تزکیہ و تربیت


قربانی اور اندرونی صلاحیتیں

قربانیاںہماری جدوجہد کی کامیابی میں دو طریقوں سے اپناکردار ادا کرتی ہیں۔ایک یہ کہ ہماری اندرونی روحانی اور اخلاقی طاقتوں کو مضبوط کردیتی ہیں اور ہمارے کردار کی اُن صفات کو پروان چڑھاتی ہیں جو ہماری جدوجہدکے ہر مرحلے پر کامیابی کے لیے لازمی ہیں۔ دوسرایہ کہ اجتماعیت میں نظم وہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں اور انھیں تقویت پہنچاتی ہیں، اور وسیع تر معاشرتی سطح پر جہاد برپا کرنے کی صلاحیتیوں اور قوتوں سے بہرہ مندکرتی ہیں۔

قربانی کا ہر عمل آپ کے ایمان میں اضافہ کرتاہے اور اس کو نشوونما دیتاہے۔یہ عمل آپ کے زبانی اعلان اور ذہنی ایقان کو ایک زندہ حقیقت میں بدل دیتا ہے۔اﷲ سے آپ کی محبت کی توثیق کرتاہے اور اس میں اضافہ کا موجب بنتاہے ،کیوں کہ ہرقدم پرجب آپ اﷲ کی محبت میں کوئی شے قربان کرتے ہیں، تو اﷲ سے آپ کا اخلاص اور اُس پر آپ کا ایمان مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے، دیگر تمام وفاداریاں ثانوی حیثیت اختیارکرلیتی ہیں، کیوں کہ اُنھیں آپ صرف اﷲ سے وفاداری کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں قربانیاں آپ کو اﷲ سے قریب تر کر دیتی ہیں۔ دونوں باتیں ایک دوسرے پر اثراندازہوتی ہیں۔عقیدہ جتنا مضبوط ہوگا قربانی دینے کی صلاحیت اورعزم اتنا ہی زیادہ ہوگا، اور جتنی بڑی قربانی دی جائے گی، عقیدہ اُتنی ہی گہری جڑ پکڑتا جائے گا۔

تمام اخلاقی اوصاف کی افزایش کے لیے قربانیاں جزوِ لازم ہیں، بالخصوص قوتِ برداشت، استقامت، استقلال ، تحمل وبردباری، عزمِ صمیم اور اولوالعزمی کی صفات میں اضافے کے لیے۔  ان تمام صفات کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جاسکتاہے اوروہ ہے:’صبر‘۔ ہرقربانی صبر کی صلاحیت کو تقویت پہنچاتی ہے، اس کے درجے میں اضافہ اور مضبوطی پیداکرتی ہے۔اس کے عوض صبر قربانی کی صلاحیت میں اضافہ اوراستقرار پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی دوطرفہ عمل ہے۔ اﷲ کی طرف سے مددونصرت کے تمام وعدے، اِس دُنیا میں فوزوکامرانی کی تمام یقین دہانیاں اورآخرت کے تمام انعامات و اکرامات، سب ایمان اور صبر کے اکتساب سے مشروط ہیں۔ (آل عمران ۳:۱۲۵، ۱۳۹، الانفال ۸:۴۶، الاعراف ۷:۱۳۷، الزمر ۳۹:۱۰)

قربانی اوراجتماعی نظم وضبط

صبر بہت جامع وصف ہے۔اس کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک پہلو نظم وضبط ہے۔  نظم وضبط کا قربانی سے قریبی تعلق ہے۔ اصل میں دونوںکا ایک دوسرے پر انحصارہے۔ نظم وضبط اپنے مکمل مفہوم میں، بشمول ذاتی نظم وضبط، روحانی واخلاقی نظم وضبط ، جماعتی نظم وضبط اور سماجی  نظم وضبط، اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک آپ اپنی محبوب چیزوں کی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آپ اُس وقت تک اُن چیزوں کی قربانی بھی نہیں دے سکتے ، جن کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے جب تک آپ اپنے اندر نظم وضبط نہ پیدا کرلیں ___ اندرونی نظم وضبط۔ اگرچہ منظم اجتماعی زندگی بھی فردکے اندر قربانی کی روح پھونکنے میں کم اہم کردار ادا نہیں کرتی۔ قربانی بھی اس طرح کی منظم اجتماعی زندگی کو تشکیل دینے اور اسے قائم رکھنے کے لیے اُتنی ہی ضروری ہے۔آئیے ہم ایک مختصر جائزہ لیں کہ کیوں ضروری ہے؟

واضح بات ہے کہ جب اﷲ کی راہ پر آپ اکیلے چل رہے ہوں تو اُس کی رضا و خوشنودی کے حصول میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کوعظیم سے عظیم تر قربانیاں دینے اور زیادہ سے زیادہ ضبطِ نفس اختیار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔مگر جوں ہی آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ دوسروں کے ساتھ مل کر دُنیا کو اُس کے خالق کی اطاعت وفرماں برداری کے تحت لانے کی اجتماعی جدوجہد کریں گے تو آپ کواور زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت پڑے گی۔اس کے بغیر آپ کی منظم اجتماعی جدوجہد ہی کوئی پایدار صورت اختیار کر سکتی ہے نہ آپ کے اندر اپنے مشن میں کامیابی کے لیے کوئی اُمنگ پیدا ہوسکتی ہے۔قرآن کہتاہے:اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌo (الصف ۶۱: ۴)’’اﷲ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میںاِس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیںگویاکہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ کتنی حسین اور معنی خیز تمثیل ہے۔ مضبوط اور ٹھوس،مربوط اور پیوست، ناقابلِ تسخیر اور ہرطرح کے شگاف اور دراڑ سے مبرا، یہ ہے وہ انداز جس سے مسلم اُمہ مل جل کر اور باہم مربوط ہوکر اﷲ کی راہ میں جدوجہد کرتی ہے۔

اب دیکھیے دیوار کس طرح تعمیر کی جاتی ہے؟ بہت سی اینٹیں جوڑی جاتی ہیں تو دیوار بنتی ہے۔ ہر اینٹ اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اینٹیں ایک ٹھوس، مضبوط اور ناقابلِ تسخیر دیوار بننے کے لیے ’صف بندی‘ کیسے کرتی ہیں؟ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ کھڑی کر کے اور ایک اینٹ دوسری اینٹ کے اوپر نصب کرکے آپ سمینٹ سے جوڑ دیتے ہیں اور دیوار اونچی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر ہر مرحلے پر دیوار کی مضبوطی اور اونچائی میں اضافہ ہوتاچلا جاتاہے۔ ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اُسی طرح مشابہت رکھتی ہے جس طرح کی مشابہت ایک انسان  دوسرے انسان سے رکھتا ہے، باوجودے کہ ہر ایک کی اپنی اندرونی انفرادیت بھی ہوتی ہے۔ کسی اینٹ کو اپنی یہ انفرادیت قربان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مضبوطی اور شان داری کی یہ خوبیاںیقینا بہت سی انفرادیتوں کے اکٹھا ہوجانے سے حاصل ہوتی ہیں۔

لیکن اگر آپ ایک دیوار بنائیں اور ہر اینٹ اپنے طریقے پر چلنے پر اَ ڑ جائے،اوراگروہ اُس بوجھ کو سہارنے کے لیے تیار نہ ہو جو اوپر والی اینٹ سے اُس کو منتقل ہوگا یا جو سہارا اُسے اپنے نیچے والی اینٹ کو دینا ہے،اور اگر وہ اینٹ جسے کونے میں نصب ہونا ہے وہ اس بات کے لیے تیار نہیں کہ اُس کی ایسی تراش خراش کی جائے جس سے وہ اپنے مقام پر درست انداز سے فٹ ہوجائے، توکوئی مضبوط دیوار کبھی بھی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔بہت سی اینٹوں کو زمین کے اندر بنیادوں میں نصب ہونا پڑتاہے، عمارت بن جانے کے بعد وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتیں، حالانکہ پوری عمارت کا بوجھ اُنھی پر ہوتاہے اوراُن کی اس قربانی کے بغیر عمارت زمین سے بھی اوپر نہیں اُٹھ سکتی۔   بہت سی اینٹوں کی توڑ پھوڑ کرنی پڑتی ہے تاکہ ایک ہموار دیوار بنائی جاسکے۔

ہراینٹ سے تھوڑی تھوڑی قربانی لیے بغیر ایک مضبوط دیوارکبھی وجودمیں نہیںآ سکتی۔

قربانی کیا ھے؟

اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ قربانی کیا ہے؟ہم کیا قربان کریں؟ کون سی قربانیاںدینا زیادہ دُشوار ہے؟ کن قربانیوںکو عظیم قربانی کہا جا سکتاہے؟

  •  دو اقسام: قربانی، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، سادہ الفاظ میں اُن اشیا سے دست بردار ہوجانے کا نام ہے جو ہمیں محبوب ہیں، ہماری پسندیدہ ہیں اور جن کی ہماری نظروں میں کچھ قدروقیمت ہے۔ جو فی الوقت ہماری ملکیت میں ہیں یا مستقبل میں ہم جنھیں حاصل کرلینے کی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں۔یہ اشیا قابلِ محسوس یامادّی اشیا بھی ہوسکتی ہیں اور ناقابلِ محسوس یا مجرد اشیا بھی۔ مادّی اشیا میں سے اہم چیزیں وقت، دولت، دُنیاوی مال ومتاع ، جسمانی صلاحیتیں اورزندگی ہیں۔ مجرد اشیا میں سے اہم چیزوں میں ہمارے پیار محبت کے رشتے ناتے بالخصوص خاندانی تعلقات، ذاتی پسند وناپسند، ترجیحات و تعصبات، خیالات اور نقطۂ نظر، آرزوئیں اور تمنائیں، آرام وراحت، عہدہ ومنصب یا محض ہماری انا اور خود پسندی۔

یہاں مجھے تین بنیادی اُصول پیش کرنے کی اجازت دیجیے جو میری نظر میں قربانی کے مکمل مفہوم سے آگاہ ہونے کے لیے سمجھنا ضروری ہیں:

اوّل: کسی چیزسے دست بردار ہوجانا صرف اُسی صورت میں قربانی کہلائے گا جب وہ چیز ہمیں محبوب ہو اور ہمارے نزدیک اُس کی کوئی قدروقیمت ہو۔ اس لحاظ سے مادّی اور مجرد اشیا کے مابین کوئی خطِ امتیاز کھینچنا دُشوارہے۔حتمی تجزیہ یہ ہوگا کہ ہر قربانی ہماری محبت اور ہماری قابلِ قدر چیزوں کی قربانی ہے۔ جب ہم اپنی دولت، اپنی زندگی یا اپنے خاندانی تعلقات سے اﷲ کی خاطر دست بردار ہوتے ہیں، تو در حقیقت ہم جس چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، اور جوکیفیت اِسے قربانی کی شکل دیتی ہے، وہ خود مال، زندگی یا رشتوں ناتوں سے دست برداری نہیں بلکہ مال کی محبت، زندگی کی محبت یا عزیزوں اور رشتہ داروں کی محبت سے دست برداری ہے۔

دوم:مادّی چیزوں کے بجاے مجرد اشیا کی قربانی دینا زیادہ دُشوار اور زیادہ ضروری ہے۔

سوم:ہم اپنی محبوب اور قابلِ قدر اشیا سے صرف اُنھی چیزوں کے لیے دست بردار ہوسکتے ہیںجوہمیں اِن سے زیادہ محبوب ہوں اور جن کی ہماری نظر میں اِن سے زیادہ قدروقیمت ہو۔

مادّی قربانیاں

یہاںہمیں مادّی اشیا کی قربانی پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ہم ایسی قربانیوں سے خوب واقف ہیں،ان کا اچھی طرح سے ادراک رکھتے ہیں اور ان کی ضرورت اوراہمیت کو تسلیم بھی کرتے ہیں، اُس صورت میں بھی کہ جب کئی مواقع پر ہم خود اس قسم کی قربانیاں دینے کے قابل نہ ہوں یا اس قسم کی قربانیاں دینے میں دُشواری محسوس کررہے ہوں۔ لیکن اگر ہم نے اپنے آپ کو کسی نصب العین کے حصول کے لیے وقف کردیا تو وقت یا موقع آنے پرہمیںان میں سے ہر شے کی قربانی دینی ہوگی۔لہٰذاہم یہاں رُک کر اُن کی کچھ اہم خصوصیات ملاحظہ کرتے ہیں۔

وقت

وقت ہماری سب سے قیمتی متاع ہے۔ہماری زندگی کی کوئی ضرورت اورکوئی خواہش اُس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اُس کے حصول کے لیے وقت نہ نکالیں اور باقاعدہ وقت نہ دیں۔ہم اپنا وقت مسرت کی تلاش میں صرف کر سکتے ہیں،دُنیاوی مال و متاع اور دولت کمانے میں صرف کر سکتے ہیں، کام میں صرف کر سکتے ہیں،لطف اندوزی میں صرف کر سکتے ہیں یا محض وقت گزاری میں بھی___ کچھ نہ کرتے ہوئے۔

وقت وہ اوّلین شے ہے جو اﷲ ہم سے طلب کرتاہے۔اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔نماز اداکرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔دعوت کاکام کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے، اور بیمار کی عیادت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ اﷲ سے اپنا عہد پورا کرنے کے لیے ہمیں ہر لمحہ اُس کی رضا کے حصول میں صرف کرنا ہوگا۔لیکن اگر آپ مزید گہرائی میں جاکر غور کریں تو آپ تسلیم کریں گے کہ جوچیز آپ فی الواقع قربان کررہے ہیں وہ وقت نہیں ہے۔ وہ اشیا ہیں جن کی جستجو میں آپ کاوقت صرف ہوتاہے، ایسی اشیاجو آپ کی زندگی کے نصب العین سے متصادم ہوسکتی ہیں، بے معنی، غیر اہم، یااﷲ کے کام کے مقابلے میں کم اہم۔ لہٰذا اسلام کے لیے وقت نکالنے سے قبل، کوئی اور کام کرنے سے پہلے، آپ کو بہت سی ایسی چیزوں کی قربانی دینی ہوگی جو آپ کا وقت لے لیتی ہیں۔

آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کی قربانی دینے، اور اپنا وقت اﷲ کے لیے مخصوص کردینے پر کس طرح آمادہ کرسکتے ہیں؟

یاد رکھیے کہ وقت ایسی چیز ہے جسے آپ ایک لمحے کے لیے بھی تھام کر نہیں رکھ سکتے۔یہ مسلسل آپ کے ہاتھ سے نکلتااورپھسلتا ہی رہے گا،خواہ آپ اسے کسی کام میں بھی صرف کرناچاہیں۔ وقت سے ملنے والا فائدہ بس وہی کچھ ہے جو آپ اُس وقت میں حاصل کرلیتے ہیں۔ ورنہ وقت توبرف کی طرح پگھل کر ختم ہوجائے گا، البتہ جوچیزآپ حاصل کریں گے وہ رہ جائے گی۔

ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیے کہ وقت کاہر لمحہ یاتو ابدی سکون و راحت میں بدل سکتاہے یا کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب میں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ وقت کوکیسے صرف کرتے ہیں۔ اِس بات کو ذہن نشین رکھنے کے نتیجے میں آپ زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ وقت کی قربانی دے سکیں گے۔ وہ لمحے جنھیں آج آپ اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے، کل آپ کے لیے نفع بخش ثابت ہوںگے، وہ کبھی ضائع نہیں جائیں گے۔ آخر آپ اُن چیزوں کے حصول کی قربانی کیوں نہ دیں جو کل آپ کو کبھی نہ ختم ہونے والی پریشانی یا پچھتاوے کی صورت میں واپس ملیں گی؟

پس جب وقت گزرہی رہاہے تو ذرا گہرے غور وخوض سے حساب لگائیے کہ آپ کیا حاصل کررہے ہیں؟ کوئی ناپایدار شے یا کوئی ابدی چیز؟ آگے چل کریہ کوئی پچھتاوا بنے گا یا خوشی؟ آپ کے وقت میںسے اسلام کو کون سی ترجیح ملی ہوئی ہے؟اپنے وقت کا کتنا حصہ آپ نے اﷲ کے لیے مخصوص کیا ہے؟ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍط (الحشر ۵۹:۱۸)’’ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیاہے؟‘‘

اﷲ کے لیے اپنے وقت کی قربانی دینا اسلام کی روح ہے۔جب بھی پکارا جائے آپ کو لازماً لبیک کہناہے۔یوں اﷲ کی راہ میں اپنے وقت کی قربانی دے کر آپ اپنے آپ کو ہر چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار کرلیں گے۔دن میں پانچ مرتبہ آپ کے اندر یہ صفت راسخ کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن کے لیے آپ کو ہدایت ہے کہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الجمعہ ۶۲:۹)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن، تواﷲ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔

دولت اورمتاعِ دُنیوی

آپ کا زیادہ وقت دولت کمانے یا دولت کے ذریعے سے متاعِ دُنیوی حاصل کرنے میں گزرتا ہے۔ اُن کی طلب اور اُن کی محبت ہماری فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط (اٰل عمران ۳:۱۴) ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس: عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے،مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں‘‘۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ متاعِ دُنیا سے رغبت و محبت کوئی مذموم بات ہے، نہ غلط بات ہے، نہ بدی۔یہ دُنیا برائیوں کی پوٹ نہیں‘ اس طرح کی باتیں قرآن کی تعلیمات میں نہیں ملتیں۔ قرآن میںمال ودولت کو گھٹیا اور حقیر چیز نہیں قرار دیا گیا ہے ’خیر‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اور یہ بالکل معقول بات ہے،کیوں کہ اﷲ کی راہ اور اُخروی نعمتوں کا راستہ اسی دُنیا سے گزرتاہے۔ اگر ہم اس دُنیا کو اپنے اوپر حرام کر لیں تو کوئی چیز ایسی نہیں بچتی جس کی مدد سے ہم آخرت کے انمول خزانے حاصل کرسکیں۔چناں چہ یقینی طورپر یہی دُنیا وہ واحد وسیلہ ہے جس کی بنا پر ہم اﷲ کی رضا اور اگلی دُنیا کی مسرتیں حاصل کرسکتے ہیں۔

جوچیز اس دُنیا کوبرائی اور شر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس بات کو فراموش کردیں کہ یہ سب کچھ ہماری صوابدیدپر صرف اسی دُنیا کی زندگی کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ اُس حقیقی اور ابدی نصب العین کے حصول کا ایک وسیلہ ہے،جو اِس دُنیا و مافیہا سے بہتر چیز ہے۔جب ذریعہ منزل بن جائے تو وہ ہمیں حقیقی قدروقیمت والی چیز سے بھٹکا کرمصائب وآلام میں مبتلا کردیتاہے۔ اوپر جس قرآنی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ آگے چل کر کہتی ہے:

ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ ط لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴-۱۵)، یہ سب دُنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اﷲ کے پاس ہے۔کہو: میں تمھیں بتاؤں کہ ان سے اچھی کیا چیز ہے؟ جولوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی،پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اوراﷲ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔

دُنیاوی مال ومتاع کو اﷲ کی راہ میں قربان کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔جب حقیقی فیصلے کا وقت آتاہے تو اچھے اچھے ڈانوا ڈول اور ناکام ہوجاتے ہیں۔ چند چیزیں یاد رکھنے کی ہیں جو یہ دشوار قربانیاں دینے میں آپ کی مدد کریں گی:

اوّل: کوئی چیز آپ کی اپنی ملکیت نہیں، ہرچیز کا مالک اﷲ ہے۔جب آپ اﷲ کی راہ میں کوئی چیز قربان کرتے ہیںتو آپ وہ چیز اُس کے اصل مالک کو محض لوٹارہے ہوتے ہیں۔

دوم:آپ کے دُنیاوی مال ومتاع کی خواہ کتنی ہی قدر وقیمت کیوں نہ ہو، آپ کے آخری سانس کے ساتھ ہی آپ کے لیے اُس کی قیمت صفر ہو جائے گی:

مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ ط (النحل ۱۶:۹۶)، جوکچھ تمھارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والا ہے اور جوکچھ اﷲ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔

وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقْتَدِرًا o اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج (الکھف ۱۸:۴۵-۴۶)، اور اے نبیؐ، انھیں حیاتِ دُنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی، اور کل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔ یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔

سوم: صرف اﷲ کی راہ میں خرچ کرکے ہی آپ اس کا کئی گُنا زیادہ واپس حاصل کرسکتے ہیں:

وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ط وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ط (المزمل ۷۳:۲۰)، اﷲ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جوکچھ بھلائی تُم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اﷲ کے ہاں موجود پاؤگے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑاہے۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط  وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ ۲:۲۶۱)، جولوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اُس سے سات بالیں نکلیں اورہر بال میں سَو دانے ہوں، اسی طرح اﷲ جس کے عمل کو چاہتاہے، افزونی عطا فرماتاہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے: اسلام سے آپ کی وابستگی کے دعوے کی کیا حیثیت رہ جائے گی اگر آپ اپنے نصب العین کے بجاے فضول قسم کی لطف اندوزی ، مثلاً تمباکو نوشی اور چٹورپن پر زیادہ رقم خرچ کریں۔اﷲ کے وعدے پر آپ کے ایمان کی کیا حیثیت ہو گی اگر اس دُنیا میں حصولِ منفعت کی ہلکی سی اُمید پر بھی آپ اپنی ساری بچت کی سرمایہ کاری کرگزریں، مگر ،کم ازکم سات سَوگُنا نفع کا وعدہ، جو کبھی واپس نہیں لیا جائے گا، آپ کو اپنے بٹوے کا مُنھ کھولنے پر مجبور نہ کرے۔آپ حساب لگاسکتے ہیں کہ اپنی دولت کا جتنا حصہ آپ اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں اُس کی روشنی میں اسلام کو آپ کی زندگی میںکیا مقام حاصل ہے۔

دولت کی قربانی دینا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔ مگر ہمارا زمانہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں بہتر معیارِ زندگی،عیش وعشرت پسندی، اسراف، اور مادّیت پرستی زندگی کا واحد مقصد بن کر رہ گئے ہیں۔ لہٰذا آپ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اس معاملے میں آپ کو ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

زندگی

ایک وقت ایسا آئے گا جب اﷲ کی راہ میں آپ کو اپنی جان قربان کردینے کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔اپنی جان کی قربانی پیش کر دیناشہادت دینے کا بلند ترین عمل ہے،ایسی صورت میں آپ شہید کہے جانے کے حق دارقرارپاتے ہیں۔ زندگی آپ کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کی قربانی دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے وہ سب چیزیں قربان کردیں جو زندگی آپ کو عطا کرتی ہے یاعطاکرسکتی ہے،وہ تمام مادّی اور غیرمادّی چیزیں جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔

جوںہی آپ کو اس حقیقت کا احساس ہوگا کہ اپنی زندگی کے مالک آپ نہیں ہیں بلکہ اﷲ ہے توآپ یقینا اُس کی راہ میں اپنی زندگی نثار کردینے پر آمادہ وتیار ہوجائیں گے۔آپ اُس کی امانت اُس کے حضور پیش کردیں گے۔یہ بات بھی آپ کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ موت سے آپ کو مفر نہیںہے، وہ اپنے مقررہ وقت پر، مقررہ جگہ پر اور مقررہ طریقے سے آکر رہے گی۔      (اٰل عمران ۳:۱۸۵، ۱۴۴-۱۴۵، ۱۵۴-۱۵۶، النّساء ۴:۷۸) ۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو لوگ اﷲ کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ اپنے لیے ، اپنی قوم کے لیے اور اپنے نصب العین کے لیے حیاتِ ابدی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ عمل اُن کی موت کو افضل و اشرف موت بنادیتاہے۔ وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۴)’’اور جولوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں، اُنھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیںہوتا‘‘۔

حُبِّ دُنیا نہ ہو، خوفِ مرگ نہ ہو، تب ہی آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو زندگی قربان کرنے کے لیے ضروری ہے۔مخالف قوتوںپر آپ صرف اُسی صورت میں غلبہ حاصل کرسکتے ہیں جب جان دینے پر آمادہ ہوں۔کامیابی کا دروازہ بس اسی طرح کھلے گا۔ مرکر آپ زندگی پالیتے ہیں، اپنے لیے بھی اور اپنی قوم کے لیے بھی۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ جب تک آپ جان دینے کے لیے تیار نہ ہوں تب تک آپ زندہ رہنے کے حق سے محروم رہیں گے، بالخصوص بحیثیت ِ قوم۔ایسا نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے پکارا جائے گا، مگر آرزوے شہادت کی آگ ہر دِل میں بھڑکنی چاہیے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو اﷲ کی راہ میں جہاد نہ کرے یا اس کی آرزو بھی نہ رکھے وہ منافق کی موت مرے گا‘‘ (مسلم)۔ آپؐنے یہ بھی فرمایا کہ: ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے یہ محبوب ہے کہ میں اﷲ کی راہ میںماراجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، اورپھر زندہ کیا جاؤں، اورپھراﷲ کی راہ میں مارا جاؤں‘‘ (بخاری، مسلم)۔ (جاری)

 

قربانی، اس لفظ کے کیا معنی ہیں؟

وسیع تر مفہوم میں ’قربانی‘ کا مطلب ہے اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں سے دست بردار ہوجانا۔ یہ چیزیں وقت، دولت اور زندگی جیسی چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جنھیں محسوس کیا جاسکتا ہے، جنھیں شمارکیا جاسکتاہے۔یااحساسات، رویّے،مسلک ومؤقف اور تمناؤں، جیسی اشیابھی ہو سکتی ہیں کہ جن کو محسوس کیا جاسکتا ہے نہ ناپا تولاجاسکتاہے۔ان چیزوں کی قربانی کسی ایسی چیز کے حصول کی خاطر دی جاتی ہے جو ان سے زیادہ قیمتی، زیادہ اہم یا زیادہ ضروری ہو۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بنیادی طورپر قربانی کا مطلب ہے خدا کے حضور کسی جانور یا انسان کاذبیحہ بطورِ نذر پیش کرنا ،اوریوںاپنی ملکیت میں سے کوئی چیز خدا کی نذرکرنا۔

لغتِ قرآنی میںبالکل ٹھیک ٹھیک ’قربانی‘ کا ہم معنی لفظ تلاش کرنا دُشوار ہے، جس کا ایسا ہی وسیع ادبی استعمال بھی ہو۔ معنی کے لحاظ سے قریب ترین لفظ غالباً نُسُک ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲) کہو،میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا ، سب کچھ اﷲ ربُّ العالمین کے لیے ہے۔

بہرکیف ’انفاق‘ بنیادی اہمیت کاحامل ایک ایسا داعیہ ہے جس پر قرآن میں باربار زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کہا گیا ہے کہ : ’جورزق ہم نے اُن کو دیاہے‘ اُس میں سے خرچ کرناایمان کالازمی تقاضا ہے۔صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ ’انفاق‘کو ایمان کی بنیاد پر بسر کی جانے والی زندگی کی صورت گری کرنے ، اس کی محافظت کرنے اور اس کو سہارا فراہم کرنے کے لیے کافی قراردیا گیا ہے۔اﷲ کے دیے ہوئے مال واسباب میں، جوانسان کو خرچ کرناہے،ہروہ چیز شامل ہے جو اُس کی ملکیت میں ہے، خواہ وہ مادّی شے ہو یا غیرمادّی۔ قرآن میں ایک مقام پرتقویٰ (بُرے کاموں سے پرہیز ) اورتصدیق (قبولیتِ حق) کے ساتھ ’انفاق‘کو وہ سب کچھ قراردیا ہے جو اچھی‘ نیک زندگی کی تشکیلی صفات کے لیے درکار ہے:

اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی o فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی o وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰیo (اللیل ۹۲ : ۴تا ۱۰) درحقیقت تُم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔تو جس نے (راہِ خدامیں) مال دیا اور تقویٰ اختیار کیا، اورحق کی تصدیق کی، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اورجس نے بخل کیا اور اپنے آپ کو مستغنی (خودکفیل) سمجھااورحق کا انکار کیااُس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔

قربانی ایسا جوہر ہے جس سے عام انسانی زندگیاںبھی عمدہ اور کامیاب بن جاتی ہیں۔اس کے بغیر زندگی امن، ہم آہنگی اور امدادِ باہمی سے محروم رہے گی، تنازعات اور اختلافات سے پُر ہوگی، نفسانی خواہشات کی فی الفور تسکین، خودغرضی اورحرص وطمع کا شکار ہوگی۔ علاوہ ازیں کوئی خاندان یا برادری بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے نہ اُس میں یک جہتی اور استحکام پیدا ہوسکتا ہے جب تک اُس کے ارکان اپنی طرف سے کچھ قربانی نہ دیں۔ کوئی انسانی جدوجہد اپنا ہدف حاصل کرنے میں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں کی قربانی نہ دے۔

جو کلیہ عام انسانی زندگی اورعام انسانی جدوجہد پر صادق آتا ہے، خواہ اُس جدوجہد کی اہمیت اور نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو،یقینا وہ کلیہ اسلامی زندگی پر زیادہ صادق آئے گا،کیوں کہ اسلام کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ محض تھوڑا سا مال ومتاع نہیں، بلکہ اپنی پوری زندگی اﷲ کے سپرد کردی جائے۔ہم اپنے موجودہ زمانے کی زبان میں بات کریں تو اسلامی زندگی اعلیٰ ترین قربانی کی زندگی ہے۔اسلامی زندگی ایسی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے جسے مسلسل اور متواتر جاری رہنا چاہیے تاکہ اسلام ظاہر وباطن میں حقیقتاً رچ بس جائے اور ایک زندہ حقیقت بن جائے۔

قربانی سے ایمان کی نشوونما ہے،اس کے بغیر ایمان کے ننھے منے بیج سے ایسے تناور اور سرسبز وشاداب درخت پروان نہیں چڑھیں گے جوبے شمار انسانی کاروانوںکو چھاؤں اور پھل فراہم کریں (ابراھیم ۱۴ : ۲۴-۲۵)۔ اِسے ایساباوفاہمدم و رفیق بن جانا چاہیے جس کے بغیر راہِ جہاد طے نہ کی جاسکے، کیوں کہ اس راستے میں صحراے ناپیدا کنار بھی پھیلے ہوئے ہیں اورمنزل تک پہنچنے کی راہ میں بلند و بالا پہاڑ بھی حائل ہیں (التوبہ ۹: ۲۴)۔قربانی اُن کنجیوں میں سے ایک کُنجی ہے جس کے بغیر بند دروازے کھل نہیں سکتے۔ (البقرہ ۲ : ۲۱۴)

خواہ روحانی و اخلاقی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے کیا جانے والا سفر ذاتی ہو یا زندگی اور معاشرے کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے (ایک خدا کے آگے سرتسلیم خم کردینے) کے لیے کیا جانے والا سماجی سفر، یہ کلیہ دونوں پر صادق آتا ہے۔ اوریہی کلیہ اُس صورت میں بھی صادق آتا ہے جب یہ دونوں راہیں انتہائی چاہت کے ساتھ ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔ منزل جتنی عظیم اور بلند ہوگی، راستہ اُتنا ہی کٹھن اور دشوار ہوگا۔

اب تک آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ قربانی کا موضوع کتنا وسیع ہے۔اسی موضوع سے مضبوطی کے ساتھ گُندھا ہوا اتنا ہی وسیع اور اتنا ہی اہم موضوع ’ابتلا وآزمایش ‘کا اور ’صبر‘ کا ہے۔ اس موضوع کو لامتناہی طورپر پھیلایا جاسکتاہے مگر میرامقصد اس کا مکمل احاطہ کرنانہیں ہے۔اس معروف موضوع کے بہت سے پہلوئوںسے آپ خوب اچھی طرح واقف ہیں۔چنانچہ میں اِس موضوع کے صرف ایسے پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا جومیری نظرمیں زیادہ توجہ کے مستحق ہیں یا ہمارے موجودہ حالات سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔

اسلام: جدوجھد کا راستہ

سب سے پہلے ہمیں مختصراً ایک اہم سوال پر نظر ڈالنی چاہیے۔آخر اسلام کا نظریۂ جدوجہد سے اِس قدر گہرا تعلق کیوں ہے؟دونوں میں کیا ربط ہے؟ کیا کوئی شخص اپنے آپ کوکسی ایسی جدوجہد میںمشغول کیے بغیر اچھا مسلمان نہیں بن سکتا جس کا لازمی تقاضا قربانی ہے؟ جواب ہے: ’’نہیں!‘‘ اوراس کے بین دلائل ہیں۔

اسلام پوری زندگی میں محض ایک بار کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں ہے۔ کلمہ طیبہ کائناتی وسعتیں رکھتاہے۔ پوری زندگی اور تمام دُنیا کو جڑ بنیاد سے از سرنو منظم کرنے کاتقاضا کرتاہے۔یہ کلمہ محض اپنے عقیدے کا زبانی اعلان نہیں ہے۔ ایسی شہادت دینے کا عمل ہے جو پوری زندگی کو عقیدے کی جیتی جاگتی اور مسلسل گواہی میںبدل کر رکھ دے۔آپ کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل تو ہوجاتے ہیں۔ مگر مسلمان بن کرجینے کے لیے آپ کو مستقلاً گواہی دیتے رہنا پڑے گا(البقرہ ۲ : ۱۴۳،  الحج ۲۲ : ۲۸) ۔مسلسل گواہی دیتے رہنے سے اپنی ذات کے اندر اور اپنی ذات سے باہر کے جھوٹے خداؤں سے آپ کی کبھی نہ ختم ہونے والی محاذآرائی شروع ہوجائے گی۔ اپنی گواہی کی توثیق و تصدیق کرنے کے لیے آپ کو اپنے آپ اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے جہدِمسلسل بھی کرتے رہنا ہوگا۔

لہٰذا مسلمان رہنے کے لیے مسلمان بننا ضروری ہے۔ایمان کا بیج دل میں بوئے جانے کے بعد، مسلمان بننا ایک دوہرا عمل ہے۔ ایک طرف اپنے آپ کواور دوسری طرف تمام انسانیت کو اﷲ وحدہٗ لاشریک کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دینا___ یہ دونوںکام باہم گتھے ہوئے ہیں اور دونوں کام بہ یک وقت کرنے ہیں۔

