وقت اور اس کی ترتیب و تنظیم ایک اہم علمی، سائنسی اور تکنیکی موضوع بن چکا ہے۔ اس موضوع پر سیمی نارز اور ورک شاپس منعقد کرائی جارہی ہیں اور کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ وقت کی ترتیب وتنظیم کا شعور و ادراک مغربی دنیا میں مخصوص مادی مسائل کے باعث صرف نصف صدی سے زیادہ قدیم موضوع نہیں ہے۔ لیکن وقت کی اہمیت اور اس سے متعلق جملہ امور کے بارے میں قرآن کریم اور نبی کریمؐ نے ۱۴۰۰ سال پہلے دنیا کو آگاہ کردیاتھا۔ یہ ہماری بدنصیبی نہیں تواور کیا ہے کہ مغربی اور دیگر اقوام نے وقت کی اہمیت کا بروقت احساس کرکے دنیوی شعبوں میں ترقی کرلی اور ہم سے آگے نکل گئے مگر ہم وقت کی اہمیت کو فراموش کرکے ہر میدان میں پیچھے رہ گئے۔
سید مودودیؒ اپنی معرکہ آرا تفسیر تفہیم القرآن میں سورۃ العصر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہاہے وہ دراصل وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیزی کے ساتھ گزررہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا، حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت تھوڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیںایسی بھی ہو سکتی ہیں جو اس سے بھی تیز رفتارہوں ’خواہ وہ ابھی ہمارے علم میںنہ آئی ہوں، تاہم اگر وقت کے گزرنے کی وہی رفتار سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے اور اس بات پر غور کیا جائے تو ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں سب کچھ اسی محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزرا جارہاہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، ص ۴۵۰)
وقت کی اہمیت و افادیت کو حضوراکرمؐ نے متعدد مواقع پر مختلف انداز سے امت کی رہنمائی اور فلاح و کامرانی کے لیے بیان فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن میمونؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’پانچ حالتوں کو پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہو وہ اٹھالو.....غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے، تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے، خوشحالی اور فراخ دستی کو ناداری اور تنگدستی سے پہلے، فرحت اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘ (الترغیب و ترھیب)۔ اس حدیث مبارکہ میں جن حالتوں کو بیان کیا گیا ہے وہ ہمارے لیے وقت کے استعمال اور ترجیحات سے متعلق رہنمائی کا نمونہ ہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں وقت کی چار بنیادی خصوصیات ہیں:
۱- اس کائنات میں ہر جان دار و بے جان مخلوق کا ایک وقت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا مقدر اور وقت مقرر کررکھا ہے اور یہ مقدر اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے۔دنیا میں ہر انسان کے نہ صرف پیدا ہونے اور مرنے کا وقت مقرر ہے بلکہ اس کے ہر کام کا وقت مقرر ہے، حتیٰ کہ ہماری سانسیں بھی مقرر ہیں کہ کتنی سانسیں بندہ اس دنیا میں لے گا۔
۲- وقت گزرنے والی چیز ہے۔ وقت لمحہ بہ لمحہ گزر رہا ہے اور گزر جائے گا۔امام رازیؒ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’وقت کی مثال ایک برف والے کی طرح ہے جو پکار پکارکر کہہ رہا ہے کہ دیکھومیرا زندگی کا سرمایہ گھلا جارہا ہے اور اگر یہ برف کارآمد نہیں ہوئی تو یہ رکھے رکھے گھل جائے گی اور ختم ہوجائے گی۔(تفہیم القرآن ،ج ۶، ص ۴۵۰)
۳- تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا ہر سیکنڈ اور لمحہ جو گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ انسان جو پیسہ خرچ کرلے وہ دوبارہ کمایا جاسکتاہے لیکن وہ وقت جو گزر گیا واپس نہیں آسکتاہے ۔حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ہر آنے والا دن جب شروع ہوتا ہے تو وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے انسان! میں ایک نوپیدا مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، تو مجھ سے کچھ حاصل کرلے، میں تو اب قیامت تک لوٹ کر نہیں آئوں گا۔
۴- وقت کے ایک ایک لمحے کا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔ حدیث میںآتا ہے کہ ’’ حشر کے میدان میں آدمی آگے نہ بڑھ پائے گا جب تک کہ پوری زندگی کا حساب نہ دے لے۔ پوچھا جائے گا کہ عمر کہاں گزاری، جوانی کیسے گزاری، مال کس طرح کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جو علم حاصل کیا اس کو کس طرح استعمال کیا(الترغیب و ترھیب)۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر نہ ہو‘‘۔ سرورکائناتؐ کا ایک اور فرمان ہے: ’’مومن کے لیے دو خوف ہیں: ایک اجل جو گزر چکا ہے معلوم نہیں خدا اس کا کیا کرے گا اور ایک اجل، جو ابھی باقی ہے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اس میں کیا فیصلہ صادر فرمائے؟ لہٰذا انسان کو لازم ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لیے اور دنیا سے آخرت کے لیے ،جوانی سے بڑھاپے کے لیے اور زندگی سے قبل موت کے لیے کچھ نفع حاصل کرلے‘‘۔
اصل مسئلہ وقت کی کمی کا نہیں بلکہ ترجیحات کے تعین کا ہے۔اگر ہم طے کرلیں کہ کون سی چیز یا کام ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے، دوسری ترجیح کیا ہونی چاہیے، اور تیسری ترجیح کیا ہو، تو وقت کی کمی کا مسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔حضوراکرمؐ کی پوری ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جس دن حضوؐر نے قرآن نہ پڑھا ہو اور دوسروں کو پڑھ کر نہ سنایا ہو۔یہ ان کی زندگی کی ترجیح تھی اوران کے صحابہ ؓ کی زندگی کی ترجیح تھی۔حضوراکرمؐ کے صحابہؓ اتنا قرآن پڑھتے تھے کہ حضوراکرمؐ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ کوئی تین دن سے کم میں قرآن ختم نہ کرے‘‘(حدیث)۔ اگر ہماری بھی ترجیحات وہی ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کی ہیں تو ہمارے لیے وقت کی کمی کا کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔حضوراکرمؐ اور صحابہؓ کے بعض خطبوں کا ابتدائی جملہ یہ ہوتا تھاکہ ’’ اے لوگو! تمھاری زندگی گزرتی چلی جارہی ہے۔ یہ اچانک کسی پل ختم ہوجائے گی، جو وقت گزر گیا وہ تو گزر گیا لیکن جو آنے والا ہے اس کی فکر کرو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی جنت کے لیے کچھ مال جمع کرلو‘‘۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’بندہ کا صرف وہی ہے جو اس نے کھا لیا یاپہن لیا یا آگے بھیج دیا۔ جو اس نے خرچ نہیں کیا وہ سب وارثوں کا مال ہے‘‘۔(سنن کبریٰ، بیہقی)
ہمارے نزدیک وقت کی ترتیب و تنظیم کے دو بنیادی مقاصدہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ ہم اس بات کا اہتمام اور کوشش کریں کہ ہمارے وقت کا کوئی ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایمان والوں کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ وہ اپنے وقت کو لغویات میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں(معارف القرآن، سورئہ مومنون)۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ جو ۲۴ گھنٹے ہمیں روزانہ ملتے ہیں اس میں ہم کتنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے فرائض کی ادایگی اور اللہ تعالیٰ کے عائدکردہ حقوق کی ادایگی کے لیے نکالتے ہیں، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وقت میں اضافے کے لیے اور وقت کی کمی کو دور کرنے کے لیے بہت سارے طریقے ہمیں اللہ کے رسولؐ کی احادیث میں ملتے ہیں،نیزجدید دور میں وقت کے ضیاع کے حوالے سے تحقیقات نے بھی ہماری رہنمائی کے کچھ نکات متعین کردیے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اصول و نکات درج ہیں۔
حضوراکرمؐ کی بہت ساری احادیث ہیں جن میں آپؐ نے فرمایا کہ صبح سویرے اُٹھو گے تو اس کے نتیجے میں تمھارے رزق و مال میں برکت ہوگی، اور اگر صبح نہیں اُٹھو گے تو پریشان و رنجیدہ رہو گے۔ایک دن حضوراکرمؐ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کے پاس صبح کے وقت تشریف لے گئے۔ وہ آرام فرما رہی تھیں۔ حضوراکرمؐ نے ان کو جگاتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹی! اُٹھو، اپنے رب کے رزق کی تقسیم کے وقت حاضر رہو اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ بنو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طلوعِ فجر اور طلوعِ شمس کے درمیان لوگوںکا رزق تقسیم کرتے ہیں‘‘۔
صبح جلدی اٹھنے اور فجر کے بعد نہ سونے کے نتیجے میں ہم کو دن میں کئی گھنٹے اضافی مل جاتے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ صبح ۶ بجے سے ۸ بجے کے وقت کو جسے دنیا میں پرائم ٹائم کہا جاتاہے ہم سونے میں گزار دیتے ہیں۔امام ترمذیؒ نے حضوراکرمؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما‘‘۔ایک مشہور چینی روایت ہے کہ ’’جو آدمی صبح جلدی اُٹھتا ہے اس کو دولت مند بننے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔
جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ انسان رات کو ۹ بجے کے بعد جو کام ایک گھنٹے میں کرتا ہے صبح کے اوقات میں وہی کام صرف ۲۰ منٹ میں کرلیتا ہے۔اس دن اور رات میں ایک وقت ایسا بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پرائم ٹائم قرار دیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ رات کے آخری پہر میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر آجاتے ہیں اور منادی کردیتے ہیں کہ مجھ سے مانگو میں تمھیں دوں گا، مجھ سے طلب کرو میں تمھاری ضرورت کو پورا کروں گا‘‘(بخاری)۔ پورے ۲۴ گھنٹوں میں اس سے زیادہ قیمتی وقت کوئی نہیں ہے اوروقت کی ترتیب و تنظیم اس بات کا ہی نام ہے کہ انسان اپنے پرائم ٹائم کو سب سے بہترین طریقے سے استعمال کرسکے۔دنیا میں کوئی لیڈر شپ ایسی نہ ہوگی جس کو کوئی بڑی کامیابی ملی ہو اور وہ سحر خیزی کی عادی نہ ہو۔اگر ہم صبح ۵ بجے اُٹھ جائیں تو جو کام دن میں ہم ۳گھنٹے میں کرتے ہیں وہ صبح میں ایک گھنٹے میں ہی کرلیں گے۔ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمارا دن ختم ہی نہیں ہورہا ہے۔ اس سنت کو اپنائے بغیر اور اس عادت کو اختیار کیے بغیر ہمارے لیے نہ اُخروی کامیابی ممکن ہے اور نہ دنیاوی برتری ہی۔
ہرفرد کو چاہیے کہ اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کرے کہ مجھے اپنے اوقات کا کتنا حصہ معاش کے لیے صرف کرنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر آدمی کی روزی اور اس کا رزق مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا ہمارے مقدر میں لکھاہے اُتنا ہی ہمیں ملے گا، چاہے ہم ۸گھنٹے کام کریں یا ۱۶گھنٹے۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’روزی انسان کا پیچھا کرتی ہے‘‘(الترغیب و ترھیب)۔ ’’رزق میں کمی یا تاخیر سے پریشان نہ ہو اورروزی کو کمانے میں خوش اسلوبی سے کام لو‘‘۔ (ایضاً)
انسان کی جسمانی استطاعت کے بارے میں محققین کہتے ہیں کہ کوئی بھی آدمی جب اپنے معاش کے لیے آٹھ گھنٹے سے زیادہ صرف کرتاہے تو اس کا زائد صرف کردہ وقت کارآمدنہیں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں میں ۸گھنٹوں سے زیادہ کی ملازمت نہیں ہوتی۔اور یہ کہا جاتاہے کہ آدمی انھی اوقات میں زیادہ سے زیادہ کام کرکے اپنے حصے کا کام پورا کرے۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کریں جو ۸ گھنٹے سے زیادہ نہ ہو۔انھی گھنٹوں میں پوری قوت اور توانائی کے ساتھ کام کریں۔بہت سارے لوگوں نے تجربہ کرکے یہ سیکھا ہے کہ واقعی جو کام ہم ۱۲ اور ۱۴ گھنٹوں میں کررہے تھے وہی کام اب ہم آٹھ گھنٹوں میں کرسکتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہم اپنے اوقات میں کافی اضافہ کرسکتے ہیں۔
روزمرہ معاملات میں ہم بعض اوقات تکلف یا تعلق کی وجہ سے وعدہ کرلیتے ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے اس وعدے کوپورا نہیں کرپاتے۔ اس کے نتیجے میں جن سے ہم وعدہ کرتے ہیں وہ بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور ہماری ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ۔اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ فرد کسی کو وقت دینے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرلے کہ یہ ممکن بھی ہو گا یا نہیں۔ معذرت کرنا کوئی گناہ کا کام نہیں لیکن وقت دینے کے بعد نہ پہنچنا عہد کی خلاف ورزی ہے۔ مغربی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے ’نہیں‘ کہنا سیکھ لیا ہے تو آپ نے گویا اپنا آدھا وقت بچا لیا۔
وقت کو ضائع کرنے والی چیزوں میں سب سے پہلا نمبر ٹیلی وژن کا ہے۔ ایک عام امریکی دن میں ۳ سے ۴ گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے، جب کہ پاکستان میںاوسطاً لوگ روزانہ دو سے ۳گھنٹے ٹیلی وژن کے سامنے گزارتے ہیں۔ ٹیلی وژن کے بعد اب دوسرا نمبر موبائل فون کا ہے۔ ہمیں یہ اندازہ کرنا چاہیے کہ روزانہ ہم کتنے گھنٹے ٹیلی فون پر صرف کرتے ہیں۔ اوسطاً ایک موبائل فون پر روزانہ ۲۰ کالز اور ۱۲ ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں۔اگر آپ اس وقت کو کنٹرول نہیں کرسکیں گے تو روزانہ ایک سے ۲گھنٹے فون کا اور ایس ایم ایس کا جواب دینے میں لگ جائیں گے۔اپنے ٹیلی فون پر گزرے ہوئے وقت کا اندازہ اور تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو اس حوالے سے ایک نظم میں لانے کی ضرورت ہے، اگر ہم ہر فون کال کا جواب اُسی وقت دینا چاہیں گے تو ہم نہ آرام کرسکتے ہیں نہ کوئی سنجیدہ کام اور نہ کوئی میٹنگ ہی پوری توجہ کے ساتھ کرسکتے ہیں، فون ہمارے وقت کو ضائع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کو کنٹرول کیے بغیر ہم اپنے وقت کو قابو نہیں کرسکیں گے۔اسی طرح ہماراجو وقت ٹیلی وژن کے سامنے ضائع ہوتا ہے، اس کو بھی کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے میں دیے گئے وقت کی پابندی کا اہتمام نہ ہونے کے کلچر کی وجہ سے روزانہ کئی گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔بالعموم میٹنگز اور پروگرامات دیے گئے وقت سے ۲۵،۲۰منٹ بعد شروع ہوتے ہیں۔کچھ لوگ وقت پر آجاتے ہیں اور کچھ لوگ دیر سے آتے ہیں۔اس کے نتیجے میں جو وقت پرآجاتا ہے اس کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے اور جس نے بلایا ہوتا ہے اس کا بھی۔ اگرہم اس کا تعین کریں تو روزانہ آدھا یا پوناگھنٹہ انتظارمیں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس انتظار کے وقت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اپنے دائروں میں انتہائی ممکنہ حد تک وقت کی پابندی کا اہتمام کریں اور کروائیں توسب کے وقت کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بہ یک وقت ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ اور ہم انھیں ایک ساتھ کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ وہ کام بھی اچھی طرح سے پورا نہیں ہوپاتا۔بہتر یہ ہے کہ اگر کئی کام ہمارے سامنے ہوں تو ہم اس کی ترجیحات طے کریں۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ ضروری اور فوری ہو، اس کو مکمل کریں اور اس کے بعد دوسری ترجیح کا کام شروع کریں۔اس کے نتیجے میں نہ صرف ہم اپنے وقت کو بچانے میں کامیاب ہوں گے بلکہ ان کاموں کو بھی موثر طور پر بروقت مکمل کرسکیں گے۔
بعض اوقات ایک ہی وقت میں ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ ہم ایک کام شروع کرتے ہیں لیکن اس کو پورا کیے بغیر دوسرا کام شروع کردیتے ہیں۔مثلاًدفتری زندگی میں روزانہ بہت سے خطوط اور نوٹس ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم ان کو پڑھتے ہیں اور پھر رکھ دیتے ہیں۔ ایک دو دن کے بعد انھیں پھر دوبارہ پڑھتے ہیں اوررکھ دیتے ہیں، اور پھر تیسری دفعہ اس پر کام شروع کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میںجو خط ہم ایک ہی دفعہ پڑھ کر کام کرسکتے تھے اس کو تین دفعہ پڑھنے کے بعد اس کام کو کرپاتے ہیں۔اسی طرح توجہ اور تجاویز کے ضمن میں بہت ساری چیزیں ہمیں موصول ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے جواب دینے کے وقت کو کم سے کم کریں۔ اس کا طریقہ بھی یہی ہے کہ جو کام ہمیں خود کرنے ہیں ان کی ترجیح متعین کریں، اور جو کام دوسروں کے حوالے کرنے ہیں ان کو فوری طور پر دوسروں کے سپرد کردیں۔
روزمرہ کے کاموں میں بہت سے کام ہمارے پاس ایسے ہوتے ہیں جو اگر دوسروں کے سپرد کردیے جائیں تو کام بھی بہتر انداز میں ہوجائے گا اور وقت بھی بچے گا۔ اگر ہم سارے کام خود کرنے کی کوشش کریں گے، مثلاً رپورٹیں بھی خود بنائیں گے، اس کو خود ہی بھیجیں گے بھی، ہر چیز کا ریکارڈ بھی خود رکھیں گے اور جائزہ بھی خود لیںگے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے وقت کا ضیاع ہو گا بلکہ کام بھی بہتر طریقے سے نہیں ہو سکے گا۔اس کو Micro Management کہتے ہیں جو کہ وقت کے ضیاع کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس کا علاج کام دوسروں کو تفویض یا سپرد کرنا ہے اور پھر اس کا جائزہ لیتے رہنا ہے تاکہ ہدف بروقت حاصل ہوسکے۔
مختصر گفتگو ایک فن ہے۔ حضوراکرمؐ کے جو خطبات تحریری صورت میں احادیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ان سب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختصر ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ صحابہؓ کے سامنے حضور اکرمؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کو پڑھنے میں صرف ۷منٹ لگتے ہیں۔ اسی طرح صحابہؓ کے خطبے بھی مختصر ہوتے تھے۔حضوراکرمؐ کے خطبات کی ایک خصوصیت اختصار کے ساتھ ساتھ تکرار بھی تھی۔ حضور اکرمؐ ایک ہی بات کو دو تین دفعہ بیان کرتے تھے تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ جدید سائنسی تحقیق سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی فرد ایک گھنٹے کی تقریر توجہ سے سنے تو اس کا صرف ۱۰ فی صد اگلے دن تک یاد رکھ سکتا ہے۔ مختصر گفتگو میں یہ تناسب بڑ ھ کر ۲۵فی صد تک ہوجاتا ہے۔ ہم جتنی طویل گفتگو یا خطاب کریں گے، اس کا استحضار اتنا ہی کم ہوگا۔
اپنی بات کو مختصر کرنے کی عادت ڈالیں اور اس کی تیاری کریں۔ مشہور برطانوی سیاست دان چرچل کا کہنا ہے کہ اگر مجھے تین گھنٹے تقریر کرنی ہو تو میں تیاری نہیں کرتا بس بولتا چلا جاتا ہوں، اور اگر ۱۵منٹ تقریر کرنی ہو تو ۳گھنٹے اس کی تیاری کرتا ہوں۔یہ ایک صلاحیت ہے جس کو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے کہ بات مختصر اور نکات کی صورت میں کی جائے۔ اس سے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت بچتا ہے۔ اگر کسی میٹنگ میں ۱۰، ۱۵ لوگ ہوں اور سب ۱۰سے ۱۵منٹ گفتگو کریں تو ۱۵۰منٹ ہوجاتے ہیں۔ اگر ہر آدمی اپنی بات ۳منٹ میں مکمل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو ۴۵منٹ میں بات مکمل ہوجائے گی۔ دعوتی کام کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ بات جامع اور مختصر ہو اور تکرار کے ساتھ ہو تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ گفتگو کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے اس بات کا تصور ضرور کریں کہ جو الفاظ بھی ہم بولیں گے اس کا پورا پورا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کے ہاں دینا ہوگا۔
احادیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ حضوراکرمؐ نبوت و رسالت اور اسلامی ریاست کے سربراہ ہونے کی گراں بہا ذمہ داریوں کے باوجود بھی اپنے گھر والوں کے لیے اور تفریح کے لیے وقت نکالتے تھے۔دین کے کام کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھا سکے، گھر کے کام کاج میں ہاتھ نہ بٹا سکے یا تفریح نہ کرسکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ حضوراکرمؐ اپنی ساری بیویوں کو جمع کرکے ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے ، گفتگو کرتے تھے، ہنسی مذاق کرتے تھے،گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے اور اپنے نواسوں کو جمع کرکے ان کے درمیان کشتی کرواتے تھے۔ یہ ساری چیزیں ہماری زندگی کا بھی حصہ ہونا چاہییں۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں اس بات کو بھی شامل کرنا چاہیے کہ ہمارا گھر بھی ہماری دعوت کا مرکز ہو۔گھروالوں کی تربیت اور خوشی و تفریح ان کا حق ہے۔ ہمارے والدین اگر زندہ ہیں توان کی خدمت کرکے جنت کما لینا ہماری ترجیحات کی فہرست میں لازماً شامل ہونا چاہیے۔
روزمرہ کی زندگی میں بہت سارے اوقات ایسے آتے ہیں کہ جب ہم فارغ بیٹھے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم سفر میں ہوتے یا انتظار کررہے ہوتے ہیں یا کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے۔ ان اوقات میں ہمیں اس بات کی عادت اپنا لینی چاہیے کہ جب بھی ہم فارغ ہوں تو اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔حضوراکرمؐ نے بہت سارے کلمات بتائے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے اور اجر میں بہت بھاری ہیں۔ ان کلمات کو باربار دہراتے رہیں۔ کثرت سے استغفار کریں۔ ایک ایک لمحہ جو ہمارے پاس ہے وہ اللہ کے ذکر میں اور استغفار میں صرف ہو تو یہ وقت کا بہترین استعمال ہے۔ ہمارے وقت کا کوئی لمحہ فارغ ہونے کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ حدیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مومن کا ہر لمحہ کارآمد ہوتا ہے۔ جب اس پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، جب خوش ہوتا ہے تو شکر ادا کرتاہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔
ایک ذمہ دار کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ نہ تو ہمارے وقت کا کوئی حصہ ضائع ہو اور نہ ہماری ٹیم میں سے ہی کسی کا وقت ضائع ہو۔جب ہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احسا س کریںگے تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت میں برکت ڈال دے گا۔ اگرہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احساس نہیں کریں گے اور ہماری وجہ سے دوسروں کا وقت ضائع ہوتارہے گا تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت کی قدروقیمت بھی کم کردے گا۔
وقت میں برکت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جس طرح ہم اپنے مال ،کاروبار ، رزق اور اولاد میں برکت کی دعا کرتے ہیں اسی طرح اپنے وقت میں برکت کے لیے بھی دعا کریں۔ اگر ہمیں وقت میں برکت حاصل ہوگئی تو زندگی بڑی آسان ہو جائے گی۔ جن لوگوں کو اللہ کی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے ان کے پاس وقت کی کمی کا شکوہ نہیں ہوتا بلکہ ان پر یہ احساس غالب رہتا ہے کہ میرے پاس وقت ہے اور جو کام بھی میرے سپرد ہوگا میں اُسے کرنے میں کامیاب ہوجائوں گا۔وقت میں یہ برکت اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور اس کی رحمت ہے جو ان لوگوں پر نازل ہوتی ہے جو اس سے برکت طلب کرتے ہیں۔حضرت عمر فاروقؓ دعا فرماتے تھے: ’’یااللہ! زندگی کے اوقات میں برکت دے اور انھیں صحیح مصرف پر لگانے کی توفیق عطا فرما‘‘۔
وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک غیر معمولی امانت ہے۔ اس کے ایک ایک لمحے کی قدروقیمت کے احساس کے ساتھ اللہ کی بندگی کے لیے ، جہنم سے بچنے اور جنت کے حصول کے لیے اس کا استعمال ہونا چاہیے۔کامیاب وہی ہے جو اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ اسے زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا، یقینا وہ اپنے وقت کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کردہ ترجیحات کے مطابق گزارنے کااہتمام کرے گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں ایک خاندان کا حصہ بنایا ۔ ایک وقت آتا ہے جب بزرگ ساتھی دنیا سے چلے جاتے ہیں اور کچھ ننھے ننھے بچے اسی خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زندگی اسی طرح رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ انعام مانگے بغیر ہی عنایت کردیا کہ خاندان کے افراد میں آپس میں محبت پیدا کردی۔ ماں باپ کی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت، بچوں کی محبت اور پھر اگلی پود، یعنی بچوں کے بچوں سے محبت۔ یہ محبت نہ صرف بڑوں کو بچوں سے ہوتی ہے بلکہ بچے بھی اپنے سے بڑوں کی محبت کا معصومانہ انداز میں اظہار کرتے ہیں۔ چند بدنصیب اس دنیا میں ایسے بھی ہوسکتے ہیں، اور ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس سے محروم رکھا، یا وہ خود محروم رہ گئے۔ محبت کا یہی باہمی جذبہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی بہتری کے لیے کوشش اور مدد کرنے پر اُبھارتا ہے۔ کوئی عزیز تکلیف میں ہو تو آنکھیں پُرنم ہوجاتی ہیں۔ کسی کو خوشی ملتی ہے تو خوشیاں بانٹنے کو دل چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کا ہتھیار دیا ہے۔ ہم ہروقت دعائوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی،عافیت اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، ایک دوسرے کی بہتری چاہتے ہیں، اور اپنی تمنائیں اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا انعام بھی ہم پر کیا ہے۔ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں___ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ بُری عادات اور بُرے انجام سے بچ سکیں۔ یہ امربالمعروف نہی عن المنکرمسلم معاشرے کی خوب صورتی ہے۔ یہاں انسان نہ صرف ایک دوسرے کی بھلائی چاہتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ آج کل کے لوگ اس عمل کو شخصی آزادی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ ظالم کو ظلم سے نہ روک کر دراصل ظالم کی مدد کر رہا ہوتا ہے۔
بات محبت کے جذبے کی ہو رہی تھی۔ جب کوئی اپنا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو قدرتی طور پر دل بے تاب ہوجاتا ہے۔ پھر دعا کا سہارا لیا جاتا ہے___ اے اللہ! اسے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما، اس کے مراحل آسان کردے، اس کے درجات بلند فرما دے___ کون چاہتا ہے کہ اس کا عزیز، والدین، بچے، بیوی، خاوند اور دیگر عزیز و اقارب جنت میں نہ جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ اہلِ خاندان کا جنت میں ساتھ ناممکن نہیں تو پھر کیوں نہ ہم کوشش کریں کہ اکٹھے جنت چلیں۔
محبت کے جذبے کا سرچشمہ اللہ کی ذات پاک ہے مگر اس محبت کا حصول مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ اُن سے کہو کہ ’’اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو‘‘۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۳۱-۳۲)
یہ آفاقی اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بتا دیا ہے اور زندگی کا اصول بھی یہی ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اگر ہم اللہ سے محبت کریں گے، تو وہ ہم سے محبت کرے گا___ کوئی خاندان، کوئی رشتے داری، کوئی حسب و نسب ہمیں اللہ کی محبت کا دعوے دار نہیں بناسکتا۔ یہ محبت کیا ہے؟ اور پھر اللہ سے محبت!___ اللہ سے محبت یہی ہے کہ ہماری مرضی اور پسند، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند کے تابع ہوجائے۔ اس کا کہا مانا جائے، اس پر عمل کیا جائے، اور اس کا حکم بلاچوں و چرا بجا لایاجائے۔ یہ نہیں کہ حی علی الصلٰوۃ ، حی علی الفلاح کی صدا بلند ہو اور ہم ٹس سے مس نہ ہوں۔
یہ بڑی سادہ اور سیدھی بات اور واضح اصول ہے جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے، اور جو یہ اصول نہیں مانتے ان کے لیے کسی لگی لپٹی کے بغیر تنبیہہ ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے‘‘ (التوبہ ۹:۲۳)۔ گویا جن سے محبت کے دعوے ہوتے ہیں، جن کے لیے آدمی راتوں کو جاگتا اور تکلیف اٹھاتا ہے، اگر وہ بھی ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تو ان کو ساتھی بنانے سے بھی منع کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جو ایسا کرے اسے ظالم قرار دیا گیا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ظالم کے لیے قرآن مجید میں کیا کیا احکام ہیں اور ان کا کیا انجام بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ظلم کرنے سے باز رکھے، اور اللہ نہ کرے کہ کسی وجہ سے ہمارا شمار ظالموں میں ہو۔ اللہ تعالیٰ بڑی صاف بات فرما رہے ہیں کہ یہ دوغلی پالیسی نہیں چلے گی، اور پھر دعاے قنوت میں بھی ہم روزانہ وعدہ کرتے ہیں کہ: ’’ہم نافرمانی نہیں کرتے اور چھوڑ دیتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے‘‘۔
دنیا میں ہمارے ساتھی___ والدین، زوجین، یعنی خاوند اور بیوی اور پھر اولاد___ یہی لوگ مل کر عموماً خاندان بناتے ہیں، اور اکٹھے ماہ و سال بسر کرتے ہیں۔ مغرب کے خاندان کا تصور ہمارے پیشِ نظر نہیں جہاں والدین کو خاندان سے باہر بلکہ بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو ہمارے خاندان کا حصہ ہیں، آپس میں محبت کی لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں جن کی ہمیں فکر رہتی ہے، ان کی بہتری کی خواہش بھی رہتی ہے، اور اگر انھیں تکلیف پہنچے تو طبیعت غمگین ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ یہی والدین، زوج اور اولاد جنت میں بھی ساتھی بن سکتے ہیں۔ یہ کیوں کر ممکن ہے اور اس کے لیے نسخۂ کیمیا کیا ہے؟ فرمایا:
اے ہمارے رب، اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)، ُتو بلاشبہہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔ (المومن: ۴۰:۸)
ان آیات کے ذریعے دراصل ہمیں اِس دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ یاد رکھیے، یہ دعائیں اللہ تعالیٰ نے یونہی تو نہیں بتائیں___ یہ اس لیے بتائی ہیں کہ قبول بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں قرآن پاک کے الفاظ پر جتنا یقین ہے، اسی طرح اس بات پر بھی یقین ہونا چاہیے کہ یہ دعائیں نری لفاظی نہیں ہیں بلکہ اللہ کا وعدہ ہیں۔ سوچیں تو سہی، وعدہ کون کر رہا ہے، پھر پورا کیوں نہ ہوگا! بہرحال شرائط تو ہمیں پوری کرنی ہیں۔ یہاں دیکھیے والدین، بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کی نوید ہے اور پھر شرط بھی ہے___ کہ وہ جو صالح ہوں، وہی مستحق ہوں گے۔
قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ ہے مگر یہ وعدہ دوشرائط کے ساتھ مشروط ہے___ صالح ہونا اور صابر ہونا۔ سورئہ رعد میں اہلِ ایمان کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:
آخرت کا گھر اِنھی لوگوں کے لیے ہے، یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی امن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہرطرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور اُن سے کہیں گے کہ ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا، اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! (الرعد۱۳:۲۳-۲۴)
یہ کتنی بڑی خبر اور خوش خبری ہے کہ ہمارے گھر والے بھی جنت میں اکٹھے ہوں گے! اللہ تعالیٰ ہمیں اور اہلِ خاندان کو اس مرتبے کے قابل بنادے___ آمین!
