تزکیہ و تربیت


حج دینِ اسلام کا پانچواں رکن ہے اور ہر صاحبِ استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ یہ ۹ ہجری میں فرض ہوا۔ جو اس کا انکار کرے وہ کافر ومرتد ہے، اور جو استطاعت کے باوجود ادا نہ کرے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دی ہے۔ حج در اصل نفس کی ہرقسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان(گناہوں)کا کفارہ ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔ (صحیح بخاری ، حدیث:۱۷۷۳، صحیح مسلم، حدیث :۱۳۴۹)  

حجِ مبرور سے مراد ایسا حج ہے جس کے دوران کسی گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو، جس میں کوئی ریا اور شہرت کا دخل نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو، جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے، جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت اور آخرت کا شدت سے طلب گار ہوجائے ۔ اور سب سے بڑھ کر ایسا حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔ 

جب مسلمان حج کرنے جاتا ہے تو گویا اُسے اللہ تعالیٰ اپنے گھر اپنا مہمان بنا کربلاتا ہے اور اپنے مہمان کی تواضع اُس کی دُعائیں قبول کرکے اور اُس کی بخشش کا پروانہ جاری کرکے کرتا ہے۔ جب حاجی اُس کے گھر سے رخصت ہو رہا ہوتا ہے تو چلتے وقت تحفتاً جنت اُس کےلیے واجب کردیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انھیں بخش دیتا ہے‘‘۔ (ابن ماجه، السنن، ۲: ۹، رقم: ۲۸۹۲) 

ایک حدیث میں آتا ہے جسے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام اور مصافحہ کرو اور اس سے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنی بخشش کی دعا کی درخواست کرو کہ وہ بخشا ہوا ہے۔‘‘ (احمد بن حنبل، المسند، ۲: ۶۹، رقم:۵۳۷۱) 

جب انسان کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہےتو وہ دینِ فطرت پر ہوتا ہے یعنی معصوم ہوتا ہے اور آگے چل کر وہ اپنے آباو اجداد کے دین کا انتخاب کرتا ہے اِلا یہ کہ حق کو پانے کی تڑپ دل میں رکھتے ہوئے جدوجہد کرے۔ ایک حاجی کا اجر امت کو بتانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور پھر فحش گوئی کی نہ بدکار ہوا ، تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک و صاف ہو گیا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا‘‘۔ (صحیح بخاری ۱۵۲۱ و صحیح مسلم ۱۳۵۰) 

حاجی کا محبت سے اپنے ربّ کو لبیک اللھم لبیک (حاضر ہوں، اے میرے اللہ میں حاضر ہوں) پکارنا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو اتنا بھلا لگتا ہے کہ جس مخلوق تک اُس حاجی کی لبیک کی آواز پہنچتی ہے وہ وجد میں آجاتی ہے اور اُس حاجی کی آواز میں آواز ملا کر فرطِ محبت سے خود بھی لبیک اللھم لبیک کی گردان شروع کردیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے، اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت، ڈھیلے تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین اِدھر اُدھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے‘‘۔ (ترمذی، السنن، ۳: ۱۸۹، رقم: ۸۲۸، راوی حضرت سہلؓ بن سعد) 

امیر المومنین حضرت عمر ؓ بن خطاب اپنے دورِ امارت میں ایک روز فرماتے ہیں کہ ’’میں نے پختہ ارادہ کیا کہ اپنے لوگوں کو شہروں میں بھیجوں تاکہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ جن لوگوں کو حج کی استطاعت ہے پھر بھی وہ حج نہیں کرتے تو اُن پر جزیہ مقرر کردوں۔ ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں‘‘۔ (جزیہ اسلامی ریاست میں غیر مسلمین پر ایک ٹیکس ہے جس کے بدلے اسلامی ریاست اُس کے جان، مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہے اور ہر وہ سہولت اُسے فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے جو کسی مسلمان کو فراہم کرے گی۔ یاد رہے یہ ٹیکس غیرمسلمین پر اس لیے عائد ہوتا ہے کہ اُن پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے،جب کہ ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر مختلف حالتوں میں سالانہ زکوٰۃ، عشر و خمس فرض ہے) ۔ 

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے دوسری مخلوقات کی طرح انسان کو بھی جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے۔ ان میں ایک جنس مرد، جب کہ دوسری جنس عورت ہوتی ہے۔ ان دونوں کی جسمانی ساخت، قوتِ برداشت ، کام کرنے کی صلاحیتیں، سوچنے سمجھنے، موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے وغیرہ جیسی صفات مختلف رکھی ہیں تاکہ یہ دونوں ایک ساتھ مل کر معاشرہ تشکیل دیں۔ لہٰذا سارا دن محنت مزدوری کرکے بال بچوں کے لیے ضروریاتِ زندگی یعنی خوراک، لباس اور رہائش کا بندوبست کرنا مرد کے ذمہ لگایا ہے،جب کہ اپنے شوہر کے مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کرنا، اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرنا، خانگی معاملات کا انتظام کرنا عورت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اگر کبھی دشمن سے مڈبھیڑ ہوجائے تو میدانِ جہاد میں دشمن سے اپنے گھر، بیوی، بچوں اور مستضعفین کی جان، مال، عزّت و آبرو کی حفاظت کے لیے لڑنا مرد کی ذمہ داری لگائی ہے اور عورت کو اس سے مبرّا رکھا ہے۔ اس سلسلے میں اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپؐ نے فرمایا: جِهَادُكُنَّ الحَجُّ ’’یعنی تمھارا جہاد حج ہے‘‘۔(صحیح بخاری: ۲۸۷۵) 

حج کے پوشیدہ راز 

  • توحید باری تعالٰی کا عملی مظاہرہ:عقیدۂ توحید اسلام کا پہلا عقیدہ ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے اور دل چیر کر کسی کو دکھایا نہیں جاسکتا کہ اس میں کیا کچھ موجود ہے، لیکن اگر اس عقیدہ کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو حج کے موقع پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک حاجی دُور دراز کے سفر کی مشقتیں برداشت کرتا ہے اور وہ مال جو اُسے اپنی زندگی سے بھی زیادہ پیارا ہوتا ہے، جس کے لیے بھائی بھائی کا گلا کاٹنےپر آمادہ ہوجاتا ہے، حقِ وراثت دبانے کے لیے بھائی بہنوں کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایک حاجی اسی مال کو اللہ کی خوشنودی کی خاطر حج کی ادائیگی کےلیے خوشی خوشی خرچ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، تاکہ اُس کا ربّ اُس سے راضی ہوجائے۔ لہٰذا حج میں سب سے پہلا چھپا راز یہی ہے کہ اس میں توحیدِ باری تعالیٰ کا عملی مظاہرہ نظر آتا ہے۔ 
  • درسِ اجتماعیت:یوں تو اراکینِ اسلام کلمۂ توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج درسِ اجتماعیت سے خالی نہیں ہوتے، بلکہ یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ اجتماعیت کی تربیت دینا بھی ان کا ایک مقصد ہے۔ لیکن حج میں پائی جانے والی اجتماعیت اُمت کو وہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو سکھایا ہے جس کے راوی حضرت نعمانؓ بن بشیر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے سے محبت و مودّت اور باہمی ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے، تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے، بایں طور کہ نیند اُڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ، صحيح مسلم  ۲۵۸۶) 

افسوس صد افسوس! اسلام کے بتائے ہوئے دیگر اسباق کی طرح حج کے موقع پر مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع اپنی روح سے خالی نظر آتا ہے اور خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے مسلمان تتر بتر ہیں، باہمی اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں اور کیفیت نفسا نفسی کی ہے۔ یہی و جہ ہے کہ ماضی قریب اور عصر حاضر میں بوسنیا، چیچنیا، شام، لیبیا، عراق، افغانستان، برما، کشمیر اور فلسطین کی تباہی ہمارے سامنے ہے۔ لہٰذا حج کے چھپے رازوں میں سے ایک راز یہ ہے کہ اُمت متحد ہو ، ان کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکیں اور یہ ایک قوت نظر آئیں۔ 

  • احرام :احرام حج کا پہلا فرض ہے ، جس کے بغیر حج ہو ہی نہیں سکتا۔ احرام کا باندھنا دراصل انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خطبہ حجۃ الوداع میں کی گئی وہ نصیحت یاد دلاتا ہے کہ کسی امیر کو غریب پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بادشاہ ہو کہ فقیر، عربی ہو یا عجمی، بڑے سے بڑے حسب نسب والا ہو یا عام سا انسان، سب کا لباس ایک ہی ہوتا ہے، کوئی کسی میں تمیز نہیں کرسکتا۔ پھر دوسری طرف یہی احرام انسان کو اُس کی اوقات یاد دلاتا ہے کہ جب وہ اس دنیا میں آیا تھا تو وہ خالی ہاتھ اور خالی لباس تھا اور جب اس دنیا سے جائے گا تو خالی ہاتھ ہی جائے گا اور اُس کو مل سکیں تو لٹھے کی دو چادریں ملیں گی جن میں لپٹ کر وہ مٹی کے گڑھے میں جا لیٹے گا۔ یہ لٹھے کی چادریں بھی اس لیے کہ اللہ سبحان اللہ تعالیٰ حیاء دار ہے۔ اُس کی حیاء کا تقاضا ہے کہ جو انسان زندگی بھر اپنے جسم کی برہنگی کو چھپاتا پھرا، موت کے بعد اُس کے ربّ کو بھی اُس کی برہنگی گوارا نہیں۔  
  • طواف کعبہ:بیت اللہ کے طواف پر اکثر کفّار پرچار کرتے ہیں کہ مسلمان بھی بُت پرستوں کی طرح ایک پتھر ہی کو پوجتے ہیں۔ لیکن ایک حاجی جب بیت اللہ کے گرد چکر لگا رہا ہوتا ہے تو وہ کسی پتھر کی پوجا نہیں کررہا ہوتا بلکہ اپنے ربّ کے بتائے ہوئے حکم کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ حکم اُس کے ربّ نے اُسے دیا ہوتا ہے۔ اور یہ حکم اُس کے ربّ نے کیوں دیا تاکہ اُمت ایک مرکز پرجمع ہوسکے۔  

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ۝۹۶(الِ عمرٰن۳: ۹۶)’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی ہے اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ِہدایت بنایا گیا‘‘۔ لہٰذا مشرق سے یا مغرب سے، شمال سے یا جنوب سے جہاں سے بھی کوئی حاجی عمرہ یا حج کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوگا تو وہ ایک مرکز پر جمع ہو کر ایک ہی طریقہ سے خانہ کعبہ کے گرد گھومے گا، اور مرکزیت برقرار رکھنے کے لیے اس کے گرد سات چکر لگائے گا۔ ان چکروں کو کم یا زیادہ کرنے کا بھی اُس کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ 

  • زمزم کا پینا :ایک حاجی طواف سے فارغ ہو کر دو رکعت نفل کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے ربّ کا ایک مرکزیت پر اکٹھا ہونے کا شکر ادا کرتا ہے ، بعد ازاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق زم زم کے پانی سے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ اِس زمزم کے پینے میں ایک راز پوشیدہ ہے اور وہ ہے اللہ پر توکّل کرنا۔ کہ کس طرح ایک ننھی سی جان بے آب و گیاہ وادی میں پیاس سے بلبلا رہی تھی اور اُس پیاس کی شدت سے اپنی ایڑیاں زمین پر رگڑ رہی تھی، اُس ننھی سے جان کی ماں کی مامتا جوش مارتی ہے، اس کے باوجود کہ وہ جانتی ہے کہ ان سنگلاخ پہاڑوں میں دُور دُور تک پانی کا نام ونشان نہیں ہے۔ وہ اپنے ربّ سے دُعا کرتی ہے کہ وہ اس کے بچے کےلیے پانی عطا فرمادے۔ یہ توکّل علی اللہ کی اعلیٰ مثال تھی۔ لہٰذا زمزم کا پینا ایک حاجی کو توکّل علی اللہ کا درس دیتا ہے۔  
  • صفا و مروہ کی سعی: حضرت اسماعیل علیہ السلام کا پیاس کی شدت سے زمین پر ایڑیاں رگڑنا اور ممتا کی ماری ماں حضرت ہاجرہؑ کا ربّ سے دُعا کرنا، یقیناً اللہ پر توکّل کی اعلیٰ مثال ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ لیکن حضرت ہاجرہؑ نے صرف دُعا ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے اس دُعا کے ساتھ ہی اسباب کی تلاش شروع کردی ، چنانچہ انھوں نے صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی جانب دوڑنا شروع کردیا اور جیسے ہی وہ نشیب میں پہنچتیں تو انھیں سامنے حضرت اسماعیل ؑ جان کنی کی حالت میں ایڑیاں زمین پر رگڑتے ہوئے نظر آتے اور وہ اُس جگہ سے تیزی سے دوڑنا شروع کردیتیں، جس کی پیروی میں آج حاجی بھی ہری بتیوں کے دوران دوڑتے ہیں۔ لہٰذا صفا و مروہ کی سعی میں یہ راز پنہاں ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے اُمور و حاجتوں کے لیے اللہ سے دعائیں کرکے سکون سے بیٹھ جانا نہیں چاہیے۔ 
  • منٰی میں قیام :گو کہ ایک مسلمان اللہ، اس کے رسولوںؑ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے لیکن انسان ہوتے ہوئے یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ وہ مشاہدہ کرنا چاہتا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت اپنے مشاہدے سے جانے۔ اس کی حقیقت کو سمجھانے کےلیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے حج کے افعال میں منٰی کا قیام رکھ دیا ہے کہ انسان دیکھے کہ منیٰ کی وادی حج سے پہلے ایک بنجر میدان اور چھوٹی بڑی چٹانوں کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ 

جس طرح منٰی کی شان و شوکت اور رنگینی عارضی ہے بالکل اسی طرح اس دنیا کی ساری شان و شوکت اور رنگینیاں بس ایک صُور پھونکے جانے کی محتاج ہیں۔ یہ وہ راز ہے جسے سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ حاجیوں کو ۸ ذو الحجہ سے ۱۲ ذوالحجہ تک منیٰ میں قیام کروا کر تجربہ کراتا ہے اور دنیا میں بسنے والے دیگر انسان اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ 

  • وقوفِ عرفہ:مسلم اُمہّ کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ روزِ حشر اللہ کے حضور اکٹھے ہوکر اپنے اعمال کا حساب کتاب دینے پر یقین رکھیں۔ عرفات کے قیام میں ایک حاجی کو ایسے عمل سے گزارا جاتا ہے کہ سب حجاج رنگ و نسل سے ماورا، معاشرتی طبقات کو پسِ پشت ڈال کر، جغرافیائی حدود کے فرق کو مٹا کر، ایک میدان میں جمع ہوں اور اپنے ربّ کے آگے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتے ہوئے گڑ گڑا کر معافی طلب کریں اور آیندہ گناہوں سے بچنے کا عہد کریں۔ اُس میدان میں  انھیں صرف ایک ہی کلمہ یاد رہتا ہے اور وہ ہے:  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ  لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، یعنی انھیں اُس میدان میں ہرطرف اللہ نظر آرہا ہوتا ہے، اس کی جلالت نظر آرہی ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر حاجی اس کے سامنے حاضر ہونے کے تصور کو زندہ کرتا ہے اور اُس کی کبریائی بیان کرتا ہے۔  
  • مزدلفہ میں قیام :وقوفِ عرفہ کی تکمیل پر حجاج جب منیٰ واپس لوٹتے ہیں تو اُن کا رات کا قیام راستے میں آنے والے مقام مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے ہوتا ہے۔ مزدلفہ وہ مقام ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے کچھ ہی عرصہ پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے کےلیے یمن سے ہاتھیوں پر آنے والے متکبر بادشاہ ابرہہ کے لشکر کو اللہ کے حکم سے چھوٹی چھوٹی ابابیلوں نے کنکرنما میزائیلوں سے حملہ کرکے زمین بوس کر دیا تھا۔ جس کی شہادت قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دیتے ہوئے فرمایا ہے: اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ۝۱ۭ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَہُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ۝۲ۙ وَّاَرْسَلَ عَلَيْہِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ۝۳ۙ  تَرْمِيْہِمْ بِحِـجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ۝۴۠ۙ فَجَــعَلَہُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ۝۵ۧ (الفیل۱۰۵:۱ تا۵) ’’تم نے دیکھا نہیں کہ تمھارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اُس نے اُن کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا؟ اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے جو اُن کے اُوپر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے، پھر اُن کا یہ حال کر دیا جیسے (جانوروں کا) کھایا ہوا بھوسا‘‘۔ 

لہٰذا حاجیوں کو مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے قیام اس لیے کرایا جاتا ہے کہ وہ آٹھ ذو الحجہ سے جس کلمہ کو چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، تنہائیوں میں اور مجمعوں میں بلند کررہے ہیں، اُس کی حقیقت کو پہچانیں کہ وہی تمام بڑائیوں کا مالک ہے، وہی رات اور دن پیدا کرتا ہے، وہی موسم کو سرد اور گرم کرتا ہے، وہی زمین سے اپنی مخلوق کے لیے رزق نکالتا ہے، وہی ہے جو پوری کائنات کا خالق ہے، وہ جس کام کا ارادہ کرلیتا ہے بس اُس کےلیے ہوجا (کُن) کہہ دیتا ہے اور پھروہ ہوجاتا ہے (فیکون) ۔ لہٰذا جب ساری قوتوں کا مالک وہی ہے، سب کچھ کرنا ہی اُس نے ہے تو پھر حضرتِ انسان کون ہوتا ہے جو اُس کی زمین پر اپنی من مانی کرے۔  

  • رمی جمرات:مزدلفہ میں رات گزارنے کے بعد صبح فجر کی ادائیگی کرکے حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی جانب روانہ ہوتے ہیں، جہاں اُنھوں نے سنتِ ابراہیمیؑ کی پیروی کرتے ہوئے جمرات پر رمی کرنی ہے یعنی علامتی شیطان کو کنکریاں مارنی ہیں۔ یہ کنکریاں مارنا اُس واقعہ کی یاد دلاتی ہیں کہ جب حضرت ابراہیمؑ اپنے ربّ کے حکم کی ادائیگی کےلیے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو قربان گاہ لے جارہے تھے تو شیطان حضرت اسماعیل ؑ کو بہکانے آدھمکا تھا، جس پر انھوں نے اپنے بابا ابراہیمؑ کو بتایا تو انھوں کنکریاں اُٹھا کر اللہ اکبر کے نعرہ کے ساتھ اُسے وہیں زمین بوس کردیا تھا۔ حج کے دوران اس سنت پر عمل ہمیں زندگی بھر، شیطان کی پیروی سے نجات کا درس دیتا ہے۔ 
  • قربانی: رمی سے فراغت کے بعد حجِ قِران و حجِ تمتع کرنے والے حجاج کو قربانی کرنی ہوتی ہے۔ یہ قربانی دراصل حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ حضرت ہاجرہؑ کی قربانی کی یاد دلاتی ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ کو بڑھاپے کی انتہا پر ایک بانجھ بیوی کے ساتھ بیٹا (اسماعیلؑ) عطا کیا گیا اور جب وہ بڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے خواب میں حضرت ابراہیمؑ کو دکھایا کہ وہ اپنے اس لختِ جگر کو اللہ کی راہ میں ذبح کر رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے اور اُس کی ماں حضرت ہاجرہؑ سے اپنا خواب بیان کرکے ان کی رضا حاصل کی اور اسے اللہ کا حکم سمجھ کر بلا چون و چرا اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری چلا دی ، لیکن رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور اللہ نے اسماعیلؑ کی جگہ ایک مینڈھے کی قربانی بھیج کر اُنھیں اس سخت ترین آزمائش سے نکالا (الصّٰفّٰت ۳۷: ۱۰۲-۱۰۷)۔ لہٰذا ہر قربانی کرنے والے حاجی کو یہ قربانی اُس کی رُوح کے مطابق کرنی لازم ہے، جس میں وہ اپنے اللہ سے عہد کرے کہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں جہاں ضرورت پڑی وہ اللہ کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرے گا۔ اب یہ قربانی اُس کے مال کی ہو، اُس کے وقت کی ہو، اُس کی صلاحیتوں کی ہو، اللہ کے حکم کے آگے آڑے آنے پر اُس کی رائے کی ہو، رسم و رواج کی ہو، یا اُس کی انانیت کی ہو، سب کچھ اللہ کے حکم کے آگے ڈھیر کردے گا۔ 
  • بال ترشوانا یا سر منڈوانا :قدیم زمانے میں انسانوں کی خرید و فروخت عام تھی اور جب کوئی انسان کسی انسان کی غلامی سے کسی بھی طرح آزاد ہوتا تھا تو وہ علامتی طور پر اپنے سر کے بال منڈوالیتا تھا۔ حج کے افعال میں سے ایک فعل سر کے بال کٹوانا یا منڈوانا بھی ہے۔ عمرہ یا حج کے اعمال کے طور پر سر کے بال منڈوانے والے کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار رحمت کی دُعا کی۔ لہٰذا حج کے دوران بال منڈوانا اس بات کی علامت ہے کہ ایک حاجی اعلان کر رہا ہے کہ اب وہ اس دنیا میں اللہ کے سوا ہر کسی کی غلامی سے آزاد ہوگیا ہے۔ اب نہ تو وہ اللہ کے آگے معاشرے کے رسم و رواج کی غلامی کرے گا، نہ اپنی خواہشاتِ نفسانی کی غلامی کرے گا، نہ مال کی غلامی میں مبتلا ہوگا۔ 

 دوسرے احرام کی حالت میں پراگندہ اور غبار آلود رہ کر بارگاہِ عالی میں حاضر ہونے کا حکم تھا، اور احرام کے بعد صاف ستھرا رہنا پسندیدہ ہے، تو بالوں کو کاٹنے میں ان پراگندہ بالوں سے مکمل صفائی اور ایک حالت سے دوسری حالت کی تبدیلی بدرجہ اتم موجود ہے۔  

تیسرے یہ کہ احرام کی حالت میں بال توڑنے پر پابندی تھی اب ان تمام یا بیش تر بالوں کو کاٹ کر اس حد بندی کے خاتمہ کی تعلیم خود پابندی لگانے والی شریعت ہی نے دے دی کہ عمرہ اور حج کے اعمال سے فارغ ہونے سے پہلے احرام کی حالت میں بال رکھنا، عبادت اور عمرہ اور حج کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد اب ان کاکاٹنا عبادت ہے۔  

لہٰذا اس عمل میں پوشیدہ سبق یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جائز کام سے رُکنے کا کہیں تو فوری رُک جانا چاہیے اور جب وہ کسی کام کو کرنے کا حکم دیں تو بے چون و چرا اُن کے حکم کو بجا لانا چاہیے۔ اگر ایک حاجی حج کے بعد والی زندگی میں ایسا نہ کرے تو اُس نے حج کی شکل ضرور بنا لی لیکن اُس کی حقیقی روح کو نہ پا سکا۔ 

  • احرام کا اتارنا :احرام کا اُتارنا اس بات کی علامت ہے کہ اے حاجی! تیری تربیت کا عمل اب مکمل ہوا چاہتا ہے اور اب ایک بار پھر تو نے دنیا کی طرف لوٹنا ہے اور اس دنیا میں اس پورے حج کے دوران ہونے والے ایک ایک عمل میں چھپے رازوں کا علم ہوجانے کے بعد اپنے ربّ کے احکامات کی مکمل بجا آوری کرنی ہے، اور بالکل اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اُسوۂ نبوی ؐ کو مقدم رکھنا ہے جیسے حج کے ایک ایک عمل میں سنت نبوی ؐکے مطابق عمل کرتا رہا۔ اگر تو ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو تجھے حجِ مبرور مبارک ہو، اجر کے طور پر اس کے صلے میں ملنے والے تمام انعامات و اکرامات تیرے منتظر ہیں خاص طور پر اللہ کی رضا! 

 ۷مئی ۲۰۲۵ء پاکستان کی تاریخ میں ایک تاریخ سازدن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے نہ صرف انڈیا کی کھلی جارحیت کو، جو مکر و فریب اور تفاخر و استکبار پر مبنی تھی، ناکام و نامراد کیا بلکہ عالمی استعمار ایک عرصے سے اس خطہ میں انڈیا کو جو حیثیت و مرتبہ دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا تھا، اس تاثر کو خس و خاشاک کی طرح اُڑا دیا۔ 

جنگی مبصرین کے مطابق انڈیا کی طاغوتی حکومت ۲۰۱۹ءسے اپنی فضائیہ کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے مغرب کی بہترین ٹکنالوجی سے لیس لڑاکا جنگی جہاز اور دیگر جنگی ساز و سامان جمع کر رہی تھی۔ اس نے پہلگام ڈراما کی آڑ میں اچانک پاکستان پر متعدد جہتوں سے یکبارگی بھرپور حملہ کرکے پاکستان کی سالمیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے اور اس بہانے آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ بہترین تدبیر فرمانے والا ہے: وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ (اٰل عمرٰن۳:۵۴)’’اللہ سب سے عمدہ تدبیر فرمانے والا ہے‘‘۔ وہ ہردور میں معرکۂ حق و باطل میں اپنی آیات، اہل ایمان کے دلوں کے نور میں اضافہ کرنے کے لیے روزِ روشن کی طرح دکھاتا ہے، تاکہ اہل ایمان اس کے شکر و حمد و ثناء کے جذبے سے سرشار ہوکر زندگی کے ہردائرے میں اللہ کی اطاعت اختیار کرتے ہوئے اس کا قرب حاصل کر سکیں۔  

نصرتِ الٰہی پر اظہارِ تشکر 

​اللہ تعالیٰ کے اَن گنت احسانات میں سے غیبی نصرت ایک عظیم احسان و نعمت ہے ۔ اللہ ربّ العزت اس ذریعے سے اہل ایمان کے دلوں سے موت کے خوف کو نکال کر شہادت کی تڑپ اور تمنا پیدا فرماتا ہے اور مشکل اور کٹھن اوقات میں دلوں کو اطمینان اور ذہنوں کو سکون عطا فرماتا ہے ۔ یہ وہی کیفیت ہے جو ہمارے ہوا بازوں کو نصیب ہوئی ۔ اللہ کی یاد اور اس کی نصرت و تائید کے بھروسے پر انھوں نے اپنے فضائی مشن کا آغاز کیا۔ ابتدائی فضائی جنگ میں نہ صرف دشمن کے تعداد میں دگنا طیاروں کو ملکی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روکا بلکہ اللہ ربّ العزت کی عطا کردہ قوتِ ایمانی کے ذریعے، اور اپنے حواس پر قابو رکھتے ہوئے ٹکنالوجی میں اپنے سے بہتر سمجھے جانے والے فرانسیسی طیاروں کو نشانہ بناکر تباہ بھی کر دیا۔ پاکستان کی فضائیہ کے ترجمان کے مطابق ۶ اور ۷ مئی کو ’فضائی لڑائی‘ ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی اور اسے حالیہ عالمی فضائی جنگوں کی تاریخ میں سب سے طویل فضائی جنگوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق دفاعی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان نے انڈین فضائیہ کے چھ جنگی طیارے اور۸۰ سے زائد ڈرونز مار گرائے۔پاکستان کے عسکری ذرائع کے مطابق انڈیا کی جانب سے چار راتوں کی مسلسل اشتعال انگیزی اور ڈرون حملوں کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت اور جوانوں نے سنت ِ رسولؐ کے مطابق ۱۰مئی کو قبل اَز فجر ربّ العزت کے حضور سربسجود ہوتے ہوئے اس کی مدد ونصرت کی التجا کی اور پھر حکم ربانی فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا۝۳ۙ (العٰدیٰت ۱۰۰:۳) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے مطابق نمازِ فجر کے بعد اللہ کی کبریائی کے ا ظہار کے لیے سورۂ صف کی آیت ۴ سے اخذ کردہ اصطلاح بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ کے نام سے جوابی کارروائی کی ۔ 

 جوابی کارروائی میں آدم پور میں پاک فضائیہ کے جے ایف۱۷ تھنڈر کے ہائپر سونک میزائلوں نے بھارت کا ایس-۴۰۰ دفاعی نظام تباہ کر دیا۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کا تربیتی مرکز، کے جی ٹاپ بریگیڈ ہیڈکوارٹر ، اڑی فیلڈ سپلائی ڈپو تباہ کیے گئے ۔آدم پور، اودھم پور، پٹھانکوٹ، سورتھ گڑھ، سرسہ، بھٹنڈا، ہلواڑہ ایئر فیلڈز اور اکھنور ایوی ایشن مراکز کو نشانہ بنایا اور بیاس میں ’براہموس میزائلوں‘ کے ذخیرے کو نشانہ بنایا۔ علاوہ ازیں زمینی جوابی کارروائی میں  لائن آف کنٹرول پر بیسیوں بھارتی چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا ۔ پاک فوج کی جوابی کارروائی کے مقابلے میں بھارتی فوج کئی پوسٹوں سے فرار ہوئی اور کئی پوسٹوں پر سفید جھنڈے لہرا کے اس نے باضابطہ اپنی شکست بھی تسلیم کی ۔   

اس عظیم فضلِ الٰہی کا تقاضا ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق سنّت ِ مطہرہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر پاکستانی مسلمان ہرقسم کے تکبر و تمسخر سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے ربّ کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ سجدہ ریز ہو کر اس کا شکر ادا کرے۔ اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور اپنی موروثی غلامانہ فکر پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے استغفار کرے، اللہ کے حکم اور توحیدی فکر کے مطابق ربِّ کریم کے ساتھ اپنے تعلق کو صحیح بنیادوں پر استوار کرے۔ اس طرح ہرشعبۂ زندگی میں اللہ ربّ العزت کے دیئے ہوئے امن و سلامتی اور خوشحالی کے ضامن عادلانہ اسلامی احکام اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام معاملات میں اپنا کر اسلام کے عالم گیر نظام کو اپنے معاشرے، ریاست اور دُنیا میں غالب کرنے کی جدوجہد کرے۔ نیز اپنی تمام صلاحیتوں اور وسائل کو اللہ کی رضا اور دُنیا و آخرت میں کامیابی کے حصول کے لیے کھپانے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔ 

بھارت کے جارحانہ مذموم عزائم 

یہ بات بالکل واضح ہے کہ انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس، مذہبی ونسلی منافرت پر مبنی ’ہندوتوا‘ فکروفلسفہ کی علَم بردار ہے اور ببانگ دہل اپنی انتہا پسندی اور دہشت گردی پر فخر کرتی ہے۔ جس نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور انڈین کانگریس بھی اس معاملے میں اس کی ہمنوا ہے اور جو ’اکھنڈ بھارت‘کے نعرے کی بنیاد پر ہندوؤں کے جذبات میں اشتعال پیدا کرکے حکومت کرتی رہی ہے۔ بی جے پی نے آج سے چھ ماہ قبل اپنے منصوبے کی طرف اشارہ کردیا تھا کہ وہ پاکستان کے اندرونی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کو اپنی حدود میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ اسی ہدف کے حصول کے لیے دوسری جانب اکثر انڈین چینل اور دیگر پاکستان دشمن صحافتی ذرائع ایک منظم حکمت عملی کے ذریعے  اقوام عالم کو یہ بات باور کرانے میں مصروف رہےہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز اور دہشت گرد برآمد کرنے والا ملک ہے۔ چنانچہ اسی مسلسل پروپیگنڈے کے باعث عالمی سطح پر پاکستانیوں کے ساتھ تعصب پر مبنی رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ دوسری جانب انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور اس کے اتحادی پاکستان کی معیشت اور سیاسی صورتِ حال کو خراب کرنے کے لیے اپنے گماشتوں اور سہولت کاروں کے ذریعے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پاکستان سے دشمنی پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان گذشتہ ۲۵برس سے مسلسل نہ صرف دہشت گرد کارروائیوں کا ہدف بنا ہوا ہے بلکہ اندرونی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ اس طرح ’ہندو توا‘ کی علَم بردار آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال کر کے پاکستان کی ملکی سلامتی اور معیشت پر مسلسل وار کرتی آرہی ہے۔ 

