دسمبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

مغرب والو! اسلام اور مسلمان کو سمجھو!

سینیٹر برنی سینڈرز | دسمبر ۲۰۲۵ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

میں ایک نہایت سادہ مگر نہایت سچی بات سے آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ دنیا کو اس وقت سمجھ بوجھ کی شدید ضرورت ہے۔ وہ سمجھ بوجھ کہ جس کا تعلق مکالمے اور انسانی پشتوں سے ہے۔ بہت عرصے تک ہم نے دلوں اور انسانوں کے درمیان پُل بنانے کے بجائے دیواریں کھڑی کیں، احترام کے بجائے بدگمانی کو فروغ دیا۔ اور آج رات، جب میں [برطانیہ عظمیٰ کے]کنگ چارلس کے ساتھ کھڑا  ہوں، کہ جو اپنے شاہی مقام کے باوجود عشروں تک بڑے انکسار کے ساتھ مذاہبِ عالم کے مطالعے اور مکالمے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ آج مَیں ایک ایسے موضوع پہ بات کرنا چاہتا ہوں، جسے مغرب میں آج بھی بہت سے لوگ غلط طریقے سے سمجھتے ہیں اور وہ ہے: ’اسلام‘۔ 

جب امریکا یا یورپ کے لوگ لفظ’اسلام‘ سنتے ہیں تو بہت بڑی تعداد کے ذہن میں اسلام کے حوالے سے تنازعے، جھگڑے اور انتہاپسندی کا خوف اُبھر کر سامنے آجاتا ہے۔ میرے دوستو، بدگمانی پر استوار یہ وہ حقیقت ہے، جو گذشتہ کئی عشروں سے ہمارے میڈیا کی ذہن سازی کا نتیجہ ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ پڑھنے، سننے اور مسلمانوں سے ملنے کا وقت نکالیں تو آپ اسلام کے بارے میں انسانیت، روحانیت، سماجی انصاف کے اصولوں کو گہرائی سے پالیں گے۔ 

اسلام: ہمارے ماضی اور حال کا حصہ 

 کنگ چارلس نے ایک بار کہا تھا: ’’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام ہمارے ماضی اور حال کا حصہ ہے، اسے سمجھ کر ہم خود کو اور زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے ان کی بات سے زیادہ اتفاق نہیں تھا۔ لیکن اس کے بعد جب میں نے اسلام اور اسلامی دنیا کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے اس بات نے حیران کیا کہ یہاں کتنی تاکید معاشرے میں انصاف (Justice)، ہمدردی (Compassion) اور انصاف پسندی (fairness)پر کی گئی ہے۔  

عربی لفظ اُمّہ  کا مطلب محض قوم نہیں ہے۔اس کا مطلب ایک ایسی دیکھ بھال کرنے والی جماعت ہے، جو نسل یا دولت سے نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری سے جڑی ہوتی ہے۔ آپ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ہمارے سیاسی نظام اس اصول کی ترجمانی کرتے، اور ہم فی الحقیقت یہ بات تسلیم کرتے کہ ایک شخص کی تکلیف ہم سب کی تکلیف ہے تو ہماری معاشرت پر اس کا کیسا مثبت اثر ہوتا؟ یہ اقدار میرے لیے اجنبی نہیں، یہ آفاقی (universal) اور انسانی ہیں۔ 

یہی وہ اصول ہے جس پر میں ہمیشہ بطور ڈیموکریٹک سوشلسٹ یقین رکھتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے سے وابستہ اور بندھے ہوئے ہیں کہ کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا جانا چاہیے، اور اخلاقی ہمدردی کو پالیسی کی رہنمائی کرنی چاہیے۔  