کام کا آغاز کیسے ہو؟ کیا محنت کرنی ہے، کیا ہے جو سمجھنا ضروری ہے اور کون سا راستہ ہے جو پورے خاندان کو اکٹھے جنت کی طرف لے جاسکتا ہے؟
یہ کام بڑی ذمہ داری اور سنجیدگی کا حامل ہے۔ جب ہماری اگلی نسل کا دارومدار اسی پر ہے تو پھر سُستی کیوں؟ پھر یہ کام انتخاب پر رُک تو نہیںجاتا۔ آپ کی شادی ہوگئی تو آگے چھوٹے بہن بھائی ہیں، بچے ہیں___ یہ تو ہمیشہ چلنے والا کام ہے اور بڑی سنجیدگی اور دانش مندی سے کرنے کا کام ہے۔
شادی کے بعد اولاد کی فکر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر مکمل قدرت رکھتے ہیں کہ وہ جسے چاہیں اولاد عنایت فرما دیں: ’’اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاجلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہرچیز پر قادر ہے‘‘ (الشوریٰ۴۲:۴۹)۔ اُس کی جناب سے عنایت ہوگئی تو شکر ادا کریں، نہیں تو صبر اور پھر صبر کا اجر بھی بہت ہے۔ ہاں، دعا کا ہتھیار تو ہمارے پاس ہے ہی۔
ہم تو بہت کمزور لوگ ہیں۔ نبیوں نے بھی یہ دعائیں مانگی ہیں۔ دیکھیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا: ’’اے پروردگار! ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘۔ مشروط دعا___ بیٹا ہو تو صالح ہو۔ اور پھر حضرت زکریاؑ کی دعا بھی___ نیک اولاد کی درخواست کی جارہی ہے۔ دعا کرنا نہ بھولیں۔ دعا مانگنا، ہمارا حق ہے اور بار بار دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہر ہرقدم پر اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن۔
صالح اولاد بڑی نعمت ہے اور جیساکہ ہم نے پہلے دیکھا، صالح ہونا ایسی شرط ہے جس کے پورا کرنے پر براہِ راست جنت کی بشارت ہے۔
صالح اولاد کا کیا مطلب ہے؟کیا نماز ادا کرلینا اور تلاوتِ قرآن کرنا ہی صالح ہونے کے لیے کافی ہے___ یا پھر اخلاق، معاملات اور عبادات کا درست ہونا بھی صالح ہونے کے لیے ضروری ہے، یا کچھ اور بھی خصوصیات درکار ہیں؟ صالح ہونا دراصل ایسی صلاحیت ہے جس پر بڑے انعام کا وعدہ ہے۔ جنت جیسا انعام، اور پھر بار بار بتایا گیا ہے کہ جنت ابدی قیام گاہ ہے۔
اس خوب صورت دعا میں ایسے ہی خاندان کی محبت جھلک رہی ہے___ بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملے، اور دیکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں کون سا درجہ دینا چاہتے ہیں___ پرہیزگاروں کا امام۔ یہ دعا محض کسی مقرر کی لفاظی نہیں، اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ ہیں ___ ان کا پورا ہونا بالکل ممکن ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں پر توجہ دیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ ذرا مومن بن کر دیکھیں اور دکھائیں تو سہی۔
اب یہ عزم پھر دعا اور پھر عمل کا معاملہ آگیا۔ سوچیں آپ کا بیٹا آپ سے دعا کے لیے کہے کہ دعا کریں، امتحان میں کامیابی ہو، مگروہ خود کھیل میں مصروف رہے تو یقینا آپ کہیں گے کہ بیٹا تم خود تو امتحان کی تیاری نہیں کر رہے، مجھے دعا کے لیے کہہ رہے ہو۔ گویا عمل کی بڑی اہمیت ہے۔ بقول اقبال ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ (التحریم۶۶:۶)
گویا عمل کے لیے والدین کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ یہاںجمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور اہلِ ایمان کو اجتماعی طور پر حکم دیا جا رہا ہے: اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔ اس طرح سے والدین پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ اب نہ کوئی بہانہ ہے، نہ فرار کا موقع۔ لازماً اسے کرنا ہی ہوگا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر اہل و عیال خدانخواستہ آگ سے نہ بچ سکے، توہم خود ذمہ دار ہوں گے۔ ذرا سوچیے، اہل و عیال کو آگ سے بچانے کے لیے نیک زوج کی کتنی اہمیت ہے، جو خود اس بات کی ضمانت ہو کہ بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح طریقے پر ہوگی۔
فرمایا جا رہا ہے:’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو‘‘ (طٰہٰ ۲۰:۱۳۲)۔ یہاں محنت کرنے کو کہا گیا ہے کہ بار بار کہو کہ نماز پڑھو اور پھر یہ دوغلی پالیسی نہیں___ خود بھی پابند رہنے کا حکم ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک مشہور حدیث میں حضوؐر ایک بچے کو سمجھاتے ہیں: اے بیٹے! بسم اللہ پڑھ کر، یعنی اللہ کے نام سے، دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا کھائو۔ ایک ہی حدیث میں یہ تین تعلیمات ہیں۔ بڑی بدقسمتی کی بات ہے جب والدین فرار چاہتے ہیں اور اپنی ذمہ داری نبھانا چھوڑ دیتے ہیں کہ بچے کو ٹوکنا نہیں، اس سے وہ نفسیاتی مریض بن جائے گا۔ یہ اہلِ مغرب کی سوچ ہے جو خود نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، وہ اپنے بچوں کو بھلا کیا سکھائیں گے۔ ہم امربالمعروف اور نہی عن المنکر والے لوگ ہیں، نہ خود برائی کریں گے نہ کرنے دیں گے۔
یقینا عمل کے ساتھ ٹھوس منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عمربھر کا منصوبہ جو مل گیا ہے۔ حکم آگیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو آگ سے بچائو!
اس کے بعد بچے کی پیدایش کا مرحلہ آجاتا ہے اور والدین اگلی نسل کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔ تربیت اولاد سے متعلق لٹریچر میں ہم پڑھتے ہیں کہ بچوں کو ۷ برس کی عمر میں نماز کا حکم دو۔ ۱۰برس کی عمر میں سزا دینے کی بات کی گئی ہے اور بستر علیحدہ کرنے کا کہا گیا ہے، یعنی جنسی تعلیم شروع ہوگئی۔ عموماً ۱۰ برس میں سزا دینے کی بات ہوتی ہے۔ جان لیجیے کہ والدین پر فرض ہے کہ وہ سنِ تمیز، یعنی ساڑھے تین سال سے بچے کو نماز میں ساتھ رکھیں۔ والدہ اسے تیار کرے۔ والد صاحب چھے ساڑھے چھے برس تک لگاتار محنت کریں___ خود بھی مسجد جائیں، بچے کو بھی لے کر جائیں۔ والدہ بہانہ نہ بنائے کہ ابھی تو تھکا ہوا ہے، ابھی کھانا کھا رہا ہے۔ والدین کی سالہا سال کی لگاتار محنت کے بعد سزا دینے کی بات ہورہی ہے، یعنی والدین سزا دینے سے قبل اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بارے میں خوب غور کرلیں۔
مشاورت، اخوت و محبت، احتساب، نظم و ضبط، اقامت دین یہ اجتماعی صفات، صالح معاشرے کی ضرورت ہیں اور ایسے معاشرے کی تشکیل صالح افراد ہی کرتے ہیں۔ ایسا معاشرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا جہاں فیصلے مشاورت سے ہوتے تھے، اخوت و محبت کی قدر تھی، اور یہ سب کچھ آج بھی ممکن ہے اگر ہمارا قبلہ درست ہوجائے۔ بھائی چارے سے کام ہورہا ہو تو تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ جنگ ِ خندق کے دوران اگر صحابہ کرامؓ نے پیٹ پر پتھر باندھے تو پتا چلا کہ حضوؐر نے دوپتھر باندھے ہوئے تھے۔ غلطی کون نہیں کرتا۔ جنگ اُحد کی مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جیسی جماعت کے بعض افراد سے کمزوری ظاہر ہوئی، مگر احتساب اور نظم و ضبط سے شکست فتح میں تبدیل ہوگئی۔ نظم وضبط ان تمام خوبیوں کا نتیجہ ہے۔ ان تمام باتوں سے اقامت ِ دین کو تقویت ملتی ہے۔ ہرمسجد میں پانچ مرتبہ جماعت کے ذریعے نظم و ضبط کا درس ملتا ہے تو پھر مسلمان معاشرے میں بدنظمی کی کوئی وجہ نہیں، جب کہ یہ تربیت سال ہا سال سے صبح و شام جاری ہے۔ ہمیں اس کی طرف من حیث القوم توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری معاشرتی کمزوریوں میں کبر، نفسانیت، بے اعتدالی اور ضعفِ ارادہ کے علاوہ بھی کئی پہلو ہیں۔
خرابی کے خارجی اسباب میں سب سے پہلا تو کمزور اور غلط نظامِ حکومت ہے۔ اسی وجہ سے میڈیا، نظامِ تعلیم، ناقص نصاب، سب کسی بھی نوجوان کے اچھا مسلمان بننے کی راہ میں مانع ہیں۔ ہمارے داخلی عوامل بعض اوقات اتنے زیادہ ہوجاتے ہیں کہ ان خارجی عوامل کے لیے وقت ہی نہیں ملتا کہ انھیں ٹھیک رکھا جائے اور یوں معاشرہ بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس ضمن میں علماے کرام رہنمائی کرتے ہیں کہ بچوں میں یہ خوبیاں تب پیدا ہوں گی جب والدین میں یہ صفات ہوں گی۔ یہ نہ ہو کہ والد نے کہہ دیا کہ باہر کہہ دو گھر پر نہیں ہوں۔ والدہ فون پر جھوٹ بول رہی ہوں۔ پڑوس کی گیند گھر میں آگئی تو جھوٹ بول دیا،والدین خاموش رہے۔ بچہ ٹی وی رات گئے تک دیکھتا رہا، صبح وقت پر نہ اُٹھ سکا، لہٰذا اسکول میں بیماری کی درخواست دے دی___ یہ سب تضادات ہیں۔ بے عملی اور کمزوری کا نتیجہ ہیں۔ بظاہر یہ معمولی باتیں چھوٹی ہیں مگر شیطان تو تاک میں لگا رہتا ہے۔
اس ساری بحث کے نتیجے میں گھر والوں کی تربیت، اللہ کے سامنے جواب دہی کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ ہمیں اپنے اہلِ خانہ سے محبت ہے اور محبت کے اپنے تقاضے ہیں۔ صورت حال کی بہتری کے لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ یقین محکم، عملِ پیہم کے مصداق اہلِ خاندان کو مسلسل تذکیر و نصیحت کرتے رہیں اور یہ کہ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ نیکی کے لیے سازگار ماحول فراہم کریں۔ تربیت کا خاطرخواہ انتظام کریں۔ اخلاقی اعتبار سے مضبوط بنائیں اور شخصیت کی تشکیل و تعمیر پر توجہ دیں۔ جبھی تو گھر کے آنگن میں خوب صورت پھول کھلیں گے اور میٹھے پھل لگیں گے۔
کامیابی___ اصل کامیابی تو جنت کا حصول ہے کہ ہم آتشِ دوزخ سے بچ جائیں۔ یہ خوش خبری ملاحظہ ہو: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقشِ قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہرشخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے‘‘۔ (الطور۵۲:۲۱)
یہ خوش خبری ایک چھوٹ، ایک آسانی کی خبرہے، ایک رعایت (concession) ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اولاد کسی بھی درجہ ایمان پر ہو تو جنت میں ملا دی جائے گی۔ مگر ہمیں خوب سے خوب تر کی تلاش رہنی چاہیے۔ اسی طرح بچوں کی تربیت کے لیے بھی بلندمعیار پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ ہم تو پرہیزگاروں کے امام بننا چاہتے ہیں۔ یہی دعا بھی مانگتے ہیں۔ گویا best of the best کے متلاشی رہیں۔ درجۂ احسان ہمارا مطمح نظر ہونا چاہیے اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ جنت میں ہمارا اور گھروالوں کا ساتھ ہو۔ آمین!
مقام غوروفکر ہے ___ اپنی اور اولاد کی اخروی کامیابی کے لیے ہمیں سنجیدہ ہونا ہے، کوشش کرنی ہے، کمرہمت باندھ لینی ہے۔
ہمیں اپنے آپ کو اور اہلِ خانہ کو آگ سے بچانا ہے___ اس کے لیے ہم جواب دہ ہیں۔ یہ کیسی روح پرور اور خوش کُن اور قابلِ عمل بشارت ہے کہ اگر ہم صالح ہوں اور صبر سے کام لیں تو ہم اور اہلِ خانہ جنت کے ساتھی بن سکتے ہیں ورنہ یہ افسوس ہی رہے گا کہ مہلتِ عمل تو ملی تھی مگر ہم اِدھر اُدھر وقت ضائع کرتے رہے۔
آیئے! اس دعا کے ساتھ اختتام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ عزم بھی کرتے ہیں کہ ہمیں اہلِ خانہ کے لیے اور اپنے لیے کوشش کرنی ہے___ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ آیئے ہم عزم کریں کہ کوشش میں کسر نہیں اُٹھا رکھیں گے۔ آمین!
