رات کے گھپ اندھیروں میں جب پورا عالم محوِ استراحت ہوتا ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہوتا ہے‘ انسان‘ چرند‘ پرند‘ درند‘ غرض ہرمخلوق اپنے آشیانے میں دبکی پڑی ہوتی ہے کہ کچھ دیوانے نرم و گرم بستر چھوڑ کر محبوب حقیقی کی محبت سے سرشار یکلخت اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ برگزیدہ مخلوق ہے جس کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور ہیں۔ یہ لوگ زمین کی کور باطن مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل مگر آسمانی مخلوق کے سامنے روشن اور تابناک یوں جگمگاتے ہیں‘ جیسے زمین والوں کی نظر میں تارے۔ ان کے دلوں میں ایک سوز ہوتا ہے‘ ایک درد ہوتا ہے‘ جو ہر دم انھیں بے کل اور بے چین رکھتا ہے۔ ان کو اگر کوئی دھن ہے تو ایک ہی‘ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے۔
رات کا ایک بڑا حصہ گزر چکا ہے‘ تمام دنیاخوابِ غفلت میں مدہوش ہے اور یہ عاشق اپنے محبوب کے سامنے جھولی پھیلائے اس سے محبت کی بھیک مانگ رہے ہیں‘ آنسو بہا رہے ہیں۔ ادھر آسمانوں پر رحمت کے دروازے کھل رہے ہیں‘ حورانِ بہشت اپنی غمگین آواز میں ان کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں: ’کوئی ہے جو ہمیںحاصل کرے۔لیکن ان کی نگاہ ’یک بین‘ حوروں پر بھی نہیں پڑتی۔ ان کا منتہاے مقصود تو محبوب حقیقی کا وصال اوراس کی رضاجوئی ہے۔
اب رات کا آخری پہر ہے‘ رحمتوں کی موسلادھار بارش شروع ہوچکی ہے‘ اللہ سوال کرنے والوں کو عطا فرما رہے ہیں‘اعلان ہو رہا ہے: مانگو! کیا مانگتے ہو؟ جو مانگو گے عطا ہوگا۔ پھر رضاے الٰہی کے پروانے جاری ہونے لگتے ہیں۔ یہی ان کا مقصدحیات اور یہی ان کی معراج ہے‘ جس کی خاطر یہ روزانہ اپنے نرم نرم بستر اور میٹھی میٹھی نیند قربان کرکے اُٹھ بیٹھتے ہیں‘ اور دربارِ الٰہی میں پروانہ وار حاضر ہوجاتے ہیں۔ ان کے اسی حال کو شاعرمشرق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
واقف ہو اگر لذتِ بیداریِ شب سے
اُونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پُراسرار
ان سعید روحوں کی سعادت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ قرآن مجید میں فرما رہا ہے‘ فرمایا:
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ ۳۲:۱۶) ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں‘ اس طور پر کہ وہ ا پنے رب کو (ثواب کی) امید اور (عذاب کے) خوف سے پکارتے ہیں۔
علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یَدْعُوْنَ سے مراد یُصَلُّوْنَ ہے‘ یعنی رات کو نماز پڑھنا مراد ہے۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کھپانے والے ان جواں ہمت لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام و اکرام کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمھارے ناقص تصور اور تخیل سے بالا ہے:
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّـآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (السجدہ ۳۲:۱۷)
پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیاہے اس کی کسی تنفس کو خبر نہیں ہے۔
یہاں ان لوگوں کا انعام واضح طور پر بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گی ہے جس کو کوئی نفس نہیں جانتا۔ انعام کے اس اخفا میں اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے‘ نیز اس اخفا سے ان لوگوں کو شوق دلانا مقصود ہے جو اس عظیم عمل سے محروم ہیں۔
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ حضوؐر اور حضوؐر کے واسطے سے اُمت کو تہجد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) اور رات کو تہجد پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہے‘ بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔
مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل نماز تہجد کا حکم دیا گیا اور پھر مقامِ محمود‘ یعنی شفاعت کبریٰ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد کو مقامِ شفاعت حاصل ہونے میں خاص دخل ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۵‘ ص ۵۲۰)
اسی طرح متعدد احادیث میں بھی نماز تہجد کی فضیلت وارد ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: اے لوگو! سلام پھیلائو اور کھانا کھلائو اور رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو۔ (اگر ایسا کرو گے) تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے۔(ترمذی)
عام طور پر لوگ ان اعمال کو بالکل معمولی سمجھتے ہیں لیکن قدر شناسوں سے پوچھیے کہ یہ کیسی دولتِ بے بہااور انمول خزانے ہیں اور پھران پر کوئی زیادہ محنت بھی خرچ نہیں ہوتی‘ بس ذرا سی ہمت چاہیے۔ خود حضور علیہ السلام کی شان یہ تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تہجد میں قیام کرتے کرتے آپؐکے پائوں میں پھٹن آجاتی تھی۔ آگے چل کر فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ آپؐ کے لیے بخشش لکھ دی گئی ہے۔ پھر آپؐ کیوں اتنی مشقت برداشت فرماتے ہیں تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: افلا أکون عبداً شکوراً ،کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟
یہ اس ذات اقدس کا حال ہے جس کے لیے سب سے پہلے جنت میں داخلے کا وعدہ ہے۔ ایک ہم ہیں کہ گناہوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں‘ پھر بھی آخرت کی فکر نہیں‘اعمال کا شوق نہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو جنت کا طلب گار نہ ہوگا لیکن کبھی ہم نے اپنے اعمال کا موازنہ کیا؟ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ہمیں جنت کا حق دار ثابت کرسکیں؟ کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی راتیں نورانی ہیں اور کیا سعادت مند ہیں وہ نوجوان جواس جوانی میں لذتِ بیداریِ شب سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان روزِ قیامت ربِ ذوالجلال کے عرش تلے ہوںگے جس دن اس کے عرش کے سوااور کوئی سایہ نہ ہوگا۔
اے جوانانِ سعادت مند! یہ نعمت اتنی سستی نہیں‘ اس کے لیے آہ سحرگاہی کو اپنانا ہوگا‘ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مالک کو منانا ہوگا‘ اس کے سامنے جھولی پھیلا کر گڑگڑانا ہوگا‘ تب جاکر رضاے الٰہی کا گوہر مقصود حاصل ہوگا۔
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور ان سے ان کا حال دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’عبارات اُڑ گئیں‘ اشارات سب فنا ہوگئے اور ہمیں نفع نہیں دیا مگر ان چند رکعات نے جو ہم نے آدھی رات میں ادا کی تھیں‘‘۔ (تفسیر عزیزی)
میں نے ایک صاحبِ دل سے بارہا سنا‘ فرماتے تھے: ’جس کو جو کچھ ملا ہے تنہائی میں ملا ہے‘۔
اسی بات کو اقبال مرحوم نے یوں سمجھانے کی کوشش کی ؎
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی
صدہزار آفرین ان لوگوں پر جو راتوں کو اُٹھتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ رازو نیاز میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو اوج ثریا پر پہنچتے ہیں‘ ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور زمانے میں علم و حکمت کا آفتاب بن کر چمکتے ہیں کہ جس کی ضیاپاشیوں سے ایک عالم منور ہوتا ہے۔ افسوس صدافسوس ہم پر کہ دن رات ہم جن مقدس ہستیوں کا نام لیتے ہیں اور ان کے مراتب تک پہنچنے کے لیے آہیں بھرتے ہیں‘ان کی زندگی کے عملی گوشے کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ آج بھی ہم ان جیسا اخلاص و عمل اپنے اندر پیدا کرلیں تو ہم میں بھی رومی‘ رازی و غزالی پیدا ہوسکتے ہیں۔ آج بھی عقل کو خیرہ کرنے والی علمی و اصلاحی خدمات دوبارہ وجود میں آسکتی ہیں‘لیکن اس کے لیے اسلاف کی طرح ہمیں بھی بیداریِ شب سے آشنا ہونا پڑے گا‘ راتوں کو نیند قربان کرنا پڑے گی‘ سوز دروں بیدار کرنا پڑے گا۔ بقول شاعر ؎
تو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی اور ان کے اعمال کو اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!
قرآن نے مومن کی ایک نمایاں صفت یہ بتائی ہے کہ وہ لغویات سے پرہیز کرتے ہیں اور اس سے حتی الامکان دُور رہتے ہیں۔ سورۂ مومنون میں اللہ تعالیٰ نے فوز و فلاح پانے والے اپنے بندوں کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے نماز کے بعد جس صفت کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ فلاح پانے والے مومنین لغو سے پرہیز کرتے ہیں:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَo وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo (المومنون ۲۳:۱-۳) یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے دُور رہتے ہیں۔
گویا لغویات سے پرہیز اور اس سے بچنا مومن کی ایک نمایاں صفت ہے اور یہ فلاح پانے کی ایک سبیل ہے۔ اس کے لیے ہم لوگوں کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ ’لغو‘ کیا ہے؟
مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے ’لغو‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے: ’’لغو سے مراد ہر وہ قول وفعل ہے جو زندگی کے اصل مقصود___ رضاے الٰہی___ سے غافل کرنے والا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ مباح ہے یا غیرمباح۔ جس نماز کے اندر خشوع ہو اُس کا اثر زندگی پر لازماً یہ پڑتا ہے فضول‘ غیرضروری‘ لایعنی‘ بے مقصد چیزوںسے احتراز کرنے لگتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اگر میں نے کوئی فضول قسم کی حرکت کی تو اپنے عالم الغیب مالک کو ایک روز منہ دکھانا ہے اور اس چیز کی شب و روز میں کم از کم پانچ بار اس کو یاد دہانی ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا ضمیر اتنا بیدار اور حسّاس ہو کہ غیرضروری حرکت سے اس کی طبیعت انقباض محسوس کرے وہ کسی بڑی بے حیائی کا مرتکب کبھی مشکل ہی سے ہوگا‘‘۔ (تدبرقرآن‘ ج ۴‘ ص ۴۳۴-۴۳۵)
مفتی محمد شفیعؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر معارف القرآن میں اس طرح کی ہے: ’’لغو کے معنی فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدۂ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے۔ اس سے پرہیز واجب ہے‘ اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر‘ اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من حسن اسلام المرأ ترکہ مالا یعنیہ ، یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے‘ جب کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لیے آیت میں اس کو مومن کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۹۶)
مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: ’’لغو سے مراد فضول اور بے کار مشغلے اور کھیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اگر تفریح طبع کے لیے یا جسمانی کسرت کے طور پر کھیلتے ہیں تو ایسے کھیل نہیں کھیلتے جن میں محض وقت کا ضیاع ہو بلکہ ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہو‘ جیسے جہاد کی غرض سے تیراکی‘ نیزہ بازی‘ تیراندازی اور نشانہ بازی وغیرہ۔ اور لغو سے مراد بے ہودہ اور فضول باتیں بھی ہوسکتی ہیں‘ جیسے فضول گپیں‘ غیبت‘ بکواس‘ تمسخر‘ فحش گفتگو اور فحش قسم کے گانے وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ صرف خود ہی پرہیز نہیں کرتے بلکہ جہاں ایسی سوسائٹی ہو وہاں سے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنا قطعاً گوارا نہیں کرتے۔ (تیسیرالقرآن‘ ج ۳‘ ص ۱۸۶-۱۸۷)
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے اپنی انگریزی تفسیر میں ’لغو‘ کی تشریح اس طرح سے کی ہے: ’لغو‘ ایک ایسا فعل (قول و عمل) ہے جس کا نہ کوئی فائدہ اس دنیا میں ہے اور نہ اس کے بعد آنے والی زندگی میں ‘ اس لیے یہ مسلم کے لیے بے سود ہے۔
مفسرین کی گراں قدر آرا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لغو ایک ایسا قول و فعل ہے جس کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں اور نہ اس کا کوئی فائدہ آخرت میں ہے‘ بلکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ زبان کا بے جا استعمال اور اس کو قابو میں نہ رکھنے کا وبال بھی ہوگا۔ لغو سے ایک دوسرا نقصان تضیع اوقات بھی ہے۔ تیسرا نقصان غیرسنجیدگی اور اصل مقصد سے بے توجہی پیدا ہوتی ہے۔ گویا لغو ایک بے فائدہ اور لاحاصل عمل ہی نہیں ہے بلکہ اس سے سراسر نقصان بھی ہے۔ مومن کوئی بھی ایسا عمل نہیں کرسکتا جو بے سود اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔
مومن لغویات سے دُور رہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: اوّل یہ کہ اللہ نے منع کیا ہے‘ اور دوسری وجہ یہ کہ جو کام ہم یہاں کر رہے ہیں اور جو بات زبان سے نکال رہے ہیں وہ لکھنے والا لکھ رہا ہے اور اس سارے قول و عمل کا ہمیں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ ۵۰: ۱۰) کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (متفق علیہ)
حضرت ابوسریح عدویؓ نے بیان کیا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے‘ اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی ہرطرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یارسولؐ اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔ (متفق علیہ)
ان دونوں احادیث میں پڑوسی کی عزت اور اُسے تکلیف نہ پہنچانے‘ مہمانوں کی عزت اور ان کی خاطر و تواضع اور زبان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ زبان کی حفاظت کے متعلق دو باتیں دونوں احادیث میں کہی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ زبان سے اچھی اور بہتر بات کہی جائے‘ اور دوم یہ کہ بہتر اور اچھی بات نہ کہنا ہو تو خاموش رہے۔ لغو بات زبان سے نکالنے کی کوئی گنجایش اس آدمی کے لیے قطعی نہیں ہے جو اللہ پر اور آخرت کے قائم ہونے اور اس کے حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہو۔
مزید احادیث ملاحظہ فرمایئے:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک بات بغیر سوچے سمجھے کہ وہ صحیح ہے یا غلط‘ نکالتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے‘ جب کہ اس کے اور جہنم کے بیچ اتنی دُوری تھی جتنی دُوری مشرق کے دونوں کناروں کے درمیان تھی۔ (بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک اچھی بات نکالتا ہے بغیر اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اور اللہ اس کے عوض اس سے خوش ہوجاتا ہے اور اس کے درجات بلند کردیتا ہے۔ اور اللہ کا ایک بندہ بغیر سوچے سمجھے زبان سے ایک خراب بات نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔(بخاری)
ان احادیث میں یہ باتیں بتائی گئی ہیں کہ زبان کے‘ بغیر سوچے سمجھے بے جا استعمال سے اللہ کا بندہ جہنم کا مستحق بن سکتا ہے اور زبان سے اچھی بات نکالنے کی بنیاد پر وہ جنت اور درجات کی بلندی کا مستحق بن سکتا ہے۔ لغویات میں زبان کا بے جا استعمال اور اس کی حرمت پامال ہوتی ہے‘ لہٰذا ہمیشہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔
وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲)، (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر سے اُن کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔
یہاں بھی ان کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ کسی ایسی جگہ سے جہاں لغو ہو رہا ہے‘ اس میں دل چسپی لینا تو درکنار‘ وہ ایک نگاہِ غلط انداز ڈالے بغیر وہاں سے شریفانہ گزر جاتے ہیں۔ اوّل تو وہ ایسی جگہ جان بوجھ کر جاتے نہیں مگر ایسی جگہوں سے گزر ہوجائے تو اس میں ملوث ہوئے بغیر شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کااتفاق سے ایک روزکسی بے ہودہ لغو مجلس پر گزر ہوگیا تو وہاں ٹھیرے نہیں گزرے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا تو فرمایا کہ ابن مسعود کریم ہوگئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں بے ہودہ مجلس سے کریموں شریفوں کی طرح گزر جانے کا حکم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر بحوالہ معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۵۰۷)
دنیا میں ہر طرح کی احتیاط کے باوجود کبھی نہ کبھی لغو سے واسطہ پڑسکتا ہے۔ کوئی ان سے الجھنے کی کوشش کرے اور لغو پر آمادہ ہوجائے تو لغوسننے کے بعد وہ ان لوگوں سے سلام کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ گویا جاہلوں کی جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دیتے بلکہ ان سے یہ کہتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ میں جاہلوں کی سی باتیں یا جاہلوں کا سا عمل کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو اپنا عمل مبارک ہو اور ہمیں ہمارا عمل۔ ان کی اس خصوصیت کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اس طرح بیان فرماتا ہے:
وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْز سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ o (القصص ۲۸:۵۵) اور جب انھوں نے بے ہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ’’ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے‘ تم کو سلام ہے‘ ہم جاہلوں کا ساطریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے‘‘۔
ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو لغو سے اعراض کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری طرف نادانستہ طور پر اتفاقاً اگر لغو پر گزر ہوجائے تو مومنوں کی صفت یہ بتائی گئی کہ وہ اس پر سے شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ گفتگو کے دوران اگر کوئی جہالت پر اُتر آئے اور لغو و بے ہودگی سے پیش آئے تو اللہ کے صالح بندے اس میں حصہ لینے کے بجاے ان لوگوں کو سلام کرکے یہ سوچتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں جیسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا (النبا ۷۸:۳۵) وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے۔
لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا o اِلاَّ قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًاo (الواقعہ ۵۶:۳۵-۳۶) وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔ جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔
فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ o لَّا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً o (الغاشیہ۸۸: ۱۰-۱۱) عالی مقام جنت میں ہوں گے‘ کوئی بے ہودہ بات وہ و ہاں نہ سنیں گے۔
لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلاَّ سَلٰمًا ط وَلَھُمْ رِزْقُھُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا o (مریم۱۹: ۶۲) وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے۔ وہ جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے اور ان کا رزق پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔
جنت کی ساری نعمتوں کو نہ ہم اس دنیا میں جان سکتے ہیں اور نہ اس کی کسی نعمت کا ادراک ہی کرسکتے ہیں۔ اس کی ساری نعمتوں سے لطف اندوز تووہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت میں جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں‘ جنھیں نہ آنکھوں نے دیکھا‘ نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے (متفق علیہ)۔ جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے اس میں ایک نعمت یہ بھی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے جس کا تذکرہ قرآن میں کئی جگہ ہے۔ لغو سے پرہیز اور اس سے مکمل اجتناب اللہ کی بڑی نعمت ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ لغو سے پرہیز کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اگر لغو پر گزر ہوجائے تو شریفانہ انداز سے گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ لغویات میں ملوث کرنے کی کوشش کی جائے تو سلام کر کے وہاں سے الگ ہونے کی سعادت نصیب کرے‘ اور جنت عطا کرے جہاں لغو کا کوئی گزر نہیں ہے۔
امکانات سے بھری اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ انسانوں میں کوئی انسان ایسا ہو جس کے اندر کوئی عیب اور نقص نہ ہو‘ وہ کبھی غلطی اور خطا کا ارتکاب نہ کرتا ہو‘ اس سے کبھی گناہ نہ ہوتا ہو۔ خامیوں کوتاہیوں‘ غلطیوں اور خطائوں کے وقوع کو روک دینا انسان کے بس میں نہیں البتہ ان کے وقوع کے امکانات کو کم سے کم کرنا ممکن ہے۔ خطائوں اور برائیوں کے سلسلے کی تاریخ جس قدر مختصر ہوتی ہے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے اور یہ تاریخ جس قدر طویل ہو چھٹکارا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔
خطائوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلی چیز انسان کا احساس ہے۔ پھر اس کا ارادہ و عزم اور جوش و جذبہ اس احساس کو عملی قالب میں ڈھالتے ہیں تو انسان کی زندگی گناہوں سے دور اور نیکیوں سے قریب تر ہوتی جاتی ہے۔
احساس سے مراد انفرادی احساس ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے آپ کو پڑھنے کی کوشش کرے‘ اپنے نفس کی خرابیوں کو پہچانے اور ان کو دور کرنے کا محکم ارادہ کرے۔ تحریک اسلامی کے ایک کارکن کے لیے اس عمل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وہ جب داعی الی اللہ کی حیثیت سے اصلاحِ عوام کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اپنا دامن ان گناہوں سے پاک ہونا چاہیے جن گناہوں کی آلودگی سے وہ لوگوں کا تزکیہ کرنے کے لیے اٹھا ہے۔ اسے مضبوط عزم اور ٹھوس کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ اسے اپنے ایمان‘ علم‘ اخلاق اور کردار کے لحاظ سے ممتاز اور منفرد ہونا چاہیے۔
اس وقت حالات کی دگرگونی کا عالم یہ ہے کہ ہر سمجھ دار اور حسّاس فرد امت اسلامیہ کی دینی و اقتصادی اور سیاسی و اجتماعی زندگی کی بدحالی کا ذکر افسوسناک انداز میں کرتا ہے۔ یقینا یہ احساس ایک اچھے مستقبل کی تمہید ہے۔ حالات کی بہتری کے لیے اسی طرح کا احساس درکار ہوتا ہے‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ بہتری کا یہ عمل کیسے ممکن ہو۔ کوئی پر امن راستہ کون سا ہے جس پر چل کر اصلاحِ امت کی اس منزل تک پہنچا جا سکے؟ اگر صرف ایک جملے میں اس کا جواب دیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’فرد اپنی اصلاح کر لے تو امت کی بگڑی سنور سکتی ہے‘‘۔ مگر یہ کس طرح ہو؟
اصلاحِ نفس کے انداز و طریقے اور اسباب و ذرائع بے شمار ہیں۔ ہم صرف اس ایک ذریعے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس کو اختیار کر لیا جائے تو انسان تزکیہ و تربیت کے دیگر بہت سے ذرائع کی کمی کو از خود پورا کر سکتا ہے۔ یہ ذریعہ’محاسبۂ نفس‘ کا عمل ہے۔
اسلام کا پورا نظام دراصل فرد کی اصلاح کا ضابطہ پیش کرتا ہے۔ شریعت کے احکام کے علاوہ عقل و دانش کا تقاضا بھی ہے کہ مسلمان اپنی تربیتِ نفس کی طرف خصوصی توجہ دے۔ لہٰذا فرد کو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس نے کیا بھلائی کی اور کون سی برائی کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی فرائض کہاں تک ادا کر رہا ہے۔ اس جائزے کا مقصد اپنی آیندہ زندگی کو نکھارنے اور سنوارنے کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے محاسبۂ نفس کا تصور یوں دیا ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر ۵۹:۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو‘ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔
امام ابن کثیر کہتے ہیں: ’’اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے پہلے خود ہی اپنا محاسبہ کر لو اور دیکھو کہ تم نے قیامت کے روز اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کے لیے کیا اعمالِ صالحہ جمع کیے ہیں‘ اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تمھارے تمام احوال و اعمال کو خوب جانتا ہے۔ اس سے تمھاری کوئی شے مخفی نہیں‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر‘ج۴‘ص ۳۶۵)
