رسائل و مسائل


فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا

سوال:فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر اجتماعی دعا مانگنے کا رواج ہوگیا ہے، جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ عہد نبویؐ میں اس کا رواج نہیں تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ شریعت کی رُوسے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:فرض نمازوں کے بعد دعا کے معاملے میں شدت پسندی کا مظاہرہ کیاجاتا ہے ۔ بعض حضرات ہیں جو اسے غیر مسنون اور غیر شرعی قرار دیتے ہیں، چنانچہ وہ نماز باجماعت سے فارغ ہوتے ہی اس طرح اُٹھ جاتے ہیں، گویا تپتی ہوئی زمین پر بیٹھے ہوں۔ دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جو اس کا اتنی پابندی سے التزام کرتے ہیں گویا دعا نماز کا جز ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دعا میں شریک نہیں ہوتا اور پہلے ہی اٹھ جاتا ہے تو اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے نہیں ملتا۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ  نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے: صحاح، سنن اور مسانید میں درج معروف احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے دعا مانگا کرتے تھے اور اپنے اصحاب کرامؓ کو بھی اسی کی ہدایت اور تعلیم دیتے تھے ۔ کسی نے بھی یہ بات نقل نہیں کی ہے کہ آپؐ جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپؐاور سارے مقتدی مل کر اجتماعی دعا مانگتے تھے۔ نہ فجر میں یہ معمول تھا، نہ عصر میں، نہ دیگر نمازوں میں، بلکہ آپؐ کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ آپؐ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرامؓ  کی طرف رخ کرلیتے اور اللہ کا ذکر کرتے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تلقین کرتے۔(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، طبع سعودی عرب، ۲۲/۴۹۲)

جہاں تک انفرادی دعا کا معاملہ ہے، اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا: کس موقع کی دعا بارگاہِ الٰہی میں زیادہ مقبول ہوتی ہے ؟ آپؐنے جواب دیا:

جَوْفُ اللَّیْلِ الآخِرِ وَدُبُرَالصَّلَوٰتِ الْخَمْسِ (ترمذی:۳۴۹۹)

رات کے آخر ی پہر اور پنج وقتہ نمازوں کے بعد مانگی جانے والی دعا۔

خود آپؐکے جو معمولات منقول ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐفرض نمازوں کے بعد کبھی جلد اُٹھ جاتے تھے اور کبھی کچھ دیر بیٹھ کر ذکر ودعا میں مشغول رہتے تھے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگر فرض نمازوں کے بعد کی دعا کو نماز کا جز نہ سمجھا جائے اور امام کی دعا میں مقتدی بھی شریک ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اسے بدعت قرار دینا اور ترک کردینے پر زور دینا درست نہیں معلوم ہوتا۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ  نے لکھا ہے: اس میں شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں۔ اس بنا پر بعض علما نے اس طریقے کو بدعت ٹھیرایا ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیا جائے اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے اور اگر کبھی کبھی قصداً اس کو ترک بھی کردیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ خدا سے دعا مانگنا بہ جائے خود تو کسی حال میں برا فعل نہیں ہوسکتا۔(رسائل ومسائل، جلد اوّل، ص ۱۳۹)

ایک صاحب نے ایک تفصیلی مقالہ تحریر کیا، جس میں اس موضوع پر مختلف پہلوؤں سے بحث کرنے کے بعد اجتماعی دعا بعد نماز کو بدعت قرار دیا۔ مولانا سید احمد عروج قادریؒ  نے اس مقالے کو ماہ نامہ زندگی رام پور میں شائع تو کردیا ، مگر ساتھ ہی اس پر یہ نوٹ بھی لگایا: میں اپنے مطالعے کی روشنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس عمل کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اگراس اجتماعی دعا کو فرض نمازوں کا جز نہ سمجھا جائے تو اس کے بدعت ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل فرض نمازوں کے بعد مختلف اوقات اور مختلف حالات میں مختلف رہا ہے۔ فرض نمازوں کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذکار، استغفار اور دعاؤں کے جو کلمات ارشاد فرمائے ہیں ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک مقالہ تیار ہوجائے۔ کبھی آپؐفرض نمازوں کے بعد اپنی جگہ سے فوراً ہٹ جاتے، کبھی اذکار اور دعاؤں کے اچھے خاصے طویل کلمات ارشاد فرماتے، اس کے بعد اپنی جگہ سے ہٹتے۔ کبھی نماز سے فارغ ہوکر صحابہ کرامؓ  کی طرف رخ کرکے بیٹھ جاتے۔ بیٹھ کر آپؐ کیا کچھ کرتے یا کہتے تھے، اس کی تمام تفصیلات احادیث میں نہیں ہیں۔ اگر ان تمام چیزوں کو ایک اصل مان کر  امام اور مقتدی دونوں مل کر اجتماعی دعا کرلیں تو اس عمل کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں معلوم ہوتا۔   (ماہ نامہ زندگی ، رام پور، جلد۶۰، شمارہ ۶، رجب ۱۳۹۸ھ،جون ۱۹۷۸ئ، ص۴۹)

صاحب ِمقالہ نے اس موضوع پر بھی تفصیل سے بحث کی تھی کہ جن احادیث میں فی دبر کل صلوٰۃ دعا کا ذکر آیا ہے اس سے مراد نماز کا آخری حصہ (سلام پھیرنے سے پہلے)ہے ،نہ کہ نماز کے بعد۔ اس کا رد کرتے ہوئے مولانا عروج قادریؒ  نے لکھا ہے: قُبل اور دُبر ایک دوسرے کی ضد اور نقیض ہیں۔ جس طرح قبل کے اصل معنی مقدم (آگے)کے ہیں، اسی طرح دُبر کے اصل معنی موخر(پیچھے)کے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے جسم کے آگے کے حصے کو قُبل اور پیچھے کے حصے کو دُبر کہتے ہیں اور اسی لحاظ سے اس لفظ کے معنی آخر اور بعد دونوں صحیح ہیں۔ مُدَبَّر اس غلام کو کہتے ہیں جس کو اس کے آقا نے اپنی موت کے بعد آزاد کردیا ہو۔ قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی اس لفظ کو بعد کے معنی میں استعمال کیاگیا ہے۔

سورۂ ق میں ہے: وَاَدْبَارَالسُّجُوْدِ(۵۰:۴۰)۔ اس کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانویؒ  نے یہ کیا ہے:’’اور فرض نمازوں کے بعد بھی‘‘۔ دُبرالصلوٰۃ کے الفاظ بہت سی حدیثوں میں آئے ہیں۔ ان میں سے بعض احادیث میں وضاحت اور صراحت کے ساتھ دبر کے معنی بعد کے ہیں۔ مثلاً بعض احادیث میں فی دبرالصلوٰۃ مخصوص تعداد میں تسبیحات پڑھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے ، فرض نمازوں کے سجدے میں یا تشہد ودرود کے بعد نماز کے اندر ان تسبیحات کو گن کر پڑھنے کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ تمام محدثین ان کو فرض نمازوں کے بعد ہی کا ذکر قرار دیتے ہیں۔ بعض محدثین نے اس طرح کی احادیث پر تراجم یا عنوانات مقرر کرکے واضح کردیا ہے کہ دبرالصلٰوۃ  کے معنی بعدنماز کے ہیں، نہ کہ نماز کے آخر میں۔ امام نسائی نے اس طرح کے متعدد عنوانات قائم کیے ہیں، مثلاً ان کا ایک عنوان ہے: التہلیل والذکر بعد التسلیم۔ اس کے تحت جو حدیث انھوں نے نقل کی ہے اس میں دبرالصلٰوۃ کا استعمال ہوا ہے۔ امام بخاری نے بھی کتاب الدعوات میں الدعاء بعد الصلٰوۃ کا باب باندھا ہے اور اس میں دبر کل صلٰوۃ والی حدیث نقل کی ہے۔ (ایضاً، ص ۴۹-۵۰)

مولانا سید احمد عروج قادریؒ  نے مزید لکھا ہے:اس سے آگے کی ایک اور بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ احادیث نبویؐ میں نماز کے اندر کی دعاؤں اور اذکار کے لیے فی صلوٰتہ ، فی سجودہ، فی السجود، فی صلوٰتی یا بعد التشہدکے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور  نماز کے بعد کی دعاؤں اور اذکار کے لیے دبرالصلوٰۃ ، فی دبرالصلوٰۃ، حین ینصرف، اذاسلّم، حین فرغ من الصلوٰۃ یا اثرالصلوٰۃ کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دبرالصلٰوۃ یا فی دبرالصلٰوۃ کاترجمہ نماز کے بعد ہی صحیح ہے۔(ایضاً، ص۵۲)۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

عورتوں کی تراویح میں شرکت

سوال: اگر شرعی حجاب کے ساتھ عورت نمازِ تراویح یا کسی بھی فرض نماز کے لیے مسجد جائے تو کیا اسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا وہی اجر و ثواب حاصل ہوگا جو مرد کو ہوتا ہے، یا یہ اجر وثواب مردوں کے لیے مخصوص ہے؟

جواب:  تمام فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت اگر اپنے گھر میں نماز پڑھے چاہے تنہا ہی پڑھے اس کا اجروثواب مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے سے زیادہ ہے۔ جیسے حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُ مَسَاجِدِ النِّسَائِ قَعْرُبُیُوْتِھِنَّ (احمد) ’’عورتوں کے لیے بہترین مسجد، ان کے گھر کا ایک کونہ ہے‘‘۔جماعت کی فضیلت کا اجروثواب مردوں کے ساتھ مخصوص ہے، مردوں کو ہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ مسجد میں آکر نماز پڑھیں، البتہ نمازِعید کے لیے نکلنے کا حکم مردو عورت دونوں کے لیے ہے۔

فقہا کا تو اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ عورتیں اپنے گھروں یا خواتین کے مدارس اور کالجوں، جامعات وغیرہ میں باجماعت نماز پڑھ سکتی ہیں یا نہیں؟ بعض فقہا کے نزدیک ایسا کرنا سنت ہے، بعض کے نزدیک مباح، اور بعض کے نزدیک عورتوں کے لیے اپنی جماعت کرانا مکروہ ہے۔ جو فقہا عورتوں کی جماعت کو جائز بلکہ مستحب کہتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم ورقہؓ کو اپنے گھر والوں کو باجماعت نماز پڑھانے کی اجازت دی تھی۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں روایتیں ملتی ہیں کہ بعض اوقات انھوں نے  عورتوں کی امامت کرائی اور صف میں ان کے درمیان کھڑی ہوئیں اور بلندآواز سے قراء ت کی۔ حضرت اُم سلمہؓ رمضان میں عورتوں کو نماز پڑھاتی تھیں اور صف میں ان کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی ایک کنیز کو کہتے تھے کہ وہ رمضان میں ان کے گھر کی خواتین کی امامت کرائیں۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)


سحری کی تیاری پر تہجد کا ثواب

س: جو لوگ نمازیوں اور تہجد پڑھنے اور قیام اللیل کرنے والوں کے لیے سحری یا کھانا تیار کرتے ہیں اور اس وجہ سے خود تہجد نہیں پڑھ سکتے، کیا انھیں بھی تہجد پڑھنے کا ثواب ملتا ہے؟

ج:  بلاشبہہ جو لوگ تہجد اور قیام اللیل کرنے والے روزہ داروں کے لیے سحری کا کھانا تیار کرتے ہیں، انھیں تہجد پڑھنے والوں کے برابر ثواب ملتا ہے، بلکہ ہوسکتا ہے ان کا ثواب اُن سے بڑھ کر ہو۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے حضرت انسؓ کہتے ہیں:ہم آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ کچھ لوگوں نے روزہ رکھا ہوا  تھا اور کچھ نے نہیں۔ گرم دن تھا، ایک جگہ ہمارا پڑائو ہوا، سایے کا کوئی بندوبست نہ تھا، لوگ اپنی چادروں یا اپنے ہاتھوں سے سورج کی تپش سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جن لوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ گرگئے اور جنھوں نے روزہ نہیں رکھا تھا وہ اُٹھے، سایے کا بندوبست کیا، سواری کے جانوروں کو پانی پلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج بے روزہ لوگ اجروثواب لے گئے‘‘۔ دوسری حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: مَنْ جَھَّز غَازِیًا فَقَدْ غَذَا (جس نے کسی جہاد پر جانے والے کو سازوسامان مہیا کیا، گویا وہ خود جہاد میں شریک ہوا)۔ سحری تیار کرنے والوں کو تہجد کی نماز کا اپنا حصہ بالکل چھوڑ نہیں دینا چاہیے، تھوڑا بہت قیام کرلینا چاہیے۔ بالخصوص اگر باجماعت قیام اللیل کی نماز ہورہی ہے تو آخری حصے، یعنی وتر نماز میں شریک ہونا چاہیے، تاکہ انھیں جماعت میں شریک ہونے اور امام کے ساتھ نماز ختم کرنے کا اجر حاصل ہو جو پوری رات قیام کرنے کے برابر ہے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)


رمضان سے بہتر استفادے کی صورت

س: رمضان کے آغاز پر میں نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ قرآن مجید کے کئی ختم کروں گا مگر افسوس ہے کہ مجھے وقت نہیں مل رہا۔ آٹھ دس گھنٹے کام کر کے جب گھر واپس آتا ہوں تو افطار کا وقت قریب ہوتا ہے۔ افطار کے بعد تھکاوٹ کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرپاتا۔ بمشکل نماز ادا کر کے صبح تک آرام کرتا ہوں۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

ج:  مومن سے تقاضا یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائیاں بیک وقت حاصل کرے، نہ آخرت کے بہانے دنیا کو بالکل چھوڑ دے اور نہ دنیا میں منہمک ہوکر آخرت ہی کو بھول جائے۔ دنیا تو آخرت کا زینہ ہے۔ اس سے آخرت کے لیے زادِ راہ حاصل کرنا ہے۔ دنیا آخری ٹھکانا نہیں، بلکہ یہ ایک گزر گاہ ہے جہاں سے انسان نے آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اس کوچ اور سفر کے لیے تیاری کرے۔ اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے زیادہ عقل مند انسان کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو موت کو بہت زیادہ یاد رکھتا ہے اور  اس کے لیے سخت تیاری کرتا ہے (طبرانی)۔ چنانچہ کوچ کے دن کے لیے تیاری انتہائی ضروری ہے۔

انسان کو چاہیے کہ بیک وقت دنیا کے لیے بھی سعی و جہد کرے اور آخرت کے لیے بھی ۔ انسان کو گھر، لباس، خوراک اور مال و متاع چاہیے تاکہ اس کا تن بدن زندہ و سلامت رہے، ساتھ ساتھ اسے درست ایمان، نماز، روزہ، اللہ تعالیٰ کے ذکر، قرآن کی تلاوت اور لوگوں کے ساتھ نیکی وغیرہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس کا دل اور روح زندہ رہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج (انفال ۸:۲۴) ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے بلاوے پر لبیک کہو۔ جب وہ تمھیں ایسے کاموں کی طرف بلائیں جن میں تمھاری زندگی ہے‘‘۔ چنانچہ ایک مسلمان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ رمضان میں یا رمضان کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت کرے۔ اس کا روزانہ قرآن مجید کا ایک مقررہ ورد ہونا چاہیے تاکہ وہ قرآن کا زیادہ سے زیادہ ۴۰ دن تک ایک ختم کرسکے، جب کہ ماہِ رمضان میں اس سے زیادہ ہونا چاہیے۔ رمضان عبادات اور تلاوتِ قرآن کا سب سے اچھا موسم ہے۔ آپ اپنے وقت کی تنظیم نو کریں، ایک گھنٹہ نکال کر آپ دو پاروں سے زیادہ کی تلاوت کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ دو یا تین بار ختم قرآن کرسکتے ہیں۔ جو وقت آپ کا گاڑی یا بس میں گزرتا ہے، اس کو استعمال کرسکتے ہیں۔ مُصحف کا نسخہ ہمیشہ آپ کے پاس ہونا چاہیے۔ اس طرح اگر آپ اس وقت کو ہی استعمال کریں تو اس مختصر وقت میں کئی بار ختم قرآن کرسکتے ہیں۔ آپ دفتر یا کاروبار سے کام کا دورانیہ بھی کم کروا سکتے ہیں چاہے اس سے آپ کی تنخواہ اور آمدنی میں کچھ کمی ہی واقع ہو۔ اس قربانی کا اللہ آپ کو بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ رمضان کا آخری عشرہ پورا یا اس کے چند دن آپ چھٹی بھی لے سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اس ماہِ مبارک سے حتی الوسع استفادے کی کوشش کریں۔ اللہ ہمیں اپنی اطاعت میں لگا دے۔

اگر کام کا دورانیہ کم کرنا یا چھٹی لینا ممکن نہ ہو تو بھی اپنی طاقت کے مطابق امکانی حد تک اپنے وقت کا پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کیجیے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ قرآن کی تلاوت کا آپ کو کس قدر شوق ہے اور اگر کام کی رکاوٹ نہ ہوتی تو آپ اس شوق کو ضرور پورا کرتے، تو اللہ آپ کو اس نیت کے مطابق اجروثواب سے ضرور نوازیں گے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)


روزے میں گرمی کی شدت کو کم کرنا

س: کیا ایک آدمی روزے کی خاطر اپنا گرم علاقہ چھوڑ کر کسی ٹھنڈے علاقے کی طرف یا ایسے ملک کی طرف جہاں دن چھوٹا ہوتا ہے، جاسکتا ہے؟

ج:  اس میں کوئی حرج نہیں۔ ایسا کرنے سے عبادت کی ادایگی میں آسانی ہوسکتی ہے، اور عبادت میں آسانی پیدا کرنا مطلوب چیز ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں پیاس یا گرمی کی وجہ سے سر پر پانی ڈالتے تھے (احمد، ابوداؤد)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روزے کی حالت میں کپڑا بھگو کر اُوپر لے لیتے تھے۔ حضرت انسؓ کا ایک پانی کا حوض ہوتا، روزے کی حالت میں آپ اس میں چلے جاتے تھے۔ مقصد عبادت کی مشقت کو کم کرنا تھا۔ عبادت میں مشقت جس قدر کم ہوگی بندہ پوری توجہ، انہماک اور اطمینان سے اسے ادا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب روک کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا لگ چکا ہو یا رفع حاجت کی ضرورت ہو تو اس صورت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے (مسلم)۔یہ احکام اس لیے دیے گئے ہیں تاکہ بندہ جب عبادت کر رہا ہو وہ پوری طرح راحت و اطمینان سے ہو اور اپنے رب کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو۔ اس لیے اگر روزے دار ایئرکنڈیشنڈ یا ٹھنڈے کمرے میں وقت گزارے تو کوئی حرج نہیں۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)


رمضان کے قضا روزوں کی ادایگی

س: میرے چند روزے شرعی عذر (یعنی ایام) کی وجہ سے پچھلے رمضان میں قضا ہوگئے تھے، مگر میں نے ابھی تک قضا روزے نہیں رکھے۔ اب دوسرا ماہِ رمضان شروع ہوگیا ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے؟

ج:  مریض، مسافر، شرعی عذر رکھنے والی عورت کے لیے بنیادی حکم تو یہی ہے کہ ان کے جو روزے قضا ہوں، عذر ختم ہونے کے بعد جلد رکھ لینے چاہییں تاکہ وہ اس فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔ اگر ان کا ارادہ قضا روزے رکھنے کا تھا مگر نہ رکھ سکیں تو ان شاء اللہ تاخیر سے وہ گنہگار نہ ہوں گے،  اس لیے کہ ان کی فوری قضا فرض نہیں۔ چنانچہ وہ قضا روزے رکھنے سے پہلے دیگر نفلی روزے بھی رکھ سکتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہؓ کا یہ قول ملتا ہے کہ میرے ذمے رمضان کے قضا روزے ہوتے تھے اور مَیں وہ شعبان میں ہی رکھ پاتی تھی، حالانکہ آپؓ سال کے دوران دیگر نفلی روزے بھی رکھتی تھیں۔

مطلب یہ کہ دوسرا رمضان آنے تک اگر پچھلے رمضان کے قضا روزے نہ رکھے جاسکے اور اس کی وجہ کوئی مجبوری تھی تو تمام فقہا کے نزدیک اس تاخیر پر اس کا کوئی مواخذہ یا کفارہ نہیں۔ لیکن اگر کسی مجبوری یا عذر کے بغیر اس نے قضا روزے نہ رکھے تو کئی صحابہ کی راے ہے کہ اس تاخیر پر ہر روزے کے بدلے میں قضا کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کی ایک دن کی خوراک کا کفارہ بھی ادا کرے۔ تینوں ائمہ امام مالک، شافعی اور احمد کی راے بھی یہی ہے۔ دوسری راے یہ ہے کہ اس پر صرف روزوں کی قضا لازم ہے ، کوئی کفارہ نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں کی یہی راے ہے۔ مسلک اہلِ حدیث کے عالم نواب صدیق حسن خان نے بھی اسی راے کو ترجیح دی ہے۔ لیکن اگر استطاعت ہو تو جمہور کی راے کے مطابق قضا کے ساتھ کفارہ بھی ادا کیا جائے، تو یہ زیادہ بہتر اور مستحب ہے۔ اگر صرف روزے ہی رکھ لیے جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)