(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات، لاہور قیمت: ۷ روپے، ۵۰۰ روپے سیکڑہ)
اِبتلا و آزمایش میں ثابت قدم رہنے اور اس سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے متعدد طریقے اور راستے ہیں۔ مومن کی حیثیت سے ان کو سامنے رکھنا اور ان میں سے اپنی حالت کے مطابق کسی ایک دو یا زیادہ کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقے واضح طور پر بیان کیے ہیں۔ ان میں سے بعض کا تذکرہ کیاجاتا ہے۔
اِبتلا و آزمایش میں سے کامیابی سے گزرنے کے لیے بنیادی بات عقیدۂ توحید پر پختہ ایمان ہے۔ جتنا یہ عقیدہ مضبوط ہوگا، اتنا ہی آسانی سے مومن اِبتلا و آزمایش سے گزر جائے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں بڑی بڑی آزمایشیں آئیں لیکن عقیدے کی پختگی کی وجہ سے ذرہ برابر قدم ڈگمگانے اور پسپائی اختیار کرنے کی حالت و کیفیت ان کے نزدیک نہیں آئی۔ حضرت بلالؓ پر کفارِ مکہ نے کتنی سختیاں کیں لیکن احد، احد ہی پکارتے رہے اور اِبتلا و آزمایش سے نکل آئے۔ ایسے سیکڑوں صحابہ کرام و تابعین تھے جنھوں نے اس طرح کا مظاہرہ کیا۔ اِبتلا وآزمایش کے بعد کے ادوار میں ایسے بہت سے مومن نظر آتے ہیں جو توحید کے عقیدے پر مضبوط ایمان کی وجہ سے کامیاب ہوکر نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔
موجودہ دور کی گوناگوں آزمایشیں جیسے مصر میں اخوان المسلمین، اور وسطی ایشیا کے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ فلسطین و عراق کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، افغانستان میں بارود اور لوہے کی آگ برسائی گئی اور خون کے دریا بہائے گئے۔ پل چرخی اور گوانتانامو کی بدنامِ زمانہ جیلوں میں اللہ کے نام لیوائوں کو روح کو لرزہ دینے والی اذیتیں دی گئیں لیکن اللہ کے بندے عقیدۂ توحید پر پختہ یقین اور تعلق باللہ کی وجہ سے ذرا برابر نہیں ڈگمگائے اور ایک دفعہ پھر سنت ِابراہیمی ؑ کو دنیا کے سامنے زندہ کردیا۔
ابتلا و آزمایش کی دو صورتیں ہیں: ایک طرف ظلم وستم خوداپنی ذات پر اور بعض اوقات بیوی، بچوں اور خاندان والوں پر۔ اگر یہ کارگر نہ ہو تو پھر دولت اور جاہ و جلال کی طمع اور خوف۔ امام احمد بن حنبلؒ پر جب تک کوڑے برستے رہے بڑی ہمت و جرأت سے برداشت کرتے رہے لیکن جب دولت پیش کی گئی تو گھبرا گئے اور رونے لگے۔
اسلام میں آخرت کا عقیدہ اساسی و بنیادی ہے۔ مکی دور میں قرآن مجید نے اسے مختلف طریقوں سے بیان کر کے اپنے پیروکاروں کو ذہن نشین کرایا ہے۔ قرآن مجید کی ۱۱۴ میں سے ۱۰۰سورتوں میں آخرت کا تذکرہ موجود ہے۔ پھر جتنی تفصیل آخرت کے بارے میں ہے اور جنتیوں اور دوزخیوں کے باہمی مکالمے، گفتگوئیں اور ان کی خواہشات بیان ہوئی ہیں، توحید و رسالت کے بعد شاید ہی کسی اور عقیدے کی اتنی تفصیل بیان ہوئی ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آخرت کے پختہ عقیدے کا انسانی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے اور انسان کی سیرت و کردار کی تعمیر اور نشوونما میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔
اِبتلا سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کا توحید کے بعد سب سے مضبوط اور یقینی طریقہ اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا اور اسے پختہ کرنا ہے۔ اِبتلا کے جتنے واقعات قرآن مجید میں اور احادیث ِ مبارکہ میں بیان ہوئے ہیں ان کے اختتام پر تعلق باللہ کو مختلف پیرایوں سے بیان کیا گیا ہے، جیسے سورۂ ملک (۶۷:۳-۴)، سورۂ قلم (۶۸:۲۸-۲۹)، سورۂ یونس (۱۰:۳۰)۔
تعلق باللہ کی متعدد صورتیں ہیں۔ انھیں حسب ِ حال اختیار کرنا چاہیے۔ چند ایک کا مختصراً تذکرہ کیا جاتا ہے۔
اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ (الجمعۃ ۶۲:۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔
سلف صالحین اور شہدا و دعاۃ کی زندگیوں میں دیکھتے ہیں کہ جب وہ آزمایش میں مبتلا ہوئے تو نماز کی طرف سبقت کی۔ قرآن مجید نے فرمایا: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ ۲:۴۵ و۱۵۳) ’’صبر اور نماز سے مدد لو اور تقویت حاصل کرو‘‘۔
نماز کے کئی اہم پہلو ہیں جیسے دلی اطمینان حاصل ہونا، اجروثواب کا ملنا، برائیوں سے بچنا، شیطان اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنا، دنیا اور آخرت کے خسارے سے بچنا اور اِبتلا سے بخیروخوبی گزر جانا، نیز نماز باجماعت اور نظامِ صلوٰۃ کی اپنی اہمیت ہے۔
بندہ جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اللہ سے تعلق جڑ جاتا ہے اور درمیان سے سب واسطے ہٹ جاتے ہیں۔ اسی لیے نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بندہ جب سجدے میں ہوتا ہے تو اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
تلاوت کا لطف اور مزہ اس وقت حاصل ہوگا جب خوش الحانی، یک سوئی اور تفکر وتدبر کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ اس قسم کی تلاوت سے وقتی طور پر دکھ درد دُور ہوجاتے ہیں اور آدمی اپنے آپ کو راحت میں محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا صبح و شام اور سفروحضر میں تلاوت کا اہتمام ہونا چاہیے۔
مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں اور مشکل اوقات میں صحابہ کرامؓ تلاوت کرتے تھے اور کتاب اللہ کی تلاوت سے قوت اور سہارا لیتے تھے۔ حضرت جعفرؓ سے جب شاہِ حبشہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے قرآن مجید کی سورئہ تحریم کی تلاوت کی۔ اس سے ایک طرف ان کو اطمینان ہوا تو دوسری طرف یہ تلاوت ان کے لیے حق گوئی، بے باکی اور اِبتلا سے نکلنے کا ذریعہ بن گئی۔اس طرح تلاوت میں ضروری آداب کا ملحوظ رکھنا، صحیح تلفظ سے ادایگی، اس کے معنی اور مفہوم پر نظر رکھنا اور اس میں غورکرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کی برکات اور فائدے حاصل کرنے کے لیے یہ دعا سکھائی گئی:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلِ القُراٰنَ رَبِیحَ قُلُوبِنَا وَنُورَ صُدُورِنَا وَذَھَابَ ھُمُومِنَا وَجِلَائَ اَحْزَانِنَا، یااللہ! قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار بنا دے، ہمارے سینوں کا نور بنا دے، ہمارے خوف کے دفع کرنے اور ہمارے غم کا مداوا بنادے۔
اِبتلا میں عام طور پر سابقہ انبیا کی سیرت کا پڑھنا، اس میں غوروفکر کرنا،ان کی اِبتلا و آزمایش کا گہرا مطالعہ کرنا اور انھوںنے جس طرح ثابت قدمی دکھائی، اسے سامنے رکھنا اور ان کے اسوہ سے تقویت حاصل کرنا اور خود کو اس پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاے کرام کی سیرت میں صبر وثبات اور ثابت قدمی کے بے شمار نمونے سامنے آتے ہیں۔ عقیدت اور یقین سے ان کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو انسان کو بڑی تقویت حاصل ہوتی ہے۔
اِبتلا وآزمایش میں گرفتار شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، سنت اور احادیث کا مطالعہ کرے تو قدم قدم پر آپؐ کی اِبتلاوآزمایش کے نمونے سامنے آئیں گے۔ دورِ طفولیت سے لے کر اس دنیا سے آپؐ کے تشریف لے جانے تک قدم قدم پر آپؐ کو مختلف آزمایشوں سے واسطہ پیش آیا ہے۔ ذہنی، جسمانی، مالی و معاشرتی اور تمدنی معاملات میں آپؐ کو تکالیف پہنچائی گئیں۔ آپؐ کے پیارے ساتھیوں کو بے حد ستایا گیا۔ لہٰذا آپؐ کے امتیوں اور پیروکاروں کو آپؐ کے اسوئہ حسنہ سے تقویت و اہمیت حاصل کرنی چاہیے۔ آپؐ کے ان فرمودات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے جن میں ایک طرف سابقہ اُمم کے واقعات بتاکر ان کی ثابت قدمی اور صبر کی کیفیت بیان کر کے مثالیں دی گئی ہیں اور ساتھ ہی اِبتلا میں ثابت قدم رہنے کا اجروثواب بیان اور آخرت کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ یہ بھی تقویت کا ذریعہ ہیں۔
اسلام کا مجموعی مزاج اور نظام اجتماعی ہے۔ اس میں انفرادیت اور انفرادی زندگی کا بہت کم حصہ ہے۔ لہٰذا مومن کو عام حالات میں بھی تنہائی سے بچنا چاہیے بلکہ اجتماعیت اختیار کرلینی چاہیے۔ ارشاد باری ہے: ’’تم میںایک اُمت ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے جو معروف (بھلائی) کا حکم دے اور برائی سے روکے اور وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۴)۔ مزید فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ (التوبۃ ۹:۱۱۹)
اجتماعیت سے جڑنے سے، اور اجتماعیت بھی ایسی جو پورے دین پر عمل کرنے اور اسے نافذ کرنے کا کام کرتی ہو، آدمی سنبھل جاتا ہے، اسے سہارا ملتا ہے، تقویت پہنچتی ہے اور یہ ہمت افزائی کا سبب بن جاتی ہے اور اسے اِبتلا سے نکال لیتی ہے۔
اِبتلا کے دنوں میں صالحین سے تعلق مضبوط کرنا، اجتماعیت کے ذمہ داروں سے مزید قریب ہونا، ان سے اپنے حالات بیان کرنا، اپنی مشکلات اور مصائب کا اظہار کرنا، اپنے نفس کی حالت بتانا، ان سے رہنمائی اور مشورہ لینا چاہیے،اور وقتاً فوقتاً ان سے ملنا چاہیے۔ اگرنفس میں غرور و تکبر ہے یا غلط اوہام ہیں یا قوتِ فیصلہ کام نہیں کر رہی توان کا علاج معلوم کرنا چاہیے۔
ایک روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا کہ اگر میں فرشتوں سے مشورہ کرتا تو نقصان نہ اٹھاتا‘‘۔ (شرح اربعین نووی ابن رجب حنبلی)۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (النحل ۱۶:۴۳، الانبیا ۲۱:۷) ’’اہلِ علم سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے‘‘۔ لہٰذا اہلِ علم و دانش اور اس راہ کے راہی، داعیوں اور مبلّغوں سے مشاورت کرنا فائدہ مند ہے۔ مشورہ اور خیر میںکئی پہلو ہیں، اس لیے مومن کو چاہیے کہ اچھے، نیک، باکردار لوگوں سے ہراہم معاملے میں مشورہ لیتا رہے اور اسے اپنا طریقہ و وتیرہ بنا لے۔ عام طور پر اِبتلا میں لوگ اس کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں میں کھو جاتے ہیں اور اس سے نکل نہیں پاتے بلکہ نااہل اور نابلد لوگوں سے مشورہ کرنے کی وجہ سے مزید اُلجھ جاتے ہیں اور الجھے رہتے ہیں۔
اِبتلا وآزمایش میں مومن کو چاہیے کہ دعوتی تحریکوں اور تنظیموں سے مل کر دعوتی اور اصلاحی کام کرے۔ خاص طور پر جماعت اسلامی سے مضبوطی و دل جمعی سے وابستہ ہوکر اعلاے کلمۃ اللہ اور اقامت ِدین کی کوشش کرے۔ اسی طرح دوسری دعوتی تنظیموں سے بھی حسب حال جڑا جاسکتاہے۔
جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کے پاس زمانۂ حال میں رہنمائی کرنے والا وسیع لٹریچر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزاے خیر دے کہ انھوں نے اسلام کے تمام انفرادی اور اجتماعی کاموں پر روشنی ڈالی ہے اور ہر زاویے سے اسلام کی نمایندگی اور وضاحت کی ہے۔ جماعت اسلامی کے شائع کردہ لٹریچر میں مولانا مودودیؒ کا وسیع لٹریچر اتنا جامع، مکمل اور دین کا احاطہ کیے ہوئے ہے کہ اگر درسِ نظامی کا ایک فارغ التحصیل عالم مطالعہ کرے تو وہ جدید علوم سے روشناس ہوجاتا ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھ کر دین کے کام کا واضح لائحہ عمل پاتا ہے، جب کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دین کا فہم نصیب ہوتا ہے اور عمل کی ترغیب ملتی ہے۔
دعوتی کام کرنے سے دینی احکام کی عملی تعلیم حاصل ہوتی ہے اور انسان عملی طور پر دینی احکام کا عادی بن جاتا ہے۔ اسی لیے طبیعت میں دین رچ بس جاتا ہے۔ دعوتی کام میں کسی جماعت کے ساتھ ہونے سے ہم خیال اور ایک راہ کے راہی لوگوں سے جڑ جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کا سہارا بن جاتے ہیں۔ اگر ایک گر رہا ہے تو دوسرے اسے سنبھالنے کے لیے آگے آتے ہیں۔ پھر معاشرتی، معاشی، اخلاقی لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے معاون بن جاتے ہیں اور تنگی ترشی میں ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔ اس طرح ایک کفالتی (مالی تعاون کا) نظام بن جاتا ہے۔ دنیا میں بہت ساری مثالیں ہیں۔ تازہ دور کی ایک مثال فلسطین کی سب سے بڑی جماعت حماس ہے جس نے لاکھوں مصیبت زدہ اور جنگ کے مارے ہوئے، لٹے پٹے خاندانوں کی ایک عرصے تک کفالت کرکے مدینہ کی مواخات کا سبق عملاً دہرایا۔
صبر اِبتلا میں سے نکلنے کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔ کتاب اللہ میں اِبتلا کا واقعہ بیان کرنے کے بعد عام طور پر صبر کا تذکرہ ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۵۷ میں ہے: وبشرالصابرین اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجیے۔ (مزید دیکھیے: سورہ محمد ۴۷:۳۱، البقرہ ۲: ۱۷۲-۲۴۹،اٰل عمرٰن ۳:۱۶-۱۷، ھود۱۱:۴۹، الصافات ۳۷:۱۰۳۔ الاحقاف ۴۶:۳۵، الفرقان ۲۵:۴۲، الانعام ۶:۳۴، الکھف ۱۸:۲۸)
صبر کرنے سے بے قراری ختم ہوجاتی ہے۔ مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں اور برداشت کی قوت پیدا ہوجاتی ہے اور ضبطِ نفس کی صفت سے بندہ متصف ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں صبر کا کلمہ ۹۲ مرتبہ آیا ہے اور ان میں سے اکثر اِبتلا میں صبر کرنے کے لیے ہے۔
اِبتلا و آزمایش سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کا ایک بڑا وسیلہ دعا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ہے‘‘(مشکوٰۃ)۔ دعا تعلق باللہ کا بڑا ذریعہ، دلی تسلی کا مضبوط وسیلہ، اجروثواب کا باعث، شیطان کے وسوسوںسے بچنے کا بہترین عمل اور دنیا وآخرت کے خسارے سے محفوظ رکھنے کا سبب ہے، لہٰذا مومن کو اِبتلا میں خاص طورپر اورعام حالات میں بھی دعا کی کثرت رکھنی چاہیے کیونکہ مومن کی دعا کبھی بے کار نہیں جاتی بلکہ اپنے اثرات دکھاتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو بندہ بروقت، ہر جگہ اور ہر حالت میں کرسکتا ہے۔
علما، شہدا، صالحین کی سیرت کو نمونہ بنانا چاہیے۔ اِبتلا میں گھرے ہوئے مومن کو چاہیے کہ سلف صالحین کی سیرت کا مطالعہ جاری رکھے اور ان سے تقویت حاصل کرے۔ ان کی سیرتوں میں سیکڑوں ہزاروں ایسے نمونے موجود ہیں جس سے اِبتلا میں رہنمائی ملتی ہے۔ ان نمونوں میں ان لوگوں کا اِبتلا میں صبروثبات، حق گوئی، تعلق باللہ نمایاں ہے۔ اس لیے اِبتلا میں گھرے ہوئے شخص کو ان کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
دعوت دین میں مصروف و مشغول لوگوں کو ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی غائبانہ دعائیں پہنچتی رہتی ہیں، نیز ان ساتھیوں کی طرف سے دعائیں ہوتی ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ ان کی دعائیں ان کو گھیر لیتی ہیں۔ بہرحال اِبتلا وآزمایش کے وقت انسان بہت ساری برائیوں سے بچ جاتا ہے اور شیطان کے وسوسوں اور شرارتوں سے محفوظ رہتا ہے۔
اس دور میں مسلم اُمہ پر اجتماعی طور پر اور دعوت کا کام کرنے والوں پر خاص طور پر بڑی اِبتلائیں اور آزمایشیں آئی ہیں۔ اس طرح انفرادی طور پر بھی کافی لوگ اس سے گزرے ہیں۔ ان میں مصر کے علما و دعاۃ اور صلحا گرفتار ہوئے، نیز شام، ترکی، سوڈان اور دیگر ممالک سے وابستہ افراد کی طویل فہرست ہے۔ ان کے ہراول دستے میں محمد بن عبدالوہاب، سید محمد احمد مصری سوڈانی، سیدجمال الدین افغانی، امام محمد عبدہٗ، رشید رضا مصری، امام حسن البنا شہید، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا محمودحسن، مولانا محمدقاسم نانوتوی، فقیرایپی، مُلّا شوربازار، مولانا تاج محمودامروٹی، سیدقطب شہید، عبدالقادر عودہ شہید شامل ہیں، جنھوں نے تمام تر خطرات و مشکلات کو انگیز کر کے اُمت کو روشن شاہراہ دی اور بہت بڑا علمی ذخیرہ چھوڑا۔ کچھ لوگ گھر سے بے گھر، وطن سے بے وطن اور بے بسی کی حالت میں ہجرت کر کے نکلے لیکن دین کے کام میں آخر دم تک مصروف رہے۔ ان کی فہرست تو بہت طویل ہے البتہ کچھ کا تذکرہ کیا جاتا ہے جیسے محمد غزالی، زینب الغزالی، عبدالبدیع صقر، محمد علی صابونی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، استاد عبداللہ العلوان، سعید رمضان، ڈاکٹر مصطفی السباعی، عبدالرحمن عزام، حسن الہضیبی، السید سابق، فواد سرگیں، عبدالوہاب خلاف، ڈاکٹر نبیل الطویل اور ڈاکٹر عبداللہ عزام شہید وغیرہ۔ یہ چند نام تو ان حضرات کے ہیں جنھوں نے زبان و قلم، علم وعمل سے جہاد کیا لیکن جنھوں نے اپنے مال ودولت اور جسم و جان سے اس راہ میں قربانیاں دیں وہ تو اَن گنت ہیں، ایک طویل فہرست ہے۔ اس دور میں عزیمت اور ثابت قدمی کی مثالیں افغانستان میں بگرام اور قندھار کی جیلیں، عراق کی ابوغریب اور گوانتاناموبے کے قیدیوں اور بہن عافیہ صدیقی کی ہے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو نشانِ راہ اور روشنی کے مینار ہیں۔
ایسے ہی لوگ اس آیت کے مصداق بنتے ہیں اور اس زمرے میں شامل ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) ’مومنوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنے دل و جان سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے اصلاحِ حال کے لیے مصروف ہیں۔ فرمایا: وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ان کو ہم اپنی راہوں کی ضرور ہدایت دیتے ہیں‘‘۔
الغرض اِبتلا و آزمایش مومن کے لیے ایک لازمی منزل ہے، لہٰذا اسے پہچاننا، اس کا احساس و شعور رکھنا، اس میں ثابت قدم رہنا، اس سے صحیح طور پر نکلنے کے لیے جدوجہد کرنا اور روحانی و مادی وسائل ڈھونڈنا مومن کا وتیرہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی سے سرفراز فرمائیں۔ آمین!
دین اسلام کی اہم اساسی اصطلاحات میں سے ایک بڑی اصطلاح اِبتلا ہے۔ انسانی زندگی میں، چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اِبتلا کا واقع ہونا ضروری ہے۔ یہ فطرۃ اللہ ہے، یہ سنت اللہ ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہر انسان کی آزمایش کرکے اسے لوگوں کے سامنے نمایاں کرتا ہے۔ اس سے انبیا، صلحا، شہدا اور اولیاء اللہ، مسلم اور غیرمسلم سب کو واسطہ پیش آتا ہے اور ہرانسان کو اس سے گزرنا ہوتا ہے۔ جب انسان کو موت اور حیات سے سابقہ پیش آتا ہے تو اسے اس منزل سے گزرنا بھی لازمی ہے۔ ارشار باری تعالیٰ: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط وَّھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ o (الملک ۶۷:۲) ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی‘‘۔
باری تعالیٰ نے عمومی اِبتلا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَالِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاo (الکھف ۱۸:۷) ’’واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے، اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں، ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔
ان دونوں آیات کا روے سخن تمام انسانوں کی طرف ہے۔ گویا یہ سروسامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں اور رنگینیوں پر تم فریفتہ ہو ایک عارضی زینت ہے جو محض تمھیں آزمایش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے لیکن تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوکہ یہ سب کچھ ہم نے تمھارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا اور کسی مقصد کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامان عیش نہیں،بلکہ وسائلِ امتحان ہیں۔ تمھیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس انسان نے زندگی دیکھی ہے وہ لازماً موت بھی دیکھے گا اور اسے دنیا کی زندگی میں اِبتلا و آزمایش اور امتحان سے گزرنا ہوگا۔
اِبتلا کا مادہ ب ل و ہے۔ اس کا مصدر بلاء ہے۔ قرآن مجید میں اس مصدر اور جڑ سے کل ۳۷ کلمات آئے ہیں۔ یہ کلمہ دو ابواب سے آیا ہے: باب بَلٰی یَبْلُوْ بلائً (ن) اِبتَلی یَبْتَلِیْ اِبْتِلَائً سے مختلف افعال اور اسماء کی صورت میں آیا۔ یہی بَلٰی یَبْلُوْ بَلَاء فعل متعدی ہے اور اِبْتَلٰی یَبْتَلِیْ اِبْتِلَائً سے فعل لازم اور متعدی دونوں ہیں جس کے معنی ہیں: آزمانا، تجربہ کرنا اور امتحان لینا۔ یہی معنی بلاء اور اِبتلا کے اصطلاحی بھی ہیں۔ انسان کے مقصدِحیات کے بارے میں آزمایش کرنا اور امتحان لینا۔ اس کلمے کے دو اور مترادف کلمے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں: فِتنَۃ، فَتَنَ، یَفْتِن اور اِمتحان کا کلمہ ہے ان تینوں کے معنی بظاہر تو ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن معنی میں گہرائی کے لحاظ سے تھوڑا سا فرق ہے۔
۱- اِمتَحَن، اِمْتِحَان ایسی آزمایش کو کہتے ہیں جس میں سختی کے بجاے نرمی کی جائے اور اس میں کشایش کا پہلو بھی شامل ہو۔ (ملاحظہ کریں سورۃ الممتحنہ ۶۰:۱۰)
۲- بَلٰی یَبْلُوْبَلَائً ایسی آزمایش جس میں سختی اور نرمی دونوں پائی جائیں۔ یہ آزمایش خیروشر، نرمی و سختی دونوں صورتوں میں ہوسکتی ہے جیسے ارشاد ہے: بَلَوْنَاھُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلََّھُمْ یَرْجِعُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۶۸) ’’اور ہم ان کو اچھے اور بُرے حالات سے آزمایش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں‘‘۔
چونکہ آزمایش عموماً تکلیف دہ ہوتی ہے اس لیے تکلیف اور شر کا پہلو غالب ہوتا ہے، تاہم دونوں طرح سے ہوسکتی ہے۔ پھر ایک لطیف فرق یہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ اِبتلا عموماً ایسے اتفاقی حادثے سے ہوتی ہے جو لوگوں کو دکھائی دیتا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت لیں جیسے: وَ اِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ… (تفصیل آگے آرہی ہے)
۳- فَتَنَ، فِتْنَۃ میں اِبتلا کی طرح نرمی اور سختی پائی جاتی ہے، تاہم اس میں سختی زیادہ ہوتی ہے۔
حاصل یہ کہ اِبتلا انسان کی ذاتی برائی، خباثت اور غلطی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ عام طرح حادثے کے طور آتی ہے۔ (مترادفات القرآن عبدالرحمن کیلانی ’آزمایش‘)
احادیث مبارکہ اور سنت مطہرہ میں اِبتلا کا کلمہ متعدد مرتبہ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی چھوٹی باتوں اور چیزوں سے لے کر بڑے معاملات تک میں آزمایش ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں صرف تین حدیثیں بیان کی جاتی ہیں۔
ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہربندے کو کسی نہ کسی طرح آزمایا جاتا ہے۔ البتہ اس آزمایش کا احساس کرنا، اس میں ثابت قدم رہنا، آزمایش میں پورا اُترنا اور اس سے پار ہوجانا مومن کو نصیب ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِبتلا کے مختلف پہلو اور نوعیتیں بیان کی ہیں۔ یہاں ان کا ایک مختصر مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔
سورۂ ملک کی اس آیت سے پانچ بنیادی نکات نکلتے ہیں:
ا- موت و حیات اسی کی طرف سے ہے۔ کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے والا ہے اور نہ موت دینے والا ہے۔
ب- انسان کی نہ زندگی بے مقصد ہے نہ موت۔ خالق نے اسے یہاں امتحان کے لیے پیداکیا ہے۔ زندگی اس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہوگیا ہے۔
ج- اسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک انسان کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کرکے اپنی اچھائی اور برائی کا اظہار کرسکے۔
د- خالق ہی دراصل اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا برا ہے۔
ھ- جس شخص کا جیسا عمل ہوگا اسی کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی کیونکہ اگر جزا اور سزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے۔
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o اِنَّا ھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا o (الدھر ۷۶:۲-۳) ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا، ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
اس آیت کریمہ میں انسان کی اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت بتائی گئی۔ وہ درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد تخلیق یہیں پورا ہوجائے، نیز یہ دنیا انسان کے لیے نہ دارالعذاب ہے، نہ دارالجزا جیساکہ تناسخ کے قائلین سمجھتے ہیں اور نہ چراگاہ اور تفریح گاہ ہے جیساکہ اکثر مادہ پرست سمجھتے ہیں اور نہ رزم گاہ (میدانِ جنگ) جیساکہ ڈارون اور مارکس کے پیروکار سمجھتے ہیں، بلکہ یہ دراصل اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے جہاں خالق نے یہ دیکھنے کے لیے پیدا کیا ہے کہ وہ زندگی کا کون سا رویہ اختیار کرتا ہے: نیکی اور فرماں برداری کا، یا برائی اور نافرمانی کا۔ انسان کو سمیع اور بصیر بنانے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسے نیکی اور بدی کی حِس دی گئی ہے جس کے ذریعے وہ اِبتلا و آزمایش میں پورا اُترے اور کامیاب ہو۔
سورۃ الفجر میں ارشاد ہے: ’’مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنادیا۔ اور جب وہ اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا‘‘۔ (الفجر ۸۹:۱۰-۱۶)
اس آیت پر غور کرنے سے عام لوگوں کا نظریہ اور دنیاوی زندگی کا تصوریہ سامنے آتا ہے کہ یہاں کی خوش حالی، مال و دولت کو عزت اور اللہ کی رضا سمجھا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں پر اللہ راضی ہے اور ان چیزوں کے نہ ملنے کو یا چھن جانے کو ذلت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اصل حقیقت جسے یہ لوگ نہیں سمجھتے، یہ ہے کہ اللہ نے جس کو دنیا میں جو کچھ بھی دیا ہے آزمایش کے لیے دیا ہے۔ اس کی طرف سے دولت اور جاہ و اقتدار میں بھی آزمایش ہے اور مفلسی اور فقر میں بھی آزمایش ہے۔
مذکورہ بالا ان تینوں آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزمایش ہر انسان کی ہونی ہے چاہے کوئی بھی اور کسی مذہب و ملک کا باشندہ اور ملت کا فرد ہو۔ اسے اس منزل سے گزرنا ہے۔ البتہ عام انسانوں کے لیے آزمایش اور امتحان کی نوعیت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک، رازق و رؤف، حاکم و مقتدراعلیٰ کو سمجھیں، اس پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کو برحق جانیں۔
