ہر صاحب ِ ایمان ساری زندگی صدقہ و زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اس حوالے سے ایک انتخاب پیش ہے۔
زکوٰۃ و صدقہ ادا کرنا، اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنا:
__اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کی بجاآوری ہے۔
__بُخل جیسی خطرناک و مہلک بیماری سے بچاتا ہے۔
__نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون ہے۔
__ صاحب ِ ایمان ہونے کی دلیل ہے۔
__اس سے نفس پاک و صاف ہوتا ہے۔
__اس سے نیکی میں اضافہ ہوتا ہے۔
__مال و دولت جیسی نعمت کی شکرگزاری و قدردانی کا احساس بیدار ہوتا ہے۔
__گناہوں کی بخشش ، برائیوں کے مٹنے اور لغزشوں و خطائوں کی آگ ٹھنڈی کرنے کا ذریعہ ہے۔
__آخرت میں مال کے وبال سے سلامتی کا ذریعہ ہے۔
__ اس سے بّر و احسان اور نیکی کا درجہ نصیب ہوتا ہے۔
__متقین کی صفات میں سے ہے۔
__ اخلاقِ حسنہ اور اعمالِ صالحہ کی افزایش کا ذریعہ ہے۔
__سخت گھبراہٹ کے دن خوف سے امن و امان کا ذریعہ ہے۔
__مال کی حفاظت اور افزایش کا ذریعہ ہے۔
__ بہت سے امراض کی دوا ہے۔
__مصائب و حوادث اور تمام بیماریوں سے انسان کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔
__ لوگوں کے مابین اُلفت و محبت کا ذریعہ ہے۔
__ وعدہ ہے کہ جو کچھ تم راہِ خدا میں خرچ کرو گے اُس کا پورا پورا بدلہ تم کو ادا کردیا جائے گا ۔
__ اس سے لوگوں کے درمیان حسد، کینہ اور بُغض کا مادہ کمزور ہوتا ہے۔
__ انفاق فی سبیل اللہ سے بندہ شرفا اور اہلِ فضل و کمال کے ساتھ متصف ہوتا ہے۔
__ رحمت ِ باراں کا نزول ہوتا ہے اور زکوٰۃ و صدقہ روک لینے سے رحمت ِ باراں بند ہوجاتی ہے۔
__اس کی ادایگی، میدانِ حشر میں کامیابی، جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔
__عذابِ قبر سے نجات کا ذریعہ ہے۔
__ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ کاقرب اور صدقے کا سایہ حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔
__دینے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعریف کا مستحق ٹھیرتا ہے۔
__انسان کو بُری موت سے بچاتا ہے۔
__اس سے تواضع و انکسار آتا ہے اور کبرونخوت اور فخرو ریاکاری ختم ہوتی ہے۔
__ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتا ہے۔
__اس کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری سے بچا رہتا ہے۔
__اس سے بُرائی کے ستّر دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
__قبولیت ِ دُعا اور مصیبت دُور کرنے کا ذریعہ ہے۔
__اس سے رزق میں وسعت و کشادگی ہوتی ہے۔
__اس کی وجہ سے دشمنوں کے خلاف اللہ کی جانب سے مدد آتی ہے۔
__تنگی کے بعد کشادگی اور آسانی کا سبب ہے۔
__مجاہدین فی سبیل اللہ کو دینے والے کو بھی مجاہد کی طرح اجر ملتا ہے۔
__اپنے ادا کرنے والے کو طاعت ِ خداوندی پر آمادہ کرتا ہے۔
__ اُمورِ دنیا کی انجام دہی کی آسانی کا سبب بنتا ہے۔
__عام ہلاکت اور قحط سالی میں مبتلا ہونے سے بچنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
__پابندی سے ادا کرنے والے کے مال میں برکت آتی ہے اور اس کی عمر و اولاد بڑھتی ہے۔
__ یتیموں کی کفالت کرنے والے شخص کو جنت میں نبی اکرمؐ کا قرب حاصل ہوگا۔
__ اللہ تعالیٰ دینے والے کے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام فرماتے ہیں۔
__اس کا اجرو ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔
__جو شخص اپنے مال سے مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے گھر بناتے ہیں۔
__ادا کرنے والا شخص جنت کے بالاخانوں میں رہایش پذیر ہوگا۔
__اگرچہ جانوروں اور پرندوں پر خرچ کیا جائے بہرحال اس کا ثواب ملتا ہے۔
__ اقتصادی و معاشی تنگیوں کا حل ہے۔
__ اُمت ِ مسلمہ کے مابین رابطے کا ذریعہ ہے۔
__سنگ دلوں کی سنگ دلی کا علاج ہے۔
__بندے کو قیامت کے دن گنجے سانپ سے بچائے گا اور یہ گنجا سانپ ایک مضبوط و قوی اژدہا ہے۔
__بندے کو منافقین کی صفات کے ساتھ متصف ہونے سے بچاتا ہے۔
__معیت ِ باری تعالیٰ کے حصول کا سبب ہے، جیساکہ ارشاد ربانی ہے:
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَo(النحل ۱۶:۱۲۸) ’’اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں‘‘۔ (ماہنامہ شاہراہِ علم، جولائی ۲۰۱۴ئ، نندوربار، مہاراشٹر)
اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ ط (العنکبوت ۲۹:۴۵) (اے نبیؐ)تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔
قرآن کریم نے نماز کے موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس آیت میں تلاوتِ قرآن اور نماز کے قیام کی خاص طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی جارہی ہے کہ قرآن پڑھا کیجیے اور نماز قائم کیجیے۔ اس طرح سے نماز اور قرآن کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔
دراصل قرآن پڑھنے کا جو لطف نماز کی حالت میں آتا ہے وہ ویسے نہیں آتا، اور جو قرآن نماز میں سمجھ آتا ہے وہ ویسے نہیں آتا۔ اگر آپ قرآن کے علوم سے آشنا ہونا چاہتے ہیں تو وہ آیاتِ قرآن نماز میں پڑھ کر دیکھیے جو آپ کو ویسے سمجھ نہ آتی ہوں۔ آپ کو احساس ہوگا کہ آپ قربِ الٰہی میں اور دامن رب میں بیٹھ کر خطاب سن رہے ہیں اور آپ اس خطاب کے تاثرات کو محسوس کر رہے ہیں۔ یہ لطف صرف نماز کے اندر ہی آتا ہے۔
قرآن کریم نے اکثر مقامات پر قرآن پڑھنے کو نماز سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کریم نے کہا:
یٰٓاََیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳:۱-۴) اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا اس سے کچھ بڑھا دو، اور قرآن خوب ٹھیرٹھیر کر پڑھو۔
یہاں ترتیل سے قرآن پڑھنے کو کہا گیا ہے اور مراد نماز ہے لیکن ذکر قرآن کا ہو رہا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ نماز کے اندر قرآن کریم کو پڑھا جائے۔ جب آپ رات کو اُٹھ کر نماز کی حالت میں خدا کا قرآن پڑھیں گے تو آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ آپ دربارِ الٰہی میں حاضر ہیں اور اللہ خطاب فرما رہے ہیں اور آپ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے اس کا خطاب سن رہے ہیں۔
ہم عام طور پر قرآن کو یوں پڑھتے ہیں جیسے خدا کی کتاب کو ایک مخصوص رنگ دینے کے لیے پڑھ رہے ہیں۔ ہم اس بات سے اپنے آپ کو بے پروا سمجھتے ہیں کہ کوئی ہم سے مخاطب ہو رہا ہے۔ ہم اس بات سے ناآشنا رہتے ہیں۔ اگر ہم وہاں سر جھکائے اس انداز سے کھڑے ہوں کہ میری زبان سے جو کچھ نکل رہا ہے یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ مجھ سے مخاطب ہے اور میں ایک قاری کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک سامع کی حیثیت سے اسے سُن رہا ہوں تو اس کا تاثر کچھ اور ہوگا، اور کچھ اور ہی کیفیت محسوس ہوگی۔
قرآنِ مجید نے نماز اور کتاب کو خاص طور پر اہمیت دی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَo (فاطر ۳۵:۲۹) جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انھیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقینا وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں، جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا۔
سورئہ مومنون کے آغاز میں اہلِ ایمان کی صفات بیان کی گئی ہیں۔پہلی صفت بھی نماز قرار دی اور آخری بھی نماز بیان کی ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ o (المومنون ۲۳:۹) ’’اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں‘‘۔قرآن کریم میں نماز کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ شاید ہی کسی اور حکم کو اتنی اہمیت دی گئی ہو۔
بنیادی طور پر بچہ محنت کر کے امتحان میں پاس ہوتا ہے اور اس کی محنت سے اس کا نتیجہ مرتب ہوتا ہے لیکن اگر اس کی حاضریاں کم ہوں تو اس کا داخلہ روک لیا جاتا ہے اور ساری محنت ہی اکارت چلی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں یہ نظام ہے کہ اگر کسی بچے کی حاضری مکمل نہ ہو تو اس کا داخلہ یونی ورسٹی اور بورڈ میں نہیں بھیجا جاسکتا۔ اسی طرح نماز حاضری ہے اور اس کے بعد پھر محنت کا مرحلہ آتا ہے۔ اگر یہ حاضری ہی کم نکلی تو پھر دوسری محنت رائیگاں چلی جائے گی۔
یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے فوج میں پریڈ ہوتی ہے ۔ ایک سپاہی ہزار درجے بہادر ہو، اس کا نشانہ بہت اچھا ہو، خوب اچھی ورزش کرنا جانتا ہو ، اس کی وردی بہت خوب صورت ہو، وہ بہت تنومند ، سڈول اور چست و چالاک ہو اور بہادر اور قوی بھی ہو لیکن اگر وہ پریڈ میں حاضری نہیں دیتا اور فوجی مشق میں نہیں آتا تو اُسے اصل جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ہم عام طور پر سوچتے ہیں کہ نماز کیا ہے اور اس کے پڑھ لینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ انسان کو مسلمان ہونا چاہیے اور بس!
جب آپ دعوتِ دین کے میدان میں نکلیں گے تو لوگ یہ سوال کریں گے کہ آپ کہتے ہیں کہ نماز بُرائی سے روکتی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے نماز پڑھنے والے جن کے چہروں پر سجدوں کے نشان پڑگئے ہیں عملاً بُرائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں، خیانت کرتے ہیں۔ وہ رشوت لیتے ہیں اور ڈنڈی بھی مارتے ہیں۔ وہ ملاوٹ بھی کرتے ہیں، خائن بھی ہوتے ہیں۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ نماز پڑھنے والوں کو نماز بُرائی سے روک دیتی ہے۔
پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نماز میں کیا رکھا ہے؟ انسان کو دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ پھر وہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ حج بہت بڑی نیکی ہے۔ ہم نے بڑے بڑے حاجی دیکھے ہیں جو اسمگلنگ کرتے ہیں۔ تم کہتے ہو روزہ رکھنے سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے روزہ رکھنے والوں کو بڑی بڑی بُرائیاں کرتے دیکھا ہے۔
غور کرنا چاہیے کہ آیا واقعی ایسا ہے۔ فی الواقع بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں لیکن جب وہ تجارت کرتے ہیں تو جھوٹ بولنے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور خیانت کرتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھی کا مال ہڑپ کر جانے سے گریز نہیں کرتے، یا دھوکا دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں، جب کہ ہم کہتے ہیں کہ نماز بُرائی سے روکتی ہے۔ دراصل ہمارے تصور میں شاید یہ بیٹھا ہوا ہے کہ نماز پڑھنے والے کو نماز بُرائی سے روکتی ہے۔ مطلب یہ کہ جب وہ بُرائی کرنے جاتا ہے تو نماز اسے پیچھے سے کھینچتی ہے کہ نہ کرو لیکن لوگ بُرائی کا ارتکاب کرلیتے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر وضو کر کے نہ آئو تو نماز میں سجدہ نہیں ہوتا۔ سجدہ تو ہوجاتا ہے لیکن نماز کا حق ادا نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو نماز کا حق ادا نہیں کرتا اس سے بُرائی ہوجاتی ہے اور نماز کا حق ادا کرنے والے سے بُرائی نہیں ہوتی اور نماز اس کو بُرائی سے روک دیتی ہے۔ درحقیقت نماز یہ مقام رکھتی ہے۔
بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جو نماز پڑھتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو اسے نماز چھوڑ دینی چاہیے، اس لیے کہ نماز میں کیا رکھا ہے، دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ روزے میں کیا رکھا ہے یا داڑھی میں کیا رکھا ہے، دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ مسلمان کو دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ ایک صحیح مسلمان وہی ہوگا جو دل سے مسلمان ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے والے منافقین فی الواقع مسلمان نہیں تھے۔ وہ باقاعدہ نماز پڑھتے تھے اور بڑی بڑی باتیں بھی کرتے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر آپؐ ان کی باتیں سنیں تو سنتے ہی رہ جائیں۔ ان کی باتیں بڑی انوکھی لگیں گی لیکن عملاً وہ باتیں بے سود ہیں اور وہ لوگ بے کار ہیں۔
یہ بات مشاہدے میں ہے کہ لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن بُرائیاں بھی کرتے ہیں تو کیا نماز کی اہمیت ختم ہوگئی؟ یہ بالکل اس طرح کی بات ہے کہ کوئی شخص بازار میں ننگا کھڑا ہو اور آپ اسے کہیں کہ حیا کر، بازار میں ننگا کھڑا ہے، تجھے شرم نہیں آتی۔ وہ جواب میں یہ کہے کہ تم کیا سمجھتے ہو جتنے کپڑے پہننے والے ہیں سب حیادار ہیں۔ میں تمھیں دکھلا سکتا ہوں کہ کپڑے پہن کر بھی لوگ بے حیا ہیں، حتیٰ کہ برقعہ اُوڑھنے والی بھی بے حیا ہیں۔ اس کی یہ بات ہم مان لیں گے کہ لباس پہننے والے لوگ بے حیا ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ کپڑے پہن لو تو باحیا بن جائو گے۔ مجھے یہ بتائو کہ جس مِلمیںکپڑا بنایا جاتا ہے کیا اس میں حیا کا کوئی دھاگا ہوتا ہے جس سے وہ کپڑا بُنتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ کپڑے پہننے سے حیا پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن کیا وہ سچ کہتا ہے کہ کپڑے اُتار دینے چاہییں؟
یہ تو ہم مانیں گے کہ کپڑا پہننے کے ساتھ حیا وابستہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص کپڑا پہن کر بھی بے حیا ہو۔ لیکن ہم یہ نہیں مان سکتے کہ حیادار ننگا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یہ تو ہم مان لیں گے کہ کوئی نماز پڑھتے ہوئے مومن نہ ہو لیکن یہ نہیں مان سکتے کہ مومن ہوکر وہ نماز نہ پڑھتا ہو۔ بیک وقت یہ دونوں باتیں نہیں ہوسکتیں۔
نماز کی اتنی اہمیت ہے کہ میرے خیال میں اسلام کے اندر واحد عمل ایسا ہے جس کے نہ کرنے پر کفر کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ متعمدًا فَقَدْ کَفَرَ ، یعنی’’ جس نے قصداً نماز ترک کی اس نے کفر کیا‘‘۔یہ واحد عمل ہے جس کے چھوڑ دینے سے انسان کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ فرمایا کہ نماز مومن اور کافر کے درمیان حدِ فاصل ہے۔ یہ فرق بتلاتی ہے کہ کوئی شخص مومن ہے یا کافر۔
بچہ سکول میں داخل ہو، وہ ابھی بستہ لے کر سکول نہ گیا ہو کہ اتنے میں سکول کی گھنٹی بج جائے تو کیا گھر میں قیامت نہ برپا ہوجائے گی۔ وہ پوچھے گا کہ میرا بستہ کہاں ہے؟ میری یونیفارم کہاں ہے؟ یوں سمجھیے کہ گھر میں زلزلہ آجائے گا۔ اور جب گھنٹی بجنے پر اس کے سر میں جوں بھی نہ رینگے اور اسے کوئی فرق نہ پڑے تو ہم سمجھیں گے کہ یہ شاید سکول میں داخل نہیں ہے۔
اذان کی آواز آنے کے بعد ایک مومن کے اندر ہلچل نہیں مچتی تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مومن ہے اور مسجد کا نمازی ہے۔ اگر یہ نمازی ہوتا تو اس کے اندر ایک ہیجان پیدا ہوتا کہ اللہ کی طرف سے پکار آگئی ہے اور میں یہاں کیوں بیٹھا ہوں؟
ہم لوگ اکثر نماز کے اس پہلو سے کوتاہی کرجاتے ہیں۔ ہمیں نماز پڑھنے میں مزا نہیں آتا۔ اسے عادت کے طور پر ادا کرتے ہیں عبادت کے طور پر ادا نہیں کرتے۔ سچی بات یہ ہے کہ کسی کے ساتھ پیار ہو تو کیفیت کچھ اور ہوتی ہے۔
آپ اندازہ لگایئے کہ راہ چلتے اگر کوئی اجنبی شخص آپ کو کھڑا کرے کہ ذرا میری بات سنیے۔وہ لمبی بات کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ بھائی مختصر بات کرو میں جلدی میں ہوں۔ آپ اسے لمبی بات کرنے نہیں دیتے۔ لیکن اگر کوئی دوست مل جائے جس سے آپ کو محبت ہو اور آپ تھکاوٹ سے چُور ہوں، بہت سارے کام سر پر ہوں اور وہ آپ کو کھڑا کرلے تو آپ باتیں کرتے اُکتائیں گے نہیں۔ نہ پائوں تھکتے ہیں، نہ جسم تھکتا ہے، نہ کوئی کام یاد آتا ہے اور نہ نیند ہی آتی ہے۔ اور پھر جب وہ جانے لگتا ہے تو آپ بازو پکڑ لیتے ہیں کہ ٹھیرو یار چلے جانا، اتنی جلدی کیا ہے؟
کیا یہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔ دراصل محبت کی کیفیات مختلف ہوتی ہیں۔قرآنِ مجید نے یہی بات بیان فرمائی ہے:
وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَ اَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o (البقرہ ۲:۴۵-۴۶) بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
میں نے جب یہ فقرہ سنا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ نماز بھلا بھاری کیسے ہوئی؟ہم دیکھتے ہیں کہ مزدور سارا سارا دن بوجھ اُٹھاتا ہے، ۱۲، ۱۲گھنٹے بھٹی کی آگ پر کھڑا ہوتا ہے۔ چوکیدار رات بھر جاگتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کی لگن لیے کوہِ پیما چوٹی سر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کئی گرجاتے ہیں، کچھ مربھی جاتے ہیں لیکن چوٹی سر کرنے کی لگن ہے کہ چڑھتے چلے جاتے ہیں۔
ایک طرف یہ صورتِ حال ہے اور جب انھیں دو رکعت نماز کے لیے کہا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ اتنی مشقت اُٹھاتے ہیں لیکن دو رکعت نماز ادا کرنا ان کے لیے مشکل ہے۔ اور دو رکعت نماز ادا کرنا واقعتا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نماز واقعتا مشکل ہے مگر ان لوگوں کے لیے نہیں جو پہلو میں یہ تڑپ لیے پھرتے ہیں کہ کل اسی بہانے اپنے رب سے ملاقات نصیب ہوگی۔ ان کے لیے نماز یقینا آسان ہے۔
اذان کی آواز آتی ہے اور کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی آواز آئی بھی ہے یا نہیں۔ اگر اللہ بلائے اور ہم محبت کا دعویٰ بھی کریں اور پھر حالت یہ ہو کہ ابھی جاتے ہیں، یہ تھوڑا سا کام کرلوں۔ آپ کسی دوست سے روز ملتے ہوں اور اگر اس کی آواز گلی میں سے گزرتے ہوئے آجائے، خواہ آپ نے اسے بلایا بھی نہ ہو تو لپک کر اسے ملنے چلے جاتے ہیں کہ دوست آیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ سب فریب ہے۔ اللہ سے پیار ہو تو یہ روش نہیں ہوسکتی۔ نماز تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ رسول پاکؐ حضرت بلالؓ سے کہتے ہیں کہ بلال! اذان پڑھو، میری آنکھیں نماز میں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ واقعتا یہ کیفیت اُسی کی ہوتی ہے جسے اللہ سے پیار ہوجائے۔ پھر نماز میں آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور نماز میں لطف آتا ہے۔ پھر تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ رات تڑپ کر گزری ہے، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور سینہ ہنڈیا کی طرح اُبل رہا ہے اور پائوں میں وَرم پڑگئے ہیں۔لیکن صبح اُٹھ کر پھر یہی کہا جا رہا ہے کہ مالک! تیری عبادت کا حق تو ادا نہ ہوسکا۔
واقعتا محبت میں پیمانے ہی بدل جاتے ہیں۔ جیسے انسان اگر کسی غلط جگہ پر آجائے، جن لوگوں سے پیار نہ ہو، ایسی بستی میں آجائے جو اجنبی ہو اور اُوپر سے رات بھی ہوجائے تو وہ رات کیسے گزرتی ہے، لیکن اگر رات محبوب کے دامن میں گزرے اور وہ ساری رات بٹھائے رکھے کہ باتیں کرنی ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ مؤذن کو کیا ہوا کہ آج اس نے بڑی جلدی فجر کی اذان دے دی۔
اگر کیفیت کچھ مختلف ہو تو وہی رات بہت طویل لگتی ہے کہ قیامت کی رات ہے، ختم ہونے میں نہیں آرہی۔خدا کے پیار میں جنھوں نے راتیں گزاری ہیں انھیں یوں لگا کہ جیسے بات ہی کوئی نہیں ہوئی اور بڑی جلدی رات گزر گئی ہے۔ اللہ کے پیار میں کھڑے ہونے والوں سے پوچھیے کہ اس میں کتنا لطف ہے ۔
درحقیقت محبت اور عشق والوں کا معاملہ ہی مختلف ہے۔ محبت کی کیفیت کے انداز ہی مختلف ہیں۔ لوگ سونے میں مزا لیتے ہیں اور یہ جاگنے میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لوگ مال جمع کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہ مال لٹانے میں مزا لیتے ہیں۔ لوگ ہنسنے میں مزا لیتے ہیں اور انھیں رونے میں لطف آتا ہے۔ یہ کیفیات ہی مختلف ہیں۔ یہ محبت کے بعد معلوم ہوتا ہے۔
تنہائی میں خدا کو یاد کیا اور آنکھیں برس پڑی ہیں اور کراماً کاتبین بھی بے خبر ہیں کہ کیوں رورہا ہے؟ کس مزے میں ہے؟ اور کس نشے میں ہے؟ قیامت کے روز حکم ہوگا کہ اسے بلا لائو اور میرے عرش کے سایے میں بٹھائو، گرمی میں کھڑا نہ رہنے دو۔ خلوتوں میں میری یاد میں رونے والے کو میرے دامنِ رحمت میں جگہ دے دو۔
وہ بچہ جو کھلے میدان میں مٹی کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور بڑے مزے میں بیٹھا ہوا ہے۔ اِدھر ماں آواز دیتی ہے تو ہلکی سی کوفت ہوتی ہے۔ کھلونوں کو چھوڑ کر اُٹھنا، بڑے پیارے سے جو گھروندے بنائے تھے اور ساتھیوں کو چھوڑ کر اُٹھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ ماں بلاتی ہے اور مٹی والے کپڑے اُتار دیتی ہے۔ جب وہ کپڑے اُتارنے لگتی ہے تو تب تھوڑا سا روتا ہے، اور جب نہلانے لگتی ہے تو روتا ہے کہ یہ زیادتی کر رہی ہے اور مجھے نہلا رہی ہے۔ جب وہ نہلادُھلا کر گود میں لٹا لیتی ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ وہ دوست بھی بھول جاتے ہیں، کھلونے بھی بھول جاتے ہیں، کھلی فضا بھی بھول جاتی ہے اور دیکھنے والے کو حیرت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی سی گود کے اندر اسے کیا نشہ آرہا ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے کہ:
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (السجدہ ۳۲:۱۶-ــ۱۷) ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔
نماز کے لیے اُٹھنے میں تھوڑی سی کوفت ہوتی ہے۔ پھر وضو کرنے میں بھی کچھ کوفت ہوتی ہے۔ جب وضو بھی کرلیتا ہے، بستر سے بھی اُٹھ آتا ہے اور شیطان کی ساری زنجیریں توڑ ڈالتا ہے، اور اللہ کے حضور تہجد کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو پھر جو لطف آتا ہے تو وہ دنیا والوں کو نہیں پتا کہ نرم بستر میں زیادہ مزا ہے یا اس چٹائی پر سجدہ ریز ہونے میں زیادہ لطف ہے۔ اللہ کی معرفت، اللہ کے پیار اور اللہ سے محبت کے بعد یہ لطف آتا ہے اور یہ لذت نصیب ہوتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کتنے سخت سے سخت اور کٹھن سے کٹھن مرحلے گزرے ہیں۔ طائف کے بازار میں آپؐ کے ساتھ کیا کیا زیادتی نہیں ہوئی۔ تمام جسم سے لہو بہہ رہا تھا اور عالم یہ تھا کہ آپ گر جاتے تھے اور اُٹھائے جاتے تھے کہ پھر پتھروں کا نشانہ بنایا جائے لیکن آپ کی زبان سے یہی الفاظ نکلے کہ: اے اللہ! مجھے ان زخموں کی پروا نہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کی نسلوں میں سے کوئی تیرا نام لیوا پیدا ہوجائے۔
میدانِ بدر میں حضوؐر کس عالم میں اللہ سے دعا اور التجا کرتے ہیں اور اللہ کی نصرت کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔
گویا اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے نزدیک نماز بہت ہی اہم چیز ہے۔ نماز کا ادا کرنے والا جب نماز کا حق ادا کرتا ہے تو وہ دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ کی جنت کا حق دار بن جاتا ہے، بشرطیکہ نماز کا حق ادا کیا ہو۔ نماز کے اندر اس کی توجہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکتی رہی ہو۔
ہمارا حال بھی عجیب ہے۔ ہم نماز پڑھنے آتے ہیں لیکن دل ظالم کو ساتھ نہیں لاتے۔ وہ گھر پہ ہوتا ہے یا دکان میں اَٹکا ہوتا ہے، دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے یا کسی اور محفل میں۔ جب تک ہم اسے ساتھ نہیں لائیں گے نماز کیسے ادا ہوگی۔
قرآنِ مجید میں جہاں سُکرٰی (نشہ) کی بات کی گئی ہے وہ چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن بہت عظیم فقرہ ہے اور اس میں نماز کی عظمت بھی بیان کی گئی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النساء ۴:۴۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔
یہ بہت بڑی بات کہی گئی ہے۔ آپ کسی کو ملازم رکھتے ہیں۔ آپ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں گھر میں جھاڑو دینا ہوگی۔وہ کہتا ہے : جی ہاں اور سر ہلا دیتا ہے۔ آپ کچھ اور کام بتاتے ہیں، وہ سر ہلاتا جاتا ہے اور جی ہاں کہتا ہے۔ آپ اسے جھنجھوڑ کر کہتے ہیں کہ سر ہلاتے جارہے ہو، کیا یہ سب کام کر بھی سکو گے۔
اللہ کہتے ہیں کہ تو جو میرے دروازے پر کھڑا ہوا اتنے وعدے کر رہا ہے، یعنی:
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo(الفاتحہ ۱:۴)ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَ اِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ،خدایا! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز اور سجدہ کرتے ہیں اور ہماری ساری کوششیں اور ساری دوڑ دھوپ تیری ہی خوشنودی کے لیے ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
یعنی اتنے معاہدے میرے ساتھ کرتا چلا جا رہا ہے، کیا سوچ کر کہہ رہا ہے یا ایسے ہی کہے جا رہا ہے۔
یہ بنیادی بات ہے کہ ہم اس کے دروازے پر آئیں تو دل کو ساتھ لائیں اور پھر اس محبوب کی تلاش میں نکلیں۔ نماز کی حالت میں بہت سے خیالات آتے ہیں اور ایسے میں اللہ کے خیال کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ دراصل ہم تلاش کے اندر مخلص نہیں ہوتے ورنہ تلاش میں مخلص ہونے والا جمگھٹوں سے نہیں گھبراتا۔
آپ کسی پُرہجوم چوک میں کھڑے ہوں اور کسی دوست کی تلاش میں نکلے ہوں، اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہوں۔ بہت سے لوگ آپ کو دیکھ کر سلام کریں گے لیکن آپ نہیں دیکھیں گے۔ وہ بعد میں ملیں گے اور کہیں گے کہ آپ فلاں چوک میں کھڑے تھے ، ہم نے بہت ہاتھ ہلایا لیکن آپ نے دیکھا ہی نہیں۔ آپ نے میری آواز سنی اور میرے سلام کا جواب ہی نہیں دیا۔واقعتا آپ کے کانوں سے اس کی آواز تو ٹکرا رہی تھی اور آپ اس کے ہاتھ کو دیکھ رہے تھے لیکن کس طرح دیکھ رہے تھے۔قرآن کہتا ہے:
فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِo (الحج ۲۲:۴۶) حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
یہ آنکھیں اندھی نہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوگئے ہیں۔ دل جس کی تلاش کرتا ہے، آنکھیں بھی اسی کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ اس دنیا کے بازار میں آپ اس ایک کی تلاش میں یوں نکلیں کہ ہزاروں گزر جائیں لیکن آپ کی نگاہ میں نہ ٹھیریں، اور جب وہ نظر آئے تو آپ شور مچا دیں کہ ہاں وہی ہے۔ اس انداز میں جب آپ نماز پڑھیں گے تو تخیلات آتے رہیں، انھیں دھکا دے کر کہیں کہ میں تو اسی ایک کی تلاش میں نکلا ہوں۔
انسان کمزور ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خیالات آ بھی جاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ دل لگا لینا نقصان دہ ہے۔
آپ کے ہاں مہمان آجائے جو عزیز دوست بھی ہو۔ جب وہ بات کر رہا ہوتو آپ کے بچے آپ سے چمٹ جائیں۔ آپ کبھی اس کی بات سنیں اور کبھی بچوں کو پیار کریں۔ مہمان بات کر رہا ہے اور آپ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے، تو مہمان کہے گا کہ یہ میری بے عزتی ہے۔ یہ تو بچوں کے ساتھ ہی مصروف ہوگئے ہیں اور میں نے جو بات کی وہ انھوں نے غور سے سنی ہی نہیں۔
اب ایک یہ کیفیت ہے کہ مہمان آیا ہے اور بچے بھی آکر چمٹ گئے ہیں۔ آپ انھیں کہیں کہ بیٹا بات کرلینے دو۔ ادھر سے کوئی دوسرا بچہ آجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ بیٹے ذرا بیٹھو بات کرلینے دو۔ بچے آرہے ہیں، آپ نے انھیں مارا نہیں یا بُرا بھلا نہیں کہا بلکہ انھیں ہٹاتے جارہے ہیں اور بات دوست کی سن رہے ہیں۔ دوست اس پر بُرا نہیں منائے گا کہ بچے ہیں، نادان ہیں لیکن وہ تو توجہ کر رہا تھا۔
اگر نماز میں دنیا کے خیالات اِدھر اُدھر سے آنے کی کوشش کریں تو انھیں ہٹانے کی کوشش کریں کہ میں اللہ سے بات کر رہا ہوں۔ میں اپنے خدا سے پیار کی بات کر رہا ہوں۔ اگر ہم ادھر منہمک نہ ہوئے تو قابلِ معافی ہیں اور اگر ہم نے ان بچوں سے پیار کرنا شروع کردیا اور مہمان کا خیال نہ کیا، تو وہ کہے گا کہ سارا دن تو ان کے ساتھ رہا ہے اور اب بھی انھی سے سروکار ہے، میرا تو اُس نے خیال ہی نہ کیا۔ پھر یہ بات ناگوار ہوگی۔
اللہ کے ہاں سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ نماز جس شخص کی درست ہوجاتی ہے، اس کا ایمان درست ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی تلاش میں سرگرداں شخص ہی دراصل نماز کا حق ادا کرسکتا ہے ورنہ نماز کا حق ادا ہی نہیں ہوتا، اور جو نماز کا حق ادا کردیتا ہے وہ پھر گناہ کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ پھر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ گناہ کے راستے پر چل سکے اور جو شخص گناہ کے راستے پر جاتے ہوئے نماز ادا کرتا ہے وہ خدا کا مذاق اُڑاتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ نماز کے اندر جو دعا حکماً لازماً منگوائی گئی ہے وہ صراطِ مستقیم کی دُعا ہے: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘۔اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، اس دعا کو ہم سے لازماً منگوایا جاتا ہے۔ یہ فقط ایک دعا ہے جو نماز میں مانگی جاتی ہے اور اسی کے لیے فی الواقع ہم نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ میری ملازمت چھوٹ گئی ہے، اور مجھے روزی دے دے، یا مَیں بیمار ہوں مجھے صحت دے دے وغیرہ۔ دراصل ہدایت وہ بنیادی بات ہے جو ہم اللہ سے مانگتے ہیں، اور بڑی التجا کر کے مانگتے ہیں۔
ایک شخص ملتان جانا چاہتا ہے وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ ملتان کس طرف ہے؟ آپ اسے بتاتے ہیں کہ اس طرف ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کسی اور جگہ جاکر ملتان کا راستہ پوچھتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ تو پیچھے رہ گیا۔ وہ پھر آپ سے ملتا ہے تو آپ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں بتایا تو تھا کہ ملتان اس طرف ہے۔ وہ پھر کہیں اور سے گھومتا پھرتا آپ کے پاس آجاتا ہے کہ ملتان کا راستہ بتادیں۔ آپ غصے میں آجاتے ہیں کہ تم خود بے وقوف ہو یا مجھے بے وقوف بنا رہے ہو اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم کتنے اہتمام سے اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور اس کی حمد بیان کرتے ہیں کہ اے اللہ! تو پاک ہے، میں تیری حمد کرنے آیا ہوں۔ تیرا نام بڑا برکت والا ہے، تیری شان بڑی بلند ہے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، تو بڑا مہربان ہے، تو بڑا رحیم ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں اور تجھ سے پوچھتا ہوں کہ بتا سیدھا راستہ کون سا ہے؟
جب وہ نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتا ہے اور دکان پر بیٹھ کر ترازو پکڑ کر ڈنڈی مارنے لگتا ہے تو اندر سے آواز آتی ہے کہ یہ سیدھا راستہ نہیں ہے۔ تو نے صبح مجھ سے پوچھا تھا نا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے؟ یہ غلط راستہ ہے، ُتو غلط راستے پر چل نکلا ہے۔ جب ڈنڈی مار کر دو پیسے بچا لیتا ہے تو پھر اسی طرح نمازِظہر میں اللہ سے سیدھا راستہ مانگتا ہے۔ پھر دفتر میں بیٹھا ہے اور کسی نے ۱۰۰ کا نوٹ رشوت کے طور پر دے دیا، یا جیب میں ڈال دیا تو دل لرزا کہ یہ رشوت ہے، حرام ہے۔ یہ سیدھا راستہ نہیں ہے لیکن رکھ لیتا ہے کہ اللہ معاف کردے گا۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ پڑھ لیتا ہے۔
عصر کی نماز میں پھر آکر کھڑا ہوتا ہے اور پھر خلوص سے کہتا ہے کہ اللہ سیدھا راستہ کس طرف ہے؟ پھر جب باہر نکلتا ہے تو کسی کی غیبت، کسی پر بہتان، کہیں جھوٹ اور کسی سے زیادتی۔ اندر سے مسلسل آواز آرہی ہے کہ غلط چل رہا ہے، سیدھا راستہ تو اس طرف ہے تو کس طرف جا رہا ہے؟
اب بتایئے یہ تماشا کب تک رہے گا۔ ایک وقت آئے گا کہ وہی نماز گندے چیتھڑے کی طرح منہ پر دے ماری جائے گی، اور وہ نماز خود کہے گی کہ تجھے خدا اس طرح خراب کرے جیسے تُو نے مجھے خراب کیا ہے۔
جب تک نماز کا حق ادا نہیں ہوگا، نماز اثرانداز نہیں ہوگی۔ اگر ہم نماز کا حق ادا کردیں تو پھر دیکھیے کہ ایک نماز پڑھنے والے کی کیا شان ہے! یقین کیجیے جب حجابات اُٹھ جائیں تو صرف ایک نماز کے اندر کائنات ساری کی ساری ہی بدلتی نظر آئے گی۔ یہ کیفیات ہی مختلف ہیں۔
حضوؐر فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تو حضرت حارثہؓ سے ملاقات ہوگئی۔ پوچھا: حارثہ! صبح کیسی ہوئی؟ اے حارثہ! ایمان کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں، تو بتا تیرے ایمان کی کیا کیفیت ہے؟ کہنے لگے: یارسولؐ اللہ! جنتی جنت کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں اور دوزخی دوزخ کی طرف، اور میں ہرروز اپنے آپ کو عرشِ معلی کے قریب ہوتا ہوا پاتا ہوں___پھر یہ ایمان نصیب ہوتا ہے!
