تزکیہ و تربیت


روزِ اوّل سے انسان پریشانیوں اور اَن گنت طوفانوں میں گھرا ہوا ہے۔ انسانیت کا یہ قافلہ وقت کے کسی خاص لمحے سے گزر کر وقت کے کسی خاص لمحے تک پہنچتا ہے۔ اہلِ دانش اس کو رنگوں سے بھر کر نت نئے عنوانات سے پیش کرتے ہیں۔ قرآن پاک نے تو اس کی گواہی دی ہے کہ انسان بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے۔ خود اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے، اپنے پیر پر کلہاڑی مارتا ہے، خود ہی محرومی کا شکار ہوتا ہے اور خود ہی اس محرومی کا رونا روتا ہے۔ پھر جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں خود ہی ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے اور منزل سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنے آپ سے بے خبر یہ ایک ایسی منزل کی طرف مسلسل گامزن رہتا ہے جو کبھی ہاتھ نہیں آتی، بلکہ بیک وقت کئی کئی منزلوں، کئی کئی کشتیوں کا سوار یہ مسافر متضاد سمتوں کے اندر رواں دواں نظر آتا ہے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں دعوتِ انبیا ؑکی گونج سنائی دیتی ہے۔ اپنے رب کی طرف بلانے، اس کی پہچان اور شناخت قائم کرنے، چاروں طرف سے اپنے رُخ کو اپنے رب کی طرف موڑ لینے کے لیے یہ دعوت انبیا ؑکی دعوت ہے، جو ہر دور کے اندر سنی گئی۔ اس پکار کو لوگوں نے قریب اور دُور سے سنا، بہ زبان حال اور بہ زبان قال سنا، بہ اندازِ سرگوشی سنا، اور بہ آواز بلند بھی سنا۔

انبیا ؑکی یہ دعوت ان تمام حالات کو ٹھیک ٹھیک بیان کرکے انسانوں کو انسانوں کے رب کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے۔ بھولے بھٹکے اور خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو    راہِ مستقیم دکھاتی ہے۔ پورا قرآنِ پاک اس بات کا گواہ ہے، جابجا اس کی نشانیاں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس جانب متوجہ کرتا اور تسلسل کے ساتھ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تمام انبیا ؑ اسی ایک دعوت کو پیش کرتے ہیں کہ طاغوت کو ٹھکرایا جائے۔ ہر چھوٹے بڑے جھوٹے خدا سے لاتعلقی کا اعلان کیا جائے۔ دل ودماغ کی دنیا کے اندر جو بت سجے ہوئے ہیں، جن بتوں سے اُمیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں، ان سے برأت کا اعلان کیا جائے۔ قرآن کریم نام لے لے کر بتاتا ہے کہ حضرت نوحؑ کی دعوت بھی یہی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑبھی یہی کہتے رہے۔ حضرت ہود ؑبھی یہی دعوت لوگوں میں پہنچاتے رہے، تاآنکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی دعوت اور اسی پیغام کو لے کر خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو بیدار کرنے اور منزل کی طرف لے جانے کے لیے تشریف لائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنے پانچ نام گنوائے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرا نام محمدؐ ہے، یعنی وہ جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی، خود اللہ تعالیٰ نے تعریف کی، اس کے فرشتوں اور اس کے بندوں نے تعریف کی۔ میرا دوسرا نام احمدؐ ہے، یعنی وہ نبیؐ جو سب سے زیادہ اپنے رب کی تعریف کرنے والا ہے۔ کسی نے اپنے رب کی اتنی تعریف نہیں کی، اتنی حمدوثنا بیان نہیں کی، اس کی اتنی صفات اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں کیا جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ میرا تیسرا نام اَلْمَاحِیْ ہے جس کا سیدھا سادا مفہوم اور ترجمہ  آج کے بیان کے مطابق انقلابی ہوگا، یعنی مٹانے والا، شرک کو مٹانے والا، حرفِ غلط کی طرح ہر غلط چیز کو مٹانے والا، باطل کو مٹانے اور اس کی جگہ حق کو قائم کرنے والا، اللہ تبارک و تعالیٰ کی کبریائی کو بیان کرنے والا۔ آپ نے چوتھا نام الْحَاشِر بتایا، یعنی جمع کرنے والا کہ روزِ محشر سب سے پہلے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ حشر میں داخل ہوں گے۔ اپنی اُمت کو اور سارے لوگوں کو اکٹھا کریں گے اور آپ کے بعد دیگر انبیا ؑوہاں تشریف لے جائیں گے۔ آپ نے اپنا پانچواں نام اَلْعَاقِبْ فرمایا، یعنی وہ نبیؐ جو آخر میں آنے والا ہے، آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔

فی الحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری جدوجہد، پوری زندگی اور حیاتِ طیبہ، کش مکش کا ہرہرلمحہ اور مرحلہ کہ جس سے آپگزرے ، لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، (الاحزاب ۳۳:۲۱) کی صورت میں ہمارے لیے مثال اور نمونہ قرار پایا۔ یہ ان سب لوگوں کے لیے دعوتِ عمل اور پیغام غوروفکر ہے جو لذت آشنائی کے مفہوم سے آشنا ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے ناگزیر ہے کہ اس پوری جدوجہد اور کش مکش کو، آپ کے شب و روز اور زندگی کے تمام معمولات، اور ساری ترجیحات کو مسلسل دیکھیں، بار بار مطالعہ کریں۔ بہت قریب سے اس کو پڑھیں، آپس میں موضوعِ گفتگو بنائیں اور جتنی کہکشاں اس کے عنوانات میں سجی ہیں، سب کو سمیٹنے کے لیے اپنے دامن کو زیادہ سے زیادہ وسیع کریں، بصیرت اور بصارت اور عمل کی نگاہوں سے اس پورے دور کا  جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی، مثال اور اتباع و پیروی کا دور ہے، کا مطالعہ کریں۔

انبیا علیہم السلام کی تحریک

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز تلاوتِ آیات، یعنی کتاب وحکمت کی تعلیم سے کیا۔ اس انقلاب اور تبدیلی لانے کا کام انبیا ؑجب بھی معاشرے کے اندر لے کر اُٹھے ہیں، اور ان کے بعد اسی طریقے سے جب معاشروں کے اندر اسلامی تحریک اُٹھتی ہے، اس نے انبیا ؑ کی پیروی میں یہی کام کیا ہے کہ معاشرے میں نئے انسان تیار کیے جائیں، تاکہ پرانے انسانوں کے حلیے میں سے نیا انسان جنم لے۔ وہ جو پہلے صرف عمر بن خطاب تھا، وہ بعد میں حضرت عمر فاروقؓ بن جائے۔ گئے گزرے اور بگڑے ہوئے لوگوں، حالات کی خرابی کے ذمے دار، فساد پھیلانے والے اور انسانوں کو باہم دست و گریبان کرنے والے لوگوں کے معاشرے کے اندر جب نبی مبعوث ہوتا ہے، اور خاتم الانبیا ؑکے بعد ایک ایسے معاشرے کے اندر جب اسلامی تحریک اُٹھ کھڑی ہوتی ہے، تو وہ پہلے سے موجود انسانوں کو فناکے گھاٹ اُتار کر کوئی نئے انسان علیحدہ سے وجود میں نہیں لاتی، بلکہ اپنی دعوت کے ذریعے، اللہ کی طرف پکارنے اور آخرت کے عنوان کے ذریعے، اللہ اور بندے کے درمیان عہدوپیمان کو تازہ کرکے انھی انسانوں کو بیدار کرتی ہے۔ ان کے کرداروعمل کی لہلہاتی فصل تیار کرتی ہے، منزل کا شعور دلاتی ہے، اور منزل کی جانب مسلسل رواں دواں رکھتی ہے۔ انھی انسانوں کے اندر سے پھر مجاہد اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے انسان پیدا ہوتے ہیں۔ کتاب و حکمت کے ذریعے ان کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں نئے انسان وجود میں آتے ہیں۔ ان کی فکر کا زاویہ اور سوچ کا عنوان بدل جاتا ہے، اور زندگی کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ سمتِ معکوس میں سفر کرنے والے، مثبت اور تعمیری جدوجہد کے خوگر ہوجاتے ہیں۔

یہ معاشرے کے اندر ایک نیا انقلاب، ذہنی و فکری انقلاب، جسم و جان اور دل و دماغ کی دنیا میں اُبھرتا ہوا انقلاب ہے، جو انسانوں کے اندر ٹھاٹھیں مارتا ہے اور یکسوئی کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ پھر لوگ انشراح صدر کی کیفیت سے اپنے رب سے جڑنے اور جڑتے چلے جانے،بس اسی کا ہو رہنے، اور اسی کے دامن سے وابستہ ہونے کی دولت سے اس طرح سرشار ہوتے ہیں کہ بے خوف ہوکر مسلسل چلتے چلے جاتے ہیں۔ صرف اسی سے ڈرتے ہیں جس کا کلمہ انھوں نے پڑھا ہو، جس پر ایمان کا انھوں نے اعلان کیا ہو، جس نے ان کو پیدا کیا ، جو ان کا پروردگار ہے، جس کے پاس انھیں لوٹ کر جانا ہے، اپنا نامۂ اعمال پیش کرنا ہے اور زندگی کے تمام معمولات کے ایک ایک لمحے کی رپورٹ پیش کرنی ہے۔ اس خالق و مالک کے ساتھ وابستگی کا ایک لطف اور ایک ایمانی حلاوت ہے۔ جب ایسے سرشاروں کا وزن معاشرہ محسوس کرتا ہے تو پھر ایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ دُور دُور تک بسا ہوا منکرات کا جھاڑ جھنکار اندر کی دنیا سے بھی نکل جاتا ہے اور باہر کی دنیا بھی سکون و آشتی اور پاکیزگی کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے۔ یہ انقلاب دل کی زمین کو ہموار کرتا ہے اور اپنے رب سے ملانے، اور اسی جانب بڑھانے کے لیے نرمی و گداز اور ملائمت کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔

ھمہ گیر انقلاب

انبیا ؑکے انقلاب اور انبیا ؑ کے طریقِ کار کے نتیجے میں جب اور جہاں اسلامی تحریک بیدار ہوگی، اسلامی تحریک کا یہی ایک کام ہوگا کہ لوگوں کے سامنے تذکیر کرے، تعمیر سیرت کرے، نفوس کا تزکیہ کرے اور ان کے زاویہ ہاے نگاہ کو درست کرے۔ انبیا ؑ کا طریقِ انقلاب، ہمہ گیر انقلاب کا عمل ہے۔ یہ انقلاب جزوی نہیں بلکہ مکمل انقلاب ہے، حاشیوں اور لکیروں کا نہیں بلکہ متن کا انقلاب ہے۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو انسان کی پوری کی پوری زندگی کو متاثر کرنے والا انقلاب ہے، یعنی گھر کی محدود فضائوں سے لے کر بین الاقوامی دوائر کا انقلاب۔ جن جن اُمور پر سوچا جا سکتا ہے، جہاں جہاں تک انسان کمند ڈال سکتا ہے، جن جن جہتوں کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے، عنوانات سجائے جاسکتے ہیں، ان سب کے اندر انقلاب برپا کرنا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ انقلاب ان سب حوالوں سے تبدیلی کا پیغام اور ان سب دائروں میں ایک اللہ کا نام، وہی اوّل، وہی آخر، ہرہرحوالے سے بس اسی کی تعلیم، اسی کی دی ہوئی کتابِ انقلاب کو تھامنے کا انقلاب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک انقلابی تحریک یا تحریک اسلامی جس معاشرے کے اندر برپا ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ چلنے والوں کو معاشرے کے افراد سے کاٹتی بھی ہے، انھیں اس چلن کا باغی بھی بناتی ہے اور انھیں مجسم احتجاج بھی بناتی ہے۔ جب بھی نظریاتی، انقلابی، اصولی تحریک معاشرے کے اندر وجود پذیر ہو تو جزوی طور پر ہرانسان اس سے متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے رسالہ پڑھ لیا، کسی کی کسی سے ملاقات ہوگئی، کوئی کسی اجتماع کے قریب سے گزر گیا، کسی نے کسی اجتماع کو دُور سے دیکھ لیا، کسی نے آکر ریلی اور جلسے کو دیکھ لیا، اس طرح جزوی طور پر لوگ نظریاتی ہوتے چلے جاتے ہیں، مگر جم کر ساتھ نہ دینے اور تزکیۂ نفس کی شاہراہ پر یکسوئی سے نہ چلنے کے نتیجے میں تضادات کا شکار ہوتے ہیں۔ اچھی بات کرتے کرتے بُری بات بھی کرنے لگتے ہیں۔ اصولی بات کرتے کرتے بے اصولی کی طرف بھی نکل جاتے ہیں۔ مادیت کے طوفان میں بھی گھرے نظر آتے ہیں، اور وہاں پر کوئی اچھا عمل بھی ان سے صادر ہوجاتا ہے۔

یہ کش مکش اس بات کا پتا دیتی ہے کہ اس معاشرے میں کوئی نظریاتی تحریک موجود ہے، کوئی اصولی اور انقلابی تحریک موجود ہے، بندوں کو ان کے رب سے ملانے والی، حالات اور  منزل کا ٹھیک ٹھیک پتا دینے والی تحریک موجود ہے۔ اس معاشرے کے اندر سلیم الفطرت لوگ اپنے رب سے ملاقات کے منتظر اور بے قرار ہوتے ہیں۔ ان کے اندر طلب اور جستجو، حسنِ طلب اور طلب ِ صادق کچھ زیادہ نظرآتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آگے بڑھ کر ایک نظریاتی اور اصولی تحریک کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ سعید روحیں جذب و انجذاب کے مراحل سے گزرتی ہیں۔ ان کے لیے یہ تحریک ایک بہت بڑا سرمایہ بن جاتی ہے اور ان بے قرار روحوں کو اپنے رب سے ملا دیتی ہے کہ یہ اس سے راضی اور وہ ان سے راضی ہوجاتا ہے۔ یہ پکار پکار کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جس دعوت الیٰ اللہ کی تم بات کرتے ہو، جس تربیت و تزکیے کا تم تذکرہ کرتے ہو، ع میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے! میں تو کہیں گم ہوگیا تھا، آپ ہی کی تلاش میں تھا اور اس کی تلاش کے نتیجے میں گویا مجھے سب کچھ مل گیا، میں نے خود اپنے آپ کو دریافت کر لیا۔

دلوں پہ دستک دینے کے لیے تو بس کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے ایسے پس منظر میں بندوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے والی تحریک، جو سرتاپا بندگی اور مکمل حوالگی اور کامل سپردگی کی تحریک ہے، اس تحریک سے حسبِ توفیق استفادہ کرنے والے کا دامن جتنا وسیع ہوتا ہے، یہ اس میں اتنی ہی دولت ِرحمت، پاکیزگی و سعادت بانٹتی ہے۔ یہ تحریک نہیں بلکہ رب تعالیٰ کی نعمت ہے۔ وہ یہ سب نعمتیں بانٹتا ہے کہ زندگیوں کا سودا اسی سے ہوتا ہے۔ اس کے خزانے بے پایاں ہیں، وہ تو اپنی رحمت کے تمام خزانوں کو لٹاتا ہے۔ یہاں اور وہاں ہر جگہ پکارنے والا، منادی کرنے والا مسلسل پکارتا ہے کہ کوئی ہے جو مغفرت طلب کرنے والاہے، ہے کوئی جو رحمت کا سزاوار بنے، ہے کوئی جو ہماری طرف ایک قدم آگے بڑھے تو ہم اس کی طرف دس قدم آئیں، ہے کوئی جو صرف نیت اور ارادہ کرے، ہے کوئی جو اپنے دل کی گہرائیوں میں ہمیں پانے کی کوشش کرے…! یہ مکمل حوالگی اور کامل سپردگی کی کیفیت، دراصل لذتِ ایمان اور لذتِ آشنائی کی کیفیت ہے۔

ایک نیا انسان

یہ تحریکیں جو چہارطرف طوفان اُٹھاتی ہیں، نیکی کے جتنے عنوانات قرآن وسنت کے اندر سجے ہوئے ہیں، جن کو ہم اصطلاحاً چھوٹی نیکی اور بڑی نیکی بھی کہہ دیتے ہیں، ان تمام نیکیوں کی طرف پکارنے کے لیے، ان تمام نیکیوں کا سزاوار ٹھیرانے کے لیے، یعنی تمام نیکیوں کی طرف اپنے دامن کو وسیع کرنے کے لیے، گویا اپنے رب کی طرف بڑھنے اور بڑھتے ہی چلے جانے کے لیے یہ تحریکیں معاشرے میں ابر رحمت بن کر برستی ہیں اور برستی چلی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چٹیل پہاڑوں اور چٹانوں پر بھی سبزا اُگ آتا ہے، پتھر بھی دیکھتے ہی دیکھتے سبزا اُگل دیتے ہیں، اور ہر طرف ہریالی لہلہانے لگتی ہے، خزاں چھٹ جاتی ہے اور واقعی بہار کا موسم مشامِ جان معطر کرتا ہے۔ مگر کچھ قطعات اور رمینیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو اس بارانِ رحمت کے باوجود خزاں رسیدہ رہتی ہیں۔ اسی طرح کسی معاشرے میں اللہ کی طرف بلانے والی انقلابی تحریک برپا ہو تو آدمی خود اپنے ظرف کے مطابق اس سے مستفید ہوتا ہے۔ تحریک تمام پہلوئوں سے انسان کو مسلسل چلانے اور آگے بڑھانے کا سامان کرتی ہے۔ اس کو اُٹھا کر کھڑا کردیتی ہے، اسے معاشرے کے اندر اجنبی بنادیتی ہے، اور قلب و نظر کے اندر ایک ایسی آگ لگا دیتی ہے کہ جو چھو جائے وہ کندن بن جائے، جو قریب آجائے وہ اس کی تپش محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے اور سونے پہ سہاگہ ہوجائے۔

یہاں اس کیفیت کا احاطہ کرنے کی بھی ضرورت ہے جو معاشرے کے اندر رہتے ہوئے بھی اجنبی بن جانے کی کیفیت ہے۔ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان اس معاشرے سے نکل جائے، نہ لوگ اس کو پہچانیں اور نہ وہ کسی کو پہچانے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ دربدر ہوکر کہیں کا نہ رہے، جنگلوں کا رُخ کرلے اور خاک چھانتا پھرے۔ اس لیے کہ جس تربیت اور تزکیے کے نتیجے میں گوشہ نشینی کا جذبہ پیدا ہو، اور لوگوں سے کٹ جانے کا جذبہ پیدا ہو وہ انبیا ؑکا طریقۂ کار نہیں ہوسکتا۔ انبیا ؑتو گوشہ نشینی سے نکل کر، حرا سے سوے قوم آیا کا مصداق بنتے ہیں۔ وہ تو غاروں سے نکل کر اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے اُتر کر انسانوں کی طرف آتے ہیں۔ کن انسانوں کی طرف، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی جیسے لوگوں کی طرف آتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے کے نتیجے میں لوگوں کے دلوں کے اندر وہ بیج بوتے اور فصل اُگاتے ہیں، جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو ٹھنڈک اور تراوت دیتی ہے۔

اجنبی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ذہنی طور پر کھویا کھویا سا ہو، اسے چاروں طرف کے حالات میں کوئی مطابقت محسوس نہ ہوتی ہو۔ وہ اسی دنیا میں رہتا ہے، انھی لوگوں کے درمیان اُٹھتا بیٹھتا ہے، انھی کے درمیان معمولات اور معاملات طے کرتا ہے، انھی کی خوشی اور غمی کا حصہ بنتا ہے لیکن ان کے تمدن، کلچر اور معاشرت اور اس کی ہر اکائی سے ایک دُوری اور فاصلے پہ اپنے کو پاتا ہے۔ دعوت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ انھی کے درمیان رہے۔ اللہ کی طرف بلانے کے فرض پر لبیک کہنے کے لیے وہ انسانوں میں نظر آئے، اور اپنی گفتگو اور طرزِعمل سے مسلسل ان کے درمیان اللہ کی طرف بلانے والا بنے۔ گویا انھی کے درمیان رہتے ہوئے، ان جیسا نہ ہوتے ہوئے ایک اجنبیت کی کیفیت اس پر طاری ہوتی ہے۔ یہی مطلوب ہے۔ یہ تحریک اور دعوت الی اللہ اسی جانب لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ اس لیے لذت آشنائی کا نام ہم نے انقلاب رکھ دیا ہے کہ یہ زیادہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔

ایمان اور انقلاب

آیئے ہم جس چیز کو ایمان کہتے ہیں، اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ راہِ حق میں ایمان اور انقلاب ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ ایک ہی حلاوت، مزہ اور شیرینی لیے ہوئے اور اپنے مفہوم و معانی کے اعتبار سے ایک ہی سمت پہ لوگوں کو لے جانے والے الفاظ ہیں۔ ہم جس چیز کو چھوٹا سا کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کہتے ہیں،     یا اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہٗ ورسولہٗ کہتے ہیں، اور اس موقع پر  ہم اکثر سنی اَن سنی کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں___ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور انقلاب سبھی کچھ اس میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ عرض ہے۔

حضرت ابوذر غفاریؓ پانچویں صحابی ہیں کہ جو ایمان لائے۔ ایمان لانے کے بعد ان سے یہ بات کہی گئی کہ ابھی اہلِ ایمان کی قوت بہت تھوڑی ہے، اہلِ ایمان کی کُل جمع پونجی بس یہی دوچار افراد ہیں، اس لیے ذرا احتیاط سے اور ذرا سنبھل کر چلنا ہے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کے دل کے اندر ایمان کی جو چنگاری پہنچی تھی، وہ شعلہ جوالہ بن کر لپکی، ضبط کا یارا نہ رہا۔ سیدھے حرمِ کعبہ میں پہنچتے ہیں جہاں کفار ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے، ان کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں اور پکار اُٹھتے ہیں: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ۔ کفارِ مکہ حیران رہ جاتے ہیں کہ ان کی یہ مجال اور یہ جرأت کہ ہماری ہی مجلس میں کھڑے ہوکر یہ نعرۂ دیوانہ و مستانہ بلند کرتے ہیں۔ پھر سب کے سب ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، انھیں زد و کوب کرتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں تاآنکہ حضرت ابوذر غفاریؓ بے ہوش ہوکر گر پڑتے ہیں۔ اسی حال میں وہاں سے لے جائے جاتے ہیں۔ جب ہوش میں آتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ میں کہاں ہوں؟ کس حال میں ہوں؟ بتایا جاتا ہے کہ تم اس حال میں یوں پہنچے ہو کہ تم نے وہ نعرۂ مستانہ کفار کے بیچ جاکر بلند کیا تھا، تو زیر لب مسکرائے اور کہا کہ اچھا! اس جرم کے پاداش میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ یہ جرم تو کل پھر سرزد ہوگا۔ تم کہتے ہو کہ مارا پیٹا گیا ہوں، حال سے بے حال ہوا ہوں، مجھ سے پوچھو، ایمان کی جو حلاوت، لطف و مزا اور اس کی شیرینی مجھے ملی ہے، کل پھر اپنے کیف و سُرور کو دوبالا کروں گا___ یہ کیا جذبہ ہے، یہ جذبۂ لذت آشنائی ہے۔

ہم نے بھی یہ کلمہ سیکڑوں ہزاروں دفعہ پڑھا ہوگا، مگر کب یہ عشق کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب یہ جنوں کا سودا ذہنوں کے اندر سماتا ہے، کب اس کے نتیجے میں نکلنے اور ہلکے اور بوجھل ہرحال میں نکلنے کے لیے انسان آمادہ اور برسرِپیکار ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے___ کیا اس پہلو پر بھی کبھی آپ نے غور کیا!

اس نعرے کے اندر انقلاب اور ایمان دو علیحدہ علیحدہ مختلف چیزوں کے نام نہیں بلکہ ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ اس کلمے نے تاریخ کی عظیم ترین حقیقت کی حیثیت سے اپنے آپ کو ایک مکمل اور اعلیٰ ترین انقلاب کی حیثیت سے منوایا ہے۔ ایسا انقلاب کہ جو انسان کے تمام باطنی اور ظاہری رویوں کو بدل دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا ایمانی انقلاب پنہاں اور سرایت کرتا ہے جو انسان کی تمام ضرورتوں اور تمام ترجیحات کو صحیح رُخ دیتا ہے۔

اس مقصد کے لیے یہ انسانوں کو اُٹھاتا، کھڑا کرتا اور جدوجہد کا پیکر بناتا ہے۔ انسان کا معاملہ مجھ سے اور آپ سے بھلا کہاں ڈھکا چھپا ہے۔ انسان بالکل ٹھیک چل رہا ہوتا ہے اور لوگ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بس کامیابی نے اس کے قدم چوم لیے کہ اچانک وہ گر پڑتا ہے، اور ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پھر یہی انسان ہے جو ہمت پکڑتا ہے، اُٹھتا ہے اور پھر منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ گرے گا وہی جو چلے گا، جو چلنے سے توبہ کرلے وہ کہاں گرے گا۔ جو کنارے پر بیٹھ کر محض نظارہ دیکھے گا، وہ تو صرف مشورے دے گا اور کچھ بھی نہ کرسکے گا۔ لہٰذا اس راہ پر کچھ ڈوبنے کا خطرہ مول لینا پڑے گا، تبھی تو تیرنا آئے گا۔ گرنے کو انگیز کرنا ہوگا تبھی تو چلنا آئے گا۔ منزل کی طرف مسلسل دیکھنا ہوگا تاکہ نشاناتِ منزل جب جب آئیں تب تب ایمان کے اندر اضافہ ہو، تب اللہ کے ساتھ تعلق بڑھتا ہوا محسوس ہو کہ ہاں، اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پھر یہی انسان پوری قوت سے پکار اُٹھے گا:

سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحٰنَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ (متفق علیہ)، میں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور حمد بیان کرتا ہوں، اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک اور عظمت والی ہے۔

لَّا ٓ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo (انبیائ۲۱:۱۸) نہیں ہے کوئی معبود مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا۔

وہ اپنے ہاتھوں اپنے اُوپر کیے ہوئے ظلم کو بھی یاد کرتا ہے۔ معافی اور درگزر کا در تو کبھی بند نہیں ہوتا۔ توبہ کرنا، گرنا اُٹھنا، اس کی طرف چلنا، اس کی طرف بڑھنے کے لیے عزم و ارادہ کرنا یہی مطلوب ہے۔ اس لیے کہ انسان کو جگانے، اُٹھانے، آگے بڑھانے کے لیے اور انسانیت کی اعلیٰ ترین قدروں سے ہمکنار کرنے کے لیے ایمان اور انقلاب دونوں ہم آہنگی کا تقاضا کرتے ہیں۔

ایمان کی پکار

ایک لمحے کے لیے ٹھیر کر ایمان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس پر     شب خون مارنے، اس پونجی کو اُڑا لے جانے والے شیطان کے حملے بھی موجود ہیں۔ ان حملوں سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ اس ایمان کا مسلسل جائزہ لیا جاتا رہے، اس کا احاطہ کیا جائے، اس پر چوکنا رہا جائے اور اس پر کوئی پہرے دار بٹھایا جائے۔ اس کے گھٹنے اور بڑھنے کو، جنھیں ہم قرآن اور احادیث نبویؐ کے اندر پڑھتے ہیں، واقعی محسوس کیا جائے کہ یہ شمع کبھی ٹمٹمانے لگتی ہے، کبھی اس کی لَو نیچے ہونے لگتی ہے، لیکن یہی شمع کبھی دُور دُور تک اُجالے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے، اور خود انسان کے اپنے اطراف کو روشن کرتی ہے، لہٰذا ان کیفیتوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کی جائے۔

ایمان کی فریاد بھی سنی جائے، اس کی آہ و بکا سے واقف رہا جائے۔ یہ ایمان پکار پکار کر کہتا ہے کہ غیر تو مجھ پر اتنا ظلم نہیں کرتے جتنا کہ تم خود میرے اُوپر ظلم کرتے ہو۔ تم خود ہی میری لَو کو مدھم کرنے اور اس کو بجھانے کے لیے کوشاں ہوتے ہو۔ اُدھر بلایا گیا تھا، تم اِدھر لبیک کہہ رہے ہو۔ تم نے تو عہدوپیمان باندھا تھا، گواہ بناکر اعلان و اقرار کیا تھا، پھر تمھیں کیا ہوگیا! ایمان کا احتجاج اس کے اندر سے ہوتا ہے، قراردادیں بھی منظور کرتا ہے اور ہمارے قدموں کو کبھی کبھی روکتا اور ہم سے کہتا ہے: ’’کدھر جا رہے ہو، اچھے بھلے آدمی ہو، لوگ بھی اچھا بھلا ہی سمجھتے ہیں، لیکن تم کہاں کا رُخ کر رہے ہو، یہ تمھارے ذہن میں کون سی بات سمائی ہے، اور تم نے کس جذبے سے یہ فیصلہ کرلیا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس طرف مت جانا‘‘۔ گویا یہ ہمارے قدموں کو روکتا ہے۔ یہ مسلسل منزل کی طرف ہم کو بلاتا ہے۔ اس لیے اس کی آہ و فغاں کو سنا جائے اور اپنے ہی ہاتھوں اس پر ہونے والے ظلم کی داستان سے بے خبر نہ رہا جائے۔ اس قیمتی متاعِ حیات کو، ایمان کا جوہر سمجھ کر اسے مسلسل کلیجے سے لگائے رکھا جائے، اور اس میں اضافے کے لیے مسلسل کوشاں ہوا جائے۔

صحابہ کرامؓ کا جذبۂ لذتِ آشنائی

صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں غوروفکر کے بے پناہ جوہر موجود ہیں۔  یہ ایک مربوط سلسلہ ہے۔ یہ کوئی اتفاقی اور حادثاتی واقعات نہیں ہیں۔ یہ ایک بڑی تحریک ہیں اور اس تحریک کے اندر جو کچھ موجود ہے، اسے دیکھنا، روشنی حاصل کرنا، ہماری اپنی ضرورت اور     ذمہ داری ہے۔ ان واقعات میں سے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا ایک واقعہ ہے جو بارہا آپ نے سنا اور پڑھا ہوگا۔ اس میں ہمارے لیے غوروفکر کے لیے کئی پہلو ہیں۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے۔ صحابہ کرامؓ حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ ایک صحابی آئے اور انھوں نے ایک چادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ نبیؐ نے اس کو پسند فرمایا۔ مجلس سے اُٹھ کر آپ  اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور پرانی اور بوسیدہ چادر جو آپ پہنے ہوئے تھے، اس کی جگہ اس نئی چادر کو زیب تن کیا اور دوبارہ مجلس میں آکر تشریف فرما اور رونق افروز ہوئے۔ حضرت سعدؓ نے دیکھا تو عرض کیا: حضوؐر  یہ چادر بہت اچھی ہے، بہت بھلی معلوم ہوتی ہے، اور خوش رنگ بھی ہے۔ اور انھوں نے آپ سے یہ چادر مانگ لی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو واپس اپنے حجرے میں تشریف لے گئے۔ اسی طرح پرانی چادر کو آپ نے زیب تن کیا اور نئی چادر لپیٹ کر، تہ کرکے لائے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو پیش کردی۔ انھوں نے فوراً اس کو قبول کرلیا۔

صحابہ کرامؓ کو یہ بات قدرے ناگوار گزری۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا: سعد! تم نے آج اچھا نہیں کیا، تم دیکھ نہیں رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نہایت ہی بوسیدہ اور پرانی چادر میں ملبوس تھے اور ایک نئی چادر ملی تو آپ نے بدل کر اس کو پہن لیا۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ حضوؐر کے سامنے کسی چیز کی تعریف کی جائے تو وہ تعریف کرنے والے کو پیش کردیتے ہیں؟ تم نے اس طریقے سے تعریف کی اور مسلسل تعریف کی تو آپ دوبارہ حجرے میں تشریف لے گئے اور چادر بدل کر آئے اور تمھیں وہ پیش کر دی اور تم نے بخوشی اسے قبول کرلیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے سنا تو اپنے ساتھی صحابہؓ سے عرض کیا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر   یہ کام کیا، یعنی کوئی اتفاقی طور پر عمل سرزد نہیں ہوگیا۔ میں نے تو یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ چادر جس نے حضوؐر کے جسمِ اطہر کو مَس کیا ہو وہ حاصل کروں اور وہی چادر میرا کفن بنے۔

واقعات میں آتا ہے کہ بالآخر اسی چادر کے اندر وہ کفنائے گئے لیکن اس کو کوئی نام دیجیے، اس واقعے کا کوئی عنوان تلاش کیجیے۔ چاہیں تو آپ اسے عشق مصطفیؐ کہہ لیجیے لیکن سچی بات یہ ہے کہ عشق مصطفیؐ ہی درحقیقت رب کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی چیزیں بڑی رہنمائی کرتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزں مل کر ہی بڑی بنتی ہیں۔ ہر چھوٹی نیکی بھی بڑی نیکیوں کی رغبت پیدا کرتی ہے۔ ہر چھوٹی نیکی، نیکیوں کے ایک بڑے خاندان کی طرف لے کر جاتی ہے اور  ان نیکیوں کی کشش لذتِ ایمان سے آشنا کرتی ہے۔ اس لیے صحابہ کرامؓ کے ان واقعات میں ایک سبق اور سوزوگداز پنہاں ہوتاہے، ایک پکار ہوتی ہے جس پر لبیک کہا جائے۔ ان سے حب ِ الٰہی کا ایک ایسا دَر کھلتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنی زندگی کا سفر سہولت سے طے کرلیتا ہے۔

موت کی یاد !

ہم ایک عجیب و غریب دنیا میں رہتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بھئی آپ لوگ تو آسمان کی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ ہم زمین پہ رہتے ہیں۔ نہیں، یہ آسمان کی باتیں نہیں، زمین کی باتیں ہیں۔ البتہ زمین کو ہم انسانوں نے چاروں طرف سے اس طرح دبوچ لیا ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے، تصورِ دنیا کو کھو چکے ہیں۔ ہم روزانہ مشاہدہ کرنے کے باوجود یہ تسلیم کرتے ہی نہیں کہ اس دنیا میں ہم مسافر ہیں۔ اصل پڑائو تو آخرت میں ہونا ہے۔ اس لیے تصورِ آخرت کو واضح کرنے کی ضرورت ہے، کہ آخرت سے مفر نہیں اوردنیا سے بھی فرار ممکن نہیں۔

دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا جاتا ہے۔ کل روزِ محشر میں خود اہلِ جنت کو بھی جس چیز پر سب سے زیادہ حسرت ہوگی، وہ دنیا میں گزرے ہوئے وہ لمحات ہوں گے جو ضائع ہوگئے۔ وہ نیکی کرسکتے تھے، اپنے رب کی طرف قربت کے کچھ قدم بڑھا سکتے تھے، کچھ بندوں کی خدمت اور کچھ لوگوں کی دل جوئی کے ذریعے، کچھ زخموں پر پھائے کے ذریعے، کچھ دکھوں کے مداوے کے ذریعے، لوگوں کی ہمت بندھاتے ہوئے اور احساسِ تنہائی سے بچاتے ہوئے اپنے رب کی یاد اور اس کے ذکر کو دوبالا کرتے ہوئے وہ نیکی کما سکتے تھے مگر کما نہ سکے۔ لہٰذا وہ لمحات جو ایسے ہی گزر گئے کچھ کیے بغیر گزر گئے اور کسی نیکی کو سمیٹنے کا ذریعہ اور سبب بن سکتے تھے مگر نہ بن سکے، ان پر تاسف، ملال اور حسرت ہوگی، کہ یہ لمحات بھی اگر نیکی کے کام میں گزرے ہوتے تو جنت کے اندر وہ درجات جو بڑی دُور تک نظر آتے ہیں، ان تک پہنچنا اوررسائی حاصل کرنا ممکن، آسان اورسہل ہوتا۔

اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ قبر کے اس گڑھے کو ہرلمحے انسان نیکی کے پھولوں سے بھر رہا ہے یا دوزخ کی آگ کے انگاروں سے۔ انسانوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ کسی نیک عمل کے نتیجے میں لمحے بھر میں نیکی کے پھول کھل اُٹھتے ہیں، اور اگلے ہی لمحے غفلت اور پھسل جانے کے سبب دوزخ کی آگ کے انگارے اور بھی دھک جاتے ہیں۔ ذرا تصور میں اس بات کو لایئے، اس گڑھے کو دیکھیے تو سہی، وہ گڑھا موجود تو ہے نا۔ ہر انسان اپنی قبر کے کنارے کھڑا ہے یا اپنی قبر کے اندر پیر لٹکائے بیٹھا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے بالآخر اس کے قدم اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور ہرلمحے یہ منظر موجود ہے، ایک بیلنس شیٹ بن رہی ہے نیکی اور برائی کی اور پھول چُننے اور آگ کے انگارے سمیٹنے کی۔

اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس چیز کو بہ کثرت یاد کرتے رہو جو دنیوی لذتوں اور ان کے اشتیاق کو ڈھانے والی ہے۔ دنیاوی لذتوں کے کیا کہنے، چشم ما روشن دل ماشاد۔ دنیاوی لذتوں کی ایک طویل فہرست ہے اور وہ ہر ایک کی جیب میں موجود ہے۔ جب پوچھیں تو وہ فرفر پڑھ کر سنائے گا کہ یہ سب لذتیں مطلوب ہیں۔ ان کی طرف مسلسل بڑھ رہا ہوں مگر مل نہیں پاتیں۔ اس قدر بے وفا ہے یہ دنیا۔ جتنا اس کی طرف چلیں اتنا ہی یہ دُور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس موت کو یاد کرتے رہو۔ اس لیے تصورِ دنیا، تصورِ آخرت اور تصورِ مال، واضح ہونے کی ضرورت ہے۔ اس جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔

اپنا احتساب کیجیے!

