دسمبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

کشمیر میں پریس ہدف

افتخار گیلانی | دسمبر ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۱۹۹۹ءکی کرگل جنگ کے بعد جب نئی دہلی میں اس کے مضمرات کا جائزہ لیا جا رہا تھا، تو قومی سلامتی مشیر برجیش مشرا، میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر انڈین موقف کی پذیرائی سے مطمئن نہیں تھے کہ بین الاقوامی سطح پر انڈین میڈیا پر کوئی یقین نہیں کر رہا تھا۔ نیوز چینلوں میں ’اسٹار نیوز‘ کے انگریزی شعبہ کو ’این ڈی ٹی وی‘ مواد فراہم کرتا تھا۔ جنگ کے فوراً بعد مشرا نے ’این ڈی ٹی وی‘ کے سربراہ پرنائے راے کو بلا کر ان کو اپنا الگ چینل شروع کرانے کا مشورہ دیا۔ ’این ڈی ٹی وی‘ کے بجٹ کے ایک حصہ کا بار حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا۔ طے ہوا کہ ’این ڈی ٹی وی‘ ٹی وی صحافت میں ایک اعلیٰ معیار قائم کرے۔حکومت کی کارکردگی پر جتنی بھی تنقید کرنا چاہے کرسکتا ہے، اس میں حکومت کبھی مداخلت نہیں کرےگی، مگر نازک اوقات میں حکومت کی مدد کرنے کے لیے ایک ایسا بیانیہ وضع کرے، جس کوبین الاقوامی سطح پر قبولیت ہو‘‘۔ 

’این ڈی ٹی وی‘ نے اپنی کوریج اور حکومت کے احتساب کرنے کی وجہ سے ساکھ بنالی۔ جس کا استعمال نازک اوقات، خاص طور پر کشمیر میں شورش کو موڑ دینے کے لیے بیش تر اوقات کیا گیا۔بین الاقوامی سطح پر اس نے ’بی بی سی‘، ’سی این این‘ کی طرح ساکھ بنانے میں خاصی کامیابی حاصل کرلی۔ یعنی ایک غیر جانب دار میڈیا مشکل حالات میں ملک کےلیے اکسیر کا کام کرتا ہے۔ 

حال ہی میں جموں میں ریاست جموں و کشمیر کے سب سے پرانے اور مؤثر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے دفتر پر جس طرح پولیس نے یلغار کی اور اس کی ایڈیٹر انورادھا بھسین کے خلاف مبینہ طور پر کیس درج کیا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ انڈین حکومت کو اب کسی میڈیا کے سافٹ پاور کی ضرورت نہیں ہے۔یہی نظر آرہا ہے کہ صرف اسی میڈیا کی سرپرستی بلکہ شائع ہونے کی اجازت دی جائے گی، جو بالکل حکومت کی گود میں بیٹھا ہو۔ 

نوے کے عشرے میں جب کشمیر میں عسکریت زوروں پر تھی، تو سیکرٹری اطلاعات نے اس وقت کے ڈائریکٹر اطلاعات کو حکم دیا کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخباروں پر نکیل کس دے، کیونکہ وہ عسکریت کے بارے میں خبریں شائع کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر اطلاعات ایک جہاندیدہ کشمیری پنڈت کنہیا لال دھر تھے۔ انھوں نے سیکرٹری صاحب کو ہدایت دی کہ اس بارے میں گورنر سے حکم نامہ حاصل کریں۔ مگر گورنر گریش چندر سکسینہ نے سیکرٹری کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ ’’اگر اخباروں پر نکیل کس دی جائے،تو گراؤنڈ انفارمیشن یا فیڈبیک ان کو کہاں سے ملے گا؟‘‘ 

