دسمبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

’بدل دو نظام تحریک‘، اہداف اور لائحہ عمل

حافظ نعیم الرحمٰن | دسمبر ۲۰۲۵ | اشارات

Responsive image Responsive image

الحمدللہ، جماعت اسلامی پاکستان کا ملک گیر سطح پر اجتماع عام ۲۱ تا ۲۳ نومبر ۲۰۲۵ء لاہور میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں لاکھوں مردو خواتین، بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں نے شرکت کی اور ایک بڑی تعداد آن لائن اس کی کارروائی کی سماعت سے وابستہ رہی۔ اس موقعے پر جن بہت سے اُمور کی طرف متوجہ کیا گیا، ان میں سے چند پہلوئوں کی طرف یہاں پر متوجہ کیا جارہا ہے: 

مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں یہ بات قرآن و سنت سے اخذ کر کے بتائی اور سمجھائی کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں اس جدوجہد کے لیے تحریک اسلامی کی صورت میں یہ اجتماعیت مل گئی۔ ہماری زندگی کا مقصد اللہ ربّ العالمین کے دین سے وابستہ ہو کر اس کی سربلندی اور اس نظام کو غالب کرنے کے لیے آخری دم تک جدوجہد کرنا ہے۔ 

اقامت ِ دین کی اس جدوجہد کے ذریعے جب ہم پورے نظام کو بدلنے جیسا بڑا کام لے کر اُٹھے ہیں تو اس میں پہلی بات یہ ہے کہ وہ سب لوگ جو اس کارِعظیم سے وابستہ ہیں وہ نماز کو قائم کریں یعنی نمازوں کو پابندی سے اور نماز کی روح کے مطابق ادا کریں۔  

ہماری اُمنگوں کا مرکز یہ ہونا چاہیے کہ قرآن کریم ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائے۔ جب کھائے پیئے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن کے بغیر اسلام کی دعوت کے علَم بردار کی زندگی گزر رہی ہو۔ روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کریں، اسے سمجھ کر پڑھیں اور اس کا فہم حاصل کریں۔ ہر وہ شخص جسے قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا،آج سے قرآن حکیم کو سیکھنے کا آغاز کرے۔ ایک ایک فرد کم از کم اگلے چار پانچ مہینوں میں کسی ایک فرد کو قرآن حکیم پڑھنا سکھا دے۔ اس طرح ایک تو قرآن حکیم کی تعلیم پھیلتی ہے اور دوسرا دعوتی رابطہ بڑھتا ہے۔ قرآن پاک کو اپنی گفتگوؤں میں اور اپنی تنہائیوں میں ہم سب یاد رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارا ہاتھ پکڑ لے گا۔ یہ قرآن تو ہماری آنکھوں کا نُور ہے، دل کا سرور ہے، ہمارے اخلاق کو سنوارتا ہے اور ہمیں راہ نمائی دیتا ہے۔ 

اسی طرح اپنے معاملات کی اصلاح فرمائیے۔ ایک قسم کے معاملات وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن کا تعلق حقوق العباد یعنی آپ کے لین دین سے ہے، آپ کے رشتوں اور تعلقات سے ہے۔ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فرائض اپنے اہل خانہ اور دیگر رشتہ داروں کے لیے عائد ہوتے ہیں، ان سب کا اہتمام کریں۔ لین دین میں کوتاہی نہ کریں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی وجہ سے تعلقات کو خراب نہ کریں۔ جب بھی کوئی معاملہ کریں تو اسے صاف لفظوں میں لکھ لیا کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ 