دعوت افطار کن کے لیے؟

س: یہ بات واضح ہے کہ رمضان میں کسی روزہ دار کو افطار کرانابڑے اجروثواب کا کام ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس روزہ دار سے مراد کون ہے؟ مسافر یا وہ جو خود افطار کرنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی اور جو مالی لحاظ سے خوش حال ہو؟ ہم یہاں مسلم کمیونٹی کے افراد خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ محض تفاخر اور ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے افطار پارٹیاں کرتے ہیں۔ کیا اس سے بھی اجروثواب حاصل ہوتا ہے؟

ج:  روزہ دار کو روزہ افطار کرانے والے کو روزہ دار کے برابر اجر ملے گا اور اس سے    روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہ اجروثواب بلاتفریق ہر روزہ دار کو افطار کرانے پر ملتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ روزہ دار نادار و محتاج ہو، اس لیے کہ یہ بطور صدقہ و خیرات نہیں بلکہ بطور ہدیہ ہے اور ہدیہ کے لیے یہ شرط نہیں کہ جس کو ہدیہ اور تحفہ دیا جا رہا ہے وہ فقیر اور ضرورت مند ہو، بلکہ تحفہ خوش حال اور نادار دونوں کو دیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف وہ دعوتیں جو نمود و نمایش اور تفاخر کے لیے کی جائیں، درست نہیں۔ ایسی دعوتیں کرنے والوں کو اجروثواب نہیں ملتا، وہ اپنے آپ کو بڑے اجر سے محروم کردیتے ہیں۔ جس کو ایسی پارٹیوں کی دعوت دی جائے تو اسے ان میں شریک نہیں ہونا چاہیے، اور معذرت کرتے ہوئے حکیمانہ انداز سے مدعو کرنے والے کو سمجھانا چاہیے،اور کسی مخصوص شخص کو ٹارگٹ بنانے کے بجاے عمومی انداز سے بات کرتے ہوئے شریعت کا حکم واضح کرنا چاہیے۔ نرمی اور حکمت سے کی گئی بات کا بہرحال اثر ہوکر رہتا ہے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)


دعوتِ افطار سے معذرت

س: کیا افطار کی دعوت سے وقت ضائع ہونے کی بنا پر معذرت کی جاسکتی ہے؟

ج:  ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کیا جائے، مگر اگر کوئی مجبوری ہو تو خوش گوار انداز سے معذرت بھی کی جاسکتی ہے۔ رمضان میں کی جانے والی بعض افطار پارٹیوں میں مغرب کی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، بلکہ بعض صورتوں میں تو نمازِ عشاء اور تراویح بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی افطار پارٹیوں میں شرکت سے معذرت کی جائے۔ اس طرح عبادات اور ذکر الٰہی کے لیے وقت بچایا جاسکتا ہے، خاص طور پر رمضان کے ان قیمتی لمحات میں، جب کہ عبادات کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ (ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)


مقروض کی زکوٰۃ کی ادایگی

س:  میرا ایک دوست ہے، جسے میں نے بطور قرض ۳۰۰ دینار دیے تھے۔ اس وقت وہ طالب علم تھا۔ اب وہ فراغت حاصل کرچکا ہے لیکن اب تک اسے کوئی نوکری نہیں ملی ہے۔ اس کی مالی پوزیشن خراب دیکھتے ہوئے میں نے اس رقم پر جو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، وہ اسے دے دی۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟ کیا میں اس رقم کی زکوٰۃ نکالتا رہوں جو بہ دستور میرے دوست پر قرض ہے؟

ج:  قرض کی واپسی اگر کسی بھی مرحلے میں ممکن ہے، یعنی جس کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ کبھی نہ کبھی واپس مل جائے گا، تواس پر جمہور فقہا کے نزدیک ہر سال زکوٰۃ واجب ہے۔ بعض فقہا کے نزدیک اس کی زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوتی ہے جب وہ واپس مل جائے، لیکن اگر قرض کی واپسی ناممکن ہو تو ایسی صورت میں اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ ناممکن ہونے کے باوجود وہ رقم کسی مرحلے میں واپس مل جائے تو اس پر صرف ایک سال کی زکوٰۃ واجب ہے۔

آپ نے اپنے دوست کی خراب مالی پوزیشن کے پیش نظر اس رقم کی زکوٰۃ اسے دے دی یہ بالکل جائز ہے، کیوں کہ آپ کا دوست مسکین کے زمرے میں شمار کیا جائے گا، یا اپنے گھر والوں سے دُور ہے تو مسافر شمار کیا جائے گا۔ یونی ورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے کیوں کہ محض ڈگری نہ اس کا پیٹ بھرسکتی ہے اور نہ تن ڈھانپ سکتی ہے، بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ آپ یہ قرض معاف کر دیں اور اس رقم کو آپ زکوٰۃ شمار کرلیں جیساکہ بعض فقہا کا قول ہے۔(ڈاکٹر یوسف قرضاوی،فتاویٰ یوسف قرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغرفلاحی،  مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی، ص ۱۴۱)


زکوٰۃ کے لیے زمین کی قیمت کا تعین

س:  میرے پاس چند قطعہ اراضی ہیں جنھیں میں نے ایک مدت قبل خریدا تھا۔ اگر اس پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے تو کیا اُس قیمت کے لحاظ سے ادا کی جائے گی، جس قیمت پر میں نے اس زمین کو برسوں قبل خریدا تھا، یا ہر سال زکوٰۃ کی ادائی کے وقت اس کی حالیہ قیمت کے لحاظ سے؟ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہرسال زمین کی قیمت نکالنا ایک مسئلہ ہے۔

ج:  زکوٰۃ کی ادایگی کے اعتبار سے زمین کی دو قسمیں ہیں:

۱- ایک زمین وہ ہوتی ہے جسے انسان صرف اس نیت سے خریدتا ہے کہ کچھ مدت گزرنے کے بعد جب اس کی قیمت میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا، تو اسے فروخت کرکے کچھ فائدہ کما لے۔ ایسی صورت میں زمین کی حیثیت عروض التجارۃ (مالِ تجارت) کی سی ہے۔ چنانچہ جس طرح  مالِ تجارت کی قیمت کا اندازہ کر کے اس کی زکوٰۃ نکالی جاتی ہے، اسی طرح اس زمین کی قیمت کا اندازہ کر کے اس پر ڈھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ قیمت کا اندازہ ہرسال لگایا جائے کیوں کہ ہرسال اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جب اس کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے تو بلاشبہہ اس کی زکوٰۃ کی مقدار میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ یہی جمہور علما و فقہا کا قول ہے۔ البتہ امام مالک کہتے ہیں کہ زمین کی قیمت کا اندازہ صرف ایک بار لگایا جائے اور اس کی زکوٰۃ بھی صرف ایک بار ادا کی جائے گی، یعنی اسے فروخت کرتے وقت، اس زمین کی جو قیمت ملتی ہے اس میں سے ڈھائی فی صد زکوٰۃ کی مد میں نکال دیا جائے گا۔ بہرحال جمہور علما کا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کیوں کہ جس زمین کو آپ نے اس سال ۱۰ ہزار میں خریدا ہے، دو سال کے بعد آپ اسے ۵۰ہزار میں فروخت کرتے ہیں، تو کیا آپ کا ضمیر گوارا کرے گا کہ زکوٰۃ صرف ۱۰ہزار پر نکالیں؟ بعض حالتوں میں امام مالک کے مسلک پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے، مثلاً ایسی حالت میں کہ زمین کی قیمت بہت گر گئی ہو۔ آپ نے اسے ۱۰ہزار میں خریدا اور کئی سال گزرنے کے باوجود اس کی قیمت۱۰ہزار سے بھی کم ہو۔ ایسی صورت میں امام مالک کے مسلک پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

۲- دوسری زمین وہ ہوتی ہے، جسے فروخت کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس پر کرایے کی خاطر دکان یا مکان بنانے کے لیے خریدتے ہیں۔ ایسی زمین پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ تعمیر کا کام مکمل ہوجانے کے بعد جو کرایہ اس دکان یا مکان سے آئے گا اس پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔ (ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی،ایضاً، ص ۱۳۹-۱۴۰)

 

خواتین کی نماز: چند غور طلب پہلو

سوال: میں کافی عرصے سے شرق اوسط میں مقیم ہوں۔ جدہ (سعودیہ) اور دوحہ (قطر) میں بھی رہنے کا موقع ملا۔ تحریک کے ساتھ وابستگی کے باوجود حصولِ علم کے لیے مقامی خواتین کے مراکز اور مساجد میں جانے کا موقع ملتا رہا۔ یہاں پر کوئی مسجد    ایسی نہیں دیکھی جہاں خواتین کے لیے نماز کی جگہ موجود نہ ہو۔ رمضان المبارک اور جمعۃ المبارک کے موقع پر خواتین کی کثیر تعداد مسجد آتی ہے۔ میں نے عرب خواتین کو دورانِ نماز اپنے پائوں مکمل طور پر چھپائے ہوئے دیکھا ہے، اور عرب مُدرسات کے بقول عورت کے پائوں ستر میں شامل ہیں۔ حالت ِ نماز میں ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ پورا جسم، حتیٰ کہ پائوں بھی ڈھکے ہونے چاہییں۔ اس سلسلے میں وہ حدیث سے حوالہ بھی دیتی ہیں۔ دوسری طرف برعظیم پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی خواتین کی اکثریت کھلے پائوں سے نماز پڑھتی ہے، بلکہ وہ اس مسئلے سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ میں نے کچھ علما سے رابطہ کیا تو اُن کی راے کے مطابق باقی تینوں فقہوں کے برعکس فقہ حنفی میں عورت کے پائوں ستر میں شامل نہیں ہوتے۔ جب اُن سے حدیث کا حوالہ مانگا گیا تو انھوں نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا۔

اس بارے میں رہنمائی دیجیے کہ نماز کے دوران عورت کے جسم پر پہنا ہوا لباس اُوپر کی چادر سے کتنا ڈھکا ہوا ہونا چاہیے، جب کہ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین کا لباس بہت باریک اور چست ہوتا ہے، اور ایک دوپٹے سے سر اور سینے کا صرف کچھ حصہ ڈھکاہوتا ہے۔ کبھی تو وہ دوپٹہ بھی بہت باریک ہوتا ہے اور قمیص کے آستین بھی پورے بازو کو ہاتھ تک ڈھانپ نہیں رہے ہوتے۔ عرب خواتین اپنے لباس کے اُوپر عبایہ، یا اتنی بڑی چادر اُوڑھتی ہیں کہ اُن کے ہاتھ اور چہرے کے علاوہ پورا لباس چھپ جاتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ میں نے عرب خواتین کو بالکل اسی طرح سجدہ کرتے دیکھا ہے جس طرح مرد حضرات اُونچا سجدہ کرتے ہیں، جب کہ اُن کا جسم پوری طرح ڈھکا ہوتا ہے اور کہیں سے بھی چادر کے کھلنے یا سرکنے کا احتمال نہیں ہوتا۔ فقہ حنفی کی کچھ کتابوں میں عورت کے سجدے کی کیفیت مختلف لکھی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر خواتین اپنے پیٹ کو زانوں سے ملا کر اور بچھ کر سجدہ کرتی ہیں اور قعدہ کے دوران اپنے پائوں دائیں طرف نکال کر زمین پر بیٹھتی ہیں۔ اکثر اوقات دایاں پائوں ٹخنے سمیت ننگا ہو رہا ہوتا ہے۔ کیا کوئی ایسی حدیث موجود ہے جس میں عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی کیفیت سے مختلف بیان کی گئی ہو، جب کہ یہاں پر دروس میں بار بار یہ حدیث سنائی جاتی ہے کہ صَلُّو کَمَا رَأَیتُمُونِی أَصَلِّی ، نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھو۔

جواب:  ۱- نماز میں عورت کے لیے پاؤں مکمل طور پر چھپانا حنبلی فقہا کے نزدیک تو ضروری ہے، مگر دیگر فقہا اس کے قائل نہیں۔ خود ایک بڑے حنبلی فقیہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (جن کی  آرا کو سعودی عرب میں بہت اہمیت دی جاتی ہے) بھی اس کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک عورت کے لیے پاؤں چھپانا ضروری نہیں، ورنہ ان کے بقول رسولؐ اللہ عورت کو دورانِ نماز جرابیں یا موزے پہننے کا حکم دیتے۔ حنبلی فقہا نے استدلال میں جو احادیث پیش کی ہیں وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں جن سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔

۲- دورانِ نماز عورت کا لباس باریک اور چست نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں عبایہ،  یا لمبی چادر سے (چہرہ اور ہاتھ پاؤں کے سوا) پورا جسم چھپا لینا چاہیے، ورنہ نماز میں خلل آئے گا۔

۳-شریعت میںکئی احکام مرد اور عورت میں مشترک ہونے کے باوجود بعض تفصیلات میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر مرد کے برعکس عورت پرحج کی فرضیت کے لیے زادِراہ کے علاوہ محرم یا خاوند ساتھ ہونے کی شرط بھی ہے۔ عورت اذان و اقامت نہیں کہہ سکتی۔ مرد کے برعکس عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی۔ مرد اور عورت کے ستر میں بھی فرق ہے۔ نماز جمعہ مرد پر فرض ہے عورت پر نہیں۔ نماز میں کوئی بات پیش آئے تو مرد تسبیح کہے اور عورت ہاتھ سے کھٹکا کرے، وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے ان سب مسائل میں سنتوں بلکہ فرائض تک کے معاملے میں عورت کے ستر اور پردے کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے صرف حنفی فقہاہی نے نہیں بلکہ ائمہ اربعہ نے رکوع و سجود اور قعدہ کی ہیئت میں مرد اور عورت کے فرق کو ملحوظ رکھا ہے اور اس میں اصل وجہ ستر پوشی کو قرار دیا ہے۔

امام شافعی کتاب الأُم (ج ۱، ص ۱۱۵) میں کہتے ہیں: عورت کے لیے پسندیدہ یہی ہے کہ سمٹ کر سجدہ کرے، کیونکہ یہ زیادہ باعث ستر ہے۔ مالکیہ میں سے ابو زید قیروانی نے الرسالہ میں صراحت کی ہے کہ صحیح روایت کے مطابق امام مالک کا قول ہے کہ عورت سمٹ کر سجدہ کرے۔

حنابلہ کی معتبر کتاب المغنی ( از ابن قُدامہ) میں بھی اس فرق کی صراحت موجود ہے کہ ’’مرد و عورت اس میں (کیفیت نماز میں) برابر ہیں سواے اس کے کہ عورت رکوع و سجود کی حالت میں اپنے آپ کو اکٹھا کرے (سکیڑے) … اصل یہ ہے کہ عورت کے حق میں نماز کے وہی احکام ہیں جو مرد کے لیے ثابت ہیں، کیونکہ خطاب (حکم) دونوں کو شامل ہے۔ اس کے باوجود (بعض کیفیات میں) عورت مرد کے برعکس کرے گی۔ ( مثال کے طور پر) عورت مرد کی طرح رانوں کو پیٹ سے دور نہیں رکھے گی بلکہ ملائے گی، کیونکہ عورت ستر کی چیز ہے، لہٰذا اس کے لیے اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھنا مستحب ہے، تاکہ یہ اس کے لیے زیادہ ستر کا باعث ہو۔ وجہ یہ ہے کہ عورت کے لیے رانوں کو پیٹ سے جدا رکھنے میں اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عضو کھل نہ جائے‘‘۔

مصنف ابن ابی شیبہ اور  سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے اقوال روایت ہوئے ہیں کہ انھوں نے عورتوں کو حکم دیا کہ جب تم سجدہ کرو تو       خوب  سمٹ کر سجدہ کرو اور اپنی رانوں کو (پیٹ سے) ملا لو۔ 

نامور اہل حدیث عالم مولانا عبدالجبار غزنویؒ سے عورتوں کے نماز میں سمٹ کر سجدہ کرنے سے متعلق سوال کیا گیا تو پہلے انھوں نے بیہقی اور مراسیل ابوداؤد کی یہ روایت نقل کی کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ خوب کھل کر سجدہ کریں اور عورتوں کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ خوب سمٹ کر سجدہ کیا کریں‘‘۔ پھرلکھتے ہیں: اس پر اہل سنت کے چاروں ائمہ کا تعامل چلا آیا ہے۔ (فتاویٰ غزنویہ ، فتاویٰ علماے اہل حدیث)

خلاصہ یہ ہے کہ تمام فقہا نے صَلُّو کَمَا رَأَیتُمُونِی أَصَلِّی کی طرح کی احادیث سے  عموم مراد نہیں لیا ہے ، بلکہ بعض کیفیات میں دیگر دلائل کی بنا پر مرد اور عورت میں فرق ملحوظ رکھا ہے، اور یہ فرق نماز کے بعض آداب کاہے، کسی بنیادی رکن یا شرط کا نہیں۔ لہٰذا اس سے اس حدیث کے ساتھ کسی تعارض یا ٹکراؤ کی صورت بھی پیدا نہیں ہوتی، واللّٰہ اعلم۔ (ڈاکٹر عبدالحی ابڑو)


نواقض وضو کی عقلی توجیہ

س: اسلام نے جسم و لباس کی طہارت و نظافت کا جو لحاظ رکھا ہے اس کی قدروقیمت سے عقلِ انسانی انکار نہیں کرسکتی لیکن اس سلسلے میں بعض جزئیات بالکل ناقابلِ فہم معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً ریح کے نکلنے سے وضو کا ٹوٹ جانا، حالانکہ جسم کے ایک حصہ سے محض ایک ہوا کے نکل جانے میں بظاہرکوئی ایسی نجاست نہیں ہے جس سے وضو ساقط ہوجائے۔ آخر اس ہوا سے کیا چیز گندی ہوجاتی ہے؟ اسی طرح پیشاب کرنے سے وضو کا سقوط، حالانکہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے اور پھر اچھی طرح دھو لیا جائے تو کہیں کوئی نجاست لگی نہیں رہ جاتی۔ یہی حال دوسرے نواقضِ وضو کا ہے، جس سے وضو ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ براہِ کرام اس اُلجھن کو اس طرح دُور کیجیے کہ مجھے عقلی اطمینان حاصل ہوجائے۔

ج: نواقضِ وضو کے مسئلے میں آپ کو جو شبہات پیش آئے ہیں انھیں اگر آپ حل کرنا چاہیں تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ شریعت میں جن جن باتوں سے وضو کے ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کا حکم لگایا گیا ہے پہلے ان سب کو اپنے ذہن سے نکال دیجیے، پھر خود اپنے طور پر سوچیے کہ عام انسانوں کے لیے (جن میں عالم اور جاہل عاقل اور کم عقل، طہارت پسند اور طہارت سے غفلت کرنے والے ، سب ہی قسم کے لوگ مختلف درجات و حالات کے موجود ہیں) آپ کو    ایک ایسا ضابطہ بنانا ہے جس میں حسب ذیل خصوصیات موجود ہوں:

۱- لوگوں کو بار بار صاف اور پاک ہوتے رہنے پر مجبور کیا جائے اور ان میں نظافت کی حس اس قدر بیدار کردی جائے کہ وہ نجاستوں اور کثافتوں سے خود بچنے لگیں۔

۲- خدا کے سامنے حاضر ہونے کی اہمیت اور امتیازی حیثیت ذہن میں بٹھائی جائے تاکہ نیم شعوری طور پر آدمی خود بخود اپنے اندر یہ محسوس کرنے لگے کہ نماز کے قابل ہونے کی حالت دنیا کی دوسری مشغولیتوں کے قابل ہونے کی حالت سے لازماً مختلف ہے۔

۳- لوگوں کو اپنے نفس اور اس کے حال کی طرف توجہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ   وہ اپنے پاک یا ناپاک ہونے، اور ایسے ہی دوسرے احوال سے جو ان پر وارد ہوتے رہتے ہیں، بے خبر نہ ہونے پائیں اور ایک طرح سے خود اپنے وجود کا جائزہ لیتے رہیں۔

۴- ضابطے کی تفصیلات کو ہرشخص کے اپنے فیصلے اور راے پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ ایک طریق کار معین ہو تا کہ انفرادی طور پر لوگ طہارت میں افراط و تفریط نہ کریں۔

۵- ضابطہ اس طرح بنایا جائے کہ اس میں اعتدال کے ساتھ طہارت کا مقصد حاصل ہو، یعنی نہ اتنی سختی ہو کہ زندگی تنگ ہوکر رہ جائے اور نہ اتنی نرمی کہ پاکیزگی ہی باقی نہ رہے۔

ان پانچ خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر آپ خود ایک ضابطہ تجویز کریں اور خیال رکھیں کہ اس میں کوئی بات اس نوعیت کی نہ آنے پائے جس پر وہ اعتراضات ہوسکتے ہوں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں۔

