رسائل و مسائل


اعضا کے عطیے کی مہم

سوال: آج کل الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اِس بات کی ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ فوت ہونے سے قبل اِس بات کی وصیت کردیں کہ ان کے اعضاے جسمانی انسانیت کی فلاح کے لیے وقف ہیں اور اُن کے انتقال کے بعد ان کو نکال لینے کی مکمل اجازت ہے۔ اس عمل کو آرگن ڈونیشن کا نام دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت کی رُو سے ایسا کرنا جائزہے؟

جواب: عمومی انداز میں لوگوں کو اپنی وفات کے بعد اپنے اعضا عطیہ کرنے اور نکال دینے کی دعوت و ترغیب دینا درست نہیں ہے، اسے ختم کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس طرح کی تشہیر کے نتیجے میں انسانی اعضا کی تجارت اور کاروبار کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے جس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ انسانی اعضا کا عطیہ اور پیوند کاری کو مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا یوسف بنوریؒ کی سربراہی میں علما نے ناجائز قرار دیا ہے۔ مفکراسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی بھی یہی راے تھی۔ احادیث سے احترامِ انسانیت کی جو ہدایت ملتی ہے، اس کا بھی یہی تقاضا ہے لیکن سعودی عرب، الجزائر، ملیشیا اورپاکستان کے بعض علما، جن میں شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن بھی شامل ہیں، اضطراری حالت میں اسے جائز سمجھتے ہیں لیکن اس کے لیے چھے شرائط کی پابندی لازمی ہے۔ ان کے بغیر انسانی جسم کی چیرپھاڑ اور اعضا کی منتقلی نہیں کی جاسکتی۔ وہ شرائط یہ ہیں:

ا- مریض کی موت یا اس کے کسی عضو کے ضائع ہوجانے کا شدید خطرہ ہو۔

ب- ماہرین کی راے یہ ہو کہ انسانی عضو کی پیوندکاری سے مریض کے شفایاب ہونے کی قوی امید ہے اور اس عمل کی کامیابی کا غالب گمان ہے۔

ج- جس شخص کی لاش سے کوئی عضو لیا جائے، اس کے بارے میں قوی یقین ہو کہ وہ مرگیا ہے اور اس کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔

د- اگر زندہ شخص کا کوئی عضو، مثلاً گردہ لیا جا رہا ہو تو اس صورت میں، جب کہ یہ یقین یا غالب گمان ہو کہ اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ اپنی خوشی سے یہ عطیہ دے رہا ہو۔

ھ- میت کے شرعی وارثوں نے اس کا کوئی عضو لینے کی اجازت دے دی ہو، اس لیے کہ وہ اس کی تدفین و تجہیز کے شرعاً ذمہ دار ہیں۔ اگر میت لاوارث ہو تو علاقے کا قاضی اس کا وارث ہے جس کی اجازت پر عضو لیا جاسکتا ہے (وصیت کی صورت میں بھی اجازت ہے)۔

و-  اس بات کا اطمینان حاصل کرلیا گیا ہو کہ اعضا کی پیوندکاری کا یہ عمل انسانی اعضا کے کاروبار کا ذریعہ ثابت نہیں ہوگا اور حکومتوں نے اس بارے میں قانون کے ذریعے عام انسدادی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرلی ہوں۔ (بحوالہ تفہیم المسائل، ج ۳، ص ۱۸۷ - ۱۸۹)

میڈیا پر جس انداز سے تشہیر ہورہی ہے اور جو کمپنیاں یہ تشہیر کر رہی ہیں، اس کے نتیجے میں مذکورہ تمام شرائط اور قدغنیں کالعدم ہوکر رہ جاتی ہیں۔ ان قدغنوں کا مقصد تو یہ ہے کہ اعضا     کے لیے انسانی میت کی چیرپھاڑ اضطراری حالت میں نہایت محدود پیمانے پر ہو لیکن میڈیا کی تشہیر کے نتیجے میں لاشوں کی چیرپھاڑ کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہونے کا اور اس کے کاروبار بن جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس لیے اس تشہیر کو روکنا چاہیے تاکہ جو حدیں لگائی گئی ہیں، وہ اپنی جگہ مؤثر رہیں اور محض اضطراری حالت میں اس ناگوار عمل کا ارتکاب کیا جائے۔ (مولانا عبدالمالک)

پلاٹ پر زکوٰۃ

س:  ریٹائرمنٹ پر میں نے ساڑھے گیارہ لاکھ روپے کی رقم بنک میں رکھنے کے بجاے اس کا ایک پلاٹ خرید لیا۔ پلاٹ خریدتے وقت پیش نظر یہ تھا کہ:

۱- روپے کی قدر کم ہوتی رہتی ہے، جب کہ پلاٹ کی مالیت بڑھنے کی توقع ہے۔ اگر کسی وقت مناسب منافع ملا تو پلاٹ کو بیچا جاسکتا ہے (تاہم دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پلاٹ کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا)۔

۲- گھریلو اخراجات ماہوار پنشن میں بمشکل پورے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات غیرمعمولی اخراجات بھی کرنے پڑ جاتے ہیں، مثلاً کسی بچے کی شادی یا بیماری کی صورت میں۔ کسی بھی صورت میں ضرورت پڑنے پر پلاٹ بیچ کر ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔

۳- اگر مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت پیش نہیں آتی تو پلاٹ پڑا رہے گا اور اولاد کے کام آئے گا۔

میرا سوال یہ ہے کہ: ۱- کیا اس پلاٹ کی مالیت پر زکوٰۃ واجب ہے؟

۲- زکوٰۃ واجب ہے تو پلاٹ کی کس وقت کی مالیت پر یا کس حساب سے طے کردہ مالیت پر؟

۳- زکوٰۃ واجب ہے لیکن وقت پر ادایگی کے لیے نقد رقم موجود نہیں اور ذاتی ماہوار آمدنی میں سے زکوٰۃ کے لیے رقم نہیں بچتی۔ ایسی صورت میں میرے لیے کیا حکم ہوگا؟ ا- کیا پلاٹ بیچ دینا چاہیے؟ ب- ایک بیٹے کی کمائی میں یہ گنجایش موجود ہے کہ اس سے میں اپنی زکوٰۃ ادا کر دوں۔ کیا شرعاً میں اس بات کا مکلف ہوں کہ بیٹے کی کمائی سے اپنی زکوٰۃ ادا کر دوں؟

ج: جب آپ نے روپے کو پلاٹ کی شکل میں محفوظ کرلیا ہے اور مقصد اسے فروخت کرنا ہے، منافع کی صورت میں، ہنگامی ضروریات کی صورت میں، یا اسے بچوں کے لیے پس انداز کرنا ہے، جو بھی صورت ہو، زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ پلاٹ کی مارکیٹ کے ریٹ کے مطابق قیمت کا تعین کرکے زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ خیال رہے کہ رہایشی ضرورت کے تحت خریدے گئے پلاٹ پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔

آپ کے پاس زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے فاضل رقم نہیں ہے، البتہ ایک بیٹے کی کمائی میں گنجایش ہے۔ آپ کا یہ سوال کہ کیا پلاٹ کو فروخت کر دیا جائے تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ آپ کی صوابدید پر ہے۔ زکوٰۃ تو بہرصورت دینا ہوگی، اس لیے کہ آپ کی ضروریات سے فاضل محفوظ شکل میں براے فروخت پلاٹ پڑا ہوا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ بیٹا رضاکارانہ طور پر اعانت کردے اور آپ زکوٰۃ ادا کردیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب پلاٹ فروخت ہو تو اس وقت سارے عرصے کی زکوٰۃ ادا کردیں،واللّٰہ اعلم۔ (ع - م )

 

معاشرتی بگاڑ اور نوجوان

سوال: میڈیا ، ٹی وی، ڈش، انٹرنیٹ، اخبار و جرائد، یہ سب عورت کو تشہیر کا مؤثر ذریعہ سمجھتے ہوئے خوب استعمال کرتے ہیں۔ یہ نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا باعث ہے، دوسری طرف دین اور معاشرے کا تقاضا کہ نوجوانوں کو پاک باز ہونا چاہیے جو کہ کڑی آزمایش ہے۔ اسلام کا واضح حکم ہے کہ جو نوجوان استطاعت و طاقت رکھتا ہو وہ نکاح ضرور کرے لیکن ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہمارا معاشرہ یہ کہتا ہے کہ پہلے لڑکا خودکفیل ہو اور پھر شادی ہو۔ اس طرح کیریئر بناتے بناتے ایک فرد کو کافی عرصے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ بھوک پیاس کے بعد جنسی تسکین انسان کی فطری ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں کسی نئے خاندانی نظام کی ضرورت نہیں ہے کہ جس میں نوجوانوں کو کرپٹ ہونے سے بچایا جاسکے۔ موجودہ حالات میں اسلامی احکامات کے مطابق ہم زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟

جواب: آپ نے اپنے سوالات کے ذریعے جس اہم پہلو کی طرف متوجہ کیا ہے وہ شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے، یعنی صالحیت کے ساتھ نسلِ انسانی کا تحفظ۔ اسلام واحد دین ہے جو خاندانی زندگی کو ایمان کی تکمیل اور تقویٰ کے حصول کے لیے ایک شرط قرار دیتا ہے، اور سیرت خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ جو نکاح کا انکار کرتا ہے، سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی اُمت میں شمار نہیں فرماتے۔ قرآن کا مطالعہ کریں تو وہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر رشتۂ نکاح قائم کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ رزق میں وسعت اور برکت پیدا کریں گے۔

ابلاغِ عامہ اور زندگی کے معاملات میں جس طرح عورت کو بطور ایک مرغوب شے بناکر پیش کیا جارہا ہے اور عام تعلیمی ماحول میں مخلوط تعلیم جس چیز کو فروغ دے رہی ہے وہ حیا اور    پاک بازی کی ضد کہی جاسکتی ہے۔ ایسے ماحول میں ایک نوجوان کا نفس کے فتنوں سے محفوظ رہنے کا ایک مسنون ذریعہ وہی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا یعنی نکاح۔ لیکن حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ اگر کوئی نوجوان ایسا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو پھر وہ اپنے اخلاق و کردار کے تحفظ    کے لیے روزے کو بطور ڈھال استعمال کرے۔

ظاہر ہے روزہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک ایسا خفیہ معاملہ ہے جس کا کسی اور کو علم نہیں ہوسکتا اور غیرمحسوس طور پر روزہ انسان کو بدنگاہی، بدخیالی، بدزبانی ، غرض ہر برائی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے اگر ہفتہ میں دو مرتبہ، یعنی پیر اور جمعرات کو عام دنوں میں روزہ رکھا جائے تو اس سے وہ قوتِ مدافعت پیدا ہوگی جو ایک نوجوان کو بے راہ روی سے محفوظ رکھ سکے گی۔

یہ بات بھی درست ہے کہ ہمیں ایک نئے خاندانی تصور کی ضرورت ہے جس میں نام نہاد مشرقی روایتی تصور سے ہٹ کر قرآن و سنت کی بنیاد پر خاندان کو قائم کیا جائے۔ دیکھا گیا ہے کہ وہ گھرانے بھی جو خود کو دینی گھرانے کہتے ہیں شادی بیاہ کے معاملے میں بڑی حد تک اپنی برادری کی بعض جاہلانہ روایات اور بالخصوص معاشی بنیاد پر رشتے کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جب کہ حدیث میں جو چار معیار تجویز کیے گئے ہیں ان میں حُسن، دولت، نسب، تینوں پر تقویٰ اور دین کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

قرآن کریم نے ایسے نوجوانوں کی شادی کے حوالے سے جو شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہوں لیکن وسائل نہ رکھتے ہوں ان کے اہلِ خانہ، اہلِ معاشرہ اور ریاست تینوں کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ چنانچہ ایک مثالی اسلامی ریاست میں ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ مجرد نوجوانوں کو نکاح کے لیے وسائل فراہم کرے، اور ایسے ہی معاشرے کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ایسے افراد کے لیے مل کر سہولتیں فراہم کرے۔ آج تحریکِ اسلامی کی ترجیحات میں بھی اس اہم بات کو شامل ہونا چاہیے تاکہ وہ نوجوان جن کی تربیت ِکردار میں سالہا سال صرف کیے جاتے ہیں آزمایش کا شکار نہ ہوں۔

رشتہ کرتے وقت معاشی آسودگی کی شرط پر بھی متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کوئی نوجوان اچانک اپنے شعبے میں اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کم وسائل کے باوجود نکاح میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ جس کو خوش کرنے کے لیے یہ رشتہ کیا جائے گا وہ کائنات کے تمام خزانوں کا مالک ہے اور وہ ان شاء اللہ ضرور رزق میں برکت دے گا۔(ڈاکٹر انیس احمد)

اسلامی بنکاری کے بارے میں اُلجھن

س: پاکستان میں رائج موجودہ اسلامی بنکاری اور مروجہ عام بنکاری میں محض نام کا فرق ہے۔ آپ موجودہ اسلامی بنکاری کو کم ظالمانہ کہہ سکتے ہیں، غیرسودی نہیں۔ میری راے میں اسلامی بنکاری صرف اسلامی حکومت کے زیراثر ہوسکتی ہے۔ بنک تجارتی اداروں کو نفع و نقصان کی بنیاد پر قرضے دیں۔ اسی طرح بنک میں رقم جمع کروانے والا بنک سے منافع حاصل کرسکتا ہے اور نقصان بھی۔ دھوکا دہی کرنے والے کی جایداد ضبط کرنا اور لوگوں کو ان کے حقوق دلوانا حکومت کا کام ہو۔ ایمان دار لوگ کوآپریٹو سوسائٹیز کی طرز پر سرمایہ اکٹھا کر کے کاروبار کو جدید اور وسیع کرسکتے ہیں لیکن اس کام کے لیے بھی اچھا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ سود کو حلال کرنے والے بنکوں کے تنخواہ دار ملائوں سے بھی بچنا ہوگا۔ ہمیں سادگی اختیار کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔

ج: اسلامی بنکاری کے بارے میں آپ کو اپنی راے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ ہم عصر علما میں ہمیں ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو مروجہ اسلامی بنکاری اور تکافل پر شدید اعتراضات کرتے ہیں، اور ایسے علما بھی ہیں جو مجبوریوں اور مسائل سے آگاہی کے باوجود بعض اسلامی مالی اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق اور سود سے پاک قرار دیتے ہیں۔ وہ کسی ’جبری بیعت‘ کی تبلیغ نہیں کرتے بلکہ شریعت کے اصولوں کی روشنی میں مالی اداروں کا جائزہ لے کر انھیں سند فراہم کرتے ہیں۔

ایک عام شہری کے لیے اسلام جس چیز کا مطالبہ کرتا ہے وہ حرام سے اجتناب اور حلال کا حصول ہے۔ اگر ایک مالی ادارہ نہ صرف یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ سودی کاروبار سے پاک ہے، بلکہ اس کے تمام پیداواری امور اور سرمایہ کاری کی اسکیموں کا علما نے بغور مطالعہ کیا ہے اور وہ اسے حلال کہتے ہیں، تو ایک عام شہری کو ظاہر پر اعتماد کرتے ہوئے ایسے علما کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے جو اپنی شہرت اور علمی لیاقت کی بنا پر ملک اور ملک سے باہر مستند سمجھے جاتے ہوں۔

دوسری بات یہ بھی سامنے رہے کہ جب تک ایک مثالی اسلامی حکومت قائم نہ ہو، اس وقت تک کیا کیا جائے۔ کیا سودی بنکوں کو بہ اِکراہ قبول کیا جائے یا اسلامی بنکوں کو جو واضح طور پر سود سے پاک ہونے کا اعلان کرتے ہوں۔ ایک روز مرہ کی مثال سے اسے یوں سمجھیے کہ آپ روز کسی قصاب کی دکان پر جاکر گوشت خریدتے ہیں اور اپنی اور احباب کی دعوت کرکے لذیذ کھانوں کے مزے لیتے ہیں۔ کیا ایک مرتبہ بھی آپ نے قصاب یا ذبح کرنے والے مرکز جاکر یہ معلوم کیا کہ ہرہر ذبیحہ کے وقت ذبیح نے صحیح طور پر اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا آپ کو یہ یقین ہے کہ صدیوں سے قصاب چاہے اسے ایک لفظ قرآنی عربی کا نہ آتا ہو اور اس نے ایک جماعت بھی نہ پڑھی ہو، ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے کر ہی کر رہا ہوگا۔

اس کے مقابلے میں اسلامی مالی ادارے ہر فرد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خود ادارے کی  مالیاتی اسکیموں کے بارے میں تفصیلات معلوم کر کے دیکھ لے کہ اس میں سود کہاں ہے؟ اس کے باوجود اگر ایک بات ذہن میں بٹھا لی جائے کہ ہر اسلامی مالی ادارہ جو کام کررہا ہے اس میں بدنیتی اور دھوکا شامل ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اسلام میں دین کی پوری عمارت کا انحصار نیت اور ظاہری عمل پر ہے۔ اگر ایک شخص بظاہر نماز پڑھ رہا ہے تو کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے بارے میں افواہ پھیلاتا پھرے کہ گو بظاہر نماز تو پڑھ رہا ہے لیکن دل میں شیطان کو سجدہ کررہا ہے۔ دین میں اس شک اور ابہام کی کوئی گنجایش نہیں۔ بات دلیل اور ثبوت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ اگر کسی اسلامی مالی ادارے کے بارے میں کسی کے پاس ثبوت ہوں تو اس کا فرض ہے کہ انھیں عوام الناس کے علم میں لائے لیکن محض گمان اور شبہے کا اظہار نہ تقاضاے دین ہے نہ دیانت و امانت۔

