ترجمہ: مسلم سجاد
مجھے نوجوانی کی عمر ہی سے ہفتے وار درسِ قرآن میں شریک خواتین کا اللہ سے پورے انہماک سے دعا کرنا کہ ہمیں کعبے کی زیارت، حجراسود کے بوسے اور مدینے میں سلام پیش کرنے کی توفیق دے، اچھا لگتا تھا۔ گو کہ میں ایک مسلمان ملک میں، ایک مسلمان خاندان میں پیدا ہوئی، اور ایک طرح کے دینی ماحول میں پرورش پائی، لیکن افسوس کہ میں نے اتنی شدت سے مکے اور مدینے کی زیارت کے لیے اپنے اندر جذبہ محسوس نہیں کیا تھا اور نہ کبھی میری آنکھوں سے ان مقامات پر جانے کی شدید خواہش سے آنسو اُمڈ آئے۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ میں اس جذبے سے محروم ہوں اور وہ جذبہ ہے: ایک پیاس، ایک تمنّا مکہ کے پہاڑوں کی، اللہ کے گھر کی، مدینے کے راستوں کی اور مسجد نبویؐ کی زیارت کی تمنّا!
۱۸برس کی عمر میں مَیں ایک آئن لائن مدرسے سے وابستہ ہوگئی۔ میں اس کے طلبہ و طالبات کے لیے دل میں بڑی محبت اور احترام محسوس کرتی تھی۔ اس مدرسے کا ایک جز بننے سے میں ایمان بڑھتا ہوا محسوس کرتی۔ میں اپنے فرائض کی ادایگی میں اور تلاوتِ قرآن میں باقاعدہ ہوگئی۔ گویا میں نے ایمان اور پُرخلوص عبادت کی حلاوت کا ذائقہ چکھ لیا لیکن اب بھی جب ان مقدس مقامات کی زیارت کا ذکر ہوتا تو میرے دل میں کوئی خواہش بیدار نہ ہوتی تھی۔
میں اپنے ہم جماعت طلبہ و طالبات کی جذبات سے بھری ہوئی تحریریں نیٹ پر دیکھتی تھی کہ کس طرح وہ ہمارے مولانا جی اور ان کی اہلیہ کے ساتھ عمرے اور حج کے لیے بے چین ہیں اور کس طرح ان کے دل وہاں بار بار جانے کی تمنّا کرتے ہیں، مگر میرا دل ان مقدس مقامات کے امن و سکون اور برکات کے خیال سے بے نیاز ہی رہا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا، جب کہ میں ان مقامات پر کبھی گئی ہی نہیں۔ میں نے اپنے آپ سے سیکڑوں دفعہ سوال کیا اور اپنے کو درست جانا۔
شادی کے بعد ۲۲سال کی عمر میں مجھے وہ بابرکت موقع میسر آیا جس کے لیے ہزاروں ساری ساری عمر دُعا کرتے ہیں۔ ہم عمرہ کرنے جارہے تھے۔ میرے شوہرکا شادی کے بعد پہلا اور میرا اپنی کُل ۲۲سال کی عمر میں پہلا۔ میں اس کے بارے میں کچھ عرصے سے واقف تھی۔ ہم اس کے لیے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ درحقیقت ضمیر ’ہم‘ کا استعمال غلط ہے۔ میرے شوہر کچھ عرصے سے اس کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ میں ان کے منصوبوں کے ساتھ تھی۔ اس لیے نہیں کہ میں جانا چاہتی تھی بلکہ اس خلا کی وجہ سے جو میرے قلب میں ہمیشہ سے تھا۔
جانے کے دن جوں ہی قریب آئے میرے ذہن میں شکوک و شبہات سر اُٹھانے لگے۔ میں کچھ محسوس کیوں نہیں کر رہی؟ یہ بہت مایوس کن تھا کہ میں جوش، جذبے اور اس کے لیے بے چینی کی منصوبہ بندی کی کوشش کروں۔ مجھے وہ سب مواقع یاد آئے جب میں نے سعودی مکہ چینل کو اپنے پسندیدہ چینل کی طرف منتقل کیا۔ چینل سے مجھے درس میں سنی ایک مثال یاد آئی جس میں کسی فرد نے حج کیا لیکن وہ سارے وقت بس کعبہ نہ دیکھ سکا کیوں کہ اس نے کوئی سنگین گناہ کیا تھا۔ میں نے اپنے ان سب گناہوں کو یاد کیا جن کا میں نے ارتکاب کیا تھا اور ہردفعہ دل میں ایک خوف در آیا کہ میرے گناہوں کی وجہ سے اللہ نے مجھے مکہ کی طلب سے محروم کر دیا ہے۔
کہتے ہیں کہ جو دعا آپ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی کرتے ہیں، اس کی قبولیت کی ضمانت دی گئی ہے۔ ایک ایسی دُعا سوچنے کی تلاش (خاندان والوں اور دوستوں کی طرف سے دعائوں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ بے شک میری اپنی دُعائیں بھی تھیں مگر مَیں اب بھی اس خاص دُعا کے بارے میں سوچ رہی تھی جو میں کعبے پر پہلی نظر پڑتے ہی کروں) الٰہ دین کی ان تین خواہشوں کو سوچنے کے مانند تھی جن کو جِنّ بلاشک و شبہہ پورا کردیتے۔ دراصل اسی کوشش میں میرے دل میں جوش کا ایک شعلہ بھڑکا۔ یہ وہ مرحلہ تھی جب میں نے حقیقی طور پر محسوس کیا کہ انسان کتنا خودغرض ہے۔ اپنی خصوصی خواہش پوری کرنے کی خواہش نے ایک ایسی خواہش کو جنم دیا جو مجھے پہلے کبھی نہیں رہی۔ کعبے کی زیارت کی خواہش!
مکہ کے پہاڑوں میں کوئی ایسی بات تھی جو ان کو اپنے ’ٹھوس پن‘ اور عظمت میں دوسرے پہاڑوں سے ممتاز کرتی تھی۔ شاید یہی امرِواقعہ تھا کہ میں ایک ایسے پہاڑ سے اتنا زیادہ قریب ہوگئی تھی، جتنا میں اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ جب ہم مکہ کی طرف ڈرائیو کر رہے تھے تو یہ پہاڑ ہمارے دونوں اطراف میں پھیلے ہوئے تھے۔ منظم، بے حس و حرکت، بڑے بڑے اہرام کی طرح ۔ میں نے سوچا کہ اللہ کس طرح قرآن میں پہاڑوں کا ذکر بار بار کرتا ہے۔ میں نے اس کی دانش پر غوروفکر کیا۔ عرب اپنی زندگی کے ہر دن پہاڑوں کی شان و شوکت کا مشاہدہ کرتے، وہ انھیں اس ہستی کی عظمت سے کیوں نہ جوڑتے جس نے ان کو پیدا کیا اور کسی دن ان کو ریزہ ریزہ کردے گا، روئی کے گالوں کی طرح۔
آس پاس کی عمارتیں آہستہ آہستہ نظر آنا بند ہوگئیں اور ان کی جگہ ایک وسیع ریگستان نے لے لی۔ میں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا کی پہاڑی پر چڑھ رہے ہیں، سورج کی شدید تمازت میں۔ میں نے پہاڑوں کے ڈھلوان پر صحابہ رضوان اللہ علیہم کے مکانات دیکھے۔ جب میں نے طائف جانے کا سائن بورڈ دیکھا تو رسولؐ اللہ کے زخم آلود چہرے اور خون آلود ایڑیوں کو نظر میں لائی۔ وہ جذبات جن کی میں طویل عرصے سے تمنّا کر رہی تھی میرے دل میں اُبھرنے اورآگے بڑھنے لگے۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں، اور خاموشی سے تلبیہ کے الفاظ ادا کرنے لگی۔
حرم کے فرش کے چمکتے ہوئے ٹائیل خنک اور آرام دہ محسوس ہوئے۔ تمازت بھرے سورج میں طویل مسافت کے بعد میں گھبرائی ہوئی تھی کہ عوام کے جم غفیر میں کس طرح چلوں گی جو اللہ کے گھر میں ہمیشہ ہوتا ہے۔ لیکن جب میں نے تجربے کا آغاز کیا تو مَیں خوشی و مسرت کی ایک لہر سے گزری۔ میں نے اپنے شوہر کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑلیا اور کعبے کی طرف ہجوم کے اندر راستہ بنانا شروع کیا۔ ذہن میں یہی بات تھی کہ میں اللہ سے کیا مانگوں گی جب میں آخر میں پہلی دفعہ اس کا سامنا کروں گی۔ ’تم تیار ہو؟‘ میرے شوہر نے میرا ہاتھ پکڑ کر تیسری دفعہ مجھ سے پوچھا۔ میں نے سرجھکا دیا، میرا دل سینے میں اُچھل رہا تھا اور میرے ہاتھ خوف اور گھبراہٹ سے سرد ہو رہے تھے۔
اگر میں اسے نہ دیکھ سکی اور اگر میں اس شخص کی طرح اپنے گناہوں کی وجہ سے اس خوب صورت شے سے محروم کردی گئی تو! ’’نگاہیں نیچی رکھو، میں تمھیں بتائوں گا کہ اب تم نظر اُٹھالو، میرے شوہر نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ میں کئی منٹ تک نیچے ان قدموں کو دیکھتی رہی جو تیزی سے رواں تھے یہاں تک کہ مزید نہ دیکھ سکی۔میں نے نظر اُٹھائی اور میری چیخ نکل گئی اور مَیں روپڑی۔
کعبہ میری نگاہوں کے سامنے اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے چند سیکنڈ دیکھا ، پھر ایک سیکنڈ نیچے دیکھا، پھر اپنے شوہر کو ایک سیکنڈ کے لیے دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ میری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھیں۔ میں شکرگزار تھی وہ میرے پیچھے کھڑے رہے۔ میں خانہ کعبہ سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی اور اپنی دُعا کا آغاز کرنے والی تھی، اس ’خصوصی دُعا‘ کا جس کی قبولیت کی ضمانت دی گئی ہے مگر میرے منہ سے الفاظ نکل نہیں رہے تھے۔میں وہاں ہاتھ اُٹھائے کھڑی تھی۔ میری آنکھوں سے تشکر بھرے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں اللہ کی اس طرح شکرگزار تھی جس طرح پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ اس خوب صورت قیمتی منظر کو عطا کرکے، مجھ کو اس جیسے قیمتی خزانے سے مالامال کرکے، جب کہ میں نے اس کے لیے کبھی دل سے دُعا نہ کی تھی۔ میں یہاں کھڑی اپنے آپ کو اللہ کی خاص بندی سمجھ رہی تھی۔ ذہن کے پردے پر سارے مناظر ایک کے بعد ایک فلم کی طرح گزر گئے۔ جب اللہ نے تجھے وہ کچھ عطا کیا جو تو نے طلب نہ کیا۔ محسوس ہوا کہ جیسے اللہ اس وقت خود مجھے ان کی یاد دلا رہا ہے!
خوف، مسرت، تشکر اور جوش کا آمیزہ میری آنکھوں سے رواں ہوگیا۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ آیت سامنے آگئی: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۶۵) ۔’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ میں نے اپنے دل میں جان لیا کہ یہی میری خصوصی دعا تھی۔ میں نے اللہ سے دعا کی میرا دل اس کی اور اس کے رسولؐ کی محبت سے لبالب بھر جائے۔ اس لیے کہ محبت ہی خواہش کی طرف لے جاتی ہے۔
یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مسجد نبویؐ میں خواتین کا راستہ اس ہوٹل سے چند قدم کے فاصلے پر تھا جس میں ہم ٹھیرے ہوئے تھے۔ مسجد نبویؐ کی مقناطیسی کشش کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اسے ایک ریگستان میں نخلستان کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے جہاں پیاسے کو ٹھنڈک اور سکون ملے۔
جب میری نگاہیں موتیوں جیسی سفید چھتریوں پر پڑیں تو میرے لیے خواب کا سا منظر تھا۔ وہ بے حد حسین تھیں۔ مجھے پہلے دن مسجد کے اندر جاکر نماز پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ میرا خیال ہے کہ میں نے شاید کافی کوشش نہیں کی تھی، اندر جانے کی۔ باہر کھلے آسمان کے نیچے اور کبھی چھتریوں تلے، مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے کا تجربہ خاصا سحرزدہ تھا۔ میں نے سوچا کہ مسجد نبویؐ ۱۴۳۷ھ سے پہلے کیسی نظر آتی ہوگی۔ نہ چھتریاں، نہ ریگستان کی گرمی سرد کرنے کے لیے پنکھے، نہ چمک دار پھسلنے والے ٹائل، بس صرف ایک چھوٹی سی عمارت۔ کیا میں یہاں باربار آکر نماز پڑھنا پسند کروں گی؟ یہ اس شخص کی مسجد تھی جس کے آخری الفاظ اپنے اُمتی کے لیے، میرے لیے دُعا تھے۔ کیا میں اپنے نبیؐ سے اس کے اُمتی ہونے کی حیثیت سے کافی محبت کرتی تھی، کم از کم اس سے قریب تر جو وہ مجھ سے کرتا تھا___ وہاں کھڑا ہونا میرے اس دعوے پر سیکڑوں سوال اُٹھا رہا تھا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی تھی!
مسجد کا اندرونی حصہ بیرونی کے مقابلے میں زیادہ ششدر کرنے والا تھا___ چمک دار سنہرے فانوس، منقش ستون، صفیں اور لال قالین۔ یہاں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا جو دلوں کو چھوتا تھا جو بس محسوس کیا جاسکتا تھا، دل کو مسرت سے بھر دیتا تھا۔ مہربانی کے چھوٹے چھوٹے عمل جو ایک اجنبی دوسرے اجنبی کے ساتھ کر رہا تھا۔ مصلّے میں حصہ داری، دوسرے بہن یا بھائی کے لیے جگہ بنانے کی خاطر، بچے کی مدد کہ وہ اپنا گلاس زم زم سے بھرے، دوسروں کے مصلّے اپنی جگہ پر پہنچانا۔ سلام اور مسکراہٹیں بغیر یہ جانے کہ آپ کون ہیں، کون سی زبان بولتے ہیں۔ در حقیقت مہربان ترین ہستی کے بہت بڑے خاندان کا حصہ ہونے کا احساس!