اس قسم کا ضابطہ بنانے کی کوشش میں اگر آپ صرف ایک ہفتہ صرف کریں گے تو آپ کی سمجھ میں خود بخود یہ بات آجائے گی کہ ان خصوصیات کو ملحوظ رکھ کر صفائی و طہارت کا کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا جاسکتا جس پر اس نوعیت کے اعتراضات وارد نہ ہوسکتے ہوں جو آپ نے پیش کیے ہیں۔ آپ کو بہرحال کچھ چیزیں ایسی مقرر کرنی پڑیں گی جن کے پیش آنے پر ایک طہارت کو ختم شدہ فرض کرنا اور دوسری طہارت کو ضروری قرار دینا ہوگا۔ آپ کو یہ بھی متعین کرنا ہوگا کہ ایک طہارت کی مدت قیام (duration) کن حدود تک رہے گی اور کن حدود پر ختم ہوجائے گی۔ اس غرض کے لیے جو حدیں بھی آپ تجویز کریں گے ان میں ناپاکی ظاہر اور نمایاں اور محسوس نہ ہوگی بلکہ فرضی اور حکمی ہی ہوگی اور لامحالہ بعض حوادث ہی کو حدبندی کے لیے نشان مقرر کرنا ہوگا۔ پھر آپ خود غور کیجیے کہ آپ کی تجویز کردہ حدیں ان اعتراضات سے کس طرح بچ سکتی ہیں جو آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔

جب آپ اس زاویۂ نظر سے اس مسئلے پر غور کریں گے تو آپ خود بخود اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ شارع نے جو ضابطہ تجویز کردیا ہے وہی ان اغراض کے لیے بہترین اور غایت درجہ معتدل ہے۔ اس کے ایک ایک جزئیہ کو الگ الگ لے کر علّت و معلول اور سبب و مسبب کا ربط تلاش کرنا معقول طریقہ نہیں ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا بحیثیت مجموعی ان اغراض و مصالح کے لیے جو اُوپر بیان ہوئی ہیں، اس سے بہتر اور جامع تر کوئی ضابطہ تجویز کیا جاسکتا ہے؟ لوگوں کو احکامِ وضو میں جو غلط فہمی پیش آتی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس بنیادی حکمت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جو بحیثیت مجموعی ان احکام میں ملحوظ رکھی گئی ہے، بلکہ ایک ایک جزئی حکم کے متعلق یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں فعل میں آخر کیا بات ہے کہ اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی ضرب آخر کس طرح شکست ِوضو کا سبب بن جاتی ہے۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، اوّل، ص ۱۲۲-۱۲۴)

لڑکی کی پیدایش اور معاشرتی رویہ

سوال:  الحمدللہ میں ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ میری پانچ بچیاں ہیں۔ جب پہلی بچی ہوئی تو سسرال میں خوب خوشیاں منائی گئیں، دوسری اور تیسری بچی کی ولادت کے موقع پر بھی خوشی کااظہار کیاگیا ،لیکن کم کم، پھر جب چوتھی بچی ہوئی تو سسرال کے لوگوں کا انداز بدلنے لگا۔ کسی نے کھلے الفاظ میں کچھ کہا تو نہیں، لیکن دبی زبان میں اس خواہش کااظہار ہونے لگا کہ اب لڑکا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے پھرلڑکی دے دی۔ اب میرے ساتھ اس طرح برتاؤ کیاجانے لگا، گویا لڑکیوں کی پیدایش کی میں ہی قصوروار ہوں۔ اس طرح کے مشورے بھی کانوں میںپڑنے لگے کہ اگر لڑکا چاہیے تو میرے شوہر کو دوسری شادی کرلینی چاہیے۔ بہ راہِ کرم میری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب:اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اولاد ہے۔ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ انھیں پاکر وہ خوشی محسوس کرتا ہے، ان کے دم سے اس کی زندگی کی رنگینیاں قائم رہتی ہیں۔ ان کی کفالت کے لیے معاشی جدوجہد کرنا اس پر بار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ بعض انسانوں کو اولاد عطا کرتا ہے اور بعض کو  کسی مصلحت یا آزمایش کے مقصد سے اس سے محروم رکھتا ہے۔ پھر جن کو اولاد عطا کرتا ہے ان میں سے بعض کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے، بعض کو صرف لڑکے اور بعض کو صرف لڑکیاں۔ کوئی مرد صاحب ِاولاد ہوگا یا نہیں،کوئی عورت بچہ جنے گی یا بانجھ ہوگی، کسی کے یہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں گی یا صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ، کسی کے صرف ایک اولاد ہوگی، وہ بھی لڑکا یا لڑکی ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی تقدیر پر منحصر ہے۔ اس میں کسی مرد یا عورت کی خواہش یا کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ سورئہ شوریٰ میں اس بات کو قطعی اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:

لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ o اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ o (الشورٰی۴۲: ۴۹-۵۰) اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔

بعض معاشروں میں لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ اسی بنا پر ان کی پیدایش پر نہ صرف یہ کہ خوشی کااظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ نزول قرآن میں عرب کے بعض قبیلوں کا یہی حال تھا۔ ان کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ بڑی خفت محسوس کرتے اور ان میں سے بعض اسے زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ قرآن نے اس کانقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّ ھُوَ کَظِیْمٌ o یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَا بُشِّرَ بِہٖ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ o (النحل ۱۶:۵۸-۵۹) جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کَلَونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یامٹی میں دبادے؟

لڑکیوں کے معاملے میں عہد جاہلیت کے بعض قبیلوں کی جو سوچ تھی، موجودہ دَور کے بہت سے معاشروں کی سوچ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان کے یہاں لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے،  اسی بنا پر اس کی پیدایش کی خبر سن کر پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ نکاح کے مسائل اور اس کے ہوش ربا مصارف، جہیز کی فراہمی کے لیے مطلوبہ خطیر رقم وغیرہ کے بارے میں سوچ کر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں لڑکی پیدا ہی نہ ہو۔لڑکی پیداہونے پر قدیم زمانے میں اسے زندہ درگور کرکے اس سے پیچھا چھڑا لیا جاتا تھا۔ جدید جاہلیت نے اس کام کے لیے نئی نئی تکنیکیں دریافت کرلی ہیں، جن کی مدد سے دورانِ حمل میں ہی جنین کی جنس معلوم کرلی جاتی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں ولادت کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی، پہلے ہی اسقاط (abortion)کروادیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر سمجھنے کی سوچ، افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی سرایت کررہی ہے۔کسی خاندان میں کئی لڑکیاں پیدا ہوجائیں تو عموماً اس کا ذمہ دار عورت کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ یہ عورت صرف لڑکیاں جننے والی ہے۔ اسی بنا پر اس طرح کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر لڑکا چاہیے تو مرد کو دوسری شادی کرلینی چاہیے، تبھی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے۔ حالانکہ لڑکاپیدا ہونے میں نہ مرد کااختیار ہوتا ہے نہ عورت کا اور لڑکی پیداہونے میں عورت کا، کوئی قصور نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک خام تصور ہے کہ موروثی طور پر کوئی عورت صرف لڑکیاں پیدا کرنے والی ہوتی ہے اور کسی عورت سے لڑکے زیادہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ اوپر قرآن کریم کی صراحت گزری کہ کسی کے لڑکا یا لڑکی پیدا ہونا محض اللہ تعالیٰ کی قدرت، توفیق اور تقدیر پر منحصر ہوتاہے۔اس سلسلے میں جدید میڈیکل سائنس سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ بہت سوں کے لیے حیرت واستعجاب کا باعث ہوں گی۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی پیداہونے میں اصل کردار عورت کا نہیں، بلکہ مرد کا ہوتا ہے۔

جسم انسانی کے تولیدی خلیّات (reproductive cells) میں ایک جوہر پایا جاتا ہے، جسے کروموسوم (chromosome) کہتے ہیں۔ ان میں تمام موروثی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ انھی کے ذریعے بالوں کے رنگ، آنکھوں کے رنگ اور جنس کا تعیین ہوتا ہے۔ تولیدی خلیے میں کرو موسوم کے جوڑے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جوڑا جنس (sex)کے تعیین کے لیے مخصوص ہوتاہے۔اسے sex chromosomeکہاجاتا ہے۔ یہ جوڑا دو طرح کے کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک کو X کروموسوم اور دوسرے کو Yکروموسوم کہتے ہیں۔

عورت کے بیضہ (ovum) میں سیکس کروموسوم کاجوجوڑا پایا جاتا ہے اس کے دونوں کروموسوم Xنوعیت کے ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر انھیں homogameticکہا جاتا ہے، جب کہ مرد کے نطفے (sperm) میں پایاجانے والا سیکس کروموسوم کا جوڑا دو الگ الگ نوعیت کے      (X اورY) کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں Hetrogameticکہا جاتا ہے۔

استقرار حمل (fertilization) کے وقت عورت کے بیضے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے، اسی طرح مرد کے نطفے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے اور دونوں کے اتصال سے استقرار کا عمل انجام پاتا ہے۔ عورت کے بیضہ سے نکلنے والا کروموسوم ہر حال میں Xہوتا ہے، جب کہ اس سے ملنے والا نطفہ مرد کا کروموسومXبھی ہوسکتا ہے اور Yبھی۔ اگر عورت کے Xکروموسوم سے مرد کا Xکروموسوم ملتا ہے تو اس صورت میں لڑکی پیداہوتی ہے۔ اور اگر اس سے مرد کا Yکروموسوم ملتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اب عورت کے Xکروموسوم سے مرد کا (XاورY میں سے)کون سا کروموسوم ملے؟ اس میں انسانی کوشش کا کچھ بھی دخل نہیں ہوتا، یہ محض تقدیر الٰہی پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کروموسوم جنین(foetus) کی جنس متعین کرتا ہے اور جس سے طے ہوتا ہے کہ آیندہ پیداہونے والا بچہ لڑکا ہوگا یا لڑکی، وہ مرد سے حاصل ہوتا ہے ،نہ کہ عورت سے۔

قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو لطیف تعبیر اختیار کی ہے اس سے مذکورہ بالا سائنسی بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ (البقرہ۲:۲۲۳) ’’تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں‘‘۔کھیتی کا کام یہ ہوتاہے کہ اس میں جو بیج ڈالاجائے اسے پروان چڑھائے اور اس کی اچھی پیداوار کرے۔ اگر کسی کھیت میں گیہوں کے بیج ڈالے جائیں گے تو اس سے گیہوں ہی پیدا ہوگا۔ اگر اس میں چنا یا جوار کے بیج ڈالے جائیں گے تو چنایاجوار ہی اُگے گا۔  یہ ناممکن ہے کہ بیج تو چنا یا جوار کا ڈالا جائے اور امید گیہوں اُگنے کی رکھی جائے اور جب گیہوں نہ اُگے تو کھیت کو قصور وار قرار دیا جائے۔مفسرین کرام نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں یہی بات کہی ہے۔

علامہ زمخشریؒ (م:۵۳۸ھ) فرماتے ہیں:’’یہ مجاز ہے۔ اس آیت میں عورتوں کو کھیت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ان کے رحم میں ڈالے جانے والے نطفے کو، جس سے نسل انسانی کا سلسلہ چلتا ہے، بیج کے مشابے قرار دیاگیا ہے‘‘ (الکشاف، ص ۴۳۴) ۔ امام فخر الدین رازیؒ (م:۶۰۶ھ) نے لکھا ہے:’’اس آیت میں عورتوں کوکھیتی بہ طور تشبیہ کہا گیا ہے ۔ گویا عورت زمین کے مثل ہے جس میں کاشت کی جاتی ہے، نطفہ بیج کے مثل ہے اور پیدا ہونے والا بچہ پیداوار کے مثل ہے‘‘(التفسیر الکبیر، ج۶،ص ۷۵)۔ یہی تشریح بعض دیگر مفسرین ، مثلاً علامہ قرطبی (م:۶۷۱ھ) اور علامہ ابوحیان (م:۷۴۵ھ) نے بھی کی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے: الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، ج ۴، ص ۷، البحر المحیط لابی حیان الاندلسی، ج۲،ص ۱۸۱)

علامہ راغب اصفہانی (م: ۵۰۲ھ) نے اس موقع پر ایک نکتے کی بات کہی ہے: کھیتی کے لیے عربی زبان میں دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک حرث اور دوسرا زرع۔ دونوں الگ الگ معنوں میں مستعمل ہیں۔ حرث کہتے ہیں زمین میں بیچ ڈالنے اور اسے کاشت کے لیے تیار کرنے کو۔ اور زرع کہتے ہیں زمین سے جو کچھ اُگے اس کی دیکھ بھال کرنے کو۔ سورۂ واقعہ کی آیات ۶۳-۶۴ میں یہ دونوں الفاظ الگ الگ معنوں میں آئے ہیں۔ یہاں سورۂ بقرہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے زرع کا لفظ نہیں، بلکہ حرث کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا عورتیں کھیتی کے مثل ہیں، جس میں مرد بیج ڈالتے اور پیداوار چاہتے ہیں۔ (تفسیر الراغب الاصفہانی، ج ۱،ص ۴۵۸)

لڑکیوں کا وجود ان کے والدین کے لیے باعث خیر وبرکت ہوتا ہے۔ اس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ وہ زمانہ گیا جب تعلیم کو صرف لڑکوں کا حق سمجھا جاتا تھا اور لڑکیوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ خیال کیاجاتا تھا کہ لڑکے بڑے ہوں گے تو کماکر لائیں گے اور لڑکیاں بڑی ہوں گی تو خود ان پر خرچ کرنا پڑے گا۔ اب لڑکیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں تو وہ دُنیاوی اعتبار سے اپنے والدین کے لیے بسااوقات لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں۔ جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے، لڑکیوں کی پرورش وپرداخت پر ان کے والدین کوجنت کی بشارت دی گئی ہے، جب کہ لڑکوں کی پرورش پر ایسی کوئی بشارت نہیں ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک کفالت کی وہ روزِ قیامت مجھ سے اتنا قریب ہوگا۔ یہ فرماتے ہوتے آپؐنے اپنی دو انگلیاں ملائیں‘‘(مسلم: ۲۶۳۱) ۔ حضرت ابن عباسؓ  روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے پاس رہیں وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنیں گی‘‘۔(ابن ماجہ:۳۶۷۰)

اللہ نے جن لوگوں کو صرف لڑکیوں سے نوازا ہو اور وہ لڑکوں کے بھی خواہش مند ہوں، انھیں اپنی بیویوں کو قصور وار ٹھیرانے کے بجاے اللہ سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہی حقیقی عطا کرنے والا ہے۔اولاد یا لڑکے یا لڑکیاں عطا کرنا اسی کے اختیار میں ہے۔ (ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)


تحقیق کاروں کے لیے رہنمائی

ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اور اسلامک ڈویلپمنٹ بنک، جدہ کے سینیر ایڈوائزر ہیں۔ ان سے کسی مجلس میں سوال کیا گیا کہ اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے کچھ ضروری مشورے دیں۔ افادۂ عام کے لیے یہاں پیش ہیں۔ (ادارہ)

پہلی چیز جو ہماری نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ العُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴: ۵-۶)’’پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔ تنگی یا مشکل سے مراد ہے محنت، کیونکہ محنت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آدمی محنت کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا پھل ملتا ہے۔ اس کے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے محنت کو اپنی عادت بنائیں، مثلاً اگر عربی نہیں آتی تو اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کسی ادارے میں جا کر ہی سیکھی جائے، گھر میں بیٹھ کر بھی سیکھی جاسکتی ہے۔ عربی سیکھنا تو ویسے بھی بہت ہی ضروری ہے کیونکہ جب تک آپ عربی نہیں جانیں گے تو قرآن کی مٹھاس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ ترجمہ پڑھنا تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس شہد آیا اور کسی نے اُس کی شیرینی نکال دی اور باقی آپ کو دے دیا۔ عربی سیکھنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔کتاب عربی کا معلّم جو کہ چار جلدوں پر مشتمل ہے، اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ آج کل تو عربی سیکھنے کے جدید طریقے سامنے آگئے ہیں جن سے عربی سیکھنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ قرآن و حدیث کو عربی میں سمجھے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ عام آدمی کے لیے تو یہ نہیں کہا جاسکتا لیکن جو لوگ اسلامک اسٹڈیزمیں کام کر رہے ہیں،ان کے لیے عربی کے بغیر کوئی مفر نہیں ہے۔ اگر آپ عربی نہیں سیکھ رہے ہیں تو آپ اسلام کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکتے۔

جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کام میں محنت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار نہ ہوں اور گھنٹوں کے حساب سے ٹیلی ویژن پر وقت صرف کریں، تو زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا اور خصوصیت سے علمی کام تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ٹیلی ویژن سے حاصل شدہ معلومات  محض وقتی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ آپ کو یاد رہتی ہے۔ اگر کچھ پڑھا ہوا بھول گئے ہیں تو دوبارہ کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ مطالعہ کرسکیں، کیجیے۔ مطالعے کا بھی طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد نوٹس لیں۔ اگر لائبریری کی کتاب ہے تو اپنے کارڈ پر یا کسی اور جگہ نوٹس لے لیں ۔ اگر آپ کوئی مقالہ لکھ رہے ہیں تو اس کے نوٹس بنائیے۔ موضوع کی مناسبت سے پڑھیں اور نوٹس لیں۔ اس کے بعد اپنے خاکے(outline) کی مناسبت سے لکھیں۔ ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تحریر کے معاملے میں پہلی کوشش ہی کافی ہے اور اس سے زیادہ بہتر تو لکھا ہی نہیں جا سکتا۔ اگر تکبّر کا عنصر آجائے تو وہاں علم کا خاتمہ ہو جاتا ہے، کیونکہ تکبّر اور علم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپنے لکھے ہوئے کوکئی مرتبہ دہرائیں۔ گیل وریتھ جو کہ ایک بہت بڑا مصنف ہے، اُس کا کہنا ہے کہ میںاپنی تحریر کو کئی مرتبہ دہرانے کے بعد مطمئن ہوتا ہوں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس کام میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں بنتا۔ لکھے ہوئے کو خود بھی دہرائیں اور دوسروں کو تبصرے کے لیے دیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ تبصرے کے لیے دیتے ہیں تو صرف تعریف کی اُمید رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پر کوئی تنقید کردی تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ رویّہ ہوتو بہت زیادہ سیکھا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے کہ  اگر کوئی غلط قسم کی تنقید بھی کر دے تب بھی ناراض نہ ہوں۔ اچھی طرح غور کرکے دیکھیں کہ اس کی تنقید درست ہے یا نہیں۔ درست ہے تو اپنی تحریر کو بہتر بنائیں اور صحیح نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیں۔

کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اچھے رسالے کے لیے مقالہ لکھیں اور محنت سے لکھیں۔ اس کے بعد بھی اس چیز کے لیے تیار رہیں کہ مبصرین کے جو تبصرے آئیں گے اس کی مناسبت سے آپ اس میں بہتری لائیں گے۔ گویا سب سے پہلے محنت، بہت سا مطالعہ کرنا، اور خاص طور سے اگر کوئی مضمون لکھناہے تو اس سے متعلق چیزوں کا مطالعہ کرنا، نوٹس لینا، پھر مقالہ لکھنا، اس کو کئی بار دہرانا، لوگوں کو تبصرے کے لیے دینا، اور تبصروں کی مناسبت سے دہرانا ہے۔ پھر فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا کے مصداق آپ کو آپ کی محنت کا صِلہ مل جائے گا۔ آپ کو خوشی ہوگی جب آپ کا مقالہ کسی عمدہ رسالے میں چھپے گا، لوگ اس پر اچھے تبصرے کریں گے اور آپ کی عزت بڑھے گی۔ جو محنت کرنے اور تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ عالم نہیں بن سکتا۔ ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ افراد کے لیے تو اور بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا مطالعہ و سیع تر کریں۔ اگر ٹی وی دیکھتے ہیں تو اس کے دورانیے کو کم کریں اور وہ وقت مطالعے میں صرف کریں۔ شام کو گھر پر جا کر ضرور مطالعہ کریں۔ پڑھنے لکھنے والوں کے لیے تو فارغ وقت ہوتا ہی نہیں، انھیں سارا وقت محنت کرنی ہے۔ گھر جا کر بھی پڑھنا ہے، دفتر میں بھی مطالعہ کرنا ہے۔ چھٹی والے دن اور معمول کے دنوں میں بھی، فرق صرف  یہ ہونا چاہیے کہ چھٹی کے دن آدمی گھر میں کام کرے اور اس کا دفتر آنے جانے کا وقت بچے۔  زندگی میں اپنے سامنے اسے نشانِ راہ کے طور پر رکھیں: ’’محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، اور محنت کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔

باہر کے ممالک میں تحقیق کے لیے لوگ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔یہاں لوگ محنت کرنے کو تیارنہیں ہیں۔ دوسرے ممالک میںلوگ اپنے مقالہ جات کو خود باربار پڑھتے ہیں، لوگوں کو بتاتے ہیں، تبصرے لیتے ہیں، لوگوں کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور اس دوران میںنوٹس لیتے رہتے ہیں۔ ان کی روشنی میں مقالے کو مزید بہتر کرتے ہیں۔   یہ ایک اسکالر کی صفات ہیں۔ بعض اوقات آپ کی تحریر پر بہت سخت قسم کی تنقید بھی ہو سکتی ہے لیکن تنقیدکرنے والے سے ناراض ہوکر کام نہیں چل سکتا۔