حدیث رسولؐ سے بھی اس ضمن میں رہنمائی ملتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْقَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ المَوْتِ‘ وَالعَاجِزُ مَنْ أَتْبَع نَفْسَہُ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ الأَمَانِیَّ (ترمذی:۶۴۵۹) سمجھ دار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو مطیع کر لیا اور بعد الموت کے لیے عمل کیا۔ اور بے بس وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگا دیا اور اللہ سے آرزوئیں کرتا رہا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامشہور قول ہے:’’اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے خود اپنا محاسبہ کر لو‘ اور اپنا وزن کیے جانے سے قبل خود اپنا وزن کر لو۔ یہ تمھارے لیے آسان ہے کہ کل کے حساب سے پہلے آج اپنا محاسبہ کر لو۔ اور بہت بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جائو‘ جس روز تم کو پیش کیا جائے گا تو تمھاری کوئی چیز مخفی نہیں ہو گی‘‘۔ (امام احمد‘ کتاب الزھد‘ ص ۱۷۷)
حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں:’’آدمی اس وقت تک بھلائی پر رہتا ہے جب تک اس کو وعظ و نصیحت کرنے والا اس کا اپنا نفس ہوتا ہے اور محاسبۂ نفس اس کی ترجیحات میں شمار ہوتا ہو‘‘۔
امام ابن قیم لکھتے ہیں: ’’غفلت‘ محاسبہ نہ کرنا‘ اصلاح کے کام کو مؤخر کرتے رہنا‘ اور معاملات کو معمولی خیال کرنا‘ یہ سب رویے تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور یہ دھوکے میں مبتلا لوگوں کی حالت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ نتائج و عواقب سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور پیش نظر صورت حال ہی کو دیکھتے اور معافی کے تصور پر انحصار کیے رہتے ہیں۔ وہ محاسبۂ نفس اور انجام پر نظر رکھنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ جب انسان ایسی روش اختیار کرنے لگے تو اس کے لیے ارتکابِ گناہ کے مواقع آسان ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ گناہوں سے اس کو پیار ہونے لگتا ہے اور ان سے کنارہ کش ہونا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے‘‘۔ (اغاثۃ اللھفان‘ ج ۱‘ ص ۷۷‘۱۳۲)
ابن قیمؒ محاسبۂ نفس کے طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مفید طریقہ یہ ہے کہ آدمی سونے سے پہلے کچھ دیر کے لیے بیٹھ جائے اور اپنا محاسبہ کرے کہ آج اس کو کیا خسارہ ہوا اور کیا منافع؟ پھر از سر نو اللہ کے سامنے خالص توبہ کرے اور اس عزم کے ساتھ سوجائے کہ اب وہ بیدار ہو کر گناہ نہیں کرے گا۔ یہ عمل وہ روزانہ رات کو سوتے وقت انجام دے۔ اگر وہ ایسے عمل پر کسی روز فوت ہو گیا تو وہ توبہ پر فوت ہو گا‘ اور اگر بیدار ہو گا تو عملِ صالح کی طرف متوجہ ہوتا ہوا بیدار ہو گا۔(کتاب الروح‘ ص ۷۹)
انسان کو اپنے جن اعمال و افکار کا جائزہ لینا چاہیے اور محاسبہ کرنا چاہیے ان میں سرفہرست عقیدہ ہے۔ عقیدے کی درستی‘ توحید اور شرک خفی و شرکِ اصغر سے دُوری… عموماً ایسا مسئلہ ہے جس کی جانب لوگ توجہ نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ہی دیگر ایسے اعتقادات اور اعمال بھی ہیں جو توحید کے منافی ہوتے ہیں یا عقیدۂ توحید کو کمزور کرتے ہیں۔ دراصل توحید کا عقیدہ و تصور ہی انسان کو فرائض کی ادایگی پر آمادہ کرتا ہے‘ مثلاً پانچ وقت کی نماز با جماعت کا اہتمام‘ والدین کے ساتھ اچھا برتائو‘ رشتہ داری کو قائم رکھنا‘ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادایگی‘ پھر تمام چھوٹے بڑے محرمات و منکرات سے دور رہنا اور سنت و نفل اعمال و افعال کو انجام دینا۔ ان تمام صالح امور کی انجام دہی اور ممنوع امور سے اجتناب کے اہتمام پر یقینا انسان کے عقیدے کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ عقیدہ جس قدر قوی و مستحکم ہو گا اعمال کی ادایگی اسی قدر اہتمام سے ہو گی اور عقیدے میں کمزوری ہو گی تو اعمال کی ترتیب‘ ترجیح اور اہمیت بھی متاثر ہو گی۔
دوسری اہم چیز جس پر ایک فرد کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ’وقت‘ ہے۔ فرد کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ’وقت‘ سے کیسے اور کس قدر استفادہ کر رہا ہے۔ دراصل وقت ہی اس کی عمر اور اصل مال ہے اور یہ ضائع ہو گیا تو انسان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس اصل سرمایے کو خیر کے کاموں میں صرف کیا ہے یا برائی کے کاموں میں برباد کیا ہے۔ وقت کا استعمال برائی اور بھلائی کے علاوہ بھی ہوتا ہے اور وہ وقت کو بے مقصد اور فضول کاموں میں ضائع کرنا ہے۔ وقت کو اگر برے کام میں ضائع نہیں کیا اور اچھے کام میں بھی استعمال نہیں کیا گیا تو یہ بھی وقت کا ضیاع ہی ہے۔ وقت‘ یعنی انسان کی عمر سے متعلق رسول اکرمؐ نے فرمایا:’’قیامت کے روز جب تک چارچیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا انسان اپنے قدم ہلا نہیں سکے گا۔ ان چار چیزوں میں سے ایک چیز ’وقت‘ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں ختم کیا اور جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کن کاموں میں کھپایا‘‘۔
محاسبۂ نفس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان تمام رویوں‘ روشوں‘ اعمال و افعال اور افکار و خیالات سے دامن کش ہو جائے‘ جن کا خلافِ شریعت اور منافی ِاخلاق ہونا ثابت ہو۔ کوتاہی اور گناہ کے چھوٹے ہونے کو معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے غلطی اور گناہ سمجھتے ہوئے اس کو اپنے عمل کے دائرے سے خارج کر ڈالنے کے لیے کمر ہمت باندھنی چاہیے۔ یہ کام توبہ سے ہوتا ہے۔ غلط اعمال و افکار کا تعلق اگر براہِ راست شریعت سے ہو تو بھی توبہ ہی ان کی تطہیر کرتی ہے اور اگر انسانی رویوں سے ہو تب بھی توبہ ہی ان سے خلاصی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: ’’گناہوں سے توبہ فوراً ضروری ہے۔ اس کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔ اگر گناہ گار عملِ توبہ کو مؤخر کرے گا تو اپنی اس تاخیر میں اللہ کی نافرمانی کرے گا۔ اگر وہ توبہ تاخیر سے کرے گا تو گناہ سے اس کی توبہ کا فرض تو پورا ہو جائے گا مگر تاخیر کی غلطی کی توبہ اس کے ذمے باقی رہے گی۔ چونکہ یہ کوتاہی گناہگاروں کی عمومی روش ہوتی ہے‘ اس لیے اس سے نجات کا طریقہ یہ ہے کہ معلوم اور نامعلوم تمام گناہوں سے توبہ کی جائے‘‘۔ (مدارج السالکین ج۱‘ص ۲۷۲-۲۷۳)
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح گناہگاروں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور گناہوں سے تائب ہونے کی ضرورت ہے‘ اس طرح مطیع اور فرماںبردار لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا جس پر توبہ کرنا فرض ہے یا وہ یہ سمجھے کہ اسے توبہ کی ضرورت نہیں‘ وہ شخص دراصل غلط فہمی کا شکار ہے۔ وہ اپنے نفس کے دھوکے میں آجاتا ہے۔ وہ اپنے ذاتی کمال کے بھرے میں آ کر اپنے آپ کو بے گناہ سمجھ لیتا ہے۔ ایسا خیال جب تک انسان کے دماغ میں رہے‘ اس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شیطان نے اس کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اسی بنا پر بعض انسان اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور گناہوں پر اصرار کرتے ہیں۔
امام ابن تیمیہؒ اس سلسلے میں کہتے ہیں:’’انسان ہمیشہ اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمت پر اس کا شکر کرنے اور گناہ پر معافی مانگنے کی دو حالتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ دونوں امور ہمیشہ انسان کے ساتھ لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اللہ کی نعمتوں میں زندہ رہتا ہے اور ہمیشہ اسے توبہ و استغفار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم کے سردار اور متقیوں کے امام جناب محمد رسولؐ اللہ ہر حالت میں اللہ سے استغفار کرتے رہتے تھے‘‘۔(فتاویٰ ابن تیمیہ‘ ج ۱۰‘ ص ۸۸)
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو عمومی انداز میں مخاطب کرتے ہوئے انھیں خالص توبہ کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التحریم ۶۶:۸)’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے توبہ کرو‘ خالص توبہ‘‘۔ دوسری جگہ فرمایا: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹:۵۳) ’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘ وہ تو غفور رحیم ہے‘‘۔
گناہ کے بعد توبہ مومن کی صفت خاص ہے‘ اس کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اپنے بندوں کی قابل تعریف صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْص وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ص وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۵) (ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں) اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سر زد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اُوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً ً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے‘ اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو۔ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔
انسان سے غلطی اور خطا کا صدور ہر وقت ممکن ہوتا ہے اس سے کوئی انسان مبرا نہیں‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا: کُلُّکُمْ خَطَّائٌ وَ خَیْرُ الخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُون ’’تم میں سے ہر کوئی خطا کرسکتا ہے اور اپنی خطائوں پر توبہ کر لینے والے بہترین خطا کار ہیں‘‘۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا‘ حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرِ‘ یَقُولُ: مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبُ لَہُ‘ مَنْ یَسْأُلُنِی فَأُعْطِیْہِ‘ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرُ لَہُ (صحیح بخاری) ’’جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرما ہوتا ہے اور اعلان کرتا ہے: کوئی ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار کا جواب دوں‘ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کو عطا کروں‘ کوئی ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے میں اس کو معاف کر دوں‘‘۔
ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ تَعالٰی یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّھَارِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا (بخاری) ’’اللہ تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے۔ اور دن کوہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ را ت کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے یہاں تک کہ سورج اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع ہونا شروع ہو جائے‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے درِ توبہ قربِ قیامت تک کھلا ہے‘ جو بھی اس کی طرف بڑھے‘ لپکے یا دوڑے اس کو یہ دروازہ بند نہیں ملے گا۔ وہ رات کو جائے یا دن کی روشنی میں اسے ہر وقت اللہ تعالیٰ اپنے دامنِ عفو میں چھپالینے کے لیے تیار ہے۔
گناہ کے عام مفہوم کے متعلق یہ غلط فہمی دور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ گناہ صرف چوری‘ زنا اور غیبت جیسے برے کام ہی نہیں ہوتے بلکہ شریعت کے فرائض کو ادا نہ کرنا‘ یا ان کی ادایگی میں کمی یا کوتاہی کرنا بھی گناہ ہے‘ مثلاً نماز ادا نہ کرنا‘ یا مکمل طور پر ادا نہ کرنا‘ اس کے اوقات میں ادا کرنے سے سستی کرنا‘ جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنا‘ خشوع و خضوع سے ادا نہ کرنا۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا نہ کرنا‘ یا اللہ کی طرف دعوت دینے میں غفلت کرنا‘ یا مسلمانوں کے مسائل و معاملات سے سروکار نہ رکھنا‘ یا ایسے دیگر فرائض جن کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
گہرا ایمان اور اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ خوف رکھنے والے مسلمان کے نزدیک گناہ چھوٹے بڑے نہیں ہوتے۔ اس کے نزدیک تو تمام گناہوں پر توبہ فرض ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک تمام خطائیں اللہ کے حق میں گناہ ہوتی ہیں۔ کسی بزرگ نے کہا ہے: گناہ کے چھوٹا ہونے کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ گناہ کر کے نافرمانی کس کی کر رہے ہو۔
حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اِیَّاکُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ، فَاِنَّمَا مَثَلُ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ کَمَثَلِ قَومٍ نَزَلُوا بَطْنَ وَادٍ‘ فَجَائَ ذَابِعُودٍ‘ وَجَائَ ذَابِعُودٍ، حَتّٰی حَمِلُوا مَا أَنْضَجُوا بِہٖ خُبْزَھُمْ ، وَاِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتٰی یُؤْخَذُ بِھَا صَاحِبُھَا تَھْلْکُہُ (روایت‘ امام احمد بن حنبل ۵/۳۳۱) ’’گناہوں کو معمولی نہ سمجھو‘ گناہوں کو معمولی سمجھنا ایسا ہے جیسے کوئی قوم کسی جگہ پر (دوران سفر) ٹھہری اور کوئی اِدھر سے ایک لکڑی اٹھا لایا اور کوئی اُدھرسے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اس قدر لکڑیاں اکٹھی کر لیں جس سے ان کی روٹیاں پک سکیں۔ اور گناہوں کو معمولی سمجھنے کی بنا پر جب کسی انسان کو پکڑا جائے گا تو یہ روش اس کو ہلاک کر ڈالے گی‘‘۔
جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتا ہے اور آیندہ کے لیے اپنی دامن بچانے کا عہد کرتا ہے تو اس کے ذمے ایک فرض عائد ہو جاتا ہے۔ انسان جس قدر کوشش کرتا ہے اس کو اسی قدر اس کا صلہ ملتا ہے۔ لیکن ایک مؤمن کا معاملہ محض کوشش ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ وہ اس کوشش کو اللہ کی توفیق سے وابستہ کرتا ہے۔ وہ نیکی کرتا ہے تو اللہ کی حمد بیان کرتا ہے کہ اس نے اسے نیکی کرنے کی توفیق بخشی‘ گناہ سے بچتا ہے تو بھی اللہ کا شکر کرتا ہے کہ اللہ نے اسے گناہ سے بچا لیا۔
اس تناظر میں دیکھیں تو نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کے لیے توفیق ایزدی کا ہونا ہمارے ایمان کا جزو قرار پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس توفیق ایزدی کے حصول کے لیے مومن کو دعا کا طریقہ بتایا گیا ہے۔
مسلمان معاشروں کے انفرادی و اجتماعی تمام دائروں میں دعا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ فرد کی ذاتی اصلاح اور محاسبۂ نفس میں اس کی ضرورت و اہمیت سے وہی شخص حقیقتاً آگاہ ہو سکتا ہے جو اس تجربے سے گزرا ہو۔ دعا دراصل انسان کا اللہ کے سامنے بے بسی‘ عاجزی اور فقیری کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت اور سطوت و جبروت کا اعتراف ہوتا ہے۔ دعا کی ترغیب خود اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی ہے:
وقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔
دوسری جگہ فرمایا:
اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ ۲:۱۸۶) پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے‘ میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا: مَا عَلَی الأَرْضِ مُسْلِمٌ یَدْعُو اللّٰہَ بِدَعْوَۃٍ اِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ اِیَّاھَا‘ أَوْصَرَفَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَھَا‘ مَا لَمْ یَدَعْ بِـاِثْمٍ أَوْقَطِیْعَۃِ رَحِمٍ(ترمذی) ’’روے زمین پر جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا پوری کر دیتا ہے‘ یا مطلوبہ چیز کے مثل کوئی شر دفع کر دیتا ہے۔ (قبولیت کا یہ حق اسے اس وقت تک حاصل رہتا ہے) جب تک وہ کسی گناہ کے لیے یا رشتے داری توڑنے کے لیے دعا نہ کرے‘‘۔
یہ بات سن کر ایک شخص بولا تب تو ہم بہت زیادہ دعا کیا کریں گے۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ اس سے بھی بہت زیادہ دے سکتا ہے۔
ایک حدیث میں اس شخص کو بے بس کہا گیا ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہو۔ فرمایا: أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعَائِ (جامع ترمذی) ’’لوگوں میں سب سے زیادہ بے بس وہ شخص ہے جو دعا نہ کر سکتا ہو‘‘۔
رسول اکرمؐ نے تزکیہ نفس اور دعا کے باہمی تعلق کو صراحت سے بیان فرمایا ہے کہ یہ تزکیہ کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے فرمایا: اِنَّ الاِیْمَانَ لَیَخْلُقُ فِیْ جَوْفِ أَحَدِکُمْ کَمَا یَخْلُقُ الثَّوْبُ‘ فَسَلُوا اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یُجَدِّدَ الاِیْمَانَ فِی قُلُوبِکُمْ(طبرانی‘ حدیث حسن) ’’جس طرح کپڑا پرانا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم میں سے کسی کے پیٹ (مراد دل) میں موجود ایمان بھی پرانا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعا کرتے رہو کہ وہ تمھارے دلوں میں موجود ایمان کی تجدید کرتا رہے‘‘۔
جو شخص دعا کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے‘ گویا اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اسے خیر کی توفیق اور راہ راست کی طرف ہدایت کے لیے اللہ کی نصرت کی خصوصی ضرورت ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ توفیقِ الٰہی مجھے میسر نہ رہی تو میں دنیا و آخرت میں سراسر خسارے میں رہوں گا۔ اس احساس کو جس قدر مضبوط کیا جائے اس کے فوائد اسی قدر بڑھتے جائیں گے۔ مسلمان کی زندگی میں اسے عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحے بڑھتے رہنا ضروری ہے۔ جب اسے احساس کی یہ توفیق میسر ہو گی تو وہ ہر لمحے اپنی دعا کی قبولیت کے لیے اللہ سے پُرامید رہے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ الحاح اور آہ و زاری کے ساتھ اللہ سے اپنی حاجت طلب کرے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کی صلاح و سلامتی کے لیے دعا گو رہے گا۔ ہمیشہ اللہ کی عبادت اور ذکر و شکر کی توفیق مانگتا رہے گا۔
یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ رات کی آخری تہائی‘ اذان اور اقامت کا درمیانی وقت اور حالت سجدہ قبولیت ِدعا کے بہترین اوقات ہیں۔
محاسبۂ نفس کے یہ تمام ذرائع دراصل انسان کی تربیتِ نفس کے ذرائع ہیں‘ اور شریعت کا مقصود نفس کی تربیت ہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو الٰہ بنا کر زندگی بھر ان کی پیروی نہ کرے بلکہ نفس کو ایک ضابطے اور قاعدے کا پابند بنا کر محفوظ اور پُرامن راستے پر چلائے‘ جو اس کو کامیابی و کامرانی کی منزل پر پہنچا دے۔ قرآن مجید نے اس تزکیے کو کامیابی کا ذریعہ بتایا ہے‘ فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷:۱۴-۱۵) فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمّس ۹۱:۹‘۱۰) یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔
اس سفر تربیت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے: محاسبہ نفس‘ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے اور تزکیہ نفس کامرانیِ نفس کا باعث ہے۔ اس کامیابی کا دوسرا نام خوشنودیِ رب ہے جسے حاصل کرنا مومن کی زندگی کا مقصود و مطلوب ہے۔
روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں ۔
مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتاہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔
دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔ یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر کسی کوڈھیر سامال مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی‘ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو۔ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتاہے اوررونا دھونا شروع کردیتاہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔
یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتاہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتاہے۔
اگر غور کریں تو ہم ان تمام نفسیاتی کیفیات کا دو حوالوں سے جائزہ لے سکتے ہیں: ایک خوف اور دوسرا حزن۔
خوف کے معنی ہیں ڈر یا اندیشہ کہ کچھ ہو جائے گا‘ جو ملنے والا ہے وہ نہیں ملے گا‘ یا کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ناخوش گوار اور ناقابل برداشت ہو گی اور نقصان کا باعث ہوگی۔
حزن سے مراد اس بات کا غم کہ کچھ چھن گیا یا نقصان ہو گیا‘ کوئی ضرب پڑگئی‘ کوئی چیز ملنا چاہیے تھی نہ ملی اور جو چیز نہ ملنا چاہیے تھی وہ مل گئی۔ غم کی اس کیفیت کو حزن وملال کہا جاتاہے۔
دراصل نفس کے اندر کی یہ وہ کیفیات ہیں جن سے اصل رکاوٹیں پیداہوتی ہیں۔ اگر آدمی خوف اور اندیشوں پر پہلے سے قابو نہ پائے تو جن چیزوں کا خوف و اندیشہ اس کو لاحق رہتاہے وہ اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ خدشات کہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ ہوجائے گا‘ ایک چیز جو ہاتھ لگنے والی ہے اگر ہاتھ نہ لگی تو یہ بڑا نقصان ہو جائے گا‘ میری عزت کو‘ میری دولت کو‘ معاشرے میں میرے مقام ومرتبے کونقصان پہنچ سکتاہے ‘ سیاسی‘ مادی‘ مالی یا جو کچھ بھی حیثیت ہے‘ ہاتھ سے نکل جائے گی ___یہ خوف وخدشات جب آدمی کے اوپر طاری ہوتے ہیں‘ تو پھر بالآخر وہ ان کے ڈر سے ہتھیار ڈال دیتاہے۔
دوسرا پہلو غم اور حزن کا ہے‘ یعنی یہ کہ جو چیز حاصل تھی وہ ہاتھ سے نکل گئی‘ کوئی مرگیا یا مال کا نقصان ہوگیا‘ یاکسی نے عزت کے اوپر حملہ کردیا‘ گالی دے دی وغیرہ۔ جب کوئی نقصان ہوجاتاہے یا عزت تک ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آدمی کو اس کا غم ہوتاہے۔ غم ہو تو پھر غصہ بھی آتاہے۔ غم وغصہ کا لفظ تو ہماری زبان میں‘ اردو ادب میں استعمال ہوتاہے۔ جہاں غم پیدا ہوتا ہے وہاں غصہ بھی لازماً آتاہے‘ کہ یہ چیز کیوں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی‘ میری عزت پہ یہ حملہ کیوں ہو گیا‘ جو چیز مجھے ملنے والی تھی وہ کیوں کوئی چھین کے لے گیا۔ اس طرح ایک طرف تو غم ہوتاہے جو غصے کے اندر تبدیل ہو جاتاہے‘ اور پھر غصہ بالآخر اشتعال دلاتاہے اور اس اقدام پر مجبور کرتاہے جو صبر کے منافی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ نہ خوف اور اندیشے کا شکار ہوں گے اور نہ کسی غم کے اندر مبتلا ہوں گے۔ جنت کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ فَلا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنَوْنَo (البقرۃ ۲:۳۸)‘ یعنی جنت کی زندگی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہاں نہ مستقبل کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی چیز کے چھننے کا خدشہ ہوگا۔ کوئی مصیبت پڑنے کا خوف بھی دل کے اوپر طاری نہیں ہوگا‘ اور نہ کوئی چیز ہاتھ سے نکل جانے کا غم وغصہ ہو گا بلکہ اطمینان ہوگا کہ صحیح زندگی گزار آئے اور صلہ پالیا۔ کوئی حسرت نہیں ہوگی کہ یہ کام کیوں نہیں کیا او راگر یہ کرتے تو یہ پیش نہ آتا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو صبر کے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں‘ اور صبر کے راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اظہار بھی انھی دو باتوں سے ہوتاہے‘ یعنی خوف اور حزن۔
اگر اس بات کو مزیدواضح کیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ جو نفسیاتی کیفیات انسان کے اوپر طاری ہوتی ہیں‘ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ یہ مسلمانوں کے اُوپر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ ان کیفیات کو قرآن مجید نے کھول کر بیان کردیا ہے کہ اگر ہم ان میں سے ایک ایک چیز کو دیکھیں تو اس کے اندر ہمارے لیے سبق اور نصیحت کا بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے۔ میں جسمانی و مادی مصائب کا ذکر نہیں کر رہا‘ یعنی جو مار پیٹ ہوئی‘ جو جانیں دینا پڑیں‘ جو محنت کرناپڑی‘ اور جان و مال کا جو نقصان ہوا‘ اس لیے کہ اس کی جڑ بھی نفسیاتی رکاوٹوں کے اندر ہے۔ دراصل آدمی اپنے اندر سے اٹھے والی کیفیات اور جذبات کا شکار ہو جاتاہے۔ نبی کریمؐجو دعوت لے کر آئے‘ جو پیغام آپؐنے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا‘ یہ دعوت او ریہ پیغام آپؐ کے لیے اتنا کھلا‘ واضح اور روشن تھا کہ جیسے عام آدمی کے لیے دن میں آسمان پر چمکتا ہوا سورج ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ‘ آخرت‘ اور جنت و دوزخ‘ یہ ساری چیزیں ہماری نظروں سے محو ہیں لیکن نبیؐ کے لیے یہ ساری چیزیں غیب سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔
نبی کو تو اللہ تعالیٰ براہ راست علم دیتاہے۔ جس طرح دن کی روشنی میں ایک عام آدمی دیکھ سکتاہے کہ سورج نکلاہوا ہے اور یہ اس کے لیے ایک کھلی حقیقت ہوتی ہے‘ یہی کیفیت نبی کی اللہ اور آخرت کے بارے میں ہوتی ہے۔ اب اگر آدمی دن کے اجالے میں کھڑا ہو کریہ کہے کہ لوگو‘ سورج نکلا ہوا ہے لیکن لوگ اس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں‘ اس کے برعکس اس کو ملامت کریں‘ طعنے دیں کہ تم اندھے ہوگئے ہو‘ تم پر جادو کر دیا گیا ہے‘ تم شاعری کر رہے ہو‘ تم پر جنون ہوگیا ہے‘ اسی لیے تمھیں رات کے وقت سورج نظر آرہا ہے‘ یا سورج نہیں نکلا ہوا اور تم کہہ رہے ہو کہ نکلا ہوا ہے۔ کسی نے تم کو چکمہ دے دیا ہے‘ یا باہر سے کوئی چیز تمھارے اوپر آگئی ہے‘ کوئی تمھارا استاد ہے جو تمھیں باتیں گھڑ گھڑ کر دیتا ہے وغیرہ۔ گویا نبی جو چیز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ دنیا اس کو جھٹلانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس موقع پر انسان جن کیفیات سے دو چار ہوتاہے‘ یا گزرتاہے وہ نفسیاتی کیفیات کہلاتی ہیں۔
ایک نبی بھی اس نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہوتاہے۔نبی کے لیے سب سے پہلی آزمایش یہی ہوتی ہے کہ جس حق کی دعوت لے کر وہ اٹھا ہے اس کو جھٹلایا جائے۔ یہ جھٹلانا معمولی جھٹلانا نہیںہوتا۔ جو آدمی جانتا ہو کہ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں سچی اوربر حق ہے‘ مگر اسے جھٹلایا جاتاہے او رکہا جاتاہے کہ تم بے وقوف ہو‘ تم جھوٹے ہو‘ تم کو دھوکا ہوگیا ہے‘ تم پر کسی نے جادوکردیا ہے‘ اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے وہ شدید غم اور حزن کی کیفیت ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا غم ہوتا تھا کہ لوگ سچی بات کیوں نہیں مانتے‘ اور نہ صرف یہ کہ کھلی حقیقت کو جھٹلاتے ہیں بلکہ مذاق بھی اڑاتے ہیں اور طرح طرح سے اذیتیں پہنچاتے ہیں۔قرآن مجید نے اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے : لَا یَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ (یونس ۱۰:۶۵)’’ اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں‘‘۔
قرآن مجید میں کئی جگہ کہا گیا ہے: وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) ’’جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کرو‘‘۔ اس لیے کہ سب سے بڑا فتنہ اور آزمایش تو لوگوں کی باتیں ہی ہوتی ہیں۔ یہ باتیں جو لوگوں کی زبان سے نکلتی ہیں‘ خواہ لوگ کان میں آکر کہیں‘ مجلس میں بیٹھ کر کہیں‘ کتابوں میں لکھ کر چھپوائیں یا اخبار میں شائع کریں‘ یہ بڑی سخت آزمایش ہوتی ہے۔ کوڑے کی مار‘ پتھرکی چوٹ اور ریت پر گھسیٹا جانا شاید اتنی سخت آزمایش نہ ہوتی ہوگی جتنی سخت آزمایش طنز‘ طعن و تشنیع اور مذاق و استہزا سے ہوتی ہے۔ یہ اندرونی چوٹ زخم کاری کی مانند ہوتی ہے۔ اس کی زد آدمی کی عزت نفس‘ اس کی سچائی‘ اس کے کردار اور مقام ومرتبے پر بھی پڑتی ہے۔یہ جسمانی چوٹ سے زیادہ گہری چوٹ ہوتی ہے ۔ اسی پر قرآن نے کہا:
وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کرو۔
اس غم اور حزن کو برداشت کرنا صبر ہے۔ اس سے آدمی مایوس بھی ہوتاہے۔ اس مایوسی کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے۔ جو آدمی بات نہ مانے‘ بار بار کہنے کے باوجود نہ مانے‘ ہر قسم کی دلیل سننے کے باوجود بھی نہ مانے‘ نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی تسلیم نہ کرے‘ او رپھر پہلی قوموں کا بھی ذکر ہوا ہے کہ برسوں دعوت کا کام ہو الیکن ان لوگوں نے مان کے نہیں دیا‘ تو پھر آدمی کے اوپر مایوسی طاری ہوتی ہے۔ مایوسی اندورنی کیفیت ہے اور غم کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے اور آدمی کے اوپر طاری ہوجاتی ہے۔ جب لوگ نہیں مانتے اور سچی بات کو جھٹلاتے ہیں تو آدمی کو اس سے دکھ ہوتا ہے جو مایوسی کا باعث بنتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حزن کا لفظ کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ اسی حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ مایوسی کا قرآن پاک نے بار بار علاج کیا اور اس کے لیے مختلف طرح سے تسلی دی اور حوصلہ دیا کہ اگر یہ لوگ نہیں مانتے ہیں تو یہ ان کی اپنی غلطی اور اپنا قصور ہے۔ آپؐ کا کام تو بس اتنا ہے کہ آپؐ لو گوں تک خدا کا پیغام پہنچا دیں۔ زبردستی منوانا آپؐ کا کام نہیں ہے۔ ہم نے آپؐ کو داروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہے اورنہ ان کے سرپر مسلط کیا ہے۔ ماننا یا نہ ماننا‘ ان کا اپنا اختیار ہے۔ آپ ؐ ان کے سامنے حق پیش کرتے رہیں‘ جو قبول کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے قبول کرے گا اور جو انکار کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے انکار کرے گا۔ ان کا فیصلہ ہم نے آپ ؐ کے ہاتھ میں نہیں دیا ہے۔ اگر انھیں زبردستی مسلمان بنانا ہوتا تو کیا اللہ تعالیٰ کے پاس خود کم طاقت تھی۔ وہ یہ سب کام کیوں کرتا کہ نبیؐ کو بھیجتا‘ دعوت کا کام کرواتا‘ کتاب اتارتا‘ اس کے لیے تو وہ ایک کلمہ کن کہتا اور سارے لوگ ایک ہی راستے پر آجاتے: وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً (ھود۱۱:۱۱۸)’’ بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا‘‘۔سب اس کی بندگی کرتے‘ سب فرشتوں کی طرح ہو جاتے۔ لیکن فرشتے تو پہلے سے موجود تھے۔ انسان کو تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے اختیار کے استعمال کی آزمایش ہو۔ وہ اپنے ارادے سے اور اپنے فیصلے سے راہ حق پر آئے۔ اس کے لازمی معنی ہیں کہ جو آدمی چاہے گا مانے گا اور جونہیں چاہے گا نہیں مانے گا۔ لہٰذا تمھیں مایوسی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس طرح قرآن مجید نے اس حقیقت کو باور کیا کہ اگر ایک داعی اس بات کو بخوبی جانتا ہو کہ اس کا کام تو احسن انداز میں لوگوں تک پہنچانا ہے اور اس کا ماننا نہ ماننا‘ قبول کرنا یا رد کرنا‘ لوگوں کا اپنا اختیار ہے‘ اور وہ اس بات کا مکلف نہیں کہ لازماً لوگ حق بات کو تسلیم کریں‘ تو پھر مایوسی کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔
ایک کیفیت آدمی پر یہ طاری ہوتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معاملہ جلدی سے نپٹ جائے‘ جب کہ یہ جدو جہد ایک طویل جدوجہد ہے۔ یہ تو یقین ہوتا ہے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا اور اس کا دین غالب آئے گا۔ یہ اللہ کا اپنے رسولؐ سے بالکل حتمی و یقینی وعدہ ہے کہ تمھارا کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا‘ خواہ یہ تمھاری زندگی میں ہو یا موت کے بعد۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس دین کو ضرور غالب کرکے رہے گا۔ یہی وعدہ نبی کریمؐکے ساتھ تھا اور آپؐکی جانشین اُمت‘ مسلمانوں سے بھی ہے‘ لیکن آدمی کی طبیعت میں عجلت پسندی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر کام جلد سے جلد ہوجائے۔ کافروں کے بارے میں عذاب کی جو دھمکی ہے وہ بھی ذرا جلد آجائے‘ اور جس منزل کا وعدہ ہے کہ دین غالب ہوگا‘ وہ بھی جلدسر ہو جائے۔ بسا اوقات نبی کریمؐ بھی پریشان ہو کر اس طرح سوچنے لگتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جلدی مت کرو۔ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ (القلم ۶۸:۴۸) ’’اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو او رمچھلی والے کی طرح نہ ہو جائو۔ ‘‘ یہاں حضرت یونسؑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب ان کی قوم نے برسوں دعوت کے کام کے بعد مان کے نہیں دیا‘ تو وہ مایوس ہوگئے اور اسی جلد بازی کی وجہ سے بستی چھوڑ کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی طرح نہ ہوجائو بلکہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کے ساتھ دعوت کا کام کیے چلے جائو۔ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ (الاحقاف۴۶:۳۵) ’’پس اے نبیؐ ، صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیاہے‘ اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو‘‘۔
جلد بازی صبر کے منافی ہے۔ جلد بازی مایوسی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے اور پھر مایوسی سے جلد بازی ۔اگر آدمی کو امید بندھی رہے کہ میرا کام ہو جائے گا اور ہو کر رہے گا اور اس کاوقت مقرر ہے تو پھر وہ اتنی جلد بازی نہیں کرے گا۔ جلد بازی آدمی تب کرتا ہے جب اس کو خود پر یقین نہ ہواورمایوسی ہو۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ یہ کام اس طرح تو نہیں ہوگا‘ کچھ اور کرنا چاہیے یاکوئی اور راہ نکالنی چاہیے۔ اسی کے نتیجے میں عجلت پسندی یا جلد بازی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ ط (النحل ۱۶:۱) ’’ ان کے بارے میں جلد بازی نہ کرو‘‘۔ اس لیے کہ ہم نے معاملات کو اپنے ہاتھ میںرکھا ہے‘ تمھارے ہاتھ میں نہیں دیا۔
اسی حزن و غم کے نتیجے میں جو اگلی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ وہ وعدے بھی مشکوک نظر آنے لگتے ہیںجو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کیے ہیں۔ اللہ کے نبی تو اس کیفیت میں مبتلا نہیں ہو سکتے‘ لیکن یہ ضرور پکار اٹھتے ہیں: مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ (البقرۃ ۲:۲۱۴) ’’ اللہ کی مدد کب آئے گی‘‘؟ ان کو شک تو نہیں ہوتا لیکن اس بارے میں شبہہ ہو نے لگتا ہے کہ کبھی ہم منزل پر پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں۔ اس بارے میں ہدایت یہ ہے فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ (الروم۳۰:۲۰)‘یعنی صبر کرو‘ راہ خدا پر جمے رہو‘ او راللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ اس کا وعدہ باکل سچا ہے۔
انسان کے لیے آخری خطرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلا جائے‘اور مخالفین کے ساتھ ملنے کی کوشش کرے کہ وہ چھائے ہوئے ہیں‘ غالب ہیں‘ اور انھی کا سکہ چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نبیؐ کے بارے میں یہ خدشہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایسا کریں گے‘ مگر نبیؐ کومخاطب کرکے نبیؐ کے ماننے والوں کو ہدایت دینا مقصود ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا: فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِماً اَوْ کَفُوْرًا o (الدھر۷۶:۲۴) ’’تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو‘ اور ان میں سے کسی بدعمل یا منکرحق کی بات نہ مانو‘‘۔ گویا اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور اس کے لیے صبر کرو۔ یہاں انتظار کا لفظ استعمال نہیں ہوا‘ میں نے ترجمہ کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔ اس کام میں لگے رہو اور جو غلط کاروں کا گروہ ہے‘ ان کے ساتھ ملنے کا مت سوچو۔ یہ کسی بے صبری کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور اس طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ چیز صبر کے منافی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ سب نفسیاتی کیفیات حزن سے پیدا ہو رہی ہیں۔ ایک چیز جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ نہ ہو‘ مگر ہو جاتی ہے تو ہمیں اس کاغم ہوتاہے۔ اسی طرح جو چیز ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہو جائے اور نہ ہو تو ہمیں اس کا غم ہوتاہے۔ اس غم سے مایوسی‘ کم حوصلگی اورپست ہمتی اور بہت ساری کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ جلد بازی اور بے یقینی کی ساری کیفیات بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ ہر ایک کے علاج کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے ‘ کہ اِصْبِرُوْا‘ اِصْبِرُوْا ، یعنی صبرکرو اور اپنے کام پر جمے رہو اور صبر سے مدد چاہو‘ اپنے آپ کو اس سے باندھ کر رکھو‘ اپنے آپ کو ایک مقام پر روکے رکھو۔ اس لیے کہ یہی ان چیزوں کا علاج ہے۔
دوسری کیفیت خوف کی ہے۔ اس بات کا خوف کہ کل نہ جانے کیا ہو جائے۔ اسی طرح جان کا خوف ہوتاہے‘ مال کے ضائع ہونے کا خوف ہوتاہے‘ اور دنیا کے اندر جو عزت اوروقار ہے اس کے چھن جانے کا خوف بھی ہو سکتاہے۔ یہ تمام خوف اور اندیشے انسان کے اوپر حاوی ہیں۔ زندگی آدھی تو حسرت کی نذر ہو جاتی ہے کہ کیا نہیں ہو سکا‘ اور آدھی خوف کی نذر ہوجاتی ہے کہ نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ اس کا علاج بھی صبر ہے۔ چناں چہ جہاں اللہ تعالیٰ نے ابتلا و آزمایش کا ذکر کیا‘ وہاں سب سے پہلے خوف کا ذکر کیا ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیئٍ مِّنَ الْخَوْفِ (البقرۃ ۲:۱۵۵)۔ اسی طرح دشمن کے حملہ آور ہو جانے اور مسلط ہو جانے کا خوف ہوتاہے۔ دیگر ہزاروں اندیشے اور خطرات ہوتے ہیں جو آدمی پر طاری ہوتے ہیں۔ وہ لرزتا ہے‘ کانپتاہے اور ڈرتا رہتاہے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے‘ رشتہ دار ساتھ چھوڑ دیں گے‘ دوست ساتھ نہ دیں گے‘ اور پتا نہیں کیا کیا نقصان ہو جائے۔ فرمایا کہ اس خوف سے ہم آزمائیں گے۔ اس خوف کا علاج بھی صبر ہے۔ خوف کے مقابلے میں جمے رہنا اور پیچھے نہ ہٹنا بھی صبر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دین کے راستے پر جمنے اور ہر طرح کی قربانی دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ کو باپ کے ذریعے حکم ملا کہ تمھاری جان مطلوب ہے تو انھوں نے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۰۲) ’’اس نے کہا ‘ ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیاجار ہا ہے اسے کرڈالیے‘ آپ ان شا ء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ یہ صبر عام قسم کا نہیں تھا بلکہ بڑے عزم اور حوصلے کا صبر تھا کہ میری جان حاضر ہے۔ اس کے لیے تیار ہوں۔ یہ اللہ پر توکل تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دین کے دوسرے احکام نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد سب کے ساتھ صبر کا ذکر کیا ہے۔ کیوں کہ صبر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم پر عمل نہیں ہو سکتا۔
دعوت کی راہ میں بہت سی مخالفتوں سے سابقہ پڑتاہے۔ جو چیزیں سہی اور برداشت کی جاتی ہیں‘ ان پر آدمی کو صدمہ اور غم ہوتاہے۔ اس میں مخالفین کے ساتھ روش کے حوالے سے بھی صبرکی تاکید ہے۔ صبر کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو عموماً نگاہوں سے محو ہو جاتے ہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم پر کوئی سختی کرے‘ کوئی نقصان پہنچائے‘ تو تمھیں بھی اس کی اجازت ہے کہ جتنا اور جس طرح تم کو نقصان پہنچایا گیاہے‘ تم بھی اس کو پہنچائو لیکن اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا:
وَلَئِنْ صَبَرْ تُمْ لَھُوَ خَیْرٌّ لِّلصّٰبِرِیْنَ o (النحل۱۶:۱۲۶)
لیکن اگر تم صبرکرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہترہے۔
وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشورٰی ۴۲:۴۳)
البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے، تویہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۳۴) جو ہرحال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال‘ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔
خرچ کرنے کے لیے بھی حوصلے اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک پہلو ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ خوبیاں ہیں کہ برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔ برائی کا جواب بھلائی سے دو۔ ایک جگہ ان لوگوں کا جو اللہ کی جنت میں جائیں گے یوں ذکر کیا : وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ ربِّھِمْ وَ اَقَامُوالصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزقْنٰھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً وََّیَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ (الرعد۱۳:۲۲) ’’ان کا حال یہ ہوتاہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں‘‘۔ ایک دوسری جگہ فرمایا: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ج وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوحَظٍّ عَظِیْمٍo (حٓم السجدۃ ۴۱:۳۴-۳۵) ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں‘ اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔گویا اخلاق کے اعلیٰ مقام تک وہی پہنچتے ہیں جو برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیتے ہیں۔ برائی کو تو وہی چیز مٹاسکتی ہے جو بھلی اور اچھی ہو۔
یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو صبر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس کے بعد پھر جسمانی مصائب اور جسمانی تکالیف ہیں۔ اگر اس حوالے سے بھی آدمی کا تصور واضح ہو تو وہ ہر طرح کے ظلم و جبر کو برداشت کرسکتاہے‘ حتیٰ کہ جان بھی دینا پڑے تو بے خوف جان دے گا۔ جب یہ بات واضح ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے‘ لہٰذا موت کوئی ڈرنے کی چیز نہیں ہے۔ اس چیز سے کیا ڈرنا جس کا نہ تو وقت معلوم ہو‘ نہ جسے روکا جا سکتا ہو‘ نہ اس سے بچا جا سکتاہو‘ نہ اس کو ٹالا جا سکتاہو اور نہ اس سے چھپ کر کہیں جایا جا سکتا ہو‘ اور نہ ایک گھڑی آگے کی جاسکتی ہو اور نہ پیچھے۔ بہت بے وقوفی ہے کہ آدمی اس سے ڈرے۔ ڈرنا تو اس چیز سے چاہیے کہ جو اس کے بعد پیش آنے والی ہے‘ جسے ٹالا جاسکتا ہے‘ جس سے بچا جا سکتاہے اور کچھ کرکے اس پر قابو پایا جا سکتاہے‘ یعنی آخرت۔ لہٰذا جس کو یہ معلوم ہو کہ موت کا وقت مقرر ہے تو پھر اس کو کبھی بھی موت کا خوف لاحق نہیں ہو سکتا۔
حضرت علیؓ کا مشہور قول ہے کہ دد دن ایسے ہیں کہ جب میں موت سے نہیں ڈرتا۔ ایک دن تو وہ ہے کہ جس روز موت کو نہیں آنا۔ اس دن موت سے ڈرنے کی کیا ضرورت‘ اس لیے کہ اس روز تو اس کو نہیں آنا۔ دوسرا دن وہ ہے جس دن موت کو آنا ہے۔ اس دن بھی موت سے کیا ڈرنا کہ اس دن ڈرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انھوں نے بڑے خوب صورت انداز میں یہ بات کہی ہے کہ یا تو آج کے دن موت کو آنا ہے‘ یا آج کے دن موت کو نہیں آنا۔ اگر آج کے دن موت کو آنا ہے تو ٹل نہیں سکتی‘ لہٰذا ڈرنے سے کچھ حاصل نہیں۔ اگرموت کو اس روز نہیں آنا تو خواہ مخواہ آدمی کیوں ڈرے‘ ۔ یہ تصور موت سے بے خوف کردیتاہے اور آدمی کے اندر صبروہمت پیدا کردیتاہے۔ پھر وہ عزم اور حوصلے کے ساتھ جما رہتاہے۔
صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ میں نے ان میں سے صرف چند پہلو سامنے رکھے ہیں۔ قرآن مجید اسے کہیں صبر کے نام سے اور کہیں نام لیے بغیر صبرکے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتاہے۔ کہیں اپنے نبی ؐ سے خطاب کرتاہے تو اس میں کوئی نہ کوئی صبر کا سامان ہوتا ہے اور کسی نہ کسی خزانے کا منہ کھولتاہے‘ جہاں سے دعوت کا کام کرنے والا صبر کاخزانہ حاصل کرتاہے۔ کوئی چشمہ ایسا بہتا ہے کہ جہاں سے کوئی فیض ملے۔ نبی کریمؐ اور آپؐ کے ساتھی جس طرح اپنے مقام پر ‘ اپنے موقف پر‘ اپنے کام اور اپنے مقصد کے اوپر جمے رہے‘ وہ اسی صبر کا نتیجہ تھا اور بالآخر ساری دنیا کے وارث بن گئے۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے صرف فلسطین عطا کیا تھا‘ لیکن حضوؐر کی امت کو اللہ تعالیٰ نے مشرق سے لے کر مغرب تک‘ شمال سے لے کر جنوب تک پوری دنیا صبر کی وجہ سے عطا کردی۔ یہ صبر کا نتیجہ تھا اور وہ صبر کے مقابلے میں کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
صبر کا سرچشمہ دراصل یہ احساس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر چیز قائم ہے‘ اور ہم ہر وقت اللہ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔اسی لیے قرآن مجید میں سورۂ مدثر میں سورۂ اقرأ کے بعد دوسری یا تیسری وحی میںیہی ہدایت فرمائی : وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر۷۴:۷) ’’اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘۔ گویا اپنے رب کی خاطر اور اپنے رب کے لیے جم جائو‘ اور یہ سمجھو کہ میں اپنے رب کے لیے کام کر رہا ہوں‘ رب کا کام کر رہا ہوں اور رب کی راہ میں ہوں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں۔ قرآن پاک نے اس طرح بار بار صبر کی تلقین کی ہے۔ ایک مقام پر فرمایا:
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o (الطور۵۲:۴۸) اے نبیؐ،اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو‘ تم ہماری نگاہ میں ہو۔ تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔
حضرت موسٰی ؑ کو جب فرعون کے دربار میں بھیجا تو انھوں نے کہا کہ ہم فرعون کے دربار میں جائیں گے لیکن میرے اوپر خون کا دعویٰ بھی ہے اور مجھے ڈر اور خوف بھی ہے۔ اس پر فرمایا : اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۶) ’’ڈرو مت ‘ میں تمھارے ساتھ ہوں‘ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہاہوں‘‘۔ گویا تم جس حال میں بھی ہوگے‘ میں سن بھی رہا ہوں گا اور دیکھ بھی رہا ہوں گا۔
دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات صبر کا سرچشمہ ہے۔ جب آدمی کو یقین ہو جائے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے‘ کوئی چیز بھی میری اپنی نہیں ہے۔ یہ دین بھی میرا اپنا نہیں ہے۔ لوگوں کو دین کی راہ پر لانا‘ ان کے دلوں کو حق کی طرف موڑنا‘یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو ہو گا‘ اور اگر نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ۲:۱۵۶) ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ ‘ میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ دراصل وہ چھوٹاسا کلمہ ہے جس کے اندر صبر کی ساری دنیا پنہاں ہے۔ اسی لیے حادثے اور صدمے پر اسی کو پڑھا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جس سے آدمی صبر حاصل کرسکتاہے۔ گویا کوئی چیز میری اپنی نہیں ہے‘ اللہ کی ہے۔ سب چیزوں کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اس کا انجام وہیں پر ہونا ہے۔
اسی طرح نماز کو صبر کے ساتھ اس لیے جوڑا گیا ہے کہ نماز میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ کے الفاظ ہیں‘ وَاسْتَعِینُوْا بِاللّٰہِ ،’’اللہ سے مدد مانگو‘‘۔ اور وہی الفاظ پھر ہیں کہ یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ کہ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد مانگو۔ صبر کا لفظ انھوں نے خود کہا۔ اللہ کی مدد کے لیے صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے۔ اس لیے کہ صلوٰۃ تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے۔ اللہ کے سامنے حاضر ہونے ‘ اللہ سے بات چیت اور اللہ سے قرب کا نام ہے۔ سجدہ کرتے وقت آدمی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتاہے۔ جب اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتاہے تو اس کے دربار میںحاضر ہوجاتاہے۔ اسی لیے تو نماز اللہ کی یاد اور اللہ کے قرب کا نام ہے‘ نیز نماز صبر کا سامان فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے:
اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ ۲:۱۵۳) صبراور نماز سے مدد لو۔
فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغَرُوْبِ o وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ o (قٓ۵۰:۳۹-۴۰) پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔ طلوع آفتاب اورغروب آفتاب سے پہلے اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔
وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاًo وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلاً طَوِیْلاًo (الدھر ۷۶:۲۵-۲۶) اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو‘ رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو‘ اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو۔
