تزکیہ و تربیت


(آخری قسط)

روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں ۔

مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتاہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔

دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔   یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا    اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر کسی کوڈھیر سامال مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی‘ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو۔ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتاہے اوررونا دھونا شروع کردیتاہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔

یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتاہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتاہے۔

خوف اور حزن

اگر غور کریں تو ہم ان تمام نفسیاتی کیفیات کا دو حوالوں سے جائزہ لے سکتے ہیں: ایک خوف اور دوسرا حزن۔

خوف کے معنی ہیں ڈر یا اندیشہ کہ کچھ ہو جائے گا‘ جو ملنے والا ہے وہ نہیں ملے گا‘ یا کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ناخوش گوار اور ناقابل برداشت ہو گی اور نقصان کا باعث ہوگی۔

حزن سے مراد اس بات کا غم کہ کچھ چھن گیا یا نقصان ہو گیا‘ کوئی ضرب پڑگئی‘ کوئی چیز ملنا چاہیے تھی نہ ملی اور جو چیز نہ ملنا چاہیے تھی وہ مل گئی۔ غم کی اس کیفیت کو حزن وملال کہا جاتاہے۔

دراصل نفس کے اندر کی یہ وہ کیفیات ہیں جن سے اصل رکاوٹیں پیداہوتی ہیں۔ اگر آدمی خوف اور اندیشوں پر پہلے سے قابو نہ پائے تو جن چیزوں کا خوف و اندیشہ اس کو لاحق رہتاہے وہ اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ خدشات کہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ ہوجائے گا‘ ایک چیز جو ہاتھ لگنے والی ہے اگر ہاتھ نہ لگی تو یہ بڑا نقصان ہو جائے گا‘ میری عزت کو‘ میری دولت کو‘ معاشرے میں میرے مقام ومرتبے کونقصان پہنچ سکتاہے ‘ سیاسی‘ مادی‘ مالی یا جو کچھ بھی حیثیت ہے‘ ہاتھ سے نکل جائے گی ___یہ خوف وخدشات جب آدمی کے اوپر طاری ہوتے ہیں‘ تو پھر بالآخر وہ ان کے ڈر سے ہتھیار ڈال دیتاہے۔

دوسرا پہلو غم اور حزن کا ہے‘ یعنی یہ کہ جو چیز حاصل تھی وہ ہاتھ سے نکل گئی‘ کوئی مرگیا یا مال کا نقصان ہوگیا‘ یاکسی نے عزت کے اوپر حملہ کردیا‘ گالی دے دی وغیرہ۔ جب کوئی نقصان ہوجاتاہے یا عزت تک ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آدمی کو اس کا غم ہوتاہے۔ غم ہو تو پھر غصہ بھی آتاہے۔ غم وغصہ کا لفظ تو ہماری زبان میں‘ اردو ادب میں استعمال ہوتاہے۔ جہاں غم پیدا ہوتا ہے وہاں غصہ بھی لازماً آتاہے‘ کہ یہ چیز کیوں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی‘ میری عزت پہ یہ حملہ کیوں ہو گیا‘ جو چیز مجھے ملنے والی تھی وہ کیوں کوئی چھین کے لے گیا۔ اس طرح ایک طرف تو غم ہوتاہے جو غصے کے اندر تبدیل ہو جاتاہے‘ اور پھر غصہ بالآخر اشتعال دلاتاہے اور اس اقدام پر مجبور کرتاہے جو صبر کے منافی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ نہ خوف اور اندیشے کا شکار ہوں گے اور نہ کسی غم کے اندر مبتلا ہوں گے۔   جنت کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ فَلا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنَوْنَo (البقرۃ ۲:۳۸)‘ یعنی جنت کی زندگی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہاں نہ مستقبل کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی چیز کے چھننے کا خدشہ ہوگا۔ کوئی مصیبت پڑنے کا خوف بھی دل کے اوپر طاری نہیں ہوگا‘ اور نہ کوئی چیز ہاتھ سے نکل جانے کا غم وغصہ ہو گا بلکہ اطمینان ہوگا کہ صحیح زندگی گزار آئے اور صلہ پالیا۔      کوئی حسرت نہیں ہوگی کہ یہ کام کیوں نہیں کیا او راگر یہ کرتے تو یہ پیش نہ آتا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو صبر کے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں‘ اور صبر کے راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اظہار بھی انھی دو باتوں سے ہوتاہے‘ یعنی خوف اور حزن۔

مختلف نفسیاتی کیفیات

اگر اس بات کو مزیدواضح کیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ جو نفسیاتی کیفیات انسان کے اوپر طاری ہوتی ہیں‘ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ یہ مسلمانوں کے اُوپر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ ان کیفیات کو قرآن مجید نے کھول کر بیان کردیا ہے کہ اگر ہم ان میں سے ایک ایک چیز کو دیکھیں تو اس کے اندر ہمارے لیے سبق اور نصیحت کا بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے۔ میں جسمانی و مادی مصائب کا ذکر نہیں کر رہا‘ یعنی جو مار پیٹ ہوئی‘ جو جانیں دینا پڑیں‘ جو محنت کرناپڑی‘ اور جان و مال کا جو نقصان ہوا‘ اس لیے کہ اس کی جڑ بھی نفسیاتی رکاوٹوں کے اندر ہے۔ دراصل آدمی اپنے اندر سے اٹھے والی کیفیات اور جذبات کا شکار ہو جاتاہے۔ نبی کریمؐجو دعوت لے کر آئے‘ جو پیغام آپؐنے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا‘ یہ دعوت او ریہ پیغام آپؐ کے لیے اتنا کھلا‘ واضح اور روشن تھا کہ جیسے عام آدمی کے لیے دن میں آسمان پر چمکتا ہوا سورج ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ‘ آخرت‘ اور جنت و دوزخ‘ یہ ساری چیزیں ہماری نظروں سے محو ہیں لیکن نبیؐ کے لیے   یہ ساری چیزیں غیب سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔

نبی کو تو اللہ تعالیٰ براہ راست علم دیتاہے۔ جس طرح دن کی روشنی میں ایک عام آدمی دیکھ سکتاہے کہ سورج نکلاہوا ہے اور یہ اس کے لیے ایک کھلی حقیقت ہوتی ہے‘ یہی کیفیت نبی کی اللہ اور آخرت کے بارے میں ہوتی ہے۔ اب اگر آدمی دن کے اجالے میں کھڑا ہو کریہ کہے کہ لوگو‘ سورج نکلا ہوا ہے لیکن لوگ اس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں‘ اس کے برعکس اس کو ملامت کریں‘ طعنے دیں کہ تم اندھے ہوگئے ہو‘ تم پر جادو کر دیا گیا ہے‘ تم شاعری کر رہے ہو‘ تم پر جنون ہوگیا ہے‘ اسی لیے تمھیں رات کے وقت سورج نظر آرہا ہے‘ یا سورج نہیں نکلا ہوا اور تم کہہ رہے ہو کہ نکلا ہوا ہے۔ کسی نے تم کو چکمہ دے دیا ہے‘ یا باہر سے کوئی چیز تمھارے اوپر آگئی ہے‘ کوئی تمھارا استاد ہے جو تمھیں باتیں گھڑ گھڑ کر دیتا ہے وغیرہ۔ گویا نبی جو چیز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘    دنیا اس کو جھٹلانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس موقع پر انسان جن کیفیات سے دو چار ہوتاہے‘ یا گزرتاہے وہ نفسیاتی کیفیات کہلاتی ہیں۔

دعوت حق قبول نہ کرنے پر اضطراب

ایک نبی بھی اس نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہوتاہے۔نبی کے لیے سب سے پہلی آزمایش یہی ہوتی ہے کہ جس حق کی دعوت لے کر وہ اٹھا ہے اس کو جھٹلایا جائے۔ یہ جھٹلانا معمولی جھٹلانا نہیںہوتا۔ جو آدمی جانتا ہو کہ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں سچی اوربر حق ہے‘ مگر اسے جھٹلایا جاتاہے او رکہا جاتاہے کہ تم بے وقوف ہو‘ تم جھوٹے ہو‘ تم کو دھوکا ہوگیا ہے‘ تم پر کسی نے جادوکردیا ہے‘ اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے وہ شدید غم اور حزن کی کیفیت ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا غم ہوتا تھا کہ لوگ سچی بات کیوں نہیں مانتے‘ اور نہ صرف یہ کہ کھلی حقیقت کو جھٹلاتے ہیں بلکہ مذاق بھی اڑاتے ہیں اور طرح طرح سے اذیتیں پہنچاتے ہیں۔قرآن مجید نے اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے : لَا یَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ (یونس ۱۰:۶۵)’’ اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں‘‘۔

قرآن مجید میں کئی جگہ کہا گیا ہے: وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) ’’جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کرو‘‘۔ اس لیے کہ سب سے بڑا فتنہ اور آزمایش تو لوگوں کی باتیں ہی ہوتی ہیں۔ یہ باتیں جو لوگوں کی زبان سے نکلتی ہیں‘ خواہ لوگ کان میں آکر کہیں‘ مجلس میں   بیٹھ کر کہیں‘ کتابوں میں لکھ کر چھپوائیں یا اخبار میں شائع کریں‘ یہ بڑی سخت آزمایش ہوتی ہے۔ کوڑے کی مار‘ پتھرکی چوٹ اور ریت پر گھسیٹا جانا شاید اتنی سخت آزمایش نہ ہوتی ہوگی جتنی سخت آزمایش طنز‘ طعن و تشنیع اور مذاق و استہزا سے ہوتی ہے۔ یہ اندرونی چوٹ زخم کاری کی مانند    ہوتی ہے۔ اس کی زد آدمی کی عزت نفس‘ اس کی سچائی‘ اس کے کردار اور مقام ومرتبے پر بھی پڑتی ہے۔یہ جسمانی چوٹ سے زیادہ گہری چوٹ ہوتی ہے ۔ اسی پر قرآن نے کہا:

وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر  کرو۔

مایوسی و ناامیدی

اس غم اور حزن کو برداشت کرنا صبر ہے۔ اس سے آدمی مایوس بھی ہوتاہے۔ اس مایوسی کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے۔ جو آدمی بات نہ مانے‘ بار بار کہنے کے باوجود نہ مانے‘ ہر قسم کی دلیل سننے کے باوجود بھی نہ مانے‘ نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی تسلیم نہ کرے‘ او رپھر پہلی قوموں کا بھی ذکر ہوا ہے کہ برسوں دعوت کا کام ہو الیکن ان لوگوں نے مان کے نہیں دیا‘ تو پھر آدمی کے اوپر مایوسی طاری ہوتی ہے۔ مایوسی اندورنی کیفیت ہے اور غم کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے اور آدمی کے اوپر طاری ہوجاتی ہے۔ جب لوگ نہیں مانتے اور سچی بات کو جھٹلاتے ہیں تو آدمی کو اس سے دکھ ہوتا ہے جو مایوسی کا باعث بنتاہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حزن کا لفظ کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ اسی حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ مایوسی کا قرآن پاک نے بار بار علاج کیا اور اس کے لیے مختلف طرح سے تسلی دی اور حوصلہ دیا کہ اگر یہ لوگ نہیں مانتے ہیں تو یہ ان کی اپنی غلطی اور اپنا قصور ہے۔ آپؐ کا کام تو بس اتنا ہے کہ آپؐ لو گوں تک خدا کا پیغام پہنچا دیں۔ زبردستی منوانا آپؐ کا کام نہیں ہے۔ ہم نے آپؐ کو داروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہے اورنہ ان کے سرپر مسلط کیا ہے۔ ماننا یا نہ ماننا‘ ان کا اپنا اختیار ہے۔ آپ ؐ ان کے سامنے حق پیش کرتے رہیں‘ جو قبول کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے قبول کرے گا اور جو انکار کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے انکار کرے گا۔ ان کا فیصلہ ہم نے آپ ؐ کے ہاتھ میں نہیں دیا ہے۔ اگر انھیں زبردستی مسلمان بنانا ہوتا تو کیا اللہ تعالیٰ کے پاس خود کم طاقت تھی۔ وہ یہ سب کام کیوں کرتا کہ نبیؐ کو بھیجتا‘ دعوت کا کام کرواتا‘ کتاب اتارتا‘ اس کے لیے تو وہ ایک کلمہ کن کہتا اور سارے لوگ ایک ہی راستے پر آجاتے: وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً (ھود۱۱:۱۱۸)’’ بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا‘‘۔سب اس کی بندگی کرتے‘ سب فرشتوں کی طرح ہو جاتے۔ لیکن فرشتے  تو پہلے سے موجود تھے۔ انسان کو تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے اختیار کے استعمال کی آزمایش ہو۔ وہ اپنے ارادے سے اور اپنے فیصلے سے راہ حق پر آئے۔ اس کے لازمی معنی ہیں کہ جو آدمی چاہے گا مانے گا اور جونہیں چاہے گا نہیں مانے گا۔ لہٰذا تمھیں مایوسی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس طرح قرآن مجید نے اس حقیقت کو باور کیا کہ اگر ایک داعی اس بات کو بخوبی جانتا ہو کہ اس کا کام تو احسن انداز میں لوگوں تک پہنچانا ہے اور اس کا ماننا نہ ماننا‘ قبول کرنا یا رد کرنا‘ لوگوں کا اپنا اختیار ہے‘ اور وہ اس بات کا مکلف نہیں کہ لازماً لوگ حق بات کو تسلیم کریں‘ تو پھر مایوسی کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔

عجلت پسندی

ایک کیفیت آدمی پر یہ طاری ہوتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معاملہ جلدی سے نپٹ جائے‘ جب کہ یہ جدو جہد ایک طویل جدوجہد ہے۔ یہ تو یقین ہوتا ہے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا اور اس کا دین غالب آئے گا۔ یہ اللہ کا اپنے رسولؐ سے بالکل حتمی و یقینی وعدہ ہے کہ تمھارا کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا‘ خواہ یہ تمھاری زندگی میں ہو یا موت کے بعد۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس دین کو ضرور غالب کرکے رہے گا۔ یہی وعدہ نبی کریمؐکے ساتھ تھا اور آپؐکی جانشین اُمت‘ مسلمانوں سے بھی ہے‘ لیکن آدمی کی طبیعت میں عجلت پسندی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر کام جلد سے جلد ہوجائے۔ کافروں کے بارے میں عذاب کی جو دھمکی ہے وہ بھی ذرا جلد آجائے‘ اور جس منزل کا وعدہ ہے کہ دین غالب ہوگا‘ وہ بھی جلدسر ہو جائے۔ بسا اوقات نبی کریمؐ بھی پریشان ہو کر اس طرح سوچنے لگتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جلدی مت کرو۔ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ (القلم ۶۸:۴۸) ’’اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو او رمچھلی والے کی طرح نہ ہو جائو۔ ‘‘ یہاں حضرت یونسؑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب ان کی قوم نے برسوں دعوت کے کام کے بعد مان کے نہیں دیا‘ تو وہ مایوس ہوگئے اور اسی جلد بازی کی وجہ سے بستی چھوڑ کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی طرح نہ ہوجائو بلکہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کے ساتھ دعوت کا کام کیے چلے جائو۔ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ (الاحقاف۴۶:۳۵) ’’پس اے نبیؐ ، صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیاہے‘ اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو‘‘۔

جلد بازی صبر کے منافی ہے۔ جلد بازی مایوسی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے اور پھر مایوسی سے جلد بازی ۔اگر آدمی کو امید بندھی رہے کہ میرا کام ہو جائے گا اور ہو کر رہے گا اور اس کاوقت مقرر ہے تو پھر وہ اتنی جلد بازی نہیں کرے گا۔ جلد بازی آدمی تب کرتا ہے جب اس کو خود پر یقین نہ ہواورمایوسی ہو۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ یہ کام اس طرح تو نہیں ہوگا‘ کچھ اور کرنا چاہیے یاکوئی اور راہ نکالنی چاہیے۔ اسی کے نتیجے میں عجلت پسندی یا جلد بازی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  فَلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ ط (النحل ۱۶:۱) ’’ ان کے بارے میں جلد بازی نہ کرو‘‘۔ اس لیے کہ ہم نے معاملات کو اپنے ہاتھ میںرکھا ہے‘ تمھارے ہاتھ میں نہیں دیا۔

خدا کی مدد اور وعدوں پر شک

اسی حزن و غم کے نتیجے میں جو اگلی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ وہ وعدے بھی مشکوک نظر آنے لگتے ہیںجو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کیے ہیں۔ اللہ کے نبی تو اس کیفیت میں مبتلا نہیں ہو سکتے‘ لیکن یہ ضرور پکار اٹھتے ہیں: مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ (البقرۃ ۲:۲۱۴) ’’ اللہ کی مدد کب آئے گی‘‘؟ ان کو شک تو نہیں ہوتا لیکن اس بارے میں شبہہ ہو نے لگتا ہے کہ کبھی ہم منزل پر پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں۔ اس بارے میں ہدایت یہ ہے فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ (الروم۳۰:۲۰)‘یعنی صبر کرو‘ راہ خدا پر جمے رہو‘ او راللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ اس کا وعدہ باکل سچا ہے۔

انسان کے لیے آخری خطرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلا جائے‘اور مخالفین کے ساتھ ملنے کی کوشش کرے کہ وہ چھائے ہوئے ہیں‘ غالب ہیں‘ اور انھی کا سکہ چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نبیؐ کے بارے میں یہ خدشہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایسا کریں گے‘ مگر نبیؐ کومخاطب کرکے نبیؐ کے ماننے والوں کو ہدایت دینا مقصود ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا: فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِماً اَوْ کَفُوْرًا o (الدھر۷۶:۲۴) ’’تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو‘ اور ان میں سے کسی بدعمل یا منکرحق کی بات نہ مانو‘‘۔ گویا اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور اس کے لیے صبر کرو۔ یہاں انتظار کا لفظ استعمال نہیں ہوا‘ میں نے ترجمہ کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔ اس کام میں لگے رہو اور جو غلط کاروں کا گروہ ہے‘ ان کے ساتھ ملنے کا مت سوچو۔ یہ کسی بے صبری کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور اس طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ چیز صبر کے منافی ہے۔

خوف اور حزن کاعلاج

اگر غور کیا جائے تو یہ سب نفسیاتی کیفیات حزن سے پیدا ہو رہی ہیں۔ ایک چیز جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ نہ ہو‘ مگر ہو جاتی ہے تو ہمیں اس کاغم ہوتاہے۔ اسی طرح جو چیز ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہو جائے اور نہ ہو تو ہمیں اس کا غم ہوتاہے۔ اس غم سے مایوسی‘ کم حوصلگی اورپست ہمتی اور بہت ساری کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ جلد بازی اور بے یقینی کی ساری کیفیات بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ ہر ایک کے علاج کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے ‘ کہ اِصْبِرُوْا‘ اِصْبِرُوْا ،  یعنی صبرکرو اور اپنے کام پر جمے رہو اور صبر سے مدد چاہو‘ اپنے آپ کو اس سے باندھ کر رکھو‘ اپنے آپ کو ایک مقام پر روکے رکھو۔ اس لیے کہ یہی ان چیزوں کا علاج ہے۔

دوسری کیفیت خوف کی ہے۔ اس بات کا خوف کہ کل نہ جانے کیا ہو جائے۔ اسی طرح جان کا خوف ہوتاہے‘ مال کے ضائع ہونے کا خوف ہوتاہے‘ اور دنیا کے اندر جو عزت اوروقار ہے اس کے چھن جانے کا خوف بھی ہو سکتاہے۔ یہ تمام خوف اور اندیشے انسان کے اوپر حاوی ہیں۔ زندگی آدھی تو حسرت کی نذر ہو جاتی ہے کہ کیا نہیں ہو سکا‘ اور آدھی خوف کی نذر ہوجاتی ہے کہ نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ اس کا علاج بھی صبر ہے۔ چناں چہ جہاں اللہ تعالیٰ نے ابتلا و آزمایش کا ذکر کیا‘ وہاں سب سے پہلے خوف کا ذکر کیا ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیئٍ مِّنَ الْخَوْفِ (البقرۃ  ۲:۱۵۵)۔ اسی طرح دشمن کے حملہ آور ہو جانے اور مسلط ہو جانے کا خوف ہوتاہے۔ دیگر ہزاروں اندیشے اور خطرات ہوتے ہیں جو آدمی پر طاری ہوتے ہیں۔ وہ لرزتا ہے‘ کانپتاہے اور ڈرتا رہتاہے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے‘ رشتہ دار ساتھ چھوڑ دیں گے‘ دوست ساتھ نہ دیں گے‘ اور پتا نہیں کیا کیا نقصان ہو جائے۔ فرمایا کہ اس خوف سے ہم آزمائیں گے۔ اس خوف کا علاج بھی صبر ہے۔ خوف کے مقابلے میں جمے رہنا اور پیچھے نہ ہٹنا بھی صبر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دین کے راستے پر جمنے اور ہر طرح کی قربانی دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ کو باپ کے ذریعے حکم ملا کہ تمھاری جان مطلوب ہے تو انھوں نے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۰۲) ’’اس نے کہا ‘ ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیاجار ہا ہے اسے کرڈالیے‘ آپ ان شا ء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ یہ صبر عام قسم کا نہیں تھا بلکہ بڑے عزم اور حوصلے کا صبر تھا کہ میری جان حاضر ہے۔ اس کے لیے تیار ہوں۔ یہ اللہ پر توکل تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دین کے دوسرے احکام نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد سب کے ساتھ صبر کا ذکر کیا ہے۔ کیوں کہ صبر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم پر عمل نہیں ہو سکتا۔

مخالفت پر رویہ

دعوت کی راہ میں بہت سی مخالفتوں سے سابقہ پڑتاہے۔ جو چیزیں سہی اور برداشت کی جاتی ہیں‘ ان پر آدمی کو صدمہ اور غم ہوتاہے۔ اس میں مخالفین کے ساتھ روش کے حوالے سے بھی صبرکی تاکید ہے۔ صبر کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو عموماً نگاہوں سے محو ہو جاتے ہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم پر کوئی سختی کرے‘ کوئی نقصان پہنچائے‘ تو تمھیں بھی اس کی اجازت ہے کہ جتنا اور جس  طرح تم کو نقصان پہنچایا گیاہے‘ تم بھی اس کو پہنچائو لیکن اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا:

وَلَئِنْ صَبَرْ تُمْ لَھُوَ خَیْرٌّ لِّلصّٰبِرِیْنَ o (النحل۱۶:۱۲۶)

لیکن اگر تم صبرکرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہترہے۔

وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشورٰی ۴۲:۴۳)

البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے، تویہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔

جہاں اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفات بیان کی ہیں‘ ان کے لیے جنت کا وعدہ کیا ہے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں‘ وہاں اس نے جن صفات کا ذکر کیا وہ یہ ہیں:

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۳۴) جو ہرحال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال‘ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔

خرچ کرنے کے لیے بھی حوصلے اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک پہلو ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ خوبیاں ہیں کہ برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔ برائی کا جواب بھلائی سے دو۔ ایک جگہ ان لوگوں کا جو اللہ کی جنت میں جائیں گے یوں ذکر کیا : وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ ربِّھِمْ وَ اَقَامُوالصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزقْنٰھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً وََّیَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ (الرعد۱۳:۲۲) ’’ان کا حال یہ ہوتاہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں‘‘۔ ایک دوسری جگہ فرمایا: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ج وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوحَظٍّ عَظِیْمٍo (حٓم السجدۃ ۴۱:۳۴-۳۵) ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں‘ اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔گویا اخلاق کے اعلیٰ مقام تک وہی پہنچتے ہیں جو برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیتے ہیں۔ برائی کو تو وہی چیز مٹاسکتی ہے جو بھلی اور اچھی ہو۔

جسمانی مصائب اور موت کا خوف

یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو صبر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس کے بعد پھر جسمانی مصائب اور جسمانی تکالیف ہیں۔ اگر اس حوالے سے بھی آدمی کا تصور واضح ہو تو وہ ہر طرح کے ظلم و جبر کو برداشت کرسکتاہے‘ حتیٰ کہ جان بھی دینا پڑے تو بے خوف جان دے گا۔ جب یہ بات واضح ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے‘ لہٰذا موت کوئی ڈرنے کی چیز نہیں ہے۔ اس چیز سے کیا ڈرنا جس کا نہ تو وقت معلوم ہو‘ نہ جسے روکا جا سکتا ہو‘ نہ اس سے بچا جا سکتاہو‘ نہ اس کو ٹالا جا سکتاہو اور نہ اس سے چھپ کر کہیں جایا جا سکتا ہو‘ اور نہ ایک گھڑی آگے کی جاسکتی ہو اور نہ پیچھے۔ بہت بے وقوفی ہے کہ آدمی اس سے ڈرے۔ ڈرنا تو اس چیز سے چاہیے کہ جو اس کے بعد پیش آنے والی ہے‘ جسے ٹالا جاسکتا ہے‘ جس سے بچا جا سکتاہے اور کچھ کرکے اس پر قابو پایا جا سکتاہے‘ یعنی آخرت۔ لہٰذا جس کو یہ معلوم ہو کہ موت کا وقت مقرر ہے تو پھر اس کو کبھی بھی موت کا خوف لاحق نہیں ہو سکتا۔

حضرت علیؓ کا مشہور قول ہے کہ دد دن ایسے ہیں کہ جب میں موت سے نہیں ڈرتا۔ ایک دن تو وہ ہے کہ جس روز موت کو نہیں آنا۔ اس دن موت سے ڈرنے کی کیا ضرورت‘ اس لیے کہ اس روز تو اس کو نہیں آنا۔ دوسرا دن وہ ہے جس دن موت کو آنا ہے۔ اس دن بھی موت سے کیا ڈرنا کہ اس دن ڈرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انھوں نے بڑے خوب صورت انداز میں یہ بات کہی ہے کہ یا تو آج کے دن موت کو آنا ہے‘ یا آج کے دن موت کو نہیں آنا۔ اگر آج کے دن موت کو آنا ہے تو ٹل نہیں سکتی‘ لہٰذا ڈرنے سے کچھ حاصل نہیں۔ اگرموت کو اس روز نہیں آنا تو خواہ مخواہ آدمی کیوں ڈرے‘ ۔ یہ تصور موت سے بے خوف کردیتاہے اور آدمی کے اندر صبروہمت پیدا کردیتاہے۔ پھر وہ عزم اور حوصلے کے ساتھ جما رہتاہے۔

صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ میں نے ان میں سے صرف چند پہلو سامنے رکھے ہیں۔ قرآن مجید اسے کہیں صبر کے نام سے اور کہیں نام لیے بغیر صبرکے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتاہے۔ کہیں اپنے نبی ؐ سے خطاب کرتاہے تو اس میں کوئی نہ کوئی صبر کا سامان ہوتا ہے اور کسی نہ کسی خزانے کا منہ کھولتاہے‘ جہاں سے دعوت کا کام کرنے والا صبر کاخزانہ حاصل کرتاہے۔ کوئی چشمہ ایسا بہتا ہے کہ جہاں سے کوئی فیض ملے۔ نبی کریمؐ اور آپؐ کے ساتھی جس طرح اپنے مقام پر ‘ اپنے موقف پر‘ اپنے کام اور اپنے مقصد کے اوپر جمے رہے‘ وہ اسی صبر کا نتیجہ تھا اور بالآخر ساری دنیا کے وارث بن گئے۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے صرف فلسطین عطا کیا تھا‘ لیکن حضوؐر کی امت کو اللہ تعالیٰ نے مشرق سے لے کر مغرب تک‘ شمال سے لے کر جنوب تک پوری دنیا صبر کی وجہ سے عطا کردی۔   یہ صبر کا نتیجہ تھا اور وہ صبر کے مقابلے میں کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

صبر اور ذرائع قوت

صبر کا سرچشمہ دراصل یہ احساس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر چیز قائم ہے‘ اور ہم ہر وقت اللہ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔اسی لیے قرآن مجید میں سورۂ مدثر میں سورۂ اقرأ کے بعد دوسری یا تیسری وحی میںیہی ہدایت فرمائی : وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر۷۴:۷) ’’اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘۔ گویا اپنے رب کی خاطر اور اپنے رب کے لیے جم جائو‘ اور یہ سمجھو کہ میں اپنے رب کے لیے کام کر رہا ہوں‘ رب کا کام کر رہا ہوں اور رب کی راہ میں ہوں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں۔ قرآن پاک نے اس طرح بار بار صبر کی تلقین کی ہے۔ ایک مقام پر فرمایا:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o (الطور۵۲:۴۸) اے نبیؐ،اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو‘ تم ہماری نگاہ میں ہو۔ تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔

حضرت موسٰی ؑ کو جب فرعون کے دربار میں بھیجا تو انھوں نے کہا کہ ہم فرعون کے دربار میں جائیں گے لیکن میرے اوپر خون کا دعویٰ بھی ہے اور مجھے ڈر اور خوف بھی ہے۔ اس پر فرمایا : اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۶) ’’ڈرو مت ‘ میں تمھارے ساتھ ہوں‘ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہاہوں‘‘۔ گویا تم جس حال میں بھی ہوگے‘ میں سن بھی رہا ہوں گا اور دیکھ بھی رہا ہوں گا۔

دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات صبر کا سرچشمہ ہے۔ جب آدمی کو یقین ہو جائے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے‘ کوئی چیز بھی میری اپنی نہیں ہے۔ یہ دین بھی میرا اپنا نہیں ہے۔ لوگوں کو دین کی راہ پر لانا‘ ان کے دلوں کو حق کی طرف موڑنا‘یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ اگر وہ  چاہے گا تو ہو گا‘ اور اگر نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ۲:۱۵۶) ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ ‘ میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ دراصل وہ چھوٹاسا کلمہ ہے جس کے اندر صبر کی ساری دنیا پنہاں ہے۔ اسی لیے حادثے اور صدمے پر اسی کو پڑھا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جس سے آدمی صبر حاصل کرسکتاہے۔ گویا کوئی چیز میری اپنی نہیں ہے‘ اللہ کی ہے۔ سب چیزوں کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اس کا انجام وہیں پر ہونا ہے۔

اسی طرح نماز کو صبر کے ساتھ اس لیے جوڑا گیا ہے کہ نماز میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ کے الفاظ ہیں‘ وَاسْتَعِینُوْا بِاللّٰہِ ،’’اللہ سے مدد مانگو‘‘۔ اور وہی الفاظ پھر ہیں کہ یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ کہ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد مانگو۔ صبر کا لفظ انھوں نے خود کہا۔ اللہ کی مدد کے لیے صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے۔ اس لیے کہ صلوٰۃ تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے۔ اللہ کے سامنے حاضر ہونے ‘ اللہ سے بات چیت اور اللہ سے قرب کا نام ہے۔ سجدہ کرتے وقت آدمی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتاہے۔ جب اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتاہے تو اس کے دربار میںحاضر ہوجاتاہے۔ اسی لیے تو نماز اللہ کی یاد اور اللہ کے قرب کا نام ہے‘ نیز نماز صبر کا سامان فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے:

اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ ۲:۱۵۳) صبراور نماز سے مدد لو۔

فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغَرُوْبِ o وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ o (قٓ۵۰:۳۹-۴۰) پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔ طلوع آفتاب اورغروب آفتاب سے پہلے اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔

وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاًo وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلاً طَوِیْلاًo (الدھر ۷۶:۲۵-۲۶) اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو‘ رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو‘ اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو۔