تمام انسانوں کو دعوت دینا کوئی ٹھنڈاٹھار زبانی بلاوا نہیں۔یہ ایک فعال اور متحرک سرگرمی ہے، ایک تحریک ہے جو تقاضاکرتی ہے کہ تمام میسر وسائل کی مدد سے ایک ایسے جہاد کا آغاز کیا جائے جومطلق العنانیت کے جھوٹے دعوے داروں کو تخت سے اُتار پھینکے، جابروں‘ ستم گروں اور بدعنوانوں سے اُن کی طاقت سلب کرلے اور انسانوں کے درمیان عدل قائم کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی مکی زندگی کی ابتداہی میں اعلان فرما دیا تھا کہ: تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیںکہ ایک شخص کو پکڑ کر لایاجاتا،اورایک گڑھا کھودکراُسے گڑھے میں ڈال دیاجاتا،پھر ایک آری لاکر اُس کے سرپر رکھی جاتی اور اُس کو چیر کر دوٹکڑے کردیاجاتا، لوہے کی کنگھیوں سے اُس کا گوشت ہڈیوں سے جدا کردیا جاتا، اس کے باوجود کوئی چیز اُسے اُس کے دین سے پھیر نہیں سکتی تھی۔خداکی قسم! میں اپنا مشن پورا کرکے چھوڑوں گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفرکرے گا اور اُسے خداکے سواکسی کا خوف نہیں ہوگا، اورکوئی اندیشہ اُس کے دل میں نہیں آئے گا سواے اِس کے کہ کہیں کوئی بھیڑیا اُس کے مویشیوں کو نقصان پہنچادے۔ (بخاری)

پس اسلام کاراستہ جدوجہد کے راستے کے سوا کوئی اورراستہ نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ قربانی کی راہ ہے۔کوئی کہہ سکتاہے کہ کیا اسلام عطیۂ الٰہی نہیں ہے؟ یقینا ہے۔ اﷲ کی مدد اور اُس کی دست گیری کے بغیر ہم صراطِ مستقیم کی طرف، جو اسلام کا راستہ ہے، ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ اس کے باوجود ہم صرف اپنے اخلاصِ نیت اور اپنی مخلصانہ جدوجہد ہی کے ذریعے سے اس انتہائی قیمتی عطیے کو حاصل کرنے، اسے قائم و دائم رکھنے، اس کے زیرسایہ نشوونما پانے اوراس سے ملنے والے تمام فوائد سمیٹنے کے حق دار بن سکتے ہیں۔اﷲ کا یہ انعام، کوئی شک نہیں کہ، اُس کی بے پایاں رحمتوں اور اُس کے کرم ہی سے ملتاہے، مگر غیر مشروط نہیں ، کہ کوئی مانگے یا نہ مانگے، کوشش کرے یا نہ کرے اُسے   مل جائے۔ اس طرح تو یہ ایک سستی سی بے قیمت چیز بن جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں   اﷲ تعالیٰ کا ارشادہے:

اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ (الشورٰی ۴۲ : ۱۳)    وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتاہے جواُس کی طرف رجوع کرے۔

رجوع الی اﷲ کے لیے نیت اور کوشش دونوںلازم ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خدا کے سوا تمام جھوٹے خداؤں سے مُنھ موڑ لیا جائے۔یہ عمل مکمل طورپراپنا رُخ پھیر لینے کا عمل ہے، اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔اِس راہ پرمزید پیش قدمی کا انحصار جدوجہد پر ہے:

وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹ : ۶۸) جولوگ ہماری خاطر سخت جدوجہد کریں گے اُنھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

جدوجھد:ایک ناگزیر کلید

تو یہ ہے اﷲ کی سنت۔ صرف اسلام ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ ہماری زندگی کی اُن تمام انمول نعمتوں کے معاملے میں بھی، جن سے ہمیں نوازا گیا ہے۔ذرا ان میں سے چند پر نظر ڈالیے: یہ آنکھیں جن سے ہم دیکھتے ہیں، یہ کان جن سے ہم سنتے ہیں، یہ ہاتھ پاؤں جن کی مدد سے    ہم اپنے کام کاج کرتے ہیں، یہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں، یہ پانی جس سے ہم اپنی پیاس بجھاتے ہیں، جس کے بغیر زندگی اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکتی___ ان تمام چیزوں کو ہم نے نہیں  پیدا کیا، نہ ہم چاہیں توپیدا کرسکتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ہمیں بے مانگے مل جاتی ہیں،ہمارا ان پر  کوئی موروثی دعویٰ نہیں،نہ یہ ہماری ناقابلِ انتقال ملکیت میں ہیں۔ یہ سب کی سب نعمتیں ہمیں اﷲ کے فضل وکرم سے نصیب ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود انھیں اپنے استعمال میں رکھنے اور ان سے ملنے والے تمام فوائد حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی بہترین کوششیں بروے کار لانی پڑتی ہیں۔

زندگی کی بہت سی چیزیںہمیںکوشش اور جدوجہد کے بغیر نہیں مل پاتیں۔ہمیں صرف وہی نصیب ہوتا ہے جس کے لیے ہم جد وجہد اور کوشش کریں:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ o (البلد ۹۰ : ۴) ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیاہے۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o (النجم ۵۳ : ۳۹) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی۔

زمین موجودہے، پانی فراہم ہے، بیج میسر ہے، مگر مٹی بیج کو اناج میں اُس وقت تک تبدیل نہیں کرے گی جب تک ہم اس کی کھدائی نہ کریں، ہل نہ چلائیں،بیج نہ بوئیں، پودوںپر آب پاشی نہ کریں، اُن کی حفاظت نہ کریں اور فصل کاشت نہ کریں۔اﷲ کی بے شمار نعمتیں، جن کی ہمارے گرداگرد ریل پیل ہے، اپنے خزانوں کے منہ ہم پر اُس وقت تک نہیں کھولیں گی جب تک ہم محنت نہ کریں اور اپنا پسینہ نہ بہائیں۔حقیقت یہ ہے کہ جس قدر قیمتی خزانے کے حصول کی خواہش ہو  اُسی قدر زیادہ محنت اورکوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسلام اور قربانی

ایسا نہیں ہے کہ اسلام اﷲ کی بہت سی نعمتوں میں سے محض ایک نعمت ہو۔یہ اﷲ کی منتخب ترین نعمت ہے (المائدہ ۵ : ۳)۔ اس دُنیا میں اپنی زندگی گزارنے کے لیے اﷲ نے ہمیں جن    بے شمارانعامات و اکرامات سے نوازاہے، ان میں سے عظیم ترین اور اہم ترین انعام یہ ہے کہ   اُس نے ہمیں زندگی کے حقیقی معنی و مقصدسے آگاہ کردیا ہے۔ یہ معنی اور مقصد یہ ہے کہ ہم اُسی کی خاطر جیئں، اُسی کی رضا کے حصول کی کوشش کریں، یہاں تک کہ اُسی کی راہ میں موت آجائے۔ جانوروں کی سی زندگی گزارنے کے بجاے کہ پیداہوں، کھائیں پیٔیں، تولید و تناسُل کریں اور مرجائیں، ہم کو بامقصد زندگی گزارنی ہے۔یوں زندگی ایک عارضی اور ناپایدار چیزاور موت کے ساتھ ہی ختم ہو جانے والے تاریخ کے ایک تیز قدم لمحے کی حیثیت سے بلند ہوکرایک ابدی شے  بن جاتی ہے۔ہمارا مقصدِ وجود یہ نہیں ہے کہ جو نعمتیں اور جو عہدے اور مراتب اس دُنیا میںبکھرے ہوئے ہیں، ہم محض اُنھی کوسمیٹنے کی تمنا اور اُنھی کے حصول میںجتے رہیں۔اس کے بجاے ہمارے سامنے یہ رستہ کھلا ہوا ہے کہ ہم اس دُنیا کے مال ومتاع کو اگلی دُنیا کے کبھی نہ ختم ہونے والے فوائد میں بدل لیں، کبھی یہ مال ومتاع حاصل کرکے اور شکرگزاری کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوکر اور کبھی اس مال ومتاع سے دست بردار ہوکر۔

اگر اس دُنیا کی عام اشیا بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوسکتیں تو زندگی میں مقصدیت اور معنویت پیدا کرنے کے لیے، جو اسلام ہے، یقینا انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔اس جدوجہد اور قربانی کی نوعیت اوردرجہ لازماً اُس نصب العین کی قدروقیمت اورمعیار کے مساوی ہونا چاہیے، جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اور کون سا نصب العین ہماری زندگی میں زیادہ قابلِ قدر، زیادہ ناگزیر، زیادہ اہم اور زیادہ ضروری ہوسکتا ہے، بجز اس کے کہ پورے انسان کو، اُس کی اندرونی شخصیت کو، اُس کے ماحول کو، اُس کے معاشرے کو ، غرض پوری دُنیا کو اﷲ کی طرف بلایا جائے۔ سخت محنت کے بغیر،محض تمنا، آرزو، تقریر، دعووں اور بیانات سے ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم اُس منزل پر جاپہنچیں گے جو ہم نے اپنے لیے متعین کی ہے۔اگرکوئی شخص اپنی روزکی روٹی محنت کیے بغیر نہیں کماسکتا تو کیا  اﷲ اپنی عظیم ترین نعمت، اِس دُنیا کی کامیابی اور اُس دُنیا کی کامیابی ہمیں یوں ہی عطافرمادے گا؟ جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ ہم جس عقیدے کا اعلان کرتے ہیں اُس کی جڑیں ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں پیوست ہیں، ہم اپنے دعویٔ وفا میں سچے ہیں اور ہم سے جوقربانی طلب کی جائے گی ہم پیش کردیں گے۔

قرآن کافرمان ہے:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳ : ۱۴۲)کیا تُم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں چلے جاؤ گے حالاں کہ ابھی اﷲ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تُم میں کون وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اُس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَ الضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ o (البقرہ ۲: ۲۱۴) پھر کیا تُم لوگوںنے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالاں کہ ابھی تُم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تُم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکاہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ  وقت کا رسول اور اُس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت اُنھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اﷲ کی مدد قریب ہے۔

وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹ : ۳-۴) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اوراُن کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کر چکے ہیںجو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اﷲ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری کوششیں اور ہماری قربانیاں کسی بھی لحاظ سے اﷲ کی اُن نعمتوں کے ہم پلہ ہیں جو اﷲ نے ہمیں دی ہیں۔ ہرچند کہ ہم اپنی ذاتی محنت سے زمین سے غذا حاصل کرتے ہیں،پھر بھی یہ نعمت اس قدر انمول ہے کہ کسان جو محنت کرتا ہے وہ اُن لامحدود فوائدکے مساوی نہیں قراردی جا سکتی جو ہمیں حاصل ہوتے ہیں۔اسی طرح اﷲ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہوئے ہم سے جو قربانیاں طلب کی جاتی ہیں وہ اُن فوائد کی ہم وزن نہیں ہوسکتیںجو ہم ذاتی طورپر حاصل کرتے ہیںیا جو اُمتِ مسلمہ اجتماعی طورپر حاصل کرتی ہے اورجو   بنی نوعِ انسان کو مجموعی طورپر ملتے ہیں۔اس کے باوجود ہمیں اپنی انسانی بساط کے مطابق یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے نصب العین پر پختہ ایمان رکھتے ہیں بلکہ جس چیز کوہم اپنی محبوب ترین شے قراردینے کے دعوے دار ہیں اُس کے لیے جدوجہد کرنے اور اپنی پسندیدہ چیزوں کی قربانیاں دینے کو بھی تیارہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تقریباً تواتر کے ساتھ ایمان کاذکر عملِ صالح، ہجرت اور جہاد کے ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات ۴۹ : ۱۵) حقیقت میںتو مومن وہ ہیں جو اﷲ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر اُنھوں نے کوئی شک نہ کیا اوراپنی جانوں اور مالوں سے اﷲ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی لوگ سچے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بھی مختصراً ذکر کیا جاچکا ہے کہ جدوجہد دوسطحوں پر ہوتی ہے۔ذاتی سطح پر ایمان کا تقاضایہ ہے کہ فرداپنے آپ کو اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بنالے اور اس طرح دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ اﷲ کو محبوب رکھے:’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۶۵)۔ بہ الفاظ دیگر ایمان یہ کہتاہے کہ دُنیا کی کوئی چیز اتنی قیمتی اور اتنی قابلِ قدر نہیں کہ اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان نہ کی جاسکے۔

اجتماعی سطح پر کی جانے والی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں دی جانے والی قربانیاں پوری دُنیا کوایک اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بننے کی دعوت دینے کے لیے ہوتی ہیں۔قرآن اکثر اس جدوجہد کو جہاد سے تعبیرکرتاہے۔ایمان کا تقاضاہے کہ تمام جھوٹے خداؤںکو معزول کردیا جائے اورظلم وجبر، بگاڑ اوربدی کی تمام طاقتوں کے سامنے ڈٹ جایا جائے۔جہاد، اﷲ سے بغاوت کرنے والی تمام طاقتوںپر غلبہ پانے کے لیے کیا جاتاہے۔اس کے لیے اپنے نفس پر غلبہ پانے سے بہت مختلف نوعیت اورمختلف درجے کی قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔ (جاری)

 

حج زیارت کر دن خانہ بود
حج رب البیت مردانہ بود

(رومیؔ)

(خانہ کعبہ کی زیارت ہی حج ہے اور رب کعبہ کا مردانہ وار طواف ہی حج ہے۔)

صوفیاے کرام نے ہمیشہ مذہب کے ظاہری رسوم سے زیادہ زور اس کی باطنی روح پر دیا ہے۔ دین محمدیؐ کی یہی دو حیثیتیں ہیں: ظاہریؔ و باطنیؔ!۔ بقول شاہ ولی اللہ  ؒ:

نیکی و طاعت کے ظاہری افعال سے قلب پر جو اچھے اثرات مترتب ہوتے ہیں، ان کے احوال و کوائف کی تحصیل دین کی باطنی حیثیت یا تصوف کا مقصود اور نصب العین ہے۔ (ہمعات)

قرآنی تعلیمات سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اصل چیز ظاہری رسوم نہیں بلکہ باطنی روح ہے۔ دیکھو قربانی کے سلسلے میں حق تعالیٰ نے وضاحت فرما دی ہے، کہ:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط (الحج ۲۲:۳۷)نہ قربانی کا گوشت حق تعالیٰ کے پاس پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ تقویٰ یا پارسائی۔

یعنی حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی محض قربانی کر دینے یا خون بہا دینے سے نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ اس قربانی کا مدار حق تعالیٰ کی محبت، اُن کی رضا جوئی اور اُن کی قرب طلبی نہ ہو۔ اسی طرح دوسری جگہ واضح طور پرفرمایا گیا ہے، کہ:

لَیْسَ الْبِرَّاَنْ تُوَلُّوْاوُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ (البقرۃ ۲:۱۷۷)نیکی اس کا نام نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو، بلکہ نیکی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان و یقین سے حاصل ہوتی ہے۔

یعنی محض کسی سمت کو قبلہ بنا کر اس کی طرف منہ پھیر لینے سے انسان کے اندر نیکی نہیں پیدا ہوسکتی جب تک کہ اس کی بنیاد اللہ اور آخرت کے یقین و ایمان پر نہ ہو!

اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھول نہ جانا چاہیے کہ قرآنی تعلیمات اور اسلامی تصوف کی رو سے دنیا میں جس طرح انسانی روح بغیر انسانی جسم کے نہیں پائی جاتی اور اس کے روحانی افعال کا اعتبار بغیر جسمانی افعال کے نہیں ہوتا، اسی طرح دنیا میں خاص خاص افعال یا جسمانی حرکات اور احوال کے بغیر روح کا ارتقا اور اس کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے صوفیاے کرام نے باطن کے ساتھ ظاہر کی حفاظت پر پورا زور دیا ہے اور متقدمین صوفیا نے تصوف کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ ع

وہ نام ہے تعمیر ظاہر و باطن کا

بالفاظ دیگر دونوں کی اصلاح و درستی ضروری ہے، نہ ظاہر بغیر باطن کے اور نہ باطن بغیر ظاہر کے درست ہوسکتا ہے۔ ظاہر عنوان ہے باطن کا۔ جب کسی کے ظاہری افعال شرع محمدیؐ کے خلاف ہوں تو اس کو کوئی تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس کا باطن موافق و مطیع ہوگا۔ ظاہر تو تابع ہوتا ہے باطن کا۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ باطن درست ہو اور اس کا اثر ظاہر پر نہ پڑے، یہ ناممکن ہے۔ اسی طرح ظاہری افعال کا اثر باطن پر پڑتا ہے بلکہ ہر ظاہری عمل باطن کو متاثر کرتا ہے۔ ولیم جیمس جیسے ماہرِ نفسیات نے تو اس حد تک زور دیا ہے کہ: ’’اگر تم باطن میں کوئی کیفیت یا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کی ظاہری صورت پیدا کرلو، تمھارا باطن متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔‘‘

حج کے تمام اعمال پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومن جس کا طرۂ امتیاز حق تعالیٰ کی شدید محبت ہے (الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِط۔البقرۃ۲:۱۶۵)، اپنے عشق و محبت کے جذبے کو جو اس کے قلب کی گہرائیوں میں نہاں ہے، ظاہری اعمال و اشکال میں ہویدا کرتا ہے تاکہ: ’’اس کے اس حال کا چرچا دنیا میں پھیلے، وہ بلند آواز سے لبیک کہتے ہوئے نعرے لگاتا ہے اور ان نعروں سے محبت کی چھپی دبی آگ کو بھڑکاتا ہے!۔‘‘ چنانچہ شاہ عبدالعزیزؒ اپنی تفسیر میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ:

حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک دفعہ اپنے کو سرگشتہ و شیدا بنا کر دیوانوں کی طرح اور عشق بازوں کا وتیرا اختیار کرکے محبوب کے گھر کے گردننگے سر ننگے پائوں، الجھے ہوئے بال، پریشان حالی کے ساتھ گرد میں اَٹے ہوئے سرزمین حجاز میں پہنچیں، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر، کبھی زمین پر محبوب کے اسی گھر کی طرف رُخ کرکے کھڑے ہوں…… اسی تجلی خانے کے ارد گرد گھومیں اور اس کے گوشوں کو چومیں چاٹیں۔

حج کے مناسک سے عشق و محبت کا یہی جذبہ ظاہر ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر طواف کعبہ، صفا و مروہ کے درمیان سعی، مزدلفہ کی آمد و رفت، عرفات میں قیام، منیٰ میں ذبح و قربانی، وتلبیہ و احرام وغیرہ کا حکم دیا گیا ہے۔

اعمال حج کے انھی باطنی اسرار کو ہم یہاں امام الصوفیہ حجۃ الاسلام حضرت غزالیؒ کے اشارات کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں:

زیں شہدیک انگشت رسانم بلبت
از لذت اگر محو نگردی تف کن!

(آپ کے ہونٹوں سے اس شہد کی ایک انگلی لگا دی ہے، اگر تو اس سے لذت اندوز نہیں ہوتا تو افسوس ہے۔)

حق تعالیٰ کے گھر کی زیارت کا شوق عاشق کے قلب میں بھڑک اُٹھتا ہے! جس قلب میں اس ’شاہ خوباں‘ کا عشق نہیں وہ مردہ ہے، یا یوں کہئے:

دل کہ فارغ شدز عشق آں نگار
سنگ استنجائے شیطانش شمار!

(اس محبوب کی محبت سے دل فارغ ہو جائے تو ایسا دل شیطان کے استنجے کا ڈھیلا ہے۔)

عاشق کی نگاہ میں اب دنیا کی ساری لذتیں ہیچ نظر آنے لگتی ہیں۔ مال و دولت، جاہ و عزت، دوست و احباب اپنی دل فریبیاں کھو دیتے ہیں! ’زندے‘ کا عشق اس کو مُردوں کی محبت سے بیزار کردیتا ہے اور وہ چیخ اُٹھتا ہے:

عشق بامردہ نبا شد پایدار
عشق رابا حئی جاں افزائے دار!

عشق زندہ در روان و دربصر
ہر دمے باشدز غنچہ تازہ تر!

عشق آں زندہ گزیں کو باقیست
وز شرابِ جاں فزایت ساقیست

عشق آں بگزیں کہ جملہ انبیا
یا فتند از عشق او کار و کیا!

غرق عشق شوکہ غرق است اندریں
عشقہائے اولین و آخریں!

(رومیؔ)

(مُردوں سے عشق پایدار نہیں ہوتا، زندوں سے لگائو ہی روح پرور ہوتا ہے۔زندہ عشق روح میں اور آنکھوں میں رہتا ہے اور ہر لمحے ترو تازہ غنچے سے بھی زیادہ تازگی رکھتا ہے۔ایسے زندہ سے عشق ہونا چاہیے جو باقی رہنے والا ہے، وہ جان فزا شراب کا ساقی ہوتا ہے۔عشق ایسی ہستی سے ہونا چاہیے کہ انبیا نے بھی اس کے تعلق سے بالیدگی حاصل کی ہو۔عشق میں غرق ہو جا اور یہی اولین و آخری عشق ہو۔)

اہل و عیال، دوست و احباب سے رخصت ہوکر جب وہ سوار ہوتا ہے تو اس کی نظر میں دارِآخرت کی سواری آ جاتی ہے، وہ اپنے جنازے کو آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے جس پر سوار ہوکر اس کو ایک روز آخرت کی طرف کوچ کرنا ہوگا، اور وہ جانتا ہے کہ یہ دن کچھ زیادہ دور تو نہیں ہوسکتا۔ع

کیں عمر بیک چشم زدن نقش برآب است!

(یہ عمر پانی پر کسی نقش کی مانند آنکھ جھپکنے میں ختم ہوجاتی ہے۔)

جب احرام کے لیے چادر خریدتا ہے تو اس کو وہ دن یاد آتا ہے جب اس کا تن بے جاں کفن میں لپیٹا جائے گا اور وہ بے حس و حرکت پڑا ہوگا! اب اس کا ساتھ دینے والے نہ دوست و احباب ہوں گے اور نہ اہل و عیال، صرف ایمان و عمل صالح ہی اس کے ساتھ جائیں گے! وہ اپنے نفس سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:   ؎

یا من بدنیاہ اشتغل
قد غرک طول الامل

الموت یاتی بغتۃ
والقبر صندوق العمل

(حضرت علیؓ)

(اے وہ جو اپنی دنیا میں مشغول ہوگیا، تجھے طویل تمنائوں نے دھوکے میں ڈال دیا۔ موت تو اچانک آئے گی اور قبر تمھارے عمل کا صندوق ہوگا)

سوچتا ہے کہ احرام کی چادر تو خانۂ کعبہ کے قریب پہنچ کر باندھنی پڑے گی، ممکن ہے کہ یہ سفر پورا نہ ہوسکے اور راہ ہی میں موت آ جائے لیکن حق تعالیٰ سے ملاقات تو کفن میں لپٹے ہوئے ہی ہوگی! کفن کی اس چادر پر نظر کرکے شکستہ دلی کے ساتھ حق تعالیٰ سے عرض کرتا ہے:

’’اَللّٰھُمِّ اَغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَآء الثَّلِجْ وَالْبَرْدِوَنَقِّ قَلْبِیْ مِنَ الْخَطَا یَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْب الْاَ بْیَض مِنَ الدَّنسِ وَبَاعِدْبَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَاَے کَمَا بَاعَدتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ۔‘‘ (عن عائشہ ؓ، بخاری)

اے اللہ میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے، اور میرے دل کو گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے، اور مجھ میں اور میرے گناہوں کے درمیان ایسا فاصلہ کر دے جیسا کہ مشرق و مغرب میں تو نے فاصلہ رکھا ہے۔

جب اپنے شہر سے باہر نکل آتا ہے تو سوچتا ہے کہ اُس نے اپنے اہل و عیال اور وطن سے جدا ہوکر ایسا سفر اختیار کیا ہے جو کسی طرح دنیا کے اور سفروں کے بالکل مشابہ نہیں! اس سفر سے اس کا مقصود حق تعالیٰ ہیں، ان کے گھر کی زیارت ہے، ان کی رضا و خوشنودی ہے۔ حق تعالیٰ ہی کی پکار پر، انھی کی توفیق سے، انھی کے شوق دلانے سے، انھی کے حکم پر وہ قطعِ علائق و ترکِ خلائق کرکے ان کے دربار کی طرف دیوانہ وار چل پڑا ہے، اس کی زبان پر ہے:

بِسْمِ اللّٰہِ، مَاشَاء اللّٰہ، حَسْبِی اللّٰہُ، لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

اللھم الیک خرجت وَانت اخرجتنی!

(اے اللہ، میں تیری طرف ہی نکلا ہوں اور تو نے ہی مجھے نکالا ہے)

من کہ باشم کہ براں خاطر عاطر گذرم
لطفہامی کنی اے خاک درت تاج سرم

(حافظ شیرازیؒ)

(میں کون ہوتا ہوںکہ اس کے خاطر عاطر میں میرا گزر ہو، تیرا لطف و کرم ہو توتیرے در کی خاک ہی میرے سر کا تاج ہے۔)

اس کو حق تعالیٰ سے پوری اُمید ہوتی ہے کہ وہ اس سفر شوق میں اس کے ساتھ ہوں گے، اس کے نگہبان اور مددگار ہوں گے۔ وہ حق تعالیٰ ہی کی دستگیری و رہبری سے اپنی منتہاے آرزو کو پائے گا، اپنے مولیٰ کے دیدار سے اپنی مراد کو پائے گا! ؎

من ایں دستے کہ افشاندم زکونین
بد امانِ تمنائے تو باشد!

(حزیںؔ)

(جی کو میں نے کونین سے الگ کر لیا ہے، تیری تمنا کے دامن میں آجائے۔)

سوچتا ہے کہ اگر وہ منزل مقصود کو پہنچنے بھی نہ پایا اور راستے ہی میں طعمۂ اجل مسمٰی ہوگیا، پھر بھی وہ’نثارِ رہ یار‘ ہوگا! کیا حق تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے:

’’وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔‘‘ (النسآء ۴:۱۰۰)جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کروں گا، پھر اس کو موت آ پکڑے، تب بھی اس کا ثواب ثابت ہوگیا، اللہ تعالیٰ کے ذمے!

ہاں، اس راہ میں موت بھی اچھی! کہہ سکے گا! ؎

حاصل عمر نثار رہ یارے کردم!
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم

(اپنی عمر کا حاصل اپنے دوست کی راہ میں نثار کر دیا ہے۔ میں اپنی زندگی سے خوش ہوں کہ میں نے کوئی کام تو کیا ہے۔)

اسی فکر و ذکر، اسی ولولہ و جنون میں وہ میقات پر پہنچ جاتا ہے، کپڑے اُتارتا ہے اور احرام کی چادریں باندھتا اور اوڑھتا ہے، ماسوا سے آزاد ہوکر چیخ اٹھتا ہے:

لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ

آنکھوں سے اس کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، دل سے سرد آہیں نکلتی ہیں اور زبان سے یہ چیخ:

ما را ز خاک کویت پیراہن است برتن!
آنہم زآب دیدہ صد چاک تابدامن

(جمالیؔ)

(تیرے کوچے کی خاک ہمارے جسم کا لباس ہے، اور اس لباس کو بھی ہمارے آنسوئوں نے دامن تک چاک کررکھا ہے۔)

جانتا ہے کہ لبیک کی یہ پکار حق تعالیٰ کی اس پکار کے جواب میں ہے، کہ: وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ (الحج ۲۲:۲۷)’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔‘‘اور اس کا خیال عرصۂ قیامت کی تصویر آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا اور لوگ اسی طرح پکارے جائیں گے اور وہ اپنی قبروں سے نکل کر میدانِ قیامت میں جمع ہوں گے اور حق تعالیٰ کی پکار کا جواب دیں گے۔ پھر ان میں سے بعض مقبول ہوں گے اور بعض مردود! ابتدا میں تردد ہر ایک کو ہوگا، خوف و رجا ہر ایک کے سینے میں ہوگی! دل ہی دل میں حق تعالیٰ سے کہتا ہے، کہ

کارے بجز گناہ نداریم یا حفیظ
عذرے بغیر آہ نداریم یاحفیظ!

ہر چند رو سیاہ و گنہ گار و مجرمیم
جز رحمتت پناہ نداریم یاحفیظ!

(مجذوبؔ)

اے حفیظ! سواے گناہ کے اور کچھ کام ہم سے نہ ہو سکا۔ ہمارے پاس سواے آہوں کے کوئی عذر نہیں۔ ہر چند کہ ہم گنہگار اور روسیاہ اور مجرم ہیں، سواے تیری رحمت کے پناہ میں آنے کے اور کچھ نہیں رکھتے۔)

توبہ و استغفار، تسبیح و تہلیل، ندامت و شوق، رجا و خوف میں اس کی ہر ساعت بسر ہوتی ہے، دل میں حسرتوں کا ہجوم ہوتا ہے، اور وہ راہ کی صعوبتیں برداشت کیے بڑھتا جاتا ہے! کبھی کہتا ہے:

اللہ! کس قدر رہِ مقصود دور ہے
پیک خیال راہ میں تھک تھک کے رہ گیا

جدہ کا قیام، ساتھیوں کی پریشانی اس کو متاثر نہیں کرتی، وہ تو ’محو خیالِ یار‘ ہے:

وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحد سے مردے نکل پڑے
یہ مری جبینِ نیاز تھی کہ جہاں دھری تھی دھری رہی

انتظار کی ساعتیں گزرتی جاتی ہیں اور وہ بے تابی میں گنگناتا جاتا ہے:

نظر ہے وقفِ غمِ انتظار کیا کہنا
کھنچی ہے سامنے تصویرِ یار کیا کہنا

(جگر مراد آبادی)

اب قافلہ مکہ معظمہ میں داخل ہو رہا ہے! ’حرم مامون‘ میں پہنچ رہا ہے! مَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمنا، کی نوید اس کے کانوں میں گونجتی ہے۔ ’بلد امین‘ میں داخل ہوکر وہ چیخ اُٹھتا ہے:

ذرئہ خاکم و درکوئے توام وقت خوش است
ترسم اے دوست کہ بادے نہ بردناگاہم!

(حافظؔ)

(میںذرہ خاک ہوں اور خوش ہوں کہ تیرے کوچے میں پڑا ہوا ہوں، اور اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ہوا کا جھونکا مجھے اڑا کے یہاں سے کہیں دور نہ لے جائے۔)

آگے بڑھ کر جب اس کی نظر بیت اللہ پر پڑتی ہے تو رب البیت کی تجلی سے اس کے ہوش و حواس گم ہو جاتے ہیں:

آمد خبرے زآمد او
من بعد خبر نماند مارا!

(اس کی آمد سے ہی کچھ خبر معلوم ہوتی ہے، اس کے آنے کے بعد تو ہم خود ہی اپنے آپ میں نہیں رہتے۔)

وہ ’بیت‘ کو نہیں، گویا ’رب البیت‘ کو دیکھ رہا ہے!

آنکھوں میں روے یار ہے، آنکھیں ہیں روے یار پر
ذرہ ہے آفتاب میں، ذرے میں آفتاب ہے

اسی ذوق و شوق کو لیے ہوئے وہ طواف کے لیے بڑھتا ہے، اس کے قلب میں تعظیم،  خوف ورجا، عشق و محبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اس کا جسم خانہ کعبہ کے طواف میں مصروف ہوتا ہے لیکن اس کی روح رب البیت کے گرد گھومتی ہے، اس کا دل حضرت ربوبیت کا طواف کرتا ہے، ان پر فدا ہوتا ہے، نثار ہوتا ہے، چیختا ہے     ؎

یک جاں چہ متاعیست کہ سازیم فدایت
اماچہ تواں کرد کہ موجود ہمین است!