جہاں بھی صبر کا ذکر آئے گا وہاں سے کسی نہ کسی پہلو سے اللہ کا‘ اس کی حمد کا اور نماز کا ذکر آئے گا۔ اس لیے کہ صبر کی پوری استعداد اسی تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ جتنا یہ تعلق مضبوط ہوگا‘ یقین مضبوط ہوگا‘ اتنا ہی آدمی بے خوف اور اللہ سے ملاقات کا شائق ہوگا۔ کوئی چیز جو اللہ کی ہے اگر اس نے لے لی‘ تو اس پر کوئی گلہ نہیں ہوگا‘ کوئی صدمہ نہیں ہوگا۔ اللہ کی عزت اس کی عزت ہے‘اور اس کی عزت اللہ کی عزت ہے۔ اسی کی خاطر وہ جما رہے گا۔ لہٰذا اس کو کسی بات کا صدمہ نہیں ہوسکتا۔ بڑے سے بڑا صدمہ تو جان کے ضیاع کا ہوتاہے‘ اگر جان کا ضیاع بھی ہو جائے تو یہ ہمارے ہاں بہت معروف ہے اور کہا جاتا ہے: لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلِلّٰہِ مَاعَطَا ‘ جو لے لیا وہ بھی اسی کا تھا‘ جو دیا ہے وہ بھی اللہ کا ہے۔ کوئی چیز ہماری نہیں ہے‘ سب کچھ اسی کا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اس کی بھر پور عکاسی کرتاہے۔ گویا سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے‘ سب اسی کی ملکیت ہے‘ ہمارے پاس تو ایک امانت ہے۔
جب نماز سے اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہوتی ہے‘ اللہ کی یاد دل میں بستی ہے‘ ڈیرے ڈالتی ہے‘ تو پھر صبر پیدا ہوتاہے۔ اللہ کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نماز کو خشوع کے ساتھ پڑھنے کے لیے بڑے صبر کی ضرورت ہے۔ اس لیے بھی دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ نماز ٹھیک ہو تو صبر پیدا ہوتاہے‘ اور نماز ٹھیک سے پڑھنے کے لیے صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہزاروں خیالات آتے ہیں‘ ہزاروں وسوسے پریشان کرتے ہیں‘ ان کے اوپر قابو پانا اور ان کے مقابلے میں اللہ کو یاد رکھنا‘ اس کے لیے بڑے ضبط اور بڑے صبرکی ضرورت ہے۔ حصول صبر کے لیے ایک جامع نسخہ ذیل کی آیات میں بیان کیا گیاہے:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰـقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرۃ ۲:۴۵-۴۶) صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے‘ مگر ان فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
گویا صبر اور نماز سے مدد مانگی جائے اور یہ مدد مانگنا بڑا مشکل ہے‘ سوائے ان کے جو خشوع کی کیفیت رکھتے ہیں‘ جن کے دل اللہ کے آگے پست ہیں‘ یا جن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھل جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں‘ جن کو اس کا دھڑکا لگا رہتاہے‘ کہ اللہ سے ملاقات کرنی ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ، یعنی ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ کے اندر پورے صبر کا نسخہ آگیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس اعلیٰ اخلاقی مقام پر پہنچائے‘ اور اس کو حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
ہم بچپن سے سنتے آئے ہیںکہ صبر کرو۔ اگر دین دارگھرانہ ہو تو اس پر جو بھی مشکل یا مصیبت آن پڑے‘ اس پر والدین کی طرف سے یہی نصیحت کانوں میں پڑتی ہے کہ صبر کرنا چاہیے۔ اگر کوئی عام گھرانہ ہو ‘ تب بھی جب کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے‘ یاکوئی عزیز دنیا سے رخصت ہو جائے ‘ تو ہرآنے جانے والا شخص یہی کہتاہے کہ صبر کریں‘ اللہ کی مرضی کے آگے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ یہ ہمارا صبر سے ابتدائی تعارف ہے جو بچپن ہی سے گھروں میں ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی دنیا میں کچھ بھی حاصل کرنا چاہے‘ اس کے لیے محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر آدمی جانتاہے کہ زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ جس کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہو‘ اس کی زندگی بھی ہزاروں اندیشوں اور پریشانیوں سے دو چار ہوتی ہے۔ ہر آدمی اس چیز کی طلب میں رہتاہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی‘ اور ہر اس چیز کا رنج و غم کرتاہے جو اس کے ہاتھ نہیں آسکتی۔ یہ کیفیت اس کی بھی ہے جو دنیا میں بہت کچھ رکھتاہو اور اس کی بھی جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بھی مقصد زندگی اگر سامنے ہو‘ کوئی بھی خواہش پوری کرنی ہو تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے لیے لگن سے کام اور محنت کرنی پڑتی ہے۔ راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنی پڑتی ہیں اور ان پر قابو پانا ہوتا ہے۔ اگر ترغیبات راستے سے ہٹانا چاہیں تو ان کا بھی مقابلہ کرنا پڑتاہے۔ مثال کے طورپر اگر کسی کو ڈاکٹر بننا ہے تو اس کے لیے اسے محنت کرنا پڑتی ہے‘ راتوں کی نیند قربان کرنا پڑتی ہے اور بہت سی خواہشات اور تمنائوں کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے‘ تب کہیں جا کر ڈاکٹر بنا جاتاہے۔
صبر کے کئی مفہوم ہیں‘مثلاً کسی کام کو جم کر کرنا‘ حوصلے سے کرنا‘ عقل کے ساتھ کرنا۔ کہیں پہنچنا ہو تو اس کے لیے اس استعداد کی ضرورت ہوتی ہے جس کو ہم صبر کے نام سے پکارتے ہیں۔
صبر کے لغوی معنی عربی زبان میں روکنے اور باندھنے کے‘ یا برداشت کرنے اور سہنے کے ہیں۔ کسی بھی چیز کے ساتھ اگر آدمی اپنے آپ کو باندھ لے اور اس کے اوپر جم جائے تو یہ صبر ہے۔ یہ بھی صبر ہے کہ انسان کے سامنے جو بھی مقصد ہو یامنزل سر کرنا ہو‘ چاہے یہ مقصد دنیاوی ہو یا اعلیٰ و ارفع کوئی اخلاقی مقصد‘ آدمی اپنے مقصد پر جم جائے اور یہ عزم کرلے کہ جوبھی رکاوٹیں ہوںگی انھیںخاطر میں نہیں لائے گا‘ خواہ وہ تکلیف کی صورت میں نمودار ہوں یا ترغیب کی صورت میں۔ یہ مشکلات اور رکاوٹیں باہر سے ہوں‘ یا اپنے اندر سے‘ یا کوئی راہ میںمسائل پیدا کردے‘ لیکن انسان اپنے مقصد پر جما رہے۔ کبھی حوصلہ پست ہونے لگے‘ یا مایوسی ہونے لگے‘ کبھی محنت سے دل گھبرانے لگے‘ مستقل کام کرتے ہوئے اُکتاہٹ ہونے لگے‘ اس کے باوجود کام کرتے رہنا‘ یہ بھی صبر ہے۔ گویا روکنے اور باندھنے اورسہارنے کے معنوں میں صبر کا لفظ استعمال ہوتاہے۔
اگر قرآن مجید کھول کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تو ایک ایسی صفت ہے اور ایسی استعداد ہے جس کے ذکر سے قرآن مجید بھراہوا ہے۔ وہ جگہ جگہ اس کی ہدایت کرتاہے‘ اور اس کے مختلف پہلو بیان کرتاچلا جاتاہے۔ دنیا کے کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان جم کے کام کرے‘ رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لائے اور ترغیبات کے اوپرقابو پائے۔ لالچ ہو یا خوف‘ خوشی ہو یا غم‘ مایوسی ہو یا کم ہمتی‘ سب کے اوپر قابو پائے۔ دنیا کے اندر اس کا کوئی کاروبار چلتاہے‘ کسی نوکری میں اونچا مقام ملتا ہے‘ تعلیم کے میدان میںکوئی کامیابی ملتی ہے‘ گھر کی بنیاد رکھی جائے یا تعمیر کیا جائے یا اور بہت سے کام ہوں‘ ان سب کے لیے صبر کی صفت ضروری ہے۔
قرآن مجید ایک ایسی منزل کی دعوت دینے کے لیے آیا ہے اور ایک ایسی نعمت عطاکرتاہے جو بالکل مختلف ہے۔ دنیا میں جتنی بھی منازل ہیں‘ جتنی بھی خواہشات ہیں‘ جتنی بھی چیزیں ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس لیے کہ وہ ایک ابدی نعمت‘ ہمیشہ کی نعمت‘ یعنی جنت اور رضاے الٰہی کی طرف پکارتا ہے۔ اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر صبر کی ضرورت اسی راستے کے لیے ہے۔ جتنی اعلیٰ منزل ہوگی‘ اتنی ہی محنت کرنا پڑے گی اور اتنا ہی گرنے کا ڈر بھی ہوگا‘اور اتنی ہی زیادہ راہ میں رکاوٹیں بھی حائل ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ترغیبات اور وسوسے بھی باربار سامنے آئیں گے کہ شاید پیچھے رہ جانے میں ہی فائدہ تھا‘ یاآگے بڑھنے کی محنت خواہ مخواہ مول لی وغیرہ۔
یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو کسی بھی اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ہمارے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ جب منزل وہ ہو جس کی وسعت میں آسمان اور زمین سماجائیں تو ظاہر ہے کہ اسی پیمانے سے مشکلیں‘ رکاوٹیں‘ مصائب اور ترغیبات سامنے آسکتی ہیں۔ وہ ساری نفسیاتی کیفیات اور جسمانی مصائب جو دوسرے مقاصد تک پہنچنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں وہ اس حیثیت میں کئی گنا زیادہ پیش آتے ہیں۔ اسی لیے جب قرآن مجید نازل ہوا تو شروع ہی میں جو بنیادی ہدایات اس نے اپنے لانے والے کو دیں‘وہ یہی تھیں کہ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ (المدثر۷۴:۷) ’’ اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔‘‘ پھر چند دن کے بعد دوسری وحی نازل ہوئی: وَاصْبِرْعَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُُرْ ھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا o (المزمل۷۳:۱۰) ’’اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں‘ ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہو جائو‘‘،یعنی مخالفین جو بھی باتیں بنار ہے ہیں‘ تمھیں جھٹلا رہے ہیں‘ مذاق اڑا رہے ہیں‘ پروپیگنڈا کررہے ہیں‘ اس پر صبر کرو اور راہِ خدا میں جمے رہو۔ ان لوگوں کو چھوڑ دو اور چھوڑو بھی اچھے اور بھلے طریقے سے۔ یہ دوسری ہدایت سورۂ مزمل کی ہے اور پہلی سورۂ مدثر کی۔ یہ بالکل ابتدائی دنوں میں دی جانے والی ہدایات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو دیں۔ اس کے بعد دین کی راہ پر آگے بڑھنے کے ہر ہر مرحلے میں یہ ہدایات بار بار دہرائی جاتی رہیں۔
مکی دور مظالم کا دور تھا۔ مخالفین پر ہاتھ اٹھائے بغیر سہنے اور برداشت کرنے کا دور تھا۔ جسمانی مصائب اور تکالیف اٹھانے کا دور تھا۔ جب مدنی دور آیا تو ہاتھ اٹھانے کا زمانہ آیا‘ اس میں جنگ کی نوبت آئی اور جہاد کا راستہ کھلا۔ اگرچہ اس دور میں ہاتھ اٹھانے اور مقابلہ کرنے کی اجازت تھی مگر اس میں بھی جان و مال کا خطرہ موجود تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب جہاد کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ ہدایت بھی فرمائی:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo (البقرۃ ۲:۱۵۵) اورہم ضرورتمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریںان کے لیے بشارت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ اور دوسرے انبیا ؑ کو بھی صبر کی ہدایت کی۔ اس میں بھی یہ دو چیزیں موجود تھیںکہ راہ میں آنے والے مصائب پر صبر اور نمازکی روش‘ کامیابی کی روش ہے۔ اگرکوئی کنجیاں ہیں جو راستہ کھولتی چلی جائیں‘ جس سے راہ آسان ہوتی جائے‘ منزل قریب آئے‘ مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور استعداد پیدا ہو‘ تووہ صبراور صلوٰۃ ہیں۔ سب انبیا ؑ نے اپنی اُمتوں کو انھی دوچیزوں کی نصیحت کی۔ قرآن مجید میں بھی تین جگہ پر مختلف انداز میں یہ بات دہرائی گئی ہے:وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط (البقرۃ ۲:۴۵) ’’ صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔ گویاجو راستہ تمھارے سامنے ہے‘ اللہ کی بندگی اور اللہ کی رضا کے حصول کا راستہ‘ اللہ کی جنت تک پہنچنے کا راستہ‘ یہ راہ صبر اور نمازکے ذریعے ہی طے ہو سکتی ہے۔ نماز اور صبر کا کیا تعلق ہے‘ اس کا ذکر آگے آئے گا۔
قرآن مجید میں اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیاں صبر اور تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ البتہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس تقویٰ کو اختیار کرنے کے لیے نفس کے اندر جس صلاحیت‘ تربیت اور استعداد کی ضرورت ہے‘ اس کا نام صبر ہے۔ آدمی ان چیزوں سے رک جائے جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہیں‘ ان تمام نفسیاتی کیفیات کے مقابلے میں ڈٹا رہے جو انسان کے نفس کے اندر سے پیدا ہوتی ہیں‘ ان ساری رکاوٹوں کے مقابلے میں بھی اللہ کی راہ پر جما رہے جو باہر سے آتی ہیں‘ اس تقویٰ کے حصول کے لیے قوت کا خزانہ اور سرچشمہ صبر ہے۔ اسی لیے تقویٰ کے ساتھ صبر کا ذکر لازماً اور بڑی کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا گیا کہ مخالفین تمھارے خلاف جو تدبیریں اور ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں‘ ان کے مقابلے کے لیے صبر اور تقویٰ اختیار کرو۔
وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُ ھُمْ شَیْئًا ط(اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطے کہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔
قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بھی زمین میں جن کو امامت عطا فرمائی‘ یہ وہی لوگ تھے جو صبر میں سچے اور کھرے ثابت ہوئے۔
حضرت ابراہیم ؑ کو دنیا کی امامت اس وقت ملی جب انھوں نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھی۔ یہ مرحلہ بھی بڑے صبر کا متقاضی تھا۔ بیٹے نے بھی کمال سعادت مندی کے ساتھ کہا: یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَo (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۰۲) ’’اباجان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کرڈالیے‘ آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔
بنی اسرائیل کا ذکر آیا کہ مستضعفین تھے‘ غلام تھے‘ فرعون کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے‘ اس کے ظلم و جبر کے تحت پس رہے تھے لیکن ہم نے ان کو مشرق و مغرب کی زمینوں کا مالک بنادیا۔ بنی اسرائیل سے خلافت کا وعدہ اس لیے پورا ہوا کہ انھوں نے صبر کیا۔ جب وہ ان سارے مصائب کے مقابلے میں جمے رہے‘ جہاد کیا اور قربانیاں دیں‘ تو اللہ تعالیٰ نے مشرق ومغرب کی خلافت اور حکمرانی ان کے سپرد کردی۔ وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لا بِمَا صَبَرُوْا o (اعراف ۷:۱۳۷) ’’اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا‘‘۔
اسی طرح جنت کے بارے میں قرآن واضح طور پر بیان کرتاہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو صبر کی روش اختیار کرتے ہیں۔ وجَزٰ ھُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۱۲) ’’اور ان کے صبر کے بدلے میں انھیں جنت اور ریشمی لباس عطاکرے گا‘‘۔ایک دوسری جگہ یہ بات مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے: اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍo (الزمر ۳۹:۱۰)’’ صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے تم سے پہلے بھی اہلِ کتاب کو اس کی ہدایت کی تھی اور تم کو بھی اسی کی ہدایت کی ہے کہ صبر کی روش اختیار کرو۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ برائی کے جواب میں جمے رہنا‘ اشتعال میں نہ آنا‘ مخالفتوں کے مقابلے میں اپنے آپ پر قابو رکھنا‘ ہمت نہ ہارنا‘ حوصلہ نہ چھوڑنا‘ مایوسی کا شکار نہ ہونا‘ اور اشتعال میں آئے بغیر برائی کے جواب میں بھلائی کے راستے پر چلنا‘ صبر کے بغیر ممکن نہیں۔ جب انسان نیکی کا حکم دے گا اور منکر سے روکے گا تو یہ اس کے کام آئے گا۔ یہی عزیمت ہے کہ آدمی حالات و مصائب کا جم کر مقابلہ کرے۔یہ حکم‘ یہ ہدایت‘ یہ تاکید‘ کہ صبر کرو‘ اس لیے بھی ہے کہ اس کے بغیر دین کا راستہ طے نہیں ہو سکتا۔ اس راستے میں اس کے بغیر قدم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
صبر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیے کہ حضرت لقمان نے جب اپنے بیٹے کو نصیحت کی تو اس کو دوسری ہدایات کے ساتھ صبر کی بھی تلقین کی کہ یہ بڑے عزم وحوصلے کا کام ہے:
یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (لقمٰن ۳۱:۱۷) بیٹا! نماز قائم کر‘ نیکی کا حکم دے‘ بدی سے منع کر‘ اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبرکر۔ یہ بڑے حوصلے کے کاموں میں سے ہے۔
آپ غور کریں کہ آیت کا آغاز نماز سے ہوا اور اختتام صبر پر۔ قرآن مجید میں نماز اور صبر دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر آتاہے۔ اسی طرح جہاں بھی صبر کا ذکر آئے گا کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کا نام بھی آئے گا‘ اللہ کا ذکر آئے گا‘ اللہ کی تسبیح کا حکم آئے گا اور اللہ کے قریب ہونے کا ذکر آئے گا۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی تعلیم کی رو سے ایک مومن کے لیے اللہ پر ایمان اور اللہ کی ذات کے ساتھ تعلق صبر کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح قرآن میں جہاں بھی جہاد کا ذکر آیا ہے وہاں صبر کا ذکر بھی ساتھ آیا ہے کہ اللہ یہ آزما کر رہے گاکہ کون مجاہدہ کرتاہے اور کون اس کی راہ میں صبر کرتاہے۔
اگر صبرکے یہ معنی ہوں تو اس سے ایک بات بڑی صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ بچپن سے جو کچھ ہم سنتے چلے آئے ہیں وہ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ کہ جب بے بس ہو جائیں‘ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے‘ ڈاکٹر جواب دے دیں‘ موت کا فرشتہ آجائے اور جان نکال لے جائے‘ تب دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔ ایسے موقع پر اس کے علاوہ کیا چارہ ہے کہ صبر کیا جائے۔ لیکن قرآن مجید میں صبر کا جوبیان ہے اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بے بسی کی خاموشی یا بے کسی کا نام صبر نہیں ہے‘ یا قابو نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کرپانا صبرنہیں ہے۔ کچھ کرنے اور کچھ کہنے کا حوصلہ بھی ہو‘ اس کے باوجود انسان اس سے رک جائے‘ یہ صبر ہے۔ کسی کام کے کرنے کی استعداد ہو‘ خواہش بھی موجود ہو لیکن آدمی اس کے مقابلے پر جم جائے۔ صبر بزدلوں یا کم حوصلہ لوگوں کا کام نہیں بلکہ صبر تو بڑی ہمت، بڑی جرأت، بڑی بہادری اور عزم وحوصلے کا مطالبہ کرتاہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے بار بار کہا ہے کہ جو صبر کرتے ہیں اور قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردیتے ہیں‘ اور برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیںکہ یہ بڑے عزم وحوصلے کا کام ہے۔
وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (الشورٰی ۴۲:۴۳) البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے‘ تو یہ بڑی اولو العزمی کے کاموں میں سے ہے۔
ہم دیکھیں گے کہ صبر بے بسی کا نام نہیں ہے بلکہ صبربدلہ لینے کی استعداد اور ترغیب کا شکار ہو جانے کے باوجود اپنے مقام پر جمے رہنے کا نام ہے۔ مکی زندگی میں اگر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ہاتھ اٹھا نہیں سکتے تھے‘ بلکہ وہ سب لڑنا جانتے تھے اور مدینہ جاکر انھی لوگوں نے دکھایا بھی کہ وہ کس جواں مردی سے لڑنا جانتے ہیں۔ اس زمانے میں کوئی مسلح فوجیں نہیں تھیں۔ ہر ایک کے پاس تلوار ہواکرتی تھی اور ہر ایک لڑائی میں حصہ لیتا تھا۔ عرب معاشرے کے اندر اگر کوئی توہین و تذلیل کرے‘ بے عزتی کرے‘ قبیلے کے کسی آدمی کے اوپر ہاتھ ڈال دے یا کوئی خون ہو جائے‘ تو برسوں بلکہ ایک ایک سو سال تک خون در خون انتقام کا سلسلہ چلتا رہتاتھا۔ ان کے لیے یہ اجنبی بات نہیں تھی کہ آن بان اور عزت کی خاطرمرمٹیں اور اپنے قبیلے کے خون کا بدلہ لیں۔لہٰذا مکے میں جو کچھ کیا گیا وہ بے بسی کا صبر نہیں تھا بلکہ ایک سوچا سمجھا راستہ تھا۔ اس کی بنیاد میں بہت ساری چیزیں پوشیدہ تھیں‘ جن کی یہاں وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ صبر بے بسی‘لاچاری یا بزدلی کی وجہ سے نہیں تھا۔
صبر کا حقیقی مقام یہ ہے کہ آدمی اپنے مقاصد کی خاطر جم جائے اور پورے عزم وحوصلے سے مال بھی قربان کرے اور جان بھی کھپائے اور ضرورت پڑنے پر جان دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔
یہ شاید صبر کی بڑی مختصر تعریف ہے جو قرآن مجید میں موجود ہے اور جس کو میں نے بڑی تفصیل کے ساتھ بغیر کسی حوالے کے بیان کیا ہے۔ گویا کہ آدمی کے اپنے اندر سے جو ترغیبات اٹھتی ہیں‘جو خواہشات سراٹھاتی ہیں‘ جو نفسیاتی کیفیات ہوں اور جو باہر سے رکاوٹیں آئیں‘ ترغیبات ہوں‘ کوئی دولت کا لالچ دے یا جان کا خوف حائل ہو جائے‘ ان سب کے مقابلے میں اپنے مقام پر جمے رہنا‘ اپنے مقصد کے ساتھ وابستہ رہنا‘ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھنا---یہی دراصل صبر ہے۔
صبر ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس کے مختلف پہلوہیں اور ان کو پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے کہ قرآن مجید کن کن حوالوں سے صبر کا مطالبہ کرتاہے۔
روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں ۔
مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتاہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔
دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔ یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر ڈھیر سامال کسی کو مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو‘ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتاہے اوررونا دھونا شروع کردیتاہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔
یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتاہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتاہے۔(جاری)
۱- رمضان المبارک کا شایانِ شان استقبال کرنے کے لیے شعبان ہی سے ذہن کو تیار کیجیے اور شعبان کی ۱۵ تاریخ سے پہلے پہلے کثرت سے روزے رکھیے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب مہینوں سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی - رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ
خدا سب سے بڑا ہے۔ خدایا! یہ چاند ہمارے لیے امن و ایمان و سلامتی اور اسلام کا چاند بنا کر طلوع فرما اور ان کاموں کی توفیق کے ساتھ جو تجھے محبوب اور پسند ہیں۔ اے چاند! ہمارا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔
اور ہر مہینے کا نیا چاند دیکھ کر یہی دعا پڑھیے۔ (ترمذی‘ ابن حبان وغیرہ)
۳- رمضان میں عبادات سے خصوصی شغف پیدا کیجیے۔ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی خصوصی اہتمام کیجیے اور زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے لیے کمربستہ ہو جایئے۔ یہ عظمت و برکت والا مہینہ خدا کی خصوصی عنایت اور رحمت کا مہینہ ہے۔
لوگو! تم پر ایک بہت عظمت و برکت کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ خدا نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دیے ہیں اور قیام اللیل (مسنون تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اِس مہینے میں دل کی خوشی سے بطور خود کوئی ایک نیک کام کرے گا وہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر اجر پائے گا‘ اور جو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا خدا اس کو دوسرے مہینوں کے ۷۰ فرضوں کے برابر ثواب بخشے گا۔
۴- پورے مہینے کے روزے نہایت ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ رکھیے اور اگر کبھی مرض کی شدت یا شرعی عذر کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں‘ تب بھی احترامِ رمضان میں کھلم کھلا کھانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے اور اس طرح رہیے کہ گویا آپ روزے سے ہیں۔
۵- تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ اس مہینے کو قرآنِ پاک سے خصوصی مناسبت ہے۔ قرآنِ پاک اسی مہینے میں نازل ہوا اور دوسری آسمانی کتابیں بھی اسی مہینے میں نازل ہوئیں… اس لیے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ حضرت جبرئیل ؑ ہر سال رمضان میں نبیؐ کو پورا قرآن سناتے اور سنتے تھے‘ اور آخری سال آپ نے رمضان میں نبیؐ کے ساتھ دو بار دَور فرمایا۔
۶- قرآن پاک ٹھیر ٹھیر کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ کثرتِ تلاوت کے ساتھ ساتھ سمجھنے اور اثر لینے کا بھی خاص خیال رکھیے۔
۷- تراویح میں پورا قرآن سننے کا اہتمام کیجیے۔ ایک بار رمضان میں پورا قرآنِ پاک سننا مسنون ہے۔
۸- تراویح کی نماز خشوع خضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیے اور جوں توں ۲۰رکعت کی گنتی پوری نہ کیجیے‘ بلکہ نماز کو نماز کی طرح پڑھیے تاکہ آپ کی زندگی پر اس کا اثر پڑے اور خدا سے تعلق مضبوط ہو۔ خدا توفیق دے تو تہجد کا بھی اہتمام کیجیے۔
