تزکیہ و تربیت


اجتماعی زندگی میں ایک درجہ ان خرابیوں کا ہے جن کے لیے موزوں ترین نام ’مزاج کی بے اعتدالی‘ ہے۔ نفسانیت کے مقابلے میں یہ ایک ’معصوم نوعیت‘ کی کمزوری ہے، کیونکہ اس میں کسی بدنیتی، کسی بُرے جذبے ، کسی ناپاک خواہش کا دخل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن خرابی پیدا کرنے کی قابلیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بسااوقات اس کے اثرات و نتائج اتنے ہی خراب ہوتے ہیں، جتنے نفسانیت کے اثرات و نتائج۔

مزاج کی بے اعتدالی کا فطری نتیجہ نظروفکر کی بے اعتدالی اور عمل و سعی کی بے اعتدالی ہے، اور یہ چیز زندگی کے حقائق سے براہِ راست متصادم ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بے شمار متضاد عناصر کی مصالحت اوربہت سے مختلف عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے۔ جس دُنیا میںا نسان رہتا ہے، اس کا بھی یہی حال ہے۔ انسانی افراد میں سے ہرایک فرداً فرداً بھی ایسا ہی بنایا گیا ہے، اور انسانوں کے ملنے سے جو اجتماعی ہیئت بنتی ہے، اس کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اس زندگی میں کام کرنے کے لیے فکرونظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے، جو مزاجِ کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔

حالات کے ہرپہلو پر نگاہ رکھی جائے، معاملات کے ہررُخ کو دیکھا جائے، ضرورت کے ہرگوشے کو اس کا حق دیا جائے، فطرت کے ہرتقاضے کو ملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو، مگر یہاں کامیابی کے لیے بہرحال اعتدال ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہوگا اتنا ہی مفید ہوگا، اور جس قدر وہ اس سے دُور ہوگا، اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہوکر نقصان کا موجب بنے گا۔ دُنیا میں آج تک جتنا بھی فساد رُونما ہوا ہے اور آج رُونما ہے، اسی وجہ سے ہے کہ غیرمتوازن دماغوں نے انسانی مسائل کو یک رُخے پن سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوششیں کیں، ان کو حل کرنے کے لیے غیرمتوازن اسکیمیں بنائیں، اور ان کو نافذ کرنے کے لیے غیرمعتدل طریقے اختیار کیے۔ یہی بگاڑ کا اصل سبب ہے، اور بنائو کا جو کچھ کام بھی ہوسکتا ہے فکرونظر کے توازن اور طریقِ عمل کے اعتدال ہی سے ہوسکتا ہے۔

یہ وصف خاص طور پر تعمیرواصلاح کی اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے، کیونکہ وہ بجائے خود توازن و اعتدال کے انتہائی کمال کا نمونہ ہے۔ اس کو کتابوں کے صفحات سے واقعات کی دُنیا میں منتقل کرنے کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ وہی کارفرما اور کارکن موزوں ہوسکتے ہیں، جن کی نظر اسلام کے نقشۂ تعمیر کی طرح متوازن اور جن کا مزاج اسلام کے مزاجِ اصلاح کی طرح معتدل ہو۔ افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے انتہا پسند لوگ اس کام کو بگاڑ تو سکتے ہیں، بنا نہیں سکتے۔

نتائج کے اعتبار سے بے اعتدالی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بالعموم ناکامی کی موجب ہوتی ہے۔ نظامِ زندگی میں اصلاح و تغیر کی کوئی اسکیم بھی لے کر آپ اُٹھیں، آپ کی کامیابی کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ خود اس کے برحق ہونے پرمطمئن ہوں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عام انسانوں کو اس کے صحیح، مفید اور قابلِ عمل ہونے پر مطمئن کردیں، اور اپنی تحریک کو اس شکل میں لائیں اور ایسے طریقے سے چلائیں، جس سے لوگوں کی اُمیدیں اور غایتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی چلی جائیں۔ یہ بات صرف اسی تحریک کو نصیب ہوسکتی ہے، جو نظروفکر میں بھی متوازن اور طریقِ عمل میں بھی متوازن ہو۔

ایک انتہاپسندانہ اسکیم جو انتہاپسندانہ طریقوں سے چلائی جائے، عام انسانوں میں اپنے لیے رغبت اور اُمید پیدا کرنے کے بجائے معترض اور غیرمطمئن بناتی ہے، اور اس کی یہ صفت خود ہی اس کی قوتِ تبلیغ اور قوتِ نفوذ کو ضائع کریتی ہے۔ اس کو بنانے اور چلانے کے لیے کچھ انتہاپسندلوگ اکٹھے ہوجائیں، تو سارے معاشرے کو اپنے جیسا انتہاپسند بنا لینا اور دُنیا بھر کی آنکھیں حقائق سے بند کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔خود اس جماعت کے لیے یہ چیز زہر کا حکم رکھتی ہے، جو اجتماعی اصلاح و تعمیر کا کوئی پروگرام لے کر اُٹھی ہو اور یہ آسان کام نہیں ہے۔

  • یک رُخا پن:مزاج کی بے اعتدالی کا اوّلین مظہر انسان کے ذہن کا یک رُخا پن ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہوکر آدمی بالعموم ہرچیز کا ایک رُخ دیکھتا ہے، دوسرے رُخ کو نہیں دیکھتا۔ ہرمعاملے میں ایک پہلو کا لحاظ کرتا ہے، دوسرے کسی پہلو کا لحاظ نہیں کرتا۔ ایک سمت جس میں اس کا ذہن ایک دفعہ چل پڑتا ہے، اسی کی طرف وہ بڑھتا چلا جاتا ہے، دوسری سمتوں کی جانب توجہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے معاملات کو سمجھنے میں مسلسل ایک خاص طرح کا عدم توازن کا ظہور ہوتا ہے۔ رائے قائم کرنے میں بھی وہ ایک ہی طرف جھکتا چلا جاتا ہے۔ جس چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے بس اسی کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے، دوسری ویسی ہی اہم چیزیں بلکہ اس سے بھی اہم چیزیں اس کے نزدیک غیروقیع ہوجاتی ہیں۔ جس چیز کو بُرا سمجھ لیتا ہے، اسی کے پیچھے پڑجاتا ہے، دوسری ویسی ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑی بُرائیاں اس کے نزدیک قابلِ توجہ نہیں ہوتیں۔ اصولیت اختیار کرتاہے تو جمود کی حد تک اصول پرستی میں شدت دکھانے لگتا ہے اور کام کے عملی تقاضوں کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ عملیت کی طرف جھکتا ہے تو بے اصولی کی حد تک عملی بن جاتا ہے، اور کامیابی کو مقصود بالذات بنا کر اس کے لیے ہرقسم کے ذرائع وسائل استعمال کر ڈالنا چاہتا ہے۔
  • انتہا پسندی:یہ کیفیت اگر اس حد پر نہ رُک جائے تو آگے بڑھ کر یہ سخت انتہاپسندی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر آدمی اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنے لگتا ہے۔ اختلاف رائے میں شدت برتنے لگتا ہے۔ دوسروں کے نقطۂ نظر کو انصاف کے ساتھ نہ دیکھتا ہے ، اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ ہرمخالف رائے کو بدتر سے بدتر معنی پہناکر ٹھکرانا اور ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ چیز روزبروز اسے دوسروں کے لیے اور دوسروں کو اس کے لیے ناقابلِ برداشت بناتی چلی جاتی ہے۔

اس مقام پر بھی بے اعتدالی رُک جائے تو خیریت ہے۔ لیکن اگر اسے خوبی سمجھ کر مزید پرورش کیا جائے، تو پھر معاملہ بدمزاجی اور چڑچڑے پن اور تیززبانی اور دوسروں کی نیتوں پر شک اور حملوں تک پہنچ جاتا ہے، جو کسی اجتماعی زندگی میں نبھنے والی چیز نہیں ہے۔

  • اجتماعی بـے اعتدالی:ایک آدمی یہ رَوش اختیار کرے تو زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوگا کہ وہ اکیلا جماعت سے کٹ جائے گا، اور اس مقصد کی خدمت سے محروم ہوجائے گا جس کی خاطر وہ جماعت سے وابستہ ہوا تھا۔ اس سے کوئی اجتماعی نقصان نہ ہوگا، مگر جب کسی اجتماعی ہیئت میں بہت سے غیرمتوازن ذہن اور غیرمعتدل مزاج جمع ہوجائیں، تو پھر ایک ایک قسم کا عدم توازن، ایک ایک ٹولی کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ایک انتہا کے جواب میں دوسری انتہا پیدا ہوتی ہے۔ اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے ہیں، پھوٹ پڑتی ہے، دھڑے بندی ہوتی ہے، اور اس کش مکش میں وہ کام خراب ہوکر رہتا ہے، جسے بنانے کے لیے بڑی نیک نیتی کے ساتھ کچھ لوگ جمع ہوئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو کام انفرادی کوششوں سے کرنے کے نہیں ہوتے، بلکہ جن کی نوعیت ہی اجتماعی ہوتی ہے، انھیں انجام دینے کے لیے بہرحال بہت سے لوگوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہرایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی بات سمجھنی ہوتی ہے۔ طبیعتوں کا اختلاف، قابلیتوں کا اختلاف، ذاتی خصوصیات کا اختلاف اپنی جگہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے، جس کے بغیر کوئی تعاون ممکن نہیں ہوتا۔ اس موافقت کے لیے کسرواِنکسار ناگزیر ہے اور یہ کسرواِنکسار صرف معتدل مزاج کے لوگوں ہی میں ہوسکتا ہے، جن کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبیعتیں بھی۔ متوازن اور غیرمتوازن لوگ جمع بھی ہوجائیں تو زیادہ دیر تک جمع رہ نہیں سکتے۔ ان کی جمعیت پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی ، اور جن ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر ایک ایک قسم کے عدم توازن کے مریض جمع ہوں گے،ان میں پھر تفرقہ رُونما ہوگا، یہاں تک کہ آخرکار ایک ایک امام، مقتدیوں کے بغیر ہی کھڑا نظر آئے گا۔

جن لوگوں کو اسلام کے لیے کام کرنا ہو اور جنھیں جمع کرنے والی چیز اسلامی اصول پر نظامِ زندگی کی اصلاح و تعمیر کرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو، انھیں اپنا محاسبہ کرکے اس بے اعتدالی کی ہرشکل سے خود بھی بچنا چاہیے، اور ان کی جماعت کو بھی یہ فکر ہونی چاہیے کہ اس کے دائرے میں یہ مرض نشوونما نہ پائے۔ اس باب میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی وہ ہدایات ان کے پیش نظررہنی چاہییں، جو انتہاپسندی اور شدت سے منع کرتی ہیں۔

قرآن جس چیز کو اہل کتاب کی بنیادی غلطی قرار دیتا ہے وہ غلو فِی الدِّیْن ہے، يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ (المائدہ ۵:۷۷)،اور اس سے بچنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

اِیَّاکُمْ  وَالْغُلُوَّ  فَاِنَّمَا ھَلَکَ  مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ  بِالْغُلُوِ فِی الدِّیْنِ (مسنداحمد، مسند عبداللہ بن عباسؓ،حدیث:۳۱۴۴)، خبردار! انتہاپسندی میں نہ پڑنا، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں انتہاپسندی اختیار کرکے ہی تباہ ہوئے ہیں۔

ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطاب میں تین بار فرمایا: ھَلَکَ الْمُتَنِطِّعُوْنَ ’’برباد ہوگئے شدت اختیار کرنے والے، مبالغے اور تعمق سے کام لینے والے‘‘۔ دعوتِ محمدیؐ کا امتیازی وصف اس کے لانے والے نے یہ بتایا ہے کہ بُعِثْتُ  بِالْحَنِیْفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ ، یعنی آپ پچھلی اُمتوں کے افراط و تفریط کے درمیان وہ حنیفیت لے کر آئے ہیں جس میں وسعت اور معاملاتِ زندگی کے ہرپہلو کی رعایت ہے۔ اس دعوت کے علَم برداروں کو جس طریقے پر کام کرنا چاہیے وہ اس کے داعی اوّلؐ نے یہ سکھایا ہے:

  • یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا  وَبَشِّـرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا (مسلم) سہولت دو، تنگ نہ کرو، بشارت دو، نفرت نہ دلائو۔
  • اِنَّمَا  بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ  وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِرِّیْنَ (بخاری) تم سہولت دینے کے لیے بھیجے گئے ہو، تنگ کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔
  • مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ بَیْنَ اَمْرَیْنِ قَـــطُّ  اِلَّا أَخَذَ  اَیْسَرَھُمَا  مَالَمْ  یَکُنْ  اِثْـمًا (بخاری و مسلم) کبھی ایسا نہیں ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دومعاملوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا موقع دیا گیا ہو اور آپؐ نے ان میں سے آسان ترین کو نہ اختیار کیا ہو، اِلا یہ کہ وہ گناہ ہو۔
  • اِنَّ اللہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ (بخاری و مسلم) اللہ نرم خو ہے۔ ہرمعاملے میں نرم رویے کو پسند کرتا ہے۔
  • مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحَرْمُ الْخَیْرَ (مسلم) جو نرم خوئی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے بالکل محروم ہوگیا۔
  • اِنَّ اللہَ رَفِیْقٌ یُـحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِیْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لَا یُعْطِی عَلٰی مَا سِوَاہُ (مسلم) اللہ نرم خُو ہے اور نرم خُو آدمی کو پسند کرتا ہے۔ وہ نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو شدت پر اور کسی دوسرے رویے پر عطا نہیں کرتا۔

ان جامع ہدایات کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ، اسلامی نظامِ زندگی کے لیے کام کرنے والے لوگ اگر قرآن و سنت سے اپنے مطلب کی چیزیں چھانٹنے کے بجائے اپنے مزاج اور نقطۂ نظر کو ان کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں ، تو ان کے اندر آپ سے آپ وہ توازن اور توسط و اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دُنیا کے حالات و معاملات کو قرآن و سنت کے دیے ہوئے نقشے پر درست کرنے کے لیے درکار ہے۔

  • تنگ دلی:مزاج کی بے اعتدالی سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری بھی انسان میں ہوتی ہے، جسے ’تنگ دلی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اسے قرآن میں ’شحِ نفس‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ فلاح اس شخص کے لیے ہے، جو اس سے بچ گیا: وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۶ (التغابن ۶۴:۱۶)، اور جسے قرآن تقویٰ اور احسان کے برعکس ایک غلط میلان قرار دیتا ہے: وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ۝۰ۭ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۱۲۸ ( النساء ۴:۱۲۸)۔ [نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہوجاتے ہیں، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آئو اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمھارے اس طرزِعمل سے بے خبر نہ ہوگا۔]

اس مرض میں جو شخص مبتلا ہو، وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجایش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے، اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہررعایت چاہتا ہے، مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں، اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرسکتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی رائے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الائونس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الائونس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کیے بغیر وہ ان سے انتہائی مطالبات کرتا ہے، جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی ہے تو آگے چل کر خوردہ گیری اور عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے، [مگر]  جوابی عیب چینی پر بلبلا اُٹھتا ہے۔

اسی ’تنگ دلی‘ کی ایک اور شکل ’زُود رنجی‘، ’نک چڑھاپن‘ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے، جو اجتماعی زندگی میں اس شخص کے لیے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو اور ان لوگوں کے لیے بھی مصیبت جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔

کسی جماعت کے اندر اس بیماری کا گھس آنا حقیقت میں ایک خطرے کی علامت ہے۔ اجتماعی جدوجہد بہرحال آپس کی اُلفت اور باہمی تعاون چاہتی ہے، جس کے بغیر چار آدمی مل کر بھی کام نہیں کرسکتے۔ مگر یہ تنگ دلی اس کے امکانات کو کم ہی نہیں، بسااوقات ختم کردیتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ تعلقات کی تلخی اور باہمی منافرت ہے۔ یہ دلوں کو پھاڑ دینے والی، اور ساتھیوں کو آپس میں اُلجھا دینے والی چیز ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوں، وہ عام معاشرتی زندگی کے لیے بھی موزوں نہیں ہوسکتے، کجا یہ کہ کسی مقصد ِ عظیم کی خدمت کے لیے موزوں قرار پاسکیں۔

خصوصیت کے ساتھ یہ صفت ان صفات کے بالکل ہی برعکس ہے، جو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔ جو تنگ دلی کے بجائے فراخ دلی، بخل کے بجائے فیاضی، گرفت کے بجائے عفو و درگزر، اور سخت گیری کے بجائے مراعات چاہتا ہے۔ اس کے لیے حلیم اور متحمل لوگ درکار ہیں۔ اس کا بیڑا وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو بڑا ظرف رکھتے ہیں، جن کی سختی اپنے لیے اور نرمی دوسروں کے لیے ہو، جو خود کم سے کم الائونس چاہیں، اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ الائونس دیں، جو اپنے عیوب اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں، جو تکلیف دینے کے بجائے تکلیف سہنے کے خوگر ہوں، اور چلتوں کو گرانے کے بجائے گرتوں کو تھامنے کا بل بوتا رکھتے ہوں۔

جو جماعت ایسے لوگ پر مشتمل ہوگی، وہ نہ صرف خود آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑی رہے گی، بلکہ اپنے گردوپیش کے معاشرے میں بھی بکھرے ہوئے اجزا کو سمیٹتی اور اپنے ساتھ جوڑتی چلی جائے گی۔ اس کے برعکس تنگ دل اور کم ظرف لوگوں کا مجمع خود بھی بکھرے گا، اور باہر بھی جس سے اس کو سابقہ پیش آئے گا، اسے نفرت دلا کر اپنے سے دُور بھگا دے گا۔ (تحریکِ اسلامی کی کامیابی کی شرائط)

نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا ایک سعادت اور عظیم منصب ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرامؑ کو عطا فرمایا ۔جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’خاتم النبیین‘ قرار دیا اور نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا، اور دین اسلام کو مکمل دین قرار دے دیا (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ)، اور دین اسلام کو اپنی بڑی نعمت بتایا اور یہ فرمادیا کہ یہ نعمت میں نے تم پر مکمل کر دی (وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ )،تو اس منصب پر نبی ؐ کی امت کو سرفراز فرمادیا۔اور اس عظیم خوبی کی وجہ سے انھیں سب سے بہتر امت قرار دیا: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہؐ کو دنیا میں اس مقصد کے لیے لائے ہیں کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔کیونکہ انسان بھول جاتا ہے ،اسی لیے اللہ رب العزت نے ہر زمانہ اور ہر قوم کے لیے نبی مبعوث فرمائے،جو انھیں بھولا ہوا سبق یاد دلاتے تھے،گمراہی سے بچنے اور راہِ ہدایت کی طرف راہنمائی کرتے تھے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔آپؐ کے وصال کے بعد یہ فرض آپؐ کی امت پر عائد کر دیا گیا۔ اسی لیے آپؐ کی اُمت کو’ خیر اُمت‘ قرار دیا گیا کیونکہ انسانیت کو سیدھی راہ پر بلانا ہی سب سے بڑی نیکی اور خیر ہے ۔امام رازیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

۱-امت مسلمہ کو بہترین امت اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں ہمیشہ سے کمر بستہ ہے (اللہ کے حقوق میں پہلا حق یہ ہے کہ وہ حاکم مطلق ہے ۔تکوینی احکام کے ساتھ ساتھ تشریعی احکام میں بھی اُسے حاکم مانا جائے۔ اس لیے کہ پوری کائنات کا خالق ،مالک ،رازق اور رب صرف وہی ذات وحدہُ لا شریک ہے)۔

۲- اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو اس لیے فضیلت دی ہے کیونکہ وہ اللہ کے احکام کو پوری انسانیت تک پہنچاتی ہے۔ ’معروف‘ اللہ کے حکم کا نام ہے ۔ اس لیے امت اجتماعی طور پر جس چیز کا حکم دے وہ معروف ہونے کی وجہ سے اللہ کا امر بن جائے گا ۔ اور امت مسلمہ کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔

۳- اہل ایمان منکر کو روکتے ہیں ،منکر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ۔اس صفت کی وجہ سے اِن افراد کی مرضی وہی ہوتی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔

حضرت درہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھتا ہے ،سب سےزیادہ پرہیزگار ہے ،اچھے کاموں کا حکم دیتا ہے، سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا ہے اور رشتہ ناتا ملانے والا ہے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل :۲۷۴۳۴)

اُمت مسلمہ کی فضیلت

حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جنت والوں کی ۱۲۰ صفیں ہوں گی ۔ان میں سے ۸۰  صفیں اُمت ِمحمدیہؐ کی ہوں گی اور چالیس صفیں دوسری امتوں کی ہوں گی‘‘۔ (سنن ابن ماجہ:۴۲۵۹)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: ہم آخری امت ہیں مگر ہمارا حساب پہلے ہوگا‘‘۔(سنن ابن ماجہ: ۴۲۹۰)

کتب احادیث میں امت محمدیہ ؐکی فضیلت کے اعتبار سے بہت سی احادیث مبارکہ ملتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کی فضیلت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے۔

دین اسلام ایک مکمل ،عالمگیر اور آخری دین ہے جسے قیامت تک برقرار رہنا ہے ۔ یہی دین تمام انسانیت کے لیے راہ نجات ہے ،لائحہ عمل ہے ،ضابطۂ حیات ہے ،کامیابی وکامرانی کا ذریعہ اور مسائل کا حل ہے۔

 اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ خدا کے حکم پر قائم رہے گا اور انھیں جھٹلانے والے اور مخالفت کرنے والے نقصان نہیں پہنچا پائیں گے‘‘۔(صحیح    مسلم : ۲۸۸۹)

اس سے مراد ہے کہ دشمن اسے ختم نہیں کر پائیں گے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ حق وباطل کا معرکہ ہمیشہ ہی جاری رہا۔باطل خواہ کتنا ہی طاقت ور رہا ،مگر وہ راہِ حق پر چلنے والوں کو ختم نہیں کرسکا۔ اُن کی منزل کھوٹی نہیں کر پایا ،ہر طرح کے آلام ومصائب میں یہ مومن بندے اپنا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد اس وسیع وعریض کرۂ ارض پر مجدد دین، اسلامی تحریکوں اور علمائے کرام کی محنتوں سے دین اسلام محفوظ ومامون ہے۔ہر دور میں اسلامی تحریکیں آگے بڑھتی رہی ہیں اور دین اسلام اپنی صحیح تعریف وتشریح کے ساتھ اگلی نسلوں تک منتقل کرتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: سنو آج رات انبیائے کرامؑ پنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے۔ بعض انبیاؑ کے ساتھ صرف تین اشخاص تھے۔بعض کے ساتھ مختصر گروہ ،بعض کے ساتھ ایک جماعت اور کسی کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔حضرت موسی ؑ آئے تو ان کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے۔مجھے یہ جماعت پسند آئی ۔

میں نے پوچھا یہ کون ہیں تو جواب ملا: یہ موسٰی ہیں اور اُن کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر میری اُمت کہاں ہے؟جواب ملا: اپنی داہنی طرف دیکھو ،دیکھا تو بہت بڑا مجمع تھا۔جس سے پہاڑیاں بھی ڈھک گئی تھیں۔مجھ سے پوچھا گیا کہ خوش ہو؟میں نے کہا: اے اللہ میں راضی ہوں‘‘۔( صحیح بخاری :۶۵۴۳)

جامع ترمذی کی حدیث (۴۶۷۹) اس کی تائید وتوثیق کرتی ہے ۔آپ ؐ نے فرمایا: ’’اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں سے ۸۰صفیں صرف اس امت کی ہوں گی‘‘۔

حضرت ابوہریرہؓ سے جو تفسیری احادیث ملتی ہیں اُ ن احادیث میں کنتم خیر امۃ کی تشر یح میں فرمایا گیا:’’تم اس لیے بہترین امت ہو کہ تم لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ کر لاتے ہو‘‘۔

جنّت میں داخلـے کی بشارت

ہر صاحب ِایمان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلا جائے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے عائشہؓ! جس کا حساب ہوا وہ مارا گیا‘‘۔

شہید کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا،کیونکہ جہاد کی غرض بھی اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے۔اسی مقصد کے لیے حضوؐر اور صحابہ کرامؓ نے جنگیں لڑیں اور اپنی جانیں قربان کیں۔قرآن پاک میں شہداء کے لیے حکم ہے کہ انھیں مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں،مگر تم اس بات کا شعور نہیں رکھتے۔جہاد کی فضیلت بھی اسی لیے ہے کہ اس کے نتیجے میں افراد اور اقوام کا بنایا ہوا نظام زندگی ختم کر کے اللہ کا بھیجا ہوا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ہم مسلم اکثریت کے حامل ملک کے شہری ہیں۔یہاں پر قرآن کے احکامات کو جاری و ساری کرنے کے لیے، اپنی قوم کو بھولا ہوا سبق یاد کروانے،قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے،اپنی زندگیوں کو خدا کے قانون کے مطابق ڈھالنے،بندگیٔ ربّ پر اُبھارنے، منافقت سے دُور رہنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے، تاکہ زندگی کی گاڑی ٹھیک ٹھیک اللہ کے راستے پر چل سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کی گئی ہر طرح کی کوشش جہاد فی سبیل اللہ کے ذیل میں آتی ہے۔ داعی الیٰ اللہ بھی راہِ حق کا وہ مجاہد ہے جس کے لیے نبیؐ کی بشارت ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّـمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ  وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳ ( حم السجدہ ۴۱:۳۳) ’’اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے وہ خدا کی زمین میں خدا کا نائب ہے ، خدا کے رسول ؐ کا نائب ہے اور خدا کی کتاب کا نائب ہے ‘‘۔گویا کہ اُمت محمدیہؐ کو جو فضیلت حاصل ہے وہ اِ س بنیاد پر حاصل ہے کہ وہ دعوت اور تربیت کا فریضہ انجام دیتی ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق اس اُمت کا مقصد بھی یہی ہے۔

معروف و منکر ایک دعوتی و تربیتی فریضہ

امر بالمعروف ونہی عن المنکر دراصل دو کاموں کا مجموعہ ہے:دعوت و تبلیغ اور تنظیم وتربیت۔ یہ دونوں کام ایک فطری ترتیب کے ساتھ انجام پاتے ہیں ۔پہلے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جاتا ہے ۔اس کے بعد اُن افراد کی تنظیم اور تربیت کی جاتی ہے جو اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں ۔اسی تنظیم وتربیت پر دعوت کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے ۔اگر تنظیم مضبوط اور تربیت صحیح ہے تو دعوت کامیاب ہوگی ورنہ اس کی ناکامی یقینی ہے۔اس لیے دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت کے درمیان بہت ہی گہرا اور قریبی ربط ہے۔امت مسلمہ کو دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت دونوں ہی کام کرنے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض اپنے دائرے کے باہر بھی انجام دینا ہے اور اندر بھی ،جو کام اپنے دائرے سے باہر کریں گے وہ دعوت وتبلیغ ہے اور جو اپنے دائرے کے اندر انجام دیں گے وہ تنظیم وتربیت ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۝۱۹۹(اعراف ۷:۱۹۹)، اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جائو، اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔

آپ ؐ نے یہود ونصاریٰ ،مشرکین اور منافقین سب کو دین کی دعوت دی،اخلاقِ حسنہ کی نصیحت کی،آداب زندگی کی تلقین کی ۔وہ سب امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں شامل ہے۔ اس وقت اگر ہم اپنی قوم کی حالت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح وتربیت کی بھی ضرورت ہے اور اُس کے ساتھ ساتھ کچھ عقائد کی اصلاح بھی مطلوب ہے۔ لہٰذا دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت کا فریضہ انجام دینا اور تسلسل کے ساتھ اسے جاری رکھنا ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔ اس کی انجام دہی ہماری نجات اور فلاح کی ضامن ہے۔(جلال الدین عمری، معروف و منکر)

فریضۂ معروف و منکر اور علمی خدمات

دعوتِ دین بالکل سادہ کام نہیں ہے،بلکہ اس میں جہاں وعظ ونصیحت اور تذکیر وتلقین کی ضرورت پڑتی ہے وہاں دین کو دلائل سے ثابت کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے ۔یہ علمی اور استدلالی خدمت بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ایک اہم پہلو ہے ۔امام رازی ؒ لکھتے ہیں: ’’معروف کا حکم دو ،یعنی دینِ حق کی وضاحت اور اس کے دلائل کے اثبات کے ذریعے‘‘۔

ابن عربی مالکی کہتے ہیں کہ دین کو علمی رنگ میں پیش کرنا اور اسے دلائل سے ثابت کرنا امربالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ یہ بات بھی امر بالمعروف ونہی المنکر میں شامل ہے کہ مخالفین پر حجت قائم کرکے دین کی مدد کی جائے۔

ہم اس وقت فریب اور دھوکا دہی پر مبنی دورِ دجل میں جی رہے ہیں۔ہر طرف سے اسلام پر حملے ہو رہے ہیں۔عورت کی حیثیت ،عورت کا مقام اور اس کا دائرہ موضوع بحث ہے۔ تاریخ اسلام اور مسلمان حکمرانوں کے کارہائے نمایاں پر حرفِ تنقید ہے۔حضورؐ کی ذاتِ مبارکہ بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں۔ علم حدیث اور سنت متواتر ہ تک پر حملے ہو رہے ہیں۔اس لیے دینِ  اسلام کے پورے نظام کا دفاع بہت ضروری ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں دعوت دین کی پوری جدوجہد شامل ہے۔اس کا فطری اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جائے۔ اس بات کو دلائل سے ثابت کیا جائے کہ اللہ کا دین ہی حق ہے ۔اسی میں ہماری نجات ہے۔ اس دین کو فروغ دینے،اسے پھیلانے اور اس کا نظام نافذ کرنے کی جدو جہد وقت کا تقاضا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی،اس کے لیے بھی اتنا ہی ثواب ہےجتنا اس پر عمل پیرا ہونے والوں کا ہے‘‘ ۔(صحیح    مسلم:۱۸۶۰ )

مزید ارشاد فرمایا:’’اللہ کی قسم! اگر اللہ تیرے ذریعے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت بخش دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘۔(صحیح       بخاری: ۱۱۹۳)

الغرض امت مسلمہ کو دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد حاکمیت الٰہیہ کا قیام ہے ۔اس مقصد کے حصول کے لیے جان و مال سے جہاد کرنا ہو، قرآن پاک کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے دروس قرآن اور دروس حدیث کا سلسلہ ہو،اسلامی لٹریچر کا مطالعہ ،دین کی دعوت دینے کے لیے ملاقات ہو یا اجتماع عام، یا انسانی زندگیوں کو اخلاق و معاملات کےدائرے میں لانے کے لیے تربیت گاہوں کا انعقاد___ یہ سب کوششیں جہاد فی سبیل اللہ کے ذیل میں آتی ہیں۔

نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مستحق ہیں وہ سب داعیانِ دین جنھوں نے اپنی زندگیاں اس راہ میں لگا دیں۔

خطبۂ جمعہ کو اس قدر غور سے سننے کی تلقین کی گئی ہے کہ ’’کہا گیا ہے کہ اگر کوئی دوران خطبہ شور کرے تو اس کو یہ کہنا کہ ' چپ ہوجاؤ بھی مناسب نہیں‘‘۔ ظاہر ہے خطبۂ جمعہ کی کافی اہمیت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے خطبۂ جمعہ کو وہ مرکزی اہمیت نہیں دی۔ ایک متفق علیہ حدیث ہے؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو کہ’خاموش ہو جاؤ‘ تو (ایسا کہہ کر) تم نے خود ایک لغو حرکت کی‘‘۔فرشتے اس شخص کا نام اپنے رجسٹر میں نہیں لکھتے ہیں جو خطبۂ جمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد آئے۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہردروازے پرفرشتے کھڑے ہوکر پہلے آنے والے کو پہلے لکھتے ہیں۔ سب سے پہلے آنے والا شخص اس کی طرح ہے جس نے اونٹ قربان کیا ہو، اس کے بعد اس کی طرح جس نے گائے قربان کی، اور اس کے بعد جس نے مینڈھا قربان کیا، پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح جس نے مرغی قربان کی ہو۔ پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح ہے جس نے انڈا صدقہ کیا ہو،اور جب امام نکلے اور منبر پرپہنچ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپیٹ کر ذکر سننے آجاتے ہیں‘‘۔ (مسلم،۸۵۰)

جس قوم کے پاس خطبۂ جمعہ جیسا مؤثر (vibrant ) نظام ہو، اس کی بنیادی اقدار بہترین ہونی چاہئیں۔ وہ بہت زیادہ update ہونے چاہئیں۔ آج کے دور میں میڈیا کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے پاس میڈیا نہیں ہے، لیکن خطبۂ جمعہ متبادل میڈیاکا کام دے سکتا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی جن ذرائع سے تربیت کرتے ان میں خطبۂ جمعہ کا کلیدی مقام تھا۔ جب اسلام عرب سے باہر پھیل گیا تو خطبۂ جمعہ کو مؤثر بنانے کے لیے علما نے یہ طریقہ اپنایا کہ دو خطبوں سے پہلے مقامی زبان میں تقریر ہوتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اکثریت یہ تقریر نہیں سنتی اور خطبۂ جمعہ ہونے سے چند منٹ پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح اس تقریر کی افادیت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ لوگ تیسرے خطبہ کو خطبۂ جمعہ میں شامل نہیں سمجھتے، تاہم خطبۂ جمعہ کی اہمیت ان کے نزدیک برقرار ہے اور وہ خطبہ کی اذان شروع ہونے سے ٹھیک پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ بہت سی جگہوں پر پہلا خطبہ مقامی زبان میں دیا جاتا ہے،جس سے لوگوں کی رہنمائی بھی ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں  ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں: ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک غیر عربی زبان میں بھی خطبہ دیا جاسکتا ہے۔ ان کے دونوں شاگردوں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ (صاحبین) کے نزدیک جو شخص عربی زبان پر قادر ہو، اسے عربی میں خطبہ دینا چاہیے۔ جو قادر نہ ہو اسے غیرعربی میں بھی خطبہ دینے کی اجازت ہے‘‘۔

عموماً فقہائے احناف کا فتویٰ اور عمل صاحبین کے مسلک پر ہے۔ بعض فقہا نے غیرعربی زبان میں بھی خطبہ دینے کی اجازت دی ہے۔ مثلاً علامہ عبدالحئی فرنگی محلیؒ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے (مجموعۃ الافتاوٰی،فصل:۲۵)۔ مولانا محمدعلی مونگیریؒ بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء ،لکھنؤ نے بھی اس موضوع پر ایک مفصل رسالہ لکھا ہے، جس کا نام القول المحکم فی خطابۃ العجم ہے۔

