سوال: جس طرح ہم یہ بات مانتے، جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کفروایمان میں فرق ظاہر کرنے والی عملی چیز صلوٰۃ ہے، اسی طرح یہ چیز بھی معلوم ہے کہ محرم رشتوں کے علاوہ مخلوط سماجی تعلقات یا سرگرمیاں حدوداللہ کو توڑنے کے ہم معنی ہیں۔ بہرحال اس چیز کو اسلامیانِ عالم کی پسپائی سمجھ لیجیے یا عصری حالات کا جبر، کہ بالخصوص پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں یا بالعموم عمومی تعلیم کے اعلیٰ اداروں میں مخلوط تعلیم اور مخلوط تدریس سے مفر دکھائی نہیں دیتا۔ اور اگر کہیں بظاہر خواتین کا کوئی اچھا تعلیمی ادارہ بنا بھی لیا گیا تو وہاں پر بھی مرد اساتذہ کی مدد کو جھٹکنا ممکن نہیں ہوسکا۔ خاص طور پر میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم میں___ اس مناسبت سے چار سوالات پیشِ خدمت ہیں، براہِ کرم ان کے جوابات نظریاتی سے زیادہ عملی حوالے سے مرحمت فرمائیں۔
۱- مخلوط تعلیم کے اداروں میں، ہمیں یعنی طلبہ و طالبات کو سماجی سطح کے تعلقات، سماجی تعامل، مکالمے، عملی ضروریات کے لیے مدد وغیرہ کے لیے کیا احتیاطیں ملحوظ رکھنی چاہییں؟
۲- ایک بگڑے معاشرے کے بگڑے ہوئے تعلیمی ماحول میں دین، دعوت، تنظیم اور تربیت کے کاموںمیں ہم خیال طلبہ و طالبات کو کس طرح مخاطب کیا جائے اور کس طرح مدد فراہم کی جائے؟
۳- چلیے دعوت اور تنظیم کے لیے الگ دائروں میں ہم نے کام کو آگے بڑھا لیا لیکن اب جو اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کا مرحلہ آرہا ہے، اس میں تو مشاورت اور تعاون کے لیے طلبہ و طالبات کو فعال طور پر اپنے دائرہ تعارف و حمایت میں وسعت لانا ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ہم اس میں بہت زیادہ سمٹے رہیں گے، جس کا فوری وزن دوسرے پلڑے میں جائے گا (یاد رہے کہ اب خاص طور پر میڈیکل کالجوں میں تو ۶۰ فی صد، ۶۵ فی صد رول نمبر تو طالبات ہی کے ہیں۔ یہ صورت ماضی کی نسبت یک سر مختلف ہے، تب ۱۰، ۱۵ فی صد طالبات ہوا کرتی تھیں)۔
۴- اور جہاں تک ایک طالب علم کے لیے، مخلوط تعلیم میں پھن پھیلائے جذباتی مسئلے کا تعلق ہے، اس سے بھلا وہ کیسے عہدہ برا ہوسکے؟
جواب: آپ نے جو سوالات اُٹھائے ہیں وہ ایک مستقل مضمون کے متقاضی ہیں لیکن اختصار کے ساتھ چند نکات میں ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ سوالات میری ناقص راے میں کسی بگڑے ہوئے معاشرے ہی میں نہیں، ایک بہت عمدہ اسلامی معاشرے میں بھی پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق تعلیم، تعلیم گاہ، فلسفۂ تعلیم اور تعلیمی ماحول سے ہے۔ قرآن و سنت نے حصولِ تعلیم کو مرد اور عورت دونوں پر فرض کیا ہے۔ چنانچہ وہ اہلِ ایمان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس قرآن اور نبی برحق، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرنے کے لیے علم کے ذریعے ان دونوں مصادر سے آگاہی حاصل کرے اور بربناے علم اپنے ایمان کی تکمیل کرے۔ دورِاوّل میں جس طرح خاتم النبیینؐ نے بذاتِ خود مردوںاور عورتوں کی تعلیم کا اہتمام کیا وہ واضح ہے۔ جو معاملات عمومی ہدایت چاہتے تھے ان کے ضمن میں آپؐ نے اور قرآن نے دونوں کویکساں خطاب کیا، اور جہاں کوئی خصوصی بات سمجھانی تھی وہاں اُمہات المومنینؓ کے ذریعے صحابیاتؓ کو وہ بات سمجھا دی گئی۔
تفسیر، حدیث اور فقہ تینوں علوم جہاں نظری ہیں وہاں تطبیقی بھی ہیں۔ جس طرح طب میں پہلے دو سالوں میں بنیادی علوم اور پھر طبی اور جراحی علوم سکھائے جاتے ہیں، ایسے ہی قرآن و حدیث کی تطبیق بھی اصولِ تفسیر، اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ کی تعلیم کے ذریعے عملی میدان میں کی جاتی ہے اور پھر اصولوں کی روشنی میں روزمرہ کے عملی مسائل (معاشی، سیاسی، معاشرتی یا تعلیمی) پر ان اصولوں کی تطبیق کرکے ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ اسی کا نام اجتہاد ہے۔
مردوں اور عورتوں کے درمیان تبادلۂ خیالات یا حصولِ معلومات کے لیے حکمت عملی خود قرآن کریم نے یہ حکم دے کر طے کر دی تھی کہ اُمہات المومنینؓ سے جب کوئی سوال کیا جائے تو وہ پردے کے پیچھے سے اس کا جواب دیں اور ایسے انداز میں دیں جو اُمت کی مائوں کو زیب دیتا ہو۔ حج اور عمرہ کے علاوہ کوئی اور ایسا تربیتی موقع نظر نہیں آتا، جہاں پر مخلوط ماحول کو برداشت کیا گیا ہو۔ لیکن اسے بھی مخلوط اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ مرد اور عورتیں اپنے اپنے محرم کے ساتھ غیرمعمولی انہماک اور توجہ کے ساتھ عبادت میں اِس طرح مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ دو قدم پر جو خاتون یا مرد طواف یا سعی میں مصروف ہے وہ جاذبِ نظر ہے یا نہیں۔ اس لیے خوفِ الٰہی اور تقربِ الٰہی کے ایسے ماحول میں مردوں اور عورتوں کے اجتماع کو مخلوط سماجی سرگرمیوں کے لیے نہ تو دلیل بنایا جا سکتا ہے اور نہ ان جیسا روحانی فائدہ کسی سائنسی تجربہ گاہ، لائبریری، سیمی نار روم یا کمرۂ درس میں مخلوط ماحول کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اسلام نے محرم اور غیرمحرم کے اخلاقی اور قانونی تصور کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہا ہے جس میں برائی کے ممکنہ ذرائع کو کم سے کم اور بھلائی کے معروف ذرائع کو زیادہ سے زیادہ رائج کیا جاسکے۔ اس پس منظر میں غضِ بصر، غضِ صوت، چلنے کا انداز، حضروسفر میں محرم و غیرمحرم کی تخصیص، جسم کا مس نہ کرنا___ قرآن و سنت کی اتنی واضح تعلیمات ہیں جنھیں کوئی معقول شخص نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ان حدود میں رہتے ہوئے کالج اور یونی ورسٹی کے انتخابات ہوں یابحالت مجبوری سماجی سرگرمیاں یا حصولِ تعلیم کے لیے طبی کالج یا سماجی علوم کے شعبے میں تعلیم کا معاملہ ہو، ایک نوجوان طالب علم اور طالبہ دونوں کو اپنے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
جب بھی کوئی مثالی اسلامی معاشرہ اور ریاست وجود میں آئے گی اُس میں ہر صنف کی ضروریات اور معاشرے میں کردار کے پیش نظر نصابِ تعلیم اور ہم نصابی سرگرمیاں اختیار کی جائیں گی کیونکہ اسلام بنیادی طور پراختلاطِ مرد و زن کو ناپسند کرتا ہے اور ہرصنف کے لیے ایک مناسبِ حال نظامِ عمل تجویزکرتا ہے۔ مکمل اسلامی معاشرے میں بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہرہرشعبۂ تعلیم میں علم، تجربہ اور مہارت کے لحاظ سے مساوی طور پر مردوں اور عورتوں میں ماہرینِعلم وفن کی مطلوبہ تعداد موجود ہو، مثلاً خود اوّلین اسلامی معاشرے میں عظیم صحابہ کی موجودگی میں اُم المومنین سیدہ عائشہؓ نے فقہ کے میدان میں فقہاے سبعہ کو تعلیم دی جس سے یہ مطلب نہیںنکالا جاسکتا کہ وہ آج کل کی طرح ان کے سامنے آکر لیکچر دیا کرتی تھیں۔ ظاہر ہے قرآن نے اُمہات المومنینؓ کے لیے جو حدود متعین کردی تھیں وہ ان کی کماحقہٗ پیروی کرنے والی ہستی تھیں لیکن اس سے یہ بات بہرحال واضح ہوتی ہے کہ اگر ایک دور میں ایک مرد یا ایک خاتون علم کے ایسے مقام پر ہو کہ اُس جیسے اور بہت سے افراد نہ ہوں تو اس سے استفادہ کرنے میں یہ تخصیص نہیں کی جائے گی کہ وہ صرف مردوں یا صرف عورتوں کی تعلیم و تربیت تک ہی محدود ہو۔
طب کے شعبے میں خصوصاً یہ دقت پیش آتی ہے کہ بعض تخصصات میں خواتین مردوں سے زیادہ مہارت کا ثبوت پیش کرتی ہیں، مثلاً بچوں کا شعبہ، دانتوں کی اصلاح کا شعبہ یا زچگی کا شعبہ۔ اس کے مقابلے میں قلب کی جراحت یا بینائی کے شعبے میں عموماً مرد زیادہ مہارت کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی شکل اسلامی علوم میں پیش آئے گی۔ تفسیر، حدیث، فقہ، لغت، ادیان المقارن میں ضروری نہیں کہ ہرشعبے میں ہردو صنف یکساں مہارت کے ساتھ موجود ہوں، گو ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے ہردو اصناف میں اتنے ماہر پیدا کیے جائیں کہ تعلیمی اور تربیتی اداروں میں اشتراک کی ضرورت نہ پڑے۔
جہاں تک سماجی سطح پر تعامل کا معاملہ ہے ناگزیر صورت حال کے علاوہ اجنبی مرد اور عورت کا تنہائی میں بیٹھنا صحیح حدیث کی روشنی میں حرام ہے۔ اجتماعی سرگرمی ہو اور بولنے کے آداب، لباس کے آداب پر عمل کیا جا رہا ہو اور جسمانی فاصلے بھی ہوں تو ضرورت کی حد تک بات کرنے میں کوئی ممانعت نظر نہیں آتی۔ ہاں اس کا مقصد محض گپ شپ اور بے معنی یا بہت پُرمعنی گفتگو نہ ہو بلکہ کسی مشکل کا حل، کسی ہدف کے حصول کے لیے، اجتماعی مشورہ کرنا ہو اور اس میں بھی کسی کے ساتھ لگاوٹ کی بات شامل نہ ہو تو تبادلۂ خیال کیا جاسکتا ہے۔ یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں دعوتی مہم ہو یا الیکشن کی مہم، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ طالبات میں کام کرنے والی کارکن طالبات ہی ہوں اور قیادت کی سطح پر اگر ان سے مشورہ کرنا ہو تو کسی ایسے ذریعے سے کیا جائے جو ان کا محرم ہو۔ یہ مشکلات دعوتی سفر کا حصہ ہیں اور محض نیک نیتی کی بنیاد پر ان بہت سی باتوں کو جنھیں شریعت نے ناپسند کیا ہے مباح نہیں بنایا جاسکتا۔ ’ضرورت‘ کی اصطلاح فقہ میں ان امور کے لیے ہے جن کے نہ کرنے سے ضرر واقع ہو۔ اس لیے ہرمعاملے کو ضرورت نہیں کہا جاسکتا۔ کسی ایسے کام کا کرنا جس کے نہ کرنے سے مقاصدِ شریعت میں خلل واقع ہو، ضرورت کی تعریف میں آتے ہیں۔
مخلوط ماحول میں صرف ایک چیز انسان کو فتنے سے بچاسکتی ہے اور وہ ہے اپنے رب کی ناراضی سے بچنے کی تڑپ اور خواہش اور مسلسل احتسابِ نفس کے ذریعے ہر قدم پر شیطان کے ان عقلی دلائل سے محفوظ رہنا جو شیطان جھوٹی اور غیرمحسوس برائی کے ذریعے بڑی برائی تک لے جانے کے لیے پیش کرتا رہتا ہے۔ وساوس سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جب طلبہ اور طالبات میں قرآن کریم کے ساتھ تعلق، سیرت پاکؐ سے آگاہی اور مسلسل تزکیۂ نفس کی خواہش موجود ہو۔
اصولاً تو یہی ہونا چاہیے کہ دعوتی اجتماعات غیرمخلوط ہوں اور خواتین میں اہلِ علم خواتین قیادت کے فرائض انجام دیں لیکن جب تک یہ شکل پیدا نہ ہو، مشترکہ اجتماعات میں علیحدہ نشستوں کا بندوبست کرکے دعوتی کام کیا جاسکتاہے۔ یونی ورسٹیوں میں سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں جہاں تک ممکن ہو تحریکی فکر کی طالبات ہی طالبات میں کام کریں لیکن اگر ایسی کارکن طالبات میسر نہ ہوں تو منصوبہ بندی کے ساتھ حلقہ ہاے مطالعہ قرآن کے ذریعے ایسی طالبات کو تیار کیا جائے جو یہ کام کرسکیں۔ مشورے اور منصوبہ بندی کے لیے متعین نکات پر اجتماعی ماحول میں گفتگو کے آداب پر عمل کرتے ہوئے بات چیت کی جاسکتی ہے لیکن اگر فتنے کا امکان ہو تو کسی معمر خاتون یا معلمات میں سے کسی ہم خیال معلمہ کے ذریعے ایسے مشورے کیے جاسکتے ہیں۔
اصولی طور پر مردوں کا خواتین سے اہم اور فیصلہ کن معاملات میں مشورہ کرنا یا بات چیت کرنا مباح ہے۔ حضرت عمرؓ کی مقرر کردہ انتخابی ٹیم کے ممبران نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان انتخاب کا فیصلہ کرنے سے قبل مدینہ کی خواتین سے ان کے گھروں پر جاکر استصواب کیا۔ ایسے ہی بیع کے معاملات میں ہردو صنفوں کے درمیان تبادلۂ خیال پر کوئی ممانعت شریعت میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ اسلام اختلاطِ مرد و زن کو ممکنہ برائی کی طرف ایک زینہ سمجھتا ہے اس لیے اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
گویا مشاورت کرنا اور ملک گیر مسائل پر خواتین کی راے لینا سنت صحابہؓ سے ثابت ہے اور یہ کام تبادلۂ خیال کے بغیر نہیں ہوسکتا لیکن اس عمل میں غضِ بصر اور غضِ صوت کے ساتھ ساتھ صرف مسائل کی حد تک گفتگو کو محدود رکھنا ضروری ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)
سوال: اپنے آس پاس بہت سی ایسی باتوں کا رواج دیکھتا ہوں جو مجھے بہت غلط لگتی ہیں اور بہت تکلیف ہوتی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اچھے اچھے ثقہ لوگ اتنی اہم باتوں کو کیوں نظرانداز کرتے ہیں۔ کچھ مثالیں لکھ رہا ہوں اور آپ سے رہنمائی کی توقع رکھتا ہوں۔
رسولؐ اللہ کے لیے حضور کا استعمال، اور اسی طرح آنحضور، آنحضرت، رسالت مآب، حضور انور، حضور اکرم، حضور پُرنور، حضور پاک، حضور اقدس اور کیا کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ الفاظ نہ قرآن میں ہیں اور نہ حدیث میں۔ رسولؐ اللہ اور نبی کہنا باعث ِ ثواب ہے اور باقی گناہ۔
اسی طرح ہم لفظ ’خدا‘ اللہ کے لیے بولتے ہیں اور یہ الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں: خداوند اعلیٰ، خداے رحمن، خداے بحروبر، خداے بزرگ و برتر، خداوند قدوس، اس کے علاوہ بھی بہت سے الفاظ ہیں، مثلاً خداے عزوجل، خداے لم یزل، خداے رحیم و کبیر، باری تعالیٰ، اُوپر والا وغیرہ۔
جو نام قرآن میں آتے ہیں، بس اللہ کے وہی نام ہیں۔ اس کے علاوہ استعمال کرنا گناہ ہے۔ ہمارا تو ترانہ بھی خداے ذوالجلال پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح رب کو پروردگار کہنا ہے۔ رب کے معنوں سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ لیکن ہم پروردگار کہہ کر گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ٹی وی کے پروگرام ’صوت القرآن‘ میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ اس طرح ہے: اے (اسمِ محمدؐ) آپ سے پوچھتے ہیں، اے (اسم محمدؐ) ہم نے آپ کو کوثر عطا کی۔ ’اے‘ تو تہذیب کے خلاف ہے۔ اس طرح تو بڑے چھوٹوں کو مخاطب کرتے ہیں۔ اے کرکے بلانا سخت ترین گناہ ہے۔ اسی طرح پرویز الٰہی، رحمت الٰہی جیسے نام ہیں۔ مجھے بتائیں اس کے کیا معنی ہیں؟ لوگوں نے نام ایسے رکھے ہیں جو اللہ کے صفاتی نام ہیں ، مثلاً کسی کو مجید، حمید یا قدیر کہنا یا غفور کہنا جیسا کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے یہ کتنی غلط بات ہے۔ مجیدنظامی، غفوراحمد، ڈاکٹر قدیرخاں، رحمن ملک وغیرہ۔
ایک اور لفظ ’الٰہی‘ ہے جس کا بے محل استعمال اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ الٰہی بھی ہم اللہ کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن رضاے الٰہی، قضاے الٰہی کی تکرار ہوتی ہے۔ (یہ ۶صفحات پر مشتمل سوال کی تلخیص ہے)
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے القاب جو اہلِ علم و فضل اور علماے دین کے ہاں مروج اور معروف ہیں ان کا استعمال کرنا جائز ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپؐ کے لیے ہرجگہ نبی اور رسول کا لفظ ہی استعمال کیا جائے۔ آنحضور،آنحضرت، جناب کریم یہ سب الفاظ ادب کے ہیں اور ان کا استعمال جائز ہے۔ کون سے الفاظ استعمال ہونے چاہییں اور کون سے نہیں، اس کا فیصلہ ہرآدمی نہیں کرسکتا۔ اس کا فیصلہ علما کرسکتے ہیں اور علماے کرام اور مفتیان عظام اور نیک لوگوں اور بزرگانِ دین کے ہاں ان الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظ ’خدا‘ کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور علماے دین نے ان الفاظ کو استعمال کیا ہے۔ یہ عربی زبان کے لفظ اللہ کا ترجمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسما کا ترجمہ کرنا جائز ہے، جس طرح قرآن پاک کا ترجمہ جائز ہے۔ ترجمے میں لفظ اللہ کا ترجمہ بعض مفسرین نے لفظ ’خداے‘ سے اس سبب سے کیا ہے۔
ٹی وی پروگرام ’صوت القرآن‘ میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کو اس پر اعتراض ہے حالانکہ ترجمے میں بعض مقامات اجتہادی ہیں۔ انھی مقامات میں سے وہ مقام بھی ہے، جن میں آپؐ کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں ایک صورت یہ ہے کہ یہ کہا جائے، جیسے آپ نے ترجمہ کیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اے محمدؐ کہہ کرخطاب کیا اور تیسری صورت وہ ہے جو مولانا فتح محمد نے اختیار کی ہے، یعنی اے (اسم محمدؐ)۔ اس سے آپ اختلاف کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن ناجائز نہیں کہہ سکتے، اس لیے کہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔
الٰہی کے لفظ پر بھی آپ کا اعتراض بے جا ہے۔ الٰہی کا معنی اللہ والا ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں الٰہ تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ لا الٰہ الا اللہ کا یہی معنیٰ ہے۔ رہی وہ مثالیں جو آپ نے پیش کی ہیں، ان میں بعض پر ہمیں بھی اعتراض ہے۔ ان میں پرویز الٰہی کا نام بھی شامل ہے۔ پرویز کو اللہ والا کہا جاتا ہے حالانکہ پرویز نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پھاڑا تھا۔ اس لیے یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے۔ ایسے بُرے آدمی کا نام کوئی رکھے گا تو خطرہ ہے،کہیں اس کی طرح نہ ہوجائے، جیسے کہ بعض لوگ آپ کے سامنے ہیں کہ وہ اسی پرویز کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ دین اور مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اور نام بھی پرویز ہے۔ اس کے علاوہ باقی ناموں، مثلاً منظورالٰہی، رحمت الٰہی وغیرہ ناموں پر آپ کا اعتراض صحیح نہیں ہے۔
بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں۔ اصل نام کے بجاے نام کا اختصار کرتے ہیں۔ عبدالحمید کو حمید، عبدالمجید کو مجید، عبدالقیوم کو قیوم کہتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن جو نام اللہ کے لیے خاص نہ ہوں، ان ناموں کا دوسروں کے لیے استعمال ہو تو نامناسب ہونے کے باوجود گوارا ہے۔ اللہ اور رحمن یہ دونوں نام اللہ کے لیے خاص ہیں۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س: آج کل مختلف ایام منانے کا رجحان سامنے آیا ہے، مثلاً مدرز ڈے، ٹیچرز ڈے، سینیرسٹیزن ڈے، ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔ یہ رجحان بنیادی طور پر مغرب ہی سے آیا ہے۔ دن منانے کی اس نئی روایت کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ کیا سرے سے اسے غیرمسلموں کا کام سمجھیں، یا موقع کے لحاظ سے فیصلہ کریں، نہ منائیں یا اپنا رنگ دیں؟
ج: مخصوص دن، وقت یا مواقع پر تقریبات اور مجالس و محافل کے انعقاد کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے نہ کسی خطے سے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جہاں کہیں بھی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں بعض مخصوص دن مذہبی یا غیرمذہبی رسموں کے لیے اجتماعی اور انفرادی طور پر منائے جاتے ہیں۔ پھولوں کا تبادلہ، مٹھائی تقسیم کرنا یا اپنی خوشی کے اظہار کے لیے چراغاں کرنا اور بعض تہذیبوں میں ناچ گانے اور مشروبات کا استعمال بھی مخصوص دنوں اور اوقات کے ساتھ وابستہ ہے۔
قرآن کریم نے تمام دنوں کو اللہ کے لیے یکساں قرار دیا، قدیم تہذیبوں کے اوہام و اساطیر پر مبنی تقدس کا رد کیا اور سال میں صرف دو دن ایسے قرار دیے جب باوقار انداز میں اللہ کے بندے اپنے رب کا شکر ادا کریں اور خالق کائنات کے نام کو بلند کرنے کے لیے اس کے حضور سجدہ ریز ہوکر اور بہ آوازِ بلند، اس کی عظمت و کبریائی اور اپنے عجز و عبدیت کو ظاہر کریں۔ چنانچہ رمضان المبارک کی ایک ماہ کی عبادت کی تکمیل پر اور حج مبرور کی ادایگی پر عالمی طور پر اپنی خوشی، خوش قسمتی اور بندگیِ رب کے اظہار کے لیے دو دن مقررکردیے گئے۔ ان دو دنوں کے دوران میں اپنے اہلِ خانہ، اعزہ و اقربا و احباب حتیٰ کہ اجنبی افراد کے ساتھ بھی اخوت و محبت و احترام کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ان کی خاطر تواضع اور مہمان داری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
قرآن و سنت پر نظر ڈالی جائے تو جمعہ کا دن بھی وہ مقام نہیں رکھتا جیساکہ یہودیوںنے سبت کو یا عیسائیوں نے یومِ احد یا اتوار کو دے کر آرام یا صرف عبادت کا دن قرار دے کر اختیار کرلیا۔ بلاشبہہ احادیث میں جمعہ کے دن کی فضیلت ہے لیکن نہ اس دن کام کی ممانعت ہے، نہ یہ آرام کرنے کا دن ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، یاد، تسبیح، تعظیم اور اس کے حضور نماز کی شکل میں شکر ادا کرنے کے بعد کاروبارِ حیات میں، اللہ کے ذکر کوتازہ رکھتے ہوئے، مصروف ہوجانے والا دن ہے۔
اگر دنوں کا کوئی تقدس ہوتا تو انبیاے کرام کے یومِ ولادت کو یہ مقام ضرور دیا جاتا اور سال کے ۱۲ مہینوں اور ۳۶۵ دنوں میں سے ناممکن طور پر ایک لاکھ ۲۴ ہزار سے زیادہ دن مقدس دنوں کے طور پر منائے جاتے۔ بالفرض تمام انبیاے کرام ؑکے ایامِ ولادت منانے مشکل ہوتے تو کم از کم انبیاے بنی اسرائیل جن کا ذکر سابقہ صحیفوں میں اور خود قرآن کریم میں پایا جاتا ہے ان کے حوالے سے ضرور کچھ دن مخصوص کردیے جاتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا حتیٰ کہ سرورِ کائناتؐ کی ولادت باسعادت کو بھی صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین نے نہ چھٹی کا دن قرار دیا، نہ اسے مقدس دن سمجھا۔ اس لیے کہ وہ قرآن کریم کے اس اصول سے آگاہ تھے کہ سب دن اللہ کے لیے ہیں کیونکہ وہی خالق اور مالکِ حقیقی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں دن منانے کے اہتمام کی روایت نہیں ہے۔ البتہ اگر موقع کے لحاظ سے والدین یا استاد کو کوئی تحفہ دے دیا جائے تو اس کی کوئی ایسی ممانعت بھی نہیں۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹیچرز ڈے ہو یا سینیرسٹیزن ڈے، مدرز ڈے ہو یا فادرز ڈے، مغربی تہذیب میں ان کی معاشرتی اہمیت کے پیش نظر سال میں ایک مرتبہ انھیں پھولوں کا تحفہ دے کر یا ایک کارڈ بھیج کر اظہارِ تشکر اور ان کی اہمیت کا اظہار کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ اس سے تو بہتر ہے کہ پورے سال میں ایک مرتبہ بھی ان میں سے کسی کو یاد نہ رکھا جائے لیکن اگر واقعی ان کے احسانات کے پیش نظر ایسا کرنا مقصود ہے تو یہ سراسر تکلف ہے۔ والدین ہوں یا استاد، ان کا شکر تو اپنے اچھے اخلاق اور طرزِعمل سے ہی ادا ہوسکتا ہے، جسے قرآن کریم عملِ صالح کہتاہے۔ والدین اپنی محبت کے سایے میں ایسے وقت، جب اولاد قرآن کی زبان میں کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں ہوتی، اپنی توجہ اور تمام وسائل کو اس کی نشوونما اور تربیت پر لگا دیتے ہیں تو سال میں ایک دن تو کیا سال کے ہر دن، ان کا شکر و احترام کرنے کے بعد بھی کیا ان کا حق اور ان کا شکریہ ادا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے والدین سے احسان کے رویے کی تلقین کی ہے اور ان کے ساتھ بے رُخی یا گستاخی پر سرزنش کی ہے۔