میں کوئی یادگار گھر واپس نہیں لائی لیکن کوئی چیز چھوڑ ضرور دی۔ اپنا دل ایسی جگہ چھوڑ دیا جو میرے گھر سے بہت دُور گھر جیسا لگا۔ (بہ شکریہ دوماہی Intellect، کراچی، جلد۷، شمارہ۵،۲۰۱۶ء)
وقت بچانا اور اس سے صحیح معنوں میں فائدہ اُٹھانا ہی کامیاب اور منظم زندگی کی طرف پہلاقدم ہے۔ یہی تنظیمِ وقت ہے۔یا د رکھیے، وقت کو بچایا نہیں جاسکتا بلکہ اسے بہتر طریقے سے استعمال کرنے کو ہی وقت بچانا سمجھا جاتا ہے۔ وقت کی بچت کے سلسلے میں سب سے زیادہ ممدومعاون وہ شعور ہوتا ہے جو انسان وقت کی نسبت سے اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر پہلو ایسے ہیں جن پر ہماری نظر رہنی چاہیے۔ ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
یہاں وقت بچانے کے حوالے سے مختلف ماہرین کی آرا اور مشوروں کو جمع کیا گیا ہے۔ چند دن ان مشوروں پر عمل کریں۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ نتائج غیر متوقع طور پر کتنے حوصلہ افزا ہیں۔ ہم نے ان مشوروں اور اشارات کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ان اشارات میں اکثر کو پہلے گروپ میں ڈال کر آسانی پید ا کرنے کی کوشش کی ہے۔کہیں کہیں ان کی نوعیت کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے: o ذاتی یا انفرادی زندگی o تعلیمی زندگی oمعاشی زندگی (دفتر اور کاروبار) oخاندانی یا گھریلو زندگی oمعاشرتی یا قومی زندگی۔
معاشی مصروفیات میں دفتری یا کاروباری معاملات اہمیت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھنا مفید ہوگا:
ہم ہر کام نہیں کرسکتے۔ ان مصروفیات پر توجہ دیجیے جو بہت اہم ہیں اور جن سے آپ کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کم نفع مند کاموں کو مؤخر کرسکتے ہیں یا پھر کسی کو تفویض کرکے اس پر کچھ لاگت لگاکر بہتر طریقے سے کر اسکتے ہیں۔
q ۲۰؍ ۸۰ کے قاعدے کے مطابق کام کیجیے۔ یعنی وہ کام خود کریں جن میں محنت کم اور استفادہ یا نتائج زیادہ ہوں۔
q اپنے موجودہ طریقۂ کام کا جائزہ لیں اور اس میں حسب ضرورت تبدیلی کریں۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب میاں طفیل محمد نے مطالبہ نظامِ اسلامی کی پاداش میں ۱۹۴۸ء تا ۱۹۵۱ء تک ۲۰ ماہ زندان میں گزارے۔ ان کے اس دور کے مکاتیب حکیم محمد شریف امرتسری نے مکاتیب ِ زنداں کے نام سے شائع کیے تھے۔ یہ جہاں تحریکی جدوجہد کے ایک مرحلے کا تذکرہ ہے وہاں تزکیہ و تربیت، اطمینانِ قلب و سکینت، صبرواستقامت، خدا پر ایمان و یقین اور کامل بھروسے اور عزیمت کی راہ کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ میاں طفیل محمد صاحب کے خطوط سے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔(ادارہ)
یہ میں آپ کو پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب پھر لکھ رہا ہوں کہ اپنی صحت کی طرف سے غفلت نہ برتیں۔ میں آ پ کی مشکلات سے ناواقف نہیں، اور نہ آپ کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بے خبر ہوں، مگر ان کے باوجود آپ کو اپنی حد تک غافل نہیں ہونا چاہیے۔ دوا کے ساتھ ساتھ دعا بھی کیجیے۔ اپنی مشکلات کو اپنے رب کے حضور پیش کیجیے، اپنی لاچاریوں کو اسی کے دربار میں گزاریئے۔ ان شاء اللہ وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا اور اگر اس کی مشیت میں یہی ہوگا کہ آپ ان مشکلات اور خرابیِ صحت میں ہی مبتلا رہیں تو بھی وہ آپ کو اس کے بدلے میں اجرعظیم عطا فرمائے گا جس سے بڑھ کر کسی شے کی کوئی مومن آرزو نہیں کرسکتا۔
یہ میں آپ کو یونہی نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ بہن انواراختر کی بیماری کا معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ گذشتہ مرتبہ وہ اسی لیے مولانا [مودودی] سے ملنے آئیں کہ اب انھیں سفرِآخرت درپیش ہے اور ہر علاج سے مایوسی ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر بے بس ہیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں سمجھایا کہ ڈاکٹروں سے نہیں صحت مجھ سے مانگو۔ انھوں نے جب سارے آسرے چھوڑ کر فریاد کی تو اگلے ہی روز صورت بدلنے لگی۔ ڈاکٹر نے دوائی بدلی۔ جسم نے خون بنانا شروع کر دیا۔ یاد رکھیے کہ خدا اب بھی وہی ایک خدا ہے جو ابراہیم ؑ کا خدا تھا، موسٰیؑ اور مسیحؑ کا خدا تھا اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تھا۔ وہ نہیں بدلا اور نہیں بدلتا ہے۔ بندے خود بدل جاتے ہیں۔ اس لیے اسے بدلا ہوا پاتے ہیں۔ یک سُو ہوکر اس کی طرف رجوع کیجیے۔ اگر اس کی مشیت اور اس کی اسکیم میں گنجایش ہوگی تو وہ آپ کی صحت درست فرما دے گا ورنہ ان شاء اللہ یہ تکلیف ہی لذت میں بدل جائے گی۔ مگر دوا سے غافل نہ ہوں کیوںکہ اسباب کو ختم کرکے اگر بندہ خدا سے کچھ مانگے تو یہ حدِ بندگی سے تجاوز ہوگا۔ یہ خدا کی آزمایش ہوگی (کہ وہ اسباب کے بغیر آپ کی مدد کرے، یعنی معجزہ دکھائے) اور یہ کام بندگی کی حد سے آگے ہے۔ بندگی کی راہ سے بال برابر اِدھر اُدھر نہ ہوں۔(اہلیہ محترمہ کے نام، ۲۰فروری ۱۹۵۰ئ)
آپ نے ہمارے یہاں سے باہر نکلنے کے بارے میں جس خواہش اور جن جذبات کا اظہار فرمایا ہے ایک محب کی خواہش اور قدرتی جذبات وہی ہوسکتے ہیںمگر اس بات کو نہ بھولیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اسکیم اور پروگرام کو کسی کی خاطر نہیں بدلتا ہے۔ جو وقت ہمارے یہاں پہنچنے کے لیے مقدر تھا ٹھیک اُس وقت ہمیں یہاں لے آیا اور جب وہ مقصد جس کے لیے ہمیں یہاں لایا گیا پورا ہوجائے گا تو کوئی چاہے یا نہ چاہے ہم باہر آجائیں گے۔ بہرحال ہم جن دعوئوں کو لے کر اُٹھے تھے ان کی آزمایش بھی اللہ تعالیٰ کو لازماً کرنی تھی اور جن لوگوں نے اسلام اور قرآن اور شریعت کے نعرے لگاکر ملک کے سیاہ و سپید کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا ان کو بھی اسے آزمانا تھا اور ان کے اعلانات کی صداقت و عدم صداقت کا امتحان کرنا تھا۔ یہ آزمایش و امتحان کب تک ہوگا اس کا ٹھیک اندازہ ممتحن ہی کو ہے۔ ہماری کوشش اور دُعا یہ ہے کہ ہم بھی اس آزمایش میں ثابت قدم رہیں اور اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو بھی کسی بدانجامی میں مبتلا نہ ہونے دے۔ مگر اس کا دستور یہ ہے کہ وہ بدانجامی سے بچاتا اسی کو ہے جسے اپنے بچائو کی فکرہے اور وہ بدانجامی سے بچنے کی اُس طریق پر کوشش کرے جو خدا کی طرف سے مقرر ہے۔
برادرِ محترم! اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کو قطعاً کسی کی ضرورت نہیں، وہ غنی ہے، حمید ہے، قادرِ مطلق، عزیز اور حکیم ہے۔اس نے یہ کارخانۂ کائنات بنایا ہی اس غرض سے ہے کہ بندوں کی آزمایش کرے۔ اس زندگی میں جو صورت بھی کسی کو پیش آتی ہے وہ آزمایش ہی کی صورت ہوتی ہے۔ آپ بھی اپنی جگہ آزمایش میں ہیں، ہم بھی آزمایش میں ہیں اور جن لوگوں نے ہمیں اس حال میں مبتلا کیا ہے، وہ بھی آزمایش میں ہیں۔ اللہ کسی پر نہ کوئی زیادتی کرتا ہے، نہ ظلم و بے انصافی۔ البتہ وہ اس دنیا میں بندوں کو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کا پورا موقع دیتا ہے تاکہ جو ظالم ہیں وہ ظالم ثابت ہوں، جو صابر ہیں ان کے صبر کا امتحان ہو، جو حق پرست ہیں ان کے جوہر کھلیں، جو بدنفس ہیں ان کی بگلا بھگتی کی قلعی کھلے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان باتوں کا موقع نہ دیتا تو پھر اس کارخانے کو بنانا بے کار تھا۔ پھر تو وہ جنت اور دوزخ ابتدا ہی میں بنا دیتا، مگر ان میں کسی کو رکھنے کا فیصلہ کرنے کی کیا صورت ہوتی؟ لہٰذا جو اسکیم اللہ تعالیٰ کے پیش نظرتھی اس کی تکمیل کی واحد صورت وہی تھی جو اس نے اختیار فرمائی کہ انسان کو ایک محدود عرصۂ حیات میں اختیار و ارادے سے مسلح کر کے اس کارگاہ میں چھوڑ دے۔ عقل و ضمیر اور نیکی و بُرائی کا شعور بھی دے دے۔ سمجھانے کا بھی معقول حد تک انتظام فرما دے اور اس کے بعد انسان جو کرنا چاہے اس کا اسے مہلت ِ زندگی تک بلا روک موقع دے۔ اس کے بعد جو ابراہیم ؑ، موسٰی ؑ، عیسٰی ؑ ، محمدؐ اور حسین ؓ کی زندگی کا مظاہرہ کریں، نیکی پھیلانے اور برائی کو مٹانے میں اپنی جان کھپا دیں، ان کو جنت دے، اور جو اُس راہ کو نظرانداز کر کے اسی چند روزہ عیش کو مقصد زندگی قرار دے لیں، انھیں موت کے بعد کے انعامات سے محروم کردے۔ کیوںکہ انھوں نے نہ اس کی ضرورت محسوس کی اور نہ اس کے لیے کوئی کوشش کی۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اس مقصد میں ناکام نہ ہوں۔ جس حال میں مبتلا کیے جائیں اس پر صابر و شاکر رہیں۔ تغیر اس کائنات کی فطرت میں ہے۔ عُسر اور یسر رات اور دن کی طرح آتے اور جاتے ہیں مگر خوش قسمت وہ ہیں جو اس حقیقت کا احساس کرلیں۔(بنام حکیم محمد شریف، حافظ آباد، ۳نومبر ۱۹۴۹ئ)
مولانا [مودودی] کے نام آپ کے خط سے یہ معلوم کرکے تشویش ہوئی کہ آپ کی صحت خراب رہتی ہے اور حافظ آباد کی آب و ہوا آپ کو اب تک راس نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کیجیے اور ہم بھی دُعا کرتے ہیں کہ آب و ہوا اور صحتوں کا خالق اور مالک حافظ آباد کی آب و ہوا اور آپ کی صحت میں موافقت پیدا فرما دے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے ہیں تو وہاں کی آب و ہوا ان کے سخت ناموافق تھی مگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان مہاجرین کی دُعائوں کا نتیجہ تھا کہ مدینہ کی آب و ہوا میں زمین و آسمان کا تغیر ہوگیا۔ وہ اللہ کے لیے نکلے اور نکالے گئے تھے اور ان کا جینا اور مرنا سب اسی کے لیے تھا۔ ہمیں بھی دُعا کے ساتھ ساتھ اس حیثیت سے اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے....
آپ کہتے ہیں کہ آپ کی انتہائی خواہش یہ ہے کہ مولانا کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل کریں۔ بھائی جان! مولانا نے تو یہاں ایسی عمدہ تربیت گاہ قائم کر دی تھی کہ رہایش، خوراک، علاج، روشنی، پانی، نوکر، پہرے دار، ہر شے سرکاری، نہ کوئی فیس، نہ چندہ، نہ کسی طرف سے کوئی خلل اندازی کرنے والا اور نہ معاملاتِ دنیا کی کوئی فکر۔ رات دن سویئے، پڑھیے، کھایئے، کھیلئے، کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ مگر آپ میں سے کوئی آیا ہی نہیں۔ اس میں مولانا کا یا کسی دوسرے کا کیا قصور؟ ہم تو اس انتظار ہی میں رہے کہ آپ لوگ آئیں گے، کچھ پڑھیں لکھیں گے اور آیندہ کاموں کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں گے، مگر نہ معلوم کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی یا اس تربیت گاہ میں داخلے کے لیے جو بورڈ مقرر ہے وہی یہ انتظام کرچکنے کے بعد کسی شش و پنج میں پڑ گیا ہو۔ بہرحال یہ اطمینان رکھیے کہ یہ کام کرنے والوں کی تو پانچوں گھی میں ہیں۔ یہاں آئیں تو یہاں کام بہت ہے اور تربیت کا موقع بھی، اور اگر باہر ہوں تو وہاں کام اس سے زیادہ اور تربیت کے مواقع اور بھی وسیع تر ہیں۔ اگر آپ روزانہ اپنا اس نقطۂ نظر سے محاسبہ کرتے رہیں کہ آیا آپ کا اپنے خدا سے حساب صاف ہے یا نہیں، تو یہی ایک بات تربیت کے لیے بہت کافی ہے۔ میری طرف سے سب احباب کو سلام کہیں۔(بنام حکیم محمد شریف، ۳ مارچ ۱۹۴۹ئ، ۲۱ دسمبر ۱۹۴۹ئ)
آپ کے اس خط سے مجھے جس قدر خوشی ہوئی ہے اس سے زیادہ خوشی کسی کے کسی خط سے نہیں ہوئی تھی اور وہ خوشی آپ کے اس کام کی وجہ سے ہوئی جو آپ نے لاہور سے واپس آکر شروع کیا۔ جس طریق پر آپ اسے کر رہی ہیں یہی طریقہ ٹھیک ہے۔ ایک ایک خطبہ اور اگر یہ زیادہ ہو تو آدھا یا اس سے بھی کم تیار کرکے اپنے لفظوں میں بیان کر دیا کریں۔ اس کے بعد گفتگو ہونی چاہیے جس میں اس مضمون پر سوال و جواب ہوں ۔ جو بات صاف نہ ہوئی ہو یا کسی کی سمجھ میں نہ آئی ہو اسے صاف کر دیا اور سمجھا دیا جائے۔ پھر اصل شے ان باتوں کو بیان کرنا اور سننا نہیں ہے بلکہ اصل کام یہ ہے کہ ان کی روشنی میں اپنے آپ کو دیکھا اور جانچا پرکھا جائے، جو کمیاں ہوں ان کو پورا کیا جائے اور جہاں خدا کی لگائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھ گئے ہوں وہاں سے پیچھے ہٹا جائے۔ خطباتکے بعد دینیات کو لیجیے اور پھر دعوتِ اسلامی میں خواتین کا حصہ والی کتاب کو لیں۔ کم سے کم کام کیجیے، اور تھوڑے سے تھوڑا وقت دیجیے مگر جتنا کام ہو اور جتنا وقت دیا جائے پابندی سے ہو اور مستقل ہو۔ روز کوڑی بھر گھی کھا لینا اس سے کہیں زیادہ مفید اور صحت بخش ہے بہ نسبت اس کے کہ مہینے کے بعد آدھ سیر ایک ہی وقت اندر انڈیل لیا جائے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ اُلٹا نقصان پہنچائے۔ ہر ایک کے ذہن میں اس بات کو بٹھایئے کہ جب ہم خدا کے، زمین خدا کی، آسمان خدا کا، کھائیں اُس کا، پئیں اُس کا، گھٹائے وہ، بڑھائے وہ، اور مرنے کے بعد حساب اس کو دینا ہے، تو پھر اس کی مرضی سے بے پروا ہوکر چلنے کا نتیجہ کیسے اچھا نکل سکتا ہے اور اس کی مرضی کے خلاف چلنے کا کسی کو حق کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے؟ مسلمان کے معنی خدا کے فرماں بردار کے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کی فرماں برداری سے نکل کر انسان مسلمان نہیں رہ سکتا۔
اس کام کے ساتھ اخبار کوثر، ترجمان القرآن، چراغِ راہ وغیرہ میں جو آسان مضمون شائع ہوں ان کو بھی دوسری عورتوں کو سناتی اور سمجھاتی رہیں۔ اس سے ایک تو دل چسپی باقی رہے گی اور دوسرے عام معلومات بڑھیں گی۔ اس بات کو خوب سمجھ لیں کہ کوئی شخص علم کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا اور نہ کوئی کام سیکھ کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر کام کرنے سے انسان سیکھتا ہے۔ بڑے سے بڑا آدمی غلطیاں کرتا ہے لیکن انھی کے اندر اس کو سمجھ آتی ہے۔ اس لیے جو اور جیسا کام ہوسکے کرتے رہنا چاہیے۔ کیوںکہ اگر ہم بس بھر کام کرتے رہے تو خدا کے سامنے بری ہوجائیں گے لیکن اگر کچھ بھی نہ کیا تو اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ جیسا کچھ کرسکتے تھے ویسا تم نے کیوں نہ کیا؟(ہمشیرہ اُمِ مختوم کے نام، جولائی ۱۹۴۹ئ)
oگذشتہ ملاقات پر معلوم ہوا کہ جمیلہ نے خاصی ترقی کی ہے اور قرآنِ مجید، سیرت اور دوسرا اسلامی لٹریچر بھی کچھ پڑھ لیا ہے اور شوق سے پڑھ رہی ہے۔ اگر میری وجہ سے میرے گھر والوں، بھائی بہنوں اور اعزہ واقربا کی دینی معلومات حاصل کرنے کے شوق، دین کی طرف ان کے رجحان اور آخرت کی فکر میں ترقی ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ میرے اندر اس تغیر سے (جن سے وہ کبھی اس قدر نالاں تھے) دنیا میں انھیں جو نقصانات پہنچے یا جو فائدے حاصل ہونے سے رہ گئے، اُن کی ایسی تلافی ہوگئی جسے وہ اس دنیا میں محسوس کریں یا نہ کریں لیکن ایک روز جب ہرشخص کا سب کیا کرایا اس کے سامنے آجائے گا وہ جان لیں گے کہ انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ خداگواہ ہے کہ میرے نزدیک اس راہ پر قائم رہتے ہوئے ساری زندگی جیل میں گزار دینا اس سے کہیں زیادہ محبوب ہے کہ اس سے سرِمُوانحراف کرکے باطل کی بادشاہی حاصل ہو۔ (والدمحتر م کے نام، ۱۲مئی ۱۹۵۰ئ)
oکوئی انسان بھی اگر اس کے دل اور دماغ سلامت ہوں، اعزہ و احباب سے ملنے کی خواہش سے خالی نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہرقیمتی شے کی طرح خدا کی رضا اور اس کی جنت بھی مشقت اور ایثار کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ ان کے لیے اُسی نسبت سے زیادہ مشقت اور ایثار سے کام لینا ہوگا، جو نسبت اس دنیا کی نعمتوں کو خدا کی رضا اور جنت کی نعمتوں سے ہے۔ معلوم نہیں مولوی لوگوں نے یہ افیون کہاں سے نکال کر مسلمانوں کو کھلانی شروع کر دی تھی کہ حلوے اور کھیریں کھاتے اور کھلاتے جنت میں جابراجیں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے جو تعلیم اپنے رسولؐ کے ذریعے دی ہے، اس میں تو یہی بات باربار دُہرائی ہے کہ جب تک وہ پوری طرح سے اسے چھاج میں پھٹک پھٹک کر اور آزمایش کی بھٹیوں میں تپاتپا کر نہیں دیکھ لیتا پروانۂ قبولیت عطا نہیں کرتا۔ آدم ؑ سے لے کر محمدؐ تک ہر نبی ؑ کی زندگی آپ کے سامنے ہے۔ کیا ان سے بھی زیادہ مقرب کوئی ہوسکتا ہے؟ جب ان کو بھی تپائے اور سخت پرکھ کے بغیر خالص قرار نہ دیا تو ہماوشما کون ہیں! ہم لوگ تو اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ ہمارے خالق و مالک نے ہمیں اس قابل تو سمجھا کہ ہمیں آزمایش میں ڈال کر دیکھے اور یہ اس کا انتہائی احسان اور فضل ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اس نے متزلزل نہیں ہونے دیا۔ ورنہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا، ہم سے کمزور کون ہوگا؟
