خضوع ایسا کہ ادھر میاں صاحب نے اُٹھ کر نیت باندھی اور ادھر ان کا رابطہ دنیا سے منقطع ہوگیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی دوسری ہی دنیا میں پہنچے ہوئے ہیں۔ اس قدر ڈوب کر نمازپڑھتے تھے کہ خشوع وخضوع گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ میاں صاحب کو اس عالم میں دیکھ کر کارکنوں کی نمازوں میں بھی نکھار پیدا ہوتاتھا۔ اس طرح کی نماز اپنے رب سے بندے کابراہ راست رابطہ قائم کروا دیتی ہے۔ یہ چیز حاصل ہوگئی تو دونوں جہانوں کی دولت نصیب ہوگئی۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں بینائی سے محرومی کی وجہ سے خود مسجد میں نہیں آسکتے تھے۔ ان کے بیٹے اور بعض اوقات پوتے ان کو مسجد میں لاتے تھے۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ میاں صاحبؒ ان کی اس خدمت پر اتنا شکریہ ادا کرتے تھے کہ یہ لوگ شرمندہ ہوجاتے۔ میاں صاحبؒ اس حوالے سے انفرادیت کے حامل تھے کہ جب نماز کے لیے آتے تو جہاں جگہ ملتی، وہیں نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ کبھی کبھی پچھلی صف میں کھڑے ہوئے، کسی کی نظر پڑ گئی تو اس نے پہلی صف میں جگہ پیش کی تو بڑی مشکل سے اس طرح کی پیش کش قبول فرماتے۔ میاں صاحب ؒ کی خوش قسمتی کا کیا ٹھکانہ کہ انھوں نے اپنی زندگی کی آخری نماز بھی باجماعت ادا کی اور اس روز سب ملنے والوں سے بڑی بشاشت سے ملے اور سب کو دعائیں دیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کے آخری رمضان کی تراویح مسجد میں آکر پڑھیں اورپوراقرآن کھڑے ہوکر سنا۔ ان کی زندگی سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ نماز سے اس میں نکھار پیدا کیا جائے اور پھر نکھری سنوری زندگی سے نماز کو’ کل سے بہترآج اور آج سے بہتر ہوکل‘ کا عنوان دیا جائے۔

میاں طفیل محمد ؒ نے ایک لمبی عمر پائی اور لمبی عمر کی جتنی آزمائشیں ہوتی ہیں، ان سب سے وہ دوچار رہے۔بینائی کا ختم ہوجانا، سماعت کا حددرجہ متأثر ہونا، جسم وجان کی توانائیوں کا انحطاط و اضمحلال وغیرہ،لیکن ان حوالوں میں سے کوئی حوالہ ان کے لب ولہجے میں تندی و ترشی پیدا نہ کرسکااور گلے شکوے کا کوئی پیرایہ ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکا۔ میاں صاحبؒ ہمیشہ رضا بہ قضا   نظر آئے، صبر وتحمل کا کوہِ گراں دیکھے گئے اور کسی سطح پر بھی احتجاج اور آزار کا پہلو دیکھنے میں نہ آیا۔  کم و بیش ۹۶ سال عمرپانے والا ایک شخص زندگی کے آخری لمحے تک صبر ورضاکا پیکر رہے تو اسے کیا نام دیا جائے اور شخصیت کے اس دریا کو کس کوزے میں بند کیا جائے۔ انسانی سطح پر یہ کردار اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات پر گہرا ایمان رکھنے ، اس کے ہر فیصلے پر راضی رہنے اور اسی سے خیر وصلے کی بھرپور توقع رکھنے والے کا ہی ہوسکتاہے۔

جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد بھی تقریباً ۲۲ سال تک میاں صاحب ؒ جماعت میں رکنیت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔مجھے یاد ہے کہ جب ۱۹۹۳ء میں پالیسی مسائل پر اختلافات ابھرے تو کئی اہم اور پرانے ذمہ دار حضرات الگ جماعت بنانے کے لیے کوشاں نظر آئے اور سب کو یہ بات واضح طور پر معلوم تھی کہ اس خلفشار میں میاں صاحبؒ کی شخصیت فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے، اختلافِ راے اور اظہارِ راے میں وہ پیش پیش بھی تھے لیکن ایک ایسی مجلس میں جس میں بالآخر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ ہوناتھا، میاں صاحب محترم نے یہ کہہ کربہت سوںکو ورطۂ حیرت اور بعض کو سکتے میں ڈال دیاکہ ’’ہم الگ جماعت کیوں بنائیں، ہماری جماعت تو جماعت اسلامی ہے، اگر اس میں خرابیاں ہیں تو ہم انھیں دُور کریں گے، اگر یہ اپنی منزل سے ہٹ رہی ہے تو اصلاح کریں گے‘‘۔ مزیدارشاد فرمایا: ’’اب سے پہلے جو لوگ جماعت سے الگ ہوئے اور ان میں سے بعض نے نئی جماعت بنانے کی کوشش کی، ان سب کی کارکردگی اور انجام کس سے مخفی ہے، لہٰذا ہم اندھیرے میں تیر چلانے کے بجاے جو کچھ نظروں کے سامنے ہے،اس کی کمزوری کو رفع کریں گے اور پوری جماعت کو صحیح رخ پر استوار کریں گے‘‘۔

میاں صاحب کے اس عزم نے اَن گنت لوگوں کو اپنی راے پرنظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔اس کے بعد ۱۶ سال تک میاں صاحبؒ جماعت میں رہے، خود بھی یکسوئی اور انشراح صدر کا پیکر بنے رہے اور جماعت کے ذمہ داران کو بھی تمام امور میں مشورہ دیتے رہے اور ان کے کیے کی تحسین کرتے رہے۔شفقت اور سرپرستی کا مظاہرہ بھی جاری رہا اور کہنے سننے کے دروبست بھی  کھلے رہے۔غرض میاں طفیل محمدؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،اپنی سوچ اور فکر میںتحریک اور انقلاب تھے اور اپنے عمل اور جستجو میں بامقصد اور باعمل تھے۔ ایک پورا دفتر ان کی زندگی کے  مختلف گوشوں کو بیان کرنے کے لیے کھولا جاسکتاہے۔ انفرادی سطح پرخوشہ چینی اور ان سے سیکھنے کے اَن گنت حوالے موجود ہیں۔ اور یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ  ع

بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

فلسطین کے حوالے سے ایک عالمی کانفرنس میں تقریباً تمام اسلامی تحریکوں کے ذمہ داران اور قائدین بھی شریک تھے۔مختلف امور پر تفصیل سے گفتگو کے لیے محترم قاضی حسین احمد کے کمرے میں الگ سے نشست رکھی گئی۔ دیر تک تبادلۂ خیال رہا۔ اچانک اخوان المسلمون کے مرکزی نائب مرشد عام ڈاکٹر حسن ہویدی حماس کے سربراہ خالد مشعل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ ہماری ساری گفتگو کے دوران جب بھی موقع ملتا ہے، ابوالولید (خالدمشعل کی کنیت) کوئی تسبیح یا ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم سب کو کوشش کرنا چاہیے کہ ہم بھی اپنی زبانوں کو زیادہ سے زیادہ ذکر وتسبیح سے معطر رکھیں‘‘۔ للہیت، اُمت کے درد اور اقامت دین کے جذبے سے سرشار ___ یہ تھے اخوان المسلمون کے مرکزی نائب مرشدعام ڈاکٹر حسن ہویدی جن کا قضاے الٰہی سے ۱۲مارچ ۲۰۰۹ء کو انتقال ہوگیا۔ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون!

حسن ہویدی ۱۹۲۵ء کو شام میں پیدا ہوئے، دمشق ہی سے ایم بی بی ایس کیا۔  زمانۂ طالب علمی ہی میں اخوان سے وابستگی ہوگئی۔ اخوان کے قائدین خاص طور پر مصطفی سباعی سے اکتساب فیض کیا اور پھر طب کے پیشے کو خیرباد کہہ کر تحریک ہی کے لیے وقف ہوگئے۔ ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں گرفتار ہوئے اور تعذیب و مشقت سے دوچار کیے گئے۔ آخرکار ملک بدری پر   مجبور ہوئے، آخری سانس تک وطن واپس نہ لوٹ سکے اور ۱۲ مارچ بروز جمعرات شام کے پڑوس میں واقع مملکت اُردن میں رب کے پاس پہنچ گئے۔ رب ذوالجلال ان کی قبر نور سے بھر دے ۔ ان کی حسنات کو صدقۂ جاریہ بناتے ہوئے اور اصلاح و انقلاب کے لیے ان کی مساعی کو کامیابی کی منزل تک پہنچاتے ہوئے ان کی روح کو آسودہ فرمائے۔ آمین!

ڈاکٹر حسن ہویدی للہیت کا پرتو تھے۔ مرحوم کی وصیت میں بھی اس کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ پیشِ خدمت ہے۔ واضح رہے کہ یہ وصیت انھوں نے اپنی وفات سے ۴ برس قبل  تیار کر چھوڑی تھی، گویا تب ہی سے اپنے رب سے ملاقات کا انتظار تھا… تیاری مکمل تھی:

میری وصیت ہے کہ میری وفات کے وقت (ممکنہ حد تک) صرف وہی افراد میرے پاس ہوں جو آپ کے نزدیک نیک لوگوں میں شمار ہوتے ہوں۔ وہ مجھے اپنے رب کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کی تلقین کریں، مجھے اس کی رحمت و مغفرت سے اچھی اُمیدیں رکھنے کی تلقین کریں، مجھے کلمہ طیبہ ادا کرنے کا کہیں تاکہ دنیا سے جاتے ہوئے میرے آخری الفاظ یہی ہوں کہ: لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ!

جب روح پرواز کر جائے تو وہ میری آنکھیں بند کرتے ہوئے میرے لیے کلمۂ خیر کہیں، کیونکہ میت کے پاس جو کچھ بھی کہا جائے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔

میں اپنے تمام احباب سے عفو و درگزر کی درخواست کرتا ہوں۔ میرے علم کی حد تک مجھ پر کسی کا کوئی قرض نہیں ہے۔ ہاں البتہ دفتر کے بعض امور میں تقدیم و تاخیر کے حوالے سے کوئی چیز ہو تو انھیں ریکارڈ اور کھاتوں کے مطابق دیکھ لیا جائے تاکہ میں کسی کا کوئی بوجھ لے کر نہ جائوں۔

میری یہ بھی وصیت ہے کہ میرا کفن میرے ہی پیسوں سے خریدا جائے اور مجھے غسل دینے والے نیکوکار لوگ ہوں۔ جس ملک میں میرا انتقال ہو، مجھے وہیں دفن کردیا جائے۔ میری آرزو تو یہی ہے کہ پروردگار! میری وفات کا وقت حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں لائے۔ میری قبر پر کوئی عمارت نہ بنائی جائے اور نہ اسے پختہ ہی کیا جائے۔

میری اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو وصیت ہے کہ وہ اپنی والدہ سے نیک برتائو رکھیں، سب مل کر ہمیشہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کریں، باہم جھگڑوں اور اختلافات سے  دُور رہیں، ہمیشہ صلۂ رحمی کریں اور اپنے سسرالیوں سے خیروبھلائی کا برتائو کریں اور مجھے بھی    اپنی دعائوں اور تلاوت سے محروم نہ رکھیں۔

                اللہ کی رحمتوں کا محتاج

                شعبان ۱۴۲۶ھ                               حسن ہویدی

 

استاذ محترم پروفیسر آسی ضیائی مرحوم (۱۹۲۰ء-۲۰۰۹ء) جن کا اصل نام امان اللہ خان تھا، سے پہلی ملاقات ۱۹۵۱ء میں مرے کالج سیالکوٹ کی لائبریری اور ہوسٹل کے درمیان واقع ایک چھوٹی سی مسجد میں ہوئی (اس کالج کے شعبہ اُردو سے وہ یکم اکتوبر ۱۹۴۸ء کو بطور لیکچرار اُردو وابستہ ہوئے تھے)۔ روشن چہرہ، کشادہ پیشانی اور رعنائی شباب کی کشش لیے ہوئے اس شخصیت سے اولین ملاقات کا ایک خوش گوار تاثر ہمیشہ ذہن میں محفوظ رہا۔ یہ خوش گواری محض ایک خوب صورت اور محترم شخصیت کی ملاقات کا تاثر تھا یا اس کا کوئی سبب اور بھی تھا؟ ماضی کے اوراق کی خاصی اُلٹ پلٹ کے بعد یہ عُقدہ کھلا کہ اُن سے یہ ملاقات کسی اجنبی سے ملاقات نہ تھی بلکہ ایک غائبانہ شناسا شخصیت سے بالمشافہہ ملاقات تھی۔ ایک ادبی اور علمی شخصیت کی حیثیت سے ان کی تحریروں کے حوالے سے شناسائی پہلے سے موجود تھی۔ میں نے ۱۹۵۱ء میں مرے کالج میں سالِ اول میں داخلہ لیا تو اُس زمانے تک چراغِ راہ کے وسیلے سے ان کے نام سے واقف ہوچکا تھا۔

استاذِ محترم سے ملاقاتوں کا سلسلہ پھر یوں مستقل ہوگیا کہ جماعت اسلامی شہرسیالکوٹ کے ہفتہ وار اجتماعات میںباقاعدگی سے شرکت ہوتی تھی، جہاںآسی صاحب کے ذمے بھی کوئی تقریر یا گفتگو پروگرام میں شامل ہوتی تھی۔

جہاں تک یاد پڑتا ہے ان کی پہلی ادبی تحریر جو مجھے پڑھنے کا موقع ملا، وہ ان کا وہ مفصل محاکمہ تھا جو انھوں نے محترم نعیم صدیقی کے مرتب کردہ چراغِ راہ کے ضخیم ’شعرنمبر‘ پر لکھا تھا۔ یہ خاص نمبر ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا اور یہ حلقۂ ادب اسلامی پاکستان کے ادبی محاذ کی سرگرمیوں کا ایک بھرپور تعارف پیش کرتا تھا۔ جنوری ۱۹۵۳ء میں شائع ہونے والے چراغِ راہ ہی کے ضخیم ’خاص نمبر‘ میں جناب آسی کی شخصیت کا تعارف نعیم صدیقی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں لکھا (یاد رہے کہ اس زمانے میں آسی صاحب اپنا نام عاصی ضیائی رام پوری لکھتے تھے)۔ نعیم صاحب لکھتے ہیں:

عاصی ضیائی ہے تو رام پوری، مگر رام پور کی مخملی ٹوپی سے بالکل مختلف! اُجلا اور چوڑا چہرہ، شخصیت کا ترجمان!___ ہاتھ میں ہمیشہ چرمی کاغذات دان، اور اس کاغذات دان میں اُردو بحیثیت گھر کی زبان محفوظ۔ کسی خانے میں روزمرہ، کسی میں محاورہ، کسی میں  گُل بکاولی اور چہار درویش کی زبان، کسی میں اخلاقِ جلالی کی، کسی میں بائبل کے ترجمے کی!

زبان جس شخص کے گھر کی ہو، اُسے قدرت چاہے پروفیسر ہی بنائے رکھنے پر کیوں نہ بضد ہو، وہ ادیب بنے بغیر رہ ہی نہیں سکتا___ یسُوف کے وعظ کا مصنف! ہمارا واحد تمثیل نگار! خاکہ اُڑانے کا ماہر، تنقیدی انفرادیت کا حامل!