دوسری آزمایش اور امتحان ان لوگوں کا ہوتا ہے جو دین اسلام کو قبول کر کے اپنے آپ کو اُمت مسلمہ کا فرد اور مسلمان کہلاتے ہیں۔ ان کی آزمایش کئی نوعیت کی اور کئی طرح کی ہوتی ہے۔ بعض کی بڑی سخت اور بعض کی نرم اور وقتی ہوتی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مختلف انداز سے بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے چند نوعیتیں یہ ہیں:
اللہ تعالیٰ نے اس موقع کو اِبتلا و آزمایش سے بیان کیا ہے: ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا o (الاحزاب ۳۳:۱۱) ’’اس وقت ایمان لانے والے خوب آزماے گئے اور بری طرح ہلامارے گئے‘‘۔ ایمان لانے والوں سے مراد یہاں وہ سب لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں میں شامل کیا تھا، ان میں سچے اہلِ ایمان بھی شامل تھے اور منافقین بھی۔
اس اِبتلا نے سچے مسلمانوں اور منافقین کو علیحدہ کیا۔ دونوں کے کردار پر آیت ۱۲ سے لے کر ۲۰ تک تفصیلی تبصرہ کیا گیا ہے۔ اِبتلا سے کیسے پار ہو اور کتنے صبر اور عزیمت کا اظہار کیا جائے، سب اس سورت میں بیان ہوا ہے۔
ب- آزمایش پر پورا اُترنے پر مخالفین (کفار اور مشرکین) کی طرف سے طعن وتشنیع سننا اور صبر کرنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ قف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا ط وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرo (اٰل عمرٰن۳:۱۸۶) ’’مسلمانو! تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمایشیں پیش آکر رہیں گی، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو، تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے‘‘۔
جب تم آزمایش میں پورے اُترو گے تو ان سے طعن و تشنیع، ان کے الزامات اور بے ہودہ طرزِکلام اور ان کے جھوٹے پروپیگنڈے سے واسطہ پیش آئے گا۔ لہٰذا ایسی حالت میں صبر اختیار کرنا، حق و صداقت پر قائم رہنا اور وقار، تہذیب اور اخلاقِ فاضلہ کو اپنانا ہی ان کا جواب ہے۔
ج- مسلمانوں کی اِبتلا وآزمایش کا بیان اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ میں ان الفاظ میں فرمایا:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo (البقرۃ۲:۱۵۵) ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو۔
اسلام کی اس اصطلاح کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کی جو آزمایش کی جاتی ہے اور ان سے جو امتحان لیا جاتاہے وہ کئی نوع اور انداز کا ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمان کو اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، اس کا جائزہ لینا چاہیے اور سوچتے رہنا چاہیے کہ کہیں میری آزمایش تو نہیں ہو رہی ہے۔ (مزید ان آیات کا مطالعہ کریں: البقرہ ۲:۲۴۹،آل عمران ۳:۱۵۲-۱۵۴، المائدہ ۵:۴۸، الانعام ۶:۱۶۸، الانفال ۸:۱۷، النحل ۱۶:۹۲، الاحزاب ۳۳:۱۱)
ا- وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰھِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ وَنَبْلُوَاْ اَخْبَارَکُمْo (محمد۴۷:۳۱) ہم ضرور تم لوگوں کو آزمایش میں ڈالیں گے تاکہ تمھارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں۔
جہاد کے ذریعے اور میدانِ جہاد میں آزمایش کرنا تاکہ سچے مومن اور منافق واضح ہوجائیں اور کسی کو غلط فہمی نہ رہے۔
ب- ذٰلِکَ ط وَلَوْ یَشَآئُ اللّٰہُ لاَنْتَصَرَ مِنْھُمْ وَلٰـکِنْ لِّیَبْلُوَاْ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍط وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَھُمْo (محمد۴۷:۴) یہ ہے تمھارے کرنے کا کام، اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا، مگر یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے، تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے آزمائے، اور جو لوگ اللہ کی راہ میںمارے جائیں، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
اللہ کے پیش نظر یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو حق پرست ہوں وہ باطل پرستوں سے ٹکرا جائیں اور ان کے مقابلے میں جہاد کریں تاکہ جس کے اندر جو کچھ اوصاف ہیں وہ اس امتحان سے نکھر کر پوری طرح نمایاں ہوجائیں اور ہر ایک اپنے کردار کے لحاظ سے جس مقام اور مرتبے کا مستحق ہے وہ اسے دیا جائے۔
اس آیت میں تین حقیقتیں بیان ہوئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا، یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی ملکیت میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دیں، ان میں تصرف کرنے کا اختیار دیا۔
دوم یہ کہ ان خلیفوں میں مرتبوں کا فرق بھی اللہ نے ہی رکھا ہے۔ کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود،کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کرنے کے اختیارات دیے اور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوت کار دی اور کسی کو کم اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔
سوم یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے۔ پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے اور جس کو جو کچھ بھی اللہ نے دیا ہے اس میں اس کا امتحان ہے کہ کس طرح اللہ کی امانت میں تصرف کیا، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا اور کس حد تک اپنی قابلیت اور ناقابلیت کا ثبوت دیا۔ اسی آزمایش اور امتحان کے نتیجے پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔
طالوت کو بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت معلوم تھی، اس لیے کارآمد اور ناکارہ لوگوں کو چھانٹنے کے لیے آزمایش کا یہ طریقہ تجویز کیا اور اس سے کھرے کھوٹے لوگ علیحدہ ہوگئے۔ میرے نزدیک اگر دینی، دعوتی اور جہادی جماعتوں کے سربراہ آزمایش کا ایسا ہلکا طریقہ تجویز کریں اور کام میں لائیں تو گنجایش نظر آتی ہے۔
مسلمانوں کے گروہوں اور طبقات کی آزمایش کا تذکرہ قرآن مجید میں کافی مقامات پر آیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف اشیا اور معاملات سے آزمایش کی ہے۔ ان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے اور سابقہ اُمتوں کے واقعات ہیں۔ آپؐ سے پہلے واقعات میں اصحاب الجنۃ (باغ والے) (القلم ۶۸:۱۷)، اصحاب السبت، مختلف انبیاے کرام اور ان کے ساتھیوں کی آزمایش (البقرۃ ۲:۲۱۴)، ایوب علیہ السلام کی آزمایش (الانبیاء ۲۱:۸۳-۸۴)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے واقعات میں غزوئہ حنین (التوبۃ ۹:۲۰، المائدہ ۵:۹۴)، غزوئہ بدر، غزوئہ اُحد، غزوئہ تبوک (التوبۃ ۹:۱۱۸)، جب کہ دنیا کی خوش حالی و فراوانی سے آزمایش۔ (الکھف ۱۸:۷)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ابوالانبیا اور خلیل اللہ کی ایسی سخت آزمایش کی جیسی شاید ہی کسی نبی سے لی گئی ہو۔ انسانی زندگی میں جتنی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن سے وہ پیار کرتا ہے، محبت رکھتا ہے، وہ ساری ان کو حاصل تھیں اور اللہ کے بندے نے وہ سب قربان کردیں اور امتحان میں پورا اُترا۔ ابن کثیر کی روایت اور تفسیرتفہیم القرآن کے مطابق انھوں نے جن بڑے احکام کی تکمیل کی اور امتحان میں پورے اُترے وہ یہ ہیں: اللہ کی طرف سے حکم ہونے پر اپنی قوم سے جدا ہوجانا اور ان کو چھوڑ دینا، باوجود جان کے خطرے اور قتل ہونے کے ڈر کے ہوتے ہوئے نمرود کے روبرو جاکر توحید کی دعوت دینا اور اس سے حجت بازی کرنا، آگ کے الائو میں بے خطر کود جانا اور صبر کا مظاہرہ کرنا، ہجرت کا حکم ملنے پر اپنے وطن سے ہجرت کرنا، مہمان نوازی کرنا اور اپنے بیٹے کو اشارہ ملنے پر ذبح کرنا۔ ان آزمایشوں کے علاوہ انھوں نے کئی ایک بڑی قربانیاں دیں جیسے بیوی اور چھوٹے بیٹے کو عرب کے بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ دینا، اپنے خاندان کی دھن دولت کو چھوڑ دینا، روشن مستقبل اور خاندانی جاہ و جلال کو چھوڑ دینا۔
قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کا آزمایشی تذکرہ آیا ہے اور یہی (ہوش مندی اور حلم و علم کی نعمت) ہم نے ایوب کو دی تھی۔ یاد کرو جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ ’’مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور جو تکلیف اسے دی تھی اس کو دُور کردیا، اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے اپنی رحمتِ خاص کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے‘‘۔ (الانبیا ۲۱:۸۳-۸۴)
قرآن مجید میں اسی طرح دیگر انبیاے کرام کی آزمایش کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جیسے حضرت دائود علیہ السلام، ملاحظہ کریں۔ سورہ صٓ ۳۸:۷۱تا۳۰، الانبیا ۲۱:۷۸، سورۂ نمل اور سورئہ سبا۔ حضرت سلیمان ؑ ،سبا ۳۴:، صٓ ۳۸:۳۴
دکھ ، رنج و الم اورآلام و مصائب انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہر انسان کو اپنی زندگی میںکبھی نہ کبھی ایسے لمحات سے ضرور گزرنا پڑتا ہے جب وہ اپنے آپ کو انتہائی تنہا، دل شکستہ ، مایوس ، تھکا ہوا اور کمزور محسوس کرتا ہے۔ افسردگی و مایوسی کے یہ جذبات ماضی کے کسی غم کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں اور مستقبل کے خوف کا بھی۔ حال سے وابستہ فکریں اور پریشانیا ں بھی اس کا سبب ہوسکتی ہیں۔ اسی وقتی افسردگی کو غمگین ہونا کہتے ہیں اور اگر یہی کیفیت زیا دہ عرصے تک یا مستقل طور پر طاری ہوجائے تو ڈیپریشن کا مرض بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔درحقیقت ہرانسان کی آلام و مصائب کوسہنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے لیکن کوئی بھی فرد طویل عرصے تک غم نہیں سہہ سکتا ہے۔لہٰذا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے کہ اس نے خوشی اور غم دونوں کی کیفیا ت کو عارضی بنایا ہے۔لیکن انسان کی فطری خواہش یہ ہے کہ وہ ایک ایسی زندگی گزارے جہاں اس کو کسی بھی قسم کا کوئی خوف و غم لاحق نہ ہو۔ جنت کی زندگی کی ایک خاص بات یہی ہوگی کہ وہاں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ ۲:۶۲)کی تصویر پیش کرتا ہے۔لیکن اس دنیا کے حوالے سے قرآن میں اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ (البلد ۹۰:۴)، کہ انسان کو پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدم کا بیٹا اس حا لت میں پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے پہلو میں ۹۹مصیبتیں ہیں‘‘۔(ترمذی)
غم انسانی زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ یہ ایک ایسی قوت محرکہ ہے جو انسان کو ہمہ وقت اس کام کے لیے فکرمند کردیتی ہے جس کی فکراسے ہلکان کیے دیتی ہے۔ انسانی زندگی میں خوشی سے زیادہ غم کے اثرات ہوتے ہیں۔ لوگوں کی زندگیوںکا بدل جانا اور ان کا رخ تبدیل ہو جانا بھی اکثر اوقات کسی نہ کسی غم اور صدمے کے سبب سے ہوتا ہے۔ عام طور پر غم ا فراد کو مایوس کرنے کا سبب بنتا ہے لیکن ایک بندۂ مومن اپنی زندگی کے غموں کو بھی اللہ کی خوش نودی کا ذریعہ بناتا ہے اور جنت کا حق دار ٹھیرتا ہے اور یہ جبھی ممکن ہے جب ہمیں یہ علم ہو کہ و ہ کون سے غم ہیں جو نجات کا ذریعہ ہیں اور اللہ کی نگا ہ میں پسندیدہ ہیں، اور کون سے غم انسان کو جہنم کے قریب کرنے اور ذلت و پستی میں گرانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اپنی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو نہ جانے کتنے ہی ایسے غم ہیں جو صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے اور فخر جتا نے کی بنا پر لاحق ہیں۔
ہمارے غموں کی فہر ست ایسے ہی ادنیٰ غموں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ فکریں ہم پر اتنی طاری ہوجا تی ہیں کہ شخصیت میں غیبت ، ٹوہ ، تجسس ، حسد ، جلن جیسے ا خلا قِ رذیلہ پیدا کر دیتی ہے، جب کہ دنیا کی زندگی وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ کے مصداق ہے۔اس لیے کہ ان چیزوں میں مقا بلے اور مسابقت کا انجام سواے خسارے کے کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان چیزوں پر دل شکستہ ہوکر مایوس ہونے یا مل جانے پر اترانے کا رویہ سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔
قرآن کے مطابق دنیا کی مصیبتوں کی حقیقت کیا ہے؟ یہی کہ ’’اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈا لے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور ا گروہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔و ہ ا پنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، ا پنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۰۷)
ان آیات سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو ہمیں نقصان سے نجات دلا سکے اور جو بھی مصیبت یا نقصا ن ہمیں پہنچتا ہے و ہ مِن جانب اللہ ہوتا ہے۔اس پر غم کرنا ، حد سے زیادہ آنسو بہا نا اور فکر میں مبتلا ہونا دراصل توکل علی اللہ کی کمی کو ظا ہر کرتا ہے۔ہمارے یہ چھوٹے چھوٹے لاحاصل غم ہماری زندگی کے ادنیٰ ترین مقاصد کی عکاسی کرتے ہیں۔جو انسان مادی چیزوں کے حصول کو ا پنا مقصد قرار دیتا ہے اس کی زندگی ما ل و دولت ، عہدے ، نمود و نمایش اور تفاخر کے حصول کے پیچھے اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ کی عملی تصو یر بن جا تی ہے لیکن ان سب کے با و جو د نفس مطمئن نہیں ہوتا۔ خو شی کی ہرکیفیت میں ان چیزوں کے کم ہو جانے اور چھن جانے کا غم غالب آجاتا ہے اور زندگی عدمِ ا طمینا ن اور بے یقینی کا شکا ر رہتی ہے۔
یہ تصورِ رزّاقیت جتنا کامل اور پختہ ہوگا انسان اتنا ہی بے خوف ، نڈر اور بہادر ہوگا۔ دنیا کا کوئی خوف اور غم اسے لاحق نہیں ہوگا اورا سے حق کے راستے سے نہیں ہٹا سکے گا اور زندگی کی بھاگ دوڑ صرف اور صرف اس کے لیے وقف ہو کر نہ ر ہ جائے گی۔
کسی قریبی فرد کی جدائی پر دل قدرتی طور پر غمگین ہوتا ہے خود رسول کریمؐ کی آنکھیں اپنے صاحبزا دے کی جدائی پر آنسوئوں سے تر ہو گئی تھیں۔ اسی طرح حضرت خدیجہ ؓ کی عظیم رفاقت کے ختم ہونے پر، اور ہمدرد چچا ا بوطا لب کے انتقال پر بھی آپؐ بے حد غم زدہ ہوئے تھے۔یہ و ہ فطری غم ہیں جن میں آنسوئوں کا بہنا اختیار میں نہیں رہتا بلکہ حدیث کے مطا بق یہ رحم کا جذبہ ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھ دیا ہے۔ رحمت ِعالمؐ کے سب سے چھوٹے بیٹے کی جان کنی کے وقت آپؐ فرما رہے تھے کہ ’’ آنکھیں آنسو بہاتی ہیں ، دل دکھتا ہے ، مگر ہم زبا ن سے صرف وہی کہتے ہیں جس کو ہمارا پروردگار پسند کرتا ہے، اور ا ے ابراہیمؓ! ہمیں تیری جدائی کا بہت غم ہے‘‘۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے یہ منظر دیکھا تو کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ بھی رو رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’ابن عوفؓ ! یہ آنسو رحمت کی نشا نی ہیں ‘‘۔ تاہم، بعض اوقات یہ غم بھی شدت اختیار کرلے تو مایوسی کی کیفیت میں منہ سے کفریہ جملے نکل جاتے ہیں اور ناشکری کا رویہ اختیار کرلیا جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں اور مصیبت کے وقت بھی اپنے رب کی رضا تلا ش کرتے ہیں ان کے لیے قرآن میں آتا ہے کہـ:
الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶)ا ن لوگوں پرجب کوئی مصیبت و ا قع ہو جا تی ہے تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طر ف لو ٹ کر جانے و الے ہیں۔
پھریہ ا حساس کہ موت اور زندگی اللہ کے اختیار میں ہے درا صل ایک آزمایش ہے جو انسان کو سکون بخشتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ’’ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم اچھے بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں، آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ (الانبیا ۲۱:۳۵)
حضرت معا ذ ؓ جب یمن کے گورنر تھے تو ان کا لڑکا وفات پا گیا۔ رسولِ کریمؐ نے تعزیتی خط میں لکھا کہ ’’ اگر تم نے آخرت کے اجر و ثواب کے لیے صبر کیا، تو تمھارے لیے خدا کی رحمت، عنایت اور ہدایت ہو، پس تم صبر سے کام لو۔ اور خیال رہے کہ کہیں تمھاری بے قراری اور بے صبری تمھیں اجر سے محروم نہ کر دے اور تمھیں پچھتانا پڑے، یقین کرو کہ بے صبری اور بے قراری سے کوئی مرنے والا لوٹ کر کبھی نہیں آیا، نہ اس سے دل کا غم ہی دور ہوسکتا ہے، جو حادثہ پیش آیا ہے اسے تو آنا ہی تھا۔ والسلا م ‘‘۔ غرض یہ کہ فطری غم و آلام بھی اللہ کی نظر میں اسی وقت قا بلِ قبول ہیں جب انسان ایمان و یقین کا د ا من ہا تھ سے نہ چھوڑ ے اور اللہ کی ر ضا پر را ضی ہو کرصبر سے کام لے۔
انسان کے ہر عمل کا تعلق اس کی سوچ سے ہے، اگر سوچ کا ر خ درست کر لیا جائے تو زندگی کی بہت سا ر ی مشکلات خود بخود کم ہو جائیں۔
حضرت ا بوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمھیں کوئی تکلیف، مصیبت پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ’ اگر میں ایسا کرتا تو یو ں ہو جاتا ( یا نہ ہوتا ) ‘ بلکہ یہ کہا کر و کہ اللہ نے ہر چیز کو مقدر کر لیا ہے جو اس نے چا ہا وہ کر ڈالا۔ اس لیے کہ لَوْ یعنی اگر، شیطا ن کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔(مشکوٰۃ )
اس حدیث میں انسان کی اس کمزوری کی طر ف اشارہ ہے کہ انسان اپنی حکمت اور تدبیر پر بھروسا کرتا ہے تو اس کی مصیبتیں ایک بھاری غم میں تبدیل ہو جا تی ہیں کہ ’’کاش! یہ کر لیا ہوتا ‘‘ اور ’’کاش! یہ نہ کیاہوتا‘‘۔ اسی طرح مو ت کے وقت یہ کہنا کہ’اچا نک مو ت تھی ‘، ’جلدی ہسپتال پہنچ جاتے تو ایسانہ ہوتا‘‘، اس طرح کی باتیں کرنا گویا ہمارے دلوں کی ایسی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم اللہ کے فیصلوں پر راضی نہیں ہیں اور اس کے بجاے اپنی تدبیر ، حکمت اور عقل پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ لہٰذا جب مشکل درپیش ہوتی ہے تو انسان بجاے صبر کے بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مومن جب یہ یقین رکھتا ہے کہ ہر چیز مِن جانب اللہ ہوتی ہے تو اس کے دل کو ایک سکون اور اطمینان رہتا ہے۔
حضرت صہیب بن سنان ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: مومن کا معا ملہ بھی عجیب ہے۔ اسے جو کچھ بھی پیش آئے و ہ اس کے لیے سرا سر خیر ہوتا ہے اور یہ دولت مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں۔ جب ا سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اللہ کا شکر کرتا ہے اور جب ا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ (اللہ کے لیے) صبر کرتا ہے، اور (اس طرح) مصیبت بھی اس کے لیے سراسر خیر بن جا تی ہے۔ گویا صبراور شکر دو ایسے خوب صورت اعمال ہیں جو انسان کو اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتے ہیں۔ مصیبت پہنچنے کی صورت میں و ہ ا پنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کا موں سے روکتا ہے، یعنی صبر کرتا ہے، جب کہ نعمت ملنے پر اترا تا نہیں ہے کہ یہ سب میر ی اپنی تدبیر ، علم، تعلقا ت اور ا خلا ق کا حاصل کردہ ہے۔ایسے فرد کے غم اس کی درست سوچ کی و جہ سے کم ہو جاتے ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وقتی طور پر افسردہ ہونے کے بعد و ہ دوبارہ مصروفِ عمل ہوجاتا ہے اور اس پر مایوسی کی وہ کیفیت طاری نہیںہوتی جوایک غیردینی سوچ رکھنے و الے فرد پر ہوتی ہے بلکہ بندۂ مومن کے لیے ہرکرب ، قربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اللہ اپنی لا محدود قدرت کی و جہ سے و ہ علم رکھتاہے جو عا م انسان کو نہیں ہے اور ہمارا خالق بہتر جانتا ہے کہ کس وقت کون سی چیز ہمارے لیے بہترہے۔دعا ے ا ستخا رہ میں انسان کو یہی سکھایا گیاہے کہ انسان ا پنے ر ب سے و ہ خیر مانگے جو دین اورآخرت کی بہتری رکھنے والی ہو اور اسی سے را ستے کی آسانی مانگے۔ وہ تمام کام جو انسان کو دین و آخرت کی بھلائی سے محروم کر دیں، اُن سے بچنے اور اللہ کی پناہ میں آنے کی دعا کرے اور اللہ کے فیصلوں میں یکسوئی کا بھی طلب گار ہو۔ جب انسان اپنی ضرورت و خواہشات کو بھی اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور اس کے لا محدود علم و قدرت سے ر ہنما ئی کا طلب گار ہوتا ہے تو اللہ ا پنے بندوں کے دلوں کو سکون و ا طمینان نصیب کرتاہے اور انھیں نعم البدل بھی عطا فرماتا ہے۔دلوں کا ا طمینا ن اور معاملات میں یکسوئی کا حاصل ہونا صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے جب انسانی عقل اللہ رب العالمین کی قدرت و اختیار کے آگے جھک جائے اور کہے کہ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ (المؤمن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔
انبیاے کرا م ؑاور صحا بہ کرام ؓ جن کی زندگیا ں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، ان کی شخصیات کا تعارف و ہ پیشہ ، یا وہ عُہدہ نہیں ہے جو انھیںدنیاوی اعتبا ر سے حاصل تھا بلکہ ان کی سیرت و شخصیت کا نما یاں وصف ان کا اللہ کے دین کی دعوت اور اقامت دین کے لیے جدوجہد میں حصہ لینا ، اور اس نصب العین کے حصول کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینا ہے۔ غمِ روزگار ، ا ولا د اور روز مرہ زندگی کے غم انسان ہونے کے ناطے اُنھیں بھی لاحق ہوں گے لیکن ان کا حصہ ان کی زندگیوں میں اتنا ہی تھا جتنا اس عارضی زندگی کی اہمیت ہے۔ایک مسافر اور ا جنبی کی حیثیت سے رہنے و الے فرد کو اس عارضی زندگی میں صرف منزل تک پہنچنے کی پریشانی ہوتی ہے جو کہ بندۂ مومن کے لیے جنت ہے۔ باقی عارضی پریشانیوں کو دُور کرنے کا نہ اس کو اختیارہے نہ طاقت ہی ۔لہٰذا و ہ اپنی توانائیاں ایسے لاحاصل غم میں ضائع نہیں کرتا جس کا کوئی حاصل نہیں۔حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’جو شخص دنیا کو ا پنا نصب ا لعین بنائے گا ، اللہ اس کے دل کا اطمینا ن و سکون چھین لے گا اور ہر وقت مال جمع کرنے اور ا حتیا ج کا شکا ر ہوگا ، لیکن دنیا کا حصہ اتنا ہی اسے ملے گا جتنا اللہ نے اس کے لیے مقدر کیا ہوگا۔ اور جن لوگوں کا نصب العین آخرت ہوگی ، اللہ تعالیٰ ان کو قلبی سکون نصیب فرما ئے گا اور ما ل کی حر ص سے ان کے قلب کو محفوظ رکھے گا اور دنیا کا جتنا حصہ ان کے مقدر میں ہوگا وہ لازماً ملے گا۔‘‘(ترغیب و ترہیب)
اس سوال پر انسان سوچے تو اس کے لیے عملِ خداوندی کے ہزار مثبت پہلو اور پُرسکون زندگی کی بے شمار بنیادیں نکل آئیں:
۱- انسان کے ا و پر مصیبتیں نہ آئیں تو ا سفل سا فلین کے درجے تک پہنچنے میں د یر نہیں لگتی۔ اس کی زندگی کھا ؤ پیو، عیش و آرا م کے دائرے تک ہی محدود ہو جائے اور وہ ایک شترِ بے مہار کی سی زندگی گزارے۔
۲- غم اور مشکلات ہی انسان کو یہ شعور عطا کرتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور اس کے ا پنے زورِ بازو کا نتیجہ نہیں ہیں۔ وہ جب چا ہے انھیں وا پس لے لے، اور جب چا ہے کسی بھی نعمت کے نقصان یا جدائی سے دوچار کر دے۔ اس لیے ایسا انسان کسی بھی ناکامی پر ملول اور مایوسی کی کیفیت سے دوچا ر نہیں ہوتا۔
۳-یہ مصیبتیں ہی دراصل صبر کرنا سکھاتی ہیں اور شکر کے جذبے سے بھی آشنا کرتی ہیں۔
۴- ہر چیز مِن جا نب اللہ ہے اور یہی ہمارے رویوں کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھے برے حالات میں ڈال کر ہماری آزمایش کرتا ہے کہ ہم اللہ کی طر ف رجوع کرنے و الے ہیں یا بندوں سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔
۵- انسان اس حقیقت سے بھی آشنا ہوتا ہے کہ نہ تو ر نج وآلام ہمیشہ کے لیے ہیں اور نہ خو شیا ں اور مسرتیں ہی ۔ یہ تمام چیز یں وقتی طور پر دنیا کی زندگی کا حصہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے ایک آزمایش ہیں۔ با قی رہ جانے و الی صرف نیکیا ں ہیں جو انسان کے کام آتی ہیں۔
یہ مال اور اولاد محض دنیاوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ (الکھف ۱۸:۴۶)
۶- ہماری مشکلات اور مصیبتیں جن پر ہم اللہ سے را ضی رہتے ہیں اور صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے صلے میں ہماری خطاؤں سے درگزر کرتا ہے۔حدیث ہے کہ : مسلمان کو جو رنج، دکھ، غم، تکلیف اور پریشانی آتی ہے، حتیٰ کہ اگر اس کو ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفا ر ہ بنا دیتا ہے۔( بخاری ، مسلم)
۷- رنج و غم دل کو گداز کرتا ہے اور ایسا دل اللہ کے کلا م کے ا ثرا ت کو جلد قبول کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے بلکہ رحم ، ہمدردی اور محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ؎
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی
۸- انسان عا رضی چیزوں کی و قعت اور اور ان سے دل لگا نے کے انجام سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ اس طرح باقی رہ جانے والی جنت اور اس کے حصول کے لیے تیاری کرتا ہے اور دنیا کے غموں پر اس کا ر و یہ یہ ہوتا ہے کہ و ہ جنت کی د ا ئمی خو شیوں اور آرا م کا طلب گار رہتا ہے۔
ان غموں میں سے کچھ غم ایسے ہیں جو انسان کی زندگی کو مثبت ر خ دیتے ہیں او ر جن کا کرنا آخرت میں انسان کی نجات کا با عث بنتا ہے اور اسے اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتا ہے۔
اپنے گناہوں پر غمگین ہونے و الے ا فراد درا صل اللہ کی عظمت و ہیبت سے لرزتے ہیں۔ پھر اپنی کو تاہیوں، غفلتوں اور اپنی بے بسی اور عا جزی کا ا ظہار دعا کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ وہ غم ہے جو دل کو سکون اور ا طمینا ن سے بھر دیتا ہے اور اُسے اللہ کا مقرب بنا دیتا ہے۔
غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح سے نیکی کی طرف سبقت لے جانے کی ترغیب دے رہا ہے: ’’دوڑو اور ایک دوسر ے سے آگے بڑھنے کی کو شش کر و ا پنے ر ب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسما ن و زمین جیسی ہے‘‘(الحدید ۵۷:۲۱)۔ یہ غم ایک مومن کی متا ع ہے کہ اس دوڑ میں و ہ پیچھے نہ ر ہ جائے۔ اسی فکر و ا ضطراب نے لوگو ں کے دلوں کو حق کی طرف مائل کیا ہے۔ یہی غم لوگوں کو فلاح کا را ستہ دکھانے اور ا نھیں جہنم کی آگ سے بچانے کے جنون میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
