دسمبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

سوڈان کی خانہ جنگی کا پس منظر، پیش منظر

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان | دسمبر ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

سوڈان افریقہ میں واقع ایک مسلم عرب ملک ہے جو عرب لیگ اور او آئی سی کا ممبر ہے۔ اس کا رقبہ ۲ کروڑ ۶۶ لاکھ ۸۱ ہزار ۸ سو ۸۶  کلومیٹر ہے، آبادی بہت کم یعنی ۵۱ملین جن میں ۷۰ فی صد عرب ہیں اور ۹۰  فی صد سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں سالانہ پیداوار (GDP) ۱۱۷ بلین ڈالر تھی۔  

سوڈان کا بڑا حصہ صدیوں سے سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ ۱۸۸۲ء میں برطانیہ نے مصر کے ساتھ سوڈان بھی قبضے میں لے لیا۔۱۹۱۶ء سے مصر برطانیہ کا زیرحفاظت خطہ (protectorate ) قرار پایا۔  یعنی مصر پر برطانیہ کا براہِ راست قبضہ نہیں رہا،جب کہ سوڈان پر برطانیہ نے براہِ راست قبضہ کرلیا جو یکم جنوری ۱۹۵۶ء تک برقرار رہا، جب برطانیہ نے سوڈان کو مصر سے الگ کرکے اسے  آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ۲۰۱۱ء میں سوڈان کی ایک بار پھر تقسیم ہوئی اور سوڈان کا عیسائی اکثریتی جنوبی حصہ برسوں کی خانہ جنگی کے بعد ’جنوبی سوڈان‘ کے مسلم اکثریتی شمالی حصہ سے کاٹ کر الگ ملک بنادیا گیا، جس کا دارالحکومت ’جوبا‘ ہے اور آبادی تقریباً ۱۵ ملین ہے۔ اس تقسیم سے پہلے رقبے کے لحاظ سے سوڈان افریقہ کا سب سے بڑا ملک تھا۔  

فوجی انقلابات کا سلسلہ 

برطانیہ سے آزادی کے بعد شروع کے برسوں میں سوڈان میں انتخابات کے ذریعے حکومتیں بنیں، لیکن دوسرے عرب ممالک کی طرح سوڈانی فوج بھی سیاست میں کود پڑی۔ ۱۹۷۱ء میں جنرل جعفرنمیری نے صدر اسماعیل ازہر ی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر ۱۹۸۵ء تک حکومت کی۔ نمیری نے اپنے مخالف اسلام پسند انصار اور کمیونسٹوں کا ہزاروں کی تعداد میں قتل عام کیا۔ ۱۹۸۵ء میں جنرل سوارالذہب نے جنرل نمیری کی حکومت کا تخت اُلٹ دیا اور اس کے چار سال بعد جنرل حسن البشیر نے جنرل سوار الذہب کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اگلے ۳۰برس  تک لگاتار حکومت کی۔  

جنرل عمر حسن البشیرکے زمانے میں ’دار فور‘ جو اسلامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر حسن الترابی کا علاقہ تھا، میں بہت مظالم ڈھائے گئے جس کی وجہ سے بین الاقوامی عدالت نے جنرل عمرالبشیر کو نسل کشی کا ملزم گردانا اور اس کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ ۲۰۱۹ء میں ایک فوجی انقلاب نے اس کی حکومت بھی ختم کردی اور اکتوبر ۲۰۲۱ء میں فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح صدر بن گئے اور ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ (RSF) کے قائد جنرل محمدحمدان دگالو (حمیدتی) کو نائب صدر مقرر کیا ۔ جنرل برہان نے ایمرجنسی کا اعلان کرکے بہت سی سیاسی شخصیات کو جیل میں ڈال دیا۔  

 ریپڈ سپورٹ فورس  

’ریپڈ سپورٹ فورس‘ (قوات الدعم السریع) ایک پرانی ملیشیا (غیر سرکاری مسلح تنظیم) کا نیا نام ہے ۔ یہ پہلے’ جنجوید‘ کے نام سے جانی جاتی تھی، جس کے معنی ہیں اونٹ پر سوار جنات۔  ۲۰۰۰ء میں جنرل عمر حسن البشیر نے دار فور میں برسوں سے جاری مقامی شورش کو ختم کرنے کے لیے ’جنجوید‘ بنائی تھی۔ ’جنجوید‘ پر عوام کے بے تحاشا قتل، بے جا تشدد، لُوٹ مار اور منظم زنا کاری کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان مظالم کی وجہ سے تقریباً ۲۵ لاکھ لوگ صوبہ ’دار فور‘ چھوڑ کر دربدر ہوگئے اور ۳لاکھ افراد خانہ جنگی کے دوران قتل ہوئے۔ دار فور کی خانہ جنگی ۲۰۰۸ء میں ختم ہوئی۔ اس جنگ میں ’جنجوید‘ ملیشیا سوڈانی فوج کی مددگار کے طور پر اُبھری۔ دار فور میں جنگی جرائم کی وجہ سے سابق صدر بشیر کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلا اور ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء میں ان کی گرفتاری کا بین الاقوامی وارنٹ جای ہوا۔ چونکہ مسائل حل نہیں ہوئے تھے اور دار فور کے عوام میں شدید بے چینی تھی ، اس لیے وہاں ۲۰۱۳ء میں خانہ جنگی دوبارہ شروع ہوگئی۔ 