یہ تب ممکن ہے جب وہ فاصلہ صراطِ مستقیم کی طرف طے کرے۔ جب وہ چل ہی اس کے مخالف رہا ہے تو صراطِ مستقیم نصیب ہونے کی بات تو نہ ہوئی۔ عرش کے قریب تو وہ تب ہوتا جب چل ہی اس راستے کی طرف رہا ہو۔ پھر اس راستے پر چلتا رہے اور رب سے برابر ہدایت مانگتا رہے۔ پھر بھی قدم قدم پر اس راستے پر چلتے ہوئے پوچھنا پڑے گا، اللہ سے ہدایت و استقامت مانگنی پڑے گی۔
ایک شخص اگر تیرنا نہیں جانتا تو کسی تیراک نے اگر اس کا بازو پکڑ لیا ہے تو وہ بار بار کہے گا کہ دیکھنا میرا بازو نہ چھوڑ دینا، میںتیرنا نہیں جانتا۔ میں تو محتاج ہوں۔ اگر وہ کہے کہ ٹانگیں سیدھی رکھو تو وہ ٹانگیں سیدھی رکھے گا۔ اگر وہ کہے کہ سمیٹ لو تو سمیٹ لے گا۔ وہ کہے کہ چپ ہو جائو تو چپ ہوجائے گا۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے ہاتھ چھوڑ دیا تو میں غرق ہوجائوں گا۔
ہم اللہ سے جب سیدھا راستہ مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو بازو پکڑ کر سیدھے راستے پر لے جارہا ہے، تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کہے کہ ٹانگیں سمیٹ لو تو ہم کھول دیں۔ وہ کہے کہ زبان بند کرلو تو ہم کھول دیں ۔ وہ کہے کہ جھوٹ نہ بولو اور ہم جھوٹ بولیں۔ اس لیے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ درحقیقت ہم جس چیز کا اقرار کرتے ہیں عمل اس کے خلاف کرتے ہیں۔ گویا ہم جو کچھ کہتے ہیں، غلط کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر ہم اس کی عظمت کا اعتراف کرتے تو پھر ہم اس کے راستے پر چلتے اور ضرور چلتے۔ پھر ہمیں اس کے راستے پر چلتے ہوئے لطف آتا، اور اس کی طرف بڑھنے میں مزا آتا۔ جب تک یہ کیفیت نہ پیدا ہو، اس وقت تک عبادت کی لذت نصیب نہیں ہوسکتی۔
ہم عبادت رسماً اور ایک عادت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم اسے عبادت کے طور پر ادا کریں تو یہ سجدہ اللہ کے ہاں بڑا قیمتی سجدہ ہے۔ ہماری عبادت جیسی کیسی ہے، وہ ہمیں معلوم ہے۔ یہ تو اللہ کی قدردانی ہے۔ وہ واقعتا قدردان ہے۔ وگرنہ ہماری عبادت کی کیا بساط ہے اس کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آسمان پر ملائکہ کے پَروں کی چرچراہٹ کی آواز آتی ہے اور فرمایا کہ ان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ یہ آواز پیدا ہو۔ اس لیے کہ آسمان پر کوئی چپّہ برابر بھی جگہ خالی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ سجدے میں ، قیام میں، قعود میں اللہ کی تسبیح نہ کر رہا ہو، اور سبوح قدوس کا ترانہ نہ گا رہا ہو۔ پھر کیا ہمارے یہ دو سجدے کوئی مقام رکھتے ہیں۔ یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے انھیں اہمیت دے دی اور بڑا مقام دے دیا۔ کہا کہ اے فرشتو! ذرا خیال کرنا کہ میرا مہمان آرہا ہے۔ پھر اس چٹائی پر جتنا لطف آتا ہے وہ قالینوں پر نہیں آتا۔
یہ گھر والوں کی نگاہ کا فرق ہوتا ہے۔ اس واسطے یہ لطف آتا ہے۔ گھر والا اگر اچھے قسم کے صوفے پر بٹھا دے اور چہرے پر تیوری چڑھی ہو اور تکبر سے بات کر رہا ہو تو اچھا نہیں لگتا۔ اگر چٹائی پر بٹھا دے اور عزت و احترام دے تو وہ گھر اچھا لگتا ہے۔ اللہ کی چٹائی پر کیوں اتنا مزا آتا ہے جو لوگوں کے قالینوں پر نہیں آتا؟ یہ اس لیے کہ گھر والا پیار سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب گھر والا اتنے پیار سے دیکھ رہا ہو تو پھر کیوں نہ مزا آئے!
اللہ نے اپنے فرشتوں کی عبادت کو چھپا کر رکھا ہے کہ کہیں یہ دو نفل ادا کرنے والا اس کا بندہ شرم محسوس نہ کرے۔ بعض دفعہ ہم تھوڑی سی نیکی کربیٹھتے ہیں تو اِترانے لگتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ جو ہم نے کیا ہے شاید دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کرنا کوئی کمال نہیں، اصل تو یہ ہے کہ وہ اسے قبول کرلے۔ عبادت جب اس انداز سے کی جائے گی تو لطف کچھ اور ہوگا۔ اللہ ہمیں نماز میں وہ لذت عطا فرمائے جس میں رفعت بھی ہو اور اللہ کا پیار بھی نصیب ہو، اور اللہ کے دیدار کی وہ کیفیات بھی نصیب ہوں۔
خدا دیکھ رھا ھے!
کیا پیاری کیفیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں:
عبادت ایسے کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ نہ کرسکو تو یہ تصور کرو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔
یہی تصور غالب آجائے تو بہت بڑی بات ہے۔ ساری کیفیات ہی بدل جائیں گی۔ یہ تصور بھی ہم دلوں میں نہیں بٹھا سکتے اور نہ غالب آتا ہے۔ اگر کوئی نابینا بھی بادشاہ کے دربار میں ملنے کے لیے آئے، اگرچہ وہ اندھا ہے اور اسے کچھ نظر نہیں آتا، لیکن جب اسے یہ کہا جائے کہ اب بادشاہ تمھارے بالکل سامنے ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے اعضا ڈھیلے پڑجائیں گے۔ اس کی گردن ڈھیلی پڑ جائے گی، اس کے قدموں میں فرق آجائے گا اور اس کی آواز دب جائے گی۔ فقط یہ سنتے ہی کہ بادشاہ سامنے ہے، اس پر یہ کیفیت طاری ہوجائے گی حالانکہ وہ نابینا ہے اور اسے کچھ نظر نہیں آرہا۔ ہم نابینا ہی سہی۔ اگر صرف یہ تصور ہی دل میں بٹھا لیں کہ خدا دیکھ رہا ہے تو ہماری عبادت کی کیفیات بدل جائیں۔ اگر اللہ اپنی عظمت ہمارے دل میں بٹھا دے اور رونے کی توفیق بھی عطا فرما دے تو پھر کیا کہنے! (تدوین: امجد عباسی)
حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ مدینہ کے مشہور علماے احبار (یہودی علما) میں سے تھے۔ رسولِ اکرمؐ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ بھی آپؐ کے دیدار کے لیے گئے۔ انھوں نے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا اور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام حصین تھا جسے بدل کر آپؐ نے عبداللہ رکھا۔
حضرت عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے مدینہ میں جو پہلی گفتگو نبی کریمؐ سے سنی وہ یہ روایت تھی۔ گویا یہ وہ پہلی ہدایات تھیں جو اہلِ مدینہ کو دی گئیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلائو، صلۂ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو۔ (ایسا کرنے کی صورت میں) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے‘‘۔ (احمد، ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم کی خصوصیت سے نوازا تھا۔ آپؐ مختصر گفتگو فرماتے تھے لیکن وہ اختصار و جامعیت کا شاہکار ہوتی اور اپنے اندر گہرے مفاہیم و معنی رکھتی تھی۔ آپؐ کے اکثر خطبے مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ ایسی ہی گفتگو کا نمونہ یہ روایت بھی ہے، جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر وسیع مفاہیم اور نکات کو سموئے ہوئے ہے۔ یہی وہ ہدایات ہیں جنھوں نے اہلِ مدینہ پر اسلام اور مسلمانوں کا ایسا گہرا تاثر چھوڑا کہ ان کے دل اسلام کے لیے کھلتے چلے گئے اور فی الواقع مدینہ میں اسلامی انقلاب کی بنیاد پڑگئی۔
اہلِ مدینہ کو جس چیز نے سب سے بڑھ کر متاثر کیا وہ مواخات کا عمل تھا۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے اہلِ مدینہ کو جن مسائل کا سامنا تھا اس کا حل نبی کریمؐ نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو ایک دوسرے کا بھائی بناکر جس طرح سے کیا، اور پھر انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی ضروریات کا جس طرح سے خیال رکھا اور ان کو اپنے اُوپر ترجیح دی، اس خلوص، خیرخواہی، صلۂ رحمی نے یقینا اہلِ مدینہ کے دل مسلمانوں کے لیے کھول دیے ہوں گے۔ اسلامی معاشرت کی اس جیتی جاگتی تصویر نے قبولِ اسلام کے لیے راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان ہدایات کے آخر میں آپؐ نے ان سب اعمال کے نتیجے میں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی ضمانت بھی دی ہے۔
آج بھی ضرورت ہے کہ مثالی اسلامی بستی کا نمونہ پیش کیا جائے تاکہ لوگ عملاً اسلامی معاشرت کی برکات دیکھ سکیں۔ اگر کسی بستی کے لوگ یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم اپنی بستی کے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ ہماری بستی میں کوئی بھوکا ننگا ، بیمار یا پریشان حال ہوگا تو ہم اس کی بے غرض مدد کریں گے۔ وہ اپنے آپ کوتنہا نہ پائے گا، تو یقینا اس پُرخلوص جدوجہد کے اثرات بہت جلد سامنے آئیں گے۔ اگر اس کام کو منظم انداز میں مختلف بستیوں میں کیا جائے تو پھر اس ملک میں اسلامی انقلاب کو برپا ہونے سے کون روک سکتا ہے۔
اگر نماز کو اس کی حقیقی روح اور شعوری تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے تو یہ بھی اصلاحِ معاشرہ اور انقلاب اسلامی کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ نماز جہاں اللہ کی بندگی و اطاعت کی عملی تربیت کا ذریعہ ہے وہاں تزکیۂ نفس اور احتساب و جائزے کا ذریعہ بھی۔ نماز صلۂ رحمی بھی سکھاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ میں سے کوئی نماز کے لیے نہ آپاتا تو وہ اس کی خبرگیری کے لیے جاتے، کوئی بیمار پڑجاتا تو عیادت کرتے، اور پریشان حال ہوتا تو اس کی پریشانی کے ازالے کی فکر کرتے۔ ہم سال ہا سال ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں لیکن ایک نمازی دوسرے نمازی سے واقف نہیں ہوتا۔ اگر نماز کی اس روح کو زندہ کیا جائے اور اگر کوئی نمازی بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کو جائیں، اور کوئی حاجت ہو تو اسے پورا کرنے کی فکر کریں، تو ایسی بے لوث نیکی اور ایسا خلوص و محبت کیا دلوں کو بدل کر نہیں رکھ دے گا۔ مسلمان دن میں پانچ بار اس مشق سے گزرتے ہیں۔ اگر تسلسل سے اس عمل کو جاری رکھا جائے تو کیا بستی کی حالت بدل کر نہ رہ جائے گی۔ ضرورت صحیح سمت میں عمل کی ہے۔
اگر کسی بستی میں دینی تعلیم و تربیت، اخلاقی بگاڑ کے سدباب اور حاجت مندوں کی حاجت روائی، نیز سرکاری اداروں میں درپیش مسائل کے حل کے لیے بے لوث تعاون، اور اپنی مدد آپ کے تحت بستی کے مسائل حل کرنے کا ایک منظم نظام وضع کرلیا جائے اور مخلص لوگوں کی ایک جماعت اس کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے، تو معاشرے کی حالت بدل سکتی ہے۔ اور کچھ نہیں اگر نماز ہی اس کی حقیقی روح کے ساتھ شعوری طور پر ادا کی جائے، اور نمازی ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھیں اور پریشانیوں کے ازالے کے لیے سرگرم ہوجائیں، تو نماز اصلاحِ معاشرہ کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں حکمرانوں کو بھی سماجی دبائو کے تحت بگاڑ کے سدباب اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو اپنی بستیوں کو اس کا عملی نمونہ بنانا چاہیے۔بلاشبہہ آج بھی نبی کریمؐ کی یہ ہدایات اسلامی انقلاب کی بنیاد اور جنت کی ضمانت بن سکتی ہیں!
وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶۹)اور جس کو حکمت ملی،اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔
عربی زبان میں لفظ حکمت کا مادہ ،تین حروف ’ح ،ک اور م‘ ہیں۔اس مادے سے مختلف الفاظ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تویہی لفظ حکمت ہے، جسے عام فہم زبان میں دانائی اور فراست کہا جاتا ہے اور جس کے حامل کو حکیم(جمع حکما )کہتے ہیں۔ دوسرا لفظ حُکم ہے ،جس کے معنی فیصلہ کرنا (اور حکم دینا)ہیں ،اور فیصلہ کرنے والے کو حَکَم کہتے ہیں۔اس فیصلے میں بھی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس مادے سے تیسرا لفظ حکومت ہے ،جس کاحامل حاکم(جمع حکام)ہوتا ہے۔اس حاکم کے لیے بھی دانائی اور فیصلہ کرنا ناگزیر ہیں۔
حکمت: لغوی و اصطلاحی معنی
اس کے علاوہ لغات میں یہ الفاظ بھی دیے گئے ہیں:علم،فلسفہ اور کلام، استدلال،بردباری اور حوصلہ،عدل و انصاف،علاج۔
علم اور حکمت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ علم جاننا ہے ،اور حکمت علم سے آگے کا مرحلہ ہے۔علم کا استعمال صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، لیکن حکمت علم کو صحیح استعمال کرنے کا نام ہے۔
حکمت کے لغوی اور اصطلاحی معنی دیکھتے ہوئے اور اس لفظ کے متعلق تفصیلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے،ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکمت ایک جامع صفت ہے،جو کئی صفات کا مجموعہ ہے ۔ ان صفات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
۱-صحیح سمجھ اور فھم:معاملہ فہمی، مردم شناسی، واقعات کو سمجھنا، صورتِ حال کو سمجھنا، مسلّمہ امور؍اصول میں پوشیدہ حکمت کو سمجھنا۔
۲- درست فھم کے لوازمات:کثرتِ علم، مشاہدہ، نتیجہ اخذ کرنا۔ مشاہدات اور تجربات سے استنباط۔ قوتِ حافظہ،غور و فکر، تدبر، تفقہ، تحمل،برداشت اوربردباری۔ اپنے جذبات پر قابو، وسعتِ قلب و نظر اور اپنے علم کا اطلاق کرنا۔
۳- صحیح فھم کے اجزا: باریک بینی (معاملے کی گہرائی پر نظر)، بصیرت (معاملے کے پوشیدہ پہلوئوں تک پہنچ جانا)، اندرونِ معاملہ یا تمام مثبت و منفی پہلوؤں پر نظر ، بیرونِ معاملہ یاتمام متعلقہ دائروں پر نظر ، معاملے کو جامع تناظر میں دیکھنا، مختلف رخ سے یا کسی دوسرے کی نظر سے یا معروضی نظر سے دیکھنا، دُوربینی(کوئی معاملہ آگے جاکر کہاں منتج ہو سکتا ہے؟)، پیش بینی، آگے کیا ہونے والا ہے؟(انسان کے پاس علمِ غیب نہیں ، لیکن کڑیاں جوڑکر اندازہ لگانے کی صلاحیت ہے)۔
۴- راے قائم کرنے کی صلاحیت:صاحب الراے ہونا(گومگو کی حالت میں نہ رہنا)، راے مضبوط ہونا(بے جا اصرار نہ ہولیکن راے پر دلائل کے ساتھ قائم ہو)، صائب الراے ہونا یا اصابتِ راے کی صفت ہونا، مختلف پہلوئوں میں توازن ملحوظ رکھ کر(حکمت کا لغوی مطلب عدل بھی ہے)،ہرچیز کو اس کا صحیح مقام دے کر،ہر چیز کی صحیح قدر کا تعین کر کے، نتائج اور اسباب اور مقاصد کے ادراک کے ساتھ، دلیل سے راے پر پہنچنایا قوتِ استدلال ہونا(حکمت کے لغوی معنی فلسفہ اور استدلال بھی ہیں)۔اس راے کو بنانے میں: حالات کے مطابق ڈھلناآتاہو (اصول بھی برقرار رہیں)، جذبات پر قابو ہواور ردِّعمل جذباتی نہ ہو(جذبات کا لحاظ بھی رہے)، حزم و احتیاط ہو (پیش قدمی بھی ہو)۔ صحیح کو صحیح سمجھنا اور غلط کو غلط سمجھنا،دو صحیح آرا میں سے صحیح تر کو ترجیح دینا،صحیح اور غلط اگر خلط ملط ہوں تو چھانٹ کر صحیح راے بنانا اور امتیازی حد کو پہچان جاناخواہ وہ نظریے میں ہو یا کلام میں یا عمل میں۔
۵- قوتِ فیصلہ:حدیث کے مطابق قابلِ رشک ہے وہ شخص جسے حکمت دی گئی اور وہ اس سے فیصلے کرتا اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ قوتِ فیصلہ کے ضمن میں درج ذیل اُمور اہم ہیں:
(ا)کیا کام صحیح ہے؟ اس نتیجے پر پہنچنا، کئی کاموں میں سے ترجیح کس کو دینا ہے؟ جگہ، وقت، انسانوں، مضمرات کے لحاظ سے،اہم اور کم اہم اور غیر اہم کام کون سے ہیں؟اہم میں سے فوری کام کون سے ہیں؟، کام کا احسن طریقہ کیا ہے؟ منصوبہ بنانا۔ وسائل و استعداد اور مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے، مقصود کی طرف پیش قدمی اور غیر مطلوب و لا یعنی کو الگ کرنا۔ سارے کاموں کا آپس میں اعتدال و توازن رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا کہ کسی صحیح کام کے لیے صحیح وقت کون سا ہے؟
(ب) اس وقت کے لیے کون سا کام صحیح ہے؟کسی بھی درپیش صورتِ حال میں، مسائل کا حل نکال لینااور راستہ بنالینا(حکمت کا لغوی مطلب ’حوصلہ‘ بھی ہے)۔ اصول بدلے بغیرحالات کے لحاظ سے تدبیر کرلینا ، لکیر کا فقیر نہ ہونا۔کئی تدابیراور کئی راستوں پر نظر ہونا، کئی راستوں میں سے مناسب ترین راستہ یا حل چننا۔
(ج)موقع شناسی،کوئی کام بے موقع نہ کرنا،اور موقع ہو تو اسے ضائع نہ کرنا۔
(د) منفی عوامل کا رخ ممکنہ حد تک اپنے حق میں کرنا، مشکلات کو آگے بڑھنے کا ذریعہ بنانا۔
(ہ) فیصلے کا مضبوط ہونا،تلون مزاجی نہ ہونا (ایک دفعہ سوچ کر سو دفعہ فیصلے نہ کرنا بلکہ سو دفعہ سوچ کر ایک دفعہ فیصلہ کرنا)۔
(و)کس انسان سے کس طرح معاملہ کرنا ہے؟کس وقت کون سی بات ،کس طرح کرنا ہے؟ ہمیشہ صحیح اور نافع بات کرنا۔مختصر گفتگو میں سارے نکات کو سمیٹنا۔
حکمت کن ہستیوں میں پائی جاتی ہے؟ اس کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے:
اس کائنات کی وہ ہستی جو ہر تعریف اور کمال کی مرجع و منبع ہے ، اس میں حکمت بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔اس کی یہ صفت ’حکیم‘ قرآن میں۹۴جگہ آئی ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا ’حکمت کی ذیلی صفات یا اجزا ‘ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہی کامل درجے میں موجود ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا اطلاق صرف انسان پر ہوتا ہے۔علم اور حکمت میں یہ فرق ہے کہ علم حاصل کیا جاتا ہے، جب کہ حکمت خداداد ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمہ پہلو حکمت عطاکی گئی (النساء ۴:۱۱۳،بنی اسرائیل ۱۷:۳۹)۔تمام انبیاے کرام ؑ حکمت سے متصف تھے۔(اٰل عمرٰن ۳:۸۱ )۔جن نبیوں کے ساتھ خصوصاً حکمت کا ذکر ہے،وہ درج ذیل ہیں (ابراہیم ۱۴:۳۶-۴۱،حضرت داود ؑ: (البقرہ ۲:۲۵۱)۔ حضرت عیسٰی ؑ (اٰل عمرٰن۳:۴۸،المائدہ ۵:۱۱۰،زخرف ۴۳:۶۳)
اس کے علاوہ مختلف انبیا کو’حکم‘ عطا ہونے کا ذکر ہوا ہے،جس سے مراد مفسرین نے حکمت ہی لی ہے۔لقمان کی حکمت ضرب المثل ہے،جس کا قرآن میں بھی ذکر ہے (لقمٰن، ۳۱:۱۲-۱۹)۔صحابہ کرامؓ میں سے بھی بہت سے،حکمت میں ممتاز ہیں۔حضرت ابوبکرؓ نے منکرینِ زکوٰۃ کے متعلق دین کے منشا کو باقی صحابہ سے بہتر سمجھ لیا تھا۔ حضرت عمرؓبہت سے معاملات میں وحی کے نزول سے پہلے دین کا منشا سمجھ جاتے تھے۔مثلاً شراب کی حرمت،پردے کا حکم،اذان کا طریقہ، قیدیوں کی سزا اور منافقوں کی نمازِجنازہ کے متعلق احکامات۔
حکمت و دانائی کی باتوں کو بھی حکمت کاہی نام دیا جاتاہے۔
اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب قرآنِ کریم حکمت سے بھرپور ہے، جس کی یہ صفت بیان ہوئی ہے:
الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ (یٰٓس۳۶:۲)، الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ (یونس۱۰:۱، لقمان۱۳:۱)، الذِّکْرِ الْحَکِیْمِ (اٰل عمرٰن۳:۵۸)۔
اس کتاب کی ترتیب،اس کی زبان کی فصاحت اور اس کے مضامین ،سب میں حکمت موجودہے۔
اسی طرح قرآن میں چار جگہ رسولؐ کے چار فرائضِ منصبی بتائے گئے ہیں (البقرہ ۲: ۱۲۹، ۱۵۱، اٰل عمرٰن۳:۱۶۴،جمعہ۶۲:۲)۔ یہ چار فرائضِ منصبی ہیں: تلاوتِ آیات،تزکیہ،تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت۔ علما نے حکمت کی تعلیم کے الگ ذکر سے مراد ’حدیث‘کی تعلیم کو لیا ہے،اور حکمت کو حدیث یا سنت کا ہم معنی قرار دیا ہے۔پھر دین کی ساری تعلیمات حکمت ہیں۔(بنی اسرائیل ۱۷:۳۸)، زبور حکمت ہے (بقرہ، صٓ)، انجیل حکمت ہے۔(زخرف )
سورئہ قمر میں عبرت کے واقعات کے بعد ’حکمۃ بالغۃ‘کہا گیا ہے،جس سے مراد یہ ہے کہ ان واقعات میں سبق پوشیدہ ہے اور یہ صحیح اور صاف بات حکمت ہے۔اور بالغہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایسی بات جو دل تک پہنچنے والی ہو۔
واضح تعلیمات اور علم کے بعدحکمت ہر انسان کے فہم کا نام ہے،جو علما و مفسرین کے مختلف الفاظ میں یہ ہے: تفقہ فی الدین،دین کی معرفت؍سمجھ بوجھ، حق و باطل؍خیر و شر میں تمیز و فیصلہ، قرآن کا فہم، رسولؐ کے دیے گئے احکام؍ سنت ِ نبویؐکا علم، معرفت، قولِ صادق، فہمِ علم، اصابت ِ راے، قوتِ فیصلہ، اس علم پرعمل اور عملِ صالح۔ ان سب کی مراد ایک ہی ہے، یعنی دین کا فہم اور عمل۔
لفظ ’حکمت‘ جب حق تعالیٰ کے لیے استعمال کیا جائے تو معنی تمام اشیا کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں، اور جب غیراللہ کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے تو موجودات کی صحیح معرفت اور اس کے مطابق عمل مراد ہوتا ہے۔(مفردات القرآن)
انسانوں کی حکمت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ انسان یہ سمجھ جائے کہ اس کی یہ زندگی جو اسے ظاہری آنکھوں سے نظر آرہی ہے،اس کی اصل زندگی کا محض ایک جزو ہے۔سب سے بڑی ہوشیاری اور عقل مندی یہ ہے کہ وہ کل کے لیے ذخیرہ کر لے،مختصر زندگی سے طویل زندگی کی خوش حالی کا بندوبست کرلے۔اِس زندگی کے لیے لامتناہی زندگی کو خراب کرلینے سے بڑھ کر کوئی بے وقوفی نہیں۔ دنیا اور آخرت کی حقیقت پہچاننے سے بڑی کوئی حکمت نہیں۔ اس لیے ہر خیر پر عمل اور ہر برائی سے بچنا حکمت ہے۔
ایمان باللہ اور حکمت کابراہِ راست تعلق ہے جو درج ذیل نکات سے معلوم ہوتا ہے:
۱- بعض علما نے کہا ہے کہ معرفت باللہ ہی حکمت ہے۔یہ حکمت ہی ہے کہ اس کائنات کا مشاہدہ کر کے،غور و فکر کر کے،یہ استنباط کیا جائے کہ یہ نظام خود بخود نہیں چل سکتا اور نہ بہت سے خدا اسے چلا سکتے ہیں۔اور اس طرح غیب کے پردے کے پار ، حقائق تک پہنچا جائے۔
۲- راس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ (ابوداؤد) اللہ کا خوف،حکمت کی چوٹی ہے۔
۳-اللہ کے شکر کی اساس بھی حکمت ہے،جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے‘‘۔(لقمٰن ۳۱:۱۲)
دوسرے الفاظ میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ،یا اسلام کے دائرے میں داخل ہونا سب سے بڑی حکمت ہے۔ پھر یہی حکمت قدم قدم پر حق اور باطل کو الگ الگ کرکے دکھاتی ہے۔ یہ حکمت دنیا کے عیوب اور اس کی بیماریاں کھول کے دکھادیتی ہے ، اور پھر اس کے علاج کے طریقے بھی واضح کرتی ہے۔ اور یہی حکمت زبان پر اور عمل میں جاری ہو جاتی ہے۔
اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد بھی حکمت کابہت بڑاکردارہے۔
۷- حکمتِ انقلاب: رسولؐ اللہ کا مشن اپنانے والی اسلامی تحریکوں کو اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کے لیے حکمت ِ تحریک اپنانا چاہیے، مثلاً کس مرحلے پر،کس محاذ پر کس کام کی ضرورت ہے؟ہر معاملے میں متوازن حکمتِ عملی کیا ہو؟ مکمل کام کیا ہے اور کس میدان میں کیا ترجیحات ہیں ؟ حالات، جگہ اور وقت کے لحاظ سے ان میں کسی تبدیلی کا امکان یا جواز ہے؟بنیادی نظریے کے مطابق کون سے اصول ہیں جو ناقابلِ تغیر ہیں؟ دین کا مکمل نظام اوراس میں احکام کی حکمت کیا ہے اور اس لحاظ سے کیا تدریج ہو سکتی ہے؟ مختلف مواقع پر دین کو کس طرح پیش کرنا چاہیے؟
انقلاب کی جد و جہد میں کسی بھی کام یا پیش قدمی کے لیے کون سا موقع مناسب ہے؟ اور کوئی موقع موجود ہو تو اس کی پہچان میں غفلت یا غلطی کیے بغیر زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھایا جائے؟
اپنی قوت ِکار اور وسائل کی صحیح صورتِ حال اور ان میں اضافے کی تدابیر کیا ہیں؟ کسی خاص کام کے لیے کون سے وسائل اور طریقِ کار مناسب ہے؟کس کام کے لیے کتنی قوتِ کار اور کتنے فی صد وسائل کاارتکاز چاہیے؟ضرورت پڑنے پر کم سے کم وقت میں وسائل اور قوت کیسے مہیا کی جائے؟
کسی مزاحمت کا پسِ منظر کیا ہے اورکس مزاحمت کا کس جگہ، کس وقت، کس طرح سامنا کرنا ہے؟کس مزاحمت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ،اپنا راستہ نکالناہے؟
متوازن اور مؤثر نظامِ جماعت کیسے ترتیب دیا جائے ؟اجتماعی وقت اور وسائل کو ضیاع سے بچاتے ہوئے، تمام افراد کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کیسے کیا جائے؟
سیّد مودودیؒ کے مطابق: دنیا میں جو نظام غالب ہیں،ان کے چلانے والے اپنے دائرے میں بہترین عقلی و علمی طاقتیں رکھتے ہیں۔ان کے مقابلے میں اسلامی نظام لانے اور پھربرقرار رکھنے کے لیے گہری بصیرت، تدبر، دانش مندی، معاملہ فہمی، موقع شناسی، باتدبیر ہونا، مسائل سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت کو انھوں نے حکمت کا جامع نام دیا ہے۔اور لکھا ہے کہ اس کا اطلاق دانائی و زیرکی کے مختلف مظاہر پر ہوتا ہے۔
مختلف دنیوی معاملات میں حکمت کا ظہور ہوتا ہے،یا اس کی ضرورت ہوتی ہے،مثلاً: mگھریلو امور mملازمت و پیشہ ورانہ امور mکسی تنظیم کو چلانے mکسی مقصد کو آگے بڑھانے mحکومتی معاملات چلانے mانسانوں کو آگے بڑھانے کے لیے___ بچوں یا بڑوں کو،،، نظریاتی، عملی ،مہاراتی اور پیشہ ورانہ تربیت mکسی علم یا فن کی گہرائیوں کو سمجھنے کے لیے۔
انھی چھوٹے دائروں کے اندر حکمت ِ عملی اور کچھ طریقے ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوذ نہیں ہوتے ،بلکہ انسان نے اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ عقل اور تجربے سے انھیں اخذ کیا ہوتا ہے۔انھیں اپنانے میں مومن کاکیا رویہ ہونا چاہیے؟ اگر یہ حکمت اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں ،تو اسے اپنانے میں مومن کو نہیں ہچکچانا چاہیے،کیونکہ ’’حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں اس کو پائے، وہ اس کا زیادہ حق دار ہے‘‘ (ابن ماجہ،ترمذی)۔ وہ حکمت اسلام کا ہی حصہ ہے۔
ان امور میں ایک اور ،بڑا نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ سب سے بڑی حکمت اللہ پر ایمان اور آخرت کی تیاری ہے۔اگر مندرجہ بالا دائرے اس بڑے دائرے کے اندر ہوں تو ان میں حکمت، اسی بڑی حکمت کا حصہ ہو گی، اور اگر ان کا مطمحِ نظر صرف یہ دنیا ہو ، تو ان میں حکمت محدود ہو جائے گی۔اسی طرح جیسے کہ ایک مومن اور غیر مومن کی حکمت میں فرق ہوتا ہے۔