میں یہاں جیل میں آپ کو ایسا تحفہ بھیجتا ہوں اگر آپ اپنے آپ کو اس کے مصداق بنانے میں کامیاب ہوسکیں تو دنیا کی کوئی پریشانی آپ کو پریشان نہ کرسکے گی۔ وہ تحفہ یہ دعا ہے:
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ ، اَنْتَ نُوْرُ السّٰمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ، اَنْتَ قَیُّوْمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ ، اَنْتَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ اَنْتَ الْحَقُّ وَقُوْلُکَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَلِقَائُ کَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَ اِلَیْکَ تَحَاکَمْتُ، فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَاَسْرَرْتُ وَاَعْلَنْتُ ، اَنْتَ اِلٰھِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ، خدایا! حمد تجھی کو سزاوار ہے۔ آسمانوں اور زمین کا نور تو ہی ہے اور حمد تجھی کو سزاوار ہے۔ تو ہی زمین و آسمان اور جو بھی ان میں ہے سب کا رب ہے۔ تو خود حق ہے، تیری ہربات حق ہے اور تیرا ہر وعدہ حق ہے۔ تجھ سے ہماری ملاقات برحق، جنت برحق، دوزخ برحق، قیامت برحق۔ خدایا! میں نے تیری اطاعت اختیار کی، تجھ پر مَیں ایمان لایا، میرا بھروسا تجھ پر ہے اور تیری طرف میں نے رجوع کیا اور تیری ہی خاطر جھگڑا اور تیرے ہی حضور میری فریاد ہے۔ تو معاف فرما میرے گناہ بھی اور میری کوتاہیاں بھی۔ میرے وہ قصور بھی جو میں نے چھپا کر کیے اور وہ قصور بھی جو مَیں نے علانیہ کیے۔ توہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔(بنام طفیل محمد صاحب ڈجکوٹ، ۱۲ مئی ۱۹۵۰ئ)
یہ بات اپنے دلوں میں خوب اچھی طرح جما لو کہ یہ زمین اللہ کی ہے۔ یہ آسمان، سورج، چاند، ستارے، بادل اور ہوائیں اور جانور اور پرندے سب اسی کے ہیں۔ وہی بارش برساتا ہے، زمین سے پھل پھول اور طرح طرح کے رزق نکالتا ہے۔ مکھیوں سے شہد، کیڑوں سے ریشم اور مٹی سے روئی بنواتا ہے۔ اسی نے ہم کو پیدا کیا، بولنے کو زبان، دیکھنے کو آنکھیں، سننے کے لیے کان، سونگھنے کے لیے ناک، چلنے کے لیے پائوں اور کام کاج کرنے کے لیے ہاتھ دیے۔ ہمیں صحیح اور سیدھی راہ دکھانے کے لیے قرآنِ مجید اُتارا۔ اسے سمجھانے کے لیے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بناکر بھیجا۔ نیکی اور بدی کی سمجھ ہمارے اندر رکھ دی اور ہمیں کھول کھول کر بتا دیا کہ اچھے اچھے کام کرو گے تو اس زندگی کے بعد تمھیں نہایت اعلیٰ درجے کی کوٹھیاں اور سونے کے محل اور پھلوںاور پھولوں سے بھرے ہوئے باغ دیںگے جہاں تم ہمیشہ رہو گے، اور اگر بُرے کام کرو گے تو تم کو آگ میں جلائیں گے اور اس سے تم کبھی نہ نکل سکو گے۔
جو اچھے اور عقل مند آدمی ہوتے ہیں وہ اللہ کی باتوں کو مانتے ہیں، زبان سے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، کانوں سے اچھی باتیں سنتے ہیں، دماغ سے اچھی اور بھلائی کی باتیں سوچتے ہیں اور ہاتھوں سے اچھے اچھے کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں یہاں جو کھانے کو دیتے ہیں وہی خوشی خوشی کھا لیتے ہیں۔ جو پہننے کو دیتے ہیں وہی پہن لیتے ہیں، اور جو لوگ بُرے اور بے وقوف ہوتے ہیں وہ اللہ میاں کی باتیں نہیں مانتے۔ وہ زبان سے جھوٹ اور گالیاں بکتے ہیں۔ کانوں سے فضول اور نکمی باتیں سنتے ہیں۔ دماغ سے شرارت اور بُرائی کی باتیں سوچتے ہیں اور ہاتھوں سے بُرے بُرے اور دوسروں کو ستانے اور نقصان پہنچانے والے کام کرتے ہیں۔ جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے تو وہ ان کو آگ میں ڈال دیں گے۔
تم سب خوب محنت سے پڑھنا سیکھو، پھر اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآنِ مجید پڑھنا اور اس کے رسولؐ کی باتیں سیکھنا اور پھر دوسرے نیک اور بھلے لوگوں کی باتیں اور انھی کی راہ پر چلنا۔ اگر تم ایسا کرو گے تو جب یہاں سے اللہ میاں کے پاس جائو گے وہ تم سے بہت خوش ہوں گے اور تم میں سے ہر ایک کو ایسا اعلیٰ درجے کا محل اور ایسا نفیس باغ دیں گے کہ بس تم خوش ہوجائو گے۔ ہم لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ تمھارے اور خدا کے دوسرے بندوں کے لیے یہ راہ آسان کردیں۔ آپ سب لوگ ہمارے لیے دُعا کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ تم سب کو اپنی امان میں رکھے۔(بچوں کے نام، ۸؍اپریل ۱۹۵۰ئ)
مسلمان کے معنی ہی اس شخص کے ہیں جو اپنے عقیدہ، اخلاق، معاملات اور اپنے سارے تعلقات میں اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے۔ ہر بات، ہر کام، ہر معاملے میں اُس کے سامنے صرف خدا کی مرضی کو پورا کرنا ہو اور یہ چیز اس کے بغیر نہیں ہوسکتی کہ وہ خدا کی مرضی کو جانے۔ اس لیے کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہیے جس سے خدا کی مرضی خود کو بھی معلوم ہو اور دوسروں کو بھی معلوم کرائی جاسکے۔ کیوںکہ انسان پر یہی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ خود راست رو ہو بلکہ اس پر یہ بھی اُسی طرح لازم ہے کہ اس کا جس پر جتنا زور چلتا اور اثر ہو اتنا ہی وہ اس کو بھی راہِ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا کے سامنے اس سے سوال ہوگا۔ ظاہر بات ہے کہ وہاں کچھ جواب نہ بن آئے گا۔(بنام بہن اُمۃ الرحمن صاحبہ،۷جنوری ۱۹۵۰ئ)
آپ کے تازہ رجحانات اور تبدیلی کا حال معلوم کر کے انتہائی خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس میں استقامت اور برکت عطا فرمائے۔ بھائی صاحب تقسیم ملک اور قیامِ پاکستان کے بعد ہم مسلمانوں کے سوچنے کی اوّلین بات یہی ہے کہ اگر ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان نہیں بننا تھا، مخلص مسلمان بن کر نہیں رہنا تھا، اور ہمیں وہی کافر رعنائیاں اور طور طریقے مرغوب تھے تو ہندوئوں اور سکھوں سے علیحدگی اور آدھی قوم کو جس درندگی اور بدمعاشی کا شکار کرایا گیا، اس کا شکار کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا فقط کوٹ پتلون کو دھوتی کُرتا بننے سے بچانے کی خاطر؟ پھر اگر اسلام کا نام لینے اور اس کے لیے کام کرنے والوں سے اس درجہ چڑ اور عناد ہے تو قوم کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ پھر اس قوم کی اساس و بنیاد کیا شے بنائی جائے گی؟ کیا پنجابیت، سندھیت اور بنگالیت؟ یا لیڈر صاحبان کی شخصیتیں؟ آخر ہوائی قلعوں سے کتنے دن کام چل سکے گا؟ ہم لوگ آیندہ کے مسائل پر اسی انداز سے سوچتے ہیں اور اسی انداز پر سوچنے کی دوسروں کو دعوت دیتے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس ملک اور اس قوم کی فلاح ہی نہیں بلکہ ان کی بقا کا انحصار، ان کے معاشرے اور حکومت کو ایمان داری سے اسلام پر تعمیر کرنے پر ہے۔ ’اسلام کے اصولوں‘ پر نہیں، ’سراسر اسلام پر‘۔ اگر ایسا کرلیا جائے تو ان شاء اللہ چند سال میں انڈونیشیا سے ترکی تک ایک قوم اور ایک ملک بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف بسنے والی قومیں واہگہ کی سرحد کے دونوں طرف بسنے والی قوموں سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کی دشمن ہوں گی اور یہ کوئی خیالی فلسفہ یا مجذوبانہ بڑ نہیں، بلکہ اب واقعہ اور عینی مشاہدے کی صورت میں قوم کے سامنے ہے۔(بنام چودھری عبدالرسول صاحب ایڈووکیٹ، کراچی، ۱۳نومبر ۱۹۴۹ئ)
مسلمانوں کی روحانی تربیت اور تزکیٔہ نفس کے لیے رمضان المبارک کا پورا مہینہ مسلسل بھوک ،پیاس ،قیام اللیل اور جنسی خواہشات اور گناہوںسے رکنے کی مشق کروائی جاتی ہے۔ یہی تزکیٔہ نفس یا تقویٰ کاحصول روزے کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
تقویٰ زندگی کے تما م شعبوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل کی اطاعت بجا لانے اور نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔رمضان المبارک میںاسی احساس کو بیدارکرنے کی مشق ہوتی ہے۔اسی مقصدکے حصول کے لیے دن کے وقت بھوک پیاس کو برداشت کیا جاتا ہے اور رات کو عبادات کے لیے قیام کیا جاتا ہے۔
اگرروزے سے اللہ کی رضا ،بخشش اور تزکیہ نفس کے مقاصدحاصل نہ ہوں تو اس سے بھوک پیاس کی تکلیف کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزوں سے سواے بھوک کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو کھڑے ہونے ہونے والے ایسے ہیں جن کو سواے شب بیداری کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا‘‘۔(مسند احمد، مسند ابی ہریرہ ، حدیث:۹۳۰۸)
ایک مہینے کی مسلسل مشق سے صیام وقیام کے اثرات قلب و جسم پر نقش ہوجاتے ہیں ۔اگر ہم ان ثمرات کو اپنے شب و روز کے اعمال میں زندہ رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم نے حقیقت میںروزوں کی روح کو پا لیا اور اگر ہماری زندگی میں ان کا عکس مفقود رہا تو ہم گویا رمضان کے مقصد کے حصول میں ناکام اور سراسر نقصان کے مستحق ٹھیریں گے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان ثمرات کو کیسے باقی رکھا جائے؟ اسی سوال کا جواب تلاش کرنا اس تحریر کا مقصد ہے۔
رمضان المبارک میں مسلمان اپنی جسمانی اورنفسانی خواہشات کے خلاف جہاد میں مصروف رہتے ہیں۔بھوک اور پیاس پرقابوپانے،شب بیداری (تراویح و تہجد) اورقرآن کریم کی تلاوت جیسے اہم اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جسمانی تقاضوں کی کم از کم اور روحانی تقاضوں کی زیادہ سے زیادہ رعایت کرتے ہیں تاکہ روح بیدار اور تواناہو جائے اور اپنے رب سے تعلق مضبوط بنا سکے۔ یہ سارے عوامل تقویٰ کی کیفیت کے حصول میں معاون ہیں۔
جو اوصاف جن عوامل سے وجود میں آتے ہیں ،انھی عوامل سے برقرار بھی رہتے ہیں ۔اگر وہ عوامل نا پید یا کمزور پڑ جائیں تو ان اوصاف کا برقرار رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ذیل میں ان عوامل کی کسی قدر تفصیل بیان کی جاتی ہے جو تقویٰ کو باقی رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
دوسری روایت میں آیا ہے:’’چار چیزیں وہ ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں چھوڑتے تھے:۔عاشور،عشرہ ذی الحجہ( یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ یعنی نویں ذی الحجہ تک) اورہر مہینے کے تین روزے اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں‘‘۔(سنن النسائی، حدیث:۲۳۷۳)
محرم کے مہینے میں روزے بھی اسی قبیل سے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ رمضان المبارک کے بعد کون سا روزہ افضل ہے تو آپ نے فرمایا:’’ اللہ کے مہینے محرم کا‘‘(مسلم، حدیث:۱۱۶۳)۔ ایام بیض، یعنی ہر ماہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ مستحب ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایام بیض، یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھیں‘‘۔(سنن النسائی، حدیث:۲۴۲۴)
سوموار اور جمعرات کے دن روزہ رکھنا بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے۔ اس بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا:’’ ہر سوموار اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں، سب مسلمانوں یا ایمان والوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ معاف کردیتا ہے، سواے آپس میں ترکِ گفتگو کرنے والوں کے۔ ان کے بارے میں فرماتا ہے کہ ان کا معاملہ مؤخر کر دو‘‘۔(ترمذی، حدیث:۷۴۷)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ(البقرہ۲:۱۸۵)’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔
روزے اور قرآن کریم قیامت کے دن اپنے متعلقین کی سفارش کریں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔روزے کہیں گے :یا رب!میں نے دن کے وقت اس کو طعام اور شہوات سے روکا تھا، لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرے۔قرآن کہے گا:اے رب!میں نے رات کے وقت اس کو سونے سے منع کیا تھا ،لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرے۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش بارگاہِ الٰہی میں قبول کی جائے گی‘‘۔(مسند احمد، حدیث:۶۳۳۷)
رمضان المبارک میں اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ نمازِ تروایح اور دیگراوقات میں اس کی کثرت سے تلاوت ہوتی ہے اوراکثر مقامات پر قرآن کریم کی تفسیر وترجمے کی خصوصی کلاسیں ہوتی ہیں اور نماز تراویح سے قبل یا بعد میں مضامین قرآن کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی عظمت و جلالت سے قلوب اور ارواح معمور ہوتے ہیں۔جس کے نتیجے میںروحانی قوت اور ایمان کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اگر قرآن کریم کے ساتھ یہ تعلق پورے سال کے دوران استوار رہے، تلاوت، تعلیم و تعلم اور تدبر و تفکر کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں قرآنی تعلیمات کا نفاذ بدستور قائم رہے، توہماری زندگیوں میں وہ مثبت تبدیلی برقرار رہے گی جو رمضان کے دوران میں میسر آئی تھی اور جس کا برقرار رکھنا پوری زندگی میں مطلوب ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں موجودہیں جنھیں ہمدردی اور مددکی ضرورت ہوتی ہے اور صاحبِ استطاعت لوگوںکا ایثار ان کی مشکل کو کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں مسلسل اسی جذبے کی تربیت کی جاتی ہے اورمفلوک الحال اور محروم الوسائل لوگوں کی حالت کا صحیح احساس کرایا جاتا ہے ۔ہماری عملی زندگی میں ایسے مواقع بار بار آتے ہیں جو ہم سے ایثار اور ہمدردی کا تقاضا کرتے ہیں ۔ رمضان کے اختتام پر صدقٔہ فطر اسی مقصد کے لیے لازم کیا گیا ہے۔اسی جذبے کے تحت ہمیں پورا سال اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔
انسان اپنی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہو کر رشوت ستانی ، غلط کاری ، دھوکہ دہی، دروغ گوئی ، غیبت ، جھوٹ اور خود غرضی جیسے اخلاق رذیلہ کے دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ان قلبی بیماریوں کا علاج بھی روزہ ہی بتایا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: صَوْمُ شَھْرِ الصَّبْرِ وَ ثَلَاثَۃِ أَیَِّامٍ مِنْ کُلِّ شَھْرٍ یُذْھِبْنَ وَحْرَ الصَّدْرِ ’’ماہِ صبر کا روزہ اور ہر مہینے کے تین روزے دل کا میل دُور کرتے ہیں۔(مسند احمد،حدیث:۲۱۹۹۹)
ماہ صیام میں خواہشات پر قابو پانے کی مسلسل تربیت کے نتیجے میں ضروری ہے کہ ہر موڑ پر اپنی خواہشات کو قابو میں رکھا جائے اور ان کا غلام بن کر روزے کے ثمرات کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔
یہ چند عوامل ہیں جن سے روزے کے ثمرات کو باقی رکھنے میں بھر پور مدد مل سکتی ہے اس کے لیے انفرادی محنت، اجتماعی یاددہانی اوراندرونی احساس کی بیداری کی ضرورت ہے۔
پورے سال میں روزے صرف ایک ماہ رمضان میں فرض کیے گیے ہیں اور اس کا مقصد تزکیۂ نفس ا ور تقویٰ ،باہمی ہمدردی اور سخت کوشی کی وہ کیفیت پید ا کرنا ہے جو بندے کو بقیہ سال کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے تیار کرے۔ رمضان المبارک کی مسلسل مشق سے جو ثمرات حاصل ہوتے ہیںوہ مسلمانوں کا بیش قیمت سرمایہ ہوتا ہے جن کی حفاظت کرنا اور ترقی دینا ان کا فرض ہے۔
نیکی کرنا بہ نسبت اس کی حفاظت کرنے کے آسان کام ہے ۔روزِ قیامت کئی بدقسمت ایسے ہوں گے جو دنیا میں بڑی بڑی نیکیاں کر کے ضائع کر چکے ہوں گے اور وہ جنت کے حصول اور دوزخ سے نجات کے لیے ان کے کسی کام نہیں آئیں گے۔
بندہ جونیکی حفاظت کے ساتھ آخرت تک لے جانے میں کامیاب ہوا اس کا انجام بھلائی ہی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ ط وَلَا یَرْھَقُ وُجُوْھُھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّۃٌ ط (یونس ۱۰: ۲۶ )’’جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا، اُن کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل۔اور ان کے چہروں پر روسیاہی اور ذلت نہ چھائے گی‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں اپنی اطاعت کی توفیق اور آخرت میں اچھے انجام سے نوازے ۔ آمین!