اسلامی کوآپریٹو کی تجویز بہت مناسب ہے۔ اس پر لازماً کام ہونا چاہیے اور اُس کے لیے بھی اسلامی حکومت کے آنے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو حضرات اسے درست سمجھتے ہوں وہ آگے بڑھیں اور اس طرح کم از کم معاشی میدان میں اسلام کے اصولوں کو عملاً نافذ کر کے اسلام کی عملیت کی ایک مثال قائم کریں۔ اسلامی ریاست ان شاء اللہ ایسے تمام اداروں کو مزید تقویت دے گی۔ ایمان داری کا کلچر اسلامی ریاست کے آنے کے بعد نہیں،اُس سے بہت پہلے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ریاست کا راستہ اس کلچر سے ان شاء اللہ زیادہ آسان ہوجائے گا، اور جب مثالی ریاست قائم ہوگی تو وہ اس کلچر کو مزید ترقی دے گی۔ (ا- ا)

 

بیرون ملک ملازمت یا شہریت: چندسوالات

سوال:  آج کل خلیجی ممالک اور پاکستان سے بہت سے لوگ آسٹریلیا اور کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد اُن لوگوں کی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ نقل مکانی کی بنیادی وجہ روزگار کے بہتر مواقع، تعلیم اور صحت کی بہتر سہولتیں ہیں۔ اس ضمن میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں:

۱- پاکستان یا سعودی عرب سے آسٹریلیا یا کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے جانا اسلامی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟ کیا یہ دارالاسلام سے دارالکفر کی طرف جانا ہے؟ شرعی اعتبار سے اِس نقل مکانی کی کیا حیثیت ہے؟

۲- کوئی شخص جو آسٹریلیا یا کینیڈا کی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے، اُس کا مقصد وہ سب دنیاوی فوائد حاصل کرنا ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے ،لیکن ساتھ ساتھ اُس کے دل میں   یہ مصمم ارادہ ہے کہ وہ وہاں جاکر غیرمسلم معاشرے میں دعوتِ دین کا کام بھی کرے گا، تو کیا اُسے وہاں جانا چاہیے؟

۳-کیا ان ممالک میں جا کر رہایش اختیار کرلینا، یا اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنا تحریکِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے مناسب ہے یا نہیں؟

۴- ایسی انٹرنیشنل کمپنیوں میں جو یہودیوں اور عیسائیوں کی ہیں، ملازمت کرنا کیسا ہے؟

جواب: رزق حلال کی تلاش میں ملک کے اندر یا ملک سے باہر جاکر ملازمت کرنا میری ناقص معلومات کی حد تک نہ کبھی حرام تھا نہ حرام ہونا چاہیے، لیکن جو سوال آپ نے اٹھائے ہیں وہ اس لحاظ سے اہم ہیں کہ دارالاسلام اور دارالکفر کے سیاق میں ایک ایسے مسلمان کے لیے جو  تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہو، کیا یہ عمل عزیمت کا ہوگا؟ پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کیا دارالکفر سے ہرقسم کا معاشی تعلق حرام ہے یا دورِ خلافت ِ راشدہ میں غیرمسلم علاقوں میں مسلمان تاجر جاتے تھے، قیام کرتے تھے اور اپنا سامان فروخت کرتے اور وہاں کا سامان لاکر دارالاسلام میں تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے؟

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے تجارتی تعلقات دنیا کے بہت سے مقامات پر تھے۔ جزائر مالدیپ جہاں سے مسلمان عورتوں اور یتیم بچوں کی واپسی کے موقع پر سندھ کے  فرماں روا کی زیادتی اس خطے میں باقاعدہ اسلام کی آمد کا سبب بنی، وہاں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ دارالکفر میں یہ تاجر عرصے تک مقیم رہے حتیٰ کہ وہیں پر ان کا انتقال ہوا۔ گویا کسی حکمِ صریح کی عدم موجودگی میں ایسے عمل کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یہ بات بھی علم میں رہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی حکمت کی بنا پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ کوئی مسلمان دیارِ غیر میں آٹھ سال سے زیادہ نہ رہے، کیونکہ زیادہ عرصہ قیام کے نتیجے میں وہ یا اس کی اولاد وہاں کے غیرمسلم معاشرے سے متاثر ہوسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا فیصلہ لازمی طور پر دینی حکمت پر مبنی تھا لیکن اگر ایک شخص نے غیرمسلم ممالک میں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اخلاقی تعلیم کا صحیح بندوبست کرلیا ہو، اور وہ اپنا وقت دین کی دعوت میں صرف کر رہا ہو تو ایسا کرنا دین کی حکمت کے عین مطابق ہوگا۔

اصل مسئلہ لفظی بحث کا نہیں ہے۔ اگر ایک تحریکی یا غیر تحریکی شخص ملازمت کے لیے جا رہا ہے یا محض دعوتِ دین کے لیے ، دونوں مقاصد ایک ساتھ اختیار کیے جاسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جسے نیت کا علم سب سے زیادہ ہے اس کی نیت کی بناپر اسے اعلیٰ اجر سے نواز سکتا ہے۔ ہاں، اگر انتخاب کا معاملہ ہو کہ ایک طرف پاکستان میں یا کسی مسلم ملک میں ملازمت موجود ہے مگر تنخواہ کم ہے،  جب کہ غیرمسلم ملک میں ملازمت میں زیادہ تنخواہ مل رہی ہے لیکن نہ وہاں بچوں کی صحیح تربیت ہوگی نہ دعوتِ دین کا موقع ملے گا تو لازماً کم تنخواہ پر پاکستان یا کسی دیگر مسلم ملک میں ملازمت کرنا ہی زیادہ مناسب ہوگا۔ اگر یہ بات تحقیق سے معلوم ہو کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی براہِ راست مسلمانوں کے مفاد کے خلاف کام کر رہی ہے، مثلاً وہ اسرائیل کو امداد دیتی ہے تو ایسے ادارے میں کام کرنے سے لازماً بچنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی ملٹی نیشنل ادارے میں یہودی یا عیسائی کام کر رہے ہوں تو محض اس بنا پر اس کی ملازمت اختیار نہ کرنے کی کوئی دلیل بہ ظاہر نظر نہیں آتی۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر ہم پاکستان یا کسی مسلم ملک میں اقامت پذیر ہوں لیکن بچوں کی تربیت کی طرف سے لاپروا ہوں اور یہ قیاس کرلیں کہ چونکہ بچے پاکستان یا کسی اور مسلم ملک میں ہیں تو خود بخود ان کی تربیت اچھی ہوجائے گی، یہ محض خوش گمانی کی بات ہے۔ بچوں کی تربیت ایک انتہائی اہم اور مشکل کام ہے۔ اگر ایک شخص کی نگاہ میں اس کی صحیح اہمیت ہو تو وہ جہاں بھی ہو بچوں کی تربیت کرسکتا ہے۔

جہاں تک دارالاسلام اور دارالکفر میں انتخاب کا سوال ہے، اس میں دو آرا نہیںہوسکتیں کہ دارالاسلام کو چھوڑ کر دارالکفر میں جانے کو کسی بھی طرح مطلوب و مرغوب نہیں کہاجاسکتا۔ البتہ اگر ایک شخص متعین عرصے کے لیے دعوتی مقاصد کے پیشِ نظر دارالکفر جاتا ہے تو ایسا کرنا دین کے کسی اصول سے نہیں ٹکراتا۔ تاہم، مستقل طور پر دارالاسلام کو ترک کر کے دارالکفر ہجرت کرنا شریعت کے منافی ہوگا۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بعض صورتوں میں دارالکفر اور دارالاسلام کے حوالے سے حقیقت واقعہ کی حیثیت قابلِ غور بھی ہوسکتی ہے، مثلاً ایک خاندان تعلیم یا روزی کی تلاش میں غیرمسلم اکثریتی علاقے میں گیا اور وہاں پر ان کی اولاد پیدا ہوئی جس نے دینی تعلیم پائی اور   شادی بیاہ کا تعلق مسلمانوں کے ساتھ قائم کیا، تو کیا ایسے افراد کا ایک غیراسلامی ملک میں قیام دارالکفر میں قیام کہلائے گا، جب کہ یہ افراد اُس غیر مسلم معاشرے میں شعوری طور پر اسلامی تعلیمات کے فروغ اور خود اپنے گھر میں اسلامی ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہوں۔

یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ آج جب خود مسلم ممالک میں ان کی دستوری حیثیت سے قطع نظر وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو دارالکفر کے حوالے سے فقہی کتب میں ملتی ہیں، تو دونوں کے درمیان محض اصولی فرق کی بناپر ایک ہی حکم ہوگا یا تبدیلیِ حالت کی بنا پر حکم کی نوعیت میں فرق پڑے گا۔ میرے خیال میں ان معاملات پر مزید غوروفکر کی ضرورت ہے اور اس طرح کے معاملات میں محض سیاہ یا سفید پر حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ دین کے مطالبات ومقاصد کے پیشِ نظر بہت سے تحریکی اور غیرتحریکی مسلم داعیانِ دین کو ایسے مقامات پر جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں یا بالکل نہ پائے جاتے ہوں دعوتی نقطۂ نظر سے جاکر مختصر یا طویل قیام کر کے دین کی دعوت کو دارالکفر میں متعارف کرانا ہوگا۔

اگر اسلام ایک علاقائی دین ہوتا تو اسے ایک ایسے خطے میں محدود و مقید رہنا چاہیے تھا جہاں اسے دارالامن اور دارالاسلام میسر ہوتا۔ لیکن اس ترجیح کے باوجود کہ ایک فرد اور اس کا خاندان اسلامی ماحول میں رہے، دعوتی ضرورت اور دینی تقاضے کے پیشِ نظر بہت سے افراد کو غیرمسلم اکثریت کے علاقوں میں جاکر دعوتِ دین کا کام کرنے کے لیے قیام کرنا ہوگا۔ جیساکہ آغاز میں عرض کیا گیا اس کا بڑا انحصار نیت، سعی اور کوشش پر ہے اور اس اندازے پر ہے کہ ایک شخص دارالکفر میں رہتے ہوئے خود دین پر کتنی آزادی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے اور اُس کے سامنے منصوبۂ عمل کیا ہے۔

توسیعِ دعوت کے لیے ممالکِ غیر میں جاکر اپنے قول و عمل سے دین کی دعوت دینا ایک فریضہ ہے، اور یہ اسی طرح فرض ہے جیساکہ خود ایک مسلم ملک میں جہاں دستوری طور پر تو اسلام حاکم ہو لیکن عملاً وہ دارالکفر کی طرح معاشی، سیاسی اور معاشرتی معاملات میں غیراسلامی تعلیمات پر عمل کر رہا ہو۔ ایسے مسلمان ملک میں بھی توسیعِ دعوت کے لیے جدوجہد کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے۔ گویا دعوتی نقطۂ نظر سے واضح اہداف کے ساتھ کسی ملک میں جانا اور اپنی تمام صلاحیتیں بروے کار لاتے ہوئے، دعوتِ دین کے ساتھ ساتھ حصولِ رزق کی کوشش کرنا بھی دین کے مطالبات سے مطابقت رکھتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہییں جو اس مقصد کے لیے اپنی زندگی کے لمحات کو اس کام میں لگائیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

 

ایک شوہر کی سوچ

سوال:  میں شادی شدہ ہوں اور تین بچوں کی ماں ہوں۔ دینی لحاظ سے یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اسلام نے ہمیں کس طرح کے رہن سہن کی تاکید کی ہے؟ ہر انسان اپنی سہولت کے مطابق دین کی بات کرتا ہے۔ میرے میاں کے بقول: ’’اسلام میں یہ مناسب نہیں کہ ہمارا بیڈروم ایک ہو۔ مجھے بیٹیوں کے ساتھ اور اُنھیں بیٹے کے بیڈروم میں سونا چاہیے‘‘۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ مناسب بات نہیں ہے، جب کہ ہمارے بچے بھی بڑے ہوچکے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ایک عورت جو سارا دن بچوں کے ساتھ گزارتی ہے، گھر کا کام کاج کرتی ہے، شوہر کے ماں باپ کی خدمت کرتی اور مہمان داری کرتی ہے، اور خاوند جو کہ عموماً چار پانچ بجے گھر آئے، پھر روز ہی کہیں اپنے کام سے یا دوستوں کے پاس چلا جائے اور رات گئے تک ٹی وی دیکھے اور سو جائے، تو کیا اُس عورت کو اپنے دکھ سُکھ کہنے کے لیے اس بندے کی کوئی ضرورت نہیں؟

سیرت پاکؐ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاکؐ کی ازدواجی زندگی کتنی متوازن اور مثالی تھی۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ نبی پاکؐ کی ازواجِ مطہراتؓ خاص طور پر حضرت عائشہؓ کے بارے جو کچھ بیان کیا جاتا ہے کیا وہ صرف پڑھنے کے لیے ہے یا کہ عمل کرنے کے لیے بھی ہے؟ مجھے اپنے خاوند کے اس رویے پر بہت دکھ ہوتا ہے۔ اگر میرے خاوند کی بات ٹھیک ہے تو وضاحت کر دیں تاکہ میں اس اذیت و کیفیت پر صابرہ و شاکرہ بن کر رہوں۔

جواب: قرآن و سنت کے ہر اُس طالب علم کے لیے جو اس کا مطالعہ اور اس پر غوروفکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، قرآن کریم کے ظاہر مفہوم اور اس کے سیاق و سباق سے واقف ہو، اور  سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں آپؐ کے عمل، قول اور تقریر کی مدد سے صحیح مقصود و مطلوب حکم تک پہنچ سکتا ہو، دین کے معاملات کو سمجھنا ہرگز مشکل نہیں رہتا۔ دین کو ایک مسلمان کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے۔اس لیے من مانی تاویلات کرنے یا سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اسلام کے نام پر اپنی ذاتی سہولت کی بناپر کسی کام پہ اصرار کی گنجایش نہیں چھوڑی گئی۔ معاشرتی معاملات میں خصوصاً قرآن وسنت کے احکام غیرمعمولی طور پر واضح اور غیرمبہم ہیں۔

حدیث صحیح میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ جب بچے بلوغ کے قریب پہنچیں تو ان کے بستر الگ کردیے جائیں۔ وجہ ظاہر ہے حقیقی خونی رشتوں کے احترام کے باوجود حالت ِ نیند میں ایک بستر میں سونے کے سبب غیرارادی طور پر کسی غلطی کا ارتکاب ہوسکتا ہے۔ اس لیے برائی کے ذریعے کا سدباب کرنے کے لیے واضح حکم دے دیا گیا۔ قرآن کریم کا واضح حکم ہے کہ جس کمرے میں شوہر اور بیوی استراحت کر رہے ہوں اس میں تین اوقات میں داخل ہونے سے قبل اجازت لی جائے۔ یہ اجازت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قرآن نے خود اس کا جواب دیا ہے اور یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ہم اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ کوئی مومن اور مومنہ اپنے ذاتی تصورِ تقویٰ کی بنیاد پر اپنے اُوپر کوئی ناجائز پابندی نہ لگا لے۔

قرآن کریم نے شوہر اور بیوی کے رشتے کو لباس سے تعبیر کیا ہے، مؤدت و رحمت اور قربت سے تعبیر کیا ہے۔ اس پس منظر میں اپنی من مانی تعبیرات کے ذریعے اپنے اُوپر مشقت اور بیوی پر ظلم نہ اسلام کا مقصود ہے اور نہ عقل کا تقاضا۔ اگر کوئی شوہر بغیر کسی نص شرعی کے محض کسی واعظ کے بیان کی بنا پر کوئی طریقہ اختیار کرتا ہے تویہ اسلام کے نظامِ معاشرت کی روح کے منافی ہے۔

دین کے معاملات میں یہ سمجھنا کہ جو بات شوہر کے دماغ میں آجائے وہ تو دین ہے اور جو حق بیوی کے پاس ہو وہ قابلِ توجہ نہیں، دین سے بغاوت پر مبنی رویہ ہے۔ ہر مسلمان کو ایسے ظلم سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ شوہر اور بیوی کا ایک ساتھ رہنا، سونا اور استراحت کرنا دین کے تقاضوں میں سے ہے اور یہ ایک دوسرے پر وہ حق ہے جسے لباس کی جامع اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیا شوہر اور بیوی کا سماجی اور عائلی سطح پر تعلق محض چند لمحات تک محدود ہے اور اس کے بعد وہ اچھوتوں کی طرح ایک دوسرے سے دُور الگ الگ رہیں؟ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک موقع پر بھی یہ پسند فرمایا کہ اُمہات المومنینؓ کو ایک جگہ قید کردیں اور خود ان سے الگ تھلگ ایک حجرے میں قیام فرمائیں؟ آخر ہمارے عمل کی بنیاد کیا ہوگی، اپنی من مانی تعبیرات یا قرآن و سنت کے واضح احکامات کی روشنی میں پندرہ سو سال کا اُمت کا عمل؟