  موجودہ دور میں اس چیز کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ خطبۂ جمعہ  کو عوام کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس بنا پر بعض علما کہتے ہیں کہ جمعے کے دونوں خطبے تو عربی زبان ہی میں دیئے جائیں، البتہ خطبے سے قبل عوام کی زبان میں ان کے سامنے تقریر کی جائے، جس میں انھیں دین کی باتیں بتائی جائیں۔ اس طریقے کو اختیار کرنے سے عملاً جمعے کے تین خطبے ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کو اختیار کرکے خطبۂ اولیٰ کو اُردو میں دینا چاہیے۔

اس موقعے پر اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے پانچویں سیمی نار منعقدہ ۸ تا۱۶؍ربیع الثانی ۱۴۰۲ھ میں منظور شدہ ایک فیصلے کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے : ’’معتدل رائے یہ ہے کہ غیرعرب علاقوں میں جمعہ و عیدین کے خطبے کے صحیح ہونے کے لیے عربی زبان کی شرط نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ خطبے کے ابتدائی کلمات اور قرآنی آیات عربی زبان میں پڑھی جائیں، تاکہ غیرعرب بھی عربی اور قرآن سننے کی عادت ڈالیں اور عربی میں قرآن سیکھنا ان کے لیے آسان ہو۔ پھر خطیب علاقائی زبان میں انھیں نصیحت و تذکیر کرے‘‘۔ (مکہ فقہ اکیڈمی کے فقہی فیصلے، ایفا پبلی کیشنز، نئی دہلی، طبع دوم، ۲۰۰۶ء، ص۱۰۷ )

نمازِ جمعہ اور جمعہ کے خطبے اسلام کے عظیم شعائر میں سے ہیں، جن کا مقصد لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمعہ کا اہتمام ہو، ہر بستی میں ایک ہی وقت خطبۂ جمعہ ہو۔ سب دوکانیں، کاروباری ادارے اور دفاتر اس وقت بند ہوجائیں اور پوری بستی کو یہ محسوس ہو کہ آج جمعہ ہے۔ اس کے بعد امام صاحب پہلا خطبہ مقامی زبان میں دیں اور دوسرا خطبہ عربی زبان میں دیں، اس طرح شعائر اسلام کی تعظیم ہو سکتی ہے۔ ورنہ یہ ہوتا ہے کہ آدھے لوگ اس مسجد میں جاتے ہیں جہاں ابتدائی وقت میں خطبۂ جمعہ ہوتا ہے اور آدھے لوگ وہاں جاتے ہیں جہاں آخری وقت خطبۂ جمعہ ہوتا ہے، اس طرح جمعہ کا اہتمام کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ اب تو زیادہ تر مساجد اس وجہ سے ابتدائی وقت میں خطبۂ جمعہ رکھتے ہیں تاکہ وہاں زیادہ سے زیادہ لوگ نماز کے لیے آئیں اور مسجد کے لیے امداد بھی فراہم ہوسکے۔ نمازِ جمعہ کا اہتمام نظر آنا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۹(الجمعة۶۲:۹)مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔

 ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:’’اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت حرام ہے‘‘۔ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ کار یہ تھا کہ آپ دیگر ایام کے مقابلے میں مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن‘‘۔(زاد المعاد ، ۱/۳۷۵)

اب،جب کہ یہ بات واضح ہے کہ خطبات جمعہ کی اتنی زیادہ اہمیت ہے تو پھر خطیب مسجد کی ذمہ داری بھی اسی حساب سے بڑھ جاتی ہے، تاکہ اس ہفتہ وار پروگرام سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ بہتر یہ ہوتا کہ علاقے میں اہلِ علم کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ہر جمعہ کو یہ طے کریں کہ اگلے جمعہ کو ہر مسجد میں کس موضوع پر خطبہ ہو؟ بہتر ہوتا کہ اہلِ علم ہر ہفتے ائمہ حضرات کو خطبۂ جمعہ کے لیے مواد بھی فراہم کرتے۔ خطبۂ جمعہ مختصر مگر جامع ہو۔ بدقسمتی سے خطیب صاحب ایسے بے سروپا قصوں، کہانیوں اور مبالغہ آمیز حکایات کا سہارا لیتے ہیں کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی الجھن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، بلکہ ایسی کہانیوں کے باعث خطبا سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خطبۂ جمعہ کو اب اکثر مقامات پر صرف ایک تبرک کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی طرح خطبہ میں دوسرے مسالک اور جماعتوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے جس سے تفرقہ بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب امت مسلمہ رسوم ورواج میں پھنسی ہوئی ہے، ضرورت ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کی جائے۔ جب رزقِ حلال کے حوالے سے بیداری کی کمی ہو تو ضرورت ہے رزق حلال پر زور دیا جائے۔ رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، اور ناپ تول پر کمی پر خطبہ دیا جائے تاکہ لوگ ان رذائل سے محفوظ رہیں۔ اسلام نے معاشرتی مسائل پر کھل کر اور تفصیل سے بات کی ہے۔ ضرورت ہے کہ معاشرتی مسائل پر بات چیت کی جائے۔ بغض، حسد، کینہ، غیبت وغیرہ کو بھی خطبۂ جمعہ کا موضوع بنایا جائے۔ سب سے بہتر ہے کہ قرآن کریم کا درس سورۂ فاتحہ سے شروع کیا جائے ہر ہفتہ ایک یا دو آیات کا ترجمہ اور تفسیر بیان کی جائے۔ خطبۂ جمعہ میں مقررین کو بہترین اسلوب میں اپنی بات رکھنی چاہیے۔

 حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے مروی ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبۂ ارشاد فرماتے تھے، تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آواز بلند ہوجاتی تھی، اور آپ کا غصہ شدید ہوجاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو آگاہ فرمارہے ہیں ‘‘۔ (مسلم)

 آج کل ہمارے گردوپیش میں جہاں مرد حضرات جمعہ پڑھنے کے لیے مساجد کا رُخ کرتے ہیں وہیں خواتین نمازِ جمعہ سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لازم ہے کہ جہاں جہاں کوئی نئی مسجد تعمیر ہو رہی ہو وہاں خواتین کے لیے الگ سے جگہ رکھی جائے۔ اگر خواتین بھی خطبۂ جمعہ پابندی سے سنیں گی تو اس کے معاشرے پر بہترین مثبت اثرات پڑیں گے۔

گھر سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہوں، والدین، بیوی بچے، بھائی بہن سب جھلس رہے ہوں اور کوئی شخص دور محلے کے کسی گھر میں لگی آگ بجھانے میںمشغول ہو،تو آپ اسے کیا کہیںگے؟ بیوقوفی؟ پاگل پن؟ جہالت؟ اب صورت حال ذرا بدل کر غور کرتے ہیں۔ گھر سے آگ کی لپٹیں اُٹھ رہی ہوں، گھر والے جھلس رہے ہوں اور کوئی شخص ملک بھر کے دورے کرکے آگ بجھانے کی ترکیبوں پر تقریریں کرتا پھرے، تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ کاہلی؟ بزدلی؟ یا ذمہ داری سے فرار؟ یہ حرکت کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ کیوں نہ انجام دی جائے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص تہجد پڑھنے کے لیے فجر قضا کرنے کو اپنا معمول بنالے۔ یقینا ایسے شخص کو یہی مشورہ دیاجاسکتا ہے کہ ہوسکے تو وہ تہجد اور فجر دونوں کو نبھالے یا پھر تہجد ترک کردے۔

اسلام دینِ فطرت ہے جس میں کوئی ایچ پیچ نہیں ہے اور اس کی حکمتیں بے شمار ہیں۔ وحی الٰہی کی نگرانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں ہمیں جو تدریج نظرآتی ہے، وہ بھی حکمتوں سے لبریز ہے۔ ختمِ نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد آپؐ نے سب سے پہلے اپنے قریب ترین لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ پھر خاندان اور قبیلے والوں تک دین کا پیغام پہنچایا اور پھر اہل مکہ کو عمومی دعوت دی۔ اس کے بعد مختلف قبائل تک اسلام کا پیغام پہنچایا، طائف کا سفر کیا اور مدینہ میں اسلام کا پودا لگایا۔ ہجرت کے بعد دعوت کاپیغام جزیرۂ عرب کے کونے کونے تک پہنچانے کااہتمام کیا،  جس کے لیے متعدد دعوتی وفود بھیجے گئے۔ بالآخر دعوتی خطوط کے ذریعے عالم گیر پیمانے پروقت کی عظیم سلطنتوں کو اسلام کے سایۂ عاطفت میں آجانے کی تلقین کی گئی۔

بعض لوگوں کاخیال ہے کہ آپؐ نے کسی اسلامی ریاست کے قیام یا اسلامی نظام کی اقامت کے لیے شعوری کوشش نہیں کی تھی بلکہ اقتدار بطورِ انعام خود بخود ’نازل‘ ہوگیاتھا۔ بالکل اسی طرح بعض لوگ مندرجہ بالا تدریج کو بھی محض اتفاقی امر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس کی حکمتوں پرغور کرنا انتہائی آسان ہے۔ مثال کے طورپر دعوت کی اس نبویؐ ترتیب کو اُلٹ دیاجائے اور دعوت کی ابتدا مختلف بادشاہوں کو خطوط بھیجنے سے ہوتو اس کے غیرمنطقی ہونے پر شاید کسی کو تعجب نہ ہو۔ لیکن پتے کی بات تو یہ ہے کہ اگر ایک مرحلے سے پہلے دوسرا مرحلہ آجائے تو یہ بھی کچھ کم نقصان دہ نہیں۔ مثال کے طورپر قریب ترین اور ہمراز لوگوں کو پیغام دینے سے پہلے اگر خاندان اور قبیلے والوں کو دعوت دی جاتی یا خاندان اور قبیلے والوں سے قبل سارے شہر مکہ کو، تو کیا ہوتا؟پہلی صورت میں داعی اعظم ؐ اس اخلاقی تعاون سے محروم ہوجاتے جو حضرت خدیجہؓ،حضرت ابوبکرؓ، حضرت زیدؓاور حضرت علیؓ کی صورت میں آپؐ کو ملا۔ پھر دنیا بھر کی مخالفتوں پر آپؐ کے زخمی دل پر کون مرہم رکھتا؟ بھری محفل میں انتہائی دلگداز انداز میں یہ پوچھنے پر کہ ’کون میرا ساتھ دے گا؟‘ آخر کون اٹھتاکہ ’اللہ کے رسولؐ میں آپ کاساتھ دوںگا‘۔

اسی طرح سامنے کی بات ہے، رشتے داروں میں بھی عام طورپر شادی کا پیغام نہ پہنچنے پر باوجود جاننے کے لوگ شریک نہیں ہوتے کہ بھئی ہمیں تو دعوت نہیں دی گئی۔ خاندان کے معاملے میں دین کا قصہ یہی ہے۔ جب مکہ بھر میں اسلام کاآواز ہ گونج اُٹھتا اور بیرونی ذرائع سے ﴿نہ کہ آپؐ کے ذریعے آپؐ کے خاندان کو اس کی خبر لگتی، تو خاندان بھر کو شکایت ہوتی کہ ہم یہ کیسی اجنبی صدا سن رہے ہیں، آپؐ نے ہمیں تو اس کے بارے میں کبھی بتایا نہیں، اور نہ ہمیں اعتماد میں لیا؟

آپؐ کے اسوے پر چل کر دنیا میں شہادتِ حق کا فریضہ انجام دینے والوں اوراقامتِ دین کی راہ پر چلنے والوں کے لیے تو اس اسوے پر چلنا ناگزیرہے۔ جملۂ معترضہ کے طورپر یہ عرض ہے کہ مراحل کی اس تقسیم میںتسلسل پایا جاتاہے اورقرآن میں ایک نہیں متعدد مقامات پر اہلِ ایمان کو اپنے خاندان کی اصلاح کی طرف متوجہ کیاگیا ہے اور کہیں کہیں اندازِ بیان اتنا خوف ناک ہے کہ دل دہل جاتاہے: ’’اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈراؤ‘‘۔(الشعراء۲۶:۲۱۴﴾)

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو جمع کرکے خطاب فرمایا: ’’اے بنی عبدالمطلب! اے عباس، اے صفیہ ﴿آپؐ کی پھوپھی ﴾ اور اے فاطمہؑ بنت محمدؐ! تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرلو، میںخدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچاسکتا۔ البتہ میرے مال میں سے تم جو چاہو مانگ سکتے ہو‘‘۔ پھر کوہ صفاپر، یاصباہ حاہ  کی صدا بلند فرمائی اور قریش کے ہر قبیلے کو نام بنام آواز دی۔ جب سب جمع ہوگئے تو دریافت کیاکہ ’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو کیا تم یقین کروگے؟‘‘ لوگوں نے یک زبان ہوکر کہاکہ ’’ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے پایا ہے‘‘۔ ان سے یہ اقرار کرالینے کے بعد آپؐ نے کہا: ’’اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو۔ میں خدا کے مقابلے میں تمھارے کسی کام نہیں آسکتا۔ قیامت میں میرے رشتے دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہوکہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکاروگے:’’یا محمدؐ! مگر میں مجبور ہوںگا کہ تمھاری طرف سے منہ پھیرلوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمھارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمھارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروںگا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اپنے اہل وعیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔( طہٰ۲۰:۱۳۲﴾)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔(التحریم۶۶: ۶)

مولانا مودودیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظامِ فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے، اس کو بھی وہ اپنی حدِاستطاعت تک ایسی تعلیم وتربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جارہے ہوں تو جہاں تک اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اُس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوش حال ہوں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کاایندھن نہ بنیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۶،ص ۲۹-۳۰)

 نعیم صدیقی لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم کے طالب علم کی توجہ اس امر پر بھی جانی چاہیے کہ یہ سورۂ تحریم کی آیت تھی، جس کے شروع میں ازواجِ مطہراتؓ کی طرف سے ایک طرح کی محاذ آرائی کرکے دباؤ ڈالنے کی کوشش کا ذکر ہے۔اسی واقعے کو پس منظر میں رکھ کر مسلم سوسائٹی کو خصوصی توجہ دلائی گئی کہ اگرتم اپنے گھروں کی فضا کو دین کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ نہ کرلوگے تو تمھارے نظامِ معاشرت میں خلل آجائے گا اور تمھارے گھروں میں ہی مخالفانہ محاذ قائم ہوجائیں گے، جو تمھاری قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے تمھیں دشمنوں اور شریروں کی سرکوبی کے قابل نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں۔(الانفال ۸:۲۸﴾)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، اُن سے ہوشیار رہو… تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں۔(التغابن۶۴:۱۴-۱۵﴾)

ان آیات کی تفسیر میںمولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

ہوتایہ ہے کہ شوہر اگر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اُسے ایسی ملتی ہے جو اس کی دیانت و امانت اور راست بازی کو اپنے حق میں بدقسمتی سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ اُن کی خاطر جہنم مول لے اور ان کے لیے حرام و حلال کی تمیز چھوڑکر ہرطریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے۔ اور اس کے برعکس بسااوقات ایک نیک مومن عورت کو ایسے شوہر سے سابقہ پیش آتاہے، جسے اس کی پابندیٔ شریعت ایک آنکھ نہیں بھاتی، اور اولاد بھی باپ کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی گمراہی اور بدکرداری سے ماں کی زندگی اجیرن کردیتی ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جب کفرو دین کی کش مکش میں ایک انسان کے ایمان کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر نقصانات برداشت کرے، طرح طرح کے خطرات مول لے، ملک چھوڑکر ہجرت کرجائے، یا جہادمیں جاکر اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دے، تو سب سے بڑھ کر اس کی راہ میں اس کے اہل وعیال ہی رکاوٹ بنتے ہیں۔(تفہیم القرآن، ج۵، ص۵۴۴)

انبیاؑ نے اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داری کو واقعی آزمائش سمجھاتھا اور ان کی اصلاح وتربیت سے ہرگز غافل نہیں تھے۔ احساسِ ذمہ داری اور احساسِ جواب دہی کی حد یہ تھی کہ بسترِ مرگ پر بھی بے چین تھے۔ ارشاد خداوندی ہے:

جب یعقوبؑ کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بچوں سے پوچھا:بچّو! میرے بعد تم کس کی بندگی کروگے؟(البقرہ۲:۱۳۲﴾)

قرآن کریم میں اپنے بچوں کے لیے حضرت ابراہیمؑ کی یہ وصیت بھی محفوظ ہے:

میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔(البقرہ۲:۱۳۱﴾)

 اورلقمان حکیم کی یہ نصیحت بھی :

بیٹا! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا… وہ باریک بین اورباخبر ہے۔ بیٹا! نماز قائم کر، نیکی کاحکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر… اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑکرچل… اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ۔(لقمان۳۱:۱۳-۱۹﴾)

خاندان میں دعوت کاکام واقعی کوئی کھیل نہیں، طرح طرح کی رکاوٹوں کاسامنا ہوسکتاہے۔ انسان کو تعلقات کے بگاڑ اور طعنوں کااندیشہ ہوتاہے۔ پہلی بار جھجک محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ذمہ داری سے فرار ممکن نہیں۔ مولانا سیّد جلال الدین عمری کہتے ہیں:

روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جب آیت وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ  (الشعراء ۲۶:۲۱۴) نازل ہوئی تو آپؐ نے محسوس کیاکہ بڑی مشکل ذمہ داری آپؐ پر آن پڑی ہے۔ خاندان کی طرف سے اور قریب ترین افراد کی طرف سے اس کی مخالفت ہوسکتی ہے، لیکن اللہ کے فرشتے جبرئیلؑ نے کہاکہ آپ کو اس حکم پر لازماً عمل کرنا ہوگا، ورنہ اللہ کے ہاں بازپُرس ہوگی۔ اس حکم کے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر قبیلے کی مختلف شاخوں میں سے ایک ایک کا نام لے کر انھیں جمع کرکے دعوتِ دین پیش کی۔

  • اہلِ خانہ کی تربیت کے عملی تقاضے: اب تک جو باتیں کہی گئیں، ان کی روشنی میں اگر ہم اپناجائزہ لیں تو بہت کچھ کمیوں کا احساس ہوتاہے، جنھیں نظرانداز کرنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ایک واقعہ درج کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے: ایک شناسا اور تحریک اسلامی کے سرگرم کارکن سے سرِراہ ملاقات ہوگئی۔ کچھ گفتگو کے بعد میں نے ان سے عرض کیا: ہماری طلبہ تنظیم کا ایک تزکیہ کیمپ ہونے والا ہے، اس میں وہ اپنے بیٹے کو ضرور بھیجیں۔  یہ سنتے ہی انھوںنے ہاتھ کھڑے کرلیے: ’آپ خود کیوں نہیں کہتے؟‘ میں نے کہاتھا ’لیکن مجھے یقین ہے کہ ہر بار کی طرح صرف میرے کہنے پر وہ نہیں آئے گا، آپ اس کے ابّا ہیں، آپ کہیںگے تو وہ نہیں ٹالے گا‘۔ جواب میں فرمانے لگے: ’بھئی میں اس قسم کی باتیںاس سے نہیں کرتا،ایک نہ ایک دن اسے سمجھ آہی جائے گی۔ ویسے بھی دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی تو ہے نہیں، لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ۔ میں نے عرض کیا: ’زبردستی کرنے کو کب کہہ رہاہوں؟ صرف  یہ کہہ رہاہوں کہ آپ صرف ایک بار اچھی طرح کہہ کر دیکھیں‘۔ مگر اُن صاحب نے بات ٹال دی۔ لیکن اصرار پر انھوں نے بیٹے سے کہہ ہی دیا۔ نتیجہ یہ کہ بیٹے نے ﴿اپنے والد کے کہنے پر اس تزکیہ کیمپ میں شرکت کی اور اس کے بعد سے پابندی سے ہماری سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا۔

اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ  کے ضمن میں مولانا مودودیؒ کا یہ تفسیری نوٹ بھی ملاحظہ فرمایئے: ’’معاملہ صرف اس حد تک نہیںتھاکہ قرآن میں اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ   کا حکم آیا اور حضوؐر نے اپنے رشتے داروں کو جمع کرکے بس اس کی تعمیل کردی۔ دراصل اس میں جواصول واضح کیاگیاتھا وہ یہ تھاکہ دین میں نبی اور اس کے خاندان کے لیے کوئی امتیازی مراعات نہیں ہیں جن سے دوسرے محروم ہوں۔ جو چیز زہرِ قاتل ہے وہ سب ہی کے لیے قاتل ہے۔ نبی کا کام یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سے خود بچے اور اپنے قریبی لوگوں کو اس سے ڈرائے، پھر ہر خاص و عام کو متنبہ کردے کہ جو بھی اسے کھائے گا، ہلاک ہوجائے گا۔ اور جو چیز نافع ہے وہ سب ہی کے لیے نافع ہے، نبی کا منصب یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے خود اختیار کرے اور اپنے عزیزوں کو اس کی تلقین کرے،تاکہ ہر شخص دیکھ لے کہ یہ وعظ و نصیحت دوسروں ہی کے لیے نہیں ہے،بلکہ نبی اپنی دعوت میں مخلص ہے‘‘۔( تفہیم القرآن، ج۳،ص ۵۴۳)

ذہن نشین کرلینے کی بات یہ ہے کہ بچہ آرٹس لینا چاہتاہے اور والدین دھونس جماکر اسے سائنس دلادیتے ہیں اور اسے زبردستی نہیں سمجھتے حالانکہ یہ زبردستی ہے۔ وہ اپنا بزنس کرنا چاہتاہے اسے ایم بی بی ایس میں گھسادیتے ہیں حالانکہ یہ بھی زبردستی ہے۔ لیکن جب وہ تنظیم کے ہفتہ وار پروگرام میں نہیں آتا، دینی مطالعہ نہیں کرتا، نمازوں سے غفلت برتتا ہے تو اس پر ٹوکنے کے بجائے، جھٹ سے لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی چٹان کے پیچھے جاچھپتے ہیں۔ حالانکہ یہ زبردستی نہیں ان کا فریضہ ہے۔

ایک مسلمان اگر اسلام کے وسیع تصور کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلامی تحریک سے کسی بھی سطح پرقریب آتاہے، تو اس سے بجاطورپر یہ توقع ہوتی ہے کہ جس طرح وہ اپنے محلے،شہر اور ملک کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لیے سعی و جہد کررہاہے، اس عمل میں وہ خاندان سے غفلت نہ برتے بلکہ اس پر خاص توجہ دے کہ اس جدوجہد میں اس کا خاندان اس کا دست و بازو ہو، اس کے پاؤں کی زنجیر نہ بنے۔ ایک مومن کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خدا نہ کرے کل کو اس کے اپنے ہی قدم صراطِ مستقیم سے بھٹکتے ہیں تو کم از کم بیوی بچّے ایسے ہوں کہ اس گمراہی کا خیرمقدم کرنے کے بجائے، ہاتھ پکڑکر دوبارہ صحیح راستے پر لے آئیں۔ اگر ایسے پچاس ہزار مثالی خاندان ملک میں موجود ہوں کہ ایمان کی پختگی، عمل کی بلندی اور دینی غیرت میں فکروعمل کے بلند مرتبے پر فائز نظر آئیں، تو یہ ممکن نہیں کہ معاشرہ ان سے متاثر نہ ہو۔ ہمارا زور ایک فرد پر نہیں، ایک خاندان پر ہے۔

کوئی نوجوان اگر آج جاہلیت سے لتھڑے اس ماحول میں حق کو پہچان کر نکلتاہے مگر چار پانچ سال گزرنے پر بھی اس کے بھائی بہنوں کو نہیںمعلوم کہ تحریک کس چیز کانام ہے، اس کے والدین کو نظم کی ہوا تک نہیں لگتی، مگر دوسری جانب وہ اپنی ذات میں اقامتِ دین کا سودا سر میں سموئے معاشرے کی اصلاح اور ریاست کی تشکیل کابیڑا اٹھاتا ہے، اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو عار دلاتاہے کہ مسلمانوں نے قرآن جیسے نسخۂ کیمیا کو چھپارکھا ہے۔ مگر چراغ تلے اندھیرا وہ خود اپنے بیوی بچوں کو دین کے مکمل تصور سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت نہ سمجھے تو ایسی صورت میں دو میں سے صرف ایک بات کا احتمال ہوسکتا ہے: ﴿۱ن دونوں کو اپنے خاندان سے محبت نہیں ہے، ﴾یا تحریک سے ان کی کمٹمنٹ ناقص ہے۔

یہاں بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم نہیں چاہتے کہ جب اللہ کو اپنا سب کچھ’قرض‘ میں دے دیں تو بیوی ہماری ’کم عقلی‘ پر ماتم کرنے کے بجائے بالکل ام دحداحؓکی طرح کہے: ’’ابودحداحؓ! یہ تو کافی نفع بخش تجارت رہی‘؟کیا ہم نہیں چاہتے کہ جب خداکی راہ میں نکلنے کا موقع آئے تو بجائے اس کے کہ ہمارے والد اپنے بڑھاپے کا حوالہ دے کر راستہ روکیں، حضرت عمروبن جموحؓکی طرح خود ہی کہیں کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو، یا حضرت سعد بن خیثمہؓکے والد کی طرح قرعہ اندازی پر آمادہ ہوجائیں کہ کون پہلے جائے گا؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ زندگی میں اگر عزّت و شہادت کی موت یا گیدڑوں کی زندگی میں سے کسی ایک کو چننے کا موقع آئے تو بوڑھی والدہ پاؤں کی زنجیر بننے کے بجائے حضرت اسماءؓکی طرح ’زرہ بکتر‘ اتار پھینکنے پر اُبھارے کہ یہ ’مردوں‘ کی شان سے فروتر ہے، اور حضرت خنساءؓکی طرح دشمن کی صفوں میں اندر تک گھس جانے کی تلقین کریں؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ جب شیطان ہم پر حاوی ہونے لگے، اور سستی و بے عملی سے آج کاکام کل پر یا صبح کاکام شام پر ٹالنے لگیں تو ہمارا ہی لخت جگر بالکل حضرت عمر بن عبدالعزیزؓکے بیٹے کی طرح معصومیت سے کہے: ’ابّا! کیاآپ کو یقین ہے کہ آپ شام تک زندہ رہیں گے؟‘ اس مثالی خاندان کا اگر واقعی ہم خواب دیکھتے ہیں تو کامیابی کا پہلا زینہ آپ چڑھ چکے ہیں۔ لیکن خواب صرف دیکھ لینے سے سچ نہیں ہوتے۔

اسی مقصد کے لیے تحریک نے ایک اور اہم پروگرام اجتماعِ اہل خانہ کا رکھا ہے۔ یہ بیوی بچوں کی تربیت کی خاطر بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر ہفتے میں کم از کم ایک بار بھی اہلِ خانہ ایک دعوتی اجتماع کے لیے ایک آدھ گھنٹے کے لیے مل بیٹھیں تو پورے خاندان کی فضا پر بہت مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ محترم قاضی حسین احمد کے یہ الفاظ بہت اہم ہیں کہ: ’’اگر گھر میں بھی دعوتِ دین کا ماحول پیداہوجائے تو یہ ایک مسلم گھرانا قائم کرنے کے لیے بہت مددگار ثابت ہوسکتاہے۔ اپنی انفرادی تربیت اور مطالعۂ قرآن و حدیث کے بعد اپنے خاندان کی تعلیم و تربیت ہمارا سب سے اوّلین کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں ہمیں اس کی فکر کرنے کا حکم دیا ہے کہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ دعوت کی حکمت عملی کے اعتبار سے خاندان کی اصلاح خشتِ اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ درست ہوجائے تو پوری دیوار سیدھی کھڑی ہوتی ہے اور یہ کمزور یا ٹیڑھی رہے تو عمارت میں بھی ٹیڑھ رہے گی۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کام کی تدریج یہ ہے کہ مسلم فرد کی تربیت ہو، مسلم گھرانے کی تعمیر ہو، مسلم معاشرے کی تعمیر ہو اور مسلم حکومت کے ذریعے سے ان سب کو قوت عطا ہو اور انسان تہذیب و تمدن اور خیر و صلاح کا گہوارہ بن جائے گا‘‘۔

وقت ایک قیمتی اور محدود وسیلہ ہے، جس کی اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ دین وقت کو دانش مندی کے ساتھ استعمال اور اس کا مؤثر طریقے سے انتظام کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ مسلمان ایمان رکھتے ہیں کہ وقت اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے، اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ان کی ذمہ داری ہے۔اسے لغو اور فضول معاملات میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام زندگی کے تمام پہلوؤں میں پیداواریت،حُسنِ کارکردگی، توازن اور ذہن سازی کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے وقت کے صحیح استعمال کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

اس کے علاوہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی نقل مکانی مغربی ممالک کی طرف زیادہ ہوگئی ہے، ایسی صورت حال میں دعوت اور تبلیغ سے وابستہ افراد کے لیے ان ممالک میں دعوتی کام کے حوالے سے چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔

اسلام میں وقت کی اہمیت

  • تصور امانت:مسلمان وقت کو اللہ کی امانت سمجھتے ہیں۔ اسے سمجھ داری سے استعمال کرنا چاہیے اور ضائع نہیں کرنا چاہیے۔وقت ایک تیزدھار تلوار کی مانند ہے۔ اسے بہترین طریقے سے استعمال کرنے کی تربیت حاصل کرنا چاہیے، ورنہ یہ ہمارے نقصان میں استعمال ہوسکتی ہے۔
  • محدود اور ناقابل واپسی :وقت محدود ہے اور ایک بار گزر جانے کے بعد واپس نہیں لایا جاسکتا۔ ہر لمحہ منفرد ہے، جو ذاتی ترقی اور عبادت کے مواقع رکھتا ہے۔
  • احتساب:ایک حدیث کے مطابق جس میں پانچ سوالات ہیں،ہم وقت کے استعمال کے حوالے سے بھی جواب دہ ہیں کہ اس دنیا میں اپنا وقت کیسے گزارا؟ یہ قول ہر لمحے کا بہترین استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے:اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب ہو، اپنا وزن کرلو، قبل اس کے کہ تمھارا وزن ہو۔
  • زندگی میں توازن:اسلام دنیاوی معاملات اور عبادات کے درمیان توازن برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے۔ وقت کا انتظام لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل بناتا ہے اورعبادت، خاندان اور ذاتی فلاح و بہبود کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔
  • ترجیحات کا تعین:ہمارا دین کاموں کی اہمیت کی بنیاد پر ترجیحات طے کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔یہ ترجیحات کا تصور انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر افراد کو مؤثر طریقے سے وقت مختص کرنے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔

تنظیمِ وقت کے جدید تقاضے

  • ذاتی منصوبہ بندی:اپنے دن کی منصوبہ بندی کریں۔ کاموں کو ترجیح دینے اور ان کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے شیڈول بنائیں یا کرنے کے کاموں کی فہرست بنائیں، جسے عام طور پر To do ist (کرنے کے کام) کہتے ہیں۔ پہلے کسی نوٹ بک میں لکھتے تھےیا کارڈز پر تحریر کرتے تھے، اب یہ سہولت اسمارٹ فونز اور اسی قسم کی ڈیوائسز پر میسر ہے۔
  • اہداف مقرر کریں: توجہ مرکوز اور حوصلہ بلند رکھنے کے لیے قلیل مدتی اور طویل مدتی اہداف قائم کریں۔ اہداف میں وقت کی مقدار اور حد متعین کی جاتی ہے۔ کام مہیا وقت کے مطابق پھیلتا ہے۔ اس لیے مہیا وقت مقرر (مقدار) اور متعین (حد یا imit ) کرنے کی کوشش کریں۔
  • خلفشار کو ختم کریں: خلفشار کو کم یا ختم کریں، جیسے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال، جو کئی لوگوں کو جنون بلکہ نشے کی حد تک ہوتا ہے،یا غیر ضروری اسکرین ٹائم کہ بس دیکھتے رہو اور لوگ دن میں پانچ سے دس گھنٹے اسکرین پر لگادیتے ہیں۔
  • کاموں کو تفویض کریں: اپنے کام کا بوجھ ہلکا کرنے اور اہم کام کرنے کے لیے قابل اعتماد افراد کے درمیان ذمہ داریاں بانٹیں۔تفویض کرنا کاموں کی تقسیم کا نام نہیں ہے، بلکہ اہل افراد سےان کے منصب اور صلاحیتوں اور قابلیتوں کے مطابق کام لینے کا نام ہے۔
  • معذرت کرنا سیکھیں: اپنے وعدوں کو ترجیح دیں اور ان اُمور کو مسترد کرنا سیکھیں، جو آپ کے مقاصد یا صلاحیت ِ کار کے مطابق نہیں ہیں۔ان العہد کان مسئولا، بے شک وعدوں کے معاملے میں بھی ہماری جواب دہی ہوگی۔ اس لیے کسی سے کسی بھی قسم کا وعدہ کرنے سے پہلے کئی بار سوچ لیں کہ آپ کیا وعدہ کررہے ہیں؟ اور جب وعدہ کرلیں تو اسے نوٹ بھی کرلیں کیونکہ وعدہ کرنے کے بعد یہ آپ پر قرض ہوگیا ہے۔
  • کاموں کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کریں: کارکردگی کو بڑھانے کے لیے بڑے، طویل اور پیچیدہ کاموں کو چھوٹے، قابل انتظام اقدامات میں تقسیم کریں۔ڈبل روٹی کے سلایس بنائیں جاتے ہیں، روٹی کے ٹکڑے کیے جاتے ہیں، اسی انداز سے کاموں کو بھی چھوٹے چھوٹے حصوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرلیں اور پھر انھیں مکمل کرنے کی کوشش کریں۔
  • بیک وقت کئی کام کرنے سے گریز: کام کے ارتکاز اور معیار کو بڑھانے کے لیے ایک وقت میں ایک کام پر توجہ دیں۔خاص کر ڈرائیونگ کرتے ہوے اور کھانا کھاتے ہوئے، بہت سے کاموں سے بچیں۔ اپنی عبادتوں میں خشوع و خضوع اور دوران عبادت توجہ مرکوز کریں۔
  • کام کے دوران وقفہ: دن بھر کام کی استعداد کو برقرار رکھنے کے لیے مختصر وقفوں سے کام لیں ۔ہر ۴۵ منٹ کے دوران تین چارمنٹ کا وقفہ مفید رہتا ہے۔
  • جدید ٹکنالوجی کو اپنائیں: کاموں کو بہتر انداز سے کرنے اور کارکردگی کو بڑھانے کے لیے پیداواری ایپس اور ٹولز کا استعمال کریں۔

