شرعی طور پر یہ ایک اہم بات ہے کہ ’معیار‘ کو ہر صورت اور ہر سطح پر’مقدار‘ پہ فوقیت دی جائے۔
شرعی طور پر اہم ترین ترجیح میں سے ایک یہ ہے کہ علم عمل پر مقدم ہے، کیوں کہ علم پہلے ہوتا ہے اورعمل بعد میں۔ علم عمل کا رہنمااورمرشد ہوتاہے۔ معاذؓ بن جبل سے روایت ہے:
اَلْعِلْمُ إِمَامٌ وَّالْعَمَلُ تَابِعُہٗ، علم امام ہے اور عمل اس کا مقتدی۔ ؎ ۴
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب العلم میں ایک باب کا عنوان اَلْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ[علم قول او رعمل پرمقدم ہے]رکھاہے: بخاری کے شارحین کہتے ہیں کہ اس سے امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ قول اور عمل کی صحت کے لیے علم شرط ہے۔ یہ دونوں اس کے بغیر معتبر نہیں ہیں۔ اس لیے یہ ان پر مقدم ہے۔ یہاں تک کہ یہ اس نیت کی بھی تصحیح کرتاہے جوعمل کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ بخاری کے شارحین کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اسی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیاہے، تاکہ جب یہ کہاجاتاہے کہ عمل کے بغیر علم کا کوئی فائدہ نہیں تو اس سے کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ علم کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں اور اس کی طلب کی کوئی ضرورت نہیں۔
امام بخاریؒ نے اپنی بات کی دلیل کے طور پر متعدد آیات اور احادیث ذکر کی ہیں، جو ان کے مُدعا کی بخوبی وضاحت کرتی ہیں: فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۰ۭ (محمد۴۷:۱۹) ’’جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اپنے گناہوں کی بخشش مانگو اور مومنین اور مومنات کے گناہوں کی بھی‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمؐ کو سب سے پہلے حصولِ علم کا حکم دیاہے اور اس کے بعد استغفار کی تاکید کی ہے، جو کہ ایک عمل ہے۔ اور یہاں خطاب اگرچہ رسولؐ اللہ سے ہے، مگرساری اُمت اس خطاب میں شامل ہے۔ دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ (فاطر۳۵:۲۸)’’یقیناً اللہ کے بندوں میں اس کی خشیت رکھنے والے وہی ہیں جو علم رکھتے ہوں‘‘۔
وہ علم ہی ہے جو ایک انسان میں اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کی صفت کو پروان چڑھاتا ہے اور اس کی وجہ سے آدمی عمل پر آمادہ ہوجاتاہے۔ احادیث میں سے ایک یہ ہے:
مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْہُ فِي الدِّیْنِ ،اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتاہے، اسے دین کی گہری سمجھ عطا فرماتاہے۔ ؎ ۵
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ دین کو درست طور پر سمجھے گا تو عمل بھی کرے گا اور صحیح عمل کرے گا۔ قرآن کی سب سے پہلی وحی جو نازل ہوئی وہ اقرأ تھی [یعنی پڑھ]، اور قراءت علم کی کنجی ہے۔ عمل کے احکام اس کے بعد نازل ہوئے، جیسے:
يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ۱ۙ قُـمْ فَاَنْذِرْ۲۠ۙ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۳۠ۙ وَثِيَابَكَ فَطَہِرْ۴۠ۙ(المدثر۷۴ : ۱-۴) اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! اٹھو اور خبردار کرو، اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو، اوراپنادامن صاف رکھو۔
خلیفۂ راشدعمر بن عبدالعزیزؒ نے کیا خوب صورت بات فرمائی ہے:
مَنْ عَمِلَ فِيْ غَیْرِ عِلْمٍ کَانَ مَایُفْسِدُ أَکْثَرُ مِمَّا یُّصْلِحُ،جو شخص علم کے بغیر عمل کرتاہے وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرے گا۔ ؎ ۶
