حضرت عمران بن حطاّن تابعی ؒ رو ایت کرتے ہیںکہ ایک روز میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ وہ ایک کالی کملی لپیٹے ہوئے مسجد میں با لکل اکیلے بیٹھے ہیں۔ میںنے عرض کیا: ’’ اے ابوذر! یہ تنہائی اور یکسوئی کیسی ہے (یعنی آپ نے اِس طرح اکیلے اور سب سے الگ تھلگ رہنا کیوں اختیار فرمایا ہے؟‘‘ اُنھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ برے ساتھی کی ہم نشینی سے اکیلے رہنا اچھا ہے‘ اور اچھے ساتھی کے ساتھ بیٹھنا تنہائی سے بہترہے‘ اور کسی کواچھی باتیں بتاناخاموش رہنے سے بہترہے‘ اوربری باتیںبتانے سے خاموش رہنا بہتر ہے ‘ ‘۔ (شعب الایمان‘البیہقی)
نبی مکرم ؐکے اِن حکیمانہ اور جامع ارشادات مبارکہ سے معلو م ہوا کہ تنہائی اختیار کرنے کے بجاے اچھے مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اِس کے نتیجے میں‘محبت‘ بھائی چارے اورنیک اعمال میں اضافہ ہوگا۔
ایک روز رسولؐ اللہ نے اپنی ایک تقریرمیں کچھ افراد کی تعریف فرمائی (جو دوسروں کو دین کی باتیں بتاتے تھے)۔ پھر فرمایا: ’’ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ اپنے پڑوسیوںمیںدینی سوجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے؟ اُن کو تعلیم نہیں دیتے؟ اُن کو نصیحت نہیں کرتے؟ بری باتوں سے کیوں نہیں روکتے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’ اور ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ دین کی باتیں نہیں سیکھتے؟کیوں اپنے اندردینی شعور پیدا نہیں کرتے؟ کیوں دین نہ جاننے کے نتائج معلوم نہیں کرتے؟ خدا کی قسم! لوگوں کو آس پاس کی آبادی کو دین سکھانا ہوگا‘ اُن کے اندر دینی شعور پیدا کرنا ہوگا‘ وعظ و تلقین کاکام کرنا ہوگا‘ اور لوگوں کو لازماً اپنے قریب کے لوگوں سے دین سیکھنا ہو گا‘ اپنے اندر دینی سمجھ بوجھ پیدا کرنی ہوگی اور وعظ و نصیحت قبول کرنا ہوگا‘ ورنہ میں اُنھیں اِس دنیا میں جلد سزا دوں گا‘‘۔(عن ابو موسیٰ الاشعریؓ، الطبرانی)
نبی مکرمؐکے اِن حکیمانہ ارشادات مبارکہ سے معلو م ہواکہ لوگوںکو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا‘ خاموشی اختیا ر کرلینے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ بہت زیادہ خاموش رہتے تھے‘ اور آپؐ صرف وہی بات کرتے تھے جس پر آپ ؐ کو ثواب کی امید ہوتی تھی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اِس طرح کی گفتگو کے نقصانات کو ان الفاظ میںبیان کیا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّلَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ۵۰: ۱۸)’’ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو‘‘۔ اِس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ کوئی با ت منہ سے نکالنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ وہ نوٹ ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اِس کا حساب بھی دینا ہو گا ۔ حضوراقدسؐ نے اِس بات کو ایک اور انداز سے سمجھایا ہے۔آپؐ نے فرمایا:’’بلاشبہہ بندہ اپنی زبان سے کبھی اللہ کی ناراضی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے جس کا اُسے خیال بھی نہیں ہوتا اوروہ کلمہ اُسے جہنم میںگرادیتا ہے‘‘۔(عن ابوہریرہؓ، بخاری‘ مشکوٰۃ)۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہہ انسان اپنی زبان سے اتنا زیادہ پھسل جاتا ہے‘جتنا اپنے قدم سے بھی نہیں پھسلتا‘‘۔ (عن ابوہریرہؓ، بیہقی‘ مشکوٰۃ )
بدی اور برائی کی طرف مائل کرنے والی گفتگو کے بارے میں ہا دیِ اعظمؐکی چند اور ہدایات عالیہ سنیے جو آپؐ نے مختلف مواقع پرعطا فرمائی ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ’ ’فضو ل باتیں کرنے والے اور یاوہ گوئی کرنے والے میری اُمت کے بد ترین لوگ ہیں‘‘(موطا امام مالک‘ ابوداؤد)۔ایک اور موقع پرفرمایا:’’جو شخص مجھے اپنے دونوں کلّوںکے درمیان والی چیز (یعنی زبان)‘ اور اپنی دونوں رانوں کے درمیان والی چیز(یعنی شرم گاہ )کی حفاظت کرنے کی ضمانت دے دے گا‘ میں اُسے جنت کی ضمانت دے دوں گا‘‘ (عن سہل بن سعدؓ، بخاری‘ مشکوٰۃ)۔ ایک اور موقع پرفرمایا:’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں‘‘ (عن عبداللہ بن عمروؓ، بخاری )۔ اسی طرح ایک اور موقع پرآپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور روزِآخرت پر یقین رکھتا ہے‘ اُس کو چاہیے کہ وہ بھلی بات کہے یا چپ رہے‘‘۔ (کتاب الایمان، مسلم)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کوہادیِ اعظمؐکی ہدایات پر عمل کر نے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!
اسلام نے مسلمانوں کو باہمی سلام کرنے‘ دعا دینے اور خیرو بھلائی چاہنے کے لیے‘ جن کلمات کی تعلیم دی ہے ان میں ایک کلمہ برکت ہے۔ یہ کلمہ بھی سلام کی طرح مسلم معاشرے کا شعار‘ ثقافت اور عام دعائیہ کلمہ ہے۔ لہٰذا ہر خوشی و شادمانی اور کامیابی و کامرانی کے موقعے پر اور عام سلام کرتے وقت یہ لفظ کثرت سے بولا جاتا ہے۔ اس کلمے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر نمازی دو رکعت کی نماز میں اسے کم از کم چار مرتبہ ادا کرتا ہے۔ ثنا میں تَبَارَکَ اسْمُکَ تشہد (التحیات) میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور درود ابراہیمی میں اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّک حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ میں دو مرتبہ کہتا ہے۔
پھردعائیہ جملوںاور فقروں میں اسے روزانہ متعدد مرتبہ بولا جاتاہے۔ سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا جاتا ہے۔ کوئی خوشی کا موقع اور تقریب ہوتی ہے تو اپنے بھائی بہن کو اور دوست و احباب کو مبارک باد کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے۔ کوئی کھانے کی دعوت دیتا ہے تو مخاطب بارک اللہ‘ یا اللہ برکت دے کا جملہ بول کر ما فی الضمیرکا اظہار کرتا ہے۔ کسی بچے کی صلاحیت‘لیاقت اور ذہانت ظاہر ہوتی ہے تو برکت کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے‘ کسی کاروبار میں نفع ہوتا ہے‘ فصل کی پیداوار میں کثرت ہوتی ہے‘ تعلیم میں کامیابی ہوتی ہے‘ ملازمت ملتی ہے یا اس میں ترقی ہوتی ہے‘ نکاح و شادی ہوتی ہے‘ بیٹا تولد ہوتا ہے‘ ختم قرآن ہوتا ہے‘ حج و عمرے کی ادایگی ہوتی ہے یا کوئی اور خیروبھلائی نصیب ہوتی ہے‘ تو ہدیہ تبریک پیش کرکے دعا دی جاتی ہے۔
مسلم معاشرے میں عموماً بہت سی دعائیںاور دعائیہ کلمات غیرشعوری اور غیرارادی طور پر کہے جاتے ہیں اور کہتے وقت ان کے معانی و مفاہیم کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے ہی یہ کلمہ بھی بول دیا جاتا ہے۔ پھر شکوہ یہ کیا جاتاہے کہ آج کل ہمارے ہاں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ اشیا سے برکت نکل گئی ہے اور بے برکتی رہ گئی ہے۔ اتنے اسباب‘ وسائل‘ مال و متاع اور دھن دولت ہونے کے باوجود برکت نہیں رہی ہے۔
برکت کا نزول کیسے ہو‘ اس دعا کے اثرات کیسے ظاہر ہوں‘ جب کہ اس دعائیہ کلمے کے نہ معنی معلوم ہیں اور نہ مفہوم ذہن میں آتا ہے اور نہ اس کا دائرۂ اثر اور ہمہ گیریت پیش نظر ہوتی ہے۔ صرف رسم کے طور پر کہہ دیا جاتا ہے‘ نیز یہ دعائیہ کلمہ کہتے وقت دل کا شعور و احساس بھی ناپید ہوتا ہے‘ جب کہ دعا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعور و احساس اور توجہ سے کی جائے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غافل دل سے دعا قبول نہیں فرماتے۔
یہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اہم دعائیہ کلمے کے معنی‘ مفہوم‘دائرۂ اثر اور اس کی اہمیت اور لغت میں اس کے استعمال کے بارے میں مختصر سا تذکرہ کیا جاتاہے تاکہ ہر مسلمان اسے شعور و احساس کے ساتھ بولے اور اس کے مفہوم کو سامنے رکھ کر دعا کے طور پر ادا کرے۔
برکت کے معنی اور استعمال کے بارے میں لغت کی ضخیم ترین اور اساسی کتاب لسان العرب میں اس کلمے پر چار صفحات میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
یہ کلمہ ثلاثی مجرد باب‘ ن سے ہے جیسے بَرَکَ یَبْرُکُ جم کر بیٹھنا۔البتہ اس باب سے بہت کم استعمال ہوا ہے لیکن باب مفاعلہ (مبارکۃ) سے کسی قدر زیادہ‘ باب تفاعل سے اور زیادہ آیا ہے اور باب تفعیل اور افتعال سے بھی استعمال ہوا ہے۔ باب تفعیل سے تبریک کے معنی ہیں انسان وغیرہ کے لیے برکت کی دعا کرنا‘ جیسے بَرَّکْتُ علیہ تبریکًا اے قلتُ لہ بارک اللّٰہ علیک وبارک اللّٰہ الشی ٔ وبارک فیہ وعلیہ، یعنی اس میں اللہ تعالیٰ برکت کرے۔
یہ کلمہ جب جملے میںفعل بن کر استعمال ہو تو صلے کے بغیر بھی آتا ہے اور عَلٰی فِیْ،اور لِ کے صلے سے بھی آتا ہے جیسے اللھم بارک علی محمد، ابترک الفرس فی عدوہ، گھوڑا اعتماد سے اور جم کر چلتا رہا۔ ابترکوا فی الحرب یعنی جنگ میں سواریوں پر جم کر بیٹھے۔ باب مفاعلۃ اور تفاعل سے بھی آتا ہے جیسے بارکنا حولہ ہم نے اس کے ارد گرد برکت کی۔ تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآئِ بُرُوْجًا (الفرقان ۲۵:۶۱) بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔
اصحابِ لغت جیسے ابن منظور نے لسان العرب میں‘ زمخشری نے اساس البلاغہ میں اور عبدالرحمن کیلانی نے اپنی مشہور کتاب مترادفات القرآن میں مثالیں دے کر اس کے پانچ معنی لکھے ہیں۔
۱- نمو، افزایش اور بڑہوتری: وَقَالَ الزُّجَاجُ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبَارَکٌ (الانعام ۶:۱۵۵) قال المبارک ما یأتی من قبلہ الخیر الکثیر۔ زراعت میں فصلوں‘ پھلوں کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ اس سے مراد اُن کا بڑھنا‘ پھلنا پھولنا اور زیادہ اناج دینا ہے۔
۲- عُلو، رفعت اور بلندی: قال الازہری معنی برکۃ اللّٰہ، علوہٗ علی کل شی ئٍ وقال ابوطالب ابن عبدالمطلب: بورک المیت الغریب کما بورک نضح الرُّمان والزیتون۔ ’’مسافر میت کے درجات بلند ہوں جیسے زیتون اور انار کے درخت مناسب برسات سے بلند ہوتے ہیں‘‘۔
۳- ثبات‘ دوام اور بقا: فی الحدیث الصلاۃ علی النبی علیہ السلام وبارک علی محمد وعلٰی آلِ محمد اے ۔۔۔۔۔۔ اَثبت واَدِم ما اعطیتہ من التشریف والکرامۃ، یعنی جو شرف و بزرگی تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم کو عطا کی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل کو ہمیشہ کے لیے اور دائمی عطا کر۔ یہ معنی اور استعمال اس عوامی عربی محاورے سے ماخوذ ہے بَرَکَ الْبَعِیْرُ۔ جب اونٹ باڑے میں اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ جائے۔
۴- خیر و بہلائی میں کثرت و زیادتی: قال ابن عباس معنی البرکۃ الکثرۃ فی کل خیر۔ ہر قسم کی خیر میں کثرت ہو یعنی مادی اور معنوی خیر و بھلائی کی کثرت ہو۔
حدیث ام سلیم میں ہے: فحنکہ وبرک علیہ اے دعا لہ بالبرکۃ، اس برکت سے مادی و روحانی اورظاہری اور معنوی دونوں قسم کی برکتیں شامل ہیں۔
۵- سعادت و خوش بختی: فرّاء مشھور نحوی ولغوی نے رحمتہٗ وبرکاتہٗ سے مراد سعادت و نیک بختی لی ہے۔ ابومنصور نے تشہد کے کلمات اوردعا پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے: ایُّھَا النبی ورحمۃ اللّٰہِ وبرکاتہ لان من اسعدہُ اللّٰہُ بمَا اسعد بہ النبی فقد نال السعادۃ المبارکۃ الدائمۃ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ وہ سعادت بخشے جو اپنے نبی کو بخشی ہے تو اس نے دائمی نیک بختی پالی۔
ان تمام معانی کا مجموعہ رمضان کے مہینے کوحدیث سلمان فارسی میں شھرمبارک قرار دینے میں پایا جاتا ہے۔ ایک بزرگ تحریر کرتے ہیں: آدمی کا وقت‘ پیسہ‘ محنت اور عبادات ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہو جائے‘ تھوڑے پیسوں میں زیادہ ضروریات پوری ہو جائیں‘ تھوڑی محنت سے کامیابی حاصل ہو جائے‘ تھوڑی عبادت سے اللہ تعالیٰ زیادہ ثواب عطا فرما دیں اور اللہ تعالیٰ ایسے کام کروا لیں جس سے اللہ کی مخلوق کو یا اس کے دین کو زیادہ نفع پہنچ جائے۔
قرآن مجید میں بَرَکَ کے مادے اور مصدر سے یہ کلمہ اسم و فعل کی صورت میں ۳۲ مرتبہ آیا ہے۔ ان میں اسم کی صورت میں ۱۷ مرتبہ اور فعل کی شکل میں ۱۵ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ افعال میں باب نصر‘ ینصر‘ باب مفاعلہ (مبارکۃ) اور باب تفاعل تبارک سے صیغے آئے ہیں۔