عبادات

  • عبادات باقاعدگی سے انجام دیں: نماز، قرآن کی تلاوت اور دیگر عبادات کے لیے ایک مستقل معمول بنائیں۔ایک شیڈول بنائیں جسے بلاک ٹائیم ٹیبل کہتے ہیں۔ یہ اسکول کے ٹائم ٹیبل سے ملتا جلتا ہوتا ہے، بس اس میں دورانیے طویل ہوتے ہیں۔
  • باجماعت نمازوں کو ترجیح دیں: مسجد میں نماز میں جماعت میں شرکت کریں۔
  • انتظار کے وقت سے استفادہ کریں: انتظار کے لمحات کو استعمال کریں، جیسے سفر کے دوران یا لائن میں کھڑے ہو کر، اللہ کی یاد اور قرآنی آیات کی تلاوت میں مشغول ہوں۔ یاد کرنے اور مطالعہ کے لیے اسمارٹ فون پر لوازمہ جمع رکھیں اور اہداف متعین کریں۔
  • فائدہ مند علم حاصل کریں: اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے اور علم کو بڑھانے کے لیے آن لائن کورسز میں مشغول ہونے کے لیے فارغ وقت کا استعمال کریں۔
  • غور و فکر کریں: اللہ کی نعمتوں پر غور و فکر، خود شناسی اور تدبر کے لیے وقت مختص کریں۔
  • دعاؤں کا استعمال کریں: اللہ سے برکت اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے مختلف مواقع پر دعائیں یاد کریں اور پڑھیں۔

 خاندان اور تعلقات

  • خاندان کے ساتھ وقت گزاریں: خاندان کے ارکان کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کے لیے وقت مختص کریں، بامعنی گفتگو اور سرگرمیوں میں مشغول ہوں۔ صرف کما کردینا اور دولت کی فراوانی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا  (التحریم ۶۶:۶)، کی بات کہی گئی ہے کہ لوگو،اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ دنیاوی آگ سے بچنے پر غور کریں اور پھر دیکھیں کہ جہنم کی آگ سے کیسے بچ سکتے ہیں اور اس کے لیے کیا لوازمات اور کیا تیاریاں ہیں؟
  • مؤثر مواصلات: فعال طور پر سننے اور خیالات اور احساسات کو واضح طور پر بیان کرکے خاندان کے اندر رابطے کو بہتر بنائیں تاکہ غلط فہمیاں نہ پیدا ہوں۔
  • کام کاج تفویض کریں: وقت بچانے اور مشترکہ ملکیت کے احساس کو فروغ دینے کے لیے گھر کی ذمہ داریاں خاندان کے افراد کے درمیان بانٹیں،اور کام کی تکمیل پر حوصلہ افزائی بھی کریں اور خوشی کا اظہار بھی کریں۔گھر کو ادارہ بھی بنانے کی کوشش کریں جہاں تربیت ہوتی ہے اور دینی اور خاندانی روایات سے آگاہی ہوتی ہے۔
  • کھانے کی منصوبہ بندی: ہفتہ وار بنیاد پر کھانا پکانے کی منصوبہ بندی کریں۔ صحت مند خاندانی بندھن کو فروغ دینے کے لیے کھانے کی تیاری میں خاندان کے افراد کو شامل کریں۔
  • خاندان میں رابطہ اور ٹکنالوجی کا استعمال: پیغام رسانی کی ایپس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کریں تاکہ دُور رہنے والے خاندان کے ممبران سے جڑے رہیں۔
  • اہل خانہ کے ساتھ سیروتفریح: باقاعدگی سے ایسی سرگرمیوں کا منصوبہ بنائیں، جو خاندانی یک جہتی کو فروغ دیں۔ کوشش کریں کہ ٹرین میں سفر کریں، کیونکہ اس میں مسافر آمنے سامنے بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ دورانِ سفر تربیت اور گفتگو کا اچھا موقع میسر آتا ہے۔
  • بچوں کو وقت کے انتظام کی مہارتیں سکھائیں: بچوں کو یہ سکھا کر وقت کی قدر پیدا کریں کہ عمر کے مطابق کاموں اور معمولات کے ذریعے مؤثر طریقے سے اپنے وقت کا انتظام کیسے کریں؟الفاظ اور لہجوں کے استعمال کے حوالے سے اپنی بھی اور خاندان کے افراد کی تربیت کریں۔ اسی طرح غصہ اور رد عمل کے استعمال کے حوالے سے تربیت کی بھی ضرورت ہے۔
  • کام اور پیشہ ورانہ زندگی: اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے لیے مخصوص اہداف کی وضاحت کریں اور ان کے حصول کے لیے ایک منصوبہ تیار کریں۔منصوبہ ہمیشہ اہداف اور متعینہ تاریخوں کے ساتھ بنانے کی کوشش کریں۔
  • اہم کاموں کو ترجیح دیں: اعلیٰ ترجیحی کاموں کی شناخت کریں اور اپنے کام میں  پیش رفت کو یقینی بنانے کے لیے پہلے ان اہم کاموں کو مکمل کرنے کی کوشش کریں۔
  • اپنے کام کی جگہ کو منظم کریں: خلفشار کو کم کرنے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک صاف اور منظم کام کی جگہ کو برقرار رکھیں۔ ہر چیز کے لیے ایک جگہ متعین ہونی چاہیے اور ہر چیز اپنی متعینہ جگہ پر ہونی چاہیے۔یہی اصول افراد کو کام سپرد کرنے کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔
  • سستی سے بچیں: کاہلی، وقت کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔ نظم و ضبط پیدا کریں اور کاموں کو فوری طور پر نمٹائیں۔ ’آج نہیں تو کبھی نہیں‘ کا اصول بھی کارآمد ہے۔سستی اور کاہلی کوئی کام شروع کرنے نہیں دیتی اور اکملیت پسندی کوئی کام ختم نہیں کرنے دیتی۔
  • میٹنگز اور رکاوٹوں کو محدود کریں: میٹنگز کو مؤثر اور خوش گوار طریقے سے منعقد کریں۔ میٹنگز کا ڈسپلن بنائیں، اس کا ایجنڈا تیار کریں، اس کی تیاری کریں اور کروائیں۔ میٹنگ کے بعد اس کے فیصلے تحریر کریں، اور پھر اس کا بھرپور فالو اَپ بھی کریں۔
  • تناؤ کم کرنا سیکھیں: توجہ اور پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے تناؤ (stress) کم کرنے کی مشق کریں۔ زندگی کے ساتھ تناؤ تو آتا ہی رہتا ہے۔
  • مسلسل سیکھیں اور بہتر بنائیں: پیشہ ورانہ ترقی میں وقت لگائیں، ورکشاپس میں شرکت کریں، یا اپنی صلاحیتوں اور علم کو بڑھانے کے لیے مزید تعلیم حاصل کریں۔
  • صحت اور بہبود:متوازن طرز زندگی کو برقرار رکھیں، جسمانی اور ذہنی تندرستی کو یقینی بنانے کے لیے خود کی دیکھ بھال، ورزش اور مناسب آرام کو ترجیح دیں۔ اپنے ’وقتِ نشاط‘ (کام کا پرائم ٹائم)کو تلاش کریں، اس کی مشق کریں اور جب آپ کو پتہ چل جائے کہ یہ آپ کا وقت ِنشاط ہے تو اس وقت کو اپنے اہم ترین کاموں کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔
  • مؤثر طریقے سے ورزش کریں: کم مدت میں زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے تیز رفتار ورزش یا وقت بچانے والی مشقوں کا انتخاب کریں۔
  • ذہن سازی کے طریقوں کو اپنائیں: ذہن سازی کی تجویز کردہ مشق کریں یا ایسی سرگرمیوں میں مشغول ہوں جو آرام کو فروغ دیں اور تناؤ کو کم کریں۔
  • مناسب نیند: مستقل نیند کے شیڈول کو ترجیح دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کو ہر رات سونے کے لیے تجویز کردہ گھنٹے ملیں۔
  • سفر کے وقت سے استفادہ کریں: اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے آڈیو بکس سنیں، یا اپنے سفر کے دوران قرآنی آیات کی تلاوت کریں۔
  • منظم رہیں: منظم رہنے کے لیے کیلنڈر، یاد دہانیوں اور ٹاسک مینجمنٹ ایپس کا استعمال کریں اور غیر ضروری تلاش یا اُلجھنوں پر وقت ضائع کرنے سے بچیں۔
  • مالی معاملات اور بجٹ سازی: اخراجات کو متعین کرنے، مؤثر طریقے سے فنڈز مختص کرنے، اور مالی فیصلہ سازی پر وقت بچانے کے لیے ماہانہ بجٹ بنائیں۔
  • خودکار بل کی ادائیگی: وقت بچانے اور دیر سے اضافی فیس(سرچارج)  دینے سے بچنے کے لیے بار بار آنے والے بلوں کے لیے خودکار ادائیگیاں ترتیب دیں۔
  • آن لائن بینکنگ اور موبائل ایپس: فوری اور آسان مالی لین دین کے لیے آن لائن بینکنگ خدمات اور موبائل ایپس کا استعمال کریں۔
  • زبردستی خریداری سے پرہیز کریں: سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کی مشق کریں، اور ضروریات کو سیل پر لگی چیزوں پر ترجیح دیں۔ہر وہ چیز جو سیل یا ڈسکاؤنٹ پر میسر ہو، اسے خریدنا ضروری نہیں ہے۔ ایسی چیزوں کو بھی خریدنے سے پرہیز کریں جن کو آپ سنبھال نہیں سکتے۔
  • اخراجات کا جائزہ لیتے رہیں: اپنے اخراجات کا ریکارڈ رکھیں تاکہ اُن مدات کی نشان دہی کی جا سکے، جہاں آپ پیسہ اور وقت بچا سکتے ہیں۔
  • پیشہ ورانہ مشورہ طلب کریں: سرمایہ کاری، بچت اور طویل مدتی مالی منصوبہ بندی کے انتظام اور رہنمائی کے لیے مالیاتی مشیروں یا ماہرین سے مشورہ کریں۔ہر کام ان کے اہل اور اس کے فن کے ماہرین سے کروائیں تو بہتر ہے۔
  • فائدہ مند اجتماعات میں شرکت کریں: اپنے علم کو وسعت دینے اور ہم خیال افراد سے جڑنے کے لیے تعلیمی سیمی نار، لیکچروں اور ورکشاپس میں شرکت کریں۔
  • سوشل میڈیا کے استعمال کو بہتر بنائیں: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صرف ہونے والے وقت کو محدود کریں۔ حسب ضرورت اسے دیکھنے کے لیے وقت بھی بدل لیں تاکہ توانائی فراہم کرنے والے وقت کو اپنی زندگی کے اہم کاموں میں لگا سکیں۔
  • بامعنی سماجی تعلقات کو ترجیح دیں: معیاری گفتگو میں مشغول ہوں اور دوستوں اور جاننے والوں کے ساتھ گہرے روابط قائم کریں۔ارادے کمزور کرنے والے افراد سے بچیں، حوصلہ افزائی کرنے والے احباب کی تلاش کریں اور ان سے رہنمائی بھی لیں۔
  • نیٹ ورک میں شمولیت: نیٹ ورکنگ ایونٹس میں شرکت کریں یا پیشہ ور گروپس میں شامل ہوں تاکہ ایسے روابط استوار کیے جا سکیں، جو ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔
  • سماجی اور اجتماعی مشغولیت: کمیونٹی کی ترقی کے اقدامات میں حصہ ڈالیں، جیسے صفائی مہم یا لوگوں کی امداد اور فلاح کے کام۔
  • مطالعہ کے حلقوں میں شمولیت یا قائم کریں: دینی علم اور تعلیمات کو اجتماعی طور پر سیکھنے اور ان پر گفتگو کرنے کے لیے اسٹڈی گروپس یا حلقے بنائیں۔

وقت بچانے کے متفرق نکات

  • زیادہ مؤثر طریقے سے کام انجام دینے کے لیے اپنے آلات پر شارٹ کٹس استعمال کریں۔
  • خریداریوں پر وقت بچانے کے لیے آن لائن خریداری اور ترسیل کی خدمات کا بھی انتخاب کریں۔
  • جب خود یا اہل خانہ خریداری کے لیے جائیں تو فہرست بناکر جائیں۔ اس طرح بجٹ اور گنجائش کا بھی خیال رکھنا آسان ہوگا۔
  • بار بار استعمال ہونے والی دستاویزات یا ای میلز کے لیے نمونے کے ڈرافٹ بنائیں تاکہ تکراری ٹائپنگ کو کم سے کم کیا جا سکے۔ مٹی یا کنکریٹ کی اینٹیں بنانے والے لوگ ہمیشہ فریم یا سانچا استعمال کرتے ہیں۔ یہ معاملہ عقلِ سلیم یعنی کامن سینس کا ہے۔
  • اِن باکس کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے غیر ضروری ای میلز کو ان سبسکرائب یا ختم کریں۔
  •  سفر کے لمحوں کو پیداواری سرگرمیوں کے لیے استعمال کریں، جیسے کہ ای کتابیں پڑھنا۔سفر کو وسیلۂ ظفر بنائیں اور اس سے سیکھیں۔
  •  ہر روز کیا پہننا ہے کے انتخاب میں وقت بچانے کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کریں۔
  • کارکردگی بڑھانے کے لیے ملتے جلتے کاموں کو ایک ساتھ کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کسی ایک کام کے لیے ایک جگہ پر جارہے ہیں، تو پھر اسی دورے میں دوسرے کام بھی کرنے کی کوشش کریں۔ ہرکام کے لیے الگ الگ سفر کرنا، وقت ضائع کرتا ہے۔
  • آخری تاریخوں یا ملاقاتوں سے بچنے کے لیےاپنے کاموں کی منصوبہ بندی کریں تاکہ آخری لمحات کے رش اور دباؤ سے بچ سکیں۔
  •  ہر کام کے لیے مناسب وقت مختص کرنے کے لیے مؤثر وقت کے تخمینے کی مشق کریں۔ ٹریفک اور موسم کا خیال رکھنا بھی اہم ہے۔
  • اپنی پیش رفت میں بہتری لانے کے لیے سیلف مینجمنٹ بک کا اہتمام کریں۔
  • کام کے اوقات کے دوران ضرورت سے زیادہ سماجی رابطوں کو کم کریں۔
  • ان کاموں یا وعدوں پر ’نہیں‘ کہنے کے فن کی مشق کریں، جو آپ کی ترجیحات کے مطابق نہیں۔
  • گپ شپ یا بیکار گفتگو میں مصروف وقت کو کم کریں۔ یہ ذاتی ترقی میں معاون نہیں بنتے۔
  • ذہن میں آنے والے خیالات یا کاموں کو لکھنے کے لیے ایک نوٹ پیڈ یا نوٹ لینے والی ایپ کو رکھیں۔ڈرائنگ بکس یا اسکیچ بکس میں مائنڈ میپ بنانے کی کوشش کریں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سمجھاتے وقت لکیروں کا بھی استعمال کرتے تھے۔
  •  ٹیلی ویژن یا اسکرین کے وقت کو محدود کریں تاکہ پیداواری سرگرمیوں کو زیادہ وقت دے پائیں۔
  • ورچوئل میٹنگز یا کانفرنسوں کے لیے آن لائن پلیٹ فارم استعمال کر کے وقت اور وسائل بچائیں۔
  • خلفشار کو کم کرنے اور صلاحیت بہتر بنانے کے لیے گھر پر کام کی خاص جگہ بنائیں۔
  • ضروری اشیا اور دستاویزات، فائلوں اور کاغذات کو منظم اور آسانی سے قابل رسائی رکھیں تاکہ تلاش کے لیے وقت ضائع ہونے سے بچا جا سکے۔
  • اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے اور ان پر غور کرنے کی عادت پیدا کریں تاکہ بہتری کے شعبوں کی نشاندہی کی جا سکے۔احتساب کرنے کی کوشش کریں۔ رات سونے سے پہلے اپنے آپ کو اپنی عدالت میں پیش کریں، خود ہی جرح کریں، خود ہی صفائی پیش کریں، اور خود ہی فیصلہ دیں۔ اللہ کے معاملے میں اس سے معافی مانگیں، بندوں کے معاملے میں بندوں سے معافی مانگیں۔ اسمارٹ فون اور ٹیکسٹ میسیج ، وائس میسج اور ای میل کے ذریعے کوتاہی پر معذرت کریں اور پھر اللہ سے دعا کریں کہ وہ متعلقہ بندوں کو آپ کو معاف کرنے کی توفیق دے۔ اس معاملے میں اللہ سے بھی معافی مانگیں۔
  • اختصار پسندی کو اپنائیں۔ کام کو منظم کرنے اور وقت بچانے کے لیے اپنے رہنے اور کام کرنے کی جگہوں پر چیزوں اور لوازمات کو کم از کم رکھیں ۔
  • ذہن سازی کی مشق کریں اور ماضی یا مستقبل کے بارے میں فکر کرنے میں وقت ضائع ہونے سے بچنے کے لیے موجودہ لمحے پر توجہ دیں۔ موجودہ لمحات کو نعمت سمجھ کر اس کا شکر ادا کریں۔
  •  سماجی مصروفیات اور وعدوں کے ساتھ حدود طے کریں۔دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی دنیا اور اپنی آخرت کو خطرے میں مت ڈالیں۔
  • ذاتی بہتری اور ترقی کے شعبوں کی نشاندہی کرنے کے لیے خود کی عکاسی اور خود شناسی کو ترجیح دیں۔
  • اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے وقت کے انتظام کی اہمیت پر زور دیں، پیداواری اور کارکردگی کے کلچر کی حوصلہ افزائی کریں۔تنظیمِ وقت کے اصولوں کو سیکھنے کے بعد تربیت دیں۔
  • غلط فہمیوں اور غیر ضروری وضاحتوں پر وقت بچانے کے لیے گفتگو کو فعال انداز اور توجہ سے سننے کی مشق کریں۔وضاحت کرلیں یا وضاحت کروالیں۔ مالیاتی معاملات، قرض، وراثت اور دیگر اہم امور کو تحریری شکل دیں۔
  •  ذہنی اور جذباتی تندرستی کو برقرار رکھنے، مجموعی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے خود کی دیکھ بھال کی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ خوراک اور آرام کا بھی خیال رکھیں۔
  • ذاتی تزکیہ، شکر گزاری، اور روحانی ترقی کے لیے مخصوص وقت کو الگ کرنے کی عادت پیدا کریں۔اللہ سے تنہائی میں اور یکسوئی سے بات کریں۔
  • اپنے اہداف اور ترجیحات کا باقاعدگی سے جائزہ لیں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ آپ کا وقت آپ کے لیے واقعی اہم ہے۔
  •  اپنی ٹائم مینجمنٹ یا تنظیمِ وقت کی مہارتوں اور تکنیکوں کو بہتر بنانے کے مواقع تلاش کرتے ہوئے، مسلسل بہتری کی ذہنیت کو اپنائیں۔

دعوت اور اسلام کا پیغام پھیلانا

  • علم حاصل کریں:قرآن، حدیث، اور اسلامی لٹریچر کے مطالعے کے ذریعے اسلام کے بارے میں مسلسل علم حاصل کریں۔ یہ پیغام کو مؤثر طریقے سے پہنچانے کے لیے ضروری معلومات سے لیس کرے گا۔
  • اَپ ڈیٹ رہیں: عالمی مسائل اور معاشرے کو درپیش عصری چیلنجوں کے بارے میں مسلسل خود کو آگاہ رکھیں۔ یہ آپ کو اسلامی نقطۂ نظر سے متعلقہ نقطۂ نظر اور حل فراہم کرنے کے قابل بناتا ہے۔
  • تربیتی پروگراموں میں حصہ لیں: دعوت کی مؤثر تکنیکوں اور حکمت عملیوں پر مرکوز ورکشاپس، سیمی ناروں یا تربیتی پروگراموں میں شرکت کریں۔ اسلام کے پیغام کو پہنچانے،   غلط فہمیوں کو دُور کرنے اور متنوع سامعین کے ساتھ مشغول ہونے میں اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنائیں۔
  • ثقافتی حساسیت کا خیال رکھیں: مختلف رسوم، روایات اور عقائد کا احترام کرتے ہوئے، ثقافتی حساسیت کے ساتھ دعوتی کوششیں کریں۔ اپنے پیغام کو مختلف ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کے منفرد نقطۂ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے ساتھ لے کر چلیں۔
  • صائب الرائے افراد سے رہنمائی حاصل کریں: دعوتی کوششوں میں رہنمائی اور تعاون کے لیے علم دوست، تجربہ کار داعی، اور سرپرستوں سے مشورہ کریں۔ اسلام کے پیغام کو مؤثر طریقے سے پہنچانے کے لیے ان کی حکمت، بصیرت اور مشورے سے استفادہ کریں۔
  • رول ماڈل (مثالی فرد)بنیں:اپنی زندگی میں اسلام کی تعلیمات کو مجسم کرنے کی کوشش کریں۔ ان اصولوں اور اقدار کی زندہ مثال بنیں جنھیں اسلام فروغ دیتا ہے، جیسے ایمان داری، ہمدردی اور دیانت داری۔تبلیغ زبان سے زیادہ کردار سے کرنے کی کوشش کریں۔
  • اسلامی اقدار پر زور دیں: انصاف، ہمدردی، رواداری، اور امن کی ان اقدار کو اجاگر کریں جو اسلام کا بنیادی حصہ ہیں۔ یہ واضح کریں کہ یہ اقدار افراد اور معاشرے کے لیے کس طرح متعلق اور فائدہ مند ہیں۔
  • اسلامی کانـفرنسوں میں شرکت کریں: علم حاصل کرنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی اسلامی کانفرنسوں اور سیمی ناروں میں شرکت کریں۔ ہم خیال افراد کے ساتھ نیٹ ورک بنائیں، اور اپنی دعوتی کوششوں کے لیے تحریک حاصل کریں۔
  • مؤثر مواصلات کی مشق کریں:اسلام کے پیغام کو مؤثر طریقے سے پہنچانے کے لیے مؤثر مواصلاتی مہارتیں تیار کریں۔ توجہ سے سنیں، صاف بولیں، اور اپنے پیغام کو اپنے سامعین کی سمجھ اور ضروریات کے مطابق بنائیں۔
  • تعلقات استوار کریں: اعتماد، احترام، اور ہمدردی پر مبنی حقیقی تعلقات کو فروغ دیں۔ یہ کھلے مکالمے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتا ہے اور افراد کو اسلام اور اس کی تعلیمات پر بحث کرنے میں آسانی محسوس کرنے کے قابل بناتا ہے۔
  • ذاتی نیٹ ورکس کا استعمال کریں: دوستوں، خاندان کے افراد، ساتھیوں، اور جاننے والوں کے ساتھ اسلام کے بارے میں بات چیت میں مشغول ہوں۔ ذاتی تجربات کا اشتراک کریں اور سوالات کے جوابات دیں۔ مختلف عقائد اور پس منظر کے لوگوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو فروغ دیں۔ افہام و تفہیم، احترام اور کھلے مکالمے میں مشغول ہوں۔
  • مکالمے کو فروغ دیں: اسلام کے بارے میں کھلے مکالمے کو فروغ دیں۔ سوالات کی حوصلہ افزائی کریں، غلط فہمیوں کو دور کریں، اور اچھی طرح سے باخبر جوابات فراہم کریں۔
  • اسلامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں: مقامی مساجد، اسلامی مراکز، اور تنظیموں کے ساتھ ان کی رسائی کی کوششوں میں تعاون کریں۔ ان کے پیغام اور سرگرمیوں کو بڑھانے میں مدد کے لیے اپنی مہارت، وقت اور وسائل پیش کریں۔
  • بات چیت شروع کریں:ذاتی تجربات یا فکر انگیز سوالات کا اشتراک کرکے اسلام کے بارے میں بات چیت کا آغاز کریں جو تجسس اور مکالمے کو دعوت دیتے ہیں۔
  • گفتگو کے مواقع سے استفادہ : کانفرنسوں، یونی ورسٹیوں یا کمیونٹی پروگراموں میں اسلام کے بارے میں تقریریں یا پیشکشیں (پری زینٹیشن)دینے کے مواقع تلاش کریں۔ اپنے پیغام کو سامعین کے لیے تیار کریں اور ان کی حوصلہ افزائی، تعلیم اور تفہیم کو فروغ دیں۔
  • ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کریں:اسلامی معلومات، متاثر کن کہانیاں، اور عملی رہنمائی کا اشتراک کرنے کے لیے سوشل میڈیا، بلاگز اور یوٹیوب چینلز کا فائدہ اٹھائیں۔ وسیع تر سامعین تک پہنچنے کے لیے ان پلیٹ فارمز کا استعمال کریں۔
  • آن لائن سوال و جواب کے سیشن فراہم کریں: آن لائن پلیٹ فارمز یا سوشل میڈیا چینلز پیش کریں، جہاں افراد اسلام کے بارے میں سوالات پوچھ سکتے ہیں اور جاننے والے افراد سے فوری اور درست جوابات حاصل کر سکتے ہیں۔سلائیڈز، ویڈیوز اور ملٹی میڈیا مواد کا استعمال کرتے ہوئے بصری طور پر دلکش اور معلوماتی پیشکشیں بنائیں۔
  • اسلامی میڈیا آؤٹ لیٹس سے تعاون کریں: یہ پلیٹ فارم اسلامی معلومات کو پھیلانے اور متنوع سامعین تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان سے تعاون کیجیے۔
  • بصری میڈیا کا استعمال کریں: بصری طور پر دل کش انفوگرافکس، تصاویر، یا مختصر ویڈیوز بنائیں جو کلیدی اسلامی تعلیمات اور اقدار کو بیان کریں۔ یہ آسانی سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیے جا سکتے ہیں اور وسیع سامعین کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔
  • کمیونٹی آؤٹ ریچ میں حصہ لیں:کمیونٹی سروس کی سرگرمیوں میں مشغول ہوں جو اسلام کے ہمدردی اور خیراتی پہلوؤں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کی پیش کش کریں اور اسلام کی ایک مثبت تصویر کو فروغ دیتے ہوئے اپنی کمیونٹی پر مثبت اثر ڈالیں۔
  • مقامی تقریبات میں شرکت کریں: مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے کمیونٹی میلوں، ثقافتی تہواروں، یا بین المذاہب اجتماعات میں شرکت کریں۔ اسلامی نقطۂ نظر، روایات اور اقدار کا احترام اور جامع انداز میں اشتراک کریں۔
  • مقامی میڈیا کا استعمال کریں: مقامی اخبارات، ریڈیو سٹیشنوں، اور ٹیلی وژن چینلوں سے رابطہ کریں تاکہ اسلام سے متعلق موضوعات پر مضامین، انٹرویو وغیرہ میں حصہ لے سکیں۔ اس طرح مین اسٹریم میڈیا میں اسلام کی مثبت اور درست نمایندگی کرنے میں مدد ملتی ہے۔
  • اسلامی تعلیمی اداروں کی حمایت کریں: اسلامی اسکولوں، کالجوں اور تنظیموں سےتعاون کریں جو اسلامی تعلیم کو فروغ دیتے ہیں اور اسلام کے پیغام کو سیکھنے اور پھیلانے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔
  • اسلامی ورکشاپس منعقد کریں: اسلامی اخلاقیات، خاندانی اقدار، یا ذاتی ترقی جیسے موضوعات پر ورکشاپس کا انعقاد کریں اور اسلامی تعلیمات پر مبنی عملی رہنمائی فراہم کریں۔
  • تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کریں: افراد کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنی زندگی کے مقصد اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں غور و فکر، خود شناسی، اور تنقیدی سوچ میں مشغول ہوں۔ انھیں اسلامی تعلیمات کے مطابق سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی ترغیب دیں۔
  • اسلامی لٹریچر تقسیم کریں:کتابیں، پمفلٹ، اور بروشر جو اسلام کے بنیادی عقائد اور طریقوں کی وضاحت کرتے ہوں، پھیلائیں۔ انھیں عوامی مقامات پر رکھیں یا تقریبات کے دوران تقسیم کریں۔
  • اسلامی ادب کی تیاری میں تعاون: اسلامی کتابوں، پمفلٹس اور آن لائن وسائل کی تیاری اور تقسیم کی حوصلہ افزائی کریں، جو مستند اسلامی تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں اور عام غلط فہمیوں کو دُور کرتے ہیں۔
  • نومسلموں کی حمایت:ایسے افراد کی مدد اور رہنمائی کریں، جنھوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ ان کے نئے سفر پر گامزن ہونے میں ان کی مدد کریں اور انھیں مزید سیکھنے کے لیے وسائل فراہم کریں اور تعلیمی و فکری رہنمائی دیں۔
  • مہربانی اور احترام کا مظاہرہ کریں: تمام معاملات میں ہمدردی، عاجزی اور مہربانی کے جذبات پروان چڑھائیں۔ دوسروں کے ساتھ احترام کے ساتھ برتاؤ کریں۔ ان کے عقائد یا پس منظر سے قطع نظر، افہام و تفہیم اور دوستی کے پُل بنانے کی کوشش کریں۔
  • وسائل اور سفارشات پیش کریں: قابل اعتماد اور قابل رسائی اسلامی وسائل کا اشتراک کریں، جیسے کتابیں، ویب سائٹس، اور تعلیمی مواد، جو اسلام کے بارے میں جامع معلومات فراہم کرتے ہیں۔ وہ ذرائع تجویز کریں جو عام غلط فہمیوں کو دور کریں اور مستند نقطۂ نظردیں۔
  • فن اور تخلیق کا استعمال:فن، خطاطی، شاعری، یا کہانی سنانے کے ذریعے اسلامی تعلیمات کے اظہار کے تخلیقی طریقے تلاش کریں۔ یہ جذباتی سطح پر سامعین کو موہ لینے اور مشغول کر سکتے ہیں۔
  • ذاتی دعوتی مواد تیار کریں: اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے مطابق مواد بنائیں، جیسے بروشر یا ویڈیوز، جو مختلف سامعین کی ضروریات کے مطابق مخصوص سوالات یا اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوں مگر انھیں پبلک میں پھیلانے سے قبل قابلِ اعتماد اور سمجھ دار افراد کو ضرور دکھائیں۔

استقامت اور دعائیں

  • اللہ سے اعانت و مدد طلب کریں: دعوتی سرگرمیوں میں شامل ہونے سے پہلے اللہ سے رہنمائی اور برکت حاصل کرنا یاد رکھیں۔ اسلام کے پیغام کو پھیلانے میں رہنمائی، حکمت اور کامیابی کے لیے دعائیں کریں۔سورۂ کہف کی آیت نمبر دس یاد کرلیں۔
  • صبر اور  ثابت قدم رہیں: تسلیم کریں کہ اسلام کے پیغام کو پھیلانا ایک بتدریج عمل ہے۔ صبر کریں اور اپنی کوششوں میں ثابت قدم رہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ اثر فوری نہیں ہو سکتا۔ اللہ پر بھروسا رکھیں اور اخلاص اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی دعوت کو جاری رکھیں۔
  • دُعا کی طاقت کو کبھی نہ بھولیں: مسلسل دعاؤں کے ذریعے اپنی دعوتی کوششوں میں اللہ سے رہنمائی، برکت اور مدد حاصل کریں۔ اپنے لیے اور ان لوگوں کی رہنمائی کے لیے دعا کریں جن کے ساتھ آپ کا ربط و تعلق ہے۔ اللہ سے دعا کریں کہ وہ اسلام کے پیغام کے لیے ان کے دل و دماغ کو کھول دے۔

اپنی تمام دعوتی کوششوں میں، یاد رکھیں کہ اللہ ہی آخری رہنما ہے، اور کامیابی اخلاص، صبر اور اس پر بھروسا کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اس کی حکمت پر بھروسا رکھیں اور ہمدردی، علم اور عاجزی کے ساتھ اسلام کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کرتے رہیں۔مسلسل خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ دوسروں کی انفرادیت اور خودمختاری کا احترام کرنا، مہربانی، ہمدردی، اور دوسروں کے ساتھ جڑنے کی حقیقی خواہش کے ساتھ بات چیت کرنا ضروری ہے۔ اسلام کے اصولوں کو مجسم کر کے، مؤثر مواصلاتی تکنیکوں کو استعمال کر کے، اور مختلف رسائی کے طریقوں میں شامل ہو کر، آپ مثبت اثر ڈال سکتے ہیں اور اسلام کے پیغام کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

  • خلاصہ:اسلام میں وقت کو ایک قیمتی وسیلہ سمجھا جاتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے افراد کے سپرد کیا ہے۔ وقت کا مؤثر طریقے سے انتظام، نہ صرف پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے بلکہ اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور ذاتی ترقی کی تلاش کا ایک طریقہ بھی ہے۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں میں فراہم کردہ وقت کی بچت کے عملی نکات پر عمل درآمد کرکے، افراد ایک متوازن اور بامعنی وجود کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ ذاتی پیداواری صلاحیت اور عبادت سے لے کر خاندان، کام، صحت، اور کمیونٹی کی مصروفیت تک، تجاویز میں وسیع پیمانے پر ایسے شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے جہاں وقت کا مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کاموں کو ترجیح دینے، خلفشار کو ختم کرنے، ذمہ داریاں سونپنے، اور مؤثر حکمت عملی اپنانے سے، افراد اپنے وقت کے استعمال کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اپنے دنیاوی اور روحانی دونوں کاموں میں تکمیل کا احساس حاصل کر سکتے ہیں۔

اسلام مسلمانوں کو وقت کا خیال رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کی محدود نوعیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ اسے کیسے استعمال کرتے ہیں؟ اسلام کی تعلیمات کو اپنانے اور وقت کے انتظام کے مؤثر طریقوں کو نافذ کرنے سے، افراد اپنی ذمہ داریوں، ذاتی ترقی اور اللہ سے عقیدت کے درمیان ایک ہم آہنگ توازن قائم کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، وقت ایک تحفہ ہے، اور اسے دانش مندی سے سنبھالنا، اسلام کی خدائی رہنمائی کے لیے شکرگزاری اور اطاعت کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ ہمیں اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور بامقصد زندگی گزارنے کی حکمت اور نظم و ضبط عطا فرمائے، آمین!

پہلا وہ گھر خدا کا....