ایک بیوی کو شوہر پر وہی حق ہے جو شوہر کو بیوی پر ہے۔ یہ کسی فرد کا نہیں قرآن کریم کا حکم اور قیامت تک کے لیے فیصلہ ہے۔ ہمیں اس فیصلے کو ماننا ہوگا، چاہے اس سے ہمارے نفس کو تکلیف پہنچے، اَنا کو ٹھیس لگے اور علمیت کو صدمہ پہنچے۔ دین نصیحت کا نام ہے، یعنی حق کی بات کو بھلائی کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے تک پہنچانا۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ بیوی اوربیٹی کے حقوق کی ادایگی کے بارے میں علم بھی حاصل کریں اور انھیں کماحقہ ادا بھی کریں۔

ایک شخص اگر روزی کمانے کے لیے آٹھ، دس گھنٹے صرف کرتا ہے اور ٹی وی کے سامنے چار گھنٹے بیٹھتا ہے اور دعوتِ دین کے کام کے لیے ہفتے میں ایک یا دو دن، چند گھنٹوں کے لیے  کسی اجتماع میں یا کسی ذمہ داری کی ادایگی میں مصروف ہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ   بظاہر تھک ہار کر رات کو ۱۰، ۱۱ بجے گھر آئے اور علیحدہ کمرے میں سو جائے۔ اس کا ایسا کرنا   گھریلو زندگی کے جملہ پہلوئوں کو نظرانداز کرنے اور متعلقین کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔ یہ بیوی کا شوہرپر حق ہے کہ وہ اس کے جذبات کا خیال رکھے، حُسنِ سلوک سے پیش آئے، اور جہاں تک ممکن ہو سہولت پہنچائے۔ اسلام کی واضح تعلیمات کی موجودگی میں، دین کے نام پر    ان ہدایات سے انحراف نہ تقویٰ ہے نہ اسلامی معاشرت اور خاندانی نظام کی پیروی۔ لہٰذا ماضی میں جو زیادتی کسی شوہر نے بیوی کے ساتھ کی ہو اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور بیوی کے ساتھ صحیح رویہ اپنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے مدعا اور مقصد کو سمجھنے اور اپنی ذاتی راے کے مقابلے میں دینی تعلیمات پر اعتماد کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین! واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)

بیوٹی پارلر کی تعلیم اور کاروبار

س: آج کل بیوٹیشن اور بیوٹی پارلر کی تعلیم، کاروبار اور رواج عام ہورہا ہے۔ ایک خاتون نے انگلینڈ کے ایک کالج میں ایک سالہ ڈپلومہ ٹریننگ کورس میں داخلہ لیا ہوا ہے۔ میں اس قسم کی تعلیم اور کاروبار کو جائز نہیں سمجھتا لیکن اُن کا کہنا ہے کہ ’’اس میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ اسلام میں عورتوں کے بننے، سنورنے اور سنوارنے کی اجازت ہے، جب کہ باقاعدہ دکان بھی نہیں کھولی جائے گی۔ عورتیں گھر پر آجاتی ہیں یا اپنے ہاں لے جاتی ہیں جس سے معقول اور جائز آمدنی ہوسکتی ہے‘‘۔صحیح موقف کیا ہے؟

ج: آپ کے سوال کے دو پہلو غورطلب ہیں: اول یہ کہ تزئین و آرایش کے طریقوں کی تعلیم چاہے وہ آرایش گیسو ہو، غازہ کا صحیح تناسب سے استعمال ہو ، کیا ایسے فن کی تعلیم اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہوگی یا ناجائز؟ دوسرے یہ کہ زینت اختیار کرنا کیا بجاے خود مکروہ ہے یا حرام؟

اگر غور کیا جائے تو ہر وہ علم جو معاشرتی اور عائلی زندگی کو زیادہ مستحکم بنانے والا ہو اور اس میں شریعت کی کسی نص کی خلاف ورزی نہ ہو رہی ہو، اصولاً مباح ہوگا۔ علم کا استعمال جب بھی کسی فحش یا برائی کے فروغ کے لیے ہو تو وہ حرام ہوجائے گا۔ اگر ایک خاتون بیوٹیشن کی حیثیت سے خواتین کو بنائو سنگھار کی خدمت اپنے گھر میں بیٹھ کر فراہم کرتی ہے تو اس میں کسی شرعی اصول سے تضاد نہیں پایا جاتا، البتہ اسراف، نمود و نمایش، لغویات اور وقت کے مصرف اور ترجیحات کا پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے۔ تاہم، اگر وہ بازار میں دکان کھول کر بیٹھتی ہے جہاں عورتوں ہی کو نہیں مردوں کو بھی   یہ خدمت فراہم کی جاتی ہو تو یہ لازماً حرام ہوگا۔

دین کے معاملات میں محض اپنی پسند پر فیصلہ کرنا کسی لحاظ سے مناسب نہیں۔ ہمارے پاس قرآن و سنت سے دلیل ہونی چاہیے۔ جب تک یہ بات واضح نہ ہوجائے کہ کسی خاتون کے کسی دوسری خاتون کے غازہ لگانے سے فحش کی ترویج ہو رہی ہے، اس قسم کی اعانت کرنے اور گھر میں دوسری خواتین کو سہولت فراہم کرنے کو ناجائز قرار دینا ممکن نہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ا- ا)

 

شرعی سزائوں کا نفاذ

سوال: ۱- اسلام کے قانون و اصول قطعی طور پر ناقابلِ تجزیہ ہیںیا کچھ گنجایش ہے؟ مثلاً اگر حکومت اجراے حدود کا قانون پاس کردے اور جج حضرات ان قوانین کے عملی نفاذ کے مجاز ہو جائیں لیکن معاشرے کی حالت یہی رہے جو اَب ہے اور اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی قانون نافذ ہی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں شرعی ثبوت کے بعد رجم اور حد کی سزا ظلم ہوگی یا نہیں؟...

۲-کیا حکومت کو اصلاح معاشرہ کے لیے اجراے حدود کو کچھ مدت کے لیے ملتوی رکھنا چاہیے اور احکامِ اسلامی کے اجرا میں کسی خاص ترتیب کو ملحوظ رکھنا چاہیے؟...

جواب: اس وقت اگر کوئی مسلمان حکومت اسلام کے تمام احکام و قوانین اور اس کی ساری اصلاحی ہدایات کو معطل رکھ کر اس کے قوانین میں سے صرف حدودِ شرعیہ کو الگ نکال لے اور عدالتوں میں ان کو نافذ کرنے کا حکم دے دے تو جو قاضی یا جج کسی زانی یا سارق یا شارب خمر پر حد جاری کرنے کا حکم دے گا وہ تو ظالم نہیں ہوگا، البتہ وہ حکومت ضرور ظالم ہوگی جس نے شریعت ِ الٰہیہ کے ایک حصے کو معطل اور دوسرے حصے کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں ایسی حکومت کو اُس آیتِ قرآنی کا مصداق سمجھتا ہوں جس میں فرمایا گیا ہے:

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ (البقرہ ۲:۸۵) کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور روزِ قیامت وہ شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں گے۔

میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ جو حکومت خود شراب بنانے اور بیچنے کے لائسنس دیتی ہو اور جس کی تقریبات میں خود حکومت کے کارفرما اور ان کے معزز مہمان شراب سے شغل کرتے ہوں ان کے قانون میں اگر شارب خمر کے لیے ۸۰ کوڑے لگانے کی سزا مقرر کر دی جائے تو ہم اُسے اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ ایک طرف عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو رواج دینا، لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ کالجوں میں پڑھانا، عورتوں سے سرکاری دفاتر میں مردوں کے ساتھ کام لینا، ننگی تصویروں اور عریاں فلموں اور فحش لٹریچر کی بے روک ٹوک اشاعت جاری رکھنا، ۱۶ سال سے کم عمر کی لڑکی اور ۱۸ سال سے کم عمر کے لڑکے کا نکاح قانوناً ممنوع ٹھیرانا، اور دوسری طرف زنا پر رجم اور کوڑوں کی سزا دینا فی الواقع اسلامی قانون کا اجرا ہے۔ مجھے یہ ہرگز تسلیم نہیں ہے کہ سود اور قمار کو حلال کرنے والی اور ان محرمات کو خود رواج دینے والی حکومت چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون نافذ کر کے اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت قرار دی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی عالمِ دین اس متضاد طرزِ عمل کے جواز کے قائل ہوں اور ان کے نزدیک شریعت کے ٹکڑے کرنا اور اس کے اجزا میں سے بعض کو ترک اور بعض کو اخذ کرلینا ظلم نہیں بلکہ ایک نیکی ہو تو وہ اپنے دلائل ارشاد فرمائیں۔

دراصل یہ مسئلہ محض اس سادہ سے قانونی سوال پر بحث کر کے حل نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حالات میں شرعی حدود کا نفاذ جائز ہے یا نہیں۔

اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم کو محض احکام ہی نہیں دیے ہیں بلکہ ان کے ساتھ کوئی حکمت بھی سکھائی ہے جس سے کام لے کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایک مدتِ دراز تک کفروفسق کی    فرماں روائی کے تحت رہنے کے بعد ہمارے ملک میں جو حالات پیدا ہوچکے ہیں ان میں اقامت ِ دین کا کام اب کس طرح ہونا چاہیے۔ جہاں تک میں نے شریعت کو سمجھا ہے اس کے نظام میں اصلاح، سدِّباب ذرائع اور تعزیر کے درمیان ایک مکمل توازن قائم کیا گیا ہے۔ ایک طرف وہ ہر پہلو سے تزکیۂ اخلاق اور تطہیر نفوس کی تدابیر ہمیں بتاتی ہے، دوسری طرف وہ ایسی ہدایات ہمیں دیتی ہے جن پر عمل درآمد کر کے ہم بگاڑ کے اسباب کی روک تھام کرسکتے ہیں، اور تیسری طرف وہ تعزیرات کا ایک قانون ہمیں دیتی ہے تاکہ تمام اصلاحی و انسدادی تدابیر کے باوجود اگر کہیں بگاڑ رونما ہوجائے تو سختی کے ساتھ اس کا تدارک کر دیا جائے۔ شریعت کا منشا اس پوری اسکیم کو متوازن طریقے سے نافذ کر کے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کے کسی جز کو ساقط اور کسی کو نافذ کرنا حکمت ِ دین کے بالکل خلاف ہے۔

اس کے جواز میں یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ جس جز کو ہم نافذ کر رہے ہیں اس کے نفاذ کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ اس استدلال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک حکیم کا مرتب کردہ نسخہ کسی اناڑی کے ہاتھ آجائے اور وہ اس کے بہت سے اجزا میں سے صرف دوچار اجزا نکال کر کسی مریض کو استعمال کرائے اور اعتراض کرنے والے کا منہ بند کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرے کہ جو اجزا میں استعمال کرا رہا ہوں وہ سب حکیم کے نسخے میں درج ہیں۔ اس کی اس دلیل کا جواب آخر آپ یہی تو دیں گے کہ بندئہ خدا حکیم کے نسخے میں جو مصلحات اور بدرقے [معاون ادویات] درج تھے ان سب کو چھوڑ کر تو صرف سمیّات [زہریلی چیزیں] مریض کو استعمال کرا رہا ہے اور نام حکیم کا لیتا ہے کہ میں اس کے نسخے سے علاج کر رہا ہوں۔ حکیم نے تجھ سے یہ کب کہا تھا کہ تو میرے نسخے میں سے جس جز کو چاہے چھانٹ کر نکال لے اور جس مریض کو چاہے کھلا دے۔

اس کے ساتھ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شریعت آیا اپنے نفاذ کے لیے مومن و متقی کارکن چاہتی ہے یا فاسق و فاجر لوگ اور وہ لوگ جو اپنے ذہن میں اس کے احکام کی صحت کے معتقد تک نہیں ہیں؟ اس معاملے میں بھی محض جواز اور عدمِ جواز کی قانونی بحث مسئلے کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ مجرد قانونی لحاظ سے ایک کام جائز بھی ہو تو یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ حکمتِ دین کے لحاظ سے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ کیا حکمتِ دین کا یہ تقاضا ہے کہ احکامِ شرعیہ کا اجرا ایسے حکام کے ذریعے سے کرایا جائے جن کی اکثریت رشوت خور، بدکردار اور خدا و آخرت سے بے خوف ہے، اور جن میں ایک بڑی تعداد عقیدتاً مغربی قوانین کو برحق اور اسلامی قوانین کو غلط اور فرسودہ سمجھتی ہے؟ میرے نزدیک تو اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کردینے اور خود مسلم عوام کو بھی اسلام سے مایوس کردینے کے لیے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کے ہاتھوں احکامِ شریعت جاری کرائے جائیں۔ اگر چند بندگانِ خدا پر بھی جھوٹے مقدمے بناکر سرقے اور زنا کی حد جاری کردی گئی تو آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں حدودِ شرعیہ کا نام لینا مشکل ہوجائے گا اور دنیا میں یہ چیز اسلام کی ناکامی کا اشتہار بن جائے گی۔

اس لیے اگر ہم دین کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں، اُس سے دشمنی نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں پہلے اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے جو دین کی سمجھ بھی رکھتے ہوں اور اخلاص کے ساتھ اس کو نافذ کرنے کے خواہش مند بھی ہوں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ اسلام کی پوری اصلاحی اسکیم کو ہرجہت سے ہمہ گیر طریقے پر نافذ کیا جائے اور اسی سلسلے میں حدودِ شرعیہ کا اجرا بھی ہو۔ یہ کام بڑا صبر اور بڑی حکمت چاہتا ہے۔ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں ہے کہ آج مجلسِ قانون ساز میں ایک دو نشستیں ہاتھ آگئیں اور کل حدودِ شرعیہ جاری کرنے کے لیے ایک مسودۂ قانون پیش کر دیا گیا۔

اس سلسلے میں ایک بات اور بھی سمجھ لینی چاہیے۔ ایک حالت تو وہ ہوتی ہے جس میں پہلے سے ملک کے اندر اسلامی قانون نافذ چلا آ رہا ہو اور بعد میں بتدریج انحطاط رونما ہوتے ہوتے   یہ نوبت آگئی ہو کہ شریعت کے بعض حصے متروک ہوگئے ہوں اور جن حصوں پر عمل ہو بھی رہا ہو،  ان کو نافذ کرنے والے بدکردار لوگ ہوں۔ اس حالت میں حکمت ِ دین کا تقاضا یہ نہ ہوگا کہ شریعت کے جو حصے نافذ ہیں ان کو بھی چھوڑ دیا جائے بلکہ یہ ہوگا کہ عام اصلاح کی کوشش کر کے ایک طرف صالح عناصر کو برسرِاقتدار لایا جائے اور دوسری طرف شریعت کے باقی ماندہ حصوں کو نافذ کیا جائے۔ دوسری حالت وہ ہے جس میں کفروفسق کا سیلاب سب کچھ بہا لے گیا ہو اور اب ہم کو نئے سرے سے تعمیر کا آغاز کرنا ہو۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ بنیادوں سے تعمیر شروع کرنی ہوگی نہ کہ اُوپر کی منزلوں سے۔ (رسائل و مسائل، چہارم، ص ۲۶۹-۲۷۶)

 

اسلام اور جمہوریت

سوال: جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی حد تک جمہوری اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائص ایسے ہیں جن کے متعلق میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انھیں کس طرح دُور کرسکتا ہے۔ وہ نقائص درج ذیل ہیں:

۱- دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح جمہوریت میں بھی عملاً آخرکار اقتدار جمہور کے ہاتھوں سے چھن کر اور چند افراد میں مرتکز ہوکر جنگ ِزرگری کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور plutocracy [امرا کی حکومت] یا oligarchy [ایک محدود طبقے کی حکومت]کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا کیا حل ممکن ہے؟

۲- عوام کے متنوع اور متضاد مفادات کی بہ یک وقت رعایت ملحوظ رکھنا نفسیاتی طور پر ایک بڑا مشکل کام ہے۔ جمہوریت اس عوامی ذمہ داری سے کس شکل میں عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟

۳- عوام کی اکثریت جاہل، سادہ لوح، بے حس اور شخصیت پرست ہے اور خود غرض عناصر انھیں برابر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں نیابتی اور جمہوری ادارات کے لیے کامیابی سے کام کرنا بڑا دشوار ہے۔

۴- عوام کی تائید سے جو انتخابی اور نمایندہ مجالس وجود میں آتی ہیں، ان کے ارکان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے اور ان کے مابین باہمی بحث و مشاورت اور آخری فیصلہ کرنا بڑامشکل ہوجاتا ہے۔

آپ رہنمائی فرمائیں کہ آپ کے خیال میں اسلام اپنے جمہوری اداروں میں ان خرابیوں کو راہ پانے سے کیسے روکے گا؟

جواب: آپ نے جمہوریت کے بارے میں جو تنقید کی ہے اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس مسئلے میں آخری راے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

اولین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی مرضی سے سربراہ کار مقرر کیے جائیں اوروہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہ کار رہیں؟ یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی اُن لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہو جانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔

دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں، ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔

اول یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کر لیا گیا اور اس بنا پر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختار مطلق نہیںہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بنا پر مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی   عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔

دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے، اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار اور مضبوط راے عام پر ہے، اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور بُرے [لوگ] اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، رسائل و مسائل، چہارم،  ص ۲۷۹-۲۸۳)

شیطانی وسوسہ

س: ایک عرصہ سے میرے دل میں ایک شیطانی وسوسہ بیٹھ گیا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف پر شک ہونے لگا ہے۔ میں بار بار اپنے دل سے پوچھتا ہوں۔ ایسا کیوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو انتہائی امیر اور کچھ لوگوں کو انتہائی غریب بنایا ہے۔ اگر سب برابر ہوتے تو کیا اچھا نہ ہوتا؟ اس شیطانی وسوسے کی وجہ سے میری نمازیں چھوٹ گئی ہیں۔ ان وسوسوں سے نجات پانے میں ہماری رہنمائی فرمایئے۔

ج: ہر مومن کے ساتھ ایسا لمحہ آتا ہے، جب شیطان اسے بہکاتا اور ورغلاتا ہے۔ اسے وسوسوں میں مبتلا کر دیتا ہے اور جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہ جلد ہی ان وساوس سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ آپ نے جن وسوسوں کا تذکرہ کیا ہے وہ دراصل دو بڑی غلط فہمیوں پر مبنی ہیں:

۱- پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے دنیوی مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ مال و دولت ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ آپ کو جاننا چاہیے کہ انسان کی زندگی میں مال و دولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ کتنے پیسے والے ایسے ہیں جنھیں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے، اپنے پیسوں سے وہ صحت نہیں خرید سکتے۔ مال و دولت کے انبار کے باوجود ذہانت کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں، یا اولاد جیسی نعمت کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ اولاد ہوتی بھی ہے تو ناکارہ ثابت ہوتی ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو غریبوں کی طرح پیٹ بھر کر کھانا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے پیسوں سے بھوک نہیں خرید سکتے۔ بھوک ہے تو موٹاپے کے خوف سے پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتے۔ مان لیجیے  وہ پیٹ بھر کر کھاسکتے ہیں لیکن کتنا کھائیں گے؟ کیا اپنے پیٹ میں زمین و آسمان کو سمو لیں گے؟ کیا اپنی دولت کو قبر میں ساتھ لے کر جائیں گے؟ اس پر مستزاد یہ کہ جس کے پاس جتنی دولت ہوگی اتنا ہی قیامت کے دن اس کا حساب کتاب بھی ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن    بندہ اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ٹل سکے گا جب تک کہ اس سے چار چیزیں نہ پوچھ لی جائیں۔ ان میں سے ایک سوال یہ ہوگا کہ جو دولت تمھیں عطا کی گئی تھی وہ کیسے کمائی اور کہاں خرچ کی؟

معلوم ہوا کہ مال ودولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا میں ہزارہا نعمتیں ایسی ہیں جو اس سے قیمتی ہیں۔ اب آپ ذرا خود پر غور کیجیے کہ جو قوت بینائی آپ کو عطا کی گئی ہے کیا لاکھ دو لاکھ کے عوض آپ اسے فروخت کرسکتے ہیں؟ یہ جو قوتِ سماعت آپ کو ملی ہے اسے سونے چاندی کے بدلے آپ فروخت کرسکتے ہیں؟ غرض کہ ہاتھ، کان، ناک، پائوں اور دوسرے سارے اعضا اللہ کی وہ نعمتیں ہیں جن کا بدل سونا چاندی نہیں ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط (ابراھیم ۱۴:۳۴) اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔

ہر چیز کو مادیت کی نظر سے دیکھنا انسان کی بہت بڑی غلطی ہے۔

۲- دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے یہ سمجھ لیا کہ اللہ کے عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ سارے انسان مال و دولت میں برابر ہوتے۔

بخدا برابری میں کوئی حکمت نہیں ہے۔ حکمت تو اس میں پوشیدہ ہے کہ سب برابر نہ ہوں تاکہ انسانوں کی آزمایش ہوسکے اور معلوم ہوسکے کہ کون شکرگزار ہے اور کون ناشکرا۔ کون مصیبت کی گھڑی میں صبر کرتا ہے اور کون صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔

اللہ نے یہ جو زمین و آسمان پیدا کیے، ہماری تخلیق کی تو کیا یہ سب کچھ یونہی بلامقصد کیا؟ کیا ہمیں صرف اس لیے بنایا ہے کہ ہم سب کھائیں پئیں اور مرجائیں؟ اگر سب کوبرابر پیدا کرنا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ بھی کرسکتا تھا کہ انسان کو بغیر پیٹ کے پیدا کرتا، نہ اُسے لباس کی ضرورت ہوتی، نہ سرچھپانے کے لیے گھر کی۔ پھر تو امیروغریب کا کوئی جھگڑا ہی نہ ہوتا۔ لیکن نہیں، حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے ساتھ انسانی ضروریات بھی پیدا کی جائیں۔ آزمایش کی خاطر انسانوں میں فرق بھی رکھا جائے۔ اگر کوئی احسان و بھلائی کرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جس کے ساتھ وہ بھلائی کرے۔ اگر کوئی صبر کرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جسے دیکھ کر وہ صبر کرے۔ اگر سب برابر ہوتے تو اس زندگی میں کوئی مزہ نہ ہوتا۔ کوئی بھاگ دوڑ اور گہماگہمی نہ ہوتی۔ ساری رونق حیات مفقود رہتی۔دن اور روشنی کی اہمیت و منفعت کا احساس ہمیں اسی لیے تو ہے کہ ان کے ساتھ رات اور تاریکی بھی پیدا کی گئی ہے۔ اگر تاریکی نہ ہوتی تو روشنی کا ہمیں کیا احساس ہوتا؟

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ہم انسان خدا کی حکمت کا تعین کیسے کرسکتے ہیں؟ ایک بیمار شخص رات بھر درد سے تڑپتا ہے اور چاہتا ہے کہ درد بھری رات منٹوں میں ختم ہوجائے، دوسری طرف شب زفاف کی رنگینیوں میں مگن شادی شدہ جوڑا یہ تمنا کرتا ہے کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو۔ اب آپ بتائیں کہ کس کی مانی جائے اور کس کی نہ مانی جائے، نیز کیا معلوم کس عمل میں خدا کی کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک نظام کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس کی حکمت وہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔

یہاں پر ایک قصے کا بیان قرینِ سیاق معلوم ہوتا ہے۔

ایک باغ میں باپ بیٹے محوِ گفتگو تھے۔ بیٹے نے باپ سے کہا کہ ہمیں تو اس میں اللہ کی کوئی حکمت نظر نہیں آتی کہ کھجور ایسے ننھے پھل کو ایک بڑے مضبوط درخت میں پیدا کیا اور تربوز ایسے بھاری بھرم پھل کو کمزور سی بیلوں میں جنم دیا کہ یہ بیلیں زمین سے اُوپر نہیں جاسکتیں۔ باپ نے کہا کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوگی لیکن ہم انسان نہیں سمجھ سکتے۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں سوگئے۔ اسی دوران ایک کھجور ٹوٹ کر بیٹے کے سر پر آگری۔ بیٹے کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بتایا کہ کھجور گرنے کی وجہ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ باپ نے کہا کہ خدا کا شکر ادا کرو کہ اس بڑے درخت میں تربوز نہیں پھلتا ورنہ آج تم آخری سانس لے رہے ہوتے۔ گرچہ یہ ایک قصہ ہے لیکن سوچنے والوں کے لیے اس میں سامانِ عبرت ہے۔ مومن بندے کو چاہیے کہ وہ کسی شے میں بھی خدا کی مصلحت کو سمجھے یا نہ سمجھے، ہرحال میں اسے وہی کہنا چاہیے جو فرشتوں نے کہا تھا:

سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ o(البقرہ ۲:۳۲) نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا تو.ُ نے ہم کو دے دیا ہے۔

یا پھر وہ کہنا چاہیے جو قرآن میں درج ہے:

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o(اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو.ُ پاک ہے اس سے کہ  عبث کام کرے۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

آپ کو چاہیے کہ جو شیطانی وسوسہ آپ کے ذہن میں آیا ہے اسے فوراً جھٹک دیجیے۔ خدا سے توبہ کیجیے ، اپنے ایمان کا اعادہ کیجیے۔ نمازیں پڑھنی شروع کر دیجیے اور جب کوئی شک ذہن میں آئے فوراً اہلِ علم کی طرف رجوع کیجیے۔ (علامہ یوسف قرضاوی، مترجم: سید زاہد اصغر فلاحی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، بھارت، ص ۱۰۱-۱۰۴)

 

مصائب کے ہجوم میں ایک مومن کا نقطۂ نظر

سوال: میرا تیسرا بیٹا پونے چار سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔ یہاں آکر پہلے دو لڑکے فوت ہوئے، اب یہ تیسرا تھا۔ اب کسی نے شبہہ ڈالا تھا کہ جادو کیا گیا ہے۔ جس دن سے یہ بچہ پیدا ہوا اسی دن سے قرآن پاک کی مختلف جگہوں سے تلاوت کر کے دم کرتا رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے لڑکے پونے دو سال کی عمر میں فوت ہوتے رہے۔ یہ پونے چار سال کو پہنچ گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جادو بھی چند الفاظ ہوتے ہیں۔ اس کے توڑنے کو قرآنِ پاک کے الفاظ تھے۔ پھر دعائیں بھی بہت کیں۔ بوقت تہجد گھنٹوں سجدے میں پڑا رہا ہوں لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حاضر و ناظر اور سمیع و بصیر ہے۔ کیا  حق تعالیٰ جادو کے اثر کے لیے مجبور ہی ہوجاتے ہیں؟ لوگ قبروالوں کے نام کی بودیاں رکھ کر پائوں میں کڑے پہناکر اولاد بچائے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے اسے شرک سمجھ کر اس کی طرف رجوع نہ کیا۔ لیکن ہمیں بدستور رنج اٹھانا پڑا۔ اکٹھے تین داغ ہیں جو لگ چکے ہیں۔ براہِ کرم غم و افسوس کے ان لمحات میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: آپ کے صاحبزادے کی وفات کا حال معلوم کر کے بڑا افسوس ہوا اور اس سے زیادہ افسوس یہ سن کر ہوا کہ اس سے پہلے بھی دو بچوں کا صدمہ آپ کو پہنچ چکا ہے۔ اولاد کے یہ   پے درپے غم آپ کے اور آپ کی اہلیہ کے لیے جیسے ناقابلِ برداشت ہوں گے اس کا مجھے خوب اندازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ دونوں کو صبرعطا فرمائے اور سکینت بخشے۔

آپ کے خط سے مجھے محسوس ہوا کہ دل پر پے درپے چوٹیں کھانے کی وجہ سے آپ غیرمعمولی طور پر متاثر ہوگئے ہیں۔ اگرچہ اس حالت میں نصیحت کرنا زخموں کو ہرا کردیتا ہے، اور مناسب یہی ہوا کرتا ہے کہ رنج و غم کا طوفانی دور ختم ہوجائے۔ مگر مجھے خوف ہے کہ اس دور میں کہیں آپ کے عقائدِ صالحہ پر کوئی آنچ نہ آجائے۔ اس لیے مجبوراً کہتا ہوں کہ آفات اور مصائب اور آلام کا خواہ کیسا ہی ہجوم ہو، مومن کو اپنے ایمان اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق پر آنچ نہ آنے دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہم کو ہر طرح کے حالات میں ڈال کر آزماتا ہے۔ غم بھی آتے ہیں اور خوشیاں بھی آتی ہیں۔ مصیبتیں بھی پڑتی ہیں اور راحتیں بھی میسر آتی ہیں۔ نقصان بھی ہوتے ہیں اور فائدے بھی پہنچتے ہیں۔ یہ سب آزمایشیں ہیں اور ان سب سے ہم کو بخیریت گزرنا چاہیے۔ اس سے بڑھ کر ہماری کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ ہم مصیبتوں کی آزمایش سے گزرتے ہوئے ایسے مضطرب ہوجائیں کہ اپنا ایمان اور اعتقاد بھی خراب کربیٹھیں۔ کیونکہ اس طرح توہم دنیا اور دین دونوں ہی کے ٹوٹے میں پڑجائیں گے۔

آپ کو جن صدموں سے دوچار ہونا پڑا ہے، وہ واقعی دل ہلا دینے والے ہیں۔ لیکن    اس حالت میں ثابت قدم رہنے کی کوشش کیجیے اور کوئی مشرکانہ خیال یا شرک کی طرف کوئی میلان، یا اللہ سے کوئی شکایت دل میں نہ آنے دیجیے۔ ہم اور جو کچھ بھی ہمارا ہے، سب کچھ اللہ ہی کا ہے۔ ملکیت بھی اسی کی ہے اور سارے اختیارات بھی اُسی کے۔ ہمارا اس پر کوئی حق یا زور نہیں ہے۔ جو کچھ چاہے عطا کرے اور جو کچھ چاہے چھین لے اور جس حال میں چاہے ہم کو رکھے۔ ہم اس پر اس شرط سے ایمان نہیں لائے ہیں کہ وہ ہماری تمنائیں پوری ہی کرتارہے اور ہم کو کبھی کسی غم یا تکلیف سے دوچار نہ کرے۔ یہ شانِ بندگی نہیں ہے کہ اللہ سے مایوس ہوکر ہم دوسرے آستانوں کی طرف رجوع کرنے لگیں۔ دوسرے کسی آستانے پر سرے سے ہے ہی کچھ نہیں۔ وہاں سے بھی اگر بظاہر کچھ ملتا ہے تو خدا ہی کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ البتہ وہاں سے مانگ کر ہم جو کچھ پاسکتے ہیں وہ ایمان کھوکر ہی پاسکتے ہیں۔ اور بہت سے بدقسمت ایسے ہیں جو وہاں ایمان بھی کھوتے ہیں اور مراد بھی نہیں پاتے۔ اس لیے آپ ایسے کسی خیال کو اپنے دل میں ہرگز نہ آنے دیں اور صبروثبات کے ساتھ اللہ ہی کا دامن تھامے رہیں، خواہ غم نصیب ہو یا خوشی۔

جادو اور آسیب اور جفر وغیرہ میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سب پر حاوی ہے۔ آپ اللہ سے دعا مانگتے رہیں۔ اسی سے پناہ طلب کرتے رہیں۔ امید ہے کہ آخرکار اس کا فضل آپ کے شاملِ حال ہوگا اور کوئی بلا آپ کو یا آپ کی اولاد کو لاحق نہ ہوگی۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی ،رسائل و مسائل ، حصہ چہارم، ص ۴۲-۴۴)

پیشہ وارانہ ضرورت کے تحت عورتوں سے ہاتھ ملانا

س:  میرا تعلق تحریکِ اسلامی سے ہے۔ معاش کے سلسلے میں ایک ٹیکسٹائل ایکسپورٹر فرم سے وابستہ ہوں۔ میرا شعبہ مارکیٹنگ ہے۔ بسااوقات مجھے بیرونِ ملک دوروں پر جانے کا موقع ملتا ہے، جہاں ان کمپنیوں کے نمایندوں سے ملاقات ہوتی ہے جو ہماری فرم کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔یہ لوگ ہمارے ملک بھی آتے ہیں۔ اُن نمایندوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔

ایک مسلمان ہونے اور تحریک سے وابستہ ہونے کی بنا پر میں ایسی تقریبات اور مواقع سے دُور بھاگتا ہوں جن میں غیر عورتوں (انگریزوں) سے ہاتھ ملانا اور بے تکلفی سے بات چیت کرنا شامل ہے۔ میرے شعبے کے دوسرے افراد میرے اس طرزِعمل پر  تنقید کرتے ہیں، کیونکہ اُن کے نزدیک کاروباری معاملات میں یہ چیزیں نہ صرف جائز بلکہ ناگزیر ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے میری ترقی کے راستے بھی مسدود ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

ج:  غیرمسلم گاہکوں کے ساتھ معاشرتی تعلقات ہوں یا مسلمان گاہکوں کے ساتھ، اسلام نے ہمیں معاشی اخلاقیات کے جو اصول سمجھائے ہیں وہ نہ صرف واضح ہیں بلکہ برکت اور خیر کا باعث ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جنسِ مخالف کے ساتھ ہاتھ ملانے یا جسم کو ہاتھ لگانے سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے۔ لیکن مغربی انتظامی امور کے علوم پڑھانے والے بعض حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ مارکیٹنگ اسی وقت بہتر ہوگی جب ایک sales person یا کمپنی کا نمایندہ اپنے گاہکوں سے ہاتھ ملا کر بات کرے۔

