تزکیہ و تربیت


دین اسلام کی اہم اساسی اصطلاحات میں سے ایک بڑی اصطلاح اِبتلا ہے۔ انسانی زندگی میں، چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اِبتلا کا واقع ہونا ضروری ہے۔ یہ فطرۃ اللہ ہے، یہ سنت اللہ ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہر انسان کی آزمایش کرکے اسے لوگوں کے سامنے نمایاں کرتا ہے۔ اس سے انبیا، صلحا، شہدا اور اولیاء اللہ، مسلم اور غیرمسلم سب کو واسطہ پیش آتا ہے اور ہرانسان کو اس سے گزرنا ہوتا ہے۔ جب انسان کو موت اور حیات سے سابقہ پیش آتا ہے تو اسے اس منزل سے گزرنا بھی لازمی ہے۔ ارشار باری تعالیٰ: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط وَّھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ o (الملک ۶۷:۲) ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی‘‘۔

باری تعالیٰ نے عمومی اِبتلا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَالِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاo (الکھف ۱۸:۷) ’’واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے، اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں، ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔

ان دونوں آیات کا روے سخن تمام انسانوں کی طرف ہے۔ گویا یہ سروسامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں اور رنگینیوں پر تم فریفتہ ہو ایک عارضی زینت ہے جو محض تمھیں آزمایش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے لیکن تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوکہ یہ سب کچھ ہم نے تمھارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا اور کسی مقصد کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامان عیش نہیں،بلکہ وسائلِ امتحان ہیں۔ تمھیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس انسان نے زندگی دیکھی ہے وہ لازماً موت بھی دیکھے گا اور اسے دنیا کی زندگی میں اِبتلا و آزمایش اور امتحان سے گزرنا ہوگا۔

مفھوم

اِبتلا کا مادہ ب ل و ہے۔ اس کا مصدر بلاء ہے۔ قرآن مجید میں اس مصدر اور جڑ سے کل ۳۷ کلمات آئے ہیں۔ یہ کلمہ دو ابواب سے آیا ہے: باب بَلٰی یَبْلُوْ بلائً (ن) اِبتَلی یَبْتَلِیْ اِبْتِلَائً سے مختلف افعال اور اسماء کی صورت میں آیا۔ یہی بَلٰی یَبْلُوْ بَلَاء فعل متعدی ہے اور اِبْتَلٰی یَبْتَلِیْ اِبْتِلَائً سے فعل لازم اور متعدی دونوں ہیں جس کے معنی ہیں: آزمانا، تجربہ کرنا اور امتحان لینا۔ یہی معنی بلاء اور اِبتلا کے اصطلاحی بھی ہیں۔ انسان کے مقصدِحیات کے بارے میں آزمایش کرنا اور امتحان لینا۔ اس کلمے کے دو اور مترادف کلمے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں: فِتنَۃ، فَتَنَ، یَفْتِن اور اِمتحان کا کلمہ ہے ان تینوں کے معنی بظاہر تو ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن معنی میں گہرائی کے لحاظ سے تھوڑا سا فرق ہے۔

۱- اِمتَحَن، اِمْتِحَان ایسی آزمایش کو کہتے ہیں جس میں سختی کے بجاے نرمی کی جائے اور اس میں کشایش کا پہلو بھی شامل ہو۔ (ملاحظہ کریں سورۃ الممتحنہ ۶۰:۱۰)

۲- بَلٰی یَبْلُوْبَلَائً ایسی آزمایش جس میں سختی اور نرمی دونوں پائی جائیں۔ یہ آزمایش خیروشر، نرمی و سختی دونوں صورتوں میں ہوسکتی ہے جیسے ارشاد ہے: بَلَوْنَاھُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلََّھُمْ یَرْجِعُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۶۸) ’’اور ہم ان کو اچھے اور بُرے حالات سے آزمایش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں‘‘۔

چونکہ آزمایش عموماً تکلیف دہ ہوتی ہے اس لیے تکلیف اور شر کا پہلو غالب ہوتا ہے، تاہم دونوں طرح سے ہوسکتی ہے۔ پھر ایک لطیف فرق یہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ اِبتلا عموماً ایسے اتفاقی حادثے سے ہوتی ہے جو لوگوں کو دکھائی دیتا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت لیں جیسے: وَ اِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ… (تفصیل آگے آرہی ہے)

۳- فَتَنَ، فِتْنَۃ میں اِبتلا کی طرح نرمی اور سختی پائی جاتی ہے، تاہم اس میں سختی زیادہ ہوتی ہے۔

حاصل یہ کہ اِبتلا انسان کی ذاتی برائی، خباثت اور غلطی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ عام طرح حادثے کے طور آتی ہے۔ (مترادفات القرآن عبدالرحمن کیلانی ’آزمایش‘)

احادیث کی روشنی میں

احادیث مبارکہ اور سنت مطہرہ میں اِبتلا کا کلمہ متعدد مرتبہ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی چھوٹی باتوں اور چیزوں سے لے کر بڑے معاملات تک میں آزمایش ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں صرف تین حدیثیں بیان کی جاتی ہیں۔

  •  حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام لوگوں میں سب سے زیادہ آزمایش انبیا کی ہوتی ہے۔ پھر ان جیسے لوگوں کی، پھر ان (دوسرے درجے والے) جیسے لوگوں کی ہوتی ہے۔ (المستدرک للحاکم، جامع الترمذی، الزھد، نمبر ۴۳۹۸)
  •  حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے بیان کیا کہ میں نے سوال پوچھا: یارسولؐ اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ آزمایش کس کی ہوتی ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: انبیا کی، پھر ان جیسے (عمل و ایمان میں) لوگوں کی پھر ان جیسے لوگوں کی۔ بندے کی آزمایش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔ پھر اگر ان کے دین میں پختگی اورسختی ہوگی تو آزمایش بھی سخت ہوگی اور اگر اُن کے دین میں نرمی (ڈھیل) ہوگی تو اسے اس کے دین کے مطابق آزمایا جائے گا۔ (دنیا میں) بندے کی مسلسل آزمایش ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس حال میں زمین پر چلتا ہے کہ اس پر کوئی خطا نہیں رہتی یعنی گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ (بخاری، باب الفتن ۴۰۲۳، ابن ماجہ ، باب الفتن ۴۰۲۳)
  •  تیسری روایت جسے ابوسعید خدریؓ نے بیان کیا یہ ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپؐ بخار میں مبتلا تھے۔ میں نے آپؐ  پر اپنا ہاتھ رکھا تو اپنے ہاتھوں میں لحاف کے اُوپر سے گرمی محسوس کی۔ میں نے عرض کیا: یہ بخار آپؐ  پر کتنا سخت ہے۔ آپؐ  نے فرمایا: ہمارے لیے آزمایش دگنی ہے تو اجر بھی دگنا ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ آزمایش میں کون ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: انبیا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون ہیں؟ آپؐ  نے فرمایا: صالح لوگ، ان میں سے کوئی ایک فقرو تنگی میں مبتلا ہوتا ہے یہاں تک کہ مصیبت میں گھرنے کی وجہ سے اس کے پاس سواے ایک کمبل کے کچھ نہیں باقی رہتا۔ لیکن وہ مصیبت میں مبتلا ہوکر ایسے خوش ہوتا ہے جیسے تم لوگ فراخی پر خوش ہوتے ہو۔ (جامع الترمذی، ۲۳۹۸)

ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہربندے کو کسی نہ کسی طرح آزمایا جاتا ہے۔ البتہ اس آزمایش کا احساس کرنا، اس میں ثابت قدم رہنا، آزمایش میں پورا اُترنا اور اس سے پار ہوجانا مومن کو نصیب ہوتا ہے۔

آزمایش کی مختلف نوعیتیں

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِبتلا کے مختلف پہلو اور نوعیتیں بیان کی ہیں۔ یہاں ان کا ایک مختصر مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔

  •  مسلم و کافر کے لیے آزمایش کا لازم ھونا: قرآن مجید کی متعدد آیات میں وضاحت سے آیا ہے کہ انسان کو دنیا میں پیدا کرنے کا مقصد اس کا امتحان لینا ہے۔ زندگی گزارنے کی تمام صلاحیتیں اور قابلیتیں دے کر اسے دنیا میں بھیجا تاکہ وہ اپنے خالق و مالک اور رازق کو پہچانے اور اس کے احکام کو قبول کرے۔ ارشاد باری ہے: ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے، تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی‘‘۔ (الملک ۶۷:۲)

سورۂ ملک کی اس آیت سے پانچ بنیادی نکات نکلتے ہیں:

ا- موت و حیات اسی کی طرف سے ہے۔ کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے والا ہے اور نہ موت دینے والا ہے۔

ب- انسان کی نہ زندگی بے مقصد ہے نہ موت۔ خالق نے اسے یہاں امتحان کے لیے پیداکیا ہے۔ زندگی اس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہوگیا ہے۔

ج- اسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک انسان کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کرکے اپنی اچھائی اور برائی کا اظہار کرسکے۔

د- خالق ہی دراصل اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا برا ہے۔

ھ- جس شخص کا جیسا عمل ہوگا اسی کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی کیونکہ اگر جزا اور سزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o اِنَّا ھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا o (الدھر ۷۶:۲-۳) ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے    ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا، ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔

اس آیت کریمہ میں انسان کی اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت بتائی گئی۔ وہ درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد تخلیق یہیں پورا ہوجائے، نیز یہ دنیا انسان کے لیے نہ دارالعذاب ہے، نہ دارالجزا جیساکہ تناسخ کے قائلین سمجھتے ہیں اور نہ چراگاہ اور تفریح گاہ ہے جیساکہ اکثر مادہ پرست سمجھتے ہیں اور نہ رزم گاہ (میدانِ جنگ) جیساکہ ڈارون اور مارکس کے پیروکار سمجھتے ہیں، بلکہ یہ دراصل اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے جہاں خالق نے یہ دیکھنے کے لیے پیدا کیا ہے کہ وہ زندگی کا کون سا رویہ اختیار کرتا ہے: نیکی اور فرماں برداری کا، یا برائی اور نافرمانی کا۔ انسان کو سمیع اور بصیر بنانے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسے نیکی اور بدی کی حِس دی گئی ہے جس کے ذریعے وہ اِبتلا و آزمایش میں پورا اُترے اور کامیاب ہو۔

سورۃ الفجر میں ارشاد ہے: ’’مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنادیا۔ اور جب وہ اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا‘‘۔ (الفجر ۸۹:۱۰-۱۶)

اس آیت پر غور کرنے سے عام لوگوں کا نظریہ اور دنیاوی زندگی کا تصوریہ سامنے آتا ہے کہ یہاں کی خوش حالی، مال و دولت کو عزت اور اللہ کی رضا سمجھا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں پر اللہ راضی ہے اور ان چیزوں کے نہ ملنے کو یا چھن جانے کو ذلت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اصل حقیقت جسے یہ لوگ نہیں سمجھتے، یہ ہے کہ اللہ نے جس کو دنیا میں جو کچھ بھی دیا ہے آزمایش کے لیے دیا ہے۔ اس کی طرف سے دولت اور جاہ و اقتدار میں بھی آزمایش ہے اور مفلسی اور فقر میں بھی آزمایش ہے۔

مذکورہ بالا ان تینوں آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزمایش ہر انسان کی ہونی ہے چاہے کوئی بھی اور کسی مذہب و ملک کا باشندہ اور ملت کا فرد ہو۔ اسے اس منزل سے گزرنا ہے۔ البتہ عام انسانوں کے لیے آزمایش اور امتحان کی نوعیت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک، رازق و رؤف، حاکم و مقتدراعلیٰ کو سمجھیں، اس پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کو برحق جانیں۔

دوسری آزمایش اور امتحان ان لوگوں کا ہوتا ہے جو دین اسلام کو قبول کر کے اپنے آپ کو اُمت مسلمہ کا فرد اور مسلمان کہلاتے ہیں۔ ان کی آزمایش کئی نوعیت کی اور کئی طرح کی ہوتی ہے۔ بعض کی بڑی سخت اور بعض کی نرم اور وقتی ہوتی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مختلف انداز سے بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے چند نوعیتیں یہ ہیں:

  •  عام مسلمانوں کی آزمایش: ا-آزمایش غزوئہ خندق کے موقع پر ہوئی جب بہت سے لشکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے اور خطرناک افواہیں پھیلیں۔ قرآن مجید نے اس کیفیت کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے: ’’جب دشمن اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے‘‘۔ (الاحزاب ۳۳:۱۰)

اللہ تعالیٰ نے اس موقع کو اِبتلا و آزمایش سے بیان کیا ہے: ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا o (الاحزاب ۳۳:۱۱) ’’اس وقت ایمان لانے والے خوب آزماے گئے اور بری طرح ہلامارے گئے‘‘۔ ایمان لانے والوں سے مراد یہاں وہ سب لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں میں شامل کیا تھا، ان میں سچے اہلِ ایمان بھی شامل تھے اور منافقین بھی۔

اس اِبتلا نے سچے مسلمانوں اور منافقین کو علیحدہ کیا۔ دونوں کے کردار پر آیت ۱۲ سے  لے کر ۲۰ تک تفصیلی تبصرہ کیا گیا ہے۔ اِبتلا سے کیسے پار ہو اور کتنے صبر اور عزیمت کا اظہار کیا جائے، سب اس سورت میں بیان ہوا ہے۔

ب- آزمایش پر پورا اُترنے پر مخالفین (کفار اور مشرکین) کی طرف سے طعن وتشنیع سننا اور صبر کرنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ قف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا ط وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرo (اٰل عمرٰن۳:۱۸۶) ’’مسلمانو! تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمایشیں پیش آکر رہیں گی، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو، تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے‘‘۔

جب تم آزمایش میں پورے اُترو گے تو ان سے طعن و تشنیع، ان کے الزامات اور بے ہودہ طرزِکلام اور ان کے جھوٹے پروپیگنڈے سے واسطہ پیش آئے گا۔ لہٰذا ایسی حالت میں صبر اختیار کرنا، حق و صداقت پر قائم رہنا اور وقار، تہذیب اور اخلاقِ فاضلہ کو اپنانا ہی ان کا جواب ہے۔

ج- مسلمانوں کی اِبتلا وآزمایش کا بیان اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ میں ان الفاظ میں فرمایا:

وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo (البقرۃ۲:۱۵۵) ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو۔

اسلام کی اس اصطلاح کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کی جو آزمایش کی جاتی ہے اور ان سے جو امتحان لیا جاتاہے وہ کئی نوع اور انداز کا ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمان کو اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، اس کا جائزہ لینا چاہیے اور سوچتے رہنا چاہیے کہ کہیں میری آزمایش تو نہیں ہو رہی ہے۔ (مزید ان آیات کا مطالعہ کریں: البقرہ ۲:۲۴۹،آل عمران ۳:۱۵۲-۱۵۴، المائدہ ۵:۴۸، الانعام ۶:۱۶۸، الانفال ۸:۱۷، النحل ۱۶:۹۲، الاحزاب ۳۳:۱۱)

  •  مومنوں میں سے منتخب لوگوں کی آزمایش: بعض اوقات مومنوں کے خاص گروہ اور جماعت کی آزمایش کی جاتی ہے تاکہ اس میں کھرے کھوٹے ظاہر ہوجائیں، لوگوں پر ایک دوسرے کا حال واضح ہوجائے اور معاملات اور برتائو میں آسانی ہوجائے۔ اس نوع کی آزمایش کی کئی مثالیں اور نمونے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔

ا- وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰھِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ وَنَبْلُوَاْ اَخْبَارَکُمْo (محمد۴۷:۳۱) ہم ضرور تم لوگوں کو آزمایش میں ڈالیں گے تاکہ تمھارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں۔

جہاد کے ذریعے اور میدانِ جہاد میں آزمایش کرنا تاکہ سچے مومن اور منافق واضح ہوجائیں اور کسی کو غلط فہمی نہ رہے۔

ب- ذٰلِکَ ط وَلَوْ یَشَآئُ اللّٰہُ لاَنْتَصَرَ مِنْھُمْ وَلٰـکِنْ لِّیَبْلُوَاْ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍط وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَھُمْo (محمد۴۷:۴) یہ ہے تمھارے کرنے کا کام، اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا، مگر یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے، تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے آزمائے، اور جو لوگ   اللہ کی راہ میںمارے جائیں، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔

اللہ کے پیش نظر یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو حق پرست ہوں وہ باطل پرستوں سے  ٹکرا جائیں اور ان کے مقابلے میں جہاد کریں تاکہ جس کے اندر جو کچھ اوصاف ہیں وہ اس امتحان سے نکھر کر پوری طرح نمایاں ہوجائیں اور ہر ایک اپنے کردار کے لحاظ سے جس مقام اور مرتبے کا مستحق ہے وہ اسے دیا جائے۔

  •  بعض کو بعض پر فضیلت دے کر آزمانا: دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض لوگوں کو دوسرے بعض پر مال، مرتبے، عہدے اور دیگر وسائل میں جو فضیلت دی اس کی ایک وجہ آزمایش ہے۔ فرمایا: وَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ ط اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِصلے وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (الانعام ۶:۱۶۵) ’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کرے۔ بے شک تمھارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔

اس آیت میں تین حقیقتیں بیان ہوئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا، یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی ملکیت میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دیں، ان میں تصرف کرنے کا اختیار دیا۔

دوم یہ کہ ان خلیفوں میں مرتبوں کا فرق بھی اللہ نے ہی رکھا ہے۔ کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود،کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کرنے کے اختیارات دیے اور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوت کار دی اور کسی کو کم اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔

سوم یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے۔ پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے اور جس کو جو کچھ بھی اللہ نے دیا ہے اس میں اس کا امتحان ہے کہ کس طرح اللہ کی امانت میں تصرف کیا، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا اور کس حد تک اپنی قابلیت اور ناقابلیت کا ثبوت دیا۔ اسی آزمایش اور امتحان کے نتیجے پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔

  •  مسلمانوں کے خاص گروہ کی آزمایش: بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی گروہ کو کسی بڑے کام کے لیے منتخب کرنے سے پہلے چھوٹا سا حکم دے کر آزماتا ہے تاکہ بڑے کام اور مہم کے لیے پختہ افراد کو میدان میں لایا جائے۔ کسی ایک چھوٹے سے واقعے سے آزماتا ہے اور اس میں جو پختہ رہتے ہیں اور ثابت قدمی دکھاتے ہیں انھیں منتخب کرلیتا ہے۔ ایسا ہی ایک موقع طالوت کے لشکر کے ساتھ پیش آیا۔ اس کا بیان قرآن میں اس طرح ہے: ’’پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا تو اس نے کہا: ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمھاری آزمایش ہونے والی ہے۔ جو اس کا پانی پیے گا، وہ میرا ساتھی نہیں ہے۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے، ہاں ایک آدھ چلّو کوئی پی لے تو پی لے‘‘۔ مگر ایک قلیل گروہ کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔ پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کرکے آگے بڑھے تو انھوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انھوں نے کہا: ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ (البقرۃ ۲:۲۴۹)

طالوت کو بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت معلوم تھی، اس لیے کارآمد اور ناکارہ لوگوں کو چھانٹنے کے لیے آزمایش کا یہ طریقہ تجویز کیا اور اس سے کھرے کھوٹے لوگ علیحدہ ہوگئے۔ میرے نزدیک اگر دینی، دعوتی اور جہادی جماعتوں کے سربراہ آزمایش کا ایسا ہلکا طریقہ تجویز کریں اور کام میں لائیں تو گنجایش نظر آتی ہے۔

مسلمانوں کے گروہوں اور طبقات کی آزمایش کا تذکرہ قرآن مجید میں کافی مقامات پر آیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف اشیا اور معاملات سے آزمایش کی ہے۔ ان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے اور سابقہ اُمتوں کے واقعات ہیں۔ آپؐ سے پہلے واقعات میں اصحاب الجنۃ (باغ والے) (القلم ۶۸:۱۷)، اصحاب السبت، مختلف انبیاے کرام اور ان کے ساتھیوں کی آزمایش (البقرۃ ۲:۲۱۴)، ایوب علیہ السلام کی آزمایش (الانبیاء ۲۱:۸۳-۸۴)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے واقعات میں غزوئہ حنین (التوبۃ ۹:۲۰، المائدہ ۵:۹۴)،    غزوئہ بدر، غزوئہ اُحد، غزوئہ تبوک (التوبۃ ۹:۱۱۸)، جب کہ دنیا کی خوش حالی و فراوانی سے آزمایش۔ (الکھف ۱۸:۷)

  •   انبیاے کرام کی اِبتلا و آزمایش: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمایش کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’یاد کرو کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا، تو اس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ ابراہیم ؑنے عرض کیا: ’’اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ (البقرۃ ۲:۱۲۳)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ابوالانبیا اور خلیل اللہ کی ایسی سخت آزمایش کی جیسی شاید ہی کسی نبی سے لی گئی ہو۔ انسانی زندگی میں جتنی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن سے وہ پیار کرتا ہے، محبت رکھتا ہے، وہ ساری ان کو حاصل تھیں اور اللہ کے بندے نے وہ سب قربان کردیں اور امتحان میں پورا اُترا۔ ابن کثیر کی روایت اور تفسیرتفہیم القرآن کے مطابق انھوں نے جن بڑے احکام کی تکمیل کی اور امتحان میں پورے اُترے وہ یہ ہیں: اللہ کی طرف سے حکم ہونے پر اپنی قوم سے جدا ہوجانا اور ان کو چھوڑ دینا، باوجود جان کے خطرے اور قتل ہونے کے ڈر کے ہوتے ہوئے نمرود کے روبرو جاکر توحید کی دعوت دینا اور اس سے حجت بازی کرنا، آگ کے الائو میں بے خطر کود جانا اور صبر کا مظاہرہ کرنا، ہجرت کا حکم ملنے پر اپنے وطن سے ہجرت کرنا، مہمان نوازی کرنا اور اپنے بیٹے کو اشارہ ملنے پر ذبح کرنا۔ ان آزمایشوں کے علاوہ انھوں نے کئی ایک بڑی قربانیاں دیں جیسے بیوی اور چھوٹے بیٹے کو عرب کے بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ دینا، اپنے خاندان کی دھن دولت کو چھوڑ دینا، روشن مستقبل اور خاندانی جاہ و جلال کو چھوڑ دینا۔

قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کا آزمایشی تذکرہ آیا ہے اور یہی (ہوش مندی اور حلم و علم کی نعمت) ہم نے ایوب کو دی تھی۔ یاد کرو جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ ’’مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور جو تکلیف اسے دی تھی اس کو دُور کردیا، اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے اپنی رحمتِ خاص کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے‘‘۔ (الانبیا ۲۱:۸۳-۸۴)

قرآن مجید میں اسی طرح دیگر انبیاے کرام کی آزمایش کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جیسے حضرت دائود علیہ السلام، ملاحظہ کریں۔ سورہ صٓ ۳۸:۷۱تا۳۰، الانبیا ۲۱:۷۸، سورۂ نمل اور سورئہ سبا۔ حضرت سلیمان ؑ ،سبا ۳۴:، صٓ ۳۸:۳۴

  •  آزمایش کا لازمی ھونا اور مسلمان: قرآن مجید، احادیث اور صلحا کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آزمایش ہر انسان کی ہوتی ہے۔ مسلمان کی آزمایش تو ہروقت اور ہرحالت میں ہوتی ہے۔ قدم قدم پر اس سے مومن کا واسطہ رہتا ہے۔ ایک تاجر جب دکان پر جاکر بیٹھتا ہے تو اس کی کئی طرح سے آزمایش ہوتی رہتی ہے۔ وہ جب کسی کو چیز دیتا ہے تو صحیح تول کردیتا ہے تو یہ ناپ تول کی آزمایش پر پورا اُترا ہے۔ جب مسلم جج عدالت میں جاکربیٹھتا ہے تو مسلم کی حیثیت سے اس کی آزمایش ہورہی ہے۔ اگر انصاف کا مظاہرہ کرتا ہے، صحیح فیصلے کرتا ہے تو کامیاب ہے، ورنہ ناکام ہے۔ اس کے سامنے کوئی رشوت کی رقم رکھتا ہے تو اس کی آزمایش ہو رہی ہے اور اس کے فیصلے پر اسے کامیاب یا ناکام کہیں گے۔ غرضیکہ بہت سے واقعات اِبتلا میں قائم رہنے، اس سے احسن طریقے سے نکلنے کے ہیں۔ ان واقعات کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ (جاری)

 

دکھ ، رنج و الم اورآلام و مصائب انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہر انسان کو اپنی زندگی میںکبھی نہ کبھی ایسے لمحات سے ضرور گزرنا پڑتا ہے جب وہ اپنے آپ کو انتہائی تنہا، دل شکستہ ، مایوس ، تھکا ہوا اور کمزور محسوس کرتا ہے۔ افسردگی و مایوسی کے یہ جذبات ماضی کے کسی غم کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں اور مستقبل کے خوف کا بھی۔ حال سے وابستہ فکریں اور پریشانیا ں بھی اس کا سبب ہوسکتی ہیں۔ اسی وقتی افسردگی کو غمگین ہونا کہتے ہیں اور اگر یہی کیفیت زیا دہ عرصے تک یا مستقل طور پر طاری ہوجائے تو ڈیپریشن کا مرض بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔درحقیقت ہرانسان کی آلام و مصائب کوسہنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے لیکن کوئی بھی فرد طویل عرصے تک    غم نہیں سہہ سکتا ہے۔لہٰذا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے کہ اس نے خوشی اور   غم دونوں کی کیفیا ت کو عارضی بنایا ہے۔لیکن انسان کی فطری خواہش یہ ہے کہ وہ ایک ایسی زندگی گزارے جہاں اس کو کسی بھی قسم کا کوئی خوف و غم لاحق نہ ہو۔ جنت کی زندگی کی ایک خاص بات یہی ہوگی کہ وہاں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ ۲:۶۲)کی تصویر پیش کرتا ہے۔لیکن اس دنیا کے حوالے سے قرآن میں اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ (البلد ۹۰:۴)، کہ انسان کو پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدم کا بیٹا اس حا لت میں پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے پہلو میں ۹۹مصیبتیں ہیں‘‘۔(ترمذی)

غم انسانی زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ یہ ایک ایسی قوت محرکہ ہے جو انسان کو ہمہ وقت اس کام کے لیے فکرمند کردیتی ہے جس کی فکراسے ہلکان کیے دیتی ہے۔ انسانی زندگی میں خوشی سے زیادہ غم کے اثرات ہوتے ہیں۔ لوگوں کی زندگیوںکا بدل جانا اور ان کا رخ تبدیل ہو جانا بھی اکثر اوقات کسی نہ کسی غم اور صدمے کے سبب سے ہوتا ہے۔ عام طور پر غم ا فراد کو مایوس کرنے کا سبب بنتا ہے لیکن ایک بندۂ مومن اپنی زندگی کے غموں کو بھی اللہ کی خوش نودی کا ذریعہ بناتا ہے اور جنت کا حق دار ٹھیرتا ہے اور یہ جبھی ممکن ہے جب ہمیں یہ علم ہو کہ و ہ کون سے غم ہیں جو نجات کا ذریعہ ہیں اور اللہ کی نگا ہ میں پسندیدہ ہیں، اور کون سے غم انسان کو جہنم کے قریب کرنے اور ذلت و پستی میں گرانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

