اسلام کی عمارت جن بنیادی ارکان پر قائم ہے ان میں حجِ بیت اللہ بھی ایک اہم رکن ہے۔ صاحب ِ استطاعت ہونے کی صورت میں ہر مسلمان عاقل وبالغ مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔حج میں مالی وبدنی دونوں طرح کی عبادات پائی جاتی ہیں،چنانچہ اس کی فرضیت کے لیے مالی اور بدنی، دونوں قدرتیں ضروری ہیں۔ ارشادِ باری ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْْہِ سَبِیْــلًا (اٰل عمرٰن۳:۹۷)’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ حج اپنے اندر عالم گیر اخوت ومحبت اور انسانی مساوات کاعملی پیغام رکھتا ہے۔ تمام حجاج کاایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر ایک ہی طرح کے اعمال وشعائر انجام دینا، جہاں ایک طرف: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘ کے احساس کوپختگی دیتا ہے، وہیں دوسری طرف ربِ واحد کے حضور انسانی مساوات کا نادر نمونہ پیش کرتا ہے۔
اس عبادت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ نبی کریمؐ نے بھی صرف ایک بار حج کیا اور فرما یا: ’’مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لیے کہ مجھے نہیں معلوم، شاید کہ میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں‘‘ (مسلم، ۳۱۹۷) ۔ ہر اسلامی عبادت میں دوشرائط کا پایا جانا ضروری ہے: اخلاص اورپیرویِ شریعت۔ چونکہ یہ عبادت عموماً انسان زندگی میں صرف ایک بار ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں خطاؤں اور لغزشوں کے ارتکاب کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ حج کی تمام جزئیات کا کتابی مطالعہ اور نظری علم الگ چیز ہے، اور عملی حج کرنا الگ۔ اسی لیے کثیر مطالعہ کے باوجود حجاجِ کرام سے لغزشیں سرزد ہوجاتی ہیں۔لغزشیں تو خیر بشریت کا خاصہ ہیں، تاہم اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا حج خطاؤں سے پاک صاف ہو، ہر مومن کے لیے ضروری ہے ۔ اس مضمون میںچند خطاؤں پر متنبہ کیا گیا ہے جو عموماً حجاجِ کرام سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ اِن خطاؤں کا سبب ناواقفیت ہے یا اندھی تقلید۔ مومنانہ کردار یہ ہے کہ جب صحیح علم حاصل ہوجائے تو اس پر عمل کیا جا ئے۔ اسی لیے یہ کوشش کی گئی ہے کہ دلائل کی روشنی میں صحیح بات سامنے لائی جائے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت ادایگیِ حج کے وقت کے تعیین کو حاصل ہے۔ فقہاے کرامؒ کے درمیان اس امر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا فرضیت ِ حج کے بعد فوراً حج کرنا ضروری ہے یا اس میں تاخیر کی گنجایش ہے۔ احناف کے نزدیک فوراً حج کرنا ضروری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ رخصت ایک وبا کی طرح پھیل گئی ہے، اور حج کے لیے عملاً بڑھاپے کا وقت مخصوص مان لیاگیا ہے۔ حالانکہ شرعی لحاظ سے بھی اور موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی جوانی میں حج کرلینا ہی بہتر ہوتاہے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔
اگر کسی شخص پر حج فرض ہوجائے اور وہ اسے بڑھاپے پر اٹھا رکھے اور پھر حج کیے بغیر ہی مر جائے تو سخت گناہ گار ہوگا۔ نیز حج ایک پُرمشقت عبادت ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خواتین کا جہاد حج اور عمرہ کو قرار دیا۔ موجودہ دور میں کثرتِ حجاج کی وجہ سے اس میں مزید مشقتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بوڑھے حجاج خواتین وحضرات ارکانِ حج کیسے اور کس قدر ادا کرپاتے ہیں۔ بڑھاپے میں حج کا وطیرہ برعظیم پاک و ہند کے ساتھ خاص نظر آتا ہے، ورنہ دنیابھرکے بیش تر ممالک سے آنے والے حجاجِ کرام کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہمارے علماے کرام کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے سامنے حج کی اہمیت اجاگر کرنا اور انھیں جوانی میں حج کرنے پر اُبھارنا چاہیے۔
۱- میقات سے حج اور عمرہ کی نیت کرنا لازم ہے۔ میقاتیں اللہ کے رسولؐکی جانب سے متعین کردہ ہیں۔ حاجی ومعتمر کے لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ زمین کے راستے سفر کررہا ہو یا بحری یا ہوائی راستے سے۔ بعض حجاج ہوائی سفر میں بغیر احرام کے میقات سے گزر جاتے ہیں اور جدہ ایئر پورٹ پہنچ کر احرام باندھتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ ان کو چاہیے کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل احرام باندھ لیں اور میقات سے پہلے جہاز ہی میں نیت کرلیں۔ اگر بغیر احرام کے وہ جدہ پہنچ جاتے ہیں تو واپس میقات تک جائیں اور وہاں سے احرام باندھیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے ہیںاور جدہ ہی سے احرام باندھتے ہیں تو اکثر علما کے نزدیک اُن پر ایک جانور کے ذبح کرنے کا فدیہ واجب ہے، جو مکہ میں ذبح کیا جائے گا اور فقرا میں تقسیم ہوگا۔
۲- احرام کی حالت میں حاجی ومعتمر دو چادریں استعمال کرتا ہے۔ ایک تہبند کی طرح باندھ لیتا ہے اور دوسری کندھے پر ڈال لیتا ہے۔ بعض حجاج کرام کی چادرناف سے نیچے سرک جاتی ہے اور وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے، حالانکہ ناف ستر میں داخل ہے۔ اس کو ڈھکنے کا خصوصی التزام ہونا چاہیے۔
۱- احتیاطاً حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان سے طواف شروع کرنا، غلو فی الدین ہے جس سے نبی کریمؐ نے منع کیا ہے۔
۲- زیادہ بھیڑ کی صورت میں حجرِ اسماعیل ؑ (حطیم)کے اندر سے طواف کرنا۔ ایسی صورت میں طواف درست نہیں ہوگا، کیونکہ حطیم خانہ کعبہ کاحصہ ہے۔
۳- ساتوں چکر میں رمل کرنا( دلکی چال چلنا)۔ رمل صرف ابتدائی تین چکروں میں ہے۔
۴- حجرِ اسود کے بوسے کے لیے شدید دھکا مکی کرنا۔ کبھی کبھی نوبت گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، حالانکہ یہ چیز حج میں خصوصیت کے ساتھ ممنوع ہے۔ ارشادِ باری ہے: اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ (البقرہ۲:۱۹۷) ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو‘‘۔
۵- حجرِ اسود کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ بذاتِ خود نفع ونقصان پہنچاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حضرات اس کا استلام کرکے اپنے پورے بدن پر اور بچوں کے بدن پر ہاتھ پھیرتے ہیں، یہ سراسر جہالت اورناسمجھی کی بات ہے۔ نفع ونقصان کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ حضرت عمرؓ کا واقعہ ہے: ’’آپؓ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے علم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع، اور اگر میں نے اللہ کے رسولؐ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔(بخاری، ۱۵۹۷، مسلم، ۳۱۲۶-۳۱۲۸)
۶- پورے خانہ کعبہ کا استلام کرنا۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ استلام ایک عبادت ہے، اور ہر عبادت میں اللہ کے رسولؐ کی پیروی ضروری ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے صرف حجرِاسود اور رکنِ یمانی کا استلام کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ: ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورحضرت معاویہؓ طواف کررہے تھے۔ حضرت معاویہؓ تمام ارکانِ کعبہ کا استلام کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پوچھا کہ آپؓ ان دونوں ارکان کا استلام کیوں کررہے ہیں، جب کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کا استلام نہیں کیا ہے؟ حضرت معاویہؓ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا کوئی حصہ متروک نہیں ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: اللہ کے رسولؐ کا عمل ہی تمھارے لیے اسوۂ حسنہ ہے، تو حضرت معاویہؓ نے فرمایا: آپؓ نے درست فرمایا‘‘۔(مسند احمد، ۱۸۷۷)
۷-ہر طواف کے لیے مخصوص دعا کا التزام کرنا: بایں طور کہ اس کے علاوہ کوئی دعا نہ کرنا، بلکہ بسا اوقات اگر دعا پوری ہونے سے قبل طواف مکمل ہوجاتا ہے تو دعا بیچ ہی میں منقطع کرکے اگلے طواف میں پڑھی جانے والی دوسری دعا شروع کردی جاتی ہے، اور اگر طواف مکمل ہونے سے قبل دعا پوری ہوجاتی ہے تو بقیہ طواف میں خاموش رہا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اللہ کے رسولؐ سے ثابت نہیں۔
۸- کچھ لکھی ہوئی دعاؤں کو ان کا معنی ومطلب سمجھے بغیر پڑھتے رہنا۔حالانکہ طواف کرنے والے کو معنی ومطلب سمجھ کر دعا کرنی چاہیے خواہ اپنی مادری زبان میں ہی دعا کرے۔
۹- بعض حجاج کا ایک گروپ کی شکل میں طواف کرنا بایں صورت کہ ان میں سے ایک شخص بلند آواز سے دعا پڑھے اور بقیہ بلند آواز میں اسے دہرائیں۔ یہ چیز دیگر افراد کے خشوع وخضوع میں مخل اور ان کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے ۔حدیث میں ہے کہ: ’’ایک بار اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں بلند آواز سے تلاوت کررہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا:نمازی اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، تو وہ دیکھے کہ اپنے رب سے کیا کہہ رہا ہے، اورقرآن کی تلاوت میں ایک دوسرے سے آوازیں بلند کرنے کا مقابلہ نہ کرو‘‘۔(موطا امام مالک، ۱۷۷)
۱۰- بعض حجاج یہ سمجھتے ہیں کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں لازماً مقامِ ابراہیمؑ کے پاس پڑھنی چاہییں، چنانچہ اس کے لیے دھکا مکی کرتے اور طواف کرنے والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں،حالانکہ یہ خیال صحیح نہیں ۔ یہ دو رکعتیں بیت اللہ میں کسی بھی مقام پر پڑھی جاسکتی ہیں۔
۱۱- بعض حضرات مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس بلاسبب کئی کئی رکعات پڑھتے ہیں، جب کہ دیگر حضرات طواف سے فراغت کے بعد وہاں نماز کے منتظر ہوتے ہیں۔
۱۲- بسا اوقات نماز سے فراغت کے بعد گروپ کا رہنما پوری جماعت کے ساتھ بلند آواز سے دعا کرتا ہے اور دیگر نمازیوں کی نماز میں مخل ہوتا ہے۔
سعی کے دوران سرزد ھونے والی خطائیں
۱- بعض حجاج صفا اور مروہ پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے تین بار تکبیرِ تحریمہ کی طرح تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔
آپؐ کے حج کے طریقے میں مروی ہے کہ: ’’جب آپؐ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ (البقرہ۲:۱۵۸) ’’یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘۔ اور فرمایا: میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چنانچہ آپؐ نے صفا سے سعی کا آغاز کیا اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آگیا، پھر آپؐ نے قبلہ رو ہوکر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی اور اس کی کبریائی بیان کی اور یہ دعا پڑھی: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ، لَـہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ، اَنْجَزَ وَعْدَہٗ، وَنَصَرَ عَبْدَہٗ، وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ ،’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے، اور سارے شکریہ کا مستحق بھی وہی ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تن تنہا تمام گروہوں کو شکست دی‘‘۔ پھر اس کے درمیان دعا کی۔ اسی طرح تین بار کیا۔ پھر اُتر کر مروہ کی جانب چلے، یہاں تک کہ جب وادی کے بیچ میں پہنچے تو تیزرفتاری سے چلے، اور جب اوپر چڑھ گئے تو عام رفتار سے چلے، یہاں تک کہ مروہ پر پہنچ گئے اور وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)
۲- پوری سعی کے دوران تیزرفتاری سے چلنا سنت کے خلاف ہے۔ تیزرفتاری سے صرف دونوں سبز لائٹوں کے درمیان چلنا ہے، بقیہ سعی میں عام چال چلنا ہے۔
۳- بعض خواتین دونوں سبز لائٹوں کے درمیان مردوں کی طرح تیزرفتاری سے چلتی ہیں، حالانکہ عورتوں کو تیزی سے نہیں، بلکہ عام رفتار سے چلنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ارشاد ہے: ’’طواف میں رمل اور سعی میں تیزرفتاری عورتوں کے لیے نہیں ہے‘‘۔(سنن دارقطنی، ۲۷۶۶، سنن کبری للبیہقی، ۹۳۲۱)
۴- بعض حجاج جب صفا یا مروہ کے قریب پہنچتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ ، حالانکہ سنت یہ ہے کہ صرف پہلی سعی میں جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھے۔
۵- بعض حجاج ہر چکر میں مخصوص دعا پڑھتے ہیں۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
۶- بعض حجاج سعی کے دوران اضطباع کرتے ہیں، یعنی دایاں کندھا کھلا رکھتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ اضطباع صرف طوافِ قدوم میں مسنون ہے۔
۱- بعض حجاج حدودِ عرفہ سے پہلے ہی قیام کرلیتے ہیں، اور سورج غروب ہونے تک وہیں رہتے ہیں، پھر وہیں سے مزدلفہ چلے جاتے ہیں، اور عرفہ میں قیام ہی نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اور اس کی وجہ سے حج فوت ہوجاتا ہے، کیونکہ وقوفِ عرفہ حج کا بنیادی رکن ہے۔ اس کے بغیر حج درست نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ جو وقوف کے وقت میں یہاں وقوف نہ کرے اس کا حج نہیں ہوا۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے، چنانچہ جو شخص مزدلفہ کی رات فجر طلوع ہونے سے قبل بھی عرفہ آگیا تو اس نے حج پالیا‘‘(سنن ترمذی، ۸۸۹، سنن نسائی، ۳۰۴۴، سنن ابن ماجہ، ۳۰۱۵)۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ بعض حضرات عرفہ سے قبل ہی قیام کرلیتے ہیں اور دوسرے انھیں دیکھ کر دھوکاکھا جاتے ہیں۔ اس لیے حجاجِ کرام کو چاہیے کہ وہ حدودِ عرفہ کی اچھی طرح تحقیق کرکے ہی قیام کریں۔ حدود کا تعیین کرنے والے بورڈوں اور وہاں کام کرنے والے افراد سے رہنمائی لینا مناسب ہوگا۔
۲- بعض حجاج غروبِ آفتاب سے قبل ہی عرفہ سے نکل جاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ غروب کے بعد عرفہ سے نکلے تھے۔
۳- دعا کے دوران قبلہ کے بجاے جبل رحمت کی جانب رخ کرنا۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ نے قبلہ رو ہوکر دعا کی۔
۴- بعض حجاج عرفہ میں ظہر اور عصر کی نمازیں اپنے اپنے وقت پر مکمل ادا کرتے ہیں۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ یہاں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ظہر کے وقت میں ادا کرنی چاہیے، جیسا کہ نبیؐ نے کیا۔ حضرت جابرؓ نبی کریمؐ کے حج کے تذکرے میں عرفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پھر اذان کہی گئی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ نے ظہر پڑھی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ نے عصر پڑھی، اور ان دونوں کے درمیان کچھ نہیں پڑھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)
۵- منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ میں نماز قصر کے ساتھ پڑھنے کا حکم حج کا ایک خاص حکم ہے۔ اس میں اہلِ مکہ اور غیر اہلِ مکہ سب شامل ہیں۔ اس لیے کہ نبی کریمؐ نے حجۃالوداع کے موقع پر ان مقامات پر جب جب نمازیں پڑھائیں تو آپؐ کے ساتھ اہلِ مکہ بھی ہوتے تھے، لیکن آپؐ نے انھیں نماز پوری کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر نماز پوری کرنا ضروری ہوتا تو آپؐ انھیں اس کا حکم دیتے، جیسا کہ فتحِ مکہ کے موقع پر آپؐ نے کیا۔ حضرت عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں: ’’میں فتحِ مکہ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ تھا۔ آپؐ نے وہاں ۱۸ دن قیام کیا۔ آپؐ دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کہتے: ’’اے اہلِ مکہ، چار رکعتیں پڑھو، کیونکہ ہم مسافر ہیں‘‘ (سنن ابوداؤد، ۱۲۳۱) ۔ البتہ اگر کچھ لوگ منیٰ یا عرفہ میں مستقل سکونت اختیار کرلیں تو قصر نہیں کریں گے۔ (موطا امام مالک، باب صلاۃ منیٰ، ۹۰۴)
۶- عرفہ میں ۹ ذی الحجہ کی ظہر اور عصر، نیز مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کرکے پڑھیں گے، جب کہ منیٰ میں تمام نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھیں گے۔
۱- مزدلفہ کی رات کو سب سے افضل رات بتایا جاتا ہے اور اس میں عبادت کی بڑی فضیلت بیان کی جاتی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے اس رات مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ کر طلوع فجر تک آرام کیا۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: ’’پھر آپؐ مزدلفہ آئے، اور یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت سے ادا کیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔ پھر آپؐ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی‘‘۔ (مسلم،۳۰۰۹)
۲- بعض حجاج غروب آفتاب کے فوراً بعد مغرب پڑھ لیتے ہیں خواہ عرفہ ہی میں ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ غروب کے فوراً بعد عرفہ سے نکل جائیں اور مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھیں۔
۱- یہ اعتقاد رکھنا کہ مزدلفہ سے کنکریاں چننا ضروری ہے، چنانچہ رات میں بڑی مشقتوں کے ساتھ کنکریاں چنتے ہیں اور پھر منیٰ میں ان کو بڑا سنبھال کر رکھتے ہیں۔ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’عقبہ کی صبح اللہ کے رسولؐ نے اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ میرے لیے کنکریاں چنو، تو میں نے آپؐ کے لیے کنکریاں چنیں، جو چنے کے دانے کے برابر تھیں۔ جب میں نے انھیں آپؐ کے ہاتھ میں رکھا تو آپؐ نے فرمایا : ان جیسی کنکریوں سے رمی کرو، اور دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘ (سنن نسائی، ۳۰۵۷، سنن ابن ماجہ، ۳۰۲۹)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے جمرہ کے پاس کھڑے ہو کر کنکریاں چننے کا حکم دیا۔
۲- رمی کرتے ہوئے یہ اعتقاد رکھنا کہ ہم شیطان کو مار رہے ہیں، چنانچہ جمار کو شیطان کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ نیز انتہائی غصے اور غیظ وغضب کے ساتھ شیطان کو صلواتیں سناتے ہوئے کنکری مارتے ہیں۔ بسا اوقات بعضے اشخاص غصے کی شدت کی وجہ سے اوپر چڑھ کر جمار کو جوتوں اور بڑے پتھروں سے مارنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے بنیاد ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’خانہ کعبہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار اللہ تعالیٰ کا ذکر قائم کرنے کے لیے ہے‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۱۸۹۰)
۳- بڑی بڑی کنکریوں، جوتے، چپلوں اور لکڑیوں سے رمی کرنا۔ یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ آپؐ نے چنے کے برابر کنکریوں سے رمی کی اور بصراحت فرمایا کہ: ’’اور دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘۔
۴- جمرات کی طرف انتہائی شدت کے ساتھ بڑھنا، بایں طور کہ نہ دل میں اللہ کا خوف ہو اور نہ بندوں پر رحم کا جذبہ۔ چنانچہ لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اور کبھی کبھی بات گالم گلوچ اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے بچنا چاہیے اور اطمینان وسکون کے ساتھ رمی کرنی چاہیے۔
۵- ایامِ تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ) میں پہلے اور دوسرے جمرہ کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا، جب کہ اللہ کے رسولؐ کے طریقۂ حج میں یہ دعا ثابت ہے۔ ’’اللہ کے رسولؐ جب مسجد منیٰ کے قریب والے جمرہ کو کنکریاں مارتے تو سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آگے بڑھ کر کھڑے ہوجاتے اور قبلہ رو ہوکر ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرتے۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس آتے اور اسے بھی سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر بائیں جانب وادی سے قریب اُتر کر کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے۔ پھر عقبہ کے قریب والے جمرہ کے پاس آتے اور اسے سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر واپس چلے جاتے اور اس کے بعد کھڑے نہیں ہوتے‘‘۔(بخاری، ۱۷۵۳)
۶- ساری کنکریاں ایک بار میں مار دینا۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے، اور ایسی صورت میں یہ صرف ایک کنکری شمار ہوگی۔ ہر کنکری الگ الگ مارنی ضروری ہے۔
۷- رمی کرتے وقت غیر منقول دعائیں پڑھنا، جیسے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رِضًا لِلرَّحْمٰنِ، وَغَضَبًا لِلشَّیْطَانِ۔ بسااوقات اس دعا کو پڑھنے کے چکر میں نبیؐ سے منقول تکبیر تک چھوڑ دی جاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپؐ سے جتنا ثابت ہے بلا کمی بیشی کے اس پر عمل کیا جائے۔ آپؐ صرف تکبیر کہتے ہوئے ہر کنکری مارتے تھے۔
۸- رمی جمار میں سستی کرنا اور بلاعذر، قدرت کے باوجود دوسروں کو رمی کے لیے وکیل بناکر بھیجنا۔ ارشادِ باری ہے: وَاَتِمُّواْ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ (البقرہ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو تو اسے پورا کرو‘‘۔ اس لیے جو شخص رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے خود رمی کرنی چاہیے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں اور پریشانیوں پر صبر کرنا چاہیے، کیونکہ حج ایک قسم کا جہاد ہے اور اس میں پریشانیوں کا وجود لازم ہے۔
۹- رمی جمرات کے وقت کے تعیین کے سلسلے میں علماے کرام کی دو رائیں ہیں۔ ایک راے یہ ہے کہ ۱۰ ذی الحجہ کی رمی کا وقت طلوعِ آفتاب کے بعد شروع ہوتا ہے اور ۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ کو اس کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، اس سے قبل رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض دیگر علماے کرام نے حالات کے لحاظ سے یہ فتویٰ دیا کہ طلوعِ فجر کے بعد بھی رمی کی جاسکتی ہے۔ اس مسئلے میں ایک معتدل راے یہ نظر آتی ہے کہ وقت کے تعیین کا امر حاجی کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن۶۴:۱۶) ’’جہاں تک تمھارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ نیز آپؐ نے فرمایا: میں نے جس سے تمھیں منع کیا ہے اس سے باز رہو اور جس کا حکم دیتا ہوں اسے حسب ِ استطاعت بجا لائو‘‘۔(بخاری:۷۲۸۸، مسلم: ۶۲۵۹)
آیتِ کریمہ اور حدیث نبویؐ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر حاجی خود یہ فیصلہ کرے کہ حالات کے مطابق اس کے لیے کس طریقے پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے، مثلاً جن حجاج کرام کو منیٰ میں خیمے میسر ہوں انھیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ زوال کے بعد رمی کریں۔ البتہ جن حجاج کو منیٰ میں خیمے میسر نہیں ہوتے اور انتظامیہ کے افراد انھیں ہمہ وقت شارع پیمائی پر مجبور رکھتے ہیں، ان کے لیے رخصت پر عمل کرتے ہوئے طلوعِ فجر کے بعد سے ہی رمی کی اجازت ہونی چاہیے۔
۱- ۱۲ یا ۱۳ ذی الحجہ کو رمی جمرات سے پہلے منیٰ سے مکہ آکر طوافِ وداع کرلینا، پھر منیٰ واپس جاکر رمی کرنا، پھر وہیں سے وطن لوٹ جانا۔ یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو(یعنی طوافِ وداع کریں)، البتہ حائضہ سے یہ معاف کردیا گیا‘‘ (بخاری، ۱۷۵۵، مسلم، ۳۲۸۴)۔ نیز حضرت عمرؓ کا اس باب میں صراحتاً یہ حکم ہے کہ جس نے طوافِ وداع کے بعد رمی کی تو اس کا طواف وداع نہیں ہوگا، اور اس پر یہ واجب ہوگا کہ وہ رمی کے بعد دوبارہ طواف کرے۔ اگر وہ دوبارہ طواف نہیں کرتا تو اس کا حکم اس شخص کے حکم کی طرح ہے جس نے طوافِ وداع کیا ہی نہیں۔
۲- طوافِ وداع کے بعد بلا عذر مکہ میں رکے رہنا، البتہ اگر طواف کے بعد نماز کا وقت ہوجائے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح سفر کی ضروریات کی وجہ سے اگر دیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
۳- طوافِ وداع کے بعد خانہ کعبہ کی جانب منہ کرکے مسجد ِ حرام سے نکلنا، بایں طور کہ خانہ کعبہ کی جانب پیٹھ نہ ہو، اور یہ سمجھنا کہ اس میں خانہ کعبہ کی تعظیم واحترام کا پہلو مد ِ نظر ہے۔ یہ سراسر بدعت ہے۔ اللہ کے رسولؐ، خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا یہ عمل نہیں تھا۔
۴- طواف مکمل کرنے کے بعد خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے الوداعی دعاوسلام کرنا۔ یہ چیز بھی بدعت ہے۔ اس لیے کہ جس طرح نبیؐ کی اتباع میں ان افعال کو کرنا واجب ہے جو آپؐ نے کیے ہیں، اسی طرح ان افعال کو ترک کرنا بھی ضروری ہے جو آپؐ نے نہیں کیے تھے۔
حدودِ حرم کے اندر مقیم اہلِ مکہ اگر عمرہ کرنا چاہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھیں۔ اسی لیے حجۃالوداع کے موقع پر جب حضرت عائشہؓ ماہواری کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی تھیں تو طہارت کے بعد اللہ کے رسولؐ نے ان کو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ساتھ حدودِ حرم سے باہر تنعیم نامی مقام پر عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے بھیجا تھا۔ یہ رخصت مخصوص حالت کی وجہ سے تھی۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ نے کبھی بھی اس رخصت کو ہر شخص کے لیے عام نہیں سمجھا، بلکہ خود حضرت عائشہؓ اس کو عام تصور نہیں کرتی تھیں۔ لیکن آج اس رخصت پر اس عموم کے ساتھ عمل ہورہا ہے کہ عقل حیران ہے۔ آپؐ نے حج وعمرہ کی خاطر مکہ آنے والوں کے لیے میقاتیں مقرر کی ہیں اور فرمایا:’’یہ حددو مذکورہ ممالک کے لوگوں کے لیے اور اہل میقات کے علاوہ یہاں سے گزرنے والے ان تمام لوگوں کے لیے بھی ہیں جو حج یا عمرہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ نیز جو حضرات میقات اور حد ِ حرم کے درمیان رہایش پذیر ہیں وہ حج اور عمرہ کا احرام اپنے گھروں سے باندھیں گے۔ اور جو حضرات حدودِ حرم کے اندر رہتے ہیں وہ حج کا احرام اپنے گھروں سے، اور عمرہ کا احرام حدودِ حرم سے باہر نکل کر باندھیں گے۔
اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ حجاج کی ایک بڑی اکثریت بغیر کسی عذر کے تنعیم (یا حدودِ حرم سے باہر کسی بھی مقام) سے عمرہ کا احرام باندھ کر کثرت سے عمرہ کرتی ہے۔ بغیر کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں۔ البتہ اس امر میں تشدد برتتے ہوئے اس کو مطلق ناجائز قرار دینا بھی غلط ہے۔ ایک معتدل نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس سلسلے میں حجاج کے درمیان فرق کیا جائے اور ہر ایک پر یکساں حکم لگانے سے گریز کیا جائے۔ لہٰذا یہ کہا جائے کہ جو حضرات دُور دراز ممالک سے آئے ہیں، اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا اور آخری سفرِ حرمین ہے، تو ایسے لوگوں کے لیے یہ گنجایش نکالی جاسکتی ہے کہ وہ بلا عذر بھی اس رخصت پر عمل کریں۔ البتہ جو لوگ سعودی عرب اور آس پاس ممالک میں مقیم ہیں اور جن کا کثرت سے مکہ آنا ہوتا ہے وہ بلاعذر اس رخصت پر عمل نہ کریں، بلکہ متعینہ میقات سے ہی احرام باندھیں۔ واللّٰہ اعلم، وھو الموفق للصواب۔
مقالہ نگار اسلامی یونی ورسٹی، مدینہ منورہ میں استاد ہیں۔
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ کوئی آدمی عقیدے میں پختہ ہو یا کمزور، یہ ضمنی بحثیں ہیں، لیکن اصلاً جس عقیدے کا حامل جو شخص ہوتا ہے اس کے اعمال، افعال، رویے اور کردار پر لازماً اس کا گہرا اثر اور چھاپ ہوتی ہے۔
عقیدۂ آخرت اس یقین کا نام ہے کہ یہ دنیا اور یہ زندگی فانی ہے۔ اس عالم کے بعد ایک دوسرا عالم وجود میں آنا ہے۔ جس طرح سے عالم دو ہیں، اس طرح سے زندگیاں بھی دو ہیں۔ گویا اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اصلاً زندگی تو ایک ہی ہے، جس چیز کا نام ہم نے موت رکھا ہوا ہے، اس کی آمد سے وقتی اور عارضی طور پر محض زندگی کا مرحلہ بدل جاتا ہے مگر زندگی اور اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس زندگی کو ہم عارضی یا ناپایدار زندگی کہتے ہیں، اور وہ زندگی جو موت کے دراوزے سے گزر کر شروع ہوتی ہے، پایدار، باقی رہنے والی، دائمی اور ہمیشہ کی زندگی قرار پاتی ہے۔ قرآن پاک میں جابجا اس حوالے سے جواب دہی کا احساس اور آخرت کا حوالہ موجود ہے:
وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرہ ۲:۴) اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo (القیامۃ ۷۵:۳۶) کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟
تمام اعمال کی جواب دہی اسی عقیدۂ آخرت کی بنیاد پر ہے۔ محاسبۂ اعمال کی تفصیل قرآن پاک کے اوراق کے اندر بکھری ہوئی ہے۔ سورئہ واقعہ، سورئہ معارج، سورئہ حاقہ، سورئہ قیامہ، سورئہ تکویر اور سورئہ نبا، یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن میں قیامت اور آخرت کی ہولناکیوں اور مجرمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے، نیز روزِ محشر کی تفصیلات ہیں۔ سورج کا لپیٹ دیا جانا اور ستاروں کا بے نور ہو جانا، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، جو انسان جو کچھ لے کر آیا ہے، اس کو اپنا کیا دھرا سب معلوم ہوجائے گا، جب آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے اور جب دریا ایک دوسرے سے مل کر بہہ نکلیں گے، جس دن صور پھونکا جائے گا اور یکایک قبروں سے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے، اور اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے اور پکاریں گے: ہاے ہماری کم بختی، کس نے ہماری خواب گاہوں سے ہمیں جگادیا اور یہ تو وہی قیامت کادن ہے، جس کا حق تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے اس کے بارے میں سچی خبریں ہم تک پہنچائی تھیں___ یہ وہ منظرکشی ہے جس سے تسلسل کے ساتھ آخرت اور اس کی جواب دہی اور اس حوالے سے انسانوں کے اعمال کو دیکھا اور پرکھا جانا سامنے آتا ہے۔
ایمان کے بعد انسانی زندگی کو سنوارنے، اس کو حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اوراس کو درست رُخ دینے کے لیے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے اگر کوئی عقیدہ ہے تو وہ آخرت کا عقیدہ ہے۔ آخرت کی فکر کے لیے یہ پوری منظرکشی قرآنِ مجید اور احادیث میں ملتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو مطلوب ہے،اس لیے کہ فکرِ آخرت انسانی جمود کو توڑنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ جب انسان بے عمل ہوجائے، غلط راہوں پر چل نکلے، گم کردۂ راہ ہوجائے، سب کچھ جانتے ہوئے عملی زندگی میں انجان سا بن جائے، تو یہ آخرت کی فکر انسان کے جمود کو توڑنے اور اس کے ایمان پر لگ جانے والے زنگ کو اُتارنے، دیگر افکار اور پریشانیوں سے کاٹ کر آخرت کے شعور کی طرف لانے کے لیے نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔
جناب صدیق اکبرؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرانے ساتھی تھے۔ عمر میں بھی دو ہی سال کا فرق تھا، گویا بچپن ہی سے ایک دوسرے کو دیکھتے آئے تھے۔ جناب صدیق اکبرؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! آپؐ پر تو بڑھاپا آگیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ہاں، مجھے بوڑھا کر دیا سورئہ ہود، سورئہ واقعہ، سورئہ مرسلات، سورئہ نبا اور سورئہ تکویر نے۔ (ترمذی)
ان سورتوں کی اگر تلاوت کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وہی سورتیں ہیں جن میں قیامت اور آخرت کا بیان ہے۔ ان میں اس پکڑ، بازپُرس اور تنبیہ کا بیان ہے جو آخرت برپا ہونے سے پیش تر کی جارہی ہے۔ نبی کریمؐ ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے تو آپؐ پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی تھی۔ آپؐ چونکہ داعیِ اعظم اور داعیِ اوّل تھے، اس لیے یہ خوف بھی آپؐ کو ستاتا تھا کہ اگر یہ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے تو لازماً پکڑے جائیں گے،اور اس طریقے سے بارگاہِ رب العزت میں دھر لیے جائیں گے۔ یہ وہ کیفیت تھی کہ جس میں جواب دہی اور دوسروں کی نجات کے لیے فکرمند ایک داعی کی حیثیت سے آپؐ سرشار رہتے تھے۔ لوگوں تک پہنچنا، ان کے دلوں پر دستک دینا، ان کو سیدھے راستے پر لانا، جہنم کی آگ سے بچانا اور قبر کی پکڑ سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام جتن کرنا، ان کی فکرمندی کا عنوان تھا۔
اپنی گھریلو زندگی میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس فکرمندی میں گُھلے جاتے تھے۔ ان کیفیات کا تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی احادیث میں ملتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے حضوؐر کو بارہا یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا ، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لیجیے‘‘، تو میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! آسان حساب کی کیا صورت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایک شخص کے اعمال نامے کو دیکھے گا اور بس اس سے صرفِ نظر فرما لے گا، تو یہ آسان حساب ہوگا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! اس دن جس شخص سے واقعی پوچھ گچھ ہوگئی تو وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا۔ اسی لیے آپؐ نے یہ دعا بھی سکھائی۔
موت جس چیز کا نام ہے، اور جس سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہیں، یہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ موت کے بعد کے جو واقعات قرآن اور حدیث میں ملتے ہیں، وہ تو اور بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ ان کے تذکرے سے بھی آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اوراعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری دُور کرنے کا جذبہ انسان کے اندر پروان چڑھتا ہے۔ موت سے زیادہ یقینی چیز کوئی بھی نہیں۔ یہ بڑی ہی تلخ حقیقت ہے اور اس کڑوے گھونٹ کو پیے بغیر گزارہ بھی نہیں ہے۔ اس سے انسانوں کو مَفر نہیں ہے۔
حضرت سعد بن معاذؓ بڑے جلیل القدر صحابیؓ ہیں۔ نبی کریمؐ آپ کی نمازِ جنازہ پڑھا رہے ہیں۔ آپؐ ہی کے مبارک ہاتھوں ان کی تدفین عمل میں آرہی ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں سے قطع نظر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی کریمؐ کے ذریعے سے ہمیں یہ تعلیم دے رہا ہے کہ قبر کی پکڑ کسے کہتے ہیں، قبر کا سکڑ جانا اور اس کے نتیجے میں انسانوں کا بھینچا جانا کسے کہتے ہیں، اور قبر کی حقیقت کیا ہے!
حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے اَن گنت واقعات ہیں جو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے ملتے ہیں کہ وہ کس فکر کے اندر غلطاں و پیچاں رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبرؓ کہتے کہ کاش! میں تنکا ہوتا۔ اس کا کوئی حساب کتاب تو نہیں ہوتا، اور اس کی کوئی پوچھ گچھ تو نہیں ہوتی۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ کاش! کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ میں چھوٹ جائوں۔
آخرت کا بہت گہرا تعلق فکرِ دنیا سے ہے۔ ان دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال ہی انسان کو راہِ راست پر رکھتا ہے۔ اگر انسان فکرِ دنیا کے اندر دُور تک چلا جائے توفکرِ آخرت اس سے گم ہوجاتی ہے۔ اس لیے فکرِ آخرت کی دولت پانے کے لیے خود دنیا کا تصور واضح اور دوٹوک ہونا چاہیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کے ساتھ چل رہے تھے کہ کوڑے کے ڈھیر پر بکری کا مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ آپؐ نے صحابہ کی طرف رُخ کر کے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بکری کے اس بچے کو ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرامؓ قدرے حیران ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو بکری کا مرا ہوا بچہ ہے، ہم میں سے تو کوئی اس کو مفت میں لینا بھی گوارا نہیں کرے گا۔
ذرا دیکھیے کہ کس طرح آپؐ تعلیم دیتے ہیں، کیسے ذہنوں کو آمادہ کرتے اور لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حیثیت اس بکری کے مرے ہوئے بچے سے بھی کم تر ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس دنیا کی فکر میں ہم دن رات لگے رہتے ہیں، تگ و دو کرتے ہیں اور اسی کے غم میں نڈھال ہوتے، جوانی کے اندر بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں، اس دنیا کی یہ حیثیت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: دریا کے اندر انگلی ڈالو اور باہر نکالو تو جو پانی اس انگلی کے اُوپر لگا رہ جائے گا، وہ دنیا کی زندگی ہے، اور جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی باقی رہے گا، وہ آخرت کی زندگی ہے۔
یہ دنیا تو لمحوں، مہینوں، اور برسوں کی اتنی طوالت کے باوجود بہت کم، بہت ہی بے مایہ اور بے حیثیت ہے، جب کہ آنے والی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی ہے، جس کی کامیابی اصل کامیابی اور ناکامی اصل ناکامی ہے۔ اس دنیا میں پائی جانے والی کامیابی عارضی ہے، پانی کا بُلبلہ ہے کہ ابھی ہے اور ابھی نہیں۔ یہاں کی ناکامی اور یہاں کا غم بھی بالکل عارضی ہے کہ وہ اچانک ختم ہوجاتا ہے۔ دنوں کی رفت گزشت کے نتیجے میں ذہنوں سے دُھل جاتا ہے۔ اس لیے تصورِ آخرت کے ساتھ ساتھ خود تصورِ دنیا بھی احادیث پاک میں بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے۔ ملازم کو دیکھا تو اس کو آواز دی اور کہا کہ جائودیکھو میرے اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا اُونٹ ہے، وہ اللہ کی راہ میں دے دو اور قربان کر دو۔ کچھ دیر کے بعد ملازم آیا اور اطلاع دی کہ کام ہوگیا ہے۔ شام کو جب آپؓ اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا سُرخ اُونٹ تھا، وہ اسی طرح زندہ سلامت کھڑا ہے۔ آپؓ نے ملازم کو بلایا اور کہا کہ نیک بخت میں نے تجھ سے کہا تھا کہ سب سے اچھا اُونٹ اللہ کے راستے میں دے دو، اور تو نے نہایت ہی مریل اُونٹ اللہ کے راستے میں قربان کردیا۔ اس نے کہا: یہ تو دراصل وہ اُونٹ ہے جو آپؓ سواری میں استعمال کرتے ہیں، بُرے وقت میں کام آتا ہے، سفر میں آپؓ کا ساتھ دیتا ہے، اس لیے میں نے اس اُونٹ کو رہنے دیا۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ ارے نیک بخت! تجھے پتا ہی نہیں کہ مجھے کس دن کی سواری کے لیے اُونٹ مطلوب تھا۔ جب کوئی سواری میسر نہ ہوگی تو اس لمحے کے لیے مجھے یہ اُونٹ مطلوب تھا۔ میں اس دن کے لیے یہ اُونٹ چاہتا تھا کہ جب کسی انسان کو سایہ بھی میسر نہ آئے گا اور کوئی بھی سہارا اس کو نہیں ملے گا___ یہ ہے تصورِ دنیا اور تصورِ آخرت۔ یہ تصور درست ہوگا تو فکر بھی درست ہوگی اور صحیح رُخ پر اس کی تشکیل ہوگی۔
اس زندگی میں تصورِ مال کا درست ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ مال کی حقیقت کیا ہے؟ وہ جو واقعہ آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے اور اُمہات المومنینؓ سے پوچھا کہ گھر میں کچھ کھانے کے لیے ہے؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج ایک بکری ذبح کی گئی تھی اسے محلے میں، رشتہ داروں میں اورعزیزو اقارب میں تقسیم کر دیا گیا ہے، بس دست کا ایک ٹکڑا باقی ہے۔ دیکھیے آپؐ نے کیا فرمایا؟ آپؐ نے فرمایا: جو دے دیا گیا، دراصل وہی باقی ہے اور جو رہ گیا وہ کس کے کام آنا ہے۔
اصل مسئلہ تو تصورات کا ہے۔ اگر تصورات درست ہوں گے تو فکر بھی درست اور ٹھیک ہوگی اور عمل کی وادی میں آدمی صحیح سمت کی طرف چلے گا۔ یہ تصورِ آخرت ہی تو ہے کہ جو دے دیا گیا وہی دراصل باقی ہے اور جو باقی رہ گیا، وہ بھلا کس کے کام آنا ہے۔
ہمارا روزمرہ کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جب دینے کا موقع آتا ہے تو بھلے سے بھلا آدمی بھی یہ سوچنے لگتا ہے کہ چلو گھر کی صفائی کا نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔ لوگ پھٹے پرانے کپڑے، گھسے پٹے جوتے اور ٹوٹے پھوٹے برتن اور دوسرا سامان وغیرہ نکال نکال کر راہِ خدا میں دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات نہیں ہوتی کہ میں یہ اپنے آپ کو دے رہا ہوں، اس لیے کہ جب ہم وہاں پر پہنچیں گے تو یہی پھٹے پرانے کپڑے اور ٹوٹے پھوٹے جوتے، اور گیا گزرا سامان ہمارا انتظار کر رہا ہوگا کہ تم نے اپنے آپ کو یہی دیا تھا نا۔ اب یہی کھائو، پیو اور عیش کرو!
ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہی نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ خیال تو یہی ہوتا ہے کہ راہِ خدا میں دیا جا رہا ہے۔ اگر انسانی ذہن اس بات کو سوچنے اور بالآخر اس کے مطابق اپنے یقین کو پختہ کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے کہ یہ دراصل میں اپنے آپ کو دے رہا ہوں، یہ فی الحقیقت خود میری ذات کے لیے سرمایہ کاری ہے، تو اس کا رویہ بدل جائے گا۔ پھر وہ بہتر سے بہتر دے گا، اچھے سے اچھا دے گا، جس چیز سے محبت کرتا ہے، اسی سے انفاق کرے گا۔ اس لیے تصورِ مال کا درست ہونا، تصورِ دنیا کا درست ہونا ضروری ہے اور اسی کے نتیجے میں تصورِ آخرت درست ہوتا ہے جو مطلوب ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ مشہور صحابی ہیں۔ نبی کریمؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے سورئہ مطففین کی آیت: یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (وہ دن جب تمام انسانوں کو بارگاہِ رب العزت میں لاکھڑا کیا جائے گا۔۸۳:۶) کی تلاوت کی اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! روزِ محشر جو ہزار سال سے بھی بڑا دن ہوگا، کس کے اندر یہ طاقت اور مجال ہوگی کہ اللہ کی بارگاہ میں کھڑا رہ سکے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ابوسعید! وہ دن نافرمانوں اور مجرموں اور باغیوں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔
مصیبت کا دن تو ویسے ہی بڑا سخت ہوتا ہے۔ مصیبت کی گھڑی ٹلنے کو نہیں آتی۔ کسی آزمایش سے انسان دوچار ہوجائے تو لگتا ہے کہ نہ معلوم کب سے اس آزمایش کے اندر گھرا ہوا ہے۔ کچھ یاد بھی نہیں آتا کہ کبھی خوشی و مسرت سے بھی ہم کنار ہوا تھا لیکن آپؐ نے فرمایا کہ مومنوں کے لیے اس دن کو آسان بنا دیا جائے گا اور وہ اپنے رب کے جلوے سے سرفراز ہوںگے، اور ان کے چہرے شاداں و فرحاں ہوں گے، سورئہ قیامہ کی آیت کَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ (۷۵: ۲۰-۲۲) کی گویا آپؐ نے تشریح فرمائی کہ اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوںگے، شاداں و فرحاں ہوں گے، چمکتی دمکتی پیشانیوں کے ساتھ پُرامید نگاہوں کے ساتھ، اپنے رب کی طرف بڑھ رہے ہوںگے، اس نعمت کو لینے کے لیے اور انعامات کا مستحق ٹھیرنے کے لیے اور اپنے رب کے دربار سے سرخ رُو ہونے کے لیے۔
ایک طرف یہ منظر ہے کہ لوگ شاداں و فرحاں ہوںگے اور اُمید بھری نگاہوں سے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ وہاں ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ کچھ چہرے اُداس ہوں گے، آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، اور ان کو یہ خیال ستا رہا ہوگا کہ عنقریب ایک کمرتوڑ سلوک ان کے ساتھ کیا جانے والا ہے۔ ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کی تصویر میں یہ فرق بڑا واضح ہوگا۔ ایک گروہ رحمتِ الٰہی کی اُمیدیں لیے ہشاش بشاش ہوگا، چمکتی پیشانیوں اور کھِلے چہروں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہوگا، وہیں دوسرا گروہ عذابِ الٰہی کے اندیشوں سے بدحواس، اور اپنے رب کی پکڑ اور اس کے دربار میں جو سلوک اس کے ساتھ کیا جانا ہے اس کی سختی سے بے حال ہوگا۔
روزِ محشر کا یہ بیان قرآن پاک کے اندر اور بہت سے مقامات پر موجود ہے اور احادیث میں نبی اکرمؐ نے تفصیل سے اسے بیان فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ میدانِ حشر کا یہ منظر موت کے دروازے سے گزر کر ہی نظر آئے گا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہم تو اس کے تذکرے سے بھی تھوڑے سے گریزاں اور کتراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی مجلسوں کا موضوع تو آخرت اور موت کی یاد ہوا کرتا تھا۔ لوگ اس حوالے سے اپنی پوری زندگی کو استوار کرتے اور اس کو بنیاد بناتے تھے۔ ادھر ہمارے ہاں اگر بھری بزم کے اندر کوئی موت کا تذکرہ لے بیٹھے تو لوگ اسے بدشگونی سمجھتے ہیں۔
پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی، وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ(القیامۃ ۷۵:۲۹)، یعنی جاں کنی کا مرحلہ۔ جب انسان نہ چل سکے گا، انھی پنڈلیوں کے بل پر ہی تو انسان چلتا پھرتا اور جولانیاںدکھاتا ہے۔ ادھر سے مال بھیجا، اُدھر سے چھڑا لیا، اُدھر اتنے لینے کے دینے اور اِدھر اتنے دینے کے لینے، یہاں اکائونٹ کھولا اور وہاں اکائونٹ کھولا، لمحوں کے اندر دولت مند بن گیا۔ اِدھر لوگوں کو ملازم رکھا اوراُدھر برطرف کر دیا، ایک قلم اور ایک دستخط سے نہ جانے کتنے لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرڈالا۔
پھر جب رب کی طرف لوٹنے کا سفر شروع ہوتا ہے تو ایک ایک کر کے منظر بدلتے چلے جاتے ہیں۔ کسی موذی بیماری یا طویل علالت کا زمانہ شروع ہوتا ہے تو وہی جہاں دیدہ، مشہور و معروف، محفل کی جان اور اپنے بچوں کے لیے آسمان کے تارے توڑ لانے کے لیے سرگرم فرد بستر سے لگا پڑا ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے بچوں کو بلائو، مگر بچے مال و دولت سمیٹنے میں اور مینجمنٹ کی ذمہ داریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ پیغام ملتے ہی کہتے ہیں کہ کس مصروف وقت میں ابّاحضور یا دادا جان نے ناگاہ طلب فرمایا ہے۔ ایک اُکتاہٹ، ایک بے زاری کی کلونس چہرے پر چھا جاتی ہے، اور جب آتے ہیں تو جلد واپس جانے کا بہانہ پہلے ہی سے گھڑ کے ساتھ لاتے ہیں۔ ابا حضور کی آنکھیں توو ہی ہوتی ہیں لیکن دھندلائی ہوئی اور دیکھنے سے انکاری۔ وہی کان ہوتے ہیں لیکن سننے سے عاری ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے پہچاننے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ زبان سے کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے۔ کہتے کچھ ہیں، مگر ادا کچھ ہوتا ہے۔ اس لمحے کوئی سعادت مند بچہ پکارتا ہے کہ بلائو ڈاکٹر یا حکیم کو، بلائو قاری صاحب کو کہ آیت کریمہ کا ختم کرائیں، سورئہ یٰس کی تلاوت شروع کر دو۔
یہ کوئی انوکھا منظر نہیں ہے، یہ عمل تو روز ہمارے گھروں میں ہوتا ہے۔ اس منظر سے تو ہم روز گزرتے ہیں اور پھر اُس کے بعد اُٹھ کر چلے آتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے کہ جو گن کر بتا سکے کہ اس نے کتنے لوگوں کو کندھا دے کر قبر تک پہنچایا ہے۔ ہم اَن گنت اور لاتعداد لوگوں کے جنازوں کو کندھا دیتے ہیں۔ وہ بھی اَن گنت اور لاتعداد ہیں کہ جن کی قبر کے کنارے کھڑے ہوکر، انسان کو قبر میں اُتارنے کا منظر ہم دیکھتے ہیں اور کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ذرا اس قبر کو اور گہرا کھودو اور میت کو مزید نیچے اُتارو۔ اسے نیچے اُتارنے میں پانچ چھے منٹ لگتے ہیں اور مٹی ڈالنے میں مزید چند منٹ۔ پھر اس کے اُوپر مٹی یا پتھر رکھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہوا کا تازہ جھونکا تک اسے نہ پہنچ پائے۔ مٹی ڈال کر اس دنیا سے اس کا رابطہ اور ناتا بالکل منقطع اور ختم کر دیا جاتا ہے___ مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ’اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا، اور اسی میں ہم تمھیں لوٹا رہے ہیں، اور اسی سے ہم تمھیں دوبارہ اٹھائیں گے‘‘۔
اس طرح سب لوگ جمع ہوکر میت کو منّوں مٹی تلے دبا دیتے ہیں۔ اس دوران میں کسی کو کوئی خوف نہیں آتا کہ یہ میرا دوست ہے، یہ میرا بھائی ہے، یہ میرا باپ ہے، یہ میرا بیٹا ہے، یہ میری ماں ہے، جسے ہم منوں مٹی تلے دبا رہے ہیں۔ یہ سارے دوست، احباب اور رشتہ دار ہی ہوتے ہیں۔ یہ پرائے نہیں، بلکہ اپنے ہوتے ہیں،یہ غیر نہیں، بلکہ دلوں میں بسے ہوتے ہیں کہ جن کی جدائی کے غم سے آنکھوں کے اندر نمی تیر رہی ہوتی ہے، جن کے لیے دلوں کے اندر گداز ہوتا ہے، خود خوف و خشیت کے اندر مبتلا ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انسان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جیسے باقی سب کوتو مرنا ہے، لیکن مجھے تو زندہ رہنا ہے ع
سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں
موت کے جس دروازے سے گزر کر حشر کا میدان آتا ہے، اس موت کے بارے میں کوئی بات ایسی نہیں ہے کہ جو ہم سے پوشیدہ ہو، یاجس سے ہم لاعلم ہوں۔ ابتدا میں، مَیں نے چند احادیث کے ذریعے عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ موت کس طرح زندگی کا تعاقب کرتی ہے اور پھر موت خود زندگی بن جاتی ہے۔ کیسا ہی باصلاحیت اور بااختیار انسان ہو یا کتنا ہی تندرست و توانا انسان ہو، بالآخر موت کے ہاتھوں زچ ہو جاتا ہے۔ پھر چاروں طرف یہ خبر پھیل جاتی ہے۔ بہت سے لوگ سوگوار ہوجاتے ہیں لیکن اس خبر کو تو پھیلنا ہی ہوتا ہے۔ یہ ہم ہیں کہ اس کی آمد کا انکار کرتے ہیں۔ وہ جن کے ہاتھوں نہ معلوم کتنے سیکڑوں ہزاروں انسانوں کو شفا ہوئی ہوتی ہے، اور جن کے ہاتھوں لوگوں کے بقول ہمیشہ کامیاب آپریشن ہوتا ہے، خود اسی مرض کے اندر چلے جاتے ہیں۔ گویا جو دوسروں کے لیے مسیحا ہوتے ہیں، اپنی مدد آپ نہیں کرپاتے۔ کون کون سا منظر ہے، جسے ہم نے نہیں دیکھا ہے اور جس سے ہم ناواقف ہوں۔
اس لیے موت کی یاد کے حوالے سے، جوانتہائی یقینی حقیقت ہے، اور جس سے زیادہ کوئی یقینی بات نہیں ہے، اس سے غفلت کو دُور کرنا، غفلت کے پردوں کو ہٹانا، اور یہ بھولا بسرا سبق ذہنوں کے اندر تازہ کرنا، دانش مندی بھی ہے اور سعادت مندی بھی کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس کو ہرگز دوام اور بقا نہیں ہے، جب کہ موت کے بعد کی زندگی کو بقا اوردوام ہے۔
شیخ جمال الدین کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ انھیں تاتاریوں نے گرفتار کرلیا اور موت بالکل آنکھوں کے سامنے تھی۔ تاتاری سردار نے تضحیک کے انداز میں ان سے پوچھا کہ شیخ تم زیادہ اچھے ہو کہ یہ کتا زیادہ اچھا ہے؟ شیخ نے ایک لمحے توقف کے بعد کہا کہ اگر میں اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجائوں کہ میرا ایمان سلامت رہے تو میں اس کتے سے بہتر ہوں، لیکن اگر اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجائوں کہ میرا ایمان سلامت نہ رہے تو یہ کتا مجھ سے بہتر ہے۔
وہ تاتاری سردار کی تضحیک کا نشانہ بھی نہ بنے اور پتے کی بات بھی کہہ گئے کہ اصل پہچان تو انسان کا ایمان ہے۔ یہ پہچان باقی ہے، تو پھر انسان ان راہوں پر چلتا ہے کہ جو مطلوب ہیں اور منزل کی طرف لے جانے والی ہیں۔
یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ارادے اور عزمِ مصمم کا تعلق مضبوط ایمان سے ہے۔ محض ایمان لانے کے اعلان کے نتیجے میں کسی ارادے پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل انسانی زندگی کو سنوارنے، حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے اور درست رُخ دینے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے آخرت ہی وہ عقیدہ ہے جو بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی سے فکرِدنیا اور فکرِآخرت میں اعتدال و توازن پیدا ہوتا ہے اور انسان کا تصورِ زندگی درست ہوتا ہے۔موت وہ اٹل حقیقت ہے جس کے تذکرے سے آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اور اعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری کو دُور کرنے کے لیے انسان کے اندر جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ قرآن و حدیث میں موت کی ہولناکی، اور روزِمحشر کے مناظر کو بار بار تازہ کرنے سے انسان خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے فکرمند ہوتا ہے ۔ وہ راہِ خدا میں بہترین مال دیتا ہے کہ اصل دینا یہی ہے۔ وہ علم و عمل میں مطابقت پیدا کرتا ہے۔ ہرلمحے اپنے جائزے اور احتساب کا اہتمام کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں جان و مال لٹا کر سبقت لے جانے والوں میں ہوجاتا ہے۔ یقینا ایسے ہی لوگ روزِ محشر شاداں و فرحاں اپنے رب کی رضا و خوش نودی اور اس کی جنت کے مستحق ٹھیریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں استقامت دے اور اپنی رضا و خوش نودی کا مستحق ٹھیرائے، آمین!
اپنے روزانہ کے پروگرام میں
تفھیم القرآن سے آدہا گہنٹہ ، گہنٹہ
…… قرآن کا مطالعہ بھی رکھیں ……
اس کے فوائد آپ کو بچشمِ سر خود نظر آئیں گے
وقت، دولت، زندگی اور اسی طرح کی دیگر چیزیں قربان کرنا، کوئی شک نہیں کہ، بڑا دُشوار کام ہے،مگران چیزوںکے مادّی اور محسوس اشیا ہونے کی وجہ سے ان کی قربانی میں کئی لحاظ سے زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ آپ جوکچھ بھی قربان کریں گے،وہ نظر آنے والی چیز ہوگی۔ جو قربانی آپ دیںگے اُسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اطمینان کر سکیںگے ۔علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر ایسی قربانیوں کی ضرورت بالعموم کسی بحران یاآزمایش کے وقت پیش آتی ہے۔ مصیبت اورآزمایش کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جو انسان کے اندر کے جذبات کوتحریک دے کراُس سے اپنی بہترین چیزیں باہر نکلوا لاتی ہیں۔ایسے مواقع پر آپ صورتِ حال سے باخبر ہوتے ہیں،آپ کو احتیاجات کی فوری تکمیل کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور آپ جذبات سے مغلوب بھی ہوتے ہیں۔ نیز ایسی قربانیاں بنیادی طورپر ذاتی نوعیت کی قربانیاں ہوتی ہیں،اپنی مرضی سے دی جاتی ہیں، بالعموم ان قربانیوںسے باہمی تعلقات کا پیچیدہ جال نہیں الجھتا۔
وہ تو غیر مادّی اور غیر محسوس قسم کی اشیا کی قربانیاں ہیں جو نہ صرف زیادہ مشکل ہیں، فرداور معاشرے کے لیے زیادہ اہم ہیں اور جدوجہد میں کامیابی کے لیے زیادہ ضروری ہیں، لیکن انھی قربانیوں سے صرفِ نظر کرنے، یا انھی قربانیوں کو نظرانداز کردیے جانے کے امکانات بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔اکثر اوقات ان قربانیوں کو قربانی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ان اشیاکی قربانی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ جس چیز کی قربانی دے رہے ہیں اُس کی جڑیں آپ کے دِل ودماغ کی پہنائیوں میں پیوست ہیں، وہ ٹھوس اور نظرآنے والی چیزیں نہیں ہیں، آپ کو اُن کی قربانی دیتے ہوئے دیکھا نہیں جا سکتا۔اوریہ قربانیاں صرف بحران و آزمایش کی گرما گرمی میں نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں، بغیر کسی کو دکھائے اور بغیر کسی کے علم میں لائے، ہرروز دی جاتی ہیں۔
اجتماعیت کی زندگی بسر کرتے ہوئے اﷲ کی راہ میں جدوجہدکے وقت ایسی قربانیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ اس نوعیت کی قربانیاںہیں کہ آپ بمشکل ہی ان کو قربانیاں سمجھیں گے۔ مگر ایسی قربانیوں کے بغیرکوئی مضبوط ہم آہنگ اجتماعی زندگی وجود میں آسکتی ہے، نہ کامیابی کی اُمید کے ساتھ کوئی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔مثال کے طورپر اپنی پسندوناپسند کو لے لیجیے۔ دولت کی طرح اس کاحساب نہیں لگایا جاسکتا،مگر افراد، اشیا ا ور موقف سے متعلق اپنی پسند وناپسند کی آپ کو قربانی دینی ہوگی۔ایسی غیر محسوس اشیا کی قربانی دینے کے لیے در حقیقت نسبتاً بڑے جذبۂ قربانی کی ضرورت پیش آئے گی۔اﷲ کے کام میں انسان کو نہ صرف اپنی جان ومال، وقت اوروسائل کی قربانی دینی پڑتی ہے، بلکہ اپنی پسند وناپسند اور اپنی محبت و نفرت کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کا ارشادہے: ’’جس نے صرف اﷲ کی خاطر محبت کی اور صرف اﷲکی خاطر نفرت کی، اُس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا‘‘۔(ابوداؤد، ترمذی)
جب ہم صحابۂ کرام کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ: اﷲ اُن سے راضی ہوا ،اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے (رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہٗ) کیوں؟کیوں کہ اُنھوں نے اپنی ذات کو اس حد تک فنا فی اﷲ کردیا تھا کہ اﷲ کی پسند اُن کی پسند، اور اﷲکی ناپسند اُن کی ناپسند بن گئی تھی۔ اُنھوں نے نہ صرف اپنی جان و مال کو اﷲ کے سپرد کردیا تھا بلکہ اپنی پوری ذات اﷲ کے حوالے کردی تھی۔
اس اہم ترین نوعیت کی قربانی کو عموماً ہم نظر انداز کردیتے ہیںجس کے بغیر اتحاد واتفاق کے مسالے سے تشکیل پانے والی اُس اجتماعیت کا بننا انتہائی مشکل ہے جو تنہا اﷲکے کام کو آگے بڑھاسکتی ہے۔آئیے ہم قربانی کی ان اقسام پر ایک اجمالی نظر ڈال لیں۔ ان میں محبت، نفرت، رشتہ داریاں، پسند وناپسند، ترجیحات وتعصبات، آرزو اوراُمنگ، آرام و راحت، اُمیدیں اور توقعات، رسوم و رواج، اقدار اور رویّے، عہدہ ومنصب یامحض اَنا اور خودپسندی شامل ہیں۔
کنبے کی محبت دُنیاکا طاقت ور ترین اور غالب ترین رشتہ ہے ۔مہد سے لحد تک والدین کی محبت، بچوںکی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت،بھائیوں اوربہنوں کی محبت، بلکہ دوسرے رشتہ داروں کی محبت بھی ہماری زندگی کا محور بنی رہتی ہے۔ یہ محبتیں ہمارے تمام تعلقات پر غالب رہتی ہیں۔عام طورپر ہماری زندگی، ہمارا روزگاراورمال و متاعِ دُنیا کا حصول اُنھی کی محبت کی خاطر اور اُنھی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے وقف ہوجاتاہے۔
ہم اپنے دل ودماغ، اپنی توجہ اور وفاداری اور اپنے وقت اور دولت پر کسی اور حق سے پہلے عام طورپر اس محبت کا حق تسلیم کرتے ہیں۔کنبے کی محبت کا تعلق ہمیں جس طرح جوڑے رکھتاہے اُس طرح کوئی اور تعلق نہیں جوڑ سکتا۔ہم اکثر لوگوںکو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ’مجھ پر سب سے پہلا حق میرے گھرانے کاہے‘یا کسی کو اس فخر کا اظہار کرتے دیکھتے ہیں کہ’میری وفا اور میرا خلوص سب کچھ اپنے خاندان کے لیے وقف ہے‘۔ اس کے معقول دلائل ہیں۔ خاندان قدیم ترین اور اہم ترین انسانی ادارہ ہے۔ انسان نے اب تک جن تہذیبوں اور ثقافتوں کی تشکیل کی ہے، یہ اُن سب کا سنگِ بنیادہے۔ایسی مؤثر اور گہری محبت اور ایسی غالب وفاداری کے بغیر تہذیبی اقدار، معیارات اور طور طریقے اگلی نسل کو منتقل کیے جاسکتے ہیں، نہ ان کو محفوظ اور برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ کنبے کے بغیر آدمی، آدمی ہی نہیں رہتا، برباد ہوجاتاہے۔ پھر کنبے کی محبت بھی اﷲ کی راہ میں قربان کردینے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کے واضح دلائل ہیں:
اوّل:آپ اُس وقت تک اپنی ذات کو اﷲ کے سپرد نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کی زندگی، آپ کی محبت اور آپ کی وفاداری پر اﷲ کا حق سب سے مقدّم اور سب سے اہم حق نہ بن جائے۔ یوں کنبے کا حق اﷲ کے حق کا مطیع ہوگا۔ بصورتِ دیگر یہ امکان ہے کہ کنبے کی محبت ایک صاحبِ ایمان کو اﷲ کے احکام کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے پر مائل یا مجبور کردے۔
دوم:کنبہ ہمیشہ سے وہ مضبوط ترین قلعہ رہا ہے جس میں مستحکم اقدار، عقاید، رسوم ورواج اور طرزِ حیات وغیرہ مورچہ بند رہتے ہیں۔ مسلمان بننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں اور اپنے معاشرے میں ایک تبدیلی لاناشروع کرتے ہیں۔آپ مستحکم بنیادوںپر قائم طرزِ زندگی کو چیلنج کرنا شروع کرتے ہیں اور اُسے اُکھاڑ پھینکنے کا آغاز کرتے ہیں۔باپ دادا کے طور طریقوں سے بغاوت اوراُن میں تبدیلی لانے کے خلاف پہلی مزاحمت خاندانی محبت کی حدوں کے اندرہی سے پیدا ہوگی ۔یہ بالکل فطری بات ہے۔
سوم:جوکچھ آپ کے پاس ہے اُسی کے بل بوتے پر آپ جہاد کا عزم کرتے ہیں۔آپ کی ہرچیز، بشمول خاندانی محبت کے حق پر، جہاد کا حق دیگر تمام حقوق سے فائق ہونا چاہیے۔کوئی چیز آپ کو جہاد کے راستے سے منحرف نہ کرسکے۔خاندانی محبت اگر کوئی رُکاوٹ نہ بنے، تب بھی آپ کواپنے فرض کی تکمیل کی خاطرکئی طریقوں سے یہ قربانی دینی پڑے گی۔
یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم ہمیں آگاہ کرتاہے: وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (الانفال ۸: ۲۸)،’’اورجان رکھوکہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اﷲ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔ اور ہمارے سامنے یہ بنیادی گہرا سوال رکھتاہے کہ تُم کس سے زیادہ محبت رکھتے ہو؟ اﷲ سے یا…؟
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَـآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَo (التوبہ ۹:۲۴)،اے نبیؐ!کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز واقارب، اور تمھارے وہ مال جوتُم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ گھر جو تُم کو پسند ہیں، تُم کو اﷲ اور اُس کے رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔
خاندانی محبت کی قربانی مختلف صورتوں میں دی جاسکتی ہے، اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ وہ اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری اور اُس کی رضا کے حصول کی جدوجہد میں کس انداز سے آڑے آتی ہے۔ پہلی مثال یہ ہے کہ خاندانی محبت مطالبہ کرتی ہے کہ والدین، خاندان کے بڑوں، باپ داداکے طورطریقوںیارسوم و رواج اورمعاشرے کی اطاعت کی جائے۔ اگرایسی اطاعت اﷲ کی اطاعت سے متصادم ہو تو اسے ترک کردینا چاہیے۔ آپ کو اپنی عقل، اپنے ضمیر، اپنے عقیدے اور اﷲ کی طرف سے آنے والی ہدایت کا کہا ماننا چاہیے:
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِـعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا ط اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ شَیْئاً وَّ لاَ یَھْتَدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۰)، ان سے جب کہاجاتاہے کہ اﷲ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایاہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیاہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط وَاِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْھُمَا ط اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo (العنکبوت ۲۹: ۸)، ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتاتو ان کی اطاعت نہ کر۔
مزید یہ کہ آپ جن سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کے عقیدے پر ایمان لانے سے انکار کرسکتے ہیں، یاوہ اﷲ اوراُس کے کام کی کھلی مخالفت پر اُتر سکتے ہیں۔ایسے مخالف رشتہ دار حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں گے، آپ کا تمسخراُڑائیں گے اور تضحیک کریں گے،آپ کو ستائیں گے، گھر سے نکال دیں گے اور آپ کو خاندان سے خارج کردیں گے۔ آپ کو ایسے ضرررساں اور مخالف ارکانِ خاندان سے اپنی محبت اور تعلق کے تمام جذبات کی قربانی دینی ہوگی۔اﷲ کی محبت اور اﷲ کے دُشمنوں کی محبت ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتی۔اُن کی محبت سے مکمل دست برداری جیسی بڑی قربانی دے کر ہی آپ اپنے عقیدے کو اپنے دل میںپختہ کرسکتے ہیں اور اپنا شمار اﷲ کی جماعت (حزب اﷲ) میں کرواکر اُس کی رضا وخوش نودی اور اُس کی جنت کا انعام حاصل کر سکتے ہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مثال لیجیے، جو اﷲ کی راہ میں قربانی کا نمونۂ کامل تھے۔ سب سے پہلے اُنھیں اپنے والد کو چھوڑنا پڑا، حتیٰ کہ اُن کے لیے دُعاے مغفرت کرنے سے بھی اﷲ کے حکم پر دست کش ہوگئے،اور آخرکار اﷲ کے حضور اپنے لختِ جگر کا ذبیحہ پیش کرنے کو بھی تیارہوگئے۔ یا سیدنا لوط علیہ السلام کی مثال لیجیے جنھیں اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنا پڑا، کیوں کہ وہ اُن لوگوں کی ہم درد تھی جنھوں نے سیدنا لوط علیہ السلام کی اُس دعوت پر کان دھرنے سے انکارکردیا تھاجو ایک اﷲ کی بندگی اختیار کرنے کے لیے اُن کودی جارہی تھی۔ پھررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے رفقا رضی اﷲ عنہم کی مثال لیجیے، باپ بیٹوں کے سامنے صف آرا تھے اور بیٹے باپ کے سامنے، حتیٰ کہ میدانِ جنگ میں بھی، مگر اُن کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔
وہ لوگ جو ایمان لانے سے محض انکار کرتے ہیںاور مخالفانہ سرگرمیوں میں فعّال نہیںہوتے، اُن کے معاملے میں آپ کی قربانی کی نوعیت قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اُن سے آپ کو اپنی دوستی ختم کردینی چاہیے، لیکن سلوک عادلانہ اور کریمانہ کرنا چاہیے۔ اُلفت و محبت کے تمام تعلقات کا خاتمہ انتہائی اقدام ہے، مگر ان تعلقات سے چھلانگ یک لخت ہی لگانی ہوگی۔ جولوگ آپ کے عقائد کو پسند نہیں کرتے یا اُن سے اتفاق نہیں رکھتے، اور اس بات کو راز بھی نہیں رکھتے،ایسے اعزہ و اقارب کے ساتھ مستقلاً رہنا آپ کوزیادہ مشکل میں مبتلا کرسکتا ہے اور بہت بڑی قربانی کا تقاضاکرتا ہے۔کیوں کہ جب آپ کے عقیدے اور ایمان کو بُرا بھلا کہا جائے گا تو آپ کو شدید اذیت ہوگی اس کے باوجود آپ کو ان کے ساتھ تحمل و برداشت سے پیش آنا ہوگا۔
ضروری نہیں کہ آپ کے اہلِ خاندان آپ کے نصب العین کی مخالفت ہی کریں، یا اس معاملے میں غیر جانب دار رہیں، وہ ہمدرد بھی ہو سکتے ہیں۔اس کے باوجود اُن سے محبت کے تقاضوں اور اﷲ سے محبت کے تقاضوں میں ٹکراؤ، یا اختلاف پیدا ہوسکتاہے۔ایسی صورتوں میں یہ بات نہ بھولیے کہ خود اچھے مسلمانوں سے محبت بھی بعض اوقات اﷲ کی محبت کی راہ سے بھٹکا سکتی ہے، لہٰذا قربانی کی ضرورت وہاں بھی پیش آتی ہے۔