یہ خیال نظری اور عملی حیثیت سے بالکل درست نہیں ہے، حتیٰ کہ بعض تجارتی نقطۂ نظر سے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں گاہک کے ساتھ ہاتھ ملانے کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ آپ جاپان جاکر خود مشاہدہ کرلیں، صرف وہ حضرات جو امریکی ثقافت سے متاثر ہوں آپ سے ملتے وقت ہاتھ ملائیں گے ورنہ روایتی طور پر ایک جاپانی جسم کو نیم رکوع کی شکل میں جھکا کر آپ کا استقبال کرے گا اور ہاتھ ملانے کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ اگر کسی اعلیٰ ترین ادارے کے اعلیٰ عہدے پر فائز کسی خاتون سے آپ کو ملنا ہے اور آپ اس کے دفتر میں داخل ہوں اور جھک کر بغیر ہاتھ ملائے اسے ہیلو کہیں تو ہاتھ ملانے کے مقابلے میں یہ زیادہ مہذب طریقہ شمار کیا جائے گا۔ ہاں، اگر آپ خود سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیں تو اسے بھی مجبوراً آپ سے ہاتھ ملانا ہوگا۔ گویا ہاتھ ملانا مارکیٹنگ کے لیے نہ تو شرط ہے، نہ اس بنا پر بزنس کے حصول میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔

جہاں تک ترقی کے راستے مسدود ہونے کا سوال ہے، پہلے تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ ترقی کے لیے شرط ہاتھ ملانا نہیں بلکہ آپ نے اپنے لیے اور آپ کی کمپنی نے آپ کے لیے جو ہدف مقرر کیا ہو اس کا حصول ہے۔ اگر آپ کمپنی کی توقع سے زیادہ بزنس دے رہے ہیں اور لوگوں سے ہاتھ نہ ملاتے ہوں تو کمپنی آخر کس اخلاقی، کاروباری اور قانونی بنیاد پر آپ کی ترقی کو منجمد کرسکتی ہے؟

اگر آپ خود اپنی نگاہ میں ہاتھ نہ ملانے کی وجہ سے کمزوری محسوس کرتے ہوں تو یہ آپ کا اپنا پیدا کردہ مسئلہ ہے۔ اس کا الزام آپ کمپنی کو نہیں دے سکتے۔ کمپنی کو تو اپنے کاروبار سے غرض ہے۔ جب تک اس کا کاروبار اپنی متوقع رفتار پر چلے گا وہ محض آپ کے ہاتھ ملانے یا نہ ملانے کی بناپر ترقی نہیں روک سکتی۔

آخر میں یہ بھی یاد رکھیے کہ رزق دینے والا رب کریم ہے، کمپنی نہیں۔ اگر آپ خلوصِ نیت اور اللہ پر بھروسا کر کے اس کی خوشی کے لیے ایک کام کریں تو وہ نہ صرف آپ کو زیادہ کاروبار دے گا بلکہ اگر آپ کی موجودہ کمپنی کسی بنا پر آپ کو فارغ بھی کر دے تو وہ آپ کے لیے اس سے بہتر رزق کا بندوبست کر دے گا۔ شرط یہ ہے کہ خلوص، استقامت اور بغیر کسی معذرت کے آپ حق پر قائم ہوں۔ اگر فی الواقع صرف ہاتھ نہ ملانے کی بنا پر آپ کا راستہ بند کیا گیا ہے تو اللہ کی زمین وسیع ہے۔ آپ کا رزق محض اُس کمپنی کے ہاتھ میں نہیں جہاں آپ کام کر رہے ہیں۔ وہ جہاں سے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

 

خواتین کے لیے تفریح کے مواقع

سوال: اسلامی نقطۂ نظر اور پاکستان کے معاشرتی ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عورت یا لڑکی بطور تفریح کیا کچھ کرسکتی ہے، اس ضمن میں چند سوالات پیش ہیں:

آیا یونی ورسٹی کی طرف سے ’ایک روزہ تفریحی دورے‘ (ٹرپ) میں شرکت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح کیا یونی ورسٹی میں ہونے والی مختلف تقریبات میں بھی شرکت کی جاسکتی ہے؟

کیا ڈرامے وغیرہ خواہ وہ کسی ٹی وی چینل سے آرہے ہوں بطور تفریح دیکھے جاسکتے ہیں، جب کہ اس کا اتنا جنون نہ ہو کہ ڈرامے کے لیے باقی تمام مصروفیات ترک کردی جائیں؟

لڑکیوں کا گھر سے باہر یا پارک وغیرہ میں تفریح کے لیے جانا کیسا ہے، جب کہ اجازت اس وقت تک نہیں ملتی جب تک کہ مرد ساتھ نہ ہوں۔ اس بات کو عموماً ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

جہاں تک اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے، اول تو شہروں میں کتب خانے ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو گھروالے عموماً جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کتابیں پڑھ کر کیا کرنا ہے۔ اگر اتنی ہی فارغ ہو تو گھر کے فلاں فلاں کام کردو۔ دوسرے یہ کہ کتابیں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ میری مراد ایسی تحریروں یا کتابوں سے ہے جو ہلکی پھلکی ہوں، مثلاً ناول، افسانے یا جاسوسی کہانیاں وغیرہ۔

بعض لڑکیاں گھریلو کاموں میں دل چسپی رکھتی ہیں، جیسے سلائی کڑھائی، کھانا پکانا یا گھر کی آرایش وغیرہ۔ بعض لڑکیاں بوریت سے اُکتا کر تفریح کے طور پر غلط راہوں پر چل نکلتی ہیں، جیسے انٹرنیٹ پر فضول چیٹنگ یا رانگ نمبرز وغیرہ میں وقت گزارنا۔ اگر انھیں توجہ دلائی جائے تو کہتی ہیں کہ ہم ایسا تفریحاً کرتی ہیں۔ کیا یہ مناسب ہے؟

ان نکات کی روشنی میں خواتین کے لیے تفریح کا مقصد واضح فرما دیں۔

جواب: آپ نے تفریح کے مقصد اور ذرائع کے حوالے سے بہت اہم سوال اٹھایا ہے بالخصوص ایسی فضا میں جب برقی ذرائع ابلاغ نے ایک عام ناظر کو یہ بات باور کرا دی ہے کہ تفریح صرف ٹی وی پر درآمد کردہ مغربی یا ہندستانی ناچ گانوں، ٹاک شوز اور اخلاق برباد کرنے والے ڈراموں ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ابلاغ عامہ نے یہ بات بھی ذہنوں میں بٹھا دی ہے کہ اسلامی چینل کا مطلب کسی صاحب ِ علم کی تقریر یا کسی عامل کا فون پر لوگوں کی قسمت بتانے اور زرق برق لباس میں نعت سنانے یا فال نکالنے یا قوالی پیش کرنے کا نام ہے۔ گویا ایک تفریح   وہ ہے جو ۷۰ سے اُوپر چینل ہندو اور مغربی ثقافت کے ذریعے پیش کر رہے ہیںاور دوسری تفریح   وہ ہے جو ’اسلامی‘ ہے۔ عوام الناس اس میں جس کو چاہیں انتخاب کر کے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

میری نگاہ میں یہ تصورات تفریح کے اسلامی تصور کی نمایندگی نہیں کرتے۔ ایک مسلمان لڑکی یا خاتون اور ایسے ہی ایک مسلمان طالب علم یا نوجوان کس طرح تفریح کرے، اس سوال کا جواب قرآن وسنت ہی میں تلاش کرنا ہوگا۔

قرآن کریم سے یہ بات تو ثابت ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ چاہتے ہیں کہ ان کا بندہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات اور اس کی آیات کو سمجھنے کے لیے سیر اور گشت کے ذریعے تفریح حاصل کرے چنانچہ فجر کے بعد طلوعِ شمس کا منظر، پرندوں کی چہک، بادِنسیم کے جھونکے، یہ فطری ذرائع انسان کو تفریح اور تازگی بخشنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسے ہی قرآنِ کریم کی تلاوت انسان کے جسم اور دل و دماغ کے لیے سامانِ تسکین فراہم کرتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا صرف تلاوتِ قرآن کی سماعت اور مناظر فطرت کو دیکھنا ہی تفریح فراہم  کرتا ہے یا ایک مسلمان لڑکی یا خاتون تفریح کے مزید ذرائع سے بھی استفادہ کرسکتی ہے؟ اس میں اصول یہ ہے کہ ہر وہ شے جس کی ممانعت نہ کی گئی ہو، اصلاً مباح ہے۔ لہٰذا تاریخی مقامات کی سیر، کسی عجائب گھر یا لائبریری میں جاکر معلومات میں اضافہ کرنا، یونی ورسٹی کی طالبات کے ساتھ کسی ایسے تعلیمی و تفریحی مقام پر جانا جو محفوظ ہو اور جہاں اختلاط کا امکان نہ ہو، یا کسی ایسی تقریب میں شرکت کرنا جہاں صحت مند شاعری یا ادبی نگارشات پیش کی جا رہی ہوں___ ایسی تفریحات ہیں جن کی شریعت میں بظاہر ممانعت نہیں کی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت حسان بن ثابتؓ سے اشعار سنے ہیں، اور جسمانی کرتب دکھانے والے افراد کے کرتب اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کو دیکھنے کی اجازت دی ہے۔

خیال رہے کہ اس بنیاد پر یہ راے قائم کرلینا کہ اولمپک میں حصہ لینے والی چینی خواتین کی جسمانی ورزش کو جائز قرار دے دیا جائے، درست نہیں۔ ہاں، اگر تمام جسم ڈھکا ہو، صرف خواتین کی محفل ہو تو ایک مسلمان لڑکی جوڈوکراٹے کے ساتر لباس میں اپنی اور موجود خواتین کی تفریح کا سامان کرسکتی ہے یا دیگر کھیلوں میں حصہ لے سکتی ہے۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے جسم کے خدوخال واضح نہ ہوتے ہوں اور ناظرین میں جنسِ مخالف کے افراد نہ پائے جاتے ہوں۔ اسی طرح ایسے ڈرامے جن کے مکالمے اور مناظر بے حیائی اور فحاشی کی طرف نہ لے جاتے ہوں، دیکھے جاسکتے ہیں۔ ٹی وی پر آنے والے کرکٹ میچ اور اس قسم کی دیگر سرگرمیوں کے دیکھنے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی سواے اس کے کہ کوئی بھی تفریح عبادات اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردینے والی نہ ہو۔

آپ نے بالکل درست لکھا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں کتابوں کی قیمت میں اضافہ اور پڑھنے والوں میں کمی ہوئی ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہے کہ کتابوں کے مطالعے کی عادت کو فروغ دیا جائے تاکہ کتابیں بڑی تعداد میں طبع ہوں اور اس بنا پر ان کی قیمتوں میں تخفیف ہوسکے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے ہرمحلے میں کم از کم ایک لائبریری ایسی قائم کی جائے جس میں ایک مقررہ ممبرشپ فیس کے عوض تعمیری اور پاک ادبی کتب فراہم کی جائیں جن میں اسلامی اور دعوتی لٹریچر بھی شامل ہو۔ یہ ایک تحریکی ضرورت ہے اور اس پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ایسی لائبریریاں مخیر حضرات کے تعاون سے بھی قائم کی جاسکتی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تفریح محض ناچ گانے سے نہیں بلکہ ہر اُس کام سے حاصل کی جاسکتی ہے جسے آپ تفریح کی غرض سے کریں۔ ایک تعمیری ناول اگر آپ تفریح کے لیے پڑھیں تو اس کا نفسیاتی اثر اُس سے بہت مختلف ہوگا جو یہ ناول نصاب کے لازمی مضمون کے طور پر پڑھنے سے ہوگا۔

یہ بات درست نہیں ہے کہ لڑکیاں کوئی تفریحی مطالعہ کرنے کے بجاے صرف کھانے پکانے یا سلائی کڑھائی کے کام میں لگی رہیں۔ بلاشبہہ یہ سب کام ان کے لیے مفید ہیں لیکن والدین کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کو اپنی علمی اور ادبی سطح بلند کرنے کے لیے مناسب مواقع فراہم کریں۔

جہاں تک تعلق پارک میں تفریح کرنے کا ہے، اگر ایسا کرنا محفوظ ہو تو لازماً اسے کریں لیکن موجودہ لاقانونیت اور عدمِ تحفظ کی فضا میں محض اپنے ’انسانی حقوق‘ کو استعمال کرنے کے شوق میں خود کو کسی خطرے میں نہ ڈالیں۔ اگر آپ کے ہمراہ کوئی محرم مرد ہو تو خطرہ کم ہوگا۔ اسی بنا پر والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بچیاں تنہا یا سہیلیوں کے ساتھ پارک میں تفریح کے لیے جائیں۔ اگر بعض پارک خواتین کے لیے مخصوص ہوں اور محفوظ بھی ہوں تو بغیر کسی مرد کو ہمراہ لیے وہ گروپ کی شکل میں جاسکتی ہیں۔

مسلمان لڑکیاں خود ایسے گروپ تشکیل دے سکتی ہیں جن میں چار پانچ لڑکیاں ساتھ مل کر کلامِ اقبال ترنم سے پڑھ کر لطف اندوز ہوں یا اپنے تحریر کردہ مکالمے اور ڈرامے صرف خواتین کے سامنے پیش کرکے فرحت حاصل کریں۔ اسی طرح اچھے اشعار کے مقابلے، بیت بازی، لطائف کا مقابلہ اور ایسی ہی دوسری سرگرمیاں ہیں جو relax کرنے اور تفریح کے لیے اختیار کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں تفریح میں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ لادینی تہذیبوں کو ماننے والے افراد سے مختلف ہوں اور ان میں تعمیری رجحان پایا جائے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

 

مسئلہ جبروقدر: چند الجھنیں

سوال: فرض کیجیے کہ ایک شخص نہایت نیک اور پرہیزگار ہے اور وہ اپنی ساری عمر خدا کی بندگی اور اطاعت میں گزارتا ہے مگر موت کے قریب وہ ایک سخت جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور تکلیف کی شدت اس قدر بڑھ جاتی ہے (آخر ہر انسان کی برداشت کی ایک حد ہے) کہ وہ نعوذ باللہ کفریہ کلمات کہنے لگتا ہے اور اسی پر اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس کی ساری عمر گناہوں میں گزری اور جس نے کبھی بھولے سے بھی کوئی نیک کام نہیں کیا۔ اُس کی موت کے بالکل قریب اُسے کسی ذریعے سے ہدایت مل جاتی ہے اور اُس پر اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ مذہبی عقیدے کے مطابق پہلا شخص جہنمی، جب کہ دوسرا جنتی ہے۔ کیا   یہ ناانصافی نہیں ہے کہ ساری عمر کی غلامی کو محض ایک نافرمانی پر نظرانداز کردیا جائے  اور دوسری طرف ساری عمر کی نافرمانی کو محض چند لمحات کی اطاعت کی وجہ سے معاف کردیا جائے؟

میرے ذہن میں جبروقدر کے مسئلے کے حوالے سے چند اُلجھنیں ہیں۔ اس ضمن میں چند سوالات درج ذیل ہیں:

۱- قرآن و حدیث کے مطابق انسان کو اِس دنیا میں عمل کی آزادی عطا کی گئی ہے جس کا حساب اُسے آخرت میں دینا پڑے گا۔ انسان کو ارادے کی آزادی ہے اور اُس کی جواب دہی آخرت میں ہوگی تو مختلف اقوام کو سزا اسی دنیا میں کیوں دی گئی؟

۲- ایک شخص آسودہ حال ہے اور وہ نیک اور پرہیزگار ہے۔ دوسری طرف ایک شخص کو زندگی بھر مصائب و آلام کا سامنا ہے اور قدم قدم پر وہ سخت آزمایش سے دوچار ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایمان لانا،ارکانِ دین پر عمل کرنا اور نیک زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ اگر وہ کسی نہ کسی طرح اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو آخرت میں اُسے بھی اُس جنت کا انعام دیا جائے گا جو پہلی قسم کے شخص کودیا گیا۔ کیا یہ صریح ناانصافی نہیں ہے؟

۳- ایک سوال جو بظاہر سب سے سادہ لیکن درحقیقت سب سے پیچیدہ ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے ہمیں اِس دنیا میں کیوں بھیجا ہے؟ ہماری تخلیق کیوں کی گئی ہے؟ کیا محض اس لیے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ کون اُس کی اطاعت کرتا ہے اور کون نہیں اور پھر پہلی قسم کے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے خوشیوں اور رحمتوں بھری جنت اور دوسری قسم کے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بھیانک آگ میں جلا سکے؟

جواب: تقدیر کے مسئلے میں آپ کو جو الجھن پیش آئی ہے ، اس کی تین وجوہ ہیں:

ایک یہ کہ آپ نے صرف جزا و سزا کے پہلو پر نظر ڈالی ہے۔ یہ نہیں سوچا کہ انسان کو جو نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی ہیں، اتنی قیمتی ہیں کہ دنیا کے تمام انسان، تمام حکومتیں، تمام ڈاکٹر، تمام اطبا اور تمام دولت مند جمع ہوکر اپنی ساری قوتیں، صلاحیتیں اور اموال بھی صرف کریں تووہ سب مل کر انسان کو دل و دماغ اور دوسری جسمانی قوتیں نہیں دے سکتے اور نہ زندگی کی نعمت سے سرفراز کرسکتے ہیں۔ تب ایک انسان پر اللہ تعالیٰ کی کتنی مدت کی عبادت اور اطاعت لازم آتی ہے اور کیا کوئی بھی انسان اس کی عطاکردہ زندگی کا حق ادا کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر انسان ساری زندگی اللہ کی عبادت میں گزار دے، تب بھی وہ سابقہ نعمتوں کا حق ادا نہیں کرسکتا چہ جائیکہ وہ اس پر جنت کا حق دار ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کو بھی نہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ہاں، میں بھی جنت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے داخل ہوںگا۔ اس لیے اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ جنت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ تب وہ آدمی جو ساری عمر اسلام پر قائم رہا آخر میں اللہ کی طرف سے سخت تکلیف آئی تو وہ زندگی بھر کی نعمتوں کو بھول کر تھوڑے عرصے کی تکلیف سے، جو آخرت کی دائمی راحتوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، دین سے بیزار ہوگیا تووہ جنت کا کیسے مستحق ہوسکتا ہے؟