قرآنِ مجید انسانیت کے لیے کتابِ ہدایت و اصلاح ہے۔ یہ فرد اور جماعت، حکمران اور عوام، قوموں اور ریاستوں کے لیے یکساں طور پر ضابطۂ ہدایت ہے۔ اس کا مقصدِ نزول ہی یہ ہے کہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوئوں میں اس کی رہنمائی کی جائے اور اُسے درست راستے پر چلایا جائے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ایک لمحے تو اس کو اپنا حاکم اور مقتدا مانتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے اس کی طرف سے توجہ ہٹا لیتے ہیں۔ کسی واقعے میں قرآن اُن کے لیے قانون اور دستور ہوتا ہے اورکسی واقعے میں اس سے قانونی رہنمائی لینے کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتے۔قرآن جہاں لوگوں کے مفادات، خواہشات، میلانات اور ضروریات کے مطابق ہو وہاں لوگ آگے بڑھ کر اس کو بیچ میں لاتے اور اس کو حَکم مانتے ہیں، لیکن جہاں معاملہ اس کے برعکس ہو وہاں لوگ اس سے دُوری میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔آج ہر گھر میں قرآن موجود ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں قرآن کے ایک سے زائد نسخے موجود نہ ہوں۔ پرنٹ میڈیا کی مطبوعات اور الیکٹرانک میڈیا کی نشریات میں قرآن کے بلاواسطہ پیغام کا اظہار دن رات کا معمول ہے۔ دنیاے اسلام میں سیکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں حفاظِ قرآن موجود ہیں۔ یہ سب کچھ ہے، لیکن اس سب کے باوجود وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جو آنے چاہییں۔
اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم وہ شرائط پوری نہیں کر رہے جو قرآن کسی بھی دل کے اندر اپنے اثرات چھوڑنے کے لیے طلب کرتا ہے۔ قرآن کے مفہوم کی تعلیم زبان سے اس کے حروف کی ادایگی کی تعلیم تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ آج بیش تر حفاظ اور قراء قراء تِ قرآن کے ماہر ہیں، لیکن اس کے مفہوم و مقصود سے ناآشنا ہیں۔ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے بلکہ حاملین قرآن کی اس صورتِ حال نے اُمتِ مسلمہ کے اندر بیداری کی روح کو بھی متاثر کررکھا ہے۔ قرآن کی تعلیم اور تدریس سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد معاملات کو سلجھانے، عوام کی رہنمائی کرنے اور حق و ناحق کے خلط ملط ہوتے تصورات کو چھانٹ کر بیان کرنے کی کماحقہ صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ صورتِ حال جہاں حاملین قرآن کے اعلیٰ طبقے معلّمین و مدرّسین اور حفاظ و قراء ِ قرآن کی کثیر تعداد میں موجود ہے وہاں امت کے عام افراد میں اس کا گراف مزید پست ہے۔ یہ کیفیت قرآن کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سرسری تعلق اور سلوک کا نتیجہ ہے جس کو ہم اپنی زندگیوں کا ایسا معمول بنائے ہوئے ہیں کہ ذرا رُک کر اس پر غور کرنے کی ضرو رت محسوس نہیں کرتے۔
قرآنِ مجید اور اس کے علوم کالجوں، یونی ورسٹیوں، دینی مدارس اور اسلامی اداروں کے مقالات اور خطابات کا موضوع ہوتے ہیں۔ علمی اور فکری کانفرنسوں میں بڑے بڑے مقالے پیش کیے جاتے ہیں۔ کتب لکھی جاتی ہیں۔ مسائل اور موضوعات پر بحثیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ یوں ہوتا اور پیش کیا جاتا ہے گویا عملی طور پر مسلمان قرآنِ کریم کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتے، قرآن او رعلومِ قرآن کے ساتھ گہرا شغف رکھتے ہیں۔ اس کی تعلیمات اور احکام کے دل و جان سے گرویدہ ہیں۔ حکومتوں کا طرزِ حکمرانی عین اسلام کے مطابق ہے۔ اس سے سرمو انحراف نہیں کیا جاتا۔ ان مقالات، کتب، تقریروں، لیکچروں اور گفتگوئوں میں کوئی لفظ، کوئی مسئلہ، کوئی قضیہ ایسا نہیں چھوڑا جاتا جس کے اوپر بحث و تحقیق کی انتہا نہ کر دی جائے۔
سوال یہ ہے کہ ان سرگرمیوں سے عام انسانی زندگی کس قدر مستفید ہوتی ہے؟ کیا یہ دل و دماغ، روح و ضمیر اور اخلاق و کردار کے اندر زندگی پیدا کرتے ہیں؟ کیا ان سے انسانوں کے ایمانی و اعتقادی، ثقافتی و نظریاتی اور قدری و روایاتی انحرافات میں کوئی اصلاح ہوتی ہے؟
اصحابِ علم و معرفت اور علومِ قرآن کے اہلِ اختصاص کا فرض ہے کہ وہ قرآن کو فلسفیانہ موشگافیوں سے دُور رکھ کر عام مسلمانوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنائیں۔ وقت کی ضرورت اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر فرد اور معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔جامعاتی تحقیقات، علمی رسائل و جرائد، ادارہ جاتی اور نشریاتی پروگراموں اور سرگرمیوں میں بھی اس پہلو پر بہت زیادہ توجہ اور خصوصی جدوجہد کی ضرورت ہے کہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ قوموں کی زندگی پر قرآنِ مجید کس طرح سے اثرانداز ہو سکتا ہے؟ اُن کی بیداری و تبدیلی کا کیوںکر ذریعہ بن سکتا ہے؟ ان کی تجدید و احیا کا رہنما کس انداز میں ہو سکتا ہے؟ مسلمانوں کے اجتماعی نظام اور باہمی تعلقات میں قرآن کی تاثیر کہاں تک ہے اور کہاں تک ہونی چاہیے؟ تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لیے کیسا محفوظ و متوازن پروگرام وضع کیا جا سکتا ہے؟ یہ سب کچھ نظری تحقیقات سے نکل کر عملی زندگی کا حصہ بننا چاہیے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے قرآن کے مطالعے اور تلاوت کی ناگزیر ضرورت ہے تاکہ تلاوتِ قرآن کا وہ حق ادا ہو جائے جس کے نتیجے میں تلاوت کرنے والا حقیقی صاحبِ ایمان بنتا ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَo(البقرہ۲:۱۲۱) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اُسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے وہ اِس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں۔اور جو اِس کے ساتھ کفر کا رویّہ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ پڑھنے والا اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانے، جس طرح اللہ نے اسے نازل کیا ہے اُسی طرح اس کو پڑھے، اس کے الفاظ و کلمات میں کسی قسم کی تحریف نہ کرے، اور اس کی کوئی غیرحقیقی تاویل نہ کرے۔
اس طرز کی تلاوت اور تعلیم ہی سے مطلوب تزکیے اور تقویٰ و طہارت کا حصول ممکن ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قرآنِ مجید کی مجرد تلاوت بھی باعثِ برکت اور حصولِ ثواب کا ذریعہ ہے، مگر اس حقیقت سے کسی کو مفر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف تلاوت ہی کے لیے قرآن نازل نہیں فرمایا، نہ اس لیے نازل کیا ہے کہ خوب صورت خطاطی میں اس کی آیات دیواروں کی زینت بنائی جائیں، نہ اس لیے نازل کیا ہے کہ مُردوں کے لیے رحمت و مغفرت کی غرض سے اسے پڑھا جائے، اور نہ محض اس لیے نازل کیا ہے کہ اسے خوش الحانی سے تلاوت کرنے کے لیے قراء ت کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔قرآنِ مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اپنی ہدایت و رہنمائی سے انسان کے سفرِ حیات کو منظم اور منضبط بنا دے۔ زندگی پر ہدایت ِالٰہی اور دینِ حق کی حکمرانی قائم کر دے۔ اپنے نور کی روشنی سے انسانیت کو شاہراہِ ہدایت پر لے آئے اور اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لا کھڑا کرے۔
اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے یقیناً بہت سے ذرائع ہوسکتے ہیں مگر ان تمام ذرائع میں قرآن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو براہِ راست اپنی خوب صورت، واضح اور دو ٹوک زبان میں اپنا پیغام سناتا ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ پیغام قرآن کے حروف میں پوشیدہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس کو براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہے۔ معمول کی تلاوت قرآن کی صورت محض حروف و الفاظ کی حد تک قرآن سے وابستگی ہوتی ہے اور الفاظ کے تلفظ و ترنم کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ انسان پر اثر انداز ہو، مگر دلوں کی کیفیت اسی وقت بدلتی ہے جب الفاظ کا معنی و مفہوم انسان کے دل و دماغ اور قلب و شعور میں اتر رہا ہو۔ ہم آیات تو پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے اندر بیان کی گئی ہدایات سے یکسر ناآشنا رہتے ہیں۔
ہر صاحبِ ایمان کو قرآن کے ساتھ اپنے اس تعلق پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیوںکہ قرآن کی حقیقی برکت تو اس کے معانی اور مفاہیم میں مضمر ہے اور الفاظ تو ان مفاہیم تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ اسی بنیاد پر اکتاہٹ اور بے دلی کی کیفیت میں قرآن کی قراء ت سے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح قرآن کے الفاظ کی ادایگی تو ہو سکتی ہے، لیکن ان کے مفہوم سے آگاہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔
قرآن کی تلاوت یا سماعت کے وقت تدبر و تفکر کی اہمیت تو قرآن کی اپنی آیات سے واضح ہے۔ قرآن پر عمل کرنے کے لیے قرآن کو سمجھنا اور اس کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے اور جب فہم حاصل ہوتا ہے تو یہ دل کے اندر تاثیر چھوڑتا ہے اور یہی تاثیر عمل کا محرک بنتی ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِo (صٓ۳۸:۲۹) یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔
فہم کا حصول بلاشبہہ الفاظ کی قراء ت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اور اگر فہم حاصل نہ ہو رہا ہو تو محض الفاظ کی قراء ت کیوںکر مطلوب ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے فرمایا تھا: لَا یَفْقَھُہُ مَنْ یَقْرَوُہُ فِی اَقَلٍّ مِنْ ثَلَاثٍ(صحیح الجامع الصغیر) ’’وہ آدمی اس (قرآن)کو سمجھ نہیں پاتا جو تین دن سے کم وقت میں اس کی قراء ت کر لیتا ہے‘‘۔
جب ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے توجہ اور غور کے ساتھ اسے پڑھنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں تو قرآن کی قراء ت کو اس اصول سے کیوں خارج کر ڈالتے ہیں۔ قرآن کے معاملے میں تو اس کا سب سے زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے۔امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہرکلام کا مقصد اس کے الفاظ کو نہیں بلکہ مفہوم کو سمجھنا ہوتا ہے اور قرآن اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کے معانی کو سمجھا جائے۔ (مقدمہ فی اصولِ التفسیر: ۷۵)۔امام قرطبیؒ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا (النساء ۴:۸۲) کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے تاکہ قرآن کا مفہوم معلوم کیا جا سکے۔(الجامع لاحکام القرآن:۱۸۷)
قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام۶:۱۶۲)’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ چوںکہ یہ نور اپنے اندر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر یہ انسان ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!
قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو حیات کا نام دیا ہے، فرمایا: اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَ جَعَلْنَا لَـہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُـہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا (الانعام ۶:۱۲۲)’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو‘‘۔
اس اعتبار سے قرآن وہ روح ہے، جو دل میں جاگزیں ہو کر دل کو زندگی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید کے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا:
وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا ط (الشوریٰ ۴۲:۵۲)اسی طرح (اے نبیؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔
جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب بدل کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا: اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِِسْلاَمِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط(الزمر۳۹:۲۲)’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اِذَا دَخَلَ النُّوْرُ القَلْبَ اِنْشَرَحَ وَانْفَتَحَ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ!اس کی نشانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اَلْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِ الخَلُودِ، وَالتَّجَافِی عَنْ دَارِالغَرُورِ، وَالْاِستِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُوْلِہِ دارِخلود،’’(آخرت) کی طرف میلان اور دارِغرور (دنیا) سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری!‘‘۔ (اخرجہ البیہقی فی الزھد)
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا:
لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـیَۃِ اللّٰہِط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (الحشر۵۹:۲۱) اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر)غور کریں۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے۔ (الجامع لاحکام القرآن۱۸:۳۰)
قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
جوشخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیرہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میںگہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فی صد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ اللہ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ آپؐ کا اندازِ تلاوت اور طریقۂ قراء ت یہ تھا کہ آپؐ قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو آپؐ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت دہراتے ساری رات گزار دی:
اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (المائدہ ۵:۱۱۸) اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسولؐ اللہ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدُ وَاَخَوَاتُھَا قَبْلَ المَشِیْبِ!(صحیح الجامع الصغیر) ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘۔
جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم___؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟___نہیں، ہرگز نہیں!قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!
اسلام کے نظامِ عبادت کا بنیادی مقصد بندے اور رب کے تعلق کو مستحکم کرنا اور للہیت پر مبنی اجتماعیت پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ وہ عبادات بھی جو انفرادی طور پر ادا کی جا سکتی ہیں، ان کی روح بھی اجتماعیت ہی میں ہے۔ حج کو چھوڑتے ہوئے، کیوںکہ وہ تو ہوتا ہی اجتماعی سطح پر ہے نماز روزہ اور زکوٰۃ اجتماعیت اور للہیت پیدا کرنے کے عملی ذرائع ہیں۔ رمضان الکریم ہر سال اہل ایمان کو ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے رب کے ساتھ تعلق کو مستحکم کریں، بلکہ اللہ کے بندوں کو روزہ افطار کراکے ، اللہ کے بندوں کو لباس پہنا کر، اور اللہ کے بندوں پر سے کام کی مشقت کم کرکے رب کی قربت حاصل کر لیں۔
رمضان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت رحمت کا ایک مظہر ہے کہ وہ اپنی فیاضی اور کرم سے اپنے بندوں کو روزہ رکھنے کی توفیق دیتا ہے اور پھر اپنے لیے کیے گئے اس عمل کو قبول فرما کر اپنے گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کا بندوبست کر دیتا ہے۔ یہ کرم بالاے کرم ہی تو ہے جسے ایک حدیث میں رحمت کے اس بادل سے تعبیر کیا گیا ہے جو مومن بندوں پر رمضان میں سایہ فگن ہوتا ہے اور اس مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں کی عبادت کے مثل ہو جاتی ہے۔ اس ماہ میں ایک نیکی عام دنوں کے مقابلے میں ستّر گنا بلکہ سات سو گنا اجر کا سبب بن جاتی ہے۔
اس مہینے کا اول عشرہ رحمت، وسط کا عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ آگ سے نجات کا سامان کرتا ہے۔اگر اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ عمدہ لذیذ کھانوں سے نہیں،محض دودھ کے ایک گلاس یا ایک کھجور سے افطار کرا دیا جائے اور پیٹ بھر کھانا کھلا دیا جائے تو رب کریم اپنے بندے کو حوضِ کوثر سے پانی پلوانے کا وعدہ فرماتا ہے جس کے بعد اس خوش نصیب کو میدانِ حشر میں بھی پیاس محسوس نہیں ہوگی۔
یہ مہینہ ایمان کی بہار اور انفرادی اور اجتماعی اصلاح و تزکیہ کی تربیت گاہ ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا علم صرف بندے اور رب کریم کو ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا فرمان ہے کہ میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو جسمانی طور پر ظاہر نہیں ہوتی لیکن روزہ جس طرز عمل کا مطالبہ کرتا ہے وہ ایمان کی کیفیت اور قوت کا اظہار کرتا ہے روزہ دار کی گفتگو ہو یا معاملات میں طرزِعمل، روزہ کے دوران باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ مہینہ قرآن کریم کے نزول اور اس کی عظمت و فضیلت کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اس ماہ میں قرآن کریم سے خصوصی تعلق قائم کرنے، اس کا حق ادا کرنے، اور اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی خصوصی کوشش کی جانی چاہیے۔
دنیا کے ہر خطے میں بسنے والا مسلمان عموماً دن میں پانچ مرتبہ قرآنِ کریم کی پُراز حکمت آیات کی تلاوت سورئہ فاتحہ کے علاوہ کسی مختصر سورہ کی شکل میں کرتا ہے لیکن غوروفکر کی عادت سے محرومی کے سبب ان آیات کے انتہائی واضح مفہوم پر غور کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ قرآنِ کریم کا یادداشت یا کتابِ عزیز کو سامنے رکھ کر پڑھنا بلاشبہہ اجروثواب کا کام ہے لیکن کیا قرآنِ کریم خود اپنے بارے میں اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم ترین ہدایت نامے کے بارے میں کہیں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے صرف اجروثواب کے لیے نازل کیا گیا ہے یا بار بار اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے کلام پر غور، فکر، تدبر، تعقل، تحقیق اور تفقہ کی دعوت دیتے ہیں۔
ہم اکثر اُمت مسلمہ کی زبوں حالی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہ کہتے تو ہیں کہ اس کا سبب قرآنِ کریم سے دُوری ہے۔ لیکن کیا بیماری کا سبب جاننے کے بعد نسخہ اور مشکلات کا حل کرنے والی چابی کی طرف متوجہ ہوکر مرض کے علاج اور شفا کے لیے اس اکسیر کا استعمال کرنے کے لیے اپنے وقت میں سے کوئی حصہ نکالتے ہیں؟
انسانی تاریخ میں آج تک مسائل و مشکلات کا حل نہ خواہشات سے ہوا ہے نہ محض اُمید سے۔ عملی اقدامات کے بغیر کسی بھی مسئلے کا حل نہ عقل مان سکتی ہے اور نہ تجربہ۔ اس عظیم کتابِ ہدایت کا ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف حکمت و دانائی سے لبریز ہے اور بغیر اس کی فلسفیانہ تعبیرات کے، صرف خلوصِ نیت کے ساتھ اس کے معانی پر غور ہمارے مسائل کا بہترین حل فراہم کرسکتا ہے۔
تمام اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ربِ کریم نے محض ایک کلمے میں ہمارے طرزِعمل، معاملات، ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے حل کی طرف نشان دہی فرما دی ہے۔ سورئہ نساء میں ایک آیت پر اگر غور کیا جائے تو اس میں انسانیت کا پورا منشور رقم کر دیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا ٰامِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًام بَعِیْدًا o(النساء ۴:۱۳۶) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسولؐ پر اور اُس کی کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کی ہے، اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دُور نکل گیا۔