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ انسان خود اپنے دل کے دیئے روشن کرے۔ اپنے لیے اپنے ہی اندر ایک مزکی کو، ایک مربی کو، پوری تحریک اسلامی کو اپنے اندر بٹھائے۔ دل کی محفل کو خود ہی آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس کا ہفتہ وار اجتماع بلائے۔ اس میں خود ہی آپ اپنی رپورٹ پیش کرے، اور اس رپورٹ پر خود ہی تبصرہ پیش کرے۔ اس میں آپ خود ہی محاسب ہوں، خود اپنا دامن تھام کر اپنا احتساب کریں، ’’اور اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘  کے مصداق اپنا جائزہ لیں۔ یا پھر یہ کہ جو بڑی عدالت لگنی ہے، عدالتِ کبریٰ! اس سے پہلے کوئی چھوٹی عدالت بار بار دل و دماغ کی دنیا کی لگنی چاہیے۔ عدالتِ صغریٰ، وہ عدالت جو پکار پکار کر فیصلہ دے، جو مجھ سے، آپ سے کہہ رہی ہو کہ آج یہ فیصلہ تمھارے خلاف صادر ہوا ہے، یہ فیصلہ تمھارے حق میں بھی ہوسکتا ہے۔ … آخر تم کتنے فیصلے اپنے خلاف کرائو گے۔ اس لیے یہ جو ایمان کا تقاضا ہے، یعنی احساس ذمہ داری جو بار بار سن پڑ جاتا ہے، اس احساس ذمہ داری کو اٹھایا، جگایا، بیدار کیا جائے اور اسے ہوش میں لایا جائے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ (البقرہ ۲:۱۴۱)، اس کا بھی کوئی مفہوم ہے۔ لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ (الشوریٰ ۴۲:۱۵)، یعنی جو بوئو گے، وہی کاٹو گے، گندم بوئو گے تو گندم کاٹو گے، اور جس کے اعمال ہیں وہ اسی کے لیے ہیں کسی اور کا اس کے اندر کوئی حصہ نہیں ہے۔ لَّیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی (النجم۵۳:۳۹)، جو بوئے گا وہی کاٹے گا، جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق اس کو پائے گا۔

زندگی اور موت بھی اضافی شے ہے، اصل چیز وہی ہے ایمان، تزکیہ اور انقلاب۔ اگر ایمان ہے تو زندگی ہے، بلکہ وہ جسے موت کہتے ہیں وہ بھی زندگی ہے اور کیا خوب زندگی ہے۔ لیکن اگر ایمان نہیں ہے تو پھر یہ زندگی بھی موت ہے۔ اس حوالے سے اس زندگی کو بہتر بنانے اور مسلسل اپنے رب کی طرف چلانے کی ضرورت ہے۔

جنت کی تڑپ

ایک بڑے مشہور صحابی گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں صحابہ کرامؓ آپس میں یہ بات کیا کرتے تھے کہ عجیب و غریب انسان ہیں۔ انھوں نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی اور جنت میں چلے گئے ہیں۔ یہ صحابی حضرت اسود راعیؓ تھے، جو پیشے کے اعتبار سے ایک چرواہے تھے۔ اُجرت پر بکریاں چرایا کرتے تھے۔ غزوئہ خیبر کے موقع پر لوگوں سے انھوں نے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ہمارے قلعے کا گھیرائو اور محاصرہ کس نے کیا ہے؟ کسی نے ان کوبتایا کہ ایک شخص ہے جو نبوت کا دعوے دار ہے، رب کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ دلوں میں گداز، نرمی اور ملائمت پیدا کرتا ہوں اور اللہ کی طرف بلانے کا کام انجام دیتا ہوں۔ حضرت اسود راعیؓ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس بزرگ ہستی سے ملنا چاہیے۔

ایک دن بکریاں ہنکاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی طرف نکل آئے اور خیمے کے اندر داخل ہوگئے۔ آپ تشریف فرما تھے، نام پوچھا اور بیٹھ گئے اور کہا کہ آپ  کیا لے کے آئے ہیں؟ رسول کریمؐ نے پوری دعوت پیش کی اور بتایا کہ بندوں کو بندوں کے رب کی طرف ہی چلنا چاہیے۔ یہی پیغام میں لے کر آیا ہوں اور اس کا نبی ہوں۔ پوچھا کہ: اچھا! میں آپ کی بات مان لوں اور سمجھ جائوں تو کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا کہ: ’’جنت ملے گی‘‘۔ پھر جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کیا، اس کی وسعتوں کا تذکرہ کیا۔ بہت خوش ہوئے، لیکن پھر کہنے لگے: حضوؐر میری طرف دیکھیے تو سہی، میں کس قدر کالا کلوٹا اور کس قدر بدشکل اور بھدا انسان ہوں۔ کیا اس کے باوجود مجھے جنت ملے گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، اللہ کو پہچان لینا اور اس کے راستے پر چلنا ،اللہ تعالیٰ تم کو  خوش شکل بنا دے گا۔ کہنے لگے: حضور ذرا میرے قریب تو ہوں۔ کس قدر بدبو میرے جسم سے اُٹھ رہی ہے، کیسا تعفن ہے، کیا اس کے باوجود میں جنت میں جاسکوں گا؟ آپ نے فرمایا: اس کے باوجود اگر ایمان ہے تو جنت میں جاسکو گے۔ وہ کہنے لگے: اچھا پھر میں ایمان لاتا ہوں، اور کلمہ پڑھ کر ایمان لے آئے، پھر فوراً یہ سوال کیا کہ ان بکریوں کا کیا کروں؟ یہ تو میرے پاس امانت ہیں،ان کو اُجرت پر چراتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: بکریوں کو قلعے کی طرف ہنکا دو۔ جب آخری بکری بھی قلعے کے اندر چلی جائے تو میرے پاس آجائو۔ انھوں نے یہی کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

معرکہ اپنے عروج پر تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ جائو اس میں شریک ہوجائو۔ وہ فوراً جاکر شریک ہوئے اور اگلے ہی لمحے شہید ہوگئے۔ تذکروں میں آتا ہے کہ غزوئہ خیبر کے ۲۰ شہدا تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ان ۲۰ شہدا کی میتیں پیش کی گئیں تو آپ سب صحابہ کرامؓ کی میتوں کے سرہانے کھڑے ہوئے، سب کو دیکھا اور دعا کی۔ جب حضرت اسودراعیؓ کے سرہانے آپ جاکر کھڑے ہوئے تو صحابہؓ نے عجیب منظر دیکھا کہ ایک نظر آپ نے ان کے چہرے پر ڈالی اور فوراً اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا اور رُخ موڑ لیا۔ صحابہؓ کچھ حیران ہوئے اور بعد میں نبیؐ سے دریافت کیا کہ حضوؐر باقی تمام شہدا کو تو آپ نے جی بھر کر دیکھا، ان کے سرہانے دیر تک کھڑے رہے لیکن حضرت اسودراعیؓ کے سرہانے لمحے بھر کے لیے کھڑے ہوئے اور اپنا رُخ پھیر لیا، یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس خاص لمحے اسودراعیؓ حوروں کے درمیان تھے، اور    اللہ تعالیٰ نے ان کو حسین و جمیل بنا رکھا تھا، اور ان کے جسم سے خوشبو کی لپٹیں اُٹھ رہی تھیں۔ میں نے مناسب نہ سمجھا کہ اس لمحے ان کی طرف زیادہ دیر تک دیکھوں۔ یوں میں آگے بڑھ گیا۔

یہی وہ صحابی ہیں جن کے ایمان نے بظاہر بہت سارے اعمال کیے بغیر بھی ان کو اپنے رب کے دربار میں اس طرح پہنچا دیا کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ عموماً جن شرائط اور سوالوں کو کرتے ہوئے وہ اس راستے پر آئے تھے، ان کا جواب بھی مل گیا۔ اس لذت آشنائی، حلاوتِ ایمان، اور اپنے رب تک پہنچنے، اس کی طرف بڑھنے کے شوق نے بالآخر انھیں ان جنتوں کی طرف پہنچایا جومطلوب ہیں، جس کی طلب ہم سب کے اندر موجود ہے، اور ہونی چاہیے۔    اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں آگے بڑھائے اور لذتِ ایمانی سے آشنا کرے۔ یہی ایمان، تزکیہ کی پہلی شرط ہے اور تزکیہ کو پانے کے لیے عدالتِ صغریٰ کا وجود اور ہر آن اپنا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔

دین میں دعا کی بڑی اہمیت ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے اعراض اللہ رب العالمین کو سخت ناپسند ہے۔ قرآن و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عبادت شرائط و آداب سے خالی نہیں ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم عبادات کے نتائج و ثمرات تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے شرائط و آداب کی تکمیل کی طرف دھیان نہیں دیتے۔

قرآن و احادیث میں دعا کے جو شرائط و آداب مذکور ہیں وہ تین قسموں میں بانٹے جاسکتے ہیں۔ کچھ شرائط و آداب دعا سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیں، اور کچھ اس کے بعد ہیں۔ اگر  ہم مثال کے طور پر نماز کو اپنے سامنے رکھ لیں تو ان شرائط و آداب کو سمجھنا آسان ہوجائے گا کیونکہ نماز کے لیے بھی کچھ شرائط و آداب اس سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیںاور کچھ اس کے بعد ہیں۔ دعا سے پہلے کی دو شرطیں بڑی اہم ہیں:

دین کو اللّٰہ کے لیے خالص کر لینا

یہ ایک ایسی شرط ہے جو اللہ رب العزت کی تمام عبادتوں میں لگی ہوئی ہے۔ کوئی عبادت اس شرط کو پورا کیے بغیر قبول نہیں ہوتی۔ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی کو شریک نہ کیا جائے۔ پرستش صرف اسی کی اور پیروی و اطاعت صرف اسی کے احکام و اوامر کی کی جائے۔ اس کے حکم کے علی الرغم کسی کی اطاعت نہ کی جائے اور جو کچھ کیا جائے صرف اسی کی رضا حاصل کرنے اور اسی کے حکم کی تعمیل کی نیت سے کیا جائے۔ کوئی عمل محض دکھاوے کے لیے نہ کیا جائے۔ ہر عبادت اور ہر اطاعت شرک اور ریا کی آمیزش سے پاک ہو۔ قرآن میں متعدد مقامات پر صراحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کی جائے اور اس سے دعا مانگی جائے۔ اگر کوئی شخص اس شرط کی خلاف ورزی کرکے یہ توقع کرے کہ اس کی عبادت اور اس کی دعا بارگاہ الٰہی میں قبول کی جائے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ عبادت کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

اِِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ o اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط (الزمر ۳۹: ۲-۳) (اے محمدؐ!) یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔

اسی سورئہ زمر میں دوسری جگہ کہا گیا ہے:

قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَہٗ دِیْنِیْ o فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖط (الزمر ۳۹: ۱۴-۱۵) کہہ دو کہ میں اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی کی بندگی کروں گا تم اس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو۔

یہ ایک سخت تنبیہی انداز ہے جو غیراللہ کی بندگی کرنے پر مشرکین کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔     اسی طرح کی آیتیں قرآن میں اور بھی ہیں۔ مخصوص طور پر دعا کے لیے قرآن میں کہا گیا ہے: وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ(الاعراف ۷:۲۹) ’’اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہوکر‘‘۔ سورئہ مومن میں ہے: فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo (المومن ۴۰:۱۴) ’’پس اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے خواہ تمھارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندگی و طاعت کو اللہ کے لیے خالص کر کے صرف اسی کو پکارنا، اس کی دہائی دینا اور اس سے دعا کرنا کافروں کو سخت ناگوار ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکارنا اور ان کی دہائی دینا پسند کرتے ہیں۔ سورئہ مومن ہی میں دوسری جگہ ہے:

فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (المومن ۴۰:۶۵) وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، ساری تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

آج بہت سے مسلمانوں کا بھی حال یہ ہے کہ ان کی بندگی و اطاعت اللہ کے لیے خالص رہی ہے اور نہ ان کی دعا۔ وہ اوامر الٰہی کے علم الرغم دوسروں کی اطاعت بھی کر رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کی دہائی بھی دے رہے ہیں۔ کاش! وہ من گھڑت تاویلات کو ترک کرکے ان آیات پر غور کرتے۔

اکل حلال و کسب حلال

قبولیت ِ دعا کے لیے دوسری اہم شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا رزق حلال ہو اور اس کی کمائی یا ذریعۂ معاش بھی حلال ہو، حرام خوری کے ساتھ دعا قبول نہیں ہوتی۔ یہ شرط صراحت کے ساتھ صحیح حدیث میں مذکور ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی دو آیتوں سے استشہاد فرمایا ہے۔ اس لیے کہنا چاہیے کہ اکل حلال و کسب حلال کی شرط اشارتاً خود قرآن میں مذکور ہے۔

امام مسلم نے کتاب الزکوٰۃ میں اور امام ترمذی نے سورئہ بقرہ کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت کی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بلاشبہہ اللہ تمام نقائص و عیوب سے پاک ہے اور صرف حلال اور پاک چیزوں ہی کو قبول فرماتا ہے اور اس کے متعلق اس نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسولوں سے فرمایا ہے: ’’اے میرے پیغمبرو! تم پاک اور حلال غذا کھائو اور صالح عمل کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو میں پوری طرح   اس سے باخبر ہوں‘‘۔ اور اپنے مومن بندوں سے اس نے کہا ہے: ’’اے ایمان لانے والو، تم میری دی ہوئی روزی میں سے حلال اور پاک چیزیں کھائو۔ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو  (کسی مقدس مقام میں) لمبا سفر طے کر کے آتا ہے، پریشان مو اور غبارآلود مگر حال یہ ہوتا ہے کہ اس کاکھانا حرام، لباس حرام اور اس کا جسم حرام غذا سے پلا ہوا۔ پس اس شخص کی دعا کس طرح قبول ہو۔حضوؐر نے اپنے ارشاد میں جن دو آیتوں کا حوالہ دیا ہے ان میں سے پہلی سورۃ المومنون کی آیت۵۱ ہے اور دوسری سورئہ بقرہ کی آیت ۱۷۲ ہے۔ قبولیت ِ دعا کی اس شرط سے بھی مسلمان جو غفلت برت رہے ہیں اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

دعا کے اندر کی شرطیں

قرآن اور احادیث میں دعا کے اندر کی تین اہم شرطیں مذکور ہیں: حضور قلب، تضرع، خوف و رجائ۔

۱- حضور قلب کا مطلب یہ ہے کہ دعا کے وقت داعی کا دل اللہ کی طرف متوجہ اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو دعا کے الفاظ نکل رہے ہوں اوردل کہیں اور کی ہوا کھا رہا ہو۔ دعا کے وقت اگر دل غافل ہو تو وہ قبول نہیں ہوتی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اور جان لو کہ اللہ دعا قبول نہیں کرتا کسی غافل دل کی۔ (کنزالعمال، ج ۲)

اسی معنی کی حدیث طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ اگر دل ہی حاضر نہ ہو تو پھر تضرع اور خوف و رجا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جب آدمی دعا کر رہا ہو تو اسے شعور ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔

۲- تضرع کی شرط صراحتاً قرآن میں مذکور ہے۔ سورئہ اعراف کی آیت ۵۵-۵۶ کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آیت ۵۵ کا پہلا ٹکڑا یہ ہے: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا (اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے)۔ یہاں تضرع کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ کے سامنے اپنی ذلت، عاجزی، پستی اور ضعف کے زندہ شعور اور تازہ احساس کے ساتھ دعا کرے۔ اس کا مطلب زور زور سے چیخ چیخ کر دعا کرنا نہیں ہے کیونکہ اس کی صراحتاً ممانعت آئی ہے اور یہ آدابِ دعا کے خلاف ہے۔ مفسرین نے اس لفظ کی تفسیر تذلل تخثع اور استکانت کے الفاظ سے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے سامنے اپنے بندے کی عاجزی کو بے حد پسند فرماتا ہے۔ وہ جب اپنے آقا و مولیٰ کے سامنے گڑگڑا کر دست سوال دراز کرتا ہے تو اس کے مالک کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ قرآن میں کفار و مشرکین کی جن کیفیات و حالات کی مذمت کی گئی ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے خدا کے سامنے عاجزی کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس کے سامنے گڑگڑائے۔

وَلَقَدْ اَخَذْنٰھُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَo (المومنون ۲۳:۷۶) اور ہم نے ان کو آفت میں پکڑا پھر نہ انھوں نے اپنے رب کے سامنے عاجزی کی اور نہ گڑگڑائے۔

قرآن ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اخلاص وہ چیز ہے جو دنیا میں کفار و مشرکین کو بھی بعض مصیبتوں سے بچا لیتی ہے۔ مشرکین پر ان کے شرک کی حماقت واضح کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے:

اے محمدؐ! ان سے پوچھو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمھیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکرگزار ہوں گے۔ کہو، اللہ تمھیں اس سے اور ہرتکلیف سے نجات دیتا ہے۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتے ہو۔ (الانعام ۶:۶۳، ۶۴)

کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔ (آیت۱۶)

ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اضطرار و بے قراری کی کیفیت اسے بارگاہِ الٰہی میں قابلِ قبول بنادیتی ہے۔ دعا اور ذکر دونوں ہی میں تضرع اور خوف و رجا کا مقام وہی ہے جو نماز میں خشوع اور خضوع کا ہے۔ ذکرِ الٰہی کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً (الاعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ! اپنے رب کو یاد کیا کرو دل ہی دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور خوفِ خدا کے ساتھ۔

۳- خوف اور اُمید کے ساتھ دعا کرنے کی تعلیم بھی الاعراف، آیت ۵۶ میں صراحتاً موجود ہے۔ وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاط (اور اس کو پکارو خوف کے ساتھ اور اُمید کے ساتھ)۔ اللہ کے عذاب کا خوف اور اس کے ثواب کی اُمید وہ چیز ہے جو مومن کو راہِ اعتدال پر قائم رکھتی ہے۔ وہ نہ اسے بے پروا اور نڈر ہونے دیتی ہے اور نہ اسے مایوس اور دل شکستہ بناتی ہے۔ خاص دعا کے لحاظ سے اس بات کا اندیشہ کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے دعا رد نہ کردی جائے۔ اسے دعا کے شرائط و آداب کی طرف متوجہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بیکراں کا خیال اسے قبولیت ِ دعا کا اُمیدوار بناتا ہے۔ قرآن میں انبیاے کرام علیہم السلام اور صالح بندوں کی دعا و عبادت کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس میں خوف و رجاء کا خاص طور پر ذکر ہے۔ ایک مقام پر انبیاؑ کے مختلف حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبًَا ط وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo(الانبیاء ۲۱:۹۰) یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑدھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔

ایک جگہ صالحین کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے:

تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o (السجدہ ۳۲: ۱۶) ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

ہمیں اپنی عبادتوں اور دعائوں کو ان آیات کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہیے اور انھیں کھرا بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔ یہی حقیقی تدبیر ہے ان کے نتائج و ثمرات حاصل کرنے کی۔

چند قابلِ احتراز پھلو

چند چیزیں جن سے دعا میں احتراز کرنا چاہیے، اس لیے کہ وہ آدابِ دعا کے خلاف ہیں۔

دعا میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کی شرط لگانا صحیح نہیں ہے، بلکہ جو کچھ مانگنا ہو پوری قطعیت اور عزم کے ساتھ مانگنا چاہیے۔ بخاری میں ہے: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یوں نہ کہے کہ اے اللہ! مجھے بخش دے اگر تو چاہے، اے اللہ مجھ پر رحم کر! اگر تو چاہے بلکہ بغیر شرطِ قطعیت کے ساتھ دعا کرے۔ اس لیے کہ اللہ پر جبر کرنے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اگر اللہ نہ چاہے تو زبردستی اس سے کوئی چیز حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے اس کے چاہنے کی شرط لگانا بے کار ہے اور ادب دعا کے خلاف بھی ہے۔

دعا میں تصنع اور تکلف کر کے مسجّع و مقفّٰی الفاظ استعمال کرنا غلط ہے کیونکہ اس طرح دعا کی روح اس سے غائب ہوجاتی ہے۔ نہ حضور قلب باقی رہتا ہے اورنہ تضرع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے بلکہ ذہن قافیے اور سجّع کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ایک بار اپنے شاگرد حضرت عکرمہ کو چند ہدایتیں دیں، ان میں سے ایک یہ تھی: ’’دعا میں سجع سے اجتناب کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو ایسا کرتے نہیں پایا‘‘ (بخاری)۔ البتہ اگر بلاتکلف مسجّع و مرصّع الفاظ زبان سے نکلیں تو دعا ایک پارۂ ادب بھی بن جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر دعائیہ کلمات، بہترین پارہ ہاے ادب بھی ہیں۔

دعا میں اعتدائ، یعنی حد سے تجاوز کرنا بھی ایک غلط کام ہے۔ سورئہ اعراف کی آیت ۵۵ میں فرمایا گیا ہے: ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔

دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی متعدد صورتیں ہوتی ہیں:

  • ناروا چیزوں کی طلب: بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی چیزوں کی دعا کرنا جو ناروا اور ناجائز ہیں۔ اعتداء فی الدعا (دعا میں حد سے تجاوز کرنا) ہی کی ایک قسم ہے اور واقعہ یہ ہے کہ دعا میں حد سے تجاویز کی یہ بدترین شکل ہے۔ ایسا کرنا حقیقت دعا کی عین ضد ہے اور اس طرح کی دعائوں سے انسان اللہ کے غضب میں گرفتار ہوسکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک مسلمان جو سودی کاروبار کر رہا ہے اگر وہ اپنے اس کاروبار کی ترقی کے لیے اللہ سے دعا کرتا ہے تو وہ احمق اپنے آپ کو خدا کے غضب کا مستحق بنا رہا ہے۔ اس لیے کہ قرآن میں سودخواروں کو اللہ و رسولؐ سے جنگ کا چیلنج دیا گیا ہے۔ اللہ سے صرف ایسی ہی چیز مانگنی چاہیے جس کے بارے میں پورا علم ہو کہ وہ جائز ہے۔
  • بلاضرورت زور زور سے دعا کرنا : بلاضرورت بآواز بلند دعا کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ اس کی دو دلیلیں تو سورئہ اعراف کی آیت۵۵ میں موجود ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں چپکے چپکے دعا کرنے کا حکم ہے اور اصل قاعدے کے لحاظ سے ہر امر (حکم) وجوب کے لیے ہوتا ہے اور اگر اس کو وجوب کے لیے نہ مانا جائے تو کم سے کم اس کا پسندیدہ اور مستحب ہونا تو ثابت ہوتا ہی ہے۔ دوسری دلیل اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَعْتَدِیْنَ (اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) کے ٹکڑے میں ہے۔ کلبی اور ابن جریج نے کہا ہے کہ اس آیت میں اعتداء سے مراد رفع الصوت فی الدعاء ہے، یعنی دعا میں آواز بلند کرنا حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اس آیت کے علاوہ دوسری آیات و احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے ذکر اور دعا دونوں ہی میں آہستگی پسندیدہ ہے۔ اللہ کے ذکر میں آہستگی کا حکم ہے:

وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً (الاعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ! اپنے رب کو یاد کیا کرو دل ہی دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور خوفِ خدا کے ساتھ۔

حضرت زکریا علیہ السلام کی مدح کرتے ہوئے ان کی ایک خاص دعا کا بیان قرآن میں اس طرح ہے: اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّا o(مریم ۱۹:۳) ’’جب کہ انھوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا‘‘۔ امام رازی نے لکھا ہے کہ اس آیت سے بھی یہی مستنبط ہوتا ہے کہ آہستگی کے ساتھ دعا کرنا مستحب ہے۔ بخاری و  مسلم میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ایک سفر جہاد میں صحابہ کرام بآواز بلند تکبیر کہنے لگا تو حضوؐر نے انھیں اس سے روکا اور فرمایا کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ ایک ایسی ذات کو پکار رہے ہو جو سمیع و قریب ہے اور وہ تمھارے ساتھ ساتھ ہے۔

امام رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: حضرت حسن بصریؒ کہتے تھے کہ کوئی شخص پورا قرآن حفظ کرلیتا تھا لیکن اس کے پڑوسی کو اس کی خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ اسی طرح کوئی شخص تہجد کی طویل نمازیں پڑھتا تھا اور اس کے پاس لیٹے ہوئے شخص کو اس کا شعور بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو اعمالِ خیر کے اخفاء میں مبالغہ کرتے تھے۔ ہم نے ان مسلمانوں کو دیکھا ہے جو دعا میں پوری محنت صرف کرتے تھے لیکن ان کی آواز بلند نہیں ہوتی تھی، اس لیے کہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’اپنے رب کو یاد کرو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے‘‘۔

اس کے علاوہ انسان کا نفس دکھاوے اور شہرت طلبی کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اس لیے بآواز بلند دعا کرنے میں اندیشہ ہے کہ اس میں ریا کی آمیزش ہوجائے۔ اس سے بچنے کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ چیخ چیخ کر دعا نہ کی جائے۔ آج کل جلسوں میں اور مسجدوں میں زور زور سے دعا مانگنے کا جو رواج ہوگیا ہے، وہ دعا کے اس ادب سے لاعلمی کی دلیل ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو سنن و نوافل سے فارغ ہوکر بآواز بلند دعا مانگنے لگتے ہیں۔ انھیں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ دوسرے لوگوں کو جو ابھی نماز میں مشغول ہیں پریشانی ہوگی۔ البتہ اگر کوئی ضرورت داعی ہو تو درمیانی آواز کے ساتھ دعا مانگی جاسکتی ہے۔

  • دعا میں غیرضروری الفاظ بڑہانا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ خود جامع دعائیں پسند فرماتے تھے بلکہ آپ نے غیرضروری الفاظ بڑھانے پر تنبیہہ بھی کی تھی۔ ہم یہاں اس طرح کی چند حدیثیں نقل کرتے ہیں: حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جامع دعائیں پسند فرماتے تھے اور غیرجامع کو ترک کر دیتے تھے۔(مشکوٰۃ بحوالہ ابوداؤد)

’جامع دعا‘ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آپؐ دنیا اور آخرت دونوں ہی کی بھلائیاں طلب فرماتے تھے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ کی دعائوں کے الفاظ کم لیکن معانی بہت ہوتے تھے، یعنی آپ اپنی دعائوں کو غیرضروری الفاظ بڑھا کر طویل نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے دعا کے اس ادب کو اچھی طرح ذہن نشین کیا تھا اور وہ غیرضروری الفاظ کے اضافے کو دعا میں اعتداء قرار دیتے ہیں۔ ابوداؤد میں ہے کہ حضرت سعد بن وقاصؓ نے اپنے ایک بیٹے کو دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور اس کی نعمتیں، اور اس کا ریشم اور یہ،  اور یہ، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دوزخ سے اور اس کی زنجیروں سے اور اس کے طوق سے‘‘۔

جب وہ دعا ختم کرچکے تو حضرت سعدؓ نے ان سے کہا: تم نے خیرکثیر کی دعا کی اور بہت سے شر سے پناہ مانگی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو دعا میں حد سے تجاوز کریںگے اور بعض حدیثوں میں ہے کہ لوگ وضو میں اور دعا میں حد سے تجاوز کریںگے۔ جنت کی طلب میں اس کی تمام نعمتوں اور آسایشوں کی طلب خودبخود داخل ہے۔ اسی طرح دوزخ سے استعاذہ میں اس کی تمام سزائوں اور زحمتوں سے استعاذہ خود بخود داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سعد نے جنت کی دعا کے ساتھ اس کی نعمتوں کی تفصیل اور جہنم سے استعاذے کے ساتھ اس کی سزائوں کے ذکر کو ناپسند کیا اور ان غیرضروری الفاظ کے اضافے کو ادبِ دعا کے خلاف قرار دیا۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل نے اپنے بیٹے کو کہتے ہوئے سنا: ’’اے اللہ! میں تجھ سے قصر ابیض (سفیدمحل) مانگتا ہوں جنت کے داہنے جانب‘‘۔ یہ سن کر انھوں نے کہا: جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب اس اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو وضو اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے۔ اس دعا میں انھوں نے غیرضروری قید اور شرط کو ادب دعا کے خلاف قرار دیا۔ وضو میں حد سے تجاوز کی ایک صورت یہ ہے کہ بلاضرورت ہرعضو کو تین بار سے زیادہ دھویا جائے۔ اگر کسی شخص کو اپنی کوئی خاص اور وقتی حاجت و ضرورت کی دعا مانگنی نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ دعاے ماثورہ، یعنی قرآن اور احادیث میں مذکور دعائیں مانگے۔ ان میں خاص برکت بھی ہے اور وہ ان تمام بے اعتدالیوں سے محفوظ بھی ہیں جو دعا میں انسان سے ہوسکتی یا ہوجایا کرتی ہیں۔

  • دعا کو تقریر بنا دینا:جب دعا میں غیرضروری الفاظ کا اضافہ بھی آدابِ دعا کے خلاف اور حد سے تجاوز کرنا ہے تو دعائوں کو تقریر بنا دینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ آج کل دیکھا جا رہا ہے کہ بعض لوگوں نے دعا کو خطابت کا ایک فن بنا دیا ہے۔ دعا اور ایک لمبی تقریر میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے۔ یہ دعا کے ساتھ بڑی بے ادبی کا رویہ ہے اس سے پرہیز کرناچاہیے۔
  • حیثیت سے زیادہ کی طلب: دعا میں حد سے تجاوز کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان اپنی حیثیت سے بلند چیزوں کی دعا کرے۔ مثال کے طور پر اگر ہم اللہ سے تقرب کا وہ درجہ مانگیں جو انبیاے کرام ؑ کا ہے تو یہ آدابِ دعا کے خلاف ہوگا، یا کوئی مسلمان ایک طرف تو اللہ کی نافرمانیاں کیے جا رہا ہو اور دوسری طرف اس سے جنت کی دعا بھی مانگ رہا ہو، حالانکہ اس کو سب سے پہلے نافرمانیوں سے باز آنا چاہیے، توبہ کرنی چاہیے اور اللہ سے اطاعت و عبادت کی توفیق مانگنی چاہیے۔

آدابِ دعا

دعا کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینے تک اُٹھا کر دعا مانگے اور دعا ختم کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرلے۔ اگر دعا کرنے والا باوضو اور قبلہ رو ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ فرض نمازوں کے بعد یا سنن و نوافل کے بعد جو دعائیں مانگی جاتی ہیں ان میں ان آداب پر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے اور مسلمان ایسا کرتے بھی ہیں۔ دعا سے پہلے اللہ کی حمدوثنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اور دعا کے بعد آمین کہنا بھی آدابِ دعا میں داخل ہے۔ دعا کے یہ آداب، احادیث ِ رسولؐ سے ثابت ہیں۔ میں طوالت کے خوف سے وہ حدیثیں یہاں نقل نہیں کر رہا ہوں۔

دعاؤں کے لیے بھتر اوقات

دعائوں کے لیے شریعت نے پنج وقتہ نمازوں کی طرح کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا ہے۔ دعا ہروقت کی جاسکتی ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعائوں کے لیے بہتر اوقات و حالات کا انتخاب کرنے سے ان کی مقبولیت کی زیادہ توقع پیدا ہوجاتی ہے۔ امام غزالی اور دوسرے علما و صوفیا نے ان اوقات و حالات کو یک جا کرکے بیان کیا ہے۔

ایک وقت تو پورے سال میں ایک بار آتا ہے جیسے یومِ عرفہ، اور سال کے ۱۲ مہینوں میں ایک مہینہ رمضان المبارک اور بالخصوص شب ِقدر۔ بعض اوقات ہر ہفتہ آتے ہیں جیسے جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن۔ بالخصوص نمازِ جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان اور سورج ڈوبنے سے تھوڑی دیر پہلے۔ بعض اوقات روزانہ آتے ہیں جیسے آخر شب میں سحر کا وقت، فرض نمازوں کے بعد، اذان و اقامت کے وقت اور اذان و اقامت کے درمیان بارش کے وقت۔ سجدے کی حالت میں تکثیر دعا کی ترغیب دی گئی ہے۔ روزہ دار کے لیے افطار کا وقت، مسافر کے لیے ابتداے سفر کا وقت اور حالت سفر میں، حالت اضطرار میں۔ اس حالت میں جب اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قیامت کی ہولناکی کے تصور سے جسم پر لرزہ طاری ہو۔ دعائوں کے لیے ان اوقات و احوال کے بہتر ہونے کے ثبوت میں قرآن کی آیات اور صحیح احادیث موجود ہیں۔

مقبولیت دعا کی ایک اور شرط

دعا کے بعد اس کی مقبولیت کی ایک اور شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اس کے لیے جلدی نہ مچائے۔ امام بخاری و مسلم دونوں ہی نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص بھی دعا کرے اس کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلدبازی کرکے یہ نہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی لیکن وہ قبول نہیں کی گئی‘‘۔

امام مسلم کی روایت میں یہ ہے: ’’بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ مچائے۔ پوچھا گیا کہ استعجال (جلدبازی) کا مطلب کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعاگو کہنے کے لیے میں دعا کی پھر دعا کی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ قبول ہوگی اور پھر وہ دعا کرنا ترک کر دے‘‘۔

مقبولیت ِ دعا میں جلدبازی چند نادانیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک نادانی یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کی حقیقت ہی سے ناواقف ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ غلام، تسلیم و رضا کا پیکر بنا ہوا اپنے مہربان آقا کے دامن سے چمٹا رہے اور اس کے سامنے احتیاج کا ہاتھ پھیلائے رہے۔ دعا عبادت بلکہ مغز عبادت ہے اور عبادت کے اجر کا محل اصلاً یہ دنیا نہیں ہے بلکہ آخرت ہے۔ جلدباز دعاگو کی دوسری نادانی یہ ہے کہ وہ اپنی دعا کو ہرطرح قابلِ قبول سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ مقبولیت ِ دعا کی جو شرطیں ہیں وہ پوری نہ ہوئی ہوں۔ وہ جانتا ہے کہ آقا اس کا بخیل نہیں ہے اور نہ اس کے خزانے میں کوئی کمی ہے۔ وہ رحمن و رحیم بھی ہے، عادل بھی، حکیم بھی ہے اور جواد و فیاض بھی۔ اب اگر اس کی مانگی ہوئی چیز نہیں مل رہی ہے تو اس کی کوئی خاص وجہ ہوگی۔

تیسری نادانی یہ ہے کہ وہ مقبولیت ِ دعا کا صحیح مطلب نہیں جانتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بندہ جو کچھ مانگے وہ ہر حال میں اسے دے ہی دیا جائے خواہ اس کی مصلحت کے مطابق ہو یا نہ ہو، بلکہ دعا کی مقبولیت اللہ کی حکمت اور بندے کی مصلحت کے ساتھ مربوط ہے۔

انسان کی فطرت میں چونکہ جلدبازی داخل ہے اس لیے اس کے بُرے اثرات سے بچانے اور مطمئن کرنے کے لیے دعا کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتا دیا ہے کہ مومن کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی بلکہ ہمیشہ قبول کی جاتی ہے۔ البتہ قبول کرنے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔

مومن کی دعا رد نھیں کی جاتی

حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہہ تمھارا رب صفت حیا سے متصف اور کریم ہے۔ جب اس کا بندہ اس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ ان ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘(ترمذی، ابوداؤد، بیہقی)۔ اس سے معلوم ہوا کہ بندۂ مومن کے دعا میں اُٹھے ہوئے ہاتھ کبھی محروم اور خالی واپس نہیں آتے بلکہ اپنے مولاے کریم سے کچھ نہ کچھ لے کر لوٹتے ہیں، لیکن یہ بات ذہن میں اوجھل نہ ہونے دینا چاہیے کہ قبولیت ِ دعا کے آداب و شرائط کا لحاظ ضروری ہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: جب کوئی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا رشتے کو کاٹنے والی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز عطا فرماتا ہے: ۱-جو کچھ اس نے مانگا ہے دنیا ہی میں اسے دے دے ۲- اس کا اجر آخرت کے لیے ذخیرہ کردے ۳-جو خیر اس نے مانگی تھی اسی کے مثل کوئی شر اس سے دُور کردے۔ صحابہؓ نے کہا: تب تو ہم بہ کثرت دعائیں مانگیں گے۔ حضوؐر نے فرمایا: اللہ کا خزانہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ مسنداحمد ، بزار و  ابویعلٰی)

اسی مضمون کی حدیثیں حضرت عبادہ بن الصامتؓ، حضرت ابوہریرہؓ، اور حضرت جابرؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان حدیثوں میں بھی قبولیت دعا کی ایک شرط مذکور ہے، یعنی یہ کہ اس کی دعا میں کسی گناہ کی طلب یا قطع رحمی کی کوئی بات نہ ہو۔ دعا میں قطع رحمی کی ایک صورت یہ ہے کہ رشتہ داروں کے حق میں دعاے خیر کے بجاے بددعا کی گئی ہو۔

یہ حدیثیں مجھ جیسے عجلت پسند انسان کو اطمینان دلاتی ہیں کہ شرائط و آداب کے ساتھ کوئی بھی مخلصانہ دعا رد نہیں کی جاتی۔ ہم دنیا میں کوئی بھلائی مانگتے ہیں اور وہ نہیں ملتی یا کسی مصیبت اور تکلیف کو دُور کرنے کی دعا کرتے ہیں اور وہ دُور نہیں ہوتی توہم دل شکستہ اور مایوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ حدیثیں اس دل شکستگی اور مایوسی کو ختم کردیتی ہیں اور ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ مانگنے کے باوجود دنیا میں ہمیں جو کچھ نہیں ملا اس کا بدلہ آخرت میں ضرور ملے گا اور وہاں جو کچھ ملے گا وہ بہتر بھی ہوگا اور پایندہ تر بھی۔

ایک بڑی غلط فھمی کا ازالہ

فلسفۂ یونان کے اثر سے جب اسلامی عقائد اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں بحثیں شروع ہوئیں تو اسلامی لٹریچر میں ایک نئے علم، علمِ کلام کا اضافہ ہوا، اور تصوف بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فلسفہ اور علمِ کلام نے جو سب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی نگاہ سے قرآن اور احادیث کے دلائل اوجھل ہوگئے اور انھوں نے بھی فلسفیوں کی طرح عقلی و دماغی  تیر تکّے چلانے شروع کر دیے۔ کتاب و سنت کے معقول دلائل انسان کے دل میں اطمینان اور یقین کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف فلسفے کے عقلی دلائل قلب کو شک اور تردد میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بہرحال فلسفیانہ بحث و مباحثے کی زد ’دعا‘ پر بھی پڑی اور اس کے بارے میں بھی لوگوں نے عقلی تیر تکے چلانے شروع کر دیے۔ تصوف میں بھی اس مسئلے میں متعدد اقوال پیدا ہوگئے۔

