تنظیمِ وقت (Time Management) ایک ایسی صلاحیت کا نام ہے جس کی بنیاد آپ کی اپنی ذات ہے۔ جب تک آپ اپنی ذات کی بہتری اوراصلاح نہیں کرلیتے اس وقت تک آپ اپنے مہیا وقت کو بہتر طریقے سے استعمال نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اپنی ذات کی تنظیم ،بہتری ، ترقی اوراخلاق اور کردار میں بڑھوتری کی کوشش آپ کی تنظیمِ وقت کی صلاحیت کو نکھا ر دے گی۔
تنظیمِ وقت کے حوالے سے پانچ مراحل ترتیب دیے گیے ہیں۔ ان مراحل کے ذیلی حصے بھی ہیں۔ اپنی تربیت ، تزکیہ، ترقی، اپنی ذات کی ترتیب اور اپنی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ان نکات پر غور کیجیے۔
مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں پہلا وہ گھر خدا کا، جس کے گرد ان دنوں عشاقِ بے تاب کا ایک ہجوم بے پناہ دُنیا کے گوشے گوشے سے کھنچ کھنچ کر پروانہ وار جمع ہو رہا ہے، اور ہزاروں برس سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے لیے مرکز زندگی کا مقام رکھتا ہے۔ اس گھر کی غریب و سادہ رنگین داستان کے ورق ورق پر آیات بینات کا ایک اتھاہ خزانہ رقم ہے۔ ان آیات میں دیدہ و دل وا کرنے کے لیے، راہ زندگی روشن کرنے کے لیے، اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے، بیش بہا دولت محفوظ ہے۔ اس گھر میں وہ زم زم ہی رواں نہیں ہے جو چار ہزار سال سے پیاسوں کی پیاس بجھا رہا ہے اور بجھاتا چلا جائے گا، بلکہ اس ہی سے ہدایت و برکت کا وہ زم زم بھی جاری ہوا ہے جس نے سارے جہانوں کی معنوی تشنگی دور کرنے اور ان کے قلوب و ارواح اور فکر و عمل کی سیرابی کا سامان کیا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، کہ اس ایک گوشۂ مکان کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ خداے لامکاں کی رحمت کاملہ نے اسیر مکان و زمان کو اپنا تقرب بخشنے کی خاطر اسے اپنا گھر بنا لیا ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ(اٰل عمرٰن۳:۹۶-۹۷) بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ ہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیاتھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں۔
ان آیات بینات میں سب سے نمایاں، اخلاص و محبت اور اطاعت و وفا کے وہ نقوش ہیں جو اس گھر کے ایک ایک پتھر پر، اور اس کے جوار میں ایک ایک چپے پر، سلسلۂ رشد وہدایت کے امام اولیں حضرت ابراہیم ؑ نے راہِ خدا میں اپنے مقام عالی سے ثبت کیے ہیں۔ اُنھوںنے رب واحد کی بندگی کی خاطر وطن چھوڑنے کے بعد، اپنی یکہ و تنہا بیوی اور شیر خوار بیٹے کو اس گھر کے جوار میں لا بسایا، انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس گھر کی دیواریں چنیں، انھوں نے اس گھر کی زیارت کے لیے مشرق و مغرب کو پکارا، انھوں نے اس گھر کو طواف، اعتکاف، قیام اور رکوع و سجود کا مرکز بنایا، یہیں انھوں نے بارگاہِ محبوب میں اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی۔ انھوں نے مشیت الٰہی کی طرف سے اس گھر کو سلسلۂ رشد و ہدایت کے امام آخر ؑ، اوراُمت مسلمہ کے ظہور کا مبداو مرکز بنانے کے فیصلے کو، دعا کے رنگ میں، ثبت و ظاہرکر دیا۔
پھر اللہ کا یہ گھر، اور یہ البلد الامین ان تمام تابناک و بے مثال روایات کا حامل بھی بن گیا جو بعثت محمدیؐ، نزول قرآن، دعوت اسلامی، اور ہجرت و جہاد کے ابواب میں محفوظ ہیں۔ اس گھر کا کوئی پتھر ایسا نہیں، اس کے قرب میں کوئی چٹان اور سنگریزہ ایسا نہیں، جس کے دل میں ہدایت و دعوت اور ہجرت و جہاد کا کوئی نہ کوئی نقش محفوظ نہ ہو، اور جویا و پیاسا اسے پا نہ سکتا ہو۔ سوچیے تو یہ بھی وراثت ابراہیم ہی ہے:
مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ط ہُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج۲۲:۷۸)قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’’مسلم‘‘ رکھاتھا۔
حضرت ابراہیم ؑ نے اس گھر کو، اور اس شہر کو ایسا جاے امن بنایا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا ہے، اس کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں، اور ہمیشہ سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے۔ مگرانھوں نے اس گھر میں ہدایت کا جو مرکز قائم کیا، صرف وہ مرکز ہی ایک ایسا مرکز ہے جہاں انسان داخل ہو تو اس کے قلب و روح، فکر وسوچ، اخلاق و کردار، شخصی زندگی اور حیات اجتماعی، سب محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ اگر کہیں انسان خوف و حزن، ظلم و فساد، اور دُنیا و آخرت کے بگاڑ اور تباہی سے امن حاصل کر سکتا ہے تو اس بناء ہدایت میں داخل ہو کر جو عالم معنوی میں خانۂ کعبہ کی مثال ہے:
وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (اٰل عمرٰن۳:۹۷) اور اُس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔
صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے یہ ضروری ہوا کہ جو پہنچ سکتا ہو وہ کم سے کم عمر میں ایک دفعہ، حضرت ابراہیم ؑ کی طرح گھر بار ترک کرکے، طویل مسافت طے کر کے، لباس دُنیا اتار کے، اللہ کے اس گھر تک ضرور پہنچے، اور یہاں فیض کا جو چشمہ بہہ رہا ہے اس میں ضرور غوطہ لگائے۔ اس گھر پر وہ اپنے دل کا لنگر ڈال دے، اس کو نگاہوں میں بسالے کہ اس کو دیکھنا بھی عبادت ہے، اس کے چاروں طرف چکر کاٹے، اس کے دوودیوار سے چمٹے، اس کے جوار میں پہاڑیوں پر چڑھے، وادیوں میں چلے اور رب البیت کے دربار عرفات میں حاضر ہو جائے:
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط (اٰل عمٰرن ۳:۹۷)لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اِس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔
لیکن نہ ہر شخص پہنچ جانے کی استطاعت رکھ سکتا ہے، نہ عمر میں صرف ایک دفعہ ہو آنا اس چشمۂ ہدایت سے فیض مطلوب حاصل کرنے کے لیے کفایت کرتا ہے۔ جو ہُدًی لِّـلْعَالِمِیْنَ ہے اس کے ساتھ تو زندگی کے ہر لمحہ مربوط رہنا ناگزیز ہے۔ چنانچہ یہ بھی ضروری ہوا کہ دُنیا میں جہاں کہیں بھی ہو، اور جس حالت میں بھی ہو، ہر روز پانچ دفعہ، دُنیا کا ہر شغل اور ہر دل چسپی ترک کرکے (جس طرح حج کے لیے کرتے ہو)، اس برکت وہدایت کے گھر کی طرف رُخ کرو، سامنے اسی گھر کو رکھو، نگاہیں اسی پر جمائو:
وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ ط (البقرۃ۲:۱۴۴) اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔
بیت اللہ کے حج کو جانا، عمر بھر جانے کی آرزو اور شوق میں سلگتے رہنا، گویا کہ اس کو اپنی سعی و طلب کا مقصود بنانا، اور ہر روز پانچ دفعہ اس کی طرف رُخ کرکے اپنے رب کے سامنے جھکنا اور بچھ جانا اور اس سے ہم کلام ہونا، گویا کہ اس کو اپنے دل و نگاہ کا مرکز بنانا، ایسے اعمال ہیں جوہماری زندگیوں کو رُخ، رنگ اور ساخت عطا کرتے ہیں۔ ان دِنوں جب حج کا موسم ہے اور زائرین اس شمع کے گرد ہجوم کر رہے ہیں، ہمیں آگاہ ہونا چاہیے کہ اس گھر میں، اس کی تاریخ میں، اس کی روایات میں، اس میں ثبت کردہ نقوش و آثار میں، برکت و ہدایت اور آیات بینات کے کیسے کیسے بیش بہا خزانے ہیں جو ہماری جستجو کے منتظر ہیں، اور جن سے ہمیں اپنی جھولی بھرنا چاہیے۔
بروبحر میں فساد کا تلاطم ہو، ہمارے گھروں میں ظلم اور فتنہ کی طغیانی ہو، اُمت ذلت و مسکنت کے شکنجے میں کسی ہوئی ہو، اغیار کا غلبہ ہو تسلط ہو، باہمی افتراق و عداوت ہو، خون مسلم کی ارزانی اور عزت مسلم کی پامالی ہو، اُمت مسلمہ کا احیا مقصود ہو، جس طرح بچے کو ماں کے سینے سے چمٹ کر ہی امن و اطمینان نصیب ہوتا ہے، انسانیت اور اُمت مسلمہ کو امن اور فلاح، بیت اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے چمٹ کر ہی نصیب ہو سکتا ہے۔
خداے لامکاں کسی مکان میں سما نہیں سکتا۔ بیت اللہ تو ایک علامت ہے، ایک شعار ہے، اور اس لیے ہے کہ مرکز دل، محبوب نظر، مقصود سعی وجہد، اللہ اور صرف اللہ، بن جائے۔ جو اللہ کو مضبوطی کے ساتھ تھام لے، اسی کے ساتھ جڑ جائے، اس طرح تھام لے اور جڑ جائے جس طرح کہ اللہ کا حق ہے، وہی صراط مستقیم پا لیتا ہے۔
وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِراطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (اٰل عمٰرن۳:۱۰۱)جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہِ راست پا لے گا۔
ہدایت کوئی لیبل چسپاں کر لینے سے حاصل نہیں ہوتی، وہ یہودی کا لیبل ہو نصرانی کا، یا محمدی کا۔ نہ ہدایت خانہ کعبہ کا چکر کاٹ آنے سے ملتی ہے، نہ اس کی طرف منہ کر لینے سے۔ ہدایت تو حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اللہ کا حنیف بندہ بن جانے کا نام ہے، جس میں شرک کی گندگی کا شائبہ تک بھی نہ ہو:
بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا ط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (البقرہ۲:۱۳۵)نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑمشرکوں میں سے نہ تھا۔
حضرت ابراہیم ؑحنیف تھے، یعنی وہ سب کچھ چھوڑ کر صرف اللہ کے بن گئے تھے، اس کے ہو رہے تھے، اور اللہ کے سوا کسی کے نہ رہ گئے تھے۔
انھوں نے ہر ڈوبنے والی چیز کی، اور ماسوا اللہ ہر چیز ڈوبنے والی اور فنا ہونے والی ہے، محبت ترک کرکے، تمام چمکتے دمکتے چاند، سورج اور ستاروں کا طلسم توڑ کے، اپنا اور اپنی زندگی کا رُخ صرف اللہ کی طرف کر لیا تھا، سب سے بڑھ کر صرف اس کی محبت اپنے دل میں بسالی تھی، صرف اس کو طلب و سعی کا مرکز بنا لیا تھا، صرف اسی پر نگاہیں جمادی تھیں، یا یوں کہیے صرف اسی کو اپنی شخصیت اور زندگی کا قبلہ بنا لیا تھا، اور اس رُخ میں، توجہ میں، وابستگی میں، اللہ کے علاوہ اور کوئی رخ نہ تھا جو شریک ہو۔
انھوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے حوالے کر دیا تھا، اور کوئی چیز اس سے بچا کر نہ رکھی تھی … اپنے علاقے اور محبتیں، اپنا گھر اور وطن، اپنی بیوی اور بیٹے، اپنی دُنیا اور اپنی متاع… پرستش بھی اس کی، ہر چیز اس کے اشارے پر حاضر اور قربان بھی، زندگی بھی اسی کی، موت بھی اسی کی۔ اور اس خود سپردگی میں بھی شمہ برابر حصہ اللہ کے علاوہ اور کسی کے لیے نہ لگایا تھا۔
وہ اپنے رب کے ہر حکم کی فرماں برداری کے لیے ہر وقت مستعد اور حاضر تھے۔ آگ میں بے خطر کود پڑنے کا حکم ہو، گھر اور وطن چھوڑ کر نکل جانے کا حکم ہو، باپ کے لیے استغفار تک ترک کر دینے کا حکم ہو، تمام معبودان باطل سے اعلان براء ت و عداوت کا حکم ہو، اہل و عیال کو وادیِ غیرذی زرع میں بسانے کا حکم ہو، پتھروں سے اللہ کے گھر کی دیواریں چننے کا حکم ہو، اکلوتے اور محبوب نور نظر کے گلے پر چھری چلانے کا حکم ہو__ ان کی زبان پر ہر وقت لبیک تھا، وہ ہر وقت حاضر تھے، ان کی ہر چیز حاضر تھی۔
توحید خالص، ریاضی کے فارمولے کی طرح، اللہ کو ایک مان لینا نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح سب کچھ چھوڑ کر صرف اُسی کا بن جانا اور اُسی کا ہوکر رہنا ہے۔ بیت اللہ کی آیات ہدایت میں سب سے نمایاں اور سب سے اہم حضرت ابراہیم ؑ کا یہی اسوۂ زندگی ہے جو ’اسلام‘ اور حنیفیت سے عبارت ہے۔ حج اور استقبال قبلہ کا عمل ہمیں بندگیِ رب کے اس رنگ میں رنگنے ہی کے لیے ہے، جس کی شان حضرت ابراہیم ؑاور آل ابراہیم ؑ نے اپنی توحید خالص، اخلاص و وفاداری، فرماں برداری اور یکسوئی سے قائم کی۔ یہی رنگ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، یہی اُس کو مطلوب ہے، یہی اُس کے ہاں مقبول ہے۔ اس رنگ میں رنگ جانے والوں ہی سے وہ راضی ہوتا ہے۔ اِنھی سے دُنیا میں علو وامامت کا وعدہ ہے، اور آخرت میں جنت کے انعام سے سرفرازی کا۔
ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کرکے نمازیں بھی پڑھیں، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم ؑ کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہم سے دُنیا میں جو وعدے ہیں… استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے، غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے… وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو:
یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط (النور۲۴:۵۵) بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
مشرق سے لے کر مغرب تک نظر ڈال لیجیے! کیا اُمت مسلمہ میں حضرت ابراہیم ؑ کا کوئی ایسا رنگ ہے جو غیر مسلموں اور مشرکوں کے رنگ سے الگ ہو۔ اپنے دلوں کو دیکھیے، انھی کی طرح بے شمار ٹکڑوں میں منقسم ہیں او رہر ٹکڑے میں ایک الگ معبود بیٹھا ہوا ہے۔ اغراض و مقاصد پر نظر ڈالیے، انھی کی طرح وہ بھی ان گنت ہیں اور ان سب سے کم مقام ان کا ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ترین ہیں۔ نماز میں بے شک ہمارا منہ قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف نہیں ہوتا، لیکن زندگی میں تو انھی کی طرح ہمارے بہت سے قبلے ہیں جو ہماری توجہات اور وابستگیوں کا مرکز ہیں۔ زبان پر بے شک لبیک ہے، لیکن ہم نہ خود اپنے کو، نہ اپنی کسی محبوب چیز کو، اللہ کے لیے حاضر کرنے کو تیار ہیں۔ ہر حکم کی تعمیل میں ہماری اپنی کسی نہ کسی خواہش، پسند و ناپسند، محبوب ومبغوض کی قربانی دامن گیر ہوجاتی ہے، یا ہزاروں اندیشے اور خوف ہمیں چاروں طرف سے گھیر کر ہماری راہ مسدود کر دیتے ہیں۔ حج ہو یا استقبال قبلہ، بے جان مراسم عبادت نہ ہمارے قلوب کو بیدار کرتے ہیں، نہ نگاہوں میں پاکیزگی و یکسوئی پیدا کرتے ہیں، نہ عمل میںصالحیت۔ یہ نہ ہماری سوچ بدلتے ہیں، نہ شخصیت ،نہ زندگی۔
بیت اللہ کی آیات بینات میں سے یہ بھی ہے کہ ہمہ اقتدار و ہمہ اختیار حی و قیوم خدا، جو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں سے ہے سب کا بلاشرکت غیر مالک کل ہے، اور جس کی کرسی، اقتدار سب کو سمیٹے ہوئے ہے، وہ جب چاہے موت کو زندگی سے، زندگی کو موت سے، اندھیروں کو روشنی سے، روشنی کو اندھیروں سے، عزت کو ذلت سے، اور ذلت کو عزت سے، بدل دیتا ہے۔ جو اس کے ساتھ ایمان اور بندگی کا رشتہ قائم کر لے، اسے ہر اندیشے اور خوف سے، ہر حزن و غم سے، ہرحسرت و یاس سے پاک ہونا چاہیے۔
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ جب حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ میں بسانے کے لیے آئے وہاں نہ انسان کا نام و نشان تھا، نہ پانی کا، نہ زراعت کا، نہ خوردونوش کا کوئی انتظام، ایک تھیلی (جراب) کھجوروں کی، اور ایک مشکیزہ پانی کا، بس یہ کل کائنات تھی جو وہ ان کے پاس چھوڑ کر چلے۔ حضرت ہاجرہؑ نے بار بار پوچھا کہ ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں چلے، جہاں نہ آدم نہ آدم زاد، نہ کوئی اور چیز۔ کوئی جواب نہ پایا تو سوال کیا، کیا اس کا حکم آپ کو اللہ نے دیا ہے؟ فرمایا، ہاں۔ یہ سن کو اطمینان و سکون اور امن کی اس جنت میں داخل ہو گئیں، جس کا باغ ان کے اندر لہلا اُٹھا۔ یہ جنت کیا تھی؟ فرمایا: اِذَنْ لَایُضیِّعُنَا (پھر تو وہ ہم کو ضائع نہ کرے گا)۔ بخاری کی ایک دوسری روایت کے مطابق، حضرت ہاجرہؑ کے پوچھنے پر ہمیں کس پر چھوڑ کر جارہے ہو، حضرت ابراہیم ؑ نے کہا، اللہ پر۔ یہ سن کر وہ پورے سکون واطمینان سے بولیں، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ (میں اللہ پر راضی ہوں)۔
اللہ پر یقین اور اعتماد، اللہ پر بھروسا اور توکل، اللہ کے ہر فیصلے پر خوش، بندگیِ رب کی یہ کیفیت تھی کہ ایک یکہ و تنہا عورت اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ، پتھریلے بیابان میں، بھیانک اور ڈرائونی راتیں، تپتے ہوئے دن، موذی جانور، چور اور ڈاکو، سب کے باوجود، اطمینان اورامن کی کیفیت سے مالا مال تھی۔ معاش کا بندوبست بھی کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کے مشکیزہ سے زائد کچھ نہ تھا۔ پھر بیت اللہ کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں کوئی وسائل نہ تھے، کوئی اسباب نہ تھے، کوئی سہارا نہ تھا، صرف خطرات ہی خطرات تھے، وہاں خداے حی و قیوم ۴ ہزار سال سے سب کچھ بخش رہا ہے۔ جہاں کوئی انسان نہ تھا، وہاں لاکھوں انسان دُنیا بھر سے چلے آ رہے ہیں۔ جہاں نہ پانی تھا، نہ کھانا، وہاں ہر قسم کا خوردونوش کا سامان پایا جاتا ہے۔
یہ علم ہو جانے کے بعد، پیغمبرؐ کی زبان سے کہ جس کا علم غیر مشتبہ ہے، کہ یہ خدا کا حکم ہے، کچھ مادی وسائل نہ ہونے کے باوجود، دُنیا بھرمیں یکہ و تنہا ہونے کے باوجود، ہر قسم کے سنگین اور مہیب خطرات اور اندیشوں کے سامنے ہوتے ہوئے، اطاعت و فرماں برداری کی راہ چل پڑنا ہی حکمت و دانائی کا راستہ ہے۔ یہی حکمت و دانائی راسخ ہونا چاہیے، اس میں جو چشم سر سے بیت اللہ کو دیکھے، اور پانچ وقت اس کی طرف رخ کرے۔ کیاہم اغیار کے علم و حکمت سے جھولیاں بھرنے کے بعد، اپنی اس سب سے بیش بہا متاع حکمت کو کھو نہیں بیٹھے ہیں؟
حج کے تقریباً سارے ارکان، سعی، جہد اور حرکت پر مشتمل ہیں۔ گھر سے نکلنا، سفر کرنا، بیت اللہ کے گرد طواف کرنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، مکہ سے نکل کر منیٰ میں ڈیرے ڈالنا، اگلے دن وہاں سے کوچ کر دینا اور عرفات میں جمع ہو جانا، مغرب ہوتے ہی عرفات سے چل دینا، رات کی چند گھڑیاں مزدلفہ میں گزار کر صبح ہی صبح منیٰ واپس پہنچ جانا پھر مکہ جا کر طواف اور سعی کرنا۔
بندگیِ رب کا خلاصہ بھی یہی ہے۔ اللہ کے ہر حکم اور پکار پر لبیک کہنا، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے کھڑے ہو جانا، جو کچھ بھی میسر ہو اور جس حالت میں بھی ہو، تعمیل حکم کے لیے نکل پڑنا، اپنی طرف سے کوشش اور جہد میں کوئی کسر نہ چھوڑنا، وسائل زیادہ سے زیادہ جمع کرنا اور ہر ممکن بہتر سے بہتر تدبیر کرنا مگر بھروسا اور نظر صرف تدبیرِ رب پر رکھنا، اور جو کچھ کرنا صرف رب کے لیے کرنا۔
حج میں سارے اعمال،ان صفات کے راسخ کرنے ہی کا کام نہیں کرتے، بلکہ ان اعمال میں حضرت ابراہیم ؑ کا اُسوہ کامل بھی برابر تازہ کرتے ہیں، اور اسے نگاہوں کے سامنے لاتے ہیں۔ پتھر کے ایک معمولی سے گھر کو یہ مقام، قبولیت، محبوبیت اور مرجعیت حاصل ہوئی تو اس میں اس مشن کا بھی دخل تھا جس کے لیے انھوں نے یہ گھر تعمیر کیا اور یہاں اپنی ذریت کو بسایا، اور اخلاص نیت و عمل کو بھی۔ مکان بنوانے والے نے آغاز ہی میں ہدایت کر دی تھی کہ ’’میری بندگی میں کسی کو شریک نہ بنانا‘‘(الحج)۔ اور میرے گھر کو طواف و اعتکاف اور رکوع و سجود کے لیے پاک و آباد رکھنا (البقرہ)۔ انھوں نے اپنے عزائم اور تمنائوں کا اظہار بھی واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ ’’ہماری ذریت بھی تیری فرماں بردار رہے‘‘۔ اس گھر کو بناتے ہوئے جو دُعا لبوں پر جاری تھی وہ صرف رب کے نزدیک قبولیت کی تمنائوں پر مشتمل تھی۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo (البقرہ۲:۱۲۷)، اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
اس کے علاوہ نہ کسی کی خوشنودی مطلوب تھی، نہ کسی کے صلہ و انعام پر نظر تھی۔
اس گھر کی آیات میں ایک روشن پیغام سعی کے اس عمل کے اندر بھی ہے جو صفا اور مروہ کے درمیان کی جاتی ہے۔ یہ یادگار ہے اس بھاگ دوڑ کی جو حضرت اسماعیلؑ کو پیاس سے جاں بلب دیکھ کر حضرت ہاجرہؑ نے صفا اور مروہ کے درمیان کی۔ کبھی صفا پر چڑھتیں، کبھی بھاگ کر جاتیں اور مروہ پر چڑھتیں۔ سعی کا پیغام یہ بھی ہے کہ اللہ کو ہم سے ارادے کے ساتھ ساتھ سعی بھی مطلوب ہے، عمل اور کوشش بھی مطلوب ہے، اور اسی پر وہ نتائج مرتب فرماتا ہے۔ ’’ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے وہ سعی کرے۔‘‘(النجم)، اور ’’جو آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لیے سعی کرے جیسا کہ سعی کرنے کا حق ہے… اس کی کوشش کی پوری پوری قدر دانی کی جائے گی‘‘۔ سعی کا پیغام یہ بھی ہے کہ جب بندہ اپنی بندگی کو اللہ کے لیے خالص کرے، اور حتی المقدور کوشش میں اپنے کو لگا دے، تو اس کا رب اک پتھریلی وادی میں شیر خوار بچے کی ایڑیوں تلے بھی کبھی ختم نہ ہونے والا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔
اُمت مسلمہ کی کشتی آج جس قدر بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، کیا وہ اس سے اپنے ہمہ اقتدار و اختیار رب پر ابراہیم ؑو ہاجرہؑ کی طرح کلی بھروسا کیے بغیر، اس کی فرماں برداری کی راہ میں ان کی طرح اپنا سب کچھ حاضر کیے بغیر، اور اس راہ میں جان و مال سے سعی وجہد کیے بغیر، نکلنے کی کوئی راہ پا سکتی ہے؟ کیا جس کی نظر کے سامنے ہر روز پانچ مرتبہ بیت اللہ کی آیات بینات کو سامنے لانے کا اہتمام کیا گیاہو، اس کی نفسیات میں ان سوالوں کی کوئی گنجایش ہو سکتی ہے کہ ایسی خراب قوم کیسے سدھرے گی، ایسے تاریک حالات کیسے بدلیں گے، ایسے بنجر اور سنگلاخ معاشروں میں نیکی کے چشمے کیسے پھوٹیں گے، ایسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن کیسے اور کہاں سے طلوع ہو گی، جبر واستبداد کی چٹانوں میں سے راستہ کیسے نکلے گا، حقیر کوششیں کیسے رنگ لائیں گی، زبردست طاقتوں کامقابلہ کیسے ہوگا؟ اگر ایک عورت کا یہ یقین کہ اِذَنْ لَا یُضَیِّعُنَا (پھر اللہ ہم کو ضائع نہ کرے گا)، او ریہ اعلان کہ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ (میں اللہ سے راضی ہوں)، اور اس کی صفا اور مروہ کے درمیان سعی و جہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پتھروں کے ایک معمولی گھر کو یہ مقام عطا کر سکتا ہے، اور سنگلاخ زمین سے زم زم کا چشمہ رواں کر سکتا ہے، توآج کی دُنیا میں دین کو غلبہ کیوں حاصل نہیں ہوسکتا، اور ظلم وفساد سے بھری ہوئی دُنیا میں نیکی کا چشمہ کیوں نہیں پھوٹ سکتا؟
دینے والا عاجز و درماندہ نہیں، نہ وہ اُونگھ اور نیند کا شکار ہوتا ہے، لینے والے ہی عاجزودرماندہ ہو گئے ہیں، اپنے مقاصد سے اور اپنی قوت و سربلندی کے اصل خزانوں سے غافل ہوکر نیند میںمدہوش ہیں۔ سعی و عمل اور اخلاص و وفا کی جو دُنیا ان سے مطلوب ہے اس کوانھوں نے اپنے ارادہ و اختیار سے باہر سمجھ کر رکھا ہے۔ انسانیت ہدایت کے لیے جاں بلب ہے، فساد کے بیابان میں زیر زمین امن کا چشمہ موجود ہے، مگر یہ دور اپنے ابراہیم ؑکا منتظرہے۔
حج کا دن تکمیل دین اور اتمام نعمت کی بشارت کا دن بھی ہے۔ اس سے اگلے دن ہی ساری دُنیا کے مسلمان عیدالاضحی کا جشن مناتے ہیں، اور اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ کیا ان کے درمیان ربط کا ادراک بہت مشکل ہے۔ نزول قرآن کے آغاز کے دن ، ضبطِ نفس اور تقویٰ، تلاوت قرآن اور قیام اللیل کے ذریعے قربِ الٰہی کے حصول کے لیے، وقف کیے گئے۔ تکمیل دین اور اتمام نعمت کے دن، قربانی اور حب ِالٰہی کے حصول کے لیے مختص کیے گئے۔
تکمیل و اتمام بغیر قربانی کے ممکن نہیں، اور قربانی بغیر محبت کے ممکن نہیں۔ اسی لیے حج کے مناسک تمام تر عشق و محبت پر مشتمل ہیں۔ شاہ عبدالعزیزلکھتے ہیں:
حضرت ابراہیم ؑکو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک دفعہ اپنے کو سرگشتہ وشیدابنا کر، دیوانوں کی طرح اور عشق بازوں کا وتیرا اختیار کرکے، محبوب کے گھر کے گرد ننگے پائوں، اُلجھے ہوئے بال، پریشان حال، گرد میں اٹے ہوئے، سرزمین حجاز میں پہنچیں، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر، کبھی زمین پر، محبوب کے گھر کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں… اس خانۂ تجلیات کے اردگرد چکر لگائیں، اور اس کے گوشوں کو چومیں چاٹیں۔
اسی محبت کی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑمیں یہ استعداد پیدا ہوئی کہ وہ ہر محبوب چیز کو اس کے لیے قربان کر دیں جو ایمان لاتے ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ اور جب محبت کی آخری آزمایش آئی، بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے کہا گیا، تواُنھوں نے بیٹے کے گلے پر بھی چھری رکھ دی۔ جب وہ محبت کی ان ساری آزمایشوں میں پورے اترے (فَاَتَمَّہُنَّ) تو اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ نعمت بھی تمام کر دی جو دین کی نعمت کے اتمام کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہے۔
وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط (البقرہ۲:۱۲۴) یاد کرو کہ جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا، تو اُس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔
جو ایک مکمل دین کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک وہ محبت کے اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ ’’کیا کوئی بھی ایسی چیزایسی ہے جو اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہے؟‘‘ اس وقت تک ان کے سروں پر سے امرالٰہی ٹل نہیں سکتا، اور وہ وعدۂ الٰہی کے مستحق ہونہیںسکتے ؎
صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
ایک عمر رسیدہ مردِ دانا، دریا کے کنارے بیٹھا، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی حسین و جمیل کاری گری سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بچھو پر پڑی، جو پانی میں گرپڑا تھا اور ڈوبنے ہی والا تھا۔ بچھو اپنے آپ کو پانی کے سپرد کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پانی کی جس لہر میں وہ گرا تھا وہ بہت تندوتیز تھی۔ بچھو نے ہرچند کوشش کی مگر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ ڈوبنے ہی والا تھا۔ عمررسیدہ دانا بزرگ نے بچھو کی یہ کربناک حالت دیکھی تو اسے بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایا تو بچھو نے اسے ڈس لیا۔ درد کی شدت سے بے تاب ہوکر مردِ دانا نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا، مگر اس نے جونہی بچھو کی طرف دیکھا کہ وہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے تو اسے ترس آگیا۔ اس نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایاتاکہ اسے مرنے سے بچالے، مگر بچھو نے اسے دوبارہ ڈس لیا۔ اس نے درد سے بے چین ہوکر چیخ ماری اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ اس نے اب جو بچھو کو دیکھا تو یقین ہوگیا کہ وہ موت کے کنارے پہنچ چکا ہے، چنانچہ اسے بچانے کے لیے تیسری بار اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مردِ دانا کے قریب بیٹھا ایک نوجوان یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ چلّاکر بولا: اے مردِ بزرگ! کیا آپ نے دو بار ڈسے جانے سے بھی سبق نہیں سیکھا کہ اب تیسری بار ہاتھ بڑھا رہے ہیں؟
مردِ دانا نے اس نوجوان کی ملامت کی بالکل پروا نہ کی اور بچھو کو بچانے کی برابر کوشش کرتا رہا، بالآخر اسے ڈوبنے سے بچا ہی لیا۔ اب وہ ملامت کرنے والے نوجوان کی طرف متوجہ ہوا، شفقت و محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اس کا کندھا تھپتھپایا اور کہا: بیٹے، بچھو کی فطرت میں ڈنگ مارنا اور ڈسنا ہے، جب کہ میری فطرت میں محبت و شفقت کرنا ہے۔
مبارک تھا وہ سلیم الفطرت مرد بزرگ، جس کا دل محبت سے بھرپور تھا۔ مبارک ہے وہ انسان جو شیطان کی کشش کو ردّ کردیتا ہے۔ مبارک ہے وہ شخص جو اپنے آپ پر ضبط رکھتا ہے۔ آپ نے یہ مقولہ سنایا پڑھا ہوگا: درختوں کی مانند ہوجائو کہ لوگ ان پر پتھر پھینکتے ہیں اور وہ ان کی طرف پھل پھینکتے ہیں۔ کیا آپ نے درختوں پر انسانوں کے پتھر مارنے پر کبھی غور کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ پتھر پھینکنے والا، ہمیشہ اُس سے ادنیٰ، پست اور نیچے ہوتا ہے جس پر پتھر پھینکتا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ کیا کہ بلندوبالا کھجور کے درخت پر پتھر پھینکنے والا انسان اُس سے بہت نیچے ہوتا ہے اور وہ اپنے سے اُونچے درخت پر سنگ باری کرتا ہے؟ اسی طرح چھوٹے بڑوں پر پتھر پھینکا کرتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا رویہ اور برتائو آپ کو پریشان کردے مگر آپ ہرگز اپنے حسنِ سلوک سے دست کش نہ ہوں۔ آپ لوگوں کے رویے کے ردعمل میں اپنی عمدہ صفات ترک نہ کریں، اور اپنے اخلاقِ حمیدہ نہ چھوڑیں۔ آپ ہرگز ان باتوں پر کان نہ دھریں کہ لوگوں کے رویوں کے مطابق ہی ان سے پیش آناچاہیے، کیوں کہ یہ لوگ کسی شریفانہ سلوک کے مستحق نہیں ہیں۔
اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کرلیا ہے اور اس کے برحق ہونے کے قائل ہوگئے ہیں کہ انسان کو دوسروں کے سلوک سے قطعِ نظر ہمیشہ حُسنِ سلوک پر کاربند رہنا چاہیے، تو پھر آپ سے درخواست ہے کہ آپ کے حُسنِ سلوک کے سب سے زیادہ حق دار آپ کے گھر والے، یعنی اہل و عیال ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہے، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں‘‘۔
بہت سے والدین کو اپنی اولاد کے طرزِعمل سے سخت اذیت پہنچتی ہے، کیوں کہ بچے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں، اور اپنی تعلیم کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ وہ والدین کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ اس مرحلے پر والدین کا پیمانۂ صبر لبریز ہوجاتا ہے اور وہ اولاد سے سختی کرتے ہیں۔ شیکسپیئر کا قول ہے: ’’محبت کرو اس سے پہلے کہ تم سے نفرت کی جائے‘‘۔
بہت سے والدین کے نزدیک اولاد کی تربیت میں سختی و شدت ناگزیر ہے۔ وہ سزا اور سختی کے سوا کسی عمل کو مفید نہیں سمجھتے۔ ان کی نظر میں تربیت کے تمام طریقے غیرمؤثر اور سمجھانے کے تمام ذرائع بے کار اور غیرمفید ہیں۔ اپنے اس طریق کار کے درست ہونے کی، ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے خود اسی نہج پر پرورش پائی ہے۔ چنانچہ اس قسم کے باپوں میں سے ایک ’باپ‘ نے مجھے بتایا:’’میں اپنے باپ کے سامنے چپ چاپ کھڑا رہتا تھا۔ نہ تو میں اس سے بات کرتا تھا اور نہ اس کی قطع کلامی کی ہی جسارت کرتا تھا۔ وہ جب بھی بات کر رہا ہوتا تو مجھے جواب دینے یا کچھ بولنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ کیوں کہ باپ کی بات کا جواب دینا، بیٹے کی طرف سے باپ کی شان میں گستاخی تصور کیا جاتا تھا اور اسے بے ادبی پر محمول کیا جاتا تھا۔ والدصاحب اپنی آواز بہت اُونچی کرلیتے تھے، جب کہ میں چپ سادھے رہتا تھا۔ مجھے ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت میری پٹائی کرسکتے ہیں۔مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ مجھے کب پیٹیں گے اور کیسے زدوکوب کریں گے؟ وہ اپنے خطاب کے دوران یک دم میرے چہرے پر دائیں بائیں سے تابڑ توڑ تھپڑ رسید کرتے تھے۔ میرے لیے حکم یہ ہوتا تھا کہ پتھروں کی اس بارش کے دوران خاموش کھڑا رہوں اور بالکل حرکت نہ کروں۔ میرے والدین نے میری تربیت اس طرح کی ہے اور جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں___ میں مرد بن چکا ہوں‘‘۔
میں نے اس باپ سے پوچھا: کیا آپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ یہی وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا: یقینا، مجھے امید ہے کہ میری اولاد ضرور سیدھے راستے پر چلے گی۔ میں نے کہا: ذرا مجھے یہ بتایئے کہ جب آپ بیٹے سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا: وہ میرے سامنے کھڑا کانپتا رہتا ہے، خاموشی سے میری باتیں سنتا ہے اور بالکل جواب نہیں دیتا۔
اس قماش کے باپ کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی درست نہج پر تر بیت کرسکے۔ یہ تو ممکن ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو چپ کرا دے اور اسے ماتحت و فرماں بردار رہنے پر مجبور کردے مگر ایسا باپ اپنی اولاد میں بزدلی، بے بسی، بے ہمتی ، عاجزی اور ذلّت و خواری کے بیج بو دیتا ہے۔ وہ معاشرے کو نفسیاتی لحاظ سے ایک شکست خوردہ، مغلوب و مضطرب شخصیت پیش کرتا ہے۔ ایسا باپ ایک متوازن اور طاقت ور شخصیت کی تعمیروتشکیل سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ایسی شخصیت کبھی پیش نہیں کرسکتا جو اپنے آپ کو نفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہو اوردیگر افرادِ معاشرہ کے لیے بھی مفید ثابت ہو، اور یوں خاندان کی عمارت کی تعمیر کے لیے ایک مضبوط اینٹ کا کام کرے۔ اپنے سماج اور اپنی قوم و ملّت کے لیے مفید شخصیت تیار کرنا ایسے باپ کے بس کا روگ نہیں۔
محبت سے اولاد کی تربیت کرنا انتہائی ضروری ہے،تاکہ ہم موافقت و ہم آہنگی اور یکسانیت و تال میل سے بھرپور زندگی گزار سکیں۔ یوں ہم اپنے پروردگار کو بھی راضی کرسکنے کے قابل ہوجائیں گے اور ہم اور ہماری اولاد دنیا و آخرت میں سرخ رو اور کام یاب ہوجائیں گے ۔ ہم ایک ایسا معاشرہ وجود میں لاسکیں گے جو توانا و مضبوط ہو، باہم مجتمع و ہم آہنگ ہو اور جس کا ہرفرد دوسروں سے محبت و اُلفت کرنے والا ہو۔ سوال یہ ہے کہ محبت کے ذریعے اولاد کی تربیت کے طریقے کیا ہیں؟
انسانوں کی تربیت، ان کی راہ نمائی کے لیے دلوں میں اُلفت پیدا کرنے، اور ان کے اُمور و معاملات اور نفوس کی اصلاح کے لیے کلام، یعنی بات چیت اور گفتگو انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ کلام دراصل اس گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہے جو پتوں اور پھلوں سے لدا ہو اور بے شمار منافع و فوائد رکھتا ہو۔ اللہ سبحانہٗ نے کلام کو ایک درخت سے تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ فرمایا: اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَـلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ o تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا ط وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ o (ابراہیم ۱۴:۲۴-۲۵) ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ (پاکیزہ کلام) کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں‘‘۔
ایک تحقیقی مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ ایک فردہوش سنبھالنے سے لے کر کامل بلوغ تک ۱۶ہزار منفی (بُرے) الفاظ سنتا ہے، جب کہ وہ اس مدت میں مثبت (اچھے) الفاظ صرف چند سو ہی سنتا ہے۔ ہم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سلبی و منفی، یعنی بُرے الفاظ و کلمات ہمارے بچوں کی تربیت پر کتنے بُرے اثرات مترتب کرتے ہیں۔
ماہرین تربیت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ماں باپ یا تربیت کرنے والوں کی طرف سے بچے کی توہین کی جاتی ہے اور اسے بُرے بُرے القاب و صفات سے پکارا جاتا ہے تو بچہ اپنی ذات کے بارے میں، اپنے ذہن میں ایک تصویر یا خاکہ بنا لیتا ہے۔ گویا اپنی ذات کے بارے میں یہ ذہنی تصویر ، اس کلام کا نتیجہ ہوتا ہے، جو وہ اپنے بارے میں لوگوں کی زبانوں سے سنتا ہے۔یوں سمجھیے کہ بچے کے بارے میں دوسروں کی باتیں نقاش (مصور) کا برش ہیں۔ نقاش بچے کے بارے میں باتیں کرنے والا ہے۔ اگر بچے کے بارے میں اور بچے سے بات کرنے والا شخص کالے رنگ کا بُرش استعمال کرتا ہے تو سیاہ تصویر وجود میں آتی ہے اور اگر وہ خوب صورت رنگ استعمال کرتا ہے تو تصویر بھی حسین ہوگی۔
کچھ باپ جب اپنے بیٹوں سے بات کرتے ہیں تو اپنی گفتگو سے ان کی شخصیتوں کو مسخ کردیتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے بیٹے کی قدروقیمت کم نہ کیجیے۔ ایک ماں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بات کرتے وقت اس کی شخصیت کو کچل دے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے باتیں کرتے وقت توہین آمیز لفظوں، تحقیرآمیز باتوں، طعن و تشنیع، تمسخرو استہزا اور گالم گلوچ سے مکمل اجتناب کریں۔ وہ کسی بھی صورت میں منفی الفاظ و کلمات استعمال نہ کریں۔ کیوں کہ بچوں کے ساتھ منفی رویہ اختیار کرنے سے، اس کے انتہائی تلخ نتائج سامنے آیا کرتے ہیں۔ چنانچہ بچوں میں علیحدگی پسندی، کم آمیزی، جارحیت، مختلف طرح کے خوف، عدمِ خوداعتمادی، تحقیر ذات، نفسیاتی امراض اور طرح طرح کے بگاڑ جنم لیتے ہیں۔
کتب ِ سیرت و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھے والا ہرشخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ دیگر تمام حاضرین کے مقابلے میں حضوؐر کا سب سے زیادہ محبوب ہے۔ کیونکہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہرشخص کو محبت بھری نظر سے دیکھتے تھے۔ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں جھانکیے، اس کے سامنے مسکرایئے، محبت بھری نگاہ کے ساتھ ساتھ محبت آمیز بات چیت کیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ میرا یہ مشورہ پڑھ کر قارئین کرام میں سے کوئی سخت گیر باپ یہ کہے: میں یہ کیسے کروں؟ اس لیے کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو اس کا عادی نہیں بنایا اور اگر میں اپنے بیٹے کو پیاربھری نظر سے دیکھ بھی لوں تو وہ ضرور حیران ہوگا۔ اب میں اس کی حیرت کا جواب کیا دوں؟ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ اپنے بیٹے کے والد ِ محترم ہیں، آپ ایک شفیق باپ ہیں۔ خدارا! اپنے بیٹے پر دھاوا بولنے اور حملہ کرنے کے انداز کو ترک کردیجیے اور اس سے مسکرا کر بات کیجیے۔ اگر بیٹا ، آپ سے اس اچانک تبدیلی کا راز پوچھے تو آپ اسے یوں جواب دیجیے: ’’بیٹا، میں آپ سے محبت کرتا ہوں‘‘، یا ’’میرے لخت ِ جگر مجھے تمھارا ہمیشہ خیال رہتا ہے‘‘۔
یہ خلافِ حکمت ہے کہ آپ اپنے بیٹے سے برتر و اعلیٰ ہوکر بات کریں، برتری خواہ جگہ اور مقام کے اعتبار سے ہو یا گفتگو کے لحاظ سے۔ آپ اپنے بیٹے سے اس طرح بات نہ کریں کہ آپ تو ایک اُونچی کرسی پر براجمان ہوں اور وہ نیچے بیٹھا ہو، اور نہ اس اسلوب و انداز میں ہی بات کریں کہ گویا آپ ایک فوجی کمانڈر ہیں اور بیٹا آپ کا ایک ماتحت سپاہی اور آپ اسے احکام دے رہے ہیں اور وہ ’جی جناب، جی جناب‘ کہہ رہا ہے۔یہ بھی حکمت کا تقاضا نہیں کہ آپ دُور سے ہی بیٹے سے مخاطب ہوں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ ہرلحاظ سے بیٹے کے نزدیک ہوں، دل سے بھی نزدیک، مجلس کے لحاظ سے بھی قریب اور بات چیت کے انداز سے بھی۔
آپ جب بھی اپنے بیٹے یا بیٹی سے بات کریں تو پہلے اس کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھیں۔ آپ کی آواز میں محبت ہونی چاہیے۔ آپ کے لمس میں شدت و سختی نہیں بلکہ نرمی و محبت ہونی چاہیے، اور اس لمس میں شفقت ِ پدری ہو۔ اس سے آپ کی اولاد کو پیغامِ امن و امان ملے۔ پدرانہ محبت کی لہر اولاد کے دلوں تک سرایت کرجائے اورانھیں اس بات کا احساس ہو کہ وہ آپ کے وجود کا حصہ اور جز ہیں۔ آپ جب گھر سے باہر جانے لگیں تو بچوں سے ضرور مصافحہ کیجیے، یا جب آپ کے بچے گھر سے باہر نکلنے لگیں تو بھی آپ ان سے ہاتھ ملایئے اور اپنی دعائوں کے ساتھ انھیں رخصت کیجیے اور ان کے سر پر اپنا دست ِ شفقت رکھیے۔
اب ذرا سا رُک کر، اپنا جائزہ لیجیے کہ آپ ان گزارشات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں؟
بچوں کی نفسیاتی حاجات و ضروریات میں سے ایک محبت ہے۔ لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت و تشنگی کو پورا کیا جائے۔ والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہوگی اور محرومی سے بچوں کے لیے متعدد نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے۔ والدین جب اپنے بچوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اس سے بچوں کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے، لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بغل گیر ہونے میں بخل و تردّد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یقین جانیے کہ بچوں کو والدین سے معانقہ کرنے اور ان کے ساتھ محبت سے لپٹنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے، جتنی انھیں کھانے پینے اور سانس لینے کی حاجت ہوتی ہے، بلکہ محبت کی چاہت و حاجت، خوراک کی حاجت سے بھی بڑھ کر ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس فطری حاجت کو پورا کریں۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنے نواسوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو چوم رہے تھے کہ ایک بدو سردار الاقرع بن حابس آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ اس کے لیے یہ ایک عجیب بات تھی۔ چنانچہ تعجب سے پوچھا: کیا آپؐ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ میرے ۱۰ بچے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی نہیں چوما۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’اللہ نے اگر تمھارے دل سے اپنی رحمت سلب کرلی ہو تو مَیں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