۱۱ مارچ ۲۰۲۵ء کو کوئٹہ سے پشاور روانہ ہونے والی ’جعفر ایکسپریس‘ ٹرین کو بولان کے علاقے میں ’را‘ کے پروردہ بلوچ دہشت گردوں نے اسلحے اور گولہ بارود کے زور پر اغوا کرنے کے بعد ۴۰۰سے زائد مسافروں کو جو اپنے گھر والوں سے ملنے جا رہے تھے یرغمال بنا لیا۔ ان علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی پر بھی انڈین عسکری ادارے اور حکومت اپنے مالی وسائل کے ساتھ عرصے سے ملوث تھے۔ طویل عرصے سے علیحد گی پسند دہشت گردوں کے ہاتھوں عام پاکستانیوں کا سفاکیت سے قتل کیا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں پس پردہ ملوث انڈیا کا چہرہ دنیا کو دکھانا حکومت ، سرکاری اداروں اور سیاسی رہنماؤں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن معاشی و سیاسی مفادات کے زیر اثر حکمران جماعتیں، سیاسی راہ نما اور سرکاری ادارے اپنا یہ فرض پورا کرنے سے مسلسل غفلت برتتے چلے آئے ہیں۔ 

عسکری برتری اور سائبر جنگی مہارت 

۱۰مئی کی فتح مبین کے اہم واقعے میں اللہ کی تائید و نصرت کی واضح نشانیاں موجود ہیں، لیکن ایک سیکولر ،قوم پرست ذہن اس کو اپنی عسکری برتری اور سائبر جنگ کی مہارت سے ہی تعبیر کرسکتا ہے اور فخریہ انداز میں اپنی فتح کی خوشی منا کر اپنے منہ اپنی تعریف کر کے مطمئن ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک معروضی ذہن رکھنے والا مسلمان اسے کسی اور زاویے سے دیکھتا ہے۔ انڈیا کی جارحیت میں اولین نمایاں پہلو باطل اور طاغوت کا فخر و غرور اور استکبار ہے، جس کا اظہار انڈیا کی نسل پرست اور دہشت گرد آر ایس ایس اور زعفرانی بی جے پی کے نمائندہ وزیراعظم کے بیانات اور بین الاقوامی مذاکرات میں اس کے رویہ سے ہوتا رہتا ہے ۔’ہندو توا‘کے علَم بردار نے ہمیشہ پاکستان کو حقارت اور نفرت کے جذبات کے ساتھ مخاطب کیا ہے۔ 

انڈیا کے ابلاغ عامہ نے ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اپنی حالیہ جارحیت پر اپنےعوام الناس کے سامنے جو نقشہ کھینچا، وہ کم و بیش یہ تھا کہ انڈین فوج نے پاکستانیوں کو سبق سکھا دیا ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کو تباہ کر دیا گیا ہے اور پاکستان گڑگڑا کر انڈیا سے صلح اور امن کی درخواست کر رہا ہے۔مگر حقیقت حال بالکل برعکس تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی معجزانہ امداد سے پاکستان کی مجاہد افواج اور ہوا بازوں نے اپنے رب پر بھروسا کرتے ہوئے۔ اس اعلان کے ساتھ کہ جس مشن پر وہ جا رہے ہیں اس سے سلامتی سے واپسی کی کوئی امید نہیں ہے۔ ایمان، یقین، جوش، ولولہ کے ساتھ اللہ کے بھروسے پر بھارتی حدود میں داخل ہوئے اور اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بناتے ہوئے تکبر و غرور میں مست ’ہندو توا‘ قیادت کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے: وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۶ (اٰل عمرٰن۳:۲۶) ’’(اللہ) جسے چاہے عزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے ہی اختیار میں ہے۔بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ 

 انسان کی تمام تیاریاں، منصوبے مادی قوت ،فنی برتری، ان سب سے زیادہ قوی، العزیز، الحکیم کی قوت ہے۔ انسان جب اس پر ایمان لے آئیں اور استقامت اختیار کریں تو غیبی امداد کے دروازے ان پر کھل جاتے ہیں۔ اور پھر اللہ بزرگ و برتر کی غیبی مدد سے اس کے عاجز بندے تکبر اور غرورکے عادی افراد کو جھکنے اور مٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ 

حساس جنگی معلومات سے آگاہی، انڈیا کے فضائی دفاعی نظام کا معطل کیا جانا، انڈیا کے میزائل اور جہازوں کا تباہ کیا جانا، یہ سب محض انسانی قوتِ بازو سے نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیں لازماً چین کی بروقت رہنمائی و امداد اور ترکیہ کی حمایت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن تمام تر فنی اور تکنیکی کمال کے باوجود جنگ میں فتح و شکست کا معیار فنی و تکنیکی صلاحیتوں اور آلات کو استعمال کرنے والے انسان کے طرزِفکروعمل کو تشکیل دینے والا مقصد ِ زندگی ہوتا ہے ۔جب اللہ کا بندہ اللہ کے سامنے اپنی عاجزی کا شعور رکھتے ہوئے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جذبۂ جہاد کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے موجود خطرات میں کود کر ربّ العزت کی نصرت و امداد پر بھروسے کا ثبوت پیش کرتا ہے، تو اللہ ربّ العزت کی طرف سے فتح کے ایسے نتائج سامنے آتے ہیں کہ جن کا مشاہدہ آج دُنیا کے سامنے ہے ۔ 

عالمی تشخص کا اُجاگر ہونا 

اللہ تعالیٰ کے اس احسان پرکہ کل تک جو پاکستان، عرب دنیا ہو یا مغربی اور مشرقی ممالک، سب کی نگاہ میں ایک کمزور اور معاشی طور پر پس ماندہ اور عسکری طور پر انڈیا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک سمجھا جا رہا تھا ، اللہ تعالیٰ کی عنایت سے اس معرکۂ حق میں اس کی وقعت ، اہمیت، علاقائی قیادت میں باوقار مقام پر فائز ہوا ہے اور پاکستان کی مدافعانہ قوت کی برتری کا سکہ بیٹھ گیا ہے۔انڈیا کے تکبر و غرور کا نشہ خاک میں مل گیا ۔ایسے واقعات بار بار نہیں ہوتے، لیکن یہ جب ہوتے ہیں تو ان کے زیر اثر قوم کی ماہیت قلبی میں ایمانی رنگ نمایاں ہو جاتا ہے۔اسی ایمانی رنگ کو ہرپاکستانی کے دل و دماغ میں اُجاگر کرنے اور غالب کرنے کے لیے جدوجہد اور اقدامات وقت کا تقاضا ہے۔ 

حقائق کی دنیا پر نظر ڈالی جائے تو امریکی ذہنی غلامی میں جکڑی نوکر شاہی اور سفارت کاروں نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی۔کشمیر کا مسئلہ عدم توجہی کا شکار رہا اور چین کے ساتھ جو معاشی بنیاد پر تعاون کی فضا بنی تھی، اس میں واضح کمزوری پیدا ہوئی۔ اگر خدانخواستہ چین بروقت معلومات اور وہ فنی تعاون جس میں انڈیا کے برقی مواصلاتی نظام کا مفلوج کیا جانا بنیادی اہمیت رکھتا ہے، فراہم نہ کرتا تو تنہا ہماری فضائی صلاحیت وہ نتائج پیدا نہ کر پاتی، جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے فتح کی صورت میں ظاہر ہوئے ۔ چین کے زاویہ سے دیکھا جائے تو انڈیا کی برتری کا واضح مطلب چین کے مقابلے میں ایک دوسرے ہمالیہ کا بلند ہونا تھا ۔ چین کی بروقت معاونت نہ صرف اس خطے میں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کے ساتھ ساتھ چین کی عسکری اور آئی ٹی کے میدان میں مغرب پر برتری کا سکہ جمانے کا سبب بھی بنی اور دنیا کو یہ بھی نظر آگیا کہ فرانسیسی طیاروں کے فنِ کمال کے دعوےاور انڈین ایس ۴۰۰ کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے سب خاک میں مل گئے ۔نیز خطے میں انڈین چودھراہٹ و بالادستی، اور چین و پاکستان کے خلاف بر تر قوت بننے کا خواب عملاً چکنا چورہوگیا۔ 

ادھر وہ مسلم ممالک جو انڈیا سے تعلقات استوار کرتے رہے ہیں، ان کے سامنے بھی یہ حقیقت کھل کر آگئی کہ ملک میں غیر جمہوری اقدامات اور  سیاسی انتشار کے باوجود جب غیرملکی جارحیت کے خلاف پاکستانی قوم متحد ہوتی ہے تو مادی طور پر اپنے سے ۱۰ گنا بڑی طاقت سے بھی ٹکر لینے سے نہیں گھبراتی۔ یہ اعتماد قوم کے لیے ایک بڑا سرمایہ ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کی بحالی کا ذریعہ بھی۔ پاکستان کی عسکری فتح و برتری انڈیا میں مسلمان اقلیت کے لیے ہی نہیں بلکہ جہاں بھی مسلمان مسائل کا شکار ہیں ، ان سب کے لیے ایک تقویت کا باعث ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے ان عظیم احسانات کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ 

۱۰مئی کے واقعے نے پاکستانی قوم کو اس کے اصل تشخص پر دوبارہ فخر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کی عسکری قیادت نےواضح اور علانیہ طور پر اپنا رشتہ دعاؤں ، مناجات ، اللہ کی کبریائی اور قرآنی اصطلاح بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ سے جوڑ کر یہ حقیقت واضح کر دی کہ پاکستان محض پہاڑوں، کھیتوں اور سبز ہ زاروں کا نام نہیں بلکہ اس کا مقصد ِوجود اسلام اور دوقومی نظریہ آج بھی زندہ ہے ۔ افواج پاکستان نے اللہ کی کبریائی کے اعلان اور اللہ سے دعا و مناجات کے ساتھ اپنی عسکری کارروائیوں سے وہ حیران کن اور معجزاتی کام کیا، جس کے بارے میں انڈیا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،اور جس کی بنا پر سخت متعصب اور پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے امریکی صدر نے بھی اپنے بیان میں پاکستان اور انڈیا کو ایک چھوٹے اور بڑے ملک کے طور پر نہیں بلکہ دو یکساں ایٹمی طاقت والے ممالک کے طور پر مخاطب کیا ۔ واضح رہے کہ امریکا ماضی میں پاکستان کو دہشت گردوں کا پشتی بان اور انڈیا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک شمار کرتا رہا ہے۔ 

 پہلگام میں دہشت گردی کا ڈراما 

۲۲؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو مقبوضہ کشمیر میں پہلگام کے تفریحی مقام پر ایک دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والے ۲۶ شہریوں میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل تھے۔ انڈیا نے کسی ثبوت یاتحقیق کے بغیر متعصبانہ انداز میں حملے کی ذمہ داری چند منٹوں میں پاکستان پر عائد کردی ۔ پاکستان نے اس افسوسناک واقعے کی آزادانہ اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی ۔لیکن انڈین ذرائع ابلاغ نے جھوٹ پر مبنی ایک منظم ، جارحانہ اور متعصبانہ پروپیگنڈے اور نفرت انگیز مہم کے ذریعے جنگی جنون کا ماحول پیدا کر دیا اور ساتھ ہی مسلّمہ صحافتی اخلاقیات کا بھی قتل عام کیا۔ انڈین میڈیا نے حقائق اور ثبوت کی جگہ ابلاغی محاذ پر فتنہ و فساد پر مبنی جھوٹے بیانیے کے ذریعے ابلاغی جنگ سے بی جے پی حکومت کے لیے ساز گار جنگی ماحول بنایا ۔  

اسی جنگی ماحول میں ۶ اور ۷  مئی کی درمیانی رات بھارتی فضائیہ نے پاکستان میں پنجاب اور کشمیر میں نومقامات پر مساجد کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ۴۰؍ افراد شہید ہوئے ، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی، جب کہ انڈیا کا دعویٰ تھا کہ ’’یہاں دہشت گرد تربیت دیے جاتے ہیں‘‘۔ یہ ایک واضح باضابطہ اعلانِ جنگ تھا ۔ انڈیا نے یہ غور نہیں کیا کہ پہلگام، مقبوضہ کشمیر میں اتنے اندر جا کر ایک ایسے مقام پر واقع ہے کہ جہاں سوائے پیدل افراد کے اور کوئی داخل نہیں ہوسکتا اور جہاں چپےچپے پر انڈین فوج کے افراد متعین ہیں۔ اس المناک واقعے کے فوراً بعدیہ الزام عائد کرنا کہ یہ پاکستان کے ایجنٹوں کی کارروائی ہے ، نیز ایک ہوائی دعوے کی بنیاد پر بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کا پاکستان میں میزائل حملے کرنا کہاں تک ایک معقول بات ہے؟ 

اللہ کے فضل و کرم سے انڈیا ناکام رہا۔ بےشک اللہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ اس تناظر میں باشعور شہریوں اور تحریک اسلامی سے وابستہ افراد پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 

جنگی حکمت عملی 

 قرآن کریم کا ارشاد ہے: وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ  وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۝۰ۚ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ۝۰ۚ اَللہُ يَعْلَمُہُمْ۝۰ۭ (الانفال۸:۶۰) ’’اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے ہوئے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘۔  

اس ارشاد میں جنگی تیاری کا اصل مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ دشمن پر رعب قائم رکھا جائے، جارحیت بجائے خود مقصود نہیں ہے۔ افواج پاکستان خصوصاً فضائی قوت کی حکمت عملی اور بقیہ دونوں افواج کے ساتھ مضبوط رابطے کے نتیجے میں نہ صرف فضائی برتری کے حصول میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی بلکہ انڈین ہوائی جہاز بردار بحری بیڑا’وکرانت‘بھی آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ بین الاقوامی مبصرین نے جو اعداد و شمار اور تجزیے پیش کیے ہیں اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو سراہتے ہوئے انڈین جارحانہ رویے کی مذمت اور پاکستان کی جانب سے تحمل اور اعلیٰ کارکردگی کے مظاہرے کی تعریف کی ہے۔ پاکستان کی اس پوزیشن نے عالمی مبصرین کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ انڈیا نہ صرف جارح تھا بلکہ اس کی فضائی قوت نے کھلی شکست کھائی ہے۔  

پاکستان کا علاقائی اور عالمی کردار 

اس غیبی امداد نے پاکستان کے علاقائی اور عالمی تناظر میں کلیدی کردار کو یکایک اجاگر کردیا ۔اس تبدیلی کا واقع ہونا اور اس امتحان کے موقعے پر نہ صرف چین اور ترکیہ بلکہ ازبکستان، آذربائیجان اور بنگلہ دیش کاکھل کر پاکستان کی حمایت کا اعلان کرنا اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا انعام ہے اور ہمیں اس موقعے کو بنگلہ دیش، ترکیہ، ازبکستان اور آذر بائیجان کا ایک امن پسند بلاک بنانے کے لیے سبیل سوچنی چاہیے۔ انڈیا کو صرف اسرائیل نے اپنی حمایت کا یقین دلایا، جو عالمی طور پر انڈین چہرے کو مزید داغدار کرتا ہے۔ کیونکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں غیرانسانی رویہ اور مظالم جاری رکھنے کے بعد کوئی باشعور شخص اپنے آپ کو اسرائیل سے وابستہ کرنا پسند نہیں کرتا ۔ پاکستان کی جانب سے برقی ڈیجٹیل جنگ اور ترقی یافتہ سائبر سکیورٹی کے آلات کے استعمال نے ثابت کر دیا کہ الحمدللہ! پاکستان اس میدان میں انڈیا سے آگے ہے اور انڈیا اپنی طاقت کے گھمنڈ کی بنیاد پر علاقائی چودھراہٹ کھو بیٹھا ہے ۔ برقی ذرائع معلومات اور ڈیجیٹل آلات کی مدد سے کم سے کم وقت میں حصولِ معلومات، معلومات کی درجہ بندی اور اہداف کے تعین نے فضائی کارکردگی کو مؤثر بنانے میں غیرمعمولی مدد کی ۔ لیکن اصل امداد اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے ہمارے ہوا بازوں کے دلوں میں اللہ پر بھروسے اور سکینت کی تھی جو صرف اہل ایمان ہی کو حاصل ہو سکتی ہے۔ 

تحریک اسلامی کا مطلوبہ کردار 

واقعات کے اس تناظر میں تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے غور کرنے کے لیے بہت سے اہم پہلو ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ یہاں کیا جانا ضروری ہے : 

۱- تقویت ایمان کی مہم: اس بات کی ضرورت ہے کہ عسکری اور تکنیکی کامیابی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کے ذریعے جو قوت ہم کو دی گئی ہے، اسے اجاگر کرتے ہوئے غور کیا جائے کہ اس کامیابی نے ہمارے ایمان میں کتنا اضافہ کیا اور اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے اور اللہ سے تعلق بڑھانے کے لیے پورے ملک میں کن کن اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ 

۲- احسان مندی :اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس فتح نے کیا بہ حیثیت قوم اور انتظامیہ کہیں ہماری خود اعتمادی میں اضافہ کے ساتھ غرور و تکبر تو نہیں پیدا کیا؟ہماری نگاہ میں انڈیا کی ناکامی کا بڑا سبب اس کا غرور و تکبر تھا ۔اللہ تعالیٰ کو غرور اور تکبر سخت ناپسند ہے۔ وہ صرف اپنے ان بندوں کو کامیابی دیتا ہے جو اللہ کو اپنا رب ماننے کے ساتھ راہِ استقامت پر عاجزی، توبہ اور استغفار کے ساتھ گامزن رہتے ہیں ۔قوم کے نوجوانوں کو اس جانب توجہ کرنے اور انھیں عملا ًایسی سرگرمیوں میں لگانے کی ضرورت ہےجو قربِ الٰہی اور احساس جواب دہی کو بڑھانے میں مددگار ہوں۔موجودہ حالات میں قوم کی اخلاقی تربیت و اصلاح، تحریک اسلامی کے کارکنوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ 

۳-سائبر میدان میں فنی مہارت :اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے قوت ایمان کے ساتھ ہردور میں موجود جدید ترین وسائل کو بھی اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ حاصل کرنے، اور ان میں ترقی کی راہیں تلاش کرنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔آج کی جنگیں محض گولے، ٹینک ،کلاشنکوف کی نہیں ہیں بلکہ سائبر ایجادات کے فنی استعمال کی ہیں۔ اگر فنی طور پر انڈیا کے برقی معلوماتی نظام کو معطل نہ کیا جاتا، تو ہمارے ہوا باز کس طرح ان کی حدود میں جا کر ان کے اثاثے تباہ کرپاتے؟ تحریکی نوجوانوں کو ان میدانوں میں جو مستقبل کی فتوحات کے لیے ضروری ہیں،ا قامت دین کے تصور کے ساتھ آگے بڑھ کر تعلیم اور تطبیقی تجربات کی ضرورت ہے۔ 

۴-پانی پر جنگیں : جدید تحقیقات نے اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ آج تک قدرتی ذرائع خصوصاً تیل ، دھاتوں، معدنیات پر قبضہ کرنے کے لیے مادہ پرست یورپی اقوام نے گذشتہ ڈھائی سو سال سے جو جنگیں کی ہیں، اب ان میں ایک بڑا محاذ آبی وسائل کا ہے ۔  

چین ہو یا انڈیا یا افغانستان، سب نے اپنے علاقے میں چھوٹے بڑے بند بنا کر پانی کا ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن صرف ہم ایک ایسی دشمنِ عقل قوم ہیں جو آج تک اپنی محدود اپروچ کی پرستش کرنے کی بنا پر صوبہ جاتی ذہن کے ساتھ یہ طے نہیں کر سکی کہ قومی ضرورت اول ہے یا کسی کی ذاتی جاگیر ؟پانی کی قلت پہلے سے موجود ہے اور حالیہ جنگ میں اس بات کو کھول کر بیان کر دیا گیا کہ انڈیا پہلے پانی کے محاذ پر پاکستان کو ایک ایک قطرہ پانی سے محروم کرنے کا باضابطہ اعلان کر چکا ہے اور یہ دوسرا محاذ عسکری بنیاد پر ان علاقوں پر قبضہ کرنا تھا کہ جن کو وہ عرصہ سے اپنی جغرافیائی وحدت سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو پورے پاکستان میں پانی کی ترسیل کا ذریعہ ہیں۔تحریک اسلامی اس موضوع پر علمی بنیادوں پر ماہرین کو جمع کر کے مسئلے کے حیاتیاتی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، زرعی اور قانونی پہلوؤں پر معیاری تحقیق قوم کے سامنے پیش کرے اور عوام کو اپنے ساتھ لے کر قومی پالیسی پر اثر انداز ہوں۔ انصاف اور عقل کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے پر علاقائی یا صوبائی عصبیت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دلیل کی بنیاد پر معقول رویہ اپنایا جائے۔ 

۵- مسئلہ کشمیر پر مؤثر سفارت کاری : انڈیا کے حالیہ عسکری دخل اندازی کا ایک بنیادی محرک آزاد کشمیر پر قبضہ کرنا تھا۔ اللہ تعالی کی خاص عنایت سے دشمن اس میں ناکام رہا، لیکن دشمن آج بھی تاک میں ہے کہ اسے کوئی اور موقع ملے اور وہ کسی طرح اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کر سکے ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نادر موقع فراہم کیا ہے کہ انڈیا کےپیشہ وارانہ جھوٹ کا پول ایسے کھلا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں انڈیا کے بیانیہ کا اعتماد ٹوٹ چکا ہے۔ اس موقع پر ہمارا فرض ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے مظالم اور حقوق انسانی کی پامالی پر دنیا کے تمام اداروں کو اس کے ظلم سے آگاہ کر کے آزادیٔ کشمیر کے مطالبہ کو قوت دیں۔ اقوام متحدہ کی نصف صدی سے زائد عرصہ سے سردخانے میں پڑی قراردادوں پر عمل کرانے کے لیے اپنے تمام سفارتی، اخلاقی اور مادی وسائل کا استعمال کریں۔ 

۶- نظریۂ پاکستان کے موضوع پر آگاہی : قومی بیداری کے اس موقعے پر تحریک کو خصوصاً نظریہ پاکستان کے حوالے سے نئی نسل کے سامنے جس نے پاکستان بنتے نہیں دیکھا اور جس کو سرکاری اور غیر سرکاری تعلیم میں صرف پاکستان کے قیام کے حوالے سے منتخب قراردادیں اور واقعات سنائے گئے ہیں، اس نسل کو نظریۂ پاکستان کی روح، اقبال ، قائداعظم، محمداسد ،علامہ شبیر احمد عثمانی، سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر رہنماؤں کے بیانات اور تصورات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

حالیہ جنگ کا محرک ’ہندو توا‘اور تشدد پسند جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس کا یہ نعرہ ہے کہ ’پاکستان کا وجود میں آنا ہی غلط تھا‘۔ نیز ہندو اکثریت والے خطے میں مسلمانوں کو صرف اقلیت کے طور پر رہنے کا حق ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ دشمن کی زبان اور فلسفہ کو ہمارے ملک کے دانش وروں نے غیر شعوری طور پر اتنا اختیار کر لیا ہے کہ ان کے تصورِ قومیت اور ’ہندوتوا‘ کے تصور قومیت میں کوئی بہت بڑا فرق باقی نہیں رہا۔ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ا بلاغ عامہ کا شعبہ، یکساں طور پر اس سنگین علمی بددیانتی میں برابر کا شریک کار ہے۔ 

تحریک اسلامی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس موقعے پر تاریخی حقائق اور علمی اور تحقیقی دلائل کے ساتھ اسلامی ثقافت ،معاشرت، معیشت اور سیاست و ابلاغ عامہ کے ذریعے پاکستان کے مقصدِ قیام، تصورِ قومیت اور آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو عام فہم زبان میں نوجوانوں تک پہنچائے۔ اس موضوع پر ملک گیر تقریری مقابلے یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں منعقد کیے جائیں۔ ان سرگرمیوں میں غیر جذباتی، علمی لیکن عام فہم انداز میں براہِ راست قائدین تحریک پاکستان کے بیانات اور تحریرات کو پھیلایا جائے ۔اس کام کے لیے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اشد ضروری ہے۔ حفیظ جالندھری نے جس طر ح شاہنامہ اسلام  لکھا ،ایسے ہی ’شاہنامۂ پاکستان‘ لکھنے کی ضرورت ہے۔ 

۷-  تدریسی مواد: نظریۂ پاکستان پر غیر جانبدارانہ اور حقائق پر مبنی مواد کی غیر معمولی کمی ہے۔ تحریک سے وابستہ وہ افراد جو ملک کی یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور تحریک پاکستان سے واقفیت رکھتے ہیں، ان میں باصلاحیت افراد کا انتخاب کر کے، وقت کا ہدف مقرر کر کے ایسی درسی اور غیر درسی کتب تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو اُردو، سندھی، انگریزی میں تحریک پاکستان کی اصل روح یعنی اسلام کو بطور نظامِ حیات کے تناظر میں، قربانیوں کی تاریخ کو، حوالوں کے ساتھ پیش کریں۔ جو قومیں اپنی تاریخ کو بھلادیتی ہیں، تاریخ ان ا قوام کو بھی بھلا دیتی ہے ۔مستقبل کی تعمیر کے لیے بنیادماضی ہی فراہم کرتا ہے۔ اس کام میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔موجودہ صورتِ حال میں اسے ترجیحی بنیاد پر کرنے کی ضرورت ہے۔ 

دنیا میں ہر چیز کا مقصد اور اس کے استعمال کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ جب ہمیں کسی مشین کے بارے میں معلومات نہ ہوں تو کسی جاننے والے سے اس کا مقصد اور طریقۂ استعمال معلوم کرلیتے ہیں یا اس کی ’عملی ہدایات‘(Operation Manual) سے اسے سمجھ لیتے ہیں، جواس کے بناے والے نے اس میں بیان کیا ہوتا ہے۔

ہمیں اپنے جسم کےہر عضو مثلاً ہاتھ پاؤں، آنکھ اور زبان وغیرہ کا مقصد اور استعمال معلوم ہے، لیکن جب ہم سے یہ سوال کیا جائے کہ بحیثیت انسان ہماری زندگی کا مقصد اورطریقہ کیا ہے؟ تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب جاننے کے لیے ہمیں اپنےبنانے والے (خالق) کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہماری تخلیق کا مقصد اورزندگی گزارنے کے طریقے کے لیے ’عملی ہدایت‘ (Operation Manual) قرآن کی صورت میں عطا کی ہے اوراس کا پورا عملی نقشہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ انسانوں کی ضرورت بھی ہے اور اللہ کا بہت بڑا کرم بھی کہ مقصدِ حیات اور طریقۂ زندگی معلوم کرنے کے لیے انھیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑا گیا ۔

ڈاکٹر بننے کے لیے ہر شخص کو چند مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ سکول اور کالج میں تقریباً سوکتابیں پڑھتا ہے اور اچھے نمبر لے کر میڈکل کالج میں داخل ہوتا ہے،جہاں وہ مختلف مضامین کی کم ازکم مزیدبیس کتابیں پڑھتا ہے ، ان کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تاکہ امتحان میں صحیح جوابات دے کر پاس ہو سکے۔اگر وہ کسی کتاب کے بارے میں ممتحن کو یہ کہہ دے کہ میں نے پڑھی ہے بلکہ مجھے ساری کتاب زبانی یاد ہے (یعنی اسےحفظ کیاہے) لیکن مجھے اس کی سمجھ نہیں ہے ،تو کیا ممتحن اسے پاس کرے گا؟ وہ یقیناً فیل ہوگا اور وہ ڈاکٹر بننے کا حق دار نہیں ہوگا۔

 اگر اس طالب علم کی طرح اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ہم سے یہ پوچھ لیا کہ ’’جوکتاب میں نے تمھارے لیے بھیجی تھی کیاتم نے پڑھی ہے ؟‘‘ اوراس وقت ہمارا جواب یہ ہو کہ ’’پڑھی ہے،بلکہ حفظ بھی کیاہے لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں کہ اس میں کیا لکھا تھا‘‘، تو کیا اس جواب کے ذریعے ہم آخرت کے امتحان میں پاس ہونے کے حق دار ہوسکتے ہیں ؟ اللہ ہمیں اس حالت سے محفوظ رکھے اور قرآن کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کیوں کہ آخرت میں تو سپلیمنٹری امتحان بھی نہیں ہوگا! قرآن ہماری کتابِ زندگی ہے، یہی ہماری رہنما ہے،اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہوگا۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’میرے پاس جبرئیلؑ آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ؐ! آپؐ کی امت آپؐ کے بعد اختلافات میں پڑجائے گی۔ میں نے پوچھا کہ جبرئیلؑ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ’قرآن کریم اسی کے ذریعے اللہ ہر ظالم کو تہس نہس کرے گا، جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ یہ بات انھوں نے دو مرتبہ کہی‘‘ (متفق علیہ)۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے برحق فرمایا تھا:’’ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزّت بخشی،اگر ہم نےعزت کو اسلام کے علاوہ کسی اور نظام میں تلاش کیا تو اللہ ہم کو ذلیل کر دے گا‘‘۔ اگر ہم پھر سے دنیا میں ایک اعلیٰ مقام اور غلبہ چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کی طرف پلٹنا ہوگا، اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

بدقسمتی سے آج عملی زندگی میں قرآن ہمارا راہ نما نہیں ۔نتیجتاًمسلمان مذہبی فرقہ واریت اور تعصب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ نظامِ زندگی کے لیے قرآن کی بجائے عملاً دوسروں کو رہنمابنا لیا ہے۔ ہمیں قرآن کی اہمیت اور افادیت کا صحیح ادراک ہی نہیں ہے، اس لیےاوروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

قرآن کا مقصد

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا مقصد خود ہی بیان فرما دیا ہے: وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۵۵ (الانعام۶:۱۵۵) ’’اور یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیروبرکت والی، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحم ہو‘‘۔

 اور سورۂ صٓ میں فرمایا:كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹ (صٓ  ۳۸:۲۹) ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ!) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘۔

یعنی قرآن برکت والی ایسی کتاب ہے جس کا مقصد اس کی پیروی کرنا ہے اور یہ سمجھ اور غورو فکرکے بغیر نہیں ہوسکتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصدبھی قرآن کی تعلیم دینا اوراس کے ذریعے لوگوں کا تزکیہ کرناہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۲۹ (البقرہ ۲:۱۲۹) ’’اے ہمارے پروردگار ان میں ایک پیغمبر انھی میں سے بھیج، (جو) انھیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور انھیں کتاب (الٰہی) اور دانائی کی تعلیم دے اور انھیں پاک (وصاف) کرے، یقیناً تو تو بڑا زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے ‘‘۔

سورۃ الرحمٰن سے اس کتاب کی عظمت کا اندازہ لگائیں، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلرَّحْمٰنُ۝۱ۙ  عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۝۲ۭ  خَلَقَ الْاِنْسَانَ۝۳ۙ  عَلَّمَہُ الْبَيَانَ۝۴ (الرحمٰن ۵۵:۱-۴) ’’وہ رحمٰن ہے،اس نےقرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا‘‘۔ذرا تصور کریں کہ یہ کتا ب براہِ راست ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اللہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معلّم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معلّم ہیں ، تو کیااس کتاب کے علاوہ کوئی دوسری کتاب ہماری اولین ترجیح کی مستحق ہو سکتی ہے؟

ہماری موجودہ حالت

 آج اُمت کا عمومی رویہ معاذاللہ ایسا لگتا ہے، جیسے یہودیوں کا تورات کے بارے میں تھا۔ سورۂ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْہَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا۝۰ۭ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۵ (الجمعہ ۶۲:۵) ’’جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انھوں نے اس کا بار نہ اُٹھایا ، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے، ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي، أَوْ سَيَكُونُ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ  يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ  هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ (سنن ابن ماجہ)’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے گلوں سے آگے نہیں بڑھے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور میں سے گزر جاتا ہے، پھر وہ (دین میں ) واپس نہیں آئیں گے۔ وہ تمام مخلوقات میں سے بدترین افراد ہوں گے‘‘___ قرآن حلق (گلے) سے آگے نہ گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر قرآن کا اثر نہیں ہو گا یا ان کے دل قرآن مجید کو سمجھنے سے عاری ہوں گے۔ہمیں انتہائی سنجیدگی سےسوچنا ہوگا کہ آج ہماری حالت رسولؐ اللہ کی اس حدیث کے مصداق تو نہیں ہے؟

کیا قرآن سیکھنا فرض ہـے؟

قرآن سیکھنے سے کوئی مسلمان انکارنہیں کرتا، لیکن وہ اسے بس ثواب کا کام سمجھتا ہے۔ عام طور پر یہ فہم و احساس کم ہی ہے کہ قرآن سیکھنا کتنا اہم فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۝۰ۭ (القصص ۲۸:۸۵) ’’اے نبیؐ! ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمھیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے‘‘۔ یعنی اس قرآن کو خلقِ خدا تک پہنچانے اور اس کی تعلیم دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق دنیا کی اصلاح کرنے کی ذمہ داری تم پر ڈالی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورئہ زخرف میں ارشادفرمایا:فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ ۝۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۴۳ وَاِنَّہٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۝۰ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۝۴۴ (زخرف۴۳:۴۳-۴۴) ’’(اےپیغمبرؐ!) تم اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے۔ یقینا تم سیدھے راستے پر ہو۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم سےاس کی بابت باز پُرس ہو گی‘‘۔

 یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کرنے کے بعد مسلمانوں کو اس کی جوابدہی کا مسٔول بنایا۔ انسان کسی کتاب کے بارے میں تب ہی مسؤل ہو سکتا ہے، جب اسے معلوم ہو کہ اس کتاب میں میرے لیے کیا احکام ہیں جن کا میں نے حساب دیناہے۔پس، جس طرح اللہ نے مسلمانوں کے لیے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ فرض کیے ہیں، جن کی ادائیگی اس وقت تک صحیح طور پر نہیں ہو سکتی جب تک ان کے بارے میں احکام کی بنیادی تفصیلات معلوم نہ ہوں۔اسی طرح زندگی گزارنے کے لیے قرآن کے بنیادی احکامات کو سیکھنا ، ماننا اور اس پر عمل کرنا بھی فرائض میں سے ہے اور یہی قرآن کی فرضیت ہے، لیکن یہ احساس کم ہی ہے کہ قر آن سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ویسے ہی فرض ہے جیسے نماز اور روزہ فرض ہے۔

قرآن نہ سمجھنے/چھوڑنے والوں کا انجام!

