دسمبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

’محکمہ احیائے ملّت اسلامیہ‘ کا المناک انجام

علّامہ محمد اسد | دسمبر ۲۰۲۵ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

قیامِ پاکستان کے ابتدائی ایام یعنی، اگست ۱۹۴۷ء کے آخری ہفتے کے دوران لاہور میں ایک سرکاری محکمے کا قیام عمل میں لایا گیا، جو اپنے نام کے اعتبار سے بہت منفرد تھا: ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ (’محکمۂ احیائے ملتِ اسلامیہ‘)۔ جدید تاریخ میں کسی سرکاری محکمے کے ساتھ ’اسلامی‘ کا لفظ پہلی دفعہ لگایا گیا تھا… محکمے کی سربراہی مشہور اسلامی مفکر علّامہ محمد اسد کو سونپی گئی۔ علّامہ اسد، لیوپولڈ وئیس کے نام سے وی یانا، جرمنی کے ایک یہودی مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن ہدایت کی طرف مائل، اس نوجوان کو اللہ نے جستجو کی وادیوں سے گزارتے ہوئے جوانی میں ہی نورِ ایمان سے منور کر دیا۔ اپنے اس روحانی سفر کی داستان انھوں نے اپنی مشہور کتاب Road to Macca  میں تحریر کی ہے۔ علّامہ محمد اسد، علّامہ محمد اقبال کی شخصیت سے متاثر ہو کر ہندستان آگئے اور علّامہ محمد اقبال نے اپنے دوست کو ہندستان کے موسم کی سختیوں سے بچانے کے لیے، چودھری نیاز علی خاں صاحب سے کہا شملہ میں ان کی رہائش کا بندوبست کیا جائے۔ وہاں رہائش کے دوران انھوں نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ترجمے کا آغاز کیا ہی تھا کہ جنگِ عظیم دوم شروع ہو گئی اور انھیں ایک جرمن جاسوس سمجھ کر انگریز حکومت نے گرفتار کر لیا۔ ایک عرصے کے بعد رہائی نصیب ہوئی تو انھوں نے اپنا مشہور رسالہ عرفات   نکالا۔ اس رسالے کے حوالے سے ان کی خط کتابت اسلامی مفکرین اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ، قائد اعظمؒ سے بھی ہوتی رہی، جو ان کے رسالے کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ رسالے میں علّامہ اسد نےWhat Pakistan Means  کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا، یعنی ’پاکستان کا مطلب کیا‘ اور ان مضامین میں اس کا جواب ہوتا ’لا الٰہ الا اللہ‘، یعنی تحریری طور پر یہ نعرہ پہلی دفعہ علّامہ اسد نے قیامِ پاکستان سے دو سال قبل ہی بلند کر دیا تھا۔  

اگست ۱۹۴۷ء کے آخری ہفتے میں ہی ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘‘کے اغراض و مقاصد کا کتابچہ شائع ہوا۔ اس میں محکمے کی ذمہ داریوں میں اسلام کے تعزیراتی قوانین کی تدوین سے لے کر تعلیمی، معاشی اور معاشرتی نظام کے نفاذ پر سفارشات مرتب کرنا شامل تھا۔ یہ محکمہ حکومتِ مغربی پنجاب کے تحت قائم ہوا تھا، لیکن فوراً ہی منظوری کے لیے اس کو مرکزی حکومت کے پاس بھیجا گیا۔ اس موضوع پر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں طویل بحثیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ آخرکار جنوری ۱۹۴۸ء میں منظوری کے بعد علّامہ محمد اسد کو ریڈیو پاکستان سے اپنے اغراض و مقاصد اور اہداف بیان کرنے اور پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے محکمے کے کام کا تعارف کروانے کی اجازت دی گئی۔ ریڈیو پاکستان سے علّامہ اسد کی سات ولولہ انگیز اور فکرسے بھرپور تقریریں نشر ہوئیں۔ بعدازاں ریڈیو پاکستان کی اجازت سے رسالہ عرفات کے ستمبر ۱۹۴۸ء کے شمارے میں شائع ہوئیں۔  

محکمہ میں علّامہ اسد کے ساتھ کام کرنے والوں میں مفکرین، ڈاکٹر حسین الہمدانی، سیّدنذیر نیازی، محمد جعفر شاہ پھلواری، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی، رشید اختر ندوی، مولانا شفیق الرحمٰن اور افتخار احمد چشتی شامل تھے۔ اپنے آغاز سے ہی یہ ادارہ انتہائی تندہی سے اپنے کام میں مصروف رہا۔ ادارے نے علّامہ شبیر احمد عثمانی کی سربراہی میں اسلامی قوانین کی تدوین کے لیے علما کی ایک کمیٹی بھی قائم کی۔ صرف چند ماہ کی محنت سے محکمے نے اپنی سفارشات مرتب کرلیں۔ جب یہ سفارشات مرکزی حکومت کو موصول ہوئیں تو حکومت پر قابض انگریز کی تیارکردہ بیوروکریسی نے اس ادارے کے راستے میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے۔ آخرکار علّامہ اسد سے ایک شاطرانہ چال چلتے ہوئے درخواست کی گئی کہ وہ عالمِ اسلام میں پاکستان کی شناخت کروانے میں مدد کریں۔ یوں انھیں یہ ذمہ داری سونپ کر سفیر کے عہدے پر تعینات کر کے مشرقِ وسطیٰ بھیج دیا گیا۔ ان کے جانے کے صرف ایک ماہ کے اندر ہی ادارے کا وہ مرکزی دفتر جو پنجاب سیکرٹیریٹ کے ساتھ پیپلز ہائوس میں قائم تھا، وہاں ایک پُراسرار آتش زدگی کے ذریعے آگ لگا کر سارا ریکارڈ جلا دیا گیا۔ یہ قیام پاکستان کے بعد کسی سرکاری ادارے میں پُراسرار آتش زدگی کی پہلی واردات تھی۔ یوں ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ کا سارا ریکارڈ جلا دیا گیا۔  

سفارت کاری کے لیے روانگی سے کچھ عرصہ پہلے یعنی ۱۸؍اگست ۱۹۴۸ء کو مرکزی حکومت کی بیوروکریسی سے تنگ آکر علّامہ محمد اسد نے مرکزی حکومت کو ایک طویل Memorandum  (یادداشت) ارسال کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب قائد اعظم اپنی علالت کی وجہ سے زیارت میں تھے اور مرکزی حکومت پر برطانوی تربیت یافتہ بیوروکریسی کا مکمل راج تھا۔ شریعتِ اسلامی کے نفاذ کا راستہ روکنے کے لیے اس وقت کی سول بیوروکریسی نے ان پر طرح طرح سے دبائو ڈالا۔ اس میمورنڈم میں آپ کو وہ دُکھ، تکلیف اور شدید کرب نظر آئے گا، جس سے وہ گزرے۔ اس میمورنڈم میں علّامہ اسد نے قیامِ پاکستان کے ایک سال کے اندر ہی یہ خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ اس ملک پر قابض قوتیں اسے مغربی طرزِ زندگی کی بنیاد پر ایک سیکولر ملک بنانے کی خفیہ سازشیں کررہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی فائلوں میں دبے ہوئے اس میمورنڈم کو چودھری مظفر حسین نے ڈھونڈ نکالا اور اسے انگریزی میں ہی ۱۹۹۸ء میں شائع کر دیا۔ اس میمورنڈم کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔  

میمورنڈم ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ کو پڑھتے ہوئے آپ کو احساس ہو گا کہ علّامہ اسد نے قیامِ پاکستان کے پہلے سال کے دوران ہی خبردار کردیا تھا کہ اسلامی شریعت سے رُوگردانی کے نتیجے میں اس ملک پر کیسی آفتیں ٹوٹ سکتی ہیں اور ہم بالکل بکھر کر رہ جائیں گے۔ آج ہم انھی آفتوں کا شکار ہیں___ اوریامقبول جان 


یادداشت (Memorandum) 

میں سمجھتا ہوں کہ ’محکمہ ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘، (احیائے ملتِ اسلامیہ) حکومتِ مغربی پنجاب کی سرگرمیوں کے حوالے سے مرکزی حکومت کو غالباً کچھ تشویش لاحق ہوئی ہے۔ اس وقت بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان میں نظامِ شریعت کے قیام کا دعویٰ کر کے ملک کو تنگ اور جامد ذہنیت کے ساتھ اسلام کی عکاسی کرنے کی طرف موڑنے کے رجحان کا خوف پایا جاتا ہے۔ ایسا دعویٰ کرنے والے افراد کا یہ کردار ان صدیوں پر محیط ہے، جن میں ہم زوال کا شکار تھے۔ بلکہ درحقیقت، یہ ہمارے تنزل کا سبب تھا؛ اور چونکہ ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ کا قیام نظریۂ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے مقصد کے تحت عمل میں آیا تھا، اس لیے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس کی سرگرمیاں بھی، ان رجعت پسندانہ رجحانات کو ہی تقویت پہنچائیں گی اور یوں حکومت کے ایسے اقدامات کو نقصان پہنچے گا، جن کے ذریعے حکومت، پاکستان کو ایک ’روشن خیال‘ اور’ ترقی پسند‘ ریاست بنانا چاہتی ہے۔ 