اس زمانے میں تحریکِ ادبِ اسلامی نے چند برسوں میں ثقہ اہلِ قلم کی روشن کہکشاں آراستہ کر لی تھی، جس کی وسعت اور تابندگی میں ۱۹۵۸ء تک بہت قیمتی اضافہ ہوچکا تھا، لیکن ۱۹۵۸ء کے مارشل لا نے اس تحریک کو ایسا نقصان پہنچایا کہ اس پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ بعد میں یہ محفل پھر کبھی اس شان کے ساتھ آراستہ نہ ہوسکی۔ بقول شاعر   ؎

چھٹے اَسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
نہ بہار تھی، نہ چمن تھا، نہ آشیانہ تھا

استاذ محترم کی پوری زندگی درس و تدریس اور شعروادب کے میدان میں مختلف النوع انداز کی تصنیف و تالیف میںگزری۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے نیازی اور ایک حد تک اِنفعالی روش کے اثرات رہے۔ وہ کسی زوردار تحریک کے بغیر نہیں لکھتے تھے، خواہ وہ تحریک داخلی ہو یا خارجی۔ ان سے ادب کے میدان میں بہت کام لیا جاسکتا تھا لیکن اگر ایک طرف وہ بے نیاز اور گوشہ گیر رہنا پسند کرتے تھے، تو دوسری طرف کوئی ایسا فعال ادبی حلقہ یا ادارہ بھی موجود نہ تھا جو اُن سے ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق کام لیتا۔ تاہم اس کے باوجود وہ مختلف اصنافِ ادب میں اتنا قیمتی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں جو اپنی جگہ بے حد وقیع ہے اور پوری طرح ادبِ صالح اور ادبِ نافع کی تعریف میں آتا ہے۔ اگر اُن کے چھوڑے ہوئے سرمایۂ ادب کے بھرپور تحقیقی مطالعے کی کوئی سبیل نکلے تو اندازہ ہوگا کہ وہ کیا گوہرِ گراں مایہ تھا جس کی اب تک پوری طرح پہچان نہ ہوسکی۔ ان کے مقام و مرتبے کی حقیقی قدرشناسی (evaluation) کے ساتھ اُردو ادب کا تعمیری رُجحان رکھنے والی ایک قدآور ادبی شخصیت کا بھرپور تذکرہ ایک منارئہ نور کی صورت میں آنے والوں کے لیے محفوظ ہوسکتا ہے۔

آسی ضیائی کی تصنیفات و تالیفات کا سرسری تعارف کرانے کے لیے بھی کئی صفحات درکار ہیں جس کی یہاںگنجایش نہیں۔ صرف چند کتابوں کے نام ملاحظہ فرمایئے: 

  • کھوٹے سکّے (۱۹۵۰ء)، افسانے، ڈرامے، تراجم 
  • کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ (۱۹۵۷ء) کلام اقبال کا ایک نئے رُخ سے تجزیاتی مطالعہ 
  •   شب تاب چراغاں (۱۹۵۷ء) اُردو شاعری کا عہد بہ عہد مطالعہ، ہر عہد کے نمایندہ شعرا کے کوائف اور نمونۂ کلام کے حوالے سے 
  • دُرست اُردو (۱۹۶۰ء) اصلاحِ زبان و تلفظ کے موضوع پر کتاب 
  •   تاریخ زبان و ادب اُردو (۱۹۹۲ء)  اعلیٰ ملازمتوں کے مقابلے کے امتحانات کے لیے نصابِ مطالعہ
  • تحسینِ اُردو (۱۹۶۸ء)  اعلیٰ ثانوی جماعتوں کے لیے قواعد و انشا کے موضوع پر ایک کتاب۔ شریک مصنف: طاہر شادانی، حفیظ الرحمن احسن 
  •   رگِ اندیشہ(۱۹۹۴ء) مجموعۂ نظم و غزل 
  •   یادیں کچھ کرداروں کی(۱۹۹۷ء) ریاست رام پور کے بعض ناقابلِ فراموش کرداروں کی قلمی تصویریں
  • داستان گوانیس(۱۹۹۷ء) انیس کی مرثیہ گوئی کا ایک انقلابی رُخ سے مطالعہ
  • ترجمہ انجیل برناباس(۱۹۷۴ء) بائبل کے اسلوب میں اس نایاب کتاب کا معرکہ آرا ترجمہ۔ خیال رہے کہ اس کتاب کا ترجمہ سید مودودیؒ کی خصوصی تحریک پر انھی کے فراہم کردہ انگریزی اڈیشن سے کیا گیا۔   یہ انجیل حضرت عیسٰی ؑ کی حقیقی تعلیمات کا سب سے صحیح بیان ہے۔

آسی صاحب کے بے شمار مقالات مختلف رسائل میں بکھرے پڑے ہیں جن کو جمع کرکے کتابی صورت میں یک جا شائع کرنے کی ضرورت ہے۔

موصوف کے ذاتی کوائف میں چند چیزیں خاص طور پر لائقِ تذکرہ ہیں لیکن یہاں ان کے بھی صرف عنوان ہی لکھے جاسکتے ہیں۔ایک، ان کے استاذ اور اُردو ادب کی ایک قدآور شخصیت پروفیسر رشیداحمد صدیقی صاحب کے بارے میں اُن کے تاثرات۔ دوسرے، سید مودودیؒ کی طرزِنگارش اور فکری وعلمی انداز استدلال کے بارے میں ان کا دل چسپ اور فکرافروز مطالعہ و تبصرہ۔ تیسرے، اپنے استاذ محترم رشیداحمد صدیقی کے اسلوبِ گفتار کی پیروی میں ان کے بعض دل چسپ اقوال، مثلاً: محکمۂ تعلیم میں بالعموم وہ لوگ آتے ہیں، جو کر تو بہت کچھ سکتے ہیں، لیکن اپنی علم دوستی یا عمل دشمنی کی وجہ سے کرتے کچھ نہیں۔ چوتھے، ان کا غیرمعمولی حافظہ کہ بعض اوقات برسوں پہلے کی سنی ہوئی بعض نظمیں بے تکلف سنا دیتے۔ کبھی گفتگو میںاچانک کہتے کہ ۲۵، ۳۰ سال پہلے (مثال کے طور پر) چند اشعار ہوئے تھے جوتحریری طور پر محفوظ نہیں ہیں لیکن ایک شعر کچھ اس طرح تھا۔ پھر اس کے بعد دوسرا، پھر تیسرا شعر چلا آتا اور اس طرح مدتوں پہلے کی کہی ہوئی پوری نظم سنا دیتے!

ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو ان کا وہ پُرتپاک اندازِ ملاقات تھا جب وہ ہر آنے والے سے خلوص و محبت، گرم جوشی، خندہ پیشانی اور مسکراتے چہرے سے ملتے تھے۔ دورانِ گفتگو حسب ِ موقع پرانی یادوں اور کسی اہم بات کا تذکرہ، نیز اپنے مخصوص انداز میں اشعار سنانا ہمیشہ یاد رہے گا    ؎

وَے صورتیں الٰہی، کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

یکم اگست ۱۹۲۰ء کو رام پور میں جنم لینے والی یہ یگانۂ روزگار شخصیت مختصر سی علالت کے بعد ۱۴ جنوری ۲۰۰۹ء کی دوپہر کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی۔ اس شام جنازے کے وقت ان کے چہرے پر وہی تابانی تھی جو ۵۸ سال پہلے میں نے ان کے چہرے پر دیکھی تھی۔ نمازِ جنازہ  محترم قاضی حسین احمد نے پڑھائی اور مرحوم کی شخصیت کا تذکرہ بڑی خوب صورتی اور محبت کے ساتھ فرمایا۔ بالآخر اقبال ٹائون کے اس قبرستان میں آسودئہ خاک ہوگئے جہاں ہمارے بہت سے تحریکی بزرگ پہلے سے جنت کے باغوں میں محوِ استراحت ہیں___ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ!

 

مرکز جماعتِ اسلامی پاکستان منصورہ کے دفاتر جمعہ کو بند ہو تے ہیں، اس لیے منصورہ میں چھٹی تھی۔میں خریدو فروخت کے لیے منصورہ سے باہر تھا کہ تقریباً۱۰ بج کر ۳۰ منٹ پر موبائل پر گھنٹی بجی۔ فون سنا تو منصورہ ایکسچینج سے خبر ملی کہ مولانا محمد سلطان صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ بے ساختہ میری زبان سے انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون کے الفاظ نکلے ۔ فوری طور پر یہ خبر سن کر ایسا لگا جیسے میرے اپنے باپ کا انتقال ہو گیا ہو۔کچھ دیر کے بعدمیں منصورہ پہنچا اور سیدھا مولانا سلطان صاحب کی رہایش گاہ پر آگیا۔

مولانا محترم مرکزی تربیت گاہ کے ناظم تھے ،اور ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۲ء تک میں ان کے ساتھ معاون کے طور پر کام کرتا رہا۔ اس طرح مجھے ایک مدت تک مولانا کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔   وہ ایک نیک صفت اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرے اُجلے کپڑوں میں ملبوس رہتے اور مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ مولانا محترم کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا کیا تھا جو بچپن ہی میں فوت ہو گیا ۔ اس لیے مجھے اپنی اولاد کی طرح سمجھتے تھے ۔میں ان کے گھر میں آتا جاتا رہتا تھا۔ مولانا محترم جماعتی کام سے یا کسی عزیز کے پاس جاتے تو مجھے اکثر ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ چاروں صوبوں کا دورہ کیااور تربیت گاہوں میں شرکت کی۔

مولانا محترم نمازِ تہجد کے پابند تھے۔جب بھی ہم مرکزی تربیت گاہ کے لیے باہر جاتے اور رات کے وقت میری آنکھ کھلتی تو مولانا مصلے پر کھڑے نظر آتے۔ بعد میں فجر کی نماز کے لیے مجھے اٹھاتے تھے۔میں اُن سے قرآن بھی پڑھا کرتا تھا، اس طرح وہ میرے استاد بھی تھے۔ میں جب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا تھااس وقت اُن کے والد زندہ تھے۔ ان کا نام محمدحیات تھا۔ وہ ایک آرام کرسی پربیٹھا کرتے تھے جو مولانامحترم نے خاص طور پر ان کے لیے بنوائی تھی ۔ان کے ایک بھائی محمد خان بھی ان کے پاس رہتے تھے ،ویسے تو مولانامحترم کے چار بھائی اور ایک ہمشیرہ تھی، بعد میں ان کے ایک اور بھائی محمد زمان خان بھی کراچی سے ان کے پاس آگئے تھے اور یہیں فوت ہوئے ۔ مولانا محترم کی بیوی ایک نیک سیرت خاتون تھیں جو بہت صفائی پسند اور سلیقہ مند تھیں۔ انھوں نے مولانا کے والد اور بھائی کی بہت خدمت کی۔ دونوں کا بہت خیال رکھتیں۔ وہ پردے کی بہت پابند تھیں ۔میں نے ان کو کبھی پردے کے بغیر نہ دیکھا ۔ پردے کی حالت میں ہی وہ مولانا سلطان صاحب کے بھائی اور والد کی خدمت کرتیں۔

مولانا محترم کا کوئی ذاتی مکان،پلاٹ یا بنک بیلنس نہ تھا۔ وہ جماعت کے کوارٹر میں رہایش پذیر تھے جس کوان کی اہلیہ بہت صاف ستھرا رکھتی تھیں۔ہرچیز سلیقے سے رکھی ہوتی، کبھی  کوئی چیز بکھری نہیں ہوتی تھی۔ مولانا محترم نے اپنے گھر میں ایک لائبریری بنا رکھی تھی جس میں تفہیم القرآن، تدبر القرآن، فی ظلال القرآن کے علاوہ قرآن کی بہت سی تفاسیر اور دیگر کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ مولانامحترم نے اپنے دفتر میں بھی ایک بڑی لائبریری بنا رکھی تھی ۔

وہ ایک عرصے تک مولانا مودودی ؒ کے معاونِ خصوصی کی حیثیت سے کام کرتے رہے، اس لیے ان میں مولانا مودودی ؒ کی جھلک بھی نظر آتی تھی۔ مولانا محمدسلطان ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے دفتر آجا یا کر تے تھے حالانکہ دفتر کا ٹائم ۹بجے کا تھا۔ ساڑھے بارہ بجے نمازِ ظہر کی تیاری اور  وضو کرنے کے لیے گھر تشریف لے جاتے تھے ۔جیسے ہی اذان ہوتی تو فوراً مسجد میں تشریف    لے آتے۔نماز ختم ہو نے کے بعد بھی تھوڑی دیر تک مسجد میں بیٹھے اللہ کی یاد میں لگ جا تے ۔    نمازِ عصرکے فوراً بعد دفتر میں تشریف لاتے اور کوئی نہ کوئی کتاب مطالعہ کرتے۔

مولانا محمدسلطانؒ بہت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔

  • مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی (اول،دوم) 
  • تصوف اور تعمیرسیرتؐ 
  • یادگار لمحات 
  • علم و عمل
  • لازوال نصیحتیں
  • گفتار و افکار 
  • تحریکِ اسلامی کا مقصد طریقہ کار
  • مولانا مودودیؒ پر جھوٹے الزامات اور ان کے مدلل جوابات، 
  • نصابِ حدیث 
  • اسلام میں عورت کا کردار )ان میں سے چند ہیں۔مولانا اپنا قلمی نام عاصم نعمانی مصنف کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ایک دفعہ انھوں نے ایک کتاب لکھی اور مجھے قائدینِ جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے بھیجا۔ اس وقت مجھے ان کے پاس کام کرتے ہوئے ۸سال گزر چکے تھے۔ میں نے پوچھا مولانا محترم! یہ عاصم نعمانی کون ہیں؟ مولانا مسکرائے اوربولے: میرا ہی نام عاصم نعمانی ہے ۔ میں بہت حیران ہوا۔ میں نے کہا: مولانا محترم آپ نے اپنااصل نام اپنی کتابوں میں کیوں نہیں استعمال کیا؟ فرمانے لگے: بس غلطی ہوگئی، مجھے عاصم نعمانی کے نام سے بہت کم لوگ جا نتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی اخباروں میں کالم یا مضمون بھی لکھتے اور اخبارات میں چھپنے والے کالموں یا مضامین کے جوابات بھی دیتے تھے۔

مولانا محترم کی آخری کتاب جو انھوں نے خواتین کے مسائل کے بارے میں لکھی: اسلام میں عورت کا کردار شفیق الاسلام فاروقی صاحب نے حرا پبلی کیشنز سے شائع کی۔ اس میں عورتوں کے بہت سے مسائل کا حل مو جو د ہے ۔ مولانا محترم کی دو کتابیں علم و عمل اور نصابِ حدیث مر کزی تربیت گاہ میں سالہا سال سے پڑھائی جا تی ہیں۔ وہ بہت اچھے مربی تھے، فا رغ درسِ نظامی تھے اور بی اے بھی کر رکھا تھا۔ انھوں نے عرصۂ دراز تک درسِ قرآن، درسِ حدیث اور سیرت کے مو ضوع پر خطاب کیا۔ مرکزی تربیت گاہ میں اہتمام کے ساتھ درسِ حدیث دیا کر تے تھے جو ۶ دنوں کا سبق ہوا کرتا تھا۔ وہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ کے نائب مہتمم بھی تھے اور وقتاً فوقتاً مدرسہ مرکز علومِ اسلامیہ کے دفاتر میں جا کر بیٹھا کر تے تھے اور مرکز علوم اسلامیہ کے کاموں کا جائزہ لیتے۔ مرکز علوم اسلامیہ کا حساب چیک کرتے اور ہدایات دیتے۔

وہ دورۂ تفسیر القرآن کے بھی انچارج تھے اور کئی سالوں تک ان کی نگرانی میں دورۂ تفسیر ہوا۔ رمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے ہی وہ دورۂ تفسیر کے انتظامات کا جا ئزہ لیتے اور ان کی تیاری میں لگ جاتے۔ شیخ القرآن والحدیث مولانا گوہر رحمنؒ (سابق ایم این اے اورمہتمم مدرسہ تفہیم القرآن مردان) منصورہ میں دورۂ تفسیر کرواتے تھے ۔ مولانا محترم ان کی رہایش کا انتظام فرماتے۔ جس مکان میں مولانا سلطان صاحب کا انتقال ہوا، وہیں مولانا گوہر رحمن صاحب آکرٹھیرتے تھے۔ مولانا محترم ان کے لیے قرآن کی تفاسیر اور دوسری کتابوں کا انتظام کرتے ۔ اُردو بازار سے تاج کمپنی کے قرآن مجید خرید کر لاتے اور شرکاے دورۂ تفسیر کو ان کا ایک ایک نسخہ خود دیتے اور کچھ قرآن پاک مسجد میں رکھوا دیتے تاکہ دورۂ تفسیر کے شرکا کو کسی قسم کی دقت محسوس نہ ہو۔