  • روز محشر اندھا اُٹھایا جانا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴  قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا۝۱۲۵  قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴- ۱۲۶) ’’اور جو میرے ’ذکر ‘ (قرآن) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ‘‘۔ وہ کہے گا ’’ پروردگار ، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ‘‘ ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو ،جب کہ وہ تیرےپاس آئی تھیں، تُو نے بھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جارہا ہے‘‘۔
  • قرآن چھوڑ نے والوں کے خلاف رسولؐ  اللہ  کی گواہی : سورئہ فرقان میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝۳۰ (الفرقان ۲۵:۳۰)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا ترجمہ یوں بیان فرمایا ہے: ’’اس روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: اے میرے پروردگار اس قوم نے اس قرآن کریم کو ، جو واجب العمل اور واجب الاعتقاد تھا، بالکل نظر انداز کر رکھا تھا کہ اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتے تھے اس پر عمل تو درکنار(تفسیر ابن عباس)۔ اور ابن کثیرؒ نے تشریح میں لکھا ہے کہ روزِ محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی اُمت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ ان لوگوں نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا،یعنی اسے سمجھتے نہ تھے اور اس پر عمل نہ کرتے تھے،بلکہ اس کے سوا اور کلاموں سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے۔ یہی اسے چھوڑ دینا ہے۔
  • اللہ کا انتقام:اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی گناہ کے ارتکاب کے بارے میں خود انتقام لینے کا ذکر کم ہی کیا ہے، لیکن قرآن کو پسِ پشت ڈالنے پر فرمایا: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا۝۰ۭ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ۝۲۲(السجدہ ۳۲: ۲۲) ’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے۔ ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے‘‘۔

دنیا میں شیطان سے قربت اور گہری دوستی

وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَہٗ شَيْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِيْنٌ۝۳۶ وَاِنَّہُمْ لَيَصُدُّوْنَہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۳۷ (الزخرف ۴۳:۳۶-۳۷) جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔

شیطان کا اصل اور بنیادی ہتھیار یہ ہے کہ دنیا کو خوشنما بنا کر پیش کرے تاکہ انسان دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگے۔ شیطان انھیں راہِ حق پر چلنے سے روک دیتا ہے،فسق وفجور کا خوگر بنا لیتا ہے،دنیا کی ہوس ان کے دلوں میں یوں بھڑکا دیتا ہے کہ وہ ساری قوم کا خون چوسنے کے باوجود تشنۂ لب دکھائی دیتے ہیں۔ ان تمام کھلی گمراہیوں کے باوجود وہ اپنے بارے میں بڑا حسن ظن رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں بس وہی صحیح ہے۔ شیطان کے اس بہکاوے کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے:قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاُزَيِّنَنَّ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۳۹ۙ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِيْنَ۝۴۰(الحجر۱۵: ۳۹-۴۰) ’’وہ (شیطان)بولا :اے رَبّ! اس وجہ سے کہ تو نے مجھے بھٹکا دیا ہے، میں ان کے لیے زمین میں (برے کاموں کو) ضرور خوشنما بنادوں گا ، اور میں ضرور گمراہ کروں گا ان سب کو، سوائےتیرےان بندوں کے جنھیں ان میں سے  چُن لیا گیاہے‘‘۔ اور اکثر لوگوں کی حالت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مصداق ہو جاتی ہے: قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا۝۱۰۳ۭ اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱۰۴ (الکہف ۱۸: ۱۰۳-۱۰۴) ’’اے محمدؐ، ان سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن حکیم سے اعراض پر قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے۔ ان آیات کے بارے میں ہم پوری سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ قیامت کے دن:

  • ہم اندھے اٹھائے جائیں ؟ اور اللہ کو ہماری کوئی پروا نہ ہو؟
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے خلاف اللہ کے دربار میں گواہی دیں؟
  • قرآن کو نظر انداز کرنے کی پاداش میں اللہ ہم سے انتقام لے؟
  •  دنیا میں ہر وقت شیطان ہمارا قریبی اور گہرا ساتھی بنا رہے؟

یقیناً ہر مسلمان اس کا جواب نفی ہی میں دے گا۔ پس ہمیں سنجیدگی سے قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا کیوں کہ خود رب العالمین ہم سے کہہ رہا ہے کہ یہ نہیں کرو گے تو پھر بیان کردہ انجام کے لیے تیار رہو۔ ہم میں سے ہر ایک کو انفرادی اور اجتماعی طور پر موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ قرآن کو پڑھنا، سمجھنا،اس پرانفرادی اور اجتماعی زندگی میں عمل کی کوشش کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہی ہماری دنیوی اور اُخروی کامیابی کی شاہ کلید ہے :

گر تو می خواہی مسلماں  زیستن 

نیست ممکن جز  بقرآن  زیستن

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف

اسلام نے مال کو خیر سے تعبیر کیا ہے۔ دنیوی ضروریات ہو ں یا دینی ضروریات سب کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے جائز طریقوں سے مال حاصل کرنے کی نہ صرف تحسین کی گئی ہے بلکہ اس کو ایک فریضہ قراردیا گیا ہے کیونکہ فقروافلاس بندے کو بہت سے ناگوار کاموں یہاں تک کہ کفر تک کرنے پر مجبورکردیتا ہے۔صاحب ِمال ہونا بندے کو بہت سے اچھے کاموں کے قابل بنا دیتا ہے۔ حضرت سفیان ثوریؒ نے فرمایا ہے:’’ مال مومن کی ڈھال ہے‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح)

lکسبِ حلال کی اہمیت: اسلام نے کسب ِحلال کی بڑی تاکیدکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَنْ أَكلَ طَیِّبًا وَ عَمِلَ فِی سُنَّــةٍ وَ أَمِنَ النَّاسُ بَوَائِقَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ (ترمذی )’’جو حلال کھائے اور سنت کے مطابق عمل کرے اور لوگ اس کی ایذا رسانیوں سے محفوظ رہیں ،وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے صرف حلال رزق کھانے کا حکم دیاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِـمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا  ۖ  (البقرۃ ۲: ۱۶۸)’’اے لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں، انھیں کھاؤ‘‘۔

رزقِ حلال کی اہمیت کے پیش نظر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے:طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَا لِ فَرِیْضَةٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَةِ (المعجم الکبیر)’’رزقِ حلال طلب کرنا فرض (عبادت)کے بعد فرض ہے‘‘۔

حلال روزی کمانے کے بہت سے طریقے ہیں جن میں تجارت، زراعت، صنعت و حرفت اور ملازمت وغیرہ شامل ہے۔ہاتھ کی کمائی کو بہترین کمائی کا درجہ دیا گیا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کمائی کا کھانا نہیں کھایا۔ اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے‘‘۔(صحیح البخاری)

کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سب سے افضل کمائی کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:’’ تجارت جس میں رب کی نافرمانی کے طریقے نہ اختیار کیے جائیں اوراپنے ہاتھ سے کام کرنا‘‘۔(مسند احمد)

خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے تجارت بھی کی اور قریش کی بکریاں چراکرمحنت مزدوری بھی کی۔ آپؐ نے حلال روزی کی اہمیت کے بارے میں فرمایا:’’جس نے مانگنے سے بچنے کے لیے ، اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے اور اپنے پڑوسی پر مہربانی کرنے کے لیے حلال طریقے سے دنیا طلب کی وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مانند ہوگا‘‘۔(شعب الایمان )

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک آدمی گزرا۔صحابہؓ نے دیکھا کہ وہ رزق کے حصول میں بہت متحرک ہے اور پوری دلچسپی لے رہاہے تو انھوں نے آپؐ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر اس کی یہ دوڑدھوپ اور دلچسپی اللہ کی راہ میں ہوتی تو کتنااچھا ہوتا۔جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لیے دوڑدھوپ کر رہا ہے تو یہ اللہ کی راہ ہی میں شمار ہوگی، اور اگر بوڑھے والدین کی پرورش کے لیے کوشش کر رہاہے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہی شمار ہوگی، او راگر اپنی ذات کے لیے کوشش کررہاہے اور مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچا رہے تو یہ کوشش بھی فی سبیل اللہ شمار ہوگی، البتہ اگر اس کی محبت زیادہ مال حاصل کرکے لوگوں پربرتری جتانے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے ہے تو یہ ساری محنت شیطان کی راہ میں شمارہوگی‘‘۔(الترغیب والترہیب)

lرزقِ حرام اور قبولیتِ دُعا:حرام خور کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’بے شک اللہ پاک ہے اور صرف پاک چیزیں ہی قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسی بات کا حکم دیا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس نے طویل سفر طے کیا تھا اور اس کے بال اور چہرہ غبار آلود ہوگئے تھے، اس نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور کہا : اے ربّ ! اے ربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام ، اس کا پینا حرام اور اس کا لباس حرام ہے اور وہ حرام مال سے ہی پرورش پاتا رہا تو اس کی دعا کیسے قبول کی جائے؟‘‘(صحیح مسلم)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:’’قیامت کے دن بندے کے قدم نہیں ہل سکیں گے جب تک اس سے پوچھا نہیں جائے گاکہ:کہ عمر کن کاموں میں گزاری؟اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟مال کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا؟اور اپنے جسم کو کن کاموں میں گھلایا؟‘‘(سنن ترمذی)

  • مال میں برکت کا تصور:مال میں برکت یہ ہے کہ آدمی کا وقت، پیسہ، محنت اور عبادات ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہو جائے،تھوڑے پیسوں میں زیادہ ضروریات پوری ہو جائیں، تھوڑی محنت سے کامیابی حاصل ہو جائے،تھوڑی عبادت سے اللہ تعالیٰ زیادہ ثواب عطا فرما دیں، اور اللہ تعالیٰ ایسے کام کروا لیں جن سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو یا اس کے دین کو زیادہ نفع پہنچ جائے۔

برکت سے مراد دولت کی مقدار میں اضافہ نہیں ہے ، بلکہ دولت کا صحیح جگہ استعمال ہونا اور تھوڑی آمدنی میں ضرورت پوری ہوجانا ہے۔ یہ سب مال کی برکت ہے ، جو اللہ تعالیٰ بندے کی نیکی کی وجہ سے عطا کرتا ہے ۔ بہت سے امیرلوگوں کی دولت بیماریوں اور ہسپتالوںمیں، کچھ ناجائز مقدمات کی پیروی میں، کچھ عیش و عشرت میں اور کچھ گناہ کے کاموں میں خرچ ہوجاتی ہے۔ مہینہ پورا ہونے سے پہلے ہی ان کی ساری رقم ختم ہوجاتی ہے اور قرض لینے تک کی نوبت آجاتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں وہ سماجی عزت اور ذہنی سکون دونوں سے محروم ہوتے ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برکت کے نزول کا ضابطہ اس طرح بیان کیا ہے :

وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ (اعراف ۷:۹۶) اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں کثرت سے برکت مانگنے کا ذکر ہے۔کھانے کے بعد کی مسنون دعا ہے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْهِ وَاَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْـهُ (سنن ترمذی) ’’اے اللہ! ہمارے لیے اس کھانے میں برکت عطا فرما اور ہمیں اس سے بہتر کھانا عطا فرما‘‘۔

میزبان کے لیے دعا ہو یادودھ یا دوسرا مشروب پینے کی دعا یا دیگر مواقع ہوں آپؐ برکت ضرور مانگا کرتے تھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کوجھوٹی قسمیں کھانے سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔آپؐ کا ارشاد ہے: ’’جھوٹی قسموں سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے لیکن اس مال سے ہونے والی کمائی سے برکت اُٹھ جاتی ہے‘‘۔(صحیح البخاری)

  • انفرادی ملکیت :اسلام دولت کی انفرادی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ انسان کا بنیادی حق اور معاشی نظام کی بنیاد ہے۔اسلام مالک کو اپنی جائیداد اورمال میں تجارت،اجارہ یاکرایہ، رہن،صدقہ ،ہبہ، وصیت کے ذریعے پورے حقوق عطا کرتا ہے۔اسلام اپنے مال کی حفاظت میں مارے جانے پر مالک کو شہادت کا مرتبہ دیتا ہے۔ اُس کے مال کی چوری کرنے والے مرد اور عورت کو حدودِ اسلامی میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا ہے ۔اسلام حلال ذرائع سےمال بڑھانے کوجائز قرار دیتا ہے۔
  • مال کی محبت میں میانہ روی اور حرص کی مذمت:اعتدال کے ساتھ مال کی محبت تو فطری ہے مگراس کو ہر چیز پر حاوی کرنے کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔ ارشادِربّانی ہے: يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۝۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹(المنافقون۶۳:۹)’’ اے ایمان والو! تمھارے مال ا ور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو کوئی ایسا کریں گے وہی خسارے میں رہنے والے ہیں‘‘۔

دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۹ۚ (الحشر۵۹:۹)’’حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے :

 ۱- ’’اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دووادیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسری کی خواہش کرے گا اورابنِ آدم کاپیٹ قبر کی مِٹی ہی بھر سکتی ہے۔‘‘(صحیح مسلم)

 ۲- ’’ دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے [وہ بکریوں کو] اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے د ین کو پہنچاتی ہے‘‘۔ (ترمذی)

۳- ’’انسان کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالانکہ انسان کا مال بس وہ ہے جو اس نے کھاکر ختم کردیا،پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے آگے ( آخرت کے لیے) بڑھا دیا‘‘۔ (صحیح مسلم)

۴- ’’ہراُمت کے لیے کوئی نہ کوئی چیز وجہِ آزمایش ہوتی ہے، میری اُمت کے لیے آزمایش مال ہے‘‘۔(سنن ترمذی)

  • اِسراف و تبذیر کی ممانعت: اِسراف اس بات کانام ہے کہ مناسب جگہ پر مناسب مقدار سے زائد مال خرچ کیا جائے، جب کہ تبذیر یہ ہے کہ ناجائز موقع پر خرچ کیا جائے۔اسی طرح مال کا ضائع کرنا اور کسی جائز دنیوی فائدے کے بغیر خرچ کرنا اسراف کہلاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اسراف اور تبذیر کی مذمت فرمائی ہے:

۱- وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۚ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝۳۱(اعراف۷:۳۱) ’’ اور کھاؤ پیو اور حد سے نہ نکلو، بےشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔

۲- وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۝۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًا۝۲۷ ( بنی اسرائیل۱۷:۲۶-۲۷) ’’فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے‘‘۔

مال خرچ کرنے میں میانہ روی: خرچ کرنے میں کفایت شعاری اور میانہ روی بہترین حکمت عملی ہے ۔اللہ تعالیٰ بخل اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ایمان والوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے: وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝۶۷ (الفرقان ۲۵:۶۷) ’’ وہ ( ایمان والے) جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اعتدال پر قائم رہتے ہیں‘‘۔ اسی حقیقت کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں رہنمائی فرمائی ہے:مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ (مسند احمد)’’جس نے میانہ روی اختیار کی وہ تنگ دست نہیں ہوگا‘‘۔

یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بھی کچھ مال اپنے پاس رکھنے کا حکم ہے۔حضرت کعب ؓ نے جب اپنا سارامال صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا:أَمْسِکْ عَلَیْکَ بَعْضَ مَالِکَ فَھُوَ خَیْرٌ لَکَ(صحیح البخاری)’’اپنے مال کا کچھ حصہ اپنے پاس رکھو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے‘‘۔

  • نمود و نمائش کی ممانعت:اسلامی تعلیمات کی رو سے اچھا پہننا، اوڑھنا اور کھاناپینا منع نہیں بلکہ پسندیدہ ہے، لیکن تکبر اور نمود و نمائش کا مظاہرہ کرکے دوسرے لوگوں پر اپنی برتری قائم کرنا اور انھیں کمتر سمجھنا اور احساس محرومی میں مبتلا کرنا سخت گناہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا ،اُسے اللہ جنت میں داخل نہیں کرے گا‘‘ (سنن ابی داؤد)۔ نمود و نمائش میں بے جا اسراف ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے۔
  • بھیک مانگنا: محنت ومشقت کے ذریعے کمانا ثواب کا کام،جب کہ سستی اور کاہلی کی وجہ سے بھیک مانگنا اسلا م کی نظر میں سخت گناہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’جو شخص مال بڑھانے کے لیے بھیک مانگے تو وہ انگارہ مانگتا ہے اب چاہے کم کرے یا زیادہ۔‘‘ (صحیح مسلم)
  • دوسری حدیث میں ہے:’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اپنی رسّی لے کر پہاڑ کی طرف جائے پھر لکڑیاں اکٹھی کرے اور ان کا گٹھا بنا کر اپنی پیٹھ پر لاد کر بازار میں لے جائے اور انھیں فروخت کر کے اس کی قیمت سے اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرے تو یہ اس کے لیےبھیک مانگنے سے بدرجہا بہتر ہے اور مٹی لے کر اپنا منہ بھرلے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اسے اپنے منہ میں ڈالے‘‘۔( مسند  احمد)
  • قرض:زکوٰۃ و صدقات کے علاوہ معاشرے میں اپنے غریب بھائیوں کی مدد کی ایک صورت اُن کو قرض دینا ہے۔ غریب کو قرض دے کر صاحبِ استطاعت اپنی آخرت کی پونجی بڑھاتا رہتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’بلاشبہ قرض دینے کا ثواب آدھے صدقہ کے برابر ہے‘‘۔ (مسند احمد، سنن ابن ماجہ)

قرض کی واپسی میں بھی غریب کی سہولت کو ملحوظ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَنْ یَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ یَسَّرَاللّٰهُ عَلَیْهِ فِی الدُّنْیَا وَالْاَخِرَةِ (صحیح مسلم)’’ جو (قرض خواہ ) کسی تنگ دست( مقروض کو اپنے قرضے کے سلسلے میں ) سہولت دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت میں سہولت دے گا‘‘۔ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے:’’جسے یہ اچھا لگے کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی تکلیف سے نجات دے دے اسے چاہیے کہ تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے‘‘۔ (صحیح البخاری)

امیر کو قرض دینے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ غریب کو حکم ہے کہ وہ احسان شناسی کا مظاہرہ کر کے قرض کو بروقت ادا کرنے کی کوشش کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہےکہ ’’قرض کی( بروقت) واپسی واجب ہے‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی)

دوسری حدیث میں ہے:مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ (صحیح البخاری )’’ مال کی واپسی میں صاحب ِاستطاعت کا ٹال مٹول ظلم ہے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یوں دعا کیا کرتے تھے: أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ(صحیح البخاری)’’اے اللہ! میں گناہ اور قرض کے بوجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔اسلامی تعلیمات کے مطابق قرض لینے کی اجازت کے باوجودمجبوری کے بغیر قرض لینے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔اس لیےسادگی اور کفایت شعاری اپنانے اور قرض لینے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:  اِنَّ الرَّجُلَ  اِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَکَذَبَ  مَا وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ ( صحیح البخاری)’’ بلاشبہ جب بندہ مقروض ہوتا ہے تو بات کرتا ہے، تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے، تو خلاف ورزی کرتا ہے‘‘۔

عَنْ  اَبِی ھُرَیْرَۃَ  قَالَ  قَالَ  رَسُوْلُ  اللہِ  صَلَّی  اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  اِذَا  کَانَ  اُمَرَائُکُمْ خِیَارَکُمْ  وَاَغْنِیَائُکُمْ  سُمَحَا ئَکُمْ  وَاُمُوْرُکُمْ  شُوْرٰی  بَیْنَکُمْ  فَظَھْرُ الْاَرْضِ  خَیْرٌ  لَّکُمْ  مِّنْ  بَطْنِھَا   وَ اِذَا  کَانَ  اُمَرَائُکُمْ شِرَارَکُمْ  وَاَغْنِیَائُکُمْ  بُخَلَائَکُمْ  وَاُمُوْرُکُمْ   اِلٰی   نِسَائِکُمْ  فَبَطْنُ  الْاَرْضِ  خَیْرٌ  لَّکُمْ  مِنْ  ظَھْرِھَا (ترمذی، مشکوٰۃ) حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تمھارے حکمران اچھے کردار کے لوگ ہوں اور تمھارے خوش حال لوگ فیاض ہوں، تو ایسے دور میں تمھارے لیے زمین کی پیٹھ زمین کے پیٹ سے بہت بہتر ہے۔ اور جب تمھارے حکمران بدکردار لوگ ہوں اور تمھارے معاشرے کے مال دار لوگ بخیل ہوں، اور تمھارے معاملات بیگمات کے حوالےہوں ،تو پھر زمین کا پیٹ، زمین کی پیٹھ سے تمھارے لیے بہت بہتر ہے۔

اس حدیث میں اُمت کو تنبیہہ بھی ہے، تعلیم بھی اور رہتی دُنیا تک کے لیے روشن ہدایات بھی۔ یہ اُمت خیرِ اُمت ہے، صرف اپنے ہی لیے نہیں، عالمِ انسانیت کی فیض رسانی اور بھلائی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس مقصد ِ وجود کو یہ اُمت اس وقت تک پورا کرتی رہے گی، جب تک اس میں تین بنیادی جوہر پائے جاتے رہیں گے:

  • اس کی قیادت صالح اور باکردار لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔
  • اُمت کے اصحابِ ثروت ، سخی اور فیاض ہوں، اور ان کی دولت صرف ذاتی عیش و عشرت کے لیے نہ ہو بلکہ اُمت کے گرے پڑے لوگوں کو اُونچا اُٹھانے، اُمت کے اجتماعی فلاح کے کاموں کو پورا کرنے اور اُمت کی ملّی ضرورتوں کے لیے ہو۔ وہ اُمت کے مسائل میں نہ صرف دلچسپی لیتے ہوں بلکہ کشادہ دلی اور فراخ دستی سے اپنی دولت بھی صَرف کرتے ہوں۔
  • یہ کہ اُمت کے اجتماعی مسائل باہمی مشورے سے طے پاتے ہوں اور اس کا نظامِ زندگی جمہوری اور شورائی ہو، کسی ایک فرد، خاندان یا گروہ کی آمریت اُمت پر مسلط نہ ہو۔

صالح قیادت کی اہمیت

اجتماعی زندگی میں صالح اور باکردار قیادت کی اہمیت یہ ہے کہ اصحابِ اقتدار اگر صالح اور باکردار ہوں تو پورا معاشرہ چار و ناچار پاکیزہ اور صالح بن جاتا ہے اور بنا رہتا ہے۔ اصحابِ اقتدار کی پیروی ایک فطری اور قدرتی امر ہے۔ مشہور مقولہ ہے: اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنٍ مُلُوْکِھِمْ، لوگ اپنے حکمرانوں کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔

قیادت اور اقتدار اُمت کے پاس ایک بڑی امانت ہے۔ وہ اُمت زندہ اور بیدار ہے، جس میں یہ شعور پایا جائے کہ یہ امانت انھی کے حوالے ہونی چاہیے، جو اس کے اہل ہوں اور جو اپنے اجتماعی معاملات کے لیے اپنے میں سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ کردار کے افراد منتخب کرسکتی ہو۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر کچھ بدکرداراور بداطوار دھوکے اور دھاندلی سے برسرِاقتدار آنے کی چالیں چلنا چاہتے ہوں، تو اُمت ان کی چالوں کو بروقت سمجھ کر ان کا توڑ کر سکتی ہو، اور ان کے عزائم کو ناکام کرکے ان کو بے اثر بناسکتی ہو۔

اقتدار صالح ہوگا تو پوری قوم میں صالحیت اور حُسنِ کردار کی روح جاری و ساری ہوگی، لیکن صالح اقتدار کو اپنے میں سے اُبھارنا، اور صالح افراد کو قیادت کے منصب تک پہنچانا بھی اُمت ہی کا کام ہے، اور یہ عظیم فریضہ اُمت کو بڑی بیدار مغزی، زندہ دلی، لگن اور جوش و ہوش کے ساتھ انجام دینا ہے اور اس کے لیے مسلسل فکرمند رہنا ہے___ قیادت سونپ کر احتساب سے غافل ہو جانا بھی خطرناک ہے۔ اس لیے کہ اقتدار آدمی کو غلط راہ پر لگانے کے لیے مسلسل اور خاموش سرگرمی جاری رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صالح اقتدار کی امانت اس کے اہل اور لائق اصحاب کو سونپنے کے لیے بڑا تاکیدی انداز اختیار فرمایاہے:

 اِنَّ اللہَ  يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ (النساء۴:۵۸) بلاشبہہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ اپنی امانتیں (اعتماد کی ذمہ داریاں) ان لوگوں کے حوالے کرو، جو ان کے اہل یعنی امین ہوں۔

اِنَّ کی تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ وہ تمھیں ’حکم دیتا ہے‘۔ ایک بڑا غیرمعمولی تاکیدی انداز ہے۔ امانتوں سے مراد معاشرے میں ہرسطح پر اعتماد کی ذمہ داریاں ہیں۔ معاشرے میں ہرسطح پر سربراہی، قیادت، سرداری، حکمرانی اور رہنمائی کی ذمہ داریاں اُن لوگوں کے سپرد کی جائیں جو امین ہوں، اور ان ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کے اہل ہوں۔

اس غیرمعمولی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ اپنے معاملات اور اہم ذمہ داریاں اہل تر لوگوں کے حوالے کرنا، عام قسم کا مستحسن عمل نہیں ہے جس کے لیے اُمت سے کوئی سفارش کی جارہی ہو، بلکہ اس مقصد کے لیے اللہ صاف، صریح حکم دے رہا ہے۔ اس معاملے کو افراد کی مرضی پر نہیں چھوڑا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اچھے نتائج پائیں گے۔ بلکہ اس کی تعمیل ان پر واجب ہے اور وہ ایسا کرنے کے پابند ہیں۔ اللہ کا تاکیدی حکم ہے کہ وہ قیادت اور حکومت اہل تر لوگوں کے حوالے کریں۔ اس معاملے میں سہل انگاری، غفلت، لاپروائی اور بے توجہی خدا کے صریح حکم کی خلاف ورزی ہے۔

اس امانت کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہی انداز میں ارشاد فرمایا: ’جب امانتیں ضائع کی جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو‘۔ کہا گیا: ’یارسولؐ اللہ! امانت ضائع کرنا کسے کہتے ہیں‘۔ فرمایا: ’جب حکومت اور سرداری نااہلوں کے سپرد کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو‘۔ (بخاری بروایت ابوہریرہؓ)

ان تاکیدی ہدایات کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ اُمت اس معاملے میں کبھی لاپروائی، بے تعلقی اور بے فکری کا رویہ اختیار نہ کرے۔ اس کو محض دُنیوی نظام سنبھالنے کا ڈھانچا سمجھ کر غیراہم نہ سمجھے، بلکہ اس معاملے میں ذہن و فکر کی قوتوں کو بھی لگائے اور عملاً دلچسپی بھی لے اور چاق و چوبند رہ کر پوری کوشش کرے کہ اقتدار اہل اور صالح فطرت لوگوں کے ہاتھ میں پہنچے۔ کہیں بے کردار،  مکار اور مفاد پرست افراد اپنی سازشوں سے اس پر ناجائز قبضہ نہ کربیٹھیں، اور اُمت کی بے پروائی، بے تعلقی اور سادہ لوحی سے کہیں یہ عظیم امانت نااہلوں کے ہاتھ میں نہ پہنچ جائے ورنہ پورے نظامِ اجتماعی کی گاڑی غلط رُخ پر چل پڑے گی، اور پھر رنج، افسوس، ماتم اور شکوئوں اور ملامتوں کی کوئی مقدار بھی اس کو بریک نہیں لگاسکے گی۔

اصحابِ ثروت کی ذمہ داری

دوسری خوبی جو اُمت میں مطلوب ہے وہ یہ کہ اُمت کے اصحاب ِ ثروت، اللہ کی دی ہوئی دولت کو اللہ کا انعام سمجھیں۔ وہ ذاتی عیش و آرام میں پڑ کر محض دادِ عیش دینے کے لیے اس کو استعمال نہ کرنے لگیں کہ ذاتی عیش و عشرت کے لیے تو وہ فیاضی دکھائیںاور اُمت کی ضروریات اور گرے پڑے لوگوں کے لیے وہ حددرجہ کنجوسی، تنگ دلی اور بخیلی دکھائیں۔

ملّت کے تعلیمی ادارے اور تربیتی تنظیمیں مالی وسائل نہ پاکر دم توڑ رہی ہوں، اُمت کے نادار نانِ شبینہ کو محتاج ہوں، وسائلِ رزق کے لیے ترس رہے ہوں اور اہلِ دولت اپنے عیش و عشرت میں مگن ہوں، اور اپنے دسترخوان کے ریزے بھی ان کے حلق میں ڈالنے کو تیار نہ ہوں۔ یہ صورتِ حال بلاشبہہ اُمت کے لیے بدترین زوال کا ذریعہ ہے، مگر دوسری طرف یہ خود اصحابِ ثروت و دولت کے لیے بھی عبرت ناک تباہی ہے۔ اُمت کے دولت مندوں کی عزّت و عظمت ملّت کی عزّت و عظمت سے وابستہ ہے۔ اُمت کے زوال کے اسباب اپنے ہاتھوں فراہم کرکے اور اُمت کے زوال پر راضی رہ کر اگر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اسی طرح دادِ عیش دیتے رہیں گے تو وہ سخت فکری گمراہی اور ایمانی زوال میں مبتلا ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کی عزّت ملّت کی عزّت میں ہے، ان کی عظمت و سربلندی جو کچھ ہے ملّت کے دم سے ہے۔ملّت زوال پذیر ہوئی تو وہ ہرگز عزّت نہ پاسکیں گے بلکہ انتہائی عبرت ناک ذلّت اور تباہی سے دوچار ہوں گے۔ ان کا اپنا بھلا اسی میں ہے کہ ملّت کو سربلند رکھنے کے لیے اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیں۔ اپنے عیش و عشرت کی فہرستیں مختصر کر دیں، بلکہ ضرورت ہو تو پھاڑ کر پھینک دیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت ملّت پر لٹائیں کہ ملّت کے اجتماعی مسائل حل ہوں، ملّی ادارے اور ملّی نظم مضبوط ہو اور مالی وسائل کی کمی سے ملّت کا کوئی کام ہرگز نہ رُکے۔ ملّت کی سربلندی ملّت کے اصحابِ ثروت کی سربلندی ہے اور پھر اس سخاوت اور فیاضی کا جو صلہ حشر کے میدان میں ملنے والا ہے اس کے تو تصور ہی سے روح جھوم اُٹھتی ہے۔ تصور تو کیجیےان شاداب اور خوش و خرم چہروں کا جن پر نُور برس رہا ہوگا، اوران خوش نصیبوں کے آگے اور دائیں نُور دوڑ رہا ہوگا۔