اہلِ ایمان کو ’اے ایمان والو‘ کہنے کے بعد یہ فرمانا کہ ’ایمان لائو‘ ہر صاحب ِ فہم کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اس میں کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ محض ایک ادبی اسلوب ہے یا ان لوگوں کو جو ایمان لاچکے ہیں دوبارہ ایمان لانے پر متوجہ کرنے کا مفہوم کچھ اور ہے؟آیت ِ مبارکہ کابقیہ حصہ اُس ایمان کی وضاحت کرتا ہے جو ہم ہرمسلمان بچے، جوان اور معمر فرد کو زبانی یاد کراتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ پر نازل کردہ اس کتاب، اور ہر اُس کتاب پر جو آپ کی شریعت سے پہلے نازل کی گئی، فرشتوں اور آخرت پر یقین رکھنے کا نام ایمان ہے۔ اور جو اس کا منکر ہے وہ گمراہ ہے جسے ہدایت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کی طرف لانے کی ذمہ داری اُمت مسلمہ پر ڈال دی گئی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو ارشاد ربانی کہ ’ایمان لائو‘ کی وضاحت خود کلامِ عزیز تفصیل کے ساتھ ہرصفحۂ کتاب پر کرتا ہے تاکہ ایمان کسی مخفی کیفیت تک محدود تصور نہ کیا جائے ،بلکہ ایمان کا واضح اظہار طرزِعمل (behaviour) اور قابلِ محسوس رویے میں ہو، اور جسے انسانی نگاہ اور ذہن عقلی پیمانوں کے ذریعے پیمایش کرکے اور ناپ تول کر یہ طے کرسکے کہ ایمان، ترقی کی جانب رواں دواں ہے یا تنزل کی طرف جارہا ہے۔ ایک حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جب کوئی مومن کسی غلطی کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو ایمان اس کے دل میں کم سے کم تر ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ ایک لمحے کے لیے بالکل غائب ہوجاتا ہے۔
گویا جدید علوم انتظامی میں جس چیز کو کارکردگی کے قابلِ پیمایش پیمانے KPI (Key Performance Indicators) کہا جاتا ہے، قرآن کریم میں جہاں بھی ایمان کا ذکر آتا ہے، اس کے ساتھ ہیKPI بھی بیان کردیا جاتا ہے، تاکہ ایمان ایک طرزِعمل کی شکل اختیار کرجائے اور ایک مخفی کیفیت تک محدود نہ رہے۔
اس پس منظر میں پہلا پیمانہ یا KPI دین کو جامع نظامِ حیات ماننا ہے۔ اس صداقت پر یقین کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص زندگی کے کاروبار میں روایتی تقسیم کرتا ہے یا توحید ِ خالص اور اطاعت ِ رسولؐ کی بنا پر اپنے ذاتی، گھریلو، سیاسی، معاشی، ثقافتی، عسکری اور دفاعی، تعلیمی معاملات کو قرآن و سنت کا تابع بناتا ہے۔ اگر اس کا ایمان تو اللہ اور رسولؐ پر ہے لیکن اس کی ذاتی پسند اور ناپسند کا معیار اس کی برادری یا حلقۂ احباب کا کسی کام کو اچھا یا بُرا سمجھنا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی برادری یا دوستوں یا اہلِ خانہ کا عبد یا بندہ بن جاتا ہے اور بعض اوقات اپنی پارٹی (حزب) کو اپنا خدا بنالیتا ہے۔ اگرچہ وہ کلمۂ شہادت پڑھ کر اعلان تو یہی کرتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا لیکن اس کی اَنا، نفس، ذاتی مفاد، اس کے تمام فیصلوں کی بنیاد ہیں تو وہ ایمان لانے کے باوجود ایمان نہیں لایا۔ خاتم النیینؐ نے اس عملی صورتِ حال کو، جو ہم میں سے ہر فرد کو دن میں بارہا پیش آتی ہے، اپنے ایک قولِ بلیغ میں یوں ارشاد فرما دیا:
مَن اَحبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (بخاری، عن ابوامامہؓ) جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا ، اس نے ایمان کو مکمل کرلیا۔
گویا ایمان کوئی غیرمرئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا احساس و اظہار طرزِعمل میں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کی اصطلاحات ایمان، فسق، نفاق، کفر اور ظلم طرزِعمل پر مبنی اصطلاحات ہیں۔ یہ فلسفیانہ پیچیدگیوں سے آزاد واضح اور آسان خطوط پر مبنی ہیں۔
جو شخص روایتی تقسیم کی بنیاد پر زندگی بسر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بعض معاملات ’دینی‘ ہیں اور بعض ’دنیاوی‘ ہیں، وہ دین کی کاملیت اور جامعیت کا عملاً انکار کرتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ دین محض نماز اور روزے کا اہتمام کرنے سے مکمل ہوجاتا ہے، جب کہ اس کی پسند و ناپسند کا پیمانہ کبھی مغرب، کبھی مشرق، کبھی اپنا نفس، کبھی اس کی جماعت اور پارٹی ہو اور کبھی برادری اور معاشرے کا خوف ہو۔ یہ وہ پہلا پیمانہ ہے جو ہمیں آئینے میں اپنا صحیح چہرہ دکھا سکتا ہے کہ ہم کس حد تک صاحب ِ ایمان ہونے کے باوجود حاملِ ایمان ہیں اور ہمارا عمل کس بات کی شہادت دے رہا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo (التوبہ ۹:۲۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔
دوسر ا اہم پیمانہ کسی فرد کا ایمان لانے کے بعد صداقت، سچائی اور بھلائی اور خیر کا بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی زندگی کے معاملات میں رائج کرنا ہے۔ یہ صداقت اور سچائی محض اس چیز کا نام نہیں ہے کہ ایک شخص جب بات کرتا ہے تو وہ سیدھی ، سچی اور کھری ہو، یا اس میں کوئی لگاوٹ، اخفا یا ذومعنی الفاظ کا استعمال یا کسی حیلہ کا استعمال کیا جا رہا ہو، بلکہ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جب بات کی جائے تو خیرخواہی کی ہو۔ اس میں اپنے بھائی کو چکّر دینے اور اپنے فائدے کے لیے اسے صرف اتنی بات بتانا جس سے خود اپنا فائدہ اُٹھایا جاسکے یا پورے حقائق، اور پورے حق کا اظہار نہ کرنا بھی شامل ہے۔
قرآنِ کریم اس رویے اور طرزِعمل کو قولاً سدیداً سے تعبیر کرتا ہے۔ قولِ حق و صداقت کا تعلق محض ایک سیدھی بات کہہ دینے سے نہیں ہے بلکہ حق کو پہچاننا اور باطل، ظلم، طاغوت کے ساتھ فرق کو سمجھنا، مداہنت سے بچنا اور اپنے ذاتی فائدے سے بلند ہوکر حق کا ساتھ دینا ہے۔ اسی پہلو کو قرآنِ عظیم نے یوں واضح فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ o(التوبہ ۹:۱۱۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔
سچ اور صداقت ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ باطل اور ناحق کو ہاتھ اور زبان سے دُور کرنا اور حق و صداقت کو بغیر کسی ملاوٹ کے مشکل ترین حالات میں حکمت دین کے ساتھ واضح کرنا دین کا مطالبہ ہے۔ یہ وہ بنیادی صفت ہے جس کے بغیر کارِ نبوت مکمل نہیں ہوتا۔ ابھی نزولِ وحی کا آغاز نہیں ہوا تھا لیکن صاحب ِ قرآن کے طرزِعمل اور رویے نے اہلِ مکہ کو آپؐ کی صداقت اور سچائی اور امانت کے برملا اقرار پر مجبور کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آپؐ کو سچا اور صادق ماننے کے باوجود اپنے عملی تضاد کی بنا پر آپؐ کے لائے ہوئے حق اور صداقت کو ماننے پر آمادہ نہ ہوئے۔
اکیسویں صدی کے تناظر میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ مغرب ہو یا مشرق، انسان کے خودساختہ نظام انسانیت کو فلاح، سعادت اور سکون دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق تک قولِ حق اور قولِ سدید کو پہنچانے کی ضرورت شدید سے شدید تر ہوچکی ہے۔ اب یہ تحریکاتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوتِ حق کو بغیر کسی مداہنت اور قولِ حق کو بغیر کسی مفاہمت کے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ حکمت ِ دعوت کے ساتھ تمام موجود وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے قائدانہ کردار ادا کرے۔ اور یہ کام کرتے ہوئے ایمان کے ایک اور مطالبے، یعنی ربِ کریم کی حمد، شکر اور ذکر کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرے۔
للہیت اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانا ہی کامیابی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ محض اپنی عددی طاقت پر بھروسا، عوامی مقبولیت اور عوامی نعروں پر اعتماد ایک ناپایدار تصور ہے۔ دعوتِ دین اپنا الگ مزاج رکھتی ہے۔ یہاں ۱۰ تربیت یافتہ ، اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کرنے والے کارکن اپنے سے ۱۰ گنا زیادہ باطل کی قوت کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی استعانت سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ (اے نبیؐ) مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے‘‘ (انفال ۸:۶۵)۔ قرآنی تصورِ قوت ایک نرالا تصور ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ پہلے ۶۰لاکھ لوگ جمع کرو، تب تم street power بن کر انقلاب لائو گے، بلکہ وہ واضح طور پر کم تعداد میں وہ قوت مجتمع کردیتا ہے جو بڑے بڑے طوفانوں اور کفر کے سیلاب کو اپنی قوتِ ایمانی سے انگیز کرسکے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے کفروظلم کی کثیرطاقت پر کامیابی حاصل کرسکے۔ بدر کا معرکہ ماضی کا قصہ نہیں ہے۔ یہ قیامت تک کے لیے تحریکاتِ اسلامی کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔
یہاں مطالبہ تزکیۂ نفس کا، قرآن سے تعلق کا، سیرتِ پاک کے رنگ میں رنگ جانے کا ہے۔ یہاں صبرواستقامت پر اُبھارا جا رہا ہے۔ صابرون سے مراد وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں جو ہرمیدان میں ایمانی بصیرت کے ساتھ مہارت رکھتے ہوں۔ وہ میدان معیشت کا ہو، تعلیم کا ہو، سیاست کا ہو یا فکر کا ہو یا عسکری جہاد، یہ صابرون ان تمام شعبوں میں قیادت کی صلاحیت کے ساتھ اپنے رب پر مکمل بھروسا کرتے ہوئے جب اس کی راہ میں نکلتے ہیں تو پھر راستے کی رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح معدوم ہوجاتی ہیں۔ اہلِ ایمان کے ایمان کو ناپنے کا ایک پیمانہ اللہ کی یاد، ذکر اور تذکرہ ہے جو قلت تعداد کے باوجود باطل قوتوں کی کثرت کو لرزہ براندام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًاo وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًاo
(احزاب ۳۳:۴۱-۴۲) اے ایمان لانے والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔
اللہ کا ذکر اپنی مکمل شکل میں نماز میں پایا جاتا ہے۔ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۵)’’اور اپنے رب کا نام یاد کیاپھر نماز پڑھی‘‘۔ لیکن یہ ذکر اور یاددہانی محض صلوٰۃ فجر اور عشاء تک محدود نہیں۔ ایک مومن کا ہرلمحہ، ہر سانس، ہرعمل بندگیِ رب میں کیا جا رہا ہو تو اس کا ہرعمل عبادت اور ذکر شمار کیا جاتا ہے اور ارحم الراحمین مزید فضل فرماتے ہوئے اپنے بندے کی خامیوں اور کمزوریوں کو قوتوں اور حسنات سے بدل دیتا ہے۔
تزکیہ نفس
ایمان کی کیفیت کا تیسرا پیمانہ یا KPIایک فرد کا مسلسل تزکیہ میں مصروف رہنا ہے۔ تزکیہ ایام بیض کے روزوں یا قیام لیل تک محدود نہیں ہے۔ اس کا پہلا میدان گھر اور خاندان ہے کہ ایک فرد کہاں تک اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کررہا ہے جو محبت، ہمدردی اور نصیحت کا ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے لیے جو روزی کما رہا ہے، وہ حلال ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے۔ وہ اپنے گھر والوں پر جو خرچ کر رہا ہے، اس میں کہاں تک اعتدال ہے، وہ اسراف سے کتنا محفوظ ہے۔ وہ اپنے والدین اپنے اقربا اور اپنے احباب کے حقوق کس حد تک ادا کر رہا ہے۔ یہ تمام اعمال ایمان کے پیمانے ہیں۔ ایک حدیث صلہ رحمی کے حوالے سے ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر ایک شخص اپنے اقربا کی طرف سے ناشکرگزاری کے باوجود ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو وہ آخرت میں کامیاب ہوگا۔ فرد کا تزکیہ اس کے مال کا بھی ہے، صلاحیت کا بھی، وقت کا بھی اور سنن اور نوافل کے اہتمام کا بھی۔ تزکیہ بھلائی اور خیر کے مسلسل بڑھنے کے عمل کا نام ہے۔ یہ ایک جامع ذاتی ترقی کے عمل کا نام ہے جس کے نتیجے میں شخصیت و کردار میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔
چوتھا پیمانہ جو یہ طے کرتا ہے کہ ایک فرد کا طرزِعمل ایمان کا پتا دیتا یا تقویٰ سے دُوری کی نشان دہی کرتا ہے، جادئہ عدل کو اختیار کرنا ہے۔عدل قرآنِ کریم کی بنیادی اصطلاحات میں سے ایک اہم تعلیم اور اصول ہے۔ اس کا ایک واضح مفہوم وہ ہے جو ہم میں سے ہرایک بخوبی جانتا ہے، یعنی کسی تعصب، لاگ لپیٹ، ذاتی پسند ناپسند، نفرت یا محبت، قبائلی نسبت، خونی اور خاندانی تعلق، نظریاتی اتحاد، غرض ہر تعلق سے آزاد ہوکر اللہ کی خاطر، سچائی اور حق کی گواہی دیتے ہوئے ایک مشرک کے ساتھ بھی عدل کا رویّہ اختیار کرنا۔ اسی کا نام تقویٰ اور اسی کا نام توحید ہے۔
عدل کا مطالبہ ہے کہ تمام مراسمِ عبودیت ، اطاعت ، فرماں برداری، محبت صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے اور اس میں کسی کو شریک کرلیا گیا تو اسی کا نام ظلم عظیم، یعنی شرک ہے۔ بالکل اسی طرح کسی گروہ کی دشمنی یا دوستی سے بلند ہوکر شہادتِ حق دیتے ہوئے وہ فیصلہ کرنا جو عدل کا مطالبہ ہو تقویٰ ہے۔ گویا عادلانہ رویہ وہ پیمانہ یا KPIہے جو یہ بتلاتا ہے کہ ایک شخص ایمان اور تقویٰ سے کتنا قریب ہے۔ یہاں بھی ایمان کسی مخفی کیفیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک واضح طرزِعمل اور قابلِ محسوس رویّہ ہے جیسے ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا ذہن بغیر کسی الجھائو کے محسوس کرسکتا ہے۔ ایمان کے اس پہلو کو کتابِ حکمت و رُشد و ہدایت یوں بیان کرتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط
اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo(المائدہ ۵:۸) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
یہاں تحریکی کارکنوں کے لیے اہم دعوتی پہلو واضح کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کی دشمنی یا مخالفت مستقل نہیں ہوسکتی۔ اپنی تمام خامیوں کے باوجود ہر مشرک، فاسق اور ظالم ایک ممکنہ مومن ہے۔ فرعون کی فرعونیت کے باوجود اسے نظرانداز نہیں کیا گیا بلکہ حضرت موسٰی ؑ اور حضرت ہارون ؑ سے فرمایا گیا کہ تم دونوں جائو اور اسے نرم اور دل نشین انداز میں دعوتِ حق دو شاید وہ بھلائی کی طرف آمادہ ہوجائے۔ گویا سیاسی مخالفین ہوں یا نظریاتی دشمن، اُن تک دعوت کا پہنچانا ہر تحریکی کارکن کا ہدف ہونا چاہیے۔
ایمان کے وجود اور قوتِ ایمانی کا ایک پیمانہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے اطاعت کا وہ رشتہ ہے جس میں ایک مرتبہ منسلک ہونے کے بعد ایک صاحب ِ ایمان تمام غلامیوں اور ہرقسم کے خوف و ہراس سے آزاد ہوجاتا ہے۔ یہ وہ طوقِ اطاعت ہے جو ایک شخص کو تمام غلامیوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ اپنے رب کے احکام چاہے وہ مشکل نظر آئیں یا آسان، دل کی خوشی کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے طاغوت، اپنے زمانے کے معاشی طاغوت، سیاسی طاغوت، ثقافتی طاغوت اور سیاسی برتری اور قوت کے طاغوت سے آزاد ہوکر اپنی تمام صلاحیتوں کو، اپنے تمام معاملات کو، اپنے تمام مفادات کو صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع بناتے ہوئے سرِتسلیم خم کردیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ فرماں روا اور اولی الامر جن سے اس کا روز واسطہ پڑتا ہے، اگر وہ اللہ اور رسولؐ کے نظام پر عمل نہ کر رہے ہوں تو وہ ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنا رُخ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑ دیتا ہے۔
یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جو روزِ روشن ہو یا شام کی دھندلاہٹ، ہر صورتِ حال میں ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ایک فرد کہاں تک اللہ کا عبد ہے اور کہاں تک مصلحت ِ وقت کا۔ یہ ایمان کو بے حجاب کردیتا ہے۔ ایمان اپنی ماہیت کے لحاظ سے چھپنے اور دبنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کا جوش اور ولولہ اسے ہرسطح پر واضح طور پر نمایاں کردیتا ہے۔ یہ ایک قابلِ محسوس، قابلِ پیمایش رویہ اور طرزِعمل کا نام ہے۔ اسی کو قرآنِ کریم نے خَیْرٌ وَّاحْسَنُ تَاْوِیْلًا سے تعبیر کیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo(النساء ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
اس آیت مبارکہ نے اللہ اور آخرت پر ایمان کو جس طرزِعمل اور رویے سے منسلک کر دیا ہے وہ ہرلحاظ سے قابلِ محسوس ہے۔ تین پیمانے ہمیں بتا دیے گئے ہیں یہ جانچنے کے لیے کہ ایمان کی سطح کیا ہے:
اوّل: ایک کارکن یا ذمہ دار فرد کہاں تک فیصلے کرنے میں اور فیصلوں پر عمل کرنے میں بنیادی طور پر یہ دیکھتا ہے کہ وہ فیصلہ کسی اتحاد میں شامل ہونا ہو یا کسی عوامی ریلی میں شرکت، اس میں بنیاد رضاے الٰہی اور اطاعت ِ رسولؐ ہے یا کوئی قریب المیعاد سیاسی مفاد۔ اپنی شہرت و مقبولیت ہے یا ہر مفاد سے بلند ہوکر صرف اور صرف رضاے الٰہی۔ اور جب ایک فیصلہ اللہ اور رسولؐ کے حکم کی بنا پر کرلیا گیا تو پھر اس فیصلے پر کس شدت سے عمل کیا جا رہا ہے۔
دوم: اُولی الامر اور نظم کی اطاعت کرتے وقت کہاں تک نظم کی رضا مقصود ہے اور کہاں تک صرف اور صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی بنیاد ہے۔ جب اولی الامر کے حکم اور اللہ اور رسولؐ کے حکم میں انتخاب ہو تو پھر ایمان کا تقاضا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمشروط اطاعت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو اللہ اور آخرت پر ایمان خطرے میں پڑجائے گا۔
سوم: اگر کسی مسئلے میں تنازع کھڑا ہوجائے تو ایسے آزمایشی مواقع پر حق پر قائم رہنا، موقع پرستی اور مداہنت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قولِ سدید اور شہادتِ حق دینا ایمان کا وہ پیمانہ ہے جسے اُمت مسلمہ کی تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ایمان کو جانچنے کا ایک پیمانہ وہ رویّہ اور طرزِعمل ہے جو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح رشتۂ اخوت میں جوڑ دے اور وہ محض ایک جماعت کے کاغذی ممبر نہ رہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے سہارا اور قوت بن جائیں۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی اور تکلیف میں برابر کے شریک ہوں۔ اگر تحریک کے ایک حصے میں جو سیکڑوں ہزاروں میل کے فاصلے پر ہو، کوئی آزمایش ہو تو وہ اس میں خاموش تماشائی نہ ہوں بلکہ ان کا دل و دماغ اور جسم اس تعلق کی وجہ سے بے چین ہو۔ وہ نہ صرف مظاہروں کے ذریعے بلکہ بین الاقوامی دبائو اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع استعمال کریں اور ربِ کریم کے حضور شب و روز دعائوں کا ایسا سلسلہ شروع کریں کہ اس کی رحمت جوش میں آجائے اور وہ تحریکِ اسلامی کی آزمایش کو ان کے لیے رحمت کا ذریعہ بنا دے۔
فلاح، کامیابی اور کامرانی کو قرآنِ کریم نے اس اخوت کی قوت کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جس پر ہر تحریکی کارکن اور قائد اپنی جانچ خود کرسکتا ہے۔ فرمایا گیا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا قف وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھائو، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پائو گے۔
ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے: ’’ایمان نام ہی صبروسماحت کا ہے۔ حضرت عمرو بن عتبہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان نام ہے صبر اور سماحت کا(مسلم)۔ گویا راہ کٹھن ہو یا آرام دہ، عزم، جدوجہد اور جہد مسلسل پوری استقامت کے ساتھ جاری رہے۔ اور اللہ کے راستے میں کام کرتے ہوئے کبھی اپنی ذات، اپنی قوت، اپنی حکمت عملی، اپنی سیاسی مقبولیت اور ذہانت، غرض ہر اُس طرزِعمل سے بچا جائے جو عالی ظرفی کے منافی ہو اور ہر وہ بات اختیار کی جائے جس سے خاکساری اور نرم خوئی میں اضافہ ہو۔
جب ایک مرتبہ سوچ سمجھ کر تحریک کی دعوت کو قبول کرلیا ہو تو پھر اپنی اَنا، ذاتی رنجش، اختلاف راے اور نظرانداز کیے جانے کے باوجود تحریک سے وابستگی، اپنی ذاتی راے کو اجتماعی راے کا تابع بنانا اور جماعت سے وابستگی اور دین کی دعوت کے لیے ہر سرگرمی میں جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لینا، کسی لمحے بھی مایوس اور شاکی نہ ہونا ثابت قدمی و استقامت کا تقاضا ہے۔ اس سے بڑھ کر اللہ کا فضل کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک بندے کو ایسی اجتماعیت سے وابستہ ہونے کی توفیق دے جو معروف کے قیام اور منکر کے مٹانے کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو۔ یہ تو شکر کے رویے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میں شکایت، برہمی، مایوسی اور پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کو شعوری طور پر تسلیم کرنے کے ساتھ ایمان کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اپنی جان، اپنے مال اور اپنی صلاحیت کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت کے قیام کی جدوجہد میں مکمل طور پر لگا دیا جائے۔