کم از کم دکھاوے کےلیے بھی ضروری ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ آزاد ہو، اور اس میں اسلوب و سوچ کی وہ تخلیقی کش مکش زندہ رہے، جو اسے حکومتی ڈھانچے سے الگ اور خودمختار دکھا سکے، تاکہ جب بحران کی گھڑی آئے تو یہی آزادانہ لہجہ کام آسکے۔ اطلاعاتی جنگ کا ایک بنیادی پہلو ’اعتبار’ہوتا ہے۔ یہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب سچائی بھی بیان کی جائے۔ 

کشمیر ٹائمز  کے دفتر پر چھا پہ آزادیِ صحافت کو خوف زدہ کرنے کی ایک کوشش ہی نہیں، بلکہ یہ یاد دہانی بھی ہے کہ جب ایک ایسا اخبار، جو عشروں سے کشمیر کی سیاسی اتھل پتھل، انسانی تکالیف اور حکمتِ عملی کے مباحث کو دستاویزی شکل دیتا آیا ہے، اچانک کمزور حالت میں دھکیل دیا جائے تو کیا کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ایسے وقت میں سوال صرف یہ نہیں ہوتا کہ ایک اخبار کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟ اصل بات یہ ہے کہ ان آوازوں، تحریروں اور ریکارڈ شدہ یادداشتوں کو خاموش کرانے کی یہ ایک کوشش ہے، جنھوں نے کشمیر کی اجتماعی یادداشت کو تشکیل دیا ہے۔ایک ایسی سوچ کی علامت ہے، جو صحافت کو رکاوٹ سمجھتی ہے، ضرورت نہیں۔ یہ اس بڑی لڑائی کا حصہ ہے کہ کشمیر کی کہانی کون لکھے گا، اور کون اس راستے سے ہٹایا جائے گا تاکہ سرکاری بیانیہ مضبوط رہے۔ 

ویسے تو ۲۰۲۰ءمیں ہی اس اخبار کے سرینگر کے دفتر کو سیل کر دیا گیا تھا،مگر اس کا جموں کا دفتر قائم تھا۔ وہ بھی تین سال سے بندپڑا تھا، کیونکہ اخبار کی مدیرہ انورادھا بھسین امریکا منتقل ہوگئی تھیں، جہاں سے انھوں نے اخبار کا دیجیٹل ایڈیشن پچھلے سال دوبارہ شروع کر دیا تھا۔ طاقت ور ریاستی طبقات کے ساتھ اس اخبار کا ہمیشہ ہی سے معرکہ رہا ہے۔ جب فضا پر عسکریت پسند چھائے ہوئے تھے، توان میں سے کوئی نہ کوئی گروہ  کشمیر ٹائمزکی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالتا رہا۔ جب سرکار نواز بندوق برداروں کا دور آگیا توان کے کمانڈر محمد یوسف المعروف کوکہ پرے نے اس اخبار کے سرینگر دفتر میں کا م کرنے والے صحافیوں کی موت کے فرمان صاد ر کر دیے تھے۔ 

  فاروق عبداللہ کی حکومت نے ۱۹۹۶ء سے لے کر ۲۰۰۲ء تک اس اخبار کے ریاستی اشتہارات بند رکھے۔ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میں برپا عوامی احتجاج کے بعد تو بھارتی وزارت داخلہ نے تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو حکم جاری کیا: کشمیر ٹائمز چونکہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لیے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے، حتیٰ کہ پرائیوٹ سیکٹر کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز  سے دُور رہیں۔ مجھے دہلی میں کئی بار حکومتی اداروں کے ذمہ داران نے کہا کہ بانی مدیر وید بھسین کو وزیر اعظم من موہن سنگھ یا وزیر داخلہ پی چدمبرم سے ملنا چاہیے، مگر وید بھیسن صرف اشتہارات بحال کرانے  کے لیے وزیروں سے ملنے پر کبھی راضی نہیں ہوئے، حتیٰ کہ انھیں سری نگر کا انتہائی جدید پریس، زمین سمیت بیچنا پڑا۔ اخبار کی سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی، مگر اقدار اور اصولوں پر کبھی اس شخص نے حرف نہ آنے دیا۔ 