جہاں بھی صبر کا ذکر آئے گا وہاں سے کسی نہ کسی پہلو سے اللہ کا‘ اس کی حمد کا اور نماز کا ذکر آئے گا۔ اس لیے کہ صبر کی پوری استعداد اسی تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ جتنا یہ تعلق مضبوط ہوگا‘ یقین مضبوط ہوگا‘ اتنا ہی آدمی بے خوف اور اللہ سے ملاقات کا شائق ہوگا۔ کوئی چیز جو اللہ کی ہے اگر اس نے لے لی‘ تو اس پر کوئی گلہ نہیں ہوگا‘ کوئی صدمہ نہیں ہوگا۔ اللہ کی عزت اس کی عزت ہے‘اور اس کی عزت اللہ کی عزت ہے۔ اسی کی خاطر وہ جما رہے گا۔ لہٰذا اس کو کسی بات کا صدمہ نہیں ہوسکتا۔ بڑے سے بڑا صدمہ تو جان کے ضیاع کا ہوتاہے‘ اگر جان کا ضیاع بھی ہو جائے تو یہ ہمارے ہاں بہت معروف ہے اور کہا جاتا ہے: لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلِلّٰہِ مَاعَطَا ‘ جو لے لیا وہ بھی اسی کا تھا‘ جو دیا ہے وہ بھی اللہ کا ہے۔ کوئی چیز ہماری نہیں ہے‘ سب کچھ اسی کا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اس کی بھر پور عکاسی کرتاہے۔ گویا سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے‘ سب اسی کی ملکیت ہے‘ ہمارے پاس تو ایک امانت ہے۔

جب نماز سے اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہوتی ہے‘ اللہ کی یاد دل میں بستی ہے‘ ڈیرے ڈالتی ہے‘ تو پھر صبر پیدا ہوتاہے۔ اللہ کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نماز کو خشوع کے ساتھ پڑھنے کے لیے بڑے صبر کی ضرورت ہے۔ اس لیے بھی دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ نماز ٹھیک ہو تو صبر پیدا ہوتاہے‘ اور نماز ٹھیک سے پڑھنے کے لیے صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہزاروں خیالات آتے ہیں‘ ہزاروں وسوسے پریشان کرتے ہیں‘ ان کے اوپر قابو پانا اور ان کے مقابلے میں اللہ کو یاد رکھنا‘ اس کے لیے بڑے ضبط اور بڑے صبرکی ضرورت ہے۔ حصول صبر کے لیے ایک جامع نسخہ ذیل کی آیات میں بیان کیا گیاہے:

وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰـقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرۃ ۲:۴۵-۴۶) صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے‘ مگر ان فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

گویا صبر اور نماز سے مدد مانگی جائے اور یہ مدد مانگنا بڑا مشکل ہے‘ سوائے ان کے جو خشوع کی کیفیت رکھتے ہیں‘ جن کے دل اللہ کے آگے پست ہیں‘ یا جن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھل جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں‘ جن کو اس کا دھڑکا لگا رہتاہے‘ کہ اللہ سے ملاقات کرنی ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ، یعنی ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ کے اندر پورے صبر کا نسخہ آگیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس اعلیٰ اخلاقی مقام پر پہنچائے‘ اور اس کو حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)

ہم بچپن سے سنتے آئے ہیںکہ صبر کرو۔ اگر دین دارگھرانہ ہو تو اس پر جو بھی مشکل یا مصیبت آن پڑے‘ اس پر والدین کی طرف سے یہی نصیحت کانوں میں پڑتی ہے کہ صبر کرنا چاہیے۔ اگر کوئی عام گھرانہ ہو ‘ تب بھی جب کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے‘ یاکوئی عزیز دنیا سے رخصت ہو جائے ‘ تو ہرآنے جانے والا شخص یہی کہتاہے کہ صبر کریں‘ اللہ کی مرضی کے آگے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ یہ ہمارا صبر سے ابتدائی تعارف ہے جو بچپن ہی سے گھروں میں ہو جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آدمی دنیا میں کچھ بھی حاصل کرنا چاہے‘ اس کے لیے محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر آدمی جانتاہے کہ زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ جس کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہو‘ اس کی زندگی بھی ہزاروں اندیشوں اور پریشانیوں سے دو چار ہوتی ہے۔ ہر آدمی اس چیز کی طلب میں رہتاہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی‘ اور ہر اس چیز کا رنج و غم کرتاہے جو اس کے ہاتھ نہیں آسکتی۔ یہ کیفیت اس کی بھی ہے جو دنیا میں بہت کچھ رکھتاہو اور اس کی بھی جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بھی مقصد زندگی اگر سامنے ہو‘ کوئی بھی خواہش پوری کرنی ہو تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے لیے لگن سے کام اور محنت کرنی پڑتی ہے۔ راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنی پڑتی ہیں اور ان پر قابو پانا ہوتا ہے۔ اگر ترغیبات راستے سے ہٹانا چاہیں تو ان کا بھی مقابلہ کرنا پڑتاہے۔ مثال کے طورپر اگر کسی کو ڈاکٹر بننا ہے تو اس کے لیے اسے محنت کرنا پڑتی ہے‘ راتوں کی نیند قربان کرنا پڑتی ہے اور بہت سی خواہشات اور تمنائوں کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے‘ تب کہیں جا کر ڈاکٹر بنا جاتاہے۔

صبر کا مفھوم

صبر کے کئی مفہوم ہیں‘مثلاً کسی کام کو جم کر کرنا‘ حوصلے سے کرنا‘ عقل کے ساتھ کرنا۔ کہیں پہنچنا ہو تو اس کے لیے اس استعداد کی ضرورت ہوتی ہے جس کو ہم صبر کے نام سے پکارتے ہیں۔

صبر کے لغوی معنی عربی زبان میں روکنے اور باندھنے کے‘ یا برداشت کرنے اور سہنے     کے ہیں۔ کسی بھی چیز کے ساتھ اگر آدمی اپنے آپ کو باندھ لے اور اس کے اوپر جم جائے تو یہ صبر ہے۔ یہ بھی صبر ہے کہ انسان کے سامنے جو بھی مقصد ہو یامنزل سر کرنا ہو‘ چاہے یہ مقصد دنیاوی ہو یا اعلیٰ و ارفع کوئی اخلاقی مقصد‘ آدمی اپنے مقصد پر جم جائے اور یہ عزم کرلے کہ جوبھی رکاوٹیں ہوںگی انھیںخاطر میں نہیں لائے گا‘ خواہ وہ تکلیف کی صورت میں نمودار ہوں یا ترغیب کی صورت میں۔ یہ مشکلات اور رکاوٹیں باہر سے ہوں‘ یا اپنے اندر سے‘ یا کوئی راہ میںمسائل پیدا کردے‘ لیکن انسان اپنے مقصد پر جما رہے۔ کبھی حوصلہ پست ہونے لگے‘ یا مایوسی ہونے لگے‘ کبھی محنت سے دل گھبرانے لگے‘ مستقل کام کرتے ہوئے اُکتاہٹ ہونے لگے‘ اس کے باوجود کام کرتے رہنا‘ یہ بھی صبر ہے۔ گویا روکنے اور باندھنے اورسہارنے کے معنوں میں صبر کا لفظ استعمال ہوتاہے۔

اگر قرآن مجید کھول کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تو ایک ایسی صفت ہے اور ایسی استعداد ہے جس کے ذکر سے قرآن مجید بھراہوا ہے۔ وہ جگہ جگہ اس کی ہدایت کرتاہے‘ اور اس کے مختلف پہلو بیان کرتاچلا جاتاہے۔ دنیا کے کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان جم کے کام کرے‘ رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لائے اور ترغیبات کے اوپرقابو پائے۔ لالچ ہو یا خوف‘ خوشی ہو یا غم‘ مایوسی ہو یا کم ہمتی‘ سب کے اوپر قابو پائے۔ دنیا کے اندر اس کا کوئی کاروبار چلتاہے‘ کسی نوکری میں اونچا مقام ملتا ہے‘ تعلیم کے میدان میںکوئی کامیابی ملتی ہے‘ گھر کی بنیاد رکھی جائے یا تعمیر کیا جائے یا اور بہت سے کام ہوں‘ ان سب کے لیے صبر کی صفت ضروری ہے۔

قرآن مجید ایک ایسی منزل کی دعوت دینے کے لیے آیا ہے اور ایک ایسی نعمت عطاکرتاہے جو بالکل مختلف ہے۔ دنیا میں جتنی بھی منازل ہیں‘ جتنی بھی خواہشات ہیں‘ جتنی بھی چیزیں ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس لیے کہ وہ ایک ابدی نعمت‘ ہمیشہ کی نعمت‘ یعنی جنت اور رضاے الٰہی کی طرف پکارتا ہے۔ اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر صبر کی ضرورت اسی راستے کے لیے ہے۔ جتنی اعلیٰ منزل ہوگی‘ اتنی ہی محنت کرنا پڑے گی اور اتنا ہی گرنے کا ڈر بھی ہوگا‘اور اتنی ہی زیادہ راہ میں رکاوٹیں بھی حائل ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ترغیبات اور وسوسے بھی باربار سامنے آئیں گے کہ شاید پیچھے رہ جانے میں ہی فائدہ تھا‘ یاآگے بڑھنے کی محنت خواہ مخواہ مول لی وغیرہ۔

یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو کسی بھی اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ہمارے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ جب منزل وہ ہو جس کی وسعت میں آسمان اور زمین سماجائیں تو ظاہر ہے کہ اسی پیمانے سے مشکلیں‘ رکاوٹیں‘ مصائب اور ترغیبات سامنے آسکتی ہیں۔ وہ ساری نفسیاتی کیفیات اور جسمانی مصائب جو دوسرے مقاصد تک پہنچنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں وہ اس حیثیت میں کئی گنا زیادہ پیش آتے ہیں۔ اسی لیے جب قرآن مجید نازل ہوا تو شروع ہی میں جو بنیادی ہدایات اس نے اپنے لانے والے کو دیں‘وہ یہی تھیں کہ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ (المدثر۷۴:۷) ’’ اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔‘‘ پھر چند دن کے بعد دوسری وحی نازل ہوئی: وَاصْبِرْعَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُُرْ ھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا o (المزمل۷۳:۱۰) ’’اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں‘ ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہو جائو‘‘،یعنی مخالفین جو بھی باتیں بنار ہے ہیں‘ تمھیں جھٹلا رہے ہیں‘ مذاق اڑا رہے ہیں‘ پروپیگنڈا کررہے ہیں‘ اس پر صبر کرو اور راہِ خدا میں جمے رہو۔ ان لوگوں کو چھوڑ دو اور چھوڑو بھی اچھے اور بھلے طریقے سے۔ یہ دوسری ہدایت سورۂ مزمل کی ہے اور پہلی سورۂ مدثر کی۔ یہ بالکل ابتدائی دنوں میں دی جانے والی ہدایات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو دیں۔ اس کے بعد دین کی راہ پر آگے بڑھنے کے ہر ہر مرحلے میں یہ ہدایات بار بار دہرائی جاتی رہیں۔

مکی دور مظالم کا دور تھا۔ مخالفین پر ہاتھ اٹھائے بغیر سہنے اور برداشت کرنے کا دور تھا۔ جسمانی مصائب اور تکالیف اٹھانے کا دور تھا۔ جب مدنی دور آیا تو ہاتھ اٹھانے کا زمانہ آیا‘ اس میں جنگ کی نوبت آئی اور جہاد کا راستہ کھلا۔ اگرچہ اس دور میں ہاتھ اٹھانے اور مقابلہ کرنے کی اجازت تھی مگر اس میں بھی جان و مال کا خطرہ موجود تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب جہاد کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ ہدایت بھی فرمائی:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo (البقرۃ ۲:۱۵۵) اورہم ضرورتمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریںان کے لیے بشارت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ اور دوسرے انبیا ؑ کو بھی صبر کی ہدایت کی۔ اس میں بھی یہ دو چیزیں موجود تھیںکہ راہ میں آنے والے مصائب پر صبر اور نمازکی روش‘ کامیابی کی روش ہے۔ اگرکوئی کنجیاں ہیں جو راستہ کھولتی چلی جائیں‘ جس سے راہ آسان ہوتی جائے‘ منزل قریب آئے‘ مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور استعداد پیدا ہو‘ تووہ صبراور صلوٰۃ ہیں۔ سب انبیا ؑ نے اپنی اُمتوں کو انھی دوچیزوں کی نصیحت کی۔ قرآن مجید میں بھی تین جگہ پر مختلف انداز میں یہ بات دہرائی گئی ہے:وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط (البقرۃ ۲:۴۵) ’’ صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔ گویاجو راستہ تمھارے سامنے ہے‘ اللہ کی بندگی اور اللہ کی رضا کے حصول کا راستہ‘ اللہ کی جنت تک پہنچنے کا راستہ‘ یہ راہ صبر اور نمازکے ذریعے ہی طے ہو سکتی ہے۔ نماز اور صبر کا کیا تعلق ہے‘ اس کا ذکر آگے آئے گا۔

قوت کا سرچشمہ

قرآن مجید میں اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیاں صبر اور تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ البتہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس تقویٰ کو اختیار کرنے کے لیے نفس کے اندر جس صلاحیت‘ تربیت اور استعداد کی ضرورت ہے‘ اس کا نام صبر ہے۔ آدمی ان چیزوں سے رک جائے جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہیں‘ ان تمام نفسیاتی کیفیات کے مقابلے میں ڈٹا رہے جو انسان کے نفس کے اندر سے پیدا ہوتی ہیں‘ ان ساری رکاوٹوں کے مقابلے میں بھی اللہ کی راہ پر جما رہے جو باہر سے آتی ہیں‘ اس تقویٰ کے حصول کے لیے قوت کا خزانہ اور سرچشمہ صبر ہے۔ اسی لیے تقویٰ کے ساتھ صبر کا ذکر لازماً اور بڑی کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا گیا کہ مخالفین تمھارے خلاف جو تدبیریں اور ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں‘ ان کے مقابلے کے لیے صبر اور تقویٰ اختیار کرو۔

وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُ ھُمْ شَیْئًا ط(اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطے کہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

امامت کی شرط

قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بھی زمین میں جن کو امامت عطا فرمائی‘    یہ وہی لوگ تھے جو صبر میں سچے اور کھرے ثابت ہوئے۔

حضرت ابراہیم ؑ کو دنیا کی امامت اس وقت ملی جب انھوں نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھی۔ یہ مرحلہ بھی بڑے صبر کا متقاضی تھا۔ بیٹے نے بھی کمال سعادت مندی کے ساتھ کہا: یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَo (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۰۲) ’’اباجان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کرڈالیے‘ آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔

بنی اسرائیل کا ذکر آیا کہ مستضعفین تھے‘ غلام تھے‘ فرعون کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے‘  اس کے ظلم و جبر کے تحت پس رہے تھے لیکن ہم نے ان کو مشرق و مغرب کی زمینوں کا مالک بنادیا۔ بنی اسرائیل سے خلافت کا وعدہ اس لیے پورا ہوا کہ انھوں نے صبر کیا۔ جب وہ ان سارے مصائب کے مقابلے میں جمے رہے‘ جہاد کیا اور قربانیاں دیں‘ تو اللہ تعالیٰ نے مشرق ومغرب کی خلافت اور حکمرانی ان کے سپرد کردی۔ وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لا بِمَا صَبَرُوْا o (اعراف ۷:۱۳۷) ’’اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا‘‘۔

اسی طرح جنت کے بارے میں قرآن واضح طور پر بیان کرتاہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو صبر کی روش اختیار کرتے ہیں۔ وجَزٰ ھُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۱۲) ’’اور ان کے صبر کے بدلے میں انھیں جنت اور ریشمی لباس عطاکرے گا‘‘۔ایک دوسری جگہ یہ بات مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے: اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍo (الزمر ۳۹:۱۰)’’ صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے تم سے پہلے بھی اہلِ کتاب کو اس کی ہدایت کی تھی اور تم کو بھی اسی کی ہدایت کی ہے کہ صبر کی روش اختیار کرو۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ برائی کے جواب میں جمے رہنا‘ اشتعال میں نہ آنا‘ مخالفتوں کے مقابلے میں اپنے آپ پر قابو رکھنا‘ ہمت نہ ہارنا‘ حوصلہ نہ چھوڑنا‘ مایوسی کا شکار نہ ہونا‘ اور اشتعال میں آئے بغیر برائی کے جواب میں بھلائی کے راستے پر چلنا‘ صبر کے بغیر ممکن نہیں۔ جب انسان نیکی کا حکم دے گا اور منکر سے روکے گا تو یہ اس کے کام آئے گا۔ یہی عزیمت ہے کہ آدمی حالات و مصائب کا جم کر مقابلہ کرے۔یہ حکم‘ یہ ہدایت‘ یہ تاکید‘ کہ صبر کرو‘ اس لیے بھی ہے کہ اس کے بغیر دین کا راستہ طے نہیں ہو سکتا۔ اس راستے میں اس کے بغیر قدم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

صبر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیے کہ حضرت لقمان نے جب اپنے بیٹے کو نصیحت کی تو اس کو دوسری ہدایات کے ساتھ صبر کی بھی تلقین کی کہ یہ بڑے عزم وحوصلے کا کام ہے:

یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (لقمٰن ۳۱:۱۷) بیٹا! نماز قائم کر‘ نیکی کا حکم دے‘ بدی سے منع کر‘ اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبرکر۔ یہ بڑے حوصلے کے کاموں میں سے ہے۔

آپ غور کریں کہ آیت کا آغاز نماز سے ہوا اور اختتام صبر پر۔ قرآن مجید میں نماز اور صبر دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر آتاہے۔ اسی طرح جہاں بھی صبر کا ذکر آئے گا کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کا نام بھی آئے گا‘ اللہ کا ذکر آئے گا‘ اللہ کی تسبیح کا حکم آئے گا اور اللہ کے قریب ہونے کا ذکر آئے گا۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی تعلیم کی رو سے ایک مومن کے لیے اللہ پر ایمان اور اللہ کی ذات کے ساتھ تعلق صبر کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح قرآن میں جہاں بھی جہاد کا ذکر آیا ہے وہاں صبر کا ذکر بھی ساتھ آیا ہے کہ اللہ یہ آزما کر رہے گاکہ کون مجاہدہ کرتاہے اور کون اس کی راہ میں صبر کرتاہے۔

صبر بے بسی کا نام نھیں

اگر صبرکے یہ معنی ہوں تو اس سے ایک بات بڑی صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ بچپن سے جو کچھ ہم سنتے چلے آئے ہیں وہ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ کہ جب بے بس ہو جائیں‘ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے‘ ڈاکٹر جواب دے دیں‘ موت کا فرشتہ آجائے اور جان نکال لے جائے‘ تب  دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔ ایسے موقع پر اس کے علاوہ کیا چارہ ہے کہ صبر کیا جائے۔ لیکن   قرآن مجید میں صبر کا جوبیان ہے اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بے بسی کی خاموشی یا بے کسی کا نام صبر نہیں ہے‘ یا قابو نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کرپانا صبرنہیں ہے۔ کچھ کرنے اور کچھ کہنے کا حوصلہ بھی ہو‘ اس کے باوجود انسان اس سے رک جائے‘ یہ صبر ہے۔ کسی کام کے کرنے کی استعداد ہو‘ خواہش بھی موجود ہو لیکن آدمی اس کے مقابلے پر جم جائے۔ صبر بزدلوں یا کم حوصلہ لوگوں کا کام نہیں بلکہ صبر تو بڑی ہمت، بڑی جرأت، بڑی بہادری اور عزم وحوصلے کا مطالبہ کرتاہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے بار بار کہا ہے کہ جو صبر کرتے ہیں اور قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردیتے ہیں‘ اور برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیںکہ یہ بڑے عزم وحوصلے کا کام ہے۔

وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (الشورٰی ۴۲:۴۳) البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے‘ تو یہ بڑی اولو العزمی کے کاموں میں سے ہے۔

ہم دیکھیں گے کہ صبر بے بسی کا نام نہیں ہے بلکہ صبربدلہ لینے کی استعداد اور ترغیب کا شکار ہو جانے کے باوجود اپنے مقام پر جمے رہنے کا نام ہے۔ مکی زندگی میں اگر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ہاتھ اٹھا نہیں سکتے تھے‘ بلکہ وہ سب لڑنا جانتے تھے اور مدینہ جاکر انھی لوگوں نے دکھایا بھی کہ وہ کس جواں مردی سے لڑنا جانتے ہیں۔ اس زمانے میں کوئی مسلح فوجیں نہیں تھیں۔ ہر ایک کے پاس تلوار ہواکرتی تھی اور ہر ایک لڑائی میں حصہ لیتا تھا۔ عرب معاشرے کے اندر اگر کوئی توہین و تذلیل کرے‘ بے عزتی کرے‘ قبیلے کے کسی آدمی کے اوپر ہاتھ ڈال دے یا کوئی خون ہو جائے‘ تو برسوں بلکہ ایک ایک سو سال تک خون در خون انتقام کا سلسلہ چلتا رہتاتھا۔ ان کے لیے یہ اجنبی بات نہیں تھی کہ آن بان اور عزت کی خاطرمرمٹیں اور اپنے قبیلے کے خون کا بدلہ لیں۔لہٰذا مکے میں جو کچھ کیا گیا وہ بے بسی کا صبر نہیں تھا بلکہ ایک سوچا سمجھا راستہ تھا۔ اس کی بنیاد میں بہت ساری چیزیں پوشیدہ تھیں‘ جن کی یہاں وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ صبر بے بسی‘لاچاری یا بزدلی کی وجہ سے نہیں تھا۔

صبر کا حقیقی مقام یہ ہے کہ آدمی اپنے مقاصد کی خاطر جم جائے اور پورے عزم وحوصلے سے مال بھی قربان کرے اور جان بھی کھپائے اور ضرورت پڑنے پر جان دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔

یہ شاید صبر کی بڑی مختصر تعریف ہے جو قرآن مجید میں موجود ہے اور جس کو میں نے بڑی تفصیل کے ساتھ بغیر کسی حوالے کے بیان کیا ہے۔ گویا کہ آدمی کے اپنے اندر سے جو ترغیبات     اٹھتی ہیں‘جو خواہشات سراٹھاتی ہیں‘ جو نفسیاتی کیفیات ہوں اور جو باہر سے رکاوٹیں آئیں‘ ترغیبات ہوں‘ کوئی دولت کا لالچ دے یا جان کا خوف حائل ہو جائے‘ ان سب کے مقابلے میں اپنے مقام پر جمے رہنا‘ اپنے مقصد کے ساتھ وابستہ رہنا‘ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھنا---یہی دراصل صبر ہے۔

صبر ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس کے مختلف پہلوہیں اور ان کو پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے کہ قرآن مجید کن کن حوالوں سے صبر کا مطالبہ کرتاہے۔

مادی اور نفسیاتی رکاوٹیں

روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں ۔

مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتاہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔

دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔ یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر ڈھیر سامال کسی کو مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو‘ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتاہے اوررونا دھونا شروع کردیتاہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔

یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتاہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتاہے۔(جاری)

۱- رمضان المبارک کا شایانِ شان استقبال کرنے کے لیے شعبان ہی سے ذہن کو تیار کیجیے اور شعبان کی ۱۵ تاریخ سے پہلے پہلے کثرت سے روزے رکھیے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب مہینوں سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔

۲- پورے اہتمام اور اشتیاق کے ساتھ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کی کوشش کیجیے اور چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھیے:

اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی - رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ

خدا سب سے بڑا ہے۔ خدایا! یہ چاند ہمارے لیے امن و ایمان و سلامتی اور اسلام کا چاند بنا کر طلوع فرما اور ان کاموں کی توفیق کے ساتھ جو تجھے محبوب اور پسند ہیں۔ اے چاند! ہمارا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔

اور ہر مہینے کا نیا چاند دیکھ کر یہی دعا پڑھیے۔ (ترمذی‘ ابن حبان وغیرہ)

۳- رمضان میں عبادات سے خصوصی شغف پیدا کیجیے۔ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی خصوصی اہتمام کیجیے اور زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے لیے کمربستہ ہو جایئے۔ یہ عظمت و برکت والا مہینہ خدا کی خصوصی عنایت اور رحمت کا مہینہ ہے۔

شعبان کی آخری تاریخ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:

لوگو! تم پر ایک بہت عظمت و برکت کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ خدا نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دیے ہیں اور     قیام اللیل (مسنون تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اِس مہینے میں دل کی خوشی سے بطور خود کوئی ایک نیک کام کرے گا وہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر اجر پائے گا‘ اور جو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا خدا اس کو دوسرے مہینوں کے ۷۰ فرضوں کے برابر ثواب بخشے گا۔

۴- پورے مہینے کے روزے نہایت ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ رکھیے اور اگر کبھی مرض کی شدت یا شرعی عذر کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں‘ تب بھی احترامِ رمضان میں کھلم کھلا کھانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے اور اس طرح رہیے کہ گویا آپ روزے سے ہیں۔

۵- تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ اس مہینے کو قرآنِ پاک سے خصوصی مناسبت ہے۔ قرآنِ پاک اسی مہینے میں نازل ہوا اور دوسری آسمانی کتابیں بھی اسی مہینے میں         نازل ہوئیں… اس لیے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک پڑھنے کی کوشش کیجیے۔      حضرت جبرئیل ؑ ہر سال رمضان میں نبیؐ کو پورا قرآن سناتے اور سنتے تھے‘ اور آخری سال آپ نے رمضان میں نبیؐ کے ساتھ دو بار دَور فرمایا۔

۶- قرآن پاک ٹھیر ٹھیر کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ کثرتِ تلاوت کے ساتھ ساتھ سمجھنے اور اثر لینے کا بھی خاص خیال رکھیے۔

۷- تراویح میں پورا قرآن سننے کا اہتمام کیجیے۔ ایک بار رمضان میں پورا قرآنِ پاک سننا مسنون ہے۔

۸- تراویح کی نماز خشوع خضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیے اور جوں توں ۲۰رکعت کی گنتی پوری نہ کیجیے‘ بلکہ نماز کو نماز کی طرح پڑھیے تاکہ آپ کی زندگی پر اس کا اثر پڑے اور خدا سے تعلق مضبوط ہو۔ خدا توفیق دے تو تہجد کا بھی اہتمام کیجیے۔

۹- صدقہ اور خیرات کیجیے۔ غریبوں‘ بیوائوں اور یتیموں کی خبرگیری کیجیے اور ناداروں کی سحری اور افطار کا اہتمام کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’یہ مواسات کا مہینہ ہے‘‘، یعنی غریبوں اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ ہمدردی سے مراد مالی ہمدردی بھی ہے اور زبانی ہمدردی بھی۔ ان کے ساتھ گفتار اور سلوک میں نرمی برتیے۔ ملازمین کو سہولتیں دیجیے اور مالی اعانت کیجیے۔

۱۰- شب قدر میں زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کیجیے اور قرآن کی تلاوت کیجیے۔    اس رات کی اہمیت یہ ہے کہ اس رات میں قرآن نازل ہوا۔

حدیث میں ہے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے۔ اِسی رات کو یہ دعا پڑھیے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (حصن حصین)

خدایا! تو بہت ہی زیادہ معاف فرمانے والا ہے کیونکہ معاف کرنا تجھے پسند ہے‘ پس تو مجھے معاف فرما دے۔

۱۱- رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری ۱۰ دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔

۱۲-  رمضان میں لوگوں کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت کا سلوک کیجیے۔ ملازمین کو  زیادہ سے زیادہ سہولتیں دیجیے اور فراخ دلی کے ساتھ اُن کی ضرورتیں پوری کیجیے اور گھر والوں کے ساتھ بھی رحمت اور فیاضی کا برتائو کیجیے۔

۱۳-  نہایت عاجزی اور ذوق و شوق کے ساتھ زیادہ دعائیں کیجیے۔ درمنشور میں ہے کہ جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف بہت زیادہ غالب ہوجاتا تھا۔

۱۴- صدقہ فطر دل کی رغبت کے ساتھ پورے اہتمام سے ادا کیجیے اور عید کی نماز سے  پہلے ادا کر دیجیے‘ بلکہ اتنا پہلے ادا کیجیے کہ حاجت مند اور نادار لوگ سہولت کے ساتھ عید کی ضروریات مہیا کر سکیں اور وہ بھی سب کے ساتھ عیدگاہ جا سکیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔

۱۵- رمضان کے مبارک دنوں میں خود زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نہایت سوز‘ تڑپ‘ نرمی اور حکمت کے ساتھ نیکی اور خیر کے کام کرنے پر ابھاریے تاکہ پوری فضا پر خدا ترسی‘ خیرپسندی اور بھلائی کے جذبات چھائے رہیں اور سوسائٹی زیادہ سے زیادہ رمضان کی بیش بہا برکتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔

اللہ کے محبوب اور پسندیدہ بندوں میں استکبار کے بجاے خاکساری نمایاں ہوتی ہے۔  دین کی دعوت پیش کرتے ہوئے اور تبادلۂ خیال کرتے ہوئے وہ اکڑنے اور الجھنے کی کوشش نہیں کرتے‘ جہلا اگر ان کے منہ آنے لگیں تو وہ کج بحثی کے درپے نہیں ہوتے بلکہ خوب صورتی اور شایستگی کے ساتھ سلام کر کے رخصت ہوجاتے ہیں۔ سورہ الفرقان میں اس خصوصیت کو یوں بیان کیا گیا ہے  ع

اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام

صاحب تفہیم القرآن رحمن کے بندوں کے اس وصف کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جاہل سے مراد اَن پڑھ یا بے علم آدمی نہیں‘ بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتائو کرنے لگے۔ رحمن کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گالی کا جواب گالی سے اور بہتان کا جواب بہتان سے اور اسی طرح کی بے ہودگی کا جواب بے ہودگی سے نہیں دیتے جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: ’’اور جب وہ کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظرانداز کر دیتے ہیں‘ کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ سلام ہے  تم کو‘ ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۴۶۲-۴۶۳)

مولانا شبیراحمد عثمانی  ؒ فرماتے ہیں: ’’اور بندے رحمن کے وہ ہیں جو ’کم عقل اور بے ادب لوگوں کی بات کا جواب عفو و صفح سے دیتے ہیں۔ جب کوئی جہالت کی گفتگو کرے تو ملائم بات اور صاحبِ سلاست کہہ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ ایسوں سے منہ نہیں لگتے نہ ان میں شامل ہوں‘ نہ ان سے لڑیں۔ ان کا شیوہ وہ نہیں کہ ’’خبردار ہم سے کوئی جہالت کرے‘ ہم اس کے جواب میں جہالت کی تمام حدود پھاند جائیں گے‘‘    ؎

اَلَا لا یجھلن احدٌ علینا

فنجھل فوق جھل الجاھلینا

(تفسیر عثمانی‘ سورۃ الفرقان‘ حاشیہ ۷۸)

معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں: ’’جاہل سے مراد بے علم آدمی نہیں بلکہ وہ جو جہالت کے کام اور جاہلانہ باتیں کرے خواہ واقع میں وہ ذی علم بھی ہو اور لفظ سلام سے مراد یہاں عرفی سلام نہیں بلکہ سلامتی کی بات ہے۔ قرطبی نے نحاس سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ سلام تسلیم سے مشتق نہیں بلکہ تسلُّم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سلامت رہنا۔ مراد یہ ہے کہ   جاہلوں کے جواب میں وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں جس سے دوسروں کو ایذا نہ پہنچے اور یہ گنہگار    نہ ہو۔ یہی تفسیر حضرت مجاہد‘ مقاتل وغیرہ سے منقول ہے (مظہری)۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۵۰۳)