قرآن کا ارشاد ہے: ’’کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھاکر واپس کردے، اور اس کے لیے باعزّت اجر ہے اس دن، جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نُور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ ان سے کہا جائے گا: آج بشارت ہے، تمھارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی‘‘۔ (الحدید ۵۷:۱۱-۱۲)

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضوؐر کی زبانِ مبارک سے لوگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابوالدحداح انصاریؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے؟ حضوؐر نے جواب دیا: ہاں! اے ابوالدحداح۔ انھوں نے کہا: ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھایئے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ انھوں نے آپؐ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا: میں نے اپنے ربّ کو اپنا باغ قرض دے دیا۔

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کا بیان ہے کہ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے۔ اسی میں ان کا گھر تھا اوروہیں ان کے بیوی بچّے رہتے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کرکے سیدھے گھر پہنچے اور دُور سے بیوی کو پکار کر کہا: دحداح کی ماں! نکل آئو، میں نے یہ باغ اپنے ربّ کو قرض دے دیا ہے۔ وہ بولیں: تم نے نفع کا سودا کیا ہے، اے دحداح کے باپ۔

اوراسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچّے لے کر باغ سے نکل گئیں۔

اپنا دل پسند مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت انسان بلاشبہہ ذہنی اور جذباتی کش مکش میں مبتلا ہوتا ہے اور شیطان ورغلاتا ہے۔ مگر ایمان خدا پر اعتماد کا نام ہے___ اور خدا پر اعتماد کرکے جو شخص اقدام کرتا ہے اس کو خدا حکمت کی دولت سے نوازتا ہے۔

’’شیطان تمھیں فقروفاقے سے ڈراتا ہے اور بے شرمی کا رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر اللہ تمھیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے۔ اور اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے، جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں‘‘۔(البقرہ ۲:۲۶۸-۲۶۹)

یہ فرمان کہ ’’جسے حکمت ملی اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘ بڑی اہم حقیقت ہے، جس کی طرف قرآن نے متوجہ کیا ہے۔ شیطان آدمی کو ڈراتا ہے کہ اگر تم آج ملّت کی بھلائی کے لیے اپنا مال صرف کر دو گے تو کل تم خود دست نگر ہوجائو گے اور صرف تمھارے دے دینے سے ملّت کے عظیم مسائل اور انسانیت کی بہبودی کے عظیم کام انجام نہیں پاجائیں گے۔ البتہ تم ضرور فقروفاقے میں مبتلا ہوجائو گے، جس طرح آج معاشرے میں کچھ دوسرے لوگ ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ خوش حالی اور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہو۔ خوب دادِ عیش دیتے رہو، اور پھر وہ نمود و نمائش اور عیاشی کے شرمناک کاموں پر اُکساتا ہے اور کہتا ہے: آج تمھارے پاس دولت ہے۔ تمھاری محنت سے کمائی ہوئی دولت ہے۔ اس سے تم ہی فائدہ نہ اُٹھائو گے تو کون اُٹھائے گا۔ تمھارا عیش و آرام اور تمھاری یہ زندگی کی سہولتیں لوگوں کو گوارا نہیں ہورہی ہیں۔ اس لیے جو اعتراضات کرتے ہیں، جلنے دو انھیں حسد کی آگ میں،تمھاری اپنی کمائی ہے۔ خوب خوب فائدہ اُٹھائو۔

شیطان کے مکروفریب کے اس جال سے وہی بچ سکتا ہے، جس کی نظر اللہ کی مغفرت پر اور اللہ کے فضل پر ہوتی ہے۔ جو اس فراوانی اور اسبابِ عیش کو اللہ کا فضل سمجھتا ہے اور پھر اللہ کے لیے وسعت ِ قلب اور کشادہ دستی کے ساتھ خرچ کرتا ہے، اور خود کو رسولؐ اللہ کی اُمت کا ایک فرد تصور کرکے اپنی عزّت و عظمت کو ملّت کی عزّت و عظمت پر موقوف سمجھتا ہے۔ ملّت بھی سربلند ہوتی ہے اور وہ بھی سربلند ہوتا ہے۔ یہی حکمت و بصیرت جس کو مل گئی اُسے سب کچھ مل گیااور پھر وہ پوری آمادگی اور نشاط کے ساتھ ملّت کی اجتماعی بھلائی کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔ اُسے فقروفاقے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ جس ہستی کی ہدایت پر اپنی دولت لٹاتا ہے، اس کے بارے میں اس کا یقین یہ ہے کہ وہ واسع اور علیم ہے۔ اُس ہستی کو یہ بھی علم ہے کہ یہ شخص کن جذبات کے ساتھ اپنی دولت خرچ کر رہا ہے اور یہ بھی علم ہے کہ کن کاموں میں خرچ کر رہا ہے۔

پھر وہ واسع،بہت کشادگی والا ہے، جس نے اتنا دیا ہے وہ اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ کشادہ ظرف بھی ہے اور کشادہ دست بھی۔ جو کچھ ہے وہ بھی اسی نے دیا ہے اور مزید کچھ دینا چاہے تو اس کے پاس کمی بھی نہیں ہے اور اس کو کوئی روکنے والابھی نہیں ہے۔ پھر داد و دہش کے نتیجے میں ملّت جس سربلندی اور سرفرازی سے نوازی جائے گی، وہ میری بھی تو عظمت اور سرفرازی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ زندگی یہی مختصر سی مہلت تو نہیں ہے جو موت پر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ تو طویل زندگی کا بہت معمولی سا وقفہ ہے۔ زندگی کی تمہید، بلکہ اس کو بنانے، سنوارنے کا ایک قدرتی موقع ہے۔ مجھ سے زیادہ محروم اور نادان کون ہوگا، اگر میں اس زرّیں موقع کو کھو دوں، جو پھر دوبارہ مجھے کبھی بھی نہیں مل سکتا۔ یہ ہے وہ سبق جو اہلِ دانش و بینش، اللہ کی ان تعلیمات سے حاصل کرتے ہیں۔

جمہوری اور شورائی نظام

تیسری جوہری خوبی جو اُمت کی زندگی میں مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ ملّت میں جمہوری اور شورائی نظام ہو۔ ان پر کسی کی آمریت مسلط نہ ہو، نہ کسی شخص کی نہ کسی خاندان کی نہ کسی گروہ کی بلکہ ان کے اجتماعی اُمور صلحائے اُمت اور اصحابِ فکرونظر کے باہمی مشورے سے طے ہوں، ان کی زندگی کا نظام جمہوری اور شورائی نظام ہو۔

پھراس حدیث میں ایک اور واضح اشارہ بھی ہے، اُمت کی تباہی اور زوال کی جو باتیں نبیؐ نے گنائی ہیں۔ ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ تمھارے اجتماعی اُمور عورتوں کے ہاتھوں میں ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دورِ عروج کے لیے ناگزیر ہےکہ اجتماعی اور سیاسی معاملات کی سربراہی مردوں کے ہاتھوں میں ہو اور شورائی نظام کے تحت اُمور انجام پائیں۔

اسلامی معاشرے کا تو بنیادی وصف ہی یہ ہے کہ ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ، ’’اور وہ اپنے معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں‘‘۔

یہ باہمی مشورہ اجتماعی معاملا ت میں ہرسطح پر ناگزیر ہے۔ جو معاملات جتنے افراد سے متعلق ہوں، ان میں سب کی رائے لینا ایک فطری تقاضا پورا کرنا ہے۔ اپنے معاملے اور مفاد سے ہرایک کو قدرتی اور ذاتی دلچسپی ہوتی ہے اور وہ اپنی ذاتی دلچسپی کی خاطر اپنے مفاد کے لیے برابر فکرمند بھی رہتا ہے، اور نئی نئی راہیں بھی سوچتا ہے۔ ایک فرد نہ سب کے مفاد کو پیش نظر رکھ سکتا ہے اور نہ ذاتی اغراض سے بلند ہونے کا اس کے بارے میں مستقل اطمینان کیا جاسکتا ہے، اور نہ ایک فرد میں ایسی صلاحیت ہوسکتی ہے کہ وہ بیک وقت ہرہرپہلو پر وسعت کے ساتھ نگاہ رکھ سکے، اور جانب داری یا کبرو نخوت جیسے ناپاک جذبات سے خود کو پاک رکھ سکے۔ اور ان گھٹیا جذبات سے معاشرے میں جو فساد پھیل سکتا ہے اور ظلم و زیادتی کی جو راہ کھل سکتی ہے وہ بھی نگاہ میں رہے تو کبھی کوئی خداترس نہ آمریت کے مسلّط کرنے پر راضی ہوسکتا ہے اور نہ آمریت جیسی لعنت کو برداشت کرسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رسولؐ جیسی بے مثال ہستی کو بھی ہدایت کی گئی کہ مسلمانوں سے معاملات میں مشورہ لیجیے، اس لیے کہ آپؐ رہتی زندگی تک کے لیے زندگی کے تمام معاملات میں نمونہ ہیں اور آپؐ کی پوری زندگی اُسوئہ حسنہ ہے۔ اس اُسوئہ حسنہ کی پیروی کی سفارش ہی نہیں کی گئی بلکہ اللہ اور یومِ آخرت پر یقین کا لازمی تقاضا بتایا گیا ہے۔ خدا کے حضور انسان کا کوئی انفرادی یا اجتماعی عمل قطعاً شرفِ قبول نہیں پاسکتا، اگر وہ اُسوئہ حسنہ کے مطابق نہ ہو۔ اسلام اِتباع رسولؐ کا نام ہے ۔ اللہ سے تعلق اور محبت کا دعویٰ قابلِ تسلیم ہی نہیں ہے، اگر رسولؐ کی اِتباع اور پیروی سے اس کا ثبوت مہیا نہیں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فرد یا اجتماعیت پر محبت کی نظر ڈالتا ہی نہیں، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بے نیاز اس کے حضور پہنچا ہو۔

اللہ کی رضا اور محبت کی سند وابستہ ہے، اس عمل سے جس کو پیرویٔ رسولؐ کہتے ہیں۔سخت ترین نادان اور محروم ہیں، وہ لوگ جو اِتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ سے ہٹ کر خدا کی محبوبیت اور اس کی رضا پانے کا دعویٰ کرتے ہیں یا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ مسلمانوں کے مخلص سربراہ وہی ہیں اور ملّت انھی کی سرکردگی میں سربلندی اور عروج حاصل کرسکتی ہے، جو جمہوری اور شورائی نظام کے تحت ملّت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور جن کے سینے میں پیرویٔ رسولؐ کی تڑپ ہے، اور یہ سربراہ وہی ہوسکتا ہے جو باہمی مشورے، انتخاب اور رضامندی سے قیادت کے منصب پر سرفراز ہو۔

پھر یہ قائد اور یہ شوریٰ بھی مطلق العنان اور مختارِ کُل نہیں ہیں کہ جو چاہیں باہمی مشورے سے فیصلہ کریں اور جس طرح چاہیں مسلمانوں کے معا ملات چلائیں، بلکہ یہ سب بھی اس دین اور قانون کے پابند ہیں، جس کا اللہ نے ان کو پابند بنایا ہے، اور یہ سب مامور ہیں اس بات پر کہ یہ رسولؐ کی کامل پیروی کریں اور اپنے ہرفیصلے کے لیے اپنے ضمیر اور مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن و سنت سے سند پکڑیں اور خود بھی دین و شریعت کی اِتباع کریں، بلکہ اِتباعِ شریعت میں دوسروں کے لیے نمونہ پیش کریں کہ رسولؐ کے اُسوۂ حسنہ سے یہی تعلیم و ہدایت ملتی ہے۔

قرآن کریم میں ہے: ’’اے رسولؐ! کہیے مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کے آگے سرتسلیم خم کردوں، اور یہ کہ تم ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے خوفناک دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی‘‘۔ (انعام ۶:۱۴-۱۵)

اور دوسرے مقام پر رسولؐ اللہ کو صاف صاف ہدایت دی گئی ہے کہ وَاتَّبِعْ  مَا یُوْحٰی  اِلَیْکَ ،’’اور پیروی کیجیے اس ہدایت کی جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے‘‘۔

یہ تین جوہری بنیادیں اگر ملّت کی اجتماعی زندگی میں موجود ہوں تو وہ خود بھی عزّت و عظمت اور عروج و سربلندی کی زندگی گزارے گی اور دُنیا بھی اس کے وجود سے فیض یاب ہوگی اور پورا انسانی معاشرہ خدا کی نازل کردہ ہدایات کی خیروبرکت سے مالا مال ہوگا۔

اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت بلیغ انداز میں یوں واضح فرمایا:’’تو تمھارے لیے زمین کی پیٹھ زمین کے پیٹ سے بہتر ہے، یعنی زمین کی پیٹھ پر تمھارا موجود رہنا تمھارے لیے باعث ِ فخر اور باعث ِ عزّت و عظمت ہے اور دُنیا کے لیے بھی باعث ِ خیر، تم بھی اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو، اور دُنیا بھی تمھارے وجود کی بدولت خیروبرکت سے فیض یاب ہوگی۔ تم دُنیا میں اچھے اثرات قائم کرکے اور ایسی زندگی گزار کر جب خدا کے حضور پہنچو گے تو وہاں بھی سرخروئی اور رضائے الٰہی کے بلند مقام پر سرفراز ہوگے۔

اس کے برخلاف اگر کبھی کسی دور میں بدقسمتی سے اُمت تین رُسوا کن اجتماعی بُرائیوں میں مبتلا ہوگئی، تو وہ اپنے لیے بھی باعث ِ ننگ ہوگی اور دُنیا کے لیے بھی ناگوار بوجھ۔ خدانخواستہ جب اُمت پر یہ روزِ بد آجائے تو اس وقت اس کے لیے زمین کا پیٹ زمین کی پیٹھ سے بہتر ہوگا۔ وہ تین رُسوا کن اجتماعی بُرائیاں یہ ہیں:

  • اُمت کی قیادت پر بدکردار اور بداطوار لوگ قابض ہوجائیں۔
  • اُمت کے اصحابِ دولت و ثروت، بخل اور کنجوسی میں مبتلا ہوجائیں۔
  • اور اُمت کے معاملات کی باگ ڈُور عورتوں کے ہاتھوں میں آجائے۔

بدکردار قیادت

لیڈرشپ ہمیشہ قوم کے اندر سے اُبھرتی ہے۔ بدکردار قیادت کسی قوم میں اسی وقت اُبھرتی ہے، جب پوری قوم کا مزاج و عمل اس کے اُبھرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور قوم اس احساس و شعور سے محروم ہوجاتی ہے ، کہ نیکی اور بھلائی ہی قابلِ قدر ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جس کی بنیاد پر کسی فرد کی قدروقیمت قائم ہونی چاہیے۔

ان کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتی ہے، نتیجتاً بدکردار اور بداطوار لوگ اپنی عیاری، سازش اور جوڑتوڑ سے قیادت پر قابض ہوجاتے ہیں اور اشرار کی قیادت اللہ کی طرف سے سرزنش بھی ہوتی ہے اور زوال اور رُسوائی کی مہر اور علامت بھی۔ اور پھر پوری قوم گراوٹ، زوال، بے عملی اور بُرائیوں کے طوفان میں پھنس جاتی ہے۔ بُرائی، گراوٹ اور کرپشن کی رفتار انتہائی تیز ہوجاتی ہے اور اچھے اچھے دانشور یہ کہنے لگتے ہیں کہ اب معاشرے کے سدھرنے کی کوئی اُمید نہیں اور اب تو تباہی اس کے لیے مقدر ہے۔ اس لیے کہ بُرائیوں کو پھلنے پھولنے کے لیے اقتدار کے مضبوط ہاتھ اور اقتدار کے سارے طاقتور وسائل فراہم ہوجاتے ہیں۔

عیش پرست اور بخیل قیادت

دوسری اجتماعی بُرائی، جس کی طرف رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے وہ یہ کہ اصحابِ دولت و ثروت اللہ کے عطا کردہ مال کو اپنی ذاتی عیش پرستی میں بے دریغ صَرف کرنے لگتے ہیں، رنگ رلیاں منانے اور عیش و عشرت کے سامان مہیا کرکے دادِ عیش دینا ہی ان کا مقصد ِ زندگی بن جاتا ہے۔ اس سے اُونچا کوئی مقصد ان کے سامنے نہیں رہتا۔ معاشرے کے ناداروں،کمزوروں اور گرے پڑے لوگوں کے مسائل سے انھیں قطعاً دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ ان کے دُکھ درد کی صدا سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ وہ ان سے قریب ہوکر ان کے ٹوٹے دل کی دھڑکن پر کان لگانے کی فرصت ہی نہیں پاتے۔ انھیں یہ حقیقت ممکن ہے پڑھنے پڑھانے کی حد تک کبھی یاد آجاتی ہو، لیکن عملاً وہ اس حقیقت کو بالکل فراموش کربیٹھتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ اُٹھانے اور جانوروں کی طرح گاڑیاں کھینچتے ہوئے ہانپنے والے مزدور بھی انھی کے ماں باپ آدمؑ اور حوا ؑکی اولاد ہیں۔ آباواجداد سے پانے والی دولت یا معاشرے  میں رہ کر کمائی ہوئی دولت میں ان کا بھی حق ہے۔ مگر کسی اجتماعی ، فلاحی اور عوامی بہبود کے کام پر ان کی دولت کا کوئی حصہ صَرف نہیں ہوتا۔ ناداروں، غریبوں، مصیبت کے ماروں کے مسائل سن کر وہ نہ اپنے عیش کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور نہ اپنی ذاتی سہولتوں کے لیے ہزار جتن سے جمع کی ہوئی دولت ان ضرورت مندوں کو دینے کے لیے ان کے دل میں کوئی گنجایش پیدا ہوتی ہے۔ ملّت کے تعلیمی ، رفاہی اور فلاحی ادارے اگر دم توڑ رہے ہیں تو وہ کیوں سوچیں اور اپنے ہنر اور محنت سے کمائی ہوئی دل پسند دولت ان پر کیوں صرف کریں؟ ملّت کے اصحابِ دولت و ثروت جب اس قدر بخیل و کنجوس ہوجاتے ہیں تو ملّت اس وقت زوال و خستگی کے آخری مرحلے پر ہوتی ہے، اور ملّت کے نزاع کا عالم ہوتا ہے۔

عورت کی سربراہی

اس عیش کوشی، سہل انگاری اور رنگ رلیوں میں پھنسنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اصحابِ دولت و ثروت نفس کے غلام ہی نہیں عورت کے غلام بن جاتے ہیں اور یہی وہ تیسری بُرائی اور ملّی ذلت ہے جس کی طرف آپؐ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:

وَاُمُوْرُکُمْ  اِلٰی نِسَاءِکُمْ، اور تمھارے معاملات تمھاری بیگمات کے حوالے ہوں۔

دراصل عیش و عشرت میں ڈوبنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ عوام و خواص سب کے اعصاب پر عورت سوار ہوجاتی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کی سربراہی باعث ِ افتخار سمجھی جانے لگتی ہے۔

ملّت سنجیدہ غوروفکر، بلند مقاصد ، اُونچے عزائم اور محنت و جانفشانی، قربانی اور جانبازی، جرأت و شجاعت اور ٹکر لینے کی ہمت جیسے اعلیٰ اوصاف سے عاری ہوجاتی ہے۔وہ شرمناک ترین دور ہے، جس کو نبوت کی زبان نے ان الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے: ’’اس وقت تمھارے لیے زمین کا پیٹ زمین کی پیٹھ سے بہتر ہے‘‘۔گویا یہ اُمت کا وہ دور ہے کہ اُمت زندگی کی سانسیں لینے کے باوجود ایک مُردار لاشہ ہے جس کی جگہ زمین کی پیٹھ نہیں، زمین کا پیٹ ہے۔

اس مقام پر ایک پہلو سوچنے کا یہ بھی ہے کہ گھر ایک چھوٹا سا ادارہ ہے۔ اس چھوٹے سے ادارے کے لیے بھی قرآن نے فیصلہ کن انداز میں یہ ہدایت دی ہے کہ: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ  عَلَی النِّسَاءِ ، ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘‘۔

حالانکہ گھر وہ ادارہ ہے، جس کے بنانے سنوارنے اور چلانے میں عورت کا کردار  نہایت اہم اور مثبت ہے تو پھر اسلام انسان کے وسیع تر اجتماعی معاملات میں عورت کی سربراہی اور حکمرانی کو کیسے گوارا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ اس میدان میں آنے کے بعد وہ اپنے فطری وظائف اور مقاصد کی تکمیل اور نگہبانی نہیں کرسکتی۔ نہ صرف یہ کہ اپنے فطری مقاصد کی تکمیل نہیں کرسکتی بلکہ گوناگوں مفاسد کو جنم دے گی، جو میدان اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض اور عظیم تر کارناموں کے لیے مخصوص فرمایا ہے، اس کی صلاحیتیں اور توانائیاں بھی اللہ نے اس کو خصوصیت کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور جو کام اس کے سپرد کیے ہیں اس کو وہی اور صرف وہی انجام دے سکتی ہے۔ اس میدان میں نہ کوئی مرد اس کی برابری کا دعویٰ کرسکتا ہے، نہ ان فرائض کو ادا کرنے کا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ عورت کے ان فرائض کی اہمیت اور قدروعظمت گھٹانے کی حماقت کرسکتا ہے۔

حضورؐ کی اس تنبیہ اور آگاہی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کبھی اگر اُمت اپنی نالائقی اور عبرت ناک اجتماعی کوتاہی کی وجہ سے اس صورتِ حال سے دوچار ہو تو وہ خود کو کوسنے لگے اور اپنے مرنے کی دُعائیں مانگنے لگے۔ یا ہاتھ پیر توڑ کر قوموں کے رحم و کرم پر اپنے کو مطمئن کرکے ہرطرح کی ذلّت اور مسکنت کو اپنا مقدر سمجھنے لگے۔

تنبیہہ کا مطلب یہ ہے کہ اُمت ہوشیار ہو۔وہ اس شرمناک زندگی پر ہرگز راضی نہ ہو۔ اس ذلّت کی زندگی سے نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مارے، اُمت کے باشعور اور غیور جواں مرد اُٹھیں، اُمت کو موت کے استقبال کا سبق پڑھائیں۔ اس زبوں حالی، شکست خوردگی اور شرمناک زندگی سے اُمت کو نکالنے کے لیے سر سے کفن باندھ کر میدان کشاکش میں اُتریں۔ عزّت کے ساتھ جینے کی خاطر مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جب کوئی زخمی قوم جھرجھری لے کر بیدار ہوتی ہے اور ظالم کو للکارتی ہے تو ماحول میں ایک انقلابی ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور موت بھی ایسی سربکف قوم کا سامنا کرتے ہوئی جھجکتی ہے۔ قومی موت تو اُس مُردہ قوم کے لیے مقدّر ہے جو موت سے ڈر کر بھاگ کھڑی ہوتی ہے، نہ کہ اس زندہ قوم کے لیے جو موت سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ رکھتی ہے۔ قرآن میں ایک مُردہ قوم کا ذکر ان الفاظ میں ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۝۰۠ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا۝۰ۣ (البقرہ ۲:۲۴۳) کیا تم نے ان لوگوں کے حال پر غور کیا جو موت کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے تو اس وقت اللہ نے ان سے کہا: تم مر رہو۔

دُنیا اُمت کی زندگی کاحق تسلیم کرنے کے لیے آج بھی تیار ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ملّت اٹل عزائم، بلند حوصلوں اور ناقابلِ تسخیر ہمت کے ساتھ صرف اللہ ذوالجلال کے بھروسہ پر اس شاہراہ پر چل پڑے جو اللہ نے اس کے لیے تجویز کی ہے۔

غفلت قرآنی لفظ ہے۔ یہ ’غافلا‘سے ہے۔ اس کے معنی چھپانااورغفلت ہے۔انسان جب کسی چیز یا معاملے کو بھلا دیتا ہے ،اس کو نذر انداز کر دیتا ہے یا اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اس کو غفلت کہتے ہیں۔غفلت یہ بھی ہے کہ کسی چیز کو اتنی توجہ نہ دی جائے جتنی توجہ کی وہ حق دار ہو۔

غفلت کا مفہوم

قرآن مجید میں۳۵؍آیتوں میں غفلت کا ذکر آیا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ دو مفہوم میں آیا ہے۔ ایک بے خبر ی ، لاعلمی، ناواقفیت، اور دوسرا بھلا دینا اور نظرانداز کردینا۔ غافل کے معنی قرآن مجید میں بے خبر اور ناواقف ہونے کے بھی ہیں۔سورۂ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے اور نبی کریم ؐ کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی سرگزشت سے آپؐ واقف نہیں تھے ۔ ہم نے وحی کے ذریعے آپؐ کو واقف کرایا۔(یوسف ۱۲:۳)

اس آیت میں غفلت بے خبری کے معنی میں ہے۔اسی سورہ میں حضرت یوسف ؑ کے والد نے ان کے بھائیوں سے، جب کہ وہ حضرت یوسف ؑ کو اپنے ساتھ بکریاںچرانے کے لیے جنگل میں لے جانا چاہتے تھے، فرمایا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم کھیل کود اورشکار میں ایسے مگن ہو جاؤ کہ یوسفؑ کی طرف سے غافل ہو جاؤ اور پھر بھیڑیا اس کو کھا جائے ۔ (یوسف۱۲: ۱۳)

حضرت موسٰی کے بارے میں ہے کہ جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے لوگ غفلت میں تھے یعنی ایسا وقت تھا کہ اس وقت ان کے آنے کی خبر کسی کو نہ ہو سکی ۔یہ وقت رات، علی الصبح، یادوپہر کا ہو گا، جب کہ لوگ آرام کرتے ہوتے ہیں اور سڑکیں سنسان ہوتی ہیں۔اس آیت میں بھی غفلت کے معنی بے خبر ہونے کے ہیں۔

سورۂ نور کی آیت میں ’غافلات‘ کا لفظ آیا ہے ۔جس سے وہ عورتیں مراد ہیں جو سیدھی سادی اور شریف ہوتی ہیں، ان کے دل و دماغ اس طرح کے خیالات سے بالکل پاک صاف ہوتے ہیں اور جو یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کوئی ان پر بدچلنی کا گھناؤنا الزام لگا دے گا:

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ  ۝۰۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۲۳ۙ  (النور۲۴ :۲۳) جو لوگ پاک دامن ، بے خبر ، مومن عورتوںپر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جو اس کے مطابق عمل کریں گے ان پر اللہ کی رحمت ہوگی، اور جو اس سے غفلت برتیں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ بتا یا گیاکہ قیامت کے دن یہ حجت بن سکے اور اس دن کوئی یہ معذرت پیش نہ کر سکے کہ ہم کو صحیح راستہ معلوم نہیں تھا۔ یہود و نصاریٰ کے یہاں انبیاؑ آئے ،ان پر کتابیں نازل کی گئیں۔ ان کی طرف اشارہ کرکے فر مایا گیا کہ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہود و نصار یٰ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے؟:

اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا۝۰۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِيْنَ۝۱۵۶ (انعام۶ : ۱۵۶) اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں کو دی گئی تھی، اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے۔

جو شرک کرتے تھے اور جن کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے، آخرت کے دن ان کو آمنے سامنے کر دیاجائے گا، تو وہ دیوی، دیوتا، فرشتے، انبیاـؑ، اولیا، شہدا وہاں اپنے پرستاروں سے صاف صاف ان کی حرکت سے لا علمی ، لاتعلقی اور بے خبری کا اظہار کریں گے ۔ جن کی وہ عبادت کرتے تھے اور سفارشی سمجھتے تھے، قیامت کے دن وہ ان سے براء ت کا اعلان کریں گے کہ نہ تو ہم نے ان سے اپنی عبادت کے لیے کہا تھا اور نہ ہمیں اس کی کچھ خبر تھی ( انعام۶:۹۴)

فَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ۝۲۹ (یونس ۱۰:۲۹) ہمارے اور تمھارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمھاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔

دوسرا مفہوم بھلا دینا ، بھول جانا،نظر انداز کرنا ، بے توجہی برتنا، بے پرواہی، لااُبالی پن وغیرہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی مختلف کیفیات و صفات کا ذکرکیا ہے ۔ایمان لانے والے،تقویٰ والے، فرماں بردار، متوجہ رہنے والے بندوں کی خوبیوں و صفات کا بھی ذکر کیا ہے، اور کفار و مشرکین،فجاروفساق ،بے پروا ،غافل انسانوں کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ انسان اچھے لوگوں کی صفات کو اختیار کرے اور برے لوگوں کی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا لے۔ قرآن مجید نے انسانوں کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ان میں ایک غفلت ہے۔ غفلت دل کی بیماریوں سے ایک اہم بیماری ہے ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی حس کو ختم کردیتی ہے۔ اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی شناخت کی کیفیت کو ختم کردیتی ہے۔ شعور و ادراک سے وہ بہت دُور ہوجاتا ہے۔ انسان نقصان سے دو چار ہو تا ہے ، لیکن وہ کتنے بڑے گھاٹے و نقصان میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے اس کو اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔وہ اپنا نقصان کررہا ہو تا ہے مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ خسارہ کی زندگی گزاررہا ہوتا ہے مگر اس سے نکلنے کی فکر نہیں ہوتی۔

آج مسلمانوں کی بڑی تعداد غفلت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اللہ کے دین ،قرآن مجید، اللہ کے احکامات ،رسولؐ اللہ کی سنتوں ، عبادات ،نیکی کے کاموں،انفاق ،جہاد فی سبیل، حقوق العباد ، آخرت کی جواب دہی ، اللہ کی حرام کردہ اشیا سے غفلت برتنا ہی غفلت کی زندگی ہے اور ایسی زندگی گھاٹے کی زندگی ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کو ایسی تمام غفلتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

انبیا ؑ کی بعثت کا مقصد

اللہ کی رحمت کا تقاضا تھا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کا سامان کرے ۔اس کے لیے اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے رسول بھیجے، ان پر کتا بیں نازل کیں ۔ان کے ذریعے حق کو واضح کیا اور شرک و کفر کے نتائج سے واقف کرایا۔انسان کو اختیار کی آزادی دی کہ چاہے تو اس کو قبول کرکے اس کے مطابق عمل کرے اور آخرت میں کامیاب ہو جائے ، چاہے تو اس سے غفلت اختیار کرے۔ اگر وہ اس سے منہ موڑتا ہے تو ناکام ہو گا اور سزا سے دوچار ہوگا۔ انبیا ؑ کے مبعوث کیے جانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کو غفلت سے چونکا کے انجام سے باخبر کر دیں تاکہ لوگ شعور و ادراک، علم وایمان کی روشنی میں زندگی گزاریں۔ ارشاد ربانی ہے:

وَاَنْذِرْہُمْ يَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ۝۰ۘ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ وَّہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۳۹  (مریم ۱۹:۳۹)اے نبی ؐ!اس حالت میں جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں ، انھیں اس دن سے ڈرا دو جب کہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو گا ۔

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ۝۱ۚ (انبیاء۲۱:۱)قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت ،اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ۔

یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے کہ جب لوگ اپنے رب کے حضور حاضر کیے جائیں گے اور اپنی پوری زندگی کا حساب دینا پڑے گا۔ وہ غفلت میں ایسے پڑے ہیں کہ ان پر کسی طرح کی تنبیہ کا ر گر نہیں ہوتی ہے، نہ تو خود ان کو اپنے انجام کی کی فکر ہے اور نہ پیغمبرؐ کے کے ڈرانے کی کوئی پروا ہے۔ غفلت انسان کے لیے نقصان دہ ہے اور جب کوئی سمجھائے اور جھنجھوڑے اس کے باوجود غفلت سے بیدار نہ ہو،تو یہ جرم اور سنگین ہو جاتا ہے۔قیامت کے قریب ہونے کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دوانگلیوں کی طرح ہیں۔

غفلت کی اقسام

غفلت دو طرح کی ہے۔ ایک مذموم ہے اور دوسری محمود۔

  • محمود غفلت : محمود غفلت سے مراد یہ ہے کہ انسان گنا ہوں کو بھول جائے۔ بدی کی راہ سے نیکی کی راہ کی طرف ہجرت کرے اور ایسی ہجرت کرے کہ پھر برائیوں اور بڑے گناہ کرنے کے خیال تک کو بھلا دے۔انسانوں کی جانب سے ناروا سلوک ، بدسلوکی ، بے ہودہ باتیں سننے کے باوجود نظر انداز کر جائے ،انتقامی جذبے سے اپنے آپ کو بچا لے۔ ایسی غفلت محمود ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ  ۝۰۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۲۳ۙ (النور۲۴ :۲۳) جو لوگ پاک دامن ، بے خبر ، مومن عورتوںپر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

