اس سوال کی کہانی ۱۹۹۴ء میں شروع ہوئی جب اقوام متحدہ کے ایک ملازم نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے سوڈان کا وہ نقشہ دیکھا ہے جس میں اس کی پانچ ریاستیں دکھائی گئی تھیں۔ جب سوڈان کے موضوع پر یہ بات چیت ہو رہی تھی تو میں اپنے کلینک میں تھا۔ اس کے بعد میں نے میڈیکل کا شعبہ چھوڑ کر سوڈان جانے کا فیصلہ کیا۔
پھر سوڈان کے بارے میں تاریخی، جغرافیائی اور مذہبی طور پر اپنی تحقیق کے ذریعے، میں نے بہت کچھ دریافت کیا جو اس وقت حقیقت بن کر میرے سامنے آگیا جب میں نے پہلی بار ۱۹۹۶ء میں سوڈان کا سفر کیا۔ پھر میرا آنا جانا جاری رہا ، یہاں تک کہ میں نے ۲۰۰۵ء میں سوڈانی شہریت حاصل کر لی۔ ۲۰۰۰ء میں مجھے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے لیے بلایا اور وہ سوال پوچھا کہ آپ نے سوڈان کے بارے میں کیوں سوچا اور آپ یہاں کیوں آئے؟
میرا جواب یہ تھا کہ ہمارے ممالک میں مغرب کے اہداف کے بارے میں مطالعے نے مجھے کچھ نتائج تک پہنچایا اور امریکا میں مقیم ایک شہری نے مجھے بتایاکہ ’’نوے کی دہائی کے آغاز میں قومی سلامتی کے دفتر میں ایک اجلاس ہوا اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ امریکا کو کس ملک سے خطرہ ہو سکتا ہے اور کون سی سلطنت دنیا پر حکومت کر سکتی ہے؟ اس پر خاموشی چھا گئی ۔ پھر بات شروع ہوئی، تو ایک نے کہا: روسی ریچھ فلاں فلاں وجہ سے، دوسرے نے کہا: چینی شیر فلاں فلاں وجہ سے، پھر تیسرے نے کہا:یورپ ،اگر متحد ہو جائے تو…آخر میں، یہ حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ ان کے گہرے مطالعات کے مطابق، وہ ملک سوڈان ہے جو اس حساب کتاب پر پورا اُتر سکتا ہے۔ اگر ایک محب وطن اور صالح قیادت اس پر حکمران بن جائے اور اس میں واقعی انسانوں کی تیاری شروع کردے، تو یہ ایک زبردست سلطنت بن سکتا ہے…!‘‘
اس لیے کہ اللہ نے سوڈان میں ہر وہ چیز پیدا کی ہے جو تہذیب کو قائم کر سکتی ہے، یہاں تک کہ یورینیم جس سے جوہری ہتھیار بنائے جاتے ہیں۔ اسی طرح تیل، گیس، پانی، معدنیات، زراعت، مویشی اور وہ رقبہ جو ایک براعظم ہونے کے مترادف ہے اور دو ارب انسانوں کو کھلانے اور رہائش فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اللہ نے اس ملک کو طاقت کے تمام عناصر عطا کیے ہیں، اور یہیں سے سوڈان کو تقسیم در تقسیم کرنے اور اس بڑے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ آیا۔پھر انھوں نے دارفور اور جنوب میں مسائل پیدا کرکے سوڈان کی تقسیم شروع کر دی۔ یقیناً اس سے پہلے نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد سے سوڈان کا استحصال کیا گیا اور جنوب کی پہلی تقسیم ۲۰۰۵ء میں عمر البشیر حکومت اور اسلامی تحریک کی ایک اسٹرے ٹیجک غلطی سے عمل میں آئی۔میں ان لوگوں میں سے تھا جنھوں نے اس تقسیم کی سخت مخالفت کی۔میں نے اخوان المسلمون کے صدر سے ۲۰۱۰ءمیں کہا تھا کہ عنقریب سوڈان دیوالیہ ہونے کا اعلان کردے گا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کیوں؟میں نے کہا تم بہت جلد دیکھ لو گے ۔