(فقط ایک جان ہی تو ہے اسے آپ پر فدا کریں، تو (کیا کمال ہو)، مگر افسوس کہ اس جان کے سوا  تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ یہی جان ہی تو ہے۔)

جب حجر اسود کو بوسہ دیتا ہے تو جانتا ہے کہ وہ حق تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر رہا ہے، اطاعت و فرماںبرداری، عبدیت و عبودیت کا اقرار کر رہا ہے، حجر اسود ’’یَمِیْنَ اللّٰہُ عَزَّوَجَل فِی الْاَرْضِ‘‘ ہے، حق تعالیٰ کا داہنا ہاتھ ہے زمیں پر، ’’یُصَافِحُ بِھَا خَلْقَہٗ کَمَا یُصَافِحْ الرَّجُلُ اَخَاہُ‘‘ جس سے وہ اپنے بندوں کے ساتھ اس طرح مصافحہ کرتے ہیں جیسے انسان اپنے بھائی سے، ( عن عبداللہ بن عمرؓ، مسلم)۔ وہ حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عرض کرتا ہے:

یا رب منم و دست تہی چشم برآب
جاں دادہ و دل سوختہ و سینہ کباب

نامہ سیہ، و عمر تبہ، کار خراب
از روئے کرم بفضل خوشیم دریاب

(اے اللہ میں ہوں اور تہی دست ہوں اور آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔ میں سوختہ دل ہوں اور محبت سے سینہ جلا ہوا ہے میرا نامہ اعمال سیاہ ہے۔ عمر برباد ہو گئی اور ہر کام خراب ہوا، اب رب کریم اپنے لطف و کرم سے نوازیں تو خوشی مل سکتی ہے۔)

پھر کعبۃ اللہ کے پردے کو پکڑتا ہے، یہ سمجھ کر کہ حق تعالیٰ کے دامن کو پکڑ رہا ہے، اور ملتزم سے چمٹتا ہے، یہ سمجھ کر کہ حق تعالیٰ سے قریب ہو رہا ہے، رو رو کر عرض کرتا ہے:

تو کریم مطلق و من گداچہ کنی جزاینکہ نخوانیم
در دیگرے بنما کہ من بہ کجا روم چو برانیم
ہمہ عمر ہر زہ دویدہ ام خجلم کنوں کہ خمیدہ ام
من اگر بحلقہ تنیدہ ام تو برون درمنشانیم

(بیدلؔ)

(تو کریم ہے اور میں فقیر، کیا کیا جا سکتا ہے کہ تجھے نہ پکاریں۔ کوئی دوسرا دروازہ نہ کھلا، کہ میں کہاں جائوں اگر یہاں سے زندہ جائوں۔ ساری عمر اب خجل خوار ہو کر تیری طرف جھک آیا ہوں۔ اب اس حلقے پر آیا ہوں تو باہر نہ پھینکا جائوں۔)

گویا پکار اٹھتا ہے کہ آپ کا دامن چھوڑ کر کہاں جائوں، کس کے آگے ہاتھ پھیلائوں، کس کے قدم پکڑلوں؟ میری پناہ گاہ آپ ہیں، میرا ملجا و ماویٰ آپ کے سوا کون ہے؟ آپ کے کرم و عفو کے سوا میرا ٹھکانہ نہیں! آپ کا دامن نہ چھوڑوں گا جب تک کہ آپ اپنی رحمت سے میری سیہ کاریوں کو معاف نہ فرمائیں، اور آیندہ دامن امن میں پرورش نہ فرمائیں! حق تعالیٰ آپ کریم ہیں، در کریم پر عجز و نیاز کے ساتھ آیا ہوں، دیدئہ اشک بار کے ساتھ آیا ہوں، دردِ دل، نالۂ جاں آزار کے ساتھ آیا ہوں، اگر آپ دامنِ عفو میں پناہ نہ دیں تو کہاں جائوں، کیا کروں!                 ؎

یا رب دلم از بار گنہ محزون است
جاں زارو دل افگار و جگر پر خون است

ہر چند گناہ من زحد بیرون است
عفوت زگناہِ من بے افزون است

(دردؔ)

(اے اللہ میرا دل گناہ کے بوجھ سے حزن و ملال میں مبتلا ہے، میری روح زارو نزار ہے اور دل زخمی ہے اور جگر چھلنی ہے ہر چند کہ میرے گناہ حد سے زیادہ ہیں لیکن تیرا عفوو درگزر کرنے کا شیوہ اس سے بہت زیادہ ہے۔)

صفا و مروہ کے درمیان جب وہ سعی کرتا ہے تو یہ احساس قلب میں لیے ہوئے کہ ایک فقیر، مسکین، حقیر و ذلیل غلام اپنے آقا، مالک، بادشاہ کے محل کے صحن میں بار بار چکر لگا رہا ہے، نظر کرم کا ملتجی ہے، زباں پر سوال ہے کہ:

’’رَبِّ اغْفِرْوَ ارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ اَنَّکَ اَنْتَ الْاَ عَزَّالْاَکْرَمُ‘‘

بار بار گھومتا ہے اور آواز لگاتا ہے، کہ:

اِلٰہِیْ عَبْدُکَ بِبَابِکَ فقیرُکَ بِبَابِکَ مِسْکِیْنُکَ بِبَابِکَ سَائِلُکَ بِبَابِکَ ذَلِیْلُکَ بِبَابِکَ ضَعِیْفُکَ بِبَابِکَ ضَیْفُکَ بِبَابِکَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ

میرے معبود تیرا بندہ تیرے درپر ہے،تیرا فقیر تیرے در پر ہے،تیرا مسکین تیرے در پر ہے، تیراسائل تیرے در پر ہے،تیرا ذلیل بندہ تیرے در پر ہے،تیرا کمزور و ناتواں بندہ تیرے در پر ہے،تیرا مہمان تیرے در پر ہے،اے رب العالمین!

جانتا ہے کہ کوئی سائل اس در سے محروم نہیں جاتا، یہ کریم کا دروازہ ہے، اس کو جو کھٹکھٹاتا ہے وہ اپنی مراد کو پاتا ہے:

گفت پیغمبر کہ چوں کو بی درے
عاقبت زاں در بروں آید سرے

سایۂ حق برسر بندہ بود
عاقبت جویندہ یا بندہ بود

چوں نشینی بر سر کوئے کسے
عاقبت بینی تو ہم روئے کسے

چوں زچا ہے میکنی ہر روز خاک
عاقبت اندر رسی در آب پاک

(پیغمبر نے فرمایا کہ دروازے کو کھٹکھٹاتے رہیے آخر کار اس دروازے سے کوئی باہر آہی جائے گا۔ حق کا سایہ اپنے بندے کے سر پر رہتا ہے، آخر کار تلاش کرنے والا کچھ نہ کچھ پاہی لیتا ہے۔ جب تو کسی دروازے پر پڑا رہے گا تو آخر کسی نہ کسی کا دیدار کر ہی لے گا۔ جب کوئی کسی کنویں کی مٹی نکالتا رہے گا تو آخر کسی روز اس کی تہہ سے پانی حاصل کر ہی لے گا۔)

عرفات کے میدان میں جب وہ قدم رکھتا ہے اور لوگوں کا اژدحام اور آوازوں کا بلند ہونا اور زبانوں کا اختلاف جب اس کو نظر آتا ہے، تو اس کو میدانِ قیامت کا منظر یاد آتا ہے کہ اس روز بھی ہر امت اپنے نبی کے ساتھ اسی طرح جمع ہوگی اور اس کی پیروی کرے گی اور اس کی شفاعت کی اُمید کرے گی! اب وہ اضطرار کے ساتھ حق تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتا ہے اور چیختا ہے:

’’یَامَنْ لَّا یَشْغَلُہُ شَأْنٌ عَنْ شَأْنٍ وَلَا سَمْعٌ عَنْ سَمْعٍ وَلَا تَشْتَبِہُ عَلَیْہِ الْاَصْوَاتُ، یَا مَنْ لَّا تَغْلطُہَ الْمَسَائِلَ وَ لَا تَخْتَلِفُ عَلَیْہِ اللّٰغَاتُ! یَا مَنْ لَّا یَبْرِمَہٗ اِلْحَاحُ الْمُلْحِیْن وَلَا تَضْجُرُہُ مَسْئَلَۃُ السَّائِلِیْنَ! اَذَقْنَا بَرْدِ عَفُوِکَ وَ حِلَاوَۃَ رَحْمَتِکَ!!‘‘

اے وہ ذاتِ مطلق کہ جس کو ایک حال دوسرے حال سے نہیں روکتا اور نہ ایک عرض کا سننا دوسرے عرض کے سننے سے باز رکھتا ہے، اور نہ مشتبہ ہوتی ہیں اس پر آوازیں! اے وہ ذاتِ مطلق کہ جس کو بہت سے سوال مغالطے میں نہیں ڈال سکتے اور نہ مختلف ہیں، اس کے نزدیک بہت سی زبانیں! اے وہ ذات پاک جس کو ہٹ کرنے والوں کا اصرار تھکا نہیں دیتا اور مانگنے والوں کا سوال تنگ نہیں کرتا، ہم کو اپنے عفو کی ٹھنک اور رحمت کی حلاوت سے آشنا کر!۔ (دعاے خضر علیہ السلام)

پھر رو رو کر کہتا ہے:

’’اَلٰھِیْ! اَنْتَ اَنْتَ وَ اَنَا اَنَا، اَنَا الْعَوَّادُ اِلَی الذَّنُوْبِ وَاَنْتَ اِلَی الْمَغْفِرَۃِ! اِلٰھِیْ اِنْ کُنْتَ لاَ تَرْحَمُ اِلَّا اَھْلَ طَاعَتِکَ فَالِیَ مَنْ یَّفْزَعُ الْمُذْنِبُوْنَ!‘‘

حق تعالیٰ آپ آپ ہیں اور میں میں ہوں! میں گناہوں کی طرف بار بار پلٹتا ہوں اور آپ مغفرت کی طرف بار بار رجوع کرتے ہیں! حق تعالیٰ اگر آپ اپنے طاعت والوں ہی پر رحم کریں، تو گنہ گار کس طرف ملتجی ہوں؟

حق تعالیٰ میں آپ کی اطاعت سے قصداً علیحدہ رہا اور آپ کی نافرمانی پر دانستہ متوجہ ہوا، آپ پاک ہیں! آپ کی حجت مجھ پر کتنی بڑی ہے اور آپ کا مجھے معاف کرنا کتنا بڑاکرم ہے۔ پس جس صورت میں کہ آپ کی حجت مجھ پر ضروری ہوئی، میری حجت آپ کے ہاں جاتی رہی، میں آپ کا محتاج ہوں اور آپ مجھ سے بے پروا و بے نیاز، آپ مجھے معاف ہی فرما دیجیے! اے اُن سے بہتر ذات جن کو کوئی دعا مانگنے والا پکارے، اورافضل ان سے جن سے کوئی توقع رکھنے والا توقع رکھے! اسلام کی حرمت اور محمد   صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کا وسیلہ تیرے سامنے پیش کرتا ہوں، میرے سارے گناہ بخش دیجیے اور مجھے اس موقف سے حاجتیں پوری کرکے لوٹایئے اور جو کچھ میں نے مانگا مجھے دلا دیجیے اور جس چیز کی میں نے تمنا کی اس میں میری توقع پوری کیجیے!

پھر چلاتا ہے درد بھرے دل سے:

الٰہی! جو تیرے سامنے اپنی تعریف کیا کرے، میں تو اپنے نفس کو ملامت کرتا ہوں!   الٰہی گناہوں نے میری زبان گونگی کر دی، پس مجھ کو اپنے عمل کا وسیلہ نہ رہا اور نہ سوا اُمید کے اور کوئی سفارش کرنے والا! الٰہی مجھے معلوم ہے کہ میرے گناہوں نے تیرے نزدیک میری قدر کچھ باقی نہ رکھی اور نہ عذر کرنے کی کوئی صورت چھوڑی لیکن تو تمام کریموں سے زیادہ کریم ہے! الٰہی اگر میں اس قابل نہیں کہ تیری رحمت تک پہنچوں توتیری رحمت تو شایاں ہے کہ مجھ تک پہنچے! الٰہی تیری رحمت ہر چیز کو شامل ہے اور میں بھی ایک چیز ہوں! الٰہی اگرچہ میرے گناہ بڑے ہیں لیکن ترے عفو کے مقابلے میں چھوٹے ہیں! میرے گناہوں سے درگزر کر اے کریم!!۔

جانتا ہے کہ یہ وہ مبارک مقام ہے جہاں حق تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور ان رحمتوں کو وہ قلوب جذب کرتے ہیں جو اس میدان میں موجود ہوتے ہیں، یہ ابدال و اوتاد کے قلوب ہیں، ان صالحین کے قلوب ہیں جو حق تعالیٰ کے آگے سربسجود ہیں، ان کے حضور میں دست بستہ     ذلت و مسکنت کے ساتھ گڑگڑا رہے ہیں! رحمت الٰہی کے جذب کا اس سے زیادہ قوی و موثر کوئی طریقہ نہیں کہ:’’ان ابرار کی ہمتیں اکٹھی ہوں اور ایک وقت میں ایک زمین پر قلوب ایک دوسرے کی مدد کریں!‘‘اس ادراک کے ساتھ ہی اس کی زبان سے یہ چیخ نکلتی ہے:

غم ناکم وازدر تو باغم نروم
جز شاد و اُمید و اروخرم نروم

از درگہ ہمچو تو کریمے ہرگز
نومید کے نرفت ومن ہم نروم

(ابو سعید)

(میں غم زدہ ہوں، تاہم تیرے در سے غم ہی میں نہ جائوں گا۔ تیرے در سے سواے خوشی اور اُمید کے کوئی اور چیز لے کر نہیں جائوں گا۔ تیرے جیسے کریم کی درگاہ سے کوئی نا اُمید نہیں گیا، میں کیوں نااُمید جائوں۔)

اسی لیے کہا گیا ہے، کہ:’’عرفات کے شریف میدان میں آکر یہ سمجھنا کہ حق تعالیٰ نے میری مغفرت نہیں کی، سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘                  ؎

رحمت اینجا کہ کند وسعتِ خودرا ظاہر
ہر کہ تقصیر نہ کرداست گنہ گار ترست!

(اس جگہ تیری رحمت اپنی پوری وسعت کے ساتھ جلوہ گر ہے، جو کوئی تقصیر نہ کرے وہ زیادہ گنہ گار ہے۔)

رمی جمار کے موقع پر احرام باندھتے وقت اپنے اس قول کو یاد کرتا ہے کہ:

’’لَبَّیْکَ لِحَجَّۃٍ حَقًّا تَعَبُّدً اوَّرِقًّا‘‘ (عن انسؓ، دارقطنی)میں حاضر ہوں حج کے واسطے حقیقت میں بندگی اور غلامی کی راہ سے۔

اور محض اپنی غلامی و بندگی کے اظہار کے لیے امر کی اطاعت کا قصد کرتا ہے اور محض تعمیل ارشاد و امتثال امر الٰہی کے لیے رمی کرتا ہے، جانتا ہے کہ اس فعل میں نہ تو نفس کو کوئی حظ ہے اور نہ عقل کو! اپنی عقل اور نفس کو حق تعالیٰ کے حکم پر قربان کرتا ہے، اور دیوانہ وار ’اقامت ذکر اللہ‘ کے لیے شیطان پر کنکر مارتا ہے اور زبان سے کہتا جاتا ہے:

اَللّٰہُ اَکْبَرُ عَلٰی طَاعَۃِ الرَّحْمٰنِ وَ رغم الشَّیْطَانِ تَصْدِیْقاً بِکِتَابِکَ وَ اِتّبَاعًا لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ

جب قربانی کرتا ہے تو جانتا ہے کہ حق تعالیٰ کے حکم پر وہ اپنی جان بھی، قربانی کے جانور کی طرح فدا کرنے کو تیار ہوگا بلکہ عاشق کی زندگی تو ہر’زماں مردنی‘ ہے، وہ اپنی جان کو ہر دم فدا کر ہی رہا ہے:

اے حیاتِ عاشقاں در مردگی
دل نیابی جز کہ در دل بردگی

مابہا و خوں بہارا یا فتیم
جانب جاں باختن بشتافتیم

(تیری محبت میں فنا ہونے والوں کو بھی زندگی ملتی ہے، دل دے دینے ہی میں حاصل ہو جاتا ہے محبت ہوتی ہے۔ ہم نے قیمت اور خون بہا حاصل کر لیا، ہم جان کی بازی لگا گئے اورچلے گئے)

عاشقاں راہر زمانے مرد نیست
مرونِ عشاق خودیک نوع نیست

اود و صد جاں دار داز نورِ ہدیٰ
واں دو صدرامی کند ہر دم فدا

ہر یکے جاں راستانددہ بہا
از بنی خواں عشرۃ امثالہا

(رومیؔ)

(عاشقوں کے لیے موت نہیں، عاشقوں کی موت کوئی ایک ہی نوع پر مشتمل نہیں ہوتی۔ وہ دو سو جانیں رکھتا ہے اور ہدایت کی روشنی بھی، وہ یہ دو سو جانیں بھی قربان کر دیتا ہے۔وہ ہر جان پر قیمت حاصل کرتا ہے جیسے کہ نبی نے فرمایا کہ مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا ط ( الانعام ۶:۱۶۰) ’’اور جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس لیے دس گنا اجر ہے۔‘‘)

غرض حج کے اعمال میں دل کا وظیفہ یہ ہے جس کا اجمالاً اوپر ذکر ہوا۔ قلب کی یاد کے ساتھ حج کے اعمال وہی ادا کرتا ہے جس کے دل پر حق تعالیٰ کی محبت و غلامی کا داغ ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس غلام کو خود بادشاہ خریدتا ہے اس کا مرتبہ سوا ہوتا ہے    ؎

داغِ غلامیت کرد پایۂ خسرو بلند
صدر ولایت شود بندہ کہ سلطاں خرید

(خسرو کا مرتبہ تیری غلامی کے باعث بڑھ گیا ہے ،جسے سلطان خریدے وہ مملکت کا صدر نشین ہوجاتا ہے۔) (الفرقان، لکھنو، حج نمبر، شوال ۱۳۷۰ھ)


 کتابچہ دستیاب ہے،منشورات، منصورہ لاہور۔ قیمت:۷ روپے، سیکڑہ پر خصوصی رعایت

ہمارے معاشرے میں ناخواندگی کے بادل چھٹتے جارہے ہیں، علم کا نور بہ تدریج پھیل رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ چھوٹی عمر سے بچوں کا تعلیمی ادارے سے تعلق ہے۔ اب تین سال کے بچے کو نرسری اور کے جی کی راہ دکھائی جانے لگی ہے۔ اس کے برعکس مساجد میں چھوٹے بچوں کے ساتھ رویّہ عام مسلمان اور علما سب کے لیے قابلِ غور ہے۔

رسول کریمؐ کی ہدایت کے تحت تلقین کی جاتی ہے کہ ’’سات سال کے بچے کو مسجد میں  نماز کے لیے لائو‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۱ سال کے بچے کو مسجد میں ضرور لایا جائے۔ اگر بچہ آنے میں پس و پیش کرے تو اس پر سختی کی جائے، اس میں مارپیٹ کی اجازت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو انگلی پکڑے مساجد کی طرف لے جایا کرتے تھے۔ یہ رواج نمازِ جمعہ اور عیدین میں خصوصیت کے ساتھ دیکھنے میں آتا رہا۔ عام نمازوں میں والدین بچوں کو لانے سے ہچکچاتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ نمازی بچوں کو مسجد میں لے آئیں تو انھیں بعض اوقات شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے۔ فرض نماز کی ادایگی کے فوری بعد ان بچوں کی سرزنش اور پھر بچوں کے والدین کی شناخت کے بعد ان کو بھی ایسی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو کیوں لائے؟

بچوں کو مسجد میں لانے اور ان کی شرارت کی بنا پر جس شرمندگی کا احساس والدین یا دیگر بزرگوں کو ہوتا ہے اس کی وجہ ہمیشہ خود بچے نہیں ہوتے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ بچے تو بڑے اہتمام کے ساتھ صف بناتے اور نماز کی ادایگی میں مصروف ہوتے ہیں مگر چند بچے اس موقع پر شرارت پر اُتر آتے ہیں۔ یوں دھکا دینے، کچھ پوچھنے یا مختلف اشارے کرنے کی بنا پر بچے ہنسنے یا دیگر مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے صف بنائے بڑی تنظیم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کوئی بڑا آیا اور اس نے بچوں کو سب سے پیچھے کی طرف دھکیل کر خود اس کی جگہ سنبھال لی۔ اس وجہ سے بھی وہ تمام اخلاقی تلقین اور تربیت کو فراموش کرکے شرارت پر اُتر آتے ہیں۔

مفتی عبدالرئوف سکھروی لکھتے ہیں:’’ بچوں کی صف کا مردوں کی صف کے پیچھے ہونا سنت ہے۔ لہٰذا جب جماعت کا وقت ہو اور بچے حاضر ہوں تو پہلے مرد اپنی صفیں بنائیں پھر ان کے بعد بچے اپنی صفیں بنائیں۔ پھر اس ترتیب سے جماعت قائم ہوجانے کے بعد اگر بعد میں کچھ مرد حاضر ہوں تو اوّل وہ مردوں کی صفوں کو مکمل کریں، اگر وہ پوری ہوچکی ہوں تو پھر بچوں کی صف ہی میں دائیں بائیں شامل ہوجائیں، بچوں کو پیچھے نہ ہٹائیں، کیونکہ بچے اپنے صحیح مقام پر کھڑے ہیں۔ مردوں اور بچوں کی مذکورہ ترتیب جماعت کے شروع میں ہے۔ نماز شروع ہوجانے کے بعد نہیں۔‘‘ (صف بندی کے آداب، مکتبہ الاسلام، کراچی، ص۳۱)۔مفتی عبدالرؤف بچوں کو مردوں کی صفوں کے درمیان شامل کرنے کی گنجایش بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’ اگر بچے تربیت یافتہ نہ ہوں اور دورانِ نماز شرارتیں کریں جس سے اپنی نماز کو باطل کرنے یا ان کے کسی طرزِعمل اور شرارت سے مردوں کی نماز باطل ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر ان کی علیحدہ صف نہ بنائی جائے، بلکہ ان کو منتشر اور متفرق طور پر مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ ان بچوں کو صف میں انتہائی بائیں جانب یا داہنی جانب متفرق طور پر کھڑا کیا جائے تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کرکے اپنی یا دوسروں کی نماز برباد کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔ ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہت نہ آئے گی۔‘‘(ایضاً، ص۳۲)

ہمارے معاشرے میں یہ رویہ فروغ پا رہا ہے کہ اکثر بڑے اپنے بچوں کو مسجد میں لانے سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کی شرارت کی وجہ سے خجالت اور شرمندگی کا سامنا نہ ہو۔ اس طرح بچوں کی تربیت نہیں ہوپارہی۔ ساتھ ہی مسجد میں بچوں کی عدم موجودگی بھی خصوصیت سے محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی کام کی عادت بچپن ہی سے پڑا کرتی ہے۔ اگر بچپن ہی سے بچوں کو مسجد میں لایا جائے گا تو بتدریج وہ نماز کی ادایگی سیکھ جائیںگے۔ گھر میں رہ کر ان کی تربیت ایک حد تک تو ہوسکتی ہے مگر آدابِ نماز مسجد آکر سیکھے جاسکیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے بچے یا چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لائیں اور ابتدائی طور پر اپنے برابر میں کھڑا کریں۔ ساتھ ہی اسے یہ احساس بھی دلائیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، یہاں شرارت کرنا بے ادبی اور گناہ ہے۔ اس طرح اُمید ہے کہ بچہ آپ کی قربت کے پیش نظر بھی خیال رکھے گا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور وہ شرارت سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ پھر بھی اس سے اگر کوئی لغزش ہوجائے تو اُسے سب کے سامنے ڈانٹنے اور بے عزت کرنے کے بجاے بڑے آرام اور تحمل سے سمجھائیں۔ اس طرح اس کی اصلاح بھی ہوگی اور اُسے حوصلہ بھی ملے گا، یوں وہ کامل مسلمان بن جائے گا۔

مسجد اور بچوں کا تعلق ہمیشہ سے ہے۔ خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں    حضرت امام حسنؓ و حسینؓ کو مسجد میں لاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ دیکھیے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے۔ اسی اثنا میں حسنؓ اور حسینؓ آئے، انھوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھیں اور وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے تو رسولؐ اللہ فرطِ محبت سے منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان دونوں کو اُٹھا لیا اور اپنے سامنے بٹھا دیا۔ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: تمھارے لیے مال اور اولاد فتنہ (آزمایش) ہیں۔ جب میں نے ان دونوں بچوں کوچلتے اور لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ مجھے اپنی بات ختم کرنا پڑی اور ان دونوں کو اُٹھا لیا۔(رحمت ہی رحمت، تالیف: شیخ عطاء اللہ بن عبدالغفار، ترجمہ: مولانا امیر الدین مہر، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی، ص۵۵)

دورانِ نماز بچوں کی موجودگی کے حوالے سے یہ روایت خصوصی اہمیت کی حامل ہے ۔ حضرت عبداللہ بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ظہر یا عصر میں سے کسی نماز کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپؐ حسنؓ یا حسینؓ کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ نے اس کو آگے کر کے بٹھا دیا اور نماز کے لیے تکبیر کہہ کر نماز شروع کی۔ پھر جب سجدہ کیا تو آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدے کو طویل کیا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر اُٹھاکر دیکھا تو رسولؐ اللہ سجدے کی حالت میں ہیں اور بچہ آپؐ کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر میں واپس سجدے میں چلا گیا۔ پھر جب رسولؐ اللہ نے نماز پوری کی تو لوگوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدہ اتنا طویل کیا ، یہاں تک کہ ہمیںگمان ہوا کہ کوئی معاملہ درپیش ہے یا پھر آپؐ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ان میں سے کوئی بات نہ تھی لیکن میرا بیٹا میرے اُوپر سوار تھا اور مجھے یہ بات ناپسند لگی کہ میں اس کے لیے عجلت کروں یہاں تک کہ وہ اپنی (کھیلنے کی) ضرورت پوری کرلے۔(ایضاً، ص ۵۸)

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ میں نے حسن بن علیؓ کو دیکھا کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے، جب کہ آپؐ سجدے میں ہوتے تو آپؐ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے۔ آپؐ انھیں اُتارتے نہیں تھے، جب تک وہ خود نہیں اُتر جاتے، اور وہ آتے اور آپؐ رکوع کررہے ہوتے تو اپنے دونوںپیروں کو پھیلا دیتے اور وہ دوسری طرف نکل جاتے۔(ایضاً، ص ۵۹)

کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جس کے ذریعے یہ ثابت ہوکہ نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسنؓ و حسینؓ کے اوقاتِ نماز میں مسجد آنے پر ناراض ہوئے ہوں اور اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ زہراؓ سے کبھی یہ کہا ہو کہ بچے مسجد میں نماز کے دوران کیوں جاتے ہیں یا روکنے کی ہدایت کی ہو۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا جو زمانہ پایا، اس میں ان کی عمریں محض چند سال تھیں۔

بچوں کے حوالے سے مختصر نماز پڑھنے کا بھی حکم ہے تاکہ بچوں کے رونے سے ان کی ماں یا دیگر نمازیوں کا دھیان بٹنے کا امکان کم رہے۔ حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز طویل کروں۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز اس ڈر سے مختصر کرتا ہوں کہ اس کی ماں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بن جائے۔

خانۂ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں بچوں کو ساتھ لانے کا عام رواج ہے۔ تقریباً تمام ہی نمازوں میں ناسمجھ اور سمجھ دار ہردو قسم کے بچے ہوتے ہیں اور ان مقاماتِ مقدسہ پر کثیرتعداد کے پیش نظر یہ اہتمام بھی نہیں ہوپاتا کہ مردوں کی صفوں کے بعد بچوں کی صف بنائی جائے، بلکہ بچوں کو اپنے ساتھ کھڑا رکھنے کا رواج ہے۔ خود میں نے دیکھا کہ مغرب کی نماز کے دوران بیت اللہ اور پہلی صف کے درمیان بچے بھاگتے دوڑتے رہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ نماز کے بعد ان بچوں کو بُری طرح ڈانٹا یا پیٹا جائے گا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نماز کے بعد بچوں کو ان کے والدین نے بڑے پیار سے چوما اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اسی طرح مسجد نبویؐ میں بھی ہوا اور جب میرے خدشے کے پیشِ نظر بچوں کی سرزنش نہ ہوئی تو میں نے مدینہ میں مقیم اپنے ایک عزیز سے استفسار کیا کہ ہمارے یہاں تو والدین خود اور دیگر نمازی بچوں پر برس پڑتے ہیں۔ مگر یہاں بچوں کو ڈانٹنا تو کجا، انھیں پیار کرنے اور چومنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ بولے: اچھا ہوا تم نے اس پورے معاملے کو خاموشی سے دیکھا۔ اگر کہیں غلطی سے بچوں کو ڈانٹ دیتے یا ان کے والدین سے شکایت کرتے تو لوگ تم پر برس پڑتے۔ کیونکہ یہ عام خیال ہے کہ مسجد نبویؐ پر بچوں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ اگر وہ نادانی میں بھاگیں دوڑیں، شرارت کریں یا نمازیوں کی پیٹھ پر چڑھ جائیں تو کوئی حرج اور کراہیت کی بات نہیں۔ کیونکہ حضرت امام حسنؓ و حسینؓ بھی مسجد میں بھاگتے دوڑتے آتے اور منبر تک چلے جاتے تھے۔

ہمارے معاشرے میں بچوں اور مسجد کے تعلق کے درمیان ایک خلیج حائل کردی گئی ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کو ساتھ لے آئے اور برابر میں کھڑا کرے تو دوسرے اعتراض کرتے ہیں۔ اگر بچے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تو دورانِ نماز چند بچوں کی شرارت پر سب بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کی حمایت کرے تو اُسے بھی آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بچے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں۔ یوں مساجد بچوں سے غیرآباد ہوتی جارہی ہیں۔

اب ذرا اپنے گردوپیش پر نظر کیجیے۔ ہماری اکثر مساجد کے گرد دکانیں ہوتی ہیں۔ ایک اسلامی معاشرہ ہونے کے باوجود دکان دار اور قریبی مکین مسجد کے تقدس سے ناآشنا ہیں۔ موسیقی، گانے اور اشیاے ضروریہ بیچنے والوں کی صدائیں، ان سب سے بڑھ کر قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کا شور اور بلاوجہ ہارن کا استعمال___ ان مواقع پر مسجد میں موجود نمازی کیا کرتے ہیں؟ محض ان اُمور کو نظرانداز کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ دکان دار یا صاحب ِ مکاں کو کچھ کہہ سکے۔ ہاں، اگر غصہ آتا ہے تو ان معصوم بچوں پر جو اپنے والدین کے ہمراہ خوشی خوشی مسجد میں آتے ہیں اور ابھی آدابِ نماز اور احترامِ مسجد سے واقف نہیں۔ اس لیے دورانِ نماز بچے گلیوں میں کھیلنے یا گھروں میں ٹی وی دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ عمل اسلامی معاشرے کی تیاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ آیئے! غور کریں ہم کس طرح بچوں کو مسجد میں لاکر ان کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔


مرزا محمد الیاس نے ارقم آفاق پرنٹر، بلال گنج سے چھپوا کر اچھرہ، لاہور سے شائع کیا۔

اولاد ماں باپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس لطیف، خوب صورت، زند گی سے بھرپور اور معصوم نعمت کے حصو ل کے لیے پیغمبروں نے بھی اپنی اپنی التجا اللہ رب العزت کے سا منے دعا کی صورت میں رکھی۔ حضرت زکریا ؑ نے صالح اولاد کے لیے دعا فر ما ئی جو سورئہ آل عمران میں اس طرح مو جو د ہے: رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ   (اٰل عمران ۳:۳۸)،’’اے میر ے ر ب ! مجھے اپنے پا س سے پا کیز ہ اولا د عطا فر مابے شک تو دعا سننے والا ہے‘‘۔  حضرت ابراہیم ؑ نے ان الفاظ میں اپنے رب کو پکارا: رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo (الصافات۳۷:۱۰۰)،’’اے میرے رب مجھے ایک صالح(لڑکا )عطا فرما‘‘۔  حضرت ابراہیم ؑ کی یہ دعا ایک پاک باز ، نیک و صالح اور امام امت کے لیے دعا تھی۔ حضرت اسماعیل ؑ کی فرماںبرداری ، اللہ کی اطاعت اور قربانی کا جذبہ ایک ایسا نشان راہ ہے جو اُمت ِمسلمہ کے لیے اپنی اولادوںکی تربیت کے لیے مثالی نمونہ ہے۔

تربیت کی اسلامی بنیادیں

بچوں کی تربیت کا کا م والدین کی اصل ذمہ داری ہے۔ قرآن میں ارشا د ہے کہ: یایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم۶۶:۶)، ’’اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے‘‘۔ بچوں سے متعلق منصوبے بنا نا اور ان کے مستقبل کے لیے تگ و دو کرنا ایک فطر ی عمل ہے۔  ہر ما ں با پ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کامیابی و کامرانی کے ساتھ نمایاںمقا م حاصل کر یں۔ تاہم، صرف دنیاوی کا میابی کا تصور اس کوشش ، جدوجہد اور ساری مساعی کو صرف اس فانی دنیا تک محدود کر دیتا ہے، جب کہ دنیا کی کامیابی وکامرانی بھی غیر یقینی ہوتی ہے۔ مو من کی اپنی ذات کا ایک ایک لمحہ اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لیے وقف ہوتا ہے۔  اسی طرح اس کے اولا د سے متعلق منصوبے اور خواہشات بھی اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ دنیا کی محدود کامیابی کے بر عکس اللہ تعالیٰ اپنے بند و ں کو جہا ں کامیابی کا ایک وسیع تصور دیتا ہے، وہاں کامیابی کے ہمیشگی کے تصور کو سمجھنے کے لیے ایک خاص ذہنی بلوغت کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس کا تعلق ایمان کی دولت اور خوف خدا رکھنے والے سے دل ہے۔ کامیا بی کا یہ تصور جو قرآ ن میں جا بجا موجود ہے تربیت اولا دکا ایک اہم جزو ہے۔ عصر حاضر میں جب طاغوتی قوتوں کی سربراہی میں ہر طرف امت مسلمہ کے لیے فتنہ و فساد برپا کررکھا ہے وہاں نسلِ نو کی اسلا می نہج پر تربیت ایک ایسی اہم ذمہ داری ہے جس کا احساس ہنگامی بنیادوں پر کرنا ضروری ہے۔ اسلامی تاریخ ہما رے سامنے  حضرت علی ؓ ، معا ذ ؓ و معوذؓ ، معصب بن عمیر ؓ جیسے نوعمر صحابہ کرام ؓکی مثالیں رکھتی ہے۔  دوسری طرف بہادر، جری نوعمر محمد بن قاسم جیسا سپہ سالار بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے جو اپنی نوجو انی کے دور میں ہی اسلامی تاریخ میں اَنمٹ نقوش چھوڑگئے۔ آج اس عمر کو کھیل کود کے دن کہہ کر ضائع کرنے کی ترغیب دی جا تی ہے اور یو ں امت مسلمہ کا ایک گراں قدر سرمایہ اس مادی دنیا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جس کا حاصل سوائے خسارے کے کچھ نہیں ہے۔