قرآن مجید میں آمدہ کلمات کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں یہ پانچوں معانی پائے جاتے ہیں تاہم روحانی اور معنوی معانی کا غلبہ ہے اور دو تہائی کلمات میں دونوں مفاہیم (روحانی و مادی‘ ظاہری و معنوی) موجود ہیں یعنی حسی و مادی برکہ اور روحانی و معانی برکہ۔ صرف دو کلمے ایسے ہیں جن میں مادی و حسی معانی کا مفہوم واضح ہے۔ اور ایک تہائی کے قریب ایسے کلمات ہیں جن میں صرف روحانی اور معنوی معنی ہی پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ صیغے اور کلمات ہیں جن کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرف کی گئی ہے۔ نوصیغے باب تفاعل سے آئے ہیں‘ جیسے اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo (اعراف ۷:۵۴) یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام برکات کا منبع ہے اور دوسروں کو برکت عطا کرنے والی ہے۔ اس کے بعد باب مفاعلہ سے آٹھ صیغے آئے ہیں جیسے سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّن الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱) ان تمام صیغوں میں برکت عطا کرنے کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات برکت عطا کرنے والی ہے اس کے علاوہ کوئی برکت عطا کرنے والا نہیں ہے۔ اس باب سے اسم اور مفعول کے ۱۲ صیغے آئے ہیں جیسے مبارک‘ مبارکۃ ان تمام میں برکت عطا کرنے‘ ان میں برکت رکھنے اور ان کو مبارک بنانے والی اللہ ہی کی ذات ہے۔ باقی تین صیغے برکۃ کی اسم جمع برکات کے ہیں۔
برکت کے تمام کے تمام کلمات یہ ظاہر اور واضح کرتے ہیں کہ برکت عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے سوائے کوئی ہستی ایسی نہیں ہے کہ برکت عطا کرے۔ اس لیے اس دعائیہ کلمے کی نسبت اللہ کی طرف ہی کرنی چاہیے اور اسی سے برکت طلب کرنی چاہیے۔ لہٰذا عام طور پر دعا میں برکاتہٗ (اللہ کی برکتیں) ہی کہا جاتا ہے ۔ اُردو میں ایسے موقعے پر اللہ برکت دے‘ برکتیں عطا کرے‘ مبارک ہو یعنی اللہ کی طرف سے برکتیں ہوں۔ کوئی شخص کھانے پینے کی دعوت دے تو جواب میں کہا جاتا ہے اللہ برکتیں دے اور برکتیں عطا کرے‘ اللہ بخش دے‘ اللہ بہت دے وغیرہ یا ایسے ہی دوسرے جملے اور فقرے کہے جاتے ہیں۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کامل بابرکت ہے۔ لہٰذا اللہ کی طرف اس کی نسبت کرنے کے معانی و مفاہم یہ ہوں گے کہ وہی ذات بلندو بالا اور قائم و دوائم ہے اور خیروبھلائی دیتی ہے۔ سعادت و بھلائی اس کی طرف سے آتی ہے۔
ذیل میں نمونے کے طور پر چند متداول تفاسیر سے برکت کے معنی اور مفہوم پیش کیے جارہے ہیں۔ سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں آمدہ کلمہ وَبَارَکْنَا حَوْلَہٗ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے اس طرح بیان کیا ہے۔
اس کے بعد مفتی محمد شفیعؒ نے اس کی ظاہری برکتیں گنوائی ہیں: ’’اس بے آب و گیاہ خطے میں پھلوں‘ سبزیوںاور دوسری خوراک کی ضروریات مہیا ہوتی ہیں اور لاکھوں انسانوں اور حج و عمرہ کرنے والوں کے لیے باافراط موجود ہوتی ہیں اور کسی صورت میں کم نہیں ہوتیں‘‘۔ قرآن مجید نے اس برکت کو یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْ ئٍ (جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں۔ القصص ۲۸:۵۷) سے بیان کیا ہے۔
معنوی اور باطنی برکات تو بے شمار ہیں جیسے حج و عمرہ اور دوسری عبادات کا اجر تعداد میں ایک لاکھ تک بڑھ جانا‘ مومن کا گناہوں سے پاک ہونا اور گناہوں سے محفوظ رہنا وغیرہ۔ (ج ۲‘ ص ۱۱۷)
مسجداقصیٰ اور ملک شام کی برکات بیان کرتے ہوئے مفتی صاحبؒ لکھتے ہیں: اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اور بہت سے انبیا کا مسکن و مدفن ہے‘ اور دنیاوی برکات میں اس کی سرزمین کا سرسبز ہونا اوراس میں عمدہ چشمے‘ نہریں اور باغات وغیرہ کا ہونا ہے‘‘۔ (ج ۵‘ ص ۴۴۳)
۲- وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف ۷:۹۶) ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم کھول دیتے ان پر نعمتیں آسماں اور زمین سے لیکن جھٹلایا انھوں نے۔ پس پکڑا ہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے‘‘۔
مولانا اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اگر یہ لوگ ہمارے پیغمبروں کو مانتے اور حق کے سامنے گردن جھکاتے اورکفروتکذیب وغیرہ سے بچ کر تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کو آسمان و زمین کی برکات سے مالا مال کر دیتے۔ امام رازیؒ نے فرمایا کہ برکت کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ کبھی تو خیر باقی و دائم کو برکت سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی آثارِ فاضلہ پر اس لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایمان وتقویٰ اختیار کرنے پر ان آسمانی و زمینی نعمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے جو دائمی و غیرمنقطع ہوں یا جن کے آثار فاضلہ بہت کثرت سے ہوں۔ (تفسیر عثمانی ‘ الاعراف ۷‘ ص ۲۱۶‘ حاشیہ ۳)
احادیث میں یہ کلمہ کثرت سے مذکورہ بالا اپنے معانی و مفاہیم میں دعا کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ نبی کریمؐ نے مختلف افراد و اشخاص‘ خاندانوںاور گھرانوں‘ اعمال و افعال اور باغات واشیا کے لیے دعا میں اسے استعمال فرمایا ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں ملاحظہ کریں۔
التحیات (تشہد) میں فرمایا گیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ آپؐ نے سلامتی و رحمت اوربرکات کی سعادت کو نیک و صالح مومنوں کی طرف بڑھا دیا۔ چنانچہ ابومنصور نے کہا: مومن بندوں کی طرف سے آپؐ کے لیے دعا کا جواب آپؐ نے یہ دیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔’’وہی سلام و برکت ہم پر ہے وہ اللہ کے صالح بندوں پر بھی ہو‘‘۔ یہاں برکتوں سے مراد سعادت و خوش بختی اور دوام و ثبات ہے‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نمازی کو درود ابراہیمی میں آپؐ اور آپؐ کی آل اولاد کے لیے ایسی برکت کی دعا کی تلقین کی جیسی برکت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل و اولاد‘ ان کی دعوت و تبلیغ اوراللہ کی راہ میں قربانیوں میں اللہ تعالیٰ نے عطا کی۔ اس سے برکت کے دائرے‘ وسعت اور ہمہ گیریت کا اندازہ ہوتا ہے۔
آپؐ نے ماہِ رمضان کو شھرمبارک (برکتوں بھرا مہینہ) فرمایا۔ اس کا مفہوم ہم نے اوپر بیان کیا ہے‘ اسے ملاحظہ کرلیں۔
آپؐ نے حضرت عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہما کی کھجوروں کے کھلیان میں برکت کے لیے دعا کی تو ان میں اتنی برکت (خیروکثرت) آئی کہ اس سے ان کا قرض ادا ہوگیا اور ان کے کھانے کے لیے اتنی بچ گئیں جتنی ہر سال بچتی تھیں‘ جب کہ درخت وہی تھے اور پیداوار بھی ہرسال جتنی ہی تھی۔
ایسے سیکڑوں واقعات مروی ہیں کہ آپؐ نے کسی کے مال‘ جان‘ صحت اور اولاد کے لیے برکت کی دعا دی اور اس سے ان میں معنوی و حسی اورمادی برکات شامل ہوگئی اور اشیا ظاہری و معنوی دونوں حیثیتوں سے بڑھ گئیں۔ ان میں ثبات آگیا اور درختوں و پھلوں میں نشوونما زیادہ ہوگئی۔ ایک مثال حضرت سلمان فارسیؓ کے باغ کی ہے جس میں آپؐ نے صحابہؓکے ساتھ مل کر کھجوروں کے ۳۰۰ پودے لگائے۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ کھجور کا ایک پودا بھی ضائع نہیں ہوا۔ یہ آپؐ کی برکت تھی۔ آپؐ کی برکت کے اثرات وثمرات کے واقعات احادیث میں بہت زیادہ ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے جن دعائوں کی تعلیم دی اور جو دعائیہ کلمات سکھائے ان میں ایک کلمہ برکت کا ہے۔ چنانچہ کھانے کے بعد کی یہ دعا سکھائی: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَاَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْـہُ۔(ترمذی)۔ میزبان کے لیے دعا: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَھُمْ فِیْمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْلَھُمُ وَارْحَمْھُمْ ، نیا پھل دیکھنے پر اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ ثَمَرِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ حَدِیْقَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا اور دودھ یا دوسرا مشروب پیے تو یہ دعا کرے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِنْـہُ (ترمذی)۔ کھانے میں عام طور پر دونوں پہلو پیشِ نظر ہوتے ہیں: ۱- کھانے میں مادی برکت‘ ۲-روحانی و معنوی برکت۔ اسی لیے برکت کی دعا کی تعلیم دی گئی۔
برکت کا کلمہ دعائیہ کلمے اور دعا کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے تو ہمیں اپنی دعائوں میں اس کے معانی و مفاہیم کو دعا کرتے وقت سامنے رکھنا چاہیے اور دعا کی شرائط و آداب کا پوری طرح لحاظ رکھنا چاہیے‘ چاہے انسان خود اپنے لیے دعا مانگ رہا ہو یا کوئی دوسرا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے دعا کر رہا ہو۔ ہر حالت میں دعا کے شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
آج عام تصور اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے اعمال و افعال اور اشیا سے برکت اٹھ گئی ہے اور بے برکتی گھر کر آئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برکت کا حقیقی تصور ہم سے اوجھل ہوگیا ہے اور یہ کلمہ صرف رسمی اور لفظی بول کے طور پر ہی بولا جاتا ہے۔ جسم اور تلفظ موجود ہے لیکن روح معدوم و مفقود ہے۔ ایک رسم ہے جو مبارک باد یا برکت کے کلمات بول کر ادا کی جا رہی ہے۔ بقول شخصے ’مسلمان اندر کتاب و مسلمانان اندر گور‘ کے مطابق برکت کے معنی اور مفہوم کتابوں میں اور وہ بھی پرانی کتابوں میںاور حقیقی برکت کی دعا کرنے والے قبروں میں جاپہنچے اور ہم بے برکتی کا شکوہ کرنے والے رہ گئے ہیں۔ برکت کی دعا کرتے وقت اس کے آداب میں درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے۔
آج ہماری دعائوں کے بے اثر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے معانی و مفاہیم کا کوئی شعور نہیں ہوتا۔ صرف طوطے کی طرح چندبول بولے جاتے ہیں اور ان کے معانی پر دل و دماغ کو مرکوز نہیں کیا جاتا۔
چار صورتیں یہ ہیں: دعا اپنی اصل حالت میں قبول ہوجاتی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے وہی مل جائے۔ دوم یہ کہ دعا کرنے والے سے‘ اس پر آنے والی کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے۔ سوم یہ کہ اس دعا پر کوئی اور عطیہ مل جائے اور چہارم یہ کہ اسے آخرت کے لیے اس کے نامۂ اعمال میں نیکی کے طور پر ذخیرہ کر دیا جائے۔ ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی دعا جو شرائط و آداب کے ساتھ کی جائے وہ ضائع نہیں جاتی۔ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں وہ دعائیں قبول ہوتی ہیں جو سنت رسولؐ کے مطابق اور اس کے دائرے میں رہ کر کی جائیں۔
اکثر تاجر اور دکان دار‘ اشیا کی قیمت اور سامان کی اصلی قیمت بتانے میں جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تجّار کو اس سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے: ’’جھوٹی قسموں سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے لیکن اس مال سے ہونے والی کمائی سے برکت اُٹھ جاتی ہے‘‘۔(صحیح بخاری‘ مسلم‘ ابوداؤد اور ترمذی)
حرام اور ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت سے روحانی برکت تو چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں سے خیروبھلائی ختم ہوجاتی ہے اور ڈھیروں دولت اور کروڑوں روپے موجود ہونے اورزندگی کے عیش و عشرت کے تمام اسباب مہیا ہونے کے باوجود زندگی میں سکون و اطمینان‘ سُکھ و راحت حاصل نہیں ہوتی‘ آل اولاد میں فرمانبرداری و اطاعت نہیں رہتی‘ نیکی کے کاموں کی توفیق نہیں ہوتی اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اور آخرکار اس سے مادی و ظاہری برکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی تشریح ایک حدیث مبارک میں اس طرح آئی ہے۔ حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجارت میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے پہلے تو کامیابی ہوتی ہے لیکن پھر بے برکتی ہوجاتی ہے (صحیح مسلم‘ نسائی اور ابن ماجہ)۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کے لیے برکت کی دعا اور مبارک باد صرف جائز‘ پاکیزہ اور مباح باتوں‘ کامیابیوں اور نعمتوں پر دی جائے گی۔
آج ہمارے معاشرے میں عام طور پر ان باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا اور ہر جائز و ناجائز‘ کامیابی اور حلال و حرام طریقے اور ذریعے سے حاصل شدہ بات پر خیروبرکت کی دعائیں دی جاتی ہیں اور مبارک باد کے ڈونگرے برسا دیے جاتے ہیں۔ یہ بات شرعی‘ اخلاقی اور عقلی لحاظ سے غلط ہے۔ برکت‘ ہدیۂ تبریک اور مبارک باد کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی مدنظر رہے کہ یہ کلمہ اسلامی شعار اور مسلم ثقافت کی علامت ہے۔ لہٰذا اسے سنجیدگی اور وقار اور کسی قابلِ قدر بات‘ کامیابی اور حصولِ نعمت کے موقعے پر ہی بولنا چاہیے۔ اسے مذاق بنالینا‘ مذاق کے طور پر استعمال کرنا اور معمولی یا غیر اہم باتوں پر موقع بے موقع بولنا درست نہیں ہے۔
اگر ہم برکت کے اس تصور کو سامنے رکھیں اور یہ یقین ہو کہ برکت عطا کرنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے‘ اس لیے نسبت بھی اسی سے ہو‘ اسی کی رضا کو پیش نظر رکھا جائے‘ اور دین و ایمان کے عملی تقاضے بھی پورے کیے جائیں تو جہاں انفرادی زندگی میں خدا کی برکات کو محسوس کیا جا سکے گا‘ وہاں اجتماعی زندگی میں اور اُمت کی سطح پر دیگر برکات و ثمرات کے علاوہ غلبہ و سربلندی بھی میسرآسکے گی۔ ان شاء اللہ!