والدین جب بچے کو چومتے ہیں تو اس سے بچے کے قلب و نفس پر رحمت و شفقت چھا جاتی ہے۔ اسے امن و امان کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو بوسہ دے کر ہی انھیں اپنی محبت و شفقت کے احساس سے سرشار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کو محبت و شفقت کے بوسے سے محروم کریں گے تو وہ ہم سے دُور ہٹیں گے۔ نفرت و بے زاری اور سنگ دلی و سختی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ وہ بچپن سے ہی دُوری اور کم آمیزی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ والدین کے بوسۂ شفقت سے ہی بچوں کے درد و الم دُور ہوتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی زخم مندمل ہوتے ہیں اور ذہنی روگ ختم ہوتے ہیں۔ ہم محبت آمیز بوسے سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خوشی و مسرت سے ہم کنار کرسکتے ہیں اور انھیں محبت و اُلفت، رضامندی اور شوق و وارفتگی سے معمور کرسکتے ہیں۔
اولاد کے سامنے ہماری مسکراہٹ بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ ہمارے اس تبسم سے انھیں مسرت نصیب ہوتی ہے۔ یوں ہمارے اور ان کے مابین ایک خوش گوار رابطہ استوار ہوتا ہے اور باہم محبت بڑھتی ہے۔ اس مسکراہٹ سے خوشیاں ملتی ہیں اور خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ دلوں کے سرچشمے سے مسرتیں پھوٹتی ہیں۔
والدین سے گزارش ہے کہ آپ ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہوجایئے۔ ایک بار مسکرایئے اور پھر آئینے میں دیکھیے۔ ایک بار ترش رُو ہوکر آئینے میں دیکھیے اور پھر دونوں کا فرق ملاحظہ کیجیے۔ یقینا والدین کی خندہ پیشانی، ان کی مسکراہٹ اور ان کی قربت سے اولاد کو مسرت و فرحت ملتی ہے۔ والدین کے قرب کا حصول، اولاد کی دیرینہ تمنا ہُوا کرتی ہے۔ وہ اس قربت سے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ یوں ان کے دل ماں باپ کے لیے کھل جاتے ہیں۔ وہ سچی محبت و یگانگت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ وہ والدین سے سچی محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب بچے ہم سے محبت کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ترجیح دیتے ہیں اور ہماری فرماں بردار ی کرتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ، جو طرزِعمل ہوتا تھا، اس کی عکاسی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یوں کی ہے:’’آپ سب سے بڑھ کر نرم دل، مسکرانے اور ہنسنے والے تھے‘‘۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تمھارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔ (ترمذی)
والدین کو چاہیے کہ وہ محبت کے ذریعے بچوں کی تربیت کا ضرور تجربہ کریں۔ اس تربیت میں انھیں یہ اقدامات کرنا ہوں گے: کلامِ محبت، نگاہِ محبت، محبت بھرا لمس، محبت سے بغل گیر ہونا، بوسۂ شفقت اور محبت آمیز مسکراہٹ۔(المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۵۱، ۷مئی ۲۰۱۱ء)
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت، گھریلو ملازمین اور خدمت گاروں کا وجود ہے۔ صاحب ِ ثروت اور خوش حال گھرانوں میں یہ ملازمین روزمرہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں، قلیل معاوضے پر بڑی راحت پہنچاتے ہیں۔ دن رات کام کے لیے حاضر ہوتے ہیں جس کے عوض مالک کی کوٹھی کے ایک گوشے میں انھیں سرچھپانے کو جگہ مل جاتی ہے۔ معاشرے میں ایک دوسرے پر فوقیت قدرت کے نظام کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت، بعض لوگوں کو بعض پر فوقیت مل جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ط نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ط وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ o (الزخرف ۴۳:۳۲) کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزربسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (ان کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں۔
عام طور پر لوگ خادم کو مالک یا مخدوم کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ خود خادم کے کیا حقوق ہیں جو مخدوم پر عائد ہوتے ہیں ؎
تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
اس پہلو سے بھی ہمارے لیے بہترین اسوہ اور مثالی نمونہ حضوؐر کی ذاتِ مبارک ہے، جو صاحب ِ خلق عظیم بھی ہیں اور اللہ کے آخری رسولؐ بھی۔ قرآنِ مجید میں ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے گھر انے بھی ہیں جہاں خادموں کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں ایسے گھر بھی بہت ہیں جہاں خادموں پر ظلم ہوتا ہے۔ ان کے حقوق پوری طرح ادا نہیں کیے جاتے۔ اس لیے یہ امر ضروری معلوم ہوا کہ خادموں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بُرے انجام اور حقوق کی پامالی سے جڑی عبرت ناک سزا سے لوگوں کو خبردار کیا جائے۔ اس مضمون میں خادم سے مراد گھریلو ملازمین ہیں جن سے روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ حضوؐر کے معاملات خادموں کے ساتھ کیسے تھے؟ کتاب و سنت اور سیرت سلف صالحین سے اس باب میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟ اختصار کے ساتھ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
نیکی اور خیر کے کاموں میں حُسنِ معاملہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے انسان کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔ سیّدالبشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدام کے ساتھ اچھا برتائو کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں۔ حضوؐر کے خادمِ خاص حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں آنحضرتؐ کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا لیکن حضوؐر نے مجھ سے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا؟(بخاری)
مسلمان خادم سے حُسنِ سلوک کا یہ اوّلین تقاضا ہے کہ اُسے دین کی ضروری تعلیم دی جائے۔ توحید باری تعالیٰ سے آغاز کرتے ہوئے دین کے بنیادی عقائد ان پر واضح کیے جائیں اور نماز و روزہ سے متعلق احکام بتائے جائیں۔ اکثر ملازمین ایسے ماحول سے آتے ہیں جہاں جہالت اور بدعت کا رواج ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ رئیس خانہ گھر کا ذمہ دار ہوتا ہے اور گھر والے اس کے ماتحت ہوتے ہیں جن میں گھریلو ملازمین بھی شامل ہوتے ہیں۔ گھر کے ذمہ دار سے آخرت میں بازپُرس ہوگی کہ اس نے اپنے ماتحتوں میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ کہاں تک ادا کیا ۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’آگاہ رہو کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اُس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(متفق علیہ)۔ اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ خادموں سے ذکر کیا جائے کہ وہ اپنا فطرہ ادا کریں یا پھر اس سے اجازت لے کر مخدوم/مالک اس کا فطرہ خود اداکرے۔ اگر خادم غیرمسلم ہو تو اسے حکمت و محبت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے جو بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’خدا کی قسم تمھاری وساطت سے اللہ تعالیٰ کا کسی ایک شخص کو ہدایت دینا تمھارے حق میں دنیا ومافیہا کی ہرنعمت سے بڑھ کر ہے‘‘۔(متفق علیہ)
خادم یا خادمہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال خرچ کرنا صدقہ ہے جس کا اجراللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ حضوؐر نے خدام پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے، کیوں کہ وہ روزانہ ساتھ رہتے ہیں اور نفل صدقات سے اس کے اندر مخدوم کے ساتھ خیرخواہی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خادم رزقِ حلال کمانے کے لیے اپنے گھر اور آرام کو تج کرآپ کو راحت پہنچاتا ہے اور مروت کا تقاضا ہے کہ صدقہ دے کر اس کو بھی مالی راحت پہنچائی جائے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں اِنفاق کرو۔ اس پر ایک شخص نے حضوؐر سے کہا: میرے پاس ایک دینار ہے، میں اس کو کیسے خرچ کروں؟ حضوؐر نے فرمایا: اپنی ذات پر خرچ کرو۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ حضوؐر نے فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس شخص نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ حضوؐر نے فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو۔ اس کے بعداپنی بصیرت سے اِنفاق کی ترتیب و ترجیح بنالو۔ (بخاری)
یہ جائز نہیں کہ خادم کی طے شدہ تنخواہ میں کمی کی جائے یا تاخیر سے دی جائے۔ یہ ملازم کا حق ہے کہ اس کی تنخواہ پوری اور وقت پر ملے ۔ دراصل یہ ایک امانت ہے جو خادم اپنے آقا کے ہاں رکھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے: ’’مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کردو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے‘‘(النساء۴:۵۸)۔ لہٰذا ملازم کا حق سلب کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ ہے۔ انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ روزِقیامت اللہ تعالیٰ اس کے خلاف مقدمہ قائم کریں گے اگر اس نے مزدور و خادم کی اُجرت ادا نہ کی۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں خود تین لوگوں کے خلاف دعویٰ دائر کروں گا۔ ایک وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا اور پھر اس سے مُکر گیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے ایک آزاد مسلمان کو غلام کی حیثیت سے بیچ کر اس کا مال کھالیا۔ تیسرے وہ شخص جس نے کسی مزدور یا ملازم سے اُجرت پر رکھا اور پورا کام لینے کے بعد اس کی اُجرت عطا نہ کی‘‘۔(بخاری)
ہم میں کون ہے جو خطاکار نہیں اور خطا کی معانی کا طالب نہیں؟ یہی احساسات ایک خادم کے بھی ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمؐ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمیں خادم کو کتنی بار معاف کرنا چاہیے؟ آپؐ نے سکوت فرمایا۔ اس شخص نے پھر اپنی بات عرض کی۔ آپؐ نے پھر سکوت فرمایا۔ جب تیسری دفعہ اس نے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا: ہر روز ستر بار۔ (ابوداؤد، ح: ۴۵۱۷)
خادم کے حقوق میں یہ ہے کہ اس پر طاقت سے زیادہ کام کا بوجھ نہ ڈالا جائے، نہ کام کے دائرے ہی کو غیرمعروف طریقے سے بڑھایا جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِؐ خدا نے فرمایا: ’’کھانا اور کپڑا غلام کا حق ہے اور اس سے بس وہی کام لیا جائے جس کے کرنے کی وہ طاقت رکھتا ہو‘‘(مسلم)۔جب غلام کے لیے اتنے حقوق اسلام دیتا ہے تو پھر آزاد ملازم تو اور زیادہ عنایت کا حق دار ہے۔ اگر ملازم کی مقدرت سے بڑھ کر کوئی کام لینا پڑے تو مالک و مخدوم کو چاہیے کہ وہ خادم کی مدد کریں۔
خادم سے حُسنِ سلوک میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی توہین نہ کی جائے اور نہ اس کو ماراپیٹا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعوت قبول کرو، ہدیے کوواپس نہ لوٹائو اور مسلمانوں پر ہاتھ نہ اُٹھائو‘‘(احمد)۔ نبی کریمؐ نے اپنی پوری زندگی میں جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ اور کہیں کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا۔اسی طرح اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے بھی فرمایا کہ نبی کریمؐ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، نہ کسی جانور کو، نہ اپنی بیویوں کو اور نہ خادم کو، اِلا یہ کہ آپؐ جہاد فی سبیل اللہ میں ہوں(مسلم)۔ نبی اکرمؐ نے اس چیز کی باربار وصیت کی ہے۔ حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے نبی کریمؐ کو دیکھا کہ ان کے پاس دو غلام تھے۔ اس میں سے ایک غلام آپؐ نے حضرت علیؓ کو ہدیہ کیا اور ارشاد فرمایا: ’’اسے مت مارو، میں نے نماز پڑھنے والوں کو مارنے سے منع کیا ہے، اور میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے ‘‘۔(بخاری)
حضور اکرمؐ اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے تھے کہ خادموں کے ساتھ شفقت کا برتائو کریں۔ حضرت ابومسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ: ’’میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا۔ میں نے اپنے پیچھے سے یہ آواز سنی کہ اے ابومسعود! جان لو کہ اللہ کو تم پر اس سے کہیں زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی تمھیں اس غلام پر حاصل ہے۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسولؐ اللہ تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اب یہ خدا کے لیے آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تمھیں جان لینا چاہیے کہ اگر تم یہ نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں جلا ڈالتی، یا یہ فرمایا: ’’جہنم کی آگ تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی‘‘۔(مسلم)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نرمی اور شفقت کو پسند فرماتا ہے، اور نرم رویہ اختیار کرنے پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی اختیار کرنے پر نہیں دیتا۔ بڑی برائی یہ ہے کہ عمداً خادم کو ماراپیٹا جائے اور خاص طور پر اس کے چہرے پر مارا جائے اور یہ حضوؐر کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے: ’’کوئی کسی کے چہرے پر نہ داغے اور نہ مارے‘‘۔(بخاری)
اگر خادم کی معاشی حالت مخدوم سے کم تر ہوتو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خادم کو طعام اس کی معاشی سطح سے کم ترنہ دیا جائے۔ معاشی تفریق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے اس دنیا میں رائج ہے۔ اسی لیے نبی اکرمؐ نے حاجت روائی کرنے کی ترغیب دی ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ (غلام) تمھارے بھائی ہیں۔ اللہ نے ان کو تمھارا دست نگر بنایا ہے۔ ان کو وہی کھلائو جو تم خود کھاتے ہو، اور وہی پہنائو جو تم خود پہنتے ہو۔ اور اس کو ایسے کام پر مجبور نہ کروجو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اس کے لیے بوجھ ہو۔ اور اگر ایسا کام اس سے لو جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو پھر اس کام میں خود بھی اس کی اعانت اور مدد کرو۔(متفق علیہ)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اگر غلام یا خادم، خانساماں (باورچی) ہو تو اس کو اس پکوان میں سے کھانا دیا جائے جو اس نے بنایا ہو کیوں کہ اس نے کھانے کی خوشبو سونگھی اور اس کو دیکھ لیا ہے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرمؐ نے حکم دیا کہ خادم کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا جائے اور اگر کسی کو ساتھ کھانا ناگوار گزرتا ہے تو خادم کے لیے کھانا دے دے(احمد)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اگر تمھارے پاس کھانے کے وقت خادم آئے اور ساتھ شریک نہ ہوسکے، تو چاہیے کہ اسے کھانے میں سے کچھ حصہ دے دے۔(متفق علیہ)
خادم کو کھانا کھلانا صدقہ ہے، اسی طرح جیسے اپنے آپ پر، اپنی بیوی اور بچوں پر کھانے کے لیے خرچ کرنا صدقہ ہے۔ صحابی رسولؐ حضرت المقدام بن معدیکربؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:’’جو کچھ تم نے [رزقِ حلال میں سے] خود کھایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، جو اولاد کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، جو بیوی کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے اور جو کچھ اپنے خادم کو کھلایا ہے وہ تمھارے لیے صدقہ ہے‘‘۔(احمد)
خادمہ سے حُسنِ سلوک یہ ہے کہ گھر کے مرد غضِ بصر سے کام لیں اور اس سے گھر کے دیگر افراد کی عدم موجودگی میں کام لینے سے احتراز کریں۔ یہ ایک مسلمان کی گردن پر امانت ہے۔ اجنبی عورت سے خلوت کی جو عمومی ممانعت ہے اس کا اطلاق خادمہ پر بھی ہوتا ہے۔ حضوؐرِ اقدس نے ارشاد فرمایا: ’’مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ اختیار کرے اِلا یہ کہ وہ محرم ہو‘‘ (بخاری)۔ صاحب ِ خانہ کو چاہیے کہ ان اخلاقی حدود کی تعلیم اپنے لڑکوں کو بھی دے جو سنِ بلوغ کو پہنچ چکے ہوں۔ عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے خادم سے خلوت میں کام لے، اور نہ اس کی طرف نظریں اُٹھائے۔ وہ اس کے لیے اجنبی مرد ہے جو اُجرت پر کام کے لیے آیا ہوا ہے، اور درج بالا حدیث میں اجنبی مرد کے لیے غضِ بصر اور خلوت کی جو ممانعت ہے وہ مخدوم عورت اور خادم مرد کے لیے بھی ہے۔ اگر گھریلو ملازم عورت/خادمہ مل جائے تو یہ بہتر ہے، کیونکہ اکثر گھریلو کام کے لیے ملازم گھر کی خواتین سے زیادہ سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک بڑا منکر یہ بھی ہے کہ عورت تنہا، ملازم ڈرائیور کے ساتھ کار میں گھومتی پھرتی رہے۔
سلف صالحین کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ خادموں کی نگرانی کرتے تھے اور اپنے مال و اسباب کو بلاحفاظت نہیں چھوڑتے تھے۔ خادموں کو چوری کرنے اور امانت میں خیانت کے مواقع نہ دیے جائیں۔ صاحب ِ خانہ اپنے روپے اور جواہرات اور دیگر قیمتی اشیا حفاظت سے رکھتے ہیں تو اس سے انھیں دو فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ چوری کو روک سکیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی چیز کھو جاتی ہے تو وہ خادم کے تعلق سے سوے ظن سے بچ جائیں گے۔ تابعی ابی العالیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم خادم پر نگرانی کریں۔ سامان کو ناپ تول کر اور گن کر رکھیں تاکہ وہ محفوظ رہے۔ غلاموں اور خادموں کے اندر لالچ نہ پروان چڑھے اور وہ چوری اور خیانت میں مبتلا ہوجائیں۔ انھیں گناہوں سے بچانے کی یہ ترکیب ہے اور اپنے آپ کو سوے ظن سے۔
حضرت ابوہریرہؓ جب خادم سے بازار سے گوشت منگواتے تھے تو گوشت کے ٹکڑوں کو گن لیا کرتے تھے اور جب کھانے کے لیے تشریف رکھتے تو خادم کو حکم دیتے کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالے۔ ان سے جب اس معاملے کی علّت پوچھی گئی تو فرمایا: اس طریقے سے دل کی تسلی بھی ہوتی ہے اور وہم و وسوسہ دُور ہوجاتا ہے کہ شاید خادم نے کچھ گوشت چُرا لیا ہوگا(بخاری)۔ اسی طرح حضرت سلمانؓ کا بھی طریقہ تھا کہ وہ گوشت کی ہڈیاں گن لیتے تھے تاکہ سوے ظن سے بچا جائے۔
حضو رسرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع کیا ہے کہ اپنے آپ کے لیے اپنی اولاد اور خادموں اور اپنے مال کے حق میں بددُعا کریں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اپنے لیے بددعا نہ کرو،نہ اپنی اولاد کو بددعا دو، نہ اپنے خادموں کو بددعا دو اور نہ اپنے مال پر بددُعا دو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبولیت دعا کی کوئی گھڑی لکھ دی ہو اور یوں تمھاری بددعا قبول ہوجائے۔(ابوداؤد)
حضور اکرمؐ اپنے خادم کے حق میں دعا کرتے تھے۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں: دنیا و آخرت کی کوئی بھلائی نہ رہی جس کی حضوؐر نے میرے حق میں دعا نہ کی ہو۔ حضوؐر نے کبھی یوں دعا دی: ’’اے ہمارے رب! انس کو مال و اولاد سے نواز دے اور اس میں برکت عطا فرما‘‘۔ جب آپؐ کو پانی پلایا گیا تو آپؐ نے پانی پلانے والے خادم کے حق میں دعا کی: ’’اے ہمارے رب! تو اپنی طرف سے اس شخص کو کھانا کھلا جس نے مجھے کھلایا، اور اس شخص کو پانی پلا جس نے مجھے پانی پلایا‘‘ (مسلم)۔ امام نوویؒ کہتے ہیں کہ یہ مسنون دعائیں محسن اور خادم کے لیے ہیں۔ ہم میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے ملازم کے حق میں دعا دیتے ہیں جب بھی وہ کھانا یا پانی ہماری خدمت میں پیش کرتا ہے۔
اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت کی جزا عمل سے مربوط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا‘‘ (متفق علیہ)۔ اگر آپ نے عدل و انصاف سے کام لیا تو آ پ کے لیے اجرعظیم اللہ تعالیٰ کے ہاں منتظر ہے۔ یہ بشارت ہے نبی صادق و مصدوقؐ کی: ’’عدل کرنے والے اللہ تعالیٰ کی جناب میں نور کے منبروں پر تشریف فرما ہوں گے۔ خداے رحمن کے داہنی جانب اور اللہ جل شانہٗ کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اُمور میں، اپنے اہل و عیال اور ماتحتوں کے مابین انصاف کرتے رہے‘‘(مسلم)۔ نبی کریمؐ کی یہ دعا بھی پیش نظر رکھیے: ’’اے ہمارے رب! جو کوئی میری اُمت کے معاملات پر والی مقرر ہو ا اور اس نے میری اُمت پر سختی کی تو اے اللہ! تو بھی اس کے ساتھ سختی کا معاملہ فرما، اور جس کسی نے میری اُمت کے معاملات شفقت و محبت کے ساتھ انجام دیے، اے اللہ! تو بھی اس کے ساتھ شفقت اور محبت بھرا برتائو اختیار فرما‘‘ (مسلم)۔