مسجد حرام میں قدم رکھا تو ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا۔ راستہ ڈھلواں ہے، دونوں طرف فرشِ مسجد پر قیمتی قالین بچھے ہیں۔ سامنے کعبہ کی مختصر سی عمارت ہے۔ اتنی وسیع کائنات کے مالک کا اتنا چھوٹا سا گھر اگر تصویروں اور فلموں میں پہلے نہ دیکھتا ہوتا تو یقینا حیرت ہوتی۔ اس گھر کے اردگرد کا صحن بہت وسیع ہے۔ صحن میں سفید سنگ ِ مرمر کا فرش ہے اور اس پتھر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ سخت دھوپ میں بھی گرم نہیں ہوتا۔ گرم ہونا تو درکنار اس کی خنکی میں ذرہ بھر فرق نہیں آتا۔ صحن حرم میں قدم رکھا تو تلوئوں کو اتنی خنکی کا احساس ہوا جیسے کسی نے ان پر ملائی کے پھاہے رکھ دیے ہوں۔

حرم شریف نشیب میں واقع ہے۔ ایک پیالہ ساکہ جس کے کناروں پر مسجدالحرام کی دومنزلہ عمارت ہے۔ حرم کے مینار اتنے اُونچے نہیں کہ پگڑی سنبھالنی پڑے۔ اس لمحے میں نے صرف اتنا کچھ دیکھا یا دیکھ سکا۔ میں حرمِ کعبہ کے پہلے نظارے میں یوں کھوگیا تھا کہ ماحول کی ہرتفصیل نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ یہ لمحہ بہت عظیم تھا اور اب بھی ہے۔ (ارضِ تمنا)


میں باب السلام کے سامنے کھڑا تھا۔ حرم میں داخل ہوا اور کعبہ کی کشش کو دل میں محسوس کرتے ہوئے بیرونی ہال سے گزرتے ہوئے ان سیڑھیوں کے پاس جاپہنچا جو کھلے آسمان تلے موجود اس وسیع احاطے تک جاتی ہیں جس کے بیچوں بیچ، سیاہ غلاف میں ملفوف، وہ مکعب عمارت ہے جسے کوئی چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی مدد سے تعمیر کیا تھا اور جو سیکڑوں سال سے اربوں انسانوں کی روحانی زندگی کا مرکز رہی ہے۔

سنگ ِ مرمر سے بنے احاطے کے وسط میں، اَن گنت ستاروں سے مزین آسمان تلے، اپنے سیاہ لبادے میں ملفوف، خاموش، اَزلی برکتوں سے معمور ایک سادہ سی عمارت میں جواَب دل میں یوں دھمک پیدا کررہی تھی جیسے ابھی اسے اس کے پنجر سے رہا کردے گی۔ پھر زبان نے اقرار کیا: اللہُ اَکْبَرُ، اللہُ اَکْبَرُ، اللہَ اَکْبَرُ، لَا اِلٰہ اِلَّا اللہَ   وَاللہُ اَکْبَرُ ،اور دل نے گواہی دی کہ یقینا اللہ کی ذات عظیم ترین ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

آنکھیں سیاہ پوش عمارت پر مرتکز اور دل ایک عجیب سُرور سے سرشار، پائوں سرد، سنگ ِ مرمر پر یوںجیسے اس سحرانگیز لمحے میں جسم کے وزن سے آزاد ہوچکے ہوں۔ نہ جانے کتنا وقت گزرگیا۔ بالآخر دل میں کوئی چیز پگھلی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جیسے کوئی چشمہ خاموشی سے جاری ہوگیا ہو۔

ہزاروں مرد، عورتیں اور بچّے صحن میں موجود تھے۔ ان میں طواف کرنے والے بھی تھے اور وہ بھی جورات کے اس اوّل پہر میں کعبہ کے گرد عبادت میں مصروف تھے۔ طواف کرنے والوں میں احرام میں ملبوس زائر بھی تھے اور عام کپڑوں میں ملفوف مکین بھی، سب کعبہ سے نکلنے والی پُراسرار جذبی شعاعوں کی غیرمرئی کشش میں محصور، متحرک بچّے، عورتیں، مرد اور فرشتے جو اس رات بیت اللہ کی زیارت کے لیے بلائے گئے تھے۔ نظردرِ کعبہ پر مرتکز کیے، صحن کی طرف اُترنے والی سیڑھیوں پر کھڑا ایک حاجت مند فقیر جس کا دل اب کعبہ کی بڑھتی ہوئی کشش سے یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پھٹ جائے گا اور اپنے قفس کو توڑ کر کسی پرندے کی طرح پھڑک کر ڈھیر ہوجائے گا۔(سحرِمدینہ)


یہ سیاہ پتھروں سے بنا ہوا چوکور کمرہ حرم شریف کی عالی شان دومنزلہ عمارت کے درمیان اس طرح مسند نشیں ہے جیسے کسی قیمتی انگوٹھی میں کوئی بیش قیمت سیاہ پتھر آویزاں ہو، جس سے بے شمار کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ میں اور میری اہلیہ عجب عالمِ استغراق میں تھے۔ دُعا کے لیے ہاتھ بلند تھے۔ سارے اعزا، اقربا، احباب جو دُنیا میں تھے یا دُنیا سے جاچکے تھے، ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے۔ بیت اللہ کے سنہرے دروازے پر نگاہ ٹکی ہوئی تھی کہ کاش! یہ کھل جاتا اور کاش! ہم اندر کا منظر بھی دیکھ لیتے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کا گھر تو بالکل ایک عام انسان کے گھرسے بھی معمولی ہے مگر اس کے اردگرد بقعہ نُور بنی ہوئی بلندوبالا عمارتیں حقیر محسوس ہورہی تھی۔ اللہ کے گھر میں کوئی چمک دمک نہ تھی مگر مسجد حرام کی پُرشکوہ محرابیں، سلیٹی دھاریوں والے سنگ مرمر کی بلندوبالا دیواریں، پُروقار و چمک دار ستون جن کو بڑے بڑے روشن فانوس اپنی شعاعوں سے جگمگا رہے تھے، لیکن کسی زائر کی نگاہ اللہ کے گھر کے سامنے ان عمارات پر نہیں ٹکتی تھیں۔ سب کی نگاہوں کا محور وہ سیاہ غلاف سے ڈھکا ہوا چوکور کمرہ تھا جو ہر طرح کی زیبائش سے بے نیاز تھا۔ اس گھر کے جاںنثار اگر اجازت ہوتی تو اسے سونے کی چادروں سے ڈھک دیتے مگر اس گھر کے مالک کی یہی مرضی تھی کہ اس کا گھر بھی عام انسانوں کے گھر جیسا نظر آئے اور اسی صورت میں برقرار رہے جس شکل میں اسے معمارِاوّل حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا۔ (جلوے ہیں بے شمار)


حرم کا صحن بقعۂ نُور بنا ہوا ہے۔ برآمدوں میں فروزاں ہزاروں یا شاید لاکھوں برقی قمقموں اور فانوسوں کی روشنی خانۂ خدا کی طرف لپک رہی ہے۔ قطار اندر قطار بیٹھے ان ہزاروں لاکھوں زائرین میں سے کچھ اللہ کے ایسے پُراسرار بندے بھی ہیں جن کے زمانے عجیب اور جن کے فسانے غریب ہیں۔

مغرب کی نماز سے ذرا پہلے ایک ایرانی نوجوان میرے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی اُس نے جھٹ سے کوئی نمبر ملایا، لمحہ بھر کو بات کی اور پھر فون بند کیے بغیر ہاتھ میں پکڑے رکھا۔ اذان ختم ہوئی تو اُس نے فون بند کردیا اور میری طرف دیکھ کر بولا: ’’میری ماں نے کہا تھا کہ مجھے حرم شریف کی اذان ضرور سنانا‘‘۔ واقعی ساری دُنیا کی مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔

میں مسلسل کعبے کے غلاف کو دیکھ رہا ہوں۔ حجراَسود کے عین اُوپر ، چھت کے قریب سنہری ریشے سے بنے الفاظ یَاحَیُّیْ یَاقُیُّوْمُ،میری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ شام، رات میں تحلیل ہورہی ہے، لیکن ہزاروں لاکھوں برقی قمقموں کی روشنی نے حرم کے دالان کو نُور میں نہلا دیا ہے۔ ایک دودن بعد جب مَیں یہاں سے چلا جائوں گا تو بھی یہ دالان، یہ روشنیاں، یہ بیت اللہ اِسی طرح موجود ہوں گے۔

یَاحَیُّیْ یَاقُیُّوْمُ،میں تو شاید پھر سے دُنیا کے جھمیلوں میں تجھے بھول جائوں، لیکن تو مجھے یاد رکھنا، تو نے بھلا دیا تو میں کہاں جائوں گا؟

اللہ کے گھر کے سامنے ہم نہ جانے کتنی دیر دست بہ دُعا رہے، یاد نہیں۔ سفر کی تکان غائب ہوچکی تھی اور ہم مطاف میں داخل ہوکر عشاق کے اس سیل رواں کا ایک حصہ بن گئے تھے جو مصروفِ طواف تھا۔ کبھی نگاہ ملتزم پر جاکر رُک جاتی، کبھی حجراَسود کو دُور سے بوسہ دیتی، کبھی رکن یمانی پر دل اٹک جاتا اور کبھی حطیم کے اندر داخل ہوکر نماز ادا کرنے کی اُمنگ دل پر چھا جاتی۔طواف تھا کہ جاری تھا۔ میری اہلیہ اپنے گھٹنوں کے درد کو بھول کر اس طرح چل رہی تھی گویا جنّت کی کسی کیاری میں گلگشت کر رہی ہوں۔ ہمارے آگے پیچھے، دائیں بائیں،کبھی ایرانی، کبھی ترکی، کبھی مصری، کبھی شامی، کبھی امریکی و یوروپین، کبھی وسط ایشیا و چین کے مخصوص رنگ و بناوٹ کے مرد وعورت اس طرح چل رہے تھے جیسے سمندر میں بے شمار موجیں اُٹھ رہی ہوں مگر ہرشخص اسی فکر میں غلطاں کہ اس کی وجہ سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے، سب کی زباں پر دُعائیں ، کوئی بآواز بلند اور کوئی دھیرے دھیرے اللہ کے کلام اور مسنون دُعائوں کے ورد میں مصروف ہے۔(جلوے ہیں بے شمار )


رکن یمانی کے پاس سے گزرتے ہوئے مَیں کعبہ کی دیوار سے متصل اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو حجراَسود کی طرف بڑھ رہی تھی۔ لبوں پر یہ دُعا تھی:

اے ہمارے ربّ! ہمیں عنایت فرما، دُنیا اور آخرت کی بھلائی، اور بچا ہمیں آیندہ کے عذاب سے، اور داخل فرما ہمیں جنّت میں، نیک لوگوں کے ساتھ، اے بڑے غالب، بڑی بخشش والے، اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔

قطار زیادہ طویل نہ تھی اور اس وقت قطار کے باہر سے حجراَسود کی طرف آنے والوں پر سخت پہرہ تھا۔ اس لیے لوگ تیزی سے سیاہ پتھر تک پہنچ رہے تھے۔ وہ آگے بڑھتے، ہونٹوں کو حجراَسود پر رکھتے اور دوتین ثانیوں میں پہرے دار ان کے سر کو پیچھے دھکیل دیتا۔ ایک شخص پیچھے ہٹایا جاتا تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا۔ میری باری آئی، میں نے سرجھکا کر چاندنی کے طاقچے میں رکھے ہوئے پتھر پر ہونٹ رکھے، پتھر چمکا، اس کے اندر ہزارہا سفید اور سبز لکیریں پل بھر کو جگمگائیں، پھر ایک سخت اور کھردرے ہاتھ نے میرے سر کو پیچھے دھکیل دیا، اور ایک ہجوم مجھے اپنے ساتھ لیتا ہوا ملتزم کی طرف بڑھا۔

درِ کعبہ اور حجراَسود کے درمیان واقع دیوار کے قریب کھڑے پندرہ بیس آدمی،کچھ گریہ کناں، کچھ خاموش، کچھ ذرا بلندآواز میں رحمت ِ خداوندی کے خواستگار اور ان میں شامل ایک فقیر جو طواف کے بعد کعبہ کے ربّ کی خوشنودی اور اعانت کا طالب تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ ادھیڑعمر آدمی جس کے پیچھے کھڑا میں دیوارِ کعبہ کو چھونے کا منتظر تھا، آہستگی سے پیچھے ہٹا ، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور اپنی آنسوئوں سے تر داڑھی اور چہرے کے نقوش کی اَنمٹ یاد چھوڑتے ہوئے ہجوم میں اوجھل ہوگیا۔

میں آگے بڑھا، کعبہ کے غلاف کو چھوا اور پھر غلاف کے نیچے موجود پتھروں کو۔ جیسے ہی ہاتھ پتھروں سے مَس ہوئے، سارے وجود میں ایک غیرمرئی طاقت ور لہر دوڑ گئی، جسم کپکپایا اور دل نے التجا کی:

یااللہ! اے اس قدیم گھر کے ربّ! آزاد فرما ہماری اور ہمارے آبا کی گردنوں کو، اور ہماری مائوں اور بھائیوں کی اولاد کی گردنوں کو، اے صاحب جُود و کرم و فضل و عطا! اے احسان کرنے والے! اے اللہ! ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا فرما اور ہمیں بچالے دُنیا کی رُسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے۔ اے اللہ! میں تیرا بندہ، تیرے بندے کا بیٹا، تیرے گھرکے نیچے، تیرے دَر سے لپٹا، گریۂ کناں ہوں، تیری رحمت کا اُمیدوار اور تیرے عذابِ نار سے خائف، اے قدیم الاحسان! اے اللہ! تجھ سے التجا ہے کہ میرے ذکر کو قبول فرما، اورمیرے بوجھ کو ہلکا کردے، میرے کاموں کی اصلاح فرما اور میرے قلب کو پاک و صاف کردے، اور روشن کردے میرے لیے میری قبر کو اور بخش دے میرے گناہوں کو، سوال کرتا ہوں میں تجھ سے جنت میں اعلیٰ درجات کا۔

نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ ہاتھ دیوارِ کعبہ پر، ذہن ماضی و حال و مستقبل کی قید سے آزاد، اور دل ایک عجب سُرور میں مگن، ایک سُرور جس میں حُزن بھی تھا اور طمانیت بھی ، اور ایک غالب احساس جو سارے وجود میں دوڑ رہا تھا۔میرے اردگرد ہزاروں انسان دائرہ در دائرہ کعبہ کے گرد  محوِ طواف تھے۔ ان سے پرے، صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کئی ہزارمردو زن اور بچّے تھے۔ پھر حرم کی وسیع عمارات میں موجود لوگ اور اس سے پرے اربوں انسان زمین کے طول و عرض میں پھیلے، اپنے اپنے روزمرہ کے دھندوں میں مصروف تھے۔ کتنی بڑی دُنیا ہے، کتنا وسیع کاروبارِ حیات ہے، اور اس سے الگ، اس مقام پر کھڑا، ایک تنہا انسان، ہزاروں انسانوں کے درمیان، دو سادہ چادروں میں ملبوس، ایک زائر، اپنے رب سے گریہ کرتا ہوا، اس کا بندہ!

وہ ایک نرم ہاتھ تھا لیکن اس کے اندر نہ جانے کیا پکار تھی کہ جیسے ہی مَیں نےاسے اپنے شانے پر محسوس کیا، میں دیوار سے پیچھے ہٹ آیا اور احرام میں ملبوس ادھیڑ عمر آدمی، جس نے مجھ سے کامل خاموشی کے ساتھ دیوارِ کعبہ کے قرب میں کھڑے ہونے کی فہمائش کی تھی، میری جگہ پر جاکھڑا ہوا۔ اس خاموش تبادلے میں ایک خوبی تھی، ایک بہائو تھا، ایک باہمی رشتے کی خوشبو تھی، ایک نسبت تھی جو دین حنیف سے منسلک انسانوں کو ایک دوسرے کا مونس بناتی ہے۔

چند قدم پیچھے مقامِ ابراہیم تھا اور شیشے کے فریم میں بند وہ پتھر جس پر دو پائوں یوں ثبت تھے جیسے ابھی ان میں زندگی کی لہر دوڑ جائے گی۔مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد میں نے کعبہ کی طرف نگاہ اُٹھائی۔ وہاں وہی قدیم دستور تھا، اسی قدیم رسم کی رونق تھی جو ہزاروں برس سے جاری ہے، دائرہ دَر دائرہ ، دیوارِ کعبہ سے متصل مردو زن کا ہجوم، درِ کعبہ کے قریب کھڑے گریہ کناں ملتجی!(سحرِمدینہ)


اللہ کا گھر ہرلمحہ، ہرثانیہ، ہرپل یونہی آباد رہتا ہے۔ کعبۃ اللہ کے گرد، دن رات اور دُھوپ چھائوں کی تمیز کے بغیر خلق خدا کا دائرہ پیہم حرکت میں رہتا ہے۔ رُکن یمانی کی طرف لپکتے ہاتھ کبھی ساکت نہیں ہوتے۔ حجراَسود کے رخساروں پر عشق کی تمازت سے دہکتے بوسوں کی برسات کبھی نہیں تھمتی۔ ملتزم سے لپٹے سینہ چاکان حرم کی وارفتگی میں کبھی فرق نہیں آتا۔ مقامِ ابراہیم ؑ سے قریب تر ہوکر سجدہ ریز ہونے کے آرزو مند آج بھی ٹوٹے پڑتے ہیں۔ تشنگانِ عشق آبِ زمزم سے سیراب ہونے کے لیے مچلتے رہتے ہیں۔ میزابِ رحمت کے عین نیچے، حطیم کے نیم دائرے میں نوافل ادا کرنے والوں کی بے کلی کا چودہ سو سال سے یہی عالم ہے۔ صفاومروہ کی عفت مآب پہاڑیوں کے درمیان قافلہ شوق صدیوں سے رواں دواں ہے۔

لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ چہرے عقیدت کی آنچ سے تمتما رہے ہیں۔ آنکھوں سے آنسوئوں کے سیلاب جاری ہیں۔ آہیں اور سسکیاں تھمنے میں نہیں آرہیں۔ مرد بھی، عورتیں بھی، بچّے بھی، بڑے بھی، جوان بھی اور لب گور پہنچ جانے والے بھی۔ کچھ طواف کررہے ہیں، کچھ نوافل ادا کررہے ہیں اور کچھ سعی میں مصروف ہیں۔ کچھ تسبیح پر اَوراد و وظائف پڑھ رہے ہیں۔ کچھ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں اور کچھ گردوپیش سے بے نیاز خانہ کعبہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان سب کے دل عبودیت اور بندگی کے احساس سے لبالب بھرے ہیں۔ سب اپنی خطائوں پر نادم ہیں۔ سب خدائے رحیم و کریم سے عفو و درگزر کے خواستگار ہیں۔ سب کی گردنیں عجز و انکسار سے جھکی جارہی ہیں۔ سب آلائشوں بھری دُنیا سے کٹ کر ایک ایسے جزیرئہ عافیت میں آبیٹھے ہیں جہاں زندگی کا انداز و اُسلوب بدل گیا ہے۔ جہاں فکر ایک فرحت بخش آسودگی اور روح ایک طمانیت بھری بالیدگی محسوس کررہی ہے۔ جہاں نئے انسان تخلیق ہورہے ہیں جہاں آلودگیوں سے پاک اور منزہ مخلوق سانچے میں ڈھل رہی ہے۔ اللہ کی کبریائی کا دم بھرنے والی ہرسانس اُس کی خوشنودی اور رضاجوئی کی ڈُور سے باندھے رکھنے والی ماضی پہ شرمسار، حال پر نادم اور مستقبل کے لیے نیکوکاری کا عہد کرنے والی مخلوق، انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلی مسلم ریاستوں میں بسنے والے، غیرمسلم ممالک میں اقلیتوں کی زندگی گزارنے والے سب کھنچے چلے آرہے ہیں۔ چودہ سو سال سے صحن حرم یونہی آباد ہے۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ابابیلوں کے جھنڈ اسی طرح اُمنڈ اُمنڈ کر آرہے ہیں اور حرم کا معطر دالان سرمئی کبوتروں سے لبالب بھرا ہے۔ (سحرمدینہ)


اس گھر کے گرد جتنے طواف کرو، کم ہیں ۔ بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ جتنا وقت بھی تمھیں اس کے جوار میں گزارنے کے لیے ملے، اور جتنی محبت و استطاعت اللہ تمھیں دے، سب طواف کرنے میں لگادینا۔ نماز، رکوع، سجدہ، تلاوت، سب عبادات ہرجگہ ہوسکتی ہیں، اگرچہ مسجدالحرام میں ان عبادات کا ثواب لاکھوں گنا زیادہ ہے، لیکن طواف کی نعمت تو اور کہیں بھی میسر نہیں آسکتی۔ طواف میں جو والہیت ہے، وارفتگی ہے، عشق و محبت ہے، وہ اور کسی عبادت میں نہیں۔ طواف کی ہمت نہ ہو، تو اس محبوب اور حُسن و جمال میں یکتا گھر کو جی بھر کے دیکھنا، اس کے گرد نثار ہوتے ہوئے پروانوں کو دیکھنا۔ دل کے کیف و لذت کا یہ سرمایہ بھی اور کہیں میسر نہ آئے گا۔ (حاجی کے نام)


لیکن ایسا کیوں ہے کہ ہم لوگ جو حرم میں داخل ہوتے ہی اپنے اندر ایک جہانِ نو کروٹیں لیتا محسوس کرتے ہیں اور ہمارے احساس و خیال کی دُنیا میں زلزلہ سا بپا ہوجاتا ہے۔ حرم سے نکلتے اور اپنے آشیانوں کو لوٹتے ہی، سارے لطیف احساسات اور ساری منور سوچوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایک اُجاڑ اور سوکھا سڑا پیڑ یکایک ہرے بھرے پتوں، خوش رنگ پھولوں اور رسیلے پھلوں سے بھرجاتا ہے اور پھر ایکاایکی اس کے برگ و ثمر جھڑنے لگتے ہیں اور وہ پہلے جیسا ٹنڈ منڈ خزاں رسیدہ درخت بن جاتا ہے۔

مسلم ممالک مسلسل گرداب بلا کے تھپیڑے کھارہے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے افغانستان آگ اور خون میں نہا گیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بصرہ و بغداد پر قیامت ٹوٹ گئی۔ فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں درندہ صفت سامراجوں کی بھوک مٹنے میں نہیں آرہی۔ ہم کہ سوا ارب سے زائد سر اور اس سے دُگنے ہاتھ رکھتے ہیں، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عشق کی آگ بجھ چکی ہے اور مسلمان راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری صفیں کج، دل پریشاں اور سجدے بے ذوق ہیں۔ ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت سرد پڑتی جارہی ہے اور ہمارا کردار و عمل ان تعلیمات سے دُورہوتا جارہا ہے جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچائیں۔ اسلام نے فوز و فلاح اور فتح و نصرت کے لیے بعض کڑی شرائط رکھی ہیں۔ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والے ہرفرد پر ان شرائط کی پابندی لازم ہے اور اگر وہ اپنے آپ کو ان شرائط کے سانچے میں نہیں ڈھالتا، تو وہ اللہ کی تائید و حمایت کے استحقاق سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ پھر وہ بندۂ مومن کے معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ اُس کا ہاتھ، اللہ کا ہاتھ نہیں رہتا۔ نہ غالب و کارآفریں نہ کا رکشائو کارساز۔

میں حجراَسود کے عین سامنے بیٹھا، غلافِ کعبہ پر نظریں جمائے سوچتا رہا کہ ایسی ہریالی، ایسی زرخیزی اورایسی شادابی کے بعد بھی ہمارے دل و نگاہ کا شجر یکایک ٹنڈ منڈ کیوں ہوجاتا ہے؟ حج اور عمرے، طواف اور سعی، اَوراد و وظائف، عبادتیں اور زیارتیں، سب کچھ پُربہار موسم کی خوشبو بھری پھوار کی طرح آتے اور گزر جاتے ہیں اور ہم ایک بار پھر دُنیاداری کے لق و دق صحرا میں غرق ہوجاتے ہیں۔ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے وقت ہمارے ایک ہاتھ میں آب زم زم اور دوسرے ہاتھ میں کھجوروں کی پوٹلی ہوتی ہے اور [افسوس کہ]صحن حرم میں عطا ہونے والے جذب و کیف اور رُوح و فکر میں بپا ہونے والے انقلاب کی گٹھڑی ہم اُسی میقات پر چھوڑ آتے ہیں ، جہاں سے احرام باندھ کر حدودِ حرم میں داخل ہوتے ہیں۔(مکّہ مدینہ)


آں خنک شہر سے…

مدینہ کی فضا کافی خوشگوار تھی۔ بادل آسمان پر آتے تھے اور گاہے گاہے بارش ہوتی تھی۔ مکہ کی فضا میں عجب جاہ و جلال تھا۔ چٹانوں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں کے بیچ میں کھردرے سیاہ پتھروں کے نہایت سادہ سودہ گھر کے سامنے سارے انسان حقیر نظر آتے ہیں جووالہانہ اس گھر کا طواف کرتے ہیں۔ بڑے بڑے کج کلاہوں اور ارباب جُبہ و دستار کی پگڑیاں یہاں اُتر جاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس گھر کے مالک کو تزک و احتشام اور شان و شوکت اپنے کسی بندے کی پسند نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے فقر سے بے حد اُنس ہے اور اسی فقر کے جلوے اس کے گھر کی دَر و دیوار سے چھلکتے ہیں۔ لیکن مدینہ میں انسان خود کو ہر طرح کے بوجھ سے آزاد اور ایک عجیب دوستانہ ماحول میں خود کو محسوس کرتا ہے۔ ہرشے سے اُنس و محبت کی خوشبو آتی ہے۔ ہر طرف لطافت اور خوش گواری کے منظر نظر آتے ہیں۔ حرمِ نبویؐ کے ساتھ ہی مدینہ شہر اور اس کے مضافات کا گوشہ گوشہ اپنی حیات افروز تاریخ چھپائے ہوئے ہے۔(جلوے ہیں بے شمار)


مسجد نبویؐ کے اس حصے میں جو روضۂ اطہر سے ملحق ہے اور جہاں حجرئہ عائشہ صدیقہؓ اور حضور اکرمؐ کا مصلیٰ و منبر تھا، قدم رکھتے ہوئے احساس ہوتا کہ کہیں ہمارے ناپاک وجود، ناپاک قدم اس مقام کے تقدس کو مجروح تو نہیں کر رہے ہیں۔ مسجد نبویؐ اور روضۂ اطہر ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ مسجد کی عمارت بے حد وسیع و شان دار ہے۔ بے حد کشادگی ہے۔ سب کو نماز ادا کرنے کی جگہ آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔ بقول مولانا ماجد حُسن و جمال کے لحاظ سے، خوبی و محبوبی کے لحاظ سے، زیبائی و دل کشی کے لحاظ سے ،پردئہ زمین پر اس مسجد کا جواب نہیں۔ بس یہ جی چاہتا ہے کہ ہروقت صحن میں بیٹھے ہوں اور عمارت مسجد کی طرف ٹکٹکی لگی رہے۔ تصور میں ۱۴سو سال کی تاریخ پھرجاتی ہے۔ دورِ صحابہؓ، تابعین و تبع تابعین اور اہل اللہ اور اہلِ حق کی ایک طویل قطار سامنے آتی ہے جنھوں نے تاریخ میں اس مسجد کے صحن و محراب میں آکر خدا کے حضور رکوع وسجود کیا ہوگا۔ روضۂ اطہر پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا ہوگا۔ ہرمسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایسی متبرک جگہ بیٹھ کر اپنی لغزشوں اور خطائوں کے لیے استغفار کرے اور اپنی باقی زندگی میں اسلام کی اُولوالعزم ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کا عہد تازہ کرے۔ اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود دورِ نبویؐ میں آگئے ہیں۔(جلوے ہیں بے شمار)


روضۂ رسولؐ کے سامنے کھڑا فرد عجیب کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ ہیبت، خوف اور تلاطم جو کعبہ کے قرب سے دل میں پیدا ہوتا ہے، نبیؐ کی قبر کے پاس محبت، نرمی اور سکون سے بدل جاتا ہے۔ کوئی دومیٹر چوڑاراستہ، جو زائرین کو سبز جالیوں کے پیچھے موجود ان تین قبروں کے قریب لاتا ہے جن میں حضوؐر اور ان کے دو اصحابؓ مدفون ہیں ، نسبتاً خالی ہوا تو میں اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور جس میں شامل لوگ اس عظیم تجربے کے منتظر تھے جو روضۂ رسولؐ کے قرب سے دلوں میں تغیر پیدا کرتا ہے۔

روضہ کے قریب پہنچ کر میں قطار سے نکل کر اس چھوٹے سے ہجوم میں شامل ہوگیا جو رواں قطار کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس ساکت گروہ میں موجود لوگ نبیؐ پر درود و سلام بھیج رہے تھے، دعاگو تھے اور اپنی اپنی کیفیت و حالت و مقام کے مطابق اس مبارک مقام سے فیض حاصل کررہے تھے۔ ان میں سے اکثر کے لبوں سے سلام و درود کی صدائیں اُبھر رہی تھیں۔(سحرِمدینہ)


اس حجرے سے متصل چبوترے پر بیٹھ کر میں نے قرآن شریف کا ربع پڑھا۔ یہ جگہ وہ ہے جو مسجد نبویؐ کے صحن میں اصحابِ صفہ کے لیے مخصوص تھی۔ قرآن شریف میں نے ریک میں رکھ دیا اور سرجھکا کر بیٹھ گیا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ مجھ پر استغراق کی حالت طاری ہوئی اور میں چودہ سوسال پیچھے چلا گیا.....میں نے ایک انقلاب کو مدینے میں مکمل ہوتے ہوئے دیکھا، جس کا آغاز مکہ میں ہوا تھا۔ آغاز اور انجام کے درمیان صرف ۲۳سال کا زمانہ حائل تھا۔ یہ ایک مکمل و اکمل انقلاب تھا جس میں انسانیت کے ہرپہلو کی تنقیح و تہذیب ہوگئی تھی۔ معاشرت انسانی کی ایک نئی تعبیر وجود میں آئی تھی۔ دین و دُنیا میں ہم آہنگی کی ایک نئی تصویر اُبھری تھی اور ایک نہایت خوبصورت متوازن، مہذب اور متمدن معاشرہ قیام پذیر ہوگیا تھا۔ (ارضِ تمنا)


مدینہ منورہ، چمنستان کا ایک سدابہار پھول ہے جس کی لطافت سب سے جدا، جس کے رنگ سب سے منفرد اور جس کی خوشبو سب سے مسحورکن ہے۔ اس کی ہوائوں میں کچھ ایسا جادو اور فضائوں میں کچھ ایسا حُسن ہے کہ کسی بھی خطۂ ارضی سے آنے والا انسان اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھتا۔ مکہ مکرمہ کے پُرشکوہ جلال کے دائرے سے نکل کر مسجدنبویؐ کے احاطۂ جمال میں داخل ہوتے ہی قلب و نظر ایک سراسر مختلف کیفیت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کی سرشاری اور سرمستی کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو برسوں کوچۂ جاناں تک پہنچنے کی آرزو میں سلگتا رہا، جس کی زندگی کا ہرلمحہ حضوری و حاضری کی تمنائے بے تاب سے مہکتا رہا ہو، جس نے انتظار کی لمبی راتیں اور آتشیں دن گزارے ہوں، جو صرف اس لیے جیتا رہا کہ مرنے سے قبل اپنی آنکھوں کو گنبد خضریٰ کے عکس جمیل سے منور کرلے۔(مکہ مدینہ)


ذیقعدہ کی پہلی تھی، جب اس پھاٹک سے اس نُور و برکت والے شہر میں داخل ہوئے تھے۔ ذی الحجہ کی چوتھی کو اسی پھاٹک سے اس رحمت و مغفرت والے شہر سے باہر نکلے۔ جہاں ایک دن کا بھی قیام اگر میسر آجائے تو تقدیر کی یاوری اور اَبرار و متقین کی نصیبہ وری ہے، وہاں ایک دن نہیں، دو دن نہیں، اکٹھے ۳۳دن کی حاضری نصیب ہوگئی۔ (سفرحجاز)


حج کے اس سفر سے بڑا سکون ، بڑی طمانیت حاصل ہوئی ۔ دل میں یہ خواہش باربار کروٹ بدلتی رہی کہ کاش! اسی طرح بار بار جوارِ حرم اور دیارِ حبیب کی حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہے، مگر پھر یہ خیال آیا کہ اس حرم کے مالک اور اسی دیار کے حبیب نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ہرمومن کو اپنے گردوپیش سے باخبر رہنے والے اور اسے صالحیت کی طرف موڑنے کی ہرآن فکر کرنی چاہیے۔ حج اگر فرض کی ادائیگی کے بجائے سیاحی و تفریح بن جائے تو یہ پسندیدہ بات نہیں۔ افسوس کہ کتنے اہل ثروت اپنی ملّت کے غریب و پس ماندہ لوگوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اپنے وسائل کے سمندر سے چند قطرے ملّت کے پریشاں لوگوں کی طرف بھی ٹپکا دیتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں عدم توازن اور اسلام کی قوت و شوکت کے فقدان کے مظاہر ہروقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ کاش! حج ہرانسان کو ایک انقلابی انسان، ایک مردِمجاہد اور دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والا حوصلہ مند انسان بنائے۔ کاش! یہ ملّت کے مقدر کو تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بن سکے۔ کاش! یہ بھی ہماری دیگر عبادتوں کی طرح ایک بے روح عبادت بن کر نہ رہ جائے۔ (جلوے ہیں بے شمار )


ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کرکے نمازیں بھی پڑھیں ، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم ؑ کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم سے دُنیا میں جو وعدے ہیں___ استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے، غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے___وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو: يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْـرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ (النور۲۴:۵۵)۔ (حاجی کے نام)

 ارشادِاِلٰہی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۳ ( الصفّ ۶۱: ۲- ۳)  اے اہلِ ایمان! ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو تم کرتے نہیں؟ یہ بات اللہ کی ناراضی بڑھانے کے لحاظ سے بہت سنگین حرکت ہے کہ تم زبان سے جو کہو اسے نہ کرو(یعنی اپنی اپنی کہی ہوئی بات پر عمل نہ کرے)۔

 اس آیت میں اہلِ ایمان کو قول و فعل میں تضاد جیسی انتہائی ناپسندیدہ حرکت پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ظاہر ہے کہ جو چیز اللہ رب العزت کی سخت ناراضی کا موجب بنے اس کے انجام کے اعتبار سے مہلک ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ آیت کا اسلوب بتارہا ہے کہ اس میں بری روش پر تنبیہ کے ساتھ اس سے باز آجانے کی ہدایت بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قول و فعل میں مطابقت انسان کی بنیادی صفات میں سے ہے۔ رہے اہلِ ایمان تو یہ مطابقت ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔ یہ صدقِ ایمان کی علامت ہے ،اسی سے ایمان کی پختگی ظاہر ہوتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں مومنین صادقین کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝۱۵ (الحجرات۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے،پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن اہلِ ایمان کو ’ صادقون‘ کے خطاب سے نوازا ہے، جو زبانی طور پر ایمان کے اظہار کے بعد اسے پورے یقین کے ساتھ دل میں جمائے ر کھیں اور عملی طور پر دین کی خاطر جانی و مالی قربانی کے لیے ہر آن تیار رہیں۔ مومن صادق وہ ہے جو زبان سے کلمۂ طیّبہ کی ادائیگی کے ساتھ اس کے تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرے اور زبانی اقرار کو سچ کر دکھائے۔ اس آیت کے حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ نے یہ واضح فرمایا ہے : ’’ یہ سچے اس لیے ٹھیرے کہ ان کا یہ عمل ان کی دلی کیفیت کا سچا ترجمان ہوا۔ زبان ا ور دل سے جس ایمان کا اقرار کیا تھا ،عمل سے اس کی تصدیق کردی‘‘ (سیرۃالنبیؐ، دار المصنّفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ، ج۶، ص ۲۳۸)۔

مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ تشریح کرتے ہیں :’’ ان کے دلوں میں ایمان کی جو حقیقی کیفیت تھی اس کا اظہار انھوں نے زبان سے کیا، اور اپنے عمل سے برابر اس کی تصدیق کرتے رہے۔ دراصل زبان، دل اور عمل کی کامل ہم آہنگی کا نام ہی سچائی ہے اور اسی ہم آہنگی پر تمام اخلاق و معاملات کی درستی کا مدار ہے‘‘( قرآنی تعلیمات، مکتبۂ ذکریٰ،نئی دہلی،۲۰۰۳ء،ص۳۱۱)۔

ان توضیحات کا خلاصہ یہ ہے کہ مومنینِ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اللہ و رسولؐ پر ایمان لا کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت بجا لائیں گے اور پھر انھوں نے و اقعتاً اپنے اعمال سے اس عہد کو پورا کر دکھایا۔

 یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قول و عمل میں مطابقت کے بڑے فیوض و برکات ہوتے ہیں ، جن کے دیرپا و خوش گوار اثرات سب سے پہلے صاحبِ صفت پر مترتب ہوتے ہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا فیض یہ ہے کہ اس خوبی والے کی باتیں اپنا وزن رکھتی ہیں جو دوسروں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس کی تقریر و تحریر میں ایسا گہرا اثر ہوتا ہے کہ سننے والے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں نقش کرجاتی ہے۔ اس ضمن میں ممتاز عالمِ دین اور ایک طویل عرصہ تک ندوۃ العلماء میں تدریسی خدمت انجام دینے والے مولانا شہباز اصلاحیؒ (م:۸ نومبر ۲۰۰۲ء) نے اپنے ایک قریبی عزیز کے نام خط میں جو ناصحانہ کلمات رقم فرمائے تھے ان کا ذ کر بہت اہم معلوم ہو تا ہے : ’’ عزیزم! یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تقریروں اور خطبوں کا حقیقی اثر الفاظ کی جادو گری اور لہجہ کے زیر و بم میں نہیں پوشیدہ ہے....زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ زبان سکھاتی ہے،لیکن دل سے نکلی ہوئی بات دل میں اُتر جاتی ہے اور سیرت و کردار تبدیل کر دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ بات صرف زبان سے نکل رہی ہے یا دل بھی اس میں شامل ہے؟ اس کے معلوم کرنے کی آسان کسوٹی یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ جس بات کی تلقین ہم دوسروں کو کر رہے ہیں اس پر خود ہمارا کتنا عمل ہے۔اگر ہماری بات خود ہم پر اثر نہ ڈال سکے تو دوسروں پر کیا اثر ڈالے گی؟‘‘ ( مکتو با تِ   شہباز، مرتبہ: محمد ناصر سعید اکرمی، معہد الامام حسن البنّا،بھٹکل،۲۰۲۲ء،ص۱۰۵۔۱۰۶) ۔

 یعنی فارسی قول ’ از دل خیزد بر دل ریزد‘ [ جو دل سے اٹھتا ہے وہ(دوسروں کے) دل میں سرایت کرجاتا ہے] اسی وقت صادق ہو گا جب کسی کو کسی خیر کی طرف رہنمائی کرنے والا یا نصیحت کرنے والا خوداس پر عمل کر چکا ہو،اور اس پر پوری طرح کاربند ہو۔ قول و عمل میں مطابقت یا اپنی کہی ہوئی بات پر عمل آوری ایسی پسندیدہ و با برکت صفت ہے کہ یہ خود صاحبِ صفت کے لیے موجب سکون و طمانیت بنتی ہے اور دوسروں کے لیے بھی راحت و مسرت کا باعث ہو تی ہے،    اس لیے کہ سچائی و اخلاص کے بڑے فیوض و برکات ہیں جن کے اثرات بہت دُور دُور تک پہنچتے ہیں۔

اس کے برخلاف قول و فعل میں تضاد سے لوگوں کو بڑی اذیت پہنچتی ہے اور اس کی وجہ سے انھیں طرح طرح کے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے، بعض اوقات اس کی تلافی بھی نہیں ہو پاتی۔ اس بری روش کے وبال سے تو اسے اختیار کرنے والا ،یعنی دوسروں کے ساتھ فریب و دھوکے کا معاملہ کرنے والا بچ ہی نہیں سکتا، اور سب سے بڑے خسار ے کی بات یہ ہے کہ وہ اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے ، اور جس سے مالک الملک ناراض ہو جائے، اس کے لیے پھر سکون و اطمینان کہاں ؟

قول و فعل میں عدم مطابقت نفاق کا مظہر یا منافقین کا خاصّہ ہے،اس لیے کہ منافقین زبان سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے عمل سے کچھ اور ظاہر ہو تا ہے، و ہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اللہ علیم و خبیر کے نزدیک ان کا دعویٰ نا قابلِ قبول قرار پاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اقرار محض زبانی ہوتا ہے، ا ن کے اعمال زبانی اقرار کی سچائی کی تردید کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر منافقین کے قول وفعل میں تضاد کی واضح مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔ وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر زبانی طور پر یہ گواہی دیتے تھے کہ بے شک آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں، اس پر قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ارشادِربّانی ہے:

اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللہِ۝۰ۘ وَاللہُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُہٗ۝۰ۭ وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ۝۱ۚ (المنافقون۶۳ :۱) جب منافقین آپؐ کے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں: آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ آپؐ ضرور اس کے رسولؐ ہیں، مگر اللہ گواہی دے رہا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔

لاریب اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کس کی گواہی سچّی ہو سکتی ہے۔ صورتِ حال یہ تھی کہ وہ زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کا اظہار کر رہے تھے ا ور دل میں کفر و انکار کو چھپائے ہوئے تھے۔ دراصل یہی نفاق کی خاصیت ہے کہ دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور  قرآن و حدیث دونوں سے نفاق اور سچائی اور نفاق و اخلاص کا ایک دوسرے کی ضدہونا ثابت ہے۔ جیسا کہ قرآن نے منا فقین کی سب سے بڑی پہچان یہ بتائی ہے: 

يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ۝۰ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۝۱۶۷ۚ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۷) اوروہ[منافقین ] اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے،اللہ خوب جانتا ہے اس بات کو جسے وہ چھپا رہے ہیں۔

یعنی نفاق والے اصلیت کو دل میں چھپائے رکھتے ہیں ، ان کی زبان ان کے دل کی کیفیت کے خلاف بولتی ہے اور اسی کا نام کذب یا جھوٹ ہے۔ قول وفعل کی دُوئی اسی کو کہتے ہیں، اور یہ رویہ اللہ رب العزت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ اس بدترین خصلت وا لا شخص معاشرے میں اپنا وقار و اعتماد کھو بیٹھتا ہے، وہ لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔

 اس میں کسی شبہ کی گنجایش نہیں کہ نفاق اور کذب میں بہت گہرا تعلق ہے ، دونوں برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ نفاق کی جڑ سے جھوٹ کا پودا اُگتا ہے اور اگر اس کی جڑ کو کاٹا نہیں گیا تو یہ پودا سرسبز وشاداب ہوتا رہتا ہے ۔ اور جھوٹ، نفاق کا لازمہ اورمنا فق کی علامت ہے۔ وہ حدیث بہت مشہور ہے جس میں منافق کی پہلی خاص علامت یہ بتائی گئے ہے کہ وہ جھوٹ کا عادی ہوتا ہے:

 عَن اَبِیْ ھُرَیْرَہ انَّ رَسُوْلَ اللہِ  قَالَ:  آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ ، اِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ( صحیح بخاری، کتاب الایمان،باب علامات المنافق) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

دوسری حدیث (مروی از حضرت عبداللہ ابن عمروؓ ) کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی چوتھی خصلت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب وہ جھگڑا کرتا ہے تو فحش کلای پر اُتر آتا ہے [وَاِذَا خَاصَمَ   فَـجَرَ] (صحیح مسلم،کتاب ا لایمان، باب بیان خصال المنافق)۔

اس حدیث کی تشریح میں محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ نفاق کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ظاہر اور باطن میں موافقت اور یگانگت نہ پائی جائے۔آدمی گفتگو تو ایسی کرے کہ محسوس ہو کہ وہ سچ بول رہا ہے،لیکن وہ کذبِ بیانی سے کام لے۔ وعدہ کر کے وہ یقین تو یہ دلائے کہ وہ اپنے کیے ہوئے وعدہ کو پورا کرے گا،لیکن وہ اپنے وعدہ کا کچھ بھی پاس و لحاظ نہ رکھے۔ اسی طرح اسے اپنے عہد وپیمان کو توڑنے میں بھی کوئی باک نہ ہو اور اگر اس کا کسی سے جھگڑا ہو تو وہ[اخلاقی] حدود کا احترام نہ کرے ،نازیبا حرکتیں کرنے لگے اورغصّہ میں ایسا بے قابو ہوجائے کہ فحش کلامی اور بد زبانی سے بھی اسے کوئی عار نہ ہو۔ یہ خصائل اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ایسا شخص قابل اعتماد اور بھروسے کے لائق نہیں ہے‘‘( محمد فاروق خاں،کلامِ نبوت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی ، ۲۰۱۲ء،جلددوم،ص ۴۱۷- ۴۱۸)۔

 مزید برآں ایمان اور نفاق یا ایمان اور جھوٹ میں تضاد اُ س ارشادِ نبویؐ سے مزید کھل کر سامنے آتا ہے، جس کی اردو ترجمانی یہ ہے کہ مومن میں دوسری بُری خصلتیں ہوسکتی ہیں،لیکن اس میں جھوٹ کی خصلت نہیں سکتی( موطّا امام مالک،کتاب الجامع، باب ماجاء فی الصدق و الکذب)۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منافق کی تینوں بنیادی خصلتوں: جھوٹ بولنا،وعدہ خلافی کرنا اور امانت میں خیا نت کرنا کا تعلق کسی نہ کسی صورت میں قول و فعل میں عدمِ مطابقت سے ہوتا ہے۔ ان تینوں کی عملی مثالوں: بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنے ، کسی سے وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرنے، کسی کی سپرد کردہ امانت میں خیانت کرنے پر باریک بینی سے غور کیا جائے تو ان سب میں قول و فعل میں صاف تضاد نظرآ ئے گا۔

ایک حدیث سے یہ نکتہ منکشف ہو تا ہے کہ کیسے ایک شخص بات چیت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ خیانت دھوکے بازی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے :’’ یہ بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے( بنا سنوار کر) ایسی بات کہو جس کو وہ سچ سمجھے اور تم اس سے جھوٹ کہو (سنن ابو داؤد، کتاب الادب،باب فی المعاریض )۔

 اس حدیث کی تشریح میں مؤلفِ  کلامِ نبوت  تحریر فرما تے ہیں :’’ معلوم ہوا کہ خیانت کا تعلق صرف مال و دولت اور امانتوں ہی سے نہیں ہے،اپنے غلط طرزِ عمل سےآدمی کسی بھی معاملے میں اپنے خا ئن ہونے کا ثبوت بہم پہنچاسکتا ہے۔ اس حدیث میں ایک مثال گفتگو کی دی گئی ہے۔ اپنی بات چیت میں کوئی شخص خیانت کا مرتکب ہو سکتا ہے۔خیانت در حقیقت ایک طرح کی دھوکے بازی ہے۔آدمی بات چیت ایسے انداز سے کرے کہ سننے والا اسے سچ سمجھے، حالانکہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہو تو یہ بھی خیانت ہے اور بڑی خیانت ہے۔اپنے بھائی کو کسی فریب میں مبتلا کرنا کسی صورت میں روا نہیں ہے‘‘( کلامِ نبوت ،جلددوم،ص ۴۲۳- ۴۲۴)۔

اسی طرح ’دل میں کچھ،زبان پر کچھ‘ کا رویہ اختیار کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے(یا اس خام خیالی میں مبتلا رہتا ہے) کہ اس طرح وہ دوسروں کو بے وقوف بنا کر یا دھوکا دے کر اپنا اُلّو سیدھا کرلے گا یا اپنا مطلب حاصل کرلے گا، لیکن واقعہ یہ کہ یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے یا وہ خود فریبی میں مبتلا رہتا ہے۔ قرآن نے ایسے مکّاروں و دھوکے بازوں کو بہت ہی صاف لفظوں میں متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی اور کو نہیں خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں،گرچہ انھیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ارشادِربّانی ہے:

وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۹ۭ (البقرہ۲:۹) اور دراصل وہ اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈالے ہوئے ہیں اور وہ ا سے محسوس نہیں کرپاتے۔

 اس لیے کہ ان کی فریب دہی یا دوسروں کو بے وقوف بنانے یا سمجھنے کی خصلت بہت دنوں تک چھپی نہیں رہ پاتی، ان کے دل کا یہ روگ کسی نہ کسی طرح باہر آہی جاتا ہے۔ کردار میں نفاق کی آمیزش یا دُہری پالیسی ایسا خطر ناک مرض ہے، جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور اس کے کردار و اعمال کو داغدار بنا دیتا ہے، جسے دوسرا دیکھ کر یا محسوس کر کے ہی گھن کھاتا ہے اور اس سے دُور رہنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں اس پر بھی اس کے زہریلے یا نقصان دہ اثرات کا سایہ نہ پڑ جائے۔

یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ نفاق کے مرض میں مبتلا یا قول وفعل میں تضاد کے عادی لوگ اپنی ڈگر پر چلتے ہوئے خوب مگن رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی خفیہ تدبیریں یا’’ دل میں کچھ اور، زبان پر کچھ اور‘‘ کی پالیسی کار گر ہو رہی ہے، حالانکہ اللہ کی جانب سے انھیں سنبھلنے کی مہلت ملتی ہے جسے وہ سمجھ نہیں پاتے،آخر کار ان کے اس مرض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بالآخر انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ یہ آیتِ کریمہ اسی حقیقت کی ترجمان ہے:

فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۝۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۝۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۝۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝۱۰ (البقرہ۲: ۱۰) ان کے دلوں میں ایک بیماری[ نفاق کی کھوٹ ]ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ،اور ان کے لیے بڑا درد ناک عذاب ہے ان کے جھوٹ کی پاداش میں۔

اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے،اور اللہ کے ا س بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا،بلکہ انھیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں‘‘ ( تفہیم القرآن، جلداوّل،ص ۵۳)۔

لوگوں کو اپنے مکر و فریب کا شکار بنا نے والے یا دھوکا دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ علیم و خبیر ہے، سب کا باطن و ظاہر اس کے سامنے کھلا رہتا ہے ۔ پھر یہ نکتہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اللہ رب العالمین نے ایسا انتظام فرما رکھا ہے کہ انسان کی ہر چھوٹی بڑی بات اور عمل ریکارڈ میں آجاتا ہے۔ بد کار و غلط کار لوگ کہاں تک اپنی بری حرکتوں کو چھپائیں گے یا اپنے سینے کے راز وہ کیسے مخفی رکھ سکتے ہیں،جب کہ قرآن کریم نے قادرِ مطلق کا یہ نظم بھی بیان کردیا ہے :

وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْہُ فِي الزُّبُرِ۝۵۲ وَكُلُّ صَغِيْرٍ وَّكَبِيْرٍ مُّسْـتَطَرٌ۝۵۳ (القمر۵۴: ۵۲-۵۳) اور جو کچھ بھی انھوں نے کیا ہے وہ سب دفتروں میں محفوظ ہے، ہر چھوٹی  بڑی چیز لکھی ہوئی موجود ہے۔

  یہی حقیقت سورۂ یونس کی آیت ۶۱ میں بھی بیان کی گئی ہے۔اس کے مخاطب اصلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،لیکن پوری امت،بلکہ جملہ انسانیت سے خطاب ہے۔اس کا اردو ترجمہ ملاحظہ ہو:’’ اور جس حالت میں بھی تم رہتے ہو،جس قدر بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہو،اور جو کام بھی تم لوگ کرتے ہو،اس وقت ہم تمھارے پاس ہی موجود رہتے ہیں جب تم لوگ اس میںلگے رہتے ہو۔اور [یہ بھی یقین کرلو کہ] تیرے رب سے کوئی ذر ّ ہ برابر چیز بھی زمین میں یا آسمان میں پوشیدہ نہیں [رہ سکتی] ہے،نہ چھوٹی اور نہ بڑی،مگر وہ صاف کھلی ہوئی کتاب میںدرج ہے‘‘ ۔ 

یہاں یہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۂ یونس اور سورۃ القمر کی مذکورہ آیات کے بعد کی آیت میں ایمان و نیک عمل کی پونجی والوں کو یہ مژ دہ سناکر انھیں اطمینان دلایا گیا ہے کہ عالم الغیب کا یہ نظام ( ہر چھوٹی بڑی چیز کا ریکارڈ میں درج یا محفوظ ہوجانا) سب کے لیے ہے، لیکن اللہ کے فرماں بردار بندے ( جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور گناہوں سے اپنے کو بچاتے ہیں) مطمئن رہیں، ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں ان کے لیے چین ہی چین ہے،وہاںانھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ کسی غم سے دوچار ہوں گے۔ وہ اللہ کے محبوب و مقرب بندے ہیں، وہ راحت و سکون سے مشرف ہوں گے۔ ارشادِ ربّانی ہے:

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۶۲ۚۖ (یونس ۱۰:۶۲ ) اللہ کے مطیع و محبوب بندوں کو نہ کسی چیز کا خوف ہوگا اور نہ انھیں کسی رنج وغم سے سابقہ ہوگا (یعنی وہ ہر طرح سے مامون و محفوظ ہوںگے)۔

رہا یہ معاملہ کہ اللہ کے محبوب بندے کون ہیں،یا رب العالمین کن لوگوں کو دوست رکھتا ہے ؟ اسے اس کے بعد والی آیت میں واضح کردیا گیا ہے: اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ۝ ’’ جو ایمان سے مشرف ہوئے اور اپنے آپ کو اللہ کی نافرمانی یا گناہ کے کاموں سے بچاتےرہے‘‘۔ مزید یہ کہ سورۃ القمر کی مذکورہ بالا آیات ( جس میں ہر چھوٹے بڑے عمل کے ریکارڈ میں آجانے کا ذکر ہے) کے بعد کی آیات میں بھی اللہ کے محبوب بندوں کو’الْمُتَّقِیْنَ‘ ( اپنے خالق و مالک کی اطاعت و بندگی بجا لانے میں سرگرم رہنے والوں اور گناہوں سے پرہیز کرنے والوں) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور انھیں یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ وہ دائمی ز ندگی میں گھنیرے و لہلہاتے باغات میں ہوں گے،ایک سچی عزت والی مجلس میں ہوں گے، جہاں خوشیاں و مسرتیں ہوں گی،انعام و اکرام کی بارش ہوگی ، اور ( اس سے بڑی نعمت یہ کہ) وہ با اختیار و بااقتدار بادشاہ کے پاس ہوں گے جو اپنے بندوں پر بہت شفیق و مہربان ہے (آسان تفسیرِ قرآن، عائض القرنی؍اردو ترجمانی:محمدطارق ایوبی ندوی،ہدایت پبلشرز ،۲۰۲۲ء،ص۱۰۱۵)۔ حقیقت یہ کہ یہ کتنا بڑا رتبہ اور اعزاز و اکرام ہے جس سے ایمان و یقین کو اپنے اعمال سے سچ کر دکھانے والے، یعنی قلب کی سچی آواز پر لبّیک کہنے والے اور قول و فعل میں مطابقت کا عملی ثبوت دینے والے نوازے جائیں گے۔

دوسری جانب قرآن کریم میں قول و فعل میں عدمِ مطابقت یعنی نفاق کی بیماری میں مبتلا رہنے والوں کو بار بار متنبہ کیا گیا ہے کہ اس برائی سے چھٹکارا پانے کی ہر ممکن کوشش کریں، ورنہ وہ  بڑے خسارے میں ہوں گے، اور اس کی وجہ سے سب سے بڑا خسارہ اللہ رب العزت کی ناراضی اور اس کے نتیجے میں ابدی زندگی میں ناکامی ودرد ناک عذاب سے دوچار ہو نا ہے۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۝۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝۱۰ (البقرہ:۲:۱۰)’’ان کے لیے(آخرت میں) بڑا درد ناک عذاب (تیار رکھا ہے ) ان کے جھوٹ (یا دوغلے پن) کی سزا میں‘‘۔

سنجیدگی سے غور و فکر کرنے اور سوچنے کی بات ہے کہ جو شخص ربِّ کریم کی نا راضی مول لے لے، کیا وہ چین وسکون سے شب وروز بسر کرسکتا ہے؟، جو پاک پروردگار کی نگاہ میں انتہائی ناپسندیدہ و مبغوض قرار پائے کیا وہ اس کے بندوں کی نظر میں محبوب قرار پا سکتا ہے؟ ، جو انسان اپنے دل کی بھلی سوچ یا خیر کے ارادہ کے مطابق اپنے عمل کو نہ ڈھال سکے کیا وہ حقیقی فلاح سے شاد کام ہوسکتا ہے؟، جس فریبی و مکّار بندہ سے ربِّ رحیم کی رحمت رُوٹھ جائے کیا ا سے دنیا و آخرت میں کہیں آرام کا ٹھکانا مل سکتا ہے؟

نیکی یا بھلی بات کی دعوت دینے والے اور خود اس پر عمل نہ کرنے والے دنیا میں جس ذلت و رُسوائی سے دوچار ہوں گے، وہ اپنی جگہ ہے۔ بعض احادیث میں ایسے لوگوں کو آخرت میں انتہائی تکلیف دہ و ذلت آمیز عذاب دیئے جانے کا جو عبرت ناک منظر بیان کیا گیا ہے، اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صحیح بخاری میں مروی اس حدیث کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ’’حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا تو اس کی آنتیں آگ میں نکل پڑیں گی، وہ اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا اپنی چکّی کو لے کر گھومتا ہے۔ اہلِ دوزخ اس کے ارد گرد جمع ہو جائیں گے اور پوچھیں گے :اے فلاں! یہ تیرا کیا حال ہے؟ کیا تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم نہیں دیتا تھا اور بُری باتوں سے ہمیں روکتا نہیں تھا؟ وہ کہے گا کہ میں تمھیں اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا، مگر خود ان پر عمل نہ کرتا تھا، اور تمھیں بُری باتوں سے روکتا تھا، مگر خود ان میں مبتلا رہتا تھا‘‘ ( صحیح مسلم ، کتاب الزہد، باب عقوبۃ من یامر بالمعروف ولا یفعلہ وینھیٰ عن المنکرِ و یفعلہ)۔

اس حدیث کا عربی متن اوراردو ترجمہ ’’ قول و عمل میں تضاد‘‘ کی سرخی کے تحت نقل کرنے کے بعد اس کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر کر تے ہیں: ’’خود را فضیحت، دیگراں را نصیحت کا انجام کتنا عبرت ناک ہوگا۔ قول و عمل کا تضاد آدمی کو قیامت میں بر سرِعام رسوا کرے گا۔جہنم کا الم ناک عذاب الگ اس کے حصے میں آئے گا‘‘ (کلامِ نبوت، جلددوم، ص ۴۲۲، حاشیہ۱ )۔

مختصر یہ کہ جس کا قول خود اس کے دل میں جگہ نہ بنا سکے یا جس کی نصیحت آمیز باتیں خود اس کے عمل کی دنیا کو نہ بدل سکیں ،دوسروں پر یہ باتیں کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ یا جس کی دعوت الی الخیر خود اس کے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے، اس کی دعوت پر دوسرے کیسے لبّیک کہیں گے؟ قرآن نے استفہامیہ پیرایہ میں اس نکتے پر غور وفکر کی دعوت خاص طور سے ا ن لوگوںکو د ی ہے، جو دوسروں کو نیک باتیں بتانے میں پیش پیش رہتے ہیں اور خود ان پر عمل کرنے میں پیچھے رہتے ہیں یااور و ں کو خیر کی دعوت دیتے پھرتے ہیں، لیکن اپنی عملی زندگی میں اسے جاری و ساری کرنے سے غافل رہتے ہیں ۔ ارشادِ ربّانی ہے :

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۴۴ (البقرہ ۲:۴۴) کیا تم لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالاں کہ تم لوگ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ ۔

 یہ آیت پیغام دے رہی ہے کہ ٹھنڈے دل سے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ خیر کی جس بات کو تم خود اپنی زندگی میں داخل نہیں کرتے، تو پھر کیسے توقع رکھتے ہو کہ دوسرے اسے دل وجان سے قبول کریں گے یا تمھاری باتوں پر دھیان دیں گے؟ کیا تم لوگوں نے اللہ کی کتاب پڑھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو ہدایات اس میں دی گئی ہیں وہ عمل کے لیے ہیں ؟ کیا اللہ کی کتاب میں بار بار لوگوں کو ا س حقیقت کی جانب متوجہ نہیں کیا گیا ہے کہ اس کی ہدایات و تعلیمات اسی صورت میں ان کے لیے موجبِ برکت و باعثِ رحمت ثابت ہوں گی، جب ان پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ آیت میں خطاب اصلاً بنی اسرائیل سے ہے، تاہم اس میں ہر دور کی اُمتِ مسلمہ ( جس کا ہر فرد اپنی اہلیت کے مطابق اپنی جگہ دین کا داعی ہے) کے لیے بھی بڑا قیمتی سبق ہے۔

لہٰذا ضرورت،بلکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ جوکچھ اچھی و بھلی باتیں اور قیمتی و کارگر نصیحتیں ہمیں یاد ہوں اور دوسروں کو بتا نا چاہیں تو پہلے خود ان پر سنجیدگی و پابندی سے عمل کر کے ان کے فیوض و برکات کا اپنے کو مستحق بنالیں، پھر دوسروں کو انھیں بتا کر یاان کی راہ دکھا کر انھیں بھی مستفیض کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ کرے کہ ہمیں ان حقائق کو سمجھنے ، انھیں دلوں میں اتارنے اور دوسروں کو ان کی طرف متوجہ کرنے کی توفیق نصیب ہو، آمین ثمّ آمین۔

پیشِ نظر تحریر کو درج ذیل دعائے مسنونہ پر ختم کرنا زیادہ بر محل معلوم ہوتا ہے:

اللّٰھُمَ طَھِّر قَلْبِی مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَائِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکِذبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ  خَائِنَۃَالْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ (احمدابن الحسین البیہقی، الدعوات الکبیر، الکویت،۲۰۰۹ء،۱؍۳۵۰ ؛محمد منظور نعمانی، معارف الحدیث، کتب خانہ الفرقان، لکھنؤ، ۱۹۶۹ء، ۵؍۲۷۱) اے اللہ میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریا سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کردے۔بے شک تو آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور دل میں چھپے ہوئے رازوں سے بھی با خبر ہے۔

رمضان کا بابرکت مہینہ ہم پر سایۂ فگن ہے۔ یہ مسلمانوں اور انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، صحابۂ کرامؓ اور صلحائے امت ؒ بڑی بے چینی سے رمضان کا انتظار کرتے تھے اور پھر اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔

صوم کا معانی ہے ’رُک جانا‘، ’اپنے آپ کو روک لینا‘، ’کچھ کر ڈالنے سے روکنا‘۔ ظاہری طور پر اس کا مطلب ہے کھانے، پینے اور اور جنسی داعیہ پورا کرنے سے پرہیز کرنا۔

قرآن کریم میں آٹھ آیات ہیں جو ’صوم‘(روزہ) کی مختلف جہات کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ روزہ تمام انبیاؑ کی شریعتوں کا جزو رہا ہے۔ یہ بات بھی بڑی معنی خیز ہے کہ ہر نبی پر جب وحی نازل ہوئی تو وہ روزہ رکھے ہوئے تھا! جب سیّدنا موسٰی پر تورات اتری، آپ ؑ روزے سے تھے۔ جب نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ روزے سے تھے۔روزے کا اللہ کی عطا کردہ ہدایت سے بڑا قریبی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ (البقرہ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسے تم سے پہلوں پر فرض تھے، تاکہ تمھیں پرہیز گاری ملے۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ (البقرہ۲:۱۸۵)رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن (باتوں پر مشتمل ) ہے۔

روزے کا مقصد دو چیزوں کا حصول ہے جن کی طرف قرآن متوجہ کرتا ہے: ہدایت اور تقویٰ۔ قرآن اسی مہینے میں نازل ہوا، ہدایت لے کر، جو انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پھر ہے، تقویٰ۔ تقویٰ ایک بنیادی اور اور عقدہ کشا اصطلاح ہے۔ عمومی طور پر تو اس کا معنی ’خوف‘ لیا جاتاہے۔ لیکن کس کا خوف؟ اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ خوف ہے اللہ کی خوشی کھو دینے کا ، اللہ کی ناراضی مول لینے کا اور قربٍ الٰہی سے محرومی کا۔ تقویٰ کے اس معنی و اثر کی وجہ سے ہم ایسی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جس میں اللہ کی موجودگی کا احساس ہو۔ چنانچہ ہم ہروہ کام کر گزریں جسے کرنے کا اللہ کہے اور ہر اس کام سے رُک جائیں جس سے اللہ روکے، تاکہ ہم اس کی خوشنودی پالیں۔

تقویٰ ضبطِ نفس ہے، یعنی خود پر قابو۔ رمضان میں آپ خود پر قابو پانا اور خود کو منظم کرنا سیکھتے ہیں۔ انسان کی دو قسم کی مادی یا جسمانی ضرورتیں ہیں: کھانا پینا اور جنسی داعیہ___ رمضان میں دونوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کی تربیت دی جاتی ہے، اور اس بات کا سبق ملتا ہے کہساری زندگی ہی نظم و ضبط سے گزارنی ہے۔یہ مہینہ درحقیقت ’زمانۂ تربیت‘ ہے جس کا مقصد تقویٰ کی  زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا ہے۔ رمضان کے بعد بھی ،باقی گیارہ مہینے تقویٰ کے حصول پر صرف کیے جائیں رمضان کا سبق تازہ کرنے کے لیے اور تازہ دم ہونے کے لیے ۔

روزہ سب سے پہلے آپ کو نظم و ضبط سکھاتا ہے، کہ آپ اپنی عادتوں کو درست کریں۔ جو کام آپ معمول کے مطابق کرتے رہتے ہیں، ایک معمول اور ایک عموم کے طور پر ۔ رمضان میں آپ پر ان کے سلسلے میں کچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ آپ وہ کام نہیں کرتے یا کرنے سے رُک جاتے ہیں۔ تاہم جوں ہی افطار کا وقت ہوتا ہے، آپ کے لیے جو چیز لمحہ بھر پہلے ممنوع تھی، اب جائز ہو جاتی ہے۔ اصل نکتہ زندگی میں نظم و ضبط (Discipline) لانا ہے۔ ایسی زندگی گزارنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرماںبرداری سے عبارت ہو اور قرآنی ہدایت پر استوار ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص روزہ رکھتا ہے مگر جھوٹ بولنے ، لڑنے جھگڑنے، اور بُرے کام کرنے سے نہیں رُکتا تو اللہ کو اس کے بھوکے رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغابازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، حدیث ۱۹۰۳)

 جو چیز اللہ کو مطلوب ہے وہ تو فرمانبرداری اور نظم و ضبط ہے۔ یہی بات تو افطار و سحر سے واضح ہوتی ہے۔ سحری سے پہلے آپ کھاتے پیتے رہتے ہیں، مگر فجر کی اذان سنتے ہی رُک جاتے ہیں اور افطار کے وقت تک رُکے رہتے ہیں۔ اس سب سے آپ کی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ سب تنہائی میں نہیں ہوتا،بلکہ دنیا بھر میں پھیلے مسلمان ایک ہی مہینے میں روزہ رکھتے اور اس کی پابندیوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس سے معاشرے اور خاندان تک ایک بھرپورماحول بن جاتا ہے جس سے ہر عام و خاص، روزہ کی برکتوں سے فیض یاب ہوتا ہے۔

رمضان کی اہمیت کے حوالے سے ایک قابل توجہ پہلو اس مہینے میں تین چیزوں کا جمع ہونا ہے: ۳۰ روزے، شبِ قدر اور آخری عشرے کی طاق راتیں۔ ایک ماہ کے مسلسل روزے ایک بھرپور تربیتی ورزش کا موقع دیتے ہیں۔ شبِ قدر رمضان کی ایک رات ہے جس میں قرآن نازل ہوا:

اِنَّآ  اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ (القدر۹۷: ۱) بے شک ہم نے اس (قرآن ) کو شبِ قدر میں نازل کیا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور عمل کے مطابق یہ رات نماز، تلاوتِ قرآن اور دُعا میں بسر ہونی چاہیے۔ یہ اللہ کے حضور دُعا کرنے اور اس کی قبولیت کا بہترین موقع ہے، بلکہ اسی وجہ سے تو اسے ’قدر‘ کی رات کہا جا سکتا ہے، جب قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں اور تقدیر لکھی جاتی ہے۔

آخری عشرہ، یعنی آخری دس روزے اور ان میں پانچ طاق راتیں(۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹ویں)، شبِ قدر ان راتوں میں سے ایک رات ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ شبِ قدر کی عبادت محض ایک رات کی نہیں بلکہ ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بہتر ہے: لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۰ۥۙ  خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۝۳ۭؔ (القدر۹۷: ۳) شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

 اس رات کو ہم جو عبادت اور دعا کریں گے وہ ایک ہزار ماہ یا ۸۳ سال ، بالفاظ دیگر پوری زندگی، کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہوگی۔ یہ اللہ کی ہم پر خاص عنایت ہے۔

فرماںبرداری، تقویٰ ، صبر اور استقامت ہم کو اللہ کے قریب کرنے والی خوبیاں ہیں۔ پھر تلاوت قرآن، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی، جو اگرچہ فرض تو نہیں تاہم تہجد اور تراویح قرآن سے تعلق کا اہم ذریعہ ہیں۔ مسلم تاریخ میں تراویح رمضان کے پورے دن کے پروگرام کا حصہ رہا ہے، ایک ادارہ ایک مستحکم روایت ۔ دن بھر کے روزہ کے بعد ، رات کو آپ تراویح کے لیے اللہ کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آٹھ رکعات ہو یا ۲۰، قرآ ن کی تلاوت اور سماعت پورے مہینے جاری رہتی ہے اور قرآن کے پیغام کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

روزہ سے متعلق ایک بات بڑی منفر د ہے۔ ہر عبادت کا کوئی نہ کوئی ظاہری انداز ہوتا ہے۔ مثلاً نماز کی حرکات و سکنات ہیں، جو سب کو نظر آتی ہیں۔ مسجد میں نماز تو سب کے ساتھ اور سب کے سامنے ہوتی ہے ۔ زکوٰۃ میں دو افراد، دینے اور لینے والے ہوتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ  حج کا ہے۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ کون حج پر جارہا ہے یا جا چکا ہے۔ مگر روزہ کا صرف اللہ ہی کو پتہ ہوتا ہے۔ دوسروں کے سامنے آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا روزہ ہے مگر اکیلے میں آپ چاہیں تو کچھ کھا سکتے ہیں۔ گو کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا ہوگا، مگر یہ خیال اور احساس کہ اللہ تو دیکھ رہا ہے، آپ کو کچھ کھانے یا پینے نہیں دیتا۔ یہ ہے اللہ سے براہٍ راست تعلق ، اس کی ہدایت کی تعمیل!