ابتدائی عمر اور بچے کی تربیت

بد قسمتی سے جس قدر ابتدائی عمر کو تربیتی حوالے سے اہمیت حاصل ہے اسی قدر اس عمر کو نظرانداز کیا جا تا ہے۔  جدید تحقیق کے مطابق بچوں کی شخصیت کی تعمیر کا ۸۰ فی صد ابتدائی چھے سال کی عمر میں مکمل ہوجاتا ہے۔  باقی پوری زندگی اسی چھے سالہ تربیت کے محاسن کا عکس ہوتی ہے۔ اس عمر میں مزاج ، عادتیں اور ذوق و شوق کو جس طرف لے جایا جائے گا اسی طرف بچے کا رحجان ہوجاتاہے۔ اس عمر میں عادت بنانا آسان بھی ہے اور ضروری بھی۔ اسلام اصلاح کا جو فطری طریقہ بتاتا ہے وہ بھی عادت پر ہی منحصر ہے۔ اسلا م میں چھوٹے بچوں کی تربیت کے لیے تلقین کے ساتھ ساتھ عادت ڈالوانے کا فطری طریقہ اختیار کرنے کو کہا گیا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے کی سیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ امام غزالی کے مطابق اس عمر کا بچہ ایک پاک و نفیس موتی کی مانند ہوتا ہے، لہٰذا اسے خیر کا عادی بنایا جائے تو وہ اسی میں نشوونما پائے گا۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً سلیم الطبع اور توحید پر پید ا ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ کی اس فطر ت کا اتبا ع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہو ئی فطرت میں تبدیلی نہیں (الروم ۳۰:۳۰)۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پید ا ہوتا ہے بھر اس کے والدین یا اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں (مسلم)۔  گویا ماحول بچے کی پاکیزہ فطرت کو پراگندہ کرتا ہے، لہٰذا بچے کے لیے اردگرد کے افراد اور ماحول دونوںکا اسلامی حوالوں سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ شخصیت پر موروثی اثرات سے زیادہ ماحول کی تربیت کا اثر پڑتا ہے۔ کہا جا تا ہے عادتیں صرف ۳۰ فی صد مورثی اور باقی ۷۰ فی صد ماحول سے بنتی ہیں۔

بچے کی تربیت کا پہلو یو ں تو بہت ہمہ گیر اور وسیع ہے لیکن اس کا اہم جز تصورِ حیا ہے۔   اس مضمون میں اسی پہلو کی طرف والدین اور مربی کی توجہ مبذول کروانا مقصود ہے تاکہ اسلامی معاشرے کی کمزور ہوتی اقدار کی طرف ہماری توجہ ہو۔

تصورِ حیا

اسلام میں تصورِ حیا شخصیت کا ایک اہم جز ہے اور بنیادی اخلاقی صفت ہے۔ ارشاد رسولؐ پاک ہے کہ: ’’ہردین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور ہمارے دین کا ممتاز اخلاق شرم کرناہے۔  بچے کی اخلاقی تربیت کا ایک اہم عنصر تصورِ حیا ہے۔ معاشرے کی مضبوطی ایسے اخلاق و کردار کے لوگوں سے وابستہ ہے جن کا کردار شرم وحیا کا پیکر ہو۔ جب پورا معاشرہ بے حیائی اور فحش مناظر سے بھرا پڑا ہو، چاروں طرف بے ہودہ ہورڈنگز، فحش رسالوں، اخبارات ، پوسٹروں کی بھرمار ہو اور سٹرکوں، گھروں، مجالس اور محافل پر شیطانیت کی یلغار ہو، لوگوں کی گفتگو حتیٰ کہ موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات تک بھی فحش گوئی کے چنگل میں گرفتار ہوں___ ایسے میں بچوں میں تصورِ حیا پیدا کرنا اور ابتدا ہی سے بچوں کے مزاج کا حصہ بنا دینا والدین و مربی کا اہم فرض ہے۔ حیا کے تصور کو مزاج کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ’احتیاطی تدابیرـ‘ اور پرہیزگاری کا اصول اپنایا جائے تاکہ بے حیائی کے قریب پائی جانے والی چیزوں سے بھی بچاجاسکے۔  بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے حیا کا احساس دیں۔

گفتگو میں حیا

بچہ جب پیا ر ے اور اچھے الفاظ بولتا ہے تو کتنا پیا را لگتا ہے۔ اگر اسے صا ف ستھرے اور بھلے الفا ظ سکھا ئے جائیںتو کتنا بھلا معلوم ہوگا۔ لیکن یہی ننھی ننھی زبانیں گالم گلوچ، بے ہودہ گانے ، ٹی وی اور فلموں کے لچر مکالموں کو ادا کرنے لگیں تو سماعت پر انتہائی گراں گزرتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ الفاظ جو معصومیت اور نا سمجھی میں ادا ہوتے ہیں بچوں کی گفتگو کا حصہ بن جا تے ہیں، اور ان کو ایسی بے ہودہ گفتگو میں لطف آنے لگتا ہے۔ عام طو ر پر نومولود بچوں سے پانچ سال تک کے بچوں کے بارے میں یہ سوچ کر کہ یہ بچے ناسمجھ ہیں ہر طرح کی بات، فحش گوئی ، لچر مذاق، اور دوسری بداخلاقیاں بغیر کسی شرم و حیا کے کرنا عار نہیں سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ تما م باتیں ننھے سے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یوں تصورِ حیا پر جو کاری ضرب پڑ تی ہے وہ ابتدا ہی سے بچے کو بے حیائی کی ترغیب دے کر بے باک بننے پر اُکساتی ہے۔

زبان کو پاکیزہ رکھنے کے لیے غیر اخلاقی گفتگو، ناشائستہ الفاظ، گالی گلوچ، غیبت و جھوٹ سے بچنا بہت اہم ہے۔  حدیث ہے کہ ’’انسان کوئی بات کرتا ہے اور اسے اتنا معمولی سمجھتا ہے کہ اسے کہنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا مگر درحقیقت وہ بد ی ہوتی ہے ، جس کے بدلے وہ ۷۰برس کی راہ تک آگ میں گر جائے گا۔ (ترمذی)۔  فضول گوئی کے علاوہ بچوں کو زبان کی آلودگی سے بچانا ہی دراصل زبان کو پاکیزہ بنانا ہے۔ زبان زدعام الفاظ  بچہ سیکھتا ہی اپنے ماحول سے ہے۔  گھر کے بڑوں کی زبانوں پر بداخلاقی ، بے ہودگی اور فحش گوئی بچے کو اس گندگی سے بے نیاز کردے گی۔  یوں بچہ ایسی ہی زبان کا عادی ہو جائے گا۔

شعور کی عمر آنے پر لڑ کے اور لڑکیوں کو یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ خواتین مردوں سے اور مرد خواتین سے میٹھے ، پیارے ، لوچ دار لہجے میں بات نہ کریں۔ جب بچے اپنے ماں ، باپ، یا دیگر رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں کہ خواہ مخواہ ہی امی کی آواز بازار میں دکان داروں کے ساتھ انتہائی مٹھاس والی ہوجا تی ہے یا ابوجان ضرورتاً بھی کسی خاتون سے بات کرتے وقت بناوٹی تمیز اور شائستگی کی مٹھاس گھول لیتے ہیں، تو نوعمر ذہن اس تبدیلیِ لہجہ اور الفاظ کو اپنا کر دوسروں کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق کا حصہ بھی سمجھتا ہے۔ اسی لیے جب کبھی کو ئی ایسا موقع آئے جہاں بچوں  کے ساتھ کسی بھی قسم کی خریداری یا کسی مرد و عورت ملازمہ سے بات کا مظاہر ہ کرنا ہو تو بالخصوص اس بات کی تا کید کردی جائے کہ دکان دار کو اپنے مطلب کی چیز نکلوانے کے لیے اٹھلانا اور لاڈ دکھانا کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔  ڈرائیور، ملازم، دکان دار، اساتذہ سے بات کرنے کا شائستہ طریقہ سکھانا اور مناسب لہجہ جس سے کسی بھی قسم کی دلی بیماری اور بدنیتی کا شائبہ نہ رہے ، حیا کا   اہم جز ہے جس کی تاکید قرآن میں سورۂ احزاب میں کی گئی ہے: ’’اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘ (۳۳:۳۲)۔ بلوغت کے بعد اس قرآنی آیت پر عمل کرنا اسی وقت آسان ہو گا جب بچپن سے اس کی عاد ت ہوگی۔ اسی لیے ایسی گفتگو جو ایمانی حالت کو تباہ کرنے کا باعث بنے اور شیطانی اثرات رکھتی ہو اس سے بچنا اور بچانا ایک مسلسل تربیت کا تقاضا کرتا ہے۔

لباس میں حیا

لباس اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے  اور حیا کے مظاہر میں سے ایک مظاہرہ لباس سے بھی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چھوٹے بچوں کے ساتھ عام طور پر بے حد لاپروائی اختیار کی جاتی ہے۔  بچوں کے کپڑے تبدیل کرنا، نہلانا، ڈایپر بد لنا جیسے تمام کام بعض اوقات لوگوں کی موجودگی میں کیے جاتے ہیں جس میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی موجودگی بھی نظرانداز کر دی جاتی ہے۔  بعض گھرانوں میں بچوں کو کپڑوں سے بے نیاز کرکے آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے۔  اسی طرح چھوٹے بچوں کو مکمل برہنہ کرکے ایک ساتھ غسل کرنے کو بھی عار نہیں سمجھاجاتا ہے۔  بچیوں کو بچپن میں بغیر آستین اور کھلے گلے کی فراک و قمیص یا ٹانگیں کھلی رکھنے کو ایک عام فعل خیال کیا جاتا ہے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ: چار سال سے کم عمر کا بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کا جسم ستر کے حکم میں نہیں۔  پھر جب وہ چار سال سے زیادہ کا ہو جائے تو اس کامستور جسم شرم گاہ اور اس کے اطراف ہیں، بالغ ہونے پر ستر بالغ افراد کی طرح ہوگا۔  تاہم، بچے کو بچپن ہی سے پردے کا جتنا عادی بنایا جائے اتنا ہی اچھا ہے (اسلام اور تربیت اولاد ، شیخ عبداللہ ناصح علوان، ص۷۱۵)۔  لہٰذا کپڑے تبدیل کرتے وقت ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ بعدازاں جب بچے اپنا لباس خود تبدیل کرنے کے عادی ہو جائیں تو ان کو بھی یہی ہدایت کرنی چائیے۔   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ستر دکھانے والے اور یکھنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے دُور رکھیں‘‘( شعب الایمان ۶؍۲۶۱ سنن بیہقی ۸؍۹۹)

اگر ابتدا ہی سے بچوں کو اپنے جسم کو چھپانے اور اس کی حفاظت کرنے کی عادت نہیں ڈالوئی جاتی تو بچے بچپن ہی سے بے حیا اور بد نگاہ ہو جاتے ہیں۔ جن بچوں کو ہم اپنے شوق پورے کرنے کے لیے مغربی طر ز کے ایسے لباس پہناتے ہیں جن میں ابتدا ء ہی سے ایک معصوم بچے کا تاثرہونے کے بجا ئے حیا باختہ لڑکی یا لڑکے کا تصور پنہا ں ہوتا ہے وہ دیکھنے والوں کو بھی اس معصوم کے اندر بچوں والی معصومیت کے بجاے لڑکا یا لڑکی تلا ش کرنے کا موقع دیتا ہے۔ آئے دن اخبارات میں دل دہلا دینے والی خبریں آتی ہیں کہ درندہ صفت لوگ چھوٹی بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ حیا کی پرورش اسی وقت ہی ممکن ہے جب اس کو بچے کے ننھے سے دل میں پروان چڑھنے کا موقع دیا جا ئے۔ فطری حیا کو ختم کرنے کے بجاے اس کو ابھارا جائے تاکہ حیا بچے کی شخصیت کا لازمی جز بن جائے۔ لہٰذا بچوں میں ایسے مردوخواتین جن کے لباس حیا سے عاری ہوں دیکھنے پر، اس لباس سے نفرت اور نا پسندید گی کاجذبہ بیدار کیا جائے۔ ایسی گڑیاں (خصوصاً باربی) جن کے لباس اسلامی لباس کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتے، نہ دلائی جائیں، اور بچوں کو اس کی وجہ بھی بیان کی جا ئے کہ اس کا لباس اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں ہے۔

روزمرہ زندگی میں حیا

حاکم اور ابوداود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تمھارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز کا حکم دو،اور جب ۱۰ سال کے ہوجائیں تو ان کو مارو، اور ان کے بستر علیحدہ علیحد ہ کردو۔ اس نص سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین شرعاً اس بات پر مامور ہیں کہ بچے جب ۱۰سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کر دیے جائیں تاکہ ایک ساتھ لیٹنے کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر کبھی شیطان غالب آجائے اور ان کے جذبات کو شیطانی رنگ دے دے۔ اسی طرح خلوت کا ماحول فراہم کرنا جس میں کزن آپس میں بے تکلفانہ ماحول میں موجود ہوں ، یا ایسے انداز و اطوار کا خیال نہ کرنا جس میں نامحرم رشتہ دار بچوں سے زیادہ بے تکلف نہ ہوں ، مستقبل کے مفاسد کا راستہ آسان کرتا ہے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے کا  اصول اپنایا جائے تو ابتدا ہی سے ایک ایسا مزاج ڈھالا جا سکتا ہے جو اسلامی حدود کی پابندی کرنے والا ہوگا۔ ورنہ ایک خاص عمر میں پہنچ کر زور زبردستی کرنے سے بچے میں بغاوت، چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو قیدی تصور کرتا ہے۔

بے حیائی کے محرکات

بچے کی نیک صالح تربیت کے لیے اسلام ان تمام محرکات کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو جذبات کو مشتعل کرنے اور نفس کو غالب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

  •  ٹیلی وژن:بے حیائی کا ایک بڑا محرک ٹیلی وژن ہے۔ مادیت پرستی ، نفسانیت، اور بے مقصد زندگی کی طرف مائل کرنے والا یہ ایک اہم ذریعہ جس کے ابتدائی عمر سے ایسے زہریلے اثرات ہوتے ہیں کہ وہ پوری زندگی کا احاطہ کرلیتے ہیں۔ ٹی وی میں عورت کا تقد س پامال کرنے، اس کو جنس بازار بنا کر پیش کرنے سے مرد کے ذہن میں عورت لطف اندوز ہونے کی اور عورت کے ذہن میں اپنے آپ کو سجابنا کر پیش کرنے کی چیز کا تصور راسخ ہوجاتا ہے۔ بچے کا ذہن ابتدائی عمر سے ہی ٹی وی کی سحرانگیزیوں میں اس طرح جکڑ گیا ہوتا ہے کہ اس کے لیے زندگی کا مثالی نمونہ صرف اور صرف ٹی وی میں دکھائی جانے والی زندگی ہوتی ہے۔ گانے بجانے سے رغبت، بے حیائی کے مناظر سے لطف لینا، فحش مذاق شخصیت کا حصہ بننے لگتا ہے اور سنجید گی، متانت ، غور و فکر جیسی عادتیں کبھی پروان نہیں چڑھتی ہیں۔ غوروفکر اور تدبر سے خالی اذہان کس طرح اپنے رب کی کبریائی بیان کر سکتے ہیں ؟ اسی وجہ سے ایسے بچوں کے لیے اسلام ہمیشہ ان کا احساس کمتری بنا رہتا ہے۔

کارٹونز کے نام پر عجیب الخلقت کرداروں سے مانوس کروانا ، ان کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا اور پھر غیر معمولی طاقت کا مالک دکھانا بچے کے ذہن کو اللہ کی طاقت اور واحدانیت کے تصورسے خالی کر دیتا ہے۔ بچے کی نظر میں جب کارٹونز کے یہ مناظر گزرتے ہیں کہ ایک ہیرو بے پنا ہ طاقت کا مالک ہے ، ناقابل شکست ہے ، اس کو موت نہیں آتی ہے ، تو اس کے ذہن میں کیا تصویر بنے گی، اس کا اندازہ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں۔ بچپن ہی سے روپے پیسوں کا لالچ اور مادیت پرستی کا تصور دے کر ایسے شیطانی ذہن تیار کرنا جو بعد میں دجالی قوتوں کے ہی زیر اثر رہیں آج کے میڈیا کا کام ہے۔ فلم ، سنیما، سب اسی کی شاخیں ہیں، تاہم ٹی وی کی رسائی آج ہر گھر میں ہو چکی ہے اور اس کے زہر سے کوئی محفوظ نہیں، لہٰذا اس کی ہولناکی سے واقفیت خاص طور پر ضروری ہے۔ ٹی وی اسکرین کے سامنے وقت گزرنے کا ایمانی نقصان تو یہ ہے ہی کہ پوری شخصیت کی تعمیر اسی نہج پر ہوجاتی ہے جیسا شیطانی قوتوں کا مقصد ہے۔ تاہم، اس کے ضمنی اثرات میں بچے کے ذہن کا یکسوئی سے محروم ہوجانا، تعلیمی سرگرمیوں سے بددل رہنا اوردور بھاگنا، مطالعے کے شوق و ذوق کا پیدا نہ ہونا، ہروقت غیر سنجیدہ رہنا، اور hyperactivity بھی شامل ہیں۔

  •  انٹرنیٹ: انٹرنیٹ دور حاضر کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تعلیمی اور تحقیقی کاموں کے لیے اس کا استعمال ناگزیر ہوچکاہے، تاہم یہ ایجاد نوجوانوں کے طبقے میں بے حیائی اور فحاشی کا ذریعہ بھی ہے۔ عام طور پر گھروں میں ٹی وی تو کسی نمایا ں اور کھلے مقام پر رکھا ہوتاہے لیکن کمپیوٹر ہمیشہ گھر کے کسی کونے کھدرے اور خلوت کے ماحول میں رکھا جا تا ہے۔ یہ خلوت دراصل شیطان کا ہتھیار ثابت ہوتی ہے۔ کو شش کریں کہ کمپیوٹر گھر کے نمایا ں مقام پر رکھیں جہا ں ہمہ وقت کسی نہ کسی کی آمدورفت ہوتی رہے۔ بچوں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کریں اور ان سے کمپیوٹر و انٹرنیٹ پر کی جانی والی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کے ذریعے ایک دوسر ے کو آگاہ کریں۔ انٹرنیٹ کے اوقات کار کو متعین کریں ، ساتھ ہی ساتھ اس کے استعمال کو کسی اچھی کتاب کے مطالعے کی شرط سے بھی منسلک کر دیں تاکہ مطالعے کی عادت بہرصورت برقرار رہے۔ انٹرنیت و کمپیوٹر کی سرگرمیوں میں والدین جاسوس بننے کے بجاے دوست بن کر بچوں پر نگا ہ رکھیں، تاہم جن امور پر سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہو وہاں بے جا نرمی معاملے کو بگاڑ دے گی، اس کا فوری حل بھی کیاجا ئے اور تو جہ بھی د ی جائے۔ کمپیوٹر کے کاموں سے اتنی واقفیت ضرور حا صل کر لی جائے کہ بچے آپ کو اس سے نابلد نہ سمجھیں۔ مغربی معاشرے کا ایک تصور پرائیوسی کا بھی ہے ، بچوں کو اس تصور سے بچائیں، کیونکہ یہی گناہوں کی جڑ ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ دونوں وہ زہریلے ہتھیار ہیں جن کو پرائیوسی کے نقطۂ نظر سے استعمال کرکے   ’جو جی چاہے کرتے پھرو‘ کا اصول اپنایا جا تاہے۔ اس سلسلے میں ان دونوں اشیا کا انتہائی ضرورت کے تحت استعمال محدود کیا جائے اور خود بھی اس کو تفریح کا ذریعہ بنا نے سے اجتنا ب کیا جائے۔
  •  مخلوط محافل: مخلوط محفل سے مراد ایسی تقاریب یا مہمان داریاں ہیں جہاں   مرد و عورت ایک ہی نشست میں گفت و شنید کرتے ہوں، اور ان میں آپس میں بے تکلفی اور    بے پردگی کا عام مظاہرہ ہو۔ ایسی محفل بچے کو ابتدا ہی سے بے حیا بنانے میں مدد دیتی ہے۔ خاندان کے جن افراد سے پردے کا حکم قرآن و حدیث کی رو سے موجود ہے اس کا بھرپور اہتمام کرنا، محرم، نامحرم کی حدود کا قائم کرنا اورمیل ملاقات میں پردے کے اصولوں و ضوابط کا احترام کرنا ضروری ہے۔ کزنز کے نام پر بچوں کو بہن، بھائی بتا کر اس حد تک بے تکلف کردیا جا تا ہے کہ ساری   اسلامی حدود پامال ہوتی ہیں۔ ایسے میں بچوں کو اسلامی اخلاقی حدود کا پاپند کرنا اور ان کو پردے کی اہمیت ، غرض و غایت اور اس کے معاشرتی فوائد سے عقلی طور پر بھی قائل کرنا ضروری ہے تاکہ حجاب و ستر کے ایمانی تقاضے پورے ہوسکیں۔
  •  موسیقی و فحش رسائل سے اجتناب: مطالعے کا شوق ذہنی نشوونما ، سنجیدگی ، فکروتدبر کی گہرائی کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اس شوق کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو ان کی ذہنی سطح کے لحاظ سے کتابیں اور رسائل کا مطالعہ کرنے کو کہا جائے۔ مطالعہ کی عادت ہوجانے کے بعد بچوں کو مطالعے کا ذوق پیدا کرنے کے لیے تربیت دی جائے اور مفید، بامقصد کتابوں کا انتخاب کرنے کو کہا جائے تاکہ مطالعے کا مقصدحاصل ہو سکے اور یہ صرف ایک ذہنی لذت نہ بن جائے۔ اکثر بچوں میں یہ رحجان پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ بغیر کسی رہنما ئی کے مطالعے کا شو ق اختیار تو کر لیتے ہیں، تاہم بعد ازاں یہ شوق انتہائی گھٹیا ذوق کے مظاہر میں تبدیل ہو جا تا ہے۔ فحش ر سائل ، بے مقصد کتابیں اور لایعنی قصے کہانیاں جن میں اخلاق سوز باتیں بھری ہوتی ہیں، ان سے ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہوتا ہے اور ساری شخصیت اسی گندگی کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔  یہ حقیقت ہے کہ دیکھی جانے والی چیز سے زیادہ اثرانگیز پڑھی جا نے والی چیز ہوتی ہے یوں خیالات، تصورات اور گفتگو میں ایسی ہی شیطانیت کا اثر نمایا ں نظر آتا ہے جو کہ ان کتابوں کا مقصد ہوتا ہے۔ لہٰذا بچوں کو مفید کتابوں کی طرف مائل کرنا والدین کا کا م ہے۔
  •  اچہی صحبت: اچھے دوستو ں کا انتخاب کرنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا اپنے آپ کو درست رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دوستوں کا اثر انسان کی شخصیت پر ضرور پڑتا ہے۔ اسی لیے حدیث میں دوستوں کا انتخاب کرنے کے سلسلے میں بھی ہدایات ہیں کہ ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ‘‘۔ اچھی صحبت کی اجتماعیت ہی وہ بنیا د ہے جس کو اختیار کرنے کی دین اسلام نے تاکید کی ہے۔ بچوں کو اچھے دوست بنانے کی ترغیب دیں ان کے سامنے اچھے دوست کون سے ہوتے ہیں ، ان کا کردار کیسا ہونا چاہیئے اور وہ کیا کرتے ہیں کی تفصیل بتائیں تاکہ وہ اپنی پسند کو اسلامی معیار کے مطا بق بنائیں اور جو دوست بن چکے ہیں ان کا جائز ہ بھی لیں۔ والدین اس ضمن میں بچوں کے دوستو ں سے میل ملاقات ،ان کے گھروں میں آنا جانا ضرور رکھیں تاکہ دوستوں کے گھر کے ماحول اور ان کی عادت و خصلت سے واقفیت رہے۔ دوستوں کو اپنے گھر میں بھی جمع ہو نے کا مو قع دیں اور ان سے دوستا نہ رویہ اپنا ئیں تاکہ دوستوں کی اخلاقی حالت بھی درست ر ہے اور آپ کے بچے کا بھی بھلا ہو۔ بہتر یہ ہے کہ بچوں کی کسی ایسی اجتماعیت سے منسلک کیا جائے جو کہ ابتدا ہی سے صحت مندانہ سرگرمیوںکے ذریعے بچوں کے اخلاق و کردار کو بھی سنوارنے کا کا م کرتی ہو۔ فارغ اوقات کو اپنی قیمتی متا ع جا نتے ہوئے اگر والدین خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اس کا مفید استعمال سکھائیں تو امت مسلمہ کا یہ گراں قدر سرمایہ باطل کے رنگ میں رنگنے سے بچ جائے گا۔
  •  مفید مشغلے اور دل چسپ سرگرمیاں:کہتے ہیں کہ فارغ دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ جب کرنے کو کو ئی مفید کام نہ ہو تو انسان اپنی توانائیاں بے کار کاموں میں صرف کرکے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتا ہے۔ بچوں کو فارغ اوقات میں دل چسپ اور مفید سرگرمیوں کی طرف مائل کریں اور سہولیات فراہم کریں۔ باغبانی، کہانی لکھنا ، مختلف مقامات کی تصاویر جمع کرکے البم تیا ر کرنا،اہم تاریخوں کے اخبارات کا ریکارڈ جمع کرنا، کسی خاص موضوع پر تحریریں جمع کرنا، پینٹنگ کرنا، ٹکٹ جمع کرنا ، بیت بازی کا مقابلہ کرنا، تقریریں کرنا، بچوں کا مشاعرہ منعقد کرنا، احادیث اور آیات سنانا، کہانی سنا نے کا مقابلہ کروانا ، صاف ستھرے لطیفے سنانا مفید مشغلے ہیں۔ لڑکیوں کو مختلف ہنر جس میں سلا ئی کڑھائی ، بنائی وغیرہ سکھانا تاکہ وہ ان کی اگلی زندگی میں بھی کام آئے۔ غرض یہ کہ بچوں کو بہت سی ایسی سرگرمیوں کے ذریعے وقت کا استعمال سکھایاجا سکتا ہے کہ جس سے وہ ٹی وی ، کارٹون اور فلموں سے دور رہیں۔ اس طرح بچوں کی ذہنی نشوونما بھی ہوتی ہے اور ان کا ذوق بھی نکھرتا ہے۔ جسمانی سرگرمیوں کا انتخاب بھی اسی لحا ظ سے موسم ، جگہ اور جنس کو دیکھتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔ لڑ کوں کو خاص طو ر پر کراٹے ، تیراکی ، گھڑ سواری کے مواقع ضرور دیے جائیں۔
  •  بچوں سے حقیقی تعلق: مندرجہ بالا امور ایسے ہیں کہ اگر وہ اختیار کر لیے جائیں تو بھی اگر والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ ربط دوستا نہ نہیں ہے تو یہ ساری کوششیں رائیگا ں چلی جائیں گی۔ والدین کی کو شش یہ ہوتی ہے کہ تربیت کے سارے کام کو ئی دوسرا سرانجام دے اور وہ بالکل فارغ ہو جائیں۔ ایسے میں اگر بچہ اللہ کی رحمت سے نیک و صالح ہوگیا تو اس کو تمغہ بھی والدین کے سینے پر ہی سج جاتا ہے، اور بدقسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہوگیا تو روتے رہتے ہیں کہ ہم نے تو بڑی کوششیں کی تھیں لیکن ہاے ہما ری قسمت!

اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستی کی جا ئے ان کو اپنا صدقہ جاریہ سمجھا جا ئے اور ان کے لیے اپنے اوقات کا ر کو ترتیب دیا جا ئے جس میں والدین اور بچوں کا آپس میں تعلق بنے نہ کہ سارا رشتہ تعلقات کی بنیاد پر چلتا رہے۔ اردگرد نظر دوڑائی جا ئے تو والدین اور بچوں کے درمیان صرف تعلقات کا رشتہ ہوتا ہے جس میں کو ئی رمقِ تعلق کی نہیں ہوتی۔ بچپن میں والدین اپنی ذمہ داری یہی سمجھتے ہیں کہ اچھا کھانا، بہترین لباس، اور تعلیمی سہولیا ت مہیا کرکے ان کی ذمہ داریاں پوری ہو گئیں ہیں اور بڑھاپے میں یہی فصل اپنے بچوں کے ہاتھوں کاٹ کا ٹ کر کھا تے ہیں جس میں بچوں کو بھی یہی تربیت ہوتی ہے کہ والدین کی خدمت اسی مادی حد تک محدود ہے۔ اپنے بچوں کی دل کی باتوں کو سننے کی عادت ڈالیں۔ ان کے روزمرہ کے کاموں کو ان کی زبانی سنیں ، جس میں ان کے اسکول، کالج کا احوال ان کے دوستوں کی روداد، ان کی احمقانہ حرکتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ غلط اور ناپسندیدہ باتوں پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کے بجاے مناسب وقت میں اس کی اصلاح کی جائے۔ یہ وہ عوامل ہیں جن سے والدین اور بچوں میں دوستی کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ عمر کے نازک دور میں بچے اپنے والدین سے چھپ چھپ کر جو سرگرمیاں اختیار کر تے ہیں، اس کی آدھی سے زیادہ وجہ والدین کی اپنے بچوں سے ذہنی لحاظ سے دوری ہوتی ہے۔ بے جا سختی ،ہر وقت لعن طعن ، حد سے بڑ ھا ہو ا پیا ر و محبت بچوں کو بگا ڑنے کا سبب بنتا ہے۔ تعلق ہی رشتے کو قائم بھی رکھتا ہے اور مضبو ط بھی لہٰذا اپنے بچوں سے تعلق قائم کیجیے کیو ں کہ بچے آپ کی آخرت میں نجات کا با عث بھی ہیں، اور اُمت کا سرمایہ بھی۔


مقالہ نگار  عثمان پبلک اسکول، شمالی ناظم آباد، کراچی میں معلمہ ہیں،

ہر عبادت انسانی زندگی میں ایک تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے۔ جس عبادت کو بھی اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کیا جائے گا، عابد کے سامنے وہ اپنا یہ مطالبہ رکھے گی۔ نماز کا سب سے پہلا مطالبہ نمازی سے یہ ہوتا ہے کہ وہ ہروقت اللہ کو یاد رکھے، ہرقدم پر اس کے حکموں پر نگاہ رکھے، اور ہرحکم پر نماز کے رکوع و سجود کی مشق کا اعادہ کرتا چلا جائے۔ اگر نمازی نماز کے پورے حقوق کی رعایت اور اس کے مطالبہ کے شعور ساتھ پابندی سے نماز ادا کرتا ہے تو نماز اُس سے اپنا مطالبہ پورا کرلیتی ہے اور اس کی زندگی میں ایک عظیم تغیر رونما ہوجاتا ہے۔ روزہ، روزہ دار میں صبر وتقویٰ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر پورے رمضان کے روزے اس مطالبہ کے گہرے دھیان کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق ادا کیے جائیں تو روزہ داران اعلیٰ صفات کا حامل ہوسکتا ہے۔

حج، جو کہ ایک بڑے درجے کی عبادت ہے اور نماز، روزے کے مقابلے میں مشکل اور مہنگی عبادت ہے، حاجی کی زندگی میں ایک بڑے تغیر کا مطالبہ کرتی ہے۔ نماز روزے کی طرح اگر اس کے اعمال و ارکان کو بھی اس کی اصلی روح، یعنی عشق و محبت کی والہانہ کیفیات، اور اس کے تقاضوں اور مطالبات کے پورے شعور کے ساتھ ادا کیا جائے تو حج کے بعد حاجی کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوجانا لازمی ہے۔ لیکن جس طرح ہماری دوسری عبادات کا حال یہ ہے کہ وہ ان دو اہم شرطوں کے مفقود ہونے کی وجہ سے شجر بے ثمر بنی ہوئی ہیں، عام طور پر حج کا حال بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ حج و زیارت سے مشرف ہونے کے بعد بھی ہمارے حجاج کی زندگی میں کوئی خاص تغیر اور انقلاب رونما نہیں ہوتا، الا ماشاء اللّٰہ۔

حج کے ایک ایک عمل کو دیکھیے اور ان اعمال کی ساری فہرست پر نظر ڈال جایئے۔ پوری فہرست عاشقانہ اور مجنونانہ ادائوں کا مجموعہ نظر آئے گی۔ کفن جیسا لباس، لبیک لبیک کا مجنونانہ شور، کعبہ کے اردگرد والہانہ طواف، حجرِ اسود کو بڑھ بڑھ کے چومنا، چومنے کا موقع نہ ملے تو محبت کی نظر اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی حسرت کا اظہار کردینا، صفا و مروہ کے درمیان سعی، عرفہ کا وقوف،  بال بکھرے ہوئے، جسم غبارِ راہ سے اَٹا ہوا، اور رہ رہ کے وہی ایک لبیک لبیک کی رٹ___ گویا یہ عبادت عبد و معبود کے درمیان علاقۂ عشق کا مظہرِاتم ہے، ورنہ یہ ادائیں عشق کے سوا اور کس مذہب میں جائز ہیں، اور خود احادیث سے اس عبادت کی یہ خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔

ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے: الحج ، الحج، والحج ، حج (تلبیہ کے مجنونانہ اور والہانہ) شور، اور قربانیوں کا خون بہانے کا نام ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: الحاجُّ الشَعِثُ التَفِل، سچا حاجی وہ مست ہے جسے اپنی کچھ خبر نہ ہو، بال بکھرے ہوئے، اور لباس و جسم پر میل چڑھا ہوا۔ حاجی کے اسی حالِ بے حالی کو دیکھ کر باری تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: اُنظروا الٰی زوار بیتی قد جاء نی شُعثًا غُبرًا ___ میرے دیوانوں کی مستی کا عالم تو دیکھو، میرے در پہ کس شان سے آئے ہیں کہ، نہ بالوں کے بکھرنے کی خبر ہے، نہ جسم کے گردوغبار کا ہوش!