شروع ہی میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ محکمہ ’احیائے ملت اسلامیہ‘، جو حکومت مغربی پنجاب کی طرف سے میری سربراہی اور ذمہ داری میں دیا گیا ہے ، اس کا قیام ہمارے اس ملک میں نظامِ زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لیے، اور قرآنِ مجید کے پیغام ہی میں درج نظریے کا احساس بیدار کرنے میں مدد دینے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ میں زور دے کر اس حقیقت کو بھی بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی قانون کا تصور، جس کی ہم وکالت کر رہے ہیں، ہرگز وہ نہیں ہے جو ہمارے تاریک ادوار سے خصوصی نسبت رکھنے والے افراد پیش کرتے ہیں۔ مسلم عوام کے درمیان بعض لوگ زیادہ آواز بلند کرکے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دراصل وہی اسلام کے محافظ ہیں۔ درحقیقت ہمارا ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ (محکمہ احیائے ملت اسلامیہ) بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ ہم ایسے تاریک تصورات کا مقابلہ کریں، تاکہ اسلامی قانون کو اس شکل میں پیش کیا جائے کہ اسے ایک روشن خیال ریاست کے سیاق و سباق میں ایک قابلِ عمل قانون کے طور پر سمجھا جا سکے۔ ہم نے جس قدر تحریریں شائع کی ہیں، ان کے ایک محتاط مطالعے سے ہماری اس سمت کا ثبوت ازخود مل جائے گا۔ 

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے سیاست دان اور سیاست کو سمجھنے کے دعوے دار، جو اس وقت نفاذِ شریعت کی دہائی دے رہے ہیں، انھیں حقیقت میں اسلام کی سچائی یا مسلم عوام کی فلاح و بہبود سے کسی قسم کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو اپنے ذاتی مفادات کی ترویج اور مقتدرمناصب کے حصول کے لیے صرف اور صرف اسلامی نعروں کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ ان طریقوں سے بھی حصولِ اقتدار کا اپنا خواب پورا نہیں کر سکتے۔ ہمارے لوگوں کی غالب اکثریت کی یہ دلی خواہش ہے کہ پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قالب میں پھلتے پھولتے ہوئے دیکھیں۔ دوسرے لفظوں میں مختلف ذاتی مفادات رکھنے والی پارٹیاں دراصل اس لیے اسلامی نعرے استعمال کر رہی ہیں کہ اہلِ وطن کی اکثریت حقیقتاً، دل کی گہرائیوں سے اسلامی اصولوں کے ساتھ وابستہ ہے اور انھیں قیامِ پاکستان کا جواز صرف اور صرف اسلامی قانون کے نفاذ میں ہی نظر آتا ہے۔ عوام کی اس اکثریت کے ذہنوں کو ان تاریک سوچ رکھنے والوں نے جس طرح قابو میں کر رکھا ہے، اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے حصولِ آزادی سے پہلے عوام کے ساتھ نفاذِ اسلام کے جو وعدے کیے تھے، ہماری حکومت کی طرف سے وہ وعدے پورے نہیں کیے گئے اور عوام کی اکثریت حکومت سے مایوس ہو چکی ہے۔  

ہماری خودمختاری کے پہلے ہی ہفتے یہ بات مجھ پر بالکل واضح ہو گئی تھی کہ لوگوں کی معاشرتی خوداعتمادی کا انحصار مکمل طور پر، اس بات پہ ہو گا کہ حکومت انھیں واضح طور پر اسلام کی جہت پر لے کر چلتی ہے یا نہیں۔ کیوں کہ یہی ایک اُمید ہے جو کئی برسوں پر سیاسی جدوجہد کے دوران عوام کے ذہنوں سے بندھی تھی۔ اسی مقصد کے لیے ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ (محکمہ احیائے ملّت ِ اسلامیہ) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کا خاکہ دراصل ایک ’نظریاتی منصوبہ ساز مرکز‘ کے طور پر تیار کیا گیا تھا، جو عوام کے اس اسلامی جوش و جذبے کو بھی برقرار رکھے جو پاکستان بننے کا سبب بنا، اور اپنے ہم وطنوں کی جذباتی قوت کو تعمیری مقاصد کی طرف لے کر چلنے کی سمت رہنمائی بھی کرے۔ یہ ایک ظاہر سی بات تھی کہ ایسی کسی رہنمائی کے بغیر ہمارا اپنا معاشرتی وجود ہی خطرے میں پڑ سکتا تھا، کیوں کہ ہمارے ہاں ’مولوی‘ عنصر لوگوں کو پرانے، ناقابل عمل، فقہی تصورات کے ساتھ چمٹے رہنے کی ترغیب دے کر، اسلامی نظریات کو عملی جامہ پہنانا یکسر ناممکن بنا رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے پاس تین راستے ہیں: 

  • اوّل یہ کہ قدامت پسند اور تدبر نہ کرنے والے عناصر کو اجازت دے دیں کہ وہ اپنے آپ کو اکیلے اسلام کے برحق نمائندے کے طور پر پیش کریں، اور اس طرح مستقبل میں ایک طویل عرصے کے لیے، ہماری سماجی، معاشی اور فکری ترقی رک جائے۔ 
  • دوم یہ کہ ہم اپنے ہم وطنوں کی جذباتی قوت کے اس عظیم اجتماعی ذخیرے کو، جس کا مرکزی نکتہ اسلامی نظریہ ہے، معدوم ہو جانے دیں۔ 
  • سوم یہ کہ اس جذبے کی عظیم طاقت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی سعی کریں، جس طرح ایک روشن خیال، مضبوط اور ترقی پسند سیاسی نظام بنایا جا سکتا ہے۔ اسی راستے کی بدولت ہم پوری قوم کو مسلم اُمّہ کی قیادت کے منصب پر فائز کر سکتے ہیں۔ 

یہ ایک واضح بات ہے، ان تینوں امکانات میں سے آخری راستہ ہی اس قابل ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکے۔ اور پھر یہی بات بالکل درست انداز میں خود قائد اعظم نے بھی متعدد موقعوں پر وضاحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔ انھوں نے جب بھی پاکستان کے بارے میں بات کی تو اسےState of our own concept (ہمارے اپنے ہی تصور پر مبنی ریاست) قرار دیا۔ ایسی ریاست جو اپنی آگہی قرآنِ مجید سے حاصل کرے گی اور اس کا اسلامی شریعت پر مبنی ایک دستور ہو گا۔ یہ بات ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ قائد اعظم نے کبھی ایسی بات نہیں کی، جس پر وہ کامل یقین نہ رکھتے ہوں۔ ان کے اسی اعتماد کی بنیاد پر حکومت مغربی پنجاب نے محکمہ احیائے ملت ِ اسلامیہ (Depratment of Islamic Reconstruction) قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

اسلامی قانون کی تشکیلِ نو کی ضرورت 

ہمارے اس محکمے کا مقصد اپنے قیام کے روزِ اوّل سے ہی اسلامی قانون کے ایسے تصور کو فروغ دینا ہے، جو حقیقی طور پر قرآنِ مجید کے پیغام سے مطابقت رکھتا ہو، اور یہ بدلتے حالات سے ہم آہنگ بھی ہو اور قابلِ عمل بھی۔ ہمارے اس تصور کی بنیاد یہ ہے کہ اسلام، دراصل اللہ تعالیٰ کا قانون ہونے کی حیثیت سے، کسی خاص زمانے کے سماجی اور معاشی حالات کے ساتھ نتھی ہو کر نہیں رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے ہماری تاریخ کے گذشتہ اَدوار میں رائج ہر قانونی رائے کو یہ بہرحال من و عن تسلیم کرنے کا تقاضا بھی نہیں کرتا۔ 

جب ہم شریعت کی اصل بنیاد وحی الٰہی کو تسلیم کرتے ہیں، تو ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم یہ بھی مانیں کہ ہر زمانے کے سماجی، معاشی اور فکری تقاضے بھی اس میں آغاز ہی سے سمو دیے گئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ شریعت کا تصور ایک جامد تصور و طریق کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، بلکہ انسانی ترقی کے تمام امکانات کی اس میں گنجائش کا پایا جانا، نیز اس کا انسان کی معاشرتی نشوونما کے تمام مرحلوں کی ضروریات کے حسبِ حال ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ یوں یہ بات خودبخود واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی جو تصویر اس وقت ہمارے روایتی علما کی اکثریت پیش کر رہی ہے، وہ آج کے معاشرے کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتی، کیوں کہ وہ جامد اور قانون کے ان تصورات سے منسلک ہے، جو اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہمارے عظیم محققین کی محنت کا نتیجہ تھے۔ اس طرح کے تصور سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ، یہ تشریح و توضیح شارع کے اصل مقصد کی مکمل ترجمانی ہرگز نہیں کرتی۔ اس لیے کہ ان عظیم محققین کے قانونی استنباط ان کے اپنے زمانے سے متعلق تھے، اور اسی زمانے میں ہی نافذ کیے گئے تھے، اور وہ یقیناً اسی زمانے تک ہی محدود تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس خاص زمانے کے معاشرتی اور فکری پس منظر کی موافقت میں ہی بنائے گئے تھے۔ اس بنیاد پر یہ اصول و قوانین ہرگز حتمی نہیں ہو سکتے تھے۔ 

ایک اور بات یہ بھی ہے کہ وہ گذشتہ تمام صدیوں کے لیے حتمی طور پر مسلسل قابلِ نفاذ نہیں رہے۔ یہ ہے وہ نکتہ جو گذشتہ ایک ہزار سال یا اس کے قریب کے زمانے تک ہمارے اکثر علما (یقیناً سب نہیں) کی نظروں سے اوجھل رہا۔ یوں انھوں نے ہر قسم کے ’خودمختار اجتہاد‘ پر پابندی لگائے رکھی اور خود غوروفکر کرنا بھی بند کر دیا۔ محض اپنے سے زیادہ تخلیق کار اسلاف کے فکری نتائج پر دارومدار رکھنے کی عادت اپنا لی۔ وہ انسانی زندگی کی تبدیلیوں اور تاریخی تجربے (جس میں سائنسی تجربے کو بھی شمار کیا جائے) کی بنیاد پر اسلامی فکر کو ترقی دینے کے بجائے، نہایت اطمینان اور خوشی سے انھی نظریات اور تصورات کو دُہراتے رہے، جن کا رواج کبھی قدیم ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تہذیب و تمدن آہستہ آہستہ تمام تخلیقی افکار سے خالی ہوتا چلا گیا، اور اس نے اپنی فطری ثقافتی قوت ہی کھو دی اور یوں وہ رفتہ رفتہ بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی سے بھی دُور ہوتا چلا گیا۔ 

