۲۰۱۶ فروری

فہرست مضامین

اسلام کا تصورِ عدل

ڈاکٹر حمید اللہ عبدا لقادرo | ۲۰۱۶ فروری | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

اسلام دین فطرت ہے ۔ فطرت خواہ انسان سے متعلق ہو یا کائنات سے ، اس میں حُسن و توازن اور تناسب و اعتدال کا نقش بہت واضح اور نمایاں ہے۔ عدل صفاتِ الٰہیہ میں ایک ممتاز صفت ہے جس کا اظہار حیات اور آفرینش کے تمام تر مظاہر میں دکھائی دیتا ہے ۔ اس کائنات کی مختلف مخلوقات اور مظاہر فطرت ، عدل کے باعث موجود و برقرار ہیں۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے، لہٰذا اسے عدل کو سمجھنے اور اختیار کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت میں بھی عدل کا پہلو نمایاں ہے۔ انسان کو اس جہانِ رنگ و بو میں جو تمیز اور ارادے کی قوتیں اور اختیارات بخشے گئے ہیں، عدل کا تقاضا ہے کہ اس کائنات کی صفوں کو لپیٹ کر ایک ایسا دن برپا کیا جائے جہاں انسانی اعمال کی جز اوسزا کا فیصلہ عدل کے ساتھ کیا جا سکے۔

اسلامی شریعت میں عدل کا تصور دو اجزا سے عبارت ہے۔ ایک یہ کہ بنی نوع انسان کے درمیان مختلف حقوق و رعایات میں توازن و تناسب قائم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ہر کسی کو اس کا استحقاق دیا جائے اور اس کے حق کی ادایگی کو یقینی بنایا جائے۔اس تصور عدل کے بغیر فرد ہو یا معاشرہ یا ریاست، ہلاکت خیز اور سنگین نتائج کا سامنا کرتے ہیں۔

عَدَل عربی گرامر کی رو سے مصدر ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں ۲۶ مقامات پر بیان ہوا ہے۔ قرآن مجید میں عدل کو مزید برابری، نیک نیت، قیمت، مردِ صالح اور حق و انصاف کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اردو زبان میں ’عدل‘ کے لیے عموماً ’انصاف‘ کا لفظ مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو علمی اور لغوی اعتبار سے چنداں درست نہیں ہے۔ انصاف کے معنی ’’تنصیف یا نصف نصف کرنے‘‘ کے ہیں۔ یوں اس سے مراد حقوق کو محض برابر تقسیم کر دینا ہے لیکن عدل کی قرآنی اصطلاح محض مساویانہ تقسیمِ حقوق کا نام نہیں ہے کیونکہ محض مساوات خلافِ فطرت امر ہے۔ حقیقت میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ مساوات کے بجاے توازن و تناسب قائم کیا جائے۔ مساوات اگرچہ عدل کی روح میں شامل ہے جیسا کہ مدنی حقوق اور شہری آزادیوں میں یہ تصور موجود ہے مگر جہاں تک والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی مساوات کا تعلق ہے ، یہ اخلاقاً درست نہیں ہے۔ شریعت کی رو سے عدل کا تقاضا ہے کہ ہر فرد کے قانونی، آئینی ، تمدنی ، سیاسی، معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی حقوق کو پوری ذمہ داری اور آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ ادا کیا جائے۔ (دیکھیے: ابن منظور، لسان العرب، ج۱۱، ص ۴۳۰۔ راغب اصفہانی: مفردات القرآن، ص ۲۳۵)

قرآن مجیدمیں عدل کی صفت کو قسط اور حق کے الفاظ کے ساتھ بھی تعبیر کیا گیا ہے :

اللہ نے خود اس بات کی شہاد ت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، اور (یہی شہادت) فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی دی ہے۔ وہ انصاف پر قائم ہے۔ اُس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی خدا نہیں۔ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۸)

قسط کا لفظ بھی عدل ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں عدل کی اس مترادف اصطلاح کو ۲۲ مرتبہ استعمال کیا گیا ہے ۔ قرآ ن مجید میں مومنوں کی صفات میں عدل گستری کو ایک اہم مقام دیا ہے۔ فرمایا:’’ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتا ہے‘‘۔(اعراف ۷:۱۸۱)