ویسے تو اس اخبار کو وید بھسین نے ۱۹۵۵ء میں ہفت روزہ کی صورت میں شروع کیا تھا اور بعد میں ۱۹۶۰ء کے عشرے میں اس کو روزنامہ کردیا۔ آنجہانی وید، جموں و کشمیر کی سیاست میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۹ء تک وہ ’جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس یونین‘ (JRSU) کے صدر رہے۔ بعد ازاں ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۳ء تک ’جموں و کشمیر یوتھ نیشنل کانفرنس‘ (JKYNC) کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، اور نیشنل کانفرنس کی جنرل کونسل کے رکن بھی رہے۔ ۱۹۵۳ء کے بعد انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنی توجہ ریاست کی سماجی اور ثقافتی ترجیحات پر مرکوز کر دی۔انھوں نے ۱۹۵۲ء میں نیا سماج کے نام سے ایک اردو ہفت روزہ بھی جاری کیا، جسے وہ ۱۹۵۴ء تک چلاتے رہے۔ ۱۹۵۴ء میں یہ اخبار دفاعِ ہند کے قوانین کے تحت اس لیے بندکر دیا گیا کہ اُس نے اُس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی برطرفی اور گرفتاری کو’غیر جمہوری‘ قرار دیا تھا۔ بعد ازاں ۱۹۵۵ء میںانھوں نے کشمیر ٹائمز کی بنیاد رکھی اور ۲۰۰۰ء تک اس کے ایڈیٹر رہے۔تاہم، آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا گیا، تو اخبار اور زیادہ ابتلا و آزمائش کی نذر ہوگیا۔ 

انو رادھا بھسین نے انٹرنیٹ کی طویل بندش کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔ کشمیر میڈیا کی طویل خاموشی نے بھی ایک آزاد اور خودمختار میڈیا کے مستقبل کے امکانات کے بارے میں خوف اور خدشات کو جنم دیاتھا۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ پریس اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن سروسز اور فوٹو جرنلسٹ اور رپورٹرز کی نقل و حرکت پر عائد سخت پابندیوں میں فوری نرمی کی جائے۔ٹھیک پانچ ماہ بعد، ۱۰ جنوری ۲۰۲۰ء کو، عدالت نے کہا کہ ’’حکومت طویل عرصے تک انٹرنیٹ یا لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں نہیں لگا سکتی‘‘۔ ان کی کتاب ڈسمانٹلیڈ اسٹیٹ: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف کشمیر آفٹر آرٹیکل 370پر حال ہی میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے ۲۴ دیگر کتابوں کے ساتھ پابندی عائد کر دی تھی۔ ۲۰۱۹ء کے بعدسے جموں و کشمیر میں سیاسی پیش رفت اور میڈیا پر پابندیوں کے بعد کشمیرٹائمز کا پرنٹ ایڈیشن تقریباً بند ہو چکا تھا۔ 

۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں کشمیر ٹائمز  مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔  سوپور میں ہر روز بس ڈپو سے متصل یونیورسل نیوز ایجنسی کے باہر بھیڑ دیکھتا تھا۔ لوگ کشمیر ٹائمز حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی کر رہے ہوتے تھے۔ چونکہ اخبار جموں سے شائع ہوتا تھا، اس لیے سوپور اکثر دوپہر کو ہی پہنچتا تھا۔ کئی بار ہجوم کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کو مداخلت کرنا پڑتی۔ 

باضمیر افراد کے لیے یہ ایک بڑا سوال ہے ، وہ کب اپنی خاموشی توڑ یں گے یا اپنی باری کا انتظار کریں گے؟ یادرکھیں، وہ جرمن پادری مارٹن نیومولر کی اس نظم کی تصویر بن جائیں گے: 

پہلے وہ سوشلسٹوں کے لیے آئے،اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔ 

کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ 

پھر وہ ٹریڈ یونینوں کے لیے آئے،اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔ 

کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔ 

پھر وہ میرے لیے آئے ،اور میرے لیے بولنے کے لیے کچھ بچا نہیں تھا۔