(اخوانکم خولکم، عربی کتابچے سے اخذ و ترجمہ)
نماز سب سے افضل عبادت ہے۔یہ بدنی عبادت ہے۔قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں ہی بازپرس ہوگی۔ نمازی کو یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضوراس کے حکم کی تعمیل میں حاضر ہے اور اس کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کررہا ہے۔ عبادات میں سے نماز کی تاکید قرآن وحدیث میں سب سے زیادہ ہے، لہٰذا اس کے فوائدو ثمرات بھی دنیا وآخرت میں بہت زیادہ ہیں۔یوں تو اہل علم نے نماز کے اجتماعی،سماجی،اور اخلاقی فوائد پرکافی گفتگو کی ہے مگر نماز کے صحت سے متعلق فوائدپرسیر حاصل بحث نہیں کی۔اس مضمون میںنماز کے صحت سے متعلق فوائد وبرکات پر مختصرا عرض کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انسانی علوم و معارف میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، اسلامی عبادات کے اسرار، حکمتیں اور فوائد بھی اتنے ہی زیادہ ظاہر ہوتے جائیں گے۔
سینے کی سطح سے بلندجتنے اعضا ہیں، مثلاً سر،ان تک خون پہنچانادل کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ان تک خون کودھکیلنے کے لیے اسے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ تاہم، جب انسان رکوع اورسجدے کی حالت میں ہوتا ہے تو دل کے لیے دماغ، آنکھ، ناک، کان اور زبان وغیرہ تک خون پہنچانا آسان ہوجاتاہے کیونکہ ان اعضا کا تعلق سر سے ہے اور سر سجدے میںدل سے پست وزیریں سطح پر ہوتا ہے۔اس حالت میں دل کی سخت مشقت میں کمی اور اس کے کام میں تخفیف ہو جاتی ہے۔دل کو یہ آرام و راحت صرف سجدے کی حالت میں نصیب ہوتا ہے۔اس لیے کہ جب ہم کھڑے ہوتے ہیں یا بیٹھتے ہیں یا جب ہم تکیے پر سر رکھ کر لیٹتے ہیںتو سر دل سے اونچائی کی حالت میں ہوتا ہے لہٰذا ان صورتوں میںدل کو مکمل آرام نہیں ملتا۔ لیکن سجدے کی حالت میں دل کا کام آسان ہو جاتا ہے،جیسے گاڑی نشیب کی طرف چلنے میں آرام میں رہتی ہے۔
اس پر ہرگز تعجب نہ ہونا چاہیے کہ دل کو سجدے کی حالت میںاپنی کارکردگی میںجوآسانی اور سہولت ملتی ہے،اس سے دل کے دورے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔دل کا دورہ پڑنا اس دور کی عام پھیلی بیماریوں میںسے سب سے خطرناک ہے۔یاد رہے کہ دل جب اپنی مسلسل محنت سے تھک جاتا ہے تو انسان کوسستی،کمزوری،اضمحلال،سردرد،سرچکرانا،سینے میں درد،بے ہوشی اور خرابی طبیعت کا سامناکرنا پڑتا ہے۔جدید طب میںان تمام علامات کا علاج یہ ہے کہ دوائوں کے ذریعے دل کو سرگرم ومستعد کر دیا جائے۔دوائوں کے ذریعے دل کو یوں مصنوعی طور پر سرگرم ومستعدکرنے کے نتیجے میںکبھی کبھی دل تباہ ہی ہو جاتا ہے،اور اس کی مکمل بربادی سے پہلے اس کی طبیعی کارکردگی بتدریج کم زور پڑنے لگتی ہے،مگر رات اور دن میں کئی باررکوع و سجود کرنے والے کا دل بہت سے اوقات میں راحت وآرام پالیتا ہے۔نمازی کے دل کو ملنے والا یہ آرام، دل کے سخت مشقت کے عمل میں تخفیف ( relief)کاسبب بنتا ہے اور خطرات سے بچنے میں دل کی مدد کرتا ہے۔
کئی بارسجدہ کرنے والے نمازی کے دماغ کوایسی قوتِ مدافعت مل جاتی ہے کہ وہ دماغ کے جریانِ خون سے محفوظ ہو جاتا ہے۔وہ اس لیے کہ سجدے کی حالت میںسر تک خون زیادہ اور خوب پہنچتا ہے کیونکہ سردل سے نچلی حالت میں ہوتا ہے۔پھر نمازی کے دماغ کی شریان کو بار بار یہ موقع ملتا ہے کہ خون کی ایک بڑی مقدارسجدے کی حالت میں سر تک پہنچتی رہتی ہے۔یوں دماغ کی شریان کو اتنی قوت مل جاتی ہے کہ فشارِخون کے وقت وہ ہمہ گیرتباہی مچانے والے خون کے گزرنے کوبرداشت کر لیتی ہے۔ یہ بالکل ایسا عمل ہے جیسے مسلسل ورزش،مشقت،ریاضت اور کسرت کرنے سے انسان کے پٹھوں کوقوت وطاقت ملتی ہے۔
نماز کے دوران ایسی جسمانی ورزش ہوتی ہے جو تمام لوگوں کے لیے موزوں ہے۔ نماز کے سجدے اور رکوع بدن کے قدرتی وظائف اور ان کی طبیعی کارکردگی میں رکاوٹ نہیں بنتے بلکہ نماز کی تمام حرکات___ رکوع، سجود، جلسہ،قیا م___انسان کی طبیعت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔نماز میں زندگی کے کسی بھی طبقے اور عمر کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لیے صحت کا کوئی خطرہ یا نقصان نہیں،بلکہ سراسرفوائد ومنافع ہی ہیں۔
ان اوقات کوگہری نظرسے دیکھنے پر ہم پر یہ بات واشگاف ہوگی کہ ان پانچ اوقات میںوقفوں کے تھوڑا یا زیادہ ہونے کا تعلق انسان کی تھکاوٹ اور چستی سے ہے۔دن کے آغاز میں جب جسمِ انسانی تازہ دم اور آرام میں ہوتا ہے، نماز کی رکعات کی تعداد کم ہوتی ہے۔دن کے اختتام پرجب انسان تھکاوٹ، اُکتاہٹ اوربے چینی زیادہ محسوس کرتا ہے تو اللہ نے اس پرتھوڑے تھوڑے وقفوںسے زیادہ رکعات والی نمازیں فرض کی ہیں۔اس سے ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیںکہ نماز جسمِ انسانی کوچست اور تازہ دم رکھتی ہے،جیسے کہ وہ بے حیائی اور برائی سے باز رکھتی ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کو زیادہ دیر تک کھڑے رہنا،بیٹھنا اور سخت مشقت کرنا مناسب نہیں۔ ہاں، وہ کچھ ہلکی ورزشیں اور کام کر سکتے ہیں۔ان ہلکی ورزشوں میں سے نمایاں ترین نماز ہے،کیونکہ نماز سے کسی نفس پر اس کی استطاعت وگنجایش کے مطابق ہی ذمہ داری پڑتی ہے۔نماز کے اجزا میں سے اہم ترین سجود ہیں۔یہ ایک ایسی آسان ورزش ہے جو دل کو کافی آرام پہنچاتی ہے۔اس سے تمام اعضا تک آسانی سے خون پہنچتا ہے بلکہ سجدہ کرنا تو لیٹنے سے بھی زیادہ مفید ہے۔کیونکہ اس سے شوگر کے مرض کی علامات اور شکایات میں کمی کرنے میں مدد ملتی ہے۔بالفاظِ دیگر نماز جسمانی ورزش کی تمام اقسام سے افضل ہے۔نیز نماز دل کو راحت پہنچانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔
طبی نقطۂ نظر سے حائضہ خواتین کو ورزش اورپرمشقت کام کرنا مناسب نہیں۔دینی لحاظ سے ان پرنما ز ادا کرنا حرام ہے کیونکہ جسم کی حرکت سے___ بالخصوص رکوع و سجود میں___ خون رحم کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور یوں وہ بے مقصد ضائع ہوجاتاہے اورجسم سے معدنی نمکیات ضائع ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایام کی حالت میں آرام کریں اور بہتر غذا استعمال کریں تاکہ ان کے جسم سے خون ضائع نہ ہو اور خون کی کمی سے قیمتی نمکیات رائیگاں نہ ہوجائیں۔دینِ اسلام نے اسی حکمت کے تحت حائضہ خواتین کو روزہ رکھنے سے منع کر دیا ہے۔ان ایام کے آغاز سے پہلے خواتین کو تھکاوٹ،پشت اور ٹانگوں میں درد، قبض کی شکایت، اسہال، سردرد اور پیشاب میں اضافہ وغیرہ کی تکالیف ہوتی ہیں۔اس بات کا بھی احتمال ہوتا ہے کہ خاتون کوماہانہ معذوری سے پہلے غصہ، جھنجھلاہٹ، مایوسی، بے چینی اور طرزِعمل میں فرق کاسامنا کرنا پڑے، حتیٰ کہ اس مدت میں میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑے کی بھی نوبت آجاتی ہے۔نماز کے فوائد ناقابلِ شمار ہیں،اگرنفسیاتی اضطرابات میںمبتلا لوگ نماز اداکریں تو وہ ان سے نجات پاسکتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان فجر کے وقت تازگی ونشاط محسوس کرتا ہے،کیونکہ اس کے جسم میں کورٹیسون کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر شام کووہ جسم سے کورٹیسون کے جاتے رہنے سے تھکاوٹ، سُستی،اور اضمحلال محسوس کرتا ہے۔ کورٹیسون کی کمی سے انسان اپنی ہڈیوں میں بوجھ محسوس کرتا ہے، خون میں کیلشیم بڑھ جاتا ہے اور دانتوں اور ہڈیوں کو طاقت فراہم کرنے والے وٹامن کی تحلیل میں گڑبڑہو جاتی ہے۔کھڑے ہونے کی حالت میں خون کی رگوں میں سکڑنے اور سمٹنے کی بناپر کورٹیسون ہارمون کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ فشارِخون کی حفاظت ہو سکے۔ اگر یہ ہارمون حد سے زیادہ ہو جائے تو اس کا جسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔انسان گھبراہٹ،بے آرامی،بے چینی اور غیظ وغضب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
دائیں طرف سونے کی حالت میں___ بائیں ہاتھ کے ماسوا___تمام اعضاے بدن یا تو دل کی سطح کے برابر ہوتے ہیں یا دل سے نیچے ہوتے ہیں،لہٰذا خون جسم کے زیادہ تر اجزا میں تیزی اور آسانی کے ساتھ___کشش ثقل کے قانون کی رُو سے___ جاری ہوتا ہے جس سے جسم کو بہت راحت وسکون ملتا ہے۔دل کو یہ راحت کھڑے ہونے،بیٹھنے یا چلنے کی حالتوں میں نہیں ملتی کیونکہ ان حالتوں میں دل اس پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ ان اعضا تک خون پہنچائے جو ۹۰درجے کے زاویے کی مقدار میں اس سے اونچے ہوتے ہیں۔ جب ہم نیندسے بیدارہونے کے بعدنمازِتہجد ادا کرتے ہیں تو خون دائیں اور بائیں دونوں جانب برابر چلتا ہے۔سجدوں کی حالت میں دل کا عمل ہلکا ہو جاتا ہے،کیونکہ دل آسانی کے ساتھ خون کو سر تک پہنچاتا ہے، یوں دل کو آرام کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔مزیدبرآں یہ کہ دماغ،پھیپھڑے اور دل سے مربوط رگیں اور سینے سے اُوپر تک واقع تمام اعضا،سجدے کی حالت میں دل کی سطح سے نیچے ہوتے ہیں، لہٰذا خون آسانی اور تیزی کے ساتھ ان اعضا تک پہنچتا ہے۔ یوں نمازِتہجد نماز گزار کی تندرستی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نمازِ تہجد کے وقت ہر طرف خاموشی ہوتی ہے۔ تہجدگزار کو نماز کے کلمات و اذکار، خصوصاً قرآنِ مجید کی آیات میں تدبر، غوروفکر اور تامل کا موقع ملتا ہے۔ سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ غوروفکر سے نفسیاتی دبائو کم ہوجاتا ہے۔ دل کی دھڑکنیں پُرسکون ہوتی ہیں۔ غوروفکر سے شریانوں پر حملے کا احتمال کم ہوجاتا ہے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ رات کے تین بجے سے لے کر صبح کے چھے بجے کے مابین جسمِ انسانی میں، خون میں کورٹیزون کے بلند ہونے سے، اس وقت دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ فضا میں اوزون کی موجودگی سے اس کا اثر جسم پر پڑتا ہے۔ لہٰذا اس وقت اگر ہم نمازِ تہجد، نمازِ فجر اور تلاوتِ قرآن کریم میں مشغول ہوجائیں تو ان اعمال کی برکت سے ہم اس دورانیے کے مضر اثرات اور ان سے جنم لینے والے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔
آخر وہ کیا چیز تھی جس نے ہمارے جدامجد حضرت آدم علیہ السلام کو راحت، خوشی اور مسرت کے ابدی مقام جنت سے رنج و غم اور مصیبت کے گھر (یعنی دنیا) میں لاڈالا؟ آخر وہ کون سا قدم تھا جسے اُٹھانے کے بعد، ابلیس کو آسمانی بادشاہت سے نکال پھینکا گیا اور راندہ درگاہ اور لعنت و ملامت کے قابل بنا دیا گیا۔ اس کے ظاہر و باطن کو مسخ کرڈالا گیا۔ وہ جنت میں تھا لیکن دہکتی ہوئی آگ اُس کا مقدر بنی۔ وہ جو تسبیح و تقدیس اور وحدانیت کے وظیفے کو حرزِجاں بنائے ہوئے تھا، اب کفروشرک، مکروفریب، دروغ گوئی اور فحاشی اُس کی فطرت ثانیہ بنی۔
آخر کیا وجہ تھی کہ عاد کی قوم پر ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے اس قوم کے ایک ایک قدآور اور بلندوبالا فرد کو کھجور کے لمبے تنے کی طرح مُردہ اور بے حس و حرکت کر کے زمین پر ڈال دیا۔ ان کی آبادی، کھیت و کھلیان، چوپائے اور مویشی غرض ایک ایک چیز فنا کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ وہ کون سا جرم تھا جس کی پاداش میں ثمود کی قوم پر ایسی چیخ اور چنگھاڑ مسلط کی گئی جس کی تیز آواز نے ان کے دل، سینے اور پیٹ کو چیر کر رکھ دیا۔ اسی طرح وہ کیا غلیظ حرکات تھیں جن کے اصرار پر قوم لوطؑ کی بستیوں کو اتنا اُونچا اُٹھایا گیا کہ آسمان کی بلندی پر قدسیوں نے ان بستیوں کے کتوں کی آوازیں سنیں، پھر اُس بستی کو اُلٹ کر انھیں اندھا کر دیا گیا۔ آسمان سے ان پر پتھروں کی مسلسل بارش ہوتی رہی، اور ایک ایک متنفس ہلاک کردیا گیا۔ وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے شعیب علیہ السلام کی قوم پر سائبان کی شکل میں بادلوں کا عذاب نازل کیا گیا۔ اَبر کی یہ چھتری جب ان کے اُوپر تن جاتی تو اس کے اندر سے آگ کے شعلے نمودار ہوتے اور دہکتے ہوئے انگاروں کی بارش ہوتی۔ اسی طرح آخر وہ کیا چیز تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو دریا میں ڈبو دیا، جس نے قارون کو اس کے گھربار اور اہل و عیال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جس کی پاداش میں بنی اسرائیل پر ان سے زیادہ سخت گیر قوموں کو مسلط کیا گیا۔ انھوں نے مردوں کو تہِ تیغ کیا، بچوں اور عورتوں کو غلام اور کنیز بنایا، گھربار کو آگ لگا دی اور مال و دولت کو لوٹ لیا۔ آخر کیوں ان مجرم قوموں پر طرح طرح کی سزائوں کو نافذ کیا گیا، کبھی وہ موت کے گھاٹ اُتارے گئے، کبھی قیدوبند میں مبتلا ہوئے۔ ان کے گھر اُجاڑے گئے اور بستیاں ویران کی گئیں، کبھی ظالم بادشاہ ان پر مسلط کیے گئے۔ کبھی ان کی صورتیں بندر اور سور کی بنا دی گئیں۔ بے شک وہ چیز، وہ جرم، وہ غلیظ حرکات اور عمل صرف اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں اختیار کیے گئے گناہوں پر اصرار تھا۔ جس کے نتیجے میں ماضی میں لاتعداد افراد اور قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس قاعدے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میری اُمت میں گناہوں کی کثرت ہوگی تو اللہ ان پر اپنا ہمہ گیر عذاب مسلط کرے گا۔ میں (اُم سلمہؓ) نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ان دنوں ان کے اندر نیک لوگ نہیں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ میں نے عرض کیا تو ان کے ساتھ کس قسم کا برتائو ہوگا؟ فرمایا: عام لوگوں کو جو مصیبت پہنچے گی وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے۔ پھر انجامِ کار اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ان کا ٹھکانا ہوگی۔ (مسنداحمد)
حضرت حسن کی ایک مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اُمت اس وقت تک اللہ کے ہاتھ کے نیچے اور اس کے جوارِ رحمت میں ہوگی، جب تک اس اُمت کے امرا اپنے علما کی موافقت اور ان کی اعانت کریں گے۔ اُمت کے صالحین، فاسقوں اور فاجروں کو صالح اور نیک بنائیں گے اور اچھے لوگ ، بُروں کی اہانت اور تذلیل نہیں کریں گے اور جب وہ غلط عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اُوپر سے اپنا ہاتھ اُٹھا لے گا۔ پھر ان کے اُوپر انھی میں سے سرکش لوگوں کو مسلط کرے گا، جو انھیں بدترین عذاب دیں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں فقروفاقہ میں مبتلا کرے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی مہاجرین کی دس کی جماعت میں، مَیں دسواں آدمی تھا۔ (ہم بیٹھے تھے کہ) اتنے میں رسولؐ اللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’پانچ قسم کی عادتوں سے میں اللہ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو تم اس کا شکار ہوجائو:
۱- جو قوم کھلم کھلا بُرائی اور بے حیائی کرے گی، اللہ انھیں بھوک اور طاعون میں اس طرح مبتلا کرے گا کہ اس سے پہلے کبھی کوئی اس طرح مبتلا نہیں ہوا ہوگا۔
۲- اور جو ناپ تول میں کمی کرے گا اللہ تعالیٰ انھیں قحط سالی، سخت محنت، مشقت اور ظالم بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کرے گا۔
۳- اور جو قوم اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دے گی، اللہ تعالیٰ انھیں بارش کے قطروں سے محروم کردے گا اور اگر ان کے مویشی نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند بھی ان پر نہ برستی۔
۴- جو قوم عہدشکنی کرے گی اللہ ان پر اجنبیوں کو مسلط کرے گا جو ان سے ایک ایک چیز چھین لیں گے۔
۵- اور جب کسی قوم کے حکمران اور امام، اللہ کی کتاب کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو اللہ انھیں آپس میں سخت لڑائی اور جھگڑوں میں مبتلا کردے گا۔ (ابن ماجہ)
اللہ کے نافرمان، فاجر اور بدکار لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کے نتائج کو یکساں ثابت کردیں۔ اچھے اور بُرے افراد میں تفریق اور تمیز ختم کردیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، وہ گناہ گاروں اور نیکوکاروں کے بارے میں دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ نیک اور بد دونوں ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے مرنے کے بعد بھی یکساں سلوک کے مستحق ٹھیریں گے، حالانکہ یہ غیرعقلی، غیرسائنسی دعویٰ محض ان کے بے بنیادگمانوں پر مبنی ہے۔ کیونکہ اسلام کے مطابق مصیبت اور گناہوں کے انسانی جسم اور روح پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہوںکا بُرا اثر انسانی دل اور جسم پر یکساں پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کثرتِ گناہ کے نتیجے میں ہونے والے دنیا اور آخرت میں ہمہ گیر نقصانات کا اندازہ اللہ رب العزت کی ذات کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ یہاں قرآن و سنت کی فکر کی روشنی میں گناہ کے انسانی زندگی پر مضر اثرات بیان کیے جارہے ہیں:
امام شافعیؒ کا ارشاد ہے کہ ’’میں نے (اپنے استاد) وکیع سے اپنے خراب حافظے کی شکایت کی۔ انھوں نے نصیحت کی کہ معصیت اور گناہ کو چھوڑ دو۔ جان لو کہ علم اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے، اور اللہ کا فضل و کرم کسی نافرمان کو نہیں دیا جاتا‘‘۔
وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ(اعراف ۷:۹۶) اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیزگار بن جاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔
اطاعت اور معصیت کی اپنی پختہ ہیئت، صورت، کیفیت اور صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے جو نیکی کرتا ہے اگر وہ نیکی کرنا چھوڑ دے تو اس کے دل میں تنگی اور درشتی پیدا ہوتی ہے۔ اُسے زمین کشادہ ہونے کے باوجود تنگ دکھائی دینے لگتی ہے اور دلی طور پر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی حالت ماہیِ بے آب کی سی ہے جو اس وقت تک تڑپتی اور مضطرب رہتی ہے جب تک کہ لوٹ کر پھر پانی میں نہ چلی جائے۔ اس کے برخلاف اگر عادی مجرم (گناہ گار) تائب ہوکر اطاعت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو دل میں عجیب سی گھٹن محسوس کرتا ہے۔ اس کا سینہ جلتا ہے اور راستے بند نظر آتے ہیں اور یہ کیفیت اُس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک وہ لوٹ کر پھر بُرائی نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر فاسق و فاجر لوگ گناہِ بے لذت کے طور پر برائیوں کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے دل میں بُرائی کے لیے کوئی خاص داعیہ اور طلب بھی نہیں ہوتی اس کے باوجود وہ بُرائی کرتے ہیں۔ اس لیے کسی عربی شاعر نے کہا ہے:
دَکَاس شربت علی لذۃٍ
وَاخُرٰی نداؤت منھا بھَا
(شراب کا ایک پیالہ تو میں نے لذت کے حصول کے لیے پیا (اس سے جو درد اُٹھا) اس کے علاج کے لیے دوا کے طور پر دوسرا پیالہ پیا)
گناھوں کو حقیر سمجہنا:کثرتِ گناہ سے انسان کے دل میں گناہ کا احساس باقی نہیں رہتا۔ گناہ اس کی نظر میں حقیر اور معمولی ہوجاتا ہے۔ یہ علامت حددرجہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہے۔ کیونکہ بندے کی نظر میں گناہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اللہ کی نظر میں وہ بہت بڑا ہے۔ بخاری میں ابن مسعودؓ سے یہ روایت مذکور ہے: ’’مومن جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی اُونچے پہاڑ کی گہری کھائی میں کھڑا ہے، اور ڈرتا ہے کہ کہیں یہ پہاڑ اس کے سر پر نہ آگرے، اور فاسق و فاجر جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے جیسے اس کے ناک پر مکھی بیٹھی ہو اور یوں کرنے (ہاتھ ہلانے) سے مکھی اُڑ کر چلی جاتی ہو‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حقیر گناہوں سے بچتے رہو، کیونکہ یہ گناہ جب جمع ہوجاتے ہیں تو آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں۔ جیسے ایک قوم نے کسی چٹیل میدان میں پڑائو ڈالا۔ اتنے میں کھانے کا وقت ہوجاتا ہے۔ تب ایک شخص جاکر لکڑی لے آتا ہے، دوسرا جاتا ہے وہ بھی کہیں سے لکڑی لے آتا ہے، یہاں تک کہ ڈھیر ساری لکڑیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ پھر اس کا الائو بنتا ہے اور وہ لوگ اس کے اُوپر کھانے کی چیزیں رکھ کر پکاتے ہیں۔(مسند احمد)
اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے اُس غیرت کے بارے میں بیان فرمایا ہے جو انسان کو قبائح سے کراہت اور نفرت دلاتی ہے۔ اس کے ساتھ معافی کی پسندیدگی کو یک جا کیا ہے، جو کمالِ عدل، کمالِ رحمت اور کمالِ احسان کا مظہر ہے۔ اور یہ سمجھایا گیا ہے کہ گناہوں سے جتنا زیادہ تعلق ہوگا اُتنی ہی آدمی کے دل سے غیرت نکلتی جائے گی اور وہ خود اپنے حق میں، اپنے گھر والوں اور عام لوگوں کے حق میں بے حس اور بے غیرت ہوتا جائے گا۔ اس لیے جب غیرت کا مادہ مضمحل اور کمزور ہوتا ہے تو ازخود یا کسی اور طرف سے اُسے کوئی بُرائی محسوس نہیں ہوتی۔ جب کسی شخص کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو اس کی ہلاکت میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ اس لیے بیش تر گناہ گار بُرائی کو بُرائی نہیں سمجھتے۔ فحش کاری اور دوسروں پر مظالم کو اچھا سمجھتے ہیں۔ وہ دوسروں کو اس کو اپنانے کے لیے رغبت دلاتے ہیں اور اس کا پرچار کرتے ہیں۔
من کل شی اذا فیعتہ عوض
وما من اللّٰہ ان فیعتہ عوض
( گم کردہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی عوض ہوسکتا ہے لیکن اگر تم اللہ کو گم کردو گے تو اس کے عوض دوسرا نہیں پائو گے)
یہ اس لیے کہ جو نعمت وہ کسی قوم کو عطا کرتا ہے اسے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْط (الرعد ۱۳:۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
کسی عرب شاعر نے خوب کہا ہے:
اذا کنت فی نعمتۃ فارعھا
فان الذنوب تزیل النعم
(جب تو کسی نعمت میں ہو تو اس کی رعایت کر، اس لیے کہ گناہ نعمتوں کو زائل کردیتا ہے)
وحطھا بطاعۃ رب العباد
قرب العباد سریع النعیم
(بندوں کے پروردگار کی اطاعت کر کے اپنے گناہوں کو مٹا، کیونکہ پروردگار بہت جلد بدلہ دینے والا ہے)
اس سے زیادہ بدترین تلخ اور بھیانک حقیقت یہ ہے کہ جب اس کا آخری وقت آتا ہے اور مالکِ حقیقی سے ملاقات ناگزیر ہوجاتی ہے، تو اس گھڑی ، اس کی زبان اور دل ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور مرتے ہوئے کلمۂ شہادت نصیب نہیں ہوتا۔ چنانچہ بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑنے والے بہتوں کو لوگوں نے دیکھا ہے کہ آس پاس بیٹھنے والوں نے جب انھیں کلمے کی تلقین کرنی چاہی اور لاالٰہ الا اللہ پڑھانا چاہا تو وہ پہلا کلمہ نہیں پڑھ پاتے۔ پس کوئی شخص خاتمہ بالخیر کی آرزو نہیں کرسکتا جس کا دل پراگندا ہو، جو اللہ سے کوسوں دُور جا پڑا ہو، اور اُس کی یاد سے غافل ہو، خواہشاتِ نفس کا غلام ہو، شہوت کے ہاتھوں بے بس ہو۔ اللہ کی یاد آئے تو اس کی زبان کانٹا بن جائے اور عبادت اور بندگی کا وقت آئے تو ہاتھ پائوں ٹھٹھر کر اس کے قابو میں نہ رہیں۔
پس گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس سے بچنا اور دُور رہنا سب کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ گناہوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہی تقویٰ ہے۔ نیز گناہ اور معصیت حددرجہ مضر چیز ہے، البتہ مضر اور بُرے اثرات کے درجے الگ الگ ہیں۔ یوں بھی دنیا اور آخرت میں پھیلی ہوئی ہربُرائی اور بگاڑ کی تہہ میں گناہ اور معصیت کے بُرے اثرات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ (ماخوذ: الفوائد، ابن قیم)
ارشادِ الٰہی ہے: ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تمام دنیاوالوں سے بے نیاز ہے‘‘ (اٰلِ عمرٰن ۳:۹۷)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو، اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو‘‘(مسلم)۔ جب ایک مسلمان حج کے سلسلے میں اس حکمِ ربانی اور ارشاد نبویؐ کی تعمیل کا تہیہ کرلیتا ہے تو وہ دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہے کہ کاش دن اور رات سمٹ جائیں تاکہ وہ حرم میں جاپہنچے اور ان سعادت مندوں میں شامل ہوجائے جنھیں اللہ رحمن نظررحمت سے دیکھتا ہے اور انھیں آتشِ جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔
موقف ِ عرفہ یومِ حشر یاد دلاتا ہے۔ جب اللہ اگلوں پچھلوں کو یک جا کرے گا۔ اس دن جن و انس، فرشتے، انسان اور اس کے اعمال، انبیا اور اُن کی اُمتیں، نیکوکاروں کا ثواب اور بدکاروں کی سزا سب یک جا ہوں گے۔اس دن کی ہولناکی بچوں کو بوڑھا کردے گی۔ اس روز ہرکسی کو حاضر ہونا ہوگا، نہ کوئی پیچھے رہ سکے گا اور نہ کوئی آنے سے انکار کرپائے گا۔ اس دن کسی کے لیے اختیار و ارادہ نہ ہوگا، ہر کوئی نفسی نفسی پکار رہا ہوگا اور نجات کا متمنی ہوگا۔ عرفات میں دنیا کے ہرعلاقے کے مسلمان آتے ہیں، جب کہ روزِ حشر آدم ؑ سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک کے انسان اکٹھے ہوںگے۔ میدانِ عرفات میں جہنم کی آگ سے آزادی کے لیے دعائیں ہوتی ہیں تو حاجیوں کو مغفرت سے نوازا جاتا ہے۔ ایسے ہی میدانِ حشر میں گنہگاراہلِ ایمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جہنم کی آگ سے نجات ملے گی۔’’اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب ِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔ (الشعراء ۲۶:۸۸-۸۹)
قلب ِ سلیم وہ ہے جو شرک و گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہو، جو بدعت سے محفوظ اور سنت پر مطمئن ہو، جو لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو۔ ایسے لوگ روزِ قیامت خوف سے امن میں ہوں گے۔ جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے: ’’لا الٰہ الا اللہ والوں پر نہ ان کی قبروں میں کوئی وحشت ہوگی، نہ حشرمیں۔ مَیں گویا لا الٰہ الا اللہ والوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے اس نے ہم سے پریشانی دُور کردی‘‘۔ (طبرانی)
آپؐ نے فرمایا: ’’شیطان یومِ عرفہ سے زیادہ کسی بھی دن ذلیل و حقیر اور افسردہ و غضب ناک نہیں ہوتا، جب وہ اللہ کی رحمت کو اُترتے اور بڑے بڑے گناہوں کو معاف کرتے دیکھتا ہے‘‘ (موطا)۔ حضوؐر نے عرفہ کے دن کی شام اپنی اُمت کی خاطر مغفرت و رحمت کی بہ کثرت دعا کی تو اللہ کی طرف سے فرمایا گیا: میں نے تمھاری اُمت کو معاف فرما دیا سواے ان کے جنھوں نے ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کی۔ آپؐ نے عرض کیا: اے پروردگار! تو ظالم کو بخشنے اور مظلوم کو (اس پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے) زیادہ اجروثواب دینے پر قادر ہے۔ اگلے روز صبح آپؐ مزدلفہ کے مقام پر اُمت کی خاطر دعا کرتے رہے۔ پھر آپؐ کچھ دیر بعد مسکرائے۔کسی صحابیؓ نے کہا: آپؐ ایسے وقت مسکرائے جب کہ آپؐ اس موقع پر مسکرایا نہیں کرتے تھے۔ فرمایا: میں دشمنِ خدا ابلیس پر مسکرایا ہوں، جب اسے معلوم ہوا کہ اللہ نے میری اُمت کے حق میں، میری دعا قبول فرمالی ہے اور ظالم کو بخش دیا ہے، تو وہ تباہی و بربادی مانگنے لگا اور اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ کر مسکرایا ہوں۔(مسنداحمد)
قیامت کے دن شیطان کی حالت ِ زار کی منظرکشی رسالت مآب نے یوں فرمائی ہے: سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا۔ ابلیس کی ذُریت اس کے پیچھے ہوگی، وہ سب ہلاکت کو بلا رہے ہوں گے اور موت کو پکار رہے ہوں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا: آج ایک موت کو نہیں، بہت سی موتوں کو پکارو۔(مسند احمد)
علامہ ابن القیمؒ نے فرمایا: ہر عقل مندجانتا ہے کہ انسان پر شیطان تین جہتوں سے حملہ کرتا ہے:
حجاج کرام، صرف اللہ کی عبادت کی خاطر، مقدس سرزمین میں آتے ہیں۔ ان کا مقصد ِ وحید طلب ِ رضاے الٰہی ہوتا ہے۔ وہاں جانے میں، ان کی کسی نفسانی خواہش کا ہرگز دخل نہیں ہوتا۔ وہ زبانِ حال سے شیطان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: اے ملعون، اگر تو نے اپنے خالق و پروردگار کی عبادت سے تکبر کیا تو دیکھ، ہم سب اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ اگر تو نے اس کی نافرمانی کی تو ہم سب اس کے فرماں بردار اور عبادت گزار ہیں۔ حج کے موقع پر ان کے احساسات یہ ہیں کہ حاکم و محکوم، چھوٹے بڑے، مال دار و مفلس، سیاہ و سفید اور عربی و عجمی کے مابین کوئی فرق نہیں۔ گھر تیرا ہے، اقتدار تیرا ہے کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں، تقویٰ ہی واحد معیارِ فضیلت ہے۔ حجاج کرام میں یہ احساس پیدا ہونا، حج کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ ان پر عملی طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام نے تمام انسانوں کو کنگھی کے دندانوں کی مانند برابر ٹھیرایا ہے۔ مختلف شکلوں، رنگوں، قومیتوں اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود، کسی کے لیے کوئی امتیاز نہیں۔ رب کی نظر میں سب یکساں ہیں۔
حج مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر اور ان کی سالانہ کانفرنس ہے۔ حج مسلمانوں کے سیاست کاروں کے اتحاد اور علما کے اتفاق کا موقع، علم اور تعلیم دین کے فروغ کا ذریعہ، بھلائیوں کا موسم اور دنیا و آخرت کے منافع ملنے کا مقام ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حج میں نئی اسلامی ریاست کا عادلانہ دستور پیش فرمایا، جب کہ آپؐ کے خلفاے راشدینؓ حج کو اپنے صوبوں اور شہروں کے حالات سے باخبر رہنے کا ایک سنہری موقع سمجھتے تھے۔ مظلوموں کی دادرسی کی جاتی۔ غلط کار سرکاری افسروں___ خواہ وہ گورنر ہوں یا عام کارندے___ کی سرزنش کی جاتی۔
اسی سرزمین میں علم و تعلّم کا حکم نازل ہوا۔ اسی میں علما کی اہمیت و برتری بیان ہوئی۔ چنانچہ حج کے موقع پر حاجیوں میں قرآن کریم کے نسخے اور مفید شرعی کتب تقسیم کی جاتی ہیں، نیز حُرمین شریفین کے مختلف کتب خانے کتابیں فروخت کرکے علم کو عام کرتے ہیں۔ حج دنیا بھر سے آنے والے اہلِ علم کے ملنے کا سنگم ہے جہاں وہ باہم استفادہ کرسکتے ہیں، نئے پیش آمدہ حالات کے بارے میں اپنی راے ظاہر کرسکتے ہیں اور دوسروں کی آرا سے واقف ہوسکتے ہیں۔ نیز حجاج علماے کرام سے سوالات کر کے اپنی علمی پیاس بجھاسکتے ہیں۔ اہلِ علم اس موقع پر باہم متعارف ہوکر بعد میں رابطوں کے جدید ذرائع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل بنیادوں پر ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرسکتے ہیں اور یوں اپنے علم میں مسلسل اضافہ کرسکتے ہیں۔
اپنے اپنے علاقائی و مقامی لباس ترک کر کے احرام جیسے ایک ہی لباس میں ملبوس، ایک مقام پر ایک جیسی عبادت کرنے والے اور اپنی اپنی زبانوں میں عہدوپیمان باندھنے کے بجاے عربی زبان میں لبیک اللھم لبیک… بآواز بلند پکارنے والے دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان، اپنے آپ میں حج کی بدولت یک جہتی و یک رنگی کا احساس پاتے ہیں۔ اس سے وحدتِ اسلامی میں استحکام اور پختگی آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب ہی حاجی اپنے آپ کو ایک ہی بدن کے اعضا کی مانند سمجھتے ہیں۔ کاش کہ یہی احساسِ وحدت مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی، عسکری اور سیاسی وحدت میں بدل جائے اور مسلمانانِ عالم اس وحدت کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں۔
حج ایک لحاظ سے ایک سیاسی سالانہ کانفرنس بھی ہے کہ اس کی بدولت دنیا کے تمام مسلم زعما و قائدین کو مل بیٹھنے، باہم متعارف ہونے اور اپنی اپنی قوموں کے مسائل کا تذکرہ کرنے، ان کا حل پیش کرنے اور مسلم ممالک کے حالات جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔
حج نفوسِ انسانی کی تہذیب و تربیت کا ایک عالمی مدرسہ ہے، اس لیے کہ عزمِ حج کرنے کے ساتھ ہی حاجی کی تربیت شروع ہوجاتی ہے۔ اسے اپنے نفس کو مؤدب و مہذب بنانے کا زریں وقت ملتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کو تقویٰ کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ حاجی اپنے آپ کو بخل و کنجوسی کی مذموم صفت اور مال کی حرص سے پاک کرلیتا ہے، کیونکہ وہ حج کے سلسلے میں کافی بڑی رقم بطیب ِ خاطر خرچ کرتا ہے۔اپنے گھربار، عزیز و اقارب اور وطن عزیز سے دُور رہنے اور سفر کی مشقت اُٹھانے میں حاجی کی قوتِ ارادہ اور صبروبرداشت کی تربیت ہے۔ اپنے حاجی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر حج کرنے میں ایثار و قربانی، مساوات و برابری اور ’انانیت‘ کی نفی کی تربیت ہے۔ اس سے تکبر و غرور کا خاتمہ اور صرف اللہ کے لیے عبودیت کی تربیت ہوتی ہے۔ اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ وہ دنیا کی ایک بہت بڑی قوم کا ایک فرد اور عظیم الشان برادری کا رکن ہے۔ سب حاجیوں کو وحدت و یک جہتی کا احساس اور ایک ایسی بہترین اُمت سے نسبت کا شرف حاصل ہوتا ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے برپا کی گئی ہے۔(ہفت روزہ الجمتمع، کویت، شمارہ نمبر ۱۷۷۹، ۱۷۸۰)
یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حدیث اہم، قیمتی اور انسا نوں کے لیے بالخصوص مومنوں کے لیے آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے لیکن بعض حدیثیں ایسی بھی ہیں جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ با لخصوص تین حدیثیں جن کے بارے میں علماے کرام نے فر مایا ہے کہ اسلام کی تمام تر تعلیمات ان میں داخل ہیں۔ گویا دین اسلام کا مدار ان تین حدیثوں پر ہے۔ ان میں پہلی حدیث یہ ہے: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: سنو !انسانی جسم میں ایک گو شت کا لوتھڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ ہوجائے گا۔ جان لو کہ یہ قلب ہے‘‘ (بخاری، مسلم )۔ دوسری حدیث یہ ہے کہ اعما ل کی قبو لیت کا دارو مدار اخلاصِ نیت پر ہے ۔ تیسری حدیث یوں ہے کہ مومن کے اسلام کے حسن کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار اور فضول با توں سے اور بے کار کاموں سے اپنے آپ کو بچا ئے رکھے۔
یہ تینوں حدیثیں اپنے اندر جا معیت رکھتی ہیں۔ ان میں پہلی حدیث اس وقت موضوعِ تحریر ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح قلب کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت نعمان بن بشیر ؓ ہیں۔ یہ انصاری صحابی ہیں۔ نبی اکرمؐ کے مدینہ منورہ رونق افروز ہونے کے بعد سب سے پہلے بچے ہیں جو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ یہ اور ان کے والدین دونوں ہی صحابی ہیں۔ کو فہ جو عراق میں واقع ہے، وہاں رہتے تھے اورملک شام کے ایک شہر حمص کے گورنر بنا ئے گئے، اور سب سے اہم بات یہ کہ مذکورہ حدیث انھوں نے آٹھ سال کی عمر میں رسولؐ اللہ سے سما عت فر ما ئی اور جب بالغ ہوئے تو ممبر پر بیان کی جس کو صحابہ کرام ؓ نے قبول فر ما لیا ۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ دل اگر چہ چھو ٹا سا گو شت کا لوتھڑا ہے لیکن پورے قالب، یعنی جسم کی اصلاح اس قلب کی اصلاح پر موقوف ہے۔ اس لیے کہ قلب جسم کا بادشاہ ہے، جب با دشاہ صحیح ہو گا تو سا ری رعایا بھی صحیح ہوگی۔ قلب کے ٹھیک ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ جب قلب نور ایمان سے منور ہو جائے اور اس میں نور عرفان اور نور ایقان آ جا ئے تو سمجھ لو کہ قلب کی اصلاح ہو گئی اور جسم کے تمام اعضا سے بھی اعمال ِصالحہ ، اخلاقِ حمیدہ اور احوالِ جمیلہ ظاہر ہوں گے، لیکن جب قلب کفر و شرک کی ظلمتوں، شکوک و شبہات اور نفاق کی برا ئیوں سے خراب ہوجا ئے گا تو پھر جسم کے اعضا سے بھی برے اعمال ہی صادر ہوں گے۔ چنا نچہ ہر شخص پر یہ لازم ہے کہ اپنے قلب کی نگرا نی کرے اور اس کو خواہشات نفسا نی میں مشغول و مصروف ہو نے سے روکے رکھے۔ اس حدیث کی شرح میں حضرت ملا علی قاری ؒ نے لکھا ہے کہ نہا یت اہم امور میں سے ہے کہ قلب کی اصلاح اور نگرا نی ہو، ورنہ یہ کبھی بھی بدل سکتا ہے۔ قلب کے معنی ہی بدلنے کے ہیں۔ دل کو عر بی میں قلب اس لیے کہ کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت بدلتا رہتا ہے، چنانچہ ہر وقت نگرا نی کی ضرورت ہے کہ یہ قلب حق سے باطل کی طرف نہ پھر جائے یا اچھا ئی سے برا ئی کی طرف رُخ نہ پھیر لے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اُم سلمہ ؓ روا یت فر ما تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دعا مانگا کر تے تھے:’’اے اللہ ہما رے قلوب کو اپنے دین حق پر ہمیشہ ثابت قدم رکھ‘‘(بخاری)۔ اگر قالب سے گناہ سر زد ہو جا ئے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قلب میں فسادہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرا ہیم ؑ کے تذکرے میں ایک جگہ ارشاد فر مایا: ’’اے میرے رب، مجھے اس دن رسوا نہ کر، جب کہ سب لوگ زندہ کرکے اُٹھائے جائیں گے، جب کہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب ِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘ (الشعراء ۲۶:۸۷-۸۹)۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ جس انسان کا قلب ’قلب سلیم‘ ہو گا وہ نجات پا ئے گا ۔ قلب جب صالح ہو جاتا ہے، اس کو قلب سلیم کہاجاتا ہے۔ علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں قلب ِ سلیم کے پانچ پہلو بیان کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ قلب جو غلط قسم کے عقیدوں، کفر و شرک، نفاق و بد عت سے خالی ہو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ قلب سلیم وہ ہے جو اپنی اولاد کو حق کی رُشد و ہدایت کی طرف راہ بتاتاہے ، چو تھی تفسیر یہ کہ قلب سلیم وہ قلب ہے جس میں ایسی شہوت اور خواہشاتِ نفس نہ ہوں جو جہنم کی طرف لے جانے والی ہوں۔ حضرت سفیان کی طرف سے پانچویں تفسیر یوں ہے کہ قلب سلیم وہ قلب ہے جس میں اللہ کے علاوہ کو ئی اور نہ ہو ۔ اس حدیث سے اصلاحِ قلب کی اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔ جس طرح بدن بیمار ہوتا ہے اور اس کے لیے علاج کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح قلب بھی بیمار ہوجاتا ہے اور اس کا علاج کروانے اور اصلاح کی ضرورت پڑتی ہے ۔
دل کی بیما ریاں کیا ہیں اور ان کاعلاج کیسے ہو ؟اس سے قبل یہ جان لیجیے کہ دل کی اہمیت اتنی ہے کہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس کا بارہا تذکرہ فر مایا ہے۔ اس کی اہمیت اور اس کو وسوسوں اور بے کار خیالات سے بچانے اور اس کی اصلاح کی طرف متو جہ فر مایا ہے۔ قلب کی مختلف کیفیتوں اور حالتوں کے اعتبار سے ۱۵ مقامات پر تذکرہ فرمایا ہے، جن سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ انسا نی قلب کی کیفیات اور اس میں پیدا ہونے والے حالات کی اصلاح کیسے کرنی چاہیے۔
سورۂ بقرہ میں فر مایا گیا: ’’ آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے، پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیو نکہ پتھروں میں سے تو کو ئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کو ئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے، اور کو ئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تمھارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے‘‘ (البقرہ۲:۷۴)۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: بنی آدم کے قلوب اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ وہ ان کو جیسے چا ہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد رسولؐ اللہ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے دلوں کے پھیرنے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی اطا عت کی طرف پھیر دے‘‘۔ (مسلم)
انسا نی قلب زمین کے مانند ہیں۔ انسان اگر ایک عر صے تک زمین پر محنت نہ کرے، کاشت نہ کرے تو وہ سخت اور بنجر ہو جا تی ہے اور اس زمین سے پیدا وار بھی متا ثر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان جب دل پر محنت کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ رفتہ رفتہ سخت ہوتا چلاجاتا ہے اور جب انسان کا دل گنا ہوں کے سبب سخت ہوجاتا ہے، اس میں خوفِ خدا نہیںہوتا، تو پتھر بھی دل کی اس سختی سے شر ما جا تے ہیں۔ دل انسان کے پاس بڑا سرمایہ ہے۔ اس پر محنت کر کے اس کا تزکیہ کرلے تو کامیاب، ورنہ آخرت کے اعتبار سے اسے ناکارہ اور ناکام انسان کہا جائے گا۔