رسالہ قشیریہ میں جو تصوف کی قدیم اور مستند کتاب ہے، وہ اقوال نقل کیے گئے ہیں: ۱-دعا کرنا افضل ہے ۲- خاموش اور راضی برضاے الٰہی رہنا افضل ہے ۳- بہتر یہ ہے کہ بندے کی زبان دعاگو رہے اور قلب راضی برضا رہے ۴-مختلف اوقات و حالات کا حکم مختلف ہے۔ بعض حالات میں دعا کرنا خاموش رہنے سے افضل ہے اور اس وقت کا یہی ادب ہے اور بعض حالات میں خاموش رہنا دعا کرنے سے افضل ہے اور اس وقت کا یہی ادب ہے۔ اس کا معیار یہ ہے کہ اپنے قلب کو دیکھے اگر وہ دعا کا اشارہ کرے تو دعا افضل ہوگی اور اگر سکوت کا اشارہ کرے تو سکوت افضل ہوگا ۵- اپنے حال کا لحاظ کرے۔ اگر دعا کے وقت کیفیت بسط میں زیادتی محسوس کرے تو دعا افضل ہوگی اور اگر اس وقت کسی قسم کی اُکتاہٹ اور ’قبض‘ کی کیفیت محسوس ہو تو سکوت افضل ہوگا اور اگر نہ ’بسط‘ میں زیادتی ہو اور نہ ’قبض‘ میں تو دعا اور ترکِ دعا کا معاملہ برابر رہے گا۔ ۶- اگر ارادۂ دعا کے وقت ’علم‘ غالب ہو تو دعا افضل ہے، اس لیے کہ وہ عبادت ہے اور اگر اس وقت ’معرفت‘ ، ’حال‘ اور ’سکوت‘ غالب ہو تو خاموش رہنا افضل ہوگا ۷-جس دعا میں مسلمانوں کا حصہ ہو یا حق تعالیٰ کا اس میں حق ہو تو دعا بہتر ہے اور اگر اس میں خود تمھارے اپنے لیے حظ و نصیب ہو تو سکوت اولیٰ ہے۔

ان اقوال میں فلسفیانہ تصوف کی چند اصطلاحیں بھی استعمال ہوئی ہیں۔ وقت، حال، اشارہ، بسط، قبض، علم، معرفت، سکوت___ دعا کے بارے میں قرآن و حدیث کی جو تصریحات اُوپر گزریں انھیں پڑھیے اور پھر رسالہ قشیریہ میں منقول ان اقوال پر نظر ڈالیے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام اقوال تصوف میں فلسفے کو داخل کر دینے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم نہ فلسفۂ یونان کی افادیت کے قائل ہیں اور نہ ہمیں اجنبی عناصر سے مخلوط تصوف سے دل چسپی ہے، اس لیے ان اقوال و اصطلاحات کی توضیح بے کار ہے۔ البتہ ایک غلطی کا ازالہ ضروری ہے جس کا تعلق حدیث نبویؐ سے ہے۔ دعا کے سلسلے میں دوسرا قول یہ نقل کیا گیا ہے کہ خاموش اور راضی بقضا یا راضی برضاے الٰہی رہنا افضل ہے۔ اس قول کی دلیل کے طور پر رسالہ قشیریہ میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس شخص کو میرے ذکر نے مشغول کر دیا مجھ سے سوال کرنے سے، میں اس کو دوں گا، اس سے بہتر جو سوال کرنے والوں کو دیتا ہوں‘‘۔

راقم الحروف نے مشکوٰۃ، جمع الفوائد، ترغیب و ترہیب اور کنزالعمال میں یہ حدیث تلاش کی لیکن ناکام رہا، البتہ قرآن کریم کی فضیلت کے بیان میں امام ترمذی اور دارمی نے یہ حدیث روایت کی ہے: ’’ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: جس کو قرآن نے مشغول کر دیا میرے ذکر اور دعا سے میں اس کو عطا کروں گا اس سے بہتر جو سوال کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں، پس دوسرے کلاموں پر کلام اللہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر‘‘۔ (ترمذی)

امام دارمی نے یہ حدیث باب فضل کلام اللہ علیٰ سائر کلام اللہ میں روایت ہے: ’’جس کو قرآن کی تلاوت نے مشغول کر دیا مجھ سے سوال کرنے اور میرا ذکر سے میںاس کو دوں گا سوال کرنے والوں سے بہتر اجر اور اللہ کے کلام کی فضیلت بقیہ دوسرے کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر‘‘۔ (دارمی)

یہ ایک ضعیف حدیث ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے کلام قرآنِ مجید کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اگر قرآن کی تلاوت میں اس درجہ مشغولیت رہی کہ قاریِ قرآن، اللہ کا کوئی اور ذکر اور اس سے دعا نہ کرسکا تو وہ اسے مانگنے والوں کے مقابلے میں افضل اور بہتر چیز عطا کرے گا اور اس کی یہ وجہ بھی اس میں بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کا کلام چونکہ دوسرے تمام کلاموں سے افضل ہے۔ اس لیے اس کا اجر اور اس کی برکت بھی سب سے زیادہ ہوگی۔ اس ضعیف حدیث میں شاغل (مشغول کرنے والا) قرآن ہے اور مشغول عنہ (مشغولیت کی وجہ سے جس کی طرف توجہ نہیں کی جاسکی) ذکر بھی ہے اور دعا بھی۔ اسی حدیث میں کسی نے تحریف کر کے ان صوفیوں کو سنا دی جو ترکِ دعا کو افضل قرار دیتے تھے اور انھوں نے بلاتحقیق اسے قبول کرلیا اور پھر صاحب ِ رسالہ قشیریہ نے بھی اسے اپنی کتاب میں نقل کر دیا۔ تحریف کرنے والے نے تلاوتِ قرآن کو حذف کر کے ذکر کو شاغل اور دعا کو مشغول عنہ بنادیا حالانکہ اس حدیث میں ذکر اور دعا دونوں ہی مشغول عنہ اور قرآن شاغل تھا۔

اصل میں رضا بقضا، یعنی اللہ کے فیصلے اور اس کی مرضی پر راضی رہنے کا مطلب ان لوگوں نے صحیح نہیں سمجھا جو ترکِ دعا کو افضل کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اللہ سے اپنے لیے کچھ مانگنا  مقامِ تسلیم و رضا کے خلاف ہے حالانکہ یہ خیال قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف اور بالکل غلط ہے۔ حد ہوگئی کہ ابوسلیمان دارانی نے جو اپنے وقت کے ایک بڑے صوفی تھے، ’رضا‘ کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیا: ’’ابوسلیمان نے کہا کہ ’رضا‘ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے نہ جنت کی دعا کرو اور نہ دوزخ سے پناہ مانگو‘‘ (الرسالۃ القشیریہ)۔ یہ قول جس کا بھی ہو، اللہ و رسولؐ کے اقوال کی عین ضد ہے اور صوفیاے کرام ہی کی تصریحات کے مطابق اسے قبول نہیں کرنا چاہیے۔

دعا کے لغوی معنی ہیں: پکارنا، بلانا، مانگنا اور سوال کرنا، اور شرعی اصطلاح میں دعا کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغاثہ اور عرض معروض کرنا۔ دعا کی حقیقت دو چیزوں سے مرکب ہے۔ اللہ کے حضور اپنی عبودیت، غلامی، احتیاج، عاجزی اور ضعف و ذلّت کا اظہار، اور اس کی اُلوہیت، ربوبیت، قدرت، رحمت اور عظمت و جلال کا اقرار۔ انسان جب اپنی بندگی و پستی اور اللہ رب العالمین کی آقائی و بالادستی کے زندہ شعور و احساس کے ساتھ اس کی بارگاہ میں عرض نیاز کرتا اور اس سے کچھ مانگتا اور کچھ چاہتا ہے تو دعا کی حقیقت وجود میں آتی ہے۔ وہ اپنے مالک کو کبھی دل ہی دل میں پکارتا ہے اور اکثر اس کی زبان بھی اس کے دل کا ساتھ دیتی ہے۔ کبھی ہاتھ پھیلائے بغیر اس سے مانگتا ہے اور اکثر دست سوال دراز کر کے اس کے حضور گڑگڑاتا ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کا اظہار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو مغزِ عبادت بلکہ عین عبادت قرار دے کر کیا ہے۔    انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا  مغزِ عبادت ہے۔ (ترمذی)

حضوؐر نے دعا کو مغزِ عبادت یا روحِ عبادت اس لیے فرمایا ہے کہ دعا کرنے والا ماسوا اللہ سے اپنی تمام اُمیدیں منقطع کر کے اللہ کو پکارتا ہے اور یہی توحید اور اخلاص کی حقیقت ہے اور توحید و اخلاص سے بلند تر کوئی عبادت نہیں ہے۔ محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ جس طرح جسم کے تمام اعضا ہڈیوں کے مغز سے قوت حاصل کرتے ہیں اسی طرح دعا وہ مغز ہے جس سے عابدوں کی عبادت کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں حضوؐر نے قرآن کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے دعا کو عین عبادت بھی کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ دعا کو عبادت یا مغزِ عبادت اسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے جب دونوں کی حقیقت ایک ہو۔ کتاب و سنت کے بیسیوں دلائل و شواہد سے ثابت ہے کہ عبادت کی حقیقت بھی وہی ہے جو دعا کی ہے، یعنی یہ کہ انسان اپنی عبودیت کا اظہار اور اللہ کی معبودیت کا اعتراف و اقرار کرے۔ تمام عبادتیں اسی اظہار و اقرار کے مظاہر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہم اللہ کی پرستش کریں یا اس کی اطاعت، ہماری ہر پرستش اور ہراطاعت اپنی عبودیت کا اظہار اور اس کی معبودیت کا اقرار ہے۔

دین میں دعا کی اھمیت

اس کائنات کے معبودِ برحق نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں جس طرح بہت سے احکام و اوامر نازل فرمائے ہیں، اسی طرح دعا کا حکم بھی نازل فرمایا ہے۔ اللہ کا اپنے بندوں سے مطالبہ ہے کہ  وہ اس سے اور صرف اسی سے دعا مانگیں اور مدد کے لیے اسی کو پکاریں۔ اس لیے کہ سب کچھ    اسی کے دستِ قدرت میں ہے اور اس کائنات میں اس کی مشیت کے بغیر ایک پتّا بھی اپنی جگہ سے ہِل نہیں سکتا، اور اس لیے بھی کہ دعا عبادت ہے اور عبادت کسی دوسرے کی جائز نہیں۔ سورئہ مومن میں حکم دیا گیا ہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ o (المومن۴۰:۶۰) اور تمھارا رب کہتا ہے مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں وہ عنقریب ذلّت و خواری کے ساتھ جہنم میں داخل ہوںگے۔

اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عین عبادت قرار دیا ہے۔ نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا عین عبادت ہے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ (ترمذی، ابن حبان ، احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

سورئہ اعراف میں کچھ تفصیل سے دعا کا حکم دیا گیا ہے:

اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ o وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَo (الاعراف ۷:۵۵-۵۶) اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو، جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ۔ یقینا  اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔

ان دو آیتوں میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے۔ اس ہدایت میں دعا کی حقیقت اور اس کے ادب کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔

۲- اس کو پکارو خوف اور اُمید کے ساتھ۔ خوف اللہ کے عذاب کا اور اُمید اس کے فضل و کرم کی، نیز ڈر اس بات کا کہ دعا کسی کوتاہی کی وجہ سے وہ رد نہ کردی جائے، اور اُمید اس بات کی کہ اللہ اپنے بندے کے عجزو قصور کو دیکھتے ہوئے اسے قبول فرما لے گا۔

۳- دوسرے اعمال کی طرح دعا میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو۔ اس لیے کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

۴- اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ مچائو۔ سب سے بڑا فساد یہ ہے کہ اللہ سے منہ موڑ کر دوسروں کو اپنا ملجا و ماویٰ بنایا جائے، ان کو مدد کے لیے پکارا جائے اور ان کے نام کی دہائی دی جائے۔

۵- جو لوگ خوف اور اُمید کے ساتھ صرف اللہ کو پکارتے اور اس سے دعائیں کرتے ہیں وہ محسن ہیں، اور اللہ کی رحمت محسنوں سے قریب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی دعا بندے کو درجۂ احسان تک پہنچا دیتی ہے۔ سورئہ اعراف ہی میں ایک دوسرے مقام پر کہا گیا ہے: وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا (الاعراف ۷:۱۸۰) ’’اللہ کے بہت سے اچھے نام ہیں تو تم اسے انھی ناموں سے پکارو‘‘۔

اللہ کے اسماے حسنیٰ قرآن میں بھی ہیں اور احادیث میں بھی اور چونکہ اس کی صفات   بے شمار ہیں، اس لیے کتنے ہی ایسے نام ہوں گے جن کا علم صرف اسی کو ہے۔ چنانچہ ایک دعا میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ اس آیت کی بھی بہترین تفسیر ہیں۔ اس دعا کا متعلقہ ٹکڑا یہ ہے: ’’میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے ہر اس نام سے جس سے تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے، یا وہ نام جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اس کا علم عطا کیا ہے، یا اسے تو نے اپنے ہی علمِ غیب میں اپنے پاس محفوظ رکھا ہے‘‘۔(تفسیر ابن کثیر، ج ۲،ص ۲۶۹)

سورئہ بقرہ میں فرمایا گیا:

دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۶) میں قبول کرتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کو جب مجھ سے دعا مانگے۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہِ راست پالیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میں اپنے بندوں سے دُور نہیں ہوں کہ انھیں زور سے مجھے پکارنے کی ضرورت پڑے۔ میں تو ان کے قریب ہی ہوں۔ مجھے نہ زور سے پکارنے کی ضرورت ہے اور نہ میری بارگاہ میں درخواست پیش کرنے کے لیے کسی دوسری ہستی کے واسطے کی حاجت ہے۔ میرا ہر بندہ بلاواسطہ مجھ سے دعا کرسکتا ہے۔ میں اس کی دعا کو صرف سنتا ہی نہیں ہوں بلکہ اسے قبول بھی کرتا اور اس کے بارے میں فیصلہ بھی کرتا ہوں۔ جب ایسا ہے تو میرے بندوں پر بھی لازم ہے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ لہٰذا آیت کے اس ٹکڑے سے معلوم ہوا کہ یہ بڑی نادانی ہوگی کہ انسان اللہ کی اطاعت تو نہ کرے لیکن یہ توقع رکھے کہ اس کی دعائیں قبول کی جائیں گی۔ دراصل اللہ پر ایمان اور اس کی اطاعت ہی انسان کو اس کا مستحق بناتی ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔

رسولِؐ خدا کو دعا کی ھدایت

اُوپر کی آیتوں میں بالعموم تمام بندوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب سے دعا مانگیں اور اسے پکاریں۔ اب ہم ایسی آیتیں پیش کرتے ہیں جن میں اللہ نے اپنے سب سے مقرب، سب سے محبوب اور سب سے بلندمرتبہ بندے کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس سے دعا مانگیں۔ دین میں دعا کی اہمیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگاکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیاگیا اور آپؐ نے اس حکم کی ایسی تعمیل کی جس کی کوئی مثال تاریخِ انسانی میں موجود نہیں ہے۔

اضافۂ علم کی دعا

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا o (طٰہٰ ۲۰:۱۱۴) اور دعا کرو کہ اے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔

مزید علم کی دعا سے ایک مراد یہ ہے کہ قرآن کے جو حصے ابھی نازل نہیں ہوئے ہیں اسے بھی عطا فرما اور دوسری مراد یہ ہے کہ جو حصے نازل ہوئے ہیں اس کے معانی و مسائل و معارف کا بیش از بیش فہم عطا فرما۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو اپنے بندے کی دعا بے حد محبوب ہے اور دوسری یہ کہ علمِ دین میں اضافہ انتہائی پسندیدہ چیز ہے۔ اس چھوٹی سی آیت سے دین میں دعا اور علم دونوں ہی کی اہمیت و فضیلت پر روشنی پڑتی ہے۔

غلبہ و اقتدار کی دعا

وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اور دعا کرو کہ پروردگار جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ   نکال اور مجھ کو اپنے پاس سے ایسا غلبہ دے جس کے ساتھ تیری نصرت ہو۔

جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا زمانہ قریب آیا تو اللہ نے اپنے آخری رسول کو یہ حکم دیا کہ غلبہ و اقتدار کی دعا مانگیں، اس لیے کہ آپؐ کی ہجرت اللہ کے باغیوں سے جنگ کا پیش خیمہ تھی اور اس کے لیے تین چیزیں ضروری تھیں:

ا - اس بات کی واضح دلیل اور کھلا ہوا بینہ کہ آپ ہی سچائی کے علَم بردار ہیں اور جو دین آپ پیش کر رہے ہیں وہی دین حق ہے اور وہی اس کا مستحق ہے کہ دوسرے باطل ادیان پر غالب ہو۔

ب- حکومت کا اقتدار تاکہ اس کے ذریعے نیکی کو فروغ دیا جائے اور بدی کو مٹایا جائے۔

ج- اللہ کی نصرت کیوں کہ اس کے بغیر دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کی جاسکتی۔ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا کے فقرے میں یہ تینوں چیزیں داخل ہیں۔ ظاہر ہے کہ غلبہ و اقتدار کے بغیر نہ دین باطل کو شکست دی جاسکتی ہے اور نہ قرآن کے تمام فرائض، احکام اور حدود کی تنفیذ ممکن ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ظاہر فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ حکومت کے اقتدار سے ان چیزوں کا سدِّباب کردیتا ہے جن کا سدِّباب قرآن سے نہیں کرتا۔

طلب ِ حکومت کی لطیف دعا

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (اٰل عمرٰن ۳:۲۶) دعا کرو اے اللہ! ملک کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلّت دے تیرے ہی ہاتھ میں خیر ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

ابن جریر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے درخواست کی تھی کہ فارس اور روم کی سلطنت آپؐ کی اُمت کو عطا کر دی جائے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور امام رازی نے حسن بصری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں اللہ نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ فارس اور روم کی حکومت طلب کریں، اور موجودہ زمانے کے بعض ذی علم مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں بشارت دی گئی ہے کہ امامت و سیادت کا وہ منصب جس پر بنی اسرائیل اب تک فائز رہے ہیں اب وہ بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ بہرحال اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت لطیف انداز میں امامت، سیادت اور حکومت طلب کرنے کی دعا کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت طلبی کی یہ دعا دنیا پرستی کے لیے نہیں سکھائی گئی ہے بلکہ اعلاء کلمۃ اللہ اور اللہ کے نازل کیے ہوئے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے سکھائی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے حصولِ اقتدار کی دعا عین امرالٰہی کی تعمیل ہے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے لیے ایک ایسی بے مثال حکومت کی دعا مانگی تھی جو ان کے سوا کسی کو نہ دی گئی ہو۔

ھدایت پر استقامت کی دعا

قُلِ اللّٰھُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ o (الزمر ۳۹: ۴۶) (اللہ سے دعا میں) کہیے کہ اے اللہ! آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے، غائب اور حاضر کے جاننے والے آپ ہی اپنے بندوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ فرمائیںگے جن میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے۔

اس دعا میں یہ لطیف انداز اختیار کیا گیا ہے کہ اس میں صرف اللہ کی حمدوثنا کی گئی ہے اور اس کی حاکمیت کا اظہار کیا گیا ہے اور دعائیہ جز مخفی رکھا گیا ہے۔ اس مخفی جز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں ظاہر فرما دیا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت میں ہے کہ حضوؐر نمازِ تہجد کے افتتاح میں سورئہ زمر کی یہ آیت فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ تک پڑھتے تھے۔ اس کے بعد یہ دعائیہ فقرہ کہتے تھے: ’’حق کے بارے میں جو اختلاف پیدا کیا گیا ہے اس میں مجھے ہدایت پر قائم رکھ، بلاشبہہ تو جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے‘‘۔ (ابن کثیر بحوالہ مسلم،ج ۴،ص ۵۶)

ھر برائی سے پناہ مانگنے کی دعا

انسان کو ہرقسم کی برائیوں سے اُبھارنے والا شیطان اور اس کا جرگہ ہے۔ اس عدومبین کی شرارتوں سے پناہ مانگنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا تھا:

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَo وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِط اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (الاعراف ۷:۱۹۹-۲۰۰) اے نبیؐ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو۔ معروف کی تلقین کیے جائو اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

حق کی وصیت، نیکی کی تلقین اور برائی سے اجتناب کی نصیحت ایسی چیزیں نہیں ہیں جو ہمیشہ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلی جائیں بلکہ اس راہ میں داعیانِ حق پر زیادتیاں بھی کی جاتی ہیں اور جاہلوں کی اشتعال انگیزیوں سے بچنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ داعیِ حق اس سے اللہ کی پناہ مانگے جس کی قدرت شیطان پر بھی حاوی ہے۔ سورئہ حم السجدہ میں بھی انھی الفاظ کے ساتھ آپؐ کو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اور سورئہ مومنون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیطان سے کس طرح اللہ کی پناہ مانگی جائے:

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیَِّٔۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِینِ o وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ o (المومنون ۲۳: ۹۶ تا ۹۸) برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں اور دعا کرو کہ پروردگار میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے رب! میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔

ان آیتوں میں بھی پہلے حکم دیا گیا ہے کہ برائی کو بھلائی سے دفع کرو اور اس کے بعد شیطان کی اُکساہٹوں سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کا علاج صرف اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ ان آیتوں کے علاوہ قرآن کی سب سے آخری سورہ شیاطین جن و انس کی وسوسہ اندازیوں سے استعاذہ کے لیے ہی نازل کی گئی ہے۔ اس میں پناہ مانگنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور اس کے الفاظ بھی سکھائے گئے ہیں۔ سورۃ الناس سے پہلے سورۃ الفلق میں ہر شر اور ہربرائی سے اللہ کی پناہ مانگنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ اسی لیے ان دونوں سورتوں کا نام ’المعوذتین‘ ہے۔ ان دومستقل سورتوں کو نازل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ استعاذہ اور تعوذ، یعنی اللہ کی پناہ مانگنے کی دعائوں کو دین میں کیا مقام حاصل ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔ غصے اور غضب کو دُور کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھنے کی تعلیم دی ہے اور قرآن کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے بھی پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

طلب ِ مغفرت کی دعا

کسی کم درجے کے انسان کی معمولی کوتاہی نظرانداز کی جاسکتی ہے لیکن کسی بڑے درجے کے انسان کی معمولی کوتاہی بھی قابلِ گرفت بن جاتی ہے۔ نزدیکاں را بیش بود حیرانی، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ اصولی بات یاد رکھنی چاہیے کہ انبیاے کرام علیہم السلام کو استغفار کا جو حکم دیا گیا ہے وہ ان کے بلند درجات کی مناسبت سے دیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ یاد رکھنا چاہیے کہ استغفار سے صرف کوتاہیاں ہی معاف نہیں ہوتیں بلکہ اس سے درجات بھی بلند ہوتے ہیں۔ ان دونوں باتوں کو سامنے رکھ کر دیکھیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ کہیں صرف اپنے لیے اور کہیں اپنے لیے بھی اور مسلمانوں کے لیے بھی:

وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ o (المومنون ۲۳: ۱۱۸) اور کہیے اے میرے رب! میری خطائیں معاف کر اور رحم کر اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

اس آیت سے پہلے مشرکین کے انکارِ آخرت اور معبودانِ باطل سے ان کی دعائوں کی تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ غیراللہ کو پکارنے اور ان کی دہائی دینے والے کافروں کو فلاح نصیب نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد حضوؐر کو اپنے رب سے مغفرت اور رحمت طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ صرف اللہ سے دعا، توحید کی تکمیل بھی ہے:

فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْـبِکَ م    وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ o (محمد۴۷:۱۹) پس تم جان رکھو کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرو اور مسلمان مرد اور عورتوں کے لیے بھی استغفار کرو۔ اللہ کو معلوم ہے تمھاری بازگشت اور تمھارا گھر۔

استغفار کے حکم کی تعمیل حضوؐر نے اس طرح کی ہے کہ نمازوں کے اندر آپؐ جو استغفار کرتے تھے اس کے علاوہ بھی بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ روزانہ ۷۰ بار اور بعض میں آتا ہے کہ روزانہ ۱۰۰ بار استغفار کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دعائیں، استعاذے اور استغفار کی مروی ہیں، اگر ان سب کو تشریح کے ساتھ جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب آسانی کے ساتھ تیار کی جاسکتی ہے۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا (النصر۱۱۰:۳) پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کیجیے۔ بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

جب حضوؐر کی وفات کا زمانہ قریب آیا تو سورہ اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ نازل ہوئی اور آپؐ کو اس میں بھی حمدوتسبیح اور استغفار کا حکم دیا گیا۔ صحیح احادیث میں مروی ہے کہ سورئہ نصر میں آپؐ کو زمانۂ وفات کے قریب ہونے کی خبر دی گئی تھی اور صحیح احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ اس سورہ کے نازل ہونے کے بعد آپؐ نمازوں کے اندر بھی اور دوسرے اوقات میں بھی سُبْحَنٰکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ (اے اللہ! اے ہمارے رب میں حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں، اے اللہ مجھے بخش دے) پڑھا کرتے تھے۔

فرشتوں کو دعا کا حکم

قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ فرشتے ہر کام امرالٰہی کے تحت کرتے ہیں۔ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۱۶:۵۰) ’’فرشتے وہی کام کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ اس کے پیشِ نظر یہ بات یقینی ہے کہ مسلمان مرد اور عورتوں کے لیے جو دعا وہ کرتے ہیں وہ بھی امرالٰہی کے ماتحت ہی ہے۔ فرشتوں کو بھی اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے رہیں۔     اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے بھی دین میں دعا کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ فرشتوں کی طویل دعا سورئہ مومن کی ابتدا میں ہے۔ (المومن ۴۰: ۷-۹)

ان آیتوں سے ایک طرف دین میں دعا کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے اور دوسری طرف ان میں اپنے گناہوں سے تائب اور راہِ حق پر چلنے والے مسلمانوں کے عظیم فضل و شرف کا ذکر ہے۔ تسلی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین فرشتے خود اس کے حکم کے تحت ان کے لیے مغفرت اور دخولِ جنت کی دعا کر رہے ہیں تو پوری توقع ہے کہ ان کی دعا قبول کی جائے گی، اور فضل و شرف یہ ہے کہ بارگاہِ الٰہی میں حاضر مقرب ترین فرشتے تک ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی طرف متوجہ ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں ان کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔

غیراللّٰہ سے دعا شرک ھے

چونکہ دعا کی حقیقت عین توحید اور خود دعا عقیدۂ توحید کا ایک بڑا مظہر ہے، اس لیے قرآن نے غیراللہ سے دعا کو شرک قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو صراحتاً اس سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے اس سلسلے کی بھی چند آیتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں:

وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت کے لیے رواں دواں ہے۔ یہ ہے اللہ تمھارا رب، بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر جنھیں تم پکارتے ہو وہ پرکاہ کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری دعا نہیں سنیں گے اور اگر سُن لیں تو تمھیں اس کا جواب نہیں دے سکیں گے اور قیامت کے دن تمھارے شرک کا انکار کریں گے، اور باخبر (اللہ) کی طرح تمھیں اس حقیقت کی صحیح خبر کوئی نہیں دے سکتا۔ (الفاطر ۳۵: ۱۳-۱۴)

سورئہ فاطر کی اس آیت میں غیراللہ سے دعا کو بالفاظِ صریح شرک کہا گیا ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کے مشرکانہ اعمال میں سے غیراللہ سے دعا ہی کا ذکر ہے اور اس کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ قیامت میں وہ تمھارے شرک کا انکار کریں گے۔ بلاشبہہ شرک میں غیراللہ کی پرستش، نذر ونیاز اور چڑھاوا سبھی داخل ہے لیکن آیت کا سیاق بتا رہا ہے کہ یہاں اس سے اوّلین مراد غیراللہ سے دعا ہی ہے۔

وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ o (یونس ۱۰:۱۰۶) اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچاسکتی ہے نہ نقصان۔ اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔

اس آیت میں غیراللہ سے دعا کرنے اور اس کی دہائی دینے کی صریح ممانعت کے ساتھ وہ حقیقت بھی بتا دی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ انسان اپنی حماقت اور شیطان کے اغوا کی وجہ سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کے پاس بھی اختیار واقتدار اور ایسی قدرت ہے کہ وہ کسی دوسرے کو نقصان اور نفع پہنچا سکتا اور اس کی قسمت کو بنا اور بگاڑ سکتا ہے۔ اس لیے    اللہ نے اس آیت میں بھی اور متعدد دوسری آیتوں میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اس طرح کا اقتدار اللہ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ہے اور اس کی مشیت کے بغیر کوئی کسی کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اسی طرح اس نے یہ حقیقت بھی کھول دی ہے کہ اگر اللہ کی طرف سے کوئی ضرر پہنچے تو اس کو اس کے سوا اور کوئی دفع نہیں کرسکتا، اور اگر وہ کسی خیرکا ارادہ کرے تو کوئی نہیں جو اسے نفع پہنچانے سے روک سکے۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے:

اگر اللہ کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے۔ اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ (یونس ۱۰:۱۰۷)

قرآن نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر کوئی شخص غیراللہ کی دہائی دیتا اور اس سے دعائیں مانگتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کو اپنا معبود بنا رہا اور اللہ کے ساتھ اس کو شریک قرار دے رہا ہے۔ غیراللہ کی عبادت کرنے اور اس سے دعا مانگنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کی حقیقت ایک ہے۔

فَلاَ تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰھًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۳) پس اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو، ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہوجائو گے۔

معلوم ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنا، اس کو معبود کی حیثیت دینا ہے، اور اللہ کا قانون بے لاگ ہے، اس شرک میں جو بھی مبتلا ہوگا وہ اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔

دعا کی فضیلت احادیث میں

دعا کے بارے میں اس کثرت سے احادیث مروی ہیں کہ کتب احادیث میں اس کے لیے مستقل ابواب مخصوص کرنے پڑے ہیں۔ میں پہلے دعا کی اہمیت و فضیلت کے سلسلے میں چند حدیثیں پیش کرتا ہوں:

  • دعا کا تاکیدی حکم: جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کثرت سے دعائیں مانگی ہیں کہ آپؐ کی دعائوں سے ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ آیاتِ قرآنی کے پیش نظر آپؐ  نے اپنی اُمت کو اللہ سے دعا کرنے کا موکد حکم دیا ہے:

حضرت ابن عمرؓ نے حضوؐر سے روایت کی ہے کہ دعا ان مصیبتوں اور بلائوں کو دُور کرنے میں بھی نافع ہے جو نازل ہوچکی ہوں، اور ان میں بھی جو نازل نہ ہوئی ہوں۔ اور قضا کو دعا کے سوا کوئی چیز ٹال نہیں سکتی، پس تم پر لازم ہے کہ دعا کرو۔ (ترمذی)

فعلیکم بالدعاء (تم پر لازم ہے کہ دعا کرو) ایک موکد حکم ہے۔

ابن مسعودؓ حضوؐر سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ اس لیے کہ   اللہ (اپنے بندوں کے) سوال کو پسند کرتا ہے اور تنگی میں کشایش کا انتظار بہترین عبادت ہے۔ (جمع الفوائد بحوالہ ترمذی)

تنگی و ترشی کی حالت میں یا کسی بھی مصیبت و بلا کے وقت کشادگیِ رزق اور دفع بلا کے انتظار کو بہترین عبادت اس لیے کہا گیا ہے کہ بندۂ مومن اپنے آقا و مولا سے اس کے فضل و کرم کی بھیک مانگتا رہتا ہے۔ وہ نہ اس سے تھکتا ہے، نہ اُکتاتا ہے اور نہ کشادگی و رفع بلا کے لیے کوئی غلط ذریعہ یا غلط طریقہ اختیار کرتا ہے، بلکہ صرف اللہ کے فضل کی آس لگائے رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ  اس حالت میں بندے کا صبروتوکل بہترین عبادت ہے۔

’’جو اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس پر  غضب ناک ہوتا ہے‘‘ (ترمذی)۔ اس حدیث میں جو خبر دی گئی ہے وہ دعا کے بارے میں انتہائی مؤکد حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اس حدیث کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے آپ کو غضب ِ الٰہی سے بچانا چاہتا ہو، اسے اللہ سے دعا مانگنا چاہیے۔ یہ حدیث ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: من لم یدع اللّٰہ غضب علیہ۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں صحابہ کرامؓ کو دعائوں کی باضابطہ تعلیم دی ہے اور ان کے الفاظ تک سکھائے ہیں۔

  • تکثیر دعا کا حکم: حضوؐر نے اپنے مقدس ساتھیوں کو تکثیردعا کی بھی ترغیب دی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، پس تم بکثرت دعا مانگو‘‘۔ (ریاض الصالحین بحوالہ مسلم)

ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دعا کے فوائد بتائے تو ان میں سے بعض نے عرض کیا: ’’تب تو یارسولؐ اللہ ہم بکثرت دعا مانگیں گے‘‘۔ حضوؐر نے جواب دیا: ’’اللہ کا فضل تمھاری دعائوں سے بہت زیادہ ہے‘‘، یعنی اللہ کا خزانۂ فضل و کرم بے کراں ہے۔ اس لیے تمھاری کثیر دعائوں کو قبول کرنے کے بعد بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ حضوؐر کے اس جواب میں تکثیر دعا کی کتنی دل آویز ترغیب ہے۔ یہ حدیث امام ترمذی نے حضرت عبادہ بن الصامتؓ سے ابواب الدعوات میں روایت کی ہے۔

  • دعا کی فضیلت: اذکار و عبادات میں دعا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باوقعت اور مکرم شے ہے۔ ’’اللہ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے زیادہ مکرم نہیں ہے‘‘ (ترمذی)۔ یہ حدیث ابن ماجہ، احمد، بخاری (فی الادب المفرد) ابن حبان اور حاکم نے بھی روایت کی ہے۔ دعا کی فضیلت میں اگر اس ایک حدیث کے سوا کوئی دوسری حدیث نہ ہوتی جب بھی یہ کافی تھی۔ دعا کی جو حقیقت اس سے پہلے بیان کی گئی ہے، اس کو سامنے رکھا جائے تو اس حدیث کو سمجھنا دشوار نہیں ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ جس طرح اللہ کو اپنے بندوں کا غرور، گھمنڈ اور تکبر سب سے زیادہ ناپسند ہے، اسی طرح اس کو اپنے سامنے اپنے بندوں کی عاجزی، احتیاج اور عبودیت کا اظہار و اقرار سب سے زیادہ پسند ہے۔

دعا بندۂ مومن کو اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتی ہے: حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے‘‘۔ گویا جس کو اللہ سے دعا مانگنے کی توفیق مل گئی اور جس کو دعا کا ذوق پیدا ہوگیا اس نے اپنے آپ کو اللہ کی رحمتوں کا مستحق بنالیا۔ وہ اس کو اپنی رحمتوں سے نوازے گا۔

دعا سے درجات بلند ہوتے ہیں: ’’حضرت ابوہریرہؓ حضوؐر سے روایت کرتے ہیں کہ  اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا درجہ بلند فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے یہ درجہ کہاں سے ملا۔ اللہ فرماتا ہے کہ اس دعا کے بدلے میں جو تیری اولاد نے تیرے لیے کی‘‘ (جمع، بحوالہ بزار)۔ ظاہر ہے کہ جب دعا سے والدین کے درجے بلند ہوں گے تو کیا دعا کرنے والی اولاد کے اپنے درجات بلند نہ ہوں گے؟ اسی معنے کی ایک حدیث موطا امام مالک میں بھی ہے۔

دین میں دعا کی بڑی اہمیت ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے اعراض اللہ رب العالمین کو سخت ناپسند ہے۔ دعا کی تاکید بھی کی گئی ہے کہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارو۔ دعا ایک مومن کے لیے پریشان کن حالات اور مصائب و مشکلات میں امید اور حوصلے کا سامان اور مضبوط سہارا ہے اور اسے مایوسی اور نااُمیدی سے محفوظ رکھتی ہے، لہٰذا خشوع و خضوع سے دعا کا اہتمام ایک مومن کا شعار ہونا چاہیے۔ (مصنف: اسلامی تصوف)

انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے جو اس کے اندر گھسا بیٹھا ہے۔ یہی نفس اسے برائی اور گناہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسی نفس کے تزکیے اور راہِ راست پر رکھنے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے۔ پس اگر آپ اپنے نفس کی خبر نہ لیں تو وہ سرکش ہو جاتا ہے۔ اگر آپ اسے ملامت کرتے رہیں گے تو وہ نفسِ لوامہ بن جائے گا، اور راہِ راست پر لانے کی یہ کوشش جاری رہے تو رفتہ رفتہ نفسِ مطمئنہ بن جائے گا اور آپ ان بندگانِ خدا میں شامل ہوجائیں گے جو اللہ سے راضی ہوں اور اللہ ان سے راضی ہو۔

اپنے نفس کا تزکیہ اور محاسبہ صرف وہی کرسکتا ہے جس میں اپنے نقائص کو جاننے، اور اعتراف کرنے کا حوصلہ ہو، اور ساتھ ہی وہ اتنا اصلاح پسند بھی ہو کہ اپنے نقائص کو دُور کرنے، اور ان کی جگہ خوبیاں پیدا کرنے کی تڑپ بھی رکھتا ہو۔ ایسے ہی شخص سے توقع کی جاسکتی ہے، کہ وہ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنے کی جدوجہد کرے۔

انسان کا برائی کی طرف مائل ہونے میں سب سے بنیادی سبب اس کی غفلت ہے۔ انسان کو جب ضروریاتِ زندگی بآسانی اور کثرت سے مل رہی ہوں تو وہ آہستہ آہستہ دنیا میں کھو جاتا ہے اور دین سے غفلت برتنے لگتا ہے اور دنیا کی ہوس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی غفلت کے نتیجے میں وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اس غفلت سے انسان کو بیدار کرنے کے لیے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنا ناگزیر ہے۔

انسانی زندگی میں اخلاق کی اہمیت بھی اسی وجہ سے ہے کہ انسان اخلاق کے پیمانے پر اپنے آپ کو پرکھ سکے، اچھے اخلاق اپنا لے اور بُرے اخلاق سے اجتناب کرے۔ انسان اخلاق کے بل بوتے پر دوسروں کے دلوں پر حکومت کیا کرتا ہے۔ اخلاق سے دشمن، دوست بن جاتا ہے۔ اخلاق ہی وہ شے ہے جس سے پتھر دل موم ہو جایا کرتے ہیں۔ اخلاق ایک دوسرے کے اندر  انس و محبت پیدا کرتا ہے۔ اخلاق سے انقلاب آجاتا ہے۔ اخلاق سے بڑی بڑی جنگیں سر کرلی جاتی ہیں۔ جس انسان میں اخلاق جیسی کوئی صفت نہ ہو تووہ اکھڑمزاج، بدتمیز اور کھردرا کہلاتا ہے۔ اس کے رویے سے زندگی تلخ ہوجاتی ہے، تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ انسان تو انسان حیوان بھی خوف کھانے لگتے ہیں، لہٰذا ہمیں اپنے اخلاق کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے تاکہ بداخلاقی سے گریز کرسکیں اور لوگوں کی نظروں سے گرنے سے بچے رہیں۔