مختصر یہ کہ اسلام کے ابتدائی زمانے کی شان دار شروعات کے بعد اس کے مرحلہ وار فکری و تہذیبی تنزل کی یہی ایک اہم وضاحت ہے، اور یہی ہمارے ہاں ہر طرح کے زندہ غوروفکر کی بندش کی کہانی بھی ہے۔ آج کے دور میں بے جا طور پر جس چیز کو علمِ شریعت کا نام دیا جا رہا ہے وہ یہی علم ہے جس کی جامدیت نے اس جدید معاشرے کے سیاق و سباق میں اس کے نفاذ کو مکمل طور پر ناممکن بنا دیا ہے۔ المختصر، یہ کہ جو سب کچھ ناقابلِ عمل اور وقت کے تقاضوں سے دُور ہے، وہ ہرگز اسلام نہیں ہے، بلکہ وہ اسلام کے بارے میں اور اس کے قانون کے بارے میں قائم کی گئی فقط آراء ہیں، جو اپنے وقت میں قید قدیم فقہی جزئیات سے اخذ کی گئی ہیں۔ 

ایسی صورتِ حال میں ہمارے زمانے کے مسلم معاشرے کے لیے دو راستے کھلے رہ جاتے ہیں: اوّل یہ کہ یا تو وہ اسلام کے اصل پیغام کی طرف لوٹ جائیں اور نئے سرے سے اس کی تطبیق کے بارے میں غوروفکر شروع کریں۔ یا پھر اسلام کو ایک بار پھر اپنی سماجی اور ثقافتی ترقی کی عملی بنیاد بناتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی میں اسلام کے داخلے پر مکمل پابندی ہی لگا دیں، جس طرح کمال اتاترک نے اپنے ملک ترکی میں کیا۔ 

میری نظر میں پاکستان کے معاملے میں اس دوسرے حل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیوں کہ پاکستان کے وجود کا مکمل طور پر انحصار ہی اسی حقیقت پر ہے کہ یہاں کے مسلمانوں نے اپنے مذہبی نظریے کی بنیاد پر اپنے لیے ایک الگ قومیت کا نہ صرف مطالبہ کیا تھا بلکہ لوگ اب تک اسی پر قائم ہیں۔ کتنے برس تک ہم یہ دلائل پیش کرتے رہے کہ جب تک برصغیر کے مسلمانوں کے پاس اپنی کوئی الگ ریاست نہیں ہوتی، اس وقت تک ان کے لیے بطورِ مسلمان اپنی پہچان برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ اس بات سے انکار کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ الگ ریاستی ڈھانچے کے حصول کے لیے ہماری خواہش کا مقصود ہمارے لوگوں کا یہی فطری عزم تھا کہ ان کے پاس اپنے طرزِ زندگی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے کوئی خطۂ زمین ہو، جہاں وہ اسلام کے جوہر کو نشوونما پاتے ہوئے دیکھیں، یعنی اسلام محض ایک دعوت اور پیغام سے بڑھ کر ایک مکمل سیاسی حقیقت بن جائے۔ فقط یہی ایک وجہ تھی، اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں کہ جس نے ہمیں ہندستان سے علیحدگی کی جنگ لڑنے کا حوصلہ دیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس علیحدگی کی جنگ کا جواز ہمیں صرف اسی نظریے سے ملا۔ قیامِ پاکستان کے بعد تعمیرِ پاکستان میں اسلام کے حقیقی کردار کا انکار، پاکستان کے وجود کے جواز کا انکار کرنے کے ہم معنی ہے۔ 

یہ ایک واضح بات ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اسلام کو اس وقت تک اپنائیت حاصل نہیں ہو سکتی، جب تک اس کے ہاں نافذ قانون کو اس معاشرے کے قانونی نظام کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ اسی بنا پر ان دنوں نفاذِ شریعت کا مقبول عام مطالبہ قیامِ پاکستان کے لیے ہماری جدوجہد، اور اسی بنیاد پر پاکستان کا حصول ایک جائز نتیجہ تھا۔ مگر جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ شریعت کے اس روایتی تصور کو جس کی وکالت ہمارے چند رجعت پسند مولوی صاحبان اس وقت کر رہے ہیں، یہ ہماری ملت کے بہترین مفادات کے مطابق ہرگز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصلی اور کامل بالذات وہ شریعت ہی نہیں ہے جس کا تصور قرآنِ مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں پیش کیا گیا ہے۔ بلکہ یہ تو ایک ڈھانچا ہے جس میں مستند شرعی قوانین کو چھوڑ کر، بے شمار یک طرفہ آراء پر مبنی، وقت کی قید میں مقید استنباطات اور اضافہ جات شامل کیے گئے ہیں۔ یہ سب ان شرعی قوانین، استنباطات اور بعد کے اضافہ جات سے ماخوذ ہیں، جو ہزاروں سال پہلے رائج العمل فکری اور سماجی حالات کی روشنی میں مرتب کیے گئے تھے۔ 

اگر اسلام نے ہی ہمارے زمانے میں ایک ’عملی منشور‘ بننا ہے، اور اس نے ایک عملی منشور کے طور پر کام کرنا ہے، تو پھر ہمیں اپنے آپ کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ایک نئے اجتہادی عمل میں خود کو مصروف کرنا ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں، ہم موجودہ فقہی ذخیرے میں شامل، اپنے اپنے وقت کی ’قید میں بند‘ تمام روایتی فقہی تشکیلات کا ازسرنو جائزہ لے کر قرآن و سنت کے بارے میں ملنے والی بصیرت سے اپنے فہم کی روشنی میں اَزسرنو فقہی تشکیل کی ترتیب کو ہی اپنا ہدف بنا کر کام کا آغاز کریں۔ 

مجھے یہاں یہ بات بھی واضح کر دینی چاہیے کہ اس عمل میں ہمارا مقصود ’اسلامی قانون‘ کی کوئی نئے سرے سے تقسیم کار نہیں ہے۔ کیوں کہ اسلامی قانون تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے، وہ تو اپنے قابلِ عمل ہونے کے لحاظ سے بالکل حتمی ہے۔ البتہ وہ امور جن کا تعلق اس قانون (شریعت) کی تعبیرات اور بہت سے ایسے امور سے ہے، جن میں شرعی احکام کو ابھی تک ہم نے براہِ راست یوں واضح قانونی شکل نہیں دی، لازمی طور پر ہمارے اس پروگرام کا موضوع بھی وہی امور ہونے چاہئیں، جس میں ہم زندگی کے حقائق کو ترقی پسندانہ طریقے سے اپنے دائرۂ عمل میں لانا چاہتے ہیں۔ میری اس ساری جدوجہد سے مراد صرف اور صرف اجتہادی عمل کا تسلسل ہے۔ 

(میں کئی سال سے اس موضوع پر لکھتا چلا آ رہا ہوں، اور یہاں اس پر مزید تفصیل میں جانا میری ان معروضات کو اپنے دائرے سے بہت دُور لے جائے گی۔ بہرحال فوری حوالے کے لیے میں اس مسئلے کے بارے میں اپنے ایک مضمون کو ضمیمہ کے طور پر منسلک کر رہا ہوں، جس کا عنوان On the Principles of Islamic Law [اسلامی قانون کے اصولوں کے بارے میں] ہے)۔ 

مندرجہ بالا معروضات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس ملک میں مکمل طور پر قانونِ شریعت یک دم نافذ کرنا ناقابلِ عمل ہو گا اور نہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ شریعت کی ابھی تک قانونی تدوین ہی نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ روایتی فقہی تصورات کے عملی قانون سازی میں فوری استعمال سے قبل ان کی ایک بار جامع نظرثانی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفاذِ شریعت کی کارروائی کو ایک طویل عمل ہونا چاہیے، جو کئی برسوں پر محیط ہو۔ 

قانون سازی: چند بنیادی اُمور 

فطری سی بات ہے کہ اس سمت ہمارا پہلا قدم شریعت کی قانونی تدوین ہو گا (اس لفظ کے درست اور اصل مفہوم کے مطابق)۔ اس مقصد کے لیے، میں نے کچھ عرصہ قبل درج ذیل تجاویز مرتب کی تھیں، جنھیں یہاں لفظ بہ لفظ دوبارہ تحریر کر رہا ہوں (یہ تجاویز عرفات، مارچ، ۱۹۴۸ء کےص ۱۱-۱۲ پر بھی شائع کی گئی تھیں): 

  • ’’ایک بہت بڑی مشکل یہ ہے جو اب تک اسلامی تعمیرِ نو کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل تیار کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے، اور وہ معاشرتی معاملات سے متعلق شرعی قوانین کی یکساں ضابطہ بندی کا  نہ ہونا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس وقت ملت کے افراد میں سب سے بڑا پریشان کن تذبذب یہ پایا جاتا ہے کہ کیا ’اسلامی‘ ہے اور کیا ’غیر اسلامی‘؟ اور بے یقینی کی ایسی ہی کیفیت دیگر تمام سماجی و معاشی منصوبوں اور تجاویز سے متعلق بھی ہے، جن پر آج کل ہر طرف خوفناک بحث چل رہی ہے۔ ان معاملات کے حوالے سے جو اختلافات مختلف مکاتب ِ فکر کے درمیان پہلے سے موجود ہیں (یعنی جدید اور قدیم دونوں مکاتب ِ فکر کے درمیان) انھیں خاص طور پر اُچھالا جا رہا ہے۔ یہ اختلاف تمام تر قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے طریقوں اور اس سلسلے میں مختلف نقطۂ ہائے نظر کی ہی پیداوار ہیں۔ 