اس تقریب سے پہلے جب کنگ چارلس اور میں آپس میں بات چیت کر رہے تھے، تو انھوں نے مجھ سے ایک ایسی بات کہی جو میرے دل کی گہرائی میں اُتر گئی۔ انھوں نے کہا: ’’برنی،میں نے قاہرہ، استنبول اور لاہور کی مساجد میں چہل قدمی کی ہے۔ میں نے رات کے سناٹے میں اذان سنی ہے، اور ان لمحوں میں مَیں نے بہت کچھ سمجھا اور جانا کہ ایمان اپنی بہترین شکل میں غلبے کا نام نہیں، بلکہ خود سپردگی (surrender)کا نام ہے۔ امن کے آگے خودسپردگی، انکساری کے سامنے خودسپردگی، خدا کے حضور خودسپردگی، اور بدقسمتی سے یہی وہ چیز ہے جسے جدید دنیا بھلا چکی ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں تکبر کو سراہا جاتا ہے، منافع کی تعریف ہوتی ہے، اور عاجزی کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔لیکن اسلام میں یہی عاجزی، طاقت ہے۔ خدا کے حضور جھک جانا، اسلام کے نزدیک اپنی مرضی کو کسی عظیم تر، عادل اور نفس سے بالاتر ہستی کے تابع کرنا ہے۔ جب میں قرآن کی آیات پڑھتا ہوں تو مجھے نہ خوف محسوس ہوتا ہے اور نہ جارحیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، بلکہ حسن، عقل، نظم اور یہ گہرا احساس پیدا ہوتا ہے کہ ایمان عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’انصاف پر قائم رہو، خواہ وہ تمھارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ 

 لمحہ بھر کے لیے سوچیے! ہمارا معاشرہ کیسا ہوتا اگر ہر سیاسی لیڈر، ہر چیف ایگزیکٹو آفیسر، ہر جج اس حکم پر عمل کرتا؟ مجھے ایک بات کہنے دیجیے۔ اگر آپ محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کا آخری خطبہ (Final Sermon)پڑھیں تو آپ کو وہ قدریں ملتی ہیں، جن کی بلندیوں، تک آج کی دنیا ابھی تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ نسلوں کی برابری، عورتوں کے لیے احترام، معاشی انصاف، اور انسانی حُرمت کی پاس داری___ یہ کوئی آج کے انقلابی(Radical) خیالات نہیں ہیں۔ یہ ایک منصفانہ معاشرے کی بنیادیں ہیں۔ لیکن زندگی کے کسی موڑ پر دنیا نے اسلام کی تصویر کو بگاڑ دیا۔ دوسروں پر الزام لگانا اور ایک خودساختہ ’دشمن‘ تخلیق کرنا آسان ہوگیا۔ 

 ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلام جن اصولوں کی تعلیم دیتا ہے ہمدردی، خیرخواہی، مالی معاونت، علم کی راہ میں تحقیق و جستجو وغیرہ آج وہی اصول مغربی تہذیب اپنے دفاع میں پیش کرتی ہے۔ 

 کنگ چارلس اکثر اسلام کی ماحولیاتی اخلاقیات (environmental ethics) کا ذکر کرتے ہیں، کہ کس طرح قرآن فطرت کے احترام، توازن اور پائے داری کی تعلیم دیتا ہے۔ ذرا سوچیئے،  ایک ایسے دور میں جب کارپوریشنیں منافع کے لیے زمین کو تباہ کر رہی ہیں، ایک ۱۴ سو برس پرانا مذہب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ’’زمین آپ کے پاس اللہ کی امانت ہے، آپ کی ملکیت نہیں ہے۔ آپ اس کے محافظ ہیں (caretakers)، فاتح (conquerors)نہیں ہیں‘‘۔ 

یہ پیغام میرے دل کی گہرائیوں میں اُترتا چلا جاتا ہے، کیونکہ جب میں موسمیاتی تبدیلی کی بات کرتا ہوں تو میں صرف سیاست یا سائنس کی بات نہیں کرتا بلکہ میں اخلاقیات کی بات کرتا ہوں۔ زندگی کو سہارا دینے والی چیز کو تباہ کرنا ہماری اخلاقی ناکامی ہے۔ اور اسلام نے یہ بات ہماری جدید کانفرنسوں اور کاربن رپورٹوں سے بہت پہلے سمجھا دی تھی۔  

اسلام اور مغرب میں مکالمے کی ضرورت 

جب کنگ چارلس نے برسوں پہلے ’اوکسفرڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز‘(OCIS) سے خطاب کیا تھا تو انھوں نے ایک جملہ کہا تھا، جو آج بھی گونجتا ہے:’’اسلامی دنیا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جسے حل کیا جائے، بلکہ یہ ایک شراکت دار ہے جس سے مل کر کام کیا جائے‘‘۔ (The Islamic World is not a problem to be solved, but a partner to be engaged). 

