سوال: مذاہب کا پروگرام اگر انسانی فطرت کے لیے کشش رکھتا تھا تو متقی لوگوں نے کسی بھی ملک و قوم میں بہتر سوسائٹی بنانے میں کیوں کامیابی حاصل نہیں کی؟ اگر انسانیت کی پوری تاریخ میں بھی مذہب کامیاب نہ ہوسکا تو آج کیوں کر اس سے امن و ترقی کی اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟ یہ کہہ دینا کہ انسانی فطرت ہی میں خرابی مضمر تھی، مفید نہیں ہوسکتا۔ مذاہب حق کو زندہ کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے کام کرتے رہے مگر نتیجہ تھوڑے تھوڑے وقفے کو چھوڑ کر ہمیشہ اُلٹا ہی نکلا اور تاریخ کے سیلاب کا رُخ نہ بدلا، یا بالفاظِ دیگر شیطان کی طاقت شکست نہ کھا سکی؟
جواب: آپ کا یہ سوال جتنے مختصر لفظوں میں ہے، اتنے مختصر لفظوں میں اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم اگر محض اشارات سے آپ کی تشفی ہوسکے تو جواب یہ ہے کہ اوّل تو آپ لفظِ مذہب کے نام سے جس چیز کو مُراد لیتے ہیں اس کا تعین کریں۔ اگر مذہب کا لفظ آپ جنس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جس میں ہرقسم کے مذاہب شامل ہیں تو اس کی طرف سے جواب دہی کرنا میرا کام نہیں ہے۔ اور اگر مذہب سے آپ کی مراد دین حق، یعنی وہ دین ہے جس کی تعلیم ابتداے آفرینش سے انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی رہی ہے اور جس کا نام عربی زبان میں اسلام ہے، تو وہ مجموعہ ہے اُن اصولوں کا جو کائنات کی واقعی حقیقتوں پر مبنی ہیں اور بجاے خود صحیح ہیں، خواہ انسان ان کو مانے یا نہ مانے۔
ان کی مثال ایسی ہے، جیسے مثلاً حفظانِ صحت کے اصول ہیں کہ وہ انسان کے جسم کی ساخت اور اس کے اعضا کی حقیقی فعلیت اور اس کے طبعی ماحول کی واقعی حقیقتوں پر مبنی ہیں۔ ان اصولوں کے مطابق کھانا، پینا، سانس لینا، آرام کرنا وغیرہ لازمی طور پر انسان کو تندرست رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص یا ساری دنیا مل کر بھی ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حفظانِ صحت کے اصول باطل ہیں، نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی پابندی کرنا انسانی فطرت کا تقاضا نہیں ہے، نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اصول ٹوٹ گئے اور شکست کھاگئے، اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی اس خلاف ورزی نے ان اصولوں کا کوئی نقصان کیا ہے، بلکہ درحقیقت اگر انسان ان اصولوں کے خلاف چلتے ہیں تو یہ ان کی ناکامی ہے اور نقصان ان کا اپنا ہے نہ کہ ان اصولوں کا۔
پس آپ جس چیز کو مذہب کی ناکامی کہہ رہے ہیں، وہ مذہب کی ناکامی نہیں، انسانوں کی ناکامی ہے۔ مثال کے طور پر مذہب ہم کو امانت کی تعلیم دیتا ہے۔ اب اگر تمام دنیا کے انسان مل کر بھی خیانت شروع کر دیں اور امانتوں کو ضائع کرنے لگیں تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ مذہب ناکام ہوا؟ مذہب کی ناکامی تو اس صورت میں ہوسکتی ہے، جب کہ یا تو یہ ثابت ہوجائے کہ فطرتِ کائنات اور فطرتِ انسان امانت کی نہیں خیانت کی مقتضی ہے، یا یہ ثابت ہوجائے کہ انسانی زندگی کا حقیقی امن اور تمدنِ انسانی کا قابلِ اعتماد استقلال اور تہذیب کا تسلسلِ ارتقا امانت سے نہیں بلکہ خیانت سے قائم ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ ثابت نہیں ہوتا اور نہیں ہوسکتا تو انسانوں کا امانت چھوڑ کر خیانت کو اختیار کرنا اور اس سے اخلاقی، روحانی اور تمدنی نقصانات اُٹھانا انسانوں کی ناکامی کا ثبوت ہے، نہ کہ ’مذہب‘ یا دین کی ناکامی کا۔ اسی طرح اور جتنے اصول ’دین‘ نے پیش کیے ہیں یا بالفاظِ دیگر جن اصولوں کے مجموعے کا نام ’دینِ حق‘ ہے ان کو جانچ کر دیکھیے کہ وہ حق ہیں یا نہیں؟ اگر وہ حق ہیں تو ان کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ اس بنا پر نہ کیجیے کہ انسانوں نے ان کی پابندی کی ہے یا نہیں۔ انسانوں نے جب ان کی پیروی کی تو وہ خود کامیاب ہوئے اور اگر ان کی پیروی نہ کی تو وہ خود ناکام ہوئے۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، سوم، ص ۱۴۵-۱۴۸)
س: قرآن مجید کی تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جاتی ہے، ماسوا سورئہ توبہ کے۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ ’’حضوؐر کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جب قرآن مجید کو مرتب کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس تھیلے کو نکالا گیا اور تمام سورتوں کی ترتیب، جیسے کہ رسولؐ اللہ نے بتائی تھی، وہ قائم رکھ کر ان کی نقل تیار کی گئی۔ تو چوں کہ حضوؐر کی لکھوائی ہوئی سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ درج نہیں تھی، اس وجہ سے صحابہ کرامؓ نے بھی اسے درج نہیں کیا۔ باقی کوئی سورت قرآنِ مجید کی ایسی نہیں ہے، جس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہ ہوا ہو‘‘۔
دراصل سورئہ توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟ اس کا سبب تشنہ رہ جاتا ہے۔ ازراہِ کرم اس جانب رہ نمائی فرمائیں یا کسی تفسیر کا حوالہ دیں تاکہ تشنگی دُور ہوسکے۔
ج: تفہیم القرآن ، جلد دوم، سورئہ توبہ کے شروع میں مولانا مودودیؒ نے جو نوٹ لکھا ہے، اس میں ’بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ‘ کے ذیلی عنوان کے تحت فرمایا ہے: ’’اس سورہ کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں، جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازیؒ نے لکھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی، اس لیے صحابہ کرامؓ نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوں کا توں لینے، اور جیساتھا ویسا ہی اس کے محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے‘‘۔
سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھی گئی؟ اس سلسلے میں مفسرین نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت بس نکات و لطائف کی ہے۔ علامہ قرطبیؒ نے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ اہلِ عرب جب کسی قوم سے کیے ہوئے اپنے معاہدوں کو منسوخ کرتے تھے تو منسوخی کے اعلان کے لیے تیار کردہ تحریر پر بسم اللہ نہیں لکھتے تھے۔ سورئہ توبہ میں بھی مشرکین سے کیے گئے معاہدے کی منسوخی کا اعلان ہے، اس لیے اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہیں کیا گیا اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو بھیجاکہ حج کے موقع پر ان آیات کو علی الاعلان سنا دیں تو انھوں نے بھی شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی۔
ایک دوسرا قول انھوں نے حضرت علیؓ سے نقل کیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اصلاً امان اور رحمت کا مظہر ہے، جب کہ اس سورت سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غضب کا اظہار ہوتا ہے (تفسیر قرطبی، طبع مصر، ۱۹۸۷ء، ۸/۶۳)۔ لیکن اس تاویل کو علامہ آلوسی نے ضعیف بتایا ہے۔ اس لیے کہ بعض دیگر سورتوں، مثلاً مطففین، ہمزہ اور لہب وغیرہ کا آغاز بھی اللہ کے غضب سے ہوا ہے، مگر ان کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی جاتی ہے۔ (روح المعانی، طبع مصر، ۱/۴۱)
اس سلسلے میں قولِ فیصل وہی ہے جسے علامہ قرطبیؒ نے امام قشیریؒ کے واسطے سے نقل کیا ہے: ’’صحیح بات یہ ہے کہ یہاں بسم اللہ الرحمن الرحیم اس لیے نہیں لکھی جاتی کیوں کہ حضرت جبرئیل ؑجو قرآن لے کر نازل ہوئے تھے، اس میں یہاں وہ نہیں تھی‘‘۔(تفسیر قرطبی، ۸/۶۳)
یہ تو بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھے جانے کی بات ہے۔ جہاں تک اس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کا معاملہ ہے، تو اس سلسلے میں علما فرماتے ہیں کہ چوں کہ یہاں وہ لکھی ہوئی نہیں ہے، اس لیے اسے پڑھنا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن بعض علما اس کے پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس موضوع پر علامہ آلوسی نے کسی قدر تفصیل سے لکھاہے، جسے نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ امام سخاویؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’مشہور ہے کہ سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھی جائے۔ عاصمؒ سے مروی ہے کہ پڑھنی چاہیے۔ یہ بات انھوں نے قیاساً کہی ہے۔ کیوں کہ اس کے لکھے نہ جانے کا سبب یا تو یہ ہے کہ اس میں مشرکینِ مکہ سے جنگ کی بات کہی گئی ہے یا یہ ہے کہ صحابہ قطعی طور پر طے نہیں کرپائے تھے کہ یہ مستقل سورت ہے یا سورئہ انفال کا حصہ ہے۔ پہلی صورت میں اس کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہوگا جن کے بارے میں یہ سورت اُتری تھی اور ہم تو اسے برکت حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان آیتوں سے قرآن پڑھنے کا آغاز کیا جائے جن میں مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم ہے تو ان سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بالاتفاق جائز ہے۔ دوسری صورت میں بھی بسم اللہ پڑھی جاسکتی ہے جس طرح سورتوں کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ روایت میں ہے کہ مصحفِ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شروع میں وہ لکھی ہوئی تھی‘‘۔ (روح المعانی، ۱۰/۴۲)
علامہ آلوسیؒ مزید فرماتے ہیں: ’’ابن منادر کی راے ہے کہ بسم اللہ (سورئہ توبہ کے شروع میں) پڑھنی چاہیے۔ الاتناع میں بھی اس کے جواز کی بات کہی گئی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسے نہ پڑھنا مستحب ہے، اس لیے کہ مصحف میں وہ درج نہیں ہے اور اس معاملے میں کسی دوسرے کی تقلید نہیں کی جائے گی۔ لیکن اس جگہ بسم اللہ پڑھنے کو حرام قرار دینا اور نہ پڑھنے کو واجب کہنا، جیساکہ بعض مشائخ شافعیہ کا خیال ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص درمیانِ سورہ سے تلاوت شروع کرے، اس کے لیے بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے واللّٰہ تعالٰی اعلم‘‘۔ (روح المعانی، ۱۰/۴۲)
اس موضوع پر مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے اپنی تفسیر میں صحیح رہ نمائی کی ہے: ’’حضرات فقہا نے فرمایا ہے کہ جو شخص اُوپر سے سورئہ انفال کی تلاوت کرتا آیا ہو اور سورئہ توبہ شروع کر رہا ہو وہ بسم اللہ نہ پڑھے، لیکن جو شخص اس سورت کے شروع یا درمیان سے اپنی تلاوت شروع کر رہا ہے، اس کو چاہیے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کرے۔ بعض ناواقف یہ سمجھتے ہیں کہ سورئہ توبہ کی تلاوت میں کسی حال میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں۔ یہ غلط ہے اور اس پر دوسری غلطی یہ ہے کہ بجاے بسم اللہ کے، یہ لوگ اس کے شروع میں اعوذ باللّٰہ من النار پڑھتے ہیں، جس کا کوئی ثبوت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے نہیں ہے‘‘ (معارف القرآن، طبع دیوبند، ۴/۷۷)۔ (رضی الاسلام ندوی، زندگی نو، نئی دہلی، مئی ۲۰۱۱ء)
س: ایسا ناقص الخلقت جنین، جس کے بارے میں الٹراسائونڈ سے یقین ہوگیا ہو کہ وہ پیدا ہوگا تو مختصر عرصے میں مرجائے گا یا زندہ رہے گا تو معمول کی زندگی نہیںگزار سکے گا۔ کیا اس کا اسقاط کراناجائز ہے؟
ج: اسلامی شریعت نے جنین کو وہی حیثیت دی ہے جو زندہ انسان کی ہوتی ہے۔ اسی لیے اس نے ان تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا ہے جن سے جنین کو ضرر لاحق ہوسکتا ہے۔ اگر جنین کو کسی قسم کا خطرہ ہو تو حاملہ یا مرضعہ (دودھ پلانے والی) عورت کو رمضان کے روزے نہ رکھنے کا حکم ہے۔ اسی طرح اس پر حد جاری نہیں کی جاسکتی، جب تک کہ وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور وہ دودھ چھڑانے کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔
اسی بنا پر علما نے روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد اسقاط کو ناجائز قرار دیا ہے۔ یہ مدت بخاری و مسلم کی ایک حدیث کے مطابق ۱۲۰ دن ہے۔ اس سے قبل اس کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں ان کا اختلاف ہے۔ بعض علما کے نزدیک بہ وقت ِ ضرورت جائز ہے۔ کیوں کہ روح پھونکے جانے سے قبل جنین محض ایک بے جان لوتھڑا ہے، لیکن بعض علما اس وقت بھی اسقاط کو حرام نہیں تو مکروہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آیندہ اس میں روح پڑ جائے گی۔
بعض علما کے نزدیک روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد بھی ناگزیر حالت میں اسقاط کروایا جاسکتا ہے۔ یہ ناگزیر صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جنین میں کوئی ایسا تخلیقی نقص پیدا ہوجائے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کی زندگی اجیرن ہوجائے۔ الٹراسائونڈ سے ایسے نقائص کا پتا لگ جاتا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے ایک سوال کے جواب میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے اور ان علما کی راے سے اپنے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے بعض دلائل دیے ہیں۔
آخر میں لکھا ہے: ’’میری نظر میں صرف ایک ہی ایسی صورت ہے جس میں اسقاط کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ اسقاط نہ کرایا گیا تو ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ ایسی صورت میں ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرایا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ماں کی جان بہرحال بچے کی جان سے زیادہ اہم ہے (فتاویٰ یوسف القرضاوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، جلد دوم، ص ۲۲۵)۔ (رضی الاسلام ندوی، زندگی نو، نئی دہلی، مئی ۲۰۱۱ء)
س: بعض اوقات انسان کے ذہن میں عجیب و غریب قسم کے سوالات و وسوسے آنے لگتے ہیں ، کیا ان وسوسوں پر مواخذہ کیا جائے گا؟
ج: دل میں خیالات و وساوس کا آنا خاصۂ انسانی ہے۔ نماز کے دوران اگر وسوسے آئیں تو کوشش کرکے انھیں جھٹک دینا چاہیے۔ عام حالات میں بھی وسوسے مطلوب نہیں لیکن بہرحال یہ انسانی کمزوری ہے۔ اسی لیے نبی رئوف و رحیم نے امت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العالمین نے اپنی رحمت خاص سے میری امت پر سے دل میں گزرنے والے خیالات و وساوس پر مواخذہ نہ کرنے کی بشارت دی ہے، جب تک کہ اس وسوسے کو زبان پر نہ لایا جائے اور نہ اس کے مطابق کوئی عمل ہی کیا جائے۔ صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ سے صحابہؓ نے یہ سوال کیا کہ ان کے دل میں خیالات و وسوسے آتے ہیں، تو آپؐ نے فرمایا کہ ہاں یہ وسوسے آنے کا عمل انسانی کمزوری ہے۔ یہ عمل بعض اوقات انسان کو اس مقام پر لے آتا ہے کہ وہ سوچتا ہے ساری مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا جب ایسا خیال ذہن میں آئے تو سمجھو کہ یہ شیطان ہے۔ اس لیے وسوسوں کو ذہن سے فوراً جھٹک کر یہ کہیے: اٰمنت باللّٰہ ورسلہ۔ ایک دوسری روایت میں آں حضورؐ نے فرمایا: ایسی کیفیت میں انسان کو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے اور ان خیالات کو یکسر ترک کرنا چاہیے (مسلم)۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (شیخ عبدالعزیز بن بازؒ،ترجمہ: حافظ محمدادریس، المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۵۳، ۲۱مئی ۲۰۱۱ء)
س: قرآن مجید اگر غلطی سے ہاتھ سے گر جائے تو اس کا کیا کفارہ ہے، اور کیا ایسی صورت میں اسے چوم کر اونچی جگہ پر رکھنا چاہیے؟
ج: صحابی جلیل حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کے بارے میں یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ مصحف شریف کی تلاوت کرتے ہوئے اسے چوما کرتے تھے اور ساتھ کہا کرتے تھے کہ یہ میرے رب کریم کا عظیم الشان کلام ہے۔ اس لیے قرآن مجید کو چومنے میں کوئی حرج نہیں مگر قرآن مجید غلطی سے نیچے گر جائے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ قرآن مجید کو چومنا واجباتِ شرعیہ میں سے بھی نہیں ہے۔ پس قرآن مجید کی عظمت کے پیش نظر گرجانے کی صورت میں یا اس کے بغیر بھی قرآن کو عقیدت و محبت سے چوما جائے تو ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔(ایضاً)
سوال: ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو برکت و فضل عطا فرما اور بخل کرنے والوں کو بربادی۔ لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی میں عملی طور پر بہت سے افراد ایسے ملیں گے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنگ دامانی نہیں جاتی، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور دادِ عیش دے رہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟
جواب: آپ نے جس حدیث کا مفہوم پیش کیا ہے، وہ ایک صحیح حدیث کا مفہوم ہے اور بخاری و مسلم میں اس طرح موجود ہے:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دن جب شروع ہوتا ہے تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو برکت عطا فرما، اور دوسرا بددعا کرتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کے حصے میں بربادی رکھ دے۔
اسی مفہوم میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ قرآن میں بھی متعدد آیات اسی مفہوم کو پیش کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج (السبا۳۴:۳۹) جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے۔
سوال کرنے والے بھائی کو اس حدیث کو سمجھنے میں جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ یہ کہ انھوں نے برکت اور بربادی کو مال ودولت کی حد تک محدود کر دیا، جب کہ برکت کا مفہوم محض مال و دولت میں اضافہ اور بربادی کا مفہوم محض مال و دولت میں خسارہ نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ برکت کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ برکت کبھی صحت و تندرستی کی شکل میں ملتی ہے تو کبھی نیک اولاد کی شکل میں۔ کبھی مال ودولت کی فراوانی کی صورت میں برکت ہوتی ہے تو کبھی محض معنوی برکت عطا ہوتی ہے، مثلاً ہدایت کی توفیق، سکونِ قلب اور لوگوں میں عزت و مقبولیت وغیرہ۔ ان سب پر مستزاد وہ اجر ہے جو اللہ نے ان کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔ برکت کو محض چند سکّوں میں محصور کرلینا ایک زبردست غلط فہمی ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ذہنی سکون سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo (یونس ۱۰:۵۸) اے نبیؐ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اِس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔
اسی طرح بربادی کا مفہوم محض مال ودولت میں خسارہ نہیں ہے۔ بربادی کبھی بیماری کی صورت میں آسکتی ہے تو کبھی غیرصالح اولاد کی صورت میں۔ کبھی لوگوں میں نفرت کی صورت میں اور کبھی ذہنی خلفشار کی صورت میں۔ کبھی انسان کو ایسی بے چینی اور خلش لاحق ہوجاتی ہے جو ہزار نعمت کے باوجود مستقل اسے اندر ہی اندر گھلائے جاتی ہے۔ ان سب پر مستزاد وہ عذاب ہے جو اللہ نے اس کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔(علامہ یوسف القرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، دارالنوادر، اُردو بازار، لاہور،ص ۵۷-۵۹)