یہ جدوجہد جزوقتی نہیں ہے کہ ’دنیا‘ کے بہت سے کاموں کے ساتھ، چاہے وہ ذاتی معاش کے لیے ہوں یا اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرکے شہرت کے لیے ہوں، یا اپنے اہلِ خانہ کو خوش کرنے کے لیے وسائل پیدا کرنے کے لیے ہوں۔ غرض ہر وہ کام جسے عام طور پر دنیاوی کہا جاتا ہے، اس میں اپنی تمام تعمیری صلاحیت اور قوت کو صرف کرنے کے بعد ہفتہ کے آخر میں دو دن جب ’دنیاوی کاموں‘ سے فرصت حاصل ہوتو اس وقت کو دعوتی کام میں لگا دیا جائے اور سمجھا جائے کہ اقامت دین کا فریضہ ادا کر دیا۔ درحقیقت دن رات کے ہرلمحے میں حضرت نوح ؑ کے عزم اور جذبے کے ساتھ اس فریضے کو انجام دینے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یہ وہ انقلابی عمل ہے جس میں ایک فرد کا رویہ اور طرزِعمل، قرآن و سنت سے مطابقت پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنی دوستی کا معیار دعوتِ حق کو بناتا ہے۔ ان سے جڑتا ہے جو حق کی طرف راغب ہوں، ان سے محتاط ہوتا ہے، جو بے مقصد زندگی میں گم ہوں۔ ہاں، انھیں ا س سراب سے نکالنے کے لیے لازماً کوشاں رہتا ہے۔ اس کی محبت اور دوستی کا پیمانہ صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے والوں سے قربت، اور نمایش اور چمک دمک کی طرف لپکنے والوں سے فاصلہ ہوتا ہے۔ وہ ہرلمحہ اپنے رب سے اچھی اُمید اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کا طلب گار ہوتا ہے۔وہ اپنے رب کے فضل کو اس کی مغفرت میں تلاش کرتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ط وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (انفال ۸:۲۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی [بھلائی اور بُرائی میں تمیز کی صلاحیت] بہم پہنچا دے گا اور تمھاری بُرائیوں کو تم سے دُور کردے گا اور تمھارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
قرآنِ کریم نے اس طرزِعمل کو دوسرے مقام پر ایک ایسی تجارت سے تعبیر کیا ہے جس میں صرف کرنے والے کے لیے نفع ہی نفع اور خسارے اور عذاب سے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہاں بھی ایمان کی کسوٹی اور پیمانہ ایک قابلِ محسوس طرزِعمل اور رویہ ہے، یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت انسانوں کے لیے بھیجی ہے، اسے اللہ کی زمین پر نافذ کرنے اور نظامِ عدل اور حق و صداقت کو غالب کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں، اثاثے اور دولت کو لگادینا،کلمۂ حق کو بلند کرنے کے لیے کسی مداہنت سے کام نہ لینا، اور قولِ سدید کے لیے اپنا تن من دھن اللہ کے راستے میں لگا دینا۔ اس سے زیادہ قابلِ اعتبار سودا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس سایے کے مانند پائی جانے والی دنیا میں، زندگی کے لمحات کو اللہ کے راستے میں لگانے کے بدلے ہمیشہ رہنے والی زندگی میں نجات اور عذاب سے نجات مل جائے۔ یہ سودا نہیں، یہ تو رب کریم کی ایک عظیم بخشش ہے، ایک انعام ہے جو مالکِ کائنات ہی دے سکتا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ راہ رو جو اس راہِ مستقیم پر رواں دواں ہوں جن کی آبلہ پائی انھیں یومِ حساب کی شرمندگی سے محفوظ کردے، اور وہ ان میں شامل ہوجائیں جن سے ہلکا حساب لیا جائے گا:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الصف ۶۱:۱۰-۱۱) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
اللہ کے دین کی دعوت دینا اور اس بابرکت سرگرمی میں اپنی جان، اپنا مال اپنا وقت اپنی صلاحیت کو لگا دینا وہ تجارت ہے جس میں نقصان آس پاس بھی نہیں آسکتا۔ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یہ نہ صرف عذابِ الیم سے بچانے کا ذریعہ ہے بلکہ وہ مومن جو خلوص نیت کے ساتھ شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرتا ہے، رب کریم اسے ان جنتوں سے نوازتا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور جہاں اس بندۂ مومن کے لیے ہر ممکنہ آسایش اس کا انتظار کر رہی ہے۔ ایمان و عمل کا رشتہ انتہائی قریبی ہے۔ اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے قرآن سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا، خاندان اور محلے کے دعوتی حقوق ادا کرنے ہوں گے اور اجتماعیت کو اختیار کرنا ہوگا۔ حقیقی کامیابی کا راز اجتماعیت ہی میں ہے۔ اجتماعی جدوجہد اور اللہ کی راہ میں جہاد دین حق کے لیے اپنا تن من دھن لگا دینا۔ ایسی سعادت ہے جو خوش نصیبوں ہی کو ملتی ہے۔ قابل مبارک باد ہیں اللہ کے وہ انصار جو بادِ مخالف کی پروا کیے بغیر اپنا تمام اثاثہ اس جدوجہد میں لگاتے ہیں، جن کی نماز اور جن کا جینا اور مرنا صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت:۱۳ روپے،سیکڑے پر خصوصی رعایت)
اللہ جل شانہ کی ہستی جس قدر عظیم اور لا محدود ہے، اسی قدر اس کے حقوق بھی ہیں۔تاہم، قرآن مجید میں کسی ایک مقام پر ان کا مفصل اور جامع تذکرہ نہیں ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن عظیم میں اپنی عظمت و جلال کا بار بار ذکر کر کے اپنے بندوںسے یہ تقاضا ضرور کیا ہے کہ وہ یہ غورکریں کہ اب انھیں کس کس کے ساتھ کیا رویہ روا رکھناہے۔ اس کے بندوں کو اپنی عقل و فکر اور شعور و آگہی سے فائدہ اٹھا کر حق دار کو اس کا حق دینا ہے،اور اس غلطی سے بچنا ہے جس کا ارتکاب بہت سی قوموں نے کیا اور قیامت تک انسانوں کے لیے عبرت کا نشان بن گئیں۔صدقِ دل اور طلب ہدایت کے جذبے سے قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے والوں کو اللہ کے بے شمار حقوق دکھائی دیں گے۔ ذیل میں اللہ کے حقوق کا اختصار سے تذکرہ پیش ہے:
خرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلٰہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اللہ کاایک حق یہ بھی ہے کہ خَافُونِ (اٰل عمرٰن۳:۱۷۵)،مجھ ہی سے ڈرو۔ جب کائنات میری اور قوت و اختیار کا مالک مَیں، ہر نفع و نقصان پر میری قدرت، تو پھر کسی اور سے کیسا ڈر اور کیسا خوف۔ اُس نے تنبیہہ کی، اگر میرے علاوہ کسی اور سے خوف کھایا تو یاد رکھو وہ نہ تمھارا خوف دُور کر سکتے ہیں ،نہ مدد پر قادر ہیں، مگرتم میری پکڑ سے نہ بچ سکو گے۔ اور قوموں کی عبرت ناک داستانیں گواہ ہیںکہ میری پکڑ شدید ترہے،اِِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌo (البروج۸۵:۱۲) ’’درحقیقت تمھارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے‘‘۔
اللّٰہ کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف: اللہ کا آٹھواں حق ہے، وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْo (الضحٰی۹۳:۱۱) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ اللہ کی نعمتیں بے شمار ، اور ان کا احاطہ نا ممکن ہے، وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط(ابراھیم۱۴:۳۴)۔ ان کا تقاضا اور اللہ کا حق ہے کہ بندہ منعمِ حقیقی کی بے پایاں نعمتوں کا زبان سے اقرار اور عمل سے اعتراف کرے۔ ان نعمتوں میں اللہ کے بندوں کو شریک رکھے۔ ان کے حقوق بھی ادا کرے۔ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ’ ہدایت‘ ہے۔ کتابِ ہدایت قرآن ہے۔ لوگ باہم دشمن اور آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے اس قرآن کو اخوت و محبت کا وسیلہ اور حکمت و نصیحت کا صحیفہ بناکر انسانیت کو عطا کیا، اور انسانوں کو ایک جسدِواحد کا روپ دیا۔انسان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ اپنے رب کی ہمہ جہت نعمتوں کو جھٹلائے۔ اس کی یہ نعمتیں رب کو ماننے والوں یااس کا کفر کرنے والوںسب ہی کے لیے بے حد و حساب ہیں۔ اس کا ارشاد ہے کہ میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراھیم۱۴:۷)، میں تمھیں اور زیادہ دوں گا۔ تمھاری شکر گزاری کا رویہ مجھے راضی کرے گا۔ میں تمھیں دنیا میں ترقی اور آخرت میں سر بلندی عطا کروں گا۔ اللہ کی نگاہ میں کفرانِ نعمت جرمِ عظیم ہے۔ قرآن نے یہ حقیقت بھی بتائی کہ اللہ کی شکر گزاری خود تمھارے اپنے مفاد میں ہے، وَمَنْ شَکَرَ فَاِِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج (النمل۲۷:۴۰)۔ اللہ کو نہ تو تمھاری شکرگزاری کی ضرورت ہے، نہ وہ اس کا محتاج ۔ وہ غنی و حمید ہے۔ شکر گزاری کا تقاضا صرف اس لیے ہے کہ وہ منعم تمھیں اپنی بے حد و حساب نعمتوں سے نوازتے رہنا چاہتا ہے۔
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًاo (نوح۷۱:۱۰) ’’اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے‘‘۔ معاف کر دینا اُس کی بے پایاں صفت ہے۔ اللہ کا حق ہے کہ اُس کے بندے اُس سے اپنے قصوروں کی معافی طلب کریں۔ غفاری، اس کی نمایاں ترین صفت ہے۔ بندگانِ خدا کو حکم دیا گیا: سَابِقُوْٓا اِِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ (الحدید۵۷:۲۱)، اپنے رب کی مغفرت کی طلب میں ایک دوسرے سے سبقت کرو۔
لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط (البقرہ۲:۱۶۸)___ جو رحمن کے مقابل آکھڑا ہوا ، اُس کا نافرمان ہوا، اس کے مقابلے میں بغاوت و سر کشی اور تکبر کا دعوے دار ہوا، اپنے رب کے احسانات کو بھلا بیٹھا، اسے اللہ کے مخلص بندے اپنادوست کیسے بنا سکتے ہیں؟حکم ہوا: فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا ط (الفاطر۳۵:۶)، تم بھی اسے اپنا دشمن تسلیم کرو، اور اس کی دوستی سے اجتناب کرو۔ اس لیے کہ وہ دوست نہیںبد ترین دشمن ہے۔
اہل ایمان پر لازم ہے کہ قر آن کی یہ پکار سنیں: مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا o (نوح۷۱:۱۳)،یعنی تمھیں کیا ہوا ہے کہ اللہ کے وقار کا خیال نہیں رکھتے۔ اُس کے ساتھ اُس کے مرتبہ و مقام اور حیثیت کے مطابق سلوک نہیں کرتے۔ اپنے حقوق کی جنگ، اپنے مفادات کا تحفظ، اپنی شان و شوکت اور بقا کی لڑائی، اپنے معاملات میں غیرت و حمیّت کا اظہار ،مگر اللہ کے حقوق کی ادایگی نہ تمھارا مطمح نظر ہے، نہ ترجیح، اور نہ ان کے لیے کوئی جدوجہد ہی۔
اللہ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کے حقوق کا شعور و ادراک کرتے ہوئے اُس کے شایانِ شان مقام اور اس کے وقار و عظمت کا اعتراف کریں اور اُس کے حقوق اِس طرح ادا کریں، جیسا کہ وہ اُن کا مستحق ہے۔ اس طرح کہ یہ احساس دامن گیر رہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
حج کے مبارک سفرسے سعادتوں کے ساتھ واپس آنے والے خوش قسمت برادران کے لیے دیدہ و دل فرش راہ! محترم بزرگوار اور عزیز بھائیو! کیا آپ نے حج کو اچھی طرح جانا اور سمجھا بھی؟ اُس سے جو کچھ لینا تھا لیا؟ آپ اپنے ساتھ، اپنے اور دوسروں کے لیے کیا لے کر آئے؟ حج نے آپ سے کچھ باتیں کیں؟ اُس نے کوئی پیغام آپ کو ودیعت کیا؟ یا آپ صرف آبِ زم زم، کھجوریں، جانمازیں اور تسبیحیں لے کر آگئے؟
بہت سے حاجی ہیں جو اگرچہ ہمیشہ حاجی کہلائیں گے، مگر وہ اپنے حج سے دُور ہوتے جاتے ہیں۔ جس دنیا کے مفاد سے وہ کچھ دیر کے لیے الگ ہوئے تھے، وہ پہلے سے زیادہ زور اور پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ دبوچ لیتے ہیں۔
اصل میں بات بڑی نازک سی ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ: ’’شیطان کو اذان کی آواز سخت ناپسند ہے اور وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر اس سے بھاگتا ہے‘‘۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’وہ جب کسی شخص کو خدا کے سامنے سربسجود دیکھتاہے تو اسے بہت ناگوار ہوتا ہے‘‘۔ خصوصاً حج جیسی عظیم عبادت سے جو شخص گزر کر آرہا ہے، اُس کا نام تو درخواست دینے کے دن سے ہی ابلیسی نظام کی لال کتاب میں درج ہوگیا۔ شیاطین جن سے زیادہ ذمہ داریاں انسانی شیاطین کے سر ہوتی ہیں اور یہ اپنا کام دن رات جاری رکھتے ہیں۔ کچھ محبوب اور عزیز لوگ، کچھ کاروبار کے ساتھی، کچھ دفتروں کے ہم نشین، کچھ گائوں اور محلے کے خیرخواہ، کچھ دنیوی معاملات میں مشورے دینے والے، کچھ دین میں نئے نئے شگوفے نکالنے والے، کچھ قصیدہ خوان، کچھ خوشامدی، کچھ خدمت کیش!
حج فی الواقع بہت بڑی عبادت ہے اور بہت سی عبادات کی جامع!
حج میں ہجرت کا رنگ بھی شامل ہے، اور جہاد کا اسلوب بھی۔ اس میں ذکر و دعا بھی ہے اور رکوع و سجود بھی۔ مزدلفہ کی رات کی خاموش عبادت بھی اور لاکھوں کے مجمع میں یومِ عرفہ کا خطبہ بھی۔ احرام کی کفن نما پوشش بھی ہے اور عید کا خوش آیند لباس بھی۔ وہاں آنسوئوں کی جھڑیاں بھی ہیں اور مسکراہٹوں کی کلیوں کی لڑیاں بھی۔ آدمی بیک وقت وہاں بے ہمہ بھی ہوتا ہے اور باہمہ بھی۔ تھوڑی دیر کے لیے تارکِ دنیا بھی ہوتا ہے اور پھر نئی شخصیت کے ساتھ فاتحانہ شان سے دنیا کے دروازے پر دستک بھی دیتا ہے۔بے شمار قبیلے اس کے اپنے بن جاتے ہیں، کتنے ممالک اسے اپنے ملک لگنے لگتے ہیں، مختلف بولیوں میں وہ ایک ہی جیسے معانی جھلملاتے دیکھتا ہے۔ تنگ عصبیتوں اور تالاب جیسی محدود قومیت سے آگے بڑھ کر وحدت کے ایک سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔
حاجی جب اللہ اکبر کہتا ہے تو وہ یہ اقرار کرتا ہے کہ میں نے دل سے مان لیا کہ خدا ساری قوتوں سے بڑی قوت ہے، اور اُس کا دین برتر ہے، اور اُس کا قانون سب سے فائق ہے، اُس کا اقتدار سب پر غالب ہے، اور اُس کا حکم ہر طرف جاری و ساری ہے۔ وہ جب لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتا ہے تو دراصل اپنے آپ کو بارگاہِ الٰہی میں پیش کرتا ہے کہ میں آپ کی پکار پر حاضر ہوں اور عمل سے اقرار کرتا ہے کہ جدھر آپ بلائیں گے، اُدھر مجھے حاضر پائیں گے، جدھر سے آپ ہٹائیں گے میں اُدھر سے ہٹ جائوںگا۔ پھر اپنے احرام سے وہ یہ گواہی دیتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو موت کے اُس خط پر کھڑا کر دیا ہے جس سے مجھے ایک نہ ایک دن آگے جانا ہے اور زندگی کا حساب پیش کر کے جزاو سزا سے حصہ پانا ہے۔ وہ جب بیت اللہ نامی مکان کا طواف کر رہا ہوتا ہے تو دراصل اُس کی روح خداوند لامکانی کا طواف کر کے یہ ظاہر کرتی ہے کہ میرا مرکز و محور صرف ذاتِ الٰہی ہے، اُس کی طرف لپکنا، اُسی سے محبت، اُسی کے لیے فدائیت اور اُسی کی اطاعت! وہ جب حجر اسود کا استلام کرتا ہے تو دراصل اپنے رب و الٰہ کے سنگ ِ آستاں کو اُس کے جذبات چوم رہے ہوتے ہیں۔ وہ جب مقامِ ملتزم پر کھڑے ہوکر ایمان و بخشش کی دعائیں کرتا ہے اور اپنے والدین کی مغفرت کی درخواست کرتا ہے تو گویا وہ ایوانِ جاناں کی چوکھٹ کو تھامے ہوئے ہوتا ہے اور بے اختیار روتا ہے۔ وہ صفا و مروہ میں سعی کرتا ہے اور پھر لمبی پیاس کے ماروں کی طرح پیٹ بھر کر آبِ زم زم پیتا ہے۔ اگر جذبہ صحیح ہو تو یہ آبِ زم زم وجہ شفاء القلوب ہے اور قلوب اگر صحت مند ہوں تو بدن آسانی سے امراض کا شکار نہیں ہوتے۔
حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کے احوال و جذبات سے حصہ پانے کے لیے صدیوں پہلے کی تاریخ کو کھینچ لاتا ہے۔ وہ جب عرفات کے بے پایاں ہجوم میں موجود ہوتا ہے تو اُس کے سامنے میدانِ حشر کا سا نقشہ آجاتا ہے۔ وہ قربانی کرتا ہے تو دراصل اس کا استعارہ یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے آپ کو اسی طرح احکامِ الٰہی کے تحت قربانی کے لیے پیش کردوں گا جس طرح حضرت اسماعیل ؑنے برضا و رغبت پوری شانِ صبر کے ساتھ پیش کر دیا تھا۔ یہاں اسے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑمیں جو آدابِ فرزندی ابراہیمی تعلیم و تربیت نے پیدا کیے تھے، وہی اسے اپنی اولاد میں پیدا کرنے ہیں۔ تب اُس کے دل میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس ارشاد کا صحیح مفہوم نقش ہوجاتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے۔
حاجی جب مقامِ ابراہیم پر نوافل ادا کرتا ہے تو اس کے کانوں میں باپ بیٹے کی دعائیں گونجنے لگتی ہیں۔ قرآن میں ہے:
اور یاد کرو، ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ جب اس گھر کی دیواریں اُٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں سے خود انھی کی قوم سے ایک رسول اُٹھائیو جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔(البقرہ ۲:۱۳۷-۱۳۹)
حاجی اس دعا کی صداے بازگشت سنتے ہوئے یہ نکتہ پا لیتا ہے کہ جس گھر کی تعمیر کا ذکر ہے، وہ حرم ہے جو اس کے سامنے ہے۔ یہ توحید پر استوار ہوا ہے۔ یہ سچے خدا پرستوں کا ایک مرکز دل و نظر ہے، یہ امن کا ایک سرچشمہ ہے، انسانیت کی پناہ گاہ ہے اور اس کی یہ شان برقرار رکھنا اصلاً اللہ تعالیٰ کے اپنے اہتمام سے ہے، لیکن ظاہری طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پوری اُمت محمدیؐ کا فریضہ ہے کہ وہ خدا کے اس گھر کو طواف،اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے ہرقسم کے شرک کی آلایش اور ہرقسم کے فساد کی رکاوٹ سے پاک رکھیں۔
پھر اس دعا میں یہ آرزو کی گئی ہے کہ دعا کرنے والوں کو مسلم بنا۔ ایک حاجی کو بھی یہ جذبہ ان فضائوں سے نچوڑ کر لانا چاہیے کہ وہ مسلم بن کر رہے، وہ خدا کا مطیع فرمان ہو، وہ نہ بغاوت و سرکشی اختیار کرے، نہ شرک و نفاق کی راہیں نکالے۔ مسلم ہو تو حنیف ہو، یک سُو ہو، ایک ہی رب سے لو لگا لے اور ایک ہی الٰہ کے جلوئوں سے دل کے پنہاں خانے کو روشن کرلے۔
دعا کرنے والوں نے صرف اپنے لیے ہی نعمت ِ اسلام نہیں مانگی، بلکہ اپنی نسل سے بننے والی قوم کے لیے یہ درخواست بھی کی کہ اس کو اپنا مسلم و مطیع بنایئے گا اور اُس کے اندر سے اپنا رسول مبعوث فرما کر ان کو بھی صحیح راہِ عبادت اورطریقۂ اسلام بتایئے گا۔ معلوم ہوا کہ خدا کے رسولؐ کا دامن تھامے بغیر اور اُس کی لائی ہوئی الہامی تعلیم کو قبول کیے بغیر زندگی میں نہ عبادت کا رنگ پیدا کیا جاسکتا ہے، نہ مسلم بن کے جینا ممکن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ رسولؐ آئے اور خدا کی آیات بندوں تک پہنچائے، ہدایت اُن کو پڑھ کر سنائے، خدا کی کتاب اور حکمت ِ دین کی اُن کو وسیع تر تعلیم دے۔ پھر اُن کی زندگیوں کو فکری و اعتقادی لحاظ سے اور اخلاقی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے بھی سنوارے۔
اب تو سوال صرف یہ ہے کہ ہم سب مسلمان اس تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیۂ حیات سے سبق لے کر اپنی اور معاشرے کی زندگی کو کیسے اسلامی زندگی بناتے ہیں؟
میرے محترم حجاج بھائیو! یہ فریضہ آپ سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ چاہتا ہے۔ کیا آپ اس فریضے کی ادایگی کے لیے تیار ہیں؟
شعائر حج کا ایک اہم موقع وہ ہے جو آپ شیطانوں کو کنکریاں مار رہے تھے۔ کیا اُس وقت آپ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شیطان بس یہ تین ہیں، جو بُرجیوں کی شکل میں آپ کے سامنے ہیں؟ آپ کو یہ مغالطہ تو نہیں ہوا کہ شیطان صرف خارج ہی خارج میں ہوسکتا ہے؟ کچھ آپ کو احساس ہوا کہ آپ کے گرد اور آپ کے اندر گھس کر شیاطین ساری عمر شرپسندانہ حرکات کرتے رہے ہیں؟ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کی کچھ خواہشیں اور جذبے ہیں، جنھیں ضرورت سے زیادہ اُکسا کر وہ آپ کو ایسی کش مکش میں مبتلا کرتے رہے ہیں جو کبھی دانستہ اور کبھی نادانستہ طور پر آدمی کو غلط سمت میں لے جاتی ہے؟ کیا آپ کے تصور میں یہ بات بھی آئی کہ یہاں سے پلٹ کر آپ کا سابقہ پھر انھی شیاطین سے پڑے گا اور آپ کی پھینکی ہوئی کنکریاں اُس وقت تک ان کو سنگسار نہیں کرسکتیں جب تک کہ آپ کچھ کنکریاں اپنے دل و دماغ کے غلط رجحانات پر اور اپنے اعزہ و احباب کی غلط خواہشوں اور نظریات کو بھی نہ ماریں؟
اگر زندگی کی فاسد و مفسد قوتوں کے خلاف خواہ وہ قلبی و ذہنی ہوں یا خارجی، انفرادی ہوں یا اجتماعی، افکار کے میدان میں کام کریں یا اعمال کے دائرے میں___ آپ سنگ باری کا سبق وادیِ محشر سے سیکھ آئے ہیں تو آپ نے حج کی رُوح پالی۔
آپ جس معاشرے کو چھوڑ کر گئے تھے اور جس میں واپس لوٹے ہیں، اس کے احوال پر ذرا غور سے نگاہ ڈالیے۔
یہاں دین سے عملی وابستگی رکھنے والوں اور سچے خدا پرستوں کی بہت کم تعداد پائی جاتی ہے۔ یہاں عظیم معلّمِ توحید حضرت ابراہیم ؑ کے واضح کردہ مسلک کے مطابق ہر طرف سے منہ موڑ کر اور صرف خداے واحد کی عبادت و اطاعت میں لگ جانے والوں اور شرک اور نفاق اور تضاد اور دوعملی و دو رنگی سے پاک افراد آٹے میں نمک کی طرح ہیں۔ اسلامی تقریروں، اسلامی کتابوں، اسلامی تقریبوں، اسلامی میلوں، اسلامی عرسوں، اسلامی جلوسوں، اسلامی مشاعروں، اسلامی یوموں اور اسلامی نعروں کے خوش نما غلافوں کو دیکھ کر ہم سب کی طبیعتیں بہلتی ہیں، مگر غلافوں کو ہٹائیں تو نیچے تو کھلی لادینیت ملتی ہے۔ کہیں بے قید سیکولر زندگی، کہیں مختلف آلایشوں کے ساتھ پائی جانے والی مذہبیت، کہیں تعصب و تخریب کے مارے ہوئے فرقوں کے مناظرانہ محاذ!