  • ظلم کے خلاف عالمی ردعمل:دُنیا بھر کے باضمیر انسانوں میں یہ احساس شدت سے موجود ہے کہ دُنیا ظلم پر نہیں چل سکتی۔ ظلم کے خلاف عالمی ردعمل پایا جاتا ہے۔ دُنیا بھر کے مظلوموں کو اکٹھا کرنا تحریک اسلامی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں اہل کتاب کو مخاطب کرکے فرمایا گیاہے: قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا    مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن۳:۶۴) ’’اے نبی، ؐ کہو، اے اہل کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔  یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا ربّ نہ بنا لے‘‘___اس لیے دُنیا بھر کے مظلوموں اور مجبوروں کو، موجودہ نظام کے ستائے ہوئوں کو، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، ہماری دعوت میں اتنی طاقت ہے کہ ہم انھیں اپیل کریں اور انھیں اپنے ساتھ جوڑتے چلے جائیں، کیوں کہ اُمت مسلمہ کو قرآن کریم میں اُمتِ وسط کہا گیا ہے۔ 

 اسی طرح مقامی حالات، مسائل اور مشکلات سے واقفیت ہماری ذمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی  ہرسطح پر پائے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے گی، لیکن جماعت اسلامی اور دوسروں میں ایک بنیادی فرق ہے کہ ہم اس راستے پر چلتے ہوئے قوم پرست نہیں بنیں گے۔ ہمارے لہجے میں نفرتیں نہیں ہوں گی۔ ہم آبادیوں کو تقسیم نہیں کریں گے۔ ہم بلوچستان کو پنجاب اور پنجاب کو خیبرپختونخوا اور سندھ سے نہیں لڑائیں گے۔ ہم پاکستان سے شکوہ کیوں کریں؟ پاکستان پہ تو چندعاقبت نااندیش طبقوں کا قبضہ ہے۔ پاکستان لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بنا ہے اور پاکستان کے ۲۵ کروڑ عوام کا ہے۔ 

یاد رکھیے،جہاں عدل نہیں ہوتا وہاں محرومی پیدا ہوتی ہے۔  نفرت لوگوں، قومیتوں یا علاقوں سے نہیں، بلکہ نفرت ظلم کے نظام سے ہونی چاہیے۔ ہمارے کسی رویے سے پاکستان پر کوئی حرف نہیں آنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے طریق کار کے مطابق ہی ہم اپنے مقامی مسائل اور مشکلات کو اُجاگر کریں گے۔ درحقیقت حق اور سچ اور عدل کی بنیاد پر ہی بات ہونی چاہیے۔  

لائحہ عمل اور اہم اہداف 

اسی مقصد کے لیے ہم نے ’بدل دو نظام تحریک‘ کا آغاز کیا ہے۔ اس کا لائحہ عمل اور اہم اہداف درج ذیل ہیں: 

  • آزاد خارجہ پالیسی: ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی، آزاد خارجہ پالیسی ہو۔ ہم دُنیا کی قوموں کے ساتھ دوستی کریں گے تو عزّت اور احترام کے ساتھ۔ 

کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ پاکستان کی حکومت پر ہم زور دیتے ہیں کہ وہ اپنا فریضہ انجام دے۔پورا پاکستان کشمیریوں کا بیس کیمپ ہے، صرف آزاد کشمیر بیس کیمپ نہیں ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، جن کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ اس مطالبے سے ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ثالثی کی باتیں کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ کشمیر پر ثالثی تسلیم کرنے کا مطلب مسئلہ کشمیر کو دفن کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ اس لیے اس راستے کا کسی کو سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اہل کشمیر کی اخلاقی، سفارتی اور ہر ممکن مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔  

فلسطین کا مسئلہ ہمارے لیے ایمان کا مسئلہ ہے۔ ہم اہل فلسطین کے لیے کسی دو ریاستی حل کو تسلیم نہیں کرتے۔ فلسطین کے حوالے سے ہم اقوام متحدہ میں صدر ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کو اور نام نہاد ابراہیم اکارڈ کو قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح غزہ میں کسی بھی صورت میں پاکستان کی فوج نہیں بھیجنی چاہیے۔  پاکستان کا اصولی موقف قائداعظم محمد علی جناحؒ سے لے کر آج تک واضح طور پر ایک ہی ہے کہ فلسطین ایک ریاست ہے اور اسرائیل کو ہم ناجائز قبضہ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے وہاں پر کسی علاقے میں ریاست قائم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ 