محترم قاضی حسین احمد نے جب مسجد کمیٹی کی ذمہ داری بھی مولانا محمدسلطان صاحب کے سپرد کر دی تو وہ مسجد کی خوب خدمت کرتے۔ باقاعدگی سے ہر ماہ مسجد کمیٹی کا اجلاس بلاتے اور مسجد کی بہتری کے لیے تجاویز اور مشورے لیتے اور ضروری مسئلوں کو فوری حل کرنے کی کوشش کرتے۔رمضان المبارک میں تراویح کا اہتمام کرواتے اور حافظ محمد ادریس صاحب کو تراویح پڑھانے کے لیے آمادہ کر تے ۔حافظ محمد ادریس صاحب برسوں جامع مسجد منصورہ میں مولانا محترم کی نگرانی میں نمازِ تراویح پڑھاتے رہے۔ خادمینِ مسجد کا بھی خیال رکھتے ۔ہر سال رمضان المبارک میں خادمینِ مسجد کو اپنے گھر افطاری کی دعوت دیتے اور ان سب کو نئے کپڑے خرید کر دیتے۔ کپڑوں کی سلائی بھی اپنی جیب سے دیتے تھے اور ان کو عید سے پہلے پہلے سلوانے کے لیے کہتے۔

ایک موقع پر ایک مزدور مولانا صاحب سے ملنے آیا جو منصورہ میں ایک زیرِتعمیر مکان میں کام کرتا تھا۔ وہ مولانامحترم سے کہنے لگا: اگر مجھے مسجد میں ملازمت مل جائے، تو میں خدا کے گھر کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ مولاناسلطان صاحب اُسے نہیں جانتے تھے مگر کہا کہ کل آجانا۔ پھر مجھے حکم دیا کہ اس کی درخواست لکھ دو۔ میں نے درخواست لکھی۔ مولانا محترم نے اپنی سفارش کے ساتھ اسے منظور کرایا اور اس کو مزدور سے خادمِ مسجد بنا دیا۔ وہ آج بھی منصورہ جا مع مسجد میں خادمِ مسجد کی حیثیت سے کام کر رہا ہے ۔اس کا نام محمد رمضان ہے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مولانا بندگانِ خدا کے کام آنے میں تکلف نہیں کرتے تھے۔ مولانا محترم کے پاس جو بھی ملنے آتا وہ مولانا کے حسنِ اخلاق کا اتنا قائل ہو جا تا کہ مولانا کا دوست بن جاتا ۔ وہ بہت مہمان نواز تھے اور اپنے مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کر تے ۔

منصورہ کے سٹاف کے لیے ہفتہ وار درسِ قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کی ذمہ داری بھی مولانا سلطان صاحب پر ڈال دی گئی ۔ وہ بہت اچھے طریقے سے درس کی تیا ری کرتے اور خوب صورت انداز میں اس کو پیش کرتے ۔محترم سید منور حسن صاحب اکثر درسِ قرآن کے بعد مولانا محترم کے حوالے سے بات کرتے کہ مولانا بہت اہتمام سے درس کی تیاری کر کے آتے ہیں اور اس کے لیے کافی محنت کرتے ہیں، اس لیے ہم سب کو اس درس قرآن میں باقاعدگی سے شرکت کرنی چا ہیے اور اس سے زیادہ سے زیا دہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مولانا کی اہلیہ کادسمبر۱۹۹۵ء میں انتقال ہو گیا۔ اس طرح مولانا محترم تنہا رہ گئے۔ پہلی بیوی کے فوت ہونے کے چارپانچ سال بعد مولانا نے دوسری شادی کرلی ۔آخری عمر میں وہ یادداشت کھو بیٹھے اور اپنا نام تک بھول گئے، مگر اللہ کی قدرت تھی کہ اس ذہنی حالت میں بھی ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی۔ اذان کی آواز سن کر مسجد چلے جا تے، کبھی نماز میں شامل ہو جا تے، اور کبھی نماز پڑھے بغیر واپس آجاتے۔

۱۹۱۳ء میںضلع چکوال کے ایک گائوں (ملوٹ) میں پیدا ہونے والے مولانا محمدسلطان ۱۹دسمبر ۲۰۰۸ء کو ۷۸سال کی عمر میں منصورہ میں فوت ہو گئے اور اپنے خدا سے جا ملے۔ اس طرح اس درویش صفت انسان کا سفرِ آخرت ہوا اور ان کو کریم بلاک، گلشن اقبال، لاہور کے قبرستان میں   دفن کر دیا گیا۔ ہم سب مولانا محمد سلطان کی جدائی پر غم زدہ ہیں اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو ہیں ۔ان کی اولاد نہ تھی مگر مرکزی تربیت گاہ میں مولانا سے استفادہ کرنے والے ہزاروں کارکنان آج سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے نیک اعمال مولانا کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے درجات بلند کرے، انھیں ہمارے لیے با عثِ رحمت بنائے اور ان کا فیض ہمارے اوپر جاری رکھے۔ آمین!

 

مولانا فتح محمد رحمۃاللہ علیہ کی وفات سے تعلیمی،تربیتی،تنظیمی،دعوتی،تبلیغی اور جماعتی حلقے ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئے، اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔مولانا فتح محمدؒ جماعت اسلامی پاکستان کے نمایاں،ممتاز اور اہم قائد تھے۔ملک کی سیاسی، دینی ،سماجی تنظیمات میں معروف تھے اور         قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔علماومشائخ،دینی مدارس، اتحاد تنظیمات مدارسِ دینیہ  کے شیوخ، مہتممین و منتظمین ان سے عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔تمام مکاتب ِفکر کے علما ان کی  سیرت و کردار ،اخلاق، تواضع،للہیت اور حق گوئی سے متاثر تھے۔ان تمام شخصیات سے ان کے گہرے مراسم تھے۔مولانا ؒ تعلق نبھانے اور اسے قائم رکھنے میں انتہائی مستعد رہتے تھے۔جس سے ایک بار تعلق قائم ہوجاتا، اسے پھر کبھی ٹوٹنے نہ دیتے۔ ان کی زندگی میں بھی یاد رکھتے اور     فوت ہوجانے کے بعد بھی ان کے پس ماندگان سے تعلق قائم رکھتے۔

مولانا فتح محمدؒ اگست۱۹۲۳ء میں ضلع چکوال کے ایک گاؤںدولہہ میں پیدا ہوئے۔   ۱۹۴۱ء میں میڑک پاس کیا۔ اس کے بعد دینی و عصری تعلیم حاصل کرنے میں مسلسل مصروف رہے۔  ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۴ء میں دارالعلوم تعلیم القرآن راجا بازار میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒسے  درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی ۔صرف ونحو کی ابتدائی کتب سے لے کرآخری درجوں کی کتب کافیہ، شرح مُلّا جامی اور فقہ کی ابتدائی کتب سے لے کر شرح وقایہ وہدایہ تک مکمل کیں    اور دورۂ تفسیر القرآن سے دو مرتبہ فیض یاب ہوئے۔اپنی قابلیت اورذوق وشوق کی وجہ سے مولانا غلام اللہ خانؒ کے انتہائی قریبی اور قابلِ اعتماد شاگردوں میں شمار ہونے لگے اور ان کی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو منظم کرنے والی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ اس دوران میں ان کے رفقاء کا ایک حلقہ قائم ہوگیا جو ان کے گرد یوں جمع ہوجاتے جیسے شمعِ محفل کے گرد پروانے۔

مولانا فتح محمدؒ کی طرح مولانا صدر الدین الرفاعی،جو قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے   ایک بڑے ستون تھے اور مفکرِ اسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے معتقد اور مدّاح تھے،وہ بھی   اس دور میں شیخ القرآن کے دست وبازو تھے۔شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ اپنے شاگردوں میں دینی جوش وجذبہ بھر دیتے تھے۔مولانا فتح محمدؒ کوبھی انھوں نے متاثرکیا۔ اسی دوران انھوں نے  سید مودودیؒ کا لٹریچر سلامتی کا راستہ،اسلام اور جاہلیّت، خطبات ، دینیات اور دہلی سے شائع ہونے والے رسالے مولویکا مطالعہ کیا جس میں مولانا مودودیؒ کے مضامین شائع ہوتے تھے تو ان کے دینی جوش و جذبے کو صحیح سمت مل گئی۔مولانامودودیؒ اس وقت تک دارالسلام پٹھان کوٹ میں منتقل ہوچکے تھے۔ان سے خط وکتابت شروع کی۔جماعت کا دستور اور مزید لٹریچر منگوا کر مطالعہ کیا۔۱۹۴۳ء کے اواخر یا ۱۹۴۴ء کے آغاز میںاطلاع ملی کہ مولانا مودودیؒ کوثر اخبار کے دفتر میں جماعت اسلامی کے ایک اجتماع میںشرکت کے لیے لاہور تشریف لارہے ہیں، چنانچہ مولانا فتح محمدؒاپنے دوست عبدالحمیدصاحب کے ساتھ، جن کے ذریعے انھیں مولانا کا لٹریچر ملا تھا، اس اجتماع میں شامل ہونے کے لیے لاہور پہنچ گئے۔

مولانا مودودیؒ اور میاں طفیل محمد صاحب سے اس موقع پر ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔   یکم نومبر۱۹۴۴ء کو جماعت کے رکن بن گئے۔اس سے پہلے راولپنڈی میں صرف ایک رکن سید راغب الحق تھے۔اس لیے وہاں جماعت کی تشکیل نہیں ہوئی تھی۔ مولانا فتح محمدؒ رکن بن گئے تو جماعت اسلامی کا باقاعدہ نظم قائم ہوگیا اور آہستہ آہستہ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ کے حلقے میں شامل ان کے رفقا بھی ان کے گرد جمع ہوگئے۔اب مولانا فتح محمدؒ ایک قائد کی حیثیت سے جماعت اور دیگر دینی جماعتوں کے لیے مرکز و محور بن گئے۔ مولانا غلام اللہ خان ؒکے حلقے کا انھیں اعتماد حاصل تھا اور راولپنڈی ڈویژن، جس میںہزارہ بھی شامل تھا، اور ایک عرصے تک آزاد کشمیر بھی مولاناکی زیر نگرانی رہا،جماعت اسلامی کاایک فعال، مضبوط اور پُرکشش مرکز بن گیا۔ جماعت کو ایک طویل عرصے تک مولانا فتح محمد ؒکے روابط کی بدولت علماکی مخالفت سے تحفظ حاصل رہا۔ جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ جماعت اسلامی کی حامی اور مولانامودویؒ کی مدّاح رہی۔اس کے نتیجے میں راولپنڈی، آزاد کشمیر اور ملک کے دوسرے حصوں سے ان کے حلقۂ اثر کے بہت سے علما جماعت اور جمعیت اتحاد العلما میں شامل ہوگئے۔

قیام پاکستان کے متصل بعد مولانا مودودیؒ نے چار نکاتی تحریک نفاذِ شریعت اور دستورِ اسلامی کا آغاز کیا۔مولانا نے ریاست کے اسلامی ہونے کی شرط بھی کلمہ پڑھنے کو قرار دیتے ہوئے فرمایا : جس طرح فرد اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کلمہ نہ پڑھے، اسی طرح ریاست بھی اس وقت تک اسلامی نہیں کہلائے گی جب تک وہ کلمہ نہ پڑھ لے۔ انھوں نے اس کے لیے ایک چار نکاتی تحریک شروع کی۔ مولانا مودودیؒ نے اس کے لیے ملک بھر کے دورے کیے۔ اجتماعات اور جلسوں سے خطاب کیا۔راولپنڈی اور ہزارہ اور آزادکشمیرکی سطح پر اس تحریک کو مولانا فتح محمد ؒنے منظم کیا۔ انھیںعلما کی حمایت بھی حاصل تھی۔پورے ملک کی طرح راولپنڈی ڈویژن میں بھی تحریک عروج پر پہنچی اور حکومت نے قراردادِ مقاصد کی شکل میں چارنکاتی تحریک کو منظور کرلیا۔

قراردادِ مقاصد توپاس ہوگئی لیکن اسلام اور جمہوریت کے خلاف سازشیں جاری رہیں۔ قراردادِ مقاصد کے مطابق ملک میں اسلامی دستور کے نفاذ میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ دستور اسلامی کے لیے از سر نوتحریک برپا کی گئی۔قادیانیوں کے خلاف بھی تحریک ختم نبوت کو منظم کرنا پڑا، اس کے لیے علمانے مسلسل جدوجہد کرنا شروع کی۔ مولانا فتح محمد کی ذمہ داری کے اس دور میں ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختم نبوت اپنے عروج پر پہنچی۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ،میاں طفیل محمد اور محترم     قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں انھوں نے راولپنڈی اور پنجاب کی سطح پر جماعت کی تنظیم اور جماعت کی برپا کردہ تحریکات کے ضمن میں عظیم اور مثالی جدوجہد کی۔تحریکِ جمہوریت، تحریکِ ختم نبوت اور تحریکِ نظام مصطفی اور تحریکِ جہاد، سیلاب زدگان اور متاثرین زلزلہ کی خدمت کی۔ ہرمیدان میں مستعدی اور جان فشانی سے حصہ لیا۔ آج جماعت اسلامی کی قیادت قوت اور اثرات کے جس مقام پر پہنچ چکی ہے اس میں مولانا فتح محمد ؒکا بڑا حصہ ہے۔ جب پنجاب کی امارت کی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو انھوں نے اپنے آپ کو فارغ نہ سمجھا۔ ہر تحریک ،ہر پروگرام میں ذوق وشوق سے شریک ہوئے ۔محترم قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں اسلام آباد میں دو مرتبہ دھرنے دیے گئے۔ان دھرنوں میں مشکلات، رکاوٹوں اور پیرانہ سالی کے باوجود ہمت، حوصلے اور جرأت سے شرکت کی۔

ان ہمہ گیر اور وسیع تحریکی وتنظیمی سرگرمیوں کے باوجودمولانا فتح محمد ؒ نے ایک دن کے لیے بھی تعلیم و تعلّم، مطالعے اور اپنے روز مرہ کی عبادات ،تلاوت، اذکارکے پروگراموں کو معطل نہیں کیا۔ وہ پڑھتے اور پڑھاتے بھی رہے۔شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒکے علاوہ مولانا مسعود عالم ندویؒ اورمولانا امین احسن اصلاحی ؒ سے عربی زبان اور تفسیر ِقرآن کے سلسلے میں استفادہ بھی کیا۔ان کا قائم کردہ تعلیمات عالیہ کالج ،جس میں فارسی فاضل اوراردوفاضل کی معیاری تعلیم دی جاتی تھی راولپنڈی کا معروف ومشہور ادارہ تھا۔۱۹۴۳ء میں ایف اے،۱۹۵۳ء میں ایف اے کے اضافی مضامین اُردو، فارسی، معاشیات کا امتحان پاس کیا۔اپریل۱۹۶۰ء میں بی اے کیا اور ۱۹۶۳ء میں بی اے کے اضافی مضامین اردو،فارسی،عربی کا امتحان پاس کیا۔۱۹۶۶ء میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۷۶ء میں ایم اے عربی کیا۔

جب منصورہ میں مرکز علومِ اسلامیہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو مرکز کے منصوبے میں  علومِ عربیہ و اسلامیہ کادارالعلوم بھی شامل تھا۔اس کے لیے ابتدائی طورپر جامع مسجد منصورہ کے ساتھ ایک عمارت بھی تعمیر کی گئی تھی۔ مولانا فتح محمدؒاس وقت جماعت اسلامی پنجاب کے امیر تھے، انھیں اس کا مہتمم مقرر کیاگیا۔اس کا افتتاح ۱۴۰۰ھ کو دورۂ تفسیر کے آغاز سے کیاگیا۔مولانا فتح محمدؒ اپنی وفات (۱۰؍اگست ۲۰۰۸ئ)تک اس کے مہتمم اور مدرّس رہے۔