  •  دنیاوی چیزوں کا غم: زیادہ تر ا فراد دنیاوی چیزوں کے چھن جانے ، نہ ملنے اور  کم ہو جانے کی صورت میں فکر و غم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسی غم میں ا ولا د ، ما ل ، اثا ثے، تجارت، دنیا کی زیب و زینت بھی شا مل ہے۔ دراصل یہ غم انسان کے خسارے کا سبب ہے اور اس کی وجہ اس دنیاوی زندگی کو حقیقی اور ا صل متاع خیال کرنا ہے، جب کہ قرآن اس دنیا وی زندگی کی حقیقت کو ایک آزمایش بتا تا ہے اور دنیا کو دارالامتحان قرار دیتا ہے: ’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل کود اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور ما ل و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا‘‘۔(الحدید ۵۷: ۲۰)

اپنی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو نہ جانے کتنے ہی ایسے غم ہیں جو صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے اور فخر جتا نے کی بنا پر لاحق ہیں۔

ہمارے غموں کی فہر ست ایسے ہی ادنیٰ غموں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ فکریں ہم پر اتنی طاری ہوجا تی ہیں کہ شخصیت میں غیبت ، ٹوہ ، تجسس ، حسد ، جلن جیسے ا خلا قِ رذیلہ پیدا کر دیتی ہے، جب کہ دنیا کی زندگی وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ کے مصداق ہے۔اس لیے کہ ان چیزوں میں مقا بلے اور مسابقت کا انجام سواے خسارے کے کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان چیزوں پر دل شکستہ ہوکر مایوس ہونے یا مل جانے پر اترانے کا رویہ سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔

قرآن کے مطابق دنیا کی مصیبتوں کی حقیقت کیا ہے؟ یہی کہ ’’اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈا لے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور ا گروہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔و ہ ا پنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، ا پنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۰۷)

ان آیات سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو ہمیں نقصان سے نجات دلا سکے اور جو بھی مصیبت یا نقصا ن ہمیں پہنچتا ہے و ہ مِن جانب اللہ ہوتا ہے۔اس پر غم کرنا ، حد سے زیادہ آنسو بہا نا اور فکر میں مبتلا ہونا دراصل توکل علی اللہ کی کمی کو ظا ہر کرتا ہے۔ہمارے یہ چھوٹے چھوٹے لاحاصل غم ہماری زندگی کے ادنیٰ ترین مقاصد کی عکاسی کرتے ہیں۔جو انسان مادی چیزوں کے حصول کو ا پنا مقصد قرار دیتا ہے اس کی زندگی ما ل و دولت ، عہدے ، نمود و نمایش اور تفاخر کے حصول کے پیچھے اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ  کی عملی تصو یر بن جا تی ہے لیکن ان سب کے با و جو د نفس مطمئن نہیں ہوتا۔ خو شی کی ہرکیفیت میں ان چیزوں کے کم ہو جانے اور چھن جانے کا غم غالب آجاتا ہے اور زندگی عدمِ ا طمینا ن اور بے یقینی کا شکا ر رہتی ہے۔

  •  وسائل رزق کے محدود ھونے کا غم: غمِ روزگار ایک ایسا غم ہے جو ہر انسان کے سا تھ لگا ہوا ہے۔ ا کثر ا فراد اپنی صبح و شا م اسی غم کی نذر کرتے ہیں۔ رزق کی تنگی اور محدود وسائل کا ہر وقت شکوہ شکا یت کرنا یا صرف اور صرف معا ش کی جدوجہد میں    ُجتے رہنا زندگی کا مقصد بن جاتا ہے، حالانکہ ایک مومن کو اس با ت کا کامل یقین ہونا چاہیے کہ رزق کامالک اللہ تعالیٰ ہے اور مخلوق کے پاس رزق د ینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس کی تنگی پر شکوہ کرنا اور ناجائز ذرا ئع اختیار کرنا مومن کی شان کے خلاف ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ’’آسمان اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے، اسے ہرچیز کا علم ہے‘‘(الشوریٰ ۴۲:۱۲)۔ ایک اور مقام پر فرمایا: ’’پھر بتائو، کون ہے جو تمھیںرزق دے سکتا ہے اگر رحمن اپنا رزق روک لے؟‘‘(الملک ۶۷: ۲۱)

یہ تصورِ رزّاقیت جتنا کامل اور پختہ ہوگا انسان اتنا ہی بے خوف ، نڈر اور بہادر ہوگا۔ دنیا کا کوئی خوف اور غم اسے لاحق نہیں ہوگا اورا سے حق کے راستے سے نہیں ہٹا سکے گا اور زندگی کی  بھاگ دوڑ صرف اور صرف اس کے لیے وقف ہو کر نہ ر ہ جائے گی۔

  •  موت اور جدائی کا غم:  اپنے کسی عزیز رشتے دار کی موت پر غم کرنا جائزہے بلکہ یہ ایک فطری غم ہے لیکن اس میں بھی سواے بیوہ کے، کہ وہ اپنی عد ت کے ا یا م پو ر ے کر لے،  تین دن سے زیادہ غم منانا جا ئز نہیں ہے۔موت ایک ا ٹل حقیقت ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(العنکبوت ۲۹: ۵۷) ’’ہر متنفس کو مو ت کا مزہ چکھنا ہے پھر تم ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جائو گے‘‘۔

کسی قریبی فرد کی جدائی پر دل قدرتی طور پر غمگین ہوتا ہے خود رسول کریمؐ کی آنکھیں اپنے صاحبزا دے کی جدائی پر آنسوئوں سے تر ہو گئی تھیں۔ اسی طرح حضرت خدیجہ ؓ کی عظیم رفاقت کے ختم ہونے پر، اور ہمدرد چچا ا بوطا لب کے انتقال پر بھی آپؐ بے حد غم زدہ ہوئے تھے۔یہ و ہ فطری غم ہیں جن میں آنسوئوں کا بہنا اختیار میں نہیں رہتا بلکہ حدیث کے مطا بق یہ رحم کا جذبہ ہے جسے    اللہ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھ دیا ہے۔ رحمت ِعالمؐ کے سب سے چھوٹے بیٹے کی جان کنی کے وقت آپؐ فرما رہے تھے کہ ’’ آنکھیں آنسو بہاتی ہیں ، دل دکھتا ہے ، مگر ہم زبا ن سے صرف وہی کہتے ہیں جس کو ہمارا پروردگار پسند کرتا ہے، اور ا ے ابراہیمؓ! ہمیں تیری جدائی کا بہت غم ہے‘‘۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے یہ منظر دیکھا تو کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ بھی رو رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’ابن عوفؓ ! یہ آنسو رحمت کی نشا نی ہیں ‘‘۔ تاہم، بعض اوقات یہ غم بھی شدت اختیار کرلے تو مایوسی کی کیفیت میں منہ سے کفریہ جملے نکل جاتے ہیں اور ناشکری کا رویہ اختیار کرلیا جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں اور مصیبت کے وقت بھی اپنے رب کی رضا تلا ش کرتے ہیں ان کے لیے قرآن میں آتا ہے کہـ:

الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶)ا ن لوگوں پرجب کوئی مصیبت و ا قع ہو جا تی ہے تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طر ف لو ٹ کر جانے و الے ہیں۔

پھریہ ا حساس کہ موت اور زندگی اللہ کے اختیار میں ہے درا صل ایک آزمایش ہے جو انسان کو سکون بخشتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ’’ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم اچھے بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں، آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ (الانبیا  ۲۱:۳۵)

حضرت معا ذ ؓ جب یمن کے گورنر تھے تو ان کا لڑکا وفات پا گیا۔ رسولِ کریمؐ نے تعزیتی خط میں لکھا کہ ’’ اگر تم نے آخرت کے اجر و ثواب کے لیے صبر کیا، تو تمھارے لیے خدا کی رحمت، عنایت اور ہدایت ہو، پس تم صبر سے کام لو۔ اور خیال رہے کہ کہیں تمھاری بے قراری اور بے صبری تمھیں اجر سے محروم نہ کر دے اور تمھیں پچھتانا پڑے، یقین کرو کہ بے صبری اور بے قراری سے کوئی مرنے والا لوٹ کر کبھی نہیں آیا، نہ اس سے دل کا غم ہی دور ہوسکتا ہے، جو حادثہ پیش آیا ہے اسے تو آنا ہی تھا۔ والسلا م ‘‘۔ غرض یہ کہ فطری غم و آلام بھی اللہ کی نظر میں اسی وقت قا بلِ قبول ہیں جب انسان ایمان و یقین کا د ا من ہا تھ سے نہ چھوڑ ے اور اللہ کی ر ضا پر را ضی ہو کرصبر سے کام لے۔

مومنانہ رویـہ

انسان کے ہر عمل کا تعلق اس کی سوچ سے ہے، اگر سوچ کا ر خ درست کر لیا جائے تو زندگی کی بہت سا ر ی مشکلات خود بخود کم ہو جائیں۔

حضرت ا بوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمھیں کوئی تکلیف، مصیبت پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ’ اگر میں ایسا کرتا تو یو ں ہو جاتا ( یا نہ ہوتا ) ‘ بلکہ یہ کہا کر و کہ اللہ نے ہر چیز کو مقدر کر لیا ہے جو اس نے چا ہا وہ کر ڈالا۔ اس لیے کہ لَوْ یعنی اگر، شیطا ن کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔(مشکوٰۃ )

اس حدیث میں انسان کی اس کمزوری کی طر ف اشارہ ہے کہ انسان اپنی حکمت اور تدبیر پر بھروسا کرتا ہے تو اس کی مصیبتیں ایک بھاری غم میں تبدیل ہو جا تی ہیں کہ ’’کاش! یہ کر لیا ہوتا ‘‘ اور ’’کاش! یہ نہ کیاہوتا‘‘۔ اسی طرح مو ت کے وقت یہ کہنا کہ’اچا نک مو ت تھی ‘، ’جلدی ہسپتال پہنچ جاتے تو ایسانہ ہوتا‘‘، اس طرح کی باتیں کرنا گویا ہمارے دلوں کی ایسی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم اللہ کے فیصلوں پر راضی نہیں ہیں اور اس کے بجاے اپنی تدبیر ، حکمت اور عقل پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ لہٰذا جب مشکل درپیش ہوتی ہے تو انسان بجاے صبر کے بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مومن جب یہ یقین رکھتا ہے کہ ہر چیز مِن جانب اللہ ہوتی ہے تو اس کے دل کو ایک سکون اور اطمینان رہتا ہے۔

حضرت صہیب بن سنان ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: مومن کا معا ملہ بھی عجیب ہے۔ اسے جو کچھ بھی پیش آئے و ہ اس کے لیے سرا سر خیر ہوتا ہے اور یہ دولت مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں۔ جب ا سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اللہ کا شکر کرتا ہے اور جب ا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ (اللہ کے لیے) صبر کرتا ہے، اور (اس طرح) مصیبت بھی اس کے لیے سراسر خیر بن جا تی ہے۔ گویا صبراور شکر دو ایسے خوب صورت اعمال ہیں جو انسان کو اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتے ہیں۔ مصیبت پہنچنے کی صورت میں و ہ ا پنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کا موں سے روکتا ہے، یعنی صبر کرتا ہے، جب کہ نعمت ملنے پر اترا تا نہیں ہے کہ یہ سب میر ی اپنی تدبیر ، علم، تعلقا ت اور ا خلا ق کا حاصل کردہ ہے۔ایسے فرد کے غم اس کی درست سوچ کی و جہ سے کم ہو جاتے ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وقتی طور پر افسردہ ہونے کے بعد و ہ دوبارہ مصروفِ عمل ہوجاتا ہے اور اس پر مایوسی کی وہ کیفیت طاری نہیںہوتی جوایک غیردینی سوچ رکھنے و الے فرد پر ہوتی ہے بلکہ بندۂ مومن کے لیے ہرکرب ، قربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

  •  دعاؤں کی قبولیت :ہم سب سے زیادہ پریشان اور مایوس اس وقت ہوتے ہیں جب ہم کسی خا ص چیز کے طلب گار ہوتے ہیں اور اللہ سے دعا ئیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ان لمحات میں جب ضرورت شدید ترین ہو، رب کے حضور گڑگڑا کر دعائیں ما نگی جا رہی ہوں، اَشک رُکتے نہ ہو ں کہ وہ ذاتِ کریم ہماری خواہش اور ضرورت کے مطا بق اس وقت ہماری دعا قبول کرلے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت اور حکمتوں کی بنا پر ہماری خواہش یا ضرورت کو اسی شکل میں پورا نہ کرے تو ہماری تڑپ و کرب کی کیفیت بے حد تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ایسے میں ا کثر ا و قات بے ا نتہا ما یوسی اور غم کی شدید ترین کیفیت کا حملہ ہو جاتا ہے۔ یو ں تو دعا کوئی بھی ضائع نہیں ہوتی۔کچھ قبول ہو جاتی ہیں اور کچھ ہماری مصیبتوں اور گناہوں کو کم کر دیتی ہیں، اور ان میں سے بہت ساری نہ قبول ہونے والی دعائیں ان شا ء اللہ آخر ت میں ہمارے کام آئیں گی کہ جب یومِ آخرت بندۂ مومن خود یہ کہے گا کہ کا ش! دنیا میں میری کوئی دعا بھی قبول نہ ہوئی ہوتی۔ لیکن بعض اوقات انسان اپنی کم عقلی اور   محدود علم کی بنا پر ا یسی دعائیں مانگتا ہے جو سرا سر اس کے لیے شر ہوتی ہیں۔ قرآن میں آتا ہے  کہ: ’’انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر ما نگنی چاہیے۔انسان بڑ ا ہی جلدباز واقع ہوا ہے‘‘۔(النحل ۱۶:۱۱)

اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اللہ اپنی لا محدود قدرت کی و جہ سے و ہ علم رکھتاہے جو عا م انسان کو نہیں ہے اور ہمارا خالق بہتر جانتا ہے کہ کس وقت کون سی چیز ہمارے لیے بہترہے۔دعا ے ا ستخا رہ میں انسان کو یہی سکھایا گیاہے کہ انسان ا پنے ر ب سے و ہ خیر مانگے جو دین اورآخرت کی بہتری رکھنے والی ہو اور اسی سے را ستے کی آسانی مانگے۔ وہ تمام کام جو انسان کو دین و آخرت کی بھلائی سے محروم کر دیں، اُن سے بچنے اور اللہ کی پناہ میں آنے کی دعا کرے اور اللہ کے فیصلوں میں یکسوئی کا بھی طلب گار ہو۔ جب انسان اپنی ضرورت و خواہشات کو بھی اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور اس کے لا محدود علم و قدرت سے ر ہنما ئی کا طلب گار ہوتا ہے تو اللہ ا پنے بندوں کے دلوں کو سکون و ا طمینان نصیب کرتاہے اور انھیں نعم البدل بھی عطا فرماتا ہے۔دلوں کا ا طمینا ن     اور معاملات میں یکسوئی کا حاصل ہونا صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے جب انسانی عقل      اللہ رب العالمین کی قدرت و اختیار کے آگے جھک جائے اور کہے کہ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ (المؤمن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔

  •  تقدیر پر ایمان :ایمان کا ایک ا ہم جز تقد یر پر ایما ن ہے۔گویا اس با ت کو سچے دل سے ما نا جائے کہ دنیا میں ہر چیز اور ذرہ ذرہ اللہ کے حکم اور مشیت سے کام کر رہا ہے، اور تمام حالات و واقعات اللہ کے علم میں ہیں۔ زندگی کی و ہ فکر یں جن کے لیے انسان اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات وقف کر دیتا ہے، یعنی زندگی ، موت ، اولاد ، شادی رزق، غرض یہ کہ ہر وہ چیز جو اللہ نے تقد یر میں طے کردی ہے انسان اس کو اپنے ذمہ لے کر پریشان رہتا ہے اور آنسوبہاتا ہے، مضطرب رہتا ہے۔ حالانکہ یہ اللہ کی رحمتوں میں سے ایک بہت بڑی رحمت ہے کہ اس نے انسان کو ان تمام چیزوں کی فکر سے آزاد کر دیا ہے اور دنیا میں جس مقصد کے لیے بھیجا ہے، اس کے لیے ہمہ وقت مصروفِ عمل رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انبیاے کرا م ؑاور صحا بہ کرام ؓ جن کی زندگیا ں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، ان کی شخصیات کا تعارف و ہ پیشہ ، یا وہ عُہدہ نہیں ہے جو انھیںدنیاوی اعتبا ر سے حاصل تھا بلکہ ان کی سیرت و شخصیت کا نما یاں وصف ان کا اللہ کے دین کی دعوت اور اقامت دین کے لیے جدوجہد میں حصہ لینا ، اور اس نصب العین کے حصول کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینا ہے۔ غمِ روزگار ، ا ولا د اور روز مرہ زندگی کے غم انسان ہونے کے ناطے اُنھیں بھی لاحق ہوں گے لیکن ان کا حصہ ان کی زندگیوں میں اتنا ہی تھا جتنا اس عارضی زندگی کی اہمیت ہے۔ایک مسافر اور ا جنبی کی حیثیت سے رہنے و الے فرد کو اس عارضی زندگی میں صرف منزل تک پہنچنے کی پریشانی ہوتی ہے جو کہ بندۂ مومن کے لیے جنت ہے۔ باقی عارضی پریشانیوں کو دُور کرنے کا نہ اس کو اختیارہے نہ طاقت ہی ۔لہٰذا و ہ اپنی توانائیاں ایسے لاحاصل غم میں ضائع نہیں کرتا جس کا کوئی حاصل نہیں۔حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’جو شخص دنیا کو ا پنا نصب ا لعین بنائے گا ، اللہ اس کے دل کا اطمینا ن و سکون چھین لے گا اور ہر وقت مال جمع کرنے اور ا حتیا ج کا شکا ر ہوگا ، لیکن دنیا کا حصہ اتنا ہی اسے ملے گا جتنا اللہ نے اس کے لیے مقدر کیا ہوگا۔ اور جن لوگوں کا نصب العین آخرت ہوگی ، اللہ تعالیٰ ان کو قلبی سکون نصیب فرما ئے گا اور ما ل کی حر ص سے ان کے قلب کو محفوظ رکھے گا اور دنیا کا جتنا حصہ ان کے مقدر میں ہوگا وہ لازماً ملے گا۔‘‘(ترغیب و ترہیب)

  •  دنیاوی غم کا حاصل :کا میا ب، پُرسکون ، پُرمسرت زندگی جس میں کوئی خوف ہو نہ رنج، انسان کا ایک خواب ہے۔ جب انسان کسی تکلیف ، مصیبت اور پریشانی سے گزرتا ہے تو و ہ لازماً یہ سوچتا ہے کہ دنیا کی مصیبتو ں اور تکا لیف کا کیا فا ئد ہ، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری تکا لیف سے کیا ملتا ہے ؟یہ سوال کہ خالق کو کیا ملتا ہے مخلوق کے دائرے سے باہرہے۔اس لیے کہ خالق ان تمام باتوں سے ماورا ہے بلکہ یہ سوچ تو رکھنی ہی نہیں چاہیے کہ خالق کو کیا ملتا ہے۔ اللہ اپنی ذات و صفات اور اختیارات میں لامحدود ہے۔ آدمی اس تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا ہے۔سوال تو یہ کرنا چاہیے کہ ہمیں کیا ملتا ہے؟

اس سوال پر انسان سوچے تو اس کے لیے عملِ خداوندی کے ہزار مثبت پہلو اور پُرسکون زندگی کی بے شمار بنیادیں نکل آئیں:

۱- انسان کے ا و پر مصیبتیں نہ آئیں تو ا سفل سا فلین کے درجے تک پہنچنے میں د یر نہیں لگتی۔ اس کی زندگی کھا ؤ پیو، عیش و آرا م کے دائرے تک ہی محدود ہو جائے اور وہ ایک شترِ بے مہار کی سی زندگی گزارے۔

۲- غم اور مشکلات ہی انسان کو یہ شعور عطا کرتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور اس کے ا پنے زورِ بازو کا نتیجہ نہیں ہیں۔ وہ جب چا ہے انھیں وا پس لے لے، اور جب چا ہے کسی بھی نعمت کے نقصان یا جدائی سے دوچار کر دے۔ اس لیے ایسا انسان کسی بھی ناکامی پر ملول اور مایوسی کی کیفیت سے دوچا ر نہیں ہوتا۔

۳-یہ مصیبتیں ہی دراصل صبر کرنا سکھاتی ہیں اور شکر کے جذبے سے بھی آشنا کرتی ہیں۔

۴- ہر چیز مِن جا نب اللہ ہے اور یہی ہمارے رویوں کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھے برے حالات میں ڈال کر ہماری آزمایش کرتا ہے کہ ہم اللہ کی طر ف رجوع کرنے و الے ہیں یا بندوں سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔

۵-  انسان اس حقیقت سے بھی آشنا ہوتا ہے کہ نہ تو ر نج وآلام ہمیشہ کے لیے ہیں اور نہ خو شیا ں اور مسرتیں ہی ۔ یہ تمام چیز یں وقتی طور پر دنیا کی زندگی کا حصہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے ایک آزمایش ہیں۔ با قی رہ جانے و الی صرف نیکیا ں ہیں جو انسان کے کام آتی ہیں۔

یہ مال اور اولاد محض دنیاوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ (الکھف ۱۸:۴۶)

۶- ہماری مشکلات اور مصیبتیں جن پر ہم اللہ سے را ضی رہتے ہیں اور صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے صلے میں ہماری خطاؤں سے درگزر کرتا ہے۔حدیث ہے کہ : مسلمان کو جو رنج، دکھ، غم، تکلیف اور پریشانی آتی ہے، حتیٰ کہ اگر اس کو ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفا ر ہ بنا دیتا ہے۔( بخاری ، مسلم)

۷- رنج و غم دل کو گداز کرتا ہے اور ایسا دل اللہ کے کلا م کے ا ثرا ت کو جلد قبول کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے بلکہ رحم ، ہمدردی اور محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں   ؎

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی

۸- انسان عا رضی چیزوں کی و قعت اور اور ان سے دل لگا نے کے انجام سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ اس طرح باقی رہ جانے والی جنت اور اس کے حصول کے لیے تیاری کرتا ہے اور دنیا کے غموں پر اس کا ر و یہ یہ ہوتا ہے کہ و ہ جنت کی د ا ئمی خو شیوں اور آرا م کا طلب گار رہتا ہے۔

غم کا مثبت پھلو

ان غموں میں سے کچھ غم ایسے ہیں جو انسان کی زندگی کو مثبت ر خ دیتے ہیں او ر جن کا کرنا آخرت میں انسان کی نجات کا با عث بنتا ہے اور اسے اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتا ہے۔

  •  گناھوں پر غمگین ھونا : گناہوں پر غمگین ہونے کی کیفیت انسان پر طاری ہو تو وہ توبہ کی جانب راغب ہوتا جاتا ہے۔ انسان کو ا پنے گناہوں پر لازماً ایک غم و صدمے کی سی کیفیت میں رہنا چاہیے۔ یہ غم انسان کو اللہ کا قرب عطا کرتا ہے اور خشیت ِ الٰہی کا موجب بنتا ہے۔اس غم میں نکلنے و الے آنسو بھی اللہ کی نظر میں انتہائی مقبول ہیں۔ حدیث ہے کہ ’’جن دو آنکھوں پر دوزخ حرام کر دی گئی ہے ان میں سے ایک آنکھ و ہ ہے جو اللہ کے خوف سے رو د ی، اور د و سر ی آنکھ وہ ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں پہر ہ دیتے ہوئے را ت کو جا گنے و الے مجا ہد کی آ نکھ ہے‘‘ (ترمذی )۔ اسی طرح ایک اور حدیث کے مطا بق جو د و قطر ے اللہ کی نگاہ میں محبوب ہیں، ان میں ایک وہ آنسو کا قطرہ ہے جو اللہ کی یاد اور خوف سے نکلے اور دو سرا وہ خون کا قطرہ جو اللہ کی ر اہ میں جہاد کرتے ہوئے مجا ہد کے جسم سے نکلے۔توبہ و استغفا ر اور اللہ کی طر ف پلٹنے کا عمل انسان کے ا خلا ص اور   دل سوزی کو ظا ہر کرتا ہے۔ ایسے میں انسان ا پنے قصوروں کو یا د کر کے لرزتا ہے، اس کی اندرونی حالت اور بے تابی اسے اللہ کے حضو ر دل و دما غ کے سا تھ جھک جانے پر آما دہ کر تی ہے۔حدیث ہے کہ ’’اے لوگو ! اللہ کی طر ف پلٹواور اس سے ا پنے گناہوں کی مغفرت چاہو ، میں دن میں سو سو بار استغفار کرتا ہوں‘‘۔ (مسلم)

اپنے گناہوں پر غمگین ہونے و الے ا فراد درا صل اللہ کی عظمت و ہیبت سے لرزتے ہیں۔ پھر اپنی کو تاہیوں، غفلتوں اور اپنی بے بسی اور عا جزی کا ا ظہار دعا کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ وہ  غم ہے جو دل کو سکون اور ا طمینا ن سے بھر دیتا ہے اور اُسے اللہ کا مقرب بنا دیتا ہے۔

  •  نیکیوں کے مواقع کہو د ینے کا غم: و ہ ا فرا د جن کی زندگیوں کا محور و مرکز    اللہ رب العا لمین کی ر ضا او ر جنت کا حصول ہوتا ہے، وہ صرف ایک ہی غم و فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کی غفلت و لا پروائی سے کوئی بھی ایسا مو قع ضائع نہ ہو جائے جس میں وہ نیکی سے محروم رہ جائیں۔ یہ غم دراصل اتباعِ رسولؐ بھی ہے اور ایک داعی کے شایانِ شان بھی ہے۔ قرآن اس کو مسابقت و مقابلے کا عمل قرار دیتا ہے۔ دنیا کا کون سا ایسا انسان ہے جو مقابلہ نہیں کر رہا۔ ہرفرد کسی نہ کسی مقا بلے میں شریک ہے لیکن نیکیوں میں سبقت لے جانے کا مقابلہ اور ان کے مواقع ضائع کر دینے کا غم اللہ کو محبوب ہے۔

غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح سے نیکی کی طرف سبقت لے جانے کی ترغیب دے رہا ہے: ’’دوڑو اور ایک دوسر ے سے آگے بڑھنے کی کو شش کر و ا پنے ر ب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسما ن و زمین جیسی ہے‘‘(الحدید ۵۷:۲۱)۔ یہ غم ایک مومن کی متا ع ہے کہ اس دوڑ میں و ہ پیچھے نہ ر ہ جائے۔ اسی فکر و ا ضطراب نے لوگو ں کے دلوں کو حق کی طرف مائل کیا ہے۔ یہی غم لوگوں کو فلاح کا را ستہ دکھانے اور ا نھیں جہنم کی آگ سے بچانے کے جنون میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

  •  غمِ عقبٰی: ایمان لا نے کے بعد آخرت کی جواب دہی کا خوف انسان کے اندر ہو تو اس کا ہرعمل خود بخود درست ہو جاتا ہے۔غمِ عقبیٰ ایسا غم ہے جو انسان کے اعما ل اور مختلف معاملات کو درست رخ پر استوار رکھتا ہے۔نبی کریمؐ اور صحابہ کرام ؓ کی سیرت سے ان پاک باز انسانوں کا اس غم میں آنسو بہا نا اور اس کی فکر میں پریشان ہونا ثا بت ہوتا ہے۔یہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد قبرکی ہولناکی اور جواب دہی کے غم میں صحا بہ کرا مؓ ہنستے ہنستے رونے لگ جایا کرتے تھے۔