بعض اوقات دفتروں کے اندر بھی لوگ ٹانگ کھینچتے ہیں، اور سازشیں بھی کرتے ہیں۔  ان چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور جب تک اللہ نہ چاہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ قرآن میں کئی مقامات پر اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بظاہر آپ کے خلاف کسی نے سازش ہی کی ہو، لیکن بعد میں آپ کو پتا چلے کہ یہ تو آپ کے حق میں بہت بہتر ہوگیا ۔  وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْج(البقرہ ۲:۲۱۶)،’’ممکن ہے تم ایک چیزکو ناپسند کرو اور وہ تمھارے حق میں اچھی ہو‘‘۔   خود میرے ساتھ بہت سے مواقع پر ایسا ہوا کہ شروع میں محسوس ہوا کہ جیسے یہ بہت بُرا ہوا لیکن بالآخر اس کا نتیجہ میرے حق میں ہی رہا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو ترقی نہ ملے اور آپ اپنے افسر کو بُرا بھلا کہنے لگیں لیکن ترقی دینے والا آپ کا افسر بالا نہیں بلکہ اللہ کی ذات ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا، اور اگر اللہ نے نہ چاہا تو کوئی ترقی دے نہیں سکتا۔ ہمارا یہ عقیدہ مضبوط ہو کہ جتنا ہمیں ملے گا، اللہ ہی کی ذات سے ملے گا، اور اسی کے سامنے آدمی دستِ طلب بھی دراز کرے، اوراُسی کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے تو زندگی میں ترقی ہی ترقی ہے۔

جادو کا اثر اور علاج

سوال: آج کے دور میں جادو ٹونے کا رواج بہت بڑھ گیا ہے۔ لوگ جادوگروں کے پاس بہت جانے لگے ہیں۔ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ جس پر جادو کیا گیا ہو، اس کے علاج کا طریقہ بھی بتلایئے۔

جواب:  جادو کرنا گناہِ کبیرہ ہے، بلکہ جادو کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔    اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ (البقرہ ۲:۱۰۲) ’’اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین، سلیمان ؑ کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان ؑ نے کبھی کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے‘‘۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ شیطان ہی لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور یہ کفریہ عمل ہے۔ جو فرشتے آسمان سے اُتارے گئے تھے انھوں نے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ جادو کرنا یا سیکھنا کفریہ عمل ہے۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جادو سیکھنے والے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ان کے لیے نقصان دہ ہے، فائدہ مند نہیں، اور ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں اجروثواب کا کوئی حصہ نہیں۔ نیز فرمایا: جادوگر میاں بیوی میں جدائی ڈالتے ہیں، مگر وہ اللہ کی مشیت کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ جادو کفر، گمراہی اور دین اسلام سے رُوگردانی کے مترادف ہے، اگر ایسا کرنے والا اسلام کا دعوے دار ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات مہلک ترین گناہوں سے بچو جن میں سے پہلا شرک اور دوسرا جادو۔ شرک کی طرح جادو بھی مہلک ہے، اس لیے کہ جادوگر، شیطان کی پوجا کے ذریعے ہی کامیاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ شیطان سے استعانت اور مدد طلب کرتے ہیں۔ شیطان کے نام پر نذر و نیاز اور جانور ذبح کرتے ہیں۔   حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے دھاگوں سے گرہیں لگائیں اور ان میں پھونکیں ماریں، تو گویا اس نے جادو کیا اور جادو شرک کے مترادف ہے، اور جس نے گردن میں تعویذ وغیرہ لٹکائے وہ ان کے حوالے کر دیا جائے گا (یعنی پھر اللہ کی حفاظت اس سے اُٹھ جائے گی)۔ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ (الفلق ۱۱۳:۴) سے مفسرین نے جادوگرنیاں مراد لی ہے جو شرکیہ الفاظ  پڑھ کر پھونک مارتی ہیں اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے شیطانوں سے مدد مانگتی ہیں۔

شریعت کی رُو سے اسلامی مملکت میں جادوگر کو سزاے موت دی جاتی ہے، اس لیے کہ اس کا وجود اسلامی معاشرے کے لیے سخت مضر ہے۔ حضرت عمرؓ سے ایسا ہی منقول ہے۔ لہٰذا نجومیوں اور کاہنوں کی طرح جادوگروں کے پاس بھی جانا، ان سے قسمت کا حال پوچھنا اور ان کی بات پر یقین کرنا جائز نہیں۔

جہاں تک جادو کے علاج کا تعلق ہے تو وہ شرعی طور پر ثابت شدہ دُعائوں اور دوائوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔ جس پر جادو ہوا ہو، اس پر سورئہ فاتحہ، آیت الکرسی، نیز سورۂ اعراف، سورئہ یونس اور سورئہ طٰہٰ کی جادو والی آیات، اور سورئہ کافرون، سورئہ اخلاص، سورئہ علق اور سورئہ ناس پڑھ کر   دم کرنا چاہیے۔ یہ آخری تین سورتیں تین تین مرتبہ پڑھنی چاہییں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دودُعائیں بھی تین تین مرتبہ پڑھ کر دم کرنا چاہیے: اَللّٰھُمَّ رَبَّ النَّاسِ اَذْھِبِ الْبَأسَ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لَاشِفَائَ اِلاَّ شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغْادِرُ سَقَمًا۔اور وہ دُعا اور جھاڑ پھونک جو حضرت جبریل ؑ نے آں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کی تھی: بِسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئِ یُوْذِیْکَ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، اللّٰہ یَشْفِیْکَ، بِسْمِ اللّٰہَ اَرْقِیْکَ۔ اس علاج سے ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔ علاج میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ دھاگے اور تعویذ گنڈے وغیرہ تلف کردیے جائیں جن کے بارے میں یہ گمان ہو کہ ان سے جادو کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ جس پر جادو کیا گیا ہو، اسے شرعی طور پر ثابت شدہ جھاڑ پھونک کرنے اور اوراد و وظائف پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر فجر اور مغرب کی نماز کے بعد تین تین مرتبہ آخری تین سورتیں اور یہ دُعا اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ پڑھنی چاہیے۔نیز ہرنماز کے بعد اور سوتے وقت آیۃ الکرسی ضرور پڑھنی چاہیے۔ صبح شام تین تین بار بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعْ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ پڑھنے کو معمول بنالینا چاہیے۔پھر اللہ کے ساتھ حُسنِ ظن رکھنا چاہیے اور یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ اسباب پیدا کرنے والی اسی کی ذات ہے اور وہ جب چاہے گا بیمار کو شفا بخش دے گا۔     یہ دُعائیں اور تعوذات تو اسباب ہیں شافی اللہ کی ذات ہے۔ وہ چاہے تو ان اسباب میں فوری تاثیر فرما دے۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ کسی نیک آدمی سے جو قرآن و سنت کے مسنون دم کرتا ہو، اس سے دم کرانا بھی جائز ہے۔ بعض اوقات آدمی بیمار ہوتا ہے، اسے کوئی اندرونی ذہنی بیماری لاحق ہوتی ہے لیکن لوگ وہم سے اسے جادو کا اثر یا جنات کا اثر سمجھ لیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسی قسم کی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ (ڈاکٹر عبدالحئی ابڑو)


قبولیت ِدُعا میں تاخیر کی حکمت

س: بعض لوگ دُعا مانگتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتی، پھر وہ لمبی دُعائیں مانگنا شروع کردیتے ہیں مگر بظاہر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ اس طرح شیطان کو وسوسہ اندازی اور  اپنے مالک سے بدگمان کرنے کا موقع مل جاتا ہے؟ ایسے میں دُعا کی قبولیت میں تاخیر کی کیا حکمت ہوتی ہے؟

ج:  اگر کسی کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو، تو اسے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ قبولیت دُعا میں تاخیر کے پیچھے بڑی حکمتیں اور اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ مالک الملک ہیں،    اس کے فضل کو ٹالنے والا اور اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا کوئی نہیں، اس کے دینے یا      نہ دینے پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ اگر وہ دے تو یہ اس کا فضل ہے، نہ دے تو یہ اس کا عدل ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں، ہمارے بارے میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ وَیَخْتَارُ ط مَا کَانَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ ط(القصص ۲۸:۶۸) ’’تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کرلیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے‘‘۔

یہ عجیب بات ہے کہ:  ۱-غلام اپنے آقا کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرے اور پھر   اپنا حق پورا ادا کرنے کا تقاضا کرے۔

۲-اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ حکمت کے تحت دیتا ہے اور حکمت کے تحت روکتا ہے۔ اپنی سطحی نظر میں انسان کسی چیز کو بہتر سمجھتا ہے مگر وہ اس کی حکمت کا تقاضا نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر ایسی چیزیں کرتا ہے جو بظاہر ضرررساں لگتی ہیں مگر وہی مصلحت کا تقاضا ہوتی ہیں۔

۳- انسان کو کسی کام کے انجام کا پتا نہیں، وہ ایسی چیز مانگ سکتا ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہوتا، ہو سکتا ہے اس میں اس کا نقصان ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ج  وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنo (البقرہ۲:۲۱۶) ،’’ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں ناگوار ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لیے بُری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔ یہ آیت یہ راز بتاتی ہے کہ بندے کو اپنے مالک کو تجاویز نہیں دینی چاہییں، اور ایسی چیزیں نہیں مانگنی چاہییں جن کی حقیقت کے متعلق اُسے علم نہ ہو، بلکہ اسے یہ سوال کرنا چاہیے کہ مولا! جس چیز کا آپ میرے لیے انتخاب کریں اس کا انجام بخیر فرمائیں۔ اس سے زیادہ نفع بخش کوئی سوال نہیں۔

۴- دُعا کی قبولیت میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بندہ اپنا جائزہ لے، اپنے نفس کا محاسبہ کرے، کیونکہ بعض اوقات تاخیر مانگنے والے کے اندر پائے جانے والے کسی نقص کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ شاید اس کا کھانا پینا حرام کا ہو، شاید دُعا کرتے وقت اس کا دل غفلت کا شکار ہو، یا وہ گناہوں کا مرتکب ہو جن کی سزا دُعا قبول نہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہو۔ اس طرح قبولیت میں تاخیر کے ذریعے اسے اپنا محاسبہ کرنے اور توبہ کرنے کا موقع دیا جارہا ہو۔ اگر دُعا   فوراً قبول کرلی جاتی تو وہ اپنے نفس سے غفلت کا شکار ہوجاتا اور یہ سمجھ لیتا کہ وہ ٹھیک راستے پر ہے۔ اس طرح غرور اور غفلت اس کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتے۔

۵- بعض اوقات قبولیت دُعا میں تاخیر اس لیے ہوتی ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کے لیے آخرت میں اجر بڑھا چڑھا کر دینا چاہتا ہے، یا اس دُعا کے حساب سے اس سے کوئی متوقع شر اور مصیبت دُور رکھنا چاہتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آخرت میں بندہ دُعا کا اجروثواب دیکھے گا تو تمنا کرے گا کہ کاش! دنیا میں میری ایک دُعا بھی قبول نہ ہوئی ہوتی۔ بہرحال دُعا کا نتیجہ یقینی ہے، اگرچہ بندے کو اپنی آنکھوں سے قبولیت نظر نہ آئے تو اسے اپنے رب کے بارے میں خوش گمانی رکھنی چاہیے اور کہنا چاہیے کہ مالک نے میری دُعا اس انداز سے قبول کی ہے جسے میں نہیں جانتا۔ اسے کبھی بھی دُعا ترک نہیں کرنی چاہیے۔ دُعا کا نتیجہ ہمیشہ بھلائی اور خیروبرکت کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔(ع - ا )

نجات کی بنیاد اسلام ؟

س: ایک موقع پر ایک صاحب نے دورانِ گفتگوایک حدیث بیان کی۔ روزِ قیامت رب العالمین انسان کے بارے فیصلہ کچھ اس طرح کریں گے کہ ایک انسان کی نماز آئے گی، اور اس کی نجات کے لیے سفارش کرے گی۔ اسی طرح روزہ، قرآن اور دوسرے اعمالِ صالحہ اس کی نجات کے لیے سفارش کریں گے لیکن رب العالمین ان تمام اعمال کو ایک طرف کھڑا ہونے کا حکم دے کر فرمائیں گے کہ آج میں نے فیصلہ نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ پر نہیں بلکہ اس انسان کے ’اسلام‘ پر کرنا ہے۔ پھر اسلام کو بلاکر اس کے نتیجے کو دیکھ کر نجات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ یہاں ’اسلام‘ سے کیا مراد ہے؟ پھر نماز اور دوسرے اعمال کی تاکید کا کیا مقصد ہوا؟

ج:  یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے مضمون پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ حدیث میں اسلام کی بنیاد پر فیصلے کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جائے گاکہ ایک انسان پورے دین کو مانتا ہے یا نہیں، اس کے ہرحکم کے سامنے سرخم تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً،پورے اسلام میں داخل ہواجائو پر عمل کیا ہے یا نہیں؟ یا صرف اسلام کے چند احکام کو جو اس کو پسند آئے انھیں قبول کیا اور ان پر عمل کیا، باقی کو نظرانداز کردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo (البقرہ ۲:۸۵)’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور  کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف  پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو‘‘۔قرآن پاک کی اس  آیت کریمہ میں یہودیوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے کچھ احکام کو مانتے تھے اور کچھ کا انکار کرتے تھے۔

یہی طرزِعمل اب مسلمانوں نے بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ کچھ لوگ چند عبادات کو دین   سمجھ کرکے ان پر عمل کرتے ہیں لیکن اسلام کے باقی حصے کو دین ہی نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے وہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں، نمازیں بھی ادا کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور حج کے لیے بھی جاتے ہیں لیکن باقی دین کو ترک کر دینے میں کوئی گناہ نہیں سمجھتے۔ حدیث میں انھی لوگوں کی مذمت کی گئی ہے کہ اس قسم کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے۔ نماز، روزے اور دیگر اعمال کے فضائل اور جو تاکید کی گئی ہے اس کا فائدہ بھی انھی لوگوں کو ملے گا جو پورے دین کو مانتے اور اپناتے ہیں اور اسلامی نظام کو ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرے تمام نظاموں کو مٹاکر اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ کا اس حدیث پر اشکال درست نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

مسجد میں بچوں کی نماز: چند غور طلب پہلو

سوال: مساجد میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائی کے لیے بڑوں کے علاوہ بچے بھی آتے ہیں۔ یہ بچے ہرعمر کے ہوتے ہیں۔ کچھ بچے تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ دورانِ نماز بعض بچے شرارت کرتے ہیں، ان کے درمیان دھکم پیل، دوڑ بھاگ اور گفتگو ہوتی رہتی ہے، جس کی بناپر مسجد کے پُرسکون ماحول میں خلل واقع ہوتا ہے۔ نماز ختم ہونے کے بعد بعض لوگوں کی طرف سے بچوں پر ڈانٹ پھٹکار پڑتی ہے اور بسااوقات ان کی پٹائی بھی کردی جاتی ہے۔ اس رویّے سے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان بچوں کے دلوں میں نماز اور مسجد سے دُوری نہ پیدا ہوجائے۔ ایک چیز یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بچے پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ نماز شروع ہونے کے بعد جو لوگ آتے ہیں وہ انھیں کھینچ کر اور پیچھے کردیتے ہیں۔ کچھ لوگ چھوٹے بچوں کو بڑوں کی صفوں میں اپنے ساتھ کھڑا کرلیتے ہیں۔ براہ کرم واضح فرمائیں کہ مساجد میں بچوں کی حاضری کے سلسلے میں شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟ بچوں کو مساجد میں لانا بہتر ہے یا نہ لانا؟ کیا مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کا رویہ مناسب ہے؟ نیز مسجد میں انھیں کہاں کھڑا کرنا چاہیے؟

جواب: مسجد اسلامی معاشرے کا نشانِ امتیاز ہیں۔ اسلام نے زندگی کے مختلف امور و معاملات کو اجتماعی طور سے انجام دینے کا جو حکم دیا ہے ، مساجد میں نماز باجماعت کی صورت میں اس کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مخصوص مقامات ہیں، اس لیے وہاں کے ماحول کو پُرسکون اور روح پرور بنائے رکھنا ضروری ہے۔ اسی بنا پر وہاں ایسے کام کرنے کی ممانعت کی گئی ہے جن سے سکون میں خلل آئے، شوروشغب ہو، لوگ اکٹھا ہوکر اِدھر اُدھر کی باتیں کریں اور نماز پڑھنے والے ڈسٹرب ہوں۔ اسی مصلحت سے مسجد میں خریدوفروخت کے کام ممنوع ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم مسجد میں کسی شخص کو خریدو فروخت کرتے دیکھو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمھارے کاروبار میں نفع نہ کرے‘‘۔(جامع ترمذی، کتاب البیوع، باب النھی عن البیع فی المسجد، ۱۳۲۱)

اسی طرح مسجد میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص سنے کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی کسی گم شدہ چیز کا اعلان کر رہا ہے، وہ کہے: ’’اللہ کرے    وہ چیز تمھیں واپس نہ ملے، کیوں کہ مسجدیں اس مقصد کے لیے نہیںبنائی گئی ہیں‘‘۔(مسلم،  کتاب المساجد، باب النھی عن نشد الضالۃ فی المسجد، ۵۶۸،  اسے ابودائود،   ابن ماجہ، ابن خزیمہ، بیہقی اور ابوعوانہ نے بھی روایت کیا ہے)

ایک مرتبہ ایک شخص کا اُونٹ کھو گیا۔ اس نے مسجد میں ا س کا اعلان کردیا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا: ’’مسجدیں تو مخصوص کام (عبادتِ الٰہی) کے لیے بنائی گئی ہیں‘‘۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب النھی، عن انشاد السوال فی المسجد، ۷۶۵)

اس بنا پر ہر ایسے کام سے بچنا چاہیے جس سے نمازیوں کے سکون و انہماک میں خلل آئے، ان کا ذہن بٹے اور مسجد کا ماحول متاثر ہو۔دوسری جانب احادیث میں بچوں کی ابتداے عمر ہی سے دینی تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ نماز کی فرضیت اگرچہ بلوغ کے بعد ہے، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ اس سے قبل ہی ان میں نماز کا شوق پیدا کیا جائے اور ان سے نماز پڑھوائی جائے۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:’’بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز کا حکم دو اور دس سال کے ہوجائیں (اور نماز نہ پڑھیں) تو انھیں مارو‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ،۴۹۵، سنن ترمذی:۴۰۷)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ نے مختلف مواقع پر نماز پڑھی تو اپنے ساتھ بچوں کو شریک کیا۔ حضرت انسؓ،جن کی عمر ہجرتِ نبویؐ کے وقت دس سال تھی، بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے ایک مرتبہ میرے گھر پر نماز پڑھی تو میں اور ایک دوسرا لڑکا آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ہم نے آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب وضوء الصبیان: ۸۶۰۔ یہ حدیث مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں بھی مروی ہے)

بچوں کی دینی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انھیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کرائی جائیں، نماز کے اوراد و کلمات حفظ کرائے جائیں، نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا جائے۔ گھر پر نماز پڑھی جائے تو انھیں شریکِ نماز کیا جائے اور انھیں اپنے ساتھ مسجد بھی لے جایا جائے، تاکہ وہ ابتداے عمر ہی سے مسجد کے آداب سے واقف ہوں اور انھیں باجماعت نماز ادا کرنے کی رغبت ہو۔ عہدِنبویؐ میں ہرعمر کے بچے مسجد نبویؐ میں جایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی عمریں آپؐ کی وفات کے وقت سات آٹھ سال تھیں۔ متعدد روایات میں صراحت ہے کہ وہ نمازوں کے اوقات میں مسجد نبویؐ میں جایا کرتے تھے اور بسااوقات ان کی وجہ سے بہ ظاہر آپؐ کی نماز میں خلل واقع ہوتا تھا، لیکن کبھی آپؐ نے ان کی سرزنش نہیں فرمائی اور انھیں مسجد میں آنے سے نہیں روکا۔

حضرت ابوقتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز لمبی کروں، پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز مختصر کردیتا ہوں کہ کہیں لمبی نماز اس کی ماں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بن جائے‘‘۔

اُوپر جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد کے ماحول کو پُرسکون بنائے رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اگرچہ بچوں کے مسجد میں آنے کی وجہ سے کچھ خلل واقع ہوتا ہے اور نمازیوں کا انہماک متاثر ہوتا ہے ، لیکن زیادہ بڑی مصلحت کی بنا پر اس خلل کو گوارا کرنا چاہیے۔ وہ مصلحت یہ ہے کہ ان کے اندر نماز کی ترغیب پیدا کی جائے اور انھیں اس کا عادی بنایا جائے۔