یہ بات ان بعض مسلمانوں کے طرزِعمل سے واضح ہے جن میں تقویٰ، اخلاص اور شجاعت کی کمی نہیں تھی، مگر ان میںشریعت کے مقاصد اور دین کے حقائق کے بارے میں علم وفہم کی کمی تھی۔ یہی صفات خوارج کے اندر پائی جاتی تھیں، جنھوں نے چوتھے خلیفۂ راشد علیؓ بن ابی طالب کے خلاف جنگ کی۔ حضرت علیؓ کی فضیلت ، غلبۂ دین میں ان کی خدمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسب، رشتہ داری اور محبت میں ان کے قرب کے باوجود انھوں نے حضرت علیؓ اور ان کے علاوہ دوسرے بہت سے مسلمانوں کابھی خون بہانا درست سمجھ لیا۔
وہ ایسے ہی لوگوں کا تسلسل تھا،جن میں سے ایک نے کسی موقعے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مالِ غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیاتھا۔ اس نے جہالت اور بے وقوفی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاتھا: اِعْدِلْ [عدل سے کام لو]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:
وَیْلَکَ! وَمَنْ یَّعْدِلْ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟ قَدْخِبْتَ إِذَنْ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَکُنْ أَعْدِلْ، ارے کم بخت! اگر میں عدل نہ کروں تو اور کون کرے گا؟ اگر میں نے عدل نہ کیا تو تُو یقیناً خائب وخاسر ہوجائے گا۔
اور ایک روایت میں ہے کہ اس تندخو اور اُجڈ آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاتھا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِتَّقِ اللّٰہَ،اے اللہ کے رسولؐ! اللہ کی نافرمانی سے بچو۔
آپؐ نے فرمایا:أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَہْلِ الْأَرْضِ أَنْ یَّتَّقِيَ اللّٰہَ؟’’کیا اہل زمین میں سب سے زیادہ میرا ہی حق نہیں کہ میں اللہ کی نافرمانی سے بچوں؟‘‘ اسی موقعے پر رسولؐ اللہ نے یہ پیش گوئی فرمائی:
اسی طرح کاایک گروہ ظہور پذیر ہوگا جن کی صفات یہ ہوںگی:تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازیں، ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزے اور ان کے عمل کے مقابلے میں اپنے عمل کو حقیر جانوگے۔ وہ قرآن کو پڑھتے ہوںگے مگرقرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکلیں گے جیسا کہ تیر کمان سے نکلتاہے۔ ’قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا‘ کامطلب یہ ہے کہ وہ ان کے دلوں میں جگہ نہیں بنائے گا، نہ ان کی عقل اس کے نور سے منور ہوگی۔ وہ اس کی تلاوت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کریںگے، اگر چہ یہ بہت نماز روزے ادا کرتے ہوںگے۔ ان کی ایک پہچان یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اہل اسلام کے خلاف جنگ کریںگے اور ان کو ’مشرک‘ کہیں گے۔ ؎ ۷
اسی وجہ سے حسن بصریؒ نے اس وقت تک عبادت اور عمل میں غلو سے بچنے کی تاکید کی ہے، جب تک کہ آدمی علم وفقہ کے قلعے میں بند نہ ہو:
علم کے بغیر عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے غلط راستے پر چلنے والا۔ جو شخص علم کے بغیر عمل کرتاہے وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے۔ لہٰذا علم کی طلب اتنی رکھو کہ اس کی بنا پر عبادت کو نقصان نہ ہو اور اس حد تک عبادت کرو جو علم کے لیے مضر نہ ہو۔ ایک قوم نے عبادت کو اپنایا اور علم کو ترک کیا تو وہ تلوار لے کر اُمت محمدیؐ کے خلاف بغاوت کرگئی۔ اگرانھوںنے علم حاصل کیا ہوتا تو وہ انھیں اس کام کا حکم نہ دیتا جو انھوں نے کیا۔ ؎ ۸
اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ۵۴ (یوسف۱۲:۵۴) اب آپ ہمارے ہاں قدر ومنزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔
اس پر یوسف علیہ السلام نے کہا:
اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ۰ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ۵۵ (یوسف۱۲:۵۵) ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور [ان معاملات کا] علم بھی رکھتاہوں۔
یہاں یوسف علیہ السلام نے اپنی خاص اہلیتوںکے بارے میں بتایا جو آپؑ کو اس عظیم کام کااہل ثابت کررہی تھیں، جس میں اس دور کے مطابق مالی اور اقتصادی امور، زراعت، منصوبہ بندی اور رسد کے انتظامات شامل تھے۔ ان قابلیتوںمیں بنیادی حیثیت دو اُمور کی تھی: ایک حفاظت یعنی امانت، اور دوسرا علم۔ یہاں علم سے مراد تجربہ اور کافی معلومات ہیں۔
یہ دونوں صفات سورۂ قصص میں شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی زبان سے نکلی ہوئی صفات کے مطابق ہیں، جو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو بطور ملازم رکھنے کے لیے اپنے والدمحترم کو بتائی تھیں:
اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ۲۶ (القصص۲۸:۲۶)بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھ لیں وہی ہو سکتاہے، جو مضبوط اور امانت دار ہو۔
پھر یہی معاملہ سیاسی و فوجی قیادت کے بارے میں بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بادشاہ مقرر کیا تو اس کی وجہ یہ بتائی:
اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىہُ عَلَيْكُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ۰ۭ (البقرۃ ۲:۲۴۷) اللہ نے تمھارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیاہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔
قَتَلُوْہُ قَتَلَہُمُ اللّٰہُ! أَ لَّا سَأَلُوْا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوْا، فَإِنَّمَا شِفَائُ الْعِيِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا یَکْفِیْہِ أَنْ یَّتَیَمَّمَ… ؎ ۹ اسے اس کے ساتھیوں نے ہلاک کیا ہے، اللہ انھیں ہلاک کرے۔ جب انھیں علم نہیں تھا تو کسی سے پوچھا کیوں نہیں؟ مرضِ جہل کا علاج یہ ہے کہ پوچھا جائے۔ اس کے لیے تو تیمم ہی کافی تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتویٰ کو اس شخص کے قتل کے مترادف ٹھیرایا اور انھیں ان الفاظ میں بددُعا دی: قَتَلَہُمُ اللہ [اللہ انھیں ہلاک کرے]۔ معلوم ہوا کہ جہالت کا فتویٰ کبھی ہلاک کرے گا اور کبھی تخریب کا ذریعہ بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن قیمؒ وغیرہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے کہ ’’کوئی شخص علم کے بغیر دین میں فتویٰ دینے کا مجاز نہیں‘‘۔ارشادِ ربانی ہے:
وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۳۳ (الاعراف۷:۳۳) اور یہ بھی ممنوع ہے کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو۔
علامہ ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جاہل مرے وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ بے علمی کی حالت میں کوئی فتویٰ دے۔ ابوحصین اشعریؒ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص کسی ایسے مسئلے میں بھی بے دھڑک فتویٰ دے دیتا ہے کہ اس جیسا مسئلہ اگر حضرت عمرؓ کو پیش آتا تو وہ اس کے حل کے لیے بدری صحابہؓ کو جمع فرماتے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں: اگر میں وہ بات کہوں جو مجھے معلوم نہ ہو تو کون سا آسمان ہوگا جو مجھ پر سایہ کرے گا اور کون سی زمین ہوگی جو مجھے پناہ دے گی۔
اور حضرت علیؓ بن ابی طالب نے فرمایا کہ اس بات سے میرا سینہ ٹھنڈا ہوتاہے ___یہ بات انھوں نے تین بار دُہرائی ___کہ آدمی سے ایک مسئلہ پوچھاجائے اور وہ اسے معلوم بھی ہو مگر وہ کہے: اَللّٰہُ أَعْلَمُ، اللہ بہتر جانتاہے۔