مسئلہ صرف وطن عزیز ہی کا نہیں، سارے عالمِ اسلام کی حالت یکساں ہے۔ فرد افراد سے، خاندان خاندانوں سے، سیاسی گروہ سیاسی گروہوں سے، قائدین قائدین سے، مذہبی جتھے دوسرے مذہبی جتھوں سے، جمہور حکمرانوں سے اور حکمران جمہور سے برسرِ کش مکش ہیں۔ ہر کوئی اپنے آپ کو دوسروں پر ٹھونسنا چاہتا ہے۔ کوئی روحانیت کے زور سے، کوئی علم کے زور سے، کوئی دولت کے زور سے، کوئی جتھا بندی کے زور سے اور کوئی قانون اور عہدے کے زور سے! نتیجہ ہر سطح پر، ہر دائرے میں معاشرے کی شکست و ریخت ہے۔
آپ کا یہ معاشرہ دولت پرستی اور آسایش پسندی اور معیار پرستی میں اتنی دُور نکل گیا ہے کہ معاشرت کی اکثر و بیش تر پگڈنڈیاں اب حرام کی وادی سے گزرتی ہیں۔ آج رزقِ حلال کا حصول انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔
امتحانات میں، تعلیم گاہوں کے داخلوں میں، ہسپتالوں میں جگہ کے حصول اور پھر عملے کی توجہ اور دوائوں کے حصول میں، مختلف بھرتیوں میں، بھرتیوں کے انٹرویو میں ، تبادلوں اور ترقیوں میں، مواقع مفاد تک رسائی میں، ہر جگہ خیانت کی چوکیاں قائم ہیں۔
آپ کے معاشرے میں بے پردگی کا رجحان بڑھ رہا ہے، فحاشی کے سرچشمے جاری ہیں۔ آپ کے معاشرے میں جرائم بڑھ رہے ہیں، نہایت وحشیانہ تشدد اور سیاسی قتل کے حوادث بار بار ہونے لگے ہیں۔ محافظ امن اداروں کی طرف سے جو تحفظ عوام کو حاصل تھا، روز بروز کم ہو رہا ہے۔ ہر آدمی کو خوف اپنے پنجوں میں دبوچ رہا ہے۔ان حالات میں زندگی کی اُلجھنیں بڑھ گئی ہیں، انسانی رابطوں میں کمی آرہی ہے اور ہر فرد تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ اس تنہائی کے عالم میں اس کے اعصاب ذہنی اور معاشی بوجھ میں مسلسل اضافے سے چٹخنے لگے ہیں۔ ہرشخص پریشانیوں اور اضطرابات میں گھرا ہوا ہے۔
اب آپ اپنے اس مصیبت زدہ معاشرے پر رحم کھا کر کوشش کیجیے کہ یہاں خداپرستی، رزقِ حلال اور اطمینان قلب کا دور دورہ ہو۔ اس مقصد کے لیے آپ کام کرنے کی راہیں تلاش کریں۔ کچھ نور اگر آپ نے دورانِ حج حرم سے حاصل کیا ہے تو اب قوم کی تاریکیوں میں اسے پھیلانے کی فکر کیجیے۔ کچھ دوڑ دھوپ کیجیے، کچھ تگ و تاز کیجیے، دروازے کھٹکھٹایئے، نیک روحوں کو پکاریئے۔ الحاد اور لادینیت، حرام خوری اور تنگیِ معیشت، بے حجابی اور بدقمارگی کے خلاف ایک محاذ آراستہ کیجیے۔ پاکستان کی وحدت و سالمیت کے مخالفوں اور غایت ِ پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ پکڑ لیجیے۔
کیا حج سے حاصل کردہ اسپرٹ آپ کو اس جہادِ عظیم کے لیے نہیں پکارتی؟
کتنی عجیب بات ہے کہ کسی قوم کے کئی ہزار افراد ہر سال حج کرکے آتے ہوں اور پھر بھی اس کے اعتقادی اور اخلاقی احوال خراب رہیں۔ اگر ایک ہزار بیدار دل حاجی بھی ہرسال ہمارے معاشرے میں پوری روح کے ساتھ جلوہ گر ہوتے اور ہرسال ایک حاجی ۱۰؍افراد کے سینوں میں ایمانِ باعمل کی شمعیں فروزاں کردیتا تو خداپرست، محبت کیش، وفاشعار لوگوں کی ایسی صفیں کی صفیں تیار ہو جاتیں، جو اسلام کو ایک زندہ قوت میں بدل سکتی تھیں۔
اگر آپ ہمارے ذہنی احوال کو دیکھیں تو ہم میں بے حسی بھی ملے گی، جمود بھی ملے گا، بے روح اعتقادات ملیں گے، ان پر مناظرانہ بحثیں ملیں گی، رسمیات کی ایک مستقل شریعت ملے گی، شرک و بدعت کے مظاہر ملیں گے۔ اسی طرح معاشی زندگی میں ایک طرفہ فاقہ مستیاں اور دوسری طرف چیرہ دستیاں، ایک طرف بے روزگاری اور دوسری طرف اسراف و تبذیر، ایک طرف مجبوری و بے بسی اور دوسری طرف ظلم و تشدد، دفتری زندگی میں کام چوری اور رشوت، کاروبار میں چو ر بازاری اور ملاوٹ اور گراں فروشی، سماجی طور سے غلاظت و جہالت اور بیماری و بدکاری، امن کے پہلو سے جرائم اور لُوٹ مار۔ آخر اس فضا کو بدلنے کے لیے ہمارے لاکھوں حاجیوں کا حج انقلاب آفریں کیوں نہیں بنتا؟
کلمہ ایک انقلابی نور ہے، اذان انقلابی پکار ہے، نماز روزہ انتہائی انقلاب انگیز عبادتیں ہیں، صدقہ خدائی انقلاب کے علَم برداروں کی توانائی ہے___ اور حج جو بہت سی عبادات کا جامع ہے، وہ تو تاریخ میں بہت عظیم مدوجزر پیدا کرنے والی طاقت ہے۔ تبدیلی نہ کلمے میں آئی ہے، نہ اذان اور نماز میں، نہ روزہ و صدقے میں، اور نہ حج و قربانی میں، البتہ جمود آفریں تبدیلی خود ہمارے اندر آئی ہے۔ زندگی کے تمام خدوخال متحجر ہوگئے ہیں۔ تحریکیت کا سیلابی دریا یخ بستہ ہوگیا ہے۔
مگر یہاں اُجالا کیوں نہیں ہوتا اور ذرّے آفتاب کیوں نہیں بنتے!
آپ پوری سوچ بچار سے یہ عہد کرکے اپنے ہاں نئی زندگی کا آغاز کریں کہ ایک طرف آپ کو اپنی ساری سرگرمیوں کا جائزہ لے کر ان تمام چیزوں کو چھانٹ دینا ہے جو خلافِ دین ہیں یا مشتبہ ہیں۔ اپنے نئے مشاغل کا پورا نقشہ ازسرِنو تیار کرنا ہے۔ دوسری طرف آپ کو اپنے گھر کے ماحول کو بدلنا ہے۔ ایک حاجی کے گھر میں نماز اور قرآن کا دور دورہ ہونا چاہیے۔ ایک حاجی کے گھر میں پردے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ایک حاجی کے گھر میں نہ حرام مال داخل ہونا چاہیے۔تیسری طرف آپ کو یہ فکر کرنی ہے کہ آپ اپنے محلے، اپنے علاقے یا شعبے، اپنے کاروباری یا دفتری حلقے میں خدا اور رسولؐ کے دین کی دعوت کس طرح پھیلائیں اور اس کام میں کس جماعت یا ادارے یا کن افراد کے ساتھ تعاون کریں۔
حج کے بعد آپ کو دعوتِ دین کا زبردست علَم بردار ہونا چاہیے۔ خدا آپ کو حج کے بعد کی زندگی میں مزید سعادتیں اور برکتیں عنایت فرمائے، آمین!
یہ فائل کرپٹٹڈ ہے
کچھ خواتین نے کتاب و سنت کے اتباع اور عملی تطبیق کے ذریعے اپنے اخلاق اور طرزِ حیات کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اندر یہ جذبہ اس لیے پیدا ہوا کہ انھوں نے تحرّک بالقرآن والسنۃ کے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی۔ اس میں انھیں اس کی عملی تربیت دی گئی تھی۔
پروگرام کا آغاز معلمہ نے ان الفاظ سے کیا کہ قرآن کریم ۶ہزار سے زائد آیات پر مشتمل ہے۔ یہ آیات ہم سے مخاطب ہیں اور عمل اور معاشرے میں ایک تحرک اور بیداری کی فضا پیدا کرنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ سنت ِ رسولؐ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کتنی احادیث ہیں جن کا تقاضا ہے کہ ہم اُن کا قُرب اختیار کریں تاکہ معاشرے میں عمل کے لیے ایک تحرک پیدا ہو۔ معلمہ نے شرکاے تربیت سے گفتگو میں آیات و احادیث کو تحرک کا ذریعہ بنانے اور ان کے نفاذ و تطبیق کی عملی کوشش پر زور دیا۔ معلمہ نے کہا کہ اس کام کا آغاز اُن آیات و احادیث سے کیا جائے جن کا تعلق براہِ راست ہماری روزمرہ زندگی سے ہے اور جو ہمارے دوست احباب اور گھر، خاندان اور عزیز و اقارب کے معاملات کو درست کرنے کا سبب بن سکیں۔
عملی تربیت کے بعد خواتین میں رفتہ رفتہ آیات و احادیث کے ساتھ تعامل شروع ہوگیا اور پھر عملی جدوجہد کرنے والی خواتین نے تبدیلی کو رُونما ہوتے ہوئے محسوس کیا ۔
طالبات اپنے منفرد عملی تجربات پر بہت خوش تھیں۔ معلّمہ اُن کی حوصلہ افزائی اور اُن کے تجربات پر تبصرہ و راے بھی دے رہی تھی۔ طالبات کے ذہنوں میں یقینا بہت سے سوال ہوں گے جن کا وہ جواب معلوم کرنا چاہتی تھیں۔ ایک طالبہ نے کہا: یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ہم قرآن کریم کی تمام آیات کے ذریعے تحرک پیدا کرسکیں۔ کچھ آیات تو صرف احکام اور فرائض بیان کرتی ہیں، مثلاً:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o(البقرہ ۲:۱۸۳) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑکے پیروکاروں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
معلمہ نے کہا: یہ آیت اہلِ ایمان سے مخاطب ہے کہ روزے اُن پر اُسی طرح فرض ہیں جس طرح اُن سے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ وہ اس طریقے سے تقویٰ اختیار کرسکیں۔
معلمہ نے طالبہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا: کیا آپ اس سے قبل تقویٰ کے موضوع پر ہونے والے دروس میں شریک ہوئی تھیں؟ طالبہ نے جواب دیا: جی ہاں، مگر میں تقویٰ کے بارے میں درس سنتی ہوں اور گھر پہنچنے سے پہلے اُسے بھول جاتی ہوں۔ یوں بہت تھوڑی باتیں میری یادداشت میں محفوظ رہ سکی ہیں حالانکہ ان دروس میں مَیں پوری توجہ اور انہماک سے شریک رہی ہوں۔ معلمہ یہ سن کر مسکرائی اور دورے میں شریک تمام خواتین سے یہی سوال پوچھ لیا کہ اس بارے میں اُن کا تجربہ کیا ہے؟ جواب ملا جلا تھا، کچھ اِس طالبہ کی طرح اور کچھ مختلف۔
یہ کیفیت دیکھنے کے بعد معلّمہ نے ہرطالبہ کو اپنے لیپ ٹاپ پر وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ کے الفاظ تلاش کرنے کے لیے کہا۔ یہ بھی کہا کہ ہرطالبہ سکرین پر نمودار ہونے والی عبارتوں کے بارے میں مجھے آگاہ بھی کرے۔ طالبات نے یہ الفاظ تلاش کرتے ہی بلند آواز میں ان عبارتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ اگرچہ آوازیں متعدد و متنوع تھیں مگر مضمون سب کا ایک تھا، یعنی:
معلمہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ذرا بتایئے کہ ہم میں سے کون ہے جس کو اپنے معاملات میں آسانی کی ضرورت نہیں ہے؟ دوسری عبارت اس آیت کی تھی:
معلمہ نے کہا:تکفیر ذنوب اور تعظیم اجروثواب کا مطلب ہے ہمیں سابقین میں شامل کردیا گیا۔ یہ تو ربِ کریم کا فضل اور مہربانی ہے۔اس سے اگلی عبارت تھی:
سبحان اللہ! تقویٰ کے بدلے میں نہ صرف راہِ نجات کھول دی گئی بلکہ رزق کا بھی وعدہ مل گیا۔
اسی سرگرمی کو دُہراتے ہوئے جب لفظ تَتَّقُوْا تلاش کیا گیا تو یہ آیت سامنے آگئی:
معلمہ نے شرکا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ہم اُس وقت کتنی بدنصیبی کا شکار ہوتے ہیں جب باطل کے ساتھ حق خلط ملط ہوجائے اور کوئی فرد اُن کے درمیان فرق و امتیاز نہ کرسکے۔ ایسے موقعے پر کیا ہی بہتر ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے دونوں چیزوں کے درمیان فرق واضح کردے اور ہم حق کو حق کے رنگ میں دیکھ لیں، اور اُسی وقت اللہ سے اتباعِ حق کی دُعا کریں ۔اللہ تعالیٰ صرف یہی چیزیں واضح نہیں کرے گا بلکہ بُرائیوں کو مٹا دے گا اور گناہوں کو بخش دے گا۔پھر اگلی آیات یہ تھیں:
یہ آیات پڑھنے کے بعد معلمہ نے کہا: کیا ہم ان آیات میں دیکھ نہیں رہے کہ تقویٰ تو دائمی طور پر مطلوب ہے۔ یہاں تک کہ ایمان، صبر، احسان اور اِصلاح سب کیفیات اور اعمال میں مطلوب ہے۔
روزہ تقویٰ کے عملی وسائل میں سے ہے۔ یہ نفس کو تقویٰ کے لیے تیار کرتا ہے اور نفس اس کے ذریعے تقویٰ کی منزل تک رسائی پاتا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑی اور خوب صورت کوئی بات ہے کہ اللہ تیرے لیے کافی ہوجائے، تیرے معاملات آسان ہوجائیں، تیرا رزق وافر ہوجائے، تیرے گناہ معاف ہوجائیں اور بُرائیاں مٹا دی جائیں، تیری حسنات کا اجر عظیم سے عظیم تر ہوجائے، تیرا عزم و ہمت بلند ترین سطح پر پہنچ جائے، اور یہ سب کچھ اللہ کریم و خبیر و بصیر کے علم میں ہو؟
روزہ ان تمام چیزوں کے حصول میں معاون ہے۔ دل جب ان مفاہیم سے لبریز ہوجائے اور ان کی حلاوت محسوس کرنے لگے تو اس کے لیے نفل روزوں کا اہتمام کرنا آسان تر ہوجاتا ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھنے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔ پھر جب شیطان وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ گرمی بہت شدید ہے، پیاس ناقابلِ برداشت ہے، دن بہت لمبا ہے، معاملہ بہت مشکل اور کٹھن ہے، یہ اور اس طرح کے عزم و ہمت کو کمزور کرنے والے کئی وسوسے جب انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں تو مذکورہ آیت ِ کریمہ اُس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور اُسے اُس عظیم خبر کی یاد دہانی کراتی ہے جس کا انسان منتظر ہوتا ہے۔ یہ بات کسی شک و شبہے سے بالا ہے کہ صبر صاحب ِ عزیمت لوگوں کا امتیازی وصف ہے اور انھیں خیرواطاعت کی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ رمضان کو دیکھیے کہ جب یہ مہینہ سایہ فگن ہوتا ہے تو دل اس آیت ِ کریمہ پر توجہ مرکوز کرلیتا ہے جو دلوں کو صیامِ رمضان کے اجر کی خوش خبری سے شاداں و فرحاں کرتی ہے۔ انھیں دعوت دیتی ہے کہ وہ اس بات پر فخر و انبساط کا اظہار کریں کہ وہ بھی قافلۂ مومنین و سابقین میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ آیت انھیں یاد دلاتی ہے کہ وہ تقویٰ کی منزل تک جانے والی شاہراہ پر محوِسفر ہیں۔ یوں صیام و قیامِ رمضان اور افعالِ خیر کی سرگرمی رواں دواں رہتی ہے۔ یہ ہے اس آیت کریمہ کے ذریعے عملی تحرک و تطبیق کا ایک نمونہ!