دراصل یہ وہ غم تھے جو ان عظیم ا فراد کو ہلکان کیے رکھتے تھے۔ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے زانو پر سر رکھے سو رہے تھے کہ حضرت عائشہؓ کی آنکھ سے آنسو ٹپکے اور آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔ فکرمند ہو کر پوچھا: ’’ا ے عائشہ ؓ! تمھیں کس غم نے رُلا دیا؟ اُم المومنینؓ گویا ہوئیں: ’’یارسولؐ اللہ! مجھے جہنم کی یاد آگئی___ اُس نے رُلا د یا۔پھر پوچھا: ’’یارسولؐ اللہ! کیا قیامت کے دن آپؐ ا پنے گھر والوںکو یا د رکھیں گے ؟ ‘‘ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! تین مقامات ایسے ہوںگے جہاں کوئی کسی کو یا د نہ رکھے گا ، نہ خبر لے گا۔ عندالکتاب، وہ وقت جب اعمال نامہ کھولا جائے گا، عندالمیزان، وہ وقت جب اعمال تولے جائیں گے اور عندالصراط وہ وقت جب پل صراط پر سے گزارا جائے گا‘‘۔ اسی طرح ایک با ر اللہ کے نبیؐ نے کچھ لوگوں کو کھِل کھلا کر ہنستے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر تم لذتوں کا خا تمہ کرنے والی موت کو زیادہ یاد کرتے تو وہ تمھیں ہنسنے سے روک دیتی‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح حضرت عثمان بن عفا ن ؓ کے آزاد کردہ غلا م ہا نی کا بیان تھا کہ حضرت عثمانؓ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے یہاں تک کہ اپنی داڑ ھی تر کرلیتے ، کہ قبرآخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔

انسان کو غم پالنے کا شعور ہو تو وہ ایسے غم پالتا ہے جس سے اس کی آخرت بھی سنور تی ہے اور دنیا کے معاملات بھی درست ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی غم کا سبق ہمیں اسوۂ رسولؐ سے بھی ملتا ہے اور اسی کی عکاسی صحابہ کرام ؓ کی زندگی سے بھی ملتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ہماری اور اُن کی زندگیوں میں پایا جاتا ہے۔ غم وہ حقیقت ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم کون سے غموں کو اہمیت دیتے ہیں، کون سی باتیں ہمیں مضطرب کرتی ہیں اور کس پریشانی میں ہمارے آنسو بہتے ہیں۔ فطری غموں اور روز مر ہ کی تکا لیف پر آنسو بہانا بھی منع نہیں لیکن صرف انھی معاملات پر آنسو بہانہ اور غمگین رہنا بھی پسندیدہ نہیں ہے۔

  •  اعلٰی ترین غم :غم کا براہِ را ست تعلق ہمارے مقصدِ زندگی سے ہے، جتنا اعلیٰ ہمارا مقصدِ حیات ہوگا اتنا ہی ہمہ گیر اور گہرا ہمارا غم ہوگا۔ دنیا کے چھوٹے چھوٹے مقا صد چھوٹے غم اور تکلیف لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک مسلما ن کے لیے اقامتِ دین سے بڑھ کر اعلیٰ مقصد اور کون سا ہوگا! یہ مقصد تو تخلیقِ آدم کی بنیاد ہے۔ اسی مقصد کی ہمہ گیریت اور بھاری ہونے کا ا حساس ہی تو انبیاے کرام ؑ کو مضطرب و پریشان رکھتا تھا۔ حضور اکرمؐ کے بارے میں قرآن میں آتا ہے کہ ’’شاید آپ تو ان لوگوں کے پیچھے رنج و غم میں ا پنے کو ہلاک ہی کر ڈالیں گے، اگر یہ لوگ اس کلا مِ ہدایت پر ایمان نہ لا ئیں‘‘۔ (الکھف ۱۸: ۶)

خود نبی کریمؐ اپنی اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: ’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا تو پتنگے اس پر گرنے لگے، اور و ہ شخص پو ر ی قوت سے ان پتنگوں کو آگ سے روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوششوں کو ناکام بنائے دے رہے ہیں اور آگ میں گرے پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح میں تمھیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک ر ہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو‘‘۔

یہ فکر کی وہ کیفیت ہے جو دنیا کے معز ز ترین گروہ کے اضطراب کو ظاہر کر تی ہے۔ان کا غم صرف یہ تھا کہ کسی طرح انسانیت کو فلاح کا را ستہ دکھا دیا جائے۔یہ وہ غم تھا جو ا نبیاے کرا م کو ان کے اعلیٰ ترین مقصد ِ زندگی کی وجہ سے ہلکان کیے دیتا تھا۔لہٰذا ایک بندۂ مومن کو اس غم سے بڑھ کر اور کون سا غم عزیز ہوگا، جب کہ جہنم کے سیاہ گہرے شعلے نافرمانوں کے لیے بھڑکا ئے جا رہے ہوں، انسانیت اللہ کی حدود کو توڑ کر درکِ ا سفل کی پستی میں گرتی چلی جا رہی ہو،کمزوروں و مظلوموں سے جینے کا حق چھینا جا ر ہا ہو اور طاقت ور دنیا کی ہر چیز پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھے چلے جا رہے ہوں، ایسے میں صرف ایک ہی غم اور ایک ہی فکر غالب ر ہتی ہے کہ دنیا میں ظلم کے نظا م کا خاتمہ ہوسکے، سسکتی انسانیت اسلام کے سائے تلے پنا ہ لے سکے اور نجات کی راہ پا جائے۔ یہی وہ غم تھا  جو تمام ا نبیا کو ہلکان کیے دیتا تھا، یہی فکر تھی جو حضرت ا برا ہیم ؑ کو ا پنے شیرخوار بچے اور بیوی کو    وادیِ غیرذی زرع میں چھوڑ کر جانے کے لیے تیا ر کر دیتی ہے۔ یہی ا حساس تھا جو حضرت موسٰی ؑ کو فرعون کے دربار میں کلمۂ حق بلند کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہی وہ ا ضطراب تھا جو نبی کریمؐ کو غارِحرا کی تنہائی سے نکال کر یاایھا المدثر کا خطاب عطا کراتا ہے۔طائف کے میدان میں لہولہان  کرا دیتا ہے۔ اس فکر ہی میں کبھی شعب ابی طالب کا دشوارگزار مرحلہ آتا ہے تو کبھی عکاظ کا میلہ۔ اسی غم کی قوت بدر و اُحدکے معرکے برپا کراتی ہے اور اسی غم سے قیصروکسریٰ کے ایوان لرز ا ٹھتے ہیں۔ اسی کی کڑی فتح مکہ کا سبب بنتی ہے۔ غرض ہر جگہ، ہر لمحے اور ہر وقت صرف یہی فکر غالب رہتی ہے کہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچ جائے اور اللہ کی زمین میں اللہ کا دین نا فذ ہو جائے۔

آپ کو کون سا غم عزیز ھے؟

یہاں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینا ضر وری ہے۔ ہماری زندگیوں میں کون سا غم ہے جو ہمیں پریشان و مضطر ب رکھتا ہے۔ کیا ہم بھی بندۂ درہم و دینارہیں جن کے لیے نبیؐ نے فرمایا: ’’تباہ ہوجائے دینار کا بندہ اور درہم کا بندہ اور کمبل (چادر) کا بندہ، اور اگر ا سے د یا جائے تو خو ش اور نہ دیا جائے تو غصے ! تباہ ہوجائے اور منہ کے بل گرے۔ کانٹا چبھے (تو اللہ کرے کہ ) نہ نکلے۔مبارک ہو اس بندے کو جو اللہ کی راہ میں ا پنے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے ہو ، بال بکھرے ہوئے ہوں اور پائوں گرد آلود! اگر ا سے پہرے پر لگایا جائے تو پہرا دے اور اگر پچھلے لشکر میں چھوڑ د یا جائے تو پچھلے لشکرہی میں رہے۔ اگر ا جازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ سنی جائے۔ (بخا ری ، کتاب الجھاد)

یہ حدیث ہر اس بندے کے لیے وعید ہے کہ جو حبّ دنیا اور ما ل و دولت کے پیچھے اپنی جان، وقت اور صلا حیتیں صرف کرتا ہے، جب کہ و ہ ان سا ری کوششوں کے باوجود اپنی تقدیر سے نہیں لڑسکتا ہے، لیکن خوشخبری و مبارک باد ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کے راستے پر اپنی جان کھپا دینے کی وجہ سے قا بلِ فخرہے اور مبا رک باد کا مستحق ہے۔ حالاںکہ اس کی دنیاوی حیثیت اتنی بھی نہیں کہ کوئی اس کی با ت کو قا بلِ تو جہ سمجھے۔

ہر وہ فرد جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو یہ جانچ لینا چاہیے کہ و ہ ا پنے دعویٰ ایمان میں کتنا سچا اور کھرا ہے۔کیا اس کی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ گزرا جب اس کا دل اس لیے غمگین ہو ا ہو کہ دنیا میں اللہ کی حدود پامال ہو رہی ہیں ، اللہ کی راہ میں لڑنے والے ذلیل کیے جا رہے ہیں ،قرآن کی آیات کے من چاہے معنی نکالے جا رہے ہیں، تو کیا اس کا دل اسی طرح دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے جب اسے کسی ذاتی مصیبت یا آزمایش کا سامناکرنا پڑتا ہے ؟ کیا راتوں کی بیداری کا سبب کبھی یہ فکر بھی ہو ئی کہ اقامتِ دین کی اس جدوجہد میں اس کا اپنا حصہ کیا ہے ؟ کیا اس نے ا پنے حصے کا کام کر لیا ہے ؟ کیا وہ ایمان کی آزمایش کا صرف دعویٰ کرتا ہے یا اس کا عملی نمونہ بھی ہے؟ کیا اس کی جان و مال اللہ رب العالمین کے لیے وقف ہے؟، کیااس کی بھاگ دوڑ صرف دنیا کی عزت، مرتبہ و مقام ہی کے لیے ہے ؟ کیااس کی فکر اولاد کی ڈگری ، آمدنی و شادی تک ہی محدود ہے، یا ان کو اللہ کا بندہ بنانے اور صالحین کا امام بنانے کی بھی ہے؟ کیا اس نے کبھی اپنی اولاد کے لیے یہ دعا کی جو حضرت ابراہیم ؑ نے کی تھی؟یا اس کا شما ر ان ا فراد میں ہے کہ جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنی جان و مال اپنی دنیا بنانے کے لیے وقف کر دیتے ہیں، جو اللہ سے رجوع تو کرتے ہیں لیکن صرف اپنی مصیبتوں سے نجات کے لیے ، اور جن کے دل امت کے فکر و غم سے خالی ہیں۔کتنے افراد ایسے ہیں جن کی راتوں کی سسکیاں ان مجاہدین کے لیے ہوتی ہیں جو اللہ کے دین کی خا طر گوانتانامو اور ابوغریب میں ظلم کاشکا رہیں۔جو ان مظلوموں کے لیے مضطرب رہتے ہیں جن کو کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے اور ڈالروں کے عوض جن بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو نیلام کر دیا گیا ہے۔

آئیے جائزہ لیجیے کہ کیا ہم سب کے لیے امت کی مشکلات بھی ایسی ہی ہیں جیسے ہماری ذاتی مشکلات؟ کیا اس کے زخم بھی اسی شدت کے ساتھ محسوس ہوتے ہیں جیسے ا پنے جسم پر لگے زخم؟ جائزہ لیں کہ ہماری آہیں ، سسکیاں ، راتوں کا جاگنا ، دل کا افسردہ ہونا، اور پریشان ہونا کس کے سبب ہے؟کون سا غم ہے جو ہمیں ہلکان کیے دے ر ہا ہے ؟ ہمارا دل کس سوزوغم کا شکار ہے؟ہمیں کون سی بے قراری ہے؟ اور اگر ان سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان غموں سے نا آشنا ہیں تو پھر دعا کیجیے کہ ہم ان بے قرار داعیوں میں شا مل ہوجائیں جن کا شوق و ولولہ ، تڑپ ، سوز ، درد،لگن اور حوصلہ اُن کو کسی طرح چین سے بیٹھنے نہ دیتا ہو، جن کی جان صرف اس غم میں ہلکان ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ انسانیت قرآن کے سا ئے تلے آجائے۔جن کا اضطراب اللہ کے دین کے نفا ذ کے لیے ہوتا ہے وگرنہ اللہ کو ایسے غمگین دلوں کی کوئی پروا نہیں جو اس دھوکے کی زندگی کے مل جانے اور نہ ملنے پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معا ملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلا ئی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت ِعمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے ) اس لیے ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے مہلت دے دیتے ہیں۔ انسان کا حا ل یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے مگر جب ہم اس کی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں تو ا یساچل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوش نما بنا دیے گئے ہیںـ‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۱-۱۲)

اللہ سے دعا ہے کہ ہم حقیقی غموں کا شعورحاصل کریں اور ان ہی غموں سے اپنی زندگیوں کو مزین کر یں جو ہماری فلاح و نجات کا سبب بنیں۔

 

حضرت کعب بن عیاضؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ہر اُمت کے لیے (کوئی نہ کوئی) فتنہ اورآزمایش ہے (جس میں اس اُمت کے لوگوں کو مبتلا کرکے ان کو آزمایا جاتا ہے)۔ چنانچہ میری اُمت کے لیے  جو چیز فتنہ اور آزمایش ہے وہ ’مال و دولت‘ ہے۔

حدیث مبارکہ کی وضاحت سے قبل لفظ ’فتنہ‘ کی تعریف اور اس کی اقسام سمجھ لیں۔ فتن جمع فتنہ کی ہے، ابتلا/امتحان، انسان کا اچھی حالت سے بری حالت میں آنا، کسی کی طرف میلان اور خودپسندی، یہ سب معنی آتے ہیں۔ اصطلاحِ شرع میں: ’’ہر ایسی چیز جو انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے غافل کردے فتنہ کہلاتی ہے۔ مثال کے طور پر مال اور اولاد کو بھی خداوند تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’فتنہ‘ کہا ہے، کیونکہ مال اور اولاد انسان کو یادِ الٰہی سے غافل کردینے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

  • فـتنہ کی اقسام:
  •  ذاتی فتنہ: قلب کا سخت ہونا کہ طاعت و مناجات میں حلاوت و لذت محسوس نہ ہو۔
  • فتنۂ اہل: اولاد کی نافرمانی، زوجین میں نفرت اور گھریلو نظام کا بگڑ جانا۔
  • فتنۂ انسانیت: انسانیت ختم ہوجانا، خود غرضی، ایذا رسانی کے درپے ہونے لگنا۔
  • وبائی فتنہ: قحط، طوفان، خسف و مسخ۔
  • فتنۂ کذب: جھوٹ اور دھوکا دہی عام ہوجائے، دلوں سے احساسِ امانت نکل جائے۔
  • فتنۂ تاویلات: متشابہات (قرآنی آیات) میں کج روی کے ساتھ غلط تاویلات کرنا۔
  • فتنۂ سبّ و شتم: سلف صالحین کو گالی دینا۔
  • فتنۂ استحلال: حرام اشیا کو ان کا نام بدل کر جائز سمجھ کر استعمال کرنا۔

اس حدیث مبارکہ کے پیشِ نظر عہدِنبویؐ سے لے کر موجودہ زمانے تک کی تاریخ پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ یہی مال و دولت سب کے لیے آزمایش بنا رہا ہے، جس کے ذریعے بے شمار بندوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بغاوت و نافرمانی کی اور مسلسل کر رہے ہیں۔ مال ودولت کے حصول کے لیے حلال اور حرام، جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرنے کو تیار ہیں، بس مال آنا چاہیے! ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: (غافل رکھا تمھیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں، سورۃ التکاثر:۱)

  • مال کی مذمت سے متعلق چند اھم احادیث:

  • حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال و جاہ کی محبت دل میں اس طرح نفاق اُگاتی جس طرح پانی سبزے کو اُگاتا ہے۔
  • ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: زیادہ امیدیں لگانے والے ہلاک ہوگئے۔
  • ایک موقع پر آپؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کی اُمت میں سب سے زیادہ بُرا کون ہے؟ فرمایا: مال دار۔
  • ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: ابنِآدم کہتا ہے کہ میرا مال، جب کہ تیرا مال تو صرف وہی ہے جو تو نے کھاکر ختم کردیا، پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا۔
  • ایک تفصیلی حدیث میں آپؐ نے فرمایا: میرے بعد ایسی قوم آئے گی جو دنیا کی عمدہ تر اور رنگارنگ نعمتیں کھائے گی، ناز سے چلنے والے رنگارنگ گھوڑوں پر سواری کرے گی، خوب صورت اور رنگارنگ عورتوں سے نکاح کرے گی اور خوب صورت اور رنگارنگ کپڑے پہنے گی، ان کے پیٹ تھوڑی چیز سے سیر نہیں ہوں گے، اللہ کو چھوڑ کر مال و دولت کو اپنا خدا بنائیں گے۔
  • ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: جس نے دنیا بقدرِ کفایت سے زیادہ لی تو اس نے اپنی ہلاکت لے لی، اور وہ محسوس نہیں کررہا۔ بعض اہلِ علم اس حدیث کی ایک تشریح اس انداز سے کرتے ہیں کہ ’فتنہ‘ سے مراد آخرت کا عذاب ہے کہ اس مال کی وجہ سے بہت سے لوگ فتنوں یعنی عذاب میں مبتلا ہوں گے، قیامت کے دن دو درہم والے سے ایک درہم والے کی نسبت زیادہ سوال ہوگا۔ اسی وجہ سے آپؐ یہ دعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اللہ! محمدؐ کے گھرانے کی خوراک اندازے کے مطابق کردے، اور فرمایا: قیامت کے دن کوئی فقیر اور مال دار ایسا نہیں جو یہ تمنا نہ کرے کہ مجھے دنیا میں خوراک کے مطابق ہی رزق دیا جاتا‘‘۔

انسان کے مقدر میں جتنا مال لکھ دیا گیا ہے اتنا ہی اس کو ملے گا، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: ’’اے انسان اس بات کو جان لے کہ جو چیز تیری قسمت میں لکھی جاچکی ہے وہ ہرحال میں تجھے ملے گی خواہ توطلب وسوال کی راہ اختیار کریا اس کو ترک کر دے۔ اور جو چیز تیری قسمت میں نہیں لکھی وہ تجھ کو کسی حالت میں نہیں ملے گی ، خواہ تو اس کی طلب کی کتنی ہی حرص رکھے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کتنی ہی سعی وکوشش اور محنت ومشقت برداشت کرے ، لہٰذا تجھے جو کچھ مل جائے اس پر شاکر وصابر رہ، ہر جائزوحلال چیز کو حاصل کرنا ضروری سمجھ اور اپنی قسمت پر راضی ومطمئن رہ تا کہ رب ذوالجلال تجھ سے راضی وخوش ہو۔

یہ بات یاد رکھی جائے کہ مال ودولت کے سلسلے میں جو چیز مذموم ہے وہ مال ودولت کی محبت اور دنیا داری میں مبتلا ہونا اور اپنی چادر سے باہر پیر پھیلانا ہے ۔ یہ خصلت انسان کو ’مال کا بندہ‘ بنا دیتی ہے کہ اس کی ہر سعی اور جدوجہد کا محور، اس کی ہر تمنا وخواہش کا مرکز اور اس کے ہر فعل اور عمل کی بنیاد صرف مال اور زر ہوتا ہے۔ ہمیں مال کا نہیں ’اللہ کا بندہ‘ ہونا چاہیے۔ مال داری بذات خود کوئی مذموم چیز نہیں ہے، کسی شخص کے پاس (حلال ذرائع سے کمایا ہوا) کتنا ہی مال کیوں نہ ہو اور وہ کتنا ہی بڑ ا دولت مند کیوں نہ ہو اگر اس کا دل مال ودولت کی محبت میں گرفتار نہیں ہے تو اس کو   بُرا کہنا درست نہیں۔

آپ نے سنا کہ ایک شخص گناہوں میں مبتلا ہے یا خود اپنی آنکھوں سے اس کو گناہ میں  مبتلا دیکھا تو بے تعلق ہوکر گزر گئے کہ جیساکرے گا ویسا بھرے گا۔ دل میں نفرت اور بے زاری کی ہلکی سی خلش رہ گئی مگر جلد ہی آپ نے ذہن جھٹک دیا اور اپنے کاموں میں لگ گئے۔ بے شک وہ گناہ گار شخص اپنے کیے کی سزا پائے گا اور آپ جن اچھے کاموں میں اللہ کی رضا کے لیے لگے ہوئے ہیں ان کا بھرپور صلہ پائیں گے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس شخص کو آپ نے گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیکھا ہے اور جن کی طرف سے بے زاری اور حقارت کا جذبہ دل میں محسوس کر رہے ہیں، کیا اس کے ساتھ آپ کا یہ رویہ صحیح ہے کہ دل میں ہلکی سی خلش لے کر اس سے بے تعلق ہوجائیں اور بغیر کسی حق کے یہ فیصلہ کرلیں کہ جو بوئے گا، وہ کاٹے گا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس معاملے میں آپ کی یہ روش اللہ کو پسند نہ ہو۔

دین سر تا سر خیرخواہی کا نام ہے۔ اس گناہ گار کے ساتھ آپ نے کیا خیرخواہی کی؟ کیا اتنا کافی ہے کہ آپ اس سے بے تعلق رہیں؟ اپنا دامن بچائے رکھیں اور خود کو اس گناہ سے محفوظ رکھ کر یہ اطمینان کرلیں کہ کل خدا کے حضور آپ کہہ دیں گے کہ پروردگار میں نے اس گناہ گار سے تعلق نہیں رکھا اور خود کو اس کے شر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی، یا اس سے آگے بھی اس گناہ گار کا آپ پر کچھ حق ہے؟ وہ غافل ہے اور آپ باشعور ہیں۔ وہ آخرت سے بے پروا ہے اور آپ کو آخرت کی فکر ہے۔ وہ دین سے ناواقف ہے اور آپ دینی علم رکھتے ہیں۔ اس کو صالح ماحول نہیں مل سکا ہے اور آپ صالح ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا آپ پر اس کا یہ حق نہیں ہے کہ آپ اس کو آخرت کی سخت پکڑ سے بچائیں اور گناہ کے بدترین اثرات اور ہولناک انجام سے ڈرائیں۔ کیا آپ کے نزدیک اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ آپ کی نصیحت قبول کرلے اور توبہ کر کے خدا کی طرف لوٹ آئے۔

وہ شخص جس گناہ میں مبتلا ہے، اس سے اپنا دامن بچا کر آپ نے سمجھ لیا ہے کہ آپ اس سے محفوظ ہوگئے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ اور آپ جیسا شعور رکھنے والے سارے لوگ یہی اندازِ فکر وعمل اپنا لیں گے تو گناہ بڑھتے چلے جائیں گے اور پورامعاشرہ اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔ آپ بھی اس سے متاثر ہوں گے اور آپ کی نسلیں بھی،گناہ کی قباحت و شناعت دھیرے دھیرے کم ہونے لگے گی۔ گناہوں سے مصالحت اور برداشت کرلینے کی کیفیت بڑھتی چلی جائے گی اور نبی صادق و امینؐ کے الفاظ میں آپ گناہ بطور خود نہ کرنے کے باوجود گناہ کرنے والوں ہی میں شامل قرار دیے جائیں گے۔ بات کسی اور کی ہو تو آپ سنی اَن سنی بھی کردیتے لیکن یہ بات تو اُن کی ہے جن کی صداقت پر آپ کا ایمان ہے اور جن کے واسطے سے ہی آپ آخرت میں نجات کا یقین رکھتے ہیں۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے: ’’جس مقام پر لوگ گناہوں میں مبتلا ہوں اور کچھ ایسے لوگ وہاں موجودہوں جو اس گناہ کو برداشت نہ کر رہے ہوں تو وہ گویا وہاں موجود ہی نہیں ہیں، اور جو لوگ ان گناہوں پر مطمئن ہوں اور ان کو برداشت کررہے ہوں، وہ اگر موقع پر موجود نہ بھی ہوں تو بھی وہ گویا ان لوگوں میں موجود ہیں‘‘۔

حدیث کے اس صاف شفاف آئینے میں اپنے عمل و کردار کا چہرہ دیکھیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے کہ آپ جو رویہ اختیار کر رہے ہیں، وہ کس حد تک صحیح ہے اور حقیقت میں صحیح رویہ آپ کے لیے کیا ہے؟ صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ آپ گناہگاروں کے گناہ پر کُڑھیں اور اس کی کُڑھن سے بے چین ہوکر ان بھٹکے ہوئے بندوں کو انجامِ بد سے ڈرائیں۔ گناہ کے اثراتِ بد سے بچائیں اور اپنے معاشرے کو گناہوں سے پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

گناہ آپ کی بستی میں ہو رہا ہو، یا محلے میں یا آپ کا کوئی پڑوسی اس میں مبتلا ہو، بہرحال آپ کی یہ اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ آپ اسے روکیں اور گناہگار کے خیرخواہ بن کر اس کو گناہ سے بچانے کی فکر کریں اور ہرگز خود کو اس سے بے تعلق رکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کل خدا کے حضور پکڑے نہ جائیں گے۔ آپ کا پڑوسی کل خدا کے حضور میدانِ حشر میں آپ پر خیانت کا الزام لگائے گا اور آپ کے اس رویے پر رب سے فریاد کرے گا۔ امام حنبلؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:

قیامت کے روز ایک شخص اپنے پڑوسی کا دامن پکڑ کر یہ فریاد کرے گا: اے میرے رب! اس نے میرے ساتھ خیانت کی ہے۔ وہ جواب دے گا: پروردگار! میں تیری عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس کے اہل و عیال اور مال میں کوئی خیانت نہیں کی ہے۔ فریادی کہے گا: پروردگار! یہ بات تو یہ سچ کہتا ہے لیکن اس نے خیانت یہ کی کہ اس نے مجھے گناہ کرتے دیکھا لیکن کبھی مجھے گناہ سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔(مسند احمد)

اللہ نے آپ کو دین کا شعور اور حلال و حرام کی تمیز دے کر اس ذمہ داری کے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ آپ رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کریں۔ لوگوں کو معصیت اور منکرات سے روکیں اور بھلائیوں کی ترغیب دیں، دل سوزی کے ساتھ شیریں گفتاری کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ اور اس کوشش میں اپنے اثرات بھی استعمال کریں۔ اگر آپ نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہ کی تو گویا آپ نے خیانت کی اور آپ کا پڑوسی کل حشرکے میدان میں آپ سے اسی خیانت کا الزام لگائے گا چاہے وہ آپ کے محلے کا پڑوسی ہو یا آپ کی بستی کا۔

ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے کہ جب عام لوگ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور شعور رکھنے والے صرف اپنی ذات اور اپنے گھر کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور مبتلاے گناہ لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، بلکہ اس سوچ سے خود کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ جیسا کریں گے ویسا بھریں گے اور ان کے گناہوں کو برداشت کرنے لگتے ہیں،تو یہ گناہ اور رب کی نافرمانیاں بڑھنے لگتی ہیں اور دھیرے دھیرے پورے سماج اور بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور اب تو ذرائعِ ابلاغ کی مدد سے پورے پورے ملک اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پھر اللہ کی جانب سے عذاب کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ ان لوگوں کو موت آئے یہ سب لوگ اللہ کے عذاب میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو گناہوں سے دور رہتے ہیں۔ حضوؐر کا ارشاد ہے:

جن لوگوں کے درمیان بھی کوئی شخص گناہ کے کام کررہا ہو اور وہ لوگ اس کو روک سکتے ہوں پھر بھی نہ روکیں، تو اس سے پہلے کہ یہ لوگ مریں سب کے سب خدا کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔(ابوداؤد)