اس لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ ہے۔ دس گنا، ستر گنا، سات سو گنا، یا اس سے بھی زیادہ ۔ مگر روزہ کا بدلہ اور اجر دینا میری خاص عنایت ہے۔ اس کا اجر لا محدود ہوگا!

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے سوائے روزہ کے، کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم،۱۹۰۴)

 روزہ ایمان کے شعور اور احتساب کے احساس کے ساتھ رکھا جائے ۔ ایمان سے مراد ہے خالص اللہ کے لیے، نہ کہ لوگوں کے لیے یا کسی اور غرض سے ۔ اور احتساب کا مطلب ہے کہ پابندی، اجازت، جائز و ناجائز سب کو اللہ کی رضا کی خاطر قبول کیا جائے۔ روزمرہ زندگی میں ہم سے غلطیاں اور بھول چُوک ہوتی رہتی ہے، ہم کبھی کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو نہیں کہنا چاہیے تھا، مگر رمضان میں ہمیں غلط کاموں اور باتوں سے بچنے کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھنا چاہیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : اگر کوئی تمھیں بُرا بھلا کہے، یا گالم گلوچ کرے، یا لڑے جھگڑے، تو اس کی بات یا حرکت کا جواب نہ دو بلکہ کہو کہ ’’ میں تو روزے سے ہوں‘‘۔ روزہ تو تزکیۂ نفس ہے، اخلاقی تربیت ہے: فَاِنْ سَا بَّهُ أَحَدٌ، أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ اِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ  (صحیح بخاری، کتاب الصوم، ۱۹۰۴) ’’اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں‘‘۔

روزے کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ بھوک لگنے پر آپ کو ان لوگوں کا اور ان کی حالت کا خیال آتا ہے جو معاشرے میں ہمارے درمیان موجود تو ہیں مگر بھوکے پیاسے اور سہولتوں سے محروم۔ ہم میں ان کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہم زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں، یا نہیں کرتے، اس کے اثرات کا ہمیں ہمیشہ احساس رہنا چاہیے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے، اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔(صحیح بخاری، کتاب الصوم، ۱۹۰۱)

اتنی بڑی نعمت مل جائے تو اور کیا چاہیے!

خلاصہ یہی ہے کہ روزہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان بہت ہی خاص، ذاتی اور بلاواسطہ تعلق قائم کرتا ہے۔ اس کو کوئی نہیں دیکھتا، مگر اللہ اس کا گواہ ہوتا ہے ۔ اس سے تزکیہ، اپنے آپ کو پاک و صاف کرنے اور رکھنے، کا کام ہوتا ہے۔ نتیجہ میں پاک و صاف اور نظم و ضبط والے معاشرے کا ماحول بنتا ہے۔

اس مہینے کا اپنا ہی ماحول ہوتا ہے، اپنی ہی الگ فضا۔ اسی لیے وہ لوگ بھی جو عام طور پر نماز نہیں پڑھتے یا ہر کام شعور کے ساتھ اسلام کے مطابق نہیں کرتے ، وہ بھی اس مہینے میں ملنے والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور حتی الوسع رمضان کے احترام میں عبادات میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ رمضان کی آمد پر ہمیں اس ماحول اور فضا کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا ایک بار پھر موقع مل رہا ہے۔ رمضان تو ایک آئینہ کی طرح ہے جس میں مسلمان افراد اور قوم سب ہی اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں!

انسانی طبیعتیں نرم بھی ہوتی ہیں اور سخت بھی۔ قانونِ قدرت ہے کہ چیزیں نرمی سے ہی باہم جڑتی ہیں، خواہ اشیا ہوں یا انسانی قلوب۔ انسانوں کو انسانوں سے جوڑنا ہو یا ان کے ربّ سے جوڑنا ہو، یہ کام دلوں میں رحمت، رقت اور نرمی پیدا کیے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم دلی کو اپنی رحمت قرار دیا اور سخت دلی اور ترش رُوئی کو انسانی تعلقات کا دشمن قرار دیا ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۝۰۠ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹ ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپؐ ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج ہیں۔ اگر کہیں آپؐ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپؐ کے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’نرمی جس چیز میں ہوتی ہے، اسے آراستہ کر دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی الگ کر لی جاتی ہے، اسے بدنما بنا دیتی ہے‘‘۔ ( مسلم، رقم ۲۵۹۴، مجمع الزواید ،۸/۱۸)۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’اللہ نرمی کرتا ہے اور نرمی کرنے کو پسند کرتا ہے اور نرم خوئی پر جتنا دیتا ہے، اتنا سختی کرنے پر نہیں دیتا‘۔ (مسلم، رقم:۳۵۹۳، بخاری، رقم:۶۹۲۷) ۔حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ایک اور حدیث کے مطابق جو نرمی سے محروم رہا، وہ بھلائی سے محروم رہا (معجم طبرانی، رقم:۲۴۴۹)۔ ایک حدیث کے مطابق رسولؐ اللہ نے تین خصلتوں پر رحمت کے سائے اور جنت میں داخلے کی خوش خبری سنائی: (۱) کمزور پر آسانی و نرمی کرنا (۲) والدین کے ساتھ مہربانی کرنا (۳) غلام پر احسان کرنا (ترمذی، رقم:۲۴۹۴)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں وہ شخص نہ بتائوں جس پر آگ حرام ہے اور وہ آگ پر حرام ہے: وہ شخص جو لوگوں سے قریب ہو، سکون وو قار والا، نرم خو اور آسانی کرنے والا ہے (ترمذی، رقم:۲۴۴۸)۔ حضرت عائشہؓ کے مطابق حضورؐ اکثر آسانی کرنے اور سختی نہ کرنے کی تلقین فرماتے تھے (بخاری)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق حضورؐ نے فرمایا: نرمی خیروبرکت، جب کہ عادت و معمول کے خلاف بولنا بدبختی ہے (بیہقی، رقم:۷۷۲۲)۔

ہمارے اہل دین کے ہاں کسی جرم کی سزا دینے کے لیے جتنی بےتابی نظر آتی ہے، وہ حضورؐ کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ نفاذ حدودمیں جس حد تک گنجائش ہوتی، حضورؐ نرمی کا رویہ اختیار کرتے۔ اگر کسی سے ایسا کوئی فعل سرزد ہو جاتا تو اسے استغفار کی اور دیکھنے والوں کو پردہ پوشی کی نصیحت فرماتے اور حتی المقدور سزا کو ٹالتے۔

ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ ’’سزائوں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پائو‘‘۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو کیونکہ حاکم کا معاف کر دینے میں غلطی کر جانا، اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرجائے۔

احکام شریعت کے نفاذ میں بھی حضورؐ نرمی و شفقت کا معاملہ فرماتے۔ کمزور طبقات کو برابری کا احساس دلا کر ان کی تالیف قلب کرنا نبیؐ کا شیوہ تھا۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی نے آپؐ سے بات کرنا چاہی۔ لیکن جلال نبوت سے گھبرا گئی۔ یہ دیکھ آپؐ نے فرمایا: ’’گھبرائو نہیں! میں اس ماں کا بیٹا ہوں جو سُکھایا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی (ابن ماجہ، رقم: ۳۳۰۲)۔  گویا میں بھی ایک انسان ہوں۔ پہلے زمانے میں گوشت کو اُبال کر دھوپ میں سُکھاتے تھے۔

اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا طرز عمل بھی لوگوں میں پایا جاتا ہے، جب کہ قرآن کے مطابق برائی کا دفاع برائی کے بجائے بہترین نیکی کے ساتھ کیا جائے تو دشمن کے دل میں بھی نرمی پیدا ہو جاتی ہے: اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۝۳۴  (حم السجدہ۴۱:۳۴) ’’تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔

ثمامہ بن اثال یمامہ کے علاقے کا بڑا سردار تھا۔ ایک مہم میں صحابہ کرامؓ اسے گرفتار کرکے مدینہ لے آئے۔ مسجد نبویؐ کے صحن میں اسے باندھ دیا گیا۔ حضورؐ جب نماز کے لیے آئے تو ثمامہ سے اس کا حال پوچھا۔ اس نے کہا:’’قیدی ہوں اگر آپ سزا دیں تو آپ کو حق حاصل ہے، چھوڑ دیں گے تو ایک احسان شناس پر احسان کریں گے‘‘۔ دوسری نماز میں آپؐ آئے، اس سے بات کی تو پھر وہی جواب دیا۔ تیسرے وقت بھی یہی جواب دیا۔ آپؐ نے اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔ اس مہربانی کا یہ اثر ہوا کہ وہ ایک باغ کے کنویں پر گیا۔ غسل کیااور آکر اس نے توحید و رسالت کی شہادت دی اور عرض کیا:’’یارسولؐ اللہ! آج سے پہلے آپؐ کا دین اور آپؐ کا شہر میرے نزدیک ناپسندیدہ ترین تھے، لیکن اس گھڑی آپؐ کی ذات، آپؐ کے دین اور آپؐ کے اس شہر سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہیں‘‘۔ بعدازاں وہ عمرہ کے لیے مکہ گئے۔ وہاں قریش نے انھیں صابی (بے دین) ہونے کے طعنے دیے تو ثمامہ ؓنے انھیں دھمکی دی کہ یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی اہلِ مکہ کو نہ ملے گا۔ جب اہل مکہ کے لیے گندم کی ترسیل بند ہو گئی تو انھوں نے حضورؐ سے گندم کی ترسیل کی بحالی کے لیے درخواست کی۔ حضورؐ نے ثمامہؓ کو ترسیل کی بحالی کے لیے کہا تو انھوںنے آپؐ کے حکم سے انھیں گندم دینا شروع کر دی۔ یہ اس نرم رویّے کا نتیجہ تھا، جو حضورؐ نے صاحب ِاختیار ہوتے ہوئے ایک مجبور آدمی کے ساتھ برتا۔ (بخاری کتاب المغازی، سیرت ابن ہشام، ۲/۴۲۰)

دلوں میں نرمی جہاں حُسنِ سلوک سے پیدا ہوتی ہے، وہاں یہ نرمی لوگوں پر مالی نوازشات کرنے سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ دشمن اسلام اُمیہ بن خلف کا بیٹا صفوان ہر جنگ میں مسلمانوں کے خلاف پیش پیش رہا، حتیٰ کہ فتح مکہ کے موقعے پر جب ابو سفیان سمیت اکثر قریش نے آپؐ کی امان کو قبول کر لیا، تو اس وقت بھی صفوان بن اُمیہ دیگر چند افراد کے ہمراہ مقابلے پر آیا۔ چند لاشیں گرنے کے بعد صفوان اور دیگر بھاگ کھڑے ہوئے۔ فتح کے بعد اس کے چچا زاد صحابی حضرت عمیرؓ بن وہب نے اس کے لیے بارگاہِ رسالت سے امان طلب کی۔ آپؐ نے اسے امان دے دی تو اس نے کہا کہ میں اسلام قبول نہیں کروں گا، مجھے غوروفکر کے لیے دو ماہ دیے جائیں۔ حضوؐر نے فرمایا:’’تجھے چار ماہ کی مہلت ہے‘‘۔ چند دن بعد ہی غزوۂ حنین ہوا۔ وہ مسلمان نہیں تھا لیکن بنوہوازن کے خلاف قریشی عصبیت کے باعث اس نے جنگ میں آپؐ کا ساتھ دیا۔ مال غنیمت میں سے آپؐ نے اسے سو اونٹ دیے۔ یہ لطف و کرم دیکھ کر وہ پکارا اُٹھا:’’ایسی فیاضی کوئی نبی ہی کر سکتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ (موطا امام مالک، سیرالصحابہ، ۲/۹۳۲)

ایک بدو نے ایک وادی میں چرنے والی بکریوں کا ریوڑ آپؐ سے مانگا۔ آپؐ نے اسے اس کی حسب خواہش یہ عطا کر دیں۔ اپنے قبیلے میں پہنچ کر اس نے لوگوں سے کہا: ’’بھائیو! اسلام قبول کر لو۔ خدا کی قسم! محمدؐ اتنا دیتے ہیں کہ گویا ان کو فقر وفاقے کا ڈر ہی نہیںہے۔ (مسلم، رقم۲۳۱۲)

ایک بدو سردار اقرع بن حابس نے حضورؐ کو دیکھا کہ آپ حسن و حسین کو چوم رہے ہیں ۔ اس نے حیرانی سے پوچھا: ’’آپؐ بچوں کو چومتے بھی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے بچوں کو کبھی نہیں چوما‘‘۔آپؐ نے فرمایا ’’اگر تمھارے دل سے اللہ نے رحمت چھین لی ہے، تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔

صاحب ِاختیار سرکاری حکام و افسران حکومتی معاملات چلانے کے لیے سختی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس حضورؐ اپنے عمّال کو نرمی کا حکم دیتے تھے۔ عاملین زکوٰۃ کو فرمایا کہ جب کسی سے زکوٰۃ وصول کرو تو اس کے بہترین مال میں سے نہ لو بلکہ کمتر میں سے قبول کرلو۔

سرکاری حکام عوام الناس کی جاسوسی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جب کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’امیر جب عوام الناس کے اندر شکوک و شبہات کا کھوج لگانے لگے تو ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے (ابوداؤد)۔حضرت معاویہؓ راوی ہیں کہ میں نے نبیؐ کو فرماتے سنا کہ تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے تو ان کوبگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچادو گے (ابوداؤد)۔

امام مسجد کو نرمی کی نصیحت فرماتے کہ وہ نماز پڑھاتے ہوئے یہ پیش نظر رکھے کہ اس کے پیچھے ضعیف و ناتواں بھی ہیں اور عورتیں اور بچے بھی۔ آپؐ نے فرمایا:’’ میرا جی چاہتا ہے کہ لمبی نماز پڑھائوں لیکن اس خیال سے نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ میرے پیچھے بوڑھے بھی ہیں اور عورتیں بھی جن کی ہانڈیاں جل رہی ہوں گی، بچے رو رہے ہوں گے‘‘(بخاری)۔

ہدایت فرمائی کہ مقروض سے تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کی جائے۔ حدیث کے مطابق ایک شخص محض اس وجہ سے جنت میں چلا گیا کہ وہ لوگوں کو قرض دیتا تھا اور جب تقاضے کی تاریخ آجاتی تو اپنے کارندوں کو کہتا کہ اگر وہ دینے سے معذرت کرے تو اسے مہلت دے دینا(بخاری)۔

مسافروں کا قافلہ ہو یا کوئی اصلاحی و رفاہی تنظیم و تحریک، ہر مزاج، صلاحیت اور ذوق کے افراد اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ اہل کارواں کا ہم منزل اور ہم مقصد ہونا ضروری ہے لیکن سب کا ہم مزاج ہونا ضروری نہیں۔ امیر کارواں کے لیے تمام صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری نہیں اور نہ یہ ہرجگہ ممکن ہے۔ البتہ اس کے لیے ایسا ہونا ضروری ہے کہ وہ مختلف مزاج اور صلاحیتوں کے حاملین کو  مطمئن رکھ سکے، دل جوڑ سکے اور ساتھ لے کر چل سکے۔ اصول پرستی کے نام پر بے مروتی کرنے اور اپنے ماتحتوں اور کارکنوں کو ہر وقت کٹہرے میں کھڑا رکھنے کے شوقین حضرات جلد ہی نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔ اختیارات کے استعمال پر کمر بستہ لوگ جلد ہی تنظیم اور ادارے سے وابستہ اپنے ماتحتوں کو خود سے بدظن کر بیٹھتے ہیں۔

آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے امیر کارواں تھے، اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:فتح مکہ کے موقعے پر مسلمان ہونے والے ابو سفیانؓ، صفوانؓ بن امیہ، حکیمؓ بن حزام، سہیلؓ بن عمرو، حویطبؓ بن عبدالعزیٰ، ابوجہل کے بھائی حارثؓ بن ہشام کو سو سو اور تین تین سو اونٹ غزوۂ حنین کے مالِ غنیمت میں سے دیے۔ اسلام دشمنی میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے والوں پر حضورؐ کی مالی نوازشات دیکھ کر انصار کی زبانوں پر یہ شکوہ آگیاکہ رسولؐ اللہ نے قریش کے نومسلموں کو کثیر مال دیا اور ہمیں محروم رکھا، حالانکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک قریش کا خون ٹپک رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ جب مشکل وقت آتا ہے تو ہمیں پکارا جاتا ہے اور مال غنیمت اوروں کو دیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے انصار مدینہ کے یہ خیالات حضورؐ کو بتلائے تو آپؐ کو یہ سن کر دُکھ ہوا اور فرمایا:’’اللہ کی رحمت ہو حضرت موسٰی پر، بلاشبہہ ان کو ان کی قوم کی طرف سے زیادہ اذیت دی گئی اور انھوں نے صبر کیا‘‘۔

آپؐ کی ہدایت پر جب تمام انصار ایک خیمہ میں جمع ہو گئے تو آپؐ نے انصار کا موقف سنا اور پھر فرمایا:’’اے انصار! کیا ایسا نہیں کہ جب میں تمھارے پاس آیا تو تم گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعے تمھیں ہدایت عطا فرمائی۔ تم محتاج تھے، اللہ نے تمھیں غنی کر دیا۔ تم باہمی دشمنیوں کی آگ میں جھلس رہے تھے، میرے ذریعے اللہ نے تمھارے دل جوڑ دیے‘‘۔ سب انصار نے ان احسانات کا اعتراف کیا۔

آپؐ باتیں کرنے والوں کو گستاخ قرار دے کر ان کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرسکتے تھے لیکن آپؐ جانتے تھے کہ انصار کا یہ اضطراب مال کی حرص کی وجہ سے نہیں ۔ انھیں تو یہ دکھ تھا کہ وہ قریش جنھوں نے مکے اور مدینے میں حضورؐ کا جینا دوبھر کر دیا تھا، وہ آج آپؐ کی نظر کرم کے مستحق بن گئے ہیں۔ انصار نے حضورؐ اور صحابہ کے لیے قربانیاں ہی بہت دی تھیں چنانچہ حضورؐ نے انھیں ڈانٹنے کے بجائے اپنی ذات پر انصار کے احسانات خود بتانے کا دل نواز اسلوب اختیار کیا:

’’خداکی قسم، اے انصار! اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ اے محمدؐ! جب تمھاری قوم نے تمھیں  جھٹلادیا تھا تو ہم نے تمھاری تصدیق کی تھی۔ تم قوم میں بے یارومددگار تھے تو ہم نے تمھاری مدد کی۔ تمھاری قوم نے تمھیں مسترد کر دیا تھا، ہم نے تمھیں ٹھکانہ دیا ۔ تم محتاج تھے، ہم نے تمھاری غمگساری کی۔ اگر تم یہ کہتے تو تمھارا یہ جواب سچا ہوتا اور سب اس کی تصدیق کرتے‘‘۔ انصار کے احسانات کا اعتراف کرکے آپؐ نے ان کے دل اپنی مٹھی میں لے لیے اور پھر فرمایا: ’’اے انصار!  تم دنیا کی عارضی دولت کے لیے محمدؐ سے ناراض ہو گئے، جو میں نے نومسلموں کی تالیف ِقلب کے لیے ان کو دی ہے۔ اے انصار، کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو جائیں،جب کہ تم اللہ کے رسولؐ کو اپنے ساتھ لے کر گھروں کو پلٹو۔ خدا کی قسم! جس چیز کو لےکر تم جائو گے وہ اس چیز سے بہتر ہے جو وہ لے کر جائیں گے‘‘۔ ہر طرف سے ہچکیوں بھری آوازیں بلند ہوئیں:’’یارسولؐ اللہ! ہم راضی ہیں اس بات سے کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘۔

مزید فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! اگر ساری دنیا ایک راہ چلے اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں انصار ہی کی راہ چلوں گا۔ تم انصار میری چادر کا اندرونی حصہ ہو، جب کہ دوسرے لوگ بیرونی۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما۔ ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحم فرما‘‘۔

رسولؐ اللہ کے اس دل پذیر اور دل نواز خطاب کے دوران انصار اس قدر روئے کے داڑھیاں آنسوئوں سے تر ہو گئیں اور وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسولؐ ہیں۔ (بخاری، ابن ہشام بحوالہ الرحیق المختوم ، ص:۵۷۰-۵۷۲)

نومسلموں کی تالیف قلب کے لیے حضورؐ نے جو احسانات اور مالی نوازشات فرمائیں، ان لوگوں کی زندگی پر ان کے دیرپا اثرات مرتب ہوئے۔ سب سے بڑے دشمنِ اسلام ابوجہل کے بیٹے کو آپؐ نے امان دی تو وہ مسلمان ہو گئے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! جتنا مال و دولت خدا کی راہ سے روکنے کے لیے میں خرچ کیا کرتا تھا، اب اس کا دوگنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں گا۔ اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے جتنی لڑائیاں میں نے لڑی ہیں، اب اس کی راہ میں اُس سے دُوگنا جہاد کروں گا‘‘۔ (موطا امام مالک، مستدرک حاکم، ۳/۲۴۱)

عمان میں فتنۂ ارتداد کے سردار لقیط بن مالک کو عکرمہ نے قتل کرکے لوگوں کو اسلام پر قائم کیا۔ عمان کے دیگر قبائل اور خصوصاً بنی مہرہ کی سرکشی کو ختم کیا۔ یمن کے مرتدوں کے سردار کا زور توڑا۔ شام کے ایک معرکے میں دشمنوں کی صفوں میں بے دھڑک گھس گئے۔ جب خاندان کے لوگوں نے انھیں محتاط رہنے کے لیے کہا تو انھوں نے کہا:لات و عزیٰ کے لیے تو مَیں جان پر کھیلا کرتا تھا، آج خدا کے لیے جان بچائوں؟ خدا کی قسم! ایسا نہیں ہو سکتا۔ (اسد الغابہ، ۴/۶)

جنگ یرموک میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو مسلمانوں کو موت پر بیعت کی دعوت دی۔ چار سو مسلمان ان کے ساتھ مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے جن میں سے اکثر شہید ہوئے۔ عکرمہ کے دو بیٹے شدید زخمی ہوئے اور وہ خود شہید ہو گئے۔ عکرمہ نے تمام جنگوں میں بیت المال سے کچھ نہ لیا۔ وہ قرآن پر چہرہ رکھ کر کہا کرتے تھے: کتابُ ربّی، کتابُ ربّی، یہ کہتے ہوئے وہ زار و قطار روتے رہتے۔ (دارمی، ص:۲۰۷، مستدرک حاکم، ۳/۳۴۱، طبری، ص:۲۱۵)

قریش کے خطیب اور حدیبیہ میں قریش کے سفیر سہیلؓ بن عمر و فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ ان کے بیٹے ابوجندل کی سفارش پر حضور نے انھیں امان دی۔ رحلت ِنبویؐ کے بعد مکہ میں بھی ارتداد کی لہر اٹھی۔ یہ سہیلؓ بن عمرو تھے جن کی خطابت نے مرتدین اور مذبذبین کو اسلام پر راسخ کیا۔ جنگ یرموک میں ایک دستے کے سالار تھے۔ اپنے پورے گھرانے کو اس جنگ میں فدا کردیا اور خود بھی شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ، ۲/۳۷۲، الاستیعاب، ۲/۵۹۳)

حضرت ابوسفیان ؓ عہد فاروقی میںپورے خاندان کے ساتھ جنگ یرموک میں شریک ہوئے۔ ان کی ایک آنکھ غزوہ طائف اور دوسری آنکھ یرموک میں زایل ہو گئی۔ (استیعاب۲/۷۱۰)

ان چند مثالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ حضورؐ کی رحمت و رافت تھی جس کے باعث کفر کے بڑے بڑے ائمہ پاسبان اسلام بن گئے___ حقیقی قائد اپنے حکم کے سامنے گردنیں خم کرانے کے بجائے دلوں کو جھکانے والا ہوتا ہے۔ذاتی و خاندانی معاملات ہوں یا عوام الناس پر حکمرانی کرنا، احکام شریعت کا نفاذ ہو یا حدود کا اجراء، باہمی لین دین کا معاملہ ہو یا اداروں اور تحریکوں کی قیادت کرنا، ان سب امور کی انجام دہی میں نرمی و شفقت اور دل نوازی کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

ترکیہ اور شام میں حالیہ زلزلہ ایک ایسا موقع ہے، جس سے بہت کچھ سبق سیکھا جا سکتا ہے۔   بچوں کی تربیت اور خود بڑوں کی تربیت کے ضمن میں بطور مسلمان ہم سب پریہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اس دنیا اور ہماری تخلیق سے متعلق اسلامی نقطۂ نظر بچوں کے سامنے رکھیں۔

ساری دنیا میں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ زمین کی اندرونی تہوں کے ہلنے سے سطح ارض پر جو ارتعاش پیدا ہوتا ہےاسے زلزلہ کہتے ہیں۔ قدرتِ حق سے زمین کی یہ تہیں آپس میں ٹکراتی ہیں،  جو سطح زمین پر زلزلے کا باعث بنتی ہیں۔۶ فروری ۲۰۲۳ء کی سحری کے وقت آنے والا زلزلہ، گذشتہ آٹھ عشروں کا شدید ترین زلزلہ تھا۔ شدت کے ساتھ ساتھ اس زلزلے کا وقت بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔ دن طلوع ہونے سے قبل زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میںمحو خواب تھے کہ ان کی چھتیں ان کے اُوپر آن پڑیں۔ زلزلے کی نوعیت اور آفات کو دیکھ کر بہت سے غورطلب اور سبق آموز پہلو سامنے آتے ہیں ، ان کے بارے میں چند گزارشات پیش ہیں:

تمام تر دعوئوں کے باوجود انسان ابھی تک اپنی دنیا کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہے۔ زلزلے جیسے واقعات ہمیں اپنی کمزوری اور بے بسی کا احساس شدید تر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔  ہم کسی بھی بڑے سے بڑے یا چھوٹے سے واقعے کے بارے میں بھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہمارے لیے سزا ہے یا آزمایش۔ یہ علم اسی کی ذات کے پاس ہے جو علیم و خبیر ہے۔

دنیا کی آزمایشوں ، مشکلات یا چھوٹے موٹے مسئلوں کو لے کر انسان کا پریشان ہونا اچنبھے کی بات نہیں، یہ چیزیں تو اَزل سے ہمارے ساتھ ہیں۔ اس صورتِ حال میں اصل مشکل اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ ہم جتنے بھی با خبر یا سمجھ دار ہو جائیں، بہت سی چیزیں ہمارے علم سے ہمیشہ باہر رہیں گی۔ ایسی ہی ایک مثال سورۂ کہف کے مطالعے سے یاد آ رہی ہے، جسے اکثر مسلمان جمعہ کے روز پڑھتے ہیں۔ اس سورہ میں حضرت موسٰی کی جناب خضر سے ملاقات کا ذکر ہے۔ یہ ملاقات تب ہوتی ہے جب حضرت موسٰی دنیا میں سب سے بڑا عالم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اللہ ان کی جناب خضر سے ملاقات کرواتا ہے جو بعض اُمور میں ان سے بھی زیادہ علم رکھتے ہیں۔ یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے اور جو قرآن حکیم میں دیکھا جا سکتی ہے۔

چنانچہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم عاجزی سے اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ ہم جتنا بھی علم حاصل کر لیں، جتنے بھی باخبر ہو جائیں، زندگی اور موت کے معاملات ہماری سمجھ سے باہر رہیں گے۔  کائنات کا حتمی علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ہم اپنے روزمرہ معاملات میں اس ہدایت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں، جو اللہ کی جانب سے ہم تک پہنچتی ہے۔ اس میں ہمارے سیکھنے اور اپنے بچوں کو سکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔

سیکھنے کے اسباق

ذیل میں وہ اسباق درج ہیں جو قرآن مجید اور ہدایت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم اس تباہ کن آفت سے سیکھ سکتے ہیں ۔

۱- اللہ کی قدرت کا اعتراف:تمام تعریفیں اللہ ہی کے شایانِ شان ہیں۔ اس دنیا کے متعلق جتنے بھی سائنسی حقائق ہم نے دریافت کیے ہیں، وہ اسی لیے کیے ہیں کہ اللہ کی ذات نے ہمیں اس علم سے نوازا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز، یہاں تک کہ قدرتی طور پر آنے والے زلزلے بھی اللہ کی قدرت کا اظہار ہیں۔یہ زلزلہ اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ دنیاوی واقعات کی کمان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان اتنا بے بس ہے کہ نہ ان واقعات کو روک سکتا ہے اور نہ ان کے بعد ہونے والی تباہی کا تدارک اس کے اختیار میں ہے۔قرآنِ عظیم میں فرمایا گیا ہے:

اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ۝۰ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۰ۥۙ وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ (الطلاق ۶۵: ۱۲) اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی انھی کے مانند۔ اُن کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔ (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہرچیز پر محیط ہے۔

۲- ایک سبق جدوجہد کے متعلق:اس دنیا میں جدوجہد اور اس کے مجوزہ مقاصد کی اہمیت ہم جانتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خبر دار کیا ہے :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ۝۴ۭ (البلد۹۰: ۴) درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ’اللہ اپنے بندوں کو پریشانیوں کے ذریعے آزماتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بندے مشکلات کے خلاف نبرد آزما ہو کر اس کی عبادت کریں، اس لیے ان پر کئی آزمایشیں پڑتی ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ ان کے دلوں سے غرور نکل جائے اور عاجزی ان کی روحوں میں رچ بس جائے۔ انھی مشکلات کے ذریعے اس کی رحمت کے دروازے کھلتے ہیں اور بندوں کو آسان بخشش کا ذریعہ میسرآتا ہے‘۔ (میزان الحکمہ ۲۹۸۰)

۳- مشکلات اور آزمایشوں کا مقصد :اللہ کی طرف سے آنے والے امتحان اور یہ مشکلات ہماری دنیاوی زندگی کا اہم حصہ رہیں گے۔ یہ امتحان ہمیں جذباتی، جسمانی، نفسیاتی اور روحانی طور پر آزمانے کے لیے آئیں گے:

فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۚ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا۝۰ۘ يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۭ وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ۝۲۶ۙ (البقرہ۲:۲۶) جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انھی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو اُن کے ربّ ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں،و ہ انھیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ اور اُس سے گمراہی میں وہ انھی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔

ان تمام آزمایشوں کے جواب میں ہمارے پاس صرف صبر اور شکر ہے: 

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّـرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ ( البقرہ۲: ۱۵۵-۱۵۶) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔

۴-موت سے متعلق  سبق: حالیہ حادثے کے بعد سامنے آنے والی خبروں اور ویڈیوز میں ہم نے زندگی اور موت کو باہم دست و گریباں ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک ہی گھر کے بچے اور جوان ملبے تلے دبے تو ان میں سے کچھ کو خراش تک نہ آئی، کچھ زخمی ہوئے، کچھ اپنے ربّ کے حضور پیش ہو گئے اور کچھ کی اب تک کوئی خبر نہیں ہے۔ کس کے ساتھ کیا ہوگا؟ اس کا علم صرف اللہ  کی ذات بابرکات کو ہے، جو تمام دنیا کا خالق و وارث ہے:

اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ۝۰ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ۝۰ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَام۝۰ِۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا۝۰ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ۝۳۴ۧ (لقمان۳۱: ۳۴) اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ مائوں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے، اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا۝۰ۭ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝۰ۚ وَسَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ۝۱۴۵

(اٰل عمرٰن۳: ۱۴۵) کوئی ذی روح، اللہ کے اِذن کے بغیر نہیں مرسکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔ جو شخص ثوابِ دُنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دُنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثوابِ آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم ان کی جزا ضرور عطا کریں گے۔

اور جو اس حادثے میں فوت ہوچکے ہیں، ان کی موت رحیم و خبیر اللہ نے اسی لمحے اور اسی طرح مقرر کر رکھی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے کاموں میں کوئی ضُعف اور کمزوری نہیں۔  رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

پانچ لوگ شہید ہیں: طاعون میں مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے، ڈوب کر یا چھت کے نیچے دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں جان دینے والا۔ (بخاری : حدیث ۲۹۸۹)

ہمیں دُعا کرنی چاہیے کہ اللہ کریم اس موت کو ان مرحومین کے لیے بخشش کا وسیلہ بنا دے۔ جہاں تک ہماری موت کا تعلق ہے اس کا علم صرف ذاتِ الٰہی کو ہے۔

۵- انسانیت سے متعلق سبق: جب بھی اس آفت سے ہونے والی تباہی کے مناظر نظر آتے ہیں کہ جو اس تکلیف سے گزر رہے ہیں تو ہمارا دل ان لوگوں کے لیے گہرے جذبۂ ہمدردی سے لبریز ہو جاتا ہے۔ ہم سب اس وقت زلزلے کے آفٹر شاکس اور لوگوں کے بچ نکلنے سے متعلق کئی طرح کی خبروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ابھی کل ہی زلزلے کےہفتہ بھر بعد ایک اٹھارہ ماہ کے بچے کو ملبے سے زندہ نکالا گیا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے جو درد ہم اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں وہ مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ تمام مومنین کے دل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تھا:

مومن باہمی محبت، ہمدردی اور رحم کے معاملے میں ایک جسم کی طرح ہیں۔ کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چینی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (صحیح البخاری، حدیث ۵۶۶۵، صحیح المسلم، حدیث ۲۵۸۶)

ہمیں اس تعلق کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے لیے روحانی ترقی اور تقویت کا باعث ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ کریم نے فرمایا:

تم میں سے کوئی تب تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث ۱۳)