س: حدیث نبویؐ ہے کہ بھلی بات کہو یا خاموش رہو، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟
ج: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے: ’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے‘‘ (بخاری، مسلم)۔ ایک دوسری حدیث ہے: ’’اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حق دار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا‘‘۔
بلا شبہہ زیادہ بولنا اور بلاوجہ بولتے رہنا انسان کے لیے باعثِ تباہی اور گناہوں کا سبب ہے۔ امام غزالیؒ نے اُن گناہوں کی تعداد ۲۰ بتائی ہے، جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالغنی نابلسیؒ نے اس تعداد کو ۷۲ تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے اکثر گناہِ کبیرہ کے قبیل سے ہیں، مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا، اور دوسروں کا مذاق اُڑانا وغیرہ ۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے۔ خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔
جو لوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطائوں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزا کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بندۂ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہر بات نوٹ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ۵۰:۱۸) ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹-۶۰)
سوال: اللہ کے سایے سے کیا مراد ہے؟ احادیث میں نیک لوگوں کے اللہ کے سایے میں جگہ پانے کا تذکرہ ہے۔ اللہ تو رب العالمین ہے اگر اس کا سایہ ہے تو پھر اسے سارے جہانوں پر محیط ہونا چاہیے۔
جواب: قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے وجود، ذات اور صفات کے حوالے سے ہماری رہنمائی کی ہے۔ ان مقامات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود جسم کا محتاج نہیں ہے، جب کہ سایے کا تعلق جسم کے ساتھ ہے۔ ہر وہ شے جو جسم رکھتی ہے اگر سورج یا روشنی کی زد میں آئے تو سایہ پیدا ہوتا ہے۔ درخت کے نیچے سایہ بھی اسی لیے آرام دہ ہوتا ہے کہ سورج کی تپش ٹہنیوں اور پتوں کے درمیان میں آنے سے ہم تک نہیں پہنچتی اور ہم سایے کو اپنے لیے رحمت سمجھتے ہوئے آرام کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ ترین ہستی جو تمام موجودات کی پیدا کرنے والی ہے کہ جس کے حکم سے بنی اسرائیل پر ۴۰سال تک اَبرسایہ کرتا رہا تاکہ وہ ریگستان میں محفوظ رہ سکیں، اور وہ ہستی جو حضرت ابراہیم ؑ کے لیے آگ کو گلزار بناسکتی ہے، کیا وہ میدانِ حشر میں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسی تپش ہوگی کہ انسان پسینے میں شرابور ہوکر ڈوب جائے، اسی میدانِ حشر میں اپنے بعض بندوں کے لیے جو اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے رہے ہوں، سایے کا بندوبست نہیں کرسکتا؟ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ سایہ کس طرح پیدا ہوگا بلکہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ وہ رحمن و رحیم جو اس دنیا میں ایسے ایسے معجزات دکھا سکتا ہے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو میدانِ حشر کا حاکم اور فرماں روا ہے کیا وہ اپنے پسندیدہ بندوں کے لیے سایہ پیدا نہیں کرسکتا؟ اگر ہم اُس اللہ پر یقین رکھتے ہیں جو ہرشے کا خالق، مالک، مصور اور اختیار رکھنے والا ہے۔ تو میدانِ حشر میں اپنے بندوں پر سایہ کردینا، اس کے ایک ہلکے سے اشارے کا محتاج ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: میں شمسی توانائی کے استعمال پر کام کررہا ہوں۔ غالباً ایک حدیث پاک ہے کہ دھوپ سے گرم کیا ہوا یا گرم ہوجانے والا پانی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ براہِ مہربانی اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔ یہ بھی واضح فرما دیں کہ کیا تالاب کا پانی بھی استعمال نہ کرنا چاہیے؟ اس لیے کہ دھوپ تو بہرحال اس کو بھی گرم کرتی ہے۔ کیا تالاب کے چھوٹا یا بڑا ہونے کی کوئی حد ہے؟
ج: آپ نے جس حدیث مبارک کے حوالے سے استفسار فرمایا ہے وہ دارقطنی کے حوالے سے مشکوٰۃ باب احکام المیاہ میں ذکر کی گئی ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا ہے کہ دھوپ پر گرم کیے ہوئے یا گرم ہوجانے والے پانی سے غسل نہ کرو کہ یہ’ برص‘ کا مرض پیدا کرسکتا ہے۔ (الفصل الثالث، حدیث ۱۴)
حضرت عمرؓ کے اس ارشاد کے بارے میں احتمال ہے کہ ان کا اپنا قول ہو یا انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ارشاد فرمایا ہو۔ اس بات کی تصریح کہیں بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اُنھوں نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ اس لیے ظاہر یہی ہے کہ یہ ان کا اپنا قول ہے، اور یہ ایک طبّی راہنمائی ہے جو انھوں نے کسی ذریعے سے حاصل کی اور پھر اسے بیان کر دیا۔
اس قول کو بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن امام شافعیؒ نے اس کی ایسی سند بھی بیان کی ہے جس کے تمام راوی قابلِ قبول اور قابلِ اعتماد ہیں۔ اس لیے اسے ضعیف قرار دینا درست نہیں ہے۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ از مولانا قطب الدینؒ)
امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک اس طرح کے پانی سے وضو اور غسل کرنا بلاکراہت جائز ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک نقصان دہ ہونے کی بنا پر اس سے وضو اور غسل مکروہ ہے لیکن متاخرین فقہاے شافعیہ کے نزدیک بھی ائمہ ثلاثہ کی طرح اس سے وضو اور غسل بلاکراہت جائز ہے۔ اس سلسلے میں راجح بات یہ ہے کہ یہ ایک طبّی مشورہ ہے اس لیے اگر دوسرا پانی موجود ہو تو وضو اور غسل کے لیے دھوپ پر گرم کیے ہوئے پانی سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ کبھی کبھار وضو کرلیا جائے تو خیر ہے لیکن اسے عادت اور معمول بنانا یا احتیاط نہ کرنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی بہشتی زیور میں یہی مشورہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’دھوپ میں جلے ہوئے پانی سے سفید داغ ہوجانے کا ڈر ہے، اس لیے اس سے وضو، غسل نہ کرنا چاہیے‘‘۔(ص۵۴)
تالاب کے پانی کے استعمال کے بارے میں واضح رہے کہ تالاب کے پانی کو جب دھوپ لگے اور وہ اس سے گرم ہوجائے تو اس کا استعمال بھی مناسب نہیں ہے۔ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ البتہ بہنے والا پانی جو دریا، نہر یا ندی نالے کی شکل میں ہو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔اس لیے کہ مسلسل جاری رہنے سے پانی اس سے اتنا متاثر نہیں ہوتا کہ اس کا استعمال خطرناک ہو۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س: ہمارے ہاں اگر کسی خاتون کا شوہر فوت ہوجائے یا کسی کی بیوی فوت ہوجائے تو برادری والے دوسری شادی کو معیوب سمجھتے ہیں۔ کیا یہ رویہ درست ہے؟
ج: دنیوی زندگی کے دوران ہر انسان کے لیے موت مقرر ہے اور ایک نہ ایک روز ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ شوہر اور بیوی بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ کبھی شوہر پہلے فوت ہوجاتا ہے تو کبھی بیوی۔ اس پر انسان کا بس نہیں چلتا ہے۔ ہم روز مرہ زندگی میں اس کو ایک معمول سمجھتے ہیں کہ آئے روز اس سے ہمیں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
اسلام نے شوہر اور بیوی کے درمیان قائم تعلق کو تقدس اور احترام کا درجہ دیا ہے کیونکہ اسی رشتے کے نتیجے میں انسانی معاشرہ پھلتا پھولتا ہے۔ اس لیے اگر شوہر فوت ہوجائے تو عورت پر اس کا سوگ منانا ایک مقررہ مدت تک فرض کیا گیا ہے، اور اگر بیوی فوت ہوجائے تو اس پر بھی سوگ کا ایک طریقہ طے کیا گیا ہے لیکن کسی ایک کو دوسرے کے انتقال کی صورت میں شادی کرنے سے روکا نہیں گیا ہے، بلکہ شادی کی خواہش اور استطاعت ہونے کی صورت میں حسبِ ضرورت اس کو فرض، واجب یا مستحب کہا گیا ہے۔
اس سے بڑھ کر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ صرف انتقال کی صورت میں ہی نہیں، بلکہ طلاق کی صورت میں بھی عدت مکمل ہونے کے بعد عورت کو دوسری شادی کرنے کا حق دیا گیا ہے اور کسی عزیز رشتہ دار کو اس بات سے روکنے کا حق شریعت نے نہیں دیا ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْھَرُ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۳۲) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرتجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
لہٰذا کسی برادری، رشتہ دار، باپ دادا یا اولاد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مرد کو اُس کی بیوی کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح سے روکے، اور نہ کسی بیوہ کو اس کے شوہر کے انتقال کے بعد دوسری شادی سے روکے۔ حلال اور حرام کے حدود مقرر کرنا اللہ کا کام ہے۔ کسی اور کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔ شادی کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اور انسانی معاشرے کے قیام اور بقا کے لیے ضروری بھی ہے۔ گویا شوہر یا بیوی کی وفات کی صورت میں بھی اور طلاق یافتہ عورت اپنی ضروری عدت مکمل کرنے کے بعد اپنے حالات اور ضروریات کے تحت دوسری شادی کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں۔ اُن کو اس حق کے استعمال سے روکنا صریح ظلم ہے جس کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی ہے۔
اگر کسی برادری میں یہ رسم اور رواج موجود ہے تو معقول انداز میں اُن کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے، اور اللہ کے حکم کے مقابلے میں کھڑا ہونے، اس کی راہ روکنے یا اس کی مخالفت کرنے کے انجام سے ان کو خبردار کیا جانا چاہیے۔ نیز اس حکم کی خلاف ورزی کے نتیجے میں جو فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس سے بھی آگاہی ہونی چاہیے۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے: ’’جب تمھارے پاس رشتہ لینے دینے کے لیے کوئی ایسا شخص آجائے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کو رشتہ دے دیا کرو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ گویا کہ اچھے رشتے اور پسندیدہ رشتے کے ملنے کے بعد اس میں پس و پیش کرنا یا روڑے اٹکانا یہ روے زمین پر فساد اور فتنے پھیلانے کا باعث ہے۔ اس سے گریز کیا جائے اور اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی راہ میں روڑے نہ اٹکانے چاہییں۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)
س: ایک مسلمان کی غیرمسلم شخص کی وفات پر اس کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیسے کرسکتا ہے؟
ج: انسانی زندگی میں خوشی اور غمی کے مواقع مسلسل آتے رہتے ہیں، اور اسلام نے ان مواقع پر ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہونے، اس پر اظہارِ مسرت کرنے، اور غمی کے موقع پر اظہارِ ہمدردی اور تعزیت کرنے کو اسلام کے تقاضوں میں سے قرار دیا ہے۔
خوشی یا غمی کے موقع پر شرکت یا ہمدردی کے اظہار کے لیے مذہب یا رنگ نسل کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ آپ کا پڑوسی یا جاننے والا آپ کی طرف سے اس ردعمل کا حق دار ہے کہ آپ اُس کی خوشی میں بھی شریک ہوں اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر اظہارِ ہمدردی یا تعزیت کریں بلکہ ممکنہ تعاون بھی پیش کریں۔ رسولؐ اللہ نے ہمیشہ اپنے متعلقین یا پڑوسیوں کے ساتھ اسی حُسنِ سلوک کا اظہار فرمایا ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ تعزیت، اظہارِ ہمدردی اور دعاے مغفرت میں بڑا فرق ہے۔ دعاے مغفرت صرف اہلِ ایمان کا حق ہے اور انھی کے ساتھ مخصوص ہے۔ کسی غیرمسلم کے لیے آخرت میں کامیابی اور فوز و فلاح کی دعا ٹھیک نہیں ہے اور نہ کسی غیرمسلم ہی کو اس کی توقع ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتا ہے۔ رسولؐ اللہ سے کسی غیرمسلم کے لیے یہ عمل ثابت نہیں ہے بلکہ خود حضرت ابراہیم ؑکی مثال اس سلسلے میں بڑی واضح ہے کہ آپ نے اپنے والد کے لیے اس خواہش کا اظہار کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
لہٰذا اپنے کسی پڑوسی، رشتہ دار، جاننے والے غیرمسلم کی وفات پر اس کے لواحقین سے اظہارِ ہمدردی کرنا یا تعزیت کے الفاظ کہنا، اُن کے غم میں شریک ہونا، تسلی اور دلاسہ دینا جائز ہے بلکہ حسب ِ احوال ضروری ہوتا ہے۔ اس سے آپس میں پیار اور محبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے، بلکہ خود دین اسلام کی خوبیاں اور محاسن کو غیرمسلموں کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ ایک انسانی تعاون ہی نہیں بلکہ دینی دعوت کا کام ہے جس میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کی بھلائی اور فائدہ ہوتا ہے۔ اس رواج کو پروان چڑھانا چاہیے اور اس سے پیار و محبت کی فضا قائم کرنی چاہیے تاکہ انسان انسانوں کے قریب آئیں اور حقیقت کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اس بات کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ ان کے مذہبی تہواروں اور ان کی مذہبی رسوم میں شرکت بھی جائز نہیں ہے جس طرح دعاے مغفرت جائز نہیں ہے۔ (م-ر-ی)
س: دستور جماعت کے مطابق جماعت اسلامی میں مختلف مناصب اور ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب کسی کو ذمہ داری سونپی جائے تو دوسرے ساتھی یعنی کارکنان کو اپنے امیر یا ناظم کو ملاقات پر کیا کہنا چاہیے؟ کیا مبارک باد دی جائے یا کوئی دُعا؟ بعض ساتھی مبارک باد دینا پسند نہیں کرتے کہ یہ ذمہ داری ایک قسم کا بوجھ ہے، خوشی کی بات نہیں۔ صحیح رہنمائی فرمائیں۔
ج: مبارک باد ایسی چیز کے حصول پر دی جاتی ہے جسے پاکر ایک آدمی خوشی محسوس کرے۔ عہدہ اور منصب خوشی کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو آدمی کو فکرمند بنا دیتی ہے۔ جو چیز آدمی کو فکرمند بنا دے، اسے سوچنے پر مجبور کردے کہ وہ کامیاب ہو تاکہ راحت محسوس کرے اور خوش ہوجائے، اور بالفرض ناکام ہو تو پھر پریشانی سے دوچار ہوگا۔ یہ چیز مبارک باد کی نہیں بلکہ دعا کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ جسے کوئی عہدہ یا ذمہ داری ملے اسے کامیابی اور استقامت کی دعا دی جائے۔ یہی طریقہ ہمیشہ سے چلا آرہا ہے، اسی کو قائم رکھنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
سوال: شریعت کے مختلف ستون ہیں، مثلاً عبادات، اخلاقیات اور معاملات۔ ان میں ترجیح کس طرح متعین ہوگی؟ مثال کے طور پر ایک شخص عبادات میں بہت اچھا ہے لیکن معاملات اور اخلاقیات بالکل ادا نہیں کرتا تو کیا ایسی صورت میں وہ عبادات کے اجر کا مستحق ہوگا؟ اسی طرح اگر معاملات اور اخلاقیات میں بہت اچھا ہو لیکن عبادات میں کمزور ہو تو کیا اللہ کے نزدیک اس کا رتبہ بہ نسبت پہلے کے زیادہ ہوگا؟
جواب: آپ نے اپنے سوال میں عبادات، اخلاقیات اور معاملات کے حوالے سے یہ جاننا چاہا ہے کہ ان میں ترجیح کیا ہوگی، یعنی اگر ایک شخص یہ سمجھتا ہو کہ وہ انسانوں کی خدمت کے خیال سے سیلاب زدگان یا زلزلہ کے متاثرین کا کسی کچی آبادی کے رہنے والوں کی طبی امداد میں لگا ہوا ہے، ان میں کھانا تقسیم کر رہا ہے، اس لیے اذان ہورہی ہے تو ہوتی رہے، وہ بعد میں جب فرصت ہوگی نماز پڑھ لے گا تو کیا اس کا ایسا کرنا شریعت کے اصولوں کی روشنی میں درست ہے؟
یہ بات ہمارے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ اسلام دو چیزوں سے عبارت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمشروط اطاعت، اور جس طرح اللہ اور رسولؐ چاہتے ہوں اللہ کے بندوں اور دیگر موجودات کے حقوق کی ادایگی، ان میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی ابہام۔ فرائض کی اوّلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالت ِ جہاد میں بھی نماز کی پابندی کا حکم ہے۔ گو اس کی شکل بدل جاتی ہے اور بجاے مکمل نماز بیک وقت پڑھنے کے ایک ایک رکعت کی شکل میں اسے ادا کیا جاتا ہے۔ اس طرح کہ پہلے فوج کا ایک حصہ امام کے پیچھے ایک رکعت نماز ادا کرتا ہے، جب کہ دوسرا حصہ دشمن کے مدمقابل حفاظت کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایک رکعت ادا کرنے کے بعد سپاہی دشمن کے مدمقابل حفاظت کے لیے چلے جاتے ہیں، جب کہ پہلے سے حفاظت پر مامور سپاہی امام کے پیچھے کھڑے ہوکر ایک رکعت ادا کرتے ہیں۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دونوں باری باری اپنی بقیہ رکعت ادا کرلیتے ہیں۔ اگر صرف عقل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا تو جان کی حفاظت اور دفاعی ضرورت کے پیش نظر عقل یہی فیصلہ کرتی کہ پہلے اپنی اور دوسروں کی جان بچانے کے لیے میدانِ جہاد میں فتح حاصل کرو۔ اس کے بعد یکسوئی اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا۔ لیکن شریعت کی بنیاد ادلہ (دلیل)، مقصد اور حکمت تینوں پر ہے۔ دلیل قرآن و سنت سے، مقصد شریعت کے اصولوں سے، اور حکمت دین کے فہم کی بنیاد پر تلاش کی جاتی ہے۔ چنانچہ حالتِ جہاد میں نماز کی ایک رکعت کا اس طرح ادا کرنا کہ اسلحہ رکھ دیا ہے اور بقیہ اہلِ ایمان جنگ میں مصروف ہیں اور نمازیوں کی حفاظت بھی کر رہے ہیں عین شریعت، مقاصد اور عقل کے مطابق ہے۔
اخلاق اور معاملات میں کوئی تفریق کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اسلام میں معاملات کی بنیاد اخلاق پر ہے۔ اخلاق چند نظریاتی باتوں اور اصولوں کا نام نہیں ہے بلکہ عمل کا نام ہے۔ اس بنا پر اُم المومنین سیدہ عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق دیکھنا ہو تو قرآن میں دیکھ لو۔ جو کچھ قرآن نے کہا، آپؐ نے اسے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ڈھال دیا۔ گویا جس طرح اداراتی علوم کے ماہرین تجارتی اخلاقیات پر کتب لکھتے ہیں، جامعات میں پڑھاتے ہیں اور اچھی خاصی فیس لے کر ورکشاپ میں مشق کراتے ہیں، اسی طرح نہ صرف تجارت بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہرکام کا ایک اخلاق ہے۔ نماز کا اخلاق خشیت ہے۔ زکوٰۃ کا اخلاق اخفا اور اظہار کے ساتھ دینا ہے۔ لیکن اس طرح کہ وہ کسی پر احسان ہے نہ خیرات بلکہ مستحق کو اس کا حق پہنچانا ہے۔ ایسے ہی جہاد کا اخلاق یہ ہے کہ اسے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس میں نہ نمایش مقصود ہے نہ کسی تمغے کا حصول۔ والدین کے ساتھ اخلاق، ان کے حقوق کی ادایگی ہے۔ ایسے ہی ہمسایہ کے ساتھ اخلاق، اس کے حقوق کی ادایگی ہے۔ گویا اسلام میں تمام معاملات اخلاق کے تابع ہیں۔