۹- صدقہ اور خیرات کیجیے۔ غریبوں‘ بیوائوں اور یتیموں کی خبرگیری کیجیے اور ناداروں کی سحری اور افطار کا اہتمام کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’یہ مواسات کا مہینہ ہے‘‘، یعنی غریبوں اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ ہمدردی سے مراد مالی ہمدردی بھی ہے اور زبانی ہمدردی بھی۔ ان کے ساتھ گفتار اور سلوک میں نرمی برتیے۔ ملازمین کو سہولتیں دیجیے اور مالی اعانت کیجیے۔
۱۰- شب قدر میں زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کیجیے اور قرآن کی تلاوت کیجیے۔ اس رات کی اہمیت یہ ہے کہ اس رات میں قرآن نازل ہوا۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (حصن حصین)
خدایا! تو بہت ہی زیادہ معاف فرمانے والا ہے کیونکہ معاف کرنا تجھے پسند ہے‘ پس تو مجھے معاف فرما دے۔
۱۱- رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری ۱۰ دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
۱۲- رمضان میں لوگوں کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت کا سلوک کیجیے۔ ملازمین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دیجیے اور فراخ دلی کے ساتھ اُن کی ضرورتیں پوری کیجیے اور گھر والوں کے ساتھ بھی رحمت اور فیاضی کا برتائو کیجیے۔
۱۳- نہایت عاجزی اور ذوق و شوق کے ساتھ زیادہ دعائیں کیجیے۔ درمنشور میں ہے کہ جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف بہت زیادہ غالب ہوجاتا تھا۔
۱۴- صدقہ فطر دل کی رغبت کے ساتھ پورے اہتمام سے ادا کیجیے اور عید کی نماز سے پہلے ادا کر دیجیے‘ بلکہ اتنا پہلے ادا کیجیے کہ حاجت مند اور نادار لوگ سہولت کے ساتھ عید کی ضروریات مہیا کر سکیں اور وہ بھی سب کے ساتھ عیدگاہ جا سکیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
۱۵- رمضان کے مبارک دنوں میں خود زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نہایت سوز‘ تڑپ‘ نرمی اور حکمت کے ساتھ نیکی اور خیر کے کام کرنے پر ابھاریے تاکہ پوری فضا پر خدا ترسی‘ خیرپسندی اور بھلائی کے جذبات چھائے رہیں اور سوسائٹی زیادہ سے زیادہ رمضان کی بیش بہا برکتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔
اللہ کے محبوب اور پسندیدہ بندوں میں استکبار کے بجاے خاکساری نمایاں ہوتی ہے۔ دین کی دعوت پیش کرتے ہوئے اور تبادلۂ خیال کرتے ہوئے وہ اکڑنے اور الجھنے کی کوشش نہیں کرتے‘ جہلا اگر ان کے منہ آنے لگیں تو وہ کج بحثی کے درپے نہیں ہوتے بلکہ خوب صورتی اور شایستگی کے ساتھ سلام کر کے رخصت ہوجاتے ہیں۔ سورہ الفرقان میں اس خصوصیت کو یوں بیان کیا گیا ہے ع
اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام
صاحب تفہیم القرآن رحمن کے بندوں کے اس وصف کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جاہل سے مراد اَن پڑھ یا بے علم آدمی نہیں‘ بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتائو کرنے لگے۔ رحمن کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گالی کا جواب گالی سے اور بہتان کا جواب بہتان سے اور اسی طرح کی بے ہودگی کا جواب بے ہودگی سے نہیں دیتے جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: ’’اور جب وہ کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظرانداز کر دیتے ہیں‘ کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ سلام ہے تم کو‘ ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۴۶۲-۴۶۳)
مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں: ’’اور بندے رحمن کے وہ ہیں جو ’کم عقل اور بے ادب لوگوں کی بات کا جواب عفو و صفح سے دیتے ہیں۔ جب کوئی جہالت کی گفتگو کرے تو ملائم بات اور صاحبِ سلاست کہہ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ ایسوں سے منہ نہیں لگتے نہ ان میں شامل ہوں‘ نہ ان سے لڑیں۔ ان کا شیوہ وہ نہیں کہ ’’خبردار ہم سے کوئی جہالت کرے‘ ہم اس کے جواب میں جہالت کی تمام حدود پھاند جائیں گے‘‘ ؎
اَلَا لا یجھلن احدٌ علینا
فنجھل فوق جھل الجاھلینا
معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں: ’’جاہل سے مراد بے علم آدمی نہیں بلکہ وہ جو جہالت کے کام اور جاہلانہ باتیں کرے خواہ واقع میں وہ ذی علم بھی ہو اور لفظ سلام سے مراد یہاں عرفی سلام نہیں بلکہ سلامتی کی بات ہے۔ قرطبی نے نحاس سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ سلام تسلیم سے مشتق نہیں بلکہ تسلُّم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سلامت رہنا۔ مراد یہ ہے کہ جاہلوں کے جواب میں وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں جس سے دوسروں کو ایذا نہ پہنچے اور یہ گنہگار نہ ہو۔ یہی تفسیر حضرت مجاہد‘ مقاتل وغیرہ سے منقول ہے (مظہری)۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۵۰۳)
سید مودودی رقمطراز ہیں: ’’جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اوراُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملے میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کردے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں الجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت دعوت اور اصلاح نفوس میںخرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ سورۂ اعراف‘ ج ۲‘ ص ۱۱۲)
حافظ عماد الدین (ابن کثیر) فرماتے ہیں کہ: ’’جب جاہل لوگ (رحمن کے بندوں سے) ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اتر آتے بلکہ درگزر کرلیتے ہیں‘ معاف فرما دیتے ہیں اور سواے بھلی بات کے گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے‘ جیسے کہ رسولؐ کی عادت مبارک تھی۔ جوں جوں دوسرا آپؐ پر تیز ہوتا آپؐ اتنے ہی نرم ہوتے… رسولؐکے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو۔ آنحضرتؐنے فرمایا: ’’تم دونوں کے درمیان فرشتہ موجود تھا۔ وہ میری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا۔ وہ جو گالی تجھے دیتا تھا فرشتہ کہتا تھا‘ یہ نہیں بلکہ تو‘ اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا: اس پر نہیں بلکہ تجھ پر‘ تو ہی سلامتی کا پورا حق دار ہے‘‘ (مسنداحمد)۔ پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے۔ برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے۔ سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔ امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ‘‘دوسرا ان پر ظلم کرے‘ یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں‘’۔ (ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۲۵)
ابن ہشام نے لکھا ہے کہ ’’ہجرتِ حبشہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میںپھیلیں تو وہاں سے ۲۰ کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیق حال کے لیے مکہ معظمہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد حرام میں ملا۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردوپیش کھڑے ہوگئے۔ وفد کے لوگوں نے حضوؐر سے کچھ سوالات کیے جن کا آپؐ نے جواب دیا۔ پھر آپؐ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے پڑھیں۔ قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انھوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضوؐر پر ایمان لے آئے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستے میں جالیا اور انھیں سخت ملامت کی کہ ’’بڑے نامراد ہو۔ تمھارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھیجا تھا کہ تم اس شخص کے حالات کی تحقیق کرکے آئو اورانھیں ٹھیک ٹھیک خبر دو‘ مگر تم ابھی اس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے۔ تم سے زیادہ احمق گروہ تو کبھی ہماری نظر سے نہیں گزرا‘‘۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’سلام ہے بھائیو تم کو۔ ہم تمھارے ساتھ جہالت بازی نہیںکرسکتے۔ ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پرچلتے رہو۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے‘‘۔ (سیرت ابن ہشام ‘ ج ۲‘ ص ۳۲بحوالہ تفہیم القرآن‘ ج۳‘ ص ۶۴۵)
اسی واقعے کا ذکر سورۂ قصص میں بھی آیاہے: ’’جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انھیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے‘ یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے‘ ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے… اور جب انھوں نے بے ہودہ باتیں سنیں تو اُلجھنے سے پرہیز کیا اور بولے: ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے‘ تم کو سلام ہے ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۵۳۷-۵۳۸)
یہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی ایک اہم صفت ہے کہ وہ متانت‘ سنجیدگی اور معقولیت سے کام لیتے ہیں‘ اپنی بات کو نہایت شایستگی سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ بحث و جدال میں نہیں پڑتے۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ جاہلوں سے اُلجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے والد سے بحث و تمحیص اور الجھائو سے بچنے کی خاطر سلامٌ علیکم کہہ کر مفارقت کا ایک شائستہ طریقہ اختیار کیا تھا۔ اس لیے کہ ضدی‘ ہٹ دھرم اور جھگڑالو لوگ دلیل سے بات کرنے کے بجاے گالم گلوچ اور دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں۔ ایسے میں عفو و درگزر سے کام لینے‘ معروف انداز میں بات کرنے اور ان سے اعراض کرنے ہی میں عافیت ہے۔ اس طرح اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ مومن کے شریفانہ طرزِعمل سے کسی موقع پر اس کا دل پسیج جائے۔ قرآن نے بھی اپنے نبی کو یہی تعلیم دی اور آپؐ نے بھی دعوت و تبلیغ اور عام گفتگو میں یہی انداز اپنایا۔ فرمایا:
اے نبیؐ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو‘ معروف کی تلقین کیے جائو‘ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ اگرکبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو‘ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انھیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انھیںصاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند‘ تو وہ انھیں کج روی میں کھینچے لیے جاتے ہیں اور انھیں بھٹکانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ (الاعراف۷: ۱۹۹-۲۰۲)
۱- اپنے خاندان میں‘ بالخصوص بچوں کے ساتھ ممکنہ حد تک زیادہ وقت گزارا جائے۔ اپنی معاشی جدوجہد و دیگر مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لازماً کچھ وقت اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گزارا جاسکے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے‘ تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک نامناسب اور غیرمعقول طریقہ ہے۔ مدرسے میں بچوں کی مصروفیات‘ دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں۔
۲- بچوں کوسخت کوشی اور محنت کا عادی بنانے کے لیے انھیں ایک درمیانے معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے تاکہ وہ ایک عام انسان جیسی پُرمشقت زندگی کا تجربہ حاصل کرسکیں۔
۳- اوّل تو جیب خرچ دینے سے بچا جائے اور بچوں کی ایسی ضروریات کو خود پورا کیا جائے‘ اور اگر بچوں کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر اسے ڈسپلن کا پابندبنایا جائے۔ بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے‘ تاکہ ان میں بچپن سے ہی کفایت شعاری‘ بچت اور غیرضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے اور جواب دہی کا احساس پیدا ہو۔ والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خواہش بجا ہے۔ مگر ابتدا سے بغیر محنت کے آرام طلب بنانا‘ ان کے مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کے کپڑوں اور جوتوں پر اخراجات میں اعتدال رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ تعلیمی ادارے میں مختلف معاشی و سماجی پس منظر رکھنے والے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں‘ اس طرح ان میں غیرمطلوب مقابلہ آرائی کو روکاجاسکتا ہے۔
۴- ابتدا ہی سے بچوں سے خودانحصاری (self reliance)یعنی اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرایا جائے۔ اگر معاشی وسائل میں وسعت بھی حاصل ہو تب بھی بچوں کو اپنے کام کرنے یعنی جوتے صاف کرنے‘ کمرے کو ترتیب دینے کی عادت ڈالی جائے۔
۵- والدین کا یہ بھی فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔
۶- بچوں کی مصروفیات اور ان کے دوستوں کو جاننا ضروری ہے۔ جرائم کا ارتکاب اور نشہ آور چیزوں کا استعمال غلط صحبت کا نتیجہ ہوتاہے۔ اس لیے بچے کے دوستوں پر گہری نظر رکھنا والدین کی لازمی ذمہ داری ہے۔
۷- بچوں کے سامنے مدرسے یا اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی برائی نہ کی جائے۔ اگر جائز شکایت ہو تو متعلقہ ذمہ داران سے گفتگو کی جائے۔ مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کے اساتذہ کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے۔ والدین اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں گے تو بچے بھی اس کا اچھا اثر قبول کریں گے۔
۸- اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے۔ بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسب موقع تادیب انھیں اصلاح کا موقع فراہم کرے گی اور وہ عدل‘ انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے۔
۹- ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے حوالے سے متوازن رویہ اپنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے والدین کو خود اپنے آپ کونظم کا پابند بنانا ہوگا‘ تعلیمی اور معلوماتی پروگرام سے استفادہ اور‘ اچھے تفریحی پروگراموں پر بچوں سے تبادلہ خیال کے ذریعے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ٹی وی اور کمپیوٹر کو ایسی جگہ رکھنا چاہیے‘ جہاں سب آتے جاتے ہوں تاکہ لغو اور غیراخلاقی پروگرام دیکھنے کا امکان نہ رہے۔
۱۰- ٹی وی اور کمپیوٹر کتابوں کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔ اچھی کتب اور رسالے‘ بچوں کی شخصیت سازی میںغیرمعمولی کردار ادا کرتے ہیں‘ اپنے بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ والدین انھیں اچھی کتابیں اور رسائل فراہم کریں اور ان کے لیے ذاتی لائبریری بنائیں‘ ان کے نصاب کے مطالعے اور دیگر کتب کے مطالعے پر نظر رکھیں۔ خود بچوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے جیب خرچ سے رقم پس انداز کر کے کتابیں خریدیں۔
۱۱- بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے‘ تاکہ ملک و ملّت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو۔ موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے‘ مگر اپنے فرائض کی ادایگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے‘ اس رویے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ہوگا۔
۱۲- بچوں میں عوامی املاک کی حفاظت کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ ملک میں پارک‘ عوامی ٹرانسپورٹ‘ راستوں اور سرکاری عمارتوں وغیرہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ ہرکوئی اس کے نقصان پر تلا ہوا ہے۔ (پارک میں کھیلنے کا سامان چند دنوں میں ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے‘ بسوں کی سیٹیں پھاڑ دی جاتی ہیں اور اسٹریٹ لائٹس بچوں کی نشانہ بازی کی مشق کا ہدف قرار پاتی ہیں)۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ معاشرے میں قومی جایداد کا تصور بیدار نہیں ہے۔ اسلام ان املاک کے بارے میں امانت دار ہونے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور دے کر اس کی حفاظت کراتا ہے۔
۱۳- بچوں میں سماجی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ اسکول کی فیس ہو‘ میونسپل ٹیکس ہو یا انکم ٹیکس‘ اس ضمن میں والدین اپنے عمل سے بچوں کے لیے نمونہ پیش کریں اور انھیں عوامی واجبات کو بروقت ادا کرنے کی تلقین کی جائے۔
۱۴- گھر میں ایک بہتر ماحول قائم کیا جائے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ بالخصوص بچوں کے سامنے غصے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ خاندان کے بڑوں میں باہم میل جول‘ ایک دوسرے کی قدر و منزلت اور احترام بچوں پر خوش گوار اثر ڈالتا ہے۔
۱۵- قول و فعل میں تضاد سے پرہیز لازم ہے‘ بچے اپنے بڑوں کے اعمال سے غیرمحسوس طریقے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ماں باپ اوردیگر بڑوں کا طرزِعمل بچوں کی شخصیت کو بناتا ہے۔ والدین کو سچائی‘ امانت داری وغیرہ کے حوالے سے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اور بظاہر نقصان ہی ہوتا نظر آرہا ہو‘ اپنے عمل کو درست رکھنا چاہیے۔
۱۶- والدین عموماً اپنے بچوں سے اُونچی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ مگر جب وہ اس معیار پر پورے نہیں اُترتے تو والدین مایوس ہوجاتے ہیں اور بچوں سے ناراض ہوکر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح والدین اور بچے دونوں احساسِ کمتری اور چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ نامناسب رویہ ہے۔ بچوں کو ملنے والی کامیابی پر انھیں حوصلہ دینا اور مناسب انعام سے نوازنا چاہیے۔ بچوں سے توقعات وابستہ کرتے وقت ان کی صلاحیت‘ دل چسپی اور کمزوریوں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔ والدین کو اپنی خواہشات بچوں پر تھوپنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۱۷- ناکامی کو کامیابی کا زینہ بنانے کی تربیت دینی چاہیے۔ زندگی میں ہر فرد کو کسی نہ کسی بحران سے مقابلہ درپیش رہتا ہے اس لیے نامطلوب حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے بچوں کی ذہن سازی ضروری ہے۔ انھیں مسائل سے فرارکے بجاے ان سے نبردآزما ہونے کی تربیت دینی چاہیے۔ عزم محکم‘ عمل پیہم اور سخت محنت کامیابی کی شرائط ہیں۔ مشکلات کی صورت میں حسب موقع بچوں سے مشاورت بھی ان کی تربیت اور ان میں خوداعتمادی پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے۔
۱۸- بچوں کو اپنی زندگی کے مقصد کا شعور دیا جائے۔ مقصد زندگی کا واضح تصور انھیں دنیا میں اپنا مقام متعین کرنے میں مدد دے گا۔ مستقبل کے لیے بلند عزائم اور ان عزائم کی تکمیل کے لیے بچوں میں شوق‘ محنت اور جستجو کے جذبات پیدا کرنے میں والدین کاکردار نہایت اہم ہوتا ہے۔
۱۹- بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین تدریج سے کام لیں‘ ان کی اصلاح سے مایوس نہ ہوں۔
۲۰- بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقف کرانا اور اسوۂ رسولؐ کی پیروی کو جزوایمان بنانا‘ اسی طرح سلف صالحین کی زندگیاں مشعل راہ کے طور پر بچوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔
۲۱- گھر میں مطالعے کا وقت متعین کرکے‘ والدین اپنی نگرانی میں تعلیمی ادارے کا کام کرواتے ہوئے بچوں کی ترقی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
۲۲- وقت کی تنظیم اور قدر والدین خود بھی کریں اور بچوں کو ابتدا سے ہی وقت کے صحیح استعمال کی عادت ڈالیں۔ وقت کا ضیاع ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اس قیمتی دولت کا بہترین استعمال کامیابی کی کلید ہے۔
۲۳- تعلیم و تربیت پر خرچ مستقبل کی سرمایہ کاری ہے۔ موجودہ دور کے نہایت مہنگے تعلیمی اخراجات کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ ہرخاندان اپنی ماہانہ آمدنی کا ایک مقررہ حصہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر خرچ کرے۔ اگر بچے چھوٹی جماعتوں میں ہوں تو اس بچی ہوئی رقم کو پس انداز کرکے آیندہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
تزکیہ کے لفظ کی بنیاد ’زک ۃ‘ ہیں۔اسی سے لفظ زکوٰۃ بھی ہے جس کے معنی پاک صاف کرنا‘ نشوونما دینا‘ پروان چڑھانا ہیں۔ یہ لفظ چونکہ قرآن پاک میں متعدد مرتبہ مختلف صورتوں میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ اس کا مفہوم ہمہ گیر اور اس کے میدان وسیع ہیں۔ کسی ایک چیز کا تزکیہ مقصود نہیں بلکہ انسانی نفس‘ افراد کا باہمی تعلق‘ خاندان کی تنظیم‘ معاشرہ‘ حیثیت‘ سماج کے رسم ورواج‘ حکومت‘سیاست‘ علوم و فنون غرض عنوانات کی ایک کہکشاں ہے جو دُور تک پھیلی ہوئی ہے اور ان سب کا تزکیہ مقصود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر مطلقاً وارد ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (الاعلٰی ۸۷:۱۴)، کامیاب ہوا وہ جس نے تزکیہ کیا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت بیان فرمائے تو چار جگہ وَیُزَکِّیْھِمْ فرمایا‘ یعنی پیغمبر انھیں پاک کرتاہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ذیل کی سطور میں تزکیہ کے مختلف میدانوں کی نشاندہی کی جائے گی۔
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا o فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس۹۱:۷-۹)
اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا‘ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی‘ یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔
نفس کیا ہے۔ کیا یہ انسانی جسم کا نام ہے یا اندرونی خواہشات کو نفس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جسمِ انسانی کے لیے بھی استعمال ہواہے‘ خواہشاتِ نفس کے لیے بھی اور ضمیر کو بھی نفسِ لوامہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۵)
اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ آپؐ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپؐ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔
لہٰذا روح کثافت اور بُرائی سے پاک ہے۔ البتہ یہ جس جسم میں ہو اُس کی کثافت اور برائی اس پر ضرور اثرانداز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موت کے وقت جب یہ روح کسی گناہ گار بندے کے جسم سے علیحدہ ہوتی ہے تو اُسے لعنت ملامت کرتے ہوئے جاتی ہے کہ اُس کی وجہ سے اسے اذیت اٹھانا پڑی۔
دوسری طرف جسم تین چیزوں سے عبارت ہے: عقل‘ قلب‘ جوارح۔
عقلِ انسانی فکر کا مسکن ہے۔ یہ سوچ سمجھ‘ غوروفکر اور تدبر کا ذریعہ ہے۔ یہی انسانیت کے لیے وجہ شرف ہے۔ عقل ہی سے انسان مختلف نظریات کو پرکھتا ہے۔ یہیں عقائد و نظریات رہتے ہیں۔ اسی کے ذریعے انسان خیروشر‘ نیک و بد‘ اندھیرے اور اُجالے میں فرق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے اسی عقل کا تزکیہ ضروری ہے۔ اسی کو سید مودودیؒ نے تطہیرِافکار کا نام دیا ہے۔ یہ دراصل تطہیرِعقل ہے۔
ہر دور میں شیطان سب سے پہلے انسانی عقل پر حملہ آور ہوا ہے‘ بلکہ شیطان خود سب سے پہلے اسی عقل کے فریب میں مبتلا ہوکر مردود ٹھیر چکا ہے (جب اُس نے کہا تھا کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے)۔ شیطان مسلّمہ عقائد کو مشکوک بنانے کے لیے وسوسہ اندازی کرتا ہے (یہی وجہ ہے کہ اُس کے وساوس سے پناہ مانگتے رہنے کی تلقین کی گئی ہے)۔ آج پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک‘ مشنری ادارے ہوں یا مغربی پروردہ این جی اوز‘ یہ سب مسلمانوں کی فکر کو پراگندا کرنے کے لیے برسرِپیکار ہیں۔
تزکیۂ عقل کا پہلا مرحلہ اُن غیر اسلامی افکار اور نظریات کی تشخیص ہے جو عقل میں جڑپکڑ چکے ہیں یا جن کو شیطان اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پوری قوت سے پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور پھر دلائل و براہین کی بنیاد پر صالح عقائد کو اس فکر میں بٹھانا‘ تزکیہ کا دوسرا مرحلہ ہے۔ ان دونوں مراحل کے لیے قرآن پاک سے زندہ تعلق‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپؐ کی پاکیزہ سنت اور سیرت سے اٹوٹ رابطہ اور ان دونوں مآخذ کی بنیاد پر وجود میںآنے والے لٹریچر سے تعلق بہت ضروری ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ صرف ایک بار چند چیزوں کامطالعہ کرنے سے بات بن جائے بلکہ جب تک جسم اور سانس کا رشتہ استوار و برقرار رہے۔ یہ مطالعہ برابرجاری رہے تو توقع ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں تزکیۂ عقل کی منزل ہاتھ آجائے۔