آخرت میں اعمال کے لیے جو ترازولگائی جائے گی ، اس کو بھی عربی زبان میں قسطاس کہتے ہیں۔ بعثت انبیا ؑکے ساتھ جن فرائض اور ذمہ داریوں کو وابستہ رکھا گیا ہے ، ان میں بھی عدل کا قیام بنیادی امور میں شا مل ہے۔ پیغمبر آخر الزماںؐ کو فرائض نبوت کے سلسلے میں یوں خطاب کیا گیا ہے:

مجھے حکم دیا گیا ہے میں تمھارے درمیان انصاف کروں ۔ اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔ (الشوریٰ ۴۲:۱۵)

سورۂ شوریٰ کی اس آیت میں نظام عدل کے ساتھ قیام عدل کی بات کی گئی ہے ۔ یہاں حضوؐر کو ایک قاضی اور جج کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور آ پ کو ضوابط ِ شریعت کے مطابق عدل قائم کرنے کا فریضہ سونپا جا رہا ہے ۔ وقائع سیرت سے پتا چلتا ہے کہ آپ نے مکی زندگی میں عقائد میں عدل کرنے کی تلقین کی اور پھر مدنی زندگی میں جب ابتداً چھے مربع کلومیٹر کی اسلامی ریاست وجود میں آگئی تو اس میں قیام حق اور نفاذِ عدل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ تا آنکہ اسلامی ریاست کا رقبہ آپؐ  کی حیات طیبہ میں ۱۸ لاکھ مربع کلومیٹر تک پھیل گیا۔ اس وسیع سلطنت میں  آپؐ نے قیام عدل کی ذمہ داریوں کے لیے بعض دوسرے صحابہ کرام ؓ کو بھی امورِ عدل اور فرائضِ انصاف تفویض کیے اور یوں ان حضرات کے فیصلوں کے بعد آپؐ  کی حیثیت ایک   اپیلیٹ کورٹ کی اختیار کر گئی ۔(نعیم صدیقی، محسنِ انسانیتؐ، ص ۶۰۳)

حضور سرور کائنات نے عدل کے قیام میں سب لوگوں کے ساتھ یک جہتی کا اسلوب اختیار فرمایا، اپنوں اور بیگانوں کے درمیان تفریق کو ختم کر دیا۔ انصاف میں عربی عجمی ، گورے کالے،  امیر اور غریب ، اعلیٰ اور ادنیٰ نسب کے تمام تر تعصبات کو ختم کر دیا۔ یوں عدل کے قیام میں نئے نظائر اور جدید دنیا کے شواہد سامنے آئے جن سے انسانیت اس سے قبل محروم تصور کی جاتی تھی۔

مکی زندگی میں اگرچہ نفاذ عدل کے مواقع موجود نہ تھے مگر دین حق کی پیش کش میں کوئی امتیاز روا نہ رکھا ۔ یہ دعوت سب کے لیے یکساں تھی۔ حلال سب کے لیے حلال تھا اور حرام سب کے لیے حرام تھا۔ شریعت کے ضابطے رنگ و نسل ، علاقے اور زبان کے تصورات سے ماورا تھے اور سب کے لیے یکساں لائق تعمیل تھے ۔ پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا میں عدل قائم کرنے کی دعوت دی۔ لوگوں کے درمیان انصاف کرنے کی نہ صرف دعوت دی بلکہ قیام امن کی تمام صورتوں کو بروے کار لائے اور مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی بے اعتدالیوں کا مداوا کیا ۔ بچوں ، عورتوں ، ضعیفوں، غلاموں ، مزدوروں، حتیٰ کہ جانوروں، درختوں اور فصلوں تک کے ساتھ حق و انصاف کی ایک اصولی تعلیم دی گئی ہے۔ دوست تو کجا دشمن کے ساتھ بھی انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اسلامی شریعت میں عدل کی اہمیت قرآنی آیات اور اسوۂ رسولؐ سے واضح ہو جاتی ہے ۔ عدل چونکہ صفات الٰہیہ میں شامل ہے اس لیے قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے اسے اپنی کائنات اور اپنی سر زمین پر قائم کرنے کا بھی حکم دیا ہے:

اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔(النحل ۱۶:۹۰)

یہاں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عدل کی مختلف صورتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

۱- قانونی عدل

عدل کی سب سے اہم نوعیت قانونی عدل ہے ۔ شریعت معاشرے میں ہر نوعیت کے ظلم اور حق تلفی کا ازالہ کرتی ہے ۔ اسلام، کسی فرد /ادارے یا ریاست تک کو بھی اس امر کی اجازت نہیں دیتاکہ وہ کسی کی حق تلفی کرے یا نا حق مال ہڑپ کرے یا کسی کی عزتِ نفس کو مجروح کرے۔ شریعت ہر فرد کے جان و مال اور مسلمہ بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ لیکن بعض وہ حقوق بھی فرد کو عطا کرتی ہے جن کا تصور آج کے جدید اور مہذب معاشروں میں موجود نہیں۔

اسلام نے عدل و انصاف کے ضوابط متعین کر دیے ہیں۔ حدود کا نظام واضح اور تعزیرات کو جرائم کی نوعیت کے مطابق اختیار کرنے کی حدود بتا دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس معاشرے میں اسلامی قوانین کا اطلاق اور نفاذ ہوتا ہے وہاں بد امنی ،ظلم اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔   فرد کے جان و مال اور عزت و ناموس کو تحفظ ملتا ہے۔ ہر فرد کی معاشی کفالت کی ذمہ دارریاست ہے۔

اسلامی قانون میں حلال و حرام واضح اور حدود وتعزیرات متعین ہیں۔ مگر انفرادی ، اجتماعی ، معاشرتی ، سیاسی، معاشی اور قانونی عدل اسی وقت قائم ہو سکتا ہے، جب کہ اسلامی ریاست اپنے تمام اداروں سمیت قائم ہو، احتساب کا عمل پختہ ہو اور مناصب پر خدا ترس، مستحق اور ایمان دار لوگ فائز ہوں ۔ اسی لیے قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے :

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸) مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

قیام عدل کے بغیر شرف انسانی کا تحفظ ممکن نہیں۔ اس کے لیے انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر کوششیں ہونا چاہیے۔ اگر وحی الٰہی کے مطابق عدل گستری نہ کی جائے تو یہ مشرکانہ، فاسقانہ اور کافرانہ طرزِ عمل ہے۔ قیام عدل کے بغیر امن ممکن نہیں جو ایک مہذب ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تاریخ انسانی، خلافت علی منہاج النبوۃ سے بہتر عادلانہ معاشرے کی آج تک کوئی دوسری مثال پیش نہیں کر سکی۔ جس کی پیروی میں تاریخ اسلام نے ہر دور میں عدل کی روشن ، حکمت آموز اور بصیرت افروز مثالیں قائم کی ہیں۔

عدالتی امور میں عدل

عدل و انصاف کی ضرورت عدالتی امور میں خاص طور پر ہوتی ہے ۔ اسلام نے عدالتی کاروبار کے ہر پہلو میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھا ہے ۔ اس سلسلے میں چار باتیں اہم ہیں جن پر روشنی ڈالی جائے گی:

  •  دستاویزات لکہنے میں عدل:سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں ارشاد ہے :وَلْْیَکْْتُبْْ بَّیْْنَکُمْْ کَاتِبٌم بِالْعَدلِص’’اورتمھارے (معاہدے ) کو لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھ دے‘‘۔

اس آیت میں لکھنے والے کو عدل و انصاف سے لکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی آیت میں لکھوانے والے کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے۔

  • گواھی دینے میں عدل:گواہی یا فیصلے کے وقت دو حالتوں میں اکثر لوگوں کا ایمان ڈگمگا جاتا ہے۔ ایک تو فریق مقدمہ اپنا قرابت دار ہویا اس سے دشمنی ہو لیکن اسلام کسی حالت میں عدل و انصاف سے انحراف کو جائز نہیں سمجھتا۔

lفیصلہ کرنے میں عدل: وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo (المائدہ ۵:۴۲)’’اور اگر فیصلہ کرو تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنا۔ بے شک اللہ عدل کرنے والوں کوپسند کرتا ہے‘‘۔