سید مودودی رقمطراز ہیں: ’’جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اوراُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملے میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کردے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں الجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت دعوت اور اصلاح نفوس میںخرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ سورۂ اعراف‘ ج ۲‘ ص ۱۱۲)

حافظ عماد الدین (ابن کثیر) فرماتے ہیں کہ: ’’جب جاہل لوگ (رحمن کے بندوں سے) ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اتر آتے بلکہ درگزر کرلیتے ہیں‘ معاف فرما دیتے ہیں اور سواے بھلی بات کے گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے‘ جیسے کہ رسولؐ کی عادت مبارک تھی۔ جوں جوں دوسرا آپؐ پر تیز ہوتا آپؐ اتنے ہی نرم ہوتے… رسولؐکے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو۔ آنحضرتؐنے فرمایا: ’’تم دونوں کے درمیان فرشتہ موجود تھا۔ وہ میری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا۔ وہ جو گالی تجھے دیتا تھا فرشتہ کہتا تھا‘ یہ نہیں بلکہ تو‘ اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا: اس پر نہیں بلکہ تجھ پر‘ تو ہی سلامتی کا پورا حق دار ہے‘‘ (مسنداحمد)۔    پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے۔ برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے۔ سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔ امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ‘‘دوسرا ان پر ظلم کرے‘ یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں‘’۔ (ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۲۵)

ابن ہشام نے لکھا ہے کہ ’’ہجرتِ حبشہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میںپھیلیں تو وہاں سے ۲۰ کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیق حال کے لیے مکہ معظمہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد حرام میں ملا۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردوپیش کھڑے ہوگئے۔ وفد کے لوگوں نے حضوؐر سے کچھ سوالات کیے جن کا آپؐ نے جواب دیا۔ پھر آپؐ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے پڑھیں۔ قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انھوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضوؐر پر ایمان لے آئے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستے میں جالیا اور انھیں سخت ملامت کی کہ ’’بڑے نامراد ہو۔ تمھارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھیجا تھا کہ تم اس شخص کے حالات کی تحقیق کرکے آئو اورانھیں ٹھیک ٹھیک خبر دو‘ مگر تم ابھی اس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے۔ تم سے زیادہ احمق گروہ تو کبھی ہماری نظر سے نہیں گزرا‘‘۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’سلام ہے بھائیو تم کو۔ ہم تمھارے ساتھ جہالت بازی نہیںکرسکتے۔ ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم  اپنے طریقے پرچلتے رہو۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے‘‘۔ (سیرت ابن ہشام ‘ ج ۲‘ ص ۳۲بحوالہ تفہیم القرآن‘ ج۳‘ ص ۶۴۵)

اسی واقعے کا ذکر سورۂ قصص میں بھی آیاہے: ’’جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انھیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے‘ یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے‘ ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے… اور جب انھوں نے بے ہودہ باتیں سنیں تو اُلجھنے سے پرہیز کیا اور بولے: ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے‘ تم کو سلام ہے ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۵۳۷-۵۳۸)

یہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی ایک اہم صفت ہے کہ وہ متانت‘ سنجیدگی اور معقولیت سے کام لیتے ہیں‘ اپنی بات کو نہایت شایستگی سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ بحث و جدال میں نہیں پڑتے۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ جاہلوں سے اُلجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے والد سے بحث و تمحیص اور الجھائو سے بچنے کی خاطر سلامٌ علیکم کہہ کر مفارقت کا ایک شائستہ طریقہ اختیار کیا تھا۔ اس لیے کہ ضدی‘ ہٹ دھرم اور جھگڑالو لوگ دلیل سے بات کرنے کے بجاے گالم گلوچ اور دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں۔ ایسے میں عفو و درگزر سے کام لینے‘    معروف انداز میں بات کرنے اور ان سے اعراض کرنے ہی میں عافیت ہے۔ اس طرح اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ مومن کے شریفانہ طرزِعمل سے کسی موقع پر اس کا دل پسیج جائے۔ قرآن نے بھی اپنے نبی کو یہی تعلیم دی اور آپؐ نے بھی دعوت و تبلیغ اور عام گفتگو میں یہی انداز اپنایا۔ فرمایا:

اے نبیؐ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو‘ معروف کی تلقین کیے جائو‘ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ اگرکبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو‘ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انھیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انھیںصاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند‘ تو وہ انھیں کج روی میں کھینچے لیے جاتے ہیں اور انھیں بھٹکانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ (الاعراف۷: ۱۹۹-۲۰۲)

بچوں کی تعلیم کا ایک اہم دائرہ وہ تربیت ہے جو انھیں اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تربیت کا اہم ترین پہلو بچوں (اولاد) کے ساتھ والدین‘ بالخصوص ماں کے طرزِعمل سے متعلق ہے۔ اس ضمن میں چند اصولی نکات درج ذیل ہیں:

  • بنیادی دینی تعلیم: ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے۔ قرآن کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال اور حرام کے احکامات سے واقفیت فراہم کی جائے۔ سات سال کی عمر سے نماز کا‘ اور روزہ رکھنے کے قابل عمر کو پہنچنے پر روزے کا عادی بنایا جائے۔ بچوں کو بالکل ابتدا سے اللہ سے تقویٰ اور اس کے سامنے تمام کاموں (اعمال) کے لیے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا‘ اور ان میں یہ احساس جگانا ضروری ہے کہ اللہ ہر وقت ان کی نگرانی کر رہا ہے۔
  • اخلاقی تربیت: بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے‘ کیونکہ بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انھیں سچائی‘ امانت داری‘ بہادری‘ احسان‘ بزرگوں کی عزت‘ پڑوسیوں سے بہتر سلوک‘ دوستوں کے حقوق کی پاس داری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے۔ پھر انھیں بُرے اخلاق مثلاً جھوٹ‘ چوری‘ گالی گلوچ اور بے راہ روی سے سختی سے بچایا جائے اوائل عمر سے ہی محنت و مشقت کا عادی بنایا جائے اور عیش کوشی و آرام پسندی سے دُور رکھا جائے۔
  • جسمانی تربیت: والدین کی طرف سے بچوں کی جسمانی نشوونما‘ غذا اور آرام کا خیال رکھا جائے اور انھیں ورزش کا عادی بنایا جائے۔ جسمانی بیماریوں اور جائز ضروریات کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔

چار بنیادی باتیں جن سے والدین کے لیے پرہیز کرنا لازم ہے:

  • تحقیر آمیز سلوک: بچوں کی اصلاح و تربیت میں عجلت اور جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کے بجاے صبرواستقامت کے ساتھ یہ کام کیا جائے۔ بچوں کی اہانت یا تحقیر کرنے سے گریز کیا جائے۔
  • سزا میں بے اعتدالی: بالکل سزا نہ دینا اور بہت زیادہ سزا دینا دونوں باتیں غلط ہیں۔ بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور نرمی کا برتائو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور معقول حد تک سرزنش کا بھی ایک مقام ہے۔ ان دونوں رویوں میں اعتدال لازم ہے۔
  • بے جا لاڈ پیار: بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا‘ غیرضروری لاڈ پیار انھیں ضدی اور خودسر بناتا ہے۔ اس میں اعتدال ضروری ہے۔
  • بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا: ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں سے ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیراسلامی رویہ ہے‘ جس سے بچے بہت سے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوکر انتہاپسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے مریضانہ رویے سے اجتناب لازم ہے۔

ان اصولی نکات کے علاوہ چند عملی اقدامات جن پر والدین آسانی سے عمل کرسکتے ہیں:

۱- اپنے خاندان میں‘ بالخصوص بچوں کے ساتھ ممکنہ حد تک زیادہ وقت گزارا جائے۔ اپنی معاشی جدوجہد و دیگر مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لازماً کچھ وقت اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گزارا جاسکے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے‘ تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک نامناسب اور غیرمعقول طریقہ ہے۔ مدرسے میں بچوں کی مصروفیات‘ دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں۔

۲- بچوں کوسخت کوشی اور محنت کا عادی بنانے کے لیے انھیں ایک درمیانے معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے تاکہ وہ ایک عام انسان جیسی پُرمشقت زندگی کا تجربہ حاصل کرسکیں۔

۳- اوّل تو جیب خرچ دینے سے بچا جائے اور بچوں کی ایسی ضروریات کو خود پورا کیا جائے‘ اور اگر بچوں کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر اسے ڈسپلن کا پابندبنایا جائے۔ بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے‘ تاکہ ان میں بچپن سے ہی کفایت شعاری‘ بچت اور غیرضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے اور جواب دہی کا احساس پیدا ہو۔ والدین کی طرف سے   اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خواہش بجا ہے۔ مگر ابتدا سے بغیر محنت کے آرام طلب بنانا‘ ان کے  مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کے کپڑوں اور جوتوں پر اخراجات میں اعتدال رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ تعلیمی ادارے میں مختلف معاشی و سماجی پس منظر رکھنے والے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں‘ اس طرح ان میں غیرمطلوب مقابلہ آرائی کو روکاجاسکتا ہے۔

۴- ابتدا ہی سے بچوں سے خودانحصاری (self reliance)یعنی اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرایا جائے۔ اگر معاشی وسائل میں وسعت بھی حاصل ہو تب بھی بچوں کو اپنے کام کرنے یعنی جوتے صاف کرنے‘ کمرے کو ترتیب دینے کی عادت ڈالی جائے۔

۵- والدین کا یہ بھی فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔

۶- بچوں کی مصروفیات اور ان کے دوستوں کو جاننا ضروری ہے۔ جرائم کا ارتکاب اور  نشہ آور چیزوں کا استعمال غلط صحبت کا نتیجہ ہوتاہے۔ اس لیے بچے کے دوستوں پر گہری نظر رکھنا والدین کی لازمی ذمہ داری ہے۔

۷- بچوں کے سامنے مدرسے یا اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی برائی نہ کی جائے۔ اگر جائز شکایت ہو تو متعلقہ ذمہ داران سے گفتگو کی جائے۔ مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کے اساتذہ کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے۔ والدین اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں گے تو بچے بھی اس کا اچھا اثر قبول کریں گے۔

۸- اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے۔ بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسب موقع تادیب انھیں اصلاح کا موقع فراہم کرے گی اور وہ عدل‘ انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے۔

۹- ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے حوالے سے متوازن رویہ اپنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے والدین کو خود اپنے آپ کونظم کا پابند بنانا ہوگا‘ تعلیمی اور معلوماتی پروگرام سے استفادہ اور‘ اچھے تفریحی پروگراموں پر بچوں سے تبادلہ خیال کے ذریعے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ٹی وی اور کمپیوٹر کو ایسی جگہ رکھنا چاہیے‘ جہاں سب آتے جاتے ہوں تاکہ لغو اور غیراخلاقی پروگرام دیکھنے کا امکان نہ رہے۔

۱۰- ٹی وی اور کمپیوٹر کتابوں کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔ اچھی کتب اور رسالے‘ بچوں کی شخصیت سازی میںغیرمعمولی کردار ادا کرتے ہیں‘ اپنے بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ والدین انھیں اچھی کتابیں اور رسائل فراہم کریں اور ان کے لیے ذاتی لائبریری بنائیں‘ ان کے نصاب کے مطالعے اور دیگر کتب کے مطالعے پر نظر رکھیں۔ خود بچوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے جیب خرچ سے رقم پس انداز کر کے کتابیں خریدیں۔

۱۱- بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے‘ تاکہ ملک و ملّت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو۔ موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے‘ مگر اپنے فرائض کی ادایگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے‘ اس رویے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ہوگا۔

۱۲- بچوں میں عوامی املاک کی حفاظت کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ ملک میں پارک‘ عوامی ٹرانسپورٹ‘ راستوں اور سرکاری عمارتوں وغیرہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ ہرکوئی اس کے نقصان پر تلا ہوا ہے۔ (پارک میں کھیلنے کا سامان چند دنوں میں ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے‘ بسوں کی سیٹیں پھاڑ دی جاتی ہیں اور اسٹریٹ لائٹس بچوں کی نشانہ بازی کی مشق کا ہدف قرار پاتی ہیں)۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ معاشرے میں قومی جایداد کا تصور بیدار نہیں ہے۔ اسلام ان املاک کے بارے میں امانت دار ہونے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور دے کر اس کی حفاظت کراتا ہے۔

۱۳- بچوں میں سماجی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ اسکول کی فیس ہو‘ میونسپل ٹیکس ہو یا انکم ٹیکس‘ اس ضمن میں والدین اپنے عمل سے بچوں کے لیے نمونہ پیش کریں اور انھیں عوامی واجبات کو بروقت ادا کرنے کی تلقین کی جائے۔

۱۴- گھر میں ایک بہتر ماحول قائم کیا جائے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ بالخصوص بچوں کے سامنے غصے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ خاندان کے بڑوں میں باہم میل جول‘ ایک دوسرے کی قدر و منزلت اور احترام بچوں پر خوش گوار اثر ڈالتا ہے۔

۱۵- قول و فعل میں تضاد سے پرہیز لازم ہے‘ بچے اپنے بڑوں کے اعمال سے غیرمحسوس طریقے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ماں باپ اوردیگر بڑوں کا طرزِعمل بچوں کی شخصیت کو بناتا ہے۔ والدین کو سچائی‘ امانت داری وغیرہ کے حوالے سے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اور بظاہر نقصان ہی ہوتا نظر آرہا ہو‘ اپنے عمل کو درست رکھنا چاہیے۔

۱۶- والدین عموماً اپنے بچوں سے اُونچی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ مگر جب وہ اس معیار پر پورے نہیں اُترتے تو والدین مایوس ہوجاتے ہیں اور بچوں سے ناراض ہوکر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح والدین اور بچے دونوں احساسِ کمتری اور چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ نامناسب رویہ ہے۔ بچوں کو ملنے والی کامیابی پر انھیں حوصلہ دینا اور مناسب انعام سے نوازنا چاہیے۔ بچوں سے توقعات وابستہ کرتے وقت ان کی صلاحیت‘ دل چسپی اور کمزوریوں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔ والدین کو اپنی خواہشات بچوں پر تھوپنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

۱۷- ناکامی کو کامیابی کا زینہ بنانے کی تربیت دینی چاہیے۔ زندگی میں ہر فرد کو کسی نہ کسی بحران سے مقابلہ درپیش رہتا ہے اس لیے نامطلوب حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے بچوں کی ذہن سازی ضروری ہے۔ انھیں مسائل سے فرارکے بجاے ان سے نبردآزما ہونے کی تربیت دینی چاہیے۔ عزم محکم‘ عمل پیہم اور سخت محنت کامیابی کی شرائط ہیں۔ مشکلات کی صورت میں حسب موقع بچوں سے مشاورت بھی ان کی تربیت اور ان میں خوداعتمادی پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے۔

۱۸- بچوں کو اپنی زندگی کے مقصد کا شعور دیا جائے۔ مقصد زندگی کا واضح تصور انھیں دنیا میں اپنا مقام متعین کرنے میں مدد دے گا۔ مستقبل کے لیے بلند عزائم اور ان عزائم کی تکمیل کے لیے بچوں میں شوق‘ محنت اور جستجو کے جذبات پیدا کرنے میں والدین کاکردار نہایت اہم ہوتا ہے۔

۱۹- بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین تدریج سے کام لیں‘ ان کی اصلاح سے مایوس نہ ہوں۔

۲۰- بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقف کرانا اور اسوۂ رسولؐ کی پیروی کو جزوایمان بنانا‘ اسی طرح سلف صالحین کی زندگیاں مشعل راہ کے طور پر بچوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔

۲۱- گھر میں مطالعے کا وقت متعین کرکے‘ والدین اپنی نگرانی میں تعلیمی ادارے کا کام کرواتے ہوئے بچوں کی ترقی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

۲۲- وقت کی تنظیم اور قدر والدین خود بھی کریں اور بچوں کو ابتدا سے ہی وقت کے صحیح استعمال کی عادت ڈالیں۔ وقت کا ضیاع ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اس قیمتی دولت کا بہترین استعمال کامیابی کی کلید ہے۔

۲۳- تعلیم و تربیت پر خرچ مستقبل کی سرمایہ کاری ہے۔ موجودہ دور کے نہایت مہنگے تعلیمی اخراجات کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ ہرخاندان اپنی ماہانہ آمدنی کا ایک مقررہ حصہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر خرچ کرے۔ اگر بچے چھوٹی جماعتوں میں ہوں تو اس بچی ہوئی رقم کو پس انداز کرکے آیندہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تزکیہ کے لفظ کی بنیاد ’زک ۃ‘ ہیں۔اسی سے لفظ زکوٰۃ بھی ہے جس کے معنی پاک صاف کرنا‘ نشوونما دینا‘ پروان چڑھانا ہیں۔ یہ لفظ چونکہ قرآن پاک میں متعدد مرتبہ مختلف صورتوں میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ اس کا مفہوم ہمہ گیر اور اس کے میدان وسیع ہیں۔ کسی ایک چیز کا تزکیہ مقصود نہیں بلکہ انسانی نفس‘ افراد کا باہمی تعلق‘ خاندان کی تنظیم‘ معاشرہ‘ حیثیت‘ سماج کے رسم ورواج‘ حکومت‘سیاست‘ علوم و فنون غرض عنوانات کی ایک کہکشاں ہے جو دُور تک پھیلی ہوئی ہے اور ان سب کا تزکیہ مقصود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر مطلقاً وارد ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (الاعلٰی ۸۷:۱۴)، کامیاب ہوا وہ جس نے تزکیہ کیا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت بیان فرمائے تو چار جگہ وَیُزَکِّیْھِمْ فرمایا‘ یعنی پیغمبر انھیں پاک کرتاہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ذیل کی سطور میں تزکیہ کے مختلف میدانوں کی نشاندہی کی جائے گی۔

تزکیۂ نفس

تزکیے کا سب سے پہلا میدان انسان کا اپنا نفس ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کی جگہ جگہ صراحت فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا o فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس۹۱:۷-۹)

اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا‘ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی‘ یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔

نفس کیا ہے۔ کیا یہ انسانی جسم کا نام ہے یا اندرونی خواہشات کو نفس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جسمِ انسانی کے لیے بھی استعمال ہواہے‘ خواہشاتِ نفس کے لیے بھی اور ضمیر کو بھی نفسِ لوامہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

بہرحال جب مطلقاً نفس کہا جائے گا تو اس سے مراد پوری انسانی شخصیت ہی لی جائے گی انسانی شخصیت بنیادی طور پر دو چیزوں کا مرکب ہے۔ ایک روح‘ دوسرے جسم۔ روح اصلاً لطیف ہے‘ اسے امرربی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۵)

اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ آپؐ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپؐ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔

لہٰذا روح کثافت اور بُرائی سے پاک ہے۔ البتہ یہ جس جسم میں ہو اُس کی کثافت اور برائی اس پر ضرور اثرانداز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موت کے وقت جب یہ روح کسی گناہ گار بندے کے جسم سے علیحدہ ہوتی ہے تو اُسے لعنت ملامت کرتے ہوئے جاتی ہے کہ اُس کی وجہ سے اسے اذیت اٹھانا پڑی۔

دوسری طرف جسم تین چیزوں سے عبارت ہے: عقل‘ قلب‘ جوارح۔

تزکیۂ عقل

عقلِ انسانی فکر کا مسکن ہے۔ یہ سوچ سمجھ‘ غوروفکر اور تدبر کا ذریعہ ہے۔ یہی انسانیت کے لیے وجہ شرف ہے۔ عقل ہی سے انسان مختلف نظریات کو پرکھتا ہے۔ یہیں عقائد و نظریات رہتے ہیں۔ اسی کے ذریعے انسان خیروشر‘ نیک و بد‘ اندھیرے اور اُجالے میں فرق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے اسی عقل کا تزکیہ ضروری ہے۔ اسی کو سید مودودیؒ نے تطہیرِافکار کا نام دیا ہے۔ یہ دراصل تطہیرِعقل ہے۔

ہر دور میں شیطان سب سے پہلے انسانی عقل پر حملہ آور ہوا ہے‘ بلکہ شیطان خود سب سے پہلے اسی عقل کے فریب میں مبتلا ہوکر مردود ٹھیر چکا ہے (جب اُس نے کہا تھا کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے)۔ شیطان مسلّمہ عقائد کو مشکوک بنانے کے لیے وسوسہ اندازی کرتا ہے (یہی وجہ ہے کہ اُس کے وساوس سے پناہ مانگتے رہنے کی تلقین کی گئی ہے)۔ آج پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک‘ مشنری ادارے ہوں یا مغربی پروردہ این جی اوز‘ یہ سب مسلمانوں کی فکر کو پراگندا کرنے کے لیے برسرِپیکار ہیں۔

تزکیۂ عقل کا پہلا مرحلہ اُن غیر اسلامی افکار اور نظریات کی تشخیص ہے جو عقل میں جڑپکڑ چکے ہیں یا جن کو شیطان اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پوری قوت سے پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور پھر دلائل و براہین کی بنیاد پر صالح عقائد کو اس فکر میں بٹھانا‘ تزکیہ کا دوسرا مرحلہ ہے۔ ان دونوں مراحل کے لیے قرآن پاک سے زندہ تعلق‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپؐ کی پاکیزہ سنت اور سیرت سے اٹوٹ رابطہ اور ان دونوں مآخذ کی بنیاد پر وجود میںآنے والے لٹریچر سے تعلق بہت ضروری ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ صرف ایک بار چند چیزوں کامطالعہ کرنے سے بات بن جائے بلکہ جب تک جسم اور سانس کا رشتہ استوار و برقرار رہے۔ یہ مطالعہ برابرجاری رہے تو توقع ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں تزکیۂ عقل کی منزل ہاتھ آجائے۔

تزکیۂ قلب

قلب جذبات کا مرکز ہے۔ اس کے اندر محبت‘ خوف‘ رجا‘ رشک‘ بُغض اور نفرت جیسے جذبات جنم لیتے رہتے ہیں۔ تزکیۂ قلب یہ ہے کہ انسان دل میں پنپنے والے جذبات کا مسلسل جائزہ لیتا رہے۔ محبت کا جائزہ لے کہ دل میں محبت کی کیفیت کیاہے۔ کیا اللہ اور اُس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت غالب ہے یا دنیا کی؟قرآن پاک میں ارشاد باری ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط (التوبہ ۹:۲۴)

اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ‘ اور تمھارے بیٹے‘ اور تمھارے بھائی‘ اور تمھاری بیویاں‘ اور تمھارے عزیز واقارب‘ اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں‘ اور تمھارے وہ کاروبار‘ جن کے ماند پڑجانے کاتم کو خوف ہے‘ اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ تم کو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے۔

یہی معاملہ خوف کا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ فرمایا: فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ (التوبہ ۹:۱۳)’’تو اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘۔ دل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف اہلِ علم کی نشانی اور دانائی کی دلیل ہے۔ فرمایا: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا ط (فاطر ۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: راس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ ، ’’دانائی کا بلند ترین مقام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف ہے‘‘۔ لہٰذا بندہ مومن کے دل میں جہاں اللہ کا خوف ہوگا وہیں اُس کا دل مخلوقات کے خوف سے خالی ہوگا کیونکہ یہ دونوں خوف ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ ایسا ہی حال قلب کے اندر جاگزیں دیگر جذبات کا بھی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

جس نے محض اللہ کی خاطر محبت کی اور اللہ ہی کی خاطر (کسی سے) نفرت کی‘ اللہ ہی کے لیے (کسی کو) کچھ دیا اور اللہ ہی کی خاطر (کسی سے) کچھ روکا‘ تو اُس کا ایمان مکمل ہوگیا۔

تزکیۂ جوارح

جسم کی ظاہری حالت‘ ہاتھ اور پائوں‘ آنکھیں اور کان اور زبان بھی مسئول ہیں۔ اِن سے صادر شدہ اعمال کی بابت سوال کیا جائے گا بلکہ قیامت کے دن جب منہ پر مہر لگا دی جائے گی تو یہ اعضا خود اپنے جسم کے خلاف گواہی دیں گے۔ چنانچہ جوارح کا تزکیہ بھی ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ زبان کا تزکیہ یہ ہے کہ اس سے خلافِ حق بات نہ نکلے۔ کوئی جھوٹ‘ جھوٹی گواہی‘ بہتان‘ غیبت یا فساد کی بات برآمد نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہے تو یہی زبان جہنم میں لے جانے کا باعث بنے گی۔ یہی حال آنکھوں اور کانوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت سے باخبر ہے بلکہ یہ آنکھیں خود اس خیانت پر شاہد ہیں۔ کان جو کچھ سنتے ہیں اُس کی گواہی دیں گے۔ قرآن پاک میں دو مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی محافل میں بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی آیات کا مذاق اُڑایا جاتا ہو‘ یعنی ایسی بات کا سننا بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گوارا نہیں۔

گہر اور گہر والوں کا تزکیہ

تزکیہ کا دوسرا اہم میدان گھر اُس کا ماحول اور اُس کے مکین ہیں۔ انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ماحول ہی انسان کے بنائو اور بگاڑ میں کلیدی کردارادا کرتا ہے۔ چنانچہ گھر کے ماحول کو درست رکھنا گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت‘ بچوں اور بڑوں میں قرآن فہمی کے لیے رغبت و مسابقت‘ نمازوں کی حفاظت‘ حلال و حرام کے حوالے سے گھر کے مکینوں پر خصوصی توجہ‘ ٹیلی ویژن‘ اخبارات‘ رسائل اور دیگر اشاعتی مواد کی مسلسل نگرانی۔ اِن سب چیزوں سے گھر کا ماحول بنتا ہے۔ بچہ اپنے گھر سے ہی سادگی‘ قناعت اور توکل کے اسباق سیکھتا ہے اور یہیں سے تعیّش و آسایش کا خوگر بنتاہے۔

قرآن پاک نے بہت شروع میں آپؐ کو یہ تاکید کی: وَاَنْذِر عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (الشعراء ۲۶:۲۱۴) اور اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (قیامت سے) ڈرائو۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔

گھر میں بتائے جانے والے رسم و رواج‘ نشست و برخاست کے معمولات‘ لباس کا انتخاب (خصوصاً والدین کے لیے) آمدن کے ذرائع‘ خرچ کی مدّات‘ آپس کے تعلقات‘ والدین کے حقوق‘ صلۂ رحمی‘ اولاد کی تربیت‘خواتین سے سلوک‘ غرض گھر کی دنیا ایک بحرِ ناپیداکنار ہے اور ہر پہلو سے اس ماحول اور اس کے مکینوں کا تزکیہ شریعت کا عین تقاضا ہے۔

معاشرے کا تزکیہ

گھر معاشرے کا ایک یونٹ ہے۔ معاشرے کے اندر تزکیے کا عمل ہمہ جہت بھی ہے اور ہمہ وقتی اور پیہم جدوجہد کا متقاضی بھی۔ معاشرے میں نیکی پھلے اور برائی کی جڑ کٹ جائے۔ معیشت تمام مفاسد سے پاک کر دی جائے اور معاشرت کو جو عوارض لاحق ہیں اُن کا علاج کر دیا جائے اور سیاست کو تزکیے کے عمل سے گزار کر مجلّٰی و مصفّٰی کر دیاجائے تو وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جسے قرنِ اوّل کے مثالی اسلامی معاشرے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔

تزکیہ کا دشمن

اس ضمن میں ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ تزکیہ کے اس سارے عمل کا دشمن شیطان ہے جو یہ قسم کھائے بیٹھا ہے کہ وہ انسانوں کو ضرور گمراہ کرے گا اور اس دنیا اور آخرت میں اُنھیں رسوا کرے گا۔ چنانچہ جب تزکیے کا عمل فرد تک محدود ہو تو شیطان بھی انفرادی طور پر حملہ آور رہتا ہے۔ لیکن جب یہ عمل معاشرے تک پھیل جائے اور کچھ لوگ مل کر یہ کام کرنا شروع کر دیں تو شیطان بھی اُن کے مقابل میں جمعیت فراہم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ افراد کے مقابلے میں افراد لاتا ہے۔ وسائل کے مقابلے میں وسائل پیش کرتا ہے۔ قوت کے مقابلے میں قوت سے کام لیتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ حق غالب ہونے نہ پائے‘ معاشرے کا تزکیہ نہ ہوسکے۔ چنانچہ اس مقابلے میں اہل ایمان اُسی وقت کامیاب ٹھیرسکتے ہیں جب کہ وہ اس مشن کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیں‘ منظم ہوں اور جو کچھ اُنھیں میسر آئے اس راہ میں لگا دیں پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ شیطان کی تدبیروں کو اُلٹ دے گا اور اُس کے وسائل اُس کے کچھ کام نہ آسکیں گے۔

تزکیہ کے ذرائع

تزکیے کے اس ہمہ جہت پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جو ذرائع و وسائل بتائے گئے ہیں وہ بھی بہت ہی عظیم الشان ہیں۔ فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی o (الاعلٰی۸۷:۱۴-۱۷)

فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اوراپنے رب کا نام یاد کیا‘ پھر نماز پڑھی۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔

ان آیات میں چار چیزوں کی نشان دہی فرمائی گئی۔ ان میں سے دو یعنی ذکر اورنماز تو وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے‘ جب کہ بقیہ دو میں سے ایک یعنی حقیقی کامیابی کا تصور اُجاگر کیا اوردوسرے تزکیے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یعنی دنیا پرستی کا ذکر کیا گیا۔ ذیل میں اِن تمام امور پر غور کیا جائے گا۔

ذکـر

ذکر کے معنی یاد کرنے کے بھی‘یاد رکھنے کے بھی اور نصیحت اور یاد دہانی کو بھی ذکر کہتے ہیں۔ اسی نسبت سے آپؐ کو مُذَکِّر کہا گیا۔ فرمایا: جس نے رب کے نام کو یاد رکھا‘ یعنی جس نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسماے حسنیٰ کی معرفت حاصل کی وہ تزکیہ کی اِس منزل کو حاصل کرلے گا۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اِنھی اسماے حسنیٰ کا ذکر موجود ہے۔ جب بندہ یہ علم حاصل کرتا ہے کہ اُس کا رب رحمن ہے‘ رحیم ہے‘ کریم ہے‘ رؤف ہے‘ ودود ہے اور اِن ناموں سے اُس کی رحمت‘ شفقت‘ محبت اور کرم کا اظہار ہوتا ہے‘ تو اُس کے دل میں رب کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ صفاتِ جلیلہ بندے کے دل میں رب کی طرف رجوع‘ اُس کی رحمت کی آس‘ رجا اور اُمید کی کیفیت پیدا کردیتی ہیں۔ جب بندے کو علم ہوتا ہے کہ وہ رب عزیز ہے‘ شدید العقاب ہے‘ جبار و قہار ہے‘ مقتدر اور بادشاہِ حقیقی ہے تو اُس کے دل میں رب کا خوف اور اُس کے حضور جواب دہی کا احساس پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

بندہ جب سنتا ہے کہ اُس کا رب سمیع و بصیر ہے‘ علیم و خبیرہے تو وہ محتاط ہوجاتا ہے۔ اپنے اعمال کی برابر نگرانی شروع کر دیتا ہے۔ جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا رب رزّاق ہے‘ تورزق کے سلسلے میں اُس کی نگاہ مخلوقات سے ہٹ کر اُسی فاعلِ حقیقی پر جم جاتی ہیں۔ حاصل یہ کہ رب کے یہ نام رب تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور تزکیے کے عمل کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