پانچ سال سے وہ رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان کے نائب صدر تھے۔اس ذمہ داری کے سبب ان کے مدارس، دینی مدارس کی تنظیمات اور ان کے ذمہ داران سے روابط اور تعلقات تھے۔ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ میں وقتاً فوقتاً نمایندگی بھی کرتے تھے۔ اتحاد تنظیم کے صدور، ناظمین اور مدارس کے شیوخ نے ان کی وفات پر گہرے رنج وغم کااظہار کیا اور مغفرت کی دعائیں کیں۔

جب منصورہ میں شعبان/رمضان ۱۴۰۰ھ میں دورۂ تفسیر کا آغاز ہوا اورمولانا گوہررحمن ؒ کو دورۂ تفسیر کے لیے بلایا گیا تو اس وقت مولانا فتح محمد ؒنے اہتمام کے ساتھ پڑھنا بھی شروع       کر دیا۔ وہ دورۂ تفسیرکے پہلے طالب علم بھی تھے۔ اس طرح ہر سال دورہ تفسیر میں شرکت کرتے۔  محرم الحرام۱۴۰۱ء سے مرکز علومِ اسلامیہ میں باقاعدہ اعلیٰ درجوں کی تعلیم کا آغاز کیا گیا تو مولانا فتح محمد ؒ نے دفتری اوقات کے بعدپڑھنا شروع کر دیا۔وہ مسلسل پڑھتے رہے یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ انھوں نے دارالعلوم میں پڑھانا بھی شروع کردیا۔ترجمۂ قرآن پاک، ریاض الصالحین، مشکوٰۃ اور شرح وقایہ کئی سال تک پڑھاتے رہے، بالآخر ادارے نے ان پر ان کی    مرضی کے بغیر بوجھ کم کردیااور مشکوٰۃ کا درس دوسرے اساتذہ کے سپرد کردیا۔اسی دوران   جامعۃ المحصنات میں ایک استاد کی ضرورت محسوس کی گئی تومولانا نے اس کے لیے بھی اپنے آپ کو پیش کردیا ۔یہ ان کی ہمت ،حوصلہ،عزم ،جذبہ اور ذوق وشوق تھا کہ بیماری کے دوران بھی بوجھ اٹھانے کے لیے تیارتھے۔

وہ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ مزید سرگرمیاں بھی جاری رکھتے۔جہاں کہیں فہم قرآن کی کلاس ہوتی،کوئی اجتماع ،ریلی،علماکنونشن،دینی پروگرام ،تحریک، دھرنا ہوتا تو اس میں پیش پیش ہوتے۔ ان کے علمی ذوق و شوق کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ ۲۰۰۵ء میں انھوں نے تعمیر ِسیرت کالج سے کمپیوٹر کورس کیا اور ’’مہد سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو‘‘کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ قریب ودُور جہاں جانا پڑتا وہاں پہنچ جاتے۔ یہ تو ان کا تحصیلِ علم کا ذوق تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکز علومِ اسلامیہ کے لیے مالی اعانت جمع کرتے، اس کے لیے لوگوں سے رابطے کرتے، اندرون و بیرون ملک دورے کرتے اور بھرپور کوشش کرتے۔ انھوں نے برطانیہ،سعودی عرب،ابو ظہبی دبئی، شارجہ، ایران اور افغانستان کے مطالعاتی اور دعوتی دورے بھی کیے۔اکتوبر۲۰۰۷ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔اس دورے میں مختلف شہروں میں دعوتی تربیتی اجتماع سے خطاب کیا اور عمرہ بھی کیا۔

مجھے ۳۰ سال سے زیادہ ان سے رفاقت کا شرف حاصل رہا۔اس طویل عرصے میں ،میں نے مولانا فتح محمدؒ  کو ہمیشہ مطمئن پایا،حتیٰ کہ مرض الوفات میں بھی کسی قسم کی بے قراری، شکوہ شکایت زبان پر نہ تھی۔ ان کے اطمینان کو دیکھ کر امید ہوتی تھی کہ جلدہی صحت یاب ہوجائیں گے۔وہ شدید بیماری میں بھی مطمئن تھے۔۲،۳؍اگست کو یہاں منصورہ میں مختلف ممالک سے کچھ مہمان تشریف لائے تو انھوں نے ۳ اگست کو مجھے ایک خط بھیجا کہ میں ان مہمانوں کو دارالعلوم کی نئی عمارت کا دورہ کرواؤں اور دارالعلوم کے مختلف پروگراموں سے متعارف کرواؤں۔ وہ شدید بیمار تھے، مگر دارالعلوم کی فکر ان کے دامن گیر تھی۔ ۱۰؍اگست ۲۰۰۸ء کی شام کو ان کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ ظہر سے پہلے ان پر غشی طاری تھی۔ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا ،نماز کا وقت آیا تو ہم نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپس آئے تو روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ان کی موت کا منظر دیکھ کر یہ آیت یاد آگئی:

یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْـمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَـۃً مَّرْضِیَّـۃً o     (الفجر ۸۹:۲۷-۲۸) اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف لوٹ جا،اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور اللہ تجھ سے راضی۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایسی ہی مومنانہ شان اور مقام و مرتبہ عطا فرمائیں۔

میں نے مولانا کوکبھی بھی پریشان حال نہ پایا۔وہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے کام سرانجام دیتے رہے ۔ کبھی کسی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے بھی نہ پایا۔انھوں نے نظمِ جماعت کے ساتھ اختلاف کی صورت میں اختلاف کیا لیکن آداب کو ملحوظ رکھااورنظمِ جماعت کی اطاعت کی۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر یہ حدیث یاد آتی ہے:’’جسے آخرت کی فکر ہو، اللہ اس کے دل میں غنا پیدا کر دیتا ہے اور اس کے کاموں کومنظم کردیتاہے، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر پہنچتی ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

وہ اخلاقِ حسنہ کا بہترین نمونہ تھے، سراپا اخلاق تھے۔ اپنے دوستوں،جماعتی رفقا،      علما و مشائخ کے حقوق کا خیال رکھتے،بیماروں کی عیادت کرتے،فوت ہونے والوں کے جنازے میں پہنچتے، وقتاً فوقتاً مہمان نوازی اور افطاری کے لیے گھر پر بلاتے۔راولپنڈی اور لاہور میں ان کا گھر دفتر کی طرح مہمان خانے کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ لوگوں کے کاموںکے لیے وقت نکالتے، افسروں کو فون کرتے، ضرورت ہوتی تو ان کے ساتھ چل کر جاتے۔ وہ ہر کارِخیر میں پیش پیش رہتے۔

اللہ تعالیٰ انھیں غریقِرحمت کرے۔ وہ یاد آتے رہیںگے۔اللہ تعالیٰ جماعت کو ان کا    نعم البدل عطا فرمائے۔ رفقااور اولاد کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازے، آمین!

اس پُرآشوب دور میں ، جب کہ انسانیت تیزی سے جاہلیت کی کھائی میں گرتی چلی جارہی ہے، گنتی کے چند لوگ ایسے ہیں جو اپنا تن من دھن اللہ کی خاطر لگاکر دنیا و آخرت میں سرخ رُو ہوتے ہیں اور اُمت مسلمہ کے لیے امید کی کرن بن کر پھوٹتے ہیں۔ انھی قابلِ قدر ہستیوں میں سے ایک میری شفیق استاد ڈاکٹر فوزیہ ناہید گذشتہ ماہ (۱۳؍ مارچ ۲۰۰۸ئ) نفسِ مطمئنہ کی طرح راضی برضا، اپنے رب سے جاملیں، اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون!

ڈاکٹر فوزیہ ناہید ۷ فروری ۱۹۶۱ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ابھی آٹھ برس کی تھیں کہ  والدہ کا انتقال ہوگیا۔ زمانۂ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طالبات سے وابستہ ہوئیں اور مختلف  ذمہ داریوں پر فائز رہنے کے بعد ناظمۂ اعلیٰ منتخب ہوئیں۔ بعدازاں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (خواتین، PIMA) اور جماعت اسلامی حلقۂ خواتین میں مختلف ذمہ داریاں بھرپور انداز سے ادا کیں۔ وہ پچھلے ۱۲ برس سے امریکا میں مقیم تھیں۔ امریکا میں اسلامی تحریک اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (ICNA) کے حلقۂ خواتین کی چار سال تک ناظمۂ اعلیٰ رہیں اور آخری دم تک تحریک کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا، اور بہت سے لوگوں کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ان کی یہی نیکیاں ان شاء اللہ ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنیں گی۔

l سراپا تحریک: ان کی پوری زندگی سراپا تحریک تھی۔ ہر رول میں، ہر جگہ،        ہر دائرۂ کار میں جہاں انھوں نے کام کیا، ایک تحریک برپا کی اور دعوت، تنظیم و تربیت کا بیک وقت کام کیا۔ طالبہ علم کی حیثیت سے کالج و یونی ورسٹی میں، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے اپنے گھر والوں میں، ڈاکٹر کی حیثیت سے پروفیشنل خواتین میں، بہو کی حیثیت سے اپنے سسرال میں، بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے ساتھ، ماں کی حیثیت سے اپنے بچوں میں اور پھر جس جس حلقے میں ان کی رہایش رہی، ہر جگہ انھوں نے مستحکم بنیادوں پر کام کیا جس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بلاشبہہ بہت سے لوگ اخلاص و ایثار سے خدمت کرتے ہیں، قرآن و حدیث کا علم پھیلاتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ سب کام کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تحریک سے جوڑتے ہیں، ان کا تزکیہ و تربیت کرتے ہیں اور انھیں اپنی صلاحیتوں کو تحریک میں کھپانا سکھاتے ہیں، اور باہم اخلاص کے رشتے میں پرو دیتے ہیں۔ آخری برسوں میں بھی فوزیہ باجی کو تنظیم جس بھی ٹیم کے ساتھ کردیتی وہ ٹیم خود بخود سب سے زیادہ متحرک ہوجاتی۔ وہ ان سے صرف کام نہیں لیتی تھیں، بلکہ ان سے محبت کرتی تھیں، ان کا تزکیہ و تربیت کرتی تھیں، ان کو دعوت کے عملی طریقے سکھاتی تھیں، نظمِ بالا سے جوڑتی تھیں، اور ان کے اندر قائدانہ اوصاف کو اُجاگر کرتی تھیں۔ شورائیت، بصیرت، قوتِ فیصلہ اور حکمت، ہر لحاظ سے ہمہ پہلو محنت کرتی تھیں۔

  • دعوت الی اللّٰہ کی تڑپ: ان میں اللہ کی طرف بلانے کی بے پناہ تڑپ تھی۔ جس نے بھی ان کے ساتھ چند گھنٹے گزارے اس نے اس چیز کو محسوس کیا۔ امریکا میں ان کے کام کو دیکھنے کا مجھے زیادہ قریب سے موقع ملا۔ نیویارک کے مختلف علاقوں اور پھر ریاست کینٹکی میں انھوں نے خواتین میں صفر سے کام شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے پہلے خواتین سے انفرادی روابط استوار کیے، پھر دعوتی حلقے قائم کیے، قرآنی کلاسز اور دورۂ تفسیر وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو اپنے مقصد زندگی پر سوچنے کی دعوت دی۔

پہلے سال جب فلوریڈا پہنچی تھیں، تو ان کے جاے قیام کے قریب مسلمانوں کی کوئی بہت بڑی آبادی نہ تھی مگر اس کے باوجود انھوں نے صرف ایک ملایشین خاتون کے ساتھ بیٹھ کر دورۂ قرآن مکمل کیا۔ اس زمانے میں وہ پہلی بار انگریزی میں قرآن کا مطالعہ کر رہی تھیں۔ اپنے اس تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میں ڈکشنری ساتھ رکھتی تھی اور ترجمے کے دوران جو لفظ بہت مشکل سا آجاتا تو اس کو دیکھتی جاتی تاکہ ملایشی بہن کو سمجھانے میں آسانی ہو۔ اس کے بعد نیویارک میں کثیرتعداد کے حلقوں میں دعوتی کام کیا۔ پاکستانی ، امریکی، عرب ہر زبان بولنے والی خواتین پر اثر ڈالا۔

میں حیران ہوتی تھی کہ فوزیہ باجی کے نہ صرف پاکستانی بلکہ دوسرے ممالک کی خواتین سے بھی اتنے اچھے اور مؤثر تعلقات کیسے قائم ہیں۔ پاکستان سے آنے والے پڑھے لکھے طبقے کی انگریزی ویسے تو بہت اچھی ہوتی ہے لیکن یہ بولنے میں گھبراتے ہیں اور بوجھل لہجے کی وجہ سے امریکیوں کو ان کی بات سمجھنے میں دقت بھی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ آپ ان سب لوگوں سے کیسے اتنی دوستی کرلیتی ہیں؟ ان کے مزاجوں کو کیسے سمجھ لیتی ہیں؟ آپ تو یہاں امریکا میں پلی بڑھی نہیں ہیں۔ پھر یہاں کے ماحول میں بسنے والوں کے ذہنوں کو کیسے پڑھ لیتی ہیں؟ اس پر وہ اپنے روایتی انداز سے کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور بولیں: ’’دیکھو! اللہ تعالیٰ کیسے کیسے لوگوں سے اپنا کام لے لیتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک داعی کی تڑپ اور خلوص ان تمام ظاہری کمیوں پر بھاری ہوتا ہے۔

کسی نے تھوڑا عرصہ ساتھ گزارا ہو یا زیادہ، فوزیہ باجی ایک مثالی کارکن کی طرح اسے کسی نہ کسی طریقے سے دعوت ضرور دیتی تھیں۔ ایک بار وہ اپنی بیٹی کے علاج کے لیے امریکا ہی کی کسی دوسری ریاست کے ہسپتال میں کچھ روز کے لیے ٹھیری ہوئی تھیں۔ وہاں بیٹھے ہوئے وہ اپنا وقت ضائع نہ کرتیں۔ اپنی بیٹی کو کتابیں پڑھ کر سناتیں یا پھر فراغت ملتے ہی اپنے زیرتربیت دو تین خواتین کو ہسپتال کا نمبر دے دیا تاکہ رابطہ رہے اور نظم کے کام نہ رکیں۔ کچھ دیر کاموں کی ہدایات دینے کے بعد انھیں کہنے لگیں: ’’دیکھو، میں یہاں نیم پرائیویٹ کمرے میں ہوں۔ یہاں پر ایک اور امریکن عورت بھی ہے جو اپنے بچے کو لائی ہے۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا ہے کہ اس کو میرا فون پر زیادہ دیر تک باتیں کرنا، ناگوار گزرتا ہے۔ میں تھوڑی دیر اس سے باتیں کر کے کچھ گنجایش پیدا کرتی ہوں۔ ان شاء اللہ تم سے بعد میں بات کروں گی‘‘۔ اگلے روز میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا، اس عورت سے بات کیسی رہی؟‘‘ تھوڑا سا ہنستے ہوئے بتانے لگیں کہ: ’’پہلے تو وہ خفا خفا ہی رہی، مگر پھرمیں نے کچھ اس کی خدمت کی، ہاتھ بٹایا، بچے کے حوالے سے بات چھیڑی۔ اس کی مشکلات دریافت کیں اور پھر ان کے حل بتائے۔ اس طرح وہ ذرا مائل ہوئی۔ آخر میں خود ہی میرے بارے میں، اسلام کے بارے میں میم صاحبہ نے اتنے سوالات کیے کہ خودبخود میرا کام ہوگیا۔ اس کو قرآن کا ترجمہ اور کچھ کتابچے میں نے تحفے میں دیے اور بہت سی ویب سائٹس سے تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لیے کہا۔