دراصل یہ وہ غم تھے جو ان عظیم ا فراد کو ہلکان کیے رکھتے تھے۔ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے زانو پر سر رکھے سو رہے تھے کہ حضرت عائشہؓ کی آنکھ سے آنسو ٹپکے اور آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔ فکرمند ہو کر پوچھا: ’’ا ے عائشہ ؓ! تمھیں کس غم نے رُلا دیا؟ اُم المومنینؓ گویا ہوئیں: ’’یارسولؐ اللہ! مجھے جہنم کی یاد آگئی___ اُس نے رُلا د یا۔پھر پوچھا: ’’یارسولؐ اللہ! کیا قیامت کے دن آپؐ ا پنے گھر والوںکو یا د رکھیں گے ؟ ‘‘ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! تین مقامات ایسے ہوںگے جہاں کوئی کسی کو یا د نہ رکھے گا ، نہ خبر لے گا۔ عندالکتاب، وہ وقت جب اعمال نامہ کھولا جائے گا، عندالمیزان، وہ وقت جب اعمال تولے جائیں گے اور عندالصراط وہ وقت جب پل صراط پر سے گزارا جائے گا‘‘۔ اسی طرح ایک با ر اللہ کے نبیؐ نے کچھ لوگوں کو کھِل کھلا کر ہنستے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر تم لذتوں کا خا تمہ کرنے والی موت کو زیادہ یاد کرتے تو وہ تمھیں ہنسنے سے روک دیتی‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح حضرت عثمان بن عفا ن ؓ کے آزاد کردہ غلا م ہا نی کا بیان تھا کہ حضرت عثمانؓ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے یہاں تک کہ اپنی داڑ ھی تر کرلیتے ، کہ قبرآخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔
انسان کو غم پالنے کا شعور ہو تو وہ ایسے غم پالتا ہے جس سے اس کی آخرت بھی سنور تی ہے اور دنیا کے معاملات بھی درست ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی غم کا سبق ہمیں اسوۂ رسولؐ سے بھی ملتا ہے اور اسی کی عکاسی صحابہ کرام ؓ کی زندگی سے بھی ملتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ہماری اور اُن کی زندگیوں میں پایا جاتا ہے۔ غم وہ حقیقت ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم کون سے غموں کو اہمیت دیتے ہیں، کون سی باتیں ہمیں مضطرب کرتی ہیں اور کس پریشانی میں ہمارے آنسو بہتے ہیں۔ فطری غموں اور روز مر ہ کی تکا لیف پر آنسو بہانا بھی منع نہیں لیکن صرف انھی معاملات پر آنسو بہانہ اور غمگین رہنا بھی پسندیدہ نہیں ہے۔
خود نبی کریمؐ اپنی اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: ’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا تو پتنگے اس پر گرنے لگے، اور و ہ شخص پو ر ی قوت سے ان پتنگوں کو آگ سے روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوششوں کو ناکام بنائے دے رہے ہیں اور آگ میں گرے پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح میں تمھیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک ر ہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو‘‘۔
یہ فکر کی وہ کیفیت ہے جو دنیا کے معز ز ترین گروہ کے اضطراب کو ظاہر کر تی ہے۔ان کا غم صرف یہ تھا کہ کسی طرح انسانیت کو فلاح کا را ستہ دکھا دیا جائے۔یہ وہ غم تھا جو ا نبیاے کرا م کو ان کے اعلیٰ ترین مقصد ِ زندگی کی وجہ سے ہلکان کیے دیتا تھا۔لہٰذا ایک بندۂ مومن کو اس غم سے بڑھ کر اور کون سا غم عزیز ہوگا، جب کہ جہنم کے سیاہ گہرے شعلے نافرمانوں کے لیے بھڑکا ئے جا رہے ہوں، انسانیت اللہ کی حدود کو توڑ کر درکِ ا سفل کی پستی میں گرتی چلی جا رہی ہو،کمزوروں و مظلوموں سے جینے کا حق چھینا جا ر ہا ہو اور طاقت ور دنیا کی ہر چیز پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھے چلے جا رہے ہوں، ایسے میں صرف ایک ہی غم اور ایک ہی فکر غالب ر ہتی ہے کہ دنیا میں ظلم کے نظا م کا خاتمہ ہوسکے، سسکتی انسانیت اسلام کے سائے تلے پنا ہ لے سکے اور نجات کی راہ پا جائے۔ یہی وہ غم تھا جو تمام ا نبیا کو ہلکان کیے دیتا تھا، یہی فکر تھی جو حضرت ا برا ہیم ؑ کو ا پنے شیرخوار بچے اور بیوی کو وادیِ غیرذی زرع میں چھوڑ کر جانے کے لیے تیا ر کر دیتی ہے۔ یہی ا حساس تھا جو حضرت موسٰی ؑ کو فرعون کے دربار میں کلمۂ حق بلند کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہی وہ ا ضطراب تھا جو نبی کریمؐ کو غارِحرا کی تنہائی سے نکال کر یاایھا المدثر کا خطاب عطا کراتا ہے۔طائف کے میدان میں لہولہان کرا دیتا ہے۔ اس فکر ہی میں کبھی شعب ابی طالب کا دشوارگزار مرحلہ آتا ہے تو کبھی عکاظ کا میلہ۔ اسی غم کی قوت بدر و اُحدکے معرکے برپا کراتی ہے اور اسی غم سے قیصروکسریٰ کے ایوان لرز ا ٹھتے ہیں۔ اسی کی کڑی فتح مکہ کا سبب بنتی ہے۔ غرض ہر جگہ، ہر لمحے اور ہر وقت صرف یہی فکر غالب رہتی ہے کہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچ جائے اور اللہ کی زمین میں اللہ کا دین نا فذ ہو جائے۔
یہاں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینا ضر وری ہے۔ ہماری زندگیوں میں کون سا غم ہے جو ہمیں پریشان و مضطر ب رکھتا ہے۔ کیا ہم بھی بندۂ درہم و دینارہیں جن کے لیے نبیؐ نے فرمایا: ’’تباہ ہوجائے دینار کا بندہ اور درہم کا بندہ اور کمبل (چادر) کا بندہ، اور اگر ا سے د یا جائے تو خو ش اور نہ دیا جائے تو غصے ! تباہ ہوجائے اور منہ کے بل گرے۔ کانٹا چبھے (تو اللہ کرے کہ ) نہ نکلے۔مبارک ہو اس بندے کو جو اللہ کی راہ میں ا پنے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے ہو ، بال بکھرے ہوئے ہوں اور پائوں گرد آلود! اگر ا سے پہرے پر لگایا جائے تو پہرا دے اور اگر پچھلے لشکر میں چھوڑ د یا جائے تو پچھلے لشکرہی میں رہے۔ اگر ا جازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ سنی جائے۔ (بخا ری ، کتاب الجھاد)
یہ حدیث ہر اس بندے کے لیے وعید ہے کہ جو حبّ دنیا اور ما ل و دولت کے پیچھے اپنی جان، وقت اور صلا حیتیں صرف کرتا ہے، جب کہ و ہ ان سا ری کوششوں کے باوجود اپنی تقدیر سے نہیں لڑسکتا ہے، لیکن خوشخبری و مبارک باد ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کے راستے پر اپنی جان کھپا دینے کی وجہ سے قا بلِ فخرہے اور مبا رک باد کا مستحق ہے۔ حالاںکہ اس کی دنیاوی حیثیت اتنی بھی نہیں کہ کوئی اس کی با ت کو قا بلِ تو جہ سمجھے۔
ہر وہ فرد جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو یہ جانچ لینا چاہیے کہ و ہ ا پنے دعویٰ ایمان میں کتنا سچا اور کھرا ہے۔کیا اس کی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ گزرا جب اس کا دل اس لیے غمگین ہو ا ہو کہ دنیا میں اللہ کی حدود پامال ہو رہی ہیں ، اللہ کی راہ میں لڑنے والے ذلیل کیے جا رہے ہیں ،قرآن کی آیات کے من چاہے معنی نکالے جا رہے ہیں، تو کیا اس کا دل اسی طرح دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے جب اسے کسی ذاتی مصیبت یا آزمایش کا سامناکرنا پڑتا ہے ؟ کیا راتوں کی بیداری کا سبب کبھی یہ فکر بھی ہو ئی کہ اقامتِ دین کی اس جدوجہد میں اس کا اپنا حصہ کیا ہے ؟ کیا اس نے ا پنے حصے کا کام کر لیا ہے ؟ کیا وہ ایمان کی آزمایش کا صرف دعویٰ کرتا ہے یا اس کا عملی نمونہ بھی ہے؟ کیا اس کی جان و مال اللہ رب العالمین کے لیے وقف ہے؟، کیااس کی بھاگ دوڑ صرف دنیا کی عزت، مرتبہ و مقام ہی کے لیے ہے ؟ کیااس کی فکر اولاد کی ڈگری ، آمدنی و شادی تک ہی محدود ہے، یا ان کو اللہ کا بندہ بنانے اور صالحین کا امام بنانے کی بھی ہے؟ کیا اس نے کبھی اپنی اولاد کے لیے یہ دعا کی جو حضرت ابراہیم ؑ نے کی تھی؟یا اس کا شما ر ان ا فراد میں ہے کہ جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنی جان و مال اپنی دنیا بنانے کے لیے وقف کر دیتے ہیں، جو اللہ سے رجوع تو کرتے ہیں لیکن صرف اپنی مصیبتوں سے نجات کے لیے ، اور جن کے دل امت کے فکر و غم سے خالی ہیں۔کتنے افراد ایسے ہیں جن کی راتوں کی سسکیاں ان مجاہدین کے لیے ہوتی ہیں جو اللہ کے دین کی خا طر گوانتانامو اور ابوغریب میں ظلم کاشکا رہیں۔جو ان مظلوموں کے لیے مضطرب رہتے ہیں جن کو کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے اور ڈالروں کے عوض جن بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو نیلام کر دیا گیا ہے۔
آئیے جائزہ لیجیے کہ کیا ہم سب کے لیے امت کی مشکلات بھی ایسی ہی ہیں جیسے ہماری ذاتی مشکلات؟ کیا اس کے زخم بھی اسی شدت کے ساتھ محسوس ہوتے ہیں جیسے ا پنے جسم پر لگے زخم؟ جائزہ لیں کہ ہماری آہیں ، سسکیاں ، راتوں کا جاگنا ، دل کا افسردہ ہونا، اور پریشان ہونا کس کے سبب ہے؟کون سا غم ہے جو ہمیں ہلکان کیے دے ر ہا ہے ؟ ہمارا دل کس سوزوغم کا شکار ہے؟ہمیں کون سی بے قراری ہے؟ اور اگر ان سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان غموں سے نا آشنا ہیں تو پھر دعا کیجیے کہ ہم ان بے قرار داعیوں میں شا مل ہوجائیں جن کا شوق و ولولہ ، تڑپ ، سوز ، درد،لگن اور حوصلہ اُن کو کسی طرح چین سے بیٹھنے نہ دیتا ہو، جن کی جان صرف اس غم میں ہلکان ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ انسانیت قرآن کے سا ئے تلے آجائے۔جن کا اضطراب اللہ کے دین کے نفا ذ کے لیے ہوتا ہے وگرنہ اللہ کو ایسے غمگین دلوں کی کوئی پروا نہیں جو اس دھوکے کی زندگی کے مل جانے اور نہ ملنے پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معا ملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلا ئی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت ِعمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے ) اس لیے ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے مہلت دے دیتے ہیں۔ انسان کا حا ل یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے مگر جب ہم اس کی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں تو ا یساچل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوش نما بنا دیے گئے ہیںـ‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۱-۱۲)
اللہ سے دعا ہے کہ ہم حقیقی غموں کا شعورحاصل کریں اور ان ہی غموں سے اپنی زندگیوں کو مزین کر یں جو ہماری فلاح و نجات کا سبب بنیں۔
حضرت کعب بن عیاضؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ہر اُمت کے لیے (کوئی نہ کوئی) فتنہ اورآزمایش ہے (جس میں اس اُمت کے لوگوں کو مبتلا کرکے ان کو آزمایا جاتا ہے)۔ چنانچہ میری اُمت کے لیے جو چیز فتنہ اور آزمایش ہے وہ ’مال و دولت‘ ہے۔
حدیث مبارکہ کی وضاحت سے قبل لفظ ’فتنہ‘ کی تعریف اور اس کی اقسام سمجھ لیں۔ فتن جمع فتنہ کی ہے، ابتلا/امتحان، انسان کا اچھی حالت سے بری حالت میں آنا، کسی کی طرف میلان اور خودپسندی، یہ سب معنی آتے ہیں۔ اصطلاحِ شرع میں: ’’ہر ایسی چیز جو انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے غافل کردے فتنہ کہلاتی ہے۔ مثال کے طور پر مال اور اولاد کو بھی خداوند تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’فتنہ‘ کہا ہے، کیونکہ مال اور اولاد انسان کو یادِ الٰہی سے غافل کردینے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
اس حدیث مبارکہ کے پیشِ نظر عہدِنبویؐ سے لے کر موجودہ زمانے تک کی تاریخ پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ یہی مال و دولت سب کے لیے آزمایش بنا رہا ہے، جس کے ذریعے بے شمار بندوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بغاوت و نافرمانی کی اور مسلسل کر رہے ہیں۔ مال ودولت کے حصول کے لیے حلال اور حرام، جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرنے کو تیار ہیں، بس مال آنا چاہیے! ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: (غافل رکھا تمھیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں، سورۃ التکاثر:۱)
انسان کے مقدر میں جتنا مال لکھ دیا گیا ہے اتنا ہی اس کو ملے گا، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: ’’اے انسان اس بات کو جان لے کہ جو چیز تیری قسمت میں لکھی جاچکی ہے وہ ہرحال میں تجھے ملے گی خواہ توطلب وسوال کی راہ اختیار کریا اس کو ترک کر دے۔ اور جو چیز تیری قسمت میں نہیں لکھی وہ تجھ کو کسی حالت میں نہیں ملے گی ، خواہ تو اس کی طلب کی کتنی ہی حرص رکھے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کتنی ہی سعی وکوشش اور محنت ومشقت برداشت کرے ، لہٰذا تجھے جو کچھ مل جائے اس پر شاکر وصابر رہ، ہر جائزوحلال چیز کو حاصل کرنا ضروری سمجھ اور اپنی قسمت پر راضی ومطمئن رہ تا کہ رب ذوالجلال تجھ سے راضی وخوش ہو۔
یہ بات یاد رکھی جائے کہ مال ودولت کے سلسلے میں جو چیز مذموم ہے وہ مال ودولت کی محبت اور دنیا داری میں مبتلا ہونا اور اپنی چادر سے باہر پیر پھیلانا ہے ۔ یہ خصلت انسان کو ’مال کا بندہ‘ بنا دیتی ہے کہ اس کی ہر سعی اور جدوجہد کا محور، اس کی ہر تمنا وخواہش کا مرکز اور اس کے ہر فعل اور عمل کی بنیاد صرف مال اور زر ہوتا ہے۔ ہمیں مال کا نہیں ’اللہ کا بندہ‘ ہونا چاہیے۔ مال داری بذات خود کوئی مذموم چیز نہیں ہے، کسی شخص کے پاس (حلال ذرائع سے کمایا ہوا) کتنا ہی مال کیوں نہ ہو اور وہ کتنا ہی بڑ ا دولت مند کیوں نہ ہو اگر اس کا دل مال ودولت کی محبت میں گرفتار نہیں ہے تو اس کو بُرا کہنا درست نہیں۔
آپ نے سنا کہ ایک شخص گناہوں میں مبتلا ہے یا خود اپنی آنکھوں سے اس کو گناہ میں مبتلا دیکھا تو بے تعلق ہوکر گزر گئے کہ جیساکرے گا ویسا بھرے گا۔ دل میں نفرت اور بے زاری کی ہلکی سی خلش رہ گئی مگر جلد ہی آپ نے ذہن جھٹک دیا اور اپنے کاموں میں لگ گئے۔ بے شک وہ گناہ گار شخص اپنے کیے کی سزا پائے گا اور آپ جن اچھے کاموں میں اللہ کی رضا کے لیے لگے ہوئے ہیں ان کا بھرپور صلہ پائیں گے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس شخص کو آپ نے گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیکھا ہے اور جن کی طرف سے بے زاری اور حقارت کا جذبہ دل میں محسوس کر رہے ہیں، کیا اس کے ساتھ آپ کا یہ رویہ صحیح ہے کہ دل میں ہلکی سی خلش لے کر اس سے بے تعلق ہوجائیں اور بغیر کسی حق کے یہ فیصلہ کرلیں کہ جو بوئے گا، وہ کاٹے گا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس معاملے میں آپ کی یہ روش اللہ کو پسند نہ ہو۔
دین سر تا سر خیرخواہی کا نام ہے۔ اس گناہ گار کے ساتھ آپ نے کیا خیرخواہی کی؟ کیا اتنا کافی ہے کہ آپ اس سے بے تعلق رہیں؟ اپنا دامن بچائے رکھیں اور خود کو اس گناہ سے محفوظ رکھ کر یہ اطمینان کرلیں کہ کل خدا کے حضور آپ کہہ دیں گے کہ پروردگار میں نے اس گناہ گار سے تعلق نہیں رکھا اور خود کو اس کے شر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی، یا اس سے آگے بھی اس گناہ گار کا آپ پر کچھ حق ہے؟ وہ غافل ہے اور آپ باشعور ہیں۔ وہ آخرت سے بے پروا ہے اور آپ کو آخرت کی فکر ہے۔ وہ دین سے ناواقف ہے اور آپ دینی علم رکھتے ہیں۔ اس کو صالح ماحول نہیں مل سکا ہے اور آپ صالح ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا آپ پر اس کا یہ حق نہیں ہے کہ آپ اس کو آخرت کی سخت پکڑ سے بچائیں اور گناہ کے بدترین اثرات اور ہولناک انجام سے ڈرائیں۔ کیا آپ کے نزدیک اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ آپ کی نصیحت قبول کرلے اور توبہ کر کے خدا کی طرف لوٹ آئے۔
وہ شخص جس گناہ میں مبتلا ہے، اس سے اپنا دامن بچا کر آپ نے سمجھ لیا ہے کہ آپ اس سے محفوظ ہوگئے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ اور آپ جیسا شعور رکھنے والے سارے لوگ یہی اندازِ فکر وعمل اپنا لیں گے تو گناہ بڑھتے چلے جائیں گے اور پورامعاشرہ اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔ آپ بھی اس سے متاثر ہوں گے اور آپ کی نسلیں بھی،گناہ کی قباحت و شناعت دھیرے دھیرے کم ہونے لگے گی۔ گناہوں سے مصالحت اور برداشت کرلینے کی کیفیت بڑھتی چلی جائے گی اور نبی صادق و امینؐ کے الفاظ میں آپ گناہ بطور خود نہ کرنے کے باوجود گناہ کرنے والوں ہی میں شامل قرار دیے جائیں گے۔ بات کسی اور کی ہو تو آپ سنی اَن سنی بھی کردیتے لیکن یہ بات تو اُن کی ہے جن کی صداقت پر آپ کا ایمان ہے اور جن کے واسطے سے ہی آپ آخرت میں نجات کا یقین رکھتے ہیں۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے: ’’جس مقام پر لوگ گناہوں میں مبتلا ہوں اور کچھ ایسے لوگ وہاں موجودہوں جو اس گناہ کو برداشت نہ کر رہے ہوں تو وہ گویا وہاں موجود ہی نہیں ہیں، اور جو لوگ ان گناہوں پر مطمئن ہوں اور ان کو برداشت کررہے ہوں، وہ اگر موقع پر موجود نہ بھی ہوں تو بھی وہ گویا ان لوگوں میں موجود ہیں‘‘۔
حدیث کے اس صاف شفاف آئینے میں اپنے عمل و کردار کا چہرہ دیکھیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے کہ آپ جو رویہ اختیار کر رہے ہیں، وہ کس حد تک صحیح ہے اور حقیقت میں صحیح رویہ آپ کے لیے کیا ہے؟ صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ آپ گناہگاروں کے گناہ پر کُڑھیں اور اس کی کُڑھن سے بے چین ہوکر ان بھٹکے ہوئے بندوں کو انجامِ بد سے ڈرائیں۔ گناہ کے اثراتِ بد سے بچائیں اور اپنے معاشرے کو گناہوں سے پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
گناہ آپ کی بستی میں ہو رہا ہو، یا محلے میں یا آپ کا کوئی پڑوسی اس میں مبتلا ہو، بہرحال آپ کی یہ اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ آپ اسے روکیں اور گناہگار کے خیرخواہ بن کر اس کو گناہ سے بچانے کی فکر کریں اور ہرگز خود کو اس سے بے تعلق رکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کل خدا کے حضور پکڑے نہ جائیں گے۔ آپ کا پڑوسی کل خدا کے حضور میدانِ حشر میں آپ پر خیانت کا الزام لگائے گا اور آپ کے اس رویے پر رب سے فریاد کرے گا۔ امام حنبلؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
قیامت کے روز ایک شخص اپنے پڑوسی کا دامن پکڑ کر یہ فریاد کرے گا: اے میرے رب! اس نے میرے ساتھ خیانت کی ہے۔ وہ جواب دے گا: پروردگار! میں تیری عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس کے اہل و عیال اور مال میں کوئی خیانت نہیں کی ہے۔ فریادی کہے گا: پروردگار! یہ بات تو یہ سچ کہتا ہے لیکن اس نے خیانت یہ کی کہ اس نے مجھے گناہ کرتے دیکھا لیکن کبھی مجھے گناہ سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔(مسند احمد)
اللہ نے آپ کو دین کا شعور اور حلال و حرام کی تمیز دے کر اس ذمہ داری کے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ آپ رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کریں۔ لوگوں کو معصیت اور منکرات سے روکیں اور بھلائیوں کی ترغیب دیں، دل سوزی کے ساتھ شیریں گفتاری کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ اور اس کوشش میں اپنے اثرات بھی استعمال کریں۔ اگر آپ نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہ کی تو گویا آپ نے خیانت کی اور آپ کا پڑوسی کل حشرکے میدان میں آپ سے اسی خیانت کا الزام لگائے گا چاہے وہ آپ کے محلے کا پڑوسی ہو یا آپ کی بستی کا۔
ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے کہ جب عام لوگ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور شعور رکھنے والے صرف اپنی ذات اور اپنے گھر کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور مبتلاے گناہ لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، بلکہ اس سوچ سے خود کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ جیسا کریں گے ویسا بھریں گے اور ان کے گناہوں کو برداشت کرنے لگتے ہیں،تو یہ گناہ اور رب کی نافرمانیاں بڑھنے لگتی ہیں اور دھیرے دھیرے پورے سماج اور بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور اب تو ذرائعِ ابلاغ کی مدد سے پورے پورے ملک اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پھر اللہ کی جانب سے عذاب کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ ان لوگوں کو موت آئے یہ سب لوگ اللہ کے عذاب میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو گناہوں سے دور رہتے ہیں۔ حضوؐر کا ارشاد ہے:
جن لوگوں کے درمیان بھی کوئی شخص گناہ کے کام کررہا ہو اور وہ لوگ اس کو روک سکتے ہوں پھر بھی نہ روکیں، تو اس سے پہلے کہ یہ لوگ مریں سب کے سب خدا کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔(ابوداؤد)
دراصل اللہ نے مومن کا وصف ہی یہ بتایا ہے کہ وہ منکرات کو گوارا نہیں کرتا، بلکہ اس کو روکنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ رب سے وفاداری کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ زمین پر رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کرے اور رب کی فرماں برداری اور بھلائی کے پرچار پر لوگوں کو ہر ممکن ذریعے سے آمادہ کرے۔ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی۔ صحابہ کرامؓ کا دورِ سعادت اس کی بہترین اور قابلِ تقلید مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جو قرآن پاک میں قطعی طور پر خیراُمت کے لقب سے یاد کیے گئے ہیں، اسی بنیاد پر ان کو اس لقب سے نوازا گیا کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے تھے اور اللہ پر کامل ایمان رکھتے تھے۔
انفرادی طور پر بھی صحابہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ہرہر موقع پر نیکی اور اصلاح کے حریص رہتے تھے اور اس معاملے میں اپنا فرض اور دوسروں کا حق ادا کرنے کے لیے ہمہ دم مستعد رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو بارآور بھی کیا اور انھوں نے اپنی مخلصانہ کوششوں کے نیک نتائج سے اپنی آنکھیں بھی ٹھنڈی کیں۔
حضرت عمرؓ کے پاس شام کا رہنے والا ایک شخص اکثر آیا کرتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ بہت دن گزر گئے اور وہ نہیں آیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی یاد آئی، لوگوں سے اس کے بارے میں معلومات کیں تومعلوم ہوا کہ وہ کچھ بُرے کاموں میں پڑ گیا ہے، پینا پلانا شروع کردیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے کاتب کو بلایا اور اس کو ایک خط لکھوایا:
یہ خط ہے عمر بن الخطاب کی طرف سے… فلاں ابن فلاں ابن فلاں شامی کے نام۔
تمھارے اس اللہ کی حمدو تعریف کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور زبردست احسان کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے۔
یہ خط لکھوا کر امیرالمومنین نے اس شامی شخص کی طرف روانہ فرمایا اور اپنے پاس کے ساتھیوں سے کہا کہ تم سب لوگ اس شخص کے لیے رب سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پھیر دے اور اس کی توبہ کو قبول فرمائے۔ ادھر اس شامی خطاکار کو جب امیرالمومنین کا خط ملا تو اس نے اس کو بار بار پڑھا، اور یہ کہنا شروع کیا کہ میرے رب نے مجھے اپنی پکڑ اور اپنے عذاب سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر مجھ سے گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ خط اس نے کئی بار پڑھا، رویا اور اللہ سے توبہ کی اور ایسی سچی توبہ کی کہ اللہ نے اس کی زندگی بدل دی۔
حضرت عمرؓ کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ انتہائی خوش ہوئے اور لوگوں سے کہا کہ جب تم اپنے کسی مسلمان بھائی کو دیکھو کہ وہ بھٹک گیا ہے تو اس کو چھوڑ نہ دو، بلکہ اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔
نیک اعمال میں توبہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے اور آپ کے ذریعے کسی کو اگر توبہ کی توفیق ہوجائے تو یہ آپ کی سب سے بڑی سعادت اور اللہ کی نظر میں سب سے بڑی نیکی ہے۔
قناعت سچے مسلمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔مومن اللہ تبارک وتعالیٰ کے دیے ہوئے رزق پر راضی ہوتا ہے اور اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ تھوڑی چیز جو (ضروریات کے لیے )کافی ہو، بہتر ہے اُس چیز سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دینے والی ہو۔یہ ان کامیاب لوگوں کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی طرف ہدایت دی اوراپنی طرف سے ایسارزق عطا کیا جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہے اور غفلت میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے ،اور اللہ تعا لیٰ نے انھیں جو کچھ دیا اس پر وہ راضی ہو گئے۔
حضرت فضالہؓ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’یقینا کامیاب ہو گیا وہ شخص جسے اسلام کی طرف ہدایت دی گئی، اورجو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دیا اس پروہ راضی ہو گیا‘‘۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ہمارے درمیان نو کھجوریں تقسیم کیں،چونکہ ہم نو افراد تھے،اس لیے آپؐ نے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دے دی۔
کھجور جیسی معمولی سی چیز جس کی طرف کسی کو رغبت نہ تھی لیکن صحابہ کرام ؓنے اسی پر قناعت کی اور خو شی خو شی اسے قبول کر لیا۔ان کی عادت ہی یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے جو کچھ انھیں ملتاتھا، اس پر وہ راضی ہو جاتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے کہتا ہے: اے ابن آدم! تیرے پاس اتنا کچھ ہے جو تیرے لیے کافی ہے لیکن تو وہ کچھ طلب کرتا ہے جو تجھے سرکشی میں مبتلا کر دے۔ اے ابن آدم! تو تھوڑی چیز پر قناعت نہیں کرتااور زیادہ سے تیرا پیٹ نہیں بھرتا‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ جب آدمی خطرات سے محفوظ ہو،اس کا جسم صحیح سلامت ہو ، اسے کسی قسم کی کوئی بیماری لاحق نہ ہو،بلا خوف وخطر پُرامن زندگی بسر کر رہا ہو اور اس کے پاس روز مرہ ضروریات کی اشیا موجود ہوں، تو اسے اور کیا چاہیے!