سیّد التابعین حضرت سعید بن مسیبؒ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جب کوئی فتویٰ دیتے تو یہ ضرور کہتے: اَللّٰہُمَّ سَلِّمْنِيْ، وَسَلِّمْ مِنِّيْ،’’اے اللہ! مجھے محفوظ فرما اور مجھ سے لوگوں کو محفوظ فرما‘‘۔ ؎۱۰
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ (یوسف۱۲:۱۰۸) تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھتے ہوئے اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔
لہٰذا، ہرداعی الی اللہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی دعوت علی الوجہ البصیرت ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی دعوت سے پوری طرح آگاہ ہو۔ جس چیز کی طرف وہ دعوت دے رہاہو، اسے اس نے خوب سمجھا ہو۔ اسے معلوم ہو کہ وہ کس چیز کی طرف دعوت دے رہاہے، کس کو دے رہاہے، کیوں دے رہاہے اور کیسے دے رہاہے؟
اسی بناپر کہاجاتاہے کہ ربّانی اس کو کہتے ہیں، ’’جو خود جانتا ہو، اس پر عمل کرتا ہو اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہو‘‘۔ اسی کی طرف یہ اشارہ ہے:
وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ۷۹ۙ(اٰل عمرٰن۳:۷۹) لیکن تم سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضاہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔
عبداللہ ابن عباسؓ نے ربّانی کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ ’’وہ علم اور سمجھ رکھنے والے ہوں‘‘۔ ؎۱۱
دعوت اور تعلیم کے میدان میں علم کے ذریعے جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں، ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ معلم لوگوں کے لیے آسانی پیداکرے ، انھیں مشکل میں نہ ڈالے، انھیں خوش خبری سنائے، اور انھیں متنفر نہ کرے۔ جیسا کہ ایک متفق علیہ حدیث میں آیاہے: یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، وَبَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا،’’آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ ڈالو، خوشخبری سناؤ متنفر نہ کرو‘‘۔ ؎۱۲
اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں: اس سے مرادنومسلموں کی تالیفِ قلب اور تعلیم میں تدریج ہے۔ اسی طرح اس سے مراد گناہوں سے روکنا بھی ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ کام تدریج کے ساتھ ہو، کیوں کہ ایک کام کی ابتدا اگر آسان ہو تو پہلی دفعہ کرنے والے کے لیے اس میں دل چسپی پیدا ہوجاتی ہے، اور وہ اسے خوشی سے قبول کرتا چلاجاتا ہے۔ پھر اس کا نتیجہ اکثر اوقات یہ نکلتاہے کہ اس کی دل چسپی مزید بڑھتی رہتی ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس معاملہ کیاجائے تو اس کا نتیجہ بھی برعکس نکلتاہے۔(دیکھیے: فتح الباری،۱/۱۶۳)
یہ ’تیسیر‘ [آسانی کا معاملہ کرنا]صرف نومسلموں تک محدود نہیں ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ کی بات سے معلوم ہوتاہے بلکہ یہ ایک عمومی اور دائمی امر ہے۔ یہ ہراس شخص کے لیے لازم ہے جو نومسلم ہو، یا جس نے ابھی ابھی گناہوں سے توبہ کی ہو، یا ہر وہ شخص جو تخفیف کا محتاج ہو جیسے مریض، یا عمررسیدہ یا کسی اور حاجت میں مبتلا شخص۔
علم کی بنیاد پر دعوت کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ ہے کہ داعی، دینی معلومات دل سوزی سے مخاطب تک پہنچائے، تاکہ وہ انھیں بآسانی سمجھ سکے، اور وہ باتیں نہ کہی جائیں جو اس کی عقل و فہم سے بالاتر ہوں۔ ورنہ یہ دعوت لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گی۔ اسی کے بارے میں حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ، وَدَعُوْامَا یُنْکِرُوْنَ،أَتُرِیْدُوْنَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ، لوگوں سے ایسی باتیں کرو جو ان کے لیے مانوس ہوں، جو باتیںنا مانوس ہوں انھیں چھوڑدو۔ کیاتم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیاجائے؟ ؎۱۳