حج عبادات میں اس لحاظ سے زیادہ نمایاں ہے کہ یہ کئی عبادات کو جمع کرتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ واحد عبادت ہے جو انسان کے روحانی‘ مالی اور بدنی‘ تینوں پہلوئوں پر مشتمل ہے۔ یہ خصوصیات نماز‘ روزہ اور زکوٰۃ میں یکجا نہیں ملتی ہیں۔
حج میں آدمی بیت اللہ کا سفر کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی مکمل روحانی اصلاح ہوجائے۔ اس سفر کا آغاز وہ مکمل طور پر اپنے رب کی طرف لوٹ آنے کے اعلان سے کرتا ہے۔ اگر کسی نے اس پر ظلم کیا ہوتا ہے تو وہ انتقام کے بجاے اس معاملے کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے۔ اپنے تمام حسابات کا تصفیہ کر کے اپنے اہل و عیال کے لیے نفقے کا اہتمام کرتا ہے‘ تاکہ اس کی واپسی تک اُن کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی خیال رکھتا ہے کہ اس کا مال حلال اور پاک ہو‘ نیز اس دوران وہ اپنے بارے میں یا فقرا و مساکین پر خرچ کرنے میں بخل میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کے لیے میدان جنگ میں آجاتا ہے اور اس واقعے کی یاد تازہ کرتا ہے جب حضرت ابراہیم ؑاور ان کی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل ؑنے شیطان کے وسوسوں اور اکساہٹوں کے باوجود اپنے رب سے وفا کرتے ہوئے قربانی کا نذرانہ پیش کیا۔
اس طرح حاجی اپنی اس عبادت کے دوران کئی پہلوئوں سے تربیت حاصل کرتا ہے‘ جن میں توبہ‘ انفاق‘ سخاوت‘ سچائی‘ بھلائی‘ احسان اور صبرنمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ نیز وہ حرص اور بخل جیسی بری عادتوں سے بھی چھٹکاراحاصل کرلیتا ہے۔
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا -
لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔(اٰل عمرٰن۳:۹۷)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟آپؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا۔پوچھا گیا کہ اس کے بعد؟ فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ۔پوچھا گیا: اور اس کے بعد؟فرمایا: حج مبرور‘ یعنی مقبول حج ۔
حج‘ ماہ رمضان کے بعد ادا کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی تربیت دیتا ہے۔ اس کے فوراً بعد حج کا حکم اس حکمت کے تحت دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے اخلاقی اور اجتماعی اقدارکے نظام کا تسلسل جاری و ساری رہے‘ اور ان کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کا جو سلسلہ رمضان کے روزوں اور قیام اللیل کے ذریعے شروع ہوا تھا‘ وہ مسلسل جاری رہے۔
قرآن پاک کے تربیتی نظام کے مطابق جس طرح رمضان میں برے اعمال سے چھٹکارے اور روحانی پاکیزگی کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے‘ اسی طرح حج کے مہینوں میں عملی طور پر انسان کی ذات اور اس کے نفس کی اصلاح اور تزکیہ و تربیت کو خصوصی ہدف بنایا جاتا ہے‘ تاکہ اسے ظلم و زیادتی اور گناہ کے کاموں میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔ خصوصاً‘ جب کہ ان حرمت والے مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے بے گناہوں کی جان کی حفاظت کے پیش نظر قتل و غارت کو حرام ٹھیرایا ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں انسانی جان کے تقدس و حرمت کا جذبہ بیدار کرتا ہے‘ اور یہ واضح کرتا ہے کہ برے اعمال سے اپنی حفاظت اور اچھے اعمال سے اپنے آپ کو مزین کرنے اور اپنی ذات کے تزکیہ و تربیت کے حوالے سے حج کا کیا مقام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍیَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۱۹۷)
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے‘ اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل‘ کوئی بدعملی‘ کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو اور جو نیک کام تم کرو گے‘ وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِحج کے لیے زادِراہ ساتھ لے جائو‘ اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔
کسی مقام یا زمانے کو محترم قرار دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان افہام و تفہیم‘ باہمی تعاون‘ چشم پوشی اور الفت و محبت جیسی اقدار کو اپنانے اور غیظ و غضب‘ لڑائی جھگڑے‘ بغض و حسد‘ مخالفت اور تفرقہ بازی جیسے رذائل سے اپنے دامن کو بچائے رکھنے کی تربیت حاصل کریں۔ اس کے نتیجے میں اس مخصوص مدت میں اور مخصوص مقامات پر میسر امن و سکون کے لمحے ہمیں اپنی زندگی کی حقیقی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
آج مسلمان ان اخلاقی قدروں کے ذریعے تربیت حاصل کرنے کے بے حد محتاج ہیں کیونکہ اس وقت ہماری صفوں میں افتراق و انتشار اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ آج امت مسلمہ جس پستی و انحطاط سے دوچار ہے‘ اس سے نجات کے لیے دینی اقدار سے آراستہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں۔
حج کے موقع پر اس اہم ترین اجتماع کے دوران‘ جس میں پوری دنیا سے آئے ہوئے عازمینِ حج کلمہ توحید کے جھنڈے تلے ایک سالانہ کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں‘ سب اس بات پر خوشی سے سرشار ہوتے ہیں کہ اُن کا تعلق عقیدۂ توحید پر ایمان رکھنے والی ایک اُمت سے ہے اور اُن کا یہ اجتماع اُن کی مقدس سرزمین میں منعقد ہو رہا ہے۔ قرآن کے نظامِ تربیت کے تحت اس سالانہ اجتماع کا ایک مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو عقیدئہ توحید سے وابستگی‘ اور اللہ کے لیے محبت کی بنا پر اپنے مقامی ماحول‘ مسائل اور سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں باہمی مشاورت‘ بحث و مباحثے ‘ تبادلۂ خیال اور باہمی تعارف و قربت کا موقع فراہم کیا جائے۔
بیت اللہ کے طواف کے دوران محدود دائرے میں چکر لگاتے ہوئے حاجی نظم و ضبط کی تربیت بھی حاصل کرتا ہے اور ایمان کی سچائی پر اس کا یقین بھی بڑھتا جاتا ہے‘ اور اس جگہ کی عظمت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کعبے کا غلاف پکڑتا ہے تو اس دوران اسے اللہ کے لیے خشوع اور عاجزی اور اس کے سامنے گڑگڑانے کی تربیت حاصل ہوتی ہے اور اُسے اطمینانِ قلب کی بھرپور کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حجراسود کا بوسہ لیتا ہے تو اس کیفیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ عمل انسان کو اپنے رب کی طرف لوٹنے کا احساس دلاتا ہے اور اس سے انسان میں رب العالمین کے ساتھ قربت کا احساس مزید تقویت پاتا ہے۔ اسی طرح حاجیوں کا حجراسود تک پہنچنے کے لیے بھرپور کوشش اُن کے اندر مشترکہ مقاصد کے لیے پختہ عزم اور بلند ارادوں میں مضبوطی اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد کا احساس پیدا کرتا ہے۔ رنگ و نسل کے اختلاف کے باوجود ایک گھر کی زیارت کرتے ہوئے ‘حرم مکی کے چاروں طرف محبت اور پاکیزگی کا دور دورہ ہوتا ہے جو حاجی کو اس گھر کے رب کی عظمت کے احساس سے سرشار رکھتا ہے۔
عرفات کے میدان میں وقوف کے لیے موجود جمِ غفیر سے یومِ حشر کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ یہاں مخلوقِ خدا بڑی تعداد میں جمع ہوتی ہے‘ اگرچہ ان کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر ہر ایک اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس سے دعائیں مانگتا ہے اور سفید چادروں میں ملبوس سراپا عجز و انکسارہوتا ہے۔ انسانوں کے ہجوم بے کراں میں اور سورج کی تیز شعاعوں کی زد میں ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں۔ پسینہ بہہ رہا ہوتا ہے اور وہ اپنے رب کے آگے تسلیم و رضا کی تصویر بن کر دن بھر اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔
مسجد نمرہ کے مقام پر پہنچتے ہیں تو یہ خیالی منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہیں اور خطبۂ حجۃ الوداع پیش فرما رہے ہیں‘ جس میں وہ مسلمانوں کو خبر دے رہے ہیں کہ ان کا دین مکمل ہوگیا ہے۔ یہ آواز دلوں میں گھر کر جاتی ہے۔ اس سے سفرِحیات کے اختتام کا یقین پختہ ہوجاتا ہے۔ ہر حاجی کی دل کی امنگ ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ بخیر اور حالت ِایمان میں ہو۔
جیسے ہی غروبِ آفتاب کا وقت قریب ہوتا ہے تو حاجی کوچ کی تیاری شروع کر دیتا ہے‘ گویا کہ وہ دنیا کو خیرباد کہہ رہا ہے۔ لوگوں کی دوڑ دھوپ شروع ہوجاتی ہے۔ ہر ایک کو کسی سواری کی تلاش ہوتی ہے تاکہ بَرُّ الأمان میں پہنچ سکے۔ مشعر الحرام سے کنکریاں اٹھا کر آدمی اپنے دل میں یہ عزمِ مصمم لے کر نکلتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے ساتھ وفاداری کرے گا اور اس غلط رسم کو توڑ کر رکھ دے گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَo ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (البقرہ ۲:۱۹۸-۱۹۹) ’’پھر جب عرفات سے چلو تو مشعرِحرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمھیں کی ہے‘ ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو۔ یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
پھر جب حاجی منیٰ میں ٹھیرتا ہے تو اپنے ساتھ جو کنکریاں لے کر آیا ہوتا ہے اُن کے ذریعے شیطان کو مارتاہے۔ گویا ان چھوٹے چھوٹے پتھروں سے وہ اُسے سنگ سار کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن تمام رذائل سے بچنے کی کوشش کرے گا جو شیطان نے انسان کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے حاجی کو سچائی‘ اخلاص‘ نصیحت افروزی اور پختہ ارادے کا درس ملتا ہے۔ وہ اس دوران نفسانی خواہشات اور اس کی شرارتوں کو پاے حقارت سے ٹھکراتا ہے‘ کیونکہ یہی چیزیں افراد اور معاشروں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔
حاجی کو نفس کی آگ سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے۔ دورانِ حج اس کا نفس اطمینان و سکون اور قناعت کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت انفاق و عطا کے ایک بہتے دریا کی سی ہوتی ہے۔ مسلمان جب اللہ کی راہ میں کوئی تحفہ پیش کرتا ہے تو اس سے قربانی‘ وفاداری‘ ایثار‘ اخلاص اور تسلیم و رضا کی اقدار کو فروغ ملتا ہے۔ وہ جب اللہ کی راہ میں کسی جانور کے گلے پر چھری چلاتا ہے تو جانور کے خون کے گرتے ہی اس کے گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ اس طرح یہ قربانی طہارت وپاکیزگی کے ساتھ قوتِ ارادی کے لیے بھی حجت کا کام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمھارے لیے شعائراللہ میں شامل کیا ہے‘ تمھارے لیے اُن میں بکثرت فوائد ہیں‘ پس انھیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو‘ اورجب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھائو اور اُن کو بھی کھلائو جو قناعت کیے بیٹھے ہیں‘ اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمھارے لیے مسخر کیا ہے‘ تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں‘ نہ خون‘ مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے اُن کو تمھارے لیے اس طرح مسخرکیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ! بشارت دے دے نیکوکار لوگوں کو‘‘۔(الحج ۲۲:۳۶-۳۷)
قربانی کا یہ جذبہ حاجی کو غلط اقدار اور شیطانی وسوسوں اور اقدامات کی بیخ کنی کے لیے قوت اور ہمت عطا کرتا ہے۔ خصوصاً اس وقت‘ جب انسان کا اپنے رب سے قرب و محبت‘ خشوع وخضوع اور اخلاص کا جذبہ اپنی انتہا پر ہوتا ہے۔ اس وقت شر کے مقابلے کے لیے اس کا عزم مزید پختہ ہو جاتا ہے اور وہ آگے بڑھ کر اس کی راہ روکنے کے لیے اپنے اندر قوت محسوس کرتا ہے۔ گویا حج ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کے ذریعے اس مقدس سرزمین میں قیام کے دوران حاجی کے احساسات میں انقلاب آجاتا ہے۔ اس کا دل اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ وہ یہ عزم صمیم لے کر گھر لوٹتا ہے کہ وہ خدا کی نافرمانی‘ گناہوں اور تمام رذائل کو اس طرح چھوڑ دے گا جس طرح اُس نے ارض مقدس میں اپنے رب کے حضور اپنے روز مرہ کے لباس کواتار کر اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیا تھا۔ اس سے اُسے یہ یاد دہانی بھی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کرے گا‘ نیز انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حاجی کو اسلامی جماعت کی قوت کا احساس بھی دلاتا ہے اور اس کے دل میں اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے کا جذبہ بھی بیدار ہو جاتا ہے جس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
