تزکیہ و تربیت


نماز سب سے افضل عبادت ہے۔یہ بدنی عبادت ہے۔قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں ہی بازپرس ہوگی۔ نمازی کو یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضوراس کے حکم کی تعمیل میں حاضر ہے اور اس کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کررہا ہے۔ عبادات میں سے  نماز کی تاکید قرآن وحدیث میں سب سے زیادہ ہے، لہٰذا اس کے فوائدو ثمرات بھی دنیا وآخرت میں بہت زیادہ ہیں۔یوں تو اہل علم نے نماز کے اجتماعی،سماجی،اور اخلاقی فوائد پرکافی گفتگو کی ہے مگر نماز کے صحت سے متعلق فوائدپرسیر حاصل بحث نہیں کی۔اس مضمون میںنماز کے صحت سے متعلق فوائد وبرکات پر مختصرا عرض کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انسانی علوم و معارف میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، اسلامی عبادات کے اسرار، حکمتیں اور فوائد بھی اتنے ہی زیادہ ظاہر ہوتے جائیں گے۔

  • امراضِ قلب سے حفاظت: نماز کے یوں تومتعدد صحت بخش فوائد ہیں مگر اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کوامراضِ قلب سے محفوظ رکھتی ہے۔انسانی دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے،یہ اس کا زندگی بھر کا معمول ہے۔تاہم جب نمازی نماز کے دوران رکوع وسجود کرتا ہے تو اس سے دل کو سہولت وآرام ملتا ہے۔ اس کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔اس سے پہلے کہ ہم ان صحت بخش فوائد کا تجزیہ کریں،جو نمازکی بدولت انسان کے دل اور اس کے بدنی اعضا کو حاصل ہوتے ہیں، ضروری ہے کہ ہم دل کی کارکردگی اور اس کی اہم سرگرمیوں کو جانیں۔ اس میں کیا  شک ہے کہ دل جسم انسانی کااہم ترین عضو ہے۔دل تو اس وقت بھی کام کر رہا ہوتا ہے جب انسان ابھی جنین کی صورت میں اپنی ماں کے رحم میں ہوتا ہے۔اس وقت سے لے کرانسان کی زندگی کے آخری لمحات تک دل مسلسل جسم کی تمام اطراف وجوانب میں خون پہنچانے میں مشغول رہتا ہے۔

سینے کی سطح سے بلندجتنے اعضا ہیں، مثلاً سر،ان تک خون پہنچانادل کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ان تک خون کودھکیلنے کے لیے اسے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ تاہم، جب انسان رکوع اورسجدے کی حالت میں ہوتا ہے تو دل کے لیے دماغ، آنکھ، ناک، کان اور زبان وغیرہ تک خون پہنچانا آسان ہوجاتاہے کیونکہ ان اعضا کا تعلق سر سے ہے اور سر سجدے میںدل سے پست وزیریں سطح پر ہوتا ہے۔اس حالت میں دل کی سخت مشقت میں کمی اور اس کے کام میں تخفیف ہو جاتی ہے۔دل کو یہ آرام و راحت صرف سجدے کی حالت میں نصیب ہوتا ہے۔اس لیے کہ جب ہم کھڑے ہوتے ہیں یا بیٹھتے ہیں یا جب ہم تکیے پر سر رکھ کر لیٹتے ہیںتو سر دل سے اونچائی کی حالت میں ہوتا ہے لہٰذا ان صورتوں میںدل کو مکمل آرام نہیں ملتا۔ لیکن سجدے کی حالت میں دل کا کام آسان ہو جاتا ہے،جیسے گاڑی نشیب کی طرف چلنے میں آرام میں رہتی ہے۔

اس پر ہرگز تعجب نہ ہونا چاہیے کہ دل کو سجدے کی حالت میںاپنی کارکردگی میںجوآسانی اور سہولت ملتی ہے،اس سے دل کے دورے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔دل کا دورہ پڑنا اس دور کی عام پھیلی بیماریوں میںسے سب سے خطرناک ہے۔یاد رہے کہ دل جب اپنی مسلسل محنت سے تھک جاتا ہے تو انسان کوسستی،کمزوری،اضمحلال،سردرد،سرچکرانا،سینے میں درد،بے ہوشی اور خرابی طبیعت کا سامناکرنا پڑتا ہے۔جدید طب میںان تمام علامات کا علاج یہ ہے کہ دوائوں کے ذریعے دل کو سرگرم ومستعد کر دیا جائے۔دوائوں کے ذریعے دل کو یوں مصنوعی طور پر سرگرم ومستعدکرنے کے نتیجے میںکبھی کبھی دل تباہ ہی ہو جاتا ہے،اور اس کی مکمل بربادی سے پہلے اس کی طبیعی کارکردگی بتدریج  کم زور پڑنے لگتی ہے،مگر رات اور دن میں کئی باررکوع و سجود کرنے والے کا دل بہت سے اوقات میں راحت وآرام پالیتا ہے۔نمازی کے دل کو ملنے والا یہ آرام، دل کے سخت مشقت کے عمل میں تخفیف ( relief)کاسبب بنتا ہے اور خطرات سے بچنے میں دل کی مدد کرتا ہے۔

  • دماغ کو تقویت:سجدہ کرنے کے فوائدمحض دل تک محدود نہیں ہیںبلکہ سجدہ کرنے سے دماغ کو بھی مدد ملتی ہے تا کہ وہ اپنی کارکردگی کوپوری چستی ومستعدی کے ساتھ سرانجام     دے سکے۔ مزیدبرآں یہ کہ سجدہ کرنے سے انسان دماغ کی جریانِ خون( hemorrhage)سے بچ جاتا ہے۔ دماغ سے خون کا یہ بہنادماغ کی داخلی رگوں کے ٹوٹنے سے ہوتا ہے اور یہ نتیجہ ہوتا ہے بلند فشارِخون(ہائی بلڈ پریشر)کا، یاشوگر کی بیماری کا، یا خون میں کولسٹرو ل کی مقدار زیادہ ہونے کا، یا ان دیگر اسباب کا جو جدید طرزِزندگی کے تلخ ثمرات ہیں۔حتی کہ یہ مرض انسانیت کے لیے  انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔

کئی بارسجدہ کرنے والے نمازی کے دماغ کوایسی قوتِ مدافعت مل جاتی ہے کہ وہ دماغ کے جریانِ خون سے محفوظ ہو جاتا ہے۔وہ اس لیے کہ سجدے کی حالت میںسر تک خون زیادہ اور خوب پہنچتا ہے کیونکہ سردل سے نچلی حالت میں ہوتا ہے۔پھر نمازی کے دماغ کی شریان کو بار بار یہ موقع ملتا ہے کہ خون کی ایک بڑی مقدارسجدے کی حالت میں سر تک پہنچتی رہتی ہے۔یوں دماغ کی شریان کو اتنی قوت مل جاتی ہے کہ فشارِخون کے وقت وہ ہمہ گیرتباہی مچانے والے خون کے گزرنے کوبرداشت کر لیتی ہے۔ یہ بالکل ایسا عمل ہے جیسے مسلسل ورزش،مشقت،ریاضت اور کسرت کرنے سے انسان کے پٹھوں کوقوت وطاقت ملتی ہے۔

نماز کے دوران ایسی جسمانی ورزش ہوتی ہے جو تمام لوگوں کے لیے موزوں ہے۔ نماز کے سجدے اور رکوع بدن کے قدرتی وظائف اور ان کی طبیعی کارکردگی میں رکاوٹ نہیں بنتے بلکہ نماز کی تمام حرکات___ رکوع، سجود، جلسہ،قیا م___انسان کی طبیعت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔نماز میں زندگی کے کسی بھی طبقے اور عمر کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لیے صحت کا کوئی خطرہ یا نقصان نہیں،بلکہ سراسرفوائد ومنافع ہی ہیں۔

  •  اوقاتِ نماز میں حکمت:پانچوں نمازوں کے اوقات مقرر کرنے میں بھی حکمت ہے۔ انسان جب صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتا ہے تو وہ راحت و نشاط محسوس کرتا ہے،چنانچہ   اس وقت میں اللہ تعالیٰ نے صرف دو رکعات نماز فرض کیں۔اس کے سات یا آٹھ گھنٹے بعدتک انسان اپنے کام کاج میں مصروف رہتا ہے،لہٰذا اللہ نے اس طویل دورانیے میںکوئی نماز فرض نہیں کی۔ ظہر کے وقت انسان اپنے کام کی وجہ سے تکان محسوس کرنے لگتا ہے،اس وقت کے لیے اللہ نے چار فرض مقرر فرمائے ہیں۔سنن و نوافل اس سے الگ ہیں۔نمازِظہر ادا کرنے کے تقریباًتین چار گھنٹے بعدنمازِ عصر کا وقت ہو جاتا ہے،جب کہ عصر کے تقریبا دو گھنٹوں بعدمغرب کی تین رکعات ادا کرنا فرض فرمائیں، اور مغرب کے تقریبا ڈیڑھ دو گھنٹے بعدعشاء کی چار رکعات فرض ہیں۔

ان اوقات کوگہری نظرسے دیکھنے پر ہم پر یہ بات واشگاف ہوگی کہ ان پانچ اوقات میںوقفوں کے تھوڑا یا زیادہ ہونے کا تعلق انسان کی تھکاوٹ اور چستی سے ہے۔دن کے آغاز میں جب جسمِ انسانی تازہ دم اور آرام میں ہوتا ہے، نماز کی رکعات کی تعداد کم ہوتی ہے۔دن کے اختتام پرجب انسان تھکاوٹ، اُکتاہٹ اوربے چینی زیادہ محسوس کرتا ہے تو اللہ نے اس پرتھوڑے تھوڑے وقفوںسے زیادہ رکعات والی نمازیں فرض کی ہیں۔اس سے ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیںکہ نماز     جسمِ انسانی کوچست اور تازہ دم رکھتی ہے،جیسے کہ وہ بے حیائی اور برائی سے باز رکھتی ہے۔

  • نماز سے گردوں کی کار کردگی میں مدد:طبی تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کھڑے ہونے یاورزش کرنے کی حالت میں،جسمِ انسانی میںگردوں کی طرف خون کا بہائو کم ہوجاتا ہے،جب کہ سجدے یا لیٹنے کی حالت میںخون کا بہائو بڑھ جاتا ہے۔ان تجربات کی روشنی میںسائنس دانوں نے یہ حقیقت دریافت کی ہے کھڑے ہونے اور بیٹھنے کی صورتوں میںگردوںکی طرف خون کا بہائوکم ہو جاتا ہے،جب کہ رکوع و سجود کی حالتوں میں یہ بہائو بڑھ جاتا ہے۔سارا دن کھڑے رہنے والوںپر کیے گئے مطالعے سے یہ واضح ہواہے کہ ان لوگوں میںگردوں کی طرف خون کے بہائو کی مقدارکم ہوتی ہے۔نیز کھڑے رہناان میں پیشاب کی مقدار کوکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔سجدہ کرتے اور لیٹتے وقت خون کے اس بہائو کی مقدار میںاضافہ ہو جاتا ہے۔جب گردے کی طرف خون کی رو میںتیزی ہوتی ہے تو گردوں کے پردوں پردبائوپیدا ہوتا ہے اور ان میں خون کی صفائی کاعمل بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیشاب کی مقداربھی بڑھ جاتی ہے۔سجدے کی حالت میں پیشاب کی مقدار کے بڑھنے کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ گردوں کی جانب خون کے بہائومیں اضافہ ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رکوع،سجود اور لیٹنے کی حالتوں میں پیشاب بننے کا عمل بڑھ جاتا ہے۔ اگر ہم نماز اداکرنے سے پہلے پیشاب نہ کریں تو دورانِ نماز کوفت ہوتی ہے۔یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا موزوں ہوگاکہ رسولِ اکرمؐ نے پیشاب پاخانہ روک کرنماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ نماز اداکرنے سے پیشاب بننے کے عمل میں تیزی پیدا ہوتی ہے،جس سے دورانِ نمازاس طرف دھیان زیادہ ہوتا ہے،حتی کہ نمازی کا خیال نماز سے بالکل ہٹ جاتا ہے۔
  •  نمازسے شوگر کے مرض میں کمی:جدید سائنسی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ لیٹنے اور جسم کو ڈھیلا چھوڑنے سے صحت کی ان خرابیوں میںکمی ہوتی ہے جن کا شوگر کے مریضوں کو سامنا ہوتا ہے۔اس لیے کہ شوگر کے مریض جب طویل مدت تک کھڑے رہتے ہیںتو پیشاب کے ذریعے ان کے جسموں سے البومین(albumin)کی خاصی مقدارمزید کم ہو جاتی ہے۔انھیں تھکاوٹ اورکمزوری ہو جاتی ہے۔اس میں شک نہیںکہ لیٹنے کا یہی فائدہ شوگر کے مریضوں کونماز میں رکوع وسجود سے مل جاتا ہے۔ایک طبی تجربے کے بعدشوگر کے مریضوں نے اپنی جسمانی تکالیف میں، اس وقت راحت اور کمی پائی،جب انھیں بہت تھوڑی مدت کے لیے لیٹنے کا موقع دیا گیا۔    وہ بیمار جنھیں کام کے دوران لیٹنے کا موقع کم ملتا ہے، اگر وہ اس دوران نمازیں ادا کر لیں تو نماز اور سجدوں کی برکت سے وہ لیٹنے سے بھی زیادہ استراحت کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

ذیابیطس کے مریضوں کو زیادہ دیر تک کھڑے رہنا،بیٹھنا اور سخت مشقت کرنا مناسب نہیں۔ ہاں، وہ کچھ ہلکی ورزشیں اور کام کر سکتے ہیں۔ان ہلکی ورزشوں میں سے نمایاں ترین نماز ہے،کیونکہ نماز سے کسی نفس پر اس کی استطاعت وگنجایش کے مطابق ہی ذمہ داری پڑتی ہے۔نماز کے اجزا میں سے اہم ترین سجود ہیں۔یہ ایک ایسی آسان ورزش ہے جو دل کو کافی آرام پہنچاتی ہے۔اس سے تمام اعضا تک آسانی سے خون پہنچتا ہے بلکہ سجدہ کرنا تو لیٹنے سے بھی زیادہ مفید ہے۔کیونکہ اس سے شوگر کے مرض کی علامات اور شکایات میں کمی کرنے میں مدد ملتی ہے۔بالفاظِ دیگر نماز جسمانی ورزش کی تمام اقسام سے افضل ہے۔نیز نماز دل کو راحت پہنچانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔

  •  نماز اور خواتین:جدید تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ نماز جیسی بدنی حرکات اور ورزش حاملہ خواتین کو بہت زیادہ فائدہ دیتی ہیں، جب کہ ایامِ ماہواری میں سے گزرنے والی خواتین کوبہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔نمازگزار جب رکوع و سجود سے کھڑی ہوتی ہے تو رحم کی جانب خون کے بہائو میں اضافہ ہوتا ہے۔بلاشبہہ حاملہ خاتون کے رحم کو وافر خون کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ جنین کو خوب غذا مل سکے اور جنین کے خون کی آلودگیوں سے صفائی ہو سکے۔حائضہ اگر نماز ادا کرے تواس کے رحم کی طرف زیادہ خون جاتا ہے اور یہ ایک بے فائدہ کام ہوگا۔ اگر بالفرض حائضہ نماز پڑھے تو یہ نماز ادا کرنا اس کے بدن کے دفاعی نظام کے خراب ہونے کا سبب بنتا ہے، کیونکہ خون کے سفید ذرات ضائع ہو جاتے ہیں، جو بدن کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

طبی نقطۂ نظر سے حائضہ خواتین کو ورزش اورپرمشقت کام کرنا مناسب نہیں۔دینی لحاظ سے ان پرنما ز ادا کرنا حرام ہے کیونکہ جسم کی حرکت سے___ بالخصوص رکوع و سجود میں___ خون رحم کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور یوں وہ بے مقصد ضائع ہوجاتاہے اورجسم سے معدنی نمکیات ضائع ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایام کی حالت میں آرام کریں اور بہتر غذا استعمال کریں تاکہ ان کے جسم سے خون ضائع نہ ہو اور خون کی کمی سے قیمتی نمکیات رائیگاں نہ ہوجائیں۔دینِ اسلام نے اسی حکمت کے تحت حائضہ خواتین کو روزہ رکھنے سے منع کر دیا ہے۔ان ایام کے آغاز سے پہلے خواتین کو تھکاوٹ،پشت اور ٹانگوں میں درد، قبض کی شکایت، اسہال،   سردرد اور پیشاب میں اضافہ وغیرہ کی تکالیف ہوتی ہیں۔اس بات کا بھی احتمال ہوتا ہے کہ خاتون کوماہانہ معذوری سے پہلے غصہ، جھنجھلاہٹ، مایوسی، بے چینی اور طرزِعمل میں فرق کاسامنا کرنا پڑے، حتیٰ کہ اس مدت میں میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑے کی بھی نوبت آجاتی ہے۔نماز کے فوائد ناقابلِ شمار ہیں،اگرنفسیاتی اضطرابات میںمبتلا لوگ نماز اداکریں تو وہ ان سے نجات پاسکتے ہیں۔

  • نماز سے پہیپہڑوں کے امراض سے تحفظ: سجدے کی حالت میں پھیپھڑے کے پہلے حصے کی طرف خون کی ایک بہت بڑی مقدار پہنچتی ہے۔ یاد رہے کہ اسے خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔سجدوں کی برکت سے اس کا تدارک ہو جاتا ہے۔ ذرا اس طرف دھیان دیجیے کہ نماز کی ادایگی ان اوقات میں فرض کی گئی ہے جن میں انسان کام کاج میں مشغول ہوتا ہے نہ کہ لیٹنے اور نیند کے اوقات میں ۔معلوم ہوا کہ سجدے کرنا پھیپھڑوں کی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ سجدوں اور رکوع کی حالت میں خون پھیپھڑوں کی تمام اطراف میں پہنچتا ہے اور نقصان دہ کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے بجاے آکسیجن لے کر پھیپھڑوں میں سے گزرتا ہے۔بلاشبہہ نماز جسم کو چستی ، چوکسی اور تازگی فراہم کرتی ہے ۔سجدے سے پھیپھڑو ں کے خون کی صفائی میں مدد ملتی ہے۔ پھیپھڑوں کی طرف رواں خون کی بہتات کے راستے میں آسانی ہو جاتی ہے۔میڈیکل سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ پھیپھڑوں میں کینسر کو اس وقت رونما ہونے کا موقع ملتا ہے جب اس کے خلیات کو آکسیجن نہیں مل پاتی۔علاوہ ازیں پھیپھڑے کے خلیے میں آکسیجن کی کمی دیگر امراض کے ظہور کا سبب بنتی ہے، کیونکہ پھیپھڑوں کی طرف پہنچنے والے خون میں کمی کی بنا پر قوت ِمدافعت کمزور پڑ جاتی ہے۔یہیں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے قیلولہ کس قدر ضروری ہے۔ جب پھیپھڑ ے کی طرف خون کے بہاؤ میں کمی ہوتی ہے تو پھیپھڑے کے پہلے حصے پر مرضِ سل(ٹی بی) حملہ آور ہوتا ہے۔ کیونکہ پھیپھڑوں کی طرف جانے والے جراثیم پھیپھڑے کے درمیانی حصے میں اکھٹے ہوتے رہتے ہیں۔ اگر پھیپھڑے تک وافر مقدار میں خون پہنچنا ممکن ہو تو تمام خلیات سیراب ہوتے ہیں۔ یہ سیرابی ، ان خلیات کو قوتِ مدافعت بخشنے کا اہم سبب بنتی ہے۔ سجدے پھیپھڑوں کے خلیوں کو قوت ِمدافعت دیتے ہیں اور انھیں بیماریاں لگنے سے محفوظ بنا دیتے ہیں۔
  • ھارمونزکی مستعدی میں نماز کے اثرات: جاپان کی ہیروساکی یونی ورسٹی کے میڈیکل کالج کے ایک سائنس دان تکاہاشینوبیوشی نے پیشاب کے بارے میں اپنے تحقیقاتی مطالعات کے بعد بتایا ہے کہ زیادہ دیر تک کھڑے ہونے کی صورت میں جسم میں ضرررساں ہارمونز بننے میں اضافہ ہو جاتا ہے، جب کہ اس حالت میں نفع رساں ہار مونزکی پیدایش کم ہوجاتی ہے۔لیٹنے کی حالت میں مفید ہارمونز کی افزایش بڑھتی ہے اور نقصان دہ ہارمونز کی تعدادگھٹتی ہے۔ ان ہارمونزکی بناوٹ میں سجدے کی حالت بھی لیٹنے کی حالت سے ہی مشابہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ سجدوں کی حالت کو اس حالت کی مانند ہی سمجھا جاتا ہے جو جسم کوصحت کے فوائد عطا کرتی ہے اور پھر اس پرزیادہ وقت بھی صرف نہیں ہوتا۔سجدے قلب دماغ،گردوں،پھیپھڑوںاوردیگر تمام اعضا کوفائدہ پہنچاتے ہیں۔ ملحوظ رہے کہ بعض منفعت بخش ہارمونز کے بننے سے جسم کو کچھ فائدے ملتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انسان فجر کے وقت تازگی ونشاط محسوس کرتا ہے،کیونکہ اس کے جسم میں کورٹیسون کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر شام کووہ جسم سے کورٹیسون کے جاتے رہنے سے تھکاوٹ، سُستی،اور اضمحلال محسوس کرتا ہے۔ کورٹیسون کی کمی سے انسان اپنی ہڈیوں میں بوجھ محسوس کرتا ہے، خون میں کیلشیم بڑھ جاتا ہے اور دانتوں اور ہڈیوں کو طاقت فراہم کرنے والے وٹامن کی تحلیل میں گڑبڑہو جاتی ہے۔کھڑے ہونے کی حالت میں خون کی رگوں میں سکڑنے اور سمٹنے کی بناپر کورٹیسون ہارمون کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ فشارِخون کی حفاظت ہو سکے۔ اگر یہ ہارمون حد سے زیادہ ہو جائے تو اس کا جسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔انسان گھبراہٹ،بے آرامی،بے چینی اور غیظ وغضب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

  •  تھجد کی فضیلت اور دائیں کروٹ سونے کا فائدہ:طبی تحقیقات و مطالعات نے ثابت کر دیا ہے کہ سونے کی جتنی بھی شکلیں ہیں ان میں سے سب سے بہتر دائیں کروٹ سونا ہے۔نبی رحمتؐ نے فرمایا کہ جب تم اپنے بستر پر آئوتو اس طرح وضو کر لوجیسے تم نماز کے لیے وضو کرتے ہو،پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جائو۔ انسان جب دائیں جانب لیٹ کر سوتا ہے تو دل کا شمالی حصہ تقریباً چار سنٹی میٹر بلند ہوتا ہے۔ دل سینے میں بالکل عمودی حالت میں واقع نہیں ہے،بلکہ وہ سینے کی نیچے جانب بائیں طرف کو جھکا ہوا ہے،جب کہ دل کی بلند جانب دائیں طرف ۱۰ درجے کی مقدارمیں ہے۔لہٰذا دائیں کروٹ سونا اس بات میں مدد کرتا ہے کہ بائیں حصے سے، یعنی دل کے اُونچے حصے سے خون جسم کی تمام اطراف میں شریان کبیر (aorta)کے ذریعے جاری رہے۔

دائیں طرف سونے کی حالت میں___ بائیں ہاتھ کے ماسوا___تمام اعضاے بدن یا تو دل کی سطح کے برابر ہوتے ہیں یا دل سے نیچے ہوتے ہیں،لہٰذا خون جسم کے زیادہ تر اجزا میں تیزی اور آسانی کے ساتھ___کشش ثقل کے قانون کی رُو سے___ جاری ہوتا ہے جس سے جسم کو بہت راحت وسکون ملتا ہے۔دل کو یہ راحت کھڑے ہونے،بیٹھنے یا چلنے کی حالتوں میں نہیں ملتی کیونکہ ان حالتوں میں دل اس پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ ان اعضا تک خون پہنچائے جو ۹۰درجے کے زاویے کی مقدار میں اس سے اونچے ہوتے ہیں۔ جب ہم نیندسے بیدارہونے کے بعدنمازِتہجد ادا کرتے ہیں تو خون دائیں اور بائیں دونوں جانب برابر چلتا ہے۔سجدوں کی حالت میں دل کا عمل ہلکا ہو جاتا ہے،کیونکہ دل آسانی کے ساتھ خون کو سر تک پہنچاتا ہے، یوں دل کو آرام کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔مزیدبرآں یہ کہ دماغ،پھیپھڑے اور دل سے مربوط رگیں اور سینے سے اُوپر تک واقع تمام اعضا،سجدے کی حالت میں دل کی سطح سے نیچے ہوتے ہیں، لہٰذا خون آسانی اور تیزی کے ساتھ ان اعضا تک پہنچتا ہے۔ یوں نمازِتہجد نماز گزار کی تندرستی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

نمازِ تہجد کے وقت ہر طرف خاموشی ہوتی ہے۔ تہجدگزار کو نماز کے کلمات و اذکار، خصوصاً قرآنِ مجید کی آیات میں تدبر، غوروفکر اور تامل کا موقع ملتا ہے۔ سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ غوروفکر سے نفسیاتی دبائو کم ہوجاتا ہے۔ دل کی دھڑکنیں پُرسکون ہوتی ہیں۔ غوروفکر سے شریانوں پر حملے کا احتمال کم ہوجاتا ہے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ رات کے تین بجے سے لے کر   صبح کے چھے بجے کے مابین جسمِ انسانی میں، خون میں کورٹیزون کے بلند ہونے سے، اس وقت  دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ فضا میں اوزون کی موجودگی سے اس کا اثر جسم پر پڑتا ہے۔ لہٰذا اس وقت اگر ہم نمازِ تہجد، نمازِ فجر اور تلاوتِ قرآن کریم میں مشغول ہوجائیں تو ان اعمال کی برکت سے ہم اس دورانیے کے مضر اثرات اور ان سے جنم لینے والے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

  • نماز اور ذھنی صحت:مسلمان ہمیشہ پر امن رہے ہیں۔ ان کا دین اسلام ہے  جس کے معنی ہی سلامتی ہیں۔مسلمان جب بھی کسی انسان سے ملتا ہے تو اسے السلام علیکم کہہ کر،  سلامتی ورحمت کا تحفہ دیتا ہے۔جدید تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ نماز تشدد،سختی اور جرائم سے باز رکھتی ہے۔مسلمان جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے دماغ تک وافر مقدار میں خون پہنچتا ہے۔چنانچہ مغز میں برپا ہونے والے برقی وکیمیاوی عمل میں سجدے سے مدد ملتی ہے۔ اس سے نمازی کو بردباری اور  سمجھ ملتی ہے،جب کہ سجدہ نہ کرنے والوں کے دماغ اس تروتازگی اور تراوٹ سے خالی اور محروم رہتے ہیں۔ ان کے دل نرمی سے دُور رہتے ہیں۔نماز انسان کو نہ صرف سختی اورتشدد سے باز رکھتی ہے بلکہ بے حیائی اوربرائی سے بھی روکتی ہے۔اگر ہم امتِ مسلمہ اور غیر مسلموں دونوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں اوران میں جرائم کی شرح کا موازنہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اُمت ِ مسلمہ میں مظالم و منکرات  کم ہیں، جیسے سودخوری، بدکاری،شراب نوشی،منشیات کا استعمال، استعماریت، لوٹ کھسوٹ اور جنسی بے راہ روی، ایڈز وغیرہ۔ یہ تمام مہلک امراض مسلمانوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور   ان میںبھی وہی نام نہاد مسلمان مبتلا ہوتے ہیں جو اسلام سے قطعی دور اور غیر اسلامی طرزِزندگی کے قریب تر ہوتے ہیں۔اُمت ِمسلمہ تو اپنے پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے۔اس لیے مسلمانوں میںرافت،نرم دلی،رحمت،عدل اور احسان کی صفاتِ حسنہ پائی جاتی ہیں۔یہ نتیجہ ہے ایمان اور عبادات کی ادایگی کا۔ سختی، تشدد، خیانت اور دھوکا یہ سب شرک و کفر کے کڑوے پھل ہیں۔ یہ انھی دلوں میں اُگتے ہیں جن پر اللہ نے ان کے کفر وتکبر کی وجہ سے لعنت کی ہے۔

 

آخر وہ کیا چیز تھی جس نے ہمارے جدامجد حضرت آدم علیہ السلام کو راحت، خوشی اور مسرت کے ابدی مقام جنت سے رنج و غم اور مصیبت کے گھر (یعنی دنیا) میں لاڈالا؟ آخر وہ کون  سا قدم تھا جسے اُٹھانے کے بعد، ابلیس کو آسمانی بادشاہت سے نکال پھینکا گیا اور راندہ درگاہ اور لعنت و ملامت کے قابل بنا دیا گیا۔ اس کے ظاہر و باطن کو مسخ کرڈالا گیا۔ وہ جنت میں تھا لیکن  دہکتی ہوئی آگ اُس کا مقدر بنی۔ وہ جو تسبیح و تقدیس اور وحدانیت کے وظیفے کو حرزِجاں بنائے ہوئے تھا، اب کفروشرک، مکروفریب، دروغ گوئی اور فحاشی اُس کی فطرت ثانیہ بنی۔

آخر کیا وجہ تھی کہ عاد کی قوم پر ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے اس قوم کے ایک ایک قدآور اور بلندوبالا فرد کو کھجور کے لمبے تنے کی طرح مُردہ اور بے حس و حرکت کر کے زمین پر ڈال دیا۔ ان کی آبادی، کھیت و کھلیان، چوپائے اور مویشی غرض ایک ایک چیز فنا کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ وہ  کون سا جرم تھا جس کی پاداش میں ثمود کی قوم پر ایسی چیخ اور چنگھاڑ مسلط کی گئی جس کی تیز آواز نے ان کے دل، سینے اور پیٹ کو چیر کر رکھ دیا۔ اسی طرح وہ کیا غلیظ حرکات تھیں جن کے اصرار پر قوم لوطؑ کی بستیوں کو اتنا اُونچا اُٹھایا گیا کہ آسمان کی بلندی پر قدسیوں نے ان بستیوں کے کتوں کی آوازیں سنیں، پھر اُس بستی کو اُلٹ کر انھیں اندھا کر دیا گیا۔ آسمان سے ان پر پتھروں کی مسلسل بارش ہوتی رہی، اور ایک ایک متنفس ہلاک کردیا گیا۔ وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے شعیب علیہ السلام کی  قوم پر سائبان کی شکل میں بادلوں کا عذاب نازل کیا گیا۔ اَبر کی یہ چھتری جب ان کے اُوپر تن جاتی تو اس کے اندر سے آگ کے شعلے نمودار ہوتے اور دہکتے ہوئے انگاروں کی بارش ہوتی۔ اسی طرح آخر وہ کیا چیز تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو دریا میں ڈبو دیا، جس نے قارون کو اس کے گھربار اور اہل و عیال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جس کی پاداش میں بنی اسرائیل پر ان سے زیادہ سخت گیر قوموں کو مسلط کیا گیا۔ انھوں نے مردوں کو تہِ تیغ کیا، بچوں اور عورتوں کو غلام اور کنیز بنایا، گھربار کو آگ لگا دی اور مال و دولت کو لوٹ لیا۔ آخر کیوں ان مجرم قوموں پر طرح طرح کی سزائوں کو نافذ کیا گیا، کبھی وہ موت کے گھاٹ اُتارے گئے، کبھی قیدوبند میں مبتلا ہوئے۔ ان کے گھر اُجاڑے گئے اور بستیاں ویران کی گئیں، کبھی ظالم بادشاہ ان پر مسلط کیے گئے۔ کبھی ان کی صورتیں بندر اور سور کی بنا دی گئیں۔ بے شک وہ چیز، وہ جرم، وہ غلیظ حرکات اور عمل صرف اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں اختیار کیے گئے گناہوں پر اصرار تھا۔ جس کے نتیجے میں ماضی میں لاتعداد افراد اور قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس قاعدے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میری اُمت میں گناہوں کی کثرت ہوگی تو اللہ ان پر اپنا ہمہ گیر عذاب مسلط کرے گا۔ میں (اُم سلمہؓ) نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ان دنوں   ان کے اندر نیک لوگ نہیں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ میں نے عرض کیا تو ان کے ساتھ کس قسم کا برتائو ہوگا؟ فرمایا: عام لوگوں کو جو مصیبت پہنچے گی وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے۔ پھر انجامِ کار اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ان کا ٹھکانا ہوگی۔ (مسنداحمد)

حضرت حسن کی ایک مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اُمت اس وقت تک اللہ کے ہاتھ کے نیچے اور اس کے جوارِ رحمت میں ہوگی، جب تک اس اُمت کے امرا اپنے علما کی موافقت اور ان کی اعانت کریں گے۔ اُمت کے صالحین، فاسقوں اور فاجروں کو صالح اور نیک بنائیں گے اور اچھے لوگ ، بُروں کی اہانت اور تذلیل نہیں کریں گے اور جب وہ غلط عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اُوپر سے اپنا ہاتھ اُٹھا لے گا۔ پھر ان کے اُوپر انھی میں سے سرکش لوگوں کو مسلط کرے گا، جو انھیں بدترین عذاب دیں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں فقروفاقہ میں مبتلا کرے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی مہاجرین کی دس کی جماعت میں، مَیں دسواں آدمی تھا۔ (ہم بیٹھے تھے کہ) اتنے میں رسولؐ اللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’پانچ قسم کی عادتوں سے میں اللہ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو تم اس کا شکار ہوجائو:

۱- جو قوم کھلم کھلا بُرائی اور بے حیائی کرے گی، اللہ انھیں بھوک اور طاعون میں اس طرح مبتلا کرے گا کہ اس سے پہلے کبھی کوئی اس طرح مبتلا نہیں ہوا ہوگا۔

۲- اور جو ناپ تول میں کمی کرے گا اللہ تعالیٰ انھیں قحط سالی، سخت محنت، مشقت اور ظالم بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کرے گا۔

۳- اور جو قوم اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دے گی، اللہ تعالیٰ انھیں بارش کے قطروں سے محروم کردے گا اور اگر ان کے مویشی نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند بھی ان پر نہ برستی۔

۴- جو قوم عہدشکنی کرے گی اللہ ان پر اجنبیوں کو مسلط کرے گا جو ان سے ایک ایک چیز چھین لیں گے۔

۵- اور جب کسی قوم کے حکمران اور امام، اللہ کی کتاب کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو اللہ انھیں آپس میں سخت لڑائی اور جھگڑوں میں مبتلا کردے گا۔ (ابن ماجہ)

اللہ کے نافرمان، فاجر اور بدکار لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کے نتائج کو یکساں ثابت کردیں۔ اچھے اور بُرے افراد میں تفریق اور تمیز ختم کردیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، وہ گناہ گاروں اور نیکوکاروں کے بارے میں دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ نیک اور بد دونوں ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے مرنے کے بعد بھی یکساں سلوک کے مستحق ٹھیریں گے، حالانکہ یہ غیرعقلی، غیرسائنسی دعویٰ محض ان کے بے بنیادگمانوں پر مبنی ہے۔ کیونکہ اسلام کے مطابق مصیبت اور گناہوں کے انسانی جسم اور روح پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہوںکا بُرا اثر انسانی دل اور جسم پر یکساں پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کثرتِ گناہ کے نتیجے میں ہونے والے دنیا اور آخرت میں ہمہ گیر نقصانات کا اندازہ اللہ رب العزت کی ذات کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ یہاں قرآن و سنت کی فکر کی روشنی میں گناہ کے انسانی زندگی پر مضر اثرات بیان کیے جارہے ہیں:

  •  علم سے محرومی: علم اللہ کا نور اور اس کا دیا ہوا اُجالا ہے جسے اللہ سلیم الطبع قلب اور باضمیر روح میں اُتارتا ہے لیکن گناہوں سے یہ نور بجھ جاتا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کا واقعہ ہے کہ جب آپ نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور اُن کے درس میں    شریک ہوئے تو آپ اُن کی ذہانت، ہوش مندی اور کمال سمجھ داری دیکھ کر حیران رہ گئے۔ آپ نے امام شافعیؒ سے فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ اللہ نے تمھارے دل پر نور کی ضیابار کرنیں اُتاری ہیں۔ دیکھنا! اس نور کے چراغ کو گناہوں کی آندھی سے بجھا نہ دینا۔

امام شافعیؒ کا ارشاد ہے کہ ’’میں نے (اپنے استاد) وکیع سے اپنے خراب حافظے کی شکایت کی۔ انھوں نے نصیحت کی کہ معصیت اور گناہ کو چھوڑ دو۔ جان لو کہ علم اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے، اور اللہ کا فضل و کرم کسی نافرمان کو نہیں دیا جاتا‘‘۔

  •  برکت میں کمی:گناہوں کے ارتکاب کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ کثرتِ گناہ سے برکت مٹ جاتی ہے۔ روزی، علم و معرفت، کردار اور اطاعت و بندگی کی برکتیں مٹتی جاتی ہیں۔ چنانچہ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے، اُس کی عمر کم ہوجاتی ہے۔ اگر نیکی سے عمر بڑھتی ہے تو    فسق و فجور اور گناہ سے اس کا اُلٹا اثر ہونا ناگزیر ہے۔ زندگی سے برکتیں ناپید ہوجاتی ہیں، اگرچہ علماے کرام میں اس امر میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک زندگی کی برکتیں زائل ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے زندگی بے برکت اور بے کیف ہوکر رہ جاتی ہے۔ علما کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ کثرتِ گناہ سے زندگی کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے اور روزی میں کمی آجاتی ہے۔ اس کے برعکس پرہیزگاری اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے سے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جیساکہ ارشاد ربانی ہے:

وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ(اعراف ۷:۹۶) اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیزگار بن جاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

  •  ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ:ایک برائی سے دوسری برائی جنم لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برائی کرنے کے بعد انسان اس کی گرفت سے نکلنے اور آزاد ہونے کے قابل نہیں ہوپاتا۔ ہر برائی کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی اس کے بعد دوسری برائی بھی کرتا ہے، جب کہ نیکی کا صلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد دوسری نیکی کی توفیق ملتی ہے۔ گویا جب کوئی بندہ نیک کام کرتاہے تو اس نیکی سے متصل دوسری نیکی کہتی ہے کہ مجھ پر بھی عمل کر، پھر تیسری نیکی کہتی ہے کہ مجھ پر بھی عمل کرتا جا۔ اس طرح یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ بندہ نیک بن جاتا ہے۔ بعینہٖ یہی معاملہ برائیوں کے ساتھ بھی ہے۔ ایک برائی کو چھپانے کے لیے دوسری برائی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اس طرح برائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اطاعت اور معصیت کی اپنی پختہ ہیئت، صورت، کیفیت اور صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے جو نیکی کرتا ہے اگر وہ نیکی کرنا چھوڑ دے تو اس کے دل میں تنگی اور درشتی پیدا ہوتی ہے۔ اُسے زمین کشادہ ہونے کے باوجود تنگ دکھائی دینے لگتی ہے اور دلی طور پر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی حالت ماہیِ بے آب کی سی ہے جو اس وقت تک تڑپتی اور مضطرب رہتی ہے جب تک کہ لوٹ کر پھر پانی میں نہ چلی جائے۔ اس کے برخلاف اگر عادی مجرم (گناہ گار) تائب ہوکر اطاعت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو دل میں عجیب سی گھٹن محسوس کرتا ہے۔ اس کا سینہ جلتا ہے اور راستے بند نظر آتے ہیں اور یہ کیفیت اُس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک وہ لوٹ کر پھر بُرائی نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر فاسق و فاجر لوگ گناہِ بے لذت کے طور پر برائیوں کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے دل میں بُرائی کے لیے کوئی خاص داعیہ اور طلب بھی نہیں ہوتی اس کے باوجود وہ بُرائی کرتے ہیں۔ اس لیے کسی عربی شاعر نے کہا ہے:

دَکَاس شربت علی لذۃٍ
وَاخُرٰی نداؤت منھا بھَا

(شراب کا ایک پیالہ تو میں نے لذت کے حصول کے لیے پیا (اس سے جو درد اُٹھا) اس کے علاج کے لیے دوا کے طور پر دوسرا پیالہ پیا)

 گناھوں کو حقیر سمجہنا:کثرتِ گناہ سے انسان کے دل میں گناہ کا احساس باقی نہیں رہتا۔ گناہ اس کی نظر میں حقیر اور معمولی ہوجاتا ہے۔ یہ علامت حددرجہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہے۔ کیونکہ بندے کی نظر میں گناہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اللہ کی نظر میں وہ بہت بڑا ہے۔ بخاری میں ابن مسعودؓ سے یہ روایت مذکور ہے: ’’مومن جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی اُونچے پہاڑ کی گہری کھائی میں کھڑا ہے، اور ڈرتا ہے کہ کہیں یہ پہاڑ اس کے سر پر نہ آگرے، اور فاسق و فاجر جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے جیسے اس کے ناک پر مکھی بیٹھی ہو اور یوں کرنے (ہاتھ ہلانے) سے مکھی اُڑ کر چلی جاتی ہو‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حقیر گناہوں سے بچتے رہو، کیونکہ یہ گناہ جب جمع ہوجاتے ہیں تو آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں۔ جیسے ایک قوم نے کسی چٹیل میدان میں پڑائو ڈالا۔ اتنے میں کھانے کا وقت ہوجاتا ہے۔ تب ایک شخص جاکر لکڑی لے آتا ہے، دوسرا جاتا ہے وہ بھی کہیں سے لکڑی لے آتا ہے، یہاں تک کہ ڈھیر ساری لکڑیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ پھر اس کا الائو بنتا ہے اور وہ لوگ اس کے اُوپر کھانے کی چیزیں رکھ کر پکاتے ہیں۔(مسند احمد)

  •  وحشت اور گہبراھٹ کا احساس:گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ہمیشہ اَن دیکھے خوف، پریشانی اور گھبراہٹ سے دوچار رہتا ہے۔ یہ ڈر اور گھبراہٹ اسے اپنے اور اپنے رب کے درمیان اتنی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی لذت اور راحت نہ اسے مزا دیتی ہے اور نہ کسی قسم کا آرام پہنچانے دیتی ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کا صحیح اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کے اندر ایمان کی رمق ہو، ورنہ جس کے دل پر مہر لگ جائے تو اسے کہاں احساس ہوگا؟ اس لیے دانا اور ہوش مند کے لیے پہلی فرصت میں یہی مناسب ہے کہ وہ گناہوں کو چھوڑ دے۔
  •  دلوں پر مُھر:گناہوں کی کثرت سے گنہگار کے دل پر مُہر لگ جاتی ہے اور اس کا شمار غافلوں میں ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:  کَلَّا بَلْ  رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo (المطففین۸۳:۱۴) ’’نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کی بداعمالیوں کا زنگ چڑھ گیا‘‘۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ گناہوں کے سبب دل زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ گناہ گار جتنا زیادہ گناہ کرتا ہے، زنگ بھی اتنا بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد گناہ بکثرت کرنے سے گناہ فطرت ثانیہ بن جاتا ہے اور دل پر اللہ کی طرف سے مُہر لگادی جاتی ہے جس کے نتیجے میں دل کے گرد غلاف اور پردہ کھنچ جاتا ہے۔ اس طرح جو ہدایت اور بصیرت اللہ کی طرف سے میسر ہوتی ہے وہ اس سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔
  •  اللّٰہ کے سامنے ذلت:گناہوں اور معصیت کے ارتکاب سے بندہ اپنے رب کے سامنے ذلیل  ہوجاتا ہے اور اُس کی نظروں میں گر جاتا ہے۔ حضرت حسن بصریؒ گناہ گاروں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے ذلیل و خوار ہوکر اپنے رب کی نافرمانی کی اور اگر اپنی    عزتِ نفس کا انھیں ذرا بھی احساس ہوتا تو اللہ تعالیٰ بھی انھیں گناہوں سے محفوظ رکھتا۔ جب بندہ ازخود ذلیل و خوار ہوگا تو بھلا کون اس کا احترام کرے گا۔وَ مَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ (الحج ۲۲:۱۸) ’’اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے‘‘۔
  •  قوتِ ارادی میں کمزوری:مسلسل گناہوں کے ارتکاب سے برائی کا ارادہ نمو پاتا ہے۔ پرہیزگاری پر مبنی زندگی گزارنے کا ارادہ آہستہ آہستہ مضمحل اور کمزور ہوتا جاتا ہے۔ یوں ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب توبہ کا خیال یکسر دل سے نکل جاتا ہے۔ پھر دل میں مایوسی، اُداسی، سستی اور نیم مردنی کے گھر کرلینے کی وجہ سے بندگی کا حق ادا کرنے کا حوصلہ کیسے باقی رہ سکتا ہے۔ ایسے حال میں توبہ و استغفار کی بھی جائے تو وہ بھی عموماً جھوٹ پر مبنی اور زبانی کلامی ہوگی، کیونکہ دل میں کثرتِ گناہ کی وجہ سے یہ خیال ہر وقت انگڑائیاں لے رہا ہوتا ہے کہ کوئی موقع ملے اور گناہ کرگزرے اور اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرے۔
  •  رسولؐ اللّٰہ کی طرف سے لعنت:مسلسل گناہوں کے ارتکاب اور اصرار کی وجہ سے انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ملعون ہوجاتا ہے، اور امکان بڑھ جاتا ہے کہ روزِقیامت وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بھی محروم رہ جائے گا کیونکہ حضرت محمدؐ نے گناہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور جو گناہ جتنا بڑا ہوگا اس کا مرتکب اس کے وبال میں گرفتار ہوگا۔ احادیث سے ہمیں واضح ہوتا ہے کہ وہ عورت جو گودنے والی ہو، گدانے والی ہو، بال جوڑنے والی ہو، جڑوانے والی ہو، بال اکھیڑنے والی ہو، دانتوں کو باریک کرنے والی ہو، ان سب پر لعنت ہے۔ اسی طرح آپؐ نے سود کھانے والے پر، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے، اس کی گواہی دینے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ اسی طرح چور، شرابی، شراب کشید کرنے والے، نچوڑنے والے، اس کو بیچنے اور خریدنے والے پر لعنت بھیجی ہے، اور جس کی طرف پہنچائی جارہی ہو اُس پر بھی لعنت ہے۔ اس طرح اپنے والدین پر جو کوئی لعنت بھیجے، اس کے اُوپر بھی لعنت ہے۔ کسی جان دار ذی روح کو باندھ کر اذیت پہنچانے کی غرض سے نشانہ بازی کرنے والے پر بھی لعنت فرمائی گئی ہے۔ مخنث (ہیجڑا) بننے والے مردوں اور مردوں کا روپ اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت ہے۔ دین میں   نئی بات یا بدعت ایجاد کرنے والے پر لعنت ہے۔ جان داروں کی تصویریں، اغلام بازی (ہم جنسیت) اور بیوی سے دبر سے مجامعت کرنے والے پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اندھے کو غلط راستے پر ڈالنے اور چوپاے سے جفتی کرنے والے پر لعنت ہے۔ قبروں کو سجدہ گاہ بنانے اور بیوی کو خاوند یا غلام کو اس کے آقا کے خلاف ورغلانے پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ رشوت لینے والے، دینے والے اور اس کے لین دین میں درمیانی کردار ادا کرنے والے پر بھی لعنت فرمائی گئی ہے۔
  •  رسولؐ اور فرشتوں کی دعاؤں سے محرومی:گناہوں کا مرتکب اللہ کے رسولؐ اور فرشتوں کی دعائوں سے محروم ہوجاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ وہ مومن مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ اس طرح فرشتے بھی اُن مومنین کے حق میں دعائیں کرتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں، توبہ کرتے ہیں ، کتاب و سنت کی پیروی کرتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ان کی پیروی کے علاوہ کوئی اور راستہ صراطِ مستقیم کے طور پر موجود نہیں ہے۔
  •  غیرت اور حمیت سے محرومی:گناہوں کے انسان کے حق میں مضر اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دل کے اندر سے غیرت اور حمیت کی حرارت بجھ جاتی ہے، جب کہ دل کی زندگی، سرگرمی اور پاکیزگی کے لیے غیرت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ غیرت کی تپش اور سوزش سے ہی دل کا زنگ اور میل کچیل اُترتا ہے۔ اس لیے وہ زیادہ اعلیٰ و اشرف ہوتے ہیں جو عام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ غیرت مند حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ان سے بھی زیادہ غیرت مند اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ صحیح حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے: ’’کیا تم سعدؓ کی غیرت پر تعجب کرتے ہو؟ ہمیں ان سے زیادہ غیرت ہے اور اللہ ہم سے بھی زیادہ باغیرت ہے‘‘۔ صحیح حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ: اللہ سے بڑھ کر کسی کو غیرت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اس نے ظاہر اور پوشیدہ تمام فحش کاریوں کو حرام قرار دے دیا ہے اور معافی اور معذرت جتنی اللہ کو پسند ہے کسی اور کو پسند نہیں۔اس لیے اس نے پیغمبروں کو بھیجا جو بشارت دیتے ہیں، ڈراتے ہیں، اور تعریف جتنی اللہ کو پسند ہے کسی اور کو پسند نہیں ہے اس لیے اُس نے خود اپنی تعریف کی ہے۔

اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے اُس غیرت کے بارے میں بیان فرمایا ہے جو انسان کو قبائح سے کراہت اور نفرت دلاتی ہے۔ اس کے ساتھ معافی کی پسندیدگی کو یک جا کیا ہے، جو  کمالِ عدل، کمالِ رحمت اور کمالِ احسان کا مظہر ہے۔ اور یہ سمجھایا گیا ہے کہ گناہوں سے جتنا زیادہ تعلق ہوگا اُتنی ہی آدمی کے دل سے غیرت نکلتی جائے گی اور وہ خود اپنے حق میں، اپنے گھر والوں اور عام لوگوں کے حق میں بے حس اور بے غیرت ہوتا جائے گا۔ اس لیے جب غیرت کا مادہ مضمحل اور کمزور ہوتا ہے تو ازخود یا کسی اور طرف سے اُسے کوئی بُرائی محسوس نہیں ہوتی۔ جب کسی شخص کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو اس کی ہلاکت میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ اس لیے بیش تر  گناہ گار بُرائی کو بُرائی نہیں سمجھتے۔ فحش کاری اور دوسروں پر مظالم کو اچھا سمجھتے ہیں۔ وہ دوسروں کو  اس کو اپنانے کے لیے رغبت دلاتے ہیں اور اس کا پرچار کرتے ہیں۔

  •  شرم و حیا سے محرومی:گناہوں کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ حیا کا مادہ ختم ہوجاتا ہے، حالانکہ دلوں کی زندگی کے لیے شرم و حیا کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ حیا ہر خیر اور بھلائی کا جز ہے۔ اس لیے صحیح حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے کہ: ’’حیا سراپا خیر ہے۔ لوگوں کو پہلی نبوتوں کی جو باتیں معلوم ہو سکیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تمھارے اندر شرم و حیا نہیں، تو جو چاہو کرو‘‘۔ اس حدیث کی حضرت ابوعبیدہؓ نے شرح بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’اس کا مطلب ہے جس کے اندر شرم و حیا کا مادہ ہو وہ برائیوں سے شرم و حیا کی وجہ سے بھی باز رہتا ہے‘‘۔
  •  خدافراموشی، خود فراموشی:کثرتِ معصیت اور گناہ کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ معصیت یہ چاہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو فراموش کردے اور اسے شیطان کا آلۂ کار اور شکار ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دے۔ اس لیے آدمی کے لیے خدافراموشی اور خودفراموشی سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں ہوسکتی۔ ایسا تغافل جس میں وہ بارگاہ خداوندی سے یکسر اپنا حصہ بھی فراموش کرجائے اور جو کچھ اسے اللہ کی طرف سے عطا ہونے والا ہے اُس سے محروم کردیا جائے، تو پھر اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے! گناہ گار ان اَنمول نعمتوں کو غبن، دھوکا دہی اور معمولی مادی منفعت کے بدلے بیچ دیتا ہے۔ کسی عربی شاعر کا قول ہے:

من کل شی اذا فیعتہ عوض
وما من اللّٰہ ان فیعتہ عوض

( گم کردہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی عوض ہوسکتا ہے لیکن اگر تم اللہ کو گم کردو گے تو اس کے عوض دوسرا نہیں پائو گے)

  •  نعمتوں کا چہن جانا:گناہوں کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں گناہ گاروں سے چھین لی جاتی ہیں۔ آدمی سزا اور انتقام کی زد میں آجاتا ہے اور پھر اُس فرد یا قوم کو عذاب سے دوچار کر کے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ جیساکہ سورئہ شوریٰ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍo (۴۲:۲۹)’’تم لوگوں پر جو مصیبت بھی آئی ہے ، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کرجاتا ہے‘‘۔

یہ اس لیے کہ جو نعمت وہ کسی قوم کو عطا کرتا ہے اسے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْط (الرعد ۱۳:۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔

کسی عرب شاعر نے خوب کہا ہے:

اذا کنت فی نعمتۃ فارعھا
فان الذنوب تزیل النعم

(جب تو کسی نعمت میں ہو تو اس کی رعایت کر، اس لیے کہ گناہ نعمتوں کو زائل کردیتا ہے)

وحطھا بطاعۃ رب العباد
قرب العباد سریع النعیم

(بندوں کے پروردگار کی اطاعت کر کے اپنے گناہوں کو مٹا، کیونکہ پروردگار بہت جلد بدلہ دینے والا ہے)

  •  انسانی بزرگی میں فرق:معصیت کا ارتکاب کرلینے کے بعد گناہ گار سے تعریف و توصیف اور روح کے سب نام چھین لیے جاتے ہیں اور ان پر بدنامی اور ظلم و زیادتی کا لیبل چڑھ جاتا ہے۔ اس کے نام سے صاحب ِ ایمان ، پارسا، نیکوکار، پرہیزگار، فرماں بردار، خاصۂ خدا، عابد و زاہد، صالح، توبہ کرنے والا، بار بار اللہ کی طرف متوجہ ہونے والا، راضی برضا اور پاک باز جیسے القاب  نکل جاتے ہیں۔ اس کے بجاے فاسق و فاجر، سرکش، بدکار، فسادی، خبیث، راندۂ درگاہ، زناکار، چور، جھوٹا، قاتل، خائن، اغلام بازی کرنے والا، قطع رحمی کرنے اور دھوکا دینے والے کے القاب  اس کو دے دیے جاتے ہیں اور ظاہر ہے یہ سب گناہ کے نام ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:    بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ (الحجرات ۴۹:۱۱) ’’ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری عادت ہے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ گناہوں کے ان ناموں کو اپنانے سے    مالکِ حقیقی کا غضب بھڑک اُٹھتا ہے، جس کے نتیجے میں جہنم کا گڑھا گناہ گاروں کا ٹھکانا ہوتا ہے۔ جہاں ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنتی ہے۔
  •  حکمت اور دانش سے محرومی:گناہ اور معصیت کی ایک سزا یہ بھی ملتی ہے کہ اس کی وجہ سے فرد صحیح حکمت اور حقیقی دانش سے محروم ہوجاتا ہے اور اپنی بنیادی ضرورتوں میں، اور ترجیحات میں توازن کو کھو دیتا ہے حالانکہ دنیا اور آخرت میں کس چیز سے نفع ہوسکتا ہے اور کس چیز سے نقصان، اس سے واقفیت کی ضرورت ہرکسی کو ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام میں سب سے زیادہ ہوش مند وہ ہوتا ہے جسے اپنے نفس اور قوتِ ارادی پر کامل کنٹرول ہوتا ہے۔ وہ مفید کاموں سے منسلک اور مضر کاموں سے بچتا ہے۔ اگرچہ بلند حوصلگی، مقام ہمت اور مرتبے کے لحاظ سے مختلف لوگوں میں فرق موجود ہوتا ہے۔ لیکن ہوش مند اور ماہر اُسے ہی سمجھا جاتا ہے جو نیک بختی اور بدبختی کی درمیانی صورتوں کو سمجھتا ہے اور ان کے اثراث سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر معصیت کا ارتکاب ہوتو انسان کی طرف سے اللہ کی نعمت کی بے قدری اور خیانت سمجھی جائے گی، چنانچہ گناہوں کی بہتات سے انسان کمال، عمل اور آگاہی کے عمل کو روک دیا جاتا ہے جس میں دنیا اور آخرت کا مفاد مضمر ہے۔ اس حالت میں، اس کے بعد اس کا دل، اس کی خواہشات ، اس کے اعضا و جوارح سب اس کو دھوکا دیتے ہیں اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کی مثال اس شخص کی سی ہوتی ہے جو شمشیر بکف ہو، لیکن اس کی تلوار کی دھار کُند ہو یا نیام میں بُری طرح پھنس کر رہ گئی ہو۔ جب بھی اس کو نکالنے کی کوشش کرتا ہو تو اس میں اُلجھ کر رہ جاتا ہو۔ ظاہر ہے ایسی صورت حال میں دشمن بڑھ کر اس پر حملہ کردے گا اور اس کا کام تمام کردے گا۔ اس طرح دل پر جب گناہوں کی کثرت کی وجہ سے داغ ہوں تو دل بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ اس حال میں اگر دشمن اس پر حملہ کردے، تو اس کا منہ توڑ جواب دینے کی اس کے اندر سکت نہیں رہتی۔

اس سے زیادہ بدترین تلخ اور بھیانک حقیقت یہ ہے کہ جب اس کا آخری وقت آتا ہے اور مالکِ حقیقی سے ملاقات ناگزیر ہوجاتی ہے، تو اس گھڑی ، اس کی زبان اور دل ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور مرتے ہوئے کلمۂ شہادت نصیب نہیں ہوتا۔ چنانچہ بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑنے والے بہتوں کو لوگوں نے دیکھا ہے کہ آس پاس بیٹھنے والوں نے جب انھیں کلمے کی تلقین کرنی چاہی اور لاالٰہ الا اللہ پڑھانا چاہا تو وہ پہلا کلمہ نہیں پڑھ پاتے۔ پس کوئی شخص خاتمہ بالخیر کی آرزو نہیں کرسکتا جس کا دل پراگندا ہو، جو اللہ سے کوسوں دُور جا پڑا ہو، اور اُس کی یاد سے غافل ہو، خواہشاتِ نفس کا غلام ہو، شہوت کے ہاتھوں بے بس ہو۔ اللہ کی یاد آئے تو اس کی زبان کانٹا بن جائے اور عبادت اور بندگی کا وقت آئے تو ہاتھ پائوں ٹھٹھر کر اس کے قابو میں نہ رہیں۔

پس گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس سے بچنا اور دُور رہنا سب کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ گناہوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہی تقویٰ ہے۔ نیز گناہ اور معصیت حددرجہ مضر چیز ہے، البتہ مضر اور بُرے اثرات کے درجے الگ الگ ہیں۔ یوں بھی دنیا اور آخرت میں پھیلی ہوئی ہربُرائی اور بگاڑ کی تہہ میں گناہ اور معصیت کے بُرے اثرات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ (ماخوذ: الفوائد، ابن قیم)

 

ارشادِ الٰہی ہے: ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ    تمام دنیاوالوں سے بے نیاز ہے‘‘ (اٰلِ عمرٰن ۳:۹۷)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو، اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو‘‘(مسلم)۔ جب ایک مسلمان حج کے سلسلے میں اس حکمِ ربانی اور ارشاد نبویؐ کی تعمیل کا تہیہ کرلیتا ہے تو وہ دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہے کہ  کاش دن اور رات سمٹ جائیں تاکہ وہ حرم میں جاپہنچے اور ان سعادت مندوں میں شامل ہوجائے جنھیں اللہ رحمن نظررحمت سے دیکھتا ہے اور انھیں آتشِ جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔

  • میدانِ عرفات اور میدانِ حشر:  زائر حرم احرام باندھتا ہے تو اسے موت یاد آتی ہے۔ وہ احرام کی سفید چادروں کو کفن گمان کرتا ہے۔ عرفات پہنچ کر گویا وہ اپنے تئیں میدانِ حشر میں موجود پاتا ہے۔ یہ احساس اس پر غالب رہتا ہے کہ تھوڑی ہی دیر کے بعد، اُس سے اُس کے اعمال کی بابت بازپُرس ہوگی۔ یہ خیال آتے ہی اس کے وجود میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے اور اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، چنانچہ وہ دل کی گہرائیوں سے پکار اُٹھتا ہے: ’’اے میرے پروردگار، میں تیرے حضور توبہ کرتے ہوئے حاضر ہوں۔ تیرے عفو و درگزر کی چوکھٹ پر کھڑا ہوں اور تیری رضا کا طلب گار ہوں، لبیک اللھم لبیک۔

موقف ِ عرفہ یومِ حشر یاد دلاتا ہے۔ جب اللہ اگلوں پچھلوں کو یک جا کرے گا۔ اس دن جن و انس، فرشتے، انسان اور اس کے اعمال، انبیا اور اُن کی اُمتیں، نیکوکاروں کا ثواب اور بدکاروں کی سزا سب یک جا ہوں گے۔اس دن کی ہولناکی بچوں کو بوڑھا کردے گی۔ اس روز ہرکسی کو حاضر ہونا ہوگا، نہ کوئی پیچھے رہ سکے گا اور نہ کوئی آنے سے انکار کرپائے گا۔ اس دن کسی کے لیے اختیار و ارادہ نہ ہوگا، ہر کوئی نفسی نفسی پکار رہا ہوگا اور نجات کا متمنی ہوگا۔ عرفات میں دنیا کے ہرعلاقے کے مسلمان آتے ہیں، جب کہ روزِ حشر آدم ؑ سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک کے انسان اکٹھے ہوںگے۔ میدانِ عرفات میں جہنم کی آگ سے آزادی کے لیے دعائیں ہوتی ہیں تو حاجیوں کو مغفرت سے نوازا جاتا ہے۔ ایسے ہی میدانِ حشر میں گنہگاراہلِ ایمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جہنم کی آگ سے نجات ملے گی۔’’اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب ِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔ (الشعراء ۲۶:۸۸-۸۹)

قلب ِ سلیم وہ ہے جو شرک و گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہو، جو بدعت سے محفوظ اور سنت پر مطمئن ہو، جو لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو۔ ایسے لوگ روزِ قیامت خوف سے امن میں ہوں گے۔ جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے: ’’لا الٰہ الا اللہ والوں پر نہ ان کی قبروں میں کوئی وحشت ہوگی، نہ حشرمیں۔ مَیں گویا لا الٰہ الا اللہ والوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے اس نے ہم سے پریشانی دُور کردی‘‘۔ (طبرانی)

  • میدانِ عرفات اور میدانِ حشر میں شیطان کی حالتِ زار:حضور اکرمؐفرماتے ہیں: ’’اللہ رحیم ہے، سخی و کریم ہے، اسے اپنے بندے سے حیا آتی ہے کہ وہ اس کے سامنے ہاتھ اُٹھائے اور پھر اللہ اس کے ہاتھوں میں خیر نہ ڈالے‘‘ (الحاکم)۔ چنانچہ اللہ حاجیوں کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتا۔ شیطان اس موقع پر ذلیل و رُسوا ہوتا ہے، بہت سٹپٹاتا ہے، کیونکہ پلک جھپکنے میں اس کی ساری کوششیں اکارت چلی گئیں۔

آپؐ نے فرمایا: ’’شیطان یومِ عرفہ سے زیادہ کسی بھی دن ذلیل و حقیر اور افسردہ و غضب ناک نہیں ہوتا، جب وہ اللہ کی رحمت کو اُترتے اور بڑے بڑے گناہوں کو معاف کرتے دیکھتا ہے‘‘ (موطا)۔ حضوؐر نے عرفہ کے دن کی شام اپنی اُمت کی خاطر مغفرت و رحمت کی بہ کثرت دعا کی تو اللہ کی طرف سے فرمایا گیا: میں نے تمھاری اُمت کو معاف فرما دیا سواے ان کے جنھوں نے ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کی۔ آپؐ  نے عرض کیا: اے پروردگار! تو ظالم کو بخشنے اور مظلوم کو (اس پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے) زیادہ اجروثواب دینے پر قادر ہے۔ اگلے روز صبح آپؐ  مزدلفہ کے مقام پر اُمت کی خاطر دعا کرتے رہے۔ پھر آپؐ کچھ دیر بعد مسکرائے۔کسی صحابیؓ نے کہا: آپؐ  ایسے وقت مسکرائے جب کہ آپؐ  اس موقع پر مسکرایا نہیں کرتے تھے۔ فرمایا: میں دشمنِ خدا ابلیس پر مسکرایا ہوں، جب اسے معلوم ہوا کہ اللہ نے میری اُمت کے حق میں، میری دعا قبول فرمالی ہے اور ظالم کو بخش دیا ہے، تو وہ تباہی و بربادی مانگنے لگا اور اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ کر مسکرایا ہوں۔(مسنداحمد)

قیامت کے دن شیطان کی حالت ِ زار کی منظرکشی رسالت مآب نے یوں فرمائی ہے: سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا۔ ابلیس کی ذُریت اس کے پیچھے ہوگی، وہ سب ہلاکت کو بلا رہے ہوں گے اور موت کو پکار رہے ہوں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا: آج ایک موت کو نہیں، بہت سی موتوں کو پکارو۔(مسند احمد)

  •  رمی جمرات: حاجی شیطان کو کنکریاں مارنا شروع کرتے ہیں تو ہرحاجی اپنے پروردگار کی کبریائی بیان کر رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے وجود میں اللہ کی دی ہوئی قوت محسوس کرتا ہے، جس کے سامنے دنیا کی ہرقوت ہیچ ہے۔ اس کے ساتھ ہی حاجی کو اپنی عاجزی،  بے بسی اور کمزوری کا بھی احساس ہوتا ہے۔ ہرکنکری پھینکنا گویا شیطان کے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور اس کے خلاف گھات لگانے کا عہد ہے۔ حسد، کھوٹ، تکبر، غرور، مکروفریب، فرقہ بندی و اختلاف اور بدعت و گم راہی سے مبرا ہونے کا اظہار ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ کنکریاں مارنے سے تمھارا مقصد یہ ہو کہ اللہ کے حکم کے سامنے سرنگوں ہونا ہے، اسی کے لیے غلامی کا اظہار کرتے ہوئے اور محض تعمیلِ ارشاد کو غنیمت سمجھتے ہوئے، اس میں عقل و نفس کا کوئی دخل نہ ہو۔ پھر تم ابراہیم علیہ السلام کی مشابہت کا قصد کرو، جب اس مقام پر ابلیس لعین ان کے سامنے آیا تاکہ وہ آپ کے حج پر کوئی شبہہ وارد کرے یا نافرمانی کے ذریعے انھیں آزمایش میں ڈالے، تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو حکم دیا کہ وہ شیطان کو دھتکاریں اور اس کی اُمید کو کاٹنے کے لیے اسے پتھر ماریں۔ حاجی ہر کنکری پھینکنے کے ساتھ نفس و خواہش کے شیطان پر بھی رجم کرتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ شیطان نے اس کے   باپ آدم ؑاور اس کی ماں حواؑ کے ساتھ کیا کیا تھا اور کس طرح نسلِ آدم ؑ کو بھٹکانے کی دھمکی دی تھی۔ حاجی سوچتا ہے کہ شیطان کے ساتھ اس کا معرکہ جاری ہے اور دشمنی اب تک قائم ہے۔
  •  رمی جمرات کا تقاضا اور شیطانی ھتہکنڈے:حج کے مناسک مکمل کرنے کے بعد حاجی جب گھر پہنچے گا تو ازسرِنو، دشمن کے ساتھ مقابلہ شروع ہوگا۔ لہٰذا حاجی کے لیے لازمی ٹھیرا کہ وہ اپنے اس ازلی دشمن کی ظاہری و باطنی مداخلت گاہوں سے آگاہ ہوتاکہ مناسب اسلحہ اور  تحفظ و دفاع کا انتظام کرسکے۔ہرمسلمان کو چاہیے کہ وہ خود اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ شیطان اس پر کہاں سے وار کرسکتا ہے؟ اس لیے کہ شیطان ہر انسان پر حملہ کرنے کے لیے اپنا موزوں طریقہ اپناتا ہے۔ وہ زاہد پر زُہد کے طریقے سے، عالم پر علم کے دروازے سے، اور جاہل پر جہالت کے راستے سے وار کرتا ہے اور یوں اپنے ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔ شیطان کے چند ہتھکنڈے یہ ہیں:
  •  مسلمانوں کے مابین تنازعہ اور بدگمانی: شیطان مسلمانوں کے مابین لڑائی جھگڑے اور فتنے پیدا کرتا ہے۔ وہ بدگمانی پھیلا کر بُغض، نفرت اور اختلاف پیدا کرتا ہے۔
  •  بدعت کو خوش نما بنانا: وہ ’جدید عبادت‘ کے نام پر مسلمانوں کو اُکساتا ہے۔
  •  تاخیر: وہ سنجیدہ اور بامقصد کام کرنے والوں کو تاخیرپر آمادہ کرتا ہے۔ نیکی کرنے والوں کو کہتا ہے کہ بعد میں کرلینا۔ وہ سستی، کاہلی اور تاخیر پر اُکساتا رہتا ہے۔
  •  تکبر و غرور: یہ شیطان کی اپنی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ جنت سے نکالا گیا۔
  •  تشکیک:شیطان نیکی کرنے والوں کو شک میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ نیکی ترک کر دیں۔
  •  ڈرانا:شیطان اہلِ ایمان کو اپنے لشکروں، پیروکاروں اور ساتھیوں سے ڈراتا رہتا ہے۔ وہ صدقہ خیرات کرنے والوں کو ڈراتا ہے کہ تم نادار ہوجائو گے۔
  •  باطل کو خوش نما بنانا:شیطان اس جال میں اولادِ آدم کو خواہشات کی پیروی سے پھانستا ہے۔
  •  نظربازی: آپؐ  نے فرمایا: نظر ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جس نے اسے اللہ کے خوف سے چھوڑا، اللہ اسے ایمان عطا فرمائے گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائے گا۔(الحاکم)
  •  شیطان کا طریقِ واردات: علامہ ابن القیمؒ نے شیطان کے بہکاوے کے چھے تدریجی مراحل یوں بیان کیے ہیں: شیطان کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان کفر اور شرک کرے۔ اگر شکار مسلمان ہو تو پھر شیطان دوسرا مرحلہ اختیار کرتا ہے کہ وہ بدعت پر کاربند ہوجائے، اور اگر مسلمان سنت پر سختی سے قائم ہو تو شیطان اسے کبیرہ گناہوں پر اُکساتا ہے۔ اگر انسان اپنے آپ کو اس سے بھی بچالے تو شیطان مایوس نہیں ہوتا۔ اب وہ اسے چھوٹے گناہوں پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر وہ چوتھے مرحلے میں بھی اس کا شکار نہ بنے تو شیطان انسان کو، زیادہ تر مباح کاموں میں مشغول رہنے پر اُکساتا ہے، تاکہ وہ اہم اور سنجیدہ کاموں کو نظرانداز کردے۔ چھٹا مرحلہ یہ ہے کہ وہ انسان کو افضل کے بجاے غیرافضل کام میں مشغول کردے، مثلاً وہ سنت کا تو اہتمام خوب کرے مگر فرض کو نظرانداز کردے۔ نفلی نماز تو پابندی سے پڑھے مگر فرض نماز ترک کردے۔

علامہ ابن القیمؒ نے فرمایا: ہر عقل مندجانتا ہے کہ انسان پر شیطان تین جہتوں سے حملہ کرتا ہے:

  • اسراف و زیادتی: انسان کو زائد از ضرورت سہولیات حاصل کرنے پر اُبھارتا ہے۔ اس کا توڑ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو مطلوب سہولیات مکمل طور پر فراہم کرنے سے بچے۔ وہ غذا، نیند، لذت یا راحت، ہر ایک سہولت سے ضرورت کے مطابق ہی فائدہ اُٹھائے۔ شہوات و ممنوعات سے دُور رہے۔ یوں وہ دشمن کی مداخلت سے محفوظ ہوجائے گا۔
  • غفلت: اللہ کو ہروقت یاد رکھنے والا گویا قلعہ بند ہوجاتا ہے۔ جب انسان ذکر سے غفلت برتتا ہے تو قلعے کا دروازہ کھل جاتا ہے، دشمن اندر آجاتا ہے۔ 
  • لایعنی اُمور میں مشغولیت:شیطان انسان کو لایعنی معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا ہے،لہٰذا انسان کو تمام فضول و غیرمتعلق اُمور سے الگ تھلگ رہنا چاہیے۔
  •  شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے مومن کے ھتہیار:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: شیطان فرزند ِ آدم میں خون کی مانند دوڑتا ہے (مسلم)۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ کثرت پڑھا کرتے تھے: ’’اے دلوں کے پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین اور طاعت پر ثابت و برقرار رکھ‘‘ (مسنداحمد)۔ مومن کو شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے درج ذیل ہتھیار استعمال میں لانے چاہییں تاکہ اس کے شر و وسوسے سے امان میں رہے: 
  • اللہ پر ایمان و توکّل 
  • صحیح مآخذ سے شرعی علم حاصل کرنا 
  • اخلاص 
  • اللہ کی پناہ میں آنا
  • مجاہدۂ نفس (یعنی رغبت، خوف، خواہش اور غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھنا) 
  • استغفار
  • باوضو رہنا 
  • ذکر
  • معوذتین (قرآنِ کریم کی آخری دونوں سورتیں) اور آیت الکرسی پڑھنا۔

حج کے فوائد و ثمرات

حجاج کرام، صرف اللہ کی عبادت کی خاطر، مقدس سرزمین میں آتے ہیں۔ ان کا مقصد ِ وحید طلب ِ رضاے الٰہی ہوتا ہے۔ وہاں جانے میں، ان کی کسی نفسانی خواہش کا ہرگز دخل نہیں ہوتا۔ وہ زبانِ حال سے شیطان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: اے ملعون، اگر تو نے اپنے خالق و پروردگار کی عبادت سے تکبر کیا تو دیکھ، ہم سب اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ اگر تو نے اس کی نافرمانی کی تو ہم سب اس کے فرماں بردار اور عبادت گزار ہیں۔ حج کے موقع پر ان کے احساسات یہ ہیں کہ حاکم و محکوم، چھوٹے بڑے، مال دار و مفلس، سیاہ و سفید اور عربی و عجمی کے مابین کوئی فرق نہیں۔ گھر تیرا ہے، اقتدار تیرا ہے کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں، تقویٰ ہی واحد معیارِ فضیلت ہے۔ حجاج کرام میں یہ احساس پیدا ہونا، حج کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ ان پر عملی طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام نے تمام انسانوں کو کنگھی کے دندانوں کی مانند برابر ٹھیرایا ہے۔ مختلف شکلوں، رنگوں، قومیتوں اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود، کسی کے لیے کوئی امتیاز نہیں۔ رب کی نظر میں سب یکساں ہیں۔

حج مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر اور ان کی سالانہ کانفرنس ہے۔ حج مسلمانوں کے سیاست کاروں کے اتحاد اور علما کے اتفاق کا موقع، علم اور تعلیم دین کے فروغ کا ذریعہ، بھلائیوں کا موسم اور دنیا و آخرت کے منافع ملنے کا مقام ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حج میں نئی اسلامی ریاست کا عادلانہ دستور پیش فرمایا، جب کہ آپؐ  کے خلفاے راشدینؓ حج کو اپنے صوبوں اور شہروں کے حالات سے باخبر رہنے کا ایک سنہری موقع سمجھتے تھے۔ مظلوموں کی دادرسی کی جاتی۔ غلط کار سرکاری افسروں___ خواہ وہ گورنر ہوں یا عام کارندے___ کی سرزنش کی جاتی۔

اسی سرزمین میں علم و تعلّم کا حکم نازل ہوا۔ اسی میں علما کی اہمیت و برتری بیان ہوئی۔ چنانچہ حج کے موقع پر حاجیوں میں قرآن کریم کے نسخے اور مفید شرعی کتب تقسیم کی جاتی ہیں، نیز حُرمین شریفین کے مختلف کتب خانے کتابیں فروخت کرکے علم کو عام کرتے ہیں۔ حج دنیا بھر سے آنے والے اہلِ علم کے ملنے کا سنگم ہے جہاں وہ باہم استفادہ کرسکتے ہیں، نئے پیش آمدہ حالات کے بارے میں اپنی راے ظاہر کرسکتے ہیں اور دوسروں کی آرا سے واقف ہوسکتے ہیں۔ نیز حجاج علماے کرام سے سوالات کر کے اپنی علمی پیاس بجھاسکتے ہیں۔ اہلِ علم اس موقع پر باہم متعارف ہوکر بعد میں رابطوں کے جدید ذرائع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل بنیادوں پر ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرسکتے ہیں اور یوں اپنے علم میں مسلسل اضافہ کرسکتے ہیں۔

اپنے اپنے علاقائی و مقامی لباس ترک کر کے احرام جیسے ایک ہی لباس میں ملبوس، ایک مقام پر ایک جیسی عبادت کرنے والے اور اپنی اپنی زبانوں میں عہدوپیمان باندھنے کے بجاے عربی زبان میں لبیک اللھم لبیک… بآواز بلند پکارنے والے دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان، اپنے آپ میں حج کی بدولت یک جہتی و یک رنگی کا احساس پاتے ہیں۔ اس سے وحدتِ اسلامی میں استحکام اور پختگی آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب ہی حاجی اپنے آپ کو ایک ہی بدن کے اعضا کی مانند سمجھتے ہیں۔ کاش کہ یہی احساسِ وحدت مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی، عسکری اور سیاسی وحدت میں بدل جائے اور مسلمانانِ عالم اس وحدت کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں۔

حج ایک لحاظ سے ایک سیاسی سالانہ کانفرنس بھی ہے کہ اس کی بدولت دنیا کے تمام مسلم زعما و قائدین کو مل بیٹھنے، باہم متعارف ہونے اور اپنی اپنی قوموں کے مسائل کا تذکرہ کرنے، ان کا حل پیش کرنے اور مسلم ممالک کے حالات جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔

حج نفوسِ انسانی کی تہذیب و تربیت کا ایک عالمی مدرسہ ہے، اس لیے کہ عزمِ حج کرنے کے ساتھ ہی حاجی کی تربیت شروع ہوجاتی ہے۔ اسے اپنے نفس کو مؤدب و مہذب بنانے کا زریں وقت ملتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کو تقویٰ کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ حاجی اپنے آپ کو بخل و کنجوسی کی مذموم صفت اور مال کی حرص سے پاک کرلیتا ہے، کیونکہ وہ حج کے سلسلے میں کافی بڑی رقم بطیب ِ خاطر خرچ کرتا ہے۔اپنے گھربار، عزیز و اقارب اور وطن عزیز سے دُور رہنے اور سفر کی مشقت اُٹھانے میں حاجی کی قوتِ ارادہ اور صبروبرداشت کی تربیت ہے۔ اپنے حاجی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر حج کرنے میں ایثار و قربانی، مساوات و برابری اور ’انانیت‘ کی نفی کی تربیت ہے۔ اس سے  تکبر و غرور کا خاتمہ اور صرف اللہ کے لیے عبودیت کی تربیت ہوتی ہے۔ اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ وہ دنیا کی ایک بہت بڑی قوم کا ایک فرد اور عظیم الشان برادری کا رکن ہے۔ سب حاجیوں کو وحدت و یک جہتی کا احساس اور ایک  ایسی بہترین اُمت سے نسبت کا شرف حاصل ہوتا ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے برپا کی گئی ہے۔(ہفت روزہ الجمتمع، کویت، شمارہ نمبر ۱۷۷۹، ۱۷۸۰)

 

 یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حدیث اہم، قیمتی اور انسا نوں کے لیے بالخصوص مومنوں کے لیے آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے لیکن بعض حدیثیں ایسی بھی ہیں جو بہت زیادہ  اہمیت کی حامل ہیں۔ با لخصوص تین حدیثیں جن کے بارے میں علماے کرام نے فر مایا ہے کہ  اسلام کی تمام تر تعلیمات ان میں داخل ہیں۔ گویا دین اسلام کا مدار ان تین حدیثوں پر ہے۔ ان میں پہلی حدیث یہ ہے: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: سنو !انسانی جسم میں ایک گو شت کا لوتھڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ ہوجائے گا۔ جان لو کہ یہ قلب ہے‘‘ (بخاری، مسلم )۔ دوسری حدیث یہ ہے کہ اعما ل کی قبو لیت کا دارو مدار اخلاصِ نیت پر ہے ۔ تیسری حدیث یوں ہے کہ مومن کے اسلام کے حسن کی خوبی یہ ہے کہ وہ    بے کار اور فضول با توں سے اور بے کار کاموں سے اپنے آپ کو بچا ئے رکھے۔

یہ تینوں حدیثیں اپنے اندر جا معیت رکھتی ہیں۔ ان میں پہلی حدیث اس وقت موضوعِ تحریر ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح قلب کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت نعمان بن بشیر ؓ ہیں۔ یہ انصاری صحابی ہیں۔ نبی اکرمؐ کے مدینہ منورہ رونق افروز ہونے کے بعد سب سے پہلے بچے ہیں جو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ یہ اور ان کے والدین دونوں ہی صحابی ہیں۔ کو فہ جو عراق میں واقع ہے، وہاں رہتے تھے اورملک شام کے ایک شہر حمص کے گورنر بنا ئے گئے، اور سب سے اہم بات یہ کہ مذکورہ حدیث انھوں نے آٹھ سال کی عمر میں رسولؐ اللہ  سے سما عت فر ما ئی اور جب بالغ ہوئے تو ممبر پر بیان کی جس کو صحابہ کرام ؓ نے قبول فر ما لیا ۔

قلب کی اھمیت

 اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ دل اگر چہ چھو ٹا سا گو شت کا لوتھڑا ہے لیکن پورے قالب، یعنی جسم کی اصلاح اس قلب کی اصلاح پر موقوف ہے۔ اس لیے کہ قلب جسم کا بادشاہ ہے، جب با دشاہ صحیح ہو گا تو سا ری رعایا بھی صحیح ہوگی۔ قلب کے ٹھیک ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ جب قلب نور ایمان سے منور ہو جائے اور اس میں نور عرفان اور نور ایقان آ جا ئے تو سمجھ لو کہ قلب کی اصلاح ہو گئی اور جسم کے تمام اعضا سے بھی اعمال ِصالحہ ، اخلاقِ حمیدہ اور احوالِ جمیلہ ظاہر ہوں گے، لیکن جب قلب کفر و شرک کی ظلمتوں، شکوک و شبہات اور نفاق کی برا ئیوں سے خراب ہوجا ئے گا تو پھر جسم کے اعضا سے بھی برے اعمال ہی صادر ہوں گے۔ چنا نچہ ہر شخص پر یہ لازم ہے کہ اپنے قلب کی نگرا نی کرے اور اس کو خواہشات نفسا نی میں مشغول و مصروف ہو نے سے روکے رکھے۔ اس حدیث کی شرح میں حضرت ملا علی قاری ؒ نے لکھا ہے کہ نہا یت اہم امور میں سے ہے کہ قلب کی اصلاح اور نگرا نی ہو، ورنہ یہ کبھی بھی بدل سکتا ہے۔ قلب کے معنی ہی بدلنے کے ہیں۔ دل کو عر بی میں قلب اس لیے کہ کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت بدلتا رہتا ہے، چنانچہ ہر وقت نگرا نی کی ضرورت ہے کہ یہ قلب حق سے باطل کی طرف نہ پھر جائے یا اچھا ئی سے برا ئی کی طرف رُخ نہ پھیر لے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اُم سلمہ ؓ روا یت فر ما تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دعا مانگا کر تے تھے:’’اے اللہ ہما رے قلوب کو اپنے دین حق پر ہمیشہ ثابت قدم رکھ‘‘(بخاری)۔ اگر قالب سے گناہ سر زد ہو جا ئے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قلب میں فسادہے۔

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرا ہیم ؑ کے تذکرے میں ایک جگہ ارشاد فر مایا: ’’اے میرے رب، مجھے اس دن رسوا نہ کر، جب کہ سب لوگ زندہ کرکے اُٹھائے جائیں گے، جب کہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب ِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘ (الشعراء ۲۶:۸۷-۸۹)۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ جس انسان کا قلب ’قلب سلیم‘ ہو گا وہ نجات پا ئے گا ۔ قلب جب صالح ہو جاتا ہے، اس کو قلب سلیم کہاجاتا ہے۔ علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں قلب ِ سلیم کے پانچ پہلو بیان کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ قلب جو غلط قسم کے عقیدوں، کفر و شرک، نفاق و بد عت سے خالی ہو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ قلب سلیم وہ ہے جو اپنی اولاد کو حق کی رُشد و ہدایت کی طرف راہ بتاتاہے ، چو تھی تفسیر یہ کہ قلب سلیم وہ قلب ہے جس میں ایسی شہوت اور خواہشاتِ نفس نہ ہوں جو جہنم کی طرف لے جانے والی ہوں۔ حضرت سفیان کی طرف سے پانچویں تفسیر یوں ہے کہ قلب سلیم وہ قلب ہے جس میں اللہ کے علاوہ کو ئی اور نہ ہو ۔ اس حدیث سے اصلاحِ قلب کی اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔ جس طرح بدن بیمار ہوتا ہے اور اس کے لیے علاج کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح قلب بھی بیمار ہوجاتا ہے اور اس کا علاج کروانے اور اصلاح کی ضرورت پڑتی ہے ۔

دل اور قرآن مجید

 دل کی بیما ریاں کیا ہیں اور ان کاعلاج کیسے ہو ؟اس سے قبل یہ جان لیجیے کہ دل کی اہمیت اتنی ہے کہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس کا بارہا تذکرہ فر مایا ہے۔ اس کی اہمیت اور اس کو وسوسوں اور بے کار خیالات سے بچانے اور اس کی اصلاح کی طرف متو جہ فر مایا ہے۔ قلب کی مختلف کیفیتوں اور حالتوں کے اعتبار سے ۱۵ مقامات پر تذکرہ فرمایا ہے، جن سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ انسا نی قلب کی کیفیات اور اس میں پیدا ہونے والے حالات کی اصلاح کیسے کرنی چاہیے۔

 سخت دل

 سورۂ بقرہ میں فر مایا گیا: ’’ آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے، پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیو نکہ پتھروں میں سے تو کو ئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کو ئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے، اور کو ئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تمھارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے‘‘ (البقرہ۲:۷۴)۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: بنی آدم کے قلوب اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ وہ ان کو جیسے چا ہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد رسولؐ اللہ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے دلوں کے پھیرنے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی اطا عت کی طرف پھیر دے‘‘۔ (مسلم)

انسا نی قلب زمین کے مانند ہیں۔ انسان اگر ایک عر صے تک زمین پر محنت نہ کرے، کاشت نہ کرے تو وہ سخت اور بنجر ہو جا تی ہے اور اس زمین سے پیدا وار بھی متا ثر ہوجاتی ہے۔    اسی طرح انسان جب دل پر محنت کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ رفتہ رفتہ سخت ہوتا چلاجاتا ہے اور جب انسان کا دل گنا ہوں کے سبب سخت ہوجاتا ہے، اس میں خوفِ خدا نہیںہوتا، تو پتھر بھی دل کی اس سختی سے شر ما جا تے ہیں۔ دل انسان کے پاس بڑا سرمایہ ہے۔ اس پر محنت کر کے اس کا تزکیہ کرلے تو کامیاب، ورنہ آخرت کے اعتبار سے اسے ناکارہ اور ناکام انسان کہا جائے گا۔

 زنگ آلود دل

گناہوں اور بد کا ریوں کی وجہ سے انسانی دل زنگ آلود ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ چنا نچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے بُرے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے‘‘۔ (المطففین ۸۳:۱۴)۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فر ما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’مومن جب گناہ کر تا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر اگر وہ تو بہ کر لیتا ہے، ڈر جاتا ہے، استغفار کر لیتا ہے تو دل کا وہ سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے لیکن بجاے تو بہ کے اور گناہ کر تا ہے تو وہ نقطہ اور بڑھ جا تا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے‘‘(ترمذی)۔ یہی ہے وہ رَانَ  جس کا تذکرہ مذکورہ آیت میں فر مایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بیان کر نے سے ہی معلوم ہو سکتا ہے، اس لیے کہ دل ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے۔ ہم اس دھبے کو نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دھبے کو دھونے اور دل کو صاف کر نے کا طریقہ بیان فرما دیا ہے، چنانچہ بند گان مومن کو چاہیے کہ نا فر مانی یا گناہ کر نے کے بعد فوراً رجوع الی اللہ اور انابت الی اللہ کا ثبوت دیں ،تو بہ و استغفار کے ذریعے دل کو بر باد ہو نے سے بچا لیں، بصورتِ دیگر دل کی بر بادی ایمان کی بربادی کے مترا دف ہے اور ایمان کی بر بادی دا ئمی نقصان و خسران کا سبب بن سکتی ہے۔ اعاذنا اللّٰہ منہ ۔

گنھگار دل

قرآن مجید میں ہے کہ’’جو شہا دت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہوتا ہے اور اللہ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے ‘‘(البقرہ۲:۲۸۳)۔ اس آ یت میں صاف طور سے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی فرماں بر دا ری سے انحراف دل کو گنہگار بنا دیتا ہے۔ گنہگار دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اُلفت نہیں آ تی، بلکہ نا فر ما نی اور شہوات کی محبت ہی جگہ پکڑتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ہی فر مایا ہے کہ دل نیک ہو تو سارا جسم نیک ہو تا ہے، اور یہ گنہگار ہو جا ئے تو دل مسخ ہوجاتا ہے ۔

 ٹیڑہا دل

ٹیڑھے دل کا بھی قرآن مجید میں تذکرہ ہے۔ فرمایا: ’’جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشا بہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنا نے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کو ئی نہیں جانتا‘‘ (اٰل عمران ۳:۷)۔  اللہ تعالیٰ دل کے اس ٹیڑھ پن سے حفا ظت فر ما نے والی ہے ۔ اس لیے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں دعا سکھا ئی ہے:’’اے ہمارے پر ور دگار، جب کہ تو ہمیں سیدھے راستے پر لگاچکا ہے پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ فر ما، اپنے خزا نۂ فیض سے رحمت عطا فر ما کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے‘‘۔ یہ دعا جس میں دل کی سلا متی کی دعا مانگنا خود قرآن کریم نے سکھایا ہے، اس کی تفسیر میں علما نے لکھا ہے کہ اس میں دو چیزیںمانگی گئی ہیں، دین و ایمان پر استقامت اور دوسری چیز حسن خاتمہ۔ یہ دونوں نعمتیں اس دعا میں شامل ہیں۔ ربنا لا تزغ قلوبنا، میں دین و ایمان پر استقامت کا مانگنا سکھایا اور وھب لنا من لدنک رحمۃ، میں حسن خا تمہ یا خاتمہ بالخیر۔ جو اس کو مانگے گا وہ دل کے ٹیڑھ پن سے بھی محفوظ رہے گا اور آخری گھڑیوں میں بھی اللہ تعالیٰ دستگیری فرما ئیں گے اور حسن خا تمہ نصیب ہو گا۔ وہ لوگ دانش مند ہیں جو اپنے دل کی حفا ظت کے لیے یہ دعا ہمیشہ استحضار کے ساتھ مانگتے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی لمحے میں یہ دعا قبول ہو جائے تو بیڑا پار لگ جا ئے گا ۔

 غور و فکر نہ کر نے والے دل

کچھ دل ایسے بھی ہو تے ہیں جو غافل اور کبھی غور و فکر نہ کر نے والے ہو تے ہیں۔ یہ بھی ناکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہیں‘‘ ( اعراف۷:۱۷۹)۔ گویا ان کے پاس دل، آنکھ، کان سب ہیں لیکن   اللہ کی آیتوں پر غور و فکر نہیں کرتے، یہ جانوروں سے بدتر ہیں۔ یہ انسان ہو کر جانوروں کی طرح زندگی گزارنا چا ہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان سے بہتر جانور ہیں کہ وہ اپنے اعضا سے اتنا فائدہ ضرور حاصل کر لیتے ہیں جو قدرت نے ان کے لیے مقرر کر دیا ہے، زیادہ کی ان میں استعداد نہیں ہے، لیکن ان لوگوں میں روحانی وعر فانی تر قیات کی جو فطری قوت و استعداد ودیعت کی گئی ہے، اسے غفلت اور بے راہ روی سے خود اپنے ہاتھوں ضائع ومعطل کردیتے ہیں (تفسیر عثمانی)۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ کے الفاظ سے اسی غفلت کی طرف اشا رہ ہے کہ غفلت بے حد خطر ناک ہے۔ اس کا اثر انسانی قلب پر پڑتا ہے، اور دل اس قابل نہیں رہ جاتا کہ اس میں کو ئی حق بات اثر کرے یا اللہ تعالیٰ کی طرف انابت و رجوع کی کیفیت اس میں آ ئے جس کو قرآن مجید میںفر مایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی اور ان کانوں پر بھی اور ان کی آنکھوں پر پر دے پڑے ہوئے ہیں۔ اور آخر آیت میں اس کی سزا بھی بیان فر ما دی ہے کہ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ ، انھیں عذاب الیم ہوگا۔

 لرزنے والا دل

کچھ دل ایسے ہو تے ہیں جو اللہ کا نام سن کر لرز جا تے ہیں اور قرآن کریم کی آیت کو سنتے ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جا تا ہے۔ یہ قابل تعریف دل ہیں۔ ان کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا: ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جا تے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جا تا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں‘‘ (الانفال ۸:۲)۔ قرآنی آ یات کا اور اللہ پاک کے نام کو سن کر اثر لینا راست طور پر انسا نی قلب سے ہے۔ لہٰذا قرآن کریم سے فا ئدہ حاصل کر نے کے لیے اس دل کا صحیح ہونا لازم ہے جس کے لیے ہمیشہ اس کی اصلاح کی فکر کر نے کی ضرورت ہے ۔

 مھر لگے ھو ئے دل

 قرآن مجید میں کچھ دلوں کا تذکرہ یہ بھی ہے کہ ان دلوں پر مہر لگ چکی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ خود ان دل والوں کے غلط اعمال کی وجہ سے ہے۔ چنا نچہ فر ما یا: ’’اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپّہ لگادیتے ہیں‘‘ (یونس ۱۰:۷۴)۔ یہاں مہر لگنے کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے ، یعنی نافرمانی میں حد سے گزرنا اور کفر و شرک میں بڑھتے چلے جانا۔ یہ سب مہر لگنے کا ذکر ہے۔ دلوں پر مہر کیسے لگتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا: انسان گناہ کر تا ہے تو اس کے دل پر ایک دا غ لگا دیا جاتا ہے۔ پھر گناہ کر تا ہے تو پھر ایک داغ لگا دیاجاتا ہے۔ اس طرح دا غ لگتے رہتے ہیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اس پر مہر لگادی جا تی ہے۔ پھر یہ انسان کبھی نیکی اور حق کی طرف متو جہ نہیں ہو تا۔ وہ صلا حیت بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ ہماری حفا ظت فرمائے۔

 مطمئن دل

قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:’’ خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘ (الرعد۱۳:۲۸)۔ گویا دولت، حکومت، منصب، جاگیر یا انسانی ہوس، کو ئی ایسی شے نہیں ہے جس سے انسان کے دل کو اطمینان مل سکے۔ اگر سکونِ قلب جیسی     دولت و نعمت حاصل ہو سکتی ہے تو وہ صرف اللہ کی یاد اور اس کی عبا دت و اطا عت سے ہی ہو سکتی ہے۔ ایسے دل کو مطمئن دل کہتے ہیں، جو ایک سچے مومن کو حاصل ہوتا ہے ۔

اندہے دل

اللہ پاک فر ما تے ہیں کہ کچھ دل اندھے ہو تے ہیں، چنانچہ فر مایا: کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو تے۔حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو تیں بلکہ دل اندھے ہو جا تے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ گویا آنکھوں نے دیکھا اور دل نے غور نہ کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے، باوجود یکہ ظا ہری آنکھیں کھلی ہو ئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اندھا پن سب سے زیا دہ خطر ناک وہی ہے جو دل کا اندھا پن ہے۔ العیاذ باللّٰہ۔

 دل کا اندھا پن جتنا گہرا ہو تا جا تا ہے اتنا ہی اس شخص پر بڑے بڑے گناہ ہلکے معلوم ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کفر و شرک جیسے گناہ بھی معمولی معلوم پڑتے ہیں۔ ایک قوم ایسی گزری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پو ری قوم کے بارے میں فر مایا: وہ پوری قوم اندھی تھی۔ مطلب یہ نہیں کہ ظا ہری آنکھیں اندھی تھیں یا نا بینا تھے۔ نہیں، بلکہ دل کے اندھے تھے کہ اپنے نبی کے مقام کو نہ پہچا نا اور ایمان قبول نہ کیا۔ یہ اندھا پن ہے۔ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے:’’اور جو اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے چشم پوشی کر تا رہا، نظر انداز کر تا رہا، اور اس کے حکموں سے اندھا بنا رہا، اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی بینا ئی چھین لیں گے۔ ’’اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: ’’پروردگار، دنیا میں تو مَیں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو ، جب کہ وہ تیرے پاس آئیں تھیں،  ُتو نے بھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے‘‘۔ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۳-۱۲۶)

 سلامتی والے دل

قرآن مجید میں قلب سلیم سے مراد اچھا بھلا چنگا دل ہے جو کفر و نفاق اور فا سد عقیدوں سے پاک ہو وہی قیامت میں کام آ ئے گا، اور نجات نصیب ہو گی۔ قلب سلیم سے مراد شرک و شک اور نفاق سے پاک دل ہے۔ گناہ تو ہر کسی سے ہو تے ہیں اور اس کی تو بہ سے وہ پاک ہو جاتے ہیں۔

 ایمان سے محروم دل

سورہ ٔ زمر میں آیت نمبر۴۵ میں ہے کہ: ’’جب اللہ کا ذکر کیاجاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں ‘‘۔ یہ بے ایمانوں کا دل ہے جنھیں اللہ کے نام سے چڑ ہے یا پسند نہیں کرتے لیکن اللہ کے علاوہ کسی اور کا تذکرہ ہو تو یہ ان کے لیے با عث مسرت ہوتا ہے۔ اس دل میں کوئی خیر نہیں۔

 تکبر والا دل

ایک دل وہ بھی ہے جس میں تکبر اور غرور کی بیماری بھری ہو ئی ہو تی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اللہ ہر متکبر و جبار کے دل پر ٹھپّہ لگادیتا ہے‘‘۔ (المومن ۴۰:۳۵)۔ تکبر بہت ہی بڑی برا ئی ہے، جس دل میں تکبر جڑ پکڑ لے اس دل کا خدا ہی محافظ ہے ۔ آدمی کو ہمیشہ متوا ضع رہنا چاہیے۔ یہ اچھے انسان اور مومن کی علامت ہے۔ بڑائی تو اللہ کے لیے ہے۔ فرمایا: بڑا ئی میری چادر ہے، جو تکبر کرے گا گو یا وہ میری چادر کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، وہ سمجھنا آسان ہے۔ صوفیاے کرام اور اولیا اللہ اپنے سروں کو سب سے پہلے اللہ کے آگے جھکاتے ہیں اور دل کی اس بیماری کا علاج کر تے ہیں۔ کو ئی علم والا علم کی وجہ سے، یا کو ئی مال والا مال کی وجہ سے، یا کو ئی بھی شخص اپنی کسی خو بی کی بنا پربڑا ئی نہ کرے۔ اس لیے کہ ہر قسم کی خو بی کسی کی ذاتی نہیں بلکہ اللہ کی دین ہے، تو اس پر تکبر کر نا کیا معنی رکھتا ہے۔ اپنے دل کی حفا ظت کر نا چاہیے کہ اس میں کب تکبر آجا ئے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ہر موقع کے لیے دعا سکھا ئی ہے کہ کسی بھی وقت اللہ کو نہ بھلا ئے اور نعمت اس کی طرف سے سمجھے اور شکر و امتنان کے جذبات قلب میں پیدا کرے تو یہ قلب متوا ضع ہو گا۔ قلب متکبر اللہ کو پسند نہیں، اس لیے آیت مذکور میں فر مایا کہ متکبر دل پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتے ہیں کہ وہ کو ئی حق بات کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے، اللہ بچائے رکھے۔

 ایمان والے دل

’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کر دہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا ئیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہو ئے ہیں؟‘‘(الحدید ۵۷:۱۶)۔ یہی وہ آیت تھی جسے سن کر حضرت فضیل بن عیاض ؒ نے تو بہ کی تھی اور بہت بڑے اللہ والے بن گئے۔ انسان جب تو بہ کر تا ہے تو دل کی سیا ہی دُور ہوجاتی ہے، دل کی ظلمت دور ہوجاتی ہے اور دل کی سختی ختم ہوجا تی ہے۔ تو بہ و استغفار سے   دل دُھل جاتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابرا ہیمؑ کو وحی کی گئی کہ اپنے دل کو دھو لیا کرو، آپ کہنے لگے: اے اللہ! پانی تو وہاں پہنچتا ہی نہیں میں اس کو کیسے دھوؤں ؟ اللہ تعالیٰ نے فر مایا: یہ دل پانی سے نہیں، یہ تو میرے سامنے رونے سے دُھلتا ہے، یعنی تو اگر میرے سامنے عا جزی اور آہ وزاری کرے گا تو ان آنسوؤں کے گر نے سے تیرے دل کو صاف کر دیا جائے گا۔ دل اس طرح دھلتا ہے ۔

 قرآن مجید صاحب ِقلب کے لیے نصیحت ہے :’’بے شک اس سورہ یا قرآن مجید میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جس کا قلب ہو یا وہ کان لگا کر پو ری حا ضر دما غی کے ساتھ سن رہا ہو‘‘۔ اس لیے علما نے لکھا ہے جتنے احکام انھیں ملے ہیں، ان کا مخاطب قلب ہی ہے اور دل ایمان کی جگہ ہے اور ہاتھ اور پیر اسلام کی جگہ ہیں۔ ایمان چھپی ہو ئی شے ہے، جو دل میںرہتا ہے۔ اس لیے حدیث میں فر مایا گیا کہ ایمان چھپی ہو ئی شے ہے جس کو دل لیے ہو ئے ہے اور اسلام کھلی ہوئی شے ہے جو ہاتھ پاؤں سے ظا ہر ہو تی ہے، تو سب جگہ قلب ہی مخاطب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قیمت لگا دی ہے۔انسان کے نفس کو اور مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے۔ نفس کی قیمت جنت لگا دی لیکن دل کی قیمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے، لہٰذا جو انسان اپنا دل اللہ تعالیٰ کے حوا لے کردے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اپنا دیدار عطا فر ما ئیں گے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اُس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے‘‘  (القیامۃ۷۵:۲۲-۲۳)۔    یہ کیسے خوش نصیب لوگ ہوں گے کہ جو قیامت کے دن اچھے حال میں کھڑے ہوں گے۔

 اللہ تعالیٰ نے جنت کو بنایا تو اس کی کنجی رضوان کے ہا تھ دے دی، اور جہنم بنایا تو اس کی کنجی اللہ تعالیٰ نے جہنم کے دارو غہ کو دے دی، اور اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو اپنا گھر بنایا اور اس کی کنجی بنی شیبہ نامی خاندان کو دے دی کہ قیامت تک ان کے پاس رہے گی، کسی اور کے پاس نہیں جا سکتی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کا دل بنایا مگر اس کی کنجی اپنے دستِ قدرت میں رکھی، وہی دلوں کو پھیرنے والا ہے، وہ جسے چاہتا ہے اُلٹ پھیر کر دیتا ہے۔ گو یا ہمارے دل کا تالا اگر کھل سکتا ہے تو اللہ رب العزت کی رحمت کے ساتھ کھل سکتا ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اللہ رب العزت کے حضور دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ سے طلب کریں اور فریاد کریں کہ رب کریم جب ہمارے دلوں کا معا ملہ آپ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے تو دل کے تا لے کو خیر کے لیے کھول دے تا کہ ہم بھی   آپ کی محبت بھری زندگی کو اختیار کرسکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعا کریں، یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، ’’ اے دلوں کے پلٹنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ‘‘۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓفر ما تے ہیں کہ جس پر نصیحت اثر نہ کرے وہ جان لے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے۔ حضرت امام شافعی ؒ فر ما تے ہیں کہ دل کو روشن کر نا ہو تو غیر ضروری باتوں سے پر ہیز کرو ۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ اللہ پاک کے نا موں میں ایک نام ’ النور‘ ہے، اس کا ذکر کثرت سے کر نے سے قلب کو نور حاصل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قلب ِ سلیم سے نوازے، آمین!

 

کامیابی معین اہداف کے حصول کا نام ہے، چاہے وہ دینی ہوں یا دنیاوی۔ ان کا انسان کی انفرادی، خاندانی یا معاشرتی، غرض زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق ہو سکتا ہے۔ انسان جب ان اہداف کو حاصل کرلیتا ہے تو اسے نہ صرف خوشی اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے بلکہ وہ یہ محسوس کرتا  ہے کہ وہ زندگی کی شاہراہ پر کافی آگے نکل گیا ہے۔

خوش بختی  ایک نفسیاتی اطمینان اورخوشی کی کیفیت کا نام ہے جو خُدا کے دیے پر قناعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔خوش بختی کا سر بستہ راز خداے واحد پر ایمان، بندگی کے کلی مفہوم کی صحیح سمجھ اور اس کی عملی تطبیق میں مضمر ہے۔بندگی کا مفہوم ایک کلی مفہوم ہے جس میں ایک مسلمان کا ہر ہر شعبہ رنگا ہونا چاہیے۔کامیابی کا تصور اس وقت ایجابی اور صحیح سمت رواں ہو گا جب تک وہ بندگی کے تصور سے پیوستہ رہے گا اور اگر یہ تصور بندگی کے تصور سے مربوط نہیں تو لازماً منفی اور غلط نتیجے تک پہنچ کر رہے گا۔

کامیاب اور ناکام  فرد کی خصوصیات

  • کامیاب فرد: وہ کام کی ذمہ داری اٹھاتاہے، یعنی احساس ذمہ داری اس کی اہم خصوصیت ہوتی ہے۔
  •               وہ مسئلے کا تفصیل سے جائزہ لیتا ہے، یعنی باریک بینی سے کام لیتاہے ۔
  •               وہ دوسرے کامیاب لوگوں کی عزت کرتا ہے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، یعنی اس میں دوسروں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ ہوتاہے۔
  •               وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کون سے معاملات ہیں جن کے لیے لڑنا چاہیے اور کون سے قابل مصالحت، ہیں، یعنی وہ حکمت اور مصلحت کو پیش نظر رکھتاہے۔
  •               ذمہ داری کو اس سے زیادہ محسوس کرتا ہے جتنا فرض منصبی کا تقاضا ہے۔
  •               شکست کا اتنا خوف نہیں رکھتا جتنا ہارنے والا خوف زدہ ہوتاہے۔
  •               وہ جانتا ہے کہ وہ اچھا ہے مگر اس بات کو بھی تسلیم کرتاہے کہ ا تنا اچھا نہیں جتنا ہونا چاہیے۔
  •               اپنی غلطی کااعتراف کرتا ہے اور حسب موقع معافی بھی مانگ لیتاہے۔
  •               عملاً دکھاتا ہے کہ وہ اس غلطی کو دور کرنا چاہتا ہے۔
  •               ناکام فرد سے زیادہ کام کرتا ہے مگر اس کے باوجود اس کے پاس دوسرے کام کرنے کے لیے  بہت وقت ہوتاہے۔
  •               اپنی رفتار کا تعین کرتا ہے اور جائزہ لیتا رہتا ہے۔ منزل سے فاصلے کو دیکھتاہے اور اسے عبور کرنے کی کوشش کرتا رہتاہے۔
  •               کہتا ہے: ’’اس کام کے لیے کوئی بہتر طریقہ ہونا چاہیے۔ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتاہے۔
  • ناکام فرد :  وہ وعدے کرتاہے مگر غیر ذمہ داری کے ساتھ اور عملاً انہیں نبھا نہیں سکتا -
  •               مسئلے میں اُلجھا رہتا ہے اور کبھی اسے سمجھ نہیں پاتا ۔ ہمیشہ مکڑی کے جال میں پھنسا رہتا ہے۔
  •               کامیاب لوگوں سے جلتا ہے اور ان کی کامیابیوں میں کیڑے نکالتا ہے۔  شخصیت  میں حسد کا مادہ  بھر ا رہتاہے ۔
  •               ایسے مواقع پرمصالحت کرلیتا ہے جہاں مصالحت نہیں کرنی چاہیے اور ان باتوں میں جھگڑتاہے جو اس قابل نہیں کہ ان پر جھگڑا کیا جائے۔ عمومی طور پر جلد باز ہوتاہے۔
  •               کہتا ہے کہ یہاں صرف میں کام کرتا ہوں اور دوسروں کو نہ تو تسلیم کرتا ہے اور نہ ان کے کاموں کو ہی سراہتاہے۔
  •               دل ہی دل میں کامیابی سے خوف زدہ رہتا ہے۔ کامیابی کا خوف بھی اس کا ایک مرض بن جاتا ہے۔
  •               وہ سمجھتا ہے کہ میں اتنا برا نہیں جتنے دوسرے لوگ ہیں اور ہمیشہ اس ذہنی مقابلے میں رہتا ہے۔
  •               وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا اور خرابی اور ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
  •               کہتا ہے مجھے افسوس ہے مگر اگلی بار پھر وہی کام کرتا ہے، یعنی اسے اپنی ذات پر قابو نہیں ہوتا۔
  •               کامیاب فرد کے مقابلے میں کم کام کرتا ہے مگر پھر بھی وقت کی کمی کا رونا روتا ہے۔
  •               بے حد ہیجانی کیفیت میں رہتاہے اور بے حد سست اور کاہل ہوتا ہے۔ بات اور کام کو ٹالتا ہے۔
  •               کبھی عمدگی سے کام نہیں لیتا-بے حد کمزوری یا ظلم کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ شخصیت میں     عدم توازن ہوتا ہے۔
  •               اپنے بولنے کی باری کے لیے مضطرب رہتاہے اور دوسروں کے بولنے کے دوران بے چین رہتاہے۔
  •               وہ اپنے معاملات کے دفاع میں کہتا ہے کہ یہاں ہمیشہ اسی طرح کام ہوتاہے۔

کامیابی کے دائرے اور سانچے

  • رویے: مثبت انداز فکر اپنائیے 
  • پر سکون رہیے
  • پُراُمید رہیے rتوکل کیجیے۔
  •               مضبوط قوتِ ارادی اور مستقل مزاجی سے کام لیجیے ۔
  •               جاگتے رہیے اور ہوشیار رہیے، لوگوں کی باتوں میں نہ آیئے اورمعاملات میں محتاط رویہ اختیا ر کیجیے۔
  •               نصب العین اور مقاصد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیے اور اپنے رویے اور مزاج کو نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بنائیے۔
  •               جہد مسلسل کیجیے اور آگے بڑھنے کے جذبے کو برقرار رکھیے۔
  •               انگریزی کے لفظ ونِ ونِ (win, win) یعنی کامیابی کو پیش نظر رکھیے اور دیکھیے کہ سب کو اجتماعی کامیابی کا احساس ہو۔
  •               ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے اور اس کا احساس کرنا ضروری ہے۔ دیکھیے کہ قائد انسانیتؐ  نے حجر اسود کو اپنی جگہ پر دوبارہ رکھنے کے سلسلے میں کس حکمت عملی اور احساسِ عزتِ نفس کے ساتھ اس معاملے کو چادر پھیلا کر سلجھا دیا۔
  •               باہمی امداد کا رویہ رکھیے۔ جب آپ دوسروں کی امداد کریں گے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔
  •               جذباتی پن، غصے اور ردعمل کے رویے پر قابو رکھیے۔
  •               بہت جلدی ناراض مت ہوں۔ اگر ناراض ہونے کی عادت ہے تو جلدی سے خوش بھی ہوجایئے کہ یہ اچھی علامت ہے۔
  •               تصوراتی (آئیڈلسٹک) زندگی مت گزاریں- اس دنیا میں ہی رہ کر آخرت بنانی ہے۔ سب لوگ آپ کو آپ کے مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں ملیں گے۔
  •               نتائج کو ذہن میں رکھیں۔ درحقیقت انجام آخرت کو پیش نظر رکھیں۔
  •               صبر و تحمل اور حلم سے کام لیجیے۔
  •               شکر گزار بنیے۔ لوگوں کے احسانات کا اعتراف کیجیے اور رب کی نعمتوں کو محسوس کیجیے اور    اس کے شکر گزار بنیے۔نعمت ایک جنگلی جانور ہے اسے شکر کی زنجیروں سے باندھ کر رکھو۔
  •               استقامت اور باقاعدگی کا رویہ رکھیں۔
  •               حاسبو قبل ان تحاسبو، یعنی اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے۔ قیامت میں پیشی سے پہلے اپنے معاملات کا جائزہ لے کر شاہراہ آخرت کے لیے اپنے بوجھ کو ہلکا کیجیے۔

عادات

  •               ہر کام شروع کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کرنے کی عادت ڈالیے۔
  •               روزانہ ’کرنے کے کام‘ کی فہرست بنائیے۔ یہ فہرست ایک دن پہلے شام کو یا رات کو بھی بن سکتی ہے یا علی الصبح بھی بن سکتی ہے، مگر یہ آپ کی عادت بن جائے اور اس کے بغیر آپ کا کام شروع نہ ہو۔
  •               زندگی کے ہر معاملے میں اور اپنے یو میہ کاموں کے معاملے میں ترجیحات متعین کرنے کی عادت ڈالیے۔ اہم اور ضروری کاموں کو اولیت دینے کا طریقہ اپنایئے۔
  •               جو کام شروع کریں اسے ختم بھی کریں۔ کام کرنے اور کام کو سمٹنے کی عادت بنائیے۔
  •               کام کو احسن طریقے اورمقررہ وقت میں کرنے کی عادت ڈالیے۔ ڈیڈلائن (آخری حد) مقرر کرنے اور اس کے مطابق کام کرنے کی عادت اپنانے کی کوشش کریں۔
  •               وقت کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا اور اسے ریکارڈ کرنے کی اور جائزہ لینے کی عادت   بنائیے۔ کام اور معاملات آپ کے قابو میں آنا شروع  ہو جائیں گے۔
  •               جلدی اُٹھنے اور جلدی سونے کی عادت ا پنائیے۔
  •               مطالعہ کرنے اور نوٹس بنانے کی عادت ڈالیے۔
  •               اپنی بہترین کارکردگی کا وقت (پیک ٹائم)  اور بہترین وقت (پرائم ٹائم)کا اندازہ لگائیے، یعنی اس بات کا تعین کیجیے کہ وہ کون سے اوقات ہیں جن میں آ پ بہترین انداز سے اور بہت اچھا اور بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ ان اوقات کو اپنے اہم ضروری اوربہترین کاموں کے لیے استعمال کرنے کی عادت بنایئے۔
  •               لوگوں کی بات سکون کے ساتھ سننے کی عادت اپنایئے۔
  •               فیصلہ کرنے اور اس پر عمل در آمد کرنے کی عادت ڈالیے۔
  •               انتظار اور فارغ اوقات کو استعمال کرنے کی عادت بنائیے۔
  •               معمولات اور معاملات میں لچک رکھنے کی عادت ڈالیے اور گھڑی فوبیا کی بیماری میں مبتلا نہ ہوں۔
  •               مسکرانے کی عادت ڈالیے۔ اس کے لیے صر ف ارادے کی ضرورت ہے۔
  •               خریداری کی منصوبہ بندی کریں۔ ضرورت کو پیش نظر رکھ کر اور ترتیب بنا کر خریداری کے لیے جایئے۔ غیر ضروری خریداری آپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
  •               ہر چیز کے لیے ایک جگہ اور ہر چیز اپنی جگہ پر رکھنے کی عادت ڈالیے۔
  •               ٹی وی، انٹرنیٹ،ای میل کے استعمال میں توازن پیدا کیجیے۔ یہ خوراک کی طرح ضروری نہیں ہیں، البتہ دور حاضر کی ضرورت اور سہولت کا تقاضوں کے مطابق فائدہ اٹھائیے اوردوا اور وٹامن کی طرح استعمال کریں، تاکہ آپ کو احساس ہو کہ زیادہ استعمال کرنے کے کیا نقصانات ہیں۔
  •               ایک سوال اپنے آپ سے کرتے رہیے کہ کیا یہ کام یا مصروفیت میرے وقت کا بہترین استعمال ہے؟