یہ تین سال پہلے کی بات ہے جب انھیں کینسر ہوگیا، تو شروع میں انھوں نے ہر ذمے داری سے فوراً استعفا دے دیا تھا، اور صرف زیرتربیت افراد اور مرکزی نظم کے تربیتی کاموں میں ہاتھ بٹانے کی ہامی بھر لی تھی۔ جب ان کی پہلی کیموتھراپی اختتام کو پہنچی تو ہم سب سمجھ رہے تھے کہ وہ    فہم قرآن کلاسز میں ٹیچر کی حیثیت سے واپس آکر ہمارے ارکان و امیدواران کی تربیت میں حصہ ڈالیں گی، لیکن انھوں نے اس ذمے داری کو لینے سے انکار کردیا۔ میں نے اپنے طور پر ان کو راضی کرنے کی کوشش کی تو کہنے لگیں: ’’اب کلاس کو اور تربیت کے اہم کام کو نئی ٹیم کے ساتھ باقاعدگی سے چلنے دو۔ میری طبیعت کا کچھ پتا نہیں ہے۔ آج ٹیسٹ صحیح آئے ہیں، کل نہ جانے کیا ہو۔ تم فکر نہیں کرو، اس کے باوجود میں ’غیرفعال‘ ہوکر نہیں بیٹھوں گی، ان شاء اللہ۔ پھر وہ ’اکنا‘ کے     دعوتی پراجیکٹ Why Islam? (اسلام ہی کیوں؟) میں مرکزی سطح پر بھی شامل ہوگئیں، اور   اس کام میں خواتین کے نظم کا بھرپور منصوبہ تیار کرایا۔ مقامی آبادی میں تیزی سے کام کرنے کے حوالے سے کارکنان کے اندر جذبہ بیدار کیا۔ مردانہ نظم سے ان تمام چیزوں پر تفصیلی مکالمہ کیا، اور ’اسلام ہی کیوں؟‘ پراجیکٹ کے لیے مرکزی ٹیم تیار کی۔

  • تعداد اور معیار میں توازن : دعوتی اور تربیتی کاموں میں فوزیہ باجی کی توجہ اس بات پر ضرور ہوتی کہ تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ معیار کو ذرہ برابر بھی گرنے نہ دیں، یعنی صرف افراد جمع کرلینے ہی پر ان کی توجہ مرکوز نہ ہوتی، بلکہ لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی کو وہ اپنا  اصل ہدف بناتیں۔ بیک وقت یہ سارے کام کرنا اگرچہ مشکل ہے، لیکن بقول ڈاکٹر فوزیہ: ’’تحریک تو پھر اسی چیز کا نام ہے‘‘۔

’اکنا‘ کا کام ایک عرصے تک صرف پاکستانی طبقے اور اُردو زبان بولنے والے مسلمانوں ہی تک محدود تھا۔ پھر ۹۰ کے عشرے میں انگریزی میں کام کی طرف پیش رفت ہوئی۔ ڈاکٹر فوزیہ کی نظامت کے دوران کچھ ارکان کی طرف سے نظام کو یک سر تبدیل کرکے ہر چیز کو فوراً انگریزی میں لانے کامطالبہ بہت زور و شور سے کیا گیا۔ انھوں نے اس پر بہت حکمت اور سلیقے سے کام کیا۔ وہ کہاکرتی تھیں کہ ہمیں بہت اہم کام کرنا ہے۔ امریکا میں اسلامی تحریک و دعوت کا کام کوئی اتنا آسان نہیں ہے کہ ہر کاغذی کارروائی کا انگریزی میں ترجمہ کر دو اور یہ کام ہوگیا۔ اس کے لیے دیرپا کام کرنا ہوگا۔ پہلے ہم میں سے ایسے افراد تیار ہوں جو مقامی آبادی کو سمجھ کر ان میں دعوتی کام کرسکیں۔ پھر جو لوگ مقامی آبادی میں سے تحریک سے وابستہ ہوں، ان کی تنظیم و تربیت کا معقول انتظام انھی کی زبان میں کیا جائے۔ اس کے لیے ویسا ہی نظام ہو جیسا مولانا مودودی نے تحریک کے شروع میں کیا تھا۔ انھی کی زبان میں لٹریچر تیار ہو، ان کی تربیت گاہیں ہوں، وہ تنظیمی اجتماعات کریں، تاکہ پہلی مقامی ٹیم کو تحریک کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ اس کا طریقۂ کار، دعوت و تنظیم اور تربیت کا ربط، دوسری تنظیموں اور اس میں فرق اچھی طرح ان پر واضح ہوجائے۔ ان کی بنیادی عبادات، اخلاقیات سب پر سیرحاصل کام ہو اور پھر یہ لوگ نکل کر اس ملک میں بھرپور کام کریں۔ ساتھ ہی اُردو زبان بولنے والے، تارکین وطن کو بھی لے کر چلیں۔ اس طرح دوسری آبادیوں، ہسپانوی، بنگالی، عرب وغیرہ سب کے اندر دعوت پھیلائیں۔

  • افراد کی تیاری : اسلامی اقدار کی سینہ بہ سینہ منتقلی، محبت اور خلوص کے ساتھ افرادِ کار کی تربیت کا کام وہ بہت عمدگی سے کرتی تھیں۔ لوگوں کے مزاجوں کو سمجھنے میں انھیں زیادہ دیر نہیں لگتی تھی۔ افراد کو ان کے مزاج اور صلاحیتوں کے لحاظ سے صحیح ذمہ داری پر لگاتیں۔ ہمیشہ بنیادی چیزوں کی تربیت پر سب سے پہلے توجہ دیتیں اور بعد میں بھی اکثر انھیں بنیادی چیزوں کے بارے میں پوچھتی رہتی تھیں۔ نماز، اس کی پابندی، اس میں خشوع، روزانہ کا باقاعدہ مطالعہ، قرآن سے ربط وتعلق، اس پر تدبر، حدیث و سیرت کا مطالعہ، اس سے سبق اخذ کرنا،تحریکی لٹریچر کا مطالعہ، حلقے میں دعوتی کام، وغیرہ ان چیزوں کو سب سے پہلے صحیح کرواتی تھیں۔ مگر اس میں ان کا انداز ایک ٹیچر کا نہیں بلکہ ایک پُرخلوص بہن اور ساتھی کا سا ہوتا۔ اپنے زیرتربیت روابط سے کہتیں: ’’چلو، ہم دونوں یوں کرتے ہیں کہ روزانہ فجر کے بعد ایک دوسرے کو فون کریں گے اور ساتھ ساتھ فون پر ہی مطالعہ کریں گے تاکہ میں مطالعہ کرتے ہوئے سو نہ جائوں‘‘۔ کسی کو یہ محسوس نہ ہونے دیتیں کہ وہ تو ان چیزوں کی پہلے ہی سے پابند ہیں۔ کہتی تھیں کہ ہمارا کام اتنا کھوکھلا نہیں کہ بس چند وعظ و تقریریں ہوں اور بہت واہ واہ ہو۔ ہمیں تو دلوں کے دروازے کھٹکھٹانے ہیں، دلوں کو بدلنا ہے جیساکہ پیارے نبیؐ نے کیا تھا۔ دل کے اوپر بہت سے لبادے اور تالے ہوتے ہیں۔ اپنے ہی دل کو جھانک کر دیکھ لیں۔ پیارے نبیؐ کا فرمان ہے: تقویٰ یہاں (دل میں) ہے۔

سیرت و اخلاق کے حوالے سے تربیت کے لیے بہت سے افراد کو آپس میں جوڑ دیتی تھیں۔ مختلف مزاج کے افراد کی جوڑی بنا دیتی تھیں۔ اگر نئے اور پرانے افراد میں کھچائو محسوس ہوتا تو ایک نئے اور ایک پرانے فرد کو آپس میں کام کرنے کو دے دیتیں۔ نوجوان اور بزرگ افراد کو ساتھ کر دیتیں۔ اسی طرح شوریٰ میں بہت زیادہ بولنے والے شخص اور بہت خاموش رہنے والے کی جوڑی بنا دیتیں اور ساتھ بتا بھی دیتی تھیں کہ فلاں سے تم بات کی تہہ تک پہنچنا اور راے بنانا اور فیصلہ کرنا سیکھو، اور تم فلاں سے فورم پر صحیح انداز میں سلیقے کے ساتھ بات کو پیش کرنا سیکھو۔ ’اکنا‘ میں اخوہ نظام کی بنیاد انھوں نے ہی ڈالی۔ یہ اخوان کے نظام اسرہ کی طرح آپس میں کارکنان کے گروپس اور جوڑے ہیں۔ پہلے صرف ارکان میں پھر تمام کارکنان میںاس کو رائج کیا گیا۔ پھر افراد سے بڑھ کر ٹیموں اور شورائوں میں، پھر اس سے بڑھ کر شہروں کا نظام بنا دیا گیا، تاکہ شہروں کے نظم اور شورائیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھیں اور سیکھیں۔

  • شخصیت پرستی کا توڑ: اس دور میں، جب کہ اُمت مسلمہ میں اور خاص طور پر امریکا میں دینی حلقوں میں خصوصاً شخصیت پرستی کا رواج عام ہے۔ افراد مقرر کے نام کی وجہ سے اس کو سننے آتے ہیں، خوب واہ واہ کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، یا پھر تبدیلی آتی ہے تو صرف ایک فرد سے جڑتے ہیں، پوری تنظیم و تحریک سے وابستہ نہیں ہوتے، اور جب وہ فرد وہاں سے ہٹتا ہے تو پھر غیرفعال ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی اپنی ذات کو دعوت کا مرکز بننے نہیں دیا۔ ہمیشہ ٹیم کی تیاری کی اور پھر اس کو نظم سے جوڑا، آپس میں جوڑا، دعوتی تڑپ اور تزکیے کی پیاس دی،   اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرنے کے ڈھنگ سکھائے، خوداعتمادی دی اور پھر عملی میدان میں مغفرت کی طرف دوڑنے کے لیے چھوڑ دیا۔

قرآن فہمی کے تین سالہ کورس میں ہم نے انھیں ’’میں ایسی ہوں‘‘ یا پھر ’’میں ایسا کیا کرتی ہوں‘‘ کہتے نہیں سنا۔ وہ آج کے دور کی بہت سی مثالیں دیتیں، لیکن دوسروں کی۔ اس میں بھی انھوں نے توازن کی تلقین کی۔ نظم کے افراد کا، مقررین کا، نمایاں کام کرنے والے تحریک کے ارکان و کارکنان کا تعارف اور ان کے کام کے تذکرے کو بالکل درست سمجھتی تھیں۔ شعبہ تربیت کے تحت ’’میں نے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ کیسے پایا؟‘‘ کے عنوان سے یہاں پر مضمون نویسی کا ایک مقابلہ ہوا تھا۔ نظم نے اس مقابلے کے مضامین کو بغیر ناموں کے ایک کتاب میں چھپوانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے وقت وہ پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ واپس آکر انھوں نے نظم کو قائل کر کے اور اس کی اجازت سے اپنی کتاب میں تمام افراد کے نام لکھوائے۔

ہر اجتماع میں ضرور کسی نہ کسی ساتھی کا تعارف یا اس کی تعریف ضرور کرتیں، آپس میں ان میں محبت پیدا کرتیں اور پھر نظم کے ساتھ جوڑ کر خود ان افراد کو چھوڑ دیتیں۔ بعض اوقات اگر ان ساتھیوں کے بہت فون آتے تو ارادہ کر کے انھیں نہ سنتیں اور کہتیں کہ اب آپ اپنے متعلقہ نظم سے تعلق رکھیں۔

  • درس و تدریس اور عملی تربیت: قرآن و حدیث پڑھانے کے دوران میں وہ صرف نظریاتی باتیں نہیں کرتی تھیں، بلکہ پوری طرح علمی و تحقیقی بات رکھنے کے بعد عملی مثالیں ضرور دیتیں اور آخر میں عمل کے لیے کرنے کو کام بھی دیتی تھیں، جن کے بارے میں کلاس میں پوچھا جاتا تھا۔ اس طرح وہ علم اور تربیت کا کام ساتھ ساتھ کرتیں۔ شروع کے قرآنی پاروں کو پڑھانے کے بعد پوچھتی تھیں کہ اب لوگ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شروع میں نماز اور انفاق وغیرہ کے لحاظ سے کام دیے۔ نمازوں اور مطالعے کی پابندی کے لیے پانچویں پارے کے ساتھ ہی انفرادی جائزہ رپورٹ فارم کا تعارف دیا اور پارے کے ٹیسٹ میں اس کو روزانہ پُر کرنے کے بونس نمبر رکھ دیے۔ شروع ہی کے سپاروں میں اجتماعیت کا تعارف اور اس میں شامل ہوکر نصاب، تربیت گاہیں، کلاسز وغیرہ سے فائدہ اٹھانے کی رغبت دلائی۔ پھر جب پندرھویں پارے پر پہنچے تو پچھلی کلاس کے حوالے سے انبیاے کرام ؑ کے دعوتی انداز وغیرہ کے بارے میں سوال کرتے ہوئے کہنے لگیں: ’’اب مجھے یہ جواب نہیں چاہیے کہ یوں کرنا چاہیے اور یوں ہونا چاہیے، بلکہ اب یہ بتائیں کہ ہم نے حلقے میں یہ کیا اور یہ نہ کیا، اگر آدھے قرآن کے تفصیلی مطالعے کے بعد بھی عملاً دعوت شروع نہ کی تو پھر یہ قرآن ہمارے خلاف کہیں حجت نہ بن جائے‘‘۔

قرآن پاک کو خود انھوں نے کئی علما سے پڑھا ہوا تھا لیکن پھر بھی بہت محنت سے متعدد تفاسیر، اور بے شمار احادیث و سیرت کی کتب اور اسلامی لٹریچر سے تیاری کرتی تھیں۔ ہرہرفرد کو فون کرتیں، ان سے روابط رکھتیں، فاصلوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح ضرور ملنے کی کوشش کرتیں۔ اپنے روابط اور زیر تربیت افراد سے یوں نہ پوچھتیں کہ ٹیسٹ کیوں نہیں دیا، بلکہ فون کر کے کہتیں: بہت دنوں سے آپ کی پوزیشن نہیں آئی، مجھے اس بات کا بہت رنج ہے۔ جون جولائی کی چھٹیوں میں اپنی فیملی کے اصرار پر فوزیہ باجی بچوں کے ساتھ پاکستان گئیں۔ واپس آئیں تو کلاس کی حاضری کافی متاثر ہوچکی تھی۔ پھر سے مہماتی انداز میں تمام افراد کو جمع کیا اور ماحول بنایا تاکہ محنت سمیٹی جاسکے۔ قرآن کی اس کلاس کے ساتھ ساتھ لٹریچر کا مختصر کورس بھی کروا دیا، افراد کو متعلقہ نظم سے جوڑا، ان کی ناظمات سے رابطے رکھے۔ کلاس کے اختتام تک بہت سی بہنیں ’اکنا‘ کی رکنیت کے لیے بالکل تیار تھیں صرف اس لیے نہیں کہ انھوں نے قرآن کی تفسیر کا مطالعہ کیا تھا، گرامر پڑھ لی تھی، بلکہ اس لیے کہ انھوں نے قرآن کی برپا کردہ تحریک کو قرآن ہی کی روشنی میں سمجھا اور اس میں عملی قدم رکھا۔ اپنے اپنے نظم کے تحت عملی اور دعوتی و تربیتی میدان میں سرگرم عمل ہوگئیں۔

  • ھمہ پھلو قائدانہ کردار: جمعیت کی ناظمۂ اعلیٰ کی حیثیت سے انھوں نے بھرپور محنت کی اور اسی وقت سے ان کی قائدانہ صلاحیتیں اُجاگر ہوچکی تھیں۔ ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۱ء تک وہ ’اکنا‘ کے خواتین ونگ کی ناظمۂ اعلیٰ رہیں۔ اس دوران انھوں نے ایک پوری ٹیم کی تیاری کی۔ مرکز، شہر، حلقہ ہر سطح پر افراد تیار کیے۔ شعبہ جات کو منظم کیا، تنظیم کو اسلامی شورائی نظام میں ڈھالا۔ ہرہرشعبے کے مقاصد پر ڈسکشن کی تاکہ مقصد کو سمجھتے ہوئے ہرہر ٹیم تحریک کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرے۔

