۲۰۱۶ فروری

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| ۲۰۱۶ فروری | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

جعلی مسلمانی

اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف صاف ہدایات کو دیکھ لینے کے بعد ایک مومن انسان کے لیے دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں: یا تو وہ ان کی پیروی کرے اور اپنی، اپنے گھر کی اور اپنے معاشرے کی زندگی کو اُن اخلاقی فتنوں سے پاک کردے، جن کے سدباب کے لیے اللہ نے قرآن میں اور اس کے رسولؐ نے سنت میں تفصیلی احکام دیے ہیں۔ یا پھر اگر وہ اپنے نفس کی کمزوری کے باعث اِن کی یا ان میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کم از کم اسے گناہ سمجھتے ہوئے کرے اور اس کو گناہ مانے، اور خواہ مخواہ کی تاویلوں سے گناہ کو صواب بنانے کی کوشش نہ کرے۔

اِن دونوں صورتوں کو چھوڑ کر جو لوگ قرآن و سنت کے صریح احکام کے خلاف، مغربی معاشرت کے طورطریقے اختیار کرلینے ہی پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ پھر انھی کو عین ’اسلام‘ ثابت کرنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں اور علانیہ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ :’’اسلام میں سرے سے [فلاں] حکم موجود ہی نہیں ہے‘‘، وہ گناہ اور نافرمانی پر جہالت اور منافقانہ ڈھٹائی کا اور اضافہ کرلیتے ہیں، جس کی قدر نہ دنیا میں کوئی شریف آدمی کرسکتا ہے، نہ آخرت میں خدا سے اس کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں میں تو منافقوں سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جواللہ اور رسولؐ کے ان احکام کو غلط اور اُن طور طریقوں کو صحیح و برحق سمجھتے ہیں، جو انھوں نے غیرمسلم قوموں سے سیکھے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ اس کے بعد بھی اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر اسلام اور کفر کے الفاظ قطعاً بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے نام بدل دیتے اور علانیہ اسلام سے نکل جاتے تو ہم کم از کم ان کی اخلاقی جرأت کا اعتراف کرتے۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ [اللہ اور رسولؐ کی ہدایات کے خلاف]یہ خیالات رکھتے ہوئے بھی وہ مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ ذلیل قسم غالباً دنیا میں اور کوئی نہیں پائی جاتی۔ اس سیرت و اخلاق کے لوگوں سے کوئی جعل سازی، کوئی فریب، کوئی دغابازی اور کوئی خیانت بھی خلافِ توقع نہیں ہے۔ (’تفہیم القرآن ‘ ، سیّدابولااعلیٰ مودودی ، ترجمان القرآن،جلد۴۵، عدد۶، جمادی الاخریٰ ۱۳۷۵ھ، فروری ۱۹۵۶ئ، ص ۳۰-۳۱)

_______________