۲۰۱۳ء میں جنجوید ملیشیا کو سرکاری حیثیت دینے کے لیے اسے ’ ریپڈ سپورٹ فورس‘کا نام دیا گیا اور اس کے ایک کمانڈر حمیدتی کو اس نئی سرکاری فورس کا کمانڈر بنا دیا گیا اور اسے’ جنرل ‘کا درجہ دے دیا گیا ۔ جنرل عمر حسن البشیر کا خیال تھا کہ یہ نئی فورس باغیوں سے لڑنے کے علاوہ فوج پر کنٹرول رکھنے کے کام بھی آئے گی جیسا کہ بعض ملکوں میں فوج کے علاوہ ایک اور منظم مسلح گروپ ہوتا ہے ، مثلاً سعودی عرب میں ’الحرس الوطنی‘ اور ایران میں ’سپا ہ پاسداران انقلاب اسلامی‘۔ اس طرح کی الگ مسلح تنظیم کا مقصد باقاعدہ فوج کو قابو میں رکھنا اور اس کو انقلاب لانے سے روکنا ہوتا ہے۔ 

۲۰۲۱ء میں صدر بننے کے بعد جنرل عبد الفتاح برہان نے کوشش کی کہ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو فوج میں ضم کر دیں لیکن یہ بات ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کے قائدین کو پسند نہ آئی ۔ وہ ایک الگ فورس کے طور پر باقی رہنے کو اپنے لیے زیادہ فائدہ مند سمجھتے تھے کیونکہ انھوں نے سونے کی اسمگلنگ اور دوسرے غیر قانونی دھندے شروع کر رکھے تھے جس میں اس کے قائدین ملوث تھے۔ 

اسی دوران ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ نے ۱۵؍ اپریل ۲۰۲۳ کو جنرل برہان کے صدارتی محل پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اور پھر ملک میں مسلح خانہ جنگی شروع ہوگئی جس میں ایک طرف فوج اور دوسری طرف ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ تھی۔ سوڈانی فوج ۲لاکھ پر مشتمل ہے، اور ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کے پاس ایک لاکھ جنگجو ہیں۔ دونوں کا مقصد سوڈان پر مکمل قبضہ جمانا ہے۔ اس دوران ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ نے خرطوم کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا اور حکومتی اداروں نے خرطوم سے بھاگ کر ساحل سمندر پر واقع شہر پورٹ سوڈان میں پناہ لی اور اب تک وہیں سے کام کررہے ہیں۔اس وقت خانہ جنگی جاری ہے، جس کے دوران ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں ، دسیوں لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں اور تقریباً ۲۵ ملین سوڈانی بھوکوں مر رہے ہیں۔  

بیرونی طاقتوں کی دخل اندازی 

سوڈان میں خانہ جنگی بیرونی طاقتوں کی دخل اندازی اور تائید سے چل رہی ہے، ورنہ کب کی دم توڑ چکی ہوتی۔ سوڈان کی فوجی حکومت کو اگرچہ وہاں کی قانونی حکومت سمجھا جاتا ہے لیکن بیرونی طاقتوں کے ہاں سوڈانی حکومت کے لیے سرد مہری پائی جاتی ہے کیونکہ متعدد ممالک اس کو نہ صرف اسلام پسند بلکہ ’الاخوان المسلمون‘ اور ’حماس‘ کی حلیف سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کے قائد جنرل حمیدتی نے باہر کی طاقتوں، بالخصوص متحدہ عرب امارات سے تعلقات بنا لیے اور ان سے سونے کے بدلے ہتھیار حاصل کرنا شروع کردیے۔ دارفور میں واقع سونے کی کانیں ’ریپڈسپورٹ فورس‘ کے قبضے میں ہیں۔ اس دولت کو استعمال کرکے آج جنرل حمیدتی دنیا کے بڑے مالدار لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور اس نے یہ دولت بیرونِ ملک انوسٹ کر رکھی ہے۔ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ پچھلے جولائی سے ’نیالا‘ (Niala) شہرسے ایک متبادل حکومت چلا رہی ہے جسے فی الحال دنیا کی کوئی حکومت تسلیم نہیں کرتی۔  