  • نوجوان نسل خصوصی ہدف: پاکستان میں ۶۵ فی صد آبادی تقریباً ۳۰ سال تک کی عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ ۳۰ سال تک کی عمر کے لوگوں میں جو ۱۴سال سے زیادہ عمر کے ہیں وہ ’جنریشن زی‘ کہلاتے ہیں۔ یہ ’جنریشن‘ دُنیابھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی رابطے میں ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کی سوچ بھی ایک جیسی ہے۔ اس ’جنریشن‘ کو سمجھنا، سمجھانا، سنبھالنا اور مثبت راہوں پہ چلانا ہماری بڑی ہی بنیادی ذمہ داری ہے۔ 

بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوان طبقے پر تعلیم،روزگار اور آگے بڑھنے کے دروازے بند ہیں۔ ۸۰،۹۰ فی صد نوجوانوں کی راہ میں طبقاتی نظامِ تعلیم ایک دیوار بن کر کھڑا ہے۔ یہی حال ہماری قوم کی بچیوں کا ہے۔ این جی اوز ان کا نام لے کر نعرے تو لگاتی ہیں، مگر ان کے پاس ان کے لیے کوئی مثبت پروگرام نہیں ہے۔ 

دنیا بدل رہی ہے۔ اس لیے ہم ’بدل دو نظام‘ کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ’زی کنیکٹ‘ پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم آئی ٹی ایجوکیشن میں جو کر سکتے ہیں وہ کریں گے۔ ہم ریاست اور حکومت تو نہیں ہیں، لیکن ہم عوام کے ذریعے اور عام لوگوں کے وسائل سے ان شاءاللہ اپنی نوجوان نسل کو ’بنوقابل پروگرام‘ کے تحت آئی ٹی کے کورسز بھی کرائیں گے۔ اور ان کو اس قابل بنائیں گے کہ یہ اپنا روزگار حاصل کر سکیں۔ 

 اسی طرح ہم ’ووکیشنل ٹریننگ‘ کا اہتمام بھی کریں گے، جس میں نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھائے جائیں گے اور ان کے روزگار کی فراہمی کی راہ ہموار کریں گے۔اسی طرح ہمارا مائیکرو فنانسنگ کا پروگرام بھی روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد کرے گا۔ 

ہم لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ’ٹیلنٹ ہنٹ ‘ پروگرام کے ذریعے اسپورٹس کی سہولت فراہم کرنے کے لیے آواز اُٹھائیں گے اور اہتمام کریں گے۔ حدود و قیود میں رہتے ہوئے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ اسپورٹس سرگرمیاں ہوں تو یہ جائز ہیں۔ اسپورٹس کا بھی بُرا حال ہے۔ گراؤنڈز عام لوگوں کو مہیا نہیں ہیں اور جو کلب ہیں، وہ بہت پیسے لیتے ہیں۔ جس طرح تعلیم طبقات میں تقسیم ہو گئی ہے، اسی طرح کھیل بھی طبقات میں تقسیم ہوگئے ہیں۔  

اس ’جنریشن زی‘ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی کسی چیز پر زیادہ دیر توجہ نہیں رہتی۔ جس کا ایک سبب معلومات کا زبردست بہائو بھی ہے۔ جب توجہ مرکوز نہیں رہتی تو اس کے نتیجے میں اس نسل کے لیے کسی ایک کام مرکوز ہوکر کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ’جنریشن زی‘ کی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان کی تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ان کی فکری، اخلاقی، سماجی اور فنی تربیت کی جائے۔ اخلاقیات، تربیت اور راہ نمائی کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ  علیہ وسلم کی زندہ اور قابلِ عمل اور سدابہار تعلیمات موجود ہیں۔ہم اس مقصد کے لیے یہ اہتمام کریں گے کہ عالمی اسلامی تحریکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راہیں نکالیں۔ 