خیر میں آپ کو کچھ مثالیں دیتا ہوں کہ اس ملک میں کیا وسائل ہیں جن پر مغرب کی نظر ہے۔سوڈان ایک براعظم جیسا ملک سمجھا جاتا ہے، جسے اللہ نے ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ کچھ ممالک کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ جو کچھ سوڈان ان وسائل سے ایک سال میں پیدا کرسکتا ہے وہ کیا ہے؟ سعودی عرب سالانہ ۱۷۵ بلین ڈالر مالیت کا تیل پیدا کرتا ہے۔ اور یہ دُنیا کے امیر ترین تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
سوڈان میں ۲۵۰ ملین ایکڑ زرعی زمین ہے۔ اگر ہم اس میں سے صرف ۳۵ ملین ایکڑ لوسن (برسیم) کاشت کریں تو اس کی سالانہ پیداوار ۳۵ ملین × ایک ایکڑکی ماہانہ پیداوار ایک ٹن × ۱۲ ماہ × برسیم کی قیمت۴۲۰ ڈالر=۱۷۶؍ ارب ۴سو ملین ڈالر بنتی ہے ۔لہٰذا، رقبے کا ایک چھوٹا سا حصہ جو ۱۵ فی صد سے زیادہ نہیں ہے، اگر اسے استعمال میں لایاجائے تو یہ سعودی عرب کی تیل کی پیداوار کے برابر ہو سکتا ہے۔
سوڈان کو مویشی بانی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ۱۵۰ ملین سے زیادہ مویشی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ سوڈان کو ۱۵ فی صد اراضی میں لوسن سے پیدا کرنا چاہیے، وہ مویشیوں کی تعداد کو ۳۰۰ملین تک دوگنا کرنے کے لیے کافی ہے اور ان کی قیمت ۷۵ بلین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ لہٰذا، اگر صرف ۳۰ فی صد اراضی پر لوسن کاشت کیا جائے تو سوڈان کی سالانہ پیداوار ۲۵۰ بلین ڈالر کے برابر ہوگی، یعنی خلیجی ممالک کی تیل کی مجموعی پیداوار سے بھی زیادہ صرف ایک شے کی پیداوار سے۔
اگر ہم سونے کے بارے میں بات کریں تو تمام رکاوٹوں کے باوجود سوڈان اب ہر سال تقریباً ۲۰۰ ٹن سونا پیدا کرتا ہے، جس کی مالیت سالانہ ۲۶ بلین ڈالر ہے۔ میڈیا پروپیگنڈا اسے ایک غریب قوم کے طور پر پیش کرتا ہے، جس کے لیے خیرات اکٹھی کی جاتی ہے، جب کہ حقیقت میں کچھ بدعنوان عناصر ہیں جو عوام کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر اسے لوٹ رہے ہیں۔سوڈان ہر سال ایک ہزار ٹن سونے کی پیداوار تک پہنچ سکتا ہے، جس کی مالیت سالانہ ۱۳۰ بلین ڈالر ہوگی۔ ذرا ان اعداد و شمار کا تصور کریں اور سوڈان کے ایک غریب ملک ہونے کے پروپیگنڈا کا بھی !