کرایہ کے فوجی  

’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو بیرونی مدد کے ساتھ ساتھ بیرونی کرایہ کے فوجی (Mercenaries) بھی میسر ہیں جو بڑی بڑی تنخواہوں کے عوض دنیا کے کسی بھی حصے میں جاکر لڑنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان کی بڑی تنخواہیں باہر کی طاقتیں دے رہی ہیں۔ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو فوجی امداد اور کرایہ کے فوجی لیبیا، سنٹرل افریقہ، صومالیہ اور چاڈ کے ذریعے مہیا کرائے جاتے ہیں، جن کی سرحدیں سوڈان سے ملتی ہیں۔ آر ایس ایف کے ساتھ کولمبیا (جنوبی امریکا)کے بھی ہزاروں فوجی لڑ رہے ہیں۔ اس فورس کا لیڈر جنرل حمیدتی اسرائیل کا بڑا مداح ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ہمیں اسرائیل کی بڑی ضرورت ہے اور عرب ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے‘‘۔ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ اسرائیل سے سیاسی تائید کے ساتھ اسلحہ بھی حاصل کر رہی ہے۔ جنرل حمیدتی نے ایک سابق اسرائیلی فوجی افسر آری بن ناشی کی کمپنی ڈکنز اینڈ میڈیسن (Dickens & Madison) سے ۶ ملین ڈالر کا معاہدہ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کا تاثر بہتر کرنے کے لیے کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو مستقل اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ بیرونی امداد کے بغیر ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کی بغاوت اتنے عرصہ تک نہیں چل سکتی تھی۔ روس اس جنگ میں طرفین کو اسلحہ سپلائی کر رہا ہے۔ برطانیہ بھی ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو اسلحہ فراہم کرتا ہے ،جب کہ ترکی اور مصر سوڈانی فوج کی تائید کر رہے ہیں۔ 

عرب حکومتوں کا موقف 

مصر میں ’عرب بہار‘ کے دوران امریکا نواز صدر حسنی مبارک کی حکومت گرنے اور ’الاخوان المسلمون‘ کے ۲۰۱۲ء کے الیکشن میں جیتنے سے امریکا، اسرائیل اور خلیج کے ملکوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔ ایک سال کے اندر ہی امریکا اور اسرائیل کے اثرورسوخ ، فوجی و انٹیلی جنس طاقت اور خلیجی ممالک، بالخصوص متحدہ عرب امارات ،کے پیسوں سے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور پوری عرب دنیا میں ’الاخوان المسلمون‘ اور ان کے حامیوں کے خلاف سیاسی اور فوجی حملہ شروع ہو گیا۔ غزہ میں ’حماس‘ کو بے سہارا چھوڑنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عرب حکومتیں ’حماس‘ کو ’الاخوان المسلمون‘ کی ہی ایک شاخ سمجھتی ہیں ۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کی تقریباً تمام عرب ممالک نے خاموشی سے تائید کی اور اسرائیل سے کہا کہ حماس کو تباہ کیے بغیر جنگ بند نہ کرے۔ یہ بات مشہور امریکی صحافی بوب وڈورڈ نے اپنی تازہ کتاب War میں کہی ہے۔ 

 متحدہ عرب امارات کی موجودہ خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد اسلام کے حرکی تصور کے خلاف لڑنا ہے ۔ امارات کا خیال ہے کہ سوڈانی فوج اسلام پسند ہے جو امارات کے لیے سوہانِ روح ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت آگ سے کھیل رہی ہے۔ امارات کے پاس پیسہ بہت ہے لیکن آبادی اور رقبہ کم ہے۔ امارات میں رہنے والے ۹۰ فی صد لوگ غیر ملکی ہیں۔ 

اسلحہ کے بدلے سونا 

سوڈان کی معیشت کا بڑا حصہ سونا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں سوڈان نے ۳ہزار ملین ڈالر کا سونا برآمد کیا تھا۔ موجودہ خانہ جنگی سے بہت پہلے سے یعنی ۲۰۱۵ء سے یمن میں جنگ کے لیے متحدہ عرب امارات، سوڈان سے دسیوں ہزار کرایہ کے فوجی لاکر استعمال کررہا ہے۔ امارات کی نظریں سوڈان کی زراعت پر بھی ہیں۔ اگر اس کی مؤید حکومت وہاں قائم ہو جاتی ہے، تو وہاں کی زراعت امارات کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہوگی۔ سوڈان کی زمین زرخیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اس کی زمینوں کو ٹھیک طرح سے استعمال کیا جائے تو وہ اکیلا پورے افریقہ کو کھلا سکتا ہے۔ متحدہ امارات کی انٹرنیشنل ہولڈنگ کمپنی ’بالفعل‘ سوڈان میں ۵۰ ہزار ہیکٹر پر زراعت کر رہی ہے۔  