ان دو گزارشات کے بعد اگر آپ کے سوال پر غور کیا جائے تو اوّلاً معاملات اور اخلاقیات میں کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ ثانیاً، عبادت اللہ کا بندے پر حق ہے۔ اسی طرح حقوق العباد کا ادا کرنا نہ صرف معاملات بلکہ عبادت کے دائرے میں بھی شامل ہے۔ والدین کے حقوق ہوں یا ہمسایے اور اقربا یا احباب اور دیگر مستحقین کے، ان کی ادایگی کا سبب صرف ایک ہی تو ہے، یعنی رب کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم۔ اس لیے حقوق العباد کی ادایگی عبادت کی طرح اجر کا باعث ہے۔ لیکن عبادات میں بعض فرض ہیں، بعض سنت، بعض سنت مؤکدہ اور بعض نفل۔ ایسے ہی حقوق العباد ادا کرتے وقت یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر نماز کا وقت ہے اور جماعت ۱۵:۶ پر ہے، جب کہ ایک سرجن کو ۵بجے سے سرجری کا آغاز کرتا ہے جو تین گھنٹے جاری رہے گی تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ سرجری کا وقت ۲۵:۶ سے رکھے تاکہ نماز ادا کرنے کے بعد حقوق العباد کی طرف متوجہ ہو یا وہ ایک جان بچانے کے بدلے قضا نماز ادا کرے۔
عام حالاتِ زندگی میں صورت حال، اس کے مقابلے میں بہت آسان ہوگی۔ مندرجہ بالا مثال کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے ایسے کام جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں، بہ آسانی اس طرح ادا کیے جاسکتے ہیں کہ فرائض کی ادایگی بھی متاثر نہ ہو اور اللہ کے حقوق کے ساتھ انسانوں کے حقوق بھی ادا کیے جاسکیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: آج کل خواتین میں ویکسنگ، تھریڈنگ وغیرہ کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اس کے بارے میں اسلامی احکامات کیا ہیں؟ کس حد تک جسم کے بالوں کی صفائی کا حکم ہے اور شرعاً اس کے لیے کون سے ذرائع جائز ہیں؟ حوالوں کے ساتھ تفصیل سے بتایئے تاکہ میں لڑکیوں اور عورتوں کو آگاہ کرسکوں۔
ج: اسلام ایسی زیب و زینت جو محض مصنوعی اور جھوٹی ہو، جس میں مرد یا عورت کا اصلی چہرہ اور ساخت تبدیل ہوجائے، کی اجازت نہیں دیتا۔ مرد اور خواتین کا جسم کے غیرضروری بالوں کو صاف کرنا تو فطرتِ انسانی اور انبیاء علیہم السلام کی سنت میں داخل ہے۔ عورت کے سر کے بال چھوٹے ہوں تو انھیں بڑا اور زیادہ دکھلانے کی خاطر، اس کے ساتھ انسانوں، مردوں یا خواتین کے بالوں کو جوڑنا ممنوع ہے، ایسا کرنے والی اور ایسا کرانے والی عورت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔ اس سلسلے میں صرف ایسے جان داروں کے بال جو حلال اور پاک ہوں (مُردار نہ ہوں) جن کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہو کہ یہ عورت کے اپنے بال نہیں ہیں، یا اُون اور دھاگوں کے بنے ہوئے بال پیوند کیے جاسکتے ہیں۔
بھووں کے بڑھے ہوئے بالوں کو بقدرِ ضرورت قینچی سے کاٹا جاسکتا ہے۔ چہرے یا جسم کے کسی حصہ میں سوئی سے گود کر رنگ بھرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ چہرے پر قدرتی چھوٹے چھوٹے بال جو دیکھنے والے کو نظر بھی نہیں آتے ان کو نوچنے اور ختم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جسم کے باقی حصوں، ہاتھوں، بازووں، سینے اور ٹانگوں اور پیٹھ کے بالوں کو مشین یا کسی دوسری چیز سے صاف کردینے کی اجازت نہیں ہے۔ زینت کی یہ تمام صورتیں جھوٹے میک اپ کا درجہ رکھتی ہیں۔ عورت کے چہرے پر غیرقدرتی اور غیرطبعی بال نکل آئیں، مثلاً بعض خواتین کے چہرے پر ڈاڑھی کی طرح کے کچھ بال ایک جگہ یا مختلف جگہوں پر نکل آئیں تو ان کو نوچنے کی اجازت ہے کیونکہ ان کو نوچنا حسن کی جھوٹی نمایش میں نہیں آتا بلکہ عیب کی اصلاح ہے۔
ویکسنگ اور تھریڈنگ کی وہ تمام شکلیں جو مندرجہ بالا اصولوں کی حدود میں نہ ہوں، مکروہ ہیں اور زیب و زینت کی جھوٹی نمایش اور بناوٹ کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات درج ذیل ہیں:
۱- اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ایک لڑکی دلہن بنی ہے اور اسے چیچک نکل آئی ہے، جس کی وجہ سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں۔ کیا میں اس کے بالوں کے ساتھ بال ملا کر پیوند کردوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بال جوڑنے اور جڑوانے والی پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔ (مسلم، کتاب اللباس والزینۃ)
۲- ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے اور جڑوانے والی اور گودنے اور گودوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ (مسلم)
۳- عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گودنے والی اور گدوانے والیوں، بالوں کو نوچنے والیوں، نچوانے والیوں اور خوبصورتی کی خاطر دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں، اللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنے والیوںپر لعنت کی ہے۔ (مسلم)
۴- بالوں کو بنانے، ویکسنگ اور تھریڈنگ غیرمحرم مردوں یا آزاد منش عورتوں سے کرانا بھی مکروہ فعل ہے۔ زیب و زینت کی معروف صورتیں سرخی، سرمہ مہندی، جب کہ حُسن کا گھر کی چار دیواری سے باہر بے پردگی کے ساتھ مظاہرہ نہ ہو، جائز ہیں۔
امید ہے آپ بچیوں کو تعلیم و تربیت دے کر اسلامی تہذیب کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں گی اور زیب و زینت کے لیے نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ اور اسلامی حجاب سے مستور خواتین کے ادارے قائم کریں گی۔(مولانا عبدالمالک)
س: ’رسائل و مسائل‘ میں ’سود پر قرض کے لیے تصدیق کرنا‘ (اکتوبر ۲۰۱۰ئ) کے تحت جواب سے ایک اُلجھن پیدا ہوگئی ہے۔ اگر سنار یا فرد تقسیم فراہم کرنے والا شخص محض تصدیق کرتے ہیں اور سود پر قرض لینے والے کو تنبیہہ کرتے ہیں تو وہ گناہ گار نہ ہوں گے، لیکن جب یہ واضح ہو کہ سونے کے زیور یا فرد تقسیم کی تصدیق سود پر قرض لینے کے لیے کروائی جارہی ہے اور اس غرض کے لیے بنک نے ان کا تقرر کیا ہو تو اس موقع پر محض تنبیہہ کرنے کا کیا فائدہ؟ کیا یہ سود کے عمل میں شرکت نہیں ہے؟
ج: ایک صورت تو یہ ہے کہ جب ایک آدمی پٹواری سے زمین کی فرد نکلوائے اور تصدیق کروائے، اسی طرح سونے کے کھرا کھوٹا ہونے کی تصدیق کسی سنار سے کروائے، اس کے بعد بنک کو قرض کی درخواست دے۔ اس صورت میں سودی قرض لینے کا آغاز مذکورہ کارروائی کے مکمل ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ لہٰذا تصدیق کنندگان گناہ گار نہیں ہوں گے۔ اس کے بجاے اگر کوئی شخص درخواست پہلے دے اور پھر بنک اسے ہدایت کرے کہ تصدیقات کروا کر لے آئے، تو ایسی صورت میں سودی سلسلے کا آغاز تصدیقات سے پہلے شروع ہوگیا اور تصدیقات سودی قرض کے معاملے کے آغاز اور انتہا کے درمیان میں واقع ہوگئیں۔ اس صورتِ حال میں جواب یہ ہے کہ جب تصدیقات کرنے والوں کو علم ہے کہ یہ تصدیقات سودی قرض لینے کے لیے ہیں بلکہ ان کا تقرر ہی بنک کی طرف سے اس غرض کے لیے کیا گیا ہے تو ان کا تصدیق کرنا اور اس غرض کے لیے بنک کا دلال اور مددگار بننا سودی کاروبار میں شرکت ہے۔ ہمارے پہلے جواب کا تعلق پہلی صورت سے ہے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )
س: ’رسائل و مسائل‘ (اگست ۲۰۱۰ئ) کے ضمن میں صلوٰۃ التسبیح کی باجماعت ادایگی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر نمازِ تہجد اتفاقاً بغیر کسی پروگرام کے باجماعت ادا کی جائے تو بلاکراہت جائز ہوگی۔
ہم مشرق وسطیٰ میں قیام پذیر ہیں اور یہاں پر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں باقاعدہ پروگرام کے تحت قیام اللیل (تہجد) کا باجماعت اہتمام ہوتا ہے، نیز تحریکی حلقوں میں بھی شب بیداری کے پروگرام کے آخر پر قیام اللیل باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کیا یہ قیامِ لیل درست ہے؟ مزید یہ کہ یہ راے کسی ایک مسلک کی ہے یا ائمہ اربعہ کا اس پر کوئی فتویٰ ہے؟
ج: امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا معروف مسلک یہ ہے کہ نوافل کی جماعت، جب کہ اس کے لیے باقاعدہ پروگرام ترتیب دے کر لوگوں کو جمع کیا گیا ہو، مکروہ تنزیہی ہے۔ یہ حکم دونوں قسم کی جماعتوں کو شامل ہے، یعنی مردوں کی نوافل میں جماعت اور خواتین کی نوافل میں جماعت دونوں مکروہ تنزیہی ہیں۔ مکروہ تنزیہی خلاف اوّل کے قریب ہے۔ لیکن امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور فقہا احناف میں سے بعض فقہا کے نزدیک نوافل کی جماعتیں بلاکراہت جائز ہیں، جب کہ ان کو معمول نہ بنایا جائے بلکہ کبھی کبھار پڑھی جائیں۔
اس قول کے مطابق شب بیداری اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں قیام اللیل کی خاطر جماعت بلاکراہت جائز ہے۔ البتہ صلوٰۃ التسبیح میں قراء ت کے ساتھ تسبیحات بھی جہراً پڑھنا یہ نمازوں کے آداب اور طریقے کے خلاف ہے۔ نماز میں رات کے وقت صرف قراء ت اُونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہے اور دن میں قراء ت بھی سراً پڑھی جاتی ہے اور تسبیحات تو بہرحال سراً پڑھی جاتی ہیں۔
صلوٰۃ التسبیح کی ادایگی کے ضمن میں گذشتہ جواب (رسائل و مسائل، اگست ۲۰۱۰ئ) میں اختصار کے سبب جو اشکال پیدا ہوتا ہے مندرجہ بالا وضاحت سے ان شاء اللہ رفع ہوجائے گا۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )
سوال: سنن عادیہ اور ترغیبی سنت سے کیا مراد ہے؟ نبی کریمؐ عرب رسم و رواج کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ آپؐ اُونٹ یا گھوڑے پر سفر کرتے تھے لیکن آج ہم گاڑی، ریل یا ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں۔ آپؐ نے تیروتلوار سے جنگ کی، جب کہ موجودہ زمانہ بندوق اور میزائل وغیرہ کا ہے۔ آپؐ کا ایک مخصوص لباس اور رہن سہن تھا لیکن ہمارا طرزِعمل اس سے مختلف ہے۔ کیا سُنن عادیہ کا تقاضا نبی کریمؐ کے اسوہ کی پیروی نہیں؟
جواب: سنن عادیہ جن کو سنن زوائد بھی کہا جاتا ہے وہ سنتیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے عرف و رواج پر مبنی تھیں۔ ان کو قائم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ دین کا حصہ نہیں ہیں۔ سنن ترغیبی یا سنن ہدیٰ ان سنتوں کو کہا جاتا ہے جو دین کا حصہ ہیں اور ہمیں ان کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پگڑی باندھنا، تہ بند باندھنا اور تیر وتلوار کا استعمال کرنا سنتِ رسولؐ اور سنت اصحابِ رسولؐ ہے، لیکن یہ چیزیں ان سنتوں میں شامل نہیں ہیں جو سنن ہدیٰ ہیں اور جن کو قائم کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور جن کو ترک کرنا بُرائی اور کراہیت کا سبب ہو بلکہ یہ سنن عادیہ ہیں۔ یہ آپؐ کے دور کے رواج اور عرف پر مبنی تھے۔ تیروتلوار کا استعمال آپؐ کے دور کے ذرائع تھے اور آج کے دور کے ذرائع راکٹ، میزائل اور جہاز وغیرہ جدید ذرائع ہیں۔ آج ہم تیروتلوار کو استعمال کرکے ثواب نہیں حاصل کرسکتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست و برخاست، آپؐ کی چال ڈھال، آپؐ کا لباس محبت کی بنیاد پر اختیار کرنا اور آپؐ کے لباس، اور عاداتِ شریفہ، کھانے پینے کی چیزوں میں آپؐ کی پسند و ناپسند کو اپنانا، ان کا احترام کرنا قابلِ قدر ہے لیکن یہ سنن ہدیٰ میں شامل نہیں ہے بلکہ سنن عادیہ یا سنن زوائد ہیں۔ لباس اور کھانے پینے کے بارے میں عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’جو چاہو کھائو اور جو چاہو پہنو بشرطیکہ اسراف اور تکبر سے بچتے رہو‘‘ (بخاری، کتاب اللباس)۔ مراد یہ ہے کہ لباس اور کھانے پینے کے بارے میں شریعت نے حلال و حرام کی جو ہدایات دی ہیں، ان کی پابندی کرنا تو ضروری ہے اور یہ شرعی حکم ہے کہ لباس حلال ہو، حرام نہ ہو، ٹخنوں سے نیچے نہ ہو، بدن کو ڈھانپنے والا ہو اور موجب تکبر نہ ہو۔ آج مختلف ملکوں کے علما اور نیک لوگوں کے لباس اپنے اپنے ملکوں کے رواج کے مطابق ہیں۔ ان سب کے لباس اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کی تیاری اور ذائقوں میں فرق ہے۔ یہ سب اسلامی لباس اور اسلامی کھانے ہیں۔ عرب گوشت تیار کرتے ہیں، اس میں مرچ مسالہ نہیں ہوتا، پاکستانی کھانے، مرچ مسالے والے اور چٹ پٹے ہوتے ہیں۔ بعض ممالک میں صرف ڈبل روٹی ہوتی ہے۔ پاکستانی اور عرب ممالک کی روٹی کی طرح روٹی نہیں ہوتی۔ یہ سب سنن زوائد اور سنن عادیہ ہیں۔
یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی شخص محبت رسولؐ کی بنا پر اسی طرز کا لباس پہنتا ہو جس طرز کا رسولؐ اللہ پہنتے تھے، مثلاً سر پر عمامہ باندھتا ہو، تہ بند باندھتا ہو، پائوں میں اسی قسم کے نعلین پہنتا ہو، مٹی کے برتنوں میں فرش پر بیٹھ کر کھاتا ہو، اسے آپؐ کی محبت کا اجر مل جائے گا لیکن یہ کوئی حکمِ شرعی نہیں ہے۔ اسی لیے پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے علما کو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے لباس آپؐ کے لباس اور ان کے جوتے آپؐ کے جوتوں اور ان کے کھانے رسولؐ اللہ کے کھانوں کی طرح نہیں ہیں۔ اس لیے کہ آپؐ نے یہ لباس اور کھانے اور تیروتلوار کا استعمال اپنے دور کے عرف و عادت کے مطابق کیا تھا، ثواب اور حکمِ الٰہی کی بنیاد پر نہیں کیا تھا۔(مولانا عبدالمالک)
س: ایک شخص کو سود پر قرض حاصل کرنا ہے۔ قرض لینے کے لیے اسے زمین کی فرد تقسیم یا سونا طلائی زیور بنک میں جمع کروانا ہوتے ہیں۔ کیا فرد تقسیم فراہم کرنے اور اس کی تصدیق کرنے والا اس گناہ میں شریک ہیں؟ کیا طلائی زیور کا وزن کرنے اور سونے کے کھرا ہونے کی تصدیق کرنے والا سنار مذکورہ گناہ میں شریک ہوں گے یا نہیں؟
ج: سود کا عمل زمین کی فرد نکالنے اور اس کی تصدیق کے بعد اور سونے کے زیور کے کھرا ہونے کی تصدیق کے بعد شروع ہوتا ہے۔ فرد کی تصدیق اور سونے کے کھرا ہونے کی تصدیق کے بعد مالکِ زمین اور مالکِ زیور کو اختیار ہے کہ اسے بنک میں جمع کرا کر قرض حاصل کرے یا دونوں چیزوں کی تصدیق کروانے کے بعد انھیں اپنے پاس رکھے اور قرض حاصل کرنے کے لیے بنک میں جمع نہ کرائے۔ جب ایسی صورت حال ہو تو تصدیق سودی قرض لینے میں تعاون شمار نہیں ہوتی۔ اس لیے تصدیق کرنے والے گنہگار نہیں ہوں گے۔ البتہ تصدیق کرنے والے کو سودی قرض لینے کی نیت سے تصدیق کرانے والے کو تنبیہہ کرنی چاہیے کہ ہماری تصدیق کو سودی قرض کے حصول کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس کے باوجود،وہ باز نہ آئے تو وہ خود مجرم ہوگا۔ تصدیق کرنے والے کو اس کا گناہ نہ ہوگا۔ اس لیے قرض لینا اور سود دینا دونوں کام تصدیق کے بعد قرض خواہ کا انفرادی اور خود اختیاری عمل ہے(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، جواہر الفقہ، مفتی محمد شفیعؒ مفتی اعظم پاکستان)۔ (ع - م)
س: سورج گرہن اور چاند گرہن کے موقع پر ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس موقع کی مخصوص کوئی دعا اور نماز ہو تو اس کی بھی وضاحت کردیں؟
ج: سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ دونوں ایک خاص ضابطے کے پابند ہیں۔ سورج اور چاند دونوں پر زمین کا سایہ پڑنے کے خاص مواقع ہوتے ہیں جو باقاعدہ ایک قانون اور ضابطے کی پابندی کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سورج یا چاند گرہن لگتا ہے۔ جب سورج پر زمین کا سایہ پڑتا ہے تو اس حالت کو کسوف، یعنی سورج گرہن کہا جاتا ہے، اور جب چاند پر زمین کا سایہ پڑتا ہے تو اس کو خسوف، یعنی چاند گرہن سے تعبیر کیا جاتاہے۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کی موت یا زندگی نہیں گہناتے ہیں۔ اگر تم انھیں گہناتا دیکھو، تو نماز پڑھو اور دعا مانگو یہاں تک کہ یہ کیفیت دُور، یعنی ختم ہوجائے (مسلم)۔ رسولؐ اللہ کے اس فرمان میں اُس وقت کے عامۃ الناس میں پھیلی ہوئی اس غلط سوچ کی تردید کی گئی ہے کہ سورج اور چاند شاید کسی کی موت یا زندگی پر گہناتے ہیں، یا کسی کے غم میں یہ سیاہ ہوجاتے ہیں، یا ان کی روشنی کسی مصیبت اور پریشانی کی وجہ سے ماند پڑتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بات لوگوں پر واضح کردی گئی ہے کہ دراصل سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ہیں۔ دونوں عظیم نعمتیں ہیں جن پر مخلوقات کی زندگی کا دارومدار ہے۔ گرہن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اوراتنی بڑی دو نشانیاں بھی اللہ کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں ہیں۔ وہی عطا کرنے والا ہے،و ہی سلب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بڑی سے بڑی چیز اجرامِ فلکی، ستارے اور سیارے بھی اُس کی گرفت سے آزاد نہیں ہیں، انسان تو بہت معمولی مخلوق ہے۔ اس کو اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی، بے بسی اور بندگی کا اظہار کرنا چاہیے اور ان کیفیات کا اظہار نماز، سجدے اور رکوع کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔
سورج گرہن کے موقع پر رسولؐ اللہ سے دو رکعت نماز پڑھنا ثابت ہے۔ یہ نماز عام طور پر ادا کی جانے والی دورکعت نماز کے طرز پر ہوتی ہے۔ چار رکعت پڑھنا بھی جائز ہے۔ قراء ت کرنا سنت ہے۔ رکوع اور سجدے بھی طویل ہونے چاہییں اور اپنے گناہوں پر ندامت، توبہ تائب ہونے کے جذبے کے ساتھ خوب رو رو کر گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کی جانی چاہییں۔ سورج گرہن کی نماز کے لیے اذان و اقامت نہیں، صرف الصلٰوۃ جامعۃ ، یعنی نماز تیار ہے، کا اعلان کیا جاتا ہے اور جماعت کھڑی کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے سیاسی اور انتظامی ذمہ داروں کی امامت میں نماز کا ہونا زیادہ پسندیدہ اور مستحسن ہے۔ یہ نماز مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے، اور باجماعت انتظام نہ ہونے کی صورت میں تنہائی میں انفرادی طور پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ سورج گرہن کی نماز کے لیے ممنوعہ اوقات کا لحاظ رکھا جائے۔ ان اوقات میں نماز کے بجاے صرف دعا پر اکتفا کیا جائے۔
سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں موقعوں پر گرہن کی نماز ادا کی جاتی ہے، البتہ چاند گرہن کے موقع پر گھروں میں انفرادی نماز کو ترجیح دی جائے گی۔ ان دونوں نمازوں کی کوئی قضا نہیں ہے۔ اگر بروقت یہ نماز نہ پڑھی گئی تو بعد میں اس کی ادایگی نہیں ہے، البتہ نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں مواقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور دو چار رکعت نماز ادا کرنا چاہیے۔گرہن کو کسی کی موت و پیدایش یا حادثے اور المیے کے ساتھ منسلک نہیں سمجھنا چاہیے۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)
سوال: کسی شخص نے سالہا سال سے اپنی فرض نمازیں ادا نہیں کیں اور عمر کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی اور وہ پانچ وقت کا نمازی بن گیا اور ساری نمازیں وقت کی پابندی سے ادا کرنے لگا۔ اب اسے خیال آیا کہ وہ اپنی قضا شدہ نمازیں پوری کرے، اس کے لیے قضاے عمری کا طریقہ رائج کیا گیا ہے اور مختلف طریقے بتائے جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یا صحابۂ راشدینؓ کے دور میں ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی شخص مسلمان کہلائے اور پابندی سے نماز ادا نہ کرے، یہاں تک کہ منافق بھی پابندی سے نماز ادا کرتے تھے، مبادا ان کا پول کھل جائے۔ اس وقت قضاے عمری کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ رسول اکرمؐ کی بے شمار احادیث ہیںجن سے ثابت ہے کہ نماز چھوٹ جانے کی صورت میں پہلی فرصت میں اسے ادا کرے۔ مَن نَسِیَ صَلٰوۃَ فَلْیُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا کَفَّارَۃَ لَھَا اِلاَّ ذٰلِکَ، ’’جو شخص نماز بھول جائے (یا سو جائے) اس کا کفارہ یہ ہے کہ جس وقت یاد آئے اس نماز کو پڑھے۔ اسی طرح جنگ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے جو بھی نماز وقت پر ادا نہ ہوسکی، نبی اکرمؐ نے اسی دن اس کو ادا کیا۔ قضاے عمری کا طریقہ کب اور کیسے رائج ہوا، جب کہ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے؟