اکثراوقات آپ کو مختلف اقسام کے نرم و نازک او رلطیف دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ان کی مزاحمت کے لیے آپ کو متعدد طریقوں سے مسلسل قربانیاں دینی ہوں گی۔ ان میں سے تمام صورتیں اتنی سادہ اور واضح نہیں ہوتیں کہ آپ آسانی سے کسی فیصلے پر پہنچ جائیں۔کبھی ان کی ناپسندیدگی اور نامنظور ی آپ کے سامنے بظاہر یا بباطن بڑے سادہ انداز میں پیش کی جائے گی، مگراسے بھی رد کرنا ہوگا۔بعض اوقات التجائیں اور مطالبات پیش کرتے ہوئے محبت کا واسطہ دیا جائے گا، حقوق کاواسطہ دیاجائے گا اور اختیارات کاواسطہ دیا جائے گا، سب کا اسلام سے جواز بھی پیش کیا جائے گا،آپ کو ان سب کا مقابلہ مناسب طریقے سے کرنا ہوگا۔بیوی بچے محبت اورالتفات کے طالب ہوں گے، آپ کو سب میں توازن رکھنا ہوگا۔
ایسی صورت میں آپ کواُنھیں خوش رکھنے کی ضرورت پر اﷲ سے اپنے عہد کو غالب رکھنا ہوگا، اُن کا دِل نہ دُکھائیں، اُنھیں مایوس نہ کریں اور اُن کی اُمیدوں کو رد نہ کریں۔ بصورتِ دیگر آپ کو اُن سے ملنے والی مدداور تقویت سے دست کش ہوجانا پڑے گا اور اُن کی گرم جوشی اور جذباتی محبت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔آپ کو بڑے پیجیدہ فیصلے کرنے ہوں گے کیوں کہ اگر وہ اﷲ کے کام میں آپ کی راہ کی رکاوٹ بن گئے تو ایک مقام پر پہنچ کر آپ کو اپنے ان فرائض ِذمہ داریوں، خدمت گزاری اور اُن کے حکم کی تعمیل سے ہاتھ اُٹھا لینا ہوگا۔
افراد کے مابین قائم ہونے والے الفت و محبت کے رشتوں میں سے ایک بڑا رشتہ دوستی کا تعلق ہے۔دوستیاں ہم مزاجی، مشترکہ مفادات و مقاصد اور مشترکہ اہداف کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ مسلمان کی حیثیت سے آپ کا ایک ہی ہدف اور مقصد ہے: اپنے پورے وجود کو مکمل طورپر اﷲ کے سپرد کردینا، لہٰذا بہت سی دوستیوں کی آپ کو قربانی دینی ہوگی اور اسی طرح بہت سی دُشمنیوں اورنفرتوں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس نئے دوست بنانے ہوں گے۔کوئی شخص جسے آپ کبھی پسند نہیں کرتے تھے، اُس کے لیے آپ کے دِل میں جگہ نکل آئے گی، وہ آپ کو عزیز ہوجائے گا۔
خاندانی رشتے ہوں یا دوستیاں،سماجی تعلقات زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اپنی مدد وتعاون سے وہ آپ کو ضروری کمک اور طاقت فراہم کرتے ہیں۔آپ کو ایسی حیات بخش کمک اور سماجی تقویت کی قربانی دینی ہوگی کیوں کہ دوستیاںٹوٹ جاتی ہیں، رشتے بکھر جاتے ہیں اورحمایت سے ہاتھ کھینچ لیا جاتاہے۔محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہ جو صادق و امین اور قابلِ احترام رہنما تھے، یکایک (نعوذباﷲ) ’فاترالعقل‘، ’دیوانے‘ اور’ لوگوں کے دُشمن‘کہے جانے لگے تھے۔
دوستیوں اور رشتہ داریوں کی طرح آپ کی پسند وناپسند کا بھی آپ کی زندگی کے ہرحصے پر غالب اثر پایاجاتاہے۔ اس میں آپ کے خیالات، آپ کا نقطۂ نظر، آپ کا ذوق، آپ کامزاج، آپ کے جذبات واحساسات اور آپ کے رویّے اورآپ کا برتاؤ بھی شامل ہے۔ بسا اوقات ان میں سے ہرایک کی اپنے اپنے طریقے سے قربانی دینی پڑتی ہے۔
اپنا نقطۂ نظر اور اپنے خیالات آپ کو ہمیشہ عزیز رہتے ہیں۔ اپنے نظریے سے آپ کی جذباتی وابستگی صرف اسی صورت میں پختہ ہوتی ہے جب آپ اپنی زندگی کے نصب العین سے عہدِوفا استوار کرلیتے ہیں۔اس کے بعد آپ کے اندر صحیح اور غلط یا حق اورباطل میں امتیاز کی ایک طاقت وَر حِس پیداہوجاتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہروقت یہ خیال آپ کے ذہن میں رہتاہے کہ اندازِ نظرصرف ایک ہی ہو سکتا ہے: صحیح یا غلط، اور آپ کو ہمیشہ درست طرزِ فکر اختیار کرناہے۔ تاہم آپ کے نظریات، کسی خاص معاملے پر آپ کی حکمت عملی اورآپ کے کام کرنے کا طریقہ، ہوسکتا ہے کہ دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ ایسی صورت میں آپ کو اُنھیں چھوڑنا ہوگا، آپ کو اپنے ان نظریات سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی، یا اُن نظریات کے خلاف کام کرناہوگا۔لیکن جب تک آپ کسی معاملے میں اﷲ کے کسی صریح حکم کی خلاف ورزی نہ دیکھیں، آپ کو اپنی راے کی قربانی دینی ہے۔اجتماعیت کی زندگی کوطاقت ور بنانے کے لیے دی جانے والی یہ قربانی مال ودولت کی قربانی سے زیادہ اہم ہے۔
بعینہٖ آپ کو اپنے جذبات و احساسات بھی بے حد عزیز ہوتے ہیں۔بسا اوقات آپ کو اپنے ایسے مشاغل ترک کردینے پڑتے ہیں‘ جو اﷲ کی رضا وخوش نودی کے کام نہیں ہیں،خواہ وہ آپ کو مرغوب ہوں، آپ اُن میں کشش محسوس کرتے ہوں اور اُنھیں مفید سمجھتے ہوں، جب کہ بعض اوقات صرف اﷲ کی رضا وخوش نودی کی خاطر آپ کو ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جنھیں آپ پسند نہیں کرتے اور جو آپ کے مزاج کے خلاف ہیں۔ کئی مواقع پر آپ کو اپنے بولنے کی خواہش کو دبانا ہوگا اور خاموش رہنا ہوگا خواہ اپنی بات کہہ دینے کا کتنی ہی شدّت سے دِل کیوں نہ چاہ رہاہو۔ اور کسی موقع پر آپ کا خاموش رہنے کا جی چاہ رہا ہوگامگر بولنا پڑے گا۔ آپ کوشدید غصہ آئے گا اور انتقام کا جذبہ جوش ماررہا ہوگا، برابھلا سنانے کی خواہش پیدا ہورہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی زبان قابو میں رکھنی ہوگی۔ بعض مواقع پر آپ کو تنہائی اور سکون کی ضرورت محسوس ہورہی ہوگی مگر آپ کو بھرپور سماجی سرگرمیوں اور عوامی رابطوں میں منہمک ہونا پڑے گا۔ اور بعض اوقات آپ کا دل لوگوں سے ملنے جُلنے کو چاہ رہا ہوگا، مگر اکیلے رہنا پڑے گا۔آپ کے اندر ’کچھ حاصل کرلینے‘ یا ’کچھ بن جانے‘ کی اُمنگ موجیں ماررہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی ان آرزوؤں سے مکمل طورپر دست بردار ہونا پڑے گا۔ آپ کو اپنی ذاتی خواہشات اور ذاتی منصوبے ردّی کی ٹوکری کی نذر کردینے ہوںگے۔
بہت سے عام معاملات میں بھی آپ کو اپنے ذوق اور مزاج کی قربانی دینی ہوگی۔ آپ کو ایسے انداز سے زندگی بسر کرنے، کھانے پینے، سونے اورپہننے پر مجبور ہونا پڑے گا جو آپ کو پسند نہیں، آپ کے مزاج کے مطابق نہیں، یاآپ کی ترجیحات اور آپ کے طرزِ زندگی سے لگّا نہیں کھاتا۔ آپ کو یہ طرزِ حیات قبول کرنا ہوگا، بغیرناک بھوں چڑھائے، برضا ورغبت، دوسروںکی دِل شکنی کیے بغیراوراُن کے لیے مشکلات اور انتشار پیدا کیے بغیر۔
اورآخرکار آپ کو اپنی انا، اپنی خود پسندی، اپنے متعلق حسین تصورات اور ان تصورات سے اپنی محبت، سب کچھ قربان کردینا ہوگا۔ یہ ظاہری اور باطنی بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اپنے آپ کو فنا کردینا صرف راہِ سلوک ہی کا ایک مرحلہ نہیں، اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے رستے پر چلنے کے لیے جو واحد چیز درکار ہے وہ بھی یہی ہے کہ آپ کواپنی اَنا، اﷲ کی رضا کی خاطر فنا کردینی ہوگی۔ ہماری خود پسندی، ہمارے نزدیک اتنی اہم چیز بن جاتی ہے کہ اس کے نتیجے میں ضد، ہٹ دھرمی، خودسری ، خودستائی، ڈھٹائی، اور دوسروں کی تذلیل جیسی بُری عادات پروان چڑھ جاتی ہیں۔ اپنی اَنا اور خود پسندی کی قربانی دینا زندگی کا سب سے کٹھن کام ہے، مگریہ کرنا ہی ہوگا۔
بعض قربانیاں زندگی میں ایک ہی بار دینی ہوتی ہیں، جیسے جان کی قربانی۔ کچھ قربانیاں بہت معمولی ہوتی ہیں مگر مسلسل دینی پڑتی ہیں۔ ان کے بعض غیر محسوس پہلوؤں کے سبب ان کا تسلسل ہی انھیں اہم بنادیتاہے۔پہلی بات تو یہ کہ ان کے معاملے میں آپ کو ہروقت چوکس اور چوکنا رہنا پڑتاہے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ ان کا موقع آئے اور آپ اونگھ رہے ہوں، بے اعتنائی سے بیٹھے ہوئے ہوں،غفلت اور بے دھیانی کی کیفیت میںہوں، یا موقع پہچان نہ سکیں۔ دوسرے یہ کہ ان قربانیوں کے لیے عزمِ مسلسل و متواتر درکار ہوتاہے،جس کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ قربانیاں اتنی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں کہ ان کے بَل پر کوئی سُورما نہیں بن سکتا، مگر کردار سازی، معاشرتی نظم وضبط اور کامیابی کے لیے ان کی اہمیت کسی لحاظ سے کم نہیں۔ مسلسل گرنے والا پانی کا ایک معمولی قطرہ بھی پتھر کی چٹان میں سوراخ کر دیتاہے۔چوتھے یہ قربانیاں بحران اور مصیبت کے وقت نہیں طلب کی جاتیں، بلکہ ان کی ضرورت عام حالات اور روزمرہ زندگی میں پیش آتی ہے۔اسی وجہ سے معمولی ہونے کے باوجودیہ قربانیاں پیش کرنا بہت دُشوار کام ہے۔کیوں کہ شدید بحران کے وقت، جب کسی بڑے چیلنج کا سامنا ہوتو کوئی بڑا اعزاز ملنے کی توقع پر اپنی اندرونی صلاحیتوں کو اُبھارنا، اپنے عزم و ارادے کو جگانا اور اپنی بہترین مساعی کو بروے کارلے آنا نسبتاً سہل ہوتاہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ ایک طرح سے آپ کو زندگی کے ہرلمحے چھوٹی چھوٹی___ بہت چھوٹی چھوٹی___ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کیوںکہ زندگی کے ہرہرقدم اور ہرہر ثانیے میں آپ کو دوچیزوںمیں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، خواہ یہ کتناہی چھوٹا معاملہ کیوں نہ ہو۔ اﷲ کی رضا و خوش نودی کی خاطر کسی بھی پہلو کا انتخاب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی نہ کسی چیز کی قربانی دینے کا فیصلہ کررہے ہیں،یہاں تک کہ اگر آپ نمازِ فجر اداکرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ اپنی نیند اور گرم بستر کی قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔
ایک ایسے پہاڑی راستے پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے جس میں گہری کھائیاں آتی ہوں، آڑی ترچھی ڈھلوانیں ہوںاور اندھے موڑ پڑتے ہوں، آپ زیادہ محتاط رہیں گے تاکہ محفوظ ڈرائیونگ کرسکیں اور تمام مشکلات سے نبرد آزما ہو سکیں۔ مگر کسی ایسے راستے پر جو ہموار ہو، حادثات سے محفوظ ہو، اُس میں کسی موڑکاسامنا نہ کرناپڑتاہو، کوئی رکاوٹ نہ پیش آتی ہو اور کوئی اُترائی یا چڑھائی نہ ہو تو اُس راستے پر آپ کے بے پروائی اور غفلت سے ڈرائیونگ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔یوںآپ کو کوئی حادثہ پیش آسکتاہے، یاآپ اپناکوئی موقع ضائع کر سکتے ہیں، یا اپنے راستے سے بھٹک سکتے ہیں،یابے دھیانی میں اپنی منزل سے دُور نکل سکتے ہیں۔
گویا روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر قربانیاں دینی پڑتی ہیں___ گھر میں، دفترمیں، بازار میں، معاشرتی تعلقات میں، تنظیمی سرگرمیوں میں، یہاں تک کہ تنہائی میں بھی___جن سے غفلت ہوسکتی ہے۔یہ قربانیاں دینا زیادہ دُشوار ہے، محض اِس وجہ سے کہ انھیں قربانی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔
کامیابی کے امکانات کی عدم موجودگی میں
جب دُنیاوی کامیابی سامنے نظر نہ آتی ہو تو ایسی صورت میں دی جانے والی قربانیوں کی مزید جہتیںسامنے آتی ہیں۔جب آپ کی جدوجہد کے ثمربار ہونے کے امکانات نظر آرہے ہوںتو نسبتاً زیادہ آسان ہوتاہے کہ آپ اپنا وقت، اپنا مال اور اپنی زندگی قربان کردیں، اپنی راے سے دست بردار ہوجائیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوجائیں جن کو آپ پسند نہیںکرتے یا اُن طریقوں کو اختیار کرلیں جو ذاتی طورپر آپ کو ناپسند ہیں۔ مگر جب کامیابی کے امکانات موہوم یا معدوم ہوںتویہ تمام کام انتہائی مشکل ہو جاتے ہیں۔ مایوسی کے لمحات میں، جب کامیابی کی کوئی اُمیدنظر نہ آ رہی ہویا شکست واضح انداز سے دکھائی دے رہی ہو، زیادہ امکان یہی ہوتاہے کہ لوگ اپنے وقت اور مال سے چمٹے رہیں، اپنی راے پر اصرار کریں اور اپنے ناپسندیدہ افراد، یا طورطریقوں کو ایک تنازع بناکر کھڑا کردیں۔ ایسی صورتوں میں دی جانے والی قربانیوں کا بہت بڑا اجر ہے۔
آپ اپنے اندر کی اُن صلاحیتوں کو کیسے بیدار کریں گے جو آپ میں قربانی کا جذبہ اور استعداد، پیدا کریں، پروان چڑھائیں اور برقرار رکھیں؟ آپ سے جوقربانی طلب کی جائے گی اُس کے لیے اپنے آپ کو کس طرح آمادہ وتیار کریںگے؟
ان میں سے کچھ طریقوں سے تو آپ کو قربانی کی اقسام پر بحث کے دوران ہی آگاہی ہوچکی ہے۔تاہم کچھ بنیادی اندرونی صلاحیتیں ایسی ہیں جن پر زیادہ زور دینے اورجنھیں ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے اور جو آپ کو خود اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ مگر سب سے پہلے ہم چند ایسے بنیادی اُصولوں کو دُہرالیتے ہیں جن پر ان صلاحیتوں کا انحصار ہے:
اوّل، قربانی اُسی صورت میں قربانی کہلائے گی جب آپ کوئی ایسی چیز قربان کریں جس کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے، یا جسے آپ عزیز رکھتے ہیں۔ایسی چیزوں کی قربانی آپ اُن سے زیادہ قیمتی، زیادہ محبوب،زیادہ پسندیدہ یا زیادہ ضروری اورزیادہ اہم چیزوں کی خاطر دیتے ہیں۔
دوم، آپ جس چیز کی قربانی دیتے ہیں اُس کی ظاہری شکل خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو___ وقت، مال، زندگی، پسند و ناپسند، نقطۂ نظر ___ آپ اصل قربانی ان چیزوں کی نہیں،بلکہ ان چیزوںکی محبت اور آپ کے نزدیک ان چیزوں کی جو قدر و قیمت ہے، اُس کی قربانی دیتے ہیں۔
سوم، اُس صورت میں ان چیزوں کی قربانی دینے پر آپ کے عزم و آمادگی میں مزید اضافہ ہوگا جب اﷲ کی محبت اور اُس کے انعامات کی قدروقیمت آپ کی نظر میں انتہائی شدّت و قوت کے ساتھ بڑھتی جائے گی اور جن چیزوں کی قربانی آپ دے رہے ہیں، وہ ان کے مقابلے میں آپ کو بے قیمت اور حقیر نظر آنے لگیں گی۔
محبت ہر شے کی بنیاد ہے۔ لہٰذا آپ بخوبی ادراک کرسکتے ہیں کہ قربانی دینے کے لیے جو اندرونی استقامت درکار ہے، اُس کے لیے آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے___اﷲ سے محبت کی۔ آپ کے دل میں اﷲکی محبت کتنی ہے؟ کیا آپ دُنیاکی ہر چیز سے زیادہ اُس سے محبت کرتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتاہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِط(البقرہ ۲: ۱۶۵)، ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کو ایک سادہ مگر انتہائی معنی خیز سوال کا سامنا کرنا پڑتاہے کہ تمھیں کون زیادہ عزیز ہے؟اﷲ، اُس کا رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد یا باپ، بیٹے، بیویاں، بھائی، مال و دولت، گھربار، تجارت اورکاروبار ؟ (التوبہ ۹:۲۴)۔ صرف ایسی محبت سے جذبۂ قربانی خارج سے وعظ و نصیحت کی تحریک پر کی جانے والی نیکی کے بجاے اپنی اندرونی لگن سے کیے جانے والے عمل میں بدل جائے گا۔ تبھی آپ ایمانی تقاضوں کی تکمیل پر حقیقی خوشی اور مسرت سے سرشار ہوسکیں گے۔یاد رکھیے کہ ایمان بھی دو قسم کا ہوتاہے: ایک ہماری زبان پر رہتاہے اور یہ ایسا ایمان ہے جو بوجھ بن جاتا ہے۔ایک ایمان وہ ہے جو ہمارے دِل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتاہے اور یہ وہ ایمان ہے جو خوشی، اطمینان اور لطف کا باعث بنتاہے۔ جب یہ ایمان حاصل ہوجائے تو اگر آپ سے وقت، مال ودولت اورزندگی کی یا پسندوناپسند اور نقطۂ نظرکی قربانی طلب کی جائے گی تو آپ یہ چیزیں بخوشی قربان کردیں گے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا: ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس کے پاس ہوں اُس نے ایمان کی حلاوت کا ذائقہ چکھ لیا: (اُن میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ) وہ دُنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اﷲ اور اُس کے رسولؐ سے محبت رکھتاہو‘‘… (بخاری، مسلم)
اﷲ سے ایسی محبت کس طرح کی جائے کہ وہ ہرشے کی محبت سے بڑھ جائے؟ اس مقصد کے لیے کوئی جامع فارمولا ہے، نہ ہوسکتا ہے، مگر چند چیزیں کارگر ہوسکتی ہیں اور ان میں سے ہر چیز آپ کی اُن اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی جو قربانی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے درکار ہیں۔
ہروقت یاد رکھیے کہ اُس نے آپ کو کیسے پیدا کیا ہے، کس طرح آپ کی ضرورت کی ہرچیز آپ کو مہیا کی ہے، وہ کتنا رحیم وکریم ہے۔ اپنے وجود پر نظر ڈالیے، اپنے ارد گرد کی کائنا ت کا مشاہدہ کیجیے، آپ کو ہر طرف اُس کی رحمت ورافت، اُس کی حکمت اوراُس کی شان و شوکت نظر آئے گی۔ جب آپ اُس کی ان نشانیوں پر غور وفکر کریں گے جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تو اُس سے آپ کی محبت میں اضافہ ہوگا۔ اُس کے ذکر کا ایک جزو اُس کی طرف رجوع کرنا اور اُس سے محبت کرنے میں اُس سے مدد چاہنا بھی ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے اس کے متعدد طریقے تعلیم فرمائے ہیں۔
جب اورجتنا ممکن ہو، اﷲکا ذکر کریں، یہ بنیادی اور لازمی عمل ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کو اﷲکی محبت کے حصول میں مدد ملے گی، بلکہ جذبۂ قربانی بڑھانے کے لیے آپ کو جن دیگر وسائل کی ضرورت ہے وہ بھی حاصل ہوں گے، جیسے اُس کے حاضر وناظر ہونے کا احساس، اُس سے ملاقات اوراُس کے انعامات کی قدروقیمت کا حقیقی ادراک، اس دُنیاوی زندگی کی حقیقت اور دُنیا کی حیثیت کافہم، اُس کے حضور شکرگزاری اورعجز وانکسار کا اظہار، اس خوف سے لرزتے رہنا کہ اُس کا حق کبھی ادا نہیں کیاجاسکتا،اُس کے احکامات کی تعمیل کے لیے آمادہ اور تیار رہنا۔
زندگی ایسے گزاریئے جیسے آپ اُس کے سامنے موجود ہیں۔یاد رکھیے کہ: وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط(الحدید ۵۷:۴)،’’وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تُم ہو‘‘۔جب آپ سے قربانی طلب کی جائے یا آپ از خود قربانی پیش کریں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ اُس کی نظروں کے سامنے ہیں۔ یہی بات وہ آپ سے ہروقت ذہن میں رکھنے کے لیے کہتاہے: فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (الطور ۵۲:۴۸)، ’’یقینا تُم ہماری نظروں میںہو‘‘۔ جب آپ اس یقینِ کامل کے ساتھ کوئی قربانی پیش کریں گے کہ جسے پیش کررہے ہیں وہ آپ کو دیکھ رہاہے اوراُس کادیاہوا اجر کئی گُنا زیادہ اور ابدی ہوگا، تو یہ آپ کے اندر وہ قوتِ محرکہ اور توانائی پیدا کردے گا جو آپ کو درکار ہے۔
یہ احساسِ حضوری کہ ہم اُس کے سامنے موجود ہیں، اُس کی نظریں ہم پر ہیں، وہ ہماری باتیں سُن رہاہے، جب ہم اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو مالک ہماری نگرانی کررہاہے اور بڑی سخاوت اور مہربانی کے ساتھ ہمیں اجرو ثواب سے نواز رہاہے___ یہ احساس جذبۂ قربانی کو اُبھارنے کا اوّلین ذریعہ ہے۔اس سے اﷲ پر بھروسا بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ وہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہے تو آپ اپنے تمام معاملات اُسی کے سامنے پیش کریں گے۔
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط(اٰل عمران۳:۱۸۵) ’’آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے۔‘‘ موت ہر شے کا اختتام نہیں ہے، اگلے مرحلے سے قبل کا وقفہ ہے۔اُ س مرحلے میں ہم اﷲ کے رُوبرو کھڑے ہوں گے۔
ہم میں سے کوئی شخص مرنا پسند نہیں کرتا، یہ انسانی فطرت ہے،مگرہمیں مرنا ضرورہے، اورموت کے بعدہی ہم پر ابدی زندگی اوراُس کی برکتوں کے دروازے کھلیں گے۔اگر آپ اس دُنیاوی زندگی کی حیثیت اور حقیقت کو سمجھتے ہیں اور آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ کو اپنا بہترین اجر اﷲ سے ملاقات پر ملے گاتو آپ کے اندر دوقسم کے احساسات فروغ پائیں گے: ایک، اﷲ سے ملاقات کا شوق، تاہم اپنے اعمال کی کوتاہیوں کے سبب ایک خوف بھی دِل میں جاگزیں ہوگا۔ دوسرے، اِس دُنیا کی ہر چیز اﷲ کی راہ میں قربان کردینے پر آمادگی کا جذبہ جس کا اجر آپ کو آخرت میں ملے گا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم ایک دُعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اﷲ! مجھے اپنے وجہِ کریم کی زیارت کی لذت سے اوراپنی ملاقات کی تمنا سے بہرہ مند فرما‘‘ ۔(نسائی، احمد، حاکم)
قربانی کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، بڑی ہو یا چھوٹی، مادّی ہو یا غیرمادّی اسے ممنونیت اور عاجزی کے ساتھ پیش کیجیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اﷲ کی راہ میں دینے سے اپنے آپ کو مضمحل اور درماندہ محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں۔پھر کہنے لگتے ہیں کہ:’’ہم تو پہلے ہی بہت وقت دے چکے ہیں، ہم پہلے ہی بہت مال دے چکے ہیں، اب ہم اور کتنادیں؟ہم پہلے ہی بہت قربانی دے چکے ہیں، اب ہم سے مزید کیا چاہیے؟ایسا صرف اُسی صورت میں ہوتا ہے جب قربانی صرف ایک اﷲ کی رضا وخوش نودی کے حصول کے لیے نہ دی جارہی ہو، بلکہ کسی اور جذبے کے تحت دی جارہی ہو، یا جب آپ کو اس حقیقت کا احساس نہ ہوکہ اگرکچھ قربانی دینے کا موقع مل رہاہے توصرف اُس کے فضل و کرم سے مل رہاہے۔ہرقربانی عاجزی اور انکسار کے ساتھ پیش کیجیے۔
یہ بات صاف طورپر سمجھ لینی چاہیے کہ آپ جو چیز پیش کررہے ہیں وہ کسی فرد یاکسی تنظیم کو نہیں پیش کررہے ہیں۔ نہ وہ چیز آپ اﷲ کو ہدیہ کررہے ہیں، کیوں کہ وہ اتنا رحیم وکریم اورفیاض ہے کہ آپ سے کہتاہے کہ جوکچھ تُم اﷲکی راہ میں دیتے ہو وہ قرض ہے، جس کا کئی گُنا وہ تم کو لوٹادے گا۔ دراصل آپ ہر چیز اپنے آپ ہی کو دے رہے ہوتے ہیں۔کیاکوئی شخص اپنے آپ ہی کو مزید اور مزید دیتے رہنے سے تھک سکتا ہے؟
یہ خود غرضی نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہماری اُخروی خوش حالی اﷲ کے آگے سر جھکانے میں مضمر ہے۔قربانی کے ذریعے سے ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی بہتری لانا چاہتے ہیںاورہمیں آخرت میں بھی ایک کامیاب وکامران ابدی زندگی کی تمنا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہر وہ قربانی جو ہم دیتے ہیں اور ہر وہ چیز جو ہم اﷲ کی راہ میں قربان کرتے ہیں، ہماری قوم کومزید تقویت فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا اﷲ کا شکر ادا کیجیے کہ اُس نے آپ کو قربانی دینے کاموقع دیا، آپ کو اپنے کام کے لیے طلب کیا، اور اپنی راہ میں قربانی دینے کی توفیق سے نوازا۔ اس کے برعکس بھی ہو سکتاہے۔ ہم بہکتے پھرنے کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔ ہمیں مال کی قربانی دینے کا موقع ہی نہ ملے، یوں ہم ابدی انعامات کے حصول سے محروم رہ جائیں۔ آپ کو ہرقربانی جذبۂ تشکر اور احساسِ ممنونیت کے ساتھ دینی چاہیے۔ اُس کی طرف قبولیت کی آس کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔
عجز وانکسار بھی ضروری ہے۔کبھی یہ احساس پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ بہت ہوگیا۔جوں ہی اس بیماری کے جراثیم آپ کے دل میں داخل ہوں گے کہ آپ نے بہت کچھ کرلیا ہے، سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہیے کہ آپ جوکچھ قربان کر رہے ہیں، وہ اﷲ کی طرف سے عائد ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ خیال رہنا کہ جتنی بھی قربانی دی جائے وہ کبھی کافی نہیں ہوگی، قربانی کی بنیاد ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ (المومنون ۲۳:۶۰)،’’وہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں ،مگر اُن کے دل لرزتے رہتے ہیں‘‘۔
وہ بنیادی قوتِ محرکہ جو آپ کو قربانی دینے پر آمادہ کرے خود آپ کے اندر موجود رہنی چاہیے۔ یہ اُمنگ اندر سے اُٹھنی چاہیے۔ اس کی جڑیں آپ کے قلب وروح کی گہرائیوں میں پیوست ہونی چاہییں۔نہ گروہی فیصلہ،نہ دیکھا دیکھی، نہ تنظیمی پابندی، نہ کوئی اور خارجی دباؤ آپ کو قربانی کے لیے آگے بڑھنے کے لیے اُکسائے۔ان میں سے ہرچیز اہم ہے اور ہمارے رویّوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن اگر اﷲ کی رضا کے سوا کسی اور مقصد سے قربانی پیش کی جائے تو بڑے پیمانے پر قربانی دینا، یامسلسل قربانی دیے جانا، ہرقسم کے حالات میں انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ قربانی کے لیے عزم و ارادہ اور جذبہ اندر سے اُبھرنا چاہیے۔
قربانی دینے کا فیصلہ برضا و رغبت کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو خود اپنے فیصلے کے تحت ، آپ کے پاس جوکچھ بھی موجود ہے اُس کی قربانی، اﷲ کی رضاکی خاطرپیش کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ آپ کو راضی برضاے الٰہی ہوجانا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قربانی پیش کرتے ہوئے کسی کوزحمت اور تکلیف کا احساس بھی نہیں ہونا چاہیے۔جس وقت آپ اپنی محبت،اپنی پسند یا اپنی قابلِ قدر چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، تو تکلیف محسوس ہونا بشری تقاضاہے۔ یقینی بات ہے کہ اگر آپ کوئی شے قربان کرتے ہوئے تکلیف نہ محسوس کریں تو وہ قربانی کہے جانے کی مستحق ہی نہیں ہے۔ آپ اپنے گھر سے محض وہ چیز پھینک رہے ہیں جو آپ کے لیے بے کار ہے۔اس کے بجاے آپ کو جس قدر زیادہ دُکھ ہورہا ہوگاوہ اُتنی ہی قیمتی قربانی ہوگی۔مگر اس تکلیف اور دُکھ کی پشت پر آپ کا عہدِ وفا ہے۔وہ عہد جو آپ کو اپنی قیمتی چیز اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان کردینے کا ہے۔ اﷲ کی رضا حقیقتاً سب سے بڑھ کر قیمتی چیز ہے۔ آپ یہ تکلیف اور دُکھ اﷲ سے اپنی محبت کی وجہ سے برضا ورغبت برداشت کرتے ہیں، کیوں کہ آپ کے دل میں اﷲ کی محبت ہر چیز کی محبت سے بڑھ کر ہے۔
ہماری مدد ومعاونت کے لیے دو بنیادی چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو ہماری اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہیں، میں ان کو آپ کے سامنے پہلے ہی رکھ چکا ہوں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۱۵۳)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔
نماز کیاہے؟یقینا نماز ایک رسمی عبادت ہے۔چند جسمانی حرکات وسکنات پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ الفاظ بھی شامل ہیں جو ہم ابتدا سے آخرتک پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن نماز کا مجموعی مقصد اﷲ کا ذکر کرنا اور اﷲ کویاد رکھنا ہے۔یہی بات قرآن صاف اور واضح الفاظ میں کہتاہے: وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ ۲۰:۱۴)، ’’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔
صبر جامع المعانی لفظ ہے۔لغوی طورپر صبرکے معنی ہیں: رُک جانا اور بازرہنا۔ قرآن میں یہ لفظ وسیع مفاہیم میں استعمال ہوا ہے اور کئی صفات کا احاطہ کرتاہے: اپنے آپ کو روکے رکھنا، ارادہ کرنا، تحمل اورجذبۂ قربانی، نظم وضبط اورثابت قدمی۔یہ آپ کو اﷲ سے، اپنے کیے ہوئے عہد سے اپنے بھائیوں سے اورآپ کو اپنی اُخروی فلاح سے جوڑے رکھتاہے۔ نماز اور صبر کا دامن تھامے رکھنے سے آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو قربانی کے لیے ضروری ہے۔
اُن میں سے ایک ہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام۔ اُن کو ہرقابل تصورطریقے سے آزمایش میں مبتلاکرکے جانچا گیا۔ اُن کے والد ، اُن کا خاندان، اُن کے زمانے کی مذہبی اور سیاسی طاقتیں، سب اُن کے مخالف تھے۔اُنھوں نے سب کو چھوڑ دیا۔ اُنھیں آگ کے الاؤ میں پھینک دیا گیا۔اُن کو گھر سے نکال دیا گیا۔اُنھیں صحراؤں اور جنگلوںمیںبھٹکنا پڑا اور آخرکار اُنھوں نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی۔ یہی کام غالباً دشوار ترین کام تھا۔وہ نہ صرف اپنے پیارے بیٹے کی قربانی دے رہے تھے بلکہ تسلیم شدہ انسانی اخلاق کی بھی قربانی دے رہے تھے۔تاہم، حتمی بات یہ ہے کہ تمام اخلاقیات اﷲ کی مرضی کی تابع ہیں۔اُس کو راضی رکھنا سب سے بڑا اخلاقی پیمانہ ہے۔ یقینا یہ صرف اﷲ کے نبی کا منصب ہے کہ وہ اُس کے براہِ راست حکم پر اﷲ کے متعین کردہ اخلاق سے ماورا یہ انتہائی قربانی اُس کے حضور پیش کردے۔تاہم، بعض مواقع پر ہم میں سے بعض کو بھی اﷲ کے واضح احکام کے مقابلے میں اپنے ذاتی اخلاقی فیصلوں کو معطل کرنا پڑتاہے۔ ان قربانیوں اورآخری قربانی کو پیش کرنے کے بعد ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ’امام النّاس‘ بنانے کا اعلان کیاگیا:
وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماًط (البقرہ ۲:۱۲۴)، یاد کروجب ابراہیمؑ کو اُس کے رب نے چند باتوںمیں آزمایا اور وہ اُن سب پر پورا اُترگیا، تو اُس نے (اﷲنے) کہا: میں تجھے سب انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔
اگرہم یہ کہتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کے لیے اُٹھے ہیں، جہاں اسلام بنی نوع انسان کا رہبرو قائد ہوگا تو ہمیں انفرادی اور اجتماعی طورپر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اُسوۂ مبارکہ کی پیروی اور تقلید کرنی چاہیے۔
دوسرانمونہ سیدنا ونبینا محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم کاہے۔ خواہ وہ وادیِ مکہ ہو، جہاں آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، یا وادیِ طائف ہو، جہاں آپؐ پرسنگ باری کی گئی، یا اُحد کا میدان ہو، جس میں آپؐ کے دندان مبارک شہید کردیے گئے، یامدینے کی گلیاں ہوں، جن میں آپؐ کے دشمنوں نے آپؐ کے خلاف افترا پردازانہ پروپیگنڈا کیا، آپؐ نے ہمارے لیے قربانی کی افضل ترین مثالیں چھوڑی ہیں۔ایساہی آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے بھی کیا۔
جیسا کہ ہم پہلے جائزہ لے چکے ہیں، بنیادی طورپر قربانی کا مطلب جانور کاذبح کرنا ہے۔ حج کے دوسرے دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا محمدصلی اﷲ علیہ وسلّم کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے جانور قربان کیے جاتے ہیں۔حج خود ایک رسمِ عبودیت ہے جس میں انتہائی سخت مشقت بھری قربانیاں شامل ہیں۔ یہاں ہمیں دو اہم اسباق ذہن نشین کرلینے چاہییں:
اوّل:اﷲ کے یہاں قبولیت ہماری قربانی کے جانور کی نہیں ہوتی، بلکہ قبولیت ہمارے دلوں میں پائی جانے والی اﷲ سے محبت کی، ہماری اطاعت کی اور ہماری قربانی دینے کی نیت کی ہوتی ہے۔اس بنیادی اُصول کو کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیجیے ، روح کو چھوڑ کرصرف رسم پر مطمئن نہ ہوجائیے ، البتہ رسم کو بھی ترک نہ کیجیے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط(الحج ۲۲: ۳۷)، نہ اُن کے گوشت اﷲ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمھارا تقویٰ پہنچتاہے۔
دوم:اعلیٰ ترین قربانی زندگی کی قربانی ہے۔اﷲ کی راہ میں اپنی حیاتِ دُنیوی کی قربانی دے کر آپ صرف ایک بار موت کو گلے لگاتے ہیں اور یہ آخری قربانی ہے۔ مگر آپ اُس صورت میں ہرروز اور ہر لمحے موت کو گلے لگاتے ہیں جب آپ دل کی گہرائیوں میں پیوست محبت کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں اوراپنے آپ کو مکمل طورپر اﷲ کے حوالے کردیتے ہیں، اور تمام اندرونی اور بیرونی مخالفتوں کے باوجود اُس کی اطاعت وفرماں برداری کرتے رہتے ہیں۔ یوں آپ اپنی زندگی کی قربانی ایک بار نہیںدیتے، بار بار دیتے رہتے ہیں۔ یہ افضل ترین قربانی ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo(الانعام ۶: ۱۶۲) کہو، میری نماز،میری قربانی،میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔
آخر میں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم سے یہ تمام قربانیاں اس لیے طلب کی جاتی ہیں کہ ہم نے اپنے کاندھوں پراُس مشن کی تکمیل کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے جو اﷲکے رسولوں کوسونپا گیا تھا: ’تاکہ تم لوگوںکے سامنے گواہ بن کرکھڑے ہو‘ ۔ہمیں اپنے رب کا سچا بندہ بننا چاہیے اورانسانیت کا بے لوث خادم۔ بنی نوع انسان ہی کے لیے ہمیں ایک اُمت کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا ہے۔ اس بعثت کا تقاضاہے کہ ہم زندگی کے ایک مشکل ترین کام کے لیے اپنے آپ کو تیارکرلیں۔
قربانی کے بغیر اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کاکام ہمیشہ صرف تقریروں کا یا خواب کا موضوع بنارہے گا۔اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ہمیں اپنا وقت، اپنامال، اپنی زندگی، اپنے وسائل اور اپنی ذاتی پسند وناپسند کی قربانی دینی ہوگی۔ تاہم ہماری بہترین کوششیں بھی کاملیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتیں۔ہم ڈگمگا سکتے ہیں، ڈانوا ڈول ہوسکتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔یہ انسانی فطرت کاتقاضا ہے۔اﷲ صرف ہماری نیتوں اورکوششوں کو دیکھتاہے۔ہمیں اﷲسے رجوع کرنا چاہیے اور اُس سے مدد مانگنی چاہیے، مباداکہ جس وقت ہم سے قربانی طلب کی جائے اُس وقت ہماری بشری کمزوریاں ہم پر غالب آجائیں۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں اور خطاؤں پر اُس سے مغفرت طلب کرنی چاہیے:
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج وَاعْفُ عَنَّا وقفۃ وَاغْفِرْلَنَا وقفۃ وَارْحَمْنَا وقفۃ اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۸۶)، اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جوقصور ہوجائیں، اُن پر گرفت نہ کر۔ مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار ! جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو.ُ ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔
جولائی ۱۹۷۹ء میں لاس اینجلس (امریکا) میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی ’مغربی ساحل کانفرنس‘ (West Coast Conference) میں نمازِ جمعہ کے موقع پر خرم مرادؒ کاخطاب جو Sacrifice کے عنوان سے شائع ہوا۔ ترجمہ: احمدحاطب صدیقی
(کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے۔ قیمت: ۲۵ روپے ۔ زیادہ تعداد میں لینے پر رعایت)
قربانیاںہماری جدوجہد کی کامیابی میں دو طریقوں سے اپناکردار ادا کرتی ہیں۔ایک یہ کہ ہماری اندرونی روحانی اور اخلاقی طاقتوں کو مضبوط کردیتی ہیں اور ہمارے کردار کی اُن صفات کو پروان چڑھاتی ہیں جو ہماری جدوجہدکے ہر مرحلے پر کامیابی کے لیے لازمی ہیں۔ دوسرایہ کہ اجتماعیت میں نظم وہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں اور انھیں تقویت پہنچاتی ہیں، اور وسیع تر معاشرتی سطح پر جہاد برپا کرنے کی صلاحیتیوں اور قوتوں سے بہرہ مندکرتی ہیں۔
قربانی کا ہر عمل آپ کے ایمان میں اضافہ کرتاہے اور اس کو نشوونما دیتاہے۔یہ عمل آپ کے زبانی اعلان اور ذہنی ایقان کو ایک زندہ حقیقت میں بدل دیتا ہے۔اﷲ سے آپ کی محبت کی توثیق کرتاہے اور اس میں اضافہ کا موجب بنتاہے ،کیوں کہ ہرقدم پرجب آپ اﷲ کی محبت میں کوئی شے قربان کرتے ہیں، تو اﷲ سے آپ کا اخلاص اور اُس پر آپ کا ایمان مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے، دیگر تمام وفاداریاں ثانوی حیثیت اختیارکرلیتی ہیں، کیوں کہ اُنھیں آپ صرف اﷲ سے وفاداری کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں قربانیاں آپ کو اﷲ سے قریب تر کر دیتی ہیں۔ دونوں باتیں ایک دوسرے پر اثراندازہوتی ہیں۔عقیدہ جتنا مضبوط ہوگا قربانی دینے کی صلاحیت اورعزم اتنا ہی زیادہ ہوگا، اور جتنی بڑی قربانی دی جائے گی، عقیدہ اُتنی ہی گہری جڑ پکڑتا جائے گا۔
تمام اخلاقی اوصاف کی افزایش کے لیے قربانیاں جزوِ لازم ہیں، بالخصوص قوتِ برداشت، استقامت، استقلال ، تحمل وبردباری، عزمِ صمیم اور اولوالعزمی کی صفات میں اضافے کے لیے۔ ان تمام صفات کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جاسکتاہے اوروہ ہے:’صبر‘۔ ہرقربانی صبر کی صلاحیت کو تقویت پہنچاتی ہے، اس کے درجے میں اضافہ اور مضبوطی پیداکرتی ہے۔اس کے عوض صبر قربانی کی صلاحیت میں اضافہ اوراستقرار پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی دوطرفہ عمل ہے۔ اﷲ کی طرف سے مددونصرت کے تمام وعدے، اِس دُنیا میں فوزوکامرانی کی تمام یقین دہانیاں اورآخرت کے تمام انعامات و اکرامات، سب ایمان اور صبر کے اکتساب سے مشروط ہیں۔ (آل عمران ۳:۱۲۵، ۱۳۹، الانفال ۸:۴۶، الاعراف ۷:۱۳۷، الزمر ۳۹:۱۰)
صبر بہت جامع وصف ہے۔اس کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک پہلو نظم وضبط ہے۔ نظم وضبط کا قربانی سے قریبی تعلق ہے۔ اصل میں دونوںکا ایک دوسرے پر انحصارہے۔ نظم وضبط اپنے مکمل مفہوم میں، بشمول ذاتی نظم وضبط، روحانی واخلاقی نظم وضبط ، جماعتی نظم وضبط اور سماجی نظم وضبط، اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک آپ اپنی محبوب چیزوں کی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آپ اُس وقت تک اُن چیزوں کی قربانی بھی نہیں دے سکتے ، جن کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے جب تک آپ اپنے اندر نظم وضبط نہ پیدا کرلیں ___ اندرونی نظم وضبط۔ اگرچہ منظم اجتماعی زندگی بھی فردکے اندر قربانی کی روح پھونکنے میں کم اہم کردار ادا نہیں کرتی۔ قربانی بھی اس طرح کی منظم اجتماعی زندگی کو تشکیل دینے اور اسے قائم رکھنے کے لیے اُتنی ہی ضروری ہے۔آئیے ہم ایک مختصر جائزہ لیں کہ کیوں ضروری ہے؟
واضح بات ہے کہ جب اﷲ کی راہ پر آپ اکیلے چل رہے ہوں تو اُس کی رضا و خوشنودی کے حصول میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کوعظیم سے عظیم تر قربانیاں دینے اور زیادہ سے زیادہ ضبطِ نفس اختیار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔مگر جوں ہی آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ دوسروں کے ساتھ مل کر دُنیا کو اُس کے خالق کی اطاعت وفرماں برداری کے تحت لانے کی اجتماعی جدوجہد کریں گے تو آپ کواور زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت پڑے گی۔اس کے بغیر آپ کی منظم اجتماعی جدوجہد ہی کوئی پایدار صورت اختیار کر سکتی ہے نہ آپ کے اندر اپنے مشن میں کامیابی کے لیے کوئی اُمنگ پیدا ہوسکتی ہے۔قرآن کہتاہے:اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌo (الصف ۶۱: ۴)’’اﷲ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میںاِس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیںگویاکہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ کتنی حسین اور معنی خیز تمثیل ہے۔ مضبوط اور ٹھوس،مربوط اور پیوست، ناقابلِ تسخیر اور ہرطرح کے شگاف اور دراڑ سے مبرا، یہ ہے وہ انداز جس سے مسلم اُمہ مل جل کر اور باہم مربوط ہوکر اﷲ کی راہ میں جدوجہد کرتی ہے۔
اب دیکھیے دیوار کس طرح تعمیر کی جاتی ہے؟ بہت سی اینٹیں جوڑی جاتی ہیں تو دیوار بنتی ہے۔ ہر اینٹ اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اینٹیں ایک ٹھوس، مضبوط اور ناقابلِ تسخیر دیوار بننے کے لیے ’صف بندی‘ کیسے کرتی ہیں؟ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ کھڑی کر کے اور ایک اینٹ دوسری اینٹ کے اوپر نصب کرکے آپ سمینٹ سے جوڑ دیتے ہیں اور دیوار اونچی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر ہر مرحلے پر دیوار کی مضبوطی اور اونچائی میں اضافہ ہوتاچلا جاتاہے۔ ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اُسی طرح مشابہت رکھتی ہے جس طرح کی مشابہت ایک انسان دوسرے انسان سے رکھتا ہے، باوجودے کہ ہر ایک کی اپنی اندرونی انفرادیت بھی ہوتی ہے۔ کسی اینٹ کو اپنی یہ انفرادیت قربان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مضبوطی اور شان داری کی یہ خوبیاںیقینا بہت سی انفرادیتوں کے اکٹھا ہوجانے سے حاصل ہوتی ہیں۔
لیکن اگر آپ ایک دیوار بنائیں اور ہر اینٹ اپنے طریقے پر چلنے پر اَ ڑ جائے،اوراگروہ اُس بوجھ کو سہارنے کے لیے تیار نہ ہو جو اوپر والی اینٹ سے اُس کو منتقل ہوگا یا جو سہارا اُسے اپنے نیچے والی اینٹ کو دینا ہے،اور اگر وہ اینٹ جسے کونے میں نصب ہونا ہے وہ اس بات کے لیے تیار نہیں کہ اُس کی ایسی تراش خراش کی جائے جس سے وہ اپنے مقام پر درست انداز سے فٹ ہوجائے، توکوئی مضبوط دیوار کبھی بھی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔بہت سی اینٹوں کو زمین کے اندر بنیادوں میں نصب ہونا پڑتاہے، عمارت بن جانے کے بعد وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتیں، حالانکہ پوری عمارت کا بوجھ اُنھی پر ہوتاہے اوراُن کی اس قربانی کے بغیر عمارت زمین سے بھی اوپر نہیں اُٹھ سکتی۔ بہت سی اینٹوں کی توڑ پھوڑ کرنی پڑتی ہے تاکہ ایک ہموار دیوار بنائی جاسکے۔
ہراینٹ سے تھوڑی تھوڑی قربانی لیے بغیر ایک مضبوط دیوارکبھی وجودمیں نہیںآ سکتی۔
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ قربانی کیا ہے؟ہم کیا قربان کریں؟ کون سی قربانیاںدینا زیادہ دُشوار ہے؟ کن قربانیوںکو عظیم قربانی کہا جا سکتاہے؟
یہاں مجھے تین بنیادی اُصول پیش کرنے کی اجازت دیجیے جو میری نظر میں قربانی کے مکمل مفہوم سے آگاہ ہونے کے لیے سمجھنا ضروری ہیں:
اوّل: کسی چیزسے دست بردار ہوجانا صرف اُسی صورت میں قربانی کہلائے گا جب وہ چیز ہمیں محبوب ہو اور ہمارے نزدیک اُس کی کوئی قدروقیمت ہو۔ اس لحاظ سے مادّی اور مجرد اشیا کے مابین کوئی خطِ امتیاز کھینچنا دُشوارہے۔حتمی تجزیہ یہ ہوگا کہ ہر قربانی ہماری محبت اور ہماری قابلِ قدر چیزوں کی قربانی ہے۔ جب ہم اپنی دولت، اپنی زندگی یا اپنے خاندانی تعلقات سے اﷲ کی خاطر دست بردار ہوتے ہیں، تو در حقیقت ہم جس چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، اور جوکیفیت اِسے قربانی کی شکل دیتی ہے، وہ خود مال، زندگی یا رشتوں ناتوں سے دست برداری نہیں بلکہ مال کی محبت، زندگی کی محبت یا عزیزوں اور رشتہ داروں کی محبت سے دست برداری ہے۔
دوم:مادّی چیزوں کے بجاے مجرد اشیا کی قربانی دینا زیادہ دُشوار اور زیادہ ضروری ہے۔
سوم:ہم اپنی محبوب اور قابلِ قدر اشیا سے صرف اُنھی چیزوں کے لیے دست بردار ہوسکتے ہیںجوہمیں اِن سے زیادہ محبوب ہوں اور جن کی ہماری نظر میں اِن سے زیادہ قدروقیمت ہو۔
یہاںہمیں مادّی اشیا کی قربانی پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ہم ایسی قربانیوں سے خوب واقف ہیں،ان کا اچھی طرح سے ادراک رکھتے ہیں اور ان کی ضرورت اوراہمیت کو تسلیم بھی کرتے ہیں، اُس صورت میں بھی کہ جب کئی مواقع پر ہم خود اس قسم کی قربانیاں دینے کے قابل نہ ہوں یا اس قسم کی قربانیاں دینے میں دُشواری محسوس کررہے ہوں۔ لیکن اگر ہم نے اپنے آپ کو کسی نصب العین کے حصول کے لیے وقف کردیا تو وقت یا موقع آنے پرہمیںان میں سے ہر شے کی قربانی دینی ہوگی۔لہٰذاہم یہاں رُک کر اُن کی کچھ اہم خصوصیات ملاحظہ کرتے ہیں۔
وقت ہماری سب سے قیمتی متاع ہے۔ہماری زندگی کی کوئی ضرورت اورکوئی خواہش اُس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اُس کے حصول کے لیے وقت نہ نکالیں اور باقاعدہ وقت نہ دیں۔ہم اپنا وقت مسرت کی تلاش میں صرف کر سکتے ہیں،دُنیاوی مال و متاع اور دولت کمانے میں صرف کر سکتے ہیں، کام میں صرف کر سکتے ہیں،لطف اندوزی میں صرف کر سکتے ہیں یا محض وقت گزاری میں بھی___ کچھ نہ کرتے ہوئے۔
وقت وہ اوّلین شے ہے جو اﷲ ہم سے طلب کرتاہے۔اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔نماز اداکرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔دعوت کاکام کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے، اور بیمار کی عیادت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ اﷲ سے اپنا عہد پورا کرنے کے لیے ہمیں ہر لمحہ اُس کی رضا کے حصول میں صرف کرنا ہوگا۔لیکن اگر آپ مزید گہرائی میں جاکر غور کریں تو آپ تسلیم کریں گے کہ جوچیز آپ فی الواقع قربان کررہے ہیں وہ وقت نہیں ہے۔ وہ اشیا ہیں جن کی جستجو میں آپ کاوقت صرف ہوتاہے، ایسی اشیاجو آپ کی زندگی کے نصب العین سے متصادم ہوسکتی ہیں، بے معنی، غیر اہم، یااﷲ کے کام کے مقابلے میں کم اہم۔ لہٰذا اسلام کے لیے وقت نکالنے سے قبل، کوئی اور کام کرنے سے پہلے، آپ کو بہت سی ایسی چیزوں کی قربانی دینی ہوگی جو آپ کا وقت لے لیتی ہیں۔
آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کی قربانی دینے، اور اپنا وقت اﷲ کے لیے مخصوص کردینے پر کس طرح آمادہ کرسکتے ہیں؟
یاد رکھیے کہ وقت ایسی چیز ہے جسے آپ ایک لمحے کے لیے بھی تھام کر نہیں رکھ سکتے۔یہ مسلسل آپ کے ہاتھ سے نکلتااورپھسلتا ہی رہے گا،خواہ آپ اسے کسی کام میں بھی صرف کرناچاہیں۔ وقت سے ملنے والا فائدہ بس وہی کچھ ہے جو آپ اُس وقت میں حاصل کرلیتے ہیں۔ ورنہ وقت توبرف کی طرح پگھل کر ختم ہوجائے گا، البتہ جوچیزآپ حاصل کریں گے وہ رہ جائے گی۔
ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیے کہ وقت کاہر لمحہ یاتو ابدی سکون و راحت میں بدل سکتاہے یا کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب میں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ وقت کوکیسے صرف کرتے ہیں۔ اِس بات کو ذہن نشین رکھنے کے نتیجے میں آپ زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ وقت کی قربانی دے سکیں گے۔ وہ لمحے جنھیں آج آپ اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے، کل آپ کے لیے نفع بخش ثابت ہوںگے، وہ کبھی ضائع نہیں جائیں گے۔ آخر آپ اُن چیزوں کے حصول کی قربانی کیوں نہ دیں جو کل آپ کو کبھی نہ ختم ہونے والی پریشانی یا پچھتاوے کی صورت میں واپس ملیں گی؟
پس جب وقت گزرہی رہاہے تو ذرا گہرے غور وخوض سے حساب لگائیے کہ آپ کیا حاصل کررہے ہیں؟ کوئی ناپایدار شے یا کوئی ابدی چیز؟ آگے چل کریہ کوئی پچھتاوا بنے گا یا خوشی؟ آپ کے وقت میںسے اسلام کو کون سی ترجیح ملی ہوئی ہے؟اپنے وقت کا کتنا حصہ آپ نے اﷲ کے لیے مخصوص کیا ہے؟ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍط (الحشر ۵۹:۱۸)’’ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیاہے؟‘‘
اﷲ کے لیے اپنے وقت کی قربانی دینا اسلام کی روح ہے۔جب بھی پکارا جائے آپ کو لازماً لبیک کہناہے۔یوں اﷲ کی راہ میں اپنے وقت کی قربانی دے کر آپ اپنے آپ کو ہر چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار کرلیں گے۔دن میں پانچ مرتبہ آپ کے اندر یہ صفت راسخ کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن کے لیے آپ کو ہدایت ہے کہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الجمعہ ۶۲:۹)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن، تواﷲ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔
آپ کا زیادہ وقت دولت کمانے یا دولت کے ذریعے سے متاعِ دُنیوی حاصل کرنے میں گزرتا ہے۔ اُن کی طلب اور اُن کی محبت ہماری فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط (اٰل عمران ۳:۱۴) ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس: عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے،مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں‘‘۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ متاعِ دُنیا سے رغبت و محبت کوئی مذموم بات ہے، نہ غلط بات ہے، نہ بدی۔یہ دُنیا برائیوں کی پوٹ نہیں‘ اس طرح کی باتیں قرآن کی تعلیمات میں نہیں ملتیں۔ قرآن میںمال ودولت کو گھٹیا اور حقیر چیز نہیں قرار دیا گیا ہے ’خیر‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اور یہ بالکل معقول بات ہے،کیوں کہ اﷲ کی راہ اور اُخروی نعمتوں کا راستہ اسی دُنیا سے گزرتاہے۔ اگر ہم اس دُنیا کو اپنے اوپر حرام کر لیں تو کوئی چیز ایسی نہیں بچتی جس کی مدد سے ہم آخرت کے انمول خزانے حاصل کرسکیں۔چناں چہ یقینی طورپر یہی دُنیا وہ واحد وسیلہ ہے جس کی بنا پر ہم اﷲ کی رضا اور اگلی دُنیا کی مسرتیں حاصل کرسکتے ہیں۔
جوچیز اس دُنیا کوبرائی اور شر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس بات کو فراموش کردیں کہ یہ سب کچھ ہماری صوابدیدپر صرف اسی دُنیا کی زندگی کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ اُس حقیقی اور ابدی نصب العین کے حصول کا ایک وسیلہ ہے،جو اِس دُنیا و مافیہا سے بہتر چیز ہے۔جب ذریعہ منزل بن جائے تو وہ ہمیں حقیقی قدروقیمت والی چیز سے بھٹکا کرمصائب وآلام میں مبتلا کردیتاہے۔ اوپر جس قرآنی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ آگے چل کر کہتی ہے:
ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ ط لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴-۱۵)، یہ سب دُنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اﷲ کے پاس ہے۔کہو: میں تمھیں بتاؤں کہ ان سے اچھی کیا چیز ہے؟ جولوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی،پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اوراﷲ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔
دُنیاوی مال ومتاع کو اﷲ کی راہ میں قربان کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔جب حقیقی فیصلے کا وقت آتاہے تو اچھے اچھے ڈانوا ڈول اور ناکام ہوجاتے ہیں۔ چند چیزیں یاد رکھنے کی ہیں جو یہ دشوار قربانیاں دینے میں آپ کی مدد کریں گی:
اوّل: کوئی چیز آپ کی اپنی ملکیت نہیں، ہرچیز کا مالک اﷲ ہے۔جب آپ اﷲ کی راہ میں کوئی چیز قربان کرتے ہیںتو آپ وہ چیز اُس کے اصل مالک کو محض لوٹارہے ہوتے ہیں۔
دوم:آپ کے دُنیاوی مال ومتاع کی خواہ کتنی ہی قدر وقیمت کیوں نہ ہو، آپ کے آخری سانس کے ساتھ ہی آپ کے لیے اُس کی قیمت صفر ہو جائے گی:
مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ ط (النحل ۱۶:۹۶)، جوکچھ تمھارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والا ہے اور جوکچھ اﷲ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔
وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقْتَدِرًا o اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج (الکھف ۱۸:۴۵-۴۶)، اور اے نبیؐ، انھیں حیاتِ دُنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی، اور کل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔ یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔
سوم: صرف اﷲ کی راہ میں خرچ کرکے ہی آپ اس کا کئی گُنا زیادہ واپس حاصل کرسکتے ہیں:
وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ط وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ط (المزمل ۷۳:۲۰)، اﷲ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جوکچھ بھلائی تُم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اﷲ کے ہاں موجود پاؤگے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑاہے۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ ۲:۲۶۱)، جولوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اُس سے سات بالیں نکلیں اورہر بال میں سَو دانے ہوں، اسی طرح اﷲ جس کے عمل کو چاہتاہے، افزونی عطا فرماتاہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔
ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے: اسلام سے آپ کی وابستگی کے دعوے کی کیا حیثیت رہ جائے گی اگر آپ اپنے نصب العین کے بجاے فضول قسم کی لطف اندوزی ، مثلاً تمباکو نوشی اور چٹورپن پر زیادہ رقم خرچ کریں۔اﷲ کے وعدے پر آپ کے ایمان کی کیا حیثیت ہو گی اگر اس دُنیا میں حصولِ منفعت کی ہلکی سی اُمید پر بھی آپ اپنی ساری بچت کی سرمایہ کاری کرگزریں، مگر ،کم ازکم سات سَوگُنا نفع کا وعدہ، جو کبھی واپس نہیں لیا جائے گا، آپ کو اپنے بٹوے کا مُنھ کھولنے پر مجبور نہ کرے۔آپ حساب لگاسکتے ہیں کہ اپنی دولت کا جتنا حصہ آپ اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں اُس کی روشنی میں اسلام کو آپ کی زندگی میںکیا مقام حاصل ہے۔
دولت کی قربانی دینا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔ مگر ہمارا زمانہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں بہتر معیارِ زندگی،عیش وعشرت پسندی، اسراف، اور مادّیت پرستی زندگی کا واحد مقصد بن کر رہ گئے ہیں۔ لہٰذا آپ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اس معاملے میں آپ کو ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ایک وقت ایسا آئے گا جب اﷲ کی راہ میں آپ کو اپنی جان قربان کردینے کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔اپنی جان کی قربانی پیش کر دیناشہادت دینے کا بلند ترین عمل ہے،ایسی صورت میں آپ شہید کہے جانے کے حق دارقرارپاتے ہیں۔ زندگی آپ کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کی قربانی دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے وہ سب چیزیں قربان کردیں جو زندگی آپ کو عطا کرتی ہے یاعطاکرسکتی ہے،وہ تمام مادّی اور غیرمادّی چیزیں جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔
جوںہی آپ کو اس حقیقت کا احساس ہوگا کہ اپنی زندگی کے مالک آپ نہیں ہیں بلکہ اﷲ ہے توآپ یقینا اُس کی راہ میں اپنی زندگی نثار کردینے پر آمادہ وتیار ہوجائیں گے۔آپ اُس کی امانت اُس کے حضور پیش کردیں گے۔یہ بات بھی آپ کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ موت سے آپ کو مفر نہیںہے، وہ اپنے مقررہ وقت پر، مقررہ جگہ پر اور مقررہ طریقے سے آکر رہے گی۔ (اٰل عمران ۳:۱۸۵، ۱۴۴-۱۴۵، ۱۵۴-۱۵۶، النّساء ۴:۷۸) ۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو لوگ اﷲ کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ اپنے لیے ، اپنی قوم کے لیے اور اپنے نصب العین کے لیے حیاتِ ابدی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ عمل اُن کی موت کو افضل و اشرف موت بنادیتاہے۔ وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۴)’’اور جولوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں، اُنھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیںہوتا‘‘۔
حُبِّ دُنیا نہ ہو، خوفِ مرگ نہ ہو، تب ہی آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو زندگی قربان کرنے کے لیے ضروری ہے۔مخالف قوتوںپر آپ صرف اُسی صورت میں غلبہ حاصل کرسکتے ہیں جب جان دینے پر آمادہ ہوں۔کامیابی کا دروازہ بس اسی طرح کھلے گا۔ مرکر آپ زندگی پالیتے ہیں، اپنے لیے بھی اور اپنی قوم کے لیے بھی۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ جب تک آپ جان دینے کے لیے تیار نہ ہوں تب تک آپ زندہ رہنے کے حق سے محروم رہیں گے، بالخصوص بحیثیت ِ قوم۔ایسا نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے پکارا جائے گا، مگر آرزوے شہادت کی آگ ہر دِل میں بھڑکنی چاہیے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو اﷲ کی راہ میں جہاد نہ کرے یا اس کی آرزو بھی نہ رکھے وہ منافق کی موت مرے گا‘‘ (مسلم)۔ آپؐنے یہ بھی فرمایا کہ: ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے یہ محبوب ہے کہ میں اﷲ کی راہ میںماراجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، اورپھر زندہ کیا جاؤں، اورپھراﷲ کی راہ میں مارا جاؤں‘‘ (بخاری، مسلم)۔ (جاری)
قربانی، اس لفظ کے کیا معنی ہیں؟
وسیع تر مفہوم میں ’قربانی‘ کا مطلب ہے اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں سے دست بردار ہوجانا۔ یہ چیزیں وقت، دولت اور زندگی جیسی چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جنھیں محسوس کیا جاسکتا ہے، جنھیں شمارکیا جاسکتاہے۔یااحساسات، رویّے،مسلک ومؤقف اور تمناؤں، جیسی اشیابھی ہو سکتی ہیں کہ جن کو محسوس کیا جاسکتا ہے نہ ناپا تولاجاسکتاہے۔ان چیزوں کی قربانی کسی ایسی چیز کے حصول کی خاطر دی جاتی ہے جو ان سے زیادہ قیمتی، زیادہ اہم یا زیادہ ضروری ہو۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بنیادی طورپر قربانی کا مطلب ہے خدا کے حضور کسی جانور یا انسان کاذبیحہ بطورِ نذر پیش کرنا ،اوریوںاپنی ملکیت میں سے کوئی چیز خدا کی نذرکرنا۔
لغتِ قرآنی میںبالکل ٹھیک ٹھیک ’قربانی‘ کا ہم معنی لفظ تلاش کرنا دُشوار ہے، جس کا ایسا ہی وسیع ادبی استعمال بھی ہو۔ معنی کے لحاظ سے قریب ترین لفظ غالباً نُسُک ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲) کہو،میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا ، سب کچھ اﷲ ربُّ العالمین کے لیے ہے۔
بہرکیف ’انفاق‘ بنیادی اہمیت کاحامل ایک ایسا داعیہ ہے جس پر قرآن میں باربار زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کہا گیا ہے کہ : ’جورزق ہم نے اُن کو دیاہے‘ اُس میں سے خرچ کرناایمان کالازمی تقاضا ہے۔صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ ’انفاق‘کو ایمان کی بنیاد پر بسر کی جانے والی زندگی کی صورت گری کرنے ، اس کی محافظت کرنے اور اس کو سہارا فراہم کرنے کے لیے کافی قراردیا گیا ہے۔اﷲ کے دیے ہوئے مال واسباب میں، جوانسان کو خرچ کرناہے،ہروہ چیز شامل ہے جو اُس کی ملکیت میں ہے، خواہ وہ مادّی شے ہو یا غیرمادّی۔ قرآن میں ایک مقام پرتقویٰ (بُرے کاموں سے پرہیز ) اورتصدیق (قبولیتِ حق) کے ساتھ ’انفاق‘کو وہ سب کچھ قراردیا ہے جو اچھی‘ نیک زندگی کی تشکیلی صفات کے لیے درکار ہے:
اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی o فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی o وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰیo (اللیل ۹۲ : ۴تا ۱۰) درحقیقت تُم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔تو جس نے (راہِ خدامیں) مال دیا اور تقویٰ اختیار کیا، اورحق کی تصدیق کی، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اورجس نے بخل کیا اور اپنے آپ کو مستغنی (خودکفیل) سمجھااورحق کا انکار کیااُس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔
قربانی ایسا جوہر ہے جس سے عام انسانی زندگیاںبھی عمدہ اور کامیاب بن جاتی ہیں۔اس کے بغیر زندگی امن، ہم آہنگی اور امدادِ باہمی سے محروم رہے گی، تنازعات اور اختلافات سے پُر ہوگی، نفسانی خواہشات کی فی الفور تسکین، خودغرضی اورحرص وطمع کا شکار ہوگی۔ علاوہ ازیں کوئی خاندان یا برادری بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے نہ اُس میں یک جہتی اور استحکام پیدا ہوسکتا ہے جب تک اُس کے ارکان اپنی طرف سے کچھ قربانی نہ دیں۔ کوئی انسانی جدوجہد اپنا ہدف حاصل کرنے میں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں کی قربانی نہ دے۔
جو کلیہ عام انسانی زندگی اورعام انسانی جدوجہد پر صادق آتا ہے، خواہ اُس جدوجہد کی اہمیت اور نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو،یقینا وہ کلیہ اسلامی زندگی پر زیادہ صادق آئے گا،کیوں کہ اسلام کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ محض تھوڑا سا مال ومتاع نہیں، بلکہ اپنی پوری زندگی اﷲ کے سپرد کردی جائے۔ہم اپنے موجودہ زمانے کی زبان میں بات کریں تو اسلامی زندگی اعلیٰ ترین قربانی کی زندگی ہے۔اسلامی زندگی ایسی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے جسے مسلسل اور متواتر جاری رہنا چاہیے تاکہ اسلام ظاہر وباطن میں حقیقتاً رچ بس جائے اور ایک زندہ حقیقت بن جائے۔
قربانی سے ایمان کی نشوونما ہے،اس کے بغیر ایمان کے ننھے منے بیج سے ایسے تناور اور سرسبز وشاداب درخت پروان نہیں چڑھیں گے جوبے شمار انسانی کاروانوںکو چھاؤں اور پھل فراہم کریں (ابراھیم ۱۴ : ۲۴-۲۵)۔ اِسے ایساباوفاہمدم و رفیق بن جانا چاہیے جس کے بغیر راہِ جہاد طے نہ کی جاسکے، کیوں کہ اس راستے میں صحراے ناپیدا کنار بھی پھیلے ہوئے ہیں اورمنزل تک پہنچنے کی راہ میں بلند و بالا پہاڑ بھی حائل ہیں (التوبہ ۹: ۲۴)۔قربانی اُن کنجیوں میں سے ایک کُنجی ہے جس کے بغیر بند دروازے کھل نہیں سکتے۔ (البقرہ ۲ : ۲۱۴)
خواہ روحانی و اخلاقی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے کیا جانے والا سفر ذاتی ہو یا زندگی اور معاشرے کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے (ایک خدا کے آگے سرتسلیم خم کردینے) کے لیے کیا جانے والا سماجی سفر، یہ کلیہ دونوں پر صادق آتا ہے۔ اوریہی کلیہ اُس صورت میں بھی صادق آتا ہے جب یہ دونوں راہیں انتہائی چاہت کے ساتھ ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔ منزل جتنی عظیم اور بلند ہوگی، راستہ اُتنا ہی کٹھن اور دشوار ہوگا۔
اب تک آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ قربانی کا موضوع کتنا وسیع ہے۔اسی موضوع سے مضبوطی کے ساتھ گُندھا ہوا اتنا ہی وسیع اور اتنا ہی اہم موضوع ’ابتلا وآزمایش ‘کا اور ’صبر‘ کا ہے۔ اس موضوع کو لامتناہی طورپر پھیلایا جاسکتاہے مگر میرامقصد اس کا مکمل احاطہ کرنانہیں ہے۔اس معروف موضوع کے بہت سے پہلوئوںسے آپ خوب اچھی طرح واقف ہیں۔چنانچہ میں اِس موضوع کے صرف ایسے پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا جومیری نظرمیں زیادہ توجہ کے مستحق ہیں یا ہمارے موجودہ حالات سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں مختصراً ایک اہم سوال پر نظر ڈالنی چاہیے۔آخر اسلام کا نظریۂ جدوجہد سے اِس قدر گہرا تعلق کیوں ہے؟دونوں میں کیا ربط ہے؟ کیا کوئی شخص اپنے آپ کوکسی ایسی جدوجہد میںمشغول کیے بغیر اچھا مسلمان نہیں بن سکتا جس کا لازمی تقاضا قربانی ہے؟ جواب ہے: ’’نہیں!‘‘ اوراس کے بین دلائل ہیں۔
اسلام پوری زندگی میں محض ایک بار کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں ہے۔ کلمہ طیبہ کائناتی وسعتیں رکھتاہے۔ پوری زندگی اور تمام دُنیا کو جڑ بنیاد سے از سرنو منظم کرنے کاتقاضا کرتاہے۔یہ کلمہ محض اپنے عقیدے کا زبانی اعلان نہیں ہے۔ ایسی شہادت دینے کا عمل ہے جو پوری زندگی کو عقیدے کی جیتی جاگتی اور مسلسل گواہی میںبدل کر رکھ دے۔آپ کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل تو ہوجاتے ہیں۔ مگر مسلمان بن کرجینے کے لیے آپ کو مستقلاً گواہی دیتے رہنا پڑے گا(البقرہ ۲ : ۱۴۳، الحج ۲۲ : ۲۸) ۔مسلسل گواہی دیتے رہنے سے اپنی ذات کے اندر اور اپنی ذات سے باہر کے جھوٹے خداؤں سے آپ کی کبھی نہ ختم ہونے والی محاذآرائی شروع ہوجائے گی۔ اپنی گواہی کی توثیق و تصدیق کرنے کے لیے آپ کو اپنے آپ اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے جہدِمسلسل بھی کرتے رہنا ہوگا۔