ریپڈ سپورٹ فورس کا دارفور پر قبضہ 

۱۸ ماہ کے محاصرے کے بعد ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ نے دارفور کے دارالحکومت ’الفاشر‘ پر  ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۲۵ء کو قبضہ کرلیا۔ اس محاصرے کے دوران شہر الفاشر کے اندر ۲ لاکھ ۶۰ہزار شہری محصور تھے، جن میں ایک لاکھ ۳۰ ہزار بچے تھے۔ شہر پر قبضے کے بعد ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ نے وہاں پر اتنا قتل عام کیا کہ سٹیلائٹ کی تصویروں میں شہر میں خون بہتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بیسیوں ہزار لوگ اس کے بعد دوسرے علاقوں کی طرف بھاگ گئے ہیں۔ محاصرے کے دوران سینکڑوں لوگ بھوک اور علاج سے محرومی کی وجہ سے مر گئے۔ پچھلے ۱۸ ماہ کی خانہ جنگی میں سوڈان کے مختلف علاقوں میں تقریبا ًایک لاکھ ۵۰ ہزار لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ان میں سے۶۱ہزار لوگ صرف دارالحکومت خرطوم میں مارے گئے اورایک کروڑ ۴۰ لاکھ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کرملک کے اندر دوسری جگہوں بلکہ چاڈ، لیبیا اور مصر کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کے الفاشر پر قبضے کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے جنگ کا نقشہ بدل جائے گا۔ سوڈانی فوج اب بھی ملک کے بڑے حصے پر قابض ہے اور مختلف طریقوں سے، بالخصوص فضائیہ کے ذریعے، ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ پر جوابی حملے کر رہی ہے۔  

موجودہ خانہ جنگی کے دوران سوڈان میں کاروبار، بینک، انڈسٹری، زراعت، تعلیم، ہسپتال، اسکول، یونی ورسٹیاں وغیرہ سب متاثر ہوئے ہیں۔ تقریباً ۲۵ ملین سوڈانی بھوک کا شکار ہیں اور تقریباً ۱۰ ملین بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق موجودہ خانہ جنگی سے سوڈان کو ۲۰۰ بلین (۲۰۰ ہزار ملین) ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔  

عرب ممالک کی تقسیم کا منصوبہ 

کچھ طاقتیں، بالخصوص امریکا اور اسرائیل___ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کےمسلم ممالک کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں، تاکہ ان پر کنٹرول آسان ہوسکے۔ پورے علاقے میں اسرائیل کا کوئی حریف باقی نہ رہے اور امریکا کے لیے پورے علاقے کو کنٹرول کرنا اور انھیں اقتصادی استحصال کا شکار بنانا آسان ہوجائے۔ برسوں سے اس نئے منصوبے کے نقشے موجود ہیں جس کے تحت پاکستان، افغانستان، ایران، عراق، شام، مصر، سعودی عرب، مصر، لیبیا اور سوڈان وغیرہ کو تقسیم کرکے وہاں علاقائی، قبائلی اور مسلکی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے ملک بنائے جائیں گے۔ مختلف ممالک میں پائی جانے والی مذہبی یا قبائلی اقلیتیں اس منصوبے کا خاص مہرہ ہیں، تاکہ نئے بنائے گئے ملک بیرونی مدد و تائید حاصل کرنے کے لیے مجبور ہوں اور ان کے قدرتی وسائل کو بہتر طور سے لوٹا جاسکے۔ 

 سوڈان کی خانہ جنگی میں غیر ملکی طاقتوں کی دلچسپی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ پہلے سوڈان کو مصر سے الگ کیا گیا، پھر جنوبی سوڈان کو الگ کر کے اس علاقے میں ایک نیا ملک بنادیا گیا اور اب عرب اور غیر عرب کی بنیاد پر سوڈان کو مزید دو ،تین ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش ہورہی ہے۔  ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کا خواب پورے سوڈان پر قبضے کا تھا جو ناکام ہو چکا ہے ، البتہ اس کی وجہ سے سوڈان کی ایک بار پھر تقسیم کا خدشہ موجود ہے۔