حج کے بعد آدمی برائیوں کے میل سے پاک ہو جاتا ہے۔ اس کا دل صدف سے نکلے ہوئے سچے موتی کی مانند شفاف ہوجاتا ہے اور نتیجتاً اس کے کردار میں پاکیزگی و پختگی آجاتی ہے۔ اس کا ارادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس کی روح فتح و کامرانی کے جذبے سے سرشار ہوجاتی ہے جو اس کے حوصلوں اور عزائم کی بلندی کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ جب اس سفر سے واپس لوٹتا ہے تو وہ ایک نیا اور بدلا ہوا انسان ہوتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ حَجَّ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَلَدَتْـہٗ اُمُّہٗ، جس نے حج کیا اور اس میں نہ کوئی شہوانی باتیں کیں اور نہ کوئی نافرمانی کا کام کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی اس کی ماں نے اُسے جنا ہو! (ماخوذ: ماہنامہ الحج والعمرہ‘سعودی عرب‘ جلد۵۸‘ عدد۸‘ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
اللہ کی بندگی کی روح یہ ہے کہ ہم صرف اسی کے محتاج اور فقیر بن جائیں۔ محتاجی اور فقر کے سوا انسانی زندگی کی کوئی اور تعبیرممکن نہیں ہے۔ جتنا محتاج‘ جتنا فقیر‘ جتنا بے بس‘ جتنا لاچار اور بے کس انسان ہے‘ اتنی شاید ہی کوئی دوسری مخلوق ہو۔
ایک بچے کے آنکھ کھولتے ہی اگر دو انسان اس کی خبرگیری کے لیے‘ اللہ تعالیٰ نے متعین نہ کر دیے ہوں‘ تو انسان کا بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ قدم قدم پر‘ لمحے لمحے پر‘ ہر جگہ انسان‘ کائنات کی قوتوں کے آگے‘ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ اگر زلزلہ آجائے‘ آتش فشاں پھٹ جائے‘ سیلاب آجائے‘ آندھی اور طوفان آجائے‘ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ جسم کے اندر اگر ایک خلیے کا مزاج بگڑ جائے تو کینسر کا مرض موت کا پروانہ لے کر آجاتا ہے‘ اورکوئی علاج کارگر نہیں ہوتا۔ معمولی زکام بھی ہوجائے تو اس کی دوا ابھی تک انسان کے پاس نہیں ہے۔ وہ اپنے نزلے‘ زکام کا علاج نہیں کر سکتا ہے۔ اگردل دھڑکنا بند ہو جائے تو وہ اس کی دھڑکن دوبارہ واپس نہیں لاسکتا۔ انسانی زندگی کو وہ اگر لوٹانا بھی چاہے تو نہیں لوٹا سکتا۔ اُس کا اِس پر بس نہیں چلتا۔
گویا ہر طرف انسان کی حاجت مندی‘ محتاجی اور فقیری ہے جو اس کی زندگی میں رچی بسی ہے۔ اسی محتاجی اور فقیری کا نتیجہ ہے کہ انسانی زندگی میں سب سے غالب اور نمایاں پہلو اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو نقصان سے بچائے۔ اس وجہ سے جس سے بھی نقصان پہنچتا ہے اور جس سے بھی فائدہ ملنے کی امید ہوتی ہے‘ وہ اس سے نسبت اور تعلق قائم کرلیتا ہے۔ انسانی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہی پہلو غالب نظر آئے گا۔ کہیں وہ کسی غیرمعمولی طاقت اور قوت کے خوف‘ ڈر اور ہیبت سے اس کے آگے جھک جاتا ہے‘ ماتھا ٹیک دیتا ہے اور اس کو خدائی کا درجہ دے کر بندگی کرتا ہے اور پناہ مانگتا ہے۔ وہ اپنی حاجات ‘ ضروریات‘ امیدوں اور تمنائوں کے برآنے کے لیے ہر ایسی ہستی اور قوت کے آگے ہاتھ پھیلا دیتا ہے‘ اُس کے در پہ جھک جاتا ہے‘ سجدے میں گرجاتا ہے‘ گڑگڑاتا اور دعائیں مانگتا ہے جس سے اسے حاجت روائی‘ مشکل کشائی‘ مرادوں کے برآنے اور دعائوں کی قبولیت اور امن و تحفظ کی امید و توقع ہوتی ہے۔ اس سب کے پیچھے بنیادی سوچ یہی ہوتی ہے۔ پوجا و پرستش اور عبادت و بندگی‘ اور محتاجی وفقر‘ اور مذاہب و ادیان کی تشکیل میں بھی یہی فلسفہ و فکر کارفرما ہے۔
اللہ کی بندگی کی روح اور حقیقت یہ ہے کہ فقر‘ حاجت روی اور محتاجی کا یہ تعلق صرف ایک ذات سے‘ یعنی اللہ سے ہو۔ انسان صرف اُسی کی بندگی کرے نہ کہ کسی اور کی۔ زمین کے زلزلے سے گھبرا کر وہ زمین کی بندگی نہ کرے‘ نہ سورج‘ چاند‘ ستاروں کی پرستش کرے‘ نہ ہوائوں اور بارش کی اور نہ اپنی یا اپنے جیسے کسی انسان کی پوجا کرے‘ بلکہ وہ یہ سمجھے کہ جو کچھ بھی مل سکتا ہے صرف اللہ ہی سے مل سکتا ہے اور سارے اختیارات صرف اُسی کے پاس ہیں۔ ہر چیز اس کے خزانے میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس ذرہ برابر بھی اختیار نہیں ہے‘ نہ کچھ دینے کے لیے اور نہ کچھ چھیننے کے لیے۔ زندگی و موت‘ نفع و نقصان اور خیروشر‘ سب اس کے اختیار اور قبضۂ قدرت میں ہے۔جس نے اس بات کو سمجھ لیا اوراس پر یقین کر لیا‘ اور پھر اس پر اپنی زندگی کی تعمیرکی‘ صرف اُسی کی بندگی مکمل ہوگی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دعا کے انداز میں اپنے ساتھ تعلق رکھنے کی تعلیم دی اور اس تعلیم کو بار بار دہرانے کی بھی ہدایت کی اور حکم دیا کہ یوں کہو: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo (الفاتحہ ۱:۴) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ دراصل یہی بندگی کی روح اور بندگی کی معراج ہے۔
سورۃ الفاتحہ کی اس آیت کی تشریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اَلدُّعَائُ ھُوَ العِبَادَۃُ ،’’مانگنا ہی تو بندگی ہے‘‘۔ آپؐ نے مزید فرمایا: اَلدُّعَائُ مُخُّ العِبَادَۃِ،یعنی مانگنا عبادت کا مغز‘ اس کی روح اور اس کا جوہر ہے۔ لہٰذا جو اللہ کا نام لے‘ اس کا جھنڈا اٹھائے اور طلب کی نسبت اللہ کے علاوہ دوسروں سے بھی رکھے تووہ توحید کے راستے میں نقص‘ کمزوری اور ضعف کا شکار ہے۔ توحید کے مطابق اللہ کی بندگی کامل اس کی ہے جو خوف اور طمع کی نسبت صرف اللہ سے رکھے۔ ڈرے تو صرف اُسی سے ڈرے‘ اور اگر کوئی امید ہو تو صرف اسی سے ہو۔
یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ ۱۶:۳۲)
اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔
گویا وہ خوف اور ڈر سے‘ لالچ اور طمع سے اور امید و حاجت روی سے اگر مانگتے ہیں یا پکارتے ہیں تو صرف اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے وہ سارے انعامات ہیں جو نہ انسان نے دیکھے‘ نہ سنے اور نہ وہ تصور کرسکتا ہے۔ اسلام میں بندگی ومحتاجی اور فقر کی یہی روح اور حقیقت ہے۔
اللہ کی بندگی کی روح یہی ہے کہ ہم اُس کے آگے ہاتھ پھیلائیں‘ اسی کے در پر بھکاری بن کر جائیں‘ اسی سے مانگیں‘ اور یہ سمجھیں کہ جو کچھ مل سکتا ہے صرف اُسی سے مل سکتا ہے‘ اور اگر کوئی چھین سکتا ہے تو صرف وہی چھین سکتا ہے۔
ایک طویل حدیث قدسی میں جو حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت کی گئی ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: تم سب بھوکے ہو‘ بھوکے رہو گے سوائے اس کے جس کو میں کھانا کھلائوں۔ تم سب بے لباس رہو گے سوائے اس کے جس کو میں کپڑا پہنائوں۔ تم سب گمراہ رہو گے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں۔ تم دن رات گناہ کرتے ہو‘ اور مجھ سے معافی مانگتے ہو تو میں معاف کر دیتا ہوں۔پھر فرمایا کہ تم مجھ سے ہدایت مانگو۔
گویا محتاجی صرف دنیا کی چیزوں کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ محتاجی ہر چیزکے لیے ہے۔ زندگی کیسے بسر کریں؟ سیاست کیسے ہو؟ معیشت کیسی ہو؟ یہ بھی محتاجی میں شامل ہے۔ یہ سمجھنا کہ یہ رہنمائی کہیں اور سے مل سکتی ہے‘ یہ بھی خلافِ توحید ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ: تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوں گا‘مجھ سے کھانا مانگو میں تمھیں کھلائوں گا‘ مجھ سے کپڑا مانگو میں تمھیں پہنائوں گا‘ مجھ سے معافی مانگو میں تمھیں معاف کر دوں گا۔
پھر فرمایا:اس سے میری کوئی غرض نہیں ہے۔ ’’سارے انسان‘ تمھارے پہلے ‘ اور بعد میں آنے والے جِن اور مخلوق سب مل کر انتہائی متقی ہوجائیں تو میری خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اور اگر سب کے سب مل کربدترین نافرمان ہوجائیں‘ تب بھی میری خدائی میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘ اور سب کے سب کسی میدان میں جمع ہو کے جو مانگنا ہے وہ مانگ لیں‘ جو دل میں آئے مانگ لیں‘ اور میں وہ سب دے دوں تو میرے خزانوں میں اس سے زیادہ کمی نہیں ہوگی کہ سوئی سمندر میں ڈال کر نکال لی جائے (تو اس کے سرے پر جو پانی لگا رہ جاتا ہے‘ اس کے برابر) اے میرے بندو! تم مجھ کو چھوڑ کر کس کے پاس جاتے ہو! (مشکوٰۃ المصابیح‘ باب الاستغفار والتوبہ)
وہ ہمیں بلاتا ہے‘ پکارتا ہے۔ غرض تو ہماری ہے‘ محتاج توہم ہیں وہ توغنی ہے‘ ہم فقیر ہیں۔ اگر اسے خدا کی شان میں گستاخی نہ سمجھا جائے تو وہ ہم کو ایسے پکارتا ہے اوربار بار پکارتا ہے کہ آئو‘ مجھ سے مانگو‘ نعوذ باللہ گویا وہ محتاج اور فقیر ہو اور ہم غنی ہوں اور ہمیں کوئی پروا نہ ہو۔ ہم رات سے صبح‘ صبح سے رات کریں اور بھول کر بھی نہ سوچیں کہ اس سے ملنا ہے‘ اس سے مانگنا ہے۔ مگر وہ ہے کہ جو بار بار پکارتا ہے کہ آئو اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘تاکہ میں تم کو معاف کر دوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: جو اللہ سے سوال نہیں کرتا ہے‘ اللہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے‘ غصہ کرتا ہے جو اس سے سوال نہیں کرتا اور مانگتا نہیں ہے۔ بندگی‘ محتاجی اور فقر یہی توہے کہ اس نے ہم کو پیدا کیا ہے‘وہ ہمارا خالق اور ہم اس کی مخلوق ہیں‘ اور مخلوق ہونے کے ناطے ہم اپنے ارادے سے اس کے در پر جائیں‘ اسی کے بھکاری بن کر جائیں اور اسی سے مانگیں۔
اگر آپ غورکریں تو مانگنے میں‘ ایک تو مانگنے والا ہے جو ہم ہیں‘ اور ایک وہ ہے جس سے مانگا جائے۔ ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم فقیر ہیں‘ محتاج ہیں‘ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے‘ نہ اپنی آنکھ پر‘ نہ اپنے کان پر اور نہ اپنے جسم پر۔ ہمارا اختیار تو جسم کے اندر ایک چھوٹے سے خلیے پر بھی نہیں۔ اگر اس میں فساد پیدا ہو جائے تو ہم چند دن میں گل سڑ کر مرجاتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے جسم پر اتنا بھی اختیار نہیں ہے۔ اس قدر لاچار اور بے بس ہیں ہم۔ مگر آدمی اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھتا ہے۔
دوسری طرف ایک وہ ہے کہ جس سے مانگا جائے‘ یعنی اللہ رب العزت۔ اس کا حال یہ ہے کہ ہماری کسی نیکی سے‘ دعا سے اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا لیکن ہم جو مانگیں‘ وہ ہم کو دے دیتا ہے اور اس کے ہاں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ وہ خود پکارتا ہے کہ آئو مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوں گا‘ کھانا مانگو‘ کھانا کھلائوں گا‘ پانی مانگو پانی دوں گا‘ شفا مانگو شفا دوں گا ۔ یہی رب سے وہ حقیقی تعلق ہے جس کو توحید کے امام عالی مقام حضرت ابراہیم ؑ نے یوں ادا کیا کہ تمام جھوٹے معبود میرے دشمن ہیں‘ سواے ایک رب العالمین کے:
فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَo الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِo وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِo وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَیَشْفِیْنِo وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیِنِo وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِo (الشعرائ۲۶: ۷۷-۸۲)
میرے تو یہ سب دشمن ہیں‘ بجز ایک رب العالمین کے‘ جس نے مجھے پیدا کیا‘ پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔ جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔
مانگنے والا اور جس سے مانگا جائے‘ ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا مانگا جائے؟ آدمی کیا مانگتا ہے‘ وہ جس کی طلب دل کے اندر ہوتی ہے۔ پیاسا پانی مانگتا ہے‘ بھوکا کھانا مانگتا ہے‘ بے لباس کپڑا مانگتا ہے‘ تو گویا جس کی واقعی حاجت ہوتی ہے‘ واقعی طلب ہوتی ہے‘ اسی کے لیے آدمی ہاتھ پھیلاتا ہے۔ چھوٹا سا کام درپیش ہو تو آدمی ایم این اے وغیرہ کے گھر کے دس چکر لگاتا ہے کہ کسی طرح میرا کام ہوجائے۔ اگر کہیں اس سے اُوپر تعلق پیدا ہوجائے‘ وزیراعظم کے ہاں جانے کا موقع مل جائے‘ تو آدمی بے چین ہو کے دوڑا دوڑا جا کے کام کروائے گا۔
پس جس چیز کی طلب ہوتی ہے ‘ حرص ہوتی ہے‘ اس کے لیے دل کی گہرائیوں سے آواز اٹھتی ہے اور انسان اس کے لیے پکار اٹھتا ہے۔ اگر دل میں طلب‘ حرص و لالچ نہ ہو‘ کوئی پیاس اور بھوک نہ ہو‘ کوئی تڑپ اور بے قراری نہ ہو‘ تو اس کیفیت میں مانگنے پر ملنا مشکل ہے‘ اور دعا کا قبول ہونا بھی مشکل ہے۔
دعائوں کے ذریعے اللہ سے اور صرف اللہ سے خوف اور لالچ کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ تعلق بندگی اور عبادت کی روح ہے۔
دعاکا ایک اور پیرایہ یہ ہے کہ دعا تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہے۔ ہم منطق چھانٹیں‘ دلائل دیں‘ بڑی لمبی چوڑی تقریر بھی کریں مگر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے چار الفاظ میں جو تعلیم دی گئی ہے‘ وہ ہم نہیں سمیٹ سکیں گے۔جو کچھ ] اور جیسا[ ہم کو ہونا چاہیے‘ اس کو دعا بنا کر‘ طلب اور خواہش کی طرح ہماری زبان پر جاری کر دیا گیا ہے۔ گویا جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں اس کی طلب‘ اس کا لالچ‘اس کی حرص بھی دل کے اندر ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ دل میں اگر اس چیز کی پیاس نہ ہو‘ یہ معلوم ہی نہ ہو کہ ہم کو کیا چاہیے یا کیا مانگنا ہے؟ تو پھر اس کی قبولیت بھی مشکل ہے۔ لہٰذا دعا کرنا یا مانگنا صرف اتنا ہی نہیں کہ اللہ کے آگے گڑگڑایا جائے اور التجا کی جائے‘ بلکہ جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں اور جیسا بننا چاہ رہے ہیں‘ اس کے حصول اور ویسا بننے کی کوشش بھی لازم آجاتی ہے۔ یہی تزکیہ و تربیت کا وہ عمل ہے جو دعا کے مانگنے کے ساتھ فطری انداز میں جاری و ساری ہوجاتا ہے۔ دعا اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق ہی نہیں جوڑتی‘ بلکہ وہ ہم کو یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم کو کیسا بننا چاہیے‘ کیسا ہونا چاہیے اور دل میں خواہش‘ لالچ‘ تڑپ اور طلب کس چیز کی ہونی چاہیے۔
دعائیں قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ آپؐ کی دعا ہے۔ ایسے ایسے الفاظ میں‘ایسے ایسے مضامین کی‘ ایسے خوب صورت اور مؤثر پیراے میں دعائوں کی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دل بے اختیار ہوجاتاہے ‘روح وجد میں آجاتی ہے اور بندہ اپنے رب ہی کا بن کے رہ جاتا ہے۔ اگر ہم ان دعائوں کو دیکھیں‘ ان کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم کو کیا مانگنا چاہیے‘ اور کیسا بننا چاہیے اور اللہ سے ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہیے۔
دعا اللہ کو یاد کرنے کی بھی ایک بڑی عمدہ‘ نادر اور نفیس صورت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ہم سے ہم کلام ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں: ’’اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ‘‘۔ تو ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ لیکن جب ہم اس سے دعا مانگتے ہیں تو ہم صرف اس کو یاد ہی نہیں کرتے‘ بلکہ ہم اس سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ اس سے بات چیت کرتے ہیں۔ اگر کسی کو اللہ سے بات چیت کرنے کا موقع مل جائے تو یہ بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی سعادت ہے۔ صبح و شام انسان کو حاجات پیش آتی ہیں‘ ضروریات آن پڑتی ہیں‘ اگر آدمی صبح و شام‘ رات دن‘ ہر موقع پر اللہ سے مانگتا رہے تو پھر یہ کیفیت ہوتی ہے: اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ(ٰاٰل عمرٰن۳:۱۹۱)، ’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے‘ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ یہ کیفیت ہماری بھی بن سکتی ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام‘ اللہ تعالیٰ کے بڑے محبوب نبی اور رسول تھے اور اس کی راہ میں انھوں نے بڑی محنت اور جدوجہد کی ہے۔ ساڑھے نوسو سال تک رات دن‘ کھلے چھپے اپنی قوم کو پکارا‘ مگر سواے انکار اور مایوسی کے‘کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ان کی قوم نے مان کر نہ دیا اور ایک نہ سنی بلکہ انھیں جھٹلا دیا۔ اس حالت میں ان کی زبان سے ایک دعا نکلی جوبہت مختصر سی دعا ہے:
اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ o (القمر۵۴:۱۰)
میں مغلوب ہوچکا‘ اب تو ان سے انتقام لے۔
یہ تین الفاظ کی دعا ہے‘ لیکن اس کی پشت پر ساڑھے نو سو سال رات دن کی محنت تھی۔ اس دعا نے زمین و آسمان کو ہلا کر رکھ دیا اور اس طرح قبول ہوئی :
فَفَتَحْنَـآ اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآئٍ مُّنْھَمِرٍط وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ o (القمر ۵۴:۱۱-۱۲)
تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کر دیا‘ اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدر ہوچکا تھا۔
بظاہریہ چھوٹی سی دعا تھی۔ لیکن ایک ایسے بندے کے دل و زبان سے نکلی تھی جو رات دن اسی مغلوبیت کے میدان سے گزر رہا تھا۔
رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص ۲۸:۲۴)
پروردگار!جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اُس کا محتاج ہوں۔
اس پکار کے نتیجے میں ان کے لیے بھی راستے کھل گئے‘ پناہ بھی ملی‘ مغفرت بھی ملی‘ دشمن بھی تباہ و برباد ہوا اور مقامِ عبرت بن گیا‘ نیز غلبہ بھی ملا‘ سب کچھ ان کے حصے میں آیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دعائوں کی تعلیم دی ہے‘ ان دعائوں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے تعلق کا جس سے سب کچھ مل سکتا ہے‘ ایک ایک لفظ سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔
یہ دعا‘ عرفات کے میدان کی دعا ہے۔ لیکن کسی وقت بھی مانگی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی بندہ رات کی تنہائی میں بھی مانگ سکتا ہے اور دن میں بھی :
اِلٰھِیْ عَبْدُکَ بِبَابِکَ فَقِیْرُکَ بِبَابِکَ مِسْکِیْنُکَ بِبَابِکَ سَائِلُکَ بِبَابِکَ ذَلِیْلُکَ بِبَابِکَ ضَعِیْفُکَ بِبَابِکَ ضَیْفُکَ بِبَابِکَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ٭
میرے معبود‘ تیرا بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا فقیر تیرے در پر ہے‘ تیرا مسکین تیرے در پر ہے‘ تیرا سائل تیرے در پر ہے‘ تیرا ذلیل بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا کمزور و ناتواں بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا مہمان تیرے در پر ہے‘ اے رب العالمین!
اس دعا میں بندگی‘ عجز وانکسار اور خدا سے استعانت و مدد کی کتنی دل کش تصویر پیش کی گئی۔ بندہ پکارتا ہے: اے اللہ، تیرا بندہ تیرے دروازے پر حاضر ہے‘ تیرے در پر بھکاری بن کر کھڑا ہے۔ تیرا محتاج و فقیرہے‘ مسکین و بے بس ہے۔ اے اللہ‘ تیرا بندہ اسی لیے تیرے در پر کھڑا ہے اور تیرا مہمان ہے کہ تونے بلایا ہے۔ بن بلائے بھی نہیں آیا ہے‘ بلایا ہوا آیا ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں‘ کمزور اور ضعیف‘ فقیر اور محتاج‘ تیرے در پر سوالی بن کر کھڑا ہوں‘اور تیرے سوا کون ہے جس کے در پر ہم اپنی جھولی پھیلا سکیں۔
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ وَتَـرٰی مَکَانِیْ وَتَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَتِیْ لَایَخْفٰی عَلَیْکَ شَیْ ئٌ مِّنْ اَمْرِیْ، اَنَا الْبَآئِسُ الْفَقِیْرُ، الْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنْبِیْ اِلَیْکَ، اَسْئَلُکَ مَسْئَلَۃَ الْمِسْکِیْنِ وَاَبْتَھِلُ اِلَیْکَ ابْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیْلِ، وَاَدْعُوْکَ دُعَائَ الْخَائِفِ الضَّرِیْرِ، دُعَائَ مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہٗ وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہٗ وَذَلَّ لَکَ جِسْمُہٗ وَرَغِمَ لَکَ اَنْفُہٗ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَآئِکَ شَقِیًّا وَکُنْ بِیْ رَؤُوْفًا رَّحِیْمًا یَاخَیْرَ الْمَسْئُوْلِیْنَ وَیَاخَیْرَ الْمُعْطِیْنَ (کنزالاعمال‘ طبرانی‘ عن ابن عباسؓ، عبدابن جعفرؓ)
میرے اللہ‘ تو میری بات کو سن رہا ہے‘ اور تو میرا مقام اور حالت دیکھ رہا ہے اور میرے چھپے اور کھلے سب کو جانتا ہے‘ تجھ سے میری کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ میں مصیبت زدہ ہوں‘ محتاج ہوں‘ فریادی ہوں‘ پناہ کا طلب گار ہوں‘ ڈرنے والا‘ ہراساں ہوں‘ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں‘ اعتراف کرتا ہوں میں تجھ سے مانگتا ہوں‘ جیسے بے کس مانگتا ہے اور میں تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گناہ گار اور ذلیل و خوار گڑگڑاتا ہے‘ اور میں تجھ کو پکارتا ہوں جیسے خوف زدہ‘ آفت رسیدہ پکارتا ہے‘ ایسے شخص کی پکار جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہوئی ہے اور جس کے آنسو تیرے سامنے بہہ رہے ہیں‘ جس کا تن بدن تیرے آگے بچھا ہوا ہے اور جو اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہاہے‘ اے اللہ! تو ایسا نہ کر کہ تجھ سے مانگوں اور پھر بھی محروم رہوں‘ تو میرے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا بن جا‘ اے ان سب سے بہتر جن سے مانگا جائے‘ اے سب دینے والوں سے بہتر۔
دیکھیے‘ ایک ایک لفظ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور بندگی کی تڑپ جھلک رہی ہے۔ پوری زندگی کے گناہوں کا بھی اعتراف ہے‘ اپنی کیفیت بھی ہے‘ جسم بھی جھکا ہوا ہے‘ ناک بھی زمین پہ رکھی ہوئی ہے‘ پیشانی بھی زمین پہ ٹکی ہے‘ آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہیں اور اس حالت میں گڑگڑا رہے ہیں‘ سارے گناہوں کا گنہگار کی طرح اعتراف ہے۔ یہی وہ چیزہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے بندگی کا تعلق قائم کرا دیتی ہے۔
اس دعا کے اندر خوف اور محبت کے چشمے‘ دل کے اندر پھوٹتے ہیں۔ خدا کے بارے میں ایک تصور یہ ہے کہ اس نے پیدا کر دیا اور اس کے بعد لاتعلق ہوگیا‘ اب اس کا انسان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں سمجھیے کہ جیسے شاہجہان نے تاج محل بنایا‘ مر گیا اور ختم ہوگیا۔ ایک دوسرا تصور خدا یہ ہے کہ ہماری زندگی رات دن اس کی مٹھی میں ہے۔ جو سانس آتا ہے اسی کے حکم سے آتا ہے اور جو سانس جاتا ہے وہی لے جاتا ہے‘ اور جو لقمہ منہ میں آتا ہے‘ وہی لا کر ڈالتا ہے اور جو پانی کا گھونٹ پیتے ہیں اُسی کا دیا ہوا پیتے ہیں۔ دعا ایک ایسے ہی زندہ و جاویدہستی اور جیتے جاگتے خدا سے بندے کا براہ راست تعلق جوڑ دیتی ہے۔
اللہ سے محبت اور حلاوتِ ایمان ایک عظیم نعمت ہے۔ ہر ایک کی طلب‘ خواہش اور آرزو ہونی چاہیے کہ اللہ کی محبت پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس محبت کی دعائیں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں اور یہ دعائیں جن الفاظ میں اور جس اسلوب میں ہیں‘ آدمی ان کو سن کر اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا ہے۔ ایک مختصر دعا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر کیا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَمَالِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ (مشکوٰۃ‘ترمذی‘کتاب الدعوات‘ ۵؍۱۸۴)، یااللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرے اور اس عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو تیری محبت کا باعث ہے۔ یااللہ! اپنی محبت کو میرے لیے میری جان‘ میرے مال اور میرے اہل وعیال اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ عزیز بنا دے۔