’’جب تک ہم ان اختلافات کو ہم آہنگی میں نہیں بدلتے اور کم از کم ایسے امور میں، جن کا تعلق مشترکہ عملی مسائل سے ہے اور جب تک ہم کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوتے، اسلامی اقدامی عمل (Islamic action) کا کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا بالکل ناممکن ہے۔ ایک ایسا لائحہ عمل جو موجودہ تمام مکاتب فکر یا کم سے کم مکاتب فکر کی اکثریت سے اپنا آپ منوا سکے۔ پیچیدگی اور اختلاف کے جس مقام تک ہماری مسلم فقہ گذشتہ صدیوں میں پہنچ چکی ہے، اسے دیکھتے ہوئے فی الحال ایسی کوئی بھی کوشش بے کار ثابت ہو گی، جس کا مقصد موجودہ فقہی اختلافات کو ختم کرنا اور تعبیر و اجتہادی استنباط کے مختلف طریقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ یہی کوشش ہی تو دراصل اس پیچیدگی کا سبب بن سکے گی۔ 

لہٰذا، اگر اسلامی اقدام کے لیے کوئی عملی، اور قابلِ عمل تجویز پیش کرنا ہے، تو پھر فی الحال ہمیں ان تمام امور کو ایک طرف رکھ کر کچھ ایسے امور سے متعلق تعبیر اور استنباط پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو بذاتِ خود بہت واضح ہوں، اور ان کو وضاحت کے ساتھ قرآن و سنت کے ظاہری الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اور ان قوانین کے بارے میں مختلف اسلامی مکاتب ِ فکر میں بھی کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ اگر ایسے قوانین کی فوراً تدوین ہو جائے، تو ان سے اسلامی معاشرتی تعمیرِ نو کا مقصد حاصل کرنے کے لیے کم سے کم ایک متفقہ بنیاد میسر آ جائے گی۔ 

’’لہٰذا، اس محکمے کی یہ تجویز ہے کہ، تمام مکاتب ِ فکر کے معتبر علما سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنے قابل ترین نمائندے، مستقبل میں زیرِ تشکیل ایک شریعت کمیٹی کے رکن بننے کے لیے نامزد کریں۔ اس کمیٹی کا کام یہ ہو گا، کہ قرآن و سنت کے ان معاشی اور اجتماعی احکام کی تدوین اور ضابطہ بندی کرے، جنھیں نصوص کے زُمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ یعنی جو مکمل طور پر واضح ہیں، اور ان کے الفاظ کے واضح ہونے کی وجہ سے ان کی کسی بھی قسم کی اختلافی تعبیر و تشریح کی گنجائش ہی نہیں ہے۔  

  • ’’یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس عمل سے نئے شرعی قوانین ’وضع کرنے‘ یا پہلے سے موجود شرعی قوانین کو ہی ’نئے سرے سے وضع کرنے‘، کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے جو شرائط کمیٹی کو جاری کی جائیں گی، ان کے مطابق کمیٹی صرف قرآنِ مجید اور معتبر روایات (جو تمام مکاتب ِ فکر کے ہاں قابلِ قبول ہوں) سے ہی حاصل ہونے والے مجموعی احکام کو جمع کرے گی، اور خاص عنوانوں کے تحت ان کی ایک ضابطہ بندی کر دے گی۔ اُمید ہے کہ اس طریقے سے نسبتاً مختصر حجم کا ایک ضابطہ میسر آ جائے گا، جسے مختلف مسلم مکاتب ِ فکر کے درمیان ایک طویل ترین غیر فرقہ وارانہ قدرِ مشترک قرار دیا جا سکے گا۔ اگر ہم اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو پھر ہماری ملت کے پاس معاشرتی اہمیت سے متعلقہ سوالات کے بارے میں کم سے کم ایک شرعی ضابطہ مہیا ہو جائے گا، جو بعد میں مزید غور و فکر کی بنیاد اور عملی قانون سازی کے نقطۂ آغاز کا کام دے سکتا ہے‘‘۔ 

میں آپ کی توجہ مندرجہ بالا گذارشات کے آخری جملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، جس سے یہ بات واضح ہے کہ شرعی قوانین کی ان خطوط پر ضابطہ بندی، جن کی نشان دہی میں نے کی ہے، بذاتِ خود معاشرتی قوانین کے ایک تیار ضابطے کے طور پر نافذالعمل نہیں ہو سکے گی۔ دراصل، یہ ضابطہ بندی ہمیں اپنے مستقبل کے معاشرتی قانون کے لیے محض ایک بنیاد فراہم کرے گی، نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ ان شرعی ہدایات کو ایک عملی اور مفصل قانون سازی کی صورت میں ڈھالنا ہمارے اجتہادی عمل پر منحصر ہو گا۔ ظاہر ہے، اس عمل کے لیے ایسے حقیقی علما کا میسر آنا شرطِ اوّلین ہو گا، جو نہ صرف مقاصد ِ شریعت کے سیاق و سباق سے واقف ہوں بلکہ عصری زندگی کے تمام پہلوئوں کو بھی جانتے ہوں۔ ایسے علما، ناپید اور نادرالوجود ہیں،۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ، ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ سرے سے موجود نہیں ہیں۔ 

  • اسی مسئلے کے حل کے لیے ہمیں ایک اسلامی دارالعلوم کے قیام کی بھی اشد ضرورت ہے، جو ہماری اس ضرورت کے مطابق علما کو تربیت دے سکے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے بہت پہلے ہی، جنوری ۱۹۴۸ء میں مغربی پنجاب کی حکومت کو ایک عصری دارالعلوم قائم کرنے کے لیے ایک پلاننگ کمیٹی بنانے کی تجویز دے دی تھی۔ میری یہ تجویز فوراً مان لی گئی تھی، اور عزت مآب سربراہ کی طرف سے مجھے اس کمیٹی کا اجلاس بلانے کا اختیار بھی سونپ دیا گیا تھا۔ میں علمائے کرام کو خواہ مخواہ مخالفت میں بھڑکانا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے اس کمیٹی کی صدارت مولانا شبیر احمد عثمانی کو پیش کر دی جسے انھوں نے فوراً قبول فرما لیا۔ اسی مقصد کے لیے، مختلف مکاتب ِ فکر سے تعلق رکھنے والے متعدد علما کو بھی ہم نے اس کمیٹی میں شامل کیا، البتہ میں نے یہ کوشش کی کہ اس میں جدید تربیت یافتہ علما کو بھی خاص جگہ دینے کا اہتمام ہو۔ کچھ غیر متعلقہ مشکلات کی وجہ سے اس موضوع پر کام شروع کرنا فی الحال ممکن نہیں ہو سکا۔ 

مزید آگے بڑھنے سے قبل میں یہاں ان فرائض ِ منصبی کا ایک خاکہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو ’محکمہ احیائے ملت اسلامیہ‘ نے پورے کرنا تھے۔ اور جو اسی وقت پورے ہو سکتے ہیں، جب حکومتِ پاکستان اس کے بنیادی اغراض و مقاصد سے اتفاق کرے۔ 

محکمہ احیائے ملّت اسلامیہ کے اغراض و مقاصد 

اغراض و مقاصد اختصار کے ساتھ ایک مضمون بعنوان ’اسلامی تعمیر نو‘ (عرفات، مارچ ۱۹۴۸ء، ص۶-۱۵) میں بیان کیے گئے تھے، مجھے اُمید ہے وہ بہت پہلے سے حکومت کے علم میں آچکے تھے۔ ان اغراض و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمارے محکمے نے تین شعبوں میں کام کرنے کا پروگرام بنایا تھا:  

۱- شعبۂ تحقیق 

اس شعبے کا بنیادی ہدف مندرجہ بالا ’شریعت کمیٹی‘قائم کرنا اور اس کی رہنمائی کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس شعبے کا کام اسلامی قانون کی روشنی میں مخصوص سماجی اور معاشی سوالات کے مناسب اور واضح جوابات دینا ہو گا۔ اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں: جیسے ذاتی زمینوں اور جائیدادوں کو قومیانے کا مسئلہ، اور اصل زر اور محنت کا آپس میں تعلق، بینکنگ اور انشورنس، وغیرہ وغیرہ، جنھیں شریعت نے متعلقہ زمانے کے مطابق اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ مگر ان کا مکمل حل تلاش کرنا ضروری ہے، اگر ہم واقعی اپنے اس دعوے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام تمام زمانوں اور ثقافتی ترقی کے تمام مراحل کے لیے قابلِ عمل ہے۔ اس وقت تک اطمینان کی صورت نہیں پیدا ہوسکتی، جب تک ہم بجاطور پر اور دلائل کے ساتھ یہ دکھا دینے کے قابل نہیں ہو جاتے کہ اسلامی دستور العمل نہ صرف لوگوں کو روحانی اطمینان بخشے گا بلکہ وہ انھیں روٹی، مکان، سود سے نجات، پیداوار دینے کا کام بھی کرے گا۔ خلاصہ یہ کہ، کم سے کم معاشرتی تحفظ، بھی فراہم کرے گا۔ اگرہم ایسا نہ کر سکے تو اس کی روحانی تاثیر ختم ہو جائے گی اور میدان کمیونسٹ پروپیگنڈے کے لیے خالی ہو جائے گا۔ 

ہمارے علما اب تک صرف گزرے زمانوں کے حقائق پر خوشیوں کے شادیانے بجاتے رہے ہیں اور اسلامی خطوط پر معیشت کی تشکیل کے لیے کوئی ٹھوس تجاویز نہیں دے سکے۔ ہمارے محکمے کا شعبۂ تحقیق قائم کرنے کا مقصد یہی تھا کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسی لیبارٹری بن جائے، جس میں ہمارے تازہ ترین مسائل کا اسلامی نقطۂ نظر سے جدید تحقیقی طریق کار کے مطابق حل پیش کیا جا سکے۔ ہمارے دائرۂ کار میں آنے والے سماجی مسائل میں سے ایک مسئلہ، ’پردہ‘ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اُمید ہے کہ ہماری تحقیق قرآنِ مجید اور اسوۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر یہ ثابت کر دے گی کہ ’پردہ‘ دراصل اسلام کے معاشرتی نظام میں شامل نہیں ہے، اور یہ بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یقینا اس طرح رُوبہ عمل نہیں تھا۔ 

