دسمبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

غزہ میں نسل کشی کا تسلسل

مسعود ابدالی | دسمبر ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

غزہ کی جنگ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، عالمی فیصلہ سازی اور یورپ کے فکری ماحول کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی کارروائیاں پہلے سے زیادہ منظم انداز میں جاری ہیں۔ خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض عسکری واقعات نہیں بلکہ سفارت کاری، سماجیات، انسانی حقوق اور عالمی رائے عامہ کے نئے رُخ کی داستان بھی ہے۔ یہ جنگ نہ صرف فلسطینی بستیوں کو کھنڈر بنا رہی ہے بلکہ خود اسرائیلی معاشرے اور یورپی و امریکی سیاست میں بھی دراڑیں ڈال رہی ہے۔ 

اسی پس منظر میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں وہ امریکی قرارداد منظور کی ہے جس میں صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق کی گئی ہے۔ اس منصوبے میں ایک بین الاقوامی فوج کی تعیناتی اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کا خاکہ شامل ہے۔لیکن یہاں بھی غزہ کی مزاحمتی قوتوں سے ہتھیار ڈالنے کی شرط موجود نہیں۔ قرارداد کا ایک پہلو یہ ہے کہ مفلوج مقتدرہ فلسطین (PA) کے تنِ مُردہ میں جان ڈالنے اور اسرائیل و فلسطین کے درمیان سیاسی مکالمے کی بحالی کا تصور پیش کیا گیا ہے،جو موجودہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس سب کے باوجود ۱۳ ووٹوں سے قرارداد کی منظوری اس بات کی علامت ہے کہ عالمی سیاست ایک نئے بیانیے کی طرف جھک رہی ہے۔ تاہم رائے شماری کے دوران چین اور روس کی غیر حاضری سے اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت ور اقوام عالم ٹرمپ منصوبہ پر پوری طرح یکسو نہیں۔ 

جنگ بندی یا تعمیرِ ملبہ؟ — غزہ کی عملی صورتِ حال 

جنگ بندی کے بعد بھی غزہ پر حملے جاری ہیں۔ان بڑے حملوں میں۱۹؍ اکتوبر کو ۴۲ اور ۲۹؍ اکتوبر کو ۱۰۹ ؍افراد شہید ہوئے۔ بی بی سی ویری یفائی شو (BBC Verify show)کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۰؍ اکتوبر کو جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کے اُن علاقوں میں جو تاحال اس کے قبضے میں ہیں، ڈیڑھ ہزار سے زائد عمارتیں منہدم کردیں۔ سیٹیلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تباہی چند ہفتوں کے اندر منظم انہدامی کارروائیوں کے ذریعے کی گئی۔ کئی جگہوں پر پوری بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں۔یہ محض عمارتوں کی شکستگی نہیں بلکہ کھیتوں، باغات اور گھروں کے صحنوں کے مٹ جانے کی المناک داستانیں ہیں۔ 

خان یونس، رفح کا مشرقی علاقہ اور جبالیا و شجاعیہ کے وہ علاقے ہیں جہاں کبھی سبزہ اور درخت تھے، اب محض ملبہ اور مٹی کا غبار ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ صرف عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک سیاسی و سماجی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کی مثال برسوں سے غربِ اردن میں دیکھی جارہی ہے۔ 

۱۲نومبر کو غزہ کے ایک کلینک پر حملہ کر کے تین فلسطینی شہید کر دیئے گئے۔ ۱۷نومبر کو غزہ کے کئی علاقوں پر اسرائیلی گولہ باری میں ۱۴ شہید ہوئے، پھر ۲۳نومبر کو اسرائیلی جنگی طیاروں کی بم باری سے ایک ہی وقت میں ۲۴ فلسطینی شہید ہوگئے۔ 