میرے دوستو، اس جملے میں بے پناہ حکمت ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ امن غلبے سے نہیں آئے گا، یہ مکالمے سے آئے گا۔ آپ جانتے ہیں، میں نے امریکا اور یورپ کے مسلمانوں، طلبہ، مزدوروں اور اسکالروں سے ملاقاتیں کی ہیں، اور میں نے ان کی آنکھوں میں وہی امیدیں دیکھی ہیں جو ہر انسان کے دل میں ہوتی ہیں:عزّت، استحکام، مواقع، امن۔ لیکن میرا دل اس بات پر ٹوٹ جاتا ہے کہ انھیں کتنی بار اُن کے اپنے ہی ملکوں میں اجنبی سمجھا جاتا ہے۔ کتنی بار انھیں ان دقیانوسی اور الزامی تصورات کے خلاف اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے جنھیں انھوں نے کبھی پیدا ہی نہیں کیا۔ ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک منصفانہ دنیا نہیں بنا سکتے، جب تک ہم تقریباً دو ارب لوگوں کے مذہب کو بدنام کرتے رہیں گے۔ ہم آزادی پر یقین کا دعویٰ نہیں کر سکتے، جب کہ تعصب کو ہوا دیتے رہیں۔ اور ہم مساوات کی بات نہیں کر سکتے، اگر ہم سچائی کو پروپیگنڈے سے آگے دیکھنے کے لیے تیار نہ ہوں۔  

جب میں دھوپ میں چمکتے ہوئے مساجد کے سنہرے گنبدوں اور میناروں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اُن میں کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔ میں تاریخ پڑھتا ہوں تو اُس میں ایک ایسی تہذیب کو دیکھتا ہوں، جس نے ہمیں الجبرا، طب، فلکیات، تعمیرات اور فلسفہ دیا۔ وہی تہذیب جس نے یورپ کے ’تاریک دور‘(Dark Ages) میں یونانی علم کو محفوظ رکھا۔ 

اسلام ترقی کا دشمن نہیں تھا، بلکہ سراپا ترقی تھا، اور میں نے یہی بات کنگ چارلس سے بھی کہی تھی: ’’جدید مکالمے (Discourse) کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ کو بھلا دیا ہے۔ ہم نے خوف کو تجسس (Curiosity) پر حاوی کر دیا ہے۔ لیکن اگر ہمیں انسانیت کے طور پر زندہ رہنا ہے اور میرا مطلب اخلاقی طور پر زندہ رہنا ہے، تو ہمیں اس تجسس کو دوبارہ حاصل کرنا ہوگا، اور بلاتعصب سننے کی خواہش کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا‘‘۔ 

کنگ چارلس نے سر ہلایا اور کہا: ’’برنی، ایمان تقسیم کے بارے میں نہیں، یہ تعلق جوڑنے کے بارے میں ہے‘‘۔ میں مسکرایا کیونکہ چند الفاظ میں انھوں نے وہ سب کچھ بیان کردیا، جس پر ہم دونوں یقین رکھتے ہیں۔ چاہے آپ تاج پہنتے ہوں یا بروکلین کی سڑکوں پر سے چلتے ہوئے آتے ہوں، امن کا راستہ ایک ہی ہے اور یہ انکسار سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے میں نوجوانوں سے کہتا ہوں ، خواہ وہ مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں، ملحدوں میں سے کوئی بھی ہو، سچائی اخلاص سے تلاش کرو۔ پڑھو، پوچھو، سیکھو‘‘۔ 

ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے بارے میں میڈیا کی سرخیوں کی بنیاد پر اپنی رائے نہ بنائو۔ اگر تم قرآن کو کھلے ذہن سے پڑھو گے تو تمھیں توازن، انصاف اور ہمدردی کا پیغام ملے گا۔ اگر تم تاریخ پڑھو گے تو پاؤ گے کہ کبھی مسلمان اور عیسائی اسپین میں ساتھ رہتے تھے، اور فن، شاعری اور رواداری کی ایک تہذیب تخلیق کرتے تھے۔ 

اگر تم آج کے معاشروں میں بھی دیکھو گے تو تمھیں بے شمار مسلمان ملیں گے جو غریبوں کو کھانا کھلا رہے ہیں، بیماروں کو شفا دے رہے ہیں، نوجوانوں کو تعلیم دے رہے ہیں، اور انصاف کے لیے کھڑے ہیں۔ یہی ہے وہ اسلام جو میں نے دیکھا ہے۔ میری اور کنگ چارلس کی گفتگو نے شاید یورپ کو چونکا دیا ہو۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کوئی انقلابی گفتگو تھی، بلکہ اس لیے کہ وہ سچی تھی۔ کیونکہ ایک شور میں ڈوبی ہوئی دنیا میں سچائی واقعی انقلابی محسوس ہوتی ہے۔ 

 ہم سیاست دان اور بادشاہ بن کر اکٹھے نہیں ہوئے تھے۔ ہم دو انسان بن کر سچ کی تلاش میں اکٹھے ہوئے تھے۔ اور سچ یہ ہے: اسلام اپنی بنیاد میں مغرب کا دشمن نہیں ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے، انھی ابدی اصولوں کو دکھانے والا جنھیں ہم سب قدر کی نگاہ سے دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں: ہمدردی، عاجزی، اور انصاف۔ 

مغرب ،  اسلام کو دوبارہ دریافت کرے 

میں یہ کہنا چاہتا ہوں: مغرب کو چاہیے کہ اسلام کو خوف کے ذریعے نہیں، بلکہ دوستی کے ذریعے دوبارہ دریافت کرے۔ ہمارے بچے صرف جنگیں نہیں دیکھیں بلکہ دانائی بھی سیکھیں۔ اور ہم ایک بار ہمیشہ کے لیے وہاں پُل بنائیں جہاں جہالت نے دیواریں کھڑی کی تھیں۔ کیونکہ مستقبل ان کا نہیں ہے جو زور سے چِلّاتے ہیں، بلکہ ان کا ہے جو گہرائی سے سنتے ہیں۔ اور یہی، میرے دوستو، امن کی ابتدا ہے۔ جب میں اسٹیج سے کنگ چارلس کے ساتھ اترا تو میں بھی اس لمحے محسوس کر رہا تھا تناؤ، خاموشی، اور کمرے میں ایک نئی بیداری کو۔ کچھ لوگ متاثر ہوئے، کچھ حیران رہ گئے، اور چند شاید بےچین ہوئے، مگر سچ یہی نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ جھوٹ کو ہلادیتا ہے۔ یہ انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اور جب میں نے کنگ چارلس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے:’’برنی، ایک ایسی دنیا میں جہاں خوف منافع بن چکا ہے، امن کی بات کرنا بھی ہمت مانگتا ہے‘‘۔ 

 یہ جملہ کئی ہفتے میرے ذہن میں گونجتا رہا، کیونکہ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ آج خوف ایک صنعت بن چکا ہے۔ ایک ایسا کاروبار جو سیاست، میڈیا اور طاقت کے ذریعے بیچا جاتا ہے۔ اور اسلام گذشتہ کئی عشروں سے اس صنعت کا سب سے آسان ہدف رہا ہے۔ نامعلوم (unknown) کے خوف کو بیچنا لوگوں کو الٰہی سمجھ بوجھ (divine)سکھانے سے کہیں آسان ہے۔ 

مَیں یہ گفتگو جاری رکھنا چاہتا ہوں بطور سیاست دان نہیں، ورمونٹ [امریکی ریاست] کے شہری کے طور پر نہیں، بلکہ بطور ایک انسان کے، جو انصاف، مساوات اور ہر انسان کی اخلاقی حُرمت پر یقین رکھتا ہے۔ دنیا کے سفر نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ ہر ثقافت، ہر گاؤں، ہر مذہب میں ایک مشترکہ خواہش ہوتی ہے: ’امن‘۔ 