رہی یہ بات کہ جب ارادے کی آزادی حاصل ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں سزا کیوں دیتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ارادے کی آزادی بے شک اللہ تعالیٰ نے دی ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اگر آدمی اپنے ارادے کو غلط استعمال کرتا رہے تو اس کو دنیا میں کھلی آزادی دے دی جائے کہ وہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا رہے، لوگوں کوقتل کرتا رہے اور اہلِ ایمان اور انبیا کو اذیتیں پہنچاتا رہے۔ اگر اس طرح سے آزادی دے دی جائے تو پھر دنیا ظلم سے بھر جائے۔ ایمان و اسلام والے دنیا میں زندہ نہ رہ سکیں۔ دنیا نمرودوں، فرعونوں، قارونوں اور ہامانوں سے بھرجائے۔ آج جو ظلم کفار اور ان کے اتحادیوں نے برپا کیا ہے، وہ برپا رہے اور ایمان والے ذلیل و خوار ہوجائیں۔اس کا علاج یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت ِ عمل کے بعد پکڑے تاکہ اہلِ ایمان خوش ہوجائیں اور انھیں سکون ملے۔ یہ بات معقول ہے۔ قرآن پاک بیان کرتا ہے کہ ’’ان قصوں میں دانش مندوں کے لیے عبرت ہے‘‘۔

دوسری چیز جو آپ نے نظرانداز کی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ دوزخ میں وہی جائے گا جو خود دوزخ میں جانا چاہتا ہے۔

تیسری چیز جسے آپ نے نظرانداز کیا ہے وہ یہ کہ ہمارا علم ناقص ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم، علمِ محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کی بندگی کریں، اپنے ارادے اور اختیار سے وہ اللہ پر ایمان لائیں اور جنت میں جائیں۔ اگر کفر کریں تو دوزخ میں جائیں۔ اللہ تعالیٰ کو جو انسان کا خالق و مالک ہے، حق ہے کہ انسانوں کو آزمائے، جنت اور دوزخ میں داخل کرے جب کہ وہ نبیوں، رسولوں اور کتابوں کے ذریعے انسان پر اتمامِ حجت کرچکا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام بھیجے۔ انھوں نے انسانوں کو دوزخ سے بچانے کے لیے دوڑ دھوپ کی، تکلیفیں اٹھائیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی ضد اور عناد کی وجہ سے ایمان نہ لائے بلکہ کفر پر قائم رہے، اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے پر تلا رہے تو پھر اس کی جگہ دوزخ ہی ہونی چاہیے۔

آخری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ قیامت کے روز حساب و کتاب ہوگا۔ اعمال نامے ہرانسان کے سامنے ہوں گے۔ ان کو میزان میں تولا جائے گا اور انسان بول اُٹھے گا کہ اللہ تعالیٰ نے عدل کیا ہے، جب کہ ظالم اپنے ظلم کا اعتراف کرکے دوزخ میں داخل ہوں گے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک کے سپرد کردے، اور وسوسوں کا جواب اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم پڑھ کر دے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے، آمین!(مولانا عبدالمالک)

زکوٰۃ، حج، میراث

س: ۱- ایک عورت نے جس کی عمر ۵۲ سال ہے، اب شادی کی ہے۔ اس کے پاس نقد رقم نہیں ہے۔ ضرورت سے زائد کپڑے اور زیورات ہیں۔ خاوند نے اسے زکوٰۃ کے لیے کہا ہے۔ کیا وہ صرف ایک سال موجودہ کی زکوٰۃ دے یا سابقہ سب برسوں کی؟

۲- زیور بیچ کر حج کے لیے رقم بن جاتی ہے۔ کیا محرم کا انتظار کرے یا خاوند کو ’حجِ بدل‘ کے لیے بھیج دے؟ اس کے خاوند نے پہلے تین حج کیے ہوئے ہیں لیکن چوتھی بار یا  بطور محرم کے جانے کے لیے استطاعت نہیں ہے۔

۳- حجِ بدل کی صورت میں میاں بیوی کو برابر کا ثواب ملے گا یا بیوی کے ثواب میں کمی واقع ہوگی؟ بیوی کی صحت حج کی اجازت نہیں دیتی۔

۴- کیا بنک میں زیور شرعاً جمع ہوسکتے ہیں، جب کہ استعمال بھی نہیں کرنے ہیں؟

۵- ایک ۶۶ سالہ مرد ایک بچیوں کے مدرسے کا مہتمم ہے، معلمات سب خواتین ہیں۔ ضرورت پر مہتمم بچیوں کے چہرے کی طرف دیکھ سکتا ہے یا حجاب کرے؟

۶- عشر، زکوٰۃ، نمازوں کا کفارہ اور قربانی کی کھالیں، گلیوں کی تعمیر پر خرچ ہوسکتی ہیں یا نہیں؟ مقامی بچوں کی قرآن خوانی کی تعلیم پر مذکورہ بالا آمدن خرچ ہوسکتی ہے؟ کیا رہایشی بچوں کا مدرسہ (غیرمقامی) مدرسہ کی تعریف میں آئے گا۔

۷- شادی کے بعد عورت کے جہیز میں مرد کا حصہ بھی ہے یا عورت تنہا مالکہ ہے؟   اٹے وٹے (ادلے بدلے) کی شادی ہوئی۔ ایک سال بعد ایک عورت زچگی کے وقت فوت ہوگئی ہے جب کہ دوسری اپنے گھر آباد ہے۔ کیا فوت ہوجانے والی عورت کے جہیز کا خاوند مالک ہے یا والدین واپس لے سکتے ہیں؟

ج:  آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:

۱- زیورات ضرورت سے زائد مال ہے۔ اس لیے اس کی زکوٰۃ اتنے برسوں کی دینا ہوگی جتنے برسوں کی زکوٰۃ باقی ہے۔

۲- حج عورت پر اس وقت فرض ہوتا ہے، جب اس کے پاس اپنے لیے اور محرم کے لیے زادِ راہ ہو یا محرم اپنے طور پر خرچ کرسکتا ہو اور وہ بھی حج پر جا رہا ہو۔ لہٰذا ایسی عورت پر جس کے پاس محرم یا شوہر کے لیے خرچ کی استطاعت نہ ہو اور اپنے خرچ پر جانے والا شوہر یا محرم نہ ہو تو  اس پر حج فرض نہیں ہوتا۔

۳- حجِ بدل فرض میں ہوتا ہے، نفلی حج میں حجِ بدل نہیں ہوتا۔ چونکہ آپ نے جس خاتون کے بارے میں سوال کیا ہے اس پر حج فرض نہیں، اس لیے حجِ بدل بھی نہیں۔

۴- بنک میں زیور جمع ہوں تو اس کا عوض نہیں لے سکتے، اس لیے اپنے پاس رکھیں یا بنک میں جمع کرا دیں، اس پر کوئی معاوضہ نہ لیں۔

۵- مہتمم ۶۶ سالہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبات اس سے پردہ کریں، خصوصاً آج کل کے دورِ پُرفتن میں بہت زیادہ ضروری ہے۔

۶- عشر، زکوٰۃ، نمازوں کا کفارہ، قربانی کی کھالوں کا مصرف، فقرا، مساکین اور زکوٰۃ کی مدات ہیں۔ گلیوںکی تعمیر میں یہ رقوم نہیں لگ سکتیں۔ مقامی بچوں کے مدرسے کو عطیات سے چلایا جائے۔ زکوٰۃ صرف ایسے مدارس کو دی جائے جہاں رہایشی طلبہ ہوں اور وہ فقرا اور مساکین ہوں، اپنا خرچ خود نہ اُٹھا سکتے ہوں۔

۷- جہیز عرف میں عورت کی مِلک میں ہوتا ہے، سوائے اس سامان کے جو مرد کے استعمال کے لیے خاص ہو۔ لہٰذا عورت کی وفات کے بعد حصصِ وراثت کے مطابق تقسیم ہوگا۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )

 

والدہ کا نامناسب رویہ اور حق خدمت

سوال: میری دادی جان جب سے میرے والد صاحب کے ساتھ رہایش پذیر ہیں آج تک میری والدہ اور دادی کے درمیان کبھی بھی خوش گوار تعلقات نہیں رہے۔ پہلے صرف میری والدہ کے ساتھ ناچاقی رہتی تھی پھر ان کی اولاد یعنی ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی معاملات خراب رکھنے لگیں۔خدا گواہ ہے کہ ہم نے کبھی آج تک دادی جان کے ساتھ نہ کوئی بدتمیزی کی اور نہ ہی کبھی ان کی کوئی چیز یا رقم وغیرہ نکالی۔ اب والدصاحب پر ڈیڑھ سال سے فالج ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ محتاجی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دوسری طرف دادی جان کی ٹانگ میں بھی ایک سال پہلے گرنے کی وجہ سے فریکچر ہوگیا تھا جس کی انتہائی شدید تکلیف تھی۔ دونوں مریضوں (والد اوردادی جان) کو میری والدہ نے انتہائی جاں فشانی سے سنبھالا جب کہ وہ خود بھی ہائی بلڈپریشر کی مریض ہیں لیکن میرے والدین کے اتنے نرم رویے کے باوجود دادی کا مزاج   ان کے لیے دن بہ دن سخت ہوتا جا رہا ہے۔ دونوں کے لیے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتی ہیں اور بددعائیں دیتی ہیں۔

والد صاحب اپنی فالج زدہ زندگی کے ہاتھوں مجبور ہونے کے باعث کبھی کبھار دادی جان کے رویے کو دیکھ کر شدید غصے میں آجاتے ہیں۔ اس لیے اب ان کے لیے دادی جان کا گالم گلوچ اور بددعائوں والا رویہ برداشت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ دادی جان کے مزاج سے تنگ آکر والد صاحب نے اپنی بہنوں سے کہا کہ آپ کی بھی والدہ ہیں، آپ ان کو سمجھانے کی کوشش کریں، یا پھر ہم اپنے بیٹے کے گھر چلے جاتے ہیں۔ پھوپھو دادی جان کو اپنے ہمراہ لے گئیں مگر اب دادی جان نے سب کو یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میرے بیٹے نے اپنی بیوی کے کہنے میں آکر مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ اب میں اپنی باقی زندگی میں کبھی وہاں واپس نہیں جائوں گی۔ والدصاحب وہاں ملنے جاتے ہیں تو دادی جان ان سے بات بھی نہیں کرتیں۔

دادی جان کے اس رویے اور ناراضی کی وجہ سے والدصاحب بہت پریشان ہیں اور رشتے دار بھی باتیںبنا رہے ہیں۔ کیاہماری پھوپھیوں پر دادی جان کی خدمت اور تیمارداری کرنا فرض نہیں یا پھر ان حالات میں بھی میرے والدین ہی اس کے مکلف ہیں، جب کہ والد صاحب تو دادی جان کی خدمت فالج کی وجہ سے نہیں کرسکتے، صرف والدہ ہی کرسکتی ہیں؟ ایسی صورت میں والدصاحب کے لیے کیا حکم ہے، جب کہ معافی مانگنے پر بھی دادی جان ابو کے گھر آنے کے لیے راضی نہیں اور نہ معاف کرنے پر ہی تیار ہیں، نیز ان کے اخراجات والدصاحب ہی اٹھاتے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں میرے والد اور والدہ کے لیے دادی جان کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث تو نہیں، جب کہ والدین کی اطاعت معروف میں ہے نہ کہ منکر میں؟

جواب: یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کے والد صاحب اور آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کی دادی صاحبہ کی بڑی مخلصانہ خدمت کی ہے، البتہ آپ کے بقول ،دادی صاحبہ اپنے مزاج کی بناپر پہلے آپ کی والدہ صاحبہ اور اب والد صاحب سے بھی ناراض ہیں اور آپ نے اس کی تفصیل بھی لکھی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ والدہ کا حق اس قدر زیادہ ہے کہ کبھی بھی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے حق ادا کردیا ہے۔ والدین کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ھما جنتک ونارک، ’’وہ تمھاری جنت اور دوزخ ہیں‘‘، نیز جبریل ؑ نے بددعا کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر آمین فرمائی۔ پہلی بددعا یہ کہ ہلاک ہو وہ جو رمضان کو پائے اور اپنی مغفرت نہ کرائے۔ دوسری یہ کہ ہلاک ہو وہ جس کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اور وہ آپؐ پر درود شریف نہ پڑھے۔ تیسری یہ کہ ہلاک ہو وہ جو اپنے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک کو بڑھاپے میں پائے اور وہ اسے جنت میں داخل نہ کردیں (بخاری)۔ پس ایسی دعا جو جبریل نے کی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر آمین کہی ہو کسی بھی صورت ردّ نہیں ہوسکتی۔ اس لیے یہ تینوں آدمی ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔ وہی بچ سکتا ہے جو اپنے گناہ کی تلافی کرکے اپنا بچائو کرلے۔

آپ کے نزدیک آپ کے والد صاحب اور آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کی دادی صاحبہ کی بڑی خدمت کی ہے لیکن یہ خدمت اس وقت معتبر ہوگی جب والدہ صاحبہ یعنی دادی صاحبہ بھی راضی ہوجائیں اور کہیں کہ اس کے بیٹے اور بہو، یعنی آپ کے والد اور والدہ نے ان کی خدمت کی ہے اس لیے ابھی دونوں مل کر خدمت کریں، والدہ کو راضی کریں۔ لوگوں کی باتوں کی طرف نہ دیکھیں۔ وہ آپ کے پاس واپس آجائیں یا آپ کی پھوپھی صاحبہ کے پاس رہیں، ان کی مرضی پر ہے لیکن راضی کرنا ضروری ہے۔ والدہ، یعنی دادی صاحبہ اگر سمجھتی ہیں کہ ان کے بیٹے نے ان کو اپنے گھر سے نکال دیا ہے تو والد صاحب کوشش کر کے اس تاثر کو زائل کریں۔ یہ بحث و مباحثے اور مناظرے کی بات نہیں ہے کہ پھوپھیوں پر بھی دادی کا حق ہے کہ نہیں۔ حق سب پر ہے لیکن عرف، شریعت اور دنیا کا رواج یہ ہے کہ ماں والد کے فوت ہوجانے کے بعد بیٹوں کے سپرد ہوتی ہے، بیٹیوں کے نہیں۔ آپ کے والد صاحب پر ان کی خدمت اور کفالت واجب ہے، آپ کی پھوپھیوں پر نہیں۔ ابھی آپ لوگوں نے اپنی دادی کا حقِخدمت ادا نہیں کیا اسی لیے وہ آپ کی خدمت کو تسلیم نہیں کرتیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے نیکی ہونے اور کسی کے ساتھ نیکی کرنے نہ کرنے کا معیار بتلا دیا ہے۔ وہ یہ کہ نیکی اتنی زیادہ اور اس قدر کامل اور اس قدر مخلصانہ ہو کہ لوگ کہیں کہ اس نے نیکی کی ہے۔

ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! جب میں کسی کے ساتھ احسان کروں یا برائی کروں تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں نے احسان کیا ہے یا برائی کی ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: جب آپ اپنے پڑوسیوں کو دیکھیں کہ وہ کہیں کہ آپ نے احسان کیا ہے تو پھر فی الواقع آپ نے احسان کیا ہے اور جب آپ کے پڑوسی کہیں کہ آپ نے بُرا کیا ہے تو سمجھ لیں کہ آپ نے بُرا کیا ہے۔ (ابن ماجہ، مشکوٰۃ، ج۲، ص ۴۲۴)

آپ کے والد صاحب بجا طور پر پریشان ہیں۔ وہ جس حالت میں بھی ہیں اپنی والدہ کو راضی کریں اور آپ اور آپ کی والدہ بھی اخلاص کے ساتھ اپنی آخرت سنوارنے کی خاطر ان کو راضی کریں۔ بدنامی کرنے والوں کو خوش کرنے کے بجاے والدہ کو راضی کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق سے نوازے۔ آمین!نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماں باپ کی رضامندی اللہ کی رضامندی ہے اور ماں باپ کی ناراضی اللہ کی ناراضی ہے۔ (بحوالہ ترمذی،مشکٰوۃ)