نماز

ذکر کی مکمل ترین شکل نماز ہے۔ بندہ عملی طور پر کبھی ہاتھ باندھ کر‘ کبھی رکوع کی حالت میں اور کبھی سجدے میں سرجھکا کر بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ اسماے حسنیٰ کا ورد کرکے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ دُعا و مناجات کر کے رب سے تعلق اُستوار کرتا ہے۔ چنانچہ تزکیہ کے عمل کو برابر جاری رکھنے اور اس میں ہر دم اضافے کے لیے نماز سے بہتر اور کارگر نسخہ کوئی اور نہیں۔

نماز ہی کے عمل میں دو اور اشارے بھی پوشیدہ ہیں۔ ایک یہ کہ نماز مسلمان پر ساری زندگی فرض ہے۔ سواے جنون اور بے ہوشی کے یہ فرض کبھی ساقط نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تزکیے کا عمل بھی موت کی آخری ہچکی تک جاری رہنا چاہیے۔ دوسرا اشارہ یہ کہ نماز کی اصل روح اس کی اجتماعی شان ہے۔ نماز باجماعت‘ امام کی اطاعت اور بے مثال تنظیم یہ پیغام ہے کہ معاشرے میں تزکیے کا عمل کرنے کے لیے جس بے مثال اجتماعیت‘ مثالی تنظیم اور فداکاری کی ضرورت ہے۔ اُس کی نظیر نماز میں تمھارے لیے موجود ہے۔

قرآن پاک کا ارشاد ہے:

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَـنْھٰی عَـنِ الْفَحْشَـآئِ وَالْمُنْکَـرِ ط وَلَذِکْـرُ اللّٰہِ اَکْـــبَرُ ط (العنکبوت ۲۹:۴۵)

یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی   چیز ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کو قلعہ سے تشبیہہ دی ہے جس میں انسان دشمن سے پناہ لیتا ہے۔ چنانچہ شیطان کے حملوں سے بچائو کے لیے ذکر اور نماز بہترین ہتھیار ہیں۔

تزکیے کا نبویؐ اسلوب

’’اب دیکھیے کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کس ترتیب و تدریج کے ساتھ کام کیا: ’’سب سے پہلے آپ نے ایمان کی دعوت دی اور اس کو وسیع ترین بنیادوں پر  پختہ و مستحکم فرمایا۔ پھر اس ایمان کے مقتضیات کے مطابق بتدریج اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اہلِ ایمان میں عملی اطاعت و فرماں برداری (یعنی اسلام)‘ اخلاقی طہارت (یعنی تقویٰ) اور خدا کی گہری محبت و وفاداری (یعنی احسان) کے اوصاف پیدا کیے۔ پھر ان مخلص مومنوں کی منظم سعی و جہد سے قدیم جاہلیت کے فاسد نظام کو ہٹانا اور اس کی جگہ قانونِ خداوندی کے اخلاقی و تمدنی اصولوں پر ایک نظامِ صالح قائم کرنا شروع کردیا۔ اس طرح جب یہ لوگ اپنے دل و دماغ‘ نفس وا خلاق‘ افکار و اعمال‘ جملہ حیثیات سے واقعی مسلم‘ متقی اور محسن بن گئے اور اس کام میں لگ گئے جو اللہ تعالیٰ کے وفاداروں کو کرنا چاہیے تھا‘ تب آپ نے ان کو بتانا شروع کیا کہ وضع قطع‘ لباس‘ کھانے پینے‘ رہنے سہنے‘ اٹھنے بیٹھنے اور دوسرے ظاہری برتائو میں وہ مہذب آداب و اطوار کون سے ہیں جو متقیوں کو زیب دیتے ہیں۔ گویا پہلے مِسِ خام کو کندن بنایا پھر اس پر اشرفی کا ٹھپہ لگایا۔ پہلے سپاہی تیار کیے پھر انھیں وردی پہنائی۔ یہی اس کام کی صحیح ترتیب ہے جو قرآن و حدیث کے غائر مطالعے سے صاف نظر آتی ہے۔ اگر اتباعِ سنت نام ہے اس طرزِعمل کا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی مرضی پوری کرنے کے لیے ہدایت ِالٰہی کے تحت اختیار کیا تھا‘ تو یقینا یہ سنت کی پیروی نہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی ہے کہ حقیقی مومن‘ مسلم‘ متقی اور محسن بنائے بغیر لوگوں کو متقیوں کے ظاہری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے اور محسنین کے سے چند مشہور ومقبول عام افعال کی نقل اتروائی جائے۔ یہ سیسے اور تانبے کے ٹکڑوں پر اشرفی کا ٹھپہ لگا کر بازار میں ان کو چلا دینا‘ اور سپاہیت‘ وفاداری اور جاں نثاری پیدا کیے بغیر نرے وردی پوش نمایشی سپاہیوں کو میدان میں لاکھڑا کرنا‘ میرے نزدیک تو ایک کھلی ہوئی جعل سازی ہے‘ اور اسی جعل سازی کا نتیجہ ہے کہ نہ بازار میں آپ کی ان جعلی اشرفیوں کی کوئی قیمت اٹھتی ہے اور نہ میدان میں آپ کے ان نمایشی سپاہیوں کی بھیڑ سے کوئی معرکہ سر ہوتا ہے…

میری اس گزارش کو یہ معنی نہ پہنایئے کہ میں ظاہری محاسن کی نفی کرنا چاہتا ہوں‘ یا ان احکام کی تعمیل کو غیرضروری قرار دے رہا ہوں جو زندگی کے ظاہری پہلوئوں کی اصلاح و درستی کے متعلق دیے گئے ہیں۔ درحقیقت میں تو اس کا قائل ہوں کہ بندۂ مومن کو ہر اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے جو خدا اور رسولؐ نے دیا ہو‘ اور یہ بھی مانتا ہوں کہ دین انسان کے باطن اور ظاہر دونوں کو درست کرنا چاہتا ہے لیکن جو چیز میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مقدم چیز باطن ہے نہ کہ ظاہر۔ پہلے باطن میں حقیقت کا جوہر پیدا کرنے کی فکر کیجیے‘ پھر ظاہر کو حقیقت کے مطابق ڈھالیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے ان اوصاف کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو   اللہ کے ہاں اصلی قدر کے مستحق ہیں اور جنھیں نشوونما دینا انبیا علیہم السلام کی بعثت کا اصلی مقصود تھا۔ ظاہر کی آراستگی اوّل تو ان اوصاف کے نتیجے میں فطرتاً خود ہی ہوتی چلی جائے گی اور اگر اس میں کچھ کسر رہ جائے تو تکمیلی مراحل میں اس کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘  ص ۲۵۴-۲۵۵)

تزکیے کی راہ میں بڑی رکاوٹ

تزکیہ چاہے نفس کا ہو‘ یعنی عقل و قلب کا یا جوارح کا‘ یا یہ تزکیہ خاندان‘ گھر‘ معاشرے‘ معیشت یا سیاست کا ہو‘ ہر محاذ پر اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہی ہے جس کا قرآن نے جابجا ذکر کیا ہے۔ اسی سورۂ اعلیٰ میں فرمایا:

بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o (الاعلٰی ۸۷:۱۶)

مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔

ایک اور جگہ فرمایا:

کَلاَّ بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o (القیامہ ۷۵:۲۰-۲۱)

ہرگز نہیں‘ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔

یہ انسان کا عمومی رویہ ہے جس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ انسان جلدباز‘ ظاہربین ہے‘ دنیا کے نفع کا طالب اور اسی سے خوش ہونے والا ہے‘ جب کہ آخرت کا معاملہ آنکھوں سے اوجھل ہے۔ صلہ نقد کے بجاے اُدھار ہے (یہ اور بات ہے کہ آخرت کا صلہ بجاے خود بہتر اور دینے والا سب سے زیادہ بااعتماد اور سچا ہے)۔

اسی لیے انسان اِس طرف زیادہ راغب نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اگر قرآن پاک کا  مطالعہ کیا جائے تو کم از کم ایک تہائی قرآن آخرت کے ذکر پر مشتمل ہے۔ گویا جب تک یہ عقیدہ     بندۂ مومن کے قلب و ذہن میں اچھی طرح راسخ نہیں ہوتا اس کے لیے دین کی راہ پر ایک قدم بھی چلنا دشوار ہے اور دین کا کوئی ایک مطالبہ بھی پورا کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن پاک میں یوں اشارہ کیا گیا:

وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۴۵-۴۶)

صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے‘ مگر اُن فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ بعض اوقات دین دار افراد بھی فکرِآخرت کا تصور پختہ نہ ہونے کی وجہ سے دنیاپرستی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے نیک اعمال دنیا کے سستے بھائو بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات نیک اعمال صرف اسی غرض سے کیے جاتے ہیں کہ اُن کے ذریعے ذرا سا دنیاوی فائدہ   مل سکے۔ کسی کو چند روپے خیرات دے کر مقصد میںکامیاب ہونے کی دُعا کرائی جاتی ہے۔ کہیں قرآن پڑھ کر مقدمہ میں کامیابی کی تمنا کی جاتی ہے حالانکہ مومن نیک اعمال آخرت میں ثواب کے حصول اور رب کی رضا اور خوشنودی کی نیت سے کرتا ہے۔ ہاں البتہ اس دنیا میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات پر اُس سے رجوع کرتا ہے۔ اُسی سے مدد طلب کرتا ہے اور سخت وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

شیطان بار بار انسان کو دنیا کے فریب میں اُلجھانے کی کوشش کرتا ہے اسی وجہ سے  مشرکینِ مکہ سب سے زیادہ اعتراض موت کے بعد زندگی اور آخرت کے دیگر مراحل پر کیا کرتے تھے۔ طرح طرح کی کٹ حجتیاں کرتے‘ کج بحثیاں کرتے‘ ٹھٹھہ اور مذاق کرتے کہ جو ہڈیاں بوسیدہ ہوکر چورہ چورہ ہوجائیں گی اُنھیں کیسے دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اُتنے ہی زور سے بار بار قرآن انسان کو آفاق و انفس سے دلائل دے کر یہ بات باور کراتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ سب انسانوں کوکیا ‘جان داروں کو مرنا ہے۔ پھر وہ جنات اور انسانوں کو دوبارہ اٹھائے گا اور اُن سے اُن کے اعمال کا حساب لے گا۔

فلاح کا تصور

تزکیے کا یہ عمل مسلسل جاری نہیں رہ سکتا جب تک انسان کی نظر میں کامیابی اور فلاح کا تصور درست نہ ہو۔ ہر شخص اپنے ذہن میں کامیابی کا کوئی نہ کوئی تصور ضرور رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تصور محدود اور مبہم ہو یا واضح اور مکمل۔ کسی کی نگاہ میں دو وقت کی روٹی کا حصول بڑی کامیابی ہے۔ کسی کی نظر میں وزارت اور صدارت معیار ہے اور کسی کے ہاں ڈگریاں اور تعلیمی اسناد وہ حد ہے جہاں تک پہنچنا کامیابی ہے۔ جب ہم یہ سوال لے کر قرآن وسنت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں کامیابی اور ناکامی کا ایک الگ مگر واضح تصور موجود ہے۔ ہر مومن کے دل و دماغ میں یہ تصور جب تک راسخ نہ ہوگا تزکیے کی منزل ہاتھ آنا مشکل ہے۔

ایک طرف تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ دنیا کی حقیقت کھول کر بیان فرما دی‘ فرمایا:لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھَادُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۷) ’’اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے‘ پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جاے قرار ہے‘‘۔ اور دوسری طرف فرمایا: فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ط           (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵) ’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاںآتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے‘‘۔ چنانچہ اس کامیابی کے تصور میں ایک جہدِمسلسل بھی ہے‘ لگن اور چاہت بھی ہے اور اچھا انجام بھی۔ یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے انسان کو اپنے جان اور مال کی بازی لگادینی چاہیے۔

_____________

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

قطع رحمی ایک ایسی بیماری ہے جو سرطان کی طرح انسانی معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور بہت سے باعمل لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اُمت مسلمہ آج جن مسائل سے دوچار ہے اس میں قطع رحمی کا بھی بڑا کردار ہے۔

مفھوم

عربی لغت میں قطعیۃ الرحم ایک مرکب اضافی ہے ‘اور یہ دو کلموں سے مرکب ہے: (الف)قطعیۃ یہ لفظ متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:

۱- کاٹنا اور الگ کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ: قَطَعَ التَّسِیَٔ قطعاً ‘یعنی چیز کے ایک حصے کو کاٹا اور اس کو الگ کیا۔ قَطَعَ الثَّّمَرَ  ‘یعنی پھل کے ٹکڑے کر دیے۔

۲- چھوڑنا اور لاتعلق ہونا۔ کہتے ہیں: قَطَعَ الصِّدْقَ ، یعنی سچ بولنا چھوڑ دیا اور اس سے لاتعلق ہوگیا۔ قَطَعَ رَحِمَہٗ ، یعنی اس سے لاتعلق ہوگیا اور اسے جوڑا نہیں۔(المعجم الوسیط‘ ۲: ۷۴۵-۷۴۶۔ الصحاح فی اللغۃ والعلوم‘ ص ۹۳۵)

ان دونوں معانی کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ قطع تعلق بھی کاٹنے اور الگ ہونے کی صورت میں لاتعلقی اور ترک ہی ہوتا ہے۔

(ب) الرَّحِمْ : اس کا اطلاق بھی مختلف معانی پر ہوتا ہے:

۱- بچے کی تخلیق کی جگہ ۲- وہ رشتہ دار جو عصبہ اور ذوی الفروض کے علاوہ ہوں جیسے بھتیجیاں اور چچازاد بہنیں (المعجم الوسیط‘۱:۳۳۵۔  الصحاح فی اللغۃ والعلوم‘ ص۳۷۳) ۳-مطلق رشتہ داری‘ خواہ ان کے ساتھ نکاح جائز ہو یا ناجائز۔

یہ تیسری تعریف زیادہ مناسب ہے کیونکہ یہی اسلام کی روح سے مطابقت رکھتی ہے‘ جو اتحادو اتفاق کا داعی ہے۔

اصطلاحِ شرع میں قطع رحمی سے مراد رشتہ داروں سے بھلائی اور احسان کو ترک کرنا‘ اُن کی ضروریات پوری نہ کرنا اور بعض اوقات ہاتھ یا زبان یا پھر دونوں سے اُن کو ایذا پہنچانے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے۔

قطع رحمی کے مظاھـر

قطع رحمی کے کچھ رویّے ہیں جن سے اس کی پہچان ہوتی ہے ۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

۱- زبان سے تکلیف دینا۔ غیبت کے ذریعے‘ چغلی کے ذریعے‘ ان کے خلاف افواہیں پھیلاکر‘ مختلف رشتہ داروں کے درمیان تعلقات خراب کرکے‘ گالی یا بددعا دے کر اُن کی برائی کرکے‘ غلط ناموں سے پکار کر اور اس طرح کی اور بے شمار ایذائیں۔

۲- ہاتھ سے تکلیف دینا‘ جیسے مارنا پیٹنا اور معاملاتِ زندگی میں تعاون نہ کرنا۔

۳- ذوی الارحام کی تکلیف اور مصیبت میں اُن کا زبانی اور عملی طور پر مددگار نہ بننا۔

۴- ذوی الارحام کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف نہ کرنا۔

۵- ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے گریز کرنا‘ خواہ وہ تنگی میں اُن کے حال احوال پوچھنے اور دادرسی کرنے کی صورت میں ہو‘ یا خوشی کے موقع پر مبارک باد دینا ہو‘ اُن کی خبرگیری کے لیے اُن کے گھروں میں آمدورفت اور اُن کی خوبیوں کا اظہار کرنے کی صورت میں یا چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے‘ یا مجلس میں جگہ دینے کی صورتوں میں ہو۔

قطع رحمی کے نتائج و اثرات

قطع رحمی کے اثرات نہایت مضر اور اس کے نتائج بڑے دُور رس ہیں۔

(الف) افراد اُمت پر اثرات:

  • خدا کی رحمت سے دُوری: اللہ تعالیٰ قطع تعلق کرنے والے کی تعریف نہیں کرتا اور نہ اسے اپنے قریب کرے گا اور نہ کسی حال میں اسے اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے گا: وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِ o (الرعد ۱۳:۲۵) ’’اور وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں‘ جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنھیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں‘ وہ لعنت کے مستحق ہیں اور اُن کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔
  • اللّٰہ کی مدد سے محرومی: اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ صلہ رحمی کرنے والوں سے تعلق جوڑتا ہے اور قطع رحمی کرنے والوں سے اپنا تعلق کاٹتا ہے۔ اللہ سے کسی کا تعلق کٹ جانا اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس پر بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیث دلالت کرتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَلرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ ، تَقُوْلُ: مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہٗ اللّٰہُ ، وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ رَحِم ‘(رشتہ داری) عرش سے چمٹ کر پکارتی ہے کہ: جس نے مجھے جوڑ دیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے تعلق جوڑ دے گا اور جس نے مجھے کاٹ دیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے قطع تعلق کرے گا۔

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی خَلَقَ الْخَلْقَ ، حَتّٰی اِذَا فَرَغَ مِنْھُمْ قَامَتِ الرَّحِمُ ، فَقَالَتْ : ھَذَا مَقَامُ العَائِذِ بِکَ مِنَ القَطِیْعَۃِ ، اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات کو پیدا کیا‘ جب اس سے فارغ ہوا تو رشتہ داری اٹھ کر کہنے لگی: یہ اُن لوگوں کا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نَعَمْ! الَاتَرْضِیْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَصَلَکَ وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکَ‘ جی ہاں! کیا تو نہیں چاہتی کہ جو لوگ تمھیں جوڑتے ہیں میں اُن سے تعلق جوڑ دوں اور جو لوگ تجھے کاٹتے ہیں میں اُن سے اپنا تعلق کاٹ دوں؟ وہ کہنے لگی: کیوں نہیں (میں تویہی چاہتی ہوں)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس تیرے ساتھ اس کا وعدہ ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھا کرو۔ فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ o اُوَلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَھُمْ o اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا o (محمد ۴۷: ۲۲-۲۴)۔ کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے سے تعلق توڑو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزید فرماتے ہیں: قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : اَنَا اللّٰہُ ، اَنَا الرَّحْمٰنُ ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَھَا اِسْمًا مِنْ اِسْمِیْ ، فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَھَا بَتَتُّہٗ (الترغیب والترہیب، للمنذرین۳:۳۴۰) ۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں‘ میں رحمن ہوں‘ میں نے رَحم (رشتہ داری) کو پیدا کیا اور اپنے نام کا ایک حصہ اس کے لیے مقرر کر دیا‘ پس جو اس کو جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا اور جو اس کو کاٹے گا میں اس سے اپنا تعلق توڑوں گا۔

  • رزق اور عمر کی بے برکتی:اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ جب ہم صلہ رحمی کریںگے تو ہمارے رزق اور عمر میں برکت ہوگی۔ اگر ہم صلہ رحمی نہیں کریںگے تو اس کی سزا یہ ہوگی کہ ہمارے رزق اور عمر دونوں سے برکت کو اٹھا دیا جائے گا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: مَنْ اَحبَّ اَنْ یُّبْسَطَ لَہٗ فِیْ رِزْقِہٖ ، وَیُنْسَأَ فِیْ أثَرِہٖ ، فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ (صحیح مسلم‘ کتاب البروالصلہ)‘ جو چاہتا ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کی موت میں تاخیر ہو‘ تو اُسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ واقعات اور مشاہدہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو آدمی صلہ رحمی کا خیال نہیں رکھتا اس سے رشتہ دار متنفرہوتے ہیں اور اس کو زندگی کی دوڑ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے اس پر زیادتی کرتے ہیں‘ اس کا مال چھینتے ہیں۔اس کی زندگی اسی طرح   بے مقصد و بے فائدہ گزر جاتی ہے۔
  • عمل کی عدم قبولیت: اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس میں وہ کمزوری بھی رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ خواہشات اور ترغیبات نفس سے بعض اوقات شکست کھاجاتا ہے‘ اور وہ قوت بھی اسے ودیعت کی گئی ہے جس کے ذریعے اگر وہ چاہے تو اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ جب آدمی اپنے اندر انقلاب پیدا کرتا ہے‘ اپنی حالت درست کرتا ہے‘ تو بعض چھوٹی موٹی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں جو نیک اعمال کی قبولیت میں حائل نہیں ہوسکتیں‘ سوائے قطع رحمی کے۔ قطع رحمی کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کو روک سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اِنَّ اَعْمَالَ بَنِیْ اٰدَمَ تُعْرَضُ کُلُّ خَمِیْسٍ لَیلَۃَ الْجُمُعَۃِ، فَلَا یُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ            (مسند احمد‘ ج ۲‘ ص ۴۸۴‘ طبع استنبول‘ ۱۹۸۲ئ)‘(بنی آدم کے اعمال ہرجمعرات کو (اللہ کے سامنے) پیش کیے جاتے ہیں‘ لیکن قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔
  • دنیا میں فوری سزا: عموماً ہر گناہ کی سزا مل جاتی ہے ‘ خواہ فوری ہو یا تاخیر سے۔ لیکن سرکشی اور قطع رحمی کی سزا اللہ تعالیٰ فوری طور پر دنیا میں ہی دے دیتا ہے تاکہ ایک طرف    رشتہ داروں کا سینہ ٹھنڈا ہوجائے اور دوسری طرف معاشرے کے دوسرے لوگ قطع رحمی کے ارتکاب سے محتاط رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا مِنْ ذَنْبٍ اَجْدَرُ اَنْ یُّعَجِّلَ اللّٰہُ لِصَاحِبِہِ الْعُقُوْبَۃَ فِیْ الدُّنْیَا مَعَ مَا یَـدَّفِرُ مِنَ الْبَغِیْ وَقَطِیْعَۃِ الرَّحِمَ (تـرمذی‘ کتاب     صفۃ القیامۃ)‘ سرکشی اور قطع رحمی سے زیادہ کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اس کی فوری سزا مل جائے۔
  • جنت سے محرومی: اللہ تعالیٰ نے جنت کو ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے لیے بدلے اور ثواب کی جگہ بنایا ہے‘ اور جس نے قطع رحمی کی اس نے نیک عمل سے منہ موڑا‘ اس کا انجام جنت سے محرومیت کی شکل میں نکلے گا‘ یا تو ہمیشہ کے لیے‘ یا پھر اتنے عرصے کے لیے جو اس کے عمل کے مناسب ہو۔ پھر اس کو معاف کر کے جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ فرماتے ہیں: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعُ ،قاطع الرحم جنت میں نہیں جائے گا۔
  • رشتہ داروں کی نفرت‘ بددعا اور قطعِ تعلق: رشتہ داروں سے بھلائی اور احسان نہ کرنا بلکہ اُلٹا اُن کو تکلیف دینا اور اُن کا برا چاہنا‘ ردّعمل کے طور پر اُن کو بھی اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس سے نفرت کریں اور اسے بددعائیں دیں۔ اور ایک حدیث کے مطابق ان کی بددعا قبول بھی ہوتی ہے۔ نبی کریمؐنے فرمایا: اَلرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ ، تَقُوْلُ: مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ ، وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ ،رشتہ داری عرش کے ساتھ لپٹ کر دعا کرتی ہے کہ اے اللہ جو مجھے جوڑتا ہے اُسے جوڑ دے اور جو مجھے کاٹتا ہے اس کو کاٹ دے‘ بلکہ رشتہ دار اس کی مدد اور نصرت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور پھر لوگ اس کے ساتھ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔
  • لوگوں کا اعتماد کہو دینا: لوگ اس آدمی کے ساتھ اعتماد اور احترام کا رویہ رکھتے ہیں جو اپنے اہل و عیال پر شفقت کرتاہے۔ جب وہ قطع رحمی کرتا ہے تو لوگوں کے دلوں سے اس کا احترام نکل جاتا ہے اور وہ اس پر اعتماد نہیں کرتے کیونکہ جس آدمی میں اپنے رشتہ داروں کے لیے کوئی خیر نہیں تو اس میں کسی دوسرے کے لیے کیا خیر ہوسکتا ہے۔
  • روحانی بے چینی و اضطراب: قاطع الرحم ایک گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور مرتکبِ کبیرہ کا دل سیاہ ہوتا ہے اور دل کا سیاہ ہونا اس کا اضطراب اور قلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴)’’اور جو میرے ذکر (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔

(ب) بحیثیت اُمت اجتماعی طور پر:

  • معاشرے اور اُمت کا پارہ پارہ ھـونا: جب رشتے کٹ جائیں تو معاشرے اور اُمت کی وحدت پارہ پارہ ہوجاتی ہے‘ اور جب اتحادِ اُمت پارہ پارہ ہوجاتا ہے تو دشمنوں کے لیے زمین پر قبضہ کرکے معاشرے اور اُمت کی عزت کو تار تار کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ تمام وسائل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اُمت کی تہذیب و ثقافت کو بدل ڈالتے ہیں۔
  • مشکلات و مسائل کی کثرت: جب دشمن اُمت اور معاشرے کی عزت و حُرمت پر قابض ہوجاتا ہے اور اُمت کے افراد اپنے دشمنوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں تو اس میں اُن کو بڑی مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ بہت زیادہ وقت اور وسائل صرف ہوتے ہیں۔

قطع رحمی کے اسباب

  • شریعت الٰھی ، خصوصاً جھاد کا معطل ھونا: شریعتِ ربانی‘ خصوصاً جہاد کو عملاً اختیار کرنے سے افراد اُمت کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ جرائم دب جاتے ہیں اور آپس میں ربط و ضبط اور اتحاد پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب احکامِ شریعت‘ خصوصاً جہاد کو معطل کیا جائے تو اس سے جرائم کی کثرت ہوگی‘ آپس میں لڑائی جھگڑے ہوں گے جو قطع رحم کی ایک صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ o (محمد ۴۷:۲۲) ’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے توزمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور قطع رحمی کرو گے۔
  • رشتہ داروں کی بدسلوکی:بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر اگر زیادتی ہوجائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: وَجَزَآئُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا (الشورٰی ۴۲:۴۰) ’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘‘، اور فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (البقرہ ۲:۱۹۴) ’’جو تم پر دست درازی کرے‘ تم بھی اُسی طرح اس پر دست درازی کرو‘‘ کے مصداق‘ برابر برابر مقابلہ کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ چنانچہ رشتہ داروں میں سے جو بھی اس کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے تو یہ بھی اُسی طرح بُرا سلوک کرنا چاہتا ہے۔ اسی کا نام قطع رحمی ہے۔
  • صلہ رحمی کی اھمیت سے غفلت: صلہ رحمی کی بڑی اہمیت ہے اور اللہ کے ہاں اس کا بڑا ثواب ہے ۔ اس کی یہ فضیلت کیا کم ہے کہ:
  •   صلہ رحمی‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑنے کا ذریعہ ہے اور قطع رحمی‘ اللہ سے کٹ جانے کا۔ l اس سے رزق میں وسعت‘ عمر میں برکت اور دنیا میں تعمیر ہوتی ہے۔
  •  یہ عمل کی قبولیت اور دخولِ جنت کا ذریعہ ہے۔
  •  صلہ رحمی کے لیے صدقہ‘صلہ رحمی بھی ہے اور صدقہ بھی۔
  • یہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی ایک نشانی ہے۔
  • اس سے آدمی کے احترام‘اس کی عزت اور اس کے رعب کی حفاظت ہوتی ہے۔
  • اس سے دل کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ lیہ پیٹھ پیچھے دعا کا ذریعہ ہے۔
  •   اس سے آدمی بُری موت مرنے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
  • اس کے سبب گناہ مٹ جاتے ہیں اور خطائیں معاف ہوجاتی ہیں۔
  • یہ جنت میں اعلیٰ درجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے‘ وغیرہ۔

جو آدمی ان فضائل اور صلہ رحمی کی اس اہمیت سے بے خبر ہوگا تو لازماً اس میں کوتاہی کرے گا کیونکہ: اَلنَّاسُ اَعْدَائٌ لِّمَا جَھِلُوْا ، لوگ جس چیز سے بے خبر ہوتے ہیں اُس کے دشمن ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہ‘ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَo (یونس ۱۰:۳۹) ’’اصل [بات] یہ ہے کہ جو چیز ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا‘ اس کو انھوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچو) جھٹلا دیا۔ اسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں‘ پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا‘‘۔

  • غلط تربیت: بعض اوقات غلط تربیت کی وجہ سے بھی آدمی رشتہ داروں کو بھول جاتا ہے‘ بلکہ انھیں ایذا پہنچاتا ہے۔ چنانچہ رشتہ داری کا مفہوم‘ اس کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ اسے بے فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہاں کسی طرح بھی صلہ رحمی کا خیال پیدا نہیں ہوتا۔ ان حالات میں بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں صلہ رحمی کا کوئی خیال نہیں ہوتا‘ نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
  • معاشرے کی کوتاھـی:بعض اوقات معاشرے کے اہل فکرودانش افراد‘ قطع رحمی کرنے والوں میں حقوق اور ذمہ داریوں کی ادایگی کا شعور اُجاگر کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ قطع رحمی کرنے والوں سے بائیکاٹ تو کیا عدمِ دل چسپی کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا کہ قطع رحمی کرنے والے کو محسوس ہو کہ اس کے مفادات خطرے میں ہیں۔ جب معاشرہ اپنے اس فرض کو پورا نہیں کرتا تو قطع رحمی کرنے والا مزید جرأت اور استقلال کے ساتھ اپنی    ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے سامنے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھتا جو اس کو سیدھا کرے اور سرکشی اور ظلم سے روکے۔
  • رشتہ داروں کی لاپروائی: بعض اوقات رشتہ دار بھی قطع رحمی کرنے والے کے بارے میں اپنے فرض کی ادایگی سے بے پروائی برتتے ہیں کہ اس کو نصیحت کریں‘ اس کی اصلاح کریں‘ ترغیب و ترہیب سے کام لیں۔ جب رشتے دار کا رویّہ یہ ہو تو قطع رحمی کرنے والا بھی اپنے کام پر شیرہوجاتا ہے اور اس کو جاری رکھتا ہے۔
  • انجام سے بے خبری: خوش قسمت ہے وہ جو دوسروں سے عبرت حاصل کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو اس انجام کا علم ہو جو ماضی اورحال میں قطع رحمی کرنے والوں کا ہوچکا ہے۔ اس لیے کہ معاملات اور حقائق کے تمام پہلوئوں سے بے خبری سخت نقصان کا باعث بنتی ہے۔ قطع رحمی کے بڑے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اس کے نتائج نہ صرف افراد کے لیے بلکہ مجموعی طور پر پوری اُمت کے لیے بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان نتائج سے بے خبرہوتے ہیں‘  وہ لامحالہ قطع رحمی میں آگے بڑھتے ہیں اور اس کو جاری رکھتے ہوئے کسی نقصان کا خوف دل میں نہیں رکھتے۔

قطع رحمی کا علاج

قطع رحمی کا علاج درج ذیل اقدامات سے کیا جا سکتا ہے:

  • شریعت الٰھی کا نفاذ: کلمہ لا الٰہ الا اللہ سے لے کر راستے سے تکلیف دہ چیزکے ہٹانے تک تمام امور میں زمین پر اللہ تعالیٰ کی شریعت کا نفاذ معاشرے اور اُمت کے تمام عناصر کو فطری انداز سے سرگرم کار رکھے گا‘ ایسے مواقع پیدا نہیں ہوں گے کہ شیاطینِ الانس اور شیاطینِ الجن‘ جرائم کی اشاعت کرسکیں اور قطع رحمی کے لیے لوگوں کو گمراہ کرسکیں۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا‘ کہ: فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ (محمد ۴۷:۲۲) ’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور قطع رحمی کرو گے‘‘۔
  • احسان کا رویّہ : اللہ تعالیٰ نے ہمیں برائی کے بدلے میں احسان کا حکم دیا ہے۔ اس سے دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (حم السجدہ ۴۱:۳۴) ’’اور نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔ اس بنا پر جب آدمی کو رشتہ داروں کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اُن سے بھلائی کرے اور اُن کے ساتھ اور زیادہ حُسنِ سلوک سے پیش آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف ان الفاظ میں تنبیہہ فرمائی ہے: لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِی وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ النَّوِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا (بخاری‘ کتاب الادب) ‘صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ آدمی صلہ رحمی کا بدلہ چکائے‘ بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ اگر لوگ آدمی سے تعلقات توڑیں تو یہ اُن کو جوڑے۔
  • قطع رحمی کے انجام پر نظر: صلہ رحمی کی اہمیت و فضیلت اور اس کی قدروقیمت کا ذکر اور اسی طرح قطع رحمی کے انجام کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صلہ رحمی کے فوائد اور قطع رحمی کے اثرات و نتائج کو‘ خواہ اس کا تعلق افراد سے ہو یا جماعتوں سے‘ ہمیشہ یاد رکھے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا بعض اوقات قطع رحمی کی روک تھام اور صلہ رحمی کی ترویج کا ذریعہ بنتا ہے۔
  • تربیت بذریعہ ترغیب و ترھیب: بھول جانا انسان کی فطرت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ یاد دہانی کا سلسلہ جاری رہے۔ اس لحاظ سے قطع رحمی کرنے والا اُس آدمی کا محتاج ہوتا ہے جس کے ساتھ اس کی زندگی گزرتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اس کو صلہ رحمی کی طرف مائل کرسکتا ہے‘ اور یہ عمل برابر حکمت و دانش سے جاری رہنا چاہیے۔ اسی بنا پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آپؐ کو لے کر یثرب (مدینہ منورہ) میں اپنے والدین کے رشتہ داروں سے ملنے گئیں‘ تاکہ آپؐ بڑے ہو کر صلہ رحمی کا خیال رکھیں اور قطع رحمی سے بچیں۔
  • اجتماعیت کا فرض:قطع رحمی کے سدّباب میں معاشرے اور اجتماعیت کا کردار بڑا اہم ہے‘ اور معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اپنا یہ کردارادا کرے۔ وعظ و نصیحت کے ذریعے قطع رحمی کرنے والے سے ترکِ تعلق کرکے اور اس کے مفادات کو معطل کرنے کی کوشش کرکے یہاں تک کہ وہ قطع رحمی چھوڑ دے اور صلہ رحمی اختیار کرے۔

یہ معاشرے کی طرف سے دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کی ذمہ داری اور اس کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں‘ یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی‘ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے‘‘۔(التوبہ ۹:۷۱)

  • رشتہ داروں کی طرف سے تعاون: قطع رحمی کرنے والا بعض اوقات اس برائی کو چھوڑتا ہے اور صلہ رحمی کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے لیکن رشتہ داروں کی طرف سے اس کو بے رُخی‘ بلکہ رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ قاطع الرحم پھر اپنے پرانے راستے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے رشتے داروں کا فرض ہے کہ وہ قاطع الرحم کو مثبت جواب دے کر اس کے ساتھ نرمی برتیں اور اس کو جرأت دلائیں اور اس کے عمل کی قدر کریں۔ حضرت عائشہؓ نے عبداللہ بن زبیر سے قطع تعلق کیا تھا۔ جب وہ معذرت کر کے دوبارہ صلہ رحمی کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اسی طرح بعض تابعین کے ساتھ بھی یہ واقع پیش آیا تھا تو حضرت عائشہؓ نے اُن کا کام آسان کر دیا اور اُن کے ساتھ نیک کام میں مدد کی۔
  • حکومت اور سرپرست کی ذمہ داری:حکومت اور سرپرست کا بھی قطع رحمی کرنے والوں کی اصلاح میں بڑا کردار ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اِس فرمانِ نبویؐ کو پیشِ نظر رکھیں: تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے یں جواب دہ ہے۔ حکمران سے بھی اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور ہر آدمی اپنے گھر میں راعی ہے اور اس سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

قطع رحمی کا علاج تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ اگر دل میںخدا خوفی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس توانا ہو تو انسان اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے بچ سکتا ہے۔ ہر فرد اپنی انفرادی ذمہ داری کو محسوس کرے‘ اجتماعیت اپنا کردار ادا کرے‘ حکومت تمام ذرائع کو بروے کار لائے‘ قطع رحمی کے اسباب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے سدّباب کے لیے اقدامات اٹھائے جائیںتو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ اس اخلاقی مرض سے پاک نہ ہو۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۴۸‘ ۱۶۴۹‘ ۲۳/۳۰ اپریل ۲۰۰۵ئ)

شکر وہ جذبۂ احسان شناسی ہے کہ جس سے مومن کا قلب ہر لمحہ معمور رہنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم ۱۴:۷)

اور یاد رکھو‘ تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔

شکر کا مفھوم

شکر کیا ہے؟ اس کی کیفیات کیا ہیں؟ پروردگار کا شکر گزار بندہ بننے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟

شکر کے اصطلاحی معنی ہیں رب العالمین کی نعمتوں کا اعتراف اور ان کی قدر کرنا اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق اِن کا استعمال کرنا۔ اس لحاظ سے جذبۂ شکر کی تسکین کے دو مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ زبانی اقرار ہے‘ یعنی قولاً شکر گزار ہونا۔ دوسرا مرحلہ ہے عملاً شکرگزار بندہ بن جانا۔

قولی شکرگزاری کے دو پہلو نہایت نمایاں ہیں۔ ایک یہ کہ بندہ اپنے رب کی نعمت کا اعتراف کرے۔ چنانچہ فرمایا: وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحٰی ۹۳:۱۱) ’’اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ اس تذکرے اور اعتراف سے‘ بندۂ مومن کی نظر تمام اسباب اور وسائل سے ہٹ کر اللہ رب العالمین پر جم جاتی ہے۔ اسی سے اُس کے قلب و ذہن سے شرک کے تمام آثار نکل جاتے ہیں اور وہ حقیقی معنوں میں توحید اپنا لیتا ہے۔ چنانچہ دیگر نعمتوں اور ضروریاتِ زندگی کے حصول اور مصائب و آلام سے بچنے کے لیے انسان کی نظر‘ لامحالہ بارگاہ ایزدی کی جانب ہی اُٹھتی ہے۔

قولی شکرگزاری کا دوسرا پہلو منعمِ حقیقی کی حمدوستایش ہے۔ جب بندے کا دل جذبۂ   تشکر و احسان شناسی سے لبریز ہو تو‘ زبان سے رب العالمین کی حمدوستایش کے کلمات بے اختیار  ادا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی باقاعدہ تربیت فرمائی اور اُنھیں ہرنعمت سے مستفید ہونے کے بعد الحمدللہ کہنا سکھایا۔

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

کسی بندے نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا: یَارَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِیْ لِجَلَالِ وَجْھِکَ وَعَظِیْمِ سُلْطَانِکَ ، (اے اللہ تیرے لیے ایسی حمد ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور تیری عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو)۔ تو فرشتے اِس سے اتنے متحیر ہوئے اور فیصلہ نہ کرسکے کہ اس کا احاطہ کیسے کریں۔ چنانچہ وہ بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوئے اور عرض کی: بارِ الٰہ! تیرے فلاںبندے نے ایسی بات کہی جس کا احاطہ کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بندے نے کیا کہا تھا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا: میرے بندے نے کیا کہا تھا؟ فرشتے عرض پرداز ہوئے‘ اُس نے کہا: ’’اے اللہ! تیرے لیے ایسی تعریف ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ایسا ہی لکھ دو جیسا اُس بندے نے کہا۔ کل قیامت کے دن جب وہ مجھ سے ملے گا میں خود اُسے اِس کا اجر دوں گا۔ (ابن ماجہ)

روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسٰی ؑکوہِ طور کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ اُن کے دل میں اہل و عیال کا خیال آیا‘ اور اُن کے بارے میں قدرے متردّد ہوئے۔ اثناے راہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا: اے موسٰی ؑ! فلاں پتھر کو اپنی عصا سے توڑ ڈالو۔ اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔ اُس سے ایک اور پتھر برآمد ہوا جسے توڑنے کا حکم دیا گیا۔ غرض یکے بعد دیگرے سات پتھر برآمد ہوئے جنھیں توڑنے کا حکم دیا گیا۔ساتویں پتھر میں ایک کیڑا موجود تھا جس کے منہ میں تازہ پتا تھا۔ ابھی حضرت موسٰی ؑمحوحیرت ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑکی قوتِ سماعت کو اس قابل بنایا کہ وہ کیڑے کی آواز سن سکیںجو اپنی زبان میں رب کی حمد بیان کر رہا تھا:

پاک ہے وہ جو مجھے دیکھ رہا ہے‘ جسے میرے ٹھکانے کا علم ہے‘ جو میری بات سن رہا ہے‘ جو مجھے یاد رکھتا ہے اور کبھی نہیں بھولتا۔

یہاں سوچنے اور غوروفکر کرنے کی بات یہ ہے کہ جب غیرعاقل مخلوق میں اِس قدر جذبہ احسان شناسی موجود ہے تو انسان جو کہ اشرف الخلائق ہے اُسے تو سب سے بڑھ کر رب کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں تفسیر تدبر قرآن میںمولانا امین احسن اصلاحی نے دودھیل بکری کی مثال بیان کی ہے کہ جس طرح اُس کے تھن دودھ سے لبریز ہوں اور ذرا سے لمس سے دودھ نکلنا شروع ہوجائے‘ بالکل اسی طرح مومن کا دل شکروسپاس کے جذبات سے لبریز رہتا ہے اور جیسے ہی رب کی کسی نعمت کا اسے احساس ہوتا ہے یہ جام چھلکنا شروع ہوجاتا ہے اور اُس کی زبان سے اپنے رب کی حمدوستایش کے کلمات بے اختیار جاری ہوجاتے ہیں۔

قولی شکرگزاری کی طرح عملی شکرگزاری کے بھی دو ہی پہلو ہیں۔ ایک: نعمت کی قدروحفاظت‘ دوسرے: اُس کا جائز استعمال۔ ایک شخص جسے صحت جیسی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا گیا ہو‘ اُس پر لازم ہے کہ وہ اِس نعمتِ رب کا شکر ادا کرے۔ اس کا عملی شکر یہ ہے کہ وہ اس کی قدر کرے اور صحت کو تباہ کرنے والے عوامل سے اجتناب کرے۔ اُن غذائوں‘ مشروبات اور معمولات سے اپنے آپ کو بچائے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ پھر اس صحت اور توانائی سے بھرپور استفادہ کرے۔ اپنی صلاحیتوں‘ اوقات کار اور وسائل کو اللہ کی بندگی‘ رسولؐ اللہ کی اطاعت اور رزقِ حلال کے حصول میں صرف کرے۔ معاملات میں اللہ کی قائم کردہ حدود کا احترام کرے۔

نعمت ھدایت

جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی جسمانی ضروریات کا اہتمام کیا۔ رزق‘ لباس اور راحت کے اسباب مہیا کیے۔ دن کو کام کاج اور رات کو آرام کے لیے بنایا‘ بالکل اسی طرح اس نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کا بھی انتظام فرمایا۔ اُس نے انسان کو عقل وفکر‘ نیز سماعت و بصارت سے آراستہ کیا اور وحی و رسالت کے ذریعے اُس کے سامنے ایک صاف سیدھا اور کشادہ راستہ کھول دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا (الدھر ۷۶:۳)

ہم نے اسے راستہ دکھا دیا‘ خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔

گویا جو بندہ نعمتِ ہدایت کو قبول کرتا ہے‘ صراط مستقیم کو اپنا لیتا ہے‘ وہی دراصل اس کا شکرادا کرتا ہے اور جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اس کو چھوڑ کر شیطان کی راہوں پر بھٹکتا ہے وہی دراصل ناشکرگزار ہے‘ یعنی کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے بعد نعمت ہدایت کا شکر یہ بھی ہے کہ بندہ اسے اپنے تک محدود نہ رکھے‘ بلکہ مسلسل اس کی اشاعت کا فریضہ سرانجام دیتا رہے۔ بندہ جب خود روشنی میں ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اُن بندوں کو روشنی کی طرف لے کر آئے جو اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔


اب آیئے یہ دیکھیں کہ شکر کے اس جذبے کو پروان کیوں کر چڑھایا جائے۔

معرفتِ نعمت

بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر ہر پل نگاہ رکھنی چاہیے۔ بہت ساری نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کو انسان سرے سے نعمت خیال ہی نہیں کرتا‘ یا اُن کی اتنی اہمیت اُس کی نظر میں نہیں ہوتی جتنی کہ ہونی چاہیے۔ یہی چیز بعدازاں ناشکری کو جنم دیتی ہے‘ مثلاً انسان کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اسے اللہ کی کتنی نعمتیں حاصل ہیں۔ انسان ہر پل سانس لیتا ہے‘ لیکن اکثر اوقات اُسے احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ رب العالمین کی کتنی بڑی نعمت سے مفت میں فیض یاب ہو رہا ہے‘ وہ نعمت جس پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے! اس نعمت کی قدر اس تصور سے ہوسکتی ہے کہ آدمی ہر سانس لینے کے بعد یہ سوچے کہ شاید یہ زندگی کا آخری سانس ہو‘ اور اس کے بعد اگر سانس لینے کا موقع ملے گا بھی تو صرف اللہ کے حکم سے ملے گا۔ اسی طرح ایک بینا آدمی آنکھوں کی قدر نہیں کرتا لیکن نابینا کے پاس اِن کی قدر ضرور ہوتی ہے۔

ایک انگریز مصنفہ ہیلن کیلر جو کہ پیدایشی نابینا تھیں اپنے ایک مضمون Three Days to See (دیکھنے کے لیے تین دن) میں رقم طراز ہیں کہ ’’اکثر دیکھنے والے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ اپنی آنکھوں کا صحیح استعمال نہیں جانتے‘‘۔ وہ اس کی مثالیں دیتی ہیں کہ: یہ واقعہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی پارک‘جنگل یا بازار میں ڈیڑھ دو گھنٹے گھوم آئے۔ آپ جب اس سے وہاں کا احوال پوچھیں تو وہ دو چار جملوں سے زیادہ اپنے تاثرات بیان نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ بہت ساری چیزوں کو اُس نے دیکھا ہی نہیں ہوگا‘‘۔ وہ آگے ایک جگہ تجویز کرتی ہیں کہ ہر شخص کو اپنی آنکھیں اس طرح استعمال کرنی چاہییں گویا کہ وہ کل اندھا ہوجائے گا۔ صرف اسی طرح انسان آنکھوں کے بھرپور استعمال سے آشنا ہوسکے گا۔

یہ بھی نعمت کی معرفت میں شامل ہے کہ انسان نعمت کے فوائد اور استعمالات پر برابر غور کرتا رہے۔ ارشاد باری ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا (ابراھیم ۱۴:۳۴)‘ اس آیت کا ترجمہ عموماً یہ کیا جاتا ہے کہ ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے‘‘۔ حالانکہ یہاں لفظ نعمت بطور واحد استعمال ہوا ہے جس کی جمع اَنْعَمْ ہے۔ چنانچہ اس آیت کا زیادہ فصیح ترجمہ یہ بنتا ہے کہ: ’’اگر تم اللہ کی نعمت (کے فوائد) کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے‘‘۔ مثال کے طور پر پانی ایک نعمت ہے لیکن اس کا صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔ اس پانی کو انسان پیتا ہے‘ اسی سے کھاناپکتا ہے‘ اسی سے فصلوں میں ہریالی ہے۔ پھلوں میں ذائقہ ہے‘ موسم کی گرمی و سردی ہے‘ یہی پانی آج توانائی کا منبع ہے۔ اسی طرح سورج ایک نعمت ہے لیکن اس کا بھی صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔    نہ صرف یہ کہ یہ نعمتیں ہمہ جہتی اور کثیرالفوائد ہیں‘ بلکہ ان میں سے ہر ایک انسانی زندگی کے لیے لازمی اور ضروری (vital) ہے۔ ذرا سوچیں‘ اگر اس کرئہ ارض پر آکسیجن نہ رہے تو کیا روے زمین پر زندگی کے کوئی آثار رہیں گے؟ اگر پانی خشک ہوجائے تو کیا انسان اور دیگر کسی جان دار کا اس زمین پر زندہ رہنا ممکن ہوگا؟ یا سورج مستقل غروب ہوجائے تو زندگی کا پہیہ کیسے چلے گا؟ غرض‘ ہرنعمت اتنی اہم ہے کہ گویا اُسی پر زندگی کا دارومدار ہے۔ مزید یہ کہ یہ تمام نعمتیں ہمیں بالکل مفت ‘ بہت بڑے پیمانے پر اور بغیر طلب کے میسر ہیں۔

نعمت سے محروم لوگوں پہ نظر

دل کو شکر کا گہوارہ بنانے کے لیے بندئہ مومن کو چاہیے کہ دنیاوی نعمتوں کے سلسلے میں ہمیشہ اُن لوگوں پر نظر مرکوز رکھے جو اِن نعمتوں سے محروم ہیں۔ لیکن آج المیہ یہ ہے کہ انسان کی نظر نیچے کے بجاے اُوپر کو جاتی ہے ‘اور وہاں جاکر ٹھیرتی ہے جہاں انسان حسرت و یاس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ سعدی کا ایک واقعہ لائق مطالعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

ایک مرتبہ میں سفر پر تھا۔ دورانِ سفر جوتے ٹوٹ گئے۔ چنانچہ برہنہ پا سفر جاری رکھا اوراتنی رقم  پاس نہ تھی کہ نئے جوتے خرید سکوں۔ دل میں شکوہ پیدا ہوا کہ مجھ جیسا عالم جوتوں کے بغیر سفر کر رہا ہے۔ راستے میں ایک مسجد میں نماز کے لیے رکا تو دیکھا کہ ایک شخص بھیک مانگ رہا ہے‘ جس کے دونوں پائوں کٹے ہوئے ہیں۔ میںنے فوراً سجدئہ شکر ادا کیا اور کہا: اے اللہ! تیرا شکر کہ میرے پائوں توسلامت ہیں۔ کیا ہوا جو مجھے جوتا میسر نہیں۔ یہی وہ اندازِ فکر ہے جو بندۂ مومن کا دل شکر سے معمور کر دیتا ہے۔

نعمت ایک آزمایش

نعمت کے حوالے سے ایک تیسرا پہلو بھی قابلِ غور ہے‘اور وہ یہ کہ یہ ایک آزمایش ہے‘ چنانچہ ارشاد باری ہے:

مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا اور جب وہ اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ (الفجر۸۹: ۱۵-۱۶)

اس کے مقابلے میں بندئہ مومن کا حال یہ ہے کہ وہ ظاہری حالت کے بجاے پوشیدہ آزمایش کی طرف خیال کرتا ہے۔ یہی احساس فاقہ کشی میں اُسے صابر اور خوش حالی میں اُسے شاکر رکھتا ہے۔ اسی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے جس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے:

ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ o (التکاثر ۱۰۲:۸)

پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔

اس آیت کی تفسیر میں سیرت کا یہ واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے ہمراہ ایک انصاری صحابیؓ کے باغ میں تشریف لے گئے۔ اُنھوں نے آپ حضرات کے سامنے کھجوروں کا ایک خوشہ لاکر رکھ دیا۔ آپؐنے فرمایا: تم خود کھجوریں توڑ لاتے۔ اُنھوں نے کہا: میں چاہتا تھا خوشہ حاضر کر دوں اور آپ اپنی پسند سے کھجوریں توڑ کر تناول فرمائیں۔ چنانچہ آپؐ اور آپ ؐکے اصحاب نے کھجوریں تناول فرمائیں اورٹھنڈا پانی نوش کیا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! یہ ان نعمتوں میں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن جواب دہی کرنا پڑے گی۔ یہ ٹھنڈا سایہ‘ یہ میٹھی کھجوریں اور ٹھنڈا پانی۔

یہ وہ طرزِ فکر اور طرزِ عمل ہے جو انسان کے دل کو شکر کا گہوارہ بناسکتا ہے۔ اسی طرزِعمل سے وہ اپنی زبان کو حمدالٰہی سے مزین کرسکتا ہے‘ اور اپنے عمل کو قانونِ الٰہی کا پابند بناسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی کامیاب بنانے کے لیے جو ہدایت دی ہے اس کا ماحصل مختلف الفاظ اور مختلف انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

ایک پہلو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کرو۔

اگر دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے ہمارا ہر کام اسی مقصد کے لیے ہے۔ اللہ کی بندگی بھی اسی لیے کرنا ہے کہ اللہ سے ملنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔ اچھے اخلاق بھی اسی لیے اختیار کرنا ہیں‘ عبادات اور اللہ کی راہ میں جہاد اور اُس کے دین کے لیے ساری سرگرمیاں بھی اسی لیے ہیں۔ اگر موت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہ کرنا ہوتی اور ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ زندگی موت پر ختم ہو جائے گی‘ تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی بندگی کرتے‘ نماز پڑھتے‘ سخت سردی میں وضو کرکے نماز ادا کرتے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم سچ بولیں‘ وعدہ پورا کریں‘ دوسروں کے حقوق ادا کریں اور کسی پر ظلم نہ کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم دین کی خدمت کے لیے‘ اللہ کی راہ میں وقت اور مال لگائیں‘ دعوت کا کام یا جہاد کریں۔ اللہ سے ملاقات نہ کرنا ہو تو یہ سارے کام فضول اور بے کار ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر کام میں‘ حقیقی معنی اس یقین سے پیدا ہوتے ہیں کہ اللہ سے یقینا ملاقات کرنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔

آخرت کی یاد دھانی

اللہ سے ملاقات پر یقین اور اس کے لیے تیاری ہی وہ قوت اور وہ روشنی ہے جو اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے طاقت بخشتی ہے‘ اور زندگی کی راہیں روشن کرتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ہم پاور ہائوس کہہ سکتے ہیں‘ وہ پاور ہائوس جس کے بل پر اچھے اعمال‘ پاکیزہ اخلاق اور دینی جدوجہد کی گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔

انبیاے کرام ؑ اور خود ہمارے نبی ؐ کو ‘جب اس کام کی ذمہ داری دی گئی کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائیں تو انھوں نے سب سے پہلے‘ اللہ سے ملاقات کے لیے تیاری کرنے کی دعوت دی‘دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی کا یقین دلایا۔ جب حضوؐر کو عام لوگوں کے سامنے دعوت پیش کرنے کا حکم ہوا تو آپؐ سے پہلی بات یہی کہی گئی کہ:

قُمْ فَاَنْذِرْ o (المدثر ۷۴:۲)اٹھو اور خبردار کرو۔

پھر جب حکم آیا کہ اپنے رشتہ داروں کو دعوت دو تو تب بھی یہی حکم ہوا:

وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۴)جو تمھارے قریبی رشتہ دار ہیں ان کو ڈرائو‘ آگاہ کرو‘ ہوشیار کرو۔

جب وحی باقاعدہ نازل ہونا شروع ہوئی تو حضوؐر کے لیے‘ نبی اور رسول سے زیادہ مُنذر کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی ہیں ڈرانے والا‘ آگاہ کرنے والا‘ خبردار کرنے والا۔ اسی لیے نبی کریمؐ ،نبوت کے پہلے دن سے لے کر آخری لمحے تک‘اللہ سے ملاقات کی مسلسل تذکیر کرتے رہے‘ اور اس کے لیے تیاری کرنے کی تاکید فرماتے رہے۔

آپؐ اپنے ساتھیوں سے جو گفتگو بھی کرتے‘ جو تقریریں کرتے‘ جو خطبے دیتے‘ غلطیوں پر ٹوکتے اور اچھی باتوں کی تعریف کرتے‘ تو اِس دوران میں‘ موت کے بعد کی زندگی کی یاد دلاتے‘ جنت کی خوشخبری سناتے اور نارِجہنم سے ڈراتے۔

قرآن مجید میں وہ آیات بہت کثرت سے موجود ہیں جو آخرت کا ذکر کرتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد دلاتی اور اس سے ملاقات کی تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ حضوؐر اکثر ایسی ہی آیات نمازوں میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

فجر کی نماز میں آپ زیادہ تر سورہ ق ٓ کی تلاوت کرتے۔ اس سورہ میں پورا بیان ہی آخرت کا ہے کہ موت حقیقت کو آشکارا کرتی ہوئی آگئی‘ صور پھونک دیا گیا‘ سب کے سب‘   اللہ کے سامنے پہنچ گئے‘ حساب و کتاب ہوگیا‘ کوئی اُس جہنم میں ڈالا گیا کہ جس کا پیٹ کسی طرح نہیں بھرتا اور کسی کے قریب وہ جنت لائی گئی کہ جس میں ہر خواہش پوری ہوتی ہے۔

اسی طرح سورۃ الواقعہ‘ حم السجدہ ‘ الدھر‘التکویر‘الانفطار‘ الغاشیہ وغیرہ کی تلاوت بھی آپؐ کثرت سے فرماتے۔آپؐ خطبہ دیتے تو اس میں بھی عموماً قرآن مجید کی وہ آیات بیان فرماتے جو آخرت اور موت کی تیاری سے متعلق ہوں۔مکہ میں قیام کے دوران میں معاشرتی معاملات کے سلسلے میں بہت کم احکام نازل ہوئے تھے۔ صرف دین کی بنیادی اور اہم تعلیمات‘ بہت مختصر اوربڑے سادہ الفاظ اور جملوں میں بیان ہوتیں۔ شریعت کی تفصیلات تو نہ تھیں لیکن ان جامع اور مختصر بنیادی تعلیمات ہی پر شریعت کی بنیادیں رکھی گئیں اور اس کا ڈھانچا بنایا اور اٹھایا گیا‘ مثلاً:

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o (الیل ۹۲:۵-۶) جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا‘ اور اچھی بات کی تصدیق کی۔

ان تینوں جملوں میں پورا کردارِ مطلوب  بیان کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

وَّاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی o فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰیo (النزٰعت ۷۹:۴۰-۴۱) جو شخص [حساب کتاب کے لیے] اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو بے لگام خواہشات کے پیچھے جانے سے روک لیا‘ تو بس جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔

ان مختصر تعلیمات کے ساتھ وہ طویل حصے نازل ہوئے جو آخرت کے تفصیلی بیان پر مشتمل ہیں‘ جو جنت کا شوق اور رب کے حضور کھڑا ہونے کا خوف پیدا کرتے ہیں۔

عمل کا محرک

مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے بعد‘ جب اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا اور مزید تفصیلی احکام نازل ہونا شروع ہوئے تو ان احکام کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی مسلسل کی گئی کہ اللہ سے ڈرو جس کے پاس تمھیں لوٹ کر جانا ہے‘ جس کا عذاب بہت سخت اور دردناک ہے‘جو ہر بات کو سنتا ہے‘ ہر ہر عمل کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے اور وہ تم سے حساب لے گا۔ بعض روایات کے مطابق جو آخری آیت نازل ہوئی اور جس نے سورئہ بقرہ کے آخر میں جگہ پائی وہ یہ تھی:

وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۲۸۱) اس دن سے ڈرو‘ جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے۔ پھر ہر ایک کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔

گویا احکامات دیے تو ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے وہ پاور ہائوس بھی بتایا جو ان احکام پر عمل کرنے کی قوت فراہم کرتا ہے‘ خواہ یہ وراثت کے احکام ہوں یا نکاح و طلاق کے‘ جہاد کے ہوں یا ایمانیات کے۔

جہاد کا حکم دیا تو بتایا کہ یہ جنت کا سودا ہے۔ جنت کے لیے جہاد کرو اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد سامنے مت رکھو۔ ایمان کی حقیقت بیان کی تو کہا کہ: ہم نے ایمان لانے والوں کے جان و مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ اسی طرح جب مسلمانوں میں کوئی خرابی رونما ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط o (الجمعہ ۶۲:۱۱) بتا دیجیے   جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے‘ وہ دنیا کی ساری دل چسپیوں اور نفعے سے زیادہ بہتر ہے۔

آخرت کے اجر پر یقین اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو لوگ اجتماعی کام‘ بغیر کسی کے کہے بھی کریں گے۔ یقین نہیں ہوگا‘ تومارے باندھے بھی نہیں کریں گے۔ اسی طرح اگر جہاد پر جانے میں سستی دکھائی تو فرمایا:

اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج (التوبہ ۹:۳۸) کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ہے۔

اس طرح سے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد اور اس کی تیاری کی فکر کے ذریعے‘ مسلمانوں کے روحانی امراض کا علاج کیا اور ان کو ایمان کے تقاضے ادا کرنے کے لیے تیار کیا۔ پھر کیفیت یہ ہوگئی کہ صحابہ کرامؓ کے لیے جنت اور دوزخ اتنے حقیقی بن گئے جتنی کہ دنیا تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ان پر ہر وقت ایک جیسی کیفیت طاری رہتی تھی۔ وہ بھی انسان تھے اور ہر قسم کے حالات سے گزرتے تھے لیکن ان کو غیب پر ایمان حاصل تھا۔ غیب پر ایمان ہی ان کے تقوے کی بنیاد تھا۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں متقین کی سب سے پہلی صفت ہی یہ بیان کی کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ غیب میں اللہ تعالیٰ کی ذات بھی شامل ہے‘ جنت بھی اور دوزخ بھی۔ ان پر ایمان کے بغیر تقویٰ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ صحابہؓ کا حال یہ تھا کہ گویا جنت میں رہتے‘ جنت کی خوشبو سونگھتے اور جنت کی نعمتوں کا مزہ چکھتے ہوں۔ جنت مقصود و مطلوب تھی‘ تو وہی نگاہوں میں سمائی رہتی۔ ان کو دنیا میں بھی جنت کا مزہ آگیا تھا۔ وہ دوزخ سے اس طرح ڈرتے ‘ کانپتے اور لرزتے تھے کہ ان کے چہروں کے رنگ بدل جاتے‘ جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے‘ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے‘ داڑھیاں بھیگ جاتیں‘ گویا کہ آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہوں۔

جنت کتنی قریب تھی اور کیسی حقیقت بن گئی تھی‘ اس کا اندازہ ایک واقعے سے کیجیے۔

ایک دفعہ نبی کریمؐ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا‘ پھر واپس کھینچ لیا۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ کیا ہوا۔ پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: میرے سامنے جنت کا ایک خوشہ تھا‘ میں نے چاہا کہ اسے توڑ کر تمھیں دکھا دوں۔

جنت ‘نہ وعظ تھی‘ نہ افسانہ اور نہ کہانی‘ بلکہ جو کچھ ان کو پیش آتا تھا‘ جن حالات میں وہ چلتے پھرتے تھے‘ جنت ان کے سامنے رہتی تھی‘ عذاب اور دوزخ کا خطرہ انھیں لاحق رہتا تھا۔ وہ جنت کی خوشبو سونگھتے اور متوالے ہو کر جان قربان کردیتے۔ جنت کے باغ کا تصور ذہن میں لاتے تو اُس کی چاہت اور تڑپ میں دنیا کا بہترین باغ اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ آندھی چلتی تو کانپ اٹھتے۔ کسی قبر پرکھڑے ہوتے تو زاروقطار روتے۔ اسی چیز نے ان میں بے مثال قربانی‘ اطاعت اور اللہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا تھا۔