رہا ویلنٹائن ڈے یا اس قسم کے دیگر بے معنی دن تو حقیقت یہ ہے کہ ایسے دنوں کا تعلق جاہلیت اور جاہلی تہذیب سے تو ہوسکتا ہے، اسلامی تہذیب و ثقافت میں ان کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ ایسے دنوں کا منانا دیگر اقوام کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا اور ان کی جاہلیت پر مبنی روایات کو اپنانا ہے۔ بسنت بھی اسی قسم کا تہوار ہے جس کا کوئی تعلق مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے نہیں۔ یہ خالصتاً غیراسلامی طریقہ ہے اور اس کا اختیار کرنا گمراہی کا باعث ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: اسلام میں علاقائی رسم و رواج کی کیا حیثیت ہے اور اُن کو کرنے یا نہ کرنے کا بنیادی اصول کیا ہے بالخصوص شادی کے موقع پر کی جانے والی مہندی کی رسم؟
میرے خیال میں اس رسم کو غیراسلامی یا نامناسب اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں ناچ گانا، مووی یا تصویریں بنانا اور مخلوط تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور بے جا اسراف سے کام لیا جاتا ہے۔ اس رقم کو اسٹیٹس سمبل کے طور پر بھی ادا کیا جاتا ہے، نیز اس میں وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ اگر مندرجہ بالا وجوہات میں سے کوئی بات نہ ہو، صرف خاندان کی خواتین اور سہیلیاں اکٹھی ہوں، گھریلوقسم کے گانے ڈھولکی یا دف پر گائے جائیں، اور پردے کا خیال رکھا جائے، یعنی یہ رسم صرف مل بیٹھنے کا بہانہ ہو تو کیا پھر بھی اس رسم کا ادا کرنا ناجائز یا غیراسلامی ہوگا؟
ج: علاقائی رسمیں خصوصاً شادی بیاہ کے رواج میں سے جو شریعت سے متصادم نہ ہوں، ان کی اجازت ہے۔ آپ نے خود ہی وضاحت کی ہے کہ مہندی کی رسم میں غیرشرعی کام، ناچ گانے، مووی، تصویریں بنانا، مخلوط تقریبات، بے جا اسراف، اسٹیٹس سمبل کا مظاہرہ اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر یہ رسم ان بے جا اُمور سے پاک ہو، محض بچی کو دلہن بنانا ہو تو سادہ طریقے سے ایسا کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح انصار کی خواتین نے حضرت عائشہؓ کو نہلا دھلاکر، بناسنوار کر دلہن بنا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر رخصت کیا تھا۔ شادی کے موقع پر بڑی خواتین کا دف کے ساتھ گانے گانا اگرچہ اپنے گھر کے محدود دائرہ میں ہو، صحیح نہیں ہے۔ صرف چھوٹی بچیاں ایسے گیت گاسکتی ہیں جن میں فحش نہ ہو۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
۱- شیطان اللہ کا مقرب تھا اور اللہ کی مخلوق بھی۔ شیطان کو اللہ کے آگے انکار کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟
۲- اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چھے دنوں میں کیوں بنایا، اس کی کیا حکمت ہے؟ وہ ایک دن میں بھی تو بنا سکتا تھا، جب کہ وہ کُن فیکون سے کام کرسکتا ہے۔
۳- جنتیوں کو جنت میں رکھنے اور جہنمیوں کو جہنم میں رکھنے کا اللہ کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا وہ غفور و رحیم اور ستارالعیوب نہیں ہے؟
۴- اے اللہ! درود و سلام ہو محمدؐ اور اس کی آل پر جس طرح تو نے درود و سلام بھیجا ہے ابراہیم ؑ اور اس کی آل پر۔ وہ کون سے انعامات ہیں جو اللہ نے ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر بھیجے جو ہم بھی ہر نماز کے وقت اللہ سے طلب کرتے ہیں؟
جواب: ۱- شیطان کو اللہ تعالیٰ کے آگے انکار کرنے کی جرأت اس لیے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دیا ہوا تھا کہ چاہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو قبول کرے اور چاہے تو انکار کردے۔ اس نے اختیار کا غلط استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ کے مدمقابل کھڑا ہوگیا، تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں اپنی عقل کا استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو غلط جانا، آدم کو سجدہ کرنا، اس کی تعظیم کرنا، اس کی خلافت کو تسلیم کرنا، اس کے نزدیک صحیح نہ تھا۔ اس کے نزدیک اللہ کا فرمان غلط تھا۔ اسے اس بات کا علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے، مالک ہے، وہ اختیار کو سلب بھی کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے اللہ کے حقِ حاکمیت کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ط قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (اعراف۷:۱۲) ’’جب میں نے تجھے سجدے کا حکم دیا تو پھر کس چیز نے تجھے سجدے سے منع کردیا۔ اس نے جواب میں کہا: میں آدم سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے‘‘۔ شیطان اس جسارت اور بے باکی کے سبب راندۂ درگاہ ہوگیا اور شیطان کی طرح جنوں اور انسانوں میں سے اس کے نقشِ قدم پر چلنے والے بھی اس کی طرح مردود اور ملعون ہوگئے۔
آپ نے جو سوال اٹھایا ہے اس کا تعلق صرف شیطان سے نہیں ہے، بلکہ جنوں اور انسانوں میں سے ہر اس گروہ سے ہے جس نے اللہ کی مخلوق ہونے اور اللہ کی نعمتوں سے مالامال ہونے کے بعد کفر کیا۔ کفر اور شرک اور اللہ کی ہدایات اور اس کے احکام اور اس کی حاکمیت کے انکار کا کسی کے پاس کیا جواز ہے؟ جو بھی ایسا کرے گا، وہ بلاجواز کرے گا اور دنیا جو ’دارالابتلا‘ آزمایش و امتحان گاہ ہے، اس سے چلے جانے کے بعد کافر کے لیے دوزخ کا عذاب تیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (البقرہ ۲:۲۸) ’’تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کس بنیاد پر کفر کرتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے تو اسی نے تم کو زندہ کیا، پھر تمھیں موت دے گا، پھر تمھیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے‘‘۔
شیطان کو ان ساری باتوں کا علم تھا، اس لیے اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت طلب کی تو اسے مہلت دے دی گئی۔ سورۂ اعراف میں ہے: قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ o قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ o قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ o ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِھِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَo قَالَ اخْرُجْ مِنْھَا مَذْئُ وْمًا مَّدْحُوْرًا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَo (۱۵ تا ۱۸) ’’شیطان نے کہا: مجھے مہلت دے دیجیے اس دن تک جب لوگوں کو دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھے مہلت دیے جانے والوں میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اس سبب سے کہ تو نے مجھے گمراہ کردیا ہے، میں انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے تیرے سیدھے راستے پر رکاوٹ بن کر بیٹھ جائوں گا، پھر ان کے سامنے سے، ان کے دائیں سے، ان کے بائیں سے ان کو روکوں گا۔ پھر ان میں سے اکثر کو تو شکرگزار نہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نکل جا تو اس جنت سے ملعون و مذموم ہوکر، ان میں سے جس نے تیری پیروی کی، میں جہنم کو تم سب سے بھر دوں گا‘‘۔
شیطان کفر، تکبر، غرور و جہالت کا ایک ماڈل ہے۔ اس ماڈل کو تمام کفار و مشرکین اور حاکمیت ِالٰہی کے منکرین نے اپنے سامنے رکھا ہوا ہے۔ یہ آیات کفر و شرک کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ شیطان اور اس کی ذُریت سب نے اللہ کی ہدایت اور فیصلوں کے مقابلے میں اپنی عقل اور نفسانیت کی پیروی کی اور اسی لیے سب کا انجام بھی وہی ہے جو شیطان کا انجام ہے۔ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ یہ تمھارا ایسا دشمن ہے کہ اس نے اپنی دشمنی کو چھپایا نہیں،بلکہ کھول کر بیان بھی کردیا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرہ ۲: ۲۰۸) ’’اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ شیطان کے مقابلے میں دوسرا ماڈل اللہ تعالیٰ کے پہلے نبی اور خلیفہ حضرت آدم ؑ اور دوسرے انبیاے کرام ؑ کا ہے۔ یہ تمام ماڈل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ میں جمع ہیں۔
پس ایک طرف ابلیس کا ماڈل ہے اور دوسری طرف نبی اکرمؐ اور آپؐ کی جماعت اُمت مسلمہ کا ماڈل ہے جسے قرآن پاک میں شروع سے لے کر آخر تک بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱)’’تمھارے لیے رسولؐ اللہ میں بہترین نمونہ ہے‘‘ جس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ اہلِ ایمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکرگزار اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے سر جھکانے والے اور بلاکم و کاست ماننے والے ہیں،جب کہ کفار اور ان کے پیروکار منافقین اللہ تعالیٰ کی حکمرانی پر مطمئن نہیں ہیں۔ وہ اللہ کے احکام میں کمی بیشی کرنا چاہتے ہیں، ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے احکام میں نقص ہے، اس لیے ان کے نزدیک یہ احکام بلاچون و چرا قابلِ قبول نہیں ہیں۔ یہ کش مکش جو ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے شروع کی، آج بھی جاری ہے۔ کفار و مشرکین و منافقین ابلیس کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اہلِ ایمان حضرت آدم ؑاور حضراتِ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے کردار کی پیروی کر رہے ہیں۔ یہ کش مکش تاقیامت جاری رہے گی۔ ان شاء اللہ اس دنیا میں بھی اہلِ ایمان کو ابلیس اور اس کی ذُریت پر غلبہ حاصل ہوگا اور آخرت میں بھی اہلِ ایمان جنت میں داخل ہوکر سرخ رُو اور کامیاب و کامران ہوں گے، اور ابلیس اور اس کے پیروکار دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔
۲- اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اپنے علم، قدرت اور حکم سے بنایا ہے۔ اپنے کام کی حکمتیں وہی بہتر جانتا ہے۔ نظر یہ آتا ہے کہ کائنات کے مزاج میں اس نے تدریج رکھی ہے۔ یہاں ہر کام تدریجاً ہوتا ہے، دفعتاً نہیں۔ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح چھے دن رات میں پیدا کیا، اس طرح اسے ایک دن میں بھی پیدا کرسکتا تھا، لیکن اُس نے اپنی مرضی سے ایسا نہیں کیا۔ ایک انسان ماں کے پیٹ میں چھے دن رات نہیں، بلکہ نو مہینے گزارتا ہے۔ اس طرح فصل، پھل اور دیگر زمینی پیداوار بھی پانچ یا چھے مہینے میں تیار ہوتی ہے۔ بچہ دو سال دودھ پیتا ہے، اس کے بعد آہستہ آہستہ نشوونما پاتا ہے اور ۱۵ سال کی عمر میں بلوغت کو پہنچتا ہے۔ تعلیم بھی ایک دن اور ایک سال میں نہیں بلکہ عمر کے طویل عرصے میں حاصل کرتا ہے۔ اس طرح کائنات کے باقی تمام معاملات کو آپ دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کوئی کام بھی آناً فاناً نہیں ہوتا، اس میں وقت لگتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پاک ۲۳ برس میں نازل اور نافذ ہوا اور اتنے ہی عرصے میں سرزمینِ عرب اسلام کے لیے مسخر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہ کام اس سے کم عرصے میں بھی کرا سکتے تھے، اور پیچھے جائیں تو حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت کا کام کیا۔ تب جاکر اللہ تعالیٰ نے زمین کو کفر اور کفار سے پاک کیا۔ حضرت نوحؑ اور آپ ؑ کے پیروکاروں کے لیے زمین کفار سے خالی فرما دی۔ حضرت نوحؑ روے زمین پر حکمران بن گئے۔ ان کے پیروکار ان کی اُمت کی حیثیت سے سرخ رُو ہوگئے۔
۳- جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں رکھنے کا اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ سارے فائدے انسانوں کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے میرے بندو! اگر تمھارے اگلے تمھارے پچھلے، تمھارے انسان، تمھارے جِن سب کے دل سب سے زیادہ متقی اور پاکیزہ بندے کے دل کی طرح ہوجائیں تو اس سے میرے اقتدار میں ذرہ برابر اضافہ نہ ہوگا۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے اگلے تمھارے پچھلے، تمھارے انسان، تمھارے جِنّ، سب کے دل اس آدمی کی طرح ہوجائیں جو سب سے زیادہ بدکردار اور فاجر آدمی ہے، تو اس سے میرے اقتدار میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘‘۔(حدیث قدسی، بخاری، مسلم)
دنیا میں جِن اور انسان آزمایش کے طور پر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جسم و جان اور زمین کے خزانوں اور آسمان کی نعمتوں سے نوازا ہے ۔ انسان اور جِن میں سے کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی خواہشِ نفس کی حکمرانی قائم کرے یا دوسرے انسانوں کی خواہشِ نفس اور عقلی بے راہ روی کی حکمرانی قائم کر کے شیطان کے پیچھے چلے اور اللہ کے مقابلے میں شیطان کی حکومت قائم کرے۔ اگر ایسا کرتا ہے تو ظلم کا مرتکب ہوتا ہے اور ظالم کو پھر سزا ملنی چاہیے، جو اس کے ظلم کے برابر ہو۔ شیطان کی پیروی اس کی حکمرانی قائم کرنا، سب سے بڑا ظلم ہے اور ظلم کے برابر وہ سزا ہے جو دائمی ہو، اور وہ سزا دوزخ کا عذاب ہے۔ اور اللہ کی حکمرانی قائم کرنا سب سے بڑا عدل ہے اور اس کی جزا بھی سب سے بڑی جزا ہونی چاہیے جوکہ جنت ہے۔
۴- حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر اللہ کی یہ رحمتیں ہوئیں کہ ہدایت کا ذریعہ انھیں اور ان کی اولاد کو بنادیا۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے ہیں، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی دعائوں کا مظہر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اور حضرت عیسٰی ؑ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ کی فضیلت اظہرمن الشمس ہے، یہ مقام اور مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر درود و سلام کا نتیجہ ہے۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاقیامت ہدایت آپؐ کے دامن سے وابستہ ہے۔ اب اللہ کی طرف سب راستے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار سے ہوکر جاتے ہیں۔ آپؐ کی حیثیت اور شان فرق کرنے والے کی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں، جو آپؐ کے دامن سے وابستہ ہوگیا وہ جنتی ہے، اور جو آپؐ کے دامن سے برگشتہ ہوا وہ دوزخی ہے۔ اب روے زمین پر ہدایت اور اللہ تعالیٰ کے دین کا غلبہ آپؐ سے وابستہ ہے۔ روے زمین پر جتنی عبادات اللہ تعالیٰ کی آپؐ کے ذریعے سے ہوئیں اتنی کسی اور کے ذریعے سے نہ ہوسکیں۔ آپؐ اور آپؐ کی اُمت کے ذریعے پوری زمین سے کفر مٹ جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں ہوں مٹانے والا، میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا‘‘۔ روے زمین سے کفر مٹ جائے گا اور ساری دنیا دارالاسلام بن جائے گی۔ دنیا میں آپ کی امامت، نبوت و رسالت کا سورج طلوع ہوگا اور آپ پر نازل کردہ نظامِ کتاب و سنت نافذ ہوگا۔
یہ اسی طرح کی رحمت اور صلوٰۃ و سلام کا مظہر ہے جس کا ظہور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق میں ہوا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ ابراہیم ؑ کی امامت چونکہ مسلّم اور مشہور ہے، اس لیے آپؐ کی امامت کے ساتھ تشبیہہ دی گئی۔ ان کی امامت بھی اپنی اولاد کے واسطے سے اپنے دور میں تمام روے زمین کے لیے ہے اور آپؐ کی امامت بھی تمام روے زمین کے لیے ہے۔ آپؐ تمام انبیاے علیہم السلام سے افضل اور سیداولادِ آدم ؑہیں اور آپؐ نے تمام انبیاؑ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو مقام آپؐ کو دیا، کسی اور کو نہیں دیا۔ آپؐ کو شفاعت کبریٰ اور مقامِ محمود پر فائز کیا گیا۔ آپؐ قیامت میں تمام انبیاؑ کی قیادت فرمائیں گے۔ سب سے پہلے جنت میں آپؐ داخل ہوںگے۔ یہ تمام فضائل و مناقب آپؐ پر صلوٰۃ و سلام کا مصداق ہیں، اور صلوٰۃ و سلام کا فائدہ پڑھنے والے کو ہوتا ہے۔ آپؐ کو تو یہ فضائل اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیے ہیں، فرمایا: وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی (الضحٰی۹۳:۵) ’’اور عنقریب تمھارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجائو گے‘‘۔ درود شریف پڑھ کر حضرت ابراہیم ؑ اور جنابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فضائل و مناقب کو اہلِ ایمان اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہتے ہیں تاکہ آپؐ کی محبت اور اطاعت میں اضافہ ہوجائے۔ اس لیے کہ ہدایت پانے کے لیے منارۂ نورِ ہدایت سامنے ہو تو پھر انسان راستے سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی،اپنے محبوبوں اور اپنے محبوب دین اور اپنے محبوب نبیؐ کی محبت و اطاعت عطا فرمائے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)
س: آج کل مختلف ایام منانے کا رجحان سامنے آیا ہے، مثلاً مدرز ڈے، ٹیچرز ڈے، سینیرسٹیزن ڈے، ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔ یہ رجحان بنیادی طور پر مغرب ہی سے آیا ہے۔ دن منانے کی اس نئی روایت کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ کیا سرے سے اسے غیرمسلموں کا کام سمجھیں، یا موقع کے لحاظ سے فیصلہ کریں، نہ منائیں یا اپنا رنگ دیں؟
ج: مخصوص دن، وقت یا مواقع پر تقریبات اور مجالس و محافل کے انعقاد کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے نہ کسی خطے سے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جہاں کہیں بھی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں بعض مخصوص دن مذہبی یا غیرمذہبی رسموں کے لیے اجتماعی اور انفرادی طور پر منائے جاتے ہیں۔ پھولوں کا تبادلہ، مٹھائی تقسیم کرنا یا اپنی خوشی کے اظہار کے لیے چراغاں کرنا اور بعض تہذیبوں میں ناچ گانے اور مشروبات کا استعمال بھی مخصوص دنوں اور اوقات کے ساتھ وابستہ ہے۔
قرآن کریم نے تمام دنوں کو اللہ کے لیے یکساں قرار دیا، قدیم تہذیبوں کے اوہام و اساطیر پر مبنی تقدس کا رد کیا اور سال میں صرف دو دن ایسے قرار دیے جب باوقار انداز میں اللہ کے بندے اپنے رب کا شکر ادا کریں اور خالق کائنات کے نام کو بلند کرنے کے لیے اس کے حضور سجدہ ریز ہوکر اور بآواز بلند، اس کی عظمت و کبریائی اور اپنے عجز و عبدیت کو ظاہر کریں۔ چنانچہ رمضان المبارک کی ایک ماہ کی عبادت کی تکمیل پر اور حج مبرور کی ادایگی پر عالمی طور پر اپنی خوشی، خوش قسمتی اور بندگیِ رب کے اظہار کے لیے دو دن مقررکردیے گئے۔ ان دو دنوں کے دوران میں اپنے اہلِ خانہ، اعزہ و اقربا و احباب حتیٰ کہ اجنبی افراد کے ساتھ بھی اخوت و محبت و احترام کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ان کی خاطر تواضع اور مہمان داری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
قرآن و سنت پر نظر ڈالی جائے تو جمعہ کا دن بھی وہ مقام نہیں رکھتا جو یہودیوںنے سبت کو یا عیسائیوں نے یومِ احد یا اتوار کو دے کر آرام یا صرف عبادت کا دن قرار دے کر اختیار کرلیا۔ بلاشبہہ احادیث میں جمعہ کے دن کی فضیلت ہے لیکن نہ اس دن کام کی ممانعت ہے، نہ یہ آرام کرنے کا دن ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، یاد، تسبیح، تعظیم اور اس کے حضور نماز کی شکل میں شکر ادا کرنے کے بعد کاروبارِ حیات میں، اللہ کے ذکر کوتازہ رکھتے ہوئے، مصروف ہوجانے والا دن ہے۔
اگر دنوں کا کوئی تقدس ہوتا تو انبیاے کرام کے یومِ ولادت کو یہ مقام ضرور دیا جاتا اور سال کے ۱۲ مہینوں اور ۳۶۵ دنوں میں سے ناممکن طور پر ایک لاکھ ۲۴ ہزار سے زیادہ دن مقدس دنوں کے طور پر منائے جاتے۔ بالفرض تمام انبیاے کرام ؑکے ایامِ ولادت منانے مشکل ہوتے تو کم از کم انبیاے بنی اسرائیل جن کا ذکر سابقہ صحیفوں میں اور خود قرآن کریم میں پایا جاتا ہے ان کے حوالے سے ضرور کچھ دن مخصوص کردیے جاتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا حتیٰ کہ ولادت باسعادت کو بھی صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین نے نہ چھٹی کا دن قرار دیا، نہ اسے مقدس دن سمجھا۔ اس لیے کہ وہ قرآن کریم کے اس اصول سے آگاہ تھے کہ سب دن اللہ کے لیے ہیں کیونکہ وہی خالق اور مالکِ حقیقی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں دن منانے کے اہتمام کی روایت نہیں ہے۔ البتہ اگر موقع کے لحاظ سے والدین یا استاد کو کوئی تحفہ دے دیا جائے تو اس کی کوئی ایسی ممانعت بھی نہیں۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹیچرز ڈے ہو یا سینیرسٹیزن ڈے، مدرز ڈے ہو یا فادرز ڈے، مغربی تہذیب میں ان کی معاشرتی اہمیت کے پیش نظر سال میں ایک مرتبہ انھیں پھولوں کا تحفہ دے کر یا ایک کارڈ بھیج کر اظہارِ تشکر اور ان کی اہمیت کا اظہار کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ اس سے تو بہتر ہے کہ پورے سال میں ایک مرتبہ بھی ان میں سے کسی کو یاد نہ رکھا جائے لیکن اگر واقعی ان کے احسانات کے پیش نظر ایسا کرنا مقصود ہے تو یہ سراسر تکلف ہے۔ والدین ہوں یا استاد، ان کا شکر تو اپنے اچھے اخلاق اور طرزِعمل سے ہی ادا ہوسکتا ہے، جسے قرآن کریم عملِ صالح کہتاہے۔ والدین اپنی محبت کے سایے میں ایسے وقت، جب اولاد قرآن کی زبان میں کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں ہوتی، اپنی توجہ اور تمام وسائل کو اس کی نشوونما اور تربیت پر لگا دیتے ہیں تو سال میں ایک دن تو کیا سال کے ہر دن، ان کا شکر و احترام کرنے کے بعد بھی کیا ان کا حق اور ان کا شکریہ ادا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے والدین سے احسان کے رویے کی تلقین کی ہے اور ان کے ساتھ بے رُخی یا گستاخی پر سرزنش کی ہے۔
رہا ویلنٹائن ڈے یا اس قسم کے دیگر بے معنی دن تو حقیقت یہ ہے کہ ایسے دنوں کا تعلق جاہلیت اور جاہلی تہذیب سے تو ہوسکتا ہے، اسلامی تہذیب و ثقافت میں ان کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ ایسے دنوں کا منانا دیگر اقوام کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا اور ان کی جاہلیت پر مبنی روایات کو اپنانا ہے۔ بسنت بھی اسی قسم کا تہوار ہے جس کا کوئی تعلق مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے نہیں۔ یہ خالصتاً غیرمسلم طریقہ ہے اور اس کا اختیار کرنا گمراہی کا باعث ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