صلاحیتیں

  •               مشاہدہ کرنے اور اس سے نتائج نکالنے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔
  •               دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے کی کوشش کیجیے۔ عقل مندی یہی ہے کہ ہم دوسروں کے تجربات سے سبق سیکھیں، اس لیے کہ تجربہ ایک ایسا استاد ہے جو سزا پہلے دیتا ہے اور سکھاتا بعد میں ہے۔
  •               ہردلعزیزی کا فن سیکھیے۔
  •               تعلقات عامہ کا فن سیکھیے اور اپنا نیٹ ورک تشکیل دیجیے۔
  •               گفتتگو اور نقطۂ نظر پیش کرنے کا سلیقہ سیکھیے اور اس کے لیے باقاعدہ تربیت حاصل کیجیے۔
  •               فون اور موبائل پر گفتگو کا سلیقہ سیکھیے اور مختصر انداز میں اپنی بات پیش کرنے کا فن سیکھیے۔
  •               ایک وقت میں ایک سے زائد کام کرنے کا سلیقہ سیکھیے یعنی فون پر بات کرتے ہوتے کاغذات کو سمیٹنا اور اس انداز کے دوسرے کام کا فن سیکھیے۔
  •               ٹیم ورک، یعنی لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا فن سیکھیے اور اجتماعی کامیابی کی کوشش کیجیے۔
  •               تفویض امور، یعنی لوگوں سے کام لینے کا فن سیکھیے۔
  •               فالو اَپ (کام کا تعاقب کرنا)اور مسلسل یا ددہانی کے ذریعے کام کو کروانے کی کوشش کرنا اور اس سلسلے میں کوئی تامل نہ کرنا۔
  •               کاموں میں اس انداز سے شریک ہونا کہ وہ کنٹری بیوشن ہو۔آپ اپنے حصے کاکام ضرور کریں۔
  •               افراد کی تربیت اور انھیں آگے بڑھانے کا فن سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ اس سے ادارے بنتے ہیں اور تسلسل برقرار رہتا ہے۔
  •               لکھنے کی صلاحیت اور تحریر کے ذریعے اپنے خیالات پیش کرنے کا فن سیکھیے۔
  •               تقریر اور پریزنٹیشن کا فن مشق اور تربیت کے ذریعے حاصل کیجیے۔
  •               تیز تر مطا لعے کا فن آپ کی ترقی کا باعث ہے۔
  •               منصوبہ بندی کی صلاحیت کامیابی کے لیے بنیادی شرائط میں سے ہے۔
  •               معاملات پر بات چیت اور مذاکرات کی صلاحیت اور پرسکون رہ کر معاملات کو آگے بڑھانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔
  •               مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کی تربیت حاصل کیجیے۔
  •               کاموں، معاملات، گفتگو اور اخراجات میں کفایت کی صلاحیت پیدا کیجیے۔ یہ آپ کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوں گی۔
  •               انتظام کرنے اور انتظامی معاملات کا فن سیکھنے کی کوشش کیجیے۔
  •               میٹینگ میں شرکت اور اس میں اپنی بات رکھنے کا فن تربیت کے ذریعے حاصل کیجیے۔
  •               اپنے کاموں میں فوکس رہنے کا اور یکسوئی کے ساتھ  کام کرنے کا فن حاصل کیجیے۔
  •               معذرت کرنے کا فن جانیے، یعنی لا یعنی مشاغل اور غیر ضروری کاموں اور نصب العین اور مقاصد سے دُور کرنے والے کاموں سے معذرت کر لیجیے۔ تقویٰ کی تعلیم بھی یہی چیز سکھاتی ہے۔
  •               معاملات میں میانہ روی، کفایت شعاری اور اعتدال اور توازن برقرار رکھنے کی کوشش کیجیے۔

ٹکنالوجی ، ٹولز اور فنی صلاحیت

  •               ڈائری کے استعمال  کا فن سیکھیے اور دورِ جدید کی سہولیات اور وسائل (tools)سے بھرپور فائدہ اٹھائیے۔
  •               روز کے کرنے کے کام کی فہرست اور ’ٹو ڈو لسٹ‘ کا استعمال ایک کارآمد ٹول ہے۔
  •               کمپیوٹر کا بہتر استعمال سیکھنے کی کوشش کیجیے اور اس کے ذریعے اپنے کاموں کو بہتر طریقے سے انجام دینا سیکھیے۔
  •               انٹرنیٹ کا بہتر استعمال سیکھ کر معلومات اور علوم کے نئے دروازوں میں داخل ہونے کی کوشش کیجیے۔
  •               ای میل کا بہتر استعمال سیکھ کر رابطے کی دنیا میں سرعت حاصل کیجیے اور اس کے ذریعے سے وقت اور اخراجات میں کفایت حاصل کیجیے۔
  •               سوشل میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا سیکھیے۔
  •               گوگل ٹاک اور سکایپ کا بہتر استعمال سیکھ کر روابط قائم رکھنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔
  •               دور حاضر کی یہ ایجادات سمندر کی مانند ہیں۔ اس سے ضرورت کے مطابق پانی لیجیے اور اپنے آپ پر قابو رکھیے تا کہ ڈوب نہ جائیں۔

کامیابی کے میدان اور ان کے سانچے

کامیابی کا جوہر اور اس کا راز بعض اہم بنیادی اصولوں کے جان لینے اور ان کی مسلسل مشق کرنے میں مضمر ہے۔ذیل میں کامیابی کے سانچوں ، دائروں اور میدانوں کو ایک چارٹ کی صورت میں پیش کیا جارہاہے:

کامیابی کے دائرے اور سانچے
کامیابی کے میدان
رویے

عادات

صلاحیتیں

ٹکنالوجی، ٹولز اور فنی صلاحیت

ذاتی

تعلیمی

معاشی

خاندانی

معاشرتی

 اس مضمون کے مطالعے کے بعد آپ اوپر دیے ہوئے خانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے بھرنے کی کوشش کیجیے تاکہ آپ اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرسکیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مضمون میں جو اشارات دیے گئے ہیں ان میں ہر ایک کے ساتھ ایک چیک بکس بناہوا ہے۔ اسے آپ اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے نشان لگائیں گے تو آپ کو اپنی بہتری کی منصوبہ بندی آسان ہوجائے گی۔

چند بنیادی عوامل

  •  نصب العین، مقاصد اور منصوبہ بندی:نصب العین کا تعین اور زندگی کو      اس نصب العین کے مطابق گزارنے کی کوشش کیجیے۔
  •               نصب العین کا تعین اوراس کے حصول کے لیے مقاصد زندگی کا تقرر کیجیے اور اس پر وقت   صرف کیجیے۔
  •               ان مقاصد کے حصول کے لیے وسائل کا تعین کیجیے اور انتظام کرنے کی منصوبہ بندی سیکھیے۔
  •               ان مقاصد کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ اوقات اور مدت کی تعین کے ساتھ شیڈولنگ کیجیے۔
  •               ان پر عمل درآمد کرنے کا طریقۂ کار وضع کیجیے اور اس کا باقاعدگی سے جائزہ لیتے رہیں۔
  •  عرفان ذات: اپنے آپ کو پہچاننا سیکھیے۔
  •               اپنے مثبت اور منفی حقائق کا جائزہ لیتے رہیں اورکمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے بہتری کی کوشش کرتے رہیں۔
  •               اپنی ذات کی عکاس نوٹ بک بنانا سیکھیں اور اسے باقاعدگی سے پڑھتے رہیں۔
  •  توازن زندگی: تعلیم اور گھر کی تنظیم پر بھرپور توجہ دیں۔ جس جگہ پر اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں اسے مکان کے بجاے گھر بنانے اور سکون کی جگہ بنانے کی کوشش کیجیے۔
  •               گھر اور معاش کی تنظیم کیجیے اور اس میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کیجیے۔
  •               خاندان کی تنظیم کی طرف توجہ دیجیے کہ اس کے حوالے سے جواب دہی ہونی ہے۔
  •               اپنی ذات پر سرمایہ کاری کیجیے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کیجیے۔
  •               ترتیب، تسلسل، توازن اور ترکیب کا خیال رکھیے۔
  •  اخلاقی اقدار: ان بنیادی اخلاقی اقدار پر بھرپور توجہ دیجیے:

  •               سچائی بنیادی صفت ہے اور ہر مذہب کا بنیادی تقاضا ہے۔
  •               امانت کردار کا اہم ستون ہے۔
  •               عہد کی پابندی آپ کے وقار میں اضافہ کرتی ہے۔
  •               انصاف لوگوں میں آ پ کو تسلیم کراتاہے۔

 

قیادت عوام کے کسی گروہ کو ایک طے شدہ سمت میں بلا جبر کام پر آمادہ کرنے کا نام ہے۔ قیادت ایک کردار بھی ہے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا ایک طریقۂ عمل بھی۔ قائد کسی گروہ کا ایک ایسا رکن ہوتا ہے جسے کوئی عہدہ یا ذمہ داری دی جاتی ہے اور اس سے اس منصب کے شایان شان کام کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔

قیادت کا منصب

  •               قائد کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کا وقت کہاں خرچ ہورہا ہے اور وقت کو کس طرح  منظم طریقے سے استعمال کرناہے۔ اسے عرف عام  میں کنٹرول کہتے ہیں۔
  •               ٹھوس نتایج پر توجہ مرکوز رکھیے۔ محض کام کے بجاے نتائج پر توجہ دیجیے۔
  •               کام کے ذریعے حالات کی اصلاح اور منزل کی تلاش کیجیے۔
  •               تعمیر کمزوریوں پر نہیں، خوبیوں پر کیجیے۔
  •               اپنے مضبوط اور کمزور پہلوؤں کا جائزہ لیجیے، دوسروں کی خوبیوں کو بھی تسلیم کیجیے۔
  •              چند ایسے اہم میدانوں میں کام پر توجہ دیجیے جن میں مسلسل محنت شان دار نتائج پیدا کرسکتی ہے۔
  •              ترجیحات مقرر کرکے اور ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ کرایسے میدانوں کا انتخاب کیجیے۔
  •              اللہ پر بھر پور اعتماد کیجیے، محفوظ اور سہل منزل کا انتخاب کرنے کے بجاے اپنا مقصد بلند رکھیے۔
  •              جب تک اللہ کے لیے کام کر رہے ہیں اس وقت تک کسی چیز کا خوف نہ کیجیے۔

قیادت کی خوبیاں

قیادت کی خوبیوں میں درج ذیل عناصر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے:

  •               سائنسی تحقیق کے ذریعے ثابت ہونے والے عناصر۔
  •               انتظامی تجربات سے حاصل ہونے والے عناصر۔
  •               پیر و کاروں کے بیانات سے سامنے آنے والے عناصر۔

سائنسی تحقیق سے ثابت ھونے والے عناصر

  •               ذہنی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔
  •              وسیع دل چسپی اورصلاحیتیں رکھتے ہیں۔
  •               با ت چیت اور گفتگو کی مہارت رکھتے ہیں۔
  •              رویے اور کردار میں پختگی اور بلوغت ہوتی ہے۔
  •              قوتِ محرکہ کے ذریعے وہ خو د بھی متحرک رہتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی متحرک رکھتے ہیں۔
  •               معاشرتی ہنرمندی ہوتی ہے، یعنی وہ معاشرے میں رہ کر معاشرے کے افراد کو بھرپور فائدہ بھی پہنچاتے ہیں اور ان افراد کو اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
  •              دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق انتظامی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کو  وہ دنیا اور آخرت کی بہتری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انتظامی تجربات سے حاصل ہونے والے عناصر

عمومی عناصر

  •              اخلاقی پختگی ہو اور بات بات پر رنجیدہ نہ ہوجاتا ہو، صورت حال کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔
  •             فکری صلاحیت ہو اور نصب العین کے تقاضوں کے پیش نظر سوچ کر آگے بڑھنے والا ہو۔
  •               انتظامی صلاحیت کا مالک ہو اور اس کو صلاحیت کے ساتھ ساتھ فن کے طور پر بھی استعمال کرتا ہو۔
  •               تمام متعلقہ افراد کے ساتھ انصاف سے پیش آتا ہواور اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف کرتا ہو۔
  •              مختلف امور میں دل چسپی لیتا ہو اور الگ تھلگ رہنے والا محسوس نہ ہو۔
  •              ہدایات جاری کرنے کا مزاج رکھتا ہو۔ یہ حکم کے زمرے میں تو ہو لیکن اس انداز سے پیش کرے کہ لوگ اسے اپنی ذمہ داری کے طور پر لیں۔
  •               منصوبہ بندی کا ذہن رکھتا ہو۔ہر کام کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کرے اور اس میں اپنی ٹیم کو بھرپور انداز میں شامل کرے۔ یہ منصوبہ بندی صرف ذہن تک محدود نہ ہو بلکہ اسے تحریری صورت میں لاکر ایک لائحہ عمل کے طور پر رکھے تاکہ خود بھی پابند ہواور دوسرے افراد بھی بغیر حکم کے اپنے آپ کو پابند سمجھیں۔
  •              خود اپنے اور دوسروں کے لیے احترام کے جذبات رکھتا ہو۔ اپنے ساتھیوں اور معاشرتی رابطے میں آنے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھتا ہو۔
  •              مطالعے کا شو قین ہو۔ دین اور دنیا کا مطالعہ کرے اوردور حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کے احکامات دنیا کے لوگوں کے لیے آسان طریقے سے پیش کرے تاکہ عمل ممکن ہو۔
  •              قوت فیصلہ کا مالک معاملہ فہم اور فیصلے کرنے کے طریقۂ کار سے واقف ہو۔ جلد باز، رد عمل کرنے والا اور سست نہ ہو۔
  •              تربیتی ذہن رکھتا ہو اور اپنی ٹیم کو تیار رکھتا ہو۔ اس انداز سے کام کرے اور افراد کو تربیت دے اور تیار کرے کہ کل کسی وجہ سے وہ حاضر نہ ہو سکے تو اس کا کام سنبھالنے کے لیے ایک سے زائد افراد موجود ہوں۔
  •              اپنے کام اور معاملات منظم طریقے سے کرتا ہو۔
  • قابل اعتماد ہو۔لوگ اس پر بھروسا کرتے ہوں۔
  • پُر جوش اور سر گرم ہو، سست اور کاہل نہ ہو۔
  • طاقت وراور باہمت ہو۔ قوی مومن ہو اور اپنی صحت کا خیال رکھتا ہو۔
  • تحریری اور تقریری صلاحیتوں کے ساتھ اظہار کرتاہو۔
  • منطقی ذہن رکھتا ہو۔
  • زود فہم اور مستعد ہو۔
  • ذمہ دار ہو۔rبا وسائل ہو۔
  • بہتری پیدا کرنے کا مزاج رکھتا ہو اور احسان کے اصول پر عمل پیرا ہو۔
  • آگے بڑھ کر اقدام کر سکتا ہو اور محنتی ہو۔rتمام متعلقہ افراد کے ساتھ وفادار ہو۔
  • انسان دوست ہو۔

تنظیم کے متعلق عناصر

  •              تنظیم کے اغراض و مقاصد اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔
  •               تنظیم کے ڈھانچے اور رُخ سے بھی واقف ہو۔
  •               فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ہو۔
  •               تنظیم کی پالیسی، عمل اور طریق کار سے بھی واقف ہو۔
  •               کاروباری تنظیم کی مصنوعات، ان کی تیاری کا عمل اور فروخت کی صورتوں سے واقف ہو۔
  •               غیرکاروباری تنظیم کی صورت میں تنظیم کی خدمات کو مصنوعات کے طور پر لے کر اسے دورِ جدید کی techniques کے ذریعے پیش کرے۔
  •              منصوبہ بندی ، کام کے خاکے کی تیاریاں جانتا ہو اور نگرانی کے عمل سے بھی واقف ہو۔
  •               رپورٹنگ کا سلسلہ، محاسبہ اور احتساب کے طریقہ کارسے واقف اور محاسبے اور احتساب کو اپنی ذات پر حملہ یا بد اعتمادی نہ سمجھتا ہو۔
  •               دنیاوی انداز میں نفع اور خسارے کے مفہوم سے واقف ہو۔
  •              ملازمت، تجارت، فنی اور پیشہ ورانہ علم رکھتا ہو۔
  •            خدمات کا معیار برقرار رکھنے کے تقاضے جانتاہو اور ان کی نگرانی کا فن بھی جانتا ہو۔
  •               بنیادی علوم، یعنی ریا ضی، زبان اور سائنس سے واقف ہو۔
  •              موزوں قانون سازی کر سکتا ہو اور قانون کے مفاہیم اور تقاضوں سے واقف ہو۔

علوم اور مھارت سے شناسائی

ایک قائد کو ان چیزوں کے متعلق علم اور مہارت ہونا چاہیے:

  •               اپنے میدان میں پیشہ ورانہ معیارات کو برقرار رکھنے والا ہو۔
  •              ذاتی قوت اور ترقی کے تقاضوں کا خیال رکھنے والا ہو اور اس میں پیش رفت کرتا ہو۔
  •               تخلیقی فکر کا حامل اور جدید علوم و فنون سے واقف ہو۔
  •              انسانی تعلقات کے اصولوں سے واقف ہو، دورِ جدید کے سوشل نیٹ ورک کے طریق کار سے واقف اور اس سے بھرپور فائدہ  اٹھانے والا ہو۔
  •               افراد کے انتخاب، ان کے تقرر کے اصولوں سے واقف ہو، ٹیم ورک اور تفویض اُمور کے ساتھ محاسبے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
  •               اپنے منصب کے مطابق کام کرنے کی مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
  •              تخلیقی سوچ و بچار کے ذریعے  اپنی ٹیم کو آگے لے جانے والا ہو۔
  •              منظم انداز میں منصوبہ بندی کرنا، عمل درآمد کرنا اور تعاقب کرنے کے فن سے واقف ہو۔
  •               دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا آتا ہو۔
  •               ضرورت کے مطابق ریکارڈ رکھنا اور حسب موقع اسے استعمال کرنا آتا ہو۔
  •               امانتوں کا خیال رکھنا اور ان کا باقاعدہ حساب رکھنا آتا ہو۔
  •               قواعد اور ضوابط نافذ کرنے کی صلاحیت ہو۔
  •               مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ہو۔
  •               حالات کار کی اصلاح کرنے کی صلاحیت ہو۔
  •               ہنگامی حالات سے نمٹنا آتا ہو۔
  •              عمدہ طریقے سے دفتر اورخانہ داری کا فن آتا ہو۔
  •               مسلسل بہتری کے لیے مطالعے اور مشاہدے کا عمل جاری رکھنے والا ہو۔
  •               عمدہ ذاتی مثال قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

قائد: کارکنوں کی نظر میں

پیر وکاروں اور کارکنان کے بیانات سے سامنے آنے والے ایک قائد کے عناصر    درج ذیل ہیں:

  •              مروت اور خاطر داری کی صلاحیت رکھتاہو، روکھا فرد نہ ہو۔
  •               غیر جانب داری کی صلاحیت کا مالک ہو، غیر جانب دار ہو بھی اور غیر جانب دار نظر بھی آئے۔
  •              ایمان داری اس کی خاصیت ہو اور ظاہر اور باطن میں ایمان دار رہنے کی کوشش کرتارہے۔
  •              اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ہو اور اپنے ساتھیوں میں ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنے والا ہو۔
  •               عوام کے بارے میں علم رکھتا ہو اور باخبر ہو۔
  •               ان صلاحیتوں سے واقف ہو، جن کے ذریعے وہ تنظیم کو اپنے اختیار میں رکھ سکے اور دوسرے افراد غیر ضروری طور پر حائل نہ ہوجائیں۔
  •               جرات اور ہمت کا حامل ہو۔
  •               راست روی اس کا طرۂ امتیاز ہو، یعنی نرم دم گفتگو ،گرم دم جستجو،رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز۔
  •               فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہو۔
  •               پُر وقار اور بُردبار ہو۔
  •               اپنے ساتھیو ں، ٹیم کے افراد اورعوام کا مفاد پیش نظر رکھتاہو۔
  •               مدد گار اور قربانی کا جذبہ رکھتا ہو۔

کرنے کے کام

درج ذیل سوالوں کے جوابات دے کر اپنی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کیجیے:

  •               آپ کے سامنے بعض واضح اور معین اہداف ہوں ، منزلیں ہوں اور ان کے حصول کے لیے درست لائحۂ عمل اختیا ر کریں۔ دراصل یہ چیز انسانی زندگی کے لیے اس قدر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے بڑی تفصیل کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس پر انفرادی اور اجتماعی تربیت کی ضرورت ہے۔
  •               کیا آپ  نے اپنی زندگی کا نصب العین متعین کرلیا ہے ؟
  •               کیاآپ نے اپنے نصب العین کے مقاصد اور مطالب متعین کرلیے ہیں؟
  •               کیا آپ نے ان کے مطابق منازل کا تعین کرلیا ہے؟
  •               کیا آپ نے شیڈولنگ کرلی ہے اور وقت مقرر کرلیا ہے؟
  •               کیا آپ نے اس کے محاسبے کا طریقہ متعین کرلیا ہے؟

آپ کی قوت ارادی اس قدر مضبوط ھو کہ آپ اپنے نفس کی لگام کو اپنی مرضی کے مطابق حرکت دے سکیں، اپنے معاملات کو منظّم کر سکیں:

  •               کیا آپ نے اس بات کا جائزہ لے لیا ہے کہ آپ کتنے مضبوط ارادے کے فرد ہیں؟
  •               کیا آپ کے ارادے بلبلے کی طرح بنتے اور اسی طرح ٹوٹ جاتے ہیں؟
  •               آپ نے مضبوط قوت ارادی کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟

اپنی عادات کا جائزہ لیں، انسان عادات کے ذریعے بھت کچھ حاصل کرتا یا گنواتا ھے۔ وقت، مال اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے والی خراب عادات کو ترک کر کے ان کی جگہ عمدہ عادات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں:

  •               کیا کبھی آپ نے تنہائی میں اپنی ذات سے ملاقات کرکے اپنی عادات کا جائزہ لیا ہے؟
  •               کیا اچھی اور بری عادات کو الگ الگ نوٹ کرلیا ہے؟
  •               کیا بری عادات کو ختم کرنے اور اچھی عادات کو مزید بہتر بنانے کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی کوشش کرلی ہے؟

آپ کے اندر بھترین حافظہ موجود ھو۔ دوسرے لفظوں میں، اپنے حافظے کو پروان چڑہانے کے لیے شعوری کوششیں کریں:

  •               کیا آپ نے اپنے حافظے کا جائزہ لیا ہے کہ وہ کس طرح کام کررہا ہے؟
  •               کیا آپ نے حافظے کے بہتر استعمال کے لیے کچھ مطالعہ کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے حافظے کی بہتری  کے لیے کو ئی تربیت حاصل کی ہے؟

دوسروں سے تعلقات و روابط رکہنے کی مھارت حاصل کریں۔ ان کے تجربات سے سیکہنے کا عمل جاری رکہیں:

  •               کیاآپ دوسروں سے اچھی طرح مل لیتے ہیں؟
  •               کیا لوگ آپ سے مل کر خوش ہوتے ہیں؟
  •               جب آپ لوگوں سے ملنے کے لیے جاتے ہیں تو کیا معاشرے کے تقاضوں کے مطابق لباس پہنتے ہیں؟
  •               کیا آپ پہلی ملاقات کے بعد ان سے رابطہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟
  •               کیا آپ فون نمبر اور ای میل ایڈریس نوٹ کرتے ہیں؟
  •               کیا آپ ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں؟
  •               کیا آپ ان کے مشکل وقت میں ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں؟

اعتماد ذات کی دولت اور اپنی ذات کا احترام آپ کے اندر موجود ھو۔ اس کے علاوہ دوسرے انسانوں کے حوالے سے اور آئے دن پیش آنے والے مختلف حوادث و واقعات کے حوالے سے آپ کی سوچ مثبت ھو:

  •               کیا آپ اپنی عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں؟
  •               کیا لوگوں سے ملاقاتوں میں آپ ان کی عزت نفس اور مرتبے کا احترام کرتے ہیں۔
  •               کیا آپ گفتگو کے دوران متنازع معاملات میں سوچ کو مثبت رکھتے ہیں؟
  •               کبھی سخت گفتگو کے بعد آپ کو احساس ندامت ہو، تو کیا آپ معذرت اور معافی کے طریقے کو اپناتے ہیں؟

معاشرتی تعلقات کے بارے میں اتنی حساسیت ضرور ھو کہ بعض اھم معاشرتی آداب آپ کے معمولات کا حصہ بن جائیں:

  •               کیا آپ نے معاشرتی اخلاقیات کی تربیت حاصل کی ہے؟
  •               کیا آپ کی تنظیم اور ادارے نے آپ کے لیے اس قسم کی تربیت کا اہتمام کیا ہے؟
  •               کیا آپ مختلف مواقع کے معاشرتی اخلاقیات سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ اس سلسلے میں اپنا جائزہ لیتے رہتے ہیں؟
  •               اپنی ذات کے خول سے باہر، دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی اہلیت رکھیں، ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیں، اپنے معاشرے اور اپنی اُمت کے مسائل میں شریک ہوں۔
  •               کیاآپ تنہائی پسند ہیں تو کیا آپ نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس گھٹن سے کیسے باہر نکلا جائے؟
  •               کیا آپ نے اپنے قابل اعتماد دوستوں سے اس سلسلے میں کبھی مشورہ کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے اپنے دوستوں کا کوئی گروپ بنایا ہے جس میں بیٹھ کر آپ اپنے آپ کومتحر ک کرسکیں؟

اپنے نفس کو بعض ایسے زریں آداب سے آراستہ کر لیں جو آپ کو زندگی کے چیلنجوں سے نبردآزما ھونے اور مستقبل کی اُمیدوں کو بَر لانے میں معاونت دے سکیں:

  •               کیا آپ اپنی زندگی کے چیلنجوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ دور حاضر کے تقاضوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ جانتے ہیں کہ ملت کن مسائل سے دوچار ہے؟
  •               کیا آپ جانتے ہیں کہ ملت کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے کیا حکمت عملی استعمال ہورہی ہے؟
  •               اس سلسلے میں کیا آپ اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں سے واقف ہیں؟

معاش اور روزگار کے لیے ایسے مواقع کی تلاش کے لیے کوشاں رھیں جو آپ کو زیادہ ترقی اور زیادہ آمدنی فراھم کر سکیں:

  •               کیا آپ روزگار کے معاملے میں خود کفیل ہیں؟
  •               رزق حلال کی ضرورت کے مطابق فراہمی کے لیے آپ نے کچھ کوشش کی ہے؟
  •               کیا آپ نے حالات اور ضرورت کے مطابق پس اندازی کی ہوئی ہے؟
  •               کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ دنیا کمانے کے لیے سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہیں اور آخرت کے معاملات کو بھول گئے ہیں؟
  •               کیا آپ نے قناعت کے معانی اور مفہوم کو سمجھ لیا ہے؟

اپنے اندر بعض ایسے بلند تر اخلاقی اوصاف اور مھارتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں جن کی بدولت آپ مشکلات میں سے اپنے لیے راہ نکالنا سیکہیں۔ نئی نئی منصوبہ بندیوں کا نفاذ کرسکیں اور ناکامی کی صورت میں ناکامی کو اپنے اُوپر طاری کرنے کے بجاے عزم اور حوصلے سے اس کا مقابلہ کرسکیں:

  •               کیا آپ ان اوصاف اور مہارتوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ راہ کی مشکلات کا اندازہ کرسکتے ہیں؟
  •               کیا آپ نے کبھی ان ممکنہ مشکلات کو تحریر کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے کو ئی منصوبہ بندی کی ہے؟

روحانی، عقلی اور جسمانی صحت کا خاص خیال رکہیں، ان کی حفاظت کے اصولوں پر عمل پیرا رھیں تاکہ زندگی کی نعمتوں سے صحیح انداز میں لطف اندوز ھو سکیں:

  •               کیا آپ اللہ تعالیٰ کی دو اہم نعمتوں، یعنی صحت اور فرصت اوقات کی قدر کرتے ہیں؟
  •               اپنی جسمانی صحت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟
  •               کیا آپ نے ان عادتوں کو ترک کردیا ہے، جو آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں؟

اس بات کا خیال رکھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ من الستوٰی یوماہ فھومغبون ’’وہ شخص تباہ ہوگیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے رہے‘‘۔ اس حدیث پر عمل کا تقاضا یہ ہے کہ ہمار ا آج گذشتہ کل سے بہتر ہو، اور ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔ اس پر عمل کے لیے رات کو سونے سے پہلے احتساب کی، اور صبح کام شروع کرنے سے پہلے منصوبہ بندی، ترجیحات اور ترتیب کی ضرورت ہے۔

اے اللہ! توہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی ، درمیانی حصے کو بہبودی، اور آخری حصے کو کامرانی بنادے۔ آمین!

تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست

(اس مضمون کی تیاری میں ذاتی مطالعے کے نوٹس اور مغربی مصنفین کی کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے: کامیابی کا سفر ، مصنف،ڈاکٹر ابراہیم بن حمدالعقید ترجمہ ،خدیجہ ترابی، ناشر مکتبہ خواتین میگزین، لاہور۔ رہنمائے تربیت، ہشام الطالب، ترجمہ شاہ محی الحق فاروقی، ناشر ادارہ فکر اسلامی، اسلام آباد)

 

انسانوں کی تربیت کرنا، ان کی کارکردگی کو بڑھانا، اُنھیں اُوپر اُٹھانا، اُن کی ذات کو   زیادہ سے زیادہ مفید بنانا، اُن کی خامیوں کوکم سے کم کرنا اور اُنھیں اس قابل بنانا کہ وہ اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر اپنے آپ کو کامیاب بنائیں ___ ہر دور میں معلمین، مصلحین اور مفکرین کی توجہ اور کام کا اہم نکتہ رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو سیدھے راستے پر رکھنے کے لیے انبیا کا جو سلسلہ قائم کیا اُس کی بڑی وجہ بھی انسان کی ذات کی اصلاح، اس کا تزکیہ اور زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتوں سے اسے آراستہ کرنا تھا۔ ہر پیغمبر کا یہ بنیادی فرض رہا ہے کہ وہ انسانوں کی اصلاح کرے،اُن کی کمزوریوں کو دُور کرنے کی سعی کرے اور انھیں معاشرے کا مفید شہری بناتے ہوئے اپنے رب کا تابع فرمان بنائے تاکہ انسان دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو۔ اسے دنیا اور آخرت دونوں میں عزت ،سرفرازی اور سکون حاصل ہو اور وہ انجام بد سے بچ سکے۔

تزکیہ اور تربیت جہاں ایک داعی کا اہم ترین فریضہ ہے وہیں ایک بڑا کٹھن، صبر آزما اور حوصلے اور جرأت کا کام بھی ہے ۔اس ضمن میں چند اہم اُمور ایسے ہیں جو اگر داعی کی نگاہ سے اوجھل ہوجائیں تو نہ صرف مایوسی ڈیرہ ڈالنے لگتی ہے بلکہ بعض اوقات داعی کی تمام تر کوششیں اُلٹ نتائج کا باعث بنتی ہیں۔ اس مضمون میں چند ایسی ہی باتوں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اگر ان اُمور پر نظر رکھتے ہوئے تزکیہ اوراصلاح کی کوششیں کی جائیں گی تو وہ   نہ صرف زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوں گی، بلکہ اس ضمن میں پیش آنے والے مسائل کو بھی کم کرنے کا باعث بنیں گی۔

انسان خوبیوں اور کمزوریوں کا مجموعہ

قرآن مجید میں جہاں انسان کی عظمت کا اقرار و اظہار ہے، وہیں پر اس کی بعض کمزوریوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے تا کہ دونوں پہلو سامنے رہیں۔ ایک طرف اس امرکا اظہار ہے کہ:   لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین ۹۵:۴ ) ’’ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے‘‘۔دوسری طرف قرآن اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ وَخُلِقَ اْلِانْسَانُ ضَعِیْفاً(النساء۴:۲۸ ) ’’اور انسان کو طبعاً کمزور پید ا کیا گیاہے‘‘۔ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَہُوْلًا (الاحزاب۳۳:۷۲ ) ’’بے شک انسان ظالم بھی ہے اور جاہل بھی‘‘۔ اَوَلَمْ یَرَ اْلِانْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہ ُمِنْ نُطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ(یٰسین ۳۶:۷۷) ’’کیاانسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پس وہ کھلا جھگڑالو بن گیا‘‘۔

ایک طرف قرآن انسان کی عظمت کا اقرار اس طرح کرتا ہے کہ اِنِّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط (البقرہ ۲:۳۰)’’بے شک میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ‘‘، اور دوسری طرف انسان کی اس کمزوری کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ: وَلَقَدْ عَھِدْنَـآ اِلٰٓی اٰدَ مَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ ۲۰:۱۱۵) ’’اور تحقیق ہم نے اس سے پہلے آدم ؑ سے عہد لیا لیکن وہ بھول گیا اورہم نے اس میں عزم نہیں پایا‘‘ ۔کہیں اس بات کا تذکرہ ہے کہ: اَلَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰلکَ فَعَدَلَکَ (الانفطار۸۲:۷)’’جس نے تمھیں پیدا کیا نک سک سے درست کیا اور ٹھیک ٹھیک متناسب بنایا‘‘، اور کہیں یہ کہا گیا ہے کہ: وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا (بنی اسرائیل ۱۷:۱۱) ’’اوربے شک انسان بڑا جلد باز ہے‘‘۔ وکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا (بنی اسرائیل ۱۷:۶۷) ’’اورانسان واقعی بڑا ناشکرا ہے‘‘۔ وکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا o (بنی اسرائیل۱۷:۱۰۰) ’’واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہو ا ہے‘‘۔

کسی بھی داعی اور مصلح کے لیے اور بالخصوص جو افراد قیادت کے منصب پر فائز ہوتے ہیں اُن کے لیے اس بات کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہر انسان خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، تعلیم یافتہ ہو یا  اَن پڑھ ،قائد ہو یا کارکن، حتیٰ کہ کسی نیکی یا شر کے کام کا  علَم بر دار ہی کیوں نہ ہو، اُس میں خوبیاں بھی ہوں گی اور کمزوریاں بھی۔خوبیوں اور کمزوریوں کے تناسب میں فرق ہو سکتا ہے لیکن یہ بات بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزوریوں اور خامیوں سے پاک صر ف ایک ذات ہے اور وہ خود خالق کائنات ہے۔ سبحان اُسی کی صفت ہے اور وہ اپنی اس صفت میں یکتا ہے۔ اپنی ذات میں ہرخامی، کمزوری اور عیب سے پاک صرف اللہ بزرگ و برتر کی ذات ہے۔ انسانوں میں جو جتنا زیادہ اپنے آپ کو غلطیوں سے پاک رکھتا ہے وہ اتنا ہی اللہ رب العالمین کو محبوب ہے ۔انبیا کی معصومیت بھی ان معنوں میں ہے کہ اگر کبھی بشر ی کمزوری کی بنا پر اُن سے کسی غلطی کا صدور ہونے لگے تو اللہ رب العالمین خود اُن کی حفاظت فرماتا ہے اورانھیں اُس غلطی سے بچا لیتا ہے یا اُن کی اصلاح فرما دیتا ہے۔ سورئہ یوسف میں اللہ رب العالمین اپنی اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ ج وَھَمَّ بِھَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ ط ( یوسف،۱۲:۲۴)،’’وہ (زلیخا) اس کی طرف بڑھی اور یوسف ؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی بُرہان نہ دیکھ لیتا‘‘۔

یہ غلطی ضروری نہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سلسلے میں ہی ہو، بلکہ پالیسی اور طرز عمل کے درست نہ ہونے کے سلسلے میں بھی ہو سکتی ہے۔مثال کے طور پر حضوؐر ایک دفعہ کچھ سرداروں کو دین کی دعوت دے رہے تھے کہ ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہؓ ابن مکتوم نبیؐ سے کچھ پوچھنے کی جسارت کر بیٹھے۔ بشری تقاضے کے تحت حضوؐر کو یہ بات ناگوار گزری تو اللہ رب العالمین نے فوراً اصلاح کرتے ہوئے پوری اُمت کو یہ سبق دے دیا کہ اللہ کے نزدیک وہ زیادہ اہم ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس طرح کی اور مثالیں بھی قرآن میں موجود ہیں۔مثال کے طور پر قرآن کی یہ آیات سامنے رہیں: یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ( التحریم ۶۶:۱ )،’’اے نبیؐ! جو چیز اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے آپ اس سے کیوں کنارہ کشی کرتے ہیں؟‘‘ عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ (التوبہ ۹:۴۳ )، ’’اللہ آپ کو معاف کرے۔ آپ نے ان کو کیوں اجازت دی؟‘‘

صحابہ میں حضرت عمر ؓ کی مثال کو سامنے رکھیے۔ اُن کا مقام اور مرتبہ یہ ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا لیکن اللہ نے نبوت کا سلسلہ میرے اُوپر بند کر دیا ہے۔ حضرت عمر ؓوہ ہیں کہ جن کی راے کے درست ہونے کی تصدیق کئی مرتبہ خود اللہ رب العالمین نے کی۔ لیکن ذراغور کیجیے کہ جب حضرت عمر ؓ تورات کے چند اوراق لیے نبی ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بارگاہ رسالتؐ سے انھیں کیا جواب ملا۔اسی طرح جب جیش اسامہؓ کے بارے میں حضرت عمر ؓ نے خلیفہ وقت کو قائل کرنا چاہا تو حضرت ابوبکرؓ نے انھیں کتناسخت جواب دیا اور وقت نے یہ بات ثابت کی کہ خلیفہ کی بات درست تھی۔حضرت حاطبؓ کاخط والا واقعہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔

ان تمام باتوں سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ تزکیہ اور تربیت کرنے والوں کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ممکن ہے کہ بڑے سے بڑا شر رکھنے والا انسان بھی اپنے اندر کوئی خوبی رکھتا ہو اور اُس کی بنا پر اللہ رب العالمین اُس کے لیے ہدایت کے دروازے کھول د ے ،اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بڑے سے بڑے خیر کے علَم بردار سے کسی غلطی اور کوتاہی یا کمزوری کا ظہور ہو جائے۔ لہٰذاداعی اور مصلح کاکام اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا اور اُسے درست سمت میں رکھناہے نہ کہ کسی کی کمزوری اور خامی کو بہانہ بنا کر مایوس ہو کر بیٹھ رہنا ہے۔

اس چیز کو ذہن میں رکھنے سے دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔

  •  اپنی ذات کے حوالے سے: اگر یہ حقیقت سمجھ میں آ جائے تو انسان میں اپنی بعض خوبیوں کو دیکھ کر تکبر اورغرور کا رویہ پیدا نہیں ہو گا، نہ وہ دوسروں کو ہی حقیر سمجھے گا۔ اُس کی نگاہ فوراً اپنی خامیوں پر جائے گی جس سے اُس کے اندر کمزوریوں کو دُور کرنے اور خوبیوں کو پروان چڑھانے کا جذبہ کبھی سرد نہ پڑے گا،نیز اپنی بعض کمزوریوں اور خامیوں کو دیکھتے ہوئے مایوسی اور احساسِ کمتری کا شکار بھی نہیں ہوگا جو انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کااہم ترین ہتھیار ہے۔
  • دوسروں کے حوالے سے: ۱- ایک یہ کہ جب بندہ سمجھ لیتا ہے کہ غلطیوں سے پاک صرف اللہ کی ذات ہے تو پھر انسانوں میں سے کسی کی محبت اور عقیدت اُس حد سے آگے نہیں بڑھتی جہاں سے شرک اور بت پرستی کے دروازے کھلتے ہیں اور انسان انسانوں کو ہی خالق کے ساتھ شریک ٹھیرا کر اُن کی پوجا اور پرستش شروع کر دیتا ہے ۔پہلی قوموں نے اپنے انبیا کو اسی لیے خدائی میں شریک بنا ڈالا کہ عقیدت حد سے بڑھ گئی تھی۔

۲- دوسرا یہ کہ جب انسان ذمہ دار اور قیادت کے منصب پر فائز لوگوں کے غلط فیصلے دیکھتا ہے یا اُس کے سامنے اُن کی کوئی ذاتی کمزوری آتی ہے تو وہ مایوس ہو کر اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتا، بلکہ اُن کی اصلاح کی طرف اور زیادہ متوجہ ہو جاتا ہے۔ اس سے تحریکوں میں بددلی نہیں پھیلتی اور نشانات منزل راستے کی گردو غبار میں دھندلے نہیں ہوتے۔

۳- اسی طرح جب ایک قائد اور ذمہ دار اپنے ماتحت افراد میں کوئی کمی اور کوتاہی دیکھتا ہے تو جھنجھلاہٹ اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اور زیادہ تندہی کے ساتھ اُن کی اصلاح پر لگ جاتا ہے۔