بعض لوگوں کی خودپسندی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنے طرزِعمل پر کسی کے ذرا سے جائز اعتراض کو بھی اپنی عزتِ نفس پر حملہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عزت نفس اور غیرت کا مفہوم یہی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ ایسے لوگوں کو اگر زندگی میں اپنی کسی غلطی پر معافی مانگنا پڑ جائے تو ان کے لیے یہ مرحلہ موت سے کم نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بڑے سے بڑے دینی اور دنیوی نقصان کو گوارا کرلیں گے مگر معافی مانگنے کی ذلت کو گوارا نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو غلطیوں سے بالا نہیں سمجھتے اور جھوٹی آن پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہاں معاف کرا لینا قیامت میں سزا پا لینے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایسے لوگوں سے جب کوئی خطا ہوتی ہے تو وہ بآسانی معافی مانگ لیتے ہیں، اور معافی مانگنے کے بعد کافی راحت محسوس کرتے ہیں۔

نفس کے ساتھ جہاد کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نفس سے جہاد کو جہادِ اکبر کہا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ کافروں کے ساتھ جہاد کرنا چھوٹا جہاد ہے مگر نفس کے ساتھ جہاد کرنا بڑا جہاد ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشوں کے پیچھے لگا رہے اور اللہ تعالیٰ سے اُمیدیں باندھے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کا جائزہ لیا وہ نفع میں رہا، اور جس نے غفلت برتی وہ گھاٹے میں رہا، اور جو اللہ سے ڈرا وہ بے خوف ہوگیا۔ سورئہ شمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱: ۹-۱۰) یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن آدم علیہ السلام کے بیٹے کے پائوں اس وقت تک سرک نہیں سکتے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے: ۱-عمر، کن کاموں میں صرف ہوئی؟ ۲- جوانی، کن مشاغل میں گزری؟ ۳-مال، کن طریقوں سے کمایا؟ ۴- مال، کن مصارف میں خرچ کیا؟ ۵- جو علم حاصل کیا تھا، اس پر کہاں تک عمل کیا؟

محاسبۂ نفس کے سلسلے میں ایک اہم بات جو پیش نظر رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ابتدا میں جب انسان یہ عمل شروع کرتا ہے تو اسے کچھ مایوسی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ روزانہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اسے یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ تو اپنی ذرا سی بھی اصلاح نہیں کرسکا۔ اس سے دل برداشتہ ہونے کے بجاے محاسبۂ نفس کے عمل کو صبر سے برابر جاری رکھنا چاہیے اور مایوس ہوکر اسے ترک نہیں کرنا چاہیے۔

محاسبۂ نفس کے حوالے سے چند اہم تقاضوں کا ذیل میں تذکرہ کیا جا رہا ہے:

  • کبر اور خود پسندی: انسان کا بدترین عیب کبر و غرور اور خودپسندی ہے جو ایک سراسر شیطانی فعل ہے۔ جو شخص یا گروہ اس بیماری میں مبتلا ہو، وہ اللہ کی تائید سے محروم ہوجاتا ہے۔ کبریائی صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔ نفس کی ایک ذرا سی ڈھیل اور شیطان کی ایک ذرا سی اُکساہٹ اسے تکبر اور خودپسندی میں تبدیل کردیتی ہے۔
  • تنگ دلی: مزاج کی بے اعتدالی سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری تنگ دلی ہے، جسے قرآن پاک میں شُح نفس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس میں انسان خود جتنا بھی پھیلتا چلا جائے، اسے اپنی جگہ تنگ ہی نظر آتی ہے اور دوسرے جس قدر سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے ہر رعایت چاہتا ہے مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتتا۔ یہ رویہ ان صفات سے بالکل برعکس ہے جو اسلامی زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔
  • غصہ اور اشتعال انگیزی:کچھ لوگ غصے میں آکر بے قابو ہوجاتے ہیں اور اشتعال میں آکر ایسی حرکت کربیٹھتے ہیں جس پر انھیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ غصے کی وجہ سے جھگڑا اور فساد برپا ہوجاتا ہے۔ نصیحت کی گئی ہے کہ انسان کو جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنا ہو تو وہ اس بات کا یقین کرلے کہ وہ غصے کی حالت میں نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’طاقت ور شخص وہ نہیں ہے جو کشتی میں دوسرے کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقع پر اپنے اُوپر قابو پالے‘‘۔ گویا غصے میں آکر کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناپسند ہو۔
  • وقت کی قدر: عموماً لوگ وقت کی قدر کرنا نہیں جانتے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ انسان کے ہاتھ میں اصلی دولت وقت ہی ہے۔ جس نے وقت کو ضائع کیا، اس نے سب کچھ ضائع کردیا۔ وقت ایک گراں قدر دولت ہے۔ اس کی مثال ایک برف فروش کی سی ہے۔ اگر دکان دار نے برف کے پگھلنے سے پہلے اسے فروخت کر دیا تو نفع کما لیا، ورنہ گھاٹے میں رہا۔ اسی طرح ایک ضرب المثل مشہور ہے ’’تب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘۔ اسی لیے انسان کو چاہیے کہ وہ وقت کا صحیح استعمال کرے اور غفلت سے دُور رہے۔
  • قرآن سے تعلّق: ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو اہم چیزیں اپنی اُمت کے لیے چھوڑ گئے: ایک قرآن اور دوسری آپؐ کی سنت۔ قرآنِ مجید، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ ہم اس مقدس کتاب سے صرف اسی وقت مکمل طور پر مستفید ہوسکتے ہیں، جب اس کا صحیح حق ادا کریں۔ اس کا حق صرف اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب ہم اس کی صحیح تلاوت کرسکیں، اس کے معنی و مطلب کو سمجھ سکیں، اس کے ایک ایک حکم پر سختی سے عمل پیرا ہوں، اور اس پیغام کو اپنے بیوی بچوں، پڑوسیوں، دوست احباب اور رشتہ داروں اور غیرمسلموں کو پہنچائیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرکے یہ جانیں کہ ان تمام ذمہ داریوں کو ہم کس حد تک نبھا رہے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کے لیے تجوید کا خصوصی اہتمام ضروری ہے اور اس کے بغیر تلاوت کا حق ادا نہیں ہوتا۔
  • نماز اور محاسبۂ نفس: نمازوں کو برباد کرنے والی سب سے عام آفت کسل مندی اور سستی ہے۔ یہ بیماری جب کسی شخص کو لاحق ہوتی ہے تو نہ وہ وقت کی پابندی برقرار رکھ سکتا ہے،  نہ جماعت کا اہتمام قائم رکھ سکتا ہے اور نہ نماز میں حضور قلب کی کیفیت رکھ سکتا ہے۔ ایسا شخص آہستہ آہستہ نماز سے غفلت برتنے لگتا ہے اور اگر پڑھتا بھی ہے تو بالکل بے جان اور بے روح نماز۔

نماز کی دوسری عام آفت وسوسہ ہے۔ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی آدمی کے ذہن پر وسوسوں اور پراگندہ خیالات کا ہجوم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی نماز سے جتنی محبت ہے شیطان کو اس سے اتنی ہی دشمنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ نماز ابلیس کے کارندوں کا حملہ سب سے زیادہ سخت انھی لوگوں پر ہوتا ہے جو اس کے مقابل میں قوتِ ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ وسوسوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے تین باتیں مفید ہیں:

  • جس وقت یہ کیفیت ہو کہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگی جائے اور ذہن کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا جائے
  • نماز کے کلمات صرف دل میں نہ پڑھے جائیں بلکہ زبان سے اس طرح پڑھیں کہ خود ان کو سن سکے
  •  روزہ مرہ زندگی میں اپنے خیالات کو پاکیزہ اور بلند رکھنے کی کوشش کیجیے۔

نماز میں ایک حادثہ چوری کا بھی پیش آیا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ بعض لوگ وضو اور نماز میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ وہ ان کے کسی بھی رکن کا حق ادا نہیں کرپاتے۔ وضو اور نماز کے ارکان اطمینان سے ادا کرنے چاہییں، ورنہ وضو اور نماز فاسد ہوجائیںگے۔

نماز کی سب سے عام اور زیادہ خطرناک آفت ریا ہے۔ ریاکاری یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے نماز ادا کی جائے تو اس طرح گویا کوئی بہت متقی اور پرہیزگار ہے، اور جب اکیلے میں نماز پڑھی جائے تو بس دوچار ٹھونگیں مار لی جائیں۔

حضرت احنف بن قیس تابعیؒ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی عبادت کا خاص وقت رات کو ہوتا تھا۔ جب سب لوگ میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے تو وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوکر اظہارِ بندگی کرتے اور اپنے اعمال کا جائزہ لیتے۔ وہ چراغ جلا کر اس کی لَو پر اپنی انگلی رکھتے اور اپنے نفس سے مخاطب ہو کے کہتے کہ فلاں فلاں کام کرنے پر کس چیز نے تجھے آمادہ کیا تھا۔

  • روزہ اور محاسبۂ نفس: روزے کا محاسبہ انسان کی آنکھیں کھول دیتا ہے کہ روزے کے دوران اس نے جانے اور انجانے میں کتنے ایسے اعمال کیے ہیں جن کی وجہ سے اس کا روزہ فاسد ہوسکتا تھا۔ سب سے پہلے ہرمومن کو اپنے ذہن میں روزے کے مقصد کو رکھنا چاہیے اور سختی سے روزوں کی پابندیوں پر عمل کرے اور زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں صرف کرے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو لوگ رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے، اور ایسے میں جو لوگ ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح و تہجد) پڑھیں گے ان کے (سب پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے)۔ (بخاری ، مسلم)

اکثر لوگ روزے کے مقصد کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک ماہِ رمضان خاص طور پر کھانے پینے کا مہینہ ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اس مہینے میں کھانے پینے پر جتنا بھی خرچ کیا جائے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ اس خیال کے لوگ اگر خوش قسمتی سے کچھ خوش حال بھی ہوں تو پھر تو فی الواقع ان کے لیے روزوں کا مہینہ کام و دہن کی لذتوں سے متمتع ہونے کا موسم بہار بن کے آتا ہے۔ وہ روزے کی پیدا کی ہوئی بھوک اور پیاس کو نفس کشی کے بجاے نفس پروری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ وہ صبح سے لے کر شام تک طرح طرح کے پکوانوں کے پروگرام بنانے اور ان کو تیار کرانے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور افطار سے لے کر سحر تک اپنی زبان اور اپنے پیٹ کی تواضع میں وقت گزارتے ہیں۔

آدمی جب بھوکا اور پیاسا ہوتو اس کا غصہ بڑھ جاتا ہے۔ جہاں کوئی بات ذرا بھی مزاج کے خلاف ہوئی تو فوراً اس کو غصہ آجاتا ہے۔ روزے کے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ جن کے مزاج میں غصہ زیادہ ہو، وہ روزے کے ذریعے سے اپنی اصلاح کریں اور غصہ کرنے سے پرہیز کریں۔

روزے کی ایک عام آفت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ جن کی ذہنی تربیت نہیں ہوئی ہوتی کھانے پینے اور زندگی کی بعض دوسری دل چسپیوں سے علیحدگی کو ایک محرومی سمجھتے ہیں، اور اسی محرومی کے سبب سے ان کے لیے دن کاٹنے مشکل ہوجاتے ہیں۔ اس مشکل کا حل وہ یہ نکالتے ہیں کہ بعض ایسی دل چسپیاں تلاش کرلیتے ہیں جو ان کے خیال میں روزے کے مقصد کے منافی نہیں ہوتیں، مثلاً تاش کھیلنا، ڈرامے دیکھنا، گانے سننا اور بے مقصد مطالعہ کرنا۔ دوستوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے ہیں جس میں وہ جھوٹ اور غیبت جیسے گناہوں کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ خیال رہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

  • انفاق اور محاسبۂ نفس: انفاق کے محاسبے سے ریا، تکبر اور احسان فراموشی وغیرہ جیسے گناہوں سے ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اگر ہم اپنا محاسبہ نہ کریں تو ہمیں کبھی یہ پتا نہ چلے گا کہ ہم نے جو انفاق کیا ہے آیا وہ پاکیزہ بھی ہے یا نہیں، اور اس سے اللہ راضی بھی ہے یا نہیں۔

بہت سے لوگ اللہ کی راہ میں خرچ تو کرتے ہیں لیکن دل کی فیاضی اور حوصلے کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے پیش نظر صرف ایک مطالبے کو کسی نہ کسی طرح پورا کر دینا ہوتا ہے۔ جس طرح وہ حکومت کا ٹیکس ادا کرتے ہیں، اسی بددلی اور افسردگی کے ساتھ کسی دینی و مذہبی کام کے لیے بھی  کچھ مال نکال دیتے ہیں۔ اس بددلی کے سبب سے اللہ کی راہ میں وہ چیزیں دیتے ہیں جن کا دینا ان کے دل پر گراں نہ گزرے، جو ان کی ضرورت سے بالکل فاضل ہوں یا جس سے کم از کم ان کو کوئی بڑا فائدہ اُٹھا سکنے کی توقع نہ ہو۔ اگر قربانی کریں گے تو ایسے جانور کی جو کم قیمت اور      بے حیثیت ہو۔ اس طرح کا انفاق نہ صرف یہ کہ کوئی خیر و برکت پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ سرے سے   اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت ہی نہیں پاتا۔ اس کی تائید سورۂ بقرہ کی یہ آیت کرتی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّـآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ o (البقرہ ۲:۲۶۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمھارے لیے نکالا ہے، اس میں سے بہتر حصہ راہِ خدا میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بُری سے بُری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمھیں دے، تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے، الا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جائو۔ تمھیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔

انفاق کو برباد کرنے والی ایک بہت بڑی آفت لوگوں کے ساتھ بدسلوکی ہے۔ وہ مانگنے والوں کو دے تو دیتے ہیں مگر اتنی جھڑکیاں اور ایسا توہین آمیز سلوک کرتے ہیں کہ جتنی نیکیاں کماتے ہیں اس سے کہیں زیادہ گناہ اپنے سر مول لے لیتے ہیں۔ دوسروں کی عزتِ نفس کو مجروح کرکے انفاق کرنا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اہلِ ایمان تو دوسروں کی مدد اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں کہ وہ اسے شرفِ قبولیت بخشے نہ کہ کسی پر احسان جتاتے ہیں۔

  • حج اور محاسبۂ نفس: ہر مسلمان کی زندگی میں حج ایک بار اس وقت فرض ہوتا ہے جب کہ وہ صاحبِ استعداد ہو۔ حج کے لیے دنیا کے ہرملک اور ہرکونے سے مسلمان جمع ہوجاتے ہیں تو بھیڑ کی وجہ سے کئی دقتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حج کے ہر رکن کو ادا کرنے میں حاجیوں کو کافی مشکلات ہوتی ہیں۔ ایسے وقت میں صبروتحمل کے مظاہرے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آدمی حج کے ارکان ادا کرتے وقت اپنا محاسبہ بھی کرتا رہے تو اس کو ارکان ادا کرنے میں آسانی بھی ہوگی اور انجانے میں ہونے والی گناہوں اور لغزشوں سے بھی محفوظ رہے گا۔

روز مرہ زندگی میں جو لوگ شریعت کے احکام و آداب کی پابندیوں کے عادی نہیں ہوتے وہ حج کے موقع پر کچھ زیادہ ڈھیلے ڈھالے ہوجاتے ہیں، اور قدم قدم پر ان سے ایسی باتیں صادر ہوتی ہیں جو اس فسق کے تحت آتی ہیں جسے قرآن پاک نے حج کے سلسلے کی ایک آفت قرار دیا ہے۔ بہت سے لوگ بات بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ بے تکلفی میں گالی گلوچ کرتے ہیں اوراپنے ساتھیوں کو اذیت دیتے ہیں۔ ان امور سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حج کے سلسلے کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگ حج کے شعائر اور مناسک کی روح اور حقیقت سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ بس لوگ عقیدت کے جذبے کے ساتھ جاتے ہیں اور معلم حضرات ان سے جو رسوم ادا کرواتے ہیں، آنکھیں بند کرکے ان کو ادا کیے چلے جاتے ہیں۔ نہ حج اور عمرے کا فرق معلوم، نہ طواف کی حقیقت کاپتا، نہ حجراسود کو بوسا دینے کا مدعا واضح، نہ معلوم کہ سعی کیوں کی جاتی ہے۔قربانی کی اصلی روح کیا ہے، رمی جمرات سے ہمارے اندر کس روح کو زندہ رکھنا اور بیدار رکھنا مقصود ہے وغیرہ سے بے خبر ہوتے ہیں۔

  • ایک قابلِ تقلید مثال: حضرت حنظلہ اسید رضی اللہ عنہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے تھے، کہتے ہیں: ایک مرتبہ میری ملاقات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ انھوں نے پوچھا: اے حنظلہ! تم کیسے ہو؟ میں نے عرض کیا: حنظلہ منافق ہوگیا۔ ابوبکر صدیقؓ نے کہا: سبحان اللہ، آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا: جب ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپؐ ہمیں جنت و جہنم کے بارے میں بتا رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جنت و جہنم ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ہمیں اس کا عین الیقین حاصل ہے، مگر جب ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اُٹھ جاتے ہیں تو بال بچے اور دنیاوی مشاغل میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ اکثر باتیں بھول جاتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہی حال میرا بھی ہے۔ پھر ہم دونوں رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں گویا ہوا: اے اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہوگیا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: ہم آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپؐ ہمیں جنت جہنم کے بارے میں بتلا رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جنت و جہنم ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، مگر جوں ہی آپؐ کی مجلس سے اُٹھ کر جاتے ہیں۔ بیوی بچوں اور دیگر مشاغل میں پھنس جاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر تم لوگ سدا ویسے ہی رہو جیسے میرے پاس رہتے ہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو تو فرشتے تمھارے بچھونوں پر اور تمھارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں گے۔ یاد رکھو    اے حنظلہ! ایک وقت کاروبار کے لیے اور ایک وقت پروردگار کی یاد کے لیے ہے۔ یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ فرمائی۔

محاسبۂ نفس کے یہ مختلف پہلو ہیں جن سے اس کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔ محاسبۂ نفس    نہ صرف تزکیۂ نفس کے لیے ناگزیر ہے بلکہ ذاتی اصلاح اور خود احتسابی کے لیے بھی ضروری ہے۔ انسان چونکہ ضعیف العقل ہے اس لیے وہ بہت جلد شیطان کے وسوسوں اور ورغلانے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنے محاسبے کی وجہ سے انسان اپنی عاقبت سنوارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور شیطان کے وسوسوں اور ورغلانے سے محفوظ رہتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے خالق و مالک کی رضامندی اور خوشنودی کے حصول کا باعث بھی بنتا ہے۔ ہمیں محاسبۂ نفس اور خود احتسابی کو اپنا معمول بنانا چاہیے۔

انسان کے لیے دنیا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت بچے ہیں۔ وہ انسان    خوش قسمت اور سعادت مند ہے جو اولاد کی نعمت سے بہرہ ور ہے۔ یہ وہ شگفتہ پھول ہیں جو گلشنِ حیات میں ہمارے لیے مستقبل کی روشن اُمید ہیں۔ یہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک، گھر کی رونق اور مستقبل کے معمار ہیں۔

ہر انسان میں طویل عرصے تک جینے، اس کا نام باقی رہنے اور اس کی کمائی ہوئی جایداد  خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس کا وارث ہونے اور سنبھال کر رکھنے کی فطری خواہش ہوتی ہے۔      اس خواہش کی تکمیل، اس کی نیک اولاد کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ نیک بچے ہمارے وارث، قوم و ملک کے مستقبل کے سنبھالنے والے اور ملت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن و حدیث میں بچوںکی تعلیم و تربیت، اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے کے لیے رہنمائی کی گئی ہے۔ نیک، پرہیزگار اور اطاعت گزار اولاد کے لیے دعا مانگنا مومنین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے:

وَالَّـذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّـنَا ھَـبْ لَـنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَا قُـرَّۃَ اَعْیُنٍ        وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴) اور جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ     ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنادے۔

اسی نوع کی دوسری دعائیں ہیں جنھیں بندہ خود مانگتا ہے اور دوسروں سے بھی درخواست کرتا ہے۔

ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ایک کورے کاغذ کی طرح پاک و صاف اور تحت الشعور میں اپنے خالق کی خالقیت، توحید اور فطرتِ سلیمہ لیے ہوئے ہوتا ہے۔       ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور قائم ہوجائو اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی‘‘ (الروم ۳۰:۳۰)۔ اس حقیقت کو سرور دوجہاں رحمۃ للعالمینؐ نے اس طرح بیان فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں‘‘۔ (بخاری، مسلم)

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سب سے مشکل کام بچے کی تربیت و تعلیم ہے۔ یہ کام کسی مختصر مدت کا کام نہیں، بلکہ برسہا برس کی محنت، کاوش اور جدوجہد پر محیط ہے۔ جس طرح برسوں کی مدت سے ایک موتی سیپ میں بنتا ہے، اسی طرح برسوں کی مسلسل کاوش سے ایک کامل انسان بنتا ہے۔

ایک بچہ اسکول سے واپس آنے کے بعد دن رات کا تقریباً تین چوتھائی کا حصہ گھر میں گزارتا ہے۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب کے درمیان رہتا ہے، اور ایک حصہ  گھر سے باہر اپنے ہم جولیوں کے ساتھ بھی گزارتا ہے۔ اس لیے تربیت کی بڑی ذمہ داری بچے کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ذمے ہے، البتہ ایک حصہ (اوقات اسکول) تعلیمی ادارے اور اساتذہ کے ذمے ہے۔ بچہ اپنے ماحول سے بہت اثر لیتا ہے بلکہ اسے اپنے ذہن میں بٹھا لیتا ہے۔ اس لیے بچے کو اچھا ماحول دینا اور خراب ماحول سے بچانا ضروری ہے۔ لیکن یہ کام جتنا ضروری ہے اتنا مشکل بھی، اور ایک طویل عرصے تک جاری رہنے والا عمل ہے۔ یہاں بچے کی تربیت کے حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:

  •  پھلا مدرسہ: بچے کا سب سے پہلا مدرسہ اس کا گھر اور گھر میں خاص طور پر اس کی ماں ہے۔ جس طرح اپنی ماں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے ویسے ہی کرتا ہے۔ جس طرح وہ بولتی ہے ویسے ہی وہ بولتا ہے۔ غرض کہ جو کام وہ کرتی ہے بچہ بھی اس کی طرح کرتا ہے۔ گھر کے بعد دوسرا تربیتی مرکز اس کا مدرسہ اور اسکول ہوتا ہے اور ان میں استاد اس کا ماڈل ہوتا ہے۔ بعض اوقات اسے اپنے استاد کی بات پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کی بات کسی صورت میں قبول نہیں کرتا، اور کہتا ہے کہ میرے استاد نے مجھے ایسے ہی بتایا ہے۔ اس لیے اساتذہ کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے۔

بچہ چونکہ بیش تر وقت گھر میں گزارتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی تربیت کی ذمہ داری بنیادی طور پر والدین پر رکھی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ واضح ہیں کہ ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ اس حدیث کی گہرائی میں جائیں تو ماں باپ پر تربیت کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے سے وہ دنیا اور آخرت کی خوشی، راحت و شادمانی اور مسرت کے مستحق بنتے ہیں۔

بچے کی تربیت عام طور پر تین ذریعوں سے ہوتی ہے۔ ان میں سے دو کے ذمہ دار خاص طور پر ماں باپ ہوتے ہیں: (۱) تقلید (۲) رہنمائی (۳) تجربہ۔ ماں باپ کے ہرعمل کا مشاہدہ بچے کے ذہن پر نقش ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی کی وہ پیروی کرتا ہے اور اسی سے رہنمائی لیتا ہے، اور بتدریج تجرباتِ زندگی سے سیکھتا چلا جاتا ہے۔

بچوں کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ وہ ناسمجھ اور نادان ہوتے ہیں اور سمجھتے نہیں، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام ضروری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ بنیادی طور پر یہ صلاحیتیں آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، اور بچہ جو بھی دیکھتا ہے اسے کسی قدر اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتا ہے۔ تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثرانداز دو ہی افراد ہوتے ہیں، یعنی ماں باپ۔ والدین کی فطری توجہ اور شفقت اسے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے سبب وہ ان کی شخصیت کے ہر پہلو کو قابلِ تقلید خیال کرتا ہے۔

اس معصومانہ عمر اور ذہن میں جب وہ غلط اور صحیح کا علم نہیں رکھتا اور ابھی اس کی قوتِ فیصلہ نہیں بن پاتی، اس کے نزدیک ہر وہ بات جسے اس کے والدین نے صحیح بتایا ہو، صحیح اور جسے وہ    غلط کہیں، غلط ہوتی ہے۔ جو کام والدین کریں گے بچہ بھی وہی کرے گا۔ والدین اشارے کریںگے تو وہ بھی کرے گا، جیسے وہ بیٹھیں گے، ویسے ہی وہ بھی بیٹھے گا۔ لہٰذا والدین، بڑے بھائی، بہنیں اور گھر کے دیگر افراد بچے کے لیے پہلا ماڈل ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ماں باپ پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور اس ذمہ داری سے عہدبرآ ہونا کتنا کٹھن کام ہے۔

lگفتگو کا سلیقہ: بچے سے گفتگو کرتے ہوئے ان تمام باتوں کو لحاظ رکھیں، جنھیں بڑوں سے گفتگو کرنے میں ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان سے تو تڑاک اور گھٹیا لفظوں سے گریز کریں ورنہ وہ بھی ایسے ہی الفاظ بولیں گے۔ ہم ان سے تعظیم کے کلمات سے بات کریں گے تو وہ بھی ایسے ہی کلمات سیکھیں گے اور گفتگو کریں گے۔ لہٰذا بچے سے گفتگو کے دوران محتاط رویہ اپنایئے۔ ان کے سامنے بیہودہ، مذاق، گالی گلوچ، تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ ہرگز نہ بولے جائیں۔ ان سے گفتگو نرمی سے کریں، اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ بھی مناسب نہیں۔ اس سے بچے کے دل سے رعب جاتا رہتا ہے اور اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ گھر کے مدرس و معلم ہیں، کوئی تھانیدار اور صوبیدار نہیں۔ مناسب رویہ یہی ہے کہ بچے کو حکمت سے صحیح اور غلط کی تمیز سکھائی جائے۔ جہاں ضرورت ہو سرزنش بھی کریں اور بچے کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ میری کیا کوتاہی تھی جس کی بناپر سرزنش کی گئی۔ اس سے بچے کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہوگا اور اس میں احساسِ ذمہ داری بھی بیدار ہوگا۔

  •  بچوں کی گفتگو پر نظر: بچے کی گفتگو پاکیزہ، مہذب اور عمدہ اخلاق پر مبنی ہونی چاہیے۔ اس کام میں اس کی رہنمائی کرتے رہنا چاہیے، تاکہ آج کا بچہ کل بڑا ہوکر عمدہ گفتگو کرنے پر قادر ہوسکے اور اپنی عمدہ گفتگو سے دوسروں کو متاثر کرسکے۔ ہمارے معاشرے میںگالیوں اور بُری زبان بولنے اور گھٹیا الفاظ استعمال کرنے کارواج ہے۔ انسان کی تعلیم و تربیت میں زبان کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس لیے بچے کی گفتگو کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور کوئی گالی زبان پر چڑھ گئی ہو تو اسے بھی چھڑوانا چاہیے۔ بعض گالیاں، کفریہ کلمے، گناہ ہوتے ہیں، جیسے کسی پر لعنت کرنا، جھوٹی قسم کھانا۔ ان گناہوں سے بچانا چاہیے۔ بچے کے سامنے اچھا نمونہ اور معیار رکھنا ضروری ہے۔ بچے کو افراد اور اشخاص کی مثال دی جائے تو دینی، اخلاقی، سماجی، معاشرتی اور علمی لحاظ سے اُونچے اور بڑے لوگوں کی مثالیں دینا چاہیے۔ یہ سنت ِ نبویؐ ہے۔
  • جہوٹ سے اجتناب : بچے کے سامنے دھوکا، ٹھگی اور بے ایمانی کی بات نہیں کرنا چاہیے اور نہ بچے سے کہیں کہ دروازے پر جاکر پوچھنے والوں سے کہہ دو کہ ابا گھر پر نہیں ہیں۔     یہ جھوٹ اور بُری تعلیم ہے۔ بچے کی شخصیت کی اُٹھان سچ پر ہونی چاہیے۔ اسلام میں جھوٹ کی  کس شدت سے مذمت کی گئی ہے کہ اس کا اندازہ رسول اکرمؐ کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ مومن جھوٹا اور خائن نہیں ہوسکتا۔
  •  تھذیب و اخلاق:کوشش کریں کہ ایک کھانا تمام گھر کے افراد ضرور مل کر کھائیں۔    اس سے محبت بڑھتی ہے، بے تکلفی پیدا ہوتی ہے اور کھانے کا سلیقہ آتا ہے۔ کھانے میں برکت بھی ہوتی ہے۔ چھوٹوں، بڑوں کی تربیت ہوتی ہے، اور کمتری و برتری کا احساس ختم ہوتا ہے۔ باہمی محبت پرورش پاتی ہے، اور ہلکی پھلکی دین و دنیا کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ آج کل جنریشن گیپ اور باہمی دُوری کی ایک وجہ یہ ہے کہ چھوٹے، بڑے مل کر نہیں بیٹھتے، بلکہ ایک دوسرے سے دُور دُور اور  کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ اجتماعی کھانے کے اور بہت سے فائدے اور مصلحتیں بھی ہیں۔ باہم مل جل کر بیٹھنے سے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ بچے بڑوں کا ادب کرنا اور سلیقے سے گفتگو کرنا سیکھتے ہیں۔ اسلامی تہذیب اور آداب سیکھتے ہیں۔
  •  صفائی و طھارت کی تربیت: ماں باپ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اپنی اولاد کو صفائی اور طہارت کی تعلیم و تربیت دینا ہے۔ ان میں حرام و حلال، پاک و پلید، جائز و ناجائز، صفائی و گندگی کی تمیز پیدا کرنا ہے۔ ان کو شعور دینا چاہیے کہ پیشاب یا گندگی سے ہاتھ آلودہ ہوجائے تو اسے صاف کرنا اور ہاتھ صابن سے دھونا اور تولیہ استعمال کرنا چاہیے۔ ہرشخص کا علیحدہ تولیہ ہونا اور بچے کو بھی اپنا تولیہ دینا چاہیے۔ اس سے اس میں اپنی چیز ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کی تعلیم دینا اور اس کی حکمت اُجاگر کرنی چاہیے۔
  • ماحول کے بگاڑ سے محفوظ رکہنا: گھروں سے باہر کے ماحول کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو اور بچے کو اس سے بچانے کے لیے اسے گھر میں رکھیں لیکن صرف گھر میں بٹھادینا اور کوئی مصروفیت و مشغولیت نہ دینا ان کے ساتھ زیادتی اور غیرفطری کام ہے۔ اس لیے اس کی مصروفیت کی ایک لمبی فہرست سامنے ہونی چاہیے، جیسے کلاس کا ہوم ورک، چھوٹے بچوں کے لیے کھلونے، اِن ڈور کھیل، ڈرائنگ اور رنگ بھرنا، اخلاقی اور معلوماتی کہانیاں پڑھنا، لڑکوں کو والد یا بڑے بھائی کے ساتھ مسجد لے جانا اور نماز پڑھانا، تفریحی پارک میں لے جانا، ٹی وی کے معلوماتی و تفریحی پروگرام (جیسے کارٹون دکھانا) وغیرہ۔ بچے کو بااخلاق اور اچھے پڑوسی کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی محدود اجازت دینا بھی چاہیے۔ رات کو بلکہ سورج غروب ہونے کے بعد بچے کو گھر سے نکلنے نہ دیں۔ حدیث شریف میں اس کی ممانعت بھی ہے۔ بچے کو جیب خرچ کم دینا چاہیے اور اگر زیادہ دیا جائے تو اسے کسی طریقے سے جمع کرنے کی عادت ڈالنا چاہیے۔ اس سے بچے کو ذمہ داری کے ساتھ پیسے کو خرچ کرنے اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے بچت کی تربیت ہوتی ہے۔
  •  روز مرہ دعائیں سکہانا: بچوں کو روز مرہ کی دعائیں صحیح تلفظ سے یاد کرائیں، ان کی معنی بھی بتائیں اور موقع پر پڑھنے کی عادت ڈالیں، جیسے صبح اُٹھنے کی دعا، سلام کرنا، بیت الخلا میں جانے اور واپس آنے کی دعا، وضو کے بعد کی دعا، بسم اللہ صحیح پڑھنا، کھانا ختم کرنے کے بعد کی دعا، سبق پڑھنے اور علم میں اضافے کی دعا، الحمدللہ کہنا، شکرادا کرنے کی دعا اور سونے وغیرہ کی دعا۔
  •  برابری کا برتاؤ: بچے چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان سے برابر کا سلوک اور ایک سا برتائو کرنا چاہیے۔ یہ برتائو کھانے پینے، لباس، بول چال اور لین دین میں کرنا اسلام کی تعلیم و تہذیب اور روح ہے۔ بیٹیوں اور بیٹوں میں برابری کا سلوک نہ کرنا جاگیردارانہ اور جاہلانہ طریقہ ہے، اور دورِ جاہلیت کی نشانی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح ہدایات دی ہیں۔
  • بچوں کی حفاظت: بچوں کی صحت کے تحفظ کی ذمہ داری والدین پر ہے۔ اس لیے بیماری کے وقت خود ہی علاج نہ کرنا چاہیے، خواہ مخواہ بیماری کو بڑھانا نہیں چاہیے، بلکہ کسی لائق ڈاکٹر یا حکیم کو دکھانا چاہیے۔ کھانے پینے کی اشیا میں ان کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مضرصحت غذا ہرگز نہ دینا چاہیے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کو پیش نظر رکھیے اور بچوں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔
  • کتاب دوستی اور تعمیری سرگرمیاں: بچے کی تربیت کے حوالے سے ایک اہم پہلو ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانا ہے۔ گھر چونکہ ابتدائی مدرسہ ہے، لہٰذا کتاب دوستی کی بنیاد گھر سے پڑنی چاہیے۔ آغاز میں ماں یا والد بچوں کو سوتے وقت قصے کہانیاں، انبیا کے قصص، حکایات اور دلچسپ کہانیاں سنا کر اس رجحان کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بچوں کے ذوق اور سمجھ کے مطابق کتب سے کہانیاں پڑھ کر بھی سنائی جاسکتی ہیں۔ گھر میں بچوں کے رسائل بھی اس ذوق کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ کبھی کبھی بچوں کو کسی کتاب کی دکان پر لے جاکر کتب بھی خرید کر دیں۔ امتحانات یا کسی کامیابی کے موقع پر کتاب بطور انعام دیں۔ بچے کا لائبریری سے تعلق پیدا کریں۔ کسی قریبی لائبریری میں بچوں کو ساتھ لے کر جائیں۔ اسی طرح اسکول لائبریری سے تعلق پیدا کریں، اور اساتذہ بھی اس کا اہتمام کریں۔ اس سے بچے کی کتاب دوستی بتدریج مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔

کتب بینی اور رسائل کا مطالعہ بچوں کی ضرورت بنا دیں۔ وہ اس طرح کہ بچوں کو ’بزمِ ادب‘ کی طرز پر پروگرام میں شریک کروائیں۔ بچہ اپنی صلاحیت اور رجحان کے مطابق قصہ کہانی،   تقریر، قرآن و حدیث سے انتخاب،اقوالِ زریں، پہیلیاں اور کوئز مقابلے کے لیے سوالات کی تیاری     کے لیے کتب کی طرف رجوع کرے گا۔ اس سے کتب بینی کا شوق بھی بڑھے گا اور تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بچے کی شخصیت کے پوشیدہ جوہر بھی کھلیں گے۔ اگر خود کتاب دوستی کا مظاہرہ کریں، کتب خریدیں، لٹریچر پڑھیں اور دوسروں کو پڑھنے کو دیں، خدمتِ خلق کا کام کریں تو فطری انداز میں بچہ ان کاموں سے وابستہ ہوجائے گا۔ تحریکی نظم سے وابستہ ہونے سے یہ کام ایک تسلسل سے  ہوسکتے ہیں۔

  • تعلیمی ادارے سے ربط رکہنا: جہاں آپ کا بچہ پڑھ رہا ہے، کوئی ہنر سیکھ رہا ہے،وہاں کے پرنسپل اور ذمہ دار یا استاد سے کبھی کبھار مل لیا کریں، حال احوال لے لیا کریں۔  کبھی فون کریں، کبھی خود چلے جائیں، کبھی گھروالوں میں سے کسی کو بھیج دیں اور رابطے میں رہیں۔ بچے کو باقاعدہ اسکول بھیجیں اور چھٹی کی صورت میں ادارے کی انتظامیہ کو اطلاع دیں۔

بچے کی تعلیمی، دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت کریں، اس کا دین و ایمان پختہ کریں تو وہ آپ کے لیے دنیا اور آخرت کی راحت کا سبب بنے گا۔ اس کی نیکیوں سے ایک حصہ آپ کو قبر کے اندھیرے اور تنہائی میں پہنچے گا، اور حساب کے دن اس کی شفاعت نصیب ہوگی۔ بچے کو درس گاہ  اس طرح بھیجیں کہ وہ تعلیم کے وقت پر ادارے میں موجود ہو۔ بچہ مکمل تیاری کے ساتھ مقررہ لباس (یونیفارم) میں ملبوس ہو اور صفائی ستھرائی کا انتظام کر کے آئے۔

یہ چند باتیں، اسکول،مدرسہ اور کسی ادارے میں جانے والے بچے کے بارے میں عرض کی گئی ہیں۔ ان میں اولاد کے تمام حقوق بیان نہیں کیے گئے۔ ایک گزارش یہ ہے کہ بچوں کے والدین نفسیات کی دو تین کتابیں خاص طور پر بچوں کی نفسیات، تعلیمی نفسیات، عمومی نفسیات ضرور ملاحظہ کریں اور انھیں عمل میں لانے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے بچوں کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور اچھے وارث بنائے، نیک صالح کرے اور دینی و دنیوی ترقی سے نوازے اور پاکستان کے اچھے شہری بنائے، آمین!