سوال: دارالافتا سعودی عرب کی شائع کردہ فتاوٰی میں شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز اور دیگر علما نے ترکِ صلوٰۃ کرنے والے کو کافر قراردیا ہے۔ میرے شوہر ڈاکٹر ہیں اور مولانا مودودیؒ کی کتابیں پڑھ کر ان سے بہت متاثر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دین میں سختی نہیں ہے۔ میں نے مولانا مودودی کی کتابیں گہرے غوروخوض سے پڑھی ہیں، اُن میں تو تارکِ نماز یا سُستی و لاپروائی سے نماز اداکرنے والے کو کفر کا مرتکب نہیں کہا گیا ہے۔ گویا سُستی و لاپروائی سے نماز چھوڑ دینا کوئی گناہ نہیں۔ ایسے حضرات سُستی و لاپروائی کی وجہ سے دفتر جانا اور دیگر اہم کام نہیں چھوڑتے، دین ہی میں آسانیاں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ کیا فرض نماز سُستی یا غفلت سے قضا ہوجانا نفاق نہیں ہے؟
میں نے اپنے شوہر کو شاذ ہی قرآن پڑھتے پایا ہے، جب کہ اخبارات و لٹریچر کا گھنٹوں مطالعہ کرتے ہیں۔ کیا جو شخص گھنٹوں اخبارات و لٹریچر پڑھ سکتا ہے، اسے قرآن کی تلاوت اور فہم و تدبر کی ضرورت نہیں، وہ صرف نماز ہی سے پورا ہوجاتا ہے؟
جواب: آپ کا سوال غیرمعمولی تشویش کا باعث ہے کیونکہ تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ اس کے کارکن ہی ہیں جو اسلامی نظام کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کے عزم کے ساتھ تحریک سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ فرائض کی ادایگی میں تساہل اور عدم توجہ برتیں تو کس بنیاد پر نظام کی تبدیلی عمل میں آئے گی۔ یہ اس لیے بھی تشویش کا باعث ہے کہ اگر ایک شخص مولانا مودودی کی تحریرات کو پڑھتا ہے اور اس کے باوجود نماز کو اس کا اصل مقام نہیں دیتا تو یا تو اُس نے تحریر کو سمجھا نہیں، یا اس کا نفس حیلے تراش رہا ہے۔یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا مودودیؒ نے نماز کی اہمیت کو پوری طرح اُجاگر کرنے کے لیے اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر و دیگر کتب لکھی ہیں اور ان کی کتب کا مطالعہ کرنے والے اور تحریک اسلامی سے وابستہ افراد نماز کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتے ہیں، اور نہ صرف اس کی ادایگی کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں بلکہ اقامت ِ صلوٰۃ کے لیے بھی سرگرمِ عمل ہیں۔ نماز میں کوتاہی پر تحریکی نظم کے تحت پرسش بھی کی جاتی ہے۔ اجتماعی احتساب کا ایک مقصد نماز کو وقت پر اور جماعت کے ساتھ ادا کرنے پر اُبھارنا ہے تاکہ للہیت پیدا ہو۔ یہ نظامِ تربیت کا ایک لازمی حصہ ہے۔
اصلاحِ حال کے لیے جہاں انفرادی مشورہ اہم ہے، وہیں اجتماعی احتساب بھی ضروری ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ الدینُ یُسر لیکن یُسر (آسانی) کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ فرائض کو نظرانداز کردیا جائے یا قرآن کریم کے واضح حکم، یعنی نماز کو مقررہ وقت پر فرض کردیے جانے کو پسِ پشت ڈال کر کوئی سہولت پسند دین ایجاد کرلیا جائے۔ فرض نماز کا سُستی اور لاپروائی سے قضا ہونا لازمی طور پر فِسق ہے۔
اگر غور کیا جائے تو تحریکِ اسلامی کے کارکن بننے کے لیے پہلی شرط محض نماز کا پڑھ لینا نہیں ہے، بلکہ اس کی اقامت، یعنی نماز کو قائم کرنا ہے۔ سورئہ بقرہ کے آغاز ہی میں اہلِ ایمان کی پہچان، تعریف اور خصوصیت یہی بتائی گئی ہے کہ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ (البقرہ۲:۳)،یعنی وہ غیب پر ایمان لاتے ہیںاور نماز قائم کرتے ہیں۔ یہی مضمون اسی شدت کے ساتھ دیگر مقامات پر بھی آیا۔ قرآن کریم کے ان واضح، متعین اور براہِ راست ارشادات کا عکس خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ میں بھی نظر آتا ہے، چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’بندے اور کفر کے درمیان ترکِ صلوٰۃ واسطہ ہے‘‘(مسلم) ۔ لہٰذا اذان سننے کے بعد جو لوگ گھر اور دیگر مشغولیتوں کو چھوڑ کر اپنی بندگی کے اظہار کے لیے مسجد کی طرف نہیں جاتے، ان کے بارے میں رحمۃ للعالمینؐ نے جو سراپا رحمت ہی رحمت، عفو و درگزر، حلِم و محبت تھے فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ اذان کی آواز سن کر گھروں سے نہیں نکلتے، مرا دل چاہتا ہے کہ جاکر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
جہاں تک سوال معروف شیخ الباز کے فتوے کا ہے، قرآن و حدیث کے واضح بیان کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہتی۔ البتہ فتوے میں سائل نے جو اصل بات پوچھی تھی، وہ صلوٰۃ کا انکار یا فرضیت یا رکن تسلیم کرنا نہیں تھا جس پر فتوے میں زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اگر ایک شخص سے اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے باوجود نماز قضا ہوجاتی ہے تو وہ تارکِ صلوٰۃ یا منکرِ صلوٰۃ کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ ہاں، ایک شخص صلوٰۃ کے علاوہ ہر کام کو اہمیت دے اور اذان سن کر ٹس سے مس نہ ہو اور اگر اُٹھے بھی تو کسمساتا ہوا، کاہلی، بے دلی اور مجبوری کے طور پر اقامت ِصلوٰۃ کی جگہ صرف نماز پڑھ لے تو اس طرزِعمل کو قرآن کریم نے فسق و نفاق سے تعبیر کیا ہے۔
وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰیلا یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًاo (النساء ۴:۱۴۲) جب یہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمَساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطراُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔
الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنo (الماعون ۱۰۷:۵) پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں۔
لہٰذا فرض نماز میں سُستی اور غفلت انسان میں نفاق پیدا کرتی ہے اور شعوری طور پر ترک، ایمان سے خارج کردیتا ہے۔ لیکن کسی عذر یا مجبوری کے سبب نماز قضا ہوجائے تو اسے جلد از جلد اداکرنا ضروری ہے۔
آپ نے ان کے قرآن کا مطالعہ نہ کرنے کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ اخبارات و رسائل کے لیے ان کے پاس وافر وقت ہوتا ہے، جب کہ وہ کبھی قرآن کا مطالعہ نہیں کرتے۔ قرآن سے قلبی تعلق ہی ایمان کو تازہ رکھتا ہے اور نماز میں اس کی تلاوت خشیت پیدا کرتی ہے۔ قرآن کریم کا حق ہر اہلِ ایمان پر یہ ہے کہ کم از کم اس کی چند آیات کو روزانہ بغور پڑھ کر سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جدید ٹکنالوجی نے اس حوالے سے بہت آسانیاں پیدا کردی ہیں اور اب سی ڈی پر مکمل قرآن کریم کا متن مع ترجمہ تقریباً ہر پاکستانی شہر میں دستیاب ہے۔ کوشش کیجیے کہ اگر وہ پڑھنے میں سُستی کرتے ہیں تو آپ سی ڈی کی مدد سے خود کو بھی اور اپنے شوہر کو بھی روزانہ چند لمحات کے لیے، چاہے صرف ۱۵،۲۰ منٹ ہی کیوں نہ ہوں قرآن کریم کی تلاوت و ترجمہ سننے کا موقع فراہم کریں۔ اس عظیم کتابِ ہدایت کا سننا اور ترجمہ کے ساتھ سننا ان شاء اللہ انھیں قرآن کریم سے قریب کرے گا اور نتیجتاً وہ نماز بھی باقاعدگی سے ادا کرنے کی طرف راغب ہوں گے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب، (ڈاکٹر انیس احمد)
س: لڑکیوں کا انٹرنیٹ کا استعمال کیسا ہے، اور کیا وہ لڑکوں کے ساتھ chatting کرسکتی ہیں؟ اگر اُن کی نیت خالص ہو کہ وہ دین کی باتیں لوگوں تک پہنچائیں تو ایک chatroom میں صرف نام اور جنس لکھنی ہوتی ہے اور پھر آپ چیٹ روم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ آواز کا اور چہرے کا بھی مکمل پردہ ہوتا ہے کیونکہ وہ چیٹ روم صرف لکھ کر چیٹنگ کے لیے ہوتا ہے۔ کیمرہ یا آواز وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ انٹرنیشنل روم ہوتا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ آن لائن ہوتے ہیں۔ اکثریت تو لغو اور فحش گفتگو کرتی ہے، اگر کوئی اسلام کی بات بھی کردے تو کیا حرج ہے کیونکہ ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ کیا مختلف لوگوں سے چیٹ کر کے اُن کو اسلام کی دعوت دی جاسکتی ہے؟ کیا یہ لڑکیوں کے لیے ممنوع اور حرام ہے؟ کیونکہ اگر یہ فریضہ، بالفرض لڑکے سرانجام دیں تو چیٹ روم میں مختلف لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ پھر وہ بھی تو اُن سے چیٹ کریںگے؟ [سائلہ نے متعدد مثالیں دی ہیں کہ اس نے مسلمانوں کو نماز کی ترغیب دی، السلام علیکم کرنے کے لیے کہا، غلط گفتگو کرنے والے کو اس نے مسلمان ہونے کا احساس دلایا، غیرمسلم کو اسلام کے مطالعے کی طرف توجہ دلائی وغیرہ وغیرہ]
ج: آپ کے سوال میں تین پہلو بالخصوص غور طلب ہیں۔ اول یہ کہ کیا انٹرنیٹ کا تعلیمی یا معلوماتی نقطۂ نظر سے استعمال درست ہے۔ دوئم کیا نیٹ پر ایک مسلمان طالبہ یا طالب علم کسی اجنبی فرد سے وہ مرد ہو یا عورت بغیر کسی سابقہ تعارف کے اچانک ’گپ خانے‘ یا chat home میں داخل ہوکر اپنا نام یا جنس بتائے بغیر گھنٹوں تبادلۂ خیال کرسکتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر نیٹ کے ذریعے دعوت دین دی جائے تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟
جہاں تک انٹرنیٹ حتیٰ کہ ’گپ خانے‘ میں جاکر دعوتِ دین دینے کا تعلق ہے، اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کی بات کو ہنسی مذاق نہیں سمجھا جائے گا اور اس طرح دوسروں کی اصلاح ہوسکتی ہے، ان تک حق کا پیغام پہنچ سکتا ہے تو بظاہر اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی لیکن بالعموم چیٹ ہائوس میں جس طرح کی گفتگو کی جاتی ہے وہ نہ تو سنجیدہ کہی جاسکتی ہے اور نہ اخلاقی طور پر اسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ عموماً جو نوجوان چیٹ کرتے ہیں۔ وہ مصنوعی قصے گھڑ کر یا جنسی گفتگو کی تلاش میں اس طرف آتے ہیں اور اس بات کا پورا امکان رہتا ہے کہ کم از کم آپ خود کسی بُری بات میں پہل نہ بھی کریں تو غیرشعوری طور پر آپ تک ایسے پیغامات پہنچتے ہیں جو اخلاقی طور پر ناجائز کہے جاسکتے ہیں۔
جیساکہ پہلے عرض کیاگیا، اگر آپ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ آپ کی بات سنی جائے گی اور اس پر سنجیدگی سے غور ہوگا تو دعوتی نقطۂ نظر سے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بات یاد رکھیے کہ آپ کا ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امانت ہے اور ہمیں اپنے کانوں، آنکھوں اور قلب تینوں کی جواب دہی کرنی ہے۔
جہاں تک تعلق کسی اجنبی سے بات کرنے میں پہل کرنے کا ہے تو دین کا مدعا یہی نظرآتا ہے کہ ایک مسلمان طالبہ کا کسی لڑکی کے ساتھ بات کرنا تو درست ہے لیکن کسی اجنبی لڑکے کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنے اور اس کام میں گھنٹوں مصروف رہنے کو جائز نہیںکہا جاسکتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک کمرے میں کسی اجنبی کے ساتھ بات چیت کی جارہی ہو۔ اس سے مکمل اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔ شیطان ایسے ہی چور دروازوں سے داخل ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دل سے برائی کے احساس کو مٹا دیتا ہے۔
انٹرنیٹ کا تعلیم و تحقیق کے لیے استعمال غالباً اس دور کے ابلاغی انقلاب کا ایک مفید تحفہ ہے۔ آج اگر آپ کو قرآن و سنت سے کسی حوالے کی ضرورت ہو تو بجاے لائبریری میں گھنٹوں صَرف کرنے کے انٹرنیٹ پر موجود مواد تک چند لمحات میں پہنچ کر طے کیا جاسکتا ہے کہ کون سی معلومات مفید ہیں اور کون سی غیرمطلوب ہیں۔
مسلمان طلبہ و طالبات بجاے چیٹ کرنے کے اپنے ویب سائٹ قائم کرسکتے ہیں، اور الحمدللہ یورپ و امریکا میں اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں نوجوانوںنے ایسا کیا بھی ہے۔ اس طرح انٹرنیٹ کا تعلیمی اور دعوتی استعمال ’گپ خانے‘ کے علاوہ شاید زیادہ مؤثر طور پر کیا جاسکتا ہے، اور وہ بے شمار غلط فہمیاں دُور ہوسکتی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔ (ا-ا)
س: میں ۷۴ سال کا ہوں، لیکن ۵۰ سال کی عمر تک نماز روزے کا اہتمام نہیں کرسکا کیونکہ قرآن یا حدیث میں مجھے نماز، روزہ کہیں نظر نہیں آیا۔ تمام عمر جستجو رہی اور قرآن کے گہرے مطالعے سے حقیقت کھلی کہ یہ ’صلوٰۃ‘ اور’صوم‘ ہیں جنھیں ہم نے نماز اور روزے کا نام دیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ صلوٰۃ صرف پانچ وقت کی عبادت نہیں ہے بلکہ قرآن کے مطابق اور بہت کچھ ہے جو سب مل کر ’اقام الصلوٰۃ‘ بنتا ہے، اور یہ کہ اللہ کی عبادات کو نماز اور روزہ کے مشرکانہ ناموں سے موسوم کرنا غلط ہی نہیں بلکہ کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ لفظ صلوٰۃ اور صوم صرف اور صرف اللہ کی عبادات کے نام ہیں۔ یہ دونوں لفظ قرآن یا عربی میں کسی اور معنی میں استعمال نہیں ہوئے۔ اسی طرح لفظ نماز اور روزہ صرف اور صرف آتش پرستی کی عبادات کے نام ہیں۔ یہ دونوں لفظ فارسی زبان میں کسی اور معنی میں استعمال نہیں ہوئے۔ چنانچہ صلوٰۃ اور صوم کو نماز اور روزے سے موسوم کر کے ہم مسلمان قرآن کی صریح نافرمانی کررہے ہیں۔ اگر میں غلط فہمی کا شکار ہوں تو صرف اور صرف قرآن کی سند سے میرے اندیشوں کا مداوا کریں۔
ج: اسلام ایک ایسا دین ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور نافذ بھی ہوگیا۔ ایک دنیا کو اس نے مسخر کیا، ایک عظیم خلافتِ راشدہ اور ایک عظیم الشان اُمت دنیا کے سامنے آئی۔ ۱۵۰۰ سال میں یہ دین ایک نسل کو دوسری نسل سے وراثت میں ملا۔ اگر آپ اس عظیم الشان عمارت کو چند لفظی مغالطوں سے گرا کر کوئی نئی عمارت اور نئی اُمت بنانا چاہتے ہیں تو یہ سعی لاحاصل ہے۔
زبانیں سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمِنْ اٰیٰـتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ (الروم۳۰:۲۲)’’اس کی نشانیوں میں سے ہے تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا اختلاف‘‘۔ خدا فارسی کا لفظ ہے اور اہلِ ایمان اسے اسی معنوں میں استعمال کرتے ہیں جو لفظ اللہ سے سامنے آتا ہے۔ یہ فارسی زبان میں مستعمل سابقہ معنی سے مختلف ہے۔ اسی طرح نماز روزہ اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس میں صلوٰۃ اور صوم استعمال ہوئے ہیں۔ یہ نئی لغت ہے اور سابقہ لغت سے مختلف ہے۔ اس نئی لغت پر جو اسلام کی وجہ سے وجود میں آئی ہے، سابقہ لغت کی رو سے اعتراض کرنا، جہالت اور نادانی ہے۔
زبانیں حقیقت میں نظاموں اور عقیدوں کی بنیاد پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ لفظ خدا، نماز، روزہ بھی سابقہ لغت سے تبدیل ہوکر اسلام میں نئے معنوں کے ساتھ مستعمل ہوئے ہیں۔ اس وقت نماز، روزہ کے نام سے مسلمان جو عبادت کر رہے ہیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ دین کی ایک عمارت جو مضبوط قلعے کی شکل میں تیار ہوچکی ہے، اس عمارت میں نماز، روزہ کے معنی میں کبھی بھی اختلاف نہیں رہا۔ اب اس کا نیا معنی کرنا اور دین کا کوئی نیا اڈیشن تیار کرنا اور مسلمانوں کو دین سے منحرف کرنے کے لیے نماز، روزہ کو آتش پرستوں کے دین کے ساتھ جوڑنا، قرآن و سنت، دینِاسلام اور اُمت مسلمہ کی توہین ہے اور اسلام کو مٹانے کی ناپاک جسارت ہے، جو ناکام ہوگی۔ آپ نے ۵۰برس تک نماز نہیں پڑھی، روزہ نہیں رکھا، فرض کو ترک کر کے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا، اب آپ دوسروں کو اس گناہِ کبیرہ بلکہ کفر کے راستے پر گامزن کرنا چاہتے ہیں جو انتہا درجے کی گمراہی اور کفر ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس سے توبہ کریں۔ رسولؐ اللہ کے دامن سے اسی طرح وابستہ ہوجائیں جس طرح دوسرے مسلمان وابستہ ہیں۔ غلام احمد قادیانی کی طرح نبی بننے اور دین کا نیا اڈیشن تیار کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جن لوگوں نے نبی بننے کی جسارت کی ہے وہ خائب و خاسر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے، آمین! (مولانا عبدالمالک)
محتاط گفتگو
سوال: حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد میں ایک نوجوان شہید ہوا۔ جب دیکھا گیا تو بھوک کے سبب اس کے پیٹ سے پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اُس کی ماں اُس کی لاش پر آئی اور اس کے منہ سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہنے لگی: بیٹا جنت مبارک ہو! حضور اکرمؐ نے پوچھا: تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ شاید وہ بے فائدہ گفتگو کرتا ہو اوراس کا حساب اس کے ذمے باقی ہو۔ غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ شہیدبھی اُس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک دنیا میں اُس نے جو گفتگو کی ہے اس کا حساب نہ دے دے۔ (از مولانا سفیر حسنؒ، آفات اللسان کیسٹ)
میں نے جب سے یہ کیسٹ سنا ہے بہت زیادہ پریشان ہوں۔ کچھ عرصے تک تو میں بالکل خاموش ہوگئی تھی مگر میرا تو کیا کسی بھی فرد کا بالکل خاموش رہنا ممکن نہیں ہے۔ دعوت کے میدان میں بھی یہ ہنر بہت کارآمد رہتا ہے مگر حدود کا پاس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میری گفتگو کا بنیادی مقصد دعوت ہی ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے اگر پہلے ہلکی پھلکی گفتگو کے ذریعے دوستی کرلی جائے تو آگے اپنی بات بہت جلد اثرات دکھاتی ہے۔ اب مجھے بہت زیادہ فکر نے گھیر رکھا ہے۔ واقعی زیادہ گفتگو کے چند ہی فائدے ہیں باقی سب نقصانات ہی نقصانات___ پوچھنا یہ ہے کہ معتدل راہ کیا ہے اور اب تک جو فضول گفتگو کرچکی، اُس کا تدارک کیسے کروں؟
جواب: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو جن اہم صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان میں لسان کے ساتھ بیان و ابلاغ، نصیحت اور کلمۂ حق کا اظہار کرنے کی نعمتیں شامل ہیں۔ قول بمعنی گفتگو اور قول بمعنی وعدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انبیاے کرام کے حوالے سے قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ انھیں اپنی قوم کی زبان میں پیغام پہنچانے اور ابلاغ سے نوازا گیا، اور حضرت موسٰی ؑکی دعا سے قرآن ہرمسلمان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ اپنے رب سے نہ صرف حق کے لیے سینے کو کشادہ کرنے اور آسانی پیدا کرنے کی دعا کرے، بلکہ ساتھ ہی یہ بات بھی کہے کہ اس کی زبان کی گرہ کو دُور کردیا جائے۔ لیکن گرہ دُور کرنے اور زبان درازی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قبیلے میں بچپن گزارا وہ اپنی فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھا۔ اسی لیے آپؐ جب خطاب فرماتے تو مختصر ترین الفاظ میں وضاحت کے ساتھ اپنے مخاطب کی صلاحیت کے لحاظ سے اظہارِ خیال فرماتے۔ آپؐ کے تمام خطبات مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ اس لیے آپؐ کی پیروی کرتے ہوئے ایک داعی کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ حق کا ابلاغ کرتے وقت بات غیرضروری طور پر طولانی نہ ہو۔
قرآن کریم نے انسانوں سے گفتگو کرنے کے حوالے سے ہدایت فرمائی ہے کہ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ۲:۸۳)، یعنی انسانوں سے بھلی بات کہنا۔ بھلی بات کہنا اور حق کی دعوت دینا انبیاے کرام کا اُسوہ ہے۔ اس کام میں آسان زبان کا استعمال ہمیشہ میٹھا بول اور زبان کی بے احتیاطیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہر داعی کا فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کے غلط استعمال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اُمت مسلمہ کو متنبہ فرمایا۔ مشہور حدیث ہے کہ جس نے دو چیزوں کی احتیاط کا وعدہ کیا، یعنی زبان اور شرم گاہ، تو صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم اس سے جنت کا وعدہ فرماتے ہیں۔
زبان کی بے احتیاطیوں میں سب سے زیادہ مہلک چیز غیبت ہے۔ قرآن کریم نے سورۃ الحجرات میں اس طرف متوجہ کرتے ہوئے ایک ایسی مثال سے بات کو سمجھایا جسے کوئی صاحب ِ ایمان بھول نہیں سکتا، یعنی غیبت کرنا ایسا ہے جیسے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ ایک حدیث میں حضوؐر نے یہ بات بھی فرما دی : زانی کی توبہ تو قبول ہوسکتی ہے لیکن غیبت کرنے والے کی توبہ کبھی قبول نہیں ہوسکتی جب تک وہ شخص جس کی غیبت کی گئی ہے، اسے معاف نہ کردے۔
زبان کی بے احتیاطیوں میںجھوٹی شہادت دینا حدیث پاک کی روشنی میں شرک کے برابر ہے۔ اسی طرح کسی کی تضحیک کرنا، نام بگاڑنا یا چغلی کھانا بھی زبان کی بے احتیاطیوں میں شامل ہیں۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چغلی کھانے والاجنت میں داخل نہیں ہوگا (مسلم)۔ زبان سے غیرمہذب بات نکالنا، فحش گوئی کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ حضرت ابودرداء ؓسے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: سب سے وزنی چیز جو قیامت میں میزان میں رکھی جائے گی مومن کا حسنِ اخلاق ہے اور اللہ اُس شخص سے بُغض رکھتا ہے جو زبان سے بے حیائی کی بات نکالتا ہے اور بدزبانی کرتا ہے۔ (ترمذی)
اسی حوالے سے مذاق میں غلط بیانی کرنا اور جھوٹ بولنا بھی شامل ہے کیونکہ جب ایسا کرنا ایک شخص کی عادت بن جاتا ہے تو پھر اس کے سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں کی جاسکتی۔ ایک حدیث صحیح میں منافق کی جو چار خصلتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے تین کا تعلق زبان کی بے احتیاطی سے ہے، یعنی جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی بات پر جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے۔ (عن عبداللہ ابن عمرؓ، بخاری و مسلم)
ایک داعی کے لیے بہت ضروری ہے کہ جہاں وہ زبان کی ان بے احتیاطیوں سے بچے وہاں وہ مثبت طور پر زبان کی اچھائیوں کو اختیار کرے جن میں سب سے پہلی بات اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعوت دینے سے قبل اس کی حمدوتوصیف کے ساتھ یہ دعا کرنا کہ وہ حق بات کہنے کی توفیق دے۔ پھر بات کو اچھے انداز سے مختصر ترین پیرایے میں سادہ اور پُراثر الفاظ میں ادا کرنا دعوت کی حکمت کے اجزا ہیں۔