قلب جذبات کا مرکز ہے۔ اس کے اندر محبت‘ خوف‘ رجا‘ رشک‘ بُغض اور نفرت جیسے جذبات جنم لیتے رہتے ہیں۔ تزکیۂ قلب یہ ہے کہ انسان دل میں پنپنے والے جذبات کا مسلسل جائزہ لیتا رہے۔ محبت کا جائزہ لے کہ دل میں محبت کی کیفیت کیاہے۔ کیا اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت غالب ہے یا دنیا کی؟قرآن پاک میں ارشاد باری ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط (التوبہ ۹:۲۴)
اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ‘ اور تمھارے بیٹے‘ اور تمھارے بھائی‘ اور تمھاری بیویاں‘ اور تمھارے عزیز واقارب‘ اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں‘ اور تمھارے وہ کاروبار‘ جن کے ماند پڑجانے کاتم کو خوف ہے‘ اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ تم کو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے۔
یہی معاملہ خوف کا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ فرمایا: فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ (التوبہ ۹:۱۳)’’تو اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘۔ دل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف اہلِ علم کی نشانی اور دانائی کی دلیل ہے۔ فرمایا: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا ط (فاطر ۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: راس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ ، ’’دانائی کا بلند ترین مقام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف ہے‘‘۔ لہٰذا بندہ مومن کے دل میں جہاں اللہ کا خوف ہوگا وہیں اُس کا دل مخلوقات کے خوف سے خالی ہوگا کیونکہ یہ دونوں خوف ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ ایسا ہی حال قلب کے اندر جاگزیں دیگر جذبات کا بھی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
جس نے محض اللہ کی خاطر محبت کی اور اللہ ہی کی خاطر (کسی سے) نفرت کی‘ اللہ ہی کے لیے (کسی کو) کچھ دیا اور اللہ ہی کی خاطر (کسی سے) کچھ روکا‘ تو اُس کا ایمان مکمل ہوگیا۔
جسم کی ظاہری حالت‘ ہاتھ اور پائوں‘ آنکھیں اور کان اور زبان بھی مسئول ہیں۔ اِن سے صادر شدہ اعمال کی بابت سوال کیا جائے گا بلکہ قیامت کے دن جب منہ پر مہر لگا دی جائے گی تو یہ اعضا خود اپنے جسم کے خلاف گواہی دیں گے۔ چنانچہ جوارح کا تزکیہ بھی ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ زبان کا تزکیہ یہ ہے کہ اس سے خلافِ حق بات نہ نکلے۔ کوئی جھوٹ‘ جھوٹی گواہی‘ بہتان‘ غیبت یا فساد کی بات برآمد نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہے تو یہی زبان جہنم میں لے جانے کا باعث بنے گی۔ یہی حال آنکھوں اور کانوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت سے باخبر ہے بلکہ یہ آنکھیں خود اس خیانت پر شاہد ہیں۔ کان جو کچھ سنتے ہیں اُس کی گواہی دیں گے۔ قرآن پاک میں دو مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی محافل میں بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی آیات کا مذاق اُڑایا جاتا ہو‘ یعنی ایسی بات کا سننا بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گوارا نہیں۔
تزکیہ کا دوسرا اہم میدان گھر اُس کا ماحول اور اُس کے مکین ہیں۔ انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ماحول ہی انسان کے بنائو اور بگاڑ میں کلیدی کردارادا کرتا ہے۔ چنانچہ گھر کے ماحول کو درست رکھنا گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت‘ بچوں اور بڑوں میں قرآن فہمی کے لیے رغبت و مسابقت‘ نمازوں کی حفاظت‘ حلال و حرام کے حوالے سے گھر کے مکینوں پر خصوصی توجہ‘ ٹیلی ویژن‘ اخبارات‘ رسائل اور دیگر اشاعتی مواد کی مسلسل نگرانی۔ اِن سب چیزوں سے گھر کا ماحول بنتا ہے۔ بچہ اپنے گھر سے ہی سادگی‘ قناعت اور توکل کے اسباق سیکھتا ہے اور یہیں سے تعیّش و آسایش کا خوگر بنتاہے۔
قرآن پاک نے بہت شروع میں آپؐ کو یہ تاکید کی: وَاَنْذِر عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (الشعراء ۲۶:۲۱۴) اور اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (قیامت سے) ڈرائو۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔
گھر میں بتائے جانے والے رسم و رواج‘ نشست و برخاست کے معمولات‘ لباس کا انتخاب (خصوصاً والدین کے لیے) آمدن کے ذرائع‘ خرچ کی مدّات‘ آپس کے تعلقات‘ والدین کے حقوق‘ صلۂ رحمی‘ اولاد کی تربیت‘خواتین سے سلوک‘ غرض گھر کی دنیا ایک بحرِ ناپیداکنار ہے اور ہر پہلو سے اس ماحول اور اس کے مکینوں کا تزکیہ شریعت کا عین تقاضا ہے۔
معاشرے کا تزکیہ
گھر معاشرے کا ایک یونٹ ہے۔ معاشرے کے اندر تزکیے کا عمل ہمہ جہت بھی ہے اور ہمہ وقتی اور پیہم جدوجہد کا متقاضی بھی۔ معاشرے میں نیکی پھلے اور برائی کی جڑ کٹ جائے۔ معیشت تمام مفاسد سے پاک کر دی جائے اور معاشرت کو جو عوارض لاحق ہیں اُن کا علاج کر دیا جائے اور سیاست کو تزکیے کے عمل سے گزار کر مجلّٰی و مصفّٰی کر دیاجائے تو وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جسے قرنِ اوّل کے مثالی اسلامی معاشرے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔
تزکیہ کا دشمن
اس ضمن میں ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ تزکیہ کے اس سارے عمل کا دشمن شیطان ہے جو یہ قسم کھائے بیٹھا ہے کہ وہ انسانوں کو ضرور گمراہ کرے گا اور اس دنیا اور آخرت میں اُنھیں رسوا کرے گا۔ چنانچہ جب تزکیے کا عمل فرد تک محدود ہو تو شیطان بھی انفرادی طور پر حملہ آور رہتا ہے۔ لیکن جب یہ عمل معاشرے تک پھیل جائے اور کچھ لوگ مل کر یہ کام کرنا شروع کر دیں تو شیطان بھی اُن کے مقابل میں جمعیت فراہم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ افراد کے مقابلے میں افراد لاتا ہے۔ وسائل کے مقابلے میں وسائل پیش کرتا ہے۔ قوت کے مقابلے میں قوت سے کام لیتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ حق غالب ہونے نہ پائے‘ معاشرے کا تزکیہ نہ ہوسکے۔ چنانچہ اس مقابلے میں اہل ایمان اُسی وقت کامیاب ٹھیرسکتے ہیں جب کہ وہ اس مشن کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیں‘ منظم ہوں اور جو کچھ اُنھیں میسر آئے اس راہ میں لگا دیں پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ شیطان کی تدبیروں کو اُلٹ دے گا اور اُس کے وسائل اُس کے کچھ کام نہ آسکیں گے۔
تزکیہ کے ذرائع
تزکیے کے اس ہمہ جہت پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جو ذرائع و وسائل بتائے گئے ہیں وہ بھی بہت ہی عظیم الشان ہیں۔ فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی o (الاعلٰی۸۷:۱۴-۱۷)
فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اوراپنے رب کا نام یاد کیا‘ پھر نماز پڑھی۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔
ان آیات میں چار چیزوں کی نشان دہی فرمائی گئی۔ ان میں سے دو یعنی ذکر اورنماز تو وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے‘ جب کہ بقیہ دو میں سے ایک یعنی حقیقی کامیابی کا تصور اُجاگر کیا اوردوسرے تزکیے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یعنی دنیا پرستی کا ذکر کیا گیا۔ ذیل میں اِن تمام امور پر غور کیا جائے گا۔
ذکـر
ذکر کے معنی یاد کرنے کے بھی‘یاد رکھنے کے بھی اور نصیحت اور یاد دہانی کو بھی ذکر کہتے ہیں۔ اسی نسبت سے آپؐ کو مُذَکِّر کہا گیا۔ فرمایا: جس نے رب کے نام کو یاد رکھا‘ یعنی جس نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسماے حسنیٰ کی معرفت حاصل کی وہ تزکیہ کی اِس منزل کو حاصل کرلے گا۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اِنھی اسماے حسنیٰ کا ذکر موجود ہے۔ جب بندہ یہ علم حاصل کرتا ہے کہ اُس کا رب رحمن ہے‘ رحیم ہے‘ کریم ہے‘ رؤف ہے‘ ودود ہے اور اِن ناموں سے اُس کی رحمت‘ شفقت‘ محبت اور کرم کا اظہار ہوتا ہے‘ تو اُس کے دل میں رب کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ صفاتِ جلیلہ بندے کے دل میں رب کی طرف رجوع‘ اُس کی رحمت کی آس‘ رجا اور اُمید کی کیفیت پیدا کردیتی ہیں۔ جب بندے کو علم ہوتا ہے کہ وہ رب عزیز ہے‘ شدید العقاب ہے‘ جبار و قہار ہے‘ مقتدر اور بادشاہِ حقیقی ہے تو اُس کے دل میں رب کا خوف اور اُس کے حضور جواب دہی کا احساس پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
بندہ جب سنتا ہے کہ اُس کا رب سمیع و بصیر ہے‘ علیم و خبیرہے تو وہ محتاط ہوجاتا ہے۔ اپنے اعمال کی برابر نگرانی شروع کر دیتا ہے۔ جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا رب رزّاق ہے‘ تورزق کے سلسلے میں اُس کی نگاہ مخلوقات سے ہٹ کر اُسی فاعلِ حقیقی پر جم جاتی ہیں۔ حاصل یہ کہ رب کے یہ نام رب تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور تزکیے کے عمل کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نماز
ذکر کی مکمل ترین شکل نماز ہے۔ بندہ عملی طور پر کبھی ہاتھ باندھ کر‘ کبھی رکوع کی حالت میں اور کبھی سجدے میں سرجھکا کر بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ اسماے حسنیٰ کا ورد کرکے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ دُعا و مناجات کر کے رب سے تعلق اُستوار کرتا ہے۔ چنانچہ تزکیہ کے عمل کو برابر جاری رکھنے اور اس میں ہر دم اضافے کے لیے نماز سے بہتر اور کارگر نسخہ کوئی اور نہیں۔
نماز ہی کے عمل میں دو اور اشارے بھی پوشیدہ ہیں۔ ایک یہ کہ نماز مسلمان پر ساری زندگی فرض ہے۔ سواے جنون اور بے ہوشی کے یہ فرض کبھی ساقط نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تزکیے کا عمل بھی موت کی آخری ہچکی تک جاری رہنا چاہیے۔ دوسرا اشارہ یہ کہ نماز کی اصل روح اس کی اجتماعی شان ہے۔ نماز باجماعت‘ امام کی اطاعت اور بے مثال تنظیم یہ پیغام ہے کہ معاشرے میں تزکیے کا عمل کرنے کے لیے جس بے مثال اجتماعیت‘ مثالی تنظیم اور فداکاری کی ضرورت ہے۔ اُس کی نظیر نماز میں تمھارے لیے موجود ہے۔
قرآن پاک کا ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَـنْھٰی عَـنِ الْفَحْشَـآئِ وَالْمُنْکَـرِ ط وَلَذِکْـرُ اللّٰہِ اَکْـــبَرُ ط (العنکبوت ۲۹:۴۵)
یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کو قلعہ سے تشبیہہ دی ہے جس میں انسان دشمن سے پناہ لیتا ہے۔ چنانچہ شیطان کے حملوں سے بچائو کے لیے ذکر اور نماز بہترین ہتھیار ہیں۔
تزکیے کا نبویؐ اسلوب
’’اب دیکھیے کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کس ترتیب و تدریج کے ساتھ کام کیا: ’’سب سے پہلے آپ نے ایمان کی دعوت دی اور اس کو وسیع ترین بنیادوں پر پختہ و مستحکم فرمایا۔ پھر اس ایمان کے مقتضیات کے مطابق بتدریج اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اہلِ ایمان میں عملی اطاعت و فرماں برداری (یعنی اسلام)‘ اخلاقی طہارت (یعنی تقویٰ) اور خدا کی گہری محبت و وفاداری (یعنی احسان) کے اوصاف پیدا کیے۔ پھر ان مخلص مومنوں کی منظم سعی و جہد سے قدیم جاہلیت کے فاسد نظام کو ہٹانا اور اس کی جگہ قانونِ خداوندی کے اخلاقی و تمدنی اصولوں پر ایک نظامِ صالح قائم کرنا شروع کردیا۔ اس طرح جب یہ لوگ اپنے دل و دماغ‘ نفس وا خلاق‘ افکار و اعمال‘ جملہ حیثیات سے واقعی مسلم‘ متقی اور محسن بن گئے اور اس کام میں لگ گئے جو اللہ تعالیٰ کے وفاداروں کو کرنا چاہیے تھا‘ تب آپ نے ان کو بتانا شروع کیا کہ وضع قطع‘ لباس‘ کھانے پینے‘ رہنے سہنے‘ اٹھنے بیٹھنے اور دوسرے ظاہری برتائو میں وہ مہذب آداب و اطوار کون سے ہیں جو متقیوں کو زیب دیتے ہیں۔ گویا پہلے مِسِ خام کو کندن بنایا پھر اس پر اشرفی کا ٹھپہ لگایا۔ پہلے سپاہی تیار کیے پھر انھیں وردی پہنائی۔ یہی اس کام کی صحیح ترتیب ہے جو قرآن و حدیث کے غائر مطالعے سے صاف نظر آتی ہے۔ اگر اتباعِ سنت نام ہے اس طرزِعمل کا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی مرضی پوری کرنے کے لیے ہدایت ِالٰہی کے تحت اختیار کیا تھا‘ تو یقینا یہ سنت کی پیروی نہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی ہے کہ حقیقی مومن‘ مسلم‘ متقی اور محسن بنائے بغیر لوگوں کو متقیوں کے ظاہری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے اور محسنین کے سے چند مشہور ومقبول عام افعال کی نقل اتروائی جائے۔ یہ سیسے اور تانبے کے ٹکڑوں پر اشرفی کا ٹھپہ لگا کر بازار میں ان کو چلا دینا‘ اور سپاہیت‘ وفاداری اور جاں نثاری پیدا کیے بغیر نرے وردی پوش نمایشی سپاہیوں کو میدان میں لاکھڑا کرنا‘ میرے نزدیک تو ایک کھلی ہوئی جعل سازی ہے‘ اور اسی جعل سازی کا نتیجہ ہے کہ نہ بازار میں آپ کی ان جعلی اشرفیوں کی کوئی قیمت اٹھتی ہے اور نہ میدان میں آپ کے ان نمایشی سپاہیوں کی بھیڑ سے کوئی معرکہ سر ہوتا ہے…
میری اس گزارش کو یہ معنی نہ پہنایئے کہ میں ظاہری محاسن کی نفی کرنا چاہتا ہوں‘ یا ان احکام کی تعمیل کو غیرضروری قرار دے رہا ہوں جو زندگی کے ظاہری پہلوئوں کی اصلاح و درستی کے متعلق دیے گئے ہیں۔ درحقیقت میں تو اس کا قائل ہوں کہ بندۂ مومن کو ہر اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے جو خدا اور رسولؐ نے دیا ہو‘ اور یہ بھی مانتا ہوں کہ دین انسان کے باطن اور ظاہر دونوں کو درست کرنا چاہتا ہے لیکن جو چیز میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مقدم چیز باطن ہے نہ کہ ظاہر۔ پہلے باطن میں حقیقت کا جوہر پیدا کرنے کی فکر کیجیے‘ پھر ظاہر کو حقیقت کے مطابق ڈھالیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے ان اوصاف کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو اللہ کے ہاں اصلی قدر کے مستحق ہیں اور جنھیں نشوونما دینا انبیا علیہم السلام کی بعثت کا اصلی مقصود تھا۔ ظاہر کی آراستگی اوّل تو ان اوصاف کے نتیجے میں فطرتاً خود ہی ہوتی چلی جائے گی اور اگر اس میں کچھ کسر رہ جائے تو تکمیلی مراحل میں اس کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۵۴-۲۵۵)
تزکیے کی راہ میں بڑی رکاوٹ
تزکیہ چاہے نفس کا ہو‘ یعنی عقل و قلب کا یا جوارح کا‘ یا یہ تزکیہ خاندان‘ گھر‘ معاشرے‘ معیشت یا سیاست کا ہو‘ ہر محاذ پر اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہی ہے جس کا قرآن نے جابجا ذکر کیا ہے۔ اسی سورۂ اعلیٰ میں فرمایا:
بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o (الاعلٰی ۸۷:۱۶)
مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔
ایک اور جگہ فرمایا:
کَلاَّ بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o (القیامہ ۷۵:۲۰-۲۱)
ہرگز نہیں‘ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔
یہ انسان کا عمومی رویہ ہے جس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ انسان جلدباز‘ ظاہربین ہے‘ دنیا کے نفع کا طالب اور اسی سے خوش ہونے والا ہے‘ جب کہ آخرت کا معاملہ آنکھوں سے اوجھل ہے۔ صلہ نقد کے بجاے اُدھار ہے (یہ اور بات ہے کہ آخرت کا صلہ بجاے خود بہتر اور دینے والا سب سے زیادہ بااعتماد اور سچا ہے)۔
اسی لیے انسان اِس طرف زیادہ راغب نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اگر قرآن پاک کا مطالعہ کیا جائے تو کم از کم ایک تہائی قرآن آخرت کے ذکر پر مشتمل ہے۔ گویا جب تک یہ عقیدہ بندۂ مومن کے قلب و ذہن میں اچھی طرح راسخ نہیں ہوتا اس کے لیے دین کی راہ پر ایک قدم بھی چلنا دشوار ہے اور دین کا کوئی ایک مطالبہ بھی پورا کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن پاک میں یوں اشارہ کیا گیا:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۴۵-۴۶)
صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے‘ مگر اُن فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بعض اوقات دین دار افراد بھی فکرِآخرت کا تصور پختہ نہ ہونے کی وجہ سے دنیاپرستی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے نیک اعمال دنیا کے سستے بھائو بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات نیک اعمال صرف اسی غرض سے کیے جاتے ہیں کہ اُن کے ذریعے ذرا سا دنیاوی فائدہ مل سکے۔ کسی کو چند روپے خیرات دے کر مقصد میںکامیاب ہونے کی دُعا کرائی جاتی ہے۔ کہیں قرآن پڑھ کر مقدمہ میں کامیابی کی تمنا کی جاتی ہے حالانکہ مومن نیک اعمال آخرت میں ثواب کے حصول اور رب کی رضا اور خوشنودی کی نیت سے کرتا ہے۔ ہاں البتہ اس دنیا میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات پر اُس سے رجوع کرتا ہے۔ اُسی سے مدد طلب کرتا ہے اور سخت وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
شیطان بار بار انسان کو دنیا کے فریب میں اُلجھانے کی کوشش کرتا ہے اسی وجہ سے مشرکینِ مکہ سب سے زیادہ اعتراض موت کے بعد زندگی اور آخرت کے دیگر مراحل پر کیا کرتے تھے۔ طرح طرح کی کٹ حجتیاں کرتے‘ کج بحثیاں کرتے‘ ٹھٹھہ اور مذاق کرتے کہ جو ہڈیاں بوسیدہ ہوکر چورہ چورہ ہوجائیں گی اُنھیں کیسے دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اُتنے ہی زور سے بار بار قرآن انسان کو آفاق و انفس سے دلائل دے کر یہ بات باور کراتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ سب انسانوں کوکیا ‘جان داروں کو مرنا ہے۔ پھر وہ جنات اور انسانوں کو دوبارہ اٹھائے گا اور اُن سے اُن کے اعمال کا حساب لے گا۔
فلاح کا تصور
تزکیے کا یہ عمل مسلسل جاری نہیں رہ سکتا جب تک انسان کی نظر میں کامیابی اور فلاح کا تصور درست نہ ہو۔ ہر شخص اپنے ذہن میں کامیابی کا کوئی نہ کوئی تصور ضرور رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تصور محدود اور مبہم ہو یا واضح اور مکمل۔ کسی کی نگاہ میں دو وقت کی روٹی کا حصول بڑی کامیابی ہے۔ کسی کی نظر میں وزارت اور صدارت معیار ہے اور کسی کے ہاں ڈگریاں اور تعلیمی اسناد وہ حد ہے جہاں تک پہنچنا کامیابی ہے۔ جب ہم یہ سوال لے کر قرآن وسنت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں کامیابی اور ناکامی کا ایک الگ مگر واضح تصور موجود ہے۔ ہر مومن کے دل و دماغ میں یہ تصور جب تک راسخ نہ ہوگا تزکیے کی منزل ہاتھ آنا مشکل ہے۔
ایک طرف تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ دنیا کی حقیقت کھول کر بیان فرما دی‘ فرمایا:لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھَادُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۷) ’’اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے‘ پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جاے قرار ہے‘‘۔ اور دوسری طرف فرمایا: فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵) ’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاںآتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے‘‘۔ چنانچہ اس کامیابی کے تصور میں ایک جہدِمسلسل بھی ہے‘ لگن اور چاہت بھی ہے اور اچھا انجام بھی۔ یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے انسان کو اپنے جان اور مال کی بازی لگادینی چاہیے۔
_____________
قطع رحمی ایک ایسی بیماری ہے جو سرطان کی طرح انسانی معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور بہت سے باعمل لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اُمت مسلمہ آج جن مسائل سے دوچار ہے اس میں قطع رحمی کا بھی بڑا کردار ہے۔
۱- کاٹنا اور الگ کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ: قَطَعَ التَّسِیَٔ قطعاً ‘یعنی چیز کے ایک حصے کو کاٹا اور اس کو الگ کیا۔ قَطَعَ الثَّّمَرَ ‘یعنی پھل کے ٹکڑے کر دیے۔
۲- چھوڑنا اور لاتعلق ہونا۔ کہتے ہیں: قَطَعَ الصِّدْقَ ، یعنی سچ بولنا چھوڑ دیا اور اس سے لاتعلق ہوگیا۔ قَطَعَ رَحِمَہٗ ، یعنی اس سے لاتعلق ہوگیا اور اسے جوڑا نہیں۔(المعجم الوسیط‘ ۲: ۷۴۵-۷۴۶۔ الصحاح فی اللغۃ والعلوم‘ ص ۹۳۵)
ان دونوں معانی کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ قطع تعلق بھی کاٹنے اور الگ ہونے کی صورت میں لاتعلقی اور ترک ہی ہوتا ہے۔
۱- بچے کی تخلیق کی جگہ ۲- وہ رشتہ دار جو عصبہ اور ذوی الفروض کے علاوہ ہوں جیسے بھتیجیاں اور چچازاد بہنیں (المعجم الوسیط‘۱:۳۳۵۔ الصحاح فی اللغۃ والعلوم‘ ص۳۷۳) ۳-مطلق رشتہ داری‘ خواہ ان کے ساتھ نکاح جائز ہو یا ناجائز۔
یہ تیسری تعریف زیادہ مناسب ہے کیونکہ یہی اسلام کی روح سے مطابقت رکھتی ہے‘ جو اتحادو اتفاق کا داعی ہے۔
اصطلاحِ شرع میں قطع رحمی سے مراد رشتہ داروں سے بھلائی اور احسان کو ترک کرنا‘ اُن کی ضروریات پوری نہ کرنا اور بعض اوقات ہاتھ یا زبان یا پھر دونوں سے اُن کو ایذا پہنچانے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے۔
۱- زبان سے تکلیف دینا۔ غیبت کے ذریعے‘ چغلی کے ذریعے‘ ان کے خلاف افواہیں پھیلاکر‘ مختلف رشتہ داروں کے درمیان تعلقات خراب کرکے‘ گالی یا بددعا دے کر اُن کی برائی کرکے‘ غلط ناموں سے پکار کر اور اس طرح کی اور بے شمار ایذائیں۔
۲- ہاتھ سے تکلیف دینا‘ جیسے مارنا پیٹنا اور معاملاتِ زندگی میں تعاون نہ کرنا۔
۳- ذوی الارحام کی تکلیف اور مصیبت میں اُن کا زبانی اور عملی طور پر مددگار نہ بننا۔
۴- ذوی الارحام کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف نہ کرنا۔
۵- ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے گریز کرنا‘ خواہ وہ تنگی میں اُن کے حال احوال پوچھنے اور دادرسی کرنے کی صورت میں ہو‘ یا خوشی کے موقع پر مبارک باد دینا ہو‘ اُن کی خبرگیری کے لیے اُن کے گھروں میں آمدورفت اور اُن کی خوبیوں کا اظہار کرنے کی صورت میں یا چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے‘ یا مجلس میں جگہ دینے کی صورتوں میں ہو۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی خَلَقَ الْخَلْقَ ، حَتّٰی اِذَا فَرَغَ مِنْھُمْ قَامَتِ الرَّحِمُ ، فَقَالَتْ : ھَذَا مَقَامُ العَائِذِ بِکَ مِنَ القَطِیْعَۃِ ، اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات کو پیدا کیا‘ جب اس سے فارغ ہوا تو رشتہ داری اٹھ کر کہنے لگی: یہ اُن لوگوں کا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نَعَمْ! الَاتَرْضِیْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَصَلَکَ وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکَ‘ جی ہاں! کیا تو نہیں چاہتی کہ جو لوگ تمھیں جوڑتے ہیں میں اُن سے تعلق جوڑ دوں اور جو لوگ تجھے کاٹتے ہیں میں اُن سے اپنا تعلق کاٹ دوں؟ وہ کہنے لگی: کیوں نہیں (میں تویہی چاہتی ہوں)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس تیرے ساتھ اس کا وعدہ ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھا کرو۔ فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ o اُوَلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَھُمْ o اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا o (محمد ۴۷: ۲۲-۲۴)۔ کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے سے تعلق توڑو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزید فرماتے ہیں: قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : اَنَا اللّٰہُ ، اَنَا الرَّحْمٰنُ ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَھَا اِسْمًا مِنْ اِسْمِیْ ، فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَھَا بَتَتُّہٗ (الترغیب والترہیب، للمنذرین۳:۳۴۰) ۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں‘ میں رحمن ہوں‘ میں نے رَحم (رشتہ داری) کو پیدا کیا اور اپنے نام کا ایک حصہ اس کے لیے مقرر کر دیا‘ پس جو اس کو جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا اور جو اس کو کاٹے گا میں اس سے اپنا تعلق توڑوں گا۔
جو آدمی ان فضائل اور صلہ رحمی کی اس اہمیت سے بے خبر ہوگا تو لازماً اس میں کوتاہی کرے گا کیونکہ: اَلنَّاسُ اَعْدَائٌ لِّمَا جَھِلُوْا ، لوگ جس چیز سے بے خبر ہوتے ہیں اُس کے دشمن ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہ‘ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَo (یونس ۱۰:۳۹) ’’اصل [بات] یہ ہے کہ جو چیز ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا‘ اس کو انھوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچو) جھٹلا دیا۔ اسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں‘ پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا‘‘۔