اسلامی تحریک تمام مسلّمہ اسلامی فقہا اور مکاتب ِ فکر کا احترام کرتی ہے اور ان کی راہ نمائی سے استفادہ کرتی ہے۔ یہ تحریک کسی ایک فقہی مکتب ِ فکر کی علَم بردار نہیں بلکہ سبھی مسلّمہ مکاتب ِ فکر کے وابستگان کو ساتھ لے کر چلنے کی داعی ہے۔اس لیے حکمت کی زبان، دین کی ترجیحات کی زبان اور دعوت میں وسعت اور اختلافات میں گنجائش پیدا کرنا ہی درحقیقت اسلامی تحریک کا خاصہ ہے۔ سیّدمودودی جیسے عظیم مفکر، مدبر اور داعی تحریک نے بھی جماعت اسلامی کو اپنی فقہی رائے کا پابند نہیں بنایا۔ 

  • پاکستان کا نظریاتی تشخص: نوجوانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مستقبل کی جڑیں ماضی میں ہوتی ہیں۔ ماضی کو بھول کر اگر کوئی وقتی طور پر آگے بڑھ بھی جائے تو کچھ عرصے کے بعد تنہا رہ جائے گا۔ اس لیے اپنے خاندان،اپنے بزرگوں، اپنے والدین اور اپنے اساتذہ کی عزّت کرنا اپنے اُوپر لازم کرکے ان کے تجربات سے سیکھیں۔ اسی طرح پاکستان کی تاریخ پڑھنا ضروری ہے کہ کس طرح لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں قربانیاں دی تھیں تو یہ ملک بنا تھا اور یہ سب قربانیاں اس آرزو کی تکمیل کے لیے پیش کی گئی تھیں کہ پاکستان کی صورت میں ایسا خطۂ ارضی ہمیں ملے جہاں ہم اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں۔پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ اس ملک کی بنیاد تھا۔ہم ظلم و ستم اور محرومیوں کے موجودہ نظام کو بدلنے کی راہ پر چل رہے ہیں اور پاکستان کو حقیقی پاکستان بنانا ہمارا مطمح نظر ہے۔ 

پاکستان، کسی زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں ہے۔پاکستان ایک نظریے کا نام ہے۔ مشرقی پاکستان میں ہمارے رفقا نے اسی نظریے کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کی تھیں۔ وہ حق اور سچ کی بنیاد پر کھڑے رہے، کیونکہ ان کے نزدیک پاکستان جغرافیہ کے لیے نہیں بلکہ عقیدے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا، اور اسی عقیدے کی بنیاد پر انھوں نے اس کی حفاظت کی تھی۔ اسی لیے انھوں نے یہ فیصلہ کیا اور قربانیاں دیں، ظلم و ستم سہتے رہے، اور پھانسیوں کے پھندوں پہ جھولتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو حق کردکھایا اور باطل کا باطل ہونا واضح کردیا۔ ہم برادر مسلم ملک بنگلہ دیش کی سالمیت، آزادی اور ترقی کے لیے دُعاگو ہیں۔ 

  • آئین کی بالادستی کا قیام: آئین کی رُو سے حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور قرآن و سنت کے منافی کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔لہٰذا ،کوئی بھی ایسی ترمیم جو آئین کی اس مسلّمہ بنیاد سے ٹکراتی ہو، وہ کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں خواہ کتنے ہی طاقت ور لوگ اس کی پشت پر ہوں۔ قرآن و حدیث، سیرتِ رسولؐ اور خلفائے راشدینؓ کی سیرت کی روشنی میں واضح ہے کہ کوئی بھی فرد خواہ وہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، عدالت سے استثنیٰ حاصل نہیں کرسکتا۔ چنانچہ ایسی آئینی ترامیم جو اس بنیادی اصول کے خلاف ہوں، شریعت اور آئین کی رُو سے ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ انھیں ختم ہونا چاہیے۔  
  • سیاسی حکمت عملی: یہ عجیب معاملہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف اس وقت بات کرتی ہیں، جب اُن کی سرپرستی ان کے اُوپر سے ہٹ جاتی ہے۔لیکن جونہی وہ سرپرستی میں آتی ہیں یا ان کا سمجھوتا ہوجاتا ہے، تو وہ ان کو بہت عزیز ہوجاتی ہیں۔ نفاق پر مبنی یہ طرزِعمل ختم کرنا ہوگا۔ 