اقوام متحدہ کے ادارے UNICEFکے مطابق اسرائیلی فوج نے ان ٹرکوں کو روک دیا ہے، جن پر بچوں کی جدرین کاری(Vaccination) کے لیے ۱۶ لاکھ انجکشن اور دودھ لدا تھا۔بدترین انسانی بحران کے دوران بچوں تک امداد نہ پہنچنے دینا بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ 

غربِ اردن: انہدام، بے حرمتی اور مقدسات پر حملے 

نابلوس، طولکرم، قلقیلیہ اور بیت لحم میں گھروں، زیتون کے باغات اور چھوٹے کارخانوں کو آگ لگائی گئی۔جمعرات، ۱۳ نومبر کو ’دیراستیا‘ کی جامع مسجد پر حملہ کر کے اسے شدید نقصان پہنچایا گیا اور قرآن کے نسخے نذرِ آتش کیے گئے۔ رپورٹس کے مطابق یہ سب کارروائیاں فوجی سرپرستی میں ہو رہی ہیں۔ تاہم، فلسطینی عوام ان ہتھکنڈوں سے خوفزدہ نہیں ۔مسجد میں جمعرات کو آگ بھڑکی اور جمعہ کی نماز اسی مسجد کے ایک مرمت شدہ حصے میں ادا کی گئی۔ یہ وہ استقامت ہے جو اس جنگ کا اصل چہرہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ 

غربِ اُردن کی اس تباہی پر یورپی یونین نے خاموشی اختیار کی، لیکن کاغذ پر بنی فلسطینی ریاست کے لیے دستور کی تیاری کا کام شروع ہوگیاہے۔ گذشتہ ہفتے پیرس میں مقتدرہ فلسطین (PA)کے صدر محمود عباس اور فرانسیسی صدر نے مشترکہ آئین ساز پینل پر اتفاق کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ جب مقتدرہ فلسطین کو عوامی مینڈیٹ ہی حاصل نہیں تو اسے آئین سازی کا اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے؟ ریاستی آئین منتخب دستور ساز اسمبلی بناتی ہے، اس مقدس دستاویز کی تدوین مذاکراتی میز پر نہیں ہوتی۔ 

چند ماہ پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلی پارلیمان سے خطاب میں غزہ پر حملے کو ’تاریخی فتح‘ قرار دیا تھا۔لیکن اب خود یہ’فاتح فوج‘ اندر سے ٹوٹ رہی ہے۔ اسرائیلی چینل ۱۲ کے مطابق کپتان سے لیفٹیننٹ کرنل تک کے ہزاروں اہلکارقبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست دے چکے ہیں۔ یہ رجحان فوج کی تمام شاخوں میں دیکھا جارہا ہے اور اُن عہدوں کو متاثر کر رہا ہے، جنھیں اسرائیلی فوج کی آئندہ قیادت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ نفسیاتی دباؤ، جنگی تھکن، ضمیر کا بوجھ، اور عسکری حکمتِ عملی سے مایوسی بنیادی عوامل قرار دیے جا رہے ہیں۔ 

درندگی کی گونج گھروں تک — سماجی بحران 

اسرائیلی پارلیمان کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر تین میں سے ایک ریزرو فوجی کی بیوی علیحدگی یا طلاق پر غور کر رہی ہے۔ خواتین شدید مالی دباؤ اور بچے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ یہ بحران براہِ راست جنگی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔رپورٹ پیش کرتے ہوئے کمیٹی کی سربراہ میراؤ کوہن (Meirav Cohen)نے کہا کہ ۳ لاکھ ریزرو اہلکار طویل عرصے سے محاذ پر ہیں، جو اس خوفناک سماجی بحران کی بنیادی وجہ ہے۔نصف سے زیادہ خواتین کا کہنا ہے کہ شوہروں کی طویل جدائی سے اَزدواجی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ والد کی غیر موجودگی اور اس کے نتیجے میں ماؤں کے چڑچڑے پن سے بچے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ 