زورِ بیان اور زورِ تحریرکا مطلب نہ طوالت ہے، نہ مشکل الفاظ کا استعمال کرنا، نہ مقفّع و مسجّع گفتگو کرنا، بلکہ مخاطب کی صلاحیت کے مطابق اچھے انداز میں اپنی بات کا پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی نسخہ ایسا نہیں ہے جس کے استعمال سے یہ صلاحیت ایک شخص میں پیدا ہوجائے۔ یہ خصوصیت صرف خلوصِ نیت سے، اللہ کو خوش کرنے کے جذبے کے ساتھ مسلسل کوشش ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ غیرضروری گفتگو سے احتراز سنت ہے اور جو شخص بھی دعوت الی اللہ کا کام کر رہا ہو، اسے الفاظ کے انتخاب اور استعمال میں فکروعقل کا استعمال کرنے کے بعد ہی کوئی بات کرنی چاہیے۔ ہروقت اور ہر بات پر بولنا، نہ حکمت کا تقاضا ہے، نہ دعوت کے لیے مفید۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جو خاموش رہا، وہ سلامت رہا، اور جو سلامت رہا نجات پا گیا‘‘ (بخاری)۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ چپ سادھ لیں اور صرف کانوں کا استعمال کریں۔ اس کا واضح مفہوم قرآن کی اس آیت کی تشریح ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا (النسآئ۴:۹) یعنی حق بات کہنا۔
زمین پر ہونے والے بہت سے فسادات کی جڑ زبان ہی ہوتی ہے۔ زبان کے استعمال ہی سے ایک شخص دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اسی کے غلط استعمال سے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ صحیح استعمال کے نتیجے میں ذمہ داری کا اقرار کرکے رشتۂ نکاح میں جڑ جاتا ہے اور غیرضروری اور نامناسب استعمال کر کے رشتے کے ٹوٹنے تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کے خلاف تمسخر اور بے عزتی کی باتیں کرتی ہے تو بعض اوقات نوبت جنگ تک آجاتی ہے۔ اسی کا صحیح استعمال دلوں کو جوڑتا ہے، رشتوں کا احترام سکھاتا ہے، معاشرے میں محبت اور امن پیدا کرتا ہے۔ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے یوں وابستہ کردیتا ہے جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو۔
اسی بنا پر نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔ زبان سے ایسی بات نکالنا جس سے اللہ کے بندوں کو تکلیف ہو، دعوت کے مقاصد کے منافی ہے لیکن ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، حق کا اظہار کرنا، دین کی دعوت دینے کے لیے موعظۂ حسنہ کا اختیار کرنا، حکمت کے ساتھ اپنی بات کا سمجھانا، ایک مومن اور تحریکی کارکن کے لیے فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی بات دل میں اُترنے والی ہونی چاہیے، نہ کہ انسانوں کو دُور کرنے والی۔
برادرم مولانا امیر الدین مہر نے اس موضوع پر ایک کتاب گفتگو کا سلیقہ کے نام سے تحریر کی ہے، اس کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س : صدقے کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اسلامی لٹریچر کی اشاعت اور ترسیل کے لیے رقم خرچ کی جائے تو کیایہ بھی صدقہ یا صدقۂ جاریہ ہوگا؟وضاحت فرما دیں۔
ج: ’صدقہ‘ کسی انسان اور کسی مسلمان کی حاجت کو پورا کرنے کا نام ہے، چاہے وہ مال کی شکل میں ہو یا کسی بھی طرح کی اعانت کی صورت میں۔ جب کوئی شخص اپنا مال تعلیم و تبلیغ میں خرچ کرتا ہے تو وہ صدقہ کرتا ہے۔ جس طرح بھوکے کو کھانا کھلانے، پیاسے کو پانی پلانے، بے لباس کو لباس دینے میں صرف کرنا صدقہ ہے، اسی طرح انسانی ہدایت اور دعوت کی مد میں توسیع و اشاعت لٹریچر کے لیے صرف کرنا بھی صدقہ ہے۔ ہدایت انسان کی ضرورت ہے، بلکہ تمام ضروریات سے بڑی ضرورت ہے۔ انسان ہدایت سے محروم ہو تو اس کی آخرت برباد ہوتی ہے جو دائمی زندگی ہے۔ اس لیے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاے علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاے علیہم السلام نے تکلیفیں برداشت کیں، مصیبتیں جھیلیں، دعوت و تبلیغ اور جہاد میں زندگیاں صرف کردیں، انسانوں پر سب سے زیادہ رحمت ان کے ذریعے ہوئی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے اپنی رحمت قرار دیا۔ اسلام کے غلبے نے بدامنی کی جگہ امن، بھوک وافلاس کی جگہ مال و دولت کی فراوانی اور ذہنی افلاس کی جگہ علمی بلندی عطا کی۔ دس بیس بھوکوں کوکھانا کھلانے کا اتنا فائدہ نہیں جتنا چند گمراہ لوگوں کو ہدایت دینے سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’تیرے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ تیرے لیے سرخ اُونٹوں سے بہتر ہے‘‘۔(بخاری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی فوت ہوجائے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین کام جاری رہتے ہیں۔ صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے (مسلم)۔لٹریچر میں مال خرچ کرنا، مالی صدقۂ جاریہ بھی ہے اور علمی صدقۂ جاریہ بھی۔ اس لیے دوہرے اجرکا موجب ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا ایسا عمل اور نیکیاں جو اس کی موت کے بعد اسے پہنچتی ہیں، یہ ہیں: علم جس کی تعلیم دی اور اسے پھیلایا، نیک اولاد، قرآن جو وراثت میں چھوڑا، مسجد جسے تعمیر کیا تھا ،یا گھرجو مسافروں کے لیے تعمیر کیا تھا، یا نہر چلا دی تھی، یا صدقہ جس کے لیے زندگی میں صحت کی حالت میں مال نکالا تھا۔ یہ چیزیں اس کی موت کے بعد بھی اسے پہنچتی ہیں (ابن ماجہ)۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی ہر حاجت پورا کرنے اور ایسا کام کرنے جس سے انسانوں اور مسلمانوں کو نفع ہو، صدقہ قرار دیا ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ! مال دار لوگ سارا اجر لے گئے۔ وہ نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اور اپنے زائد مال کو صدقہ کرتے ہیں (اس طرح ان کا کام بڑھ گیا)۔ آپؐ نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمھیں موقع نہیں دیا کہ صدقہ کرو۔ ہر تسبیح صدقہ ہے (تسبیح کا فائدہ خود تسبیح کرنے والے اور دوسرے لوگوں کو پہنچتا ہے)، ہر تحمید صدقہ ہے، ہر لا الٰہ الا اللہ صدقہ ہے، بھلائی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے (کہ گناہ سے بچ گیا، جس کا اسے اور معاشرے کو فائدہ پہنچا)۔
صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایک آدمی اپنی شہوت کی تسکین کا سامان کرتا ہے تو اس میں بھی صدقہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: بتلائو اگر وہ اپنی شہوت کی تسکین ناجائز راستے سے کرتا تو اسے گناہ نہ ہوتا؟ فرمایا: کیوں نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اسی طرح صحیح راستے سے تسکین کرنے کا ثواب ہے۔ (مسلم)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے: کُلُّ مَـعْرُوْفٍ صَـدَقَـۃٌ ، ’’ہر بھلائی صدقہ ہے‘‘ (مسلم)۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے: مَنْ کَانَ لَـہٗ مَالٌ فَلْیَتَصَدَّقْ مِنْ مَّالِـہٖ وَمَنْ کَانَ لَـہٗ قُوَّۃٌ فَلْیَتَصَدَّقْ مِن قُوَّتِـہٖ وَمَنْ لَّـہٗ عِلْمٌ فَلْیَتَصَدَّقْ مِنْ عِلْمِہٖ (ابن مردویہ بحوالہ جامع العلوم والحکم شرح جوامع الکلم)’’جس کے پاس مال ہے وہ اس کا صدقہ کرے، جس کے پاس قوت ہے وہ قوت کا، اور جس کے پاس علم ہے وہ علم کا صدقہ کرے‘‘۔ حضرت حسن بصری کی مرسل روایت جس کو ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے: وَ اِنَّ مِنَ الصَّدَقَۃِ اَنْ تُـسْلِمَ عَلَی النَّاسِ وَاَنْتَ طَلِیْقُ الْوَجْہِ (شرح جوامع الکلم) ’’لوگوں کو خندہ پیشانی سے سلام کرنا صدقہ ہے‘‘۔ اس حدیث کی سندمیں اگرچہ کچھ ضعف ہے لیکن مسلم کی صحیح روایت کہ ’’ہربھلائی صدقہ ہے‘‘ جامع ہے جو اس حدیث کے مضمون پر بھی حاوی ہے اور اس مضمون کی دوسری بہت سی احادیث بھی ہیں۔ اس لیے یہ روایت بھی معتبر شمار ہوگی۔ ترمذی میں حضرت ابوذرؓ کی اسی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے: ’’جنگل و بیابان میں ناواقف کو راستہ بتلا دینا بھی صدقہ ہے‘‘۔
ان احادیث سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ تعلیم دینا، رہنمائی کرنا، بھلائی کا حکم کرنا، منکر سے روکنا صدقہ ہے۔ پس جو آدمی لٹریچر کے ذریعے خلقِ خدا کی تعلیم و تربیت، رہنمائی، غلبۂ اسلام کی کوشش کرے گا وہ صدقۂ جاریہ میں مال خرچ کرے گا۔ اسے مال خرچ کرنے کا ثواب بھی ملے گا کہ یہ مالی صدقہ ہے، اور تعلیم و رہنمائی کا اجر بھی ملے گا کہ یہ بھی صدقہ ہے۔ واللّٰہ اعلم!(مولانا عبدالمالک)
س : میرے زرعی رقبے میں ٹیلی فون ٹاور نصب ہوا ہے، شاید اس پر بھی زکوٰۃ ہو، مگر مجھے علم نہیں کہ اس پر زکوٰۃ کیسے ادا ہوگی؟ معاہدہ اس طرح ہوا ہے ۷۲ہزار سالانہ اور ہرسال ۶ فی صد اضافہ ہوگا اور اس میں اپنا خرچ اور گورنمنٹ کا ٹیکس وہ کاٹ لیں گے۔ اس دفعہ انھوں نے کٹوتی کے بعد۷۲ ہزار کے بجاے ۶۸ہزار روپے دیے ہیں۔ سردست میں مقروض بھی ہوں۔ اسی طرح دکانوں اور مکانوں کا کرایہ، یا ایسے پلاٹ جو بغرضِ کاروبار خریدے گئے ہوں، ان پر کب اور کس طرح زکوٰۃ ادا کی جائے؟
ج : ٹاور پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اس سے آپ کو جو رقم ملے، اگر قرض سے زائد ہو تو اس پر زکوٰۃ دے دیں بشرطیکہ کرایے کی رقم قرض کی ادایگی کے بعد اس قدر زیادہ ہو کہ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، یا مزید رقم جو آپ کے پاس بچی ہوئی ہو اُسے بھی ساتھ ملا دیا جائے، اور اگر مجموعی رقم پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو تو ایسی صورت میں زکوٰۃ دی جائے گی۔ پلاٹوں کی سال بہ سال قیمت لگائی جائے اور پس انداز کی ہوئی رقم کے ساتھ ملا کر اس کی زکوٰۃ بھی ادا کی جائے۔(ع-م)
سوال: ۱- کیا میڈیکل دواساز کمپنیوں کی رقم سے کوئی ڈاکٹر انفرادی دائرے میں جہاز کا ٹکٹ‘ گاڑی‘ نقد رقم‘ ہوٹل میں قیام کے اخراجات‘ ان کی گاڑی کا استعمال‘ بال پوائنٹ یا ان کی دعوتوں سے استفادہ کرسکتا ہے ‘ کیا یہ جائز ہے؟
۲- اجتماعی دائرے میں کارخیر کے لیے رقم‘ مریض کے لیے دوا‘ علمی اجتماعات کا انعقاد‘ سیمی نار یا علمی و تحقیقی کاموں کے بین الاقوامی پروگرامات میں اسپانسرشپ لی جاسکتی ہے۔
۳- بازار میں ایک ہی دوا مختلف کمپنیوں کی طرف سے مختلف قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہے۔ کیا مہنگی دوا لکھی جاسکتی ہے‘ جب کہ مؤثر سستی دوا موجود ہو۔ کیا اثرانگیزی کی بنا پر مہنگی دوا لکھی جاسکتی ہے۔ اس میں گناہ کا احتمال ہے یا نہیں؟
جواب: قرآن کریم کے ہدایت اور خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے [وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ o القلم ۶۸:۴] کا واضح مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے مختلف دائروں میں جن کا تعلق چاہے معیشت سے ہو یا معاشرت سے‘ سیاست سے ہو یا عبادات سے‘ تعمیراتی منصوبوں سے ہو یا ایک طبیب‘ استاد یا اہلِ فن کے معاملات کے ساتھ‘ ہرہر شعبۂ حیات میں اصولِ اخلاق اور ان کی تطبیق کے لیے رہنمائی پائی جائے۔ اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر مسکراہٹ اور ہرہر عمل کو اسوۂ حسنہ قرار دے کر‘ ہمیں یہ دعوت دی گئی کہ آپ کے اسوہ اور قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے روزمرہ کے معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔
انسانی جان اور دین کا تحفظ و بقا‘ دو اوّلین مقاصد شریعہ ہیں اور اس لحاظ سے ایک مسلم طبیب کے لیے نہ صرف جان بلکہ دین کے حوالے سے بھی مناسب معلومات رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰ویں صدی کی تحریکِ احیاے دین کے زیراثر سیکڑوں‘ ہزاروں مسلم اطبّا دنیا کے ہرگوشے میں جدید طبی مسائل کے حوالے سے مشاورت‘ سیمی نار اور کانفرنسوں کے ذریعے ان مسائل کے حل میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری نہ صرف علماے کرام کی ہے‘ بلکہ یکساں طور پر ان مسلم اطبّا کی بھی ہے جو دین کا فہم رکھتے ہوں اور شریعت کے اصولوں سے آگاہی رکھتے ہوں۔ ان مسائل کا دیرپا حل اسی وقت ممکن ہے جب طب کی تعلیم کے دوران ہرمسلم طالب علم کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے اتنا آگاہ کردیا جائے کہ وہ حلال و حرام کے فرق کو خود سمجھ سکے اورقرآن و سنت کے واضح اصولوں کو خود استعمال کرتے ہوئے نئے راستے نکال سکے۔
ان اصولوں میں سے دو بنیادی اصول حفظ نفس اور حفظ دین ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو دین کی بنیاد جن اصولوں پر ہے‘ وہ ہر مسئلے پر ہماری رہنمائی کرتے ہیں یعنی توحید اور عدل۔
اگر ایک دواساز کمپنی ایک طبیب کو بیرون ملک تفریح کے لیے ٹکٹ‘ رہایش فراہم کرتی ہے تو ظاہر ہے اس کا مقصد کسی مریض کی فلاح یا کسی علمی تحقیق کے ذریعے انسانیت کی جان بچانا نہیں ہوسکتا۔ اس کا واضح مقصد اس طبیب کو ممنون احسان بنا کر اپنی دوا کی زیادہ فروخت اور شہرت ہی ہوسکتا ہے جو بظاہر رشوت اور شہادتِ زُور سے مماثلت کی بنا پر جائز اور حلال قرار نہیں دیا جاسکتا اور اسلامی شریعت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی شمار ہوگا۔ اس لیے وہ بیرون ملک سفر کی سہولت ہو یا ذاتی استعمال کے لیے کار کی فراہمی‘ نقد رقم یا دیگر سہولیات کی فراہمی‘ ان میں سے کسی بھی سہولت کو جائز نہیں کہا جا سکتا۔
حد سے حد جس چیز کو گوارا کیا جاسکتا ہے‘ وہ کسی دوازساز کمپنی کی طرف سے تقسیم کیے گئے بال پوائنٹ قلم‘ جس کی بنا پر کوئی طبیب کسی دواسازکمپنی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور جسے اپنی مالیت اور معاوضہ نہ ہونے کی بنا پر رشوت نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز میں بہت سے تجارتی ادارے اوقات سحروافطار طبع کر کے عام فائدے کے لیے تقسیم کرتے ہیں اور گو اس پر ان کے ادارے کا نام چھپا ہوتا ہے لیکن اصل مقصد عوام الناس کو ایک سہولت دینا ہے اور محض اس بنا پر کوئی ان کی دکان سے اشیا نہیں خریدتا۔
سوال کا دوسرا پہلو اجتماعی فوائد یا مصالح عامہ سے ہے‘ یعنی اگر ایک دواساز کمپنی ایک تعلیمی ادارے کو ایک بڑی رقم اس غرض سے دیتی ہے کہ کسی مہلک مرض کے علاج کے لیے تحقیق کروائی جائے اور اس غرض سے محققین کی ایک ٹیم کی تنخواہیں‘ یا لیبارٹری کا قیام‘ یا ایک سائنسی سیمی نار کے انعقاد کے ذریعے اس مرض کے علاج کے راستے دریافت کیے جائیں تو اس صورت میں یہ رقم نہ تو رشوت شمار ہوگی اور نہ اس کی بنا پر محققین شہادتِ زور کے مرتکب ہوں گے۔ ہاں اگر ان محققین کو اس غرض سے رکھا جائے کہ وہ کمپنی کی تیار کردہ کسی دوا کی تعریف و تحسین کریں اور نتائج میں یہ بات دکھائیں کہ یہ دوا دیگر ادویات کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے جب کہ حقیقتِ واقعہ یہ نہ ہو تو اس کا یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی اور رشوت اور شہادتِ زور کی تعریف میں آئے گا۔ یہاں معاملہ محض نیت کا نہیں ہے‘ بلکہ ہردوجانب سے شفاف طور پر تحقیق کی نوعیت اور مقاصد کا ہے۔
اگر ایک دواساز کمپنی اپنے منافع کا ۱۰ فی صد حصہ صرف اس کام کے لیے مخصوص کرتی ہے کہ وہ کسی خاص مرض یا کسی خاص دوا کی اثرانگیزی پر تحقیق کرائے گی اس سے قطع نظر کہ وہ دوا اس کی اپنی ساختہ ہو یا محض کیمیائی طور پر تیار کی گئی ہو تو اس رقم کا استعمال مصلحت عامہ کے اصول کی بنا پر جائز اور حلال ہوگا۔ لیکن اگر وہ مشروط طور پر یہ کام کرائے‘ یا اس کا اصل مقصد یہ ہو کہ اس کی دوا دوسروں کے مقابلے میں برتر ثابت کی جائے جب کہ دیگر ادویات بھی ویسی ہی اثرانگیزی رکھتی ہوں تو یہ ایک ناجائز اور غیراخلاقی کام ہوگا جس کی اسلامی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں۔
شریعت ایک عمل کے حرام یا حلال ہونے کے ساتھ اُس عمل کے طریقے کو بھی یکساں اہمیت دیتی ہے اور حصولِ مقصد کے لیے جو ذرائع استعمال کیے جائیں‘ وہ بھی اخلاقی اور قانونی لحاظ سے معروف اور بھلائی پر مبنی ہونے چاہییں۔ کسی کام کے لیے اچھی نیت کے بعد اگر ذریعہ منکر اختیار کیا جائے توو ہ کام اچھا نہیں بن سکتا‘ اس لیے طبی اخلاقیات میں بھی ہمیں مقصد اور ذرائع دونوں کو اخلاق کا تابع بنانا ہوگا۔
مصلحت عامہ کے لیے کسی ادارے سے غیرمشروط طور پر امداد لے کر علمی اجتماعات کا منعقد کرنا‘ یا مریضوں کے لیے اُس رقم سے ادویات حاصل کر کے نادار افراد کی مدد کرنا‘ یا ان کی طبی سہولت کے لیے اس رقم سے ایمبولینس خریدنا وغیرہ مقصد اور ذریعہ دونوں کے پیش نظر حرام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اگر کوئی ادارہ اس قسم کی کسی امداد کے بغیر خود اپنے وسائل سے کام کرسکتا ہے تو لازماً یہ افضل ہے لیکن اگر غیرمشروط طور پر کوئی دواساز کمپنی کسی اجتماعی رفاہی کام کے لیے کوئی رقم مخصوص کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ کسی بدلے کی توقع نہیں کرتی تو اس میں اخلاقی طور پر کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔
بازار میں ایک ہی نسخے سے تیار کردہ مختلف ناموں سے پائی جانے والی ادویات میں بعض اوقات تو کسی ایک عنصر کے تناسب یا اضافے کی بنا پر‘ اگر وہ اضافہ کرنا طبی طور پر ضروری ہو‘ دوا کی قیمت میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقی بھی ہوسکتا ہے اور مصنوعی بھی۔ لیکن اگر اجزا ایک ہیںاور کمپنی کی شہرت کی بنا پر وہ اپنی شہرت کی قیمت وصول کر رہی ہے تو ایک مسلم طبیب کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے مریض کا مفاد دیکھے یعنی یہ کہ اس کی صحت اور جان کے تحفظ کے لیے کون سی دوا زیادہ بہتر ہے‘ چاہے اس کی قیمت دوسری دوا سے ۵۰فی صد کم ہی کیوں نہ ہو۔
بعض اطبا کا یہ خیال کہ اگر وہ مریض کو ایک مہنگی دوا دیںگے تو نفسیاتی طور پر وہ زیادہ مطمئن ہوگا‘ یہ ایک غیراخلاقی فعل ہے۔ دوا کے اجزا اگر یکساں ہوں تو لازمی طور پر ایک کم قیمت دوا کا لکھنا افضل ہے۔ شریعت کا معروف اصول حفظِ مال کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کے مال کو ناجائز طور پر نقصان نہ پہنچایا جائے۔ ایک طبیب یہ جانتے ہوئے کہ ایک اینٹی بائیوٹک کم قیمت ہے اور ایک محض کسی کمپنی کی شہرت کی بنا پر اس سے ۷۰ فی صد زیادہ مہنگی ہے‘ اگر مہنگی دوا تجویز کرتا ہے تو یہ مریض کے مال کو نقصان پہنچانا ہے اور مقاصدِ شریعت سے ٹکراتا ہے۔ ہاں یہ یقین کرنے کی ضرورت ہوگی کہ ایک کم قیمت دوا کے اجزاے عنصری وہی ہوں جو مرض کی اصلاح کے لیے ضروری ہیں۔
اگر تحقیق سے یہ بات معلوم ہو کہ ایک دوا اپنی اثرانگیزی میں دوسری کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ہوگی لیکن قیمتاً مہنگی ہے‘ جب کہ دوسری قیمتاً کم ہے اور اثرانگیزی میں بھی کم ہے تو طبیب کو فقہی اجتہاد کرنا ہوگا کہ کیا مرض کی نوعیت سرعت کے ساتھ علاج کی متقاضی ہے‘ یا ایک ہلکا اثر کرنے والی دوا بجاے دو دن میں اثر دکھانے کے تین دن میں اثر دکھا دے گی اور اس سے مریض کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یہ اس کا اجتہاد محض اپنے طبی تجربے کی بنیاد پر ہوگا اور ایسا کرتے وقت وہ اللہ کو حاضر جان کر یہ طے کرے گا کہ کون سی دوا تجویز کرے۔ دراصل ہرطبی راے ایک ذمہ دار اور اجتہادی راے کا مقام رکھتی ہے اور ایک مسلم طبیب کو شریعت کے بنیادی اصولوں سے اتنا آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر اور علم کی بنیاد پر موقع ہی پر اس طرح کے اجتہادی فیصلے کرسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: میں ایک مخدوم (پیر) گھرانے میں بیاہی گئی جس کی عزت اور شرافت کے ڈنکے بجائے جاتے ہیں۔ نیک نامی کا سہرا پشتوں سے سر پر سجا آرہا ہے مگر ان کے مردوں کے طور اطوار اپنی بیویوں کے لیے غیرمہذب اور ظالمانہ ہیں۔ گھر سے باہر اور گھر کے اندر‘ دوسروں کے لیے اور بیوی کے لیے علیحدہ علیحدہ چہرے ہیں۔ انتہائی گھنائونے کردار کے مالک یہ مرد کتنی عورتوں کی عصمتوں پہ ڈاکے ڈالتے ہیں مگر گھر کی عورتیں ایک معمول کا کام سمجھ کر خاموش رہتی ہیں‘ بلکہ خاموش رکھی جاتی ہیں۔ نسل در نسل یہ ظلم کا کھیل جاری ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی عام گھرانوں میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے جہاں جذباتی صدمے عورت کا مقدر ہیں۔ گھر کے کسی فرد سے کچھ دادرسی کی کوشش کرو تو ’مرد ایسے کرتے ہی ہیں‘ کہہ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ کیا مادی ضروریات پوری کرکے عورت کے حقوق پورے ہوجاتے ہیں؟ میں اسلامی معاشرے میں مرد کی ذمہ داریاں بحیثیت شوہر اور عورت کے حقوق کے بارے میں جانتی ہوں بلکہ سب جانتے ہیں مگر یہ حقوق و فرائض کیا صرف کتابوں تک محدود ہیں۔
کیا مرد کا یہ فلسفہ قابلِ قبول ہے کہ گھر کے باہر کا وقت اس کا اپنا ہوتا ہے‘ جو چاہے کرے‘ جہاں چاہے جائے؟ کیا یہ نکاح کے معاہدے کی خلاف ورزی اور خیانت نہیں؟ کیا رنگین مزاجی کسی مرد کی ایسی عادت ہے کہ وہ اس سے عمر کے کسی حصے میں بھی چھٹکارا نہ پاسکے؟ اس کو فطرت کا حصہ سمجھ کر خود کو معذور جانے کہ چھٹکارا مشکل ہے؟
اسلام خاندانی نظام کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ مصائب دنیا کے بعد آخرت میں کامیابی ہوجائے تو بُرا سودا نہیں۔ اچھی امید پر میں نے ایک مدت گزاری ہے مگر اب میری ہمت جواب دے گئی ہے۔شادی کے ۳۰ سال بعد بھی ایک باوفا‘ نیک نیت بیوی کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ زبان اور ہاتھ کے رویے‘ جذباتی صدمے‘ کیا کچھ میں نے برداشت نہیں کیا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ دوسروں کے استفسار پر پردہ پوشی کی۔ بچوں کے باپ ہونے اور شوہر ہونے کی لاج رکھی۔ ان کی وجہ سے بچوں کے رشتوں میں کتنی مشکل اٹھائی۔ ان کے رویے اور کردار سے معاشرے میں میری بھی رسوائی ہوئی۔ میں نے سب اچھی امید اور بڑھاپے میں تو سکون ہوگا‘ کی توقع کے ساتھ برداشت کیا۔ اب میں کہاں کھڑی ہوں؟ اللہ سے تو ان شاء اللہ اجر کی پوری امید ہے___ کیا اب خلع لوں؟
عورت کی داد رسی کے لیے قرآن و حدیث کے حوالے سے رہنمائی دیجیے۔