بعض حضرات بچوں کو مسجد میں لانے سے روکنے کے لیے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اپنی مسجدوں سے اپنے بچوں کو دُور رکھو‘‘(سنن ابن ماجہ باب یکرہ فی المساجد،۷۵۰)۔ لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ زوائد میں ہے کہ  ’’اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں ایک راوی حارث بن نبہان ہے، جس کے ضعف پر ناقدینِ حدیث کا اتفاق ہے‘‘۔ عصرِحاضر کے مشہور محدث علامہ محمد ناصرالدین البانی  ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدنبویؐ میں نمازِ باجماعت میں پہلے مردوں کی صفیں ہوتی تھیں، پھر بچوں کی۔ حضرت ابومالک اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو آگے کھڑا کرتے تھے اور ان کے پیچھے بچوں کو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب مقام الصبیان من الصف،۶۷۷۔اس روایت کو اس کے ایک راوی شہر بن خوشب کی وجہ سے ضعیف قراردیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے ضعیف سنن ابی داؤد، للالبانی، روایت ۵۵۳)

بعض مواقع پر آپؐ نے نماز پڑھی اور وہاں صرف بچے ہوتے تو اگر ایک بچہ تھا تو آپؐ نے اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کرلیا اور اگر دو بچے ہوئے تو انھیں اپنے پیچھے کھڑا کیا۔ اس سے یہ استنباط کیا جاسکتا ہے کہ بچوں کی صفیں مردوں کے پیچھے بنائی جانی چاہییں، البتہ وقت ِ ضرورت انھیں بڑوں کے ساتھ بھی، درمیان یا کنارے کھڑا کیاجاسکتا ہے۔ علامہ البانی  ؒ سنن ابی داؤد کی درج بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’بچوں کو مردوں کے پیچھے کھڑا کرنے کی کوئی دلیل اس حدیث کے علاوہ مجھے نہیں ملی، اور یہ حدیث ناقابلِ حجت ہے۔ اس لیے میں اس میں کوئی  حرج نہیں سمجھتاکہ بچے مردوں کے ساتھ کھڑے ہوں، جب کہ صف میں وسعت بھی ہو‘‘۔    (فقہ الحدیث، طبع دہلی، ۲۰۰۴ئ،  ج۱، ص ۴۸۸، بہ حوالہ تَمَامُ المِنَّۃ ،ص ۲۸۴)

بچوں کے، بڑوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان میں سنجیدگی آئے گی اور وہ شرارتیں کم کریں گے۔ مناسب یہ ہے کہ جماعت کھڑی ہونے کے وقت بڑوں کے پیچھے بچوں کی صف بنائی جائے۔ پھر نماز شروع ہونے کے بعد جو بڑے لوگ جماعت میں شامل ہوں، وہ بچوں کو کھینچ کر پیچھے نہ کریں، بلکہ ان ہی کی صف میں شامل ہوجائیں۔

مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ پھٹکار کرنے، یا ان کی پٹائی کرنے کا رویہ مناسب نہیں ہے۔ آج کے دور میں دین سے دُوری عام ہے۔ بچے خاصے بڑے ہوجاتے ہیں، پھر بھی نہ ان میں نماز پڑھنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے، نہ ان کو نماز پڑھنے کا سلیقہ آتا ہے۔ جوبچے مسجد میں آتے ہیں،اندیشہ ہے کہ ان کے ساتھ اختیار کیا جانے والا درشت رویّہ کہیں انھیں مسجد اور نماز سے دُور نہ کردے۔ عموماً شرارت کرنے والے بچے دو چار ہی ہوتے ہیں، لیکن صف میں موجود تمام بچوں کو ڈانٹ سہنی پڑتی ہے۔ اس کے بجاے انھیں سمجھانے بجھانے کا رویّہ اپنانا چاہیے۔

آخر میں والدین سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں۔ دین کی بنیادی قدریں ابتدا ہی سے ان کے ذہن نشین کریں۔ مسجد کی کیا اہمیت ہے؟ نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟ نماز میں کیا پڑھنا چاہیے؟ اس کی ادائی میں کتنی سنجیدگی اور سکون ملحوظ رکھنا چاہیے، یہ باتیں بچوں کو سمجھائی جائیں۔ اس سے اُمید ہے کہ مسجدوں میں بچوں کی موجودگی سے وہ شوروہنگامہ اور اودھم نہیں ہوگا ، جس کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)


انبیاے کرام ؑ پر مبنی فلمیں

س: آج کل مختلف انبیاے کرام ؑحضرت عیسٰی ؑ، حضرت یوسف ؑ اور حضرت موسٰی ؑاور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک اداکار انبیاے کرام کے کردار پر مبنی فلم میں اداکاری کرتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟ کیا مسلمانوں کو ایسی فلمیں دیکھنا چاہییں، یا نہیں؟

ج:  انبیاے علیہم السلام کی فلمیں بنانا اور ان میں اداکار کا کردار ادا کرنا ناجائز اور      حرام ہے۔ اس سے انبیاے علیہم السلام کی توہین ہوتی ہے۔ان کی اپنے پاس سے شبیہہ بنانا،     یہ انبیاے علیہم السلام پر جھوٹ کے مترادف ہے اور ان کی توہین ہے۔ مسلمان اس قسم کی حرکت کو قبول اور برداشت نہیں کرتے۔ اس لیے جہاں کہیں یہ کام ہو رہا ہو، اس کی مزاحمت کرنا چاہیے اور اسے روکنا چاہیے۔(مولانا عبدالمالک)


خلع کے بعد نکاح

س: کچھ عرصہ قبل میرے بیٹے کی شادی ہوئی تھی مگر کچھ تنازعات پیدا ہوگئے جو تمام تر کوشش کے باوجود حل نہ ہوسکے۔ میرے بیٹے کی بیوی نے عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کر دیا۔ اس نے اپنا مہر چھوڑ دیا اور عدالت نے اس کو خلع دے دی۔ اب یہ دونوں دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ کیا خلع کے بعد نکاحِ ثانی ہوسکتا ہے؟

ج:  آپ کے بیٹے سے اس کی بیوی نے خلع بذریعہ عدالت لی۔ عدالت کی طرف سے جاری کردہ خلع کی ڈگری تنسیخِ نکاح کی ڈگری ہوتی ہے جو ایک طلاق بائن ہوتی ہے۔ اس کے بعد میاں بیوی راضی ہوں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں لیکن دوبارہ نکاح میں نیا مہر مقرر کرنا ہوگا۔ اس لیے یہ دونوں اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ واللہ اعلم!(ع - م )


صدقات وعطیات سے سرمایہ کاری

س:  مختلف دینی و سماجی تنظیمیں سال بھر عطیات، خیرات، زکوٰۃ، صدقات و چرم قربانی کی شکل میں رقوم وصول کرتی ہیں اور پورے سال پر تقسیم کر کے اپنی رفاہی خدمات سرانجام دیتی ہیں۔ اس طرح یہ تمام رقوم ایک طویل عرصے تک سودی بنکوں کے کھاتوں میں رکھی رہتی ہیں۔ اگر ان رقوم کو اسلامی بنک یا مضاربہ کے نفع بخش کھاتوں میں رکھوادیا جائے توایک طرف ہم سودی بنکوں کے کاروبار کو بڑھانے میں مددگار نہیں ہوں گے اور دوسری طرف ان دینی و سماجی تنظیمات کو اپنے رفاہی مقاصد کے لیے نفع کی صورت میں کچھ مزید رقم مل جائے گی جس سے مخلوقِ خدا کی بہترانداز میں خدمت ہوسکے گی۔ کچھ لوگ اس کو خلافِ شرع تصور کرتے ہیں۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

ج:  رقوم حفاظت کے لیے غیرسودی بنکوں میں رکھی جاسکتی ہیں تاکہ وہ محفوظ رہیں اور  جن مقاصد کے لیے جمع کی گئی ہیں اُن میں حسبِ ضرورت نکال کر خرچ کی جاسکیں۔ دفتر یاگھر میں رکھنے سے رقم کے ضائع ہونے کاخطرہ ہوتا ہے۔ کسی اسلامی بنک میں اس طرح کی رقوم کو بڑھانے کے لیے مضاربہ یا مشارکہ میں لگانا بھی جائز ہے، تاکہ اصل رقم سے بھی فقراا ور مساکین کی مدد کی جائے اور مزید منافع حاصل کرکے بھی ان کی مدد کی جائے۔ لیکن رقم کے ڈوب جانے کی صورت میں اس فرد، یا ادارے کو اپنے پاس سے تاوان دینا پڑے گا، جس نے بنک میں کاروبار میں رقم لگائی ہوگی۔ واللّٰہ اعلم! (ع- م)

والدین کے حقوق: چند مسائل

سوال:  ہمارے حلقۂ احباب میں چند مسائل کے متعلق بحث و اختلاف کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ براہِ کرم ان کی صحیح حقیقت سے آگاہ کریں۔ مسائل درجِ ذیل ہیں:

۱- کیا حدیث میں یہ مذکور ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنی ماں کی جانب منسوب کیے جائیں گے؟ بعض اصحاب والدہ کی فضیلت اور اُس کے حقوق کے سلسلے میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں۔

۲- کوئی باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو قتل کردے تو کیا اُس سے قصاص نہیں لیا جائے گا؟ اور کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ قاتل مقتول کا وارث ہے اور وہ اپنے آپ کو معاف کرسکتا ہے؟ جن جرائم کا حقوق العباد سے تعلق ہے، کیا اُن کے بارے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ جس فرد کی جان یا مال پر دست درازی ہوئی ہے، اگر وہ معاف کردے تو حق مارنے والے سے بازپُرس نہ ہوگی؟

۳- ماں باپ کی اطاعت کن اُمور میں اولاد پر جائز اور فرض ہے؟ کیا والدین کے حکم سے کوئی بیٹا شرعاً مجبور ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے؟

جواب:  ۱- اس امر میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ  علیہ وسلم) نے والدین کے حقوق و واجبات پر بہت زور دیا ہے، اُن سے حسنِ سلوک کی بہت تاکید فرمائی ہے اور اپنے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق بیان کیے ہیں۔ بعض صحیح احادیث میں جہاں والدین سے صلۂ رحمی کا حکم دیا گیا ہے، وہاں ایک یا دو مرتبہ پہلے والدہ کا ذکر ہے اور اس کے بعد والد کا ذکر ہے، لیکن جس مضمون کا حوالہ سوال میں دیا گیا ہے، یہ کسی صحیح اور مستند حدیث میں وارد نہیں ہے۔ اگرچہ بعض حدیث کے مجموعوں میں ایک روایت اس طرح کی مذکور ہے، لیکن محدثین اور  فنِ رجال کے ماہرین کے نزدیک یہ غیر صحیح ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

یُدْعَی النَّاسُ بِاُمَّھَاتِھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سِتْراً مِنَ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ،قیامت کے روز لوگوں کو اُن کی مائوں کے نسب سے پکارا جائے تاکہ اللہ کی جانب سے ان کی پردہ داری ہو۔

امام ابن جوزیؒ نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں اگرچہ بہت سی ان احادیث کو موضوعات سے خارج قرار دیا ہے جن پر     ابن جوزیؒنے وضع کا حکم لگایا ہے، لیکن اس روایت کو تعقبات، باب البعث میں ابن عدیؒ کے حوالے سے منکر ہی لکھا ہے۔ منکر اُس ضعیف روایت کو کہا جاتا ہے جس کا راوی فحش غلطی، شدید غفلت یا فسق و فجور کا مرتکب ہو۔

والدین اور بالخصوص والدہ کے اکرام و احترام پر دلالت کرنے والی واضح نصوص جب کتاب و سنت میں موجود ہیں، تو اس کے بعد ایسی منکر یا موضوع روایت کا سہارا لینے کی کیا حاجت ہے، جس میں ماں کی افضلیت کا کوئی خاص پہلو نہیں نکلتا اور جو قرآن مجید (سورئہ احزاب) کی اُس آیت سے بھی مطابقت نہیں رکھتی جس میں لوگوں کو ان کے باپوں کے نسب سے پکارنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔

۲- یہ صحیح ہے کہ فقہا کی اکثریت اس امر کی قائل ہے کہ باپ اولاد کو قتل کردے، تو اُس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، لیکن یہ اس بنا پر نہیں کہ باپ بیٹے کا وارث یا ولیِ قصاص ہے اور وہ چاہے تو اپنے آپ کو معاف کردے۔ اپنے جرم پر اپنے آپ ہی کو قابلِ معافی قرار دینے کا تصور بالکل لغو ہے اور یہ بات بھی غلط ہے کہ ہرشخص جو مقتول کا وارث بن سکتا ہو، یا مطالبۂ قصاص کا قانونی حق رکھتا ہو، وہ اگر خود ہی قاتل ہو تو اُس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ باپ کو اولاد کے  قتل کرنے پر قصاص سے صرف اس وجہ سے مستثنیٰ سمجھا گیا ہے کہ اُس کے حقوق اولاد پر       بے حدوحساب ہیں۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک صحابی اور اُس کے بیٹے کی ناچاقی کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے بیٹے کو مخاطب کر کے فرمایا: اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ(البیھقی)، ’’تو اور تیرا مال و متاع سب تیرے والد کا ہے‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں اولاد کو والدین کی کمائی میں شمار کیا گیا ہے۔ اولاد کے بالمقابل، والدین کی اس غیرمعمولی مرتبت و منزلت کی بنا پر یہ استنباط کیا گیا ہے کہ والدین سے اولاد کا قصاص نہ لیا جائے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ اگر والد اولاد کو ناحق قتل کرے تو عنداللہ بھی اُس سے بازپُرس نہ ہوگی۔

والدین کے ماسوا دوسرے اعزہ جنھیں وراثت یا قصاص کی ولایت اور مطالبے کا حق پہنچتا ہے، وہ اگر خود اپنے مورث کے قاتل ہوں تو وارث ہونے کے باوجود اُن سے قصاص لیا جاسکتا ہے اور اگر محض ورثہ حاصل کرنے کے لیے اُنھوں نے قتل کا ارتکاب کیا ہو تووہ ارشادِ نبویؐ کے مطابق محروم الارث بھی قرار پائیں گے۔

اسلامی شریعت کا یہ اصول بھی ہرگز نہیں ہے کہ جن جرائم کا تعلق حقوق العباد سے ہے،  اُن میں اگر مظلوم یا اس کا ولی معاف کردے تو ریاست ظالم یا مجرم سے مواخذہ نہیں کرسکتی۔ بہت سے جرائم جن کا تعلق انسان کی جان، مال یا آبرو سے ہے وہ حکومت کی دست اندازی کے قابل اور احتساب کے لائق ہیں اور وہ فریقین کے مابین قابل راضی نامہ بھی نہیں۔ مثال کے طور پر زنا، چوری یا ڈاکا، ایسے جرائم ہیں جن پر ریاست ہر حال میں گرفت کرے گی اور سزا دے گی ، کیونکہ انفرادی قتل تو بسااوقات ذاتی پُرخاش یا وقتی محرکات پر مبنی ہوسکتا ہے جس میں مقتول کے ورثا اگر دیت یا عفو و درگزر پر راضی ہوجائیں تو مزید انتقامی کارروائی ، خوںریزی اور فساد کا سدّباب ہوسکتا ہے، لیکن مذکورہ بالا اجتماعی جرائم کی نوعیت ایسی ہے جن میں نرمی یا چشم پوشی برتنے سے مزید شر اور فتنوں کے پھیلنے کا امکان قوی ہوجاتا ہے۔ قتل میں بھی اگرچہ مقتول کے اولیا، دیت لے لیں یا معاف کردیں تو قصاص کی سزا تو نافذ نہ ہوگی، لیکن بعض فقہا کا قول یہ ہے کہ اولیا کے راضی ہوجانے کے باوجود اگر اسلامی حکومت یہ سمجھے کہ فتنہ و فساد کے اسباب کا پوری طرح قلع قمع کرنے کے لیے قاتل کو کچھ تادیب و تعزیر ضروری ہے، تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔

۳-  جو افعال خدا اور رسولؐ کے نزدیک ممنوع یا مذموم ہیں، اُن میں کسی کی اطاعت جائز نہیں، بقیہ اُمور میں والدین کی اطاعت جائز و مستحسن ، بلکہ اکثر حالات میں لازم ہے۔ جہاں تک باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینے کا سوال ہے، اس کا جواب بھی یہی ہے کہ بیٹا صرف اسی صورت میں طلاق دے، جب کہ والد کا حکم کسی مصلحت شرعی پر مبنی ہو، ورنہ ناحق طلاق خدا کی نگاہ میں بہرحال ناپسندیدہ اور مبغوض ہے۔

دراصل یہ مسئلہ آغاز میں اس طرح پیدا ہواتھا کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے سے کہا تھا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور اُنھوں نے تعمیلِ ارشاد کرتے ہوئے طلاق دے دی تھی، مگر ظاہر ہے کہ ہرباپ حضرت عمرؓ کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمرؓ ایک جلیل القدر صحابیِ رسولؐ اور صاحب ِ اتقاء انسان تھے۔ اُن کی پاکیزہ زندگی اور بے مثال سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے اُن سے بجا طور پر یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ اُنھوں نے اس خواہش کا اظہار کسی معقول علّت اور دینی مصلحت ہی کے تحت کیا ہوگا جس کی وضاحت مناسب یا ضروری نہ ہوگی اور حضرت ابن عمرؓ نے اسی اعتماد کی بنا پر آپ کا کہا مان لیا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ نے وجہ بیان کر دی ہو مگر وہ آگے نقل ہونے سے رہ گئی ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک باپ جب چاہے، اپنے بیٹے سے بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرسکتا ہے اور بیٹے کے لیے اس کی تعمیل کیے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔(ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۶۶ئ)۔(جسٹس ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ششم، ص ۱۴۴-۱۴۸)


بیع سلم

س:  آج کل کاروبار اور تجارت میں پیشگی سودوں کا رواج عام ہے، یعنی بعض اجناس وغیرہ کا نرخ پہلے طے کرلیا جائے اور لین دین بعد میں ہوتا رہے۔ بعض علما اسے بیع سلم قرار دے کر جائز ٹھیراتے ہیں، لیکن بیع سلم کی تعریف عام طور پر معلوم نہیں ہے۔   براہِ کرم اس کی تعریف اور شرائط وغیرہ واضح طور پر تحریر کریں تاکہ خریدوفروخت کے معاملات میں جواز و عدم جواز کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو اور لاعلمی کی بنا پر کوئی غلط یا ممنوع کارروائی صادر نہ ہونے پائے۔

ج:  شریعت میں بیع سلم سے مراد ایسی خریدوفروخت ہے جس میں قیمت تو نقد ادا کردی جائے گی، لیکن اُس کے عوض مال ایک متعین مدت کے بعد وصول کیا جائے۔ اس کے جائز اور   صحیح ہونے کے لیے حدیث اور فقہ کی رُو سے جو شرائط لازم ہیں، اُن میں اہم ترین شرائط، جن پر قریب قریب اتفاق ہے، ذیل میں درج ہیں:

                ۱-            مال اور اُس کی قیمت کا ٹھیک ٹھیک اور واضح تعین کیا جائے، اُس کا وزن، اُس کی نوعیت اور قسم وغیرہ کی ایسی تشریح کردی جائے کہ بعد میں اشتباہ یا اختلاف یا نزاع کی گنجایش نہ رہے۔

                ۲-            مال ایسا ہونا چاہیے کہ اس نمونے یا اس قسم کا مال سودا کرتے وقت بازار میں بہ سہولت دستیاب ہو، یا عن قریب دستیاب ہوجانے کی توقع ہو۔

                ۳-            جتنی مدت کے بعد مال وصول ہوگا، اُس مدت کا بھی ٹھیک تعین ہو۔

                ۴-            قیمت بھی بالکل متعین اور مقرر ہو اور سودا کرتے وقت پیشگی ادا کردی جائے۔

                ۵-            سودے میں مال کی واپسی اور بیع کی منسوخی کی شرط نہ ہو۔

                ۶-            اگر مال کے نقل وحمل میں دقّت اور مصارف کا سامنا ہو، تو پھر اُس مقام کا بھی تعین ضروری ہے جہاں وہ مال مشتری کے سپرد کیا جائے گا۔(ایضاً، ص ۳۵۶-۳۵۷)


بلاسود بیمہ پالیسی

س: میرا بیٹا بیمہ پالیسی لینا چاہتا تھا۔ میں نے اسے منع کردیا۔ الحمدللہ اس نے پالیسی نہیں لی۔ بعدمیں اس نے بتایا کہ الفلاح بنک جو کہ مولانا تقی عثمانی نے بلاسود متعارف کرایا ہے، ان کی بیمہ پالیسی میں سود شامل نہیں ہے۔ کیا ان سے بیمہ پالیسی لی جاسکتی ہے؟

ج:  آپ نے اپنے بیٹے کو بیمہ پالیسی لینے سے منع کیا اور بیٹے نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔ اس پر آپ دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس دینی جذبے کو آپ کے لیے  دنیا اور آخرت میں رحمتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنادے، آمین! مولانا تقی عثمانی صاحب محقق،    عالمِ دین اور اسلامی معیشت کے ماہر ہیں۔ انھوں نے اگر کسی بنک کی پالیسی کو غیرسودی قرار دیا ہے تووہ درست ہے۔ اس بنک کی پالیسی لی جاسکتی ہے۔ (مولانا عبدالمالک)