اگران عاشقانہ افعال اور مجنونانہ وضع کے ساتھ حاجی کے دل میں کسی قدر گرمیِ عشق بھی موجود ہو اور ساتھ ہی دماغ کو کچھ بیدار رکھ کر وہ اس پر بھی غور کرتا جائے کہ حج کا ہرہر عمل اُس سے کیا مطالبہ کر رہا ہے، تو بہت واضح طور پر چند مطالبات اس کے سامنے آئیں گے۔ گھربار اور اہل و عیال کو چھوڑ کے اس کا اللہ کے لیے نکل پڑنا، اور پھر جسم سے کپڑے تک اُتار کے کفن جیسا لباس پہن لینا، اور اپنے ظاہر و باطن کو سب سے کاٹ کر لبیک لبیک پکارتے ہوئے مطلق عبدیت کا اعلان کرنا،  اس سے مطالبہ کرے گا کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکی طرح اپنے بارے میں یہ فیصلہ کرے، کہ:

اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (انعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)، میری نماز اور میری قربانی میری موت اور میری زندگانی سب اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے ہے، مجھے یہی حکم ملا ہے، اور میرا کام تعمیلِ حکم ہے۔

اگر یہ فیصلہ نہیں ہے تو پھر اس احرام اور اس تلبیہ کے کیا معنی ہیں جس میں اللہ کی لاشریک اُلوہیت، ربوبیت اور حاکمیت کا اقرار اور اس کی مطلق طاعت و بندگی کے لیے عاجزانہ اور نیازمندانہ حاضری کا اعلان ہے۔

پھر مکۂ معظمہ پہنچ کر ’اللہ کے گھر‘ کا طواف کرتے وقت وہ اگر سوچے گا تو وہ صاف طور پر اس عمل کایہ تقاضا محسوس کرے گا کہ اس گھروالے کی محبت اور اطاعت کو ہر دوسری چیز کی محبت اور اطاعت پر غالب ہوجانا چاہیے، اور اس کی رضاطلبی کی فکر دوسری ہر چیز کی رضاطلبی سے مقدم ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ اس کا گھربار، مال و اولاد اور اقارب و احباب کو چھوڑ کر اتنی دُور آنا اور بلاکسی دنیوی مقصد و منفعت کے آنا، پھر سر سے پائوں تک مجنونوں اور سائلوں کی سی صورت بنانا،      پھر مستانہ وار وحدہٗ لاشریک کے نام کا راگ الاپنا، پھر اس کے گھر کو دیکھ کر دیوانہ وار اس کے اردگرد چکر لگانا، ایک نہیں دو نہیں، ایک ایک مرتبہ میں سات سات چکر لگانا، پھر ایک دن نہیں روز روز اور ہر روز باربار کا یہی مشغلہ، اس کی دیواروں سے لپٹنا، رونا، گڑگڑانا، اور مجسم صورتِ سوال بن جانا___ یہ تو اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ گھر جس کی تجلّی گاہ ہے، وہ سب سے بڑا محبوب اور سب سے برتر مطاع ہے، اور اسی کی رضا اس قابل ہے کہ اس کی جستجو میں بندے کے پاے فکروعمل کو ہر دم سرگرداں اور طواف کناں رہنا چاہیے۔

طواف کے بعد صفا و مروہ کی سعی کا نمبر آتا ہے، اس کے متعلق معلوم ہے کہ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہؓ اپنے ننھے سے صاحبزادے حضرت اسماعیل ؑکے لیے پانی کی تلاش میں دوڑتی تھیں اور پھر صاحبزادے کی تنہائی کے خیال سے واپس ہوجاتی تھیں۔ ان کی یہ سعی اسی جگہ ہوئی تھی، بس ان کی سعی کی یادگار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حجاج کے لیے یہ سعی مقرر فرما دی ہے۔ ظاہر ہے کہ نہ تو اس عمل کا تعلق عشقِ خداوندی سے ہے، اور نہ  بظاہر کوئی خاص رُوحانی فائدہ ہی اس سے متوقع ہے، بلکہ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ بندے کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ اس فعل سے کیا فائدہ ہے، لہٰذا اس عمل کا خاص مطالبہ حاجی سے یہ ہے کہ اس میں بلاچون و چرا اطاعت کی شان پیدا ہونی چاہیے، خدا اور رسولؐ کے ہرحکم اور ہرفرمان کے آگے اس کا سر جھک جانا چاہیے، خواہ کسی حکم کی حکمت اور اس کا فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ علاوہ ازیں حج کے اس عمل سے چونکہ ایک ایسے واقعے کی یاد وابستہ ہے جس میں اُمت ِ مسلمہ کے لیے دو بڑے اہم اور قیمتی سبق موجود ہیں، اس لیے اس عمل میں دو اور تقاضے اور مطالبے مضمر نظر آتے ہیں۔ صفا و مروہ کی سعی سے جس واقعے کی یاد تازہ ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے اکلوتے صاحبزادے کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جاکر چھوڑ دیں، چنانچہ آپ نے حکم کی تعمیل فرمائی اور حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑکو اس غیرآباد اور بنجر سرزمین میں چھوڑ کر چلے آئے، ان کے پاس جو دانہ پانی کا مختصر سا ذخیرہ تھا چند دن میں ختم ہوگیا۔ حضرت اسماعیل ؑپیاس سے بے چین ہوئے، بولنے کی عمر نہ تھی، شدتِ تکلیف سے ایڑیاں رگڑتے تھے۔ حضرت ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑتی تھیں، جب کچھ دُور نکل جاتیں صاحبزادے کی تنہائی کا خیال آتا تو لوٹ آتیں۔ تنہا اللہ کی ذات ان کا سہارا تھی، اس سے دعا بھی جاری تھی اور اپنی سی کوشش بھی، آخرکار ایک دفعہ جو پلٹ کر آئیں تو یہ منظر دیکھا کہ صاحبزادے جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں سے پانی پھوٹ رہا ہے‘‘۔

یہ ہے وہ واقعہ صفا و مروہ کی سعی جس کی یاد دلاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذُریت کے اس واقعے میں اُمتِ مسلمہ کے لیے پہلا سبق تو یہ ہے کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے اور اس کی عبادت اور بندگی کو عالم میں عام کرنے کے لیے بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے سے بھی نہ جھجکنا چاہیے۔ اس سے بڑا کیا خطرہ ہوسکتا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی چہیتی بیوی اور اکلوتی اولاد کے لیے مول لیا کہ انھیں تنہا ایک ایسی جگہ چھوڑ دیا جہاں نہ انسان نہ کوئی اور جان دار، نہ سبزہ نہ پانی، نیچے تپتی زمین، اُوپر تپتا آسمان، دو نازک سی جانیں اور بس اللہ نگہبان.... ایسا کیوں کیا گیا؟___ صرف اللہ کے دین کے لیے۔ قرآن پاک اس بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل کرتا ہے:

رَبَّنَـآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (ابراھیم ۱۴:۳۷) میرے مالک میں نے اپنی کچھ آس اولاد تیرے محترم گھر کے پاس بن کھیتی والی ایک وادی میں بسا دی ہے تاکہ اے پروردگار وہ نماز کو قائم کریں۔

یہ واقعہ ہمیں دوسرا سبق یہ دیتا ہے کہ حاجات و ضروریات کی ساری کنجیاں اللہ کے   دستِ قدرت میں ہیں، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں، ہماری حاجت روائی نہ کسی دوسری ہستی کے بس میں ہے نہ اسباب پر موقوف، بندہ اس بات پر یقین رکھے اور اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق کوشش کرتے ہوئے اس وحدہٗ لاشریک کے سامنے دستِ سوال دراز کرے پھر اسباب ظاہری کی نامساعدت میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس داتا کی داد و دہش اور اعانت کو روک سکے۔

اس بے آب وگیاہ سرزمین میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ کے لیے دانے پانی کی ساری راہیں بظاہر مسدود اور اسباب ایک ایک کرکے مفقود تھے، لیکن حضرت ہاجرہؓ کی سعی اور دُعا پر مسبب الاسباب کا حکم ہوا تو بے وہم و گمان اس جلتی بھنتی اور خشک دھرتی کی چھاتی سے پانی کا دھارا پھوٹ نکلا۔ سچ فرمایا کرتے تھے نبی اُمّی: فدہ ابی و اُمّی۔

لا مانع لما اعطیت، داتا تیری دہش کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔

یہ دو سبق ہیں جو اس واقعے سے ہمیں ملتے ہیں۔ پس جو لوگ صفا و مروہ کی سعی کرکے   اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں انھوں نے اگر غوروفکر کی قوت کو معطل نہیں کر رکھا ہے تو وہ محسوس کریں گے کہ ان کا یہ عمل (سعی) ان سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہے:

۱-  اللہ کے دین کو فروغ دینے اور اس کی عبدیت و عبادت والی زندگی کو دنیا میں رائج کرنے کے لیے اپنی محبوب اور عزیز ترین چیزوں کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہ کریں، خواہ وہ اپنی جان ہو یا اپنے بیوی بچوں کی زندگیاں۔ اس مقصد کے لیے بیوی بچوں کی جدائی اگر ضروری ہو تو اُسے گوارا کریں، غریب الدیاری کی نوبت آجائے تو اس میں پس و پیش نہ کریں، بھوک پیاس اور شدائد و خطرات کی کیسی ہی خوفناک تصویریں ذہن میں گھوم جائیں مگر دینی جدوجہد کے قدم پیچھے نہ ہٹنے پائیں۔

۲- دین کے فروغ اور سربلندی کی جدوجہد میں کامیاب ہونے کے لیے بھی، اور اپنی انسانی ضروریات کے پانے کے لیے بھی اپنی طاقت اور استطاعت کی حد تک تو کوئی کسر اُٹھانہ رکھیں، مگر یہ یقین رکھیں کہ ہماری کوششوں کے کامیاب نتائج برآمد کرنے والا، حقیقی داتا اور حقیقی مشکل کشا تنہا اللہ ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا اُس کے حضور میں اپنی انتہائی عاجزی اور   بے بسی کے استحضار کے ساتھ اپنی کوششوں کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کے لیے دعا کرنے میں بھی کوئی کمی نہ کریں۔ بالفاظِ دیگر اسبابی کوشش اور جدوجہد اس طرح کریں کہ مسبب الاسباب کے منکر اور تنہا اسباب کے پرستار اُن سے پیچھے نظر آئیں، لیکن جب کوئی دعا کے وقت انھیں دیکھے تو یہ سمجھے کہ انھیں اسباب پر بالکل یقین اور اعتماد نہیں ہے، اسباب ان کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ ان کی نظر اور ان کا اعتماد صرف اللہ پر ہے، وہ اللہ جس نے ظاہری حالات کے علی الرغم حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑکو صرف یہی نہیں کہ زندہ رکھا بلکہ اُن سے ایک ایسی نسل چلائی جو اُس وقت سے آج تک عزت کے ساتھ زندہ ہے اور جس کی عزت کبھی ذلّت سے نہیں بدلی ہے۔

الغرض اگر غور سے دیکھا جائے تو حج کے یہ اعمال و اشغال اپنے اندر کچھ ایسے تقاضے لیے ہوئے ہیں کہ اگر ان کو سمجھنے اور پورا کرنے کی طرف توجہ دی جاتی تو ہمارے حجاج کی زندگیوں کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا، اور حج سے واپس آنے کے بعد ہرسال ہماری آبادیوں میں اسلامی زندگی کے لاکھوں نئے نمونے پیدا ہوجایا کرتے۔

حج کے اعمال و اشغال اور ایامِ حج کی پابندیاں مومن کی مثالی زندگی کی ٹریننگ ہے جو ہرسال اُمت مسلمہ کے لاکھوں نفوس کو بیک وقت دے دی جاتی ہے جس میں ان کو اسلامی زندگی کے اصول، قواعد و ضوابط اور خصوصیات کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔اللہ کی ذاتی و صفاتی توحید کا گہرا اعتقاد، شرک کا بہرصورت و بہرنوع قلبی انکار، تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ کے لیے ماننا اور اسے اس معاملے میں مختار مطلق ماننا (یعنی صرف اسی کو یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دے، اور جس چیز کو چاہے حرام قرار دے۔ موت کا دھیان، آخرت کی یاد، میدانِ حشر کا استحضار، دعا اور اس میں الحاح و تضرع کی کیفیت، اللہ سے بے انتہا محبت، ہردم اس کی یاد اور ذوق و شوق کے ساتھ اس کی اطاعت، زہد و توکل، انفاق فی سبیل اللہ، نفس کشی، سادگی اور جفاکشی، جماعت اور امارت، لایعنی باتوں سے پرہیز، باہمی نزاع اور جدل و جدال سے مکمل اجتناب، گناہوں کا بالکلیہ ترک، اخلاق میں طینت، کلام میں نرمی، شعائراللہ کی عظمت، اس کے اعدا خصوصاً شیطان سے نفرت، غرض اسلامی زندگی کے سارے اجزا و عناصر کی ایسی مکمل عملی مشق ان دنوں میں کرا دی جاتی ہے کہ اگر حجاج اس کو اپنی کھوئی ہوئی متاع سمجھ کر مضبوطی سے پکڑ لیں تو وہ کام (یعنی زندگیوں میں اسلامی انقلاب) جو اس وقت دنیا کے ہرکام سے زیادہ مشکل نظر آرہا ہے، اتنی آسانی سے ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے انقلابی دماغ تحیر اور سکتے کے عالم میں رہ جائیں۔ پھراس مکمل دینی تربیت کے ساتھ ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں:

۱- حجراسود کا استلام: حجراسود کو احادیث میں یمین اللہ (اللہ تعالیٰ کا دست مبارک) قرار دیا گیا ہے، لہٰذا اس کا استلام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے قائم مقام ہے۔ گویا یہ عمل عہداطاعت، اور اس بات کا پیمان ہے کہ وہ جس ذات کی کبریائی اور آقائی کا زبانِ حال و قال سے کلمہ پڑھ چکا ہے اس سے بیوفائی نہ کرے گا، گویا ٹریننگ کے درمیان میں ہی اس بات کا عہد لے لیا گیا ہے کہ اب ساری بقیہ عمر کو اسی تربیت کے سانچے میں ڈھالا جائے گا اور اب باقی زندگی ویسی ہی گزرے گی جیسی زندگی کی یہاں مشق کرائی گئی ہے۔

یوں تو اس عہد کے بغیر خود وہ ٹریننگ ہی اس بات کی متقاضی تھی کہ اب تک اگر زندگی اس تربیتی نقشۂ زندگی سے مختلف رہی ہے تو اب یہ اختلاف مٹ جانا چاہیے، لیکن استلام کے وقت جو لطیف الحس انسان واقعی ایسا محسوس کرے کہ گویا وہ اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے رہا ہے تو اُس کے لیے کوئی گنجایش ہی اس بات کی نہیں رہ جاتی کہ اب بھی اس کی زندگی اس تربیتی نقشہ کے مطابق نہ بنے۔

۲- ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی ہے کہ:

جس نے محض اللہ کی رضامندی کے لیے حج کیا اور بے حیائی کی باتوں سے، بے حیائی کے کاموں سے، اور عام گناہوں سے محفوظ رہا، توو ہ ایسا پاک ہوکر لوٹتا ہے جیساکہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز تھا۔ (بخاری و مسلم)

تربیت اور عہدِوفا کے بعد یہ تیسری چیز ہے جو حجاج سے زندگی کو پوری طرح اسلامی اور ایمانی زندگی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے، اس بشارت کی پکار ہے: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً، ’’پورے پورے فرماں بردار اور اطاعت گزار ہوجائو‘‘۔

یہ حدیث بتاتی ہے کہ جو شخص حج کو پوری پابندیوں اور اس کے حقوق کے ساتھ صحیح صحیح اداکرے اُس کو ایک نئی زندگی بخش دی جاتی ہے، گویا گناہوں سے پاک صاف کرکے اور پچھلی زندگی کا معاملہ ہلکا کر کے اُسے موقع دیا جاتا ہے کہ اب اپنی زندگی اللہ کے پسندیدہ نقشے اور    اس کے رسولوں کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق گزارے اور اپنے پروردگار کے اس زبردست انعام کی قدر کرتے ہوئے اپنی حیات کے ایک عہدِ جدید کا آغاز کرے اور گزری ہوئی زندگی کے  وہ تمام رُسوا کن ابواب بند کر کے جن سے رحمت ِ حق نے خود چشم پوشی کا مژدہ سنادیا ہے، ایک    نئے باب کی ابتدا کرے جس کا عنوان ہو: ’اسلامی زندگی‘۔

پورے حج میں اسی کی ٹریننگ ہے، اسی نئے رنگ کے لیے اُورہالنگ ہے اور قدم قدم پر اسی کا تقاضا ہے اور حج کے بعد کی زندگی میں یہی دینی انقلاب اس ’سفرِعشق‘ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس لیے کہ بارگاہِ عشق میں جانے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر مقبول ہونے والے وہی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے اسیرِزلف یار ہوجائیں، وہ تادمِ مرگ اس قید سے کبھی چھٹی نہیں پاتے، اور نہ رہائی چاہتے ہیں۔

 

اس دنیا میں ہماری زندگی ایک حقیقت ہے، اور جتنی بڑی حقیقت دنیا کی یہ زندگی ہے،  اتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس زندگی کو لازماً ختم ہوجانا ہے۔ کسی بات کے بارے میں بھی بحث، گفتگو یا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس بارے میں کوئی اختلاف یا بحث کی گنجایش نہیں ہے کہ یہ زندگی ختم ہوگی___ یہ بڑی واضح اور اٹل بات ہے۔ اور پھر جتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ زندگی اللہ کی بخشی ہوئی ہے اور اسی نے اس کو پیدا کیا ہے، اتنی ہی بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ مخلوق کی خالق سے ملاقات ہوگی۔ اس سے ملاقات نہ ہو تو یہ سارا سلسلہ محض ایک واہمہ اور ایک تخیل بن کر رہ سکتاہے___ اللہ موجود ہے، وہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور  یہ کہ واقعی وہ ہے، اس کی آخری تصدیق اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس سے ملاقات ہو۔ ساری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کی غلامی میں گزارنے کے لازمی معنی یہ ہیں کہ موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس سے ملاقات ہو، اور اس کی بندگی اور غلامی کی راہ میں جو ہماری کوششیں ہوں، ان کو وہ قبول فرمائے اور وہ اس کی خوشنودی اور اس کی رضامندی کی مستحق ٹھیریں۔ پس جو آدمی اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرے، اس کو ان دونوں کو ملا کر چلنا ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ پر ایمان کا دعویٰ آخرت کے یقین کے بغیر، عملی زندگی میںکوئی وزن نہیں رکھتا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نے جس ہستی کو ہر جگہ محسوس کیا ہو، ہر جگہ پایا ہو، موت کے ساتھ ہی اچانک وہ ہم سے لاتعلق ہوجائے۔ اگر اللہ سے ملاقات، آنے والی زندگی، اس کا احتساب، اس کی رضا اور اس کا انعام، یہ ساری چیزیں حقیقت نہ ہوں تو پھر بندگی، اطاعت، اس کی راہ میں جان لڑانے اور جہاد فی سبیل اللہ کے معنی کیا رہ جاتے ہیں، بلکہ وہ آدمی بڑا احمق ہے جو نیکی کرے اور یہ یقین  نہ رکھتا ہو کہ آخرت میں اللہ سے ملاقات ہونی ہے، یعنی خدا کو مانتا ہو، آخرت کو نہ مانتا ہو۔  صاحب ِ ایمان تو صاحب ِ شعور بھی ہوتا ہے، اور ایمان کو بہرطور کامل ہونا چاہیے۔ یہی شعور کا تقاضا ہے___ یہ بنیادی مقدمات ہیں، جنھیں ذہن میں صاف ہونا چاہیے۔

  •  چند بنیادی پھلو: اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آخرت پر ایمان کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی ساری زندگی، یہاں کی ساری کوششوں، ہرچیز، ہربات، ہر کاوش اور ہرقدم کا محور آخرت ہو۔ یہ ایمان بالآخرت ہے اور جتنا یہ ایمان مضبوط ہوگا، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق بھی مضبوط ہوگا۔ خود اللہ تعالیٰ نے بار بار دونوں کو ایک دوسرے سے مربوط کیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ عبادت، غلامی اور بندگی کی دعوت جہاں بھی آئی ہے اس میں آخرت کو مطلوب و مقصود قرار دینے اور اس کی کامیابی کو سمجھ کر جینے کی دعوت بھی شامل ہے۔    انبیا علیہم السلام کی ساری دعوت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ زندگی اگر غلامی میں بسر کرنا ہے تو یہ سمجھ کر بسر کرو کہ جب اس سے ملاقات ہوگی تو وہی اس فیصلے کا دن بھی ہوگا کہ ہم نے فی الواقع زندگی  اس کی غلامی میں بسر کی یا نہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہمیں ایک مشکل کا سامنا ہے___ دنیا ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کو ہم دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں۔ اس کی لذات سے ہم آگاہ ہیں۔ اس کی تکالیف سے اور درد اور الم کی کیفیات سے گزرتے ہیں۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آخرت ایک وعدہ ہے، نگاہوں سے اوجھل ہے۔ اس کی لذتیں ہم محسوس نہیں کرتے۔ دیکھتے نہیں، سنتے ہیں کہ وہ ایسی ہوں گی۔ اس کی تکلیفوں سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اور یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم کل کے اُوپر آج کو، دُور کے مقابلے میں قریب کو، اور غیرمحسوس چیز کی جگہ محسوس چیز کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ معاملہ دنیا اور آخرت کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ خود دنیا میں ہمارا یہ حال ہوتا ہے کہ کل آنے والی چیز اور کچھ مدت بعد ملنے والی شے کو ہم ٹال دیتے ہیں اور جو چیز فوری طور پر مل رہی ہو، اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ فی الحقیقت ہمارے امتحان کا ایک حصہ ہے۔

  •  دنیا کو ترجیح دینا: دنیا کی محبت، اس کے اُوپر راضی ہوجانا اور اسی کو مقصود بنانا ایک ایسی بیماری ہے، جو اللہ کی راہ میں اُٹھنے والے ہرقدم اور کوشش کو گھُن کی طرح کھا جاتی ہے۔یہ یقین کہ اللہ سے ملاقات ہونی ہے اور اسی کو مطلوب و مقصود بنانا ہے وہ چیز ہے جس سے ان سارے مراحل کو طے کرنے کے لیے، جو راہِ حق میں پیش آتے ہیں، صحیح قوت اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔

یہ بیماری کہ آدمی دنیا کو ترجیح دے، دنیا سے محبت کرے، نقد کو حاصل کرے، اُدھار کو ٹال دے اور آج جو کچھ ہے اس کو قیمتی جانے، اور جو کچھ کل آنے والا ہے اس کو محسوس نہ کرے___ یہ جس طرح کافروں کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسی طرح ان کے ساتھ بھی لگی رہتی ہے جو ایمان کی راہ پر آتے ہیں۔ ایک ہی دنیا ہے۔ کافر بھی اس میں رہتے ہیں اور مسلمان بھی اسی میں رہتے ہیں۔ دونوں کو ایک ہی قسم کے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔

جہاں جہاں بھی مسلمان ایمان کے دعوے میں اور اس کے تقاضے پورے کرنے میں کمزوری دکھاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کی نشان دہی کردی ہے۔ یہ دراصل دُکھتی رگ ہے اور ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ غزوئہ بدر ہوا تو فرمایا: تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا (الانفال ۸:۶۷) ’’تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو‘‘۔ غزوئہ اُحد میں ڈسپلن کی کمزوری ظاہر ہوئی تو فرمایا: مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ، (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۲) ’’تم میں سے بعض دنیا کے طلب گار تھے اور بعض آخرت کے طلب گار تھے‘‘۔ غزوئہ تبوک میں جن لوگوں نے کمزوری دکھائی ان کا ذکر سورئہ توبہ میں یوں ہوا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمھیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا؟ ایسا ہے تو تمھیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا‘‘ (۹:۳۸)۔ گویا ہرجگہ ایک ہی بات کہی گئی۔ ایسے معاملات میں خرابی کی جڑ یہ دنیا کی محبت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بگڑی ہوئی مسلمان اُمتوں کو اپنی طرف بلایا تو اس میں اس بات کو بنیادی اہمیت دی کہ ہر وہ چیز جس سے آخرت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس کمزور ہوتا ہو، یا جس سے دنیا کی محبت ظاہر ہوتی ہو، اس کو ختم کیا جائے، اس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔

  •  دعوت کا مرکزی نکتہ: سارے پہلوئوں کو سامنے رکھیں تو یہ بات صاف اور واضح ہوجاتی ہے کہ حق کی راہ پر چلنے میں، خود اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی، ایک ہی چیز مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور اسی سے ہمارے اندر قوت، استقامت اور استعداد پیدا ہوگی کہ جن لوگوں کو ہم منظم کر کے اسلامی انقلاب کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں ان کے اندر دنیا کی محبت کم ہو، آخرت کی محبت اور آخرت کا خیال زیادہ ہو، اور جو موت سے خوف زدہ نہ ہوں۔

ہماری دعوت کے اندر اس کی حیثیت ایک مرکزی نکتے کی ہونی چاہیے۔ جب دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی اور آخرت کی طلب دل کے اندر ڈیرہ ڈال لے گی اور وہاں کی کامیابی ہی اصل کامیابی ٹھیرے گی تو ہمیں صحیح عمل کرنے کے لیے یقین اور قوت بھی حاصل ہوگی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جن عوام کو ہم پکارتے ہیں اور جن کی عدم توجہی کی ہم شکایت کرتے ہیں، ان کے بھی سارے امراض کا علاج اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کو بھی پکارا اور جب بھی پکارا تو یہی پکارا کہ وہ ایسے فریب اور دھوکے سے باہر نکل آئیں جو ان کو نیک عمل سے غافل کرتے ہیں۔

یہ حدیث آپ کی بار بار کی سنی ہوئی ہوگی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا دنیا کی قومیں اس اُمت کے اُوپر اس طرح سے ٹوٹ پڑیں گی جس طرح سے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو صحابہؓ نے پوچھا کہ کیا ہم تعداد میں بہت کم ہوجائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، تمھاری تعداد تو ریگستان کے ذروں اور درخت کے پتوں کی طرح ہوگی۔ انھوں نے کہا: پھر کیا وجہ ہوگی، تو آپؐ نے فرمایا: تمھارے اندر وہن پیدا ہوجائے گا۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: وہن کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت___ گویا جب یہ پیدا ہوجائے تو انسانوں کی ساری استعداد اور قوت ختم ہوجاتی ہے، اور اگر انسان میں وہن نہ رہے تو اس کی جدوجہد اور اس کے عمل میں نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس نکتے سے غافل ہوکر جو کوششیں ہوں گی، ہوسکتا ہے وہ پوری طرح بارآور نہ ہوں۔

  •  آخرت کے لیے یکسوئی: اس کی اہمیت سمجھ لینے کے بعد___   دوسری جس چیز کا مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم آخرت کویکسوئی کے ساتھ منتخب کریں، اور یکسوئی کے ساتھ اس کے حصول کا ارادہ کریں۔ دنیا اور آخرت دونوں میں سے کسی ایک کو آدمی منزل بناسکتا ہے۔ دونوں کو ایک جیسا مقام نہیں دے سکتا۔ قرآن نے اس بات کو بہت واضح انداز میں کہا ہے کہ آدمی اپنے ارادوں کو کبھی دو حصوں میں نہیں بانٹ سکتا۔ وہ یہ نہیں کرسکتا کہ دونوں کو مقصود بنا کر چلے۔ قرآن نے کہا ہے کہ جو آخرت کو مطلوب بنائے گا اس کو آخرت ملے گی، اور جو دنیا کو مقصود بنائے گا اس کو دنیا ملے گی اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ انسان دنیا اور آخرت کو بیک وقت مقصود بناکر نہیں چل سکتا۔ دو کشتیوں میں پائوں رکھ کر وہ زندگی کے سمندر میں تیر کر آخرت تک نہیں پہنچ سکتا۔

اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو آدمی آخرت کو مقصود بنائے وہ دنیا سے دستبردار ہوجائے گا___  مطلب یہ ہے کہ دنیا اس کے لیے مطلوب، محبوب اور مقصود کی حیثیت نہیں رکھے گی بلکہ یہ آخرت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوگی۔ اس کی رشتہ داریاں، اس کی دوستیاں، اس کی محبتیں، اس کی جدوجہد، سب ایک ذریعے کی حیثیت اختیار کرجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کو بار بار واضح کیا ہے، مختلف مثالوں سے سمجھایا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ آخرت کو مطلوب ہونا چاہیے، کئی جگہ بتایا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے، آخرت کی حقیقت کیا ہے، دنیا سے کیا ملتا ہے، آخرت کیا دیتی ہے، اور اس لیے ان دونوں میں سے کس چیز کو تمھیں اختیار کرنا چاہیے۔ دنیا کا نفع دنیا کی چیزیں ہیں، مثلاً مال، اولاد، جاہ و حشمت، مقبولیت۔ دوسری طرف آخرت کا فائدہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، اور وہاں کا نقصان اس کی طرف سے دیا ہوا عذاب ہے۔

دنیا اور آخرت کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف پہلوئوں سے واضح کیا ہے۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز، نعمت ہو یا تکلیف، گزر جانے کی چیز ہے۔ چونکہ وقت نہیں ٹھیرسکتا، اس لیے تکلیف بھی نہیں ٹھیرسکتی اور آرام بھی نہیں ٹھیرسکتا۔ اب اس صورت میں کہ وقت کا گزرنا یا   رُک جانا ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم اس کو روک کے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس لیے یہاں کی خوشی، یہاں کا آرام، یہاں کی تکلیف، یہاں کا الم، اور یہاں کا درد، یہ سب چیز گزر جانے والی ہیں۔ یہ ہمارا روز کا تجربہ ہے کہ خوشی کا بڑا انتظار رہتا ہے۔ ہم اس کی تمنا ہی نہیں کرتے، خواب دیکھتے ہیں۔ خوشی آتی ہے اور بالآخر گزر جاتی ہے۔ تکلیف سے ہم ڈرتے رہتے ہیں۔ تکلیف بڑھتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اب گزر ہی جائے گی۔

  •  ایک اٹل حقیقت: دنیا کے ساتھ ایک عجیب معاملہ ہے کہ اس کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ٹھیرنے والی ہو۔ ہر بات موت کے ساتھ بالکل ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ اس خاتمے کو ٹالا نہیں جاسکتا اور موت سب کے لیے ہے، کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۵)۔ لیکن آخرت میں جو کچھ ہے، اس کا تعلق دنیا کے وقت سے نہیں ہے۔ اس کے وقت کا پیمانہ الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہمیں ہماری زبان میں جو کچھ سمجھایا ہے اس میں اسی بات پر زور دیا ہے کہ وہاں کی ہرچیز باقی رہنے والی ہے، کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔

دنیا کی مثال تفصیل کے ساتھ دو تین جگہ دی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ دنیا کی مثال ایک بارش کی سی ہے۔ بارش ہوتی ہے، فصل اُگتی ہے، ہری بھری ہوتی ہے، بہار آتی ہے، اس کے بعد زرد پڑتی ہے اور چورا چورا ہوکر زمین کے اندر مل جاتی ہے۔ سورئہ کہف میں، سورئہ حدید میں اور سورئہ یونس میں تین جگہ اس مثال کے مختلف پہلو مختلف انداز سے اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ان سب میں یہی بتایا گیا ہے کہ جس طرح کھیتی باڑی ہوتی ہے، انسان کھیتی کرتا ہے، وہ کچھ نتائج دیکھتا ہے لیکن پھر بالآخر سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے۔ دنیا کے معاملات اسی طرح ہیں۔

آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل صاف کہی گئی ہے کہ وہاں پر موت نہیں آئے گی۔ عذاب ہوگا تو وَ یَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ مَا ھُوَ بِمَیِّتٍ ط (ابراہیم ۱۴:۱۷) ،یعنی وہ عذاب تو ایسا ہوگا کہ جیسے ہر طرف سے موت آرہی ہے مگر انسان مرنے نہ پائے گا۔ دنیا میں جب درد و الم بہت بڑھتا ہے تو آدمی یہ آرزو کرتا ہے کہ بس اب موت آجائے تاکہ یہ درد و اَلم ختم ہو اور موت آبھی جاتی ہے، اور درد و اَلم ختم ہو بھی جاتا ہے۔ لیکن وہاں کا عالم ایسا ہے جو موت ہی کی طرح ہوگا کہ موت آرہی ہے، لیکن آدمی مرے گا نہیں۔ یہ عذاب کی بڑی تکلیف دہ صورت ہوگی۔ لیکن انعام پانے والے بھی ایک موت کے بعد کسی دوسری موت کا مزا نہیں چکھیں گے۔