ہم یہ بھی واضح کردیں کہ ہمارے ہاں سیاسی اتحادوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہم نے ملک و ملّت کے مفاد میں سیاسی اتحادوں میں بھرپور کردار ادا کیا ہے لیکن سیاسی جماعتوں نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ اب ہم مزید کسی دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ تاریخ کے اس سبق کے نتیجے میں ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم اتحاد کریں گے، مگر عوام سے اور عوام کے مختلف طبقات سے، نوجوانوں سے، مزدوروں سے، کسانوں سے، انجینئروں سے، ڈاکٹروں سے اور علما سے۔ہرمعاشرے کی طرح ہمارے ملک میں بھی خواتین کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ ہم اُن کو ساتھ لے کر چلیں گے، ان شاء اللہ۔ یہی اتحاد پاکستان کو مسائل سے نجات دلائے گا۔  

البتہ ہم تمام سیاسی قوتوں سے گفتگو، بات چیت، ملنے ملانے کا عمل اور تبادلۂ خیال اور مشترک موقف کے خلاف نہیں ہیں ۔ ہم سیاست میں وضع داری اور رواداری کے قائل ہیں۔ ہم نفرت، گالی اور گولی کی سیاست نہیں کرتے بلکہ اختلاف کو ایک دائرے میں رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کا سیاسی کارکن ہمارے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ سیاسی کارکن چاہے وہ کسی بھی جماعت کا ہو، بہت قیمتی ہے۔ مگر افسوس کہ سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ اپنے ہی سیاسی کارکن کا استحصال کرتی ہیں۔ خاندانوں اور دولت کی بنیاد پر چلتی ہیں، نچلی سطح پر انھیں اختیارات نہیں دیتیں اوراپنی پارٹیوں میں انتخاب نہیں کراتی ہیں۔ بلدیاتی انتخاب ہو یا تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کا انتخاب، یہ انھیں بہت بُرا لگتا ہے۔ ہم ہرسیاسی کارکن کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر عوام کے حق کے لیے جدوجہد کرے۔ 

  • انتخابی نظام میں اصلاحات: انتخابات کے نام پر وسیع پیمانے پر دھاندلی کی روک تھام کے لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ انتخابات ’متناسب نمائندگی‘ پہ ہونے چاہئیں۔ ’متناسب نمائندگی‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہرشہری کا ووٹ شمار ہو اور سب کے ووٹوں کی بنیاد پر پارٹی پوزیشن واضح ہو۔ اس سے مقتدر طبقے بھاگتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اپنی پارٹیوں کو خاندانی غلامی سے نکال کر پارٹی کے پروگرام کی بنیاد پر چلانا پڑے گا اور وہ یہ کام کرنا نہیں چاہتے۔لہٰذا، ’متناسب نمائندگی‘ کے لیے انتخابی اصلاحات کرنے کے لیے عوامی دباؤ ڈالنا پڑے گا۔ 
  • شہری حکومتیں اور اختیارات کی منتقلی:ملک کے نظام پر چند مخصوص طبقات قابض ہیں۔ سارے کے سارے اختیارات وفاق اور صوبوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ پھر ان اختیارات کو سول بیوروکریسی کے ذریعے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہ نام نہاد سیاسی حکمران، سول انتظامیہ سے گٹھ جوڑ کرکے مقامی حکومتوں کا انتخاب ہی نہیں کراتے، اور اگر کرا دیں تو سارے اختیارات اپنے پاس رکھتے ہیں۔   

ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ سول، مالیاتی اور انتظامی معاملات کے لیے بیوروکریسی بلدیاتی منتخب نمائندوں کے ماتحت کام کرے۔ اسی طرح آپ سے آپ اس نظام میں نوکرشاہی کا کردار ختم ہوگا اور عوام کے منتخب لوگ گراس روٹ لیول پر کام کریں گے۔ نچلی سطح پر جو لوگ منتخب ہوں گے وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں اور سارے اختیارات نچلی سطح پر منتخب لوگوں کو منتقل ہوں۔ مقامی حکومتوں کے وجود کو آئین کے حصے کے طور پر شامل کیا جائے۔  