لہٰذا مسلمان رہنے کے لیے مسلمان بننا ضروری ہے۔ایمان کا بیج دل میں بوئے جانے کے بعد، مسلمان بننا ایک دوہرا عمل ہے۔ ایک طرف اپنے آپ کواور دوسری طرف تمام انسانیت کو اﷲ وحدہٗ لاشریک کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دینا___ یہ دونوںکام باہم گتھے ہوئے ہیں اور دونوں کام بہ یک وقت کرنے ہیں۔
تمام انسانوں کو دعوت دینا کوئی ٹھنڈاٹھار زبانی بلاوا نہیں۔یہ ایک فعال اور متحرک سرگرمی ہے، ایک تحریک ہے جو تقاضاکرتی ہے کہ تمام میسر وسائل کی مدد سے ایک ایسے جہاد کا آغاز کیا جائے جومطلق العنانیت کے جھوٹے دعوے داروں کو تخت سے اُتار پھینکے، جابروں‘ ستم گروں اور بدعنوانوں سے اُن کی طاقت سلب کرلے اور انسانوں کے درمیان عدل قائم کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی مکی زندگی کی ابتداہی میں اعلان فرما دیا تھا کہ: تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیںکہ ایک شخص کو پکڑ کر لایاجاتا،اورایک گڑھا کھودکراُسے گڑھے میں ڈال دیاجاتا،پھر ایک آری لاکر اُس کے سرپر رکھی جاتی اور اُس کو چیر کر دوٹکڑے کردیاجاتا، لوہے کی کنگھیوں سے اُس کا گوشت ہڈیوں سے جدا کردیا جاتا، اس کے باوجود کوئی چیز اُسے اُس کے دین سے پھیر نہیں سکتی تھی۔خداکی قسم! میں اپنا مشن پورا کرکے چھوڑوں گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفرکرے گا اور اُسے خداکے سواکسی کا خوف نہیں ہوگا، اورکوئی اندیشہ اُس کے دل میں نہیں آئے گا سواے اِس کے کہ کہیں کوئی بھیڑیا اُس کے مویشیوں کو نقصان پہنچادے۔ (بخاری)
پس اسلام کاراستہ جدوجہد کے راستے کے سوا کوئی اورراستہ نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ قربانی کی راہ ہے۔کوئی کہہ سکتاہے کہ کیا اسلام عطیۂ الٰہی نہیں ہے؟ یقینا ہے۔ اﷲ کی مدد اور اُس کی دست گیری کے بغیر ہم صراطِ مستقیم کی طرف، جو اسلام کا راستہ ہے، ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ اس کے باوجود ہم صرف اپنے اخلاصِ نیت اور اپنی مخلصانہ جدوجہد ہی کے ذریعے سے اس انتہائی قیمتی عطیے کو حاصل کرنے، اسے قائم و دائم رکھنے، اس کے زیرسایہ نشوونما پانے اوراس سے ملنے والے تمام فوائد سمیٹنے کے حق دار بن سکتے ہیں۔اﷲ کا یہ انعام، کوئی شک نہیں کہ، اُس کی بے پایاں رحمتوں اور اُس کے کرم ہی سے ملتاہے، مگر غیر مشروط نہیں ، کہ کوئی مانگے یا نہ مانگے، کوشش کرے یا نہ کرے اُسے مل جائے۔ اس طرح تو یہ ایک سستی سی بے قیمت چیز بن جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں اﷲ تعالیٰ کا ارشادہے:
اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ (الشورٰی ۴۲ : ۱۳) وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتاہے جواُس کی طرف رجوع کرے۔
رجوع الی اﷲ کے لیے نیت اور کوشش دونوںلازم ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خدا کے سوا تمام جھوٹے خداؤں سے مُنھ موڑ لیا جائے۔یہ عمل مکمل طورپراپنا رُخ پھیر لینے کا عمل ہے، اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔اِس راہ پرمزید پیش قدمی کا انحصار جدوجہد پر ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹ : ۶۸) جولوگ ہماری خاطر سخت جدوجہد کریں گے اُنھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔
تو یہ ہے اﷲ کی سنت۔ صرف اسلام ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ ہماری زندگی کی اُن تمام انمول نعمتوں کے معاملے میں بھی، جن سے ہمیں نوازا گیا ہے۔ذرا ان میں سے چند پر نظر ڈالیے: یہ آنکھیں جن سے ہم دیکھتے ہیں، یہ کان جن سے ہم سنتے ہیں، یہ ہاتھ پاؤں جن کی مدد سے ہم اپنے کام کاج کرتے ہیں، یہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں، یہ پانی جس سے ہم اپنی پیاس بجھاتے ہیں، جس کے بغیر زندگی اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکتی___ ان تمام چیزوں کو ہم نے نہیں پیدا کیا، نہ ہم چاہیں توپیدا کرسکتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ہمیں بے مانگے مل جاتی ہیں،ہمارا ان پر کوئی موروثی دعویٰ نہیں،نہ یہ ہماری ناقابلِ انتقال ملکیت میں ہیں۔ یہ سب کی سب نعمتیں ہمیں اﷲ کے فضل وکرم سے نصیب ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود انھیں اپنے استعمال میں رکھنے اور ان سے ملنے والے تمام فوائد حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی بہترین کوششیں بروے کار لانی پڑتی ہیں۔
زندگی کی بہت سی چیزیںہمیںکوشش اور جدوجہد کے بغیر نہیں مل پاتیں۔ہمیں صرف وہی نصیب ہوتا ہے جس کے لیے ہم جد وجہد اور کوشش کریں:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ o (البلد ۹۰ : ۴) ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیاہے۔
وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o (النجم ۵۳ : ۳۹) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی۔
زمین موجودہے، پانی فراہم ہے، بیج میسر ہے، مگر مٹی بیج کو اناج میں اُس وقت تک تبدیل نہیں کرے گی جب تک ہم اس کی کھدائی نہ کریں، ہل نہ چلائیں،بیج نہ بوئیں، پودوںپر آب پاشی نہ کریں، اُن کی حفاظت نہ کریں اور فصل کاشت نہ کریں۔اﷲ کی بے شمار نعمتیں، جن کی ہمارے گرداگرد ریل پیل ہے، اپنے خزانوں کے منہ ہم پر اُس وقت تک نہیں کھولیں گی جب تک ہم محنت نہ کریں اور اپنا پسینہ نہ بہائیں۔حقیقت یہ ہے کہ جس قدر قیمتی خزانے کے حصول کی خواہش ہو اُسی قدر زیادہ محنت اورکوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اسلام اﷲ کی بہت سی نعمتوں میں سے محض ایک نعمت ہو۔یہ اﷲ کی منتخب ترین نعمت ہے (المائدہ ۵ : ۳)۔ اس دُنیا میں اپنی زندگی گزارنے کے لیے اﷲ نے ہمیں جن بے شمارانعامات و اکرامات سے نوازاہے، ان میں سے عظیم ترین اور اہم ترین انعام یہ ہے کہ اُس نے ہمیں زندگی کے حقیقی معنی و مقصدسے آگاہ کردیا ہے۔ یہ معنی اور مقصد یہ ہے کہ ہم اُسی کی خاطر جیئں، اُسی کی رضا کے حصول کی کوشش کریں، یہاں تک کہ اُسی کی راہ میں موت آجائے۔ جانوروں کی سی زندگی گزارنے کے بجاے کہ پیداہوں، کھائیں پیٔیں، تولید و تناسُل کریں اور مرجائیں، ہم کو بامقصد زندگی گزارنی ہے۔یوں زندگی ایک عارضی اور ناپایدار چیزاور موت کے ساتھ ہی ختم ہو جانے والے تاریخ کے ایک تیز قدم لمحے کی حیثیت سے بلند ہوکرایک ابدی شے بن جاتی ہے۔ہمارا مقصدِ وجود یہ نہیں ہے کہ جو نعمتیں اور جو عہدے اور مراتب اس دُنیا میںبکھرے ہوئے ہیں، ہم محض اُنھی کوسمیٹنے کی تمنا اور اُنھی کے حصول میںجتے رہیں۔اس کے بجاے ہمارے سامنے یہ رستہ کھلا ہوا ہے کہ ہم اس دُنیا کے مال ومتاع کو اگلی دُنیا کے کبھی نہ ختم ہونے والے فوائد میں بدل لیں، کبھی یہ مال ومتاع حاصل کرکے اور شکرگزاری کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوکر اور کبھی اس مال ومتاع سے دست بردار ہوکر۔
اگر اس دُنیا کی عام اشیا بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوسکتیں تو زندگی میں مقصدیت اور معنویت پیدا کرنے کے لیے، جو اسلام ہے، یقینا انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔اس جدوجہد اور قربانی کی نوعیت اوردرجہ لازماً اُس نصب العین کی قدروقیمت اورمعیار کے مساوی ہونا چاہیے، جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اور کون سا نصب العین ہماری زندگی میں زیادہ قابلِ قدر، زیادہ ناگزیر، زیادہ اہم اور زیادہ ضروری ہوسکتا ہے، بجز اس کے کہ پورے انسان کو، اُس کی اندرونی شخصیت کو، اُس کے ماحول کو، اُس کے معاشرے کو ، غرض پوری دُنیا کو اﷲ کی طرف بلایا جائے۔ سخت محنت کے بغیر،محض تمنا، آرزو، تقریر، دعووں اور بیانات سے ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم اُس منزل پر جاپہنچیں گے جو ہم نے اپنے لیے متعین کی ہے۔اگرکوئی شخص اپنی روزکی روٹی محنت کیے بغیر نہیں کماسکتا تو کیا اﷲ اپنی عظیم ترین نعمت، اِس دُنیا کی کامیابی اور اُس دُنیا کی کامیابی ہمیں یوں ہی عطافرمادے گا؟ جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ ہم جس عقیدے کا اعلان کرتے ہیں اُس کی جڑیں ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں پیوست ہیں، ہم اپنے دعویٔ وفا میں سچے ہیں اور ہم سے جوقربانی طلب کی جائے گی ہم پیش کردیں گے۔
قرآن کافرمان ہے:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳ : ۱۴۲)کیا تُم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں چلے جاؤ گے حالاں کہ ابھی اﷲ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تُم میں کون وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اُس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَ الضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ o (البقرہ ۲: ۲۱۴) پھر کیا تُم لوگوںنے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالاں کہ ابھی تُم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تُم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکاہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اُس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت اُنھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اﷲ کی مدد قریب ہے۔
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹ : ۳-۴) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اوراُن کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کر چکے ہیںجو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اﷲ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری کوششیں اور ہماری قربانیاں کسی بھی لحاظ سے اﷲ کی اُن نعمتوں کے ہم پلہ ہیں جو اﷲ نے ہمیں دی ہیں۔ ہرچند کہ ہم اپنی ذاتی محنت سے زمین سے غذا حاصل کرتے ہیں،پھر بھی یہ نعمت اس قدر انمول ہے کہ کسان جو محنت کرتا ہے وہ اُن لامحدود فوائدکے مساوی نہیں قراردی جا سکتی جو ہمیں حاصل ہوتے ہیں۔اسی طرح اﷲ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہوئے ہم سے جو قربانیاں طلب کی جاتی ہیں وہ اُن فوائد کی ہم وزن نہیں ہوسکتیںجو ہم ذاتی طورپر حاصل کرتے ہیںیا جو اُمتِ مسلمہ اجتماعی طورپر حاصل کرتی ہے اورجو بنی نوعِ انسان کو مجموعی طورپر ملتے ہیں۔اس کے باوجود ہمیں اپنی انسانی بساط کے مطابق یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے نصب العین پر پختہ ایمان رکھتے ہیں بلکہ جس چیز کوہم اپنی محبوب ترین شے قراردینے کے دعوے دار ہیں اُس کے لیے جدوجہد کرنے اور اپنی پسندیدہ چیزوں کی قربانیاں دینے کو بھی تیارہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تقریباً تواتر کے ساتھ ایمان کاذکر عملِ صالح، ہجرت اور جہاد کے ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات ۴۹ : ۱۵) حقیقت میںتو مومن وہ ہیں جو اﷲ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر اُنھوں نے کوئی شک نہ کیا اوراپنی جانوں اور مالوں سے اﷲ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی لوگ سچے ہیں۔
جیسا کہ پہلے بھی مختصراً ذکر کیا جاچکا ہے کہ جدوجہد دوسطحوں پر ہوتی ہے۔ذاتی سطح پر ایمان کا تقاضایہ ہے کہ فرداپنے آپ کو اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بنالے اور اس طرح دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ اﷲ کو محبوب رکھے:’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۶۵)۔ بہ الفاظ دیگر ایمان یہ کہتاہے کہ دُنیا کی کوئی چیز اتنی قیمتی اور اتنی قابلِ قدر نہیں کہ اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان نہ کی جاسکے۔
اجتماعی سطح پر کی جانے والی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں دی جانے والی قربانیاں پوری دُنیا کوایک اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بننے کی دعوت دینے کے لیے ہوتی ہیں۔قرآن اکثر اس جدوجہد کو جہاد سے تعبیرکرتاہے۔ایمان کا تقاضاہے کہ تمام جھوٹے خداؤںکو معزول کردیا جائے اورظلم وجبر، بگاڑ اوربدی کی تمام طاقتوں کے سامنے ڈٹ جایا جائے۔جہاد، اﷲ سے بغاوت کرنے والی تمام طاقتوںپر غلبہ پانے کے لیے کیا جاتاہے۔اس کے لیے اپنے نفس پر غلبہ پانے سے بہت مختلف نوعیت اورمختلف درجے کی قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔ (جاری)
حج زیارت کر دن خانہ بود
حج رب البیت مردانہ بود
(رومیؔ)
(خانہ کعبہ کی زیارت ہی حج ہے اور رب کعبہ کا مردانہ وار طواف ہی حج ہے۔)
صوفیاے کرام نے ہمیشہ مذہب کے ظاہری رسوم سے زیادہ زور اس کی باطنی روح پر دیا ہے۔ دین محمدیؐ کی یہی دو حیثیتیں ہیں: ظاہریؔ و باطنیؔ!۔ بقول شاہ ولی اللہ ؒ:
نیکی و طاعت کے ظاہری افعال سے قلب پر جو اچھے اثرات مترتب ہوتے ہیں، ان کے احوال و کوائف کی تحصیل دین کی باطنی حیثیت یا تصوف کا مقصود اور نصب العین ہے۔ (ہمعات)
قرآنی تعلیمات سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اصل چیز ظاہری رسوم نہیں بلکہ باطنی روح ہے۔ دیکھو قربانی کے سلسلے میں حق تعالیٰ نے وضاحت فرما دی ہے، کہ:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط (الحج ۲۲:۳۷)نہ قربانی کا گوشت حق تعالیٰ کے پاس پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ تقویٰ یا پارسائی۔
یعنی حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی محض قربانی کر دینے یا خون بہا دینے سے نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ اس قربانی کا مدار حق تعالیٰ کی محبت، اُن کی رضا جوئی اور اُن کی قرب طلبی نہ ہو۔ اسی طرح دوسری جگہ واضح طور پرفرمایا گیا ہے، کہ:
لَیْسَ الْبِرَّاَنْ تُوَلُّوْاوُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ (البقرۃ ۲:۱۷۷)نیکی اس کا نام نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو، بلکہ نیکی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان و یقین سے حاصل ہوتی ہے۔
یعنی محض کسی سمت کو قبلہ بنا کر اس کی طرف منہ پھیر لینے سے انسان کے اندر نیکی نہیں پیدا ہوسکتی جب تک کہ اس کی بنیاد اللہ اور آخرت کے یقین و ایمان پر نہ ہو!
اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھول نہ جانا چاہیے کہ قرآنی تعلیمات اور اسلامی تصوف کی رو سے دنیا میں جس طرح انسانی روح بغیر انسانی جسم کے نہیں پائی جاتی اور اس کے روحانی افعال کا اعتبار بغیر جسمانی افعال کے نہیں ہوتا، اسی طرح دنیا میں خاص خاص افعال یا جسمانی حرکات اور احوال کے بغیر روح کا ارتقا اور اس کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے صوفیاے کرام نے باطن کے ساتھ ظاہر کی حفاظت پر پورا زور دیا ہے اور متقدمین صوفیا نے تصوف کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ ع
وہ نام ہے تعمیر ظاہر و باطن کا
بالفاظ دیگر دونوں کی اصلاح و درستی ضروری ہے، نہ ظاہر بغیر باطن کے اور نہ باطن بغیر ظاہر کے درست ہوسکتا ہے۔ ظاہر عنوان ہے باطن کا۔ جب کسی کے ظاہری افعال شرع محمدیؐ کے خلاف ہوں تو اس کو کوئی تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس کا باطن موافق و مطیع ہوگا۔ ظاہر تو تابع ہوتا ہے باطن کا۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ باطن درست ہو اور اس کا اثر ظاہر پر نہ پڑے، یہ ناممکن ہے۔ اسی طرح ظاہری افعال کا اثر باطن پر پڑتا ہے بلکہ ہر ظاہری عمل باطن کو متاثر کرتا ہے۔ ولیم جیمس جیسے ماہرِ نفسیات نے تو اس حد تک زور دیا ہے کہ: ’’اگر تم باطن میں کوئی کیفیت یا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کی ظاہری صورت پیدا کرلو، تمھارا باطن متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔‘‘
حج کے تمام اعمال پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومن جس کا طرۂ امتیاز حق تعالیٰ کی شدید محبت ہے (الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِط۔البقرۃ۲:۱۶۵)، اپنے عشق و محبت کے جذبے کو جو اس کے قلب کی گہرائیوں میں نہاں ہے، ظاہری اعمال و اشکال میں ہویدا کرتا ہے تاکہ: ’’اس کے اس حال کا چرچا دنیا میں پھیلے، وہ بلند آواز سے لبیک کہتے ہوئے نعرے لگاتا ہے اور ان نعروں سے محبت کی چھپی دبی آگ کو بھڑکاتا ہے!۔‘‘ چنانچہ شاہ عبدالعزیزؒ اپنی تفسیر میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ:
حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک دفعہ اپنے کو سرگشتہ و شیدا بنا کر دیوانوں کی طرح اور عشق بازوں کا وتیرا اختیار کرکے محبوب کے گھر کے گردننگے سر ننگے پائوں، الجھے ہوئے بال، پریشان حالی کے ساتھ گرد میں اَٹے ہوئے سرزمین حجاز میں پہنچیں، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر، کبھی زمین پر محبوب کے اسی گھر کی طرف رُخ کرکے کھڑے ہوں…… اسی تجلی خانے کے ارد گرد گھومیں اور اس کے گوشوں کو چومیں چاٹیں۔
حج کے مناسک سے عشق و محبت کا یہی جذبہ ظاہر ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر طواف کعبہ، صفا و مروہ کے درمیان سعی، مزدلفہ کی آمد و رفت، عرفات میں قیام، منیٰ میں ذبح و قربانی، وتلبیہ و احرام وغیرہ کا حکم دیا گیا ہے۔
اعمال حج کے انھی باطنی اسرار کو ہم یہاں امام الصوفیہ حجۃ الاسلام حضرت غزالیؒ کے اشارات کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں:
زیں شہدیک انگشت رسانم بلبت
از لذت اگر محو نگردی تف کن!
(آپ کے ہونٹوں سے اس شہد کی ایک انگلی لگا دی ہے، اگر تو اس سے لذت اندوز نہیں ہوتا تو افسوس ہے۔)
حق تعالیٰ کے گھر کی زیارت کا شوق عاشق کے قلب میں بھڑک اُٹھتا ہے! جس قلب میں اس ’شاہ خوباں‘ کا عشق نہیں وہ مردہ ہے، یا یوں کہئے:
دل کہ فارغ شدز عشق آں نگار
سنگ استنجائے شیطانش شمار!
(اس محبوب کی محبت سے دل فارغ ہو جائے تو ایسا دل شیطان کے استنجے کا ڈھیلا ہے۔)
عاشق کی نگاہ میں اب دنیا کی ساری لذتیں ہیچ نظر آنے لگتی ہیں۔ مال و دولت، جاہ و عزت، دوست و احباب اپنی دل فریبیاں کھو دیتے ہیں! ’زندے‘ کا عشق اس کو مُردوں کی محبت سے بیزار کردیتا ہے اور وہ چیخ اُٹھتا ہے:
عشق بامردہ نبا شد پایدار
عشق رابا حئی جاں افزائے دار!
عشق زندہ در روان و دربصر
ہر دمے باشدز غنچہ تازہ تر!
عشق آں زندہ گزیں کو باقیست
وز شرابِ جاں فزایت ساقیست
عشق آں بگزیں کہ جملہ انبیا
یا فتند از عشق او کار و کیا!
غرق عشق شوکہ غرق است اندریں
عشقہائے اولین و آخریں!
(رومیؔ)
(مُردوں سے عشق پایدار نہیں ہوتا، زندوں سے لگائو ہی روح پرور ہوتا ہے۔زندہ عشق روح میں اور آنکھوں میں رہتا ہے اور ہر لمحے ترو تازہ غنچے سے بھی زیادہ تازگی رکھتا ہے۔ایسے زندہ سے عشق ہونا چاہیے جو باقی رہنے والا ہے، وہ جان فزا شراب کا ساقی ہوتا ہے۔عشق ایسی ہستی سے ہونا چاہیے کہ انبیا نے بھی اس کے تعلق سے بالیدگی حاصل کی ہو۔عشق میں غرق ہو جا اور یہی اولین و آخری عشق ہو۔)
اہل و عیال، دوست و احباب سے رخصت ہوکر جب وہ سوار ہوتا ہے تو اس کی نظر میں دارِآخرت کی سواری آ جاتی ہے، وہ اپنے جنازے کو آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے جس پر سوار ہوکر اس کو ایک روز آخرت کی طرف کوچ کرنا ہوگا، اور وہ جانتا ہے کہ یہ دن کچھ زیادہ دور تو نہیں ہوسکتا۔ع
کیں عمر بیک چشم زدن نقش برآب است!
(یہ عمر پانی پر کسی نقش کی مانند آنکھ جھپکنے میں ختم ہوجاتی ہے۔)
جب احرام کے لیے چادر خریدتا ہے تو اس کو وہ دن یاد آتا ہے جب اس کا تن بے جاں کفن میں لپیٹا جائے گا اور وہ بے حس و حرکت پڑا ہوگا! اب اس کا ساتھ دینے والے نہ دوست و احباب ہوں گے اور نہ اہل و عیال، صرف ایمان و عمل صالح ہی اس کے ساتھ جائیں گے! وہ اپنے نفس سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: ؎
یا من بدنیاہ اشتغل
قد غرک طول الامل
الموت یاتی بغتۃ
والقبر صندوق العمل
(حضرت علیؓ)
(اے وہ جو اپنی دنیا میں مشغول ہوگیا، تجھے طویل تمنائوں نے دھوکے میں ڈال دیا۔ موت تو اچانک آئے گی اور قبر تمھارے عمل کا صندوق ہوگا)
سوچتا ہے کہ احرام کی چادر تو خانۂ کعبہ کے قریب پہنچ کر باندھنی پڑے گی، ممکن ہے کہ یہ سفر پورا نہ ہوسکے اور راہ ہی میں موت آ جائے لیکن حق تعالیٰ سے ملاقات تو کفن میں لپٹے ہوئے ہی ہوگی! کفن کی اس چادر پر نظر کرکے شکستہ دلی کے ساتھ حق تعالیٰ سے عرض کرتا ہے:
’’اَللّٰھُمِّ اَغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَآء الثَّلِجْ وَالْبَرْدِوَنَقِّ قَلْبِیْ مِنَ الْخَطَا یَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْب الْاَ بْیَض مِنَ الدَّنسِ وَبَاعِدْبَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَاَے کَمَا بَاعَدتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ۔‘‘ (عن عائشہ ؓ، بخاری)
اے اللہ میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے، اور میرے دل کو گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے، اور مجھ میں اور میرے گناہوں کے درمیان ایسا فاصلہ کر دے جیسا کہ مشرق و مغرب میں تو نے فاصلہ رکھا ہے۔
جب اپنے شہر سے باہر نکل آتا ہے تو سوچتا ہے کہ اُس نے اپنے اہل و عیال اور وطن سے جدا ہوکر ایسا سفر اختیار کیا ہے جو کسی طرح دنیا کے اور سفروں کے بالکل مشابہ نہیں! اس سفر سے اس کا مقصود حق تعالیٰ ہیں، ان کے گھر کی زیارت ہے، ان کی رضا و خوشنودی ہے۔ حق تعالیٰ ہی کی پکار پر، انھی کی توفیق سے، انھی کے شوق دلانے سے، انھی کے حکم پر وہ قطعِ علائق و ترکِ خلائق کرکے ان کے دربار کی طرف دیوانہ وار چل پڑا ہے، اس کی زبان پر ہے:
بِسْمِ اللّٰہِ، مَاشَاء اللّٰہ، حَسْبِی اللّٰہُ، لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
اللھم الیک خرجت وَانت اخرجتنی!
(اے اللہ، میں تیری طرف ہی نکلا ہوں اور تو نے ہی مجھے نکالا ہے)
من کہ باشم کہ براں خاطر عاطر گذرم
لطفہامی کنی اے خاک درت تاج سرم
(حافظ شیرازیؒ)
(میں کون ہوتا ہوںکہ اس کے خاطر عاطر میں میرا گزر ہو، تیرا لطف و کرم ہو توتیرے در کی خاک ہی میرے سر کا تاج ہے۔)
اس کو حق تعالیٰ سے پوری اُمید ہوتی ہے کہ وہ اس سفر شوق میں اس کے ساتھ ہوں گے، اس کے نگہبان اور مددگار ہوں گے۔ وہ حق تعالیٰ ہی کی دستگیری و رہبری سے اپنی منتہاے آرزو کو پائے گا، اپنے مولیٰ کے دیدار سے اپنی مراد کو پائے گا! ؎
من ایں دستے کہ افشاندم زکونین
بد امانِ تمنائے تو باشد!
(حزیںؔ)
(جی کو میں نے کونین سے الگ کر لیا ہے، تیری تمنا کے دامن میں آجائے۔)
سوچتا ہے کہ اگر وہ منزل مقصود کو پہنچنے بھی نہ پایا اور راستے ہی میں طعمۂ اجل مسمٰی ہوگیا، پھر بھی وہ’نثارِ رہ یار‘ ہوگا! کیا حق تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے:
’’وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔‘‘ (النسآء ۴:۱۰۰)جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کروں گا، پھر اس کو موت آ پکڑے، تب بھی اس کا ثواب ثابت ہوگیا، اللہ تعالیٰ کے ذمے!
ہاں، اس راہ میں موت بھی اچھی! کہہ سکے گا! ؎
حاصل عمر نثار رہ یارے کردم!
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
(اپنی عمر کا حاصل اپنے دوست کی راہ میں نثار کر دیا ہے۔ میں اپنی زندگی سے خوش ہوں کہ میں نے کوئی کام تو کیا ہے۔)
اسی فکر و ذکر، اسی ولولہ و جنون میں وہ میقات پر پہنچ جاتا ہے، کپڑے اُتارتا ہے اور احرام کی چادریں باندھتا اور اوڑھتا ہے، ماسوا سے آزاد ہوکر چیخ اٹھتا ہے:
لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ
آنکھوں سے اس کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، دل سے سرد آہیں نکلتی ہیں اور زبان سے یہ چیخ:
ما را ز خاک کویت پیراہن است برتن!
آنہم زآب دیدہ صد چاک تابدامن
(جمالیؔ)
(تیرے کوچے کی خاک ہمارے جسم کا لباس ہے، اور اس لباس کو بھی ہمارے آنسوئوں نے دامن تک چاک کررکھا ہے۔)
جانتا ہے کہ لبیک کی یہ پکار حق تعالیٰ کی اس پکار کے جواب میں ہے، کہ: وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ (الحج ۲۲:۲۷)’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔‘‘اور اس کا خیال عرصۂ قیامت کی تصویر آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا اور لوگ اسی طرح پکارے جائیں گے اور وہ اپنی قبروں سے نکل کر میدانِ قیامت میں جمع ہوں گے اور حق تعالیٰ کی پکار کا جواب دیں گے۔ پھر ان میں سے بعض مقبول ہوں گے اور بعض مردود! ابتدا میں تردد ہر ایک کو ہوگا، خوف و رجا ہر ایک کے سینے میں ہوگی! دل ہی دل میں حق تعالیٰ سے کہتا ہے، کہ
کارے بجز گناہ نداریم یا حفیظ
عذرے بغیر آہ نداریم یاحفیظ!
ہر چند رو سیاہ و گنہ گار و مجرمیم
جز رحمتت پناہ نداریم یاحفیظ!
(مجذوبؔ)
اے حفیظ! سواے گناہ کے اور کچھ کام ہم سے نہ ہو سکا۔ ہمارے پاس سواے آہوں کے کوئی عذر نہیں۔ ہر چند کہ ہم گنہگار اور روسیاہ اور مجرم ہیں، سواے تیری رحمت کے پناہ میں آنے کے اور کچھ نہیں رکھتے۔)
توبہ و استغفار، تسبیح و تہلیل، ندامت و شوق، رجا و خوف میں اس کی ہر ساعت بسر ہوتی ہے، دل میں حسرتوں کا ہجوم ہوتا ہے، اور وہ راہ کی صعوبتیں برداشت کیے بڑھتا جاتا ہے! کبھی کہتا ہے:
اللہ! کس قدر رہِ مقصود دور ہے
پیک خیال راہ میں تھک تھک کے رہ گیا
جدہ کا قیام، ساتھیوں کی پریشانی اس کو متاثر نہیں کرتی، وہ تو ’محو خیالِ یار‘ ہے:
وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحد سے مردے نکل پڑے
یہ مری جبینِ نیاز تھی کہ جہاں دھری تھی دھری رہی
انتظار کی ساعتیں گزرتی جاتی ہیں اور وہ بے تابی میں گنگناتا جاتا ہے:
نظر ہے وقفِ غمِ انتظار کیا کہنا
کھنچی ہے سامنے تصویرِ یار کیا کہنا
(جگر مراد آبادی)
اب قافلہ مکہ معظمہ میں داخل ہو رہا ہے! ’حرم مامون‘ میں پہنچ رہا ہے! مَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمنا، کی نوید اس کے کانوں میں گونجتی ہے۔ ’بلد امین‘ میں داخل ہوکر وہ چیخ اُٹھتا ہے:
ذرئہ خاکم و درکوئے توام وقت خوش است
ترسم اے دوست کہ بادے نہ بردناگاہم!
(حافظؔ)
(میںذرہ خاک ہوں اور خوش ہوں کہ تیرے کوچے میں پڑا ہوا ہوں، اور اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ہوا کا جھونکا مجھے اڑا کے یہاں سے کہیں دور نہ لے جائے۔)
آگے بڑھ کر جب اس کی نظر بیت اللہ پر پڑتی ہے تو رب البیت کی تجلی سے اس کے ہوش و حواس گم ہو جاتے ہیں:
آمد خبرے زآمد او
من بعد خبر نماند مارا!
(اس کی آمد سے ہی کچھ خبر معلوم ہوتی ہے، اس کے آنے کے بعد تو ہم خود ہی اپنے آپ میں نہیں رہتے۔)
وہ ’بیت‘ کو نہیں، گویا ’رب البیت‘ کو دیکھ رہا ہے!
آنکھوں میں روے یار ہے، آنکھیں ہیں روے یار پر
ذرہ ہے آفتاب میں، ذرے میں آفتاب ہے
اسی ذوق و شوق کو لیے ہوئے وہ طواف کے لیے بڑھتا ہے، اس کے قلب میں تعظیم، خوف ورجا، عشق و محبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اس کا جسم خانہ کعبہ کے طواف میں مصروف ہوتا ہے لیکن اس کی روح رب البیت کے گرد گھومتی ہے، اس کا دل حضرت ربوبیت کا طواف کرتا ہے، ان پر فدا ہوتا ہے، نثار ہوتا ہے، چیختا ہے ؎
یک جاں چہ متاعیست کہ سازیم فدایت
اماچہ تواں کرد کہ موجود ہمین است!
(فقط ایک جان ہی تو ہے اسے آپ پر فدا کریں، تو (کیا کمال ہو)، مگر افسوس کہ اس جان کے سوا تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ یہی جان ہی تو ہے۔)
جب حجر اسود کو بوسہ دیتا ہے تو جانتا ہے کہ وہ حق تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر رہا ہے، اطاعت و فرماںبرداری، عبدیت و عبودیت کا اقرار کر رہا ہے، حجر اسود ’’یَمِیْنَ اللّٰہُ عَزَّوَجَل فِی الْاَرْضِ‘‘ ہے، حق تعالیٰ کا داہنا ہاتھ ہے زمیں پر، ’’یُصَافِحُ بِھَا خَلْقَہٗ کَمَا یُصَافِحْ الرَّجُلُ اَخَاہُ‘‘ جس سے وہ اپنے بندوں کے ساتھ اس طرح مصافحہ کرتے ہیں جیسے انسان اپنے بھائی سے، ( عن عبداللہ بن عمرؓ، مسلم)۔ وہ حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عرض کرتا ہے:
یا رب منم و دست تہی چشم برآب
جاں دادہ و دل سوختہ و سینہ کباب
نامہ سیہ، و عمر تبہ، کار خراب
از روئے کرم بفضل خوشیم دریاب
(اے اللہ میں ہوں اور تہی دست ہوں اور آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔ میں سوختہ دل ہوں اور محبت سے سینہ جلا ہوا ہے میرا نامہ اعمال سیاہ ہے۔ عمر برباد ہو گئی اور ہر کام خراب ہوا، اب رب کریم اپنے لطف و کرم سے نوازیں تو خوشی مل سکتی ہے۔)
پھر کعبۃ اللہ کے پردے کو پکڑتا ہے، یہ سمجھ کر کہ حق تعالیٰ کے دامن کو پکڑ رہا ہے، اور ملتزم سے چمٹتا ہے، یہ سمجھ کر کہ حق تعالیٰ سے قریب ہو رہا ہے، رو رو کر عرض کرتا ہے:
تو کریم مطلق و من گداچہ کنی جزاینکہ نخوانیم
در دیگرے بنما کہ من بہ کجا روم چو برانیم
ہمہ عمر ہر زہ دویدہ ام خجلم کنوں کہ خمیدہ ام
من اگر بحلقہ تنیدہ ام تو برون درمنشانیم
(بیدلؔ)
(تو کریم ہے اور میں فقیر، کیا کیا جا سکتا ہے کہ تجھے نہ پکاریں۔ کوئی دوسرا دروازہ نہ کھلا، کہ میں کہاں جائوں اگر یہاں سے زندہ جائوں۔ ساری عمر اب خجل خوار ہو کر تیری طرف جھک آیا ہوں۔ اب اس حلقے پر آیا ہوں تو باہر نہ پھینکا جائوں۔)
گویا پکار اٹھتا ہے کہ آپ کا دامن چھوڑ کر کہاں جائوں، کس کے آگے ہاتھ پھیلائوں، کس کے قدم پکڑلوں؟ میری پناہ گاہ آپ ہیں، میرا ملجا و ماویٰ آپ کے سوا کون ہے؟ آپ کے کرم و عفو کے سوا میرا ٹھکانہ نہیں! آپ کا دامن نہ چھوڑوں گا جب تک کہ آپ اپنی رحمت سے میری سیہ کاریوں کو معاف نہ فرمائیں، اور آیندہ دامن امن میں پرورش نہ فرمائیں! حق تعالیٰ آپ کریم ہیں، در کریم پر عجز و نیاز کے ساتھ آیا ہوں، دیدئہ اشک بار کے ساتھ آیا ہوں، دردِ دل، نالۂ جاں آزار کے ساتھ آیا ہوں، اگر آپ دامنِ عفو میں پناہ نہ دیں تو کہاں جائوں، کیا کروں! ؎
یا رب دلم از بار گنہ محزون است
جاں زارو دل افگار و جگر پر خون است
ہر چند گناہ من زحد بیرون است
عفوت زگناہِ من بے افزون است
(دردؔ)
(اے اللہ میرا دل گناہ کے بوجھ سے حزن و ملال میں مبتلا ہے، میری روح زارو نزار ہے اور دل زخمی ہے اور جگر چھلنی ہے ہر چند کہ میرے گناہ حد سے زیادہ ہیں لیکن تیرا عفوو درگزر کرنے کا شیوہ اس سے بہت زیادہ ہے۔)
صفا و مروہ کے درمیان جب وہ سعی کرتا ہے تو یہ احساس قلب میں لیے ہوئے کہ ایک فقیر، مسکین، حقیر و ذلیل غلام اپنے آقا، مالک، بادشاہ کے محل کے صحن میں بار بار چکر لگا رہا ہے، نظر کرم کا ملتجی ہے، زباں پر سوال ہے کہ:
’’رَبِّ اغْفِرْوَ ارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ اَنَّکَ اَنْتَ الْاَ عَزَّالْاَکْرَمُ‘‘
بار بار گھومتا ہے اور آواز لگاتا ہے، کہ:
اِلٰہِیْ عَبْدُکَ بِبَابِکَ فقیرُکَ بِبَابِکَ مِسْکِیْنُکَ بِبَابِکَ سَائِلُکَ بِبَابِکَ ذَلِیْلُکَ بِبَابِکَ ضَعِیْفُکَ بِبَابِکَ ضَیْفُکَ بِبَابِکَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
میرے معبود تیرا بندہ تیرے درپر ہے،تیرا فقیر تیرے در پر ہے،تیرا مسکین تیرے در پر ہے، تیراسائل تیرے در پر ہے،تیرا ذلیل بندہ تیرے در پر ہے،تیرا کمزور و ناتواں بندہ تیرے در پر ہے،تیرا مہمان تیرے در پر ہے،اے رب العالمین!