سوڈان میں ہر قسم کی معدنیات بھی موجود ہیں، جن کی مالیت کھربوں ڈالر ہے۔اور اگر ۲۵۰ ملین ایکڑ زمین گندم، تل، جو، چارہ اور دیگر اقسام کے ساتھ کاشت کی جاتی، تو اس کی پیداوار سالانہ ۵۰۰ بلین ڈالر سے زیادہ تک پہنچ جاتی۔جہاں تک تیل کا تعلق ہے تو اس کی بہت بڑی مقدار اب بھی غیر استعمال شدہ ہے جس کا حجم صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
دارفور کا نام ’دار الفور‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’فور کی سرزمین‘۔ فور ایک بڑا قبیلہ ہے ۔ دارفور، سوڈان کے رقبے کا ایک تہائی حصہ ہے اور اس کا رقبہ ۵۱۱ ہزار مربع کلومیٹر ہے، یعنی فرانس کے رقبے کے برابر ۔ اسے زمین کا سب سے امیر ترین خطہ سمجھا جاتا تھا اور اس پر پرانے زمانے میں تنازع تھا اور عثمانی عہد حکومت میں دارفور کا گورنر: مکہ اور آبار علی کی دیکھ بھال کرتا تھا۔
یہاں دارفور کے بارے میں کچھ حقائق پیش کیے جاتے ہیں جو عموما لوگوں کو معلوم نہیں ۔ یہاں جبل مرہ واقع ہے ۔یہ پہاڑی سلسلہ دنیا کے عجائبات میں سے ہے۔ اس کی لمبائی ۱۶۵ کلومیٹر اور چوڑائی ۶۵-۸۰ کلومیٹر ہے اور یہ ایک عظیم پہاڑ ہے جس میں ایک ہی وقت میں چاروں موسم آتے ہیں۔ یہ سطح سمندر سے ۱۰ ہزار فٹ بلند ہے اور اس کا رقبہ لبنان کے رقبے کے برابر ہے۔ اس میں چشمے، ندیاں اور مختلف قسم کی فصلیں ہیں، اور یہ پہاڑ زمین پر سب سے بڑا سیاحتی منصوبہ بن سکتا ہے ،کیونکہ یہ ایک ملک کے رقبے کے برابر ہے۔
سوڈان کے ایک عالم نےجو برطانوی کمیٹی میں شامل تھے، مجھے بتایا کہ انھوں نے اس کے اندر ایک سلوریں دریا (murkery) دریافت کیا۔ بعض لوگ جبل مرہ سے متعلق بیان کرتے ہیں کہ تورات کے ۱۸۱۷ء اور ۱۸۳۰ء کے نسخوں میں ذکر ہے کہ ہمارے آقا ہارون، نبی موسیٰ علیہ السلام کے بھائی، وادی ھور کے قریب جبل (حور) میں وفات پا گئے تھے، جس کی وجہ سے بعض مؤرخین یہ خیال کرتے ہیں کہ جبل مرہ دراصل (جبل طور) ہے ، لیکن یہ معلومات صحیح نہیں ہیں۔
کچھ انگریزوں نے مجھ سے ذکر کیا اور میں نے۱۹۵۳ ء میں ان کی یادداشتوں میں پڑھا بھی جو یوں درج تھیں: ’’ہم برطانیہ عظمیٰ اگر صرف دارفور میں تانبے کا گڑھا ہی ملکیت میں لے لیتے تو برطانیہ ۵۰۰ سال تک ایک عظیم طاقت بنا رہتا‘‘۔یہ گڑھا جنوبی دارفور میں واقع ہے، اس میں پانچ ارب ٹن تانبے کا تخمینہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر معدنیات اور سونا بھی ہے۔
دارفور میں یورینیم کی کئی کانیں ہیں۔ ان میں تقریباً ۶ ملین ٹن یورینیم ہے اور جیسا کہ میرے ایک پڑوسی نے مجھے بتایا جو دارالحکومت خرطوم میں میرے قریب رہتا تھا اور اقوام متحدہ سے وابستہ تھا۔ ۲۰۰۰ء میں اس نے مجھ سے کہا: ’’ہم دارفور میں مختلف مقامات پر تعینات بکھرے ہوئے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے!‘‘ میں نے پوچھا: ’’آپ کا مشن کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا:’’پہلا مشن دارفور اور اس کی کانوں کی حفاظت کرنا ہے‘‘۔