ج: ظلم بھری داستان پڑھ کر صدمہ ہوا۔ جس خاندان کو دین کے نام پر عزت ملی ہو‘ اس کی طرف سے دین کی حرمت پامال کی جائے‘ عصمت و عفت کی چادر کو تار تار کردیا جائے‘ اپنے گھروالوں کی عزتِ نفس اور حقوق پامال کیے جائیں‘ یہ تو دوہرا ظلم ہے۔
نکاح کا مقصد نسلِ انسانی کو پھیلانے میں اپنے حصے کا فرض ادا کرنا ہے۔ نکاح کے ذریعے عصمت و عفت کا سامان ہوتا ہے اور خاندانی نظام وجود میں آتا ہے جو محبتوں کے حصار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماں باپ‘ دادادادی‘ نانا نانی‘ بیٹا بیٹی‘ پوتا پوتی‘ نواسا نواسی‘ بہن بھائی‘ چچا تایا‘ ماموں‘ خالہ‘ پھوپھی وغیرہ خاندانی رشتے‘ سب محبت کے رشتے ہیں۔ ان رشتوں کے ذریعے انسان کو سکون اور راحت ملتی ہے اور وہ اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھتا ہے۔ ان سب رشتوں کی اساس میاں بیوی کا رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً ج وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا o(النساء ۴: ۱) اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو‘ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
یہ خاندانی نظام اور رشتے اسی وقت قائم رہ سکتے ہیں‘ جب کہ نکاح مرد اور عورت دونوں کو پاک باز بنا دے۔ عفت و عصمت عورت ہی کے لیے نہیں‘ بلکہ مرد کے لیے بھی ضروری ہے۔ مرد اگر رنگین مزاج ہو‘ آوارہ عورتوں کو کھلاتا پلاتا اور ان کے ذریعے شہوت کی تسکین کرتا ہو تو اس کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوں گے‘ ان کی ماں تو ہوگی لیکن باپ نہ ہوگا۔
نکاح سے پہلے اگر کوئی بالغ مرد اور بالغ عورت زنا کی مرتکب ہو تو اس کی سزا ۱۰۰ کوڑے ہیں‘ اور نکاح اور شادی کے بعد کوئی اس کا ارتکاب کرے تو اس کی سزاسنگساری ہے۔ جو مرد نکاح کے بعد رنگین مزاجی کا مظاہرہ کرتا ہے‘ وہ درحقیقت اپنی بیوی کی عزت و حرمت اور جذبات کو بھی پامال کرتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں اس کے لیے کڑی سزا رکھی گئی ہے۔ اگر اس کے خلاف زنا کے چار چشم دید گواہ موجود ہوں‘ یا وہ اس کا اقرار کرے تو اس کی سزا رجم ہے‘ اور اگر چار عینی گواہ یا اقرار نہ ہو لیکن ایک دو گواہ موجود ہوں‘ یا قرائن موجود ہوں‘ تو عدالت اسے تعزیری سزا دے گی اور کوڑے لگائے گی۔ اگر یہ قانون نافذ العمل ہو اور حکومت ایسے ہاتھوں میں ہو جو اس قانون کو نافذ کرنے والے ہوں تو پھر خواتین پر نام نہاد شرفا ظلم نہ کرسکیں۔
آپ جیسی مظلوم خواتین کو موجودہ قانون‘ قانون نافذ کرنے والے‘ حکومت اور عدالتیں تو انصاف فراہم نہیں کرسکتیں۔ رہی سوسائٹی تو وہ بھی بقول آپ کے ظالم مردوں کے ظلم کے لیے تاویلیں تلاش کرتی ہے‘ لیکن وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ شرفا کو چاہیے کہ اپنے خاندان کے رنگین مزاجوں کو نصیحت اور تنبیہہ کے ذریعے راہِ راست پر لائیں‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں‘ انھیں آخرت کے عذاب سے ڈرائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر زناکار مردوں اور عورتوں کے ہولناک مناظر دیکھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ ایک تنور ہے جس میں مرد اور عورتیں ہیں۔ جب آگ کے شعلے اُوپر کو اُٹھتے ہیں تو یہ اوپر آجاتے ہیں‘ اور جب شعلے نیچے چلے جاتے ہیں تو یہ مرد و عورت بھی تنور میں نیچے چلے جاتے ہیں۔ جبرئیل ؑ سے آپؐ نے پوچھا کہ یہ مرد اور عورتیں کون ہیں؟ جبرئیل ؑ نے جواب دیا کہ زناکار مرد اور عورتیں ہیں۔ (بخاری)
آخرت کے عذاب سے ڈرانا اور اصلاح کرنا فرض ہے۔ جس معاشرے میں یہ کام نہ ہو‘ لوگ آزادی سے گناہ کے مرتکب ہوں‘ مجرم اور خاموش معاشرہ دونوں پر عذاب کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسلام ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مجرم کو قانون کی گرفت میں آنے اور معاشرے میں ذلیل و رسوا ہوجانے کا خدشہ ہو۔اسے احساس ہو کہ اگر قانون کی تلوار سے بچ گیا تو معاشرے ذلت و رسوائی سے نہیں بچ سکے گا۔ اس لیے ایک دو دفعہ جرم کا ارتکاب تو شاید کرے لیکن عادی مجرم بن کر زندگی نہیں گزار سکتا۔
ہمارا موجودہ معاشرہ جاہلی معاشرہ ہے۔ اس لیے یہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پامال ہوتے ہیں۔ آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ جہاں عورت بے حیائی اور خیانت کی مرتکب ہو تو مرد غیرت کھاتا ہے۔ اسی طرح بعینہٖ اگر مرد بے حیائی اور بدکاری کا مرتکب ہو تو عورت غیرت کھاتی ہے۔ آپ یا دوسری خواتین کا اپنے رنگین مزاج شوہروں پر غیرت کھانا بالکل جائز ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آپ کا احساس اور تکلیف بجا ہے۔ زندگی بھر تکلیف میں گزار دی‘ شوہر کو نہ قانون نے روکا‘ نہ معاشرے نے۔ دونوں نے اپنا فرض ادا نہ کیا۔ نفسانی خواہشات پوری کرنے کا شوق تو لوگوں کو بہت ہے لیکن جب کل بازپُرس ہوگی اور سزا سنائی جائے گی تو اس وقت ہوش اُڑ جائیں گے۔ لیکن اُس وقت پچھتانے اور واویلا کرنے کا کیا فائدہ؟
آپ کے سامنے کئی راستے ہیں: ایک یہ کہ جوانی میں تکلیف دہ زندگی بسر کرلی تو اب بڑھاپے میں اپنی عزت‘ اولاد کی حفاظت کی خاطر مزید صبر کریں۔ شاید اسی صبر کی بدولت آپ کے شوہر کو ہدایت نصیب ہوجائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت کی طرف رجوع کرکے طلاق حاصل کرلیں اور پھر عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرلیں (اگرچہ ہمارے معاشرے میں نکاح جیسے جائز کام کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اسے بے عزتی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر مناسب رشتہ ملے تو اسے بے عزتی سمجھنے کے بجاے عزت سمجھنا چاہیے۔ اولاد کو بھی اس میں رکاوٹ ڈالنے کے بجاے حمایت کرنا چاہیے۔ یہ شرم کی بات نہیں ہے)۔ تیسری صورت یہ ہے کہ پنچایت کے ذریعے شوہر کی اصلاح کریں‘ یا طلاق حاصل کرلیں۔
ان تینوں صورتوں میں سے کون سی صورت اختیار کرنا بہتر ہے؟ یہ آپ کے سوچنے کا کام ہے۔ جلدبازی نہ کیجیے۔ خوب سوچ سمجھ کر اور قریبی رشتہ داروں سے مشورہ کرکے کوئی ایک صورت اختیار کرلیں۔ ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ہماری ناقص راے میں پہلی صورت بہتر ہے۔ اس میں آپ یہ اضافہ کرسکتی ہیں کہ معاشرے کے اچھے‘ بااثر لوگوں کے ذریعے شوہر پر دبائو ڈال کر اس کی اصلاح کی کوشش بھی کریں۔ واللّٰہ اعلم (مولانا عبدالمالک)
سوال: میرے شوہر کے تایا قادیانی (مرتد) ہوگئے تھے‘ اور اب اُن کی اولاد بھی قادیانی ہے۔ جب سے پروردگار نے ہدایت دی ہے‘ ہم لوگوں کا ان سے میل جول نہیں ہے۔گذشتہ دنوں میرے شوہر اپنے بھائیوں کے ساتھ گائوں گئے‘ تو وہاں موجود قادیانیوں کے گھر بھی تعزیت کے لیے گئے۔ جب مجھے پتا چلا کہ میرے شوہر کسی قادیانی کے گھر گئے ہیں تو مجھے بہت افسوس ہوا کہ یقینا یہ اُن کو اپنا رشتے دار سمجھتے ہوئے تعزیت کے لیے گئے ہوں گے۔ میرے شوہر کا موقف ہے کہ اُن کے تایا مرتد تھے لیکن اُن کی اولاد کا کیا قصور‘ وہ تو اُن کی ڈگر پر ہی چل رہی ہے‘ وہ مرتد نہیں‘ اور یہ کہ اسلام کافروں‘ عیسائیوں وغیرہ سے ملنے سے نہیں روکتا۔ اچھا سلوک تو ہرکسی سے کرنے کا حکم ہے‘ خواہ وہ قادیانی ہو یا کوئی بھی غیرمسلم۔ میرے میاں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے فاتحہ نہیں پڑھی‘ صرف افسوس کرنے گئے تھے۔ اس ضمن میں شرعی نقطۂ نظر واضح فرما دیں تاکہ ان جیسے پڑھے لکھے اور سادہ لوح مسلمان کسی غلط فہمی کی بنا پر اپنی آخرت نہ خراب کر بیٹھیں۔
جواب: آپ کا دینی جذبہ قابلِ قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر آپ کو برکت اور اجر عطا فرمائے۔ آمین!
مرتد‘ کافر و مشرک اور زندیق کے لیے دعاے مغفرت نہیں کی جاسکتی‘ اور اس کے فوت ہونے پر غم کا اظہار بھی نہیں کیا جاسکتا‘ البتہ یہ کلمات کہے جاسکتے ہیں: ’’کاش! وہ ایمان کے ساتھ رخصت ہوتا‘‘۔ آپ کے شوہر نے ان کے لیے دعاے مغفرت نہیں کی‘ اچھا کیا۔
اس سلسلے میں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ :
۱- کفار سے موالات ناجائز ہے۔ موالات کا معنی دلی دوستی اور دلی محبت اور ان کے ساتھ رشتے ناتے اور شادی غمی میں شرکت ہے کہ ان کی خوشی کو اپنی خوشی اور ان کے غم کو اپنا غم سمجھنا___ ایسا کرنا صحیح نہیںہے۔
۲- ’مواساۃ‘ ہمدردی و غم گساری‘ بھوکوں کو کھانا کھلانا‘ پیاسوں کو پانی پلانا‘ بیماروں کا علاج کرنا‘ یہ ایسے کافروں کے ساتھ ہوسکتا ہے جن کے ساتھ برسرِ جنگ نہ ہوں اور جن سے دشمنی نہ ہو۔
۳- مدارات‘ رواداری‘ خوش اخلاقی‘ یہ تمام کفار سے ہوسکتی ہے بلکہ ہونی چاہیے تاکہ وہ متاثر ہوں‘ ہمارے ساتھ دشمنی نہ کریں اس لیے کہ جب دشمنی ہوجاتی ہے تو پھر تبلیغ کا اثر نہیں ہوتا۔ کفار چاہے مرتد نہ ہوں‘ ان سے برادرانہ مراسم نہیں رکھنے چاہییں۔ صرف خوش اخلاقی اور رواداری سے پیش آنا چاہیے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ کے شوہر کے تایا مرتد ہوگئے‘ ان کی اولاد کا کیا قصور ہے‘ وہ مرتد نہیں‘ درست نہیں ہے۔ ان کی اولاد منافقین اور زندیق کے حکم میں ہے۔ وہ اپنے کفر کو اسلام قرار دے کر دھوکا دہی کے مرتکب ہیں۔ یہ بھی ارتداد کی طرح کا جرم ہے۔ ان کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ اور تعلق رکھنا جائز نہیں ہے جس کے سبب لوگ ان کو مسلمان سمجھیں یا ان سے مسلمانوں کا سا معاملہ کریں۔ ان سے تعلق ’مدارات‘ تک رہنا چاہیے جسے رواداری اور خوش اخلاقی کہا جاسکے۔ اظہار افسوس اور دعاے مغفرت درست نہیں ہے۔ البتہ آپ کے شوہر نے جو اظہار افسوس کیا اس میں وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ ہمیں افسوس ہے کہ قادیانیت پر ایمان کی حالت میں فوت ہوگیا اور اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو دائرۂ اسلام میں آنے کی توفیق دے۔
خیال رہے کہ محض آنا جانا منع نہیں ہے‘ جب کہ مقصد برادرانہ تعلق قائم کرنا نہ ہو بلکہ صرف رسمی تعلق قائم کرنا ہو‘ تا کہ ان کو دائرۂ اسلام میں لانے کی کوشش کی جاسکے اور سمجھا بجھا کر راہِ ہدایت پر ڈالا جاسکے۔
آپ اپنے شوہر کی موجودہ حالت پر زیادہ پریشان نہ ہوں‘ انھوں نے ان سے برادرانہ تعلق قائم نہیں کیے‘ دعاے مغفرت نہیں کی‘ البتہ افسوس کا طریقہ ان کو نہیں آتا تھا۔ اس وضاحت کے بعد ان پر حقیقت اجاگر ہوجائے گی۔ (مولانا عبدالمالک)
س: میرے بڑے بیٹے کی شادی اُس کی والدہ اور نانی‘اُس کی خالہ زاد سے کرنا چاہتی تھیں‘ لیکن میرا بیٹا اس پر رضامند نہ ہوا اور اُس کی خالہ زاد کی شادی کہیںاور ہوگئی۔ اب میرا بیٹا اپنی پھوپھی زاد سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اپنے دوستوں کے ذریعے اُس نے یہ بات مجھ تک اور اپنی والدہ تک پہنچائی بھی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ بنا کہ اُس کی نانی صاحبہ اور ماموں صاحب نے سخت مخالفت شروع کر دی اور اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ میری بیوی سخت الجھن میں ہے۔ ایک طرف اُس کے میکے والے ہیں اور دوسری طرف بیٹا اور اُس کی خواہش۔
بیٹے کی والدہ گناہ کے ڈر سے اپنی والدہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن میرے خیال میں اسلام نے ہر فرد کو خواہ وہ اولاد ہو‘ بیٹا یا بیٹی ہی کیوں نہ ہوں‘ شادی کے معاملے میں اپنی خواہش اور مرضی کے اظہار کی اجازت دی ہے اور والدین کے لیے اولاد کی خوشی کو مدنظر رکھنا حکمت کا تقاضا ہے۔ سوال یہ ہے کہ میرے سسرال والوں کی ضد کیا عصبیت جاہلیہ کے شمار میں نہیں آتی؟ میرے اور میری اہلیہ کے لیے صحیح طرزِعمل کیا ہے؟ اگر میری بیوی بحیثیت والدہ بیٹے کو حکم دیتی ہے کہ وہ یہ خیال چھوڑ دے اور پھر وہ نہ مانے یا مان تو لے لیکن اپنے دل میں بوجھ بنا بیٹھے‘ کیا ایسا اُس کے لیے کرنا والدہ کی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ نیز کیا میں قطع رحمی کا مرتکب تو نہ ہوجائوں گا؟
ج: آپ نے اپنے بیٹے کے عقد نکاح کے بارے میں جو سوال کیا ہے‘ اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح کے مسئلے میں عقد میں منسلک ہونے والوں کی رضامندی دوسری رضامندیوں پر فائق ہے۔ آپ کا بیٹا اگر اپنی پھوپھی زاد سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے۔ نانی صاحبہ اور ماموں صاحب کے پاس اگر ایسا دوسرا رشتہ نہیں ہے جو آپ کے بیٹے کو پسند ہو تو پھر انھیں پھوپھی زاد سے شادی میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہیے۔ وہ اگر ناراضی کا اظہار کریں یا ناراض ہوجائیں تو اس میں آپ کے بیٹے یا آپ کا اور آپ کی اہلیہ کا کوئی قصور نہیں ہے‘ اور یہ قطع رحمی نہیں ہے کہ آپ اپنے بیٹے کی پسند کے مطابق اس کی شادی کردیں۔ نانی صاحبہ اور ماموں صاحب کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔
لڑکی کے نکاح کے لیے والد کی رضامندی ضروری ہے لیکن اختلاف کی صورت میں لڑکی کی رضامندی فائق ہوگی‘ بشرطیکہ لڑکی کی رضامندی سے باپ یا خاندان کی عزت میں فرق نہ آتا ہو کہ وہ کسی گھٹیا شخص سے شادی کرنا چاہے۔ لڑکے کے بارے میں تو والد کی رضامندی کو بھی ضروری قرار نہیں دیا گیا‘ اس کے لیے ولی کی رضامندی کی شرط نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات اسلامی معاشرے میں معروف چلی آئی ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کی شادی والد کی ذمہ داری ہے‘ اورحدیث میں اس کا ذکر بھی ہے کہ بالغ ہونے کے بعد شادی کرانا والد کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام والدین اور خاندان کی رضامندی سے ہوتا ہے اور سب کو اس سے خوشی ہوتی ہے۔ لہٰذا لڑکے یا لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کرنا یا ان پر دبائو ڈالنا درست نہیں ہے۔ آپ کو چاہیے کہ نانی اور ماموں کو خاندان کے بااثر لوگوں کے ذریعے لڑکے کی مرضی کے مطابق شادی کرنے پر راضی کریں اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو آپ کی اہلیہ اور آپ کے بیٹے پر اس شادی کے کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔
اگر شریعت کے مطابق کام کیا جائے تو پھر قطع رحمی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ صلہ رحمی اور قطع رحمی کا دائرہ شریعت نے مقرر کردیا ہے۔ اگر ’نکاح‘ کے مسئلے میں تمام لوگوں کی رضامندی برابری کے درجے میں ہو تو پھر تو کبھی بھی کوئی نکاح نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے شریعت نے اس کے لیے معیار اور ضابطہ مقرر کردیا ہے جو تمام نزاعات کے خاتمے کا ذریعہ ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں: فَاِنْ تَشَاجَرَا فَاسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَن لَا وَلِیّ لَہٗ ، اگر لڑکی اور ولی میں اختلاف پیدا ہوجائے تو پھر عدالت اس کی ولی ہے جس کاکوئی ولی نہیں۔ گویا ایسی صورت میں عدالت لڑکی کے حق میں فیصلہ دے گی اور ولی کو اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ لڑکی کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کرے۔ رہا لڑکا تو وہ تو بدرجۂ اولیٰ اس کا مستحق ہے۔ وہ ولی کا قانوناً نہیں بلکہ اخلاقاً پابند ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
سوال: میرے شوہر ایک سخت مزاج اور تنہائی پسند انسان ہیں۔ انھیں میرا خواتین سے زیادہ ملنا جلنا بھی پسند نہیں۔ ہم لوگ دیارِغیر میں ہیں جہاں انسان ویسے ہی تنہائی اور ڈپریشن کا شکار رہتا ہے۔ میرے چار بچے ہیں‘تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ جب سب سے چھوٹی بیٹی اسکول جانے لگی تو تنہائی کی وجہ سے مجھے زیادہ ہی ڈپریشن ہونے لگا۔ تنہائی اور دیگر وجوہ کے علاوہ ایک وجہ دوسرے لڑکے کی خواہش بھی تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے بچے کی خواہش کا ذکر کیا تو انھوں نے سختی سے ڈانٹ دیا۔ میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتی تھی جو میں نے اپنے شوہر کو بتائے بغیر چھوڑ دیں اور نتیجے میں ہمارے ہاں ایک اور بیٹی پیدا ہوگئی۔ اس بیٹی کی پیدایش کو دو سال ہونے کو ہیں‘ لیکن میرے شوہر نے میری زندگی عذاب بنارکھی ہے کہ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے‘ تم گناہ گار ہو۔اب تو مجھے بھی لگتا ہے کہ جیسے میں گناہ گار ہوں۔ میرا علم بہت محدودہے۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں‘ کیا میں نے ایسا کر کے واقعی کوئی گناہ کیا ہے؟ اگر لڑکا ہوجاتا تو شوہر کا مزاج اتنا نہ بگڑتا لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ میرے شوہر پانچ وقت کے نمازی اور بہت پرہیزگار انسان ہیں لیکن اس بات کو سننا بھی پسند نہیں کرتے کہ بیٹیاں دوزخ کی آگ سے ماں باپ کے لیے ڈھال ہوں گی۔ ہروقت مجھے طعنے دیتے ہیں کہ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ زیادہ بچے پیدا کر کے تم جنت کے زیادہ قریب ہوگئی ہو۔ وہ ایسی کوئی نصیحت یا قرآن کی بات جو ان کے اپنے مفادات کو متاثر کرے‘ سننا پسند نہیں کرتے۔ بعض اوقات میں سوچتی ہوں‘ یہ کیسی نمازیں ہیں جو ایک آدمی کو انسان اور سچا مسلمان نہیں بنا سکتیں۔
بسااوقات خودکشی کا خیال آتا ہے۔ تنگ دستی کے علاوہ بھی بہت سے مسائل انسان کو مرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ خاص طور پر شوہر اور سسرال والوں کے رویے ہمارے معاشرے میں ایک عورت کی زندگی اجیرن کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ کیا کسی بھی قسم کے حالات میں خودکشی کی کوئی صورت نکلتی ہے؟ اگر آپ صبر کی تلقین کریں گے تو کیا اس کی بھی کوئی حد ہے‘ جب کہ میں اپنی ساس کو ۷۰ سال کی عمر میں بھی اپنے سسر کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھتی ہوں۔ اب کوئی کہاں تک صبر کرے؟
جواب: آپ کے سوالات ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بعض ایسے نازک پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں جو بظاہر اسلام کی دعوتِ انقلاب میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلے سوال کا تعلق ہمارے معاشرتی رویوں کے ساتھ ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اچھے خاصے دین دار مرد بھی اپنی نمازوں‘ نفلی روزوں اور قیام اللیل کے باوجود اپنی بیوی اور خاص طور پر بیٹیوں کے حوالے سے منفی اور خلافِ شریعت رویوں کا شکارہیں۔ قرآن کی دعوت رویوں کو تبدیل کرنے کی دعوت ہے کہ انسان کا رویہ اپنے خاندان کے ساتھ کیا ہو اور وہ اللہ کی بندگی کے دعوے کو کس طرح اپنے طرزِعمل سے ثابت کرے۔
خاندان میں بچیوں کی پیدایش پر ہونے والا ردعمل آج سے نہیں قبل اسلام ہی سے ایک معاشرتی مسئلہ رہا ہے۔ قرآن کریم نے انتہائی جامع اور بلیغ انداز میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے… اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘ (التکویر۸۱:۱-۹)۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت آدمؑ کی بیٹی پر جو ظلم قبل از اسلام ہوتا رہا اور جس کی پشت پر مرد کا خودساختہ بڑائی‘ اَنا اور صنفِ نازک کو اپنے سے کم تر سمجھنے کا تصور تھا‘ اس باطل فکر کو ختم کر کے انسانوں کو صحتِ فکری کے ساتھ نیا اندازِ فکردیا جاسکے۔ قرآن کریم نے سورۂ نساء کے آغاز میں انسان کے خودساختہ تصوراتِ برتری جنس کو رد کرتے ہوئے یہ اصول بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے‘ اس لیے ترکیبی طور پر مرد اپنی برتری اور عورت کی کم تری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
پھر ایک قدم آگے جاکر یہ اصول بھی سمجھا دیا کہ فوقیت اور برتری کی بنیاد کیاہوگی: محض جنسی فرق یا تقویٰ اور عملِ صالح؟ ساتھ ہی یہ بات بھی تعلیم فرما دی کہ شوہر بیوی سے اپنا حق مانگتے ہوئے اللہ کا تقویٰ اختیار کرے‘ اللہ کا باغی بن کر اور اس کی ہدایات کی من مانی تاویل کرکے آمر اور جابر نہ بن جائے بلکہ اپنے جائز حق ِ زوجیت کو بھی اللہ کے خوف اور رضا کی بنیاد پر مانگے۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ(النساء ۴:۱) ’’اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو‘ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو‘‘۔
یہ اسلام کا انقلابی کارنامہ تھا کہ اس نے اجتماعیت اور خاندانی زندگی کو عبادت کا درجہ دیا‘ جب کہ غیراسلامی ذہن کل بھی اور آج بھی عبادات سے مراد ذاتی روحانی اعمال لیتا رہا ہے اور عائلی اور معاشرتی معاملات کو اپنے رواج اور روایات کی بنا پر طے کرتا رہا ہے۔ اگر کسی خاندان میں عورت کو گھر کی خادمہ اور شوہر کے پائوں کی جوتی سمجھنے کی روایت رہی ہے‘ تو نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کے باوجود‘ اسلام اس طرزِعمل سے بالکل بری ہے۔
آپ کو اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کو اور آپ کے شوہر کو ایک سے زائد بچیاں دیں۔ اگر ان کی صحیح تربیت کی جائے تو خاتم النبیین‘ صادق الامین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق اس کا اجر جنت کا وعدہ ہے۔ یہ کوئی طفل تسلی نہیں‘ یہ اُس ہستی کا فرمان ہے جس کے لیے قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء ۴:۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ‘ اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی‘‘۔
شریعت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تحفظِ نسل ہے اور سورئہ نساء کی پہلی آیت میں جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے‘ یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ’’ اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے ایک مرد اور عورت سے بہت سے افراد کو زمین پر پھیلا دیا‘‘۔ گویا ازواج کا ایک مقصد اولاد میں برکت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ایسی عورت سے شادی کی جائے جو نیکی میں دوسروں سے بڑھ کر ہو اور جو زیادہ اولاد کا ذریعہ بنے۔ اس لیے آپ کی خواہش کہ ایک سے زائد بچے ہوں‘ ایک جائز خواہش کے ساتھ ساتھ سنت پر عمل کی بنا پر ان شاء اللہ اعلیٰ اجر کا باعث بھی ہوگی۔ اب یہ فیصلہ آپ خود کرلیں کہ جس کام پر اللہ کے رسولؐ خوش ہوں‘ اس کا کرنا اچھا ہے یا شوہر کی ایک ایسی خواہش پوری کرنا جس سے اللہ کے رسولؐ کی خواہش ٹکراتی ہو۔