صوبہ پنجاب میں ۲۰۱۵ء کے بعد سے آج تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔  صوبہ سندھ میں مقامی حکومتوں کا نظام تباہ حال ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس کراچی میں نو ٹاؤنز ہیں۔ الحمدللہ، بغیر اختیار کے تعمیر و ترقی کا سفر شروع کر دیا ہے۔ محدود اختیار کے ساتھ اپنا کام آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں میئر سے محروم کیا گیا، مگر اس کے باوجود ہم کام کر رہے ہیں۔ دراصل اختیارات جاگیردار اور وڈیرے اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں، منتخب لوگوں کو منتقل نہیں کرتے۔ ہم خیبر پختونخوا کی حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ بلدیاتی اختیارات نچلی سطح پر منتقل کریں۔ قومی زندگی کو صحت مند بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لیے مقامی شہری حکومتوں کا نظام ناگزیر ہے۔ اس کے لیے عوام سے رابطے کی تحریک چلائیں گے۔ اپنے حق کے لیے ہم آگے بڑھیں گے، ان شاءاللہ۔ یہ ’بدل دو نظام تحریک‘ کا ایک اہم حصہ ہوگا۔ 

  • تعلیم کی حالتِ زار: تعلیم کے حوالے سے ہم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام اور نصاب پاکستان کے قومی وجود اور تہذیبی زندگی کے لیے تباہ کن ہے۔ غریب کی تعلیم الگ، امیر کی تعلیم الگ، مڈل کلاس کی تعلیم الگ کا نظام نہیں چلنا چاہیے۔ اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ یہ اپنی جگہ بہت بڑی بدعنوانی ہے۔ یہ قوم کو طبقات میں تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے خلاف متحدہ اور منظم کاوشوں کے لیے عوام، اساتذہ، طلبہ اور میڈیا کے افراد کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی اس جدوجہد میں ہراول دستے اور راہ نما کی حیثیت سے خدمات انجام دے گی۔ 
  • امن و امان کی صورتِ حال: امن و امان ملک کی ناگزیر ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان بدترین بدامنی اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔ تمام مقتدر حلقوں کو حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے، یہ کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے کا مسئلہ نہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ امن کی کنجی افغانستان سے مذاکرات اور امن کی تلاش میں ہے۔ یہ معاملات محض بیانات سے حل نہیں ہوسکتے۔ مسلم اُمہ کا ہردشمن ملک یہ چاہتا ہے کہ دونوں طرف مسلمانوں کا خون بہے۔ اس لیے دونوں طرف کے جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں، وہ دراصل جنگ و دہشت گردی کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ افغانستان کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا اور اس کا اہتمام و انتظام بھی کرنا ہوگا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ 
  • کرپشن کی لعنت: ملک میں کرپشن، بدعنوانی، اقرباپروری اور لُوٹ مار کا چلن عام ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مالیاتی انتظام کا نظام تباہ حال ہے۔ یہ پاکستان کی معیشت کسی صورت میں آگے نہیں بڑھا سکتا۔ سب سے پہلے قائداعظمؒ نے یہ بات قوم کے مقتدر حلقوں کو سمجھائی تھی کہ کرپشن کے ناسور کو اُکھاڑ پھینکیں، مگر قائداعظمؒ کی یہ باتیں ہمارے حاکموں کی سمجھ میں نہیں آئیں تو اب آئی ایم ایف ہی کی بات سمجھ لیں۔ گلے سڑے نظام کے محافظ مقتدرطبقے پاکستان اور معیشت نہیں چلا سکتے۔ یہ کرپشن، لُوٹ مار اور اندھا اختیار چاہتے ہیں، جو مختلف قسم کے مافیاز کا گٹھ جوڑ ہے۔ یہ کسانوں،کاشت کاروں، مزدوروں کی تذلیل کرتے ہیں، جب کہ پاکستان کے عوام ہی اپنی لیڈرشپ میں پاکستان چلا سکتے ہیں۔ 
  • سود کا خاتمہ: ملک جس شدید معاشی بحران سے دوچار ہے اس کا ایک بنیادی سبب قرضوں کی معیشت اور سودی نظام ہے۔ اسی کے نتیجے میں معیشت سکڑ کر رہ گئی ہے اور زندگی دوبھر ہوگئی ہے۔ دستورِ پاکستان اور عدلیہ کے فیصلے کے مطابق ملک سے سود کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا۔ قرآن مجید کے صریح حکم کے مطابق سود، اللہ اور اس کے رسولؐ سے کھلی جنگ ہے۔ لہٰذا، قرضوں پر مبنی معیشت سے نجات حاصل کرنے کے لیے سودی نظام کا خاتمہ اور خودانحصاری ناگزیر ہے۔ 