دعوت کے شعبے کے تحت انھوں نے ایک ہی ساتھ تمام امریکا میں ’اکنا‘ کے تحت دعوت بذریعہ قرآن کے نئے نئے انداز سمجھائے۔ پہلے ہی سال سے دعوتی اجتماعات میں مختلف تقریریں اور ڈسکشنز کے بجاے قرآنی کلاسیں، خاص ترتیب کے ساتھ دروسِ قرآن اور دورۂ تفاسیر کروانے پر توجہ مرکوز کر دی۔ اس مقصد کے لیے مدرسین کی تیاری بھی تمام حلقہ جات میں بھرپور انداز سے کی۔ مرکزی سطح سے فون، دوروں اور تربیت گاہوں کے ذریعے تفصیلی ہدایات، ورکشاپس، مشقی سیشن رکھوائے۔ وہ کہتی تھیں: ’اِدھر اُدھر جاکر درس دے کر آجانے والے نہیں، بلکہ ان کے خیال میں تحریک کو ایک جگہ جم کر کام کرنے والے درس کے ساتھ تربیت کرنے والے لوگوں کی ضرورت ہے۔ انھوں نے دعوتی مہمات رکھوائیں جو کہ ’اکنا‘ کی خواتین کے لیے کافی نیا تصور تھا۔ ان کے ذریعے کارکن کے دعوتی مزاج کو بیدار کرنے اور اس کو فروغ دینے کی کوشش کی۔

شعبۂ تربیت کی ازسرنو تشکیل و تنظیم کی۔ نصاب، جائزہ فارم، تربیت گاہیں، کلاسز، اخوہ نظام، قائدین کی تیاری، ان سب چیزوں کے مقاصد زیربحث لاتے ہوئے ازسرنو رائج کیا۔ ’اکنا‘ اور ایم اے ایس کے شعبۂ تربیت کی ٹیموں نے مل کر جو ہدایات مرتب کی تھیں ان کو خواتین میں عملی طور پر قائم کیا۔

نائن الیون کے بعد افراد کو سمیٹتے ہوئے ’آن لائن‘ (online) پروگرام کرنے کا طریقہ استعمال کیا۔ اس وقت اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ کارکن کا عزم اور حوصلے کو بلند رکھا جائے۔ بزدلی اور منافقت کے بہت سے رویوں سے بھی بچنا سکھایا اور آزمایش کی صورت میں حفاظتی تدابیر کا شعور بیدار کیا۔ مغرب میں مقیم مسلمانوں کے لیے وہ کافی مشکل مرحلہ تھا۔ بہت سے عام مغرب زدہ مسلمانوں نے تو اپنے رنگ ڈھنگ اور نام تک بدل کر غیرمسلموں جیسے کرلیے۔ بہت سے لوگ انتظامیہ کے آلۂ کار بن گئے۔ ایسے وقت میں کارکن کو اور عام افراد کو ایمان مضبوط رکھنا اور سکھانا   یہ کام فوزیہ باجی اور ان کی مرکزی ٹیم نے آن لائن اور سرکلرز کے ذریعے کیا۔ آن لائن میٹنگز میں انھوں نے رخصت و عزیمت کے موضوع پر مکالمے اور تبادلۂ خیالات کا اہتمام کیا اور کہا کہ اپنی ذات کی حفاظت کے لیے ہرگز ایمان کا سودا نہ کرلینا۔ ایمان کی حفاظت پہلے کرنا، خواہ اس کے لیے اصحابِ کہف کی طرح اپنے آپ کو غار میں محصور ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

ان کے دورِ نظامت ہی میں میڈیا کے حوالے سے کام شروع ہوا۔ ویب سائٹ، ای میل وغیرہ اور دیگر ذرائع بہتر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ قیادت کی تیاری اور فکری و تحقیقی کام کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سائنسز کا انعقاد کیا___ غرضیکہ تھوڑی سی مدت میں انھوں نے ہرسطح پر، ہر سمت میں تحریک کو پھیلایا اور اس کو استحکام دیا۔

  • بیت المال کے بارے میں حساسیت: بیت المال کے حوالے سے وہ بہت زیادہ حساس تھیں۔ اس کی جواب دہی سے بہت خوف کھاتی تھیں۔ اس سے بھی ڈرتی تھیں کہ حساب کتاب میں کوئی نقص ہو اور اس سے بھی کہ اس آنے والی رقم کا صحیح استعمال نہ ہو۔ زیادہ فضول خرچی اور زیادہ تنگ نظری، یا بخل دونوں ہی سے ڈرتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ اس کا بھی سوال ہوگا کہ ایک ایک پیسہ کہاں استعمال ہوا، اور اس کا بھی کہ جو آیا تھا، اس کا بہتراستعمال کرنے کے بجاے جمع کر کے کیوں رکھا؟ تربیت اور بیت المال ان کے خیال میں ناظم کی دو اہم ترین ذمے داریاں ہیں، جن کے بارے میں ہر سطح کے نظم کو سب سے زیادہ فکرمند ہونا چاہیے۔ اسی لیے وہ بیت المال کی رپورٹ وقت پر اور پابندی سے پیش کیے جانے کا خاص اہتمام کرتی تھیں۔
  • اسلامک فیمنزم کا چیلنج: آج کل دنیا میں feminism (تحریکِ نسواں) کے نظریات پورے زور و شور کے ساتھ پھیلائے جارہے ہیں۔ عام خواتین، خواہ وہ سیکولر ہوں یا   دین دار گھرانوں سے تعلق رکھنے والی، پڑھی لکھی ہوں یا اَن پڑھ، شہری ہوں یا دیہاتی___ سب اس سے کچھ حد تک متاثر ضرور ہیں۔ امریکا میں تو ’جدید دین دار‘ خواتین کا ایک ایسا گروہ بھی سامنے آگیا ہے جو خواتین کا جمعے کا خطبہ دینا، نماز میں مردوں کی امامت کرنے اور سب کے ساتھ    شانہ بشانہ نماز ادا کرنے کو بالکل جائز سمجھتا ہے۔ سواے ’اکنا‘ کے تمام اسلامی تنظیمیں مرد و زن کی تفریق کو غلط سمجھتی ہیں۔ بہت سے مسلم اسکالر عورت کی حکمرانی کے ْخلاف دلائل کو تسلیم نہیں کرتے اور اسی وجہ سے بہت سی بڑی بڑی اسلامی تنظیموں کی صدر خواتین بھی منتخب ہوتی ہیں۔ دوسرا گروہ ایسے افراد کا ہے جو دین کے فروغ کی ذمے داری صرف مرد ہی کی سمجھتے ہیں۔ عورتوں کی باقاعدہ تنظیم ہی کے خلاف ہوتے ہیں۔ حالانکہ سب ہی عورتیں اپنی گھریلو ضرورتوں سے، دوست احباب سے ملنے یا دوسری وجوہات سے گھر سے باہر جاتی رہتی ہیں۔ سفر بھی کرتی ہیں، اکیلے پاکستان بھی چلی جاتی ہیں لیکن جب دین کے کام کے لیے گروپس میں نکلنے کو کہا جائے تو یہ انھیں شریعت کے خلاف دکھائی دیتا ہے۔

’اکنا‘ پر اس بات کا بہت دبائو ہوتا ہے کہ ہم بھی دوسری تنظیموں کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں۔ عورتوں اور مردوں کے اندر تفریق ختم کرکے تمام کو ایک ہی حلقے کی طرح یک جا لے کر چلیں۔ مسجدوں کو ’ویمن فرینڈلی‘ (women friendly) بنانے کے لیے اور مسجدوں کی شورائوں کو مخلوط بنوانے کے لیے جدوجہد کریں۔

ایسے حالات میں انھوں نے تحریک کو دونوں انتہائوں سے بچاتے ہوئے ایک متوازن راستے پر رکھنے کی بھرپور کوشش کی کہ عورتیں اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے بھرپور تحریک چلائیں۔ ایسا نہ ہو کہ جن کی گودوں میں مسلمانوں کی اگلی نسلیں پل رہی ہیں، وہی اس تحریک، اس کے عملی اتارچڑھائو اور مقصدِ زندگی سے ناآشنا رہ جائیں۔ بقدرِ ضرورت تمام اسلامی حدود پر عمل کرتے ہوئے مردانہ نظم سے رابطہ بھی رکھیں۔ تمام فیصلوں میں، اِلا.ّ یہ کہ معصیت کا اندیشہ ہو، امیر کی اطاعت اور اتباع کو اپنے اُوپر لازم سمجھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے جو عظیم مقام دیا ہے، اس سے گرنے یا اس پر شکوہ کناں ہونے کے بجاے، اس پر شکرگزاری کا رویہ اختیار کریں۔ اس سلسلے میں ان کی یہ بھی کوشش رہی کہ اسلامی عمومی اجتماعات کے موقعوں پر عام افراد کو بھی   ضابطۂ اخلاق دیا جائے، اس کو سمجھایا جائے تاکہ اختلاطِ مرد و زن سے بچا جاسکے۔

  • حلقۂ اثر اور گہر میں تحریک: وہ اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ اپنے قریب کے حلقے اور گھر والوں میں ہر کارکن کا کام اشد ضروری ہے۔ یہ نہ کرنا اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ انسان کی نیکی کی جڑ اسی سے مضبوط ہوتی ہے کہ اس کے قریب کے لوگ اندر سے تبدیل ہوجائیں اور ان کے دلوں میں اسلامی انقلاب آجائے۔

ہمارے پوچھنے پر بتاتی تھیں کہ انھوں نے تربیتی نظام کے تمام جزوجو تحریک میں قائم کیے وہ اپنے بچوں اور گھر والوں میں بھی قائم کیے۔ ان کا بھی اخوۃ نظام قائم کیا اور جوڑے بنائے، ان کا بھی رپورٹ فارم اور جائزہ سسٹم رکھا، ان سے قرآن کا مطالعہ ڈسکس کیا، شوریٰ کا نظام رکھا۔ شروع میں اخراجات کی وجہ سے تربیت گاہوں میں اپنی بیٹیوں کو نہیں لاپاتی تھیں لیکن پھر جب انگریزی میں خواتین کی تربیت گاہوں کا انعقاد شروع ہوا، تمام بیٹیوں کے ساتھ اپنی شدید علالت کے باوجود، ہنستی مسکراتی موجود ہوتی تھیں۔

اپنے بچوں کی نیکیوں پر بہت خوش ہوتیں۔ جب بڑی بیٹی چھوٹی سی عمر میں تہجد پر اٹھنے کی خود سے کوشش کرنے لگی تو دلی مسرت کے ساتھ ہمیں بتانے لگیں۔ میں جب بھی اپنے نانا نانی یا  امی ابو کا ذکر کرتی کہ ان سے ہم نے یہ سیکھا تو کہتیں: ’’میں تم کو بتا نہیں سکتی کہ اولاد کی نیکی کو دیکھ کر ماں باپ کو اور بزرگوں کو کیسی راحت ملتی ہے۔ جب میرے بچے فلاں نیکی کا کام کرتے ہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا ہی میں جنت مل رہی ہے‘‘۔حتیٰ کہ وہ گھروالوں سے تنظیمی ڈسکشن تک کرتی تھیں۔ تحریک کے تقابلی جائزے، سالانہ رپورٹ پر تبصرے، ’اکنا‘ کے دعوتی کام پر باتیں کرتی تھیں۔ واقعی اپنے گھر والوں کو نیکی کے سفر میں ساتھ ساتھ لے کر چلنا ایک مشکل کام ہے، لیکن اس کے اثرات بہت دُوررس ہیں۔

  • وقت کا استعمال: ان کی ایک بڑی خوبی وقت کا صحیح استعمال کرنا تھا۔ ہم سب حیران رہ جاتے تھے کہ وہ ۲۴ گھنٹوں میں کیا کیا کچھ کر ڈالتی ہیں۔ جب ان سے وقت کے بارے پوچھا تو بتایا کہ جب تھوڑا وقت ملے، کتابیں پڑھنا میرا مشغلہ ہے، بس مطالعے کے دوران پنسل سے اپنے تاثرات، اصول وغیرہ ضرور نوٹ کرتی جاتی ہوں۔ لیکن تفصیلی مطالعہ اور مطالعۂ قرآن و حدیث صبح فجر کے بعد کرتی ہوں۔ پھر ناشتے سے فارغ ہوکر تنظیمی کام، میٹنگز وغیرہ۔ کھانا پکانے کا کام تیزی سے کرنے کی مجھے عادت ہے۔ نظامتِ اعلیٰ کے دوران ہفتہ وار چھٹی کے روز ہفتے بھر کے لیے پیاز تل لیتیں، گوشت تیار کرلیتیں یا بہت سے کھانے تیار کر کے ریفریجریٹر میں محفوظ کر لیتی تھیں۔ ایک دفعہ فون پر بات ہوئی تو مزے سے حلیم کھا رہی تھیں۔ میں نے پوچھا: آپ کو نظامت کے بھاری کاموں، کلاسز کی تیاری، بچوں کے کام، پورے دن کے فونوں کے ساتھ حلیم بنانے کی فرصت کیسے ملی؟ کہنے لگیں: ’’یہ جو فریزر ہے نا، یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ میں اللہ کا   شکر ادا کرتے ہوئے، اس کا خوب استعمال کرتی ہوں، اور پھر یہ کارڈلیس فون اور ہیڈسیٹ بھی اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں۔ ان کے بہت سے سیٹ رکھتی ہوں۔ گھر کے کام ہاتھوں سے جاری رہتے ہیں اور روابط ان کے ساتھ ساتھ۔

ہر روز رات میں اپنا جائزہ لیتیں، اور اگلے دن کے کاموں کی فہرست بنا لیتیں تاکہ سوچنے اور یاد کرنے میں وقت صرف نہ ہو۔ دورے اور تربیت گاہوں وغیرہ میں شرکت کے لیے سفر بھی بہت کرنا پڑتا۔ اس کے لیے بھی پورے دنوں کا کھانا تیار کر کے فریز کر کے جاتیں۔ گھر بھی ہروقت سادہ اور صاف ستھرا رکھتی تھیں۔

عام خواتین کی طرح ہر روز سودا لانے یا بازار شاپنگ میں وقت ضائع نہ کرتی تھیں۔ پورے ہفتے کی ایک فہرست بناکر ہفتے بھر کا سارا سامان ایک ساتھ ہی لاتیں۔ بازار کی دعا بہت پڑھتیں اور ہم سب کو بھی یہ دعا نصاب کے ذریعے یاد کروائی تاکہ اس مادہ پرستی کے فریب سے بچ سکیں۔

گھر آنے والے مہمانوں کی تواضع بھی خوب کرتی تھیں۔ نہ جانے کیسے اس کے لیے وقت نکل آتا تھا کہ کوئی آنے والا ہو تو جھٹ سے کئی کئی کھانے تیار کرلیتیں۔ عام طور پر کوئی زیرتربیت فرد ہو تو تمام کام پہلے سے کرلیتیں، تاکہ تمام وقت اس فرد سے ضروری باتیں کرسکیں۔

  • پیکرِ خلوص: یہ بات لکھتے ہوئے میرا دل افسردہ اور آنکھیں اَشک بار ہیں کہ فوزیہ باجی کے بارے میں ہم سب کا یہی گمان ہوتا تھا کہ جیسے وہ سب سے زیادہ محبت ہم ہی سے کرتی تھیں۔ ایسی سیرت و کردار والے لوگ آج کل بہت ہی نادر و نایاب ہیں۔ اپنے تمام رشتے دار، عزیز واقارب اور تحریکی ساتھی چھوڑ کر میں جب امریکا منتقل ہوئی تو مجھے سب سے پہلے، سب سے آگے بڑھ کر محبت اور شفقت دینے والی ہستی وہی تھیں۔ میں اپنے والدین سے کہتی تھی کہ امریکا  میں میری امی ’فوزیہ باجی‘ ہیں۔ مجھے یقین ہے سیکڑوں بہنوں کے یہی جذبات ہوں گے۔   تربیت گاہوں میں اگر رات کے تین چار بجے بھی میری روانگی ہو تو وہ میرے ساتھ جاگتی رہتیں کہ جتنا وقت ہے ساتھ گزار لیں۔ پھر زور سے گلے ملتیں اور سر پر ہاتھ رکھ کر نبیؐ کی الوداعی دعائیں پڑھتیں۔ اس طرح رخصت کرتیں کہ جیسے بیٹی کو رخصت کر رہی ہوں۔