جواب: ایک مسلمان جب بالغ ہوجائے تو اس پر تمام شرعی فرائض ادا کرنا لازم ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی آدمی کو بلوغت کے بعد اس کا احساس نہ ہوا، ماں باپ یا ملنے جلنے والے مسلمانوں نے اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی یا کوشش کی ہو لیکن اسے احساس نہ ہوا ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ اسے توبہ کی توفیق ملی اور اس نے توبہ کے بعد تمام فرائض ادا کرنا شروع کردیے۔ وہ پانچ اوقات کی نمازیں، رمضان کے روزے، زکوٰۃ اور دیگر فرائض اداکرنے لگا ہے تو اس کی توبہ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ سابقہ زندگی کی کوتاہیوں پر نادم ہو اور جو فرائض توبہ سے پہلے تک کے عرصے میں اس سے رہ گئے ہیں وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہیں۔ وہ ازخود ساقط نہیں ہوں گے جب تک وہ ان فرائض کو ادا نہ کرلے۔ اپنی عمربھر کی نمازوں اور دیگر فرائض کو ادا کرنا قضاے عمری کہلاتا ہے۔
جس آدمی نے بالغ ہونے کے بعد فرض نمازیں نہ پڑھی ہوں، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ’دین‘ ہیں۔ جیسے ایک آدمی نے کسی سے کوئی چیز خریدی ہو اور اس کی قیمت اس کے ذمہ رہتی ہو تو وہ رقم اس آدمی پر دین ہوتی ہے اور وہ اس وقت ساقط ہوتی ہے جب وہ اس رقم کو ادا کردے۔ یہی حکم فرض نماز اور روزے کا ہے۔
آپ نے بھولی ہوئی نماز کو یاد آنے کے بعد ادا کرنے کا ذکر کیا اور حدیث شریف میں ادا ہی کو اس کاکفارہ قرار دیا ہے۔ تو جان بوجھ کر ترک کر دینے والی نماز کو تو بدرجہ اولیٰ ادا کرنا ضروری ہوگا تاکہ اس کی ادایگی سے اس کا کفارہ بھی ہوجائے۔ یہ بات ہرمسلمان کو معلوم ہونی چاہیے کہ بالغ ہونے کے بعد فرائض اور واجبات کو ترک کر دینا خصوصاً فرض نمازوں کو ادا نہ کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ بعض فقہا نے تو اس کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا ہے کہ ان کے نزدیک اس کی تلافی قضا سے بھی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اس کی تلافی کے لیے قضا کے ساتھ مسلسل توبہ و استغفار بھی ضروری ہے۔
قضاے عمری کا یہ معنی نہیں ہے کہ ماضی کی تمام قضا نمازوں کے عوض کوئی شخص کسی دن دورکعت پڑھ کر ماضی کی ساری نمازوں سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ یہ علما میں سے کسی عالم کا نظریہ نہیں۔ لوگوں نے اپنی طرف سے اس قسم کی قضاعمری اختراع کی ہے۔
قضا کا طریقہ یہ ہے کہ بلوغت کے بعد جتنے سالوں کی نمازیں رہ گئی ہوں اتنے سال وقتی نماز کے ساتھ ایک ایک قضا نماز بھی پڑھے، اس طرح ہر دن پانچ فرض نمازوں کے ساتھ پانچ قضا نمازیں بھی ادا ہوجائیں گی اور کسی بڑی مشکل کے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرض کی ادایگی کی سعادت حاصل ہوجائے گی۔ یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ قضا صرف پانچ اوقات کے فرائض اور وتروں کی ہوتی ہے۔ سنتوں کی قضا ضروری نہیں۔ (مولانا عبدالمالک)
س: اپنے نام یا نام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کوئی صفاتی نام لکھنے کے لیے لفظ کے ساتھ عبد کا لفظ لکھنا ضروری ہے یا نہیں؟اگر ضروری ہے تو پھربہت سے نام ایسے ملتے ہیں جن کے ساتھ بڑے بڑے اکابر نے ’عبد‘ کا لفظ نہیں لکھا، مثلاً: عثمان غنی جو کہ خلیفہ سوم کا نام بھی ہے، جب کہ ’غنی‘ اللہ کا صفاتی نام بھی ہے۔ اسی طرح لفظ ’حق‘، ’جلیل‘ اور ’حمید‘ وغیرہ لوگ اپنے نام یا نام کے ساتھ لکھتے ہیں جیسے حق نواز، طاہرحمید وغیرہ، جب کہ حق اور حمیداللہ کے صفاتی نام ہیں لیکن لوگ انھیں لفظ ’عبد‘ کے بغیر لکھتے ہیں، یعنی عبدالحق، عبدالجلیل اور عبدالحمید کے بجاے صرف حق، محمدحمید، محمد جلیل وغیرہ۔
اسی سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ لفظ ’مَلک‘ اللہ کا صفاتی نام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علیحدہ قوم کا نام بھی ہے۔ اگر ایک شخص مَلک قوم سے تعلق نہیں رکھتا تو وہ اُسے اپنے نام کے ساتھ لکھوا سکتا ہے یا نہیں؟
ج: اللہ تعالیٰ کے اسماء صفاتی دو طرح کے ہیں۔ وہ جو قرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ وہ جو قرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔
غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے، لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں۔
رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے، لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ ’عبد‘ کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔
بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں۔ ایسا کرنا ناجائز ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا‘‘۔ (تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت ۱۸۰، عنوان: کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے مخصوص نام سے موسوم یا مخاطب کرنا جائز نہیں، ص ۱۳۲، ج ۴)
مَلک اللہ تعالیٰ کا مخصوص نام نہیں ہے۔ اگر ایک قوم اپنے آپ کو ملک کے نام سے موسوم کرتی ہے تو کوئی دوسری قوم یا شخص کسی سبب سے اپنے آپ کو ’ملک‘ کے نام سے موسوم کرسکتا ہے۔ لغت میں مَلَک یَملِکُ مَلْکًا، مِلْکًا ، مُلْکًا ، وَمَلَکۃً، وَمَمْلَکَۃً، مَمْلِکَۃ، مَمْلُکۃ کا معنی مالک ہونا، غالب ہونا، کسی کام پر حاوی ہونا ہے۔ اگر یہ نَفْسَہٗ ساتھ ہو تو اس کا معنی نفس پر قابو رکھنا، امرأۃ کا ساتھ ہو تو معنی نکاح کرنا، العجین ساتھ ہو تو اچھی طرح آٹا گوندھنے کے آتے ہیں۔ آپ نے جس لفظ کے متعلق سوال کیا ہے وہ مَلْک کا لفظ ہے اور وہ پنجابی زبان میں بعض قوموں کا نام ہے۔ اس نام کا اللہ تعالیٰ کے نام مَلِک (بادشاہ) کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس کے استعمال کا جواز مذکورہ بالا مثالوں سے غیراللہ کے لیے جائز ہے۔(ع - م)
س: میرے پہلی بیوی سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور دوسری بیوی سے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ میں ہر ماہ اپنی آمدنی سے فی کس نان نفقہ دیتا آیا ہوں، جب کہ تعلیمی اخراجات ہر بچے کے براہِ راست اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں۔ بڑے بیٹے نے اپنے سوتیلے بھائی کی تعلیم پر اُٹھنے والے اخراجات پر یہ کہہ کر اعتراض کیا ہے کہ جب میں نے بیرونِ ملک جانے کی خواہش ظاہر کی تھی تو مجھے نہیں بھیجا گیا تھا۔ میں (والد) نے اسے کہا تھا (اس وقت کے مالی حالات کے مطابق) کہ میں آپ کے سفر کا انتظام کیے دیتا ہوں، البتہ وہاں جاکر آپ کو اپنے اخراجات خود کام کرکے اُٹھانا ہوں گے۔ اس وقت وہ بی اے میں پڑھتا تھا اور میں نے نصیحت کی کہ پہلے آپ بی اے پاس کرلو اور پھر ماسٹر کے لیے باہر چلے جانا۔ اس نے دو تین بار امتحان دیا مگر کامیاب نہ ہوسکا اور پھر اس کے کہنے پر اس کو قطر میں ملازمت دلا دی گئی۔
اب اس کا مطالبہ ہے کہ جتنے اخراجات میرے سوتیلے بھائی کی بیرونِ ملک تعلیم پر اُٹھ رہے ہیں اتنے پیسے مجھے بھی ادا کیے جائیں۔ دوسری طرف اس کے سوتیلے بھائی کو بیرونِ ملک جانے کے لیے بھیجا گیا تو اُسے بھی یہی کہا گیا کہ وہاں بیرونِ ملک سب بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتے ہیں اور وہ عملاً کام کرتا بھی ہے مگر اس کمائی میں اُس کا گزارہ نہیں ہوتا اس لیے مجھے مزید پیسے بھیجنے پڑتے ہیں۔
اللہ کے رسولؐ نے کسی شخص کو صرف ایک بیٹے کو غلام دینے سے اس لیے منع فرمادیا تھا کہ اس نے دوسرے بیٹے کو غلام نہیں دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ والد پر یہ لازم آتا ہے کہ بڑے بیٹے کامطالبہ پورا کرے، جب کہ میری شرطیں دونوں کے لیے یکساں تھیں اور چھوٹے بیٹے کے کام کرنے کے باوجود اسے مزید پیسے درکار ہوتے ہیں جو مجھے بھیجنے پڑتے ہیں۔
کیا یہ حساب لگانا ضروری ہے کہ بڑے بیٹے کی بی اے تک کی تعلیم پر چھوٹے بیٹے کی نسبت زیادہ خرچ اُٹھا ہے۔
ج: اولاد کے ساتھ مساوات کا معنی یہ ہے کہ تمام کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کی جائیں۔ کسی کی ضروریات پوری کی جائیں اور کسی کو نظرانداز کیا جائے تو ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح ہبہ اور تحفہ میں بھی مساوات کی جائے، ایک کو نوازنا اور دوسرے کو نظرانداز کرنا صحیح نہیں ہے۔ تعلیمی اخراجات میں مساوات کا معنی یہ ہے کہ ہر ایک کی ضرورت اور اپنی استطاعت کے مطابق پورے کی جائیں۔ آپ نے جو تفصیل لکھی ہے اس کے مطابق آپ نے بیٹوں میں امتیاز نہیں کیا۔ آپ کے بیٹے کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ آپ نے دونوں کے اخراجات کا حساب کر کے کمی کو پورا کرنا ہے۔ جہاں آپ کے لیے اولاد میں مساوات کا حکم ہے اسی طرح اولاد پر اس سے بڑھ کر واجب ہے کہ آپ کا احترام کریں اور باپ کو اپنا مقروض سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو باپ کا مقروض سمجھیں۔ آپ نے اب تک ان پر جو خرچ کیا ہے، جو پرورش کی تکلیف اٹھائی ہے، وہ ان پر ایسا قرض ہے کہ وہ اسے پورا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔
قرآن پاک تو تلقین کرتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) ’’انھیں اُف نہ کہو، ان کو جھڑکو نہیں، ان سے باعزت گفتگو کرو‘‘۔ والدین کو اولاد کی جنت اور دوزخ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں آپ کے بیٹے کو اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔ آپ نے اب تک جو کیا ہے وہ شریعت کی روشنی میں درست ہے۔ شریعت نے ماں باپ کو اولاد کے درمیان اس طرح حساب کر کے برابری کا پابند نہیں بنایا جس طرح آپ کے بیٹے کا مطالبہ ہے۔ (ع - م)
س: کہا جاتا ہے کہ میت کے فوت ہونے کے بعد وراثت فوری طور پر تقسیم ہونی چاہیے اور اس کے لیے ایک حدیث کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو ورثا کو عملاً مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا ہے۔ اس کی کُل وراثت ایک گھر ہے جس میں بیوہ اور بچے رہایش پذیر ہیں جس میں بیٹے بیٹیاں ہیں اور ابھی کچھ بچے شادی شدہ ہیں اور کچھ غیرشادی شدہ ہیں۔ لیکن اس گھر کے بٹوارے سے بیوہ اور غیرشادی شدہ بچوں کو کچھ مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس صورت میں کیا کرنا ہوگا؟ خیال رہے کہ شادی شدہ بچے گھر کی تقسیم چاہتے ہیں، جب کہ بیوہ اور کنوارے بچے تقسیم وراثت کو کچھ عرصہ کے لیے مؤخر کرنا چاہتے ہیں۔ کیا وراثت کی تقسیم میں تاخیر کرنے سے ورثا گناہ گار ہوںگے؟
ج: مکان کی تقسیم اس وقت ضروری ہے جب مشترکہ طور پر رہایش ختم کرنا مقصود ہو اور بعض ورثا تقسیم کا مطالبہ کریں۔ اس لیے مکان کی تقسیم مکان کی مالیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ مکان کی قیمت لگائی جائے گی۔ پھر جو شخص مکان لینا چاہے وہ دوسروں کو ان کے حصہ کی قیمت ادا کرے گا۔ اس وقت بچے چھوٹے ہیں، ان کے پاس اور مال نہیں ہے کہ ادا کر کے مکان لے سکیں اور مکان میں اپنے حصے کے پیسے لے کر دوسرا مکان بنا سکیں۔ یہی حال ان کی والدہ کا ہے۔ اس لیے جب تک پوری طرح تقسیم نہیں ہوسکتی اس وقت تک مشترکہ رہایش رکھ سکتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے جو حکم واضح ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو۔ جب مکان میں وقتی طور پر سب رہایش پذیر ہیں تو وہ ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہیں کھا رہے۔ سب اپنا اپنا حصہ استعمال کر رہے ہیں۔ بڑے بھائی بہن اگر چھوٹوں اور ان کی والدہ کے لیے مکان چھوڑنے کے لیے تیار ہوں تو وہ اپنے حصے کی قیمت اُدھار کرلیں۔ بعد میں جب چھوٹے ادایگی کے قابل ہوجائیں گے تو ان کے حصے کی قیمت ادا کرلیں گے۔ اگر مکان کی بناوٹ ایسی ہے کہ سب کو حصص وراثت کے مطابق حصے کر کے دیے جاسکتے ہوں کہ ہر ایک کو اتنی جگہ مل جائے جتنی اس کا حصہ بنتی ہے تو فوری طور پر بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو سب مشترکہ ملکیت سمجھ کر مشترکہ رہایش اختیار کرسکتے ہیں۔ فوری تقسیم اسی صورت میں ہے جب فوری تقسیم ممکن ہو۔(ع - م)
س: جب لڑکے کی شادی ہوتی ہے تو بارات سے کچھ دیر پہلے یا ایک دن پہلے لڑکے کو دولھا بناکر بٹھا دیا جاتا ہے اور تمام احباب اُسے سلامیاں ڈالتے ہیں یا تحائف دیتے ہیں اور نکاح کے بعد لڑکی والے دولھا کو اپنے گھر میں لے جاتے ہیں جہاں دُلھن کی بہنیں اور دوسری قریبی رشتہ دار خواتین دولھا کو سلامی ڈالتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا یہ چیز جائز ہے؟کیا یہ کوئی ہندووانہ رسم تو نہیں ہے؟ حضور اکرمؐ کے زمانے میں کیا ایسا ہوتا تھا؟ کیا صحابہ کرامؓ اور تابعین سے ایسا کرنا ثابت ہے؟
ج: لڑکے کو دولھا بنانا جائز ہے، اسے ہدیہ دینا بھی جائز ہے لیکن سلامی وغیرہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے اور اس کو ایسا رواج دینا کہ ضروری سمجھا جائے اور لوگ مجبوراً رواج کی بنیاد پر اپنے اُوپر بوجھ ڈال کر ہدیے اور تحائف دیں مناسب نہیں ہے۔ نیز لڑکے کو غیرمحرم خواتین کے مجمع میں لے جانا اور اسے سلامیاں دینا مکروہ ہے۔ بس سادگی کو ہرپہلو سے سادہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح دلھن کو بھی غیرمحرم مردوں کے مجمع میں لے جانا مکروہ ہے۔ یہ زائد قسم کی رسمیں ہیں۔ ان کا تعلق صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کے زمانہ سے نہیں۔ اس قسم کے معاملات میں ہر دور میں اپنے اپنے رواج جائز ہوسکتے ہیںبشرطیکہ شریعت کی حدود سے تجاوز نہ ہو، غیرمحرم مرد و زن کا اختلاط نہ ہو، کسی پر مالی دبائو نہ ہو وغیرہ، جیسے کہ تفصیلاً ذکر آگیا ہے۔ (ع - م)
سوال: رمضان میں جب حرم شریف سے نماز تراویح ٹی وی پر دکھائی جاتی ہے تو اس ایمان افروز منظر کو دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ میں کمرہ بند کرکے قبلہ رو ہوکر اُس امام کے پیچھے نفل نماز کی نیت باندھ لوں۔ اگر میرایہ فعل مجھ تک ہی محدود رہے تو کیا اس چیز کی کوئی گنجایش نکل سکتی ہے؟
جواب: اس صدی کو بجا طور پر ابلاغ اور برقی ترسیلی سہولیات کا دور کہا جاتا ہے کیونکہ پیغام رسانی ہو یا سفر، یا معاشی معاملات میں کاروباری معاہدات، ہر اہم سرگرمی برقی آلات کی مدد سے کم سے کم وقت میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں ممکن ہے۔
عموماً رمضان کریم میں یا پھر نمازوں کے اوقات میں بعض ٹی وی چینل حرمِ مکہ مکرمہ یا حرمِ مدینہ منورہ سے براہِ راست نشریات دکھاتے ہیں، اور اس روح پرور منظر کو دیکھتے وقت انسان سوچتا ہے کہ جو لوگ حرم میں عبادت میں مصروف ہیں اور ہر عبادت کا ۷۰ گنا یا زیادہ ثواب کما رہے ہیں، گو میں دُور بیٹھا ہوں کیوں نہ ٹی وی کی امامت میں ان کے ساتھ شامل ہوکر اجر کا طلب گار بنوں! اس لیے آپ نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے، وہ سمجھ میں آتی ہے۔ تاہم اس سوال کے کئی غورطلب پہلو ہیں۔
پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ اگر رمضان کریم میں آپ کے قریب کی مسجد میں یا کچھ فاصلے پر ایک عظیم مسجد الجامع میں ایک اچھے قاری صاحب تراویح پڑھا رہے ہوں تو کیا ایسی صورت حال میں اُس مسجد میں جاکر بنفسِ نفیس شرکت اور بدنی عبادت کے اجر کے حصول کی کوشش افضل ہوگی یا ٹی وی کے سامنے کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا؟ ایک زندہ، موجود اور معقول امام کی موجودگی میں دیگر افراد کے ساتھ جماعت میں شریک ہوکر نماز کی ادایگی، اور ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہونے والی نماز کی شبیہہ کے پیچھے نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہوگا یا عملاً ایک مسجد میں دیگر افراد کے ساتھ شاملِ عبادت ہونا؟ گویا اگر دونوں شکلیں جائز ہوں، تب بھی ٹی وی کے پیچھے نماز اور بذاتِ خود مسجد میں نماز باجماعت میں کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور عقلاً بذاتِ خود مسجد میں نماز ادا کرنا ہرلحاظ سے افضل ہوگا۔
اب سوال کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ کیا ٹی وی پر بننے والی شبیہہ کی حیثیت ایک حقیقی اور موجود امام کی ہوگی؟ اگر ایسا ہے تو کیا صرف حرم شریف میں امامت کرنے والے امام صاحب کی امامت میں نماز پڑھی جائے گی، جب کہ ایسی ہی شکل ایک ملک یا شہر میں بھی ہوسکتی ہے کہ پورے شہر یا پورے ملک کے نمازی ایک مرکزی امام صاحب کی امامت میں جن کی قرأت مثالی ہو، اپنے اپنے گھروں میں، یا مساجد میں محراب میں ٹی وی لگا کر اپنی اپنی نمازیں ادا کرلیں؟ اس میں مسجد کی شرط بھی نہیں ہوگی اور نہ گھر سے باہر کہیں جانا ہوگا ،بلکہ نہ صرف ایک شخص خود بلکہ تمام اہلِ خانہ بھی ٹی وی کی امامت میں گھر بیٹھے نماز ادا کرلیں گے۔
ممکن ہے میری بات میں آپ کو کافی مبالغہ نظر آئے لیکن اگر حرم شریف سے تلاوت کرنے والے یا امامت کرنے والے کی امامت میں نماز درست ہوسکتی ہے تو پھر جیسے اُوپر عرض کیا گیا ایسا کیوں نہ کیا جائے۔ گویا ایسا ممکن نہیں، اس لیے کہ ابلاغی آلات کی سہولت ایک مسلمان کو عبادات کے بدنی پہلو سے، اور نماز کے حوالے سے استقبالِ قبلہ، مسجد میں اجتماعیت اور شرکت کے احساس کا بدل نہیں ہوسکتی۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر کوئی صاحب کھینچ تان کر کوئی گنجایش نکال بھی دیں تو جن امام صاحب کی اقتدا میں ایک شخص نماز پڑھ رہا ہوگا جب ٹی وی پر امام صاحب اس کے مخالف نظر آئیں گے تو کیا مقتدی اپنا رُخ پھیر کر ٹی وی کی پشت پر چلا جائے گا اور پھر دوبارہ ٹی وی کے سامنے آجائے گا تاکہ وہ امام کی پیروی کر رہا ہو؟
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ تراویح میں جماعت کے ساتھ شرکت کرنا بدنی عبادت کے ساتھ ساتھ سمعی عبادت بھی ہے۔ لیکن اگر کسی بنا پر ایک شخص تھک گیا ہو تو وہ مسجد میں بیٹھ کر امام کی تلاوت کو بغور سن سکتا ہے اور اس کا اجر بھی نماز میں شرکت سے کم نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر آپ کو کسی خاص قاری کی تلاوت پسند ہے تو آپ بغیر نماز کی نیت کیے جب تک چاہیں بیٹھ کر تلاوتِ کلام عزیز سن سکتے ہیں اور مطالب پر غور کرسکتے ہیں لیکن ٹی وی کی امامت میں نماز کی گنجایش نظر نہیں آتی۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: ہمارے ہاں کی فجر کی اذان مقررہ وقت (جو دائمی کیلنڈر میں دیا گیا ہے) سے شروع ہوکر تقریباً آدھ گھنٹہ تک جاری رہتی ہے۔ بعض مساجد میں تو مستقلاً یہ وقت مقررہ سے آدھ گھنٹہ بعد ہی ہوتی ہے۔ اس سے ذہن میں اُلجھن پیدا ہوتی ہے:
۱- کیا فجر کے اوقات میں واقعی اتنی گنجایش ہے؟ اگر یہ گنجایش درست ہے تو پھر رمضان میں اذانیں ایک ہی وقت پر کیوں ہوتی ہیں؟
۲- کیا پہلی اذان کے بعد فجر کی نماز پڑھ لینا درست ہے یا کچھ تاخیر سے پڑھنی چاہیے؟
۳- خیط الابیض اور خیط الاسود سے کیا یہ مراد ہے کہ ہم دو دھاگے لے کر صحن میں نکلیں، اور اس سے ختم سحری کا تعین خود کریں یا اس سے کچھ اور مراد ہے؟
۴- کیادرج بالا رویہ (اوقات میں تغیر) دین میں آسانی (یسر) کے مترادف ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یسر سے کیا مراد ہے؟
ج: صبح کی نماز طلوعِ فجر سے لے کر طلوعِ شمس سے پہلے تک ادا کی جاسکتی ہے۔ اذان کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ عین طلوعِ فجر کے متصل بعد دی جائے لیکن یہاں اس کی پابندی نہیں کی جاتی۔ اس لیے روزہ کے لیے اذان کو بنیاد بنانا صحیح نہیں ہے۔ جس نے روزہ رکھنا ہو وہ طلوعِ فجر اور غروبِ شمس کا کیلنڈر اپنے پاس رکھے اور اس کی بنیاد پر روزہ رکھنے اور افطار کرنے کو معمول بنائے۔ عام طور پر نمازوں کے اوقات کا دائمی کیلنڈر بھی شائع ہوتا ہے اور مساجد میں اسے آویزاں کیا جاتا ہے۔ ایسا کیلنڈر گھروں میں بھی منگوایا جاسکتا ہے۔ آپ کے پاس جو کیلنڈر ہے اس میں صبح کے طلوع اور سورج کے غروب کے اوقات مقررہ کا اندراج ہے تو آپ اس کیلنڈر کے مطابق روزہ رکھیں اور اس کے مطابق افطار کریں۔
صبح کی اذان میں ۳۰،۳۵ منٹ تاخیر کرنا خلافِ اولیٰ ہے۔ اولیٰ یہ ہے کہ صبح صادق کے متصل بعد مقررہ وقت پر اذان دی جائے۔ یسر کے پہلو کے تحت اذان میں پانچ دس منٹ تک تاخیر ہوسکتی ہے۔ خیط الابیض اور خیط الاسود سے سفید اور سیاہ دھاگے مراد نہیں بلکہ مشرقی اُفق پر سفید اور سیاہ دھاریاں مراد ہیں۔ سفید دھاری صبح کی اور سیاہ دھاری رات کی علامت ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
س: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰۃ التسبیح کی فضیلت بیان فرمائی ہے لیکن یہ نماز باجماعت ادا نہیں کی۔ آج کل صلوٰۃ التسبیح باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ خاص کر رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہرجمعہ کچھ خواتین باجماعت صلوٰۃ التسبیح ادا کرتی ہیں۔ ایک خاتون پہلی صف کے شروع میں کھڑی ہوجاتی ہے اور پوری نماز باآواز بلند پڑھتی ہے۔ آیا اِس طرح صلوٰۃ التسبیح پڑھنا جائز ہے؟
ج: صلوٰۃ التسبیح اور کسی بھی نفل نماز کی جماعت باقاعدہ پروگرام کے تحت مکروہ ہے۔ نوافل میں سے صلوٰۃ الکسوف، صلوٰۃ الاستسقائ، صلوٰۃ الخسوف جائز اور مسنون ہیں۔ تہجد کی جماعت اتفاقاً بغیر کسی پروگرام کے پڑھی جائے تو وہ بھی بلاکراہت جائز ہے۔ خواتین کی جماعت بذات خود خلاف اولیٰ ہے، لہٰذا صلوٰۃ التسبیح کی باجماعت نماز بدرجہ اولیٰ مکروہ ہوگی۔ تعلیم مقصود ہو تو پھر خواتین کو ایک خاتون معلمہ بغیر جماعت کے جہراً نماز پڑھ کر تعلیم دے سکتی ہے۔ نماز کے بغیر بھی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ خواتین اپنے گھروں میں صلوٰۃ التسبیح بغیر جماعت کے پڑھیں۔ شریعت میں یہی مطلوب ہے۔(ع - م)
س: آج کل مساجدمیں اجتماعی اعتکاف کیا جاتا ہے۔ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد کے ایک طرف علیحدگی میں عبادت کرنے کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد علیحدگی میں رب سے رازونیاز اور اُس کی عبادت کرنا لی جاتی ہے۔ اجتماعی اعتکاف میں درس و تدریس کا کام زیادہ ہوتا ہے جو کہ کسی دوسرے موقع پر بھی ہوسکتا ہے۔ کیا اِس طرح معتکف ہونا جائز ہے؟ نیز خواتین کا اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے یا گھر میں؟
ج: اجتماعی اعتکاف کے معنی یہ ہیں کہ ایک دو نہیں بلکہ زیادہ لوگ بھی اعتکاف میں بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ اعتکاف انفرادی ہی ہوتا ہے اگرچہ ایک مسجد میں ۵۰، ۷۰ لوگ بیٹھے ہوں۔ رہی یہ بات کہ اس میں درس و تدریس اور وعظ و تربیت اور مطالعہ کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو یہ اعتکاف کے خلاف نہیں بلکہ یہ اعتکاف کا مقصود ہے۔ اعتکاف کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ایک آدمی اعتکاف میں ’’مراقبہ‘‘ میں مشغول ہو۔ رات کو کسی وقت مراقبہ بھی کیا جاسکتا ہے اور نماز میں مطلوب بھی یہ ہے کہ نماز اس طرح پڑھی جائے کہ گویا نمازی اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اگر دیکھ نہیں رہا تویہ تصور تو حقیقت ہے کہ اللہ نمازی کو دیکھ رہا ہے بلکہ ہر ایک کو ہرحال میں وہ دیکھ رہا ہے۔ خواتین کا اعتکاف گھر کی مسجد میں ہے۔گھر میں وہ جگہ جو خاتون نے نماز کے لیے مقرر کر رکھی ہو یا مقرر کرلے تو وہ اس کی مسجد ہے اور وہ وہاں معتکف ہوتی ہے۔ وہاں سے بغیر ضروری حاجات کے باہر نہ نکلے جس طرح مسجد میں معتکف مرد بغیر ضروری حاجت کے مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا۔(ع-م)
س: پیس ٹی وی کے ایک پروگرام میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے کہا تھا کہ اسلام میں صرف نماز باوضو ہوکر پڑھنا ضروری ہے۔ اگر انسان کا جسم اور کپڑے پاک ہوں تو ہاتھ صاف کرکے قرآن مجید کی تلاوت کرسکتا ہے۔ کیا قرآن مجید بغیر وضو کے ہاتھ صاف کرکے پڑھا جاسکتا ہے؟
ج: ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک بے وضو آدمی قرآن پاک کو کسی رومال وغیرہ واسطے کے بغیر نہیں پکڑ سکتا۔ اس کے لیے دلیل کیا ہے؟ بعض فقہا نے اس کے لیے قرآن پاک کی ایک آیت لا یمسہ الا المطھرون(الواقعہ:۲۹) کو دلیل بنایا ہے۔ آیت کا معنٰی یہ ہے کہ ’’قرآن کو مَس نہیں کرتے مگر پاک کیے ہوئے لوگ‘‘۔
اور بعض نے کہا ہے کہ اس آیت کا تعلق فرشتوں سے ہے کہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں جو قرآن پاک کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہیں۔ آیت مذکورہ سے اس مسئلے کے استنباط میں تو اختلاف ہے لیکن اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قرآن پاک کو بے وضو آدمی مرد یا عورت مَس نہیں کرسکتے۔ یہ مسئلہ احادیث سے بھی ثابت ہے۔
امام مالک نے موطا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مکتوب گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے عمر ابن حزم کو لکھا تھا، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے: لا یمس القراٰن الا طاھر، ’’قرآن پاک کو وہ شخص نہ چھوئے جو پاک نہ ہو‘‘۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یمس القراٰن الا طاھر، ’’قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک آدمی‘‘۔ مفتی محمد شفیع صاحب اپنی تفسیر معارف القرآن میں سورئہ واقعہ آیت ۷۹ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’روایات مذکورہ کی بنا پر جمہور اُمت اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کے لیے طہارت شرط ہے۔ اس کے خلاف گناہ ، ظاہر نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا، باوضو ہونا، حالتِ جنابت میں نہ ہونا سب اس میں داخل ہے۔ (معارف القرآن، ج۸، ص ۲۸۶-۲۸۷)۔ ذاکر نائیک صاحب نے جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ دائود ظاہری اور ابن حزم کا مسلک ہے۔(ع-م)
س: میں تنگ دستی کا شکار ہوں۔ خاوند بھی ضروریات اور اخراجات پورا نہیں کرتے اور اگر مطالبہ کیا جائے تو ناراض ہوتے ہیں۔ بڑی مشکل سے گزربسر ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیا میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں؟ میرے پاس آٹھ تولے سونا بھی ہے لیکن میں اسے بیچ نہیں سکتی کہ کل نہ جانے حالات کیسے ہوں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
ج: آپ کے شوہر آپ کے ساتھ نامناسب رویہ رکھتے ہیں اور اس وجہ سے آپ تکلیف میں ہیں۔ نان و نفقہ تو شوہر کی ذمہ داری ہے اس میں کوتاہی کرنا خلافِ شرع ہے۔ آپ کے شوہر کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ دوست احباب اور اہلِ خاندان کو بھی انھیں توجہ دلانا چاہیے کہ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔
جہاں تک زکوٰۃ کا تعلق ہے تو جس مرد یا عورت کے پاس بنیادی ضروریات سے زائد آٹھ تولے سونا ہو یا اس مالیت کا زیور ہو تو وہ مستحق زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ اس پر زکوٰۃ دینا واجب ہوجاتا ہے، یعنی فرض ہوجاتا ہے۔ آپ کے پاس اگر ساڑھے سات تولے سے کم کا زیور ہو، تو پھر آپ پر زکوٰۃ واجب (فرض) نہیں ہے اور آپ اپنی ضروریات کے لیے کسی سے زکوٰۃ لے سکتی ہیں۔ واللہ اعلم! (ع-م)
سوال: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ جنات کا وجود ہے۔ مزید یہ کہ جنات نے رسول کریمؐ کے ہاتھ پر ایمان بھی قبول کیا اور اسے جنوں میں جاکر پھیلایا۔ کیا الگ مخلوق ہونے کے باوجود جِن انسانوں پر حاوی ہوجاتے ہیں؟ اگر کسی انسان پر جِن آجائے جیساکہ عام لوگوں کا اعتقاد ہے اور اکثر دورے پڑنے والے مریضوں کو عاملوں کے پاس علاج (جِن نکلوانے) کے لیے لے جاتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟جادو کے علاج کے بارے میں تو احادیث سے رہنمائی ملتی ہے۔ کیا نبی کریمؐ نے جِن کا سایہ ہوجانے کا علاج بھی کیا ہے؟ کیا چلّے کاٹ کر انسان جنوں کو اپنا مطیع کرسکتے ہیں؟
جواب: جنات الگ مخلوق ہیں اور انھیں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ایک تعداد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی رکھتی ہے۔ جنات عام طور پر انسانوں سے خوف کھاتے ہیں۔ اس لیے ان کی بستیوں میں نہیں پائے جاتے بلکہ جنگل و بیابان میں بسیرا کرتے ہیں اور شہروں سے کسی قدر دُور علاقوں میں آباد ہوتے ہیں۔جہاں تک ان کے انسان پر حاوی ہونے کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عموماً انسانوں کا معاشرہ اور جِنوں کا معاشرہ الگ الگ ہیں، اور وہ عموماً ایک دوسرے کے کام اور راہ میں حائل نہیں ہوتے، لیکن جزوی طور پر ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی جِن کسی انسان کو کسی وجہ سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے یا کوئی انسان بعض شریر جنات کو شر سے روکنے کا کوئی عمل کرے۔ اس کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارات ملتے ہیں، مثلاً اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ (البقرہ۲: ۲۷۵) ’’وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے روز نہیں اُٹھیں گے مگر ان لوگوں کی طرح جو خبطی ہوجاتے ہیں شیطان کے لپٹ جانے سے‘‘۔ یہاں شیطان سے سرکش جِن مراد ہے اور خبطی ہونے کا سبب شیطان کا اس انسان سے لپٹ جانا، مس کرنا ہے۔
بخاری، مسلم، مسنداحمد وغیرہ کتب احادیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک سرکش جِن نے گذشتہ رات مجھ پر حملہ کیا تاکہ مجھے نماز سے نکال دے۔ اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا۔ میں نے اسے پکڑا اور اسے پکڑ کر زور سے دبوچا اور ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ تم سب صبح کے وقت اسے دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آئی: ’’اے میرے رب مجھے ایسی حکومت عطا فرما، جو میرے بعد کسی کے لیے مناسب نہ ہو، تب میں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ذلیل کر کے لوٹا دیا‘‘(الفتح الربانی لترتیب مسنداحمد الشیبانی، ج۲۰، ص ۲۴، باب ماجاء فی خلق الجن)۔ عفریتاً من الجن کے الفاظ مسند احمد میں ہیں۔ بخاری میں اس کے لیے شیطان کا لفظ آیا ہے۔ (بخاری، باب مایجوز من العمل فی الصلاۃ، ج۱، ص۱۶۱، طبع کراچی، حدیث نمبر ۱۲۰۹، طبع دارالسلام)
جنات پر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو جو تسلط دیا، اس کا ذکر سورئہ نمل اور سورئہ سبا میں تفصیلاً مذکور ہے۔ تختِ بلقیس مجلس کے خاتمے سے پہلے لے آنے کا اعلان جس جِن نے کیا اسے قرآن پاک میں عفریت من الجن کہا گیا ہے۔ لیکن صاحب ِ علم نے کہا: میں آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت لے آتا ہوں چنانچہ تخت آگیا۔ جنات اس وقت تک بیت المقدس کی تعمیر میں لگے رہے جب تک سلیمان علیہ السلام کی لاٹھی کو دیمک نے نہ کھا لیا اور وہ گر نہ گئے۔ اس وقت جنات پر واضح ہوگیا کہ وہ غیب دان نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمیں غیب کا علم ہوتا تو ہمیں سلیمان علیہ السلام کی موت کا علم ہوجاتا اور ہم ان کی وفات کے بعد تعمیری کاموں کے سبب اس قدر تکلیف نہ اٹھاتے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھے مرتبہ جنات کو تعلیم و تربیت دینے کے لیے ان کے علاقے میں گئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت اٹھایا تاکہ میں آپؐ کے ساتھ جائوں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چلتے گئے یہاں تک کہ فلاں فلاں مقام پر پہنچے تو وہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ مجھے بٹھایا اور اس جگہ کے اردگرد ایک گول خط کھینچا اور فرمایا: اس خط کے اندر رہنا اگر اس خط کے باہر نکلے تو ہلاک ہوجائو گے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر میں اسی خط کے اندر رہا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے دُور چلے گئے جتنا دُور ایک کنکر پھینکا جائے تو جاکر گرے، یا اس سے کچھ زیادہ دُور۔ پھر میں نے لمبے تڑنگے دبلے پتلے اور ننگے بدن والے لوگ دیکھے لیکن ان کا ستر نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کثیر تعداد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیڑ بن کر جمع ہوگئے جیساکہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوں۔ اس پر میں بہت زیادہ خوف زدہ ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قرآن پاک سنا رہے تھے اور وہ آپ پر ہجوم کرتے جاتے تھے۔ میری طرف آتے اور میرے دائرے کے اردگرد گھومتے اور میرے درپے ہونے کا ارادہ کرتے۔ میں ان سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے پیش نظر اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تشریف لائے جیسے کہ بہت تھکے ہوئے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میں اپنے آپ کو بوجھل محسوس کرتا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک میری گود میں رکھا اور سو گئے۔ (الفتح الربانی، باب خلق الجن، حدیث ابن مسعود، ج ۲۰، ص ۲۶)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مامور کیا۔ ایک رات دیکھتا ہوں کہ ایک شخص غلے سے مٹھیاں بھربھر کر اپنی چادر میں ڈال رہا ہے۔ میں آیا اور اسے پکڑ لیا۔ اس نے کہا کہ میں غریب آدمی ہوںاور عیال دار ہوں، مجھے چھوڑ دے۔ میں نے کہا: نہیں میں تجھے صبح رسولؐ اللہ کے حضور پیش کروں گا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں آیندہ نہیں آئوں گا، چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح جب میں رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے پوچھا: ابوہریرہ تمھارے قیدی کا کیا بنا؟ میں نے واقعہ بیان کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ پھر آئے گا۔ مجھے رسولؐ اللہ کے فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ وہ پھر آئے گا، چنانچہ میں انتظار میں تھا۔ وہ پھر آگیا اور اسی طرح مٹھیاں بھرنے لگا۔ میں نے اسے پکڑا تو پھر اس نے کہا: میں محتاج ہوں، اہل وعیال زیادہ ہیں، مجھے چھوڑ دو آیندہ نہیں آئوں گا۔ مجھے ترس آیا۔ میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح جب رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے پھر اسی طرح پوچھا کہ آپ کے رات کے قیدی کا کیا ہوا؟ میں نے پھر واقعہ بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اس نے تجھ سے جھوٹا وعدہ کیا ہے، وہ پھر آئے گا، چنانچہ وہ تیسری رات پھر آگیا۔ اب جو میں نے پکڑا تو کہا کہ اب نہیں چھوڑوں گا۔ صبح رسولؐ اللہ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اس نے کہا: آج پھر مجھے چھوڑ دو، میں تمھیں ایسے کلمے بتلاتا ہوں کہ وہ پڑھ لیا کرو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھاری حفاظت ہوگی اور کوئی شیطان تمھارے قریب نہیں آئے گا۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو اس طرح کی معلومات حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اس لیے ابوہریرہؓ نے اس سے پوچھ لیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے آیت الکرسی پڑھ کر سنائی اور کہا کہ آیت الکرسی پڑھ لو تو کوئی آکر چوری نہ کرسکے گا، چنانچہ ابوہریرہؓ نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپؐ نے پھر پوچھا: ابوہریرہؓ! تمھارے رات کے قیدی کا کیا بنا؟ ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میںنے پورا ماجرا سنا دیا تو آپؐ نے فرمایا: وہ ہے تو جھوٹا، لیکن یہ نسخہ جو تمھیں بتلایا ہے اس میں اس نے سچ کہا ہے۔ پھر پوچھا: جانتے ہو یہ کون تھا؟ عرض کیا: یارسولؐ اللہ، نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: وہ شیطان تھا۔
امام بخاری نے اس واقعے پر باب باندھا ہے کہ جب کسی کو وکیل بنایا ہو اور وکیل نے کوئی چیز کسی کو چھوڑ دی اور موکل نے اس کی اجازت دے دی تو ایسا کرنا صحیح ہے (بخاری، کتاب الوکالۃ، باب۱۰، حدیث نمبر ۲۳۱۱، ص ۴۵۵، طبع دارالسلام)۔ حضرت ابوہریرہؓ کی صدقہ الفطر پر ڈیوٹی تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدقۃ الفطر کے غلہ پر وکیل تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم موکل تھے۔ جب رات کو چوری کرنے والے نے چوری کی، تو حضرت ابوہریرہؓ نے اس کی فریاد سن کر تینوں دن اسے جانے دیا۔ اس پر رسولؐ اللہ نے ابوہریرہؓ سے مواخذہ نہ کیا بلکہ اجازت دے دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ وکیل کا فیصلہ موکل کی اجازت پر موقوف ہے۔ موکل اجازت دے دے تو فیصلہ نافذ ہوجاتا ہے۔ جس طرح حضرت ابوہریرہؓ کا فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بعد نافذ ہوگیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کو بھی پتا ہے کہ اسے کس طرح روکا جاسکتا ہے، اور روکنے کا عمل کیا ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان کی یہ بات سچی ہے کہ آیت الکرسی شیطان کے لیے روک ہے۔
حدیث کی تمام کتابوں میں کتاب الاذان کے اندر اذان کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اسے سن کر شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کی ریح نکل جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اذان کی آواز نہ پہنچے۔ لہٰذا آیت الکرسی اوراذان دونوں شیطان کو بھگانے کے عمل ہیں۔