اس کے بعد، سوڈان اور دارفور میں سونے، یورینیم، لوہے، ٹائٹینیم، سیسے، کوبالٹ وغیرہ کی کئی کانیں ہیں اور سب سے اہم چیز جو ہم نے ۲۰۱۰ء میں دریافت کی وہ دارفور میں جبل عامر تھا، جس میں تقریباً ۳ہزار ٹن سونا تھا، اس سے روزانہ ۱۵۰ کلو گرام سونا نکالا جاتا تھا۔
دارفور کو دنیا کا سب سے زیادہ تیل سے مالا مال علاقہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں دو عظیم ذخائر ’ایکس ‘ کی شکل میں ایک دوسرے کو کاٹتے ہیں۔ یعنی پٹرول کا وہ ذخیرہ جو روس سے شروع ہو کر ایران سے ہوتا ہوا خلیج میں داخل ہوتا ہے، پھر بحیرہ احمر اور سوڈان میں داخل ہو کر وسطی دارفور سے جاملتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ نائیجیریا کے تیل کے ذخائر سے ملتا ہے اور یہاں آکر وہ دنیا کا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ بن جاتے ہیں ۔یہی وہ تیل کا وسیع ذخیرہ ہے جس کے متعلق الجزیرہ چینل نے تقریباً ۲۷ برس پہلےایک پروگرام نشر کیا تھا۔
دارفور دنیا کے سب سے بڑے پانی کے ذخیرے پر تیر رہا ہے، جسے ’نوبین حوض‘ کہا جاتا ہے۔ میں نے اس کے بارے میں سوڈان کی خصوصی فائلوں میں پڑھا تھا۔ تحقیقات میں ذکر کیا گیا تھا کہ یہ ذخیرہ سوڈان اور اس پر رہنے والے انسانوں، زراعت اور مویشیوں کو ۵۰۰ سال تک زندگی دے سکتا ہے۔ اگر بارشیں نہ بھی ہوں اور چشمے بھی خشک ہو جائیں، اور نیل کا پانی بھی بند ہوجائے۔ تصور کیجیے، اللہ تعالی نے کتنی دولت سوڈان کو عطا کر رکھی ہے ۔ اور یہ پانی کا علاقہ دارفور اور کئی ریاستوں میں اس کے کچھ حصوں تک پھیلا ہوا ہے۔
جبل عامر دارفور کے وسط میں ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے، جس میں تقریباً ۳ہزار ٹن سونے کا ذخیرہ ہے۔ میں پہلا شخص تھا جو سیٹلائٹ سے یہ معلومات لایا اور ۲۰۱۰ء میں اسے دریافت کیا۔ پھر جبل عامر کونسل تشکیل دی گئی، جس میں قبائل اور حکومت کی ۱۰۰ شخصیات شامل تھیں۔ اس طویل کہانی کا اختتام ۲۰۱۴ء میں ریپڈ سپورٹ فورسز گروپ کے اس پہاڑ پر کنٹرول حاصل کرنے پر ہوا، اور اس کی سالانہ پیداوار ۴۰ ٹن سونے سے زیادہ تک پہنچ گئی۔
دارفور کو ہیروں، قیمتی پتھروں، نایاب معدنیات، زنک، سونا، چاندی، سیسہ، تانبا اور دیگر کی موجودگی کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ میرے پاس بہت سے نمونے ہیں، یہاں تک کہ شہاب ثاقب اور بہت زیادہ تناسب میں لوہے کا خام مال بھی۔
ایک حقیقی دولت جس سے ہم غافل رہے اور اسے نظر انداز کر دیا، اور وہ زمین کی تمام دولتوں سے زیادہ اہم ہے، وہ ہے’انسان ‘!میں نے ماضی میں ایک کتاب پڑھی تھی جس کا نام تھا (نامعلوم انسان)۔ پھر میں نے ایک کتاب لکھنا شروع کی ( نامعلوم سوڈان) لیکن مجھے یہ معلوم ہوا کہ اصل ’نامعلوم سوڈان‘ نہیں بلکہ انسان ہے، اور جب انسان کو اس مقام پر فائز کیا جاتا ہے، جہاں اللہ نے اسے عزّت دی ہے، تو وہی حقیقی دولت بن جاتا ہے جس کے ذریعے باقی دولتیں دریافت ہوتی ہیں اور وہ عزّت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔
جاپان کی طرف دیکھیے، اس کے پاس بالکل بھی تیل، سونا یا دولت نہیں ہے، سوائے ایک دولت یعنی ’انسان‘ کے۔ چنانچہ اس نے عقل اور علم کے ذریعے بنی نوع انسان پر فوقیت حاصل کی۔