سرمایہ کاری، صنعت کاری اور سرمایہ دارانہ ذہنیت میں فرق ہے۔ اسلام، سرمائے کی مخالفت نہیں کرتا اور سرمایہ کاری کو اہمیت دیتا ہے،البتہ سرمایہ دارانہ ذہنیت مختلف چیز ہے، جس کے تحت سرمایہ دار، سرمائے کی طاقت سے لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ اسلامی حکومت اور اسلامی تہذیب و معاشرت میں بنیادی ضروریات کی فراہمی اور تعلیم اور روزگار کے مواقع سب کو یکساں ملتے ہیں۔جس کی جتنی قابلیت ہوتی ہے، اس کے مطابق وہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ مگر سرمایہ دارانہ ذہنیت، سرمائے کی طاقت سے چھوٹے سرمایہ کاروں، چھوٹے کسانوں، کاٹیج انڈسٹری اور غریبوں اور مڈل کلاس کو تباہ کرتی ہے اور چند ہاتھوں میں دولت مرتکز ہوجاتی ہے، ہم ظلم کے اس شیطانی نظام کے خلاف ہیں۔سرمایہ داری کا یہ نظام صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ مغرب میں بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے اورمغرب کے عام لوگ بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں۔ 

  • منشیات کی لعنت سے نجات: ایک اہم بات منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ منشیات کی لعنت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر اس ’ڈرگ مافیا‘ سے قوم کو نجات دلانی ہے۔ تھانوں کی مرضی کے بغیر ڈرگ مافیا کا یہ کاروبار نہیں چل سکتا۔ کوئی تعلیمی ادارہ، بستی اور محلہ اس لعنت سے محفوظ نہیں ہے۔لہٰذا، معاشرے کو اس کے خلاف متحر ک کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو اس پر آمادہ کرنا ہوگا اور ایک مسلسل جدوجہد اور مزاحمت اس ڈرگ مافیا کے خلاف کرنا ہوگی۔پولیس کا موجودہ نظام لوگوں کو انصاف بھی نہیں دیتا اور امن بھی نہیں دیتا اور شہریوں کو عزّت و احترام اور تحفظ کا احساس نہیں دیتا۔ اس کے لیے پولیس ریفارم کی شدید ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت اسلامی اپنا کردار ادا کرے گی، ان شاء اللہ! 
  • ’بدل دو نظام تحریک‘ کے لیے بیداری:اس تحریک کے تحت عوام کو منظم کر کے فضا سازگار بنائی جائے گی۔ہم وکلا سے بات کریں گے۔ ہرصورت میں اور ہرقیمت پر نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک، عدلیہ کے جعلی نظام کو عدل کے اصولوں کے مطابق قائم کیا جانا چاہیے۔ عدالتی نظام آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔ پاکستان اور یہ فرسودہ عدالتی نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لیے آئین کی بالادستی اور آزاد عدلیہ کے لیے وکلا، بار ایسوسی ایشنز، علما، ڈاکٹروں، انجینئروں، نوجوانوں اور دانش وروں کو ساتھ ملا کر ملک گیر تحریک برپا کی جائے گی۔ 