  •  یقینی نتائج:دوسری بات جو اللہ تعالیٰ نے آخرت اور دنیا کے موازنے میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ آخرت کے لیے کوشش کے نتائج یقینی ہیں۔ آخرت کے لیے کوشش رائیگاں نہیں جاسکتی۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ آدمی خلوص کے ساتھ آخرت کے لیے کوشش کرے اور وہ ضائع ہوجائے اور اس کا اجر اس کو نہ ملے۔ لیکن دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی کوشش کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ آدمی بہت محنت کرے اور پھر بھی ممکن ہے کچھ حاصل نہ ہو، یا تھوڑی محنت کرے اور ممکن ہے بہت زیادہ مل جائے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی جو کوشش کرے گا اس کو اس کا پھل ضرور ملے گا، بلکہ کسی کو مل سکتا ہے اور کسی کو نہیں ملے گا۔ گویا دنیا کے نتائج غیریقینی بھی ہیں، کم اور زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، اور ہرشخص کو ملنا ضروری بھی نہیں ہیں۔ لیکن آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ کسی شخص کا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو ضائع جائے گا، بلکہ ارشاد ہے کہ جو کچھ عمل ہوگا اس سے زیادہ کا بھی وعدہ ہے، ہماری طرف سے۔
  •  کثرت کی ھوس: اب ایک اور پہلو سے دیکھیں۔ سورئہ حدید میں ایک پوری آیت میں دنیا کو زینت بھی کہا گیا ہے، تکاثر بھی کہا گیا ہے۔ ان میں سے ہر لفظ کے اندر دنیا کے نتائج کی ایک قدروقیمت کو واضح کیا گیا ہے۔ سجاوٹ اور زینت صرف ظاہری ہوتی ہے۔ آپ باہر سے ایک چیز کو سجاتے ہیں۔ سجاوٹ کے معنی یہ ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اندر سے اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ زینت اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ تو ظاہر کی سجاوٹ ہے۔ اچھا لباس ہے، اچھا مکان ہے، اچھی گاڑی ہے،  یہ سب کچھ ہے، لیکن یہ سجاوٹ ہے۔ اس کی کوئی اندرونی قدروقیمت نہیں ہے۔ تکاثر کے معنی یہ ہیں کہ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت ہے اور مسابقت کے ساتھ حسد اور جلن اور کش مکش کی جو برائیاں ہیں وہ بھی ساتھ ساتھ آتی ہیں۔ تکاثر کے معنی ہیں: زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہوس۔ یہ دنیا کی بھوک ہے جس سے کبھی آدمی سیر نہیں ہوتا۔ یہ وہ پیاس ہے کہ ایک گھونٹ پی کر اور بڑھتی ہے، اور بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ آدمی اس کو اور حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
  •  متاعِ غرور: دنیا کے یہ مختلف پہلو یہاں کے نتائج اور ان کی قدروقیمت کو واضح کرتے ہیں۔ قرآن حکیم انھی نتائج کو بیان کر کے تصریح کرتا ہے کہ یہ متاع ہے اور متاع الغرور ہے۔ غرور کے معنی دھوکے کے ہیں۔ سارے دھوکے اس کے اندر شامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں آخرت کو خیر کہا ہے کہ یہ بہتر بھی ہے، باقی رہنے والی بھی ہے، اور یہاں خوف و حزن اور اَلم سے نجات بھی ہے۔ آخرت کے بارے میں وعدہ ہے کہ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ ۲:۳۸) ’’نہ ان پر خوف ہوگا نہ کسی قسم کے غم کا شکار ہوں گے‘‘۔ اور نہ وہاں پر یہ مسابقت ہوگی کہ اس کو اتنا مل گیا۔ ایسی کوئی چیز مالک کی خوشنودی پانے والوں کے درمیان نہ ہوگی۔

قرآنِ مجید نے دنیا کو اس لحاظ سے اہم قرار دیا ہے کہ آخرت کی پوری راہ دنیا سے ہوکر جاتی ہے۔ یہی راہ، یہی مال، اور یہی نعمتیں آخرت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اسی لیے دنیا کے مال کو خیر بھی کہا گیا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر یہی مال آخرت بنانے کے لیے استعمال ہو تو یقینا وہ خیر ہے۔ گویا یہ دو دھاری تلوار ہے۔ جو اس کے پیچھے چلتا ہے وہ برباد ہوگیا، اور جس نے اس کو اپنے پیچھے چلایا اور آخرت کی منزل کی طرف لے گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ جو انسان ان حقائق سے واقف ہو، اس کو اپنی منزلِ مقصود آخرت ہی کو قرار دینا چاہیے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ چھوڑ کر آپ دنیا کو مقصود بنائیں اور اس کے پیچھے دوڑیں تو آپ خود ہی سوچیں کہ اس سے بڑی غلطی کیا ہوسکتی ہے۔

  •  اس سے پھلے کہ موت آجائے! اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہمیں دنیا استعمال کرنے کی جو مہلت ملی ہوئی ہے وہ ایک مختصر مہلت ہے۔ ایک تو یہ مختصر ہے اور دوسرے اس کے اختتام کا علم ہمیں نہیں ہے۔ یہ اختتام آج بھی ہوسکتا ہے اور کل بھی، برسوں بھی لگ سکتے ہیں اور دنوں میں بھی بات ختم ہوسکتی ہے۔ ماہ و سال کی جو مقدار بھی ہو، اس مدت کو مختصر ہی قرار دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ یہ مدت مختصر ہے بلکہ ہمیں اس مختصر مدت کے نہ اختتام کا علم ہے اور نہ جگہ کا۔ موت کے بارے میں قرآنِ مجید نے جو تعلیمات دی ہیں، ان سے دراصل یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موت ڈرنے اور خوف کھانے کے لیے نہیں ہے۔ بجاے اس کے کہ ہم موت سے ڈریں اور خوف کھائیں کہ جس سے ڈرنے اور خوف کھانے کا کوئی نتیجہ نہیںہے، سواے اس کے کہ بالآخر موت آئے گی، جو کچھ موت کے بعد پیش آنے والا ہے، ہم اس کی فکر کریں۔

یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مہلتِ عمل مختصر بھی ہے اور یہ بغیر کسی نوٹس کے ختم ہونے والی بھی ہے۔ اور یہ بھی دعوت دی گئی ہے کہ ا س سے پہلے کہ وہ وقت آئے جب تم دنیا سے رخصت ہو، اس سے پہلے ہی اس کی تیاری کرلو۔ یہی دعوت اس انداز سے بھی دی گئی ہے کہ اس سے پہلے کہ تم کو پکڑ لیا جائے اور موت تمھارے اُوپر آجائے، اس مہلت سے فائدہ اٹھا لو۔ اس لیے کہ اس کے بعد پھر کوئی اور عمل کی مہلت نہیں ہوگی۔

اگر آخرت مقصود بن جائے تو پوری دنیا کا رُخ متعین ہوجاتا ہے۔ شادی ہو، عائلی زندگی ہو، کیریئر ہو، اولاد ہو، کارخانے ہوں، کھیت ہوں، پیداوار ہو، تجارت اور مالِ تجارت ہو،  بنک بیلنس ہو، سب چیزیں موجود ہوں گی اور آدمی کا ان سے تعلق بھی یقینا ہوگا۔ لیکن اب سب سے برتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہی اس کی منزلِ مقصود ہوگی۔ یہی طاقت کا اصل سرچشمہ اور قوت کا اصل منبع ہے۔ (ایک خطاب کی تلخیص)       (کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے، منصورہ، لاہور)

 

موجودہ دور میں نفسا نفسی اور مادیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ رشتہ داروں کی خبرگیری کرنا، ضرورت کے وقت کام آنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا شیرازہ  بکھر رہا ہے اور معاشرہ انتشار و افتراق کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں صلۂ رحمی کی ضرورت و اہمیت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاند ان کی شیرازہ بندی ونگہداشت اوراس کے قیام وبقاکے لیے  قرآن وسنت میں بہت سی تعلیمات وہدایات دی گئی ہیں۔ ان میںصلۂ رحمی کواساسی حیثیت حاصل ہے۔سطور ذیل میں قرآن مجیداوراحادیث نبوی سے صلۂ رحمی کی اہمیت، اس کے دینی و دنیوی فوائداورقطع رحمی کے دینی و دینوی نقصانات پرروشنی ڈالی جائے گی۔

لغوی تحقیق

صلۂ رحمی دولفظوں سے مرکب ہے :صلہ اوررحم۔ ’صلہ‘ کے معنی ہیںجوڑنالیکن جب اس کے ساتھ ’رحم‘ کا استعمال ہوتواس کے معنی بدل جاتے ہیں۔

وصل رحمہٗ کے معنی ہیں: نسب کے اعتبار سے جورشتے دارقریب ہوں ان کے ساتھ مہربانی کرنااورنرمی کابرتاؤکرنا۔(المنجد،ص ۲۵۲)

رحم، بطنِ مادر کے اس مقام کوکہتے ہیںجہاں جنین استقرار پاتا ہے اور اس کی نشوونماہوتی ہے۔ مجازاً اسے رشتہ داری کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے، اوریہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے ’مشتق‘ ہے (الراغب الاصفھانی: المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۴۷)۔امام اصفہانی نے تائید میں ایک حدیث پیش کی ہے جس کامضمون یہ ہے: حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواشارد فرماتے ہوئے سناہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میںہی اللہ ہوں اورمیں ہی رحمن ہوں۔ میں نے رحم (رشتہ داری) کوپیداکیا۔ میں نے اس کانام اپنے نام سے نکالاہے۔ جواس کوجوڑ ے گامیں اس کوجوڑ وں گا،اورجواس سے قطع تعلق کرے گا میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔(ترمذی، باب ماجاء فی قطعیہ الرحم،۹۰۷)

لغوی اعتبار سے ’رحم‘ کے معنی شفقت ،رافت اوررحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی شفقت ورافت کے ہوتے ہیں، اورجب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی رحمت کے ہوتے ہیں۔ (لسان العرب، ابن منظور، ،ج۱۷،ص۲۳۰)

قرآن میںرشتہ داری کامقام

اسلام نے رشتہ داری کووہ بلندمقام دیاہے جوپوری انسانی تاریخ میںکسی مذہب ،کسی نظریے اورکسی تہذیب نے نہیںدیا۔ اس نے رشتوں کاپاس ولحاظ رکھنے کی وصیت کی ہے ۔قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جواسلام میں رشتہ داری کی اہمیت کوواضح کرتی ہیں۔ رشتہ داری کا احترام کرنے اوران کے حقوق کی ادایگی پر ابھار تی ہیں، اورانھیں پامال کرنے اوران پر ظلم و زیادتی کرنے سے روکتی ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط (النساء ۴:۱) اس اللہ سے ڈرو جس کاواسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ داری اورقرابت کے تعلقات کوبگاڑ نے سے پرہیز کرو۔

قرآن کریم میں قطع رحمی کاتذکر ہ فساد فی الارض کے ساتھ کیاگیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں کاباہم گہراتعلق ہے۔چندآیات ملاحظہ ہوں:

فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ o فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ط (محمد ۴۷:۲۱-۲۲)

مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اُس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انھی کے لیے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پِھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟

سورۂ رعد میںارشاد باری ہے :

وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِo  (الرعد ۱۳:۲۵) اورجولوگ اللہ کے عہد کوباندھنے کے بعد توڑتے ہیں اوراس چیز کوکاٹتے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کاحکم دیااورزمین میںفساد برپاکرتے ہیں،وہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے، اوران کے لیے براانجام ہے۔

قرآن میں کفارکی فساد انگیزیوں کومختلف پہلوئوں سے اجاگر کیاگیاہے۔ ان میں سے ایک پہلوقطع رحمی بھی ہے۔ارشاد ہے:

الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۷) جواللہ تعالیٰ کے عہد کواس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اورجس چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑ نے کاحکم دیاہے اس کوکاٹتے ہیں اور زمین میںفساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں شیخ محمدعلی الصابونی نے لکھاہے: ’’جس چیز کے جوڑنے کاحکم دیا گیاہے اس سے مراد رشتہ اورقرابت ہے، اورجس چیز کواہل کفر وفساد کے اوصاف میں توڑنے کاذکر کیا گیاہے اس سے مراد رشتہ داری کے تعلقات ختم کرنااورنبی اورمومنین سے الفت ومحبت کوختم کرنااوران سے تعلق توڑنا ہے‘‘(صفوۃ التفاسیر، ج ۱، ص ۳۱)

اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل میں جن چیزوں کاحکم دیاہے ان میں عدل اوراحسان کے بعد تیسری چیزاہل قرابت کے حقوق کی ادایگی ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی (النحل ۱۶:۹۰)   اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کاحکم دیتاہے۔

صلۂ رحمی کاحکم احادیث میں

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلۂ رحمی پر عمل پیراتھے۔ اس کاثبوت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی گواہی ہے کہ غار حرا میں جبرائیل ؑ نے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلی وحی سنائی اورنبوت کابار آپؐ پر ڈالاگیا۔ اس کی وجہ سے آپؐ  پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ آپؐ  گھر تشریف لائے، اور جوواقعہ پیش آیاتھااس سے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکوآگاہ کیا اور کہاکہ مجھ کواپنی جان کاخوف ہے۔اس وقت آپؐ  کوتسلی دیتے ہوئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جوباتیں کہیں وہ یہ تھیں : ’’ہرگز نہیںہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کوکبھی رنجیدہ نہیںکرے گا ، کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں، بے سہاروںکاسہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔(بخاری، باب بداء الوحی:۳)

صلۂ رحمی ،شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے ساتھ یہ دین روزِاوّل ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کی تائید ہر قل کے ساتھ ابو سفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے۔صلح حدیبیہ(۶ہجری)کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سلاطین کے پاس خطوط ارسال کیے جن میں انھیں اسلام کی دعوت دی۔ جب آپؐ  کانامہ مبارک ہرقل کے پاس پہنچا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جاننے کی غرض سے اپنے درباریوں سے کہاکہ مکہ کے کسی آدمی کو دربار میں پیش کرو۔ انھوں نے ابوسفیانؓ کو(جن کواس وقت تک قبول اسلام کی سعادت نہیں ملی تھی)، دربار میں پیش کیا۔ ہرقل نے ان سے بہت سے سوالات کیے اور ایک سوال یہ بھی کیاکہ تمھارے نبی تمھیں کس چیز کاحکم دیتے ہیں؟ ابو سفیانؓ نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلۂ رحمی ، پاک دامنی کاحکم دیتے ہیں۔(مسلم)

اس حدیث سے بھی بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ صلۂ رحمی اس دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے جن کے بارے میں دین کے متعلق پہلی مرتبہ پوچھنے والے کوآگاہ کیاجاتاہے۔

سیدنا عمروبن عنبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا۔ یہ آغازِ نبوت کازمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا:آپ کیاہیں؟ فرمایا: نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کو کیا چیز دے کربھیجا ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے رشتوں کوجوڑ نے اور بتوں کوتوڑنے کے لیے بھیجا ہے اور اس بات کے لیے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایک سمجھا جائے اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کیاجائے ۔(مسلم،باب اسلام، عمروبن عنبسہ۱۹۳۰)

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول ومبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کومقدم رکھاہے۔ اس سے دین میں صلۂ رحمی کے مقام ومرتبہ کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘(بخاری، باب فصل صلۃ الرحم، ۵۹۸۳)۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ، توحید ، نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کاتذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ صلۂ رحمی کاشمار بھی ان اعمال میں ہوتاہے جوانسان کوجنت کامستحق بناتے ہیں۔

قطع رحمی کی مذمت

حضرت جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: ’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا‘‘(بخاری، باب اثم القاطع، ۵۹۸۳)۔ قطع رحمی کرنے والے کی محرومی اور بدبختی کے لیے اللہ کے رسولؐ کی یہی وعید کافی ہے۔

صلۂ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کاتعلق مضبوط ہوتاہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کاتعلق ٹوٹ جاتاہے جیسا کہ حدیث میںہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم (رشتہ داری) رحمن سے بندھی ہوئی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جوتجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا‘‘۔(بخاری، ۵۹۸۴)

قطع رحمی کرنے والے پر آخرت سے قبل دنیا ہی میں گرفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق: ’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیںکہ ان کے ارتکاب کرنے والے کواللہ تعالیٰ دنیا ہی میں عذاب دیتاہے آخرت میں ان پر جوسزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی‘‘۔(ترمذی،باب فی عظم الوعید علی البغی وقطیعۃ الرحم، ۲۵۱۱)

صلۂ رحمی کے درجات

ایک متقی اور باشعور مسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلۂ رحمی کرتا ہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔چنانچہ پہلا درجہ والدین کاقرار دیا۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ سلوک کرنے کومستقل طورپر بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) اور تیرے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط (العنکبوت ۲۹:۸) اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیا ہے۔

سورۂ لقمان میں ارشاد باری ہے:

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo (لقمان ۳۱:۱۴) اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچانے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔

اس آیت میںقابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکر گزاری اور خدمت کاتعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے لیکن قربانیاں اور جاں فشانیاں،حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنوائی گئی ہیں، باپ کی کسی قربانی کاحوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کاحق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن،ابوعبداللہ محمدبن احمد الانصاری القرطبی، ج ۱۴،ص،۶۴)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ  نے جواب دیا: تمھاری ماں۔ اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپؐ  نے فرمایا: تمھارا باپ۔ ایک دوسری روایات میں باپ کے بعد قریبی رشتہ دار کابھی تذکرہ ہے‘‘۔ (مسلم، باب بر الوالدین وایھما احق بہ (۲۵۴۸)

صلۂ رحمی میںکوئی تفریق نھیں

دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کریں جوان کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کریں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کران رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ اور صلۂ رحمی کرنے کاحکم دیتا ہے جوان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق نہیں رکھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جواحسان کابدلہ احسان سے ادا کرے ،بلکہ   صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلۂ رحمی کرے‘‘۔(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی، ۵۹۹۱)

اسلام نے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیاہے ، ارشاد باری ہے:

وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا(لقمان ۳۱:۱۵) اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ ایسی چیز کوشریک ٹھیرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرنا۔

اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلۂ رحمی کی جائے۔ اگروہ غریب ہوں توانھیں مال دیاجائے، ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے، انھیں حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے(الجامع لاحکام القرآن، ج۱۴، ص۶۵)

حدیث میں بھی غیر مسلموں سے صلۂ رحمی کی تلقین ملتی ہے: حضرت اسما بنت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عہد نبویؐ میں میرے پاس آئیں، جب کہ وہ مشرک تھیں۔ میںنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں، اور وہ مجھ سے کچھ امید رکھتی ہیں، توکیا میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ  نے فرمایا: ’’ہاں، تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو‘‘۔(مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب فصل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین،۲۳۲۵)

صلۂ رحمی کا مطلب بے جا طرف داری نھیں

شریعت میں صلۂ رحمی پربہت زور دیاگیا ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ کسی کی بے جا طرف داری کی جائے، رشتہ داروں کو ہر صورت میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے،اگرچہ وہ حق پرنہ ہوں، اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اگرچہ وہ ظالم کیوں نہ ہوں۔ دین اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتاہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میںخاص طور پر اس پر تنبیہ کی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۲) ایک دوسرے کی نیکی اور تقویٰ میں مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میںایک دوسرے کی مددنہ کرو۔

دوسری جگہ ارشاد باری ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَاقف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء۴: ۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے   علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد    خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

سورۂ انعام کی آیت ملاحظہ ہو:

 وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْاط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (الانعام ۶:۱۵۲) جب بات کہو تو انصاف کی کہو، اگرچہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا کیوں نہ ہو، اوراللہ سے جوعہد کیا ہے اسے پورا کرو، اس کا اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔

اس طرح اسلام نے صلۂ رحمی کے نام پر ناانصافی و اقربا پروری پر روک لگادی ہے۔   صلۂ رحمی کامطلب یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بغیر کسی کاحق تلف کیے ہوئے ان کے  دُکھ درد میںشریک رہاجائے، اور اپنی طرف سے ہو سکے تو ان کی مدد کی جائے۔

صلۂ رحمی کی صورتیں

صلۂ رحمی کامفہوم بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس کاایک طریقہ یہ ہے کہ رشتہ داری پر مال خرچ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (البقرہ ۲:۲۱۵) ’’آپ کہیے فائدہ کی جوچیز تم خرچ کروتوو ہ ماں باپ رشتہ دار وں کے لیے ‘‘۔ دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اورذاتی ضرورت اورخواہش کے باوجود صرف خداکی مرضی کے لیے خود تکلیف اٹھاکر اپنے قرابت مندوں کی امداد اورحاجت روائی اصل نیکی ہے۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی(البقرہ ۲:۱۷۷)’’جس نے اللہ کی محبت میں اپنا    دل پسند مال رشتہ داروں کودیا‘‘۔

صلۂ رحمی رشتہ دار وں کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات پایدار ہوتے ہیں، اورباہم رحم وہمدردی اورمودت میں اضافہ ہوتاہے۔ صلۂ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، تعاون کے ذریعے ہوتی ہے۔  گاہے بگاہے تحائف سے نوازنے ،دعوت مدارت کرنے اور ان کی خدمت اورمزاج پرسی کرنے  اور خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے سے۔ اس کے علاوہ ان تمام اعمال سے ہوتی ہے جن سے محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اوررشتہ داروں کے درمیان الفت ومحبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میںصلۂ رحمی پر زور دیاہے اوراس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں جن میں کوئی زحمت، پریشانی ،اورتکلیف نہیں۔ فرمایا: ’’اپنے رشتوں کوتازہ رکھوخواہ سلام ہی کے ذریعے سے ‘‘۔(الموسوعۃ الفقہہ،بحوالہ مجمع الزوائد:۸/۱۵۲)

صلۂ رحمی کے دینی ودنیوی فوائد

رشتہ داری کاپاس ولحاظ رکھنے سے رب العالمین کے احکام کی بجاآوری کے علاوہ بہت سے روحانی ومادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کاایک فائدہ یہ ہے کہ رشتہ داروں پرخرچ کرنے میںزیادہ اجروثواب ملتاہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مسکین پر صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پرکرنے کی وجہ سے دہرا اجرملتاہے، ایک صدقہ کرنے کا،دوسرے صلۂ رحمی کا‘‘۔ (ترمذی، باب ماجا فی الصدقۃ علی ذالقربۃ ۶۵۸)

اس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عمر میں درازی اوررزق میں وسعت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کویہ پسند ہوکہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اوراس کی موت میں تاخیر اورعمر میںاضافہ ہوتواسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘(مسلم، باب صلۃ الرحم وتحریم قطعیتھا ۶۵۲۳)

اس حدیث کامطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان نیک اعمال سے مال ودولت میںفراخی اورعمر میں زیادتی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی توجیہہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی مسائل اور تنازعات اس کے لیے تکدر اور پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جولوگ اپنے رشتہ دار وں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ نیک برتاؤکرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے اعصابی تناؤ سے آزاد ایک ایساماحول پیداہوجاتاہے جو پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے بڑاسازگار ہوتاہے ۔ اس کے برخلاف اعصابی تناؤ جو زندگی کی مدت کم کردیتاہے قطع رحمی کے نتیجے میں پیداہوتاہے۔

اس کے علاوہ صلۂ رحمی سے انسان بہت سے ان اجتماعی مسائل سے جوآج کے     مغربی معاشرے کی پہچان بن گئے ہیں چھٹکاراپایاجا سکتاہے۔

مغربی معاشروں میں خاندان کے بوڑھے افراد ایک بوجھ ہوتے ہیں چنانچہ انھیں  ’بوڑھوں کے گھر‘ (old age homes)کے حوالے کردیاجاتاہے جہاں وہ خوشیوں بھری زندگی سے محروم کسمپرسی کی حالت زار میں زندگی گزارتے ہیں۔ صلۂ رحمی سے محروم ان افراد کے بیٹے  سال میں ایک بار ’یومِ مادر‘(Mother day) ’یوم والدین‘ (Parents day) مناکر اورچند رسمی تحائف دے کر اُن بے پایاں احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جوان والدین نے ان کے ساتھ کیے تھے ۔صلۂ رحمی سے آشنااسلامی معاشرہ ان کوبوجھ سمجھنے کے بجاے ان کی خدمت کوجنت کے حصول اوران کی رضاکوخداکی رضاکے حصول کاسبب سمجھتاہے۔

اسی طرح مغربی معاشروں میں یتیم بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت کے لیے ’یتیم خانے‘ قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام میں یتیموں کی دیکھ بھال اورکفالت پربڑازور دیاگیاہے، اوریہ حکم دیاگیاکہ ایسے بچوں کو ان کے قریبی رشتہ دار اپنے خاند ان کے افراد میں شامل کرلیں اوران کے ساتھ اپنے بچوں جیسامعاملہ کریں ۔

بیواؤں کے لیے مغربی معاشرے میں بیوائوں کے گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں بیواؤں کے نکاح ثانی اوران کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے عزیز وقریب      رشتہ داروں پر عائدکی ہے۔ان کواس قسم کے خیراتی ادارے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاتاہے۔

اسلام جس نے صلۂ رحمی پر اس قدر زور دیا ہے، مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان اور مسلم معاشرے مغربی تہذیب اور مادیت سے متاثر ہوکر، اسلامی معاشرے کی اس نمایاں خصوصیت اور اخلاقی قدر سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں۔ نفسانفسی بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ انتشار سے دوچار ہے۔ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار و افتراق کی وجہ سے گھر برباد ہورہے ہیں۔ لوگ افلاس اور بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی جیسے گناہ کے مرتکب ہونے لگے ہیں جس کا مسلم معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مغربی طرزِ معاشرت کی طرح والدین کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور اب ’بوڑھوں کے لیے گھر‘ بھی بنائے جانے لگے ہیں۔ اگر صلۂ رحمی جیسی اساسی معاشرتی قدر کو مسلمانوں نے مضبوطی سے نہ تھاما تو مادیت کی دوڑ کے نتیجے میں خود ہمارا معاشرہ بھی معاشرتی انتشار کا شکار ہوکر مغرب کی طرح معاشرتی مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے۔


ریحان اختر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ میں شعبۂ سنی دینیات میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

ہماری موجودہ حالت ہمارے ماضی کی وجہ سے ہے۔ ہمارا مستقبل وہ ہوگا جس کے لیے ہم آج کوشش کریں گے۔ماضی جاچکا، مستقبل نامعلوم ہے اور صرف حال ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ناکامی کی کچھ عمومی تاویلیں اس طرح ہیں جنھیں ہم حقیقت جان کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور خود کو بری الذمّہ قرار دیتے ہیں:

  • میں قابل نہیں ہوں
  • میری قسمت خراب ہے۔
  • میں دوسروں کے لیے قربانیاں دیتا گیا مگر بدلے میں کیا ملا؟ lمیں کسی کو ’نہیں‘ نہیں کہہ سکتا
  • میں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا چاہتا ہوں مگر محنت کون کرے؟ ان تاویلات کے علی الرغم دیکھیں کہ : میری موجودہ حالت کا ذمّہ دار کون ہے؟ قسمت، حالات، رشتہ دار، خاندان، اساتذہ، معاشی حالات یا میں خود! حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ: میں آج جو کچھ ہوں، اس کے لیے میں خود ذمّہ دار ہوں۔ لہٰذا اپنی دگرگوں حالت پر تاویلات کا پردہ مت ڈالیے۔ جواں ہمّت بنیے۔ اچھی اور بُری، ہر طرح کی باتوں کے لیے اپنی ذمّہ داری قبول کیجیے۔جب ہم اپنے آپ کو ذمّہ دار قرار دے کر نتائج قبول کرتے ہیں تو ہمارا نقطۂ نظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہمیں ذہنی تحفظات کے دائرے سے باہر نکلنا ہوگا۔ انتخاب آپ کو خود کرنا ہے۔ماضی سے چمٹے رہنا بڑی بھول ہے۔ مستقبل پر نظر رکھ کر حال میں سخت محنت کیجیے۔ اس ضمن میں چند عملی پہلوئوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔
  • خود اعتمادی: خود اعتمادی سے حیران کن کام انجام دیے جاتے ہیں۔خود اعتمادی سے محروم، ناکامیوں کا رونا روتے ہیں۔ چھوٹے بچے کو چلنے میں مدد کرتے وقت کی مثال پر غور کریں۔ ہم اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا جاتا کہ تم چل نہیں سکتے بلکہ اس کے گرنے اور چوٹ کھانے کے بعد بھی اس کی ہمت بڑھاکر  اسے چلنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔

غلطی کے خوف سے کام نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ناکامی کے خوف سے ابتدا ہی نہ کرنا، سب سے بڑی ناکامی ہے۔ یہ سوچنا کہ سائیکل سے گرجائوں گا یا تیرنے سے ڈوب جائوں گا، اس لیے آپ وہ کام ہی نہ کریں___ یہ سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ کامیابی کا ایک فارمولا یہ بھی ہے: ۲۵ فی صد منصوبہ بندی + ۷۵فی صد سخت محنت =کامیابی۔ کوئی بھی کام ابتدا میں پہلی بار ہی ہوگا۔ اس کے بعد ہی آپ کمال کی جانب بڑھیں گے۔ اگر آپ کام ہی نہ کریں تو وہ لمحہ زندگی میں کبھی نہیں آئے گا جب آپ کوئی کام اچھی طرح انجام دیں گے۔مشق اور تجربے سے ہی کمال کی طرف سفر ہوگا اور منزل ہاتھ آئے گی۔مشق، مہارت میں اضافہ کرتی ہے۔

  •  عمل کا آغاز: حسن البنا شہیدؒ عوامی خطابات سے پہلے اس دعا کا اہتمام کرتے تھے: خدایا! ہمارے منصوبوں اور عمل کے درمیان فاصلہ گھٹا دے۔ گویا منصوبے اور اس پر عمل درآمد کے درمیان وقت کی دیوار حائل نہ ہونے پائے۔ کام کے انجام (ناکامی) سے خوف زدہ ہوکر ہم کام چھوڑ دیتے ہیں۔انجام کا خیال ضروری ہے مگراسے منفی نہیں ہونا چاہیے۔ فیصلہ کیجیے اور اقدام کیجیے۔ کسی بھی شخص کو وہی کچھ حاصل ہوتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
  •  دوسروں کے بجاے خود کو بدلیے: یہ سب سے مشکل کام ہے۔دنیا کا سب سے آسان کام دوسروں کو نصیحت کرنا ہے۔دوسرے کے بدلنے یااصلاح سے اپنی ترقی کو مت جوڑیئے۔ یہ سوچنا کہ میں دوسروں کے فائدے کے لیے ان میں تبدیلی لانا چاہتا ہوں___ بجا ہے لیکن کیا یہ آپ کے اختیار میں ہے؟ جو آپ کے اختیار میں ہے، یعنی آپ کی ذات، اسے بدلیے۔

تبدیلی یک لخت نہیں ہوگی۔اس کے لیے وقت درکار ہوگا۔ مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر آپ نے درخت جڑ سمیت دوسری جگہ لگادیا تب بھی کچھ بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہوں گی۔ اس حقیقت کا ادراک کریں۔ ابھی، اسی وقت، میرے سامنے میں جیسا چاہتا ہوں ویسا___  اس طرح کی انتہا پسندانہ سوچ سے تبدیلی نہیں آئے گی۔جہاں تک ممکن ہو اپنے اندر تبدیلی لائیے۔ کچھ باتیں چھوڑ دیجیے جو آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں، مثلاً رنگ، قد، وزن وغیرہ نہیں    بدل سکتا۔ وہاں تبدیلی لائیے جو آپ کے بس میں ہے، مثلاً اندازِ گفتگو، اخلاق، کردار وغیرہ۔   ’ضد‘ اور انتہا پسندی کو حکمت سے دُور کریں۔ آپ اپنے دائرہ اختیار کے اندر باہر کے معاملات کا بے لاگ جائزہ لیجیے۔اپنی ذات اور جذبات اور احساسات و خیالات کی نفی مت کیجیے۔ انھیں بھی احترام اور عزت دیجیے۔ذاتی فیصلوں کے اچھّے بُرے یا مثبت و منفی اثرات کا تعیّن کیجیے۔

صد فی صد کامیابی یا مکمّل کامیابی ناممکن ہے۔ کمال کا حصول کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے، لہٰذا ترقی کے لیے محنت کیجیے نہ کہ کمال کے حصول کے لیے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میںکوئی چیز کامل نہیں ہے۔ہم ترقی کی منزل کے راہی ہوسکتے ہیں مگر منزل ہر بار دور ہوتی جاتی ہے۔اس لیے اس کی فکر میں دبلا ہونا فضول ہے۔ترقی پر نظر رکھیے۔ شاہ راہِ ترقی پر گامزن رہنا ہی کامیابی ہے۔

  • کیا نھیں کرنا ھے: خود کو اور دوسروں کو مطعون نہ کریں۔ اپنے آپ اور دوسروں سے شاکی ہونااور ان پر الزام دھرنا چھوڑ دیں۔ خود کو اور دوسروں کو ’لیبل‘ نہ لگائیں (میں--- ہوں، فلاں--- ایسا ہے)۔ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر کے معاملات پر منحصر نہ رہیں۔ دل ہی دل میں کڑھیئے مت۔مسائل کے حل میں نئے مسائل کو جنم مت دیجیے(مثلاً صحت سے متعلق مسائل کے حل میں عدم صحت کے نقصانات کا خوف طاری کرلینا)۔ فیصلوں پر جلد بازی میں نظرثانی کرنا مناسب نہیں ہے۔وقت دیجیے، صبر سے کام لیجیے اور ناگزیر ہو تو تبدیلی کیجیے۔اپنی ذات سے ضرورت سے زیادہ پیار نہ کریں۔حقائق سے منہ مت موڑیئے بلکہ ان کا سامنا کیجیے۔ ’سب چلتا ہے‘ انداز مت اختیار کیجیے۔ وہ افراد جو نا امیدی کا شکار ہیں، ان کے قریب بھی مت جائیے۔ کسی بھی بات کو سہل انداز میں قبول مت کیجیے۔ کسی دوسرے شخص کو اپنے نفس کا قبضہ مت دیجیے۔
  • زبانِ حال (body language): جھکی کمر، مایوس چہرہ، بے نور آنکھیں، سلوٹیں بھری پیشانی، بہکے بہکے قدم، بے دم گفتگو___ اس طرح کے کئی افراد سے آپ کا سابقہ پیش آتا ہے۔ ایسے افراد مقابلے سے قبل ہی اپنی شکست تسلیم کرلیتے ہیں۔ میدان میں اترنے سے قبل ہی ہار مان لیتے ہیں، اور مقابلے سے دست بردارہوجاتے ہیں___ ہر کام میں ’نہیں‘ احساسِ کمتری کے شکاراور قسمت کے شاکی۔ یاد رکھیے مایوسی متعدی ہوتی ہے۔ اسی طرح عزم و استقلال اور جوش بھی متعدّی ہوتا ہے۔ایسے مایوس افراد سے مایوسی اور کم ہمتی ہی فروغ پائے گی۔ ان سے ہوشیار رہیے۔

ایک دوسری تصویر دیکھیں: پر عزم، روشن آنکھیں، چال میں وقار، گفتگو میں جان اور بحیثیت مجموعی ایک فاتح ہونے کا احساس___ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایسے اشخاص زبانِ حال، یعنی ’اپنے ظاہر‘ سے آدھا مقابلہ پہلے ہی جیت چکے ہوتے ہیں۔ان کے ظاہر سے ان کی قابلیت اور صلاحیت گویا چھلکتی ہے، ہاں میں یہ کرسکتا ہوں، میں یہ ضرور کروں گا، میں جیت سکتا ہوں، میں ضرور فتح پائوں گا،میں قابل ہوں، مزید قابل بن سکتا ہوں___ اللہ بھی ایسے ہی بندوں کی مدد کرتا ہے۔

تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہاتھ پائوں نہ ہلائیں اور تقدیر پر تکیہ کیے رہیں، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی پوری توانائی اور قابلیت لگادیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ ہتھیلی کی لکیریں آپ کے مستقبل کا تعیّن نہیں کریں گی، بلکہ آپ کی منزل کا تعیّن آپ کے مضبوط بازوئوں سے ہوگا۔تقدیر کو اپنی کم عملی یا بے عملی کے لیے جواز مت بنائیے۔ اللہ بھی ان کی حالت بدلتا ہے جو خود اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں۔

  •  غلطی معاف کرنا: غلطیاں کس سے نہیں ہوتی ہیں؟ جو لوگ کام نہیں کرتے صرف ان سے ہی غلطیاں نہیں ہوتی ہیں۔غلطیاں ہی آدمی کو سدھارتی ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم غلطیوں پر غلطیاں کریں اور اپنے آپ کو معاف کرتے چلے جائیں۔ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ہم معاملات میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ہمارا یہ بہتری اور ارتقا کا سفر ہمیں نقطۂ کمال کے قریب لے جاتا ہے۔ غلطیوں کے ذریعے ہی ہم صحیح سمتِ سفر کا تعیّن کرتے ہیں تاکہ خطرات سے بچ کر صحیح سلامت منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ غلطی کا خمیازہ بھگتنے کے بعد ہم دوبارہ اس غلطی کا اعادہ نہیں کرتے اور معاملات کو زیادہ چوکنّے ہوکر انجام دیتے ہیں۔دوسروں کی غلطیوں پر ناراض ہونا، فطری امر ہے۔ہم اپنی ناکامی کا سہرا بھی دوسروں کے سر سجاکر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔کیا  ہم یہی رویّہ اپنی ذاتی غلطیوں پر بھی اپناتے ہیں؟بسا اوقات ہم دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں مگر اپنی ذاتی غلطیوں کی سزا خود کو مسلسل دیتے رہتے ہیں۔اس سے ہماری کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ خود کو بھی معاف کیجیے۔ غلطیوں سے سبق حاصل کیجیے اور اپنا رویّہ بہتر بنایئے۔
  •  اپنی ذات سے باھر نکل کر دیکہیے: ہم اکثر ’میں‘، ’میرا‘،’مجھے‘ ہی تک محدود ہوجاتے ہیں۔اس کے علاوہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کے باہر کی دنیا میں جھانک کر تو دیکھیے۔ اس کائنات میں بے شمار چھوٹی بڑی خوشیاں آپ کے استقبال کو تیار ہیں۔کچھ لوگ دوسروں کی خوشی میں اپنا غم، دوسروں کی کامیابی میں اپنی ناکامی، اور دوسروں کی ترقی میں اپنی تنزّلی دیکھتے ہیں: اسے یہ سب مل گیا مجھے کیوں نہیں ملا؟ مجھ میں کیا کمی ہے؟اُس کے بجاے اس سب کا میں زیادہ حق دار تھا، وغیرہ۔ اس طرزِ عمل کے بجاے اگر دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کریں،  ان کی کامیابی میں اپنی کامیابی کو دیکھیں تویہ مثبت اندازِفکر ہے۔ یہ کامیابی کااہم زینہ ہے۔
  •  کامیابی جدوجھد میں ھے! کہا جاتا ہے کہ کم ہمت، فتح نہیں پاتے۔ کیا آپ نے کسی میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے والے کھلاڑی کو مقابلہ جیتتے ہوئے دیکھا ؟ ہر گز نہیں۔ جب آپ میدان ہی چھوڑ دیں گے تو ہار کا سوال پیدا ہوگا نہ جیت ہی کا۔ ناکامی کے خوف سے فی الفور نجات پائیے۔ ہمیشہ میدان میں فتح و کامرانی کے عزم کے ساتھ قدم رکھیے۔ ان شاء اللہ جیت آپ ہی کی ہوگی۔ اگر کسی وجہ سے متوقع کامیابی نہ ملے تو جائزہ اور بھرپورتیاری کے ساتھ دوبارہ مقابلہ کیجیے    ؎

گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے

جو شخص چیلنج کا سامنا کرتا ہے، حالات و واقعات سے دو ، دو ہاتھ کرتا ہے اور تجربات سے گزرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔میدان کار زار میں اترنے سے گریز ہی سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی ہے۔ فاتح یا کامیاب شخص کسی بھی حالت میں میدان سے بھاگتا نہیں۔ حالات کتنے ہی کٹھن ہوں، کتنی ہی مصیبتیں آئیں وہ میدان عمل میں ڈٹا رہتا ہے۔یہ تاریخ کی بہت بڑی سچائی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب آزمایشیں، حالات اور مشکلات اس مرد آہن سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔

آئیے مقابلہ کیجیے! کامیابی نظرنہ بھی آئے تب بھی میدان سے پیٹھ پھیر کر مت بھاگیے۔ ہوسکتا ہے کہ مقابلے میں آپ تھک کر چور ہوجائیں، لہولہان ہوجائیںمگر اسی جدوجہد میں آپ کی کامیابی پوشیدہ ہے۔ کامیابی ضرور آپ کے قدم چومے گی۔ عزم راسخ ہو ، ارادہ مضبوط ہو اور ساتھ میں عملی کوششیں ہوں تو اللہ کی رحمت بھی دست گیری کرتی ہے اور بالآخر منزلِ مراد ہاتھ آتی ہے۔


(ڈاکٹر بدر الاسلام، اقرا اُردو بوائز ہائی اسکول، اورنگ آباد، بھارت میں صدر مدرس اور کئی کتب کے مصنف ہیں)

مسافر تباہ حال بستی سے گزرا تو پکار اٹھا: اب بھلا اس اوندھے منہ پڑی، کھنڈر بستی کو کیسے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا؟ خالق نے کہا: خود ہی مشاہدہ کرلو، فوراً اسے اور اس کی سواری کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ پورے ۱۰۰ سال مُردہ حالت میں گزر گئے۔ پھر خالق نے اپنی قدرت سے مُردہ جسم میں دوبارہ روح پھونکی اور پوچھا: کیا خیال ہے کتنا عرصہ گزر گیا؟ ۱۰۰ سال تک مردہ پڑے رہنے والے مسافر نے کہا: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ خالق نے بتایا: تم نے پورے ۱۰۰ سال گزار دیے۔ اب میری قدرت کا ایک اور مظہر دیکھو۔ تمھارا گدھا بھی ۱۰۰ برسوں میں پیوند خاک ہوگیا ہے ،لیکن تم اپنے ساتھ جو کھانا لے کر جارہے تھے وہ جوں کا توں پڑا ہے، باسی تک نہیں ہونے دیا گیا۔ اور اب دیکھو ہم تمھارے گدھے کو کیسے زندہ کرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے راکھ بنی ہڈیوں کا ڈھانچا کھڑا ہوگیا، پھر ان پر ماس اور چمڑا مڑھ دیا گیا، تازہ دم سواری پھر سے تیار تھی۔ مسافر پکار اٹھا: پروردگار! میں بخوبی جان گیا کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔

سورہء بقرہ میں تفصیل سے بیان کیے گئے اس واقعے سے کئی اسباق حاصل ہوتے ہیں، لیکن ایک اہم حقیقت جو اس منظر کی طرح دیگر کئی قرآنی مناظر سے بھی واضح ہوتی ہے یہ ہے، کہ گزرا ہوا وقت جتنا بھی طویل کیوں نہ ہو، مختصر ہی محسوس ہوتا ہے۔ بندہ اس حقیقت کا مشاہدہ و اظہار آخرت میں بھی کرے گا اور قرآن کریم کے الفاظ میں یہی تکرار کرے گا: ’’پروردگار! ہم تو دنیا میں ایک آدھ روز ہی گزار کر آئے ہیں‘‘۔ ’’ہم تو بس اتنی دیر دنیا میں رہے کہ ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرسکے‘‘، ’’بس چند ساعتیں ہی گزاری ہیں‘‘، ’’صرف چاشت کی کچھ گھڑیاں گزریں‘‘۔ حالانکہ ان سب لوگوں نے معمول کی زندگی گزاری ہوگی اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کی پیٹھ پر گناہوں کا خوف ناک انبار لدا ہوگا۔

گزرا وقت مختصر لگنے اور گزرنے والا وقت تیز رفتار ہونے کا مشاہدہ ،انسان کو دنیا میں بھی ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ جتنی بھی عمر گزر جائے، آنکھیں بند کرکے دیکھیں تو کل کی بات لگتی ہے۔ ابتدائی بچپن کی یادیں، بھولے بسرے مناظر، گاہے اچانک مجسم صورت میں سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر وقت کا حساب کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ --- اچھا  --- اتنا عرصہ گزر گیا۔

تازہ مثال دیکھ لیجیے، ابھی کل ہی ساری دنیا میں نئی صدی کے آغاز کا غلغلہ تھا۔ نئے ہزاریے، نئے ملینیم اور اکیسویں صدی کے بارے میں مختلف تجزیے اور تبصرے کیے جارہے تھے۔ طرح طرح کے دعوے، خدشے اور منصوبے سامنے آرہے تھے۔ وقت کی ایک ہی کروٹ میں آج ہم اس صدی کے پہلے ۱۰ سال پورے کرچکے ہیں۔ یکم جنوری ۲۰۱۰ء میں موجود ہر شخص ،آج صدی کا پہلا عشرہ مکمل کرچکا ہے۔ پل جھپکنے میں گزرنے والے اس عرصے کا مطلب ہے، ہم میں سے ہرشخص نے نئے ہزاریے کے ۳ہزار ۶ سو ۵۲ دن گزار لیے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ اطلاع دے دی تھی کہ ’’ایک وقت آئے گا کہ سال مہینے کی طرح گزر جائے گا۔ مہینہ ہفتے کی طرح، ہفتہ ایک دن اور ایک دن ایک ساعت کی طرح گزرتا دکھائی دے گا‘‘۔ (احمد، ترمذی)

تیزی سے گزرتا یہ وقت ہی انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے، لیکن انسان اسی قیمتی متاع کے بارے میں ہی سب سے زیادہ غافل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور ارشاد کے مطابق: ’’اللہ کی عطا کردہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میںاکثر لوگ دھوکے کا شکار ہیں: ’’صحت اور وقت فرصت‘‘۔ صحت کی نعمت بھی اسی وقت قیمتی لگتی ہے، جب بندہ اس سے محروم ہونے لگے۔ ایک عرب محاورے کے مطابق صحت، صحت مندوں کے سر پر ایک ایسا تاج ہے جو صرف بیماروں کو دکھائی دیتا ہے۔ اور وقت کے بارے میں عرب شاعر کہتا ہے    ؎

دقات قلب المرء قائلۃ لہ

إن الحیاۃ  دقائق و ثوان

(دل کی دھڑکنیں بندے کو ہر دم یہی سمجھا رہی ہیں کہ زندگی تو فقط یہی منٹ اور ثانیے ہیں۔ ہر طلوع ہونے والا دن مخلوق میں منادی کرتا ہے۔)

یا ابن آدم أنا خلق جدید، و علي عملک شہید، فتزود مني، فانی اذا مضیت لا أعود الی یوم القیامۃ ’’اے ابن آدم! میں نئی تخلیق ہوں۔ میں تمھارے عمل پر گواہ بنایا گیا ہوں۔ تم مجھ سے جتنا استفادہ کرسکتے ہو کرلو۔ میں چلا جاؤں گا تو پھرقیامت تک واپس نہیں لوٹوں گا‘‘۔ صرف یہی نہیں بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتادیا کہ تیزی سے گزرنے والے ان لمحات کے بارے میںہر انسان جواب دہ ہوگا۔روز محشر کسی شخص کو تب تک قدم نہیں ہٹانے دیے جائیں گے جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ جو مہلت عمر تمھیں دی گئی تھی، وہ کہاں فنا کی؟ عرب شاعر پھر یاد دلاتا ہے:

یسر المرء ما ذھب اللیالی

و کان ذھابہن لہ ذھابا

(بندہ خوش ہوتا ہے کہ روز و شب گزرگئے حالانکہ ان کا گزرنا خود بندے کا اپنی ہستی سے گزرتے چلے جانا ہے۔)

نئی صدی کے پہلے ۱۰ برس پلک جھپکتے مکمل ہوگئے۔ لیکن اگرسرسری سا جائزہ بھی لیں تو اس دوران عالمی، علاقائی اور ملکی سطح پر بہت بڑی بڑی تبدیلیاں روپذیر ہوچکی ہیں۔ نائن الیون کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آچکی ہے۔ اس نئی دنیا میں الفاظ کے معانی، اصطلاحات کے مفہوم اور روایات و اقدار سے لے کر، مختلف عالمی بلاک، ملکوں کے نقشے اور اپنے عہد میں سیاہ و سفید کے مالک بہت سے اصحاب اقتدار تک تبدیل ہوچکے ہیں۔ خود کو سپریم اور اکلوتی عالمی قوت سمجھنے والا امریکا،   عراق اور افغانستان میں اپنا نشۂ قوت ہرن کروا چکا ہے۔ یہ اور بات کہ خود فریبی اورجھوٹی انا اب بھی اسے اعترافِ جرم و شکست سے روک رہی ہے، لیکن یہ حقیقت نوشتۂ دیوار ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ نے خدائی کے جھوٹے زعم سے نجات نہ پائی تو بہت جلد ریاست ہاے متحدہ امریکا بھی سلطنتوں کے قبرستان میں برطانیہ عظمیٰ اور آنجہانی سوویت یونین کی طرح ماضی کی علامت بنا دکھائی دے گا۔ معاملہ صرف امریکا ہی کا نہیں، خود یورپ اور ناٹو سے لے کر عراق اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں تک، سب بری طرح خاک و خون میں لتھڑ چکے ہیں۔ عالمی اقتصادی بحران کا کوڑا بھی سب کی کمر پر سڑاک سڑاک برس رہا ہے۔ پیٹرو ڈالر کے بلند مینار بنانے کی دوڑ میں لگی، کئی صحرائی ریاستیںسکتے کا شکار ہو گئی ہیں۔

مختلف معاشی، سیاسی اور معاشرتی بحرانوں کی فہرست طویل ہوسکتی ہے ، لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی بہت اہم ہے۔ اسی عشرے میں مفلوک الحال افغانوں، بے نوا فلسطینیوں اور کس مپرسی کے شکار عراقیوں نے مزاحمت، جدوجہد اور جہاد کے الفاظ کو نئے مطالب عطا کیے ہیں۔ ۶۳ سال سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں نے بھی ثابت کردیاہے کہ جب اپنے بھی منہ موڑ لیں،  تب بھی عزم و ارادے اور جذبۂ آزادی کی حفاظت کیوں کر کی جاتی ہے۔ غزہ میں محصور ۱۵ لاکھ فلسطینیوں نے حقوق انسانی کے جھوٹے دعویداروں کے مکروہ چہرے سے مکر و فریب کا پردہ نوچ ڈالا ہے ۔ بچوں، بوڑھوں اور خواتین نے بھی دنیا کو سکھادیا ہے کہ زندگی کی تمام راہیں مسدود کردی جائیں، تب بھی صرف اور صرف اللہ کے سہارے کیسے جیا اور آگے بڑھا جاتا ہے۔ اسی عشرے میں پاکستان کو تباہ کن زلزلے اور صدی کے بدترین سیلاب سے بھی دوچار ہونا پڑا، لیکن قیامت کی ان گھڑیوں میں اہل پاکستان نے من حیث القوم زندگی اور اسلامی اخوت کا ثبوت دیا۔

تصویر کے یہ دونوں رخ ،اور ان کے بہت سارے مزید پہلو بہت اہم ہیں۔ لیکن ہم اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو ہمارا ملک، قوم اور امت سب سنگین بحرانوں کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ہم ان بحرانوں کے اسباب کا جائزہ لے کر مختلف شخصیات حکومتوں اور سیاسی و دینی پارٹیوں میں سے ان کے ذمہ داران کا تعین بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ قوم، ملک اور امت آخر کیسے تشکیل پاتے ہیں___؟ کیا افراد کے بغیربھی کوئی قوم یا امت تشکیل پاسکتی ہے؟ تو پھر کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب کو ہمیشہ دوسروں کے سر ذمہ داری ڈالنے اور تباہی کا رونا رو کر بیٹھ جانے کے بجائے، فرداََ فرداََ میدان میں آنا ہوگا۔ فرد میں بھی ہوں، آپ بھی ہیں، آپ کے اہل خانہ، دوست احباب، اہل محلہ، اہل علاقہ___ یہی سب افراد بالآخر قوم اور امت کی تشکیل کرتے ہیں۔

اگرہم میں سے ہرفرد سوچے، ہر فرد اس بات کاجائزہ لے کہ جتنی عمر گزر گئی، اس میں ایک فرد کی حیثیت سے اس نے اصلاح و نجات کی خاطر کیا کیا؟ حالیہ دس برس ہی کو دیکھ لیجیے۔ ہم ذرا دیکھیں کہ ان ۳ ہزار ۶ سو ۵۲ دنوں میں ہم میں سے ہر فرد نے کیا کارنامہ انجام دیا؟___ اپنے اور اپنے اردگرد بسنے والے ’افراد‘ کے دل میں کتنا احساس زیاں پیدا کیا___؟ اسی سوال کے جواب میں ہماری بہت سی مصیبتوں کا علاج چُھپا ہوا ہے۔

آئیے ۱۰ سال کے اس عرصے کی اہمیت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی معروف حدیث میں فرمایا: کلمتان خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان، حبیبتان إلی الرحمن، تملآن ما بین السماء و الأرض، دو کلمے ایسے ہیں کہ ادا کرنے میں انتہائی آسان و مختصر، لیکن قیامت کے روز میزان میں انتہائی وزنی، رحمن کو انتہائی محبوب، اور اپنے اجر و ثواب سے زمین و آسمان کے مابین پوری فضا کو بھر دینے والے ہیں۔ اور وہ دو کلمے ہیں: سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔ خود کو اللہ کے سامنے کھڑا محسوس کرکے، سکون و اطمینان کے ساتھ یہ تسبیح ادا کرنے میں زیادہ سے زیادہ چھے سیکنڈ لگتے ہیں۔ کیا ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ۱۰ سال میں      ہم رب ذو الجلال سے کیا اور کتنا کچھ حاصل کرسکتے تھے۔

آج اتفاق سے ہجری اور عیسوی دونوں برسوں کا اختتام اور نئے برس بلکہ نئے عشرے کا آغاز ہورہا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر فرد یہ فیصلہ کرلے کہ اس نے صرف اللہ کا بندہ بن کر رہنا ہے، اسے سب کی بھلائی چاہنا ہے، سب کے لیے سراسر خیر ثابت ہونا ہے، ہر حرام سے بچنا ہے، رب ذوالجلال، اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب مجید کی محبت کو دیگر تمام محبتوں پر غالب کردینا ہے، اس کو اپنی تمام ذمہ داریاں تن دہی اور جاں فشانی سے انجام دینا ہیں، خود ہی اس راہ پر نہیں چلنا، جہاں تک آواز پہنچتی ہے، خیر کی اس آواز کو پہنچانا اور عام کرنا ہے، اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی وقت کا ایک ایک لمحہ رب کی قربت کا مستحق بننے کی سعی کرنا ہے___ اگر ہم میں سے ہرفرد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر شہری اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر امتی یہ پختہ فیصلہ کرلے___ پھر اللہ سے استعانت طلب کرتے ہوئے ،اس پر عمل شروع کردے تو یقینا… یقینا… یقینا آیندہ آنے والا وقت ہمارا ہوگا،اور آخرت کی سرخروئی اس سے بھی پہلے یقینی ہوجائے گی۔

آج معاشرے میں جھوٹ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب سچ بولنا اور سچ پر یقین کرنا قریباً ناپید ہے۔ آج اگر کوئی شخص کسی کی بات کو سچ سمجھ کر یقین کرلے تو اس کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے، اور فرض کرلیا گیا ہے کہ سب کچھ جھوٹ ہے، جب تک کہ کوئی سچ ثابت نہ کردے۔ تہذیبوں کی تاریخ میں ہمیشہ سچ کو یہ مقام حاصل رہا ہے لیکن آج ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر جھوٹ کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولا، سنا اور برتا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ سیاست سے لے کر تجارت، عدالت اور صحافت سارے کے سارے اداروں کا کاروبار بحیثیت مجموعی اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم۔ اسی وجہ سے اب ہمارے معاشرے میں سماجی طور پر، اور ہمارے گھروں میں خاندانی طور پر، اور ہماری ذات میں انفرادی سطح پر بھی یہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ کسی صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ عمل کے لیے بھی اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایک بیماری وبا کی طرح عام ہوجائے تو کسی نہ کسی درجے پر ہر انسان اُس کا شکار ہوکر رہتا ہے۔

  • جہوٹ: جھوٹ سے مراد غلط بیانی یا جان بوجھ کر خلافِ واقعہ کوئی بات کہہ دینا ہے۔ اس کے گناہِ کبیرہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہمیں متواتر ایسی احادیث ملتی ہیں جس میں بڑے بڑے گناہوں، یعنی کبائر کے ذکر میں جھوٹ کا ذکر بھی ہے،اور پیارے نبیؐ کی حدیث اور سنت سے ثابت ہے اگر کسی کی اخلاقی تربیت مطلوب ہوتی تو اُس میں سرفہرست جھوٹ کو اُس کی جڑوں کے ساتھ اُکھاڑ پھینکنے کی تربیت تھی۔
  •  جہوٹ کی اقسام:جھوٹ کا چھوٹا یا بڑا ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ اس سے ہونے والا نقصان چھوٹا ہے یا بڑا، انفرادی ہے یا اجتماعی۔ اس لیے ہم اس کو دو اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
  • روز مـرہ زندگی میں جـہوٹ: پہلی قسم میں روزمرہ بولے جانے والے وہ   چھوٹے موٹے جھوٹ شامل ہیں جو ہم صرف اپنے دفاع، اپنے جائز و ناجائز حق کے تحفظ اور اپنی ساکھ کو درست رکھنے اور اپنی جان بچانے کے لیے بولتے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹ کے اثرات محض ایک ذات تک محدود ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کو اُس سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے ہم اس کو جھوٹ بھی تصور نہیں کرتے، مثلاً ہمیں کسی جگہ وقت پر پہنچنا ہے اور دیر ہوگئی۔ ہماری سُستی یا بدنظمی کی وجہ سے ہونے والی دیر کو ہم جھوٹ بول کر اپنی پوزیشن کو بچا لیتے ہیں کہ فلاں کام پڑ گیا تھا، اچانک اس وجہ سے دیر ہوگئی۔ اس موقع پر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ اسی طرح کوئی کام ہمارے ذمے ہو اور ہم اُس کو درست طور پر نہ کرسکیں یا وقت پر نہ کرسکیں تو بجاے اس کے کہ اپنی کوتاہی کو سمجھیں اور اس کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ کریں عموماً اُلٹی سیدھی وجوہات تلاش کر کے پیش کردیتے ہیں۔ کوئی کام سرے سے کیا ہی نہیں لیکن لکھ دیا یا بول دیا محض اس خاطر کہ ہماری عزت رہ جائے اور سب کے سامنے شرمندگی سے بچ جائیں گے۔

حقیقت میں اگر ہم جائزہ لینا شروع کریں تو ہم ایسے ایسے مواقع پر جھوٹ سے کام لیتے ہیں جہاں اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اپنے احباب، رشتہ داروں کے سامنے     شیخی بھگارنا ایک عام بیماری بن گئی ہے۔ یونہی محفل میں رنگ بھرنے کے لیے چند واقعات سنا دینا جس سے وقتی طور پر سب واہ واہ کر اُٹھیں، محض لوگوں کے اندر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے زندگی کے ناکردہ واقعات سنا دینا جن کو اب ثابت نہیں کیا جاسکتا وغیرہ۔ اس معاملے میں خواتین کا تناسب تھوڑا زیادہ ہوجاتا ہے کہ نبی کریمؐ نے معراج کے موقع پر خواتین کو جہنم میں زیادہ دیکھا تو اس کی تصریح یہی فرمائی کہ خواتین زبان کے معاملے میں زیادہ احتیاط نہیں برتتی ہیں۔ غیبت، بدزبانی، جھوٹ اور زیادہ تر اخلاقی برائیوں کا تعلق چونکہ زبان سے ہے اور عموماً خواتین اس کے استعمال میں غیرمحتاط اور جذباتی ہوتی ہیں اسی لیے وہ جہنم میں بھی زیادہ ہوں گی۔

خواتین چونکہ اپنے میکے، شوہر اور بچوں کے معاملے میں حساس ہوتی ہیں اس لیے گھریلو سطح پر جھوٹ کی یہ بیماری رگوں میں سرایت کرگئی ہے۔ میکے اور سسرال میں پیدا ہونے والی مختلف  صورت حال میں جائز اور ناجائز طور پر محض اپنے دفاع کے لیے غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کوئی وجہ نہیں بھی ہوتی لیکن عادتاً ہی جھوٹ بول دیا جاتا ہے۔ بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو اُن کی بے جا تعریف میں اُٹھتے بیٹھتے رشتہ داروں اور سہیلیوں کے سامنے اس کا اظہار اس طریقے سے ہوگا کہ جو کام بیچارے نے نہ بھی کیے ہوں یا اگر کیے بھی ہوں تو بڑھا چڑھا کر اُس کو بیان کرنا۔ اس میں شک نہیں کہ اولاد کی محبت ایک فطری امر ہے اور ہمارا دل بھی کرتا ہے کہ بچے کے اچھے کام کی تعریف اور اُس کی حوصلہ افزائی کریں مگر ہماری چھوٹی سی یہ عادت خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نکاح اور شادی جس کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اُس کی بنیاد ہی کئی طرح کے جھوٹ پر رکھی جاتی ہے۔ عمر، سلیقہ، اسناد اور تعلیم و تربیت کے متعلق اس قدر جھوٹ بولے جاتے ہیں یا مبالغے سے کام لیا جاتا ہے کہ اصل حقیقت جب بعد میں کھلتی ہے تو اعتماد کی ڈُور ٹوٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب کچھ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو ظاہر ہے رشتے نہیں ہوں گے چاہے بعد میں اُس رشتے کا انجام ہی علیحدگی پر ہو۔ یہ ایک ایسا مروج جھوٹ ہے جو شروع تو ایک ذات سے ہوتا ہے مگر اس کے نقصانات وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتے چلے جاتے ہیں۔

گھریلو سطح پر بولے جانے والا یہ جھوٹ اب ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے افراد اور خصوصاً خواتین کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تربیت کی بھی ضرورت ہے، جس پر اہلِ علم حضرات کو توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ اہلِ مغرب کے مقابلے میں ہم اپنے خاندانی نظام پر فخر کرسکتے ہیں۔ لیکن اب بڑھتی ہوئی طلاقیں اور ناچاقیاں اس نظام کے درپے ہیں۔ اس لیے اس کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ دراصل یہ کثرت سے بولے جانے والے جھوٹ کی ہی بے برکتی ہے جو ہمارے خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

  • معاشرتی سطح پر جہوٹ: اس قسم کے بولے جانے والے جھوٹ کے اثرات دنیا و آخرت میں محض ہماری ذات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ہمارے گھر، اجتماعیت بلکہ ملک اور پوری قوم تک پھیلے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ اسی کو قرآن کہتا ہے:

وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲) اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔

جس جھوٹ سے کسی کی حق تلفی ہورہی ہو یا کسی کو انصاف نہیں ملتا، اس کی بنیاد پر کوئی ٹھیک اجتماعی فیصلہ اور صحیح راے قائم نہیں کی جاسکتی۔ یہ اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ اس کے نقصانات اجتماعی ہی نہیں ہوتے بلکہ دُوررس بھی ہوتے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دل خدا کے خوف سے خالی اور انسان خدا کی پکڑ سے بے نیاز ہے۔

اس کی بھی کئی شکلیں ہیں، مثلاً بعض اوقات ہم الفاظ سے جھوٹ نہیں بولتے لیکن صحیح بات کو معلوم ہونے کے باوجودچھپا لیتے ہیں، جس سے معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اور نتیجہ ایک غلط فیصلے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اجتماعی معاملات خواہ کسی بھی سطح کے ہوں اُس میں حق اور سچ کا ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ ملکی سطح اور معاشرتی سطح کے بڑے بڑے معاملات، یعنی ہماری سیاست، ہماری عدالتوں میں جھوٹی گواہی، جھوٹے مقدمے، تجارت میں جھوٹ اور دھوکا دہی،  تعلیمی اداروں کی جعلی اسناد، صحافت میں میڈیا کی غلط اور مبہم رپورٹنگ جس سے سچ اور جھوٹ گڈمڈ ہوکر رہ گیا ہے اور ایک عام آدمی کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ یہ سارے جھوٹ آج بولے جارہے ہیں۔ یہ سب کو نظر آرہے ہیں اور من حیث القوم ہم جس عذاب سے گزر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

  • جہوٹ کا جواز: ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مبالغہ یا جھوٹ اگر جائز ہے تو حدیث کی رُو سے اُس کی دو ہی صورتیں ہیں: ۱- لوگوں کے درمیان مصالحت کرتے ہوئے ۲-میاں بیوی کا ایک دوسرے کی محبت میں مبالغہ۔

اسی طرح سچ بولنے کی اتنی فضیلت ہے کہ غیبت جیسی برائی بھی چند خاص صورتوں میں جائز ہوجاتی ہے، مثلاً مظلوم کی فریاد رسی اور انصاف کے حصول کے لیے، فتویٰ حاصل کرنے کے لیے، اور معاملات کی اصلاح کے لیے اُن لوگوں کے سامنے حال بیان کرنا جو اس کو درست کرنے کے ذمہ دار ہوں (اس سلسلے میں تفصیلی احادیث اور فقہا کا بیان ریاض الصالحین (حصہ اول) میں غیبت کا جواز کے بیان میں دیکھا جاسکتا ہے)۔

ان دونوں قسم کی احادیث کو دیکھتے ہوئے ہم اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ حقیقت میں اخلاق اور معاملات کی درستی مطلوب ہے، اور اسلام، مسلمانوں کے مابین محبتوں کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اسی لیے محبتوں میں اضافے اور مصالحت کے لیے جھوٹ جیسے گناہِ کبیرہ کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے چیزوں کو اُلٹ دیا ہے۔ جہاں چھوٹا موٹا جھوٹ بول کر معاملات کو سنبھالا اور بچایا جاسکتا ہے وہاں تو ’بھرپور سچ‘ کا مظاہرہ کر کے دلوں کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اور جہاں حقیقت میں سچ کی تلاش میں معلومات لی جاتی ہیں تو ’کہیں غیبت نہ ہوجائے‘ کا سوچ کر ہم اصل سچ تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نتیجتاً ایک بڑا نقصان منتظر ہوتا ہے۔ اس طرح ہم محبتوں کو پروان چڑھانے کے بجاے بدگمانیاں بڑھاتے ہیں۔

 جہوٹ سے کیسے بچا جاسکتا ھے؟

  • سب سے پہلے تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ میری وجہ سے کوئی بھی شخص ایسی صورت حال میں نہ پڑے کہ اُسے جھوٹ بولنا پڑے، یعنی ہم کسی کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کریں۔ سورئہ حجرات میں تجسس نہ کرنے کا حکم اسی لیے ہے کہ دوسروں کے معاملات کی اتنی کُرید اور ٹُوہ نہ کی جائے اور نہ  اتنے سوالات ہی کیے جائیں کہ اُس کو جھوٹ سے کام لینا پڑے۔ بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی یہی طریقہ مناسب ہے کہ اُن کی بات پر اعتماد کریں اور اُنھیں ایسی صورت حال میں نہ لے کر جائیں کہ اُنھیں جھوٹ بولنے کے سوا کوئی راستہ نہ ملے۔
  • اللہ تعالیٰ سے حکمت طلب کریں۔ اس کے لیے پیارے نبیؐ نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ مانگیں تاکہ صورت حال کو سنبھالنے کے لیے جھوٹ کے بجاے حکمت سے کام لیں۔
  • اپنے بزرگوں سے حکمت کی باتیں سیکھیں۔
  • دوسروں کے کیے ہوئے اچھے کاموں کی دل کھول کر تعریف کریں۔ خصوصاً بچوں کی تربیت میں حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اس طرح اگر کسی کو اپنے کسی اچھے کام پر حوصلہ افزائی ملتی ہے تو وہ خواہ مخواہ جھوٹ سے کام نہیں لے گا۔

قرآن کی اس آیت پر اپنا ایمان پختہ کرلیں کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ کوئی اسے روک نہیں سکتا تو پھر کیوں ہم اپنی جھوٹی عزت بنانے کے لیے ایسے طریقے اختیار کریں جس سے آخرت میں تو رُسوائی ہوگی ہی لیکن دنیا میں بھی سب اس کا تعفن محسوس کرلیں۔ اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سچ اور جھوٹ دنیا میں بھی واضح ہوکر رہنا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔

اپنے ذہن میں اس تصور کو پختہ کرلیں کہ اس دنیا میں جتنی بھی بڑی کامیابی ہو وہ بہرحال اس دنیا کی کامیابی ہے اور آخرت کی بڑی کامیابی کے سامنے اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح اس دنیا کی بڑی سے بڑی ناکامی بھی آخرت کی ناکامی کے سامنے ہیچ ہے۔ اس لیے آخرت کی کامیابی کے لیے، دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اُٹھانا پڑے تو سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے۔