دراصل اللہ نے مومن کا وصف ہی یہ بتایا ہے کہ وہ منکرات کو گوارا نہیں کرتا، بلکہ اس کو روکنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ رب سے وفاداری کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ زمین پر رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کرے اور رب کی فرماں برداری اور بھلائی کے پرچار پر لوگوں کو ہر ممکن ذریعے سے آمادہ کرے۔ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی۔ صحابہ کرامؓ   کا دورِ سعادت اس کی بہترین اور قابلِ تقلید مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جو قرآن پاک میں قطعی طور پر خیراُمت کے لقب سے یاد کیے گئے ہیں، اسی بنیاد پر ان کو اس لقب سے نوازا گیا کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے تھے اور اللہ پر کامل ایمان رکھتے تھے۔

انفرادی طور پر بھی صحابہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ہرہر موقع پر نیکی اور اصلاح کے حریص رہتے تھے اور اس معاملے میں اپنا فرض اور دوسروں کا حق ادا کرنے کے لیے ہمہ دم مستعد رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو بارآور بھی کیا اور انھوں نے اپنی مخلصانہ کوششوں کے نیک نتائج سے اپنی آنکھیں بھی ٹھنڈی کیں۔

حضرت عمرؓ کے پاس شام کا رہنے والا ایک شخص اکثر آیا کرتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ بہت دن گزر گئے اور وہ نہیں آیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی یاد آئی، لوگوں سے اس کے بارے میں معلومات کیں تومعلوم ہوا کہ وہ کچھ بُرے کاموں میں پڑ گیا ہے، پینا پلانا شروع کردیا۔ حضرت عمرؓ نے  اپنے کاتب کو بلایا اور اس کو ایک خط لکھوایا:

یہ خط ہے عمر بن الخطاب کی طرف سے… فلاں ابن فلاں ابن فلاں شامی کے نام۔

تمھارے اس اللہ کی حمدو تعریف کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور زبردست احسان کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے۔

یہ خط لکھوا کر امیرالمومنین نے اس شامی شخص کی طرف روانہ فرمایا اور اپنے پاس کے ساتھیوں سے کہا کہ تم سب لوگ اس شخص کے لیے رب سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پھیر دے اور اس کی توبہ کو قبول فرمائے۔ ادھر اس شامی خطاکار کو جب امیرالمومنین کا خط ملا تو اس نے اس کو بار بار پڑھا، اور یہ کہنا شروع کیا کہ میرے رب نے مجھے اپنی پکڑ اور اپنے عذاب سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر مجھ سے گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ خط اس نے کئی بار پڑھا، رویا اور اللہ سے توبہ کی اور ایسی سچی توبہ کی کہ اللہ نے اس کی زندگی بدل دی۔

حضرت عمرؓ کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ انتہائی خوش ہوئے اور لوگوں سے کہا کہ جب تم اپنے کسی مسلمان بھائی کو دیکھو کہ وہ بھٹک گیا ہے تو اس کو چھوڑ نہ دو، بلکہ اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔

نیک اعمال میں توبہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے اور آپ کے ذریعے کسی کو اگر توبہ کی توفیق ہوجائے تو یہ آپ کی سب سے بڑی سعادت اور اللہ کی نظر میں سب سے بڑی نیکی ہے۔

ترجمہ: طارق محمود زبیری

قناعت سچے مسلمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔مومن اللہ تبارک وتعالیٰ کے دیے ہوئے رزق پر راضی ہوتا ہے اور اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ تھوڑی چیز جو (ضروریات کے لیے )کافی ہو، بہتر ہے اُس چیز سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دینے والی ہو۔یہ ان کامیاب لوگوں کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی طرف ہدایت دی اوراپنی طرف سے ایسارزق عطا کیا جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہے اور غفلت میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے ،اور اللہ تعا لیٰ نے انھیں جو کچھ دیا اس پر وہ راضی ہو گئے۔

حضرت فضالہؓ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو       یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’یقینا کامیاب ہو گیا وہ شخص جسے اسلام کی طرف ہدایت دی گئی، اورجو کچھ  اللہ تعالیٰ نے اسے دیا اس پروہ راضی ہو گیا‘‘۔

  • قناعت: قناعت کے معنی ہیں اللہ کی تقسیم پر راضی ہونا۔
  • اسوۂ رسولؐ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے دعا کیا کرتے تھے کہ وہ انھیں قناعت کی دولت عطا فرمائے، اور آپؐ ہمیشہ اللہ کے دیے ہوئے رزق پر راضی رہتے تھے۔آپؐ  نے اپنے صحابہؓ میں بھی یہی عادت پروان چڑھائی۔

حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ہمارے درمیان نو کھجوریں تقسیم کیں،چونکہ ہم نو افراد تھے،اس لیے آپؐ نے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دے دی۔

کھجور جیسی معمولی سی چیز جس کی طرف کسی کو رغبت نہ تھی لیکن صحابہ کرام ؓنے اسی پر قناعت کی اور خو شی خو شی اسے قبول کر لیا۔ان کی عادت ہی یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے جو کچھ انھیں ملتاتھا، اس پر وہ راضی ہو جاتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے کہتا ہے: اے ابن آدم! تیرے پاس اتنا کچھ ہے جو تیرے لیے کافی ہے لیکن تو وہ کچھ طلب کرتا ہے جو تجھے سرکشی میں مبتلا کر دے۔ اے ابن آدم! تو تھوڑی چیز پر قناعت نہیں کرتااور زیادہ سے تیرا پیٹ نہیں بھرتا‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ جب آدمی خطرات سے محفوظ ہو،اس کا جسم صحیح سلامت ہو ، اسے کسی قسم کی کوئی بیماری لاحق نہ ہو،بلا خوف وخطر پُرامن زندگی بسر کر رہا ہو اور اس کے پاس روز مرہ ضروریات کی اشیا موجود ہوں، تو اسے اور کیا چاہیے!

نبی اکرمؐ ،اللہ تعالیٰ سے قناعت کی دعاکیاکرتے تھے ۔انھوں نے صحابہ کرامؓ اور ہمیں بھی یہی تعلیم دی ہے کہ ہم اپنے رب سے قناعت طلب کیا کریں۔

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاخْلُفْ عَلَیَّ کُلَّ غَائِبَۃٍ لِیْ بِخَیْرٍ ، اے اللہ! جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر مجھے قناعت نصیب فرما اور اس میں میرے لیے برکت پیدا کر،اور میری وہ تمام چیزیں جو میری آنکھو ں سے اوجھل ہیں ان کی حفاظت فرما۔

نبی کریم ؐ کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اوردرخواست کی:اے اللہ کے رسولؐ !مجھے کوئی مفید دعا سکھائیے۔آپؐ نے فرمایا کہ یوں دعا کرو:

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَوَسِّعْ فِیْ خُلُقِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْ کَسْبِیْ وَقَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ ، اے اللہ! میری مغفرت فرما،میرے اخلاق میں وسعت پیدا کر،میری کمائی میں برکت عطا کر اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر قناعت نصیب فرما۔

  • قناعت کے حصول میں معاون اسباب:  ۱-آدمی کے دل میں یہ بات اچھی طرح رچ بس جائے کہ وہ اس دنیا میں مہمان ہے ،بہت جلدوہ اسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ جیسا کہ نبی کریمؐ فرمایا کرتے تھے:’’بے شک میں بشر ہو ں،بہت جلد میرے پاس اللہ کا پیغام آئے گا اور میں اس کا جواب دوںگا‘‘۔

جب ہمیں یہ پختہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جو کچھ ہے درحقیقت وہی خیروبھلائی ہے تو دنیا کی زندگی کی حیثیت ایک مہمان خانے سے زیادہ نہیں رہے گی،اور مہمان کو مہمان خانے میں موجود اشیا سے کوئی خاص دل چسپی نہیںہوتی۔ وہ محض اپنی ضرورت پوری کرنے کی حد تک بڑے قرینے اور قناعت سے ان چیزوں کو استعمال کرتا ہے،اور اپنی منزل کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ دنیا کی زند گی کے بارے میںانسان کایہ پختہ یقین قناعت کے حصول میں اسے مدد دیتا ہے۔

حضرت سلمان فارسی ؓ کاشمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ان کے بارے میں نبی مہرباںؐ نے فرمایا:ـ’’سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہے‘‘۔ آپؓ  خلفاے راشدینؓ کے دور میں اور ان کے بعد کے ا دوار میں مختلف اہم حکو متی مناصب پر فائز رہے۔ جب آپ ؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے رونا شروع کر دیا۔پوچھا گیا ،اے ابوعبداللہ ! روتے کیوں ہو؟آپ ؓنے جواب دیا:مجھے خدشہ ہے کہ ہم نے نبی کریم ؐکی اس وصیت کی حفاظت نہیں کی کہ تمھیںمسافر کے زادِ راہ کی مانند دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہیے، جو صرف اپنی انتہائی ضرورت کی چیزیں ہی اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔

جب حضرت سلمان فارسیؓ اس دنیا سے رخصت ہو ئے اور لوگوں نے ان کے ترکے میں موجود اشیا کا جائزہ لیاتو ان کی قیمت ۳۰ درہم بھی نہیں بنتی تھی ۔اس کے باوجود آپؓ نبی کریمؐ کی وصیت پر عمل درآمد نہ ہونے سے ڈرتے تھے ۔ یہ مثال ہمیں عملی نمونہ فراہم کرتی ہے کہ کس طرح  نبی اکرمؐ نے اپنے صحابہؓ کی تربیت کی تھی۔

۲۔انسان کے ذہن میں یہ تصور پختہ ہو جائے کہ اُس مال کو جمع کرنے کا کیا فائدہ جس سے وہ خودمستفید نہ ہو سکے۔

ایک عقل مند آدمی جب غور وفکر کرتا ہے تو اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے کہ ضروریات سے زائد ایسا مال جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے، جسے نہ میں کھاسکتا ہوں نہ پی سکتا ہوں، نہ اس سے لطف اندوزہو سکتا ہوں اور نہ اسے کسی مفید کام میں خرچ کر سکتا ہوں؟

ہمارے پیارے نبیؐ نے فرمایا: ’’جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں اطراف پر دو فرشتے کھڑے ہوکر منادی کرتے ہیںاور ان کی آواز کو جن و انس کے سوا زمین میں موجود تمام اشیا سنتی ہیں۔وہ کہتے ہیں :اے لوگو! اپنے رب کی طرف آئو، تھوڑی چیز جو(ضروریات کے لیے) کافی ہو، بہتر ہے اس چیز سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دینے والی ہو۔

اے ابن آدم، تیرا (مال) توصرف وہی ہے جسے تو نے کھایا اور ختم کردیا، یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا خرچ (صدقہ) کر کے آگے بھیج دیا۔ اس کے علاوہ جو مال بھی ہے اسے اکٹھا کرنے میں تم تھک جاتے ہو اور اس کے خرچ نہ کرنے پر تمھارامحاسبہ کیا جائے گا، اور اللہ کے سامنے اس کے بارے میں تجھ سے پوچھا جائے گا‘‘۔

دل کو قناعت سے سرشار کرنے والی بات یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ اس مال کو جمع کرنا جس میں کوئی فائدہ اور نفع نہیں ہے، بے فائدہ تھکاوٹ ہے اور یہ کہ وہ اللہ کی دی ہوئی چیزپر راضی اور قانع ہو۔

  • قناعت کے فوائد: قناعت کے عظیم الشان فوائد ہیں:

۱- قناعت کرنے والا شخص سب سے زیادہ غنی ہوتا ہے۔اس لیے کہ نبی کریمؐ کی حدیث کے مطابق غنی وہ نہیں ہوتا جس کے پاس زیادہ مال و دولت ہو،بلکہ غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہو۔     وہ غیراللہ سے حاجت روائی کی امید نہیں رکھتا،لوگوں سے اور ان کے مال سے مستغنی ہوتا ہے۔    یہ حقیقی غنی ہوتاہے ، پس قناعت کرنے والا شخص سب سے بڑا غنی ہے۔

روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے سوال کیا :اے میرے رب! تیرے بندوں میںسے تجھے سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جو ان میں سے سب سے زیادہ میرا ذکر کرتا ہے ۔ آپ ؑ نے پوچھا :تیرے بندوں میں سے سب سے زیادہ غنی کون ہے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میرے عطا کردہ مال پر ان میں سے سب سے زیادہ قناعت کرنے والا۔ آپ ؑ نے پوچھا :ان میں سے سب سے زیادہ عادل کون ہے ؟اللہ تعا لی نے جواب دیا:جس نے اپنے نفس کو (بری خواہشات سے)بچا لیا۔

۲- قناعت پسندآدمی مال ودولت والو ں ،جاہ وحشمت والوں اور بادشاہو ں کے سامنے ذلیل بن کر کھڑا ہونے سے مستغنی ہوتا ہے۔یہ ہے وہ عزت نفس جو قناعت کرنے والوںکو قناعت کے نتیجے میں ملتی ہے۔

بنی امیہ کے ایک بیٹے نے ایک عابد وزاہد انسان ابی حاتم کوخط لکھا کہ وہ اپنی ضروریا ت کے بارے میں اسے آگاہ کریں۔ابی حاتم نے اس خط کا جواب یوں دیا :حمدوثنا کے بعد ،آپ کا خط مجھے ملا،جس میں آپ نے میری ضروریات جاننے اور انھیں پورا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔یہ بہت بعید ہے ۔میں نے اپنی ضروریات اپنے پیارے رب کے سامنے پیش کر دی ہیں،ان میں سے جو اس نے مجھے عطا کر دیں میں نے انھیں قبول کر لیا، اور جو نہیں عطا کیں ان سے میں نے قناعت کر لی___ یہ ہے صالحین کا عمل۔

۳- انسان کو آزادی نصیب ہوتی ہے۔

آدمی جب قناعت کرتا ہے تواسے آزادی ملتی ہے، جب وہ حرص وطمع میں پڑجاتا ہے تو غلام بن جاتا ہے___ درہم ودینار کا غلام،لباس کا غلام،جو چیز بھی اسے اچھی لگے اس کا غلام،جو چیزیں اسے دی گئی ہیں ان کا بھی غلام اور جو نہیں دی گئی ہیں ان کا بھی غلام۔

جب آدمی ان تمام غلامیوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو اسے قناعت کی دولت نصیب ہوتی ہے اور وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کسی کا غلام نہیں رہتا۔

  • قناعت کا غلط تصور: آخر میںمیں قناعت کے ان غلط معانی کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جوبعض لوگ مراد لیتے ہیں۔
  • ان کا خیال ہے کہ قناعت حالات و واقعات پر راضی ہونے،ان کو نہ بدلنے اور    بہتر بنانے کی کوشش نہ کرنے کانام ہے ۔جو کچھ ہو رہا ہے، ہوتا رہے، انھیں اس سے کوئی غر ض  نہیں کیونکہ ان کے خیال میں قناعت اسی کا نام ہے۔یہ غلط فہمی کی انتہا ہے۔ درحقیقت قناعت    حالات و واقعات پر راضی ہونے کانام نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی عنایات اور اس کی تقدیر پر راضی ہونے کا نام ہے۔جہاں تک برے حالات و واقعات کا تعلق ہے تو قناعت کا مطلب یہ ہے کہ انھیں بدلنے کی کوشش کی جائے۔
  • قناعت یہ نہیں ہے کہ تو منکر کو دیکھے اور خاموش رہے، اور تیرا خیال یہ ہو کہ مجھے تو ہرحال میں اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا ہے۔
  • قناعت یہ نہیں ہے کہ تو معروف کو دیکھے اور اس میں سبقت لے جانے اور آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے،اورتو اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ میں تو قانع ہوں۔
  • قناعت یہ نہیں ہے کہ تیرے لیے حلال رزق کا دروازہ کھولا جائے اور تو اسے لینے کی بجاے اس خیال سے ہاتھ باندھ کر بیٹھا رہے کہ یہ قناعت ہے۔
  • مال جمع کرنا تیرے لیے ضروری نہیں ہے لیکن مال کمانے کی کوشش کرنا، اس لیے  ضروری ہے کہ تو اللہ کے عطاکردہ مال سے فقرا و مساکین کی مدد کرے، اور دینِخداوندی کی   دعوت عام کرنے اور اسے سربلند کرنے کے لیے اسے خرچ کرے۔
  • باطل پر مطلقاً راضی ہو جانااور نامساعد حالات پر آنکھیں موندھ کر اور ہاتھ پہ ہاتھ  دھر کے بیٹھ رہناقناعت نہیں ہے۔ قناعت کے معنی یہ ہوئے کہ تو اللہ کی عطاکردہ چیزوں پر راضی ہوجائے اور اس کی عنایات پر ناگواری کا اظہار نہ کرے، حلال رزق کمانے کی کوشش کرے، برائیوں کی اصلاح اور نیکیوں کو پھیلانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرے۔ (ہفت روزہ المجتمع، کویت، ۱۰ نومبر ۲۰۰۷ئ)

ترجمہ:ریاض محمود انجم

ہماری زندگیوں میں ایک ایسا موڑ، ایسا مرحلہ اور ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جو ہمیں ماضی کی یاد دلا دیتا ہے۔ ایک ناگوار اور اذیت بھری صورت حال جو ہم پر اس خاص لمحے کی بدولت واقع ہوئی ہو، یا پھر ایسا کوئی غیرمعمولی لفظ، اپنی وحشت ناکی کے سبب ہمارے ذہن سے چپک کر رہ گیا ہو، یا پھر کوئی ایسا دل خراش واقعہ جس کا ہم نے اپنی جاگتی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہو۔ ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ وقت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اور ہم کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے کیا فائدہ اٹھایا اور مجموعی طور پر ہمارا حاصل کیا ہے؟ ہم نے اپنی زندگیوں کو کس نہج پر ڈھالا ہے؟

ذرا سوچیے!

ہم کبھی اوجِ کمال پہ تھے لیکن اب وہ سوتے خشک اور بنجر پڑے ہیں جہاںسے علم و عرفان کے چشمے اُبلتے تھے، ہماری خوابیدہ اور پوشیدہ صلاحیتیں کہیںدفن ہوچکی ہیں۔ اب ہمارا مقصدِحیات صرف اور صرف اِسی عارضی دنیا کی نمود و نمایش کا حصول ہے۔ ہمارے اذہان میں اُس وقت کی یاد بھی سر اٹھا رہی ہے جب ہم خالقِ کائنات کے سچے اور فائز المرام خادم اور غلام تھے اور اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہم تفکر ، پریشانی اور ندامت کے عمیق گڑھے میں گرے روحانی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم لاعلم ہیں بلکہ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہم نے اپنے مقصد، اپنے ہدف کی جانب پیش رفت نہیں کی ہے۔

ہم اپنی اصلاح کے خواہاں ہیں___ اور ہمیں بخوبی علم ہے کہ ہم میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ آیئے، ہم ذاتی اصلاح کا آغاز دوبارہ کریں۔ آیئے، ہم اپنے منتشر خیالات و احساسات کو مجتمع کریں اور اپنے عہد پر عمل پیرا ہونے کا عزمِ صمیم کریں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اب کی بار نہ تو ہم اسلامی تعلیمات کو فراموش کریں گے اور نہ اپنے ارادوں میں ناکام ہی ہوں گے۔ ہم زیادہ سے زیادہ روزے رکھیں گے، نمازکے قیام میں مزید پابندی لائیں گے، تلاوتِ قرآن پاک کا معمول زیادہ کریں گے___  ہم دنیا کو بدل دیں گے اور اسے ایک بہتر مقام بنا دیں گے۔

ہم اس کام کی ابتدا تو اعلیٰ عزم اور انتہائی جوش و خروش کے ساتھ کرتے ہیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے، ہمارے عزائم وارادے متزلزل ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر وقت کی دبیز تہوں میں معدوم ہوجاتے ہیں، ہم اپنے اہداف و مقاصد کو طاقِ نسیان پر رکھ دیتے ہیں۔ ہم ایک بار پھر ارادوں، وعدوں اور اصلاح احوال کے حسین تصور میں کھو جاتے ہیں، حتیٰ کہ ہم دوبارہ اپنا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں۔

ہم اس غفلت سے کیسے نجات پاسکتے ہیں؟ ہم اپنے نیک ارادوں کو مستقل عملی شکل کیسے دے سکتے ہیں؟___ میں یہ نہیں کہتی کہ ان تمام استفسارات کے جواب میرے پاس موجود ہیں۔ تاہم، اپنے ان تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اپنی روز مرہ زندگی کو اسلامی تعلیمات و عقائد و اخلاقیات کے مطابق ڈھالنے کے لیے چند رہنما نکات پیش ہیں:

اپنے ارادوں میں اخلاص پیدا کیجیے

ہمارا ہر فعل، ہر عمل اور ہر لفظ، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہونا چاہیے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ       اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔  (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)

اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے:

یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے ، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دِین کو اُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار ، دین خالص اللہ کا حق ہے ۔(الزمر ۳۹:۲-۳)

ابن القیمؒ نے فرمایا:

نیک نیتی اور اخلاص کے بغیر افعال و اعمال ایسے ہی ہیں جیسے ایک مسافر کے پاس پانی والے برتن میں مٹی ہی مٹی ہو۔ یہ وزن اس کے لیے سراسر بوجھ ہے اور اسے اس سے قطعی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

دعا کے ذریعے نصرت الٰھی طلب کیجیے

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے بندے کے دل سے نکلنے والی ہردعا اور عرض کو سنتا ہے اور پکارنے والے کو اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔  (البقرہ ۲:۱۸۶)

بلاشبہہ جب ہم تفکرات و پریشانیوں میں گھِر جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہماری خبرگیری کی قدرت رکھتی ہے۔ اس ضمن میں فرمانِ الٰہی ہے:

کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے، جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟  (النمل ۲۷:۶۲)

تساھل سے اجتناب کیجیے

ہم میں سے کسی شخص کے لیے اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کو آج ہی سرانجام دینے کے بجاے کل پر ٹال دینا نہایت ہی آسان ہے ،کیونکہ اس طور ہم اپنی نااہلی اور بے قاعدگی کو منطق کی دبیز تہہ میں دفن کرسکتے ہیں۔ ہماری زبان پر اکثر یہی کلمات ہوتے ہیں: ’’ان شاء اللہ میں کل اپنی زندگی میں تبدیلی لائوںگی‘‘ لیکن یہ ’کل‘ کبھی نہیں آتی اور آپ کا یہ ارادہ بھی کبھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ قرونِ وسطیٰ کے کسی عالم نے کہا تھا:

اپنی تساہل پسندی آج کا کام کل پر ٹالنے کے خطرناک اصول کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیجیے۔ یہ شیطان کی فوج کا سب سے طاقت ور سپاہی ہے۔ وہ بات نہ کیجیے، وہ ارادہ نہ باندھیے جس کے لیے آپ دلی طور پر تیار نہیں ہیں۔ اس عمل کے باعث آپ کسی اور کو نہیں، بلکہ خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اپنے ارادوں اور اپنے عزم کو ذوق و شوق اور مثبت انداز فکر عطا کیجیے۔

ارادہ باندہیے اور حقیقی مقاصد کو سامنے رکہیے

عام طور پر ہم ابتدا ہی سے بڑے بڑے منصوبوں کے خواب دیکھنے لگتے ہیں لیکن جب یہ عملی طور پر تکمیلی شکل اختیار نہیں کرتے تو ہم حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ ہم مایوس ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ کوئی بھی معمولی یا ادنیٰ کام چھوٹا نہیں ہوتا۔ ایک دن نبی کریمؐ سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام اللہ تعالیٰ کو بہت مرغوب ہے، تو آپؐ نے فرمایا: ’’وہ کام جو باقاعدگی اور تسلسل سے کیا جائے، اگرچہ وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ (بخاری، فتح الباری)

بڑے بڑے، بے فائدہ اور اندھا دھند ڈگ بھرنے کے بجاے، چھوٹے چھوٹے مفید اور مسلسل قدم، عظیم کامیابیوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں محاورتاً ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نوالہ اتنا لیں جتنا چبا سکیں اور نگل سکیں۔ ہمیشہ ابتدا چھوٹے چھوٹے کاموں سے کیجیے۔ چھوٹے چھوٹے منصوبے بنایئے تاکہ آپ اپنے ارادوں کو مستقل اور آسانی کے ساتھ جاری رکھ سکیں اور پھر اس کے بعد ذرا مشکل کام میں ہاتھ ڈالیں۔ یہ لائحہ عمل آپ کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوگا، اور آپ مزید کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گے۔ ان شاء اللہ وقت گزرنے کے ساتھ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی زندگی، آپ کے معمولات میں عظیم انقلاب رونما ہوچکا ہے۔

مفید حلقۂ احباب بنایئے

ابن حزم نے فرمایا:

جو فرد آپ پر تنقید کرتا ہے وہی آپ کا دوست ہے، اور جو آپ کی غلطیوں کو اُچھالتا ہے اسے آپ سے قطعی محبت وہمدردی نہیں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ نصیحت ان کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے جو اسے اپنی گرہ سے باندھ لیتے ہیں، لہٰذا ان افراد کو اپنا دوست بنایئے جو اچھے ساتھی ثابت ہوں۔ اچھے ساتھی ہی آپ کو صحیح مشورہ دیں گے اور یہ سچے دوست ہی آپ کے ارادوں کی تکمیل میں آپ کے مددگار ثابت ہوںگے۔ ان افراد کی صحبت سے پرہیز کیجیے جو آپ کے عزم کو متزلزل کرنے کی یا آپ کے پاے استقلال میں لرزش لانے کی کوشش کریں۔ حضرت علیؓ کے اس فرمان کو ہمیشہ مدنظر رکھیے:

ہمیشہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو، تم ان جیسے ہی ہوجائو گے، اور بُرے لوگوں کی صحبت سے بچو تاکہ تم ان کے شر سے محفوظ رہ سکو۔

ترقی کی رفتار پر نظر رکہیے

اپنے اہداف و مقاصد کی ایک فہرست بنا لیں اور اسے اپنے سامنے دیوار پر لٹکا دیں۔ اس فہرست کو اپنی ڈائری میں بھی لکھ لیجیے۔ اسے اپنے بٹوے میں بھی رکھیں اور یا پھر اسے اپنے لاکر کے اندر چسپاں کردیں۔ پھر آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لیے کیے جانے والے کاموں کو ترتیب وار اپنی نوٹ بک میں تحریر کرتے جائیں، حتیٰ کہ آپ کمپیوٹر پر بھی اپنے نام سے بنائی گئی فولڈر/فائل پر ان اقدامات کو درج کرسکتے ہیں۔ اپنے آپ کے ساتھ مخلص رہیے کہ اپنے اہداف و مقاصد پر تنقیدی نظر ڈالتے رہیے۔ اس عمل کے ذریعے آپ سُست نہیں ہوں گے۔  مسلم میں بیان کردہ ایک حدیث کے مطابق جب نبی کریمؐ کسی کام کا آغاز کرتے تو اسے ختم کردیتے۔ حدیث قدسی ہے:

میرے بندے میری قربت اور وصل حاصل کرنے کے لیے اس وقت تک خفیہ طور پر نوافل ادا کرتے رہتے ہیں، جب تک میں ان کی طرف متوجہ نہیں ہوجاتا۔ (بخاری)

مَایَازَلُو یہ خاص لفظی اصطلاح، وصلِ الٰہی کے حصول و جستجو کی سعی کے لیے تسلسل اور تواتر کا اشارہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے بھی فرمایا: ’’حج اور عمرہ بار بار کرتے رہو‘‘۔