یہ معاشرے کی طرف سے دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کی ذمہ داری اور اس کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں‘ یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی‘ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے‘‘۔(التوبہ ۹:۷۱)
قطع رحمی کا علاج تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ اگر دل میںخدا خوفی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس توانا ہو تو انسان اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے بچ سکتا ہے۔ ہر فرد اپنی انفرادی ذمہ داری کو محسوس کرے‘ اجتماعیت اپنا کردار ادا کرے‘ حکومت تمام ذرائع کو بروے کار لائے‘ قطع رحمی کے اسباب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے سدّباب کے لیے اقدامات اٹھائے جائیںتو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ اس اخلاقی مرض سے پاک نہ ہو۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۴۸‘ ۱۶۴۹‘ ۲۳/۳۰ اپریل ۲۰۰۵ئ)
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم ۱۴:۷)
اور یاد رکھو‘ تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
شکر کیا ہے؟ اس کی کیفیات کیا ہیں؟ پروردگار کا شکر گزار بندہ بننے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟
شکر کے اصطلاحی معنی ہیں رب العالمین کی نعمتوں کا اعتراف اور ان کی قدر کرنا اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق اِن کا استعمال کرنا۔ اس لحاظ سے جذبۂ شکر کی تسکین کے دو مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ زبانی اقرار ہے‘ یعنی قولاً شکر گزار ہونا۔ دوسرا مرحلہ ہے عملاً شکرگزار بندہ بن جانا۔
قولی شکرگزاری کے دو پہلو نہایت نمایاں ہیں۔ ایک یہ کہ بندہ اپنے رب کی نعمت کا اعتراف کرے۔ چنانچہ فرمایا: وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحٰی ۹۳:۱۱) ’’اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ اس تذکرے اور اعتراف سے‘ بندۂ مومن کی نظر تمام اسباب اور وسائل سے ہٹ کر اللہ رب العالمین پر جم جاتی ہے۔ اسی سے اُس کے قلب و ذہن سے شرک کے تمام آثار نکل جاتے ہیں اور وہ حقیقی معنوں میں توحید اپنا لیتا ہے۔ چنانچہ دیگر نعمتوں اور ضروریاتِ زندگی کے حصول اور مصائب و آلام سے بچنے کے لیے انسان کی نظر‘ لامحالہ بارگاہ ایزدی کی جانب ہی اُٹھتی ہے۔
قولی شکرگزاری کا دوسرا پہلو منعمِ حقیقی کی حمدوستایش ہے۔ جب بندے کا دل جذبۂ تشکر و احسان شناسی سے لبریز ہو تو‘ زبان سے رب العالمین کی حمدوستایش کے کلمات بے اختیار ادا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی باقاعدہ تربیت فرمائی اور اُنھیں ہرنعمت سے مستفید ہونے کے بعد الحمدللہ کہنا سکھایا۔
کسی بندے نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا: یَارَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِیْ لِجَلَالِ وَجْھِکَ وَعَظِیْمِ سُلْطَانِکَ ، (اے اللہ تیرے لیے ایسی حمد ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور تیری عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو)۔ تو فرشتے اِس سے اتنے متحیر ہوئے اور فیصلہ نہ کرسکے کہ اس کا احاطہ کیسے کریں۔ چنانچہ وہ بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوئے اور عرض کی: بارِ الٰہ! تیرے فلاںبندے نے ایسی بات کہی جس کا احاطہ کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بندے نے کیا کہا تھا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا: میرے بندے نے کیا کہا تھا؟ فرشتے عرض پرداز ہوئے‘ اُس نے کہا: ’’اے اللہ! تیرے لیے ایسی تعریف ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ایسا ہی لکھ دو جیسا اُس بندے نے کہا۔ کل قیامت کے دن جب وہ مجھ سے ملے گا میں خود اُسے اِس کا اجر دوں گا۔ (ابن ماجہ)
روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسٰی ؑکوہِ طور کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ اُن کے دل میں اہل و عیال کا خیال آیا‘ اور اُن کے بارے میں قدرے متردّد ہوئے۔ اثناے راہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا: اے موسٰی ؑ! فلاں پتھر کو اپنی عصا سے توڑ ڈالو۔ اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔ اُس سے ایک اور پتھر برآمد ہوا جسے توڑنے کا حکم دیا گیا۔ غرض یکے بعد دیگرے سات پتھر برآمد ہوئے جنھیں توڑنے کا حکم دیا گیا۔ساتویں پتھر میں ایک کیڑا موجود تھا جس کے منہ میں تازہ پتا تھا۔ ابھی حضرت موسٰی ؑمحوحیرت ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑکی قوتِ سماعت کو اس قابل بنایا کہ وہ کیڑے کی آواز سن سکیںجو اپنی زبان میں رب کی حمد بیان کر رہا تھا:
پاک ہے وہ جو مجھے دیکھ رہا ہے‘ جسے میرے ٹھکانے کا علم ہے‘ جو میری بات سن رہا ہے‘ جو مجھے یاد رکھتا ہے اور کبھی نہیں بھولتا۔
یہاں سوچنے اور غوروفکر کرنے کی بات یہ ہے کہ جب غیرعاقل مخلوق میں اِس قدر جذبہ احسان شناسی موجود ہے تو انسان جو کہ اشرف الخلائق ہے اُسے تو سب سے بڑھ کر رب کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں تفسیر تدبر قرآن میںمولانا امین احسن اصلاحی نے دودھیل بکری کی مثال بیان کی ہے کہ جس طرح اُس کے تھن دودھ سے لبریز ہوں اور ذرا سے لمس سے دودھ نکلنا شروع ہوجائے‘ بالکل اسی طرح مومن کا دل شکروسپاس کے جذبات سے لبریز رہتا ہے اور جیسے ہی رب کی کسی نعمت کا اسے احساس ہوتا ہے یہ جام چھلکنا شروع ہوجاتا ہے اور اُس کی زبان سے اپنے رب کی حمدوستایش کے کلمات بے اختیار جاری ہوجاتے ہیں۔
قولی شکرگزاری کی طرح عملی شکرگزاری کے بھی دو ہی پہلو ہیں۔ ایک: نعمت کی قدروحفاظت‘ دوسرے: اُس کا جائز استعمال۔ ایک شخص جسے صحت جیسی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا گیا ہو‘ اُس پر لازم ہے کہ وہ اِس نعمتِ رب کا شکر ادا کرے۔ اس کا عملی شکر یہ ہے کہ وہ اس کی قدر کرے اور صحت کو تباہ کرنے والے عوامل سے اجتناب کرے۔ اُن غذائوں‘ مشروبات اور معمولات سے اپنے آپ کو بچائے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ پھر اس صحت اور توانائی سے بھرپور استفادہ کرے۔ اپنی صلاحیتوں‘ اوقات کار اور وسائل کو اللہ کی بندگی‘ رسولؐ اللہ کی اطاعت اور رزقِ حلال کے حصول میں صرف کرے۔ معاملات میں اللہ کی قائم کردہ حدود کا احترام کرے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی جسمانی ضروریات کا اہتمام کیا۔ رزق‘ لباس اور راحت کے اسباب مہیا کیے۔ دن کو کام کاج اور رات کو آرام کے لیے بنایا‘ بالکل اسی طرح اس نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کا بھی انتظام فرمایا۔ اُس نے انسان کو عقل وفکر‘ نیز سماعت و بصارت سے آراستہ کیا اور وحی و رسالت کے ذریعے اُس کے سامنے ایک صاف سیدھا اور کشادہ راستہ کھول دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا (الدھر ۷۶:۳)
ہم نے اسے راستہ دکھا دیا‘ خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
گویا جو بندہ نعمتِ ہدایت کو قبول کرتا ہے‘ صراط مستقیم کو اپنا لیتا ہے‘ وہی دراصل اس کا شکرادا کرتا ہے اور جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اس کو چھوڑ کر شیطان کی راہوں پر بھٹکتا ہے وہی دراصل ناشکرگزار ہے‘ یعنی کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے بعد نعمت ہدایت کا شکر یہ بھی ہے کہ بندہ اسے اپنے تک محدود نہ رکھے‘ بلکہ مسلسل اس کی اشاعت کا فریضہ سرانجام دیتا رہے۔ بندہ جب خود روشنی میں ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اُن بندوں کو روشنی کی طرف لے کر آئے جو اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔
اب آیئے یہ دیکھیں کہ شکر کے اس جذبے کو پروان کیوں کر چڑھایا جائے۔
بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر ہر پل نگاہ رکھنی چاہیے۔ بہت ساری نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کو انسان سرے سے نعمت خیال ہی نہیں کرتا‘ یا اُن کی اتنی اہمیت اُس کی نظر میں نہیں ہوتی جتنی کہ ہونی چاہیے۔ یہی چیز بعدازاں ناشکری کو جنم دیتی ہے‘ مثلاً انسان کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اسے اللہ کی کتنی نعمتیں حاصل ہیں۔ انسان ہر پل سانس لیتا ہے‘ لیکن اکثر اوقات اُسے احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ رب العالمین کی کتنی بڑی نعمت سے مفت میں فیض یاب ہو رہا ہے‘ وہ نعمت جس پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے! اس نعمت کی قدر اس تصور سے ہوسکتی ہے کہ آدمی ہر سانس لینے کے بعد یہ سوچے کہ شاید یہ زندگی کا آخری سانس ہو‘ اور اس کے بعد اگر سانس لینے کا موقع ملے گا بھی تو صرف اللہ کے حکم سے ملے گا۔ اسی طرح ایک بینا آدمی آنکھوں کی قدر نہیں کرتا لیکن نابینا کے پاس اِن کی قدر ضرور ہوتی ہے۔
ایک انگریز مصنفہ ہیلن کیلر جو کہ پیدایشی نابینا تھیں اپنے ایک مضمون Three Days to See (دیکھنے کے لیے تین دن) میں رقم طراز ہیں کہ ’’اکثر دیکھنے والے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ اپنی آنکھوں کا صحیح استعمال نہیں جانتے‘‘۔ وہ اس کی مثالیں دیتی ہیں کہ: یہ واقعہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی پارک‘جنگل یا بازار میں ڈیڑھ دو گھنٹے گھوم آئے۔ آپ جب اس سے وہاں کا احوال پوچھیں تو وہ دو چار جملوں سے زیادہ اپنے تاثرات بیان نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ بہت ساری چیزوں کو اُس نے دیکھا ہی نہیں ہوگا‘‘۔ وہ آگے ایک جگہ تجویز کرتی ہیں کہ ہر شخص کو اپنی آنکھیں اس طرح استعمال کرنی چاہییں گویا کہ وہ کل اندھا ہوجائے گا۔ صرف اسی طرح انسان آنکھوں کے بھرپور استعمال سے آشنا ہوسکے گا۔
یہ بھی نعمت کی معرفت میں شامل ہے کہ انسان نعمت کے فوائد اور استعمالات پر برابر غور کرتا رہے۔ ارشاد باری ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا (ابراھیم ۱۴:۳۴)‘ اس آیت کا ترجمہ عموماً یہ کیا جاتا ہے کہ ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے‘‘۔ حالانکہ یہاں لفظ نعمت بطور واحد استعمال ہوا ہے جس کی جمع اَنْعَمْ ہے۔ چنانچہ اس آیت کا زیادہ فصیح ترجمہ یہ بنتا ہے کہ: ’’اگر تم اللہ کی نعمت (کے فوائد) کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے‘‘۔ مثال کے طور پر پانی ایک نعمت ہے لیکن اس کا صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔ اس پانی کو انسان پیتا ہے‘ اسی سے کھاناپکتا ہے‘ اسی سے فصلوں میں ہریالی ہے۔ پھلوں میں ذائقہ ہے‘ موسم کی گرمی و سردی ہے‘ یہی پانی آج توانائی کا منبع ہے۔ اسی طرح سورج ایک نعمت ہے لیکن اس کا بھی صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ نعمتیں ہمہ جہتی اور کثیرالفوائد ہیں‘ بلکہ ان میں سے ہر ایک انسانی زندگی کے لیے لازمی اور ضروری (vital) ہے۔ ذرا سوچیں‘ اگر اس کرئہ ارض پر آکسیجن نہ رہے تو کیا روے زمین پر زندگی کے کوئی آثار رہیں گے؟ اگر پانی خشک ہوجائے تو کیا انسان اور دیگر کسی جان دار کا اس زمین پر زندہ رہنا ممکن ہوگا؟ یا سورج مستقل غروب ہوجائے تو زندگی کا پہیہ کیسے چلے گا؟ غرض‘ ہرنعمت اتنی اہم ہے کہ گویا اُسی پر زندگی کا دارومدار ہے۔ مزید یہ کہ یہ تمام نعمتیں ہمیں بالکل مفت ‘ بہت بڑے پیمانے پر اور بغیر طلب کے میسر ہیں۔
دل کو شکر کا گہوارہ بنانے کے لیے بندئہ مومن کو چاہیے کہ دنیاوی نعمتوں کے سلسلے میں ہمیشہ اُن لوگوں پر نظر مرکوز رکھے جو اِن نعمتوں سے محروم ہیں۔ لیکن آج المیہ یہ ہے کہ انسان کی نظر نیچے کے بجاے اُوپر کو جاتی ہے ‘اور وہاں جاکر ٹھیرتی ہے جہاں انسان حسرت و یاس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ سعدی کا ایک واقعہ لائق مطالعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
ایک مرتبہ میں سفر پر تھا۔ دورانِ سفر جوتے ٹوٹ گئے۔ چنانچہ برہنہ پا سفر جاری رکھا اوراتنی رقم پاس نہ تھی کہ نئے جوتے خرید سکوں۔ دل میں شکوہ پیدا ہوا کہ مجھ جیسا عالم جوتوں کے بغیر سفر کر رہا ہے۔ راستے میں ایک مسجد میں نماز کے لیے رکا تو دیکھا کہ ایک شخص بھیک مانگ رہا ہے‘ جس کے دونوں پائوں کٹے ہوئے ہیں۔ میںنے فوراً سجدئہ شکر ادا کیا اور کہا: اے اللہ! تیرا شکر کہ میرے پائوں توسلامت ہیں۔ کیا ہوا جو مجھے جوتا میسر نہیں۔ یہی وہ اندازِ فکر ہے جو بندۂ مومن کا دل شکر سے معمور کر دیتا ہے۔
مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا اور جب وہ اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ (الفجر۸۹: ۱۵-۱۶)
اس کے مقابلے میں بندئہ مومن کا حال یہ ہے کہ وہ ظاہری حالت کے بجاے پوشیدہ آزمایش کی طرف خیال کرتا ہے۔ یہی احساس فاقہ کشی میں اُسے صابر اور خوش حالی میں اُسے شاکر رکھتا ہے۔ اسی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے جس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے:
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ o (التکاثر ۱۰۲:۸)
پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔
اس آیت کی تفسیر میں سیرت کا یہ واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے ہمراہ ایک انصاری صحابیؓ کے باغ میں تشریف لے گئے۔ اُنھوں نے آپ حضرات کے سامنے کھجوروں کا ایک خوشہ لاکر رکھ دیا۔ آپؐنے فرمایا: تم خود کھجوریں توڑ لاتے۔ اُنھوں نے کہا: میں چاہتا تھا خوشہ حاضر کر دوں اور آپ اپنی پسند سے کھجوریں توڑ کر تناول فرمائیں۔ چنانچہ آپؐ اور آپ ؐکے اصحاب نے کھجوریں تناول فرمائیں اورٹھنڈا پانی نوش کیا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! یہ ان نعمتوں میں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن جواب دہی کرنا پڑے گی۔ یہ ٹھنڈا سایہ‘ یہ میٹھی کھجوریں اور ٹھنڈا پانی۔
یہ وہ طرزِ فکر اور طرزِ عمل ہے جو انسان کے دل کو شکر کا گہوارہ بناسکتا ہے۔ اسی طرزِعمل سے وہ اپنی زبان کو حمدالٰہی سے مزین کرسکتا ہے‘ اور اپنے عمل کو قانونِ الٰہی کا پابند بناسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی کامیاب بنانے کے لیے جو ہدایت دی ہے اس کا ماحصل مختلف الفاظ اور مختلف انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
ایک پہلو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کرو۔
اگر دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے ہمارا ہر کام اسی مقصد کے لیے ہے۔ اللہ کی بندگی بھی اسی لیے کرنا ہے کہ اللہ سے ملنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔ اچھے اخلاق بھی اسی لیے اختیار کرنا ہیں‘ عبادات اور اللہ کی راہ میں جہاد اور اُس کے دین کے لیے ساری سرگرمیاں بھی اسی لیے ہیں۔ اگر موت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہ کرنا ہوتی اور ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ زندگی موت پر ختم ہو جائے گی‘ تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی بندگی کرتے‘ نماز پڑھتے‘ سخت سردی میں وضو کرکے نماز ادا کرتے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم سچ بولیں‘ وعدہ پورا کریں‘ دوسروں کے حقوق ادا کریں اور کسی پر ظلم نہ کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم دین کی خدمت کے لیے‘ اللہ کی راہ میں وقت اور مال لگائیں‘ دعوت کا کام یا جہاد کریں۔ اللہ سے ملاقات نہ کرنا ہو تو یہ سارے کام فضول اور بے کار ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر کام میں‘ حقیقی معنی اس یقین سے پیدا ہوتے ہیں کہ اللہ سے یقینا ملاقات کرنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔
اللہ سے ملاقات پر یقین اور اس کے لیے تیاری ہی وہ قوت اور وہ روشنی ہے جو اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے طاقت بخشتی ہے‘ اور زندگی کی راہیں روشن کرتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ہم پاور ہائوس کہہ سکتے ہیں‘ وہ پاور ہائوس جس کے بل پر اچھے اعمال‘ پاکیزہ اخلاق اور دینی جدوجہد کی گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔
انبیاے کرام ؑ اور خود ہمارے نبی ؐ کو ‘جب اس کام کی ذمہ داری دی گئی کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائیں تو انھوں نے سب سے پہلے‘ اللہ سے ملاقات کے لیے تیاری کرنے کی دعوت دی‘دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی کا یقین دلایا۔ جب حضوؐر کو عام لوگوں کے سامنے دعوت پیش کرنے کا حکم ہوا تو آپؐ سے پہلی بات یہی کہی گئی کہ:
قُمْ فَاَنْذِرْ o (المدثر ۷۴:۲)اٹھو اور خبردار کرو۔
وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۴)جو تمھارے قریبی رشتہ دار ہیں ان کو ڈرائو‘ آگاہ کرو‘ ہوشیار کرو۔
جب وحی باقاعدہ نازل ہونا شروع ہوئی تو حضوؐر کے لیے‘ نبی اور رسول سے زیادہ مُنذر کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی ہیں ڈرانے والا‘ آگاہ کرنے والا‘ خبردار کرنے والا۔ اسی لیے نبی کریمؐ ،نبوت کے پہلے دن سے لے کر آخری لمحے تک‘اللہ سے ملاقات کی مسلسل تذکیر کرتے رہے‘ اور اس کے لیے تیاری کرنے کی تاکید فرماتے رہے۔
آپؐ اپنے ساتھیوں سے جو گفتگو بھی کرتے‘ جو تقریریں کرتے‘ جو خطبے دیتے‘ غلطیوں پر ٹوکتے اور اچھی باتوں کی تعریف کرتے‘ تو اِس دوران میں‘ موت کے بعد کی زندگی کی یاد دلاتے‘ جنت کی خوشخبری سناتے اور نارِجہنم سے ڈراتے۔
قرآن مجید میں وہ آیات بہت کثرت سے موجود ہیں جو آخرت کا ذکر کرتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد دلاتی اور اس سے ملاقات کی تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ حضوؐر اکثر ایسی ہی آیات نمازوں میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
فجر کی نماز میں آپ زیادہ تر سورہ ق ٓ کی تلاوت کرتے۔ اس سورہ میں پورا بیان ہی آخرت کا ہے کہ موت حقیقت کو آشکارا کرتی ہوئی آگئی‘ صور پھونک دیا گیا‘ سب کے سب‘ اللہ کے سامنے پہنچ گئے‘ حساب و کتاب ہوگیا‘ کوئی اُس جہنم میں ڈالا گیا کہ جس کا پیٹ کسی طرح نہیں بھرتا اور کسی کے قریب وہ جنت لائی گئی کہ جس میں ہر خواہش پوری ہوتی ہے۔
اسی طرح سورۃ الواقعہ‘ حم السجدہ ‘ الدھر‘التکویر‘الانفطار‘ الغاشیہ وغیرہ کی تلاوت بھی آپؐ کثرت سے فرماتے۔آپؐ خطبہ دیتے تو اس میں بھی عموماً قرآن مجید کی وہ آیات بیان فرماتے جو آخرت اور موت کی تیاری سے متعلق ہوں۔مکہ میں قیام کے دوران میں معاشرتی معاملات کے سلسلے میں بہت کم احکام نازل ہوئے تھے۔ صرف دین کی بنیادی اور اہم تعلیمات‘ بہت مختصر اوربڑے سادہ الفاظ اور جملوں میں بیان ہوتیں۔ شریعت کی تفصیلات تو نہ تھیں لیکن ان جامع اور مختصر بنیادی تعلیمات ہی پر شریعت کی بنیادیں رکھی گئیں اور اس کا ڈھانچا بنایا اور اٹھایا گیا‘ مثلاً:
فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o (الیل ۹۲:۵-۶) جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا‘ اور اچھی بات کی تصدیق کی۔
ان تینوں جملوں میں پورا کردارِ مطلوب بیان کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَّاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی o فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰیo (النزٰعت ۷۹:۴۰-۴۱) جو شخص [حساب کتاب کے لیے] اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو بے لگام خواہشات کے پیچھے جانے سے روک لیا‘ تو بس جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔
ان مختصر تعلیمات کے ساتھ وہ طویل حصے نازل ہوئے جو آخرت کے تفصیلی بیان پر مشتمل ہیں‘ جو جنت کا شوق اور رب کے حضور کھڑا ہونے کا خوف پیدا کرتے ہیں۔
عمل کا محرک
مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے بعد‘ جب اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا اور مزید تفصیلی احکام نازل ہونا شروع ہوئے تو ان احکام کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی مسلسل کی گئی کہ اللہ سے ڈرو جس کے پاس تمھیں لوٹ کر جانا ہے‘ جس کا عذاب بہت سخت اور دردناک ہے‘جو ہر بات کو سنتا ہے‘ ہر ہر عمل کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے اور وہ تم سے حساب لے گا۔ بعض روایات کے مطابق جو آخری آیت نازل ہوئی اور جس نے سورئہ بقرہ کے آخر میں جگہ پائی وہ یہ تھی:
وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۲۸۱) اس دن سے ڈرو‘ جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے۔ پھر ہر ایک کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔
گویا احکامات دیے تو ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے وہ پاور ہائوس بھی بتایا جو ان احکام پر عمل کرنے کی قوت فراہم کرتا ہے‘ خواہ یہ وراثت کے احکام ہوں یا نکاح و طلاق کے‘ جہاد کے ہوں یا ایمانیات کے۔
جہاد کا حکم دیا تو بتایا کہ یہ جنت کا سودا ہے۔ جنت کے لیے جہاد کرو اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد سامنے مت رکھو۔ ایمان کی حقیقت بیان کی تو کہا کہ: ہم نے ایمان لانے والوں کے جان و مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ اسی طرح جب مسلمانوں میں کوئی خرابی رونما ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط o (الجمعہ ۶۲:۱۱) بتا دیجیے جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے‘ وہ دنیا کی ساری دل چسپیوں اور نفعے سے زیادہ بہتر ہے۔
اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج (التوبہ ۹:۳۸) کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ہے۔
اس طرح سے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد اور اس کی تیاری کی فکر کے ذریعے‘ مسلمانوں کے روحانی امراض کا علاج کیا اور ان کو ایمان کے تقاضے ادا کرنے کے لیے تیار کیا۔ پھر کیفیت یہ ہوگئی کہ صحابہ کرامؓ کے لیے جنت اور دوزخ اتنے حقیقی بن گئے جتنی کہ دنیا تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ان پر ہر وقت ایک جیسی کیفیت طاری رہتی تھی۔ وہ بھی انسان تھے اور ہر قسم کے حالات سے گزرتے تھے لیکن ان کو غیب پر ایمان حاصل تھا۔ غیب پر ایمان ہی ان کے تقوے کی بنیاد تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں متقین کی سب سے پہلی صفت ہی یہ بیان کی کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ غیب میں اللہ تعالیٰ کی ذات بھی شامل ہے‘ جنت بھی اور دوزخ بھی۔ ان پر ایمان کے بغیر تقویٰ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ صحابہؓ کا حال یہ تھا کہ گویا جنت میں رہتے‘ جنت کی خوشبو سونگھتے اور جنت کی نعمتوں کا مزہ چکھتے ہوں۔ جنت مقصود و مطلوب تھی‘ تو وہی نگاہوں میں سمائی رہتی۔ ان کو دنیا میں بھی جنت کا مزہ آگیا تھا۔ وہ دوزخ سے اس طرح ڈرتے ‘ کانپتے اور لرزتے تھے کہ ان کے چہروں کے رنگ بدل جاتے‘ جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے‘ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے‘ داڑھیاں بھیگ جاتیں‘ گویا کہ آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہوں۔
ایک دفعہ نبی کریمؐ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا‘ پھر واپس کھینچ لیا۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ کیا ہوا۔ پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: میرے سامنے جنت کا ایک خوشہ تھا‘ میں نے چاہا کہ اسے توڑ کر تمھیں دکھا دوں۔
جنت ‘نہ وعظ تھی‘ نہ افسانہ اور نہ کہانی‘ بلکہ جو کچھ ان کو پیش آتا تھا‘ جن حالات میں وہ چلتے پھرتے تھے‘ جنت ان کے سامنے رہتی تھی‘ عذاب اور دوزخ کا خطرہ انھیں لاحق رہتا تھا۔ وہ جنت کی خوشبو سونگھتے اور متوالے ہو کر جان قربان کردیتے۔ جنت کے باغ کا تصور ذہن میں لاتے تو اُس کی چاہت اور تڑپ میں دنیا کا بہترین باغ اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ آندھی چلتی تو کانپ اٹھتے۔ کسی قبر پرکھڑے ہوتے تو زاروقطار روتے۔ اسی چیز نے ان میں بے مثال قربانی‘ اطاعت اور اللہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا تھا۔