نبی اکرمؐ ،اللہ تعالیٰ سے قناعت کی دعاکیاکرتے تھے ۔انھوں نے صحابہ کرامؓ اور ہمیں بھی یہی تعلیم دی ہے کہ ہم اپنے رب سے قناعت طلب کیا کریں۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاخْلُفْ عَلَیَّ کُلَّ غَائِبَۃٍ لِیْ بِخَیْرٍ ، اے اللہ! جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر مجھے قناعت نصیب فرما اور اس میں میرے لیے برکت پیدا کر،اور میری وہ تمام چیزیں جو میری آنکھو ں سے اوجھل ہیں ان کی حفاظت فرما۔
نبی کریم ؐ کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اوردرخواست کی:اے اللہ کے رسولؐ !مجھے کوئی مفید دعا سکھائیے۔آپؐ نے فرمایا کہ یوں دعا کرو:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَوَسِّعْ فِیْ خُلُقِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْ کَسْبِیْ وَقَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ ، اے اللہ! میری مغفرت فرما،میرے اخلاق میں وسعت پیدا کر،میری کمائی میں برکت عطا کر اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر قناعت نصیب فرما۔
جب ہمیں یہ پختہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جو کچھ ہے درحقیقت وہی خیروبھلائی ہے تو دنیا کی زندگی کی حیثیت ایک مہمان خانے سے زیادہ نہیں رہے گی،اور مہمان کو مہمان خانے میں موجود اشیا سے کوئی خاص دل چسپی نہیںہوتی۔ وہ محض اپنی ضرورت پوری کرنے کی حد تک بڑے قرینے اور قناعت سے ان چیزوں کو استعمال کرتا ہے،اور اپنی منزل کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ دنیا کی زند گی کے بارے میںانسان کایہ پختہ یقین قناعت کے حصول میں اسے مدد دیتا ہے۔
حضرت سلمان فارسی ؓ کاشمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ان کے بارے میں نبی مہرباںؐ نے فرمایا:ـ’’سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہے‘‘۔ آپؓ خلفاے راشدینؓ کے دور میں اور ان کے بعد کے ا دوار میں مختلف اہم حکو متی مناصب پر فائز رہے۔ جب آپ ؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے رونا شروع کر دیا۔پوچھا گیا ،اے ابوعبداللہ ! روتے کیوں ہو؟آپ ؓنے جواب دیا:مجھے خدشہ ہے کہ ہم نے نبی کریم ؐکی اس وصیت کی حفاظت نہیں کی کہ تمھیںمسافر کے زادِ راہ کی مانند دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہیے، جو صرف اپنی انتہائی ضرورت کی چیزیں ہی اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔
جب حضرت سلمان فارسیؓ اس دنیا سے رخصت ہو ئے اور لوگوں نے ان کے ترکے میں موجود اشیا کا جائزہ لیاتو ان کی قیمت ۳۰ درہم بھی نہیں بنتی تھی ۔اس کے باوجود آپؓ نبی کریمؐ کی وصیت پر عمل درآمد نہ ہونے سے ڈرتے تھے ۔ یہ مثال ہمیں عملی نمونہ فراہم کرتی ہے کہ کس طرح نبی اکرمؐ نے اپنے صحابہؓ کی تربیت کی تھی۔
۲۔انسان کے ذہن میں یہ تصور پختہ ہو جائے کہ اُس مال کو جمع کرنے کا کیا فائدہ جس سے وہ خودمستفید نہ ہو سکے۔
ایک عقل مند آدمی جب غور وفکر کرتا ہے تو اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے کہ ضروریات سے زائد ایسا مال جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے، جسے نہ میں کھاسکتا ہوں نہ پی سکتا ہوں، نہ اس سے لطف اندوزہو سکتا ہوں اور نہ اسے کسی مفید کام میں خرچ کر سکتا ہوں؟
ہمارے پیارے نبیؐ نے فرمایا: ’’جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں اطراف پر دو فرشتے کھڑے ہوکر منادی کرتے ہیںاور ان کی آواز کو جن و انس کے سوا زمین میں موجود تمام اشیا سنتی ہیں۔وہ کہتے ہیں :اے لوگو! اپنے رب کی طرف آئو، تھوڑی چیز جو(ضروریات کے لیے) کافی ہو، بہتر ہے اس چیز سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دینے والی ہو۔
اے ابن آدم، تیرا (مال) توصرف وہی ہے جسے تو نے کھایا اور ختم کردیا، یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا خرچ (صدقہ) کر کے آگے بھیج دیا۔ اس کے علاوہ جو مال بھی ہے اسے اکٹھا کرنے میں تم تھک جاتے ہو اور اس کے خرچ نہ کرنے پر تمھارامحاسبہ کیا جائے گا، اور اللہ کے سامنے اس کے بارے میں تجھ سے پوچھا جائے گا‘‘۔
دل کو قناعت سے سرشار کرنے والی بات یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ اس مال کو جمع کرنا جس میں کوئی فائدہ اور نفع نہیں ہے، بے فائدہ تھکاوٹ ہے اور یہ کہ وہ اللہ کی دی ہوئی چیزپر راضی اور قانع ہو۔
۱- قناعت کرنے والا شخص سب سے زیادہ غنی ہوتا ہے۔اس لیے کہ نبی کریمؐ کی حدیث کے مطابق غنی وہ نہیں ہوتا جس کے پاس زیادہ مال و دولت ہو،بلکہ غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہو۔ وہ غیراللہ سے حاجت روائی کی امید نہیں رکھتا،لوگوں سے اور ان کے مال سے مستغنی ہوتا ہے۔ یہ حقیقی غنی ہوتاہے ، پس قناعت کرنے والا شخص سب سے بڑا غنی ہے۔
روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے سوال کیا :اے میرے رب! تیرے بندوں میںسے تجھے سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جو ان میں سے سب سے زیادہ میرا ذکر کرتا ہے ۔ آپ ؑ نے پوچھا :تیرے بندوں میں سے سب سے زیادہ غنی کون ہے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میرے عطا کردہ مال پر ان میں سے سب سے زیادہ قناعت کرنے والا۔ آپ ؑ نے پوچھا :ان میں سے سب سے زیادہ عادل کون ہے ؟اللہ تعا لی نے جواب دیا:جس نے اپنے نفس کو (بری خواہشات سے)بچا لیا۔
بنی امیہ کے ایک بیٹے نے ایک عابد وزاہد انسان ابی حاتم کوخط لکھا کہ وہ اپنی ضروریا ت کے بارے میں اسے آگاہ کریں۔ابی حاتم نے اس خط کا جواب یوں دیا :حمدوثنا کے بعد ،آپ کا خط مجھے ملا،جس میں آپ نے میری ضروریات جاننے اور انھیں پورا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔یہ بہت بعید ہے ۔میں نے اپنی ضروریات اپنے پیارے رب کے سامنے پیش کر دی ہیں،ان میں سے جو اس نے مجھے عطا کر دیں میں نے انھیں قبول کر لیا، اور جو نہیں عطا کیں ان سے میں نے قناعت کر لی___ یہ ہے صالحین کا عمل۔
آدمی جب قناعت کرتا ہے تواسے آزادی ملتی ہے، جب وہ حرص وطمع میں پڑجاتا ہے تو غلام بن جاتا ہے___ درہم ودینار کا غلام،لباس کا غلام،جو چیز بھی اسے اچھی لگے اس کا غلام،جو چیزیں اسے دی گئی ہیں ان کا بھی غلام اور جو نہیں دی گئی ہیں ان کا بھی غلام۔
جب آدمی ان تمام غلامیوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو اسے قناعت کی دولت نصیب ہوتی ہے اور وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کسی کا غلام نہیں رہتا۔
ہماری زندگیوں میں ایک ایسا موڑ، ایسا مرحلہ اور ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جو ہمیں ماضی کی یاد دلا دیتا ہے۔ ایک ناگوار اور اذیت بھری صورت حال جو ہم پر اس خاص لمحے کی بدولت واقع ہوئی ہو، یا پھر ایسا کوئی غیرمعمولی لفظ، اپنی وحشت ناکی کے سبب ہمارے ذہن سے چپک کر رہ گیا ہو، یا پھر کوئی ایسا دل خراش واقعہ جس کا ہم نے اپنی جاگتی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہو۔ ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ وقت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اور ہم کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے کیا فائدہ اٹھایا اور مجموعی طور پر ہمارا حاصل کیا ہے؟ ہم نے اپنی زندگیوں کو کس نہج پر ڈھالا ہے؟
ہم کبھی اوجِ کمال پہ تھے لیکن اب وہ سوتے خشک اور بنجر پڑے ہیں جہاںسے علم و عرفان کے چشمے اُبلتے تھے، ہماری خوابیدہ اور پوشیدہ صلاحیتیں کہیںدفن ہوچکی ہیں۔ اب ہمارا مقصدِحیات صرف اور صرف اِسی عارضی دنیا کی نمود و نمایش کا حصول ہے۔ ہمارے اذہان میں اُس وقت کی یاد بھی سر اٹھا رہی ہے جب ہم خالقِ کائنات کے سچے اور فائز المرام خادم اور غلام تھے اور اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہم تفکر ، پریشانی اور ندامت کے عمیق گڑھے میں گرے روحانی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم لاعلم ہیں بلکہ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہم نے اپنے مقصد، اپنے ہدف کی جانب پیش رفت نہیں کی ہے۔
ہم اپنی اصلاح کے خواہاں ہیں___ اور ہمیں بخوبی علم ہے کہ ہم میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ آیئے، ہم ذاتی اصلاح کا آغاز دوبارہ کریں۔ آیئے، ہم اپنے منتشر خیالات و احساسات کو مجتمع کریں اور اپنے عہد پر عمل پیرا ہونے کا عزمِ صمیم کریں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اب کی بار نہ تو ہم اسلامی تعلیمات کو فراموش کریں گے اور نہ اپنے ارادوں میں ناکام ہی ہوں گے۔ ہم زیادہ سے زیادہ روزے رکھیں گے، نمازکے قیام میں مزید پابندی لائیں گے، تلاوتِ قرآن پاک کا معمول زیادہ کریں گے___ ہم دنیا کو بدل دیں گے اور اسے ایک بہتر مقام بنا دیں گے۔
ہم اس کام کی ابتدا تو اعلیٰ عزم اور انتہائی جوش و خروش کے ساتھ کرتے ہیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے، ہمارے عزائم وارادے متزلزل ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر وقت کی دبیز تہوں میں معدوم ہوجاتے ہیں، ہم اپنے اہداف و مقاصد کو طاقِ نسیان پر رکھ دیتے ہیں۔ ہم ایک بار پھر ارادوں، وعدوں اور اصلاح احوال کے حسین تصور میں کھو جاتے ہیں، حتیٰ کہ ہم دوبارہ اپنا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں۔
ہم اس غفلت سے کیسے نجات پاسکتے ہیں؟ ہم اپنے نیک ارادوں کو مستقل عملی شکل کیسے دے سکتے ہیں؟___ میں یہ نہیں کہتی کہ ان تمام استفسارات کے جواب میرے پاس موجود ہیں۔ تاہم، اپنے ان تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اپنی روز مرہ زندگی کو اسلامی تعلیمات و عقائد و اخلاقیات کے مطابق ڈھالنے کے لیے چند رہنما نکات پیش ہیں:
ہمارا ہر فعل، ہر عمل اور ہر لفظ، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہونا چاہیے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)
یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے ، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دِین کو اُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار ، دین خالص اللہ کا حق ہے ۔(الزمر ۳۹:۲-۳)
نیک نیتی اور اخلاص کے بغیر افعال و اعمال ایسے ہی ہیں جیسے ایک مسافر کے پاس پانی والے برتن میں مٹی ہی مٹی ہو۔ یہ وزن اس کے لیے سراسر بوجھ ہے اور اسے اس سے قطعی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے بندے کے دل سے نکلنے والی ہردعا اور عرض کو سنتا ہے اور پکارنے والے کو اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ (البقرہ ۲:۱۸۶)
بلاشبہہ جب ہم تفکرات و پریشانیوں میں گھِر جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہماری خبرگیری کی قدرت رکھتی ہے۔ اس ضمن میں فرمانِ الٰہی ہے:
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے، جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ (النمل ۲۷:۶۲)
ہم میں سے کسی شخص کے لیے اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کو آج ہی سرانجام دینے کے بجاے کل پر ٹال دینا نہایت ہی آسان ہے ،کیونکہ اس طور ہم اپنی نااہلی اور بے قاعدگی کو منطق کی دبیز تہہ میں دفن کرسکتے ہیں۔ ہماری زبان پر اکثر یہی کلمات ہوتے ہیں: ’’ان شاء اللہ میں کل اپنی زندگی میں تبدیلی لائوںگی‘‘ لیکن یہ ’کل‘ کبھی نہیں آتی اور آپ کا یہ ارادہ بھی کبھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ قرونِ وسطیٰ کے کسی عالم نے کہا تھا:
اپنی تساہل پسندی آج کا کام کل پر ٹالنے کے خطرناک اصول کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیجیے۔ یہ شیطان کی فوج کا سب سے طاقت ور سپاہی ہے۔ وہ بات نہ کیجیے، وہ ارادہ نہ باندھیے جس کے لیے آپ دلی طور پر تیار نہیں ہیں۔ اس عمل کے باعث آپ کسی اور کو نہیں، بلکہ خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اپنے ارادوں اور اپنے عزم کو ذوق و شوق اور مثبت انداز فکر عطا کیجیے۔
عام طور پر ہم ابتدا ہی سے بڑے بڑے منصوبوں کے خواب دیکھنے لگتے ہیں لیکن جب یہ عملی طور پر تکمیلی شکل اختیار نہیں کرتے تو ہم حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ ہم مایوس ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ کوئی بھی معمولی یا ادنیٰ کام چھوٹا نہیں ہوتا۔ ایک دن نبی کریمؐ سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام اللہ تعالیٰ کو بہت مرغوب ہے، تو آپؐ نے فرمایا: ’’وہ کام جو باقاعدگی اور تسلسل سے کیا جائے، اگرچہ وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ (بخاری، فتح الباری)
بڑے بڑے، بے فائدہ اور اندھا دھند ڈگ بھرنے کے بجاے، چھوٹے چھوٹے مفید اور مسلسل قدم، عظیم کامیابیوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں محاورتاً ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نوالہ اتنا لیں جتنا چبا سکیں اور نگل سکیں۔ ہمیشہ ابتدا چھوٹے چھوٹے کاموں سے کیجیے۔ چھوٹے چھوٹے منصوبے بنایئے تاکہ آپ اپنے ارادوں کو مستقل اور آسانی کے ساتھ جاری رکھ سکیں اور پھر اس کے بعد ذرا مشکل کام میں ہاتھ ڈالیں۔ یہ لائحہ عمل آپ کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوگا، اور آپ مزید کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گے۔ ان شاء اللہ وقت گزرنے کے ساتھ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی زندگی، آپ کے معمولات میں عظیم انقلاب رونما ہوچکا ہے۔
جو فرد آپ پر تنقید کرتا ہے وہی آپ کا دوست ہے، اور جو آپ کی غلطیوں کو اُچھالتا ہے اسے آپ سے قطعی محبت وہمدردی نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نصیحت ان کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے جو اسے اپنی گرہ سے باندھ لیتے ہیں، لہٰذا ان افراد کو اپنا دوست بنایئے جو اچھے ساتھی ثابت ہوں۔ اچھے ساتھی ہی آپ کو صحیح مشورہ دیں گے اور یہ سچے دوست ہی آپ کے ارادوں کی تکمیل میں آپ کے مددگار ثابت ہوںگے۔ ان افراد کی صحبت سے پرہیز کیجیے جو آپ کے عزم کو متزلزل کرنے کی یا آپ کے پاے استقلال میں لرزش لانے کی کوشش کریں۔ حضرت علیؓ کے اس فرمان کو ہمیشہ مدنظر رکھیے:
ہمیشہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو، تم ان جیسے ہی ہوجائو گے، اور بُرے لوگوں کی صحبت سے بچو تاکہ تم ان کے شر سے محفوظ رہ سکو۔
اپنے اہداف و مقاصد کی ایک فہرست بنا لیں اور اسے اپنے سامنے دیوار پر لٹکا دیں۔ اس فہرست کو اپنی ڈائری میں بھی لکھ لیجیے۔ اسے اپنے بٹوے میں بھی رکھیں اور یا پھر اسے اپنے لاکر کے اندر چسپاں کردیں۔ پھر آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لیے کیے جانے والے کاموں کو ترتیب وار اپنی نوٹ بک میں تحریر کرتے جائیں، حتیٰ کہ آپ کمپیوٹر پر بھی اپنے نام سے بنائی گئی فولڈر/فائل پر ان اقدامات کو درج کرسکتے ہیں۔ اپنے آپ کے ساتھ مخلص رہیے کہ اپنے اہداف و مقاصد پر تنقیدی نظر ڈالتے رہیے۔ اس عمل کے ذریعے آپ سُست نہیں ہوں گے۔ مسلم میں بیان کردہ ایک حدیث کے مطابق جب نبی کریمؐ کسی کام کا آغاز کرتے تو اسے ختم کردیتے۔ حدیث قدسی ہے:
میرے بندے میری قربت اور وصل حاصل کرنے کے لیے اس وقت تک خفیہ طور پر نوافل ادا کرتے رہتے ہیں، جب تک میں ان کی طرف متوجہ نہیں ہوجاتا۔ (بخاری)
مَایَازَلُو یہ خاص لفظی اصطلاح، وصلِ الٰہی کے حصول و جستجو کی سعی کے لیے تسلسل اور تواتر کا اشارہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے بھی فرمایا: ’’حج اور عمرہ بار بار کرتے رہو‘‘۔
یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے کہ بعض اوقات ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا ایمان متزلزل ہو رہا ہے، یا ہم میں جہدِ مسلسل کی اُمنگ اور جوش و جذبہ ماند پڑ رہا ہے۔ اس ضمن میں رسولؐ اللہ کا فرمان ہے:
جس طرح جسم پر لباس پہنتے پہنتے پتلا اور بوسیدہ ہوجاتا ہے، اسی طرح دل میں بھی ایمان کا ضعف پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعامانگو کہ وہ تمھارے دل میں ایمان تازہ کردے۔ (الحاکم)
عبادتِ الٰہی اور نیک افعال سرانجام دینے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ کسی اور طرف توجہ نہ کرے۔ ان افعال کا تسلسل تو ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ جب ہم میں قوت اور آمادگی اور خواہش موجود ہوتی ہے تو ہم جان توڑ کوشش کرتے ہیں، اور جب ہم ان قوتوں سے محروم ہوتے ہیں، تو جو کچھ ہمارے بس میں ہوتا ہے، وہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دین میں بہت آسانی ہے اور جو دین میں اپنے لیے غیرمعمولی مشکلات پاتا ہے، وہ دین کے مطابق نہیں چل سکتا۔ لہٰذا تمھیں دین کے معاملے میں انتہاپسندی سے بچنا چاہیے، بلکہ صحیح ترین چیز اپنانا چاہیے۔(بخاری)
ایک دوسری حدیث کے مطابق رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اپنے اعمال و افعال میں اعتدال پیدا کرو، پھر تم اپنا مقصد حاصل کرسکو گے‘‘۔ (بخاری)
بہتر زندگی گزارنے کے لیے اپنے جذبے کو تحریک دیجیے۔ اس کے بہترین ذرائع قرآن عظیم، نبی کریمؐ، آپؐ کے صحابہ کرامؓ، آپؐ کے متقی جانشین اور علماے کرام ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی زندگی پر نظر دوڑایئے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں ان کی عبادت کے معمول میں بہت شدت پیدا ہوچکی تھی۔ کسی نے ان سے کہا کہ وہ عبادتِ الٰہی میں کمی کیوں نہیں کرتے اور خود کو آرام کیوں نہیںپہنچاتے؟ آپ نے جواب دیا: ’’جب گھڑدوڑ شروع ہوتی ہے تو اختتامی نقطے کے قریب پہنچ کر گھوڑے اپنی تمام تر توانائی صرف کرڈالتے ہیں، اور میری زندگی میں جو کچھ بھی باقی بچا ہے،وہ اس سے کہیں کم ہے‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی وفات تک اسی تندہی سے عبادتِ الٰہی میں مصروف رہے۔
عامر بن عبداللہ کی زندگی کو بھی پیش نظر رکھیے۔ ایک دفعہ آپ سے کسی نے پوچھا: آپ ساری ساری رات کیسے جاگ لیتے ہیں اور شدید گرمی و تپش میں پیاس کیسے برداشت کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: کیا اس سے بھی بہتر کوئی چیز ہے کہ صبح کا کھانا رات تک ملتوی کردیا جائے، اور رات کی نیند دن پر قربان کردی جائے۔ جب رات آتی تو وہ کہتے: ’’دوزخ میں دہکتی آگ کا تصور مجھے سونے نہیں دیتا‘‘ اور وہ پھر صبح تک جاگتے رہتے۔
پھر الرابی ابن خزائم کی زندگی کی تصویر ملاحظہ کیجیے۔ ابوحیان نے بتایا کہ ان کے والد نے کہا: الرابی ابن خزائم ٹانگوں سے معذور تھے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے ان کو اٹھا کر لے جایا جاتا تھا۔ بعض لوگوں نے ان سے کہا: آپ کی معذوری کے سبب آپ کو تو مسجد میں نماز کے لیے آنے کی چھوٹ ہے۔ آپ نے جواب میں ایک حدیث سے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’نماز کے لیے بلاوے کی آواز حی علی الصلٰوۃ میرے کانوں میں سنائی دیتی ہے، لہٰذا تمھیں اگر نماز کے لیے رینگتے ہوئے بھی جانا پڑے تو اسی طرح جائو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ پر بے انتہا لطف و کرم کرتے ہوئے مسلمانوں کو عبادت کے متعدد طریقے مرحمت فرمائے ہیں۔ ان میں سے کچھ جسمانی حرکات و سکنات پر مشتمل ہیں، مثلاً نماز، کچھ مالی ہیں، مثلاً زکوٰۃ و صدقہ، کچھ الفاظ پر مشتمل ہیں، مثلاً دعا اور ذکر۔
ان مختلف آسان طریقوں میں پوشیدہ حکمت، مختلف افراد کی آمادگی اور صلاحیتوں کی نوعیت میں امتیاز کو ظاہر کرتی ہے۔ بعض لوگ دیگر افراد کی بہ نسبت عبادت الٰہی کا فرض کی حیثیت سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں جس میں عذر کی گنجایش نہیں۔ اسی طرح بعض کا رجحان راہِ خدا میں مال خرچ کرنے اور انفاق کی طرف زیادہ ہوتا ہے، اور بعض کا ذکر اذکار میں۔ اس میں شک کی گنجایش نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کی مختلف اقسام کے مطابق جنت کے مختلف دروازے متقیوں کے لیے وا کردیے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ کی بیان کردہ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق حضور نبی کریمؐ نے فرمایا:
جو شخص رضاے الٰہی سے منسلک کام، اللہ کی رضا کی خاطر سرانجام دے گا، وہ جنت کے دروازوں (منسلکہ دروازوں) میں سے بلایا جائے گا۔ اے اللہ کے بندے، یہ تو انعامِ خداوندی ہے، تم میں سے جو شخص نمازی ہوگا، اسے جنت میں نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص جہاد کرتاہوگا، اسے جنت میں جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص روزے کا پابند ہوگا، اسے جنت میں الریان کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص خیرات و صدقہ کرتا ہوگا، اسے جنت میں خیرات و صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ (بخاری)
جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، متعدد اقسام کے کام اور افعال سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات میں گھریلو، دفتری، کاروباری، خاندانی اور دوستی کے امور شامل ہیں جنھیں نہایت ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ دنیاوی امور میں مگن ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں اسلامی تعلیمات، عقائد اور اخلاقیات کو داخل کرنا بھول جائیں اور اپنی زندگی کو احکامِ الٰہیہ اور سنتِ رسولؐ کے مطابق ڈھالنے سے گریز کریں۔ جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے عبادت کے نہایت آسان طریقے مرحمت فرمائے ہیں۔ کھانا پکاتے ہوئے ذکر کیا جاسکتا ہے، بس کا انتظار کرتے ہوئے دعا کے الفاظ دہرائے جاسکتے ہیں، دفتر سے گھر آتے ہوئے گاڑی میں اسلامی تعلیمات و احکامات پر مبنی لیکچر سنا جاسکتا ہے، آسان عبادات کی فہرست نہایت ہی طویل ہے۔ بہرحال، حاصل کیا ہے، حاصل یہ ہے کہ آپ جو کچھ جب بھی کرسکتے ہیں، کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ثابت قدمی اور استقلال عطا فرمائے اور ہمیں دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں سرخ رو فرمائے۔ آمین! (ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)کا ترجمان، Muslim Youth، ریاض، مارچ ۲۰۰۶ئ)
عیدالاضحی کے موقع پر مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں‘ اور اللہ کی راہ میں اپنی جان تک قربان کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اس موقعے پر محترم خرم مراد کی ایک انگریزی مطبوعہ تقریر Sacrifice کا ایک حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
قربانی کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں کس چیز کی قربانی دینا چاہیے؟ کون سی قربانیاں دینا زیادہ مشکل ہے؟ کن قربانیوں کو عظیم قرار دیا جانا چاہیے؟
قربانی کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہم جن چیزوں سے محبت کرتے ہیں‘ جن کی ہماری نظروں میں کچھ قدر ہے‘ وہ اِس وقت ہماری ہوں‘ یا ہم مستقبل میں انھیں حاصل کرنے کی تمنا اور امید کرتے ہوں‘انھیں چھوڑ دیں۔ یہ چیزیں محسوس اور مادی ہوسکتی ہیں‘ یا غیرمادی اور تصوراتی۔ مادی چیزوں میں وقت‘ مال‘ دنیاوی اشیا‘ جسمانی صلاحیتیں اور زندگی اہم ہیں۔ اہم تصوراتی اشیا میں ہماری محبت‘ خاص طور پر خاندان سے تعلقات‘ پسندوناپسند‘ ترجیحات و تعصبات‘ نقطۂ نظر اور راے‘ خواہشات اور تمنائیں‘آرام و آسایش‘مقام و منصب یا ہماری اَنا شامل ہیں۔