  • مذموم غفلت:  مراد یہ کہ انسان دین اور نیکی کے کاموں سے بے پرواہ ہو جائے ۔

مذموم غفلت کئی طرح کی ہوتی ہے:

  • وقتی وعارضی غفلت : وقتی غفلت سے مراد یہ ہے کہ انسان نیک طبیعت ہے، نیکی کے کام کرتا ہے ۔اعمال صالح کا خوگر ہے ، مگر زندگی میں کسی لمحہ میں یا کسی مرحلے میںاس پر غفلت طاری ہو جاتی ہے اور اس سے گناہ کا صدور ہو جاتا ہے۔پھر جیسے ہی توجہ ہوتی ہے تو اس روش کو ترک کردیتا ہے۔یہ غفلت قلیل لمحہ کی ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو عارضی غفلت کہا جاتا ہے۔وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِہِمْ مِّنْ عَہْدٍ۝۰ۚ وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَكْثَرَہُمْ لَفٰسِقِيْنَ۝۱۰۲ (اعراف۷:۱۰۲) ’’ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا‘‘۔
  • لمبی غفلت: اس سے ایسی غفلت مراد ہے جس میں انسان ایک لمبی مدت تک رہتا ہے اور مسلسل گناہ کرتا رہتا ہے۔یہ فاجر و فاسق لو گوں کی غفلت ہے۔
  • کامل غفلت :یہ ایسی غفلت ہے جس میں انسان دائمی طور پر مبتلا رہتا ہے۔ اس کو اپنی غفلت کااحساس بھی نہیں ہو تا ہے۔ توجہ و یاددہانی اور تنبیہ کے باوجود وہ اس کیفیت سے باہر نہیں آتا بلکہ اس پر جما رہتا ہے۔ایسی غفلت کفار و مشرکین پر طاری ہوتی ہے جن کو وقت کا نبی اللہ کا پیغام پہنچاتاہے، ان کے انجام سے ڈراتا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں:

اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَيَاْكُلُوْنَ كَـمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّہُمْ۝۱۲ (محمد ۴۷: ۱۲) ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اور کفر کرنے والے بس دُنیا کی چندروزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔

غفلت کی علامات

غفلت کی علامات درج ذیل ہیں :

  • عبادات میں سستی: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان کا دل نیکی کے کاموں اور عبادات میں نہ لگے۔عبادات میںسستی و کاہلی، غفلت ، بے پرواہی کا مظاہر ہ ہو۔ایک انسان جانتا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت کرنا ہے۔عبادات کی درست ادائیگی پر دنیا میں خیر اورآخرت کی نجات منحصر ہے ۔ اس کے چھوڑنے یا درست طریقہ اور ذوق شوق کے بغیر ادا کی گئی عبادت کا نتیجہ خسارہ ہے۔ اس کے باوجود عبادات میں کوتاہی برتے تویہ غفلت کی علامت ہے۔ نماز میں سستی و کوتاہی اسلام میں بالکل پسند نہیں ہے۔ نماز میں سستی کو نفاق کی علامت بتا یا گیا ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو نمازسے غافل ہے اور نماز نہیں پڑھتی ہے۔ مسلمانوں میں جو نماز پڑھتے ہیں ان میں ایسے لوگ بہت قلیل ہیں جو نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ دین دار طبقہ میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو نماز پڑھنے آتے ہیں تو دیر سے آتے ہیں۔ کبھی سنتیں چھوٹتی ہیں تو کبھی رکعتیں اور کبھی جماعت سے محروم رہتے ہیں۔ خاص کر فجر کی نماز میں تو اور بھی لاپرواہی ہوتی ہے ۔ یہ کم زوریاں دراصل نماز باجماعت کی اہمیت سے بے توجہی و غفلت کی وجہ سے ہیں:

وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى ۝۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۱۴۲(النساء۴:۱۴۲)جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمَساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیںاور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یہ منافق کی نماز ہے کہ وہ بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب اس میں زردی آجاتی ہے اور مشرکین کی سورج کی پوجا کا وقت آجاتا ہے، تب یہ اٹھتا ہے اور جلدی جلدی چاررکعتیں مار لیتا ہے ( ایسے جیسے مرغی زمین پر چونچ مارتی ہے اور اٹھالیتی ہے)۔ یہ شخص اللہ کو اپنی نماز میں ذرا بھی یاد نہیں کرتا ہے۔  ( مسلم)

  • کبائر کا ارتکاب: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان بڑے گناہوں کا ارتکاب کرے ، حرام کاریوں میں مبتلا ہو، انسانوں کے حقوق تلف کرے ۔ اس کے باوجود وہ ان کے گناہ ہونے کے ادراک سے محروم رہے ۔وہ ان کومعمولی سمجھے اور ان کوکوئی اہمیت نہ دے۔ یہ غفلت کی علامت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:

مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھاہو اور ڈررہا ہو کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گر پڑے ۔ اور فاجر و بدکار شخص اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کوئی مکھی ہو جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے۔ راوی نے کہا کہ وہ ایسے کر دیتا ہے ( اُڑادیتا ہے)۔( بخاری)

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۝۰ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۝۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝۱۷۸(اٰل عمرٰن۳:۱۷۸)یہ ڈھیل جو ہم انھیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں ، ہم تو انھیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بارِ گناہ سمیٹ لیں ، پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔

  • برائیوں کی رغبت: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان مسلسل گناہ کرتے رہنے کی وجہ سے برائیوں سے مانوس ہو جاتا ہے۔ اس کو برائیاں کرنے سے رغبت ہو جاتی ہے۔ پھر وہ علی الاعلان گنا ہ کرتا ہے ۔گنا ہ کرتے ہوئے اس کو کسی طرح کی شرمندگی، ندامت، غیرت، پاس، حیا نہیں ہوتی ہے۔ حضرت انس ؓ اپنے زمانے کے لو گوں سے فرماتے ہیں:

تم لوگ ایسے بہت سے کام کرتے ہو جو تمھاری نگا ہوں میں بال سے زیادہ ہلکے ہوتے ہیں ( حقیر ہوتے ہیں)۔ لیکن ہم انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دین و ایمان کے لیے مہلک خیا ل کرتے تھے۔ ( بخاری)

 حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فر ماتے سنا : ’’میری تما م امت کے گناہ بخشے جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جو اپنے گنا ہوں کا پردہ خود فاش کردیتے ہیں۔ اور یہ بھی بے ہودگی اور بے حیائی ہے کہ آدمی رات کے وقت کوئی بُر اکام کرے اور صبح کے وقت اُٹھے تو اس کے گناہ پر اللہ تعالیٰ نے تو پردہ ڈال رکھا ہو لیکن وہ خود لوگوں سے کہتا پھرے ،اے شخص میں نے کل رات یہ اور یہ برے کا م کیے۔گویا اس کے رب نے تو اس کی پردہ پوشی فر مائی تھی لیکن وہ صبح اُٹھتا ہے اور اللہ کے ڈالے ہوئے پردے کو خود کھول دیتا ہے‘‘ (بخاری، کتاب الادب)۔ ’جواپنے گناہوں کا پردہ فاش کرتے ہیں‘ سے مراد یہ کہ وہ علی الاعلان سب کے سامنے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اگر وہ توبہ کرلے تو وہ نقطہ صاف ہو جاتا ہے ،لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو پورے دل پر وہ چھا جاتا ہے۔ ( ترمذی)

 كَلَّا بَلْ۝۰۫   رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۱۴( مطففین ۸۳: ۱۴) ہرگز نہیں،  بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوںپر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔

  • غیر مفید  کاموں میں مصروف رہنا: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان غیرمفید اورلغو کاموں میں اپنا وقت ضائع کرے۔انسان کو بامقصد پید ا کیا گیا ۔ زندگی کی نعمت انسان کو ایک امتحان کے لیے دی گئی ہے۔دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔ انسان زندگی کے مقصد سے غافل ہوجائے اور اس کی تیاری نہ کرے تو اسی کیفیت کا نام غفلت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ  فِیْھِمَا کَثِیْرٌ  مِنَ النَّاسِ ، الصحۃٌ و الفراغٌ  ( بخاری، کتاب الرقاق) ’’اللہ کی ان دو نعمتوں ’ صحت‘ اور ’فرصت‘ کے متعلق اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں‘‘۔ البذاءُ والبیانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ (ترمذی)’’فحش گوئی اور لا حاصل بکواس نفاق کی دو شاخیں ہیں‘‘۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص کے انتقال پر ایک شخص نے کہا کہ تجھے جنت کی بشارت ہو۔اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کہہ رہے ہو؟جب کہ حقیقتِ حال سے تو واقف نہیں ہے ۔ شاید اس نے لا یعنی گفتگو کی ہو یا ایسی چیز میں بخل سے کام لیا ہو جو اس کے لیے باعث نقصان نہ تھی (ترمذی) ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بے فائدہ ،غیر ضروری اور لایعنی باتیں بھی انسان کی غفلت کا سبب بنتی ہیں جواس کے جنت میں نہ جانے کی وجہ بن سکتی ہیں:

مَا يَاْتِيْہِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّہِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَـمَعُوْہُ وَہُمْ يَلْعَبُوْنَ۝۲ۙ لَاہِيَۃً قُلُوْبُہُمْ۝۰ۭ (الانبیاء۲۱ :۲-۳) اُن کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں ،دل ان کے ( دوسری ہی فکروں میں ) منہمک ہیں۔

  • غافل لوگوں کی صحبت: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان ایسے افراد کے ساتھ رہے جو زندگی کے مقصد سے غافل ہوں۔ غافلوں کی صحبت بھی انسان کو غفلت میں مبتلا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی صحبت اور ان کی بات ماننے سے روکا ہے، جو غافل ہوں:

وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۝۲۸ (الکہف۱۸: ۲۸) کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔

سور ۂ فرقان میںجہنمیوں کے بارے میں ہے:

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْہِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا۝۲۷  يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا۝۲۸  لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ۝۰ۭ (الفرقان ۲۵: ۲۷-۲۹) وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہو گا ۔ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا: کاش! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی ، کاش! میں نے فلا ں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی۔

حدیث میں بُری صحبت کی مثال بھٹی دھونکنے والے سے دی گئی ہے کہ جس کے پاس بیٹھنے سے آدمی کے کپڑوں پر چنگار ی آکر اس کے کپڑے جلادیتی ہے، یا پھر وہ دھوئیں اور اس کی بھٹی سے ا ٹھنے والی بدبو سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح برے آدمی کی سنگت اور بہت زیادہ میل جول سے آدمی یاتو گناہ کے کام کرتا ہے یا کم ازکم نیکی کے کاموں سے محروم ہو جاتا ہے۔

غفلت کے اسباب

غفلت کے درج ذیل اسباب ہیں:

  • باپ دادا کی تقلید: دین سے غفلت و دُوری کا ایک سبب خاندانی عصبیت،      قومی تعصب ہوتا ہے ۔ان کے عقیدے وخیالات،تصورات، رسم و رواج کی انسان پابندی کرتا ہے۔ اللہ و رسولؐ کے حکم کے بالمقابل اپنے خاندان کے اصولوں اور رسموں کو اہمیت دے کر ان پر کار بند رہتا ہے۔ یہ کیفیت انسان کو دین سے غافل کر دیتی ہے۔دین کو قبول کرنے میں مانع ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب جو کہ آپ ؐسے بہت محبت کرتے تھے۔ آپؐ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنی اولاد سے زیادہ آپؐ سے شفقت کرتے تھے۔ ہر حال میں آپؐ کا ساتھ دیا، مگر خاندانی عصبیت آپؐ کے لائے دین میں آڑے آگئی۔ وہ دینِ حق قبول کرنے سے محروم رہے:

 اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ۝۲۳ (زخرف ۴۳ :۲۳) ہم نے اپنے باپ داد ا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھی کے نقشِ قدم کی پیروی کررہے ہیں۔

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۝۱۷۰( البقرہ۲: ۱۷۰)ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو، توجواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داد کو پایا ہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو، توکیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟

  • خواہشِ نفس کی پیروی: دین سے غفلت کا ایک سبب یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کرے ۔اس کے دل میں جو آئے وہ کرے۔جو چیز اس کو پسند آئے اس کو کرے اور جونا پسند ہو ،اس کو نہ اختیار کرے ۔ایسا شخص اپنے نفس کا بندہ بن کر رہ جا تا ہے :

اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًا۝۴۳ۙ ( الفرقان ۲۵:۴۳) کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟

فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَہْوَاۗءَہُمْ۝۰ۭ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۵۰ (القصص۲۸:۵۰)اب اگر وہ تمھارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیروہیں اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس خواہشات کی پیروی کرے ؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہر گز ہدایت نہیں بخشتا ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف طرح کی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھ، سوچنے سمجھنے کے لیے دل و دماغ عطا کیا ۔ انسان جب ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتا ہے ،ان سے ٹھیک انداز سے فائد اٹھاتا ہے تو اس کو ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ وہ انسانی مجدو شرف کے اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اس کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔  اگر وہ ان صلاحیتوں کا غلط استعمال کرتا ہے اور اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتا رہتا ہے، تووہ انسانیت کے مقام سے گر جاتا ہے۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی کے نتیجے میں ایسے مقام پر جا پہنچتا ہے کہ اس کی آنکھیں صحیح بات دیکھنے، کان اچھی بات سننے اور دل و دماغ حق بات کو تسلیم کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھتے ہیں اور حق قبول کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ (اعراف ۷ :۱۷۹، فرقان ۲۵:۴۴)

  • انسانوں کی اطاعت: دین سے غفلت کا ایک سبب یہ ہے کہ انسان اپنے جیسے انسانوں کو یہ درجہ دے دے کہ ان کی ہر بات بغیر سوچے سمجھے ماننے لگے۔صاحب ِاقتدار، مذہبی پیشوا، دولت مندلوگوں کے بارے میں یہ تصور بٹھالے کہ یہ بھی کچھ نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ اور ان کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے ان کی ہر بات تسلیم کر لینا، یہ چیز اس کو دین سے غافل کر دیتی ہے:

اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تواُس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ اُن لو گوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے: ’’دنیا میں ہم تمھارے تابع تھے ،اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے: ’’اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمھیں بھی دکھادیتے ۔اب تو یکساں ہے ، خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں‘‘۔ (ابراھیم۱۴ :۲۱)

  • دنیا میں انہماک:دین سے غفلت کا ایک سبب دنیامیںحد سے زیادہ انہماک ہے۔ جب انسان مادی چیزوں پر زیادہ بھروسا کرلیتا ہے ۔دولت ، کھیتی باڑی، دنیا کا آرام، عزّت و شہرت کی طلب حد سے زیادہ ہوجاتی ہے تو انسان اللہ کے حقوق سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔کارو بار، کیرئیر، خاندان، بچوں کی ترقی اور کامیابی کی فکر اس پر طاری رہتی ہے۔ ہر وقت دنیوی مفاد کے حصول اور دُنیوی کا میابیوںکے حصول کابھوت اس پر ایسا مسلط ہو جاتا ہے کہ وہ قبر تک پہنچ جاتا ہے اور وہ زندگی کے اہم مقاصد و امور سے غافل رہتا ہے۔جسمانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے سرگرم رہنا مطلوب ہے۔ لیکن جب یہ انہماک حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو انسان کو اتنی بھی فرصت نہیں ملتی کہ وہ زندگی کے حقیقی مقصد و تقاضوں کے بارے میں سوچ سکے۔ اسی کیفیت کا نام غفلت ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِہَا وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ۝۷ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۸ (یونس ۱۰:۷-۸) حقیقت یہ ہے کہ جولوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ، ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ کرتے رہے۔

اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۝۱ۙ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۝۲ۭ (التکاثر ۱۰۲: ۱-۲) تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حا صل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ ( اسی فکر میں )تم لب ِگور تک پہنچ جاتے ہو۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: مَنْ اَحَبُّ دُنْیَا ہٗ اَضَـرَّ بَآخِرَتِہٖ (مشکٰوۃ المصابیح)،’’جو شخص دنیا سے پیار کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو ضرور نقصان پہنچاتا ہے‘‘۔

اگر ابن آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرے گا اور اگر دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری کی تمنا کرے گا ۔اور ابن آدم کے پیٹ کو تو مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ ( بخاری)

  • لااُبالی پن : دین سے غفلت کا ایک سبب لااُبالی پن ہے۔ انسان اپنی زندگی کے مقصد پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف طرح کے مسائل و مشکلات آتی ہیں، تب بھی وہ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ ان کے اسباب پر رُک کر سوچتا نہیں ہے۔ اس کی یہ روش اس کو لااُبالی بنادیتی ہے ۔ لااُبالی پن انسان کو غافل بنا دیتا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: الا نَـاۃُ مِنَ اللہِ وَالعَجَلَۃُ مِن الشَّیْطَانِ (ترمذی) ’’کام کو اطمینان و متانت کے ساتھ انجام دنیا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے تعلق رکھتا ہے‘‘ ۔ دوسری حدیث میں فرمایا: بعض اوقات بندہ ایسی بات کہتا ہے جس کے کہنے سے اس کی غرض محض لو گوں کو ہنسانا ہوتاہے۔اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر تا ہے۔ مومنین کی صفت قرآن نے یہ بتائی ہے کہ وہ غیر ضروری باتوں سے گزر جاتے ہیں۔(المومنون ۲۳:۳)

  • گھمنڈ و غرور: حق سے دور رکھنے اور حق کی جانب متوجہ ہونے میں گھمنڈ رکاوٹ بنتا ہے ۔گھمنڈ و تکبرایسی بیمار ی ہے جس میں مبتلا شخص اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ مال و دولت ، مذہبی ، قومی، سیاسی یا کسی بھی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا فرد کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، حتیٰ کہ وقت کے پیغمبر وں اور ان کی دعوت کو بھی جھٹلا دیتا ہے۔ حضرت موسٰی اور حضرت ہارون ؑ نے فرعون اور اس کے سرداروں کے سامنے بڑی بڑی نشانیاں پیش کیں مگر انھوں حق کا انکار کردیا (المومنون۲۳: ۴۶)۔ شیطان نے حضرت آدمؑ کو سجد ہ نہیں کیا اس کی وجہ بھی استکبا ر ہی تھا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ اللہ نے اس کو ذلیل کر کے جنت سے نکال دیا۔ (اعراف۷:۱۲،۱۳)

غفلت کا انجام

غفلت میں خواہ فرد مبتلا ہویا قوم، دونوں کا انجام یکساں ہے ۔دنیا میں غفلت کے نتیجے میں دونوں ہی بُرے نتائج سے دوچار ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی انجام برا و رسواکن ہو گا۔

  • تباہی و ہلاکت : جو افراداللہ اوراس کی کتاب ، اس کے رسولؐ کی تعلیمات سے اعراض کرتے ہیں ۔ان کے اس اعراض و استکبار کی سزا دنیا میں مقدر کردی جاتی ہے اور آخرت میں جہنم رسید ہوں گے۔ جوقومیں اس روش کو اپناتی ہیں اور کھلم کھلا رسول کی بات کو جھٹلاتی ہیں، ان کو دنیا میں ہی تباہ و بر باد کر دیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کا ذکر کیا ہے کہ جب انھوں نے رسول کو جھٹلایا ، اس کا مذاق اڑایا، اس پر نازل کردہ کتاب کی تکذیب کی تو اللہ نے ان کو ہلاک کر دیا:

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓي اَجَلٍ ہُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ہُمْ يَنْكُثُوْنَ۝۱۳۵ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ فِي الْيَمِّ بِاَنَّہُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِيْنَ۝۱۳۶ (اعراف ۷:۱۳۵-۱۳۶) مگر جب ہم اُن پر سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے ، جس کو وہ بہر حال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔ تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کر دیا کیوں کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایاتھا اور اُن سے بے پرواہ ہو گئے تھے ۔

ان آیات میں قومِ فرعون کی ہلاکت کا سبب تکذیب اور غفلت بتائی گئی ہے۔ قومِ فرعون پر تنبیہ کے لیے پہلے قحط، طوفان، ٹڈی دل ،سرسریاں، مینڈک، خون کا عذاب نازل کیا گیالیکن جب قوم غفلت میں پڑی رہی اور رسول کی تکذیب کرتی رہی تو اس کو ہلا ک کر دیا گیا:

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَۃً۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۝۹۲( یونس۱۰ : ۹۲) اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔

lتوفیق کا سلب ہونا: جو افراد، گروہ اور اقوام اللہ اور اس کے رسول ؐکے دیئے گئے احکامات سے غفلت برتتی ہیں ۔ اس پر دھیا ن و توجہ کے بجائے لاپرواہی اختیا ر کرتی ہیں ۔اللہ ان سے نیک اعمال کی توفیق چھین لیتا ہے اور ہدایت کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں:

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡ وَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ  بِہَا۝۰ۡ وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۷۹ ( اعراف۷: ۱۷۹)۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِنّ اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اُن کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ اُن کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں ۔ اُن کے پاس کا ن ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں ۔ وہ جانور وں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔

 غافل انسان سے اللہ ناراض ہو جاتا ہے اور عقل و شعور، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلیتا ہے۔ وہ کان رکھتا ہے، بات سنتا ہے مگر بھلی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔آنکھوں سے دیکھتا ہے مگر آنکھیںعبرت و نصیحت حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔

  • ا للّٰہ کی نشانیوں سے سبق لینے  سے محرومی :غافل انسان اللہ کی نشانیوں کو جھٹلاتا ہے۔ جب کسی کی عقل پر غفلت کے پردے پڑجاتے ہیں تو انسا ن اللہ کی نشانیوں کو دیکھتا ہے مگر غور نہیں کرتا ، سنبھلتا نہیں ہے جیسا کہ فرعون کی قوم پر اللہ نے کئی عذاب بھیجے کہ قوم نصیحت حاصل کرے اور اپنے رویہ میں تبدیلی لائے ۔جب کئی عذاب آگئے اور ان کے اندر رجوع الی اللہ کی فکر نہیں ہوئی تو اللہ نے ان کو تباہ کر دیا ۔دریائے نیل میں غرق کر دیا:

آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے ،پتھر وں کی طرح سخت ، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیوں کہ پتھر وں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے ، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے ۔اللہ تمھارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔ ( البقرہ ۲: ۷۴)

  • غفلت جہنم میں لے جانے والا عمل : غفلت ایک ایسا موذ ی مرض ہے کہ اس میں گرفتار انسان لوگو ں کو مرتے دیکھتا ہے ، مگر اثر حاصل نہیں کرتا۔ غفلت کی وجہ سے دنیا میں بھی انسان آزمائشوں سے گزرتاہے اورآخرت میں بھی اس کے حصہ میں دوزخ کی آگ آئے گی: اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ  بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۸ (یونس ۱۰ :۸)
  • قیامت کے دن عار دلائی جائے گی: قیامت کے دن جب اللہ کے حضور حاضری ہو گی اس دن جو لوگ دنیا میں غافل رہے ان کو عار دلائی جائے گی:

وَجَاۗءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَاۗىِٕقٌ وَّشَہِيْدٌ۝۲۱ لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ (قٓ ۵۰:۲۱ ،۲۲) ہر شخص اس حال میں آگیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا ۔ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا۔

  انبیا علیہ السلام کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ انسانوں کو غفلت سے بیدار کیا جائے ۔ ان کو رب کریم سے واقف کرایا جائے اور وہ غفلت ولاپرواہی چھوڑکر رب کی بندگی اختیار کر لیں:

 لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ۝۶ ( یٰسٓ ۳۶:۶)تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو، جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

  •  شیطان غالب ہو جاتا ہے : جو شخص غافل ہوتا ہے ، دینی تعلیمات و احکامات سے مسلسل لاپرواہی برتتا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شیطان اس شخص پر غالب ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ اس کو اللہ سے مسلسل غافل رکھنے کی کوشش کر تا رہتا ہے:
  • وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۹ (الحشر ۵۹:۱۹) اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائو، جواللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انھیں خود اپنا نفس بھلادیا، یہی لوگ فاسق ہیں۔

لہٰذا دُنیامیں مادی فوائد کے حصول کی کوشش سے غفلت دُنیا کا نقصان ہے، مگر دین سے غفلت دنیا و آخرت دونوںجگہ نقصان ہے۔ دنیا میں بداعمالیوں وگمراہیوں کی وجہ سے دنیا ظلم سے بھر جائے گی اور آخرت میں آخرت خراب ہو گی ۔عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان غفلت سے بچے۔

انسانی خصوصیات میں دیانت داری کا درجہ سب سے بلند ہے۔ ایک پُرخلوص، سچا اور ذمہ دارانہ طرزِعمل رکھنے والے ایمان دار انسان کی نیت اور اعمال ہر طرح کے کھوٹ سے پاک ہوتے ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی خطّے کے رہنے والوں کی رائے لی جائے تو وہ اس بات پر متفق نظر آئیں گے کہ ایک اچھے لیڈر کا ایمان دار اور قابلِ اعتماد ہونا اس کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔ یہ خوبی اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبوب ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے القابات میں سے ’الامین‘ کا لقب آج بھی سب سے زیادہ مرکزیت رکھتا ہے۔ اس لقب اور لیڈرشپ کا تعلق محض اتفاق نہیں بلکہ یہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ سمت کی جانب ایک واضح اشارہ ہے۔

بلند کرداری، نیک فطرت اور اعلیٰ اخلاقیات ایک مثالی رہنما کی شخصیت کے لازمی اجزا ہیں۔ اسی لیے مثالی قیادت کا تجزیہ کرتے وقت خیر اور شر کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ دیانت داری کا مفہوم صرف ایمان داری تک محدود نہیں بلکہ اس میں ہرحال میں سچ کا ساتھ دینا، حالات و واقعات کی درستی کو یقینی بنانا اور ہرمعاملے کی بخوبی تکمیل کرنا بھی شامل ہے۔ انسانی زندگی کے تمام تر معاملات کا دارومدار اس اعتبار پر ہے۔ چنانچہ ایک دیانت دار انسان ہی معاشرے میں سب سے زیادہ معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نیک سیرت لیڈر کہلانے کا حق دار وہی شخص ہوسکتا ہے، جو دیانت دار اور معتبر ہو، اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا پاس دار ہو، اور اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہو کہ اسے دوسروں کے لیے ایک عملی نمونہ بن کر رہنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ایک ایسا لیڈر ہے جو اپنے فرائض، قرآن اور سنت کی روشنی میں انجام دیتا ہے۔

اعلٰی اخلاقیات کو مقدم رکھنا ضروری کیوں؟

ایمان داری، دیانت اور اخلاقیات کے بارے میں باتیں کرنا اور دوسروں میں ان خصوصیات کی موجودگی یا عدم موجودگی پر تبصرے کرنا بہت آسان کام ہے، لیکن کسی انسان کے کردار کی اصل پرکھ کرنا مقصود ہو تو اسے دولت ، شہرت، اقتدار یا وسائل فراہم کرکے دیکھنا چاہیے۔ انسانی معاشروں میں شر پھیلانے میں یہ تمام عوامل مرکزی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ ان کی موجودگی انسان کی نیت میں کھوٹ کو جنم دیتی ہے ، اور وہ اپنا اصل مقصد بھول جاتا ہے۔ اس بناپر اس کے کردار میں ایسی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جن سے غیراخلاقی طرزِعمل اور بدعنوانی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ آج کی دُنیا کو درپیش بے شمار سیاسی، کاروباری، مالیاتی اور ذاتی اسیکنڈلز اس اخلاقی بحران کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔

Institute of Business Ethicsکے ریکارڈ کے مطابق حالیہ برسوں میں سرکاری اور نجی، دونوں طرح کے اداروں پر لوگوں کے اعتبار میں ۱۰ فی صد کمی آئی ہے۔ عام افراد کی نسبت صاحب ِ اقتدار اور بااختیار افراد کےکردار کی خامیاں معاشرے کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے نتیجے میں جنم لینے والی خرابیوں کے نتائج آنے والی نسلوں تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی کردار کی اسی کمزوری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہےجو بہترین اخلاق اور کردار رکھتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)

اسی طرح سنن ترمذی میں درج ایک حدیث کا مفہوم ہے: ’’لوگوں کی ایک بڑی تعداد تقویٰ اور اعلیٰ کردار کی بناپر جنّت کی حق دار ٹھیرے گی‘‘۔ تاہم، اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں کردار کی تربیت محض لفاظی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور اس کا کوئی باقاعدہ عملی اہتمام دیکھنے میں نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ صفت کتنی اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہی تاریخی حقیقت کافی ہے کہ الرسولؐ کا منصب سنبھالنے سے بھی پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ’الامین‘ کے لقب سے معروف تھے اور لوگ ان پر اعتبار کرتے تھے۔ اس کے پیچھے یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے اور انھیں کسی مقصد کی جانب راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنے بلند کردار اوراعلیٰ اخلاقی اقدار کی مدد سے ایک مضبوط ساکھ قائم کرے۔ ایک معتبر اور بااثر انسان کی بات توجہ سے سنی جاتی ہے اور لوگ اس پر سنجیدگی سے غور بھی کرتے ہیں۔ اقتدار اور اختیار کے حصول کے بعد انسان کا سب سے بڑا چیلنج اپنے کردار اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنا اوران پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے باز رہنا ہے۔ اگر شروع ہی سے ایک اعلیٰ مقصد کے حصول پر توجہ رکھتے ہوئے باقاعدہ اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر توجہ رکھی جائے تو مستقبل میں لیڈرشپ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔

بہت سے لوگوں کی نظر میں اسلام محض ’اوامر اور نواہی‘ کے اصولوں کا ایک مجموعہ ہے اور بعض کے خیال میں قانون کا درجہ حکمرانی کے اصولوں اور اخلاقی اقدار سے بڑھ کر ہے لیکن یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قانون کا ہراصول کسی نہ کسی ضابطۂ اخلاق سے منسلک ہوتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے قانون اور اخلاقیات کا یہ امتزاج ہرسطح پر ہونا چاہیے اور اگر کوئی قانون اسلامی اصولوں سے متصادم ہو، تو اس کا نئے سرے سے جائزہ لے کر اس میں ضروری تبدیلیاں کرنا لازمی ہے۔

نیت اور اعمال کا باہمی تعلق

کردار سازی کےعمل کی ابتدا نیک نیتی اور خلوصِ دل سے ہوتی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘ (صحیح بخاری)لیکن یہ کیسے طے کیا جاسکتا ہے کہ کون سی نیت پر عمل کیا جائے اور کس کو نظرانداز کردیا جائے؟ سیّد سلیمان ندوی کے مطابق نیت کی اخلاقی درجہ بندی اس طرح سے کی جاسکتی ہے:’’نیت کی اس درجہ بندی میں مالی یا دُنیاوی نفع کا مقام سب سے نیچے رکھا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی خواہش رکھنا یا ان کے حصول کی کوشش کرنا غلط ہے۔ قرآن و سنت میں دُنیاوی خواہشات کی تکمیل نہ صرف حلال قرار دی گئی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اسی طرح ذہنی اور روحانی اطمینان اور جنّت کا حصول ہرمسلمان کی دلی آرزو ہے لیکن رضائے الٰہی کی نیت سے کیے جانے والے اعمال کا درجہ اُن سب سے اُونچا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان دُنیا کی ہرشے سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا سیکھ لیتا ہے تو اپنے محبوب کی خوشنودی اس کی سب سے بڑی خوشی بن جاتی ہے۔ پھر چاہے کوئی لیڈر ہو یا ایک عام فرد، رضائے الٰہی کی جستجو اس کے کردار میں بہترین اوصاف پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے‘‘۔