آج بھی اپنے رب سے ملاقات کی ایسی ہی یاد اور جنت کا ایسا یقین اور حصول کے لیے ایسی ہی تڑپ اورجہنم کی آگ کا ایسا ڈر‘ کسی نہ کسی درجے میں ہمیں حاصل کرنا چاہیے۔ یہ ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اُن سارے کاموں کاہمیں کوئی فائدہ نہ ہوگا جو ہم خدا کی راہ میں کررہے ہیں۔
اللہ کی اطاعت میں اتنی محنت کے بعد بھی‘ آخرت میں اجر نہ ملے تو اس ساری تگ و دو کاکیا فائدہ ؟ اس سے بہتر تو شاید یہ ہوگا کہ ہم دنیا ہی کے لیے بھاگ دوڑ کریں‘ یہیں کچھ کما لیں‘ یہیں کچھ بنالیں۔ ہم دین کے لیے کام کریں‘ دنیا کا نقصان بھی اٹھائیں اور یہ بھی سمجھتے رہیں کہ ہم بڑے اچھے اعمال کر رہے ہیں‘ لیکن آخرت کی آندھی سب کچھ اڑا کر لے جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں‘ تو یہ بڑے نقصان کا سودا ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ ہم ایسے ہوں‘ اور مجھے امید ہے کہ ہم ایسے نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کو یاد رکھنا ضروری ہے:
قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o (الکھف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴)
اے نبیؐ، ان سے کہو‘ کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔
یہ بات ہر وقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جو کام محض دنیا کی خاطر ہوا وہ ضائع ہوگیا۔ کیونکہ جسم سے آخری سانس نکلتے ہی دنیا ہاتھ سے نکل جائے گی۔ دولت ہو‘ مکان ہو‘ کھیت ہوں‘ کاروبار ہوں‘غرض دنیا کی کوئی بھی چیز ساتھ جانے والی نہیں۔ قبر میں کوئی چیز ساتھ نہیں جاتی۔ دنیا میں جو کچھ کمایا‘ وہ پیچھے رہ گیا۔ صرف اعمال ساتھ ہوں گے۔اب اگر اعمال بھی‘ خواہ وہ کتنے ہی دینی کیوں نہ ہوں‘ خدا اور آخرت کے لیے نہ ہوئے تو وہ بھی ضائع جائیں گے۔ اگرچہ ہم اس خیال میں مگن ہوں کہ ہم تو بہت ہی اچھے کام کر رہے ہیں اور آخرت کے لیے ذخیرہ کر رہے ہیں۔ یہ تو بہت ہی نقصان کا سودا ہوگا کہ ہم اللہ کے دین کا کام بھی کریں اور آخرت میں اس کا بدلہ بھی نہ ملے۔
فکرِآخرت‘ رب سے ملاقات کی یاد اور تیاری‘ جنت کے حصول کی تڑپ اور نارِجہنم کا خوف‘ صرف ہمارے ہی لیے ضروری نہیں‘ بلکہ ہماری دعوت کے مخاطبین کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے کسی کو اجتماع میں شریک کرلیا‘ کسی سے اعانت لے لی‘ کسی کو کتاب پڑھوا دی‘ کسی سے ووٹ لے لیا‘ مگر اس سے اُس کو آخرت کا کوئی فائدہ نہ ہوا‘ تو ہم نے اس کی کوئی خیرخواہی نہیں کی‘ اس کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کی۔ دوسری پارٹیاں بھی لوگوں سے پیسے لے لیتی ہیں‘ انھیں جلسے جلوس میں لے جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے ان تمام کاموں کے نتیجے میں اس کو آخرت میں اجر ملنا چاہیے اور اس کی آخرت سنورنی چاہیے۔
نبی کریمؐ نے صرف اپنے ساتھیوں ہی سے نہیں کہا کہ فکرِآخرت اور اللہ سے ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ آپؐ انتہائی کٹّر مخالف‘ مشرک‘ کافر‘ یہودی‘ عیسائی‘ منافق‘ ہر ایک کو بار بار آخرت کے عذاب سے ڈراتے رہے۔ آپؐ نے اپنے رشتے داروں کو کھانے پر جمع کیا تو یہی بات کہی۔ کوہ صفا پر کھڑے ہوئے تو آپؐ نے یہی کہا کہ اُس عذاب سے ڈرو جو تمھارے سروں پر اس طرح کھڑا ہے جس طرح اس پہاڑی کے پیچھے کوئی لشکر موجود ہو جو ابھی تمھیں دبوچ لے گا۔ اپنی اولاد کو‘ اپنے چچائوں اور پھوپھیوں کو‘ اپنے اعزہ و اقربا کو‘ ایک ایک کا نام لے لے کر‘ اُن کو اُس دن کی تیاری کرنے کی دعوت دی جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔
ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہہ کر بھیجا کہ اَنْذِرْ قَوْمَکَ ، اپنی قوم کو خبردار کرو اور ڈرائو اس سے پہلے کہ عذاب آجائے۔
قرآن کا ایک بڑا حصہ آخرت کے بیان ہی پرمشتمل ہے۔ صرف یہ دعوت ہی نہیں دی کہ اپنے رب کی ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آخرت کیسی ہوگی‘ کس طرح قبر سے اٹھو گے‘ کس طرح اللہ کے سامنے جائو گے‘ حشر کا میدان کیسا ہوگا‘ وہاں کیا سماں ہوگا‘ اعمال کا وزن کیسے ہوگا‘ عذاب کس قسم کا ہوگا‘ کیسی ذلت ورسوائی اورحسرت و ندامت ہوگی‘ جہنم کی آگ کیسی ہوگی‘ آگ کے کوڑے ہوں گے‘ پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا جس سے آنتیں کٹ جائیں گی‘ سر پر آگ کا سایہ ہوگا اور لیٹنے کے لیے آگ کا بستر--- گویا ایک ہولناک منظر ہے جس کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
قرآن میں احکام کی اتنی تفصیل بیان نہیں ہوئی‘ لیکن آخرت کے حوالے سے ایک ایک چیز کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ نہیں بیان کیا کہ ہر نماز کی کتنی رکعتیں ہیں‘ ان میں فرائض کیا ہیں اور سنن و مستحبات کیا ہیں‘ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے‘ لیکن آخرت کی ایک ایک بات بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ ایک ایک عذاب کی تفصیل ہے‘ ایک ایک نعمت کا تذکرہ ہے۔ جنت کیسی ہوگی--- اس میں بالاخانے ہوں گے‘ محلات ہوں گے‘ خیمے ہوں گے‘ گھنے اور لمبے سائے ہوں گے‘ ہر قسم کے پھل اور میوے ہوں گے‘ انگور ہوں گے‘ انار ہوں گے۔کھجور ہوگی‘ کیلا ہوگا‘ بیری کے درخت ہوں گے۔ پانی ‘دودھ ‘ شہد ‘ غرض ہر قسم کے بہترین مشروبات کے چشمے بہہ رہے ہوں گے‘ حسین و جمیل رفاقتیں ہوں گی‘ حوریں ہوں گی اور یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگا۔
قرآن ہی ہمارے لیے روشنی ہے‘ قرآن ہی ہمارا رہنما ہے‘ قرآن ہی کی طرف ہماری دعوت ہے‘ لیکن ہماری دعوت میں آخرت کا بیان کہاں ہے اور کتنا ہے؟ اگر ہم قرآن کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں‘ قرآن کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں‘ قرآن پر لوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں تو ہماری دعوت کو بھی قرآن ہی کے انداز میں آخرت کی دعوت ہونا چاہیے۔ اپنے مخالفین کو‘ خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کیسی ہی استعداد رکھتے ہوں‘ قرآن کے اسی انداز میں آخرت کی تیاری کی دعوت دینا چاہیے۔
اگر غور کریں تو اس لحاظ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ جو تقریریں ہم کرتے ہیں ان کو دیکھیں‘ جو درس ہم دیتے ہیں ان پر نگاہ ڈالیں‘ تربیت گاہوں کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان کا جائزہ لیں‘ ان سب میں رب سے ملاقات کی یاد اور جنت و دوزخ کے ذکر کا کتنا حصہ ہوتا ہے؟ کبھی ایک دم ہمیں خیال آتا ہے کہ فکرِآخرت کا پروگرام بھی ہونا چاہیے۔ ایک حدیث رکھ لو‘ ایک درس رکھ لو‘ ایک تقریر رکھ لو‘ مگر قرآن کے وہ حصے جہاں جنت اور جہنم کا بیان ہے وہ ہمارے درس کا موضوع نہیں بنتے۔ شاید یہ سب کچھ جدید دور کا بھی اثر ہے کہ ہم کو اب شاید کچھ غیرشعوری ہچکچاہٹ ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اس زمانے میں یہ حوروغِلمان کا ذکر کرتے ہیں اور محلات کا ذکر کرتے ہیں‘ جنت کا لالچ دیتے ہیں اور آگ سے ڈراتے ہیں۔
ہم سوچتے ہیں کہ آج کل اس طرح لوگ کہاں متاثر ہوں گے‘ کہاں مانیںگے۔ اب تو اسلامی نظام کی برتری ثابت کرنا چاہیے۔ دوسرے نظام ہاے حیات پر تنقید کرنی چاہیے‘ عالمی اور قومی سیاست کے حوالے سے بات ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ بھی ضرور ہونا چاہیے‘ لیکن صرف اس سے کام ہرگز نہیں چلے گا۔ ہمارے دروس میں‘ ہمارے پروگراموں میں آخرت کا‘ جنت کا‘ دوزخ کا وہ تناسب نہیں ہے جو تناسب قرآن مجید میں ہے‘ بلکہ قرآن مجید جس قدر آخرت‘ جنت اور دوزخ کے بیان سے بھرا ہوا ہے اس کا عشرعشیر بھی ہماری دعوت‘ گفتگوئوں‘ تقریروں اور درس میں نہیں ہوتا۔
ظاہر ہے کہ یہ ہونا چاہیے کیونکہ لوگوں کے ساتھ اصل بھلائی ہی یہ ہے کہ وہ آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔ ہمارا سارا کام اسی لیے ہے کہ لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں۔ پھر دین بھی قائم ہوگا اور دنیا میں بھی اسلامی نظام کی جنت بنے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ انھی جذبات سے اس دین کی طرف آئیں جن جذبات سے وہ قوم پرستی اور سوشلزم کی طرف جاتے ہیں تو اسلام کے لیے یہ نسخہ کارگر نہیں ہوسکتا‘ نہ ہو رہا ہے۔
جب لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں گے جس طرح صحابہ کرامؓ تھے تو پھر وہ دنیا کو بھی جنت بنائیں گے اور دنیا میں عدل و قسط کا نظام بھی قائم ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسپین سے لے کر چین تک‘ ساری دنیا اُن کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی جو جنت سماوی کے طلب گار تھے۔ اگر وہ دنیا کے طلب گار ہوتے توکیا دنیا اس طرح ان کے آگے ڈھیر ہوتی؟ ہمیں بھی یہ جاننا چاہیے کہ جب ہم آخرت کے طلب گار بن جائیں گے تو اللہ تعالیٰ دنیا کو ہمارے قدموں میں اُسی طرح ڈھیر کر دے گا جس طرح ان کے آگے دنیا بچھتی چلی گئی۔ لیکن اگر ہم نے صرف دنیا طلب کی تو آخرت بھی ہاتھ سے جائے گی اور دنیا بھی!
دنیا ہماری مطلوب کیوں ہو‘ جب کہ اس طرح اس کا ملنا غیر یقینی ہے اور جنت کا ہاتھ سے جانا یقینی۔ دنیا تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا دے گا‘ جس کو چاہے گا نہیں دے گا‘ لیکن آخرت کے حوالے سے اس کا وعدہ یقینی ہے کہ جس نے آخرت کا ارادہ کر لیا اور اس کے لیے کوشش کی جیساکہ کوشش کرنے کا حق ہے‘ اور اس کے دل میں ایمان ہے تو اس کی محنت کی لازماً قدردانی کی جائے گی۔
مَنْ اَرَادَ الْاٰخِـرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَـھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۹) جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے‘ اور ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔
ہر آدمی دن رات محنت کرتا ہے۔ کسی کو چند ٹکے ملتے ہیں اور کسی کو لاکھوں مل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے کسی کو بقدرِ ضرورت دیتا ہے اور کسی کو بلاحساب دیتا ہے‘ اس لیے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اِس کی حقیقت تو بس اتنی ہے جیسے ایک مچھر کا پر‘ یا جیسے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر کچھ پانی حاصل کرلے‘ یا جیسا کہ قرآن نے کہا: اگر یہ امکان نہ ہوتا کہ سارے کے سارے لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم رحمن کا انکار کرنے والوں کے گھروں کی چھت‘ زینے‘ دروازے‘ فرنیچر سب چاندی کا بنا دیتے‘ بلکہ سونے کا۔ پھر بھی ان کی قیمت اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ جب تک سانس ہے آدمی اس سے کام لے لے‘یا لذت اندوز ہولے۔ جو چیز ختم ہونے والی ہو اس کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے۔
قرآن مجید میں بار بار اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ: اس دنیا کو مقصود نہ بنائو‘ منزل نہ بنائو‘ بلکہ اس دنیا کے ذریعے آخرت کا سامان کرو۔ یہی راہ پکڑو گے توکامیابی تمھارے قدم چومے گی۔ یہ بات ہرلمحے یاد رکھو کہ اپنے رب سے ملاقات کرنا ہے‘ اس ملاقات کی تیاری کرو۔ قیامت کے دن وہ یہی پوچھے گا کہ تم نے دنیا کی زندگی میں آج کے دن کی ہم سے ملاقات کو یاد رکھا تھا یا نہیں۔ اگر اِس دنیا میں یہ بات بھلا دی گئی کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا ہے تو تباہی و بربادی اور ناکامی و خسارہ مقدر ہوگا۔ دیکھیے کتنے دل دہلا دینے والے الفاظ ہیں:
وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰکُمْ کَمَا نَسِیْتُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا وَمَاْ وٰکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۳۴) اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم بھی اُسی طرح تمھیں بھلائے دیتے ہیں جس طرح تم اِس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے۔تمھارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمھاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔
فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَـآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَاج اِنَّا نَسِیْنٰکُمْ o (السجدہ ۳۲:۱۴)
پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا‘ ہم نے بھی اب تمھیں فراموش کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق‘ محض بھولنے اور یاد رکھنے کا معاملہ نہیں ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہم بھلا دیں گے تو اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ ہم نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے‘ رحمت نہ کریں گے۔ جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا سوائے اس کے سائے کے‘ کوئی سہارا نہ ہوگا سوائے اس کے سہارے کے‘ کسی کی نظر کام نہ آئے گی سوائے اس کی نظرِکرم کے‘ کسی کی توجہ سے کام نہ بنے گا سوائے اس کی توجہ کے--- ذرا سو چیے کہ اگر اُس دن اُس نے ہمیں بھلا دیا تو ہمارا کیا بنے گا!
لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے اس دن کو برابر یاد رکھنا اور اس ملاقات کی تیاری کرنا‘ یہ وہ کام ہے جو اپنے لیے بھی ضروری ہے اور جو ہمارے مخاطب ہیں یا ساتھ چلنے والے ہیں‘ ان کے لیے بھی ضروری ہے۔ حضور اکرمؐ نے اپنی جو مثال بحیثیت داعی کے دی ہے‘ اسے دیکھیے۔ آپؐ نے فرمایا: میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی۔ اب تم ہو کہ پروانوں کی طرح اس آگ میں گر رہے ہو اور میں ہوں کہ تمھاری کمریں پکڑپکڑ کر تمھیں روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں‘ لوگو! آگ سے بچو۔
بحیثیت داعی ہمارا کردار حضور اکرمؐ کی اس مثال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے گھر میں آگ لگ جائے تو ہم اپنی جان خطرے میں ڈال کر‘ اپنے بچوں کو اٹھا کر باہر بھاگیں گے‘ پانی لے کر آئیں گے اور آگ بجھائیں گے۔ اگر ہماری بیوی‘ بھائی‘ بہن‘ ماں باپ‘ دوست‘ رشتہ دار آگ میں جلنے کے خطرے کے قریب ہوں تو یقینا ہم بے چین ہوجائیں گے۔ اگر یہی لوگ جہنم کی آگ کے قریب جا رہے ہوں توکیا یہی جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے‘ کیا ہم اسی طرح کوشش کرتے ہیں کہ ان کو آگ سے بچالیں؟
آخرت کی یاد اور آخرت کے لیے تیاری‘ یہی وہ پاور ہائوس ہے جو ہمارے کام اور جدوجہد کو رواں دواں رکھے گا۔ سارے کاموں میں یہی یاد جاری و ساری رہنا چاہیے‘ خواہ وہ الیکشن کا کام ہو یا نعروں اور جلوس کا کام یا پوسٹر لگانے کا۔ جو کام بھی آپ کریں صرف اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو‘ آپ کو اپنی جنت میں داخل کر دے۔ پھر دیکھیے اس کام میں کتنی اور بے انتہا برکت ہوتی ہے۔ اس کام کا بہت بڑا اجر آپ کو آخرت میں یقینا ملے گا‘ اگرچہ دنیا میں بظاہر کچھ نہ بھی ملے‘ یہاں آپ الیکشن نہ بھی جیتیں اور چاہے لوگ آپ کی بات سن کر نہ دیں۔ لیکن اگر آپ نے کام صرف اس لیے کیا کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن جیت جائیں‘ الیکشن تو آپ ہار بھی سکتے ہیں‘ لیکن آخرت میں آپ کو اس کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ صرف وہی کام قبول کرے گا جو خالص اس کے لیے ہو۔ بظاہر الیکشن تو دنیاوی کام ہے اور اگر کوئی شخص قرآن کا حافظ اور عالم ہو یا اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے‘ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والا ہو‘ لیکن یہ خالصتاً دینی کام بھی اگر صرف اللہ کے لیے نہ کیے گئے ہوں‘ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرمائے گا‘ بلکہ ان کو جہنم میں ڈال دے گا۔ عمل تو وہی قبول ہوگا جو خالص صرف اسی کے لیے ہو‘ اسی سے اجر کے لیے ہو۔ آخرت کے مسافر اور بھی ہیں‘ فرق اتنا ہے کہ دوسرے لوگوں کے نزدیک آخرت گوشے میں بیٹھ کر ملتی ہے‘ مگر ہمارے نزدیک آخرت اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے ذریعے ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یقینی وعدہ کیا ہے:
وَلَا ُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) میں ان کو ضرور بالضرور جنتوں میں داخل کروں گا جہاں نہریں بہتی ہوں گی۔
یہ ہونی چاہیے ہماری دعوت‘ یعنی رب سے ملاقات اور جنت کی طلب۔ دوسروں کو بلانا ہے تو اس طرف ہی بلانا ہے کہ وہ جنت کے طلب گار بنیں اور اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ ہماری دعوت کا موضوع یہی بن جائے‘ یہی دعوت کی روح بن جائے کہ:
وَفِی الْاٰخِـرَۃِ عَـذَابٌ شَدِیْـدٌ وَّمَـغْفِـرَۃٌ مِّـنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌط (الحدید ۵۷:۲۰) آخرت میں ایک طرف عذاب شدید ہے‘ دوسری طرف اللہ کی مغفرت اور رضا۔
یہ دونوں ہمارے منتظر ہیں۔ ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون سی چیز ہم اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔
گو یہ دونوں چیزیں آج ہمیں آنکھوں سے دکھائی نہیں دے رہیں۔ لیکن اگر ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے تو مغفرت و رضوان کے انعام کا اور عذاب شدید کا پورا نقشہ‘ ہم قرآن مجید میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ قرآن مجید کثرت سے پڑھیں‘ اس کو یاد کریں‘ اس کو نمازوں میں پڑھیں‘ چھوٹی چھوٹی آیتوں کے معنی یاد کرلیں۔ صبح و شام‘ اٹھتے بیٹھتے‘ موت کو یاد رکھیں۔ قرآن پڑھیں تو خود کو اس کا مخاطب بنائیں۔ اپنے مخاطبین کو دعوت دیں تو آخرت کے بیان اور آخرت کے لیے تیاری کو اس میں شامل کریں۔ اس طرح آپ کی زندگی صحیح راہ پر چلے گی اور آپ کی محنت کا بدلہ آپ کو لازماً ملے گا۔ بالآخر وہ وقت بھی آئے گا جب ہم اس کی جنت میں داخل ہونے کے مستحق ٹھیریں گے۔
ایک چھوٹا سا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو یاد رکھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس کو اگر آپ اپنے اوپر لازم کرلیں تو آپ بھی اس کے ذریعے آخرت کاسفر بار بار کرسکتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ -
اے اللہ مجھے آگ سے بچا لے۔
بہت چھوٹی‘ بہت سادہ‘ بہت آسان دعا ہے۔ اس کو عربی ہی میں یاد کرنا چاہیے‘ اور یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں۔ اگر ہم اُن الفاظ میں یہ دعا مانگیں گے جو الفاظ حضور اکرمؐ نے سکھائے ہیں تو الفاظ سے بھی برکت کا چشمہ جاری ہوگا‘ لیکن اگر یہ الفاظ یاد نہ ہو سکیں تو اپنی زبان میں اس کا مفہوم ادا کیا جا سکتا ہے‘ یعنی اے اللہ مجھے آگ کے عذاب سے بچا لے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو آدمی مغرب کے بعد اور فجر کے بعد سات سات دفعہ یہ دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ کے عذاب سے بچالے گا۔ دعا خود سے تو کام نہیں کرتی۔ دعا تو اس بات کا اظہار ہے کہ آپ کو اُس چیز کی طلب ہے‘ پیاس ہے جو آپ مانگ رہے ہیں۔ جب آپ پانی مانگتے ہیں تو آپ کو پیاس لگی ہوتی ہے‘ آپ کھانا مانگتے ہیں تو بھوک لگی ہوتی ہے۔ جتنی شدت سے بھوک پیاس ہوتی ہے‘ اتنی ہی بے چینی اور اضطراب اور لگن سے آپ پانی اور کھانا مانگتے ہیں اسی طرح آپ کو آگ سے بچنے کی فکر لگی ہو اور شدت سے لگی ہو‘ خوف‘ اندیشہ‘ بے چینی اور اضطراب سے دل بھرا ہوا ہو‘ اور پھر آپ کہیں اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ، تو ان الفاظ کا اثر ہوگا۔ دل میں آگ لگی ہوگی تو الفاظ دل سے نکلیں گے‘ رنگ لائیں گے۔ یہ الفاظ آپ دل سے کہیں گے تو دل میں آگ سے بچنے کی فکر بھی پیدا ہوگی۔ مانگنے سے بھی بھوک پیاس محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ گویا دو طرفہ عمل ہے۔اس لیے صبح و شام فجر اور مغرب کے بعد ضرور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
میں نے اس عمل میں تھوڑا سا اضافہ کیا ہے۔ میں جس طرح پڑھتا ہوں‘ آپ بھی چاہیں اور مفید سمجھیں تو اس طرح ہی پڑھیں۔ اس میں کوئی زیادہ وقت بھی نہیں صرف ہوتا۔ ہر بار جب میں یہ کہتا ہوں کہ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ، تو آخرت کے سفر کی کسی ایک منزل کا نقشہ اپنے ذہن میں رکھتا ہوں۔ یہ سفر قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ میں اس سفر کے کسی ایک مرحلے کی تصویر اپنے ذہن میں لاکر کہتا ہوں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
کَلَّا ٓاِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ o وَقِیْلَ مَنْ رَاقٍ o وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ o وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ o اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِ الْمَسَاقُ o (القیامۃ ۷۵:۲۶-۳۰)
ہرگز نہیں‘ جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا‘ اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے‘ اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی‘ وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا۔
جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ کوئی سہارا نظر نہ آئے گا جو موت سے بچائے اور کوئی جھاڑ پھونک کرکے بھی نہیں بچا سکے گا‘ تو یقین ہو جائے گا کہ بس اب تو دنیا کو چھوڑنا ہے۔ بھائی بہن‘ ماں باپ‘ رشتہ دار‘ مال و دولت‘ مکان سب کچھ چھوڑنا ہیں‘ جسم کی سب قوتیں ختم ہو جائیں گی۔ اب اللہ کی طرف جانا ہے اور سوائے اعمال کے کوئی سہارا نہیں۔ یا اس وقت کو یاد کریں جب فرشتے آئیں گے اور چہروں اور پیٹھوں پر آگ کے کوڑے ماریں گے‘ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْo (محمد ۴۷: ۲۷)
موت کے کسی منظر کو چند سیکنڈ کے لیے قرآن کے کسی حصے کے ذریعے‘ یا ذہن میں لاکر آپ موت کا وقت یاد کریں‘ اور اس کے بعد کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ پہلا مرحلہ ہوا۔
حضرت عثمانؓ کے بارے میں مذکور ہے کہ آپ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا زاروقطار روتے تھے کہ آپ کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگ جایا کرتی تھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ قبر کہتی ہے کہ میں تنہائی کا گھر ہوں‘ میں کیڑوں کا گھر ہوں۔ لہٰذا قبر کا عذاب‘ اُس کے مختلف مناظر اگر ذہن میں تازہ رکھیں‘ اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ دوسرا مرحلہ ہوا۔
یہ تیسری منزل ہے حشر کی۔ کسی بھی منظر کو ذہن میں تازہ کرلیں اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
اس طرح آپ دنیا سے چلنا شروع کریں‘ موت کے وقت سے جہنم تک پہنچیں‘ پھر واپس لوٹ کر آج کی دنیا میں آجائیں۔ یہ سفر مکمل ہوجائے گا۔
یہ دعا سات دفعہ اگر آپ صبح و شام اس طرح پڑھ لیں تو مشکل سے دو تین منٹ صرف ہوں گے۔ آپ مزید کچھ وقت بیٹھنا چاہیں تو بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن میں آپ کو کسی طویل مراقبے کی تعلیم نہیں دے رہا ہوں۔
اس طرح آپ موت کو یاد رکھنے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اللہ سے ملاقات کو بھولیں گے ‘کوئی بات نہیں‘ انسان بھولنے والا ہے‘ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے۔ صحابہ کرامؓ بھی ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رہتے تھے۔ ان کی حالت بدلتی رہتی تھی۔ حضوؐر کی محفل میں ہوتے تو گویا جنت و دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے‘ گھروں کو جاتے تو یہ کیفیت بہت مدھم ہو جاتی۔
اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آپ آخرت کو کبھی نہیں بھولیں گے۔بھول تو آدمی کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آخرت کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں‘ اور اگر بھولیں تو فوراً یاد کرلیں۔ پھر پوری امید رکھیں کہ اللہ آپ کی برائیوں کو نظرانداز کر دے گا‘ آپ کے گناہوں کو بخش دے گا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ آپ گناہ کم اور نیکیاں زیادہ کرنے لگیں۔ بس آپ کی اپنی طرف سے کوشش ضروری ہے۔ اس کوشش کے لیے یہ ایک عملی نسخہ ہے۔ اس کو آپ اختیار کرلیں تو ان شاء اللہ آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ‘ سب کو‘ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: عبدالجبار بہٹی)
(کتابچہ دستیاب ہے۔ فی عدد ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصور‘ہ لاہور-۵۴۷۹۰)