ایسی ہمہ گیر جدوجہد وقت کا تقاضا ہے۔ اس جدوجہد کے لیے وقت دینا ہوگا، صلاحیتیں لگانی ہوں گی اور جان کھپانی ہوگی۔ہم اس کام کو سیاسی نعرہ بازی کے لیے نہیں کرتے بلکہ ہم سیاست کو عبادت سمجھ کے کرتے ہیں۔ معاشرے کی بہتری کا کام عبادت ہے، یہ تو تمام انبیاءؑ کی بعثت کا مقصد ہے (الحدید۵۷:۲۵)۔ ہمارے نزدیک اس نسبت سے اسلامی سیاست ایک افضل کام ہے، جس پر چند غاصبوں نے قبضہ کرکے سیاست کو بدنام کررکھا ہے اور پورے معاشرے کو استحصالی نظام کا یرغمالی اور محکوم و مجبور بنا رکھا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے ہمیں بصیرت بھی دی ہے اور بصارت بھی۔الحمدللہ، ہمارے کارکنوں کو  خلوص بھی دیا ہے۔ ہمیں رابطوں کو بڑھانا، گلی گلی جانا اور ان تمام سیاسی مافیات سے جان چھڑانا ہے، جوایک طرف نعرہ بازی کرتے ہیں اور پھر آخرکار اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جاگرتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہے۔ مگر ہم اصولوں کی بالادستی چاہتے ہیں اور اس کلچر کے فروغ کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتے ہیں۔ 

پاکستان میں کسی سیاسی پارٹی پرپابندی نہیں ہونی چاہیے اور کسی کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر قیدخانوں میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ ہمارے نزدیک سارے سیاسی کارکن قابلِ قدر ہیں اور ہم سب کو دعوت دیتے ہیں کہ ’بدل دو نظام تحریک‘ کے اس ایجنڈے پر ہمارا ساتھ دیں۔اس نظام کو بدلنا پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ جماعت اسلامی اس عزم کے ساتھ اُٹھی ہے کہ اس نظام کو بدل کر رہیں گے۔ 

اسی طرح ہم نے کارکنانِ جماعت اسلامی کو دو اہداف دیے ہیں: 

ممبرشپ مہم میں پچھلے برس ۲۰ لاکھ ممبرز بنے تھے۔ اگر ان کے ساتھ رابطے کی صورت نہ بنائی جائے تو کوئی بڑا انقلاب اور کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی۔ لہٰذا، ان کے ساتھ رابطے کے ساتھ ساتھ اگلے ایک سال میں ہمیں اپنی ممبرشپ کو ۵۰ لاکھ تک پہنچانا ہے۔ 

دوسرا کام یہ ہے کہ ہرمقام پر جماعت اسلامی کی تنظیم عوامی کمیٹیاں بنائے، محلوں کی سطح پر اور دیہاتوں کی سطح پر۔ ان کمیٹیوں کی تعداد کو ہم اگلے ایک سال میں ۵۰ ہزار تک لے کر جائیں گے۔ 

اس تحریک کا ناگزیر تقاضا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت پر اعتماد کیا جائے۔ آپ کی قیادت بڑی چھلنیوں سے گزرکر آتی ہے۔ مگر اس کے باوجود کسی بھی فرد سے غلطی اور کوتاہی ہوسکتی ہے، جسے بروقت ٹھیک کرنے کے لیے ہمارا احتسابی نظام متحرک رہتا ہے، اوراس نظام کو متحرک رہنا چاہیے۔ احتساب اور نگرانی کا یہ نظام ہماری قوت ہے اور ہماری فعالیت کا ضامن ہے۔ ہماری کوششوں، کاوشوںاور جدوجہد کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ اس لیے ہمیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر منزل کی طرف گامزن رہنا ہے اور ہمہ وقت ربِّ کریم سے مدد اور راہ نمائی کے لیے دُعا کرتے رہنا ہے۔