آئیڈیل بننا / بنانا ممکن نھیں

اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ ہر انسان خوبیوں اور کمزوریوں کا مرقّع ہے، تو یہ بات بھی بڑی آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ ہر انسان کے لیے ہر حوالے سے آئیڈیل بننا یا بنانا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید یہ واضح کرتا ہے کہ غیر مشروط اطاعت اللہ رب العالمین کے بعد صرف انبیا کی ہے۔ یہ صرف نبی ہوتا ہے جو اپنی اُمت کے لیے آئیڈیل ہوتا ہے۔ اُسی کی پیروی ہی میں انسان کی نجات ہے، باقی سب کی اطاعت اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے تابع ہو گی ،لہٰذا یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہمارے لیے انسانوں میں آئیڈیل ذات صرف رسولؐ اللہ کی ہے۔ اس کے بعد جو جتنا نبیؐ کے قریب ہو گا اتنا ہی ہمارے لیے قابل احترام ہو گا لیکن اُس کا کوئی عمل، حکم یا نظریہ اور راے یہ مقام کبھی نہیں پا سکتا کہ اُس میں اصلاح کی گنجایش نہ ہو ۔ نہ کسی کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ اور رسول ؐ کی ہدایت کے مخالف کوئی حکم دے تواُس کی بھی غیر مشروط اطاعت کرنا ہو گی۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس بات کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم آئیڈیل کی طرف دیکھنا یا سفر کرنا چھوڑ دیں۔ ہرگز نہیں، آئیڈیل تو ہوتا ہی اس لیے ہے کہ ہر وقت مرکز نگاہ رہے ۔ہر قدم اُس کی طرف اُٹھے، ہر منصوبہ اُسی کے لیے ہو، لیکن اگر کام میں کمزوری رہ جائے ،کوئی قدم ڈگمگا جائے یا کسی غلطی اور کوتاہی کا صدور ہو جائے تو انسان کسی جھنجھلاہٹ،مایوسی اورشک کا شکار نہ ہو ۔ گویا آئیڈیلزم کا بھوت سر پر سوار کرنا درست نہیں کہ ایسا اور ایسا کیوں ہوا؟ اور چونکہ یہ ہوا ہے لہٰذا ہماری ساری کی ساری محنت اکارت گئی ۔اب تحریک میں پہلے کی طرح روحانیت نہیں رہی، ہم اپنے مقصد سے ہٹ گئے ہیں، یا اب پہلے کی طرح کا اخلاص نہیں رہا وغیرہ وغیرہ، یا اس بنیاد پر کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے، کوئی مسئلہ نہ بن جائے، ہم لوگوں پر تحریک کے دروازے بند کر دیں یا راستہ اتنا پیچیدہ کر دیں کہ کوئی آگے بڑھ ہی نہ سکے۔ یاد رکھیے اگر حضوؐر کی تیار کردہ جماعت میں گروپنگ ہوسکتی ہے تو اب بھی ہو گی۔ اگر اُن میں لڑائیاں ہو سکتی ہیں (باوجود اپنے تمام تر اخلاص کے) تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔اگر نبی ؐ کا تربیت یافتہ فرد کسی موقع پر کمزوری دکھاسکتا ہے تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے اور جس طرح نبیؐ کی جماعت میں چند افراد کو قرآن منافقین کا نام دے سکتا ہے تو یہ مسائل اب بھی پیش آ سکتے ہیں۔ لہٰذا تحریکوں میں آئیڈیلزم نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ اب ہے اور نہ آیندہ ہو گا۔

ایسی صورت حال میں ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ یقینا منزل کی طرف سفر ہی کامیابی کی کنجی ہے۔اپنی خوبیوں کو بڑھانا ہو گا، غلطیوں کی اصلاح کرنا ہو گی ،کمزوریوں سے صرف نظر کرنا ہو گا،   اللہ سے اپنے لیے معافی مانگنا ہو گی اور دوسروں کو خود معاف کرنا ہو گا۔ خوبیوں کی تعریف کرنا ہو گی اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنا ہو گی ۔اللہ کے رسولؐ نے شاید اسی لیے فرمایا تھا، جو اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے گا ،اللہ قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی کرے گا۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ دوسروں کو معاف کرنے والے اُن کی غلطیوں سے صرف نظر کرنے والے اور اُن پر احسان کرنے والے اللہ کو بڑے پسند ہیں ۔اس ضمن میں محترم خرم مرادؒ نے نبی کریمؐ کے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں اور بڑی مفید ہدایات دی ہیں (کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے، ص ۱۳۳-۱۳۹)

ھر مسئلہ حل کرنے کے لیے نھیں ھوتا

یاد رکھیے مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں۔ مسائل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن مسئلہ تو بہر حال مسئلہ ہے چاہے کسی قسم کا ہو۔ گھروں میں ،گلی محلے میں، اداروں میں اور تحریکوں میں مسائل ہوتے ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ مسائل قبرستان میں نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ وہاں زندگی نہیں ہوتی، جہاں زندگی ہو گی وہاں مسائل بھی ہوں گے۔ یہ مسائل غیروں کے پیدا کردہ بھی ہو سکتے ہیںاور اپنوں کے بھی، بلکہ کچھ مسائل تو انسان خود اپنے لیے پیدا کر لیتا ہے۔

۱- بعض مسائل حقیقت میں موجود نہیں ہوتے ،ہم فرض کر لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہی چیز ہمارے لیے بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ صرف اپنی سوچ کو بدل لینے سے ہی بہت سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔اپنی سوچ اور روّیے کو بدل لینا تو بعض اوقات بہت سے حقیقی مسائل کو بھی ختم کر دیتا ہے، لہٰذا سب سے پہلے تو یہ بات سوچنی چاہیے کہ اس مسئلے میں میرا کیا کردار ہے؟ اور میں اس کو کیسے حل کر سکتا ہوں؟مجھے اپنے اندر کیا تبدیلی لانا ہو گی کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے یا آیندہ کبھی پیدا نہ ہو۔ فرض کریں ایک بچہ آپ سے نفرت کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ آپ اُس سے نفرت کرتے ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ آپ اپنے اخلاص کے ساتھ جب اُس کی اصلاح پر توجہ دیتے ہیں تو حکمت عملی میں کسی خرابی کی وجہ سے یہ اخلاص منفی انداز میں آگے منتقل ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے اُسے جھڑکتے ہیں یا اُسے اُس کے جائز حقوق سے بھی محروم کر دیتے ہیں، یا اُس کے مسئلے کو سمجھنے کے بجاے اپنی راے پر اصرار کرتے ہیں تو ایسی صورت حال میں صرف اپنی سوچ اور روّیے کی اصلاح ہی ممکن ہے کہ بچے کی اصلاح کا سبب بن جائے۔

۲- دوسری بات یہ کہ ضروری نہیں ہر مسئلے کو فوراً ہی حل کیا جائے۔ بعض اوقات صرفِ نظر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور ایسا اس صورت میں تو اور بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ جب ایک مسئلے کا ختم کرنا دوسرے بہت سے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن جائے۔ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کے بارے میں جب آنحضوؐر سے کہا گیا کہ اس فتنے کو ختم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے، تو محسنِ انسانیت ؐ کا جواب یہ تھا کہ لوگ کہیں گے کہ’’محمد ؐ اپنے ساتھیوں کو مروا رہا ہے ‘‘۔ مقصد یہ تھا کہ اس ایک مسئلے کو ختم کرنے سے کئی دوسرے مسائل جنم لیں گے، لہٰذا آپؐ نے در گزر کرنے کی پالیسی ہی جاری رکھی حالانکہ یہ ایسا شخص تھا کہ جس کی منافقت کے بارے میں کوئی دو راے نہ تھیں۔ نبیؐ کا اس معاملے میں طرزِعمل تو یہاں تک تھا کہ آپ اُس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی   اُٹھ کھڑے ہوئے تھے لیکن اللہ رب العالمین نے خود منع فرما دیا: ’’اور آیندہ ان میں سے جو کوئی مرے تو اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اُس کی قبر پر کھڑے ہونا ‘‘۔(التوبہ ۹:۸۴)

۳- پاکستان کی اس وقت کیا صورت حال ہے؟ ہم نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں چند چھوٹے مسائل کو حل کرنے کے لیے غیروں کے کہنے پر اور اُن کی سازش کا حصہ بن کر اپنی ساری قوت جھونک دی، اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اب وہ چھوٹے مسائل ایک عفریت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ جب تک ہم نے حکمت کے ساتھ اُن مسائل کو  حل کرنے اور بعض جگہوں پر صرف ِنظر رکھنے کی پالیسی رکھی ، ہم اطمینان میں تھے اور زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے۔ آج نہ گورنمنٹ کی رِٹ باقی ہے نہ ملک سے محبت اور ہمدردی باقی رہی ہے، بلکہ اُلٹا ہم کئی دوسرے مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ بعض مسائل کو بروقت حل ہونا چاہیے اور مسائل کو جوں کا توں نہیں رہنا چاہیے لیکن ایسا ہم صرف اپنی بساط کی حد تک کر سکتے ہیں۔ ہمیں مسائل کے بجاے امکانات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ جو بندہ صر ف مسائل کو حل کرنے میں ہی اپنی ساری قوت جھونک دیتا ہے، وہ منزل کی طرف سفر نہیں کر سکتا ۔اُس کی پیش قدمی رُک جاتی ہے اور مسائل کے دبائو کے اندر مستقبل کے لیے سوچنے، منصوبہ بنانے اور آگے کی طرف بڑھنے کا عمل نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے ذمہ داران کو بالخصوص اس چیز کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول دبائو سے پاک ہو اور شیطان مسائل میں اُلجھا کر ہمیں منزل کی طرف پیش قدمی سے روک نہ دے۔

خرم مراد مرحوم نے اس عنوان پر بڑی خوب صورت بات کہی ہے کہ ’’آپ یہ سمجھ لیں کہ سارے مسائل حل نہیں ہوں گے اور تنظیم کو اپنی قوتوں کا ایک حصہ اگر مسائل کو حل کرنے میں لگانا چاہیے، تو میں یہ کہنے کی جرأت کر وں گاکہ بعض مسائل کو حل کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ مسائل حل کرنے میں جتنی قوت کھائیں گے اُس قوت سے ہم کئی گنا زیادہ قوت اور پیدا کرسکتے ہیں ‘‘۔(تحریک کے تقاضے ،ص ۸۲)

۴-تزکیہ اور تربیت کا عمل ایک مسلسل عمل ہے۔یہ عمل کسی مشین کا سا عمل نہیں ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک مخصوص طرز اور قسم کی شے حاصل ہو جائے۔ یہ ایک مسلسل ہونے والا عمل ہے۔ کسی ایک کتاب کے پڑھنے سے، کسی ایک اجتماع میں شرکت سے، یا کوئی چلہ لگانے سے یہ عمل مکمل نہیں ہوتا۔ تذکیر، تزکیہ اورتربیت ہر وقت ہر جگہ اور ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان ایک مستقل اور جامد شے کا نام نہیں ہے۔ یہ گھٹتا او ربڑھتا رہتا ہے۔ حضرت حنظلہؓ کا واقعہ اس بات کی بڑی عمد ہ اور خوب صورت تصدیق کرتا ہے اور معلم انسانیت ؐ کا جواب رہتی دنیا تک کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنے ایمان کی فکر کرو اور اس فکر سے کبھی غافل نہ ہو۔ نماز روزانہ دن میں پانچ مرتبہ یہ تربیت کرتی ہے ۔روزہ ہر سال پورا ماہ مسلسل ہماری تربیت کرتا ہے۔قرآن کا پڑھنا ہرنماز میں لازمی ہے۔ یہ تمام باتیں اس چیز کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمیں کسی بھی مقام پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں رہنا، بلکہ مسلسل اس کام کو کرتے جانا ہے ۔قرآن نے یہ دُعا بھی سکھائی ہے: رَبَّناَ لاَ ُتزِغْ قُلُوبَناَ بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا (اٰل عمرٰن۳:۸)،اے ہمارے رب ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ کرنا۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ اس سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن اگر کوئی غلطی کے بعد سچے دل سے توبہ کرے اور آیندہ نہ کرنے کا عہد کرے اور نیکی کے راستے پر گامزن ہوجائے، تو اللہ اُن گناہوں کو نہ صرف معاف کر دیتا ہے بلکہ انھیں نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے: 

 اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (الفرقان۲۵:۷۰)،اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو یہی لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں تبدیل کر دیں گے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

قرآن اُن لوگوںکو خوش خبری سناتا ہے جو بار بار پلٹنے والے ہیں:

اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (التوبہ۹:۱۱۲)، اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گُن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے وہ مومن جو    اللہ سے بیع کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ، ان مومنوں کی خوش خبری دے دو۔

اللہ کا بندے سے رویہ کیا ہے اور انسانوں کا کیا ہونا چاہیے۔ ذرا دیکھیے:

وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء۴:۱۱۰)،اور جو کوئی برائی کا مرتکب ہو یا ا پنے آ پ پر ظلم کر بیٹھے  پھر وہ اللہ سے معافی چاہے تو اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے بار بار کسی ایک غلطی کا صدور بھی ہو سکتا ہے اور کسی نئی غلطی کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بات کسی کو الجھن میں نہ ڈالے کہ اس طرح تو غلطی کرنے کا کھلا لائسنس مل جائے گا۔ نہیں، توبہ کے سہارے پر کسی مومن کا اپنی غلطی کو دہرانا دُرست نہیں اور نہ ایسی کوئی توبہ قبول ہی ہوتی ہے جس میں مزید گناہ کی خواہش موجود ہو۔ توبہ تو ہوتی ہی وہ ہے جو سچے دل کے ساتھ اور پشیمانی کے جذبے سے ہو، لیکن انسان ہونے کے ناطے یہ تو ہو سکتا ہے کہ انسان سچے دل کے ساتھ توبہ کرے لیکن اُس غلطی کا صدور اُس سے پھر ہو جائے۔

غلطی اور کوتاہی کی عمومی و جوہات میں ایک بڑی وجہ انسان کا بھول جانا ہے (فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا’’پس وہ بھول گیااور ہم نے اس میں عزم نہ پایا ۔ طٰہٰ ۲۰:۱۱۵)۔ لہٰذا تزکیہ اور تربیت کا کام مسلسل کرنے اور ہونے والا کام ہے۔ کسی بھی لمحے اور کسی بھی منصب تک پہنچنے کے بعد اس سے اعراض نہیںبرتنا چاہیے، نہ نتائج کے سامنے آنے پر ہی تزکیہ کاکام روک دینا چاہیے۔

غلطیوں اور کوتاھیوں کے عمومی اسباب

بعض اوقات غلطی او ر کوتاہی کے سبب کو دُور کر دینا ہی اصلاح کا سبب بن جاتا ہے۔   اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے اس بات پر بڑی توجہ دی ہے کہ اُن اسباب کوکم کر دیا جائے جو غلطیوں اور گناہوں کا سبب بنتے ہیں۔ اگر اسباب کا جائزہ لیں تو چند ایک بڑے سبب درج ذیل ہیں:

  • علم کی کمی: بندے کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ غلطی کر رہا ہے بلکہ بعض اوقات تو ایک آدمی کسی غلط کام کو ثواب سمجھ کر کر رہا ہوتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے سے اس کی بے شمار مثالیں دے سکتے ہیں۔ ایسے عالم میں لوگوں میں شعور اور آگہی پیدا کرنا، انھیں تعلیم سے آراستہ کرنا، اُن کے سامنے حق اور باطل کو کھول کھول کر بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ انبیا کی بعثت کا ایک بڑا مقصد یہی قرار پایا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اُن کی رب کی تعلیمات کو کھول کھول کر بیان کر دیں۔ اسی لیے سچے مصلحین تطہیر افکار اور تعمیر افکار کو اپنی جدوجہد میں ترجیح اول پر رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ علم کی کمی قرآن اور حدیث کے علم کو عام کیے بغیر دُور نہیں ہو سکتی۔
  • بہول جانا:غلطی اور گناہ کی ایک بڑی وجہ انسان کا بھول جانا ہے۔ یہ ایک بشری تقاضا ہے جو ہر وقت اور ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ انسان کو بار بار یاد دلایا جائے کہ اُس کا مقصد زندگی کیا ہے؟اُس نے اپنے رب کے ساتھ کیا وعدہ کیا ہے؟ نماز اس مسئلے کے حل کی بہترین مثال ہے۔ قرآن کی تلاوت اور ذکر اذکار سے اپنی زبان کو تر رکھنا اس کا بہترین علاج ہے۔
  •  قوت ارادی کی کمی: انسان فطری طور پر کمزور پیدا ہوا ہے ،خود قرآن نے کہا:  وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ ۲۰:۱۱۵) ’’ہم نے اس میں عزم نہیں پایا‘‘۔ مطلب یہ کہ ورغلائے جانے پرانسان ثابت قدم نہ رہ سکا ۔اسی لیے اسلام ہمیں اجتماعی زندگی اور اجتماعی جدوجہد کا    درس دیتا ہے تاکہ قوتِ ارادی کی کمی اجتماعیت کی قوت سے دُور ہو جائے ۔
  •  غلط فھمی: داعین اور ذمہ داران کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ بعض اوقات کسی فرد کا ارادہ تو نیکی کا ہوتا ہے لیکن دیکھنے والا اُسے غلط سمجھ رہا ہوتا ہے، یا بندے کا قصور نہیںہوتا  لیکن اُس کا قصور بنا دیا جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العالمین نے بڑی واضح ہدایات دی ہیں کہ کسی فاسق کی خبر پر یقین نہ کرو جب تک کہ تصدیق نہ ہو جائے۔ بہت زیادہ گمان نہ کرو ،تجسس اور غیبت نہ کرو ،اور کسی دوسرے پر بہتان نہ لگائو (تفصیل کے لیے سورۃ الحجرات)۔
  •  کبر و غرور، نفس پرستی اور غصہ: یہ اور اسی طرح کی کچھ اور بیماریاں ہیں جو کئی دوسری غلطیوں کا باعث بنتی ہیں، لہٰذا ن کو دُور کرنے کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے مولانا مودودی ؒ نے تحریک اور کارکن کے آخری باب میں بڑی مفید بحث کی ہے۔

 تربیت کی اصل ذمہ داری انسان کی اپنی ھے

قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کے تزکیے کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود اُس کے اپنے اوپر عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نہ صرف خیر و شر کی تمیز دی ہے : فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس۹۱:۸)،’’پس ہم نے اسے نیکی اور بدی دونوں الہام کردیں‘‘، بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ دنیا میں اُس کو یاد بھی دلایا جائے: ’’اور کوئی اُمت نہیں مگر اس میں ایک خبردار کرنے والا گزر چکا ہے‘‘۔(فاطر۳۵:۲۴)

قرآن نے اہل جہنم کا ایک مکالمہ بیان کیا ہے کہــ’’ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم تو اپنے بڑوں اور سرداروں کے پیچھے لگے رہے پس انھوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کیا۔یااللہ! ان کود گنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر‘‘(الاحزاب ۳۳:۶۷-۶۸)۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔ـ’’جس وقت کوئی جماعت جہنم میں داخل ہو گی وہ دوسری جماعت کو لعنت کرے گی۔جب سب لوگ اس میں جمع ہو جائیں گے تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے کہ   اے ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراہ کیا ،سو ان کو دوزخ کا عذاب دو گنا دے۔اللہ فرمائے گا کہ سب ہی کا دو گنا ہے لیکن تم کو خبر نہیں‘‘۔ (الاعراف ۷:۳۸، ۳۹)

ا نسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں، کوتاہیوںاور تربیت نہ ہونے کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیراتا ہے،حالانکہ کوئی انسان ،کوئی کتاب اور کوئی تقریریا اجتماع کسی دوسرے کی تربیت نہیں کر سکتا جب تک کہ خود انسان کا اپناارادہ نہ ہو ۔یہ تو تربیت کے ذرائع ہیں جو سہولت بہم پہنچاتے ہیں۔   یہ انسان کو منزل کی طرف گامزن رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے مدد گار تو ہیں لیکن ذمہ دار نہیں۔     ذمہ داری انسان کی اپنی ہے۔ خرم مراد مرحوم نے بڑی خوب صورت بات لکھی ہے کہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کہ کوئی فرد اجتماعیت کو اپنی خرابیوں اور کمزوریوں کا ذمہ دار ٹھیرانا شروع کردے کہ چونکہ یہ نہیں ہوا،اس لیے تربیت نہیں ہو رہی۔

نماز کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’بے شک نماز برائی اور بے حیائی سے بچاتی ہے ‘‘(العنکبوت۲۹:۴۵)۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نماز کی ادایگی کرنے والے انسان بھی بعض اوقات برائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔  اس میں قصور نماز کا نہیں انسان کا اپنا ہوتا ہے کہ نماز جس مقصد کے لیے تھی اُس نے اس پر توجہ نہ دی۔ اس لیے تربیت کے ذرائع استعمال ہونے چاہییں، اُن سے مدد لینی چاہیے لیکن فرد کو بھی  بری الذمہ قرار نہیں دینا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْھَا ج وَلَا تَزِ رُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی ج (الانعام، ۶:۱۶۴) ،’’ہرشخص جو کماتا ہے اس کی ذمہ داری اسی پر ہے۔کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا‘‘۔ تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْخَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ  (البقرہ ۲:۱۳۴)، ’’یہ ایک گروہ تھا جو گزر چکا ۔اس کے لیے ہے جو اس نے کمایا۔اور تمھارے لیے ہے جو تم نے کمایا۔اور جو کچھ وہ کرتے رہے تھے اس کے متعلق تم سے سوال نہیں کیا جائے گا‘‘۔ وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ ط وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ (فاطر ۳۵:۱۸)،’’اور جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنے ہی لیے اختیار کرتا ہے۔اور اللہ ہی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘۔

 ھدایت کا انحصار اللّٰہ کی توفیق پر

یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔ مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِیْ ج وَمَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (الاعراف ۷:۱۷۸)، ’’جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے پس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں‘‘۔ داعی کا کام کوشش کرنا ہے، اتنی کوشش کہ حق ادا ہو جائے۔ وَجَاھِدُوْ فِیْ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط (الحج۲۲:۷۸)، ’’اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔

 یہ درست ہے کہ اچھی تقریر، اچھی مثال، داعی کا اخلاص، داعی کا اپنا طرزِعمل اور اس طرح کے دیگر عوامل کسی فرد کو ہدایت کی طرف لانے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن یہ سب عوامل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، اگر اللہ کی طرف سے توفیق اور اعانت نہ ہو۔ نبی ؐ سے بہتر کون سا داعی ہو سکتا ہے؟ آپؐ سے بہتر دلائل کس کے پاس تھے؟آپؐ کے اخلاص پر کون شبہہ کر سکتا ہے؟ کس کو حق ہے کہ آپؐ کے طرزِعمل پر نکتہ چینی کرے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ابولہب جو رشتے میں آپؐ کا   سگاچچا تھا ایمان نہیں لایا تھا۔ بعض لوگوں کے بارے میں تو اللہ رب العالمین نے واضح اعلان فرمادیا تھا کہ اے میرے نبیؐ آپ ان کی ہدایت کے لیے بہت حریص ہیں لیکن اللہ تو صرف اُس کو ہدایت کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے : ’’(اے محمدؐ)آپ ان کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو جائیں (مگر)اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیتااور ایسے لوگوں کا پھر کوئی مددگار نہیں ہوتا‘‘ (النحل ۱۶:۳۷)۔ اسی لیے اہل ایمان کو ہدایت کی گئی کہ اگر کبھی شیطان کی طرف سے تم کوئی رکاوٹ محسوس کرو، یا وہ تمھیں ہدایت سے ہٹانے کی کوشش کرے تو فوراً اللہ سے مدد طلب کرو بے شک وہ سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی۔(اعراف ۷:۲۰۰)

جب ذہن میں یہ بات واضح ہو جائے کہ ہدایت صرف اللہ کے اختیار میں ہے تو لوگوں کی اصلاح کے لیے داعی کا نقطۂ نظر اور طرزِعمل یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ ا ب اُس کی نفرت مریض سے نہیں مرض سے ہو گی۔ اب کسی فرد کی غلطی کو دیکھ کر اُس کا اضطراب زبان سے اظہار میں اسے  محتاط بنا دے گا۔ داعی اپنے رب سے ہاتھوں کو پھیلا کر اپنے بھائی کی اصلاح کے لیے دُعائیں کر رہا ہو گا۔ یہ چیز اُس کی زبان میں شیرینی اور اُس کی حکمت عملی میں اخلاص کی ضمانت بن جائے گی، اور محاسبہ اور احتساب کی محفل نصیحت، ہمدردی، سچائی ،اخلاص اور محبت کی عمدہ مثال بن جائے گی۔

تنقید اور محاسبے کا طریق کار

بعض اوقات اپنے بھائی کی اصلاح کے لیے اختیار کیا گیا طرز عمل بھی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے اُس کی عزت ِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس لیے تنقید اور محاسبہ ہمیشہ علیحدگی میں ہونا چاہیے۔ جب تک متعلقہ فرد سے علیحدگی میں بات نہ کر لی جائے اُس کے متعلق کسی دوسرے کے کان میں اُس کی بھنک بھی نہ جانی چاہیے۔

غیبت کی تعریف ہی یہ کہ ہے کہ اپنے کسی بھائی کی برائی اُس کی پیٹھ کے پیچھے بیان کرے جو واقعتا اُس میں موجود ہو۔ اگر برائی موجود ہی نہیں تو یہ بُہتان ہے۔ ذرااندازہ لگائیے قرآن غیبت کو کتنا بُرا فعل قرار دیتا ہے جس کو ہم جوش اصلاح میں بڑے فخر اور تکبّر کے ساتھ کرجاتے ہیں: ’’کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، دیکھو تم خود اس سے کراہت کرتے ہو‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۲)۔اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ کسی کی عزت، وقار اوراحترام میں فرق نہ آئے۔ اگر کسی کی عزت مجروح ہو گی تو اس سے اصلاح کے بجاے اور بگاڑ پیدا ہوتاہے۔ اکثر اوقات دوسرا فرد اپنی غلطی پر ڈٹ جاتا ہے اور تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ قرآن نے اس کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اورجب اُس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو،تو اُسے اپنی عزت کا خیال گناہ پر جما دیتا ہے، پس اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔(البقرہ۲:۲۰۶)

انفرادی طور پر بھی بات کرنے کا انداز یہ ہونا چاہیے کہ ایک غلطی فہمی کو دُور کرنا مقصد ہے۔ فرد کو مجرم نہیں ٹھیرانا چاہیے۔ بات اگر اشارے کنائے میں ہو جائے تواور زیادہ بہتر ہے ۔ بڑے سے بڑا مجرم ہی کیوں نہ ہو بات نرمی سے ہونی چاہیے:’’ دونوں فرعون کی طرف جائو بے شک    وہ سرکش ہو گیا ہے۔ پس اس سے نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے‘‘ (طٰہ ۲۰:۴۳-۴۴)۔ اگر اس سے اصلاح نہ ہو تو کسی ذمہ دار فرد کی مدد لینی چاہیے جو بہتر انداز میں فرد کو متوجہ کرسکتا ہو اور اگراس سے بھی اصلاح نہ ہو تو پھر اجتماعی فورم کا استعمال کرنا چاہیے۔نیز اگر کوئی فرد اپنی غلطی دُور کر لیتا ہے تو کبھی اُس کی سابقہ غلطی کا تذکرہ زبان پر نہیں لانا چاہیے، یہ انتہائی غلط اور فتنہ پیدا کرنے والی بات ہو گی اور اللہ کے نزدیک انتہائی بُرا فعل ہے۔

تزکیۂ نفس، انسانوں کی اصلاح اور ان کی کمزوریوں کو دُور کر کے خوبیوں کو پروان چڑھانا کہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ٹھیریں ایک ہمہ گیر اور کٹھن کام ہے جو بہت سے تقاضوں اور حکمت پر مبنی ہے۔ اگر مذکورہ بالا چند اہم اُمور کو پیش نظر رکھا جائے تو اُمید ہے کہ تزکیہ و تربیت کا عمل نتیجہ خیز ثابت ہوگا اور فرد کی تربیت کے لیے بہت سی راہیں کھلیں گی۔


مقالہ نگار جماعت اسلامی گجرات کے نائب قیم ہیں

(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور- فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲)

دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمان ہرسال لاکھوں کی تعداد میں دُوردراز سے سفر کرنے کے بعد ملّت کے قلب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا رُخ کرتے ہیں اور حج اور عمرہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا کوئی عالمی میلہ نہیں ہے کہ اولمپک کی طرح سے لوگ تفریح اور سیاحت کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اور میدانِ عرفات میں جاکر قیام کریں، بلکہ یہ ایک جسمانی، روحانی اور نفسیاتی عبادت ہے جس کے صحیح طور پر ادا کرلینے کے بعد ایک نیا مسلمان اور  نیا انسان وجود میں آتا ہے۔ اس شعوری عمل کے نتیجے میں انسان کے قلب و دماغ کے ہرہرگوشے میں پائی جانے والی کمزوریوں کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور جس طرح ایک معصوم بچہ شکمِ مادر سے دنیا میں آتا ہے، ایسے ہی ایک زائر، حج کرنے کے بعد برف کے گالے کی طرح پاک و صاف ہوکر نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ سید مودودیؒ نے اس عمل کو جسم میں خون کی گردش اور قلب سے گزرنے کے بعد خون کی اصلاح و پاکیزگی سے تعبیر کیا ہے کہ جس طرح تمام جسم سے خون کھینچ کر قلب کی طرف جاتا ہے اور قلب سے گزرنے کے بعد تزکیے کے بعدجسم کو توانائی دینے کے لیے پھر گردش میں آجاتا ہے، اسی طرح تمام اہلِ ایمان اپنی کمزوریوں، بھول و نسیان اور خطائوں کے ساتھ حرم شریف کی طرف جاتے ہیں اور میدانِ عرفات میں اپنی غلطیوں کے اعتراف ، عزمِ اصلاح اور عہدِنو کے ساتھ  گھروں کو واپس ہوتے ہیں، تاکہ اُمت مسلمہ ہرسال ایک عملی تطہیر و تزکیے کے ذریعے تازہ قوت، بلند حوصلوں اور قابلِ عمل اصلاحی حکمت عملی سے لیس ہوسکے۔

اگر غور کیا جائے تو حج اور عمرہ اور اسلام کے تصورِ ہجرت میں ایک انتہائی قریبی معنوی ربط پایا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے مکہ مکرمہ کی آزمایشوں کی بھٹی سے گزرنے کے بعد حبشہ اور مدینہ منورہ ہجرت کی، ان کے مقام کی بلندی اور ان کے خلوص کا اعتراف قرآن و سنت نے تحسینی کلمات کے ساتھ کیا اور انھیں کامیاب اور بامراد قرار دیا۔ حضرت عمرؓ کی مشہور روایت میں نیت کو اعمال کی بنیاد قرار دیتے ہوئے جو مثال سمجھانے کے لیے استعمال فرمائی گئی، وہ ہجرت ہی کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے لیے ہجرت کی وہ کامیاب ہوگیا۔ حج اور عمرہ کا وجوب بھی قرآن کریم کی آیت مبارکہ  وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ (البقرہ ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوش نودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گِھرجائو تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو‘‘، اور وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (الحج  ۲۲:۲۷) ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں‘‘، سے بطور ایک عبادت و فریضہ ثابت ہے۔ مشہور حدیث میں اسلام کے ارکان میں حج ایک رکن کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لیکن سوال یہ اُبھرتا ہے کہ آخر اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے کہ ہرسال لاکھوں افراد اپنا مال، وقت، اور محنت صرف کر کے اس فریضے کو انجام دیں۔

  •  ھجرت اور تزکیہ: ہماری نگاہ میں قرنِ اوّل میں اہلِ ایمان نے ہجرت کی۔ فتح مکہ کے بعد جب ہجرت عملاً ختم ہوگئی تو تزکیے کے اس اہم عمل کو باقی رکھنے کے لیے حج کی شکل میں اس کا بندوبست کردیا گیا کہ قیامت تک ایک مسلمان مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بزرگ، وہ حج اور عمرے کے ذریعے سے ہجرت کے عمل سے گزر سکے۔

پہلی ہجرت ایک مومن اس وقت کرتا ہے جب وہ یہ نیت کرے کہ اسے حج کرنا ہے۔ اس کا نیت کرنا اپنے رُخ اور قبلے کو درست کرنے کے بعد یہ ارادہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ایک عبداً شکوراً بنانے کے لیے تیار رہے۔ ہجرت کی جانب اس کا دوسرا قدم اس وقت اُٹھتا ہے جب وہ اُس مال کی طرف دیکھتا ہے جو اُس نے بڑی محنت اور مشقت کے بعد کمایاتھا اور طے کرتا ہے کہ اس مال کو اللہ کی راہ میں صرف اُس کی خوش نودی کے لیے، اس کے گھر کی زیارت کے لیے استعمال کرے۔ یہ خواہش اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ جس مال کو     وہ اِس غرض کے لیے استعمال کرنے جا رہا ہے، کیا اسے جائز اور حلال طریقے سے حاصل کیا تھا یا غیراخلاقی ذرائع سے۔ما ل کا یہ تزکیہ اس کے ایمان اور صرف حلال کمائی کے ذریعے ایک اچھے کام کو کرنے کی تربیت کرتا ہے۔

اس عمل کے دوران تیسری ہجرت کا آغاز اس وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ اپنے   اہلِ خانہ، دوستوں، کاروباری شراکت داروں، غرض ہرفرد کی وابستگی سے نکل کر صرف اللہ کے لیے ان سب کو پسِ پشت ڈال کر صرف اللہ کی طرف لپکتا ہے اور زبان اور دل سے کہنا شروع کرتا ہے کہ میں حاضر ہوں، مالک میں حاضر ہوں۔ صرف آپ کی ایک آواز کے جواب میں، سب کچھ پیچھے چھوڑ کر، آپ کے گھر کی طرف رُخ کر رہا ہوں اور یہ اس لیے کر رہا ہوں، کہ آپ اور صرف آپ، سب سے اعلیٰ، بلند، عزیز، حمد کے مستحق اور نعمتوں کے دینے والے ہیں۔

حج و عمرہ کے لیے نکلتے وقت وہ چوتھی ہجرت اس وقت کرتا ہے جب اپنے قومی لباس، اور زبان کو ترک کر کے صرف دو سفید چادروں میں اپنے آپ کو لپیٹ کر سفر پر روانہ ہوتا ہے، اور عملاً اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ انسانی ضروریات کو خود اپنے ہاتھ اور ارادے سے کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق بھی کرتا ہے کہ اس کی اصل پہچان نہ اس کا قومی لباس ہے نہ قومی زبان، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بندہ بن جانا اسے دنیا کے تمام انسانوں سے ممتاز کرتا ہے۔

پانچویں ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب اس کی پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہے اور وہ جذبات سے بے تاب ہوکر طلب ِعفو و درگزر اور شعوری اور غیرشعوری گناہوں کے احساس کے ساتھ ایک سوالی بن کر اس عظمت والے گھر میں قدم رکھتا ہے۔ انسانوں کے اس سمندر میں جو طوفانی ریلے کی طرح اللہ کے گھر میں موجزن نظر آتا ہے، وہ عاجزی اور خاکساری اختیار کرتے ہوئے دوسروں کو تکلیف نہ دینے کی خاصیت پیدا کرتا ہے۔

چھٹی ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب وہ مراسمِ حج سے فارغ ہونے کے بعد اس عزمِ نو کے ساتھ اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو تمام غلامیوں سے نکال کر صرف     اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی میں دے چکا ہے۔ اس لیے بات وہ کرے گا جو حق ہو۔ کام وہ کرے گا جو حلال ہو، نگاہ وہ ڈالے گا جو پاکیزہ ہو، اور اپنے گھر، معاشرے اور ملک میں صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کام کرے گا، اور ان تمام رسومات سے اپنے آپ کوکاٹ لے گا جو اس کی برادری اور دوستوں نے ایجاد کررکھی ہیں۔

حج اور عمرہ کے ذریعے ہونے والی ہجرت اسے اُس مقام سے قریب تر لے آتی ہے جو اسلام کے دورِ اوّل میں اللہ کے نیک بندوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے لیے قربان کرنے کے بعد حاصل کیا تھا۔ یہ ہجرت فتح مکہ کے بعد اور قیامت تک اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹ کر اُن افراد میں شامل ہوجائے جن کا جینا اور مرنا، جن کی قربانی اور عبادت،  جن کی فکروعمل صرف اور صرف احکم الحاکمین کی مرضی کے تابع ہوتی ہے، اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہر بندگی پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ ہجرت زندگی میں ایک مرتبہ حج کرلینے اور حسب ِاستطاعت ایک سے زائد عمرے کے ذریعے زندگی میں کئی بار بھی کی جاسکتی ہے، لیکن صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت میں دینا مقصود ہو۔

اسلام کی عمارت جن بنیادی ارکان پر قائم ہے ان میں حجِ بیت اللہ بھی ایک اہم رکن ہے۔ صاحب ِ استطاعت ہونے کی صورت میں ہر مسلمان عاقل وبالغ مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔حج میں مالی وبدنی دونوں طرح کی عبادات پائی جاتی ہیں،چنانچہ اس کی فرضیت کے لیے مالی اور بدنی، دونوں قدرتیں ضروری ہیں۔ ارشادِ باری ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْْہِ سَبِیْــلًا  (اٰل عمرٰن۳:۹۷)’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ حج اپنے اندر عالم گیر اخوت ومحبت اور انسانی مساوات کاعملی پیغام رکھتا ہے۔ تمام حجاج کاایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر ایک ہی طرح کے اعمال وشعائر انجام دینا، جہاں ایک طرف: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘ کے احساس کوپختگی دیتا ہے، وہیں دوسری طرف ربِ واحد کے حضور انسانی مساوات کا نادر نمونہ پیش کرتا ہے۔

اس عبادت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ نبی کریمؐ نے بھی صرف ایک بار حج کیا اور فرما یا: ’’مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لیے کہ مجھے نہیں معلوم، شاید کہ میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں‘‘ (مسلم، ۳۱۹۷) ۔ ہر اسلامی عبادت میں دوشرائط کا پایا جانا ضروری ہے: اخلاص اورپیرویِ شریعت۔ چونکہ یہ عبادت عموماً انسان زندگی میں صرف ایک بار ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں خطاؤں اور لغزشوں کے ارتکاب کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ حج کی تمام جزئیات کا کتابی مطالعہ اور نظری علم الگ چیز ہے، اور عملی حج کرنا الگ۔ اسی لیے کثیر مطالعہ کے باوجود حجاجِ کرام سے لغزشیں سرزد ہوجاتی ہیں۔لغزشیں تو خیر بشریت کا خاصہ ہیں، تاہم اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا حج خطاؤں سے پاک صاف ہو، ہر مومن کے لیے ضروری ہے ۔ اس مضمون میںچند خطاؤں پر متنبہ کیا گیا ہے جو عموماً حجاجِ کرام سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ اِن خطاؤں کا سبب ناواقفیت ہے یا اندھی تقلید۔ مومنانہ کردار یہ ہے کہ جب صحیح علم حاصل ہوجائے تو اس پر عمل کیا جا ئے۔ اسی لیے یہ کوشش کی گئی ہے کہ دلائل کی روشنی میں صحیح بات سامنے لائی جائے۔

اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت ادایگیِ حج کے وقت کے تعیین کو حاصل ہے۔  فقہاے کرامؒ کے درمیان اس امر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا فرضیت ِ حج کے بعد فوراً حج کرنا ضروری ہے یا اس میں تاخیر کی گنجایش ہے۔ احناف کے نزدیک فوراً حج کرنا ضروری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ رخصت ایک وبا کی طرح پھیل گئی ہے، اور حج کے لیے عملاً بڑھاپے کا وقت مخصوص مان لیاگیا ہے۔ حالانکہ شرعی لحاظ سے بھی اور موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی جوانی میں حج کرلینا ہی بہتر ہوتاہے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔

اگر کسی شخص پر حج فرض ہوجائے اور وہ اسے بڑھاپے پر اٹھا رکھے اور پھر حج کیے بغیر ہی مر جائے تو سخت گناہ گار ہوگا۔ نیز حج ایک پُرمشقت عبادت ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خواتین کا جہاد حج اور عمرہ کو قرار دیا۔ موجودہ دور میں کثرتِ حجاج کی وجہ سے اس میں مزید مشقتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بوڑھے حجاج خواتین وحضرات ارکانِ حج کیسے اور کس قدر ادا کرپاتے ہیں۔ بڑھاپے میں حج کا وطیرہ برعظیم پاک و ہند کے ساتھ خاص نظر آتا ہے، ورنہ دنیابھرکے بیش تر ممالک سے آنے والے حجاجِ کرام کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہمارے علماے کرام کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے سامنے حج کی اہمیت اجاگر کرنا اور انھیں جوانی میں حج کرنے پر اُبھارنا چاہیے۔

 احرام کے سلسلے میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- میقات سے حج اور عمرہ کی نیت کرنا لازم ہے۔ میقاتیں اللہ کے رسولؐکی جانب سے متعین کردہ ہیں۔ حاجی ومعتمر کے لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ زمین کے راستے سفر کررہا ہو یا بحری یا ہوائی راستے سے۔ بعض حجاج ہوائی سفر میں بغیر احرام کے میقات سے گزر جاتے ہیں اور جدہ ایئر پورٹ پہنچ کر احرام باندھتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔  ان کو چاہیے کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل احرام باندھ لیں اور میقات سے پہلے جہاز ہی میں نیت کرلیں۔ اگر بغیر احرام کے وہ جدہ پہنچ جاتے ہیں تو واپس میقات تک جائیں اور وہاں سے احرام باندھیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے ہیںاور جدہ ہی سے احرام باندھتے ہیں تو اکثر علما کے نزدیک اُن پر ایک جانور کے ذبح کرنے کا فدیہ واجب ہے، جو مکہ میں ذبح کیا جائے گا اور فقرا میں تقسیم ہوگا۔

۲- احرام کی حالت میں حاجی ومعتمر دو چادریں استعمال کرتا ہے۔ ایک تہبند کی طرح باندھ لیتا ہے اور دوسری کندھے پر ڈال لیتا ہے۔ بعض حجاج کرام کی چادرناف سے نیچے سرک جاتی ہے اور وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے، حالانکہ ناف ستر میں داخل ہے۔ اس کو ڈھکنے کا خصوصی التزام ہونا چاہیے۔

طواف میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- احتیاطاً حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان سے طواف شروع کرنا، غلو فی الدین ہے  جس سے نبی کریمؐ نے منع کیا ہے۔

۲- زیادہ بھیڑ کی صورت میں حجرِ اسماعیل ؑ (حطیم)کے اندر سے طواف کرنا۔ ایسی صورت میں طواف درست نہیں ہوگا، کیونکہ حطیم خانہ کعبہ کاحصہ ہے۔

۳- ساتوں چکر میں رمل کرنا( دلکی چال چلنا)۔ رمل صرف ابتدائی تین چکروں میں ہے۔

۴- حجرِ اسود کے بوسے کے لیے شدید دھکا مکی کرنا۔ کبھی کبھی نوبت گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، حالانکہ یہ چیز حج میں خصوصیت کے ساتھ ممنوع ہے۔ ارشادِ باری ہے: اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ  (البقرہ۲:۱۹۷) ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو‘‘۔

۵- حجرِ اسود کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ بذاتِ خود نفع ونقصان پہنچاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حضرات اس کا استلام کرکے اپنے پورے بدن پر اور بچوں کے بدن پر ہاتھ پھیرتے ہیں، یہ سراسر جہالت اورناسمجھی کی بات ہے۔ نفع ونقصان کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔  حضرت عمرؓ کا واقعہ ہے: ’’آپؓ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے علم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع، اور اگر میں نے اللہ کے رسولؐ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔(بخاری، ۱۵۹۷، مسلم، ۳۱۲۶-۳۱۲۸)

۶- پورے خانہ کعبہ کا استلام کرنا۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ استلام ایک عبادت ہے، اور ہر عبادت میں اللہ کے رسولؐ کی پیروی ضروری ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے صرف حجرِاسود اور رکنِ یمانی کا استلام کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ: ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورحضرت معاویہؓ طواف کررہے تھے۔ حضرت معاویہؓ تمام ارکانِ کعبہ کا استلام کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پوچھا کہ آپؓ ان دونوں ارکان کا استلام کیوں کررہے ہیں، جب کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کا استلام نہیں کیا ہے؟ حضرت معاویہؓ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا کوئی حصہ متروک نہیں ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: اللہ کے رسولؐ کا عمل ہی تمھارے لیے اسوۂ حسنہ ہے، تو حضرت معاویہؓ نے فرمایا: آپؓ نے درست فرمایا‘‘۔(مسند احمد، ۱۸۷۷)

۷-ہر طواف کے لیے مخصوص دعا کا التزام کرنا: بایں طور کہ اس کے علاوہ کوئی دعا نہ کرنا، بلکہ بسا اوقات اگر دعا پوری ہونے سے قبل طواف مکمل ہوجاتا ہے تو دعا بیچ ہی میں منقطع کرکے اگلے طواف میں پڑھی جانے والی دوسری دعا شروع کردی جاتی ہے، اور اگر طواف مکمل ہونے سے قبل دعا پوری ہوجاتی ہے تو بقیہ طواف میں خاموش رہا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اللہ کے رسولؐ سے ثابت نہیں۔

۸- کچھ لکھی ہوئی دعاؤں کو ان کا معنی ومطلب سمجھے بغیر پڑھتے رہنا۔حالانکہ طواف کرنے والے کو معنی ومطلب سمجھ کر دعا کرنی چاہیے خواہ اپنی مادری زبان میں ہی دعا کرے۔

۹- بعض حجاج کا ایک گروپ کی شکل میں طواف کرنا بایں صورت کہ ان میں سے ایک شخص بلند آواز سے دعا پڑھے اور بقیہ بلند آواز میں اسے دہرائیں۔ یہ چیز دیگر افراد کے خشوع وخضوع میں مخل اور ان کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے ۔حدیث میں ہے کہ:  ’’ایک بار اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں بلند آواز سے تلاوت کررہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا:نمازی اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، تو وہ دیکھے کہ اپنے رب سے کیا کہہ رہا ہے، اورقرآن کی تلاوت میں ایک دوسرے سے آوازیں بلند کرنے کا مقابلہ نہ کرو‘‘۔(موطا امام مالک، ۱۷۷)

۱۰- بعض حجاج یہ سمجھتے ہیں کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں لازماً مقامِ ابراہیمؑ کے پاس پڑھنی چاہییں، چنانچہ اس کے لیے دھکا مکی کرتے اور طواف کرنے والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں،حالانکہ یہ خیال صحیح نہیں ۔ یہ دو رکعتیں بیت اللہ میں کسی بھی مقام پر پڑھی جاسکتی ہیں۔

۱۱- بعض حضرات مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس بلاسبب کئی کئی رکعات پڑھتے ہیں، جب کہ دیگر حضرات طواف سے فراغت کے بعد وہاں نماز کے منتظر ہوتے ہیں۔

۱۲- بسا اوقات نماز سے فراغت کے بعد گروپ کا رہنما پوری جماعت کے ساتھ بلند آواز سے دعا کرتا ہے اور دیگر نمازیوں کی نماز میں مخل ہوتا ہے۔

سعی کے دوران سرزد ھونے والی خطائیں

۱- بعض حجاج صفا اور مروہ پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے تین بار تکبیرِ تحریمہ کی طرح تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔

آپؐ کے حج کے طریقے میں مروی ہے کہ: ’’جب آپؐ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ (البقرہ۲:۱۵۸) ’’یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘۔ اور فرمایا: میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چنانچہ آپؐ نے صفا سے سعی کا آغاز کیا اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آگیا، پھر آپؐ نے قبلہ رو ہوکر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی اور اس کی کبریائی بیان کی اور یہ دعا پڑھی: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ، لَـہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ، اَنْجَزَ وَعْدَہٗ، وَنَصَرَ عَبْدَہٗ، وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ ،’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے، اور سارے شکریہ کا مستحق بھی وہی ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تن تنہا تمام گروہوں کو شکست دی‘‘۔ پھر اس کے درمیان دعا کی۔ اسی طرح تین بار کیا۔ پھر اُتر کر مروہ کی جانب چلے، یہاں تک کہ جب وادی کے بیچ میں پہنچے تو تیزرفتاری سے چلے، اور جب اوپر چڑھ گئے تو عام رفتار سے چلے، یہاں تک کہ مروہ پر پہنچ گئے اور وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)

۲- پوری سعی کے دوران تیزرفتاری سے چلنا سنت کے خلاف ہے۔ تیزرفتاری سے صرف دونوں سبز لائٹوں کے درمیان چلنا ہے، بقیہ سعی میں عام چال چلنا ہے۔

۳- بعض خواتین دونوں سبز لائٹوں کے درمیان مردوں کی طرح تیزرفتاری سے چلتی ہیں، حالانکہ عورتوں کو تیزی سے نہیں، بلکہ عام رفتار سے چلنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ارشاد ہے:  ’’طواف میں رمل اور سعی میں تیزرفتاری عورتوں کے لیے نہیں ہے‘‘۔(سنن دارقطنی، ۲۷۶۶، سنن کبری للبیہقی، ۹۳۲۱)

۴- بعض حجاج جب صفا یا مروہ کے قریب پہنچتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ ، حالانکہ سنت یہ ہے کہ صرف پہلی سعی میں جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھے۔

۵- بعض حجاج ہر چکر میں مخصوص دعا پڑھتے ہیں۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

۶- بعض حجاج سعی کے دوران اضطباع کرتے ہیں، یعنی دایاں کندھا کھلا رکھتے ہیں۔   یہ درست نہیں ہے۔ اضطباع صرف طوافِ قدوم میں مسنون ہے۔

وقوفِ عرفہ میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- بعض حجاج حدودِ عرفہ سے پہلے ہی قیام کرلیتے ہیں، اور سورج غروب ہونے تک وہیں رہتے ہیں، پھر وہیں سے مزدلفہ چلے جاتے ہیں، اور عرفہ میں قیام ہی نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اور اس کی وجہ سے حج فوت ہوجاتا ہے، کیونکہ وقوفِ عرفہ حج کا بنیادی رکن ہے۔ اس کے بغیر حج درست نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ جو وقوف کے وقت میں یہاں وقوف نہ کرے اس کا حج نہیں ہوا۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے، چنانچہ جو شخص مزدلفہ کی رات فجر طلوع ہونے سے قبل بھی عرفہ آگیا تو اس نے حج پالیا‘‘(سنن ترمذی، ۸۸۹، سنن نسائی، ۳۰۴۴، سنن ابن ماجہ، ۳۰۱۵)۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ بعض حضرات عرفہ سے قبل ہی قیام کرلیتے ہیں اور دوسرے انھیں دیکھ کر دھوکاکھا جاتے ہیں۔ اس لیے حجاجِ کرام کو چاہیے کہ وہ حدودِ عرفہ کی اچھی طرح تحقیق کرکے ہی قیام کریں۔ حدود کا تعیین کرنے والے بورڈوں اور وہاں کام کرنے والے افراد سے رہنمائی لینا مناسب ہوگا۔

۲- بعض حجاج غروبِ آفتاب سے قبل ہی عرفہ سے نکل جاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ  غروب کے بعد عرفہ سے نکلے تھے۔

۳- دعا کے دوران قبلہ کے بجاے جبل رحمت کی جانب رخ کرنا۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ  نے قبلہ رو ہوکر دعا کی۔

۴- بعض حجاج عرفہ میں ظہر اور عصر کی نمازیں اپنے اپنے وقت پر مکمل ادا کرتے ہیں۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ یہاں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ظہر کے وقت میں ادا کرنی چاہیے، جیسا کہ نبیؐ نے کیا۔ حضرت جابرؓ نبی کریمؐ کے حج کے تذکرے میں عرفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  ’’پھر اذان کہی گئی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ نے ظہر پڑھی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ  نے عصر پڑھی، اور ان دونوں کے درمیان کچھ نہیں پڑھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)

۵- منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ میں نماز قصر کے ساتھ پڑھنے کا حکم حج کا ایک خاص حکم ہے۔ اس میں اہلِ مکہ اور غیر اہلِ مکہ سب شامل ہیں۔ اس لیے کہ نبی کریمؐ نے حجۃالوداع کے موقع پر ان مقامات پر جب جب نمازیں پڑھائیں تو آپؐ  کے ساتھ اہلِ مکہ بھی ہوتے تھے، لیکن آپؐ  نے انھیں نماز پوری کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر نماز پوری کرنا ضروری ہوتا تو آپؐ  انھیں اس کا حکم دیتے، جیسا کہ  فتحِ مکہ کے موقع پر آپؐ  نے کیا۔ حضرت عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں: ’’میں فتحِ مکہ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ تھا۔ آپؐ  نے وہاں ۱۸ دن قیام کیا۔ آپؐ  دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کہتے: ’’اے اہلِ مکہ، چار رکعتیں پڑھو، کیونکہ ہم مسافر ہیں‘‘ (سنن ابوداؤد، ۱۲۳۱) ۔ البتہ اگر کچھ لوگ منیٰ یا عرفہ میں مستقل سکونت اختیار کرلیں تو قصر نہیں کریں گے۔ (موطا امام مالک، باب صلاۃ منیٰ، ۹۰۴)

۶- عرفہ میں ۹ ذی الحجہ کی ظہر اور عصر، نیز مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کرکے پڑھیں گے، جب کہ منیٰ میں تمام نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھیں گے۔

مزدلفہ میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- مزدلفہ کی رات کو سب سے افضل رات بتایا جاتا ہے اور اس میں عبادت کی بڑی فضیلت بیان کی جاتی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے اس رات مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ کر طلوع فجر تک آرام کیا۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: ’’پھر آپؐ  مزدلفہ آئے، اور یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت سے ادا کیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔ پھر آپؐ  لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی‘‘۔ (مسلم،۳۰۰۹)

۲- بعض حجاج غروب آفتاب کے فوراً بعد مغرب پڑھ لیتے ہیں خواہ عرفہ ہی میں ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ غروب کے فوراً بعد عرفہ سے نکل جائیں اور مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھیں۔

رمی جمرات میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- یہ اعتقاد رکھنا کہ مزدلفہ سے کنکریاں چننا ضروری ہے، چنانچہ رات میں بڑی مشقتوں کے ساتھ کنکریاں چنتے ہیں اور پھر منیٰ میں ان کو بڑا سنبھال کر رکھتے ہیں۔ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’عقبہ کی صبح اللہ کے رسولؐ نے اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ میرے لیے کنکریاں چنو، تو میں نے آپؐ  کے لیے کنکریاں چنیں، جو چنے کے دانے کے برابر تھیں۔ جب میں نے انھیں آپؐ  کے ہاتھ میں رکھا تو آپؐ  نے فرمایا : ان جیسی کنکریوں سے رمی کرو، اور دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘ (سنن نسائی، ۳۰۵۷، سنن ابن ماجہ، ۳۰۲۹)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ  نے جمرہ کے پاس کھڑے ہو کر کنکریاں چننے کا حکم دیا۔

۲- رمی کرتے ہوئے یہ اعتقاد رکھنا کہ ہم شیطان کو مار رہے ہیں، چنانچہ جمار کو شیطان کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ نیز انتہائی غصے اور غیظ وغضب کے ساتھ شیطان کو صلواتیں سناتے ہوئے کنکری مارتے ہیں۔ بسا اوقات بعضے اشخاص غصے کی شدت کی وجہ سے اوپر چڑھ کر جمار کو جوتوں اور بڑے پتھروں سے مارنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے بنیاد ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’خانہ کعبہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار اللہ تعالیٰ کا ذکر قائم کرنے کے لیے ہے‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۱۸۹۰)

۳- بڑی بڑی کنکریوں، جوتے، چپلوں اور لکڑیوں سے رمی کرنا۔ یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ آپؐ  نے چنے کے برابر کنکریوں سے رمی کی اور بصراحت فرمایا کہ: ’’اور دین میں   غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘۔

۴- جمرات کی طرف انتہائی شدت کے ساتھ بڑھنا، بایں طور کہ نہ دل میں اللہ کا خوف ہو اور نہ بندوں پر رحم کا جذبہ۔ چنانچہ لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اور کبھی کبھی بات  گالم گلوچ اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے بچنا چاہیے اور اطمینان وسکون کے ساتھ رمی کرنی چاہیے۔

۵- ایامِ تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ) میں پہلے اور دوسرے جمرہ کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا، جب کہ اللہ کے رسولؐ کے طریقۂ حج میں یہ دعا ثابت ہے۔ ’’اللہ کے رسولؐ جب مسجد منیٰ کے قریب والے جمرہ کو کنکریاں مارتے تو سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آگے بڑھ کر کھڑے ہوجاتے اور قبلہ رو ہوکر ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرتے۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس آتے اور اسے بھی سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر بائیں جانب وادی سے قریب اُتر کر کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے۔ پھر عقبہ کے قریب والے جمرہ کے پاس آتے اور اسے سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر واپس چلے جاتے اور اس کے بعد کھڑے نہیں ہوتے‘‘۔(بخاری، ۱۷۵۳)

۶- ساری کنکریاں ایک بار میں مار دینا۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے، اور ایسی صورت میں   یہ صرف ایک کنکری شمار ہوگی۔ ہر کنکری الگ الگ مارنی ضروری ہے۔

۷- رمی کرتے وقت غیر منقول دعائیں پڑھنا، جیسے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رِضًا لِلرَّحْمٰنِ، وَغَضَبًا لِلشَّیْطَانِ۔ بسااوقات اس دعا کو پڑھنے کے چکر میں نبیؐ سے منقول تکبیر تک چھوڑ دی جاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپؐ  سے جتنا ثابت ہے بلا کمی بیشی کے اس پر عمل کیا جائے۔ آپؐ  صرف تکبیر کہتے ہوئے ہر کنکری مارتے تھے۔

۸- رمی جمار میں سستی کرنا اور بلاعذر، قدرت کے باوجود دوسروں کو رمی کے لیے وکیل بناکر بھیجنا۔ ارشادِ باری ہے: وَاَتِمُّواْ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ (البقرہ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو تو اسے پورا کرو‘‘۔ اس لیے جو شخص رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے خود رمی کرنی چاہیے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں اور پریشانیوں پر صبر کرنا چاہیے، کیونکہ حج ایک قسم کا جہاد ہے اور اس میں پریشانیوں کا وجود لازم ہے۔

۹- رمی جمرات کے وقت کے تعیین کے سلسلے میں علماے کرام کی دو رائیں ہیں۔ ایک راے یہ ہے کہ ۱۰ ذی الحجہ کی رمی کا وقت طلوعِ آفتاب کے بعد شروع ہوتا ہے اور ۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ کو اس کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، اس سے قبل رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض دیگر علماے کرام نے حالات کے لحاظ سے یہ فتویٰ دیا کہ طلوعِ فجر کے بعد بھی رمی کی جاسکتی ہے۔ اس مسئلے میں ایک معتدل راے یہ نظر آتی ہے کہ وقت کے تعیین کا امر حاجی کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن۶۴:۱۶) ’’جہاں تک تمھارے بس میں ہو   اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ نیز آپؐ نے فرمایا: میں نے جس سے تمھیں منع کیا ہے اس سے باز رہو اور جس کا حکم دیتا ہوں اسے حسب ِ استطاعت بجا لائو‘‘۔(بخاری:۷۲۸۸، مسلم: ۶۲۵۹)

 آیتِ کریمہ اور حدیث نبویؐ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر حاجی خود یہ فیصلہ کرے کہ حالات کے مطابق اس کے لیے کس طریقے پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے، مثلاً جن حجاج کرام کو منیٰ میں خیمے میسر ہوں انھیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ زوال کے بعد رمی کریں۔ البتہ جن حجاج کو  منیٰ میں خیمے میسر نہیں ہوتے اور انتظامیہ کے افراد انھیں ہمہ وقت شارع پیمائی پر مجبور رکھتے ہیں، ان کے لیے رخصت پر عمل کرتے ہوئے طلوعِ فجر کے بعد سے ہی رمی کی اجازت ہونی چاہیے۔

طوافِ وداع میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- ۱۲ یا ۱۳ ذی الحجہ کو رمی جمرات سے پہلے منیٰ سے مکہ آکر طوافِ وداع کرلینا، پھر منیٰ واپس جاکر رمی کرنا، پھر وہیں سے وطن لوٹ جانا۔ یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو(یعنی طوافِ وداع کریں)، البتہ حائضہ سے یہ معاف کردیا گیا‘‘ (بخاری، ۱۷۵۵، مسلم، ۳۲۸۴)۔ نیز حضرت عمرؓ کا اس باب میں صراحتاً یہ حکم ہے کہ جس نے طوافِ وداع کے بعد رمی کی تو اس کا طواف وداع نہیں ہوگا، اور اس پر یہ واجب ہوگا کہ وہ رمی کے بعد دوبارہ طواف کرے۔ اگر وہ دوبارہ طواف نہیں کرتا تو اس کا حکم اس شخص کے حکم کی طرح ہے جس نے طوافِ وداع کیا ہی نہیں۔

۲- طوافِ وداع کے بعد بلا عذر مکہ میں رکے رہنا، البتہ اگر طواف کے بعد نماز کا وقت ہوجائے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح سفر کی ضروریات کی وجہ سے اگر دیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

۳- طوافِ وداع کے بعد خانہ کعبہ کی جانب منہ کرکے مسجد ِ حرام سے نکلنا، بایں طور کہ خانہ کعبہ کی جانب پیٹھ نہ ہو، اور یہ سمجھنا کہ اس میں خانہ کعبہ کی تعظیم واحترام کا پہلو مد ِ نظر ہے۔ یہ سراسر بدعت ہے۔ اللہ کے رسولؐ، خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا یہ عمل نہیں تھا۔

۴- طواف مکمل کرنے کے بعد خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے الوداعی دعاوسلام کرنا۔    یہ چیز بھی بدعت ہے۔ اس لیے کہ جس طرح نبیؐ کی اتباع میں ان افعال کو کرنا واجب ہے جو   آپؐ  نے کیے ہیں، اسی طرح ان افعال کو ترک کرنا بھی ضروری ہے جو آپؐ  نے نہیں کیے تھے۔

 مسجد ِ عائشہؓ سے احرام باندھ کر کثرت سے عمرہ کرنا

حدودِ حرم کے اندر مقیم اہلِ مکہ اگر عمرہ کرنا چاہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھیں۔ اسی لیے حجۃالوداع کے موقع پر جب حضرت عائشہؓ ماہواری کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی تھیں تو طہارت کے بعد اللہ کے رسولؐ نے ان کو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن  بن ابی بکرؓ کے ساتھ حدودِ حرم سے باہر تنعیم نامی مقام پر عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے بھیجا تھا۔ یہ رخصت مخصوص حالت کی وجہ سے تھی۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ نے کبھی بھی اس رخصت کو ہر شخص کے لیے عام نہیں سمجھا، بلکہ خود حضرت عائشہؓ اس کو عام تصور نہیں کرتی تھیں۔ لیکن آج اس رخصت پر اس عموم کے ساتھ عمل ہورہا ہے کہ عقل حیران ہے۔ آپؐ  نے حج وعمرہ کی خاطر مکہ آنے والوں کے لیے میقاتیں مقرر کی ہیں اور فرمایا:’’یہ حددو مذکورہ ممالک کے لوگوں کے لیے اور اہل میقات کے علاوہ یہاں سے گزرنے والے ان تمام لوگوں کے لیے بھی ہیں جو حج یا عمرہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ نیز جو حضرات میقات اور حد ِ حرم کے درمیان رہایش پذیر ہیں وہ حج اور عمرہ کا احرام اپنے گھروں سے باندھیں گے۔ اور جو حضرات حدودِ حرم کے اندر رہتے ہیں وہ حج کا احرام اپنے گھروں سے، اور عمرہ کا احرام حدودِ حرم سے باہر نکل کر باندھیں گے۔

اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ حجاج کی ایک بڑی اکثریت بغیر کسی عذر کے تنعیم (یا حدودِ حرم سے باہر کسی بھی مقام) سے عمرہ کا احرام باندھ کر کثرت سے عمرہ کرتی ہے۔ بغیر کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں۔ البتہ اس امر میں تشدد برتتے ہوئے اس کو مطلق ناجائز قرار دینا بھی غلط ہے۔ ایک معتدل نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس سلسلے میں حجاج کے درمیان فرق کیا جائے اور ہر ایک پر یکساں حکم لگانے سے گریز کیا جائے۔ لہٰذا یہ کہا جائے کہ جو حضرات دُور دراز ممالک سے آئے ہیں، اور  غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا اور آخری سفرِ حرمین ہے، تو ایسے لوگوں کے لیے یہ گنجایش نکالی جاسکتی ہے کہ وہ بلا عذر بھی اس رخصت پر عمل کریں۔ البتہ جو لوگ سعودی عرب اور آس پاس ممالک میں مقیم ہیں اور جن کا کثرت سے مکہ آنا ہوتا ہے وہ بلاعذر اس رخصت پر عمل نہ کریں، بلکہ متعینہ میقات سے ہی احرام باندھیں۔ واللّٰہ اعلم، وھو الموفق للصواب۔

 

مقالہ نگار اسلامی یونی ورسٹی، مدینہ منورہ میں استاد ہیں۔

رمضان کا مبارک مہینہ ایک مرتبہ پھر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آیا، غفرانِ عام کا مینہ برسا، اور ہم ابھی رحمتوں کی اس بہار سے بہرہ مند ہو ہی رہے تھے کہ یہ ہم سے رخصت بھی ہوگیا۔

زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ وقت ہے کہ تھمتا نہیں۔ نعمتوں کی بارش ہورہی ہو، خوشیوں کا دل کش موسم ہو، راحتوں و فرحتوں سے ہمارا آنگن بھر رہا ہو، یا پھر مصائب و مشکلات آن گھیریں اور دکھ درد، رنج و اندوہ کے اَبر چھا جائیں، حالات ایک جیسے کبھی نہیں رہتے۔ گزرتا ہرلمحہ، قرآن کی اس پکار کا امین ہے کہ والعصر، یعنی غور کرو وقت اور زمانے کے تیزی سے گزرنے اور بدلنے پر، تم خسارے میں ہو!

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی زندگی کا کوئی اور سچ ہو نہ ہو، اُس کی موت اُس کی زندگی کا سب سے بڑا سچ ہوتا ہے۔ یہ بات کہ دنیا فانی ہے، میں فانی ہوں،اس کو پہچاننا، اس کو مان جانا، اور واقعی مان جانا، ایمان کے لیے شرطِ لازم تو ضرور ہے، البتہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ ایمان کا اظہار ہی کافی ہے نہ صرف ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے بلکہ اپنے آپ کو دھوکا و فریب دینے کے مترادف ہے۔ یہ تو فلاح کی سیڑھی پر پہلا قدم ہے۔گویا پیدایش سے ہی خسارے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

 سورئہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o    اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ  o مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍط وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o (۲۹:۲-۵)  کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔ جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

 یہ دنیا کا قانون تو ہوسکتا ہے کہ اقرار باللسان سے جان خلاصی ہوجائے لیکن بارگاہِ ایزدی میں عدل کا تقاضا یہی ہے کہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز اعمال کی بنیاد پر ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسان پر روشنی ڈالتے ہوئے یہی مقصد تو بیان فرمایا کہ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط (الملک ۶۷:۲)، یعنی اُس نے موت پیدا کی تاکہ اُس کے آنے تک جو مہلتِ حیات ہمیں عطا کی گئی ہے وہ اس میں آزمائے کہ ہم میں سے کون کون بہترین اعمال کا مظاہرہ کرتا ہے۔اس امتحان میں اللہ رب العالمین ہمیں طرح طرح سے آزمائے گا۔ وہ فرماتا ہے:

وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِط (البقرہ ۲:۱۵۵) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔

اس سے کوئی مفر نہیں۔ موت کو تو ہم دُور گردانتے ہیں اور اُس کو واقعی سمجھنا بھی شاید مشکل محسوس ہوتا ہے، مگر ان کیفیات و واقعات سے تو ہر وقت دوچار رہتے ہیں۔ تاہم، اس بات میں ہمارے لیے بڑی ڈھارس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔    لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)۔ ہم پر اس دنیا کی  بڑی سے بڑی آزمایش آئے، کٹھن سے کٹھن ابتلا ہو، ہمارے اندر وہ قوت پنہاں ہے جس سے ہم اس کا مقابلہ پامردی سے کرسکتے ہیں۔ ہم غور کریں تو رمضان کے روزے اسی احساس کو پروان چڑھانے کے لیے فرض کیے گئے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o  (البقرہ ۲:۱۸۳)، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ   تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔

 یہ تقویٰ کیا ہے، اسی احساس کا نام ہے۔

ہم رمضان میں اپنے کھانے پینے کی بالکل جائز اور فطری ضروریات سے رُک گئے صرف اس لیے کہ اللہ نے ہم سے اس کا تقاضا کیا۔ خواہش کے باوجود، نہ کھلے نہ چھپے، نہ کھایا نہ پیا۔ وسائل موجود تھے،اُن پر اختیار بھی تھا، لیکن صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی رضا و خوشنودی کی خاطر   ہم نے اپنا ہاتھ روکے رکھا، یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے اندر وہ قوتِ ارادی اور قوتِ برداشت  بدرجہ اتم موجود ہے جس سے ہم اُن کاموں سے رُک جائیں جو اللہ کو ناپسند ہیں اور اُن اعمال کی طرف دوڑیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ یہی احساس، کہ اللہ دیکھ رہا ہے، وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے، جب پروان چڑھتا ہے تب ہی ہم قرآن کی ہدایت کے جس کا نزول رمضان المبارک میں ہوا، مستحق قرار پاتے ہیں۔

ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo (البقرہ۲:۲) یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے۔

آج ہرمحلے میں تراویح کی نماز ہوتی ہے، قریہ قریہ، نگر نگر فہم قرآن کلاسیں منعقد ہورہی ہیں، دروسِ قرآن کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے لیکن معاشرے میں اس کے اثرات مفقود نہ سہی تو محدود ضرور ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ قرآن انسان اور معاشرے میں حُریت فکر کا جو انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے، اُس کے بنیادی تقاضوں اور منازل سے قرآن کے سننے اور سنانے والے، پڑھنے اور پڑھانے والے، سبھی غافل ہیں، کجا کہ وہ جو قرآن کی دعوت کو لے کر اُٹھنے کے دعوے دار ہوں۔ وہ لوگ اگر آج مرجع خلائق نہیں تو اس کی بھی شاید یہی وجہ ہے۔ حاملِ قرآن ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔

لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ o (الحشر ۵۹:۲۱)، اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں۔

پس اگر ہم قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں، اُس کی دعوت کو لے کر اُٹھنا چاہتے ہیں، اپنے  آپ کو اور اپنے معاشرے کو اُس کی اقدار کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں، تو پھر اپنے اندر تقویٰ   اور وہ احساس و سوز پیدا کرنا، اور پروان چڑھانا ہوگا جو اس کے لیے شرطِ اوّل و لازم ہے، جس کی تعلیم و تربیت کے لیے رمضان آیا۔

یہ رمضان ہمیں کچھ زادِ راہ دے گیا ہے، تو اس پونجی کو روز بروز بڑھانے کی ضرورت ہے، تب ہی ہم قرآن و سنت کی دعوت لے کر اُٹھنے کے اہل ہوں گے اور تب ہی پوری دنیا پر اپنے اسلاف کی طرح چھا جائیں گے۔یہی مقصدِ حیات اور راہِ نجات ہے۔

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ کوئی آدمی عقیدے میں پختہ ہو یا کمزور، یہ ضمنی بحثیں ہیں، لیکن اصلاً جس عقیدے کا حامل جو شخص ہوتا ہے اس کے اعمال، افعال، رویے اور کردار پر لازماً اس کا گہرا اثر اور چھاپ ہوتی ہے۔

عقیدۂ آخرت اس یقین کا نام ہے کہ یہ دنیا اور یہ زندگی فانی ہے۔ اس عالم کے بعد ایک دوسرا عالم وجود میں آنا ہے۔ جس طرح سے عالم دو ہیں، اس طرح سے زندگیاں بھی دو ہیں۔ گویا اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اصلاً زندگی تو ایک ہی ہے، جس چیز کا نام ہم نے موت رکھا ہوا ہے، اس کی آمد سے وقتی اور عارضی طور پر محض زندگی کا مرحلہ بدل جاتا ہے مگر زندگی اور اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس زندگی کو ہم عارضی یا ناپایدار زندگی کہتے ہیں، اور وہ زندگی جو موت کے دراوزے سے گزر کر شروع ہوتی ہے، پایدار، باقی رہنے والی، دائمی اور ہمیشہ کی زندگی قرار پاتی ہے۔ قرآن پاک میں جابجا اس حوالے سے جواب دہی کا احساس اور آخرت کا حوالہ موجود ہے:

وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرہ ۲:۴) اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo (القیامۃ ۷۵:۳۶) کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟

تمام اعمال کی جواب دہی اسی عقیدۂ آخرت کی بنیاد پر ہے۔ محاسبۂ اعمال کی تفصیل قرآن پاک کے اوراق کے اندر بکھری ہوئی ہے۔ سورئہ واقعہ، سورئہ معارج، سورئہ حاقہ، سورئہ قیامہ، سورئہ تکویر اور سورئہ نبا، یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن میں قیامت اور آخرت کی ہولناکیوں اور مجرمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے، نیز روزِ محشر کی تفصیلات ہیں۔ سورج کا لپیٹ دیا جانا اور ستاروں کا بے نور ہو جانا، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، جو انسان جو کچھ لے کر آیا ہے، اس کو اپنا کیا دھرا سب معلوم ہوجائے گا، جب آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے اور جب دریا ایک دوسرے سے مل کر بہہ نکلیں گے، جس دن صور پھونکا جائے گا اور یکایک قبروں سے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے، اور اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے اور پکاریں گے: ہاے ہماری کم بختی، کس نے ہماری خواب گاہوں سے ہمیں جگادیا اور یہ تو وہی قیامت کادن ہے، جس کا حق تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے اس کے بارے میں سچی خبریں ہم تک پہنچائی تھیں___ یہ وہ منظرکشی ہے جس سے تسلسل کے ساتھ آخرت اور اس کی جواب دہی اور اس حوالے سے انسانوں کے اعمال کو دیکھا اور پرکھا جانا سامنے آتا ہے۔

عقیدۂ آخرت اور تزکیہ

ایمان کے بعد انسانی زندگی کو سنوارنے، اس کو حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اوراس کو درست رُخ دینے کے لیے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے اگر کوئی عقیدہ ہے تو وہ آخرت کا عقیدہ ہے۔ آخرت کی فکر کے لیے یہ پوری منظرکشی قرآنِ مجید اور احادیث میں ملتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو مطلوب ہے،اس لیے کہ فکرِ آخرت انسانی جمود کو توڑنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ جب انسان بے عمل ہوجائے، غلط راہوں پر چل نکلے، گم کردۂ راہ ہوجائے، سب کچھ جانتے ہوئے عملی زندگی میں انجان سا بن جائے، تو یہ آخرت کی فکر انسان کے جمود کو توڑنے اور اس کے ایمان پر لگ جانے والے زنگ کو اُتارنے، دیگر افکار اور پریشانیوں سے کاٹ کر آخرت کے شعور کی طرف لانے کے لیے نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔

جناب صدیق اکبرؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرانے ساتھی تھے۔ عمر میں بھی دو ہی سال کا فرق تھا، گویا بچپن ہی سے ایک دوسرے کو دیکھتے آئے تھے۔ جناب صدیق اکبرؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! آپؐ پر تو بڑھاپا آگیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ہاں، مجھے بوڑھا کر دیا سورئہ ہود،  سورئہ واقعہ، سورئہ مرسلات، سورئہ نبا اور سورئہ تکویر نے۔ (ترمذی)

 ان سورتوں کی اگر تلاوت کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وہی سورتیں ہیں جن میں قیامت اور آخرت کا بیان ہے۔ ان میں اس پکڑ، بازپُرس اور تنبیہ کا بیان ہے جو آخرت برپا ہونے سے پیش تر کی جارہی ہے۔ نبی کریمؐ ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے تو آپؐ  پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی تھی۔ آپؐ  چونکہ داعیِ اعظم اور داعیِ اوّل تھے، اس لیے یہ خوف بھی آپؐ  کو ستاتا تھا کہ اگر یہ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے تو لازماً پکڑے جائیں گے،اور اس طریقے سے بارگاہِ رب العزت میں دھر لیے جائیں گے۔ یہ وہ کیفیت تھی کہ جس میں جواب دہی اور دوسروں کی نجات کے لیے فکرمند ایک داعی کی حیثیت سے آپؐ  سرشار رہتے تھے۔ لوگوں تک پہنچنا، ان کے دلوں پر دستک دینا، ان کو سیدھے راستے پر لانا، جہنم کی آگ سے بچانا اور قبر کی پکڑ سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام جتن کرنا، ان کی فکرمندی کا عنوان تھا۔

اپنی گھریلو زندگی میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس فکرمندی میں گُھلے جاتے تھے۔ ان کیفیات کا تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی احادیث میں ملتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے حضوؐر کو بارہا یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا ، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لیجیے‘‘، تو میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! آسان حساب کی  کیا صورت ہوگی؟ آپؐ  نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ ایک شخص کے اعمال نامے کو دیکھے گا اور بس اس سے صرفِ نظر فرما لے گا، تو یہ آسان حساب ہوگا۔ پھر آپؐ  نے فرمایا: اے عائشہ! اس دن جس شخص سے واقعی پوچھ گچھ ہوگئی تو وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا۔ اسی لیے آپؐ  نے یہ دعا بھی سکھائی۔

موت، ایک تلخ حقیقت

موت جس چیز کا نام ہے، اور جس سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہیں، یہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ موت کے بعد کے جو واقعات قرآن اور حدیث میں ملتے ہیں، وہ تو اور بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ ان کے تذکرے سے بھی آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اوراعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری دُور کرنے کا جذبہ انسان کے اندر پروان چڑھتا ہے۔ موت سے زیادہ یقینی چیز کوئی بھی نہیں۔ یہ بڑی ہی تلخ حقیقت ہے اور اس کڑوے گھونٹ کو پیے بغیر گزارہ بھی نہیں ہے۔ اس سے انسانوں کو مَفر نہیں ہے۔

  • حضرت عثمانؓ قبر کو دیکھتے تھے تو آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی تھی، اور پوچھنے پر فرمایا کرتے کہ قبر، آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، لہٰذا اس کو دیکھتا ہوں تو یہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ جس کے لیے یہ منزل آسان ہوئی، اس کے لیے ساری منزلیں آسان ہوئیں۔
  • حضرت سعد بن معاذؓ مشہور صحابی ہیں۔ ان کا انتقال ہوا تو نبی کریمؐ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپؐ  ہی کے ہاتھوں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ جب قبر تیار ہوئی اور آپؐ  اس کے سرھانے کھڑے تھے تو صحابہ کرامؓ نے سنا کہ آپؐ  کی زبان سے نکلا: اللہ اکبر، اور قدرے توقف کے بعد آپؐ  نے فرمایا: سبحان اللہ۔ صحابہ کرامؓ نے منظر کو دیکھا تو نبی کریمؐ سے دریافت کیا کہ یارسولؐ اللہ! ہم کچھ سمجھ نہ سکے۔ آپؐ  کی زبان سے پہلے اللہ اکبر کا کلمہ بلند ہوا اور پھر کچھ وقفے کے بعد سبحان اللہ جاری ہوا، یہ کیا ماجرا ہے؟ کوئی واقعہ ہماری نظر میں نہیں آیا۔ آپؐ  نے فرمایا: اللہ کے اس برگزیدہ بندے پر جب قبر تنگ ہوگئی تو میری زبان سے نکلا: اللہ اکبر اور قبر کشادہ ہوگئی۔ پھر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور میری زبان سے نکلا: سبحان اللہ۔

حضرت سعد بن معاذؓ بڑے جلیل القدر صحابیؓ ہیں۔ نبی کریمؐ آپ کی نمازِ جنازہ پڑھا رہے ہیں۔ آپؐ  ہی کے مبارک ہاتھوں ان کی تدفین عمل میں آرہی ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں سے قطع نظر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی کریمؐ کے ذریعے سے ہمیں یہ تعلیم دے رہا ہے کہ قبر کی پکڑ کسے کہتے ہیں، قبر کا سکڑ جانا اور اس کے نتیجے میں انسانوں کا بھینچا جانا کسے کہتے ہیں، اور قبر کی حقیقت کیا ہے!

حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے اَن گنت واقعات ہیں جو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے ملتے ہیں کہ وہ کس فکر کے اندر غلطاں و پیچاں رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبرؓ کہتے کہ کاش! میں تنکا ہوتا۔ اس کا کوئی حساب کتاب تو نہیں ہوتا، اور اس کی کوئی پوچھ گچھ تو نہیں ہوتی۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ کاش! کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ میں چھوٹ جائوں۔

آخرت اور تصورِ دنیا

آخرت کا بہت گہرا تعلق فکرِ دنیا سے ہے۔ ان دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال ہی انسان کو راہِ راست پر رکھتا ہے۔ اگر انسان فکرِ دنیا کے اندر دُور تک چلا جائے توفکرِ آخرت اس سے گم ہوجاتی ہے۔ اس لیے فکرِ آخرت کی دولت پانے کے لیے خود دنیا کا تصور واضح اور دوٹوک ہونا چاہیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کے ساتھ چل رہے تھے کہ کوڑے کے ڈھیر پر بکری کا مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ آپؐ  نے صحابہ کی طرف رُخ کر کے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بکری    کے اس بچے کو ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرامؓ قدرے حیران ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو بکری کا مرا ہوا بچہ ہے، ہم میں سے تو کوئی اس کو مفت میں لینا بھی گوارا نہیں کرے گا۔

ذرا دیکھیے کہ کس طرح آپؐ  تعلیم دیتے ہیں، کیسے ذہنوں کو آمادہ کرتے اور لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ پھر آپؐ  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حیثیت اس بکری کے مرے ہوئے بچے سے بھی کم تر ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس دنیا کی فکر میں ہم دن رات لگے رہتے ہیں، تگ و دو کرتے ہیں اور اسی کے غم میں نڈھال ہوتے، جوانی کے اندر بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں، اس دنیا کی یہ حیثیت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہے ہیں۔

آپؐ  نے فرمایا: دریا کے اندر انگلی ڈالو اور باہر نکالو تو جو پانی اس انگلی کے اُوپر لگا رہ جائے گا، وہ دنیا کی زندگی ہے، اور جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی باقی رہے گا، وہ آخرت کی زندگی ہے۔

یہ دنیا تو لمحوں، مہینوں، اور برسوں کی اتنی طوالت کے باوجود بہت کم، بہت ہی بے مایہ اور بے حیثیت ہے، جب کہ آنے والی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی ہے، جس کی کامیابی اصل کامیابی اور ناکامی اصل ناکامی ہے۔ اس دنیا میں پائی جانے والی کامیابی عارضی ہے، پانی کا بُلبلہ ہے کہ ابھی ہے اور ابھی نہیں۔ یہاں کی ناکامی اور یہاں کا غم بھی بالکل عارضی ہے کہ وہ اچانک ختم ہوجاتا ہے۔ دنوں کی رفت گزشت کے نتیجے میں ذہنوں سے دُھل جاتا ہے۔ اس لیے تصورِ آخرت کے ساتھ ساتھ خود تصورِ دنیا بھی احادیث پاک میں بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔

حضرت ابوذر غفاریؓ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے۔ ملازم کو دیکھا تو اس کو آواز دی اور کہا کہ جائودیکھو میرے اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا اُونٹ ہے، وہ اللہ کی راہ میں دے دو اور قربان کر دو۔ کچھ دیر کے بعد ملازم آیا اور اطلاع دی کہ کام ہوگیا ہے۔ شام کو جب آپؓ اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا سُرخ اُونٹ تھا، وہ اسی طرح زندہ سلامت کھڑا ہے۔ آپؓ نے ملازم کو بلایا اور کہا کہ نیک بخت میں نے تجھ سے کہا تھا کہ سب سے اچھا اُونٹ  اللہ کے راستے میں دے دو، اور تو نے نہایت ہی مریل اُونٹ اللہ کے راستے میں قربان کردیا۔ اس نے کہا: یہ تو دراصل وہ اُونٹ ہے جو آپؓ سواری میں استعمال کرتے ہیں، بُرے وقت میں کام آتا ہے، سفر میں آپؓ کا ساتھ دیتا ہے، اس لیے میں نے اس اُونٹ کو رہنے دیا۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ ارے نیک بخت! تجھے پتا ہی نہیں کہ مجھے کس دن کی سواری کے لیے اُونٹ مطلوب تھا۔ جب کوئی سواری میسر نہ ہوگی تو اس لمحے کے لیے مجھے یہ اُونٹ مطلوب تھا۔ میں اس دن کے لیے یہ اُونٹ چاہتا تھا کہ جب کسی انسان کو سایہ بھی میسر نہ آئے گا اور کوئی بھی سہارا اس کو نہیں ملے گا___ یہ ہے تصورِ دنیا اور تصورِ آخرت۔ یہ تصور درست ہوگا تو فکر بھی درست ہوگی اور صحیح رُخ پر اس کی تشکیل ہوگی۔

آخرت اور تصورِ مال

اس زندگی میں تصورِ مال کا درست ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ مال کی حقیقت کیا ہے؟ وہ جو واقعہ آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے اور اُمہات المومنینؓ سے پوچھا کہ گھر میں کچھ کھانے کے لیے ہے؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج ایک بکری ذبح کی گئی تھی اسے محلے میں، رشتہ داروں میں اورعزیزو اقارب میں تقسیم کر دیا گیا ہے، بس دست کا ایک ٹکڑا باقی ہے۔ دیکھیے آپؐ  نے کیا فرمایا؟ آپؐ  نے فرمایا: جو دے دیا گیا، دراصل وہی باقی ہے اور جو رہ گیا وہ کس کے کام آنا ہے۔

اصل مسئلہ تو تصورات کا ہے۔ اگر تصورات درست ہوں گے تو فکر بھی درست اور ٹھیک ہوگی اور عمل کی وادی میں آدمی صحیح سمت کی طرف چلے گا۔ یہ تصورِ آخرت ہی تو ہے کہ جو دے دیا گیا وہی دراصل باقی ہے اور جو باقی رہ گیا، وہ بھلا کس کے کام آنا ہے۔

 ہمارا روزمرہ کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جب دینے کا موقع آتا ہے تو    بھلے سے بھلا آدمی بھی یہ سوچنے لگتا ہے کہ چلو گھر کی صفائی کا نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔ لوگ پھٹے پرانے کپڑے، گھسے پٹے جوتے اور ٹوٹے پھوٹے برتن اور دوسرا سامان وغیرہ نکال نکال کر راہِ خدا میں دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات نہیں ہوتی کہ میں یہ     اپنے آپ کو دے رہا ہوں، اس لیے کہ جب ہم وہاں پر پہنچیں گے تو یہی پھٹے پرانے کپڑے اور ٹوٹے پھوٹے جوتے، اور گیا گزرا سامان ہمارا انتظار کر رہا ہوگا کہ تم نے اپنے آپ کو یہی دیا تھا نا۔ اب یہی کھائو، پیو اور عیش کرو!

ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہی نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ خیال تو یہی ہوتا ہے کہ  راہِ خدا میں دیا جا رہا ہے۔ اگر انسانی ذہن اس بات کو سوچنے اور بالآخر اس کے مطابق اپنے یقین کو پختہ کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے کہ یہ دراصل میں اپنے آپ کو دے رہا ہوں، یہ فی الحقیقت خود میری ذات کے لیے سرمایہ کاری ہے، تو اس کا رویہ بدل جائے گا۔ پھر وہ بہتر سے بہتر دے گا، اچھے سے اچھا دے گا، جس چیز سے محبت کرتا ہے، اسی سے انفاق کرے گا۔ اس لیے تصورِ مال کا درست ہونا، تصورِ دنیا کا درست ہونا ضروری ہے اور اسی کے نتیجے میں تصورِ آخرت درست ہوتا ہے جو مطلوب ہے۔

روزِ محشر کا منظر

حضرت ابوسعید خدریؓ مشہور صحابی ہیں۔ نبی کریمؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے سورئہ مطففین کی آیت: یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (وہ دن جب تمام انسانوں کو بارگاہِ رب العزت میں لاکھڑا کیا جائے گا۔۸۳:۶) کی تلاوت کی اور عرض کیا:   یارسولؐ اللہ! روزِ محشر جو ہزار سال سے بھی بڑا دن ہوگا، کس کے اندر یہ طاقت اور مجال ہوگی کہ اللہ کی بارگاہ میں کھڑا رہ سکے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ابوسعید! وہ دن نافرمانوں اور مجرموں اور باغیوں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔

مصیبت کا دن تو ویسے ہی بڑا سخت ہوتا ہے۔ مصیبت کی گھڑی ٹلنے کو نہیں آتی۔ کسی آزمایش سے انسان دوچار ہوجائے تو لگتا ہے کہ نہ معلوم کب سے اس آزمایش کے اندر گھرا ہوا ہے۔ کچھ یاد بھی نہیں آتا کہ کبھی خوشی و مسرت سے بھی ہم کنار ہوا تھا لیکن آپؐ  نے فرمایا کہ مومنوں کے لیے اس دن کو آسان بنا دیا جائے گا اور وہ اپنے رب کے جلوے سے سرفراز ہوںگے، اور ان کے چہرے شاداں و فرحاں ہوں گے، سورئہ قیامہ کی آیت کَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ (۷۵: ۲۰-۲۲) کی گویا آپؐ  نے تشریح فرمائی کہ اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوںگے، شاداں و فرحاں ہوں گے، چمکتی دمکتی پیشانیوں کے ساتھ پُرامید نگاہوں کے ساتھ، اپنے رب کی طرف بڑھ رہے ہوںگے، اس نعمت کو لینے کے لیے اور انعامات کا مستحق ٹھیرنے کے لیے اور اپنے رب کے دربار سے سرخ رُو ہونے کے لیے۔

ایک طرف یہ منظر ہے کہ لوگ شاداں و فرحاں ہوںگے اور اُمید بھری نگاہوں سے   اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ وہاں ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ کچھ چہرے اُداس ہوں گے، آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، اور ان کو یہ خیال ستا رہا ہوگا کہ عنقریب ایک کمرتوڑ سلوک ان کے ساتھ کیا جانے والا ہے۔ ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کی تصویر میں یہ فرق بڑا واضح ہوگا۔ ایک گروہ رحمتِ الٰہی کی اُمیدیں لیے ہشاش بشاش ہوگا، چمکتی پیشانیوں اور کھِلے چہروں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہوگا، وہیں دوسرا گروہ عذابِ الٰہی کے اندیشوں سے بدحواس، اور اپنے رب کی پکڑ اور اس کے دربار میں جو سلوک اس کے ساتھ کیا جانا ہے اس کی سختی سے بے حال ہوگا۔

روزِ محشر کا یہ بیان قرآن پاک کے اندر اور بہت سے مقامات پر موجود ہے اور احادیث میں نبی اکرمؐ نے تفصیل سے اسے بیان فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ میدانِ حشر کا یہ منظر موت کے دروازے سے گزر کر ہی نظر آئے گا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہم تو اس کے تذکرے سے بھی تھوڑے سے گریزاں اور کتراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی مجلسوں کا موضوع تو آخرت اور موت کی یاد ہوا کرتا تھا۔ لوگ اس حوالے سے اپنی پوری زندگی کو استوار کرتے اور اس کو بنیاد بناتے تھے۔ ادھر ہمارے ہاں اگر بھری بزم کے اندر کوئی موت کا تذکرہ لے بیٹھے تو لوگ اسے بدشگونی سمجھتے ہیں۔

جاں کنی کا مرحلہ

پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی، وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ(القیامۃ ۷۵:۲۹)، یعنی جاں کنی کا مرحلہ۔ جب انسان نہ چل سکے گا، انھی پنڈلیوں کے بل پر ہی تو انسان چلتا پھرتا اور جولانیاںدکھاتا ہے۔ ادھر سے مال بھیجا، اُدھر سے چھڑا لیا،     اُدھر اتنے لینے کے دینے اور اِدھر اتنے دینے کے لینے، یہاں اکائونٹ کھولا اور وہاں اکائونٹ کھولا، لمحوں کے اندر دولت مند بن گیا۔ اِدھر لوگوں کو ملازم رکھا اوراُدھر برطرف کر دیا، ایک قلم اور ایک دستخط سے نہ جانے کتنے لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرڈالا۔

پھر جب رب کی طرف لوٹنے کا سفر شروع ہوتا ہے تو ایک ایک کر کے منظر بدلتے چلے جاتے ہیں۔ کسی موذی بیماری یا طویل علالت کا زمانہ شروع ہوتا ہے تو وہی جہاں دیدہ، مشہور و معروف، محفل کی جان اور اپنے بچوں کے لیے آسمان کے تارے توڑ لانے کے لیے سرگرم فرد بستر سے لگا پڑا ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے بچوں کو بلائو، مگر بچے مال و دولت سمیٹنے میں اور مینجمنٹ کی  ذمہ داریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ پیغام ملتے ہی کہتے ہیں کہ کس مصروف وقت میں ابّاحضور یا دادا جان نے ناگاہ طلب فرمایا ہے۔ ایک اُکتاہٹ، ایک بے زاری کی کلونس چہرے پر چھا جاتی ہے، اور جب آتے ہیں تو جلد واپس جانے کا بہانہ پہلے ہی سے گھڑ کے ساتھ لاتے ہیں۔ ابا حضور کی آنکھیں توو ہی ہوتی ہیں لیکن دھندلائی ہوئی اور دیکھنے سے انکاری۔ وہی کان ہوتے ہیں   لیکن سننے سے عاری ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے پہچاننے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ زبان سے کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے۔ کہتے کچھ ہیں، مگر ادا کچھ ہوتا ہے۔ اس لمحے کوئی سعادت مند بچہ پکارتا ہے کہ بلائو ڈاکٹر یا حکیم کو، بلائو قاری صاحب کو کہ آیت کریمہ کا ختم کرائیں، سورئہ یٰس کی تلاوت شروع کر دو۔

یہ کوئی انوکھا منظر نہیں ہے، یہ عمل تو روز ہمارے گھروں میں ہوتا ہے۔ اس منظر سے تو ہم روز گزرتے ہیں اور پھر اُس کے بعد اُٹھ کر چلے آتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے کہ جو گن کر بتا سکے کہ اس نے کتنے لوگوں کو کندھا دے کر قبر تک پہنچایا ہے۔ ہم اَن گنت اور لاتعداد لوگوں کے جنازوں کو کندھا دیتے ہیں۔ وہ بھی اَن گنت اور لاتعداد ہیں کہ جن کی قبر کے کنارے کھڑے ہوکر، انسان کو قبر میں اُتارنے کا منظر ہم دیکھتے ہیں اور کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ذرا اس قبر کو اور گہرا کھودو اور میت کو مزید نیچے اُتارو۔ اسے نیچے اُتارنے میں پانچ چھے منٹ لگتے ہیں اور مٹی ڈالنے میں مزید چند منٹ۔ پھر اس کے اُوپر مٹی یا پتھر رکھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہوا کا تازہ جھونکا تک اسے نہ   پہنچ پائے۔ مٹی ڈال کر اس دنیا سے اس کا رابطہ اور ناتا بالکل منقطع اور ختم کر دیا جاتا ہے___  مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ’اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا، اور اسی میں ہم تمھیں لوٹا رہے ہیں، اور اسی سے ہم تمھیں دوبارہ اٹھائیں گے‘‘۔

اس طرح سب لوگ جمع ہوکر میت کو منّوں مٹی تلے دبا دیتے ہیں۔ اس دوران میں کسی کو کوئی خوف نہیں آتا کہ یہ میرا دوست ہے، یہ میرا بھائی ہے، یہ میرا باپ ہے، یہ میرا بیٹا ہے، یہ میری ماں ہے، جسے ہم منوں مٹی تلے دبا رہے ہیں۔ یہ سارے دوست، احباب اور رشتہ دار ہی ہوتے ہیں۔ یہ پرائے نہیں، بلکہ اپنے ہوتے ہیں،یہ غیر نہیں، بلکہ دلوں میں بسے ہوتے ہیں کہ جن کی جدائی کے غم سے آنکھوں کے اندر نمی تیر رہی ہوتی ہے، جن کے لیے دلوں کے اندر گداز ہوتا ہے، خود خوف و خشیت کے اندر مبتلا ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انسان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جیسے باقی سب کوتو مرنا ہے، لیکن مجھے تو زندہ رہنا ہے  ع

سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں

موت کی یاد

موت کے جس دروازے سے گزر کر حشر کا میدان آتا ہے، اس موت کے بارے میں  کوئی بات ایسی نہیں ہے کہ جو ہم سے پوشیدہ ہو، یاجس سے ہم لاعلم ہوں۔ ابتدا میں، مَیں نے  چند احادیث کے ذریعے عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ موت کس طرح زندگی کا تعاقب کرتی ہے اور پھر موت خود زندگی بن جاتی ہے۔ کیسا ہی باصلاحیت اور بااختیار انسان ہو یا کتنا ہی تندرست و توانا انسان ہو، بالآخر موت کے ہاتھوں زچ ہو جاتا ہے۔ پھر چاروں طرف یہ خبر پھیل جاتی ہے۔ بہت سے لوگ سوگوار ہوجاتے ہیں لیکن اس خبر کو تو پھیلنا ہی ہوتا ہے۔ یہ ہم ہیں کہ اس کی آمد کا انکار کرتے ہیں۔ وہ جن کے ہاتھوں نہ معلوم کتنے سیکڑوں ہزاروں انسانوں کو شفا ہوئی ہوتی ہے، اور جن کے ہاتھوں لوگوں کے بقول ہمیشہ کامیاب آپریشن ہوتا ہے، خود اسی مرض کے اندر چلے جاتے ہیں۔ گویا جو دوسروں کے لیے مسیحا ہوتے ہیں، اپنی مدد آپ نہیں کرپاتے۔ کون کون سا منظر ہے، جسے ہم نے نہیں دیکھا ہے اور جس سے ہم ناواقف ہوں۔

اس لیے موت کی یاد کے حوالے سے، جوانتہائی یقینی حقیقت ہے، اور جس سے زیادہ کوئی یقینی بات نہیں ہے، اس سے غفلت کو دُور کرنا، غفلت کے پردوں کو ہٹانا، اور یہ بھولا بسرا سبق ذہنوں کے اندر تازہ کرنا، دانش مندی بھی ہے اور سعادت مندی بھی کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس کو ہرگز دوام اور بقا نہیں ہے، جب کہ موت کے بعد کی زندگی کو بقا اوردوام ہے۔

شیخ جمال الدین کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ انھیں تاتاریوں نے گرفتار کرلیا اور موت بالکل آنکھوں کے سامنے تھی۔ تاتاری سردار نے تضحیک کے انداز میں ان سے پوچھا کہ شیخ تم زیادہ اچھے ہو کہ یہ کتا زیادہ اچھا ہے؟ شیخ نے ایک لمحے توقف کے بعد کہا کہ اگر میں اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجائوں کہ میرا ایمان سلامت رہے تو میں اس کتے سے بہتر ہوں، لیکن اگر اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجائوں کہ میرا ایمان سلامت نہ رہے تو یہ کتا مجھ سے بہتر ہے۔

وہ تاتاری سردار کی تضحیک کا نشانہ بھی نہ بنے اور پتے کی بات بھی کہہ گئے کہ اصل پہچان  تو انسان کا ایمان ہے۔ یہ پہچان باقی ہے، تو پھر انسان ان راہوں پر چلتا ہے کہ جو مطلوب ہیں اور منزل کی طرف لے جانے والی ہیں۔

یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ارادے اور عزمِ مصمم کا تعلق مضبوط ایمان سے ہے۔ محض ایمان لانے کے اعلان کے نتیجے میں کسی ارادے پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل انسانی زندگی کو سنوارنے، حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے اور درست رُخ دینے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے آخرت ہی وہ عقیدہ ہے جو بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی سے فکرِدنیا اور فکرِآخرت میں اعتدال و توازن    پیدا ہوتا ہے اور انسان کا تصورِ زندگی درست ہوتا ہے۔موت وہ اٹل حقیقت ہے جس کے  تذکرے سے آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اور اعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری کو دُور کرنے کے لیے انسان کے اندر جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ قرآن و حدیث میں موت کی ہولناکی، اور روزِمحشر کے مناظر کو بار بار تازہ کرنے سے انسان خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے فکرمند     ہوتا ہے ۔ وہ راہِ خدا میں بہترین مال دیتا ہے کہ اصل دینا یہی ہے۔ وہ علم و عمل میں مطابقت پیدا کرتا ہے۔ ہرلمحے اپنے جائزے اور احتساب کا اہتمام کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں جان و مال لٹا کر سبقت لے جانے والوں میں ہوجاتا ہے۔ یقینا ایسے ہی لوگ روزِ محشر شاداں و فرحاں اپنے رب کی رضا و خوش نودی اور اس کی جنت کے مستحق ٹھیریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں استقامت دے اور اپنی رضا و خوش نودی کا مستحق ٹھیرائے، آمین!

 

اپنے روزانہ کے پروگرام میں

تفھیم القرآن سے آدہا گہنٹہ ، گہنٹہ

…… قرآن کا مطالعہ بھی رکھیں ……

اس کے فوائد آپ کو بچشمِ سر خود نظر آئیں گے

غیرمادّی قربانیاں

وقت، دولت، زندگی اور اسی طرح کی دیگر چیزیں قربان کرنا، کوئی شک نہیں کہ، بڑا دُشوار کام ہے،مگران چیزوںکے مادّی اور محسوس اشیا ہونے کی وجہ سے ان کی قربانی میں کئی لحاظ سے زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ آپ جوکچھ بھی قربان کریں گے،وہ نظر آنے والی چیز ہوگی۔ جو قربانی آپ دیںگے اُسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اطمینان کر سکیںگے ۔علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر ایسی قربانیوں کی ضرورت بالعموم کسی بحران یاآزمایش کے وقت پیش آتی ہے۔ مصیبت اورآزمایش کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جو انسان کے اندر کے جذبات کوتحریک دے کراُس سے اپنی بہترین چیزیں باہر نکلوا لاتی ہیں۔ایسے مواقع پر آپ صورتِ حال سے باخبر ہوتے ہیں،آپ کو احتیاجات کی فوری تکمیل کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور آپ جذبات سے مغلوب بھی ہوتے ہیں۔ نیز ایسی قربانیاں بنیادی طورپر ذاتی نوعیت کی قربانیاں ہوتی ہیں،اپنی مرضی سے دی جاتی ہیں، بالعموم ان قربانیوںسے باہمی تعلقات کا پیچیدہ جال نہیں الجھتا۔

وہ تو غیر مادّی اور غیر محسوس قسم کی اشیا کی قربانیاں ہیں جو نہ صرف زیادہ مشکل ہیں، فرداور معاشرے کے لیے زیادہ اہم ہیں اور جدوجہد میں کامیابی کے لیے زیادہ ضروری ہیں، لیکن انھی قربانیوں سے صرفِ نظر کرنے، یا انھی قربانیوں کو نظرانداز کردیے جانے کے امکانات بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔اکثر اوقات ان قربانیوں کو قربانی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ان اشیاکی قربانی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ جس چیز کی قربانی دے رہے ہیں اُس کی جڑیں آپ کے دِل ودماغ کی پہنائیوں میں پیوست ہیں، وہ ٹھوس اور نظرآنے والی چیزیں نہیں ہیں، آپ کو اُن کی قربانی دیتے ہوئے دیکھا نہیں جا سکتا۔اوریہ قربانیاں صرف بحران و آزمایش کی گرما گرمی میں نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں، بغیر کسی کو دکھائے اور بغیر کسی کے علم میں لائے، ہرروز دی جاتی ہیں۔

اجتماعیت کی زندگی بسر کرتے ہوئے اﷲ کی راہ میں جدوجہدکے وقت ایسی قربانیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ اس نوعیت کی قربانیاںہیں کہ آپ بمشکل ہی ان کو قربانیاں سمجھیں گے۔ مگر ایسی قربانیوں کے بغیرکوئی مضبوط ہم آہنگ اجتماعی زندگی وجود میں آسکتی ہے، نہ کامیابی کی اُمید کے ساتھ کوئی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔مثال کے طورپر اپنی پسندوناپسند کو لے لیجیے۔ دولت کی طرح اس کاحساب نہیں لگایا جاسکتا،مگر افراد، اشیا ا ور موقف سے متعلق اپنی پسند وناپسند کی آپ کو قربانی دینی ہوگی۔ایسی غیر محسوس اشیا کی قربانی دینے کے لیے در حقیقت نسبتاً بڑے جذبۂ قربانی کی ضرورت پیش آئے گی۔اﷲ کے کام میں انسان کو نہ صرف اپنی جان ومال، وقت اوروسائل کی قربانی دینی پڑتی ہے، بلکہ اپنی پسند وناپسند اور اپنی محبت و نفرت کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔رسول اﷲ  صلی اﷲ علیہ وسلّم کا ارشادہے: ’’جس نے صرف اﷲ کی خاطر محبت کی اور صرف اﷲکی خاطر نفرت کی، اُس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا‘‘۔(ابوداؤد، ترمذی)

جب ہم صحابۂ کرام کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ: اﷲ اُن سے راضی ہوا ،اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے (رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہٗ) کیوں؟کیوں کہ اُنھوں نے اپنی ذات کو   اس حد تک فنا فی اﷲ کردیا تھا کہ اﷲ کی پسند اُن کی پسند، اور اﷲکی ناپسند اُن کی ناپسند بن گئی تھی۔ اُنھوں نے نہ صرف اپنی جان و مال کو اﷲ کے سپرد کردیا تھا بلکہ اپنی پوری ذات اﷲ کے حوالے کردی تھی۔

اس اہم ترین نوعیت کی قربانی کو عموماً ہم نظر انداز کردیتے ہیںجس کے بغیر اتحاد واتفاق کے مسالے سے تشکیل پانے والی اُس اجتماعیت کا بننا انتہائی مشکل ہے جو تنہا اﷲکے کام کو آگے بڑھاسکتی ہے۔آئیے ہم قربانی کی ان اقسام پر ایک اجمالی نظر ڈال لیں۔ ان میں محبت، نفرت، رشتہ داریاں، پسند وناپسند، ترجیحات وتعصبات، آرزو اوراُمنگ، آرام و راحت، اُمیدیں اور توقعات، رسوم و رواج، اقدار اور رویّے، عہدہ ومنصب یامحض اَنا اور خودپسندی شامل ہیں۔

کنبے کی محبت

کنبے کی محبت دُنیاکا طاقت ور ترین اور غالب ترین رشتہ ہے ۔مہد سے لحد تک والدین کی محبت، بچوںکی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت،بھائیوں اوربہنوں کی محبت، بلکہ دوسرے   رشتہ داروں کی محبت بھی ہماری زندگی کا محور بنی رہتی ہے۔ یہ محبتیں ہمارے تمام تعلقات پر غالب رہتی ہیں۔عام طورپر ہماری زندگی، ہمارا روزگاراورمال و متاعِ دُنیا کا حصول اُنھی کی محبت کی خاطر اور اُنھی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے وقف ہوجاتاہے۔

ہم اپنے دل ودماغ، اپنی توجہ اور وفاداری اور اپنے وقت اور دولت پر کسی اور حق سے پہلے عام طورپر اس محبت کا حق تسلیم کرتے ہیں۔کنبے کی محبت کا تعلق ہمیں جس طرح جوڑے رکھتاہے اُس طرح کوئی اور تعلق نہیں جوڑ سکتا۔ہم اکثر لوگوںکو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ’مجھ پر سب سے پہلا حق میرے گھرانے کاہے‘یا کسی کو اس فخر کا اظہار کرتے دیکھتے ہیں کہ’میری وفا اور میرا خلوص سب کچھ اپنے خاندان کے لیے وقف ہے‘۔ اس کے معقول دلائل ہیں۔ خاندان قدیم ترین  اور اہم ترین انسانی ادارہ ہے۔ انسان نے اب تک جن تہذیبوں اور ثقافتوں کی تشکیل کی ہے، یہ اُن سب کا سنگِ بنیادہے۔ایسی مؤثر اور گہری محبت اور ایسی غالب وفاداری کے بغیر تہذیبی اقدار، معیارات اور طور طریقے اگلی نسل کو منتقل کیے جاسکتے ہیں، نہ ان کو محفوظ اور برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ کنبے کے بغیر آدمی، آدمی ہی نہیں رہتا، برباد ہوجاتاہے۔ پھر کنبے کی محبت بھی اﷲ کی راہ میں قربان کردینے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کے واضح دلائل ہیں:

اوّل:آپ اُس وقت تک اپنی ذات کو اﷲ کے سپرد نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کی زندگی، آپ کی محبت اور آپ کی وفاداری پر اﷲ کا حق سب سے مقدّم اور سب سے اہم حق نہ بن جائے۔  یوں کنبے کا حق اﷲ کے حق کا مطیع ہوگا۔ بصورتِ دیگر یہ امکان ہے کہ کنبے کی محبت ایک صاحبِ ایمان کو اﷲ کے احکام کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے پر مائل یا مجبور کردے۔

دوم:کنبہ ہمیشہ سے وہ مضبوط ترین قلعہ رہا ہے جس میں مستحکم اقدار، عقاید، رسوم ورواج اور طرزِ حیات وغیرہ مورچہ بند رہتے ہیں۔ مسلمان بننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں اور اپنے معاشرے میں ایک تبدیلی لاناشروع کرتے ہیں۔آپ مستحکم بنیادوںپر قائم طرزِ زندگی کو  چیلنج کرنا شروع کرتے ہیں اور اُسے اُکھاڑ پھینکنے کا آغاز کرتے ہیں۔باپ دادا کے طور طریقوں  سے بغاوت اوراُن میں تبدیلی لانے کے خلاف پہلی مزاحمت خاندانی محبت کی حدوں کے اندرہی سے پیدا ہوگی ۔یہ بالکل فطری بات ہے۔

سوم:جوکچھ آپ کے پاس ہے اُسی کے بل بوتے پر آپ جہاد کا عزم کرتے ہیں۔آپ کی ہرچیز، بشمول خاندانی محبت کے حق پر، جہاد کا حق دیگر تمام حقوق سے فائق ہونا چاہیے۔کوئی چیز  آپ کو جہاد کے راستے سے منحرف نہ کرسکے۔خاندانی محبت اگر کوئی رُکاوٹ نہ بنے، تب بھی   آپ کواپنے فرض کی تکمیل کی خاطرکئی طریقوں سے یہ قربانی دینی پڑے گی۔

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم ہمیں آگاہ کرتاہے: وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (الانفال ۸: ۲۸)،’’اورجان رکھوکہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اﷲ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔ اور ہمارے سامنے یہ بنیادی گہرا سوال رکھتاہے کہ تُم کس سے زیادہ محبت رکھتے ہو؟ اﷲ سے یا…؟

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَـآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَo (التوبہ ۹:۲۴)،اے نبیؐ!کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز واقارب، اور تمھارے وہ مال جوتُم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ گھر جو تُم کو پسند ہیں، تُم کو اﷲ اور اُس کے رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔

خاندانی محبت کی قربانی مختلف صورتوں میں دی جاسکتی ہے، اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ وہ اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری اور اُس کی رضا کے حصول کی جدوجہد میں کس انداز سے آڑے آتی ہے۔ پہلی مثال یہ ہے کہ خاندانی محبت مطالبہ کرتی ہے کہ والدین، خاندان کے بڑوں، باپ داداکے طورطریقوںیارسوم و رواج اورمعاشرے کی اطاعت کی جائے۔ اگرایسی اطاعت   اﷲ کی اطاعت سے متصادم ہو تو اسے ترک کردینا چاہیے۔ آپ کو اپنی عقل، اپنے ضمیر، اپنے عقیدے اور اﷲ کی طرف سے آنے والی ہدایت کا کہا ماننا چاہیے:

وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِـعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا ط   اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ شَیْئاً وَّ لاَ یَھْتَدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۰)، ان سے جب کہاجاتاہے کہ اﷲ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایاہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیاہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط وَاِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْھُمَا ط اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo (العنکبوت ۲۹: ۸)، ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتاتو ان کی اطاعت نہ کر۔

مزید یہ کہ آپ جن سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کے عقیدے پر ایمان لانے سے انکار کرسکتے ہیں، یاوہ اﷲ اوراُس کے کام کی کھلی مخالفت پر اُتر سکتے ہیں۔ایسے مخالف رشتہ دار حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں گے، آپ کا تمسخراُڑائیں گے اور تضحیک کریں گے،آپ کو ستائیں گے، گھر سے نکال دیں گے اور آپ کو خاندان سے خارج کردیں گے۔ آپ کو ایسے ضرررساں اور مخالف ارکانِ خاندان سے اپنی محبت اور تعلق کے تمام جذبات کی قربانی دینی ہوگی۔اﷲ کی محبت اور اﷲ کے دُشمنوں کی محبت ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتی۔اُن کی محبت سے مکمل دست برداری جیسی بڑی قربانی دے کر ہی آپ اپنے عقیدے کو اپنے دل میںپختہ کرسکتے ہیں اور اپنا شمار اﷲ کی جماعت (حزب اﷲ) میں کرواکر اُس کی رضا وخوش نودی اور اُس کی جنت کا انعام حاصل کر سکتے ہیں۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مثال لیجیے، جو اﷲ کی راہ میں قربانی کا نمونۂ کامل تھے۔ سب سے پہلے اُنھیں اپنے والد کو چھوڑنا پڑا، حتیٰ کہ اُن کے لیے دُعاے مغفرت کرنے سے بھی اﷲ کے حکم پر دست کش ہوگئے،اور آخرکار اﷲ کے حضور اپنے لختِ جگر کا ذبیحہ پیش کرنے کو بھی تیارہوگئے۔ یا سیدنا لوط علیہ السلام کی مثال لیجیے جنھیں اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنا پڑا، کیوں کہ وہ  اُن لوگوں کی  ہم درد تھی جنھوں نے سیدنا لوط علیہ السلام کی اُس دعوت پر کان دھرنے سے انکارکردیا تھاجو     ایک اﷲ کی بندگی اختیار کرنے کے لیے اُن کودی جارہی تھی۔ پھررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے  رفقا رضی اﷲ عنہم کی مثال لیجیے، باپ بیٹوں کے سامنے صف آرا تھے اور بیٹے باپ کے سامنے،    حتیٰ کہ میدانِ جنگ میں بھی، مگر اُن کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔

وہ لوگ جو ایمان لانے سے محض انکار کرتے ہیںاور مخالفانہ سرگرمیوں میں فعّال نہیںہوتے، اُن کے معاملے میں آپ کی قربانی کی نوعیت قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اُن سے آپ کو اپنی دوستی ختم کردینی چاہیے، لیکن سلوک عادلانہ اور کریمانہ کرنا چاہیے۔ اُلفت و محبت کے تمام تعلقات کا خاتمہ انتہائی اقدام ہے، مگر ان تعلقات سے چھلانگ یک لخت ہی لگانی ہوگی۔ جولوگ آپ کے عقائد کو پسند نہیں کرتے یا اُن سے اتفاق نہیں رکھتے، اور اس بات کو راز بھی نہیں رکھتے،ایسے اعزہ و اقارب کے ساتھ مستقلاً رہنا آپ کوزیادہ مشکل میں مبتلا کرسکتا ہے اور بہت بڑی قربانی کا تقاضاکرتا ہے۔کیوں کہ جب آپ کے عقیدے اور ایمان کو بُرا بھلا کہا جائے گا تو آپ کو شدید اذیت ہوگی اس کے باوجود آپ کو ان کے ساتھ تحمل و برداشت سے پیش آنا ہوگا۔

ضروری نہیں کہ آپ کے اہلِ خاندان آپ کے نصب العین کی مخالفت ہی کریں، یا اس معاملے میں غیر جانب دار رہیں، وہ ہمدرد بھی ہو سکتے ہیں۔اس کے باوجود اُن سے محبت کے تقاضوں اور اﷲ سے محبت کے تقاضوں میں ٹکراؤ، یا اختلاف پیدا ہوسکتاہے۔ایسی صورتوں میں   یہ بات نہ بھولیے کہ خود اچھے مسلمانوں سے محبت بھی بعض اوقات اﷲ کی محبت کی راہ سے بھٹکا سکتی ہے، لہٰذا قربانی کی ضرورت وہاں بھی پیش آتی ہے۔

اکثراوقات آپ کو مختلف اقسام کے نرم و نازک او رلطیف دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ان کی مزاحمت کے لیے آپ کو متعدد طریقوں سے مسلسل قربانیاں دینی ہوں گی۔ ان میں سے تمام صورتیں اتنی سادہ اور واضح نہیں ہوتیں کہ آپ آسانی سے کسی فیصلے پر پہنچ جائیں۔کبھی ان کی ناپسندیدگی اور نامنظور ی آپ کے سامنے بظاہر یا بباطن بڑے سادہ انداز میں پیش کی جائے گی، مگراسے بھی رد کرنا ہوگا۔بعض اوقات التجائیں اور مطالبات پیش کرتے ہوئے محبت کا واسطہ دیا جائے گا، حقوق کاواسطہ دیاجائے گا اور اختیارات کاواسطہ دیا جائے گا، سب کا اسلام سے جواز بھی پیش کیا جائے گا،آپ کو ان سب کا مقابلہ مناسب طریقے سے کرنا ہوگا۔بیوی بچے محبت اورالتفات کے طالب ہوں گے، آپ کو سب میں توازن رکھنا ہوگا۔