۲- شعبۂ تعلیم 

یہ شعبہ اپنی توجہ زیادہ تر ایک جدید دارالعلوم کے قیام اور اسے چلانے پر مرکوز کرے گا۔ تجویز یہ ہے کہ جو صاحب، دارالعلوم کے پرنسپل ہوں گے، وہی بلحاظِ عہدہ ’محکمہ احیائے اُمت ِ اسلامیہ‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی ہوں گے۔ شاید سب سے بہتر بات یہ ہو گی کہ اس منصب پر کسی ترقی پسند مصری محقق کا تقرر کیا جائے، جس نے جامعہ الازہر سے تعلیم حاصل کی ہو اور وہ ضروری وسعت نظر کے ساتھ ساتھ دنیوی امور پر بھی خوب عبور رکھتا ہو۔ کیوں کہ اس بات میں ایک ابہام موجود ہے کہ ہمارے اپنے علمائے کرام میں سے کوئی ایسے مناسب صاحب مل سکیں گے بھی یا نہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں کچھ حضرات اچھی نیت کے مالک ہوں اور وسعتِ ظرف بھی رکھتے ہوں، مگر ایک اندازہ ہے کہ وہ عصری زندگی کے مسائل سے واقف نہیں ہوں گے۔ 

شعبۂ تعلیم کا دوسرا کام ہمارے تمام سکولوں اور کالجوں میں اسلامی تعلیم سے متعلق رابطہ قائم رکھنا ہو گا، اور اس مقصد کے لیے ہمیں اپنے پورے تعلیمی نظام میں صحیح اسلامی روح پھونکنا ہوگی۔ تعلیمی کانفرنس کی سفارشات عمومی نوعیت کی ہیں، اور اس میں انھوں نے بہت وسیع اختیار صوبائی یونی ورسٹی کمیٹیوں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں دیگر مسلم ممالک کے تجربات سے بھی ضرور استفادہ کرنا ہو گا، خصوصاً مصر سے۔ اس سلسلے میں ہمارا شعبۂ تعلیم دیگر مسلم ممالک کے درمیان مستقل تعلقات بھی قائم کر سکتا ہے اور تعلیمی نقطہ ہائے نظر کا تبادلہ بھی کر سکتا ہے۔ 

۳- شعبۂ  تبلیغ و نشرواشاعت 

اس شعبے کے فرائض ِ منصبی واضح ہیں: یہ اخبارات، ریڈیو اور خطبات کے ذریعے صحیح اسلامی تصورات کی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے گا۔ ہمارا اہم ترین مقصد اپنے ہم وطنوں کی معاشرتی خود اعتمادی/ اجتماعی اخلاقیات کی تعمیر ِ نو ہے، جو، ہماری معلومات کے مطابق اتنی پستیوں میں گر چکی ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ میری رائے میں، بدعنوانی کے خاتمے اور اعلیٰ پیمانے کے سماجی تعاون کے لیے حکومت کے تمام اقدامات کی بنیاد اضطراب و بے چینی کی چٹانوں، تخیلات و توہمات اور اخلاقی بے حسی پر رکھی گئی ہے، جس میں ہماری قوم اس وقت گھری ہوئی ہے۔ اس مسئلے کی غالب وجہ حصولِ آزادی کے بعد حکومت کی جانب سے عوام کو کوئی واضح ہدف نہ دے پانا ہے، وہ ہدف جس کے لیے قیامِ پاکستان سے پہلے ہم لوگ جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ واضح ہدایات پر مبنی جذبے اور عملی مثالیت کے بغیر، قومیں حتمی طور پر اخلاقی اور سیاسی دونوں سطحوں پر بکھر کر رہ جاتی ہیں۔ اس مسئلے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے کہ، ہماری قوم کو یہ یقین ہو جائے کہ، حکومت پاکستان واقعتاً اسلامی خطوط پر ایک سیاسی نظام قائم کرنا چاہتی ہے۔ میں اس موضوع پر اسی یادداشت کے آخر میں مزید گفتگو کروں گا۔ 

۴- شعبۂ اصلاحاتِ قانون سازی 

اس شعبے کا کام قانون سازی میں اسلامی خطوط پر اصلاحات لانے کے بارے میں حکومت کو واضح تجاویز دینا ہو گا۔ واضح سی بات ہے کہ ہم صرف ایسے معیارات کی تجویز دیں گے، جن کا موجودہ حالات میں عملی نفاذ ممکن ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خیالی تجاویز نہیں دی جائیں گی، جیسے کہ عام طور پر ہمارے مولوی صاحبان کی ترجیحات ہوتی ہیں۔ 

مثال کے طور پر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ، آج کل ہم ایک ’قانونِ زکوٰۃ‘ کا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہیں،اور جس دن یہ تیار ہو جائے گا، مرکزی حکومت کے غور کے لیے پیش کیا جائے گا (وجہ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ دستور کے مطابق ، کوئی زکوٰۃ بل صوبائی اسمبلی پاس نہیں کرسکتی، خصوصاً اس حقیقت کے پیش ِ نظر کہ زرعی زمین کے علاوہ، جائیداد اور سرمائے پر لگائے جانے والے تمام ٹیکس، وفاقی فہرست کے اندر شامل ہیں)۔ 

اس مسودے کی تیاری میں رابطہ کاری تو ایک بنیادی ضرورت ہے، مسودے میں ان تمام مکاتبِ فکر کی آراء شامل کی جائیں گی، جو اس ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ اوّل یہ کہ مسلمانوں سے زکوٰۃ کی وصولی سے حکومت پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں ہو جائے گی کہ وہ اور کسی طرح کے ٹیکس عائد نہ کر سکے۔ دوم یہ کہ ایک اسلامی حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ حسب ضرورت کچھ خصوصی ٹیکس عائد کرلے۔ یہ ٹیکس بھی انھی عنوانات کے تحت لگائے جائیں، جن پر زکوٰۃ کے قانون کے تحت لگائے جاتے ہیں۔ 

مذکورہ بالا دو مسائل کا مسلم تاریخ میں کوئی تسلی بخش جواب میسر نہیں ہے، اور ہم اس معاملے میں ایک طرح سے بالکل اوّلین اور قائدانہ کام کر رہے ہیں۔ (یہاں یہ بات بھی جملۂ معترضہ کے طور پر قابلِ ذکر ہے کہ اس مسودے کی بنیاد پر جو ہم اس وقت تیار کر رہے ہیں، حکومت کو دیگر تمام ٹیکسوں کے علاوہ، اضافی آمدن کے طور پر کئی کروڑ حاصل ہوں گے، جسے مسلم قوم اپنا دینی فریضہ سمجھ کر ادا کرے گی، اور اس کا استعمال سماجی فلاحی بہبود کے اقدامات کے لیے کیا جاسکے گا، جیسے بے روزگاری الائونس، سماجی بیمہ اور فلاح و بہبود کے دیگر بہت سے اخراجات جو اب تک عام بجٹ میں سے اٹھانا پڑتے ہیں)۔ 

مندرجہ بالا گزارشات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم شریعت کو (اس لفظ کے وسیع مفہوم کے طور پر) یک دم نافذ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے برعکس، مجھے یقین ہے کہ یہ کام صرف ایک منصوبے کے تحت تیار کردہ لائحہ عمل کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو کم سے کم دس سال کی مدت پر محیط ہو گا۔ اس منصوبے سے متعلق ہمارے محکمے کا عمومی کام یہ ہو گا کہ وہ اسلامی قانون کے مسئلے کی ایک نئی، تعمیری سوچ تیار کرے گا، اور اس طرح اسے اپنے زمانے کے لیے ایک عملی دستورِ کار بنا کر پیش کرے گا۔ البتہ، ایک سرکاری محکمہ ہونے کی بنا پر، ہم امکانی طور پہ اس وقت تک کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کر سکتے، جب تک حکومت یہ فیصلہ نہ کر لے کہ اسلام کا قانون اس کی حکمت ِ عملی کا تشکیلی عنصر ہو گا، اور پھر اپنا یہ فیصلہ ایک سرکاری بیان کے ذریعے عوام میں عام بھی کرے۔ 

استحکامِ پاکستان کی اساس 

اب میں اپنی اس یادداشت (میمورنڈم) کے مرکزی نقطے پر آ گیا ہوں۔ 

انتہائی اعلیٰ سطح پر کیے گئے بہت سے اعلانات کے باوجود کہ پاکستان کو قرآن کی روح کے مطابق چلایا جائے گا، بڑے پیمانے پر یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ ابھی تک اس وعدے کی تکمیل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس، کافی شواہد ملتے ہیں کہ حکومت علانیہ طور پر مغربی دنیا کے طرز پر آہستہ آہستہ ’سیکولرزم‘ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ عام تاثر درست ہے یا ہماری نامکمل معلومات کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے حکمت ِ عملی کے بارے میں ایک صاف اور واضح اعلان کے بغیر ہمارا محکمہ لوگوں کو اس بات پر مطمئن نہیں کر سکتا کہ یہ اسلامی تعمیر ِ نو کا ’محکمہ احیائے ملت اسلامیہ‘  ایک واقعی شان دار خدمت انجام دینے کے لیے قائم ہے، نہ کہ محض ایک ’تشہیری آلہ کار‘ ۔ 