دنیا بھر کی مائیں چاہتی ہیں کہ ان کے بچے محفوظ رہیں۔ دنیا بھر کے باپ چاہتے ہیں کہ ان کی محنت کا احترام کیا جائے۔ دنیا بھر کے نوجوان چاہتے ہیں کہ سچائی، طاقت سے زیادہ اہم ہو۔ اور اگر آپ قرآن کو توجہ سے سنیں اور پڑھیں، اگر آپ نبی محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کی تعلیمات کو سمجھیں، تو آپ انھی انسانوں جیسی خواہشوں کی بازگشت سنیں گے۔ قرآن کہتا ہے:’’خدا انصاف، نیکی اور قرابت داروں سے احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔ 

 یہ صرف اسلامی قدریں نہیں ہیں بلکہ یہ انسانی قدریں ہیں اور یہ ہم سب انسانوں کی میراث ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں، جہاں مقدس چیزوں کو خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے: عیسائی سچ، مسلم سچ، مغربی سچ اور مشرقی سچ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ سچ کا کوئی پاسپورٹ نہیں ہوتا۔ انصاف کی کوئی قومیت نہیں ہوتی اور ہمدردی ہر زبان بولتی ہے۔ 

کنگ چارلس نے ایک بار کلیرنس ہاؤس میں ہماری نجی ملاقات کے دوران کہا: ’’برنی، مغرب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کوئی درانداز نہیں۔ یہ ہماری مشترکہ کہانی کا حصہ ہے‘‘۔ انھوں نے  بالکل درست بات کہی۔ نشاتِ ثانیہ (Renaissance) تنہا کسی خلا میں نہیں ہوئی تھی۔ جدید سائنس، طب اور فلسفے کی جڑیں بغداد، قرطبہ اور دمشق کی لائبریریوں سے جڑی ہیں۔ 

مسلمانوں کی علمی خدمات ، ہمارا مشترکہ ورثہ 

جب یورپ ’تاریک دور‘ میں ڈوبا ہوا تھا، مسلمان اسکالر ارسطو کا ترجمہ کر رہے تھے، افلاطون کی فکر کو محفوظ کر رہے تھے، ستاروں کے نقشے تیار اور ایسے ہسپتال قائم کررہے تھے جہاں مریض کی دیکھ بھال عبادت سمجھ کر کی جاتی تھی۔ یہ کہانی نہیں، یہ تاریخ ہے۔ اور جب میں مغرب کے لوگوں کو اسلام کو ’غیر ملکی‘ کہہ کر مسترد کرتے دیکھتا ہوں، تو پوچھتا ہوں: ’غیرملکی کس چیز کے لحاظ سے؟‘ کیا یہ عقل کے خلاف ہے؟ کیا یہ ہمدردی کے خلاف ہے؟ کیونکہ اگر آپ اسلامی تہذیب کی تاریخ پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ اسلام، فتوحات سے زیادہ تجسس کے بارے میں متحرک تھا۔ 

عباسی خلافت کے علما نے دنیا کے معاملات کو صرف ذہن نشین نہیں کیا، وہ اس سے سوال بھی کرتے تھے۔ وہ مقصد، توازن اور اندازِکار تلاش کرتے تھے۔ یہی وہ جستجو تھی جس نے صدیوں بعد یورپ میں ’تحریک بیداری‘ کو جنم دیا، مگر ہم یہ حصہ نہیں پڑھاتے۔ ہم نیوٹن [ریاضی دان، ماہرطبیعیات، ۱۶۴۳ء-۱۷۲۷ء]کا نام لیتے ہیں، مگر ابن الہیثم [ماہر طبیعیات و ریاضی دان: ۹۲۵ء-۱۰۳۹ء]کو بھول جاتے ہیں۔ ہم لیونارڈو ڈاونچی [ریاضی دان، انجینئر: ۱۴۵۲ء- ۱۵۱۹ء] کی تعریف کرتے ہیں، مگر الجزری [اسماعیل الجزری، ریاضی دان، انجینئر: ۱۱۳۶ء-۱۲۰۶ء] کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ہم سقراط کو پڑھاتے ہیں، مگر الفارابی [فلسفی، طبیب، ریاضی دان: ۸۱۰ء- ۹۵۱ء]کو بھول جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک نسل یہ سمجھ کر بڑی ہوتی ہے کہ روشنی صرف مغرب نے ایجاد کی اور مشرق ہمیشہ اندھیرے میں رہا۔ یہ جھوٹ تکبر کو جنم دیتا ہے، اور تکبر ہمیشہ تقسیم پیدا کرتا ہے، جب کہ اسلام عاجزی سکھاتا ہے کہ علم خدا کی ملکیت ہے اور انسان کا کام صرف اخلاص کے ساتھ اسے تلاش کرنا ہے۔ یہی پیغام اس دنیا کو اس تکبر سے بچا سکتا ہے، جو آج اسے تباہ کر رہا ہے۔ 