جانتا ہے کہ کوئی سائل اس در سے محروم نہیں جاتا، یہ کریم کا دروازہ ہے، اس کو جو کھٹکھٹاتا ہے وہ اپنی مراد کو پاتا ہے:
گفت پیغمبر کہ چوں کو بی درے
عاقبت زاں در بروں آید سرے
سایۂ حق برسر بندہ بود
عاقبت جویندہ یا بندہ بود
چوں نشینی بر سر کوئے کسے
عاقبت بینی تو ہم روئے کسے
چوں زچا ہے میکنی ہر روز خاک
عاقبت اندر رسی در آب پاک
(پیغمبر نے فرمایا کہ دروازے کو کھٹکھٹاتے رہیے آخر کار اس دروازے سے کوئی باہر آہی جائے گا۔ حق کا سایہ اپنے بندے کے سر پر رہتا ہے، آخر کار تلاش کرنے والا کچھ نہ کچھ پاہی لیتا ہے۔ جب تو کسی دروازے پر پڑا رہے گا تو آخر کسی نہ کسی کا دیدار کر ہی لے گا۔ جب کوئی کسی کنویں کی مٹی نکالتا رہے گا تو آخر کسی روز اس کی تہہ سے پانی حاصل کر ہی لے گا۔)
عرفات کے میدان میں جب وہ قدم رکھتا ہے اور لوگوں کا اژدحام اور آوازوں کا بلند ہونا اور زبانوں کا اختلاف جب اس کو نظر آتا ہے، تو اس کو میدانِ قیامت کا منظر یاد آتا ہے کہ اس روز بھی ہر امت اپنے نبی کے ساتھ اسی طرح جمع ہوگی اور اس کی پیروی کرے گی اور اس کی شفاعت کی اُمید کرے گی! اب وہ اضطرار کے ساتھ حق تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتا ہے اور چیختا ہے:
’’یَامَنْ لَّا یَشْغَلُہُ شَأْنٌ عَنْ شَأْنٍ وَلَا سَمْعٌ عَنْ سَمْعٍ وَلَا تَشْتَبِہُ عَلَیْہِ الْاَصْوَاتُ، یَا مَنْ لَّا تَغْلطُہَ الْمَسَائِلَ وَ لَا تَخْتَلِفُ عَلَیْہِ اللّٰغَاتُ! یَا مَنْ لَّا یَبْرِمَہٗ اِلْحَاحُ الْمُلْحِیْن وَلَا تَضْجُرُہُ مَسْئَلَۃُ السَّائِلِیْنَ! اَذَقْنَا بَرْدِ عَفُوِکَ وَ حِلَاوَۃَ رَحْمَتِکَ!!‘‘
اے وہ ذاتِ مطلق کہ جس کو ایک حال دوسرے حال سے نہیں روکتا اور نہ ایک عرض کا سننا دوسرے عرض کے سننے سے باز رکھتا ہے، اور نہ مشتبہ ہوتی ہیں اس پر آوازیں! اے وہ ذاتِ مطلق کہ جس کو بہت سے سوال مغالطے میں نہیں ڈال سکتے اور نہ مختلف ہیں، اس کے نزدیک بہت سی زبانیں! اے وہ ذات پاک جس کو ہٹ کرنے والوں کا اصرار تھکا نہیں دیتا اور مانگنے والوں کا سوال تنگ نہیں کرتا، ہم کو اپنے عفو کی ٹھنک اور رحمت کی حلاوت سے آشنا کر!۔ (دعاے خضر علیہ السلام)
پھر رو رو کر کہتا ہے:
’’اَلٰھِیْ! اَنْتَ اَنْتَ وَ اَنَا اَنَا، اَنَا الْعَوَّادُ اِلَی الذَّنُوْبِ وَاَنْتَ اِلَی الْمَغْفِرَۃِ! اِلٰھِیْ اِنْ کُنْتَ لاَ تَرْحَمُ اِلَّا اَھْلَ طَاعَتِکَ فَالِیَ مَنْ یَّفْزَعُ الْمُذْنِبُوْنَ!‘‘
حق تعالیٰ آپ آپ ہیں اور میں میں ہوں! میں گناہوں کی طرف بار بار پلٹتا ہوں اور آپ مغفرت کی طرف بار بار رجوع کرتے ہیں! حق تعالیٰ اگر آپ اپنے طاعت والوں ہی پر رحم کریں، تو گنہ گار کس طرف ملتجی ہوں؟
حق تعالیٰ میں آپ کی اطاعت سے قصداً علیحدہ رہا اور آپ کی نافرمانی پر دانستہ متوجہ ہوا، آپ پاک ہیں! آپ کی حجت مجھ پر کتنی بڑی ہے اور آپ کا مجھے معاف کرنا کتنا بڑاکرم ہے۔ پس جس صورت میں کہ آپ کی حجت مجھ پر ضروری ہوئی، میری حجت آپ کے ہاں جاتی رہی، میں آپ کا محتاج ہوں اور آپ مجھ سے بے پروا و بے نیاز، آپ مجھے معاف ہی فرما دیجیے! اے اُن سے بہتر ذات جن کو کوئی دعا مانگنے والا پکارے، اورافضل ان سے جن سے کوئی توقع رکھنے والا توقع رکھے! اسلام کی حرمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کا وسیلہ تیرے سامنے پیش کرتا ہوں، میرے سارے گناہ بخش دیجیے اور مجھے اس موقف سے حاجتیں پوری کرکے لوٹایئے اور جو کچھ میں نے مانگا مجھے دلا دیجیے اور جس چیز کی میں نے تمنا کی اس میں میری توقع پوری کیجیے!
پھر چلاتا ہے درد بھرے دل سے:
الٰہی! جو تیرے سامنے اپنی تعریف کیا کرے، میں تو اپنے نفس کو ملامت کرتا ہوں! الٰہی گناہوں نے میری زبان گونگی کر دی، پس مجھ کو اپنے عمل کا وسیلہ نہ رہا اور نہ سوا اُمید کے اور کوئی سفارش کرنے والا! الٰہی مجھے معلوم ہے کہ میرے گناہوں نے تیرے نزدیک میری قدر کچھ باقی نہ رکھی اور نہ عذر کرنے کی کوئی صورت چھوڑی لیکن تو تمام کریموں سے زیادہ کریم ہے! الٰہی اگر میں اس قابل نہیں کہ تیری رحمت تک پہنچوں توتیری رحمت تو شایاں ہے کہ مجھ تک پہنچے! الٰہی تیری رحمت ہر چیز کو شامل ہے اور میں بھی ایک چیز ہوں! الٰہی اگرچہ میرے گناہ بڑے ہیں لیکن ترے عفو کے مقابلے میں چھوٹے ہیں! میرے گناہوں سے درگزر کر اے کریم!!۔
جانتا ہے کہ یہ وہ مبارک مقام ہے جہاں حق تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور ان رحمتوں کو وہ قلوب جذب کرتے ہیں جو اس میدان میں موجود ہوتے ہیں، یہ ابدال و اوتاد کے قلوب ہیں، ان صالحین کے قلوب ہیں جو حق تعالیٰ کے آگے سربسجود ہیں، ان کے حضور میں دست بستہ ذلت و مسکنت کے ساتھ گڑگڑا رہے ہیں! رحمت الٰہی کے جذب کا اس سے زیادہ قوی و موثر کوئی طریقہ نہیں کہ:’’ان ابرار کی ہمتیں اکٹھی ہوں اور ایک وقت میں ایک زمین پر قلوب ایک دوسرے کی مدد کریں!‘‘اس ادراک کے ساتھ ہی اس کی زبان سے یہ چیخ نکلتی ہے:
غم ناکم وازدر تو باغم نروم
جز شاد و اُمید و اروخرم نروم
از درگہ ہمچو تو کریمے ہرگز
نومید کے نرفت ومن ہم نروم
(ابو سعید)
(میں غم زدہ ہوں، تاہم تیرے در سے غم ہی میں نہ جائوں گا۔ تیرے در سے سواے خوشی اور اُمید کے کوئی اور چیز لے کر نہیں جائوں گا۔ تیرے جیسے کریم کی درگاہ سے کوئی نا اُمید نہیں گیا، میں کیوں نااُمید جائوں۔)
اسی لیے کہا گیا ہے، کہ:’’عرفات کے شریف میدان میں آکر یہ سمجھنا کہ حق تعالیٰ نے میری مغفرت نہیں کی، سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘ ؎
رحمت اینجا کہ کند وسعتِ خودرا ظاہر
ہر کہ تقصیر نہ کرداست گنہ گار ترست!
(اس جگہ تیری رحمت اپنی پوری وسعت کے ساتھ جلوہ گر ہے، جو کوئی تقصیر نہ کرے وہ زیادہ گنہ گار ہے۔)
رمی جمار کے موقع پر احرام باندھتے وقت اپنے اس قول کو یاد کرتا ہے کہ:
’’لَبَّیْکَ لِحَجَّۃٍ حَقًّا تَعَبُّدً اوَّرِقًّا‘‘ (عن انسؓ، دارقطنی)میں حاضر ہوں حج کے واسطے حقیقت میں بندگی اور غلامی کی راہ سے۔
اور محض اپنی غلامی و بندگی کے اظہار کے لیے امر کی اطاعت کا قصد کرتا ہے اور محض تعمیل ارشاد و امتثال امر الٰہی کے لیے رمی کرتا ہے، جانتا ہے کہ اس فعل میں نہ تو نفس کو کوئی حظ ہے اور نہ عقل کو! اپنی عقل اور نفس کو حق تعالیٰ کے حکم پر قربان کرتا ہے، اور دیوانہ وار ’اقامت ذکر اللہ‘ کے لیے شیطان پر کنکر مارتا ہے اور زبان سے کہتا جاتا ہے:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ عَلٰی طَاعَۃِ الرَّحْمٰنِ وَ رغم الشَّیْطَانِ تَصْدِیْقاً بِکِتَابِکَ وَ اِتّبَاعًا لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ
جب قربانی کرتا ہے تو جانتا ہے کہ حق تعالیٰ کے حکم پر وہ اپنی جان بھی، قربانی کے جانور کی طرح فدا کرنے کو تیار ہوگا بلکہ عاشق کی زندگی تو ہر’زماں مردنی‘ ہے، وہ اپنی جان کو ہر دم فدا کر ہی رہا ہے:
اے حیاتِ عاشقاں در مردگی
دل نیابی جز کہ در دل بردگی
مابہا و خوں بہارا یا فتیم
جانب جاں باختن بشتافتیم
(تیری محبت میں فنا ہونے والوں کو بھی زندگی ملتی ہے، دل دے دینے ہی میں حاصل ہو جاتا ہے محبت ہوتی ہے۔ ہم نے قیمت اور خون بہا حاصل کر لیا، ہم جان کی بازی لگا گئے اورچلے گئے)
عاشقاں راہر زمانے مرد نیست
مرونِ عشاق خودیک نوع نیست
اود و صد جاں دار داز نورِ ہدیٰ
واں دو صدرامی کند ہر دم فدا
ہر یکے جاں راستانددہ بہا
از بنی خواں عشرۃ امثالہا
(رومیؔ)
(عاشقوں کے لیے موت نہیں، عاشقوں کی موت کوئی ایک ہی نوع پر مشتمل نہیں ہوتی۔ وہ دو سو جانیں رکھتا ہے اور ہدایت کی روشنی بھی، وہ یہ دو سو جانیں بھی قربان کر دیتا ہے۔وہ ہر جان پر قیمت حاصل کرتا ہے جیسے کہ نبی نے فرمایا کہ مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا ط ( الانعام ۶:۱۶۰) ’’اور جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس لیے دس گنا اجر ہے۔‘‘)
غرض حج کے اعمال میں دل کا وظیفہ یہ ہے جس کا اجمالاً اوپر ذکر ہوا۔ قلب کی یاد کے ساتھ حج کے اعمال وہی ادا کرتا ہے جس کے دل پر حق تعالیٰ کی محبت و غلامی کا داغ ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس غلام کو خود بادشاہ خریدتا ہے اس کا مرتبہ سوا ہوتا ہے ؎
داغِ غلامیت کرد پایۂ خسرو بلند
صدر ولایت شود بندہ کہ سلطاں خرید
(خسرو کا مرتبہ تیری غلامی کے باعث بڑھ گیا ہے ،جسے سلطان خریدے وہ مملکت کا صدر نشین ہوجاتا ہے۔) (الفرقان، لکھنو، حج نمبر، شوال ۱۳۷۰ھ)
کتابچہ دستیاب ہے،منشورات، منصورہ لاہور۔ قیمت:۷ روپے، سیکڑہ پر خصوصی رعایت
ہمارے معاشرے میں ناخواندگی کے بادل چھٹتے جارہے ہیں، علم کا نور بہ تدریج پھیل رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ چھوٹی عمر سے بچوں کا تعلیمی ادارے سے تعلق ہے۔ اب تین سال کے بچے کو نرسری اور کے جی کی راہ دکھائی جانے لگی ہے۔ اس کے برعکس مساجد میں چھوٹے بچوں کے ساتھ رویّہ عام مسلمان اور علما سب کے لیے قابلِ غور ہے۔
رسول کریمؐ کی ہدایت کے تحت تلقین کی جاتی ہے کہ ’’سات سال کے بچے کو مسجد میں نماز کے لیے لائو‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۱ سال کے بچے کو مسجد میں ضرور لایا جائے۔ اگر بچہ آنے میں پس و پیش کرے تو اس پر سختی کی جائے، اس میں مارپیٹ کی اجازت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو انگلی پکڑے مساجد کی طرف لے جایا کرتے تھے۔ یہ رواج نمازِ جمعہ اور عیدین میں خصوصیت کے ساتھ دیکھنے میں آتا رہا۔ عام نمازوں میں والدین بچوں کو لانے سے ہچکچاتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ نمازی بچوں کو مسجد میں لے آئیں تو انھیں بعض اوقات شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے۔ فرض نماز کی ادایگی کے فوری بعد ان بچوں کی سرزنش اور پھر بچوں کے والدین کی شناخت کے بعد ان کو بھی ایسی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو کیوں لائے؟
بچوں کو مسجد میں لانے اور ان کی شرارت کی بنا پر جس شرمندگی کا احساس والدین یا دیگر بزرگوں کو ہوتا ہے اس کی وجہ ہمیشہ خود بچے نہیں ہوتے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ بچے تو بڑے اہتمام کے ساتھ صف بناتے اور نماز کی ادایگی میں مصروف ہوتے ہیں مگر چند بچے اس موقع پر شرارت پر اُتر آتے ہیں۔ یوں دھکا دینے، کچھ پوچھنے یا مختلف اشارے کرنے کی بنا پر بچے ہنسنے یا دیگر مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے صف بنائے بڑی تنظیم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کوئی بڑا آیا اور اس نے بچوں کو سب سے پیچھے کی طرف دھکیل کر خود اس کی جگہ سنبھال لی۔ اس وجہ سے بھی وہ تمام اخلاقی تلقین اور تربیت کو فراموش کرکے شرارت پر اُتر آتے ہیں۔
مفتی عبدالرئوف سکھروی لکھتے ہیں:’’ بچوں کی صف کا مردوں کی صف کے پیچھے ہونا سنت ہے۔ لہٰذا جب جماعت کا وقت ہو اور بچے حاضر ہوں تو پہلے مرد اپنی صفیں بنائیں پھر ان کے بعد بچے اپنی صفیں بنائیں۔ پھر اس ترتیب سے جماعت قائم ہوجانے کے بعد اگر بعد میں کچھ مرد حاضر ہوں تو اوّل وہ مردوں کی صفوں کو مکمل کریں، اگر وہ پوری ہوچکی ہوں تو پھر بچوں کی صف ہی میں دائیں بائیں شامل ہوجائیں، بچوں کو پیچھے نہ ہٹائیں، کیونکہ بچے اپنے صحیح مقام پر کھڑے ہیں۔ مردوں اور بچوں کی مذکورہ ترتیب جماعت کے شروع میں ہے۔ نماز شروع ہوجانے کے بعد نہیں۔‘‘ (صف بندی کے آداب، مکتبہ الاسلام، کراچی، ص۳۱)۔مفتی عبدالرؤف بچوں کو مردوں کی صفوں کے درمیان شامل کرنے کی گنجایش بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’ اگر بچے تربیت یافتہ نہ ہوں اور دورانِ نماز شرارتیں کریں جس سے اپنی نماز کو باطل کرنے یا ان کے کسی طرزِعمل اور شرارت سے مردوں کی نماز باطل ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر ان کی علیحدہ صف نہ بنائی جائے، بلکہ ان کو منتشر اور متفرق طور پر مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ ان بچوں کو صف میں انتہائی بائیں جانب یا داہنی جانب متفرق طور پر کھڑا کیا جائے تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کرکے اپنی یا دوسروں کی نماز برباد کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔ ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہت نہ آئے گی۔‘‘(ایضاً، ص۳۲)
ہمارے معاشرے میں یہ رویہ فروغ پا رہا ہے کہ اکثر بڑے اپنے بچوں کو مسجد میں لانے سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کی شرارت کی وجہ سے خجالت اور شرمندگی کا سامنا نہ ہو۔ اس طرح بچوں کی تربیت نہیں ہوپارہی۔ ساتھ ہی مسجد میں بچوں کی عدم موجودگی بھی خصوصیت سے محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی کام کی عادت بچپن ہی سے پڑا کرتی ہے۔ اگر بچپن ہی سے بچوں کو مسجد میں لایا جائے گا تو بتدریج وہ نماز کی ادایگی سیکھ جائیںگے۔ گھر میں رہ کر ان کی تربیت ایک حد تک تو ہوسکتی ہے مگر آدابِ نماز مسجد آکر سیکھے جاسکیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے بچے یا چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لائیں اور ابتدائی طور پر اپنے برابر میں کھڑا کریں۔ ساتھ ہی اسے یہ احساس بھی دلائیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، یہاں شرارت کرنا بے ادبی اور گناہ ہے۔ اس طرح اُمید ہے کہ بچہ آپ کی قربت کے پیش نظر بھی خیال رکھے گا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور وہ شرارت سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ پھر بھی اس سے اگر کوئی لغزش ہوجائے تو اُسے سب کے سامنے ڈانٹنے اور بے عزت کرنے کے بجاے بڑے آرام اور تحمل سے سمجھائیں۔ اس طرح اس کی اصلاح بھی ہوگی اور اُسے حوصلہ بھی ملے گا، یوں وہ کامل مسلمان بن جائے گا۔
مسجد اور بچوں کا تعلق ہمیشہ سے ہے۔ خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں حضرت امام حسنؓ و حسینؓ کو مسجد میں لاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ دیکھیے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے۔ اسی اثنا میں حسنؓ اور حسینؓ آئے، انھوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھیں اور وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے تو رسولؐ اللہ فرطِ محبت سے منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان دونوں کو اُٹھا لیا اور اپنے سامنے بٹھا دیا۔ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: تمھارے لیے مال اور اولاد فتنہ (آزمایش) ہیں۔ جب میں نے ان دونوں بچوں کوچلتے اور لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ مجھے اپنی بات ختم کرنا پڑی اور ان دونوں کو اُٹھا لیا۔(رحمت ہی رحمت، تالیف: شیخ عطاء اللہ بن عبدالغفار، ترجمہ: مولانا امیر الدین مہر، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی، ص۵۵)
دورانِ نماز بچوں کی موجودگی کے حوالے سے یہ روایت خصوصی اہمیت کی حامل ہے ۔ حضرت عبداللہ بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ظہر یا عصر میں سے کسی نماز کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپؐ حسنؓ یا حسینؓ کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ نے اس کو آگے کر کے بٹھا دیا اور نماز کے لیے تکبیر کہہ کر نماز شروع کی۔ پھر جب سجدہ کیا تو آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدے کو طویل کیا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر اُٹھاکر دیکھا تو رسولؐ اللہ سجدے کی حالت میں ہیں اور بچہ آپؐ کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر میں واپس سجدے میں چلا گیا۔ پھر جب رسولؐ اللہ نے نماز پوری کی تو لوگوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدہ اتنا طویل کیا ، یہاں تک کہ ہمیںگمان ہوا کہ کوئی معاملہ درپیش ہے یا پھر آپؐ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ان میں سے کوئی بات نہ تھی لیکن میرا بیٹا میرے اُوپر سوار تھا اور مجھے یہ بات ناپسند لگی کہ میں اس کے لیے عجلت کروں یہاں تک کہ وہ اپنی (کھیلنے کی) ضرورت پوری کرلے۔(ایضاً، ص ۵۸)
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ میں نے حسن بن علیؓ کو دیکھا کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے، جب کہ آپؐ سجدے میں ہوتے تو آپؐ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے۔ آپؐ انھیں اُتارتے نہیں تھے، جب تک وہ خود نہیں اُتر جاتے، اور وہ آتے اور آپؐ رکوع کررہے ہوتے تو اپنے دونوںپیروں کو پھیلا دیتے اور وہ دوسری طرف نکل جاتے۔(ایضاً، ص ۵۹)
کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جس کے ذریعے یہ ثابت ہوکہ نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسنؓ و حسینؓ کے اوقاتِ نماز میں مسجد آنے پر ناراض ہوئے ہوں اور اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ زہراؓ سے کبھی یہ کہا ہو کہ بچے مسجد میں نماز کے دوران کیوں جاتے ہیں یا روکنے کی ہدایت کی ہو۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا جو زمانہ پایا، اس میں ان کی عمریں محض چند سال تھیں۔
بچوں کے حوالے سے مختصر نماز پڑھنے کا بھی حکم ہے تاکہ بچوں کے رونے سے ان کی ماں یا دیگر نمازیوں کا دھیان بٹنے کا امکان کم رہے۔ حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز طویل کروں۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز اس ڈر سے مختصر کرتا ہوں کہ اس کی ماں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بن جائے۔
خانۂ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں بچوں کو ساتھ لانے کا عام رواج ہے۔ تقریباً تمام ہی نمازوں میں ناسمجھ اور سمجھ دار ہردو قسم کے بچے ہوتے ہیں اور ان مقاماتِ مقدسہ پر کثیرتعداد کے پیش نظر یہ اہتمام بھی نہیں ہوپاتا کہ مردوں کی صفوں کے بعد بچوں کی صف بنائی جائے، بلکہ بچوں کو اپنے ساتھ کھڑا رکھنے کا رواج ہے۔ خود میں نے دیکھا کہ مغرب کی نماز کے دوران بیت اللہ اور پہلی صف کے درمیان بچے بھاگتے دوڑتے رہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ نماز کے بعد ان بچوں کو بُری طرح ڈانٹا یا پیٹا جائے گا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نماز کے بعد بچوں کو ان کے والدین نے بڑے پیار سے چوما اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اسی طرح مسجد نبویؐ میں بھی ہوا اور جب میرے خدشے کے پیشِ نظر بچوں کی سرزنش نہ ہوئی تو میں نے مدینہ میں مقیم اپنے ایک عزیز سے استفسار کیا کہ ہمارے یہاں تو والدین خود اور دیگر نمازی بچوں پر برس پڑتے ہیں۔ مگر یہاں بچوں کو ڈانٹنا تو کجا، انھیں پیار کرنے اور چومنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ بولے: اچھا ہوا تم نے اس پورے معاملے کو خاموشی سے دیکھا۔ اگر کہیں غلطی سے بچوں کو ڈانٹ دیتے یا ان کے والدین سے شکایت کرتے تو لوگ تم پر برس پڑتے۔ کیونکہ یہ عام خیال ہے کہ مسجد نبویؐ پر بچوں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ اگر وہ نادانی میں بھاگیں دوڑیں، شرارت کریں یا نمازیوں کی پیٹھ پر چڑھ جائیں تو کوئی حرج اور کراہیت کی بات نہیں۔ کیونکہ حضرت امام حسنؓ و حسینؓ بھی مسجد میں بھاگتے دوڑتے آتے اور منبر تک چلے جاتے تھے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں اور مسجد کے تعلق کے درمیان ایک خلیج حائل کردی گئی ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کو ساتھ لے آئے اور برابر میں کھڑا کرے تو دوسرے اعتراض کرتے ہیں۔ اگر بچے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تو دورانِ نماز چند بچوں کی شرارت پر سب بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کی حمایت کرے تو اُسے بھی آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بچے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں۔ یوں مساجد بچوں سے غیرآباد ہوتی جارہی ہیں۔
اب ذرا اپنے گردوپیش پر نظر کیجیے۔ ہماری اکثر مساجد کے گرد دکانیں ہوتی ہیں۔ ایک اسلامی معاشرہ ہونے کے باوجود دکان دار اور قریبی مکین مسجد کے تقدس سے ناآشنا ہیں۔ موسیقی، گانے اور اشیاے ضروریہ بیچنے والوں کی صدائیں، ان سب سے بڑھ کر قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کا شور اور بلاوجہ ہارن کا استعمال___ ان مواقع پر مسجد میں موجود نمازی کیا کرتے ہیں؟ محض ان اُمور کو نظرانداز کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ دکان دار یا صاحب ِ مکاں کو کچھ کہہ سکے۔ ہاں، اگر غصہ آتا ہے تو ان معصوم بچوں پر جو اپنے والدین کے ہمراہ خوشی خوشی مسجد میں آتے ہیں اور ابھی آدابِ نماز اور احترامِ مسجد سے واقف نہیں۔ اس لیے دورانِ نماز بچے گلیوں میں کھیلنے یا گھروں میں ٹی وی دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ عمل اسلامی معاشرے کی تیاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ آیئے! غور کریں ہم کس طرح بچوں کو مسجد میں لاکر ان کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔
مرزا محمد الیاس نے ارقم آفاق پرنٹر، بلال گنج سے چھپوا کر اچھرہ، لاہور سے شائع کیا۔
اولاد ماں باپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس لطیف، خوب صورت، زند گی سے بھرپور اور معصوم نعمت کے حصو ل کے لیے پیغمبروں نے بھی اپنی اپنی التجا اللہ رب العزت کے سا منے دعا کی صورت میں رکھی۔ حضرت زکریا ؑ نے صالح اولاد کے لیے دعا فر ما ئی جو سورئہ آل عمران میں اس طرح مو جو د ہے: رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ (اٰل عمران ۳:۳۸)،’’اے میر ے ر ب ! مجھے اپنے پا س سے پا کیز ہ اولا د عطا فر مابے شک تو دعا سننے والا ہے‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ان الفاظ میں اپنے رب کو پکارا: رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo (الصافات۳۷:۱۰۰)،’’اے میرے رب مجھے ایک صالح(لڑکا )عطا فرما‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ کی یہ دعا ایک پاک باز ، نیک و صالح اور امام امت کے لیے دعا تھی۔ حضرت اسماعیل ؑ کی فرماںبرداری ، اللہ کی اطاعت اور قربانی کا جذبہ ایک ایسا نشان راہ ہے جو اُمت ِمسلمہ کے لیے اپنی اولادوںکی تربیت کے لیے مثالی نمونہ ہے۔
بچوں کی تربیت کا کا م والدین کی اصل ذمہ داری ہے۔ قرآن میں ارشا د ہے کہ: یایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم۶۶:۶)، ’’اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے‘‘۔ بچوں سے متعلق منصوبے بنا نا اور ان کے مستقبل کے لیے تگ و دو کرنا ایک فطر ی عمل ہے۔ ہر ما ں با پ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کامیابی و کامرانی کے ساتھ نمایاںمقا م حاصل کر یں۔ تاہم، صرف دنیاوی کا میابی کا تصور اس کوشش ، جدوجہد اور ساری مساعی کو صرف اس فانی دنیا تک محدود کر دیتا ہے، جب کہ دنیا کی کامیابی وکامرانی بھی غیر یقینی ہوتی ہے۔ مو من کی اپنی ذات کا ایک ایک لمحہ اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لیے وقف ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کے اولا د سے متعلق منصوبے اور خواہشات بھی اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ دنیا کی محدود کامیابی کے بر عکس اللہ تعالیٰ اپنے بند و ں کو جہا ں کامیابی کا ایک وسیع تصور دیتا ہے، وہاں کامیابی کے ہمیشگی کے تصور کو سمجھنے کے لیے ایک خاص ذہنی بلوغت کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس کا تعلق ایمان کی دولت اور خوف خدا رکھنے والے سے دل ہے۔ کامیا بی کا یہ تصور جو قرآ ن میں جا بجا موجود ہے تربیت اولا دکا ایک اہم جزو ہے۔ عصر حاضر میں جب طاغوتی قوتوں کی سربراہی میں ہر طرف امت مسلمہ کے لیے فتنہ و فساد برپا کررکھا ہے وہاں نسلِ نو کی اسلا می نہج پر تربیت ایک ایسی اہم ذمہ داری ہے جس کا احساس ہنگامی بنیادوں پر کرنا ضروری ہے۔ اسلامی تاریخ ہما رے سامنے حضرت علی ؓ ، معا ذ ؓ و معوذؓ ، معصب بن عمیر ؓ جیسے نوعمر صحابہ کرام ؓکی مثالیں رکھتی ہے۔ دوسری طرف بہادر، جری نوعمر محمد بن قاسم جیسا سپہ سالار بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے جو اپنی نوجو انی کے دور میں ہی اسلامی تاریخ میں اَنمٹ نقوش چھوڑگئے۔ آج اس عمر کو کھیل کود کے دن کہہ کر ضائع کرنے کی ترغیب دی جا تی ہے اور یو ں امت مسلمہ کا ایک گراں قدر سرمایہ اس مادی دنیا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جس کا حاصل سوائے خسارے کے کچھ نہیں ہے۔
بد قسمتی سے جس قدر ابتدائی عمر کو تربیتی حوالے سے اہمیت حاصل ہے اسی قدر اس عمر کو نظرانداز کیا جا تا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق بچوں کی شخصیت کی تعمیر کا ۸۰ فی صد ابتدائی چھے سال کی عمر میں مکمل ہوجاتا ہے۔ باقی پوری زندگی اسی چھے سالہ تربیت کے محاسن کا عکس ہوتی ہے۔ اس عمر میں مزاج ، عادتیں اور ذوق و شوق کو جس طرف لے جایا جائے گا اسی طرف بچے کا رحجان ہوجاتاہے۔ اس عمر میں عادت بنانا آسان بھی ہے اور ضروری بھی۔ اسلام اصلاح کا جو فطری طریقہ بتاتا ہے وہ بھی عادت پر ہی منحصر ہے۔ اسلا م میں چھوٹے بچوں کی تربیت کے لیے تلقین کے ساتھ ساتھ عادت ڈالوانے کا فطری طریقہ اختیار کرنے کو کہا گیا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے کی سیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ امام غزالی کے مطابق اس عمر کا بچہ ایک پاک و نفیس موتی کی مانند ہوتا ہے، لہٰذا اسے خیر کا عادی بنایا جائے تو وہ اسی میں نشوونما پائے گا۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً سلیم الطبع اور توحید پر پید ا ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ کی اس فطر ت کا اتبا ع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہو ئی فطرت میں تبدیلی نہیں (الروم ۳۰:۳۰)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پید ا ہوتا ہے بھر اس کے والدین یا اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں (مسلم)۔ گویا ماحول بچے کی پاکیزہ فطرت کو پراگندہ کرتا ہے، لہٰذا بچے کے لیے اردگرد کے افراد اور ماحول دونوںکا اسلامی حوالوں سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ شخصیت پر موروثی اثرات سے زیادہ ماحول کی تربیت کا اثر پڑتا ہے۔ کہا جا تا ہے عادتیں صرف ۳۰ فی صد مورثی اور باقی ۷۰ فی صد ماحول سے بنتی ہیں۔
بچے کی تربیت کا پہلو یو ں تو بہت ہمہ گیر اور وسیع ہے لیکن اس کا اہم جز تصورِ حیا ہے۔ اس مضمون میں اسی پہلو کی طرف والدین اور مربی کی توجہ مبذول کروانا مقصود ہے تاکہ اسلامی معاشرے کی کمزور ہوتی اقدار کی طرف ہماری توجہ ہو۔
اسلام میں تصورِ حیا شخصیت کا ایک اہم جز ہے اور بنیادی اخلاقی صفت ہے۔ ارشاد رسولؐ پاک ہے کہ: ’’ہردین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور ہمارے دین کا ممتاز اخلاق شرم کرناہے۔ بچے کی اخلاقی تربیت کا ایک اہم عنصر تصورِ حیا ہے۔ معاشرے کی مضبوطی ایسے اخلاق و کردار کے لوگوں سے وابستہ ہے جن کا کردار شرم وحیا کا پیکر ہو۔ جب پورا معاشرہ بے حیائی اور فحش مناظر سے بھرا پڑا ہو، چاروں طرف بے ہودہ ہورڈنگز، فحش رسالوں، اخبارات ، پوسٹروں کی بھرمار ہو اور سٹرکوں، گھروں، مجالس اور محافل پر شیطانیت کی یلغار ہو، لوگوں کی گفتگو حتیٰ کہ موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات تک بھی فحش گوئی کے چنگل میں گرفتار ہوں___ ایسے میں بچوں میں تصورِ حیا پیدا کرنا اور ابتدا ہی سے بچوں کے مزاج کا حصہ بنا دینا والدین و مربی کا اہم فرض ہے۔ حیا کے تصور کو مزاج کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ’احتیاطی تدابیرـ‘ اور پرہیزگاری کا اصول اپنایا جائے تاکہ بے حیائی کے قریب پائی جانے والی چیزوں سے بھی بچاجاسکے۔ بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے حیا کا احساس دیں۔
بچہ جب پیا ر ے اور اچھے الفاظ بولتا ہے تو کتنا پیا را لگتا ہے۔ اگر اسے صا ف ستھرے اور بھلے الفا ظ سکھا ئے جائیںتو کتنا بھلا معلوم ہوگا۔ لیکن یہی ننھی ننھی زبانیں گالم گلوچ، بے ہودہ گانے ، ٹی وی اور فلموں کے لچر مکالموں کو ادا کرنے لگیں تو سماعت پر انتہائی گراں گزرتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ الفاظ جو معصومیت اور نا سمجھی میں ادا ہوتے ہیں بچوں کی گفتگو کا حصہ بن جا تے ہیں، اور ان کو ایسی بے ہودہ گفتگو میں لطف آنے لگتا ہے۔ عام طو ر پر نومولود بچوں سے پانچ سال تک کے بچوں کے بارے میں یہ سوچ کر کہ یہ بچے ناسمجھ ہیں ہر طرح کی بات، فحش گوئی ، لچر مذاق، اور دوسری بداخلاقیاں بغیر کسی شرم و حیا کے کرنا عار نہیں سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ تما م باتیں ننھے سے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یوں تصورِ حیا پر جو کاری ضرب پڑ تی ہے وہ ابتدا ہی سے بچے کو بے حیائی کی ترغیب دے کر بے باک بننے پر اُکساتی ہے۔
زبان کو پاکیزہ رکھنے کے لیے غیر اخلاقی گفتگو، ناشائستہ الفاظ، گالی گلوچ، غیبت و جھوٹ سے بچنا بہت اہم ہے۔ حدیث ہے کہ ’’انسان کوئی بات کرتا ہے اور اسے اتنا معمولی سمجھتا ہے کہ اسے کہنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا مگر درحقیقت وہ بد ی ہوتی ہے ، جس کے بدلے وہ ۷۰برس کی راہ تک آگ میں گر جائے گا۔ (ترمذی)۔ فضول گوئی کے علاوہ بچوں کو زبان کی آلودگی سے بچانا ہی دراصل زبان کو پاکیزہ بنانا ہے۔ زبان زدعام الفاظ بچہ سیکھتا ہی اپنے ماحول سے ہے۔ گھر کے بڑوں کی زبانوں پر بداخلاقی ، بے ہودگی اور فحش گوئی بچے کو اس گندگی سے بے نیاز کردے گی۔ یوں بچہ ایسی ہی زبان کا عادی ہو جائے گا۔
شعور کی عمر آنے پر لڑ کے اور لڑکیوں کو یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ خواتین مردوں سے اور مرد خواتین سے میٹھے ، پیارے ، لوچ دار لہجے میں بات نہ کریں۔ جب بچے اپنے ماں ، باپ، یا دیگر رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں کہ خواہ مخواہ ہی امی کی آواز بازار میں دکان داروں کے ساتھ انتہائی مٹھاس والی ہوجا تی ہے یا ابوجان ضرورتاً بھی کسی خاتون سے بات کرتے وقت بناوٹی تمیز اور شائستگی کی مٹھاس گھول لیتے ہیں، تو نوعمر ذہن اس تبدیلیِ لہجہ اور الفاظ کو اپنا کر دوسروں کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق کا حصہ بھی سمجھتا ہے۔ اسی لیے جب کبھی کو ئی ایسا موقع آئے جہاں بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی خریداری یا کسی مرد و عورت ملازمہ سے بات کا مظاہر ہ کرنا ہو تو بالخصوص اس بات کی تا کید کردی جائے کہ دکان دار کو اپنے مطلب کی چیز نکلوانے کے لیے اٹھلانا اور لاڈ دکھانا کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ ڈرائیور، ملازم، دکان دار، اساتذہ سے بات کرنے کا شائستہ طریقہ سکھانا اور مناسب لہجہ جس سے کسی بھی قسم کی دلی بیماری اور بدنیتی کا شائبہ نہ رہے ، حیا کا اہم جز ہے جس کی تاکید قرآن میں سورۂ احزاب میں کی گئی ہے: ’’اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘ (۳۳:۳۲)۔ بلوغت کے بعد اس قرآنی آیت پر عمل کرنا اسی وقت آسان ہو گا جب بچپن سے اس کی عاد ت ہوگی۔ اسی لیے ایسی گفتگو جو ایمانی حالت کو تباہ کرنے کا باعث بنے اور شیطانی اثرات رکھتی ہو اس سے بچنا اور بچانا ایک مسلسل تربیت کا تقاضا کرتا ہے۔
لباس اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور حیا کے مظاہر میں سے ایک مظاہرہ لباس سے بھی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چھوٹے بچوں کے ساتھ عام طور پر بے حد لاپروائی اختیار کی جاتی ہے۔ بچوں کے کپڑے تبدیل کرنا، نہلانا، ڈایپر بد لنا جیسے تمام کام بعض اوقات لوگوں کی موجودگی میں کیے جاتے ہیں جس میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی موجودگی بھی نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ بعض گھرانوں میں بچوں کو کپڑوں سے بے نیاز کرکے آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے بچوں کو مکمل برہنہ کرکے ایک ساتھ غسل کرنے کو بھی عار نہیں سمجھاجاتا ہے۔ بچیوں کو بچپن میں بغیر آستین اور کھلے گلے کی فراک و قمیص یا ٹانگیں کھلی رکھنے کو ایک عام فعل خیال کیا جاتا ہے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ: چار سال سے کم عمر کا بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کا جسم ستر کے حکم میں نہیں۔ پھر جب وہ چار سال سے زیادہ کا ہو جائے تو اس کامستور جسم شرم گاہ اور اس کے اطراف ہیں، بالغ ہونے پر ستر بالغ افراد کی طرح ہوگا۔ تاہم، بچے کو بچپن ہی سے پردے کا جتنا عادی بنایا جائے اتنا ہی اچھا ہے (اسلام اور تربیت اولاد ، شیخ عبداللہ ناصح علوان، ص۷۱۵)۔ لہٰذا کپڑے تبدیل کرتے وقت ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ بعدازاں جب بچے اپنا لباس خود تبدیل کرنے کے عادی ہو جائیں تو ان کو بھی یہی ہدایت کرنی چائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ستر دکھانے والے اور یکھنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے دُور رکھیں‘‘( شعب الایمان ۶؍۲۶۱ سنن بیہقی ۸؍۹۹)