جستجوے حق کا صحیح طریقہ

سوال: اگر ایک آدمی حق کی تلاش میں ہے اور وہ دل سے اس کی کوشش کرتا ہے لیکن اُسے کافی جدوجہد کے بعد بھی وہ نہیں ملتا تو کیا وہ بیچارہ حوصلہ ہار نہیں بیٹھے گا؟ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی انتہائی تاریکی میں اِس غرض سے سفر کرتا ہے کہ کہیں روشنی کا چراغ اسے ملے۔ لیکن سفر کرتے کرتے روشنی کا نشان تک اسے نہیں ملتا۔ آخر کو بیچارا تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ روشنی سرے سے ہے ہی نہیں، اگر کچھ ہے تو بس گھپ اندھیرا۔

ایک آدمی جو مصیبتوں، تکلیفوں اور ناکامیوں کے حصار میں گھرا ہوا ہے۔ جب کوشش کرکے ان مشکلات سے باہر نکل آتا ہے تو یہ تجربہ اُسے مطمئن کردیتا ہے اور وہ ایسی ذات کا قائل ہوجاتا ہے جو مصیبت زدہ کی پکار کو سنتی ہے اور مدد کرتی ہے۔ مگر ایک دوسرا شخص ہے جو ایک حصار سے نکلتا ہے تو دوسرا حصار، اور دوسرے سے نکلتا ہے تو تیسرا حصار اسے گھیر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے پیہم حصار پر حصار اُسے گھیرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ مسلسل چکر اُسے قطعی مایوس کردیتا ہے اور وہ کسی ایسی ذات سے، جو مصیبت میں کام آئے، مکمل طور پرنااُمید ہوجاتا ہے، کیونکہ بیچارہ باربار چلّاتا ہے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اور کبھی بیچارے کو اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ (البقرہ ۲:۲۱۴) کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ شخص اس لیے نااُمید ہوگیا ہے کہ بیچارے کی بیش تر خواہشات میں سے ایک بھی پوری نہیں ہوئی اور بیستکلیفوں میں سے ایک بھی رفع نہیں ہوئی۔ اگر کوئی ایک خواہش بھی پوری ہوجاتی، یا ایک تکلیف بھی رفع ہوجاتی تو وہ اس بات سے کُلّی طور پر مایوس نہ ہوتا کہ اُوپر کوئی بالاتر ہستی دعائیں سننے اور حاجتیں پوری کرنے والی موجود ہے۔

جواب:  آپ نے اپنے سوال کے آغاز میں جو بات لکھی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ حق کی تلاش ایک بنیادی خوبی ہے جو حق پانے کے لیے شرطِ اوّل کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تلاشِ حق مخلصانہ ہو، بلاتعصب ہو، اور دانش مندی کے ساتھ ہو۔ یعنی آدمی  اِس تلاش کے دوران میں حق اور باطل کے درمیان تمیز کرتا رہے اور جو چیز باطل نظر آئے اُسے  چھوڑ کر حق کو قبول کرتا چلا جائے۔ اس صورت میں یہ اِمکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ آدمی کو  گُھپ اندھیرے کے سوا کچھ نہ ملے۔

سوال کے دوسرے حصے میں آپ نے جو مثال پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ تلاشِ حق براے تلاشِ حق نہیں بلکہ اس غرض سے کر رہے ہیں کہ آپ مصیبتوں اور تکلیفوں اور ناکامیوں کے حصار سے نکل جائیں، اور آپ کو مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ کے جواب میں اَلَا اَنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ کی آواز نہ صرف یہ کہ سنائی دینے لگے بلکہ وہ جواب دینے والی ہستی آپ کے مصائب اور تکالیف اور ناکامیوں کا مداوا بھی کردے۔

میرے نزدیک تلاشِ حق کے لیے یہ نقطۂ آغاز ہی سرے سے غلط ہے جس کی وجہ سے آپ کو مایوسی لاحق ہوئی ہے۔ حق کی تلاش کا صحیح راستہ جو آپ کو اختیار کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ:

سب سے پہلے مطالعہ اور غوروفکر سے آپ یہ تحقیق کریں کہ آیا کائنات کا یہ نظام بے خدا ہے؟ یا بہت سے بااختیار خدائوں کی تخلیق سے بنا ہے اور وہ سب اِس کا نظام چلا رہے ہیں؟ یا اس کا ایک ہی خالق و مالک اور حاکم و منتظم ہے؟

اِس کے بعد آپ اِس کائنات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ تحقیق کریں کہ آیا یہ دارالعذاب ہے؟ یا عیش کدہ ہے؟ یا دارالامتحان ہے جس میں لذت اور الم، تکلیف اور راحت، کامیابی اور ناکامی، ہرچیز آزمایش کے لیے ہے؟

پھر آپ اِس دنیا میں انسان کی حیثیت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آیا وہ یہاں بالکل آزاد اور مختار مطلق ہے اور کوئی بالاتر طاقت اس کی قسمت پر اثرانداز ہونے والی نہیں ہے اور کسی بالاتر ہستی کے سامنے وہ جواب دہ نہیں ہے؟ یا زمین اور آسمان میں بہت سے خدا اس کی قسمت کے مالک ہیں؟ یا ایک ہی خدا اُس کا اور ساری دنیا کا خالق و حاکم ہے، اور وہ مختارِ مطلق ہے۔ ہماری لگائی ہوئی شرطوں کا پابند نہیں ہے، اور وہ ہمارے آگے جواب دہ نہیں بلکہ ہم اُس کے آگے جواب دہ ہیں، اور وہ یہاں اچھے اور بُرے سب طرح کے حالات میں رکھ کر ہمارا امتحان لے رہا ہے جس کا نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلے گا؟

اِن تین سوالات میں سے اگر آپ کی تحقیق ہر ایک کا جواب پہلی یا دوسری شکل میں دے تو آپ کو مایوسی کی حالت سے نکل کر اُمید کا راستہ پانے کی کوئی صورت بتانا میرے بس میں نہیں ہے۔ البتہ اگر آپ کی تحقیق ہر سوال کا جواب تیسری شکل میں دے تو یہی جواب آپ کو اطمینانِ قلب کی منزل تک پہنچا سکتا ہے، بشرطیکہ آپ مزید غوروفکر کرکے اس کے منطقی مضمرات (logical implications) کو اچھی طرح سمجھتے چلے جائیں۔

جب خداے وحدہٗ لاشریک ساری کائنات کے انتظام کو چلا رہا ہے تو کائنات کی آبادی کے بے شمار افراد میں سے کسی فرد کا یہ چاہنا ہی سرے سے غلط ہے کہ خدا کی ساری خدائی صرف اُس کے مفاد میں کام کرے۔

اور جب یہ دنیا دارالامتحان ہے تو اس میں پیش آنے والی ہرخوشی اور رنج، ہرمصیبت اور راحت، ہرکامیابی اور ناکامی دراصل انسان کی آزمایش کے لیے ہے۔ یہ بات جس شخص کی بھی سمجھ میں آجائے گی، وہ نہ کسی اچھی حالت پر اِترائے گا اور نہ کسی بُری حالت پر دل شکستہ ہوگا، بلکہ ہرحالت میں اس کی کوشش یہ ہوگی کہ خدا کے امتحان میں کامیاب ہو۔ دُنیا کے موجودہ نظام کی اِس حقیقت کو جان لینے کے بعد آدمی یہاں ایسی غلط تمنائیں دل میں پالے گا ہی نہیں کہ اِس زندگی میں اُسے خالص عیش اور بے لاگ لذت اور بے آمیز راحت اور دائمی کامیابی نصیب ہو اور کبھی اسے مصیبت، تکلیف، رنج اور ناکامی سے سابقہ پیش ہی نہ آئے۔ کیونکہ یہ دنیا نہ عیش کدہ ہے اور نہ دارالعذاب کہ یہاں محض لذت یا محض الم، یا محض راحت یا محض تکلیف، یا محض کامیابی یا محض ناکامی کہیں پائی جاسکے۔

اِسی طرح جب تیسرے سوال کا جواب آپ تحقیق سے یہ پالیں کہ خداے واحد خالق و حاکم ہے اور ہم مخلوق و محکوم، اور یہ کہ وہ مختارِ مطلق ہے اور ہم اس کے بندے ہوتے ہوئے اُسے اپنی شرطوں کا پابند نہیں بنا سکتے، اور یہ کہ وہ ہمارے سامنے نہیں بلکہ ہم اس کے سامنے جواب دہ ہیں، تو آپ کا ذہن کبھی خدا سے ایسی غلط توقعات وابستہ نہ کرے گا کہ ہم خود جس حالت میں رہنا چاہیں، وہ ہمیں اُسی حالت میں رکھے اور ہم جو درخواست بھی اُس سے کریں وہ ضرور اُسی شکل میں اُسے پورا کرے جو ہم نے تجویز کی ہے، اور ہم پر کوئی تکلیف، یا مصیبت اگر آہی جائے تو ہمارے مطالبے پر وہ اُسے فوراً دفع کردے۔

مختصر بات یہ ہے کہ صحیح معرفت کا ثمرہ اطمینان ہے، جو ہر اچھے یا بُرے حال میں یکساں قائم رہتا ہے، اور معرفت کے فقدان کا نتیجہ بہرحال بے چینی، اضطراب اور مایوسی ہے، خواہ عارضی طور پر انسان اپنی کامرانیوں سے غلط فہمی میں پڑ کر کتنا ہی مگن ہوجائے۔ آپ مایوسی سے نکلنا چاہتے ہوں تو پہلے حقیقت کا عرفان حاصل کرنے کی فکر کریں، ورنہ کوئی چیز بھی آپ کوگُھپ اندھیرے سے نہ نکال سکے گی۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، پنجم، ص ۱۷۳-۱۷۷)

فقر کا مفہوم

س:  آپ کے نزدیک فقر سے کیا مراد ہے؟

ج:  فقر کے لغوی معنی تو احتیاج کے ہیں لیکن اہلِ معرفت کے نزدیک اس سے مراد مفلسی اور فاقہ کشی نہیں ہے، بلکہ خدا کے سوا ہر ایک سے بے نیازی ہے۔ جو شخص اپنی حاجت مندی کو غیراللہ کے سامنے پیش کرے اور جسے غنا کی حرص دوسروں کے آگے سر جھکانے اور ہاتھ پھیلانے پر آمادہ کرے وہ لغوی حیثیت سے فقیر ہوسکتا ہے، مگر نگاہِ عارف میں دَرْیوزہ گر [بھکاری] ہے، فقیر نہیں ہے۔ حقیقی فقیر وہ ہے جس کا اعتماد ہر حالت میں اللہ پر ہو۔ جو مخلوق کے مقابلے میں  خوددار اور خالق کے آگے بندۂ عاجز ہو۔ خالق جو کچھ بھی دے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، اس پر  قانع و شاکر رہے اور مخلوق کی دولت و جاہ کو نگاہ بھر کر بھی نہ دیکھے۔ وہ اللہ کا فقیر ہوتا ہے نہ کہ بندوں کا۔ (ایضاً، ص ۳۶۶)

 

نیکی کی راہ میں مشکلات کیوں؟

سوال:  آج سے ایک سال قبل دنیا کے جملہ افعالِ بد سے دوچار تھا، لیکن دنیا کی بہت سی آسانیاں مجھے حاصل تھیں۔ میں نہ کسی کا مقروض تھا اور نہ منت کش۔ اور اب، جب کہ میں ان تمام افعالِ بد سے تائب ہوکر بھلائی کی طرف رجوع کرچکا ہوں، دیکھتا ہوں کہ ساری فارغ البالی ختم ہوچکی ہے اور روٹی تک سے محروم ہوں۔ سوال یہ ہے کہ  اچھے اور نیک کام کرنے والوں کے لیے دنیا تنگ کیوں ہوجاتی ہے، اور اگر ایسا ہے تو لوگ آخر بھلائی کی طرف کا ہے کو آئیں گے؟ یہ حالت اگر میرے لیے آزمایش ہے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے، تو یہ منزل میں کس طرح پوری کروں گا؟

جواب:  آپ جس صورت حال سے دوچار ہیں اس میں میری دلی ہمدردی آپ کے ساتھ ہے، اور میں آپ کا دل دکھانا نہیں چاہتا، لیکن آپ کی بات کا صحیح جواب یہی ہے کہ آپ فی الواقع آزمایش ہی میں مبتلا ہیں، اور اس منزل سے بخیریت گزرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ آپ    خدا و آخرت کے متعلق اپنے ایمان کو مضبوط کرکے صبر کے ساتھ نیکی کے راستے پر چلیں۔

آپ کو اس سلسلے میں جو اُلجھنیں پیش آرہی ہیں ان کو رفع کرنے کے لیے میں صرف چند اشارات کرنے پر اکتفا کروںگا۔

بدی کی راہ آسان اور نیکی کی راہ مشکل ہونے کی جو کیفیت آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا موجودہ اخلاقی، تمدنی، معاشی اورسیاسی ماحول بگڑا ہوا ہے۔   اس ماحول نے بہ کثرت ایسے اسباب پیدا کر رکھے ہیں جو بُرے راستوں پر چلنے میں انسان کی   مدد کرتے ہیں اور بھلائی کی راہ اختیار کرنے والوں کی قدم قدم پر مزاحمت کرتے ہیں۔ اگر خدا کے صالح بندے مل کر اس کیفیت کو بدل دیں اور ایک صحیح نظامِ زندگی ان کی کوششوں سے قائم ہوجائے توان شاء اللہ نیکی کی راہ بہت کچھ آسان اور بدی کی راہ بڑی حد تک مشکل ہوجائے گی۔ ایسا وقت آنے تک لامحالہ ان سب لوگوں کو تکالیف و مصائب سے دوچار ہونا ہی پڑے گا جو اس بُرے ماحول میں راہِ راست کو اپنے لیے منتخب کریں۔

تاہم، یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ نیکی بجاے خود اپنے اندر دشواری کا ایک پہلو رکھتی ہے، اور اس کے برعکس بدی کی فطرت میں ایک پہلو آسانی کا مضمر ہے۔ آپ بلندی پر چڑھنا چاہیں تو بہرحال اس کے لیے کسی نہ کسی حد تک محنت کرنی ہی پڑے گی، چاہے ماحول کتنا ہی سازگار بنا دیا جائے۔ لیکن پستی کی طرف گرنے کے لیے کسی کوشش اور محنت کی ضرورت نہیں۔ ذرا اعصاب کی بندش ڈھیلی کرکے لڑھک جایئے، پھر تحت الثریٰ تک سارا راستہ بغیر کسی سعی و محنت کے خود طے ہوجائے گا۔

آپ پوچھتے ہیں کہ اگر اچھے کام کرنے والوں کی زندگی تنگ ہوجاتی ہے تو دنیا اس طرف رُخ ہی کیوں کرے گی؟ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اگر اچھے کام کرنے والوں کو دنیا کی تمام سہولتیں اور آسایشیں بہم پہنچنے لگتیں، اور بُرے کام کرنے والوں پر آفتیں ٹوٹ جایا کرتیں تو پھر کون ایسا احمق تھا کہ برائی اختیار کرتا اور بھلائی سے منہ موڑتا۔ پھر تو کامیابی آسان اور ناکامی دشوار ہوتی،  جزا سستی اور سزا مہنگی ہوجاتی، انعام مفت ملتا اور عذاب پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی۔

کیا اس کے بعد دنیا کی اس امتحان گاہ میں انسان کو بھیجنے کا کوئی فائدہ تھا؟ اور کیا اس کے بعد نیک انسانوں کی نیکی کسی قدروقیمت کی مستحق قرار پاسکتی تھی، جب کہ ان کو نیکی کے راستے طے کرنے کے لیے قالین بچھا کے دیے گئے ہوں؟ درحقیقت اگر ایسا ہوتا تو جنت کے بجاے جہنم کی طرف جانے والے زیادہ قابلِ قدر ہوتے!

آپ کا یہ سوال ایک اور لحاظ سے بھی عجیب ہے۔ آپ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ لوگوں کے راہِ راست پر آنے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی اپنی غرض اٹکی ہوئی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر آپ پوچھتے ہیں کہ اگر راہِ راست مشقتوں اور آزمایشوں سے بھری ہوئی ہے تو دنیا اس راہ پر آئے گی ہی کیوں؟ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ راہِ راست اختیار کرنے میں لوگوں کا اپنا فائدہ ہے نہ کہ خدا کا، اور اس کے خلاف چلنے میں لوگوں کا اپنا نقصان ہے نہ کہ خدا کا۔ خدا نے انسان کے سامنے دو صورتیں رکھ دی ہیں اور اسے اختیار دے دیا ہے کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے۔ ایک یہ کہ وہ اس زندگی کے چند روزہ مزوں کو ترجیح دے کر آخرت کا ابدی عذاب قبول کرلے۔ دوسری یہ کہ وہ آخرت کی بے پایاں راحت و مسرت کی خاطر ان تکلیفوں کو گوارا کرے جو دین و اخلاق کے ضابطوں کی پابندی کرنے میں لامحالہ پیش آتی ہیں۔ لوگوں کا جی چاہے تو وہ پہلی صورت کو پسند کریں۔ اگر ساری دنیا مل کر بھی اپنے انتخاب میں یہ غلطی کرگزرے تو خدا کا کچھ نہ بگاڑے گی۔ خدا اس سے بے نیاز ہے کہ لوگوں کے صحیح انتخابِ راہ سے اس کا کوئی مفاد وابستہ ہو۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، رسائل و مسائل، دوم، ص۲۸۶-۲۸۸)

سحر کی حقیقت اور معوذتین کی شانِ نزول

س: معوذتین کی شانِ نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضور علیہ السلام پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے پڑھنے سے اس کا زائل ہوجانا بحوالہ احادیث تحریر فرمایا ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ نیز جادو کی حقیقت کیا ہے؟ بعض اشخاص حضورعلیہ السلام پر جادو کے اثر کو منصب ِ نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں؟

ج:  شانِ نزول کے بارے میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینے کی ہے کہ مفسرین جب کسی واقعے کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جب واقعہ پیش آیا اسی وقت وہ آیت نازل ہوئی تھی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس واقعے سے اس آیت کا تعلق ہے۔

مُعَوِّذَتَیْن کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ وہ مکے میں نازل ہوئی ہیں اور احادیث میں جادو کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بداہتاً غلط ہے کہ جب جادو کا وہ واقعہ پیش آیا اس وقت یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضوؐر کو ان سورتوں کے پڑھنے کی ہدایت فرمائی گئی۔

جادو کی حقیقت اگر آپ سمجھنا چاہیں تو قرآنِ مجید میں حضرت موسٰی ؑکا قصہ پڑھیں۔ جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کے جو سانپ بنائے تھے وہ حقیقت میں سانپ نہیں بن گئے تھے، مگر اس مجمع نے جو وہاں موجود تھا یہی محسوس کیا کہ یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، حتیٰ کہ خود حضرت موسٰی ؑکی آنکھیں بھی پیغمبر ہونے کے باوجود اس قدر مسحور ہوگئیں کہ انھوں نے بھی انھیں سانپ ہی دیکھا۔ قرآنِ مجید کا بیان ہے: فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ (الاعراف ۷:۱۱۶) ’’جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کر دیا اور انھیں مرعوب کر دیا‘‘۔ فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَ عِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی o فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۶۶-۶۷) ’’پس یکایک  ان کے جادو کی وجہ سے ان کی لاٹھیاں اور رسیاں موسٰی ؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں اور موسٰی ؑاپنے دل میں ڈر گیا‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ جادو قلب ماہیت نہیں کرتا بلکہ ایک خاص قسم کا نفسیاتی اثر ڈال کر آدمی کے حواس کو متاثر کردیتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جادو کی یہ تاثیر عام انسانوں پر ہی نہیں، انبیا ؑپر بھی ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اس ذریعے سے کوئی جادوگر کسی نبی کو شکست نہیں دے سکتا،  نہ اس کے مشن کو فیل کرسکتا ہے، نہ اسے اس حد تک متاثر کرسکتا ہے کہ وہ جادو کے زیراثر آکر منصب نبوت کے خلاف کوئی کام کرجائے، لیکن بجاے خود یہ بات کہ ایک نبی پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے، خود قرآن سے ثابت ہے۔

احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہونے کی جو روایات آئی ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی عقل، تجربے اور مشاہدے کے خلاف نہیں ہے، اور نہ قرآن کی بتائی ہوئی اس حقیقت کے خلاف ہے جس کی میں نے اُوپر تشریح کی ہے۔ نبی اگر زخمی یا شہید ہوسکتا ہے تو اس کا جادو سے متاثر ہو جانا کون سی تعجب کی بات ہے؟ روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ چند روز تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نسیان سا لاحق ہوگیا تھا اور وہ بھی تمام معاملات میں نہیں بلکہ بعض معاملات میں جزوی طور پر۔ (ا-م، ایضاً، ص ۵۳-۵۴)

اسلام بلاجماعت

س:  جو شخص آپ کی جماعت کے اصولوں کے مطابق اپنی جگہ حتی المقدور صحیح اسلامی زندگی بسر کر رہا ہو وہ اگر بعض اسباب کے ماتحت باقاعدہ جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