قربانی کا مفہوم صحیح طور پر سمجھنے کے لیے تین اصول پیش نظر رہنے چاہییں:
اوّل: کسی چیز کے چھوڑنے کو اسی وقت قربانی کہا جاسکتا ہے‘ جب کہ ہم اس سے محبت کرتے ہوں اور اس کے قدرداں ہوں۔ اس لیے مادی اور غیرمادی اشیا کے درمیان امتیاز کی لکیر کھینچنا مشکل ہے۔ آخری تجزیے میں ہر قربانی‘ محبت اور قیمتی چیز کی قربانی ہے۔ جب ہم مال‘ یا زندگی‘ یا کوئی تعلق اللہ کی خاطر قربان کرتے ہیں تو جو شے ہم درحقیقت قربان کرتے ہیں جو اسے ایک قربانی بناتاہے‘ وہ مال‘ زندگی یا رشتے دار کے لیے ہماری محبت ہے‘ نہ کہ اصل شے۔
دوم: مادی کے مقابلے میں غیر مادی اشیا کو قربان کرنا زیادہ مشکل لیکن زیادہ ضروری ہے۔
سوم: ہم کسی ایسی چیز کو جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور جس کی قدر کرتے ہیں‘ کسی ایسی چیز کے لیے ہی قربان کرسکتے ہیں جس سے ہم اس سے زیادہ محبت کرتے ہوں اور اس سے زیادہ قدر کرتے ہوں۔
ٹھوس اشیا کی قربانیوں کی ضرورت اور اہمیت ہم جانتے پہچانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں خواہ بعض وقت یہ قربانیاں نہ دے سکیں‘ یا دینے میں بہت مشکل محسوس کریں۔ لیکن جب ہم ایک دفعہ کسی مقصد سے وابستہ ہوجائیں تو اپنے وقت اور مقام پر ان میں سے ہر ایک کی قربانی دینا ہوتی ہے۔ اسی لیے ہمیں ذرا ٹھیر کر ان کی اہم خصوصیات پر غور کرنا چاہیے۔
وقت ہماری سب سے قیمتی شے ہے۔ ہم زندگی میں جس چیز کی بھی خواہش کریں‘ اسے وقت لگائے بغیر حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم اپنا وقت‘ مسرت حاصل کرنے میں‘پیسہ کمانے میں‘ دنیاوی اشیا حاصل کرنے میں‘ کام کرنے میں‘ مزے اٹھانے میں یا محض کاہلی میں کچھ نہ کر کے بھی گزار سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سے جس چیز کا سب سے پہلے مطالبہ کرتا ہے‘ وہ وقت ہے۔ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کے لیے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے میں وقت لگتا ہے۔ دعوت کا کام کرنے میں وقت خرچ ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ مریض کی عیادت کرنے کے لیے بھی وقت چاہیے ہوتا ہے۔ ہمیں اپنا ہرلمحہ اللہ کی رضا کے حصول میں‘ جو اس سے عہد کیا ہے اسے پورا کرنے میں صرف کرنا چاہیے۔
لیکن اگر آپ ذرا گہرائی میں جاکر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ سے دراصل جس چیز کی قربانی مانگی جارہی ہے‘ وہ وقت نہیں بلکہ وہ اشیا ہیں جن کے حصول میں آپ کا وقت خرچ ہوتا ہے۔ وہ اشیا جو آپ کی زندگی کے مقاصد کے خلاف ہوں‘ بے معنی‘ غیراہم‘ یا اللہ کی خاطر کیے جانے والے کاموں سے کم اہم۔ اس لیے اسلام کے لیے وقت دینے کے لیے‘ آپ کو سب سے پہلے وہ بہت سی اشیا قربان کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے جن پر آپ کا وقت لگتا ہے۔
آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کی قربانی کے لیے اور اپنا وقت اللہ کے لیے دینے پر کس طرح آمادہ کریں؟
یاد رکھیے کہ وقت ایک ایسی چیز ہے جس کو آپ ایک لحظہ بھی نہیں ٹھیرا سکتے۔ جس طرح بھی چاہیں آپ اسے صرف کریں‘ یہ مسلسل آپ کے ہاتھ سے پھسلتا رہے گا۔ آپ کے لیے اس کی قیمت وہی ہے جو آپ اس سے حاصل کریں۔ وقت پگھل جائے گا‘ جو آپ اس سے حاصل کریں گے‘ وہ آپ کے ساتھ رہے گا۔
ہرلمحے اس امر کو پیش نظر رکھیے کہ وقت کا ہرلمحہ ہمیشہ کی مسرت یا نہ ختم ہونے والی تکلیف میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ اسے کس طرح صرف کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس امر کا استحضار وقت کی قربانی دینے میں آپ کو سب سے زیادہ طاقت فراہم کرے گا۔ وہ لمحات جن کو آپ آج اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے‘ کل آپ کو اس طرح ملیں گے کہ کبھی جدا نہ ہوں گے۔ پھر آپ ایسی چیزوں کا حصول کیوں نہ قربان کردیں جو نہ ختم ہونے والی تکلیف اور پچھتاوے میں تبدیل ہوجائیں گی۔
جب وقت گزر رہا ہو تو آپ غور کیجیے: آپ کیا پا رہے ہیں___ کوئی عارضی یا مستقل چیز؟ مسرت یا پچھتاوا؟ آپ کے وقت میں اسلام کو کتنی ترجیح حاصل ہے؟ وقت کس تناسب سے اللہ کی راہ میں لگتا ہے؟ ’’اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘‘۔(الحشر ۵۹:۱۸)
اللہ کی راہ میں وقت کی قربانی اسلام کا جوہر ہے۔ جب بھی طلب کیا جائے‘ آپ کو حاضر ہونا چاہیے۔ اس لیے‘ آپ کو اپنے آپ کو مسلسل تربیت دینا چاہیے کہ اللہ کی راہ میں وقت دے کر‘ ہر چیز کی قربانی دے سکیں۔ یہ صفت آپ کے کردار پر ‘ دن میں پانچ دفعہ نقش کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن آپ کو اس طرح بیدار کیا ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن‘ تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو‘ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ (الجمعہ ۶۲:۹)
آپ کا بیش تر وقت مال کے یا مال کے ذریعے حاصل ہونے والی دنیاوی اشیا کے حصول کی کوشش میں صرف ہوجاتا ہے: ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس : عورتیں ، اولاد ، سونے چاندی کے ڈھیر ، چیدہ گھوڑے ، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں‘‘۔(اٰل عمرٰن۳:۱۴)
یاد رکھیے کہ دنیاوی اشیا کی یہ محبت اور خواہش نہ قابلِ مذمت ہے‘ نہ بری ہے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی اصل میں شر‘ یا خرابی نہیں ہے۔ دولت اور مال کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ اسے خیر (اچھا) کہتے ہیں جو ایک بالکل درست بات ہے۔ اس لیے کہ اللہ اور دوسری دنیا کی نعمتوں اور برکتوں کی طرف جانے والا راستہ اس دنیا سے گزر کر جاتا ہے۔ اگر ہم اس دنیا کو ترک کردیں‘ تو ہمارے پاس ان نعمتوں اور بیش بہا خزانوں کو حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ بلاشبہہ اللہ کی رضا اور اس دنیا کے حصول کا واحد ذریعہ اور بنیاد یہی ہے۔
جو چیز اس دنیا کو شر‘ یا برائی بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا کے عارضی دورانیے کے لیے یہ سب کچھ ہمیں اُس دنیا کے حقیقی اور مستقل مقاصد لیے دیا گیا ہے‘ جو ہر اس چیز سے بہتر ہے جو یہ دنیا دے سکتی ہے۔ جب ذرائع مقاصد بن جائیں‘ تو حقیقی قدروقیمت کی اشیا کے بجاے ہمارے حصے میں دنیاوی تکالیف آتی ہیں۔ قرآن آگے کہتا ہے:
مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے ، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔کہو : میں تمھیں بتائوں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہو گی ، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سر فراز ہوں گے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴-۱۵)
اللہ کی راہ میں دنیاوی اشیا کی قربانی دینا آسان نہیں ہے۔ جب انتخاب کا واقعی موقع آئے تو بہت سے لڑکھڑاجاتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں۔ کچھ باتوں کا یاد رکھنا‘ ان مشکل قربانیوں کو دینے میں آسانی پیدا کرے گا۔
اوّل: کوئی چیز بھی آپ کی نہیں ہے‘ ہر چیز اللہ کی ہے۔ جب آپ کوئی چیز اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو دراصل اسے اس کے اصل مالک کی طرف لوٹا رہے ہوتے ہیں: ’’آسمانوںاور زمین میں ہر چیز اللہ ہی کی ہے‘‘۔
دوم: دنیاوی چیزوں کو آپ کتنا ہی زیادہ قدروقیمت کا حامل کیوں نہ سمجھیں‘ آخری سانس کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہوجائے گا۔
جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے ، اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔(النحل ۱۶:۹۶)
اور اے نبیؐ ! انھیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھائو کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پودخوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی ، جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش (زینت) ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔(الکہف ۱۸:۴۵-۴۶)
سوم: صرف اللہ کی راہ میں دینے سے آپ اسے کئی گنا زیادہ واپس پاسکتے ہیں۔
اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو ۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے‘ اسے اللہ کے ہاں موجود پائو گے ، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔اللہ سے مغفرت مانگتے رہو ، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔(المزمل ۷۳:۲۰)
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے ‘ افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔(البقرہ ۲:۲۶۱)
ایک لمحے کے لیے سوچیے!
اسلام سے وابستگی کے آپ کے دعووں کی کیا وقعت ہے اگر آپ کھانے پینے اور سگریٹ نوشی پر اپنے مقصد سے زیادہ خرچ کریں۔ اللہ کے وعدوں پر آپ کے یقین کی کیا حقیقت ہے اگر دنیا میں نفع کی ذرا سی بھی اُمید آپ کو اپنی کُل رقم کسی بزنس میں لگانے کے لیے آمادہ کرتی ہے‘ جب کہ ۷۰۰ گنا رقم کا وعدہ___ جو کبھی واپس نہ لی جائے گی‘ آپ کا بٹوا نہیں کھلوا سکتا۔ آپ اپنی زندگی میں اسلام کے مقام کا تعین یہ جائزہ لے کر کرسکتے ہیں کہ آپ اپنی دولت کس تناسب سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
مال کی قربانی کبھی آسان نہیں رہی۔ لیکن ہمارا دور تو ایسا دور ہے کہ جس میں صرف بہتر معیارِ زندگی‘ مزہ اور مسرت‘ صارفیت اور مادی اشیا ہی زندگی کے مقصد بن چکے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھ بھال کر جائزہ لیں کہ کہیں آپ اس لحاظ سے ناکام نہ ہوجائیں۔
ایک وقت آسکتا ہے جب آپ سے اللہ کی راہ میں جان کی قربانی طلب کی جائے۔ اس طرح جان دینا‘ شہادت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ اس کے بعد آپ شہید کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ آپ کی زندگی‘ آپ کی قیمتی ترین متاع ہے۔ اس کی قربانی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی جو کچھ دیتی ہے‘ یا دے سکتی ہے‘ تمام مادی اور غیرمادی اشیا جن کا پہلے ذکر ہوا ہے‘ آپ سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔
جب یہ احساس ہوجائے کہ زندگی آپ کی نہیں‘ اللہ کی ملکیت ہے اور جو اس کا ہے‘ وہ آپ کو اسے دینا چاہیے تو آپ اللہ کی راہ میں جان دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ موت سے نہ تو آپ بچ سکتے ہیں‘ نہ فرار اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ ہمیشہ مقررہ وقت پر‘ طے شدہ مقام پر‘ طے شدہ طریقے سے آئے گی (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۵، ۱۴۴-۱۴۵۔ النساء۴ : ۱۷۸)۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں‘ وہ اپنی موت سے ماورا‘ اپنے لیے‘ اپنی برادری کے لیے‘ اپنے مشن کے لیے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتے ہیں۔
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ اُنھیں مردہ نہ کہو ، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا ۔(البقرہ ۲:۱۵۴)
اس دنیا کی زندگی سے محبت نہ ہونا چاہیے‘ موت کا خوف نہ ہونا چاہیے‘ تب ہی آپ وہ طاقت حاصل کریں گے جو اپنی جان قربان کرنے کے لیے چاہیے۔ یہ صرف موت کے لیے آمادہ ہونا ہے جس سے آپ دشمن طاقتوں پر غلبہ پاسکتے ہیں۔ تب ہی کامیابی کے دروازے کھلیں گے۔ آپ مر کر زندگی حاصل کرتے ہیں‘ اپنے لیے‘ اور اپنی برادری کے لیے۔ اگر آپ مرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ تو آپ کو زندہ رہنے کا حق نہیں رہتا‘ کم سے کم ایک برادری کے طور پر۔
ہم میں سے ہر ایک سے جان کی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا‘ لیکن اس کی تمنا ہر دل میں ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جو نہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے‘ نہ جہاد کے بارے میں سوچتا ہے‘ منافق کی موت مرے گا (مسلم)۔ انھوں نے یہ بھی کہا: اس ہستی کی قسم! جس کے قبضے میں‘ میری جان ہے‘ مجھے یہ پسند ہے کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں‘ پھر مارا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں تاکہ ایک دفعہ پھر اللہ کی راہ میں جان دے سکوں(بخاری، مسلم)۔ (ترجمہ: مسلم سجاد)
جب کوئی قوم اللہ کی کتاب اور نبی کی تعلیم کو ترک کردیتی ہے تو طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوجاتی ہے۔ قومِ یہود نے جب اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو چھوڑ دیا اور اپنے نفس کی پیروی کرنے لگی تو طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوگئی‘ جس کی بڑی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح جب قومِ نصاریٰ نے اللہ کی کتاب انجیل اور عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو ترک کردیا تو ان کے اندر بھی برائیاں رونما ہونے لگیں۔
اُمت مسلمہ جسے دنیا کی امامت عطا کی گئی تھی‘ اس نے قرآن و حدیث کا مطالعہ‘ اس میں غوروفکر اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو اس کے اندر بھی بہت سی برائیاں دَر آئیں۔ ان برائیوں میں ایک بڑی برائی وعدے کا پابند نہ ہونا اور ایفاے عہد کا پاس و لحاظ نہ کرنا بھی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۳۴ اور ۳۵ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اچھے کام کرنے کی تلقین کی ہے اور کچھ کام کرنے سے منع کرتے ہوئے وعدے کو پورا کرنے اور عہدوپیمان کا پاس و لحاظ کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے‘ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہروعدے اور عہدوپیمان کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا کہ اسے پورا کیا گیا کہ نہیں؟ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو یا اس کے بندوں سے کیا گیا ہو‘ہر وعدے کے بارے میں پرسش ہوگی(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۴-۳۵)۔ یہی بات سورۂ بقرہ میں ایک دوسرے انداز میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔ مومن کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے اسے مومن کی ایک صفت قرار دیا ہے: ’’اور جب وعدہ کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۷۷)
دوسرے وعدے کا تعلق ایک بندے کا اللہ کے دوسرے بندوں سے ہے۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں اور عہدوپیمان باندھتے ہیں۔ ان وعدوں کو نبھانے کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘(المائدہ ۵:۱)۔ ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے اس کا خیال رکھو اور اس پختہ عہدوپیمان کہ نہ بھولو جو اس نے تم سے لیا ہے‘ یعنی تمھارا یہ قول کہ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی‘ اللہ سے ڈرو‘ اللہ دلوں کے راز تک جانتا ہے‘‘۔ (المائدہ ۵:۷)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار یاد دہانی کرائی ہے کہ جو وعدہ اور عہدوپیمان تم نے اپنے خالق حقیقی سے کیا ہے‘ اس کو پورا کرو اور وعدہ خلافی مت کرو۔ قرآن میں یہ یاددہانی بار بار مختلف انداز میں کرائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے ذریعے بھی اس کی یاد دہانی کراتا رہاہے:
اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو‘ اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بناچکے ہو۔ اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔(النحل ۱۶:۹۱)
اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی‘ میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو تو میراجو عہد تمھارے ساتھ تھااسے میں پورا کروں اور مجھ سے ہی تم ڈرو‘ اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لائو۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمھارے پاس پہلے سے موجود تھی‘ لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جائو۔ تھوڑی سی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔(البقرہ ۲:۴۰)
اور جب بات کہو انصاف کی کہو‘ خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے تمھیں کی ہے‘ شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔ (الانعام ۶:۱۵۲)
ہم سے ہر وعدے کے متعلق قیامت میں پوچھا جائے گا۔ اس لیے وعدہ شعور کے ساتھ کیا جائے کہ پورا کرسکتے ہیں یا نہیں۔ موقع اور مصلحت اپنی مشغولیت اور اوقاتِ کار کا لحاظ کرکے وعدہ کیا جاناچاہیے اور وعدے کو حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اِلا.ّ یہ کہ کوئی شرعی عذر پیش آجائے۔ اگر شرعی عذر یا ناگزیر مجبوری پیش آجائے تو پہلے خبر کردینی چاہیے کہ فلاں کام کا وعدہ ہم نے کیا تھا لیکن یہ مجبوری آگئی ہے‘ اس لیے وعدہ پورا کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔ اگر پہلے خبر کرنے کا موقع نہ ہو تو بعد میں معذرت کی درخواست کی جائے اور بعد میں اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہروقت یہ خیال رہے کہ زبان سے ہرنکلی ہوئی بات لکھ لی گئی ہے اور اس کے متعلق قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی۔
کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا کہ اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو۔ (قٓ ۵۰:۱۸)
عہد کی پابندی کرو‘بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴)
ان لوگوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے‘ اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی بازپرس تو ہونی ہی تھی۔(الاحزاب ۳۳:۱۵)
آخر کیوں ان سے بازپرس نہ ہوگی؟جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا تو اللہ کا محبوب بنے گا‘ کیونکہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔ (اٰل عمرٰن ۳:۷۶)
سورۂ رعد میں اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے والوں کی چند صفات کا تذکرہ کیا ہے جس میں پہلی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ لوگ جنت میں جائیں گے اور آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے جو وعدے کو پوراکرتے ہیں اور وعدہ خلافی نہیں کرتے۔’’اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں‘ اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اسے برقرار رکھتے ہیں‘ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے‘ یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی اس میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو لوگ صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے‘ اور ان سے کہیں گے ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا‘اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے‘‘۔ (الرعد ۱۳:۲۰-۲۴)
سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے عہدوپیمان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ عہدوپیمان کے ساتھ کچھ فرائض کی پابندی کریں تو ہم انھیں ایسی جنت میں داخل کردیں گے جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ ’’اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں ۱۲ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ: ’’میں تمھارے ساتھ ہوں‘ اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے‘ تو یقین رکھو کہ میں تمھاری برائیاں تم سے زائل کردوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کردی‘‘۔ پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دُور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کردیے۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں‘ جو تعلیم انھیں دی گئی تھی اس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں‘ اور آئے دن تمھیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتا چلتا رہتا ہے۔ اب ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں۔ (پس جب یہ اس حال کو پہنچ چکے ہیں جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہٰذا انھیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو‘ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۱۲-۱۳)
یہی بات سورۂ آل عمران میں دوسرے انداز سے دہرائی گئی ہے کہ عہدواقرار کرنے کے بعد اس کو توڑنے والے فاسق ہیں۔’’وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنائو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمھیں کفر کا حکم دے‘ جب کہ تم مسلم ہو؟ یاد کرو‘ اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت اور دانش سے نوازا ہے‘ کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے‘ تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا: کیا تم اس کااقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں‘ ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں‘۔ اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۸۰-۸۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب میں اکثر یہ فرمایا ہے کہ ’’جس کے اندر عہد کی پابندی کا احساس نہیں اس کا ایمان نہیں‘ اور جس کے اندر امانت کی پاس داری نہیں اس کا دین نہیں‘‘۔ (مسنداحمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وعدہ کا پورا نہ کرنا منافق کی نشانی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے سپرد کوئی امانت کی جائے تو اس میں خیانت کرے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر پائی جاتی ہیں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس کسی میں ان میں سے ایک خصلت پائی جائے‘ اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت موجود ہوتی ہے‘ جب تک کہ اس خصلت کو ترک نہ کردے۔ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے‘ جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب عہد کرے تو اسے توڑ دے اور جب جھگڑا کرے تو بے ہودہ بکے‘‘۔ (بخاری)
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ قرآن و حدیث میں وعدے کی اہمیت مسلّم ہے۔ ہروعدے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے یہاں پوچھ گچھ ہوگی۔ وعدہ پورا کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے اور ان کے لیے آخرت کا بہترین وعدہ ہے۔ وعدہ پورا کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت ہے اور دوسرے انعام و اکرام کا وعدہ ہے۔ اس کے برعکس وعدہ پورا نہ کرنے والوں سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور وہ لوگ فاسق ہیں۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں کے لیے سزا کی وعید ہے اور وہ لوگ جہنم میں جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منافقت کی نشانی قرار دیا ہے۔ ہم میں سے کون مسلمان جنت میں جانا نہیں چاہے گا اور جہنم سے بچنا نہیں چاہے گا۔ ہرمسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ اگر ہم اس خواہش کی تکمیل چاہتے ہیں تو یقینا چاہیے کہ ہم لوگ وعدوں کی سختی سے پابندی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں وعدوں کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے اور وعدوں کی پابندی کرنے والوں کو انعام و اکرام سے اور جنت سے نوازے۔ آمین!