اگر ابتدا ہی سے بچوں کو اپنے جسم کو چھپانے اور اس کی حفاظت کرنے کی عادت نہیں ڈالوئی جاتی تو بچے بچپن ہی سے بے حیا اور بد نگاہ ہو جاتے ہیں۔ جن بچوں کو ہم اپنے شوق پورے کرنے کے لیے مغربی طر ز کے ایسے لباس پہناتے ہیں جن میں ابتدا ء ہی سے ایک معصوم بچے کا تاثرہونے کے بجا ئے حیا باختہ لڑکی یا لڑکے کا تصور پنہا ں ہوتا ہے وہ دیکھنے والوں کو بھی اس معصوم کے اندر بچوں والی معصومیت کے بجاے لڑکا یا لڑکی تلا ش کرنے کا موقع دیتا ہے۔ آئے دن اخبارات میں دل دہلا دینے والی خبریں آتی ہیں کہ درندہ صفت لوگ چھوٹی بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ حیا کی پرورش اسی وقت ہی ممکن ہے جب اس کو بچے کے ننھے سے دل میں پروان چڑھنے کا موقع دیا جا ئے۔ فطری حیا کو ختم کرنے کے بجاے اس کو ابھارا جائے تاکہ حیا بچے کی شخصیت کا لازمی جز بن جائے۔ لہٰذا بچوں میں ایسے مردوخواتین جن کے لباس حیا سے عاری ہوں دیکھنے پر، اس لباس سے نفرت اور نا پسندید گی کاجذبہ بیدار کیا جائے۔ ایسی گڑیاں (خصوصاً باربی) جن کے لباس اسلامی لباس کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتے، نہ دلائی جائیں، اور بچوں کو اس کی وجہ بھی بیان کی جا ئے کہ اس کا لباس اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں ہے۔
حاکم اور ابوداود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تمھارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز کا حکم دو،اور جب ۱۰ سال کے ہوجائیں تو ان کو مارو، اور ان کے بستر علیحدہ علیحد ہ کردو۔ اس نص سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین شرعاً اس بات پر مامور ہیں کہ بچے جب ۱۰سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کر دیے جائیں تاکہ ایک ساتھ لیٹنے کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر کبھی شیطان غالب آجائے اور ان کے جذبات کو شیطانی رنگ دے دے۔ اسی طرح خلوت کا ماحول فراہم کرنا جس میں کزن آپس میں بے تکلفانہ ماحول میں موجود ہوں ، یا ایسے انداز و اطوار کا خیال نہ کرنا جس میں نامحرم رشتہ دار بچوں سے زیادہ بے تکلف نہ ہوں ، مستقبل کے مفاسد کا راستہ آسان کرتا ہے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے کا اصول اپنایا جائے تو ابتدا ہی سے ایک ایسا مزاج ڈھالا جا سکتا ہے جو اسلامی حدود کی پابندی کرنے والا ہوگا۔ ورنہ ایک خاص عمر میں پہنچ کر زور زبردستی کرنے سے بچے میں بغاوت، چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو قیدی تصور کرتا ہے۔
بچے کی نیک صالح تربیت کے لیے اسلام ان تمام محرکات کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو جذبات کو مشتعل کرنے اور نفس کو غالب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
کارٹونز کے نام پر عجیب الخلقت کرداروں سے مانوس کروانا ، ان کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا اور پھر غیر معمولی طاقت کا مالک دکھانا بچے کے ذہن کو اللہ کی طاقت اور واحدانیت کے تصورسے خالی کر دیتا ہے۔ بچے کی نظر میں جب کارٹونز کے یہ مناظر گزرتے ہیں کہ ایک ہیرو بے پنا ہ طاقت کا مالک ہے ، ناقابل شکست ہے ، اس کو موت نہیں آتی ہے ، تو اس کے ذہن میں کیا تصویر بنے گی، اس کا اندازہ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں۔ بچپن ہی سے روپے پیسوں کا لالچ اور مادیت پرستی کا تصور دے کر ایسے شیطانی ذہن تیار کرنا جو بعد میں دجالی قوتوں کے ہی زیر اثر رہیں آج کے میڈیا کا کام ہے۔ فلم ، سنیما، سب اسی کی شاخیں ہیں، تاہم ٹی وی کی رسائی آج ہر گھر میں ہو چکی ہے اور اس کے زہر سے کوئی محفوظ نہیں، لہٰذا اس کی ہولناکی سے واقفیت خاص طور پر ضروری ہے۔ ٹی وی اسکرین کے سامنے وقت گزرنے کا ایمانی نقصان تو یہ ہے ہی کہ پوری شخصیت کی تعمیر اسی نہج پر ہوجاتی ہے جیسا شیطانی قوتوں کا مقصد ہے۔ تاہم، اس کے ضمنی اثرات میں بچے کے ذہن کا یکسوئی سے محروم ہوجانا، تعلیمی سرگرمیوں سے بددل رہنا اوردور بھاگنا، مطالعے کے شوق و ذوق کا پیدا نہ ہونا، ہروقت غیر سنجیدہ رہنا، اور hyperactivity بھی شامل ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستی کی جا ئے ان کو اپنا صدقہ جاریہ سمجھا جا ئے اور ان کے لیے اپنے اوقات کا ر کو ترتیب دیا جا ئے جس میں والدین اور بچوں کا آپس میں تعلق بنے نہ کہ سارا رشتہ تعلقات کی بنیاد پر چلتا رہے۔ اردگرد نظر دوڑائی جا ئے تو والدین اور بچوں کے درمیان صرف تعلقات کا رشتہ ہوتا ہے جس میں کو ئی رمقِ تعلق کی نہیں ہوتی۔ بچپن میں والدین اپنی ذمہ داری یہی سمجھتے ہیں کہ اچھا کھانا، بہترین لباس، اور تعلیمی سہولیا ت مہیا کرکے ان کی ذمہ داریاں پوری ہو گئیں ہیں اور بڑھاپے میں یہی فصل اپنے بچوں کے ہاتھوں کاٹ کا ٹ کر کھا تے ہیں جس میں بچوں کو بھی یہی تربیت ہوتی ہے کہ والدین کی خدمت اسی مادی حد تک محدود ہے۔ اپنے بچوں کی دل کی باتوں کو سننے کی عادت ڈالیں۔ ان کے روزمرہ کے کاموں کو ان کی زبانی سنیں ، جس میں ان کے اسکول، کالج کا احوال ان کے دوستوں کی روداد، ان کی احمقانہ حرکتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ غلط اور ناپسندیدہ باتوں پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کے بجاے مناسب وقت میں اس کی اصلاح کی جائے۔ یہ وہ عوامل ہیں جن سے والدین اور بچوں میں دوستی کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ عمر کے نازک دور میں بچے اپنے والدین سے چھپ چھپ کر جو سرگرمیاں اختیار کر تے ہیں، اس کی آدھی سے زیادہ وجہ والدین کی اپنے بچوں سے ذہنی لحاظ سے دوری ہوتی ہے۔ بے جا سختی ،ہر وقت لعن طعن ، حد سے بڑ ھا ہو ا پیا ر و محبت بچوں کو بگا ڑنے کا سبب بنتا ہے۔ تعلق ہی رشتے کو قائم بھی رکھتا ہے اور مضبو ط بھی لہٰذا اپنے بچوں سے تعلق قائم کیجیے کیو ں کہ بچے آپ کی آخرت میں نجات کا با عث بھی ہیں، اور اُمت کا سرمایہ بھی۔
مقالہ نگار عثمان پبلک اسکول، شمالی ناظم آباد، کراچی میں معلمہ ہیں،
ہر عبادت انسانی زندگی میں ایک تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے۔ جس عبادت کو بھی اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کیا جائے گا، عابد کے سامنے وہ اپنا یہ مطالبہ رکھے گی۔ نماز کا سب سے پہلا مطالبہ نمازی سے یہ ہوتا ہے کہ وہ ہروقت اللہ کو یاد رکھے، ہرقدم پر اس کے حکموں پر نگاہ رکھے، اور ہرحکم پر نماز کے رکوع و سجود کی مشق کا اعادہ کرتا چلا جائے۔ اگر نمازی نماز کے پورے حقوق کی رعایت اور اس کے مطالبہ کے شعور ساتھ پابندی سے نماز ادا کرتا ہے تو نماز اُس سے اپنا مطالبہ پورا کرلیتی ہے اور اس کی زندگی میں ایک عظیم تغیر رونما ہوجاتا ہے۔ روزہ، روزہ دار میں صبر وتقویٰ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر پورے رمضان کے روزے اس مطالبہ کے گہرے دھیان کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق ادا کیے جائیں تو روزہ داران اعلیٰ صفات کا حامل ہوسکتا ہے۔
حج، جو کہ ایک بڑے درجے کی عبادت ہے اور نماز، روزے کے مقابلے میں مشکل اور مہنگی عبادت ہے، حاجی کی زندگی میں ایک بڑے تغیر کا مطالبہ کرتی ہے۔ نماز روزے کی طرح اگر اس کے اعمال و ارکان کو بھی اس کی اصلی روح، یعنی عشق و محبت کی والہانہ کیفیات، اور اس کے تقاضوں اور مطالبات کے پورے شعور کے ساتھ ادا کیا جائے تو حج کے بعد حاجی کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوجانا لازمی ہے۔ لیکن جس طرح ہماری دوسری عبادات کا حال یہ ہے کہ وہ ان دو اہم شرطوں کے مفقود ہونے کی وجہ سے شجر بے ثمر بنی ہوئی ہیں، عام طور پر حج کا حال بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ حج و زیارت سے مشرف ہونے کے بعد بھی ہمارے حجاج کی زندگی میں کوئی خاص تغیر اور انقلاب رونما نہیں ہوتا، الا ماشاء اللّٰہ۔
حج کے ایک ایک عمل کو دیکھیے اور ان اعمال کی ساری فہرست پر نظر ڈال جایئے۔ پوری فہرست عاشقانہ اور مجنونانہ ادائوں کا مجموعہ نظر آئے گی۔ کفن جیسا لباس، لبیک لبیک کا مجنونانہ شور، کعبہ کے اردگرد والہانہ طواف، حجرِ اسود کو بڑھ بڑھ کے چومنا، چومنے کا موقع نہ ملے تو محبت کی نظر اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی حسرت کا اظہار کردینا، صفا و مروہ کے درمیان سعی، عرفہ کا وقوف، بال بکھرے ہوئے، جسم غبارِ راہ سے اَٹا ہوا، اور رہ رہ کے وہی ایک لبیک لبیک کی رٹ___ گویا یہ عبادت عبد و معبود کے درمیان علاقۂ عشق کا مظہرِاتم ہے، ورنہ یہ ادائیں عشق کے سوا اور کس مذہب میں جائز ہیں، اور خود احادیث سے اس عبادت کی یہ خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔
ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے: الحج ، الحج، والحج ، حج (تلبیہ کے مجنونانہ اور والہانہ) شور، اور قربانیوں کا خون بہانے کا نام ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: الحاجُّ الشَعِثُ التَفِل، سچا حاجی وہ مست ہے جسے اپنی کچھ خبر نہ ہو، بال بکھرے ہوئے، اور لباس و جسم پر میل چڑھا ہوا۔ حاجی کے اسی حالِ بے حالی کو دیکھ کر باری تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: اُنظروا الٰی زوار بیتی قد جاء نی شُعثًا غُبرًا ___ میرے دیوانوں کی مستی کا عالم تو دیکھو، میرے در پہ کس شان سے آئے ہیں کہ، نہ بالوں کے بکھرنے کی خبر ہے، نہ جسم کے گردوغبار کا ہوش!
اگران عاشقانہ افعال اور مجنونانہ وضع کے ساتھ حاجی کے دل میں کسی قدر گرمیِ عشق بھی موجود ہو اور ساتھ ہی دماغ کو کچھ بیدار رکھ کر وہ اس پر بھی غور کرتا جائے کہ حج کا ہرہر عمل اُس سے کیا مطالبہ کر رہا ہے، تو بہت واضح طور پر چند مطالبات اس کے سامنے آئیں گے۔ گھربار اور اہل و عیال کو چھوڑ کے اس کا اللہ کے لیے نکل پڑنا، اور پھر جسم سے کپڑے تک اُتار کے کفن جیسا لباس پہن لینا، اور اپنے ظاہر و باطن کو سب سے کاٹ کر لبیک لبیک پکارتے ہوئے مطلق عبدیت کا اعلان کرنا، اس سے مطالبہ کرے گا کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکی طرح اپنے بارے میں یہ فیصلہ کرے، کہ:
اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (انعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)، میری نماز اور میری قربانی میری موت اور میری زندگانی سب اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے ہے، مجھے یہی حکم ملا ہے، اور میرا کام تعمیلِ حکم ہے۔
اگر یہ فیصلہ نہیں ہے تو پھر اس احرام اور اس تلبیہ کے کیا معنی ہیں جس میں اللہ کی لاشریک اُلوہیت، ربوبیت اور حاکمیت کا اقرار اور اس کی مطلق طاعت و بندگی کے لیے عاجزانہ اور نیازمندانہ حاضری کا اعلان ہے۔
پھر مکۂ معظمہ پہنچ کر ’اللہ کے گھر‘ کا طواف کرتے وقت وہ اگر سوچے گا تو وہ صاف طور پر اس عمل کایہ تقاضا محسوس کرے گا کہ اس گھروالے کی محبت اور اطاعت کو ہر دوسری چیز کی محبت اور اطاعت پر غالب ہوجانا چاہیے، اور اس کی رضاطلبی کی فکر دوسری ہر چیز کی رضاطلبی سے مقدم ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ اس کا گھربار، مال و اولاد اور اقارب و احباب کو چھوڑ کر اتنی دُور آنا اور بلاکسی دنیوی مقصد و منفعت کے آنا، پھر سر سے پائوں تک مجنونوں اور سائلوں کی سی صورت بنانا، پھر مستانہ وار وحدہٗ لاشریک کے نام کا راگ الاپنا، پھر اس کے گھر کو دیکھ کر دیوانہ وار اس کے اردگرد چکر لگانا، ایک نہیں دو نہیں، ایک ایک مرتبہ میں سات سات چکر لگانا، پھر ایک دن نہیں روز روز اور ہر روز باربار کا یہی مشغلہ، اس کی دیواروں سے لپٹنا، رونا، گڑگڑانا، اور مجسم صورتِ سوال بن جانا___ یہ تو اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ گھر جس کی تجلّی گاہ ہے، وہ سب سے بڑا محبوب اور سب سے برتر مطاع ہے، اور اسی کی رضا اس قابل ہے کہ اس کی جستجو میں بندے کے پاے فکروعمل کو ہر دم سرگرداں اور طواف کناں رہنا چاہیے۔
طواف کے بعد صفا و مروہ کی سعی کا نمبر آتا ہے، اس کے متعلق معلوم ہے کہ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہؓ اپنے ننھے سے صاحبزادے حضرت اسماعیل ؑکے لیے پانی کی تلاش میں دوڑتی تھیں اور پھر صاحبزادے کی تنہائی کے خیال سے واپس ہوجاتی تھیں۔ ان کی یہ سعی اسی جگہ ہوئی تھی، بس ان کی سعی کی یادگار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حجاج کے لیے یہ سعی مقرر فرما دی ہے۔ ظاہر ہے کہ نہ تو اس عمل کا تعلق عشقِ خداوندی سے ہے، اور نہ بظاہر کوئی خاص رُوحانی فائدہ ہی اس سے متوقع ہے، بلکہ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ بندے کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ اس فعل سے کیا فائدہ ہے، لہٰذا اس عمل کا خاص مطالبہ حاجی سے یہ ہے کہ اس میں بلاچون و چرا اطاعت کی شان پیدا ہونی چاہیے، خدا اور رسولؐ کے ہرحکم اور ہرفرمان کے آگے اس کا سر جھک جانا چاہیے، خواہ کسی حکم کی حکمت اور اس کا فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ علاوہ ازیں حج کے اس عمل سے چونکہ ایک ایسے واقعے کی یاد وابستہ ہے جس میں اُمت ِ مسلمہ کے لیے دو بڑے اہم اور قیمتی سبق موجود ہیں، اس لیے اس عمل میں دو اور تقاضے اور مطالبے مضمر نظر آتے ہیں۔ صفا و مروہ کی سعی سے جس واقعے کی یاد تازہ ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے اکلوتے صاحبزادے کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جاکر چھوڑ دیں، چنانچہ آپ نے حکم کی تعمیل فرمائی اور حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑکو اس غیرآباد اور بنجر سرزمین میں چھوڑ کر چلے آئے، ان کے پاس جو دانہ پانی کا مختصر سا ذخیرہ تھا چند دن میں ختم ہوگیا۔ حضرت اسماعیل ؑپیاس سے بے چین ہوئے، بولنے کی عمر نہ تھی، شدتِ تکلیف سے ایڑیاں رگڑتے تھے۔ حضرت ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑتی تھیں، جب کچھ دُور نکل جاتیں صاحبزادے کی تنہائی کا خیال آتا تو لوٹ آتیں۔ تنہا اللہ کی ذات ان کا سہارا تھی، اس سے دعا بھی جاری تھی اور اپنی سی کوشش بھی، آخرکار ایک دفعہ جو پلٹ کر آئیں تو یہ منظر دیکھا کہ صاحبزادے جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں سے پانی پھوٹ رہا ہے‘‘۔
یہ ہے وہ واقعہ صفا و مروہ کی سعی جس کی یاد دلاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذُریت کے اس واقعے میں اُمتِ مسلمہ کے لیے پہلا سبق تو یہ ہے کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے اور اس کی عبادت اور بندگی کو عالم میں عام کرنے کے لیے بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے سے بھی نہ جھجکنا چاہیے۔ اس سے بڑا کیا خطرہ ہوسکتا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی چہیتی بیوی اور اکلوتی اولاد کے لیے مول لیا کہ انھیں تنہا ایک ایسی جگہ چھوڑ دیا جہاں نہ انسان نہ کوئی اور جان دار، نہ سبزہ نہ پانی، نیچے تپتی زمین، اُوپر تپتا آسمان، دو نازک سی جانیں اور بس اللہ نگہبان.... ایسا کیوں کیا گیا؟___ صرف اللہ کے دین کے لیے۔ قرآن پاک اس بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل کرتا ہے:
رَبَّنَـآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (ابراھیم ۱۴:۳۷) میرے مالک میں نے اپنی کچھ آس اولاد تیرے محترم گھر کے پاس بن کھیتی والی ایک وادی میں بسا دی ہے تاکہ اے پروردگار وہ نماز کو قائم کریں۔
یہ واقعہ ہمیں دوسرا سبق یہ دیتا ہے کہ حاجات و ضروریات کی ساری کنجیاں اللہ کے دستِ قدرت میں ہیں، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں، ہماری حاجت روائی نہ کسی دوسری ہستی کے بس میں ہے نہ اسباب پر موقوف، بندہ اس بات پر یقین رکھے اور اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق کوشش کرتے ہوئے اس وحدہٗ لاشریک کے سامنے دستِ سوال دراز کرے پھر اسباب ظاہری کی نامساعدت میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس داتا کی داد و دہش اور اعانت کو روک سکے۔
اس بے آب وگیاہ سرزمین میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ کے لیے دانے پانی کی ساری راہیں بظاہر مسدود اور اسباب ایک ایک کرکے مفقود تھے، لیکن حضرت ہاجرہؓ کی سعی اور دُعا پر مسبب الاسباب کا حکم ہوا تو بے وہم و گمان اس جلتی بھنتی اور خشک دھرتی کی چھاتی سے پانی کا دھارا پھوٹ نکلا۔ سچ فرمایا کرتے تھے نبی اُمّی: فدہ ابی و اُمّی۔
لا مانع لما اعطیت، داتا تیری دہش کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
یہ دو سبق ہیں جو اس واقعے سے ہمیں ملتے ہیں۔ پس جو لوگ صفا و مروہ کی سعی کرکے اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں انھوں نے اگر غوروفکر کی قوت کو معطل نہیں کر رکھا ہے تو وہ محسوس کریں گے کہ ان کا یہ عمل (سعی) ان سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہے:
۱- اللہ کے دین کو فروغ دینے اور اس کی عبدیت و عبادت والی زندگی کو دنیا میں رائج کرنے کے لیے اپنی محبوب اور عزیز ترین چیزوں کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہ کریں، خواہ وہ اپنی جان ہو یا اپنے بیوی بچوں کی زندگیاں۔ اس مقصد کے لیے بیوی بچوں کی جدائی اگر ضروری ہو تو اُسے گوارا کریں، غریب الدیاری کی نوبت آجائے تو اس میں پس و پیش نہ کریں، بھوک پیاس اور شدائد و خطرات کی کیسی ہی خوفناک تصویریں ذہن میں گھوم جائیں مگر دینی جدوجہد کے قدم پیچھے نہ ہٹنے پائیں۔
۲- دین کے فروغ اور سربلندی کی جدوجہد میں کامیاب ہونے کے لیے بھی، اور اپنی انسانی ضروریات کے پانے کے لیے بھی اپنی طاقت اور استطاعت کی حد تک تو کوئی کسر اُٹھانہ رکھیں، مگر یہ یقین رکھیں کہ ہماری کوششوں کے کامیاب نتائج برآمد کرنے والا، حقیقی داتا اور حقیقی مشکل کشا تنہا اللہ ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا اُس کے حضور میں اپنی انتہائی عاجزی اور بے بسی کے استحضار کے ساتھ اپنی کوششوں کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کے لیے دعا کرنے میں بھی کوئی کمی نہ کریں۔ بالفاظِ دیگر اسبابی کوشش اور جدوجہد اس طرح کریں کہ مسبب الاسباب کے منکر اور تنہا اسباب کے پرستار اُن سے پیچھے نظر آئیں، لیکن جب کوئی دعا کے وقت انھیں دیکھے تو یہ سمجھے کہ انھیں اسباب پر بالکل یقین اور اعتماد نہیں ہے، اسباب ان کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ ان کی نظر اور ان کا اعتماد صرف اللہ پر ہے، وہ اللہ جس نے ظاہری حالات کے علی الرغم حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑکو صرف یہی نہیں کہ زندہ رکھا بلکہ اُن سے ایک ایسی نسل چلائی جو اُس وقت سے آج تک عزت کے ساتھ زندہ ہے اور جس کی عزت کبھی ذلّت سے نہیں بدلی ہے۔
الغرض اگر غور سے دیکھا جائے تو حج کے یہ اعمال و اشغال اپنے اندر کچھ ایسے تقاضے لیے ہوئے ہیں کہ اگر ان کو سمجھنے اور پورا کرنے کی طرف توجہ دی جاتی تو ہمارے حجاج کی زندگیوں کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا، اور حج سے واپس آنے کے بعد ہرسال ہماری آبادیوں میں اسلامی زندگی کے لاکھوں نئے نمونے پیدا ہوجایا کرتے۔
حج کے اعمال و اشغال اور ایامِ حج کی پابندیاں مومن کی مثالی زندگی کی ٹریننگ ہے جو ہرسال اُمت مسلمہ کے لاکھوں نفوس کو بیک وقت دے دی جاتی ہے جس میں ان کو اسلامی زندگی کے اصول، قواعد و ضوابط اور خصوصیات کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔اللہ کی ذاتی و صفاتی توحید کا گہرا اعتقاد، شرک کا بہرصورت و بہرنوع قلبی انکار، تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ کے لیے ماننا اور اسے اس معاملے میں مختار مطلق ماننا (یعنی صرف اسی کو یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دے، اور جس چیز کو چاہے حرام قرار دے۔ موت کا دھیان، آخرت کی یاد، میدانِ حشر کا استحضار، دعا اور اس میں الحاح و تضرع کی کیفیت، اللہ سے بے انتہا محبت، ہردم اس کی یاد اور ذوق و شوق کے ساتھ اس کی اطاعت، زہد و توکل، انفاق فی سبیل اللہ، نفس کشی، سادگی اور جفاکشی، جماعت اور امارت، لایعنی باتوں سے پرہیز، باہمی نزاع اور جدل و جدال سے مکمل اجتناب، گناہوں کا بالکلیہ ترک، اخلاق میں طینت، کلام میں نرمی، شعائراللہ کی عظمت، اس کے اعدا خصوصاً شیطان سے نفرت، غرض اسلامی زندگی کے سارے اجزا و عناصر کی ایسی مکمل عملی مشق ان دنوں میں کرا دی جاتی ہے کہ اگر حجاج اس کو اپنی کھوئی ہوئی متاع سمجھ کر مضبوطی سے پکڑ لیں تو وہ کام (یعنی زندگیوں میں اسلامی انقلاب) جو اس وقت دنیا کے ہرکام سے زیادہ مشکل نظر آرہا ہے، اتنی آسانی سے ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے انقلابی دماغ تحیر اور سکتے کے عالم میں رہ جائیں۔ پھراس مکمل دینی تربیت کے ساتھ ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں:
۱- حجراسود کا استلام: حجراسود کو احادیث میں یمین اللہ (اللہ تعالیٰ کا دست مبارک) قرار دیا گیا ہے، لہٰذا اس کا استلام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے قائم مقام ہے۔ گویا یہ عمل عہداطاعت، اور اس بات کا پیمان ہے کہ وہ جس ذات کی کبریائی اور آقائی کا زبانِ حال و قال سے کلمہ پڑھ چکا ہے اس سے بیوفائی نہ کرے گا، گویا ٹریننگ کے درمیان میں ہی اس بات کا عہد لے لیا گیا ہے کہ اب ساری بقیہ عمر کو اسی تربیت کے سانچے میں ڈھالا جائے گا اور اب باقی زندگی ویسی ہی گزرے گی جیسی زندگی کی یہاں مشق کرائی گئی ہے۔
یوں تو اس عہد کے بغیر خود وہ ٹریننگ ہی اس بات کی متقاضی تھی کہ اب تک اگر زندگی اس تربیتی نقشۂ زندگی سے مختلف رہی ہے تو اب یہ اختلاف مٹ جانا چاہیے، لیکن استلام کے وقت جو لطیف الحس انسان واقعی ایسا محسوس کرے کہ گویا وہ اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے رہا ہے تو اُس کے لیے کوئی گنجایش ہی اس بات کی نہیں رہ جاتی کہ اب بھی اس کی زندگی اس تربیتی نقشہ کے مطابق نہ بنے۔
۲- ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی ہے کہ:
جس نے محض اللہ کی رضامندی کے لیے حج کیا اور بے حیائی کی باتوں سے، بے حیائی کے کاموں سے، اور عام گناہوں سے محفوظ رہا، توو ہ ایسا پاک ہوکر لوٹتا ہے جیساکہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز تھا۔ (بخاری و مسلم)
تربیت اور عہدِوفا کے بعد یہ تیسری چیز ہے جو حجاج سے زندگی کو پوری طرح اسلامی اور ایمانی زندگی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے، اس بشارت کی پکار ہے: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً، ’’پورے پورے فرماں بردار اور اطاعت گزار ہوجائو‘‘۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ جو شخص حج کو پوری پابندیوں اور اس کے حقوق کے ساتھ صحیح صحیح اداکرے اُس کو ایک نئی زندگی بخش دی جاتی ہے، گویا گناہوں سے پاک صاف کرکے اور پچھلی زندگی کا معاملہ ہلکا کر کے اُسے موقع دیا جاتا ہے کہ اب اپنی زندگی اللہ کے پسندیدہ نقشے اور اس کے رسولوں کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق گزارے اور اپنے پروردگار کے اس زبردست انعام کی قدر کرتے ہوئے اپنی حیات کے ایک عہدِ جدید کا آغاز کرے اور گزری ہوئی زندگی کے وہ تمام رُسوا کن ابواب بند کر کے جن سے رحمت ِ حق نے خود چشم پوشی کا مژدہ سنادیا ہے، ایک نئے باب کی ابتدا کرے جس کا عنوان ہو: ’اسلامی زندگی‘۔
پورے حج میں اسی کی ٹریننگ ہے، اسی نئے رنگ کے لیے اُورہالنگ ہے اور قدم قدم پر اسی کا تقاضا ہے اور حج کے بعد کی زندگی میں یہی دینی انقلاب اس ’سفرِعشق‘ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس لیے کہ بارگاہِ عشق میں جانے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر مقبول ہونے والے وہی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے اسیرِزلف یار ہوجائیں، وہ تادمِ مرگ اس قید سے کبھی چھٹی نہیں پاتے، اور نہ رہائی چاہتے ہیں۔
اس دنیا میں ہماری زندگی ایک حقیقت ہے، اور جتنی بڑی حقیقت دنیا کی یہ زندگی ہے، اتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس زندگی کو لازماً ختم ہوجانا ہے۔ کسی بات کے بارے میں بھی بحث، گفتگو یا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس بارے میں کوئی اختلاف یا بحث کی گنجایش نہیں ہے کہ یہ زندگی ختم ہوگی___ یہ بڑی واضح اور اٹل بات ہے۔ اور پھر جتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ زندگی اللہ کی بخشی ہوئی ہے اور اسی نے اس کو پیدا کیا ہے، اتنی ہی بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ مخلوق کی خالق سے ملاقات ہوگی۔ اس سے ملاقات نہ ہو تو یہ سارا سلسلہ محض ایک واہمہ اور ایک تخیل بن کر رہ سکتاہے___ اللہ موجود ہے، وہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہ کہ واقعی وہ ہے، اس کی آخری تصدیق اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس سے ملاقات ہو۔ ساری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کی غلامی میں گزارنے کے لازمی معنی یہ ہیں کہ موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس سے ملاقات ہو، اور اس کی بندگی اور غلامی کی راہ میں جو ہماری کوششیں ہوں، ان کو وہ قبول فرمائے اور وہ اس کی خوشنودی اور اس کی رضامندی کی مستحق ٹھیریں۔ پس جو آدمی اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرے، اس کو ان دونوں کو ملا کر چلنا ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ پر ایمان کا دعویٰ آخرت کے یقین کے بغیر، عملی زندگی میںکوئی وزن نہیں رکھتا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نے جس ہستی کو ہر جگہ محسوس کیا ہو، ہر جگہ پایا ہو، موت کے ساتھ ہی اچانک وہ ہم سے لاتعلق ہوجائے۔ اگر اللہ سے ملاقات، آنے والی زندگی، اس کا احتساب، اس کی رضا اور اس کا انعام، یہ ساری چیزیں حقیقت نہ ہوں تو پھر بندگی، اطاعت، اس کی راہ میں جان لڑانے اور جہاد فی سبیل اللہ کے معنی کیا رہ جاتے ہیں، بلکہ وہ آدمی بڑا احمق ہے جو نیکی کرے اور یہ یقین نہ رکھتا ہو کہ آخرت میں اللہ سے ملاقات ہونی ہے، یعنی خدا کو مانتا ہو، آخرت کو نہ مانتا ہو۔ صاحب ِ ایمان تو صاحب ِ شعور بھی ہوتا ہے، اور ایمان کو بہرطور کامل ہونا چاہیے۔ یہی شعور کا تقاضا ہے___ یہ بنیادی مقدمات ہیں، جنھیں ذہن میں صاف ہونا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عبادت، غلامی اور بندگی کی دعوت جہاں بھی آئی ہے اس میں آخرت کو مطلوب و مقصود قرار دینے اور اس کی کامیابی کو سمجھ کر جینے کی دعوت بھی شامل ہے۔ انبیا علیہم السلام کی ساری دعوت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ زندگی اگر غلامی میں بسر کرنا ہے تو یہ سمجھ کر بسر کرو کہ جب اس سے ملاقات ہوگی تو وہی اس فیصلے کا دن بھی ہوگا کہ ہم نے فی الواقع زندگی اس کی غلامی میں بسر کی یا نہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہمیں ایک مشکل کا سامنا ہے___ دنیا ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کو ہم دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں۔ اس کی لذات سے ہم آگاہ ہیں۔ اس کی تکالیف سے اور درد اور الم کی کیفیات سے گزرتے ہیں۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آخرت ایک وعدہ ہے، نگاہوں سے اوجھل ہے۔ اس کی لذتیں ہم محسوس نہیں کرتے۔ دیکھتے نہیں، سنتے ہیں کہ وہ ایسی ہوں گی۔ اس کی تکلیفوں سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اور یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم کل کے اُوپر آج کو، دُور کے مقابلے میں قریب کو، اور غیرمحسوس چیز کی جگہ محسوس چیز کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ معاملہ دنیا اور آخرت کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ خود دنیا میں ہمارا یہ حال ہوتا ہے کہ کل آنے والی چیز اور کچھ مدت بعد ملنے والی شے کو ہم ٹال دیتے ہیں اور جو چیز فوری طور پر مل رہی ہو، اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ فی الحقیقت ہمارے امتحان کا ایک حصہ ہے۔
یہ بیماری کہ آدمی دنیا کو ترجیح دے، دنیا سے محبت کرے، نقد کو حاصل کرے، اُدھار کو ٹال دے اور آج جو کچھ ہے اس کو قیمتی جانے، اور جو کچھ کل آنے والا ہے اس کو محسوس نہ کرے___ یہ جس طرح کافروں کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسی طرح ان کے ساتھ بھی لگی رہتی ہے جو ایمان کی راہ پر آتے ہیں۔ ایک ہی دنیا ہے۔ کافر بھی اس میں رہتے ہیں اور مسلمان بھی اسی میں رہتے ہیں۔ دونوں کو ایک ہی قسم کے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔
جہاں جہاں بھی مسلمان ایمان کے دعوے میں اور اس کے تقاضے پورے کرنے میں کمزوری دکھاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کی نشان دہی کردی ہے۔ یہ دراصل دُکھتی رگ ہے اور ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ غزوئہ بدر ہوا تو فرمایا: تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا (الانفال ۸:۶۷) ’’تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو‘‘۔ غزوئہ اُحد میں ڈسپلن کی کمزوری ظاہر ہوئی تو فرمایا: مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ، (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۲) ’’تم میں سے بعض دنیا کے طلب گار تھے اور بعض آخرت کے طلب گار تھے‘‘۔ غزوئہ تبوک میں جن لوگوں نے کمزوری دکھائی ان کا ذکر سورئہ توبہ میں یوں ہوا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمھیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا؟ ایسا ہے تو تمھیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا‘‘ (۹:۳۸)۔ گویا ہرجگہ ایک ہی بات کہی گئی۔ ایسے معاملات میں خرابی کی جڑ یہ دنیا کی محبت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بگڑی ہوئی مسلمان اُمتوں کو اپنی طرف بلایا تو اس میں اس بات کو بنیادی اہمیت دی کہ ہر وہ چیز جس سے آخرت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس کمزور ہوتا ہو، یا جس سے دنیا کی محبت ظاہر ہوتی ہو، اس کو ختم کیا جائے، اس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔
ہماری دعوت کے اندر اس کی حیثیت ایک مرکزی نکتے کی ہونی چاہیے۔ جب دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی اور آخرت کی طلب دل کے اندر ڈیرہ ڈال لے گی اور وہاں کی کامیابی ہی اصل کامیابی ٹھیرے گی تو ہمیں صحیح عمل کرنے کے لیے یقین اور قوت بھی حاصل ہوگی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جن عوام کو ہم پکارتے ہیں اور جن کی عدم توجہی کی ہم شکایت کرتے ہیں، ان کے بھی سارے امراض کا علاج اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کو بھی پکارا اور جب بھی پکارا تو یہی پکارا کہ وہ ایسے فریب اور دھوکے سے باہر نکل آئیں جو ان کو نیک عمل سے غافل کرتے ہیں۔
یہ حدیث آپ کی بار بار کی سنی ہوئی ہوگی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا دنیا کی قومیں اس اُمت کے اُوپر اس طرح سے ٹوٹ پڑیں گی جس طرح سے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو صحابہؓ نے پوچھا کہ کیا ہم تعداد میں بہت کم ہوجائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، تمھاری تعداد تو ریگستان کے ذروں اور درخت کے پتوں کی طرح ہوگی۔ انھوں نے کہا: پھر کیا وجہ ہوگی، تو آپؐ نے فرمایا: تمھارے اندر وہن پیدا ہوجائے گا۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: وہن کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت___ گویا جب یہ پیدا ہوجائے تو انسانوں کی ساری استعداد اور قوت ختم ہوجاتی ہے، اور اگر انسان میں وہن نہ رہے تو اس کی جدوجہد اور اس کے عمل میں نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس نکتے سے غافل ہوکر جو کوششیں ہوں گی، ہوسکتا ہے وہ پوری طرح بارآور نہ ہوں۔
اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو آدمی آخرت کو مقصود بنائے وہ دنیا سے دستبردار ہوجائے گا___ مطلب یہ ہے کہ دنیا اس کے لیے مطلوب، محبوب اور مقصود کی حیثیت نہیں رکھے گی بلکہ یہ آخرت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوگی۔ اس کی رشتہ داریاں، اس کی دوستیاں، اس کی محبتیں، اس کی جدوجہد، سب ایک ذریعے کی حیثیت اختیار کرجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کو بار بار واضح کیا ہے، مختلف مثالوں سے سمجھایا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ آخرت کو مطلوب ہونا چاہیے، کئی جگہ بتایا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے، آخرت کی حقیقت کیا ہے، دنیا سے کیا ملتا ہے، آخرت کیا دیتی ہے، اور اس لیے ان دونوں میں سے کس چیز کو تمھیں اختیار کرنا چاہیے۔ دنیا کا نفع دنیا کی چیزیں ہیں، مثلاً مال، اولاد، جاہ و حشمت، مقبولیت۔ دوسری طرف آخرت کا فائدہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، اور وہاں کا نقصان اس کی طرف سے دیا ہوا عذاب ہے۔
دنیا اور آخرت کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف پہلوئوں سے واضح کیا ہے۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز، نعمت ہو یا تکلیف، گزر جانے کی چیز ہے۔ چونکہ وقت نہیں ٹھیرسکتا، اس لیے تکلیف بھی نہیں ٹھیرسکتی اور آرام بھی نہیں ٹھیرسکتا۔ اب اس صورت میں کہ وقت کا گزرنا یا رُک جانا ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم اس کو روک کے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس لیے یہاں کی خوشی، یہاں کا آرام، یہاں کی تکلیف، یہاں کا الم، اور یہاں کا درد، یہ سب چیز گزر جانے والی ہیں۔ یہ ہمارا روز کا تجربہ ہے کہ خوشی کا بڑا انتظار رہتا ہے۔ ہم اس کی تمنا ہی نہیں کرتے، خواب دیکھتے ہیں۔ خوشی آتی ہے اور بالآخر گزر جاتی ہے۔ تکلیف سے ہم ڈرتے رہتے ہیں۔ تکلیف بڑھتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اب گزر ہی جائے گی۔
دنیا کی مثال تفصیل کے ساتھ دو تین جگہ دی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ دنیا کی مثال ایک بارش کی سی ہے۔ بارش ہوتی ہے، فصل اُگتی ہے، ہری بھری ہوتی ہے، بہار آتی ہے، اس کے بعد زرد پڑتی ہے اور چورا چورا ہوکر زمین کے اندر مل جاتی ہے۔ سورئہ کہف میں، سورئہ حدید میں اور سورئہ یونس میں تین جگہ اس مثال کے مختلف پہلو مختلف انداز سے اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ان سب میں یہی بتایا گیا ہے کہ جس طرح کھیتی باڑی ہوتی ہے، انسان کھیتی کرتا ہے، وہ کچھ نتائج دیکھتا ہے لیکن پھر بالآخر سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے۔ دنیا کے معاملات اسی طرح ہیں۔
آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل صاف کہی گئی ہے کہ وہاں پر موت نہیں آئے گی۔ عذاب ہوگا تو وَ یَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ مَا ھُوَ بِمَیِّتٍ ط (ابراہیم ۱۴:۱۷) ،یعنی وہ عذاب تو ایسا ہوگا کہ جیسے ہر طرف سے موت آرہی ہے مگر انسان مرنے نہ پائے گا۔ دنیا میں جب درد و الم بہت بڑھتا ہے تو آدمی یہ آرزو کرتا ہے کہ بس اب موت آجائے تاکہ یہ درد و اَلم ختم ہو اور موت آبھی جاتی ہے، اور درد و اَلم ختم ہو بھی جاتا ہے۔ لیکن وہاں کا عالم ایسا ہے جو موت ہی کی طرح ہوگا کہ موت آرہی ہے، لیکن آدمی مرے گا نہیں۔ یہ عذاب کی بڑی تکلیف دہ صورت ہوگی۔ لیکن انعام پانے والے بھی ایک موت کے بعد کسی دوسری موت کا مزا نہیں چکھیں گے۔
قرآنِ مجید نے دنیا کو اس لحاظ سے اہم قرار دیا ہے کہ آخرت کی پوری راہ دنیا سے ہوکر جاتی ہے۔ یہی راہ، یہی مال، اور یہی نعمتیں آخرت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اسی لیے دنیا کے مال کو خیر بھی کہا گیا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر یہی مال آخرت بنانے کے لیے استعمال ہو تو یقینا وہ خیر ہے۔ گویا یہ دو دھاری تلوار ہے۔ جو اس کے پیچھے چلتا ہے وہ برباد ہوگیا، اور جس نے اس کو اپنے پیچھے چلایا اور آخرت کی منزل کی طرف لے گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ جو انسان ان حقائق سے واقف ہو، اس کو اپنی منزلِ مقصود آخرت ہی کو قرار دینا چاہیے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ چھوڑ کر آپ دنیا کو مقصود بنائیں اور اس کے پیچھے دوڑیں تو آپ خود ہی سوچیں کہ اس سے بڑی غلطی کیا ہوسکتی ہے۔
یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مہلتِ عمل مختصر بھی ہے اور یہ بغیر کسی نوٹس کے ختم ہونے والی بھی ہے۔ اور یہ بھی دعوت دی گئی ہے کہ ا س سے پہلے کہ وہ وقت آئے جب تم دنیا سے رخصت ہو، اس سے پہلے ہی اس کی تیاری کرلو۔ یہی دعوت اس انداز سے بھی دی گئی ہے کہ اس سے پہلے کہ تم کو پکڑ لیا جائے اور موت تمھارے اُوپر آجائے، اس مہلت سے فائدہ اٹھا لو۔ اس لیے کہ اس کے بعد پھر کوئی اور عمل کی مہلت نہیں ہوگی۔
اگر آخرت مقصود بن جائے تو پوری دنیا کا رُخ متعین ہوجاتا ہے۔ شادی ہو، عائلی زندگی ہو، کیریئر ہو، اولاد ہو، کارخانے ہوں، کھیت ہوں، پیداوار ہو، تجارت اور مالِ تجارت ہو، بنک بیلنس ہو، سب چیزیں موجود ہوں گی اور آدمی کا ان سے تعلق بھی یقینا ہوگا۔ لیکن اب سب سے برتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہی اس کی منزلِ مقصود ہوگی۔ یہی طاقت کا اصل سرچشمہ اور قوت کا اصل منبع ہے۔ (ایک خطاب کی تلخیص) (کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے، منصورہ، لاہور)
موجودہ دور میں نفسا نفسی اور مادیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ رشتہ داروں کی خبرگیری کرنا، ضرورت کے وقت کام آنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور معاشرہ انتشار و افتراق کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں صلۂ رحمی کی ضرورت و اہمیت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاند ان کی شیرازہ بندی ونگہداشت اوراس کے قیام وبقاکے لیے قرآن وسنت میں بہت سی تعلیمات وہدایات دی گئی ہیں۔ ان میںصلۂ رحمی کواساسی حیثیت حاصل ہے۔سطور ذیل میں قرآن مجیداوراحادیث نبوی سے صلۂ رحمی کی اہمیت، اس کے دینی و دنیوی فوائداورقطع رحمی کے دینی و دینوی نقصانات پرروشنی ڈالی جائے گی۔
صلۂ رحمی دولفظوں سے مرکب ہے :صلہ اوررحم۔ ’صلہ‘ کے معنی ہیںجوڑنالیکن جب اس کے ساتھ ’رحم‘ کا استعمال ہوتواس کے معنی بدل جاتے ہیں۔
وصل رحمہٗ کے معنی ہیں: نسب کے اعتبار سے جورشتے دارقریب ہوں ان کے ساتھ مہربانی کرنااورنرمی کابرتاؤکرنا۔(المنجد،ص ۲۵۲)
رحم، بطنِ مادر کے اس مقام کوکہتے ہیںجہاں جنین استقرار پاتا ہے اور اس کی نشوونماہوتی ہے۔ مجازاً اسے رشتہ داری کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے، اوریہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے ’مشتق‘ ہے (الراغب الاصفھانی: المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۴۷)۔امام اصفہانی نے تائید میں ایک حدیث پیش کی ہے جس کامضمون یہ ہے: حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواشارد فرماتے ہوئے سناہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میںہی اللہ ہوں اورمیں ہی رحمن ہوں۔ میں نے رحم (رشتہ داری) کوپیداکیا۔ میں نے اس کانام اپنے نام سے نکالاہے۔ جواس کوجوڑ ے گامیں اس کوجوڑ وں گا،اورجواس سے قطع تعلق کرے گا میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔(ترمذی، باب ماجاء فی قطعیہ الرحم،۹۰۷)
لغوی اعتبار سے ’رحم‘ کے معنی شفقت ،رافت اوررحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی شفقت ورافت کے ہوتے ہیں، اورجب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی رحمت کے ہوتے ہیں۔ (لسان العرب، ابن منظور، ،ج۱۷،ص۲۳۰)
اسلام نے رشتہ داری کووہ بلندمقام دیاہے جوپوری انسانی تاریخ میںکسی مذہب ،کسی نظریے اورکسی تہذیب نے نہیںدیا۔ اس نے رشتوں کاپاس ولحاظ رکھنے کی وصیت کی ہے ۔قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جواسلام میں رشتہ داری کی اہمیت کوواضح کرتی ہیں۔ رشتہ داری کا احترام کرنے اوران کے حقوق کی ادایگی پر ابھار تی ہیں، اورانھیں پامال کرنے اوران پر ظلم و زیادتی کرنے سے روکتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط (النساء ۴:۱) اس اللہ سے ڈرو جس کاواسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ داری اورقرابت کے تعلقات کوبگاڑ نے سے پرہیز کرو۔
قرآن کریم میں قطع رحمی کاتذکر ہ فساد فی الارض کے ساتھ کیاگیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں کاباہم گہراتعلق ہے۔چندآیات ملاحظہ ہوں:
فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ o فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ط (محمد ۴۷:۲۱-۲۲)
مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اُس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انھی کے لیے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پِھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟
سورۂ رعد میںارشاد باری ہے :
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِo (الرعد ۱۳:۲۵) اورجولوگ اللہ کے عہد کوباندھنے کے بعد توڑتے ہیں اوراس چیز کوکاٹتے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کاحکم دیااورزمین میںفساد برپاکرتے ہیں،وہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے، اوران کے لیے براانجام ہے۔
قرآن میں کفارکی فساد انگیزیوں کومختلف پہلوئوں سے اجاگر کیاگیاہے۔ ان میں سے ایک پہلوقطع رحمی بھی ہے۔ارشاد ہے:
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۷) جواللہ تعالیٰ کے عہد کواس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اورجس چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑ نے کاحکم دیاہے اس کوکاٹتے ہیں اور زمین میںفساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں شیخ محمدعلی الصابونی نے لکھاہے: ’’جس چیز کے جوڑنے کاحکم دیا گیاہے اس سے مراد رشتہ اورقرابت ہے، اورجس چیز کواہل کفر وفساد کے اوصاف میں توڑنے کاذکر کیا گیاہے اس سے مراد رشتہ داری کے تعلقات ختم کرنااورنبی اورمومنین سے الفت ومحبت کوختم کرنااوران سے تعلق توڑنا ہے‘‘(صفوۃ التفاسیر، ج ۱، ص ۳۱)
اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل میں جن چیزوں کاحکم دیاہے ان میں عدل اوراحسان کے بعد تیسری چیزاہل قرابت کے حقوق کی ادایگی ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی (النحل ۱۶:۹۰) اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کاحکم دیتاہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلۂ رحمی پر عمل پیراتھے۔ اس کاثبوت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی گواہی ہے کہ غار حرا میں جبرائیل ؑ نے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلی وحی سنائی اورنبوت کابار آپؐ پر ڈالاگیا۔ اس کی وجہ سے آپؐ پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ آپؐ گھر تشریف لائے، اور جوواقعہ پیش آیاتھااس سے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکوآگاہ کیا اور کہاکہ مجھ کواپنی جان کاخوف ہے۔اس وقت آپؐ کوتسلی دیتے ہوئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جوباتیں کہیں وہ یہ تھیں : ’’ہرگز نہیںہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کوکبھی رنجیدہ نہیںکرے گا ، کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں، بے سہاروںکاسہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔(بخاری، باب بداء الوحی:۳)
صلۂ رحمی ،شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے ساتھ یہ دین روزِاوّل ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کی تائید ہر قل کے ساتھ ابو سفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے۔صلح حدیبیہ(۶ہجری)کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سلاطین کے پاس خطوط ارسال کیے جن میں انھیں اسلام کی دعوت دی۔ جب آپؐ کانامہ مبارک ہرقل کے پاس پہنچا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جاننے کی غرض سے اپنے درباریوں سے کہاکہ مکہ کے کسی آدمی کو دربار میں پیش کرو۔ انھوں نے ابوسفیانؓ کو(جن کواس وقت تک قبول اسلام کی سعادت نہیں ملی تھی)، دربار میں پیش کیا۔ ہرقل نے ان سے بہت سے سوالات کیے اور ایک سوال یہ بھی کیاکہ تمھارے نبی تمھیں کس چیز کاحکم دیتے ہیں؟ ابو سفیانؓ نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلۂ رحمی ، پاک دامنی کاحکم دیتے ہیں۔(مسلم)
اس حدیث سے بھی بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ صلۂ رحمی اس دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے جن کے بارے میں دین کے متعلق پہلی مرتبہ پوچھنے والے کوآگاہ کیاجاتاہے۔
سیدنا عمروبن عنبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا۔ یہ آغازِ نبوت کازمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا:آپ کیاہیں؟ فرمایا: نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کیا چیز دے کربھیجا ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے رشتوں کوجوڑ نے اور بتوں کوتوڑنے کے لیے بھیجا ہے اور اس بات کے لیے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایک سمجھا جائے اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کیاجائے ۔(مسلم،باب اسلام، عمروبن عنبسہ۱۹۳۰)
یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول ومبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کومقدم رکھاہے۔ اس سے دین میں صلۂ رحمی کے مقام ومرتبہ کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘(بخاری، باب فصل صلۃ الرحم، ۵۹۸۳)۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ، توحید ، نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کاتذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ صلۂ رحمی کاشمار بھی ان اعمال میں ہوتاہے جوانسان کوجنت کامستحق بناتے ہیں۔
حضرت جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: ’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا‘‘(بخاری، باب اثم القاطع، ۵۹۸۳)۔ قطع رحمی کرنے والے کی محرومی اور بدبختی کے لیے اللہ کے رسولؐ کی یہی وعید کافی ہے۔
صلۂ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کاتعلق مضبوط ہوتاہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کاتعلق ٹوٹ جاتاہے جیسا کہ حدیث میںہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم (رشتہ داری) رحمن سے بندھی ہوئی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جوتجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا‘‘۔(بخاری، ۵۹۸۴)
قطع رحمی کرنے والے پر آخرت سے قبل دنیا ہی میں گرفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق: ’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیںکہ ان کے ارتکاب کرنے والے کواللہ تعالیٰ دنیا ہی میں عذاب دیتاہے آخرت میں ان پر جوسزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی‘‘۔(ترمذی،باب فی عظم الوعید علی البغی وقطیعۃ الرحم، ۲۵۱۱)
ایک متقی اور باشعور مسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلۂ رحمی کرتا ہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔چنانچہ پہلا درجہ والدین کاقرار دیا۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ سلوک کرنے کومستقل طورپر بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) اور تیرے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط (العنکبوت ۲۹:۸) اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیا ہے۔
سورۂ لقمان میں ارشاد باری ہے:
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo (لقمان ۳۱:۱۴) اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچانے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
اس آیت میںقابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکر گزاری اور خدمت کاتعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے لیکن قربانیاں اور جاں فشانیاں،حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنوائی گئی ہیں، باپ کی کسی قربانی کاحوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کاحق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن،ابوعبداللہ محمدبن احمد الانصاری القرطبی، ج ۱۴،ص،۶۴)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: تمھاری ماں۔ اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تمھارا باپ۔ ایک دوسری روایات میں باپ کے بعد قریبی رشتہ دار کابھی تذکرہ ہے‘‘۔ (مسلم، باب بر الوالدین وایھما احق بہ (۲۵۴۸)
دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کریں جوان کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کریں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کران رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ اور صلۂ رحمی کرنے کاحکم دیتا ہے جوان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق نہیں رکھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جواحسان کابدلہ احسان سے ادا کرے ،بلکہ صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلۂ رحمی کرے‘‘۔(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی، ۵۹۹۱)
اسلام نے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیاہے ، ارشاد باری ہے:
وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا(لقمان ۳۱:۱۵) اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ ایسی چیز کوشریک ٹھیرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرنا۔
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلۂ رحمی کی جائے۔ اگروہ غریب ہوں توانھیں مال دیاجائے، ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے، انھیں حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے(الجامع لاحکام القرآن، ج۱۴، ص۶۵)
حدیث میں بھی غیر مسلموں سے صلۂ رحمی کی تلقین ملتی ہے: حضرت اسما بنت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عہد نبویؐ میں میرے پاس آئیں، جب کہ وہ مشرک تھیں۔ میںنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں، اور وہ مجھ سے کچھ امید رکھتی ہیں، توکیا میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں، تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو‘‘۔(مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب فصل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین،۲۳۲۵)
شریعت میں صلۂ رحمی پربہت زور دیاگیا ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ کسی کی بے جا طرف داری کی جائے، رشتہ داروں کو ہر صورت میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے،اگرچہ وہ حق پرنہ ہوں، اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اگرچہ وہ ظالم کیوں نہ ہوں۔ دین اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتاہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میںخاص طور پر اس پر تنبیہ کی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۲) ایک دوسرے کی نیکی اور تقویٰ میں مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میںایک دوسرے کی مددنہ کرو۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَاقف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء۴: ۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
سورۂ انعام کی آیت ملاحظہ ہو:
وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْاط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (الانعام ۶:۱۵۲) جب بات کہو تو انصاف کی کہو، اگرچہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا کیوں نہ ہو، اوراللہ سے جوعہد کیا ہے اسے پورا کرو، اس کا اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
اس طرح اسلام نے صلۂ رحمی کے نام پر ناانصافی و اقربا پروری پر روک لگادی ہے۔ صلۂ رحمی کامطلب یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بغیر کسی کاحق تلف کیے ہوئے ان کے دُکھ درد میںشریک رہاجائے، اور اپنی طرف سے ہو سکے تو ان کی مدد کی جائے۔
صلۂ رحمی کامفہوم بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس کاایک طریقہ یہ ہے کہ رشتہ داری پر مال خرچ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (البقرہ ۲:۲۱۵) ’’آپ کہیے فائدہ کی جوچیز تم خرچ کروتوو ہ ماں باپ رشتہ دار وں کے لیے ‘‘۔ دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اورذاتی ضرورت اورخواہش کے باوجود صرف خداکی مرضی کے لیے خود تکلیف اٹھاکر اپنے قرابت مندوں کی امداد اورحاجت روائی اصل نیکی ہے۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی(البقرہ ۲:۱۷۷)’’جس نے اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں کودیا‘‘۔
صلۂ رحمی رشتہ دار وں کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات پایدار ہوتے ہیں، اورباہم رحم وہمدردی اورمودت میں اضافہ ہوتاہے۔ صلۂ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، تعاون کے ذریعے ہوتی ہے۔ گاہے بگاہے تحائف سے نوازنے ،دعوت مدارت کرنے اور ان کی خدمت اورمزاج پرسی کرنے اور خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے سے۔ اس کے علاوہ ان تمام اعمال سے ہوتی ہے جن سے محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اوررشتہ داروں کے درمیان الفت ومحبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میںصلۂ رحمی پر زور دیاہے اوراس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں جن میں کوئی زحمت، پریشانی ،اورتکلیف نہیں۔ فرمایا: ’’اپنے رشتوں کوتازہ رکھوخواہ سلام ہی کے ذریعے سے ‘‘۔(الموسوعۃ الفقہہ،بحوالہ مجمع الزوائد:۸/۱۵۲)
رشتہ داری کاپاس ولحاظ رکھنے سے رب العالمین کے احکام کی بجاآوری کے علاوہ بہت سے روحانی ومادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کاایک فائدہ یہ ہے کہ رشتہ داروں پرخرچ کرنے میںزیادہ اجروثواب ملتاہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مسکین پر صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پرکرنے کی وجہ سے دہرا اجرملتاہے، ایک صدقہ کرنے کا،دوسرے صلۂ رحمی کا‘‘۔ (ترمذی، باب ماجا فی الصدقۃ علی ذالقربۃ ۶۵۸)
اس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عمر میں درازی اوررزق میں وسعت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کویہ پسند ہوکہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اوراس کی موت میں تاخیر اورعمر میںاضافہ ہوتواسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘(مسلم، باب صلۃ الرحم وتحریم قطعیتھا ۶۵۲۳)
اس حدیث کامطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان نیک اعمال سے مال ودولت میںفراخی اورعمر میں زیادتی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی توجیہہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی مسائل اور تنازعات اس کے لیے تکدر اور پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جولوگ اپنے رشتہ دار وں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ نیک برتاؤکرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے اعصابی تناؤ سے آزاد ایک ایساماحول پیداہوجاتاہے جو پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے بڑاسازگار ہوتاہے ۔ اس کے برخلاف اعصابی تناؤ جو زندگی کی مدت کم کردیتاہے قطع رحمی کے نتیجے میں پیداہوتاہے۔
اس کے علاوہ صلۂ رحمی سے انسان بہت سے ان اجتماعی مسائل سے جوآج کے مغربی معاشرے کی پہچان بن گئے ہیں چھٹکاراپایاجا سکتاہے۔
مغربی معاشروں میں خاندان کے بوڑھے افراد ایک بوجھ ہوتے ہیں چنانچہ انھیں ’بوڑھوں کے گھر‘ (old age homes)کے حوالے کردیاجاتاہے جہاں وہ خوشیوں بھری زندگی سے محروم کسمپرسی کی حالت زار میں زندگی گزارتے ہیں۔ صلۂ رحمی سے محروم ان افراد کے بیٹے سال میں ایک بار ’یومِ مادر‘(Mother day) ’یوم والدین‘ (Parents day) مناکر اورچند رسمی تحائف دے کر اُن بے پایاں احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جوان والدین نے ان کے ساتھ کیے تھے ۔صلۂ رحمی سے آشنااسلامی معاشرہ ان کوبوجھ سمجھنے کے بجاے ان کی خدمت کوجنت کے حصول اوران کی رضاکوخداکی رضاکے حصول کاسبب سمجھتاہے۔
اسی طرح مغربی معاشروں میں یتیم بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت کے لیے ’یتیم خانے‘ قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام میں یتیموں کی دیکھ بھال اورکفالت پربڑازور دیاگیاہے، اوریہ حکم دیاگیاکہ ایسے بچوں کو ان کے قریبی رشتہ دار اپنے خاند ان کے افراد میں شامل کرلیں اوران کے ساتھ اپنے بچوں جیسامعاملہ کریں ۔
بیواؤں کے لیے مغربی معاشرے میں بیوائوں کے گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں بیواؤں کے نکاح ثانی اوران کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے عزیز وقریب رشتہ داروں پر عائدکی ہے۔ان کواس قسم کے خیراتی ادارے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاتاہے۔
اسلام جس نے صلۂ رحمی پر اس قدر زور دیا ہے، مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان اور مسلم معاشرے مغربی تہذیب اور مادیت سے متاثر ہوکر، اسلامی معاشرے کی اس نمایاں خصوصیت اور اخلاقی قدر سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں۔ نفسانفسی بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ انتشار سے دوچار ہے۔ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار و افتراق کی وجہ سے گھر برباد ہورہے ہیں۔ لوگ افلاس اور بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی جیسے گناہ کے مرتکب ہونے لگے ہیں جس کا مسلم معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مغربی طرزِ معاشرت کی طرح والدین کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور اب ’بوڑھوں کے لیے گھر‘ بھی بنائے جانے لگے ہیں۔ اگر صلۂ رحمی جیسی اساسی معاشرتی قدر کو مسلمانوں نے مضبوطی سے نہ تھاما تو مادیت کی دوڑ کے نتیجے میں خود ہمارا معاشرہ بھی معاشرتی انتشار کا شکار ہوکر مغرب کی طرح معاشرتی مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے۔
ریحان اختر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ میں شعبۂ سنی دینیات میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
ہماری موجودہ حالت ہمارے ماضی کی وجہ سے ہے۔ ہمارا مستقبل وہ ہوگا جس کے لیے ہم آج کوشش کریں گے۔ماضی جاچکا، مستقبل نامعلوم ہے اور صرف حال ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ناکامی کی کچھ عمومی تاویلیں اس طرح ہیں جنھیں ہم حقیقت جان کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور خود کو بری الذمّہ قرار دیتے ہیں:
غلطی کے خوف سے کام نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ناکامی کے خوف سے ابتدا ہی نہ کرنا، سب سے بڑی ناکامی ہے۔ یہ سوچنا کہ سائیکل سے گرجائوں گا یا تیرنے سے ڈوب جائوں گا، اس لیے آپ وہ کام ہی نہ کریں___ یہ سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ کامیابی کا ایک فارمولا یہ بھی ہے: ۲۵ فی صد منصوبہ بندی + ۷۵فی صد سخت محنت =کامیابی۔ کوئی بھی کام ابتدا میں پہلی بار ہی ہوگا۔ اس کے بعد ہی آپ کمال کی جانب بڑھیں گے۔ اگر آپ کام ہی نہ کریں تو وہ لمحہ زندگی میں کبھی نہیں آئے گا جب آپ کوئی کام اچھی طرح انجام دیں گے۔مشق اور تجربے سے ہی کمال کی طرف سفر ہوگا اور منزل ہاتھ آئے گی۔مشق، مہارت میں اضافہ کرتی ہے۔
تبدیلی یک لخت نہیں ہوگی۔اس کے لیے وقت درکار ہوگا۔ مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر آپ نے درخت جڑ سمیت دوسری جگہ لگادیا تب بھی کچھ بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہوں گی۔ اس حقیقت کا ادراک کریں۔ ابھی، اسی وقت، میرے سامنے میں جیسا چاہتا ہوں ویسا___ اس طرح کی انتہا پسندانہ سوچ سے تبدیلی نہیں آئے گی۔جہاں تک ممکن ہو اپنے اندر تبدیلی لائیے۔ کچھ باتیں چھوڑ دیجیے جو آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں، مثلاً رنگ، قد، وزن وغیرہ نہیں بدل سکتا۔ وہاں تبدیلی لائیے جو آپ کے بس میں ہے، مثلاً اندازِ گفتگو، اخلاق، کردار وغیرہ۔ ’ضد‘ اور انتہا پسندی کو حکمت سے دُور کریں۔ آپ اپنے دائرہ اختیار کے اندر باہر کے معاملات کا بے لاگ جائزہ لیجیے۔اپنی ذات اور جذبات اور احساسات و خیالات کی نفی مت کیجیے۔ انھیں بھی احترام اور عزت دیجیے۔ذاتی فیصلوں کے اچھّے بُرے یا مثبت و منفی اثرات کا تعیّن کیجیے۔
صد فی صد کامیابی یا مکمّل کامیابی ناممکن ہے۔ کمال کا حصول کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے، لہٰذا ترقی کے لیے محنت کیجیے نہ کہ کمال کے حصول کے لیے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میںکوئی چیز کامل نہیں ہے۔ہم ترقی کی منزل کے راہی ہوسکتے ہیں مگر منزل ہر بار دور ہوتی جاتی ہے۔اس لیے اس کی فکر میں دبلا ہونا فضول ہے۔ترقی پر نظر رکھیے۔ شاہ راہِ ترقی پر گامزن رہنا ہی کامیابی ہے۔
ایک دوسری تصویر دیکھیں: پر عزم، روشن آنکھیں، چال میں وقار، گفتگو میں جان اور بحیثیت مجموعی ایک فاتح ہونے کا احساس___ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایسے اشخاص زبانِ حال، یعنی ’اپنے ظاہر‘ سے آدھا مقابلہ پہلے ہی جیت چکے ہوتے ہیں۔ان کے ظاہر سے ان کی قابلیت اور صلاحیت گویا چھلکتی ہے، ہاں میں یہ کرسکتا ہوں، میں یہ ضرور کروں گا، میں جیت سکتا ہوں، میں ضرور فتح پائوں گا،میں قابل ہوں، مزید قابل بن سکتا ہوں___ اللہ بھی ایسے ہی بندوں کی مدد کرتا ہے۔
تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہاتھ پائوں نہ ہلائیں اور تقدیر پر تکیہ کیے رہیں، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی پوری توانائی اور قابلیت لگادیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ ہتھیلی کی لکیریں آپ کے مستقبل کا تعیّن نہیں کریں گی، بلکہ آپ کی منزل کا تعیّن آپ کے مضبوط بازوئوں سے ہوگا۔تقدیر کو اپنی کم عملی یا بے عملی کے لیے جواز مت بنائیے۔ اللہ بھی ان کی حالت بدلتا ہے جو خود اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں۔
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
جو شخص چیلنج کا سامنا کرتا ہے، حالات و واقعات سے دو ، دو ہاتھ کرتا ہے اور تجربات سے گزرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔میدان کار زار میں اترنے سے گریز ہی سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی ہے۔ فاتح یا کامیاب شخص کسی بھی حالت میں میدان سے بھاگتا نہیں۔ حالات کتنے ہی کٹھن ہوں، کتنی ہی مصیبتیں آئیں وہ میدان عمل میں ڈٹا رہتا ہے۔یہ تاریخ کی بہت بڑی سچائی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب آزمایشیں، حالات اور مشکلات اس مرد آہن سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔
آئیے مقابلہ کیجیے! کامیابی نظرنہ بھی آئے تب بھی میدان سے پیٹھ پھیر کر مت بھاگیے۔ ہوسکتا ہے کہ مقابلے میں آپ تھک کر چور ہوجائیں، لہولہان ہوجائیںمگر اسی جدوجہد میں آپ کی کامیابی پوشیدہ ہے۔ کامیابی ضرور آپ کے قدم چومے گی۔ عزم راسخ ہو ، ارادہ مضبوط ہو اور ساتھ میں عملی کوششیں ہوں تو اللہ کی رحمت بھی دست گیری کرتی ہے اور بالآخر منزلِ مراد ہاتھ آتی ہے۔
(ڈاکٹر بدر الاسلام، اقرا اُردو بوائز ہائی اسکول، اورنگ آباد، بھارت میں صدر مدرس اور کئی کتب کے مصنف ہیں)