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لَّا تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلَّا کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً،’’تم جب لوگوں سے کوئی ایسی بات کہتے ہو جس تک ان کا ذہن نہیں پہنچتا تو وہ ضرور ان میں سے بعض لوگوں کے لیے فتنے کا موجب ہوگی‘‘۔ ؎۱۴
فہم وفقہ میں اصل اہمیت اس امر کی ہے کہ مقاصدِ شریعت کو گہرائی سے سمجھا جائے اور ان کی حکمتوں کی معرفت حاصل کی جائے، ان کا آپس میں تعلق معلوم کیاجائے اور شریعت کے اصول کو فروع کے ساتھ ملایاجائے، اس کے جزئیات کو کلیات کی طرف لوٹایا جائے اور صرف ظاہر پر اکتفانہ کیاجائے اورالفاظِ نصوص پر جمود اختیار نہ کیاجائے۔
ارکانِ اسلام اور باقی معاملاتِ زندگی مثلاً خاندانی، سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی مسائل کے جزئی احکام کی تحقیق و تجزیہ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ شارع نے جب کسی کام کو قانون کا درجہ دیا ہے تو اس کے پیش نظر کچھ اہداف تھے۔ اس نے کسی بھی امر کو تحکماً یا بغیر کسی وجہ کے مشروع نہیں کیا۔ بلکہ ہرکام کو کسی حکمت کے تحت مشروع کیا جو اس کے کمال، اس کے علم، اس کی رحمت اور اپنی مخلوق پر اس کے احسان کے ساتھ نسبت رکھتا ہے۔ اس کے اسماء حسنیٰ میں سے العلیم اور الحکیم بھی ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت سازی میں بھی حکیم ہے، جس طرح وہ تخلیق اور تقدیر میں حکیم ہے۔ اس کی حکمت عالم امر میں اسی طرح نمایاں ہے، جس طرح عالمِ خلق میں نمایاں ہے:
اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ (الاعراف۷:۵۴) اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۰ۚ سُبْحٰنَكَ (اٰل عمرٰن۳:۱۹۱) پروردگار، یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد تو نہیں بنایا، تو ہر عیب سے پاک ہے۔
اسی طرح ہم اس کی شریعت کے بارے میں کہتے ہیں: رَبَّنَا مَا شَرَعْتَ ہٰذَا إِلَّا لِحِکْمَۃٍ، ’’اے پرودگار! تو نے یہ قانون بغیر کسی حکمت کے نہیں بنایا‘‘۔
دین اسلام کاعلم سیکھنے والے اکثر و بیشتر بحرِعلم کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں اور اس کی گہرائیوں میں نہیں اترتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اس میں تیراکی کرنے، اس کی تہہ میں غوطہ زن ہونے اور اس کے ہیرے برآمد کرنے کی اہلیت اپنے اندر پیدا ہی نہیں کی ہوتی۔ اس وجہ سے وہ ظاہر میں مشغول ہوتے ہیں اور اسرار ومقاصد کی طرف انھیں توجہ نہیں ہوتی۔ وہ فروع کے چکر میں پڑے رہتے ہیں اور اصول جاننے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔
وہ اللہ کے بندوں کے سامنے اللہ کا دین اور شریعت کے احکام ایسے منتشر فروعات کی صورت میں پیش کرتے ہیں، جن کی کوئی اجتماعی صورت نہیں بن سکتی اور ان بیان کردہ فروعات کا اپنے اسباب و علل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کی گفتگوئوں اور تحریروں سے شریعت ایسی صورت میں سامنے آتی ہے کہ گویا وہ مخلوق کے مصالح ا ورمفادات کو حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ مگریہ قصور شریعت کا نہیں بلکہ ان لوگوں کے فہم کا ہے، جنھوں نے احکام کے درمیان باہمی ربط وتعلق کو اپنی کم علمی اور ناسمجھی سے کاٹ دیاہے۔