کیا آپ کا وصیت نامہ آپ کے تکیے کے نیچے موجود ہے؟ نہیں تو! بھلا زندگی میں اس کا کیا کام___ جی نہیں‘جلدی کیجیے۔ آپ کے اوپر دو راتیں بھی ایسی نہ گزریں کہ آپ کا وصیت نامہ آپ کے پاس تیار نہ ہو۔ ذرا یاد تو کیجیے کہ سورئہ بقرہ آیت ۱۸۰ میں اللہ تعالیٰ کیا فرما رہے ہیں: ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے خیر (مال) چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے‘ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’کسی ایسے مسلمان بندے کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز (جایداد‘ سرمایہ‘ امانت‘ قرض وغیرہ) ہو جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہیے تو درست نہیں کہ وہ دو راتیں گزار دے مگر اس حال میں کہ اس کا وصیت نامہ لکھا ہوا اس کے پاس نہ ہو‘‘۔ (بخاری‘ مسلم)
وصیت ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم دیا جائے خواہ وہ کام زندگی میں ہو یا بعد الموت۔ البتہ عرف عام میں اُس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم بعدالموت ہو۔ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۸۰ میں آنے والے لفظ خیر کے بہت سے معنوں میں سے ایک معنی مال کے بھی آتے ہیں‘ جیسے سورئہ عادیات میں ہے: وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ o (العٰدیٰت:۸)۔ (معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیع‘ جلد۱‘ ص ۴۳۸)
حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ’دو راتیں نہ گزریں‘، اس امر پردلالت کرتے ہیں کہ اس کام کے لیے موت کے وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ نہ معلوم موت کب اور کس حال میں آئے اور اُس وقت انسان کو اتنی مہلت ملے یانہ ملے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کوئی ہمارے پاس ہو جسے ہم وصیت کے الفاظ سنا سکیں۔ بعض اموات حادثاتی یا ناگہانی بھی ہوتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا یہ ارشاد سننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہ گزرا کہ میرا وصیت نامہ میرے پاس نہ ہو۔ (معارف الحدیث‘ منظورنعمانیؒ،ج ۶‘ص ۱۸۹)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے وصیت کی حالت میں انتقال کیا‘ یعنی اس حالت میں جس کا انتقال ہوا کہ اپنے مال اور معاملات کے بارے میں جو وصیت اس کو کرنی چاہیے تھی‘ وہ اُس نے کی اور صحیح اور لوجہ اللہ کی تو اس کا انتقال ٹھیک راستے پر شریعت پر چلتے ہوئے ہوا‘ اور اس کی موت تقویٰ اور شہادت والی موت ہوئی اور اس کی مغفرت ہوگی‘‘۔(سنن ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ ج ۷‘ ص ۱۹۰)
یہ حدیث وصیت کے ہر وقت تیار کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے لیکن بات صرف یہی نہیں کہ یہ وصیت اللہ کی رضا (لوجہ اللّٰہ) کی خاطر ہو بلکہ کسی حق دار کو کسی بھی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ: ’’(کبھی ایسا ہوتا ہے کہ) کوئی مرد یا کوئی عورت ۶۰سال تک اللہ کی فرماں برداری والی زندگی گزارتے رہتے ہیں‘ پھر جب ان کی موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (حق داروں کو) نقصان پہنچادیتے ہیں اور ان کے لیے دوزخ واجب ہوجاتی ہے‘‘(مسنداحمد‘ ترمذی‘ سنن ابی داؤد و ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ جلد۷‘ ص ۱۹۷)۔ ذرا غور کیجیے‘ ۶۰سال کی عبادت کے بعد بھی دوزخ کا واجب ہونا‘ آخر کیوں؟
دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانونِ وراثت کے باضابطہ اعلان سے پہلے صاحبِ دولت حضرات کے لیے وصیت ہی وہ واحد ذریعہ تھا جس سے تعین کیا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد اس کے مال و دولت اور جایداد پر کس کا حق ہے۔ اس ضمن میں وہی طرزِعمل رائج الوقت تھا جوباپ دادا سے چلا آرہا تھا۔ چونکہ یہ اصول و ضوابط انسانوں کے وضع کیے ہوئے تھے اس لیے اوّل تو حسبِ ضرورت بدلتے رہتے تھے‘ نیز اکثر انصاف سے بھی بے گانہ ہوتے تھے۔ عورتیں اور بچے اس ناانصافی کا خصوصی ہدف تھے۔ زندگی کے آخری لمحات تک وصیت لکھنے کا یہ کام ملتوی رکھا جاتا۔ اگر کہیں لکھا بھی جاتا تو صاحبِ جایداد اپنی مرضی سے جسے چاہتا اور جیسے چاہتا نوازتا اور جسے چاہتا محروم کردیتا‘ کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ کبھی یوں ہوتا کہ مرنے والا مر جاتا اور وصیت کی عدم موجودگی کے باعث اُس کا مال پسماندگان میں باہمی رنجشوں‘ تنازعات اور تعلقات کے ٹوٹنے کاباعث بن جاتا‘ گویا وصیت کا قانون ہونے کے باوجود حالات انتہائی دگرگوں تھے۔
اس فضا میں ایک عادلانہ اور منصفانہ قانون کی اشد ضرورت تھی‘ خاص کر ایسی بالادست ہستی کا دیا ہوا قانون جس کی خلاف ورزی آسان نہ ہو۔ یوں اِن حالات میں اللہ تعالیٰ نے قانونِ وراثت نازل فرمایا‘ اور نزدیکی رشتے داروں کے حصے ازخود مقرر فرما دیے۔ اب اگر کوئی روگردانی کرتاہے تو گناہ گار ہوتا ہے اور ربِ کائنات کو ناراض کرتا ہے۔ لیکن قانونِ وراثت (النساء ۴:۷-۱۴)کے آجانے کے بعد بھی کُل مال کے
حصے پر صاحب ِ مال کو وصیت کا اختیار دیا گیا تاکہ دُور کے رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی مدد یقینی بنائی جاسکے۔ اس سے دین اسلام میں اقربا کے حقوق کی ادایگی اور خبرگیری کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔
اسلام میں انسانی تعلقات و معاملات کی اہمیت واضح ہے۔ معاشرے کے استحکام کی بنیاد انھی تعلقات پر ہے‘ خاص کر وہ افراد جن کا تعلق ایک گھرانے یا خاندان سے ہو۔ حالات شاہد ہیں کہ وہ صاحبِ حیثیت اشخاص جنھیں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہے خصوصاً مال و دولت سے‘ وہ اگر اپنی زندگی میں یہ فیصلہ نہ کردیں کہ کس چیز پر کس کا حق ہے‘ توان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی مال آپس کے تعلقات میں کدورتیں ڈالتا ہے‘ بلکہ بسااوقات بات بڑھتے بڑھتے خون خرابے تک جاپہنچتی ہے۔
مال سے انسان کی دل چسپی طبعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے شریعت نے مال و دولت کی متوازن اور منصفانہ تقسیم کا قانون مقرر کیا‘ اور اُس پر عمل کی تاکید فرمائی تاکہ لوگ اُسے حکمِ الٰہی سمجھ کر بروقت انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا‘ جب کہ انسان سوچتا ہے کہ اگر ہم نے کسی کو اس کی زندگی میں وصیت تحریر کرنے کا مشورہ دیا تو وہ سوچے گاکہ ’’انھیں ابھی سے ہمارے مرنے کے بعد تقسیم ہونے والے مال کی فکر لاحق ہوگئی‘‘۔ بلاشبہہ اس سوچ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وصیت نامے کے ذریعے ہی عزیزوں‘ رشتے داروں اور وارثوں کے درمیان بعد میں پیدا ہونے والے تنازعات اور غلط فہمیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے باضابطہ قانون بن جانے کے بعد وصیت کی شرعی حیثیت کچھ اس طرح سے ہوگئی:
۱- جن وارثوں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں اُن میں نہ تو وصیت کے ذریعے کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جاسکتاہے‘ اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جاسکتی ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۰)
۲- وصیت کُل جایداد کے صرف ایک تہائی ( )حصے کی حد تک کی جاسکتی ہے ۔ وہ بھی ایسے قرابت داروں کے لیے جو وارث نہ ہوں اور ایسے لوگوں کے لیے جو قرابت نہ رکھتے ہوں لیکن اس بات کے مستحق ہوں کہ ان کے لیے وصیت کی جائے۔ (ایضاً)
۳- لیکن اگر وارثوں کی اجازت اور خوشی شاملِ حال ہے تو ایک تہائی سے زائد بلکہ پورے مال کی بھی وصیت جائز ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۴۰)
۴- جس شخص پر کسی کے حقوق واجب ہوں‘ یا کسی کا قرض ہو یا کسی کی امانت رکھی ہو اس پر واجب ہے کہ وصیت میںاس کا ذکر کرکے متعلقین کو ادایگی کی ہدایت کرے۔
۵- ایک تہائی مال کی وصیت لکھنے والا اپنی زندگی میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے بالکل ختم بھی کرسکتا ہے ۔ (ایضاً‘ ج ۱‘ ص ۴۴۱)
۶- وصیت کی بعض شکلیں فرض ہیں‘ مثلاً ایسے والدین جو غیرمسلم ہوں یا بہن بھائی جو غیرمسلم ہوں‘ ان کا وراثت میں حصہ نہیں‘ اس لیے ان کے لیے وصیت فرض ہے۔
وصیت نامے میں مالی وصیت اور لوگوں کی امانتوں وغیرہ سے متعلق لکھنا بے شک اہم حصہ ہے‘ مگر چونکہ قرآن پاک میں‘ اللہ تعالیٰ نے لفظ خیر (البقرۃ ۲:۱۸۰) استعمال کیاہے‘ اس لیے وصیت کی اس تحریر کو کسی خاص دائرے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی یہ بات یقینی نہیں کہ ہرآدمی اس حد تک صاحبِ جایداد ہو کہ اس کا ترکہ قابلِ تقسیم ہو۔ اب اگر کسی کا جی چاہے تو آخر وہ اپنے وصیت نامے میں کیا لکھے؟ اس میں بے شمار باتیں شامل کی جاسکتی ہیں جو بلاشبہہ معاشرے میں باعثِ خیر ہیں اور ہوسکتی ہیں۔
انسانوں کی اس بستی میں سب کی ضرورتیں اور حالات مختلف ہیں۔ تربیت ِ اولاد اور دیگر معاملات میں انسان اپنی زندگی ہی میں نہیں مرنے کے بعد بھی کچھ باتوں کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کے لیے زبانی تاکید بھی کرتا ہے مگر ممکن ہے بعد میں یہ تاکید کسی کو یاد رہے اور کسی کو نہیں۔ ایسا بارہا دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے متعلقین کی زندگی میں ان کی نصیحتوں اور اچھے عمل کی قدر نہیں کرتے لیکن ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی نصیحتیں اور عمل ان کی زندگی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یوں وصیت نامہ ہی وہ ذریعہ نظر آتا ہے جس میں ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے رشتوں کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے وصیت نامے میں کیا کیا شامل کرسکتے ہیں تاکہ ہماری اولاد بعض کام کر کے نہ صرف ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنے بلکہ اپنی عاقبت بھی سنوارے:
۱- آج زندگی میں اپنی اولاد کو اپنے لیے دعا کرنا سکھایئے اور بعد میں دعا کرتے رہنے کی تاکید لکھیے اور یہ بھی ضرور لکھیے کہ کس طرح مرنے والا قبر میں اِن دعائوں کا منتظر رہتا ہے۔
۲- آپس کے حقوق و لحاظ کی تاکید لکھیے۔ جڑ کر رہنے کے فوائداور بکھر جانے کے نقصانات تحریر کیجیے۔
۳- کسی خاص بچے کے لیے خاص نصیحت کے پیشِ نظر ہدایات تحریر کیجیے۔
۴- اچھے کاموں کی نصیحت کرتے ہوئے انھیں آخرت میں اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانا بتایئے اس لیے کہ دنیا میں بہت سی کوششیں بظاہر ناکام نظر آتی ہیں‘ اور اچھے کام تو اللہ پر ایمان نہ رکھنے والے بھی بہت کرتے ہیں۔
۵- تربیتِ اولاد اور ان کے دینی فہم کے حصول کے لیے آپ آج جو محنت اور کوشش کررہے ہیں‘ انھیں مختصراً ضبطِ تحریر میں لایئے۔ ممکن ہے کل آپ نہ رہیں تو آپ کے لکھے ہوئے یہ الفاظ ہی اولاد کی زندگی بدل دیں۔
۶- باقاعدہ بیٹھ کر ایسی باتوں کی فہرست مرتب کیجیے جن کے لیے آپ کی خواہش یا ضرورت ہو کہ آپ کی غیر موجودگی میں انھیں کس کس طرح ہونا چاہیے۔
۷- خاندانی معاملات میں اُن معاملات کی طرف توجہ دلایئے جن سے بچنا یا جن کی پابندی آپ کے پسماندگان کوسکون و راحت فراہم کرے۔ اس ضمن میں اولاد کو ان کی شادیوں کے بعد کے رہن سہن سے متعلق ہدایات بھی مفید ہوں گی۔
۸- خاندان یا احباب میں سے کسی خاص فرد کے بارے میں کوئی ہدایت ہو تو وہ لکھیے۔
۹- اپنی ذات یا اپنے کسی ادھورے کام کی تکمیل کے لیے کوئی ہدایت ہو توتحریر کیجیے۔
۱۰- اپنی اولاد (بہن بھائیوں) کو ایک دوسرے کی زندگی کے اہم معاملات کا خیال رکھنے کی ازحد تاکید لکھیے‘ مثلاً تعلیم‘ شادی یادیگر ضروریات۔ ضروری نہیں کہ والدین اپنے تمام بچوں کی ساری ضروریات و فرائض اپنی زندگی ہی میں پورے کرچکے ہوں۔
۱۱- اپنی زندگی کے ساتھی سے متعلق نصیحت ضرور کیجیے کہ آپ کے بعد آپ کے شوہر یا بیوی کا کس طرح خیال رکھا جائے۔
۱- سب سے پہلے صفحے پر اسے کم از کم ایک بار پڑھ لینے کی ’وصیت‘ لکھیے۔
۲- آج جب آپ اسے لکھ رہے ہیں تو کھلے عام اس کا تذکرہ کیجیے۔ اس کی نشان دہی کیجیے کہ کس کاپی میں ہے اور کہاں رکھا ہے‘ چھپاکر مت رکھیے کیونکہ آپ کا تو ایمان و یقین ہے کہ موت کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ آپ کے اہلِ خانہ کو اس کی بابت علم ہوناچاہیے۔
۳- اسے پڑھنے کے فوائد ابھی سے ہی متعلقین کو سمجھایئے۔
۴- اسے پنسل یا ہلکی سیاہی سے نہیں‘ قلم سے نمایاں لکھیے اور اس کے لیے مجلد کاپی کا انتخاب کیجیے تاکہ عرصۂ دراز تک چلے۔
۵- ایک صفحے پر صرف ایک وصیت لکھیے اور ترتیب کا خیال رکھیے۔
۶- ایک ساتھ سارا وصیت نامہ لکھنے نہ بیٹھ جایئے۔ سب کام ایک نشست میں ختم کرنے کا خیال ممکن ہے آپ میں سُستی پیدا کردے اور آپ اسے آج کل پر ٹالتے رہیں‘ جب کہ آپ کو یہ کام پہلی فرصت میں ’شروع‘ کرنا ہے، ’ختم‘ نہیںکرنا۔ پھر جوں جوں خیال آتارہے اُس دن کی تاریخ ڈال کر لکھتے جایئے۔ گویا یہ آپ کے روز مرہ کاموں میں سے ایک اہم کام ہے۔
۷- ایک مؤثر وصیت نامے کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ضرررساں نہ ہو‘ یعنی کسی کو اذیت پہنچانے والا نہ ہو (دیکھیے سورۂ نساء‘ آیت ۱۲)۔ اس ضرر رسانی میں جہاں بہت سی دوسری چیزیں شامل ہیں‘ مثلاً غیرمتوازن وصیت‘ جھوٹی شہادتیں‘ فرضی واقعات درج کر دینا اور وصیت کو حق داروں کے خلاف کردینا وغیرہ‘ وہاں یہ چیز بھی یقینا شامل ہے کہ وہ فرائضِ منصبی جو ہر مرد اور عورت کو اپنی زندگی میں بذاتِ خود ادا کرنا لازم ہیں انھیں غفلت‘ لاپروائی‘ معاملاتِ زندگی کو کھیل سمجھ لینے کی وجہ سے چھوڑ دینا‘ اور اب وصیت لکھتے ہوئے اپنے متعلقین کے اُوپر غیرضروری بوجھ ڈالتے ہوئے انھیں ادا کرنے کی تاکید کرنا۔ اس طرح آپ اللہ کے آگے جواب دہی سے بچ نہیں سکتے بلکہ آپ تو دہرے مجرم ہوگئے۔ اوّل تو اپنے اُوپر عائد فرائض کی عدم ادایگی‘ پھر اسے خواہ مخواہ دوسرے کے سر پر لاد دینا___ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر زندگی کے کسی بھی میدان میں کمی رہ گئی ہے تو اب ’کم وقت میں زیادہ کام‘ کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی سعی کیجیے۔ پھر اس کے بعد کی کسی چھوٹی موٹی کسر کو پورا کرنے کے لیے آپ ضرور وصیت کرسکتے ہیں۔
۸- جس وقت آپ کو احساس ہو کہ اس کا بیش تر حصہ مکمل ہوچکا تو اس کی فوٹوکاپی بنوا کر دو ایک قریبی بااعتماد لوگوں کے پاس بھی رکھوا دیجیے‘ چاہے وہ آپ کی اولاد میں سے ہوں یا کوئی دوسرا قریبی رشتے دار ہو۔
وصیت اور وراثت کی اصطلاحات میں بھی فرق ہے‘ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قانونِ وراثت و وصیت سے متعلق چند اہم نکات ہیں جو پیش نظر رہنے چاہییں:
۱- میراث کے حق دار صرف مرد نہیں بلکہ عورتیںاور بچے بھی ہیں۔
۲- میراث بہرحال تقسیم ہوگی خواہ کتنی ہی کم ہو۔ حتیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور ۱۰ وارث ہیں تو اُسے بھی ۱۰ حصوں میں تقسیم ہوناچاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث باقی سب کے حصے خرید لے۔
۳- قانونِ وراثت ہر قسم کے مال و املاک پر جاری ہوگا۔
۴- قریب تر رشتے دار کی موجودگی میں بعید تر رشتے دار میراث نہ پائے گا۔ (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۳۲۴)
۵- مرنے والے کے مال سے پہلے کفن دفن کا انتظام ہوگا‘ اس کے بعد اگر میت کا قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اگر قرضہ ادا کرنے میں تمام مال ختم ہوجاتا ہے تو وراثت تقسیم نہیں کی جائے گی۔ لیکن اگر قرض نہیں تو اب ایک تہائی ( )مال پر وصیت لاگو ہوگی۔ بالفرض وصیت نہیں ہے تو پھر تمام مال شرعی وارثوں میںتقسیم کردیا جائے گا ۔خیال رہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد جو فرض اور واجب کے درجے میں ہوں ان سے متعلق وصیت فرض ہے‘ اور جو سنت اور مستحب کے درجے میں ہوں ان کی وصیت مستحب ہے۔ تمام صورتوں میں تحریری وصیت مستحب ہے‘ فرض نہیں۔ قانونِ وراثت کے آنے کے بعد صرف مال پر وصیت کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی صاحبِ مال ایسی وصیت کی حاجت محسوس نہ کرتا ہو تو تمام مال وارثوں کا ہوگا۔
۶- تقسیم ِ وراثت قربت کی بنیاد پر ہوگی‘ ضرورت کی بنیاد پر نہیں۔ دُور کا رشتے دار خواہ کتنا ہی ضرورت مند ہو مگر قریب کے رشتے دار کی موجودگی میں وراثت کا حق دار نہیں۔ ہاں‘ ایسا شخص وصیت سے لے سکتا ہے یا کوئی وارث اپنا حصہ لینے کے بعد پھر جس کو دل چاہے دے سکتا ہے۔
۷- میراث کے حصے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہیں۔ اب اِن کو کم زیادہ یا تبدیل کرنے کا کسی کو حق نہیں‘ نہ محروم کرنے سے کوئی شرعی وارث محروم ہوتا ہے‘ البتہ محروم کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔
۸- وہ دور کے رشتے دار جو ضرورت مند ہوں اور تقسیم کے وقت موجود بھی ہوں انھیں بھی کُل مال میں سے تمام بالغ ورثا کی رضامندی سے کچھ نہ کچھ دے دیا جائے۔ یہ نہ صرف اخلاقی فرض ہے بلکہ شکرانہ ہے اُن لوگوں کی طرف سے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی محنت کے یہ مال عطا فرمایا۔
۹- ایسے رشتے داروں کو اگر دیا جائے تو نابالغ اور غیرحاضر شرعی وارث کے حصے سے نہ دیا جائے۔ جو حصہ پاچکے ہیں وہ اپنے حصے سے دیں تو زیادہ مناسب ہے۔
۱۰- اگر ایسے رشتے دار اپنے حق سے تجاوز کرکے شرعی حق داروں کے برابر مطالبہ کریں تو کوئی ان کا یہ ناجائز مطالبہ پورا کرنے کا پابند نہیں مگر بات احسن انداز سے ہو‘ دل شکنی نہ کی جائے۔
۱۱- کسی شخص کو ضرر رساں وصیت کرتے ہوئے پائیں تو لازم ہے کہ اُسے اِس ظلم سے باز رکھیں۔
۱۲- میت کے بدن کے کپڑے بھی ترکے میں شامل ہیں۔ انھیں حساب میں لگائے بغیر صدقہ کر دینا جائز نہیں۔
۱۳- ترکے کی تقسیم سے پہلے اُس مال سے مہمانوں کی تواضع کرنا‘ صدقہ خیرات کرنا جائز نہیں۔ ایسا کرنے والے سخت گناہ گار ہیں‘ اور اس صدقے سے میت کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
ایک بزرگ کسی کی عیادت کو گئے۔ ان کے سامنے ہی وہ آدمی مر گیا۔ بزرگ نے چراغ بجھا کرکے اپنے پیسوں سے تیل منگوا کر چراغ جلایا اور فرمایا: وہ چراغ وارثوں کی امانت تھا۔
۱۴- غرض کہ تقسیم سے پہلے وارثوں سے ’اجازت‘ لے کر بھی صدقہ کرنا جائز نہیں۔ مبادا کوئی شرما شرمی میں اجازت دے دے مگر دل سے راضی نہ ہو۔ (معارف القرآن‘ ج ۲)
صنفِ نازک وہ طبقہ ہے کہ جس کے حقوق واضح طور پر بتائے گئے اور ان کی حفاظت کو ہرممکنہ طریقے سے لازم بنایا گیاہے۔ اسلام میں عدل و انصاف کے معاملے میں مرد و عورت برابر ہیں۔ دونوں کے حقوق صاف صاف بیان کردیے گئے مگر صدافسوس انھیں پورا کرنا تو دُور کی بات ہے‘ ان کی مکمل آگاہی بھی عام نہیں ہے۔ عورتوں کی اکثریت اپنے اُن حقوق سے واقف ہی نہیں جو اسے اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں رائج باپ دادا کے اکثر اصول اور سوچ کے مخصوص انداز عورتوں کو محرومی‘ ذہنی تنائو اور انتشار کے علاوہ کچھ نہیںدے رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان غلط رسوم و رواج کو ختم کر کے اللہ رب العالمین کے قوانین سے آگاہی حاصل کی جائے۔ اس طرح اُس عذابٌ مُّھِیْن سے بچنے کی تیاری کی جائے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے احکامِ وراثت والی آیات کے آخر میں کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی پر بے جا اسراف ‘ جہیز کی شکل میں بے پناہ سامان‘ شادی کے بعد بچوں کی ولادت (خاص کر پہلی بار) کے لیے والدین کا خرچ اٹھانا‘ ان کے علاج معالجے کی ضرورت پڑنے پر انھیں والدین کے گھر چھوڑ دینے کا عام رواج ہے لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور ان اخراجات کا تقسیم وراثت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ شادی کے بعد عورت کی کفالت اور ضروریات پورا کرنے کی تمام ذمہ داری اس کے شوہر کی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے۔
آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ خواتین سے متعلق وراثت کا شرعی قانون کیا ہے:
۱- عورت مردکی طرح وراثت کی جائز حق دار ہے‘ نہ کسی طرح محروم کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا حصہ ہی معاف کرانے کا کسی کو بھی حق ہے۔ البتہ اس کا حصہ مرد سے آدھا ہے کیونکہ اُس پر کسی کی کفالت کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
۲- اگر مرنے والا مسلمان مرد ہے تو دیکھا جائے گا کہ اُس نے بیوی کا مہر ادا کیا یا نہیں۔ اگر نہیں تو پہلے تمام مال سے مہر ادا ہوگا۔ بالفرض مال صرف اتنا ہے کہ مہر کی ادایگی کے بعد ختم ہوجاتا ہے تو پھر صرف مہر ادا کیا جائے گا اور کسی طرح کی وراثت تقسیم نہیں ہوگی۔ اگر مال مہر سے زائد ہے تب وراثت تقسیم کی جائے گی۔
۳- اگر کسی خاتون کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ اس کا مہر اس طرح شوہر کی وفات پر دیاگیا تو اب وہ مہر کی رقم کے علاوہ وراثت سے اپنا مقررہ جائز حصہ بھی پائے گی۔ یہ نہیں کہہ دیا جائے گا کہ تم نے ابھی ابھی تو مہر لیا ہے اب اپنی وراثت چھوڑ دو…
۴- قرآن کریم نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصے کو ’اصل‘ قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتایا۔ چنانچہ سورئہ نساء‘ آیت ۱۱ کا ایک حصہ ہے۔ ’’لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصے کے بقدر ملے گا‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۲۱)
احکامِ وراثت کا خاتمہ جس آیت پر ہوتا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَاص وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ o (النسآء۴:۱۴) اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا‘ اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔
اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
۱- قانونِ وصیت و وراثت اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں۔ ان کے خلاف کرنا اِن سے تجاوز کرنا ہے۔
۲- اس تجاوز کی سزا دوزخ کی آگ ہے۔
۳- یہ آگ کسی محدود مدت کے لیے نہیں ’ہمیشہ‘ کے لیے ہے۔
۴- اس آگ میں ’رسوا کن‘ عذاب (عَذَابٌ مُّھِیْنٌ) دیا جائے گا (اگرچہ قانونِ وراثت پر ایمان کی صورت میں بالآخر عذاب سے نجات ہوجائے گی لیکن طویل عرصے تک عذاب مھین تو بھگتنا پڑے گا)۔ آج کے قانون وراثت پر عمل نہ کرنے والے اور وصیت سے غفلت برتنے والے مسلمان غور کرلیں کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی زندگی اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اپنے فرائضِ منصبی کی تکمیل کی توفیق اور مہلت عطا فرمائے۔ آمین