اس کے ساتھ ساتھ دوسرا پہلو بھی پیش نظر رہے۔ وہ یہ کہ ہر طرح کی خدمت کے باوجود اگر والدہ صاحبہ محض اپنے مزاج کی وجہ سے راضی نہ ہوسکیں تو وہ بھی قصوروار ٹھیریں گی اور اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گی۔ والدہ صاحبہ کو معاملے کی اس نزاکت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کی ناراضی ان کے بیٹے کی آخرت برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے (بدسلوکی کو بھی معاف کردینا چاہیے کہ اولاد آخرت کی پکڑ سے بچ سکے)۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھیر نگری نہیں ہے کہ کوئی شخص بلاوجہ اپنی اولاد کی خدمت کو ٹھکرا دے تو اس سے بازپُرس نہ ہو۔ جہاں اولاد سے ماں باپ کے بارے میں سوال ہوگا، وہیں ماں باپ سے بھی اولاد کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ اگر والدہ صاحبہ کو یہ بات اب سمجھ میں آجائے تو بہتر ہے، اور اگر انھیں بات سمجھ میں  نہیں آتی تو پھوپھیوں اور رشتہ داروں اور برادری کو عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ انھیں چاہیے کہ وہ والدہ کو سمجھائیںاور بھائی کا ساتھ دیں، اگر وہ حق پر ہیں۔ صلۂ رحمی    صرف یہ نہیں ہے کہ اولاد ماں باپ کا خیال رکھے بلکہ یہ بھی ہے کہ ماں باپ اولاد سے   شفقت سے پیش آئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت اور ہمارے عالِم کی قدر نہ کرے (مختصر الترغیب والترھیب)۔ (مولانا عبدالمالک)


بیوی کا شوہر کے بجاے خاندانی نام کا استعمال

س:  اگر کوئی مسلمان خاتون اپنے خاندانی نسب اور نام کو جو وجۂ شہرت ہے، قائم رکھنے کے لیے رشتۂ ازدواج میںمنسلک ہونے کے بعد اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام استعمال کرنے کے بجاے اپنے والد کے نام یا خاندانی نام سے منسوب ہونا پسند کرتی ہے تو شرعی حیثیت سے ایسا کرنا کس زمرے میں آئے گا اور اس کے لیے خاتون کو شوہر کی اجازت یا رضامندی کی ضرورت ہوگی یا نہیں!؟

ج: شریعت میں تو اسی بات کو رواج حاصل رہا ہے کہ خاتون ہو یا مرد، دونوں اپنے     نام کے ساتھ بطور تعارف اپنے والد، دادا یا پردادا وغیرہ جتنوں کو ذکر سکتے ہیں، کریں۔ کتب   اسما الرجال اور احادیث مبارکہ میں خواتین کے نسب کا ذکر کیا جاتا ہے۔ رہا شوہر، تو اسے بطور تعارف ذکر کرنے کا رواج بعد کے ادوار میں شروع ہوا ہے، مثلاً حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماؓ کے ساتھ بنت ابی بکر کا ذکر ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کے اُم المومنین ہونے کا الگ سے ذکر آتا ہے۔ اس لیے کہ ازواجِ مطہراتؓ کا اِسی حیثیت سے یہ تعارف قرآن پاک نے کرایا ہے اور یہ ان کے لیے بہت بڑا شرف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے بارے میں فرمایا: ’’اگر فاطمہ محمدؐ کی بیٹی بھی چوری کرتی (اللہ نے ان کو اس سے بچائے رکھا) تو میں ان کے ہاتھ کو بھی کاٹتا‘‘(بخاری)۔ لہٰذا باپ کا ذکر تو ایک شرعی روایت ہے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ آج کل چونکہ خاتون کے ساتھ اس کی شادی کے بعد اس کے شوہر کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ یہ فلاں کی زوجہ ہے تو یہ تعارف بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے لیکن اصل تعارف تو باپ، دادا ہوتے ہیں۔ تعارف میں ان کا ذکر اس بنا پر بہتر ہے کہ شرعی روایت کی پیروی ہے۔ شوہر سے اجازت کی حاجت نہیں۔ شوہر کو اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م)

تحریک اسلامی: متفرق سوال

سوال: حال ہی میں مجھے مولانا مودودی مرحوم کی چند کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ تفہیم القرآن کا مطالعہ بھی عرصے سے جاری ہے۔ میرے ناپختہ ذہن نے آج کل کے حالات کا تجزیہ کیا تو محسوس ہوا کہ جو تعلیمات مولانا نے پیش کی تھیں، جماعت ان پر عمل پیرا نہیں۔ اس حوالے سے چند استفسارات درج ذیل ہیں:

۱- تفہیم القرآن میں سورئہ احزاب کی آیت ۳۳ میں (عورتوں کے لیے جب) حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو، تو اس کی تفسیر میں مولانا محترم رقم طراز ہیں: ’’قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجایش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں، بیرونِ خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۴،ص ۹۰)

آج حلقۂ خواتین جماعت اسلامی کی طرف سے جو خواتین سیاسی سرگرمیاں کرتی ہیں اور ممبر قومی اسمبلی بنتی ہیں وہ کس ضمن میں آتی ہیں؟

۲- حال ہی میں ڈاکٹر انیس احمد نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایک نوجوان لڑکا، لڑکی اگر تعلیم کی غرض سے ملیں تو درست ہے (ترجمان القرآن،ستمبر ۲۰۰۸ئ)۔ حدیث کے مفہوم کے مطابق: ’’اگر کوئی نامحرم لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے خلوت میں ملیں تو تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔ پھر ان کا یہ کہنا کس حکم کی بنیاد پر ہے؟

۳- جماعت اسلامی کے ایک معتبر (مرحوم) رکن کے بیٹے ایک بڑا تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں۔ میں اس یونی ورسٹی میں زیر تعلیم ہوں۔ اس میں بہت سی قباحتوں کو نوٹ کیا۔ ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ سالانہ امتحانات کے دنوں میں کئی مرتبہ نوٹ کیا ہے کہ اگر نمازِ ظہر کی جماعت کا وقت ہے تو عین اسی وقت پرچے کے شروع ہونے کا بھی وقت ہے۔ کیا یہ خدا کی نافرمانی نہیں؟

۴- لاہور جماعت کے ذمہ دار رکن ایک اشتہاری ایجنسی چلا رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں (قریباً وسط اگست ۲۰۰۸ئ) میں اس کمپنی کا بنا ایک اشتہار جو مندرجہ بالا ذکر کی گئی   یونی ورسٹی میں داخلے کا تھا، اخبارات میں چھپا۔ ایک عورت اور دو نوجوان لڑکوں کو  دکھایا گیا ہے۔ پورے اشتہار سے (بشمول اشکال) مغربیت ٹپکتی ہے۔

سوال ۳ اور ۴ کے حوالے سے میرا سوال یہ ہے کہ جماعت اپنے ایسے ارکان کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے؟ یا جو اراکین طاغوت کا ساتھ دیتے ہوں ان کے لیے کیا قواعد و ضوابط ہیں؟ اخراج، جواب دہی، یا احتساب؟

جواب: آپ کے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل سے ہمارے نوجوان عمر میں ناپختہ ہونے کے باوجود فکری اور شعوری لحاظ سے بالغ اور مقصدِحیات کے حوالے سے راست فکر ہیں۔ اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔

آپ نے بہت صحیح بات کہی ہے کہ مولانا مودودی مرحوم نے سورۂ احزاب کی آیت۳۳ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ گھر سے نکلنے کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ خواتین اپنی ذمہ داریوں اور گھر کے دائرۂ کار کو نظرانداز کرکے بلاضرورت دفاتر، اسمبلیوں اور سوشل ورک کے کاموں میں مصروفِ عمل ہوجائیں۔ میرے خیال میں ہرمعقول شخص اس بات سے اتفاق کرے گا لیکن اصل مسئلہ جس پر اظہارِ خیال کیا گیا تھا وہ بلاضرورت خواتین کا بیرونِ خانہ سرگرمیوں کا  نہیں تھا بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے بنیادی فریضے کی ادایگی کے لیے مردوں اور عورتوں کی ذمہ داری اور کردار کا تھا۔

قرآنِ کریم نے اُمت ِمسلمہ کے ہر مومن مرد اور عورت پر یہ فریضہ عاید کردیا ہے اور اس کی ادایگی کے لیے مناسب طریق کار اور حکمت عملی کی تفصیلات کو دینی فہم رکھنے والے افراد پر چھوڑ دیا ہے۔ گو اصولی طور پر یہ بات طے کردی گئی ہے کہ خواتین میں دعوت دینے کے لیے بہترین دُعاۃ خواتین ہی ہوسکتی ہیں لیکن ایسی جامعات میں جہاں مخلوط تعلیم ہو ایسے مواقع بھی پیش آسکتے ہیں بلکہ پیش آتے ہیں جب بطور ایک مجبوری اور ضرورت ایک طالب علم اور طالبہ کوکسی دعوتی معاملے میں بات کرنی پڑے جس کے لیے قرآن نے یہ طے کردیا ہے کہ بات اس انداز سے ہو جس میں کوئی لوچ اور لچک نہ پائی جائے۔ صرف ضرورت کی حد تک سوال و جواب کو اختیار کیا جائے۔

ایک اور بات جو آپ نے اٹھائی ہے وہ یہ کہ آج اسمبلیوں میں جماعت اسلامی سے وابستہ خواتین بطور ممبرپارلیمنٹ یا سینیٹ جو کام کر رہی ہیں، وہ آپ کے خیال میں مولانا مودودی کی فکر سے انحراف ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ کسی بھی تحریک کے لیے جو چیز واجب العمل ہے وہ اس کے سربراہ، بانی یا امیر کی ہر وہ بات ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہو لیکن اجتہادی معاملات میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ قرآن وسنت کو ماخذ مانتے ہوئے ان کی ایک سے زیادہ تعبیرات پر عمل کیا جاسکے جیساکہ پانچ معروف فقہی مذاہب (حنفی، جعفری، مالکی، شافعی اور حنبلی) میں نظر آتا ہے۔ خود مولانا مرحوم اس اصول کے قائل تھے اور تمام زندگی اسی پر عامل رہے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی معروف راے کے باوجود کہ ایک خاتون ایک اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں ہوسکتی، جب ملک سے فوجی آمریت کو دُور کرنے کا سوال اٹھا اور متحدہ حزبِ اختلاف نے ایک سابقہ فوجی جرنیل کو ایوب خان کے مقابلے میں اپنا نمایندہ بنایا تو ایوب خان نے اسے گھر میں نظربند کردیا، آخرکار متحدہ حزبِ اختلاف نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے بار بار کے انکار کے باوجود اس شرط پر راضی کرلیا کہ اگر     وہ صدر منتخب ہوجائیں تو پہلی فرصت میں نئے اور آزادانہ انتخاب کروا کے خود صدارت سے    الگ ہوجائیں گی۔ اس قسم کی صورت حال کو فقہ کی اصطلاح میں ’ضرورت‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ صاحب معارف القرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے تحریری طور پر اس معاملے میں محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں فتویٰ دیا اور مولانا مرحوم نے جو اس وقت جیل میں نظربند تھے، رہائی کے فوراً بعد ملک گیر پیمانے پر سفر کر کے اس فتوے کی حمایت اور توثیق کی۔

بالکل اسی طرح اگر پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر ایسی خواتین کے منتخب ہوکر آنے کا امکان ہو جو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست، اباحیّت پسند معاشرہ اور مادہ پرست ملک بنانا چاہتی ہوں تو ایسے میں شریعت کی نگاہ میں ان خواتین کا گھر ہی بیٹھے رہنا جو ملک کو اس لعنت سے بچاسکتی ہوں، دین کی مصلحت کے خلاف ہوگا اور اصولِ ضرورت کی بنا پر ان کا پارلیمنٹ اور سینیٹ میں آکر دین کا دفاع کرنا عین مقصودِ دین ہوگا۔ یہی وہ دعوت ہے جو جماعت اسلامی نے آغاز سے دی اور ایک صالح جماعت کے قیام کی ضرورت پر اُمت ِمسلمہ کو متوجہ کیا۔

اس عمل کے دوران اگر ایسی خواتین اپنی دیگر ذمہ داریوں سے رُوگردانی کر رہی ہوں اور ان فرائض کو ادا نہ کریں جو ان پر ایک اسلامی معاشرے میں بطور فریضہ عاید ہوتے ہیں تو ایسی حالت میں معاشرتی ذمہ داریوں کو اولیت حاصل ہوگی اور معاشرتی فلاح کے کاموں کی حیثیت ثانوی ہوگی۔ دین میںترجیحات کی غیرمعمولی اہمیت ہے اور ان کا صحیح تعین کیے بغیر ہم دین پر صحیح طور پر عمل نہیں کرسکتے۔ فرضِ عین اور فرضِ کفایہ ہو یا فرائض وسنن و نوافل ہوں، ترجیحات کے بغیر ان پر عمل کرنا دین کا مقصود نہیں ہے۔

جہاں تک سوال ’دینی ضرورت‘ کے تحت ایک خاتون یا طالبہ کا ایک مرد طالب علم یا استاد سے بات کرنے کا ہے تو جب تک قرآن وسنت کے مقرر کردہ طریقِ خطاب و گفتگو کو اختیار کیا جائے گا، یہ عمل غیراخلاقی اور غیراسلامی نہیں ہوگا۔ جس حدیث کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ حدیث صحیح ہے لیکن کاش اسے آپ غورسے پڑھ لیتے تو اشکال نہ ہوتا۔ حدیث کا تعلق ’خلوت‘ سے ہے،  یعنی تنہائی میں ملنا۔ جب ایک مرد اور عورت تنہا ہوں توتیسرا شیطان ہوتا ہے جو بہرصورت حرام ہے۔ لیکن اگر ایک کیمپس کے کسی بندکمرے میں نہیں بلکہ کھلے ماحول میں ایک ’ضرورت‘ کے تحت بات کی جارہی ہو تو اس کی اجازت تو قرآن کریم نے بھی دی ہے کہ جب اُمہات المومنینؓ سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ اس کا جواب دیں لیکن ایسے انداز سے جس سے کسی کے دل میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہو۔ یاد رکھیے دین نہ تو غلو اور شدت کا نام ہے اور نہ فکری بے راہ روی اور آزادی کا کہ ہر چیز کو حالاتِ زمانہ کی بنا پر مباح کردیا جائے۔

جہاں تک سوال کسی رکن جماعت کے صاحبزادے کا تعلیمی ادارہ چلانے کا ہے، چاہے وہ خود بھی رکن جماعت ہوں اور آپ خود اس ادارے میں طالب علم بھی ہوں تو آسان طریقہ یہ ہے کہ بجاے ترجمان القرآن میں اس مسئلے کو اٹھانے کے ان صاحبزادے سے خود مل کر اپنی راے ان تک پہنچایئے اور اپنی تشفی کرلیجیے۔ اصولاً جو بات آپ نے لکھی ہے اس سے نہ تو جماعت اسلامی کا اور نہ کسی کے رکن ہونے کا تعلق ہے۔ ایک غیررکن جماعت بھی اگر ایک ادارے کاسربراہ ہو اور وہاں پر نماز باجماعت کے مقررہ وقت کے دوران امتحان لیا جا رہا ہو تو یہ نامناسب اور غیراسلامی طرزِعمل ہے۔ اس کی اصلاح ہونی چاہیے اور امتحان کے اوقات ایسے ہونے چاہییں کہ یا تو وہ نماز سے پہلے مکمل ہوجائے یا نماز کے بعد شروع ہو۔

اسی طرح اگر ایک رکن جماعت ایسی ایجنسی چلا رہے ہوں جس میں خواتین کو اشتہارات میں استعمال کیا جارہا ہو تو ان کا رکن ہونا اس عمل کو جائز نہیں بناسکتا۔ یہ ایک غلط طرزِعمل ہے اور انھیں اپنی پالیسی کی اصلاح کرنی چاہیے۔ تحریکِ اسلامی کی فکر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ صرف وہ کاروبار کیے جائیں جو اخلاقی اور فقہی طور پر مباح ہوں۔ صرف وہ اشتہارات جن میں خدوخال واضح نہ ہوں اور جن میں فحاشی کا عنصر نہ پایا جائے طبع کیے جاسکتے ہیں لیکن جن اشتہارات میں خواتین کو بطور ایک حربہ کے استعمال کیا جائے انھیں اسلامی نقطۂ نظر سے جائز نہیں کہا جاسکتا۔

جماعت اسلامی کا دستور اور اس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس جماعت میں مستقل احتساب کا نظام موجود ہے اور نہ صرف ایک رکن بلکہ امیرجماعت ہو یا ارکانِ شوریٰ، ہر ایک کا احتساب کیا جاتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جو مصدقہ معلومات آپ کے پاس ہوں انھیں جماعت کے متعلقہ    ذمہ دار تک تحریری طور پر پہنچائیں تاکہ وہ اس پر مناسب کارروائی کرسکیں۔ آپ کا کسی بھی مسلمان کے حوالے سے تحقیق کرنے سے قبل کوئی راے قائم کرلینا اور اسے غلطی کا مرتکب قرار دینا کچھ قبل از وقت نظر آتا ہے۔ اس لیے جومعلومات آپ کے پاس مصدقہ طور پر ہوں انھیں متعلقہ ذمہ دارکے علم میں ضرور لایئے تاکہ احتساب کیا جاسکے۔ اگر احتساب کے بعد کسی کام کی نوعیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اخراج ہی کرنا ہو، تو ایسا کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ روزمرہ کا معمول نہیں ہے۔ بہت مخصوص حالات میں ایسا کیا جاتا ہے۔ عموماً احتساب کے بعد غلطی کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