سورئہ نحل میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۹۰)’’ بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔

فیصلہ حاکم کے پاس ایک قسم کی امانت ہے۔ اگر اس نے فیصلہ ٹھیک کیا ہے تو اس نے امانت کواس کے حق دار تک پہنچا دیا ورنہ اس نے خیانت کی۔

ارشاد نبویؐہے’’جو شخص مسلمانوں کا حاکم بنا اس نے اس کے ساتھ خیانت کی، یعنی عدل و انصاف سے کام نہ لیا اور وہ اسی حالت میں مر گیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا‘‘۔ اور عادل بادشاہ کے لیے یہ مژدہ ہے کہ وہ جنتی ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کو اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گا۔

اپنی ذات کے خلاف بہی حق بات کھنا

جب فریق مقدمہ والدین یا رشتہ دارہوں تو یہاں پر حق بات کہناجوے شیر لانا ہے۔  اسے معلوم ہے کہ اگر صحیح بات کی تو والدین اور رشتہ داروں سے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے مگر قرآن پاک یہاں بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے سچ بات کی گواہی دو۔

اسلام نے عدل و انصاف کا ایساا علیٰ معیار قائم کیا ہے کہ اس میں بادشاہ و فقیر،آقا و غلام ، رنگ و نسل، حسب و نسب، قبیلہ و خاندان اور دین و مذہب کی کوئی قید نہیں۔ قانون کی نگاہ میں سب مساوی اور برابر ہیں۔ کسی کا بڑا ہونا اس کو سزا سے نہیں بچا سکتا۔

سورۂ نساء کی آیت ۱۳۵میں عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کا اندازہ لگائیے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا قف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء ۴:۱۳۵) اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہواللہ تعالیٰ کی طرف کی گواہی دو اگرچہ اپنی ذات کے خلا ف ہو یا ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف ہو۔ اگر کوئی مال دار ہے یا فقیر ہے اللہ تعالیٰ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے۔   تم انصا ف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرو۔ اگر تم دبی زبان سے گواہی دو گے یا منہ موڑو گے تو بلاشبہہ اللہ تعالیٰ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔

  • آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی یہی ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی۔ قریش اپنی عزت کے پیش نظر چاہتے تھے کہ اسے سزا نہ ہو۔ چنانچہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے ذریعے سفارش کرائی گئی۔ سفارش سنتے ہی آپؐ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا:’’بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہوئے کہ وہ غریبوں کو سزا دیتے اور امیروں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ بھی کٹوا دیا جاتا۔
  •  ایک مرتبہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔دونوں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپؐ  نے دونوں کی باتیں سن کر فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔
  •  خلافتِ راشدہ میں قاضی نے ایک مرتبہ فیصلہ حضرت علیؓ کے خلاف دیا حالانکہ وہ خلیفہ تھے۔
  •  بدر کے قیدیوں میں آپ کے چچا حضرت عباس بھی تھے ۔آپؐ نے انھیں کوئی خاص رعایت نہ دی ۔ آپؐ  ان کی تکلیف دیکھ کر رات بھر سو بھی نہ سکے۔ یہ ہے مساوات اور عدل کا عملی نمونہ جو سرورِ کونینؐ نے پیش فرمایااور اسی کے اختیار کرنے میں ہماری نجات ہے ۔
  • عدل کے حوالے سے حضرت ابو بکر صدیقؓ کا وہ خطبہ معاشرے کے ہر صاحب اختیار کے لئے مشعل راہ ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص میرے سامنے کمزور ہے۔ جب تک کہ میں اس سے کمزور حق دار کا حق اسے واپس نہ دلادوں۔
  • حضرت عمرؓ حج کے موقعے پر اپنے تمام گورنروں کو عوام کے سامنے پیش کرتے تھے۔ وہ سرعام ان کے خلاف شکایت کر سکتے تھے ۔ مصر کے گورنر کے بیٹے نے ایک عام آدمی کو کوڑا مارا تھا۔ لوگوں کے سامنے اس کا بدلہ چکایا گیا اور مجرم کا کوئی عذر قبول نہ کیا گیا۔