قرآن حکیم کا آغاز دعا سے ہوتا ہے اور اس میں بہت سی دعائیں ہیں جو انسان کو انداز بدل بدل کر ربِ کائنات کے آگے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنی حاجتیں بیان کرنے اور اسی کے سامنے اپنی استدعائیں پیش کرنے کے طریقے سکھلاتی ہیں، لیکن مختلف مقامات پر رب العزت نے اپنے انبیا کی زبانی پوری دنیا کے انسانوں کے لیے دعائوں کے جو تحفے عطا کیے ہیں ان میں سے ہر ایک قبولیت کے حوالے سے ایک نسخۂ کیمیا ہے۔ یہ دعائیں گواہی دیتی ہیں کہ پیغمبروں جیسی برگزیدہ ہستیوں نے بھی اپنی حاجت براری کے لیے صرف اسی کی طرف رجوع کیا اور اسی کے آگے اپنی جھولی پھیلائی۔

ذیل میں اس آس پر مختلف انبیا علیہم السلام کی چند قرآنی دعائیں مع ترجمہ و مختصر تشریح  پیش کی جاتی ہیں کہ ربِ دوجہاں یقینا ایک دن اپنی ان عظیم اور بزرگ ترین ہستیوں کی دعائوں کے صدقے اُمت ِمسلمہ کو موجودہ مشکلات کے گرداب سے نکال لے گا، اور اس وطنِ عزیز کے حالات پر کہ جو صرف اسی کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، کرم فرمائے گا اور اس میں سچے دین کو سربلندی اور اپنے نام لیوائوں کو سرخروئی عطا کرے گا۔

  •  حضرت ابراھیم ؑ کی دعا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت مانگی جب دونوں باپ بیٹا، یعنی حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔ اس دعا کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ خدا کے گھر کی تعمیر کے مبارک کام کے دوران آنے والے زمانوں کے اندر تک اپنی دعائوں کو پھیلا کر خدا سے اس گھر کی پاسبانی اور اس کی عظمت کو تسلیم کرنے والی ایک قوم کی استدعا کر رہے تھے، اور پھر خدا نے ان کی اِس دعا کو یوں قبول کیا کہ ان کی نسل کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اس عظیم ترین ہستی سے نوازا جو ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر مبعوث ہوئی:

رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo (البقرہ۲:۱۲۸) اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے تو سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے، اے رب! ہم دونوں کو مسلم (مطیع فرماں ) بنا۔ ہماری نسل سے ایسی قوم اُٹھا جو تیری فرماں بردار ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

  •  نبی کریمؐ کی دعا: نبی کریمؐ نے خدا کے حضور اپنی امت کی طرف سے ایک ایسی درخواست جمع کرا دی ہے جو ہرمشکل میں قیامت تک اس کے کام آتی رہے گی اور ہر تاریکی میں اس کے لیے ایک شمع کی صورت جگمگاتی رہے گی:

رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ۲:۲۰۱) اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔

  •  حضرت داؤدؑ کی دعا: حضرت دائود علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت مانگی جب ان کے ایما پر طالوت اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر جالوت کے مقابلے پر نکلا اور پھر اسے ایک بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا۔ تب اللہ نے ان کی یہ دعا یوں قبول کی، کہ حضرت دائود علیہ السلام نے جو اس وقت تک ابھی ایک کم سِن نوجوان تھے، جالوت کو سرِمیدان قتل کردیا اور اللہ نے انھیں یعنی حضرت دائود علیہ السلام کو ان کا سردار بنا دیا:

رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (البقرہ۲:۲۵۰) اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر۔

  •  حضرت زکریاؑ کی دعا:یہ دعا حضرت زکریا علیہ السلام نے اس وقت مانگی جب انھوں نے حضرت مریمؑ کو ایک حجرے میں گوشہ نشین دیکھا اور یہ دیکھا کہ اس پاک باز لڑکی کو اللہ اس حال میںبھی رزق پہنچا رہا ہے تو ان کے منہ سے بے ساختہ یہ دعا نکلی اور پھر اللہ نے ان کی دعا اس طرح قبول کی کہ اس بڑھاپے میں انھیں حضرت یحییٰ جیسا بیٹا عطا کیا:

رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِo (اٰل عمرٰن۳:۳۸) پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر، تو ہی دعا سننے والا ہے۔

  •  حضرت آدمؑ کی دعا: یہ دعا حضرت آدم علیہ السلام نے اس وقت مانگی جب اللہ نے ان دونوں، یعنی آدم و حوا کی لغزش پر ان کے ستر ایک دوسرے پر کھول دیے، انھیں حیا کے فطری جذبے نے بالکل مغلوب کرکے رکھ دیا اورانھیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تو انھوں نے رو رو کر اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! ہم پر رحم کیجیے، ہمیں معاف کر دیجیے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو ہم بالکل تباہ ہوکر رہ جائیں گے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف ۷:۲۳)اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اُوپر ظلم کیا، اب اگر تونے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔

  • حضرت شعیبؑ کی دعا: جب حضرت شعیب علیہ السلام اہلِ مدین کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے اورانھوں نے اہلِ مدین کو اللہ کے احسانات یاد دلا دلا کر راہِ راست پر آنے کی دعوت دی لیکن وہ اپنی چودھراہٹ کے گھمنڈ میں اللہ کا حکم ماننے اور ان کی پیروی سے مسلسل انکار کرتے رہے تو حضرت شعیب ؑنے اللہ سے یہ دعا مانگی جس پر اللہ نے اہلِ مدین کو ان کے جرم کی پاداش میںاس طرح مٹا دیا جیسے وہ کبھی دنیا میں تھے ہی نہیں:

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَo (الاعراف ۷:۸۹) اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

  •  حضرت موسٰیؑ کی دعا: حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ سینا سے واپس آئے اور انھوں نے دیکھا کہ ان کے بھائی ہارون ؑ کے منع کرنے کے باوجود ان کی قوم نے ایک بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا ہے تو وہ سخت برہم ہوئے اور اس پریشانی کے عالم میں اپنے رب سے یہ دعا کی اور پھر اس میں یوں اضافہ کیا۔ ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں، پس ہمیں معاف کردیجیے اور ہم پر رحم فرمایئے، آپ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ہیں:

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَo (الاعراف ۷:۱۵۱) اے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف کردے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے۔

  •  حضرت نوحؑ کی دعا: حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنے نافرمان بیٹے کے حق میں دعا کی اور اللہ نے ان کی دعا رد کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے تو حضرت نوحؑ نے اس دعا کی صورت میں اپنے رب سے معافی طلب کی اور پھر جواب میں رب العزت نے فرمایا کہ اب دیکھتے رہنا کہ کس طرح تجھ پر اور تیرے پیروکاروں پر ہماری برکتیں اور سلامتی نازل ہوتی ہے:

رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَ اِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَ تَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ o (ھود ۱۱:۴۷) اے میرے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں، اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجائوں گا۔

  •  حضرت یوسفؑ کی دعا: جب حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہت عطا ہوئی اور ان کی اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے اور اپنے بھائیوں سے ملاقات ہوگئی تو انھوں نے اپنے پروردگار سے ان الفاظ میں اپنی شکرگزاری کا اظہار کیا اوربادشاہت کے باوجود صالحین کے ساتھ اپنے انجام کی درخواست کی:

رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo (یوسف ۱۲:۱ ۱۰) اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا، زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔

  •  ایک جامع دعا: جب بڑھاپے میں رب کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیل ؑجیسے فرزند عطا کیے تو انھوں نے یہ دعا کی اور پھر ان کی دعا یوں قبول ہوئی کہ ان کی یہ دعا قیامت تک ہر مومن کی نماز کا مستقل حصہ بنا دی گئی:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآئِ o رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo (ابراھیم ۱۴: ۴۰-۴۱) اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی ایسے لوگ اُٹھا جو یہ کام کریں۔ پروردگار! میری دعا قبول کر، پروردگار میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کردیجیو جب کہ حساب قائم ہوگا۔

  •  حضرت سلیمانؑ کی دعا:اللہ تعالیٰ نے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک عظیم بادشاہت اور چرند پرند سب پر حکومت عطا کی اور ایسے میں جب وہ ایک روز اپنے لشکر کے ہمراہ کہیں جارہے تھے تو ان کے راستے میں آنے والی چیونٹیوں نے آپس میں کہا کہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس جائیں ورنہ کچلے جائیں گے تو حضرت سلیمان ؑ نے یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور دعا کی کہ اے اللہ! اس سب کے باوجود میری آرزو ہے کہ میرا انجام صالحین میں ہو:

رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہٗ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ o (النمل ۲۷:۱۹) اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر  ادا کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔

  •  شرح صدر کے لیے دعائیں: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزے دے کر فرعون کے پاس جانے کو کہا تو حضرت موسٰی ؑنے کہ جن کی زبان میں بچپن ہی سے لکنت تھی اس دعا کے الفاظ میں اللہ سے اپنی استعانت کی درخواست کی لیکن جب فرعون نے ان کے معجزوں کو جادو کا محض ایک کھیل قرار دیا اور ان کی مسلسل دعوت کے جواب میں مسلسل انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ o وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ o وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ   لِّسَانِیْ o یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ o (طٰہٰ ۲۰:۲۶ تا ۲۸) پروردگار! میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

  •  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے اُترتے وقت حضرت جبریل ؑکے ہمراہ وحی کے الفاظ دہرانے کی کوشش کرتے۔ اس پر اللہ نے فرمایا کہ آپؐ کو وحی کا یاد کرا دینا ہمارا کام ہے۔ اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یوں کہا کریں کہ میرے رب! مجھے مزید علم عطا کر۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد آپؐ پر کبھی پریشانی کی کیفیت طاری نہ ہوئی اور پھر پوری اُمت نے ان الفاظ کو اپنا وظیفہ بنا لیا:

رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo  (طٰہٰ ۲۰:۱۱۴) اے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔

  •  مصیبت اور پریشانی کے وقت کی دعائیں: یہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعا ہے۔ جب وہ اللہ کے اذن کے بغیر اپنی قوم سے مایوس ہوکر اور اس خوف سے کہ اس قوم پر اب اللہ کا عذاب آیا چاہتا ہے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ایک مچھلی نے انھیں نگل لیا اور اللہ نے اپنی قدرت سے انھیں وہاں زندہ سلامت رکھا۔ اس حال میں مچھلی کے پیٹ کے اندر تاریکی میں ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے اور اللہ نے انھیں اس دعا کی بدولت اس تاریکی اور مصیبت سے نجات بخشی:

لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo (الانبیا ۲۱:۸۷) نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا (اے خدا! مجھے معاف کردے)

  •  یہ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا ہے۔ وہ خود بہت ضعیف اور ان کی بیوی بانجھ ہوچکی تھی۔ انھوں نے اپنے رب سے ان الفاظ میں اپنے لیے ایک وارث کی التجا کی اور ان کے رب نے ایک معجزانہ شان کے ساتھ ان کی دعا قبول کی اور انھیں حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسا بیٹا عطا کیا:

رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ o (الانبیا ۲۱:۸۹) اے پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تو ہی ہے۔

  •  حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قریش کبھی مجنوں، کبھی شاعر، اور کبھی جادوگر ہونے کا الزام دیتے اور کسی صورت حضوؐر کی دعوت کو مان کر نہ دیتے تو حضوؐر نے آخر ان الفاظ میں فیصلہ طلب کیا اور پھر اللہ نے ان کی یہ دعا یوں قبول کی کہ ان الزام دینے والوں کے دیکھتے ہی دیکھتے حق غالب آگیا اور باطل پرست سب منہ دیکھتے رہ گئے:

رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ o (الانبیا ۲۱:۱۱۲) اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو ان کے مقابلے میں ہمارا رب رحمن ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔

  •  حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے باپ کے ظلم سے تنگ آکر گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور پھر برس ہا برس تک اپنی قوم کو بت پرستی چھوڑ کر اللہ کی حاکمیت میں آنے کی دعوت دیتے رہے اور وہ قوم کہ جس میں ان کا باپ بدستور شامل رہا،مسلسل انکار کرتی رہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی اور اپنے لیے اللہ سے صالحین میں شمولیت کی التجا کی۔ اس پر اللہ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ دیکھ لینا قیامت کے روز جنت صرف ایمان لانے والوں کے لیے اور دوزخ منکرین کے سامنے ہمیشہ کے لیے کھول دی جائے گی:

رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ o وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ o وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ o وَاغْفِرْ لِاَبِیْٓ اِِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ o وَلاَ تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَo (الشعرا ۲۶:۸۳) اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا اور بعد میں آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر، اور مجھے جنت کے وارثوں میں شامل فرما اور میرے باپ کو معاف کردے کہ وہ بے شک گمراہ لوگوں میں سے ہے اور مجھے اس دن رسوا نہ کر، جب کہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔

  •  مفسدین سے مقابلے کے لیے دعا: حضرت لوط علیہ السلام کی قوم جب مسلسل ان کی نافرمانی کرتی رہی اور علانیہ فحش کاری میں مبتلا رہی اور یہاں تک کہ حضرت لوطؑ سے اللہ کا عذاب لے آنے کاچیلنج کرنے لگی تو حضرت لوطؑ نے یہ دعا مانگی جس پر اللہ نے ان نافرمانوں کو ہمیشہ کے لیے مٹا کر رکھ دیا:

رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۳۰) اے میرے رب! ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔

آیئے! اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور رو رو کر اس سے ملتجی ہوں:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَـآ اِنْ نَّسِیْنَـآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰـنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (البقرہ ۲:۲۸۶) (ایمان لانے والو، تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں، ان پر گرفت نہ کر۔ مالک، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار، جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

 

اچھی تقریر، اچھی بات اور اچھے مدرس کو کون پسند نہیں کرتا۔ کئی مقرر، کئی لکھنے والے اور کئی مدرس ہیں جن کی باتیں ہیرے موتیوں جیسی ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں تو ہمیں سننے والے نظر آتے ہیں اور اگر اس دوسری جانب سننے سمجھنے کا ذوق، چاہت، اور پیاس نہ ہو تو یہی ہیرے موتی خشک پتوں، بکھرے تنکوں اور آواز کی ناقابلِ فہم سنسناہٹ سے زیادہ اہم نہیں۔ باتیں کتنی ہی اچھی ہوںاگر سننے کی چاہت اور پیاس نہ ہو تو یہی باتیں بے معنی ہوکر ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سمع و بصر یعنی سننا اور دیکھنا کا ذکر ۱۹ جگہ پر کیا ہے، جن میں سے ۱۷ مواقع پر سمع کا ذکر بصر سے پہلے آیا ہے۔ انسان کو زمین پر گزربسر کرنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں اور انھی نعمتوں میں سننے کی صلاحیت بھی ہے۔ اس نعمت کا اندازہ کان بند کر کے کیجیے کہ کتنی اُلجھن ہوتی ہے، بلاشبہہ سماعت جہاں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے وہاں اس کی بازپُرس بھی ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ہے: ’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپُرس ہونی ہے‘‘(۱۷: ۳۶)۔ خیال رہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بازپُرس کا معاملہ وہیں فرماتے ہیں جہاں ہمیں اختیار دیا جاتا ہے۔ سننے کے لیے ہمیں دو کان دیے گئے اور جب کان کے متعلق بازپُرس ہوگی تو یقینا یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم کیا سنیں اور کیا نہ سنیں۔ سورئہ انفال میں فرمایا گیا: ’’اے ایمان لانے والو! اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جنھوں نے کہا ہم نے سنا، حالانکہ وہ نہیں سنتے‘‘۔ (۸:۲۰- ۲۱)

یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے صاف صاف ہدایت آگئی اور ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی اور منشا کیا ہے۔ یہ احکام ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے کے لیے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمہ تن گوش ہوکر احکام سنے جائیں اور سمجھے بھی جائیں تاکہ عمل کرنے میں سہولت ہو۔ یہ احکام ہدایت کے لیے ہیں اور ہدایت تبھی حاصل ہوگی اگر ہم احکامات کو غور سے سنیں، ذہن نشین کریں اور عمل بھی کریں۔      علما فرماتے ہیں کہ اس کا کیا فائدہ کہ بندہ کہے تو سمعنا واطعنا لیکن اطاعت کے آثار اس پر ظاہر نہ ہوں۔ یہی غور سے سننے اور سمجھنے کی بات سورئہ فرقان میں سختی سے کہی گئی ہے، فرمایا گیا: ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘(۲۵:۴۴)۔ اگرچہ انسان کو ’احسن تقویم‘ اور اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے مگر یہاں جو معاملہ بیان ہوا ہے وہ لاپروائی سے سننے کے بارے میں ہے۔ گویا اگر ہم سنتے اور سمجھتے نہیں تو اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہماری حیثیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں جانوروں جیسی بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ اگر یہی کیفیت مسلسل رکھی جائے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب کرلی جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ ہدایت کی کوئی بات نہ ہم سنتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ عمل کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاگو رہنا چاہیے کہ ہم ایسی حالت تک گرنے سے محفوظ رہیں۔ آمین!

سورئہ جاثیہ میں یہی بات مختلف انداز میں فرمائی گئی ہے: ’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟‘‘ (۴۵:۲۳)

یہاں ایک خاص ذہنی کیفیت کی طرف اشارہ اور ہدایت ہے۔ جب ہم بات کرنے والے کی بات پہلے سے طے شدہ ذہن (pre-set mind)  سے سنتے ہیں، یعنی سننے والا سنتا ہے مگر ذہن میں طے رکھتا ہے کہ جو بات یا جو فیصلہ اس کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے، وہی صحیح ہے اور دیگر سب لایعنی باتیں ہیں۔ ایسی صورت حال میں علم کے باوجود گمراہی میں پھینکے جانے کی نوید سنائی جارہی ہے کہ بات نہ کانوں سے گزرتی ہے، نہ دل پر اثرکرتی ہے۔ یہی تو کبر کا معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق ہی چھین لیتے ہیں۔

اسی طرح سورئہ یونس میں فرمایا گیا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو (کھلے کانوں سے پیغمبرؐ کی دعوت کو) سنتے ہیں‘‘۔ (۱۰:۶۷)

ان سننے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جنھیں یہ گھمنڈ ہوتا ہے کہ جو وہ جانتے ہیں صرف وہی  صحیح ہے اور آنے والی ہدایت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ بار بار   قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے بھی انھیں قرآنی آیات میں کئی مرتبہ نئی روشنی اور ہدایت پاتے ہیں۔ یہ کیفیت جبھی ہوگی کہ پڑھنے والا ہدایت کے لیے تیار رہے۔ یعنی کان کھلے رکھے اور ذہن کو نئی ہدایت قبول کرنے کے لیے بھی تیار رکھے۔

ہم مسلمان لوگوں کے نزدیک یہ یقینی بات ہے کہ جنت میں ماحول اور صورتِ حال حددرجے کی معیاری ہوگی۔ کئی مقامات پر اس کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے اور سننے سے متعلق نعمتوں کا ذکر بھی ہے:

  •  جنتی لوگ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے اور جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔ (مریم ۱۹:۶۲)
  •  جنتی لوگ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔(الواقعۃ ۵۶:۲۵)
  •  جنتی لوگ کوئی لغو اور جھوٹی بات نہ سنیں گے۔(النبا ۷۸:۳۵)

گویا جنت کا ماحول ایسا ہوگا کہ وہاں لوگ بے ہودگی، یاوہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، گالی، لاف و گذ اف، طنزوتمسخر اور طعن و تشنیع جیسی باتیں نہیں سنیں گے۔ وہ سوسائٹی بدزبان اور بدتمیز لوگوں کی سوسائٹی نہ ہوگی جس میں لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے ہیں۔ وہ شریف اور مہذب لوگوں کا معاشرہ ہوگا جہاں لغویات ناپید ہوں گی۔ جو لوگ دنیا میں شائستگی اور مذاق سلیم کے حامل ہیں، وہ محسوس کرسکتے ہیں کہ دنیا کی زندگی میں یہ کتنا بڑا عذاب ہے جس سے نجات پانے کی نوید سنائی گئی ہے۔

کیوں نہ ہم آج ہی عہد کریں کہ ہم کسی بھی بے ہودہ بات، افترا، تہمت اور یاوہ گوئی جیسی باتوں پر کان نہیں دھریں گے اور نہ ایسی صورت حال کا حصہ بنیں گے۔ اس طرح ہم کئی ایک سمعی قباحتیں چھوڑ کر کئی مصیبتوں سے بچ سکیں گے۔

احادیث اور سیرتِ النبیؐ کے مطالعے سے بھی پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرامؓ مجلسِ نبویؐ میں اس طرح بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے ہیں جو ہلنے سے اُڑ جائیں گے۔

امام طبرانی نے صحیح سند سے عمروؓ بن عاص سے روایت فرمایا کہ اللہ کے نبی قوم کے ادنیٰ ترین آدمی کی طرف بھی بھرپور متوجہ رہتے اور اس سے بات کرتے تاکہ اس کی تالیف قلب ہو اور وہ میری طرف اس طرح متوجہ ہوتے، حتیٰ کہ میں نے گمان کیا میں ہی قوم کا بہترین آدمی ہوں۔ ہجرت سے تین سال قبل حج کے موقع پر حسب ِ معمول حضوؐر مکہ میں حاجیوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ سوید بن صامت آپؐ کی تقریر سن کر بولا: آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپؐ  نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: مجلۂ لقمان۔ پھر آپؐ  کی فرمایش پر اُس نے اس مجلے کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ آپؐ نے فرمایا: یہ بہت اچھا کلام ہے مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ مجلۂ لقمان سے بلاشبہہ بہتر ہے (سیرۃ ابن ہشام۔ تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت النبیؐ، ج۴، ص ۱۳)۔ یہاں رسول اکرمؐ کی حکمت اور صبر ملاحظہ ہوکہ اُنھوں نے دوسرے کی بات کی نفی نہیں کی، بلکہ اس کی بات سنی اور پھر اپنی بات سنائی۔ یہاں اس یقین کی کیفیت پر غور بھی کیجیے جو پیغمبروں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنی بات روک کر زمانۂ جاہلیت کا کلام سننے کی فرمایش کرنا یقینا بڑے ضبط، حلم اور بُردباری کی زندہ مثال ہے۔

بات کو اچھی طرح سننا، اختلاف کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ مشہور قول ہے کہ عالِم کے پاس بیٹھو تو خاموشی اختیار کرو اور جاہل کے پاس بیٹھو تو بھی خاموشی اختیار کرو۔ حکمت یہ ہے کہ عالِم کی بات سن کر علم میں اضافہ ہوگا اور جاہل کے ساتھ خاموش رہنے سے بُردباری اور حلم میں اضافہ ہوگا۔ سننے کے بارے میں علما ہدایت کرتے ہیں کہ بات اس لیے دھیان سے سنو کہ تم سمجھنا چاہتے ہو نہ کہ اس لیے کہ اس میں غلطیاں نکالنی ہیں اور لغزشوں کو گننا ہے۔ دوسرے کی بات کی تشریح اپنے نقطۂ نظر سے نہ کرو بلکہ اُسی کے زاویۂ نگاہ سے بات سمجھو۔ اسی طرح امام ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ جو بہترین طریقے سے خاموشی اختیار کرنا چاہے تو اپنے آپ کو دوسرے فریق کی جگہ تصور کرے۔ اس طرح اُس کی بات اور نقطۂ نظر واضح ہوجائے گا۔ یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ جو کوئی پریشان اور غم زدہ ہو، اس کی بات سننے سے اس کی پریشانی اور غم میں کمی آجاتی ہے، جب کہ جلدبازی اور بات کاٹنے کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔

سننے میں مانع امور

آج کل مینجمنٹ کے مضامین میں ’سننا‘ یعنی ’listening‘ پر کئی مضامین لکھے گئے ہیں اور سننے میں مانع امور پر بحث کی گئی ہے:

۱- موضوع کو ’بور‘ (bore) اور بے روح قرار دینا، یعنی مکمل بات سنے بغیر ہی راے قائم کر لینا۔ ممکن ہے کہ ہم اس موضوع سے پہلے ہی بے زار ہوں اور چڑ رکھتے ہوں اور سننا بھی نہ چاہتے ہوں کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ اچھے سننے والے تحمل سے اس انتظار میں سنتے ہیں کہ کوئی کام کی بات گفتگو سے نکل آئے۔

۲- موضوع ہی نہیں ہم بعض اوقات مقرر سے چڑرکھتے ہیں اور راے رکھتے ہیں کہ یہ مقرر ہمارا وقت ہی برباد کرے گا۔ ہم اپنی راے اپنے آپ پر ٹھونسنا چاہتے ہیں اور اپنا نقصان کربیٹھتے ہیں۔ یہ صورت حال اپنے ہی گھر میں چھوٹی عمر کے افراد کے ساتھ اور بعض اوقات اساتذہ کی شاگردوں کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ وہ نہیں مانتے کہ چھوٹی عمر میں بھی کوئی کام کی بات کہہ سکتا ہے، جب کہ یہاں معاملہ تو تجربے اور مطالعے کا ہے۔

۳- بعض اوقات تقریر یا گفتگو کے ایک حصے سے بھرپور اثر لے لیا جاتا ہے اور بقیہ تقریر  یا گفتگو محض وقت کا ضیاع محسوس ہوتی ہے۔ اس رویے سے سننے پر اثر پڑتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ بعض مقرر خاص طور پر سامعین سے درخواست کرتے ہیں کہ پوری بات سننے کے بعد ہی راے قائم کی جائے۔

۴- سننے والے کئی مرتبہ صرف حالات سننے پر اکتفا کر لیتے ہیں اور تجزیہ نہیں سنتے۔ اچھے سامع دونوں باتیں سن کر تجزیہ اور حالات کا ربط دیکھ کر راے قائم کرتے ہیں۔

۵- کئی مرتبہ تقریر سنتے وقت سامع اُس تقریر کے بارے میں ایک خاکہ بنانے کی کوشش کرتا ہے جو اُس خاکے سے مختلف ہوتا ہے جو مقرر کے ذہن میں ہوتا ہے۔ یقینا ہر شخص کی سوچ کا اپنا زاویہ ہوتا ہے اور مقرر اور سامع مختلف سمتوں میں سوچتے ہیں اور سامع کی سمجھ میں پوری بات نہیں آتی۔

۶- کئی سامع یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ (جھوٹ موٹ) ہمہ تن گوش ہیں مثلاً سر کو برابر جنبش دینا کہ بات سمجھ آرہی ہے یا یہ کہ پوری توجہ لیکچرر کی طرف ہے جب کہ اصل   میں ان کا سننا سطحی ہی ہوتا ہے ۔صحیح سنا جا رہا ہو تو دل کی دھڑکن اور جسم کا درجۂ حرارت بات اور موضوع کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

۷- جو لوگ کمزور سامع ہیں، اُن کا دھیان بہت آسانی سے اِدھر اُدھر ہونے والے واقعات کی طرف بٹ جاتا ہے مثلاً کسی موبائل فون کی گھنٹی بجی تو دھیان اُس طرف ہو گیا یا کسی کی پنسل گرگئی تو دھیان اس لڑھکتی ہوئی پنسل کی طرف ہی ہوگیا یا دھیان بانٹنے کے لیے یہی احساس کافی ہے کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔

۸- آسانی کسے پسند نہیں؟ کئی سامع موضوع کے صرف آسان پہلوئوں پر غور کرتے ہیں۔ اس طرح کے سننے والے موضوع کا مکمل احاطہ نہیں کرپاتے اور پوری بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کئی موقعوں پر مقرر اپنی بات میں کوئی ایسا لفظ بولتا ہے یا ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو سامع کی سوچ کسی پرانے موقع یا تجزیہ کی طرف لے جاتی ہے یعنی اس کا تعلق ماضی میں کسی معاملے سے رہا ہو مثلاً مقرر کو چھینک آئی، اُس نے رومال استعمال کر کے جیب میں رکھنے کے بجاے آستین ہی میں اڑس لیا۔ سامع کو اُس کی دیکھی ہوئی ’جناح‘ فلم یاد آگئی اور پھر سوچ اُسی فلم کی طرف ہورہی۔

۱۰- سننا ایسا عمل ہے جس کے لیے بولنا ایک ضروری حصہ ہے ۔ اگر الفاظ فی منٹ گنے جائیں تو بولنے والا ایک سو الفاظ فی منٹ بولتا ہے، جب کہ سننے کی صلاحیت پانچ سو الفاظ فی منٹ تک ہوسکتی ہے۔ اس طرح بولنے والا اور سننے والے کی ایک ہی معاملے میں مختلف رفتار ہوتی ہے۔ یہ فاصلہ زیادہ ہوجائے تو بات سمجھنے پر اثر پڑتا ہے۔

۱۱- سامع کا ذہن اگر کسی دوسری بات میں الجھا ہو تو سننے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ مثلاً کسی عزیز کی بیماری، بچے کا رزلٹ یا سڑک پر ہونے والا حادثہ۔

۱۲- اردگرد کا شور شرابہ بھی سماعت پر اثر ڈالتا ہے۔ شور کی وجہ سے مقرر کی آواز بھی دب جاتی ہے اور سامع کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔

۱۳- ممکن ہے جس کرسی پر سامع بیٹھا ہے، وہ آرام دہ نہ ہو اور دھیان کرسی کی طرف ہی جائے۔ یہی صورت حال تکلیف دہ لباس اور جوتوں سے بھی ممکن ہے۔

۱۴- ہمارے ہاں آنکھوں کا معائنہ کروانا اور عینک کا استعمال ایک عام بات سمجھی جاتی ہے۔ بعض اوقات عینک فیشن کے ضمن میں بھی آتی ہے۔ لوگ اپنی سماعت کا معائنہ نہیں کرواتے۔ اگرچہ ہماری سماعت کئی ایک وجوہات سے کمزور بھی ہوسکتی ہے۔ آلۂ سماعت لگانے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگر سماعت کمزور ہو تو یہ ایک ضرورت ہے۔

۱۵- ہم دیکھتے ہیں کہ پریزنٹیشن (presentation) میں مقرر حضرات کم وقت میں بہت سا لوازمہ سامعین کے کانوں میں انڈیلنا چاہتے ہیں۔ مقرر جلد جلد بولتا ہے، جب کہ سلائیڈوں پر بہت سا لوازمہ ٹھونس کر بھر دیا جاتا ہے اور یہ کمزوری کئی اہم مواقع پر بھی درست نہیں کی جاتی۔ کئی دفعہ مقرر بھی مجبور ہوتا ہے، جب کہ تقریر سے پہلے ہی اسے بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ ۴۰منٹ کا وقت تھا مگر آپ اپنی تقریر ۲۵ منٹ ہی میں ختم کریں۔ یہ قصور مقرر کا نہیں بلکہ پروگرام کے منتظمین کا ہے جو وقت کو منصوبے کے مطابق تقسیم نہ کرسکے۔

۱۶- کئی مواقع پر سوالات کا وقفہ آخر کے بجاے تقریر کے دوران میں رکھا جاتا ہے اور کئی سامعین لایعنی سوال یا پھر سوال براے سوال لے کر بات شروع کردیتے ہیں۔ یہ صورت حال سننے والوں پر گراں گزرتی ہے۔

۱۷- کئی مرتبہ سامعین بے صبری اور جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم عرصے میں بہت سا لوازمہ بشمول ذاتی راے ہضم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجتاً اصل بات سمجھنے سے رہ جاتی ہے۔

ہم بات کیوں سنتے ہیں؟ یا اچھا سامع ہونا کیوں ضروری ہے؟ ہر کام کا ایک ہدف ہوتا ہے اور سامع کے سامنے چند مقاصد ہوتے ہیں: 

  • لطف اندوزی کے لیے 
  • سمجھ اور فہم کے لیے 
  • فیصلہ کرنے کے لیے
  • تنازع یا اختلاف کا حل نکالنے کے لیے 
  • معلومات کے لیے۔

بات سنتے وقت اس کا ایک مقصد واضح ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح بات سنانے والے کا بھی وہی مقصد ہونا چاہیے جو بات سننے والے کا ہے، وگرنہ اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ ہوگا۔

کرنے کے کام

۱- آپ بات سنتے وقت فوری فیصلہ یا راے قائم کرنے سے باز رہیں کیونکہ آپ کی   یک طرفہ سوچ آپ کے فیصلے اور راے پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

۲- بات سنتے وقت اندازہ لگائیں کہ بات کرنے والے کے احساسات کیا ہیں۔ سنانے والے کی جسمانی حرکات (body language) آواز کا اُتارچڑھائو، باتوں میں پیغام، سب کچھ ہمدردی سے برداشت کریں تاکہ آپ پوری بات کُلّی طور پر سمجھ سکیں۔

۳- بات سنانے والے کے احساسات کی قدر کریں اور اعتراف بھی کہ سنانے والا کن حالات اور ذہنی کیفیت سے گزر رہا ہے۔

۴- بات مکمل سننے کے بعد اپنے لفظوں میں مختصراً بیان کریں کہ آپ نے کیا سمجھا۔ سنانے والے سے مدد کی درخواست بھی کریں کہ اگر آپ نے بات سمجھنے میں غلطی کی ہے تو وہ خود تصحیح کردے، یعنی correct me if I am wrong۔

۵- اگر آپ نے سوال کرنا ہو تو کھلا سوال (open ended) ہو، مثلاً فرمایئے میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟ یا آیا یہ اپنی قسم کا پہلا واقعہ ہی ہے یا اس سے پہلے بھی یوں ہی ہوتا رہا ہے؟ اس طرح آپ کو زیادہ معلومات مل سکیں گی۔

بات غور سے سننا ایسا موضوع ہے کہ اس پر خال خال ہی بحث ہوتی ہے، جب کہ سارا زور اچھی تقریر، اچھے الفاظ اور اچھے فقروں پر ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ بات اچھی طرح سننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اچھی بات کہنا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھر پر تربیت کرتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھیں۔ خطبۂ جمعہ، تقاریر اور تبادلۂ خیالات اور دعوتِ دین کے سلسلے میں اور دفاتر میں روزمرہ کے کام میں بھی اس امر پر بھرپور توجہ ہو کہ بات سننے والوں نے کیا رویہ رکھا۔ اس طرح  کم از کم دگنا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

 

رمضان المبارک کی مناسبت سے امام حسن البنا شہیدؒ نے مختلف مواقع پر مضامین تحریر کیے جو جریدۃ الاخوان ،مصر میں شائع ہوئے۔ خواطر رمضانیۃ کے نام سے یہ مضامین کتابی شکل میں حال ہی میں شائع ہوئے ہیں۔ مذکورہ کتاب سے چند منتخب مضامین پیش ہیں۔(ادارہ)

اے خیر کے طلب گار آگے بڑھ!