معلمہ کی گفتگو جاری تھی کہ نمازِ عشاء کے لیے مؤذن کی آواز بلند ہوئی۔ معلمہ نے گفتگو روک دی اور کلماتِ اذان کا جواب دیتی رہیں۔ ہال میں موجود خواتین اس دوران سلام دعا، حال احوال جاننے اور تعارف میں مصروف ہوگئیں۔ معلمہ نے اختتامِ اذان پر دُعا پڑھی اور دوبارہ حاضرین مجلس سے مخاطب ہوکر کہا: کلماتِ اذان کا جواب اور اختتامی دُعا ایک خیرِعظیم ہے جسے تمھاری غفلت نے ترک کیے رکھا۔ یہ بھی اعمالِ تقویٰ میں سے ہے۔ معلمہ نے ابھی آیت وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ تک پڑھی تھی کہ پورا ہال بہ یک زبان پکار اُٹھا:فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ (الحج ۲۲:۳۲)’’اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے‘‘۔
معلمہ نے پوچھا: پھر تم اس کا عملی نفاذ کیوں نہیں کرتیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلماتِ اذان کو مؤذن کے ساتھ ساتھ دُہرانے کی ہمیں تعلیم و تلقین نہیں فرمائی؟ جو شخص ان کلمات کو دہرائے گا وہ اُن تمام انعامات و اکرامات سے نوازا جائے گا جو اللہ سے تقویٰ رکھنے والے شخص کو عطا ہوں گے، یعنی اُس کے معاملات میں آسانی، گناہوں کی بخشش، رزق میں فراوانی، مصائب و مشکلات سے نجات اور اللہ مالک الملک کا اُس کے لیے کافی ہوجانا۔ اسی طرح اذان و اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا کا ردّ نہ ہونا۔ یہ تمام نوازشیں اُس شخص کے لیے ہیں جو تقویٰ کی اہمیت کو جانتا پہچانتا ہو اور پھر اُسے اختیار کرتا ہو، یعنی عملی تقویٰ۔
خواتین نے ان باتوں کو نہایت انہماک سے سنا۔ ایک نے تو کہا: یہ باتیں سنتے ہوئے ہمیں تو یوں لگ رہا تھا کہ پہلی بار سن رہے ہیں۔ اس طرح سے روزے اور اذان کی عملی تطبیق کا شوق دلوں میں بیدار ہوگیا۔ آیندہ پروگرام میں خواتین کی غالب تعداد روزے سے تھی اور جونہی نماز کے لیے مؤذن کی آواز بلند ہوئی تو پورے ہال پرعاجزانہ خاموشی کی چادر تن گئی۔ سب خواتین اذان کے اختتام تک کلماتِ اذان دہراتی رہیں۔ اللہ اکبر! یہ عظیم دین کتنا خوب صورت ہے!! (magmj.com)
یہ ہے مہمان گرامی قدر، جو اَب کوچ کے لیے تقریباً پابہ رکاب ہے۔ اس کے اوقات خیروبرکت سے بھرپور ہیں۔ مسلمانوں نے اس کے گنے چنے دنوں سے خوب استفادہ کیا ہے، مگر اب یہ رُخصت ہونے والا ہے۔ ہر کام کی ایک مدت ہوتی ہے۔ ہروقت سمٹنے والا ہے۔ آپ جس سے چاہیں، محبت کریں، بالآخر ایک دن آپ نے اسے چھوڑ دینا ہے۔ آپ جو چاہیں کریں، ایک دن آپ کے عمل نے منقطع ہوجانا ہے۔
اب آپ یہ دیکھیے! کیا مسلمانوںنے اپنے مہمانِ مہربان کا خوب خیرمقدم کیا ہے؟
کیا انھوں نے اس کی اچھے طریقے سے مہمان نوازی کی کہ وہ شکرگزار اور احسان مند ہو؟
یا پھر رمضان کی مہمان نوازی کو اپنے لیے بوجھ سمجھا ہے؟ اس کے حق کو فراموش کرکے نظرانداز کیا ہے کہ وہ افسردہ و مغموم ہو؟___ مہمان یا تو میزبان کی تعریف کرتا ہے یا اس کی مذمت!
زمانے کی یادداشتوں پر مشتمل اس ڈائری کے روشن و درخشندہ صفحات، یعنی ماہِ رمضان کے دنوں میں سے بہت ہی کم صفحے خالی رہ گئے ہیں۔ زیادہ تر صفحات تو لپیٹ دیے گئے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ شر سے آلودہ ہیں یا خیر سے بھرے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا مسلمانوں نے اس کتاب کے صفحات پر نیکیوں کی روشنائی سے کچھ تحریر کیا ہے؟ کیا اسے طاعت و فرماں برداری کے اَنوار سے تابندہ کیا ہے؟ کیا اسے اخلاق کے بیل بوٹوں سے سجایا ہے؟ کیا اسے پاک صاف رکھا ہے؟ کیا اسے اخلاقِ عالیہ سے آراستہ کیا ہے اور اس پر آخر میں استغفار کی مشک لگائی ہے، یا اسے بالکل نظرانداز کردیا ہے اور غفلت کی نذر کر دیا گیا ہے اور یہ صفحات خالی رہ گئے ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ اسے نافرمانی اور حکم عدولی کی کثافت سے آلودہ کردیا ہو اور نافرمانی و سرکشی کی تاریکی سے اسے مکدر و افسردہ کیا ہو۔
یہ ہے رمضان، وہ گواہ جو ہمارے یہاں چند دنوں کے لیے مقیم رہا اور اب تقریباً واپس جانے ہی والاہے، کہ جس مہم پر اسے یہاں بھیجا گیا تھا، وہ مہم تقریباً پوری ہوچکی ہے۔ اب یہ اپنی گواہی کا اعلان کرے گا اور جو مشاہدہ کیا ہے، اسے بیان کرے گا۔ اگر نیکی اور خیر دیکھا ہے تو اس کی گواہی دے گا اور اگر بُرائی اور شر دیکھا ہے تو اس کا حال بتائے گا۔ کیا مسلمانوں کے بس میں یہ ہے کہ وہ ایسا کریں کہ اپنے اعمال کو اپنے حق میں حجت بنائیں نہ کہ اپنے خلاف گواہ؟
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی خاطر جو سواری بھیجی ہے___ زمانے کی سواری___ اس نے ایک مرحلہ طے کرلیا ہے اور اپنی منزلِ مقصود کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔ یہ اپنے دامن میں نیکی یا گناہ کو لیے پردوں کے پیچھے چلی جائے گی۔ پھر یہ سواری، اپنے اپنے سواروں کی ہرچیز سنبھال کر رکھے گی۔ چنانچہ ہر انسان وہ کچھ دیکھ لے گا، جو اس نے آگے بھیجا ہوگا:
یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ج وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓئٍج تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَھَا وَ بَیْنَہٗٓ اَمَدًام بَعِیْدًا ط (اٰلِ عمرٰن ۳:۳۰) وہ دن آنے والا ہے جب ہرنفس اپنے کیے کا پھل حاضر پائے گا، خواہ اس نے بھلائی کی ہو یا بُرائی۔ اس روز آدمی یہ تمنا کر ے گا کہ کاش! ابھی یہ دن اس سے بہت دُور ہوتا۔
یہ ہے عظیم ماہِ رمضان، ماہِ بابرکات، جو تیزی سے جا رہا ہے اور اس کے جانے میں بس چند ہی دن بلکہ لمحے باقی رہ گئے ہیں___ مسلمان ان مبارک اوقات میں کیا کرتے رہے ہیں، یہی سوالات ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
میرے بھائی! آپ تو ایک عظیم انسان ہیں۔ آپ تو مردانِ کارزار میں سے ہیں۔ باقی رہے غافل انسان، ان کا حال یہ ہے کہ وہ ان محترم و مکرم دنوں کے تقدس کو نہیں جانتے۔ وہ تو ان ایامِ مبارکہ کی کھلم کھلا بے حُرمتی کرتے ہیں اور نہ وہ فرائض اور ذمہ داریوں کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہاں رمضان اور غیر رمضان برابر ہوتے ہیں۔ اس قماش کے لوگ سارا سال لغویات میں گزار دیتے ہیں، اپنی مستیوں میں غرق ہوتے ہیں، اور اپنی اس روش پر مطمئن ہوتے ہیں، اور گناہوں سے آلودہ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اپنے مہمان کی بے عزتی کرتے ہیں۔
یہ لوگ اس سواری پر شرور و مفاسد کا بوجھ لاد دیتے ہیں۔ اگر اس طرح کے لوگ نجات کا ارادہ کرلیں، تو حق کی طرف واپسی کا راستہ کھلا ہے، توبہ کا امکان ہے۔ توبہ قبول کرنے والا کریم و سخی ہے۔ رجوع کا راستہ ابھی بند نہیں ہوا۔ آقا مہربان، کریم اور بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ وہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو، اگر یہ زیادتی کرنے والا، حد سے تجاوز کرنے والا، اپنے گناہوں سے توبہ کرلے، اپنے پروردگار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجائے۔ اس کی جانب رجوع کرلے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ ایسے مستحق کی خطائوں کو نیکیوں میں بدل دے گا۔ اس کے درجات بلند فرمائے گا۔
بے پروا اور غافل انسان سے ماہِ رمضان یوں گزر جاتا ہے، جیسے خوابیدہ قوم کے سروں سے بادل گزر جاتے ہیں۔ نہ وہ ان پر برستے ہیں، نہ انھیں بادلوں کا سایہ نصیب ہوتا ہے، نہ بادلوں کے فوائد و ثمرات سے کوئی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ ایسا انسان ضیافت کی فضیلت سے محروم رہ جاتا ہے۔ وہ دستاویز کی توثیق اور گواہ کی مثبت گواہی سے بھی تہی داماں ہی رہتا ہے۔
یہ بدبخت مسلمان سواری کو یونہی چھوڑ دیتا ہے، حالانکہ اس پر خیرو برکت لدا ہوتا ہے۔اس کے لیے اب موزوں یہی ہے کہ وہ رمضان کے باقی ماندہ دنوں کی قدر کرے اور اپنے رُوٹھے ہوئے مہمان کو منا لے۔ باقی کے چند دنوں میں اس کی خوب آئو بھگت اور خاطر تواضع کرے۔ یوں وہ کتابِ زندگی کے صفحات میں اپنے لیے نیکیوں کے اندراجات کو یقینی بنالے۔ وہ گواہ کو راضی کرسکتا ہے کہ اس کے سامنے نیکی کے کارنامے سرانجام دینے لگے اور سواری کو حسب ِ استطاعت بھلائیوں اور ثواب کے کاموں سے بھرلے۔ ہوسکتا ہے کہ اس گنہگار مسلمان کی ان تھوڑے دنوں کی محنت کو اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت سے نوازے، اور اسے بہت بڑا اجر دے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
دُوراندیش و دانا شخص تو وہ ہے جسے مہمان کی آمد کا علم ہوا تو اس نے اس کے استقبال کے لیے خوب خوب تیاری کی، پھر مہمان کی بھرپور مہمان نوازی کی، اور اس کے پورے عرصۂ قیام کے دوران میں اس کا خندہ پیشانی سے خیرمقدم کرتا رہا۔
وہ ماہِ رمضان کی ہرگھڑی کا دل کی اَتھاہ گہرائیوں سے خیرمقدم کرتا ہے، اطاعت و فرماں برداری سے اس کی تکریم و توقیر کرتا ہے اورہرگھڑی پروردگار کا شکر بجا لاتا ہے۔ اس کی مہربانیوں پر سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اس کی زبان اپنے پالنہار کی تسبیح و تحمید اور حمدوثنا سے معطر رہتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کی کتابِ زندگی اس کے عمل اور کارکردگی کا ریکارڈ ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ اس کے نامۂ اعمال میں درج ہو رہا ہے، اس کی تدوین ہورہی ہے، اس سے اس کا رُتبہ بڑھے گا،اس کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوگا۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو اس کے آقا، اس کے رب کے رُوبرو اس کے حق میں حجت ہوگی۔ رمضان اس کا گواہ ہے، وہ اسے دیکھ رہا ہے، اس پر نگران ہے، لہٰذا وہ اس نگران و گواہ کو صرف وہی دکھائے جس سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو، یعنی نماز، روزہ، تلاوت، قیام، پاک دامنی، عفت، خودداری، پاکیزگی، طہارت، صدقہ، نیکی اور خیر کی جانب لپکنا۔ یہ گواہی اس کے حق میں بُرہان و سند ہوگی، جو قابلِ اعتبار ہوگی، جسے اہمیت دی جائے گی۔
مرد صالح و نیکوکار جب ماہِ رمضان کی سواری کو دیکھتا ہے کہ وہ تیزی سے رواں دواں ہے تو وہ پھر ہرقدم پر بہت سی نیکیاں کمانے کی فکر کرتا ہے۔ یہ شخص یقینا اس لائق ہے کہ جو کچھ اس نے پیش کیا، اس پر مطمئن ہوجائے اور اپنے انجامِ کار اور عاقبت کے بارے میں خوش بخت و سعید ہو اور بے فکر و بے اندیشہ ہو۔
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال۹۹: ۷-۸) پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
یہ شخص یقینا اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی مساعی دوچند ہوکر مشکور ہوں، اس کی بیداری و ہشیاری میں اضافہ ہو۔ اصل میں اعتبار انسان کے انجام و خاتمے کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مستعد و تیار و آمادہ ہوجاتے تھے۔ اپنے اہلِ خانہ کو بیدار کرتے تھے اور خود کمربستہ ہوجاتے تھے۔
برادرِ عزیز! آپ کا شمار کس قسم کے لوگوں میں ہونا چاہیے؟
دیکھو یہ رمضان ہے، جانے کا اعلان کر رہا ہے، کوچ کرنے کی منادی کر رہا ہے۔ یہ تمھارا معلّم تھا جو تمھیں صحیح مردانگی کے بنیادی اصول اِملا کروا رہا تھا۔ عزمِ مصمم اور قوی ارادے کی تربیت کرتا رہا ہے، صبروبرداشت کا عادی بناتا رہا ہے۔ تمھارے لیے راہِ آزادی کے نشانات متعین کرتا رہا ہے، تمھاری نگاہوں پر پڑے ہوئے غفلت کے پردوں کو ہٹاتا رہا ہے، حتیٰ کہ تمھاری نگاہیں اُفق پر جاپہنچیں۔ یہ رمضان تمھیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں، اس کی کتاب کے بارے میں اور اس کے دین اور اس کی آیتوں کے بارے میں فہم و بصیرت سے نوازتا رہا ہے۔
یاد رکھیے کہ ہر استاذ کا ایک حلقۂ اثر ہوتا ہے، ہرمعلّم کے اپنے شاگردوں پر اثرات ثبت ہوتے ہیں۔ اب بتائو کہ ماہِ رمضان نے تم لوگوں پر کیا کچھ اثرات چھوڑے؟ تم میں کیا کچھ بدلا؟ ذرا اپنا موازنہ کرو رمضان سے پہلے اور بعد کی حالت سے، اور کوشش کرو اور اپنی روحوں کا جائزہ لو:
اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ لوگ خوش بخت ہیں، سعادت مند ہیں، اس ہدایت ِ الٰہیہ پر سجدئہ شکر بجا لائو___ اور اگر ایسا نہیں ہے ___ تو رمضان کی باقی ماندہ گھڑیوں میں اپنی روحوں کے آئینے کو صیقل کرنے کی کوشش کرو، اپنے نفوس کی میل کچیل دُور کرلو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیض سے اپنی روحوں کو نفع پہنچا لو۔ اس بابرکت مہینے کے پُرسعادت لمحوں کو قید کرلو۔ قید کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے بھرپور فائدہ اُٹھائو۔
اگر آپ نے ان ہدایات پر عمل کیا تو ان شاء اللہ آپ کو کامرانی نصیب ہوگی اور اگر منہ موڑ لیا اور لائق توجہ نہ سمجھا، تو پھر خسارے سے کوئی نہیں بچا سکے گا___ یااللہ! گواہ رہنا!!
(مجلہ الاخوان المسلمون، ۱۱ جنوری ۱۹۳۴ئ، بحوالہ افکارِ رمضان، ص ۱۷۷-۱۸۳)
یہ فائل سپورٹ نہیں کررہی