رضاکار مستعد ہیں، غذائی اجناس، کپڑے، دوائیاں اور دیگر ضروری اشیا عطیہ کی جا رہی ہیں۔ امدادی کاموں کے لیے دنیا بھر سے بڑے پیمانے پر مادی وسائل بھی جمع کیے جا رہے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق یہ سب کرنا ہمارا دینی فریضہ بھی ہے:

بے شک مسلمان ایک دیوار کی مانند ہیں جس کا ہر حصہ دوسرے کو سہارا دیتا ہے(پھر رسولؐ اللہ نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر دکھائیں)۔(صحیح بخاری)

۶- ہماری زندگیوں کے لیے سبق:انسان اپنی موت سے بے خبر ہیں۔ حالیہ زلزلے میں شہید ہونے والوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ اگلے دن کا سورج نہیں دیکھ پائیں گے۔ ان آفتوں اور ان کی بڑھتی ہوئی شدت کودیکھ کر ہمیں بھی موت کا تصور فکرمند رکھتا ہے۔ چنانچہ ایسے میں ہمارے بھائیوں یا بہنوں پر جو مشکل پڑتی ہے وہ ہمارے لیے یاددہانی کا کام کر سکتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ اگر آج کا دن ہمارا آخری دن ہو تو ہم اسے کیسے گزاریں گے؟

۷- ایک سبق قیامت سے متعلق: سورۃ الزلزال میں اللہ تعالیٰ نے روز قیامت پیش آنے والی تباہی کا ذکر فرمایا ہے:

يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا۝۰ۥۙ لِّيُرَوْا اَعْمَالَہُمْ۝۶ۭ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۝۷ۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗ۝۸ۧ (الزلزال ۹۹: ۶ تا ۸)اُس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ اُن کے اعمال اُن کو دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

قرآن میں بیان کی گئیں تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں، لیکن ان کا حالیہ زلزلے سے کیا تعلق ہے؟ ہمیں بتایا گیا ہے کہ قیامت تب تک نمودار نہیں ہو گی جب تک ہم کچھ نشانیاں نہ دیکھ لیں۔ ان میں سے کئی نشانیاں آج ہمارے سامنے ہیں:

  • علما کی وفات کے ساتھ ساتھ دنیا سے علم بھی اٹھتا جا رہا ہے۔
  • زلزلوں کی تعداد اور شدت بڑھتی جا رہی ہے۔
  • وقت سے برکت اُٹھ گئی ہے۔
  • قتل و غارت بڑھ رہی ہے۔ قاتل اور مقتول دونوں بے خبر ہیں کہ وہ کیوں قتل کر یا ہو رہے ہیں؟
  • دولت لالچ کے ذریعے بڑھائی جارہی ہے۔
  • بدعنوانی دنیا میں عام ہے۔

مشکلات کا نشانہ بننے والوں پر انفرادی ذمہ داری ڈالنے کے بجائے ہمیں اجتماعی طور پر یہ سوچنا ہو گا کہ ہم سب مل کر کس طرح دنیا میں فتنہ کے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیں؟ کیا یہ آفتیں اس لیے بڑھ رہی ہیں کہ زمین پر گناہ اور ظلم میں اضافہ ہو رہا ہے؟ ایسے میں ہمارے انفرادی گناہ کون سے ہیں، جن کے باعث ہم بھی اس ظلم اور گناہ کا حصہ بنے ہوئے ہیں؟

۸- اللہ  کی ذات پر بھروسے اور توکّل کا سبق:اگر ہمارا ایمان یہ ہے کہ اللہ کی ذات ہی سب سے بڑی، سب سے طاقت ور اور سب سے عظیم ہے، تو ہمیں اس کے فیصلوں اور صرف اسی کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔ ہمارا دین ہمیں ایک خوب صورت دعا سکھاتا ہے جو پریشانی اور امتحان کے مرحلے میں ہمارے لیے سکون کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ دعا اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سکھائی ہے:

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللہُ۝۰ۤۡۖ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝۱۲۹ۧ ( التوبہ۹: ۱۲۹) اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ ’’میرے لیے تو بس، اللہ ہی کافی ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ، اُسی پر میں نے بھروسا کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا۔

یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ خود کو اور بچوں کو، اس دنیا اور اس میں آنے والی آزمایشوں کے بارے میں بتائیں۔ گھر اور گھر کے باہر بھی پیش آنے والے واقعات سبق آموز ہوسکتے ہیں۔ ہمیں روزمرہ زندگی میں جو بھی پریشانی یا مشکل دیکھنی پڑے ہم بچوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کا مقصد اور نتیجہ سمجھا سکیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہمارے اندر ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی چیز ہم اپنے بچوں کے لیے بھی پسند کرتے ہیں۔ اور اللہ نے مومنین کے ساتھ انعام کا وعدہ کیا ہے:

مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوش حالی ملے توشکر کرتا ہے،اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے، اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے، یہ(بھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ‘‘۔(صحیح مسلم: حدیث ۲۹۹۹)

زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا:

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ (النجم۵۳:۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا بُرا)۔

غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے، جس پر انھوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز۔ ماؤنٹ ایورسٹ ۸ کلومیٹر بلند ہے، اگر میں ۱۰ کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر میں بحث کرنے کی کوشش کروں اور کہوں کہ وہ اور میں، دونوں زمین ہی پر تو چلے،تو لوگ اور بھی زور سے ہنسیں گے، کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے۔ اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اُتارے جاتے، تو یہ 'پہاڑ کی پیمایش کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔ کام کی مشکل ہی اسے باعزّت اور قابلِ قدر بناتی ہے۔

 لہٰذا اپنے آپ سے پوچھنے اور جواب سننے کے لیے، آپ کو اس بیرونی شور کو بند کرنا ہوگا، جو ہم نے اپنی مرضی سے اپنے آپ پر مسلّط کیا ہے۔ آپ اپنے دل کی بات سن سکتے ہیں، یا فون کو سن سکتے ہیں، آپ دونوں ایک ساتھ نہیں سن سکتے۔ براہِ مہربانی غور کریں آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں، 'میں کامیاب ہو سکتا ہوں؟ یا 'کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میں ضرور ناکام ہو جاؤں گا۔ دونوں جملےحقیقت نہیں ہیں، لیکن آپ کے لیے، دونوں درست ہو سکتے ہیں۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کس کو اکثر استعمال کرتے ہیں۔ میرے دوست ڈاکٹر فریڈولن سٹاری مجھے بتاتے ہیں کہ جرمن زبان میں ایک کہاوت ہے: ’’اُمید آخر میں مرتی ہے‘‘۔ ہمیں امید کو کبھی مرنے نہیں دینا چاہیے، اور اُمید کو حقیقت بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لہٰذا، پوچھیں کہ آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ وہیں سے شروع ہوتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اور توکّل کے تعلق کے بارے میں فرمایا:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ (الانفال۸:۲) مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں اور جب انھیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ اپنے رب پرمکمل بھروسا کرتے ہیں۔

 آپ براہِ مہربانی اپنے آپ سے پوچھیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر کھڑے ہو کر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو آپؐ کے دل پر کیا گزری ہو گی؟ جس چیز نے ان کو برقرار رکھا اور سہارا دیا وہ اللہ سے آپؐ کا تعلق تھا اور اللہ آپ کے لیے حقیقت تھا۔ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو فرماتے:

اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ، لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى الله عَلَيهِ وَسَلَّم حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَاِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَاِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا  اِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ ـ أَوْ لاَ اِلٰهَ غَيْرُكَ ،    اے میرے اللہ ! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے ، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے۔ آسمان اور زمین اور ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اور تعریف تیرے ہی لیے ہے ، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے ، تو سچا ہے ، تیرا وعدہ سچا ، تیری ملاقات سچی ، تیرا فرمان سچا ہے ، جنت سچ ہے ، دوزخ سچ ہے ، انبیا ؑ سچے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت کا ہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ ! میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں ، تجھی پر بھروسا ہے ، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں ، تیرے ہی عطا کیے ہوئے دلائل کے ذریعے بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں ، پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما ، خواہ وہ ظاہر میں ہوئی ہوں یا پوشیدہ ، آگے کرنے والا اور پیچھے رکھنے والا تو ہی ہے ، معبود صرف تو ہی ہے ۔

 ہمارا سب سے بڑا پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ ایک تصور اور ایک خیال ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ ہمارے لیے حقیقت ہیں ؟ اس بات کی نشانی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے حقیقت ہیں ، ہمارے اعمال میں مضمر ہے۔ جن کے لیے اللہ تعالیٰ حقیقت ہیں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے، وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہی تقویٰ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کا خوف ہے، چونکہ ہم اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

سب سے مشکل کام لوگوں کے ذہنوں، عقائد اور رویوں کو بدلنا ہے، لیکن یہ وہ کام تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کام سونپتے وقت، مقصد کو پورا کرنے کے لیےکوئی مادی مدد نہیں دی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی مؤرخ الفونس ڈی لامارٹین جیسے شخص نے بھی جو اسلام پر بہت تنقید کرتا تھا، اپنی کتاب تاریخ   ترکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اگر مقصد کی عظمت، اسباب کی کمی اور حیران کن نتائج تین معیار ہیں ایک انسانی ذہانت کا، تو کون تاریخ کے کسی عظیم انسان کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے موازنہ کرنے کی جرأت کر سکتا ہے؟‘‘

یہیں سے عقیدہ کے یقین کا مسئلہ آتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی دعوت میں سب سے پہلی اور سب سے زیادہ امتیازی خوبی، ان کا اپنے پیغام کی سچائی اور اہمیت پر مکمل ایمان، اعتماد اور یقین تھا۔ اس کے بغیر وہ کبھی اپنی کوشش کو جاری نہیں رکھ سکتے تھے اور کامیابی کا بظاہر کوئی نشان نہ ہونے کے باوجود مسلسل اپنی پوری کوشش کرتے رہے۔ یہی مقصد کی طاقت ہے۔ جب آپ اپنے مقصد کو جانتے ہیں، تو یہ آپ کو مضبوط کرتا ہے ، یہ آپ کو توجہ مرکوز رکھنے اور اپنے خوف سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔

 مشہور مصنف مارک ٹوین نے کہا تھا کہ ’’ہر آدمی کی دو سالگرہ ہوتی ہیں، جس دن وہ پیدا ہوا تھا اور جس دن اسے پتہ چلا کہ کیوں؟‘‘۔ میں جانتا ہوں کہ میں کس دن پیدا ہوا تھا، لیکن کیا یہ بھی جانتا ہوں کہ کیوں پیدا ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس لیے پیدا کیا؟ مجھے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے، جس کی بنیاد پر میرا فیصلہ کیا جائے گا؟ اب ذرا خاموشی سے بیٹھیں اور اپنے آپ سے تین سوال پوچھیں:

۱-میں کیوں زندہ ہوں؟

۲-کیا کھوجائے گا اور کس کے لیے، جب میں اس زندگی سے رخصت ہو جاؤں گا؟

۳- میں اپنے وجود کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے کیا کر رہا ہوں؟

یاد رکھیں کہ اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے، لیکن یہ سب سے اہم چیز ہے جو آپ کر سکتے ہیں اور جو آپ کو سب سے بہترین نتائج دے گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ فرق پڑتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی قابل قدر ہو یا نہیں، یہی آپ کی حقیقی سالگرہ ہوگی۔ وہ دن نہیں جس دن آپ پیدا ہوئے تھے، بلکہ جس دن آپ کو معلوم ہوا کیوں پیدا ہوئے؟ جو زندگی، ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے گزاری گئی، انسان کی زندگی ہے، جو زندگی ہرخواہش اور شوق کو پورا کرنے کے لیے گزاری گئی، وہ تو محض ایک جانور کی سی زندگی ہے۔ ہمیں اپنے لیے انتخاب کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے زندگی کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶  مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝۵۷  اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُ۝۵۸ (الذاریات۵۱:۵۶-۵۸)

میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی رضا کے لیے پیدا کیا ہے۔ اُس نے باقی مخلوقات کو لوگوں کی خدمت کے لیے بنایا جو اُسے خوش کرتے ہیں۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں مشغول ہوتے ہیں تو سب کچھ اپنی جگہ پر آ جاتا ہے۔ ہم مطمئن اور معزز رہتے ہیں، اثر و رسوخ کے مالک بنائے جاتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہتے ہیں، اور خوش رہتے ہیں۔ جب ہم ان سب کو اپنے طور پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کی پروا کیے بغیر، کہ ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں یا نہیں، تو ہم تناؤ، پریشانی، خوف، ذلت اور افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے پہلے ہی لکھ دیا ہے اس کا پیچھا کرنا اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز پر ہمیں قابو میں دیاہے اسے نظر انداز کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ ہم آخرت میں اپنے لیے جو چاہیں لکھیں۔ اگر ہم اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں تو ہم اس زندگی میں مطمئن ہوں گے اور آخرت میں جنت حاصل کریں گے، اگر نہیں، تو اس کے برعکس ہونے کا امکان ہے۔

امام حسن بصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کس طرح قناعت کی زندگی گزاری اور کسی چیز کے بارے میں آپ کو تناؤ سے دوچار نہیں ہونا پڑا؟ انھوں نے کہا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور عبادت کوئی اور میرے لیے نہیں کر سکتا، اس لیے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت پر توجہ دیتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی اور نہیں لے سکتا، اس لیے میں اس کی فکر نہیں کرتا۔ میں جانتا ہوں کہ ایک دن میں مر جاؤں گا، اس لیے میں اس دن کی تیاری کرتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے، اس لیے مجھے ہر وہ کام کرتے ہوئے شرم آتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے‘‘۔ میں اپنے آپ کو اور آپ کو اس پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔

اسلام ہمیں دنیا میں کسی کام سے نہیں روکتا بشرطیکہ وہ حلال ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں رہنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے امکانات پیدا کیے ہیں، اور ساتھ ہی اس کے لیے سرحدیں بھی متعین کردی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ممانعتیں ہیں۔ جب تک ہمارے اعمال ان حدود میں ہیں اور ہم ان چیزوں سے دور رہیں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، تو اللہ کی اطاعت میں اس صبر کا نتیجہ ہم جنت میں حاصل کریں گے۔ چونکہ انتخاب ہمارا ہے، لہٰذا دانش مندی سے انتخاب کریں۔

تحریری پیڈ اور پنسل ہاتھ میں رکھیں، اپنے مقصد کے بارے میں اپنے خیالات لکھیں۔ میں پنسل کہتا ہوں کیونکہ آپ کچھ چیزوں کو مٹا کر ان پر لکھنا چاہیں گے، وہ ضرور کریں، ہچکچاہٹ نہ کریں، آخر میں ۸/۱۰  الفاظ میں اپنےمقصد کو بیان کریں۔ اپنے مشینی یا الیکٹرانک آلات پر ایسا کرنے کی کوشش نہ کریں، کاغذ اور پنسل کا استعمال کریں۔ لکھنا دماغ کی طاقت کو جس طرح دعوت دیتا ہے، وہ فون یا ٹیبلٹ کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ لکھیں کہ یہ لکھنا ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔

 پھر اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھیں:’’آگے بڑھنے کے لیے مجھے کون سی تین چیزیں کرنی ہیں؟‘‘ یاد رکھیں، ہم ' آخری نتیجہ کی بات نہیں کر رہے ہیں ، ہم اس عمل کی بات کر رہے ہیں جو ہمیں آگے لے جائے گا۔ اگر آپ کسی منزل کی طرف گاڑی چلا رہے ہیں، اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا آپ صحیح سمت میں جا رہے ہیں؟ آپ اپنی منزل کے راستے میں پہلے شہر کے نشانات تلاش کرتے ہیں، پھر اگلا یہاں تک کہ آپ کو اپنی منزل کے آثار نظر آنے لگیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں صراط مانگنا سکھایا، الصراط المستقیم، سیدھا راستہ، ثابت قدمی کا راستہ، انبیا علیہم السلام کا اور ان لوگوں کا جن پر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا۔ اسلام میں راستہ اور منزل دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں، طریقے اور ذرائع۔ لہٰذا مقصد کو اپنے سامنے رکھیں اور پوچھیں: ’’اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مجھے سب سے پہلے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‘‘ یہ آپ کے جاگنے کے وقت کو تبدیل کرنا ہو سکتا ہے، یا آپ کا روزانہ کا شیڈول، یا اپنے دوستوں کی فہرست۔ عام طور پر، یہ تینوں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔

 یہ تبدیلی تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ کو مقصد کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ کو یاد دلائے گا کہ کام کی مشکل ہی اسے باعزت اور قابل قدر بناتی ہے۔

اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھیں:’’ آگے بڑھنے کے لیے مجھے تین چیزیں کیا کرنی ہیں؟‘‘ اپنی فہرست میں پہلی چیز پر توجہ دیں، جب آپ اسے ختم کر لیں تو اگلے پر جائیں۔ اگر آپ کو خلل پڑتا ہے، تو واپس جائیں، اور پہلا کام مکمل کریں۔ اپنی ترجیحی فہرست میں کسی کام کو کبھی نہ چھوڑیں، چاہے وجہ کچھ بھی ہو۔ ان وجوہ کو ختم کر دیں جو آپ کو اپنی ترجیحات سے دُور لے جاتی ہیں۔ ارتکاز یا فوکس غیر ضروری چیزیں نظر انداز کرنے کا فن ہے، جب کہ ملٹی ٹاسکنگ اور بہت سے جھنجٹ پالنا خلفشار کا دوسرا نام ہے۔ جب آپ ایک چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو آپ کو جان بوجھ کر باقی تمام چیزوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ زندگی کی ہر چیز میں کامیابی کا راز یہی ہے۔ جیتنے والے ایک کام پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جب تک کہ یہ مکمل نہ ہوجائے۔ جیتنے والوں اور ہارنے والوں کے درمیان فرق ارتکاز ہے۔

انٹرنیٹ کی بدولت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے ذرائع ہی کئی گنا بڑھے ہیں اور بدل گئے ہیں، مگر سیکھنے کا قانون ہرگز تبدیل نہیں ہوا۔ کشش ثقل کے قانون کی طرح، یہ ایک بنیادی قانون ہے، یہ کبھی نہیں بدلتا۔ سیکھنے کا قانون یہ ہے کہ سیکھنا اخلاص، ارتکاز اور استقامت کا عنصر ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ معلومات تک رسائی کے لیے کون سے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ یہ گہرے غور و فکر، سوچ سمجھ کر مشق کرنے اور اسباق کو تصور کرنے کے بعد ہی علم میں ڈھلتا ہے۔ ہم معلومات کو علم کے ساتھ الجھاتے ہیں اور حکمت کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار وہی غلطیاں کرتے ہیں اور بلاوجہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ الیکٹرانک گیجٹس کو بھول جائیں اور ارتکاز پیدا کریں۔

 اللہ تعالیٰ نے نماز میں ارتکاز کا ذکر فرمایا:

الَّذِيْنَ ہُمْ فِيْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ۝۲ۙ (المؤمنون۲۳:۲) جو اپنی نمازیں پورے خلوص اور پوری تواضع کے ساتھ پڑھتے ہیں۔

نماز میں ’خشوع‘ ارتکاز کا عنصر ہے۔ اندرونی اور بیرونی تمام خلفشار کو نظر انداز کرنے اور صرف اللہ پر توجہ مرکوز کرنے کا نام ’خشوع‘ ہے۔ آج ہم ایسے دور میں رہتے ہیں، جہاں ارتکاز کی کمی کو ایک خوبی بنا دیا گیا ہے۔ اساتذہ، سرپرستوں، یہاں تک کہ والدین کو بتایا جاتا ہے کہ بچے کسی بھی بات یا کام پر ۳۰سیکنڈ سے زیادہ توجہ مرکوز نہیں کر سکتے ۔ آپ کو پوچھنا چاہیے کہ یہ کس کے بچے ہیں؟ انسانی بچے یا بندر کے بچے؟ حقیقت یہ ہے کہ ارتکاز، پٹھوں کی طرح، محنت سے بنتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے بچوں کو ۳۰سیکنڈ سے زیادہ ارتکاز اور تحمل نہیں سکھایا تو آپ کو یہی نتیجہ ملے گا۔ ایک لمحے کے لیے رُکیں اور پوچھیں کہ وہی بچے جن کے بارے میں آپ دعویٰ کرتے ہیں، کہ ۳۰سیکنڈ سے زیادہ کوئی فائدہ مند بات نہیں سن سکتے، وہ ٹی وی اسکرین پر فیفا کے میچ  یا ون ڈے کرکٹ کو دن یا رات کے کسی بھی وقت گھنٹوں چپکے بیٹھ کر کیسے دیکھتے ہیں؟

گویا کہ یہ توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کا یا رضامندی کا سوال ہے۔ رضامندی، وجہ پر منحصر ہے۔ اگر ہم اس میں قدر دیکھتے ہیں تو ہم توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ ہم کس چیز کی قدر دیکھتے ہیں، جس کے لیے ہم اپنے پاس موجود واحد غیر قابل تجدید وسیلہ خرچ کرنے کے لیے ہروقت تیار ہیں۔ یہ غیرقابل تجدید وسیلہ یعنی ہمارا وقت ہے، جو زندگی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کیونکہ وقت کے ختم ہونے کا نام ’موت‘ ہے ۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ واقعی یہاں کیا دیکھ رہے ہیں؟ آپ اُن غلاموں کی مجبور زندگی کو دیکھ رہے ہیں جو بدمعاش قائدین کے ہاتھ کے کھلونے ہوتے ہیں، جیسا چاہا استعمال کر لیا۔ غلامی ایک ذہنیت ہے۔ کیا آپ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے یہ چاہتے ہیں؟ اگر نہیں، تو اس کے بارے میں کچھ کیجیے۔ یاد رکھیں کہ غلامی کی زنجیریں ذہن میں ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ آپ فیصلہ کریں کہ آپ کے لیے کیا اچھا ہے اور جو اچھا ہے اسے کرنا سیکھیں۔ ہرنئی چیز، بغیرکسی استثناء کے، سب سے پہلے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ہرمعاملے کے بعد،ہر وہ چیز جس کے لیے آپ نے وقت گزارا، ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھیں: ’’مجھے اس سے کیا حاصل ہوا؟ اور میں نے کیا سیکھا؟‘‘ یہ سوال سوچنا آپ کی زندگی کا قرینہ بدل دے گا، مکمل طور پر۔

دوسرا سب سے اہم کام مسئلہ حل کرنے والی ذہنیت کو تیار کرنا ہے۔ جب کسی چیلنج کا سامنا ہو تو دیکھیں کہ آپ کے اختیار میں کیا ہے، اور اسے کریں۔ جس چیز پر آپ قابو نہیں پا سکتے، اس میں نہ پھنسیں۔ لوگ کبھی کبھی اپنے اردگرد موجود مصیبتوں کو دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں، 'خدا تمام بیماروں اور بھوک سے مرنے والے لوگوں کے بارے میں کچھ کیوں نہیں کرتا؟ جواب ہے، 'خدا نے پہلے ہی انسان کو بہت کچھ عطا کر دیا ہے۔ اس نے آپ کو پیدا کیا ہے۔ آپ کو کم از کم ایک بھوکے کو کھانا کھلانے، ایک بچے کی تعلیم کا خرچہ برداشت کرنے، ایک بیمار کے ہسپتال کا بل ادا کرنے کے ذرائع عطا فرمائے۔ اگر آپ سو آدمیوں کو نہیں کھلا سکتے تو ایک کو ضرور کھلائیں۔ اگر آپ اسکول نہیں بناسکتے تو ایک بچے کے اسکول کی فیس ادا کریں۔ ہم ہرمسئلے کو عالم گیر بنادیتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر اپنی بے عملی کا جواز پیش کرتے ہیں:’’آخر میں صرف ایک شخص ہوں، میں کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔ اس کے برعکس ، سمجھ دار لوگ عالمی مسئلے کو مقامی بناتے ہیں اور پوچھتے ہیں:’’میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ وہ لوگ جو مدد کرنا چاہتے ہیں، دوسروں پر الزام نہ دھریں بلکہ خود سے پوچھیں، 'میں کیا کر سکتا ہوں؟ اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ہم عمل کریں، محض شکایات کا دفتر نہ کھولیں۔ مسائل کو شکایات نہیں، حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب ایک کھڑکی کھلتی ہے، اور ان کے پاس اثر انداز ہونے کا منفرد موقع ہوتا ہے۔ کامیابی کے لیے ہمیں تیاری، اور ہمت کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔

ہماری ترقی اور خوشی کے لحاظ سے ہمارا انتخاب بڑے مختلف نتائج مرتب کرتا ہے ۔ لیکن ہرانتخاب کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ بے وقوف لوگ پہلے قیمت معلوم کیے بغیر انتخاب کرتے ہیں اور پھر جب انتخاب کی قیمت کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو حیران اور مایوس ہوتے ہیں۔

زندگانی کے اس میدان میں’شکار‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مشکلات اور مصائب کے بارے میں محض شکایت کرتے رہتے ہیں، بہانے سوچتے ہیں، دوسروں پر الزام لگاتے ہیں، اُمید کھو دیتے ہیں، اور فنا ہو جاتے ہیں۔ ایسا ’شکار‘ افراد، گروہ، یا قومیں ہو سکتی ہیں۔ ’شکار‘ ذہنیت کا موقف ایک جیسا ہی ہوتا ہے : شکایت اور الزام۔ جب ’شکار‘ ذہنیت رکھنے والے لوگ اپنے آپ کو مشکلات میں پاتے ہیں، تو وہ کسی اور کو قصوروار ٹھیرانے کے لیے قربانی کے بکرے ڈھونڈتے ہیں ۔ وہ سازشی نظریات ایجاد کرتے ہیں اور ایسی 'محصور ذہنیت کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ ہر کسی کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے مسائل کی واحد وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر کوئی انھیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ یہ سوچنے سے باز نہیں آتے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس پر الزام لگاتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنی کوتاہی اور بے علمی کو خود پر لاگو کرتے تو فوراً جاگ جاتے!

دوسری طرف سمجھ دار وہ لوگ ہیں، جو مشکل اور مصیبت کا سامنا ہونے پر پہلے اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس صورت حال میں کیسے اور کیوں آئے؟ پھر وہ اس صورتِ حال کے لیے حل تلاش کرتے ہیں۔ ان میں نئے طریقے آزمانے کی ہمت ہوتی ہے۔یہ کامیابی کا راستہ ہے کیونکہ اگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے صورتِ حال پیدا کی ہے، تو ہم اس کا حل بھی نکال سکتے ہیں۔

 ارشادِ ربَّانی ہے: اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۝۱ۙ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۝۲ۭ ( التکاثر۱۰۲:۱-۲) ’’تمھیں مال و اسباب کی طلب میں مقابلہ آرائی نے [ اللہ کی یاد سے] غافل کردیا یہاں تک کہ تم لوگ قبروں تک پہنچ گئے‘‘۔

آیت میں ’تکاثر ‘( مال و دولت میں زیادتی کی خواہش اور اس کے لیے مقابلہ آرائی) کی سب سے بڑی خرابی واضح کرتے ہوئے اس سے متنبہ کیا گیا ہے کہ انجام کے اعتبار سے یہ موجبِ تباہی ہے۔ ’تکاثر ‘ کے لفظی معنی مختلف طور پر بیان کیے گئے ہیں: زیادتی کی خواہش یا طلب رکھنا ، طلبِ مال میں مسابقت، مال و اولاد یا دوسری چیزوں پر آپس میں فخر جتانا یا شیخی بگھارنا، زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر مال یا کوئی دُنیوی سامان حاصل کرنے کی دُھن میں لگا رہنا۔ ان تشریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کے مفہوم میں چار باتیں لازمی طور پر شامل ہوتی ہیں: کسی چیز کی محبت، اس کی حرص اور اس کے حصول میں دوسرے سے مقابلہ آرائی اور حاصل ہوجانے پر فخر جتانا (تفہیم القرآن، ج۶، ص۴۴۲)۔

اس میں شبہہ نہیں کہ دنیا میں ز یب و زینت اور من پسند کی بہت سی چیزیں ہیں جن کی چاہت و طلب میں ضرورت سے زیادہ یا حد درجہ مصروف ہوکر انسا ن روز مرہ زندگی میں، اللہ ربّ العزت کی یاد اور اس کی ہدایات سے غافل ہوجا تا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی محبوب چیزوں (یا د نیوی لذّات) میں ذکرِ الٰہی،عبادتِ الٰہی اور اتباعِ حکمِ الٰہی سے سب سے زیادہ غافل کرنے والی چیز مال کی محبت اور اس کے جمع کرنے( یا سمیٹنے ) اور اس میں اضافے کی حرص ہے ۔ حرص وطمع اور دوسروں سے مقابلہ آرائی میں زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی چاہت مختلف چیزوں (مال و دولت، زمین و جائیداد ، سماجی و سیاسی اثر و رسوخ یا اقتدار اور عہدہ و منصب،دنیوی لذّات وغیرہ) میں ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ عام مشاہدہ ہے کہ یہ طلب یا چاہت سب سے زیادہ مال و دولت کے ضمن میں نظر آتی ہے۔ مال کی لالچ اور ہوس رکھنے والے کو چین نہیں نصیب ہوتا، اس لیے کہ اس کے نفس میں ھل من مزید کی باز گشت آتی رہتی ہے ۔

  • مال  و دولت سامانِ آزمایش:یہ واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں مال و دولت اور دنیا کی دوسری چیزوں کو زیب و زینت سے تعبیر کیا گیا ہے اور انھیں ’ فتنہ‘ (وجہِ آزمایش) کہا گیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ۝۰ۙ وَّاَنَّ اللہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝۲۸ۧ (الانفال ۸:۲۸) ’’ اور جان لو کہ تمھارے مال و تمھاری اولاد( تمھارے لیے) فتنہ (سامانِ آزمایش) ہیں اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے‘‘۔

اس آیت کی تشریح میں صاحب ِ تفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں: ’’ در اصل دنیا کی امتحان گاہ میں یہ (مال و اولاد) تمھارے لیے سامانِ آزمایش ہیں۔جسے تم بیٹا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پرچہ ہے ۔اور جسے تم جائیداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی در حقیقت ایک دوسرا پرچۂ امتحان ہے۔یہ چیزیں تمھارے حوالے اسی لیے کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے سے تمھیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق ا و ر حدود کا لحاظ کر تے ہو،کہاں تک ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوئے جذبات کی کشش کے باوجود راہِ ر است پر چلتے ہو، اور کہاں تک اپنے نفس کو،جو ان دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے،اس طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندۂ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرتِ حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے‘‘ ( تفہیم القرآن، ج۶، ص ۱۴۰،حاشیہ نمبر۲۳)۔

اسی ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی ملاحظہ فرمائیں : اِنَّ  لِکُلِّ اُمَۃٍ فِتْنَۃٌ وَ فِتْنَۃُ اُمَّتِی اَلْمَالُ ( جا مع ترمذی، ابواب الزہد،باب ما جاء اِنَّ فتنۃ ھٰذہ الامّۃ  فی المال ) ’’ہرامت کے لیے کوئی نہ کوئی چیز وجہِ آزمایش ہوتی ہے، میری امت کے لیے آزمایش مال ہے‘‘۔

مال سب سے بڑی آزمایش اس وجہ سے ہے کہ اس کی محبت انسان کی سرشت میں داخل ہے ۔ارشادِربانی ہے: وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ۝۸ۭ  ( العٰدیٰت۱۰۰:۸)[ اور وہ بے شک مال کی محبت میں بہت سخت ہے]۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان مال سے صرف محبت نہیں،بلکہ شدید محبت رکھتا ہے۔ اور یہ فطری بات ہے کہ جو چیز انسان کو محبوب ہوتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے خوب دوڑ بھاگ کرتا ہے اور اسے کثیر مقدار میں اپنے پاس رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔ ایک اور آیت (اٰل عمرٰن۳:۱۴) میں واضح طور پر انسان کو خبر دار کردیا گیا کہ مال کے علاوہ اور کون سی پسندیدہ چیزیں ہیں جن کی محبت ان کے دلوں میں بطور آزمایش رچا بسا دی گئی ہے:

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِمِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ          الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۝۱۴ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴) لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس___عورتیں،اولاد، سونے چاندی کے کھنکھناتے ڈھیر،عمدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں [اور ان کی پیداوار] بڑی خوش نما بنا دی گئی ہیں،مگر یہ سب دنیا کے چند روزہ سامان ہیں، اور[سچ یہ ہے کہ] بہترین ٹھکانا اللہ کے یہاں ہے۔

  • مال کمانے کی حرص:واقعہ یہ ہے کہ جب انسان کو کسی چیز کی شدید چاہت ہوتی ہے تو یہ رفتہ رفتہ حرص یا لالچ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اس کا کچھ حصہ اسے مل جاتا ہے تو اسے بڑھانے کی فکر میں لگا رہتا ہے،یہاں تک کہ ایک طلب پوری نہیں ہوتی کہ دوسری طلب پیدا ہو جاتی ہے، یعنی کچھ اور،کچھ اور کی چاہت اسے چین نہیں لینے دیتی۔ایک حدیث میں بڑے ہی مؤثر اسلوب میں انسان کی اس کیفیت کی عکّاسی کی گئی ہے ۔ ملا حظہ ہو: حضرت عبد اللہ ابن زبیرؓ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ أُعْطِيَ وَادِيًا مَلأً مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ اِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ أُعْطِيَ ثَانِيًا أَحَبَّ اِلَيْهِ ثَالِثًا ، وَلاَ يَسُدُّ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ  اِلَّا التُّرَابُ وَيَتُوبُ اللهُ عَلٰى مَنْ تَابَ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب ما یتّقٰی من فتنۃ المال وقول اللہ تعالٰی   اِنَّـمَا امْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُم فِتْنَۃٌ ) اگر کسی شخص کو ایک وادی بھر سونا دے دیا جائے تو وہ دوسری وادی بھر سونا کی خواہش کرے گا۔اگر اسے سونا بھری دوسری وادی مل جائے تو تیسری کی آرزو میں گرفتار ہوجائے گا۔(حقیقت یہ کہ) انسان کے پیٹ کو (قبر کی) مٹّی کے سوا اور کوئی چیز بند(بھر) نہیں کر سکتی، اور اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو (گناہ کے ارتکاب کے بعد) اس سے توبہ کر لیتا ہے۔ 