عدل و انصاف ایک ایسی چیز ہے جس نے دنیا کے نظام کو قائم رکھا ہے ۔ اگر دنیا سے  عدل و انصاف اٹھ جائے تو یہ کارخانہ عالم درہم برہم ہو جائے۔ یہاں پر افرا تفری عام ہوجائے۔ ہرطرف لاقانونیت اور فتنہ و فساد کا دور دورہ ہو جائے۔ اس بد امنی کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ قانونِ عدل کا نفاذ اور اس پر عمل ہے۔ گویا کہ کسی معاشرے کے امن و سکون اور استحکام کا ضامن صرف عدل ہے۔

عدل و انصاف پر قائم رہنے والوں کو خوش خبریاں سنائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ امام عادل کو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے سایے میں جگہ دے گا، جب کہ اس کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ قیامت کے دن امام عادل کا درجہ سب سے بلند ہوگا۔

۲-معاشی عدل

عدل کی مختلف اقسام اور نوعیتوں میں ایک نازک تر پہلو معاشی عدل کا ہے ۔ آج پوری دنیا معاشی لوٹ کھسوٹ ، سود ، ذخیرہ اندوزی، نفع خور ی اور اسراف و تبذیر کے شکنجوں میں جکڑی نظر آتی ہے۔ اسلام معاشی ظلم کی ہر شکل کو مٹانا چاہتا ہے اور معاشی لحاظ سے ایک عادلانہ معاشرے کا تمنائی ہے ۔

قرآن مجید میں سورئہ بقرہ میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے :

وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنo (۲:۱۸۸) اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال باطل طریقوں سے نہ کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔

شریعت نے معاشی عدل کے لحاظ سے یتیموں کے اموال کے بارے میں احتیاط ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے ۔ بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ کم تولنے والوں کے لیے تباہی اور اسراف و تبذیر سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔ مال و دولت پر سانپ بن کر بیٹھنے اور ارتکازِ دولت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ یوں اسلام معاشی عدل کے ایک ایسے پہلو کو پیش کرتا ہے جس سے اسلامی معاشرہ ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ سے اور معاشی ناہمواریوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہوتاہے۔

۳- اپنی ذات سے عدل

اسلام نے اپنی ذات کے ساتھ بھی عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ انسان اپنی ذات کو بھی ایسی مشقتوں اور ریاضتوں میں نہ ڈالے جن کا حکم شریعت نے نہیں دیا، یا جہاں اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہو۔ مشقت میں ڈال کر چلہ کشی کرنا، مسلسل روزے رکھنا اس میں شامل ہیں۔ اپنے حقوق سے خواہ مخواہ دستبردار ہو جانا، اپنے حق کے لیے جدو جہد نہ کرنا اپنی ذات سے عدل کے خلاف ہے ۔

۴-معاشرتی زندگی میں عدل

معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف کی بڑی اہمیت ہے ۔ عدل دراصل کا میاب معاشرے کی جان ہے ۔ اگر یہ معاشرتی زندگی سے نکل جائے تو پھر انسانی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ گھر، عزیزو اقارب اور معاشرے میں ہر کسی کو اس کا متعینہ مقام و احترام دیا جائے۔ والدین ،     قریبی رشتے دار، محلہ دار، اساتذہ،معاشرے کے کمزور لوگ اور غربا، عمر میں چھوٹے ، غرض سب کے حقوق شریعت اور معاشرتی روایات میں متعین ہیں۔ معاشرتی عدل یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کے حقوق دیے جائیں۔

۵-عائلی زندگی میں عدل

اگر عائلی زندگی میں عدل و انصاف نہ ہوتو میاں بیوی زندگی کے دن آرام و سکون سے نہیں گزار سکتے۔ اس عدل و انصاف کی ضرورت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کسی کے نکاح میں ایک سے زائد بیویاں ہوں ۔ اسلام نے دوسرے نکاح کو عدل کے ساتھ مشروط کر دیا۔ ارشاد ہے :

 فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً (النساء ۴:۳) ’’ اگر تمھیں خوف ہو کہ تم انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو‘‘۔ سورئہ نساء میں فرمایا: ’’اگر تمھاری ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان میں سے کسی ایک ہی کی طرف جھک نہ جائو کہ دوسری بیوی معلق حالت میں رہ جائے‘‘۔

نبی اکرم ؐ نے اپنی بیویوں کے ہاں باری مقرر کر رکھی تھی اور تمام بیویوں کو عدل کے مطابق وقت دیتے تھے۔

۶- اولاد میں عدل

اولاد کے درمیان عدل و انصاف بھی ضروری ہے۔ وگرنہ ان کے درمیان بغض اور عناد کے جذبات پیدا ہوں گے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری اولاد کے ساتھ ایک سا سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ خانگی معاملات میں سکون پیدا کرنے کے لیے یہ ایک زریں اصول ہے جسے کسی وقت بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایک صحابی نے اپنے ایک بیٹے کو کچھ مال دیا اور حضوؐر کو اس میں ضامن بنایا۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے دوسرے بچوں کو بھی یہ کچھ دیا ہے ؟تو انھوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپؐ  نے فرمایا کہ پھر اس ظلم کے کام میں میں گواہ نہیں بنوں گا۔

۷-اھل خانہ میں عدل

ہماری معاشرتی زندگی کے بہت سے مسائل اور گھریلو جھگڑے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ ہمارے گھروں کے سربراہ اور ذمہ دار اپنے سے چھوٹوں سے عدل نہیں کرتے ۔ بیٹیوں کو     وراثت میں حصہ نہ دینا، بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینا، اولاد میں کسی ایک کو زیادہ اختیارات دے دینا، جایداد برابر تقسیم نہ کرنا، جایداد سے محروم کرنے کے لیے کسی ایک بچے کو عاق کر دینا___ یہ سب عدل کے منافی کام ہیں۔ گھر کی بہوئوں سے مساوی سلوک نہ کرنے سے گھروں کی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے۔ گھروں کے اندر پائی جانے والی یہ کشیدگی عدل کے ذریعے دُور ہو سکتی ہے۔

۸-یتیموں کے ساتھ عدل

معاشرے کے کمزور ترین افراد یتیم ہوتے ہیں۔ ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے قرآنِ مجید میں تفصیلی طور پر احکامات دیے گئے ہیں۔ حدیث میں ہے، آپؐ نے فرمایا:میں یتیموں کا کفیل ہوں۔

۹- معاشرے کے کمزور طبقات سے عدل

قرآن مجید اور نبی اکرم ؐ نے ان تمام لوگوں کے لیے عدل کا خصوصی حکم دیا ہے جنھیں لوگ کمزور سمجھ کر ان کے حقوق پامال کرتے ہیں۔ آپؐ نے اپنی وفات سے قبل جن لوگوںکے حقوق کی طرف خصوصاً متوجہ فرمایا ان میں ملازم ، عورتیں اور ماتحت لوگ ہیں۔

۱۰- قرض کے معاملات میں عدل

قرض اور اُدھار کے معاملات میں نا انصافی کا بڑا امکان ہوتا ہے۔ اس لیے سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں قرض کے معاملات کو عدل و انصاف کے ساتھ لکھ لینے کا حکم دیا۔ پھر لکھنے والے (کاتب) کو انصاف کے ساتھ لکھنے ، مقروض کو انصاف کے ساتھ لکھوانے اور گواہ کو انصاف کے ساتھ گواہی دینے کی ہدایات دے کر قرض کے معاملات میں نا انصافی کی جڑوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے ۔ پھر اس تحریر کے متعلق ارشاد ہے:ذٰلکم اقسط عند اللّٰہ (یہ لکھنا) اللہ تعالیٰ کے نزدیک انصاف کو زیادہ قائم رکھنے والا ہے ۔

 نبی پاکؐ نے فرمایا : صاحب استطاعت کا قرض کی ادائیگی میں تاخیر ظلم ہے ۔