اُوپر بیان کی گئی حدیث کا مکمل متن حضرت عمر بن الخطابؓ کے الفاظ میں کچھ یوں ہے: ’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور تم میں سے ہر ایک کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی، لہٰذا جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی خاطر ہجرت کی، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے ہے اور جس نے کسی دُنیاوی فائدے یا کسی عورت کی خاطر ہجرت کی اس کی ہجرت انھی چیزوں کے لیے ہے جن کی خاطر اس نے ہجرت کی‘‘ (صحیح بخاری)۔ یہ حدیث مکہ سے مدینہ ہجرت کے تناظر میں بیان ہوئی۔ جب آپؐ کے علم میں لایا گیا کہ ایک صحابی نے اس لیے ہجرت کی کہ وہ مدینہ میں شادی کے خواہش مند تھے۔ انصار اور مہاجرین کے مابین قائم ہونے والی مواخات میں مہاجرین کو امن و عافیت کے ساتھ ساتھ بہت سی دُنیاوی آسائشات بھی ملیں جس کی بناپر یہ ارشادِ نبویؐ سامنے آیا کہ جس کسی کی ہجرت کا مقصد دُنیاوی فوائد کا حصول تھا، اسے صرف وہی فوائد ملیں گے۔ لیکن جس نے خالص اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور ان کی اطاعت میں ہجرت کی اُسے دُنیاوی آسائشوں کے ساتھ ساتھ روحانی سکون بھی میسر ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ ان کے لیے سب سے بڑا اجر یہ ہوگا کہ روزِ حشر انھیں اللہ تعالیٰ کے دیدار کی سعادت نصیب ہوگی۔

اپنی نیت کو خالص رکھنا بظاہر جتنا آسان معلوم ہوتا ہے درحقیقت اتنا ہی کٹھن ہے۔ متعدد مسلمان دانش وروں نے اپنی تصانیف میں نیت کے اخلاقی پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ یحییٰ بن ابوکثیر کا کہنا ہے: ’’تمھاری نیت تمھارے عمل سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اس لیے پہلے اسے مکمل طور پر سمجھ لو۔ میری نیت میرے لیے سب سے مشکل چیز ثابت ہوئی کیوں کہ یہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے‘‘۔ اور ابن المبارک کے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: ’’ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا عمل اس کے پیچھے چھپی نیت کی وجہ سے عظیم قرار پائے اور ایک عظیم عمل اس کے پیچھے پوشیدہ نیت کی وجہ سے چھوٹا پڑ جائے‘‘۔

کون سی نیکیاں اہم ترین ہیں؟

اپنے دل پر نیکی کو نقش کر لینا اور اسے ہر بُرائی سے پاک رکھنا نیک نیتی کا پہلا اور لازمی مرحلہ ہے۔ قرآن و سنت کی رُو سے کردار سازی میں معاون نیکیوں کی فہرست کچھ یوں بیان کی جاسکتی ہے:m احسان m صدق اور اخلاص m شرح صدر m عاجزی m عزّتِ نفس اور وقار mارادے کی پختگی / اولوالعزمی m شکرگزاری m عفو اور رحم دلی m صبرm عمدگی اور بلند نظری mاعتدال اور توازن m شجاعت (بہادری) m اطمینانِ قلب m شکرگزاری۔

اس فہرست میں درج نیکیاں ایسی خصوصیات رکھتی ہیں جو ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قائدانہ کردار میں بھی نظر آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کا انتخاب ایک ہی ذریعے یعنی قرآن و سنت سے کیا گیا ہے۔ تاہم، اسے سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ فہرست ہرانسان کے لیے ہے چاہے وہ لیڈر ہو یا نہ ہو، وہ بالخصوص لیڈرشپ کے نقطۂ نظر سے اہمیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح قرآن و سنت کی روشنی میں کردار کو کمزور کردینے والی بُرائیوں کی ایک ابتدائی فہرست کچھ اس طرح ہوگی:m تشدد m غرور، تکبر اور نمودو نمائش m تہمت لگانا m بزدلی m غصّے میں آپے سے باہر ہو جانا m فضول خرچی اور اخلاقی پستی m فساد برپا کرنا (پھیلانا) m جھوٹ اور فریب m دھوکا دہی اور غداری m لالچ m جابرانہ سلوک m بدگوئی اور بدزبانی m خود غرضی اور نرگسیت (صرف خود سے محبت کرنا)

اسلامی شریعہ کے اعلٰی مقاصد

  • عقیدہ
  • زندگی
  • ذہانت /دانش مندی
  • دولت /جائیداد
  • اولاد/ آیندہ نسلیں

فرد کی کردار سازی اور معاشرے کی فلاح کے زاویوں سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اخلاقیات اور شرعی احکام کی ہم آہنگی کیوں ضروری ہے۔ اخلاق فرد کے کردار کو خوب صورت بناتاہے ،جب کہ احکام معاشرتی حقوق و فرائض اور لوگوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔ اخلاقیات روح ہیں تو قوانین اس کا جسم۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے کے بغیر بےفائدہ اور بے معنی ہیں۔ ایک مثالی قائد کے لیے لازم ہے کہ وہ نیک سیرت اور باکردار ہو اور اسلامی قوانین کے مطابق لوگوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ اور ان کی فلاح کو یقینی بنائے۔ اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مقاصد الشریعہ یعنی اسلامی قوانین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک مختصر جائزہ لینا سودمند رہے گا۔

الجوینی اور الغزالی سے لے کر القرافی اور الشاطبی جیسے فاضل علما نے قرآن وسنت سے اسلامی شریعہ کے اعلیٰ مقاصد اخذ کیے جس کے نتیجے میں یہ پانچ ضروریات سامنے آئیں جن کا پورا ہونا انسان کی بقا کے لیے لازم ہے۔

اس لحاظ سے اسلامی شریعہ کی رُو سے انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور زندگی کی حفاظت کرے، اپنی سوچ اور شعور کو استعمال کرسکے۔ اپنے ذاتی مال یا جائیداد کو محفوظ رکھ سکے اور اپنی نسل کو آگے بڑھا سکے۔ انسانی زندگی کی ان پانچوں بنیادی ضروریات سے اگلا درجہ حاجات کا ہے جن کی اہمیت قدرے کم ہے، جیسے تجارت، شادی، ذرائع آمدورفت وغیرہ۔ یہ وہ ضروریات ہیں جو اہم تو ہیں لیکن ان کا پورا نہ ہونا زندگی اور موت کی کش مکش کا سبب نہیں بنتا۔ سب سے کم تر درجہ ’زیبائش‘ کا ہے جن کی موجودگی میں انسان اچھا محسوس کرتاہے جیسے قیمتی لباس، مہنگی کار، یا جدید ترین سمارٹ فون۔بطورِ راہ نما کسی بھی لیڈر کو ان پانچ بنیادی ضروریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو حاجات کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاہم، زیبائش کا معاملہ ہرانسان کی ذاتی صوابدید پر ہے۔

دورِحاضر کے کئی محققین نے محسوس کیا کہ اس فہرست میں عزّت، آزادی اور انصاف کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ تینوں چیزیں اسلامی تاریخ کا ایک واضح حصہ رہی ہیں اور شاید اسی لیے انھیں اس مستند فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا، تاہم آج جس طرح ہرسطح پر اور ہرمیدان میں عزّت، آزادی اور انصاف کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں، ان کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں اس فہرست میں شامل کرنا بے حد ضروری ہوچکا ہے۔ لہٰذا ایک نیک سیرت لیڈر کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اختیارات کےدائرے میں رہتے ہوئے ان آٹھوں ضروریات کی تکمیل کا اہتمام کرے۔

انفرادی کردار سازی اور معاشرتی فلاح کے لیے ان تمام ضروریات سے واقفیت رکھنا اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ نبویؐ طرزِ قیادت کے مطابق دیانت داری سے زندگی بسر کی جاسکے۔

اسلام میں دیانت داری کا مقام

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ دیانت داری کی جیتی جاگتی عملی مثال ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی آپؐ اپنی انتہا درجے کی ایمان داری اور اعلیٰ ترین اخلاق کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ نبوتؐ سے پہلے ہی آپؐ کا لقب ’الامین‘ پڑچکا تھا اور نبوتؐ ملنے کے بعد بھی آپؐ کے بدترین دشمن تک آپؐ کے اس وصف کے معترف تھے اور اپنی قیمتی اشیاء بطور امانت آپؐ کے پاس رکھواتے تھے۔ نوعمر ہونے کے باوجود آپؐ اس قدر قابل اور بااعتبار شخص تھے کہ ان خصوصیات کی بنا پر حضرت خدیجہؓ نے اپنے کاروباری معاملات آپؐ کے سپرد کیے اور بعد میں آپؐ کے بہترین اخلاق اور کردار سے متاثر ہوکر آپؐ سے نکاح کیا۔ اس نمایاں ترین صفت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر ایمان داری اور دیانت کی تاکید کی گئی ہے:

  • اے ایمان والو! تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ (الصف ۶۱:۲)
  • اے ایمان والو! نہ تو خدا اور رسولؐ کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔ (الانفال ۸:۲۷)
  • مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ (المؤمنون۲۳:۲۳)
  • اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں۔ (البقرہ ۲:۱۷۷)
  • اے ایمان والو! اپنے قول پورے کرو۔ (المائدہ ۵:۱)
  • اور وعدہ پورا کیا کرو ، بے شک (قیامت کے دن) ہر وعدے کی پوچھ گچھ ضرور ہوگی۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴)

قرآن کی طویل ترین آیت سورئہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۲ میں لین دین کو ہرقسم کے شک سے بالاتر رکھنے کے لیے مختلف طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ مال و دولت انسان کے کردار کے لیے ایک بڑی آزمایش کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن خرید وفروخت اور لین دین کے معاملات میں مکمل پروفیشنلزم یعنی تمام شرائط کو تحریری شکل دینے اور اس پر گواہ مقرر کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نبی پاکؐ نے کچھ اس طرح سے مزید واضح کیا ہے: ’’تم میں سے جس کسی کو بااختیار عہدے پر مقرر کیا جائے اور وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی معمولی کوئی شے چھپائے تو یہ (عوامی فنڈ کا) ناجائز استعمال ہوگا اور روزِ قیامت اس کی جواب دہی ہوگی۔ (صحیح مسلم)

صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ منافق کی تین خصوصیات ہیں:جب بولے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو توڑ ڈالے، اور جب اس پر اعتبار کیا جائے تو فریب دے۔

غزوۂ حنین: دیانت داری کی عملی مثال

غزوئہ حنین ایک انتہائی دشوار موقع تھا جہاں پر آپؐ کی قائدانہ خصوصیات نمایاں طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک ہی وقت میں مکمل ایمان داری کے ساتھ الگ الگ فریقین کے مفادات کا تحفظ آپؐ کی لیڈرشپ کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ لیڈر چائے کی پتی کی طرح ہوتا ہے جس کے معیار کا اندازہ اسے کھولتے پانی میں ڈال کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ حنین کا معرکہ ایسا ہی کھولتا پانی تھا جہاں یہ واضح ہوگیا کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر کا خطاب صرف آپؐ کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے۔

فتح مکہ کے بعد کچھ پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی سے حسد میں مبتلا ہوگئے۔ ان میں سب سے پیش پیش بنوہوازن تھے جنھوں نے تقریباً چار ہزار کی فوج لے کر مسلمانوں پر چڑھائی کردی۔ طائف کے نزدیک حنین کی وادی میں برپا ہونے والے اس معرکے میں مسلمانوں کی فوج تقریباً ۱۲ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ یہ صورتِ حال غزوئہ بدر کے عین برعکس تھی، جہاں مسلمان تعداد میں انتہائی کم ہونے کے باوجود فتح یاب رہے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ کئی مسلمان حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوگئے اور اسے ایک آسان معرکہ سمجھ بیٹھے۔ جب مسلمان فوج مورچہ زن ہونے لگی تو پہلے سے گھات میں بیٹھے دشمن نے ان پر اچانک شدید حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمان فوج میں افراتفری پھیل گئی اور ان میں سے کئی افراد آپؐ کو خطرے میں چھوڑ کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ ایسے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے کچھ ثابت قدم ساتھی میدان میں جمے رہے اور انھوں نے فرار ہونے والوں کو واپس بلایا۔ صفوں کو نئے سرے سے منظم کیا گیا اور بالآخر بنوہوازن کو شکست ہوئی۔ اس غزوہ کے دوران میں میدان چھوڑ کر فرار ہوجانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورئہ توبہ میں یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ کے بھروسے پر ہر صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار رہیں، اور فتح یا شکست کے دُنیاوی معیار سے ہٹ کر آخرت میں کامیابی کو اپنا نصب العین بنا لیں۔

اس غزوہ کے دوران میں آں حضرتؐ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب جنگ جیسی مشکل صورتِ حال میں بھی آپؐ نے مختلف فریقین اور ان کے جذبات کو قابو میں رکھا۔ اس کی مثال بنوہوازن کی جنگی قیدی شیما بنت ِ حلیمہ کا واقعہ ہے جو آپؐ کی رضاعی بہن تھیں۔ابتدا میں ان کے دعوے پر یقین نہیں کیا گیا جس پر انھوں نے آپؐ سے بہ نفس نفیس ملنے کی درخواست کی اور اس ملاقات میں بطورِ ثبوت اپنا بازو دکھایا جس پر بچپن میں آپؐ کے کاٹنے سے نشان پڑگیا تھا۔ آپؐ نے اس نشان کو پہچان کر انتہائی گرم جوشی سے شیما کا استقبال کیا، ان کے بیٹھنے کے لیے اپنا جبہ زمین پر بچھا دیا اور بہت دیر تک ان کے ساتھ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں ایسی گرم جوشی، اس درجہ صبر اور جذبات کو متوازن رکھنے کی ایسی مثال کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔

جنگوں کے اختتام پر مالِ غنیمت اور جنگی قیدیوں پر فاتح فوج کا حق ہوتا تھا۔ ایسے میں جب ہوازن کے شکست خوردہ قیدیوں نے رحم کی اپیل کی تو آپ ؐ نے کمال دانش مندی سے کام لے کر مسلمانوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو نبیؐ کے حضور پیش ہوکر ان قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے اپنا حق معاف کرسکتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں بارگاہِ رسالتؐ سے اپنے عمل کی ستائش پانا بہت سے مسلمانوں کے لیے ان کی زندگیوں کی سب سے بڑی سعادت تھی۔ اس طرح آپؐ کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے بہت سے جنگی قیدیوںکو رہائی مل گئی اور باقی رہ جانے والوں کے بدلے میں اُونٹ اور بکریاں دے کران کے دعوے داروں کو مطمئن کر دیا گیا۔ بطورِ راہ نما آپؐ کی دانائی، ایمان داری اور انصاف پر مبنی یہ طریقہ فریقین کے لیے اس معاملے کا بہترین حل ثابت ہوا۔

تاہم، اس کے باوجود انصار میں سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو کوئی شرف ملا اور نہ مالِ غنیمت ہی۔ آپؐ تک یہ بات پہنچی تو عام راہ نمائوں کی طرح ان افراد کو نظرانداز کرنے کے بجائے آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کی ناخوشی کی وجہ دریافت کی۔ کافی ہچکچاہٹ کے بعد ان اصحاب نے گلہ کیا کہ ان کی بے شمار قربانیوں کے باوجود انھیں نہ تو آپؐ کے حضور عزّت افزائی نصیب ہوئی اور نہ مالِ غنیمت میں حصہ ملا۔ اس پر آپؐ نے اپنی روحانی بصیرت اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ باقی سب لوگ تو اُونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن انصاراللہ کے ان محبوب لوگوں میں سے ہیں جن کے حصے میں اللہ اور اس کا رسولؐ آئے۔ اس حقیقت کا احساس ہوا تو انصار کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے اور وہ اپنی بدگمانی پر شرمسار ہوئے۔ آپؐ کی ایسی معاملہ فہمی اور ایمان دارانہ طرزِ عمل نے بطورِ راہ نما آپؐ کے اصحاب کی شخصیت پر ایسے نقوش چھوڑے جن کی بدولت آنے والے دنوں میں مسلمانوں نے حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہ کر اپنی بے مثال سیاسی بصیرت کی بدولت اپنے بدترین دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا۔ اعلیٰ صفات کا عملی نمونہ غزوئہ حُنین اور صلح حدیبیہ کے مواقع پر آپؐ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی میں نظر آتا ہے لیکن آج کے دور میں ان خصوصیات پر پورا اُترنے والے لیڈروں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ انھیں انگلیوں پر گناجاسکتا ہے۔

دانش مندی کے حوالے سے مسلمان لیڈروں کا ذکر کیا جائے تواس فہرست میں بہت سے ایسے دیگر افراد کا نام شامل کیا جاسکتا ہے جنھوں نے سیاست اور معاشرتی بہبود کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان بااصول اور اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی شخصیت اور انھیں پیش آنے والے حالات و واقعات کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ انھوں نے مشکل ترین صورتِ حال میں بھی دیانت داری اور اصول پسندی کو کس طرح ہرشے پر مقدم رکھا۔ کچھ ایسے راہ نما بھی ہیں جن کی شہرت تو زیادہ نہیں رہی لیکن روز مرہ زندگی میں ان کا دیانت دارانہ طرزِعمل بہترین لیڈرشپ کی عکاسی کرتا تھا۔

ایک لیڈر کا متاثر کن ہونا کیوں ضروری ہـے؟

دانش مند افراد میں دیانت داری اور شائستگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کا ہونا بھی اَزحد ضروری ہے۔ اگر اچھائی یا نیکی انسان کی اپنی ذات تک محدود رہے تو بدی کی طاقتوں کو پھلنے پھولنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ نیکی کوعام کرنے کے لیے لازمی ہے کہ نیک لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کا فن جانتے ہوں۔ گفتگو کا فن اور دوسروں کو قائل کرنے کی مہارت موجود نہ ہو تو کوئی بھی تحریک چند احتجاجی مظاہروں یا دوچار جلسوں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مصنف ڈیل کارنیگی کی مشہور کتاب ’’لوگوں کو متاثر کرنے اور دوست بنانے کا فن‘‘ میں کچھ منفرد طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔

 کارنیگی کا نظریہ ہے کہ لوگوں کواپنی بات سننے پر آمادہ کرنے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اخلاقی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک باقاعدہ طریقے سے لوگوں میں گھل مل جائے، متاثر کن اعمال اور رویوں سے اپنی ساکھ قائم کرے، ان کے دُکھ سُکھ میں دل سے شریک ہو، اور ان کے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کرے۔ اس طرح کچھ وقت گزرنے پر فریقین میں باہمی احترام اور اعتماد کا رشتہ قائم ہوجائے گا اور لوگ نہ صرف اس کی باتوں کو غور سے سنیں گے بلکہ ان کی اہمیت کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران میں ابراہام لنکن نے عوام کو متحد کرنے کے لیے یہی طرزِعمل اپنایا تھا۔ لنکن نے اپنے خطاب میں کہا: ’’ہم دشمن نہیں دوست ہیں، ہم دشمن ہو ہی نہیں سکتے۔ ہمارے جذبات نے ہماری آپس کی محبت کو تھوڑا سرد کردیاہے، لیکن یہ اسے ختم نہیں کرسکتے کیوں کہ محبت ہماری فطرت کا حسین ترین پہلو ہے۔ جب بھی یادوں کے ساز چھیڑیں گے یہ محبت پھر سے جاگ اُٹھے گی کیوں کہ اسے تو جاگنا ہی ہے۔

حقیقی معنوں میں بااثر لیڈر وہ ہے جس کے مخالفین بھی اس کی عزّت کرتے ہوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہی احترام ان کی مخالفت کو حمایت میں بدل دیتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں جنوبی افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا گفتگو کے ذریعے معاملات حل کرنے کی بہترین صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ مذاکرات میں مصالحانہ اور لچک دار انداز اختیار کرنے کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ مذاکرات کے دوران میں آپ کو سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس بات کی مزید وضاحت ان کے قریبی ساتھی ابراہیم رسول نے کچھ اس طرح کی ہے: سمجھوتہ اپنے اصولوں کی قربانی کا نہیں بلکہ ایک عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے حقیقت پسندانہ طریقے اپنانے کا نام ہے۔

خیروشر کی کش مکش اور دیانت داری

خیروشر کی کش مکش انسانی زندگی کا لازمی جز ہے اور ایک لیڈر کے لیے اکثر ایسی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے، جب اسے نیکی یا بدی میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال میں عقل مند راہ نما کس طرح کی حکمت عملی اپنا سکتے ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے دوکیس اسٹڈیز کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:

  • پہلا کیس: آپ کی ٹیم میں شامل ایک دیرینہ ملازم بہت اچھے، وفادار اور مخلص انسان ہیں، لیکن ان کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہونے کی وجہ سے پورے ڈیپارٹمنٹ کا نقصان ہورہا ہے۔ پچھلے دو سال میں انھیں کئی مواقع دیئے جاچکے ہیں، تربیت فراہم کی گئی ہے اور ذمہ داریوں میں بھی رَدوبدل کیا گیا ہے، لیکن اس سب کے باوجود ان کے کام میں بہتری نہیں آرہی۔ دماغ سے سوچیں تو انھیں فوراً فارغ کردینا چاہیے، لیکن دل کا فیصلہ اس کے برعکس ہے۔ اس صورتِ حال میں کیا کیا جانا چاہیے؟ انھیں جانے دیں یا مزید مواقع دیں؟

جواب: قانون کے مطابق کم سے کم جتنے مواقع دیئے جانے چاہییں، ان سے زیادہ مواقع فراہم کریں تاکہ آپ کی دیانت داری ہر شک و شبہ سے بالاتر ہوجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ کارکردگی کا معیار برقرار رکھنے کے لیے اگرآگے چل کر انھیں ملازمت سے برخاست کرنا ہی پڑجائے تو انھیں یہ احساس ہو کہ دیگر جگہوں کی نسبت یہاں پر انھیں زیادہ مواقع دیئے گئے۔

  • دوسرا  کیس: ایک فلاحی کارکن کی حیثیت سے آپ ایک جنگ سے متاثرہ قحط زدہ علاقے میں امداد فراہم کرنے کی غرض سے پہنچتے ہیں، لیکن وہاں کے حکمران فوجی اس کے لیے آپ سے رشوت طلب کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال سے آپ کیسے نمٹیں گے؟ کیا آپ ان ہزاروں مصیبت زدہ لوگوں تک پہنچنے کے لیے رشوت دینے پر تیار ہوجائیں گے یا پھر انکار کرکے ان لوگوں کو مرتا چھوڑ دیں گے؟

جواب :معاملات میں شفافیت برقرار رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ آپ اپنے ڈونرز کی رقم رشوت کے لیے استعمال کرنے سے پہلے انھیں تمام معاملات سے آگاہ کرکے ان سے مشورہ لینے کے پابند ہیں۔ یوں بھی اس شیطانی چکّر کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اسے روکنا ضروری ہے۔ مظلوم افراد تک پہنچنے کے لیے فوج کا مطالبہ مانتے رہیں گے تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اس لیے اس کے توڑ کے لیے راستے تلاش کرنا اور اس دوران میں مکمل دیانت داری اور شفافیت برقرار رکھنا ضروری ہے۔

خیروشر کی کش مکش کا سامنا کرنے والے لیڈروں کے لیے چند سوالات

کارنیل یونی ورسٹی میں ’کاروباری اخلاقیات‘ (Business Ethics) کے پروفیسر ڈینا ریڈکلف نے اس کش مکش کا سامنا کرنے والے لیڈروں کے لیے یہ دل چسپ سوال نامہ تیار کیا ہے:

کسی عمل کے ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں اور مختلف فریقین کے لیے اس کے کیا متبادل ہیں؟

ان ممکنہ نتائج کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ کیا یہ صورتِ حال فریقین کی ذمہ داریوں میں اختلاف پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، یعنی کیا یہ کش مکش کوئی منطقی وجود رکھتی ہے یا محض ایک ذہنی اختراع ہے؟

اگر یہ کش مکش حقیقی ہے تو کیا اس کے حل کے لیے اُٹھائے جانے والے اقدامات ادارے کے اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں؟

جو اقدامات ان اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے کیا ان میں سے کوئی ایک قدم ایسا ہے جو آگے چل کر ادارے کے مشن کو پورا کرنے میں مفید ثابت ہوسکے؟

اگر تمام اقدامات ادارے کے اصولوں سے متصادم ہوں یا ان اصولوں کے مؤثر ہونے میں رکاوٹ ہوں تو ان میں سے کون سے اقدامات کا فریقین کے سامنے سرعام دفاع کرنا ممکن ہے؟

اصولی نوعیت کے فیصلے کرنے کے لیے یہ چیک لسٹ بہت مفید ہے، لیکن ممکن ہے کہ جن افراد میں روحانیت کا عنصر زیادہ ہو وہ اس میں عوامل کے سامنے جواب دہی کے ساتھ ساتھ اللہ کے سامنے جواب دہی کا پہلو بھی شامل کرنا چاہیں گے۔ اس لیے ان افرادکو ذہن میں رکھتے ہوئے اخلاقی اعتبار سے درست فیصلے کا تعین صرف عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کے لیے نہیں بلکہ مذہبی نقطۂ نظر سے اس سوال کو ذہن میں رکھ کر کیا جاتا ہے کہ ’ہماراربّ ہم سے کیا چاہتا ہے؟‘

دانش مندی کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ:

  • اپنے اندر کردار اور دیانت کی اعلیٰ خصوصیات کو پروان چڑھائیں۔
  • اپنے ضمیر کی آواز پر توجہ دیں اور اپنے اندر اخلاقی حِس کو پروان چڑھائیں۔
  • اپنے معاملات کو اتنا شفاف رکھیں کہ ان کا سرِعام دفاع کیا جاسکے۔
  • چاہے آپ کسی بھی مقام و مرتبے کے مالک ہوں اصولوں کو اپنا پابند کرنے کے بجائے خود اصولوں کے پابند بنیں۔
  • ایسی اقدار کا پرچار کریں جو دُنیا بھر میں مانی جاتی ہوں اور ان کی بنیادوں میں مذہب کا عنصر بھی پایاجاتا ہو تاکہ معاشرتی اور روحانی اقدار مضبوط ہوں۔
  • بااخلاق قیادت کے بحران کا شکار اس دُنیا میں نیک سیرت قیادت کو رواج دیں۔

دینِ اسلام اپنے بندوں کے اندر جو مزاج پیدا کرتا ہے، اس میں مصنوعی پن یا تصنع نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس مزاج کے تحت ایک بندہ جب بھی کہتا ہے، یا لکھتا ہے، تو حق کی ہی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کی ہر بات قولِ سدید ہوتی ہے۔ لیکن جو چیز آج ہمارے گردوپیش میں پیدا ہوگئی ہے، اس میں ایک بڑی اخلاقی خرابی خوشامد اور چاپلوسی ہے۔ سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں، وہیں اس کے ذریعے بہت سی اخلاقی خرابیاں بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ ایسا مزاج پیدا ہوگیا ہے کہ حقیر مقاصد کے لیے ایک دوسرے کی خوشامد کرنا ضروری سمجھا جارہا ہے۔ واٹس ایپ گروپ میں جہاں لیڈر یا آفیسرز بھی ہوتے ہیں، ان کی خوشامد کرنا عام رویہ بن چکا ہے، جس سے بندے کا نہ صرف مزاج بگڑ جاتا ہے بلکہ جس کی خوشامد کی جائے اس پر بھی اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔

یہ مشاہدے کی بات ہے، کام سے زیادہ چاپلوسی کرنے والوں کے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ جو کوئی اپنے سینئر کی جس قدر تعریف کرتا ہے اس قدر اس کو فائدہ ملتا ہے۔ اس سے اخلاقی اور پیشہ ورانہ خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور میرٹ کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہر شخص اپنی تعریف و مدح سرائی سے خوش ہوتا ہے اور تنقید اور اصلاح سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔

خوشامد کرنے یا اس پر عمل کے پیچھے بھی ایک بڑا سبب یہی نفسیاتی پہلو ہے کہ کس طرح لوگوں کو متاثر (impress)کیا جا سکے۔ اس طرح سے لوگوں کو متاثر کر کے کوئی شخص فوری طور پر یا دیرپا تعلقات اور معاملات میں فوائد حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ خوشامد سے سرشار ہونے والا فرد، خوشامد کرنے والے یا خوشامد کار کے لیے عموماً نرم گوشہ خود میں پیدا کرتا ہے اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

 خوشامَد یا چاپلوسی ایک عمل ہے جس کے تحت کچھ لوگ حد سے زیادہ دوسرے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں۔ اپنے سے بلند رُتبہ شخصیت یا صاحب ِمنصب کے سامنے محض مفاد حاصل کرنےکے لیےعجز وانکسارکا مظاہرہ کرنا یا اپنے آپ کو نیچا دکھانا تملق یعنی چاپلوسی کہلاتا ہے۔اس عمل میں ایسی خوش نما صفات، عادات، محاسن، معاملات، فعالیت، گفتگو کی خوبیاں، دُور اندیشی، وغیرہ منسوب کی جاتی ہیں جو یا تو کسی شخص میں فی الواقع موجود نہیں ہوتی، اگر ان میں سے کچھ حصہ پایا بھی جاتا ہو، تو وہ اس درجہ خوبی اور خوش نمائی کو نہیں پہنچتا، جس طرح کہ بیان کیا جاتا ہے۔

خوشامد عام طور سے کسی ذی حیثیت یا کسی ایسے شخص کی جاتی ہے، جس سے کسی شخص کو فوری کام پڑ رہا ہو یا پڑ سکتا ہو۔ اسلام میں چاپلوسی یا خوشامد سے روکا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن کریم میں فرمایا ہے : ’’تم اُن لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتُوتوں پر خوش ہیں  اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف انھیں حاصل ہو جو فی الواقع انھوں نے نہیں کیے ہیں۔ حقیقت میں ان کے لیے دردناک سزا تیار ہے‘‘۔(اٰلِ عمٰرن۳ :۱۸۸)

ان آیات کی شانِ نزول کا اگر چہ خاص پس منظر ہے جس میں یہودیوں اور منافقوں کے ایک مخصوص گروہ کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اُن کے بد انجام کی انھیں خبر دی گئی ہے، لیکن ان آیات کے عموم میں اُن تمام لوگوں کو مراد لیا گیا ہے، جو اپنے بارے میں کسی کے منہ سے خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف سن کر خودپسندی کا شکار ہوکر تکبر و شیخی اور غرور وناز میں مبتلا ہوجائیں۔ اپنے کیے ہوئے کاموں پر اِترانے لگیں اور نہ کیے ہوئے کاموں پر ایک مدح و تعریف چاہنے لگیں۔ یہ سب ایسے گناہ ہیں جن کی سزا اور عذاب سے بغیر توبہ و استغفار کے بچنا انسان کے لیے بڑا مشکل ہے۔

احادیث میں بھی رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بیماری سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دوسرے کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم نے اِس کو برباد کردیا‘‘۔ (صحیح بخاری ۲۶۶۳)۔ اسی طرح ایک اور موقعے پر ایک شخص نے دوسرے کی حد سے زیادہ تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم نے اپنے ساتھی کی گردن ماردی۔ اگر تمھیں کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں کہو کہ میں یہ گمان کرتا ہوں، بشرطیکہ اُس کے علم میں وہ واقعی ایسا ہی ہو‘‘۔ (بخاری ۲۶۶۲، مسلم۵۰۲، ابوداؤد۴۸۰۵)۔ صحابہ کرامؓ کا مزاج اس سلسلے میں بالکل واضح اور صاف تھا۔  ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عثمان بن عفانؓ کے منہ پر اُن کی تعریف بیان کی تو حضرت مقدادؓ نے اُس کے منہ میں خاک جھونک دی اور فرمایا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’خوشامد کرنے والوں سے ملو تو اُن کے منہ میں خاک جھونک دیا کرو‘‘۔ (مسلم :۷۵۰۵)

 بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ مرض پروان چڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ چاپلوس مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ چاپلوسی کرنے والا شخص خود تین بڑے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے:

  • ایک تو یہ کہ وہ ایسی تعریف کرتا ہے جو حقیقت نہیں ہوتی، اور جھوٹ ہوتا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ وہ منہ سے جو تعریف کرتا ہے اسے دل میں درُست نہیں سمجھتا، یہ نفاق ہے۔
  • تیسرے یہ کہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کسی کی خوشامد کرکے اُس کو فخر و غرور میں مبتلا کرتا ہے۔ غرور اگر کسی میں پیدا ہو تو اس کی تباہی لازمی ہے۔

کسی انسان کے سامنے اس کی تعریفوں کے پُل باندھنا کہ جس کی وجہ سے وہ بندہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے، انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دینا ہے اور جس انسان میں تکبر آگیا تو سمجھ لیجیے کہ اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔ ابلیس بھی تکبر کی وجہ سے ملعون ٹھیرا تھا۔ تکبر اللہ کو بہت ناپسند ہے۔ اس لیے اسلام نے تکبر کو ایک انسان کے اندر آنے کے راستے بند کرنے کی طرف توجہ دی ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ تو ذبح کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)