حضرت عثمان بن ابی العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طائف کے علاقے میں عامل بناکر بھیجا۔ میں نے محسوس کیا کہ نماز کے دوران کوئی چیز آکر میرے اور نماز کے درمیان حائل ہوجاتی ہے جس کے سبب مجھے پتا نہیں ہوتا تھا کہ میں کیا پڑھتا ہوں۔ میں نے جب ایسا محسوس کیا تو رسولؐ اللہ کے پاس واپس آگیا۔ آپؐ نے پوچھا: ابن ابی العاص ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، یارسولؐ اللہ۔ آپؐ نے پوچھا: کس وجہ سے واپس آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ نماز میں کوئی چیز رکاوٹ بن کرکھڑی ہوجاتی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ شیطان ہے۔ پھر فرمایا: قریب ہوجائو۔ میں قریب ہوا اور پائوں کی انگلیوں پر دوزانو ہوکر بیٹھ گیا۔ پھر آپؐ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میرے منہ میں اپنا لعاب لگایا اور فرمایا: اے اللہ کے دشمن نکل، آپؐ نے تین مرتبہ ایسا عمل کیا۔ اس کے بعد فرمایا: جائواپنی ڈیوٹی پر۔ حضرت عثمانؓ کہتے ہیں کہ میں واپس چلا آیا، اس کے بعد مجھے کبھی بھی اس طرح کی تکلیف سے واسطہ نہیں پڑا۔ (ابن ماجہ، باب الفزع والارق)
عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ اپنے والد ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا: میرا ایک بھائی تکلیف میں ہے۔ آپؐ نے پوچھا: تیرے بھائی کو کیا تکلیف ہے؟ میں نے کہا: اسے جِن لگ گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اسے میرے پاس لے آئو۔ وہ آگیا تو آپؐ نے اسے اپنے سامنے بٹھایا پھر اس پر فاتحہ، سورئہ بقرہ کی پہلی چار آیات اور دو آیات درمیان سے وَاِلٰھُکُمْ اِلٰـہٌ وَاحِدٌ اور آیت الکرسی اور تین آیات آخر کی اور ایک آیت آل عمران کی پڑھی۔ میرا گمان ہے کہ وہ آیت شہادۃ ہے، شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ…الخ۔ اور ایک آیت اعراف کی اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ، اور ایک آیت مومنون کی وَمَنْ یَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا آخَرَ لَابُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ، اور ایک آیت سورئہ جن کی وَاَنَّہٗ تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَا، اور ۱۰آیات صافات کے شروع سے اور تین آیات سورئہ حشر کے آخر سے اور قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور معوذتین پڑھ کر دم کیا۔ پھر وہ اعرابی اس حالت میں اُٹھا کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ تھی۔ (ابن ماجہ، باب الفزع، والارق)
یہ چندمثالیں ہیں۔ ان سے اتنا پتا چلتا ہے کہ بعض اوقات جِن انسان کو کسی درجہ میں تکلیف دے سکتے ہیں لیکن ایسا شاذونادر ہوتا ہے اور اس کا علاج قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ جیساکہ ابن ماجہ کے مذکورہ دو واقعات سے ہوتا ہے اور ابوہریرہؓ کا واقعہ بھی اس بات کا ثبوت ہے۔ رہی یہ بات کہ چلّہ کشی وغیرہ کا اس میں کچھ دخل ہے۔ کیا اس طرح سے کوئی شخص جنات نکالنے کے قابل ہوجاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص کا قرآن و سنت پر پختہ یقین ہو اور اس کی قوت ارادی اور تعلّق باللہ مضبوط ہو، تو اسے چلاکشی کی ضرورت نہیںہے لیکن اگر قوتِ ارادی کمزور ہو تو پھر اسے مضبوط کرنے کے لیے عبادات میں انہماک پیدا کرکے قوتِ ارادی اور تعلّق باللہ کو مضبوط کیا جائے تاکہ دم کااثر بیمار تک پہنچایا جاسکے۔
علامہ ابن قیم فرماتے ہیں: ’’الرُّقْیَۃُ بَالَّراقِیٌ، دم کی تاثیر دم کرنے والے کی قوت پر موقوف ہے۔ وہی سورئہ فاتحہ صحابہ کرامؓ نے بچھو کے کاٹے ہوئے پر پڑھ کر پھونکی تو وہ بالکل تندرست ہوگیا، ایسا جیسا کسی چیز نے کاٹا نہیں، اور وہی سورئہ فاتحہ دوسرے لوگوں کے پاس بھی ہے اور وہ اسے پڑھ کر پھونکتے ہیں تو کچھ اثر نہیں ہوتا۔ اس کا سبب دم کرنے والے کی روحانی قوت کا فرق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے تو نہ چلّہ کشی کی تھی، نہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہی تھا کہ سورئہ فاتحہ دم ہے۔ انھوں نے اپنے اجتہاد سے دم کیا اور دم نے اثر دکھلا دیا۔ اس طرح کے دموں کی تاثیر ان اہلِ علم وعمل کی زبانوں میں بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں دعوت، تعلیم وتربیت اور اقامت ِدین کی جدوجہد کرتے ہیں۔ جِن ان کے قریب نہیں پھٹکتے، وہ ان سے خوف زدہ رہتے ہیں اور اگر کبھی بھول کر ان کے پاس آجائیں جس طرح حضرت عثمان بن ابی العاص کے پاس آگئے تھے، تو اس کا دفاع اور دم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
یہ اہم بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اکثر لوگ جِنوں کے آسیب کے وہم میں مبتلا ہوتے ہیں، حقیقتاً آسیب نہیں ہوتا اور پیشہ ور عامل ان لوگوں کے وہم کو اور زیادہ کردیتے ہیں، اور اس طرح سے مال و دولت جمع کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
س: احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اشراق، اوابین اور چاشت (صلوٰۃ الضحیٰ) ایک ہی نماز کے تین نام ہیں، البتہ سورج نکلنے کے وقت نماز ادا کرنے اور ۱۰ یا ۱۱بجے دن نماز ادا کرنے پر ثواب مختلف ہے۔ الجھن یہ ہے کہ سعودی عرب میں اوّابین کے نوافل صبح ۱۰ یا ۱۱بجے ادا کیے جاتے ہیں، جب کہ پاکستان میں ان نوافل کو بعد نمازِ مغرب ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے احادیث کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں۔
صوفی عبدالحمید خان سواتی نے اپنی کتاب: نماز مسنون کلاں میں ایک باب: صلٰوۃ الضحٰی (چاشت کی نماز جو صلٰوۃ الاوابین بھی ہے) کے تحت لکھا ہے کہ: ’’یہ تقریباً ۹ تا۱۰ بجے پڑھی جاتی ہے، اس کی کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ ۱۲ رکعات ہیں۔ صحیح احادیث میں صلٰوۃ الضحٰی کو ہی صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ کہا گیا ہے۔ حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رکھنے والوں کی نماز ہے۔ اس کا وقت وہ ہے جب اُونٹوں کے بچوں کے پائوں ریت میں گرم ہونے لگتے ہیں‘‘ (مسلم، ج۱، ص ۲۵۷، مع نووی، ص ۲۵۰)، (نماز مسنون کلاں ،ص ۵۶۱)
اسی کتاب کے ایک دوسرے مقام پر صوفی عبدالحمید صاحبؒ نمازِاشراق قرار دیتے ہوئے حدیث روایت کرتے ہیں: ’’حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے صبح کی نماز باجماعت پڑھی، پھر وہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔ پھر اس نے دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی تو اس کو حج و عمرہ کا پورا پورا ثواب ملے گا‘‘۔ (الترغیب والترہیب، ج۱، ص۱۶۴)، (ایضاً، ص۵۵۹)
آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں کہ: ’’نمازِ مغرب کے بعد چھے رکعات نوافل کی بھی احادیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مغرب کے بعد چھے رکعات نماز پڑھی اور ان کے درمیان اس نے کوئی بُری بات زبان سے نہیں نکالی تو اس کو بارہ سال کی عبادت کے برابر ثواب ملے گا (ترمذی، ص۸۹، ابن ماجہ، ص ۹۸)۔ بعض لوگ اس نماز کو بھی صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ کہتے ہیں۔
اس سلسلے میں بھی صحابہ کرامؓ سے آثار ملتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: صلاۃ الاوّابین جب مغرب کی نماز پڑھ کر نمازی فارغ ہوں تو اس سے لے کر اس وقت تک ہوتی ہے جب عشاء کا وقت آجائے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ بے شک فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھے ہیں اور یہ بھی صلاۃ الاوّابین ہے (شرح السنۃ، ج۳، ص۴۷۴، کنزالعمال، ج ۸، ص ۳۵، بحوالہ ابن زنجویہ)۔ لغوی اعتبار سے اس کو بھی صلاۃ الاوّابین یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز کہہ سکتے ہیں، لیکن حقیقی صلاۃ الاوّابین، وہ چاشت ہی کی نماز ہے‘‘ (ایضاً، ص ۵۶۶)۔ اس حوالے سے حقیقی صورت حال کیا ہے، واضح فرما دیں۔
ج: صلٰوۃ الاشراق ، صلٰوۃ الضحٰی اور صلٰوۃ الاوّابین کے بارے میں احادیث کی روشنی میں علما کے درمیان علمی اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ ایک ہی نماز کے تین نام ہیں، اور بعض کے نزدیک اشراق اور چاشت ایک ہیں اور اوّابین مغرب کے بعد ہے۔ بعض کے نزدیک جیسے صوفی عبدالحمید صاحبؒ نے نقل کیا ہے جو علامہ سیوطی اور علی متقی کی راے ہے کہ اشراق الگ نماز ہے، اور چاشت اور اوّابین الگ ہیں اور مغرب کے بعد اوّابین لغوی معنی میں اوّابین ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی بھی یہ راے ہے کہ مغرب کے بعد اوّابین لغوی اور عرفی معنی میں اوّابین ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے: صلٰوۃ الاشراق اور صلٰوۃ الضحٰی (چاشت) کے بارے میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ لکھتے ہیں: فقہا اور محدثین کے نزدیک دونوں ایک ہیں، البتہ علامہ سیوطیؒ اور علی متقی (صاحب کنزالعمال) کے نزدیک دونوں الگ الگ ہیں۔ وہ ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جو حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراق پڑھی جب سورج اتنا بلند تھا جتنا عصر اور مغرب کے درمیان ہوتا ہے، اور ضحی اس وقت پڑھی جب سورج اتنا بلند تھا جتنا ظہر اور غروب کے درمیان ہوتا ہے۔ اس روایت کو انھوں نے حسن قرار دیا ہے (العرف الشذی باب ماجاء فی صلٰوۃ الضحٰی، ص ۲۱۹، طبع مکتبہ رحمانیہ، لاہور)۔ اس روایت کے پیش نظر صلٰوۃ الاشراق اور صلٰوۃ الضحٰی (چاشت)دو قرار پائیں ہیں۔ اس لیے اس کو مدنظر رکھنے والوں پر اعتراض مناسب نہیں۔
مولانا محمد منظورنعمانیؒ نے بھی معارف الحدیث میں جمہور فقہا و محدثین کی طرح اشراق اور ضحی کو ایک قرار دیا ہے۔ انھوں نے عنوان قائم کیا ہے: ’’چاشت یا اشراق کے نوافل‘‘۔ اس عنوان کے تحت جو روایات نقل کی ہیں ان میں اُم ہانیؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر چاشت کے وقت آٹھ رکعات پڑھیں۔ دوسری روایت حضرت ابوہریرہؓ کی ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھو، اور چاشت کی دو رکعتیں اور سونے سے پہلے وتر پڑھوں۔ (معارف الحدیث، ج ۳ ، ص ۳۵۵)
جناب صوفی عبدالحمید خاں سواتی کا حوالہ آپ نے نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک اشراق اور چاشت الگ الگ نمازیں ہیں، اور چاشت اور اوّابین کو انھوں نے ایک قرار دیا ہے۔ انھوں نے عنوان قائم کیا ہے:’’صلٰوۃ الضحٰی، چاشت کی نماز جو صلٰوۃ الاوّابین بھی ہے‘‘۔ علامہ نوویؒ کے نزدیک اشراق، ضحی اور اوّابین ایک ہیں۔ انھوں نے ریاض الصالحین میں صلٰوۃ الضحٰی کے دو باب قائم کیے ہیں۔ ایک باب کے الفاظ یہ ہیں: یہ باب صلٰوۃ الضحٰی کی فضیلت اور اس کی کم سے کم، درمیانی اور اکثر رکعتوں اور اس پر پابندی کے بیان میں ہے‘‘۔ دوسرے باب میں اس کے وقت کا بیان ہے کہ وہ سورج کے بلند ہونے سے لے کر زوال تک ہے، اور اس کا اس وقت پڑھنا افضل ہے جب گرمی زیادہ ہوجائے اور سورج اچھی طرح بلند ہوجائے۔ پھر زید بن ارقمؓ کی روایت نقل کی ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے۔ امام ترمذیؒ نے مغرب کے بعد چھے رکعتوں کا تذکرہ کیا ہے، اور حضرت ابوہریرہؓ کی روایت نقل کی ہے کہ ’’جو شخص چھے رکعتیں پڑھے گا اور درمیان میں کوئی بُری بات نہیں کرے گا، تو یہ ۱۲ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوگی۔ امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ جس راوی پر اس روایت کا انحصار ہے وہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم ہے اور اسے انھوں نے منکرالحدیث قرار دیا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے بھی روایت نقل کی ہے کہ جو شخص ۲۰ رکعتیں پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ الگ گھر بنا دیں گے لیکن اس پر تنقید نہیں کی۔ لیکن یہ بھی ضعیف ہے۔
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے: علامہ نووی اور ان کے ہم خیال علما کا مسلک یہی ہے کہ سورج نکلنے کے بعد جب مکروہ وقت نکل جائے تو اس وقت سے لے کر زوال سے پہلے تک ایک نماز ہے جس کے تین نام اور تین اوقات ہیں۔ اس نماز کا افضل وقت وہ ہے جس وقت تپش اچھی خاصی ہوجائے، یعنی ۱۰ بجے سے لے کر ۱۱بجے کے درمیان کا وقت جسے اوّابین کی نماز کہا گیا ہے اور مغرب کے بعد چھے رکعتوں کا بھی ذکر ہے۔ ان میں سے ایک روایت پر تو امام ترمذیؒ نے تنقید کی ہے لیکن دوسری بھی ضعیف ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے فرمایا: اس کے بارے میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔ لوگوں کے عرف میں اس کو اوّابین کہا جاتا ہے اور اس کے ضعف کے باوجود اس پر عمل کیا جاتا ہے (العرف الشذی علی الترمذی، ج۱، ص ۲۰۹)۔ اس لیے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بھی قابلِ عمل ہے۔ اس لیے کہ نفسِ عمل تو قطعی دلیل سے ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً نوافل توتین اوقات کے علاوہ ہر وقت پڑھے جاسکتے ہیں لہٰذا جب ان تین اوقات کے علاوہ باقی اوقات میں نوافل کی فضیلت کسی حدیث میں جو ضعیف ہو ذکر ہوگی تو اس کی بنیاد پر اس وقت نوافل کو دوسرے اوقات کے مقابلے میں ترجیح اسی حدیث کی وجہ سے دی جاسکتی ہے۔ مغرب کے بعد کی اوّابین کی یہی اصولی بنیاد ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص اس وقت چھے نوافل ادا کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ نفل صرف طلوع، غروب اور نصف النہار میں منع ہیں۔ باقی اوقات میں ممنوع نہیں ہیں۔ اسی طرح اس بات کی بھی گنجایش ہے کہ اشراق اور ضحی (چاشت) کو الگ الگ قرار دیا جائے، مگر ضحی اور اوّابین کے ایک ہونے پر اتفاق نظر آتا ہے، جیساکہ امام نوویؒ نے ذکر کیا ہے۔ (ع - م)
س: مدینہ میں ایک صحابیؓ نے حضوؐر کے ناراض ہونے پراپنا دو منزلہ مکان ڈھا دیا۔ پھر حضوؐر اُن سے راضی ہوگئے۔ حضوراکرمؐ کی ازواجِ مطہراتؓ کے حجروں کی کُل لمبائی شاید نو میٹر تھی۔ ایک صاحب نے درج بالا واقعے کی تشریح یوں کی کہ اُس وقت اسلام کو زندگی اور موت کا مسئلہ درپیش تھا۔ کسی دوسری طرف مال اوروقت صَرف کرنا اسلام کی کمزوری کا باعث بن سکتا تھا۔ اس لیے حضوؐر نے اسے ناپسند فرمایا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ اِن حالات میں ہمارا پختہ دو منزلہ مکانات میں رہنا شرعی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟ کیا یہ تغیر و تبدل احکام بلحاظِ احوال میں آئے گا؟
ج: پختہ یا دو منزلہ مکان کی تعمیر کا تعلق ایک فرد کی ضرورت کے ساتھ ہے اور ضرورت کا پورا کرنا دین کے مقاصد میں سے ہے۔ دوسری اگر ایک شخص کی ضرورت تو ہو دو کمروں کی اور وہ بنائے ۲۰کمرے تو یہ اسراف ہونے کی بناپر قرآن و سنت کے منافی ہوگا۔ شارعِ اعظم علیہ السلام کو اپنے اصحاب کے بارے میں معلوم تھا کہ عموماً ان کی ضروریات کیا ہیں۔ اس لیے اگر کسی صحابیؓ نے ضرورت سے زیادہ کسی کام کو کرنا چاہا تو آپؐ نے اسے اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے متوجہ کیا جو آپؐ کے فرائض (الدین نصیحۃ) میں شامل تھا۔
دو منزلہ مکان بعض صورتوں میں ایک خاندان کی رہایشی ضرورت ہوگی اور بعض صورتوں میں مالی ضرورت۔ ثانی الذکر شکل میں اگر مکان کی ایک منزل کرایے پر دی ہو اور ایک میں صاحب ِ مکان خود رہتا ہو تو کرایے کی شکل میں آنے والی آمدنی سے وہ اپنا گزارا کرسکتا ہے۔ لیکن اگر دو منزلہ نہیں ایک منزلہ مکان بنانے کا مقصد بھی دنیا کو دکھانا ہو کہ وہ کتنا مال دار ہے تو یہ سراسر ریا و تکبر میں شمار کیا جائے گا جس کی قرآن وسنت شدت سے ممانعت کرتے ہیں۔
جیساکہ آغاز میں عرض کیا گیا کہ اصول زمین کی پیمایش کا نہیں ہے کہ کتنے لمبے اور کتنے چوڑے پلاٹ پر مکان بنانا اسلامی ہے اور اُس سے مختلف پیمایش پر پلاٹ بنانا ناجائز، بلکہ اس کا تعلق ایک خاندان کی ضروریات سے ہے۔ اس بنا پر رقبے کی کوئی قید نہیں لگائی جاسکتی۔ ہر فرد کی ضروریات کے لحاظ سے بغیر اسراف کے مکان بنانا اس کا اسلامی حق ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
مہمان داری
سوال: میں اور میرے چند دوست اس بات کے قائل ہیں کہ مہمان کے لیے گھر میں جو کچھ حاضر ہو،لے آنا چاہیے۔ اس سے مہمان داری آسان ہوجاتی ہے (اگر میں خود کہیں مہمان بنوں تو بھی میزبان سے یہی توقع رکھتا ہوں)۔ لیکن احادیث میں تین دن تک مہمان کی خصوصی میزبانی کی تاکید آئی ہے۔ کیا ان احادیث کی روشنی میں ہمارے رویّے کو درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگرچہ معقول آمدنی بھی ہو لیکن مہنگائی کا مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے اور وقت کی کمی بھی آڑے آتی ہو؟
جواب: مہمان داری کی حدود کیا ہیں اور قرآن وسنت اس سلسلے میں کیا رہنمائی فراہم کرتے ہیں، ایک تفصیل طلب سوال ہے۔ جو نکات آپ نے اپنے سوال میں اٹھائے ہیں ان پر اختصار کے ساتھ یوں غور کیا جاسکتا ہے:
اوّلاً: مہمان یا سفر کر کے آنے والے مہمان کے لیے کھانے پینے کا معقول بندوبست کرنا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس جب دو مہمان آئے تو ان کے لیے دُنبے کا ذبح کرنا اور ان کے سامنے وافر مقدار میں کھانا پیش کرنا سنت ِ ابراہیمی ؑاور ان کی اُمت کے لیے ایک عملی مثال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گو حضرت ابراہیم ؑ ہماری طرح گھر میں جو دال دلیہ موجودہوتا پیش کرسکتے تھے لیکن انھوں نے مہمانوں کے اکرام اور تواضع کے لیے خصوصی طور پر دُنبے ذبح کروا کے کھانا تیار کرایا۔ گویا عام روزمرہ کے کھانے کے مقابلے میں زیادہ اہتمام کیا گیا۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ موجودہ دور میں جب وقت میں برکت نہیں رہی، اور معاشی مسائل نے افراد کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ایسے میں روز مہمانوں کے لیے بڑے پیمانے پر تواضع کا اہتمام کرنا مشکل ہے، تاہم یہاں اس پہلو سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وقت اور مال کی برکت میں کمی کیوں آئی ہے؟ کیا اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہیں کرتے جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اپنی ضروریات کا معاملہ ہو تو دل کھول کر خرچ کریں لیکن اگر کوئی مہمان آئے تو سادگی کی دلیل کے سہارے کم سے کم اہتمام کیا جائے۔ بلاشبہہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اسراف کو پسند نہیں فرماتے اور کھانے پینے کے حوالے سے یہ اصول بیان کردیا گیا کہ کھائو پیو لیکن اسراف نہ کرو (الاعراف ۷:۳۱)۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات پھر بھی ثابت نہیں ہوتی کہ مہمان کو صرف دال دلیہ پر ٹرخا دیا جائے اور خود لذیذ کھانے کھائے جائیں۔ ہمارے ہاں تو مہمان نوازی کرتے ہوئے خود بھوکا رہنے، بچوں کو بھوکا سُلانے کی روایت بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سراہا ہے۔
تین دن تک مہمان داری کا مفہوم بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس عرصے میں مقابلتاً زیادہ اہتمام کیا جائے، اور پھر مہمان کو گھر کے افراد کی طرح سے عزت و احترام کے ساتھ اکل و شرب میں شریک کیا جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تین دن بعد مہمان کو چلے جانے کے لیے کہا جائے۔
عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو رزق کا وعدہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں سے بھی کیا ہوا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ اپنا کھانا ساتھ اٹھائے نہیں پھرتے اور گو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں لیکن شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ اپنے مسکن پر واپس آتے ہیں۔ گویا ہر مہمان جو آتا ہے وہ اپنا رزق اللہ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور اس کی آمد کی بنا پر گھروالوں کو بھی روز مرہ کے کھانے سے مقابلتاً بہتر کھانا مہمان کے بہانے کھانے کو مل جاتا ہے۔
مہمان داری کے لیے بنیادی شرط خلوصِ نیت ہے۔ اگر مہمان کا استقبال یہ کہہ کر کیا جاتاہے کہ اھلًا وسھلًا تو پھر اسے اپنے گھر والوں کی طرح معقول غذا اور آرام پہنچانا میزبان پر فرض ہوجاتا ہے۔ بجٹ لازمی طور پر ایک حقیقت ہے لیکن خلوصِ نیت سے مہمان داری برکت و سعادت کا باعث ہوتی ہے۔ تاہم، بے جا تکلف اور اِسراف سے بچنے کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے مہمان کی تواضع اور خاطرداری، اسلامی آداب میں سے شامل ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: روزمرہ استعمال کی اشیا دوسروں کو نہ دینا کوئی اچھی بات نہیں اور اسلام نے اس کی ممانعت بھی کی ہے۔ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (الماعون ۱۰۷:۷) ’’اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔ یہ اچھا بھی نہیں لگتا کہ استعمال کی کوئی چیز ہمارے گھر میں پڑی رہے اور کسی کے کام نہ آئے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ چیزوں کو عموماً صحیح استعمال نہیں کرتے بلکہ خراب کردیتے ہیں۔ ہماری اپنی گاڑی، اسکوٹر سے لے کر بیلچا اور کدال تک عموماً دوسروں کے ہاں سے خراب ہوکر واپس آتے ہیں، یا بروقت واپس نہیں آتے اور یوں پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔ پھر آج کل چیزیں خریدنا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟
ج: عام استعمال کی اشیا دوسروں کو عاریتاً دینا اخوت، اتحاد اور ایثار کے جذبے کو تقویت دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ عموماً لوگ عاریتاً لی ہوئی چیز کو احتیاط سے استعمال نہیں کرتے۔ نتیجتاً چیز دینے والے کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کیا ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر ہوتی ہیں؟ اگر افراد طبائع کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوسکتے تو ہمارا یہ تصور کرنا کہ ہروہ شخص جو کوئی چیز عاریتاً لے گا، اسے خراب کرکے ہی لائے گا، درست خیال نہیں کہا جاسکتا۔
اصل مسئلہ افراد کی تعلیم و تربیت اور ان میں احساسِ ذمہ داری کے پیدا کرنے کا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم اور گھر کے ماحول میں اس پہلو سے سخت کمی پائی جاتی ہے۔ عاریتاً کوئی چیز دینے سے انکار کرنے کے بجاے ہمیں دوسروں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے کہ جس حال میں ایک چیز دی جارہی ہے اسی میں واپس آئے۔ بتدریج افراد کی اصلاح ہوگی اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہوگا۔ تاہم، اگر بار بار توجہ دلانے پر بھی کسی کی اصلاح نہ ہو تو معذرت کی جاسکتی ہے۔(ا-ا)
س: فوجی و سرکاری ملازمین ایک دوسرے کو الوداعی پارٹی یا استقبالیہ دیتے ہیں۔ الوداعی پارٹی دینے والے حضرات جو اس کے اخراجات برداشت کرتے ہیں وہ بعد میں آنے والے لوگوں سے پارٹی اور تحفہ رخصت ہوتے ہوئے لیں گے۔ گویا جانے والوں نے جو کچھ کھایا یا جو بصورت تحفہ وصول کیا اس کا خرچ موجود لوگ دیتے ہیں اور موجودہ لوگ جب جائیں گے تو بعد میں آنے والے اس کے اخراجات برداشت کریں گے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ کیا ایسی پارٹی یا تحفہ وصول کرنے کا شرعی جواز ہے؟
ج: فوجی یا سرکاری ملازمین کا اپنے بھائیوں کو الوداعی یا استقبالیہ پارٹی دینا ایک اچھی روایت ہے۔ اس میں ممانعت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس میں صرف اس قدر احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ یہ اسراف و تبذیر اور فخر و مباہات سے خالی ہو۔ اس میں ادلے کا بدلہ والی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ جانے والے کو جنھوں نے کھانا دیا ہے، جب کھانا دینے والوں کی باری آئے گی تو انھیں جانے والا نہیں بلکہ اسی پوسٹ اور منصب کے دوسرے احباب کھانا دیں گے اور وہ بھی اس نیت سے کھانا نہیں دیں گے کہ جانے والے انھیں کھانے کے بدلے میں کھانا دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تو یہ تھا کہ کسی نے آپ کو ہدیہ دیا تو آپ اسے موقع ملنے پر ہدیہ پیش کیا کرتے تھے۔ ہدیے اور ہبہ کا بدلہ دیا کرتے تھے۔ یہ ایک اخلاقی طریقہ ہے جس کی رہنمائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
اسلامی فقہ اکیڈمی کا انیسواں سیمی نار صوبہ گجرات کے ضلع بھروچ کے معروف علمی ادارہ ’جامع مظہر سعادت ہانسوٹ‘ میں ۲۷ تا ۳۰ صفرالمظفر ۱۴۳۱ھ، مطابق ۱۲ تا ۱۵ فروری ۲۰۱۰ء بروز جمعہ تا دوشنبہ منعقد ہوا۔ سیمی نار کے اختتام پر کئی اہم فقہی مسائل پر سفارشات پیش کی گئیں۔ کاروبار میںوالد کے ساتھ اولاد کی شرکت کے مسئلے پر کئی عملی مسائل پیش آتے ہیں۔ اس حوالے سے فقہی رہنمائی پیش ہے۔ (ادارہ)
شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو معاملات صاف رکھنے کی طرف خاص توجہ دلائی ہے، اس لیے مسلمان اپنی معاشرت میں معاملات صاف رکھنے کا خاص اہتمام کریں، خصوصاً تجارت اور کاروبار میں اس کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے۔ ایک شخص تجارت کر رہا ہے، اور اس کی اولاد بھی اس کاروبار میں شریک ہے تو جو بیٹے باپ کے ساتھ کاروبار میں شریک ہورہے ہیں، ان کی حیثیت (شریک، اجیر یا معاون کے طور پر) شروع سے متعین ہوجائے تو خاندانوں میں ملکیت کے اعتبار سے جو نزاعات پیدا ہوتے ہیں ان کا بڑی حد تک سدباب ہوجائے گا۔ اس لیے اس طرح کے معاملات میں پہلے سے حیثیت متعین کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
اگر والد نے اپنے سرمایے سے کاروبار شروع کیا، بعد میں اس کے لڑکوں میں سے بعض شریک کار ہوگئے، مگر الگ سے انھوں نے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والد نے ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہیں کی، تو اگر وہ لڑکے باپ کی کفالت میں ہیں تو اس صورت میں وہ لڑکے والد کے معاون شمار کیے جائیں گے اور اگر باپ کی زیرکفالت نہیں ہیں تو عرفاً جو اُجرتِ عمل ہوسکتی ہے، وہ ان کو دی جائے۔
اگر والد کے ساتھ بیٹوں نے بھی کاروبار میں سرمایہ لگایا ہو اور سب کا سرمایہ معلوم ہو کہ کس نے کتنا لگایا ہے تو ایسے بیٹوں کی حیثیت باپ کے شریک کی ہوگی، اور سرمایے کی مقدار کے تناسب سے شرکت مانی جائے گی، سواے اس کے کہ سرمایہ لگانے والے بیٹے کی نیت والد کے یا مشترکہ کاروبار کے تعاون کی ہو شرکت کی نہ ہو۔
اگر کاروبار کسی لڑکے نے اپنے ہی سرمایے سے شروع کیا ہو لیکن بہ طور احترام دکان پر والد کو بٹھایا ہو یا اپنے والد کے نام پر دکان کا نام رکھا ہو، تو اس صورت میں کاروبار کا مالک لڑکا ہوگا۔ والد کو دکان پر بٹھانے یا ان کے نام پر دکان کا نام رکھنے سے کاروبار میں والد کی ملکیت و شرکت ثابت نہ ہوگی۔
باپ کی موجودگی میں اگر بیٹوں نے اپنے طور پر مختلف ذرائع کسب اختیار کیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ والد کے حوالے کرتے رہے تو اس صورت میں باپ کو ادا کردہ سرمایہ باپ کی ملکیت شمار کی جائے گی۔
اگر کسی وجہ سے والد کا کاروبار ختم ہوگیا لیکن کاروبار کی جگہ باقی ہو، خواہ وہ جگہ مملوکہ ہو یا کرائے پر حاصل کی گئی ہو، اور اولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگاکر اسی جگہ اور اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا، تو اس صورت میں جس نے سرمایہ لگاکر کاروبار شروع کیا، کاروبار اس کی ملکیت ہوگا، والد کی نہیں۔ لیکن وہ جگہ (خواہ مملوکہ ہو یا کرایے پر لی گئی ہو) دوبارہ کاروبار شروع کرنے والے کی نہیں بلکہ اس کے والد کی ہوگی۔ والد کی وفات کی صورت میں اس میں تمام ورثا کا حق ہوگا، اور اسی طرح کاروبار کی گڈوِل بھی باپ کا حق ہے اور اس کی وفات کے بعد تمام ورثا کا حق ہوگا۔
اس موضوع سے متعلق سماج میں پیش آنے والے مختلف مسائل ہیں جن کو واضح کرنے اور عام مسلمانوں کو ان سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ اجتماع اکیڈمی سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک مفصل رہنما تحریر تیار کرے اور ان میں جو مسائل قابلِ تحقیق ہوں حسب ِ گنجایش آیندہ منعقد ہونے والے سیمی ناروں میں انھیں اجتماعی غوروفکر کے ذریعے طے کرے۔
ائمہ و خطبا اور علماے کرام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں معاملات کی بہتری کے سلسلے میں ذہن سازی کریں، اور شرکت و میراث وغیرہ کے جو شرعی اصول و احکام ہیں ان سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ خاص طور پر والدین ، اولاد، بھائیوں اور میاں بیوی کے درمیان شرکت کے مسائل سے واقفیت ضروری ہے۔
سوال: شریعت میں تعزیت کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اور کب تک تعزیت کرنا چاہیے؟
جواب: تعزیت عربی زبان کا لفظ ہے، اس سے مراد کسی کے انتقال پر اُس کے رشتہ داروں اور پس ماندگان کو حوصلہ دینا، اور اظہارِ ہمدردی کرکے اُن کا غم غلط کرنا اور رنج و تکلیف کو کم کرنا ہے۔ جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اُس کے عزیزوں اور بال بچوں کو صدمہ اور غم ہوتا ہے، لہٰذا اُن سے اظہارِ ہمدردی مستحب اور پسندیدہ ہے۔ انھیں تسلی اور تشفی دینا اور صبروشکر کی تلقین کرنا سنتِ نبویؐ ہے۔ تعزیت اور ہمدردی کے موقع پر پس ماندگان سے مل کر دُعا کی تلقین کرنا پسندیدہ ہے:
غَفَرَاللّٰہُ لِمَیِّتِکَ وَتَجَاوَزَ عَنْ سَیِّاتِہٖ بِرَحْمَـتِہٖ وَرَزَقَکَ الصَّبْرَ عَلٰی مُصِیْبَـتِہٖ وَاَجَرکَ عَلٰی مَوْتِـہٖ، اللہ تعالیٰ مرنے والے کی مغفرت فرمائے، اُس کی خطائوں سے درگزر کرے۔ اُس کو اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دے اور آپ کو اس حادثے پر صبر سے نوازے اور اُس کی موت کا رنج سہنے پر آپ کو اجروثواب عطا فرمائے۔
رسولؐ اللہ سے اِس موقع پر جو الفاظ منقول ہوئے ہیں، وہ یوں ہیں:اِنَّ لِلّٰہِ مَآ اَخَذَ وَلَہٗ مَآ اَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی، یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے لے لیا ہے، وہ بھی اُسی کا ہے اور جو دیا ہے، وہ بھی اُسی کا ہے، اور ایک مقررہ وقت پر ہرشے کو اُسی کی طرف جانا ہے۔ گویا سب کچھ اللہ کا دیا ہے۔ اُس کے ہاں ہرچیز نپی تُلی ہے، یعنی اُس کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے۔
تعزیت کرنے کا صحیح وقت تو تدفین کے بعد ہی ہے لیکن تدفین سے پہلے تعزیت کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ میت کے تمام رشتہ دار، چھوٹے ہوں یا بڑے، سب سے تعزیت کی جاسکتی ہے۔ تعزیت کے لیے باقاعدگی سے بیٹھ کر انتظار کرنا ضروری نہیں۔ لیکن اگر لوگ اظہارِ ہمدردی کے لیے آرہے ہوں، تو بیٹھنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ تین روز کے بعد تعزیت کے لیے جانا نامناسب ہے کہ اس سے اہلِ خانہ کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور موت کا احساس بھی طول پکڑتا ہے، البتہ کوئی شخص اگر سفر وغیرہ سے آئے تو اُس کے لیے تعزیت کی خاطر تین روز بعد جانا بھی جائز ہے۔
میت کے جنازے کے موقع پر یا فوراً بعد میں مویشی ذبح کرنا، یا اس میں سے کھانا تقسیم کرنا، دعوتِ عام کرنا، ناپسندیدہ اعمال ہیں۔ بالخصوص اگر میت کے وارثوں میں ایسے لوگ ہیں جو نابالغ ہوں یا غیرموجود ہوں تو میت کے ترکے میں سے صدقہ و خیرات کرنا یا دعوت کرنا مکروہ ہی نہیں بلکہ قطعاً حرام ہیں کیونکہ پرائے مال کو تقسیم کرنا بلااجازت جائز نہیں ہے۔
پسندیدہ عمل یہ ہے کہ میت کے ورثا اور اہلِ خانہ کے لیے پڑوسی اور دوست احباب کھانے پینے کا اہتمام کریں کیونکہ بسااوقات رنج و غم کی وجہ سے اہلِ میت خود اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ حضرت جعفر طیارؓ کی وفات پر رسولؐ اللہ نے مسلمانوں سے بالعموم اور اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرائؓ سے بالخصوص فرمایا تھا کہ جعفر کے گھروالوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ اُن پر جو مصیبت آپڑی ہے اُس کے رنج و غم کی وجہ سے وہ کھانا بھولے ہوئے ہیں۔ اس لیے اہلِ بیت کے پڑوسیوں کو چاہیے کہ وہ اُن کو کھانے کے لیے اپنے ساتھ بٹھائیں، اُن کے گھر کھانا بھیجیں اور اس تکلیف کے برداشت کرنے میں اُن کا ہاتھ بٹائیں۔
مسلمان کسی بھی تکلیف کو برداشت کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور غم غلط کرنے اور تکلیف برداشت کرنے میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ تعزیت کا پُرسا دینا یا اظہار ہمدردی کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور اُمت کے جسدِ واحد ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔تعزیت کے موقع پر میت کی خوبیوں کا ذکر کرنا بھی اچھا ہے۔ اس کے نقائص سے اعراض کرنا چاہیے اور بہتر ہے کہ ان مواقع کو باہمی تذکیر، وعظ و نصیحت اور دینی رہنمائی کے لیے استعمال کیا جائے۔ فضول گفتگو اور غیبت و چغلی اور یاوہ گوئی سے بالخصوص اس موقع پر اجتناب کیا جائے۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)
س: میری اہلیہ کے پاس سونے کے زیورات ہیں جن پر ایک مدت سے زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی ہے۔ اگر میری اہلیہ اس سونے کے نصف کو اپنی بچی کے نام کردے، اور اس کے جوان ہونے تک اس کو خود استعمال کرتی رہے تو کیا یہ جائز ہوگا؟ کیا اس طرح زکوٰۃ کی ادایگی سے معافی مل جائے گی؟
ج: سونا اگر نصاب کے مطابق ہوتو اس پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔ جتنی مدت کی زکوٰۃ آپ کی اہلیہ نے ادا نہیں کی ہے، وہ ادا کی جانی چاہیے۔ یہ اللہ کا حق ہے،اور اِس سے فرار کی راہ نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔ اگر آپ کی اہلیہ محض زکوٰۃ سے جان چھڑانے کے لیے آدھا سونا یا زیورات بچی کے نام منتقل کرتی ہیں، تو یہ ایک ناجائز حیلہ سازی ہے۔ اس بہانہ بازی سے اللہ کی پناہ مانگیے اور زرپرستی یا مال و دولت کی ہوس میں اللہ کے قانون کے ساتھ مذاق کرنے سے گریز کیجیے۔
اگر واقعی آپ کی اہلیہ اس سونے کے نصف حصے کو اپنی بچی کی ملکیت بنانا چاہتی ہیں اور اس سے مراد دھوکا دہی نہیں ہے، تو اس صورت میں آیندہ نصابِ زکوٰۃ سے کم ہونے کی وجہ سے دونوں پر زکوٰۃ لاگو نہیں ہوگی، تاہم اس سونے کے علاوہ کچھ اور مالیت کی وجہ سے اگر زیورات زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے ارادوں کو بخوبی جانتا ہے۔ یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْر، یعنی وہ تو دلوں کے اندر گزرنے والے خیالات سے بھی واقف ہے اور چھپی ہوئی باتوں سے بھی واقف ہے۔ آپ کی اہلیہ خود یا اُس کی طرف سے آپ سابقہ مدت کی زکوٰۃ یک مشت یا قسط وار ادا کریں خواہ اس کے لیے اُنھی زیورات میں سے کچھ کو فروخت ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اگر آپ اِن زیورات کو یا اِن کے کسی حصے کو فروخت کرکے کسی کاروبار میں لگائیں یا ضروریات کی چیزیں خریدیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
دراصل اسلام سرمایہ کو استعمال میں لانے یا گردش میں رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جب آپ کا سرمایے استعمال میں ہوگا تو اس سے آپ کو بھی اور کئی دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا لیکن اگر آپ اس کو جمع کرکے ناقابلِ استعمال بنائیں گے تو اس پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہوگا۔ اس سے فرار کا کوئی راستہ ڈھونڈنا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا، بالخصوص جب کہ وہ یہ ایمان رکھتا ہو کہ میرا مال اور میری جان اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے اپنے مال میں سے اُس کے کہنے کے مطابق ادایگی نہ کرنا بہت بڑی بددیانتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔(م - ی)
سوال: میں ایک طالب العلم اور دینی ذوق رکھنے والا مسلمان ہوں، مگر کچھ عرصے سے ایک عجیب اُلجھن پیدا ہوگئی ہے جو حل ہونے میں نہیں آتی۔ متعدد اہلِ علم سے رجوع کیا مگر تسلی نہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن اور کتب ِ حدیث میں اس قسم کی آیات و روایات آئی ہیں، جن سے نماز روزہ اور دیگر اعمالِ صالحہ کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، مثلاً مسلم اور ترمذی وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یومِ عاشور کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفّارہ ہے۔ عشرۂ ذی الحجہ کے روزوں کے بارے میں احادیث ہیں کہ ہر روزے کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ حضرت ابوقتادہؓ کی روایت ہے کہ اس سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یومِ عرفہ کے روزے کا ثواب بھی اتنا ہی مذکور ہے۔ اگر واقعی یوں ہی ہے، تو پھرکیا اِس سے گناہوں سے بچنے کی کیا ضرورت رہی؟ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ جس نے لاالٰہ الا اللہ کہہ دیا، وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ مشکوٰۃ میں نمازِ تسبیح کے فضائل بیان ہوئے ہیں کہ اس سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ابوداؤد اور مسنداحمد میں بیان کیا گیاہے کہ چاشت کی نماز سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ مشکوٰۃ میں ہے کہ اس کے بعد گناہوں سے کون بچے گا اور نیکی کی تکلیف اٹھائے گا؟ سورئہ رحمن میں فرمایا: وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۔ کیا جو شخص رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے، مگر کوئی اچھا عمل نہ کرے اُسے دو جنتیں یا دو باغ مل جائیں گے؟ سورئہ حم سجدہ میں آیا ہے کہ جو لوگ کہہ دیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر جم جائیں،اُنھیں فرشتے جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی آیات و روایات ہیں جو آپ کی نظر میں ہوںگی۔ ان سے جو غلط فمی اور تہاون [بے پروائی] پیدا ہوسکتا ہے، اُس کا سدّباب کیسے ہوسکتا ہے اور جو اعتراضات و سوالات سامنے آتے ہیں اُن کا کیا جواب دیا جائے گا؟