ضعفِ ایمان میں مبتلا نہ ھوں

یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے کہ بعض اوقات ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا ایمان متزلزل ہو رہا ہے، یا ہم میں جہدِ مسلسل کی اُمنگ اور جوش و جذبہ ماند پڑ رہا ہے۔ اس ضمن میں  رسولؐ اللہ کا فرمان ہے:

جس طرح جسم پر لباس پہنتے پہنتے پتلا اور بوسیدہ ہوجاتا ہے، اسی طرح دل میں بھی ایمان کا ضعف پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعامانگو کہ وہ تمھارے دل میں ایمان تازہ کردے۔ (الحاکم)

عبادتِ الٰہی اور نیک افعال سرانجام دینے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ کسی اور طرف توجہ نہ کرے۔ ان افعال کا تسلسل تو ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ جب ہم میں قوت اور آمادگی اور خواہش موجود ہوتی ہے تو ہم جان توڑ کوشش کرتے ہیں، اور جب ہم ان قوتوں سے محروم ہوتے ہیں، تو جو کچھ ہمارے بس میں ہوتا ہے، وہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دین میں بہت آسانی ہے اور جو دین میں اپنے لیے غیرمعمولی مشکلات پاتا ہے، وہ دین کے مطابق نہیں چل سکتا۔ لہٰذا تمھیں دین کے معاملے میں انتہاپسندی سے بچنا چاہیے، بلکہ صحیح ترین چیز اپنانا چاہیے۔(بخاری)

ایک دوسری حدیث کے مطابق رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اپنے اعمال و افعال میں اعتدال پیدا کرو، پھر تم اپنا مقصد حاصل کرسکو گے‘‘۔ (بخاری)

اپنے جذبے کو تحریک دیجیے

بہتر زندگی گزارنے کے لیے اپنے جذبے کو تحریک دیجیے۔ اس کے بہترین ذرائع قرآن عظیم، نبی کریمؐ، آپؐ کے صحابہ کرامؓ، آپؐ کے متقی جانشین اور علماے کرام ہیں۔

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی زندگی پر نظر دوڑایئے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں ان کی عبادت کے معمول میں بہت شدت پیدا ہوچکی تھی۔ کسی نے ان سے کہا کہ وہ عبادتِ الٰہی میں کمی کیوں نہیں کرتے اور خود کو آرام کیوں نہیںپہنچاتے؟ آپ نے جواب دیا: ’’جب گھڑدوڑ شروع ہوتی ہے تو اختتامی نقطے کے قریب پہنچ کر گھوڑے اپنی تمام تر توانائی صرف کرڈالتے ہیں، اور   میری زندگی میں جو کچھ بھی باقی بچا ہے،وہ اس سے کہیں کم ہے‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی وفات تک اسی تندہی سے عبادتِ الٰہی میں مصروف رہے۔

عامر بن عبداللہ کی زندگی کو بھی پیش نظر رکھیے۔ ایک دفعہ آپ سے کسی نے پوچھا: آپ ساری ساری رات کیسے جاگ لیتے ہیں اور شدید گرمی و تپش میں پیاس کیسے برداشت کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: کیا اس سے بھی بہتر کوئی چیز ہے کہ صبح کا کھانا رات تک ملتوی کردیا جائے، اور رات کی نیند دن پر قربان کردی جائے۔ جب رات آتی تو وہ کہتے: ’’دوزخ میں دہکتی آگ کا تصور مجھے سونے نہیں دیتا‘‘ اور وہ پھر صبح تک جاگتے رہتے۔

پھر الرابی ابن خزائم کی زندگی کی تصویر ملاحظہ کیجیے۔ ابوحیان نے بتایا کہ ان کے والد نے کہا: الرابی ابن خزائم ٹانگوں سے معذور تھے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے ان کو اٹھا کر   لے جایا جاتا تھا۔ بعض لوگوں نے ان سے کہا: آپ کی معذوری کے سبب آپ کو تو مسجد میں نماز کے لیے آنے کی چھوٹ ہے۔ آپ نے جواب میں ایک حدیث سے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’نماز کے لیے بلاوے کی آواز حی علی الصلٰوۃ میرے کانوں میں سنائی دیتی ہے، لہٰذا تمھیں اگر نماز کے لیے رینگتے ہوئے بھی جانا پڑے تو اسی طرح جائو‘‘۔

عبادت  کے لیے مختلف طریقے اپنایئے

اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ پر بے انتہا لطف و کرم کرتے ہوئے مسلمانوں کو عبادت کے متعدد طریقے مرحمت فرمائے ہیں۔ ان میں سے کچھ جسمانی حرکات و سکنات پر مشتمل ہیں، مثلاً نماز، کچھ مالی ہیں، مثلاً زکوٰۃ و صدقہ، کچھ الفاظ پر مشتمل ہیں، مثلاً دعا اور ذکر۔

ان مختلف آسان طریقوں میں پوشیدہ حکمت، مختلف افراد کی آمادگی اور صلاحیتوں کی نوعیت میں امتیاز کو ظاہر کرتی ہے۔ بعض لوگ دیگر افراد کی بہ نسبت عبادت الٰہی کا فرض کی حیثیت سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں جس میں عذر کی گنجایش نہیں۔ اسی طرح بعض کا رجحان راہِ خدا میں مال خرچ کرنے اور انفاق کی طرف زیادہ ہوتا ہے، اور بعض کا ذکر اذکار میں۔ اس میں شک کی گنجایش نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کی مختلف اقسام کے مطابق جنت کے مختلف دروازے متقیوں کے لیے   وا کردیے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ کی بیان کردہ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق حضور نبی کریمؐ نے فرمایا:

جو شخص رضاے الٰہی سے منسلک کام، اللہ کی رضا کی خاطر سرانجام دے گا، وہ جنت کے دروازوں (منسلکہ دروازوں) میں سے بلایا جائے گا۔ اے اللہ کے بندے، یہ تو انعامِ خداوندی ہے، تم میں سے جو شخص نمازی ہوگا، اسے جنت میں نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص جہاد کرتاہوگا، اسے جنت میں جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص روزے کا پابند ہوگا، اسے جنت میں الریان کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص خیرات و صدقہ کرتا ہوگا، اسے جنت میں خیرات و صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ (بخاری)

ایک لمحہ بہی ضائع نہ کیجیے

جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، متعدد اقسام کے کام اور افعال سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات میں گھریلو، دفتری، کاروباری، خاندانی اور دوستی کے امور شامل ہیں جنھیں نہایت ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ دنیاوی امور میں مگن ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں اسلامی تعلیمات، عقائد اور اخلاقیات کو داخل کرنا بھول جائیں اور اپنی زندگی کو احکامِ الٰہیہ اور سنتِ رسولؐ کے مطابق ڈھالنے سے گریز کریں۔ جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے عبادت کے نہایت آسان طریقے مرحمت فرمائے ہیں۔ کھانا پکاتے ہوئے ذکر کیا جاسکتا ہے، بس کا انتظار کرتے ہوئے دعا کے الفاظ دہرائے جاسکتے ہیں، دفتر سے گھر آتے ہوئے گاڑی میں اسلامی تعلیمات و احکامات پر مبنی لیکچر سنا جاسکتا ہے، آسان عبادات کی فہرست نہایت ہی طویل ہے۔ بہرحال، حاصل کیا ہے، حاصل یہ ہے کہ آپ جو کچھ جب بھی کرسکتے ہیں، کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ثابت قدمی اور استقلال عطا فرمائے اور ہمیں دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں سرخ رو فرمائے۔ آمین! (ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)کا ترجمان، Muslim Youth، ریاض، مارچ ۲۰۰۶ئ)

عیدالاضحی کے موقع پر مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں‘ اور اللہ کی راہ میں اپنی جان تک قربان کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اس موقعے پر محترم خرم مراد کی ایک انگریزی مطبوعہ تقریر Sacrifice کا ایک حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

قربانی کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں کس چیز کی قربانی دینا چاہیے؟ کون سی قربانیاں دینا زیادہ مشکل ہے؟ کن قربانیوں کو عظیم قرار دیا جانا چاہیے؟

قربانی کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہم جن چیزوں سے محبت کرتے ہیں‘ جن کی ہماری نظروں میں کچھ قدر ہے‘ وہ اِس وقت ہماری ہوں‘ یا ہم مستقبل میں انھیں حاصل کرنے کی تمنا اور امید کرتے ہوں‘انھیں چھوڑ دیں۔ یہ چیزیں محسوس اور مادی ہوسکتی ہیں‘ یا غیرمادی اور تصوراتی۔ مادی چیزوں میں وقت‘ مال‘ دنیاوی اشیا‘ جسمانی صلاحیتیں اور زندگی اہم ہیں۔ اہم تصوراتی اشیا میں ہماری محبت‘ خاص طور پر خاندان سے تعلقات‘ پسندوناپسند‘ ترجیحات و تعصبات‘ نقطۂ نظر اور راے‘ خواہشات اور تمنائیں‘آرام و آسایش‘مقام و منصب یا ہماری اَنا شامل ہیں۔

قربانی کا مفہوم صحیح طور پر سمجھنے کے لیے تین اصول پیش نظر رہنے چاہییں:

اوّل: کسی چیز کے چھوڑنے کو اسی وقت قربانی کہا جاسکتا ہے‘ جب کہ ہم اس سے محبت کرتے ہوں اور اس کے قدرداں ہوں۔ اس لیے مادی اور غیرمادی اشیا کے درمیان امتیاز کی لکیر کھینچنا مشکل ہے۔ آخری تجزیے میں ہر قربانی‘ محبت اور قیمتی چیز کی قربانی ہے۔ جب ہم مال‘ یا زندگی‘ یا کوئی تعلق اللہ کی خاطر قربان کرتے ہیں تو جو شے ہم درحقیقت قربان کرتے ہیں جو اسے ایک قربانی بناتاہے‘ وہ مال‘ زندگی یا رشتے دار کے لیے ہماری محبت ہے‘ نہ کہ اصل شے۔

دوم: مادی کے مقابلے میں غیر مادی اشیا کو قربان کرنا زیادہ مشکل لیکن زیادہ ضروری ہے۔

سوم: ہم کسی ایسی چیز کو جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور جس کی قدر کرتے ہیں‘ کسی ایسی چیز کے لیے ہی قربان کرسکتے ہیں جس سے ہم اس سے زیادہ محبت کرتے ہوں اور اس سے زیادہ قدر کرتے ہوں۔

مادی قربانیاں

ٹھوس اشیا کی قربانیوں کی ضرورت اور اہمیت ہم جانتے پہچانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں خواہ بعض وقت یہ قربانیاں نہ دے سکیں‘ یا دینے میں بہت مشکل محسوس کریں۔ لیکن جب ہم ایک دفعہ کسی مقصد سے وابستہ ہوجائیں تو اپنے وقت اور مقام پر ان میں سے ہر ایک کی قربانی دینا ہوتی ہے۔ اسی لیے ہمیں ذرا ٹھیر کر ان کی اہم خصوصیات پر غور کرنا چاہیے۔

وقت

وقت ہماری سب سے قیمتی شے ہے۔ ہم زندگی میں جس چیز کی بھی خواہش کریں‘ اسے وقت لگائے بغیر حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم اپنا وقت‘ مسرت حاصل کرنے میں‘پیسہ کمانے میں‘  دنیاوی اشیا حاصل کرنے میں‘ کام کرنے میں‘ مزے اٹھانے میں یا محض کاہلی میں کچھ نہ کر کے بھی گزار سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سے جس چیز کا سب سے پہلے مطالبہ کرتا ہے‘ وہ وقت ہے۔ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کے لیے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے میں وقت لگتا ہے۔ دعوت کا کام کرنے میں وقت خرچ ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ مریض کی عیادت کرنے کے لیے بھی وقت چاہیے ہوتا ہے۔ ہمیں اپنا ہرلمحہ اللہ کی رضا کے حصول میں‘ جو اس سے عہد کیا ہے اسے پورا کرنے میں صرف کرنا چاہیے۔

لیکن اگر آپ ذرا گہرائی میں جاکر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ سے دراصل جس چیز کی قربانی مانگی جارہی ہے‘ وہ وقت نہیں بلکہ وہ اشیا ہیں جن کے حصول میں آپ کا وقت خرچ ہوتا ہے۔ وہ اشیا جو آپ کی زندگی کے مقاصد کے خلاف ہوں‘ بے معنی‘ غیراہم‘ یا اللہ کی خاطر کیے جانے والے کاموں سے کم اہم۔ اس لیے اسلام کے لیے وقت دینے کے لیے‘ آپ کو سب سے پہلے وہ بہت سی اشیا قربان کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے جن پر آپ کا وقت لگتا ہے۔

آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کی قربانی کے لیے اور اپنا وقت اللہ کے لیے دینے پر کس طرح آمادہ کریں؟

یاد رکھیے کہ وقت ایک ایسی چیز ہے جس کو آپ ایک لحظہ بھی نہیں ٹھیرا سکتے۔ جس طرح بھی چاہیں آپ اسے صرف کریں‘ یہ مسلسل آپ کے ہاتھ سے پھسلتا رہے گا۔ آپ کے لیے اس کی قیمت وہی ہے جو آپ اس سے حاصل کریں۔ وقت پگھل جائے گا‘ جو آپ اس سے حاصل کریں گے‘ وہ آپ کے ساتھ رہے گا۔

ہرلمحے اس امر کو پیش نظر رکھیے کہ وقت کا ہرلمحہ ہمیشہ کی مسرت یا نہ ختم ہونے والی تکلیف میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ اسے کس طرح صرف کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس امر کا استحضار وقت کی قربانی دینے میں آپ کو سب سے زیادہ طاقت فراہم کرے گا۔ وہ لمحات جن کو آپ آج اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے‘ کل آپ کو اس طرح ملیں گے کہ کبھی جدا نہ ہوں گے۔ پھر آپ ایسی چیزوں کا حصول کیوں نہ قربان کردیں جو نہ ختم ہونے والی تکلیف اور پچھتاوے میں تبدیل ہوجائیں گی۔

جب وقت گزر رہا ہو تو آپ غور کیجیے: آپ کیا پا رہے ہیں___ کوئی عارضی یا مستقل چیز؟ مسرت یا پچھتاوا؟ آپ کے وقت میں اسلام کو کتنی ترجیح حاصل ہے؟ وقت کس تناسب سے اللہ کی راہ میں لگتا ہے؟ ’’اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘‘۔(الحشر ۵۹:۱۸)

اللہ کی راہ میں وقت کی قربانی اسلام کا جوہر ہے۔ جب بھی طلب کیا جائے‘ آپ کو حاضر ہونا چاہیے۔ اس لیے‘ آپ کو اپنے آپ کو مسلسل تربیت دینا چاہیے کہ اللہ کی راہ میں وقت دے کر‘ ہر چیز کی قربانی دے سکیں۔ یہ صفت آپ کے کردار پر ‘ دن میں پانچ دفعہ نقش کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن آپ کو اس طرح بیدار کیا ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن‘ تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو‘ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ (الجمعہ ۶۲:۹)

مال اور دنیاوی اشیا

آپ کا بیش تر وقت مال کے یا مال کے ذریعے حاصل ہونے والی دنیاوی اشیا کے حصول کی کوشش میں صرف ہوجاتا ہے: ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس : عورتیں ، اولاد ، سونے چاندی کے ڈھیر ، چیدہ گھوڑے ، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں‘‘۔(اٰل عمرٰن۳:۱۴)

یاد رکھیے کہ دنیاوی اشیا کی یہ محبت اور خواہش نہ قابلِ مذمت ہے‘ نہ بری ہے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی اصل میں شر‘ یا خرابی نہیں ہے۔ دولت اور مال کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ اسے خیر (اچھا) کہتے ہیں جو ایک بالکل درست بات ہے۔ اس لیے کہ اللہ اور دوسری دنیا کی نعمتوں اور برکتوں کی طرف جانے والا راستہ اس دنیا سے گزر کر جاتا ہے۔ اگر ہم اس دنیا کو ترک کردیں‘ تو ہمارے پاس ان نعمتوں اور بیش بہا خزانوں کو حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ بلاشبہہ اللہ کی رضا اور اس دنیا کے حصول کا واحد ذریعہ اور بنیاد یہی ہے۔

جو چیز اس دنیا کو شر‘ یا برائی بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا کے عارضی دورانیے کے لیے یہ سب کچھ ہمیں اُس دنیا کے حقیقی اور مستقل مقاصد لیے دیا گیا ہے‘ جو ہر اس چیز سے بہتر ہے جو یہ دنیا دے سکتی ہے۔ جب ذرائع مقاصد بن جائیں‘ تو حقیقی قدروقیمت کی اشیا کے بجاے ہمارے حصے میں دنیاوی تکالیف آتی ہیں۔ قرآن آگے کہتا ہے:

مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے ، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔کہو : میں تمھیں بتائوں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہو گی ، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سر فراز ہوں گے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴-۱۵)

اللہ کی راہ میں دنیاوی اشیا کی قربانی دینا آسان نہیں ہے۔ جب انتخاب کا واقعی موقع آئے تو بہت سے لڑکھڑاجاتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں۔ کچھ باتوں کا یاد رکھنا‘ ان مشکل قربانیوں کو دینے میں آسانی پیدا کرے گا۔

اوّل: کوئی چیز بھی آپ کی نہیں ہے‘ ہر چیز اللہ کی ہے۔ جب آپ کوئی چیز اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو دراصل اسے اس کے اصل مالک کی طرف لوٹا رہے ہوتے ہیں: ’’آسمانوںاور زمین میں ہر چیز اللہ ہی کی ہے‘‘۔

دوم: دنیاوی چیزوں کو آپ کتنا ہی زیادہ قدروقیمت کا حامل کیوں نہ سمجھیں‘ آخری سانس کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہوجائے گا۔

جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے ، اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔(النحل ۱۶:۹۶)

اور اے نبیؐ ! انھیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھائو کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پودخوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی ، جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش (زینت) ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔(الکہف ۱۸:۴۵-۴۶)

سوم: صرف اللہ کی راہ میں دینے سے آپ اسے کئی گنا زیادہ واپس پاسکتے ہیں۔

اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو ۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے‘ اسے اللہ کے ہاں موجود پائو گے ، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔اللہ سے مغفرت مانگتے رہو ، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔(المزمل ۷۳:۲۰)

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے ‘ افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔(البقرہ ۲:۲۶۱)

ایک لمحے کے لیے سوچیے!

اسلام سے وابستگی کے آپ کے دعووں کی کیا وقعت ہے اگر آپ کھانے پینے اور سگریٹ نوشی پر اپنے مقصد سے زیادہ خرچ کریں۔ اللہ کے وعدوں پر آپ کے یقین کی کیا حقیقت ہے اگر دنیا میں نفع کی ذرا سی بھی اُمید آپ کو اپنی کُل رقم کسی بزنس میں لگانے کے لیے آمادہ کرتی ہے‘ جب کہ ۷۰۰ گنا رقم کا وعدہ___ جو کبھی واپس نہ لی جائے گی‘ آپ کا بٹوا نہیں کھلوا سکتا۔ آپ اپنی زندگی میں اسلام کے مقام کا تعین یہ جائزہ لے کر کرسکتے ہیں کہ آپ اپنی دولت کس تناسب سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

مال کی قربانی کبھی آسان نہیں رہی۔ لیکن ہمارا دور تو ایسا دور ہے کہ جس میں صرف بہتر معیارِ زندگی‘ مزہ اور مسرت‘ صارفیت اور مادی اشیا ہی زندگی کے مقصد بن چکے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھ بھال کر جائزہ لیں کہ کہیں آپ اس لحاظ سے ناکام نہ ہوجائیں۔

زندگی

ایک وقت آسکتا ہے جب آپ سے اللہ کی راہ میں جان کی قربانی طلب کی جائے۔ اس طرح جان دینا‘ شہادت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ اس کے بعد آپ شہید کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ آپ کی زندگی‘ آپ کی قیمتی ترین متاع ہے۔ اس کی قربانی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی جو کچھ دیتی ہے‘ یا دے سکتی ہے‘ تمام مادی اور غیرمادی اشیا جن کا پہلے ذکر ہوا ہے‘ آپ سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔

جب یہ احساس ہوجائے کہ زندگی آپ کی نہیں‘ اللہ کی ملکیت ہے اور جو اس کا ہے‘ وہ آپ کو اسے دینا چاہیے تو آپ اللہ کی راہ میں جان دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ موت سے نہ تو آپ بچ سکتے ہیں‘ نہ فرار اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ ہمیشہ مقررہ وقت پر‘   طے شدہ مقام پر‘ طے شدہ طریقے سے آئے گی (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۵، ۱۴۴-۱۴۵۔ النساء۴ : ۱۷۸)۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں‘ وہ اپنی موت سے ماورا‘ اپنے لیے‘ اپنی برادری کے لیے‘ اپنے مشن کے لیے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتے ہیں۔

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ اُنھیں مردہ نہ کہو ، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا ۔(البقرہ ۲:۱۵۴)

اس دنیا کی زندگی سے محبت نہ ہونا چاہیے‘ موت کا خوف نہ ہونا چاہیے‘ تب ہی آپ وہ طاقت حاصل کریں گے جو اپنی جان قربان کرنے کے لیے چاہیے۔ یہ صرف موت کے لیے آمادہ ہونا ہے جس سے آپ دشمن طاقتوں پر غلبہ پاسکتے ہیں۔ تب ہی کامیابی کے دروازے کھلیں گے۔ آپ مر کر زندگی حاصل کرتے ہیں‘ اپنے لیے‘ اور اپنی برادری کے لیے۔ اگر آپ مرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ تو آپ کو زندہ رہنے کا حق نہیں رہتا‘ کم سے کم ایک برادری کے طور پر۔

ہم میں سے ہر ایک سے جان کی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا‘ لیکن اس کی تمنا ہر دل میں ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جو نہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے‘  نہ جہاد کے بارے میں سوچتا ہے‘ منافق کی موت مرے گا (مسلم)۔ انھوں نے یہ بھی کہا: اس  ہستی کی قسم! جس کے قبضے میں‘ میری جان ہے‘ مجھے یہ پسند ہے کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں‘ پھر مارا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں تاکہ ایک دفعہ پھر اللہ کی راہ میں جان دے سکوں(بخاری، مسلم)۔ (ترجمہ:  مسلم سجاد)

 

جب کوئی قوم اللہ کی کتاب اور نبی کی تعلیم کو ترک کردیتی ہے تو طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوجاتی ہے۔ قومِ یہود نے جب اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو چھوڑ دیا اور اپنے نفس کی پیروی کرنے لگی تو طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوگئی‘ جس کی بڑی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح جب قومِ نصاریٰ نے اللہ کی کتاب انجیل اور عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو ترک کردیا تو ان کے اندر بھی برائیاں رونما ہونے لگیں۔

اُمت مسلمہ جسے دنیا کی امامت عطا کی گئی تھی‘ اس نے قرآن و حدیث کا مطالعہ‘ اس میں غوروفکر اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو اس کے اندر بھی بہت سی برائیاں دَر آئیں۔ ان برائیوں میں ایک بڑی برائی وعدے کا پابند نہ ہونا اور ایفاے عہد کا پاس و لحاظ نہ کرنا بھی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۳۴ اور ۳۵ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اچھے کام کرنے کی تلقین کی ہے اور کچھ کام کرنے سے منع کرتے ہوئے وعدے کو پورا کرنے اور عہدوپیمان کا پاس و لحاظ کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے‘ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہروعدے اور عہدوپیمان کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا کہ اسے پورا کیا گیا کہ نہیں؟ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو یا اس کے بندوں سے کیا گیا ہو‘ہر وعدے کے بارے میں پرسش ہوگی(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۴-۳۵)۔ یہی بات سورۂ بقرہ میں ایک دوسرے انداز میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔ مومن کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے اسے مومن کی ایک صفت قرار دیا ہے: ’’اور جب وعدہ کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۷۷)

  •  عھدوپیمان: وعدے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وعدہ وہ ہے جس کا تعلق اللہ سے ہے۔ بندہ ہونے کی بنا پر اپنے خالق سے اس کی بندگی کا وعدہ ہم نے کیا ہے کہ ہم صرف آپ کی بندگی کریں گے‘ آپ کے شکرگزار بنیں گے اور آپ ہی سے مدد اور استعانت طلب کریں گے: ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ (الفاتحہ ۱:۴)

دوسرے وعدے کا تعلق ایک بندے کا اللہ کے دوسرے بندوں سے ہے۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں اور عہدوپیمان باندھتے ہیں۔ ان وعدوں کو نبھانے کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘(المائدہ ۵:۱)۔ ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے اس کا خیال رکھو اور اس پختہ عہدوپیمان کہ نہ بھولو جو اس نے تم سے لیا ہے‘ یعنی تمھارا یہ قول کہ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی‘ اللہ سے ڈرو‘ اللہ دلوں کے راز تک جانتا ہے‘‘۔ (المائدہ ۵:۷)

  •  عھد الست: اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے کی ایک نوعیت تو وہ ہے جو ہم لوگوں نے عالمِ ارواح میں کیا ہے۔ یہ وعدہ قرآن میں عہدالست کے نام سے بیان ہوا ہے۔ عالمِ ارواح  میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ارواح کو جسم و جان دے کر ان سے شعوری عہد لیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوںکو خود ان پر گواہ بناکر پوچھا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ تو سب لوگوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔’’اور اے نبیؐ! لوگوں کو یاد دلا دو‘ وہ وقت جب کہ تمھارے رب نے بنی آدم ؑکی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انھیں خود ان کے اُوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمھارارب نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں‘ اور ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس سے پہلے بے خبر تھے‘‘۔ (الاعراف ۷:۱۷۲)
  •  ایمان اور عھد: اللہ تعالیٰ سے وعدے کی دوسری نوعیت وہ ہے جو ہم لوگوں نے ایمان کا اقرار کرکے کیا ہے۔ اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے رسول کی دعوت کا اقرار دراصل وہ عہدوپیمان ہے جس میں ہم اپنی جان اور مال کو اللہ کے ہاتھوں جنت کے بدلے میں بیچ چکے ہیں۔ اب ہماری جان اور ہمارا مال اللہ کی تحویل میں ہے۔ ہماری جان اور ہمارا مال سب اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ اس زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری میں گزرے گا۔ ہماری یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے اور اس امانت کے ہم امین ہیں۔ اس عہدوپیمان کا تقاضا ہے کہ یہ زندگی ہم اہلِ امانت‘ یعنی اللہ کے حوالے کردیں۔ جو مال اور جملہ صلاحیتیں ہمیں دی گئی ہیں ان پر ہمارا کوئی تصرف نہیں اور یہ بھی ہم اللہ کے حوالے کردیں۔ دراصل شعوری ایمان کا اعلان تجدید عہدالست بھی ہے اور اپنے آپ میں ایک نیا عہدوپیمان بھی ہے۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے جنت کا وعدہ اللہ کے ذمے پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پوراکرنے والا ہو؟‘‘ (التوبہ ۹:۱۱۱)

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار یاد دہانی کرائی ہے کہ جو وعدہ اور عہدوپیمان تم نے اپنے خالق حقیقی سے کیا ہے‘ اس کو پورا کرو اور وعدہ خلافی مت کرو۔ قرآن میں یہ یاددہانی بار بار مختلف انداز میں کرائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے ذریعے بھی اس کی یاد دہانی کراتا رہاہے:

اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو‘ اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بناچکے ہو۔ اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔(النحل ۱۶:۹۱)

اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی‘ میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو تو میراجو عہد تمھارے ساتھ تھااسے میں پورا کروں اور مجھ سے ہی تم ڈرو‘ اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لائو۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمھارے پاس پہلے سے موجود تھی‘ لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جائو۔ تھوڑی سی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔(البقرہ ۲:۴۰)

اور جب بات کہو انصاف کی کہو‘ خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے تمھیں کی ہے‘ شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔ (الانعام ۶:۱۵۲)

  •  روز مرہ زندگی میں عھد و پیمان: روز مرہ کی زندگی میں بھی ہم لوگ ایک دوسرے سے عہدوپیمان باندھتے ہیں۔ ان کا پورا کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح اللہ سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنا ضروری ہے: ’’اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ انھیں مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے‘‘ (الرعد۱۳: ۲۰)۔ ان وعدوں کو پورا کرنے کا احساس ہمارے اندر کم ہی پایا جاتا ہے۔ کتنے وعدے ہم لوگ روزانہ کرتے ہیں اورانھیں پورا نہیں کرتے۔ ان کے پورا نہ کرنے پر ہمارے اندر پشیمانی بھی نہیں پائی جاتی۔ آپس کے لین دین میں ہم ایک دوسرے سے بہت سے وعدے کرتے ہیں اور انھیں پورا نہیں کرتے۔ کسی سے قرض لیا اور وعدہ کرلیا کہ دو مہینے بعد لی ہوئی رقم واپس کردیں گے۔ قرض کی رقم لے کر بھول گئے۔ اس کی رقم بھی وقت پر واپس نہیں کی اور نہ معذرت چاہی کہ وعدہ خلافی ہوگئی۔ کسی سے وعدہ کیا کہ ہم فلاں جگہ فلاں وقت پر آپ سے ملاقات کریں گے اور مقررہ وقت پر نہیں آئے‘ جب کہ فریق ثانی وقت مقررہ پر انتظار کی گھڑیاں گن رہا ہے۔ اکثر وعدہ خلافی ہم جان بوجھ کر کرتے ہیں‘ اس لیے کہ ہمارے اندر وعدے کی اہمیت کا احساس ختم ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ (الصف ۶۱:۲-۳)

ہم سے ہر وعدے کے متعلق قیامت میں پوچھا جائے گا۔ اس لیے وعدہ شعور کے ساتھ کیا جائے کہ پورا کرسکتے ہیں یا نہیں۔ موقع اور مصلحت اپنی مشغولیت اور اوقاتِ کار کا لحاظ کرکے وعدہ کیا جاناچاہیے اور وعدے کو حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اِلا.ّ یہ کہ کوئی شرعی عذر پیش آجائے۔ اگر شرعی عذر یا ناگزیر مجبوری پیش آجائے تو پہلے خبر کردینی چاہیے کہ فلاں کام کا وعدہ   ہم نے کیا تھا لیکن یہ مجبوری آگئی ہے‘ اس لیے وعدہ پورا کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔ اگر پہلے خبر کرنے کا موقع نہ ہو تو بعد میں معذرت کی درخواست کی جائے اور بعد میں اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہروقت یہ خیال رہے کہ زبان سے ہرنکلی ہوئی بات لکھ لی گئی ہے اور اس کے متعلق قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی۔

کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا کہ اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو۔ (قٓ ۵۰:۱۸)

عہد کی پابندی کرو‘بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴)

ان لوگوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے‘ اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی بازپرس تو ہونی ہی تھی۔(الاحزاب ۳۳:۱۵)

  •  ایفاے عھد پر جزا: جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں اور اس کے بندوں سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرتے ہیں‘ اللہ نے ان کے لیے انعام کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے عہد کو پوراکرے گا اور اللہ سے ڈرے گا‘ وہ متقی ہے اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ یہاں متقی کی دو صفات بتائی گئی ہیں: ایک‘ عہد کو پورا کرتے ہیں‘اور دوسرے‘ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ان دونوں صفتوں سے متصف ہونے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔

آخر کیوں ان سے بازپرس نہ ہوگی؟جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا تو اللہ کا محبوب بنے گا‘ کیونکہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔ (اٰل عمرٰن ۳:۷۶)

سورۂ رعد میں اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے والوں کی چند صفات کا تذکرہ کیا ہے جس میں پہلی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ لوگ جنت میں جائیں گے اور آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے جو وعدے کو پوراکرتے ہیں اور وعدہ خلافی نہیں کرتے۔’’اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں‘ اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اسے برقرار رکھتے ہیں‘ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے  دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے‘ یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی اس میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو لوگ صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے‘ اور ان سے کہیں گے ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا‘اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے‘‘۔ (الرعد ۱۳:۲۰-۲۴)

سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے عہدوپیمان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ عہدوپیمان کے ساتھ کچھ فرائض کی پابندی کریں تو ہم انھیں      ایسی جنت میں داخل کردیں گے جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ ’’اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں ۱۲ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ: ’’میں تمھارے ساتھ ہوں‘   اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے‘ تو یقین رکھو کہ میں تمھاری برائیاں تم سے زائل کردوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کردی‘‘۔ پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دُور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کردیے۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں‘ جو تعلیم انھیں دی گئی تھی اس کا  بڑا حصہ بھول چکے ہیں‘ اور آئے دن تمھیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتا چلتا رہتا ہے۔ اب ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں۔ (پس جب یہ اس حال کو پہنچ چکے ہیں جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہٰذا انھیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو‘ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۱۲-۱۳)

  •  عھد توڑنا فسق ھے: سورۂ اعراف میں عہد کی پاس داری نہ کرنے والوں کے لیے بڑی وعید بیان ہوئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عہدوپیمان کا اقرار کرنے کے بعد اس سے اعراض کرنے والے فاسق ہیں۔’’ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا‘‘۔(الاعراف ۷:۱۰۲)

یہی بات سورۂ آل عمران میں دوسرے انداز سے دہرائی گئی ہے کہ عہدواقرار کرنے کے بعد اس کو توڑنے والے فاسق ہیں۔’’وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنائو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمھیں کفر کا حکم دے‘ جب کہ تم مسلم ہو؟ یاد کرو‘ اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت اور دانش سے نوازا ہے‘ کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے‘ تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا: کیا تم اس کااقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں‘ ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں‘۔ اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۸۰-۸۱)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب میں اکثر یہ فرمایا ہے کہ ’’جس کے اندر عہد کی پابندی کا احساس نہیں اس کا ایمان نہیں‘ اور جس کے اندر امانت کی پاس داری نہیں اس کا دین نہیں‘‘۔ (مسنداحمد)

  •  بدعھدی پر وعید: عہدوپیمان کو توڑنے والے اور اس کا لحاظ نہ کرنے والے بدترین لوگ ہیں‘ سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ عہد کو توڑنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ نے بدعہدی کرنے والوں پر لعنت کی ہے اور آخرت میں  بُرے گھر، یعنی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے: ’’آلِ فرعون اور اس کے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اسی ضابطے کے مطابق تھا۔ انھوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلا یا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انھیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کردیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔ یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سے بدتر وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہم کو ماننے سے انکار کردیا۔ پھر کسی طرح وہ قبول کرنے کو تیارنہیں ہیں۔ ان میںسے وہ لوگ جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا پھر وہ ہرموقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے (الانفال ۸:۵۴-۵۶)۔  سورئہ رعد میں فرمایا: ’’پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر‘ رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں‘ جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنھیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے‘ اور جو زمین پر فساد پھیلاتے ہیں‘ وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانہ ہے‘‘۔(الرعد۱۳:۲۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وعدہ کا پورا نہ کرنا منافق کی نشانی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے سپرد کوئی امانت کی جائے تو اس میں خیانت کرے‘‘۔ (بخاری و مسلم)

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر پائی جاتی ہیں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس کسی میں ان میں سے ایک خصلت پائی جائے‘ اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت موجود ہوتی ہے‘ جب تک کہ اس خصلت کو ترک نہ کردے۔ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے‘ جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب عہد کرے تو اسے توڑ دے اور جب جھگڑا کرے تو بے ہودہ بکے‘‘۔ (بخاری)

مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ قرآن و حدیث میں وعدے کی اہمیت مسلّم ہے۔ ہروعدے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے یہاں پوچھ گچھ ہوگی۔ وعدہ پورا کرنے والوں کو   اللہ پسند کرتا ہے اور ان کے لیے آخرت کا بہترین وعدہ ہے۔ وعدہ پورا کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت ہے اور دوسرے انعام و اکرام کا وعدہ ہے۔ اس کے برعکس وعدہ پورا نہ کرنے والوں سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور وہ لوگ فاسق ہیں۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں کے لیے سزا کی وعید ہے اور وہ لوگ جہنم میں جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منافقت کی نشانی قرار دیا ہے۔ ہم میں سے کون مسلمان جنت میں جانا نہیں چاہے گا اور جہنم سے بچنا نہیں چاہے گا۔ ہرمسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ اگر ہم اس خواہش کی تکمیل چاہتے ہیں تو یقینا چاہیے کہ ہم لوگ وعدوں کی سختی سے پابندی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں وعدوں کی پابندی کی توفیق    عطا فرمائے اور وعدوں کی پابندی کرنے والوں کو انعام و اکرام سے اور جنت سے نوازے۔ آمین!

 

کیا آپ کا وصیت نامہ آپ کے تکیے کے نیچے موجود ہے؟ نہیں تو! بھلا زندگی میں اس کا کیا کام___ جی نہیں‘جلدی کیجیے۔ آپ کے اوپر دو راتیں بھی ایسی نہ گزریں کہ آپ کا وصیت نامہ آپ کے پاس تیار نہ ہو۔ ذرا یاد تو کیجیے کہ سورئہ بقرہ آیت ۱۸۰ میں اللہ تعالیٰ کیا فرما رہے ہیں: ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے خیر (مال) چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے‘ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’کسی ایسے مسلمان بندے کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز (جایداد‘ سرمایہ‘ امانت‘ قرض وغیرہ) ہو جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہیے تو درست نہیں کہ وہ دو راتیں گزار دے مگر اس حال میں کہ اس کا وصیت نامہ لکھا ہوا اس کے پاس نہ ہو‘‘۔ (بخاری‘ مسلم)

وصیت کے معنی

وصیت ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم دیا جائے خواہ وہ کام زندگی میں ہو یا بعد الموت۔ البتہ عرف عام میں اُس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم بعدالموت ہو۔ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۸۰ میں آنے والے لفظ خیر کے بہت سے معنوں میں سے   ایک معنی مال کے بھی آتے ہیں‘ جیسے سورئہ عادیات میں ہے: وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ o (العٰدیٰت:۸)۔ (معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیع‘ جلد۱‘ ص ۴۳۸)

وصیت کی اھمیت

حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ’دو راتیں نہ گزریں‘، اس امر پردلالت کرتے ہیں کہ اس کام کے لیے موت کے وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ نہ معلوم موت کب اور کس حال میں آئے اور اُس وقت انسان کو اتنی مہلت ملے یانہ ملے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کوئی ہمارے پاس ہو جسے ہم وصیت کے الفاظ سنا سکیں۔ بعض اموات حادثاتی یا ناگہانی بھی ہوتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا یہ ارشاد سننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہ گزرا کہ میرا وصیت نامہ میرے پاس نہ ہو۔ (معارف الحدیث‘ منظورنعمانیؒ،ج ۶‘ص ۱۸۹)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے وصیت کی حالت میں انتقال کیا‘ یعنی اس حالت میں جس کا انتقال ہوا کہ اپنے مال اور معاملات کے بارے میں جو وصیت اس کو کرنی چاہیے تھی‘ وہ اُس نے کی اور صحیح اور لوجہ اللہ کی تو اس کا انتقال ٹھیک راستے پر شریعت پر چلتے ہوئے ہوا‘ اور اس کی موت تقویٰ اور شہادت والی موت ہوئی اور اس کی مغفرت ہوگی‘‘۔(سنن ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ ج ۷‘ ص ۱۹۰)

یہ حدیث وصیت کے ہر وقت تیار کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے لیکن بات صرف یہی نہیں کہ یہ وصیت اللہ کی رضا (لوجہ اللّٰہ) کی خاطر ہو بلکہ کسی حق دار کو کسی بھی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ: ’’(کبھی ایسا ہوتا ہے کہ) کوئی مرد یا کوئی عورت ۶۰سال تک اللہ کی فرماں برداری والی زندگی گزارتے رہتے ہیں‘ پھر جب ان کی موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (حق داروں کو) نقصان پہنچادیتے ہیں اور ان کے لیے دوزخ واجب ہوجاتی ہے‘‘(مسنداحمد‘ ترمذی‘ سنن ابی داؤد و  ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ جلد۷‘ ص ۱۹۷)۔ ذرا غور کیجیے‘ ۶۰سال کی عبادت کے بعد بھی دوزخ کا واجب ہونا‘ آخر کیوں؟

وصیت کی تاکید کی حکمت

دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانونِ وراثت کے باضابطہ اعلان سے پہلے صاحبِ دولت حضرات کے لیے وصیت ہی وہ واحد ذریعہ تھا جس سے تعین کیا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد اس کے مال و دولت اور جایداد پر کس کا حق ہے۔ اس ضمن میں وہی طرزِعمل رائج الوقت تھا جوباپ دادا سے چلا آرہا تھا۔ چونکہ یہ اصول و ضوابط انسانوں کے وضع کیے ہوئے تھے اس لیے اوّل تو حسبِ ضرورت بدلتے رہتے تھے‘ نیز اکثر انصاف سے بھی بے گانہ ہوتے تھے۔ عورتیں اور بچے اس ناانصافی کا خصوصی ہدف تھے۔ زندگی کے آخری لمحات تک وصیت لکھنے کا یہ کام ملتوی رکھا جاتا۔ اگر کہیں لکھا بھی جاتا تو صاحبِ جایداد اپنی مرضی سے جسے چاہتا اور جیسے چاہتا نوازتا اور جسے چاہتا محروم کردیتا‘ کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ کبھی یوں ہوتا کہ مرنے والا مر جاتا اور وصیت کی عدم موجودگی کے باعث اُس کا مال پسماندگان میں باہمی رنجشوں‘ تنازعات اور تعلقات کے ٹوٹنے کاباعث بن جاتا‘ گویا وصیت کا قانون ہونے کے باوجود حالات انتہائی دگرگوں تھے۔

اس فضا میں ایک عادلانہ اور منصفانہ قانون کی اشد ضرورت تھی‘ خاص کر ایسی بالادست ہستی کا دیا ہوا قانون جس کی خلاف ورزی آسان نہ ہو۔ یوں اِن حالات میں اللہ تعالیٰ نے قانونِ وراثت نازل فرمایا‘ اور نزدیکی رشتے داروں کے حصے ازخود مقرر فرما دیے۔ اب اگر کوئی روگردانی کرتاہے تو گناہ گار ہوتا ہے اور ربِ کائنات کو ناراض کرتا ہے۔ لیکن قانونِ وراثت (النساء ۴:۷-۱۴)کے آجانے کے بعد بھی کُل مال کے

 حصے پر صاحب ِ مال کو وصیت کا اختیار دیا گیا تاکہ دُور کے رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی مدد یقینی بنائی جاسکے۔ اس سے دین اسلام میں اقربا کے حقوق کی ادایگی اور خبرگیری کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔

اسلام میں انسانی تعلقات و معاملات کی اہمیت واضح ہے۔ معاشرے کے استحکام کی بنیاد انھی تعلقات پر ہے‘ خاص کر وہ افراد جن کا تعلق ایک گھرانے یا خاندان سے ہو۔ حالات شاہد ہیں کہ وہ صاحبِ حیثیت اشخاص جنھیں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہے خصوصاً مال و دولت سے‘ وہ اگر اپنی زندگی میں یہ فیصلہ نہ کردیں کہ کس چیز پر کس کا حق ہے‘ توان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی مال آپس کے تعلقات میں کدورتیں ڈالتا ہے‘ بلکہ بسااوقات بات بڑھتے بڑھتے  خون خرابے تک جاپہنچتی ہے۔

مال سے انسان کی دل چسپی طبعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے شریعت نے مال و دولت کی متوازن اور منصفانہ تقسیم کا قانون مقرر کیا‘ اور اُس پر عمل کی تاکید فرمائی تاکہ لوگ اُسے حکمِ الٰہی سمجھ کر بروقت انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا‘ جب کہ انسان سوچتا ہے کہ اگر ہم نے کسی کو اس کی زندگی میں وصیت تحریر کرنے کا مشورہ دیا تو وہ سوچے گاکہ ’’انھیں ابھی سے ہمارے مرنے کے بعد تقسیم ہونے والے مال کی فکر لاحق ہوگئی‘‘۔ بلاشبہہ اس سوچ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وصیت نامے کے ذریعے ہی عزیزوں‘ رشتے داروں اور وارثوں کے درمیان بعد میں پیدا ہونے والے تنازعات اور غلط فہمیوں سے بچا جاسکتا ہے۔

وصیت کی شرعی حیثیت

تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے باضابطہ قانون بن جانے کے بعد وصیت کی شرعی حیثیت کچھ اس طرح سے ہوگئی:

۱- جن وارثوں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں اُن میں نہ تو وصیت کے ذریعے کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جاسکتاہے‘ اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جاسکتی ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۰)

۲- وصیت کُل جایداد کے صرف ایک تہائی ( )حصے کی حد تک کی جاسکتی ہے ۔ وہ بھی ایسے قرابت داروں کے لیے جو وارث نہ ہوں اور ایسے لوگوں کے لیے جو قرابت نہ رکھتے ہوں لیکن اس بات کے مستحق ہوں کہ ان کے لیے وصیت کی جائے۔ (ایضاً)

۳- لیکن اگر وارثوں کی اجازت اور خوشی شاملِ حال ہے تو ایک تہائی سے زائد بلکہ پورے مال کی بھی وصیت جائز ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۴۰)

۴- جس شخص پر کسی کے حقوق واجب ہوں‘ یا کسی کا قرض ہو یا کسی کی امانت رکھی ہو اس پر واجب ہے کہ وصیت میںاس کا ذکر کرکے متعلقین کو ادایگی کی ہدایت کرے۔

۵- ایک تہائی مال کی وصیت لکھنے والا اپنی زندگی میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے بالکل ختم بھی کرسکتا ہے ۔ (ایضاً‘ ج ۱‘ ص ۴۴۱)

۶- وصیت کی بعض شکلیں فرض ہیں‘ مثلاً ایسے والدین جو غیرمسلم ہوں یا بہن بھائی جو غیرمسلم ہوں‘ ان کا وراثت میں حصہ نہیں‘ اس لیے ان کے لیے وصیت فرض ہے۔

مال کے علاوہ وصیت

وصیت نامے میں مالی وصیت اور لوگوں کی امانتوں وغیرہ سے متعلق لکھنا بے شک اہم حصہ ہے‘ مگر چونکہ قرآن پاک میں‘ اللہ تعالیٰ نے لفظ خیر (البقرۃ ۲:۱۸۰) استعمال کیاہے‘ اس لیے وصیت کی اس تحریر کو کسی خاص دائرے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی یہ بات یقینی نہیں کہ ہرآدمی اس حد تک صاحبِ جایداد ہو کہ اس کا ترکہ قابلِ تقسیم ہو۔ اب اگر کسی کا جی چاہے تو آخر وہ اپنے وصیت نامے میں کیا لکھے؟ اس میں بے شمار باتیں شامل کی جاسکتی ہیں جو بلاشبہہ معاشرے میں باعثِ خیر ہیں اور ہوسکتی ہیں۔

انسانوں کی اس بستی میں سب کی ضرورتیں اور حالات مختلف ہیں۔ تربیت ِ اولاد اور دیگر معاملات میں انسان اپنی زندگی ہی میں نہیں مرنے کے بعد بھی کچھ باتوں کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کے لیے زبانی تاکید بھی کرتا ہے مگر ممکن ہے بعد میں یہ تاکید کسی کو یاد رہے اور کسی کو نہیں۔ ایسا بارہا دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے متعلقین کی زندگی میں ان کی نصیحتوں اور اچھے عمل کی قدر نہیں کرتے لیکن ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی نصیحتیں اور عمل ان کی زندگی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یوں وصیت نامہ ہی وہ ذریعہ نظر آتا ہے جس میں ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے رشتوں کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے وصیت نامے میں کیا کیا شامل کرسکتے ہیں تاکہ ہماری اولاد بعض کام کر کے نہ صرف ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنے بلکہ اپنی عاقبت بھی سنوارے:

۱- آج زندگی میں اپنی اولاد کو اپنے لیے دعا کرنا سکھایئے اور بعد میں دعا کرتے رہنے کی تاکید لکھیے اور یہ بھی ضرور لکھیے کہ کس طرح مرنے والا قبر میں اِن دعائوں کا منتظر رہتا ہے۔

۲- آپس کے حقوق و لحاظ کی تاکید لکھیے۔ جڑ کر رہنے کے فوائداور بکھر جانے کے نقصانات تحریر کیجیے۔

۳- کسی خاص بچے کے لیے خاص نصیحت کے پیشِ نظر ہدایات تحریر کیجیے۔

۴- اچھے کاموں کی نصیحت کرتے ہوئے انھیں آخرت میں اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانا بتایئے اس لیے کہ دنیا میں بہت سی کوششیں بظاہر ناکام نظر آتی ہیں‘ اور اچھے کام تو اللہ پر ایمان نہ رکھنے والے بھی بہت کرتے ہیں۔

۵- تربیتِ اولاد اور ان کے دینی فہم کے حصول کے لیے آپ آج جو محنت اور کوشش کررہے ہیں‘ انھیں مختصراً ضبطِ تحریر میں لایئے۔ ممکن ہے کل آپ نہ رہیں تو آپ کے لکھے ہوئے   یہ الفاظ ہی اولاد کی زندگی بدل دیں۔

۶- باقاعدہ بیٹھ کر ایسی باتوں کی فہرست مرتب کیجیے جن کے لیے آپ کی خواہش یا ضرورت ہو کہ آپ کی غیر موجودگی میں انھیں کس کس طرح ہونا چاہیے۔

۷- خاندانی معاملات میں اُن معاملات کی طرف توجہ دلایئے جن سے بچنا یا جن کی پابندی آپ کے پسماندگان کوسکون و راحت فراہم کرے۔ اس ضمن میں اولاد کو ان کی شادیوں کے بعد کے رہن سہن سے متعلق ہدایات بھی مفید ہوں گی۔

۸- خاندان یا احباب میں سے کسی خاص فرد کے بارے میں کوئی ہدایت ہو تو وہ لکھیے۔

۹- اپنی ذات یا اپنے کسی ادھورے کام کی تکمیل کے لیے کوئی ہدایت ہو توتحریر کیجیے۔

۱۰- اپنی اولاد (بہن بھائیوں) کو ایک دوسرے کی زندگی کے اہم معاملات کا خیال رکھنے کی ازحد تاکید لکھیے‘ مثلاً تعلیم‘ شادی یادیگر ضروریات۔ ضروری نہیں کہ والدین اپنے تمام بچوں کی ساری ضروریات و فرائض اپنی زندگی ہی میں پورے کرچکے ہوں۔

۱۱- اپنی زندگی کے ساتھی سے متعلق نصیحت ضرور کیجیے کہ آپ کے بعد آپ کے شوہر یا بیوی کا کس طرح خیال رکھا جائے۔

مؤثر وصیت نامہ

۱- سب سے پہلے صفحے پر اسے کم از کم ایک بار پڑھ لینے کی ’وصیت‘ لکھیے۔

۲- آج جب آپ اسے لکھ رہے ہیں تو کھلے عام اس کا تذکرہ کیجیے۔ اس کی نشان دہی کیجیے کہ کس کاپی میں ہے اور کہاں رکھا ہے‘ چھپاکر مت رکھیے کیونکہ آپ کا تو ایمان و یقین ہے کہ موت کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ آپ کے اہلِ خانہ کو اس کی بابت علم ہوناچاہیے۔

۳- اسے پڑھنے کے فوائد ابھی سے ہی متعلقین کو سمجھایئے۔

۴- اسے پنسل یا ہلکی سیاہی سے نہیں‘ قلم سے نمایاں لکھیے اور اس کے لیے مجلد کاپی کا انتخاب کیجیے تاکہ عرصۂ دراز تک چلے۔

۵- ایک صفحے پر صرف ایک وصیت لکھیے اور ترتیب کا خیال رکھیے۔

۶- ایک ساتھ سارا وصیت نامہ لکھنے نہ بیٹھ جایئے۔ سب کام ایک نشست میں ختم کرنے کا خیال ممکن ہے آپ میں سُستی پیدا کردے اور آپ اسے آج کل پر ٹالتے رہیں‘ جب کہ آپ کو یہ کام پہلی فرصت میں ’شروع‘ کرنا ہے، ’ختم‘ نہیںکرنا۔ پھر جوں جوں خیال آتارہے اُس دن کی تاریخ ڈال کر لکھتے جایئے۔ گویا یہ آپ کے روز مرہ کاموں میں سے ایک اہم کام ہے۔

۷-  ایک مؤثر وصیت نامے کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ضرررساں نہ ہو‘ یعنی کسی کو اذیت پہنچانے والا نہ ہو (دیکھیے سورۂ نساء‘ آیت ۱۲)۔ اس ضرر رسانی میں جہاں بہت سی دوسری چیزیں شامل ہیں‘ مثلاً غیرمتوازن وصیت‘ جھوٹی شہادتیں‘ فرضی واقعات درج کر دینا اور وصیت کو حق داروں کے خلاف کردینا وغیرہ‘ وہاں یہ چیز بھی یقینا شامل ہے کہ وہ فرائضِ منصبی جو ہر مرد اور عورت کو اپنی زندگی میں بذاتِ خود ادا کرنا لازم ہیں انھیں غفلت‘ لاپروائی‘ معاملاتِ زندگی کو کھیل سمجھ لینے کی وجہ سے چھوڑ دینا‘ اور اب وصیت لکھتے ہوئے اپنے متعلقین کے اُوپر غیرضروری بوجھ ڈالتے ہوئے انھیں ادا کرنے کی تاکید کرنا۔ اس طرح آپ اللہ کے آگے جواب دہی سے بچ نہیں سکتے بلکہ آپ تو دہرے مجرم ہوگئے۔ اوّل تو اپنے اُوپر عائد فرائض کی عدم ادایگی‘ پھر اسے خواہ مخواہ دوسرے کے سر پر لاد دینا___ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر زندگی کے کسی بھی میدان میں کمی رہ گئی ہے تو اب ’کم وقت میں زیادہ کام‘ کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی سعی کیجیے۔ پھر اس کے بعد کی کسی چھوٹی موٹی کسر کو پورا کرنے کے لیے آپ ضرور وصیت کرسکتے ہیں۔

۸- جس وقت آپ کو احساس ہو کہ اس کا بیش تر حصہ مکمل ہوچکا تو اس کی فوٹوکاپی بنوا کر دو ایک قریبی بااعتماد لوگوں کے پاس بھی رکھوا دیجیے‘ چاہے وہ آپ کی اولاد میں سے ہوں یا کوئی دوسرا قریبی رشتے دار ہو۔

وصیت اور وراثت میں فرق

وصیت اور وراثت کی اصطلاحات میں بھی فرق ہے‘ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