شوہر کی اطاعت ہو یا والدین کی اطاعت‘ دونوں کے لیے شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا اصول یہ ہے کہ اللہ کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہوگی (لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق)۔ اس لیے آپ کا زیادہ اولاد کی خواہش کرنا شوہر کی نافرمانی میں شمار نہیں کیا جاسکتا‘ نہ اسے دھوکے سے حمل ٹھیرا لینا کہا جاسکتا ہے۔ قرآن وسنت نے شوہر اور بیوی کے تعلق کو سکون‘ لذت اور حصولِ اولادِ صالح‘ تینوں کے مجموعی عمل سے تعبیر کیا ہے۔ یہ رشتۂ زوجیت کے عناصرترکیبی ہیں اور شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق میں شامل ہیں۔ جو چیز حقوق میں شامل ہو‘ اس کا کرنا مقبول‘ اور نہ کرنا مردود ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کے شوہر کو‘ اگر ان کے دل میں خدا کا خوف ہے‘ خدا کے حضور اپنے انجام سے ڈرنا چاہیے۔
آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ ایک کے مقابلے میں تین بچیوں اور ایک بچے کے والدین کی حیثیت سے آپ اور آپ کے شوہر دونوں جنت کے زیادہ مستحق ہوگئے ہیں‘ کیونکہ نبی کریم ؐنے دو یا تین بچیوں کی صحیح اسلامی تربیت کرنے پر ایسے والدین کے لیے جنت کی بشارت دی ہے‘ اور ہمارا ایمان ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد حق و صداقت پر مبنی ہے۔
دین سے دُور اور قرآن و سنت سے براہ راست وابستہ نہ ہونے کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عبادت کا ایک بہت محدود تصور رواج پاگیا ہے جس میں صرف نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کو کُل عبادات سمجھ لیا گیا ہے۔ بلاشبہہ بندوں کا اللہ پر حق یہی ہے کہ اس کی عبادت اس کے بتائے ہوئے طریقے سے کی جائے لیکن وہ خود یہ فرماتا ہے کہ بندوں کا حق اداکرنا بھی عبادت ہے‘ بلکہ بعض اوقات معروف عبادات سے زیادہ اجر کا باعث ہے۔ حقوق العباد میں والدین‘ بیوی ‘ بچے‘ رشتے دار‘ پڑوسی‘ حتیٰ کہ اجنبی بھی شامل ہیں۔ بعض بظاہر مادی کام‘ مثلاً ایک شخص کا اکل حلال حاصل کرنا‘ اپنی منکوحہ سے اپنی ضرورت پورا کرنا بھی عبادت کا حصہ ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رسولؐ کی اطاعت کا مظہر ہے۔
اسی بنا پر شیطان کا سب سے زیادہ مہلک وار حقوق کے معاملے ہی میں ہوتا ہے۔ وہ خصوصی طور پر شوہر اور بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادایگی میں ٹانگ اڑا کر خوش ہوتا ہے۔ اسلام نے جتنا حق اولاد کی پیدایش کے بارے میں شوہر کو دیا ہے‘ اتنا ہی بیوی کو دیا ہے‘ حتیٰ کہ ایک حدیث میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اگر شوہر اپنا مادہ بیوی کے جسم سے باہر خارج کرنا چاہتاہو تو بیوی کی اجازت سے ایسا کرے۔ گویا یہ بیوی کا حق ہے‘ یہ محض شوہر کی مرضی کی بات نہیں ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اسلام عقدِنکاح اور شادی کے بعد شوہر اور بیوی کو ایک اکائی میں پیوستہ خاندان سمجھتا ہے۔ اب وہ محض دو افراد نہیں ہیں بلکہ ایک متحد خاندان ہیں۔ اس لیے مقابلہ انفرادی حقوق میں نہیں ہوتابلکہ اب خاندان کے حقوق کے پیش نظر ایک دوسرے کے ساتھ ایثار و قربانی‘ محبت و احترام اور لطف و عنایت کے ساتھ معاملات کیے جاتے ہیں۔ حقوق العباد سے نظری واقفیت اگر رویے اور طرزِعمل میں تبدیلی پیدا نہ کرے تو ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لیتے ہوئے احتسابِ نفس اور استغفار کے ساتھ شعوری طور پر اپنے طرزِعمل کی اصلاح کی فکر کرنا چاہیے۔
آپ کا دوسرا سوال پہلے سوال ہی کا نتیجہ ہے۔ اولاً، اگر آپ کے سسرصاحب آپ کی معمرساس کے ساتھ سختی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل قرآن و سنت کے منافی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو اپنے اہلِ خانہ سے محبت و احترام سے پیش آتا ہے وہ اعلیٰ کردار کا انسان ہے‘ اور پھر فرمایا کہ میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت کرتا ہوں۔
خودکشی کا تعلق تین امور کے ساتھ ہے‘ اولاً: ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قوت کا انکار کرتے ہوئے یہ سمجھنا کہ معاملے کا حل اس کے اپنے ہاتھ میں ہے‘ اور چونکہ وہ اپنی حد تک حصولِ مقصد میں ناکام ہوچکا ہے اس لیے مایوسی کی بنا پر خود کو ختم کرسکتا ہے۔ ثانیاً: ایک شخص کا یہ سمجھنا کہ اس کی جان اس کی اپنی پیداکردہ ہے‘ وہ اس کا مالک ہے۔ اس کا جسم اس کی ملکیت ہے‘ وہ اسے جب چاہے کسی کے حوالے کردے یا خود ختم کردے۔ ثالثاً: اس کا یہ سمجھنا کہ اس کے ساتھ جو معاملہ درپیش آیا ہے وہ اتنا سنگین ہے کہ اس سے زیادہ اور کوئی سنگینی نہیں ہوسکتی اور یہ شدتِ احساس اسے اپنی جان کو ضائع کرنے کا حق دیتی ہے۔ اگر عقلی طور پر دیکھا جائے تو یہ تینوں بنیادیں غلط اور باطل ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت ایک سکتے میں آئے ہوئے شخص ہی کو نہیں بلکہ اگر وہ چاہے تو ایک مُردے کو بھی زندہ کرسکتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تذکرے میں قرآن کریم اس کی شہادت فراہم کرتا ہے۔ اس بناپر قرآن و سنت خودکشی کو حرام قرار دیتے ہیں۔ کسی بھی جان کا اِلا بالحق ضائع کرنا قرآن وسنت کی رو سے حرام ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا تذکرہ ہمیں بتاتا ہے کہ شدید ترین تکلیف میں بھی صبرجمیل ہی اسلام ہے۔
اگر کسی کو اس دنیا میں تکالیف اور ہرقدم پر طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہرہر تکلیف کے بدلے میں اللہ نے اپنے بندے سے ۱۰ سے ۷۰گنا زیادہ اجر کاوعدہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ قابلِ غور بات ہمارے معاشرے میں بظاہر دین دار شوہروں کا غیراسلامی رویہ ہے جس میں وہ اسلام کے نام پر بیویوں کو اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل پر مجبور کرتے ہیں۔
یہ خواتین کے اسلامی حقوق کی کھلی پامالی ہے۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قرآن کے دیے ہوئے صالح نظام خاندان و معاشرے سے بغاوت ہے۔ ہم ہمیشہ خواتین کو صبر کی تلقین کرتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مرد اپنے رویے اور طرزعمل کو قرآن و سنت کے علم کی بنا پر‘ محض سنی سنائی کہانیوں کی بنا پر نہیں‘درست کریں اور بیویوں کے حقوق کی پامالی سے بچ کر اپنے آپ کو آخرت کی سخت جواب دہی سے بچائیں۔ عائلی معاملات میں مردوں کی تعلیم خواتین کو نصیحت سے کم اہم نہیں ہے جسے ہم نے مکمل طور پر فراموش کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کے شوہر کو توفیق دے کہ وہ اپنی زیادتی پر شرمندہ ہوکر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسولؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیوی اور بیٹیوں کو وہ مقامِ احترام دیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک تھا۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: ’رسائل و مسائل‘ (اگست ۲۰۰۷ء) میں اجتماعی شب بیداری کو بدعت بلکہ مکروہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کی علّت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی بھی عبادت کو جو انفرادی طور پر مطلوب ہو‘ ازخود بلادلیل اجتماعی شکل دینا اور قرین ثواب سمجھنا بدعت ہے‘ لیکن ایسی بدعت جو عبادت کی انفرادی شکل کو اجتماعی شکل دے مکروہ کا درجہ رکھتی ہے۔ لہٰذا اجتماعی شب بیداری مکروہ شمار ہوگی۔ اجتماعی شب بیداری جس میں فہم قرآن‘ سماعت قرآن اور درس قرآن و حدیث ہوتا ہے‘ کسی بھی طرح انفرادی طور پر نہیں کی جاسکتی۔ پھر مولانا نے اپنی علّت کی کوئی سند بھی تحریر نہیں فرمائی۔
اجتماعی شب بیداری تعلیم و تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے جسے عصرِحاضر کی اسلامی تحریکوں نے اپنا کر ہزاروں افراد کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ میرے خیال میں کسی ایسی راے سے اجتناب کیا جائے جو دعوت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ ہمیں ان تمام اقدامات کی حمایت کرنا چاہیے جن سے خیر کا پہلو نکلتا ہو‘ جو دعوت کے فروغ کا باعث بنیں۔ رات بھر کیبلز دیکھنے کے بجاے اگراجتماعی طور پر کسی سورہ کا ترجمہ پڑھ لیا جائے تو اس سے بدعت کا پہلو نہیں نکلتا۔ اگر اجتماعی تہجد میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور قبروں پر جانا اسوۂ رسولؐ ہے تو درس قرآن و حدیث کو بدعت یا مکروہ قرار دینا کسی طور پر بھی موزوں نہیں ہے۔ اگر بیان شدہ علّت کو درست تسلیم کرلیا جائے تو اسلامی تحریکوں کے دعوت و تبلیغ کے تمام طریقے مکروہ و بدعت قرار پائیں گے۔
ج: اسلامی تحریک کی اجتماعی شب بیداری تعلیم و تربیت کی نوعیت رکھتی ہے اور تعلیم و تربیت کے لیے اجتماع کی تاریخ مقرر کرنا اور اس کو پروگرام کے مطابق عملی جامہ پہنانا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے۔ اس کے متعلق سوال نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس کا جواب دیا گیا ہے۔ سوال قبرستان میں ایک مخصوص رات کو جانے اور قبروں سے لپٹ کر رونے اور اس اجتماعی عمل کو ثواب سمجھنے کے متعلق ہے۔ اگر اسے ثواب نہ سمجھا جائے‘ انفرادی عبادت اور اجتماعی کو یکساں سمجھا جائے‘ اور کوئی مکروہ اعمال بھی نہ کیے جائیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ہے۔
آپ نے جس صورت کا سوال میں ذکر کیا ہے اور اسلامی تحریک کی جو شب بیداریاں ہیں وہ انتظامی اور تربیتی نوعیت کی ہیں۔ ان کو دینی ضرورت سمجھا جاتا ہے‘ اور اسی لیے وہ بدعت نہیں ہیں۔ لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام مسلمانوں کی صواب دید پر ہے۔اس کے لیے اگر وہ کوئی انتظام کریں تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی آزادی اور اختیار کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن مختلف جائز صورتوں کو جن کو شریعت نے اجتماعی شکل نہیں دی‘ اپنی طرف سے ان کو ثواب کی بنیاد پر اجتماعی شکل دینا بدعت ہے۔ تراویح کی جماعت شریعت کی روشنی میں کی گئی ہے۔ تہجد کی جماعت اتفاقاً اگر ہوجائے تو قباحت نہیں لیکن اس کا پروگرام بناکر اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا‘ اور اسے انفرادی عبادت سے زیادہ باعثِ ثواب سمجھنا درست نہیں ہے۔ اُمت میں اجتماعی تراویح تو ہے مگر اجتماعی تہجد نہیں ہے۔ جواب کی یہ عبارت بالکل واضح ہے: ’’کسی بھی عبادت کو جو انفرادی طور پر مطلوب ہو ازخود بلادلیل اجتماعی شکل دینا اور اسے ثواب سمجھنا بدعت ہے‘‘۔
آپ نے اسلامی تحریک کی جن اجتماعی شب بیداریوں کا ذکر کیا ہے‘ ان کے متعلق یہ بات نہیں سمجھی جاتی کہ وہ انفرادی طور پر مطلوب ہیں اور ان کو عبادت کا درجہ بھی نہیں دیا جاتا بلکہ تعلیم و تربیت کاوسیلہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ ازخود بلادلیل نہیں ہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کی محفلیں ان کی دلیل ہیں‘ اور اجتماعی پروگرام کو ثواب کا درجہ نہیں دیا جاتا کہ اس طرح کریں تو ثواب ہے اور کسی دوسری رات کو کسی اور طرح کریں تو اس میں ثواب نہیں ہے۔
اس طرح تربیتی پروگرام کے بعد اتفاقاً قبرستان میںجانا درست ہے۔ مگر یہ نہ سمجھا جائے کہ اس طرح اجتماعی شکل میں جانا مغفرت اور ثواب کا باعث ہے اور انفرادی شکل میں جانے کا ثواب کم ہے۔ ثواب کی کمی زیادتی کے لیے قرآن و حدیث سے دلیل چاہیے جو ہمیں نہیں ملتی۔ اگر ضعیف حدیث ہوتی تب بھی فرق کیا جا سکتا تھا‘ لیکن یہاں اجتماعی زیارتِ قبور کے بارے میں ضعیف حدیث بھی نہیںہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صحابہؓ کو اہتمام کے ساتھ اجتماعی طور پر لے کر زیارتِ قبور کے لیے نہیں گئے۔ پس اتفاقاً کوئی اعتراض نہیں‘ البتہ اجتماعی شکل کو ثواب کا درجہ دے کر اس کا اہتمام کرنا مناسب نہیں ہے۔ امید ہے کہ آپ جواب کا دوبارہ مطالعہ کریں گے تو آپ پر بات واضح ہوجائے گی۔ یہ بات میں نے اپنی راے کی بنیاد پر نہیں‘ فقہا کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں لکھی ہے‘ اور اجتماعی شکل کے بارے میں جو انتہاپسندانہ راے ہے اس کی بھی تردید کی ہے۔ البتہ مکروہ کے ساتھ تنزیہی کا لفظ رہ گیا ہے جو خلافِ اولیٰ کے قریب کی نامناسب صورت کو کہا جاتا ہے‘ اس کا اضافہ کرلیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح بات کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔ (مولانا عبدالمالک)
سوال: ہمارے معاشرے میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوغت کے بعد بیٹے کی معاشی کفالت والد کے ذمے نہیں‘ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ جب اولاد بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کردیا جائے‘ نیز جس میں نکاح کی استطاعت نہ ہو‘ وہ روزے رکھے۔ اس ضمن میں چند پہلو وضاحت طلب ہیں۔
معاشی کفالت کے حوالے سے شریعت کا کیا حکم ہے؟ہمارے معاشرے میں والد ۲۵‘۳۰ سال کی عمرتک اولادکابوجھ اٹھاتا ہے اور اس کا مقصد سواے اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ اولاد تعلیم یافتہ ہوکر اچھا روزگار حاصل کرلے اور بقیہ خاندان کو معاشی تحفظ فراہم کرے۔ کیا یہ روش غلط ہے؟ اس ضمن میںجو فرد اولاد میں سب سے بڑا ہوتا ہے‘ وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اس پر یہ دبائو ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھے عہدے پر فائز ہو‘ اور اس کے نکاح پر بھی توجہ نہیں دی جاتی اور یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ اس کی تعلیم مکمل ہوجائے پھر نکاح کیا جائے۔ کیا تعلیم حقیقتاً گھر بسانے کی راہ میں رکاوٹ ہے اورشادی کے بعد تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے؟
بلوغت پر نکاح سے کتنی عمر مراد ہے؟ پاکستان میں لڑکے/لڑکی کی بلوغت کی عمر بالترتیب ۱۲ تا ۱۴ سال اور ۱۱ سے ۱۳ سال ہے۔ اگر اس سے مرادیہی عمر ہے تو ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اس عمر میں شادی کے بعد فرد اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرسکے۔ اگر نکاح کے لیے استطاعت سے مراد معاشی استطاعت ہے تواس کی کوئی حد شریعت میں موجود ہے؟
یہاں وہ حدیث بھی پیش نظر رہے جس میں حضوؐر نے معاشی تنگی پر ایک سے زائد شادی کی ہدایت کی تھی۔ آج ہمارے معاشرے میں میڈیا کے ذریعے فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ گناہ کے مواقع موجود ہیں۔ ان حالات میں نفس کو دبانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ ایک صورت روزہ رکھنا ہے۔ اگر طالب علموں اور ملازمت پیشہ افراد کے لیے روزہ رکھنا ممکن نہ ہو تو کیا کریں‘ اور روزہ تو دن میں ہوتا ہے‘ رات کو کیاکرناچاہیے؟ایک جوان آدمی جو معاشرتی روایات کے باعث نکاح نہیں کرسکتا‘ وہ اگر ان مخصوص حالات میں صوتی یا بصری طریقوں (موسیقی یا فلم)سے کبھی کبھار خواہش کی تکمیل کرلیتا ہو اور اس طرح ایک بڑے گناہ سے بچ جاتا ہو اور دل میں یہ احساس بھی موجود ہو کہ وہ غلط کر رہا ہے تو کیا اس صورت میں وہ گناہ کا مرتکب ہوگا؟
جواب: آپ نے اپنے خط میں تین اہم معاشرتی مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے۔ پہلا مسئلہ والدین پر اولاد کے حقوق سے متعلق ہے۔ قرآن کریم نے والدین اور اعزہ کے جو حقوق متعین کردیے ہیں وہ بالکل واضح ہیں۔ قرآن کریم کا حکم ہے کہ ’’اپنے والدین پر خرچ کرو اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا‘‘(الاحقاف ۴۶:۱۵)۔ اسی طرح سورۂ بنی اسرائیل میں اعلیٰ سلوک و احترام کا حکم دیا گیا(۱۷:۲۳-۲۴)۔ پوری دنیا کی مساجد میں ہرصلوٰۃ الجمعہ میں خطیب قرآن کریم کی سورۂ نحل کی آیت نمبر۹۰ بطور جزوِ خطبہ تلاوت کرتا ہے جس کا مفہوم ہے: اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ وغیرہ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ سورۂ نور میں رشتہ داروں کو ان کا حق نہ دینے سے روکاگیا ہے (النور ۲۴:۲۲)۔ قرآن وسنت میں موجود عمومی اور خصوصی ہدایات پر غور کیا جائے تو جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہیں‘ اسی طرح والدین پر بھی اولاد کے حقوق ہیں جن میں ان کی اسلامی تربیت‘ غذا‘ لباس‘ مکان اور دیگر ضروریات کی فراہمی شامل ہے۔
بلاشبہہ عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ بلوغ طبعی کے بعد ایک اولاد اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے اور اولاد کو اس کی حاجت نہ رہے توپھر والد کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ اگر والد ضرورت کی صورت میں یا بلاضرورت بآسانی اپنی اولاد پر بلوغ کے بعد ان کی تعلیم یا دیگر ضروریات پر خرچ کرتا ہے تو شریعت اس کی تحسین کرتی ہے۔ اسی طرح اگر اولاد بلوغ تک پہنچنے پر اس قابل ہوجاتی ہے کہ اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکے اور نہ صرف اپنے اخراجات بلکہ والدین پر بھی خرچ کرسکے تو یہ اس کے لیے سعادت ہے۔
اسلامی معاشرت میں خاندان ایک سرمایہ دارانہ معاشی یونٹ نہیں ہے بلکہ وسائل‘ احساسات‘ حقوق و فرائض اور احسان کی یک جائی پر مبنی ایک ادارہ ہے۔اولاد کی پرورش کا بنیادی مقصدمعاشی کارکن پیدا کرنا نہیں بلکہ انھیں معاشرے کے لیے فعال‘ متقی‘ مومن اور متحرک کارکن بنانا ہے۔ صلۂ رحمی کا مطلب محض معاشی ضروریات پورا کرنانہیں بلکہ فکر‘ تعلق‘ محبت‘ رشتہ اور نصیحت پر مبنی خاندان کاقیام ہے۔ یہاں کوئی ایسی واضح لکیر نہیں کھینچی جاسکتی کہ ۱۶ یا ۱۸ سال کے بعد والدین پر کسی قسم کی ذمہ دری نہیں رہی اور نہ اس کی ضد کو درست سمجھا جاسکتا ہے کہ ۱۸سال تک والدین سے استفادے کے بعد اب ہر کمایا جانے والا روپیہ اولاد کی ’ذاتی ملکیت‘ ہے۔ اسلامی اجتماعیت نہ سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھتی ہے اور نہ اشتراکیت زدہ ہے۔ اس کا اپنا مزاج اور اپنی اقدار ہیں۔
ہمارے معاشرے میں لازماً بڑی اولاد سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ پورے گھر کا بوجھ اٹھائے جو درست نہیں ہے۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے ‘ پھر اعلیٰ ملازمت اختیار کرے اور اس کے بعد کہیں نکاح پر غور کیا جائے۔ اسلامی معاشرت کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے اور قرآن نے صاف کہا ہے کہ تم میں جو مجرد ہوں ان کے نکاح کردو۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے لیے وسائل پیدا کر دے گا۔یہی بات اُس حدیث میں فرمائی گئی ہے جو آپ نے نقل کی ہے کہ اگر ایک نکاح کے بعد ایک شخص کو کشادگی حاصل نہیں ہوتی تو وہ مزید نکاح کرسکتا ہے۔
تکمیلِ تعلیم کو کبھی بھی نکاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوناچاہیے۔ عصمت و کردار کا تحفظ ہرچیز پر بھاری ہے۔ اس لیے بلوغ کے بعد‘ یعنی اپنے اچھے برے کی عقل آنے پر نکاح کر دینا انتظار کرتے رہنے سے لازماً افضل ہے۔
بلوغ میں جسمانی اور ذہنی دونوں پہلو شامل ہیں اور اس کے لیے کسی عمر کی قید لگانا ایک غیرفطری عمل ہے۔ بعض خِطوں میں لڑکے اور لڑکیاں جلد جسمانی اور ذہنی طور پر بالغ ہوجاتے ہیں بعض میں تاخیر سے۔ آج کے معلوماتی اور انقلابی دور میں ذہنی بلوغ جسمانی بلوغ سے بہت پہلے آجاتا ہے۔ اس لیے جسمانی بلوغ کے بعد نکاح کی فکر ہونی چاہیے۔
اس سلسلے میں کوئی لگابندھا ضابطہ نہیں بن سکتا کہ جس کا نکاح ہوجائے وہ لازماً معاشی طور پر خودکفیل بھی ہو۔ اگر والدین ایک وسیع خاندان میں رہتے ہیں تو گھر میں ایک فرد کے اضافے سے کوئی قیامت نہیں آجاتی۔ اس کے ساتھ اولاد پر بھی یہ غور کرنا فرض ہے کہ وہ کب تک بغیر کوئی کام کیے اپنے والدین کے سہارے رہے۔ گویا یہ ایک باہمی غوروفکر اور باہمی محبت و تعلق کا معاملہ ہے۔ اسے خالص قانونی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ پاکستان کے قانون میں ۱۸سال کی عمر لڑکے کے لیے اور ۱۶ سال کی عمر لڑکی کے لیے جو متعین کی گئی ہے یہ غیرعقلی‘ غیر عملی اور غیرشرعی ہے۔ بلوغت کے لیے عمر کی اس حد کو اس وقت دیکھا جاتا ہے جب بلوغت کے آثار ظاہر نہ ہوں۔
استطاعت کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ اضافی ہوگی اور ایک خاندان اور فرد کے معیارِ زندگی‘ ضروریات و مطالبات کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوگی۔ ہاں‘ اسے عدل‘ توازن‘ قسط اور میانہ روی کے تابع ہوناچاہیے۔ جوشخص استطاعت نہ رکھتا ہو اس کے لیے اسلامی ریاست کو (وہ جب بھی قائم ہو) پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس کے نکاح اور متعلقہ ضروریات کا بندوبست کرے۔ ان شاء اللہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نوجوانوں کو محض اس بنا پر روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ البتہ روزہ رکھنے کا مقصد نفس کو لگام دینا ہے اور یہ لگام دن میں روزے اور رات کو نوافل سے ہی دی جاسکتی ہے۔ خیال رہے کہ اسلام نے نکاح کو بہت آسان بنایا ہے۔ چند گواہوں کی موجودگی میں حسب ِ استطاعت حق مہر اور ولیمہ سے یہ فریضہ بآسانی اداکیا جاسکتا ہے۔ ہم نے معاشرتی رسوم و رواج کے پیش نظر خود اس کو بوجھل اور مشکل بنایا ہے۔
تیسری بات آپ نے یہ اٹھائی ہے کہ آج کے معاشرے میں جہاںفحاشی و عریانی ایک نوجوان کے جذبات کو متاثر کرتی ہے‘ اگر کوئی ناجائز جنسی عمل سے بچنے کے لیے موسیقی یا فلموں سے شوق کرلے تو کیا گناہ کا مرتکب ہوگا؟یہ سوال بہت معصومانہ ہے۔ موسیقی اور فلم‘ وڈیو یا نیٹ پر موجود بے شمار تفریحی پروگرام جنسی بے راہ روی کی طرف لے جانے کا غیرمعمولی مؤثر ذریعہ ہیں۔ ان کے ذریعے آپ کس طرح بڑی برائی سے بچ سکتے ہیں۔ یہ تو اس کی ترغیب دینے والے عوامل ہیں۔