اَللّٰھُمَّ اَجْعَلْ حُبَّک اَحَبَّ الْاَشْیَائِ اِلَیَّ وَاجْعَلْ خَشْیَتَکَ اَخْوَفَ الْاَشْیَائِ عِنْدِیْ وَاقْطَعْ عَنِّیْ حَاجَاتِ الدُّنْیَا بِالشَّوْقِ اِلٰی لِقَائِکَ وَاِذَا اَقْرَرْتَ اَعْیُنَ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ دُنْیَاھُمْ فَاَقْرِرْعَیْنِیْ بِعِبَادَتِکَ (کنزالعمال‘ عن ابی بن مالکؒ)
اے اللہ‘ اپنی محبت میرے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب بنا دے اور اپنے ڈر کو تمام چیزوںکے ڈر سے زیادہ کر دے۔ اور مجھے اپنے ساتھ ملاقات کا ایسا شوق دے کہ میری دنیا کی محتاجیاں ختم ہوجائیں‘ اور جہاں تو نے دنیا والوں کی لذت ان کی دنیا میں رکھی ہے‘ میری لذت اپنی عبادت میں رکھ دے۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اُحِبُّکَ بِقَلْبِیْ کُلِّہٖ وَاُرْضِیْکَ بِجَھْدِیْ کُلِّہٖ
اے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں اپنے سارے دل کے ساتھ تجھ سے محبت کروں اور اپنی پوری کوشش تجھے راضی کرنے میںلگا دوں۔
کیسا والہانہ انداز محبت ہے! بندہ دل کی گہرائیوں سے اظہارِ تمنا کر رہا ہے کہ مجھے ایسا بنا دے کہ پورے دل کے ساتھ تجھ سے محبت کروں‘ دل کے اندر کوئی خانہ خالی نہ رہے اور تجھ سے ٹوٹ کے بے پناہ محبت کروں‘ نیز میری جدوجہد اور ساری کوشش اسی لیے ہو کہ تجھ کو راضی کر لوں۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اَخْشَاکَ کَاَنِّیْ اَرَاکَ یَوْمَ اَلْقَاکَ وَاَسْعِدْنِیْ بِتَقْوَاکَ
اے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھ سے اس طرح ڈروں گویا میں تجھے تیرے ساتھ ملاقات کے وقت دیکھ رہا ہوں اور مجھے اپنے تقویٰ سے سعادت بخش۔
دیکھیے کہ اس چھوٹی سی دعا کے اندر وہ ساری چیزیں آگئی ہیں جو ہم کو یہ بتاتی ہیں کہ کن چیزوں کی پیاس ہو‘ کن چیزوں کی طلب ہو‘کیا چیزیں مانگیں‘ کیسا بننا چاہیے۔ یہ صرف دعائیں نہیں ہیں‘ بلکہ بڑی قیمتی تعلیمات ہیںجو ان دعائوں کے اندر سمیٹ کے بیان کر دی گئی ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ ذَکَّارًا لَکَ شَکَّارًا لَکَ رَھَّابًا لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی‘ عن ابن عباسؓ)
میرے رب‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں‘ تیرا بہت شکر کروں‘ تجھ سے بہت ڈرا کروں‘ تیری بہت فرماں برداری کیا کروں‘ تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘ اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں۔
یہ ایک بڑی خوب صورت اور بڑی جامع دعا ہے۔ اس میں ایک ایک چیز بڑی ترتیب سے آئی ہے ‘اور ایک ایک چیز دین کی بہت ہی قیمتی بنیادوں میں سے ہے۔ ذَکَّار اور شَکَّار ‘ یہ فَعَّالٌ کے ہم وزن عربی زبان کے الفاظ ہیںجن کا مفہوم ہوتا ہے بہت زیادہ یا کثرت کے ساتھ کرنے والا۔ ذَکَّارًا، یعنی مجھے ایسا کر دے کہ بہت زیادہ تجھے یاد کرنے والا بنوں۔ لَکَ شَکَّارًا، اور تیرا بہت زیادہ شکر کرنے والا بنوں۔ ان دونوں کا آپس میں باہمی تعلق بھی ہے۔ اس لیے کہ جو آدمی شکر کرے گا وہی اللہ کو یاد کرے گا۔ جب آدمی کثرت کے ساتھ شکر کرے گا تو وہ خدا کی ایک ایک نعمت کے لیے شکر ادا کرے گا۔ وہ اپنے ایک ایک عضو کے لیے شکر ادا کرے گا‘ زبان کے لیے‘ آنکھ کے لیے‘ کان کے لیے‘ اس دل کے لیے جو دھڑکتا ہے‘ حتیٰ کہ ہرآنے جانے والی سانس کے لیے جو اس کے حکم سے آتی اور جاتی ہے۔ غرض زمین و آسمان کی بے شمار نعمتوں کے لیے وہ ہر دم شکرگزار ہوگا۔ اس طرح کون سا لمحہ ہوگا جو اللہ کے ذکر سے خالی رہ جائے گا۔
جہاں شکر کا ذکر ہے وہاں خوف کا بھی ذکر ہے۔خوف کا بھی ذکر کسی انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ ہمیں جو اتنی نعمتیں ملی ہیں‘ یہ کہیں چھن نہ جائیں۔ اگر ہم اتنے نااہل و ناکارہ ہوئے کہ یہ نعمتیں چھن جائیں تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ بچہ باپ سے کس لیے ڈرتا ہے؟ نفرت کی وجہ سے یا ڈنڈے کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ محبت کی وجہ سے ڈرتا ہے کہ اگر یہ محبت مجھ سے چھن گئی تو کیا ہوگا؟
یہاں مِطْوَاعًا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مطیع نہیں کہا گیا۔ مطیع کے معنی ہیں حکم ماننے والا‘ جب کہ مِطْوَاعًا کے معنی ہیں جو اپنی مرضی سے اپنے مالک کو خوش کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کو یاد کرے‘ اللہ کا شکر کرے‘ اسے اللہ کا خوف لاحق ہو‘ اس کے بعد جہاں اسے رب کو راضی کرنے کا موقع مل جائے تو اس طرح نہیں کہ ڈیوٹی سمجھ کے انجام دے یا جیسے کوئی بوجھ اتار دیا‘ بلکہ جو اپنی مرضی سے‘ اپنی خواہش سے‘ اپنی طلب سے اللہ کی اطاعت کرے۔ پھر فرمایا: لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا ،’’تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘‘۔
اب آخری بات آپ دیکھیے: اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُنِیْبًا۔، ’’اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں‘‘۔ اُردو میں ایک لفظ آہ ہے۔ آپ کہتے ہیں آہ کرنا۔ تو اَوَّاہَ کا لفظ بھی عربی زبان میں آہ سے نکلا ہے۔ آہ کا لفظ بھی عربی زبان کا ہے۔ اَوَّاہَ کے معنی ہیں جو بہت ہائے ہائے کرنے والا ہو‘ بہت آہ آہ کرنے والا ہو‘ گناہوں پر رونے والا ہو۔ لہٰذا فرمایا گیا: اَوَّاھًا مُنِیْبًا، ’’میں ہائے ہائے کرکے‘ ہمیشہ تیرے ہی در پہ لوٹ آئوں۔ اب یہ چھوٹے چھوٹے الفاظ ہیں‘ چھوٹے چھوٹے جملے ہیں۔ جو آدمی رات دن مانگے اور سوچ سمجھ کر مانگے تو پھر ویسا ہی بنتا بھی جائے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ کچھ نہ کچھ تو اپنے آپ کو ویسا ہی بنائے جیسا کہ اس دعا کے اندر بیان ہوا ہے۔
دعا کا ایک اہم موضوع توبہ‘ یعنی اللہ کی طرف پلٹنا اور استغفار بھی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم گناہ کرتے ہیں‘ اورمعافی مانگتے ہیں‘ پھر گناہ کرتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں۔ لیکن پھر دنیا ہمیں گھیرلیتی ہے‘ ہم بہک جاتے اور پھسل جاتے ہیں۔ نگاہ بھی پھسلتی ہے‘ ہاتھ بھی غلط کاری میں ملوث ہوجاتے ہیں‘ حرام بھی کما لیتے ہیں اور جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ گویا گناہوں سے مفر نہیں ہے۔ گناہوں سے مفر اس لیے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا ہی اس لیے کی ہے کہ وہ گناہ کرنے کے لیے آزاد ہو۔ اسے گناہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہو‘ اور جو آزاد ہوگا‘ جسے اختیار حاصل ہوگا ‘وہ گناہ ضرور کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار کا دروازہ کھول رکھا ہے‘ اس نے استغفار کے لیے دعوت دی ہے‘ وہ تو پکارتا ہے:
یَدْعُوْکُمْ لِیَغْفِرَلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُؤَخِّرَکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّیط
وہ تمھیں بلا رہا ہے تاکہ تمھارے قصورمعاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔ (ابراھیم ۱۴:۱۰)
انبیا علیہم السلام کو اسی لیے بھیجا گیا کہ لوگوں کے لیے گناہوں کی بخشش کا دروازہ کھل جائے۔حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس لوگوں کو رب کی بندگی کی دعوت دی تو یہ بھی فرمایا: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ، یعنی میں نے تو قوم سے یہی کہا کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔ وہ بخشنے والا ہے۔
ایک شخص مسجد نبویؐ میں آیا اور کہنے لگا: ہائے میرے گناہ‘ ہائے میرے گناہ‘ ہائے میرے گناہ۔ وہ اپنے گناہوں کے سبب رو رہا تھا‘ دھاڑ رہا تھا‘ چیخ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا‘ بیٹھ جائو اور یہ کہو: اَللّٰھُمَّ اِنَّ مَغْفِرَتَکَ اَوْسَعُ مِنْ ذَنُوْبِیْ وَرَحَمَتَکَ اَرْجٰی عِنْدِیْ مِنْ اَمْرِیْ، ’’اے اللہ تیری مغفرت میرے گناہوں سے بہت زیادہ وسیع ہے اور اپنے معاملے میں بہت زیادہ امیدوار ہوں‘‘۔ اس کے بعد آپؐ نے اس شخص کے لیے دعاے مغفرت بھی کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا: عُدْ، یعنی ایک دفعہ اور کہو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: جائو تمھارے گناہ بخش دیے گئے۔
آپؐ نے سیدالاستغفار کی بھی تعلیم دی ہے اور فرمایا کہ یہ سارے استغفاروں کا سردار ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص استغفار کو صبح و شام پڑھے اور اس کے معنی و مفہوم کو سمجھ کر اس پر پورا یقین رکھے‘ اگر اُس کا اُسی دن شام سے پہلے یا اُسی رات صبح سے پہلے انتقال ہوجائے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ، وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلیَّ وَاَبُوْئُ بِذَنْبِیْ، فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ (بخاری‘ کتاب الدعوات)
اے اللہ ! تو میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں‘ اور جتنی مجھ میں استطاعت ہے میں تیرے عہدوپیمان (اقرارِ اطاعت) پر قائم ہوں‘ اور جو کچھ بھی میں نے کیا‘ اس کے برے انجام سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ جن نعمتوں سے تو نے مجھے نوازا ہے‘ ان کا اعتراف کرتا ہوں۔ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تو مجھے بخش دے کہ تیرے سوا گناہوں کو کوئی نہیں بخش سکتا۔
امام ابن قیمؒ اپنی کتاب کتاب الاذکار میں ‘ جو ذکر پر بہت ہی جامع کتاب ہے لکھتے ہیں کہ ایک بدو آیا۔ اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا اور اللہ تعالیٰ سے دعا شروع کی کہ ’’اے اللہ! تو نے استغفار کا جو وعدہ کیا ہے‘ اور تیرا جو کرم ہے‘ اس کے بعد بھی میں گناہوں پر اصرار کرتا رہوں تو یہ میرا کمینہ پن ہے‘‘۔ جب اللہ تعالیٰ نے استغفار کا دروازہ کھول دیا ہو اور اس کے بعد بھی بندہ اگر اپنے گناہوں پر اصرار کرے تو وہ بہت کمینہ بندہ ہے ۔ آگے چل کر وہ کہتا ہے‘ عجیب بات ہے‘ تُو تو مجھ سے بے نیاز ہے‘ اس کے باوجود تو بار بار نعمتیں دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتاہے‘ اور میں تیرا محتاج ہوں اور میں تجھ سے بھاگ بھاگ کے گناہ کرتا رہتا ہوں۔ اَدْخِلْ عَظِیْمَ جَرْمِیْ اَدْخِلْ عَظِیْمَ عَفْوِکَ، اے اللہ تُومیرے عظیم جرائم کو اس سے زیادہ عظیم عفو کے اندر داخل کردے۔
یہ استغفار ہیں۔ ان کی حضورؐ نے تعلیم دی ہے۔ محبت مانگنے کی تعلیم دی ہے‘ بلکہ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر چیز کو اُسی سے مانگنے کی تعلیم دی ہے۔
دعائوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جتنا بھی چاہیں اس کو پھیلا لیں۔ ایک ایک دعا کو‘ اس کے الفاظ کو آپ دیکھیں‘ ان میں جن چیزوں کو مانگا گیا ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بندے کو کیا ہونا چاہیے‘ کیسا بننا چاہیے۔ اس کے لیے کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی‘ کوئی لمبی چوڑی کتاب نہیں لکھی گئی‘ بلکہ چند مختصرجملوں میں دعا کے انداز میں اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کی ایک خوب صورت مثال: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہے۔ چار الفاظ کے ایک مختصر جملے میں بندگی کی پوری تعلیم دعا کے انداز میں دے دی گئی ہے۔ دعا آدمی کو یاد ہوجاتی ہے اور وہ مانگتا رہتا ہے‘ اُس کے ذریعے طلب کرتا رہتا ہے‘ سیکھتا رہتا ہے‘ ویسا بنتا رہتا ہے‘ اس طرح سے عبد‘ یعنی اس کا حقیقی و سچا بندہ بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ ساری دعائیں دراصل حرص بھی ہیں‘ طلب بھی ہیں اور یہ ہماری تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہیں۔
یہ وہ صفات ہیں جو دین میں مطلوب ہیں۔ اللہ کی خشیت‘ اللہ کی محبت‘ اللہ سے اپنے گناہوں پر استغفار‘ اللہ پر بھروسا کہ جو کچھ ملنا ہے اسی سے ملنا ہے‘ جو کچھ چھن جانے والا ہے وہی چھیننے والا ہے۔ جب یہ سوچ اور یہ کردار ہوگا تو دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا‘ آخرت میں بھی جنت ملے گی اور دنیا کے اندر غلبہ بھی حاصل ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَعْبُدُوْانَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا صرف میری ہی بندگی کریں اور ذرہ برابر بھی کسی کو میرے ساتھ شریک نہ کریں۔ اللہ نے زمین میں اپنی خلافت کا‘ زمین میں غلبے کا وعدہ انھی سے کیا ہے جنھوں نے بندگی کی نسبت اس کے ساتھ قائم کرلی‘ جو اس کے محتاج بن گئے‘ اس کے فقیر بن گئے اور صرف اسی کے دَر پر آکر کھڑے ہوگئے اور یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ملے گا صرف اللہ ہی سے ملے گا۔