جواب: آپ کے سوال کا جواب دینے کے لیے خاصی طویل بحث کی ضرورت ہے۔ سرِدست مختصر جواب دیا جا رہا ہے۔ خدا کرے کہ موجب ِ تشفی ہو۔ آپ نے قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے جو نقطۂ نظر اختیار کیا ہے اُس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ اپنے سامنے صرف ایک پہلو اور ایک رُخ کو رکھا ہے اور صرف اُن آیات و احادیث کو مرکز ِ توجہ بنا لیا ہے جن میں بعض اعمالِ حسنہ کے نتائج بیان کیے گئے ہیں، اور اُن نصوص کتاب و سنت سے بالکل نظر ہٹا لی ہے جن میں اعمالِ سیئہ کے نتائج بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایک مومن کا صحیح مقام بین الخوف والرجاء (اُمید وبیم کے درمیان) ہے۔ جو شخص شارع کے ان دونوںقسم کے ارشادات میں سے صرف ایک ہی پر اپنی نگاہ جما لے گا، وہ لازماً یا تو خوش فہمی یا پھر مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ اسی طرح جو شخص ان دوگونہ نصوص کو آپس میں ٹکرانے اور ان میں تضاد تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اُس کے حصے میں بھی گمراہی و حیرانی کے ماسوا کچھ نہیں آئے گا۔
مزیدبرآں اس سلسلے میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی صحیح تاویل معلوم کرنے اور حقیقت ِ نفس الامری تک پہنچنے کے لیے بعض ایسے کلّیات و مسلّمات اور اُصولِ اوّلیہ جو قرآن و حدیث ہی میں مذکور ہیں یا اُن سے ماخوذ ہیں اور جن پر علماے سلف کا اتفاق ہے، وہ بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونے چاہییں، مثلاً فرائض کا اجروثواب بہرحال نوافل سے زیادہ ہے۔ فرائض و مکتوبات کی نیابت اور تلافی و تدارک نوافل سے ممکن نہیں ہے، اور ترکِ فرائض کی صورت میں تطوعات عنداللہ قبول نہیں ہوسکتے۔ جو شخص فرض نماز کا تارک ہے، اُس کے نوافل کس کام کے ہیں؟ جو زکوٰۃ یا عشر ادا نہیںکرتا، اُس کے نفلی صدقات و خیرات کیا معنی رکھتے ہیں؟ جو شخص فرض روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود اُس کا تارک ہے، اُس کا عاشورہ، ذوالحجہ یا عرفہ کا روزہ سال بھر کے گناہ تو کیا معاف کرائے گا، خود ہی ھیائً منثوراً بن کر ہوا میں اُڑ جائے گا۔جس شخص کو صلوٰۃِ مفروضہ کی ادائی نصیب نہیں ہوتی، اُس کی صلوٰۃ التسبیح دوسرے کبائر و صغائر تو کیا معاف کرائے گی، اُسے ترکِ نماز کے جرمِ کبیرہ سے بھی بری الذّمہ نہیں کرا سکے گی۔ترکِ صلوٰۃ اور ترکِ زکوٰۃ پر دنیا و آخرت میں جو شدید وعیدیں مذکور ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے تارکین کو گھروں سمیت جلا دینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے قرآن و حدیث میں عذابِ جہنم کی وعید ہے اور دنیا میں صحابہ کرام نے اُن کے خلاف مرتدین کی طرح قتال بالسیف کیا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی اس امر میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ نفلی عبادات تارکینِ فرائض کے لیے کفّارہ نہیں بن سکتیں اور نوافل و تطوعات کے لیے جو بشارتیں وارد ہیں اُن کے مستحق وہی مسلمان ہیں جو اوامر و فرائض کی پابندی حتی الوسع کرتے ہیں۔ ان ارشادات کا یہ مقصود و مدّعا ہرگز نہ تھا کہ لوگ ان پر بھروسا کرکے فرائض سے تغافل و تساہل برتیں اور منکرات و نواہی کے ارتکاب پر جری ہوجائیں۔ صحابہ کرام جو اِن فرمودات کے اوّلین مخاطب تھے اُن میں ہمیں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ اُنھوں نے ایسی بشارتیں سُن کر اُن پر غلط تکیہ کیا ہو جس سے اوامر و نواہی کی پابندی میں ڈھیل پیدا ہوئی ہو۔
اعمال کی جزا و سزا کے معاملے میں ایک اُصول کتاب وسنت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ تمام اچھے اور بُرے اعمال کا بحیثیت مجموعی موازنہ و محاسبہ اللہ کے ہاں ہوگا۔ جس کا اچھے اور وزنی اعمال کے لحاظ سے پلڑا بھاری ہوگیا وہ جنت کا مستحق ہوگا، اور جس مسلمان کے اچھے اعمال وزن میں ہلکے ثابت ہوئے وہ دوزخ کا مستحق ہوگا۔ اس کے بعد اللہ چاہے تو ایسے مومن کو معاف کر دے اورچاہے تو معاف کرنے سے پہلے اُسے سزا بھگتنے کے لیے دوزخ میں بھیج دے۔ پھر وہاں اعمال کی ظاہری شکل و صورت کونہیں، بلکہ باطنی جذبے اور نیت کو دیکھا جائے گا۔ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ بعض عبادت گزاروں اورروزے داروں کو سواے رات جاگنے اور بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ یہاں فرض یا نفل نماز اور روزے کی تخصیص بھی مذکور نہیں جس سے معلوم ہوا کہ بعض موانع ایسے ہیں جن کی موجودگی میں فرض نماز روزہ بھی ردّ ہوسکتا ہے۔ تا بنوافل چہ رسد۔ کوئی شخص عبادات و صدقاتِ نافلہ اگر اس غرض کے لیے انجام دے کہ اُسے فرائض میں چھوٹ اور کبائر کی آزادی مل جائے، تو ایسے اعمال نہ صرف مردود ہوں گے، بلکہ ایسے زعمِ باطل پر عنداللہ مواخذہ ہوگا۔
اس کے علاوہ کتاب وسنت میں بہت سے ایسے ہلاکت خیز اعمال گنوائے گئے ہیں جو بہت سارے دوسرے اعمال کو بھی ضائع اور خبط کردیتے ہیں۔ ریاکاری کو شرکِ اصغر کہا گیا ہے، جس سے مالی اِنفاق، قتال اور دوسرے اچھے اعمال بے کار ہوجاتے ہیں۔ خیانت و غلول سے جہاد اور شہادت کا اجر مارا جاتا ہے اور اُن کا مرتکب اُلٹا دوزخ میں جاتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے: ’’قیامت کے روز ایک شخص بہت اچھے اعمال کے ساتھ پیش ہوگا، مگر اُس کے ساتھ اُس نے حقوق العباد کو تلف کیا ہوگا، کسی کا مال چھینا ہوگا، کسی کو گالی دی ہوگی یا دوسری طرح خلقِ خدا کو نشانۂ ستم بنایا ہوگا، تو اُس شخص کی ساری نیکیاں ان مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی اور مظلوموں کی بُرائیاں اُس ظالم کے سر پر لاد کر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا‘‘۔
ایسی بے شمار وعیدات کیوں آپ کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر فرمایا ہے کہ میری شفاعت اہلِ کبائر کے لیے ہے تو اُس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ ہر مرتکب کبیرہ مستحقِ شفاعت ہوگا اور بلامواخذہ بخشا جائے گا؟ اللہ کے ہاں جس کے لیے اذن ہوگا، اُسی کے حق میں شفاعت ہوگی۔ بہت سے اہلِ ایمان کا بھی ایک مرتبہ دوزخ میں داخل کیا جانا احادیثِ صحیحہ میں مذکور ہے۔ اُن لوگوں کے لیے یا تو شفاعت نہ ہوگی یا پھر سزا پانے کے بعد ہوگی۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینے والا میری شفاعت سے محروم ہوگا۔ بعض مجرمین کے متعلق فرمایا کہ میں اُن کے خلاف مدعی بن کر مخاصمت کروں گا۔ غوروعبرت کا مقام ہے کہ خود آنحضوؐر، شافعِ محشرؐ جس کے خلاف صاحب ِ دعویٰ ہوں گے اُس کا شفیع کون ہوسکتا ہے اور وہ مؤاخذہ سے کیسے بچ سکتا ہے؟
مَیں آخر میں ایک عام فہم تمثیل پر جواب کو ختم کرتا ہوں۔ فرض کیجیے کہ ایک طبیب حاذق اپنے ایک نسخے میں قوت و توانائی کے لیے بعض مفید اور مجرب ادویہ و اجزا کے نام لکھ دیتا ہے۔ پھر اپنی ایک مجلس میں بعض غذائوں کے نفع بخش اثرات اور حفظانِ صحت کے بعض اُصول بیان کرتا ہے اور کسی دوسری مجلس میں بعض زہریلی اشیا اور سمّیات کا بھی ذکر کردیتا ہے کہ اُن کے کھانے سے انسان بیماری یا موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب یہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ پر درست اور برمحل ہیں، لیکن کوئی نادان اگر کرتا یہ ہے کہ مقوّیات کے ساتھ سمّیات کو بھی نوشِ جان کرلیتا ہے اور اس کے بعد تنومند ہونے کے بجاے مرض الموت میں مبتلا ہوجاتا ہے، تو کیا یہ کہا جائے گا کہ طبیب حاذق نہ تھا یا اُس کی کچھ باتیں صحیح اور کچھ غلط تھیں؟ اس سلسلے میں بہتر ہوگا کہ مولانا مودودیؒ کی کتاب تفہیمات حصہ اوّل کا وہ مضمون بھی پڑھ لیں جس کا عنوان ہے: ’’کیا نجات کے لیے کلمۂ طیبہ کافی ہے؟‘‘
اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات اپنی جگہ پر اٹل اور برحق ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ آج مسلمان صرف آسانیوں اور رخصتوں کے طالب اور سستی نجات کے خواہاں بن کر رہ گئے ہیں۔ جس طرح اہلِ کتاب کہتے ہیں کہ: سَیُغْفَرُلنا (توقع ہے کہ ہم بخشے جائیں گے) اسی طرح مسلمان بھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہر بے عملی، بلکہ بدعملی کے باوجود بلامؤاخذہ سیدھے جنت میں جاداخل ہوں گے، ترکِ اوامر اور ارتکابِ معاصی پر اُن سے پُرسش کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر یہ ایک مہلک غلط فہمی بلکہ گمراہی ہے جو اُن کی اپنی کج رَوی اور کج فہمی کی پیداوار ہے۔ اللہ اور اُس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بَری ہوں۔ جو شخص دنیا میں دعواے ایمان کرتا ہے، ہم تو بلاشبہہ اُسے مسلمان کہیں گے کیونکہ یہاں ظاہر احوال ہی پر سارے احکام مرتب ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ جس کا علم ظاہر وباطن دونوں پر حاوی ہے اُس کے ہاں ہر زبانی دعویٰ تسلیم کیے جانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگرایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوںکیوں فرماتا:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَo (البقرہ ۲:۸) اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخرت پر حالانکہ وہ مومن نہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہر مسلمان کو کتاب و سنت کے ہر قول کے استماع [غور سے سننے] اور بطریق احسن اتباع کی توفیق بخشے، آمین! (جسٹس ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ششم، ص۳۸۰-۳۸۶)
سوال: ملکی معاملات میں حکومت کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اگر حکومت ملک کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے کردار ادا نہ کر رہی ہو اور مخلص اور دیانت دار قیادت بھی میسر نہ ہو، جب کہ سوسائٹی میں ایسے رویوں کا سامنا بھی ہو جو دین سے لاتعلق ہوں، تو ایک عام آدمی اصلاحِ معاشرہ اور حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: آپ نے اپنے سوال میں جس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ اکثر مسلم ممالک میں حکومت ایسے افراد کے قبضے میں ہے جو اسے اپنی میراث سمجھتے ہیں اور عموماً آمریت اور سیکولر طرزِ حکومت کے دل دادہ ہیں۔ ظاہر ہے ایسی حکومتوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا خیرمقدم کریں گی یا تحریکاتِ اسلامی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گی، ایک غیرحقیقت پسندانہ بات ہوگی۔ ان حکومتوں کی کوشش تو یہی رہتی ہے کہ نظامِ تعلیم ہو یا نظامِ معیشت و معاشرت، ہر ہر شعبۂ حیات میں وہ مغرب کی اندھی نقالی کریں تاکہ انھیں ’روشن خیال‘ اور ’اعتدال پسند‘ سمجھا جائے۔ ان حکومتوں کی پالیسیوں کا مقصد مغرب کی غلامی کو مستحکم کرنا اور اسلامی فکر رکھنے والی جماعتوں کے کام میں مشکلات پیدا کرنا ہی رہا ہے۔
ایسے حالات میں آپ کا یہ سوال کہ ایک عام شخص اصلاحِ معاشرہ اور حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کیا کرسکتاہے، ایک بہت عملی سوال ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ غور طلب ہے کہ اگر معاشرے میں حکمران طبقے اور بااثر افراد میں انحراف نفوذ کر گیا ہو تو کیا انفرادی کوشش حقیقتاً مطلوبہ نتائج اور تبدیلی پیدا کرسکتی ہے، یا ایسے نامساعد حالات میں زمانے کی فضا سے اختلاف رکھنے والے افراد اپنے گھروں میں معاشرے سے کٹ کر تنہائی میں اپنے رب کا ذکر اور طاغوتی قوتوں کی بربادی کے لیے دعا کرتے رہیں اور معاشرے کو لادینی عناصر کی تخت و تاراج کے لیے خالی چھوڑ دیا جائے۔
حق و باطل کی یہ کش مکش ہمارے اس دور ہی میں نہیں تاریخ کے ہر دور میں رہی ہے اور اسلامی قوتوں نے بظاہر قلتِ تعداد کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اپنے خلوص اور استقامت کی بنا پر آگے بڑھ کر باطل قوتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ اپنے مخلص بندوں کے حوالے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ راہِ حق میں نکلنے والوں کی قلتِ تعداد کے باوجود انھیں اپنے سے کئی گنا زیادہ حزبِ مخالف پر برتری عطا فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو اگر تم میں سے ۲۰ آدمی صابر ہوں تووہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے… (الانفال ۸:۶۵)۔ گویا جب بھی نظامِ حق کے قیام کے لیے منظم جدوجہد کی جائے گی اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید غیبی سے اہلِ حق کی کم تعداد دشمنِ دین کے بظاہر زیادہ قوی، سازوسامان سے لیس لشکر پر غالب ہوگی۔ البتہ اولین شرط ان کا مومن اور صابر ہونا ہے۔
ایک مسلم اور مومن ایسے حالات میں بھی جب ابلاغِ عامہ عریانیت اور اخلاق دشمن فضا پیدا کرنے میں مصروف ہو اور حکمران مغرب کی ذہنی اور مالی غلامی پر فخر کرتے ہوں اور اس غلامی کو اپنے لیے وجۂ نجات تصور کرتے ہوں، نہ تو مایوس ہوسکتا ہے اور نہ جھنجھلاہٹ میں عقل و ہوش کا دامن چھوڑ سکتا ہے۔ اسے قرآن اور خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریق کار پر عمل کرنا ہوگا۔
اس طریق کار میں اولین چیز اپنے دل و دماغ کو اس بات پر حتمی طور پر مطمئن کرنا شامل ہے کہ وہ قرآن وسنت ہی کو اپنا مآخذ اور ذریعۂ قوت سمجھتا ہے اور باطل کی بظاہر کثرت اور یلغار سے نہ خائف ہے اور نہ اس کے آگے ہتھیار ڈالنے یا کسی گوشے میں جاکر اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ استقامت اور صبر کے ساتھ، یعنی مسلسل جدوجہد کرنے ہی کو اسوۂ انبیا سمجھتا ہے، اس لیے ۶۰، ۷۰ سال جدوجہد کرنے کے باوجود نہ مایوس ہے، نہ دل برداشتہ۔ اس طریق کار میں جو حکمت و برکت ہے، وہ کسی وقتی جذباتی فیصلے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ تیسری بات یہ کہ وہ جس حال میں اور جہاں کہیں بھی ہے اسے اپنے جہاد کو جاری رکھنا ہے اور نظام باطل کی کمزوریوں کو واضح کرنے کے ساتھ وہ انسانی اثاثہ تیار کرنا ہے جو آخرکار مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے شرطِ اول کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسلامی ریاست کا قیام نہ تو کسی یک شبینہ انقلاب سے ہوسکتا ہے اور نہ کسی جلوس کے مطالبے سے بلکہ اس کے لیے افرادِ کار کی وہ جماعت درکار ہے جو رات کو عبادت گزار ہو اور دن میں باطل معاشی نظام، باطل رسوم و رواج، باطل فکر اور باطل اقتدار کے خلاف عملاً تبدیلی لانے کی جدوجہد میں شامل ہو۔
اسلامی ریاست کی پہلی اینٹ ایک مسلمان گھرانے میں شوہر اور بیوی کا اپنے معاملات میں اسلام کو نافذ کرنا ہے۔ اس کی دوسری اینٹ ان والدین کا اپنی اولاد کو اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل پر آمادہ کرنا ہے۔ اس کی تیسری اینٹ اس مسلمان گھرانے کا اپنے طرزِعمل، اخلاق اور تعاونوا علی البر والتقویٰ اور امربالمعروف کے مثبت اصولوں کی مدد سے اپنے محلے کے افراد کے مسائل کے حل کرنے میں ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔ اس کی چوتھی اینٹ نہ صرف محلہ بلکہ ملک میں ہونے والی نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد میں جس سطح پر بھی ممکن ہو، قلم سے، مال سے، جسم و جان سے اپنا حصہ ادا کرنا ہے۔
گویا مثالی اسلامی ریاست اچانک کسی غیبی اعلان سے نافذ نہیں ہوگی بلکہ افراد کار کو اور خصوصاً ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو تحریک کا ہم خیال سمجھتے ہیں، آگے بڑھ کر بتدریج لیکن مستقل مزاجی یا صبر کے ساتھ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ قرآن کریم نے اس بات کو سورئہ رعد میں بطور ایک اصول کے واضح طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
لہٰذا اگر صاحب ِ اقتدار ٹولہ چور ہو، ملک کا بدخواہ ہو، بیرونی طاقتوں کا غلام ہو، مفاد پرست ہو تو محض اس بات کا اظہار کرکے دل کی بھڑاس نکالنا کافی نہیں ہوسکتا۔ قوم کو اللہ کی بندگی کے راستے پر اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے، دبائو اور لالچ کے باوجود کسی مفاہمت اور وقتی طور پر باطل کا ساتھ دیے بغیر اپنے موقف کو دلیری اور اعتماد کے ساتھ صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق اختیار کرنا ہوگا۔ جب قوم اپنے اوصاف کو تبدیل کرے گی تو قلتِ تعداد کے باوجود فتح یاب ہوگی اور باطل لرز کر اور خائف ہوکر یا تو میدان چھوڑے گا یا مقابلے پر آنے کے بعد شکست کھائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے ابدی اور آفاقی اصول ہر دور میں ہر مقام پر یکساں ہیں۔ ہمارے لیے کوئی الگ شریعت نہیں آئے گی۔
ہمیں مثالی اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کے لیے اپنے گھر میں چھوٹے پیمانے پر اُس ریاست کو، اپنے محلے میں چھوٹے پیمانے پر اس ماحول کو، اور آخرکار اپنے ملک میں وسیع تر پیمانے پر ان اصولوں کو بتدریج نافذ کرنا ہوگا۔ یہ طریق کار وہی ہے جو خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ میں اولین جماعت ِ مجاہدین میں عملاً نافذ فرمایا۔
یہی وہ طریق کار ہے جو تحریکاتِ اسلامی نے اختیار کرنا چاہا ہے اور اسی کو اختیار کرنے کے بعد ہم پاکستان میں ان شاء اللہ ایک مثالی ریاست قائم کریں گے۔ اس اعتماد کے ساتھ رب کریم سے استعانت مانگنے کے ساتھ اصل کرنے کا کام ایسے افرادِ کار کی تیاری ہے جو ایمان، صبرواستقامت، حکمت دینی اور تفقہ فی الدین سے آراستہ ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلیِ اقتدار میں ایک عام شہری کلیدی کردار ادا کرتا ہے لیکن اس کردار کے ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عام شہری کو حالات کا صحیح شعور وآگہی ہو، اور ہمارے اہلِ علم اور دانش ور ملک کے معاملات کا تجزیہ ایک عام شہری کے لیے قابلِ فہم زبان میں پیش کریں اور بجاے نااُمیدی کے ان میں اعتماد، اُمید اور مستقبل کے روشن ہونے کے احساس کے ساتھ افراد اور نظام کی تبدیلی کے لیے ایک لائحہ عمل بھی پیش کریں۔
پریشان کن حالات میں تحریکِ اسلامی کی قیادت اور اس کے ہر کارکن پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نعروں، بیانات اور قراردادوں سے آگے نکل کر ملک گیر پیمانے پر عوامی مسائل کے حل کے لیے بستی بستی جاکر اپنے منشور اور اپنے track record کو عام شہری کے علم میں لائیں تاکہ افسردگی، نااُمیدی، غصہ اور نفرت کی جگہ مستقبل کے بارے میں پُرامید رویہ اور عوامی مہم کے ذریعے نااہلوں کی جگہ اللہ کا خوف رکھنے والے افراد کو قیادت پر لایا جاسکے۔ ایک عام شہری اپنے گھروالوں، محلے والوں اور شہروالوں کو نہ صرف حالات سے آگاہ کرسکتا ہے بلکہ انھیں منظم، پُرامن اور اجتماعی جدوجہد پر بھی آمادہ کرسکتا ہے۔
آج جو حالات پاکستان میں پائے جاتے ہیں ان میں ہرباشعور شہری متفکر اور پریشان ہے۔ اگر اس فکروپریشانی کا کوئی مثبت حل پیش نہ کیا گیا تو یہ مایوسی میں تبدیل ہوگی اور مایوسی عموماً شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کا فرض منصبی یہی ہے کہ وہ پُرامن جدوجہد اور فکری، عملی اور اجتماعی اصلاح کے ذریعے تبدیلیِ قیادت و امامت کو اپنے اہداف میں شامل کریں، اور حقائق پر مبنی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی افرادی قوت کو ان بے شمار شہریوں سے تبادلۂ خیالات کرنے کے بعد انھیں ساتھ لے کر ملک گیر پیمانے پر اصلاح کی تحریک کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کی راہ کو ہموار کریں۔(ڈاکٹر انیس احمد)