غزہ جنگ کے اثرات اب اسرائیلی یونی ورسٹیوں تک جا پہنچے ہیں۔ گذشتہ ہفتے تل ابیب کی بن گوریان یونی ورسٹی میں سیاسیات کے استاد ڈاکٹر سباسٹین بن ڈینیل ’ غزہ جنگ کے اسرائیلی معاشرے پر منفی اثرات‘ کے عنوان سے لیکچر دے رہے تھے کہ انتہا پسند وزیر الموغ کوہن نے کلاس میں گھس کر زبردستی لیکچر رکوا دیا۔  

اسرائیلی اولمپک کمیٹی نے اپنے کھلاڑیوں کو غیر ملکی دوروں سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔ نسل کشی کے خلاف دنیا کا بہت آہستگی سے جاگتا ضمیر اسرائیل کو ناپسندیدہ ریاست بنارہا ہے۔ 

اوکسفرڈ یونین نے ایک قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل، ایران کے مقابلے میں خطّے کے استحکام کے لیے کہیں بڑا خطرہ ہے۔ گذشتہ سال بھی اوکسفرڈ یونین نے ایک قرارداد کہ اسرائیل نسل کشی کرنے والی نسلی تفریق پر مبنی ریاست ہے، کو ۵۹کے مقابلے میں ۲۷۸ ووٹوں سے منظور کیا تھا۔یہ قراردادیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ یورپ کے سنجیدہ حلقے اب اسرائیلی موقف سے ہٹ کر حقائق کو تسلیم کر رہے ہیں۔ 

جرمنی کا برانڈن برگ گیٹ (Brandenburg Gate) جو کبھی اتحاد اور آزادی کی علامت تھا، آج ایک نئے فکری جمود کی نشانی بنتا جا رہا ہے۔ چند نوجوانو ں نے اس تاریخی دروازے پر ایک بینر آویزاں کیا جس پر لکھا تھا: ’’نسل کشی کبھی دوبارہ نہیں، فلسطین کو آزادی دو‘‘۔وہ فلسطینی پرچم لہراتے ہوئےامن کی اپیل کر رہے تھے۔ مگر جواب میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے چھ افراد کو گرفتار کرلیا۔ دنیا کو اظہارِ رائے کا درس دیتا یورپ، اب انسانی ہمدردی کے ایک جملے سے بھی خوف زدہ ہے۔دلچسپ حقیقت کہ گرفتاریوں، جرمانوں اور مقدمات کے باوجود ایسے واقعات یورپ میں معمول بنتے جا رہے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ گرفتاری طے ہے، پھر بھی وہ بولنے سے باز نہیں آتے کیونکہ خاموشی اب جرم بن چکی ہے۔ 

غزہ تعلیمی بورڈ نے ۱۳ نومبر کو انٹرمیڈیٹ کے نتائج کا اعلان کیا۔ ضحیٰ نظمی نے ۹۶ء۷  فی صد نمبر لے کر ٹاپ کیا۔ لیکن جب نتیجہ نکلا تو اس شانداز کارکرگی پر خوشی منانے کو ضحیٰ موجود نہ تھی۔ گذشتہ ماہ جب جنگ بندی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے وحشیوں نے نصیرات مہاجر کیمپ پر بم برسائے تو یہ لڑکی اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں سمیت اپنے ربّ کے پاس چلی گئی۔ درندگی صرف جسموں ہی کو نہیں بلکہ خواب، محنت، کوشش اور مستقبل کو بھی ملبے میں دفن کر رہی ہے۔ 

مغربی پریس کے جانب دارانہ رویّے کے باوجود یورپ کا باشعور طبقہ سوشل میڈیا کے ذریعے حقیقت سے آگاہ ہو رہا ہے۔ یہ وہ بدلتی فکری فضا ہے جو آنے والے کل فلسطین کے سیاسی مستقبل پر اثر ڈالے گی۔ اندھی طاقت عارضی فائدہ تو دیتی ہے لیکن فتح ہمیشہ حق اور ضمیر کی ہوتی ہے۔