گناہوں اور بد کا ریوں کی وجہ سے انسانی دل زنگ آلود ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ چنا نچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے بُرے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے‘‘۔ (المطففین ۸۳:۱۴)۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فر ما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’مومن جب گناہ کر تا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر اگر وہ تو بہ کر لیتا ہے، ڈر جاتا ہے، استغفار کر لیتا ہے تو دل کا وہ سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے لیکن بجاے تو بہ کے اور گناہ کر تا ہے تو وہ نقطہ اور بڑھ جا تا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے‘‘(ترمذی)۔ یہی ہے وہ رَانَ جس کا تذکرہ مذکورہ آیت میں فر مایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بیان کر نے سے ہی معلوم ہو سکتا ہے، اس لیے کہ دل ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے۔ ہم اس دھبے کو نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دھبے کو دھونے اور دل کو صاف کر نے کا طریقہ بیان فرما دیا ہے، چنانچہ بند گان مومن کو چاہیے کہ نا فر مانی یا گناہ کر نے کے بعد فوراً رجوع الی اللہ اور انابت الی اللہ کا ثبوت دیں ،تو بہ و استغفار کے ذریعے دل کو بر باد ہو نے سے بچا لیں، بصورتِ دیگر دل کی بر بادی ایمان کی بربادی کے مترا دف ہے اور ایمان کی بر بادی دا ئمی نقصان و خسران کا سبب بن سکتی ہے۔ اعاذنا اللّٰہ منہ ۔
قرآن مجید میں ہے کہ’’جو شہا دت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہوتا ہے اور اللہ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے ‘‘(البقرہ۲:۲۸۳)۔ اس آ یت میں صاف طور سے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی فرماں بر دا ری سے انحراف دل کو گنہگار بنا دیتا ہے۔ گنہگار دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اُلفت نہیں آ تی، بلکہ نا فر ما نی اور شہوات کی محبت ہی جگہ پکڑتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ہی فر مایا ہے کہ دل نیک ہو تو سارا جسم نیک ہو تا ہے، اور یہ گنہگار ہو جا ئے تو دل مسخ ہوجاتا ہے ۔
ٹیڑھے دل کا بھی قرآن مجید میں تذکرہ ہے۔ فرمایا: ’’جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشا بہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنا نے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کو ئی نہیں جانتا‘‘ (اٰل عمران ۳:۷)۔ اللہ تعالیٰ دل کے اس ٹیڑھ پن سے حفا ظت فر ما نے والی ہے ۔ اس لیے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں دعا سکھا ئی ہے:’’اے ہمارے پر ور دگار، جب کہ تو ہمیں سیدھے راستے پر لگاچکا ہے پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ فر ما، اپنے خزا نۂ فیض سے رحمت عطا فر ما کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے‘‘۔ یہ دعا جس میں دل کی سلا متی کی دعا مانگنا خود قرآن کریم نے سکھایا ہے، اس کی تفسیر میں علما نے لکھا ہے کہ اس میں دو چیزیںمانگی گئی ہیں، دین و ایمان پر استقامت اور دوسری چیز حسن خاتمہ۔ یہ دونوں نعمتیں اس دعا میں شامل ہیں۔ ربنا لا تزغ قلوبنا، میں دین و ایمان پر استقامت کا مانگنا سکھایا اور وھب لنا من لدنک رحمۃ، میں حسن خا تمہ یا خاتمہ بالخیر۔ جو اس کو مانگے گا وہ دل کے ٹیڑھ پن سے بھی محفوظ رہے گا اور آخری گھڑیوں میں بھی اللہ تعالیٰ دستگیری فرما ئیں گے اور حسن خا تمہ نصیب ہو گا۔ وہ لوگ دانش مند ہیں جو اپنے دل کی حفا ظت کے لیے یہ دعا ہمیشہ استحضار کے ساتھ مانگتے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی لمحے میں یہ دعا قبول ہو جائے تو بیڑا پار لگ جا ئے گا ۔
کچھ دل ایسے بھی ہو تے ہیں جو غافل اور کبھی غور و فکر نہ کر نے والے ہو تے ہیں۔ یہ بھی ناکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہیں‘‘ ( اعراف۷:۱۷۹)۔ گویا ان کے پاس دل، آنکھ، کان سب ہیں لیکن اللہ کی آیتوں پر غور و فکر نہیں کرتے، یہ جانوروں سے بدتر ہیں۔ یہ انسان ہو کر جانوروں کی طرح زندگی گزارنا چا ہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان سے بہتر جانور ہیں کہ وہ اپنے اعضا سے اتنا فائدہ ضرور حاصل کر لیتے ہیں جو قدرت نے ان کے لیے مقرر کر دیا ہے، زیادہ کی ان میں استعداد نہیں ہے، لیکن ان لوگوں میں روحانی وعر فانی تر قیات کی جو فطری قوت و استعداد ودیعت کی گئی ہے، اسے غفلت اور بے راہ روی سے خود اپنے ہاتھوں ضائع ومعطل کردیتے ہیں (تفسیر عثمانی)۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ کے الفاظ سے اسی غفلت کی طرف اشا رہ ہے کہ غفلت بے حد خطر ناک ہے۔ اس کا اثر انسانی قلب پر پڑتا ہے، اور دل اس قابل نہیں رہ جاتا کہ اس میں کو ئی حق بات اثر کرے یا اللہ تعالیٰ کی طرف انابت و رجوع کی کیفیت اس میں آ ئے جس کو قرآن مجید میںفر مایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی اور ان کانوں پر بھی اور ان کی آنکھوں پر پر دے پڑے ہوئے ہیں۔ اور آخر آیت میں اس کی سزا بھی بیان فر ما دی ہے کہ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ ، انھیں عذاب الیم ہوگا۔
کچھ دل ایسے ہو تے ہیں جو اللہ کا نام سن کر لرز جا تے ہیں اور قرآن کریم کی آیت کو سنتے ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جا تا ہے۔ یہ قابل تعریف دل ہیں۔ ان کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا: ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جا تے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جا تا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں‘‘ (الانفال ۸:۲)۔ قرآنی آ یات کا اور اللہ پاک کے نام کو سن کر اثر لینا راست طور پر انسا نی قلب سے ہے۔ لہٰذا قرآن کریم سے فا ئدہ حاصل کر نے کے لیے اس دل کا صحیح ہونا لازم ہے جس کے لیے ہمیشہ اس کی اصلاح کی فکر کر نے کی ضرورت ہے ۔
قرآن مجید میں کچھ دلوں کا تذکرہ یہ بھی ہے کہ ان دلوں پر مہر لگ چکی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ خود ان دل والوں کے غلط اعمال کی وجہ سے ہے۔ چنا نچہ فر ما یا: ’’اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپّہ لگادیتے ہیں‘‘ (یونس ۱۰:۷۴)۔ یہاں مہر لگنے کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے ، یعنی نافرمانی میں حد سے گزرنا اور کفر و شرک میں بڑھتے چلے جانا۔ یہ سب مہر لگنے کا ذکر ہے۔ دلوں پر مہر کیسے لگتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: انسان گناہ کر تا ہے تو اس کے دل پر ایک دا غ لگا دیا جاتا ہے۔ پھر گناہ کر تا ہے تو پھر ایک داغ لگا دیاجاتا ہے۔ اس طرح دا غ لگتے رہتے ہیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اس پر مہر لگادی جا تی ہے۔ پھر یہ انسان کبھی نیکی اور حق کی طرف متو جہ نہیں ہو تا۔ وہ صلا حیت بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ ہماری حفا ظت فرمائے۔
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:’’ خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘ (الرعد۱۳:۲۸)۔ گویا دولت، حکومت، منصب، جاگیر یا انسانی ہوس، کو ئی ایسی شے نہیں ہے جس سے انسان کے دل کو اطمینان مل سکے۔ اگر سکونِ قلب جیسی دولت و نعمت حاصل ہو سکتی ہے تو وہ صرف اللہ کی یاد اور اس کی عبا دت و اطا عت سے ہی ہو سکتی ہے۔ ایسے دل کو مطمئن دل کہتے ہیں، جو ایک سچے مومن کو حاصل ہوتا ہے ۔
اللہ پاک فر ما تے ہیں کہ کچھ دل اندھے ہو تے ہیں، چنانچہ فر مایا: کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو تے۔حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو تیں بلکہ دل اندھے ہو جا تے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ گویا آنکھوں نے دیکھا اور دل نے غور نہ کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے، باوجود یکہ ظا ہری آنکھیں کھلی ہو ئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اندھا پن سب سے زیا دہ خطر ناک وہی ہے جو دل کا اندھا پن ہے۔ العیاذ باللّٰہ۔
دل کا اندھا پن جتنا گہرا ہو تا جا تا ہے اتنا ہی اس شخص پر بڑے بڑے گناہ ہلکے معلوم ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کفر و شرک جیسے گناہ بھی معمولی معلوم پڑتے ہیں۔ ایک قوم ایسی گزری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پو ری قوم کے بارے میں فر مایا: وہ پوری قوم اندھی تھی۔ مطلب یہ نہیں کہ ظا ہری آنکھیں اندھی تھیں یا نا بینا تھے۔ نہیں، بلکہ دل کے اندھے تھے کہ اپنے نبی کے مقام کو نہ پہچا نا اور ایمان قبول نہ کیا۔ یہ اندھا پن ہے۔ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے:’’اور جو اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے چشم پوشی کر تا رہا، نظر انداز کر تا رہا، اور اس کے حکموں سے اندھا بنا رہا، اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی بینا ئی چھین لیں گے۔ ’’اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: ’’پروردگار، دنیا میں تو مَیں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو ، جب کہ وہ تیرے پاس آئیں تھیں، ُتو نے بھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے‘‘۔ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۳-۱۲۶)
قرآن مجید میں قلب سلیم سے مراد اچھا بھلا چنگا دل ہے جو کفر و نفاق اور فا سد عقیدوں سے پاک ہو وہی قیامت میں کام آ ئے گا، اور نجات نصیب ہو گی۔ قلب سلیم سے مراد شرک و شک اور نفاق سے پاک دل ہے۔ گناہ تو ہر کسی سے ہو تے ہیں اور اس کی تو بہ سے وہ پاک ہو جاتے ہیں۔
سورہ ٔ زمر میں آیت نمبر۴۵ میں ہے کہ: ’’جب اللہ کا ذکر کیاجاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں ‘‘۔ یہ بے ایمانوں کا دل ہے جنھیں اللہ کے نام سے چڑ ہے یا پسند نہیں کرتے لیکن اللہ کے علاوہ کسی اور کا تذکرہ ہو تو یہ ان کے لیے با عث مسرت ہوتا ہے۔ اس دل میں کوئی خیر نہیں۔
ایک دل وہ بھی ہے جس میں تکبر اور غرور کی بیماری بھری ہو ئی ہو تی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اللہ ہر متکبر و جبار کے دل پر ٹھپّہ لگادیتا ہے‘‘۔ (المومن ۴۰:۳۵)۔ تکبر بہت ہی بڑی برا ئی ہے، جس دل میں تکبر جڑ پکڑ لے اس دل کا خدا ہی محافظ ہے ۔ آدمی کو ہمیشہ متوا ضع رہنا چاہیے۔ یہ اچھے انسان اور مومن کی علامت ہے۔ بڑائی تو اللہ کے لیے ہے۔ فرمایا: بڑا ئی میری چادر ہے، جو تکبر کرے گا گو یا وہ میری چادر کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، وہ سمجھنا آسان ہے۔ صوفیاے کرام اور اولیا اللہ اپنے سروں کو سب سے پہلے اللہ کے آگے جھکاتے ہیں اور دل کی اس بیماری کا علاج کر تے ہیں۔ کو ئی علم والا علم کی وجہ سے، یا کو ئی مال والا مال کی وجہ سے، یا کو ئی بھی شخص اپنی کسی خو بی کی بنا پربڑا ئی نہ کرے۔ اس لیے کہ ہر قسم کی خو بی کسی کی ذاتی نہیں بلکہ اللہ کی دین ہے، تو اس پر تکبر کر نا کیا معنی رکھتا ہے۔ اپنے دل کی حفا ظت کر نا چاہیے کہ اس میں کب تکبر آجا ئے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ہر موقع کے لیے دعا سکھا ئی ہے کہ کسی بھی وقت اللہ کو نہ بھلا ئے اور نعمت اس کی طرف سے سمجھے اور شکر و امتنان کے جذبات قلب میں پیدا کرے تو یہ قلب متوا ضع ہو گا۔ قلب متکبر اللہ کو پسند نہیں، اس لیے آیت مذکور میں فر مایا کہ متکبر دل پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتے ہیں کہ وہ کو ئی حق بات کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے، اللہ بچائے رکھے۔
’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کر دہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا ئیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہو ئے ہیں؟‘‘(الحدید ۵۷:۱۶)۔ یہی وہ آیت تھی جسے سن کر حضرت فضیل بن عیاض ؒ نے تو بہ کی تھی اور بہت بڑے اللہ والے بن گئے۔ انسان جب تو بہ کر تا ہے تو دل کی سیا ہی دُور ہوجاتی ہے، دل کی ظلمت دور ہوجاتی ہے اور دل کی سختی ختم ہوجا تی ہے۔ تو بہ و استغفار سے دل دُھل جاتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابرا ہیمؑ کو وحی کی گئی کہ اپنے دل کو دھو لیا کرو، آپ کہنے لگے: اے اللہ! پانی تو وہاں پہنچتا ہی نہیں میں اس کو کیسے دھوؤں ؟ اللہ تعالیٰ نے فر مایا: یہ دل پانی سے نہیں، یہ تو میرے سامنے رونے سے دُھلتا ہے، یعنی تو اگر میرے سامنے عا جزی اور آہ وزاری کرے گا تو ان آنسوؤں کے گر نے سے تیرے دل کو صاف کر دیا جائے گا۔ دل اس طرح دھلتا ہے ۔
قرآن مجید صاحب ِقلب کے لیے نصیحت ہے :’’بے شک اس سورہ یا قرآن مجید میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جس کا قلب ہو یا وہ کان لگا کر پو ری حا ضر دما غی کے ساتھ سن رہا ہو‘‘۔ اس لیے علما نے لکھا ہے جتنے احکام انھیں ملے ہیں، ان کا مخاطب قلب ہی ہے اور دل ایمان کی جگہ ہے اور ہاتھ اور پیر اسلام کی جگہ ہیں۔ ایمان چھپی ہو ئی شے ہے، جو دل میںرہتا ہے۔ اس لیے حدیث میں فر مایا گیا کہ ایمان چھپی ہو ئی شے ہے جس کو دل لیے ہو ئے ہے اور اسلام کھلی ہوئی شے ہے جو ہاتھ پاؤں سے ظا ہر ہو تی ہے، تو سب جگہ قلب ہی مخاطب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قیمت لگا دی ہے۔انسان کے نفس کو اور مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے۔ نفس کی قیمت جنت لگا دی لیکن دل کی قیمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے، لہٰذا جو انسان اپنا دل اللہ تعالیٰ کے حوا لے کردے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اپنا دیدار عطا فر ما ئیں گے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اُس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے‘‘ (القیامۃ۷۵:۲۲-۲۳)۔ یہ کیسے خوش نصیب لوگ ہوں گے کہ جو قیامت کے دن اچھے حال میں کھڑے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے جنت کو بنایا تو اس کی کنجی رضوان کے ہا تھ دے دی، اور جہنم بنایا تو اس کی کنجی اللہ تعالیٰ نے جہنم کے دارو غہ کو دے دی، اور اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو اپنا گھر بنایا اور اس کی کنجی بنی شیبہ نامی خاندان کو دے دی کہ قیامت تک ان کے پاس رہے گی، کسی اور کے پاس نہیں جا سکتی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کا دل بنایا مگر اس کی کنجی اپنے دستِ قدرت میں رکھی، وہی دلوں کو پھیرنے والا ہے، وہ جسے چاہتا ہے اُلٹ پھیر کر دیتا ہے۔ گو یا ہمارے دل کا تالا اگر کھل سکتا ہے تو اللہ رب العزت کی رحمت کے ساتھ کھل سکتا ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اللہ رب العزت کے حضور دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ سے طلب کریں اور فریاد کریں کہ رب کریم جب ہمارے دلوں کا معا ملہ آپ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے تو دل کے تا لے کو خیر کے لیے کھول دے تا کہ ہم بھی آپ کی محبت بھری زندگی کو اختیار کرسکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعا کریں، یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، ’’ اے دلوں کے پلٹنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ‘‘۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓفر ما تے ہیں کہ جس پر نصیحت اثر نہ کرے وہ جان لے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے۔ حضرت امام شافعی ؒ فر ما تے ہیں کہ دل کو روشن کر نا ہو تو غیر ضروری باتوں سے پر ہیز کرو ۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ اللہ پاک کے نا موں میں ایک نام ’ النور‘ ہے، اس کا ذکر کثرت سے کر نے سے قلب کو نور حاصل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قلب ِ سلیم سے نوازے، آمین!
کامیابی معین اہداف کے حصول کا نام ہے، چاہے وہ دینی ہوں یا دنیاوی۔ ان کا انسان کی انفرادی، خاندانی یا معاشرتی، غرض زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق ہو سکتا ہے۔ انسان جب ان اہداف کو حاصل کرلیتا ہے تو اسے نہ صرف خوشی اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے بلکہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ زندگی کی شاہراہ پر کافی آگے نکل گیا ہے۔
خوش بختی ایک نفسیاتی اطمینان اورخوشی کی کیفیت کا نام ہے جو خُدا کے دیے پر قناعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔خوش بختی کا سر بستہ راز خداے واحد پر ایمان، بندگی کے کلی مفہوم کی صحیح سمجھ اور اس کی عملی تطبیق میں مضمر ہے۔بندگی کا مفہوم ایک کلی مفہوم ہے جس میں ایک مسلمان کا ہر ہر شعبہ رنگا ہونا چاہیے۔کامیابی کا تصور اس وقت ایجابی اور صحیح سمت رواں ہو گا جب تک وہ بندگی کے تصور سے پیوستہ رہے گا اور اگر یہ تصور بندگی کے تصور سے مربوط نہیں تو لازماً منفی اور غلط نتیجے تک پہنچ کر رہے گا۔
کامیابی کا جوہر اور اس کا راز بعض اہم بنیادی اصولوں کے جان لینے اور ان کی مسلسل مشق کرنے میں مضمر ہے۔ذیل میں کامیابی کے سانچوں ، دائروں اور میدانوں کو ایک چارٹ کی صورت میں پیش کیا جارہاہے:
کامیابی کے دائرے اور سانچے
کامیابی کے میدان
رویے
عادات
صلاحیتیں
ٹکنالوجی، ٹولز اور فنی صلاحیت
ذاتی
تعلیمی
معاشی
خاندانی
معاشرتی
اس مضمون کے مطالعے کے بعد آپ اوپر دیے ہوئے خانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے بھرنے کی کوشش کیجیے تاکہ آپ اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرسکیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مضمون میں جو اشارات دیے گئے ہیں ان میں ہر ایک کے ساتھ ایک چیک بکس بناہوا ہے۔ اسے آپ اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے نشان لگائیں گے تو آپ کو اپنی بہتری کی منصوبہ بندی آسان ہوجائے گی۔
اخلاقی اقدار: ان بنیادی اخلاقی اقدار پر بھرپور توجہ دیجیے:
قیادت عوام کے کسی گروہ کو ایک طے شدہ سمت میں بلا جبر کام پر آمادہ کرنے کا نام ہے۔ قیادت ایک کردار بھی ہے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا ایک طریقۂ عمل بھی۔ قائد کسی گروہ کا ایک ایسا رکن ہوتا ہے جسے کوئی عہدہ یا ذمہ داری دی جاتی ہے اور اس سے اس منصب کے شایان شان کام کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔
قیادت کی خوبیوں میں درج ذیل عناصر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے:
ایک قائد کو ان چیزوں کے متعلق علم اور مہارت ہونا چاہیے:
پیر وکاروں اور کارکنان کے بیانات سے سامنے آنے والے ایک قائد کے عناصر درج ذیل ہیں:
درج ذیل سوالوں کے جوابات دے کر اپنی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کیجیے:
اپنی عادات کا جائزہ لیں، انسان عادات کے ذریعے بھت کچھ حاصل کرتا یا گنواتا ھے۔ وقت، مال اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے والی خراب عادات کو ترک کر کے ان کی جگہ عمدہ عادات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں:
روحانی، عقلی اور جسمانی صحت کا خاص خیال رکہیں، ان کی حفاظت کے اصولوں پر عمل پیرا رھیں تاکہ زندگی کی نعمتوں سے صحیح انداز میں لطف اندوز ھو سکیں:
اس بات کا خیال رکھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ من الستوٰی یوماہ فھومغبون ’’وہ شخص تباہ ہوگیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے رہے‘‘۔ اس حدیث پر عمل کا تقاضا یہ ہے کہ ہمار ا آج گذشتہ کل سے بہتر ہو، اور ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔ اس پر عمل کے لیے رات کو سونے سے پہلے احتساب کی، اور صبح کام شروع کرنے سے پہلے منصوبہ بندی، ترجیحات اور ترتیب کی ضرورت ہے۔
اے اللہ! توہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی ، درمیانی حصے کو بہبودی، اور آخری حصے کو کامرانی بنادے۔ آمین!
تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست
(اس مضمون کی تیاری میں ذاتی مطالعے کے نوٹس اور مغربی مصنفین کی کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے: کامیابی کا سفر ، مصنف،ڈاکٹر ابراہیم بن حمدالعقید ترجمہ ،خدیجہ ترابی، ناشر مکتبہ خواتین میگزین، لاہور۔ رہنمائے تربیت، ہشام الطالب، ترجمہ شاہ محی الحق فاروقی، ناشر ادارہ فکر اسلامی، اسلام آباد)
انسانوں کی تربیت کرنا، ان کی کارکردگی کو بڑھانا، اُنھیں اُوپر اُٹھانا، اُن کی ذات کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانا، اُن کی خامیوں کوکم سے کم کرنا اور اُنھیں اس قابل بنانا کہ وہ اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر اپنے آپ کو کامیاب بنائیں ___ ہر دور میں معلمین، مصلحین اور مفکرین کی توجہ اور کام کا اہم نکتہ رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو سیدھے راستے پر رکھنے کے لیے انبیا کا جو سلسلہ قائم کیا اُس کی بڑی وجہ بھی انسان کی ذات کی اصلاح، اس کا تزکیہ اور زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتوں سے اسے آراستہ کرنا تھا۔ ہر پیغمبر کا یہ بنیادی فرض رہا ہے کہ وہ انسانوں کی اصلاح کرے،اُن کی کمزوریوں کو دُور کرنے کی سعی کرے اور انھیں معاشرے کا مفید شہری بناتے ہوئے اپنے رب کا تابع فرمان بنائے تاکہ انسان دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو۔ اسے دنیا اور آخرت دونوں میں عزت ،سرفرازی اور سکون حاصل ہو اور وہ انجام بد سے بچ سکے۔
تزکیہ اور تربیت جہاں ایک داعی کا اہم ترین فریضہ ہے وہیں ایک بڑا کٹھن، صبر آزما اور حوصلے اور جرأت کا کام بھی ہے ۔اس ضمن میں چند اہم اُمور ایسے ہیں جو اگر داعی کی نگاہ سے اوجھل ہوجائیں تو نہ صرف مایوسی ڈیرہ ڈالنے لگتی ہے بلکہ بعض اوقات داعی کی تمام تر کوششیں اُلٹ نتائج کا باعث بنتی ہیں۔ اس مضمون میں چند ایسی ہی باتوں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اگر ان اُمور پر نظر رکھتے ہوئے تزکیہ اوراصلاح کی کوششیں کی جائیں گی تو وہ نہ صرف زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوں گی، بلکہ اس ضمن میں پیش آنے والے مسائل کو بھی کم کرنے کا باعث بنیں گی۔
قرآن مجید میں جہاں انسان کی عظمت کا اقرار و اظہار ہے، وہیں پر اس کی بعض کمزوریوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے تا کہ دونوں پہلو سامنے رہیں۔ ایک طرف اس امرکا اظہار ہے کہ: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین ۹۵:۴ ) ’’ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے‘‘۔دوسری طرف قرآن اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ وَخُلِقَ اْلِانْسَانُ ضَعِیْفاً(النساء۴:۲۸ ) ’’اور انسان کو طبعاً کمزور پید ا کیا گیاہے‘‘۔ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَہُوْلًا (الاحزاب۳۳:۷۲ ) ’’بے شک انسان ظالم بھی ہے اور جاہل بھی‘‘۔ اَوَلَمْ یَرَ اْلِانْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہ ُمِنْ نُطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ(یٰسین ۳۶:۷۷) ’’کیاانسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پس وہ کھلا جھگڑالو بن گیا‘‘۔
ایک طرف قرآن انسان کی عظمت کا اقرار اس طرح کرتا ہے کہ اِنِّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط (البقرہ ۲:۳۰)’’بے شک میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ‘‘، اور دوسری طرف انسان کی اس کمزوری کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ: وَلَقَدْ عَھِدْنَـآ اِلٰٓی اٰدَ مَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ ۲۰:۱۱۵) ’’اور تحقیق ہم نے اس سے پہلے آدم ؑ سے عہد لیا لیکن وہ بھول گیا اورہم نے اس میں عزم نہیں پایا‘‘ ۔کہیں اس بات کا تذکرہ ہے کہ: اَلَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰلکَ فَعَدَلَکَ (الانفطار۸۲:۷)’’جس نے تمھیں پیدا کیا نک سک سے درست کیا اور ٹھیک ٹھیک متناسب بنایا‘‘، اور کہیں یہ کہا گیا ہے کہ: وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا (بنی اسرائیل ۱۷:۱۱) ’’اوربے شک انسان بڑا جلد باز ہے‘‘۔ وکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا (بنی اسرائیل ۱۷:۶۷) ’’اورانسان واقعی بڑا ناشکرا ہے‘‘۔ وکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا o (بنی اسرائیل۱۷:۱۰۰) ’’واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہو ا ہے‘‘۔
کسی بھی داعی اور مصلح کے لیے اور بالخصوص جو افراد قیادت کے منصب پر فائز ہوتے ہیں اُن کے لیے اس بات کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہر انسان خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، تعلیم یافتہ ہو یا اَن پڑھ ،قائد ہو یا کارکن، حتیٰ کہ کسی نیکی یا شر کے کام کا علَم بر دار ہی کیوں نہ ہو، اُس میں خوبیاں بھی ہوں گی اور کمزوریاں بھی۔خوبیوں اور کمزوریوں کے تناسب میں فرق ہو سکتا ہے لیکن یہ بات بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزوریوں اور خامیوں سے پاک صر ف ایک ذات ہے اور وہ خود خالق کائنات ہے۔ سبحان اُسی کی صفت ہے اور وہ اپنی اس صفت میں یکتا ہے۔ اپنی ذات میں ہرخامی، کمزوری اور عیب سے پاک صرف اللہ بزرگ و برتر کی ذات ہے۔ انسانوں میں جو جتنا زیادہ اپنے آپ کو غلطیوں سے پاک رکھتا ہے وہ اتنا ہی اللہ رب العالمین کو محبوب ہے ۔انبیا کی معصومیت بھی ان معنوں میں ہے کہ اگر کبھی بشر ی کمزوری کی بنا پر اُن سے کسی غلطی کا صدور ہونے لگے تو اللہ رب العالمین خود اُن کی حفاظت فرماتا ہے اورانھیں اُس غلطی سے بچا لیتا ہے یا اُن کی اصلاح فرما دیتا ہے۔ سورئہ یوسف میں اللہ رب العالمین اپنی اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ ج وَھَمَّ بِھَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ ط ( یوسف،۱۲:۲۴)،’’وہ (زلیخا) اس کی طرف بڑھی اور یوسف ؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی بُرہان نہ دیکھ لیتا‘‘۔
یہ غلطی ضروری نہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سلسلے میں ہی ہو، بلکہ پالیسی اور طرز عمل کے درست نہ ہونے کے سلسلے میں بھی ہو سکتی ہے۔مثال کے طور پر حضوؐر ایک دفعہ کچھ سرداروں کو دین کی دعوت دے رہے تھے کہ ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہؓ ابن مکتوم نبیؐ سے کچھ پوچھنے کی جسارت کر بیٹھے۔ بشری تقاضے کے تحت حضوؐر کو یہ بات ناگوار گزری تو اللہ رب العالمین نے فوراً اصلاح کرتے ہوئے پوری اُمت کو یہ سبق دے دیا کہ اللہ کے نزدیک وہ زیادہ اہم ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس طرح کی اور مثالیں بھی قرآن میں موجود ہیں۔مثال کے طور پر قرآن کی یہ آیات سامنے رہیں: یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ( التحریم ۶۶:۱ )،’’اے نبیؐ! جو چیز اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے آپ اس سے کیوں کنارہ کشی کرتے ہیں؟‘‘ عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ (التوبہ ۹:۴۳ )، ’’اللہ آپ کو معاف کرے۔ آپ نے ان کو کیوں اجازت دی؟‘‘
صحابہ میں حضرت عمر ؓ کی مثال کو سامنے رکھیے۔ اُن کا مقام اور مرتبہ یہ ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا لیکن اللہ نے نبوت کا سلسلہ میرے اُوپر بند کر دیا ہے۔ حضرت عمر ؓوہ ہیں کہ جن کی راے کے درست ہونے کی تصدیق کئی مرتبہ خود اللہ رب العالمین نے کی۔ لیکن ذراغور کیجیے کہ جب حضرت عمر ؓ تورات کے چند اوراق لیے نبی ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بارگاہ رسالتؐ سے انھیں کیا جواب ملا۔اسی طرح جب جیش اسامہؓ کے بارے میں حضرت عمر ؓ نے خلیفہ وقت کو قائل کرنا چاہا تو حضرت ابوبکرؓ نے انھیں کتناسخت جواب دیا اور وقت نے یہ بات ثابت کی کہ خلیفہ کی بات درست تھی۔حضرت حاطبؓ کاخط والا واقعہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔
ان تمام باتوں سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ تزکیہ اور تربیت کرنے والوں کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ممکن ہے کہ بڑے سے بڑا شر رکھنے والا انسان بھی اپنے اندر کوئی خوبی رکھتا ہو اور اُس کی بنا پر اللہ رب العالمین اُس کے لیے ہدایت کے دروازے کھول د ے ،اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بڑے سے بڑے خیر کے علَم بردار سے کسی غلطی اور کوتاہی یا کمزوری کا ظہور ہو جائے۔ لہٰذاداعی اور مصلح کاکام اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا اور اُسے درست سمت میں رکھناہے نہ کہ کسی کی کمزوری اور خامی کو بہانہ بنا کر مایوس ہو کر بیٹھ رہنا ہے۔
اس چیز کو ذہن میں رکھنے سے دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
۲- دوسرا یہ کہ جب انسان ذمہ دار اور قیادت کے منصب پر فائز لوگوں کے غلط فیصلے دیکھتا ہے یا اُس کے سامنے اُن کی کوئی ذاتی کمزوری آتی ہے تو وہ مایوس ہو کر اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتا، بلکہ اُن کی اصلاح کی طرف اور زیادہ متوجہ ہو جاتا ہے۔ اس سے تحریکوں میں بددلی نہیں پھیلتی اور نشانات منزل راستے کی گردو غبار میں دھندلے نہیں ہوتے۔
۳- اسی طرح جب ایک قائد اور ذمہ دار اپنے ماتحت افراد میں کوئی کمی اور کوتاہی دیکھتا ہے تو جھنجھلاہٹ اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اور زیادہ تندہی کے ساتھ اُن کی اصلاح پر لگ جاتا ہے۔
اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ ہر انسان خوبیوں اور کمزوریوں کا مرقّع ہے، تو یہ بات بھی بڑی آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ ہر انسان کے لیے ہر حوالے سے آئیڈیل بننا یا بنانا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید یہ واضح کرتا ہے کہ غیر مشروط اطاعت اللہ رب العالمین کے بعد صرف انبیا کی ہے۔ یہ صرف نبی ہوتا ہے جو اپنی اُمت کے لیے آئیڈیل ہوتا ہے۔ اُسی کی پیروی ہی میں انسان کی نجات ہے، باقی سب کی اطاعت اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے تابع ہو گی ،لہٰذا یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہمارے لیے انسانوں میں آئیڈیل ذات صرف رسولؐ اللہ کی ہے۔ اس کے بعد جو جتنا نبیؐ کے قریب ہو گا اتنا ہی ہمارے لیے قابل احترام ہو گا لیکن اُس کا کوئی عمل، حکم یا نظریہ اور راے یہ مقام کبھی نہیں پا سکتا کہ اُس میں اصلاح کی گنجایش نہ ہو ۔ نہ کسی کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ اور رسول ؐ کی ہدایت کے مخالف کوئی حکم دے تواُس کی بھی غیر مشروط اطاعت کرنا ہو گی۔
یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس بات کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم آئیڈیل کی طرف دیکھنا یا سفر کرنا چھوڑ دیں۔ ہرگز نہیں، آئیڈیل تو ہوتا ہی اس لیے ہے کہ ہر وقت مرکز نگاہ رہے ۔ہر قدم اُس کی طرف اُٹھے، ہر منصوبہ اُسی کے لیے ہو، لیکن اگر کام میں کمزوری رہ جائے ،کوئی قدم ڈگمگا جائے یا کسی غلطی اور کوتاہی کا صدور ہو جائے تو انسان کسی جھنجھلاہٹ،مایوسی اورشک کا شکار نہ ہو ۔ گویا آئیڈیلزم کا بھوت سر پر سوار کرنا درست نہیں کہ ایسا اور ایسا کیوں ہوا؟ اور چونکہ یہ ہوا ہے لہٰذا ہماری ساری کی ساری محنت اکارت گئی ۔اب تحریک میں پہلے کی طرح روحانیت نہیں رہی، ہم اپنے مقصد سے ہٹ گئے ہیں، یا اب پہلے کی طرح کا اخلاص نہیں رہا وغیرہ وغیرہ، یا اس بنیاد پر کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے، کوئی مسئلہ نہ بن جائے، ہم لوگوں پر تحریک کے دروازے بند کر دیں یا راستہ اتنا پیچیدہ کر دیں کہ کوئی آگے بڑھ ہی نہ سکے۔ یاد رکھیے اگر حضوؐر کی تیار کردہ جماعت میں گروپنگ ہوسکتی ہے تو اب بھی ہو گی۔ اگر اُن میں لڑائیاں ہو سکتی ہیں (باوجود اپنے تمام تر اخلاص کے) تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔اگر نبی ؐ کا تربیت یافتہ فرد کسی موقع پر کمزوری دکھاسکتا ہے تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے اور جس طرح نبیؐ کی جماعت میں چند افراد کو قرآن منافقین کا نام دے سکتا ہے تو یہ مسائل اب بھی پیش آ سکتے ہیں۔ لہٰذا تحریکوں میں آئیڈیلزم نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ اب ہے اور نہ آیندہ ہو گا۔
ایسی صورت حال میں ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ یقینا منزل کی طرف سفر ہی کامیابی کی کنجی ہے۔اپنی خوبیوں کو بڑھانا ہو گا، غلطیوں کی اصلاح کرنا ہو گی ،کمزوریوں سے صرف نظر کرنا ہو گا، اللہ سے اپنے لیے معافی مانگنا ہو گی اور دوسروں کو خود معاف کرنا ہو گا۔ خوبیوں کی تعریف کرنا ہو گی اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنا ہو گی ۔اللہ کے رسولؐ نے شاید اسی لیے فرمایا تھا، جو اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے گا ،اللہ قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی کرے گا۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ دوسروں کو معاف کرنے والے اُن کی غلطیوں سے صرف نظر کرنے والے اور اُن پر احسان کرنے والے اللہ کو بڑے پسند ہیں ۔اس ضمن میں محترم خرم مرادؒ نے نبی کریمؐ کے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں اور بڑی مفید ہدایات دی ہیں (کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے، ص ۱۳۳-۱۳۹)
یاد رکھیے مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں۔ مسائل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن مسئلہ تو بہر حال مسئلہ ہے چاہے کسی قسم کا ہو۔ گھروں میں ،گلی محلے میں، اداروں میں اور تحریکوں میں مسائل ہوتے ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ مسائل قبرستان میں نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ وہاں زندگی نہیں ہوتی، جہاں زندگی ہو گی وہاں مسائل بھی ہوں گے۔ یہ مسائل غیروں کے پیدا کردہ بھی ہو سکتے ہیںاور اپنوں کے بھی، بلکہ کچھ مسائل تو انسان خود اپنے لیے پیدا کر لیتا ہے۔
۱- بعض مسائل حقیقت میں موجود نہیں ہوتے ،ہم فرض کر لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہی چیز ہمارے لیے بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ صرف اپنی سوچ کو بدل لینے سے ہی بہت سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔اپنی سوچ اور روّیے کو بدل لینا تو بعض اوقات بہت سے حقیقی مسائل کو بھی ختم کر دیتا ہے، لہٰذا سب سے پہلے تو یہ بات سوچنی چاہیے کہ اس مسئلے میں میرا کیا کردار ہے؟ اور میں اس کو کیسے حل کر سکتا ہوں؟مجھے اپنے اندر کیا تبدیلی لانا ہو گی کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے یا آیندہ کبھی پیدا نہ ہو۔ فرض کریں ایک بچہ آپ سے نفرت کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ آپ اُس سے نفرت کرتے ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ آپ اپنے اخلاص کے ساتھ جب اُس کی اصلاح پر توجہ دیتے ہیں تو حکمت عملی میں کسی خرابی کی وجہ سے یہ اخلاص منفی انداز میں آگے منتقل ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے اُسے جھڑکتے ہیں یا اُسے اُس کے جائز حقوق سے بھی محروم کر دیتے ہیں، یا اُس کے مسئلے کو سمجھنے کے بجاے اپنی راے پر اصرار کرتے ہیں تو ایسی صورت حال میں صرف اپنی سوچ اور روّیے کی اصلاح ہی ممکن ہے کہ بچے کی اصلاح کا سبب بن جائے۔
۲- دوسری بات یہ کہ ضروری نہیں ہر مسئلے کو فوراً ہی حل کیا جائے۔ بعض اوقات صرفِ نظر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور ایسا اس صورت میں تو اور بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ جب ایک مسئلے کا ختم کرنا دوسرے بہت سے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن جائے۔ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کے بارے میں جب آنحضوؐر سے کہا گیا کہ اس فتنے کو ختم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے، تو محسنِ انسانیت ؐ کا جواب یہ تھا کہ لوگ کہیں گے کہ’’محمد ؐ اپنے ساتھیوں کو مروا رہا ہے ‘‘۔ مقصد یہ تھا کہ اس ایک مسئلے کو ختم کرنے سے کئی دوسرے مسائل جنم لیں گے، لہٰذا آپؐ نے در گزر کرنے کی پالیسی ہی جاری رکھی حالانکہ یہ ایسا شخص تھا کہ جس کی منافقت کے بارے میں کوئی دو راے نہ تھیں۔ نبیؐ کا اس معاملے میں طرزِعمل تو یہاں تک تھا کہ آپ اُس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی اُٹھ کھڑے ہوئے تھے لیکن اللہ رب العالمین نے خود منع فرما دیا: ’’اور آیندہ ان میں سے جو کوئی مرے تو اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اُس کی قبر پر کھڑے ہونا ‘‘۔(التوبہ ۹:۸۴)
۳- پاکستان کی اس وقت کیا صورت حال ہے؟ ہم نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں چند چھوٹے مسائل کو حل کرنے کے لیے غیروں کے کہنے پر اور اُن کی سازش کا حصہ بن کر اپنی ساری قوت جھونک دی، اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اب وہ چھوٹے مسائل ایک عفریت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ جب تک ہم نے حکمت کے ساتھ اُن مسائل کو حل کرنے اور بعض جگہوں پر صرف ِنظر رکھنے کی پالیسی رکھی ، ہم اطمینان میں تھے اور زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے۔ آج نہ گورنمنٹ کی رِٹ باقی ہے نہ ملک سے محبت اور ہمدردی باقی رہی ہے، بلکہ اُلٹا ہم کئی دوسرے مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ بعض مسائل کو بروقت حل ہونا چاہیے اور مسائل کو جوں کا توں نہیں رہنا چاہیے لیکن ایسا ہم صرف اپنی بساط کی حد تک کر سکتے ہیں۔ ہمیں مسائل کے بجاے امکانات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ جو بندہ صر ف مسائل کو حل کرنے میں ہی اپنی ساری قوت جھونک دیتا ہے، وہ منزل کی طرف سفر نہیں کر سکتا ۔اُس کی پیش قدمی رُک جاتی ہے اور مسائل کے دبائو کے اندر مستقبل کے لیے سوچنے، منصوبہ بنانے اور آگے کی طرف بڑھنے کا عمل نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے ذمہ داران کو بالخصوص اس چیز کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول دبائو سے پاک ہو اور شیطان مسائل میں اُلجھا کر ہمیں منزل کی طرف پیش قدمی سے روک نہ دے۔
خرم مراد مرحوم نے اس عنوان پر بڑی خوب صورت بات کہی ہے کہ ’’آپ یہ سمجھ لیں کہ سارے مسائل حل نہیں ہوں گے اور تنظیم کو اپنی قوتوں کا ایک حصہ اگر مسائل کو حل کرنے میں لگانا چاہیے، تو میں یہ کہنے کی جرأت کر وں گاکہ بعض مسائل کو حل کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ مسائل حل کرنے میں جتنی قوت کھائیں گے اُس قوت سے ہم کئی گنا زیادہ قوت اور پیدا کرسکتے ہیں ‘‘۔(تحریک کے تقاضے ،ص ۸۲)
۴-تزکیہ اور تربیت کا عمل ایک مسلسل عمل ہے۔یہ عمل کسی مشین کا سا عمل نہیں ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک مخصوص طرز اور قسم کی شے حاصل ہو جائے۔ یہ ایک مسلسل ہونے والا عمل ہے۔ کسی ایک کتاب کے پڑھنے سے، کسی ایک اجتماع میں شرکت سے، یا کوئی چلہ لگانے سے یہ عمل مکمل نہیں ہوتا۔ تذکیر، تزکیہ اورتربیت ہر وقت ہر جگہ اور ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان ایک مستقل اور جامد شے کا نام نہیں ہے۔ یہ گھٹتا او ربڑھتا رہتا ہے۔ حضرت حنظلہؓ کا واقعہ اس بات کی بڑی عمد ہ اور خوب صورت تصدیق کرتا ہے اور معلم انسانیت ؐ کا جواب رہتی دنیا تک کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنے ایمان کی فکر کرو اور اس فکر سے کبھی غافل نہ ہو۔ نماز روزانہ دن میں پانچ مرتبہ یہ تربیت کرتی ہے ۔روزہ ہر سال پورا ماہ مسلسل ہماری تربیت کرتا ہے۔قرآن کا پڑھنا ہرنماز میں لازمی ہے۔ یہ تمام باتیں اس چیز کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمیں کسی بھی مقام پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں رہنا، بلکہ مسلسل اس کام کو کرتے جانا ہے ۔قرآن نے یہ دُعا بھی سکھائی ہے: رَبَّناَ لاَ ُتزِغْ قُلُوبَناَ بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا (اٰل عمرٰن۳:۸)،اے ہمارے رب ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ کرنا۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ اس سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن اگر کوئی غلطی کے بعد سچے دل سے توبہ کرے اور آیندہ نہ کرنے کا عہد کرے اور نیکی کے راستے پر گامزن ہوجائے، تو اللہ اُن گناہوں کو نہ صرف معاف کر دیتا ہے بلکہ انھیں نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (الفرقان۲۵:۷۰)،اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو یہی لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں تبدیل کر دیں گے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