ج:  اس کے متعلق میرا وہی خیال ہے جو احادیث سے ثابت ہے کہ صحیح اسلامی زندگی جماعت کے بغیر نہیں ہوتی۔ زندگی کے صحیح اسلامی زندگی ہونے کے لیے سب سے مقدم چیز اسلام کے نصب العین (اقامت ِدینِ حق) سے وابستگی ہے۔ اس وابستگی کا تقاضا ہے کہ آدمی نصب العین کے لیے جدوجہد کرے، اور جدوجہد اجتماعی طاقت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا جماعت کے بغیر کسی زندگی کو صحیح اسلامی زندگی سمجھنا بالکل غلط ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص ہماری اس جماعت میں شامل نہ ہو اور کسی اور ایسی جماعت سے اس کا تعلق ہو جو یہی نصب العین رکھتی ہو اور جس کا نظامِ جماعت اور طریق جدوجہد بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اس صورت میں ہم اس کو برسرِہدایت ماننے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے کہ آدمی صرف ان طریقوں کی پابندی پر اکتفا کرتا رہے جو شخصی کردار کے لیے شریعت میں بتائے گئے ہیں اور اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔ ہم ایسی زندگی کو کم از کم      نیم جاہلیت کی زندگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے علم میں اسلامیت کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اگر آدمی کو اپنے گردوپیش ایسی کوئی جماعت نظر نہ آتی ہو جو اسلام کے اجتماعی نصب العین کے لیے اسلامی طریقے پر سعی کرنے والی ہو، تو اسے سچے دل سے ایسی ایک جماعت کے وجود میں لانے کی سعی کرنی چاہیے، اور اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جب کبھی ایسی جماعت پائی جائے وہ اپنی انانیت چھوڑ کر ٹھیک ٹھیک جماعتی ذہنیت کے ساتھ اس میں شامل ہوجائے۔ (ا-م، رسائل و مسائل، اوّل، ص ۳۱۸-۳۱۹)

 

کرسمس اور غیر مسلموں کی خوشیوں میں شرکت

سوال: ہم آسٹریلیا میں پاکستانی مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ہمارے چاروں طرف گورے آسٹریلین یا یورپین رہتے ہیں۔ یہاں ہر سال کرسمس اور نیا سال بڑی دھوم سے منایا جاتا ہے۔ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ آیا کرسمس یا ایسٹر یا نئے سال کے موقعے پر ہم مسلمان اپنے ہمسایوں (جن میں عیسائی، یہودی اور لادین وغیرہ قسم کے سب لوگ شامل ہیں) کو کرسمس مبارک یا نیاسال مبارک کہہ سکتے ہیں؟ کیا اُن کی خوشی کے موقعے پر ہم اُن کے گھرجا سکتے ہیں اور مبارک باد دے سکتے ہیں اور حلال اور حرام کا لحاظ رکھتے ہوئے اُن کو تحفہ تحائف دے سکتے ہیں؟یاد رہے کہ آسٹریلین گورے (صرف نام کے عیسائی ) ہمارے ساتھ تو بہت اچھی طرح پیش آتے ہیں اور اچھے دوست ثابت ہوتے ہیں۔ ہر شہر میں ہماری مساجد موجود ہیں اور اسلام پر عمل کرنے ، اسے پھیلانے اور تبلیغ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہماری تبلیغی کاوش کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

حضور اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کا غیر مسلموں کے ہاں آنا جانا اور حلال و حرام کا لحاظ رکھتے ہوئے اُن کے ہاں کھانا کھانا ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں کچھ مسلم علما نے غیر مسلم کو سلام کرنے، عیدمبارک کہنے یا اُن کے ہاں آنے جانے کے معاملے میں سخت رویہ اختیار کیا ہے، اور سلام کرنے، عید مبارک یا تحفہ تحائف کے لین دین کو ناجائز ٹھیرایا ہے۔آپ بتائیے کہ ہم لوگ اسلام کو ایک بین الاقوامی مذہب کے طور پر اور ایک روا دار آئیڈیالوجی  کے طور پر کیسے پھیلا سکتے ہیں، جب کہ ہم اُن کی خوشی کے موقعے پر تنگ دلی کا مظاہرہ کریں اور اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھے رہیں؟اگر ہم اسلامی حدود میں رہتے ہوئے اُن کو مبارک باد کہہ دیں، گھروں میں جائیں اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرلیں تو اس سے اسلام کے مقصد کو کون سا صدمہ پہنچے گا؟

جواب: آسٹریلیا اور دیگر ممالک جہاںمسلمان تعلیم یا ملازمت کی غرض سے مقیم ہوں، اسلام کی دعوت کے لیے وسیع میدان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور باشعور اہل ایمان جنھیں قرآن کریم شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (الحج۲۲:۷۸) سے تعبیر کرتا ہے جہاں کہیں بھی ہوں ان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ حالات کی مناسبت سے دعوت کی توسیع کے لیے کوشاں ہوں۔

مغربی ممالک میں سفید فام حضرات کا گذشتہ دو تین صدیوں میں عیسائیت سے تعلق کم ہوا ہے اور لادینیت میںاضافہ ہوا ہے۔ گو، روایتی طور پر یورپ ، امریکا اور آسٹریلیا کی سفید فام نسل یا افریقی النسل آبادی میں ایسے بہت سے تہوار بڑے اہتمام سے منائے جاتے ہیں جن کی ماضی میں ان کے مذہب کے ساتھ نسبت رہی ہو۔ آج کرسمس ہو یا ایسٹر، ان کی حیثیت ایک دنیوی تہوار  بلکہ ایک معاشی سرگرمی کی ہوگئی ہے۔ عموماً ان دونوں مواقع پر خاندان کے افراد کا دور دراز سے سفر کرکے یک جا ہونے اور ایک ساتھ کھانے میں شرکت کی روایت بن گئی ہے۔ گویا یہ معاشرتی اورسماجی تہوار بن گئے ہیں اور ان کی مذہبیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود کرسمس اور ایسٹر کے موقع پر کیتھولک فرقے کا سربراہ اپنے ماننے والوں کو روحانی پیغام دیتا ہے اور چرچوں میں خصوصی تقریبات اور دعائیں بھی کی جاتی ہیں۔

اہل ایمان کا کسی ایسی تقریب میں کہ جہاں اسلامی شعار کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، اہل اسلام کے خلاف منصوبہ بندی کی جا رہی ہو، یا مشرکانہ عبادات کی جارہی ہوں، ان میں شرکت کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ قرآن کریم نے ان سے اجتناب کرنے اور ایسے مواقع سے تیزی سے گزر جانے کی ہدایت کی ہے: ’’(اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغوچیز پر ان کا گزر ہو جائے توشریف انسانوں کی طرح گزر جاتے ہیں‘‘ (الفرقان۳۵:۷۲)۔ چنانچہ اگر یہ معلوم ہو کہ کسی دعوت میں شراب اور اس کے لوازمات کا اہتمام ہونا یقینی ہے تو اس میں شرکت سے لازمی طور پر اجتناب کرنا چاہیے، یا یہ معلوم ہو کہ کہیں محفل رقص منعقد کی جا رہی ہے اور کسی غیر مسلم پڑوسی نے دعوت دی ہے تو ہمسایگی کے حق کے باوجود اس میں شرکت سے معذرت کرنی ہوگی۔

کرسمس اور ایسٹر بظاہر معاشرتی اور سماجی نوعیت کے تہوار بن گئے ہیں، اور جو لوگ مسلم ممالک سے باہر مقیم ہیں، ان کے لیے ان تہواروں سے اپنے آپ کو بچانا ایک معاشرتی اور سماجی مشکل بن گیا ہے۔ اس حقیقت واقعہ کے پیش نظر، اگر خالصتاً دعوتی نقطۂ نظر سے کسی پڑوسی کو کرسمس یا ایسٹر کے موقعے پر کوئی تحفہ ، زبانی مبارک باد یا کارڈ بھیجا جائے اور اس طرح وہ اسلام کی دعوت سے قریب آ سکے تو اس حد تک ایسے کام کا کرنا حرام نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ حرام و حلال کو قرآن و سنت  نے متعین کر دیا ہے اور مشتبہات سے احتیاط کا حکم دیا ہے۔

آپ کا خیال درست ہے کہ اہل کتاب خصوصاً یہود و نصاریٰ کے ساتھ معاشرتی اور معاشی تعلقات پر تو کوئی پابندی نہیں ہے لیکن انھیں راز دار بنا کر،نیز ان پر وہ اعتماد کرنا جس کا ایک  صاحبِ ایمان مسحق ہے، قرآن و سنت کے منافی ہے۔ حضور نبی کریم ؐ نے ایک یہودی کے بھیجے ہوئے کھانے کو قبول فرمایا(یہ الگ بات ہے کہ آپؐ اور اسلام سے بغض کی بنا پر اس کھانے کو زہر آلود کر دیا گیا تھا)۔ ایسے ہی غیر مسلموں کی تیمارداری بھی سنت سے ثابت ہے۔ غیر مسلموں کی طرف سے اگرسلام میں پہل کی جائے تو جواب میں صرف ’وعلیکم ‘کہنا بھی اسلامی آداب میں شامل ہے۔   اصل مسئلہ فقہی باریکیوں کا نہیں ہے بلکہ فقہ الدعوۃ کا ہے، اور دعوت اسلام کو حکمت، موعظہ حسنہ اورعملِ صالح کے ساتھ دینے کا ہے۔ اس بنا پر غیر مسلموں کو شروع کے مطابق خوش آمدید کہنا، انھیں صبح بخیر یا شب بخیر کہنایا کرسمس یا ایسٹر پر مبارک باد دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی دفترمیں کام کرنے والے ایک عیسائی یا یہودی کی ترقی ہو اور آپ اسے ایک سماجی روایت کے طور پر مبارک باد دیں۔

اسلام ایک دعوتی دین ہے اور ہر مسلمان مرد اور عورت پر اجتماعی اور انفرادی حیثیت میں دین کی دعوت دینا فرض ہے۔ اس غرض کے لیے مخاطب کی زبان، ثقافت اور رہن سہن سے واقفیت حاصل کرنا دعوتی حکمت عملی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ مسلمان، جو مغربی دنیا میں مقیم ہیں، وہاں بسنے والے افراد کے ساتھ روابط قائم کریں، اور ایسے تمام کاموں سے مکمل طور پر بچتے ہوئے جن میں شرک اورممنوعات کا ارتکاب ہوتا ہو، حکمت کے ساتھ غیر مسلموں تک اپنی بات کو پہنچائیں۔

ایک ضمنی لیکن اہم پہلو یہ بھی سامنے رہے کہ غیر مسلموں کو دعوتی نقطۂ نظر سے اسلام سے قریب لانے کے لیے کرسمس یا ایسٹر پر مبارک باد دینے کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب میں مقیم مسلمان اپنے بچوں کی خوشی کے لیے اپنے گھر میں کرسمس کا درخت مع تزئینی روشنیوں کے لگائیں، اور اس عمل کے ذریعے وہ یہ سمجھیں کہ ’وسعت نظر‘ کا اظہار ہوگا۔ ایساکرنا دین کی واضح تعلیمات کے منافی ہے۔ اللہ کے رسولؐنے غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے کی مکمل ممانعت کی ہے۔ اس لیے ان کے تہواروں کا منانا اسلامی طور پر جائز نہیں ہو سکتا۔ نہ صرف یہ بلکہ جو لوگ باہر مقیم ہیں ان کا فرض ہے، اپنے بچوں کو ان تہواروں کے نہ منانے پر عقلی دلائل دے کر مطمئن کریں۔ اسلامی تہواروں ، دونوں عیدوں کے موقع پر گھر میں خصوصی اہتمام کریں اور بچوں کو تحائف، اچھے کھانے اور اچھے لباس کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر کھیلوں اور مقابلوں میں شرکت کروائیں تاکہ ایک صحت مند متبادل سرگرمی ان کے سامنے آئے۔

اسلام لازمی طور پر دیگر مذاہب کے متوازی وجود پر اعتراض نہیں کرتا، لیکن وہ ثقافتی اورمذہبی تکثیریت کو گوارا کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت اور دیگر مذاہب کی گمراہی کا اظہار کھل کر کرتا ہے۔برداشت اور رواداری کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مذہب کو سچا اور حق مان لیاجائے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ الہامی مذاہب اصلاً ایک ہی مأخذ سے نکلے ہیں،لیکن بعد میں ان میں وہ چیزیں شامل کر لی گئیں جن کا کوئی ثبوت اور دلیل الہامی ہدایت میں نہیں تھی، جب کہ اسلام قرآن وسنت کی بنا پر جیسا نازل ہوا، ویسا ہی اپنی اصل صورت اور غیر منحرف شکل میں محفوظ ہے۔ اور انسانیت کے تمام مسائل کا عقلی اور نقلی حل پیش کرتا ہے۔

مغرب میں دعوت دین دینے والے افراد کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ مقامی افراد کے مذہب، روایات تہواروں اور زبان سے پوری واقفیت حاصل کریں، تاکہ وہ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں سے حقائق پر مبنی باحکمت مکالمہ کر سکیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)

 

نماز میں خیالات کا آنا

سوال:  نماز پڑھنے کے دوران کئی قسم کے خیالات دل میں آجاتے ہیں اور بعض اوقات نماز میں بھول بھی ہوجاتی ہے۔ براہِ مہربانی اس کا علاج تجویز فرمایئے۔

جواب:  خیالات اور وساوس کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں ہے کہ آپ کی توجہ اللہ کی طرف بڑھتی چلی جائے۔ اللہ کی طرف توجہ بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی توجہ اور تفقہ سے قرآن پڑھے، صحبت صالح اختیار کرے اور دین کے کاموں میں اپنا دل لگائے۔

یہ وہ ذرائع ہیں جن سے اللہ کی طرف توجہ بڑھتی ہے۔ نتیجتاً اس کا اثر نماز میں بھی محسوس ہوتا ہے اور وساوس کا ہجوم رفتہ رفتہ کم ہونے لگتا ہے۔ یاد رکھیے نماز انسان کی وہ حالت ہے جو شیطان کو سب سے زیادہ ناگوار ہے۔ یہی سبب ہے کہ آدمی کی اس حالت میں اس کاحملہ سب سے زیادہ زوردار ہوتا ہے۔ وہ آدمی کی توجہ ہٹانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اب آدمی کا فرض ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرے اور توجہ کو اللہ کی طرف قائم رکھنے کی پوری کوشش کرے، اور یہ کوشش نیم دلانہ یا وقتی نہیں ہونی چاہیے بلکہ جہدِمسلسل ہونی چاہیے۔ آدمی کے لیے دنیا میں ہر وقت جدوجہد ہے اور نماز اس سے مستثنیٰ نہیں۔ یہاں بھی ویسی ہی کوشش کی ضرورت ہے جیسی کہ زندگی کے دیگر میدانوں میں ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اگر کچھ خیال بے ارادہ آجاتے ہیں تو وہ معاف ہیں۔ لیکن انھیں قصداً نہیں لانا چاہیے، اور نہ ان سے کھیلنے لگ جانا چاہیے۔ آپ کی تمام تر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اگر وہ آئیں تو ان کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ وساوس سے توجہ ہٹانے کی ایک اور کامیاب صورت یہ ہے کہ آپ معانیِ نماز پر توجہ مبذول رکھیں۔ یہ کہ میں زبان سے کیا کہہ رہا ہوں اور کیا پڑھ رہا ہوں۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، استفسارات، جلد اوّل، ص ۲۰۲-۲۰۳)

ترتیل قرآن کے آداب

س:  آپ نے ترتیل کا مفہوم بیان فرماتے ہوئے بتایا ہے کہ قرآن کو ٹھیرٹھیر کر اور سوچ سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ ہم لوگ جو خلافِ ترتیل پڑھنے کے عادی ہوگئے ہیں،   اس کی کیا حقیقت ہے، اس کا کچھ گناہ تو نہیں ہے؟

ج:  میرا خیال یہ ہے کہ خلافِ ترتیل پڑھنے کی وجہ بے سمجھے قرآن پڑھنا ہے۔ اگر آدمی قرآن سمجھ کر پڑھے تو مارا مار پڑھ ہی نہیں سکتا۔ جب وہ بے سمجھے پڑھتا ہے تو پھر رواں دواں پڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی توجہ اس طرف ہوتی ہی نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اس طرح کے پڑھنے والے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً قرآن مجید میں کسی جگہ جملہ استفہامیہ آیا ہے اور وہ اسے اس طرح سے پڑھ رہا ہے کہ گویا اس میں کوئی استفہام نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کے ذہن میں یہ بات ہی نہیں آئی ہے کہ وہ کیا چیز پڑھ رہا ہے۔ حالانکہ اگر وہ عبارت کو سمجھ کر پڑھ رہا ہوتا تواستفہامیہ جملے کو استفہام کے انداز میں پڑھتا۔ اس طرح سے بعض مواقع پر آپ دیکھیں گے کہ ذکر عذاب کا ہوتا ہے اور وہ اسے اس طرح سے پڑھ رہا ہوتا ہے کہ گویا بشارتیں ہورہی ہیں۔ اس پر کوئی رعب اور خوف طاری نہیں ہوتا تو دراصل یہ سب کچھ بے سمجھے پڑھنے کے نتیجے ہیں۔ ورنہ ایک آدمی بہت تیز اور رواں دواں نہیں پڑھ سکتا اور نہ کبھی اس طرح سے پڑھ سکتا ہے کہ جیسے اس کا دل اس کلام سے سرے سے متاثر ہی نہیں رہا۔

پھر ایک چیز مصنوعی ترتیل بھی ہے کہ آدمی پڑھ تو رہا ہے بے سمجھے لیکن اسے گاگا کر پڑھتا ہے۔ ایک فقرہ کہتا ہے اور پھر منٹوں سانس لیتا رہتاہے۔ اس چیز کا نام بھی ترتیل نہیں ہے۔ ترتیل اس چیز کا نام ہے کہ ایک ایک لفظ کو ٹھیک ٹھیک ادا کرتے ہوئے پڑھا جائے نہ یہ کہ آدمی ایک جملہ پڑھ کر کئی کئی منٹ تک سانس لیتا رہے۔ اس سے غنا کا لطف تو باقی رہ جاتا ہے لیکن کلام کی تاثیر ختم ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک آیت میں ایک بڑا اہم مضمون بیان ہو رہا ہے۔ لیکن طویل وقفے کی وجہ سے آگے کا مضمون آنہیں رہا۔ اب آگے کے مضمون سے جب تک اس کاتعلق جڑے گا نہیں، اس وقت تک اس کی معنویت اور تاثیر اُجاگر نہیں ہوتی۔ یہ چیز بھی ترتیل کے آداب کے خلاف ہے۔ (ا-م، ایضاً، ص ۱۱۲-۱۱۳)

قرآن کا پڑھ کر بھول جانا

س:  ایک حدیث میں قرآن پڑھ کر بھول جانے پر یہ وعید آئی ہے کہ ایسا شخص قیامت کے روز کٹے ہوئے ہاتھ کے ساتھ اُٹھے گا۔ کیا اس وعید کا اطلاق چند آیتوں یا ایک سورت بھول جانے پر بھی ہوتا ہے؟

ج:  جس حدیث میں یہ بات آئی ہے وہاں اس سے وہ بھولنا مراد نہیں ہے جو نسیان کی وجہ سے ہو، بلکہ اس سے وہ بھولنا مراد ہے جو غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے ہو۔ مثلاً ایک شخص کوقرآنِ مجید کی کچھ سورتیں اور نماز یاد کرائی گئی۔ بعد میں اس نے نماز بھی چھوڑ دی اور قرآن بھی چھوڑ دیا۔ پھر اُسے کبھی اس بات کا خیال تک نہ آیا کہ قرآن پڑھے۔ رفتہ رفتہ سب کچھ بھول گیا۔ یہاں تک کہ قُلْ ھُوَ اللّٰہ بھی یاد نہ رہا۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ کو متعدد ایسے لوگ ملیں گے کہ اگر انھیں فی الواقع نماز پڑھنے کے لیے کھڑا کر دیا جائے تو بچارے گرفتارِ بلا ہوجاتے ہیں۔ نہ تو انھیں   سورئہ فاتحہ یاد ہوتی ہے اور نہ سورئہ اخلاص۔ یہاں تک کہ انھیں یہ بھی یاد نہیں ہوتا کہ نماز کی ترتیب کیا ہوتی ہے اور اس میں کیا کچھ پڑھا جاتا ہے۔ دراصل یہ وہ بھولنا ہے جس پر مذکورہ حدیث میں وعید بیان ہوئی ہے۔(ا-م،ایضاً، ص۹۹)

ذہنی یکسوئی

س:  یک سوئی کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟ میں نماز پڑھتا ہوں یا مطالعہ کرتا ہوں تو ذہن کو یکسوئی سے محروم پاتا ہوں۔ یہ مقصد کس طرح حاصل کروں؟

ج:  اس مقصد کے لیے اپنی قوتِ ارادی سے کام لیجیے۔ بار بار شکست ہو تو بار بار کوشش کیجیے لیکن ہمت نہ ہاریئے اور نہ جدوجہد کو ترک کیجیے۔ نماز پڑھیں تو یہ سمجھ کر پڑھیں کہ آپ محض  چند رَٹے ہوئے الفاظ نہیں دُہرا رہے ہیں بلکہ اپنے خالق کے حضور کھڑے ہیں اور اس سے کچھ  کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح آپ مطالعہ کریں تو وہ متفرق موضوعات کا اور متفرق قسم کا مطالعہ نہیں  ہونا چاہیے۔ آپ systematic مطالعہ کریں اور اپنے مقصدحیات کو متعین کر کے مطالعہ کریں۔ ان شاء اللہ آپ یکسوئی کی نعمت حاصل کرلیں گے۔ (ا-م،ایضاً، ص۱۶۰)