میں بڑے افسوس سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں، کہ نظریاتی ابہام، ہماری آج کی زندگی کا ایک کردار بن چکا ہے۔ اس ابہام کا نتیجہ سیاسی بے چینی اور انتشار کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔ کوئی قوم اس وقت تک سیاسی طور پر زندہ نہیں رہ سکتی جب تک وہ اصول پرستی کے ایک معین معیار اور جذباتی وحدت سے سرشار نہیں ہوتی، اور ہمارے معاملے میں کوئی صورت ایسی نہیں ہے، جو اس طرح کی اصول پرستی اور اس معیار کی وحدت فراہم کر سکے۔ ہمارے لیے اب صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ کہ ہم اسلام پر شعوری یقین رکھیں اور ہمارے اندر اپنے اس یقین کو ایک سیاسی حقیقت میں ڈھالنے کی خواہش بھی موجود ہو۔ 

ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے وہ لوگ جو پاکستان کے مستقبل کی تشکیل کچھ مختلف خطوط پر چاہتے ہیں، جیسے، مثال کے طور پر ترکی کی طرز پر، یہ لوگ نہ تو ہمیں بتاتے ہیں (نہ، غالباً وہ خود بھی اس سے آگاہ ہیں) کہ اگر اسلام کو ہمارے معاشرے کی تعمیر میں ممتاز حیثیت نہیں دی جاتی تو پھر پاکستانی ’قومیت‘ کی بنیاد کیا ہو گی؟ ترکی یا برطانیہ کی مثال، یاحتیٰ کہ عرب ریاستوں کی مثال بھی ہمارے جیسے ملک کے لیے ہرگز مناسب نہیں۔ کیوں کہ ان تمام ریاستوں میں یا تو زبان کی بنیاد پر ایک بہت بڑی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، یا پھر نسلی بنیاد پر۔ ان بنیادوں پر وہ ہر تاریخی اور ثقافتی مفہوم میں ’قومیں‘ ہیں۔ جب کہ پاکستان کے معاملے میں ایسی کسی قسم کی ہم آہنگی کا عنصر سرے سے موجود ہی نہیں ہے (جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم لفظ ’قوم‘ کے روایتی مفہوم میں بھی ایک قوم نہیں ہیں)۔ 

اگر ہم اس اُلجھن کا مقابلہ بہادری سے کرنا چاہیں، بے کار کے حیلوں بہانوں کے بغیر، تو پھر ہمیں واضح طور پر یہ دیکھنا ہو گا کہ ہماری قومیت کی کوئی اور بنیاد ہے؟، لوگوں کے اسلامی شعور کے علاوہ، جو پنجابیوں، پٹھانوں، بنگالیوں اور سندھیوں وغیرہ، تمام مختلف طبقات کو یک جا کرتے ہوئے انھیں ایک مضبوط قومی وحدت میں سمو سکے۔ ہمارا تعلق مختلف نوعیت کی نسلوں سے ہے اور ہم مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ اگرچہ، اُردو غالباً ایک نہ ایک دن ہم سب کی مشترکہ زبان بن جائے گی، پھر بھی وہ مادری زبان تو ان تمام گروہوں میں سے کسی ایک کی بھی نہیں ہے، جو اس ملک کے اصل باشندے ہیں۔ 

مختصراً یہ کہ، ہمارے پاس نسلی شعور یا لسانی روایت کی ایسی وحدت نہیں ہے جو دوسری قوموں میں ’قومیت‘ کو تشکیل دیتی ہے۔ یہ حقیقت کہ کیا ہم اپنے آپ کو ایک قوم سمجھتے ہیں، یا پھر اس کی بجائے یہ کہ، ہم واقعی ایک قوم ہیں؟ اس سوال کی جڑیں کسی اور چیز میں ہیں، اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارا یہ شعور ہے کہ ہم ایک نظریاتی گروہ ہیں۔ اسی نے، اور اس کے علاوہ کسی چیز نے نہیں، پاکستان کے قیام کا جذباتی اور عقلی جواز مہیا کیا تھا۔ اگر اسی شعور کو صحیح طور پر پُرعزم منصوبہ بندی کے ذریعے پروان چڑھایا گیا اور اس کی تعمیر کی گئی تو یہی پاکستان کو ایک عظیم، طاقت ور اور ثابت قدم قوت بنادے گا، اور اگر ہم نے اسے نظر انداز کر دیا اور مغربی نظریات کی نقل کرتے ہوئے اسی بحث میں پڑے رہے کہ ایک جدید ریاست میں ’کیا کرنا چاہیے‘ اور ’کیا نہیں کرنا چاہیے‘، تو پھر ہم اتنی جلدی قومی سانحے سے دوچار ہو جائیں گے، جتنا ہم میں سے بہت سوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ 

مغرب زدہ طبقہ کی تشویش 

احکامِ اسلام پر عدم رضا مندی کا رویہ جس کی بنا پر ہمارا مغرب زدہ تعلیم یافتہ طبقہ پاکستان میں اس کے نفاذ کی مخالفت کرتا ہے، کوئی بہت معقول رویہ نہیں ہے (اگرچہ ہمارے مولوی صاحبان نے دنیا کو اسلام کی بالکل مبہم تصویر دکھا کر یقینا اس سلسلے میں بہت نقصان پہنچایا ہے)۔ اس کے ساتھ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ جدید دنیا میں کسی جگہ بھی اسلام ایک مؤثر طریقے سے نافذ نہیں ہے۔ مغرب زدہ طبقے کی ساری فکر یہ ہے کہ بیرونی دنیا کی نظروں میں وہ کہیں قدامت پسند شمار نہ ہو جائیں۔ چنانچہ جب بھی ان سے کوئی شخص اس موضوع پر بات کرتا ہے، تو ان کا سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ، ’’کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ شریعت کی بنیاد پر قانون سازی مصر یا ترکی میں بھی کہیں نافذ ہے؟‘‘ پھر ان کی توقع یہ ہوتی ہے کہ، انھیں جواب نفی میں ہی ملے اور اس طرح ان کا موقف ان کے حق میں ثابت ہو جائے۔ دیگر تمام پہلوئوں سے قطع نظر، یہ رویہ تعمیری سوچ کی کمی کا ایک جھنجھوڑ دینے والا مظاہرہ ہوتا ہے۔ 

مصر اور ترکی اور دیگر تمام مسلم ریاستیں، پاکستان کی طرح عوام کی طرف سے ایک شعوری نظریاتی مطالبے کے نتیجے میں معرضِ وجود میں نہیں آئیں۔ ان کا قیام بعض صورتوں میں اصل اسلامی سلطنت ٹوٹنے کا نتیجہ تھا اور بعض دیگر صورتوں میں، بعد کے زمانوں میں مسلم فتوحات کا نتیجہ تھا۔ ان میں سے کسی بھی صورت میں نئی ریاستیں پہلے سے موجود، مخصوص نسلی یا قومی شناخت کی بنیاد پر ہی قائم ہوئیں۔ اس طرح، وہاں کے باشندوں کی قومی شناخت ہی اب ان ریاستوں کی سیاسی بقا کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ایسی شناخت جس کا ہمارے سامنے پیش کیے جانے والے اس سوال سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ شعوری طور پر اور مؤثر طور پر اسلام کی اطاعت کرتے ہیں یا نہیں۔  

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو، بہرحال، ہمارے لوگوں کی ’قومی‘ شناخت کا وجود اور عدم وجود ہی ان کے نظریاتی شعور پر منحصر ہے جو کہ صرف اسلام ہے۔ ہم اپنے مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک قوم ہیں، کسی بھی اور وجہ سے نہیں۔ بیرونی دنیا کو یہ بات پسند ہو یا نہ ہو، یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہم نے ایک خودمختار ریاست کی خواہش اس کے علاوہ کسی اور بنیاد پر نہیں کی کہ ہمیں اسلامی نظریے کے لیے ایک وطن میسر آ جائے گا۔ 

’پاکستانی حب الوطنی‘ کی ضرورت و اہمیت پر جس قدر بھی زور دیا جائے، ممکنہ طور پر اس سے قومی وحدت کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا، جب تک بیان کیے گئے جذباتی عوامل کو شامل نہ کیا جائے۔ انھی جذباتی عوامل کی بنا پر ہماری حب الوطنی پنپ سکتی ہے۔ دوسری مسلم اور غیر مسلم ریاستوں کا جہاں تک تعلق ہے، تو ان میں قومی ہم آہنگی کے جذبات یقینا نسلی اور تاریخی وحدت کے شعور سے پیدا ہوتے ہیں، یہی جذبات ان کے اپنے لوگوں کو تحریک دیتے ہیں، یہی ایک ترک کو ترک ہونے کا شدت سے احساس دلاتے ہیں، ایک عرب کو عرب ہونے کا، اور ایک انگریز کو انگریز ہونے کا اور اس طرح دیگر اقوام کو بھی۔ یہ جذبہ اس سوال سے بالکل غیرمتعلق ہے کہ یہ چیز اخلاقاً صحیح ہے یا غلط۔ ان کی قومیت انھیں حب الوطنی کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے، اور یقیناً کرتی بھی ہے۔ 

جہاں تک ہمارا معاملہ ہے تو ہماری حقیقت یہ ہے کہ صرف اور صرف ہمارا ایک مشترکہ نظریے کے ساتھ مضبوط تعلق ہی پنجابی اور بنگالی کے درمیان اور اسی طرح پٹھان اور سندھی کے درمیان مضبوط تعلق کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس نظریے میں ایک اہم جذباتی طاقت ہے، جو ہمیں جوڑ کر ایک قومی وحدت میں پرو سکتی ہے۔ اس کو نظر انداز کرنا، جو کہ ہماری قومی وحدت کا عنصر ہے، اور پھر یہ توقع کرنا کہ، ہماری سیاسی خودمختاری کے حصول کے بعد، اسلام کو پسِ پشت ڈال کر محض ’پس منظر کی سُروں‘ کا درجہ دینا، یہ ایک ایسا عمل ہو گا، جو مذہب کی حیثیت سے دوسرے تمام ممالک میں تو قابلِ قبول ہو، مگر ہماری یہ ایک بہت بڑی غلطی ہو گی: کیوں کہ اس طرح کی توقع پاکستان کو سوائے اس کے اور کہیں نہیں لے جائے گی کہ وہ داخلی انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ 