اس بات کو بھی پیش نظر رکھیے کہ زندگی کسی اعلیٰ مقصد کے تحت گزاری جانی چاہیے۔ لوگ محض دنیوی کیریئر بنانے کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دیتے ہیں‘ خواہشات کا خون کرتے ہیںاور کتنی محنت اورجدوجہد کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کے سامنے آخرت میں سرخروئی ‘ نبی کریمؐ کا مشن‘ غلبۂ دین‘ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا اور اسلامی انقلاب جیسے عظیم مقاصد ہوتے ہیں۔ اگر ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے‘ اپنے آپ کو سرگرم رکھا جائے تو بھی انسان نفسانی خواہشات کے غلبے اور شیطانی وساوس سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاذکر‘ اس کی یاد‘ اس کی محبت اور اس کی ناراضی کا خوف ہی وہ ڈھال ہے جو ایک نوجوان کو بے راہ روی سے بچاسکتی ہے۔ اس بنا پر صادق الامین علیہ السلام نے صوم کی تلقین فرمائی کہ اس میں انسان اپنے رب سے بہت قریب ہوجاتا ہے اور اپنے تمام جسم کو بشمول ذہن و روح کو اپنے رب کی بندگی میں دے دیتا ہے اور اس طرح ایک مثبت عمل کے نتیجے میں شیطان کے حملوں کو ناکام بنادیتا ہے۔ وساوس‘ جنسی ترغیبات‘ خیالی بے راہ روی‘ غرض وہ سب اعمال جو برائی کی طرف لے جانے والے ہیں‘ صوم کی وجہ سے انسان ان سب سے بچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجانا خود برائی سے بچ جانے کی ضمانت ہے‘ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
معاشرے میں نفلی حج کا رواج فیشن اور دکھاوے کے طور پر بھی بڑھ رہا ہے‘ اس حوالے سے علامہ یوسف قرضاوی کی ایک تحریر پیش کی جارہی ہے۔ (ادارہ)
وہ شخص جو اسلام کی ترجیحات سے واقف ہو اور ہرچیز کے درست مقام کا علم رکھتا ہو‘ کبھی ان ترجیحات کے سلسلے میں شک و شبہے کا شکار نہیں ہوگا جن کا لحاظ کرنا ناگزیر ہے۔ میں کئی برسوں سے اسی کی طرف توجہ دلا رہا ہوں۔ اسے میں نے ’فقہ ترجیحی‘ کا نام دیاہے۔
ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام نے ہمیں جن چیزوں کا مکلف بنایا ہے‘ وہ ایک درجے کی نہیں ہیں‘ بلکہ ہر عمل کا الگ الگ درجہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ایمان کے ۷۰ سے زائد شعبے ہیں جن میں سب سے بلند مرتبہ لا الٰہ الا اللہ کا ہے اور سب سے کم درجے کا عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے‘‘۔ اس سے پتا چلا کہ سب سے کمتر اور سب سے بلند درجے کے علاوہ بیچ کے بھی درجات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ کوئی شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور خدایا کی راہ میں جہاد کیا؟ یہ دونوں اللہ کے یہاں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے‘‘۔(التوبہ ۹:۱۹)
اس سے معلوم ہوا کہ تمام اعمال آپس میں برابر نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس فقہ سے واقف کرائیں۔ میں ایک مدت سے ایسے لوگوں کو دیکھتا آرہا ہوں جو اپنے مزدوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اپنی زمینوں میں اُجرت پر کام کرنے والوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ میں نے اپنے گائوں کے ان کسانوں کو بھی دیکھا ہے جو دوسروں کی زمینوں میں اُجرت پر کام کرتے ہیں‘ ان کے مالکوں کا حال یہ ہے کہ ان کی زمینیں برباد ہوجاتی ہیں‘ لیکن وہ ان غریبوں کو ایک پیسہ دینا گوارا نہیں کرتے۔ دوسری طرف وہ تین تین بار یہاں تک کہ دس دس بار حج کے لیے جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان غریبوں کے حقوق ادا کرتے توان کا یہ عمل بار بار حج کرنے سے افضل ہوتا۔
علما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرض کی ادایگی سے قبل نوافل کو قبول نہیں کرتا اور جو شخص فرض کی ادایگی کے بعد نفل کی فرصت نہ پائے تو وہ معذور ہے‘ لیکن جس شخص کی نفل میں مشغولیت اسے فرض سے محروم کردے وہ مغرور ہے۔ ہمیں اس وقت اس نکتے کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: آخری زمانے میں لوگ بلاوجہ کثرت سے حج کریں گے۔ ان کے لیے سفر انتہائی آسان ہوگا اور مال و دولت کی فراوانی ہوگی۔ ان میں سے ایک شخص ریگستان اور بے آب و گیاہ زمین میں اپنا اُونٹ دوڑائے گا اور حج کا سفر کرے گا‘ حالانکہ اس کا پڑوسی بدحال ہوگا اور وہ اس کی غم خواری نہ کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ حج کے ارادے سے ریگستانوں اور بے آب و گیاہ زمینوں میں سفر کرے گا اور اپنے پڑوسی کو اس حال میں چھوڑ دے گا کہ وہ بھوک‘ فقر اور ضرورت سے بدحال ہوگا اور کوئی اس کا پرسانِ حال نہ ہوگا۔ یہی آج کل ہو رہا ہے۔
بشر بن حارثؒ جو کہ متصوفین و زہّاد میں شہرت کے حامل ہیں اور جن کا شمار اُمت کے معروف زاہدوں اور اللہ والوں میں ہوتا ہے‘ ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اے ابونصر! میں نے حج کا ارادہ کیا ہے اور آپ کے پاس کچھ نصیحت کی باتیں سننے آیا ہوں‘ تو کیا آپ مجھے کچھ نصیحت کریں گے؟ آپ نے اس سے پوچھا: تم نے حج کے لیے کتنا سفر خرچ اکٹھا کیا ہے؟ اس نے کہا: ۲ہزار درہم (ہزار درہم اس وقت کے لیے ایک بڑی رقم تھی اور اس کی قوت خرید بہت زیادہ تھی)۔ انھوں نے اس سے پھر دریافت کیا: تم اس حج کے ذریعے زہد و تقویٰ حاصل کرنا چاہتے ہو‘ یا بیت اللہ کا اشتیاق تمھیں وہاں لیے جا رہا ہے‘ یا تم رضاے الٰہی کے حصول کے خواہش مند ہو؟ اس نے کہا: خدا کی قسم‘ رضاے الٰہی کا حصول میرا مقصد ہے۔ انھوں نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسا راستہ بتائوں جس سے تمھیں اپنے شہر ہی میں گھر بیٹھے خدا کی خوش نودی حاصل ہوجائے‘ اور اگر میں تمھیں یہ طریقہ بتائوں تو کیا تم اس کے مطابق عمل کرو گے؟ اس نے کہا: ضرور کروں گا۔ فرمایا: جائو اور یہ رقم ۱۰ لوگوں کو دے دو‘ کسی فقیر کو جس سے تم اس کی تنگ دستی دُور کردو‘ یتیم کو جس کی ضرورتیں پوری کردو‘ قرض دار جس کا قرض ادا کردو اور کسی کثیرالعیال شخص کو جس سے کہ تم اس کے اہل و عیال کا بوجھ ہلکا کردو… اس طرح انھوں نے ۱۰ لوگوں کا ذکر کیا اور کہا: اگر تم ان میں سے کسی ایک کو یہ رقم دے دو جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہوجائیں تویہ عمل افضل ہے۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا: اے ابونصر! میں سفر کا پختہ ارادہ کرچکا ہوں۔ فرمایا کہ جب مال گندی تجارت اور مشکوک ذرائع سے اکٹھا کیا جاتا ہے تو انسان کا نفس اسے اپنی خواہشات کے مطابق خرچ کرنا چاہتا ہے‘ یعنی ایسا شخص مسلمانوں کے لیے نفع بخش اور افضل چیزوں کو چھوڑ کر حج کی خوشیاں لوٹنا زیادہ پسند کرتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ بلاوجہ بار بار حج کرنا اور اس طرح سے ترجیحات کو ترک کر دینا بے بصیرتی کا نتیجہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایک مسلمان یہ سمجھے کہ بھوکے کو کھلانا‘ مریض کا علاج کرانا‘ بے سہارا کو پناہ دینا‘ یتیم کی کفالت کرنا‘ بیوہ عورت کی ضروریات پوری کرنا‘ ایشیا یا افریقہ یا کہیں کی بھی اسلامی برادری کے لیے مدرسہ یا مسجد بنانا اور خیر کے کسی بھی کام میں شریک ہونا اللہ کی نظر میں زیادہ بہتر ہے۔
ایک مسلمان پر فرض ہے کہ اس طرح کے ثواب والے کاموں میں بے پناہ سرور اور لذت محسوس کرے۔ اس کا یہ سرور اور لطف اس لذت سے بھی بڑھ کر ہو جس کا احساس اسے دو بار اور تین بار حج کرتے وقت ہوتا ہے‘ جب کہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوتا ہے اور لبیک اللّٰھم لبیک کی صدا بلند کرتا ہے۔ ان عظیم کارہاے خیر کے بجاے دوسری یا تیسری بار کے حج میں کیف و سرور محسوس کرنا یقینا افسوس ناک ہے‘ دین میں بے بصیرت ہونے کی دلیل ہے اور فقہ ترجیحی سے نابلد ہونے کی علامت ہے۔
اگر مسلمانوں کو اس کا شعور ہوجائے تو ہم ہر سال اربوں روپے سے صحیح فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی تنظیم اس کام کو منظم طریقے پر انجام دے اور ایک فنڈ بنائے جس کا نام حج کا متبادل فنڈ ہو اور وہ لوگ جو نفلی حج کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ اور وہ بھائی جو فائیواسٹار حج کرتے ہیں‘ وہ حج کا خرچ ’حج کے متبادل فنڈ‘ میں جمع کریں تاکہ اس رقم کو ساری دنیا کے مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کیا جائے تو ایک بڑی ضرورت پوری ہوگی اور مسلمانوں کی زندگی کا ایک بڑا خلا پُر ہوجائے گا۔ اسی لیے میں کہا کرتا ہوں کہ کاش! اُمت میں یہ بیداری پیدا ہوجائے۔(بہ شکریہ دارالعلوم‘ دیوبند‘ مارچ ۲۰۰۷ء)
سوال : ایک تنظیم کے تحت لوگ ہر ماہ کے آخری ہفتے کو مسجد میں اجتماعی شب بیداری کرتے ہیں۔ مسجد میں سب افراد مل کر قبرستان جاتے ہیں۔ ہر فرد ایک ایک قبر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور وہاں عالم صاحب اجتماعی دعا کرواتے ہیں۔ پھر کچھ دیر آرام کے بعد تہجد‘ نمازِ فجر اور درسِ قرآن کے بعد پروگرام کا اختتام ہوتا ہے۔ کیا نبی کریمؐ سے ایک رات مخصوص کرکے اجتماعی شب بیداری اور قبرستان میں جاکر دعائیں مانگنا ثابت ہے؟
حضرت عمرؓ کے دور کی بات ہے کہ چند افراد مل کر پتھروں پہ کلمہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ انھیں میرے پاس لے کر آئو۔ جب سب افراد آئے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ابھی تو میرے محبوب کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور آپ لوگوں نے بدعات کا آغاز کردیا ہے۔ اگر میں نے تمھیں میدانِ بدر میں نہ دیکھا ہوتا تو میں تمھارے سر قلم کردیتا۔
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبرستان میں جانا‘ قبرستان والوں کے لیے دعائیں کرنا ثابت ہے۔ دن اور رات‘ دونوں اوقات میں ثابت ہے۔ اسی طرح تہجد انفرادی طور پر اور بلاتداعی‘ یعنی بلاوے کے بغیر اجتماعی طور پر بھی ثابت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عبداللہ بن عباسؓ نے رات کے وقت تہجد پڑھی۔ انھوں نے پیچھے نیت باندھ لی‘ آپؐ نے انھیں دائیں جانب کیا۔ اسی طرح بعض دوسرے صحابہ کرامؓ کے واقعات موجود ہیں کہ انھوں نے آپؐ کے پیچھے تہجد پڑھی۔
تین دن رمضان المبارک میں آپؐ نے آٹھ رکعت تراویح پڑھائی۔ اس بنیاد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد سیدنا عمرفاروقؓ نے اپنے دورِخلافت میں تراویح کی مستقل طور پر باجماعت نماز شروع کردی۔ کسی بھی عبادت کو جو انفرادی طور پر مطلوب ہو ازخود بلادلیل اجتماعی شکل دینا اور اسے ثواب سمجھنا بدعت ہے۔ لیکن ایسی بدعت جو عبادت کی انفرادی شکل کو اجتماعی شکل دے دے‘ مکروہ کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ نے جس شکل کا ذکر کیا ہے‘ اگر اس میں غیرشرعی حرکت کا ارتکاب نہیں ہے تو مکروہ شمار ہوگی۔
حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا قول جن الفاظ میں آپ نے ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ پتھروں یا گٹھلیوں پر پڑھنا‘ کسی خاص مقام کو ورد کے لیے متبرک سمجھنا ایسی بدعت نہیں ہے کہ جس پر قتل کی سزا نافذ کی جائے۔ تعزیری سزا بھی لازم نہیں ہے ورنہ حضرت عمرؓ اسے جاری کردیتے۔ البتہ سختی سے روکنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س: ڈاکٹروں کی ایک تنظیم کے زیراہتمام ڈاکٹروں کی تربیت کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف اجتماعی پروگرام ہوتے ہیں۔ اگر ایک خاتون ڈاکٹر کو کسی طبی موضوع پر لیکچر دینے کے لیے بلایا جائے‘اور وہ پردے کے اہتمام کے ساتھ نقاب میں رہتے ہوئے‘ مرد ڈاکٹروں کے سامنے اسٹیج پر لیکچر دے‘ تو اس حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟
ج: ’علم‘ خواتین سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک خاتون کسی فن میں ماہر ہو اور اس سے مردوں کے مقابلے میں احسن انداز سے استفادہ کیا جا سکتا ہو تو وہ شرعی آداب‘ یعنی پردہ وغیرہ کا لحاظ رکھتے ہوئے مرد حضرات کو لیکچر دے سکتی ہے۔
صحیح بخاری کا ایک نسخہ محدثۃ کریمۃ بنت احمد بن محمد بن حاتم المروزی سے منقول ہے۔ انھوں نے صحیح بخاری پڑھی‘ لکھی اور پھر لوگوں کو پڑھائی‘ لوگوں نے ان سے لکھی اور ان کا نسخہ بھی معروف ہوگیا۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہماری تاریخ میں پائی جاتی ہیں۔ نیز اس بات کا اطمینان بھی ہونا چاہیے کہ اس طرح کے لیکچر کے نتیجے میں خاتون خود‘ یا کوئی شخص فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔(ع - م )
س: میں ایک بڑے کاروباری ادارے کا سربراہ ہوں اور اس حوالے سے بنکوں کے ساتھ مالی لین دین کے سلسلے میں رابطہ رہتا ہے۔ بنک عموماً بڑے اداروں کے لیے ایک مخصوص رقم کی لمٹ (limit) منظور کرتا ہے جس میں جب تک آپ لمٹ کی رقم کو اپنے اکائونٹ میں سے لے کر استعمال نہیں کرتے اس وقت تک آپ کو مارک اَپ نہیں پڑتا‘ یعنی آپ جتنے دن رقم استعمال میں لاتے ہیں اُتنا ہی مارک اَپ دینا پڑے گا‘ پورے مہینے کا نہیں۔ کیا قرآن و سنت کے حوالے سے یہ صورت جائز ہے؟
ج: بنک لمٹ (bank limit) کی جو صورت آپ نے بیان کی ہے یہ واضح طور پر ایک قرض کا معاملہ ہے۔ آپ بنک سے قرض لیتے ہیں‘ اسے خواہ loan کہا جائے یا limit کی صورت ہو‘ صرفی مقاصد کے لیے ہو یا کاروباری مقاصد کے لیے‘ شرح سود/مارک اَپ کم ہو یا زیادہ‘ ربا کی تعریف میں آتا ہے۔
ربا کی تعریف یہ ہے: قرض کے معاملے میں اصل مال پر بڑھوتری۔ اسی طرح اگر ایک شخص (یا ادارے) کا کسی دوسرے شخص (یا ادارے) کو قرض دینا‘ جب کہ شرط یہ ہو کہ اتنی مدت گزرنے کے بعدوہ اس پر اتنی زائد رقم وصول کرے گا تو یہ بھی ربا ہے۔قرض کے معاملے پر بڑھوتری کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی خاص مدت (جیساکہ آپ نے لکھا کہ آپ کو پورے ماہ کا مارک اَپ نہیں دینا پڑتا) کے لیے ہو تو اسی صورت میں سود ہوگا۔ مزیدبرآں آج کل ہماری منڈیوں خاص طور پر غلہ منڈیوں میں زیادہ تر کاروبار اسی لمٹ کے پیسے سے ہورہا ہے۔ بہرطور قرض کے کسی بھی معاملے میں جہاں اضافی رقم کی ادایگی کی شرط ہو‘ سود/ربا ہے۔ اس لیے اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے اس سے بچنا ہرمومن پر فرض ہے واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)
س: ہمارا گھرانہ ایک دینی گھرانہ ہے۔ والدین نے ہماری تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ فہم دین‘ صحیح اور غلط کی تمیز اور حلال و حرام کا شعور دیا ہے۔ مگر اس تمام تر تربیت اور اچھے ماحول کے باوجود ہمارے دو بھائی جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں اس نے گھر کا سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ گھر سے باہر دعوتِ دین کا کام کرتے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں سے راہ و رسم بڑھا رکھی ہے۔ فون پر لمبی لمبی گپ شپ کرتے ہیں‘ تحائف کا تبادلہ‘ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی ہے۔ اگر اعتراض کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارا ذاتی فعل ہے اور پسند کی شادی کرنا گناہ تو نہیں۔ یہ دیکھ کر والدہ اور ہم بہنوں کو بہت دکھ ہوتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک ہی گھر میں تربیت پاتے ہوئے کردار کااتنا فرق حیران کردیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ :
کیا اللہ تعالیٰ نے چوری چھپے آشنائی سے منع نہیں فرمایا‘ اور اس کے مرتکب عذاب کے مستحق نہیں؟
کیا غیرمحرموں سے دل لگی کی باتیں کرنا زبان اور دل سے زنا کا ارتکاب نہیں ہے؟
کیا اس طریقے سے پسند کی شادی کی راہ ہموار کرنا درست ہے؟ اگر اس طرح سے کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے توہم اس کو عزت و احترام کا مقام نہیں دے سکتے۔ اگر نہ دیں تو کیا یہ غلط ہوگا؟
ج:آپ کے مفصل خط میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بعض انتہائی مہلک رجحانات کے حوالے سے جو سوالات اُٹھائے ہیں‘ وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس ضمن میں چندنکات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:
۱- قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بڑے گناہوں سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے‘ ان میں چوری چھپے یا بغیر چوری کے آشنائی اپنی شدت کے لحاظ سے کفروشرک سے کم تر نہیں کہی جاسکتی ہے۔ ایک حدیث صحیح میں یہ بات بیان فرمائی گئی ہے کہ جب ایک شخص زنا کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو اس کے قلب میں ایمان موجود نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ یہ فعل کرتے وقت کفر کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اللہ تو اپنے بندوں کو پاک بازی‘ عبادت اور تقویٰ کا حکم دیتا ہے‘ جب کہ شیطان فحش‘ منکر اور ظلم و شرک کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص جب زنا کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو وہ شیطان کی مرضی پوری کرتا ہے اور اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کررہا ہوتا ہے۔ گویا کہ اس لمحے وہ شیطان کا بندہ بن کر ہی یہ کام کرتا ہے۔
جہاں تک سوال عذاب کا ہے‘ عذاب اور اچھے اجر کا اختیار صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہے۔ ہم یہ بات تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے مشاہدے اور تحقیق کی روشنی میں فلاں شخص نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس کا آخری فیصلہ رب کریم ہی کرے گا۔ یہ نہ میرے اور آپ کے سوچنے کا مسئلہ ہے‘ اور نہ اس پر کوئی مثبت یا منفی رائے ایسے فرد کے آخرت میں حساب کتاب پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
۲- کسی غیرمحرم کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا یا لگاوٹ کی بات کرنا زنا ہی کی ایک شکل ہے۔ گو‘ ایسے کام میں پوری گنجایش ہوتی ہے کہ اگر ایسے فعل کا عملاً ارتکاب نہیں کیا گیا اور توبہ و استغفار کو اختیار کرلیا گیا تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔
۳- کسی کا یہ کہنا کہ اگر وہ برائی کا ارتکاب کر رہا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے اور اس کی بہن‘ ماں‘ باپ‘ بھائی‘ دوست یا کسی اور مسلمان کو اس پر نہ پریشان ہونا چاہیے‘ نہ اس سے بازپرس کرنی چاہیے‘ ایک مکمل غیراسلامی رویہ ہے۔ قرآن کریم نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے اولیا ہیں جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو نصیحہ‘ یعنی بھلائی کی طرف متوجہ کرنا‘ اصلاح اور برائی سے روکنے اور نیکی کی طرف راغب کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
اسلام کا بنیادی نقطۂ نظر جو دیگر مذاہب سے مختلف ہے‘ یہی ہے کہ یہاں مسئلہ ایک شخص کی ’ذاتی نجات‘ (personal salvation)کا نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے الفاظ میں اپنے نفس اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچانے کا ہے۔ اس لیے بھائی بہن ہوں یا اولاد یا پڑوسی یا اجنبی مسلمان‘ جب بھی اور جہاں بھی برائی نظر آئے اس کی اصلاح اور بھلائی کی حمایت و تقویت قرآنی حکم ہے۔ آپ کے بھائی صاحب کا خیال بالکل درست نہیں ہے۔
۴- آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اپنی پسند کی شادی کے نتیجے میں خاندان کے دیگر افراد آنے والی لڑکی کا وہ استقبال نہیں کرسکتے جو وہ مشورے کے بعد ایک لڑکی کے انتخاب کی شکل میں کریں گے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اس کے باوجود اپنی پسند کا اظہار کرنا لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے ضروری ہے۔ دین کا غالب رجحان یہی ہے کہ شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب میں والدین اور اعزہ کے حق کو تسلیم کیا جائے۔
۵- شادی سے قبل یا بعد‘ غیرمحرم سے بات کرنے کا حکم یکساں ہے۔ قرآن کریم نے اُمہات المومنینؓ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ اصول بیان کیا ہے کہ وہ کسی سوال کرنے والے کا جواب ایسے لہجے میں دیں جس میں لگاوٹ نہ ہو۔ بات صرف اتنی ہو جتنی ضرورت ہے‘ بلاوجہ حکایت کو طول دینے کی ممانعت ہے۔ اگر ایک کالج یا یونی ورسٹی میں ایک لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے سے کسی درسی موضوع پر بات کرتے ہیں تو یہ بات حرام نہیں ہوگی۔ ہاں‘ اگر اس کا مقصد دوستی پیدا کرنا‘ لطائف کا تبادلہ کرنا اور اس طرح بے تکلفی پیدا کرنا ہے تو یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی اور حرام ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ایک ہی گھر میں تربیت پانے کے باوجود کردار کا یہ فرق کیوں‘ تو اس میں بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہرشخص حالتِ امتحان میں ہے۔ ہرایک کو اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہونا ہے۔ لازمی نہیں کہ باپ کے راستے پر بیٹا بھی چلے۔ حضرت نوحؑ کے بیٹے کی مثال معروف ہے۔ ایسے میں آپ کو خدا کے ہاں جواب دہی اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے۔ اس کے علاوہ خاندان کے بزرگوں کو بھی توجہ دلانی چاہیے اور معاشرتی دبائو بھی بڑھانا چاہیے۔ کوئی تادیبی اقدام بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں منفی معاشرتی رجحانات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
سوال: ہم چند دوست احباب نے ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے‘ جس کا بنیادی مقصد غریب عوام کو علاج معالجے اور طبی سہولیات کی فراہمی ہے۔ اس ٹرسٹ کا ذریعہ آمدن زکوٰۃ اور صدقات ہیں۔ اسی سے ٹرسٹ کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ درج ذیل امور میں ہماری رہنمائی کریں:
۱- کیا ہم اس رقم سے ٹرسٹ کے جائز اور ضروری اخراجات‘ مثلاً دوائیں‘ ڈاکٹر اور سٹاف کی تنخواہیں پورا کرسکتے ہیں؟
۲- کیا عوام کے لیے مختلف امراض کے بارے میں معلوماتی پمفلٹ اس رقم سے شائع کر سکتے ہیں؟
۳- فری میڈیکل کیمپ اور امورِ صحت سے متعلق پروگرام کے انعقاد کے لیے اخراجات اس سے پورے کرسکتے ہیں؟
۴- کیا اس زکوٰۃ کی رقم کو ٹرسٹ کے مفاد میں اس کی آمدن بڑھانے کے لیے وقتی طور پر زمین کے کاروبار میں لگا سکتے ہیں؟
۵- کیا اس رقم کو ٹرسٹ کا ہسپتال یا ڈسپنسری بنانے کے لیے زمین اور اس کی عمارت کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے؟