جب ہم ایمان کے بارے میں بات کر رہے تھے تو کنگ چارلس نے کہا: ’’قرآن کا ماحولیات کے بارے میں نقطۂ نظر وہ چیز ہے، جسے مغرب کو بہت پہلے سیکھ لینا چاہیے تھا‘‘۔ اور میں ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ اسلام زمین کو ایک مقدس امانت سمجھتا ہے۔ نبی [صلی اللہ علیہ وسلم] نے فرمایا: ’’زمین سرسبز و شاداب ہے، اور خدا نے تمھیں اس کا نگہبان بنایا ہے‘‘۔ آج کی دنیا سے اس فرمان کا موازنہ کریں ۔جلتے جنگلات، زہریلے سمندر، کاروباری لالچ جو زندگی کو سہارا دینے والے توازن کو تباہ کر رہی ہے، مگر اسلام جو سکھاتا ہے اور جو سائنس ثابت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ سب کچھ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ فطرت کو تباہ کرتے ہو تو سمجھ لو کہ تم خود کو تباہ کرتے ہو۔  

شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بادشاہ اور ایک سوشلسٹ کے درمیان یہ گفتگو دراصل ’فہم و احساس میں رابطے‘ کے بارے میں ہے۔اس شعور کے بارے میں کہ سچائی کسی ایک سیاسی نظام یا مذہب کی ملکیت نہیں۔ سچ یونہی رواں دواں بہتا ہے، جیسے روشنی ہر کھلے دل میں داخل ہو جاتی ہے۔ میں ایک بات واضح کر دوں: میں یہاں اسلام کی تبلیغ کرنے نہیں آیا اور یہ میرا کردار نہیں۔ مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہمیں اس چیز کو بدنام (demonizing) کرنا بند کرنا چاہیے، جسے ہم سمجھتے تک نہیں ہیں۔ کیونکہ جس لمحے ہم کسی چیز کو ’دوسرا‘ کہتے ہیں، تو دراصل اُس وقت ہم اسے سننا چھوڑ دیتے ہیں۔ 

جب کنگ چارلس نے اسلام کی خوب صورتی اور توازن (beauty and balance)پر کھل کر عوام میں (publicly)بات کی تو میڈیا سے وابستہ کچھ افراد نے ان کو ہدفِ تنقید بنایا۔ جب میں نے امریکا میں مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا تو مجھے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حقیقی قیادت تالیوں (applause)کی طلب گار نہیں ہوتی، وہ سچائی کی طالب اور پیش کار ہوتی ہے، اور سچائی اکثر تنہائی کی شاہراہ پر چلتی ہے۔ آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں: کچھ سال پہلے میری ملاقات مشی گن میں ایک نوجوان مسلمان عورت سے ہوئی۔ اس نے کہا:’’سینیٹر، میں یہاں پیدا ہوئی ہوں اور اس ملک سے محبت کرتی ہوں، لیکن جب کبھی میں حجاب پہنتی اور باہر نکلتی ہوں تو لوگ مجھے ایسے دیکھتے ہیں، جیسے میں یہاں کی نہیں ہوں‘‘۔ اس کے الفاظ نے میرا دل توڑ دیا۔ ہم خود کو مہذب کیسے کہتے ہیں جب ہم اپنے ہم وطنوں کو محض مختلف طریقے سے خداکو ماننے پر اجنبی محسوس کراتے ہیں؟ آزادی کی بنیاد احترام ہے اور ہم یہ بات بھول کیسے گئے؟ یہ گفتگو صرف اسلام کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ہمارے بارے میں ہے کہ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہم واقعی اخلاقی ہمت رکھتے ہیں؟  