مثال کے طور پر، ہمارا ملک بُری طرح صوبائیت پسندی کا شکار ہے، جو ہمیں زمانۂ ماضی سے ورثے میں ملی ہے۔ مکمل داخلی وحدت کی طرف اس عظیم پیش قدمی کے باوجود جو ہم نے پاکستان کے لیے اپنی جدوجہد کے دوران کی تھی، ہمارے ہم وطن ابھی تک اپنے آپ کو پنجابی، سندھی، پٹھان اور بنگالی ہی محسوس کرتے ہیں، اور کئی موقعوں پر وہ قومی وحدت کے مفادات کے مقابلے میں اپنے علاقائی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسلام کے علاوہ اور کیا چیز ہے جو ذاتیت کے اس باریک خلا کو پُر کر سکتی ہے؟ 

اسلام کے علاوہ اور کیا ہے جو پٹھانوں کی ’پٹھانستان‘ بنانے کی خواہش کو مغلوب کر سکے، یا بنگالیوں کی اُردو کو قومی زبان کے طور پر قبول کرنے سے نفرت کو ختم کر سکے؟ اگر آپ انھیں دس لاکھ بار بھی کہیں کہ محب وطن بن کر رہیں یا ریاستی وحدت کے مفادات کو سب سے مقدم رکھیں، تو آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا، جب تک آپ آہستہ آہستہ انھیں یہ شعور ذہن نشین نہ کروا دیں کہ ان کا تعلق ایک فطری وحدت کے ساتھ ہے: اور یہ احساس صرف ان کے اندر یہ اسلامی شعور کے گہرا ہونے کی صورت پیدا ہو سکتا ہے کہ ان کا تعلق ایک مشترکہ نظریاتی طبقے سے ہے، اور ان کا یہ اعتماد کہ یہ مشترکہ نظریہ’ اسلام‘ ہی ہے، جو ان کی سیاسی اور سماجی زندگی کے خدوخال متعین کرنے میں فیصلہ کن عنصر ہو گا۔ 

کچھ اور نہیں تو کم سے کم پاکستان کے خالصتاً مفادات پر مبنی، دنیوی مفادات کا تعین بھی یہی تقاضا کرتا ہے کہ اسلامی نظریے کو ہمارے سیاسی نظام کی تشکیل میں مرکزی حیثیت دی جائے۔ یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ، اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز ایسی نہیں ہے، جو پاکستان کے بے جوڑ عناصر کو یک جا رکھ سکے۔ اسی طرح اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز ایسی نہیں ہے،جو اس ملک کو اور دیگر مسلم دنیا کو مؤثر طریقے سے ایک ساتھ رکھ سکے۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جو بلا شبہ ہر پاکستانی کے ذہن میں اہم ترین مقام رکھتا ہے۔ 

مغربی اقوام کا جانب دارانہ رویہ 

غیر مسلم اقوام کے نزدیک آج کی مسلم دنیا کو متاثر کرنے والے دو سُلگتے مسائل: کشمیر اور فلسطین ہیں۔ ان مسئلوں کے بارے میں ان اقوام کے رویے نے بالکل واضح طور پر یہ دکھا دیا ہے کہ ہمارے اپنے دائرے سے باہر مسلمانوں کا کوئی دوست نہیں ہے۔ جب کبھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوتا ہے، مغربی دنیا کی ہمدردیاں ترجیحی بنیادوں پر غیر مسلموں کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں فلسطین کی ایک مثال ہمارے سامنے ہے،جب کہ ’ریڈ کلف ایوارڈ‘ مسلم مفادات کے خلاف ان کے فطری رویے کی دوسری مثال تھا۔ مغربی دنیا کے سیاست دان اس حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں، جیسا کہ سوویت روس اور امریکا نے فلسطین کے معاملے میں کیا۔ مسلم دنیا کے خلاف وہ ایک متحدہ محاذ قائم کرنے کے لیے اختلافات بھی عارضی طور پر دبا دیا کرتے ہیں۔ 

اس بنا پر یہ بات واضح ہے، کہ مسلم اقوام اس وقت تک اپنا سیاسی وجود برقرار رہنے کی اُمید نہیں رکھ سکتیں، جب تک وہ ایک دوسرے کے قریب نہ ہو جائیں، اپنے وسائل کو یک جا نہ کر لیں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک سیاسی وحدت میں جمع نہ ہو جائیں۔ ’مسلم اقوام میں رابطہ‘ کی یک جا شدہ قوت، ان کی استعدادِ کار اور معاشی وسائل کو دیگر مشترکہ سیاسی گروہوں کے دبائو کے مقابلے میں جم کر رہنے کے لیے کافی ہوں گے۔ بلکہ یہ قوی اُمید ہے کہ وہ اس موجودہ دنیا میں جو کہ مخالف فریقوں میں بٹ چکی ہے، اپنے جمع شدہ وسائل کو ایک توازن کے ساتھ برقرار رکھنے کے لیے بھی کافی ہوں گے۔ جب کہ، دوسری طرف، اگر مسلمان سیاسی طور پر اسی طرح بے جوڑ ٹکڑوں میں بٹے رہے، جیسے کہ اب ہیں، تو پھر ایسی کوئی چیز نہیں جو اُن کے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت دے سکے۔ 

ہماری مشترکہ بصیرت اور اپنے قوی تحفظ کے فطری شعور کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مسلم دنیا اب متحد ہو جائے۔ اور یہ صرف اسلام کی دعوت ہی سے ممکن ہے، جو ملی وحدت کے لیے جذباتی بنیادیں فراہم کر سکتی ہے۔ اگر ہم، پاکستانی قوم، اسلام کو اپنے معاشرتی اور سیاسی وجود کے لیے بنیادی عنصر بنانے کے معاملے میں انتشار کا شکار ہو گئے، تو ہمارے درمیان اور دوسرے مسلم ممالک مثلاً عربوں، افغانیوں اور ایرانیوں کے درمیان کوئی خاص قدرِ مشترک باقی نہیں رہ جائے گی۔ 

اس کے برعکس اگر ہم، اسلامی دنیا کی سب سے بڑی ریاست ہوتے ہوئے، ایک صحیح اسلامی نظریاتی نظامِ سیاست کی تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو پھر پوری اسلامی دنیا کو اس مقصد کی طرف بڑھنے کے لیے بہت بڑا حوصلہ مل جائے گا، اور ہم میں سے بہت سے لوگ اس سیاسی وحدت کا خواب جتنی مدت میں پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ جلدی یہ مقصد حاصل ہوجائے گا۔ ایسا ہو گیا تو قیادت یقینا پاکستان کے ہاتھ میں ہو گی۔ نہ صرف اس لیے کہ ہم مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارا بطورِ ریاست قیام ہی اسلام کے لیے ہماری شعوری خواہش کا نتیجہ ہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ جدید مسلم دنیا میں سے صرف اور صرف ہم نے ہی وہ نظریہ اپنایا ہے، جس کی بنا پر مسلم وحدت کا حصول ممکن ہو سکتا ہے، اور یہ ہماری سیاسی فکر اور جدوجہد کا نقطۂ آغاز ہے۔ 

یہاں فطری بات یہ ہے کہ کوئی شخص، یہ دلیل بھی پیش کر سکتا ہے (اور ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کے بہت سے لوگ ان خطوط پر بحث کرتے بھی ہیں) کہ اسلامی نظریے پر علی الاعلان زور دینے سے غیر مسلم دنیا کا بغض بھڑک اُٹھے گا اور وہ ہمارے لیے خارجہ پالیسی میں مشکلات پیدا کریں گے، جب کہ اپنی ریاست کے ’اسلامی‘ کردار پر زیادہ زور نہ دے کر ہم آسانی کے ساتھ اس سے پہلو بھی بچا سکتے ہیں۔ 

اس دلیل کے بارے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ تجویز ایک مکمل مغالطے پر مبنی ہے۔ ہم اپنے اسلامی کردار پر زور دیں یا نہ دیں، غیر مسلم دنیا پر یہ واضح ہے کہ ہمارا ہدف اسلامی حکمت عملی ہی ہے۔ اس کی وجہ سادہ سی ہے، اور وہ یہ کہ دنیا اس حقیقت کو ابھی تک نظرانداز نہیں کر پارہی اور نہ آئندہ کبھی کر سکتی ہے کہ روزِ اوّل سے ہی ہم نے ایک الگ ریاست کے لیے اپنے دعوے کی بنیاد اپنے مسلمان ہونے پر ہی رکھی تھی، اور پھر اپنے اس عزم پر کہ ہم اپنی قومی زندگی اسلامی نظریے کے مطابق تشکیل دیں گے۔ 

حتیٰ کہ، اس کے برعکس اگر اپنی خارجہ پالیسی کے مفاد میں بھی ہم اپنے اسلامی منصوبوں اور پروگراموں کے حوالے سے مغربی تقاضوں کے مطابق اپنائی گئی دُور اندیشی سے کام لینے کے خواہش مند ہوں گے، تب بھی بیرونی دنیا یہی سمجھے گی کہ ہمارا مقصد اسلام ہی ہے۔ اور ہماری اس ’دُور اندیشی‘ کو دراصل وہ منافقت سے زیادہ اور کچھ نہیں سمجھیں گے (جس پر ہم اس وقت عمل درآمد بھی کر رہے ہیں)۔ یہ بات طے ہے کہ ہم اپنے اسلامی مقاصد کے علانیہ اظہار کو روک کر ہرگز اپنے مزید دوست نہیں بنا سکیں گے، اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی طے ہے کہ ہم ایسا کرنے سے دوسری مسلم اقوام کے ساتھ بھی اپنی دوستی کو کمزور کر لیں گے۔ جہاں تک داخلہ پالیسی کا تعلق ہے، تو اس طرح اسلامی مقاصد کو دبانا ہمارے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ 