چاپلوسی یا خوشامد سے بچنے کی تلقین جن حضرات کو کرنی چاہیے تھی، بدقسمتی سے اب ان کے ہاں بھی یہ مرض دیکھنے کو ملتا ہے۔ مذہبی طبقے کے پوسٹرز اور اطلاعاتی برقی پوسٹوں میں کسی مبلغ یا عالم کے لیے ایسے الفاظ و القابات کی بھرمار اسی خوشامد کی علامت ہے۔ مثال کے طور پر اتنا لکھ دینا کافی تھا کہ 'مولانا ' یا 'شیخ ' یا اگر پی ایچ ڈی کیا ہو تو 'ڈاکٹر۔ ' لیکن ہم طرح طرح کے القابات سے سطور بھردیتے ہیں، جیسے: شیخ المشائح، رہبر ملت، امام المناظرین، مجدد دین و ملت، پیر طریقت، فاتح شرک اور قاتلِ بدعت وغیرہ ۔ بدقسمتی سے مبلغ حضرات بھی پروگرام کے آرگنائزر کو یہ لکھنے یا بولنے سے نہیں روکتے۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں چاپلوسی یا خوشامد ہمارے مذہبی طبقوں میں جگہ بنا چکی ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ لوگوں کو کسی کی تعریف ہی نہیں کرنی چاہیے۔ تعریف اور خوشامد الگ الگ چیزیں ہیں۔ حوصلہ افزائی اور خوشامد میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حوصلہ افزائی میں حق گوئی ہوتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ سننے والے میں خود اعتمادی اور اُمید پیدا کی جائے۔ اس کے بر عکس خوشامد کذب و ریا اور بہروپیا پن سے لتھڑی ہوتی ہے۔ اس میں خود غرضی کا یہ پہلو بھی شامل ہوتا ہے کہ مخاطب کو خوشامدی کے پوشیدہ مقصد کا شکار بنایا جائے۔ ربّ العزت ہمیں بنیادی اقدار عطا فرمائے تاکہ ہم معاشرے کے لیے خیر بن جائیں۔ ہم سے جو معاشرہ تعمیر ہو اس میں حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین پروان چڑھے۔

اجتماعی زندگی میں ایک درجہ ان خرابیوں کا ہے جن کے لیے موزوں ترین نام ’مزاج کی بے اعتدالی‘ ہے۔ نفسانیت کے مقابلے میں یہ ایک ’معصوم نوعیت‘ کی کمزوری ہے، کیونکہ اس میں کسی بدنیتی، کسی بُرے جذبے ، کسی ناپاک خواہش کا دخل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن خرابی پیدا کرنے کی قابلیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بسااوقات اس کے اثرات و نتائج اتنے ہی خراب ہوتے ہیں، جتنے نفسانیت کے اثرات و نتائج۔

مزاج کی بے اعتدالی کا فطری نتیجہ نظروفکر کی بے اعتدالی اور عمل و سعی کی بے اعتدالی ہے، اور یہ چیز زندگی کے حقائق سے براہِ راست متصادم ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بے شمار متضاد عناصر کی مصالحت اوربہت سے مختلف عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے۔ جس دُنیا میںا نسان رہتا ہے، اس کا بھی یہی حال ہے۔ انسانی افراد میں سے ہرایک فرداً فرداً بھی ایسا ہی بنایا گیا ہے، اور انسانوں کے ملنے سے جو اجتماعی ہیئت بنتی ہے، اس کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اس زندگی میں کام کرنے کے لیے فکرونظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے، جو مزاجِ کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔

حالات کے ہرپہلو پر نگاہ رکھی جائے، معاملات کے ہررُخ کو دیکھا جائے، ضرورت کے ہرگوشے کو اس کا حق دیا جائے، فطرت کے ہرتقاضے کو ملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو، مگر یہاں کامیابی کے لیے بہرحال اعتدال ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہوگا اتنا ہی مفید ہوگا، اور جس قدر وہ اس سے دُور ہوگا، اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہوکر نقصان کا موجب بنے گا۔ دُنیا میں آج تک جتنا بھی فساد رُونما ہوا ہے اور آج رُونما ہے، اسی وجہ سے ہے کہ غیرمتوازن دماغوں نے انسانی مسائل کو یک رُخے پن سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوششیں کیں، ان کو حل کرنے کے لیے غیرمتوازن اسکیمیں بنائیں، اور ان کو نافذ کرنے کے لیے غیرمعتدل طریقے اختیار کیے۔ یہی بگاڑ کا اصل سبب ہے، اور بنائو کا جو کچھ کام بھی ہوسکتا ہے فکرونظر کے توازن اور طریقِ عمل کے اعتدال ہی سے ہوسکتا ہے۔

یہ وصف خاص طور پر تعمیرواصلاح کی اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے، کیونکہ وہ بجائے خود توازن و اعتدال کے انتہائی کمال کا نمونہ ہے۔ اس کو کتابوں کے صفحات سے واقعات کی دُنیا میں منتقل کرنے کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ وہی کارفرما اور کارکن موزوں ہوسکتے ہیں، جن کی نظر اسلام کے نقشۂ تعمیر کی طرح متوازن اور جن کا مزاج اسلام کے مزاجِ اصلاح کی طرح معتدل ہو۔ افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے انتہا پسند لوگ اس کام کو بگاڑ تو سکتے ہیں، بنا نہیں سکتے۔

نتائج کے اعتبار سے بے اعتدالی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بالعموم ناکامی کی موجب ہوتی ہے۔ نظامِ زندگی میں اصلاح و تغیر کی کوئی اسکیم بھی لے کر آپ اُٹھیں، آپ کی کامیابی کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ خود اس کے برحق ہونے پرمطمئن ہوں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عام انسانوں کو اس کے صحیح، مفید اور قابلِ عمل ہونے پر مطمئن کردیں، اور اپنی تحریک کو اس شکل میں لائیں اور ایسے طریقے سے چلائیں، جس سے لوگوں کی اُمیدیں اور غایتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی چلی جائیں۔ یہ بات صرف اسی تحریک کو نصیب ہوسکتی ہے، جو نظروفکر میں بھی متوازن اور طریقِ عمل میں بھی متوازن ہو۔

ایک انتہاپسندانہ اسکیم جو انتہاپسندانہ طریقوں سے چلائی جائے، عام انسانوں میں اپنے لیے رغبت اور اُمید پیدا کرنے کے بجائے معترض اور غیرمطمئن بناتی ہے، اور اس کی یہ صفت خود ہی اس کی قوتِ تبلیغ اور قوتِ نفوذ کو ضائع کریتی ہے۔ اس کو بنانے اور چلانے کے لیے کچھ انتہاپسندلوگ اکٹھے ہوجائیں، تو سارے معاشرے کو اپنے جیسا انتہاپسند بنا لینا اور دُنیا بھر کی آنکھیں حقائق سے بند کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔خود اس جماعت کے لیے یہ چیز زہر کا حکم رکھتی ہے، جو اجتماعی اصلاح و تعمیر کا کوئی پروگرام لے کر اُٹھی ہو اور یہ آسان کام نہیں ہے۔

  • یک رُخا پن:مزاج کی بے اعتدالی کا اوّلین مظہر انسان کے ذہن کا یک رُخا پن ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہوکر آدمی بالعموم ہرچیز کا ایک رُخ دیکھتا ہے، دوسرے رُخ کو نہیں دیکھتا۔ ہرمعاملے میں ایک پہلو کا لحاظ کرتا ہے، دوسرے کسی پہلو کا لحاظ نہیں کرتا۔ ایک سمت جس میں اس کا ذہن ایک دفعہ چل پڑتا ہے، اسی کی طرف وہ بڑھتا چلا جاتا ہے، دوسری سمتوں کی جانب توجہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے معاملات کو سمجھنے میں مسلسل ایک خاص طرح کا عدم توازن کا ظہور ہوتا ہے۔ رائے قائم کرنے میں بھی وہ ایک ہی طرف جھکتا چلا جاتا ہے۔ جس چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے بس اسی کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے، دوسری ویسی ہی اہم چیزیں بلکہ اس سے بھی اہم چیزیں اس کے نزدیک غیروقیع ہوجاتی ہیں۔ جس چیز کو بُرا سمجھ لیتا ہے، اسی کے پیچھے پڑجاتا ہے، دوسری ویسی ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑی بُرائیاں اس کے نزدیک قابلِ توجہ نہیں ہوتیں۔ اصولیت اختیار کرتاہے تو جمود کی حد تک اصول پرستی میں شدت دکھانے لگتا ہے اور کام کے عملی تقاضوں کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ عملیت کی طرف جھکتا ہے تو بے اصولی کی حد تک عملی بن جاتا ہے، اور کامیابی کو مقصود بالذات بنا کر اس کے لیے ہرقسم کے ذرائع وسائل استعمال کر ڈالنا چاہتا ہے۔
  • انتہا پسندی:یہ کیفیت اگر اس حد پر نہ رُک جائے تو آگے بڑھ کر یہ سخت انتہاپسندی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر آدمی اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنے لگتا ہے۔ اختلاف رائے میں شدت برتنے لگتا ہے۔ دوسروں کے نقطۂ نظر کو انصاف کے ساتھ نہ دیکھتا ہے ، اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ ہرمخالف رائے کو بدتر سے بدتر معنی پہناکر ٹھکرانا اور ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ چیز روزبروز اسے دوسروں کے لیے اور دوسروں کو اس کے لیے ناقابلِ برداشت بناتی چلی جاتی ہے۔

اس مقام پر بھی بے اعتدالی رُک جائے تو خیریت ہے۔ لیکن اگر اسے خوبی سمجھ کر مزید پرورش کیا جائے، تو پھر معاملہ بدمزاجی اور چڑچڑے پن اور تیززبانی اور دوسروں کی نیتوں پر شک اور حملوں تک پہنچ جاتا ہے، جو کسی اجتماعی زندگی میں نبھنے والی چیز نہیں ہے۔

  • اجتماعی بـے اعتدالی:ایک آدمی یہ رَوش اختیار کرے تو زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوگا کہ وہ اکیلا جماعت سے کٹ جائے گا، اور اس مقصد کی خدمت سے محروم ہوجائے گا جس کی خاطر وہ جماعت سے وابستہ ہوا تھا۔ اس سے کوئی اجتماعی نقصان نہ ہوگا، مگر جب کسی اجتماعی ہیئت میں بہت سے غیرمتوازن ذہن اور غیرمعتدل مزاج جمع ہوجائیں، تو پھر ایک ایک قسم کا عدم توازن، ایک ایک ٹولی کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ایک انتہا کے جواب میں دوسری انتہا پیدا ہوتی ہے۔ اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے ہیں، پھوٹ پڑتی ہے، دھڑے بندی ہوتی ہے، اور اس کش مکش میں وہ کام خراب ہوکر رہتا ہے، جسے بنانے کے لیے بڑی نیک نیتی کے ساتھ کچھ لوگ جمع ہوئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو کام انفرادی کوششوں سے کرنے کے نہیں ہوتے، بلکہ جن کی نوعیت ہی اجتماعی ہوتی ہے، انھیں انجام دینے کے لیے بہرحال بہت سے لوگوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہرایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی بات سمجھنی ہوتی ہے۔ طبیعتوں کا اختلاف، قابلیتوں کا اختلاف، ذاتی خصوصیات کا اختلاف اپنی جگہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے، جس کے بغیر کوئی تعاون ممکن نہیں ہوتا۔ اس موافقت کے لیے کسرواِنکسار ناگزیر ہے اور یہ کسرواِنکسار صرف معتدل مزاج کے لوگوں ہی میں ہوسکتا ہے، جن کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبیعتیں بھی۔ متوازن اور غیرمتوازن لوگ جمع بھی ہوجائیں تو زیادہ دیر تک جمع رہ نہیں سکتے۔ ان کی جمعیت پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی ، اور جن ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر ایک ایک قسم کے عدم توازن کے مریض جمع ہوں گے،ان میں پھر تفرقہ رُونما ہوگا، یہاں تک کہ آخرکار ایک ایک امام، مقتدیوں کے بغیر ہی کھڑا نظر آئے گا۔

جن لوگوں کو اسلام کے لیے کام کرنا ہو اور جنھیں جمع کرنے والی چیز اسلامی اصول پر نظامِ زندگی کی اصلاح و تعمیر کرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو، انھیں اپنا محاسبہ کرکے اس بے اعتدالی کی ہرشکل سے خود بھی بچنا چاہیے، اور ان کی جماعت کو بھی یہ فکر ہونی چاہیے کہ اس کے دائرے میں یہ مرض نشوونما نہ پائے۔ اس باب میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی وہ ہدایات ان کے پیش نظررہنی چاہییں، جو انتہاپسندی اور شدت سے منع کرتی ہیں۔

قرآن جس چیز کو اہل کتاب کی بنیادی غلطی قرار دیتا ہے وہ غلو فِی الدِّیْن ہے، يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ (المائدہ ۵:۷۷)،اور اس سے بچنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

اِیَّاکُمْ  وَالْغُلُوَّ  فَاِنَّمَا ھَلَکَ  مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ  بِالْغُلُوِ فِی الدِّیْنِ (مسنداحمد، مسند عبداللہ بن عباسؓ،حدیث:۳۱۴۴)، خبردار! انتہاپسندی میں نہ پڑنا، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں انتہاپسندی اختیار کرکے ہی تباہ ہوئے ہیں۔

ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطاب میں تین بار فرمایا: ھَلَکَ الْمُتَنِطِّعُوْنَ ’’برباد ہوگئے شدت اختیار کرنے والے، مبالغے اور تعمق سے کام لینے والے‘‘۔ دعوتِ محمدیؐ کا امتیازی وصف اس کے لانے والے نے یہ بتایا ہے کہ بُعِثْتُ  بِالْحَنِیْفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ ، یعنی آپ پچھلی اُمتوں کے افراط و تفریط کے درمیان وہ حنیفیت لے کر آئے ہیں جس میں وسعت اور معاملاتِ زندگی کے ہرپہلو کی رعایت ہے۔ اس دعوت کے علَم برداروں کو جس طریقے پر کام کرنا چاہیے وہ اس کے داعی اوّلؐ نے یہ سکھایا ہے:

  • یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا  وَبَشِّـرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا (مسلم) سہولت دو، تنگ نہ کرو، بشارت دو، نفرت نہ دلائو۔
  • اِنَّمَا  بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ  وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِرِّیْنَ (بخاری) تم سہولت دینے کے لیے بھیجے گئے ہو، تنگ کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔
  • مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ بَیْنَ اَمْرَیْنِ قَـــطُّ  اِلَّا أَخَذَ  اَیْسَرَھُمَا  مَالَمْ  یَکُنْ  اِثْـمًا (بخاری و مسلم) کبھی ایسا نہیں ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دومعاملوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا موقع دیا گیا ہو اور آپؐ نے ان میں سے آسان ترین کو نہ اختیار کیا ہو، اِلا یہ کہ وہ گناہ ہو۔
  • اِنَّ اللہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ (بخاری و مسلم) اللہ نرم خو ہے۔ ہرمعاملے میں نرم رویے کو پسند کرتا ہے۔
  • مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحَرْمُ الْخَیْرَ (مسلم) جو نرم خوئی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے بالکل محروم ہوگیا۔
  • اِنَّ اللہَ رَفِیْقٌ یُـحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِیْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لَا یُعْطِی عَلٰی مَا سِوَاہُ (مسلم) اللہ نرم خُو ہے اور نرم خُو آدمی کو پسند کرتا ہے۔ وہ نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو شدت پر اور کسی دوسرے رویے پر عطا نہیں کرتا۔

ان جامع ہدایات کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ، اسلامی نظامِ زندگی کے لیے کام کرنے والے لوگ اگر قرآن و سنت سے اپنے مطلب کی چیزیں چھانٹنے کے بجائے اپنے مزاج اور نقطۂ نظر کو ان کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں ، تو ان کے اندر آپ سے آپ وہ توازن اور توسط و اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دُنیا کے حالات و معاملات کو قرآن و سنت کے دیے ہوئے نقشے پر درست کرنے کے لیے درکار ہے۔

  • تنگ دلی:مزاج کی بے اعتدالی سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری بھی انسان میں ہوتی ہے، جسے ’تنگ دلی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اسے قرآن میں ’شحِ نفس‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ فلاح اس شخص کے لیے ہے، جو اس سے بچ گیا: وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۶ (التغابن ۶۴:۱۶)، اور جسے قرآن تقویٰ اور احسان کے برعکس ایک غلط میلان قرار دیتا ہے: وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ۝۰ۭ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۱۲۸ ( النساء ۴:۱۲۸)۔ [نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہوجاتے ہیں، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آئو اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمھارے اس طرزِعمل سے بے خبر نہ ہوگا۔]

اس مرض میں جو شخص مبتلا ہو، وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجایش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے، اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہررعایت چاہتا ہے، مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں، اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرسکتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی رائے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الائونس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الائونس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کیے بغیر وہ ان سے انتہائی مطالبات کرتا ہے، جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی ہے تو آگے چل کر خوردہ گیری اور عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے، [مگر]  جوابی عیب چینی پر بلبلا اُٹھتا ہے۔

اسی ’تنگ دلی‘ کی ایک اور شکل ’زُود رنجی‘، ’نک چڑھاپن‘ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے، جو اجتماعی زندگی میں اس شخص کے لیے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو اور ان لوگوں کے لیے بھی مصیبت جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔

کسی جماعت کے اندر اس بیماری کا گھس آنا حقیقت میں ایک خطرے کی علامت ہے۔ اجتماعی جدوجہد بہرحال آپس کی اُلفت اور باہمی تعاون چاہتی ہے، جس کے بغیر چار آدمی مل کر بھی کام نہیں کرسکتے۔ مگر یہ تنگ دلی اس کے امکانات کو کم ہی نہیں، بسااوقات ختم کردیتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ تعلقات کی تلخی اور باہمی منافرت ہے۔ یہ دلوں کو پھاڑ دینے والی، اور ساتھیوں کو آپس میں اُلجھا دینے والی چیز ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوں، وہ عام معاشرتی زندگی کے لیے بھی موزوں نہیں ہوسکتے، کجا یہ کہ کسی مقصد ِ عظیم کی خدمت کے لیے موزوں قرار پاسکیں۔

خصوصیت کے ساتھ یہ صفت ان صفات کے بالکل ہی برعکس ہے، جو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔ جو تنگ دلی کے بجائے فراخ دلی، بخل کے بجائے فیاضی، گرفت کے بجائے عفو و درگزر، اور سخت گیری کے بجائے مراعات چاہتا ہے۔ اس کے لیے حلیم اور متحمل لوگ درکار ہیں۔ اس کا بیڑا وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو بڑا ظرف رکھتے ہیں، جن کی سختی اپنے لیے اور نرمی دوسروں کے لیے ہو، جو خود کم سے کم الائونس چاہیں، اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ الائونس دیں، جو اپنے عیوب اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں، جو تکلیف دینے کے بجائے تکلیف سہنے کے خوگر ہوں، اور چلتوں کو گرانے کے بجائے گرتوں کو تھامنے کا بل بوتا رکھتے ہوں۔

جو جماعت ایسے لوگ پر مشتمل ہوگی، وہ نہ صرف خود آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑی رہے گی، بلکہ اپنے گردوپیش کے معاشرے میں بھی بکھرے ہوئے اجزا کو سمیٹتی اور اپنے ساتھ جوڑتی چلی جائے گی۔ اس کے برعکس تنگ دل اور کم ظرف لوگوں کا مجمع خود بھی بکھرے گا، اور باہر بھی جس سے اس کو سابقہ پیش آئے گا، اسے نفرت دلا کر اپنے سے دُور بھگا دے گا۔ (تحریکِ اسلامی کی کامیابی کی شرائط)

نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا ایک سعادت اور عظیم منصب ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرامؑ کو عطا فرمایا ۔جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’خاتم النبیین‘ قرار دیا اور نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا، اور دین اسلام کو مکمل دین قرار دے دیا (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ)، اور دین اسلام کو اپنی بڑی نعمت بتایا اور یہ فرمادیا کہ یہ نعمت میں نے تم پر مکمل کر دی (وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ )،تو اس منصب پر نبی ؐ کی امت کو سرفراز فرمادیا۔اور اس عظیم خوبی کی وجہ سے انھیں سب سے بہتر امت قرار دیا: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہؐ کو دنیا میں اس مقصد کے لیے لائے ہیں کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔کیونکہ انسان بھول جاتا ہے ،اسی لیے اللہ رب العزت نے ہر زمانہ اور ہر قوم کے لیے نبی مبعوث فرمائے،جو انھیں بھولا ہوا سبق یاد دلاتے تھے،گمراہی سے بچنے اور راہِ ہدایت کی طرف راہنمائی کرتے تھے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔آپؐ کے وصال کے بعد یہ فرض آپؐ کی امت پر عائد کر دیا گیا۔ اسی لیے آپؐ کی اُمت کو’ خیر اُمت‘ قرار دیا گیا کیونکہ انسانیت کو سیدھی راہ پر بلانا ہی سب سے بڑی نیکی اور خیر ہے ۔امام رازیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

۱-امت مسلمہ کو بہترین امت اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں ہمیشہ سے کمر بستہ ہے (اللہ کے حقوق میں پہلا حق یہ ہے کہ وہ حاکم مطلق ہے ۔تکوینی احکام کے ساتھ ساتھ تشریعی احکام میں بھی اُسے حاکم مانا جائے۔ اس لیے کہ پوری کائنات کا خالق ،مالک ،رازق اور رب صرف وہی ذات وحدہُ لا شریک ہے)۔

۲- اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو اس لیے فضیلت دی ہے کیونکہ وہ اللہ کے احکام کو پوری انسانیت تک پہنچاتی ہے۔ ’معروف‘ اللہ کے حکم کا نام ہے ۔ اس لیے امت اجتماعی طور پر جس چیز کا حکم دے وہ معروف ہونے کی وجہ سے اللہ کا امر بن جائے گا ۔ اور امت مسلمہ کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔

۳- اہل ایمان منکر کو روکتے ہیں ،منکر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ۔اس صفت کی وجہ سے اِن افراد کی مرضی وہی ہوتی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔

حضرت درہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھتا ہے ،سب سےزیادہ پرہیزگار ہے ،اچھے کاموں کا حکم دیتا ہے، سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا ہے اور رشتہ ناتا ملانے والا ہے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل :۲۷۴۳۴)

اُمت مسلمہ کی فضیلت

حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جنت والوں کی ۱۲۰ صفیں ہوں گی ۔ان میں سے ۸۰  صفیں اُمت ِمحمدیہؐ کی ہوں گی اور چالیس صفیں دوسری امتوں کی ہوں گی‘‘۔ (سنن ابن ماجہ:۴۲۵۹)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: ہم آخری امت ہیں مگر ہمارا حساب پہلے ہوگا‘‘۔(سنن ابن ماجہ: ۴۲۹۰)

کتب احادیث میں امت محمدیہ ؐکی فضیلت کے اعتبار سے بہت سی احادیث مبارکہ ملتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کی فضیلت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے۔

دین اسلام ایک مکمل ،عالمگیر اور آخری دین ہے جسے قیامت تک برقرار رہنا ہے ۔ یہی دین تمام انسانیت کے لیے راہ نجات ہے ،لائحہ عمل ہے ،ضابطۂ حیات ہے ،کامیابی وکامرانی کا ذریعہ اور مسائل کا حل ہے۔

 اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ خدا کے حکم پر قائم رہے گا اور انھیں جھٹلانے والے اور مخالفت کرنے والے نقصان نہیں پہنچا پائیں گے‘‘۔(صحیح    مسلم : ۲۸۸۹)

اس سے مراد ہے کہ دشمن اسے ختم نہیں کر پائیں گے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ حق وباطل کا معرکہ ہمیشہ ہی جاری رہا۔باطل خواہ کتنا ہی طاقت ور رہا ،مگر وہ راہِ حق پر چلنے والوں کو ختم نہیں کرسکا۔ اُن کی منزل کھوٹی نہیں کر پایا ،ہر طرح کے آلام ومصائب میں یہ مومن بندے اپنا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد اس وسیع وعریض کرۂ ارض پر مجدد دین، اسلامی تحریکوں اور علمائے کرام کی محنتوں سے دین اسلام محفوظ ومامون ہے۔ہر دور میں اسلامی تحریکیں آگے بڑھتی رہی ہیں اور دین اسلام اپنی صحیح تعریف وتشریح کے ساتھ اگلی نسلوں تک منتقل کرتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: سنو آج رات انبیائے کرامؑ پنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے۔ بعض انبیاؑ کے ساتھ صرف تین اشخاص تھے۔بعض کے ساتھ مختصر گروہ ،بعض کے ساتھ ایک جماعت اور کسی کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔حضرت موسی ؑ آئے تو ان کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے۔مجھے یہ جماعت پسند آئی ۔

میں نے پوچھا یہ کون ہیں تو جواب ملا: یہ موسٰی ہیں اور اُن کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر میری اُمت کہاں ہے؟جواب ملا: اپنی داہنی طرف دیکھو ،دیکھا تو بہت بڑا مجمع تھا۔جس سے پہاڑیاں بھی ڈھک گئی تھیں۔مجھ سے پوچھا گیا کہ خوش ہو؟میں نے کہا: اے اللہ میں راضی ہوں‘‘۔( صحیح بخاری :۶۵۴۳)

جامع ترمذی کی حدیث (۴۶۷۹) اس کی تائید وتوثیق کرتی ہے ۔آپ ؐ نے فرمایا: ’’اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں سے ۸۰صفیں صرف اس امت کی ہوں گی‘‘۔

حضرت ابوہریرہؓ سے جو تفسیری احادیث ملتی ہیں اُ ن احادیث میں کنتم خیر امۃ کی تشر یح میں فرمایا گیا:’’تم اس لیے بہترین امت ہو کہ تم لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ کر لاتے ہو‘‘۔

جنّت میں داخلـے کی بشارت

ہر صاحب ِایمان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلا جائے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے عائشہؓ! جس کا حساب ہوا وہ مارا گیا‘‘۔

شہید کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا،کیونکہ جہاد کی غرض بھی اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے۔اسی مقصد کے لیے حضوؐر اور صحابہ کرامؓ نے جنگیں لڑیں اور اپنی جانیں قربان کیں۔قرآن پاک میں شہداء کے لیے حکم ہے کہ انھیں مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں،مگر تم اس بات کا شعور نہیں رکھتے۔جہاد کی فضیلت بھی اسی لیے ہے کہ اس کے نتیجے میں افراد اور اقوام کا بنایا ہوا نظام زندگی ختم کر کے اللہ کا بھیجا ہوا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ہم مسلم اکثریت کے حامل ملک کے شہری ہیں۔یہاں پر قرآن کے احکامات کو جاری و ساری کرنے کے لیے، اپنی قوم کو بھولا ہوا سبق یاد کروانے،قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے،اپنی زندگیوں کو خدا کے قانون کے مطابق ڈھالنے،بندگیٔ ربّ پر اُبھارنے، منافقت سے دُور رہنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے، تاکہ زندگی کی گاڑی ٹھیک ٹھیک اللہ کے راستے پر چل سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کی گئی ہر طرح کی کوشش جہاد فی سبیل اللہ کے ذیل میں آتی ہے۔ داعی الیٰ اللہ بھی راہِ حق کا وہ مجاہد ہے جس کے لیے نبیؐ کی بشارت ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّـمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ  وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳ ( حم السجدہ ۴۱:۳۳) ’’اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے وہ خدا کی زمین میں خدا کا نائب ہے ، خدا کے رسول ؐ کا نائب ہے اور خدا کی کتاب کا نائب ہے ‘‘۔گویا کہ اُمت محمدیہؐ کو جو فضیلت حاصل ہے وہ اِ س بنیاد پر حاصل ہے کہ وہ دعوت اور تربیت کا فریضہ انجام دیتی ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق اس اُمت کا مقصد بھی یہی ہے۔

معروف و منکر ایک دعوتی و تربیتی فریضہ

امر بالمعروف ونہی عن المنکر دراصل دو کاموں کا مجموعہ ہے:دعوت و تبلیغ اور تنظیم وتربیت۔ یہ دونوں کام ایک فطری ترتیب کے ساتھ انجام پاتے ہیں ۔پہلے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جاتا ہے ۔اس کے بعد اُن افراد کی تنظیم اور تربیت کی جاتی ہے جو اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں ۔اسی تنظیم وتربیت پر دعوت کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے ۔اگر تنظیم مضبوط اور تربیت صحیح ہے تو دعوت کامیاب ہوگی ورنہ اس کی ناکامی یقینی ہے۔اس لیے دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت کے درمیان بہت ہی گہرا اور قریبی ربط ہے۔امت مسلمہ کو دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت دونوں ہی کام کرنے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض اپنے دائرے کے باہر بھی انجام دینا ہے اور اندر بھی ،جو کام اپنے دائرے سے باہر کریں گے وہ دعوت وتبلیغ ہے اور جو اپنے دائرے کے اندر انجام دیں گے وہ تنظیم وتربیت ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۝۱۹۹(اعراف ۷:۱۹۹)، اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جائو، اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔

آپ ؐ نے یہود ونصاریٰ ،مشرکین اور منافقین سب کو دین کی دعوت دی،اخلاقِ حسنہ کی نصیحت کی،آداب زندگی کی تلقین کی ۔وہ سب امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں شامل ہے۔ اس وقت اگر ہم اپنی قوم کی حالت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح وتربیت کی بھی ضرورت ہے اور اُس کے ساتھ ساتھ کچھ عقائد کی اصلاح بھی مطلوب ہے۔ لہٰذا دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت کا فریضہ انجام دینا اور تسلسل کے ساتھ اسے جاری رکھنا ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔ اس کی انجام دہی ہماری نجات اور فلاح کی ضامن ہے۔(جلال الدین عمری، معروف و منکر)

فریضۂ معروف و منکر اور علمی خدمات

دعوتِ دین بالکل سادہ کام نہیں ہے،بلکہ اس میں جہاں وعظ ونصیحت اور تذکیر وتلقین کی ضرورت پڑتی ہے وہاں دین کو دلائل سے ثابت کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے ۔یہ علمی اور استدلالی خدمت بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ایک اہم پہلو ہے ۔امام رازی ؒ لکھتے ہیں: ’’معروف کا حکم دو ،یعنی دینِ حق کی وضاحت اور اس کے دلائل کے اثبات کے ذریعے‘‘۔

ابن عربی مالکی کہتے ہیں کہ دین کو علمی رنگ میں پیش کرنا اور اسے دلائل سے ثابت کرنا امربالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ یہ بات بھی امر بالمعروف ونہی المنکر میں شامل ہے کہ مخالفین پر حجت قائم کرکے دین کی مدد کی جائے۔

ہم اس وقت فریب اور دھوکا دہی پر مبنی دورِ دجل میں جی رہے ہیں۔ہر طرف سے اسلام پر حملے ہو رہے ہیں۔عورت کی حیثیت ،عورت کا مقام اور اس کا دائرہ موضوع بحث ہے۔ تاریخ اسلام اور مسلمان حکمرانوں کے کارہائے نمایاں پر حرفِ تنقید ہے۔حضورؐ کی ذاتِ مبارکہ بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں۔ علم حدیث اور سنت متواتر ہ تک پر حملے ہو رہے ہیں۔اس لیے دینِ  اسلام کے پورے نظام کا دفاع بہت ضروری ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں دعوت دین کی پوری جدوجہد شامل ہے۔اس کا فطری اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جائے۔ اس بات کو دلائل سے ثابت کیا جائے کہ اللہ کا دین ہی حق ہے ۔اسی میں ہماری نجات ہے۔ اس دین کو فروغ دینے،اسے پھیلانے اور اس کا نظام نافذ کرنے کی جدو جہد وقت کا تقاضا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی،اس کے لیے بھی اتنا ہی ثواب ہےجتنا اس پر عمل پیرا ہونے والوں کا ہے‘‘ ۔(صحیح    مسلم:۱۸۶۰ )

مزید ارشاد فرمایا:’’اللہ کی قسم! اگر اللہ تیرے ذریعے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت بخش دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘۔(صحیح       بخاری: ۱۱۹۳)