یہ سوال کہ اللہ اور آخرت کو نہ ماننے والوں میں حکمت ہوتی ہے یا نہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ دینی اصطلاح میں تو حکمت نہیں ہوتی لیکن دنیوی معاملات کی سمجھ ہو سکتی ہے، اور یہ سمجھ بھی محدود ہوتی ہے۔اسے ہم محدود حکمت یا حکمت کا جزو کہہ سکتے ہیں۔
۱-اسلام وہ دین ہے جس میں زندگی کے دائرے الگ الگ نہیں ،بلکہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور سب کاموں کی آخری نیت ایک ہی ہوتی ہے۔ اس لیے کسی ایک معاملے یا دائرے میں مومن کی حکمت، اس معاملے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔
۲- مومن کی حکمت یک رُخی نہیں بلکہ زندگی کے ہر دائرے میں ہوتی ہے اورمقصدِحقیقی کو مضبوط کرتی ہے۔ اس طرح مختلف دائروں میں حکمت مختلف اور متصادم نہیں ہوتی۔
۳-چونکہ حکمت کی چوٹی ،اللہ کا خوف ہے(ابوداؤد)،اور اللہ کا خوف، باقی ہر قسم کے خوف سے آزاد کر دیتا ہے، اس لیے مومن دنیوی خوف اور ہرقسم کے دبائو سے آزاد ہوکر راے بناسکتا ہے، عمل کر سکتا ہے۔اس طرح اس کا ذہن کھلا رہتا ہے جو حکمت کی نشانی ہے۔صحیح اور غلط کو الگ کرنے کی صلاحیت، حکمت کا ایک پہلوہے۔
اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا(الانفال۸:۲۹)اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔
۴-اسلام کل کے لیے تیاری اور اس تیاری کے لیے موجودہ حالت کو غنیمت جاننے کی سوچ اور فکر دیتا ہے۔ اس لیے مومن میں پیش بینی کی حکمت پائی جاتی ہے۔
۵- مومن کے سامنے عمل کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اگلی سے اگلی منزل اس کے سامنے ہوتی ہے۔ یہ وسعت ِنظری بھی اس کی حکمت کو بڑھاتی ہے۔
۶-مومن جغرافیائی، نسلی حدبندیوں کو قبول کرتے ہوئے بھی ان سے بہت اوپر اٹھ کر سوچتا ہے۔ یہ بھی اس کی وسعتِ نظری کا سبب ہے۔
۷-قرآن میں جگہ جگہ غور وفکر، تدبر، تفقہ کی ترغیب ملتی ہے۔ اس غور و فکر کی اگلی منزل حکمت ہی ہوتی ہے۔
۸-قرآن آیاتِ انفس و آفاق کے مشاہدے کی دعوت دیتا ہے۔اس سے مومن کی قوتِ مشاہدہ اور اس سے استنباط کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، جو حکمت کی طرف لے جانے والی قوت ہے۔
۹-اسلام ہی مومن کو یہ علم دیتا ہے کہ کچھ اصول غیرمتزلزل ہوتے ہیں اور پھر ان کے بعد حلال، مباحات یا لچک کا کھلا میدان ہے۔ اس لچک کو ختم کرنے کا اختیاربھی انسان کے پاس نہیں۔ حدود کے اندر رہتے ہوئے ، مختلف راستوں کو استعمال کرنے میں مومن کا جمود اور سختی ختم ہوجاتی ہے۔ نئے راستے کو اختیار کرنے کا نام بھی حکمت ہے۔
۱۰- اسلام ضبطِ نفس سکھاتا ہے___ صبروتحمل کے فضائل بتاکر ، عبادات کے نظام میں کس کر اور ہر قدم پر قربانی کا راستہ دکھا کر۔ ضبطِ نفس کی وجہ سے مومن کی معروضی سوچ اور حکمت میں اضافہ ہوتا ہے۔
۱۱-اس کے پاس انسانی سطح سے اُٹھ کروحی کی رہنمائی موجود ہے۔اس کی حکمت کتابِ الٰہی اور حکمت ِانبیا سے روشنی پاتی ہے۔ قرآن وحدیث ہر مرحلے پراس کے لیے نئے دریچے وَا کرتے ہیں۔
۱۲-مومن حکمت کی تعلیم بھی دیتا ہے جو خود اس کی حکمت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
۱۳- سب سے بڑھ کریہ کہ مومن کے ساتھ اللہ ہے جو ہرمرحلے پر خودمومن کا ہاتھ اور آنکھ بن کر اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے حکمت کی راہ سجھاتا ہے۔
’’جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی اور کم سُخنی عطا ہوئی ہے، تو اس کی صحبت میں رہا کرو، کیونکہ ایسے بندے پر حکمت کا القا ہوتا ہے‘‘۔ (بیہقی)
خاموشی کے وقفوں کو، یکسوئی اور ارتکاز کے ساتھ، غور و فکرکے لیے استعمال کریں۔
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ o وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ o وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ o یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ (طٰہٰ ۲۰:۲۵)، پروردگار! میرا سینہ کھول دے، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ ، اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما، اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عنایت فرما۔
رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ (الشعراء ۲۶:۸۳) اے میرے رب، مجھے حکم عطا کر اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ ملا۔
وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا (البقرہ ۲:۲۶۹) اور جس کو حکمت دی گئی،اسے خیر کثیر دی گئی۔
سب سے بڑی حکمت
اسلام میں داخل ہونا، ایمان
ہرقدم پہ باطل کی پہچان،
صحیح راستے کی وضاحت
حکمت ِ تخلیق
حکمت ِ شرع غور کرنا
حکمت ِ تفقہ
اسلامی حکمت ِ تبلیغ حکمت ِ جہاد حکمت ِ انقلاب
احکام میں
۱- اسلامی تعلیمات سے حکمت اخذ کرنا
۲- جدید علوم و حکمت سے استفادہ
دنیوی حکمت ِ پیشہ ورانہ حکمت ِ
اُمور میں اُمور معاملات
ڈاکٹر صلاح سلطان معروف عالم دین، نام وَر مصنف و داعی اور دبنگ مقرر ہیں۔ وہ ۲۰؍اگست ۱۹۵۹ء کو مصر میں پیدا ہوئے۔ مختلف موضوعات پر اب تک ان کی ۶۰ سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مسلم دنیا میں اہلِ علم کی قدردانی ملاحظہ کیجیے کہ مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد سے وہ اور ان کا نوجوان بیٹا جنرل سیسی کی قید میں ہیں۔
ڈاکٹرصلاح سلطان کا بنیادی تخصص اسلامی قانون ہے۔ وہ مصر، سعودیہ اور بحرین کی کئی اہم یونی ورسٹیوں میں تدریسی اور انتظامی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ مختلف اداروں، اسلامی اور علمی تنظیموں میں بڑے عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ متعدد ٹی وی چینلوں پر دعوتی اور اصلاحی پروگرامات کرچکے ہیں۔ بحرین میں وزارتِ مذہبی اُمور کی اعلیٰ کمیٹی کے مشیر اور مکہ مکرمہ اوپن یونی ورسٹی کے اسلامک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ اسی طرح قاہرہ یونی ورسٹی اور بحرین یونی ورسٹی میں بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ اوپن یونی ورسٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے رکن بھی رہے ہیں۔ رابطہ علما جرمنی اور عالمی اتحاد علماء المسلمین کے رکن اور عالمی اتحاد علما کی فلسطین کمیٹی کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی اسیری کا ایک سال پورا ہونے پر ایک تفصیلی خط لکھا ہے۔ ایک ربانی عالم دین، جہد پیہم کا خوگر مخلص کارکن کیسا ہوتا ہے، یہ خط اس کا ایک پرتو ہے۔(ادارہ)
وَ مَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَ قَدْ ھَدٰنَا سُبُلَنَا ط وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰی مَآ اٰذَیْتُمُوْنَا ط وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ (ابراہیم ۱۴:۱۲) اور ہم اللہ پر بھروسا کیوں نہ کریں، اس نے تو ہمیں ہمارے راستے دکھائے، تم ہمیں جو بھی تکلیف دو، ہم تو صبر سے جمے رہیں گے، اور بھروسا کرنے والوں کو صرف اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔
زندگی کے بہت سارے ماہ و سال مہربان رب کے فضل و کرم کے سایے میں گزارے، اور آج لیمان اور عقرب کی جیلوں میں ایک سال مکمل ہوا۔ یہ ایک سال جو زنداں کی دیواروں اور سلاخوں کے درمیان گزرا، بہت ساری محرومیوں کا احساس دلاتا رہا۔ مسجدوں سے محرومی کہ جہاں میں نماز پڑھتا، خطبے اور درس دیتا اور اعتکاف کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا۔ سفر کی آزادی سے محرومی کہ دیس دیس جاکر دعوت کا فرض انجام دینا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ بیوی اوراولاد سے محرومی جو میرے دل کے ٹکڑے اور جگرپارے ہیں۔ رشتہ داروں اور قرابت داروں سے محرومی کہ جن سے قوت اور مدد ملتی۔ ذہین، پاک باز اور باصفا شاگردوں سے محرومی کہ جن سے مل کر لگتا کہ بڑی دولت ہاتھ آگئی۔ اہلِ علم سے محرومی کہ جن کے سامنے بیٹھ کر لگتا کہ گویا پھولوں اور پھلوں سے لدے باغوں میں پہنچ گئے۔ صدق و صفا کے پیکر دوستوں سے محرومی کہ جن کو چاہا تو اللہ کی محبت میں چاہا، اور جن سے ملاقات پر لگتا کہ دل کی ہر پریشانی دُور ہوگئی۔ آسمان کی فضائوں میں پرواز کرنے والی، سرسبز و شاداب درختوں کے جمال میں کھو جانے والی، دریا اور سمندر کے صاف و شفاف پانی پر چلنے کا لطف لینے والی نگاہ سے محرومی کہ جیل کی کوٹھڑی میں یہ سب کہاں میسر۔ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے اور کسی بیمار کی مزاج پُرسی کے موقعوں سے محرومی۔
جب مَیں جیلروں کی دسترس میں پہنچا، جن کے دل رحم اور ہمدردی سے خالی تھے، تو سب سے پہلے میں نے اپنے رب کے حضور قسم کھائی کہ مَیں اپنے سارے گناہوں اور ساری غلطیوں سے سچی توبہ کروں گا، اور اس طرح نفس کو پہلے پاک کروں گا پھر اسے خوبیوں سے آراستہ کرنے کی مہم چھیڑوں گا۔ جب مجھے لیمان کی قیدتنہائی میں رکھا گیا تو میں نے اس دور کو یہ عنوان دیا کہ ’’لیمان میں رحمن کا عرفان حاصل ہوا‘‘ اور جب عقرب کے جیل میں منتقل کیاگیا، تو مَیں نے اسے یہ عنوان دیا کہ’’عقرب میں ہم اللہ سے اقرب (زیادہ قریب) ہوگئے‘‘۔ اللہ سے قریب تر ہونے کے لیے شاہِ کلید تو قرآنِ مجید ہے۔ پس مَیں نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے اجازت لی کہ مَیں پہلے نماز کی حالت میں قرآنِ مجید ختم کروں گا، تاکہ شیطان یہاں سے راہِ فرار اختیار کرلے، اور اس تنگ کوٹھڑی میں وسعت اور میرے سینے میں کشادگی پیدا ہوجائے۔ پھر مَیں نے طے کیا کہ عام رفتار کے بجاے، فَفِروا الی اللّٰہ والی برق رفتاری سے سلوک کی منزلیں طے کر کے مہربان رب کے قریب پہنچوں گا۔ پس میں دوڑ پڑا، پوری قوت سے دوڑنے لگا، اللہ کی خوشنودی اور جنت کی کامیابی کے قریب، اور میں پوری قوت سے بھاگنے لگا، اللہ کی ناراضی اور جہنم کی آگ سے دُور۔ میں نے اپنے رات اور دن عبادت و انابت، اور تعلیم وتحریر میں مصروف کردیے۔
بس پھر کیا تھا، جسے لوگ مصیبت کہتے ہیں وہ نعمت ثابت ہوئی، جسے لوگ تنگی سمجھتے ہیں وہ فراخی لگنے لگی، اور جو محرومی نظر آتی تھی وہ برومندی [بارآوری] بن گئی۔ قرآنِ مجید کی اُمیدافزا آیتوں کے سایے میں میرے شب و روز گزرنے لگے، جیسے ’’میرا دوست تو اللہ ہے،جس نے کتاب نازل کی، اور وہ صالحین کو دوست بناتا ہے‘‘(اعراف ۷:۱۹۶)۔ ’’وہ ہمارا کارساز دوست ہے، اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسا کرنا ہے‘‘ (التوبہ ۹:۵۱)۔ ’’پھر اللہ نے ان پرسکینت نازل کی اور جلدحاصل ہونے والی فتح سے نوازا‘‘ (الفتح۴۸:۱۸)۔’’اللہ مشکل کے بعد آسانی پیدا کردے گا‘‘۔ (طلاق۶۵:۷)
میرے قلب و وجدان میں اعلیٰ و ارفع معانی گھر کرنے لگے، جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مومن کا معاملہ بھی خوب ہے کہ ہرحال میں وہ خیر سے مالا مال رہتا ہے۔ یہ خوبی کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ جب اسے خوش حالی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے باعث ِ خیر ہوتا ہے، اور اگر اسے تنگی لاحق ہوتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے خیر کا سامان ہوتا ہے۔ حکیم ابن عطا کا یہ جملہ کہ ’’جو اللہ کے انعام و اِکرام کے باوجود اللہ سے غفلت برتتا ہے، اسے آزمایش کی زنجیروں میں باندھ کر اس کے پاس لایا جاتا ہے‘‘۔
جیل میں میرے رب نے مجھے بتایا کہ صبرجمیل اور قناعت ورضا کی منزلیں کیسے طے کرتے ہیں اور مَیں نے بھی کمرکس لی، اور اللہ کے فضل سے تزکیے کی راہ میں کچھ اس طرح پیش قدمی ہوئی: قید کے اس سال میں اللہ کے فضل سے نماز کی حالت میں ۱۰۰ سے زیادہ مرتبہ قرآنِ مجید ختم کیا، وہ بھی اس طرح کہ تلاوت کے دوران دماغ تدبر میں مصروف، دل اثر قبول کرنے کے لیے آمادہ اور شخصیت تعمیر کے لیے تیار۔ اس ایک سال میں مجھ پر قرآنِ مجید کے وہ معانی آشکارا ہوئے جو پچھلے چھے سال سے زیادہ تھے۔ اسی سال بخاری کی روایت کی اجازت مجھے حاصل ہوئی جو میری قدیم تمنا تھی اور اللہ نے جیل میں پوری کی۔
اس سال جیل کے اندر میں نے تفسیر،فقہ، اصولِ فقہ، لغت،ادب، شعری دیوان، تاریخ اور فلسفے میں اتنا پڑھا کہ کبھی پانچ برس میں نہیں پڑھا تھا۔ اس سال جیل کے اندر میں نے قرآنِ مجید کی حکمت عملی، تفسیر کے طریقے، ایمان، اخلاق اورفقہ کے قواعد، اور فتویٰ و تربیت کے موضوعات پر کافی کچھ لکھ لیا۔ ساتھ ہی دنیا کے مختلف ملکوں میں پیش آنے والے ۵۰دعوتی واقعات کو تحریر کیا۔ اس مشغلے نے مجھے جیل کے اندر اپنے رب کے ساتھ خلوت کی خوب صورت ترین ساعتیں عطا کیں۔ اس سال جیل میں میرا ایسے مردوں اور نوجوانوں سے تعارف ہوا، جو اخلاق و کردار، سوز و انابت، عجزوانکساری اور علم و بصیرت کے پہاڑ ثابت ہوئے۔ رب ارض و سما کے ساتھ خلوت ایک جنت تھی تو اس کے بعد ان سے ملنا اور ان کی رفاقت میں بلندیوں کو چھونا ایک دوسری جنت تھی۔ میں اپنے بیوی بچوں اور بھائیوں سے پہلے ہی بہت محبت کرتا تھا، جو اس ایک سال میں کئی گنا بڑھ گئی۔ جب میں نے دیکھا کہ انھیں میری اور میرے بیٹے محمد کی شدید ضرورت تھی۔ بیماریوں نے ان کا امتحان بھی لیا، مگر وہ صبرواستقامت کی تصویر بنے رہے۔ مَیں نے اپنے بھائیوں اور خاندان والوں میں اس آزمایش کے دوران وہ بلند کردار دیکھا کہ جو قابلِ تعریف وستایش ہے، اور جس پراللہ کا بے پناہ شکر ادا کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آزمایش کے دوران صلہ بھی بہت دیا۔ میری بیوی کی صحت پہلے سے بہتر ہوگئی۔ میری بیٹی حنا کو اللہ نے امین کے بعد دوسرا بیٹا الیاس دیا، میرے تیسرے بیٹے انجینیرخالد کی شادی ہوگئی۔ میرے چوتھے بیٹے عمر کو پولیٹیکل سائنس میں امریکا کی سب سے اچھی یونی ورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ میری سب سے چھوٹی بیٹی بشریٰ کی منگنی اور پھر شادی ہوگئی۔ میرے بھتیجے حمزہ عزوز کو جیل سے رہائی ملی، اللہ نے اس کے بھائی محمد کو غنڈوں کے ہاتھوں موت سے بچایا، اور میری بھانجی حنا نے انٹرمیڈیٹ میں پورے ملک کی سطح پر پوزیشن حاصل کی اور میرے خاندان میں حفاظ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
اس سال ایسے ایسے لوگوں نے مجھ سے آکر ملاقات کی اور خطوط لکھے جو ظلم کے اندھیرے میں روشنی کا مینار ہیں اور جن کے دل شجاعت اور وفا کانشان ہیں۔
جیل میں اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ شخصیت عطا کی جو مظلوم ساتھیوں کے لیے اس طرح نرم ہے کہ گویا مَیں ان کا مشفق باپ اور جگری دوست ہوں، اور ظالموں کے لیے اتنی سخت ہے، جیسے تیزدھاری تلوار۔ میں نے اللہ سے باربار دُعا کی کہ وہ ان سارے ظالموں کو ان کے ظلم کا مزا چکھائے۔ قید ہوتے ہی مَیں نے اللہ سے نذر مانی کہ جب تک رہا نہیں ہوجاتا، ہر دن روزہ رکھوں گا، اس اُمید پر کہ روزہ دار کی جو افطار اور سحری کے وقت دعائوں کی قبولیت کی ساعت ہوتی ہے،وہ ساعت مجھے ہر روز ملے، اور میں ان ساعتوں میں خاص طور سے ظالموں کے لیے بُرے انجام کی، اور صالحین کے لیے استقامت اور سرخ روئی کی دُعا کروں۔
جیل میں ہرشب سونے سے پہلے اللہ سے دعا مانگنا، کہ مجھے جیل میں بند کرنے والے ظالم نے جن لذتوں کو مجھ سے چھینا ہے، وہ مجھے خواب میں حاصل ہوجائیں۔ اللہ کی قسم جیل سے باہر مجھے جو کچھ حاصل تھا،وہ مجھے نیند کی حالت میں حاصل ہوتا رہا۔ مسجدوں میں نمازیں، مشرق سے لے کر مغرب تک دینی مراکز کے سفر، اجتماعات اور کانفرنسیں، تربیت و تزکیے کے کیمپ، علمِ شریعت کے ورکشاپ، یورپ، امریکا، جاپان، پاکستان، ہندستان، ازبکستان اور دیارِ عرب، غرض پوری دنیا کے دعوتی دورے، یہاں تک کہ مجھے جو پانی اور سبزہ سے عشق ہے، اللہ نے اس سے بھی محروم نہ رکھا۔
اس سال میں نے اپنی جسمانی صحت کا بھی خوب خیال کیا، اور اللہ کے فضل سے ورزش کا ایسا عمدہ پروگرام اپنے اُوپر نافذ کیا جس کو نوجوان بھی انجام نہیں دے سکتے۔ جیل میں ڈالنے والوں نے مجھے ایک سخت آزمایش کی آگ میں جلانا چاہا، لیکن مجھے آگ کی تپش کے بجاے صبرجمیل کے نور کا کیف حاصل ہوا۔ انھوں نے میرے بڑے بیٹے اور گہرے دوست محمد کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا اور کئی مہینوں تک مجھ سے ملنے نہیں دیا۔ ظالموں کے ظلم کے خلاف طاقت ور احتجاج کرتے ہوئے میرے بیٹے نے بھوک ہڑتال کی اور آج اسے ۲۴۰ دن ہوگئے۔ اس کا تنومند جسم ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگیا ہے۔ اس جوان نے اتنی لمبی بھوک ہڑتال کرکے اپنی قوتِ ارادی سے سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ میں کئی بار اس کے منہ اور ناک کے پاس اپنا کان رکھ کر سننے کی کوشش کرتا ہوں، آیا زندگی کی کچھ رمق باقی ہے لیکن اب بھی اس کے پاس سے قرآن کی تلاوت اور دعائیں سنائی دیتی ہیں۔ میں اس کے پاس ہوتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم زمین پر نہیں آسمان کی کسی منزل پر ہیں اور جب اس منزل سے اُتر کر نیچے آتا ہوں تو منہ میں جانے والا ہرلقمہ تلخ لگتا ہے۔ جس کے جگر کا ٹکڑا مہینوں سے بھوکا ہو، وہ تو کھانا نہیں کھاتا ہے بلکہ ہرکھانے کے وقت غم کی شدت سے ایک موت مرتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے ارادے جوان اور جوان ہوتے جارہے ہیں۔ حق کی خاطر جان نچھاور کرنے کا جذبہ روزبروز طاقت ور ہورہا ہے۔ آج محمد اس لیے جیل میں ڈالا گیا کہ وہ ایک قائد صلاح سلطان کا بیٹا ہے، اللہ نے چاہا تو ہم باہر آئیں گے اور اس وقت لوگ مجھے ایک بطلِ عظیم محمد سلطان کے باپ کی حیثیت سے جانیں گے۔
میرے بھائیو اور میری بہنو! میرے بیٹو اور میری بیٹیو! میں تمھیں خوش خبری سناتا ہوں کہ مستقبل روشن ہے، آزادی کے دن قریب ہیں۔ اللہ کی قسم! اس سال مَیں نے اپنے سجدوں اور اپنی خلوتوں میں تمھارے لیے اس قدر دعائیں کی ہیں کہ کبھی ۱۰ سال میں نہیں کی ہوں گی۔ اس بات پر خوش ہوجائو اور ہمارے لیے تم بھی خوب دعائیں مانگو، لیکن دعائوں کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ میرے پیغام کو پرواز کے پَر دینا بھی میرا تم پر حق ہے۔ فلسطین اور مسجداقصیٰ کی آزادی کا مشن بھی تم کو سنبھالنا ہے۔ اگر تم میرے ناتواں جسم کو جیل سے آزاد نہیں کراسکتے کہ یہ بس اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے، تو یہ ضرور یاد رکھو کہ میری طاقت میرے پیغام میں ہے۔ یہی میری نظربندی کا سبب ہے۔ میری کتابیں، میرے مضامین، میری تقریریں، میرے علمی اور تربیتی منصوبے اور خدادوست قائدین کی تیاری کا میرا انوکھا پروگرام ، یہ سب انٹرنیٹ اور صفحات پر موجود ہیں۔ میری التجا ہے کہ میرے پیغام کو آزادی اور پرواز دو۔ اگر تم میرے ہرپیغام کے حامل بن کر اور اس کا ترجمہ کرکے دنیا بھر میں پہنچاتے ہو ، قریہ قریہ، شہرشہر، تو سمجھو کہ تم میری دعائوں کے دائرے میں داخل ہوجائو گے۔ وہ دعائیں جو ہر روز کئی کئی بار میرے دل کی گہرائی سے نکلتی ہیں، اپنے ہونہار شاگردوں کے لیے، ان کے لیے جو میرے علم و بصیرت کو جو اللہ کا عطیہ ہے، دنیا میں عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جو اپنے قول و عمل سے مسجد اقصیٰ کی آزادی اور فلسطین اور غزہ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔
یاد رکھو! جن ظالموں نے مجھے قید کر کے تم سے دُور کر دیا ہے ، ان کو اور ان کے ظلم کو چیلنج کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ میرا پیغام خوب عام کرو۔ گو کہ میں تم سے رُوبرو نہیں ہوسکتا مگر اللہ اپنے فضل خاص سے میرے خوابوں میں تم سے میر ی ملاقات خوب کراتا ہے، اور وہ تمھاری رفاقت سے مجھے محروم نہیں کرے گا:
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ ط قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُوْنَ قَرِیْبًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۵۱)اور وہ کہتے ہیں وہ (فتح) کب، کہو کہ کیا پتا کہ وہ قریب ہو ۔ (سہ روزہ دعوت، دہلی، ۷دسمبر ۲۰۱۴ئ)
دنیا میں کتنے غریب ہیں جو غربت میں ہی زندگی پوری کرجاتے ہیں۔ کتنے بیمار ہیں جن کو بیماری کی حالت میں ہی موت آجاتی ہے۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو ظالموں کے ظلم کی چکّی میں پستے رہتے ہیں، وہ اپنی اس مظلومانہ کیفیت سے نکل نہیں سکتے۔بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنے بیمار بیٹے کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کئی بیٹے کی دنیاوی ناکامی پر کُڑھتے رہتے ہیں اور کئی بیٹے کی غلطیوں اور بے راہ روی سے شاکی ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ تو ایسے ہیں جن کو بیٹے چھوڑ گئے ہیں اور ماں باپ بڑھاپے کی معذورانہ زندگی بڑی بے چارگی اور بے بسی میں گزار رہے ہیں۔ اس بھری دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جن کی گردن پر دوسروں کے مال کی لوٹ کھسوٹ اور حق تلفی کا بوجھ پڑا ہوا ہے۔ اس طرح کے دیگر بے شمار مسائل اور پریشانیاں انسانوں کو درپیش ہیں۔ کیا ان حالات اور کیفیات کو بدلنے اور انھیں اَنمول بنانے کی کوئی راہ موجود ہے؟ کیا ان مسائل سے نبٹنے کا کوئی طریقہ ہے؟ کیا کس مپرسی کی زندگی کو خوش حالی کے لمحات میں نہیں بدلا جاسکتا؟
اللہ سے دعاگو رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایسی کسی بھی پریشانی سے محفوظ فرمائے۔ تاہم اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ زندگی تنگی اور تکلیف، عُسر اور یُسر، خوشی اور غمی، الم و حُزن اور مسرت و شادمانی جیسے بے شمار ملے جلے حالات و کیفیات کے مجموعے کا نام ہے۔ اگر خدانخواستہ اطمینان وسکون کے بجاے پریشان کُن حالات کا سامنا ہے، تو ان حالات کی سنگینی اور شدت کو کسی حد تک کم کرنا، اجروثواب کے اعتبار سے اپنے نامۂ اعمال کا ارفع و اعلیٰ عمل بنانا، حتیٰ کہ اس کیفیت سے نکلنے اور اس کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے ایک صاحب ِ ایمان انسان کے پاس مواقع موجود ہیں۔ فکرواعتقاد اور جہدو عمل کو بروے کار لاکر ان کیفیات سے گزرنا اور ان کو انگیز کرنا نہ صرف ممکن ہے، بلکہ یہ مسلمان کی اعتقادی اور فکری زندگی کا ناگزیر تقاضا ہے۔
خدانخواستہ اگر آپ فقروفاقہ میں مبتلا ہیں تو ذرا سوچیے کہ کچھ اور لوگ بھی اسی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کسی نے قرض لے رکھا ہے تو یہ قرض اس کے لیے دن کو ذلت اور رات کو غم کا سبب ہے۔اگر آپ کے پاس ذرائع آمدورفت موجود نہیں ہیں تو نظر دوڑایئے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے پائوں بھی نہیں کہ وہ چل سکیں۔ اگر آپ بیماری کے باعث تکلیف میں ہیں تو غور کیجیے کہ کتنے ہی بیمار ایسے ہیں جو برسوں سے صاحب ِ فراش ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں کہ اُن کا مرض دائمی ہے۔ اُس سے شفایاب ہونا دنیاوی اسباب کے اعتبار سے ناممکن ہے۔ بیماری اگر اس قدر شدید ہے کہ اُس کی تاب لانا اور اسے برداشت کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں ہورہا تو یہ بات جان لیجیے کہ اس مرض میں آپ کا صبر اور شکر آپ کے گناہوں کو مٹا ڈالے گا۔ آپ کی حسنات کو بڑھا دے گا اور آپ کے درجات کو بلند کردے گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھیے کہ اگر واقعتا آپ نے صبر سے کام لیا تو آپ اللہ رحمن و رحیم کے محبوب اور پسندیدہ ہیں کیونکہ اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اُسے آزمایش میں ڈال کر اُس کا امتحان لیتا ہے۔
اللہ نہ کرے کہ آپ ظلم کا شکار ہوں۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر آپ صبر اور حوصلے سے کام لیجیے، بے ہمتی اور بے دلی کا مظاہرہ نہ کیجیے۔ ظالم کا مقابلہ کیجیے اور اپنے رب کو مدد اور نصرت کے لیے پکاریئے۔ آپ کا رب ہی تو اصل طاقت ور، غالب و زبردست ہے۔ وہی اپنے بندوں پر قابو پاسکتا اور انھیں سزا سے دوچار کرسکتا ہے۔ سب انسان اُس کے سامنے کمزور و ناتواں اور مجبور و بے بس ہیں۔ یہ یقین رکھیے کہ اللہ بزرگ وبرتر آپ کا دفاع کرے گا، وہ ظالموں کے ظلم سے غافل نہیں ہے: وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ط اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ o (ابراھیم ۱۴:۴۲) ’’یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انھیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے، جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں‘‘۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تو مظلوم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اُس کی دعا آسمان تک پہنچ کر رہے گی اور اللہ اس کی نصرت فرمائے گا، بلکہ لسانِ نبوت کے فرمودہ الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے دعاے مظلوم کی قبولیت و نصرت پر قسم اُٹھائی ہے: ’’مجھے میری عزت و عظمت اور جلال و قدرت کی قسم! اے مظلوم ! میں تیری ضرور مدد کروں گا خواہ کچھ دیر بعد ہی کروں‘‘۔(جامع ترمذی)
خدا نہ کرے کہ آپ کسی ناخوش گوار حادثے میں اپنے بیٹے سے محروم ہوگئے ہوں۔ آپ دیکھیے کہ کئی تو ایسے ہیں کہ وہ ایک ہی حادثے میں اپنی ساری اولاد سے محروم ہوجاتے ہیں۔