 

مصارف زکوٰۃ میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد

سوال:  بعض ہم عصر علما کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ان بھلائی کے کاموں میں بھی دی جاسکتی ہے جنھیں چند افراد یا تنظیمیں انجام دیتی ہیں، مثلاً مسجدیں بنوانا یا ہسپتال اور مدرسے بنوانا یا یتیموں کا ٹرسٹ قائم کرنا وغیرہ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مصارفِ زکوٰۃ میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد ہر وہ نیک اور بھلائی کا کام ہے جو اللہ کی راہ میں کیا جائے، حالاں کہ جمہور مفسرین اور سلف صالحین کے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد جہاد ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا راے ہے؟ ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد صرف جہاد ہے یا پھر اسے عام کر کے اس سے مراد ہر نیک اور بھلا کام ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے۔

جواب:  بلاشبہ بعض علما کے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد وہ تمام بھلائی کے کام ہیں جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیے جائیں، مثلاً مسجدیں یا ہسپتال بنوانا وغیرہ۔ لیکن میرے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ کو عام معنوں پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ اس طرح ’فی سبیل اللہ‘ کے تحت زکوٰۃ کے مستحقین کی اتنی قسمیں ہوجائیں گی کہ شمار کرنا مشکل ہوگا۔ اس طرح زکوٰۃ والی آیت (توبہ ۹:۶۰) میں زکوٰۃ کے مستحقین کو آٹھ قسموں تک محدود رکھنے کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ مزید برآں اگر ’فی سبیل اللہ‘ کو عام معنی پر محمول کیا جائے تو اس سے مراد فقرا و مساکین بھی ہوں گے حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ والی آیت میں ان کا تذکرہ علیحدہ کیا ہے۔ پھر ان کا علیحدہ سے تذکرہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اللہ کا کلام بلاغت کے اعلیٰ معیار پر ہے اور یہ بات فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے کہ بے مقصد و فائدہ کسی چیز کی تکرار ہو۔ پس یہ معلوم ہوا کہ یہ تکرار بے مقصد نہیں ہے بلکہ درحقیقت ’فی سبیل اللہ‘ کا علیحدہ اور خاص مفہوم ہے۔

سلف صالحین اور جمہور مفسرین نے اس سے مراد ’جہاد‘ لیا ہے۔ دلیل کے طور پر انھوں نے احادیث اور صحابہؓ کے اقوال میں سے مثالیں پیش کی ہیں، مثلاً حضوؐر کی یہ حدیث ہے: ’’اللہ کی راہ میں صبح یا شام نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے‘‘(بخاری و مسلم)۔ اس حدیث میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد جہاد ہے۔ صحابہؓ نے ایک صحت مند نوجوان کو دیکھا تو فرمانے لگے: ’’کاش! اس کی جوانی اور تنومندی اللہ کی راہ میں ہوتی‘‘ (طبرانی)۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس کی جوانی جہاد کے موقعے پر کام آتی۔ اس سلسلے میں میری راے یہ ہے کہ ’فی سبیل اللہ‘ کو نہ صرف جہاد پر محمول کیا جائے اور نہ اسے عام کر کے ہر اس کام پر محمول کیا جائے، جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو۔

بلاشبہہ ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد ہے، لیکن جہاد کا مفہوم صرف جنگ کرنا نہیں ہے ،بلکہ اس سے بڑھ کر اس سے وسیع تر مفہوم اس میں شامل ہے، یعنی ہر وہ قدم جو اللہ کے دین کی نصرت اور اعلاے کلمۃاللہ کے لیے اُٹھے۔ جہاد صرف تلوار اور توپ سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی  قلم سے ہوتا ہے اور کبھی زبان سے۔ کبھی اقتصادی جہاد ہوتا ہے اور کبھی سیاسی۔ ان میں سے ہر جہاد میں مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر وہ کوشش اور قدم جو اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے اُٹھے اسے ’فی سبیل اللہ‘ کے مفہوم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

کبھی وہ زمانہ بھی تھا جب توپ اور تلوار سے جنگ کر کے اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوا، اور آج وہ زمانہ ہے جب فکری اور لسانی جنگ زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے بڑے بڑے معرکے سر کیے جاتے ہیں۔ جہاد کے اس وسیع تر مفہوم کو ثابت کرنے کے لیے میں چند دلیلیں پیش کرتا ہوں:

۱- نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کسی ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا (مسند احمد و نسائی)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کی ایک شکل لسانی جہاد بھی ہے۔

ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’مشرکوں سے جہاد کرو اپنے مال کے ذریعے، اپنی جان کے ذریعے اور اپنی زبانوں کے ذریعے‘‘ (مسنداحمد، ابوداؤد، حاکم)۔ معلوم ہوا کہ جہاد فقط تلوار کی جنگ کا نام نہیں ہے، بلکہ بسااوقات اور حسب ضرورت مال کے ذریعے جہاد ہوتا ہے۔ کبھی جسمانی قوت کا استعمال ہوتا ہے اور کبھی لسانی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے۔

۲- لفظ جہاد کو وسیع تر مفہوم پر محمول کرنے کے لیے اگر کوئی قطعی نص نہ بھی ہوتی تب بھی محض قیاس کی بنا پر ایسا کیا جاسکتا ہے کیونکہ جہاد چاہے تلوار سے ہو، چاہے قلم اور زبان سے،    ان میں سے ہر جہاد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے، یعنی اعلاے کلمۃ اللہ۔

یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ حالات اور ماحول کی مناسبت سے بعض کاموںکو ایک ملک میں جہاد تصور کیا جائے گا اور وہی کام بعض دوسرے ملکوں میں محض ایک رفاہی کام قرار پائے گا۔ مثلاً ایک ایسے ملک میں جہاں اسلام کا غلبہ ہے، مسلمانوں کی اکثریت ہے اور لوگ دینی تعلیم سے آگاہ ہوں وہاں کسی مدرسے یا مسجد کی تعمیر ایک رفاہی کام تو ہوسکتا ہے مگر جہاد نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس کسی غیرمسلم ملک میں جہاں مسلمانوں کی اقلیت ہو، اشاعتِ اسلام کی خاطر مسجد یا مدرسے تعمیر کرنا یقینا جہاد ہے۔ عیسائی مشنریوں کی مثال واضح ہے۔ انھوں نے چرچ، ہسپتال اور اسکول کی تعمیر کی آڑ لے کر عیسائیت کی جس قدر تبلیغ کی ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

درحقیقت اس دور میں جہاد فی سبیل اللہ کی سب سے عظیم صورت یہ ہے کہ مسلم ممالک جو کفار و مشرکین کے قبضے میں چلے گئے ہیں، انھیں بہ زور قوت واپس حاصل کیا جائے۔ کفار و مشرکین چاہے عیسائی ہوں یا یہودی ہوں یا کمیونسٹ، ان میں سے کوئی بھی اگر مسلم ممالک پر غاصبانہ قبضہ کرلیتا ہے تو اس وقت تک جہاد کی تمام صورتیں بروے کار لائی جائیں گی جب تک یہ علاقے مسلمانوں کو واپس نہیں مل جاتے۔ مثال کے طور پر فلسطین کا نام لیا جاسکتا ہے جس پر یہودی ظالمانہ طریقے سے غاصب ہوگئے ہیں، چنانچہ جہاں بھی اس طرح کی جنگ جاری ہو، ہمیں بھرپور مالی تعاون کرنا چاہیے۔ ان جگہوں پر زکوٰۃ کی رقم بھی ارسال کرنی چاہیے۔

البتہ ایک بات یہاں قابلِ ذکر ہے۔ آج اس دور میں دفاعی اخراجات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کے لیے علیحدہ بجٹ بنایا جاتا ہے اور یہ بجٹ بھی تمام دوسرے بجٹ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ بعض ممالک تو ایسے ہیں کہ ملکی خزانے کا ۵۰ فی صد دفاعی بجٹ کے لیے مخصوص کردیتے ہیں۔ اس قدر ضخیم بجٹ کے لیے زکوٰۃ کی تھوڑی سی رقم ہرگز کافی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے میری راے میں زکوٰۃ کی رقم جہاد کی ان صورتوں میں بھیجنا زیادہ بہتر ہے جنھیں لسانی، ثقافتی، فکری اور اعلامی جہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان صورتوں میں تھوڑی رقم بھی زیادہ نمایاں کام انجام دے سکتی ہے۔ ذیل میں بعض ایسی ہی صورتیں پیش کرتا ہوں:

۱- اسلامی دعوتی مرکزکا قیام، جہاں سے لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔

۲- خوداسلامی ممالک کے اندر اسلامی ثقافتی مراکز کا قیام جہاں مسلم جوانوں کی عملی تربیت ہوسکے اور انھیں اعلاے کلمۃ اللہ کی خاطر تیار کیا جاسکے۔

۳- اسلامی اخبارات و جرائد کا اجرا جو غیراسلامی صحافتی سرگرمیوں کے لیے چیلنج ہو۔

۴- اسلامی کتب کی نشرواشاعت جس میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور کفر کی ریشہ دوانیوں کو اُجاگر کیا جائے۔

یہ وہ چند صورتیں ہیں جہاں زکوٰۃ کی رقم ارسال کرنی چاہیے بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہرممکن طریقے سے ان تمام سرگرمیوں میں دل کھول کر مالی تعاون کرنا چاہیے۔ (ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ سید زاہد اصغر فلاحی، مرکزی مکتبہ اسلامی ، نئی دہلی، ص ۱۴۳-۱۴۶)

کافر کو زکوٰۃ دینا

س:  کیا کسی کافر یا ملحد کو محض انسانی بنیادوں پر زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، اگر وہ مالی تعاون کا محتاج ہو؟ یا کسی فاسق مسلمان شخص کو جو نماز روزے سے لاپروا ہو اور حرام کاموں میں ملوث ہو، اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے؟ یا ان لوگوں کو زکوٰۃ دینا اللہ کی نافرمانی شمار کی جائے گی؟

ج:  جو شخص سرے سے اللہ، اس کے رسولوں اور یومِ آخرت کا منکر ہو تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینی جائز نہیں ہے، کیوں کہ وہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں کا دشمن تصور کیا جائے گا۔ اسے مالی طور پر مستحکم کرنا، گویا، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرِپیکار ہو اور علی الاعلان ان سے دشمنی کی باتیں کرتا ہو، اسے بھی زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ انھیں زکوٰۃ دیناگویا ان سے موالات اور مواخات قائم کرنا ہے اور اللہ نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے۔

البتہ وہ ذمی شخص جو مسلم حکومت کی سرپرستی میں ہے، بعض فقہا کے نزدیک محض تالیفِ قلب کی خاطر اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ لیکن جمہور فقہا کا قول ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ذمی کو بھی نہیں دی جاسکتی کیوں کہ زکوٰۃ ان ذمیوں سے وصول نہیں کی جاتی ہے اور جب وصول نہیں کی جاتی تو انھیں دی بھی نہیں جاسکتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ مسلمان مال داروں سے لی جاتی ہے اور مسلمان غریبوں کی طرف لوٹا دی جاتی ہے۔ البتہ ان ذمیوں کی زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے طریقوں سے مدد کی جاسکتی ہے اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں۔

رہے وہ مسلمان جو فاسق و فاجر ہیں، نماز نہیں پڑھتے اور حرام کام کرتے ہیں، تو انھیں زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، بہ شرطے کہ وہ اس رقم کو اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں خرچ نہ کریں۔ اگر وہ اس رقم کو گناہوں کے کاموں میں خرچ کریں، مثلاً شراب پینے میں یا جوا کھیلنے میں، تو زکوٰۃ کی رقم انھیں ہرگز نہیں دی جائے گی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے اہلِ بدعت اور اہلِ فسق و فجور کی زکوٰۃ کی رقم دینے کے سلسلے میں سوال کیاگیا تو فرمایا: ہمیں چاہیے کہ ہم ان فقرا و مساکین اور دوسرے مستحقین زکوٰۃ کو تلاش کریں جو اللہ کی شریعت پر قائم ہوں اور نیک مسلمان ہوں۔ رہے وہ لوگ جو فاسق و فاجر ہیں اور اہلِ بدعت ہیں تو وہ سزائوں کے مستحق ہیں نہ کہ مدد کے۔ وہ شخص جو نماز نہیں پڑھتا ہے، اس سے نماز پڑھنے کے لیے کہا جائے گا۔ اگر اس نے نماز پڑھنا شروع کر دی تو اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ورنہ نہیں۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج۲۵، ص ۸۷)

محترم استاد الشیخ محمد ابوزہرہ کی راے ان سے مختلف ہے۔ وہ گنہگاروں کو بھی زکوٰۃ دینے کے حق میں ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے:

۱- زکوٰۃ والی آیت میں فقرا و مساکین کا لفظ عام ہے۔ اس میں اہلِ معصیت اور اہلِ تقویٰ کے درمیان فرق نہیں ہے۔ اگر ہم غیرمسلموں کو تالیفِ قلب کی خاطر زکوٰۃ کی رقم دے سکتے ہیں تو فاسق مسلمانوں کو بدرجہ اولیٰ دے سکتے ہیں۔

۲- ہم کسی گنہ گار مسلمان کو جو مالی تعاون کا سخت محتاج ہے، محض اس کی معصیت کی بناپر زکوٰۃ نہیں دیتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے زندہ رہنے کا حق چھین رہے ہیں۔ تلوار سے مارنا اوربھوک سے مارنا دونوں میں زیادہ فرق نہیں۔

۳- مشکل وقتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی مدد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے صلح حدیبیہ کے بعد ابوسفیان کے پاس ۵۰۰ دینار بھیجے تھے، کیوں کہ قبیلہ قریش قحط کا شکار ہوگیا تھا۔

۴- اہلِ معصیت کو مالی تعاون نہ دینا بسااوقات انھیں مزید سرکشی کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ (بحث شیخ ابوزہرہ، ص ۷۵، ۷۶)

میں سمجھتا ہوں کہ استاد محترم محمد ابوزہرہ کی ان دلیلوں پر کلام کیا جاسکتاہے:

۱- ان کی پہلی دلیل فقر اور مساکین کا عموم ہے۔ اس عموم کی تخصیص اسلام کے اس   قاعدۂ کلیہ سے ہوسکتی ہے جس کے مطابق اصل معصیت کی ہرممکنہ زجروتوبیخ ہونی چاہیے اور معصیت میں ان کے تعاون سے پرہیز کرنا چاہیے۔ چنانچہ اسی زکوٰۃ والی آیت میں لفظ  الغارمین کا بھی استعمال ہے اور وہ بھی بظاہر عام ہے، جب کہ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ ان قرض خوروں کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی جنھوں نے غلط کاموں کے لیے قرض لیا ہو۔

۲- ہم کہاں کہہ رہے ہیں کہ گنہ گاروں کو بھوک سے مرتا چھوڑ دیں۔ زکوٰۃ کے علاوہ دوسری مدوں سے بھی ان کی مدد کی جاسکتی ہے بلکہ کرنی چاہیے۔

۳- کفار و مشرکین کی صلہ رحمی زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے پیسوں سے کی جاسکتی ہے جیساکہ حضورؐ نے کیا۔

درج ذیل صورتوں میں تمام فقہا کا اتفاق ہے:

۱- اہلِ معصیت کی مدد زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے پیسوں سے کی جاسکتی ہے۔

۲- تالیفِ قلب کی خاطر اہلِ معصیت کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔

۳- جاں بلب شخص چاہے وہ اہلِ معصیت ہی کیوں نہ ہو، اس کی جان بچانے کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔

۴- اگر یہ یقین ہو کہ اہلِ معصیت زکوٰۃ کی رقم کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرے گا تو اسے زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔

میری راے یہ ہے کہ اہلِ معصیت دو طرح کے ہیں: ایک وہ ہیں جو گناہ کرتے ہیں لیکن گناہوں پر شرمندہ بھی ہیںاور اسلام سے ان کا رشتہ باقی بھی ہے۔ ان گنہ گاروں کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ البتہ وہ حضرات جو صرف نام کے مسلمان ہوں اور اسلامی احکام و شعائر کا مذاق اُڑاتے ہوں، تو انھیں زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی۔ (م ی ق، ایضاً، ص ۱۴۷-۱۴۹)

مختلف النوع تجارتی اموال پر زکوٰۃ

س:  اس زمانے میں رأس المال، یعنی اصل پونجی جسے ہم تجارت میں لگاتے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً:

۱- بعض اوقات اصل پونجی متحرک شکل میں ہوتی ہے، مثلاً کاریں، کل پرزے اور ہر وہ تجارتی چیز جو فروخت کی خاطر دکانوں میں رکھی جاتی ہے، مثلاً کپڑے اور کھانے کی چیزیں وغیرہ۔

۲- بعض اوقات پونجی اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ وہ اپنی جگہ ثابت ہوتی ہے، مثلاً آفس، کمپیوٹر اور آفس میں ڈیکوریشن یا ضرورت کی خاطر استعمال کیے جانے والے فرنیچر۔

۳- بعض اوقات پونجی جایداد کی صورت میں ہوتی ہے، مثلاً عمارت اور زمین۔

۴- بعض اوقات پونجی قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے اور قرضے بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بعض کی واپسی ممکن ہوتی ہے خواہ تاخیر سے ہو اور بعض کی واپسی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔

یہ ہیں تجارت میں لگائی گئی پونجی کی چند صورتیں۔ اس دور میں تجارت میں اس قدر تنوع اور توسع آچکا ہے کہ زکوٰۃ نکالنے والے بعض دفعہ حیران و پریشان رہتے ہیں کہ کس مال میں زکوٰۃ نکالی جائے اور کس میں نہیں؟ آپ سے تشفی بخش جواب مطلوب ہے۔

ج:  آپ نے جس طرح ترتیب وار صورتوں کا تذکرہ کیا ہے، میں بھی اسی ترتیب سے جواب دیتا ہوں:

۱- پہلی صورت، یعنی وہ اصل پونجی جو متحرک شکل میں ہوتی ہے، مثلاً کاریں جو فروخت کی خاطر ہوتی ہیں یا کپڑے اور جوتے وغیرہ جو دکانوں میں فروخت کی خاطر رکھے جاتے ہیں، فقہ کی اصطلاح میں انھیں عروض التجارۃ کہتے ہیں، یعنی وہ تجارتی اشیا جنھیں فروخت کر کے ان سے نفع کمانا مقصود ہو۔ چونکہ عروض التجارۃ سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے اس لیے اس میں زکوٰۃ فرض ہے۔

۲- اسی طرح وہ چیزیں جو متحرک نہیں بلکہ ثابت صورت میں ہوتی ہیں، مثلاً آفس، آفس کا فرنیچر اور کمپیوٹر، ٹائپ رائٹر وغیرہ تو انھیں عروض التجارۃ (مالِ تجارت) نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ وہ مالِ تجارت نہیں جن سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے بلکہ نفع کمانے کے لیے انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فقہا کا قول ہے: ’’وہ برتن، فرنیچر اور الماریاں وغیرہ جن میں تجارتی اشیا رکھی جاتی ہیں یا جنھیں تجارت میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً ترازو وغیرہ تو زکوٰۃ کی خاطر ان کی قیمت نہیں لگائی جانی چاہیے اور نہ ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔

۳- جایداد اگر تجارتی نقطۂ نظر سے خریدی جائے اور اسے فروخت کر کے اس سے فائدہ کمانا مقصود ہو تو اس جایداد کی قیمت لگاکر اس پر زکوٰۃ نکالنا واجب ہے۔ البتہ اگر زمین خرید کر   اس پر کرایہ کی خاطر گھر یا دکان بنائی جائے، تو اس زمین پر نہیں بلکہ اس کے کرایے پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ اس صورت میں زکوٰۃ کی شرح کیا ہوگی؟ ڈھائی فی صد زکوٰۃ ادا کی جائے گی جیساکہ عروض التجارۃ میں ہے یا ۵ فی صد یا ۱۰ فی صد، جیساکہ کھیتی کی زمین میں غلے پر زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔

۴- رہے قرضے تو ان میں سے وہ قرضے جن کی واپسی ناممکن ہو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ اگر کسی زمانے میں واپس ہوجائیں تو ان پر ایک سال کی زکوٰۃ فرض ہے۔ البتہ وہ قرض جن کی واپسی عین ممکن ہو تو انھیں اپنی ملکیت تصور کر کے ان پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔

تجارت کی ایک صورت اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کمپنی کی ایجنسی لے لی جائے اور اپنی ایجنسی میں کمپنی کا سامان فروخت کی خاطر رکھا جائے۔ اس سامان کا حکم یہ ہے کہ اس کی حیثیت امانت کی سی ہوتی ہے۔ یہ سامان کمپنیوں کی طرف سے بطور امانت ایجنسیوں میں رکھے جاتے ہیں۔ اس لیے ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ (م ی ق، ایضاً، ص ۱۳۶-۱۳۷)