ایسی صورت میں آپ کواُنھیں خوش رکھنے کی ضرورت پر اﷲ سے اپنے عہد کو غالب رکھنا ہوگا، اُن کا دِل نہ دُکھائیں، اُنھیں مایوس نہ کریں اور اُن کی اُمیدوں کو رد نہ کریں۔ بصورتِ دیگر آپ کو اُن سے ملنے والی مدداور تقویت سے دست کش ہوجانا پڑے گا اور اُن کی گرم جوشی اور جذباتی محبت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔آپ کو بڑے پیجیدہ فیصلے کرنے ہوں گے کیوں کہ اگر     وہ اﷲ کے کام میں آپ کی راہ کی رکاوٹ بن گئے تو ایک مقام پر پہنچ کر آپ کو اپنے ان فرائض  ِذمہ داریوں، خدمت گزاری اور اُن کے حکم کی تعمیل سے ہاتھ اُٹھا لینا ہوگا۔

دوستی

افراد کے مابین قائم ہونے والے الفت و محبت کے رشتوں میں سے ایک بڑا رشتہ دوستی کا تعلق ہے۔دوستیاں ہم مزاجی، مشترکہ مفادات و مقاصد اور مشترکہ اہداف کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ مسلمان کی حیثیت سے آپ کا ایک ہی ہدف اور مقصد ہے: اپنے پورے وجود کو مکمل طورپر  اﷲ کے سپرد کردینا، لہٰذا بہت سی دوستیوں کی آپ کو قربانی دینی ہوگی اور اسی طرح بہت سی دُشمنیوں اورنفرتوں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس نئے دوست بنانے ہوں گے۔کوئی شخص جسے آپ کبھی پسند نہیں کرتے تھے، اُس کے لیے آپ کے دِل میں جگہ نکل آئے گی، وہ آپ کو عزیز ہوجائے گا۔

خاندانی رشتے ہوں یا دوستیاں،سماجی تعلقات زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اپنی مدد وتعاون سے وہ آپ کو ضروری کمک اور طاقت فراہم کرتے ہیں۔آپ کو ایسی حیات بخش کمک اور سماجی تقویت کی قربانی دینی ہوگی کیوں کہ دوستیاںٹوٹ جاتی ہیں، رشتے بکھر جاتے ہیں اورحمایت سے ہاتھ کھینچ لیا جاتاہے۔محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہ جو صادق و امین اور قابلِ احترام رہنما تھے، یکایک (نعوذباﷲ) ’فاترالعقل‘، ’دیوانے‘ اور’ لوگوں کے دُشمن‘کہے جانے لگے تھے۔

نقطۂ نظر اور موقف

دوستیوں اور رشتہ داریوں کی طرح آپ کی پسند وناپسند کا بھی آپ کی زندگی کے ہرحصے پر غالب اثر پایاجاتاہے۔ اس میں آپ کے خیالات، آپ کا نقطۂ نظر، آپ کا ذوق، آپ کامزاج، آپ کے جذبات واحساسات اور آپ کے رویّے اورآپ کا برتاؤ بھی شامل ہے۔ بسا اوقات   ان میں سے ہرایک کی اپنے اپنے طریقے سے قربانی دینی پڑتی ہے۔

اپنا نقطۂ نظر اور اپنے خیالات آپ کو ہمیشہ عزیز رہتے ہیں۔ اپنے نظریے سے آپ کی جذباتی وابستگی صرف اسی صورت میں پختہ ہوتی ہے جب آپ اپنی زندگی کے نصب العین سے عہدِوفا استوار کرلیتے ہیں۔اس کے بعد آپ کے اندر صحیح اور غلط یا حق اورباطل میں امتیاز کی ایک طاقت وَر حِس پیداہوجاتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہروقت یہ خیال آپ کے ذہن میں رہتاہے کہ اندازِ نظرصرف ایک ہی ہو سکتا ہے: صحیح یا غلط، اور آپ کو ہمیشہ درست طرزِ فکر اختیار کرناہے۔ تاہم آپ کے نظریات، کسی خاص معاملے پر آپ کی حکمت عملی اورآپ کے کام کرنے کا طریقہ، ہوسکتا ہے کہ دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ ایسی صورت میں آپ کو اُنھیں چھوڑنا ہوگا، آپ کو اپنے ان نظریات سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی، یا اُن نظریات کے خلاف کام کرناہوگا۔لیکن جب تک آپ کسی معاملے میں اﷲ کے کسی صریح حکم کی خلاف ورزی نہ دیکھیں، آپ کو اپنی راے کی قربانی دینی ہے۔اجتماعیت کی زندگی کوطاقت ور بنانے کے لیے دی جانے والی یہ قربانی مال ودولت کی قربانی سے زیادہ اہم ہے۔

جذبات و احساسات

بعینہٖ آپ کو اپنے جذبات و احساسات بھی بے حد عزیز ہوتے ہیں۔بسا اوقات آپ کو اپنے ایسے مشاغل ترک کردینے پڑتے ہیں‘ جو اﷲ کی رضا وخوش نودی کے کام نہیں ہیں،خواہ وہ آپ کو مرغوب ہوں، آپ اُن میں کشش محسوس کرتے ہوں اور اُنھیں مفید سمجھتے ہوں، جب کہ بعض اوقات صرف اﷲ کی رضا وخوش نودی کی خاطر آپ کو ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جنھیں آپ پسند نہیں کرتے اور جو آپ کے مزاج کے خلاف ہیں۔ کئی مواقع پر آپ کو اپنے بولنے کی خواہش کو دبانا ہوگا اور خاموش رہنا ہوگا خواہ اپنی بات کہہ دینے کا کتنی ہی شدّت سے دِل کیوں نہ چاہ رہاہو۔ اور کسی موقع پر آپ کا خاموش رہنے کا جی چاہ رہا ہوگامگر بولنا پڑے گا۔ آپ کوشدید غصہ آئے گا اور انتقام کا جذبہ جوش ماررہا ہوگا، برابھلا سنانے کی خواہش پیدا ہورہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی زبان قابو میں رکھنی ہوگی۔ بعض مواقع پر آپ کو تنہائی اور سکون کی ضرورت محسوس ہورہی ہوگی مگر آپ کو بھرپور سماجی سرگرمیوں اور عوامی رابطوں میں منہمک ہونا پڑے گا۔ اور بعض اوقات آپ کا دل لوگوں سے ملنے جُلنے کو چاہ رہا ہوگا، مگر اکیلے رہنا پڑے گا۔آپ کے اندر ’کچھ حاصل کرلینے‘ یا ’کچھ بن جانے‘ کی اُمنگ موجیں ماررہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی ان آرزوؤں سے مکمل طورپر دست بردار ہونا پڑے گا۔ آپ کو اپنی ذاتی خواہشات اور ذاتی منصوبے ردّی کی ٹوکری کی نذر کردینے ہوںگے۔

ذوق اور مزاج

بہت سے عام معاملات میں بھی آپ کو اپنے ذوق اور مزاج کی قربانی دینی ہوگی۔ آپ کو ایسے انداز سے زندگی بسر کرنے، کھانے پینے، سونے اورپہننے پر مجبور ہونا پڑے گا جو آپ کو پسند نہیں، آپ کے مزاج کے مطابق نہیں، یاآپ کی ترجیحات اور آپ کے طرزِ زندگی سے لگّا نہیں کھاتا۔ آپ کو یہ طرزِ حیات قبول کرنا ہوگا، بغیرناک بھوں چڑھائے، برضا ورغبت، دوسروںکی دِل شکنی کیے بغیراوراُن کے لیے مشکلات اور انتشار پیدا کیے بغیر۔

اَنا اور خود پسندی

اورآخرکار آپ کو اپنی انا، اپنی خود پسندی، اپنے متعلق حسین تصورات اور ان تصورات سے اپنی محبت، سب کچھ قربان کردینا ہوگا۔ یہ ظاہری اور باطنی بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اپنے آپ کو فنا کردینا صرف راہِ سلوک ہی کا ایک مرحلہ نہیں، اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے رستے پر چلنے   کے لیے جو واحد چیز درکار ہے وہ بھی یہی ہے کہ آپ کواپنی اَنا، اﷲ کی رضا کی خاطر فنا کردینی ہوگی۔ ہماری خود پسندی، ہمارے نزدیک اتنی اہم چیز بن جاتی ہے کہ اس کے نتیجے میں ضد، ہٹ دھرمی، خودسری ، خودستائی، ڈھٹائی، اور دوسروں کی تذلیل جیسی بُری عادات پروان چڑھ جاتی ہیں۔ اپنی  اَنا اور خود پسندی کی قربانی دینا زندگی کا سب سے کٹھن کام ہے، مگریہ کرنا ہی ہوگا۔

مسلسل اوردائمی قربانیاں

بعض قربانیاں زندگی میں ایک ہی بار دینی ہوتی ہیں، جیسے جان کی قربانی۔ کچھ قربانیاں بہت معمولی ہوتی ہیں مگر مسلسل دینی پڑتی ہیں۔ ان کے بعض غیر محسوس پہلوؤں کے سبب ان کا تسلسل ہی انھیں اہم بنادیتاہے۔پہلی بات تو یہ کہ ان کے معاملے میں آپ کو ہروقت چوکس اور  چوکنا رہنا پڑتاہے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ ان کا موقع آئے اور آپ اونگھ رہے ہوں، بے اعتنائی سے بیٹھے ہوئے ہوں،غفلت اور بے دھیانی کی کیفیت میںہوں، یا موقع پہچان نہ سکیں۔ دوسرے یہ کہ ان قربانیوں کے لیے عزمِ مسلسل و متواتر درکار ہوتاہے،جس کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ قربانیاں اتنی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں کہ ان کے بَل پر کوئی سُورما نہیں بن سکتا، مگر کردار سازی، معاشرتی نظم وضبط اور کامیابی کے لیے ان کی اہمیت کسی لحاظ سے کم نہیں۔ مسلسل گرنے والا پانی کا ایک معمولی قطرہ بھی پتھر کی چٹان میں سوراخ کر دیتاہے۔چوتھے یہ قربانیاں بحران اور مصیبت کے وقت نہیں طلب کی جاتیں، بلکہ ان کی ضرورت عام حالات اور روزمرہ زندگی میں پیش آتی ہے۔اسی وجہ سے معمولی ہونے کے باوجودیہ قربانیاں پیش کرنا بہت دُشوار کام ہے۔کیوں کہ شدید بحران کے وقت، جب کسی بڑے چیلنج کا سامنا ہوتو کوئی بڑا اعزاز ملنے کی توقع پر اپنی اندرونی صلاحیتوں کو اُبھارنا، اپنے عزم و ارادے کو جگانا اور اپنی بہترین مساعی کو بروے کارلے آنا نسبتاً سہل ہوتاہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ ایک طرح سے آپ کو زندگی کے  ہرلمحے چھوٹی چھوٹی___ بہت چھوٹی چھوٹی___ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کیوںکہ زندگی کے ہرہرقدم اور ہرہر ثانیے میں آپ کو دوچیزوںمیں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، خواہ یہ کتناہی چھوٹا معاملہ کیوں نہ ہو۔ اﷲ کی رضا و خوش نودی کی خاطر کسی بھی پہلو کا انتخاب کرنے کا مطلب    یہ ہے کہ آپ کسی نہ کسی چیز کی قربانی دینے کا فیصلہ کررہے ہیں،یہاں تک کہ اگر آپ نمازِ فجر اداکرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ اپنی نیند اور گرم بستر کی قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔

ایک ایسے پہاڑی راستے پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے جس میں گہری کھائیاں آتی ہوں، آڑی ترچھی ڈھلوانیں ہوںاور اندھے موڑ پڑتے ہوں، آپ زیادہ محتاط رہیں گے تاکہ محفوظ ڈرائیونگ کرسکیں اور تمام مشکلات سے نبرد آزما ہو سکیں۔ مگر کسی ایسے راستے پر جو ہموار ہو، حادثات سے محفوظ ہو، اُس میں کسی موڑکاسامنا نہ کرناپڑتاہو، کوئی رکاوٹ نہ پیش آتی ہو اور کوئی اُترائی یا چڑھائی نہ ہو تو اُس راستے پر آپ کے بے پروائی اور غفلت سے ڈرائیونگ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔یوںآپ کو کوئی حادثہ پیش آسکتاہے، یاآپ اپناکوئی موقع ضائع کر سکتے ہیں، یا اپنے راستے سے بھٹک سکتے ہیں،یابے دھیانی میں اپنی منزل سے دُور نکل سکتے ہیں۔

گویا روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر قربانیاں دینی پڑتی ہیں___ گھر میں، دفترمیں، بازار میں، معاشرتی تعلقات میں، تنظیمی سرگرمیوں میں، یہاں تک کہ تنہائی میں بھی___جن سے غفلت ہوسکتی ہے۔یہ قربانیاں دینا زیادہ دُشوار ہے، محض اِس وجہ سے کہ انھیں قربانی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔

کامیابی کے امکانات کی عدم موجودگی میں

جب دُنیاوی کامیابی سامنے نظر نہ آتی ہو تو ایسی صورت میں دی جانے والی قربانیوں کی مزید جہتیںسامنے آتی ہیں۔جب آپ کی جدوجہد کے ثمربار ہونے کے امکانات نظر آرہے ہوںتو نسبتاً زیادہ آسان ہوتاہے کہ آپ اپنا وقت، اپنا مال اور اپنی زندگی قربان کردیں، اپنی راے سے دست بردار ہوجائیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوجائیں جن کو آپ پسند نہیںکرتے یا اُن طریقوں کو اختیار کرلیں جو ذاتی طورپر آپ کو ناپسند ہیں۔ مگر جب کامیابی کے امکانات موہوم یا معدوم ہوںتویہ تمام کام انتہائی مشکل ہو جاتے ہیں۔ مایوسی کے لمحات میں، جب کامیابی کی کوئی اُمیدنظر نہ آ رہی ہویا شکست واضح انداز سے دکھائی دے رہی ہو، زیادہ امکان یہی ہوتاہے کہ لوگ اپنے وقت اور مال سے چمٹے رہیں، اپنی راے پر اصرار کریں اور اپنے ناپسندیدہ افراد، یا طورطریقوں کو ایک تنازع بناکر کھڑا کردیں۔ ایسی صورتوں میں دی جانے والی قربانیوں کا بہت بڑا اجر ہے۔

قربانی کیسے دی جائے؟

آپ اپنے اندر کی اُن صلاحیتوں کو کیسے بیدار کریں گے جو آپ میں قربانی کا جذبہ اور استعداد، پیدا کریں، پروان چڑھائیں اور برقرار رکھیں؟ آپ سے جوقربانی طلب کی جائے گی  اُس کے لیے اپنے آپ کو کس طرح آمادہ وتیار کریںگے؟

ان میں سے کچھ طریقوں سے تو آپ کو قربانی کی اقسام پر بحث کے دوران ہی آگاہی ہوچکی ہے۔تاہم کچھ بنیادی اندرونی صلاحیتیں ایسی ہیں جن پر زیادہ زور دینے اورجنھیں ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے اور جو آپ کو خود اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ مگر سب سے پہلے ہم چند ایسے بنیادی اُصولوں کو دُہرالیتے ہیں جن پر ان صلاحیتوں کا انحصار ہے:

اوّل، قربانی اُسی صورت میں قربانی کہلائے گی جب آپ کوئی ایسی چیز قربان کریں جس کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے، یا جسے آپ عزیز رکھتے ہیں۔ایسی چیزوں کی قربانی آپ اُن سے زیادہ قیمتی، زیادہ محبوب،زیادہ پسندیدہ یا زیادہ ضروری اورزیادہ اہم چیزوں کی خاطر دیتے ہیں۔

دوم، آپ جس چیز کی قربانی دیتے ہیں اُس کی ظاہری شکل خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو___ وقت، مال، زندگی، پسند و ناپسند، نقطۂ نظر ___ آپ اصل قربانی ان چیزوں کی نہیں،بلکہ ان چیزوںکی محبت اور آپ کے نزدیک ان چیزوں کی جو قدر و قیمت ہے، اُس کی قربانی دیتے ہیں۔

سوم، اُس صورت میں ان چیزوں کی قربانی دینے پر آپ کے عزم و آمادگی میں مزید اضافہ ہوگا جب اﷲ کی محبت اور اُس کے انعامات کی قدروقیمت آپ کی نظر میں انتہائی شدّت و قوت کے ساتھ بڑھتی جائے گی اور جن چیزوں کی قربانی آپ دے رہے ہیں، وہ ان کے مقابلے میں آپ کو بے قیمت اور حقیر نظر آنے لگیں گی۔

اللّٰہ سے محبت

محبت ہر شے کی بنیاد ہے۔ لہٰذا آپ بخوبی ادراک کرسکتے ہیں کہ قربانی دینے کے لیے جو اندرونی استقامت درکار ہے، اُس کے لیے آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے___اﷲ سے محبت کی۔ آپ کے دل میں اﷲکی محبت کتنی ہے؟ کیا آپ دُنیاکی ہر چیز سے زیادہ اُس سے محبت کرتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتاہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِط(البقرہ ۲: ۱۶۵)، ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کو ایک سادہ مگر انتہائی معنی خیز سوال کا سامنا کرنا پڑتاہے کہ  تمھیں کون زیادہ عزیز ہے؟اﷲ، اُس کا رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد یا باپ، بیٹے، بیویاں، بھائی، مال و دولت، گھربار، تجارت اورکاروبار ؟ (التوبہ ۹:۲۴)۔ صرف ایسی محبت سے جذبۂ قربانی خارج سے وعظ و نصیحت کی تحریک پر کی جانے والی نیکی کے بجاے اپنی اندرونی لگن سے کیے جانے والے عمل میں بدل جائے گا۔ تبھی آپ ایمانی تقاضوں کی تکمیل پر حقیقی خوشی اور مسرت سے سرشار ہوسکیں گے۔یاد رکھیے کہ ایمان بھی دو قسم کا ہوتاہے: ایک ہماری زبان پر رہتاہے اور یہ ایسا ایمان ہے جو بوجھ بن جاتا ہے۔ایک ایمان وہ ہے جو ہمارے دِل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتاہے اور یہ وہ ایمان ہے جو خوشی، اطمینان اور لطف کا باعث بنتاہے۔ جب یہ ایمان حاصل ہوجائے تو اگر آپ سے وقت، مال ودولت اورزندگی کی یا پسندوناپسند اور نقطۂ نظرکی قربانی طلب کی جائے گی تو آپ یہ چیزیں بخوشی قربان کردیں گے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا: ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس کے پاس ہوں اُس نے ایمان کی حلاوت کا ذائقہ چکھ لیا: (اُن میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ) وہ دُنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اﷲ اور اُس کے رسولؐ سے محبت رکھتاہو‘‘… (بخاری، مسلم)

اﷲ سے ایسی محبت کس طرح کی جائے کہ وہ ہرشے کی محبت سے بڑھ جائے؟ اس مقصد کے لیے کوئی جامع فارمولا ہے، نہ ہوسکتا ہے، مگر چند چیزیں کارگر ہوسکتی ہیں اور ان میں سے ہر چیز آپ کی اُن اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی جو قربانی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے درکار ہیں۔

ذکر الٰھی

ہروقت یاد رکھیے کہ اُس نے آپ کو کیسے پیدا کیا ہے، کس طرح آپ کی ضرورت کی ہرچیز آپ کو مہیا کی ہے، وہ کتنا رحیم وکریم ہے۔ اپنے وجود پر نظر ڈالیے، اپنے ارد گرد کی کائنا ت کا مشاہدہ کیجیے، آپ کو ہر طرف اُس کی رحمت ورافت، اُس کی حکمت اوراُس کی شان و شوکت نظر آئے گی۔ جب آپ اُس کی ان نشانیوں پر غور وفکر کریں گے جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تو اُس سے آپ کی محبت میں اضافہ ہوگا۔ اُس کے ذکر کا ایک جزو اُس کی طرف رجوع کرنا اور اُس سے محبت کرنے میں اُس سے مدد چاہنا بھی ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے اس کے متعدد طریقے تعلیم فرمائے ہیں۔

جب اورجتنا ممکن ہو، اﷲکا ذکر کریں، یہ بنیادی اور لازمی عمل ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کو اﷲکی محبت کے حصول میں مدد ملے گی، بلکہ جذبۂ قربانی بڑھانے کے لیے آپ کو جن دیگر وسائل کی ضرورت ہے وہ بھی حاصل ہوں گے، جیسے اُس کے حاضر وناظر ہونے کا احساس، اُس سے ملاقات اوراُس کے انعامات کی قدروقیمت کا حقیقی ادراک، اس دُنیاوی زندگی کی حقیقت اور دُنیا کی حیثیت کافہم، اُس کے حضور شکرگزاری اورعجز وانکسار کا اظہار، اس خوف سے لرزتے رہنا کہ اُس کا حق کبھی ادا نہیں کیاجاسکتا،اُس کے احکامات کی تعمیل کے لیے آمادہ اور تیار رہنا۔

احساسِ حضوری

زندگی ایسے گزاریئے جیسے آپ اُس کے سامنے موجود ہیں۔یاد رکھیے کہ: وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط(الحدید ۵۷:۴)،’’وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تُم ہو‘‘۔جب آپ سے قربانی طلب کی جائے یا آپ از خود قربانی پیش کریں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ اُس کی نظروں کے سامنے ہیں۔ یہی بات وہ آپ سے ہروقت ذہن میں رکھنے کے لیے کہتاہے: فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (الطور ۵۲:۴۸)، ’’یقینا تُم ہماری نظروں میںہو‘‘۔ جب آپ اس یقینِ کامل کے ساتھ کوئی قربانی پیش کریں گے کہ جسے پیش کررہے ہیں  وہ آپ کو دیکھ رہاہے اوراُس کادیاہوا اجر کئی گُنا زیادہ اور ابدی ہوگا، تو یہ آپ کے اندر وہ قوتِ محرکہ اور توانائی پیدا کردے گا جو آپ کو درکار ہے۔

یہ احساسِ حضوری کہ ہم اُس کے سامنے موجود ہیں، اُس کی نظریں ہم پر ہیں، وہ ہماری باتیں سُن رہاہے، جب ہم اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو مالک ہماری نگرانی کررہاہے اور بڑی سخاوت اور مہربانی کے ساتھ ہمیں اجرو ثواب سے نواز رہاہے___ یہ احساس جذبۂ قربانی کو اُبھارنے کا اوّلین ذریعہ ہے۔اس سے اﷲ پر بھروسا بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ وہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہے تو آپ اپنے تمام معاملات اُسی کے سامنے پیش کریں گے۔

شوقِ ملاقات

کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط(اٰل عمران۳:۱۸۵) ’’آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے۔‘‘ موت ہر شے کا اختتام نہیں ہے، اگلے مرحلے سے قبل کا وقفہ ہے۔اُ س مرحلے میں ہم اﷲ کے رُوبرو کھڑے ہوں گے۔

ہم میں سے کوئی شخص مرنا پسند نہیں کرتا، یہ انسانی فطرت ہے،مگرہمیں مرنا ضرورہے، اورموت کے بعدہی ہم پر ابدی زندگی اوراُس کی برکتوں کے دروازے کھلیں گے۔اگر آپ اس دُنیاوی زندگی کی حیثیت اور حقیقت کو سمجھتے ہیں اور آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ کو اپنا بہترین اجر اﷲ سے ملاقات پر ملے گاتو آپ کے اندر دوقسم کے احساسات فروغ پائیں گے: ایک، اﷲ سے ملاقات کا شوق، تاہم اپنے اعمال کی کوتاہیوں کے سبب ایک خوف بھی دِل میں جاگزیں ہوگا۔ دوسرے، اِس دُنیا کی ہر چیز اﷲ کی راہ میں قربان کردینے پر آمادگی کا جذبہ جس کا اجر آپ کو آخرت میں ملے گا۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم ایک دُعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اﷲ! مجھے اپنے وجہِ کریم کی زیارت کی لذت سے اوراپنی ملاقات کی تمنا سے بہرہ مند فرما‘‘ ۔(نسائی، احمد، حاکم)

شکر گزاری اور عجز

قربانی کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، بڑی ہو یا چھوٹی، مادّی ہو یا غیرمادّی اسے ممنونیت اور عاجزی کے ساتھ پیش کیجیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اﷲ کی راہ میں دینے سے اپنے آپ کو مضمحل اور درماندہ محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں۔پھر کہنے لگتے ہیں کہ:’’ہم تو پہلے ہی بہت وقت    دے چکے ہیں، ہم پہلے ہی بہت مال دے چکے ہیں، اب ہم اور کتنادیں؟ہم پہلے ہی بہت قربانی دے چکے ہیں، اب ہم سے مزید کیا چاہیے؟ایسا صرف اُسی صورت میں ہوتا ہے جب قربانی صرف ایک اﷲ کی رضا وخوش نودی کے حصول کے لیے نہ دی جارہی ہو، بلکہ کسی اور جذبے کے تحت دی جارہی ہو، یا جب آپ کو اس حقیقت کا احساس نہ ہوکہ اگرکچھ قربانی دینے کا موقع مل رہاہے توصرف اُس کے فضل و کرم سے مل رہاہے۔ہرقربانی عاجزی اور انکسار کے ساتھ پیش کیجیے۔

یہ بات صاف طورپر سمجھ لینی چاہیے کہ آپ جو چیز پیش کررہے ہیں وہ کسی فرد یاکسی تنظیم کو نہیں پیش کررہے ہیں۔ نہ وہ چیز آپ اﷲ کو ہدیہ کررہے ہیں، کیوں کہ وہ اتنا رحیم وکریم اورفیاض ہے کہ آپ سے کہتاہے کہ جوکچھ تُم اﷲکی راہ میں دیتے ہو وہ قرض ہے، جس کا کئی گُنا وہ تم کو لوٹادے گا۔ دراصل آپ ہر چیز اپنے آپ ہی کو دے رہے ہوتے ہیں۔کیاکوئی شخص اپنے آپ ہی کو مزید اور مزید دیتے رہنے سے تھک سکتا ہے؟

یہ خود غرضی نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہماری اُخروی خوش حالی اﷲ کے آگے سر جھکانے میں مضمر ہے۔قربانی کے ذریعے سے ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی بہتری لانا چاہتے ہیںاورہمیں آخرت میں بھی ایک کامیاب وکامران ابدی زندگی کی تمنا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہر وہ قربانی جو ہم دیتے ہیں اور ہر وہ چیز جو ہم اﷲ کی راہ میں قربان کرتے ہیں، ہماری قوم کومزید تقویت فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا اﷲ کا شکر ادا کیجیے کہ اُس نے آپ کو قربانی دینے کاموقع دیا، آپ کو اپنے کام کے لیے طلب کیا، اور اپنی راہ میں قربانی دینے کی توفیق سے نوازا۔ اس کے برعکس بھی ہو سکتاہے۔ ہم بہکتے پھرنے کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔ ہمیں مال کی قربانی دینے کا موقع ہی نہ ملے، یوں ہم ابدی انعامات کے حصول سے محروم رہ جائیں۔ آپ کو ہرقربانی جذبۂ تشکر اور احساسِ ممنونیت کے ساتھ دینی چاہیے۔ اُس کی طرف قبولیت کی آس کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔

عجز وانکسار بھی ضروری ہے۔کبھی یہ احساس پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ بہت ہوگیا۔جوں ہی اس بیماری کے جراثیم آپ کے دل میں داخل ہوں گے کہ آپ نے بہت کچھ کرلیا ہے، سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہیے کہ آپ جوکچھ قربان کر رہے ہیں، وہ اﷲ کی طرف سے عائد ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ خیال رہنا کہ جتنی بھی قربانی دی جائے وہ کبھی کافی نہیں ہوگی، قربانی کی بنیاد ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ (المومنون ۲۳:۶۰)،’’وہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں ،مگر اُن کے    دل لرزتے رہتے ہیں‘‘۔

اندرونی قوتِ محرکہ

وہ بنیادی قوتِ محرکہ جو آپ کو قربانی دینے پر آمادہ کرے خود آپ کے اندر موجود رہنی چاہیے۔ یہ اُمنگ اندر سے اُٹھنی چاہیے۔ اس کی جڑیں آپ کے قلب وروح کی گہرائیوں میں پیوست ہونی چاہییں۔نہ گروہی فیصلہ،نہ دیکھا دیکھی، نہ تنظیمی پابندی، نہ کوئی اور خارجی دباؤ آپ کو قربانی کے لیے آگے بڑھنے کے لیے اُکسائے۔ان میں سے ہرچیز اہم ہے اور ہمارے رویّوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن اگر اﷲ کی رضا کے سوا کسی اور مقصد سے قربانی پیش کی جائے تو بڑے پیمانے پر قربانی دینا، یامسلسل قربانی دیے جانا، ہرقسم کے حالات میں انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ قربانی کے لیے عزم و ارادہ اور جذبہ اندر سے اُبھرنا چاہیے۔

برضا و رغبت فیصلہ

قربانی دینے کا فیصلہ برضا و رغبت کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو خود اپنے فیصلے کے تحت ، آپ کے پاس جوکچھ بھی موجود ہے اُس کی قربانی، اﷲ کی رضاکی خاطرپیش کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ آپ کو راضی برضاے الٰہی ہوجانا چاہیے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قربانی پیش کرتے ہوئے کسی کوزحمت اور تکلیف کا احساس بھی نہیں ہونا چاہیے۔جس وقت آپ اپنی محبت،اپنی پسند یا اپنی قابلِ قدر چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، تو تکلیف محسوس ہونا بشری تقاضاہے۔ یقینی بات ہے کہ اگر آپ کوئی شے قربان کرتے ہوئے تکلیف نہ محسوس کریں تو وہ قربانی کہے جانے کی مستحق ہی نہیں ہے۔ آپ اپنے گھر سے محض وہ چیز پھینک رہے ہیں جو آپ کے لیے بے کار ہے۔اس کے بجاے آپ کو جس قدر زیادہ دُکھ ہورہا ہوگاوہ اُتنی ہی قیمتی قربانی ہوگی۔مگر اس تکلیف اور دُکھ کی پشت پر آپ کا عہدِ وفا ہے۔وہ عہد جو آپ کو اپنی قیمتی چیز اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان کردینے کا ہے۔ اﷲ کی رضا حقیقتاً سب سے بڑھ کر قیمتی چیز ہے۔ آپ یہ تکلیف اور دُکھ اﷲ سے اپنی محبت کی وجہ سے برضا ورغبت برداشت کرتے ہیں، کیوں کہ آپ کے دل میں اﷲ کی محبت ہر چیز کی محبت سے بڑھ کر ہے۔

دو استعانتیں

ہماری مدد ومعاونت کے لیے دو بنیادی چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو ہماری اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہیں، میں ان کو آپ کے سامنے پہلے ہی رکھ چکا ہوں۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۱۵۳)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔

نماز کیاہے؟یقینا نماز ایک رسمی عبادت ہے۔چند جسمانی حرکات وسکنات پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ الفاظ بھی شامل ہیں جو ہم ابتدا سے آخرتک پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن نماز کا مجموعی مقصد اﷲ کا ذکر کرنا اور اﷲ کویاد رکھنا ہے۔یہی بات قرآن صاف اور واضح الفاظ میں کہتاہے:  وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ ۲۰:۱۴)، ’’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔

صبر جامع المعانی لفظ ہے۔لغوی طورپر صبرکے معنی ہیں: رُک جانا اور بازرہنا۔ قرآن میں یہ لفظ وسیع مفاہیم میں استعمال ہوا ہے اور کئی صفات کا احاطہ کرتاہے: اپنے آپ کو روکے رکھنا،  ارادہ کرنا، تحمل اورجذبۂ قربانی، نظم وضبط اورثابت قدمی۔یہ آپ کو اﷲ سے، اپنے کیے ہوئے عہد سے اپنے بھائیوں سے اورآپ کو اپنی اُخروی فلاح سے جوڑے رکھتاہے۔ نماز اور صبر کا دامن تھامے رکھنے سے آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو قربانی کے لیے ضروری ہے۔

دو مثالی پیکر

آخر میں ہمیں قربانی کے دو مثالی پیکروں پر نظر ڈالنی چاہیے۔

اُن میں سے ایک ہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام۔ اُن کو ہرقابل تصورطریقے سے آزمایش میں مبتلاکرکے جانچا گیا۔ اُن کے والد ، اُن کا خاندان، اُن کے زمانے کی مذہبی اور سیاسی طاقتیں، سب اُن کے مخالف تھے۔اُنھوں نے سب کو چھوڑ دیا۔ اُنھیں آگ کے الاؤ میں پھینک دیا گیا۔اُن کو گھر سے نکال دیا گیا۔اُنھیں صحراؤں اور جنگلوںمیںبھٹکنا پڑا اور آخرکار اُنھوں نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی۔ یہی کام غالباً دشوار ترین کام تھا۔وہ نہ صرف اپنے پیارے بیٹے کی قربانی دے رہے تھے بلکہ تسلیم شدہ انسانی اخلاق کی بھی قربانی دے رہے تھے۔تاہم، حتمی بات یہ ہے کہ تمام اخلاقیات  اﷲ کی مرضی کی تابع ہیں۔اُس کو راضی رکھنا سب سے بڑا اخلاقی پیمانہ ہے۔ یقینا یہ صرف اﷲ کے نبی کا منصب ہے کہ وہ اُس کے براہِ راست حکم پر اﷲ کے متعین کردہ اخلاق سے ماورا یہ انتہائی قربانی اُس کے حضور پیش کردے۔تاہم، بعض مواقع پر ہم میں سے بعض کو بھی اﷲ کے واضح احکام کے مقابلے میں اپنے ذاتی اخلاقی فیصلوں کو معطل کرنا پڑتاہے۔ ان قربانیوں اورآخری قربانی کو پیش کرنے کے بعد ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ’امام النّاس‘ بنانے کا اعلان کیاگیا:

وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماًط (البقرہ ۲:۱۲۴)، یاد کروجب ابراہیمؑ کو اُس کے رب نے چند باتوںمیں آزمایا اور وہ اُن سب پر پورا اُترگیا، تو اُس نے (اﷲنے) کہا: میں تجھے سب انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔

اگرہم یہ کہتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کے لیے اُٹھے ہیں، جہاں اسلام بنی نوع انسان کا رہبرو قائد ہوگا تو ہمیں انفرادی اور اجتماعی طورپر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اُسوۂ مبارکہ کی پیروی اور تقلید کرنی چاہیے۔

دوسرانمونہ سیدنا ونبینا محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم کاہے۔ خواہ وہ وادیِ مکہ ہو، جہاں آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، یا وادیِ طائف ہو، جہاں آپؐ پرسنگ باری کی گئی، یا اُحد کا میدان ہو، جس میں آپؐ  کے دندان مبارک شہید کردیے گئے، یامدینے کی گلیاں ہوں، جن میں آپؐ  کے دشمنوں نے آپؐ  کے خلاف افترا پردازانہ پروپیگنڈا کیا، آپؐ  نے ہمارے لیے قربانی کی افضل ترین مثالیں چھوڑی ہیں۔ایساہی آپؐ  کے صحابہ کرامؓ نے بھی کیا۔

بنیادی اُصول

جیسا کہ ہم پہلے جائزہ لے چکے ہیں، بنیادی طورپر قربانی کا مطلب جانور کاذبح کرنا ہے۔ حج کے دوسرے دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا محمدصلی اﷲ علیہ وسلّم کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے جانور قربان کیے جاتے ہیں۔حج خود ایک رسمِ عبودیت ہے جس میں انتہائی سخت مشقت بھری قربانیاں شامل ہیں۔ یہاں ہمیں دو اہم اسباق ذہن نشین کرلینے چاہییں:

اوّل:اﷲ کے یہاں قبولیت ہماری قربانی کے جانور کی نہیں ہوتی، بلکہ قبولیت ہمارے دلوں میں پائی جانے والی اﷲ سے محبت کی، ہماری اطاعت کی اور ہماری قربانی دینے کی نیت کی ہوتی ہے۔اس بنیادی اُصول کو کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیجیے ، روح کو چھوڑ کرصرف رسم پر مطمئن نہ ہوجائیے ، البتہ رسم کو بھی ترک نہ کیجیے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط(الحج ۲۲: ۳۷)، نہ اُن کے گوشت اﷲ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمھارا تقویٰ پہنچتاہے۔

دوم:اعلیٰ ترین قربانی زندگی کی قربانی ہے۔اﷲ کی راہ میں اپنی حیاتِ دُنیوی کی قربانی  دے کر آپ صرف ایک بار موت کو گلے لگاتے ہیں اور یہ آخری قربانی ہے۔ مگر آپ اُس صورت میں ہرروز اور ہر لمحے موت کو گلے لگاتے ہیں جب آپ دل کی گہرائیوں میں پیوست محبت کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں اوراپنے آپ کو مکمل طورپر اﷲ کے حوالے کردیتے ہیں، اور تمام اندرونی اور بیرونی مخالفتوں کے باوجود اُس کی اطاعت وفرماں برداری کرتے رہتے ہیں۔ یوں آپ اپنی زندگی کی قربانی ایک بار نہیںدیتے، بار بار دیتے رہتے ہیں۔ یہ افضل ترین قربانی ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo(الانعام ۶: ۱۶۲) کہو، میری نماز،میری قربانی،میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔

حاصلِ کلام

آخر میں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم سے یہ تمام قربانیاں اس لیے طلب کی جاتی ہیں کہ ہم نے اپنے کاندھوں پراُس مشن کی تکمیل کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے جو اﷲکے رسولوں کوسونپا گیا تھا: ’تاکہ     تم لوگوںکے سامنے گواہ بن کرکھڑے ہو‘ ۔ہمیں اپنے رب کا سچا بندہ بننا چاہیے اورانسانیت کا   بے لوث خادم۔ بنی نوع انسان ہی کے لیے ہمیں ایک اُمت کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا ہے۔ اس بعثت کا تقاضاہے کہ ہم زندگی کے ایک مشکل ترین کام کے لیے اپنے آپ کو تیارکرلیں۔

قربانی کے بغیر اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کاکام ہمیشہ صرف تقریروں کا یا خواب کا موضوع بنارہے گا۔اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ہمیں اپنا وقت، اپنامال، اپنی زندگی، اپنے وسائل اور اپنی ذاتی پسند وناپسند کی قربانی دینی ہوگی۔ تاہم ہماری بہترین کوششیں بھی کاملیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتیں۔ہم ڈگمگا سکتے ہیں، ڈانوا ڈول ہوسکتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔یہ انسانی فطرت کاتقاضا ہے۔اﷲ صرف ہماری نیتوں اورکوششوں کو دیکھتاہے۔ہمیں اﷲسے رجوع کرنا چاہیے اور اُس سے مدد مانگنی چاہیے، مباداکہ جس وقت ہم سے قربانی طلب کی جائے اُس وقت ہماری بشری کمزوریاں ہم پر غالب آجائیں۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں اور خطاؤں پر اُس سے مغفرت طلب کرنی چاہیے:

رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج وَاعْفُ عَنَّا وقفۃ وَاغْفِرْلَنَا وقفۃ  وَارْحَمْنَا وقفۃ  اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۸۶)، اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جوقصور ہوجائیں، اُن پر گرفت نہ کر۔ مالک! ہم پر    وہ بوجھ نہ ڈال جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار ! جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو.ُ ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

 

جولائی ۱۹۷۹ء میں لاس اینجلس (امریکا) میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی ’مغربی ساحل کانفرنس‘  (West Coast Conference) میں نمازِ جمعہ کے موقع پر خرم مرادؒ کاخطاب جو Sacrifice کے عنوان سے شائع ہوا۔ ترجمہ: احمدحاطب صدیقی

(کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے۔ قیمت: ۲۵ روپے ۔ زیادہ تعداد میں لینے پر رعایت)