اگر کوئی فون کرے تو محبت سے بات کرنا، خلوص سے مشورے اور مسائل کا حل دینا، کتنی ہی مصروفیت ہو، ضرور وقت ملنے پر کال بیک کرنا، کم و بیش ہر دفعہ تحفے دینا___ یہ چیزیں ان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھیں۔ ’اکنا‘ کی بزرگ خواتین ان کو اپنی بیٹیوں کی طرح چاہتی ہیں اور نوجوان خواتین ان کی گرویدہ! نئے پرانے سبھی لوگوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔

  • باعمل شخصیت : وہ جو کہتیں وہی کرتی تھیں، قول و عمل میں تضاد نہیں تھا۔ صرف دوسروں کو نصیحت نہیں کرتی تھیں، بلکہ خود عملی مثال پیش کرتی تھیں۔ انگلش میں چیزوں کو منتقل کرنے، ’اسلام ہی کیوں؟‘ پراجیکٹ میں، اور حلقے کے کاموں میں دیوانہ وار آگے بڑھ کر کام کرنا شروع کیا۔ کہتی تھیں: ’’مجھے کیا حق ہے کہ میں کسی کو یہ سب کام کرنے کا حکم بس سالانہ پلاننگ کے ذریعے دوں اور پہلے سے خود اس میدان میں موجود نہ ہوں۔ ایک اچھا لیڈر تو خود میدان میں پہلے اُترتا ہے اور پھر آواز لگاتا ہے کہ آئو میرے ساتھیو، چلو میرا ساتھ دو‘‘۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے کام میں، ان کی بات میں، اس عمل کی تاثیر رکھ دی تھی۔
  • آخری لمحات: علالت و بیماری کے ساتھ بھی بہت محنت کرتی رہیں، حتیٰ کہ ’اکنا‘ کی موجودہ سال کی منصوبہ بندی تک میں بھرپور انداز سے اپنے مشورے دیے۔ فروری میں ہسپتال میں داخل ہوئیں۔ کافی دن ہسپتال میں رہنے کے بعد معلوم ہوا کہ کینسر پورے پیٹ میں پھیل چکا ہے اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ آخری دس بارہ روز گھر پر گزارے۔ کچھ کھانہیں سکتی تھیں۔ ڈرپ کے ذریعے تمام غذائیت ان کو دی جارہی تھیں۔بہت سے لوگ محبت میں ایک نظر دیکھنے کے لیے آرہے تھے۔ فوزیہ باجی سب سے ملتیں، باتیں کرتیں اور جب بولنا ممکن نہ ہوتا، محبت بھری نظروں سے آنے والی بہنوں سے باتیں کرلیتیں۔

دل یہی گواہی دیتا ہے کہ ایسی نفسِ مطمئنہ ! یقینا جنت میں جگہ پائیں گی۔ نیویارک، شکاگو، ہیوسٹن، کیلے فورنیا اور بہت سی جگہوں سے، بہت سے لوگ ملنے آئے اور سب کا یہی کہنا تھا کہ فوزیہ باجی کے آخری ایام تو ایسے تھے جیسے گل ہونے سے پہلے چراغ بھڑک اُٹھتا ہے۔ اسی طرح ایمان افروز اور دینی حرارت سے بھرپور دن تھے۔ سب کو اپنی طبیعت کے بارے میں بتانا، آیندہ کے لیے مشورے دینا، حوصلہ دینا اور یہ کہنا کہ میں تو تیار ہوں اپنے رب کے پاس جانے کو، بس مجھے جنت چاہیے، اپنی دعائوں میں مجھے یاد رکھنا، اور دین کے کاموں میںکوتاہی نہ برتنا۔ لمحہ بہ لمحہ موت کو سامنے آتا دیکھ کر بھی یہ حوصلہ، یہ پختگیِ عزم!

واقعی وہ ایک مثالی خاتون رہنما تھیں۔ عورت کی نیکی یا گمراہی دونوں ہی پوری قوم کے مستقبل پر اثرانداز ہوتی ہے۔ عورت ہی کی گود میں اگلی نسل کے رہنما نشوونما پاتے ہیں___ اگرچہ ۴۷ سال کی کم عمر میں اللہ تعالیٰ نے فوزیہ باجی کو (۱۳ مارچ ۲۰۰۸ئ) اٹھا لیا مگر انھوں نے زندگی جس جدوجہد میں گزاری، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کو دنیا میں پروان چڑھائیں گے اور ان شاء اللہ یہ سب ان کے لیے صدقۂ جاریہ کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول فرمائیں، ان کو صدیقین، صالحین اور شہدا کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں، جس تحریک میں انھوں نے اپنا حصہ ڈالا، اس کو دنیا و آخرت میں کامیابی سے نوازے۔ آمین!

دنیاے علم و ادب کا درخشندہ ستارہ،تاریخ اسلام کا امین،سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ پر گراں قدر کتابوں کا مصنف ،درویش صفت اور انکسار کا پیکر ،فرزند اسلام طالب الہاشمی (۱۹۲۳ئ-۲۰۰۸ئ) ۱۶ فروری۲۰۰۸ ء کو ہم سے رخصت ہوگیا! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ منصورہ مسجد میں نماز فجر کے بعد اس عظیم شخصیت کی وفات کا اعلان ہوا تو تمام نمازیوں کی زبان پر  انا للہ کے الفاظ آگئے۔بیش تر لوگ مرحوم سے بالمشافہہ نہ بھی ملے ہوں تو ایک بڑی تعداد ان کے نام سے آشنا اور ان کے علمی کارناموں سے واقف تھی۔

جناب طالب الہاشمی جن کا اصلی نام بہت کم لوگوں کومعلوم ہے، ۱۲ جون۱۹۲۳ء کو     ضلع سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گائوں دھیدووالی نزد ڈسکہ میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا مرحوم اس دور میں علاقے کے پڑھے لکھے اور معزز فرد تھے،جو مولوی نظام دین کے نام سے معروف تھے۔ مولوی صاحب کے بیٹے محمد حسین قریشی تھے جن کے ہاں اس ہونہار سپوت نے جنم لیا۔ انھوں نے اپنے نومولود کا نام محمد یونس قریشی رکھا۔

یونس صاحب کے والد چونکہ ڈاک خانے میں ملازم تھے،اس لیے ان کی ترغیب پر میٹرک کا نتیجہ آنے کے بعد ۱۹۴۳ء میں ڈاک خانے میں ملازم ہو گئے اور لاہور میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر میں تعیناتی عمل میں آئی۔ میٹرک کے امتحان کے بعد انھوں نے فارسی اور عربی کے امتحانات: منشی فاضل اور ادیب فاضل بھی جامعۂ پنجاب سے بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کیے۔  ان کا عربی اور فارسی کا ذوق بہت اچھا تھا۔ اپنی ملازمت کے دوران وہ معمول کے مطابق ترقی حاصل کرتے رہے اور ۴۰سال ملازمت مکمل کرنے کے بعد ۱۹۸۳ء میں ریٹائر ہوئے۔

جناب ہاشمی ،محمد یونس قریشی سے اس علمی و قلمی نام تک کیسے پہنچے،یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ میں طالب ہاشمی نہیں،طالب الہاشمی ہوں۔میرا یہ نام محض    عرف و پہچان نہیں بلکہ یہ با معنی انتخاب ہے۔ان کے نزدیک ان کا یہ نام مرکب توصیفی نہیں، مرکب اضافی ہے۔الہاشمی سے مراد النبی الہاشمی ہے اور طالب اپنے لفظی و لغوی معنیٰ کے مطابق طلب کرنے والے،ڈھونڈنے والے اور تلاش کرنے والے کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے۔اگر ان کی تحریروں کو دیکھیں تو ایک ایک لفظ نہ صرف نبی محترمؐ کی عقیدت و محبت کا ترجمان ہے بلکہ آنحضوؐر کے جاں نثاروں کی عقیدت و محبت بھی مرحوم کے قلم معجز بیان سے یکساں ہویدا ہے۔

طالب الہاشمی صاحب سے پہلی ملاقات تقریباً ۳۰ سال پہلے اردوبازار میں البدر پبلی کیشنز کے مالک عبدالحفیظ صاحب کی وساطت سے ہوئی۔اس وقت تک ہاشمی صاحب کی چند کتابیں اور ایک آدھ مضمون نظر سے گزرا تھا۔ سیرت صحابہ پر ان کا قلم رواں دواں تھا۔ان کا نام پڑھ کر جو خاکہ تصور میں آیاتھا ،وہ اس سے خاصے مختلف نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ موصوف اتنے بڑے ادیب اور  قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ خاصے صحت مند انسان بھی ہیں۔ اس کے بعد ان سے وقتاًفوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہیں۔جب میں ۱۹۸۵ء میں مستقل طور پر لاہور آگیا تو ہاشمی صاحب سے کبھی اردو بازار اور زیادہ تر منصورہ میں ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ جب بھی ملاقات ہوتی خندہ پیشانی، خلوص و محبت اور اپنائیت سے پیش آتے، اور مہمان نوازی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ وہ بہت ملنسار اور مہمان نواز تھے۔

راقم نے اپنی استطاعت کے مطابق مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے اسماے عَلَم کو کسی حد تک ٹھیک تلفظ کے ساتھ پڑھنے کی تربیت پائی ہے۔اس کے باوجود اپنی کم علمی کی وجہ سے کبھی کبھارکسی اسم عَلَم کا غلط تلفظ زبان پر آجایا کرتا تھا۔ ایک روز محترم طالب الہاشمی میرے پاس تشریف لائے اور بڑی محبت سے فرمایا: ’’میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو فون کر دوں مگر پھر خیال آیا کہ فون کیا کرنا، خود چلتا ہوں تاکہ ملاقات ادھوری نہیں پوری ہو جائے‘‘۔پھر آواز قدرے دھیمی ہوگئی۔ بولے:’’میں نے منصورہ مسجد میں آپ کی گفتگو سنی تھی،تاریخی واقعات کا بہت اچھا استحضار ہے لیکن ایک معمولی سی غلطی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔آپ نے اپنی گفتگو میں ہِشام بن عمرو کو ہَشام کہا تھا،اس کی تصحیح ضروری ہے۔‘‘اگرچہ یہ معمولی سی بات ہے مگر اس سے ان کی شفقت اور اپنے سے  کم تر لوگوں کی تربیت کا پہلو نکلتا ہے۔

سیرت پر طالب الہاشمی صاحب کی کتابیں پڑھنے سے قبل میں نے ۱۹۷۱ء میں سیرت صحابہؓ پر کچھ مضامین لکھے تھے اور میرا ارادہ اپنے ذوق کے مطابق اس میدان میں مزید کچھ لکھنے کا بھی تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب ہاشمی صاحب کی اسی موضوع پر کتابیں نظر سے گزریں تو میںنے سوچا کہ انھوں نے اردو زبان میں اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔ان کی عظمت دیکھیے کہ جب انھیں معلوم ہوا تو بار ہا فرمایا کہ ہر شخص کا اپنا انداز اور ذوق ہوتا ہے۔ایک ہی موضوع پر مختلف لوگوں کی تحریریں تکرار نہیں،تنوع کہلاتی ہیں۔آپ کو قلم نہیں روکنا چاہیے۔

سیرت نگاری کا محرک بھی ایک خاص واقعہ ہے۔ ہاشمی صاحب کے بقول: ایک بار وہ مطالعہ کرتے کرتے سو گئے۔ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ جب بیدار ہوئے تو پسینے سے شرابور تھے اور شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ ان کے سینے پر تھی۔ اس واقعے کے بعد انھوں نے سیرت نگاری کو باقاعدہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔

ان کے کام کی وسعت، تحقیق کے اعلیٰ معیار کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ فردِواحد نے بغیر کسی اضافی سہولتوں کے تن تنہا اداروں سے بڑھ کر کام کیا۔ ان کا اسلوبِ بیان نہایت شُستہ، رواں اور مؤثر تھا۔ قاری ان کی تحریر پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور حبِ رسولؐ کی کیفیت سے سرشار ہوجاتا ہے اور عمل کے لیے تحریک پاتا ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے یقینا سیرت نگاری اور تاریخ نویسی کے میدان میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ان کا کام خود اپنی جگہ تحقیق کے لیے ایک موضوع ہے۔

ہاشمی صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود مطالعے اور محنت کی اپنی عادت کو بڑی جز رسی سے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔انھوں نے تاریخ کے   کم و بیش ہر پہلو پر قابل قدر کتابیں لکھیں لیکن ان کا اصل موضوع سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ ہے۔ تصانیف کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہے۔آنحضوؐر کی سیرت پر ان کی ایمان افروز تحریریں اب بھی منظر عام پر آرہی تھیں۔آخری کتاب،جس کی طباعت سے پہلے وہ خالق حقیقی سے جا ملے،آنحضوؐر کے خادمان خاص کے موضوع پر ہے۔آپ کی کتابوں پر آپ کو صدارتی اور ادبی ایوارڈ بھی ملے لیکن مرحوم نے ان کو کبھی اپنی پہچان یا افتخار کا ذریعہ نہ بنایا۔

مرحوم کا علمی و ادبی مقام ان اعزازوں کے بغیر ہی بہت بلند تھا۔ ان کی کتابیں مختلف اداروں نے چھاپی ہیں۔اہم کتابوں میںسے چند ایک کے نام یہ ہیں: lرحمت دارینؐ، آنحضوؐر کی سیرت پر اہم کتاب ہے lیہ تیرے پراسرار بندے، جس میں آنحضوؐر کے ۸۱ صحابہ اور ۴۰ مشاہیر ِامت کا تذکرہ ہے lرحمت دارینؐ کے سو شیدائی ،آنحضوؐر کے ۱۰۰ صحابہؓ کے حالات پر مشتمل ہے lتذکار صحابیات میں صحابیات کے ایمان افروز حالات ہیں lحبیب کبریا کے تین سو اصحاب کے نام سے ایک قیمتی دستاویز ہے lفوزوسعادت کے ایک سو پچاس چراغ بھی صحابہ کرام کے حالات بیان کرتی ہے۔

ان کے علاوہ اولیاء اللہ کے تذکرے ،مشہور تاریخی شخصیات کے واقعات ،بچوں کی کتابیں اور ادبی کتب بھی ہاشمی صاحب کے رشحاتِ قلم کی امین ہیں۔۴۰ جاں نثار،۵۰ صحابہ، ۷۰ستارے اور کئی دیگر کتب مرحوم کا صدقۂ جاریہ ہیں۔ برعظیم کے بزرگانِ دین بابا فریدالدین ،خواجہ نظام الدین اجمیری اور دیگر بزرگوں پر بھی قلم اٹھایا۔ ان کی کتابوں کی طویل فہرست ہے،جو ان کی بیش تر کتابوں کے آخر میں دیکھی جا سکتی ہے۔

عموماً جس کاغذ کو ردی سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے، اسے بھی وہ اپنی تحریروں کے لیے استعمال کر لیا کرتے تھے۔ یہ کفایت شعاری اور اشیاکا درست استعمال سنت رسول اور سنت خلفاے راشدین ہے۔وہ حساب کتاب کے بڑے جز رس تھے۔ہر چیز نوٹ بک میں درج کرتے۔بچوں کو کوئی   پیسہ دیتے تو ان سے بھی یہی مطالبہ کرتے کہ وہ پورا حساب دیں۔ اپنے ناشرین کے ساتھ بھی ہرلین دین تحریراً کرتے اور باقاعدہ ریکارڈ رکھتے۔پرانے بزرگوں کی طرح انھوں نے کبھی کسی پر بوجھ بننا گوارا نہ کیا۔ اسلاف کی روایات کے مطابق اپنے کفن دفن کا خرچ بھی الگ لفافوں میں چٹیں لکھ کر محفوظ کر رکھا تھا۔ہاشمی صاحب نے بھرپور زندگی گزاری اور چلتے پھرتے، ہنستے مسکراتے بالآخر اپنی منزل سے ہم کنار ہو گئے!