اگر آپ گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے اپنے اُوپر ظلم کربیٹھے ہیں تو مایوس نہ ہوں، اپنے گناہوں پر اللہ سے معافی مانگ کر اس کی طرف پلٹ آئیں۔ پریشان نہ ہوں، آپ کا رب تو بار بار معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ وہ نہ صرف معاف کرنے والا ہے بلکہ تمام تر گناہوں اور نافرمانیوں کو معاف کردیتا ہے۔ گناہوں کی صورت میں اپنے اُوپر ظلم کرنے والوں کے لیے وہ غفّار ہے۔ اُس نے گناہگاروں کو یہ خوش خبری دی ہے اور انھیں مایوسی و نااُمیدی سے منع فرمایا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) (اے نبیؐ!) کہہ دو کہ میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔
اگر آپ دوسروں کے حق میں خطاکے مرتکب ہوئے ہیں تو معذرت کرنے اور معافی مانگنے میں جلدی کیجیے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ آپ کا یہ عمل کوئی شکست اور پسپائی نہیں ہے، بلکہ ایک اعزاز اور فضیلت ہے۔ حق کا اعتراف کرلینا ایک فضیلت ہے اور غلطی پر معافی مانگنا ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔ معافی مانگنے سے اُس کا دل خوش ہوتا ہے جس کے حق میں آپ زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کسی کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر اُس سے معافی مانگنے کا عمل ہرمعاشرے میں لوگوں کے درمیان کشادہ دلی اور قوتِ برداشت پیدا کرتا ہے۔ دوسروں کو راضی اور خوش کرنے کا فن سیکھیے۔ خوش اعتقادی کو معمول بنایئے۔ آدمی ہر کام کو خوش اعتقادی کی نگاہ سے دیکھے گا یا پھر بدشگونی اور بدفالی کے نقطۂ نظر سے۔ آپ خوش اعتقاد لوگوں میں شمار ہونے کو ترجیح دیجیے۔ خوش اعتقاد لوگ ہر مشکل میں کوئی ایسا موقع دیکھتے ہیں جس کو اپنی کامیابی کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔ بدشگونی کے عادی لوگ اس رویے سے کچھ حاصل کرنے کے بجاے بہت کچھ کھو بیٹھنے کی راہ پر چلتے رہتے ہیں۔ وہ کسی چیز کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ ساری زندگی غم و اندوہ اور محرومی میں ہی گزار دیتے ہیں۔ ناکامی اور تلخی کے گھونٹ پیتے رہتے ہیں۔
خدانخواستہ اگر آپ ان میں سے کسی بھی سلبی اور منفی کیفیت میں مبتلا ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ بے صبری و بے ہمتی اور حزن و اَلم سے بچنے کی کوشش کریں۔ یہ چیز انسان کے اندر قلق و اضطراب اور بے دلی و کم ہمتی پیدا کرتی ہے۔لہٰذا آپ بے صبری کا مظاہرہ نہ کیجیے کیونکہ بے صبری اور مایوسی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کے لیے ناکامی، نااُمیدی اور نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ بے صبری کھوئی ہوئی چیز کو واپس نہیں لاسکتی، کسی مرنے والے کو زندہ نہیں کرسکتی۔ بے صبری کا مظاہرہ تو قضاوقدر پر اعتراض کے مترادف ہے، اور کبھی کوئی قضاوقدر کو ٹال نہیں سکا۔ آپ کی بے صبری کا فائدہ آپ کے مخالفین کو ہوگا۔ آپ سے بُغض رکھنے والے اور حسد کرنے والے اس سے راحت محسوس کریں گے مگر آپ کے دکھ درد کی الم ناکی میں اضافہ ہوگا۔ بے صبری کے اظہار سے آپ کا چہرہ مرجھا جائے گا، چہرے کی چمک اور تازگی جاتی رہے گی، اور بالآخر یہ ساری کیفیات مل کر آپ کی صحت اور جسم و جان پر منفی اثرات ڈالیں گی۔
ایک مومن کا یہ عقیدہ ہے کہ بے صبری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کا فیصلہ (قضا) ہرصورت نافذ ہوکر رہتا ہے اور جو مقدر ہوچکا اور لکھا جاچکا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ کیونکہ قضاوقدرکو لکھنے والے قلم رکھ دیے گئے ہیں اور صفحات کی سیاہی خشک ہوچکی ہے۔ آپ رحمت ِ عالمؐ کے ان الفاظ کو بار بار دُہرائیں اور ان پر غور بھی فرمائیں کہ: ’’جان رکھو کہ اگر ساری کی ساری اُمت تجھے کوئی نفع پہنچانے کے لیے یک جا ہوجائے تو وہ اُس کے علاوہ کوئی نفع نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے، اور اگر وہ سارے کے سارے تجھے کوئی نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہوجائیں تو اس کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تیری قسمت میں لکھ رکھا ہے‘‘۔ (ترمذی)
رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا ہے: ’’جان رکھو کہ جو نقصان اور مصیبت تمھیں پہنچی ہے وہ کبھی ٹل نہیں سکتی، اور جو ٹل گئی ہے وہ کبھی پہنچ نہیں سکتی‘‘۔ (احمد، داؤد)
یہ وہ حقائق ہیں جن کا اقرار شریعت اسلام نے الصادق المصدوق نبی کریمؐ کی لسانِ مبارک سے کرایا ہے۔ لہٰذا ان حقائق پر ایمان رکھنا نفس کے سکون اور دل کے اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔
اگر آپ کسی چیز سے محرومی کی آزمایش میں ڈالے گئے ہیں تو آپ بے صبری کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ جس ذات نے آپ کو اس آزمایش میں ڈالا ہے وہ آپ سے محبت کرتی ہے۔ آپ کے لیے تو جودوسخا کا مالک اللہ ہی کافی ہے۔ وہ محبت جس کا بدل دنیا و مافیہا بھی نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان دونوں نعمتوں کے درمیان تو کوئی موازنہ ہی ممکن نہیں۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ جس نے تمھیں ایک نعمت چھین کر آزمایا ہے اُس نے اتنی نعمتیں تمھیں عطا کر رکھی ہیں کہ اُن کا شمار ممکن نہیں۔ نعمتیں عطا کرنے والے اللہ نے حق فرمایا ہے کہ: وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ o (ابراہیم ۱۴:۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘۔
کسی بھی دکھ تکلیف میں بے صبری نہ دکھایئے کیونکہ دکھ، تکلیف اور غم و الم کی کیفیت ختم ہوسکتی ہے، مرض اور بیماری زائل ہوسکتی ہے، گناہ معاف ہوسکتے ہیں، قرض ادا ہوسکتا ہے،اسیر رہائی پاسکتا ہے، غائب واپس لوٹ سکتا ہے، فقیر امیر ہوسکتا ہے، اور دنوں کا اُلٹ پھیر ہوسکتا ہے، کیونکہ خالقِ کائنات کا کہنا ہے: تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ(اٰل عمران ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔
۲- تسبیح: یہ وہ ذریعہ اور راستہ ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دلائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَلَوْلَآ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ o لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖٓ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ o (الصافات ۳۷: ۱۴۳-۱۴۴) ’’اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو روزِ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا‘‘۔
صبر سے لو لگایئے کہ آپ کے شایانِ شان یہی ہے، کیونکہ اللہ آپ کے ساتھ ہے اور قرآن آپ کے پاس ہے تاکہ آپ اپنے دل کو صبروثبات دلا سکیں۔
آپ بے صبری کا مظاہرہ کیوں کریں گے، کیا اللہ نے آپ کو دل و زبان عطا نہیں کر رکھے کہ آپ اُن کے ذریعے، اپنے رب سے دعا گو رہیں۔ آپ سے بے صبری کا مظاہرہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ آپ کی روحانی و جسمانی راحت تو آپ کی نماز میں ہے۔ رسولِ کریمؐ کو جب بھی کوئی معاملہ پریشان کرتا تو آپؐ نماز کا سہارا لیتے اور فوراً نماز ادا فرماتے۔ اپنے مؤذن حضرت بلالؓ سے کہتے: ’’بلال! اُٹھ کر اذان کہو اور نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچائو!‘‘ (ابوداؤد)
آپ ہمت کیوں ہاریںگے ، آپ کے بس میں ہے کہ آپ صدقہ کرسکتے ہیں، خواہ کھجور کا آدھا حصہ ہی ہو، یاکوئی اچھی بات ہی ہو، یا خندہ پیشانی اور مسکراہٹ ہی ہو؟ آپ بے ہمت نہیں ہوسکتے کیونکہ اچھے کام انجام دینا آپ کے بس میں ہے، نفع بخش کام کرنا آپ کے اختیار میں ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ تعلق قائم رکھیے، کامیابی آپ کا مقدر بن جائے گی۔ اللہ کے لیے نماز ادا کیجیے، اس کی تسبیح کرتے رہیے اور اپنے رب کے اس وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے اُس سے دعا کیجیے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ط فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) ’’اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔(یہ بات تم انھیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔
جب دنیاوی اسباب کی رسیاں ٹوٹ جائیں تو جان رکھیے کہ اللہ کی رسی کا تعلق اپنے بندوں سے کبھی نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے دل کی حضوری کے ساتھ اپنے رب کو آواز دیجیے: یااللہ!
جب حسرتوں نے آپ کا دل توڑ کے رکھ دیا ہو اور حزن و اَلم نے آپ کو چور کر دیا ہو تو پھر پکاریئے: یااللہ!
جب معاملہ اپنی سنگینی کی انتہا کو پہنچ جائے اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو اپنے خالق کو پکاریئے: یااللہ!
جب سینہ تنگی محسوس کرے اور زبان سے کچھ ادا نہ ہو، قدم اُٹھیں تو لڑکھڑا جائیں اور معاملات مشکل تر ہوجائیں تو پھر اپنے رب کو ندا دیجیے اور دل کی گہرائیوں سے پکاریئے: یااللہ!
جب انسان اپنے اور تمھارے درمیان کے تمام دروازے بند کردیں تو یاد رکھیے کہ تمھارے ربِ کریم، رحمن و رحیم، عطا و سخا اور جود وکرم کے مالکِ حقیقی کا دروازہ ہمیشہ اُس شخص کے لیے کھلا ہوتا ہے جو اپنے رب کے اُوپر پختہ یقین رکھتا ہو۔
ایسی کیفیاتِ الم انگیز میں راتوں کو جاگیے، نالۂ نیم شبی سے وضو کیجیے اور اپنے ہاتھوں کو آہ و زاری کے ساتھ رب کے سامنے پھیلا دیجیے۔اپنی زبان کو اسماے الٰہی کے ذکر سے تر رکھیے۔ ایک بار تجربہ کرکے تو دیکھیے آپ کو اپنے رب کی بارگاہ میں رسائی کی لذت کی چاٹ نہ لگ جائے تو کہنا۔ آپ کے اعصاب راحت محسوس کریںگے، آپ کے جذبات میں ٹھیرائو آجائے گا، آپ کا اضطراب اور بے چینی زائل ہوجائے گی، آپ کا ایمان مزید پختہ ہوگا، آپ کا دل سکون محسوس کرے گا: اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد ۱۳:۲۸) ’’خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔
جب تک آپ مسکرا نہیں لیتے تب تک خوشی کا انتظار مت کیجیے، بلکہ خوش ہونے کے لیے مسکرایئے۔ آپ پریشانیوں میں کیوں گھلتے ہیں، جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ تدبیر کا مالک تو اللہ ہے۔ لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اُس پر کڑھنے اور رنجیدہ ہونے کا کیا فائدہ، اللہ کو ہرچیز معلوم ہے۔ آپ اطمینان رکھیے کہ اُس وقت تک آپ اللہ کی نگرانی اور حفاظت میں ہیں جب تک اللہ پر آپ کا توکّل بہترین ہے۔اپنی زبان سے پہلے اپنے دل سے یہ بات کہلوایئے کہ: وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ o (مومن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپردکرتا ہوں، وہ ا پنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔
(ماہنامہ المجتمع، کویت، عدد ۲۰۲۸، فروری ۲۰۱۴ئ)
قرآنِ حکیم علم و حکمت کا بحرِ بے کنار ہے۔ یہ وہ کتابِ مبین ہے جو ہدایت کا منبع اور معارف کا خزانہ ہے۔ اس کا موضوع انسان ہے، اس کے مضامین و موضوعات انسانی زندگی کی کامیابی اور فلاح کی ترجمانی کرتے ہیں۔ پھر اس کا دائرۂ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ انفرادیت اور اجتماعیت، تصورات و اعتقادات کی وضاحت کرتا ہے۔ وحدت اور مساوات کی صراحت کرتا ہے۔ اخلاقی اقدار اور اعمال و افعال کی تطہیر کرتا ہے۔
تزکیۂ نفس کے حوالے سے یہ امر ذہن نشین رہے کہ تزکیہ کے لغوی معنی پاکی، صفائی اور نشوونما کے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو آلایشوں سے پاک صاف کرنا، نیکی کی نشوونما کرنا اور اس کو ترقی دینا ہے۔ مگر قرآ نی مفہوم کے مطابق تزکیہ کے معنی نفس کو تمام ناپسندیدہ، مکروہ اور قبیح عناصر سے پاک کرکے خداخوفی، نیکی اور تقویٰ جیسی خوبیوں سے آراستہ کرنا ہے۔ رذائلِ اَخلاق سے بچنا اور فضائلِ اخلاق سے منور ہوکر بندگیِ خالقِ کائنات کو درجۂ کمال تک پہنچانا ہے۔ اس کے احاطے میں کردار و اَطوار، اعمال و افعال اور مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ احکامات کی تعمیل بھی آتے ہیں۔یہ تمام اُمور انسانی طاقت سے باہر نہیں۔ انسان انھیں بہ رضا و رغبت اور بلاتردّد و کراہت انجام دے سکتا ہے۔ اس میں اشکال اور دقّتیں نہیں، صرف تعلیماتِ قرآن سے محبت درکار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی عظمت و عزت خلیفۃ اللہ ہونے کے ناتے دیگر مخلوقات سے برتر ثابت کرنے کے لیے تزکیہ کو اختیار کرنے پر زور دیا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o (الشمس ۹۱:۹) ’’یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا‘‘۔
قرآنِ حکیم کی تعلیمات میں اس پر بار بار زور دیا گیا ہے۔ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ نے انبیاے کرام ؑ کو بھی تزکیہ کی تلقین کو اپنی تبلیغ کی اساس بنانے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ میں اس دعا کو بیان فرمایا، جو حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ مانگ رہے تھے جس میں تزکیے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ دراصل دعاے ابراہیمی ؑ ہے جس میں رسولِ اکرمؐ کی بعثت کی استدعا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزند ِ ارجمند حضرت اسماعیل ؑ مکہ مکرمہ میں اللہ کے گھر کی دیوار اُٹھا رہے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے: ’’اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔ تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم، مطیع فرمان بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘ (البقرہ۲:۱۲۷-۱۲۸)۔ یاد رکھیے یہ ایک برگزیدہ رسول ؑ کی دلی کیفیات کی ربِ کائنات کے حضور التجائیں ہیں۔
یہ تمنائیں، آرزوئیں اور ندائیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ روح کی صدائیں بصد احترام ہوا کے دوش پر تڑپ اُٹھتی ہیں۔ یہی حالت حضرت ابراہیم ؑ کی ہے۔ وہ استدعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (البقرہ ۲:۱۲۹) اے ہمارے رب! ان لوگوں میں خود انھی کی قوم سے ایک ایسا رسول اُٹھائیو، جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔
یہ ہے سیدنا ابراہیم ؑ کی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہلی دعا، جس میں تزکیے کے فرض کوا دا کرنے کا بھی خصوصی ذکر ہے۔ گویا تعلیمِ قرآن وہ حاصل تزکیۂ نفس ہے جس میں زندگی سنوارنے، اخلاق، سخاوت، معاشرت، تمدن، سیاست غرضیکہ ہرچیز کو سنوارنا شامل ہے۔
محسنِ انسانیتؐ کی پوری زندگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا تزکیہ کیا۔ جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر سپیدۂ سحر کی طرح منور کیا، دلوں کو آلودگی سے پاک کیا۔ رحم و کرم کی صفات سے متصف کیا۔ یہی تزکیہ کا عمل ہے جس نے صحابہ کرامؓ کو تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پہنچا دیا۔ اسی پر تو خالقِ کائنا ت نے فرما دیا:
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۱) میں نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمھیں میری آیات سناتا ہے۔ تمھاری زندگیوں کو پاکیزہ بناتا ہے، تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔
یہ ایک فریضہ بھی ہے جو دیگر فرائض کے ساتھ سونپا گیا۔ یہ سلسلہ خاتم النبیین حضرت محمدؐ سے شروع نہیں ہوا بلکہ قبل ازیں بھی اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام ؑ کو تزکیۂ نفسِ انسانی کی ہدایت کی ہے۔ ذرا حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں اس کام کو انجام دینے کے حکم پر غور کیجیے:
ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی o اِِذْ نَادٰہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی o اِذْہَبْ اِِلٰی فِرْعَوْنَ اِِنَّہٗ طَغٰی o فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰی o وَاَھْدِیَکَ اِِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی o(النازعات ۷۹:۱۵-۱۹) کیا تمھیں موسٰی ؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے، جب اس کے رب نے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا کہ فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہہ: کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور مَیں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو اس کا خوف تیرے اندر پیدا ہو۔
ابن زید کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی تزکٰی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس سے مراد اسلام قبول کرنا ہی ہے۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآنِ مجید کی حسب ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں: وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی o (طٰہٰ ۲۰:۷۶) ’’اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے‘‘، یعنی اسلام لے آئے۔ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓo (عبس ۸۰:۳) ’’اور تمھیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے‘‘، یعنی مسلمان ہوجائے۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰیٓ o (عبس ۸۰:۷) ’’اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے‘‘، یعنی مسلمان نہ ہو۔ (تفہیم القرآن، جلدششم، ص ۲۴۲، بحوالہ ابن جریر)
یہی وہ حکمِ ربانی ہے جو حضرت موسٰی ؑ کو دیا گیا کہ تزکیے کی دعوت دو۔ اللہ تعالیٰ کا اَبرِ لطف و کرم اہلِ ایمان پر ہمیشہ برستا رہا۔ یہ رحمت کی انتہا ہے کہ اللہ کے بندے پاکیزہ و مصفا ہوجائیں۔ گناہوں کی دلدل سے بچ جائیں اور دنیا میں پھیلے کانٹوں سے دامن بچاکر خوفِ خدا کو حرزِ جاں بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخ رو ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس موقعے پر مسلمانوں کے تزکیے کا حکم دیا جب مدینہ کے کچھ منافقین سچے دل سے ایمان لے آئے۔ فرمایا:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ ط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ ط وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (التوبہ ۹:۱۰۳) اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور اس سے تزکیہ کرو (نیکی کی راہ میں انھیں بڑھائو) اور ان کے حق میں دعاے رحمت کرو کیوںکہ تمھاری دعا ان کے لیے وجۂ تسکین ہوگی،اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
کتنی رحمت و شفقت ہے کہ خالق بنی نوع انسان اپنے بندوں کی تطہیر اور تزکیہ کا فریضہ اپنے رسولِؐ مقبول کو اس وقت بھی سونپتا ہے جب انسان ضلالت کی راہ سے نکل کر منزلِ ہدایت کو پانے کے تمنائی ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو علم و حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ اس کی ہر آیت اہلِ ایمان کو ایسے ایسے جواہر عطا کرتی ہے، جن میں ایسے ایسے انوار ہدایت چمکتے دمکتے ہیں، جن کی قدرومنزلت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ پھر ان کو عطا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا بھی اظہار کرتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو پاکیزہ بناتا ہے(تزکیہ کرتا ہے) اور ان کو کتاب (قرآن) اور دانائی (حکمت) کی تعلیم دیتا ہے، حالاںکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
یہ آیات قرآنِ حکیم میں تین بار دہرائی گئی ہیں جن سے رسولِ اکرمؐ کے فریضۂ نبوت کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سورئہ جمعہ میں اس آیت ِ کریمہ کے کچھ تبدیلی کے ساتھ تقریباً یہی الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تکرار سے بعثت ِ رسول مکرمؐ کی ضرورت اور اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ منصب ِ نبوت، کارِ نبوت اور مقامِ نبوت کی بھی وضاحت کردی ہے کہ یہ کتابِ مبین، یہ صحیفۂ ہدایت اور یہ متاعِ حکمت تیری پونجی ہے جسے تو نے بانٹنا ہے۔ علاوہ ازیں خالقِ ارض و سماوات بندے کو خود بھی اپنا تزکیہ کرتے رہنے کی تلقین فرماتا ہے۔ مختلف اسلوب ہیں جن کے ذریعے ایک انسان تزکیہ کر کے فلاح دارین حاصل کرسکتا ہے، بُرائیوں سے بچ سکتا ہے۔ مقصدِ تخلیق کو سمجھ کر اس کو پورا کرنے کی سعی کرتا ہے۔ کائنات کا ہر انسان اپنا بوجھ خود اُٹھائے گا۔ کوئی بھی اس کا بوجھ اُٹھانے والا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں کی وضاحت قرآنِ مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کرتا ہے۔ انسان کو سمجھاتا ہے بلکہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ ان کا تذکرہ کرو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ وَّ لَوْ کَانَ ذَاقُرْبٰی اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ط وَ مَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُo (فاطر ۳۵:۱۸) اور کوئی اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اُٹھائے گا اگرچہ قرابت دار ہی ہو۔ (اے پیغمبرؐ!) تم ان لوگوں کو نصیحت کرسکتے ہو جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو شخص پاک ہوتا ہے اپنے ہی لیے پاک ہوتا ہے اور (سب کو) اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسان کو تزکیے کی تلقین کی ہے۔ جتنے بھی احکامات ہیں، جتنی بھی ہدایات ہیں، سب کی اساس تزکیہ ہے۔ جو انسانی زندگی کو اس طرح نکھارتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور محسنِ انسانیتؐ کی اطاعت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور دُنیوی و اُخروی فلاح کو پانے کی جدوجہد کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک خاص عائلی مسئلے میں تزکیے کی برکت کا یوں اظہار کرتا ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْھَرُ ط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲:۲۳۲) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرتجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا اگرتم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ نے اس ناپسندیدہ عمل سے گریز کرنے کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے بچنا بھی تزکیے کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o فَاِِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ وَاِِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ o (النور ۲۴:۲۷،۲۸) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پائو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دی جائے۔ اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جائو تو واپس ہوجائو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کس قدر ہمدرد، مصلح اور انسانوں کی مددگار ہے کہ وہ ان اسباب کا خاتمہ کرنے کی بھی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں ، اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔
جاہلیت میں اہلِ عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ صبح بخیر، شام بخیر کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہرشخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے (privacy) کا حق ہے اور کسی دوسرے شخص کو اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اس کی اجازت کے بغیر دخل انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رُو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتیٰ کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبانؓ (نبیؐ کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اذا دخل البصر فلا اذن ’’جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کی اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا‘‘(ابوداؤد)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناقاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو آپؐ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوکر اجازت طلب فرمایا کرتے (ابوداؤد)۔ کوئی ایسی اور بھی احادیث مختلف کتب ِ حدیث میں منقول ہیں۔ اگر تین دفعہ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد صاحب ِ خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہی پاکیزہ طریقہ کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی تزکیہ ہے جو نفسانی خواہشات، بے راہ روی اور فحش اقدام سے بچاتا ہے۔
ان تعلیمات کے بعد پھر ربِ جلیل نے محسنِ انسانیتؐ کو اہلِ ایمان کے تزکیے کے لیے ایک انداز کا حکم فرمایا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ o(النور ۲۴:۳۰) اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھنے کو حلال نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ بُری نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کا زنا ہے، آواز سے لذت لینا کانوں کا زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ اور پائوں کا زنا ہے (بخاری، مسلم، ابوداؤد)۔ آںحضورؐ سے اس نظربازی کے سلسلے میں بہت سی احادیث منقول ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالی جائے، فوراً پھیر لی جائے یا نیچی کرلی جائے۔ مسلم، ابوداؤد اور احمد نے نبی کریمؐ کا ارشاد نقل کیا ہے: کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے، کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے۔ الغرض جس شخص نے اپنی آنکھوں کی حفاظت کی اس نے تزکیہ کیا اور گناہوں سے محفوظ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پاکیزگی کے عمل کو پسند فرمایا ہے۔