کنگ چارلس نے ایک بار کہا تھا،’’ہمیں اپنی جدید دنیا میں مقدس کو دوبارہ دریافت (rediscover the sacred)کرنا ہوگا‘‘۔ میں مکمل اتفاق کرتا ہوں، کیونکہ اخلاق کے بغیر جدیدیت (modernity)کھوکھلی ہے۔ یہ ہمیں ٹکنالوجی تو دیتی ہے، مگر ہم سے نرمی (tenderness) چھین لیتی ہے۔ یہ ٹکنالوجی طاقت تو دیتی ہے، مگر مقصد چھین لیتی ہے۔ 

 اسلام کی اذان ’اللہ اکبر‘ کا مطلب ہے: خدا سب سے بڑا ہے۔ خدا ہماری سیاست سے بڑا ہے، ہمارے غرور سے بڑا ہے، ہماری لالچ سے بڑا ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ ہم کائنات کا مرکز نہیں ہیں کہ حکمت کی ابتدا عاجزی (humility)ہے۔ شاید آپ مسلمان نہ ہوں، شاید آپ مذہبی بھی نہ ہوں مگر زندگی کے لیے عاجزی کا اصول مرکزیت رکھتا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے ضروری ہے، کیونکہ تکبر (arrogance) ہی اس دنیا کو مار رہا ہے۔ 

 جب کنگ چارلس اور میں نے اپنی گفتگو ختم کی تو ایک صحافی نے پوچھا، ’’سینیٹر سینڈرز، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ اسلام مغرب کو بچا سکتا ہے؟‘‘ میں مسکرایا اور کہا، ’’نہیں، میں کہہ رہا ہوں کہ حکمت و دانائی بچا سکتی ہے‘‘۔ کیونکہ ہمیں اسلام کو بچانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اپنی جہالت سے، اپنی تقسیم سے، اپنے اخلاقی زوال (decay)سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی معیشت سے جو انسانوں کے مقابلے میں منافع کو زیادہ اہمیت دیتی ہے،اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اس سیاست سے بچنے کی ضرورت ہے، جو جوڑنے کے بجائے تقسیم کرتی ہے۔ اس ثقافت سے دُور ہونے کی ضرورت ہے جو شور کو حکمت سمجھ بیٹھتی ہے۔ نبی محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] نے فرمایا:’’تم میں بہترین وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے‘‘۔ میرے نزدیک یہی بہترین سیاست اور خدمت ہے۔  

ذرا تصور کریں اگر دنیا واقعی ان الفاظ پر عمل کرنے لگے، ایک ایسی دنیا جہاں رہنما اپنے لوگوں کو ووٹ نہیں بلکہ امانت سمجھیں۔ جہاں دین ہتھیار نہیں بلکہ ہمدردی اور اجتماعی ذمہ داری کو سمجھنے کا دروازہ بنے۔ یہی موضوع تھا جس پر میں اور کنگ چارلس گفتگو کر رہے تھے، عقائد پر نہیں بلکہ انسانیت پر اور مذہبی اختلافات پر نہیں بلکہ اخلاقی عظمت پر۔ 

ایک روز مَیں اوکسفرڈ کی مسجد کے سامنے کھڑا تھا۔ اذان شروع ہوئی تو میں نے اپنے اردگرد چہروں کو دیکھا نو جوان، بوڑھے، کالے، گورے، مرد، عورتیں، مختلف زبانیں، مختلف خواب  دیکھنے والے، مگر سب ایک ہی آسمان کے نیچے خاموش کھڑے اذان سن رہے تھے۔ اور میں نے سوچا: یہی وہ چیز ہے جسے دنیا بھول چکی ہے کہ آخر میں ہم سب ایک ہی خالق کے سامنے جھکتے ہیں، چاہے کسی نام سے پکاریں۔ 