  •   وراثت: وہ مال جو مرنے والا اپنے پیچھے رہ جانے والے قریبی متعلقین کے لیے چھوڑ جائے۔ قانونِ وراثت کے ضمن میں سورئہ نساء آیت ۷ تا ۱۴ میں اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کے حصے خود مقرر کردیے ہیں۔ چنانچہ سورۂ نساء ۷ اور ۸ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو‘ اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میںحصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو‘ خواہ تھوڑا ہو یا بہت‘ اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے‘‘۔ اور جب تقسیم کے موقع پر کنبے کے لوگ اور یتیم و مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور اُن سے بھلے مانسوں کی سی بات کرو‘‘۔ اس کے بعد آیت ۱۲ تک مقرر شدہ حصوں کی تفصیل موجود ہے۔
  •   وصیت: ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا حکم دیا جائے۔ شرعی اصطلاح میں صاحبِ وصیت کی کوئی بھی ’معقول‘ نصیحت جس کی تکمیل وہ اپنے مرنے کے بعد کرنے کی خواہش رکھے‘ اس کی وصیت کہلاتی ہے۔

قانونِ وراثت و وصیت: چند اھم نکات

قانونِ وراثت و وصیت سے متعلق چند اہم نکات ہیں جو پیش نظر رہنے چاہییں:

۱- میراث کے حق دار صرف مرد نہیں بلکہ عورتیںاور بچے بھی ہیں۔

۲- میراث بہرحال تقسیم ہوگی خواہ کتنی ہی کم ہو۔ حتیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور ۱۰ وارث ہیں تو اُسے بھی ۱۰ حصوں میں تقسیم ہوناچاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث باقی سب کے حصے خرید لے۔

۳- قانونِ وراثت ہر قسم کے مال و املاک پر جاری ہوگا۔

۴- قریب تر رشتے دار کی موجودگی میں بعید تر رشتے دار میراث نہ پائے گا۔ (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۳۲۴)

۵- مرنے والے کے مال سے پہلے کفن دفن کا انتظام ہوگا‘ اس کے بعد اگر میت کا قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اگر قرضہ ادا کرنے میں تمام مال ختم ہوجاتا ہے تو وراثت تقسیم نہیں کی جائے گی۔ لیکن اگر قرض نہیں تو اب ایک تہائی ( )مال پر وصیت لاگو ہوگی۔ بالفرض وصیت نہیں ہے تو پھر تمام مال شرعی وارثوں میںتقسیم کردیا جائے گا ۔خیال رہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد جو فرض اور واجب کے درجے میں ہوں ان سے متعلق وصیت فرض ہے‘ اور جو سنت اور مستحب کے درجے میں ہوں ان کی وصیت مستحب ہے۔ تمام صورتوں میں تحریری وصیت مستحب ہے‘ فرض نہیں۔ قانونِ وراثت کے آنے کے بعد صرف  مال پر وصیت کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی صاحبِ مال ایسی وصیت کی حاجت محسوس نہ کرتا ہو تو تمام مال وارثوں کا ہوگا۔

۶- تقسیم ِ وراثت قربت کی بنیاد پر ہوگی‘ ضرورت کی بنیاد پر نہیں۔ دُور کا رشتے دار خواہ کتنا ہی ضرورت مند ہو مگر قریب کے رشتے دار کی موجودگی میں وراثت کا حق دار نہیں۔ ہاں‘ ایسا شخص وصیت سے لے سکتا ہے یا کوئی وارث اپنا حصہ لینے کے بعد پھر جس کو دل چاہے دے سکتا ہے۔

۷- میراث کے حصے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہیں۔ اب اِن کو کم زیادہ یا تبدیل کرنے کا کسی کو حق نہیں‘ نہ محروم کرنے سے کوئی شرعی وارث محروم ہوتا ہے‘ البتہ محروم کرنے والا  گناہ گار ہوتا ہے۔

۸- وہ دور کے رشتے دار جو ضرورت مند ہوں اور تقسیم کے وقت موجود بھی ہوں انھیں بھی  کُل مال میں سے تمام بالغ ورثا کی رضامندی سے کچھ نہ کچھ دے دیا جائے۔ یہ نہ صرف اخلاقی فرض ہے بلکہ شکرانہ ہے اُن لوگوں کی طرف سے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی محنت کے یہ مال عطا فرمایا۔

۹- ایسے رشتے داروں کو اگر دیا جائے تو نابالغ اور غیرحاضر شرعی وارث کے حصے سے نہ دیا جائے۔ جو حصہ پاچکے ہیں وہ اپنے حصے سے دیں تو زیادہ مناسب ہے۔

۱۰- اگر ایسے رشتے دار اپنے حق سے تجاوز کرکے شرعی حق داروں کے برابر مطالبہ کریں تو کوئی ان کا یہ ناجائز مطالبہ پورا کرنے کا پابند نہیں مگر بات احسن انداز سے ہو‘ دل شکنی نہ کی جائے۔

۱۱- کسی شخص کو ضرر رساں وصیت کرتے ہوئے پائیں تو لازم ہے کہ اُسے اِس ظلم سے باز رکھیں۔

۱۲- میت کے بدن کے کپڑے بھی ترکے میں شامل ہیں۔ انھیں حساب میں لگائے بغیر صدقہ کر دینا جائز نہیں۔

۱۳- ترکے کی تقسیم سے پہلے اُس مال سے مہمانوں کی تواضع کرنا‘ صدقہ خیرات کرنا جائز نہیں۔ ایسا کرنے والے سخت گناہ گار ہیں‘ اور اس صدقے سے میت کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

ایک بزرگ کسی کی عیادت کو گئے۔ ان کے سامنے ہی وہ آدمی مر گیا۔ بزرگ نے چراغ بجھا کرکے اپنے پیسوں سے تیل منگوا کر چراغ جلایا اور فرمایا: وہ چراغ وارثوں کی امانت تھا۔

۱۴- غرض کہ تقسیم سے پہلے وارثوں سے ’اجازت‘ لے کر بھی صدقہ کرنا جائز نہیں۔ مبادا کوئی شرما شرمی میں اجازت دے دے مگر دل سے راضی نہ ہو۔ (معارف القرآن‘ ج ۲)

وراثت اور خواتین

صنفِ نازک وہ طبقہ ہے کہ جس کے حقوق واضح طور پر بتائے گئے اور ان کی حفاظت کو ہرممکنہ طریقے سے لازم بنایا گیاہے۔ اسلام میں عدل و انصاف کے معاملے میں مرد و عورت برابر ہیں۔ دونوں کے حقوق صاف صاف بیان کردیے گئے مگر صدافسوس انھیں پورا کرنا تو دُور کی بات ہے‘ ان کی مکمل آگاہی بھی عام نہیں ہے۔ عورتوں کی اکثریت اپنے اُن حقوق سے واقف ہی نہیں جو اسے اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں رائج باپ دادا کے اکثر اصول اور سوچ کے مخصوص انداز عورتوں کو محرومی‘ ذہنی تنائو اور انتشار کے علاوہ کچھ نہیںدے رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان غلط رسوم و رواج کو ختم کر کے اللہ رب العالمین کے قوانین سے آگاہی حاصل کی جائے۔ اس طرح اُس عذابٌ مُّھِیْن سے بچنے کی تیاری کی جائے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے احکامِ وراثت والی آیات کے آخر میں کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی پر بے جا اسراف ‘ جہیز کی شکل میں بے پناہ سامان‘ شادی کے بعد بچوں کی ولادت (خاص کر پہلی بار) کے لیے والدین کا خرچ اٹھانا‘ ان کے علاج معالجے کی ضرورت پڑنے پر انھیں   والدین کے گھر چھوڑ دینے کا عام رواج ہے لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور ان اخراجات کا تقسیم وراثت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ شادی کے بعد عورت کی کفالت اور ضروریات پورا کرنے کی تمام ذمہ داری اس کے شوہر کی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے۔

آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ خواتین سے متعلق وراثت کا شرعی قانون کیا ہے:

۱- عورت مردکی طرح وراثت کی جائز حق دار ہے‘ نہ کسی طرح محروم کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا حصہ ہی معاف کرانے کا کسی کو بھی حق ہے۔ البتہ اس کا حصہ مرد سے آدھا ہے کیونکہ اُس پر کسی کی کفالت کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔

۲- اگر مرنے والا مسلمان مرد ہے تو دیکھا جائے گا کہ اُس نے بیوی کا مہر ادا کیا یا نہیں۔ اگر نہیں تو پہلے تمام مال سے مہر ادا ہوگا۔ بالفرض مال صرف اتنا ہے کہ مہر کی ادایگی کے بعد ختم ہوجاتا ہے تو پھر صرف مہر ادا کیا جائے گا اور کسی طرح کی وراثت تقسیم نہیں ہوگی۔ اگر مال مہر سے زائد ہے تب وراثت تقسیم کی جائے گی۔

۳- اگر کسی خاتون کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ اس کا مہر اس طرح شوہر کی وفات پر دیاگیا تو اب وہ مہر کی رقم کے علاوہ وراثت سے اپنا مقررہ جائز حصہ بھی پائے گی۔ یہ نہیں کہہ دیا جائے گا کہ تم نے ابھی ابھی تو مہر لیا ہے اب اپنی وراثت چھوڑ دو…

۴- قرآن کریم نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصے کو ’اصل‘ قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتایا۔ چنانچہ سورئہ نساء‘ آیت ۱۱ کا ایک حصہ ہے۔ ’’لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصے کے بقدر ملے گا‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۲۱)

آخری بات

احکامِ وراثت کا خاتمہ جس آیت پر ہوتا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَاص وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ o (النسآء۴:۱۴) اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا‘ اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔

اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:

۱- قانونِ وصیت و وراثت اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں۔ ان کے خلاف کرنا اِن سے تجاوز کرنا ہے۔

۲- اس تجاوز کی سزا دوزخ کی آگ ہے۔

۳- یہ آگ کسی محدود مدت کے لیے نہیں ’ہمیشہ‘ کے لیے ہے۔

۴- اس آگ میں ’رسوا کن‘ عذاب (عَذَابٌ مُّھِیْنٌ) دیا جائے گا (اگرچہ قانونِ وراثت پر ایمان کی صورت میں بالآخر عذاب سے نجات ہوجائے گی لیکن طویل عرصے تک عذاب مھین تو بھگتنا پڑے گا)۔ آج کے قانون وراثت پر عمل نہ کرنے والے اور وصیت سے غفلت برتنے والے مسلمان غور کرلیں کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی زندگی اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اپنے فرائضِ منصبی کی تکمیل کی توفیق اور مہلت عطا فرمائے۔ آمین

 

رات کے گھپ اندھیروں میں جب پورا عالم محوِ استراحت ہوتا ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہوتا ہے‘ انسان‘ چرند‘ پرند‘ درند‘ غرض ہرمخلوق اپنے آشیانے میں دبکی پڑی ہوتی ہے کہ کچھ دیوانے نرم و گرم بستر چھوڑ کر محبوب حقیقی کی محبت سے سرشار یکلخت اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ برگزیدہ مخلوق ہے جس کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور ہیں۔ یہ لوگ زمین کی کور باطن مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل مگر آسمانی مخلوق کے سامنے روشن اور تابناک یوں جگمگاتے ہیں‘ جیسے زمین والوں کی نظر میں تارے۔ ان کے دلوں میں ایک سوز ہوتا ہے‘ ایک درد ہوتا ہے‘ جو ہر دم انھیں بے کل اور بے چین رکھتا ہے۔ ان کو اگر کوئی دھن ہے تو ایک ہی‘ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے۔

رات کا ایک بڑا حصہ گزر چکا ہے‘ تمام دنیاخوابِ غفلت میں مدہوش ہے اور یہ عاشق اپنے محبوب کے سامنے جھولی پھیلائے اس سے محبت کی بھیک مانگ رہے ہیں‘ آنسو بہا رہے ہیں۔ ادھر آسمانوں پر رحمت کے دروازے کھل رہے ہیں‘ حورانِ بہشت اپنی غمگین آواز میں ان کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں: ’کوئی ہے جو ہمیںحاصل کرے۔لیکن ان کی نگاہ ’یک بین‘ حوروں پر بھی نہیں پڑتی۔ ان کا منتہاے مقصود تو محبوب حقیقی کا وصال اوراس کی رضاجوئی ہے۔

اب رات کا آخری پہر ہے‘ رحمتوں کی موسلادھار بارش شروع ہوچکی ہے‘ اللہ سوال کرنے والوں کو عطا فرما رہے ہیں‘اعلان ہو رہا ہے: مانگو! کیا مانگتے ہو؟ جو مانگو گے عطا ہوگا۔ پھر    رضاے الٰہی کے پروانے جاری ہونے لگتے ہیں۔ یہی ان کا مقصدحیات اور یہی ان کی معراج ہے‘ جس کی خاطر یہ روزانہ اپنے نرم نرم بستر اور میٹھی میٹھی نیند قربان کرکے اُٹھ بیٹھتے ہیں‘ اور دربارِ الٰہی میں پروانہ وار حاضر ہوجاتے ہیں۔ ان کے اسی حال کو شاعرمشرق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے   ؎

واقف ہو اگر لذتِ بیداریِ شب سے
اُونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پُراسرار

ان سعید روحوں کی سعادت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ قرآن مجید میں فرما رہا ہے‘ فرمایا:

تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ ۳۲:۱۶) ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں‘ اس طور پر کہ وہ ا پنے رب کو (ثواب کی) امید اور (عذاب کے) خوف سے پکارتے ہیں۔

علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یَدْعُوْنَ سے مراد یُصَلُّوْنَ ہے‘ یعنی رات کو نماز پڑھنا مراد ہے۔

اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کھپانے والے ان جواں ہمت لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام و اکرام کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمھارے ناقص تصور اور تخیل سے بالا ہے:

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّـآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (السجدہ ۳۲:۱۷)

پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیاہے اس کی کسی تنفس کو خبر نہیں ہے۔

یہاں ان لوگوں کا انعام واضح طور پر بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گی ہے جس کو کوئی نفس نہیں جانتا۔ انعام کے اس اخفا میں اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے‘ نیز اس اخفا سے ان لوگوں کو شوق دلانا مقصود ہے جو اس عظیم عمل سے محروم ہیں۔

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ حضوؐر اور حضوؐر کے واسطے سے اُمت کو تہجد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) اور رات کو تہجد پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہے‘ بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔

مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل نماز تہجد کا حکم دیا گیا اور پھر مقامِ محمود‘ یعنی شفاعت کبریٰ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد کو مقامِ شفاعت حاصل ہونے میں خاص دخل ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۵‘ ص ۵۲۰)

اسی طرح متعدد احادیث میں بھی نماز تہجد کی فضیلت وارد ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: اے لوگو! سلام پھیلائو اور کھانا کھلائو اور رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو۔ (اگر ایسا کرو گے) تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے۔(ترمذی)

عام طور پر لوگ ان اعمال کو بالکل معمولی سمجھتے ہیں لیکن قدر شناسوں سے پوچھیے کہ یہ کیسی دولتِ بے بہااور انمول خزانے ہیں اور پھران پر کوئی زیادہ محنت بھی خرچ نہیں ہوتی‘ بس ذرا سی ہمت چاہیے۔ خود حضور علیہ السلام کی شان یہ تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تہجد میں قیام کرتے کرتے آپؐکے پائوں میں پھٹن آجاتی تھی۔ آگے چل کر فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ آپؐ کے لیے بخشش لکھ دی گئی ہے۔ پھر آپؐ کیوں اتنی مشقت برداشت فرماتے ہیں تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: افلا أکون عبداً شکوراً ،کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟

یہ اس ذات اقدس کا حال ہے جس کے لیے سب سے پہلے جنت میں داخلے کا وعدہ ہے۔ ایک ہم ہیں کہ گناہوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں‘ پھر بھی آخرت کی فکر نہیں‘اعمال کا شوق نہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو جنت کا طلب گار نہ ہوگا لیکن کبھی ہم نے اپنے اعمال کا موازنہ کیا؟ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ہمیں جنت کا حق دار ثابت کرسکیں؟ کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی راتیں نورانی ہیں اور کیا سعادت مند ہیں وہ نوجوان جواس جوانی میں لذتِ بیداریِ شب سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان روزِ قیامت ربِ ذوالجلال کے عرش تلے ہوںگے جس دن اس کے عرش کے سوااور کوئی سایہ نہ ہوگا۔

اے جوانانِ سعادت مند! یہ نعمت اتنی سستی نہیں‘ اس کے لیے آہ سحرگاہی کو اپنانا ہوگا‘ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مالک کو منانا ہوگا‘ اس کے سامنے جھولی پھیلا کر گڑگڑانا ہوگا‘ تب جاکر   رضاے الٰہی کا گوہر مقصود حاصل ہوگا۔

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور ان سے ان کا حال دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’عبارات اُڑ گئیں‘ اشارات سب فنا ہوگئے اور ہمیں نفع نہیں دیا مگر ان چند رکعات نے جو ہم نے آدھی رات میں ادا کی تھیں‘‘۔ (تفسیر عزیزی)

میں نے ایک صاحبِ دل سے بارہا سنا‘ فرماتے تھے: ’جس کو جو کچھ ملا ہے تنہائی میں ملا ہے‘۔

اسی بات کو اقبال مرحوم نے یوں سمجھانے کی کوشش کی    ؎

عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی

صدہزار آفرین ان لوگوں پر جو راتوں کو اُٹھتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ رازو نیاز میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو اوج ثریا پر پہنچتے ہیں‘ ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور زمانے میں علم و حکمت کا آفتاب بن کر چمکتے ہیں کہ جس کی ضیاپاشیوں سے ایک عالم منور ہوتا ہے۔ افسوس صدافسوس ہم پر کہ دن رات ہم جن مقدس ہستیوں کا نام لیتے ہیں اور ان کے مراتب تک پہنچنے کے لیے آہیں بھرتے ہیں‘ان کی زندگی کے عملی گوشے کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ آج بھی ہم ان جیسا اخلاص و عمل اپنے اندر پیدا کرلیں تو ہم میں بھی رومی‘ رازی و غزالی پیدا ہوسکتے ہیں۔ آج بھی عقل کو خیرہ کرنے والی علمی و اصلاحی خدمات دوبارہ وجود میں آسکتی ہیں‘لیکن اس کے لیے اسلاف کی طرح ہمیں بھی بیداریِ شب سے آشنا ہونا پڑے گا‘ راتوں کو نیند قربان کرنا پڑے گی‘  سوز دروں بیدار کرنا پڑے گا۔ بقول شاعر    ؎

تو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی اور ان کے اعمال کو اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!

 

قرآن نے مومن کی ایک نمایاں صفت یہ بتائی ہے کہ وہ لغویات سے پرہیز کرتے ہیں اور اس سے حتی الامکان دُور رہتے ہیں۔ سورۂ مومنون میں اللہ تعالیٰ نے فوز و فلاح پانے والے اپنے بندوں کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے نماز کے بعد جس صفت کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ فلاح پانے والے مومنین لغو سے پرہیز کرتے ہیں:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَo وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo (المومنون ۲۳:۱-۳) یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے دُور رہتے ہیں۔

گویا لغویات سے پرہیز اور اس سے بچنا مومن کی ایک نمایاں صفت ہے اور یہ فلاح پانے کی ایک سبیل ہے۔ اس کے لیے ہم لوگوں کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ ’لغو‘ کیا ہے؟

  •  لـغو کا مفھوم: مولانا مودودیؒ نے لغو کی وضاحت اِن الفاظ میں کی ہے: ’’لغو ہراُس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول‘ لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو‘ جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو‘ جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو‘ جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو‘ وہ سب لغویات ہیں‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۲۶۲) ۔پوری آیت کا مطلب جاننے کے لیے ’لغو‘ کے ساتھ ساتھ معرضون کا مطلب بھی جاننا ضروری ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: معرضون کا ترجمہ ہم نے ’دُور رہتے ہیں‘ کیا ہے۔ مگر اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رخ نہیں کرتے۔ اُن میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں‘ اُن میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں‘ اور اگر کہیں اُن سے سابقہ پیش آہی جائے تو ٹل جاتے ہیں‘ کترا کر نکل جاتے ہیں‘ یا بدرجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۶۲)

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے ’لغو‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے: ’’لغو سے مراد ہر وہ قول وفعل ہے جو زندگی کے اصل مقصود___ رضاے الٰہی___ سے غافل کرنے والا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ مباح ہے یا غیرمباح۔ جس نماز کے اندر خشوع ہو اُس کا اثر زندگی پر لازماً یہ پڑتا ہے فضول‘ غیرضروری‘ لایعنی‘ بے مقصد چیزوںسے احتراز کرنے لگتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اگر میں نے کوئی فضول قسم کی حرکت کی تو اپنے عالم الغیب مالک کو ایک روز منہ دکھانا ہے اور اس چیز کی شب و روز میں کم از کم پانچ بار اس کو یاد دہانی ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا ضمیر اتنا بیدار اور حسّاس ہو کہ غیرضروری حرکت سے اس کی طبیعت انقباض محسوس کرے وہ کسی بڑی  بے حیائی کا مرتکب کبھی مشکل ہی سے ہوگا‘‘۔ (تدبرقرآن‘ ج ۴‘ ص ۴۳۴-۴۳۵)

مفتی محمد شفیعؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر معارف القرآن میں اس طرح کی ہے: ’’لغو کے معنی فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدۂ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے۔ اس سے پرہیز واجب ہے‘ اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر‘ اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من حسن اسلام المرأ ترکہ مالا یعنیہ ، یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے‘ جب کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لیے آیت میں اس کو مومن کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۹۶)

مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: ’’لغو سے مراد فضول اور   بے کار مشغلے اور کھیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اگر تفریح طبع کے لیے یا جسمانی کسرت کے طور پر کھیلتے ہیں تو ایسے کھیل نہیں کھیلتے جن میں محض وقت کا ضیاع ہو بلکہ ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہو‘ جیسے جہاد کی غرض سے تیراکی‘ نیزہ بازی‘ تیراندازی اور نشانہ بازی وغیرہ۔ اور لغو سے مراد بے ہودہ اور فضول باتیں بھی ہوسکتی ہیں‘ جیسے فضول گپیں‘ غیبت‘ بکواس‘ تمسخر‘ فحش گفتگو اور فحش قسم کے گانے وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ صرف خود ہی پرہیز نہیں کرتے بلکہ جہاں ایسی سوسائٹی ہو وہاں سے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنا قطعاً گوارا نہیں کرتے۔ (تیسیرالقرآن‘ ج ۳‘ ص ۱۸۶-۱۸۷)

مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے اپنی انگریزی تفسیر میں ’لغو‘ کی تشریح اس طرح سے کی ہے: ’لغو‘ ایک ایسا فعل (قول و عمل) ہے جس کا نہ کوئی فائدہ اس دنیا میں ہے اور نہ اس کے بعد آنے والی زندگی میں ‘ اس لیے یہ مسلم کے لیے بے سود ہے۔

مفسرین کی گراں قدر آرا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لغو ایک ایسا قول و فعل ہے جس کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں اور نہ اس کا کوئی فائدہ آخرت میں ہے‘ بلکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ زبان کا  بے جا استعمال اور اس کو قابو میں نہ رکھنے کا وبال بھی ہوگا۔ لغو سے ایک دوسرا نقصان تضیع اوقات بھی ہے۔ تیسرا نقصان غیرسنجیدگی اور اصل مقصد سے بے توجہی پیدا ہوتی ہے۔ گویا لغو ایک بے فائدہ اور لاحاصل عمل ہی نہیں ہے بلکہ اس سے سراسر نقصان بھی ہے۔ مومن کوئی بھی ایسا عمل نہیں کرسکتا جو بے سود اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔

مومن لغویات سے دُور رہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: اوّل یہ کہ اللہ نے منع کیا ہے‘ اور دوسری وجہ یہ کہ جو کام ہم یہاں کر رہے ہیں اور جو بات زبان سے نکال رہے ہیں وہ لکھنے والا لکھ رہا ہے اور اس سارے قول و عمل کا ہمیں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ ۵۰: ۱۰) کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔

  •  احادیث کی روشنی میں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو باتوں کے حوالے سے بھی ہدایت فرمائی ہے:

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (متفق علیہ)

حضرت ابوسریح عدویؓ نے بیان کیا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا: جو شخص   اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے‘ اور جو شخص   اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی ہرطرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یارسولؐ اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔ (متفق علیہ)

ان دونوں احادیث میں پڑوسی کی عزت اور اُسے تکلیف نہ پہنچانے‘ مہمانوں کی عزت اور ان کی خاطر و تواضع اور زبان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ زبان کی حفاظت کے متعلق دو باتیں دونوں احادیث میں کہی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ زبان سے اچھی اور بہتر بات کہی جائے‘ اور دوم یہ کہ بہتر اور اچھی بات نہ کہنا ہو تو خاموش رہے۔ لغو بات زبان سے نکالنے کی کوئی گنجایش اس آدمی کے لیے قطعی نہیں ہے جو اللہ پر اور آخرت کے قائم ہونے اور اس کے حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہو۔

مزید احادیث ملاحظہ فرمایئے:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک بات بغیر سوچے سمجھے کہ وہ صحیح ہے یا غلط‘ نکالتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے‘ جب کہ اس کے اور جہنم کے بیچ اتنی دُوری تھی جتنی دُوری مشرق کے دونوں کناروں کے درمیان تھی۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک اچھی بات نکالتا ہے بغیر اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اور اللہ اس کے عوض اس سے خوش ہوجاتا ہے اور اس کے درجات بلند کردیتا ہے۔ اور اللہ کا ایک بندہ بغیر سوچے سمجھے زبان سے ایک خراب بات نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔(بخاری)

ان احادیث میں یہ باتیں بتائی گئی ہیں کہ زبان کے‘ بغیر سوچے سمجھے بے جا استعمال سے اللہ کا بندہ جہنم کا مستحق بن سکتا ہے اور زبان سے اچھی بات نکالنے کی بنیاد پر وہ جنت اور درجات کی بلندی کا مستحق بن سکتا ہے۔ لغویات میں زبان کا بے جا استعمال اور اس کی حرمت پامال ہوتی ہے‘ لہٰذا ہمیشہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔

  •  بندۂ مومن کا طرزِعمل:  اللہ کے صالح بندے تو لغویات سے دُور رہتے ہیں اور جان بوجھ کر کبھی لغویات میں ملوث نہیں ہوتے لیکن تمام تر احتیاط کے باوجود یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی ان کا گزر ایسی جگہ سے ہو جہاں لغو ہو رہا ہو‘ یا کسی جگہ ان کی موجودگی میں یک بہ یک لغو ہونے لگے تو ان کا طرزعمل یہ ہوتا ہے کہ ایسی جگہ سے اپنا دامن بچاتے ہوئے‘ اس میں دل چسپی لیے بغیر وہاں سے احسن طریقے سے گزر جاتے ہیں۔ قرآن نے ان کے طرزعمل کو یوں بیان کیا ہے:

وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲)، (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر سے اُن کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔

یہاں بھی ان کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ کسی ایسی جگہ سے جہاں لغو ہو رہا ہے‘ اس میں دل چسپی لینا تو درکنار‘ وہ ایک نگاہِ غلط انداز ڈالے بغیر وہاں سے شریفانہ گزر جاتے ہیں۔ اوّل تو وہ ایسی جگہ جان بوجھ کر جاتے نہیں مگر ایسی جگہوں سے گزر ہوجائے تو اس میں ملوث ہوئے بغیر شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کااتفاق سے ایک روزکسی بے ہودہ لغو مجلس پر گزر ہوگیا تو وہاں ٹھیرے نہیں گزرے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا تو فرمایا کہ ابن مسعود کریم ہوگئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں بے ہودہ مجلس سے کریموں شریفوں کی طرح گزر جانے کا حکم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر بحوالہ معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۵۰۷)