ستر کی حفاظت کے لیے محسنِ انسانیتؐ کے بہت سے ارشادات کتب ِ سنن میں موجود ہیں۔ آپؐ نے تو یہاں تک فرما دیا: فاللّٰہ تبارک وتعالٰی احق ان یستحیا منہ ’’تو اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔(ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے کیا گل کھلائے ہیں۔ گھر، ٹی وی کی یلغار کی زد میں ہیں۔ کیا اشتہار، کیا ہوس ناکی سے لبریز ڈرامے اور کیا نغمہ و سُرود سب فحاشی کی دعوت دیتے ہیں۔ ان پروگراموں کو اہتمام سے دیکھا جاتا ہے۔ غضِّ بصر کا لحاظ کہاں رکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی نفس پرستی کے ارتکاب سے ربِ جلیل منع فرماتا ہے اور ان فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے غضِّ بصر کا حکم دیتا ہے بلکہ فرماتا ہے: ذٰلِکَ ازکٰی لھُم کہ ان کے لیے نظربازی سے بچنا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا پاکیزہ عمل ہے۔ یعنی یہی تو تزکیہ ہے۔ اسی طرح ہادیِ برحقؐ سے یہ بھی اسی سورہ میں فرمایا جارہا ہے: وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ …(النور ۲۴:۳۱) اور ’’اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں،اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بنائوسنگھار نہ دکھائیں‘‘۔ اس کے بعد ان محرمان کا ذکر ہے جن کے سامنے بغیر پردہ جاسکتی ہیں۔
سورئہ لیل کا مطالعہ کیجیے، جس میں زندگی کے دو مختلف راستوں کا فرق اور ان کا انجام واضح کیا اور ان نتائج کو دل میں اُتارا گیا ہے، جن میں ایک بھلائی کا راستہ ہے اور دوسرا بُرائی کا راستہ۔ پہلی قسم کی خصوصیت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلی یہ کہ انسان مال دے، خداترسی اور پرہیزگاری اختیار کرے اور بھلائی کو بھلائی مانے۔ دوسری یہ کہ انسان بخل کرے۔ خدا کی رضا اور ناراضی کی فکر سے بے پروا ہوجائے اور بھلی بات کو جھٹلا دے۔ یہ دونوں راستے نتائج کے لحاظ سے ہرگز یکساں نہیں۔ پہلے طریقے میں بھلائی کرنے والے کے لیے بدی کرنا مشکل ہوجائے گا اور دوسرے طرزِعمل میں اللہ تعالیٰ اس کے عامل کے لیے زندگی کے بدی کے راستے کو سہل کردے گا۔
سورہ کے دوسرے حصے میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے انسان کو بے خبر نہیں چھوڑا، اس نے یہ راستہ بتا دینا اپنے ذمے لیا ہے کہ زندگی میں انسان کے لیے سیدھا راستہ کون سا ہے۔ دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کا مالک اللہ ہے۔ دنیا مانگو تو دنیا دے گا۔ آخرت کی فلاح مانگو تو فلاح دے گا۔ تیسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو بدبخت اس بھلائی کو جھٹلائے گا، جو رسولؐ اور کتاب کے ذریعے سے پیش کی گئی ہے، اس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار ہے۔ اور جو خدا ترس آدمی پوری بے غرضی کے ساتھ محض رضاے الٰہی کے لیے اپنا مال راہِ خیر میں خرچ کرے گا، اس کا رب اس سے راضی ہوگا اور اسے اتنا کچھ دے گا تو وہ خوش ہوجائے گا۔
اس سورت کی آخری پانچ آیات تزکیہ اور اس کے انعامات کو بیان کرتی ہیں:
وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی o الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی o اِِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی o وَلَسَوْفَ یَرْضٰی o (اللیل ۹۲:۱۷-۲۱) جو بڑا پرہیزگار ہے وہ بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو۔ وہ اس لیے نہیں دیتا کہ اس پر کسی کا احسان ہے، جس کا وہ بدلہ اُتارتا ہے، بلکہ اپنے خداوند اعلیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے اور وہ عنقریب خوش ہوجائے گا۔
یہی رضاے الٰہی کا حصول ہی تو حقیقی تزکیہ ہے، جو انسان کی متاعِ آخرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو واضح طور پر بتلا دیا ہے کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اس کی شیطنت صحرا بہ صحرا، دریا بہ دریا، کو بہ کو پھیلی ہوئی ہے۔ کیسے کیسے وساوس، کیسے کیسے حربے اور کیسے کیسے نفس پرستی کے ہچکولے اس کی سرشت میں جلا پاتے ہیں کہ ہرانسان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا دیتا ہے۔ حقیقتاً وہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اسی لیے تو خالقِ بنی نوع انسان نے ہمیں متنبہ کیا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِِنَّہٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ ط وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّی مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o(النور ۲۴:۲۱) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے،اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اس آیت سے قبل اس سورت میں واقعۂ افک کا تذکرہ کیا ہے، جس میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی گئی تھی، مگر اس کے بارے میں ربِ علیم و خبیر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم نے حُسنِ ظن کیوں نہ کیا، سوے ظن کیوں کیا۔ اس کے بعد اس آیت میں اہلِ ایمان کو خبردار کیا ہے کہ شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو۔ وہ تو فحش اور بدی کی طرف بلاتا ہے۔ تم لوگ نہیں جانتے اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں۔ کتنے افراد متاثر ہوتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کے نقصانات کتنے ہیں جو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں، بہت بڑی باتیں ہیں۔ شیطان کے ان حربوں سے بچو۔ ان وساوس کی زد میں آکر کوئی شخص بھی پاک صاف نہیں ہوسکتا۔
قرآنِ حکیم نے نفسِ انسانی کے تزکیے کے لیے رہنمائی دی ہے اور بتلا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا تزکیہ کرتا ہے۔ انبیاے کرام ؑ کو اہلِ ایمان کا تزکیہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر اہلِ ایمان کو خود تزکیہ کی روش اختیار کرنے کی ہدایت فرماتا ہے تاکہ اس کے بندے نیکی، خداخوفی اور فضائلِ اخلاق سے آراستہ ہوکر اس کے پسندیدہ بندے بن جائیں اور دنیوی اور اُخروی کامیابی سے ہم کنار ہوں۔
قرآنِ کریم نے تزکیۂ نفس کے اور بھی عوامل کا ذکر کیا ہے۔ تقویٰ اختیار کریں، انفاق فی سبیل اللہ کو اپنی فائدہ مند تجارت بنائیں، باطنی صفات میں اخلاص کو کلید ِ تزکیہ بنائیں۔ ذکروفکر سے تزکیے میں مدد لیں اور خلوصِ دل سے استغفار کے لیے نماز، زکوٰۃ اور فریضۂ حج کو اپنی فلاح کا ذریعہ بنائیں۔ چنانچہ دل کی گہرائیوں میں اُتار لیں کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷:۱۴،۱۵) ’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی‘‘۔
بدیع الزماں سعید نورسی مشرقی ترکی میں ۱۸۷۷ء میں پید اہوئے ، اسلام کے لیے قربانی اور مثالی جدوجہد سے بھر پور زندگی گزارنے کے بعد ۸۳سال کی عمر میں ۱۹۶۰ ء میں انتقال فرماگئے۔ وہ اعلیٰ پائے کے عالم تھے، جنھوں نے نہ صرف روایتی مذہبی علوم کامطالعہ کیا بلکہ جدید سائنسی علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے اور جوانی ہی میں اپنی غیرمعمولی صلاحیت اور علم کے بل بوتے پرانھوں نے بدیع الزماں کا لقب پایا۔ ’عمررسیدہ افراد کے نام‘ ان کی ترکی زبان میں لکھی گئی کتاب کا اُردو ترجمہ عبدالخالق ہمدرد نے کیا ہے۔ اس کی تلخیص پیش ہے۔ (ادارہ)
جب میں نے بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھا اور جاڑے کے ایک دن عصرکے وقت دنیا پرایک اونچے پہاڑ کی چوٹی سے نظر ڈالی تو اچانک ایک انتہائی تاریک اور غم ناک کیفیت میری رگ رگ میں سرایت کر گئی۔میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پیرفرتوت [بہت بوڑھا] ہوچکا ہوں، دن بوڑھا ہو گیا ہے، سال کو پیرانہ سالی نے آلیا ہے اور پوری دنیا نے بڑھاپے میں قدم رکھ دیا ہے۔ہرشے پر چھا جانے والے اس بڑھاپے نے مجھے بری طرح جھنجھوڑ ڈالا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیاسے فراق کا وقت قریب آلگا ہے اور احباب سے فراق کی گھڑ ی بس سر پر کھڑی ہے۔پھر جس وقت میں مایوسی اور غم کی کیفیت سے دوچار تھا، اچانک رحمت الٰہیہ میرے سامنے اس طرح کھل گئی کہ اس نے اس دردناک غم اور دلی مسرت میں اور احباب کے اس قدر دردناک فراق کو ایسی تسلی میں بدل دیا، جس سے میرے نفس کا ایک ایک گوشہ روشن ہوگیا۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو اپنی ذات کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور قرآن کریم میں ۱۰۰ سے زائد مقامات پر اپنا تعارف الرحمنٰ و الرحیم کی صفات کے ساتھ کرتا ہے،جو جان داروں میں سے اس کی رحمت طلب کرنے والوں کی مدد اور کمک کے لیے ہمیشہ روے زمین پر اپنی رحمت کے دریا بہا دیتا ہے، جو عالم غیب سے تحفے بھیجتا ہے اور ہرسال بہار کو بے شمار نعمتوں سے بھردیتا ہے ۔ وہ یہ نعمتیں ہم جیسے رز ق کے محتاجوں کے لیے بھیجتا ہے۔ اس سے وہ پوری وضاحت کے ساتھ اپنی گہری رحمت کی تجلیات کو ہمارے اندر پوشیدہ کمزوری اور عاجزی کے درجات کے مطابق ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے ہمارے رحیم خالق کی رحمت سب سے بڑی امید اور اس پیرانہ سالی میں سب سے بڑا بلکہ سب سے روشن نور اورسہارا ہے۔
میرا وہ جسم جو میری روح کا ٹھکانہ ہے ، کمزور ہو کر مرورزمانہ کے ساتھ ایک ایک پتھر کرکے گرنے لگااور میری وہ امیدیں جو پوری طاقت سے مجھے دنیا سے جوڑتی تھیں، ان کی رسیاں بھی بوسیدہ ہو کر ٹوٹنے لگی ہیں۔ جس سے میرے دل میں بے شمار دوست واحباب کے فراق کے وقت کے قرب کا احساس پیدا ہوا اور میں اس گہرے روحانی گھائو کے لیے مرہم تلاش کرنے لگا، جس کے لیے کسی تریاق کے ملنے کی بظاہر کوئی اُمید نہیں ۔
جب میرے پائوں بڑھاپے کی دہلیز پر پڑے تو میری وہ جسمانی صحت جو غفلت کی مہار کو ڈھیلا چھوڑتی تھی ، کمزور اوربیما رپڑ چکی تھی ۔ چنانچہ بیماری اور پیرانہ سالی ایک ساتھ مل کر مجھ پر حملہ آور ہو ئیں اور میرے سر پر مسلسل ضربیں لگاتی رہیں، یہاں تک کہ انھوں نے میری غفلت کی نیند کو اُڑاکر رکھ دیا ۔ چونکہ میرے پاس کو ئی مال ، اولاداور ان جیسی کوئی اور چیز نہ تھی جو مجھے دنیا سے جوڑتی، اس لیے میں نے دیکھا کہ میں نے اپنی عمر کا وہ حصہ جو شباب کی غفلت میں ضائع کیا، اس میں گنا ہوں اور خطاو ں کے سوا کچھ نہیں ۔
اچانک معجز بیان قرآن حکیم میری مدد اور تسلی کو آتا ہے اور میرے سامنے امید کا ایک عظیم دروازہ کھول کر امیدو رجا کا ایک ایسا روشن نور عطا کرتا ہے ، جو میری اس مایوسی سے کئی گنا بڑی مایوسی کو ہٹا کر میرے ارد گرد چھا ئے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو نیست ونابود کر دیتا ہے ۔
اس لیے ا س بات میں کوئی شک نہیں کہ ا س نے جو کتابیں نازل فرمائی ہیں ان میں کامل ترین کتاب قرآن مجید ہے ، جو معجز بیان ہے ، جس کی تلاوت کروڑ وںزبانوں پر ہر لمحے جاری رہتی ہے، جو روشنی پھیلاتا اور سیدھا راستہ دکھاتاہے ، جس کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں اور کم سے کم دس گنا اجر ہے۔ کبھی اس پر ۱۰ ہزار نیکیاں ، بلکہ ۳۰ہزار نیکیاں بھی ہوجاتی ہیں جیسے کہ لیلۃ القدر میں ہوتاہے ۔ اس طرح یہ کتاب جنت کے وہ پھل اور برزخ کا وہ نور عطا کرتی ہے ، جو اللہ تعالیٰ نے بندۂ مومن کے لیے مقدرکر دیا ہے۔ کیا پوری کائنات میں کوئی ایسی کتاب ہے جو اس کامقابلہ کرسکے ؟ کیا کسی کے لیے یہ دعویٰ کرنا ممکن ہے ؟
پس جب ہمارے سامنے موجود قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا ہم تک پہنچایا گیا حکم اور اللہ کی اس رحمت کا منبع ہے ، جو ہر شے پر محیط ہے اور وہ خالق ارض و سما جل و علا سے اس کی ربوبیت مطلقہ ، ا س کی الوہیت کی عظمت اور اس کی ہر شے پر محیط رحمت کے رخ سے صادر ہواہے، تو پھر اس سے چمٹ جااور اسے مضبوطی سے پکڑ لے کہ اس میں ہر بیماری کی دوا ، ہر اندھیرے کی روشنی اور ہر مایوسی کے لیے، اُمید ہے جب کہ اس ابدی ضرورت کی کنجی ایمان اور تسلیم ورضا ہے۔ اسے سننے، اس کے حکم کو بجا لانے اور اس کی تلاوت سے لطف اندوز ہونے کے سوا کچھ نہیں ۔
بڑھاپے کے آغاز میں جب میری خواہش تھی کہ لوگوں سے کنارہ کشی کرلوں ، میر ی روح نے ’خلیج باسفورس‘ کے اوپر واقع ’یوشع‘کی پہاڑی پر عزلت اور گوشہ نشینی کی راحت کو تلاش کیا ۔ پھر ایک دن جب میں اس اُونچی پہاڑی سے آفاق کی طرف دیکھ رہا تھا، تو میں نے بڑھاپے کی علالت کی وجہ سے زوال کی ایسی تصویر دیکھی ، جس سے حز ن و غم ٹپک رہا تھا۔ کیونکہ میں نے اپنی عمر کے درخت کی چوٹی، یعنی پینتالیسویں شاخ پر نظر ڈالی اور نیچے اتر تے اترتے اپنی زندگی کی سب سے نچلی منزل تک جاپہنچا، تو میں نے دیکھا کہ ہر سال کی شاخ میں میرے احباب اور دوستوں اور میرے متعلقین کے بے شمار جنازے ہیں۔
ان گہری حسرتوں میں میں نے امید کے کسی دروازے اور نور کے کسی روزن کو تلاش کرنا شروع کیا جس سے میں اپنے آپ کو تسلی دے سکوں ۔ چنانچہ آخرت پر ایمان کے نور نے میری دستگیری کی اور مجھے ایک زبر دست روشنی عطا کی۔اس نے مجھے ایسی روشنی دی جو کبھی نہیں بجھتی اور ایسی اُمید بخشی جو کبھی نااُمید ی میں نہیں بدل سکتی ۔
جب آخرت موجود ہے اور وہ دائمی ہے ، دنیا سے زیادہ خوب صورت ہے اور جس ذات نے ہمیں پید اکیا ہے وہ حکیم اور رحیم ہے، تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم بڑھاپے کا شکوہ کریں اور نہ اس سے تنگ ہوں۔ کیونکہ ایمان اور عبادت سے بھر پور بڑھاپا جو آدمی کو عمرِ کمال تک پہنچاتاہے زندگی کے کاموں اور ذمہ داریوں کے ختم ہونے کی علامت اور عالم رحمت کی جانب آرام کی خاطر منتقل ہونے کا اشارہ ہے۔ اس لیے اس پر خوب اچھی طرح راضی رہنا چاہیے۔
جی ہاں! ایک لاکھ ۲۴ ہزار انبیاے کرام علیہم الصلوات والسلام میں سے بعض نے مشاہدے اور بعض نے حق الیقین کے ساتھ اجماع اور تو اتر سے دار آخرت کے وجود کی خبر دی، اور سب نے بالا تفاق اعلان فرمایا کہ لوگوں کو اس کی جانب لے جایا جائے گا اور حق سجانہ و تعالیٰ یقینا اس دن کو لائے گا ، جس کا اس نے قطعی وعدہ فرمایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت جس میں کسی قسم کی کمی بیشی کا امکان نہیں، جو درختوں کی بے جان لاشوں اور ڈھانچوں میں جان ڈالتاہے، جو ہر سال کی بہار میں سطح زمین پر بے شمار درختوں کو ’کن‘ کے امرسے زندہ کرکے ان کو بعث بعد الموت کی علامت بناتاہے ، جس سے ۳لاکھ قسم کے حیوانات اور نباتات کو زندگی ملتی ہے۔ بے شک اس کی یہ قدرت حشر اور نشور کے سیکڑوں نمونے اور آخرت کے وجود کے دلائل کو ظاہر کرتی ہے ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی وہ وسیع رحمت جو رزق کے محتاج جان داروں کی زندگی کو دوام بخشتی ہے اور کمال شفقت سے ان کو غیر معمولی انداز میں زندہ رکھتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا وہ دائمی لطف وکرم جو ہر بہار کی مختصر سی مدت میں لاتعدا د طریقوں سے خوب صورتی اور حُسن وجمال کے مظاہر دکھاتا ہے ، بلاشبہہ بدیہی طور پر آخرت کے وجود کاتقاضا کرتاہے ۔
اسی طرح کائنات کے کامل ترین پھل، یعنی انسان کی فطرت میں بقا کاعشق اور ابدیت اور سرمدیت کا شوق اس طرح پنہاں ہے کہ وہ کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا ، جب کہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین مخلوق اور ساری کائنات سے زیادہ اس سے تعلق رکھنے والا ہے ۔ اس لیے یہ انسان بھی بدیہی طور پر اس عالم فانی کے بعد ایک عالم باقی اور عالم آخرت اور دار سعادت کے وجودکی جانب اشارہ کرتا ہے ۔
قرآن کریم کا سب سے اہم سبق آخرت پر ایمان ہے اور یہ درس انتہائی مضبوط اور قوی ہے۔ اس ایمان میں ایسا زبردست نور اور عظیم تسلی ہے کہ اگر ایک شخص میں سو بڑھا پے بھی جمع ہوجائیں تو یہ ان کو کافی ہوجائے ، کیونکہ یہ اُمید اور تسلی اسی ایمان سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس لیے ہم بوڑھوں پر لازم ہے کہ ہم خوشیاں منائیں اور یہ کہیں کہ ایمان کے کمال پر اللہ کا شکر ہے ۔
اے عمر رسیدہ مردو! اور اے عمر رسیدہ عورتو! جب ہمارا خالق رحیم ہے تو پھر ہم کبھی بھی اجنبیت کا شکار نہیں ہو سکتے ۔ جب حق تعالیٰ شانہ موجود ہے تو ہر شے ہمارے لیے موجود ہے ، جب اللہ تعالیٰ موجود ہے اور اس کے فرشتے بھی موجود ہیں، تو یہ دنیا مونس وغم خوار سے خالی نہیں، اور یہ خالی پہاڑ اور وہ چٹیل ریگستان ، سب کے سب اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ مخلوق یعنی فرشتوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ یہ سب چیزیں ہمارے خالق رحیم وکریم، ہمارے صانع اور حامی کی جانب رہنمائی کرتی ہیں، جب کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عاجزی اور کمزوری اس اُونچے اور اعلیٰ دروازے پر سب سے بڑے سفارشی ہیں۔ اور سب جانتے ہیں کہ بڑھاپے کا زمانہ عاجزی اور کمزوری کا وقت ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس سے منہ نہ موڑیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار عالی میں ہمارا شفیع ہے۔
اور وہ لوگو جو میری طرح بڑھاپے کی تھکن سے چُور چُور ہو! جب ہم اللہ کے فضل سے اہل ایمان ہیں، جب کہ ایمان کے نتیجے میں اس حد تک میٹھے ، روشن ، لذیذاور محبوب پھل ہیں اور بڑھاپا ہمیں ان خزانوں کی طرف زیادہ تیزی سے دھکیل رہا ہے، تو ہمیں بڑھاپے کی شکایت نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ ضروری ہے کہ ہم اللہ عزوجل کا ہزار بار شکر ادا کریں اور ایمان سے منور اپنے بڑھاپے پر اس کی حمدو ثنا کریں ۔
میرے سرمیں چاندی اُتر آئی، جو بڑھاپے کی علامت ہے ۔ مجھے حضرت زکریاؑ کی پکار یاد آگئی، جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا:
کٓھٰیٰعٓصٓ o ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا o اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّا o قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَ ھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَکُنْم بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا o (مریم ۱۹:۱-۴) یہ ذکر ہے اُس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریاؑ پر کی تھی، جب کہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔اس نے عرض کیا:’’اے پروردگار! میری ہڈیاں تک گُھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اُٹھا ہے۔ اے پروردگار، میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔
ان سفید بالوں کے ظاہر ہونے اور ان کی نصیحت کی وجہ سے حقیقت مجھ پر واضح ہوئی۔ کیونکہ میں نے دیکھاکہ وہ شباب جس پر مجھے گھمنڈتھا ، بلکہ جس کی لذتوں پر میں فدا تھا ، مجھے الوداع کہہ رہا ہے اور دنیا کی وہ زندگی جس کی محبت سے میں جڑا ہوا تھا ، رفتہ رفتہ بجھنے لگی اور وہ دنیا جس سے میں چمٹا ہو اتھا ، جس کا میں مشتاق اور خوگر تھا ، اسے میں نے دیکھا کہ مجھے الوداع کہہ کر یہ احساس دلارہی ہے کہ میں اس سراے سے کوچ کروں گا اور عنقریب اسے چھوڑ دوں گا۔ میں نے دنیا کو دیکھا کہ وہ خود الوداع کہتے ہوئے، رخت ِسفر باندھ رہی ہے ۔ اس آیت کریمہ کل نفس ذائقۃ الموت کی کلیت اور عموم سے درج ذیل معانی دل میں آئے :
ساری انسانیت ایک نفس کی طرح ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ وہ دوبارہ زندہ کیے جانے کی خاطر موت کو گلے لگائے ۔ اس طرح کرۂ ارض بھی ایک نفس ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ وہ بھی مرجائے اور تباہی کا شکار ہو تاکہ اسے بقا اور خلود کی شکل مل سکے ۔ اسی طرح دنیا بھی ایک نفس ہے جو مرکر ختم ہو جائے گی تاکہ آخرت کی صورت اختیار کر سکے ۔
میں نے اپنی حالت پر غور کیا تو معلوم ہو ا کہ جوانی جو لذتوں اور قوتوں کا مدار ہے زوال کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنی جگہ بڑھاپے کو چھوڑ ے جارہی ہے ، جو غموں کا منبع ہے اور ظاہری روشن زندگی پا بہ رکاب ہے، جب کہ اندھیرے اور خوف ناک موت اس کی جگہ لینے کے لیے تیا ر کھڑے ہیں۔
میں نے اپنی غفلت سے ایک بار پھر جاگنے اور اس سے مکمل طور پر بیدار ہونے کے لیے قرآن سننا شروع کر دیا تاکہ قرآن کے آسمانی دروس سے مستفید ہو سکوں۔ چنانچہ اس وقت میں نے درج ذیل آیت میں موجود مقدس خدائی اوامر کے ذریعے اس آسمانی راہنما ئی کی خوش خبریاں سنیں:
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ط کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا لا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ لا وَ اُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ط وَ لَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ ق وَّ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (البقرہ ۲:۲۵) اور اے پیغمبر،جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کرلیں، انھیں خوش خبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اُن باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل اُنھیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔
چنانچہ میں نے اس چہرے پر نظر ڈالی جو سب کو ڈراتا ہے اور یہ وہم ہوتا ہے کہ وہ انتہائی خوف ناک ہے، یعنی موت کا چہرہ، تو میں نے قرآن کریم کے نور سے دیکھا کہ مومن کے لیے موت کا حقیقی چہرہ خوب صورت اور روشن ہے ، حالانکہ اس کا حجاب تاریک ہے اور اسے چھپانے والے پردے پر خوف ناک سیاہی چھائی ہوتی ہے۔
موت آخری قتل ہے نہ ابدی فراق ہی ، بلکہ یہ ابدی زندگی کا مقدمہ اور اس کی تمہید ہے ۔ موت زندگی کے کاموں اور ذمہ داریوں کا خاتمہ اور ان سے رخصت اور سبکدوشی ہے۔ یہ ایک جگہ کی دوسری سے تبدیلی ہے اور ان احباب کے قافلے سے وصال اور ملاقات ہے، جو عالم برزخ کی طرف کوچ کر چکے ہیں۔
اس کے بعد میں نے زمانۂ شباب پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا زوال سب کو غمگین کرتا ہے اور سبھی اس کے مشتاق اور دلدادہ ہوتے ہیں، جب کہ یہی شباب غفلت اور گناہوں میں بیت جاتا ہے ۔ میرا شباب بھی اسی طرح گزرا ہے، چنانچہ میں نے دیکھا کہ جوانی پر پڑی خوب صورت اور کھلی خلعت کے نیچے ایک انتہائی بدصور ت ،بدمست اور عبرت ناک چہرہ چھپا ہوا ہے۔ اگر میں اس کی حقیقت نہ جانتا تو وہ مجھے ساری زندگی رُلاتا اور غم زدہ کرتا رہتا، اگر چہ مستی اور ہنسی میں گزرنے والے چند برسوں کے مقابلے میں میر ی عمر سو سال ہی کیوں نہ ہو جاتی جسے زمانہ شباب پر انتہائی حسرت سے رونے والے شاعر نے کہا ہے ؎
جوانی پلٹ کر جو آتی کبھی
بڑھاپے کی سختی بتاتا اسے
جی ہاں! جن بوڑھوں کو جوانی کا راز اور اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی وہ اس شاعر کی طرح اپنا بڑھاپا جوانی پر رونے اور افسوس کرنے میں گزار دیتے ہیں، جب کہ سمجھ دار اور پُرسکون مومن کی زندگی میں جب شباب کی قوت اور خوب صورتی آتی ہے اور اگر وہ شباب کی اس طاقت اور قوت کو عبادت، اعمالِ صالحہ اور اُخروی تجارت میں استعمال کرتا ہے، تو وہ خیر کی سب بے بڑی قوت، تجارت کا سب سے افضل ذریعہ اور خوب صورت ترین بلکہ لذیز ترین نیکیوں کا وسیلہ بن جاتی ہے۔
جی ہاں !عہدشباب سچ مچ نہایت نفیس اور بہت قیمتی متاع ہے ۔ یہ بہت بڑی خدائی نعمت ہے اور جو شخص اپنے اسلامی فرائض کو جانے اور اسے غلط استعمال نہ کرے اس کے لیے وہ ایک لذیذ نشہ ہے ۔ اس کے مقابلے میں اگر جوانی میں استقامت ، عفت اور تقویٰ نہ ہو تو پھر ہلاکت اور تباہی ہے۔ کیونکہ ایسے میں جوانی کے جذبات اور طیش آدمی کی ابدی خوشی ، اخروی زندگی اور ممکنہ طور پر دنیا کی زندگی کو بھی تباہ کر دیتا ہے، اور چند برسوں کی لذتوں اور مزوں کے بدلے اسے بڑھاپے میں طرح طرح کی مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چونکہ اکثر لوگوں کے ہاں زمانہ شباب نقصان سے خالی نہیں ہوتا، اس لیے ہم بوڑھوں پر لازم ہے کہ اس بات پر اللہ کا شکر کریں کہ اس نے ہمیں شباب کی تباہیوں اور نقصان سے نجات دی ہے۔ اس شباب کی لذتیں بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح لامحالہ ختم ہونے والی ہیں۔ اس لیے اگر عہد شباب کو عبادت، بھلائی اور نیکی میں لگایا جائے تو قیامت میں اس کے دائمی اور سدارہنے والے ثمرات ہوں گے، اور یہ جوانی ابدی زندگی میں ہمیشہ کی جوانی اور کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ ہوگی۔