الغرض امت مسلمہ کو دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد حاکمیت الٰہیہ کا قیام ہے ۔اس مقصد کے حصول کے لیے جان و مال سے جہاد کرنا ہو، قرآن پاک کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے دروس قرآن اور دروس حدیث کا سلسلہ ہو،اسلامی لٹریچر کا مطالعہ ،دین کی دعوت دینے کے لیے ملاقات ہو یا اجتماع عام، یا انسانی زندگیوں کو اخلاق و معاملات کےدائرے میں لانے کے لیے تربیت گاہوں کا انعقاد___ یہ سب کوششیں جہاد فی سبیل اللہ کے ذیل میں آتی ہیں۔

نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مستحق ہیں وہ سب داعیانِ دین جنھوں نے اپنی زندگیاں اس راہ میں لگا دیں۔

خطبۂ جمعہ کو اس قدر غور سے سننے کی تلقین کی گئی ہے کہ ’’کہا گیا ہے کہ اگر کوئی دوران خطبہ شور کرے تو اس کو یہ کہنا کہ ' چپ ہوجاؤ بھی مناسب نہیں‘‘۔ ظاہر ہے خطبۂ جمعہ کی کافی اہمیت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے خطبۂ جمعہ کو وہ مرکزی اہمیت نہیں دی۔ ایک متفق علیہ حدیث ہے؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو کہ’خاموش ہو جاؤ‘ تو (ایسا کہہ کر) تم نے خود ایک لغو حرکت کی‘‘۔فرشتے اس شخص کا نام اپنے رجسٹر میں نہیں لکھتے ہیں جو خطبۂ جمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد آئے۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہردروازے پرفرشتے کھڑے ہوکر پہلے آنے والے کو پہلے لکھتے ہیں۔ سب سے پہلے آنے والا شخص اس کی طرح ہے جس نے اونٹ قربان کیا ہو، اس کے بعد اس کی طرح جس نے گائے قربان کی، اور اس کے بعد جس نے مینڈھا قربان کیا، پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح جس نے مرغی قربان کی ہو۔ پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح ہے جس نے انڈا صدقہ کیا ہو،اور جب امام نکلے اور منبر پرپہنچ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپیٹ کر ذکر سننے آجاتے ہیں‘‘۔ (مسلم،۸۵۰)

جس قوم کے پاس خطبۂ جمعہ جیسا مؤثر (vibrant ) نظام ہو، اس کی بنیادی اقدار بہترین ہونی چاہئیں۔ وہ بہت زیادہ update ہونے چاہئیں۔ آج کے دور میں میڈیا کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے پاس میڈیا نہیں ہے، لیکن خطبۂ جمعہ متبادل میڈیاکا کام دے سکتا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی جن ذرائع سے تربیت کرتے ان میں خطبۂ جمعہ کا کلیدی مقام تھا۔ جب اسلام عرب سے باہر پھیل گیا تو خطبۂ جمعہ کو مؤثر بنانے کے لیے علما نے یہ طریقہ اپنایا کہ دو خطبوں سے پہلے مقامی زبان میں تقریر ہوتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اکثریت یہ تقریر نہیں سنتی اور خطبۂ جمعہ ہونے سے چند منٹ پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح اس تقریر کی افادیت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ لوگ تیسرے خطبہ کو خطبۂ جمعہ میں شامل نہیں سمجھتے، تاہم خطبۂ جمعہ کی اہمیت ان کے نزدیک برقرار ہے اور وہ خطبہ کی اذان شروع ہونے سے ٹھیک پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ بہت سی جگہوں پر پہلا خطبہ مقامی زبان میں دیا جاتا ہے،جس سے لوگوں کی رہنمائی بھی ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں  ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں: ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک غیر عربی زبان میں بھی خطبہ دیا جاسکتا ہے۔ ان کے دونوں شاگردوں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ (صاحبین) کے نزدیک جو شخص عربی زبان پر قادر ہو، اسے عربی میں خطبہ دینا چاہیے۔ جو قادر نہ ہو اسے غیرعربی میں بھی خطبہ دینے کی اجازت ہے‘‘۔

عموماً فقہائے احناف کا فتویٰ اور عمل صاحبین کے مسلک پر ہے۔ بعض فقہا نے غیرعربی زبان میں بھی خطبہ دینے کی اجازت دی ہے۔ مثلاً علامہ عبدالحئی فرنگی محلیؒ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے (مجموعۃ الافتاوٰی،فصل:۲۵)۔ مولانا محمدعلی مونگیریؒ بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء ،لکھنؤ نے بھی اس موضوع پر ایک مفصل رسالہ لکھا ہے، جس کا نام القول المحکم فی خطابۃ العجم ہے۔

  موجودہ دور میں اس چیز کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ خطبۂ جمعہ  کو عوام کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس بنا پر بعض علما کہتے ہیں کہ جمعے کے دونوں خطبے تو عربی زبان ہی میں دیئے جائیں، البتہ خطبے سے قبل عوام کی زبان میں ان کے سامنے تقریر کی جائے، جس میں انھیں دین کی باتیں بتائی جائیں۔ اس طریقے کو اختیار کرنے سے عملاً جمعے کے تین خطبے ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کو اختیار کرکے خطبۂ اولیٰ کو اُردو میں دینا چاہیے۔

اس موقعے پر اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے پانچویں سیمی نار منعقدہ ۸ تا۱۶؍ربیع الثانی ۱۴۰۲ھ میں منظور شدہ ایک فیصلے کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے : ’’معتدل رائے یہ ہے کہ غیرعرب علاقوں میں جمعہ و عیدین کے خطبے کے صحیح ہونے کے لیے عربی زبان کی شرط نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ خطبے کے ابتدائی کلمات اور قرآنی آیات عربی زبان میں پڑھی جائیں، تاکہ غیرعرب بھی عربی اور قرآن سننے کی عادت ڈالیں اور عربی میں قرآن سیکھنا ان کے لیے آسان ہو۔ پھر خطیب علاقائی زبان میں انھیں نصیحت و تذکیر کرے‘‘۔ (مکہ فقہ اکیڈمی کے فقہی فیصلے، ایفا پبلی کیشنز، نئی دہلی، طبع دوم، ۲۰۰۶ء، ص۱۰۷ )

نمازِ جمعہ اور جمعہ کے خطبے اسلام کے عظیم شعائر میں سے ہیں، جن کا مقصد لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمعہ کا اہتمام ہو، ہر بستی میں ایک ہی وقت خطبۂ جمعہ ہو۔ سب دوکانیں، کاروباری ادارے اور دفاتر اس وقت بند ہوجائیں اور پوری بستی کو یہ محسوس ہو کہ آج جمعہ ہے۔ اس کے بعد امام صاحب پہلا خطبہ مقامی زبان میں دیں اور دوسرا خطبہ عربی زبان میں دیں، اس طرح شعائر اسلام کی تعظیم ہو سکتی ہے۔ ورنہ یہ ہوتا ہے کہ آدھے لوگ اس مسجد میں جاتے ہیں جہاں ابتدائی وقت میں خطبۂ جمعہ ہوتا ہے اور آدھے لوگ وہاں جاتے ہیں جہاں آخری وقت خطبۂ جمعہ ہوتا ہے، اس طرح جمعہ کا اہتمام کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ اب تو زیادہ تر مساجد اس وجہ سے ابتدائی وقت میں خطبۂ جمعہ رکھتے ہیں تاکہ وہاں زیادہ سے زیادہ لوگ نماز کے لیے آئیں اور مسجد کے لیے امداد بھی فراہم ہوسکے۔ نمازِ جمعہ کا اہتمام نظر آنا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۹(الجمعة۶۲:۹)مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔

 ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:’’اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت حرام ہے‘‘۔ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ کار یہ تھا کہ آپ دیگر ایام کے مقابلے میں مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن‘‘۔(زاد المعاد ، ۱/۳۷۵)

اب،جب کہ یہ بات واضح ہے کہ خطبات جمعہ کی اتنی زیادہ اہمیت ہے تو پھر خطیب مسجد کی ذمہ داری بھی اسی حساب سے بڑھ جاتی ہے، تاکہ اس ہفتہ وار پروگرام سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ بہتر یہ ہوتا کہ علاقے میں اہلِ علم کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ہر جمعہ کو یہ طے کریں کہ اگلے جمعہ کو ہر مسجد میں کس موضوع پر خطبہ ہو؟ بہتر ہوتا کہ اہلِ علم ہر ہفتے ائمہ حضرات کو خطبۂ جمعہ کے لیے مواد بھی فراہم کرتے۔ خطبۂ جمعہ مختصر مگر جامع ہو۔ بدقسمتی سے خطیب صاحب ایسے بے سروپا قصوں، کہانیوں اور مبالغہ آمیز حکایات کا سہارا لیتے ہیں کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی الجھن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، بلکہ ایسی کہانیوں کے باعث خطبا سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خطبۂ جمعہ کو اب اکثر مقامات پر صرف ایک تبرک کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی طرح خطبہ میں دوسرے مسالک اور جماعتوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے جس سے تفرقہ بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب امت مسلمہ رسوم ورواج میں پھنسی ہوئی ہے، ضرورت ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کی جائے۔ جب رزقِ حلال کے حوالے سے بیداری کی کمی ہو تو ضرورت ہے رزق حلال پر زور دیا جائے۔ رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، اور ناپ تول پر کمی پر خطبہ دیا جائے تاکہ لوگ ان رذائل سے محفوظ رہیں۔ اسلام نے معاشرتی مسائل پر کھل کر اور تفصیل سے بات کی ہے۔ ضرورت ہے کہ معاشرتی مسائل پر بات چیت کی جائے۔ بغض، حسد، کینہ، غیبت وغیرہ کو بھی خطبۂ جمعہ کا موضوع بنایا جائے۔ سب سے بہتر ہے کہ قرآن کریم کا درس سورۂ فاتحہ سے شروع کیا جائے ہر ہفتہ ایک یا دو آیات کا ترجمہ اور تفسیر بیان کی جائے۔ خطبۂ جمعہ میں مقررین کو بہترین اسلوب میں اپنی بات رکھنی چاہیے۔

 حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے مروی ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبۂ ارشاد فرماتے تھے، تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آواز بلند ہوجاتی تھی، اور آپ کا غصہ شدید ہوجاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو آگاہ فرمارہے ہیں ‘‘۔ (مسلم)

 آج کل ہمارے گردوپیش میں جہاں مرد حضرات جمعہ پڑھنے کے لیے مساجد کا رُخ کرتے ہیں وہیں خواتین نمازِ جمعہ سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لازم ہے کہ جہاں جہاں کوئی نئی مسجد تعمیر ہو رہی ہو وہاں خواتین کے لیے الگ سے جگہ رکھی جائے۔ اگر خواتین بھی خطبۂ جمعہ پابندی سے سنیں گی تو اس کے معاشرے پر بہترین مثبت اثرات پڑیں گے۔

گھر سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہوں، والدین، بیوی بچے، بھائی بہن سب جھلس رہے ہوں اور کوئی شخص دور محلے کے کسی گھر میں لگی آگ بجھانے میںمشغول ہو،تو آپ اسے کیا کہیںگے؟ بیوقوفی؟ پاگل پن؟ جہالت؟ اب صورت حال ذرا بدل کر غور کرتے ہیں۔ گھر سے آگ کی لپٹیں اُٹھ رہی ہوں، گھر والے جھلس رہے ہوں اور کوئی شخص ملک بھر کے دورے کرکے آگ بجھانے کی ترکیبوں پر تقریریں کرتا پھرے، تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ کاہلی؟ بزدلی؟ یا ذمہ داری سے فرار؟ یہ حرکت کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ کیوں نہ انجام دی جائے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص تہجد پڑھنے کے لیے فجر قضا کرنے کو اپنا معمول بنالے۔ یقینا ایسے شخص کو یہی مشورہ دیاجاسکتا ہے کہ ہوسکے تو وہ تہجد اور فجر دونوں کو نبھالے یا پھر تہجد ترک کردے۔

اسلام دینِ فطرت ہے جس میں کوئی ایچ پیچ نہیں ہے اور اس کی حکمتیں بے شمار ہیں۔ وحی الٰہی کی نگرانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں ہمیں جو تدریج نظرآتی ہے، وہ بھی حکمتوں سے لبریز ہے۔ ختمِ نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد آپؐ نے سب سے پہلے اپنے قریب ترین لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ پھر خاندان اور قبیلے والوں تک دین کا پیغام پہنچایا اور پھر اہل مکہ کو عمومی دعوت دی۔ اس کے بعد مختلف قبائل تک اسلام کا پیغام پہنچایا، طائف کا سفر کیا اور مدینہ میں اسلام کا پودا لگایا۔ ہجرت کے بعد دعوت کاپیغام جزیرۂ عرب کے کونے کونے تک پہنچانے کااہتمام کیا،  جس کے لیے متعدد دعوتی وفود بھیجے گئے۔ بالآخر دعوتی خطوط کے ذریعے عالم گیر پیمانے پروقت کی عظیم سلطنتوں کو اسلام کے سایۂ عاطفت میں آجانے کی تلقین کی گئی۔

بعض لوگوں کاخیال ہے کہ آپؐ نے کسی اسلامی ریاست کے قیام یا اسلامی نظام کی اقامت کے لیے شعوری کوشش نہیں کی تھی بلکہ اقتدار بطورِ انعام خود بخود ’نازل‘ ہوگیاتھا۔ بالکل اسی طرح بعض لوگ مندرجہ بالا تدریج کو بھی محض اتفاقی امر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس کی حکمتوں پرغور کرنا انتہائی آسان ہے۔ مثال کے طورپر دعوت کی اس نبویؐ ترتیب کو اُلٹ دیاجائے اور دعوت کی ابتدا مختلف بادشاہوں کو خطوط بھیجنے سے ہوتو اس کے غیرمنطقی ہونے پر شاید کسی کو تعجب نہ ہو۔ لیکن پتے کی بات تو یہ ہے کہ اگر ایک مرحلے سے پہلے دوسرا مرحلہ آجائے تو یہ بھی کچھ کم نقصان دہ نہیں۔ مثال کے طورپر قریب ترین اور ہمراز لوگوں کو پیغام دینے سے پہلے اگر خاندان اور قبیلے والوں کو دعوت دی جاتی یا خاندان اور قبیلے والوں سے قبل سارے شہر مکہ کو، تو کیا ہوتا؟پہلی صورت میں داعی اعظم ؐ اس اخلاقی تعاون سے محروم ہوجاتے جو حضرت خدیجہؓ،حضرت ابوبکرؓ، حضرت زیدؓاور حضرت علیؓ کی صورت میں آپؐ کو ملا۔ پھر دنیا بھر کی مخالفتوں پر آپؐ کے زخمی دل پر کون مرہم رکھتا؟ بھری محفل میں انتہائی دلگداز انداز میں یہ پوچھنے پر کہ ’کون میرا ساتھ دے گا؟‘ آخر کون اٹھتاکہ ’اللہ کے رسولؐ میں آپ کاساتھ دوںگا‘۔

اسی طرح سامنے کی بات ہے، رشتے داروں میں بھی عام طورپر شادی کا پیغام نہ پہنچنے پر باوجود جاننے کے لوگ شریک نہیں ہوتے کہ بھئی ہمیں تو دعوت نہیں دی گئی۔ خاندان کے معاملے میں دین کا قصہ یہی ہے۔ جب مکہ بھر میں اسلام کاآواز ہ گونج اُٹھتا اور بیرونی ذرائع سے ﴿نہ کہ آپؐ کے ذریعے آپؐ کے خاندان کو اس کی خبر لگتی، تو خاندان بھر کو شکایت ہوتی کہ ہم یہ کیسی اجنبی صدا سن رہے ہیں، آپؐ نے ہمیں تو اس کے بارے میں کبھی بتایا نہیں، اور نہ ہمیں اعتماد میں لیا؟

آپؐ کے اسوے پر چل کر دنیا میں شہادتِ حق کا فریضہ انجام دینے والوں اوراقامتِ دین کی راہ پر چلنے والوں کے لیے تو اس اسوے پر چلنا ناگزیرہے۔ جملۂ معترضہ کے طورپر یہ عرض ہے کہ مراحل کی اس تقسیم میںتسلسل پایا جاتاہے اورقرآن میں ایک نہیں متعدد مقامات پر اہلِ ایمان کو اپنے خاندان کی اصلاح کی طرف متوجہ کیاگیا ہے اور کہیں کہیں اندازِ بیان اتنا خوف ناک ہے کہ دل دہل جاتاہے: ’’اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈراؤ‘‘۔(الشعراء۲۶:۲۱۴﴾)

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو جمع کرکے خطاب فرمایا: ’’اے بنی عبدالمطلب! اے عباس، اے صفیہ ﴿آپؐ کی پھوپھی ﴾ اور اے فاطمہؑ بنت محمدؐ! تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرلو، میںخدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچاسکتا۔ البتہ میرے مال میں سے تم جو چاہو مانگ سکتے ہو‘‘۔ پھر کوہ صفاپر، یاصباہ حاہ  کی صدا بلند فرمائی اور قریش کے ہر قبیلے کو نام بنام آواز دی۔ جب سب جمع ہوگئے تو دریافت کیاکہ ’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو کیا تم یقین کروگے؟‘‘ لوگوں نے یک زبان ہوکر کہاکہ ’’ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے پایا ہے‘‘۔ ان سے یہ اقرار کرالینے کے بعد آپؐ نے کہا: ’’اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو۔ میں خدا کے مقابلے میں تمھارے کسی کام نہیں آسکتا۔ قیامت میں میرے رشتے دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہوکہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکاروگے:’’یا محمدؐ! مگر میں مجبور ہوںگا کہ تمھاری طرف سے منہ پھیرلوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمھارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمھارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروںگا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اپنے اہل وعیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔( طہٰ۲۰:۱۳۲﴾)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔(التحریم۶۶: ۶)

مولانا مودودیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظامِ فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے، اس کو بھی وہ اپنی حدِاستطاعت تک ایسی تعلیم وتربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جارہے ہوں تو جہاں تک اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اُس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوش حال ہوں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کاایندھن نہ بنیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۶،ص ۲۹-۳۰)

 نعیم صدیقی لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم کے طالب علم کی توجہ اس امر پر بھی جانی چاہیے کہ یہ سورۂ تحریم کی آیت تھی، جس کے شروع میں ازواجِ مطہراتؓ کی طرف سے ایک طرح کی محاذ آرائی کرکے دباؤ ڈالنے کی کوشش کا ذکر ہے۔اسی واقعے کو پس منظر میں رکھ کر مسلم سوسائٹی کو خصوصی توجہ دلائی گئی کہ اگرتم اپنے گھروں کی فضا کو دین کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ نہ کرلوگے تو تمھارے نظامِ معاشرت میں خلل آجائے گا اور تمھارے گھروں میں ہی مخالفانہ محاذ قائم ہوجائیں گے، جو تمھاری قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے تمھیں دشمنوں اور شریروں کی سرکوبی کے قابل نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں۔(الانفال ۸:۲۸﴾)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، اُن سے ہوشیار رہو… تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں۔(التغابن۶۴:۱۴-۱۵﴾)

ان آیات کی تفسیر میںمولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

ہوتایہ ہے کہ شوہر اگر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اُسے ایسی ملتی ہے جو اس کی دیانت و امانت اور راست بازی کو اپنے حق میں بدقسمتی سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ اُن کی خاطر جہنم مول لے اور ان کے لیے حرام و حلال کی تمیز چھوڑکر ہرطریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے۔ اور اس کے برعکس بسااوقات ایک نیک مومن عورت کو ایسے شوہر سے سابقہ پیش آتاہے، جسے اس کی پابندیٔ شریعت ایک آنکھ نہیں بھاتی، اور اولاد بھی باپ کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی گمراہی اور بدکرداری سے ماں کی زندگی اجیرن کردیتی ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جب کفرو دین کی کش مکش میں ایک انسان کے ایمان کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر نقصانات برداشت کرے، طرح طرح کے خطرات مول لے، ملک چھوڑکر ہجرت کرجائے، یا جہادمیں جاکر اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دے، تو سب سے بڑھ کر اس کی راہ میں اس کے اہل وعیال ہی رکاوٹ بنتے ہیں۔(تفہیم القرآن، ج۵، ص۵۴۴)

انبیاؑ نے اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داری کو واقعی آزمائش سمجھاتھا اور ان کی اصلاح وتربیت سے ہرگز غافل نہیں تھے۔ احساسِ ذمہ داری اور احساسِ جواب دہی کی حد یہ تھی کہ بسترِ مرگ پر بھی بے چین تھے۔ ارشاد خداوندی ہے:

جب یعقوبؑ کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بچوں سے پوچھا:بچّو! میرے بعد تم کس کی بندگی کروگے؟(البقرہ۲:۱۳۲﴾)

قرآن کریم میں اپنے بچوں کے لیے حضرت ابراہیمؑ کی یہ وصیت بھی محفوظ ہے:

میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔(البقرہ۲:۱۳۱﴾)

 اورلقمان حکیم کی یہ نصیحت بھی :

بیٹا! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا… وہ باریک بین اورباخبر ہے۔ بیٹا! نماز قائم کر، نیکی کاحکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر… اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑکرچل… اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ۔(لقمان۳۱:۱۳-۱۹﴾)

خاندان میں دعوت کاکام واقعی کوئی کھیل نہیں، طرح طرح کی رکاوٹوں کاسامنا ہوسکتاہے۔ انسان کو تعلقات کے بگاڑ اور طعنوں کااندیشہ ہوتاہے۔ پہلی بار جھجک محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ذمہ داری سے فرار ممکن نہیں۔ مولانا سیّد جلال الدین عمری کہتے ہیں:

روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جب آیت وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ  (الشعراء ۲۶:۲۱۴) نازل ہوئی تو آپؐ نے محسوس کیاکہ بڑی مشکل ذمہ داری آپؐ پر آن پڑی ہے۔ خاندان کی طرف سے اور قریب ترین افراد کی طرف سے اس کی مخالفت ہوسکتی ہے، لیکن اللہ کے فرشتے جبرئیلؑ نے کہاکہ آپ کو اس حکم پر لازماً عمل کرنا ہوگا، ورنہ اللہ کے ہاں بازپُرس ہوگی۔ اس حکم کے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر قبیلے کی مختلف شاخوں میں سے ایک ایک کا نام لے کر انھیں جمع کرکے دعوتِ دین پیش کی۔

  • اہلِ خانہ کی تربیت کے عملی تقاضے: اب تک جو باتیں کہی گئیں، ان کی روشنی میں اگر ہم اپناجائزہ لیں تو بہت کچھ کمیوں کا احساس ہوتاہے، جنھیں نظرانداز کرنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ایک واقعہ درج کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے: ایک شناسا اور تحریک اسلامی کے سرگرم کارکن سے سرِراہ ملاقات ہوگئی۔ کچھ گفتگو کے بعد میں نے ان سے عرض کیا: ہماری طلبہ تنظیم کا ایک تزکیہ کیمپ ہونے والا ہے، اس میں وہ اپنے بیٹے کو ضرور بھیجیں۔  یہ سنتے ہی انھوںنے ہاتھ کھڑے کرلیے: ’آپ خود کیوں نہیں کہتے؟‘ میں نے کہاتھا ’لیکن مجھے یقین ہے کہ ہر بار کی طرح صرف میرے کہنے پر وہ نہیں آئے گا، آپ اس کے ابّا ہیں، آپ کہیںگے تو وہ نہیں ٹالے گا‘۔ جواب میں فرمانے لگے: ’بھئی میں اس قسم کی باتیںاس سے نہیں کرتا،ایک نہ ایک دن اسے سمجھ آہی جائے گی۔ ویسے بھی دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی تو ہے نہیں، لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ۔ میں نے عرض کیا: ’زبردستی کرنے کو کب کہہ رہاہوں؟ صرف  یہ کہہ رہاہوں کہ آپ صرف ایک بار اچھی طرح کہہ کر دیکھیں‘۔ مگر اُن صاحب نے بات ٹال دی۔ لیکن اصرار پر انھوں نے بیٹے سے کہہ ہی دیا۔ نتیجہ یہ کہ بیٹے نے ﴿اپنے والد کے کہنے پر اس تزکیہ کیمپ میں شرکت کی اور اس کے بعد سے پابندی سے ہماری سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا۔

اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ  کے ضمن میں مولانا مودودیؒ کا یہ تفسیری نوٹ بھی ملاحظہ فرمایئے: ’’معاملہ صرف اس حد تک نہیںتھاکہ قرآن میں اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ   کا حکم آیا اور حضوؐر نے اپنے رشتے داروں کو جمع کرکے بس اس کی تعمیل کردی۔ دراصل اس میں جواصول واضح کیاگیاتھا وہ یہ تھاکہ دین میں نبی اور اس کے خاندان کے لیے کوئی امتیازی مراعات نہیں ہیں جن سے دوسرے محروم ہوں۔ جو چیز زہرِ قاتل ہے وہ سب ہی کے لیے قاتل ہے۔ نبی کا کام یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سے خود بچے اور اپنے قریبی لوگوں کو اس سے ڈرائے، پھر ہر خاص و عام کو متنبہ کردے کہ جو بھی اسے کھائے گا، ہلاک ہوجائے گا۔ اور جو چیز نافع ہے وہ سب ہی کے لیے نافع ہے، نبی کا منصب یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے خود اختیار کرے اور اپنے عزیزوں کو اس کی تلقین کرے،تاکہ ہر شخص دیکھ لے کہ یہ وعظ و نصیحت دوسروں ہی کے لیے نہیں ہے،بلکہ نبی اپنی دعوت میں مخلص ہے‘‘۔( تفہیم القرآن، ج۳،ص ۵۴۳)

ذہن نشین کرلینے کی بات یہ ہے کہ بچہ آرٹس لینا چاہتاہے اور والدین دھونس جماکر اسے سائنس دلادیتے ہیں اور اسے زبردستی نہیں سمجھتے حالانکہ یہ زبردستی ہے۔ وہ اپنا بزنس کرنا چاہتاہے اسے ایم بی بی ایس میں گھسادیتے ہیں حالانکہ یہ بھی زبردستی ہے۔ لیکن جب وہ تنظیم کے ہفتہ وار پروگرام میں نہیں آتا، دینی مطالعہ نہیں کرتا، نمازوں سے غفلت برتتا ہے تو اس پر ٹوکنے کے بجائے، جھٹ سے لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی چٹان کے پیچھے جاچھپتے ہیں۔ حالانکہ یہ زبردستی نہیں ان کا فریضہ ہے۔

ایک مسلمان اگر اسلام کے وسیع تصور کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلامی تحریک سے کسی بھی سطح پرقریب آتاہے، تو اس سے بجاطورپر یہ توقع ہوتی ہے کہ جس طرح وہ اپنے محلے،شہر اور ملک کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لیے سعی و جہد کررہاہے، اس عمل میں وہ خاندان سے غفلت نہ برتے بلکہ اس پر خاص توجہ دے کہ اس جدوجہد میں اس کا خاندان اس کا دست و بازو ہو، اس کے پاؤں کی زنجیر نہ بنے۔ ایک مومن کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خدا نہ کرے کل کو اس کے اپنے ہی قدم صراطِ مستقیم سے بھٹکتے ہیں تو کم از کم بیوی بچّے ایسے ہوں کہ اس گمراہی کا خیرمقدم کرنے کے بجائے، ہاتھ پکڑکر دوبارہ صحیح راستے پر لے آئیں۔ اگر ایسے پچاس ہزار مثالی خاندان ملک میں موجود ہوں کہ ایمان کی پختگی، عمل کی بلندی اور دینی غیرت میں فکروعمل کے بلند مرتبے پر فائز نظر آئیں، تو یہ ممکن نہیں کہ معاشرہ ان سے متاثر نہ ہو۔ ہمارا زور ایک فرد پر نہیں، ایک خاندان پر ہے۔

کوئی نوجوان اگر آج جاہلیت سے لتھڑے اس ماحول میں حق کو پہچان کر نکلتاہے مگر چار پانچ سال گزرنے پر بھی اس کے بھائی بہنوں کو نہیںمعلوم کہ تحریک کس چیز کانام ہے، اس کے والدین کو نظم کی ہوا تک نہیں لگتی، مگر دوسری جانب وہ اپنی ذات میں اقامتِ دین کا سودا سر میں سموئے معاشرے کی اصلاح اور ریاست کی تشکیل کابیڑا اٹھاتا ہے، اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو عار دلاتاہے کہ مسلمانوں نے قرآن جیسے نسخۂ کیمیا کو چھپارکھا ہے۔ مگر چراغ تلے اندھیرا وہ خود اپنے بیوی بچوں کو دین کے مکمل تصور سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت نہ سمجھے تو ایسی صورت میں دو میں سے صرف ایک بات کا احتمال ہوسکتا ہے: ﴿۱ن دونوں کو اپنے خاندان سے محبت نہیں ہے، ﴾یا تحریک سے ان کی کمٹمنٹ ناقص ہے۔

یہاں بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم نہیں چاہتے کہ جب اللہ کو اپنا سب کچھ’قرض‘ میں دے دیں تو بیوی ہماری ’کم عقلی‘ پر ماتم کرنے کے بجائے بالکل ام دحداحؓکی طرح کہے: ’’ابودحداحؓ! یہ تو کافی نفع بخش تجارت رہی‘؟کیا ہم نہیں چاہتے کہ جب خداکی راہ میں نکلنے کا موقع آئے تو بجائے اس کے کہ ہمارے والد اپنے بڑھاپے کا حوالہ دے کر راستہ روکیں، حضرت عمروبن جموحؓکی طرح خود ہی کہیں کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو، یا حضرت سعد بن خیثمہؓکے والد کی طرح قرعہ اندازی پر آمادہ ہوجائیں کہ کون پہلے جائے گا؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ زندگی میں اگر عزّت و شہادت کی موت یا گیدڑوں کی زندگی میں سے کسی ایک کو چننے کا موقع آئے تو بوڑھی والدہ پاؤں کی زنجیر بننے کے بجائے حضرت اسماءؓکی طرح ’زرہ بکتر‘ اتار پھینکنے پر اُبھارے کہ یہ ’مردوں‘ کی شان سے فروتر ہے، اور حضرت خنساءؓکی طرح دشمن کی صفوں میں اندر تک گھس جانے کی تلقین کریں؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ جب شیطان ہم پر حاوی ہونے لگے، اور سستی و بے عملی سے آج کاکام کل پر یا صبح کاکام شام پر ٹالنے لگیں تو ہمارا ہی لخت جگر بالکل حضرت عمر بن عبدالعزیزؓکے بیٹے کی طرح معصومیت سے کہے: ’ابّا! کیاآپ کو یقین ہے کہ آپ شام تک زندہ رہیں گے؟‘ اس مثالی خاندان کا اگر واقعی ہم خواب دیکھتے ہیں تو کامیابی کا پہلا زینہ آپ چڑھ چکے ہیں۔ لیکن خواب صرف دیکھ لینے سے سچ نہیں ہوتے۔

اسی مقصد کے لیے تحریک نے ایک اور اہم پروگرام اجتماعِ اہل خانہ کا رکھا ہے۔ یہ بیوی بچوں کی تربیت کی خاطر بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر ہفتے میں کم از کم ایک بار بھی اہلِ خانہ ایک دعوتی اجتماع کے لیے ایک آدھ گھنٹے کے لیے مل بیٹھیں تو پورے خاندان کی فضا پر بہت مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ محترم قاضی حسین احمد کے یہ الفاظ بہت اہم ہیں کہ: ’’اگر گھر میں بھی دعوتِ دین کا ماحول پیداہوجائے تو یہ ایک مسلم گھرانا قائم کرنے کے لیے بہت مددگار ثابت ہوسکتاہے۔ اپنی انفرادی تربیت اور مطالعۂ قرآن و حدیث کے بعد اپنے خاندان کی تعلیم و تربیت ہمارا سب سے اوّلین کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں ہمیں اس کی فکر کرنے کا حکم دیا ہے کہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ دعوت کی حکمت عملی کے اعتبار سے خاندان کی اصلاح خشتِ اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ درست ہوجائے تو پوری دیوار سیدھی کھڑی ہوتی ہے اور یہ کمزور یا ٹیڑھی رہے تو عمارت میں بھی ٹیڑھ رہے گی۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کام کی تدریج یہ ہے کہ مسلم فرد کی تربیت ہو، مسلم گھرانے کی تعمیر ہو، مسلم معاشرے کی تعمیر ہو اور مسلم حکومت کے ذریعے سے ان سب کو قوت عطا ہو اور انسان تہذیب و تمدن اور خیر و صلاح کا گہوارہ بن جائے گا‘‘۔