رمضان ایک نادرموقع ہے جو سال میںصرف ایک دفعہ میسر آتا ہے۔ اب ہمارے اور اس مبارک مہینے کے درمیان چند ہی دن باقی ہیں۔ یہ مہینہ شروع ہوتے ہی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ کے نیک بندوں پرمزید برکتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ اس ماہ مبارک کے شب وروز میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں پرخصوصی نظر کرم فرماتا ہے، اُن کی دعائیں قبول فرماتا ہے ، اطاعت گزاروںکے ثواب کو دُگنا کرتا ہے، اور گنہگا روںاور خطاکاروں سے درگزر فرماتا ہے۔

نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جب رمضان آنے لگتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں، سرکش شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی یہ آواز لگاتا ہے : اے بدی کے طلب گار! رک جااور اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ۔ (بخاری)

ماہ صیام ایسے حالات میں طلوع ہورہا ہے کہ جب مسلمان گوناگوں مسائل کا شکار ہیں  جن کا مقابلہ کرنا اللہ کی اُس تائید ونصرت کے بغیر ممکن نہیں ہے جس کااس نے اپنے مومن بندوں سے وعدہ فرمایاہے :

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے،نیکی کا حکم دیں گے اوربرائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (الحج ۲۲:۴۱)

آج مسلمانوںکے سامنے وادیِ نیل کا مسئلہ ہے، فلسطین وجزائر عرب کا مسئلہ ہے،  برعظیم میں پاکستان ، ریاست حیدرآباد اور ہندستان میں مسلم اقلیت کے مسائل ہیں ۔ان کے علاوہ یورپ اور افریقہ میں مسلمانوں کو درپیش لا تعداد مسائل ہیں۔ان گمبھیر مسائل سے نکلنا تائیدِ خداوندی کے بغیرممکن نہیں، اور اللہ کی نصرت ،معصیت سے نہیں بلکہ اطاعت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

لہٰذا اس عظیم موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمر بستہ ہوجائیے۔ دلوں کو آلایشوں سے صاف کیجیے، اپنے نفس کو آمادہ کیجیے، دل وجان سے رمضان کااستقبال کیجیے، کثرت سے توبہ واستغفار کا اہتمام کیجیے اورہمیشہ اللہ کے ساتھ جڑے رہیے تاکہ اللہ آپ کے ساتھ رہے۔جب اللہ آپ کے ساتھ ہوگا تو وہ آپ کی نصرت فرمائے گااور اللہ کی مدد شامل حال ہو توکوئی آپ پر غلبہ نہیں پاسکتا۔(۲ جولائی ۱۹۴۸ء)

عبادت کی حکمت

اسلام میں جو اعمال اور عبادات فرض یا واجب کی گئی ہیں، ان میں ایک حکمت پوشیدہ ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے بندوں پرخصوصی مہربانی کرتے ہوئے ان کے لیے وہی اصول وضوابط مقرر فرمائے ہیں جو بندوں کی کامیابی اورسعادت دارین کا موجب ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقبول عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی قاعدہ ،خلوص نیت اور حضور قلبی ہے۔ اگر عبادت کابنیادی محرک رضاے الٰہی نہ ہو تو نہ اس عبادت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ثواب بلکہ حدیث نبویؐ کے مطابق: کتنے ہی روزہ دار ہیں جنھیں ان کے روزے سے سواے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ اسلام عبادت گزاروں کو مشقت میں نہیں ڈالتابلکہ عبادت میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے تو اسے روزہ نہ رکھنے کی آزادی ہے، کہ تندرستی کے بعد رکھے یا اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہ ادا کرے (یہ بھی یاد رہے کہ بلا عذر عبادات سے محرومی ابدی محرومی ہے)۔

تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہییں۔ یہ فرائض محض عبادت براے عبادت نہیں ،بلکہ اُخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی پر ان کے اثرات وفوائد بھی ملحوظ رکھے گئے ہیں۔اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا ،جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہرنہ ہوں۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو وہ سراسر خیر ہی ہوتا ہے اور بندوں کی زندگی پراس کا براہ راست مثبت اثر ہوتاہے، اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانی زندگی کے لیے ضرر رساں ہوتاہے۔ ارشاد ربانی ہے:

(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اُس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔(اعراف ۷: ۱۵۷)

میں اسلامی حکومتوں سے گزارش کروں گا کہ وہ دیگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوںکی طرح رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے بھی کڑی سزا مقرر کریں تاکہ کسی کو اس ماہِ مقدس کی حرمت پامال کرنے کی جراء ت نہ ہو۔اس ضمن میں چند سرکاری محکموں سے اپنے ذیلی اداروں کورمضان کے احترام پر مشتمل ایسی رسمی ہدایت جاری کردینا کافی نہیں ہے جس کی نہ پیروی کی جاتی ہے نہ مخالفت کرنے پر کوئی سزا ہی دی جاتی ہے۔حکومت اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے ۔ (۲۶ جولائی ۱۹۴۶ء)

نیکیوں کا موسمِ بھار

اسلام میں عبادت کی حیثیت ٹیکس یاجرمانے کی نہیں کہ جسے ادا کرکے کوئی بوجھ اتارنا مقصود ہو،بلکہ اسلامی عبادات رب اور بندے کے درمیان ایک مقدس روحانی تعلق کی ایک علامت ہوتی ہیں۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک سرمدی نور پیدا ہوتا ہے،جو ان کے گناہوں ،وسوسوں اور اندیشوںکے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انسان کی تکریم وعزت ہے کہ خاکی ہونے کے باوجودوہ ان عبادات کے ذریعے رب ذوالجلال کے ساتھ مناجات کرسکتا ہے۔

رمضان کا مہینہ اطاعت و عبادات کا موسم بہار ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بندوںکے شب وروز کو مزین فرماتاہے اور یہی اس مہینے کے حسن وجمال کا سبب ہے۔ اطاعت گزاری تو ہروقت ایک مطلوب صفت ہے لیکن رمضان میں اس کی قدرو قیمت اور حسن میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں عبادت کا ثواب اور قدر افزائی بہت زیادہ ہے لیکن اس مہینے میں تو اجر وعطابے حساب ہوجاتی ہے۔ اس مہینے کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے ۔ فقہی اعتبار سے اگریہ روزہ توڑنے والی چیزوں سے اجتناب کا نام ہے تو روحانی اعتبار سے یہ صرف اور صرف    اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کا قرب حاصل کرنے کو ،اپنے نفس، فکر، ارادہ اور اپنی سوچ وشعور کا محور بنانے کو کہتے ہیں۔

اس مہینے میں قرآن کے ساتھ خصوصی تعلق جوڑنا چاہیے اور کثرت سے کلام پاک کی تلاوت کرنی چاہیے کیونکہ یہ قرآن کا مہینہ ہے ۔ جبریل امین ؑ خصوصی طور پر رمضان میں آکر حضور پاکؐسے قرآن سنتے تھے۔ زندگی کے آخری برس آپؐ نے دو دفعہ جبریل ؑ کو قرآن سنایا۔ یہ وہی قرآن ہے جوصحابہ کرامؓ اور ہمارے اسلاف کے پاس موجود تھا۔ ہم بھی اسے اسی طرح پڑھتے اور سنتے ہیں جس طرح وہ سنتے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ قرآن نے اس طرح ہماری زندگی کو نہیں بدلا جس طرح صحابہ کرامؓ کی زندگی کو بدلا تھا؟ اس سے ہمارے اخلاق ومعاملات میں وہ تبدیلی کیوں نہیں آتی جو ان کی زندگی میں آئی تھی؟

یہ اس لیے کہ انھوں نے اس کتاب کومضبوط ایمان کے ساتھ قبول کیا، تدبر کے ساتھ اس کو پڑھا،اس کے احکام کو نافذ کیااور اپنے آپ کومکمل طور پر اس کے سپرد کردیا۔ آپ اور ہم بھی ان کی طرح بن سکتے ہیں اگر اس کتاب پر ان کی طرح ایمان لے آئیں۔ اُن کی طرح اس کے مطابق چلیں، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مانیں، اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ اس کے احکام کونافذ کردیںاور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھال لیں۔تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

کثرت سے صدقہ اور غریبوں اور مساکین کی مدد کرنا بھی اس مہینے کے امتیازی اعمال میں سے ہے۔ نبی پاکؐ جود وسخاکے پیکر تھے لیکن اس مہینے میں آپؐ کی سخاوت تیز ہوا کی مانند ہوجاتی تھی۔

اسی طرح دعا اور کثرت سے استغفار بھی اس ماہ کی خصوصی عبادات میں شامل ہے۔     یہ دعائوں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مانگنے والوں کے لیے دروازے کھول دیتا ہے، اور توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اس مہینے میں روزے داروں کی دعا رد نہیں کی جاتی۔     لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! کہیں اس مہینے کی مبارک راتیں اللہ کی رحمتیں سمیٹے اور اُس کی رضا حاصل کیے بغیر نہ گزرجائیں۔

اس مشینی دور میں جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ،اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو روح کی تسکین کا سامان بنایا۔ اس میںدن کو روزہ رکھ کر تمام دنیاوی لذتوں اور لغوکاموں اور باتوں سے اجتناب کیا جاتا ہے اوررات کو اٹھ کر اللہ کے حضور طویل قیام اور تلاوت قرآن سے اپنے دلوں کو منور کیا جاتا اور روح کو تسکین پہنچائی جاتی ہے۔ لہٰذا میرے عزیز بھائیو! اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی دن سے مضبوط ارادے کے ساتھ اس مدرسے میں داخل ہوجایئے۔ ہر وقت اپنی توبہ کی تجدید کرتے رہیے ۔ غور وفکر کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کیجیے۔ اپنے نفس کو روزے کے فوائد سے روشناس کیجیے۔جتنا ممکن ہو قیام اللیل کا اہتمام کیجیے۔زیادہ سے زیادہ ذکر و فکر میں وقت گزاریئے۔اپنی روح کو مادیت کے فتنے سے بچائیے اور کوشش کیجیے کہ اس ماہ مبارک سے متقی بن کر نکلیں۔ (۱۷ نومبر ۱۹۳۶ء)

 

آج کے عدیم الفرصت دور میں اگر خوش قسمتی سے فرصت کے کچھ لمحات میسر آجائیں اور اہلِ خانہ مل جل کر کچھ وقت گزار سکیں تو بلاشبہہ یہ اللہ کی کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اسی بات کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصروفیت سے پہلے فرصت کو غنیمت جانو (ترمذی)۔ لہٰذا نبی کریمؐ کے اس ارشاد کے مطابق فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے فرصت کے ان لمحات کو بہترین انداز میں صرف کرنا چاہیے۔ بالخصوص انفرادی اصلاح، گھر کے ماحول کی بہتری اور بچوں کی تربیت اور کردار سازی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بنا کر ایک مربوط پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم فرصت کے لمحات کی صحیح معنوں میں قدر نہیں کرتے۔ ملک کے بعض حصوں میں ہر سال گرمیوں کی اور بعض علاقوں میں سردیوں کی طویل چھٹیاں آتی ہیں۔ ان کی آمد جہاں طالب علموں،اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے کارکنان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہے، وہاں گھر کی خواتین کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اس قیمتی وقت کو کماحقہٗ استعمال نہیں کرسکتیں اور نہ ان دنوں ہی سے فیض یاب ہو پاتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کی مائیں اور خصوصاً لڑکوں کے والدین ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں۔ اس ضمن میں چند عملی نکات پیش ہیں:

  • …  پہلا مرحلہ شب و روز کے لیے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ نبی کریمؐ کے فرمان کے پیش نظر کہ صبح کے وقت میں برکت ہے، اپنے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کیجیے۔ نمازِ فجر کے بعد ہی سے دن بھر کی سرگرمیوں کا آغاز کیجیے۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت سونے کی نذر نہ کریں۔ عام طور پر تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی بچوں کا رات کے وقت جاگنا اور صبح دیر سے اُٹھنے کا معمول بن جاتا ہے جو کہ نامناسب اور خلافِ فطرت ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی نمایاں ہے کہ لوگ رات گئے اسے دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رات آرام و سکون کے لیے اور دن کام کے لیے بنایا ہے۔ اس کے لیے والدین خود عملی نمونہ پیش کریں۔

___ بچوں کی عمر، تعلیم، مصروفیات کو مدنظر رکھ کر، بچوں سے مشاورت کرکے سونے کے اوقات کا تعین کرلیا جائے اور اس پہ کاربند بھی رہا جائے۔ رشتہ دار بہنوں بھائیوں کے سامنے اس بات کا اظہار نہ کریں کہ ’’لمبی چھٹیاں ہوگئی ہیں۔ اب تو ہر وقت بچے سر پہ سوار رہیں گے‘‘۔ اگر اپنے بچوں کا استقبال ان جملوں سے کریں گی تو آپ کے اور بچوں کے درمیان پہلے دن ہی دُوری کا احساس لاشعور میں جا بسے گا، اور وہ وقت جو آپ کے حُسنِ استقبال سے بچوں کے دلوں میں بہار لا سکتا تھا ضائع ہوجائے گا۔

___ بچوں کے ساتھ مل کر ہرہفتے کا پروگرام ترتیب دیجیے۔ ان کے ذہن اور دل چسپیوں کے مطابق ذمہ داریاں بانٹ دیجیے۔ فون پہ گھنٹوں گفتگو میں مصروف رہنا، اگرچہ کوئی صحت مند سرگرمی نہیں، مگر جب آپ کی سب سے ’قیمتی متاع‘ اور وہ ’خزانے‘ آپ کے سامنے موجود ہیں، جن کی حفاظت و نگہبانی پہ آپ کے ’مستقبل‘ یعنی اُخروی زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہے تو اس خزانے کو ضائع کیوں کریں؟ جس گھر میں جتنے بچے ہیں، یقین جانیے اتنے ہی حل طلب پرچے موجود ہیں۔ اس وقت ان ’پرچوں‘ میں بہترین گریڈ حاصل کرنے کا کام دنیا کے سب کاموں سے زیادہ اہم ہے۔

  • … فجر کی نماز کے لیے اُٹھنے پہ انعام دیا جاسکتا ہے۔ ایک بھائی یا بہن کی فجر کے وقت اٹھانے کی ذمہ داری لگایئے اور پھر اس کو تبدیل کرتے رہیے تاکہ سب کو ذمہ داری کا احساس ہو، اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی میں تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔ ایک دوسرے کا حفظِ قرآن سن لیں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں۔ اجتماعی مطالعے کی ایک مختصر نشست بھی ہوسکتی ہے جس میں چند آیات کی مختصر تفسیر، ایک حدیث کا مطالعہ اور لٹریچر سے کچھ انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ دعائیں، نماز اور اس کا ترجمہ، نمازِ جنازہ، مختصر سورتیں وغیرہ تھوڑا تھوڑا کرکے یاد کی جائیں۔ گھر کے افراد کے ساتھ ’آج کے ایجنڈے‘ پہ بات ہو۔ سب اپنی اہم مصروفیات کے بارے میں دوسروں کو آگاہ کریں۔ اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے مشورہ طلب کریں اور تعاون کی پیش کش کریں۔ نبی کریمؐ کے اس ارشاد کے پیش نظر کہ جس کا آج اس کے کل سے   بہتر نہیں وہ تباہ ہوگیا، گذشتہ کل کا جائزہ بھی لیا جائے کہ اپنے آج کو گذشتہ کل سے کیسے بہتر بنایا جائے۔ اس طرح اپنا جائزہ و احتساب اور مشورہ دینے اور قبول کرنے کی تربیت بھی ہوگی۔ اگر  چند منٹ بھی مل کر بیٹھیں گے تو اس کی برکت کے اثرات بہت جلد محسوس ہونے لگیں گے۔ نمازِ فجر ادا کر کے جلد از جلد سو جانے کی غیرفطری روایات نے انسانی روح کا حُسن غارت کر دیا ہے۔ نماز فجر کے بعد سونا ناگزیر ہو تو بھی دوبارہ اٹھنے کا وقت مقرر کردیا جائے۔ ایک زندہ قوم اٹھانی ہے تو آج کے والدین زندہ لمحوں کو اپنی زندگی میں جذب کریں۔
  • … چھٹیوں میں سب اہلِ خانہ ایک ساتھ ناشتہ، دونوں وقت کا کھانا کھائیں تو باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ بچوں اور بچیوں کو جس قدر ہوسکے اپنے قریب رکھیے۔ کمپیوٹر ایسی جگہ پہ رکھیے جہاں آپ اس پہ نظر رکھ سکیں۔ اگر آپ کو کمپیوٹر سے کوئی لگائو نہیں تو اس کی تھوڑی بہت مشق آپ کو کرنی چاہیے۔ جب چھوٹے بچوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے والدین سے زیادہ کچھ جانتے ہیں تو ایک احساسِ برتری پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا اکثر بچے اپنی مائوں کو اندھیرے میں رکھتے ہیں کہ ہم کام کررہے ہیں، حالانکہ وہ جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں مائیں ان سے غافل ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر نے اس دور کے ماں باپ کو سخت امتحان میں مبتلا کر دیا ہے۔ اکثر ماں باپ نے اس آزمایش و امتحان میں کامیاب نہ ہوسکنے کا اعلان کر کے، جیسے خود کو بری الذمہ قرار دے لیا ہے۔ احساسِ مروت کو کچلنے والے آلات کا مقابلہ خلوصِ نیت، مستحکم ارادے، سچے ایمان اور مناجات کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ واقعی اگر ہم یہ راز جان لیں کہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی اور جب تک آنکھیں اَشک بار نہ ہوں تو مناجات بھی بے اثر رہتی ہے۔
  • … فرصت کے لمحات کو محض ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی نذر نہ ہونے دیں۔ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ان کو متبادل مصروفیات اور مشاغل دیں۔ بچوں کو ان کی عمر اور ذوق کے لحاظ سے کوئی نیا کام سکھانے کی کوشش کیجیے۔ کاغذ کے کھلونے بنانا ، کاغذ پہ تصویر بنانا، رنگ بھرنا، سلائی کرنا، کسی ڈیکوریشن پیس کو صاف کرنا___ والد لڑکوں کو ساتھ ملا کر گھر کی مرمت طلب اشیا کو ٹھیک کرسکتے ہیں کہ مل جل کر گھر کے بگڑے کام سنوارنا بھی ایک فن ہے۔ آپ کو یہ کامیابی اسی صورت میں ملے گی، جب آپ اپنی پوری توجہ، وقت اور معاونت بچے کو مہیا کریں گی۔

___  اسکول کے ہوم ورک کی مرحلہ وار تقسیم کرکے اپنی نگرانی میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کرکے کام کروایئے۔ ٹیوشن پڑھوانا مجبوری ہو تو بچے کے معاملات پر نظر رکھیں۔

___ گھر میں لان یا کیاری کی جگہ ہو تو بچے کو کوئی پودا اُگانے، اس کی نگہداشت کرنا سکھایئے۔ بچوں کی ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ انھیں وقت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اپنی مصروفیات میں اس کے لیے بھی وقت رکھیں۔ یہ بچوں کا حق ہے جو انھیں ملنا چاہیے۔ والدین کی شفقت سے محرومی کے نتیجے میں بچے احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی جذبہ منفی رُخ اختیار کرلے تو بچے غلط صحبت اختیار کرلیتے ہیں اور انتقامی جذبہ سر اُٹھا لیتا ہے۔

___  بچوں کے دوستوں کو گھر بلوایئے اور ان کی عزت کیجیے، ان کو توجہ دیجیے تاکہ وہ آپ پہ اعتماد کریں۔ بچوں کے دوستوں کے گھروالوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیے۔ اگر آپ کے خیال میں ان کے گھر کے ماحول سے آپ مطمئن نہیں تو بچے کو برملا نہ کہیں___ حکمت و تدبر سے کام لیجیے تاکہ آپ کے اور بچے کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔

___  بچوں میں ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانا، اس کی تسکین کا سامان کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ اچھی اچھی کتب و رسائل پڑھنے کو فراہم کریں۔ بچوں کو کہانی سننا اچھا لگتا ہے۔ دل چسپ انداز میں کہانی سنایئے، بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کہانی پڑھیے اور پھر اس پر بات چیت ہو۔ ذوقِ مطالعہ بڑھانے میں یہ مددگار ہوسکتا ہے۔ کسی اچھی لائبریری کا تعارف کروایئے اور معیاری کتب منتخب کرکے دیں۔ اس طرح اسلامی لٹریچر اور علم کی ایک وسیع دنیا تک ان کی رسائی ہوجائے گی۔

___  اچھائی اور برائی کے پہلو کی بچے کی عمر کے مطابق وضاحت کریں۔ بچوں کے ساتھ وہ پروگرام اور کارٹون دیکھے جائیں جو وہ شوق سے دیکھتے ہیں۔ ان کے اچھے اور بُرے پہلو کو بحیثیت مسلمان اُجاگر کیا جائے اور بچوں کو مسلمان ہیروز کے بارے میں بتایا جائے۔ قرونِ اولیٰ کے بچوں کی ایمانی کیفیت کی اخلاق و کردار کی کہانیاں سنائی جائیں۔ جن تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلا رہے ہیں وہاں کے ماحول اور نصابِ تعلیم کے بُرے اثرات، آپ کو اپنی محنت و خلوص سے ہی ختم کرنے ہوں گے۔ اگر ختم نہ بھی ہوں تو آثار کم تو کرنا ہی ہیں۔ آپ محنت کی مکلف ہیں۔ دو ڈھائی ماہ بچے آپ کے لیے عذابِ جاں نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کے پیش نظر انھیں توجہ دینا، وقت لگانا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ یہ آپ کا اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ آپ اس کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہیں۔ آپ راعی ہیں اور اپنی رعیت کی نگہانی آپ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت کی صورت میں بہترین تحفہ دے سکتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)

  • … روزانہ نہ سہی ہفتہ میں چند احادیث بچوں کے ذہن نشین ضرور کرائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات، محبت کے مظاہر یاد کرواتے رہیں تو بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔  کلامِ اقبال کے مختلف حصے بھی یاد کرایئے۔ یہ چیز بھی ان کی تربیت پہ بڑی خوبی سے اثرانداز ہوگی۔
  • … آج کے بچے کل کے قائد ہیں۔ مستقبل کی قیادت کی تیاری کے پیش نظر گھر کی ذمہ داریوں کو بچوں میں تقسیم کر کے ان کی صلاحیتوں کا امتحان لیا جاسکتا ہے، مثلاً نوعمر (teen age) بچوں کے ساتھ کبھی یہ تجربہ کرکے دیکھا جائے کہ ایک دن والدین، گھر میں اپنی ذمہ داریاں، اپنی جگہ، اپنے بچوں کو سونپ کر خود ’بچے‘ بن جائیں۔ بچوں کو باری باری سے ایک دن کی ’بادشاہت‘ دے کر ان کے چھپے ہوئے جوہر کو سامنے لایا جاسکتا ہے، اور یہ ایک دل چسپ تجربہ بھی ہوگا۔
  • … نوعمر بچوں کو ’جج‘ بناکر گھر میں چھوٹے موٹے خاکے، کھیل کے طور پر پیش کیے جائیںتاکہ ان کو انصاف کرنے، فیصلہ کرنے کی تربیت دی جاسکے۔ بچوں کی لڑائی میںصلح کرانا،  ان کی شرارتوں، نادانیوں کی اصلاح کرانے کے لیے ان سے تعاون لیا جاسکتا ہے۔ جب نوعمر بچوں سے ذمہ دار، قابلِ اعتماد ہستی کے طور پر برتائو کیا جاتا ہے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔

___  نوعمر بچوں کو احساس دلانا کہ وہ گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ’راعی‘ ہیں، لہٰذا شفقت و محبت اور تحمل و برداشت سے ان کی بہتری کے لیے کوشاں رہیں۔ والدین کی نگرانی اور توجہ سے تربیت کا یہ عمل اگر آگے بڑھتا رہے تو ایک اہم پیش رفت ہوگی۔

___  لڑکوں کو باجماعت نماز کی عادت پختہ کروایئے۔ گھر میں فیملی کے ساتھ بھی کبھی کبھار باجماعت نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح نوعمر لڑکوں کو امامت کے آداب سکھائے جاسکتے ہیں۔

  • … جمعہ کو ایک روزِ خاص کے طور پر منانا___ اہلِ خانہ کا مل کر ’سورئہ کہف‘ کی تلاوت کرنا، باعث سعادت و برکت ہوگا۔ ہر فرد ایک رکوع کی تلاوت کرکے ثواب میں حصہ دار ہوسکتا ہے۔ جمعہ کی نماز کے لیے سب اہلِ خانہ تیار ہوکر مسجد میں جائیں تو گھر میں صبح سے جمعہ کی تیاری، نماز میں شرکت سے ’عید‘ کا سماں بندھ جائے گا۔ اگر اہتمام سے کسی اچھے مقرر کے خطابِ جمعہ کو سنا جائے تو جمعہ کی تربیتی اہمیت بھی اجاگر ہوگی اور دین کا فہم اور فکری غذا بھی میسر آئے گی، نیز ایک تسلسل سے ہفتہ وار تربیت کا عمل جاری رہے گا۔
  • … گھر میں یا گھر سے باہر بچوں کے ’اسلامی نغمے‘ سننا اور اس میں ہم آواز ہونا،  آپس میں رفاقت اور محبت کی خوشی کو دوچند کر دے گا۔ اس سے بے تکلفی کا ماحول پیدا ہوگا۔ یہ ذہنی دبائو کو کم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
  • … کبھی کبھار بچوں کے ساتھ ان کی ذہنی سطح پہ آکر کھیل میں شریک ہونا، ان کی باتوں میں دل چسپی لینا، اپنے بچوں کے ساتھ کھیل میں مقابلہ کرنا___ کبھی جیت کر، کبھی بچوں سے ہارکر ___ دونوں کیفیات میں صحیح طرزِعمل کی تلقین سے کھیل ہی کھیل میں بچوں کی جذباتی تربیت کے ساتھ ساتھ کئی رویوں کی رہنمائی ہوگی۔ اگر صبح یا شام کے وقت بچے باقاعدہ کھیل کے میدان میں جاکر کھیل سکیں تو یہ بہت مفید سرگرمی ہوگی۔
  • … نوعمر بچوں پہ اپنے خیالات کو حاوی کرنا___ اپنی پسند اور راے کو زبردستی ٹھونسنا مناسب نہیں۔ دلیل سے بات کو منوایئے۔ یہ عمر اپنی صلاحیتوں کا اظہار چاہتی ہے۔ ان سے مشورہ لینا اور تحمل سے ان کا نقطۂ نظر سننا ان کے اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ کبھی ان کے مشورے اور راے کے سامنے اپنی راے چھوڑ بھی دینی چاہیے۔ بعض اوقات بچوں کے مشورے اور راے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ وہاں جاتی ہے، جہاں بڑوں کی نگاہ نہیں جاتی۔ بچوں کے ذہن اور عمر کو مدنظر رکھ کر بھی معاملات کو جانچا جائے۔
  • … بچوں کے ساتھ صبح یا شام کو اگر کہیں ممکن ہو تو کسی پارک میں، نہر کے کنارے یا ساحلِ سمندر پہ پیدل چلنے کی عادت ڈالی جائے۔ فجر کے بعد کھلی فضا میں چہل قدمی کا لطف اُٹھایئے۔ کائنات کے اس وقت کا حُسن قدرت کے قریب کرنے کا موجب ہوگا۔ بچوں کو کائنات پہ غوروفکر کی دعوت دیجیے۔
  • … طویل چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر سکھا سکتے ہیں، مثلاً خوش خطی،  مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کچھ مزید کام اور خواتین سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ سکھا سکتی ہیں۔ اپنے تجربات و مشاہدات کو آپس میں زیربحث لایا جاسکتا ہے۔ بچے ہمارا مشترکہ سرمایہ اور ہمارا مستقبل ہیں۔ بحیثیت اُمت مسلمہ ہماری ذمہ داریاں عام انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ ان کو ادا کرنے کے لیے اجتماعی سوچ اور عمل کی ضرورت ہے۔
  • … بچوں کو ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کے لیے لے کر جانا، اللہ تعالیٰ کے شکر کا جذبہ پیدا کرنا، اور دوسروں سے ہمدردی، محبت کا اظہار کرنا سکھانا، اس لیے کہ آج کے دور میں ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے۔ ایک گھر کے افراد بھی ایک گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ یہ بیگانگی رشتوں کے باہم تعلق و تقدس کے لیے سمِّ قاتل ہے۔
  • … حلقۂ احباب ، رشتہ داروں وغیرہ کے ساتھ مل کر پکنک پہ جانا، جہاں حقوق العباد کی اہمیت اُجاگر کرنے کا ذریعہ ہے وہاں اسلامی تہذیب کے آداب سکھانے میں بھی مفید ہے۔
  • … بچوں کی تربیت اور سکھانے کے عمل میں ماحول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تزکیہ و تربیت میں دعوتِ دین اور دعوتی سرگرمیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر آپ کے ہاں درس قرآن، دوست احباب کو دعوت دینا، لٹریچر تقسیم کرنا، خدمت خلق کے تحت مستحق افراد کی مدد کرنا اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا معمول ہو تو یہ عمل بغیر کسی نصیحت اور تلقین کے بچوں کو خود بخود سیکھنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس طرح اُمت کے فرض منصبی، نبی کریمؐ کے مشن اور فریضہ اقامت دین کو فطری انداز میں بخوبی آگے ادا کیا جاسکتا ہے، اور بچوں کو تحریک سے وابستہ کیا جاسکتا ہے۔

بیرونِ ملک پاکستانی والدین کی ذمہ داری

  • … بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی بچوں کو پاکستان کے حالات سے آگاہ کرنا، پاکستان کی تاریخ سے آگاہ کرنا، اور وطن اور اُمت سے محبت پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اگر والدین خود پاکستان کے بارے میں منفی گفتگو کریں گے تو وہ بچوں کو وطن کی محبت کیسے سکھائیں گے۔ بیرون ملک وہ پاکستانی بچے جو اُردو نہ بولنے اور نہ پڑھنے پہ فخر محسوس کرتے ہیں، ان کے والدین کو احساس کرنا چاہیے کہ یہ بچے پاکستانی ہوکر بھی پاکستانی نہ ہوں گے تو پھر ان کی شناخت کیا ہوگی؟ خصوصاً وہ پاکستانی بچے جو شرق اوسط میں یا ان ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں ان کو وہاں کی شہریت بھی نہیں مل سکتی تو وہ آخرکار پاکستانی پاسپورٹ پہ ہی پاکستان آئیں گے۔ اگر اپنے وطن سے پیار ہی نہ ہوگا تو وہ اس کے لیے کیا عملی خدمات انجام دے سکیں گے، لہٰذا چھٹیوں میں ان والدین کو چاہیے کہ خاص طور پر اپنے بچوں کو پاکستان کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں سے ان کو آگاہ کریں۔ اگر ممکن ہو تو اپنے وطن کی سیاحت اور عزیز و اقربا سے ملاقات کا پروگرام بھی بنایئے۔ اس سے جہاں وطن کی قدر پیدا ہوگی وہاں بہت سے چاہنے والوں کی پُرخلوص محبتیں بھی ملیں گی جو قربت کا باعث ہوں گی۔

___ اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ چھٹیوں میں کسی تفریحی مقام پہ جا رہے ہیں یا کسی رشتہ دار کے ہاں مقیم ہیں تو بھی یہ تربیت کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مظاہر، رشتہ داروں کے حقوق کی اہمیت کا ساتھ ساتھ احساس دلایا جاتا رہے۔ جتنا سفر میں انسان سیکھتا اور سکھاتا ہے___ وہ گھروں میں ممکن نہیں ہوتا___ ہروقت کا ساتھ___ کچھ نئے عوامل، سفر کے تجربات، بہت کچھ نیا سیکھنے کو ہوتا ہے۔

  • … چھٹیوں میں اسلامی تربیتی کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں، والدین وہاں بچوں کو بھیجیں اور بیرون ملک رہنے والے تربیتی ادارے ان کیمپوں میں پاکستان اور اُردو زبان سے تعلق کا کوئی پروگرام ضرور رکھیں۔
  • … گھر میں پاکستان کا تفصیلی نقشہ لٹکا کر رکھیں تاکہ بچوں کے ذہن میں ملک کا حدود اربعہ نقش ہوجائے، اور مقامات کی پہچان ہوجائے۔
  • … پاکستانی اور سب سے پہلے مسلمان ہونے کا احساس، والدین اور خصوصاً والدہ کا طرزِعمل، خود ہی بچوں میں اُجاگر کردے گا۔ بچوں میں اتنی ایمانی جرأت پیدا کیجیے کہ وہ مسلمان ہونے اور پاکستانی ہونے پہ فخر کرسکیں۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں سے آگاہی دیجیے۔ اگر آج ہم نے پاکستان کے مفاد کے خلاف کچھ کیا ہے، یا اپنے غیرایمانی طرزِعمل سے بچوں کو غلط تاثر دیا ہے تو اس غلطی کی اصلاح کیجیے۔ غلطی کرنا اتنا بڑا عیب نہیں جتنا بڑا عیب غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ تسلیم کریں گے تو اصلاح ہوگی۔ اپنی اصلاح ہوگی تو بچوں سے کچھ کہنے کے لیے اپنے اندر اعتماد پائیں گے۔
  • … ہر والد، والدہ، اپنے خاندان کے مزاج، ماحول، حالات کو سامنے رکھ کر چھٹیوں کو اپنے لیے یادگار بناسکتا ہے۔ مسلمان ہیں، مسلمان گھرانہ ہے تو اس کو عملی طور پر ثابت بھی کرنا ہوگا۔ حسنِ نیت اور خلوص سے بھرپور کوشش کرنے والوں کو ہی اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔
  • … آخرت میں وہ مسلمان والدین ہی اس ’اجرعظیم‘ کے مستحق ہوں گے جنھوں نے اولاد جیسی نعمت کو ضائع نہیں کردیا ہوگا بلکہ پوری ہوش مندی اور شعور سے ’داعی‘ کی ذمہ داریاں نبھائی ہوں گی۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (الانفال ۸:۲۸) ’’اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔
  • … آج ہی عزم کیجیے___ پروگرام مرتب کیجیے___ چھٹیوں کے ہر دن کو ایسا بنانا ہے کہ وہ ’گزرے کل سے بہتر ہو‘۔ اِک نئے جذبے سے بچوں کے ساتھ دوستی، محبت کا رشتہ استوار کیجیے___  اپنے لیے، اُمت مسلمہ کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے، اپنی آخرت سنوارنے کے لیے۔ ضروری نہیں کہ وہ سب منصوبے جو آپ بنائیں وہ پورے ہوں۔ حالات و واقعات ان میں ردّ و بدل کروائیں گے لیکن آپ نے اس ردّ و بدل میں بھی اپنا اصلی ٹارگٹ نہیں بھولنا۔ بچے آپ کا قیمتی خزانہ ہیں___ ان سے غافل نہیں ہونا۔
  • … ایک بات کا خاص طور پر خیال رہے کہ نبی کریمؐ کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو  ثابت قدمی سے مسلسل کیا جائے۔ لہٰذا فرصت کے لمحات اور چھٹیوں کے لیے جو نظام الاوقات اور تربیتی امور طے کرلیں، انھیں باقاعدگی سے انجام دیں، اور چھٹیوں کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں، تب ہی مؤثر اور نتیجہ خیز تربیت ہوسکے گی۔ اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد، استعانت اور دعائوں کا خصوصی اہتمام بھی ضرور کیجیے۔

آیئے دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمارے شریکِ زندگی اور ہماری اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے اور ہمیں وہ تقویٰ عطا کردے کہ ہم نیک لوگوں کے امام بن جائیں اور ہماری نسلیں ہمارے لیے صدقۂ جاریہ ہوں۔ آمین!

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴)

 

وقت اور اس کی ترتیب و تنظیم ایک اہم علمی، سائنسی اور تکنیکی موضوع بن چکا ہے۔ اس موضوع پر سیمی نارز اور ورک شاپس منعقد کرائی جارہی ہیں اور کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ وقت کی ترتیب وتنظیم کا شعور و ادراک مغربی دنیا میں مخصوص مادی مسائل کے باعث صرف نصف صدی سے زیادہ قدیم موضوع نہیں ہے۔ لیکن وقت کی اہمیت اور اس سے متعلق جملہ امور کے بارے میں قرآن کریم اور نبی کریمؐ نے ۱۴۰۰ سال پہلے دنیا کو آگاہ کردیاتھا۔ یہ ہماری بدنصیبی نہیں تواور کیا ہے کہ مغربی اور دیگر اقوام نے وقت کی اہمیت کا بروقت احساس کرکے دنیوی شعبوں میں ترقی کرلی اور ہم سے آگے نکل گئے مگر ہم وقت کی اہمیت کو فراموش کرکے ہر میدان میں پیچھے رہ گئے۔

سید مودودیؒ اپنی معرکہ آرا تفسیر تفہیم القرآن میں سورۃ العصر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہاہے وہ دراصل وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیزی کے ساتھ گزررہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا، حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت تھوڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیںایسی بھی ہو سکتی ہیں جو اس سے بھی تیز رفتارہوں ’خواہ وہ ابھی ہمارے علم میںنہ آئی ہوں، تاہم اگر وقت کے گزرنے کی وہی رفتار سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے اور اس بات پر غور کیا جائے تو ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں سب کچھ اسی محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی  وقت ہے جو تیزی سے گزرا جارہاہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، ص ۴۵۰)

وقت کی اہمیت و افادیت کو حضوراکرمؐ نے متعدد مواقع پر مختلف انداز سے امت کی رہنمائی اور فلاح و کامرانی کے لیے بیان فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن میمونؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’پانچ حالتوں کو پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہو وہ اٹھالو.....غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے، تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے، خوشحالی اور فراخ دستی کو ناداری اور تنگدستی سے پہلے، فرحت اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘ (الترغیب و ترھیب)۔ اس حدیث مبارکہ میں جن حالتوں کو بیان کیا گیا ہے وہ ہمارے لیے وقت کے استعمال اور ترجیحات سے متعلق رہنمائی کا نمونہ ہیں۔

وقت کی اھمیت

قرآن وحدیث کی روشنی میں وقت کی چار بنیادی خصوصیات ہیں:

۱-  اس کائنات میں ہر جان دار و بے جان مخلوق کا ایک وقت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا مقدر اور وقت مقرر کررکھا ہے اور یہ مقدر اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے۔دنیا میں ہر انسان کے نہ صرف پیدا ہونے اور مرنے کا وقت مقرر ہے بلکہ اس کے ہر کام کا وقت مقرر ہے، حتیٰ کہ ہماری سانسیں بھی مقرر ہیں کہ کتنی سانسیں بندہ اس دنیا میں لے گا۔

۲-  وقت گزرنے والی چیز ہے۔ وقت لمحہ بہ لمحہ گزر رہا ہے اور گزر جائے گا۔امام رازیؒ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’وقت کی مثال ایک برف والے کی طرح ہے جو پکار پکارکر  کہہ رہا ہے کہ دیکھومیرا زندگی کا سرمایہ گھلا جارہا ہے اور اگر یہ برف کارآمد نہیں ہوئی تو یہ رکھے رکھے گھل جائے گی اور ختم ہوجائے گی۔(تفہیم القرآن ،ج ۶، ص ۴۵۰)

۳-  تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا ہر سیکنڈ اور لمحہ جو گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ انسان جو پیسہ خرچ کرلے وہ دوبارہ کمایا جاسکتاہے لیکن وہ وقت جو گزر گیا واپس نہیں آسکتاہے ۔حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ہر آنے والا دن جب شروع ہوتا ہے تو وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے انسان! میں ایک نوپیدا مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، تو مجھ سے کچھ حاصل کرلے، میں تو اب قیامت تک لوٹ کر نہیں آئوں گا۔

۴-  وقت کے ایک ایک لمحے کا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔ حدیث میںآتا ہے کہ ’’ حشر کے میدان میں آدمی آگے نہ بڑھ پائے گا جب تک کہ پوری زندگی کا حساب نہ دے لے۔ پوچھا جائے گا کہ عمر کہاں گزاری، جوانی کیسے گزاری، مال کس طرح کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جو علم حاصل کیا اس کو کس طرح استعمال کیا(الترغیب و ترھیب)۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر نہ ہو‘‘۔ سرورکائناتؐ کا ایک اور فرمان ہے:  ’’مومن کے لیے دو خوف ہیں: ایک اجل جو گزر چکا ہے معلوم نہیں خدا اس کا کیا کرے گا اور ایک اجل، جو ابھی باقی ہے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اس میں کیا فیصلہ صادر فرمائے؟ لہٰذا انسان کو لازم ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لیے اور دنیا سے آخرت کے لیے ،جوانی سے بڑھاپے کے لیے اور زندگی سے قبل موت کے لیے کچھ نفع حاصل کرلے‘‘۔

وقت کی کمی یا ترجیحات کا تعین

اصل مسئلہ وقت کی کمی کا نہیں بلکہ ترجیحات کے تعین کا ہے۔اگر ہم طے کرلیں کہ کون سی چیز یا کام ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے، دوسری ترجیح کیا ہونی چاہیے، اور تیسری ترجیح کیا ہو، تو  وقت کی کمی کا مسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔حضوراکرمؐ کی پوری ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جس دن حضوؐر نے قرآن نہ پڑھا ہو اور دوسروں کو پڑھ کر نہ سنایا ہو۔یہ ان کی زندگی کی ترجیح تھی اوران کے صحابہ ؓ کی زندگی کی ترجیح تھی۔حضوراکرمؐ کے صحابہؓ اتنا قرآن پڑھتے تھے کہ حضوراکرمؐ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ کوئی تین دن سے کم میں قرآن ختم نہ کرے‘‘(حدیث)۔ اگر ہماری بھی ترجیحات وہی ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کی ہیں تو ہمارے لیے وقت کی کمی کا کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔حضوراکرمؐ اور صحابہؓ کے بعض خطبوں کا ابتدائی جملہ  یہ ہوتا تھاکہ ’’ اے لوگو! تمھاری زندگی گزرتی چلی جارہی ہے۔ یہ اچانک کسی پل ختم ہوجائے گی، جو وقت گزر گیا وہ تو گزر گیا لیکن جو آنے والا ہے اس کی فکر کرو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی جنت کے لیے کچھ مال جمع کرلو‘‘۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’بندہ کا صرف وہی ہے جو اس نے کھا لیا یاپہن لیا یا آگے بھیج دیا۔ جو اس نے خرچ نہیں کیا وہ سب وارثوں کا مال ہے‘‘۔(سنن کبریٰ، بیہقی)

وقت کے صحیح استعمال کا مقصد

ہمارے نزدیک وقت کی ترتیب و تنظیم کے دو بنیادی مقاصدہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ ہم اس بات کا اہتمام اور کوشش کریں کہ ہمارے وقت کا کوئی ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایمان والوں کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ وہ اپنے وقت کو لغویات میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں(معارف القرآن، سورئہ مومنون)۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ جو ۲۴ گھنٹے ہمیں روزانہ ملتے ہیں اس میں ہم کتنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے فرائض کی ادایگی اور اللہ تعالیٰ کے عائدکردہ حقوق کی ادایگی کے لیے نکالتے ہیں، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