یہ کہتے ہوئے میں نے غور کیا کہ بے شک میری بھی ایک خاص دنیا ہے جو کسی بھی دوسرے شخص کی دنیا کی طرح منہدم ہو رہی ہے، تو پھر میری اس مختصر سی عمر میں اس مخصوص دنیا کا کیا فائدہ ہے؟ چنانچہ میں نے قرآن کریم کے نور سے دیکھا کہ یہ دنیا میرے اور دیگر لوگوں کے لیے ایک عارضی مکان کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک مہمان سراے ہے جو روز بھرتی اور خالی ہوتی رہتی ہے۔ یہ آنے جانے والوں کے لیے سڑک کے کنارے لگایا جانے والا ایک بازار ہے۔ یہ خالق کائنات کی کھلی کتاب ہے ، جس میں وہ اپنی حکمت کے مطابق جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے۔ اس دنیا کی ہر بہار ایک سنہری خط اور ہر موسم ایک خوب صورت قصیدہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنیٰ کی تجلیات کو ظاہر کرتے ہوئے بار بار آتا ہے۔ یہی دنیا آخرت کی فصل کی کھیتی اور اس کا باغ ہے۔ یہ رحمت الٰہیہ کا گلدان اور ان ابدی اور خدائی شاہکاروں کو تیار کرنے کا عارضی کارخانہ ہے، جو عالم بقاوخلود میں ظاہر ہوں گے ۔ چنانچہ میں نے دنیا کو اس شکل میں پیدا کرنے پر خالق ذوالجلال کا انتہائی شکر ادا کیا، لیکن جس انسان کو اسماے حسنیٰ اور آخرت سے تعلق والے دنیا کے دو حقیقی اور خوب صورت چہرے عطا ہوئے ہیں، اگر وہ اس محبت کو غلط جگہ استعمال کرتا ہے تو وہ اپنے ہدف سے ہٹ کر غلطی میں پڑ جاتا ہے۔ کیونکہ اس نے اس محبت کو دنیا کے فانی، قبیح اور غفلت اور نقصان والے چہرے کی طرف موڑ دیا ، یہاں تک کہ اس پر یہ حدیث صادق آتی ہے: ’’دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے‘‘۔
میں نے یہ حقیقت قرآن کریم کے نور، اپنے بڑھاپے کی نصیحت اور ایمان کے نور کے ذریعے دیکھ لی ہے اور اس کو کئی رسائل میں قطعی دلائل سے ثابت کر دیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ حقیقت میرے لیے حقیقی تسلی، قوی اُمید اور کھلی روشنی ہے۔ چنانچہ میں اپنے بڑھاپے پر راضی اور شباب کے جانے پر خوش ہوا۔
اس لیے میرے بوڑھے بھائیو! تم بھی غم نہ کھائو اور اپنے بڑھاپے پر آنسو مت بہائو،بلکہ اللہ کا شکر اور اس کی تعریف کرو۔ جب تمھارے پاس ایمان کی دولت ہے تو پھر غافلوں کو رونے دو اور گمراہوں کو غم میں گھلنے اور آنسو بہانے دو۔
یہ بات اچھی طرح جان لوکہ بڑھاپے کی عاجزی اور کمزوری اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے کرم کو متوجہ کرنے کے ذریعے کے سواکچھ نہیں۔کیونکہ میں اپنی زندگی کے کئی واقعات کی روشنی میں اس بات کا گواہ ہوں۔ اسی طرح روے زمین پر رحمت کی تجلی کا ظہور بھی بڑے واضح انداز میں ہو رہا ہے۔ حیوانات کے بچے سب سے کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں، جب کہ رحمت کے لطیف ترین ، لذیز ترین اور خوب صورت ترین حالات کی تجلی انھی میں نظر آتی ہے۔ کیونکہ کسی گھنے پیڑ پر آشیانے میں پڑے چوزے کی عاجزی ، اس کی ماں کو رحمت کی تجلی کے ذریعے یوں استعمال کرتی ہے جیسے وہ حکم کی منتظر ایک سپاہی ہے ۔ چنانچہ وہ سرسبز و شاداب کھیتوں کے گرد گھوم کر اپنے چوزے کے لیے وافر مقدار میں رزق لاتی ہے۔ لیکن جوں ہی وہ چوزہ پَر نکلنے اور بڑا ہونے کے بعد اپنی کمزوری کو فراموش کرتا ہے تو اس کی ماں اس سے کہہ دیتی ہے کہ اب اپنا رزق خود تلاش کرو اور اس کے بعد وہ اس کی آواز پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔
پس جس طرح رحمت کا راز اس شکل میں چھوٹوں کے لیے جاری وساری ہے اسی طرح ضعف اور عاجزی کی وجہ سے بوڑھوں کے لیے بھی ہے، کیونکہ وہ بھی بچوں کی مانند ہو جاتے ہیں۔
مجھے اپنے ذاتی تجربات سے اس بات کا یقینِ کامل حاصل ہو گیا ہے کہ جس طرح کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت چھوٹے بچوں کا رزق غیر معمولی انداز میں ماں کے سینے سے چشمے جاری کرکے بھیجتی ہے، اسی طرح گناہوں سے بچنے والے ایمان دار بوڑھوں کا رزق بھی رحمت الٰہیہ کی جانب سے برکت بن کر آتا ہے، جب کہ ہر گھر کی برکت کا مدار اور محور اس گھر کے بوڑھے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بات ایک حد یث سے پوری طرح ثابت ہوتی ہے جس میں وارد ہوا ہے۔
اگر خمیدہ پشت بوڑھے نہ ہوتے تو تمھارے اوپر مصیبتوں کے انبار لگ جاتے۔ اس طرح چونکہ بڑھاپا، عاجزی اور کمزوری اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو متوجہ کرنے کا سبب بنتی ہے اور قرآن کریم ان آیات میں:
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا ٓ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَـلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا o وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳-۲۴) اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ اور عجز ونیا ز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کر و کہ ’’اے پروردگار جیسا انھوں نے بچپن میں مجھے شفقت سے پالا تھا ، تو بھی ان کے حال پر رحم فرما ‘‘۔
انتہائی معجزانہ اسلوب کے ساتھ پانچ مراتب میں والدین کے ساتھ احترام اور نرمی سے پیش آنے کی دعوت دیتا ہے اور انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ بوڑھوں کے ساتھ احترام اور رحمت کا سلوک کیا جائے۔ توپھر بوڑھوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اس بڑھاپے کو بچپن کے سو زمانوں سے بھی نہ بدلیں، کیونکہ اس بڑھاپے میں بہت سی روحانی لذتیں ہیں، وہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم سے پھوٹنے والی رحمت اور انسانیت کی فطرت سے جنم لینے والے احترام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
پس اے وہ شخص جو میری طرح بڑھاپے کی طرف رواں دواں ہے! اے شخص جو بڑھاپے کی علامتوں کی وجہ سے موت کو یاد کر رہا ہے! اس پر لازم ہے کہ بڑھاپے کی علامتوں کی وجہ سے موت اور بیماری کو دل سے قبول کرلیں اور قرآن کریم کے لائے ہوئے ایمان کے نور کے ذریعے اسے ایک نعمت سمجھیں، بلکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم ایک رخ سے اس سے محبت کریں۔ کیونکہ جب ہمارے پاس ایمان کی نعمت موجود ہے تو پھر بڑھاپا اچھا ہے، بیماری اچھی ہے اور موت بھی اچھی ہے۔
میراوجدان کہتاہے کہ میراایک ایسا پالنے والا خالق ہونا چاہیے ، جو میرے دل کے لطیف خیالات اورپوشیدہ ترین امید اور دعا کو جانتا اور سنتا ہو اور اس کی قدرت مطلق ہو ، تاکہ وہ میری روح کی خفیہ ترین ضروریات کو بھی پورا کر ے اور اس عظیم دنیا کو بھی ایک اور دنیا سے بدل دے، تاکہ مجھے دائمی سعادت حاصل ہو جائے اور اس دنیا کو ختم کر نے کے بعد آخرت برپا کر دے۔ وہ ایسا خالق ہو کہ جس طرح وہ مکھی کو پیدا کرتا ہے ، اسی طرح آسمانوں کو بھی وجود میں لائے۔ پھر جس طرح اس نے آسمان کے چہرے کو سورج سے خوب صورتی بخشی ہے اسی طرح اس کے ایک ذرے کو میر ی آنکھ کی پتلی میں لگادیا ہے ، ورنہ جو ذات مکھی پیدا نہیں کرسکتی وہ میرے دل کے خیالات میں مداخلت کر سکتی ہے اور نہ میری روح کی عاجزی کو ہی سن سکتی ہے، اور جو ذات آسمانوں کو پیدا نہیں کرسکتی وہ مجھے ابدی سعادت بھی نہیں دے سکتی ۔ اس لیے میرا رب وہ ہے جو میرے دل کے خیالات کو سنتا اور ان کی اصلاح کرتا ہے ۔ پس جس طرح وہ ایک لمحے میں فضا کو بادلوں سے بھرتا اور پھر خالی کردیتا ہے ، اسی طرح وہ اس دنیا کو بدل کر آخرت بھی لے آئے گا اور جنت کو آباد کرے گا، اور یہ فرماتے ہوئے اس کے دروازے کھول دے گا کہ چلو اندر داخل ہو جائو۔
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ اس نے مجھے دنیا کی ان بے حقیقت اور بے لطف لذتوں کے بجاے جن کے انجام میں بھی کوئی خیر نہیں ، ان حقیقی ، ایمانی اور دائمی لذتوں کو لا الٰہ الااللہ اور تو حید کے نور میں پانے کی توفیق بخشی ۔ میں اس کا شکر اد اکرتا ہوں کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ بڑھاپے کو ہلکا سمجھوں،اس کی گرمی اور روشنی سے لطف اٹھاوں اور غافلوں کی طرح اس میں سردی اور بوجھ محسو س نہ کروں ۔
جب تمھارے پاس وہ نماز اور دعا ہے جو ایمان کو روشن کرتی ہے، بلکہ اس میں اضافہ کرتی اور اسے صیقل کرتی ہے، تو تم اپنے بڑھاپے کو ایک دائمی جوانی کی طرح دیکھ سکتے ہو۔ کیونکہ اس کے ذریعے تم دارالخلود میں جوانی حاصل کر سکتے ہو، جہاں حقیقی ٹھنڈاپانی اور بے حدوحساب عنایات ہوں گی۔انتہائی بوجھل اور بڑا بلکہ تاریک اور درد ناک بڑھاپا گمراہوں کا بڑھاپا ہوگا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان کی جوانی کا بھی یہی حال ہو۔ اس لیے وہ روئیں گے، پیٹیں گے اور کہیں گے: افسوس … صد افسوس!
اے محترم مومن بوڑھو!ان کے مقابلے میں تم پر لازم ہے کہ پوری خوشی اور سرور کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اپنے رب کا شکر ادا کرو: ہر حال پر اللہ کا شکر ہے۔
اور وہ لوگو جو میری طرح بڑھاپے میں اپنے عزیز ترین بچے کھو چکے ہو۔ یا ان کا کوئی عزیز داغ مفارقت دے گیا ہو! اور اے وہ لوگو جن کے کاندھے بڑھاپے کا بوجھ اٹھانے سے عاجز ہیں، جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے سر پر فراق سے پیدا ہونے والے زبردست غم بھی ہیں۔ اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ قرآن کے مقدس دواخانے میں تمھاری ہر بیماری اور سُقم کا علاج موجود ہے۔ اس لیے اگر تم ایمان کے ذریعے دواخانے سے رجوع کر سکو اور عبادت کے ذریعے ان کا علاج کرو تو یقینا تمھارے کاندھوں پر پڑے بڑھاپے اور سر پر اٹھائے غموں کے بوجھ کا وزن اور زور کم ہو جائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہلاک اور تباہ کرنے والی سب سے بڑی چیزاحباب کا بچھڑنا ہے۔ جس وقت میری روح کسی سہارے اور مدد کو تلاش اور لا محدود فراق، جدائیوں اور تباہ کاریوں اور عظیم اموات سے پیدا ہونے والے غموں اور دکھوں سے نجات کے لیے کسی تسلی کی منتظر تھی، اچانک قرآن معجز بیان کی اس آیت نے میرے لیے اطمینانِ قلب کا سامان کر دیا: سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ج وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (حدید۵۷:۱-۲) ’’اللہ کی تسبیح کی ہے ہراُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے،اور وہی زبردست اور دانا ہے۔ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔
دنیا ویران اور غیر آباد ہے اور نہ کوئی تباہ شدہ شہر، جیسا کہ میں غلطی سے سمجھتا تھا، بلکہ مالکِ حقیقی اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق انسان کی بنائی ہوئی عارضی تصویروں کو دوسری تصویروں سے بدل کر اپنے پیغامات کی تجدید کرتا ہے ۔ اس لیے جس طرح درخت پر ایک پھل کٹنے کے بعد نیا پھل لگتا ہے، اسی طرح بشریت میں فراق اور زوال بھی تجدید اور تجدد کے لیے ہے۔ اس کی وجہ سے تکلیف دہ غم پیدا نہیں ہوتا، بلکہ ایمان کے رخ سے ایک لذیذ غم ملتا ہے، جس کا سرچشمہ وہ فراق ہوتا ہے جس کا اختتام وصال کی پُرکیف لذت پرہوتاہے۔
اور اے وہ لوگو جو بڑھاپے کی وجہ سے میری مانند بہت سے احباب کے فراق کا درد واَلم گھونٹ گھونٹ کر کے پی رہے ہو!میں روحانی طور پر اپنے آپ کو تم سے زیادہ بوڑھا سمجھتا ہوں اگر چہ تم میں ایسے لوگ ہیں جو عمر میں مجھ سے بڑے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی تکلیف کے علاوہ میں اپنے ہزاروں بھائیوں کی تکلیف بھی محسوس کرتا ہوں، کیونکہ میری فطرت میں اپنے ابناے جنس کے لیے بڑی نرمی اور شفقت پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے مجھے یوں تکلیف ہوتی ہے جیسے میں سیکڑوں سال کا پیر فرتوت ہوں۔ اس کے مقابلے میں تمھیں فراق کا جتنا بھی درد ہو، تمھیں میری تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا ہی نہیں ہوا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا کوئی بیٹا نہیں کہ میں اس کی فکر کروں ، مگر میں اپنی فطرت میں پوشیدہ شفقت کی وجہ سے ہزاروں فرزندانِ اسلام کی تکالیف اور مصائب کو بلکہ جنگلی جانوروںتک کی تکلیف کو بھی محسوس کرتا ہوں۔ علاوہ ازیں میں اپنے آپ کو اس ملک بلکہ پوری اسلامی دنیا سے جڑا ہوا سمجھتا ہوں۔ اس ملک اور اسلامی دنیا سے میرا تعلق ایسا ہے جیسے اپنے گھر سے ہوتا ہے، حالانکہ میرا اپنا کوئی ذاتی گھر نہیں کہ میرے ذہن کا تعلق اس سے ہو۔ اس لیے میں اس ملک اور اسلامی دنیا کے تمام مسلمانوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے فراق پر غمگین ہوتا ہوں۔
جب ایمان کا نور میرے لیے پوری طرح کافی ہو گیا اور اس نے میرے بڑھاپے اور جدائی کی تکالیف سے پیدا ہونے والے تمام اثرات کا خاتمہ کر دیا، اور مجھے مایوس نہ ہونے والی اُمید، نہ ختم ہونے والی آس، نہ بجھنے والی روشنی اور نہ ختم ہونے والی تسلی دے دی ہے، تو پھر ضروری ہے کہ ایمان تمھارے لیے بھی بڑھاپے سے پیدا ہونے والے اندھیروں اور اس کی غفلت اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات اور درد واَلم کے مقابلے میں بھی کافی ہو جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ سیاہ بڑھاپا اہل ضلالت اور بے وقوفوں کا ہے، اور سب سے زیادہ تکلیف دہ جدائی اور درد بھی انھی کا ہے۔
جی ہاں، وہ ایمان جو اُمید پیدا کرتا ہے ، جو نور پھیلاتا اور تسلی دیتا ہے، اس تسلی اور لذت کا احساس شعوری طور پر اس بندگی کو بجا لانے سے ہوتا ہے جو بڑھاپے کے مناسب اور اسلام کے موافق ہو۔ یہ احساس بڑھاپے کو بھلانے اور نوجوانوں سے مشابہت اختیار کرنے کی کوششوں اور ان کی نشہ آور غفلت میں گھسنے سے نہیں ہوتا۔ ہمیشہ اس حدیث پر غور وفکر کرو کہ تمھارے سب سے اچھے نوجوان وہ ہیں جو بوڑھوں سے مشابہت اختیار کریں اور سب سے بُرے بوڑھے وہ ہیں جو تمھارے نوجوانوں سے مشابہت اختیار کریں۔مطلب یہ ہے کہ سب سے اچھے نوجوان وہ ہیں جو تحمل ، متانت اور بے وقوفی سے بچنے میں بوڑھوں سے مشابہت اختیار کریں، اور سب سے بُرا بوڑھا وہ ہے ، جو بے وقوفی اور غفلت میں نوجوانوں سے مشابہت اختیار کرے۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے: اللہ کی رحمت کو اس بات سے حیا آتی ہے کہ کسی بوڑھے مومن مرد یا عورت کے دعا کے لیے اٹھے ہاتھ کو خالی لوٹا دے ۔ پس جب اللہ کی رحمت تمھارا احترام کرتی ہے تو تم بھی اللہ کی بندگی کر کے اس کا احترام اورتعظیم کرو۔ ہم اُس عالم کی جانب رواں دواں ہیں جہاں نبی کریمؐ تشریف لے گئے ہیں۔ اسی عالم کی طرف جارہے ہیں جو اس سراجِ منیر کے نور اور اس کے گرد ہالہ کیے ہوئے بے شمار اصفیا واولیا کے ستاروں سے روشن ہے ۔ نبی کریم ؐکی سنت کی پیروی ہی آدمی کو آپؐ کی شفاعت کے جھنڈے تلے کھڑے ہونے، آپؐ کے انوار سے روشنی لینے، اور برزخ کے اندھیروں سے نجات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
تنظیمِ وقت (Time Management) ایک ایسی صلاحیت کا نام ہے جس کی بنیاد آپ کی اپنی ذات ہے۔ جب تک آپ اپنی ذات کی بہتری اوراصلاح نہیں کرلیتے اس وقت تک آپ اپنے مہیا وقت کو بہتر طریقے سے استعمال نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اپنی ذات کی تنظیم ،بہتری ، ترقی اوراخلاق اور کردار میں بڑھوتری کی کوشش آپ کی تنظیمِ وقت کی صلاحیت کو نکھا ر دے گی۔
تنظیمِ وقت کے حوالے سے پانچ مراحل ترتیب دیے گیے ہیں۔ ان مراحل کے ذیلی حصے بھی ہیں۔ اپنی تربیت ، تزکیہ، ترقی، اپنی ذات کی ترتیب اور اپنی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ان نکات پر غور کیجیے۔
مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں پہلا وہ گھر خدا کا، جس کے گرد ان دنوں عشاقِ بے تاب کا ایک ہجوم بے پناہ دُنیا کے گوشے گوشے سے کھنچ کھنچ کر پروانہ وار جمع ہو رہا ہے، اور ہزاروں برس سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے لیے مرکز زندگی کا مقام رکھتا ہے۔ اس گھر کی غریب و سادہ رنگین داستان کے ورق ورق پر آیات بینات کا ایک اتھاہ خزانہ رقم ہے۔ ان آیات میں دیدہ و دل وا کرنے کے لیے، راہ زندگی روشن کرنے کے لیے، اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے، بیش بہا دولت محفوظ ہے۔ اس گھر میں وہ زم زم ہی رواں نہیں ہے جو چار ہزار سال سے پیاسوں کی پیاس بجھا رہا ہے اور بجھاتا چلا جائے گا، بلکہ اس ہی سے ہدایت و برکت کا وہ زم زم بھی جاری ہوا ہے جس نے سارے جہانوں کی معنوی تشنگی دور کرنے اور ان کے قلوب و ارواح اور فکر و عمل کی سیرابی کا سامان کیا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، کہ اس ایک گوشۂ مکان کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ خداے لامکاں کی رحمت کاملہ نے اسیر مکان و زمان کو اپنا تقرب بخشنے کی خاطر اسے اپنا گھر بنا لیا ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ(اٰل عمرٰن۳:۹۶-۹۷) بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ ہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیاتھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں۔
ان آیات بینات میں سب سے نمایاں، اخلاص و محبت اور اطاعت و وفا کے وہ نقوش ہیں جو اس گھر کے ایک ایک پتھر پر، اور اس کے جوار میں ایک ایک چپے پر، سلسلۂ رشد وہدایت کے امام اولیں حضرت ابراہیم ؑ نے راہِ خدا میں اپنے مقام عالی سے ثبت کیے ہیں۔ اُنھوںنے رب واحد کی بندگی کی خاطر وطن چھوڑنے کے بعد، اپنی یکہ و تنہا بیوی اور شیر خوار بیٹے کو اس گھر کے جوار میں لا بسایا، انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس گھر کی دیواریں چنیں، انھوں نے اس گھر کی زیارت کے لیے مشرق و مغرب کو پکارا، انھوں نے اس گھر کو طواف، اعتکاف، قیام اور رکوع و سجود کا مرکز بنایا، یہیں انھوں نے بارگاہِ محبوب میں اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی۔ انھوں نے مشیت الٰہی کی طرف سے اس گھر کو سلسلۂ رشد و ہدایت کے امام آخر ؑ، اوراُمت مسلمہ کے ظہور کا مبداو مرکز بنانے کے فیصلے کو، دعا کے رنگ میں، ثبت و ظاہرکر دیا۔
پھر اللہ کا یہ گھر، اور یہ البلد الامین ان تمام تابناک و بے مثال روایات کا حامل بھی بن گیا جو بعثت محمدیؐ، نزول قرآن، دعوت اسلامی، اور ہجرت و جہاد کے ابواب میں محفوظ ہیں۔ اس گھر کا کوئی پتھر ایسا نہیں، اس کے قرب میں کوئی چٹان اور سنگریزہ ایسا نہیں، جس کے دل میں ہدایت و دعوت اور ہجرت و جہاد کا کوئی نہ کوئی نقش محفوظ نہ ہو، اور جویا و پیاسا اسے پا نہ سکتا ہو۔ سوچیے تو یہ بھی وراثت ابراہیم ہی ہے:
مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ط ہُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج۲۲:۷۸)قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’’مسلم‘‘ رکھاتھا۔
حضرت ابراہیم ؑ نے اس گھر کو، اور اس شہر کو ایسا جاے امن بنایا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا ہے، اس کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں، اور ہمیشہ سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے۔ مگرانھوں نے اس گھر میں ہدایت کا جو مرکز قائم کیا، صرف وہ مرکز ہی ایک ایسا مرکز ہے جہاں انسان داخل ہو تو اس کے قلب و روح، فکر وسوچ، اخلاق و کردار، شخصی زندگی اور حیات اجتماعی، سب محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ اگر کہیں انسان خوف و حزن، ظلم و فساد، اور دُنیا و آخرت کے بگاڑ اور تباہی سے امن حاصل کر سکتا ہے تو اس بناء ہدایت میں داخل ہو کر جو عالم معنوی میں خانۂ کعبہ کی مثال ہے:
وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (اٰل عمرٰن۳:۹۷) اور اُس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔
صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے یہ ضروری ہوا کہ جو پہنچ سکتا ہو وہ کم سے کم عمر میں ایک دفعہ، حضرت ابراہیم ؑ کی طرح گھر بار ترک کرکے، طویل مسافت طے کر کے، لباس دُنیا اتار کے، اللہ کے اس گھر تک ضرور پہنچے، اور یہاں فیض کا جو چشمہ بہہ رہا ہے اس میں ضرور غوطہ لگائے۔ اس گھر پر وہ اپنے دل کا لنگر ڈال دے، اس کو نگاہوں میں بسالے کہ اس کو دیکھنا بھی عبادت ہے، اس کے چاروں طرف چکر کاٹے، اس کے دوودیوار سے چمٹے، اس کے جوار میں پہاڑیوں پر چڑھے، وادیوں میں چلے اور رب البیت کے دربار عرفات میں حاضر ہو جائے:
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط (اٰل عمٰرن ۳:۹۷)لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اِس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔
لیکن نہ ہر شخص پہنچ جانے کی استطاعت رکھ سکتا ہے، نہ عمر میں صرف ایک دفعہ ہو آنا اس چشمۂ ہدایت سے فیض مطلوب حاصل کرنے کے لیے کفایت کرتا ہے۔ جو ہُدًی لِّـلْعَالِمِیْنَ ہے اس کے ساتھ تو زندگی کے ہر لمحہ مربوط رہنا ناگزیز ہے۔ چنانچہ یہ بھی ضروری ہوا کہ دُنیا میں جہاں کہیں بھی ہو، اور جس حالت میں بھی ہو، ہر روز پانچ دفعہ، دُنیا کا ہر شغل اور ہر دل چسپی ترک کرکے (جس طرح حج کے لیے کرتے ہو)، اس برکت وہدایت کے گھر کی طرف رُخ کرو، سامنے اسی گھر کو رکھو، نگاہیں اسی پر جمائو:
وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ ط (البقرۃ۲:۱۴۴) اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔
بیت اللہ کے حج کو جانا، عمر بھر جانے کی آرزو اور شوق میں سلگتے رہنا، گویا کہ اس کو اپنی سعی و طلب کا مقصود بنانا، اور ہر روز پانچ دفعہ اس کی طرف رُخ کرکے اپنے رب کے سامنے جھکنا اور بچھ جانا اور اس سے ہم کلام ہونا، گویا کہ اس کو اپنے دل و نگاہ کا مرکز بنانا، ایسے اعمال ہیں جوہماری زندگیوں کو رُخ، رنگ اور ساخت عطا کرتے ہیں۔ ان دِنوں جب حج کا موسم ہے اور زائرین اس شمع کے گرد ہجوم کر رہے ہیں، ہمیں آگاہ ہونا چاہیے کہ اس گھر میں، اس کی تاریخ میں، اس کی روایات میں، اس میں ثبت کردہ نقوش و آثار میں، برکت و ہدایت اور آیات بینات کے کیسے کیسے بیش بہا خزانے ہیں جو ہماری جستجو کے منتظر ہیں، اور جن سے ہمیں اپنی جھولی بھرنا چاہیے۔
بروبحر میں فساد کا تلاطم ہو، ہمارے گھروں میں ظلم اور فتنہ کی طغیانی ہو، اُمت ذلت و مسکنت کے شکنجے میں کسی ہوئی ہو، اغیار کا غلبہ ہو تسلط ہو، باہمی افتراق و عداوت ہو، خون مسلم کی ارزانی اور عزت مسلم کی پامالی ہو، اُمت مسلمہ کا احیا مقصود ہو، جس طرح بچے کو ماں کے سینے سے چمٹ کر ہی امن و اطمینان نصیب ہوتا ہے، انسانیت اور اُمت مسلمہ کو امن اور فلاح، بیت اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے چمٹ کر ہی نصیب ہو سکتا ہے۔
خداے لامکاں کسی مکان میں سما نہیں سکتا۔ بیت اللہ تو ایک علامت ہے، ایک شعار ہے، اور اس لیے ہے کہ مرکز دل، محبوب نظر، مقصود سعی وجہد، اللہ اور صرف اللہ، بن جائے۔ جو اللہ کو مضبوطی کے ساتھ تھام لے، اسی کے ساتھ جڑ جائے، اس طرح تھام لے اور جڑ جائے جس طرح کہ اللہ کا حق ہے، وہی صراط مستقیم پا لیتا ہے۔
وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِراطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (اٰل عمٰرن۳:۱۰۱)جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہِ راست پا لے گا۔
ہدایت کوئی لیبل چسپاں کر لینے سے حاصل نہیں ہوتی، وہ یہودی کا لیبل ہو نصرانی کا، یا محمدی کا۔ نہ ہدایت خانہ کعبہ کا چکر کاٹ آنے سے ملتی ہے، نہ اس کی طرف منہ کر لینے سے۔ ہدایت تو حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اللہ کا حنیف بندہ بن جانے کا نام ہے، جس میں شرک کی گندگی کا شائبہ تک بھی نہ ہو:
بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا ط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (البقرہ۲:۱۳۵)نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑمشرکوں میں سے نہ تھا۔
حضرت ابراہیم ؑحنیف تھے، یعنی وہ سب کچھ چھوڑ کر صرف اللہ کے بن گئے تھے، اس کے ہو رہے تھے، اور اللہ کے سوا کسی کے نہ رہ گئے تھے۔
انھوں نے ہر ڈوبنے والی چیز کی، اور ماسوا اللہ ہر چیز ڈوبنے والی اور فنا ہونے والی ہے، محبت ترک کرکے، تمام چمکتے دمکتے چاند، سورج اور ستاروں کا طلسم توڑ کے، اپنا اور اپنی زندگی کا رُخ صرف اللہ کی طرف کر لیا تھا، سب سے بڑھ کر صرف اس کی محبت اپنے دل میں بسالی تھی، صرف اس کو طلب و سعی کا مرکز بنا لیا تھا، صرف اسی پر نگاہیں جمادی تھیں، یا یوں کہیے صرف اسی کو اپنی شخصیت اور زندگی کا قبلہ بنا لیا تھا، اور اس رُخ میں، توجہ میں، وابستگی میں، اللہ کے علاوہ اور کوئی رخ نہ تھا جو شریک ہو۔
انھوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے حوالے کر دیا تھا، اور کوئی چیز اس سے بچا کر نہ رکھی تھی … اپنے علاقے اور محبتیں، اپنا گھر اور وطن، اپنی بیوی اور بیٹے، اپنی دُنیا اور اپنی متاع… پرستش بھی اس کی، ہر چیز اس کے اشارے پر حاضر اور قربان بھی، زندگی بھی اسی کی، موت بھی اسی کی۔ اور اس خود سپردگی میں بھی شمہ برابر حصہ اللہ کے علاوہ اور کسی کے لیے نہ لگایا تھا۔
وہ اپنے رب کے ہر حکم کی فرماں برداری کے لیے ہر وقت مستعد اور حاضر تھے۔ آگ میں بے خطر کود پڑنے کا حکم ہو، گھر اور وطن چھوڑ کر نکل جانے کا حکم ہو، باپ کے لیے استغفار تک ترک کر دینے کا حکم ہو، تمام معبودان باطل سے اعلان براء ت و عداوت کا حکم ہو، اہل و عیال کو وادیِ غیرذی زرع میں بسانے کا حکم ہو، پتھروں سے اللہ کے گھر کی دیواریں چننے کا حکم ہو، اکلوتے اور محبوب نور نظر کے گلے پر چھری چلانے کا حکم ہو__ ان کی زبان پر ہر وقت لبیک تھا، وہ ہر وقت حاضر تھے، ان کی ہر چیز حاضر تھی۔