قرآن اُن لوگوںکو خوش خبری سناتا ہے جو بار بار پلٹنے والے ہیں:
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (التوبہ۹:۱۱۲)، اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گُن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے وہ مومن جو اللہ سے بیع کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ، ان مومنوں کی خوش خبری دے دو۔
اللہ کا بندے سے رویہ کیا ہے اور انسانوں کا کیا ہونا چاہیے۔ ذرا دیکھیے:
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء۴:۱۱۰)،اور جو کوئی برائی کا مرتکب ہو یا ا پنے آ پ پر ظلم کر بیٹھے پھر وہ اللہ سے معافی چاہے تو اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے بار بار کسی ایک غلطی کا صدور بھی ہو سکتا ہے اور کسی نئی غلطی کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بات کسی کو الجھن میں نہ ڈالے کہ اس طرح تو غلطی کرنے کا کھلا لائسنس مل جائے گا۔ نہیں، توبہ کے سہارے پر کسی مومن کا اپنی غلطی کو دہرانا دُرست نہیں اور نہ ایسی کوئی توبہ قبول ہی ہوتی ہے جس میں مزید گناہ کی خواہش موجود ہو۔ توبہ تو ہوتی ہی وہ ہے جو سچے دل کے ساتھ اور پشیمانی کے جذبے سے ہو، لیکن انسان ہونے کے ناطے یہ تو ہو سکتا ہے کہ انسان سچے دل کے ساتھ توبہ کرے لیکن اُس غلطی کا صدور اُس سے پھر ہو جائے۔
غلطی اور کوتاہی کی عمومی و جوہات میں ایک بڑی وجہ انسان کا بھول جانا ہے (فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا’’پس وہ بھول گیااور ہم نے اس میں عزم نہ پایا ۔ طٰہٰ ۲۰:۱۱۵)۔ لہٰذا تزکیہ اور تربیت کا کام مسلسل کرنے اور ہونے والا کام ہے۔ کسی بھی لمحے اور کسی بھی منصب تک پہنچنے کے بعد اس سے اعراض نہیںبرتنا چاہیے، نہ نتائج کے سامنے آنے پر ہی تزکیہ کاکام روک دینا چاہیے۔
بعض اوقات غلطی او ر کوتاہی کے سبب کو دُور کر دینا ہی اصلاح کا سبب بن جاتا ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے اس بات پر بڑی توجہ دی ہے کہ اُن اسباب کوکم کر دیا جائے جو غلطیوں اور گناہوں کا سبب بنتے ہیں۔ اگر اسباب کا جائزہ لیں تو چند ایک بڑے سبب درج ذیل ہیں:
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کے تزکیے کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود اُس کے اپنے اوپر عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نہ صرف خیر و شر کی تمیز دی ہے : فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس۹۱:۸)،’’پس ہم نے اسے نیکی اور بدی دونوں الہام کردیں‘‘، بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ دنیا میں اُس کو یاد بھی دلایا جائے: ’’اور کوئی اُمت نہیں مگر اس میں ایک خبردار کرنے والا گزر چکا ہے‘‘۔(فاطر۳۵:۲۴)
قرآن نے اہل جہنم کا ایک مکالمہ بیان کیا ہے کہــ’’ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم تو اپنے بڑوں اور سرداروں کے پیچھے لگے رہے پس انھوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کیا۔یااللہ! ان کود گنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر‘‘(الاحزاب ۳۳:۶۷-۶۸)۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔ـ’’جس وقت کوئی جماعت جہنم میں داخل ہو گی وہ دوسری جماعت کو لعنت کرے گی۔جب سب لوگ اس میں جمع ہو جائیں گے تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراہ کیا ،سو ان کو دوزخ کا عذاب دو گنا دے۔اللہ فرمائے گا کہ سب ہی کا دو گنا ہے لیکن تم کو خبر نہیں‘‘۔ (الاعراف ۷:۳۸، ۳۹)
ا نسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں، کوتاہیوںاور تربیت نہ ہونے کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیراتا ہے،حالانکہ کوئی انسان ،کوئی کتاب اور کوئی تقریریا اجتماع کسی دوسرے کی تربیت نہیں کر سکتا جب تک کہ خود انسان کا اپناارادہ نہ ہو ۔یہ تو تربیت کے ذرائع ہیں جو سہولت بہم پہنچاتے ہیں۔ یہ انسان کو منزل کی طرف گامزن رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے مدد گار تو ہیں لیکن ذمہ دار نہیں۔ ذمہ داری انسان کی اپنی ہے۔ خرم مراد مرحوم نے بڑی خوب صورت بات لکھی ہے کہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کہ کوئی فرد اجتماعیت کو اپنی خرابیوں اور کمزوریوں کا ذمہ دار ٹھیرانا شروع کردے کہ چونکہ یہ نہیں ہوا،اس لیے تربیت نہیں ہو رہی۔
نماز کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’بے شک نماز برائی اور بے حیائی سے بچاتی ہے ‘‘(العنکبوت۲۹:۴۵)۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نماز کی ادایگی کرنے والے انسان بھی بعض اوقات برائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس میں قصور نماز کا نہیں انسان کا اپنا ہوتا ہے کہ نماز جس مقصد کے لیے تھی اُس نے اس پر توجہ نہ دی۔ اس لیے تربیت کے ذرائع استعمال ہونے چاہییں، اُن سے مدد لینی چاہیے لیکن فرد کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دینا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْھَا ج وَلَا تَزِ رُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی ج (الانعام، ۶:۱۶۴) ،’’ہرشخص جو کماتا ہے اس کی ذمہ داری اسی پر ہے۔کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا‘‘۔ تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْخَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (البقرہ ۲:۱۳۴)، ’’یہ ایک گروہ تھا جو گزر چکا ۔اس کے لیے ہے جو اس نے کمایا۔اور تمھارے لیے ہے جو تم نے کمایا۔اور جو کچھ وہ کرتے رہے تھے اس کے متعلق تم سے سوال نہیں کیا جائے گا‘‘۔ وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ ط وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ (فاطر ۳۵:۱۸)،’’اور جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنے ہی لیے اختیار کرتا ہے۔اور اللہ ہی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘۔
یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔ مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِیْ ج وَمَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (الاعراف ۷:۱۷۸)، ’’جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے پس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں‘‘۔ داعی کا کام کوشش کرنا ہے، اتنی کوشش کہ حق ادا ہو جائے۔ وَجَاھِدُوْ فِیْ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط (الحج۲۲:۷۸)، ’’اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔
یہ درست ہے کہ اچھی تقریر، اچھی مثال، داعی کا اخلاص، داعی کا اپنا طرزِعمل اور اس طرح کے دیگر عوامل کسی فرد کو ہدایت کی طرف لانے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن یہ سب عوامل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، اگر اللہ کی طرف سے توفیق اور اعانت نہ ہو۔ نبی ؐ سے بہتر کون سا داعی ہو سکتا ہے؟ آپؐ سے بہتر دلائل کس کے پاس تھے؟آپؐ کے اخلاص پر کون شبہہ کر سکتا ہے؟ کس کو حق ہے کہ آپؐ کے طرزِعمل پر نکتہ چینی کرے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ابولہب جو رشتے میں آپؐ کا سگاچچا تھا ایمان نہیں لایا تھا۔ بعض لوگوں کے بارے میں تو اللہ رب العالمین نے واضح اعلان فرمادیا تھا کہ اے میرے نبیؐ آپ ان کی ہدایت کے لیے بہت حریص ہیں لیکن اللہ تو صرف اُس کو ہدایت کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے : ’’(اے محمدؐ)آپ ان کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو جائیں (مگر)اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیتااور ایسے لوگوں کا پھر کوئی مددگار نہیں ہوتا‘‘ (النحل ۱۶:۳۷)۔ اسی لیے اہل ایمان کو ہدایت کی گئی کہ اگر کبھی شیطان کی طرف سے تم کوئی رکاوٹ محسوس کرو، یا وہ تمھیں ہدایت سے ہٹانے کی کوشش کرے تو فوراً اللہ سے مدد طلب کرو بے شک وہ سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی۔(اعراف ۷:۲۰۰)
جب ذہن میں یہ بات واضح ہو جائے کہ ہدایت صرف اللہ کے اختیار میں ہے تو لوگوں کی اصلاح کے لیے داعی کا نقطۂ نظر اور طرزِعمل یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ ا ب اُس کی نفرت مریض سے نہیں مرض سے ہو گی۔ اب کسی فرد کی غلطی کو دیکھ کر اُس کا اضطراب زبان سے اظہار میں اسے محتاط بنا دے گا۔ داعی اپنے رب سے ہاتھوں کو پھیلا کر اپنے بھائی کی اصلاح کے لیے دُعائیں کر رہا ہو گا۔ یہ چیز اُس کی زبان میں شیرینی اور اُس کی حکمت عملی میں اخلاص کی ضمانت بن جائے گی، اور محاسبہ اور احتساب کی محفل نصیحت، ہمدردی، سچائی ،اخلاص اور محبت کی عمدہ مثال بن جائے گی۔
بعض اوقات اپنے بھائی کی اصلاح کے لیے اختیار کیا گیا طرز عمل بھی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے اُس کی عزت ِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس لیے تنقید اور محاسبہ ہمیشہ علیحدگی میں ہونا چاہیے۔ جب تک متعلقہ فرد سے علیحدگی میں بات نہ کر لی جائے اُس کے متعلق کسی دوسرے کے کان میں اُس کی بھنک بھی نہ جانی چاہیے۔
غیبت کی تعریف ہی یہ کہ ہے کہ اپنے کسی بھائی کی برائی اُس کی پیٹھ کے پیچھے بیان کرے جو واقعتا اُس میں موجود ہو۔ اگر برائی موجود ہی نہیں تو یہ بُہتان ہے۔ ذرااندازہ لگائیے قرآن غیبت کو کتنا بُرا فعل قرار دیتا ہے جس کو ہم جوش اصلاح میں بڑے فخر اور تکبّر کے ساتھ کرجاتے ہیں: ’’کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، دیکھو تم خود اس سے کراہت کرتے ہو‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۲)۔اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ کسی کی عزت، وقار اوراحترام میں فرق نہ آئے۔ اگر کسی کی عزت مجروح ہو گی تو اس سے اصلاح کے بجاے اور بگاڑ پیدا ہوتاہے۔ اکثر اوقات دوسرا فرد اپنی غلطی پر ڈٹ جاتا ہے اور تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ قرآن نے اس کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اورجب اُس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو،تو اُسے اپنی عزت کا خیال گناہ پر جما دیتا ہے، پس اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔(البقرہ۲:۲۰۶)
انفرادی طور پر بھی بات کرنے کا انداز یہ ہونا چاہیے کہ ایک غلطی فہمی کو دُور کرنا مقصد ہے۔ فرد کو مجرم نہیں ٹھیرانا چاہیے۔ بات اگر اشارے کنائے میں ہو جائے تواور زیادہ بہتر ہے ۔ بڑے سے بڑا مجرم ہی کیوں نہ ہو بات نرمی سے ہونی چاہیے:’’ دونوں فرعون کی طرف جائو بے شک وہ سرکش ہو گیا ہے۔ پس اس سے نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے‘‘ (طٰہ ۲۰:۴۳-۴۴)۔ اگر اس سے اصلاح نہ ہو تو کسی ذمہ دار فرد کی مدد لینی چاہیے جو بہتر انداز میں فرد کو متوجہ کرسکتا ہو اور اگراس سے بھی اصلاح نہ ہو تو پھر اجتماعی فورم کا استعمال کرنا چاہیے۔نیز اگر کوئی فرد اپنی غلطی دُور کر لیتا ہے تو کبھی اُس کی سابقہ غلطی کا تذکرہ زبان پر نہیں لانا چاہیے، یہ انتہائی غلط اور فتنہ پیدا کرنے والی بات ہو گی اور اللہ کے نزدیک انتہائی بُرا فعل ہے۔
تزکیۂ نفس، انسانوں کی اصلاح اور ان کی کمزوریوں کو دُور کر کے خوبیوں کو پروان چڑھانا کہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ٹھیریں ایک ہمہ گیر اور کٹھن کام ہے جو بہت سے تقاضوں اور حکمت پر مبنی ہے۔ اگر مذکورہ بالا چند اہم اُمور کو پیش نظر رکھا جائے تو اُمید ہے کہ تزکیہ و تربیت کا عمل نتیجہ خیز ثابت ہوگا اور فرد کی تربیت کے لیے بہت سی راہیں کھلیں گی۔
مقالہ نگار جماعت اسلامی گجرات کے نائب قیم ہیں
(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور- فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲)
دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمان ہرسال لاکھوں کی تعداد میں دُوردراز سے سفر کرنے کے بعد ملّت کے قلب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا رُخ کرتے ہیں اور حج اور عمرہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا کوئی عالمی میلہ نہیں ہے کہ اولمپک کی طرح سے لوگ تفریح اور سیاحت کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اور میدانِ عرفات میں جاکر قیام کریں، بلکہ یہ ایک جسمانی، روحانی اور نفسیاتی عبادت ہے جس کے صحیح طور پر ادا کرلینے کے بعد ایک نیا مسلمان اور نیا انسان وجود میں آتا ہے۔ اس شعوری عمل کے نتیجے میں انسان کے قلب و دماغ کے ہرہرگوشے میں پائی جانے والی کمزوریوں کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور جس طرح ایک معصوم بچہ شکمِ مادر سے دنیا میں آتا ہے، ایسے ہی ایک زائر، حج کرنے کے بعد برف کے گالے کی طرح پاک و صاف ہوکر نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ سید مودودیؒ نے اس عمل کو جسم میں خون کی گردش اور قلب سے گزرنے کے بعد خون کی اصلاح و پاکیزگی سے تعبیر کیا ہے کہ جس طرح تمام جسم سے خون کھینچ کر قلب کی طرف جاتا ہے اور قلب سے گزرنے کے بعد تزکیے کے بعدجسم کو توانائی دینے کے لیے پھر گردش میں آجاتا ہے، اسی طرح تمام اہلِ ایمان اپنی کمزوریوں، بھول و نسیان اور خطائوں کے ساتھ حرم شریف کی طرف جاتے ہیں اور میدانِ عرفات میں اپنی غلطیوں کے اعتراف ، عزمِ اصلاح اور عہدِنو کے ساتھ گھروں کو واپس ہوتے ہیں، تاکہ اُمت مسلمہ ہرسال ایک عملی تطہیر و تزکیے کے ذریعے تازہ قوت، بلند حوصلوں اور قابلِ عمل اصلاحی حکمت عملی سے لیس ہوسکے۔
اگر غور کیا جائے تو حج اور عمرہ اور اسلام کے تصورِ ہجرت میں ایک انتہائی قریبی معنوی ربط پایا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے مکہ مکرمہ کی آزمایشوں کی بھٹی سے گزرنے کے بعد حبشہ اور مدینہ منورہ ہجرت کی، ان کے مقام کی بلندی اور ان کے خلوص کا اعتراف قرآن و سنت نے تحسینی کلمات کے ساتھ کیا اور انھیں کامیاب اور بامراد قرار دیا۔ حضرت عمرؓ کی مشہور روایت میں نیت کو اعمال کی بنیاد قرار دیتے ہوئے جو مثال سمجھانے کے لیے استعمال فرمائی گئی، وہ ہجرت ہی کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے لیے ہجرت کی وہ کامیاب ہوگیا۔ حج اور عمرہ کا وجوب بھی قرآن کریم کی آیت مبارکہ وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ (البقرہ ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوش نودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گِھرجائو تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو‘‘، اور وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (الحج ۲۲:۲۷) ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں‘‘، سے بطور ایک عبادت و فریضہ ثابت ہے۔ مشہور حدیث میں اسلام کے ارکان میں حج ایک رکن کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لیکن سوال یہ اُبھرتا ہے کہ آخر اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے کہ ہرسال لاکھوں افراد اپنا مال، وقت، اور محنت صرف کر کے اس فریضے کو انجام دیں۔
پہلی ہجرت ایک مومن اس وقت کرتا ہے جب وہ یہ نیت کرے کہ اسے حج کرنا ہے۔ اس کا نیت کرنا اپنے رُخ اور قبلے کو درست کرنے کے بعد یہ ارادہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ایک عبداً شکوراً بنانے کے لیے تیار رہے۔ ہجرت کی جانب اس کا دوسرا قدم اس وقت اُٹھتا ہے جب وہ اُس مال کی طرف دیکھتا ہے جو اُس نے بڑی محنت اور مشقت کے بعد کمایاتھا اور طے کرتا ہے کہ اس مال کو اللہ کی راہ میں صرف اُس کی خوش نودی کے لیے، اس کے گھر کی زیارت کے لیے استعمال کرے۔ یہ خواہش اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ جس مال کو وہ اِس غرض کے لیے استعمال کرنے جا رہا ہے، کیا اسے جائز اور حلال طریقے سے حاصل کیا تھا یا غیراخلاقی ذرائع سے۔ما ل کا یہ تزکیہ اس کے ایمان اور صرف حلال کمائی کے ذریعے ایک اچھے کام کو کرنے کی تربیت کرتا ہے۔
اس عمل کے دوران تیسری ہجرت کا آغاز اس وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ اپنے اہلِ خانہ، دوستوں، کاروباری شراکت داروں، غرض ہرفرد کی وابستگی سے نکل کر صرف اللہ کے لیے ان سب کو پسِ پشت ڈال کر صرف اللہ کی طرف لپکتا ہے اور زبان اور دل سے کہنا شروع کرتا ہے کہ میں حاضر ہوں، مالک میں حاضر ہوں۔ صرف آپ کی ایک آواز کے جواب میں، سب کچھ پیچھے چھوڑ کر، آپ کے گھر کی طرف رُخ کر رہا ہوں اور یہ اس لیے کر رہا ہوں، کہ آپ اور صرف آپ، سب سے اعلیٰ، بلند، عزیز، حمد کے مستحق اور نعمتوں کے دینے والے ہیں۔
حج و عمرہ کے لیے نکلتے وقت وہ چوتھی ہجرت اس وقت کرتا ہے جب اپنے قومی لباس، اور زبان کو ترک کر کے صرف دو سفید چادروں میں اپنے آپ کو لپیٹ کر سفر پر روانہ ہوتا ہے، اور عملاً اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ انسانی ضروریات کو خود اپنے ہاتھ اور ارادے سے کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق بھی کرتا ہے کہ اس کی اصل پہچان نہ اس کا قومی لباس ہے نہ قومی زبان، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بندہ بن جانا اسے دنیا کے تمام انسانوں سے ممتاز کرتا ہے۔
پانچویں ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب اس کی پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہے اور وہ جذبات سے بے تاب ہوکر طلب ِعفو و درگزر اور شعوری اور غیرشعوری گناہوں کے احساس کے ساتھ ایک سوالی بن کر اس عظمت والے گھر میں قدم رکھتا ہے۔ انسانوں کے اس سمندر میں جو طوفانی ریلے کی طرح اللہ کے گھر میں موجزن نظر آتا ہے، وہ عاجزی اور خاکساری اختیار کرتے ہوئے دوسروں کو تکلیف نہ دینے کی خاصیت پیدا کرتا ہے۔
چھٹی ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب وہ مراسمِ حج سے فارغ ہونے کے بعد اس عزمِ نو کے ساتھ اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو تمام غلامیوں سے نکال کر صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی میں دے چکا ہے۔ اس لیے بات وہ کرے گا جو حق ہو۔ کام وہ کرے گا جو حلال ہو، نگاہ وہ ڈالے گا جو پاکیزہ ہو، اور اپنے گھر، معاشرے اور ملک میں صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کام کرے گا، اور ان تمام رسومات سے اپنے آپ کوکاٹ لے گا جو اس کی برادری اور دوستوں نے ایجاد کررکھی ہیں۔
حج اور عمرہ کے ذریعے ہونے والی ہجرت اسے اُس مقام سے قریب تر لے آتی ہے جو اسلام کے دورِ اوّل میں اللہ کے نیک بندوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے لیے قربان کرنے کے بعد حاصل کیا تھا۔ یہ ہجرت فتح مکہ کے بعد اور قیامت تک اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹ کر اُن افراد میں شامل ہوجائے جن کا جینا اور مرنا، جن کی قربانی اور عبادت، جن کی فکروعمل صرف اور صرف احکم الحاکمین کی مرضی کے تابع ہوتی ہے، اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہر بندگی پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ ہجرت زندگی میں ایک مرتبہ حج کرلینے اور حسب ِاستطاعت ایک سے زائد عمرے کے ذریعے زندگی میں کئی بار بھی کی جاسکتی ہے، لیکن صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت میں دینا مقصود ہو۔