جمعرات ۷ فروری ۲۰۰۸ء کا سورج طلوع ہوا تو طائف کی بلندیوں پر چمکنے والے   اُس سورج کو بھی اپنے ساتھ لے گیا جس نے قرآن و سنت سے اکتسابِ نور کیا تھا اور جو اِس  نور کو لے کر دنیا کے اُفق اُفق پر طلوع ہوتا اور روشنیوں کی بارش برساتا تھا۔ کتنے ہی دل تھے  جن میں اُس نے اپنی کرنوں کی حدت سے ایمان کی جوت جگا دی تھی اور کتنے ہی دماغ تھے   جن میں اُس نے علم و عرفاں کی قندیلیں روشن کی تھیں۔ کسے پتا تھا کہ یہ سورج یوں اچانک  کہیں جاکر چھپ جائے گا اور طائف کی چوٹیوں کو خیرباد کہہ کر جنت المعلٰی میں جا ڈوبے گا___ انا للّٰہ وانا اِلیہ رٰجعُون

سورج بن کر زندگی گزارنے والے یہ داعی الی اللہ ڈاکٹر شجاعت علی برنی تھے۔ پاکستان سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ امراضِ نفسیات کی اختصاصی تعلیم امریکا سے حاصل کی اور پھر وہیں پریکٹس بھی کرنے لگے۔ بیوی بچے تھے، اپنا مکان تھا اور پریکٹس بھی کامیاب تھی۔ لیکن اُن کی نظر  تو اِس مادی دنیا سے آگے بڑھ کر آخرت کی کامیابیوں کی متلاشی تھی۔ اس لیے جب اُن کے  بچے ذرا بڑے ہوئے تو اُنھیں اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر ہوئی اور انھوں نے یہ تہیہ کرلیا کہ وہ انھیں امریکا کے ماحول میںنہیں رہنے دیں گے، بلکہ کسی مسلمان ملک میں جاکر رہیں گے تاکہ بچے مسلمانوں کے ماحول میں پروان چڑھ سکیں۔ اب چونکہ وطن عزیز کے علاوہ کسی اور مسلمان ملک میں جانے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا، اس لیے اُنھوں نے پاکستان واپسی کا پروگرام بنالیا۔ اُن کے دوستوں کو پتاچلا تو اُنھوں نے انھیںسمجھانا شروع کیااور مخلصانہ نصیحت کی کہ امریکا چھوڑ کر نہ جائیں۔ یہاں آپ کا اپنا مکان ہے، کلینک ہے اور اب آپ کے کمانے کے دن ہیں۔ رہی بچوں کی تعلیم و تربیت تو اُس کے لیے یہاں سے بہتر انتظام اور کہاں ہوسکتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی نظر جو کچھ دیکھ رہی تھی ،اُن کے دوستوں کی نظر وہ کچھ دیکھنے سے قاصر تھی۔ اسی اثنا میں جب وہ پاکستان آنے کی تیاری کر رہے تھے، ایک دن کلینک جاتے ہوئے گاڑی میں ریڈیو پر سعودی عرب کے حوالے سے کچھ سنا، کلینک پہنچ کر رابطے کے لیے بتائے گئے نمبر پر فون کیا اور پھر مزید اطمینان کے لیے اُن کے پاس گئے___ تقریباً ۳۰ ہزار سعودی ریال ماہانہ تنخواہ کی پیش کش کی گئی تھی۔ لیکن آپ نے اُسے فوراً قبول کرنے کے بجاے اپنے بھائی ڈاکٹر فرحت علی برنی سے مشورہ کرنے کے لیے فون کیا جو کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں پڑھاتے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ لگتا ہے کوئی دھوکا ہے۔ اس لیے کہ اتنی بڑی تنخواہ تو یہاں بڑے بڑے لوگوں کی بھی نہیں ہے، لہٰذا آپ ابھی دستخط نہ کریں۔ دو تین دن کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ فون کیا تو اُن کے بھائی نے بتایا کہ میں نے پتا کیا ہے، دھوکے کی کوئی بات نہیں ہے۔ طائف میں ایک فوجی ہسپتال کے لیے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، آپ فوراً دستخط کیجیے اور تشریف لے آیئے۔ اس طرح آپ کی نیت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ایک مسلمان ملک میں آپ کے لیے رہنے کاانتظام کردیا، بلکہ مکہ مکرمہ کے قریب طائف کے تاریخی شہر کوآپ کا مسکن بنایا  اور وہاں کے بہترین ہسپتال الہدیٰ میں آپ کواپنی خدمات انجام دینے کا موقع دیا۔

ڈاکٹر صاحب نے صرف اِسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں یا پھر ہسپتال میں دکھی انسانیت کے امراض کا علاج کر کے اُس کے چہرے پر مسکراہٹوں کے پھول کھلا دیں، بلکہ اُنھوں نے انسانیت کی روحانی تسکین کا سامان ضروری سمجھا۔ انسانیت کی اصل خدمت اُن کی نظر میں یہی تھی کہ اُسے خدا سے ملا دیا جائے اور اُسے رحمۃ للعالمین محمدمصطفی    صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھائے ہوئے راستے پر گامزن کردیا جائے۔ آپ نے اس کے لیے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ کبھی تحریر و تقریر سے کام لیا، تو کبھی گفتگوئوں اور ملاقاتوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اُترنے کی کوشش کی۔ پھر آپ کی یہ کاوشیں صرف ایک مقام تک ہی محدود نہ رہیں، بلکہ جہاں جہاں تک آپ پہنچ سکتے تھے، پہنچے اور بندگیِ رب کی دعوت دیتے ہوئے بندگانِ خدا کے دلوں کو سوزوگداز سے آشنا کیا۔

عام طور پر لوگ تقریروں کے ذریعے ہی دعوت کا کام کرتے ہیں مگر آپ نے اس مقصد کے لیے پروجیکٹر کی مدد سے ورکشاپوں کا انعقاد بھی کیا، بلکہ اس طریقۂ دعوت و تربیت کو سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے درمیان آپ ہی نے متعارف کرایا۔ آپ کا یہ پروگرام انتہائی مؤثر ہوا کرتا تھا۔ موضوعات ایسے ہوتے جو وقت کی ضرورت ہوتے تھے۔ الفاظ ایسے ہوتے جو دل میں اُتر جاتے تھے۔ الفاظ کی ادایگی اس جذبے کے ساتھ ہوتی کہ جو کچھ آپ کہتے تھے، اس پر صرف دماغ ہی نہیں، دل بھی لبیک کہتا تھا، اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کچھ آپ پیش کرتے تھے قرآن و سنت کی سند سے پیش کرتے تھے۔ آپ کے دلائل قرآن کی آیتیں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہوتی تھیں۔ پروگرام سے پہلے اور بعد جو وقت ہوتا تھا اس میں آپ شرکا کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتے تھے جیسے برسوں سے جان پہچان ہو۔

خاکساری، انکساری اور تواضع میں اپنی مثال آپ تھے۔ میں نے آپ کو غریب، مزدور اور اَن پڑھ لوگوں کے ساتھ فرش پر اس طرح بیٹھے ہوئے اور اُن کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ جیسے وہ آپ کے دفتر کے ساتھی ہوں۔

آپ نے اتنا وسیع ظرف پایا تھا کہ علم وعمل میں آپ سے کم تر درجے کا شخص بھی اگر کبھی آپ کی کسی بات پر اعتراض کرتا تھا یا دینی حوالے سے آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ کرنا چاہتا تھا تو اُس کی بات نہ صرف یہ کہ خوشی سے سنتے، بلکہ اِس طرح اُس کے ممنونِ احسان ہوتے   کہ جیسے پہلی بار آپ کے علم میں یہ بات آئی ہو حالانکہ آپ اُس بات کو اُس کی پوری جزئیات کے ساتھ پہلے سے جانتے ہوتے تھے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ ہر کام میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہو۔ اس لیے کسی بھی کام کے بارے میں اگر آپ کو پتا چلتا کہ یہ سنت کے مطابق نہیں ہے تو اُسے فوری طور پر چھوڑنے میں آپ کو کوئی تامل نہیں ہوتاتھا۔ دعوتِ دین کے سلسلے میں بھی وہ یہ کہتے تھے کہ  رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اس لحاظ سے بھرپور اور عمیق مطالعہ کرنا چاہیے۔ خود مجھ سے اُنھوں نے ایک دفعہ کہا کہ سیرت پر بے شمار کتابیں لکھی جانے کے باوجود اِس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی آپؐ کی زندگی کا نئے سرے سے مطالعہ کرے اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے وہ لعل و گہر ڈھونڈ کر لائے کہ جن کی وجہ سے ۲۳ سال کی قلیل مدت میں آپؐ  نے دنیا کا سب سے بڑا انقلاب برپا کردیا تھا۔

جب بھی ڈاکٹر صاحب یاد آتے ہیں، محترم خرم مرادؒ کی یہ بات یاد آتی ہے کہ دنیا میں بے شمار خوب صورت چیزیں ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک دل موہ لینے والے نظارے ہیں۔    بل کھاتے دریا، گنگناتی ندیاں اور اُچھلتی آبشاریں ہیں۔ برف پوش چوٹیاں اور گُل پوش وادیاں ہیں اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے اُبلتے چشمے اور بہتے جھرنے ہیں۔ لیکن اِن ساری خوب صورت چیزوں میں سب سے خوب صورت چیز اگر کوئی ہوسکتی ہے تووہ ایک اچھا انسان ہے۔ میرے خیال میں محترم ڈاکٹر شجاعت علی برنی پر یہ بات ۱۰۰ فی صد صادق آتی ہے۔ آخر ایسا کیوں نہ لگتا، وہ خوش مزاج بھی تھے اور باوقار بھی، فعال اور متحرک بھی تھے اور صاحبِ فہم و فراست بھی، طبیعت میں تفنن بھی تھا اور کردار کی پختگی بھی، باتوں میں پھولوں کی خوشبو بھی تھی اور شبنم کی ٹھنڈک بھی، ایمان کی حدت بھی تھی اور جذبوں کی فراوانی بھی___ اُن کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی، سکون ملتا تھا، تحریک پیدا ہوتی تھی اور ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔

میں اُن کی کس کس بات کو یاد کروں۔ ایک دفعہ ایک پروگرام میں ساتھیوں کو کھانا کھلانے کی سعادت میں مَیں بھی دوسرے کچھ ساتھیوں کے ساتھ شریک تھا اور اپنی اس سعادت پر پھولے نہیں سما رہا تھا کہ دُور دُور سے ساتھی جمع ہوئے ہیں اور اُن کی خدمت کا موقع میسر آیا ہے۔ اِس خوشی کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا چاق و چوبند بھی محسوس کر رہا تھا حالانکہ اس سے   پہلے میں کچھ غیرفعال سا ہوگیا تھا اور کم ہمتی کا شکار تھا۔ سوچتا تھا کہ کچھ کرنے کاوقت شاید گزر گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے میری خوشی اورفعالیت کو محسوس کیا اور کھانے کے بعد جب مل کر بیٹھے تو کہنے لگے کہ میں سوچ رہا تھا کہ یہ نوجوان کون ہے، جو اِس قدر مستعد اور متحرک ہوکر خدمت میں لگا ہوا ہے۔ اُنھوں نے کچھ اِس انداز سے یہ جملہ کہا کہ مجھے یوں لگا کہ شاید میں واقعی پھر سے زندہ ہوگیا ہوں، حالانکہ اس سے پہلے بطور نصیحت لمبی لمبی گفتگوئیں سن چکاتھا لیکن کسی گفتگوکا    وہ اثر نہیں ہوا تھا جو اُن کے اِس ایک جملے کا ہوا۔

اُن کی فعالیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی ملاقات میں اُن کو جس قدر مستعد، چاق و چوبند اور فعال دیکھا تھا آخری وقت تک وہ اسی طرح فعال رہے، بلکہ ابھی چند دن پہلے جب اُن سے فون پر بات ہوئی تو اُن کی آواز اتنی جان دار تھی کہ فوراً اُس کے پیچھے اُن کی متحرک شخصیت نظر آنے لگی۔ اُن کی بلندہمتی اور مستعدی کا اندازہ آپ اس سے لگایئے کہ اُن کے قریب رہنے اور اُن سے بے شمار ملاقاتوں کے باوجود مجھے یہ پتا نہ چل سکا کہ اُن کو دل کی تکلیف ہے۔ اُنھوں نے کبھی نہ بزبانِ قال یہ ضرورت سمجھی کہ اپنی تکلیف کے بارے میں ہمیں بتائیں اور نہ کبھی اُن کے حال سے یہ ظاہر ہوسکا کہ اُنھیں کوئی پریشانی بھی ہے۔ وہ ہروقت جس طرح کمربستہ، چاق و چوبند اور مستعد رہتے تھے، اُس سے نہ یہ خیال آتا تھا کہ اُن کو کسی بیماری کی شکایت ہوگی اور نہ یہ خیال آتا تھا کہ اُن کی اتنی عمر ہوگی۔ اُنھوں نے ۷۲سال کی عمر پائی لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ       وہ بوڑھے تھے۔ اس لیے کہ اُن کے کسی کام میں بھی بڑھاپا پن نظر نہیں آتا تھا۔ میں نے اُن کو اِس حالت میں بھی پروگرام کنڈکٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ براہِ راست ڈیوٹی کرکے پروگرام میں تشریف لائے ہیں، لیکن اُن کے چہرے پر نہ تھکاوٹ کے کوئی آثار ہیں اور نہ پژمردگی کا کوئی احساس بلکہ ہمیشہ کی طرح تروتازہ، مستعد اور چاق و چوبند ہی نظر آتے۔

یوں تو ہزاروں لوگوں کو اُنھوں نے متاثر کیا ہے لیکن میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اُن سے زیادہ ملنے، سننے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ میرے غریب خانے کو کئی دفعہ اُن کی قدم بوسی کا اعزاز حاصل ہوا ہے اور میرے دل نے اپنے نہاں خانے میں اُن کی کتنی ہی یادیں اور کتنی ہی خوب صورت تصویریں محفوظ کی ہیں جن کو الفاظ کا جامہ پہنانا میرے اس دل فگار لیکن تہی دست قلم کے بس کی بات نہیں۔ کسی کے الفاظ مستعار لے کر صرف اتنا کہتا ہوں کہ    ؎

حاصل رہا ہے مجھ کو ملاقات کا شرف

مٹی کا اِک چراغ تھا سورج سے فیض یاب

یہ سوچ کر دکھ ضرور ہوتا ہے کہ اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہے، اور اُن سے اِس     ارضِ فانی پر دوبارہ ملاقات نہیں ہوسکے گی، لیکن دعوتِ دین کا کام کرتے ہوئے تو جگہ جگہ    اُن سے ملاقات ہوگی، قدم قدم پر اُن کی یادیں رہنمائی کریں گی اور ہر سنگِ میل پر اُن کا سراپا مثال بن کر سامنے آئے گا۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کسی نے کہا ہے    ؎

النَّاسُ صِنفَانِ مَوتٰی فِی حَیَاتِھِم

وَآخَرُونَ بِبَطْنِ الْاَرْضِ اَحْیَائُ

یعنی لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو اپنی زندگی میں بھی مُردہ ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں___ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، اُن کے خیالوں میں زندہ رہتے ہیں، اُن کی باتوں اور گفتگوئوں میں زندہ رہتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کے ہرہر عمل میں زندہ رہتے ہیں۔