بلاشبہہ دل میں مال کی محبت بیٹھ جانا ، بہت زیادہ مال و اسباب جمع کرنے کا حریص ہونا، رات دن اسی میں سرگرداں رہنا اور پھر اپنے ذخیرۂ مال پر فخر وناز کرنا ناپسندیدہ روش ہے، جو دُنیوی و اُخروی دونوں زندگی میں تباہی کا موجب بنتی ہے۔ یہ نکتہ ان آیات پر غور و فکر سے بہت واضح طور پر سامنے آ تا ہے جن میں مال و اولاد کو فتنہ (یعنی آزمایش کا سامان ) کہا گیا ہے اور اس کے فوراً بعد اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی ہے(الانفال۸:۲۹؛ التغابن ۶۴:۱۶)، یعنی اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ مال و دولت حاصل کرنے ، اسے خرچ کرنے اور آل واولاد کی پرورش و پرداخت کرتے ہوئے اللہ کے رُوبرو حاضری اور جواب دہی سے ڈرتے رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان ان کاموں کو کرتے ہوئے شریعت کے احکام کو توڑ کر ربَّ کریم کی ناراضی مول لے لو۔رہا یہ مسئلہ کہ مال و اوالاد سے متعلق معاملات میں ضرورت سے زیادہ یا خلاف ِ شریعت مصروفیات میں دین کے اعتبار سے سب سے بڑا نقصان کیا ہے؟، قرآن کی مختلف آیات کی روشنی میں اسے اس طور پر بیان کیا جا سکتا ہے : اللہ کی یاد سے غافل ہوجا نا،فرائض کی ادائیگی میں لاپرواہی برتنا اور اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتا ہی کرنا، عاقبت کو خراب کردینا۔ ارشادِربّانی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۝۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹ ( المنٰفقون ۶۳:۹) ، اے ایمان والو! تمھارے  مال و تمھاری اولاد تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو کوئی ایسا کریں گے وہ[یقیناً بڑے]گھاٹے میں ہوں گے۔  

  یعنی اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو ، مال کی طلب میں اس درجہ منہمک نہ ہو جائو کہ اللہ کو یاد کرنا بھول جائو، اور اپنی اولاد کی محبت میں ایسا کام نہ کر ڈالو کہ اللہ ناراض ہوجائے ۔ یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں کہ اللہ کی یاد سے غافل ہوجانے کا مطلب محض زبان سے ذکر ،تسبیح واوراد کے کلمات کی ادائی بھول جا نا نہیں ہے،بلکہ اس میں اس کے احکام کو بھول جانا یا ان کی خلاف ورزی کرنا سب کچھ شامل ہے ۔

مال ا ور دنیوی ساز وسامان کی حرص، دینی اُمور کے لیے کس قدر خطرناک ہے اسے ایک حدیث میں بڑے مؤثر انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ حضرت کعب ابن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے [وہ بکریوںکو] اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے د ین کو پہنچاتی ہے ( جامع ترمذی)

واقعہ یہ ہے کہ تکاثر (ضرورت سے زیادہ مال و اسباب جمع کرنے کا حریص ہونا اور مقابلہ آرائی کرنا اور اس پر فخر و غرور کا مظاہرہ کرنا) بجائے خود ایک کھلی بر ا ئی ہے اور بہت سی دیگر برائیوں کو جنم دینے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ ان میں خاص طور سے بخل و ذخیرہ اندوزی، حسد و جلن، بددیانتی و دھوکادہی ، ریا ونمود اور فخر وناز کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔

  • مال و دولت کی فراخی آزمایش کا سبب:یہاں یہ واضح رہے کہ مال و دولت کمانا اور اس کے میسر آنے پر خوشی کا اظہار ناپسندیدہ و معیوب نہیں، لیکن مال و دولت مل جانے یا جمع ہوجانے پر بے قابو ہوجا نا،غیر معتدل رویہ اختیار کرنا اور پھر طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوجانا کسی بھی صورت میں پسندیدہ روش نہیں ہے، جیسا کہ ایک حدیث سے یہ قیمتی نکتہ سامنے آتا ہے:

ایک مرتبہ ایک صحابی بحرین سے جزیہ کی صورت میں کچھ مال لے کر مدینہ واپس ہوئے اور دوسرے صحابہ کو بھی اس کی خبر ہوگئی۔ نمازِفجر کے بعد آپؐ نے تبسم فرماتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمھیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ بحرین سے مال آیا ہے؟انھوں نے جواب میں کہا:ہاں، اے اللہ کے رسولؐ۔ آپؐ نے فرمایا: واقعی مال آیا ہے،خوش ہوجائو اور ہمیشہ مسرت بخش چیزوں کی اُمید رکھو  [لیکن یہ بھی سن لو] قسم اللہ کی کہ مجھے تمھارے بارے میں فقر سے اندیشہ نہیں [کہ وہ تم میں فساد پیدا کرے گا]، بلکہ یہ اندیشہ [ضرور] ہے کہ تمھارے لیے دنیا[کے مال و دولت]کی فراخی کر دی جائے گی،جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی تھی،پھر تم اس میں اسی طرح رغبت و مقابلہ آرائی کروگے جیسے تم سے پہلے لوگوں نے کیا تھا۔ [ آخر کار ] یہ روش تمھارے لیے تباہ کن ثابت ہوگی جس طرح اس نے انھیں ہلاک کردیا تھا (صحیح بخاری،کتاب الجزیہ والموادعۃ ،باب الجزیہ والموادعۃ مع اہل الذمۃ و الحرب)۔

اس روایت کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں لکھتے ہیں: ’’ یعنی فقر و افلاس کی وجہ سے آدمی فتنہ و آزمایش میں پڑ سکتا ہے،لیکن اس سے بڑھ کر اس کے بارے میں اندیشہ اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ اس کے لیے مال و متاع کی راہیں کھل جائیں اور وہ دولت کی چاہت میں اپنی اصل ذمہ داریوں کو فراموش کر بیٹھے۔ اسے اگر دُ ھن ہو تو صرف اس بات کی کہ کتنی جلد وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ سمیٹ لے۔وہ حرص کا ایسا بندہ بن کر رہ جائے کہ نہ اسے فقراء و مساکین پر رحم آئے اور نہ اپنی دولت کو راہِ خدا میں صرف کرسکے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ضروریات سے بڑھ کر کسی شخص کے پاس دولت جمع ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا قوی اندیشہ ہو جاتا ہے کہ کہیں وہ دنیا میں اس طرح نہ منہمک ہوجائے کہ نہ اسے خدا یاد آئے اور نہ اسے آخرت کی کوئی فکر دامن گیر ہو‘‘ (کلامِ نبوت، نئی دہلی، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۴۵۵-۴۵۶)۔

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کا میسر آنا یا کثیر مقدار میں اس کا حصول اسلام میں ممنوع یا ناپسندیدہ نہیں ہے، بلکہ اس کے حصول کے بعد جائز و ناجائز بھول کر زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی شدید خواہش کا پیدا ہوجانا معیوب اور نقصان دہ ہے۔ اس حدیث کے آخری حصہ فتنافسوہا کما تنافسوہا سے اسی نکتہ کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ لفظ’ تنافس ‘ کا ترجمہ بالعموم رغبت و شدید خواہش کیا جاتا ہے۔

 اگر اہلِ کتاب کے اطوار و احوال کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی خرابیوں یا برائیوں میں یہ مذموم حرکت بھی شامل تھی،جیسا کہ بعض آیات (المائدۃ۵:۶۲) سے صاف واضح ہوتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں ان کی بھاگ دوڑ کا اصل میدان یہی تھا۔مال و دولت کی محبت و حرص نہ صرف یہ کہ ان کے دل ودماغ میں رچی بسی تھی اور اپنے خزانے میں اضافے کی خاطر جائز وناجائز کا لحاظ کیے بغیر مختلف ذر ائع اختیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ چھوڑتے تھے اور دوسروں سے بازی مار لے جانے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔

  • حرص و بخل کے مرض سے دوچار: امر واقعہ ہے کہ جب کسی چیز کی محبت دل میں گھر کر لیتی ہے، تو اس کے ساتھ حرص و بخل دونوں (بظاہر متضاد) برائیاں اس کے دل میں پرورش پاتی ہیں اور یہ مال کی محبت او ر دیگر برائیو ں ( بالخصوص حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں کی خلا ف ورزی) پر اُبھارتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کے دل میں یہ خیال جم جاتا ہے کہ اگر جمع شدہ پونجی میں سے کچھ خرچ کرے گا تو اس میں کمی آجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اس عمل کو ایک اعلیٰ درجے کی نیکی قرار دیا گیا ہے کہ مال کی شدید محبت وچاہت کے باوجود اسے نیک کاموں میں خرچ کیا جائے۔

یہ آیت ایک بندئہ مومن کے اسی وصف ِ خاص کی ترجما ن ہے: وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ (البقرۃ۲:۱۷۷) [اور وہ مال کی محبت کے باوجود اسے اہلِ قرابت، یتیموں اورغریبوں پر خرچ کرتا ہے] ۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ملتی ہے جس میں یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ اجر کے اعتبار سے وہ صدقہ سب سے بڑا ہے کہ جسے کوئی اس حال میں کسی کو دے کہ وہ صحیح و تندرست ہو اور صدقہ میںدینے والے مال کی حرص میں ڈوبا ہوا ہو اور بخل میں بھی اس بُری طرح مبتلا ہو کہ فقر کے ڈر سے مال نہ خرچ کرتا ہو اور زیادہ مال کا امیدوار یا خواہش مند ہو۔

 حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق ایک صحابیؓ کے اس سوال پر کہ اَ یُّ الصَّدَقَۃِ اَعْظمَ اَجْرًا ؟ [کون سا صدقہ اجر کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہے؟] کے جواب میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَنْ تَصَدَّقَ وَاَنْتَ صحیحٌ شَحِیح ،تَخْشٰی الْفَقْرَ وَتَأ مَلُ الْغِنٰی (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ،باب بیان افضل الصدقۃِ صدقۃُ الصحیحِ الشحیحِ) [ تم صدقہ کرو اس حال میںکہ تم صحت مند ہو،(مال کے) حریص ہو،فقر سے خوف کھاتے ہو اور مال داری کے اُمیدوار یا خواہش مند ہو]۔

حقیقت یہ کہ حرص ایسی بُر ی بلا ہے کہ وہ چین نہیں لینے دیتی۔ کچھ مال جمع ہوجانے اور اس کی لذت ملنے پر مزید کی طلب بھڑکتی رہتی ہے،پھر کچھ اور پونجی ہاتھ آگئی تو بھی اسے سکون نہیں ملتا اور نفس کی خواہشات کا تابع ہو کر وہ مزید کی طلب کا غلام بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و اسباب کی حرص اور انھیں بڑھانے کی شدید خواہش میں گرفتار شخص سوچتا رہتا ہے کہ فلاں کے پاس مال و دولت کا اتنا ڈھیر ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟ اس کے پاس اتنے وسائل ہیں تو ہم کیوں نہ بھاگ دوڑ کریں؟ جناب حفیظ میرٹھی کا یہ شعر اسی صورتِ حال کی بہترین ترجمانی کررہا ہے:

بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تری دیوار سے اُونچی مری دیوار بنے 

  • زیادہ جائیدادیں بنانے سے گریز: مال و اسباب بڑھانے کی شدید طلب رکھنے والوں یا تکاثر کا رویّہ اپنانے والوں سے قرآن کریم میں ایک جگہ اس انداز سے خطاب کیا گیا ہے:

اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَ۝۱۲۸ۙ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ۝۱۲۹ۚ (الشعراء ۲۶:۱۲۸-۱۲۹) کیا تم لوگ ہر اونچے مقام پر ایک لا حاصل یا بلا ضرورت عمارت [اپنی]نشانی کے طور پر بنا تے ہو اور[اسی طرح بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو گویا تمھیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے]۔

 یعنی محض اپنی شان و شوکت کے مظاہرے یا دوسروں کی دیکھا دیکھی اور ان سے مقابلہ آرائی میں بلا ضرورت اونچی اونچی اور مضبوط عمارتیں تعمیر کرتے ہو۔ تمھارے اس طرزِ عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمھیں موت نہیں آنی ہے اور ہمیشہ ہمیش اِسی دنیا میں رہنا ہے ۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ تحریر فرماتے ہیں:’’ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اورتعمیرات کرنا شرعاً بُرا ہے۔ امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے کہ النَّفَقَۃُ کُلُّہَا فِیْ  سَبِیْلِ اللہ ِ اِلَّا الْبِنَاءَ  فَلَا خَیْرَ  فِیْہِ ،یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری و بھلائی نہیں۔ اس معنی کی تصدیق حضرت انسؓ کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے:  اَمَا اِنَّ کُلُّ  بِنَائٍ   وَبَالٌ عَلٰی صَاحِــبِہٖ  اِلَّا مَا لَا  اِلَّا مَا لَا  یَعْنِیْ مَا لَا بُدِّ مِنْہُ (ابو داؤد) ، یعنی ہرتعمیر صاحبِ تعمیر کے لیے مصیبت ہے مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے (معارف القرآن، ج۶،ص ۵۳۷-۵۳۸)۔

واقعہ یہ ہے کہ مال و جائیداد کے حریص اور تکاثر کی راہ اختیار کرنے والوں کی پوری عمر ان چیزوں کو بڑھاتے رہنے کی بھاگ دوڑ میں گزر جاتی ہے ،یہاں تک کہ قبر میں ان کے جانے کا وقت آجاتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں بڑے مؤثر انداز میں ا سی کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے کہ ایک شخص کو اگر ایک وادی بھر سونا ہاتھ آجاتا ہے، تو وہ سونے بھری دوسری وادی کی طلب میں سر گرداں رہتا ہے،پھر تیسری و چوتھی کی فکر اسے دامن گیر ہوجاتی ہے، یعنی وہ مال و دولت کی محبت و لالچ کے اسی ختم نہ ہونے والے چکّر میں پڑ ا رہتا ہے ،یہاں تک زیرخاک ہوکر مٹّی میں مل جاتا ہے۔

اس صورت حال کے پس منظر میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان بڑی معنویت ر کھتا ہے: لَا تَتَّخِذُوا الضیعۃَ فترغَبُوْا فِیْ الْدُّنْیَا (جامع ترمذی، ابواب الزہد، باب لَا تَـتَّخذوا الضیعۃَ فترغَبُوْا فِیْ الدُّنْیَا) [زیادہ ] زمین و جائیداد نہ بنا ئو ورنہ دنیا یا دنیا کے مال ومتاع کی لالچ تمھیں اپنے گھیرے میں لے لے گی [جس سے پھر تم نکل نہیں پائو گے] ۔ اس حدیث کی تشریح میں ہے: ’’الضیعۃ سے مراد زمین،صنعت وزراعت اور کاروبار ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان میں اتنا زیادہ انہماک اور دلچسپی نہیں ہونی چاہیے کہ انسان کا مقصدِزندگی رضائے الٰہی کے بجائے یہی چیزیں بن جائیں اور اس کے شب وروز اسی تگ و دو میں صرف ہوں،ورنہ حسبِ ضرورت و کفایت تو زمین، کاروبار اور جائیداد وغیرہ بنانا اور رکھنا سب جائز ہے، ممنوع نہیں۔

  • دُنیا کی حقیقت پر نظر: رہا یہ سوال کہ تکاثر کے مہلک رویہ سے کیسے بچا سکتاہے، اس برائی سے کیسے نجات مل سکتی ہے یا اس راہ پر چلنے سے باز رہنے یا باز رکھنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟

اس مقصد سے قرآن کریم میں غور وفکر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ا نسان کی ذہنی و فکری اصلاح یا ا س کی اندرونی حالت سدھار نے کی زیادہ اہمیت ہے ۔ قرآن کریم دنیا کے تعلق سے اس پہلو سے انسان کی ذہن سازی کرتا ہے کہ اس عارضی جائے قیام کا مال و متاع فانی ہے، کتنا بھی مال و اسباب جمع ہوجائے وہ کم ہوکے یا ختم ہو کے رہتا ہے۔ یہاں سے رخصتی کے وقت یہ سب چیزیں انسان کا ساتھ چھوڑ دینے والی ہیں، تو پھر ایسی چیزوں سے لو لگانے، دن رات ان کی خاطر دوڑ بھاگ کرنے، مال و دولت کا خزانہ جمع کرنے اور اس میں اضافے کی خاطر ساری توانائیاں صرف کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر دُنیوی مال ومتاع کے لیے حرص و ہوس کی عکاسی بڑے مؤثر اسلوب میں کی گئی ہے: وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۝۰ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۝۰ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۝۶۴ (العنکبوت ۲۹:۶۴)’’یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے، مگر ایک کھیل اوردل کا بہلاوا،اصل زندگی تو دارِ آخرت ہے، کاش لوگ (اس حقیقت کو) جان لیتے‘‘۔

ایک دوسری آیت میں دنیا کی زیب و زینت کو مزید واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے:

خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل و دل لگی اور ظاہری ٹیپ و ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے،جیسے بارش ہوگئی تواس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے،پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی،پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔اس کے برخلاف آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہےاور اللہ کی مغفرت اور خوش نودی ہے۔[ یہ یقین کر لو] دنیا کی زندگی ایک دھوکا کی ٹٹّی کے سوا کچھ نہیں ہے۔(الحدید ۵۷ :۲۰ )

 یہ آیت بہت ہی واضح انداز میں انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ دُنیوی زندگی اور اس کا ساز وسامان محض زیب و زینت ہے۔ مال واولاد کی کثرت پر انسان چاہے کتنا مگن ہوجائے ، جس قدر چاہے فخر جتا ئے، اسے بقا وپائے داری نہیں،بس ایک فریب ہے جو کچھ ہی دنوں بعد ہوا ہوجا ئے گا۔

اس آیت کی تشریح میں سیّد قطب شہید رقم طراز ہیں:’’مطلب یہ کہ اس کھیتی کا ایک وقت مقرر ہے جو بہت جلد پورا ہوجاتا ہے،اس کے بعدیہ کھیتی اپنی آخری عمر کو پہنچ جاتی ہے۔ اس متحرک تصویر کے ساتھ جو انسانوں کے روز مرہ مشاہدات سے ماخوذ ہے پوری زندگی کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور حیاتِ دنیا کا یہ اختتام کھیتی کے چورا چورا ہونے کے منظر سے صاف دکھائی دیتا ہے۔رہی آخرت تو اس کی حیثیت اس سے بالکل مختلف ہے اور اس کی حیثیت اس قابل ہے کہ اس کی طرف توجہ دی جائے ،اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اس کے لیے تیاری کی جائے۔ یہ ( آخرت) دنیا کی طرح پلک جھپکتے گزر جانے والی نہیں ہے اور نہ اس کا انجام اس کھیتی کے چورا جیسا ہے جس کی عمر پوری ہوچکی ہو،یہاںتو اعمال کا حساب و کتاب ہونا ہے اور اس پر جزا و سزا ملنی ہے اور آخرت کی دائمی زندگی ہے،اس لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس(دنیا کی) متاع کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس کا وجود تو بس ایک فریب اور دھوکے سے عبارت ہے، یہ غفلت و خود فراموشی میں مبتلا کرتی ہے جس کا نتیجہ دھوکا اور فریب کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوتا‘‘ ( سید قطب شہید، ترجمہ: سیدحامدعلی،تفسیر فی ظلال القرآن ،ج ۱۶،ص ۵۵-۵۶)                            

اسی طرح سورۂ یونس کی آیت۲۴ میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو سر سبز و شاداب اور پیداوار سے بھرے کھیت کو دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں،اسے محض اپنی محنت یا دوڑ دھوپ کا ثمرہ اور اپنی اہلیت و صلاحیت کی کارستانی سمجھتے ہیں اور منعمِ حقیقی کو بھول جاتے ہیں، اس کا شکر بھی نہیں ادا کرتے:

دنیا کی یہ زندگی،اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے انسان و جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہوگئی،پھر عین اس وقت، جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک اس گمان میں تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کوہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کرکے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (یونس۱۰:۲۴)

  • نیکی کی راہ میں سبقت:یہاں یہ ذہن میں رہے کہ دنیوی زندگی کی بہتری و ترقی کے لیے جد و جہد قرآن کی نظر میں معیوب نہیں بلکہ وہ اس کی ترغیب دیتا ہے، لیکن وہ اہلِ ایمان کے لیے کوشش اور بھاگ دوڑ کا اصل میدان نیکی کمانا یا خیر کی طلب میں آگے بڑھنا مقرر کرتا ہے۔ قرآن کریم بار بار انسان کو یہ قیمتی نکتہ ذہن نشیں کراتا ہے کہ آزمایش بھری اس دنیا میں اس کے لیے حقیقی کامیابی کا راز اس میں ہے کہ وہ نیکی کی راہ میں مسابقت کو اپنا ٹارگٹ بنائے:

سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۝۰ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۝۲۱ (الحدید۵۷:۲۱) اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت آسمان اور زمین کے مثل ہے۔یہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوںؑ پر ایمان لائے۔یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

واضح رہے کہ قرآن کریم دنیوی زندگی میں نہ تگ و دو اور جدّ وجہد کا مخالف ہے اور نہ دوسروں سے مقابلہ آرائی کو ناپسند کر تا ہے، بلکہ یہ کتابِ ہدایت مقابلہ کے رخ کو صحیح کرنے اور اسے ایک عظیم مقصد ( حقیقی کامیابی کے حصول ) سے مربوط کر نے کی دعوت دیتی ہے ، جیسا کہ سورۃ الحدید کی آیت۲۱ سے صاف طور پر واوضح ہوتا ہے :سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ ’’اپنے رب سے مغفرت طلبی اور جنت کے حصول کے لیے ایک د وسرے سے آگے بڑھو‘‘،یعنی مغفرت و رضائے الٰہی کی طلب ہی در اصل مومن کے لیے مسابقت کا اصل میدان ہے۔

قرآن کی یہ دعوت دوسرے مقامات پر بھی ملتی ہے: وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۳ ( اٰل عمرٰن ۳: ۳۳ا) ’’ اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے لیے آگے بڑھو جس کی وسعت آسمانوں و زمین کی طرح ہے۔ یہ پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔پھر ایک اور مقام پر بہت ہی واضح انداز میں مومنین کو خیر کی طلب میں مسابقت یا آگے بڑھنے کی دعوت دی گئی ہے: وَلِكُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَمُوَلِّيْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۝۰ۭ۬ (البقرۃ۲:۱۴۸)’’ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے۔ وہ اسی کی طرف رخ کرنے والا ہے، تو تم نیکیوں کی راہ میں سبقت کرو‘‘(نیز دیکھئے: المائدۃ: ۵؍ ۴۸ ؛ المومنون:۲۳؍۶۸)۔

  • مالِ دُنیا کی حقیقت: مال واسباب میں سے وہی کام آتا ہے یا آئے گا جس سے انسان اپنی ضروریات پوری کرلے یا جسے کسی کارِخیر میں لگا دے اور اس کا اجر ہمیشہ ہمیش کے لیے مالک المُلک کے پاس محفوظ ہوجائے۔ انسان بالخصوص تکاثر کی راہ اپنانے والوں کو سورۃ النحل کی آیت۹۶ یہی پیغام دے رہی ہے: مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ۝۰ۭ ’’ تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہوجائے گا اور اللہ کے پاس جو کچھ (اس کااجر) ہے وہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔

ظاہر ہے کہ اللہ کے پاس جو کچھ باقی رہنے والا ہے اس سے مراد کسی کارِ خیر یا محتاج بندوں کی ضروریات کی تکمیل میں صرف کیے گئے مال کا اجر و ثواب ہے، جو اللہ کے پاس محفوظ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتابِ ہدایت میں اصحاب ِ مال کوبار بار یہ تاکید کی ہے کہ وہ (اپنی جائز ضروریات کی تکمیل کے بعد) کارِخیر میں اپنا مال خرچ کرتے رہیں، اس سے پہلے پہلے کہ ان کی موت کا وقت آجائے اور خاص طور سے سورۃ المنافقون کی آخری آیات بہت ہی واضح انداز میں یہ پیغام دے رہی ہیں۔ اسی ضمن میں عبد اللہ ابن شِخِّیر سے مروی ایک حدیث نبویؐ کا حوالہ بھی بر محل معلوم ہوتا ہے :

قَالَ اَتَیْتُ النَبِیَّ وَھُوَ یَقْرَ ئُ اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ فَقَالَ یَقُوْلُ اِبْنُ آدَمَ مَالِیْ، مَالِیْ قَالَ وَھَلْ لَکَ یَا اِبْنَ آدَمَ مِنْ مَالِکَ اِلَّا مَااَکَلْتَ فَاَفْنَیْتَ اَوْ لَبِسْتَ فَابْلَیْتَ اَوْ تَصدَّقْتَ فَاَمْضَیْت ( صحیح مسلم، کتاب الزہد،باب الدنیا سجن للمؤمن وجنّـۃ للکافر) حضرت عبد اللہ ابن شخّیر سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ تلاوت فرمارہے تھے ، پھر آپؐ نے فرمایا: انسان کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالاں کہ انسان کا مال بس وہ ہے جو اس نے کھاکر ختم کردیا،پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے آگے ( آخرت کے لیے) بڑھادیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ مال جو مال صدقہ یا کسی کارِ خیر میں خرچ کرے یا کرتا ہے، وہی اس کے لیے ذخیرۂ آخرت بننے والا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ’تکاثر‘ کی راہ پر چلنے والے مال و دولت کے نہ صرف حریص ہوتے ہیں، بلکہ اسے بڑھانے کی فکر میں دن رات دوڑ دھوپ کرتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب، وہ مال خرچ کرنے سے کتراتے ہیں، اس لیے کہ وہ یہ گمان ر کھتے ہیں کہ اس سے مال کم ہوجائے گا۔اس طرح متضاد برائیاں ( حرص و بخل) ان کو اپنے گھیرے میں لیے رہتی ہیں۔

 قرآن اس پہلو سے بھی اصحابِ مال کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ کسی کو بھی کم وبیش جو کچھ مال ملتا ہے وہ اللہ کی نوازش ہوتی ہے۔ سارے خزانوں کا مالک وہی ہے،وہ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق کسی کو کم اور کسی کو زیادہ عطا فرماتا ہے (اٰل عمرٰن۳:۷۳-۷۴؛ العنکبوت ۲۹:۶۲)۔ اس میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں ،تو پھر کسی کے پاس زیادہ مال و دولت دیکھ کر اس سے حسد کے کیا معنی؟ مال و دولت کی ہوس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ کسی کے مال ودولت پر لالچ کی نظر ڈالنے کے بجائے جو کچھ ملا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکر اداکیا جائے اور قناعت کی راہ اختیار کی جا ئے، بلا شبہہ قناعت خود بہت بڑی دولت ہے۔ مال یا زیادہ مال کی طلب میں کوئی حرج نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اس کے لیے جائز ذرائع اختیا ر کیے جا ئیں اور اللہ کا فضل و کرم طلب کر نے کے لیے اس سے خوب دعائیں مانگی جائیں (النساء۴:۳۲)۔

اسی طرح یہ بھی ذہن میں رہے کہ کم یا زیادہ مال نصیب ہونے یا اس سے بالکل محروم رہنے وا لوں ،سب کو مالک الملک آزما تا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ دونوں صورتوں میں انسان کا کیا رویہ ہوتا ہے؟ کیا مال نصیب ہونے پر صاحبِ مال منعمِ حقیقی کو یاد کرتا ہے،اس کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کی عطا کردہ نعمت میں محتاجوں و غریبوں کو شریک کرتا ہے یا اسے بھول جاتا ہے، اس کی ہدایات سے غافل ہوجاتا ہے ، مال نصیب ہونے کے بعد وہ دوسروں پر ٖفخر جتاتا ہے اور تکبر کا رویہ اپناتا ہے؟ اسی طرح صاحبِ مال کو اس طور بھی آزمایا جاتا ہے کہ اسے جو کچھ مال و اسباب ملا ہوا ہے اس سے اپنی ضروریات کی تکمیل یا کسی نیک کام میں خرچ کر تا رہتا ہے یا دن رات اسے اور بڑھانے کے چکّر میں پڑا رہتا ہے: یہ آیت اسی حقیقت کی یاددہانی کرارہی ہے:

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۷ وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْہَا صَعِيْدًا جُرُزًا۝۸ۭ (الکہف۱۸: ۷-۸) ہم نے جو کچھ [ساز وسامان] زمین پر ہے اسے اس کے لیے زینت بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے ،آخر کار ان سب کو [ ختم کرکے ایک دن] چٹیل میدان بنادینے والے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں صاحبِ تفہیم القرآن  تحریر فرماتے ہیں: ’’ حقیقت یہ ہے کہ یہ سامانِ عیش نہیں،بلکہ وسائلِ امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کرکے دنیا کی ان دل فریبیوں میں گم ہوجا تا ہے اور کون ا پنے اصل مقام (بندگی ٔرب) کو یاد رکھ کر صحیح رویہ پر قائم رہتا ہے۔جس روز یہ امتحان ختم ہوجائے گا اسی روز یہ بساطِ عیش اُلٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی‘‘ ( تفہیم القرآن، ج۳،ص۱۰-۱۱)۔

دنیا کی چیزوں کی حقیقت سے متعلق قرآن کی اس وضاحت کے علاوہ بعض مقام پر خاص طور سے مال و دولت اور اولاد کی نسبت سے اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ ان کی حیثیت محض چند روزہ زیب وزینت کی ہے اور یہ سامانِ آزمایش ہیں، اصل میں نیکیاں ہی باقی رہنے والی اور موجبِ خیر بننے والی ہیں۔ ( الکہف ۱۸: ۴۶ ؛ اٰٰل عمرٰن۳:۱۸۶؛الانعام۶ :۱۶۵)۔

  • شکر کا جذبہ پیدا کرنے کی تدبیر: قرآن کریم و حدیث میں حرص و ہوس اور تکاثر سے دور رہنے کے لیے ایک اور نسخہ تجویز کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ دنیا کے مال و متاع کے باب میں اپنے سے کم پانے والوں یا بالکل محروم رہنے والوں پر نظر ڈالی جائے۔ ایسا کرنے سے بلاشبہہ شکرِ الٰہی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور حرص و لالچ کی کیفیت مردہ پڑجاتی ہے، انفاق کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور محروموں و محتاجوں کے معاملے میں ہمدردی و تعاون کی طرف قدم آگے بڑھتا ہے ۔

 ایک حدیث میں مال و دولت یا دُنیوی اسباب کی نسبت سے ان لوگوں پر نظر ڈالنے کی ہدایت دی گئی ہے جنھیں ا ن سے کم میسر ہے، اور انھیں دیکھنے سے منع کیا گیا ہے جو ان سے زیادہ مال و دولت والے ہیں، تاکہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کو حقیر نہ سمجھا جائے یا اس کی ناقدری کا جذبہ نہ پیدا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادِ گرامی ملاحظہ ہو:

اُنْظُرُوا اِلٰی مَنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَلَا تَنْظُرُوْااِلٰی مَنْ ھُوَ فَوْقَکُمْ فَھُوَ اَجْدَرُ اَنْ لَّا تَزْدَرُوْا نِعْمَۃاللہ ِ  عَلَیْکُمْ  (صحیح مسلم،کتاب الزہد، حدیث:۵۳۷۶)

اس ضمن میں اہم بات یہ کہ اگر کسی سے مذکورہ بالا ہدایت کی خلاف ورزی ہوجائے تو ایک دوسری حدیث میںاس کی تلافی کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے اوروہ یہ ہے:

قَالَ رَسُوْل اللہ  اذ ا نَــظَرَ اَحَدُکُمْ اِلٰی مَنْ فُضِّلَ عَلَیہِ مِنَ الْمَالِ والْخَلْقِ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی مَنْ ھُوَ اَسْفَلَ مِنْہُ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب لِینظُرَ الی من ھو اسفلَ منہ ولا ینظرْ الٰی من ھو فوقہٗ  ) جب تم سے کوئی مال اور اولاد کے باب میں اپنے سے افضل کسی شخص کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ ان چیزوں کی نسبت سے اپنے سے کم تر پرنظر ڈال لے۔

واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہ اور ضروری ہو گیا ہے کہ دنیا اور اس کے مال ومتاع سے متعلق قرآن کے بیان کردہ حقائق ہمیشہ ذہن میں تازہ ر کھے جائیں۔

  • آخرت میں جواب دہی کا احساس :ان سب کے علاوہ ایک ضروری بات یہ کہ اگر بعث بعد الموت،اللہ ربُّ العزت کے حضور حاضری،محاسبہ یا بازپُرس کا احساس دل میں نقش رہے اور ذہن میں تازہ ہوتا رہے اور قرآن و حدیث میں بیان کی گئیں نعمتوں سے بھری جنت ،ر نج و غم سے پاک اور فرحت بخش زندگی اور جہنم کی ہولناکیاں اور وہاں کی انتہائی تکلیف دہ و ذلت آمیز زندگی کے مناظر سامنے رہیں، تو کسی بھی برائی یا گناہ (چاہے اس کا تعلق تکا ثر سے ہو یا کسی اور بُر ے کام سے) کے کام کی طرف اٹھتے قدم رُک جائیں گے اور نیکیوں کی طرف قدم تیزی سے بڑھنے والے ہو جائیں گے۔ یہ حقیقت اُن آیات پر نظرڈالنے سے کھل کر سامنے آ جاتی ہے جن میں کسی بات یا کام کا حکم دینے یا کسی برائی سے باز رہنے یا گناہ کے کسی کام سے دور رہنے کی ہدایت کے فوراً بعد ایک دن موت کی حالت سے دوبارہ اٹھائے جانے،اللہ رب العزت کے حضور پیشی ، اعمال کے بارے میں باز پُرس ہونے ، دائیں یا بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیئے جانے اور پھر اسی کے مطابق جزا یا سزا ، جنت نصیب ہو نے یا جہنم میں ڈالے جانے کا بیان ملتا ہے۔مثال کے طور پر سورۃ الشعراء کی آیت۱۲۹ میں حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کے ان لوگوں پر نکیر کرنے یا انھیں متنبہ کرنے کے بعد جو محض شان وشوکت کے مظاہرے کی خاطر یا دوسروں سے مقابلہ آرائی میں بلاضرورت ہرمقام پر اپنی یادگار عمارتیں بنواتے رہتے تھے ، آخر میں ان سے یہ بھی فرمایا تھا : اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (الشعراء۲۶:۱۳۵) [مجھے تمھارے بارے میں ایک بڑے دن (روزِ جزا) کے عذاب کا خوف لاحق ہے]۔

 واقعہ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی پر ایمان اور اس میں پیش آنے والے احوال کو ذہن میں تازہ رکھنا ایک جانب نیک اعمال کے لیے زبردست محرک بنتا ہے تو دوسری جانب بُرائیوں ا ور گناہ کی باتوں و کاموں سے باز رکھنے کے لیے انتہائی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔اللہ کرے ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے اور روز مرہ زندگی میں ان سے کام لینے کی توفیق نصیب ہو، آمین!