توحید خالص، ریاضی کے فارمولے کی طرح، اللہ کو ایک مان لینا نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح سب کچھ چھوڑ کر صرف اُسی کا بن جانا اور اُسی کا ہوکر رہنا ہے۔ بیت اللہ کی آیات ہدایت میں سب سے نمایاں اور سب سے اہم حضرت ابراہیم ؑ کا یہی اسوۂ زندگی ہے جو ’اسلام‘ اور حنیفیت سے عبارت ہے۔ حج اور استقبال قبلہ کا عمل ہمیں بندگیِ رب کے اس رنگ میں رنگنے ہی کے لیے ہے، جس کی شان حضرت ابراہیم ؑاور آل ابراہیم ؑ نے اپنی توحید خالص، اخلاص و وفاداری، فرماں برداری اور یکسوئی سے قائم کی۔ یہی رنگ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، یہی اُس کو مطلوب ہے، یہی اُس کے ہاں مقبول ہے۔ اس رنگ میں رنگ جانے والوں ہی سے وہ راضی ہوتا ہے۔ اِنھی سے دُنیا میں علو وامامت کا وعدہ ہے، اور آخرت میں جنت کے انعام سے سرفرازی کا۔
ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کرکے نمازیں بھی پڑھیں، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم ؑ کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہم سے دُنیا میں جو وعدے ہیں… استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے، غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے… وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو:
یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط (النور۲۴:۵۵) بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
مشرق سے لے کر مغرب تک نظر ڈال لیجیے! کیا اُمت مسلمہ میں حضرت ابراہیم ؑ کا کوئی ایسا رنگ ہے جو غیر مسلموں اور مشرکوں کے رنگ سے الگ ہو۔ اپنے دلوں کو دیکھیے، انھی کی طرح بے شمار ٹکڑوں میں منقسم ہیں او رہر ٹکڑے میں ایک الگ معبود بیٹھا ہوا ہے۔ اغراض و مقاصد پر نظر ڈالیے، انھی کی طرح وہ بھی ان گنت ہیں اور ان سب سے کم مقام ان کا ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ترین ہیں۔ نماز میں بے شک ہمارا منہ قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف نہیں ہوتا، لیکن زندگی میں تو انھی کی طرح ہمارے بہت سے قبلے ہیں جو ہماری توجہات اور وابستگیوں کا مرکز ہیں۔ زبان پر بے شک لبیک ہے، لیکن ہم نہ خود اپنے کو، نہ اپنی کسی محبوب چیز کو، اللہ کے لیے حاضر کرنے کو تیار ہیں۔ ہر حکم کی تعمیل میں ہماری اپنی کسی نہ کسی خواہش، پسند و ناپسند، محبوب ومبغوض کی قربانی دامن گیر ہوجاتی ہے، یا ہزاروں اندیشے اور خوف ہمیں چاروں طرف سے گھیر کر ہماری راہ مسدود کر دیتے ہیں۔ حج ہو یا استقبال قبلہ، بے جان مراسم عبادت نہ ہمارے قلوب کو بیدار کرتے ہیں، نہ نگاہوں میں پاکیزگی و یکسوئی پیدا کرتے ہیں، نہ عمل میںصالحیت۔ یہ نہ ہماری سوچ بدلتے ہیں، نہ شخصیت ،نہ زندگی۔
بیت اللہ کی آیات بینات میں سے یہ بھی ہے کہ ہمہ اقتدار و ہمہ اختیار حی و قیوم خدا، جو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں سے ہے سب کا بلاشرکت غیر مالک کل ہے، اور جس کی کرسی، اقتدار سب کو سمیٹے ہوئے ہے، وہ جب چاہے موت کو زندگی سے، زندگی کو موت سے، اندھیروں کو روشنی سے، روشنی کو اندھیروں سے، عزت کو ذلت سے، اور ذلت کو عزت سے، بدل دیتا ہے۔ جو اس کے ساتھ ایمان اور بندگی کا رشتہ قائم کر لے، اسے ہر اندیشے اور خوف سے، ہر حزن و غم سے، ہرحسرت و یاس سے پاک ہونا چاہیے۔
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ جب حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ میں بسانے کے لیے آئے وہاں نہ انسان کا نام و نشان تھا، نہ پانی کا، نہ زراعت کا، نہ خوردونوش کا کوئی انتظام، ایک تھیلی (جراب) کھجوروں کی، اور ایک مشکیزہ پانی کا، بس یہ کل کائنات تھی جو وہ ان کے پاس چھوڑ کر چلے۔ حضرت ہاجرہؑ نے بار بار پوچھا کہ ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں چلے، جہاں نہ آدم نہ آدم زاد، نہ کوئی اور چیز۔ کوئی جواب نہ پایا تو سوال کیا، کیا اس کا حکم آپ کو اللہ نے دیا ہے؟ فرمایا، ہاں۔ یہ سن کو اطمینان و سکون اور امن کی اس جنت میں داخل ہو گئیں، جس کا باغ ان کے اندر لہلا اُٹھا۔ یہ جنت کیا تھی؟ فرمایا: اِذَنْ لَایُضیِّعُنَا (پھر تو وہ ہم کو ضائع نہ کرے گا)۔ بخاری کی ایک دوسری روایت کے مطابق، حضرت ہاجرہؑ کے پوچھنے پر ہمیں کس پر چھوڑ کر جارہے ہو، حضرت ابراہیم ؑ نے کہا، اللہ پر۔ یہ سن کر وہ پورے سکون واطمینان سے بولیں، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ (میں اللہ پر راضی ہوں)۔
اللہ پر یقین اور اعتماد، اللہ پر بھروسا اور توکل، اللہ کے ہر فیصلے پر خوش، بندگیِ رب کی یہ کیفیت تھی کہ ایک یکہ و تنہا عورت اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ، پتھریلے بیابان میں، بھیانک اور ڈرائونی راتیں، تپتے ہوئے دن، موذی جانور، چور اور ڈاکو، سب کے باوجود، اطمینان اورامن کی کیفیت سے مالا مال تھی۔ معاش کا بندوبست بھی کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کے مشکیزہ سے زائد کچھ نہ تھا۔ پھر بیت اللہ کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں کوئی وسائل نہ تھے، کوئی اسباب نہ تھے، کوئی سہارا نہ تھا، صرف خطرات ہی خطرات تھے، وہاں خداے حی و قیوم ۴ ہزار سال سے سب کچھ بخش رہا ہے۔ جہاں کوئی انسان نہ تھا، وہاں لاکھوں انسان دُنیا بھر سے چلے آ رہے ہیں۔ جہاں نہ پانی تھا، نہ کھانا، وہاں ہر قسم کا خوردونوش کا سامان پایا جاتا ہے۔
یہ علم ہو جانے کے بعد، پیغمبرؐ کی زبان سے کہ جس کا علم غیر مشتبہ ہے، کہ یہ خدا کا حکم ہے، کچھ مادی وسائل نہ ہونے کے باوجود، دُنیا بھرمیں یکہ و تنہا ہونے کے باوجود، ہر قسم کے سنگین اور مہیب خطرات اور اندیشوں کے سامنے ہوتے ہوئے، اطاعت و فرماں برداری کی راہ چل پڑنا ہی حکمت و دانائی کا راستہ ہے۔ یہی حکمت و دانائی راسخ ہونا چاہیے، اس میں جو چشم سر سے بیت اللہ کو دیکھے، اور پانچ وقت اس کی طرف رخ کرے۔ کیاہم اغیار کے علم و حکمت سے جھولیاں بھرنے کے بعد، اپنی اس سب سے بیش بہا متاع حکمت کو کھو نہیں بیٹھے ہیں؟
حج کے تقریباً سارے ارکان، سعی، جہد اور حرکت پر مشتمل ہیں۔ گھر سے نکلنا، سفر کرنا، بیت اللہ کے گرد طواف کرنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، مکہ سے نکل کر منیٰ میں ڈیرے ڈالنا، اگلے دن وہاں سے کوچ کر دینا اور عرفات میں جمع ہو جانا، مغرب ہوتے ہی عرفات سے چل دینا، رات کی چند گھڑیاں مزدلفہ میں گزار کر صبح ہی صبح منیٰ واپس پہنچ جانا پھر مکہ جا کر طواف اور سعی کرنا۔
بندگیِ رب کا خلاصہ بھی یہی ہے۔ اللہ کے ہر حکم اور پکار پر لبیک کہنا، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے کھڑے ہو جانا، جو کچھ بھی میسر ہو اور جس حالت میں بھی ہو، تعمیل حکم کے لیے نکل پڑنا، اپنی طرف سے کوشش اور جہد میں کوئی کسر نہ چھوڑنا، وسائل زیادہ سے زیادہ جمع کرنا اور ہر ممکن بہتر سے بہتر تدبیر کرنا مگر بھروسا اور نظر صرف تدبیرِ رب پر رکھنا، اور جو کچھ کرنا صرف رب کے لیے کرنا۔
حج میں سارے اعمال،ان صفات کے راسخ کرنے ہی کا کام نہیں کرتے، بلکہ ان اعمال میں حضرت ابراہیم ؑ کا اُسوہ کامل بھی برابر تازہ کرتے ہیں، اور اسے نگاہوں کے سامنے لاتے ہیں۔ پتھر کے ایک معمولی سے گھر کو یہ مقام، قبولیت، محبوبیت اور مرجعیت حاصل ہوئی تو اس میں اس مشن کا بھی دخل تھا جس کے لیے انھوں نے یہ گھر تعمیر کیا اور یہاں اپنی ذریت کو بسایا، اور اخلاص نیت و عمل کو بھی۔ مکان بنوانے والے نے آغاز ہی میں ہدایت کر دی تھی کہ ’’میری بندگی میں کسی کو شریک نہ بنانا‘‘(الحج)۔ اور میرے گھر کو طواف و اعتکاف اور رکوع و سجود کے لیے پاک و آباد رکھنا (البقرہ)۔ انھوں نے اپنے عزائم اور تمنائوں کا اظہار بھی واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ ’’ہماری ذریت بھی تیری فرماں بردار رہے‘‘۔ اس گھر کو بناتے ہوئے جو دُعا لبوں پر جاری تھی وہ صرف رب کے نزدیک قبولیت کی تمنائوں پر مشتمل تھی۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo (البقرہ۲:۱۲۷)، اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
اس کے علاوہ نہ کسی کی خوشنودی مطلوب تھی، نہ کسی کے صلہ و انعام پر نظر تھی۔
اس گھر کی آیات میں ایک روشن پیغام سعی کے اس عمل کے اندر بھی ہے جو صفا اور مروہ کے درمیان کی جاتی ہے۔ یہ یادگار ہے اس بھاگ دوڑ کی جو حضرت اسماعیلؑ کو پیاس سے جاں بلب دیکھ کر حضرت ہاجرہؑ نے صفا اور مروہ کے درمیان کی۔ کبھی صفا پر چڑھتیں، کبھی بھاگ کر جاتیں اور مروہ پر چڑھتیں۔ سعی کا پیغام یہ بھی ہے کہ اللہ کو ہم سے ارادے کے ساتھ ساتھ سعی بھی مطلوب ہے، عمل اور کوشش بھی مطلوب ہے، اور اسی پر وہ نتائج مرتب فرماتا ہے۔ ’’ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے وہ سعی کرے۔‘‘(النجم)، اور ’’جو آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لیے سعی کرے جیسا کہ سعی کرنے کا حق ہے… اس کی کوشش کی پوری پوری قدر دانی کی جائے گی‘‘۔ سعی کا پیغام یہ بھی ہے کہ جب بندہ اپنی بندگی کو اللہ کے لیے خالص کرے، اور حتی المقدور کوشش میں اپنے کو لگا دے، تو اس کا رب اک پتھریلی وادی میں شیر خوار بچے کی ایڑیوں تلے بھی کبھی ختم نہ ہونے والا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔
اُمت مسلمہ کی کشتی آج جس قدر بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، کیا وہ اس سے اپنے ہمہ اقتدار و اختیار رب پر ابراہیم ؑو ہاجرہؑ کی طرح کلی بھروسا کیے بغیر، اس کی فرماں برداری کی راہ میں ان کی طرح اپنا سب کچھ حاضر کیے بغیر، اور اس راہ میں جان و مال سے سعی وجہد کیے بغیر، نکلنے کی کوئی راہ پا سکتی ہے؟ کیا جس کی نظر کے سامنے ہر روز پانچ مرتبہ بیت اللہ کی آیات بینات کو سامنے لانے کا اہتمام کیا گیاہو، اس کی نفسیات میں ان سوالوں کی کوئی گنجایش ہو سکتی ہے کہ ایسی خراب قوم کیسے سدھرے گی، ایسے تاریک حالات کیسے بدلیں گے، ایسے بنجر اور سنگلاخ معاشروں میں نیکی کے چشمے کیسے پھوٹیں گے، ایسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن کیسے اور کہاں سے طلوع ہو گی، جبر واستبداد کی چٹانوں میں سے راستہ کیسے نکلے گا، حقیر کوششیں کیسے رنگ لائیں گی، زبردست طاقتوں کامقابلہ کیسے ہوگا؟ اگر ایک عورت کا یہ یقین کہ اِذَنْ لَا یُضَیِّعُنَا (پھر اللہ ہم کو ضائع نہ کرے گا)، او ریہ اعلان کہ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ (میں اللہ سے راضی ہوں)، اور اس کی صفا اور مروہ کے درمیان سعی و جہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پتھروں کے ایک معمولی گھر کو یہ مقام عطا کر سکتا ہے، اور سنگلاخ زمین سے زم زم کا چشمہ رواں کر سکتا ہے، توآج کی دُنیا میں دین کو غلبہ کیوں حاصل نہیں ہوسکتا، اور ظلم وفساد سے بھری ہوئی دُنیا میں نیکی کا چشمہ کیوں نہیں پھوٹ سکتا؟
دینے والا عاجز و درماندہ نہیں، نہ وہ اُونگھ اور نیند کا شکار ہوتا ہے، لینے والے ہی عاجزودرماندہ ہو گئے ہیں، اپنے مقاصد سے اور اپنی قوت و سربلندی کے اصل خزانوں سے غافل ہوکر نیند میںمدہوش ہیں۔ سعی و عمل اور اخلاص و وفا کی جو دُنیا ان سے مطلوب ہے اس کوانھوں نے اپنے ارادہ و اختیار سے باہر سمجھ کر رکھا ہے۔ انسانیت ہدایت کے لیے جاں بلب ہے، فساد کے بیابان میں زیر زمین امن کا چشمہ موجود ہے، مگر یہ دور اپنے ابراہیم ؑکا منتظرہے۔
حج کا دن تکمیل دین اور اتمام نعمت کی بشارت کا دن بھی ہے۔ اس سے اگلے دن ہی ساری دُنیا کے مسلمان عیدالاضحی کا جشن مناتے ہیں، اور اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ کیا ان کے درمیان ربط کا ادراک بہت مشکل ہے۔ نزول قرآن کے آغاز کے دن ، ضبطِ نفس اور تقویٰ، تلاوت قرآن اور قیام اللیل کے ذریعے قربِ الٰہی کے حصول کے لیے، وقف کیے گئے۔ تکمیل دین اور اتمام نعمت کے دن، قربانی اور حب ِالٰہی کے حصول کے لیے مختص کیے گئے۔
تکمیل و اتمام بغیر قربانی کے ممکن نہیں، اور قربانی بغیر محبت کے ممکن نہیں۔ اسی لیے حج کے مناسک تمام تر عشق و محبت پر مشتمل ہیں۔ شاہ عبدالعزیزلکھتے ہیں:
حضرت ابراہیم ؑکو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک دفعہ اپنے کو سرگشتہ وشیدابنا کر، دیوانوں کی طرح اور عشق بازوں کا وتیرا اختیار کرکے، محبوب کے گھر کے گرد ننگے پائوں، اُلجھے ہوئے بال، پریشان حال، گرد میں اٹے ہوئے، سرزمین حجاز میں پہنچیں، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر، کبھی زمین پر، محبوب کے گھر کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں… اس خانۂ تجلیات کے اردگرد چکر لگائیں، اور اس کے گوشوں کو چومیں چاٹیں۔
اسی محبت کی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑمیں یہ استعداد پیدا ہوئی کہ وہ ہر محبوب چیز کو اس کے لیے قربان کر دیں جو ایمان لاتے ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ اور جب محبت کی آخری آزمایش آئی، بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے کہا گیا، تواُنھوں نے بیٹے کے گلے پر بھی چھری رکھ دی۔ جب وہ محبت کی ان ساری آزمایشوں میں پورے اترے (فَاَتَمَّہُنَّ) تو اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ نعمت بھی تمام کر دی جو دین کی نعمت کے اتمام کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہے۔
وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط (البقرہ۲:۱۲۴) یاد کرو کہ جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا، تو اُس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔
جو ایک مکمل دین کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک وہ محبت کے اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ ’’کیا کوئی بھی ایسی چیزایسی ہے جو اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہے؟‘‘ اس وقت تک ان کے سروں پر سے امرالٰہی ٹل نہیں سکتا، اور وہ وعدۂ الٰہی کے مستحق ہونہیںسکتے ؎
صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
ایک عمر رسیدہ مردِ دانا، دریا کے کنارے بیٹھا، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی حسین و جمیل کاری گری سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بچھو پر پڑی، جو پانی میں گرپڑا تھا اور ڈوبنے ہی والا تھا۔ بچھو اپنے آپ کو پانی کے سپرد کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پانی کی جس لہر میں وہ گرا تھا وہ بہت تندوتیز تھی۔ بچھو نے ہرچند کوشش کی مگر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ ڈوبنے ہی والا تھا۔ عمررسیدہ دانا بزرگ نے بچھو کی یہ کربناک حالت دیکھی تو اسے بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایا تو بچھو نے اسے ڈس لیا۔ درد کی شدت سے بے تاب ہوکر مردِ دانا نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا، مگر اس نے جونہی بچھو کی طرف دیکھا کہ وہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے تو اسے ترس آگیا۔ اس نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایاتاکہ اسے مرنے سے بچالے، مگر بچھو نے اسے دوبارہ ڈس لیا۔ اس نے درد سے بے چین ہوکر چیخ ماری اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ اس نے اب جو بچھو کو دیکھا تو یقین ہوگیا کہ وہ موت کے کنارے پہنچ چکا ہے، چنانچہ اسے بچانے کے لیے تیسری بار اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مردِ دانا کے قریب بیٹھا ایک نوجوان یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ چلّاکر بولا: اے مردِ بزرگ! کیا آپ نے دو بار ڈسے جانے سے بھی سبق نہیں سیکھا کہ اب تیسری بار ہاتھ بڑھا رہے ہیں؟
مردِ دانا نے اس نوجوان کی ملامت کی بالکل پروا نہ کی اور بچھو کو بچانے کی برابر کوشش کرتا رہا، بالآخر اسے ڈوبنے سے بچا ہی لیا۔ اب وہ ملامت کرنے والے نوجوان کی طرف متوجہ ہوا، شفقت و محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اس کا کندھا تھپتھپایا اور کہا: بیٹے، بچھو کی فطرت میں ڈنگ مارنا اور ڈسنا ہے، جب کہ میری فطرت میں محبت و شفقت کرنا ہے۔
مبارک تھا وہ سلیم الفطرت مرد بزرگ، جس کا دل محبت سے بھرپور تھا۔ مبارک ہے وہ انسان جو شیطان کی کشش کو ردّ کردیتا ہے۔ مبارک ہے وہ شخص جو اپنے آپ پر ضبط رکھتا ہے۔ آپ نے یہ مقولہ سنایا پڑھا ہوگا: درختوں کی مانند ہوجائو کہ لوگ ان پر پتھر پھینکتے ہیں اور وہ ان کی طرف پھل پھینکتے ہیں۔ کیا آپ نے درختوں پر انسانوں کے پتھر مارنے پر کبھی غور کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ پتھر پھینکنے والا، ہمیشہ اُس سے ادنیٰ، پست اور نیچے ہوتا ہے جس پر پتھر پھینکتا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ کیا کہ بلندوبالا کھجور کے درخت پر پتھر پھینکنے والا انسان اُس سے بہت نیچے ہوتا ہے اور وہ اپنے سے اُونچے درخت پر سنگ باری کرتا ہے؟ اسی طرح چھوٹے بڑوں پر پتھر پھینکا کرتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا رویہ اور برتائو آپ کو پریشان کردے مگر آپ ہرگز اپنے حسنِ سلوک سے دست کش نہ ہوں۔ آپ لوگوں کے رویے کے ردعمل میں اپنی عمدہ صفات ترک نہ کریں، اور اپنے اخلاقِ حمیدہ نہ چھوڑیں۔ آپ ہرگز ان باتوں پر کان نہ دھریں کہ لوگوں کے رویوں کے مطابق ہی ان سے پیش آناچاہیے، کیوں کہ یہ لوگ کسی شریفانہ سلوک کے مستحق نہیں ہیں۔
اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کرلیا ہے اور اس کے برحق ہونے کے قائل ہوگئے ہیں کہ انسان کو دوسروں کے سلوک سے قطعِ نظر ہمیشہ حُسنِ سلوک پر کاربند رہنا چاہیے، تو پھر آپ سے درخواست ہے کہ آپ کے حُسنِ سلوک کے سب سے زیادہ حق دار آپ کے گھر والے، یعنی اہل و عیال ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہے، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں‘‘۔
بہت سے والدین کو اپنی اولاد کے طرزِعمل سے سخت اذیت پہنچتی ہے، کیوں کہ بچے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں، اور اپنی تعلیم کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ وہ والدین کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ اس مرحلے پر والدین کا پیمانۂ صبر لبریز ہوجاتا ہے اور وہ اولاد سے سختی کرتے ہیں۔ شیکسپیئر کا قول ہے: ’’محبت کرو اس سے پہلے کہ تم سے نفرت کی جائے‘‘۔
بہت سے والدین کے نزدیک اولاد کی تربیت میں سختی و شدت ناگزیر ہے۔ وہ سزا اور سختی کے سوا کسی عمل کو مفید نہیں سمجھتے۔ ان کی نظر میں تربیت کے تمام طریقے غیرمؤثر اور سمجھانے کے تمام ذرائع بے کار اور غیرمفید ہیں۔ اپنے اس طریق کار کے درست ہونے کی، ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے خود اسی نہج پر پرورش پائی ہے۔ چنانچہ اس قسم کے باپوں میں سے ایک ’باپ‘ نے مجھے بتایا:’’میں اپنے باپ کے سامنے چپ چاپ کھڑا رہتا تھا۔ نہ تو میں اس سے بات کرتا تھا اور نہ اس کی قطع کلامی کی ہی جسارت کرتا تھا۔ وہ جب بھی بات کر رہا ہوتا تو مجھے جواب دینے یا کچھ بولنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ کیوں کہ باپ کی بات کا جواب دینا، بیٹے کی طرف سے باپ کی شان میں گستاخی تصور کیا جاتا تھا اور اسے بے ادبی پر محمول کیا جاتا تھا۔ والدصاحب اپنی آواز بہت اُونچی کرلیتے تھے، جب کہ میں چپ سادھے رہتا تھا۔ مجھے ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت میری پٹائی کرسکتے ہیں۔مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ مجھے کب پیٹیں گے اور کیسے زدوکوب کریں گے؟ وہ اپنے خطاب کے دوران یک دم میرے چہرے پر دائیں بائیں سے تابڑ توڑ تھپڑ رسید کرتے تھے۔ میرے لیے حکم یہ ہوتا تھا کہ پتھروں کی اس بارش کے دوران خاموش کھڑا رہوں اور بالکل حرکت نہ کروں۔ میرے والدین نے میری تربیت اس طرح کی ہے اور جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں___ میں مرد بن چکا ہوں‘‘۔
میں نے اس باپ سے پوچھا: کیا آپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ یہی وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا: یقینا، مجھے امید ہے کہ میری اولاد ضرور سیدھے راستے پر چلے گی۔ میں نے کہا: ذرا مجھے یہ بتایئے کہ جب آپ بیٹے سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا: وہ میرے سامنے کھڑا کانپتا رہتا ہے، خاموشی سے میری باتیں سنتا ہے اور بالکل جواب نہیں دیتا۔
اس قماش کے باپ کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی درست نہج پر تر بیت کرسکے۔ یہ تو ممکن ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو چپ کرا دے اور اسے ماتحت و فرماں بردار رہنے پر مجبور کردے مگر ایسا باپ اپنی اولاد میں بزدلی، بے بسی، بے ہمتی ، عاجزی اور ذلّت و خواری کے بیج بو دیتا ہے۔ وہ معاشرے کو نفسیاتی لحاظ سے ایک شکست خوردہ، مغلوب و مضطرب شخصیت پیش کرتا ہے۔ ایسا باپ ایک متوازن اور طاقت ور شخصیت کی تعمیروتشکیل سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ایسی شخصیت کبھی پیش نہیں کرسکتا جو اپنے آپ کو نفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہو اوردیگر افرادِ معاشرہ کے لیے بھی مفید ثابت ہو، اور یوں خاندان کی عمارت کی تعمیر کے لیے ایک مضبوط اینٹ کا کام کرے۔ اپنے سماج اور اپنی قوم و ملّت کے لیے مفید شخصیت تیار کرنا ایسے باپ کے بس کا روگ نہیں۔
محبت سے اولاد کی تربیت کرنا انتہائی ضروری ہے،تاکہ ہم موافقت و ہم آہنگی اور یکسانیت و تال میل سے بھرپور زندگی گزار سکیں۔ یوں ہم اپنے پروردگار کو بھی راضی کرسکنے کے قابل ہوجائیں گے اور ہم اور ہماری اولاد دنیا و آخرت میں سرخ رو اور کام یاب ہوجائیں گے ۔ ہم ایک ایسا معاشرہ وجود میں لاسکیں گے جو توانا و مضبوط ہو، باہم مجتمع و ہم آہنگ ہو اور جس کا ہرفرد دوسروں سے محبت و اُلفت کرنے والا ہو۔ سوال یہ ہے کہ محبت کے ذریعے اولاد کی تربیت کے طریقے کیا ہیں؟
انسانوں کی تربیت، ان کی راہ نمائی کے لیے دلوں میں اُلفت پیدا کرنے، اور ان کے اُمور و معاملات اور نفوس کی اصلاح کے لیے کلام، یعنی بات چیت اور گفتگو انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ کلام دراصل اس گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہے جو پتوں اور پھلوں سے لدا ہو اور بے شمار منافع و فوائد رکھتا ہو۔ اللہ سبحانہٗ نے کلام کو ایک درخت سے تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ فرمایا: اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَـلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ o تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا ط وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ o (ابراہیم ۱۴:۲۴-۲۵) ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ (پاکیزہ کلام) کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں‘‘۔
ایک تحقیقی مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ ایک فردہوش سنبھالنے سے لے کر کامل بلوغ تک ۱۶ہزار منفی (بُرے) الفاظ سنتا ہے، جب کہ وہ اس مدت میں مثبت (اچھے) الفاظ صرف چند سو ہی سنتا ہے۔ ہم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سلبی و منفی، یعنی بُرے الفاظ و کلمات ہمارے بچوں کی تربیت پر کتنے بُرے اثرات مترتب کرتے ہیں۔
ماہرین تربیت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ماں باپ یا تربیت کرنے والوں کی طرف سے بچے کی توہین کی جاتی ہے اور اسے بُرے بُرے القاب و صفات سے پکارا جاتا ہے تو بچہ اپنی ذات کے بارے میں، اپنے ذہن میں ایک تصویر یا خاکہ بنا لیتا ہے۔ گویا اپنی ذات کے بارے میں یہ ذہنی تصویر ، اس کلام کا نتیجہ ہوتا ہے، جو وہ اپنے بارے میں لوگوں کی زبانوں سے سنتا ہے۔یوں سمجھیے کہ بچے کے بارے میں دوسروں کی باتیں نقاش (مصور) کا برش ہیں۔ نقاش بچے کے بارے میں باتیں کرنے والا ہے۔ اگر بچے کے بارے میں اور بچے سے بات کرنے والا شخص کالے رنگ کا بُرش استعمال کرتا ہے تو سیاہ تصویر وجود میں آتی ہے اور اگر وہ خوب صورت رنگ استعمال کرتا ہے تو تصویر بھی حسین ہوگی۔
کچھ باپ جب اپنے بیٹوں سے بات کرتے ہیں تو اپنی گفتگو سے ان کی شخصیتوں کو مسخ کردیتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے بیٹے کی قدروقیمت کم نہ کیجیے۔ ایک ماں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بات کرتے وقت اس کی شخصیت کو کچل دے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے باتیں کرتے وقت توہین آمیز لفظوں، تحقیرآمیز باتوں، طعن و تشنیع، تمسخرو استہزا اور گالم گلوچ سے مکمل اجتناب کریں۔ وہ کسی بھی صورت میں منفی الفاظ و کلمات استعمال نہ کریں۔ کیوں کہ بچوں کے ساتھ منفی رویہ اختیار کرنے سے، اس کے انتہائی تلخ نتائج سامنے آیا کرتے ہیں۔ چنانچہ بچوں میں علیحدگی پسندی، کم آمیزی، جارحیت، مختلف طرح کے خوف، عدمِ خوداعتمادی، تحقیر ذات، نفسیاتی امراض اور طرح طرح کے بگاڑ جنم لیتے ہیں۔