آج بھی اپنے رب سے ملاقات کی ایسی ہی یاد اور جنت کا ایسا یقین اور حصول کے لیے ایسی ہی تڑپ اورجہنم کی آگ کا ایسا ڈر‘ کسی نہ کسی درجے میں ہمیں حاصل کرنا چاہیے۔ یہ ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اُن سارے کاموں کاہمیں کوئی فائدہ نہ ہوگا  جو ہم خدا کی راہ میں کررہے ہیں۔

اللہ کی اطاعت میں اتنی محنت کے بعد بھی‘ آخرت میں اجر نہ ملے تو اس ساری تگ و دو کاکیا فائدہ ؟ اس سے بہتر تو شاید یہ ہوگا کہ ہم دنیا ہی کے لیے بھاگ دوڑ کریں‘ یہیں کچھ کما لیں‘ یہیں کچھ بنالیں۔ ہم دین کے لیے کام کریں‘ دنیا کا نقصان بھی اٹھائیں اور یہ بھی سمجھتے رہیں کہ ہم بڑے اچھے اعمال کر رہے ہیں‘ لیکن آخرت کی آندھی سب کچھ اڑا کر لے جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں‘ تو یہ بڑے نقصان کا سودا ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ ہم ایسے ہوں‘ اور مجھے امید ہے کہ ہم ایسے نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کو یاد رکھنا ضروری ہے:

قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o (الکھف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴)

اے نبیؐ، ان سے کہو‘ کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔

یہ بات ہر وقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جو کام محض دنیا کی خاطر ہوا وہ ضائع ہوگیا۔ کیونکہ جسم سے آخری سانس نکلتے ہی دنیا ہاتھ سے نکل جائے گی۔ دولت ہو‘ مکان ہو‘ کھیت ہوں‘ کاروبار ہوں‘غرض دنیا کی کوئی بھی چیز ساتھ جانے والی نہیں۔ قبر میں کوئی چیز ساتھ نہیں جاتی۔ دنیا میں جو کچھ کمایا‘ وہ پیچھے رہ گیا۔ صرف اعمال ساتھ ہوں گے۔اب اگر اعمال بھی‘ خواہ وہ کتنے ہی دینی کیوں نہ ہوں‘ خدا اور آخرت کے لیے نہ ہوئے تو وہ بھی ضائع جائیں گے۔ اگرچہ ہم اس خیال میں مگن ہوں کہ ہم تو بہت ہی اچھے کام کر رہے ہیں اور آخرت کے لیے ذخیرہ کر رہے ہیں۔ یہ تو بہت ہی نقصان کا سودا ہوگا کہ ہم اللہ کے دین کا کام بھی کریں اور آخرت میں اس کا بدلہ بھی نہ ملے۔

دعوت کا ایک اھم پھلو

فکرِآخرت‘ رب سے ملاقات کی یاد اور تیاری‘ جنت کے حصول کی تڑپ اور نارِجہنم کا خوف‘ صرف ہمارے ہی لیے ضروری نہیں‘ بلکہ ہماری دعوت کے مخاطبین کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے کسی کو اجتماع میں شریک کرلیا‘ کسی سے اعانت لے لی‘ کسی کو کتاب پڑھوا دی‘ کسی سے ووٹ لے لیا‘ مگر اس سے اُس کو آخرت کا کوئی فائدہ نہ ہوا‘ تو ہم نے اس کی کوئی خیرخواہی نہیں کی‘ اس کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کی۔ دوسری پارٹیاں بھی لوگوں سے پیسے لے لیتی ہیں‘ انھیں جلسے جلوس میں لے جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے ان تمام کاموں کے نتیجے میں اس کو آخرت میں اجر ملنا چاہیے اور اس کی آخرت سنورنی چاہیے۔

نبی کریمؐ نے صرف اپنے ساتھیوں ہی سے نہیں کہا کہ فکرِآخرت اور اللہ سے ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ آپؐ انتہائی کٹّر مخالف‘ مشرک‘ کافر‘ یہودی‘ عیسائی‘ منافق‘ ہر ایک کو بار بار آخرت کے عذاب سے ڈراتے رہے۔ آپؐ نے اپنے رشتے داروں کو کھانے پر جمع کیا تو یہی بات کہی۔ کوہ صفا پر کھڑے ہوئے تو آپؐ نے یہی کہا کہ اُس عذاب سے ڈرو جو تمھارے سروں پر اس طرح کھڑا ہے جس طرح اس پہاڑی کے پیچھے کوئی لشکر موجود ہو جو ابھی تمھیں دبوچ لے گا۔ اپنی اولاد کو‘ اپنے چچائوں اور پھوپھیوں کو‘ اپنے اعزہ و اقربا کو‘ ایک ایک کا نام لے لے کر‘ اُن کو اُس دن کی تیاری کرنے کی دعوت دی جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔

ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہہ کر بھیجا کہ اَنْذِرْ قَوْمَکَ ، اپنی قوم کو خبردار کرو اور ڈرائو اس سے پہلے کہ عذاب آجائے۔

قرآن کا ایک بڑا حصہ آخرت کے بیان ہی پرمشتمل ہے۔ صرف یہ دعوت ہی نہیں دی کہ اپنے رب کی ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آخرت کیسی ہوگی‘ کس طرح قبر سے اٹھو گے‘ کس طرح اللہ کے سامنے جائو گے‘ حشر کا میدان کیسا ہوگا‘ وہاں کیا سماں ہوگا‘ اعمال کا وزن کیسے ہوگا‘ عذاب کس قسم کا ہوگا‘ کیسی ذلت ورسوائی اورحسرت و ندامت ہوگی‘ جہنم کی آگ کیسی ہوگی‘ آگ کے کوڑے ہوں گے‘ پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا جس سے آنتیں کٹ جائیں گی‘ سر پر آگ کا سایہ ہوگا اور لیٹنے کے لیے آگ کا بستر--- گویا ایک ہولناک منظر ہے جس کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

قرآن میں احکام کی اتنی تفصیل بیان نہیں ہوئی‘ لیکن آخرت کے حوالے سے ایک ایک چیز کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ نہیں بیان کیا کہ ہر نماز کی کتنی رکعتیں ہیں‘ ان میں فرائض کیا ہیں اور سنن و مستحبات کیا ہیں‘ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے‘ لیکن آخرت کی ایک ایک بات بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ ایک ایک عذاب کی تفصیل ہے‘ ایک ایک نعمت کا تذکرہ ہے۔ جنت کیسی ہوگی--- اس میں بالاخانے ہوں گے‘ محلات ہوں گے‘ خیمے ہوں گے‘ گھنے اور لمبے سائے ہوں گے‘ ہر قسم کے پھل اور میوے ہوں گے‘ انگور ہوں گے‘ انار ہوں گے۔کھجور ہوگی‘ کیلا ہوگا‘ بیری کے درخت ہوں گے۔ پانی ‘دودھ ‘ شہد ‘ غرض ہر قسم کے بہترین مشروبات کے چشمے بہہ رہے ہوں گے‘ حسین و جمیل رفاقتیں ہوں گی‘ حوریں ہوں گی اور یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگا۔

قرآن ہی ہمارے لیے روشنی ہے‘ قرآن ہی ہمارا رہنما ہے‘ قرآن ہی کی طرف ہماری دعوت ہے‘ لیکن ہماری دعوت میں آخرت کا بیان کہاں ہے اور کتنا ہے؟ اگر ہم قرآن کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں‘ قرآن کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں‘ قرآن پر لوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں تو ہماری دعوت کو بھی قرآن ہی کے انداز میں آخرت کی دعوت ہونا چاہیے۔ اپنے مخالفین کو‘ خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کیسی ہی استعداد رکھتے ہوں‘ قرآن کے اسی انداز میں آخرت کی تیاری کی دعوت دینا چاہیے۔

اگر غور کریں تو اس لحاظ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ جو تقریریں ہم کرتے ہیں ان کو دیکھیں‘ جو درس ہم دیتے ہیں ان پر نگاہ ڈالیں‘ تربیت گاہوں کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان کا جائزہ لیں‘ ان سب میں رب سے ملاقات کی یاد اور جنت و دوزخ کے ذکر کا کتنا حصہ ہوتا ہے؟ کبھی ایک دم ہمیں خیال آتا ہے کہ فکرِآخرت کا پروگرام بھی ہونا چاہیے۔ ایک حدیث رکھ لو‘ ایک درس رکھ لو‘ ایک تقریر رکھ لو‘ مگر قرآن کے وہ حصے جہاں جنت اور جہنم کا بیان ہے وہ ہمارے درس کا موضوع نہیں بنتے۔ شاید یہ سب کچھ جدید دور کا بھی اثر ہے کہ ہم کو اب شاید کچھ غیرشعوری ہچکچاہٹ ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اس زمانے میں یہ حوروغِلمان کا ذکر کرتے ہیں اور محلات کا ذکر کرتے ہیں‘ جنت کا لالچ دیتے ہیں اور آگ سے ڈراتے ہیں۔

ہم سوچتے ہیں کہ آج کل اس طرح لوگ کہاں متاثر ہوں گے‘ کہاں مانیںگے۔ اب تو اسلامی نظام کی برتری ثابت کرنا چاہیے۔ دوسرے نظام ہاے حیات پر تنقید کرنی چاہیے‘ عالمی اور قومی سیاست کے حوالے سے بات ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ بھی ضرور ہونا چاہیے‘ لیکن صرف اس سے کام ہرگز نہیں چلے گا۔ ہمارے دروس میں‘ ہمارے پروگراموں میں آخرت کا‘ جنت کا‘ دوزخ کا وہ تناسب نہیں ہے جو تناسب قرآن مجید میں ہے‘ بلکہ قرآن مجید جس قدر آخرت‘ جنت اور دوزخ کے بیان سے بھرا ہوا ہے اس کا عشرعشیر بھی ہماری دعوت‘ گفتگوئوں‘ تقریروں اور درس میں نہیں ہوتا۔

ظاہر ہے کہ یہ ہونا چاہیے کیونکہ لوگوں کے ساتھ اصل بھلائی ہی یہ ہے کہ وہ آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔ ہمارا سارا کام اسی لیے ہے کہ لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں۔ پھر دین بھی قائم ہوگا اور دنیا میں بھی اسلامی نظام کی جنت بنے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ انھی جذبات سے اس دین کی طرف آئیں جن جذبات سے وہ قوم پرستی اور سوشلزم کی طرف جاتے ہیں تو اسلام کے لیے یہ نسخہ کارگر نہیں ہوسکتا‘ نہ ہو رہا ہے۔

جب لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں گے جس طرح صحابہ کرامؓ تھے تو پھر وہ دنیا کو بھی جنت بنائیں گے اور دنیا میں عدل و قسط کا نظام بھی قائم ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسپین سے لے کر چین تک‘ ساری دنیا اُن کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی جو جنت سماوی کے طلب گار تھے۔ اگر وہ دنیا کے طلب گار ہوتے توکیا دنیا اس طرح ان کے آگے ڈھیر ہوتی؟ ہمیں بھی یہ جاننا چاہیے کہ جب ہم آخرت کے طلب گار بن جائیں گے تو اللہ تعالیٰ دنیا کو ہمارے قدموں میں اُسی طرح ڈھیر کر دے گا جس طرح ان کے آگے دنیا بچھتی چلی گئی۔ لیکن اگر ہم نے صرف دنیا طلب کی تو آخرت بھی ہاتھ سے جائے گی اور دنیا بھی!

دنیا ہماری مطلوب کیوں ہو‘ جب کہ اس طرح اس کا ملنا غیر یقینی ہے اور جنت کا ہاتھ سے جانا یقینی۔ دنیا تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا دے گا‘ جس کو چاہے گا نہیں دے گا‘ لیکن آخرت کے حوالے سے اس کا وعدہ یقینی ہے کہ جس نے آخرت کا ارادہ کر لیا اور اس کے لیے کوشش کی جیساکہ کوشش کرنے کا حق ہے‘ اور اس کے دل میں ایمان ہے تو اس کی محنت کی لازماً قدردانی کی جائے گی۔

مَنْ اَرَادَ الْاٰخِـرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَـھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۹) جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے‘ اور ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔

ہر آدمی دن رات محنت کرتا ہے۔ کسی کو چند ٹکے ملتے ہیں اور کسی کو لاکھوں مل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے کسی کو بقدرِ ضرورت دیتا ہے اور کسی کو بلاحساب دیتا ہے‘ اس لیے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اِس کی حقیقت تو بس اتنی ہے جیسے ایک مچھر کا پر‘ یا جیسے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر کچھ پانی حاصل کرلے‘ یا جیسا کہ قرآن نے کہا: اگر یہ امکان نہ ہوتا کہ سارے کے سارے لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم رحمن کا انکار کرنے والوں کے گھروں کی چھت‘ زینے‘ دروازے‘ فرنیچر سب چاندی کا بنا دیتے‘ بلکہ سونے کا۔ پھر بھی ان کی قیمت اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ جب تک سانس ہے آدمی اس سے کام لے لے‘یا لذت اندوز ہولے۔ جو چیز ختم ہونے والی ہو اس کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے۔

حقیقی خسارہ

قرآن مجید میں بار بار اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ: اس دنیا کو مقصود نہ بنائو‘ منزل نہ بنائو‘ بلکہ اس دنیا کے ذریعے آخرت کا سامان کرو۔ یہی راہ پکڑو گے توکامیابی تمھارے قدم چومے گی۔ یہ بات ہرلمحے یاد رکھو کہ اپنے رب سے ملاقات کرنا ہے‘ اس ملاقات کی تیاری کرو۔ قیامت کے دن وہ یہی پوچھے گا کہ تم نے دنیا کی زندگی میں آج کے دن کی ہم سے ملاقات کو یاد رکھا تھا یا نہیں۔ اگر اِس دنیا میں یہ بات بھلا دی گئی کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا ہے تو تباہی و بربادی اور ناکامی و خسارہ مقدر ہوگا۔ دیکھیے کتنے دل دہلا دینے والے الفاظ ہیں:

وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰکُمْ کَمَا نَسِیْتُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا وَمَاْ وٰکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۳۴) اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم بھی اُسی طرح تمھیں بھلائے دیتے ہیں جس طرح تم اِس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے۔تمھارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمھاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔

مزید فرمایا:

فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَـآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَاج اِنَّا نَسِیْنٰکُمْ o (السجدہ ۳۲:۱۴)

پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا‘ ہم نے بھی اب تمھیں فراموش کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق‘ محض بھولنے اور یاد رکھنے کا معاملہ نہیں ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہم بھلا دیں گے تو اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ ہم نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے‘ رحمت نہ کریں گے۔ جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا سوائے اس کے سائے کے‘ کوئی سہارا نہ ہوگا سوائے اس کے سہارے کے‘ کسی کی نظر کام نہ آئے گی سوائے اس کی نظرِکرم کے‘ کسی کی توجہ سے کام نہ بنے گا سوائے اس کی توجہ کے--- ذرا سو چیے کہ اگر اُس دن اُس نے ہمیں بھلا دیا تو ہمارا کیا بنے گا!

لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے اس دن کو برابر یاد رکھنا اور اس ملاقات کی تیاری کرنا‘ یہ وہ کام ہے جو اپنے لیے بھی ضروری ہے اور جو ہمارے مخاطب ہیں یا ساتھ چلنے والے ہیں‘ ان کے لیے بھی ضروری ہے۔ حضور اکرمؐ نے اپنی جو مثال بحیثیت داعی کے دی ہے‘ اسے دیکھیے۔ آپؐ نے فرمایا: میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی۔ اب تم ہو کہ پروانوں کی طرح اس آگ میں گر رہے ہو اور میں ہوں کہ تمھاری کمریں پکڑپکڑ کر تمھیں روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں‘ لوگو! آگ سے بچو۔

بحیثیت داعی ہمارا کردار حضور اکرمؐ کی اس مثال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے گھر میں آگ لگ جائے تو ہم اپنی جان خطرے میں ڈال کر‘ اپنے بچوں کو اٹھا کر باہر بھاگیں گے‘ پانی لے کر آئیں گے اور آگ بجھائیں گے۔ اگر ہماری بیوی‘ بھائی‘ بہن‘ ماں باپ‘ دوست‘ رشتہ دار آگ میں جلنے کے خطرے کے قریب ہوں تو یقینا ہم بے چین ہوجائیں گے۔ اگر یہی لوگ جہنم کی آگ کے قریب جا رہے ہوں توکیا یہی جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے‘ کیا ہم اسی طرح کوشش کرتے ہیں کہ ان کو آگ سے بچالیں؟

آخرت کی یاد اور آخرت کے لیے تیاری‘ یہی وہ پاور ہائوس ہے جو ہمارے کام اور جدوجہد کو رواں دواں رکھے گا۔ سارے کاموں میں یہی یاد جاری و ساری رہنا چاہیے‘ خواہ وہ الیکشن کا کام ہو یا نعروں اور جلوس کا کام یا پوسٹر لگانے کا۔ جو کام بھی آپ کریں صرف اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو‘ آپ کو اپنی جنت میں داخل کر دے۔ پھر دیکھیے اس کام میں کتنی اور بے انتہا برکت ہوتی ہے۔ اس کام کا بہت بڑا اجر آپ کو آخرت میں یقینا ملے گا‘ اگرچہ دنیا میں بظاہر کچھ نہ بھی ملے‘ یہاں آپ الیکشن نہ بھی جیتیں اور چاہے لوگ آپ کی بات سن کر نہ دیں۔ لیکن اگر آپ نے کام صرف اس لیے کیا کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن جیت جائیں‘ الیکشن تو آپ ہار بھی سکتے ہیں‘ لیکن آخرت میں آپ کو اس کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ صرف وہی کام قبول کرے گا جو خالص اس کے لیے ہو۔ بظاہر الیکشن تو دنیاوی کام ہے اور اگر کوئی شخص قرآن کا حافظ اور عالم ہو یا اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے‘ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والا ہو‘ لیکن یہ خالصتاً دینی کام بھی اگر صرف اللہ کے لیے نہ کیے گئے ہوں‘ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرمائے گا‘ بلکہ ان کو جہنم میں ڈال دے گا۔ عمل تو وہی قبول ہوگا جو خالص صرف اسی کے لیے ہو‘ اسی سے اجر کے لیے ہو۔ آخرت کے مسافر اور بھی ہیں‘ فرق اتنا ہے کہ دوسرے لوگوں کے نزدیک آخرت گوشے میں بیٹھ کر ملتی ہے‘ مگر ہمارے نزدیک آخرت اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے ذریعے ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یقینی وعدہ کیا ہے:

وَلَا ُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) میں ان کو ضرور بالضرور جنتوں میں داخل کروں گا جہاں نہریں بہتی ہوں گی۔

یہ ہونی چاہیے ہماری دعوت‘ یعنی رب سے ملاقات اور جنت کی طلب۔ دوسروں کو بلانا ہے تو اس طرف ہی بلانا ہے کہ وہ جنت کے طلب گار بنیں اور اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ ہماری دعوت کا موضوع یہی بن جائے‘ یہی دعوت کی روح بن جائے کہ:

وَفِی الْاٰخِـرَۃِ عَـذَابٌ شَدِیْـدٌ وَّمَـغْفِـرَۃٌ مِّـنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌط (الحدید ۵۷:۲۰) آخرت میں ایک طرف عذاب شدید ہے‘ دوسری طرف اللہ کی مغفرت اور رضا۔

یہ دونوں ہمارے منتظر ہیں۔ ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون سی چیز ہم اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔

گو یہ دونوں چیزیں آج ہمیں آنکھوں سے دکھائی نہیں دے رہیں۔ لیکن اگر ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے تو مغفرت و رضوان کے انعام کا اور عذاب شدید کا پورا نقشہ‘ ہم قرآن مجید میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ قرآن مجید کثرت سے پڑھیں‘ اس کو یاد کریں‘ اس کو نمازوں میں پڑھیں‘ چھوٹی چھوٹی آیتوں کے معنی یاد کرلیں۔ صبح و شام‘ اٹھتے بیٹھتے‘ موت کو یاد رکھیں۔ قرآن پڑھیں تو خود کو اس کا مخاطب بنائیں۔ اپنے مخاطبین کو دعوت دیں تو آخرت کے بیان اور آخرت کے لیے تیاری کو اس میں شامل کریں۔ اس طرح آپ کی زندگی صحیح راہ پر چلے گی اور آپ کی محنت کا بدلہ آپ کو لازماً ملے گا۔ بالآخر وہ وقت بھی آئے گا جب ہم اس کی جنت میں داخل ہونے کے مستحق ٹھیریں گے۔

آخرت کی یاد

ایک چھوٹا سا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو یاد رکھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس کو اگر آپ اپنے اوپر لازم کرلیں تو آپ بھی اس کے ذریعے آخرت کاسفر بار بار کرسکتے ہیں۔

ایک دعا ہے جو نبی کریمؐ نے سکھائی ہے اور یہ کوئی بہت لمبی دعا نہیں ہے:

اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ -

اے اللہ مجھے آگ سے بچا لے۔

بہت چھوٹی‘ بہت سادہ‘ بہت آسان دعا ہے۔ اس کو عربی ہی میں یاد کرنا چاہیے‘ اور یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں۔ اگر ہم اُن الفاظ میں یہ دعا مانگیں گے جو الفاظ حضور اکرمؐ نے سکھائے ہیں تو الفاظ سے بھی برکت کا چشمہ جاری ہوگا‘ لیکن اگر یہ الفاظ یاد نہ ہو سکیں تو اپنی زبان میں اس کا مفہوم ادا کیا جا سکتا ہے‘ یعنی اے اللہ مجھے آگ کے عذاب سے بچا لے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو آدمی مغرب کے بعد اور فجر کے بعد سات سات دفعہ یہ دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ کے عذاب سے بچالے گا۔ دعا خود سے تو کام نہیں کرتی۔ دعا تو اس بات کا اظہار ہے کہ آپ کو اُس چیز کی طلب ہے‘ پیاس ہے جو آپ مانگ رہے ہیں۔ جب آپ پانی مانگتے ہیں تو آپ کو پیاس لگی ہوتی ہے‘ آپ کھانا مانگتے ہیں تو بھوک لگی ہوتی ہے۔ جتنی شدت سے بھوک پیاس ہوتی ہے‘ اتنی ہی بے چینی اور اضطراب اور لگن سے آپ پانی اور کھانا مانگتے ہیں اسی طرح آپ کو آگ سے بچنے کی فکر لگی ہو اور شدت سے لگی ہو‘ خوف‘ اندیشہ‘ بے چینی اور اضطراب سے دل بھرا ہوا ہو‘ اور پھر آپ کہیں اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ،    تو ان الفاظ کا اثر ہوگا۔ دل میں آگ لگی ہوگی تو الفاظ دل سے نکلیں گے‘ رنگ لائیں گے۔     یہ الفاظ آپ دل سے کہیں گے تو دل میں آگ سے بچنے کی فکر بھی پیدا ہوگی۔ مانگنے سے بھی بھوک پیاس محسوس  ہونے لگتی ہے۔ یہ گویا دو طرفہ عمل ہے۔اس لیے صبح و شام فجر اور مغرب کے بعد ضرور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

میں نے اس عمل میں تھوڑا سا اضافہ کیا ہے۔ میں جس طرح پڑھتا ہوں‘ آپ بھی چاہیں اور مفید سمجھیں تو اس طرح ہی پڑھیں۔ اس میں کوئی زیادہ وقت بھی نہیں صرف ہوتا۔ ہر بار جب میں یہ کہتا ہوں کہ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ، تو آخرت کے سفر کی کسی ایک منزل کا نقشہ اپنے ذہن میں رکھتا ہوں۔ یہ سفر قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ میں اس سفر کے کسی ایک مرحلے کی تصویر اپنے ذہن میں لاکر کہتا ہوں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

  • پھلا مرحلہ: آپ پہلی دفعہ کہیں تو موت کا وقت یاد کریں۔ قرآن مجید میں موت کے وقت کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ کسی ایک منظر کو اپنے ذہن میں تازہ کرلیں۔ ایک یہ ہے:

کَلَّا ٓاِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ o وَقِیْلَ مَنْ رَاقٍ o وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ o وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ o اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِ الْمَسَاقُ o (القیامۃ ۷۵:۲۶-۳۰)

ہرگز نہیں‘ جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا‘ اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے‘ اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی‘  وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا۔

جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ کوئی سہارا نظر نہ آئے گا جو موت سے بچائے اور کوئی جھاڑ پھونک کرکے بھی نہیں بچا سکے گا‘ تو یقین ہو جائے گا کہ بس اب تو دنیا کو چھوڑنا ہے۔ بھائی بہن‘ ماں باپ‘ رشتہ دار‘ مال و دولت‘ مکان سب کچھ چھوڑنا ہیں‘ جسم کی سب قوتیں ختم ہو جائیں گی۔ اب اللہ کی طرف جانا ہے اور سوائے اعمال کے کوئی سہارا نہیں۔ یا اس وقت کو یاد کریں جب فرشتے آئیں گے اور چہروں اور پیٹھوں پر آگ کے کوڑے ماریں گے‘ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْo (محمد ۴۷: ۲۷)

موت کے کسی منظر کو چند سیکنڈ کے لیے قرآن کے کسی حصے کے ذریعے‘ یا ذہن میں لاکر آپ موت کا وقت یاد کریں‘ اور اس کے بعد کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ پہلا مرحلہ ہوا۔

  • دوسرا مرحلہ: موت کے بعد قبر کی منزل ہے۔ دوسری بار کہنے لگیں تو قبر کا مرحلہ یاد کریں۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ قبر ہی دراصل فیصلہ کر دے گی کہ آگے کیا ہوگا‘ یا تو یہ آگ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ۔

حضرت عثمانؓ کے بارے میں مذکور ہے کہ آپ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا زاروقطار روتے تھے کہ آپ کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگ جایا کرتی تھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ قبر کہتی ہے کہ میں تنہائی کا گھر ہوں‘ میں کیڑوں کا گھر ہوں۔ لہٰذا قبر کا عذاب‘ اُس کے مختلف مناظر اگر ذہن میں تازہ رکھیں‘ اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ دوسرا مرحلہ ہوا۔

  • تیسرا مرحلہ: قیامت کا ایک مرحلہ وہ ہوگا جب قبروں سے نکال کر اللہ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا۔ لوگ دیوانہ وار اٹھ کر بھاگیں گے‘ ہوش اُڑے ہوںگے‘ نگاہیں اٹھ نہ رہی ہوں گی‘ چہروں پر ذلت کی سیاہی ہوگی‘ ننگے ہوں گے مگر دیکھنے کا ہوش نہ ہوگا۔ سورج قریب آجائے گا‘ پسینہ اس طرح بہے گا کہ لوگ کانوں تک غرق ہوںگے۔ ہلکے سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ آدمی کو آگ کے جوتے پہنا دیے جائیں گے اور اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔ اعمال نامے ہاتھ میں ہوں گے اور سب لوگ خدا کے حضور کھڑے ہوں گے۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہوگا۔ جس کے نیک اعمال بھاری ہوں گے تو وہ دل پسند زندگی پائے گا‘اور جس کے بداعمال بھاری ہوں گے تو اس کا تو ٹھکانہ آگ کا گڑھا ہوگا۔

یہ تیسری منزل ہے حشر کی۔ کسی بھی منظر کو ذہن میں تازہ کرلیں اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

  • چوتہا مرحلہ: چوتھی منزل پُل صراط کی ہے۔ آپ سوچیں کہ ہر شخص جہنم پر سے گزرے گا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ ہوا کی رفتار سے گزر جائیں گے‘ اور بعض اس سے آہستہ‘ اور بعض لڑکھڑاتے ہوئے گزریں گے‘ اور بعض وہیں جہنم کے اندر گر پڑیں گے۔ اس وقت تو اعمال ہی سواری ہوں گے‘ کوئی اور سواری نہ ہوگی۔ آپ اس منظر کو ذہن میں لائیں اور چوتھی بار کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
  • پانچواں مرحلہ: پانچویں دفعہ اس آگ کو دیکھیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت اور تفصیل سے کیا ہے۔ اس آگ کے جسمانی عذاب کا تصور کریں۔ وہاں پر آگ کا بستر ہے‘ آگ کی چھت ہے‘ پیپ کا پانی ہے‘ کانٹوں کا کھانا ہے‘ لوہے کے ہتھوڑے ہیں‘ سرپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جا رہا ہے‘ ان میں کسی ایک کا تصور اپنے ذہن میں رکھیں اور پھر کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
  • چہٹا مرحلہ: پھر وہاں ایک عذاب اور بھی ہے۔ یہ رسوائی اور حسرت و ندامت کا عذاب ہے۔ یہ نفسیاتی اور روحانی عذاب ہے۔ چھٹی بار اس کا تصور کریں۔ یہ حشر سے شروع ہوگا‘مثلاً جب وہاں آپ کے سارے اعمال براڈ کاسٹ کردیے جائیں گے‘ وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (۸۱:۱۰) ‘کیا آپ اس گھڑی کا سامنا کرسکتے ہیں؟ میں بھی اپنے آپ کو جانتا ہوں ‘اور آپ بھی اپنے آپ کو جانتے ہیں۔ کیا کوئی یہ رسوائی مول لے سکتا ہے کہ اس کے سارے اعمال لائوڈاسپیکر پر بیان ہونا شروع ہو جائیں۔ کتنی رسوائی‘ کتنی ذلّت ہمارے حصے میں آئے گی؟ پھر وہاں زبردست ندامت و حسرت یہ ہوگی کہ ہماری اتنی مختصر سی عمر تھی‘ اس کو ہم نے کیوں ضائع کردیا۔ پھرجہنم سے نکلنا چاہیں گے تو کوئی نجات کی صورت نظر نہ آئے گی۔ جن کا مذاق اڑاتے تھے ان کو ہی عیش و آرام میں دیکھیں گے۔ آپ ذلّت کا‘ رسوائی کا‘ حسرت کا‘ یہ عذاب یاد کریں اور چھٹی بار کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
  • ساتواں مرحلہ: آخر میں آپ یہ سوچیں کہ جو کچھ کل پیش آنے والا ہے‘ یہ سب آج کی کمائی ہے‘ یعنی کل کے جتنے بھی مرحلے پیش آنے والے ہیں‘ یہ آسان ہوں گے تو صرف آج کے نیک اعمال سے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آج مجھے ان اعمال سے بچا لے کہ جو کل آگ کی طرف لے جانے والے ہیں۔ پھر آپ کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

اس طرح آپ دنیا سے چلنا شروع کریں‘ موت کے وقت سے جہنم تک پہنچیں‘ پھر واپس لوٹ کر آج کی دنیا میں آجائیں۔ یہ سفر مکمل ہوجائے گا۔

یہ دعا سات دفعہ اگر آپ صبح و شام اس طرح پڑھ لیں تو مشکل سے دو تین منٹ صرف ہوں گے۔ آپ مزید کچھ وقت بیٹھنا چاہیں تو بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن میں آپ کو کسی طویل مراقبے کی تعلیم نہیں دے رہا ہوں۔

اس طرح آپ موت کو یاد رکھنے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اللہ سے ملاقات کو بھولیں گے ‘کوئی بات نہیں‘ انسان بھولنے والا ہے‘ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے۔ صحابہ کرامؓ بھی ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رہتے تھے۔ ان کی حالت بدلتی رہتی تھی۔ حضوؐر کی محفل میں ہوتے تو گویا جنت و دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے‘ گھروں کو جاتے تو یہ کیفیت بہت مدھم ہو جاتی۔

اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آپ آخرت کو کبھی نہیں بھولیں گے۔بھول تو آدمی کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آخرت کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں‘ اور اگر بھولیں تو فوراً یاد کرلیں۔ پھر پوری امید رکھیں کہ اللہ آپ کی برائیوں کو نظرانداز کر دے گا‘ آپ کے گناہوں کو بخش دے گا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ آپ گناہ کم اور نیکیاں زیادہ کرنے لگیں۔ بس آپ کی اپنی طرف سے کوشش ضروری ہے۔ اس کوشش کے لیے یہ ایک عملی نسخہ ہے۔ اس کو آپ اختیار کرلیں تو ان شاء اللہ آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ‘ سب کو‘ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: عبدالجبار بہٹی)


(کتابچہ دستیاب ہے۔ فی عدد ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصور‘ہ لاہور-۵۴۷۹۰)

حضرت عمران بن حطاّن تابعی ؒ رو ایت کرتے ہیںکہ ایک روز میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ وہ ایک کالی کملی لپیٹے ہوئے مسجد میں با لکل اکیلے بیٹھے ہیں۔ میںنے عرض کیا: ’’ اے ابوذر! یہ تنہائی اور یکسوئی کیسی ہے (یعنی آپ نے اِس طرح اکیلے اور سب سے الگ تھلگ رہنا کیوں اختیار فرمایا ہے؟‘‘ اُنھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ برے ساتھی کی ہم نشینی سے اکیلے رہنا اچھا ہے‘ اور اچھے ساتھی کے ساتھ بیٹھنا تنہائی سے بہترہے‘ اور کسی کواچھی باتیں بتاناخاموش رہنے سے بہترہے‘ اوربری باتیںبتانے سے خاموش رہنا بہتر ہے ‘ ‘۔ (شعب الایمان‘البیہقی)

ہا دیِ اعظمؐ کے اِس حکیمانہ اور جامع ارشادِ مبارکہ سے ہر مسلمان مرد و عورت کو چار اہم ہدایا ت مل رہی ہیں۔ آئیے! اِن چار اہم ہدایا ت کو ہا دیِ اعظمؐ کی چند دیگر ہدایاتِ عالیہ کی روشنی میںسمجھتے ہیں۔

  • بری رفاقت سے تنھائی بہلی: آپؐ کی سب سے پہلی ہدایت تویہ ہے کہ برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کے مقابلے میںتنہائی اختیارکرلینابہت زیادہ مفید ہے۔ اوراِس کی وجہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حکیمانہ مثال سے سمجھا دی ہے کہ ’’اچھے او ر برے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے۔ مشک بیچنے والے کی صحبت سے  تم کو کچھ فائدہ پہنچے گا ۔یا تو مشک خریدو گے یا مشک کی خوشبو پاؤ گے‘ لیکن لوہار کی بھٹی تمھارا گھر یا کپڑے جلائے گی یا تمھارے دماغ میں اِس کی بد بو پہنچے گی‘‘(بخاری‘ مسلم) ۔اسی لیے حضور اکرمؐنے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’آدمی اپنے  دوست کے دین پر ہوتا ہے ‘ اِس لیے ہر آدمی کو دیکھنا چا ہیے کہ وہ کس سے دو ستی کر رہا ہے‘‘(مسند احمد‘ مشکوٰۃ)۔ ایک موقع پر رسول ؐاللہ نے حضرت ابوذرغفاری ؓ سے فرمایا: ’’اے ابو ذر! کیا میں تمھیں ایسی دو خصلتیں نہ بتادوں جنھیں اختیار کرنے سے آدمی پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں پڑتا مگر اللہ کے میزان میں وہ بہت بھاری ہوتی ہیں ؟ حضرت ـــــابوذر غفاریؓ نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں؟ یارسولؐ اللہ! وہ دونوں خصلتیں ضرور بتائیے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ـ’’زیادہ خاموش رہنے کی عادت اور حسنِ خلق۔(پھرفرمایا) قسم ہے اُس ذ اتِ پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ‘مخلوقات کے عمل میں یہ دونوں چیزیں بے مثا ل ہیں ‘‘ (شعب الایمان‘ البیہقی)۔ نبی مکرمؐکے اِن حکیمانہ اور جامع ارشادات  مبارکہ سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کے مقابلے میںتنہائی اختیارکرلینابہت زیادہ مفید ہے۔
  • اچہّوں کا ساتھ دو: دوسری ہدایت یہ ہے کہ تنہا ئی اختیار کرنے کے مقابلے میں اچھے مسلمانوں کی صحبت میں بیٹھنا زیادہ سود مند ہے۔ اس کی وجہ بھی رسول ؐاللہ نے ایک حکیمانہ مثال سے اُس موقع پرسمجھا دی‘جب کسی نے حضو ؐر سے پوچھاکہ ’’ہم نشین کیسے ہوں‘ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اُن لوگوں کی صحبت میں بیٹھو‘ جن کو دیکھ کر خدا یاد آئے‘ جن کی گفتگو سے تمھاری دینی معلومات میں اضافہ ہو‘ جن کا عمل تمھیں آخرت یاد دلائے‘‘۔ (عبداللہ ابن عباس‘ترغیب وترھیب )۔ اِس ہدایت کی مزید تاکید کے لیے ایک اور موقع پر فرمایا: ’’تم کسی مومن ہی کواپنا ساتھی بناؤ۔ اور متقی شخص کے سوا کسی اور کو کھانا نہ کھلاؤ‘‘ (یعنی  فاسق اور فاجرآدمی کو دعوتِ طعام نہ دو)‘‘۔(عن ابو سعید خدریؓ،:ترغیب وترھیب‘بحوالہ صحیح ابن حبّان)

نبی مکرم ؐکے اِن حکیمانہ اور جامع ارشادات مبارکہ سے معلو م ہوا کہ تنہائی اختیار کرنے کے بجاے اچھے مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اِس کے نتیجے میں‘محبت‘ بھائی چارے اورنیک اعمال میں اضافہ ہوگا۔

  • نیکی کی تلقین:تیسری ہدایت یہ ہے کہ لوگوںکو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا‘ خاموشی اختیا ر کرلینے کے مقابلے میںزیادہ بہتر ہے۔ قرآن مجید میںبھی اللہ تعالیٰ نے اِس کی ہدایت اِن الفاظ میںکی ہے: وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا(البقرہ۲:۸۳)’’ اور لوگوں سے اچھی بات کرو‘‘۔ حضور اکرمؐ نے اِس بات کو ایک اور انداز سے سمجھایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہہ بندہ اللہ کی خوش نودی کی کوئی ایسی بات اپنی زبان سے کہہ دیتا ہے جس کی طرف اُس کا دھیان بھی نہیں ہوتا اور اُس کلمے کی بدولت اللہ تعالیٰ اُس کے درجات بلند فرمادیتا ہے‘‘ (عن ابوہریرہؓ، بخار ی ‘مشکوٰۃ)۔ خاموشی اختیار کرنے کے مقابلے میں لوگوںکو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرناایک احسن عمل ہے۔

ایک روز رسولؐ اللہ نے اپنی ایک تقریرمیں کچھ افراد کی تعریف فرمائی (جو دوسروں کو دین کی باتیں بتاتے تھے)۔ پھر فرمایا: ’’ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ اپنے پڑوسیوںمیںدینی سوجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے؟ اُن کو تعلیم نہیں دیتے؟ اُن کو نصیحت نہیں کرتے؟ بری باتوں سے کیوں نہیں روکتے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’ اور ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ دین کی باتیں نہیں سیکھتے؟کیوں اپنے اندردینی شعور پیدا نہیں کرتے؟ کیوں دین نہ جاننے کے نتائج معلوم نہیں کرتے؟ خدا کی قسم! لوگوں کو آس پاس کی آبادی کو دین سکھانا ہوگا‘ اُن کے اندر دینی شعور پیدا کرنا ہوگا‘ وعظ و تلقین کاکام کرنا ہوگا‘ اور لوگوں کو لازماً اپنے قریب کے لوگوں سے دین سیکھنا ہو گا‘ اپنے اندر دینی سمجھ بوجھ پیدا کرنی ہوگی اور وعظ و نصیحت قبول کرنا ہوگا‘ ورنہ میں اُنھیں اِس دنیا میں جلد سزا دوں گا‘‘۔(عن ابو موسیٰ الاشعریؓ، الطبرانی)

نبی مکرمؐکے اِن حکیمانہ ارشادات مبارکہ سے معلو م ہواکہ لوگوںکو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا‘ خاموشی اختیا ر کرلینے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ بہت زیادہ خاموش رہتے تھے‘ اور آپؐ صرف وہی بات کرتے تھے جس پر آپ ؐ کو ثواب کی امید ہوتی تھی۔

  • بُری بات سے خاموشی بہلی: چوتھی ہدایت یہ ہے کہ بدی اور برائی کی طرف مائل کرنے والی گفتگو کے مقابلے میں خاموشی اختیار کر نا زیادہ فائدہ مند ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اِس طرح کی گفتگو کے نقصانات کو ان الفاظ میںبیان کیا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّلَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ۵۰: ۱۸)’’ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو‘‘۔ اِس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ کوئی با ت منہ سے نکالنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ وہ نوٹ ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اِس کا حساب بھی دینا ہو گا ۔ حضوراقدسؐ نے اِس بات کو ایک اور انداز سے سمجھایا ہے۔آپؐ نے فرمایا:’’بلاشبہہ بندہ اپنی زبان سے کبھی اللہ کی ناراضی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے جس کا اُسے خیال بھی نہیں ہوتا اوروہ کلمہ اُسے جہنم میںگرادیتا ہے‘‘۔(عن ابوہریرہؓ، بخاری‘ مشکوٰۃ)۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہہ انسان اپنی زبان سے اتنا زیادہ پھسل جاتا ہے‘جتنا اپنے قدم سے بھی نہیں پھسلتا‘‘۔ (عن ابوہریرہؓ، بیہقی‘ مشکوٰۃ )

بدی اور برائی کی طرف مائل کرنے والی گفتگو کے بارے میں ہا دیِ اعظمؐکی چند اور ہدایات عالیہ سنیے جو آپؐ نے مختلف مواقع پرعطا فرمائی ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ’ ’فضو ل باتیں کرنے والے اور یاوہ گوئی کرنے والے میری اُمت کے بد ترین لوگ ہیں‘‘(موطا امام مالک‘ ابوداؤد)۔ایک اور موقع پرفرمایا:’’جو شخص مجھے اپنے دونوں کلّوںکے درمیان والی چیز (یعنی زبان)‘ اور اپنی دونوں رانوں کے درمیان والی چیز(یعنی شرم گاہ )کی حفاظت کرنے کی ضمانت دے دے گا‘ میں اُسے جنت کی ضمانت دے دوں گا‘‘ (عن سہل بن سعدؓ، بخاری‘ مشکوٰۃ)۔ ایک اور موقع پرفرمایا:’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں‘‘ (عن عبداللہ بن عمروؓ، بخاری )۔ اسی طرح ایک اور موقع پرآپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور روزِآخرت پر یقین رکھتا ہے‘ اُس کو چاہیے کہ وہ بھلی بات کہے یا چپ رہے‘‘۔ (کتاب الایمان، مسلم)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کوہادیِ اعظمؐکی ہدایات پر عمل کر نے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!

اسلام نے مسلمانوں کو باہمی سلام کرنے‘ دعا دینے اور خیرو بھلائی چاہنے کے لیے‘ جن کلمات کی تعلیم دی ہے ان میں ایک کلمہ برکت ہے۔ یہ کلمہ بھی سلام کی طرح مسلم معاشرے کا شعار‘ ثقافت اور عام دعائیہ کلمہ ہے۔ لہٰذا ہر خوشی و شادمانی اور کامیابی و کامرانی کے موقعے پر اور عام سلام کرتے وقت یہ لفظ کثرت سے بولا جاتا ہے۔ اس کلمے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر نمازی دو رکعت کی نماز میں اسے کم از کم چار مرتبہ ادا کرتا ہے۔ ثنا میں تَبَارَکَ اسْمُکَ تشہد (التحیات) میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور درود ابراہیمی میں اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّک حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ میں دو مرتبہ کہتا ہے۔

پھردعائیہ جملوںاور فقروں میں اسے روزانہ متعدد مرتبہ بولا جاتاہے۔ سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا جاتا ہے۔ کوئی خوشی کا موقع اور تقریب ہوتی ہے تو اپنے بھائی بہن کو اور دوست و احباب کو مبارک باد کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے۔ کوئی کھانے کی دعوت دیتا ہے تو مخاطب بارک اللہ‘ یا اللہ برکت دے کا جملہ بول کر ما فی الضمیرکا اظہار کرتا ہے۔ کسی بچے کی صلاحیت‘لیاقت اور ذہانت ظاہر ہوتی ہے تو برکت کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے‘ کسی کاروبار میں نفع ہوتا ہے‘ فصل کی پیداوار میں کثرت ہوتی ہے‘ تعلیم میں کامیابی ہوتی ہے‘ ملازمت ملتی ہے یا اس میں ترقی ہوتی ہے‘ نکاح و شادی ہوتی ہے‘ بیٹا تولد ہوتا ہے‘ ختم قرآن ہوتا ہے‘ حج و عمرے کی ادایگی ہوتی ہے یا کوئی اور خیروبھلائی نصیب ہوتی ہے‘ تو ہدیہ تبریک پیش کرکے دعا دی جاتی ہے۔

مسلم معاشرے میں عموماً بہت سی دعائیںاور دعائیہ کلمات غیرشعوری اور غیرارادی طور پر کہے جاتے ہیں اور کہتے وقت ان کے معانی و مفاہیم کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے ہی یہ کلمہ بھی بول دیا جاتا ہے۔ پھر شکوہ یہ کیا جاتاہے کہ آج کل ہمارے ہاں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ اشیا سے برکت نکل گئی ہے اور بے برکتی رہ گئی ہے۔ اتنے اسباب‘ وسائل‘ مال و متاع اور دھن  دولت ہونے کے باوجود برکت نہیں رہی ہے۔

برکت کا نزول کیسے ہو‘ اس دعا کے اثرات کیسے ظاہر ہوں‘ جب کہ اس دعائیہ کلمے کے نہ معنی معلوم ہیں اور نہ مفہوم ذہن میں آتا ہے اور نہ اس کا دائرۂ اثر اور ہمہ گیریت پیش نظر ہوتی ہے۔ صرف رسم کے طور پر کہہ دیا جاتا ہے‘ نیز یہ دعائیہ کلمہ کہتے وقت دل کا شعور و احساس بھی ناپید ہوتا ہے‘ جب کہ دعا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعور و احساس اور توجہ سے کی جائے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غافل دل سے دعا قبول نہیں فرماتے۔

یہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اہم دعائیہ کلمے کے معنی‘ مفہوم‘دائرۂ اثر اور اس کی اہمیت اور لغت میں اس کے استعمال کے بارے میں مختصر سا تذکرہ کیا جاتاہے تاکہ ہر مسلمان اسے شعور و احساس کے ساتھ بولے اور اس کے مفہوم کو سامنے رکھ کر دعا کے طور پر ادا کرے۔

برکت کے لغوی معنی اور استعمال

برکت کے معنی اور استعمال کے بارے میں لغت کی ضخیم ترین اور اساسی کتاب  لسان العرب میں اس کلمے پر چار صفحات میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

یہ کلمہ ثلاثی مجرد باب‘ ن سے ہے جیسے بَرَکَ یَبْرُکُ جم کر بیٹھنا۔البتہ اس باب سے بہت کم استعمال ہوا ہے لیکن باب مفاعلہ (مبارکۃ) سے کسی قدر زیادہ‘ باب تفاعل سے اور زیادہ آیا ہے اور باب تفعیل اور افتعال سے بھی استعمال ہوا ہے۔ باب تفعیل سے تبریک کے معنی ہیں انسان وغیرہ کے لیے برکت کی دعا کرنا‘ جیسے بَرَّکْتُ علیہ تبریکًا اے قلتُ لہ بارک اللّٰہ علیک وبارک اللّٰہ الشی ٔ وبارک فیہ وعلیہ، یعنی اس میں اللہ تعالیٰ برکت کرے۔

یہ کلمہ جب جملے میںفعل بن کر استعمال ہو تو صلے کے بغیر بھی آتا ہے اور عَلٰی فِیْ،اور لِ کے صلے سے بھی آتا ہے جیسے اللھم بارک علی محمد، ابترک الفرس فی عدوہ، گھوڑا اعتماد سے اور جم کر چلتا رہا۔ ابترکوا فی الحرب یعنی جنگ میں سواریوں پر جم کر بیٹھے۔ باب مفاعلۃ اور تفاعل سے بھی آتا ہے جیسے بارکنا حولہ ہم نے اس کے ارد گرد برکت کی۔ تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآئِ بُرُوْجًا (الفرقان ۲۵:۶۱) بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔

اصحابِ لغت جیسے ابن منظور نے لسان العرب میں‘ زمخشری نے اساس البلاغہ میں اور عبدالرحمن کیلانی نے اپنی مشہور کتاب مترادفات القرآن میں مثالیں دے کر اس کے پانچ معنی لکھے ہیں۔

۱-  نمو، افزایش اور بڑہوتری: وَقَالَ الزُّجَاجُ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبَارَکٌ (الانعام ۶:۱۵۵) قال المبارک ما یأتی من قبلہ الخیر الکثیر۔ زراعت میں فصلوں‘ پھلوں کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ اس سے مراد اُن کا بڑھنا‘ پھلنا پھولنا اور زیادہ اناج دینا ہے۔

۲- عُلو، رفعت اور بلندی: قال الازہری معنی برکۃ اللّٰہ، علوہٗ علی کل شی ئٍ وقال ابوطالب ابن عبدالمطلب: بورک المیت الغریب کما بورک نضح الرُّمان والزیتون۔ ’’مسافر میت کے درجات بلند ہوں جیسے زیتون اور انار کے درخت مناسب برسات سے بلند ہوتے ہیں‘‘۔

۳- ثبات‘ دوام اور بقا: فی الحدیث الصلاۃ علی النبی علیہ السلام وبارک علی محمد وعلٰی آلِ محمد اے ۔۔۔۔۔۔ اَثبت واَدِم ما اعطیتہ من التشریف والکرامۃ، یعنی جو شرف و بزرگی تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم کو عطا کی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل کو ہمیشہ کے لیے اور دائمی عطا کر۔ یہ معنی اور استعمال اس عوامی عربی محاورے سے ماخوذ ہے بَرَکَ الْبَعِیْرُ۔ جب اونٹ باڑے میں اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ جائے۔

۴- خیر و بہلائی میں کثرت و زیادتی:  قال ابن عباس معنی البرکۃ الکثرۃ فی کل خیر۔ ہر قسم کی خیر میں کثرت ہو یعنی مادی اور معنوی خیر و بھلائی کی کثرت ہو۔

حدیث ام سلیم میں ہے: فحنکہ وبرک علیہ اے دعا لہ بالبرکۃ، اس برکت سے مادی و روحانی اورظاہری اور معنوی دونوں قسم کی برکتیں شامل ہیں۔

۵-  سعادت و خوش بختی:  فرّاء مشھور نحوی ولغوی نے رحمتہٗ وبرکاتہٗ سے مراد سعادت و نیک بختی لی ہے۔ ابومنصور نے تشہد کے کلمات اوردعا پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے: ایُّھَا النبی ورحمۃ اللّٰہِ وبرکاتہ لان من اسعدہُ اللّٰہُ بمَا اسعد بہ النبی فقد نال السعادۃ المبارکۃ الدائمۃ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ وہ سعادت بخشے جو اپنے نبی کو بخشی ہے تو اس نے دائمی نیک بختی پالی۔

ان تمام معانی کا مجموعہ رمضان کے مہینے کوحدیث سلمان فارسی میں شھرمبارک قرار دینے میں پایا جاتا ہے۔ ایک بزرگ تحریر کرتے ہیں: آدمی کا وقت‘ پیسہ‘ محنت اور عبادات ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہو جائے‘ تھوڑے پیسوں میں زیادہ ضروریات پوری ہو جائیں‘ تھوڑی محنت سے کامیابی حاصل ہو جائے‘ تھوڑی عبادت سے اللہ تعالیٰ زیادہ ثواب عطا فرما دیں اور اللہ تعالیٰ ایسے کام کروا لیں جس سے اللہ کی مخلوق کو یا اس کے دین کو زیادہ نفع پہنچ جائے۔

کتاب اللّٰہ اور برکت کا کلمہ

قرآن مجید میں بَرَکَ کے مادے اور مصدر سے یہ کلمہ اسم و فعل کی صورت میں ۳۲ مرتبہ آیا ہے۔ ان میں اسم کی صورت میں ۱۷ مرتبہ اور فعل کی شکل میں ۱۵ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ افعال میں باب نصر‘ ینصر‘ باب مفاعلہ (مبارکۃ) اور باب تفاعل تبارک سے صیغے آئے ہیں۔

قرآن مجید میں آمدہ کلمات کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں یہ پانچوں معانی پائے جاتے ہیں تاہم روحانی اور معنوی معانی کا غلبہ ہے اور دو تہائی کلمات میں دونوں مفاہیم (روحانی و مادی‘ ظاہری و معنوی) موجود ہیں یعنی حسی و مادی برکہ اور روحانی و معانی برکہ۔ صرف دو کلمے ایسے ہیں جن میں مادی و حسی معانی کا مفہوم واضح ہے۔ اور ایک تہائی کے قریب ایسے کلمات ہیں جن میں صرف روحانی اور معنوی معنی ہی پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ صیغے اور کلمات ہیں جن کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرف کی گئی ہے۔ نوصیغے باب تفاعل سے آئے ہیں‘ جیسے اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo (اعراف ۷:۵۴) یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام برکات کا منبع ہے اور دوسروں کو برکت عطا کرنے والی ہے۔ اس کے بعد باب مفاعلہ سے آٹھ صیغے آئے ہیں جیسے سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّن الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ  الْاَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱) ان تمام صیغوں میں برکت عطا کرنے کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات برکت عطا کرنے والی ہے اس کے علاوہ کوئی برکت عطا کرنے والا نہیں ہے۔ اس باب سے اسم اور مفعول کے ۱۲ صیغے آئے ہیں جیسے مبارک‘ مبارکۃ ان تمام میں برکت عطا کرنے‘ ان میں برکت رکھنے اور ان کو مبارک بنانے والی اللہ ہی کی ذات ہے۔ باقی تین صیغے برکۃ کی اسم جمع برکات کے ہیں۔

برکت کے تمام کے تمام کلمات یہ ظاہر اور واضح کرتے ہیں کہ برکت عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے سوائے کوئی ہستی ایسی نہیں ہے کہ برکت عطا کرے۔ اس لیے اس دعائیہ کلمے کی نسبت اللہ کی طرف ہی کرنی چاہیے اور اسی سے برکت طلب کرنی چاہیے۔ لہٰذا عام طور پر دعا میں برکاتہٗ (اللہ کی برکتیں) ہی کہا جاتا ہے ۔ اُردو میں ایسے موقعے پر اللہ برکت دے‘ برکتیں عطا کرے‘ مبارک ہو یعنی اللہ کی طرف سے برکتیں ہوں۔ کوئی شخص کھانے پینے کی دعوت دے تو جواب میں کہا جاتا ہے اللہ برکتیں دے اور برکتیں عطا کرے‘ اللہ بخش دے‘ اللہ بہت دے وغیرہ یا ایسے ہی دوسرے جملے اور فقرے کہے جاتے ہیں۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کامل بابرکت ہے۔ لہٰذا اللہ کی طرف اس کی نسبت کرنے کے معانی و مفاہم یہ ہوں گے کہ وہی ذات بلندو بالا اور قائم و دوائم ہے اور خیروبھلائی دیتی ہے۔ سعادت و بھلائی اس کی طرف سے آتی ہے۔

مختلف مفسرین کی نظر میں

ذیل میں نمونے کے طور پر چند متداول تفاسیر سے برکت کے معنی اور مفہوم پیش کیے جارہے ہیں۔ سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں آمدہ کلمہ وَبَارَکْنَا حَوْلَہٗ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے اس طرح بیان کیا ہے۔

  • تفسیر ابن کثیر: بَارَکْنَا حَوْلَہٗ ،’’اس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ پھل‘ پھول‘ کھیت اور باغات وغیرہ‘‘۔ (ج۳‘ ص ۱۶۶‘ ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑھی)
  • تفسیر معارف القرآن (مفتی محمد شفیع)ؒ، ’’بیت اللہ کی برکات: وہ مبارک ہے۔ لفظ مبارک برکت سے مشتق ہے۔ برکت کے معنی ہیں بڑھنا اور ثابت قدم رہنا۔ پھر کسی چیز کا بڑھنا اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا وجود کھلے طور پر مقدار میں بڑھ جائے اور اس طرح بھی کہ اگرچہ اس کی مقدار میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو‘ لیکن اس سے کام اتنے نکلیں جتنے عادۃً اس سے زائد سے نکلا کرتے ہیں۔ اس کو بھی معنوی طور پر زیادتی کہاجا سکتا ہے۔

اس کے بعد مفتی محمد شفیعؒ نے اس کی ظاہری برکتیں گنوائی ہیں: ’’اس بے آب و گیاہ خطے میں پھلوں‘ سبزیوںاور دوسری خوراک کی ضروریات مہیا ہوتی ہیں اور لاکھوں انسانوں اور حج و عمرہ کرنے والوں کے لیے باافراط موجود ہوتی ہیں اور کسی صورت میں کم نہیں ہوتیں‘‘۔ قرآن مجید نے اس برکت کو یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْ ئٍ (جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں۔ القصص ۲۸:۵۷) سے بیان کیا ہے۔

معنوی اور باطنی برکات تو بے شمار ہیں جیسے حج و عمرہ اور دوسری عبادات کا اجر تعداد میں ایک لاکھ تک بڑھ جانا‘ مومن کا گناہوں سے پاک ہونا اور گناہوں سے محفوظ رہنا وغیرہ۔ (ج ۲‘ ص ۱۱۷)

مسجداقصیٰ اور ملک شام کی برکات بیان کرتے ہوئے مفتی صاحبؒ لکھتے ہیں: اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اور بہت سے انبیا کا مسکن و مدفن ہے‘ اور دنیاوی برکات میں اس کی سرزمین کا سرسبز ہونا اوراس میں عمدہ چشمے‘ نہریں اور باغات وغیرہ کا ہونا ہے‘‘۔ (ج ۵‘ ص ۴۴۳)

  • فی ظلال القرآن: اَلَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ، ’’جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد پر ہر وقت برکت اِلٰہیہ کا فیضان ہوتا رہتا ہے اور وہ اس میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے‘‘۔ (ج ۳‘ ص ۲۶۹‘ ترجمہ: معروف شاہ شیرازی)
  • تفھیم القرآن: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق اِسی کعبے کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینے کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسرآجاتا تھا۔ پھر ابھی نصف صدی قبل ابرہہ کی فوج قہرِالٰہی کاشکار ہوئی۔ (اٰل عمران ۳:۹۶)
  • تدبر قرآن: مولانا امین احسن اصلاحی کے نزدیک یہ اسی زمین کی روحانی و مادی دونوں قسم کی زرخیزیوں کی طرف اشارہ ہے۔ قدیم صحیفوں میں اسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا گیا ہے‘ جو اس کی انتہائی زرخیزی کی تعبیر ہے۔ روحانی برکات کے اعتبار سے اس کا جو درجہ تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جتنے انبیا کا مولد و مدفن ہونے کا شرف اس سرزمین کو حاصل ہوا کسی دوسرے علاقے کو حاصل نہیں ہوا (ج ۳‘ ص ۴۷۴)
  • ضیاء القرآن: پیر کرم شاہؒ کی نظر میں اس کی برکتوںکا کیا کہنا‘ اس میں نماز پڑھی جائے تو لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے۔ ایک ختم قرآن کیا جائے تو لاکھ کا ثواب ملتا ہے۔ نیز اس کا حج و عمرہ کرنے والوں‘ اس کے گرد طواف کرنے والوں پر اللہ کی رحمت کی جو بارش برستی ہے اس کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے۔ (ج ۱‘ ص ۲۵۵)
  •  تفسیر عثمانی: (شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ و مولانا شبیراحمد عثمانیؒ) ۱- یعنی جس ملک میں مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت سی ظاہری و باطنی برکات رکھی ہیں۔ مادی حیثیت سے چشمے‘ نہریں‘ غلے‘ پھل اور میووں کی افراط اور روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیا و رسل کا مسکن و مدفن اور ان کے فیوض و انوار کا سرچشمہ رہا ہے۔ (بنی اسرائیل ۱۷ حاشیہ۳)

۲- وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف ۷:۹۶) ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم کھول دیتے ان پر نعمتیں آسماں اور زمین سے لیکن جھٹلایا انھوں نے۔ پس پکڑا ہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے‘‘۔

مولانا اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اگر یہ لوگ ہمارے پیغمبروں کو مانتے اور حق کے سامنے گردن جھکاتے اورکفروتکذیب وغیرہ سے بچ کر تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کو آسمان و زمین کی برکات سے مالا مال کر دیتے۔ امام رازیؒ نے فرمایا کہ برکت کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ کبھی تو خیر باقی و دائم کو برکت سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی آثارِ فاضلہ پر اس لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایمان وتقویٰ اختیار کرنے پر ان آسمانی و زمینی نعمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے جو دائمی و غیرمنقطع ہوں یا جن کے آثار فاضلہ بہت کثرت سے ہوں۔ (تفسیر عثمانی ‘ الاعراف ۷‘ ص ۲۱۶‘ حاشیہ ۳)

برکت کا کلمہ اور احادیث

احادیث میں یہ کلمہ کثرت سے مذکورہ بالا اپنے معانی و مفاہیم میں دعا کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ نبی کریمؐ نے مختلف افراد و اشخاص‘ خاندانوںاور گھرانوں‘ اعمال و افعال اور باغات واشیا کے لیے دعا میں اسے استعمال فرمایا ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں ملاحظہ کریں۔

التحیات (تشہد) میں فرمایا گیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ آپؐ نے سلامتی و رحمت اوربرکات کی سعادت کو نیک و صالح مومنوں کی طرف بڑھا دیا۔ چنانچہ ابومنصور نے کہا: مومن بندوں کی طرف سے آپؐ کے لیے دعا کا جواب آپؐ نے یہ دیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔’’وہی سلام و برکت ہم پر ہے وہ اللہ کے صالح بندوں پر بھی ہو‘‘۔ یہاں برکتوں سے مراد سعادت و خوش بختی اور دوام و ثبات ہے‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نمازی کو درود ابراہیمی میں آپؐ اور آپؐ کی آل اولاد کے لیے ایسی برکت کی دعا کی تلقین کی جیسی برکت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل و اولاد‘ ان کی دعوت و تبلیغ اوراللہ کی راہ میں قربانیوں میں اللہ تعالیٰ نے عطا کی۔ اس سے برکت کے دائرے‘ وسعت اور ہمہ گیریت کا اندازہ ہوتا ہے۔

آپؐ نے ماہِ رمضان کو شھرمبارک (برکتوں بھرا مہینہ) فرمایا۔ اس کا مفہوم ہم نے اوپر بیان کیا ہے‘ اسے ملاحظہ کرلیں۔

آپؐ نے حضرت عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہما کی کھجوروں کے کھلیان میں برکت کے لیے دعا کی تو ان میں اتنی برکت (خیروکثرت) آئی کہ اس سے ان کا قرض ادا ہوگیا اور ان کے کھانے کے لیے اتنی بچ گئیں جتنی ہر سال بچتی تھیں‘ جب کہ درخت وہی تھے اور پیداوار بھی ہرسال جتنی ہی تھی۔