  • ھماری ذمہ داری: ہم اپنے گھر کے اندر اور اجتماعیت کے حوالے سے مختلف حیثیتوں سے مکلف بنائے گئے ہیں اور قیامت کے دن ہم سب سے ہماری رعیت کے بارے میں جواب دہی ہوگی، لہٰذا اپنی اس رعیت کی تربیت کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ جس طرح ہم اپنی ذات سے اس اخلاقی برائی کو نکال باہر کریں، اسی طرح اپنے زیرتربیت افراد کی تربیت کی اُٹھان اور بنیاد بھی اس طرح ڈالیں کہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرنے والے ہوں۔

اسلام میں عبادات کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد انسان کی اخلاقی تربیت ہے اور اخلاقی تربیت کی بنیاد ہی جھوٹ سے پرہیز اور سچ کی تلقین ہے۔ اگر ہم دنیا کے کسی بھی چھوٹے اور بڑے فائدے کے لیے بولے جانے والے جھوٹ کو اپنی ذات سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آخرت کی کامیابی یقینا ہماری منتظر ہے ہی، اس دنیا میں بھی من حیث القوم ہم پھر سے     نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نظام کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

_ _ _ پھلا وہ گہر خدا کا

مسجدِ حرام میں قدم رکھا تو ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا۔ راستہ ڈھلواں ہے، دونوں طرف فرشِ مسجد پر قیمتی قالین بچھے ہیں۔ سامنے کعبہ کی مختصر سی عمارت ہے--- حرم شریف نشیب میں واقع ہے۔ ایک پیالہ ساکہ جس کے کناروں پر مسجدالحرام کی دومنزلہ عمارت ہے۔ حرم کے مینار اتنے اُونچے نہیں کہ پگڑی سنبھالنی پڑے۔ اس لمحے میں نے صرف اتنا کچھ دیکھا یا دیکھ سکا۔ میں حرمِ کعبہ کے پہلے نظارے میں یوں کھو گیا تھا کہ ماحول کی ہرتفصیل نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔  یہ لمحہ بہت عظیم تھا اور اب بھی ہے۔ (ارضِ تمنّا، ص۱۴۲-۱۴۳)

o

میں باب السلام کے سامنے کھڑا تھا۔ حرم میں داخل ہوا اور کعبہ کی کشش کو دل میں محسوس کرتے ہوئے، بیرونی ہال سے گزرتے ہوئے ان سیڑھیوں کے پاس جا پہنچا جو کھلے آسمان تلے موجود اُس وسیع احاطے تک جاتی ہیں جس کے بیچوں بیچ، سیاہ غلاف میں ملفوف، وہ مکعب عمارت ہے جسے کوئی چار ہزار سال قبل ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی مدد سے تعمیر کیا تھا اور جو سیکڑوں سال سے اربوں انسانوں کی روحانی زندگی کا مرکز رہی ہے۔

آنکھیں سیاہ پوش عمارت پر مرتکز اور دل ایک عجب سرور سے سرشار، پائوں سرد سنگِ مرمر پر یوں جیسے اس سحرانگیز لمحے میں جسم کے وزن سے آزاد ہوچکے ہوں۔ نہ جانے کتنا وقت گزر گیا، بالآخر دل میں کوئی چیز پگھلی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جیسے کوئی چشمہ خاموشی سے جاری ہوگیا ہو۔

ہزاروں مرد، عورتیں، اور بچے صحن میں موجود تھے۔ ان میں طواف کرنے والے بھی تھے اور وہ بھی جو رات کے اس اوّل پہر میں کعبہ کے گرد عبادت میں مصروف تھے۔ طواف کرنے والوں میں احرام میں ملبوس زائر بھی تھے اور عام کپڑوں میں ملفوف مکین بھی، سب کعبہ سے نکلنے والی پُراسرار جذبی شعاعوں کی غیرمرئی کشش میں محصور، متحرک بچے، عورتیں، مرد اور فرشتے جو اس رات بیت اللہ کی زیارت کے لیے بلائے گئے تھے۔

نظر درِ کعبہ پر مرتکز کیے، صحن کی طرف اُترنے والی سیڑھیوں پر کھڑا ایک حاجت مند فقیر جس کا دل ربِ کعبہ کی بڑھتی ہوئی کشش سے یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پھٹ جائے گا اور اپنے قفس کو توڑ کر کسی پرندے کی طرح پھڑک کر ڈھیر ہوجائے گا۔ (سحرِمدینہ،ص ۲۰-۲۱)

o

دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا

یہ سیاہ پتھروں سے بنا ہوا چوکور کمرہ حرم شریف کی عالی شان دومنزلہ عمارت کے درمیان اس طرح مسند نشیں ہے جیسے کسی قیمتی انگوٹھی میں کوئی بیش قیمت سیاہ پتھر آویزاں ہو جس سے بے شمار کرنیں پھوٹ رہی ہوں۔ میں اور میری اہلیہ عجب عالمِ استغراق میں تھے۔ دعا کے لیے ہاتھ بلند تھے۔ سارے اعزا و اقربا، احباب جو دنیا میں تھے یا دنیا سے جاچکے تھے ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے۔ بیت اللہ کے سنہرے دروازے پر نگاہ ٹکی ہوئی تھی کہ کاش! یہ کھل جاتا اور کاش! ہم اندر کا منظر بھی دیکھ لیتے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کا گھر تو بالکل ایک عام انسان کے گھر سے بھی معمولی ہے،  مگر اس کے اردگرد بقعۂ نور بنی ہوئی بلندوبالا عمارتیں حقیر محسوس ہورہی تھیں۔ اللہ کے گھر میں کوئی چمک دمک نہ تھی مگر مسجدحرام کی پُرشکوہ محرابیں، سلیٹی دھاریوں والے سنگِ مرمر کی بلندوبالا دیواریں، پُروقار و چمک دار ستون جن کو بڑے بڑے روشن فانوس اپنی شعاعوں سے جگمگا رہے تھے لیکن کسی زائر کی نگاہیں اللہ کے گھر کے سامنے ان عمارات پر نہیں ٹکتی تھیں۔ سب کی نگاہوں کا محور وہ سیاہ غلاف سے ڈھکا ہوا چوکور کمرہ تھا جو ہر طرح کی زیبایش سے بے نیاز تھا۔ اس گھر کے جاں نثار اگر اجازت ہوتی تو اسے سونے کی چادروں سے ڈھک دیتے مگر اس گھر کے مالک کی یہی مرضی تھی کہ اس کا گھر بھی ایک عام انسانوں کے گھر جیسا نظر آئے اور اسی صورت میں برقرار رہے جس شکل میں اسے معمارِ اوّل حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۱۵)

o

تم اس گھر پہنچ گئے ہو جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا اور ان کے رب نے اس شہر کو   ایسا امن کا مسکن بنایا کہ جو اس میں داخل ہوتا ہے اس کے جان و مال محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ یہی گھر اُس ہدایت کا مرکز بھی ہے جس میں انسان پورے کے پورے داخل ہوجائیں تو ان کے قلب و روح، فکروسوچ، اخلاق و کردار، شخصی زندگی اور حیاتِ اجتماعی، سب محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ انسان اگر کہیں خوف و حزن، ظلم و فساد اور دنیا و آخرت کے بگاڑ اور تباہی سے امن حاصل کرسکتا ہے تو اس بناے ہدایت میں داخل ہوکر جو عالمِ معنوی میں خانہ کعبہ کی مثال ہے، وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (اٰل عمرٰن ۳:۹۷)۔ (حاجی کے نام، ص ۲۰)

o

حرم کا صحن بقعۂ نور بنا ہوا ہے۔ برآمدوں میں فروزاں ہزاروں یا شاید لاکھوں برقی قمقموں اور فانوسوں کی روشنی خانۂ خدا کی طرف لپک رہی ہے۔ برآمدوں کی چھت پر نصب ۱۴۴ انتہائی طاقت ور سرچ لائٹس، ۱۴۴ ننھے منھے سورجوں کی طرح دہک رہی ہیں۔ قطار اندر قطار بیٹھے ان ہزاروں لاکھوں زائرین میں سے کچھ اللہ کے ایسے پُراسرار بندے بھی ہیں جن کے زمانے عجیب اور جن کے فسانے غریب ہیں- -- اگلے دن مغرب کی نماز سے ذرا پہلے ایک ایرانی نوجوان میرے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی اُس نے جھٹ سے کوئی نمبر ملایا، لمحہ بھر کو بات کی اور پھر فون بند کیے بغیر ہاتھ میں پکڑے رکھا۔ اذان ختم ہوئی تو اُس نے فون بند کر دیا اور میری طرف دیکھ کر بولا: ’’میری ماں نے کہا تھا کہ مجھے حرم شریف کی اذان ضرور سنانا‘‘۔

میں مسلسل کعبہ کے غلاف کو دیکھ رہا ہوں۔ حجراسود کے عین اُوپر، چھت کے قریب سنہری ریشے سے بنے الفاظ یاحیی یاقیوم، میری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ شام رات میں تحلیل ہورہی ہے لیکن ہزاروں لاکھوں برقی قمقموں کی روشنی نے حرم کے دالان کو نور میں نہلا دیا ہے۔ ایک دو دن بعد جب میں یہاں سے چلا جائوں گا تو بھی یہ دالان، یہ روشنیاں، یہ بیت اللہ اسی طرح موجود ہوں گے۔ یاحیی یاقیوم ، میں تو شاید پھر سے دنیا کے جھمیلوں میں تجھے بھول جائوں، لیکن تو مجھے یاد رکھنا۔ تو نے بھلا دیا تو میں کہاں جائوں گا؟ (مکہ مدینہ، ص ۴۶-۴۷)

o

اللہ کے گھر کے سامنے ہم نہ جانے کتنی دیر دست بدعا رہے، یاد نہیں۔ سفر کی تکان غائب ہوچکی تھی اور ہم مطاف میں داخل ہوکر عشاق کے اُس سیلِ رواں کا ایک حصہ بن گئے تھے جو مصروفِ طواف تھا۔ کبھی نگاہ ملتزم پر جاکر رُک جاتی تھی، کبھی حجراسود کو دُور سے بوسہ دیتی، کبھی  رکنِ ایمانی پر دل اٹک جاتا اور کبھی حطیم کے اندر داخل ہوکر نماز ادا کرنے کی اُمنگ دل پر چھا جاتی۔ طواف تھا کہ جاری تھا۔ میری اہلیہ اپنے گھٹنوں کے درد کو بھول کر اس طرح چل رہی تھی گویا جنت کی کسی کیاری میں گلگشت کر رہی ہوں۔ ہمارے آگے پیچھے دائیں بائیں کبھی ایرانی، کبھی ترکی، کبھی مصری، کبھی شامی، کبھی امریکی و یورپین، کبھی پستہ قد انڈونیشیائی، کبھی درازقد اور بھاری بھرکم صافوں اور لبادوں میں ملبوس افغانی، کبھی وسط ایشیا و چین کے مخصوص رنگ و بناوٹ کے مرد عورت اس طرح چل رہے تھے جیسے سمندر میں بے شمار موجیں اُٹھ رہی ہوں، مگر ہرشخص اسی فکر میں غلطاں کہ اس کی وجہ سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ سب کی زبان پر دعائیں، کوئی بآواز بلند اور کوئی دھیرے دھیرے اللہ کے کلام اور مسنون دعائوں کے ورد میں مصروف مگر کچھ ایسے بے تاب و مضطرب لوگ بھی تھے جو مطاف میں سب سے آگے نکلنے کی دُھن میں یوں چھلانگ لگاتے گویا سامنے جنت کا دروازہ ہے اور وہ سب سے پہلے داخل ہونا چاہتے ہیں۔(جلوے ہیں بے شمار، ص۱۶)

o

اس گھر کے گرد جتنے طواف کرو، کم ہیں، بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ جتنا وقت بھی تمھیں اس کے جوار میں گزارنے کے لیے ملے، اور جتنی محبت و استطاعت اللہ تمھیں دے، سب طواف کرنے میں لگا دینا۔ نماز، رکوع، سجدہ، تلاوت، سب عبادات ہر جگہ ہوسکتی ہیں، اگرچہ مسجدالحرام میں ان عبادات کا ثواب لاکھوں گنا زیادہ ہے، لیکن طواف کی نعمت تو اور کہیں بھی میسر نہیں آسکتی۔ طواف میں جو والہیت ہے، وارفتگی ہے، عشق و محبت ہے، وہ اور کسی عبادت میں نہیں۔ طواف کی ہمت نہ ہو، تو اس محبوب اور حُسن و جمال میں یکتا گھر کو جی بھر کے دیکھنا، اس کے گرد نثار ہوتے ہوئے پروانوں کو دیکھنا۔ دل کے لیے کیف و لذت کا یہ سرمایہ بھی اور کہیں میسر نہ آئے گا۔ (حاجی کے نام، ص۲۱)

o

رکنِ یمانی کے پاس سے گزرتے ہوئے میں کعبہ کی دیوار سے متصل اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو حجرِاسود کی طرف بڑھ رہی تھی--- قطار زیاہ طویل نہ تھی اور اس وقت قطار کے باہر سے حجراسود کی طرف آنے والوں پر سخت پہرہ تھا۔ اس لیے لوگ تیزی سے سیاہ پتھر تک پہنچ رہے تھے۔ وہ آگے بڑھتے، ہونٹوں کو حجراسود پر رکھتے اور دو تین ثانیوں میں پہرے دار ان کے سر کو پیچھے دھکیل دیتا۔ ایک شخص پیچھے ہٹایا جاتا تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا۔ میری باری آئی، میں نے سر جھکا کر چاندی کے طاقچے میں رکھے ہوئے پتھر پر ہونٹ رکھے، پتھر چمکا، اس کے اندر ہزارہا سفید اور   سبز لکیریں پل بھر کو جگمگائیں، پھر ایک سخت اور کھردرے ہاتھ نے میرے سر کو پیچھے دھکیل دیا، اور ایک ہجوم مجھے اپنے ساتھ لیتا ہوا ملتزم کی طرف بڑھا۔

درِ کعبہ اور حجرِاسود کے درمیان واقع دیوار کے قریب کھڑے پندرہ بیس آدمی، کچھ گریہ کناں، کچھ خاموش، کچھ ذرا بلندآواز میں رحمت ِ خداوندی کے خواستگار، اور ان میں شامل ایک فقیر جو طواف کے بعد کعبہ کے رب کی خوشنودی اور اعانت کا طالب تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ ادھیڑ عمر آدمی جس کے پیچھے کھڑا میں دیوارِ کعبہ کو چھونے کا منتظر تھا، آہستگی سے پیچھے ہٹا، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور اپنی آنسوئوں سے تر داڑھی اور چہرے کے نقوش کی اَنمٹ یاد چھوڑتے ہوئے ہجوم میں اوجھل ہوگیا۔

میں آگے بڑھا، کعبہ کے غلاف کو چھوا اور پھر غلاف کے نیچے موجود پتھروں کو۔ جیسے ہی ہاتھ پتھروں سے مَس ہوئے، سارے وجود میں ایک غیرمرئی طاقت ور لہر دوڑ گئی، جسم کپکپایا اور دل نے التجا کی:

یااللہ! اے اس قدیم گھر کے رب! آزاد فرما ہماری اور ہمارے آبا کی گردنوں کو،     اور ہماری مائوں اور بھائیوں کی اولاد کی گردنوں کو، اے صاحب ِ جُود و کرم و فضل و عطا! اے احسان کرنے والے! اے اللہ! ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا فرما اور ہمیں بچالے دنیا کی رسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے۔

اے اللہ! تجھ سے التجا ہے کہ ---

اے اللہ! میں تیرے در سے لپٹا گریہ کناں ہوں ---

اے اللہ! اے اللہ!  ---

وہ ایک نرم ہاتھ تھا لیکن اس کے اندر نہ جانے کیا پکار تھی کہ جیسے ہی میں نے اسے اپنے شانے پر محسوس کیا، میں دیوار سے پیچھے ہٹ آیا اور احرام میں ملبوس ادھیڑعمر آدمی، جس نے مجھ سے کامل خاموشی کے ساتھ دیوارِ کعبہ کے قرب میں کھڑے ہونے کی فہمایش کی تھی، میری جگہ پر  جاکھڑا ہوا۔ اس خاموش تبادلے میں ایک خوبی تھی، ایک بہائو تھا، ایک باہمی رشتے کی خوشبو تھی، ایک نسبت تھی جو دین حنیف سے منسلک انسانوں کو ایک دوسرے کا مونس بناتی ہے۔ (سحرِمدینہ،ص ۲۷-۲۹)

m

اللہ کا گھر ہر لمحے، ہرثانیے، ہر پَل یونہی آباد رہتا ہے۔ کعبۃ اللہ کے گرد، دن رات اور دھوپ چھائوں کی تمیز کے بغیر خلقِ خدا کا دائرہ پیہم حرکت میں رہتا ہے--- قافلۂ شوق صدیوں سے رواں دواں ہے---

لبیک اللّٰھم لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ چہرے عقیدت کی آنچ سے تمتما رہے ہیں۔ آنکھوں سے آنسوئوں کے سیلاب جاری ہیں۔ آہیں اور سسکیاں تھمنے میں نہیں آرہیں۔ مرد بھی، عورتیں بھی، بچے بھی، بڑے بھی، جوان بھی اور لب ِ گور پہنچ جانے والے بھی۔ کچھ طواف کر رہے ہیں، کچھ نوافل ادا کر رہے ہیں اور کچھ سعی میں مصروف ہیں۔ کچھ تسبیح پر اوراد و وظائف پڑھ رہے ہیں۔ کچھ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں اور کچھ گردوپیش سے بے نیاز خانۂ کعبہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان سب کے دل عبودیت اور بندگی کے احساس سے لبالب بھرے ہیں۔ سب اپنی خطائوں پر نادم ہیں۔ سب خداے رحیم و کریم سے عفو و درگزر کے خواستگار ہیں۔ سب کی گردنیں عجزوانکسار سے جھکی جارہی ہیں--- انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلی مسلم ریاستوں میں بسنے والے، غیر مسلم ممالک میں اقلیتوں کی زندگی گزارنے والے، سب کھنچے چلے آرہے ہیں۔ ۱۴ سو سال سے صحن حرم یونہی آباد ہے۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ابابیلوں کے جھنڈ اسی طرح اُمنڈ اُمنڈ کر آرہے ہیں اور حرم کا معطر دالان سرمئی کبوتروں سے لبالب بھرا ہے۔ (مکّہ مدینہ،ص ۲۲-۲۳)

o

تمھاری نظروں کے سامنے جو گھر ہے، وہ گھر والے کی تجلیات گاہ ہے۔ انھوں نے اسے زمین کا مرکز بنایا ہے، کنویں کے گھاٹ کی طرح لوگ پلٹ پلٹ کر اس کی طرف آتے ہیں اور کسی طرح سیراب ہونے میں نہیں آتے۔ لوگوں کے قیام و بقا کا سامان بھی اسی گھر کے دم سے ہے۔ جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قَیَامًا لِلّنَّاسِ (المائدہ ۵:۹۷) مَثَابَۃً لِلَّنَّاسِ وَاَمْنًا (البقرہ ۲:۱۲۵)۔ (حاجی کے نام، ص ۲۱)

o

ایسا کیوں ہے کہ ہم لوگ جو حرم میں داخل ہوتے ہی اپنے اندر ایک جہاں نو کروٹیں لیتا محسوس کرتے ہیں اور ہمارے احساس و خیال کی دنیا میں زلزلہ سا بپا ہوجاتا ہے، حرم سے نکلتے اور اپنے آشیانوں کو لوٹتے ہی، سارے لطیف احساسات اور ساری منور سوچوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

مسلم ممالک مسلسل گردابِ بلا کے تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے افغانستان آگ اور خون میں نہاگیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بصرہ و بغداد پر قیامت ٹوٹ گئی۔ فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں درندہ صفت سامراجیوں کی بھوک مٹنے میں نہیں آرہی۔ ہم کہ سوا ارب سے زائد سر اور اس سے دُگنے ہاتھ رکھتے ہیں، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنے تماشا دیکھ رہے ہیں--- سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوا ارب انسان کیا کرر ہے ہیں؟ اگر اتنی چنگاریاں بھی بہم ہوجائیں تو جانے کتنے سامراج بھسم ہوجائیں لیکن ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ ممکن ہے اس سیاہ بختی کا ایک سبب سائنس اور ٹکنالوجی سے محرومی بھی ہو۔ لیکن بلاشبہہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عشق کی آگ بجھ چکی ہے اور مسلمان راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری صفیں کج، دل پریشاں اور سجدے بے ذوق ہیں۔ ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت سرد پڑتی جارہی ہے اور ہمارا کردار و عمل ان تعلیمات سے دُور ہوتا جا رہا ہے جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ نے ہم تک پہنچائیں---

میں حجراسود کے عین سامنے بیٹھا، غلافِ کعبہ پر نظریں جمائے سوچتا رہا کہ ایسی ہریالی ، ایسی زرخیزی اور ایسی شادابی کے بعد بھی ہمارے دل و نگاہ کا شجر یکایک ٹنڈ منڈ کیوں ہوجاتا ہے؟ حج اور عمرے، طواف اور سعی، اوراد اور وظائف، عبادتیں اور زیارتیں، سب کچھ پُربہار موسم کی خوشبو بھری پھوار کی طرح آتے اور گزر جاتے ہیں اور ہم ایک بار پھر دنیاداری کے لق و دق صحرا میں  غرق ہوجاتے ہیں--- جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے وقت ہمارے ایک ہاتھ میں آبِ زم زم کا کنستر اور دوسرے ہاتھ میں کھجوروں کی پوٹلی ہوتی ہے اور صحن حرم میںعطا ہونے والے جذب و کیف اور روح و فکر میں بپا ہونے والے انقلاب کی گٹھڑی ہم اُسی میقات پر چھوڑ آتے ہیں، جہاں سے احرام باندھ کر حدودِ حرم میں داخل ہوتے ہیں۔(مکہ مدینہ، ص ۲۳-۲۴)

آں خنک شھرے _ _ _

مدینہ کی فضا کافی خوش گوار تھی۔ بادل آسمان پر آتے تھے اور گاہے گاہے بارش ہوتی تھی۔ مکّہ کی فضا میں عجب جاہ و جلال تھا۔ چٹانوں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں کے بیچ میں کھردرے سیاہ پتھروں کے نہایت سادہ سُودہ گھر کے سامنے سارے انسان حقیر نظر آتے ہیں جو والہانہ اس گھر کا طواف کرتے ہیں--- مدینہ میں انسان خود کو ہر طرح کے بوجھ (tension) سے آزاد اور ایک عجیب دوستانہ ماحول میں خود کو محسوس کرتا ہے۔ ہر شے سے اُنس و محبت کی خوشبو آتی ہے۔ ہرطرف لطافت اور خوش گواری کے منظر نظر آتے ہیں۔ حرمِ نبویؐ کے ساتھ ہی مدینہ شہر اور اس کے مضافات کا گوشہ گوشہ اپنی حیات افروز تاریخ چھپائے ہوئے ہے۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۴۹)

o

مسجدنبویؐ کے اس حصے میں جو روضۂ اطہر سے ملحق ہے اور جہاں حجرۂ عائشہ صدیقہؓ اور  حضور اکرمؐ کا مصلیٰ و منبر تھا، قدم رکھتے ہوئے احساس ہو تاکہ کہیں ہمارے ناپاک وجود ناپاک قدم اس مقام کے تقدس کو مجروح تو نہیں کر رہے ہیں۔ مسجد نبویؐ اور روضۂ اطہر ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ مسجد کی عمارت بے حد وسیع و شان دار ہے۔ بے حد کشادگی ہے۔ سب کو نماز ادا کرنے کی جگہ آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔ بقول مولانا عبدالماجد دریابادی حُسن و جمال کے لحاظ سے، خوبی و محبوبی کے لحاظ سے، زیبائی و دل کشی کے لحاظ سے پردئہ زمین پر اس مسجد کا جواب نہیں۔ بس یہ جی چاہتا ہے کہ ہروقت صحن میں بیٹھے ہوں اور عمارتِ مسجد کی طرف ٹکٹکی لگی رہے۔ تصور میں ۱۴سوسال کی تاریخ پھر جاتی ہے۔ دورِصحابہ، تابعین و تبع تابعین اور اہل اللہ و اہلِ حق کی ایک طویل قطار سامنے آتی ہے جنھوں نے تاریخ میں اس مسجد کے صحن و محراب میں آکر خدا کے حضور رکوع و سجود کیا ہوگا۔ روضۂ اطہر پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا ہوگا--- اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود   دورِ نبویؐ میں آگئے ہیں۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۴۸-۴۹)

o

روضۂ رسولؐ کے سامنے کھڑا فرد عجیب کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ ہیبت، خوف اور تلاطم جو کعبہ کے قرب سے دل میں پیدا ہوتا ہے، نبیؐ کی قبر کے پاس محبت، نرمی اور سکون سے بدل جاتا ہے۔ کوئی دومیٹر چوڑا راستہ، جو زائرین کو سبز جالیوں کے پیچھے موجود ان تین قبروں کے قریب لاتا ہے جن میں حضوؐر اور ان کے دو اصحابؓ مدفون ہیں، نسبتاً خالی ہوا تو میں اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور جس میں شامل لوگ اس عظیم تجربے کے منتظر تھے جو     روضۂ رسولؐ کے قرب سے دلوں میں تغیر پیدا کرتا ہے۔

روضے کے قریب پہنچ کر میں قطار سے نکل کر اس چھوٹے سے ہجوم میں شامل ہوگیا جو رواں قطار کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس ساکت گروہ میں موجود لوگ نبیؐ پر درود و سلام بھیج رہے تھے، دعاگو تھے اور اپنی اپنی کیفیت و حالت و مقام کے مطابق اس مبارک مقام سے فیض حاصل کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر کے لبوں سے سلام و درود کی صدائیں اُبھر رہی تھیں۔(سحرِمدینہ،ص ۷۴-۷۵)

o

سامنے رسولؐ خدا سو رہے ہیں۔ کوئی لمحہ درود و سلام اور سجدہ و تکبیر سے خالی نہیں۔ یہ تسبیح و تہلیل، قرآن و حدیث، ذکر و اذکار، نوافل و وظائف اور دعا و صفا کی دنیا ہے۔ اس کی بنیادیں وہی ہیں جو رسولؐ اللہ نے اٹھائی تھیں۔ اس کی روح رسولؐ اللہ کی روح ہے۔ اُمہات المومنینؓ کی حیا چاروں طرف محیط ہے۔ صحابہؓ کی آوازیں گندھی ہوئی ہیں اور اہلِ بیت بولتے چالتے ہیں۔ صرف محسوس کرنے کی ضرورت ہے اور احساس کسی کسی کو ملتا ہے۔(شب جاے کہ من بودم، ص ۱۴۰)

o

اس حجرے سے متصل چبوترے پر بیٹھ کر میں نے قرآن شریف کا ربع پڑھا۔ یہ جگہ وہ ہے جو مسجدنبویؐ کے صحن میں اصحابِ صفہ کے لیے مخصوص تھی۔ قرآن شریف میں نے ریک میں رکھ دیا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ مجھ پر استغراق کی حالت طاری ہوئی اور میں ۱۴سو سال پیچھے چلا گیا، البتہ یہ ضرور ہوا کہ حضوؐر کی سیرت و سوانح پر میں نے بچپن سے بڑھاپے تک جو کچھ پڑھا تھا، وہ ایک فلیش [جھلک] کی صورت میں میری نگاہوں کے سامنے سے گزر گیا۔ اس کی تفصیل میں بیان نہیں کرسکتا۔

تاہم میں نے ایک انقلاب کو مدینے میں مکمل ہوتے ہوئے دیکھا، جس کا آغاز مکّے میں ہوا تھا۔ آغاز اور انجام کے درمیان صرف ۲۳ سال کا زمانہ حائل تھا۔ یہ ایک مکمل و اکمل انقلاب تھا جس میں انسانیت کے ہرپہلو کی تنقیح و تہذیب ہوگئی تھی۔ معاشرت انسانی کی ایک نئی تعبیر وجود میں آئی تھی۔ دین و دنیا میں ہم آہنگی کی ایک نئی تصویر اُبھری تھی اور ایک نہایت خوب صورت متوازن، مہذب اور متمدن معاشرہ قیام پذیر ہوگیا تھا۔ (ارضِ تمنّا، ص۸۷)

o

رات مسجد اور غسل خانوں کے درمیان صحن سے گزرتے ہوئے آسمان نے مجھے روک لیا۔ اس کی گہرائیوں میں ایسا سکون تھا جو میں نے آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔ ستاروں سے مزین گہرے نیلے رنگ کے شفاف آسمان میں ایک نور تھا جو اس کی بسیط وسعتوں میں موجزن تھا۔ نہایت دھیما، ٹھنڈا نور جو اس کے نیلے رنگ کے اندر سے اُمڈ رہا تھا۔ کیا یہ لیلۃ القدر تھی؟

تراویح کے دوران قرآن حکیم کی آخری سورتوں کے اثر سے دل کانپتا رہا، آنکھوں سے آنسو بہتے رہے اور دل کے اندر کوئی شے یوں پگھلتی رہی جیسے موم بتی پگھلتی ہے۔ (سحرِمدینہ، ص ۱۲۷)

o

مدینہ منورہ، چمنستان ہستی کا ایک سدا بہار پھول ہے جس کی لطافت سب سے جدا، جس کے رنگ سب سے منفرد اور جس کی خوشبو سب سے مسحورکن ہے۔ اس کی ہوائوں میں کچھ ایسا جادو اور فضائوں میں کچھ ایسا حسن ہے کہ کسی بھی خطۂ ارضی سے آنے والا انسان اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ مکہ مکرمہ کے پُرشکوہ جلال کے دائرے سے نکل کر مسجدنبویؐ کے احاطۂ جمال میں داخل ہوتے ہی قلب و نظر ایک سراسر مختلف کیفیت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کی سرشاری اور سرمستی کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو برسوں کوچۂ جاناں تک پہنچنے کی آرزو میں سلگتا رہا ہو۔ جس کی زندگی کا ہرلمحہ حضوری و حاضری کی تمناے بے تاب سے مہکتا رہا ہو۔ جس نے انتظار کی لمبی راتیں اور آتشیں دن گزارے ہوں۔ جو صرف اس لیے جیتا رہا ہو کہ مرنے سے قبل اپنی آنکھوں کو گنبد خضریٰ کے عکس جمیل سے منور کرلے۔(مکہ مدینہ، ص ۲۵)

o

اب سکون قلب، طبعی اہتزاز و انبساط، احساس فرحت و مسرت سے طبیعت چمن چمن ہوتی محسوس ہوئی، شاید حضوؐر اپنے غلاموں کو رخصت کرتے ہوئے اُن کے اضمحلال و نقاہت کو ان کی رگوں سے نکال کر ایک جذبۂ توانا بھر دیتے ہیں۔ انعاماتِ بارگاہ رسالت کا یہ جرعۂ اولیں سیر ہوکر اپنی نَس نَس میں اُتارتا ہوں۔ یہ آس بندھ جاتی ہے کہ حضوؐر اپنے حوضِ کوثر سے اپنے غلام ابن غلام کو ایک جامِ لب ریز سے ضرور نوازیں گے۔ اس یقین کے ساتھ واپس اپنے ہوٹل آجاتا ہوں۔(حرمین شریفین میں،ص ۱۴۶)

o

حج کے اس سفر سے بڑا سکون بڑی طمانیت حاصل ہوئی۔ دل میں یہ خواہش بار بار کروٹ لیتی رہی کہ کاش! اسی طرح بار بار جوارِ حرم اور دیارِ حبیب کی حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہے، مگر پھر یہ خیال آتا کہ اس حرم کے مالک اور اسی دیار کے حبیب نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ہر مومن کو اپنے گردوپیش سے باخبر رہنے اور اسے صالحیت کی طرف موڑنے کی ہرآن فکرکرنی چاہیے۔ حج اگر فرض کی ادایگی کے بجاے سیاحی و تفریح بن جائے تو یہ پسندیدہ بات نہیں۔ افسوس کہ کتنے اہلِ ثروت اپنی ملّت کے غریب و پس ماندہ لوگوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں    تو اس طرح کہ اپنے وسائل کے سمندر سے چند قطرے ملّت کے پریشان لوگوں کی طرف بھی    ٹپکا دیتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں عدم توازن اور اسلام کی قوت و شوکت کے فقدان کے مظاہر ہروقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ کاش! حج ہر انسان کو ایک انقلابی انسان ایک مردِ مجاہد اور ایک دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والا حوصلہ مند انسان بنائے۔ کاش! یہ ملّت کے مقدر کو تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بن سکے۔ کاش! یہ بھی ہماری دیگر عبادتوں کی طرح ایک بے روح عبادت بن کر نہ رہ جائے۔ (جلوے ہیں بے شمار،ص ۵۸)

o

ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کر کے نمازیں بھی پڑھیں، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے، اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم سے دنیا میں جو وعدے ہیں___  استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے،  غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے___  وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشرط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو: یَعْبُدُوْنِی لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَئْـیًا (النور ۲۴:۵۵)۔(حج کا پیغام، ص ۹)

کتابیات

۱-            ارضِ تمنّا، غلام الثقلین نقوی، فیروز سنز، لاہور، ۱۹۸۸ء

۲-            پھر نظر میں پھول مہکے، محمد اکرم طاہر، ادارہ معارف اسلامی، لاہور، ۲۰۰۹ء

۳-            جلوے ہیں بے شمار، ڈاکٹر سید عبدالباری، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ۲۰۰۷ء

۴-            حاجی کے نام، خرم مراد، منشورات، لاہور، ۲۰۰۱ء

۵-            حج کا پیغام، خرم مراد، منشورات، لاہور، ۲۰۰۵ء

۶-            حرمین شریفین میں، محمد رفیق وڑائچ، منشورات، لاہور، ۲۰۰۸ء

۷-            سحرِمدینہ، مظفراقبال، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۹ء

۸-            شب جاے کہ من بودم، شورش کاشمیری، مکتبہ چٹان، لاہور، ۱۹۷۱ء

۹-            مکّہ مدینہ، عرفان صدیقی، جہانگیر بکس، لاہور، ۲۰۱۰ء