کتب ِ سیرت و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھے والا ہرشخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ دیگر تمام حاضرین کے مقابلے میں حضوؐر کا سب سے زیادہ محبوب ہے۔ کیونکہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہرشخص کو محبت بھری نظر سے دیکھتے تھے۔ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں جھانکیے، اس کے سامنے مسکرایئے، محبت بھری نگاہ کے ساتھ ساتھ محبت آمیز بات چیت کیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ میرا یہ مشورہ پڑھ کر قارئین کرام میں سے کوئی سخت گیر باپ یہ کہے: میں یہ کیسے کروں؟ اس لیے کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو اس کا عادی نہیں بنایا اور اگر میں اپنے بیٹے کو پیاربھری نظر سے دیکھ بھی لوں تو وہ ضرور حیران ہوگا۔ اب میں اس کی حیرت کا جواب کیا دوں؟ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ اپنے بیٹے کے والد ِ محترم ہیں، آپ ایک شفیق باپ ہیں۔ خدارا! اپنے بیٹے پر دھاوا بولنے اور حملہ کرنے کے انداز کو ترک کردیجیے اور اس سے مسکرا کر بات کیجیے۔ اگر بیٹا ، آپ سے اس اچانک تبدیلی کا راز پوچھے تو آپ اسے یوں جواب دیجیے: ’’بیٹا، میں آپ سے محبت کرتا ہوں‘‘، یا ’’میرے لخت ِ جگر مجھے تمھارا ہمیشہ خیال رہتا ہے‘‘۔
یہ خلافِ حکمت ہے کہ آپ اپنے بیٹے سے برتر و اعلیٰ ہوکر بات کریں، برتری خواہ جگہ اور مقام کے اعتبار سے ہو یا گفتگو کے لحاظ سے۔ آپ اپنے بیٹے سے اس طرح بات نہ کریں کہ آپ تو ایک اُونچی کرسی پر براجمان ہوں اور وہ نیچے بیٹھا ہو، اور نہ اس اسلوب و انداز میں ہی بات کریں کہ گویا آپ ایک فوجی کمانڈر ہیں اور بیٹا آپ کا ایک ماتحت سپاہی اور آپ اسے احکام دے رہے ہیں اور وہ ’جی جناب، جی جناب‘ کہہ رہا ہے۔یہ بھی حکمت کا تقاضا نہیں کہ آپ دُور سے ہی بیٹے سے مخاطب ہوں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ ہرلحاظ سے بیٹے کے نزدیک ہوں، دل سے بھی نزدیک، مجلس کے لحاظ سے بھی قریب اور بات چیت کے انداز سے بھی۔
آپ جب بھی اپنے بیٹے یا بیٹی سے بات کریں تو پہلے اس کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھیں۔ آپ کی آواز میں محبت ہونی چاہیے۔ آپ کے لمس میں شدت و سختی نہیں بلکہ نرمی و محبت ہونی چاہیے، اور اس لمس میں شفقت ِ پدری ہو۔ اس سے آپ کی اولاد کو پیغامِ امن و امان ملے۔ پدرانہ محبت کی لہر اولاد کے دلوں تک سرایت کرجائے اورانھیں اس بات کا احساس ہو کہ وہ آپ کے وجود کا حصہ اور جز ہیں۔ آپ جب گھر سے باہر جانے لگیں تو بچوں سے ضرور مصافحہ کیجیے، یا جب آپ کے بچے گھر سے باہر نکلنے لگیں تو بھی آپ ان سے ہاتھ ملایئے اور اپنی دعائوں کے ساتھ انھیں رخصت کیجیے اور ان کے سر پر اپنا دست ِ شفقت رکھیے۔
اب ذرا سا رُک کر، اپنا جائزہ لیجیے کہ آپ ان گزارشات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں؟
بچوں کی نفسیاتی حاجات و ضروریات میں سے ایک محبت ہے۔ لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت و تشنگی کو پورا کیا جائے۔ والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہوگی اور محرومی سے بچوں کے لیے متعدد نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے۔ والدین جب اپنے بچوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اس سے بچوں کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے، لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بغل گیر ہونے میں بخل و تردّد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یقین جانیے کہ بچوں کو والدین سے معانقہ کرنے اور ان کے ساتھ محبت سے لپٹنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے، جتنی انھیں کھانے پینے اور سانس لینے کی حاجت ہوتی ہے، بلکہ محبت کی چاہت و حاجت، خوراک کی حاجت سے بھی بڑھ کر ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس فطری حاجت کو پورا کریں۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنے نواسوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو چوم رہے تھے کہ ایک بدو سردار الاقرع بن حابس آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ اس کے لیے یہ ایک عجیب بات تھی۔ چنانچہ تعجب سے پوچھا: کیا آپؐ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ میرے ۱۰ بچے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی نہیں چوما۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’اللہ نے اگر تمھارے دل سے اپنی رحمت سلب کرلی ہو تو مَیں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
والدین جب بچے کو چومتے ہیں تو اس سے بچے کے قلب و نفس پر رحمت و شفقت چھا جاتی ہے۔ اسے امن و امان کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو بوسہ دے کر ہی انھیں اپنی محبت و شفقت کے احساس سے سرشار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کو محبت و شفقت کے بوسے سے محروم کریں گے تو وہ ہم سے دُور ہٹیں گے۔ نفرت و بے زاری اور سنگ دلی و سختی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ وہ بچپن سے ہی دُوری اور کم آمیزی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ والدین کے بوسۂ شفقت سے ہی بچوں کے درد و الم دُور ہوتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی زخم مندمل ہوتے ہیں اور ذہنی روگ ختم ہوتے ہیں۔ ہم محبت آمیز بوسے سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خوشی و مسرت سے ہم کنار کرسکتے ہیں اور انھیں محبت و اُلفت، رضامندی اور شوق و وارفتگی سے معمور کرسکتے ہیں۔
اولاد کے سامنے ہماری مسکراہٹ بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ ہمارے اس تبسم سے انھیں مسرت نصیب ہوتی ہے۔ یوں ہمارے اور ان کے مابین ایک خوش گوار رابطہ استوار ہوتا ہے اور باہم محبت بڑھتی ہے۔ اس مسکراہٹ سے خوشیاں ملتی ہیں اور خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ دلوں کے سرچشمے سے مسرتیں پھوٹتی ہیں۔
والدین سے گزارش ہے کہ آپ ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہوجایئے۔ ایک بار مسکرایئے اور پھر آئینے میں دیکھیے۔ ایک بار ترش رُو ہوکر آئینے میں دیکھیے اور پھر دونوں کا فرق ملاحظہ کیجیے۔ یقینا والدین کی خندہ پیشانی، ان کی مسکراہٹ اور ان کی قربت سے اولاد کو مسرت و فرحت ملتی ہے۔ والدین کے قرب کا حصول، اولاد کی دیرینہ تمنا ہُوا کرتی ہے۔ وہ اس قربت سے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ یوں ان کے دل ماں باپ کے لیے کھل جاتے ہیں۔ وہ سچی محبت و یگانگت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ وہ والدین سے سچی محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب بچے ہم سے محبت کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ترجیح دیتے ہیں اور ہماری فرماں بردار ی کرتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ، جو طرزِعمل ہوتا تھا، اس کی عکاسی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یوں کی ہے:’’آپ سب سے بڑھ کر نرم دل، مسکرانے اور ہنسنے والے تھے‘‘۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تمھارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔ (ترمذی)
والدین کو چاہیے کہ وہ محبت کے ذریعے بچوں کی تربیت کا ضرور تجربہ کریں۔ اس تربیت میں انھیں یہ اقدامات کرنا ہوں گے: کلامِ محبت، نگاہِ محبت، محبت بھرا لمس، محبت سے بغل گیر ہونا، بوسۂ شفقت اور محبت آمیز مسکراہٹ۔(المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۵۱، ۷مئی ۲۰۱۱ء)
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت، گھریلو ملازمین اور خدمت گاروں کا وجود ہے۔ صاحب ِ ثروت اور خوش حال گھرانوں میں یہ ملازمین روزمرہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں، قلیل معاوضے پر بڑی راحت پہنچاتے ہیں۔ دن رات کام کے لیے حاضر ہوتے ہیں جس کے عوض مالک کی کوٹھی کے ایک گوشے میں انھیں سرچھپانے کو جگہ مل جاتی ہے۔ معاشرے میں ایک دوسرے پر فوقیت قدرت کے نظام کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت، بعض لوگوں کو بعض پر فوقیت مل جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ط نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ط وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ o (الزخرف ۴۳:۳۲) کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزربسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (ان کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں۔
عام طور پر لوگ خادم کو مالک یا مخدوم کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ خود خادم کے کیا حقوق ہیں جو مخدوم پر عائد ہوتے ہیں ؎
تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
اس پہلو سے بھی ہمارے لیے بہترین اسوہ اور مثالی نمونہ حضوؐر کی ذاتِ مبارک ہے، جو صاحب ِ خلق عظیم بھی ہیں اور اللہ کے آخری رسولؐ بھی۔ قرآنِ مجید میں ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے گھر انے بھی ہیں جہاں خادموں کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں ایسے گھر بھی بہت ہیں جہاں خادموں پر ظلم ہوتا ہے۔ ان کے حقوق پوری طرح ادا نہیں کیے جاتے۔ اس لیے یہ امر ضروری معلوم ہوا کہ خادموں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بُرے انجام اور حقوق کی پامالی سے جڑی عبرت ناک سزا سے لوگوں کو خبردار کیا جائے۔ اس مضمون میں خادم سے مراد گھریلو ملازمین ہیں جن سے روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ حضوؐر کے معاملات خادموں کے ساتھ کیسے تھے؟ کتاب و سنت اور سیرت سلف صالحین سے اس باب میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟ اختصار کے ساتھ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
نیکی اور خیر کے کاموں میں حُسنِ معاملہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے انسان کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔ سیّدالبشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدام کے ساتھ اچھا برتائو کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں۔ حضوؐر کے خادمِ خاص حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں آنحضرتؐ کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا لیکن حضوؐر نے مجھ سے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا؟(بخاری)
مسلمان خادم سے حُسنِ سلوک کا یہ اوّلین تقاضا ہے کہ اُسے دین کی ضروری تعلیم دی جائے۔ توحید باری تعالیٰ سے آغاز کرتے ہوئے دین کے بنیادی عقائد ان پر واضح کیے جائیں اور نماز و روزہ سے متعلق احکام بتائے جائیں۔ اکثر ملازمین ایسے ماحول سے آتے ہیں جہاں جہالت اور بدعت کا رواج ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ رئیس خانہ گھر کا ذمہ دار ہوتا ہے اور گھر والے اس کے ماتحت ہوتے ہیں جن میں گھریلو ملازمین بھی شامل ہوتے ہیں۔ گھر کے ذمہ دار سے آخرت میں بازپُرس ہوگی کہ اس نے اپنے ماتحتوں میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ کہاں تک ادا کیا ۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’آگاہ رہو کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اُس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(متفق علیہ)۔ اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ خادموں سے ذکر کیا جائے کہ وہ اپنا فطرہ ادا کریں یا پھر اس سے اجازت لے کر مخدوم/مالک اس کا فطرہ خود اداکرے۔ اگر خادم غیرمسلم ہو تو اسے حکمت و محبت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے جو بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’خدا کی قسم تمھاری وساطت سے اللہ تعالیٰ کا کسی ایک شخص کو ہدایت دینا تمھارے حق میں دنیا ومافیہا کی ہرنعمت سے بڑھ کر ہے‘‘۔(متفق علیہ)
خادم یا خادمہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال خرچ کرنا صدقہ ہے جس کا اجراللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ حضوؐر نے خدام پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے، کیوں کہ وہ روزانہ ساتھ رہتے ہیں اور نفل صدقات سے اس کے اندر مخدوم کے ساتھ خیرخواہی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خادم رزقِ حلال کمانے کے لیے اپنے گھر اور آرام کو تج کرآپ کو راحت پہنچاتا ہے اور مروت کا تقاضا ہے کہ صدقہ دے کر اس کو بھی مالی راحت پہنچائی جائے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں اِنفاق کرو۔ اس پر ایک شخص نے حضوؐر سے کہا: میرے پاس ایک دینار ہے، میں اس کو کیسے خرچ کروں؟ حضوؐر نے فرمایا: اپنی ذات پر خرچ کرو۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ حضوؐر نے فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس شخص نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ حضوؐر نے فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو۔ اس کے بعداپنی بصیرت سے اِنفاق کی ترتیب و ترجیح بنالو۔ (بخاری)
یہ جائز نہیں کہ خادم کی طے شدہ تنخواہ میں کمی کی جائے یا تاخیر سے دی جائے۔ یہ ملازم کا حق ہے کہ اس کی تنخواہ پوری اور وقت پر ملے ۔ دراصل یہ ایک امانت ہے جو خادم اپنے آقا کے ہاں رکھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے: ’’مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کردو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے‘‘(النساء۴:۵۸)۔ لہٰذا ملازم کا حق سلب کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ ہے۔ انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ روزِقیامت اللہ تعالیٰ اس کے خلاف مقدمہ قائم کریں گے اگر اس نے مزدور و خادم کی اُجرت ادا نہ کی۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں خود تین لوگوں کے خلاف دعویٰ دائر کروں گا۔ ایک وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا اور پھر اس سے مُکر گیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے ایک آزاد مسلمان کو غلام کی حیثیت سے بیچ کر اس کا مال کھالیا۔ تیسرے وہ شخص جس نے کسی مزدور یا ملازم سے اُجرت پر رکھا اور پورا کام لینے کے بعد اس کی اُجرت عطا نہ کی‘‘۔(بخاری)
ہم میں کون ہے جو خطاکار نہیں اور خطا کی معانی کا طالب نہیں؟ یہی احساسات ایک خادم کے بھی ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمؐ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمیں خادم کو کتنی بار معاف کرنا چاہیے؟ آپؐ نے سکوت فرمایا۔ اس شخص نے پھر اپنی بات عرض کی۔ آپؐ نے پھر سکوت فرمایا۔ جب تیسری دفعہ اس نے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا: ہر روز ستر بار۔ (ابوداؤد، ح: ۴۵۱۷)
خادم کے حقوق میں یہ ہے کہ اس پر طاقت سے زیادہ کام کا بوجھ نہ ڈالا جائے، نہ کام کے دائرے ہی کو غیرمعروف طریقے سے بڑھایا جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِؐ خدا نے فرمایا: ’’کھانا اور کپڑا غلام کا حق ہے اور اس سے بس وہی کام لیا جائے جس کے کرنے کی وہ طاقت رکھتا ہو‘‘(مسلم)۔جب غلام کے لیے اتنے حقوق اسلام دیتا ہے تو پھر آزاد ملازم تو اور زیادہ عنایت کا حق دار ہے۔ اگر ملازم کی مقدرت سے بڑھ کر کوئی کام لینا پڑے تو مالک و مخدوم کو چاہیے کہ وہ خادم کی مدد کریں۔
خادم سے حُسنِ سلوک میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی توہین نہ کی جائے اور نہ اس کو ماراپیٹا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعوت قبول کرو، ہدیے کوواپس نہ لوٹائو اور مسلمانوں پر ہاتھ نہ اُٹھائو‘‘(احمد)۔ نبی کریمؐ نے اپنی پوری زندگی میں جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ اور کہیں کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا۔اسی طرح اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے بھی فرمایا کہ نبی کریمؐ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، نہ کسی جانور کو، نہ اپنی بیویوں کو اور نہ خادم کو، اِلا یہ کہ آپؐ جہاد فی سبیل اللہ میں ہوں(مسلم)۔ نبی اکرمؐ نے اس چیز کی باربار وصیت کی ہے۔ حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے نبی کریمؐ کو دیکھا کہ ان کے پاس دو غلام تھے۔ اس میں سے ایک غلام آپؐ نے حضرت علیؓ کو ہدیہ کیا اور ارشاد فرمایا: ’’اسے مت مارو، میں نے نماز پڑھنے والوں کو مارنے سے منع کیا ہے، اور میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے ‘‘۔(بخاری)
حضور اکرمؐ اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے تھے کہ خادموں کے ساتھ شفقت کا برتائو کریں۔ حضرت ابومسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ: ’’میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا۔ میں نے اپنے پیچھے سے یہ آواز سنی کہ اے ابومسعود! جان لو کہ اللہ کو تم پر اس سے کہیں زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی تمھیں اس غلام پر حاصل ہے۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسولؐ اللہ تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اب یہ خدا کے لیے آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تمھیں جان لینا چاہیے کہ اگر تم یہ نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں جلا ڈالتی، یا یہ فرمایا: ’’جہنم کی آگ تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی‘‘۔(مسلم)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نرمی اور شفقت کو پسند فرماتا ہے، اور نرم رویہ اختیار کرنے پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی اختیار کرنے پر نہیں دیتا۔ بڑی برائی یہ ہے کہ عمداً خادم کو ماراپیٹا جائے اور خاص طور پر اس کے چہرے پر مارا جائے اور یہ حضوؐر کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے: ’’کوئی کسی کے چہرے پر نہ داغے اور نہ مارے‘‘۔(بخاری)
اگر خادم کی معاشی حالت مخدوم سے کم تر ہوتو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خادم کو طعام اس کی معاشی سطح سے کم ترنہ دیا جائے۔ معاشی تفریق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے اس دنیا میں رائج ہے۔ اسی لیے نبی اکرمؐ نے حاجت روائی کرنے کی ترغیب دی ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ (غلام) تمھارے بھائی ہیں۔ اللہ نے ان کو تمھارا دست نگر بنایا ہے۔ ان کو وہی کھلائو جو تم خود کھاتے ہو، اور وہی پہنائو جو تم خود پہنتے ہو۔ اور اس کو ایسے کام پر مجبور نہ کروجو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اس کے لیے بوجھ ہو۔ اور اگر ایسا کام اس سے لو جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو پھر اس کام میں خود بھی اس کی اعانت اور مدد کرو۔(متفق علیہ)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اگر غلام یا خادم، خانساماں (باورچی) ہو تو اس کو اس پکوان میں سے کھانا دیا جائے جو اس نے بنایا ہو کیوں کہ اس نے کھانے کی خوشبو سونگھی اور اس کو دیکھ لیا ہے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرمؐ نے حکم دیا کہ خادم کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا جائے اور اگر کسی کو ساتھ کھانا ناگوار گزرتا ہے تو خادم کے لیے کھانا دے دے(احمد)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اگر تمھارے پاس کھانے کے وقت خادم آئے اور ساتھ شریک نہ ہوسکے، تو چاہیے کہ اسے کھانے میں سے کچھ حصہ دے دے۔(متفق علیہ)
خادم کو کھانا کھلانا صدقہ ہے، اسی طرح جیسے اپنے آپ پر، اپنی بیوی اور بچوں پر کھانے کے لیے خرچ کرنا صدقہ ہے۔ صحابی رسولؐ حضرت المقدام بن معدیکربؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:’’جو کچھ تم نے [رزقِ حلال میں سے] خود کھایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، جو اولاد کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، جو بیوی کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے اور جو کچھ اپنے خادم کو کھلایا ہے وہ تمھارے لیے صدقہ ہے‘‘۔(احمد)
خادمہ سے حُسنِ سلوک یہ ہے کہ گھر کے مرد غضِ بصر سے کام لیں اور اس سے گھر کے دیگر افراد کی عدم موجودگی میں کام لینے سے احتراز کریں۔ یہ ایک مسلمان کی گردن پر امانت ہے۔ اجنبی عورت سے خلوت کی جو عمومی ممانعت ہے اس کا اطلاق خادمہ پر بھی ہوتا ہے۔ حضوؐرِ اقدس نے ارشاد فرمایا: ’’مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ اختیار کرے اِلا یہ کہ وہ محرم ہو‘‘ (بخاری)۔ صاحب ِ خانہ کو چاہیے کہ ان اخلاقی حدود کی تعلیم اپنے لڑکوں کو بھی دے جو سنِ بلوغ کو پہنچ چکے ہوں۔ عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے خادم سے خلوت میں کام لے، اور نہ اس کی طرف نظریں اُٹھائے۔ وہ اس کے لیے اجنبی مرد ہے جو اُجرت پر کام کے لیے آیا ہوا ہے، اور درج بالا حدیث میں اجنبی مرد کے لیے غضِ بصر اور خلوت کی جو ممانعت ہے وہ مخدوم عورت اور خادم مرد کے لیے بھی ہے۔ اگر گھریلو ملازم عورت/خادمہ مل جائے تو یہ بہتر ہے، کیونکہ اکثر گھریلو کام کے لیے ملازم گھر کی خواتین سے زیادہ سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک بڑا منکر یہ بھی ہے کہ عورت تنہا، ملازم ڈرائیور کے ساتھ کار میں گھومتی پھرتی رہے۔
سلف صالحین کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ خادموں کی نگرانی کرتے تھے اور اپنے مال و اسباب کو بلاحفاظت نہیں چھوڑتے تھے۔ خادموں کو چوری کرنے اور امانت میں خیانت کے مواقع نہ دیے جائیں۔ صاحب ِ خانہ اپنے روپے اور جواہرات اور دیگر قیمتی اشیا حفاظت سے رکھتے ہیں تو اس سے انھیں دو فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ چوری کو روک سکیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی چیز کھو جاتی ہے تو وہ خادم کے تعلق سے سوے ظن سے بچ جائیں گے۔ تابعی ابی العالیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم خادم پر نگرانی کریں۔ سامان کو ناپ تول کر اور گن کر رکھیں تاکہ وہ محفوظ رہے۔ غلاموں اور خادموں کے اندر لالچ نہ پروان چڑھے اور وہ چوری اور خیانت میں مبتلا ہوجائیں۔ انھیں گناہوں سے بچانے کی یہ ترکیب ہے اور اپنے آپ کو سوے ظن سے۔
حضرت ابوہریرہؓ جب خادم سے بازار سے گوشت منگواتے تھے تو گوشت کے ٹکڑوں کو گن لیا کرتے تھے اور جب کھانے کے لیے تشریف رکھتے تو خادم کو حکم دیتے کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالے۔ ان سے جب اس معاملے کی علّت پوچھی گئی تو فرمایا: اس طریقے سے دل کی تسلی بھی ہوتی ہے اور وہم و وسوسہ دُور ہوجاتا ہے کہ شاید خادم نے کچھ گوشت چُرا لیا ہوگا(بخاری)۔ اسی طرح حضرت سلمانؓ کا بھی طریقہ تھا کہ وہ گوشت کی ہڈیاں گن لیتے تھے تاکہ سوے ظن سے بچا جائے۔
حضو رسرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع کیا ہے کہ اپنے آپ کے لیے اپنی اولاد اور خادموں اور اپنے مال کے حق میں بددُعا کریں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اپنے لیے بددعا نہ کرو،نہ اپنی اولاد کو بددعا دو، نہ اپنے خادموں کو بددعا دو اور نہ اپنے مال پر بددُعا دو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبولیت دعا کی کوئی گھڑی لکھ دی ہو اور یوں تمھاری بددعا قبول ہوجائے۔(ابوداؤد)
حضور اکرمؐ اپنے خادم کے حق میں دعا کرتے تھے۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں: دنیا و آخرت کی کوئی بھلائی نہ رہی جس کی حضوؐر نے میرے حق میں دعا نہ کی ہو۔ حضوؐر نے کبھی یوں دعا دی: ’’اے ہمارے رب! انس کو مال و اولاد سے نواز دے اور اس میں برکت عطا فرما‘‘۔ جب آپؐ کو پانی پلایا گیا تو آپؐ نے پانی پلانے والے خادم کے حق میں دعا کی: ’’اے ہمارے رب! تو اپنی طرف سے اس شخص کو کھانا کھلا جس نے مجھے کھلایا، اور اس شخص کو پانی پلا جس نے مجھے پانی پلایا‘‘ (مسلم)۔ امام نوویؒ کہتے ہیں کہ یہ مسنون دعائیں محسن اور خادم کے لیے ہیں۔ ہم میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے ملازم کے حق میں دعا دیتے ہیں جب بھی وہ کھانا یا پانی ہماری خدمت میں پیش کرتا ہے۔
اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت کی جزا عمل سے مربوط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا‘‘ (متفق علیہ)۔ اگر آپ نے عدل و انصاف سے کام لیا تو آ پ کے لیے اجرعظیم اللہ تعالیٰ کے ہاں منتظر ہے۔ یہ بشارت ہے نبی صادق و مصدوقؐ کی: ’’عدل کرنے والے اللہ تعالیٰ کی جناب میں نور کے منبروں پر تشریف فرما ہوں گے۔ خداے رحمن کے داہنی جانب اور اللہ جل شانہٗ کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اُمور میں، اپنے اہل و عیال اور ماتحتوں کے مابین انصاف کرتے رہے‘‘(مسلم)۔ نبی کریمؐ کی یہ دعا بھی پیش نظر رکھیے: ’’اے ہمارے رب! جو کوئی میری اُمت کے معاملات پر والی مقرر ہو ا اور اس نے میری اُمت پر سختی کی تو اے اللہ! تو بھی اس کے ساتھ سختی کا معاملہ فرما، اور جس کسی نے میری اُمت کے معاملات شفقت و محبت کے ساتھ انجام دیے، اے اللہ! تو بھی اس کے ساتھ شفقت اور محبت بھرا برتائو اختیار فرما‘‘ (مسلم)۔
(اخوانکم خولکم، عربی کتابچے سے اخذ و ترجمہ)