اشتراکیت کی سرایت کا خدشہ 

اسلامی حکمت ِ عملی کے حق میں اپنے موقف کو ہمت اور حوصلے کے ساتھ، کسی ابہام کے بغیر علانیہ بیان کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن بھاری معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ان کا حل کسی اچھے طریقے سے نکالنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ان وجوہ کی بنیاد پر یہاں اشتراکیت کو پھیلنے کے لیے ایک زرخیز زمین میسر آ سکتی ہے۔ اب تک اس ملک میں اشتراکیت کی پیش قدمی جو محدود رہی ہے، وہ حتمی طور پر ہمارے لوگوں کے اسلام کے ساتھ گہرے تعلق کی وجہ سے ہی ہے۔ اگر اشتراکی یہاں اشتراکی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر قرآنِ پاک کی ہدایات کی بنیاد پر معاشرتی اور معاشی نظام قائم کرنے کی تمام اُمیدوں پر پانی پھر جائے گا۔ 

اس بات کو سامنے رکھیں اور سوچیں کہ اگر ہماری ریاست کو ’سیکولرزم‘ کی طرف کھسکنے کی اجازت دے دی گئی تو لوگوں میں اسلامی شعور کی کمزوری کا امکان بڑھ جائے گا، اور یوں معاشی مشکلات میں مارکسی پروپیگنڈے کے لیے تمام دروازے کھل جائیں گے۔ اسی طرح، آج لوگ جو نظریاتی تذبذب محسوس کر رہے ہیں، اشتراکیت کے علم بردار اس سے پوری طرح فائدہ اٹھا کر بڑی چالاکی سے ہمارے لوگوں کے روحانی اور سماجی اضطراب کو اپنے نظریے کی خدمت کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اب اشتراکیت کا، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، طویل عرصے تک طاقت سے کامیاب مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا مقابلہ صرف اس کے برابر کے یا اس سے زیادہ دلوں میں اُتر جانے والے نظریے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا نظریہ، جو معاشی انصاف اور مساوات کے اُصولوں کو انسان کی ذاتی شناخت کی فطری خواہش اور روحانی تسکین کے ساتھ سب کو یکجا کر دے۔ ایسا نظریہ اسلام ہی تو ہے، صرف اسلام، جو کہ ان تقاضوں کا صحیح حل مہیا کر سکتا ہے۔ 

اس طرح، اسلام کو ہماری حکمت عملی کا غالب عنصر بنانے کی حمایت کے لیے بہت زیادہ مواد میسر ہے۔ اسلام سے میری مراد چند رسمی اور بے جان قسم کی تقریبات ورسوم نہیں ہیں، جن کی وکالت ہمارے پیشہ ور ’حامیانِ اسلام‘ عموماً کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے میری مراد زندہ اور دھڑکنے والا مکمل طور پر وقت کے تقاضوں پر پورا اُترنے والا پیغام ہے، جو قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے اور جس کی عملی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں موجود ہے۔ 

ہمارے پیش ِ نظر ایسی شریعت کا نفاذ نہیں ہے جو گذشتہ صدیوں کی روایتی اور اپنے زمانے تک محدود فقہ میں پائی جاتی ہے۔ ایسی فقہ کا مطلب ایک قسم کے جمود کو دوام بخشنا ہو گا، جس کی قید میں ہماری مسلم فکر صدیوں سے بے مقصد چکر لگا رہی ہے۔ ایسا کرنے سے طاقت اسی طبقے کے ہاتھ میں دینا ہوگی جو دراصل گذشتہ صدیوں میں ہماری ثقافتی پس ماندگی کے ذمہ دار تھے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام کے بغیر ہمارا گزارا نہیں۔ البتہ وہ اپنی دائمی تروتازگی کے ساتھ اصل اسلام ہونا چاہیے، محض بے معنی تقریبات کے بوجھ پر انحصار نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں، ہماری سیاسی فکر اور عمل کے حوالے سے اسلامی قانون کے مسئلے پر ہمارے نقطۂ نظر کی تخلیقی تعمیرِ نو شامل ہے۔ 

اسلامی ریاست: استحکامِ پاکستان کا ناگزیر تقاضا 

یہ ہمارے محکمے کے قیام کے پس منظر کی تلخیص ہے، جس کی بنا پر ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ (محکمہ احیائے ملت اسلامیہ) کا تصور پیش ہوا اور یہ وجود میں آیا۔  

مگر، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، یہ محکمہ اس وقت تک ہرگز صحیح طریقے سے کام نہیں کرسکتا جب تک حکومت ِ پاکستان، اسلام کے معاملے میں اپنی پالیسی واضح نہیں کر دیتی۔ اگر ہم ایک متعین نظریاتی مقصد کے بغیر گھسٹتے رہے، تو پاکستان کی وحدت ہی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ہم اپنے سیاسی وجود کا واحد بندھن اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھیں گے، جو جذباتی سطح پر ہی ہماری وحدت کا ضامن بھی ہے۔ ان حالات میں حکومت کی اصل پالیسیوں سے ’طلاق یافتہ‘ ایک محکمہ احیائے ملت اسلامیہ، اسلامی روح کی نشاتِ ثانیہ اور ملی اخلاقیات کی ترویج کا تسلسل کے ساتھ راگ اگر الاپتا بھی رہا، تو اس سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔ 

ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے ایک غیر مبہم بیان جاری ہو کہ ایک اسلامی نظم ریاست کا قیام، تقسیم سے قبل ہمارا محض ایک نعرہ نہیں تھا اور نہ ہم نے نفاذِ اسلام کے نعرے کو انتخابات جیتنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا تھا، بلکہ یہی قیام پاکستان کا اصل مقصد تھا۔ ہمیں اس معاملے میں مغربی لوگوں اور مغربی لوگوں سے متاثر [مقامی] افراد کی آراء سے ڈرنا نہیں چاہیے جو صرف ایک ’سیکولر‘ ریاست کو ہی دورِ جدید سے مطابقت کی علامت سمجھتے ہیں، اور نہ یقینی طور پر، ہمیں اپنے تئیں یہ ہی سمجھنا چاہیے کہ ’پاپائیت/ ملائیت‘ کی طرز کی ایک ریاست قائم ہو گی، جسے ہمارے ہاں سے کوئی اہم مولوی صاحب چلا رہے ہوں گے، اور یہ ہمارے اسلام کی حقیقی علامت ہو گی۔ ایسا سمجھنے والے لوگ رجعت پسند ہیں، اس کے برعکس، جب کہ اسلام مکمل طور پر ترقی پسند ہے۔ یہ لوگ مُردہ فکر اور قدیم زمانے میں مقید فقہی فارمولوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنی زندگی کی تعمیر شارعِ دین کے معتبر مقاصد کے مطابق کرنی ہے۔ اگر ہم یہ نہیں کرتے، تو پھر پاکستان بنانے میں کوئی معقولیت ومعنویت نہیں رہ جاتی۔ 

آج حکومت، اسلام سے متعلق عوام کے اندر دل کی گہرائیوں سے موجود اس خواہش کے بارے میں بات کرنے سے کترا رہی ہے، لیکن پھر بھی عوام کی نظریں حکومت پر جمی ہوئی ہیں۔ عوام برطانوی بیوروکریسی کی وارث قوتوں کو جب دیکھتے ہیں، جو حکومت پر قابض ہیں تو ان کی اصل اُمیدیں مردہ ہوتی جاتی ہیں۔ ان کی خواہش کی تکمیل نظریاتی معنویت کی حامل قیادت ملنے سے ممکن تھی، مگر وہ انھیں نہیں مل سکی۔ حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ لوگوں کو اب وہ سب کچھ دے دیں جو کچھ وہ چاہتے ہیں، اور اس طرح وہ عوام کے دل دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیں گے۔ ’سوتے ہوئے کتوں کو لیٹا رہنے دو‘ کی پالیسی جو اب تک حکومت نے اسلامی پالیسی کے سوال اٹھانے پر اپنائی ہوئی ہے، زیادہ دیر کام نہیں کر سکے گی، کیوں کہ یہ لوگ سچ مچ سوئے ہوئے نہیں ہیں۔ کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے، اسلامی قانون کے نفاذ کے بارے میں لوگوں کی فریادیں اور دہائیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائیں گی، اور حکومت کی طرف سے کوئی تعمیری رہنمائی نہ ملنے کی صورت میں وہ آہستہ آہستہ انتشار کی شکل اختیار کر لیں گی۔ مایوسی کے عالم میں، عوام روزبروز تاریک سوچ کے مالک قائدین کے چنگل میں پھنستے چلے جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر قدامت پسندانہ رجحانات مضبوط ہوتے چلے جائیں گے۔ 

آج کل کی زندگی کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پیشہ ور علما کی بالا دستی (جن سے ایسے حالات میں بچنا ممکن نہیں) کا نتیجہ معاشی تعطل، سیاسی تذبذب اور پاکستان کی معاشرتی زندگی میں پست ہمتی میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ ایسی بدنظمی میں جو تعطل کی بیان کردہ مندرجہ بالا صورتوں سے پیدا ہو گا، اس کے نتیجے میں عوام میں تذبذب، پس ہمتی کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ یہاں اشتراکیت بھی امکانی طور پر غالب آجائے گی، اور ہمارا خودمختار پاکستان تاریخی یادوں میں کہیں گم ہو کر رہ جائے گا۔ 

لاہور،۱۸ ؍اگست،۱۹۴۸ء،محمد اسد 

ڈائریکٹر، ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن ،حکومت مغربی پنجاب