اس ظاہر پرستی اورلکیر کا فقیر بننے کے نتیجے میں اکثر اوقات یہ ہوتاہے کہ اللہ نے دین میں جو وسعت رکھی ہے اس میں تنگی آجاتی ہے، اور جس چیز کو شریعت نے آسان بنایا ہے اس میں تنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اس چیز میں بھی جمود پیدا ہوجاتاہے جس میں ترقی کاا مکان موجود ہو،اور بعض ایسی چیزوں کو کسی حد میں مقید کردیا جاتا ہے جس میں وسعت اور آزادی پائی جاتی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی توجہ اجماعی قطعیات پر مرکوز کریں اور اختلافی گمان اور اندازوں سے بچیں۔ اُمت کو جس چیز نے مشکلات سے دوچار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے قطعیات [یقینی امور] کو چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت دُنیا کے کونے کونے میں داعیانِ اسلام اور علَم بردارانِ سیکولرزم کے درمیان جو معرکہ برپا ہے وہ انھی قطعیات کے بارے میں ہے: عقیدے کے قطعیات، قانون کے قطعیات، فکر کے قطعیات اور کردار کے قطعیات۔ یہی قطعیات تفہیم وتلقین، تعلیم وتربیت اور پوری اسلامی زندگی کے وجود کی بنیاد بننی چاہییں۔ اسلامی دعوت اوردینی کام کے لیے یہ بات سب سے زیادہ خطرناک ہے کہ لوگوں کوان امور کی طرف دعوت دی جائے جو مختلف فیہ ہیں۔
اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کسی اختلافی مسئلے میں زبان تک نہ کھولیں۔ یاہم عقیدے، فقہ، یاکردار کے حوالے سے کسی رائے کو کسی پر ترجیح بھی نہ دیں، یہ تو ناممکن ہے۔ اگر یہ بات ہو کہ علما کسی رائے کو صحیح اور کسی کو کمزور نہ کہیں اور کسی کوراجح اور کسی کو مرجوح نہ کریں تو پھر ان کا کام اور کیا ہوگا؟ قابلِ گرفت بات یہ ہے کہ لوگ اس چیز کو اپنے لیے ایک دائمی مشغلہ بنا لیں اور متفق علیہ مسائل سے زیادہ توجہ کو ہٹا کر اختلافی مسائل کی طرف ہی رُخ کر لیں، ظنیات کی فکر میں پڑے رہیں، درآنحالیکہ لوگوںنے قطعیات سے بھی منہ موڑ رکھاہے۔
یہ بات بھی اضطراب اور خطرے کی ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے ایسے مسائل جو مختلف فیہ ہیں ان کو ایسے انداز میں پیش کریں جیسے ان میں کوئی اختلاف موجود ہی نہیں ہے۔ پھر ایسا کرنا بھی درست نہیں ہوگا کہ اس میں ہم دوسروں کی آراء سے جہالت برتیں جن کا اپنا نقطۂ نظر اور اپنے دلائل ہوتے ہیں، خواہ ہم انھیں معتبر سمجھتے ہوں یانہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتاہے کہ دوسری رائے جمہور علمائے اُمت کی بڑی تعداد کی رائے ہوتی ہے اور ___ وہ بھی غلطی سے مبرا نہیں ہوتی، کیوںکہ اس پر یقینی اجماع نہیں ہوتا۔ بعض معتبر ترین علما کی آراء بھی بعض اوقات کسی خاص ماحول اور خاص دَور میں پہنچ کر شاذہو جاتی ہیں۔
_______________
حواشی
۱-ابوداؤد اور نسائی، دیکھیے: صحیح الجامع الصغیر ۲۹۴۰
۲- متفق علیہ بروایت حضرت ابن عمرؓ، دیکھیے: اللؤلؤوالمرجان، ح۱۶۵۱
۳- طبرانی نے المعجم الکبیر اور صحیح الجامع الصغیر، ۵۳۹۴
۴- اس حدیث کو ابن عبدالبر نے روایت کیاہے۔
۵- صحیح بخاری مع فتح الباری، ۱/۱۵۹-۱۶۲۔ طبع :دارالفکر
۶- جامع بیان العلم وفضلہ، ابن عبد البر،۱/۲۷، دارالکتب العلمیۃ، بیروت
۷- ان کی تفصیلی صفات کے لیے دیکھیے: اللؤلؤ والمرجان، ح۶۳۸-۶۴۴
۸- یہ قول ابن قیمؒ نے مفتاح دار السعادۃ ، ص۸۲ سے لیا ہے۔
۹- ابوداؤد نے حضرت جابرؓسے اور احمد، ابوداؤداور حاکم نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیاہے: دیکھیے: صحیح الجامع الصغیر،ح ۴۳۶۲،۴۳۶۳
۱۰- ابن قیم إعلام الموقعین، [۲/۱۶۵-۱۶۸]، طبع: السعادۃ، تحقیق: محی الدین عبدالحمید
۱۱- امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب العلم میں درج کیاہے۔
۱۲- شیخین نے حضرت انسؓ سے روایت کیاہے۔ جیسا کہ اللؤلؤ والمرجان ، ح ۱۱۳۱ میں ہے۔
۱۳-امام بخاری نے کتاب العلم میں حضرت علیؓ سے نقل کیاہے۔ دیکھیے: فتح الباری ۱/۲۲۵
۱۴-اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمے میں نقل کیاہے۔