ایسے سیکڑوں واقعات مروی ہیں کہ آپؐ  نے کسی کے مال‘ جان‘ صحت اور اولاد کے لیے برکت کی دعا دی اور اس سے ان میں معنوی و حسی اورمادی برکات شامل ہوگئی اور اشیا ظاہری و معنوی دونوں حیثیتوں سے بڑھ گئیں۔ ان میں ثبات آگیا اور درختوں و پھلوں میں نشوونما زیادہ ہوگئی۔ ایک مثال حضرت سلمان فارسیؓ کے باغ کی ہے جس میں آپؐ نے صحابہؓکے ساتھ مل کر کھجوروں کے ۳۰۰ پودے لگائے۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ کھجور کا ایک پودا بھی ضائع نہیں ہوا۔ یہ آپؐ کی برکت تھی۔ آپؐ کی برکت کے اثرات وثمرات کے واقعات احادیث میں بہت زیادہ ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے جن دعائوں کی تعلیم دی اور جو دعائیہ کلمات سکھائے ان میں ایک کلمہ برکت کا ہے۔ چنانچہ کھانے کے بعد کی یہ دعا سکھائی: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَاَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْـہُ۔(ترمذی)۔ میزبان کے لیے دعا: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَھُمْ فِیْمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْلَھُمُ وَارْحَمْھُمْ ، نیا پھل دیکھنے پر اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ ثَمَرِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ حَدِیْقَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا اور دودھ یا دوسرا مشروب پیے تو یہ دعا کرے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِنْـہُ (ترمذی)۔ کھانے میں عام طور پر دونوں پہلو پیشِ نظر ہوتے ہیں: ۱- کھانے میں مادی برکت‘ ۲-روحانی و معنوی برکت۔ اسی لیے  برکت کی دعا کی تعلیم دی گئی۔

برکت کے لیے چند آداب

برکت کا کلمہ دعائیہ کلمے اور دعا کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے تو ہمیں اپنی دعائوں میں اس کے معانی و مفاہیم کو دعا کرتے وقت سامنے رکھنا چاہیے اور دعا کی شرائط و آداب کا پوری طرح لحاظ رکھنا چاہیے‘ چاہے انسان خود اپنے لیے دعا مانگ رہا ہو یا کوئی دوسرا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے دعا کر رہا ہو۔ ہر حالت میں دعا کے شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

آج عام تصور اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے اعمال و افعال اور اشیا سے برکت اٹھ گئی ہے اور بے برکتی گھر کر آئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برکت کا حقیقی تصور ہم سے اوجھل ہوگیا ہے اور یہ کلمہ صرف رسمی اور لفظی بول کے طور پر ہی بولا جاتا ہے۔ جسم اور تلفظ موجود ہے لیکن روح  معدوم و مفقود ہے۔ ایک رسم ہے جو مبارک باد یا برکت کے کلمات بول کر ادا کی جا رہی ہے۔ بقول شخصے ’مسلمان اندر کتاب و مسلمانان اندر گور‘ کے مطابق برکت کے معنی اور مفہوم کتابوں میں اور وہ بھی پرانی کتابوں میںاور حقیقی برکت کی دعا کرنے والے قبروں میں جاپہنچے اور     ہم بے برکتی کا شکوہ کرنے والے رہ گئے ہیں۔ برکت کی دعا کرتے وقت اس کے آداب میں درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے۔

  • ارادہ: دعا کرتے وقت دعا کا ارادہ اور اس کا تصور اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ صحابہ کرام اور صلحاء اُمت کی دعا کی کیفیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
  • اخلاص: جس کام کے لیے دعا کر رہے ہیں‘ جس بھائی کے لیے دعا مانگ رہے ہیں اس میں اخلاص بنیادی شرط ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بیرونی حالت اور الفاظ تو دعائیہ ہوں اور دل میں اس شخص سے یا اس دعا سے اخلاص نہ ہو‘ اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (دین خیرخواہی کا نام ہے)۔
  • معانی ومفھوم کا لحاظ: دعائیہ الفاظ کے معنی اور مفہوم کو سامنے رکھنا چاہیے۔ شعور واحساس کے ساتھ دعاہو۔ جب کسی کی برکت کے لیے دعا مانگ رہے ہوں یا مبارک باد دے رہے ہوں تو برکت کے مادی و حسی اور معنوی و روحانی تصور کو مستحضر کرنا چاہیے۔

آج ہماری دعائوں کے بے اثر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے معانی و مفاہیم کا کوئی شعور نہیں ہوتا۔ صرف طوطے کی طرح چندبول بولے جاتے ہیں اور ان کے معانی پر دل و دماغ کو مرکوز نہیں کیا جاتا۔

  • دعا کی قبولیت کا یقین: ہر دعا کی قبولیت کے نتیجے میں چار میں سے کوئی ایک صورت ضرور سامنے آتی ہے‘ البتہ یہ ضروری ہے کہ دعا میں اوپر بیان کردہ شرائط لازماً موجود ہوں۔ اگر شرائط پوری نہ ہوں تو دعا رد کر دی جاتی ہے اور وہ صرف الفاظ کا مجموعہ ہوگا۔

چار صورتیں یہ ہیں: دعا اپنی اصل حالت میں قبول ہوجاتی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے وہی مل جائے۔ دوم یہ کہ دعا کرنے والے سے‘ اس پر آنے والی کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے۔ سوم یہ کہ اس دعا پر کوئی اور عطیہ مل جائے اور چہارم یہ کہ اسے آخرت کے لیے اس کے نامۂ اعمال میں نیکی کے طور پر ذخیرہ کر دیا جائے۔ ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی دعا جو شرائط و آداب کے ساتھ کی جائے وہ ضائع نہیں جاتی۔ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں وہ دعائیں قبول ہوتی ہیں جو سنت رسولؐ کے مطابق اور اس کے دائرے میں رہ کر کی جائیں۔

  • دعا کے کلمات: یہ کلمے سادہ‘ صاف ہوں اور جس زبان میں کی جا رہی ہو اس کی فصاحت و سلاست اور شستہ زبان سے آدمی دعا کرے۔ تُک بندی‘ قافیہ بندی اور گفتگو میں تکلف نہیں ہونا چاہیے۔
  • دعا‘ کس کے لیے: دعا صرف جائز‘ حلال اور مباح چیزوں اور باتوں کے لیے کی جائے۔ حرام‘ ناجائز اور شرعاً ممنوع باتوں کے لیے نہ کی جائے اس لیے کہ حرام کی کمائی جو ناجائز طریقے سے کمائی جائے یا اس کے کمانے اور کاروبار کرنے میں ناجائز حربے اور حیلے اختیار کیے جائیں تو اس میں برکت نہیں آتی بلکہ جو برکت ہے وہ بھی اٹھ جاتی ہے۔

اکثر تاجر اور دکان دار‘ اشیا کی قیمت اور سامان کی اصلی قیمت بتانے میں جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تجّار کو اس سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے: ’’جھوٹی قسموں سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے لیکن اس مال سے ہونے والی کمائی سے برکت اُٹھ جاتی ہے‘‘۔(صحیح بخاری‘ مسلم‘ ابوداؤد اور ترمذی)

حرام اور ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت سے روحانی برکت تو چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں سے خیروبھلائی ختم ہوجاتی ہے اور ڈھیروں دولت اور کروڑوں روپے موجود ہونے اورزندگی کے عیش و عشرت کے تمام اسباب مہیا ہونے کے باوجود زندگی میں سکون و اطمینان‘ سُکھ و راحت حاصل نہیں ہوتی‘ آل اولاد میں فرمانبرداری و اطاعت نہیں رہتی‘ نیکی کے کاموں کی توفیق نہیں ہوتی اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اور آخرکار اس سے مادی و ظاہری برکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی تشریح ایک حدیث مبارک میں اس طرح آئی ہے۔ حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجارت میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے پہلے تو کامیابی ہوتی ہے لیکن پھر بے برکتی ہوجاتی ہے (صحیح مسلم‘ نسائی اور ابن ماجہ)۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کے لیے برکت کی دعا اور مبارک باد صرف جائز‘ پاکیزہ اور مباح باتوں‘ کامیابیوں اور نعمتوں پر دی جائے گی۔

آج ہمارے معاشرے میں عام طور پر ان باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا اور ہر جائز و ناجائز‘ کامیابی اور حلال و حرام طریقے اور ذریعے سے حاصل شدہ بات پر خیروبرکت کی دعائیں دی جاتی ہیں اور مبارک باد کے ڈونگرے برسا دیے جاتے ہیں۔ یہ بات شرعی‘ اخلاقی اور عقلی لحاظ سے غلط ہے۔ برکت‘ ہدیۂ تبریک اور مبارک باد کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی مدنظر رہے کہ یہ کلمہ اسلامی شعار اور مسلم ثقافت کی علامت ہے۔ لہٰذا اسے سنجیدگی اور وقار اور کسی قابلِ قدر بات‘ کامیابی اور حصولِ نعمت کے موقعے پر ہی بولنا چاہیے۔ اسے مذاق بنالینا‘ مذاق کے طور پر استعمال کرنا اور معمولی یا غیر اہم باتوں پر موقع بے موقع بولنا درست نہیں ہے۔

اگر ہم برکت کے اس تصور کو سامنے رکھیں اور یہ یقین ہو کہ برکت عطا کرنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے‘ اس لیے نسبت بھی اسی سے ہو‘ اسی کی رضا کو پیش نظر رکھا جائے‘ اور   دین و ایمان کے عملی تقاضے بھی پورے کیے جائیں تو جہاں انفرادی زندگی میں خدا کی برکات کو محسوس کیا جا سکے گا‘ وہاں اجتماعی زندگی میں اور اُمت کی سطح پر دیگر برکات و ثمرات کے علاوہ   غلبہ و سربلندی بھی میسرآسکے گی۔ ان شاء اللہ!

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

حج عبادات میں اس لحاظ سے زیادہ نمایاں ہے کہ یہ کئی عبادات کو جمع کرتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ واحد عبادت ہے جو انسان کے روحانی‘ مالی اور بدنی‘ تینوں پہلوئوں پر مشتمل ہے۔ یہ خصوصیات نماز‘ روزہ اور زکوٰۃ میں یکجا نہیں ملتی ہیں۔

حج میں آدمی بیت اللہ کا سفر کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی مکمل روحانی اصلاح ہوجائے۔ اس سفر کا آغاز وہ مکمل طور پر اپنے رب کی طرف لوٹ آنے کے اعلان سے کرتا ہے۔ اگر کسی نے اس پر ظلم کیا ہوتا ہے تو وہ انتقام کے بجاے اس معاملے کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے۔ اپنے تمام حسابات کا تصفیہ کر کے اپنے اہل و عیال کے لیے نفقے کا اہتمام کرتا ہے‘ تاکہ اس کی واپسی تک اُن کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی خیال رکھتا ہے کہ اس کا مال حلال اور پاک ہو‘ نیز اس دوران وہ اپنے بارے میں یا فقرا و مساکین پر خرچ کرنے میں  بخل میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کے لیے میدان جنگ میں آجاتا ہے اور اس واقعے کی یاد تازہ کرتا ہے جب حضرت ابراہیم ؑاور ان کی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل ؑنے شیطان کے وسوسوں اور اکساہٹوں کے باوجود اپنے رب سے وفا کرتے ہوئے قربانی کا نذرانہ پیش کیا۔

اس طرح حاجی اپنی اس عبادت کے دوران کئی پہلوئوں سے تربیت حاصل کرتا ہے‘ جن میں توبہ‘ انفاق‘ سخاوت‘ سچائی‘ بھلائی‘ احسان اور صبرنمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ نیز وہ حرص اور بخل جیسی بری عادتوں سے بھی چھٹکاراحاصل کرلیتا ہے۔

فریضۂ حج مسلمانوں پر فرض ہونے والی آخری عبادت ہے۔   اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا -

لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔(اٰل عمرٰن۳:۹۷)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟آپؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا۔پوچھا گیا کہ اس کے بعد؟ فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ۔پوچھا گیا: اور اس کے بعد؟فرمایا: حج مبرور‘ یعنی مقبول حج ۔

حج‘ ماہ رمضان کے بعد ادا کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی تربیت دیتا ہے۔ اس کے فوراً بعد حج کا حکم اس حکمت کے تحت دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے اخلاقی اور اجتماعی اقدارکے نظام کا تسلسل جاری و ساری رہے‘ اور ان کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کا جو سلسلہ رمضان کے روزوں اور قیام اللیل کے ذریعے شروع ہوا تھا‘ وہ مسلسل جاری رہے۔

قرآن کے پیش نظر مقصد

قرآن پاک کے تربیتی نظام کے مطابق جس طرح رمضان میں برے اعمال سے چھٹکارے اور روحانی پاکیزگی کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے‘ اسی طرح حج کے مہینوں میں عملی طور پر انسان کی ذات اور اس کے نفس کی اصلاح اور تزکیہ و تربیت کو خصوصی ہدف بنایا جاتا ہے‘ تاکہ اسے ظلم و زیادتی اور گناہ کے کاموں میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔ خصوصاً‘ جب کہ ان حرمت والے مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے بے گناہوں کی جان کی حفاظت کے پیش نظر قتل و غارت کو حرام ٹھیرایا ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں انسانی جان کے تقدس و حرمت کا جذبہ بیدار کرتا ہے‘ اور یہ واضح کرتا ہے کہ برے اعمال سے اپنی حفاظت اور اچھے اعمال سے اپنے آپ کو مزین کرنے اور اپنی ذات کے تزکیہ و تربیت کے حوالے سے حج کا کیا مقام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍیَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۱۹۷)

حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے‘ اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل‘ کوئی بدعملی‘ کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو اور جو نیک کام تم کرو گے‘ وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِحج کے لیے زادِراہ ساتھ لے جائو‘ اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ شوال‘ ذوالقعدہ اور ذوالحج کا پہلا عشرہ حج کے مہینے ہیں۔

کسی مقام یا زمانے کو محترم قرار دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان افہام و تفہیم‘ باہمی تعاون‘ چشم پوشی اور الفت و محبت جیسی اقدار کو اپنانے اور غیظ و غضب‘ لڑائی جھگڑے‘ بغض و حسد‘ مخالفت اور تفرقہ بازی جیسے رذائل سے اپنے دامن کو بچائے رکھنے کی تربیت حاصل کریں۔ اس کے نتیجے میں اس مخصوص مدت میں اور مخصوص مقامات پر میسر امن و سکون کے لمحے ہمیں اپنی زندگی کی حقیقی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

آج مسلمان ان اخلاقی قدروں کے ذریعے تربیت حاصل کرنے کے بے حد محتاج ہیں کیونکہ اس وقت ہماری صفوں میں افتراق و انتشار اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ آج امت مسلمہ جس پستی و انحطاط سے دوچار ہے‘ اس سے نجات کے لیے دینی اقدار سے آراستہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں۔

تربیت کا سفر

حج کے موقع پر اس اہم ترین اجتماع کے دوران‘ جس میں پوری دنیا سے آئے ہوئے عازمینِ حج کلمہ توحید کے جھنڈے تلے ایک سالانہ کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں‘ سب اس بات پر خوشی سے سرشار ہوتے ہیں کہ اُن کا تعلق عقیدۂ توحید پر ایمان رکھنے والی ایک اُمت سے ہے اور اُن کا یہ اجتماع اُن کی مقدس سرزمین میں منعقد ہو رہا ہے۔ قرآن کے نظامِ تربیت کے تحت اس سالانہ اجتماع کا ایک مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو عقیدئہ توحید سے وابستگی‘ اور اللہ کے لیے محبت کی بنا پر اپنے مقامی ماحول‘ مسائل اور سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں باہمی مشاورت‘ بحث و مباحثے ‘ تبادلۂ خیال اور باہمی تعارف و قربت کا موقع فراہم کیا جائے۔

  • بنیادی اخلاقی اقدار کی نشوونما: یہ ایک ایسا فریضہ ہے جس سے بڑی بنیادی تربیتی اقدار کی نشوونما ہوتی ہے‘ مثلاً زادِراہ ساتھ لینے سے آخرت کی تیاری کی فکر بھی پیدا ہوتی ہے۔ اپنے ملک کو چھوڑنے سے ہماری توجہ اس طرف مبذول ہوتی ہے کہ ایک دن دنیا کو بھی چھوڑنا ہے‘ اور احرام پہننا آدمی کو کفن کی یاد دلاتا ہے۔ الغرض تمام مناسکِ حج مومن کو کسی نہ کسی اخلاقی اور اجتماعی قدر کی تربیت دیتے ہیں۔ احرام کی سفید چادریں موت کی یاد کے ساتھ ساتھ اسے اس طرف بھی متوجہ کرتی ہیں کہ وہ ناجائز خواہشات سے بھی اس طرح الگ ہو جائے جس طرح اس نے روز مرہ استعمال کا لباس اتار دیا ہے۔ اس سے آدمی کو یہ تربیت بھی ملتی ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرے‘ اس کی طرف پختہ ارادے کے ساتھ رجوع کرے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں‘ نعمتوں اور کائنات پر غوروفکر کی طرف توجہ دے۔ لباس کو اتارنا اس بات کی بھی تعلیم دیتا ہے کہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جو دنیا کے ہر سازوسامان سے بے نیاز ہوجانے والی ہے‘ نیز لباس کی یکسانیت مومن کو اپنے بھائیوں کے ساتھ مساوات کا درس بھی دیتی ہے۔
  • خطاؤں کی بخشش: حج کے اجتماع سے مومن یہ تربیت بھی پاتا ہے کہ وہ برائیوںاور گناہوں سے پاک ہو۔ خصوصاً جب وہ ایک عظیم الشان مجلس میں انسانوں کے جمِ غفیر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتا ہے تو یہ اسے قیامت کی یاد دلاتا ہے جب وہ میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب کتاب کے لیے کھڑا ہوگا۔ حج کے دوران آدمی اپنے تمام دنیوی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کر کے ایک راہب کی طرح پراگندہ بالوں‘ غبار آلود چہرے اور ایسے فقیرانہ انداز میں اللہ کے سامنے حاضر ہوتا ہے کہ اسے زیب و زینت کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کا اظہار کرتا ہے اور فرماتا ہے : ’’دیکھو میرے بندوں کو وہ پراگندا اور غبار آلود صورت میں دنیا کے کونے کونے سے میرے پاس آئے ہیں۔ تم گواہ رہو کہ میں نے انھیں بخش دیا ہے‘‘۔ اس طرح حاجی گناہوں سے پاک و صاف ہوکر اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کر کے اپنے گھر کو لوٹتا ہے۔
  • امن و سلامتی کی تربیت: احرام میں ملبوس ہونے اور مقدس زمین کی زیارت سے حاجی کو وقار اور سکون کا احساس ہوتا ہے (وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا‘ جو اس میں داخل ہوا‘ مامون ہوگیا۔ اٰل عمرٰن ۳:۹۷)۔ اس سے آدمی کو یہ امید ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے عذاب سے بھی اسی طرح مامون ہوگا۔ اسی طرح انسانوں سے جنگ بندی کا اعلان مومن کو امن و سلامتی کی تربیت دیتا ہے‘ اس لیے وہ دورانِ حج تمام انسانوں کے ساتھ پُرامن رہتا ہے (فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَلا وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ، حج کے دوران میں کوئی شہوانی فعل‘ کوئی بدعملی اور کوئی لڑائی جھگڑے کی بات نہ ہو۔ البقرہ۲:۱۹۷)۔ یہاں تک کہ وہ پرندوں اور دوسرے حیوانات کے ساتھ بھی صلح کا اعلان کرتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ (المائدہ ۵:۹۵) ’’اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو‘‘، بلکہ حالتِ احرام میں حشرات اور درختوں اور پودوں کے ساتھ بھی مصالحت ہوجاتی ہے۔ اس طرح حاجی دو ماہ تک امن کی زندگی کا پابند ہوتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس تربیت کے نتیجے میں حاجی کے اندر اخلاص‘ صبر‘ سچائی‘ پابندی‘ مساوات‘ تقویٰ‘ وفا‘ شکر‘ توبہ اور امن و سلامتی کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔
  • قربِ الٰھی اور خشیتِ قلب:حاجی کا اُونچی آواز سیلَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہنا‘اس کو فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب کا احساس دلاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں تلبیہ کہا کرتے تھے: لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ،’’حاضر ہوں‘ اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں‘ تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘ میں حاضر ہوں۔ تعریفیں اور نعمتیں سب کی سب تیری ہیں ‘ اور بادشاہی بھی تیری ہے‘ تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘‘۔ ہر مقام پر حاجی کا ان الفاظ کو اونچی آواز سے دہراتے چلے جانا‘ اس کو توحید‘ حق کے ببانگِ دہل اعلان‘ مساوات‘ اتحاد اور اسلام کی ’الجماعۃ‘ کے ساتھ جڑے رہنے کی تربیت دیتا ہے۔

بیت اللہ کے طواف کے دوران محدود دائرے میں چکر لگاتے ہوئے حاجی نظم و ضبط کی تربیت بھی حاصل کرتا ہے اور ایمان کی سچائی پر اس کا یقین بھی بڑھتا جاتا ہے‘ اور اس جگہ کی عظمت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کعبے کا غلاف پکڑتا ہے تو اس دوران اسے اللہ کے لیے خشوع اور عاجزی اور اس کے سامنے گڑگڑانے کی تربیت حاصل ہوتی ہے اور اُسے اطمینانِ قلب کی بھرپور کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حجراسود کا بوسہ لیتا ہے تو اس کیفیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ عمل انسان کو اپنے رب کی طرف لوٹنے کا احساس دلاتا ہے اور اس سے انسان میں رب العالمین کے ساتھ قربت کا احساس مزید تقویت پاتا ہے۔ اسی طرح حاجیوں کا حجراسود تک پہنچنے کے لیے بھرپور کوشش اُن کے اندر مشترکہ مقاصد کے لیے پختہ عزم اور بلند ارادوں میں مضبوطی اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد کا احساس پیدا کرتا ہے۔ رنگ و نسل کے اختلاف کے باوجود ایک گھر کی زیارت کرتے ہوئے ‘حرم مکی کے چاروں طرف محبت اور پاکیزگی کا دور دورہ ہوتا ہے جو حاجی کو اس گھر کے رب کی عظمت کے احساس سے سرشار رکھتا ہے۔

  • نسلی تفاخر کا خاتمہ: لاکھوں لوگ گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں اور اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ امیروغریب اور شاہ و گدا‘ سب ایک خدا کے سامنے‘ ایک لباس میں‘ بغیر کسی امتیاز کے آہ و زاری کرتے ہیں۔ اس سے ان کے اندر مساوات اور وحدت کا احساس اجاگر ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی طرح کے مشترک اعمال ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اُن کا عمل ایک ہوتا ہے اور یہ سب اس عمل کو ایک ہی مقصد‘ یعنی رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ادا کرتے ہیں۔ ایک طرح کے الفاظ کو بار بار دہرا رہے ہوتے ہیں‘ ایک گھر کا طواف کرتے ہیں‘ اور ایک ہی رب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس طرح اُن کے درمیان رنگ و نسل اور ملک و قوم کے امتیازات ختم ہوجاتے ہیں۔ فرقہ واریت اور قوم پرستی دم توڑدیتی ہے اور انسانوں کے درمیان مکمل مساوات قائم ہوجاتی ہے۔
  • صبرواستقامت: اس دوران صفا اور مروہ پر سعی کا مرحلہ آتا ہے۔ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑتے ہوئے بندئہ مومن میں نصیحت و تزکیہ‘ تعلیم و تربیت‘ صبرورضا‘ قناعت اور بیداری کی صفات تازہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ اُس وقت اُسے حضرت ہاجرہ کا وہ واقعہ یاد آتا ہے جب وہ سخت گرمی کے عالم میں اپنے پیاسے بچے کے لیے پانی کی تلاش میں پیاس کی شدت سے نڈھال بے قراری سے دوڑی بھاگی پھر رہی تھیں۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے زم زم کا چشمہ جاری و ساری کر دیا۔ انھوں نے اِس پانی سے اپنی اور اپنے بچے کی پیاس بجھائی۔ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے پیاسے مومن کے دل میں ‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی عبادت کی قبولیت اور اس کی رضا اور مغفرت کی نوید الہام کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی حرکت میں تیزی آتی ہے اور پھر وہ دوڑنے لگتا ہے‘ دعا کرتا ہے‘ اللہ کو پکارتا ہے اور اپنے رب کے در پر‘ جب اس کی رحمت اس کو ڈھانپے ہوتی ہے‘ اور مسلسل اس کو تلاش کر رہی ہوتی ہے‘ وہ قیامت کی ہولناکی کو یاد کرتا ہے۔ اس سے آدمی کے اندر زیادہ سے زیادہ صالح اعمال کے لیے مستقل مزاجی‘ تسلسل اور دائمی مشق کی صفات پروان چڑھتی ہیں۔

وقوفِ عرفات : تربیت کا پھلو

عرفات کے میدان میں وقوف کے لیے موجود جمِ غفیر سے یومِ حشر کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ یہاں مخلوقِ خدا بڑی تعداد میں جمع ہوتی ہے‘ اگرچہ ان کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر ہر ایک اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس سے دعائیں مانگتا ہے اور سفید چادروں میں ملبوس سراپا عجز و انکسارہوتا ہے۔ انسانوں کے ہجوم بے کراں میں اور سورج کی تیز شعاعوں کی زد میں ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں۔ پسینہ بہہ رہا ہوتا ہے اور وہ اپنے رب کے آگے تسلیم و رضا کی تصویر بن کر دن بھر اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔

مسجد نمرہ کے مقام پر پہنچتے ہیں تو یہ خیالی منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہیں اور خطبۂ حجۃ الوداع پیش فرما رہے ہیں‘ جس میں وہ مسلمانوں کو خبر دے رہے ہیں کہ ان کا دین مکمل ہوگیا ہے۔ یہ آواز دلوں میں گھر کر جاتی ہے۔ اس سے سفرِحیات کے اختتام کا یقین پختہ ہوجاتا ہے۔ ہر حاجی کی دل کی امنگ ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ بخیر اور حالت ِایمان میں ہو۔

جیسے ہی غروبِ آفتاب کا وقت قریب ہوتا ہے تو حاجی کوچ کی تیاری شروع کر دیتا ہے‘ گویا کہ وہ دنیا کو خیرباد کہہ رہا ہے۔ لوگوں کی دوڑ دھوپ شروع ہوجاتی ہے۔ ہر ایک کو کسی سواری کی تلاش ہوتی ہے تاکہ بَرُّ الأمان میں پہنچ سکے۔ مشعر الحرام سے کنکریاں اٹھا کر آدمی اپنے دل میں یہ عزمِ مصمم لے کر نکلتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے ساتھ وفاداری کرے گا اور اس غلط رسم کو توڑ کر رکھ دے گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَo ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (البقرہ ۲:۱۹۸-۱۹۹) ’’پھر جب عرفات سے چلو تو مشعرِحرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمھیں کی ہے‘ ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو۔ یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

پھر جب حاجی منیٰ میں ٹھیرتا ہے تو اپنے ساتھ جو کنکریاں لے کر آیا ہوتا ہے اُن کے ذریعے شیطان کو مارتاہے۔ گویا ان چھوٹے چھوٹے پتھروں سے وہ اُسے سنگ سار کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن تمام رذائل سے بچنے کی کوشش کرے گا جو شیطان نے انسان کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے حاجی کو سچائی‘ اخلاص‘ نصیحت افروزی اور پختہ ارادے کا درس ملتا ہے۔ وہ اس دوران نفسانی خواہشات اور اس کی شرارتوں کو پاے حقارت سے ٹھکراتا ہے‘ کیونکہ یہی چیزیں افراد اور معاشروں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔

ایک بدلا ھـوا انسان

حاجی کو نفس کی آگ سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے۔ دورانِ حج اس کا نفس اطمینان و سکون اور قناعت کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت انفاق و عطا کے ایک بہتے دریا کی سی ہوتی ہے۔ مسلمان جب اللہ کی راہ میں کوئی تحفہ پیش کرتا ہے تو اس سے قربانی‘ وفاداری‘ ایثار‘ اخلاص اور تسلیم و رضا کی اقدار کو فروغ ملتا ہے۔ وہ جب اللہ کی راہ میں کسی جانور کے گلے پر چھری چلاتا ہے تو جانور کے خون کے گرتے ہی اس کے گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ اس طرح یہ قربانی طہارت وپاکیزگی کے ساتھ قوتِ ارادی کے لیے بھی حجت کا کام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمھارے لیے شعائراللہ میں شامل کیا ہے‘ تمھارے لیے اُن میں بکثرت فوائد ہیں‘ پس انھیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو‘ اورجب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھائو اور اُن کو بھی کھلائو جو قناعت کیے بیٹھے ہیں‘ اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمھارے لیے مسخر کیا ہے‘ تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں‘ نہ خون‘ مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے اُن کو تمھارے لیے اس طرح مسخرکیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ! بشارت دے دے نیکوکار لوگوں کو‘‘۔(الحج ۲۲:۳۶-۳۷)

قربانی کا یہ جذبہ حاجی کو غلط اقدار اور شیطانی وسوسوں اور اقدامات کی بیخ کنی کے لیے قوت اور ہمت عطا کرتا ہے۔ خصوصاً اس وقت‘ جب انسان کا اپنے رب سے قرب و محبت‘ خشوع وخضوع اور اخلاص کا جذبہ اپنی انتہا پر ہوتا ہے۔ اس وقت شر کے مقابلے کے لیے اس کا عزم مزید پختہ ہو جاتا ہے اور وہ آگے بڑھ کر اس کی راہ روکنے کے لیے اپنے اندر قوت محسوس کرتا ہے۔ گویا حج ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کے ذریعے اس مقدس سرزمین میں قیام کے دوران حاجی کے احساسات میں انقلاب آجاتا ہے۔ اس کا دل اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ وہ یہ عزم صمیم لے کر گھر لوٹتا ہے کہ وہ خدا کی نافرمانی‘ گناہوں اور تمام رذائل کو اس طرح چھوڑ دے گا جس طرح اُس نے ارض مقدس میں اپنے رب کے حضور اپنے روز مرہ کے لباس کواتار کر اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیا تھا۔ اس سے اُسے یہ یاد دہانی بھی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کرے گا‘ نیز انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حاجی کو اسلامی جماعت کی قوت کا احساس بھی دلاتا ہے اور اس کے دل میں اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے کا جذبہ بھی بیدار ہو جاتا ہے جس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

حج کے بعد آدمی برائیوں کے میل سے پاک ہو جاتا ہے۔ اس کا دل صدف سے نکلے ہوئے سچے موتی کی مانند شفاف ہوجاتا ہے اور نتیجتاً اس کے کردار میں پاکیزگی و پختگی آجاتی ہے۔ اس کا ارادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس کی روح فتح و کامرانی کے جذبے سے سرشار ہوجاتی ہے جو اس کے حوصلوں اور عزائم کی بلندی کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ جب اس سفر سے واپس لوٹتا ہے تو وہ ایک نیا اور بدلا ہوا انسان ہوتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ حَجَّ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَلَدَتْـہٗ اُمُّہٗ، جس نے حج کیا اور اس میں نہ کوئی شہوانی باتیں کیں اور نہ کوئی نافرمانی کا کام کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی اس کی ماں نے اُسے جنا ہو! (ماخوذ: ماہنامہ الحج والعمرہ‘سعودی عرب‘ جلد۵۸‘ عدد۸‘ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)