جواب: زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں مقرر کردیے گئے ہیں‘ اس لیے ان میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی‘ اور نہ کسی کو اس میں کمی بیشی کا اختیار ہے۔ زکوٰۃ سے جو ٹرسٹ قائم کیا جائے اس کا پروگرام ایسا ہو کہ صرف فقرا و مساکین پر اسے صَرف کیا جائے۔ زکوٰۃ کی رقم کو تعمیرات پر نہیں لگایا جاسکتا‘ نہ ہسپتال کے لیے دیگر سامان اس سے خریدا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کوئی ایسا ٹرسٹ قائم کرتے ہیں جس میں زکوٰۃ کی رقم صرف کی جائے‘ تو صرف ایسی صورت میں قائم کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ آپ ٹرسٹ کی ایک مد میں زکوٰۃ جمع کریں اور دوسری مد میں عطیات‘ عمارت‘ ہسپتال کا سازوسامان‘ ڈاکٹروں کی تنخواہیں عطیات سے پورا کریں‘اور فقرا و مساکین کے لیے دوائیں اور علاج کے اخراجات‘ ایکسرے اور آپریشنز وغیرہ کی فیس زکوٰۃ کی مد سے ادا کریں تاکہ زکوٰۃ کی رقم صرف مستحقین پر صَرف ہو۔ عمارت‘ ہسپتال کا سازوسامان اگر آپ زکوٰۃ سے خریدیں گے تو یہ اس لیے صحیح نہ ہوگا کہ اس سازوسامان سے غریب کے ساتھ امیر بھی استفادہ کرے گا۔ زکوٰۃ کی رقم سے خرید کردہ سازوسامان کا استعمال امیرکے لیے درست نہیں ہے‘ الا یہ کہ اس سازوسامان کے استعمال کا عوض امیر سے لے کرزکوٰۃ فنڈ میں جمع کیا جائے اور اس کو فقرا و مساکین پر صَرف کیا جائے۔ البتہ ڈاکٹر کی فیس اور جو خرچ غریب کے علاج کی مد میں آئے‘ اسے زکوٰۃ کی رقم سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
آپ اپنے ٹرسٹ کو مذکورہ اصولوں کے مطابق قائم کریں۔ موجودہ صورت حال میں آپ کا ٹرسٹ اس معیار پر پورا نہیں اُترتا جو زکوٰۃ کی رقم جمع کرنے اور صَرف کرنے کے لیے ضروری ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س : اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب کی خاطر ہم نے ایک فنڈ قائم کیا ہے تاکہ صدقۂ جاریہ کا ایک نظام بنا سکیں۔ اس فنڈ کا طریقۂ کار یہ ہے کہ ہم چند رشتہ داروں نے مل کر ایک اسلامی بنک میں جوائنٹ اکائونٹ کھولا ہے۔ اس اکائونٹ میں صدقہ‘ خیرات‘ عطیات اور چندے کی نیت سے نکالی جانے والی رقم جمع کی جاتی ہے۔ یہ رقم یا سرمایہ ہم خود‘ اپنے خاندان اور اپنے اعزہ و اقربا سے مندرجہ بالا اکائونٹ میں جمع کرتے ہیں۔ یہ اکائونٹ چند حضرات کے مشترکہ کنٹرول میں ہے اور جمع شدہ سرمایہ کسی کی بھی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ بطورِ امانت اُن کے پاس ہے۔ ہم اس سرمائے کو اسلامی بنکوں کے ذریعے سود سے پاک سرمایہ کاری میں لگاتے ہیں‘ اور جو منافع حاصل ہوتا ہے‘ وہ کسی فلاحی مقصد میں بہ نیت ایصالِ ثواب استعمال کرلیتے ہیں۔
اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ اس اکائونٹ میں مندرجہ بالا مقصد کے لیے ہم کن کن مدات کی رقم وصول کرسکتے ہیں؟ اگر ہم اس سرمائے اور اس کے نفع کو محض ایک مقصد‘ یعنی امراضِ جگر و گردہ میں مبتلا مستحق مریضوں اور اس کام سے منسلک ہسپتالوں کے لیے استعمال کریں تو کیا زکوٰۃ کی رقم سے بھی اس فنڈ کی اعانت کی جاسکتی ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا طریقۂ کار سے جو سرمایہ حاصل ہوتا ہے اُسے ہم پانچ سالوں کے دورانیے کے لیے مختلف حلال منافع بخش اسکیموں میں لگا رہے ہیں۔ کیا اس سرمائے پر زکوٰۃ واجب ہے؟
ج: آپ نے فقرا ومساکین اور نادار لوگوں کی خدمت کے لیے جو اسکیم بنائی ہے وہ قابلِ قدر اور قابلِ تقلید ہے۔ تمام صاحب ِ حیثیت لوگ حاجت مندوں کو روٹی کپڑا‘ رہایش‘ علاج اور تعلیم کے وسائل فراہم کرنے کے لیے اس طرح کی اسکیمیں بنائیں تو اسلامی تہذیب و ثقافت کا احیا ہوگا۔
اصلاً یہ کام تو حکومت کا ہے۔ گذشتہ ادوار میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات کی روشنی میں زکوٰۃ و عشر اور بیت المال کا جو نظام ترتیب دیا گیا‘ ان سفارشات کو اصل شکل میں نافذ کرنے کے بجاے ترمیم کرکے ناقص شکل میں نافذ کیا گیا۔جس کے نتیجے میںزکوٰۃ و عشر اور بیت المال کا نظام غریبوں کی ضروریات کا کفیل بننے میں ناکام رہا ہے۔
آپ اپنی اس اسکیم کو مستحقینِ زکوٰۃ‘ غربا اور نادار لوگوں کی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے تک محدود رکھیں تو اس اسکیم میں زکوٰۃ بھی جمع کرسکتے ہیں۔ اگر امراضِ جگر و معدہ وغیرہ کے لیے مختص رکھنا چاہیں تو ایسا بھی کرسکتے ہیں‘ لیکن اس سلسلے میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ رقم کسی ہسپتال کو دینے کے بجاے براہِ راست مریض جو زیرعلاج ہے اس کو نقد یا اس شکل میں دیں کہ اخراجات کے بل جو آپ کو دیے جائیں ان کی ادایگی ہسپتال میں کردیں۔ مریض کو ہسپتال میں داخل کرتے وقت ہسپتال کے ساتھ طے ہوجائے کہ بلوں کی ادایگی ہمارے ذمہ ہوگی‘ اس لیے بل ہمیں دیے جائیں اور اگر مریض کو علاج کے علاوہ ضروری اخراجات کے لیے رقم کی ضرورت ہو تو آپ اس کی ادایگی براہِ راست مریض کو کردیں۔
یہ رقم چونکہ فقرا کو دینے کی نیت سے مشترکہ اکائونٹ میں جمع ہے‘ مالکوں کی ملکیت سے نکل چکی ہے لیکن کسی فقیر کی ملکیت میں بھی نہیں آئی‘ اس لیے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ جو بھی نفع ہوگا وہ سب کا سب فقرا و مساکین کو مل جائے گا۔
البتہ اس رقم کو اکائونٹ اور کاروبار میں لگاکر منجمد نہ رکھا جائے‘ بلکہ جس مقصد کے لیے جمع کیا ہے اس پر خرچ بھی کیا جائے اور اتنا خرچ کیا جائے جس سے ایک آدمی کی وہ ضرورت جس کو پورا کرنے کے لیے آپ رقم صرف کر رہے ہیں‘ پوری ہوجائے اور وہ کسی دوسرے کا محتاج نہ رہے۔ تھوڑے افراد کی پوری خدمت‘ زیادہ کی ناقص خدمت سے بہتر ہے۔ آپ جگر و گردے کے علاوہ کسی دوسری بیماری یا دوسری ضروریات کو پورا کرنے کا منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے یہی اصول پیشِ نظر رہے کہ ضرورت مند کو براہِ راست نقد یا فیس کی شکل میں ادایگی کی جائے‘ یا اتنی رقم دے دی جائے جس سے وہ معقول کاروبار کرسکے۔
اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کے خاندان کو خدمتِ خلق کی برکت دنیا میں عزت و وجاہت اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے بچائو کی صورت میں عطا فرمائے۔ آمین!(ع-م)
س: میں پیدایشی طور پر بصارت سے محروم ہوں لیکن میں نے اپنی معذوری کو رکاوٹ نہ بننے دیا اور پی ایچ ڈی کرنے میںکامیاب ہوگیا اور اچھی ملازمت بھی مل گئی۔ میری والدہ میری تعلیم کے حق میں نہیں تھیں کہ اس سے دماغ پر زور پڑے گا اور اس پر وہ کچھ ناراض سی ہیں۔ والدصاحب کا تعلق بھی تحریک سے تھا اور والدہ بھی تحریک سے وابستہ ہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ کا رویہ میرے مقابلے میں دوسرے بھائیوں سے زیادہ ہمدردانہ ہوگیا اور میری اہلیہ سے بھی ناراض رہنے لگیں۔ میں نے والدہ کی خوشی کے لیے طرح طرح سے کوشش کی‘ جس کا دوسرے لوگ بھی اعتراف کرتے ہیں لیکن والدہ کی ناراضی دُور نہ ہوئی۔
دیگر اہلِ خانہ سے میرا رویہ ہمیشہ جانثارانہ اور ایثار پر مبنی رہا۔ بہت سے مواقع پر میں نے بڑھ چڑھ کر معاونت بھی کی۔ اس سب کے باوجود ایک موقع پر والدہ کی ناراضی مجھے مشتعل کرگئی اور کچھ تلخی ہوگئی۔ چھوٹے بھائی نے مجھے گھر سے چلے جانے کا حکم دیا‘ جب کہ والدہ اور دیگر بہن بھائی خاموش رہے۔ مجھے مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔ ان حالات میں‘ میں نے بنک سے سود پر قرض لے کر ایک چھوٹا سا مکان لیا۔ اب میں مزید قرض تلے دبا جا رہا ہوں۔ سخت ذہنی دبائو میں ہوں‘ رہنمائی فرمایئے۔
ج: آپ کے خط سے جہاں آپ کی ذہنی کوفت اور پریشانی کا اظہار ہوتا ہے وہاں اس سے کہیں زیادہ آپ کے پُرعزم ہونے‘ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد‘ صلہ رحمی اور قطع رحمی سے اجتناب اور والدہ صاحبہ اور اپنے بھائی بہنوں کے لیے ایثار و قربانی کے جذبے کا پتا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین اجر اس دنیا میں اور آخرت میں دے۔
مسئلہ میری نگاہ میں‘ آپ کی اہلیہ اور آپ کے بھائیوں کی بیویوں کے طرزِعمل میں اختلاف کا نہیں ہے بلکہ دعوتِ اسلامی‘ نظمِ جماعت اور حقوق العباد میں باہمی تعلق کا ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام سے لے کر آج تک تحریک اسلامی نے جن بنیادی امور پر زور دیا ہے‘ ان میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ساتھ ساتھ‘ خاندان میں دعوت و اصلاح کو بھی یکساں اہمیت دی ہے۔ فرد کی اصلاح کے ساتھ خاندان اور معاشرے کی اصلاح آخرکار تبدیلیِ قیادت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ لیکن عملاً ہوا یہ ہے کہ شاید تحریک کے نظامِ تربیت میں توسیع دعوت‘ تبدیلیِ معاشرہ اور تبدیلیِ اقتدار زیادہ مرکزیت اختیار کرگئے اور خاندان کے ادارے کی اصلاح کو کارکنوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا۔چنانچہ ایک جانب ایک کارکن خلوصِ نیت اور اپنی تمام تر قوت کے ساتھ تحریک کی دعوت پھیلانے اور نظم کی اطاعت میں مطلوبہ سرگرمیوں میں تو مصروف ہوگیا لیکن وہ اپنے گھر میں مروجہ روایات‘ برادری اور خاندان کے رواج سے اپنے آپ کو آزاد نہ کرسکا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں آپ کے والد آپ کی پیدایش سے قبل جماعت کے رکن بن چکے تھے اور بعد میں آپ کی والدہ بھی رکن بن گئیں‘ یعنی انھوں نے مطلوبہ نصابِ کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد شعوری طور پر تحریکِ اسلامی کی دعوت پر لبیک کہا‘ اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اجتماعات میں شرکت‘ دعوتی سرگرمیوںمیں حصہ اور دیگر فرائض کی ادایگی کا عہد کیا لیکن دعوت کے ایک بنیادی اور اہم نکتے‘ یعنی معاملات کو وہ ترجیح نہ دی جاسکی جس کا وہ مستحق ہے۔
ترجمان القرآن کے قاری اکثر اپنے سوالات کے ذریعے جو مسائل اٹھاتے ہیں وہ معاملات کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ مثلاً خصوصاً شوہر کا بیوی کے ساتھ سلوک‘ یا والدین کے ساتھ اولاد کا معاملہ‘ یا شادی کے بعد ایک شادی شدہ جوڑے اور سسرالی رشتے داروں کے ساتھ ان کے تعلقات۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ اور تبدیلیِ زمام کار میں اپنی کوشش اور کاوش میں ہم اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ معاملات سے متعلق بہت سی باتیں نظر سے محو ہوجاتی ہیں۔
اس طویل تمہید کے بعد جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں ان کے حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ والدہ کی زیادتی کے باوجود اب‘ جب کہ آپ الگ گھر میں رہ رہے ہیں‘ ان سے تعلق اور ان کے احترام میں کمی نہ آنے دیں۔
دوسری بات یہ کہ جو کچھ آپ کے چھوٹے بھائی بہنوں نے آپ کے ساتھ کیا‘ وہ سراسر ناانصافی اور ظلم ہے‘ لیکن اس کے باوجود آپ ان کی اس زیادتی کو اللہ کی خوشی کے لیے معاف کرتے ہوئے‘ ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں‘ کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع تعلقی کرنے والے رشتے دار سے جڑنے کا حکم دیا ہے۔
تیسری بات یہ کہ جن حالات میں آپ نے بنک سے سود پر قرض لے کر مکان لیا ہے وہ بظاہر اضطرار‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ آپ جلد اس حالتِ اضطرار سے نکل سکیں۔ تحریکی ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ اس قرض سے نکالنے کے لیے آپ کے ساتھ تعاون کریں۔
اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ محترمہ کو اپنی غلطی کا احساس دلائے اور وہ کشادگیِ قلب کے ساتھ آپ سے شفقت و محبت سے پیش آسکیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س : میرے والد اور سسر کی بہت اچھی دوستی تھی جس کی وجہ سے والدصاحب نے ہم دونوں بہنوں کی منگنیاں چھوٹی عمر میں ہی ان کے دو بیٹوں سے کردیں۔ میری شادی منگنی کے چار سال بعد ہوگئی۔ منگنی کے وقت میری امی چھوٹی بہن کے لیے راضی نہ تھیں۔ ایک تو اُس کی عمر کی وجہ سے‘ دوسرا یہ کہ ہماری طرف خاندان سے باہر رشتہ کم دیا جاتا ہے۔ لیکن والدصاحب اور سسر کے اصرار پر یہ رشتے طے ہوگئے۔
شادی کے کچھ عرصے بعد میرے والد صاحب بیمار ہوئے اور اسی بیماری کے دوران انھوں نے چھوٹی بہن کے رشتے سے انکار کردیا جس پر میرے سسر ناراض ہوگئے اور مجھے بھی واپس بھیجنے کا کہا۔ مگر میں نے جانے سے انکار کردیا۔ اس پر انھوںنے کہا کہ تم اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھو گی۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ اسی دوران میرے والدصاحب بہت بیمار ہوگئے حتیٰ کہ ان کی وفات پر بھی مجھے جانے کی اجازت نہیں ملی۔
آج اس واقعے کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے‘ میرے سسر الحمدللہ میرے ساتھ بہت اچھے ہیں مگر ان کے دل میں اُن سب کے لیے نرمی نہیں آتی۔ وہ بظاہر مجھے کہتے ہیں کہ تم پر کوئی پابندی نہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ بچیاں نہیں جائیں گی۔ میں اُن کو چھوڑ کر بھی نہیں جانا چاہتی اور سسر کی اجازت کے بغیر بھی جانا ٹھیک نہیں لگتا۔ اگرچہ میرے شوہر کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی نہیں لیکن عملاً یہ مشکلات کا باعث ہوگا۔ میری والدہ اب کافی پریشان رہتی ہیں۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
ج: آپ کے سسرصاحب نے ‘ گو وہ عموماً اچھا طرزعمل رکھتے ہیں اور آپ نے بھی ان کے لیے تعریفی کلمات لکھے ہیں‘ عصبیت جاہلیہ کی بنا پر آپ کو آپ کے والد صاحب کی بیماری کے دوران ان کی عیادت اور وفات پر دعاے مغفرت میں شرکت سے محروم رکھ کر اپنے آپ پر اور آپ پر ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرے۔ اسی بات کو صاحب قرآن نے قطع رحمی کہہ کر پکارا ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے‘ خواہ کسی قسم کی رنجش کیوں نہ ہو‘ تین دن سے زائد اپنے آپ کو کاٹ رکھنے کا حق نہیں ہے۔ انھیںچاہیے کہ وہ استغفار کریں اور آپ کو اپنی والدہ سے ملنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں۔ یہ بھی ظلم ہی کی ایک شکل ہے کہ بچیوں کو لے کر نہ جائو۔
آپ کے شوہر کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگروہ اپنے والد کی اطاعت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کریں گے تو یہ اللہ اور رسولؐ سے بغاوت کے مترادف ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے والد کو اس ظلم سے روکیں اور خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہ کریں۔ آپ کے والد کی وفات پر آپ کو روک کر آپ کے سسر اور شوہر دونوں نے آپ پر اور اپنے اُوپر بہت سخت زیادتی کی ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اللہ کی راہ میں صدقات اور اللہ سے توبہ و استغفار کے ذریعے اپنی غلطی کی تلافی کی کوشش کریں۔(ا-ا)
س: میرے شوہر حافظ قرآن ہیں۔ میری چار بیٹیاں ہیں۔ بچیوں کو حفظ کرانے کا ارادہ اور خواہش اُن کی پیدایش سے ہی میرے دل میں تھی۔ مگر اکثر لوگ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بچیوں کے حفظ کے معاملے میں احتیاط کرو‘ وہ سنبھال نہیں پائیں گی۔ اس خواہش کی وجہ سے اُن کے لیے ایسے اسکول کا انتخاب کیا تھا جہاں حفظ کا اہتمام تھا اور ساتھ میں تھوڑا سا ماحول بھی نظر آیالیکن اطمینان نہیں۔ رہنمائی فرمائیں۔
ج: والدین پر اولاد کا یہ حق ہے کہ وہ ان کی صحیح اسلامی تربیت کریں کیونکہ حدیث کی روشنی میں وہ اولاد پر راعی بنائے گئے ہیں اور انھیں اس کا جواب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔ اس لیے بچیوں کی صحیح اسلامی تربیت آپ پر اور آپ کے شوہر پر فرض ہے۔ یہ بات بے بنیاد ہے کہ لڑکیاں قرآن کریم کے حفظ کا حق صحیح ادا نہیں کرسکتیں۔ قرآن وسنت کی تمام تعلیمات بغیر کسی جنسی تفریق کے مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ اہتمام ضرور کریں کہ کسی ایسی قاریہ سے حفظ کرائیں جو اپنے طرزِعمل سے انھیں قرآن کے قریب لاسکے‘ کیونکہ بعض معلمین اپنے طرزِعمل کی وجہ سے بچوں کو قرآن کے مطلوبہ طرزِعمل سے دُور کردیتے ہیں۔(ا-ا)
سوال : میرا بچہ چار سال کا ہے اور اسے اسکول میں داخل کرانا ہے۔ بظاہر یہ کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں سوچ سوچ کر پریشان ہوگئی ہوں۔ آپ مجھے کسی ایسے اسکول کا نام بتا دیجیے جہاں بچے کو داخل کرانے سے اس میں آخرت کا تصور دنیا کے تصور پر حاوی ہوجائے۔
میں نے حال ہی میں اسلام کا مطالعہ شروع کیا ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں نے ساری زندگی ضائع کی ہے۔ اگر ایک شخص پہلے کوئی چیزسیکھ کر اپنے اُوپر نافذ کرے اور پھر بچے کو سکھائے تو اس طرح تو بہت وقت لگ جائے گا اور پھر بھی معلوم نہیں کہ بچے کی صحیح تربیت ہو یا نہ ہو۔ ایک بات مجھے اور پوچھنا ہے وہ یہ کہ جیساکہ اسلام د ین .ِ فطرت ہے تو اسلامی نقطۂ نظر سے کس عمر میں بچے کو ماں سے الگ کر کے اسکول بھجوانا چاہیے؟
جواب: آپ نے دو بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ ایک کا تعلق تربیت اولاد سے ہے اور دوسرے کا خود اپنی تعلیم اور تزکیہ سے۔ دین کے علم کے حصول کے لیے نہ عمر کی کوئی قید ہے نہ وقت کی۔ ایک ۷۰سالہ شخص اگر چاہتا ہو کہ قرآن کریم کو صحیح طور پر پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک طالب علم کی حیثیت سے حصول علم کرے تو اسلام اس کے اس عمل کو عبادت میں شمار کرتا ہے۔ دین کے علم کو صرف قرآن کریم کی تلاوت یا ترجمہ و تفسیر کی مدد سے پڑھ لینے یا حدیث کی کسی کتاب کا مطالعہ کرلینے یا فقہ کی کسی مستند تحریر کو پڑھ لینے تک محدود کردینا بھی مناسب نہیں۔ اس لیے کہ قرآن کریم خود اپنے ماننے والوںکو نہ صرف کتابِ عظیم کے معانی پر غور کرنے اور اس کی تعلیمات کی تطبیق کرنے کا حکم دیتا ہے‘ بلکہ کتابِ کائنات کے مطالعے اور اس پر غوروفکر کرنے کے بعد ان علوم کی تدوین اور حصول کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات کے تنوع‘ نظم و ضبط اور خوب صورتی میں پوشیدہ اسرار و رموز کہلاتے ہیں۔
آپ کا دین اسلام کا مطالعہ کرنا اور اسلام کو بحیثیت نظامِ حیات سمجھنے کے لیے کوشش کرنا ایک انتہائی قابلِ تعریف اقدام ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیق دے کہ آپ قرآن و سنت کے دیے ہوئے نظامِ حیات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکیں۔ اس کام کا آغاز کردینا سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم ہم پر صرف اسی بات کی جواب دہی عائد کرتا ہے جو ہمارے علم میں ہو۔ اگر آپ نے محض قرآن کریم کی ایک آیت پر غور کیا اور اس کا مفہوم سمجھا تو آپ کی جواب دہی جو کچھ آپ کے علم میں ہے اسی کی ہے۔ اگر آپ اس علم کو آگے نہیں پہنچاتیں تو گرفت ہوگی۔ اس لیے خود حصولِ علم اور تزکیہ کرتے وقت اس انتظار میں قطعاً نہ رہیں کہ جب تک سفر علم کو مکمل نہ کرلیا جائے اس وقت تک آپ اپنے بچے کی تعلیم کسی اور کے سپرد کردیں بلکہ جتنا علم ہو اُسے اولاد تک پہنچانے میں تاخیر نہ کریں۔ اس طرح خود آپ کو مزید غور کرنے اور اپنی معلومات کو وسیع کرنے کا موقع ملے گا۔
دوسری اہم بات جو آپ نے اپنے خط میں ذکر کی ہے وہ آپ کی یہ خواہش کہ آپ کا بچہ دنیا کے بجاے آخرت کی طرف متوجہ ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم صحیح معنوں میں آخرت پر ایمان لے آئیں تو دنیا میں برپا ہونے والے بے شمار فتنوں اور فساد سے نجات حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آخرت بنانے کے لیے دنیا کو شیطان پر چھوڑ دیا جائے۔ آخرت کا راستہ دنیا ہی سے گزر کر جاتا ہے اور اگر ہم صراطِ مستقیم کو اختیار کرلیں اور دنیا میں اس پر قائم ہوجائیں تو ان شاء اللہ آخرت کی منزل خودبخود آسان ہوجاتی ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ بچے کو قرآن کریم حفظ کرا دینا اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ آخرت کی طرف خود بخود مائل ہوجائے گا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ صحت اچھی کرنے کے اصولوں کی ایک کتاب جو فارسی یا ترکی میں لکھی گئی ہو پوری حفظ کرلیں تو کیا اس کا یہ حفظ کرنا آپ کی صحت کو بہتر بنا دے گا؟ ہاں‘ قرآن کریم چونکہ رب کریم کا کلام ہے‘ اس لیے اس کے ہرہرحرف کا مفہوم سمجھے بغیر بھی وہ کلام الٰہی ہی رہتا ہے اور اس بنا پر ان کا اجر ہمیں ملتا ہے۔ لیکن جب الکتاب خود بار بار یہ کہہ رہی ہو کہ اس کے کلمات بعض عربی سمجھنے والے بدوؤں کے حلق سے نیچے نہیں اُترتے‘ وہ اسے سنتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں‘ ان کے دل پر تالے پڑے ہوئے ہیں جو اس کلیدِ حیات سے بھی نہیں کھلتے تو اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ بچے کو نہ صرف روایتی دینی علوم بلکہ ان دینی علوم کو صحیح طور پر استعمال کرنے کے لیے وہ علوم بھی سکھانے چاہییں جنھیں بعض سادہ لوح دنیاوی علوم کہتے ہیں۔
آخرت کی کامیابی کے لیے نہ صرف عقیدے کا درست ہونا بلکہ اس کے ساتھ عملِ صالح کا اختیار کرنا بھی شرط ہے اور عمل صالح کا مطلب رزق حلال‘ حلال معاشرت‘ حلال سیاست‘ حلال ثقافت اور حلال تفریح ہے۔ گویا زندگی کے تمام معاملات کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کا تابع بنانا۔ یہ کام اسی وقت ہوگا جب آپ کا بچہ تمام علوم سیکھے لیکن اس کا مقصد محض حصولِ ملازمت نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رضا کا حصول ہو۔ اس کام کے لیے آپ کو ہرلمحے بچے کے ساتھ گفتگو کرکے یہ بات ذہن نشین کرانی ہوگی کہ وہ سچ‘ امانت اور بلاخوف حق پر عمل کرنے میں فخر محسوس کرے۔ اس طرح اس کی دنیا ان شاء اللہ آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بن سکے گی۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ کامیابی کا یقین نہیں آتا۔ کیا کروں؟
ج: پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم ان شاء اللہ سب کچھ بہت اچھا کرو گے۔ بس ایک دفعہ پختہ ارادہ کرلو کہ تم اپنے کام میں لگے رہو گے۔ یہی اصل بات ہے۔ کامیابی اور مسرت کے حصول کی دو شرائط ہیں: اوّل، تمھاری سعی/کوشش/شرکت/ موجودگی۔ دوم، اللہ تعالیٰ کی مدد اور رضامندی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ تمھاری سعی کُل کا صرف ایک فی صد ہے‘ جب کہ اللہ کا حصہ ۹۹ فی صد ہے۔ اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حصہ لازماً مل کر رہتا ہے‘ اُس نے اس کی ضمانت دی ہے۔ (فاروق مراد)