یہ احساس کمزوری نہیں طاقت ہے۔ وہ طاقت جو جنگیں روک سکتی ہے، زخم بھر سکتی ہے، اور اعتماد دوبارہ قائم کر سکتی ہے۔ دیکھیں، ہم طاقت کی کئی قسمیں سنتے ہیں: سیاسی طاقت، فوجی طاقت، معاشی طاقت، مگر سب سے بڑی طاقت اخلاقی طاقت ہے۔ معاف کرنے کی، سمجھنے کی، جوڑنے کی طاقت۔ اور یہی اسلام اپنی بنیاد میں سکھاتا ہے کہ سب سے بڑی فتح دوسروں پر نہیں، اپنے نفس پر ہوتی ہے۔  

جب میں اور کنگ چارلس اس شام ایک دوسرے سے رخصت ہوئے، تو انھوں نے آہستگی سے کہا: ’’برنی، شاید ہمارے پوتے پوتیاں وہ کام مکمل کریں جو ہم نے شروع کیا ہے‘‘۔ مجھے امید اور یقین ہے کہ نئی نسل مختلف ہے۔ وہ تقسیم سے تھک چکی ہے، وہ سچ چاہتی ہے، قبیلے بازی نہیں۔ وہ امن چاہتے ہیں، پروپیگنڈا نہیں۔ وہ معنی چاہتے ہیں، اور معنی سچائی سے شروع ہوتے ہیں، اس سچائی سے جو ہم نے اس رات بیان کی تھی، جب ہم نے اسلام کو ’وہ‘ نہیں بلکہ ’ہم‘ کا حصہ سمجھ کر بات کی تھی۔ اگر آپ اس گفتگو سے ایک بات یاد رکھیں تو وہ یہ ہونی چاہیے: کوئی تہذیب اس چیز سے نفرت کر کے نہیں اُبھر سکتی جسے وہ سمجھتی تک نہیں۔ کوئی مذہب خوف کے ذریعے نہیں پھلتا پھولتا۔ اور کوئی دل تعصب کے ذریعے امن نہیں پاتا۔ ہم اسلام سے سیکھ سکتے ہیں اس کی ہمدردی، اس کے نظم کی خوب صورتی، اس کے علم کے احترام، اس کے اس یقین سے کہ رحمت، طاقت سے بڑی ہے۔  

یورپ، امریکا، پوری جدید دنیا اور ہم ایک چوراہے پر کھڑے ہیں۔ یا تو ہم تکبر کی راہ پر چلتے رہیں یا سچائی کے آگے جھکنا سیکھیں، حالانکہ سچائی نہ مغربی ہے نہ مشرقی، یہ آفاقی ہے۔ جب قرآن کہتا ہے:’’ہم نے تمھیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے پیدا کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘، تو یہ صرف شاعری نہیں بلکہ یہ انسانیت کی بقا کا اخلاقی خاکہ ہے۔ میں اور کنگ چارلس یہ حقیقت یاد دلا رہے تھے۔ 

 شاید اسی لیے یہ بات یورپ کو چونکا گئی ۔اس لیے نہیں کہ یہ متنازعہ تھی، بلکہ اس لیے کہ یہ بات سچی تھی۔ تو آئیے اسلام کی بات خوف سے نہیں بلکہ انصاف سے کریں۔ اپنے بچوں کو سکھائیں کہ دین سرحد نہیں، پُل ہوتا ہے۔ ایسی دنیا بنائیں جہاں مسجد، چرچ، کنیسہ اور مندر سب ایک ہی سچ کی گونج کے مراکز بنیں کہ خدا کی روشنی ہر اس دل میں چمکتی ہے، جو امن کی تلاش میں ہو۔ کیونکہ آخر میں ایک ہی سوال رہ جاتا ہے: ’’کیا ہم ایک دوسرے کو سمجھنا اور محبت کرنا چاہتے ہیں؟‘‘