نماز اور سجدے کے لیے کرسی کا استعمال

س: آج کل اکثر مساجد میں معذور افراد کے نماز پڑھنے کے لیے کرسیاں رکھی گئی ہیں جن کے آگے سجدہ کرنے کے لیے تختہ نصب ہوتا ہے۔ ایک روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک بیمار شخص نماز پڑھ رہا تھا اور سجدہ کرنے کے لیے آگے ایک لکڑی رکھی ہوئی تھی۔ آپؐ نے وہ لکڑی ہٹا دی۔ اس شخص نے پھر لکڑی پکڑ کر آگے رکھ لی۔ اس پر آپؐ نے وہ لکڑی پھینک کر فرمایا کہ سجدہ صرف زمین پر ہوتا ہے۔ اگر زمین پر کرنے کی سکت نہ ہو تو پھر اشارہ کرے۔ اور یہ کہ قعود توقیام کا بدل ہوسکتا ہے کہ جب دورانِ نماز کھڑے ہونے کی سکت آجائے تو انسان کھڑا بھی ہوسکتا ہے، مگر سجدے کا کوئی بدل نہیں۔ سجدہ صرف زمین ہی پر کیا جاسکتا ہے۔

براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کردیجیے کہ آیا ان کرسیوں کے تختے پر سجدہ کرنے سے نماز مکمل ہوجاتی ہے، نیز اس واقعے کی صحت اور سیاق و سباق بھی بیان کردیجیے تو مناسب ہوگا۔

ج: آپ نے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہے جس کی رُو سے مساجد میں رکھی گئی کرسیاں اور ان کے سامنے بنے ہوئے تختے ناجائز ہوجائیں۔ واقعے کا تعلق  اسی صورت سے ہے کہ ایک آدمی سجدہ کرنے کے بجاے یا جھکنے کے بجاے کوئی چیز اپنے سر کے برابر رکھ لیتا ہے کہ اس پر سر کو ملا دے بغیر اس کے کہ سر کو جھکائے۔ اگر کافی دیر تک بغیر سہارے کے اپنے آپ کو جھکائے رکھنے کے بجاے، سامنے تختے پر جس تک پہنچنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے، سر اور ہاتھ رکھ دیے جاتے ہیں، سر جھکایا جاتا ہے تو یہ صحیح ہے اور اس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔

آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا واقعہ ہے کہ وہ ایک مریض کی عیادت کے لیے گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ سجدے کے وقت ایک لکڑی اس کے لیے اٹھائی جاتی جس پر وہ سجدہ کرتا تو انھوں نے وہ لکڑی اس آدمی کے ہاتھ سے چھین لی اور اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ یہ چیز تمھیں شیطان نے پیش کی ہے۔ سجدے کے لیے اپنے سر سے اشارہ کرو۔ (حاشیۃ الرافعی، علی ردالمحتار، ج۲، ص ۶۸۵)

صاحب رد المحتار علامہ شامی نے فرمایا: ’’اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب چہرے کی طرف کوئی چیز اٹھائی جائے جس پر سجدہ کرے، بخلاف ایسی صورت کے، جب کوئی چیز زمین پر رکھی ہوئی ہو تو اس پر سجدہ کرنا مکروہ نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً)

پس مسجدوں میں جو کرسیاں رکھی ہوئی ہیں اور ان کے سامنے میز نما تختے لگے ہوئے ہیں کہ ان پر اشارے کے ساتھ رکوع کرنے کے بعد سجدہ کرتے ہیں، جائز ہیں۔ ان میں رکوع میں گردن اور پیٹھ کو بھی جھکایا جاتا ہے اور اس کے بعد سر، گردن اور پیٹھ کو جھکاکر سجدہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس کی تردید احادیث سے ثابت نہیں بلکہ اس طریق کار کو مستحسن قرار دیا گیا ہے ( ایضاً، ص ۶۸۶)۔ اس لیے آپ کسی قسم کا تردّد نہ کریں۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

بنک کو کرایے پر جگہ دینا

سوال: ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کا معاشی نظام سودی بنیادوں پر چلتا ہے۔ کوئی ملازم ہو یا کاروبار کرے کسی نہ کسی طور بنک سے اس کا واسطہ پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس سودی نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔ کیا اس طرح ہم سودی نظام میں تعاون کے مرتکب تو نہیں ہوتے؟

دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ بے روزگاری اور ہوش ربا مہنگائی کے ہاتھوں لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اگر ایسے میں کسی کو بھرپور کوشش کے باوجود ملازمت نہ ملے اور بہ امر مجبوری اسے کسی بنک میں ملازمت کرنا پڑے تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟

ایک سوال یہ ہے کہ بنک کو کرایے پر جگہ دینا کیسا ہے کہ جگہ دینے والے کا اس کرایے پر ہی انحصار ہواور مجبور بھی ہو۔ کیا وہ بنک میں نوکری کرنے والوں کی طرح جگہ کرایے پر دے سکتا ہے؟

جواب : اسلام اپنے ہر ماننے والے سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حلال اور طیب روزگار حاصل کرے اور حرام اور خبیث سے اجتناب کرے۔ اس بنا پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نے  سود کے بارے میں بغیر کسی اشتباہ کے واضح احکام دیے کہ سود حرام ہے اور جس طرح ایک حرام شے کا استعمال کرنے والا، خریدنے والا، فروخت کرنے والا یا کسی کو پیش کرنے والا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اسی طرح سودی کاروبار میں شرکت کرنے والا بھی یکساں طور پر گناہ گار تصورکیا جائے گا۔ اس اصولی وضاحت کے ساتھ یہ بات بھی جان لینا ضروری ہے کہ ایک حرام شے صرف اُس صورت میں ایک فرد کے لیے وقتی طور پر جائز ہوجاتی ہے جب اس کی جان کو خطرہ ہو، مثلاً حرام کیے ہوئے کھانے کا استعمال جان بچانے کی حد تک تو جائز ہوگا لیکن اس کا عادتاً استعمال مطلقاً حرام رہے گا۔

اگر ایک شخص کو اپنی مقدور بھر کوشش کے باوجود بنک کے علاوہ کوئی اورملازمت دستیاب نہیں ہے تو اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچانے کے لیے جب تک اسے کوئی حلال ملازمت نہ مل جائے، وہ ایسا کرسکتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں جب مغربی سرمایہ دار ممالک کے بنک بھی مسلمان گاہکوں کے حصول کے لیے اپنے ہاں غیرسودی کھڑکیاں کھول رہے ہیں اور پاکستان میں خصوصاً اسلامی بنکوں کی شاخیں تیزی کے ساتھ ملک گیر پیمانے پر کھل رہی ہیں، کوشش ہونی چاہیے کہ اسلامی بنک میں ملازمت تلاش کی جائے اور اس طرح اپنی تعلیم و تربیت کا استعمال بھی ہو اور حرام سے بھی بچا جاسکے۔ اس لیے آپ کوشش کریں کہ کسی اسلامی بنک میں آپ کو ملازمت مل سکے۔

جہاں تک سوال ایک مکان یا دکان بنک کو کرایے پر دینے کا ہے، اس میں اصولی طور پر   یہ بات سمجھ لیں کہ شریعت کا حکم ظاہر پر لگتا ہے۔ اگر آغاز سے یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ ایک شخص جو جگہ کرایے پر لے رہا ہے وہاں بنک قائم کیا جائے گا تو اس سے حاصل کردہ کرایہ گو مکان کا کرایہ ہے لیکن معصیت اور گناہ میں شرکت سے خالی نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ ایک شخص کسی سے مکان یا دکان حاصل کرتا ہے اور مالک مکان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس جگہ پر کیا کاروبار کرے گا، پھل فروش کی دکان بنائے گا یا بنک کی برانچ کھولے گا تو اسے کرایے پر مکان دینے میں کوئی قباحت نہیں۔  اگر یہ بات ظاہر اور واضح ہو کہ اس مکان میں حرام کام کیا جائے گا تو اس سے حاصل شدہ کرایہ مباح تصور نہیں کیا جائے گا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)


پراپرٹی کی خرید و فروخت کا ایک مسئلہ

س: ہماری اسٹیٹ ایجنسی ہے۔ ہمارا کام اپنے کلائنٹس کی پراپرٹی فروخت کرنا یا ان کو کوئی پراپرٹی دلانا ہے۔ ہم خود بھی پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ گاہک سے ہمیں اس خریدوفروخت کروانے کے عوض کمیشن ملتی ہے۔ ایک نئے پروجیکٹ کے حوالے سے درج ذیل سوال کی وضاحت فرما دیں:

دبئی میں کئی نئے پروجیکٹ بن رہے ہیں جن کی بکنگ مکمل ہوچکی ہے اور ان پروجیکٹ پر کام بھی شروع ہوگیا ہے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ان کی بنیاد نہیں ڈالی ہے، لہٰذا پروجیکٹ کا ڈھانچا (structure) نہیں بن سکا ہے۔ ہمیں آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ ایسی صورت میں ان پروجیکٹ میں بکنگ کی ہوئی کسی بھی پراپرٹی کو دوبارہ بیچنا، یعنی جس شخص نے یہ پراپرٹی بک کروائی تھی اسے دورانِ تعمیر ہی اچھی پیش کش آجاتی ہے اور وہ اس پراپرٹی کو نئے خریدار کو بیچ دیتا ہے تو کیا اس پر ہم منافع لے سکتے ہیں؟

ج: آپ کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں خریدوفروخت اگر خالی زمین کی ہے تو وہ موجود ہے، اس کی خریدوفروخت ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر خریدوفروخت زمین پر تعمیرشدہ مکانات کی ہے، تو وہ ابھی بنے نہیں۔ بعض کی بنیادیں بھی نہیں رکھی گئیں اور بعض کے ڈھانچے بن گئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو چیز فروخت کی جارہی ہے اور جس کی خریداری کرلی گئی ہے، وہ ابھی معدوم ہے۔ ابھی تو پہلا شخص جس نے خریداری کی ہے، اس نے مکان حاصل نہیں کیا۔ وہ صرف کاغذی نقشے کی شکل میں کاغذ اور ذہن میں موجود ہے۔ اگر اسے بیع سلم قرار دیا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ پہلے شخص کے لیے یہ بیع صحیح ہوسکتی ہے۔ جب تک تعمیر کیے جانے والے مکان کی تمام صفات، قبضے کی تاریخ اور وقت متعین نہ ہو اس وقت تک بیع صحیح نہیں ہوسکتی۔ دوسری بیع تو اس وقت صحیح ہوسکتی ہے جب پہلے دونوں فریق میں تنازعہ پیدا نہ ہو اور خریدار مکان کا قبضہ حاصل کرلے۔ جن مکانات کی بنیاد رکھ دی گئی ہو یا نہ رکھی گئی ہو، دونوں کا ایک حکم ہے۔ خریدار نے جو رقم دی ہے اس کے عوض میں اسے بائع کو صفات کے لحاظ سے متعین رقبہ، متعین نقشہ اور متعین شدہ میٹریل سے تعمیرشدہ مکان دینا ہوگا۔ مجہول اور معدوم کی بیع حنفیہ اور مالکیہ دونوں کے نزدیک صحیح نہیں، البتہ  بیع سلم دونوں کے نزدیک صحیح ہے، لیکن وہ پہلے کے حق میں ہوسکتی ہے دوسرے کے حق میں نہیں۔ دوسرے کے حق میں بیع اس وقت صحیح ہوگی جب پہلا قبضہ کرلے۔ ھدایہ میں ہے: ’’حیوانات میں سلم جائز نہیں ہے، لیکن کپڑوں کی سلم جائز ہے کیونکہ وہ انسان کا بنایا ہوا ہے اور کپڑاصفات کے لحاظ سے متعین ہوسکتا ہے۔ یہی حکم مکان کا بھی ہے۔ یہ عدم جواز اس لیے ہے کہ فریقین میں تنازع کا خطرہ ہے، اگر دوسرے آدمی نے پہلے سے، چیز تعمیر سے پہلے خریدی ہو اور تنازع پیش نہ آیا ہو، اس نے قبضہ کرلیا ہو تو دوسری بیع بھی صحیح ہوجائے گی۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)


سابقہ زکوٰۃ کی ادایگی

س: ۱- تین سال ہوئے ایک ساتھی نے ایک کاروبار شروع کیا اور تین سال کے بعد احساس ہوا کہ نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ بھی فرض ہے۔ اب وہ پوچھتے ہیں کہ کیا پچھلے دو سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کروں یا صرف اس سال کی؟

۲- ایک صاحب نے ہائی ایس گاڑی ساڑھے سات لاکھ روپے میں خریدی اور اسے روڈ پر چلا دیا اور تین سال بعد زکوٰۃ کا خیال آیا۔ اب وہ پوچھتے ہیں کہ گاڑی کی سالانہ بچت پر زکوٰۃ دینا چاہیے یا گاڑی کی مالیت پر بھی زکوٰۃ ہے، نیز زکوٰۃ ایک سال ہی کی ہوگی یا تین سال کی؟

۳- ایک شخص نے گھر کے استعمال کے لیے کار خریدی۔ کیا اس پر زکوٰۃ ہے؟

۴- اگر کار کو سواری لے جانے اور لانے کے لیے کرایہ پر چلایا جائے جیساکہ نمبردو میں عرض کیا ہے تو کیا اس پر زکوٰۃ ہوگی یا صرف اس کے سالانہ منافع پر۔

ج :  جب سے آدمی صاحب ِ نصاب ہوجائے تب سے زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اگر آپ کے دوست ۲۰۰۷ء کو صاحب ِ نصاب ہوئے تو ۲۰۰۷ء سے اور اگر پہلے سے صاحب ِ نصاب ہیں تو جب سے صاحب ِ نصاب ہیں اسی وقت سے زکوٰۃ دینا شروع کریں گے۔

۲- گاڑی کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ گاڑی کی آمدن اور پس انداز کی ہوئی رقم سب  مل کر مقدار نصاب کو پہنچیں تو زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ وسائل آمدن پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی۔ گاڑی آمدن کا وسیلہ ہے۔ اگر گاڑی ساڑھے سات لاکھ روپے کی زکوٰۃ ادا کر کے خریدی تھی تو جب سے چلائی جارہی ہے اس کی سالانہ آمدن پر زکوٰۃ عائد ہوگی، اس کی مالیت پر نہیں۔ اگر زکوٰۃ ادا نہیں  کی تھی تو ایک مرتبہ اس کی زکوٰۃ ساڑھے سات لاکھ روپے سے اداکردی جائے تو پھر سال بہ سال اس کی آمدن پر زکوٰۃ دی جائے۔

۳- اسی طرح گھر کے استعمال کے لیے خرید کردہ گاڑی پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان پر اس کے گھوڑے میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اس سے مراد استعمال کا گھوڑا ہے۔

۴- کار اگر کاروبار کے لیے چلائی جائے تو پھر اس کی آمدنی پر زکوٰۃ عائد ہوگی جب کہ وہ اکیلے یا پس انداز کی ہوئی رقم کے ساتھ مقدار نصاب کو پہنچتی ہو۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م)


علاقائی رسم و رواج کی حیثیت

س: اسلام میں علاقائی رسم و رواج کی کیا حیثیت ہے اور اُن کو کرنے یا نہ کرنے کا بنیادی اصول کیا ہے، بالخصوص شادی کے موقع پر کی جانے والی مہندی کی رسم؟

میرے خیال میں یہ رسم غیراسلامی یا نامناسب اس لیے ہے کہ اس میں ناچ گانا، مووی یا تصویریں بنانا اور مخلوط تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور بے جا اسراف سے کام لیا جاتا ہے۔ اس رسم کو اسٹیٹس سمبل کے طور پر بھی ادا کیا جاتا ہے، نیز اس میں وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔اگر مندرجہ بالا وجوہات میں سے کوئی بات نہ ہو، صرف خاندان کی خواتین اور سہیلیاں اکٹھی ہوں، گھریلو قسم کے گانے ڈھولکی یا دف پر گائے جائیں، اور پردے کا خیال رکھا جائے، یعنی یہ رسم صرف مل بیٹھنے کا بہانہ ہو تو کیا پھر بھی اس رسم کا ادا کرنا ناجائز یا غیراسلامی ہوگا؟

ج: علاقائی رسمیں خصوصاً شادی بیاہ کے رواج میں سے جو شریعت سے متصادم نہ ہوں، ان کی اجازت ہے۔ آپ نے خود ہی وضاحت کی ہے کہ مہندی کی رسم میں غیرشرعی کام، ناچ گانے، مووی، تصویریںبنانا، مخلوط تقریبات، بے جا اسراف، اسٹیٹس سمبل کا مظاہرہ اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر یہ رسم ان بے جا اُمور سے پاک ہو، محض بچی کو دلہن بنانا ہوتو سادہ طریقے سے ایسا کیا جاسکتا ہے، جس طرح انصار کی خواتین نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو نہلادھلا کر، بناسنوار کر دلہن بناکر نبی کریمؐ کے گھر رخصت کیا تھا۔ شادی کے موقع پر بڑی خواتین کا دف کے ساتھ گانے گانا اگرچہ اپنے گھر کے محدود دائرہ میں ہو، صحیح نہیں ہے۔ صرف چھوٹی بچیاں ایسے گیت گاسکتی ہیں،  جن میں فحش نہ ہو۔واللّٰہ اعلم! (ع - م)