وقت میں اضافے کے لیے اور وقت کی کمی کو دور کرنے کے لیے بہت سارے طریقے ہمیں اللہ کے رسولؐ کی احادیث میں ملتے ہیں،نیزجدید دور میں وقت کے ضیاع کے حوالے سے تحقیقات نے بھی ہماری رہنمائی کے کچھ نکات متعین کردیے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اصول و نکات درج ہیں۔

دن کا آغاز نماز فجر سے پھلے

حضوراکرمؐ کی بہت ساری احادیث ہیں جن میں آپؐ نے فرمایا کہ صبح سویرے اُٹھو گے تو اس کے نتیجے میں تمھارے رزق و مال میں برکت ہوگی، اور اگر صبح نہیں اُٹھو گے تو پریشان و رنجیدہ رہو گے۔ایک دن حضوراکرمؐ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کے پاس صبح کے وقت تشریف لے گئے۔ وہ آرام فرما رہی تھیں۔ حضوراکرمؐ نے ان کو جگاتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹی! اُٹھو، اپنے رب کے رزق کی تقسیم کے وقت حاضر رہو اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ بنو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طلوعِ فجر اور طلوعِ شمس کے درمیان لوگوںکا رزق تقسیم کرتے ہیں‘‘۔

صبح جلدی اٹھنے اور فجر کے بعد نہ سونے کے نتیجے میں ہم کو دن میں کئی گھنٹے اضافی      مل جاتے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ صبح ۶ بجے سے ۸ بجے کے وقت کو جسے دنیا میں پرائم ٹائم کہا جاتاہے ہم سونے میں گزار دیتے ہیں۔امام ترمذیؒ نے حضوراکرمؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما‘‘۔ایک مشہور چینی روایت ہے کہ ’’جو آدمی صبح جلدی اُٹھتا ہے اس کو دولت مند بننے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔

جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ انسان رات کو ۹ بجے کے بعد جو کام ایک گھنٹے میں کرتا ہے  صبح کے اوقات میں وہی کام صرف ۲۰ منٹ میں کرلیتا ہے۔اس دن اور رات میں ایک وقت ایسا بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پرائم ٹائم قرار دیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ رات کے آخری پہر میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر آجاتے ہیں اور منادی کردیتے ہیں کہ مجھ سے مانگو میں تمھیں دوں گا، مجھ سے طلب کرو میں تمھاری ضرورت کو پورا کروں گا‘‘(بخاری)۔ پورے ۲۴ گھنٹوں میں اس سے زیادہ قیمتی وقت کوئی نہیں ہے اوروقت کی ترتیب و تنظیم اس بات کا ہی نام ہے کہ انسان اپنے پرائم ٹائم کو سب سے بہترین طریقے سے استعمال کرسکے۔دنیا میں کوئی لیڈر شپ ایسی نہ ہوگی جس کو کوئی بڑی کامیابی ملی ہو اور وہ سحر خیزی کی عادی نہ ہو۔اگر ہم صبح ۵ بجے اُٹھ جائیں تو جو کام دن میں ہم ۳گھنٹے میں کرتے ہیں وہ صبح میں ایک گھنٹے میں ہی کرلیں گے۔ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمارا دن ختم ہی نہیں ہورہا ہے۔ اس سنت کو اپنائے بغیر اور اس عادت کو اختیار کیے بغیر ہمارے لیے نہ اُخروی کامیابی ممکن ہے اور نہ دنیاوی برتری ہی۔

معاشی مصروفیا ت کی منصوبہ بندی

ہرفرد کو چاہیے کہ اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کرے کہ مجھے اپنے اوقات کا کتنا حصہ معاش کے لیے صرف کرنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر آدمی کی روزی اور اس کا رزق مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا ہمارے مقدر میں لکھاہے اُتنا ہی ہمیں ملے گا، چاہے ہم ۸گھنٹے کام کریں یا ۱۶گھنٹے۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’روزی انسان کا پیچھا کرتی ہے‘‘(الترغیب و ترھیب)۔ ’’رزق میں کمی یا تاخیر سے پریشان نہ ہو اورروزی کو کمانے میں خوش اسلوبی سے کام لو‘‘۔ (ایضاً)

انسان کی جسمانی استطاعت کے بارے میں محققین کہتے ہیں کہ کوئی بھی آدمی جب اپنے معاش کے لیے آٹھ گھنٹے سے زیادہ صرف کرتاہے تو اس کا زائد صرف کردہ وقت کارآمدنہیں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں میں ۸گھنٹوں سے زیادہ کی ملازمت نہیں ہوتی۔اور یہ کہا جاتاہے کہ آدمی انھی اوقات میں زیادہ سے زیادہ کام کرکے اپنے حصے کا کام پورا کرے۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کریں جو ۸ گھنٹے سے زیادہ نہ ہو۔انھی گھنٹوں میں پوری قوت اور توانائی کے ساتھ کام کریں۔بہت سارے لوگوں نے تجربہ کرکے یہ سیکھا ہے کہ واقعی جو کام ہم ۱۲ اور ۱۴ گھنٹوں میں کررہے تھے وہی کام اب ہم آٹھ گھنٹوں میں کرسکتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہم اپنے اوقات میں کافی اضافہ کرسکتے ہیں۔

 معذرت کرنا سیکہیں

روزمرہ معاملات میں ہم بعض اوقات تکلف یا تعلق کی وجہ سے وعدہ کرلیتے ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے اس وعدے کوپورا نہیں کرپاتے۔ اس کے نتیجے میں جن سے ہم وعدہ کرتے ہیں وہ بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور ہماری ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ۔اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ فرد کسی کو وقت دینے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرلے کہ یہ ممکن بھی ہو گا یا نہیں۔ معذرت کرنا کوئی گناہ کا کام نہیں لیکن وقت دینے کے بعد نہ پہنچنا عہد کی خلاف ورزی ہے۔  مغربی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے ’نہیں‘ کہنا سیکھ لیا ہے تو آپ نے گویا اپنا آدھا وقت بچا لیا۔

وقت کو ضائع کرنے والی چیزیں

وقت کو ضائع کرنے والی چیزوں میں سب سے پہلا نمبر ٹیلی وژن کا ہے۔ ایک عام امریکی دن میں ۳ سے ۴ گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے، جب کہ پاکستان میںاوسطاً لوگ روزانہ دو سے ۳گھنٹے ٹیلی وژن کے سامنے گزارتے ہیں۔ ٹیلی وژن کے بعد اب دوسرا نمبر موبائل فون کا ہے۔ ہمیں یہ اندازہ کرنا چاہیے کہ روزانہ ہم کتنے گھنٹے ٹیلی فون پر صرف کرتے ہیں۔ اوسطاً ایک موبائل فون پر روزانہ ۲۰ کالز اور ۱۲ ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں۔اگر آپ اس وقت کو کنٹرول نہیں کرسکیں گے تو روزانہ ایک سے ۲گھنٹے فون کا اور ایس ایم ایس کا جواب دینے میں لگ جائیں گے۔اپنے ٹیلی فون پر گزرے ہوئے وقت کا اندازہ اور تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو اس حوالے سے ایک نظم میں لانے کی ضرورت ہے، اگر ہم ہر فون کال کا جواب اُسی وقت دینا چاہیں گے تو ہم نہ آرام کرسکتے ہیں نہ کوئی سنجیدہ کام اور نہ کوئی میٹنگ ہی پوری توجہ کے ساتھ کرسکتے ہیں، فون ہمارے وقت کو ضائع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کو کنٹرول کیے بغیر ہم اپنے وقت کو قابو نہیں کرسکیں گے۔اسی طرح ہماراجو وقت ٹیلی وژن کے سامنے ضائع ہوتا ہے، اس کو بھی کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔

وقت مقررہ کی پابندی کا اھتمام

ہمارے معاشرے میں دیے گئے وقت کی پابندی کا اہتمام نہ ہونے کے کلچر کی وجہ سے روزانہ کئی گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔بالعموم میٹنگز اور پروگرامات دیے گئے وقت سے ۲۵،۲۰منٹ بعد شروع ہوتے ہیں۔کچھ لوگ وقت پر آجاتے ہیں اور کچھ لوگ دیر سے آتے ہیں۔اس کے نتیجے میں جو وقت پرآجاتا ہے اس کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے اور جس نے بلایا ہوتا ہے اس کا بھی۔ اگرہم اس کا تعین کریں تو روزانہ آدھا یا پوناگھنٹہ انتظارمیں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس انتظار کے وقت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اپنے دائروں میں انتہائی ممکنہ حد تک وقت کی پابندی کا اہتمام کریں اور کروائیں توسب کے وقت کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

بَہ یک وقت کئی کاموں سے اجتناب

اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بہ یک وقت ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ اور ہم انھیں ایک ساتھ کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ وہ کام بھی اچھی طرح سے پورا نہیں ہوپاتا۔بہتر یہ ہے کہ اگر کئی کام ہمارے سامنے ہوں تو ہم اس کی ترجیحات طے کریں۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ ضروری اور فوری ہو، اس کو مکمل کریں اور اس کے بعد دوسری ترجیح کا کام شروع کریں۔اس کے نتیجے میں نہ صرف ہم اپنے وقت کو بچانے میں کامیاب ہوں گے بلکہ ان کاموں کو بھی موثر طور پر بروقت مکمل کرسکیں گے۔

تاخیراور ٹال مٹول سے گریز

بعض اوقات ایک ہی وقت میں ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ ہم ایک کام شروع کرتے ہیں لیکن اس کو پورا کیے بغیر دوسرا کام شروع کردیتے ہیں۔مثلاًدفتری زندگی میں روزانہ بہت سے خطوط اور نوٹس ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم ان کو پڑھتے ہیں اور پھر رکھ دیتے ہیں۔ ایک دو دن کے بعد انھیں پھر دوبارہ پڑھتے ہیں اوررکھ دیتے ہیں، اور پھر تیسری دفعہ اس پر کام شروع کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میںجو خط ہم ایک ہی دفعہ پڑھ کر کام کرسکتے تھے اس کو تین دفعہ پڑھنے کے بعد اس کام کو کرپاتے ہیں۔اسی طرح توجہ اور تجاویز کے ضمن میں بہت ساری چیزیں ہمیں موصول ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے جواب دینے کے وقت کو کم سے کم کریں۔ اس کا طریقہ بھی یہی ہے کہ جو کام ہمیں خود کرنے ہیں ان کی ترجیح متعین کریں، اور جو کام دوسروں کے حوالے کرنے ہیں ان کو فوری طور پر دوسروں کے سپرد کردیں۔

کام کوتقسیم کرکے وقت بچائیں

روزمرہ کے کاموں میں بہت سے کام ہمارے پاس ایسے ہوتے ہیں جو اگر دوسروں کے سپرد کردیے جائیں تو کام بھی بہتر انداز میں ہوجائے گا اور وقت بھی بچے گا۔ اگر ہم سارے کام خود کرنے کی کوشش کریں گے، مثلاً رپورٹیں بھی خود بنائیں گے، اس کو خود ہی بھیجیں گے بھی، ہر چیز کا ریکارڈ بھی خود رکھیں گے اور جائزہ بھی خود لیںگے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے وقت کا ضیاع ہو گا بلکہ کام بھی بہتر طریقے سے نہیں ہو سکے گا۔اس کو Micro Management کہتے ہیں جو کہ وقت کے ضیاع کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس کا علاج کام دوسروں کو تفویض یا سپرد کرنا ہے اور پھر اس کا جائزہ لیتے رہنا ہے تاکہ ہدف بروقت حاصل ہوسکے۔

طویل گفتگو سے گریز

مختصر گفتگو ایک فن ہے۔ حضوراکرمؐ کے جو خطبات تحریری صورت میں احادیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ان سب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختصر ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ صحابہؓ کے سامنے حضور اکرمؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کو پڑھنے میں صرف ۷منٹ لگتے ہیں۔ اسی طرح صحابہؓ کے خطبے بھی مختصر ہوتے تھے۔حضوراکرمؐ کے خطبات کی ایک خصوصیت اختصار کے ساتھ ساتھ تکرار بھی تھی۔ حضور اکرمؐ ایک ہی بات کو دو تین دفعہ بیان کرتے تھے تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ جدید سائنسی تحقیق سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی فرد ایک گھنٹے کی تقریر توجہ   سے سنے تو اس کا صرف ۱۰ فی صد اگلے دن تک یاد رکھ سکتا ہے۔ مختصر گفتگو میں یہ تناسب بڑ ھ کر ۲۵فی صد تک ہوجاتا ہے۔ ہم جتنی طویل گفتگو یا خطاب کریں گے، اس کا استحضار اتنا ہی کم ہوگا۔

اپنی بات کو مختصر کرنے کی عادت ڈالیں اور اس کی تیاری کریں۔ مشہور برطانوی سیاست دان چرچل کا کہنا ہے کہ اگر مجھے تین گھنٹے تقریر کرنی ہو تو میں تیاری نہیں کرتا بس بولتا چلا جاتا ہوں، اور اگر ۱۵منٹ تقریر کرنی ہو تو ۳گھنٹے اس کی تیاری کرتا ہوں۔یہ ایک صلاحیت ہے جس کو ہمیں   اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے کہ بات مختصر اور نکات کی صورت میں کی جائے۔ اس سے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت بچتا ہے۔ اگر کسی میٹنگ میں ۱۰، ۱۵ لوگ ہوں اور سب ۱۰سے ۱۵منٹ گفتگو کریں تو ۱۵۰منٹ ہوجاتے ہیں۔ اگر ہر آدمی اپنی بات ۳منٹ میں مکمل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو ۴۵منٹ میں بات مکمل ہوجائے گی۔ دعوتی کام کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ بات جامع اور مختصر ہو اور تکرار کے ساتھ ہو تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ گفتگو کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے اس بات کا تصور ضرور کریں کہ جو الفاظ بھی ہم بولیں گے اس کا پورا پورا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کے ہاں دینا ہوگا۔

اھل خانہ کے لیے وقت ضرور نکالیں

احادیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ حضوراکرمؐ نبوت و رسالت اور اسلامی ریاست کے سربراہ ہونے کی گراں بہا ذمہ داریوں کے باوجود بھی اپنے گھر والوں کے لیے اور تفریح کے لیے وقت نکالتے تھے۔دین کے کام کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھا سکے، گھر کے کام کاج میں ہاتھ نہ بٹا سکے یا تفریح نہ کرسکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ حضوراکرمؐ اپنی ساری بیویوں کو جمع کرکے ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے ، گفتگو کرتے تھے، ہنسی مذاق کرتے تھے،گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے اور اپنے نواسوں کو جمع کرکے ان کے درمیان کشتی کرواتے تھے۔ یہ ساری چیزیں ہماری زندگی کا بھی حصہ ہونا چاہییں۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں اس بات کو بھی شامل کرنا چاہیے کہ ہمارا گھر بھی ہماری دعوت کا مرکز ہو۔گھروالوں کی تربیت اور خوشی و تفریح ان کا حق ہے۔ ہمارے والدین اگر زندہ ہیں توان کی خدمت کرکے جنت کما لینا ہماری ترجیحات کی فہرست میں لازماً شامل ہونا چاہیے۔

فارغ اوقات کا بھتر استعمال

روزمرہ کی زندگی میں بہت سارے اوقات ایسے آتے ہیں کہ جب ہم فارغ بیٹھے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم سفر میں ہوتے یا انتظار کررہے ہوتے ہیں یا کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے۔ ان اوقات میں ہمیں اس بات کی عادت اپنا لینی چاہیے کہ جب بھی ہم فارغ ہوں تو اپنی زبان کو    اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔حضوراکرمؐ نے بہت سارے کلمات بتائے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے اور اجر میں بہت بھاری ہیں۔ ان کلمات کو باربار دہراتے رہیں۔ کثرت سے استغفار کریں۔ ایک ایک لمحہ جو ہمارے پاس ہے وہ اللہ کے ذکر میں اور استغفار میں صرف ہو تو یہ وقت کا بہترین استعمال ہے۔ ہمارے وقت کا کوئی لمحہ فارغ ہونے کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ حدیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مومن کا ہر لمحہ کارآمد ہوتا ہے۔ جب اس پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، جب خوش ہوتا ہے تو شکر ادا کرتاہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔

دوسروں کے وقت کی قدر

ایک ذمہ دار کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ نہ تو ہمارے وقت کا کوئی حصہ ضائع ہو اور نہ ہماری ٹیم میں سے ہی کسی کا وقت ضائع ہو۔جب ہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احسا س کریںگے تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت میں برکت ڈال دے گا۔ اگرہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احساس نہیں کریں گے اور ہماری وجہ سے دوسروں کا وقت ضائع ہوتارہے گا تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت کی قدروقیمت بھی کم کردے گا۔

وقت میں برکت کی دعا

وقت میں برکت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جس طرح ہم اپنے مال ،کاروبار ، رزق اور اولاد میں برکت کی دعا کرتے ہیں اسی طرح اپنے وقت میں برکت کے لیے بھی دعا کریں۔ اگر ہمیں وقت میں برکت حاصل ہوگئی تو زندگی بڑی آسان ہو جائے گی۔ جن لوگوں کو اللہ کی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے ان کے پاس وقت کی کمی کا شکوہ نہیں ہوتا بلکہ ان پر یہ احساس غالب رہتا ہے کہ میرے پاس وقت ہے اور جو کام بھی میرے سپرد ہوگا میں اُسے کرنے میں کامیاب ہوجائوں گا۔وقت میں یہ برکت اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور اس کی رحمت ہے جو ان لوگوں پر نازل ہوتی ہے جو اس سے برکت طلب کرتے ہیں۔حضرت عمر فاروقؓ دعا فرماتے تھے: ’’یااللہ! زندگی کے اوقات میں برکت دے اور انھیں صحیح مصرف پر لگانے کی توفیق عطا فرما‘‘۔

وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک غیر معمولی امانت ہے۔ اس کے ایک ایک لمحے کی قدروقیمت کے احساس کے ساتھ اللہ کی بندگی کے لیے ، جہنم سے بچنے اور جنت کے حصول کے لیے اس کا استعمال ہونا چاہیے۔کامیاب وہی ہے جو اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ اسے زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا، یقینا وہ اپنے وقت کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کردہ ترجیحات کے مطابق گزارنے کااہتمام کرے گا۔

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں ایک خاندان کا حصہ بنایا ۔ ایک وقت آتا ہے جب بزرگ ساتھی دنیا سے چلے جاتے ہیں اور کچھ ننھے ننھے بچے اسی خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زندگی اسی طرح رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ انعام مانگے بغیر ہی عنایت کردیا کہ خاندان کے افراد میں آپس میں محبت پیدا کردی۔ ماں باپ کی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت، بچوں کی محبت اور پھر اگلی پود، یعنی بچوں کے بچوں سے محبت۔ یہ محبت نہ صرف بڑوں کو بچوں سے ہوتی ہے بلکہ بچے بھی اپنے سے بڑوں کی محبت کا معصومانہ انداز میں اظہار کرتے ہیں۔ چند بدنصیب اس دنیا میں ایسے بھی ہوسکتے ہیں، اور ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس سے محروم رکھا، یا وہ خود محروم رہ گئے۔ محبت کا یہی باہمی جذبہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی بہتری کے لیے کوشش اور مدد کرنے پر اُبھارتا ہے۔ کوئی عزیز تکلیف میں ہو تو آنکھیں پُرنم ہوجاتی ہیں۔ کسی کو خوشی ملتی ہے تو خوشیاں بانٹنے کو دل چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کا ہتھیار دیا ہے۔ ہم ہروقت دعائوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی،عافیت اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، ایک دوسرے کی بہتری چاہتے ہیں، اور اپنی تمنائیں اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا انعام بھی ہم پر کیا ہے۔ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں___ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ بُری عادات اور بُرے انجام سے بچ سکیں۔ یہ امربالمعروف نہی عن المنکرمسلم معاشرے کی خوب صورتی ہے۔ یہاں انسان نہ صرف ایک دوسرے کی بھلائی چاہتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ آج کل کے لوگ اس عمل کو شخصی آزادی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں مگر  یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ ظالم کو ظلم سے نہ روک کر دراصل ظالم کی مدد کر رہا ہوتا ہے۔

بات محبت کے جذبے کی ہو رہی تھی۔ جب کوئی اپنا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو قدرتی طور پر دل بے تاب ہوجاتا ہے۔ پھر دعا کا سہارا لیا جاتا ہے___ اے اللہ! اسے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما، اس کے مراحل آسان کردے، اس کے درجات بلند فرما دے___ کون چاہتا ہے کہ اس کا عزیز، والدین، بچے، بیوی، خاوند اور دیگر عزیز و اقارب جنت میں نہ جائیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ اہلِ خاندان کا جنت میں ساتھ ناممکن نہیں تو پھر کیوں نہ ہم کوشش کریں کہ اکٹھے جنت چلیں۔

محبت کے جذبے کا سرچشمہ اللہ کی ذات پاک ہے مگر اس محبت کا حصول مشروط ہے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ اُن سے کہو کہ ’’اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو‘‘۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۳۱-۳۲)

یہ آفاقی اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بتا دیا ہے اور زندگی کا اصول بھی یہی ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اگر ہم اللہ سے محبت کریں گے، تو وہ ہم سے محبت کرے گا___ کوئی خاندان، کوئی رشتے داری، کوئی حسب و نسب ہمیں اللہ کی محبت کا دعوے دار نہیں بناسکتا۔ یہ محبت کیا ہے؟ اور پھر اللہ سے محبت!___ اللہ سے محبت یہی ہے کہ ہماری مرضی اور پسند، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند کے تابع ہوجائے۔ اس کا کہا مانا جائے، اس پر عمل کیا جائے، اور اس کا حکم بلاچوں و چرا بجا لایاجائے۔ یہ نہیں کہ حی علی الصلٰوۃ ، حی علی الفلاح کی صدا بلند ہو اور ہم ٹس سے مس نہ ہوں۔

یہ بڑی سادہ اور سیدھی بات اور واضح اصول ہے جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے، اور جو یہ اصول نہیں مانتے ان کے لیے کسی لگی لپٹی کے بغیر تنبیہہ ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے‘‘ (التوبہ ۹:۲۳)۔ گویا جن سے محبت کے دعوے ہوتے ہیں، جن کے لیے آدمی راتوں کو جاگتا اور تکلیف اٹھاتا ہے، اگر وہ بھی ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تو ان کو ساتھی بنانے سے بھی منع کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جو ایسا کرے اسے ظالم قرار دیا گیا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ظالم کے لیے قرآن مجید میں کیا کیا احکام ہیں اور ان کا کیا انجام بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ظلم کرنے سے باز رکھے، اور اللہ نہ کرے کہ کسی وجہ سے ہمارا شمار ظالموں میں ہو۔ اللہ تعالیٰ بڑی صاف بات فرما رہے ہیں کہ یہ دوغلی پالیسی نہیں چلے گی، اور پھر دعاے قنوت میں بھی ہم روزانہ وعدہ کرتے ہیں کہ: ’’ہم نافرمانی نہیں کرتے اور چھوڑ دیتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے‘‘۔

دنیا میں ہمارے ساتھی___ والدین، زوجین، یعنی خاوند اور بیوی اور پھر اولاد___ یہی لوگ مل کر عموماً خاندان بناتے ہیں، اور اکٹھے ماہ و سال بسر کرتے ہیں۔ مغرب کے خاندان کا تصور ہمارے پیشِ نظر نہیں جہاں والدین کو خاندان سے باہر بلکہ بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو ہمارے خاندان کا حصہ ہیں، آپس میں محبت کی لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں جن کی ہمیں فکر رہتی ہے، ان کی بہتری کی خواہش بھی رہتی ہے، اور اگر انھیں تکلیف پہنچے تو طبیعت غمگین ہوجاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ یہی والدین، زوج اور اولاد جنت میں بھی ساتھی بن سکتے ہیں۔ یہ کیوں کر ممکن ہے اور اس کے لیے نسخۂ کیمیا کیا ہے؟ فرمایا:

اے ہمارے رب، اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے  اُن سے وعدہ کیا ہے اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)،   ُتو بلاشبہہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔ (المومن: ۴۰:۸)

ان آیات کے ذریعے دراصل ہمیں اِس دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ یاد رکھیے، یہ دعائیں  اللہ تعالیٰ نے یونہی تو نہیں بتائیں___ یہ اس لیے بتائی ہیں کہ قبول بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں قرآن پاک کے الفاظ پر جتنا یقین ہے، اسی طرح اس بات پر بھی یقین ہونا چاہیے کہ یہ دعائیں نری لفاظی نہیں ہیں بلکہ اللہ کا وعدہ ہیں۔ سوچیں تو سہی، وعدہ کون کر رہا ہے، پھر پورا کیوں نہ ہوگا! بہرحال شرائط تو ہمیں پوری کرنی ہیں۔ یہاں دیکھیے والدین، بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کی نوید ہے اور پھر شرط بھی ہے___ کہ وہ جو صالح ہوں، وہی مستحق ہوں گے۔

قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ ہے مگر یہ وعدہ دوشرائط کے ساتھ مشروط ہے___ صالح ہونا اور صابر ہونا۔ سورئہ رعد میں اہلِ ایمان کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

آخرت کا گھر اِنھی لوگوں کے لیے ہے، یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور اُن کی بیویوں اور  اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی امن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہرطرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور اُن سے کہیں گے کہ ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا، اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! (الرعد۱۳:۲۳-۲۴)

یہ کتنی بڑی خبر اور خوش خبری ہے کہ ہمارے گھر والے بھی جنت میں اکٹھے ہوں گے!     اللہ تعالیٰ ہمیں اور اہلِ خاندان کو اس مرتبے کے قابل بنادے___ آمین!


کام کا آغاز کیسے ہو؟ کیا محنت کرنی ہے، کیا ہے جو سمجھنا ضروری ہے اور کون سا راستہ ہے جو پورے خاندان کو اکٹھے جنت کی طرف لے جاسکتا ہے؟

  •  آغاز، شریکِ حیات کے انتخاب سے: بات وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے، یعنی جب شریکِ زندگی کی تلاش کی جاتی ہے۔ سفر کا آغاز نیک اور صالح ہم سفر کی تلاش اور انتخاب سے کیا جائے۔ حدیث میں تعلیم دی گئی ہے کہ اس انتخاب کا فیصلہ دین اور اخلاق کی بنیاد پر کریں ورنہ دنیا میں فساد پھیل جائے گا___ جبھی اس فیصلے میں برکت ہوگی۔

یہ کام بڑی ذمہ داری اور سنجیدگی کا حامل ہے۔ جب ہماری اگلی نسل کا دارومدار اسی پر ہے تو پھر سُستی کیوں؟ پھر یہ کام انتخاب پر رُک تو نہیںجاتا۔ آپ کی شادی ہوگئی تو آگے چھوٹے بہن بھائی ہیں، بچے ہیں___ یہ تو ہمیشہ چلنے والا کام ہے اور بڑی سنجیدگی اور دانش مندی سے کرنے کا کام ہے۔

شادی کے بعد اولاد کی فکر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر مکمل قدرت رکھتے ہیں کہ وہ جسے چاہیں اولاد عنایت فرما دیں: ’’اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاجلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہرچیز پر قادر ہے‘‘ (الشوریٰ۴۲:۴۹)۔ اُس کی جناب سے عنایت ہوگئی تو شکر ادا کریں، نہیں تو صبر اور پھر  صبر کا اجر بھی بہت ہے۔ ہاں، دعا کا ہتھیار تو ہمارے پاس ہے ہی۔

ہم تو بہت کمزور لوگ ہیں۔ نبیوں نے بھی یہ دعائیں مانگی ہیں۔ دیکھیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا: ’’اے پروردگار! ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘۔ مشروط دعا___ بیٹا ہو تو صالح ہو۔ اور پھر حضرت زکریاؑ کی دعا بھی___ نیک اولاد کی درخواست کی جارہی ہے۔ دعا کرنا نہ بھولیں۔ دعا مانگنا، ہمارا حق ہے اور بار بار دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہر ہرقدم پر اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن۔

صالح اولاد بڑی نعمت ہے اور جیساکہ ہم نے پہلے دیکھا، صالح ہونا ایسی شرط ہے جس کے پورا کرنے پر براہِ راست جنت کی بشارت ہے۔

صالح اولاد کا کیا مطلب ہے؟کیا نماز ادا کرلینا اور تلاوتِ قرآن کرنا ہی صالح ہونے کے لیے کافی ہے___ یا پھر اخلاق، معاملات اور عبادات کا درست ہونا بھی صالح ہونے کے لیے ضروری ہے، یا کچھ اور بھی خصوصیات درکار ہیں؟ صالح ہونا دراصل ایسی صلاحیت ہے جس پر بڑے انعام کا وعدہ ہے۔ جنت جیسا انعام، اور پھر بار بار بتایا گیا ہے کہ جنت ابدی قیام گاہ ہے۔

  •  دعا اور عمل ساتھ ساتھ: جب بھی کوئی بڑا منصوبہ یا پراجیکٹ شروع ہوتا ہے تو ایک عزم ہوتا ہے کہ یہ کام کرنا ہے۔ مگر اس کے ساتھ دعا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عزم میں برکت عطا فرمائیں اور تکمیل آسانی سے ہو۔ دعا اور عزم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ عزم کے بغیر دعا مناسب نہیں اور دعا کے بغیر عزم بے برکت رہ جاتا ہے: یوں دعا کیجیے: ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔ (الفرقان۲۵:۷۴)

اس خوب صورت دعا میں ایسے ہی خاندان کی محبت جھلک رہی ہے___ بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملے، اور دیکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں کون سا درجہ دینا چاہتے ہیں___ پرہیزگاروں کا امام۔ یہ دعا محض کسی مقرر کی لفاظی نہیں، اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ ہیں ___ ان کا پورا ہونا بالکل ممکن ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں پر توجہ دیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ ذرا مومن بن کر دیکھیں اور دکھائیں تو سہی۔

اب یہ عزم پھر دعا اور پھر عمل کا معاملہ آگیا۔ سوچیں آپ کا بیٹا آپ سے دعا کے لیے کہے کہ دعا کریں، امتحان میں کامیابی ہو، مگروہ خود کھیل میں مصروف رہے تو یقینا آپ کہیں گے    کہ بیٹا تم خود تو امتحان کی تیاری نہیں کر رہے، مجھے دعا کے لیے کہہ رہے ہو۔ گویا عمل کی بڑی اہمیت ہے۔ بقول اقبال ؎

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

  •  والدین کی ذمہ داری: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ (التحریم۶۶:۶)

گویا عمل کے لیے والدین کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ یہاںجمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور اہلِ ایمان کو اجتماعی طور پر حکم دیا جا رہا ہے: اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔ اس طرح سے والدین پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ اب نہ کوئی بہانہ ہے، نہ فرار کا موقع۔ لازماً اسے کرنا ہی ہوگا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر اہل و عیال خدانخواستہ آگ سے نہ بچ سکے، توہم خود ذمہ دار ہوں گے۔ ذرا سوچیے، اہل و عیال کو آگ سے بچانے کے لیے نیک زوج کی کتنی اہمیت ہے، جو خود اس بات کی ضمانت ہو کہ بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح طریقے پر ہوگی۔

فرمایا جا رہا ہے:’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو‘‘ (طٰہٰ ۲۰:۱۳۲)۔ یہاں محنت کرنے کو کہا گیا ہے کہ بار بار کہو کہ نماز پڑھو اور پھر یہ دوغلی پالیسی نہیں___ خود بھی پابند رہنے کا حکم ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک مشہور حدیث میں حضوؐر ایک بچے کو سمجھاتے ہیں: اے بیٹے! بسم اللہ پڑھ کر، یعنی اللہ کے نام سے، دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا کھائو۔ ایک ہی حدیث میں یہ تین تعلیمات ہیں۔ بڑی بدقسمتی کی بات ہے جب والدین فرار چاہتے ہیں    اور اپنی ذمہ داری نبھانا چھوڑ دیتے ہیں کہ بچے کو ٹوکنا نہیں، اس سے وہ نفسیاتی مریض بن جائے گا۔ یہ اہلِ مغرب کی سوچ ہے جو خود نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، وہ اپنے بچوں کو بھلا کیا سکھائیں گے۔ ہم امربالمعروف اور نہی عن المنکر والے لوگ ہیں، نہ خود برائی کریں گے نہ کرنے دیں گے۔

یقینا عمل کے ساتھ ٹھوس منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عمربھر کا منصوبہ جو مل گیا ہے۔ حکم آگیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو آگ سے بچائو!

  •  بچے کی تربیت کے مختلف مراحل: مسلمان کی زندگی ہر طرف سے اللہ کے احکامات میں گھری ہوئی ہے۔ جب کہہ دیا: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ ۲:۲۰۸)، تو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوگئے۔ زندگی کے ہرمرحلے پر جواب دہی بھی ہے۔ اولاد کی پیدایش سے تربیت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ہم نے اس ضمن میں دعائیں بھی پڑھیں، اسی پیدایش کے لیے نیک زوج کی تلاش اور انتخاب کا مرحلہ بھی گزارا۔ پھر رضاعت، یعنی بچے کو دودھ پلانے کا دور بھی گزارا___  یہ بچے کا حق ہے۔ بچے کی شخصیت ماں کی گود سے ہی بننے لگتی ہے۔ یہی آغوش بچے کی پہلی درس گاہ بھی ہے۔ اس کے بعد، سنِ تمیز ہے، یعنی وہ دور جب بچہ ہوش سنبھالتا ہے اور تین ساڑھے تین سال کی عمر سے پتھر اور کھجور میں تمیز کرنے لگتا ہے۔ پھر بلوغت آتی ہے۔ ہر موقع پر والدین کی جواب دہی ہے۔ خاندان میں بڑا ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ دیکھیں کہ ہرمرحلے پر ہم بچے کو کیا تعلیم دے رہے ہیں؟ کیا بچے کو سنِ بلوغت کے لیے تیار  کیا ہے؟ کیا والدین اور بچے میں اتنی باہمی افہام و تفہیم (understanding) ہے کہ والدین بچے کو تمام احکام خود بتا سکیں اور کسی خلجان میں پڑے بغیر وہ تمام امور سمجھ سکے ،یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ بلوغت کے احکام وہ حجام کی دکان سے سیکھ کر آرہا ہو۔ پھر شادی تو ہے ہی سمجھ بوجھ کا کام۔

اس کے بعد بچے کی پیدایش کا مرحلہ آجاتا ہے اور والدین اگلی نسل کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔ تربیت اولاد سے متعلق لٹریچر میں ہم پڑھتے ہیں کہ بچوں کو ۷ برس کی عمر میں نماز کا حکم دو۔ ۱۰برس کی عمر میں سزا دینے کی بات کی گئی ہے اور بستر علیحدہ کرنے کا کہا گیا ہے، یعنی جنسی تعلیم شروع ہوگئی۔ عموماً ۱۰ برس میں سزا دینے کی بات ہوتی ہے۔ جان لیجیے کہ والدین پر فرض ہے کہ   وہ سنِ تمیز، یعنی ساڑھے تین سال سے بچے کو نماز میں ساتھ رکھیں۔ والدہ اسے تیار کرے۔ والد صاحب چھے ساڑھے چھے برس تک لگاتار محنت کریں___ خود بھی مسجد جائیں، بچے کو بھی لے کر جائیں۔ والدہ بہانہ نہ بنائے کہ ابھی تو تھکا ہوا ہے، ابھی کھانا کھا رہا ہے۔ والدین کی سالہا سال کی لگاتار محنت کے بعد سزا دینے کی بات ہورہی ہے، یعنی والدین سزا دینے سے قبل اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بارے میں خوب غور کرلیں۔

  •  بچے کی شخصیت کی تعمیر:اسلام کا جامع فہم، ایمان اور یقین کی کیفیت، قول و فعل میں یگانگت، فیصلوں میں دین بطور بنیاد، یہ وہ صفات ہیں جو والدین کو چاہیے کہ بچوں میں پیدا کریں۔ جائزہ لیجیے کہ آیا اُسے اسلام کا جامع فہم حاصل ہوا یا نہیں۔ اللہ کے بارے میں ایمان اور یقین کی کیفیت کیسی ہے۔ نماز اللہ کے لیے پڑھتا ہے یا اس وجہ سے کہ آج والد صاحب غصے میں ہیں، کہیں جھوٹ اور دھوکے بازی تو نہیں کرتا___ آیا فیصلے دین کی بنیاد پر کر رہا ہے یا سماجی دبائو میں۔ آیا اس کا دل ان باتوں سے مطمئن ہے یا نہیں۔
  •  والدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی یہ صفات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ سے تعلق کیسا ہے؟ فرائض کی حد تک یا سنت اور نوافل کی حد تک۔ کاموں میں خلوص کتنا ہے اور دکھاوا کتنا۔ کڑوی بات سن کر صبر کرتے ہیں یا بھڑک کر اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ حکمت عملی میں استقامت کس حد تک ہے۔ وقتی فیصلے ہو رہے ہیں یا مستقل مزاجی ہے۔ بات کھٹاک سے منہ پر دے مارتے ہیں یا حکمت سے کام لیتے ہیں۔ فیصلہ کرنے میں آخرت اثرانداز ہوتی ہے یا دنیاداری کے معاملات۔ کیا لین دین میں دھوکا دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ قرآن کے درس بھی چل رہے ہیں___ سیرت و کردار کے یہ سب پہلو دراصل ہماری شخصیت کے ساتھ ساتھ نیت کی بھی غمازی کرتے ہیں۔ اِنھی سے سیرت نکھر کر سامنے آتی ہے۔