دنیا میں ہر طرح کی احتیاط کے باوجود کبھی نہ کبھی لغو سے واسطہ پڑسکتا ہے۔ کوئی ان سے الجھنے کی کوشش کرے اور لغو پر آمادہ ہوجائے تو لغوسننے کے بعد وہ ان لوگوں سے سلام کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ گویا جاہلوں کی جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دیتے بلکہ ان سے یہ کہتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ میں جاہلوں کی سی باتیں یا جاہلوں کا سا عمل کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو اپنا عمل مبارک ہو اور ہمیں ہمارا عمل۔ ان کی اس خصوصیت کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اس طرح بیان فرماتا ہے:

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْز سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز  لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ o (القصص ۲۸:۵۵) اور جب انھوں نے بے ہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ’’ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے‘ تم کو سلام ہے‘ ہم جاہلوں کا ساطریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے‘‘۔

ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو لغو سے اعراض کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری طرف نادانستہ طور پر اتفاقاً اگر لغو پر گزر ہوجائے تو مومنوں کی صفت یہ بتائی گئی کہ وہ اس پر سے     شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ گفتگو کے دوران اگر کوئی جہالت پر اُتر آئے اور لغو و بے ہودگی سے پیش آئے تو اللہ کے صالح بندے اس میں حصہ لینے کے بجاے ان لوگوں کو سلام کرکے یہ سوچتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں جیسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

  •  مـومن کا انـعام: قرآن کے مطالعے سے پتاچلتا ہے کہ ایک مومن اور صالح بندہ اپنی زندگی میں پوری کوشش کرے کہ وہ لغویات سے دُور رہے لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی نہ کبھی لغو بات اس کے کانوں میں پڑجائے‘ جیسے فحش گانے‘ فلموں کے مکالمے‘ گالی گلوچ وغیرہ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جنت کے جن انعامات کا ذکر کیا ہے اس میں کئی جگہ یہ بات بھی بتائی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے۔ گویا لغو سے پرہیز اور مکمل اجتناب زندگی بھر کرنے کی کوشش کرے اور اس کی خواہش دنیا میں نہ پوری ہو تو اللہ ایک جگہ ایسی عطا کرے گا جہاں وہ اللہ کا صالح بندہ لغو باتیں نہیں سنے گا اور لغو فعل سے اس کا کوئی واسطہ نہیں پڑے گا۔ وہ جگہ جنت ہوگی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا (النبا ۷۸:۳۵) وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے۔

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا o اِلاَّ قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًاo (الواقعہ ۵۶:۳۵-۳۶) وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔ جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔

فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ o لَّا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً o (الغاشیہ۸۸: ۱۰-۱۱) عالی مقام جنت میں ہوں گے‘ کوئی بے ہودہ بات وہ و ہاں نہ سنیں گے۔

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلاَّ سَلٰمًا ط وَلَھُمْ رِزْقُھُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا o (مریم۱۹: ۶۲) وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے۔ وہ جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے اور ان کا رزق پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔

جنت کی ساری نعمتوں کو نہ ہم اس دنیا میں جان سکتے ہیں اور نہ اس کی کسی نعمت کا ادراک ہی کرسکتے ہیں۔ اس کی ساری نعمتوں سے لطف اندوز تووہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت میں جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں‘ جنھیں نہ آنکھوں نے دیکھا‘      نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے (متفق علیہ)۔ جنت کی   جن نعمتوں کا تذکرہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے اس میں ایک نعمت یہ بھی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے جس کا تذکرہ قرآن میں کئی جگہ ہے۔ لغو سے پرہیز اور اس سے مکمل اجتناب اللہ کی بڑی نعمت ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ لغو سے پرہیز کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اگر لغو پر گزر ہوجائے تو شریفانہ انداز سے گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ لغویات میں ملوث کرنے کی کوشش کی جائے تو سلام کر کے وہاں سے الگ ہونے کی سعادت نصیب کرے‘ اور جنت عطا کرے جہاں لغو کا  کوئی گزر نہیں ہے۔

 

امکانات سے بھری اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ انسانوں میں کوئی انسان ایسا ہو جس کے اندر کوئی عیب اور نقص نہ ہو‘ وہ کبھی غلطی اور خطا کا ارتکاب نہ کرتا ہو‘ اس سے کبھی گناہ نہ ہوتا ہو۔ خامیوں کوتاہیوں‘ غلطیوں اور خطائوں کے وقوع کو روک دینا انسان کے بس میں نہیں البتہ ان کے وقوع کے امکانات کو کم سے کم کرنا ممکن ہے۔ خطائوں اور برائیوں کے سلسلے کی تاریخ جس قدر مختصر ہوتی ہے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے اور یہ تاریخ جس قدر طویل ہو چھٹکارا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔

خطائوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلی چیز انسان کا احساس ہے۔ پھر اس کا ارادہ و عزم اور جوش و جذبہ اس احساس کو عملی قالب میں ڈھالتے ہیں تو انسان کی زندگی گناہوں سے دور اور نیکیوں سے قریب تر ہوتی جاتی ہے۔

احساس سے مراد انفرادی احساس ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے آپ کو پڑھنے کی کوشش کرے‘ اپنے نفس کی خرابیوں کو پہچانے اور ان کو دور کرنے کا محکم ارادہ کرے۔ تحریک اسلامی کے ایک کارکن کے لیے اس عمل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وہ جب داعی الی اللہ کی حیثیت سے اصلاحِ عوام کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اپنا دامن ان گناہوں سے پاک ہونا چاہیے جن گناہوں کی آلودگی سے وہ لوگوں کا تزکیہ کرنے کے لیے اٹھا ہے۔ اسے مضبوط عزم اور ٹھوس کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ اسے اپنے ایمان‘ علم‘ اخلاق اور کردار کے لحاظ سے ممتاز اور منفرد ہونا چاہیے۔

اس وقت حالات کی دگرگونی کا عالم یہ ہے کہ ہر سمجھ دار اور حسّاس فرد امت اسلامیہ کی دینی و اقتصادی اور سیاسی و اجتماعی زندگی کی بدحالی کا ذکر افسوسناک انداز میں کرتا ہے۔ یقینا یہ احساس ایک اچھے مستقبل کی تمہید ہے۔ حالات کی بہتری کے لیے اسی طرح کا احساس درکار ہوتا ہے‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ بہتری کا یہ عمل کیسے ممکن ہو۔ کوئی پر امن راستہ کون سا ہے جس پر چل کر اصلاحِ امت کی اس منزل تک پہنچا جا سکے؟ اگر صرف ایک جملے میں اس کا جواب دیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’فرد اپنی اصلاح کر لے تو امت کی بگڑی سنور سکتی ہے‘‘۔ مگر یہ کس طرح ہو؟

محاسبۂ نفس: ضرورت و اھمیت

اصلاحِ نفس کے انداز و طریقے اور اسباب و ذرائع بے شمار ہیں۔ ہم صرف اس ایک ذریعے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس کو اختیار کر لیا جائے تو انسان تزکیہ و تربیت کے دیگر بہت سے ذرائع کی کمی کو از خود پورا کر سکتا ہے۔ یہ ذریعہ’محاسبۂ نفس‘ کا عمل ہے۔

اسلام کا پورا نظام دراصل فرد کی اصلاح کا ضابطہ پیش کرتا ہے۔ شریعت کے احکام کے علاوہ عقل و دانش کا تقاضا بھی ہے کہ مسلمان اپنی تربیتِ نفس کی طرف خصوصی توجہ دے۔ لہٰذا فرد کو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس نے کیا بھلائی کی اور کون سی برائی کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی فرائض کہاں تک ادا کر رہا ہے۔ اس جائزے کا مقصد اپنی آیندہ زندگی کو نکھارنے اور سنوارنے کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے محاسبۂ نفس کا تصور یوں دیا ہے:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر ۵۹:۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو‘ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے   کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔

امام ابن کثیر کہتے ہیں: ’’اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے پہلے خود ہی  اپنا محاسبہ کر لو اور دیکھو کہ تم نے قیامت کے روز اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کے لیے      کیا اعمالِ صالحہ جمع کیے ہیں‘ اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تمھارے تمام احوال و اعمال کو خوب جانتا ہے۔ اس سے تمھاری کوئی شے مخفی نہیں‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر‘ج۴‘ص ۳۶۵)

حدیث رسولؐ سے بھی اس ضمن میں رہنمائی ملتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَلْقَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ المَوْتِ‘ وَالعَاجِزُ مَنْ أَتْبَع نَفْسَہُ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ الأَمَانِیَّ (ترمذی:۶۴۵۹) سمجھ دار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو مطیع کر لیا اور بعد الموت کے لیے عمل کیا۔ اور بے بس وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگا دیا اور اللہ سے آرزوئیں کرتا رہا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامشہور قول ہے:’’اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے خود اپنا محاسبہ کر لو‘ اور اپنا وزن کیے جانے سے قبل خود اپنا وزن کر لو۔ یہ تمھارے لیے آسان ہے کہ کل کے حساب سے پہلے آج اپنا محاسبہ کر لو۔ اور بہت بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جائو‘ جس روز تم کو پیش کیا جائے گا تو تمھاری کوئی چیز مخفی نہیں ہو گی‘‘۔ (امام احمد‘ کتاب الزھد‘ ص ۱۷۷)

حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں:’’آدمی اس وقت تک بھلائی پر رہتا ہے جب تک اس کو وعظ و نصیحت کرنے والا اس کا اپنا نفس ہوتا ہے اور محاسبۂ نفس اس کی ترجیحات میں شمار ہوتا ہو‘‘۔

امام ابن قیم لکھتے ہیں: ’’غفلت‘ محاسبہ نہ کرنا‘ اصلاح کے کام کو مؤخر کرتے رہنا‘ اور معاملات کو معمولی خیال کرنا‘ یہ سب رویے تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور یہ دھوکے میں   مبتلا لوگوں کی حالت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ نتائج و عواقب سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور پیش نظر  صورت حال ہی کو دیکھتے اور معافی کے تصور پر انحصار کیے رہتے ہیں۔ وہ محاسبۂ نفس اور انجام پر  نظر رکھنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ جب انسان ایسی روش اختیار کرنے لگے تو اس کے لیے ارتکابِ گناہ کے مواقع آسان ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ گناہوں سے اس کو پیار ہونے لگتا ہے اور ان سے کنارہ کش ہونا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے‘‘۔ (اغاثۃ اللھفان‘ ج ۱‘ ص ۷۷‘۱۳۲)

ابن قیمؒ محاسبۂ نفس کے طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مفید طریقہ یہ ہے کہ آدمی سونے سے پہلے کچھ دیر کے لیے بیٹھ جائے اور اپنا محاسبہ کرے کہ آج  اس کو کیا خسارہ ہوا اور کیا منافع؟ پھر از سر نو اللہ کے سامنے خالص توبہ کرے اور اس عزم کے  ساتھ سوجائے کہ اب وہ بیدار ہو کر گناہ نہیں کرے گا۔ یہ عمل وہ روزانہ رات کو سوتے وقت انجام دے۔ اگر وہ ایسے عمل پر کسی روز فوت ہو گیا تو وہ توبہ پر فوت ہو گا‘ اور اگر بیدار ہو گا تو عملِ صالح کی طرف متوجہ ہوتا ہوا بیدار ہو گا۔(کتاب الروح‘ ص ۷۹)

عقیدے کی درستی

انسان کو اپنے جن اعمال و افکار کا جائزہ لینا چاہیے اور محاسبہ کرنا چاہیے ان میں سرفہرست عقیدہ ہے۔ عقیدے کی درستی‘ توحید اور شرک خفی و شرکِ اصغر سے دُوری… عموماً ایسا مسئلہ ہے جس کی جانب لوگ توجہ نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ہی دیگر ایسے اعتقادات اور اعمال بھی ہیں جو توحید کے منافی ہوتے ہیں یا عقیدۂ توحید کو کمزور کرتے ہیں۔ دراصل توحید کا عقیدہ و تصور ہی انسان کو فرائض کی ادایگی پر آمادہ کرتا ہے‘ مثلاً پانچ وقت کی نماز با جماعت کا اہتمام‘ والدین کے ساتھ اچھا برتائو‘ رشتہ داری کو قائم رکھنا‘ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادایگی‘ پھر تمام چھوٹے بڑے محرمات و منکرات سے دور رہنا اور سنت و نفل اعمال و افعال کو انجام دینا۔ ان تمام صالح امور کی انجام دہی اور ممنوع امور سے اجتناب کے اہتمام پر یقینا انسان کے عقیدے کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ عقیدہ جس قدر قوی و مستحکم ہو گا اعمال کی ادایگی اسی قدر اہتمام سے ہو گی اور عقیدے میں کمزوری ہو گی تو اعمال کی ترتیب‘ ترجیح اور اہمیت بھی متاثر ہو گی۔

وقت کی صحیح قدر

دوسری اہم چیز جس پر ایک فرد کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ’وقت‘ ہے۔ فرد کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ’وقت‘ سے کیسے اور کس قدر استفادہ کر رہا ہے۔ دراصل وقت ہی اس کی عمر اور اصل مال ہے اور یہ ضائع ہو گیا تو انسان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس اصل سرمایے کو خیر کے کاموں میں صرف کیا ہے یا برائی کے کاموں میں برباد کیا ہے۔ وقت کا استعمال برائی اور بھلائی کے علاوہ بھی ہوتا ہے اور وہ وقت کو بے مقصد اور فضول کاموں میں ضائع کرنا ہے۔ وقت کو اگر برے کام میں ضائع نہیں کیا اور اچھے کام میں بھی استعمال نہیں کیا گیا تو یہ بھی وقت کا ضیاع ہی ہے۔ وقت‘ یعنی انسان کی عمر سے متعلق رسول اکرمؐ نے فرمایا:’’قیامت کے روز جب تک چارچیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا انسان اپنے قدم ہلا نہیں سکے گا۔ ان چار چیزوں میں سے ایک چیز ’وقت‘ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں ختم کیا اور جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کن کاموں میں کھپایا‘‘۔

محاسبۂ نفس اور توبہ

محاسبۂ نفس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان تمام رویوں‘ روشوں‘ اعمال و افعال اور   افکار و خیالات سے دامن کش ہو جائے‘ جن کا خلافِ شریعت اور منافی ِاخلاق ہونا ثابت ہو۔ کوتاہی اور گناہ کے چھوٹے ہونے کو معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے غلطی اور گناہ سمجھتے ہوئے اس کو اپنے  عمل کے دائرے سے خارج کر ڈالنے کے لیے کمر ہمت باندھنی چاہیے۔ یہ کام توبہ سے ہوتا ہے۔ غلط اعمال و افکار کا تعلق اگر براہِ راست شریعت سے ہو تو بھی توبہ ہی ان کی تطہیر کرتی ہے اور اگر انسانی رویوں سے ہو تب بھی توبہ ہی ان سے خلاصی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: ’’گناہوں سے توبہ فوراً ضروری ہے۔ اس کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔ اگر گناہ گار عملِ توبہ کو مؤخر کرے گا تو اپنی اس تاخیر میں اللہ کی نافرمانی کرے گا۔ اگر وہ توبہ تاخیر سے کرے گا تو گناہ سے اس کی توبہ کا فرض تو پورا ہو جائے گا مگر تاخیر کی غلطی کی توبہ اس کے ذمے باقی رہے گی۔ چونکہ یہ کوتاہی گناہگاروں کی عمومی روش ہوتی ہے‘ اس لیے اس سے نجات کا طریقہ یہ ہے کہ معلوم اور نامعلوم تمام گناہوں سے توبہ کی جائے‘‘۔ (مدارج السالکین ج۱‘ص ۲۷۲-۲۷۳)

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح گناہگاروں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور گناہوں سے تائب ہونے کی ضرورت ہے‘ اس طرح مطیع اور فرماںبردار لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا جس پر توبہ کرنا فرض ہے یا وہ یہ سمجھے کہ اسے توبہ کی ضرورت نہیں‘ وہ شخص دراصل غلط فہمی کا شکار ہے۔ وہ اپنے نفس کے دھوکے میں آجاتا ہے۔ وہ اپنے ذاتی کمال کے بھرے میں آ کر اپنے آپ کو بے گناہ سمجھ لیتا ہے۔ ایسا خیال جب تک انسان کے دماغ میں رہے‘ اس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شیطان نے اس کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اسی بنا پر بعض انسان اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور گناہوں پر اصرار کرتے ہیں۔

امام ابن تیمیہؒ اس سلسلے میں کہتے ہیں:’’انسان ہمیشہ اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمت پر اس کا شکر کرنے اور گناہ پر معافی مانگنے کی دو حالتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ دونوں امور     ہمیشہ انسان کے ساتھ لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اللہ کی نعمتوں میں زندہ رہتا ہے اور    ہمیشہ اسے توبہ و استغفار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم کے سردار اور متقیوں کے امام جناب محمد رسولؐ اللہ ہر حالت میں اللہ سے استغفار کرتے رہتے تھے‘‘۔(فتاویٰ ابن تیمیہ‘ ج ۱۰‘ ص ۸۸)

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو عمومی انداز میں مخاطب کرتے ہوئے انھیں خالص توبہ کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التحریم ۶۶:۸)’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے توبہ کرو‘ خالص توبہ‘‘۔ دوسری جگہ فرمایا: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹:۵۳) ’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘ وہ تو غفور رحیم ہے‘‘۔

گناہ کے بعد توبہ مومن کی صفت خاص ہے‘ اس کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اپنے بندوں کی قابل تعریف صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْص وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ص وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۵) (ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں) اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سر زد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اُوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً ً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے‘ اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو۔ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔

انسان سے غلطی اور خطا کا صدور ہر وقت ممکن ہوتا ہے اس سے کوئی انسان مبرا نہیں‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا: کُلُّکُمْ خَطَّائٌ وَ خَیْرُ الخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُون ’’تم میں سے ہر کوئی خطا کرسکتا ہے اور اپنی خطائوں پر توبہ کر لینے والے بہترین خطا کار ہیں‘‘۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا‘ حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرِ‘ یَقُولُ: مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبُ لَہُ‘ مَنْ یَسْأُلُنِی فَأُعْطِیْہِ‘ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرُ لَہُ (صحیح بخاری) ’’جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرما ہوتا ہے اور اعلان کرتا ہے: کوئی ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار کا جواب دوں‘ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کو عطا کروں‘ کوئی ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے میں اس کو معاف کر دوں‘‘۔

ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ تَعالٰی یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّھَارِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا (بخاری) ’’اللہ تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے۔ اور دن کوہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ را ت کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے یہاں تک کہ سورج اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع ہونا شروع ہو جائے‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے درِ توبہ قربِ قیامت تک کھلا ہے‘ جو بھی اس کی طرف بڑھے‘ لپکے یا دوڑے اس کو یہ دروازہ   بند نہیں ملے گا۔ وہ رات کو جائے یا دن کی روشنی میں اسے ہر وقت اللہ تعالیٰ اپنے دامنِ عفو میں چھپالینے کے لیے تیار ہے۔

گناہ کے عام مفہوم کے متعلق یہ غلط فہمی دور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ گناہ صرف چوری‘ زنا اور غیبت جیسے برے کام ہی نہیں ہوتے بلکہ شریعت کے فرائض کو ادا نہ کرنا‘ یا ان کی ادایگی میں کمی یا کوتاہی کرنا بھی گناہ ہے‘ مثلاً نماز ادا نہ کرنا‘ یا مکمل طور پر ادا نہ کرنا‘ اس کے اوقات میں ادا کرنے سے سستی کرنا‘ جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنا‘ خشوع و خضوع سے ادا نہ کرنا۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا نہ کرنا‘ یا اللہ کی طرف دعوت دینے میں غفلت کرنا‘ یا مسلمانوں کے مسائل و معاملات سے سروکار نہ رکھنا‘ یا ایسے دیگر فرائض جن کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

گہرا ایمان اور اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ خوف رکھنے والے مسلمان کے نزدیک گناہ چھوٹے بڑے نہیں ہوتے۔ اس کے نزدیک تو تمام گناہوں پر توبہ فرض ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک تمام خطائیں اللہ کے حق میں گناہ ہوتی ہیں۔ کسی بزرگ نے کہا ہے: گناہ کے چھوٹا ہونے کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ گناہ کر کے نافرمانی کس کی کر رہے ہو۔

حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اِیَّاکُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ، فَاِنَّمَا مَثَلُ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ کَمَثَلِ قَومٍ نَزَلُوا بَطْنَ وَادٍ‘ فَجَائَ ذَابِعُودٍ‘ وَجَائَ ذَابِعُودٍ، حَتّٰی حَمِلُوا مَا أَنْضَجُوا بِہٖ خُبْزَھُمْ ، وَاِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتٰی یُؤْخَذُ بِھَا صَاحِبُھَا تَھْلْکُہُ (روایت‘ امام احمد بن حنبل ۵/۳۳۱) ’’گناہوں کو معمولی نہ سمجھو‘ گناہوں کو معمولی سمجھنا ایسا ہے جیسے کوئی قوم کسی جگہ پر (دوران سفر) ٹھہری اور کوئی اِدھر سے ایک لکڑی اٹھا لایا اور کوئی اُدھرسے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اس قدر لکڑیاں اکٹھی کر لیں جس سے ان کی روٹیاں پک سکیں۔ اور گناہوں کو معمولی سمجھنے کی بنا پر جب کسی انسان کو پکڑا جائے گا تو یہ روش اس کو ہلاک کر ڈالے گی‘‘۔

محاسبۂ نفس اور دعا

جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتا ہے اور آیندہ کے لیے اپنی دامن بچانے کا عہد کرتا ہے تو اس کے ذمے ایک فرض عائد ہو جاتا ہے۔ انسان جس قدر کوشش کرتا ہے اس کو اسی قدر اس کا صلہ ملتا ہے۔ لیکن ایک مؤمن کا معاملہ محض کوشش ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ وہ اس کوشش کو اللہ کی توفیق سے وابستہ کرتا ہے۔ وہ نیکی کرتا ہے تو اللہ کی حمد بیان کرتا ہے کہ اس نے اسے نیکی کرنے کی توفیق بخشی‘ گناہ سے بچتا ہے تو بھی اللہ کا شکر کرتا ہے کہ اللہ نے اسے گناہ سے بچا لیا۔

اس تناظر میں دیکھیں تو نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کے لیے توفیق ایزدی کا ہونا ہمارے ایمان کا جزو قرار پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس توفیق ایزدی کے حصول کے لیے مومن کو دعا کا طریقہ بتایا گیا ہے۔

مسلمان معاشروں کے انفرادی و اجتماعی تمام دائروں میں دعا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ فرد کی ذاتی اصلاح اور محاسبۂ نفس میں اس کی ضرورت و اہمیت سے وہی شخص حقیقتاً آگاہ ہو سکتا ہے جو اس تجربے سے گزرا ہو۔ دعا دراصل انسان کا اللہ کے سامنے بے بسی‘ عاجزی اور فقیری کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت اور سطوت و جبروت کا اعتراف ہوتا ہے۔ دعا کی ترغیب خود  اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی ہے:

وقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔

دوسری جگہ فرمایا:

اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ ۲:۱۸۶) پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے‘ میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا: مَا عَلَی الأَرْضِ مُسْلِمٌ یَدْعُو اللّٰہَ بِدَعْوَۃٍ اِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ اِیَّاھَا‘ أَوْصَرَفَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَھَا‘ مَا لَمْ یَدَعْ بِـاِثْمٍ أَوْقَطِیْعَۃِ رَحِمٍ(ترمذی) ’’روے زمین پر جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا پوری کر دیتا ہے‘ یا مطلوبہ چیز کے مثل کوئی شر دفع کر دیتا ہے۔ (قبولیت کا یہ حق اسے اس وقت تک حاصل رہتا ہے) جب تک وہ کسی گناہ کے لیے یا رشتے داری توڑنے کے لیے دعا نہ کرے‘‘۔

یہ بات سن کر ایک شخص بولا تب تو ہم بہت زیادہ دعا کیا کریں گے۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ اس سے بھی بہت زیادہ دے سکتا ہے۔

ایک حدیث میں اس شخص کو بے بس کہا گیا ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہو۔ فرمایا: أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعَائِ (جامع ترمذی) ’’لوگوں میں سب سے زیادہ بے بس وہ شخص ہے جو دعا نہ کر سکتا ہو‘‘۔

رسول اکرمؐ نے تزکیہ نفس اور دعا کے باہمی تعلق کو صراحت سے بیان فرمایا ہے کہ یہ تزکیہ کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے فرمایا: اِنَّ الاِیْمَانَ لَیَخْلُقُ فِیْ جَوْفِ أَحَدِکُمْ کَمَا یَخْلُقُ الثَّوْبُ‘ فَسَلُوا اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یُجَدِّدَ الاِیْمَانَ فِی قُلُوبِکُمْ(طبرانی‘ حدیث حسن) ’’جس طرح کپڑا پرانا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم میں سے کسی کے پیٹ (مراد دل) میں موجود ایمان بھی پرانا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعا کرتے رہو کہ وہ تمھارے دلوں میں موجود ایمان کی تجدید کرتا رہے‘‘۔

جو شخص دعا کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے‘ گویا اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اسے خیر کی توفیق اور  راہ راست کی طرف ہدایت کے لیے اللہ کی نصرت کی خصوصی ضرورت ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ توفیقِ الٰہی مجھے میسر نہ رہی تو میں دنیا و آخرت میں سراسر خسارے میں رہوں گا۔ اس احساس کو جس قدر مضبوط کیا جائے اس کے فوائد اسی قدر بڑھتے جائیں گے۔ مسلمان کی زندگی میں اسے عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحے بڑھتے رہنا ضروری ہے۔ جب اسے احساس کی یہ توفیق میسر ہو گی   تو وہ ہر لمحے اپنی دعا کی قبولیت کے لیے اللہ سے پُرامید رہے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ الحاح اور    آہ و زاری کے ساتھ اللہ سے اپنی حاجت طلب کرے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کی صلاح و سلامتی کے لیے دعا گو رہے گا۔ ہمیشہ اللہ کی عبادت اور ذکر و شکر کی توفیق مانگتا رہے گا۔

یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ رات کی آخری تہائی‘ اذان اور اقامت کا درمیانی وقت اور حالت سجدہ قبولیت ِدعا کے بہترین اوقات ہیں۔

محاسبۂ نفس کے یہ تمام ذرائع دراصل انسان کی تربیتِ نفس کے ذرائع ہیں‘ اور شریعت کا مقصود نفس کی تربیت ہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو الٰہ بنا کر زندگی بھر ان کی پیروی نہ کرے بلکہ نفس کو ایک ضابطے اور قاعدے کا پابند بنا کر محفوظ اور پُرامن راستے پر چلائے‘ جو اس کو کامیابی و کامرانی کی منزل پر پہنچا دے۔ قرآن مجید نے اس تزکیے کو کامیابی کا ذریعہ بتایا ہے‘ فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷:۱۴-۱۵) فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمّس ۹۱:۹‘۱۰) یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔

اس سفر تربیت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے: محاسبہ نفس‘ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے اور تزکیہ نفس کامرانیِ نفس کا باعث ہے۔ اس کامیابی کا دوسرا نام خوشنودیِ رب ہے جسے حاصل کرنا مومن کی زندگی کا مقصود و مطلوب ہے۔