مشاورت، اخوت و محبت، احتساب، نظم و ضبط، اقامت دین یہ اجتماعی صفات، صالح معاشرے کی ضرورت ہیں اور ایسے معاشرے کی تشکیل صالح افراد ہی کرتے ہیں۔ ایسا معاشرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا جہاں فیصلے مشاورت سے ہوتے تھے، اخوت و محبت کی قدر تھی، اور یہ سب کچھ آج بھی ممکن ہے اگر ہمارا قبلہ درست ہوجائے۔ بھائی چارے سے کام ہورہا ہو تو تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ جنگ ِ خندق کے دوران اگر صحابہ کرامؓ نے پیٹ پر پتھر باندھے تو پتا چلا کہ حضوؐر نے دوپتھر باندھے ہوئے تھے۔ غلطی کون نہیں کرتا۔ جنگ اُحد کی مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جیسی جماعت کے بعض افراد سے کمزوری ظاہر ہوئی، مگر احتساب اور نظم و ضبط سے شکست فتح میں تبدیل ہوگئی۔ نظم وضبط ان تمام خوبیوں کا نتیجہ ہے۔ ان تمام باتوں سے اقامت ِ دین کو تقویت ملتی ہے۔ ہرمسجد میں پانچ مرتبہ جماعت کے ذریعے نظم و ضبط کا درس ملتا ہے تو پھر مسلمان معاشرے میں بدنظمی کی کوئی وجہ نہیں، جب کہ یہ تربیت سال ہا سال سے صبح و شام جاری ہے۔ ہمیں اس کی طرف من حیث القوم توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  •  معاشرتی زندگی کے تقاضے: اس کے بعد اجتماعی زندگی کا مرحلہ آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ (اٰل عمرٰن۳: ۱۰۳)۔ یہاں اجتماعیت کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور مسلمان کی زندگی تو ہے ہی اجتماعیت۔ گھر میں گھر والوں کے ساتھ، باہر محلے داروں اور دفتر والوں کے ساتھ۔

ہماری معاشرتی کمزوریوں میں کبر، نفسانیت، بے اعتدالی اور ضعفِ ارادہ کے علاوہ بھی  کئی پہلو ہیں۔

  •  یہ مقام ہے اپنا محاسبہ کرنے کا___ اپنا دل ٹٹولنے کا۔ ہمارے دائیں بائیں کئی داعی حضرات ہیں جن کا بڑا قد ہے، جن کی تحریر و تقریر ہیرے موتی جیسی ہے مگر ان کی اپنی اولاد نے ان کے مشن کو آگے نہیں بڑھایا___  یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ کمزوریوں کی ابتدا اپنے گھر سے ہی ہوتی ہے۔ ہمارے گھر ہمارے اور ہمارے گھر والوں کے لیے قلعہ ہیں۔ دروازہ اُونچا اور مضبوط رکھا جاتا ہے۔ مگر ایک کھڑکی ایسی کھول دی جاتی ہے جہاں سے دنیا بھر کی غلاظت گھر میں داخل ہو جاتی ہے۔ گھر کی کمزوریوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اب جدید جاہلیت کا دور ہے۔ یہ مادی ترقی کی جاہلیت ہے۔ یہ وہ دھوکا اور فریب ہے جس کو انسان کی ہلاکت کے لیے باقاعدہ علمی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے۔ نتیجہ کرب، اذیت اور بے چینی ہے۔ یاد رکھیے جب بھی اللہ کے احکام سے روگردانی کی جائے گی اسے جاہلیت ہی کہا جائے گا۔
  •  کبر کو لیجیے۔ کئی بزرگ محبت کرنے کے باوجود___ میری بات مانو، کوئی دوسرا راستہ نہیں___ کے مصداق سخت مزاج واقع ہوتے ہیں۔ وہ مذہبی شخصیت تو ہوتے ہیں،دینی نہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے کبر کی وجہ سے بچے سہمے رہتے ہیں، بیوی دبکی رہتی ہے، نہ مشورہ دیا جاتا ہے نہ لیا جاتا ہے، نہ مشاورت کو اہمیت دی جاتی ہے نہ تربیت کو۔ اندازہ کیجیے گھر پر نفسانیت کا دور دورہ تو نہیں۔ کیا گھر کی اکائی قائم ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ گھر کے افراد کئی ٹکڑیوں میں بٹ گئے ہوں جن کے علیحدہ اہداف اور مقاصد ہوں۔
  •  اسراف و تبذیر کی صورت حال بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ اسے وقت کی ضرورت بناکر قبول کیا جاتا ہے۔ گھر والوں کو معاشی ذمہ داری بھی دے دی جاتی ہے۔ آخر بچوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ انھیں آیا اور ڈے کیئر سنٹر میں پرورش کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مقصد گھر کی اکائی کی حفاظت ہے اور اس کا رخ لازماً اللہ کے حکم اور حضوؐر کی سنت کی سمت ہونا لازمی ہے۔ جبھی تو گھر والے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بن سکیں گے اور پھر آخرت میں صدقۂ جاریہ بھی۔
  •  بے اعتدالی میں مذہبی انتہا پسندی بھی آتی ہے۔ گھر والی فرائض ادا کرنے کے بجاے باہر تبلیغ اور نوافل پر ہی زور دینے لگے، بچے کتابی کیڑے بن جائیں یا دیوانگی کی حد تک کھیل کے رسیا ہوں، کرکٹ یا فٹ بال سیریز ہو رہی ہے تو صاحب بہادر نے دفتر سے چھٹی لے رکھی ہے اور گھر نے اسٹیڈیم کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ سب بے اعتدالی ہے۔
  •  گھر والے اور بعض اوقات آپ خود بھی اپنے آپ کو روکنا چاہتے ہیں تو ضعفِ ارادہ کی وجہ سے روک نہیں سکتے، یہ قوت ارادی کی کمزوری ہے۔ دوغلی پالیسی کے کھلاڑی ایسا کرتے ہیں___ کیا وجہ ہے کہ ہماری کئی خواتین عرب ممالک سے واپسی پر جہاز میں بیٹھتے ہی عبایہ اُتار دیتی ہیں۔ کیا پردے کا حکم پاکستان میں نہیںہے؟ اس طرح انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ جس معاشرے میں رہ رہا ہوتا ہے اسی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مسلمان، مسلمان کے علاوہ سب کچھ بن جاتا ہے لیکن مسلمان نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے لیے جو احکام ہیں اپنے ضعف ِ ارادہ کی وجہ سے وہ اُن پر عمل نہیں کرتا اور اگر کرتا بھی ہے تو مجبوری کی حد تک۔
  •  جسمانی تربیت کے لیے احادیث مبارکہ سے رہنمائی ملتی ہے۔ بچوں کو عیش کوشی کا عادی نہ بنائیں۔ جفاکش (rough & tough) ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح بچیوں کو گھر کے کام کاج بلاتکان کرنا سکھائیں۔ نہ جانے کب کیسا وقت آن پڑے تاکہ وہ چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔
  •  خرابی کے داخلی و خارجی اسباب:خرابی کے داخلی اسباب میں انتخابِ زوج، دہرے معیار، نامناسب تقسیم کار، بچوں کو کھلی چھوٹ، دین کی ترجیح نہ ہونا، کم علمی جیسے کئی پہلو ہیں۔ یہ داخلی اسباب سب گھر والوں کی انفرادی توجہ چاہتے ہیں، اور ہم خود اس کے لیے سب سے زیادہ مسئول ہیں۔ مثلاً انتخاب زوج غلط یا نامناسب ہوا یا یہ کہہ لیں کہ پتا ہی نہ تھا۔ ہمارے اپنے معیار، موم کی ناک کی طرح ہوتے ہیں۔ کہیں قول ہے فعل نہیں، اور کہیں فعل ہے تو قول نہیں۔ گھر کی    ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے تقسیم نہیں ہوئیں۔ خاوند صرف معاشی ذمہ داری ہی نبھا رہا ہے۔ وہ اس میں ہی مطمئن ہے کہ وقت پر گھر کا خرچ بیوی کے ہاتھ میں دے دیا۔ مزاج کا سخت ہے۔ اسے کون سمجھائے کہ یہ بچے تمھارے اپنے ہیں___ تمھارا اپنا صدقۂ جاریہ۔ کئی گھروں میں ہوم ورک، بازار سے شاپنگ، دال سبزی آلو پیاز، سب خاتونِ خانہ خود خریدتی ہے۔ صاحب بہادر یا تو دفتر جاتے ہیں یا گھر پر ٹی وی دیکھتے ہیں۔ بچوں پر کون کیا چیک رکھ رہا ہے، اُن کے دوست کون ہیں اور کیسے ہیں، کون سی کتب یا لٹریچر گھر میں آرہا ہے، انٹرنیٹ اور ٹی وی پر کیا دیکھا جا رہا ہے___ اب تو سائبرجرائم کا دور بھی شروع ہوگیا ہے___ کچھ خبر نہیں۔ دین کے لیے ترجیح سے گھبراتے ہیں کہ کہیں مولوی ہونے کا لیبل نہ لگ جائے اور بہت سے کام فقط کم علمی اور ضعف ِارادہ کی وجہ سے بھی غلط ہو رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کو بلاسوچے سمجھے گلے لگا لینا بھی ذہنی مرعوبیت کی نشانی ہے۔ اس طرح ہم ہر اُس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں جو مغربیت کی وجہ سے ہم میں دَر آئی ہے۔

خرابی کے خارجی اسباب میں سب سے پہلا تو کمزور اور غلط نظامِ حکومت ہے۔ اسی وجہ سے میڈیا، نظامِ تعلیم، ناقص نصاب، سب کسی بھی نوجوان کے اچھا مسلمان بننے کی راہ میں مانع ہیں۔ ہمارے داخلی عوامل بعض اوقات اتنے زیادہ ہوجاتے ہیں کہ ان خارجی عوامل کے لیے وقت ہی نہیں ملتا کہ انھیں ٹھیک رکھا جائے اور یوں معاشرہ بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے۔

  •  تربیت کا ذمہ دار کون؟ یہ گھر والوں کی تربیت کا پراجیکٹ ہے تو آخر کوئی اس کا پراجیکٹ ڈائرکٹر بھی ہونا چاہیے۔ اولاد کی تربیت کون کرے؟ ماں کہتی ہے کہ تمھارے ابو دفتر سے آئیں گے تو شکایت لگائوں گی۔ ابو دفتر سے آتے ہیں تو کہتے ہیں ابھی تو تھکا ماندہ آیا ہوں، تو پھر کون ذمہ دار ہے؟ وقت تو رُکے گا نہیں۔ بچے بہرحال والدین کی مشترکہ ذمہ داری ہیں۔ تعلیم و تربیت، صحت، کھیل کود، کچھ بھی سوچ لیں، بہرحال والدین کو ذمہ داری نبھانی ہے۔ یہ مسلمان معاشرہ ہے۔ یہاں مرد عورت میں مسابقت اور تصادم کی فضا نہیں بلکہ تعاون کا ماحول ہے۔ مغرب میں تو خواتین کے اختیارات (women empowerment) کا شوق پھل پھول رہا ہے۔ اسی لیے وہاں ہر جگہ single mothersملیں گی۔ اب فرانس میں خواتین تنگ آکر کہہ رہی ہیں کہ وہ صرف گھر پر والدہ کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں مگر ان کی بیماری اپنی آخری حدوں کو پہنچ گئی ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان والدین اپنی اس مشترکہ ذمہ داری کا احساس کریں اور بطریق احسن نبھائیں کیونکہ اولاد تو دونوں کی ہے، اور دونوں کے لیے صدقۂ جاریہ بھی۔

اس ضمن میں علماے کرام رہنمائی کرتے ہیں کہ بچوں میں یہ خوبیاں تب پیدا ہوں گی جب والدین میں یہ صفات ہوں گی۔ یہ نہ ہو کہ والد نے کہہ دیا کہ باہر کہہ دو گھر پر نہیں ہوں۔ والدہ فون پر جھوٹ بول رہی ہوں۔ پڑوس کی گیند گھر میں آگئی تو جھوٹ بول دیا،والدین خاموش رہے۔ بچہ ٹی وی رات گئے تک دیکھتا رہا، صبح وقت پر نہ اُٹھ سکا، لہٰذا اسکول میں بیماری کی درخواست دے دی___ یہ سب تضادات ہیں۔ بے عملی اور کمزوری کا نتیجہ ہیں۔ بظاہر یہ معمولی باتیں چھوٹی ہیں مگر شیطان تو تاک میں لگا رہتا ہے۔

اس ساری بحث کے نتیجے میں گھر والوں کی تربیت، اللہ کے سامنے جواب دہی کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ ہمیں اپنے اہلِ خانہ سے محبت ہے اور محبت کے اپنے تقاضے ہیں۔ صورت حال کی بہتری کے لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ یقین محکم، عملِ پیہم کے مصداق اہلِ خاندان کو مسلسل تذکیر و نصیحت کرتے رہیں اور یہ کہ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ نیکی کے لیے سازگار ماحول فراہم کریں۔ تربیت کا خاطرخواہ انتظام کریں۔ اخلاقی اعتبار سے مضبوط بنائیں اور شخصیت کی تشکیل و تعمیر پر توجہ دیں۔ جبھی تو گھر کے آنگن میں خوب صورت پھول کھلیں گے اور میٹھے پھل لگیں گے۔

  •  اصل کامیابی:کوشش یہی ہونی چاہیے کہ یہ بچے بڑے ہوکر صالح مسلمان مرد/ عورت بن سکیں۔ کل انھی بچوں کو والدین  کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ہم مسلسل دعا کرتے رہیں اور بہترین کوشش بھی___ یہ بچوں کا حق ہے۔ مضبوط ارادہ، مسلسل دعا، عملِ پیہم، بہترین منصوبہ بندی کے بعد ہی ہم کامیابی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔ اگر ارادہ، عمل اور منصوبہ بندی میں بگاڑ ہوگا تو پھر بگاڑ والے نتائج ہی سامنے آئیں گے۔ اور پھر: ’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵)

کامیابی___ اصل کامیابی تو جنت کا حصول ہے کہ ہم آتشِ دوزخ سے بچ جائیں۔ یہ خوش خبری ملاحظہ ہو: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقشِ قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہرشخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے‘‘۔ (الطور۵۲:۲۱)

یہ خوش خبری ایک چھوٹ، ایک آسانی کی خبرہے، ایک رعایت (concession) ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اولاد کسی بھی درجہ ایمان پر ہو تو جنت میں ملا دی جائے گی۔ مگر ہمیں    خوب سے خوب تر کی تلاش رہنی چاہیے۔ اسی طرح بچوں کی تربیت کے لیے بھی بلندمعیار پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ ہم تو پرہیزگاروں کے امام بننا چاہتے ہیں۔ یہی دعا بھی مانگتے ہیں۔ گویا best of the best کے متلاشی رہیں۔ درجۂ احسان ہمارا مطمح نظر ہونا چاہیے اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ جنت میں ہمارا اور گھروالوں کا ساتھ ہو۔ آمین!

مقام غوروفکر ہے ___ اپنی اور اولاد کی اخروی کامیابی کے لیے ہمیں سنجیدہ ہونا ہے،  کوشش کرنی ہے، کمرہمت باندھ لینی ہے۔

ہمیں اپنے آپ کو اور اہلِ خانہ کو آگ سے بچانا ہے___ اس کے لیے ہم جواب دہ ہیں۔ یہ کیسی روح پرور اور خوش کُن اور قابلِ عمل بشارت ہے کہ اگر ہم صالح ہوں اور صبر سے کام لیں تو ہم اور اہلِ خانہ جنت کے ساتھی بن سکتے ہیں ورنہ یہ افسوس ہی رہے گا کہ مہلتِ عمل تو ملی تھی مگر ہم اِدھر اُدھر وقت ضائع کرتے رہے۔

آیئے! اس دعا کے ساتھ اختتام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ عزم بھی کرتے ہیں کہ ہمیں اہلِ خانہ کے لیے اور اپنے لیے کوشش کرنی ہے___ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ آیئے ہم عزم کریں کہ کوشش میں کسر نہیں اُٹھا رکھیں گے۔ آمین!


(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات، لاہور قیمت: ۷ روپے، ۵۰۰ روپے سیکڑہ)

اِبتلا و آزمایش میں ثابت قدم رہنے اور اس سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے متعدد طریقے اور راستے ہیں۔ مومن کی حیثیت سے ان کو سامنے رکھنا اور ان میں سے اپنی حالت کے مطابق کسی ایک دو یا زیادہ کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقے واضح طور پر بیان کیے ہیں۔ ان میں سے بعض کا تذکرہ کیاجاتا ہے۔

عقیدۂ توحید پر ایقان

اِبتلا و آزمایش میں سے کامیابی سے گزرنے کے لیے بنیادی بات عقیدۂ توحید پر پختہ ایمان ہے۔ جتنا یہ عقیدہ مضبوط ہوگا، اتنا ہی آسانی سے مومن اِبتلا و آزمایش سے گزر جائے گا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں بڑی بڑی آزمایشیں آئیں لیکن عقیدے کی پختگی کی وجہ سے ذرہ برابر قدم ڈگمگانے اور پسپائی اختیار کرنے کی حالت و کیفیت ان کے نزدیک نہیں آئی۔ حضرت بلالؓ پر کفارِ مکہ نے کتنی سختیاں کیں لیکن احد، احد ہی پکارتے رہے اور اِبتلا و آزمایش سے نکل آئے۔ ایسے سیکڑوں صحابہ کرام و تابعین تھے جنھوں نے اس طرح کا مظاہرہ کیا۔ اِبتلا وآزمایش کے بعد کے ادوار میں ایسے بہت سے مومن نظر آتے ہیں جو توحید کے عقیدے پر مضبوط ایمان کی وجہ سے کامیاب ہوکر نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ دور کی گوناگوں آزمایشیں جیسے مصر میں اخوان المسلمین، اور وسطی ایشیا کے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ فلسطین و عراق کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، افغانستان میں بارود اور لوہے کی آگ برسائی گئی اور خون کے دریا بہائے گئے۔ پل چرخی اور گوانتانامو کی بدنامِ زمانہ جیلوں میں اللہ کے نام لیوائوں کو روح کو لرزہ دینے والی اذیتیں دی گئیں لیکن اللہ کے بندے عقیدۂ توحید پر پختہ یقین اور تعلق باللہ کی وجہ سے ذرا برابر نہیں ڈگمگائے اور ایک دفعہ پھر سنت ِابراہیمی ؑ کو دنیا کے سامنے زندہ کردیا۔

ابتلا و آزمایش کی دو صورتیں ہیں: ایک طرف ظلم وستم خوداپنی ذات پر اور بعض اوقات بیوی، بچوں اور خاندان والوں پر۔ اگر یہ کارگر نہ ہو تو پھر دولت اور جاہ و جلال کی طمع اور خوف۔  امام احمد بن حنبلؒ پر جب تک کوڑے برستے رہے بڑی ہمت و جرأت سے برداشت کرتے رہے لیکن جب دولت پیش کی گئی تو گھبرا گئے اور رونے لگے۔

آخرت پر یقین

اسلام میں آخرت کا عقیدہ اساسی و بنیادی ہے۔ مکی دور میں قرآن مجید نے اسے مختلف طریقوں سے بیان کر کے اپنے پیروکاروں کو ذہن نشین کرایا ہے۔ قرآن مجید کی ۱۱۴ میں سے ۱۰۰سورتوں میں آخرت کا تذکرہ موجود ہے۔ پھر جتنی تفصیل آخرت کے بارے میں ہے اور جنتیوں اور دوزخیوں کے باہمی مکالمے، گفتگوئیں اور ان کی خواہشات بیان ہوئی ہیں، توحید و رسالت کے بعد شاید ہی کسی اور عقیدے کی اتنی تفصیل بیان ہوئی ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آخرت کے پختہ عقیدے کا انسانی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے اور انسان کی سیرت و کردار کی تعمیر اور نشوونما میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔

تعلق باللّٰہ

اِبتلا سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کا توحید کے بعد سب سے مضبوط اور یقینی طریقہ اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا اور اسے پختہ کرنا ہے۔ اِبتلا کے جتنے واقعات قرآن مجید میں اور احادیث ِ مبارکہ میں بیان ہوئے ہیں ان کے اختتام پر تعلق باللہ کو مختلف پیرایوں سے بیان کیا گیا ہے، جیسے    سورۂ ملک (۶۷:۳-۴)، سورۂ قلم (۶۸:۲۸-۲۹)، سورۂ یونس (۱۰:۳۰)۔

تعلق باللہ کی متعدد صورتیں ہیں۔ انھیں حسب ِ حال اختیار کرنا چاہیے۔ چند ایک کا مختصراً تذکرہ کیا جاتا ہے۔

  •  اللّٰہ کا ذکر: اللہ تعالیٰ کی یاد زبان و دل اور احساس و شعور سے کرنا، اُٹھتے بیٹھتے، لیٹتے اور چلتے پھرتے ہر حال میں اللہ کا ذکر جاری رہے۔ بزرگوں نے بہت سے اذکار مسنونہ و ماثورہ لکھے ہیں۔ اللہ کا ذکر تعلق باللہ کی بنیاد ہے۔ قرآن مجید میں ذکراللہ کا کلمہ اور ترکیب ۲۹۰ مرتبہ آئی ہے۔ ان میں دو تہائی اللہ کی یاد کے لیے ہے۔ اس یاد میں تقویٰ کی کیفیت بھی ہے تو قلبی و روحانی پاکیزگی بھی۔مسنون دعائیں اور ماثورادعیہ زندگی کے تمام معاملات کے لیے بیان ہوئی ہیں۔ زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا کام جیسے چھینک آنا، پانی پینا، کھانا کھانا، اس سے فارغ ہونا، حتیٰ کہ کپڑا پہننا، بیت الخلا میں داخل ہونا یا باہر نکلنا۔ کوئی تکلیف پہنچنا، کوئی راحت و نعمت حاصل ہونا بہرحال ذکراللہ سے خالی نہیں ہے۔ یہاںتک کہ دو افرادباہم ملیں تو سلام (ذکرودعا) سے ملیں۔
  •  نماز: نماز میں ذکر کے کئی پہلو ہیں بلکہ خود نماز کو ذکراللہ کہا گیا ہے:

اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ (الجمعۃ ۶۲:۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔

سلف صالحین اور شہدا و دعاۃ کی زندگیوں میں دیکھتے ہیں کہ جب وہ آزمایش میں مبتلا ہوئے تو نماز کی طرف سبقت کی۔ قرآن مجید نے فرمایا: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ ۲:۴۵ و۱۵۳) ’’صبر اور نماز سے مدد لو اور تقویت حاصل کرو‘‘۔

نماز کے کئی اہم پہلو ہیں جیسے دلی اطمینان حاصل ہونا، اجروثواب کا ملنا، برائیوں سے بچنا، شیطان اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنا، دنیا اور آخرت کے خسارے سے بچنا اور اِبتلا سے بخیروخوبی گزر جانا، نیز نماز باجماعت اور نظامِ صلوٰۃ کی اپنی اہمیت ہے۔

بندہ جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اللہ سے تعلق جڑ جاتا ہے اور درمیان سے سب واسطے ہٹ جاتے ہیں۔ اسی لیے نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بندہ جب سجدے میں ہوتا ہے تو اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔

  •  تھجد: داعی اور مومن کامل کے لیے تہجد ضروری ہے۔ تہجد اللہ کا قرب حاصل کرنے، اللہ سے استعانت اور اس کی یاد کا بہترین طریقہ ہے، لہٰذا داعی حضرات اور آزمایش میں مبتلا شخص کے لیے اس کی ادایگی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نمازِ تہجد کو قیامُ اللیلقرار دیا ہے جس سے مراد سجدوں اور رکوعوں میں رات گزارنا، اللہ تعالیٰ سے گِڑگڑا کر دعائیں مانگنا اور اپنے کام میں تقویت حاصل کرنا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے مطالعہ کریں: بنی اسرائیل ۱۷:۷۹، المزمل ۷۳: ۲-۲۰، الفرقان ۴۰: ۶۴، الدھر ۷۶:۲۶، السجدہ ۳۲:۱۶، آل عمران ۳:۱۹۱، النساء ۴:۱۰۳)
  •  تلاوت قرآن مجید: تعلق باللہ کا ایک مضبوط ذریعہ کتاب اللہ کی تلاوت ہے۔ ارشاد باری ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔ ایک روایت میں حبل اللہ قرآن مجید کو کہا گیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’قرآن اللہ کی مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے‘‘۔ (ابن کثیر، ج ۱، ص۳۸۸)

تلاوت کا لطف اور مزہ اس وقت حاصل ہوگا جب خوش الحانی، یک سوئی اور تفکر وتدبر کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ اس قسم کی تلاوت سے وقتی طور پر دکھ درد دُور ہوجاتے ہیں اور آدمی اپنے آپ کو راحت میں محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا صبح و شام اور سفروحضر میں تلاوت کا اہتمام ہونا چاہیے۔

مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں اور مشکل اوقات میں صحابہ کرامؓ تلاوت کرتے تھے اور  کتاب اللہ کی تلاوت سے قوت اور سہارا لیتے تھے۔ حضرت جعفرؓ سے جب شاہِ حبشہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے قرآن مجید کی سورئہ تحریم کی تلاوت کی۔ اس سے ایک طرف ان کو اطمینان ہوا تو دوسری طرف یہ تلاوت ان کے لیے حق گوئی، بے باکی اور اِبتلا سے نکلنے کا ذریعہ بن گئی۔اس طرح تلاوت میں ضروری آداب کا ملحوظ رکھنا، صحیح تلفظ سے ادایگی، اس کے معنی اور مفہوم پر نظر رکھنا اور اس میں غورکرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کی برکات اور فائدے حاصل کرنے کے لیے یہ دعا سکھائی گئی:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلِ القُراٰنَ رَبِیحَ قُلُوبِنَا وَنُورَ صُدُورِنَا وَذَھَابَ ھُمُومِنَا وَجِلَائَ اَحْزَانِنَا، یااللہ! قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار بنا دے، ہمارے سینوں کا نور بنا دے، ہمارے خوف کے دفع کرنے اور ہمارے غم کا مداوا بنادے۔

انبیا کی سیرت و کردار کا مطالعہ

اِبتلا میں عام طور پر سابقہ انبیا کی سیرت کا پڑھنا، اس میں غوروفکر کرنا،ان کی اِبتلا و آزمایش کا گہرا مطالعہ کرنا اور انھوںنے جس طرح ثابت قدمی دکھائی، اسے سامنے رکھنا اور ان کے اسوہ سے تقویت حاصل کرنا اور خود کو اس پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاے کرام کی سیرت میں صبر وثبات اور ثابت قدمی کے بے شمار نمونے سامنے آتے ہیں۔ عقیدت اور یقین سے ان کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو انسان کو بڑی تقویت حاصل ہوتی ہے۔

سیرتِ مصطفٰیؐ سے رھنمائی

اِبتلا وآزمایش میں گرفتار شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، سنت اور احادیث کا مطالعہ کرے تو قدم قدم پر آپؐ کی اِبتلاوآزمایش کے نمونے سامنے آئیں گے۔ دورِ طفولیت سے لے کر اس دنیا سے آپؐ کے تشریف لے جانے تک قدم قدم پر آپؐ کو مختلف آزمایشوں سے واسطہ پیش آیا ہے۔ ذہنی، جسمانی، مالی و معاشرتی اور تمدنی معاملات میں آپؐ کو تکالیف پہنچائی گئیں۔ آپؐ کے پیارے ساتھیوں کو بے حد ستایا گیا۔ لہٰذا آپؐ کے امتیوں اور پیروکاروں کو آپؐ کے اسوئہ حسنہ سے تقویت و اہمیت حاصل کرنی چاہیے۔ آپؐ کے ان فرمودات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے جن میں ایک طرف سابقہ اُمم کے واقعات بتاکر ان کی ثابت قدمی اور صبر کی کیفیت بیان کر کے مثالیں دی گئی ہیں اور ساتھ ہی اِبتلا میں ثابت قدم رہنے کا اجروثواب بیان اور آخرت کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ یہ بھی تقویت کا ذریعہ ہیں۔

اجتماعیت سے جڑنا اور صالحین سے تعلق

اسلام کا مجموعی مزاج اور نظام اجتماعی ہے۔ اس میں انفرادیت اور انفرادی زندگی کا بہت کم حصہ ہے۔ لہٰذا مومن کو عام حالات میں بھی تنہائی سے بچنا چاہیے بلکہ اجتماعیت اختیار کرلینی چاہیے۔ ارشاد باری ہے: ’’تم میںایک اُمت ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے جو معروف (بھلائی) کا حکم دے اور برائی سے روکے اور وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۴)۔ مزید فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ (التوبۃ ۹:۱۱۹)

اجتماعیت سے جڑنے سے، اور اجتماعیت بھی ایسی جو پورے دین پر عمل کرنے اور اسے نافذ کرنے کا کام کرتی ہو، آدمی سنبھل جاتا ہے، اسے سہارا ملتا ہے، تقویت پہنچتی ہے اور یہ ہمت افزائی کا سبب بن جاتی ہے اور اسے اِبتلا سے نکال لیتی ہے۔

اِبتلا کے دنوں میں صالحین سے تعلق مضبوط کرنا، اجتماعیت کے ذمہ داروں سے مزید قریب ہونا، ان سے اپنے حالات بیان کرنا، اپنی مشکلات اور مصائب کا اظہار کرنا، اپنے نفس کی حالت بتانا، ان سے رہنمائی اور مشورہ لینا چاہیے،اور وقتاً فوقتاً ان سے ملنا چاہیے۔ اگرنفس میں غرور و تکبر ہے یا غلط اوہام ہیں یا قوتِ فیصلہ کام نہیں کر رہی توان کا علاج معلوم کرنا چاہیے۔

ایک روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا کہ اگر میں فرشتوں سے مشورہ کرتا تو نقصان نہ اٹھاتا‘‘۔ (شرح اربعین نووی ابن رجب حنبلی)۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (النحل ۱۶:۴۳، الانبیا ۲۱:۷) ’’اہلِ علم سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے‘‘۔ لہٰذا اہلِ علم و دانش اور اس راہ کے راہی، داعیوں اور مبلّغوں سے مشاورت کرنا فائدہ مند ہے۔ مشورہ اور خیر میںکئی پہلو ہیں، اس لیے مومن کو چاہیے کہ اچھے، نیک، باکردار لوگوں سے ہراہم معاملے میں مشورہ لیتا رہے اور اسے اپنا طریقہ و وتیرہ بنا لے۔ عام طور پر اِبتلا میں لوگ اس کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں میں کھو جاتے ہیں اور اس سے نکل نہیں پاتے بلکہ نااہل اور نابلد لوگوں سے مشورہ کرنے کی وجہ سے مزید اُلجھ جاتے ہیں اور الجھے رہتے ہیں۔

دعوت کا کام

اِبتلا وآزمایش میں مومن کو چاہیے کہ دعوتی تحریکوں اور تنظیموں سے مل کر دعوتی اور اصلاحی کام کرے۔ خاص طور پر جماعت اسلامی سے مضبوطی و دل جمعی سے وابستہ ہوکر اعلاے کلمۃ اللہ اور اقامت ِدین کی کوشش کرے۔ اسی طرح دوسری دعوتی تنظیموں سے بھی حسب حال جڑا جاسکتاہے۔

جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کے پاس زمانۂ حال میں رہنمائی کرنے والا وسیع لٹریچر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزاے خیر دے کہ انھوں نے اسلام کے تمام انفرادی اور اجتماعی کاموں پر روشنی ڈالی ہے اور ہر زاویے سے اسلام کی نمایندگی اور وضاحت کی ہے۔  جماعت اسلامی کے شائع کردہ لٹریچر میں مولانا مودودیؒ کا وسیع لٹریچر اتنا جامع، مکمل اور دین کا احاطہ کیے ہوئے ہے کہ اگر درسِ نظامی کا ایک فارغ التحصیل عالم مطالعہ کرے تو وہ جدید علوم سے روشناس ہوجاتا ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھ کر دین کے کام کا واضح لائحہ عمل پاتا ہے،  جب کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دین کا فہم نصیب ہوتا ہے اور عمل کی ترغیب ملتی ہے۔

دعوتی کام کرنے سے دینی احکام کی عملی تعلیم حاصل ہوتی ہے اور انسان عملی طور پر دینی احکام کا عادی بن جاتا ہے۔ اسی لیے طبیعت میں دین رچ بس جاتا ہے۔ دعوتی کام میں کسی جماعت کے ساتھ ہونے سے ہم خیال اور ایک راہ کے راہی لوگوں سے جڑ جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کا سہارا بن جاتے ہیں۔ اگر ایک گر رہا ہے تو دوسرے اسے سنبھالنے کے لیے آگے   آتے ہیں۔ پھر معاشرتی، معاشی، اخلاقی لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے معاون بن جاتے ہیں اور تنگی ترشی میں ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔ اس طرح ایک کفالتی (مالی تعاون کا) نظام بن جاتا ہے۔ دنیا میں بہت ساری مثالیں ہیں۔ تازہ دور کی ایک مثال فلسطین کی سب سے بڑی جماعت حماس ہے جس نے لاکھوں مصیبت زدہ اور جنگ کے مارے ہوئے، لٹے پٹے خاندانوں کی ایک عرصے تک کفالت کرکے مدینہ کی مواخات کا سبق عملاً دہرایا۔

صبراختیار کرنا

صبر اِبتلا میں سے نکلنے کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔ کتاب اللہ میں اِبتلا کا واقعہ بیان کرنے کے بعد عام طور پر صبر کا تذکرہ ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۵۷ میں ہے: وبشرالصابرین اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجیے۔ (مزید دیکھیے: سورہ محمد ۴۷:۳۱، البقرہ ۲: ۱۷۲-۲۴۹،اٰل عمرٰن ۳:۱۶-۱۷، ھود۱۱:۴۹، الصافات ۳۷:۱۰۳۔ الاحقاف ۴۶:۳۵،  الفرقان ۲۵:۴۲، الانعام ۶:۳۴، الکھف ۱۸:۲۸)

صبر کرنے سے بے قراری ختم ہوجاتی ہے۔ مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں اور برداشت کی قوت پیدا ہوجاتی ہے اور ضبطِ نفس کی صفت سے بندہ متصف ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں صبر کا کلمہ ۹۲ مرتبہ آیا ہے اور ان میں سے اکثر اِبتلا میں صبر کرنے کے لیے ہے۔

دعا کا ھتہیار

اِبتلا و آزمایش سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کا ایک بڑا وسیلہ دعا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ہے‘‘(مشکوٰۃ)۔ دعا تعلق باللہ کا بڑا ذریعہ، دلی تسلی کا مضبوط وسیلہ، اجروثواب کا باعث، شیطان کے وسوسوںسے بچنے کا بہترین عمل اور دنیا وآخرت کے خسارے سے محفوظ رکھنے کا سبب ہے، لہٰذا مومن کو اِبتلا میں خاص طورپر اورعام حالات میں بھی دعا کی کثرت رکھنی چاہیے کیونکہ مومن کی دعا کبھی بے کار نہیں جاتی بلکہ اپنے اثرات دکھاتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو بندہ بروقت، ہر جگہ اور ہر حالت میں کرسکتا ہے۔

علما و شھدا کو نمونہ بنانا

علما، شہدا، صالحین کی سیرت کو نمونہ بنانا چاہیے۔ اِبتلا میں گھرے ہوئے مومن کو چاہیے کہ سلف صالحین کی سیرت کا مطالعہ جاری رکھے اور ان سے تقویت حاصل کرے۔ ان کی سیرتوں میں سیکڑوں ہزاروں ایسے نمونے موجود ہیں جس سے اِبتلا میں رہنمائی ملتی ہے۔ ان نمونوں میں ان لوگوں کا اِبتلا میں صبروثبات، حق گوئی، تعلق باللہ نمایاں ہے۔ اس لیے اِبتلا میں گھرے ہوئے شخص کو ان کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

دعوت دین میں مصروف و مشغول لوگوں کو ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی غائبانہ دعائیں پہنچتی رہتی ہیں، نیز ان ساتھیوں کی طرف سے دعائیں ہوتی ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ ان کی دعائیں ان کو گھیر لیتی ہیں۔ بہرحال اِبتلا وآزمایش کے وقت انسان بہت ساری برائیوں سے بچ جاتا ہے اور شیطان کے وسوسوں اور شرارتوں سے محفوظ رہتا ہے۔

اس دور میں مسلم اُمہ پر اجتماعی طور پر اور دعوت کا کام کرنے والوں پر خاص طور پر بڑی اِبتلائیں اور آزمایشیں آئی ہیں۔ اس طرح انفرادی طور پر بھی کافی لوگ اس سے گزرے ہیں۔ ان میں مصر کے علما و دعاۃ اور صلحا گرفتار ہوئے، نیز شام، ترکی، سوڈان اور دیگر ممالک سے وابستہ افراد کی طویل فہرست ہے۔ ان کے ہراول دستے میں محمد بن عبدالوہاب، سید محمد احمد مصری سوڈانی، سیدجمال الدین افغانی، امام محمد عبدہٗ، رشید رضا مصری، امام حسن البنا شہید، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا محمودحسن، مولانا محمدقاسم نانوتوی، فقیرایپی، مُلّا شوربازار، مولانا تاج محمودامروٹی، سیدقطب شہید، عبدالقادر عودہ شہید شامل ہیں، جنھوں نے تمام تر خطرات و مشکلات کو انگیز کر کے اُمت کو روشن شاہراہ دی اور بہت بڑا علمی ذخیرہ چھوڑا۔ کچھ لوگ گھر سے بے گھر، وطن سے بے وطن اور بے بسی کی حالت میں ہجرت کر کے نکلے لیکن دین کے کام میں آخر دم تک مصروف رہے۔ ان کی فہرست تو بہت طویل ہے البتہ کچھ کا تذکرہ کیا جاتا ہے جیسے محمد غزالی، زینب الغزالی، عبدالبدیع صقر، محمد علی صابونی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، استاد عبداللہ العلوان، سعید رمضان، ڈاکٹر مصطفی السباعی، عبدالرحمن عزام، حسن الہضیبی، السید سابق، فواد سرگیں، عبدالوہاب خلاف، ڈاکٹر نبیل الطویل اور ڈاکٹر عبداللہ عزام شہید وغیرہ۔ یہ چند نام تو ان حضرات کے ہیں جنھوں نے زبان و قلم، علم وعمل سے جہاد کیا لیکن جنھوں نے اپنے مال ودولت اور جسم و جان سے اس راہ میں قربانیاں دیں وہ تو اَن گنت ہیں، ایک طویل فہرست ہے۔ اس دور میں عزیمت اور ثابت قدمی کی مثالیں افغانستان میں بگرام اور قندھار کی جیلیں، عراق کی ابوغریب اور گوانتاناموبے کے قیدیوں اور بہن عافیہ صدیقی کی ہے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو نشانِ راہ اور روشنی کے مینار ہیں۔

ایسے ہی لوگ اس آیت کے مصداق بنتے ہیں اور اس زمرے میں شامل ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) ’مومنوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنے دل و جان سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے اصلاحِ حال کے لیے مصروف ہیں۔ فرمایا: وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ان کو ہم اپنی راہوں کی ضرور ہدایت دیتے ہیں‘‘۔

الغرض اِبتلا و آزمایش مومن کے لیے ایک لازمی منزل ہے، لہٰذا اسے پہچاننا، اس کا احساس و شعور رکھنا، اس میں ثابت قدم رہنا، اس سے صحیح طور پر نکلنے کے لیے جدوجہد کرنا اور روحانی و مادی وسائل ڈھونڈنا مومن کا وتیرہ ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی سے سرفراز فرمائیں۔ آمین!