اصل چیز دل ہے۔ دل کے اندر اگر یہ ساری چیزیں جمع ہوجائیں تو زندگی سدھر جائے گی‘ نہ ہوں تو نہیں سدھرے گی۔دل کا معاملہ بھی اس نے اپنے ساتھ متعلق کرلیا ہے۔ حضوؐر کی ایک بہت پیاری دعا ہے۔میں اپنی دعا کا آغاز اکثر اسی دعا سے کرتا ہوں:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ قُلُوْبَنَا وَنَوَاصِیَنَا وَجَوَارِحَنَا بِیَدِکَ وَلَمْ تُمَلِّکْنَا مِنْھَا شَیْئًا فَاِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ بِنَافَکُنْ اَنْتَ وَلِیَّنَا وَاھْدِنَا اِلٰی سَوَآئِ السَّبِیْلِ - (ترمذی‘ عن ابی ہریرہ)
اے اللہ! ہمارے دل بھی تیرے ہاتھ میں ہیں‘ اعضا اور جوارح بھی تیرے ہاتھ میں ہیں۔ پوری شخصیت بھی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو نے ہمیں کسی چیز پر ذرہ برابر بھی اختیار نہیں دیا ہے۔ جب تو نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیا تو تو ہی ہمارا ولی بن جا‘ دوست بن جا‘ ہمارا رفیق بن جا‘ ہمارا مددگار بن جا۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
دعا کے لیے زبان کی کوئی قید نہیں۔ دعا مانگنے کا‘ اگر ذوق و شوق ہو‘ توجہ و یکسوئی اور پورے یقین کے ساتھ دعا مانگی جائے خواہ اُردو میں ہو یا پنجابی میں‘ خواہ پشتو میں ہو یا کسی بھی زبان میں‘ دل کی یہ پکار‘ زبان پہ آئے یہ کلمے بارگاہِ الٰہی تک پہنچتے ہیں اور اپنا اثر رکھتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ‘ بندگی کا‘ حاجت کا‘ فقر کا تعلق قائم ہونا چاہیے۔ یہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ بے نیاز ہے‘ ہم فقیر ومحتاج ہیں‘ اس کے در کے بھکاری ہیں۔ جو کچھ بھی چاہیے‘ خواہ جوتے کا تسمہ ہی ہو‘ اسی سے مانگنا چاہیے۔ ہدایت و غلبہ بھی اُسی سے مانگنا ہے۔ فتح و نصرت بھی اسی سے ملنا ہے۔ یہ وہ چیزہے جو اللہ کی یاد کو‘ اللہ کے ساتھ تعلق کو دل کے اندر راسخ کر دیتی ہے۔ ہم دعوت یا اپنے ذاتی یا دنیاوی کام کے لیے نکلیں‘ گھر سے نکلیں‘ کھانے کے لیے بیٹھیں اٹھیں۔ ہر موقع پر اللہ کو یاد کریں اور صرف اسی سے مانگیں۔ جیسے جیسے یہ اخلاص پیدا ہوتا جائے گا کہ جو کچھ ملے گا اللہ ہی سے ملے گا کہیں اور سے کچھ نہیں ملے گا‘ نہ بندوں سے ملے گا‘ نہ اپنی کوششوں سے اور نہ عوامی تائید سے ‘ بلکہ جو کچھ بھی ملے گا وہ اللہ ہی سے ملے گا۔ جتنا زیادہ اخلاص پیدا ہوگا اتنا ہی اور ملے گا۔ جتنی نسبتیں دوسروں سے قائم ہوں گی‘ اتنا ہی کم ملے گا اور اتنی ہی مایوسیاں ہوں گی۔ اللہ ہی سے ملنے کا‘ اللہ ہی سے پانے کا‘ اللہ ہی سے طلب کرنے کا یہ انداز‘ دعا ہمیں سکھاتی ہے۔
دعا عبادت کا مغز ہے‘ خدا کی بندگی ہے‘ اور یہی روحِ عبادت ہے۔ اسی لیے قرآن یَدْعُوْنَ وَیَعْبُدُوْنَ ان دونوں الفاظ کو بدل بدل کے ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے: اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰)‘ مجھ سے مانگو‘ مجھے پکارو‘ میں تمھیں دوں گا اور تمھاری پکار کو قبول کروں گا۔ مزید فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادِتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَo (۴۰: ۶۰) ’’جو لوگ گھمنڈ میںآکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ اب یہاں فوراً اسی آیت کے اندر دعا کی جگہ عبادت کا لفظ آگیا کہ جو لوگ میری عبادت سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہیں وہی تکبر کرنے والے ہیں اور جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ یہاں دعا کے لفظ کو عبادت کے لفظ سے بدل دیا گیا‘ یہ بتانے کے لیے کہ اصل میں یہ دونوں ایک ہی ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
حدیث کی ہر کتاب میں دعا کا ایک باب ہوتا ہے۔دعائوں کی بے شمار کتابیں ملتی ہیں۔ چھوٹے بڑے بہت سے مجموعے دیکھنے میں آتے ہیں۔ امام نووی کی کتاب الاذکار ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ملتا ہے‘ عربی زبان میں بھی دستیاب ہے۔ حصن حصین کے نام سے دعا کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں سات منازل کے اندر اذکار اور دعائیں جمع کر دی گئی ہیں۔ یہ بھی بآسانی دستیاب ہے۔ اسی طرح امام نسائی کی کتاب ہے جس میں رات دن کی ساری دعائیں جمع کر دی گئی ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ بھی بازار میں ملتا ہے اور عربی میں بھی موجود ہے۔ چھوٹے چھوٹے مجموعے تو بے شمار ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مناجات مقبولبہت ہی عمدہ کتاب ہے۔ اس میں بیش تر مسنون دعائیں اور ان کا ترجمہ بھی بہت اچھا ہے۔ شیخ حسن البنا کی ماثورات مسنون اذکار اور دعائوں کا بہت عمدہ مجموعہ ہے۔ ابن تیمیہؒ کی الکلمۃ الطیّبمیں بھی عمدہ دعائیں ہیں۔ یہ بھی ایک مختصر‘ مگر عمدہ مجموعۂ دعا ہے۔ حدیث کی ہر کتاب میں اور مشکٰوۃ میں بھی دعائوں کا الگ باب ہے۔ اگر شوق اور طلب ہو تو ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ان گزارشات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بغیر اللہ سے مانگے‘ اللہ کا محتاج بنے‘ اللہ کے دربار میں فقیر بنے کچھ بھی حصے میں نہیں آئے گا۔ اسی کے نتیجے میں خدا کا قرب حاصل ہوگا‘ حاجات پوری ہوں گی‘ خدا کی رضا اور خوشنودی‘ جنت کا حصول ممکن ہوگا۔ دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا اور آخرت میں بھی۔ نیز زمین پر غلبے اور خلافت کا وعدہ بھی اسی تعلق کے نتیجے میں پورا ہوگا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور
سجدے کے بارے جب انسان غور کرتا ہے تو پوری کائنات اپنی تواضع‘ انکساری اور نیاز مندی کے ساتھ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نظر آتی ہے۔اس کی ہیئت اوراس کی خود سپردگی اﷲ کے حکم کے موافق ہے اوراس میں اﷲ تعالیٰ کا حکم جاری و ساری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہ‘ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِط وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ (الحج۲۲:۱۸)
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اﷲ کے آگے سربسجود ہے وہ سب جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ‘ سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔
پس غور کرو کہ پوری کائنات کی کوئی شے اﷲ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرنے سے سرتابی کرنے والی نہیں ہے سوائے اس انسان کے کہ اس کی ایک نوع سجدے کرنے والی اور ایک اس سے انکار کرنے والی اور باقی کائنات سے ہٹ کر سجدہ کرنے سے سرتابی کرنے والی ہے۔ مگر وہ انسان جو اﷲ کا نافرمان اور ناشکرا ہے وہ پوری کائنات میں مختلف اور منفرد ہوتا ہے اور اس کی یہ انفرادیت اﷲ تعالیٰ کی عبادت سے بُعد اور تکبر ہے۔
لہٰذا بندے کو غور کرنا چاہیے کہ جب وہ اﷲ تعالیٰ کے لیے سجدہ کرتا ہے تو وہ اﷲ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے والی اوراس کے آگے سجدہ ریز اس کائنات کا ایک جزو بن جاتا ہے۔ جیسا کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے سورہ یٰسٓ میں فرمایا: وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (۳۶:۳۸ )’’اور سورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے‘‘۔ اس آیت کے معنی میں ابن کثیرؒ نے کہا ہے کہ غروب کے وقت اور اپنے ہرغروب میں آفتاب اﷲ تعالیٰ کے عرش کے آگے سجدہ کرتا ہے‘ اور اس کی تائید حضرت ابوذر ؓ کی روایت کی ہوئی بخاری کی حدیث کرتی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سجدہ کیسے ہوتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ وہ سجدہ زبان حال سے بھی ہے اور زبان قال سے بھی‘ یعنی علامتاً بھی اور فعلاً بھی ۔ اور اس میں کوئی تعجب ہے نہ تحیّر ‘ کیونکہ جو سجدہ بھی اﷲ تعالیٰ کو کیا جاتا ہے وہ اس کی ہیئت کو جانتا ہے‘ جب کہ ہم نہیں جانتے۔اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ (الرحمٰن۵۵:۶) ’’اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں‘‘۔اور اسی طرح سے اﷲ تعالیٰ سرتابی کرنے اور نافرمانوں کو اپنی ہدایت کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان پر حجت قائم فرماتا ہے ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّظِلٰـلُھُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ (الرعد۱۳:۱۵) ’’وہ تو اﷲ ہی ہے جس کو زمین وآسمان کی ہر چیز طوعاًوکرھاً سجدہ کررہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں‘‘۔
اس آیت کے معنی یہ ہیںکہ اپنے اختیار سے سجدہ کرنے سے پہلوتہی کرنے والا شخص بھی اپنے سائے کے ساتھ اﷲ کی قدرت کے سامنے اپنی خلقت اور اپنی جبلت کے تحت بے اختیار اﷲ کی جناب میں سجدہ ریز ہوتا ہے۔ گویا پوری کی پوری کائنات اللہ کے آگے سجدہ ریز ہے۔ چنانچہ دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان بھی اپنے دل اور ہیئت کے ساتھ سجدہ کرنے والا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان جب سجدے کے بارے میں غور کرتا ہے تو وہ اسے ایک نعمت عظمہ پاتا ہے۔ اس پر مستزاد آیات قرآنی‘ احادیث نبویؐ اور ارشادت اسلاف ہیں۔ سجدے کی یہی وہ اہمیت ہے جو اسے تدبر اور سنجیدگی سے غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اس کی حقیقت کو پانے کی کوشش کرے‘ نیزاس کا ایمانی وقلبی فہم کتنا ضروری ہے اوراس کی ادایگی پرعمل کرنے کا کیا حکم ہے؟
سعید بن جبیرؒ، جب مسروقؒؒ سے ملے توانھوں نے ان سے کہا :’’اے ابوسعید! اپنے چہروں کو خاک آلود کرنے ( سجدے )کے سوا کسی چیز سے ہمیں رغبت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ان کی سب سے بڑی خواہش اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریز ہونے‘ اور اگر ان کے لیے کوئی حلاوت و لذت تھی تو وہ اس کی جناب میں عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی جبینوں کو خاک آلود کرنے میں تھی۔
مسروق ؒ نے غایت دل چسپی کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا:’’واقعتا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے سوا کوئی ایسی چیز ہے جس کی اس دنیا میں فکر کی جائے‘‘ (نزھۃ الفضلاء تھذیب سیر اعلام النبلائ)۔ اسلاف امت کی یہ گفتگو واضح کرتی ہے کہ سجدہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔ سجدہ محض انسانی اعضا کی حرکت اور زبانی دہراے جانے والے بے اثر کلمات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ جسم و روح پر اثرانداز ہونے والے اس عمل کا نام ہے جس کی تکمیل حضوری قلب‘ عجزوانکسار اور عقل و شعور کے گہرے ادراک و فہم کے ساتھ ہوتی ہے۔ لہٰذا سجدے کا مسئلہ بہت وسیع اور عمیق ہے اور ہمارے لیے اس کا بطریق احسن فہم ناگزیر ہے۔
صحیح بخاری میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم‘ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ ابن مریم ؑ تمھارے درمیان حاکم عادل بن کر ضرور نازل ہوں گے ، وہ صلیب کو توڑیں گے ،خنز یر کو قتل کریںگے،جنگ کاخاتمہ کریں گے اور مال پانی کی طرح بہے گا حتیٰ کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا۔ ( اس وقت) ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا‘‘۔(کتاب احادیث الانبیائ)
حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث پر یہ تبصرہ کیا ہے:’’مال کی کثرت،برکات کے نزول، خیرات کی بارش، عدل گستری اور ظلم کے فقدان کی وجہ سے ہوگی۔اس وقت ز مین اپنے خزانے اگل دے گی، لوگوں میں قرب قیامت کے احساس سے مال کے حصول کی رغبت گھٹ جائے گی‘‘۔پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:یعنی لوگ اس وقت اﷲ کا قرب عبادت کے ساتھ حاصل کریں گے نہ کہ مال کے صدقے کے ساتھ۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دنیا سے اپنی نظریں ہٹا لیں گے اورانھیں ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے محبوب تر ہوگا۔ پھرقرطبی ؒ کا قول نقل کیا ہے:’’حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نماز صدقے سے افضل ہوگی‘ اس لیے کہ اس وقت مال کی کثرت ہوگی حتیٰ کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا‘‘۔ (فتح الباری ۶/۵۶۶)‘یعنی اس وقت ذرائع تقرب انفاق و صدقات نہ ہوں گے کہ انسان ان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے بلکہ اس وقت اﷲ کے حضور میں سجدہ عظیم عبادت ہوگی اور کوئی دیگر عبادت اس کے برابر نہ ہوگی‘ حالانکہ حدیث کی رو سے صدقے سے اﷲ تعالیٰ کا غضب ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور آدمی بری موت سے بچتا ہے (سنن ترمذی کتاب الزکوٰۃ)۔چنانچہ جب یہ صدقہ منقطع ہوجائے گا تو تقرب الٰہی کا کوئی ذریعہ سجدے کے سوا باقی نہ رہے گا۔
اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ سجدہ اپنی حقیقت میں عظیم ترہے اور وہ اﷲتعالیٰ کے قرب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن مسلمان دیگر امور میں مشغولیت کے باعث اسے بھول جاتا ہے اور دنیا میں دل چسپی اسے آخرت بھلا دیتی ہے۔اسی طرح سجدہ دوسرے اعمال‘ اگرچہ وہ نیکی کے اعمال ہوں‘کے مقابلے میں بھی عظیم تر ہے ۔ اگر کسی مسلمان کو صدقہ اور محتاج کی اعانت جیسی دیگر عبادات کی استطاعت نہ ہو تو سجدے کا حصہ نفلی عبادات کی نسبت سے اپنی اہمیت و اولیت کی وجہ سے زیادہ بڑا ہے۔
شیخ عبدالرحمن الدوسریؒ نے اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے اس ارشاد : یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ(اٰل عمرٰن۳:۴۳) ’’اے مریم‘ اپنے رب کی تابع فرمان بن کر رہ‘ اس کے آگے سربسجود ہو ‘اور جو بندے اس کے حضور جھکنے والے ہیں ان کے ساتھ توبھی جھک جا‘‘کی توضیح سجدے کی عظمت کے زمرے میں کی ہے۔ انھوں نے کہا: اس قول کی بنیاد پر کہ ’القنوت‘ کے معنی عبادت کے ہیں‘ ملائکہ حضرت مریم ؑکواولاً ہر نوع کی عبادت پر مداومت کی عمومی وصیت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر ملائکہ نے انھیں عبادات میں سے افضل و اشرف عبادت‘ یعنی نماز کی ہدایت کی اور اس کی شکلوں میں سے رکوع وسجود کو ان دونوں کے شرف اور اہمیت کی بنا پر مخصوص کیا ‘ پھر سجدے کو رکوع پر مقدم کیا ۔ ا س لیے کہ بندہ اﷲ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے ۔ لہٰذا ارکان نماز میں سے افضل رکن سجدہ ہے(صفوۃ الاثار۴/۱۲۴)۔ لہٰذا جب اس معنی کے ساتھ آیت کریمہ میں سجدے کی عظمت انتہائی حد تک ثابت ہوتی ہے ‘تب وہ مخصوص ترین عبادت ہے اور نماز جو جملہ عبادات پر مقدم ہے ‘ سجدہ اس میں مقدم و معظم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سجدے کی یہ فضیلت اس کے عظیم مرتبے کی دلیل ہے۔
فیض القدیر میں المنادیؒ کہتے ہیں:’’ یہ اس لیے کہ بندہ سجدے میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں بہ تمام و کمال عجزوانکساری کی حالت میں ہوتا ہے ۔ اور جب وہ اپنی پستی اور اپنی انتہائی احتیاج کو جان لیتا ہے تواسے یہ معرفت حاصل ہو جاتی ہے کہ اس کا رب عظیم اپنے ارادے کو نافذ کرنے پر غالب ہے‘ اور صاحب کبریا وجبروت ہے۔اس احساس کے ساتھ سجدے کا قبول کیا جانا متوقع ہے‘‘۔ (فیض القدیر ۲/۶۸‘ رقم الحدیث :۱۳۴۸)
ہر عبادت کا حاصل یہ ہے کہ انسان مقام عبودیت کو پالے‘ اپنی ذات کی حقیقت کو جان لے‘ اﷲ تعالیٰ کی عظمت کو سمجھ لے اور باور کر لے کہ وہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں فقیر ہے۔ وہ اپنے نقص کو حق تعالیٰ کے کمال مطلق کے سامنے رکھے جیسا کہ کہا جاتا ہے:’’عاجزی اختیار کی جاتی ہے تاکہ اﷲ سبحانہ تعالیٰ کی کمالِ قوت کا نظارہ کیا جائے‘ اوراس کے حضور میں اپنے فقر کو پیش کیا جائے تاکہ اس کے کمال بے نیازی کو دیکھنا ملے‘ اوراس کی جناب میں ضعف کا اظہار کیا جائے تاکہ اس کی قوت کا کمال نظر آئے۔ چنانچہ جب سجدہ بندے کی پستی اور رب کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے تو بندے کی طرف سے اپنے رب اور مولیٰ کے حضور میں اپنے فقر اور احتیاج کا اظہار بندے کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
سجدہ اﷲ تعالیٰ کے قرب کا ایک انداز ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: کَلَّاط لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (العلق ۹۶:۱۹)’’ہرگز نہیں ‘ اس (نماز سے منع کرنے والے) کی بات نہ مانو‘اور سجدہ کرواور( اپنے رب کا ) قرب حاصل کرو‘‘۔اس آیت کریمہ میں غور کرو‘وہ اپنے اندر قلیل اور مختصر الفاظ کے باوجود حیات دنیا کی حقیقت اور انسان کے حوالے سے روح بندگی کی طرف واضح اشارہ لیے ہوئے ہے‘جب کہ یہ آیت اس شخص کے ذکر کے بعدآ رہی ہے جو اہلِ ایمان کو اﷲ کی بندگی سے روکتا ہے: اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰیoلا عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (العلق ۹۶:۹-۱۰) ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جوبندے کو منع کرتا ہے جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟‘‘۔ وہ حق و باطل کی کش مکش اور اہل باطل کا اہل خیر پر عرصہء حیات تنگ کرنے کا اظہار ہے۔ اس مرحلے پر فیصلہ کن حکم صادر ہوتا ہے کَلَّا لَا تُطِعْہُ، یعنی عبادت کی مداومت اور اس کی کثرت سے روکنے والے کی بات نہ مانیے‘ اس کی پیروی نہ کیجیے‘ جہاں کہیں نماز پڑھنا چاہیں ‘ پڑھیے‘اﷲ تعالیٰ تمھارا حافظ و ناصر ہے۔وہ تمھیں لوگوں سے بچائے گا۔
اس آیت میں دشمنی و ایذا کے زبردست طوفان کے سامنے اوراس کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت حاصل کرنے کی کیفیت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے سجدے کے ذریعے عبادت واستعانت کے ساتھ مربوط ہونا اوراس پر جمے رہنا ‘ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ (البقرہ۲:۱۵۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔اس آیت میں سجدے کو اس سرکشی اور باطل سے مدافعت اور اﷲ تعالیٰ کے حکم پر صبر و ثبات کا ایک وصف بنا دیا گیا ہے۔
امام مسلمؒ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ بندہ اپنے رب کے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہو ‘ لہٰذا (سجدے میں) خوب دعا کرو۔اور نبی کریمؐ کی ا س ہدایت پر بھی غور کرو جس میں آپؐ نے سجدے میں کیے جانے والے ذکر کی تعلیم دی ہے‘ ایسے موقع پر جب کہ آدمی کی پیشانی خاک آلود ہوتی ہے اور وہ پورے کا پورا ‘روح وجسم کے ساتھ اﷲ کے حضور میں جھکا ہوتا ہے‘ایسی حالت میں وہ کہتا ہے : سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔ جب وہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰیکہہ رہا ہوتا ہے تو اپنے آپ کو اﷲ کے قرب میں محسوس کرتا ہے۔اور یہ سجدے کی تفہیم کا بنیادی جزو ہے جو بندے کے عجز و انکسار اور رب کی عظمت اور بندے کا اپنے رب کے حضور قرب کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
سوال یہ کہ ایسا کیوں ہے کہ سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے زیادہ قریب ہوتا ہے ؟
جب ہم نے یہ جان لیا کہ حیات دنیا میں صاحب ایمان انسان کے لیے اﷲ کی بندگی بلندترین درجہ ہے تو ہمارے لیے تقرب الٰہی کے لیے سجدے کے مختص ہونے کا راز آشکارا ہو گیا ۔ اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور کرو سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ َبارَکْنَا حَوْلَہ‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۱)’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی‘‘۔ یہ وہ مقام ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی معراج میں زمین سے پہلے آسمان‘ پھر دوسرے‘ پھر تیسرے ‘ پھر چوتھے حتیٰ کہ ساتویں آسمان تک تشریف لے گئے‘ اوراس مقام بلند تک رسائی حاصل کی جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نہ کوئی نبی مرسل ؑ پہنچ پایا تھا۔ یہ اس لیے کہ آپ ؐنے اﷲ تعالیٰ کی جناب میں عاجزی وفروتنی اور عبودیت کے اعلیٰ مقامات تک رسائی حاصل کر لی تھی اور وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے‘ وہ سب سے زیادہ اﷲ کی عظمت کے عارف تھے اور اﷲ کے حضور میں سب سے زیادہ اپنے فقر و ضعف کا اظہا رکرنے والے تھے۔چنانچہ آپؐ عبودیت کے ان معانی کے ساتھ متصف تھے اور یہی وہ شرف و امتیاز تھا جس کے ساتھ آپؐ اس بلندی تک پہنچے اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں معنوی اور حسی رفعت کو حاصل کیا۔ معنوی اس طور پرکہ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ سے فرمایا: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ(الم نشرح۹۴:۴) ’’اور تمھاری خاطر تمھارے ذکر کا آوازہ بلند کر دیا‘‘۔لہٰذا آپ ؐ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مذکور ہیں۔اور حسی طور پر یوں کہ آپؐ معراج کے سفر میں اس مقام بلند تک پہنچے جس کا ذکر نبیؐ کی صحیح احادیث میں وارد ہے۔
اس مرحلے پر ایک دوسرے پہلو سے بھی عبودیت کا ذکر کیا گیا ہے‘وہ یہ کہ مبالغہ کرنے والے اور حد سے بڑھ جانے والے ‘ حدِ اعتدال سے آگے نہ بڑھیں تاکہ آنحضوؐر کی عظمت وشرف کے سبب سے آپ ؐ کو حد بشریت سے نکال کر دائرہ الوہیت و معبودیت میں داخل نہ کر دیں ‘ جیساکہ سابقہ امتوںنے اپنے نبیوں ؑکے بارے میںکیا۔اس لیے آپؐ کو (عبداً) بندہ کا نام دیا گیا ہے‘ تاکہ اس بات کی تاکید ہو جائے کہ آپؐ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے بندے ہیں اور آپ ؐکو یہ رتبۂ بلند اس مقام بندگی کی وجہ سے ملا:
ومما زادني شرفاً وتیھاً
وکدت بأخمصي أطأ الثریا
دخولي تحت قولک یا عبادي
وأن صیرت أحمد لي نبیاً
اے اﷲ تو نے مجھے اپنے قول یا عبادی میں داخل فرما کر اور احمدؐ کو میرے لیے نبی بنا کر جو بڑااعزاز مجھے بخشا ہے ‘ اس پر میں فخر سے جھوم اٹھا ہوں اورقریب ہوں کہ اپنے تلووں سے ثریا کو بھی روند ڈالوں ۔
چنانچہ عبودیت وہ شرف ہے جس کے ساتھ بندہ‘ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف ارتقائی منازل طے کرتا ہے اور جب سجدہ تواضع وانکساری کی بلیغ ترین صورت ہے جو عبودیت کی روح ہے تو وہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ سے قرب کا اعلیٰ مقام ہے۔
m غرور و سرکشی کی نفی: معنوی علامات کا دوسرانکتہ یہ ہے کہ زمین کے ساتھ اتصال بندے کو اپنی ابتدا وانتہا یاد دلاتا ہے کیوں کہ انسان اپنی جبین کو خاک آلود کرتا ہے توا سے یاد آتا ہے کہ یہ اس کی پیدایش کی اصل خاک ہے اور وہ اسی خاک میں لوٹنے والا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے اسے ابتداً مٹی سے پیدا فرمایا اور قیامت کے دن اسے جزا و سزا کے لیے اسی مٹی سے اٹھائے گا۔ اور یہ معنی بلیغ ترین صور ت میں سجدے کی حالت میں اجاگر ہوتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ نیند کی حالت میں انسان زمین کے ساتھ زیادہ جڑا ہوتا ہے‘ لیکن یہ اتصال اس ہوشمند اور عاقل شخص کا نہیں ہوتا جو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ‘ اپنی عقل سے سمجھتا ہے اور اپنی زبان سے کلام کرتا ہے اور اس کیفیت میں ہوتا ہے جو مطلوب ہوتی ہے جس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ جب یہ معنی سجدے میں ایک شکل اختیار کرلیتے ہیں توانسان کو اس کی اپنی اور اپنی نہایت کی حقیقت یاد دلادیتے ہیں۔ یہ کیفیت ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور بندے کو آخرت اور اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہونے اور اپنے عاجز ہونے کی یاد دلاتی رہتی ہے‘جس سے وہ اﷲ تعالیٰ کے مقام ِقرب سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے ۔ خاک جو بندے کی پیدایش کی اصل ہے‘ کے ذریعے تذکیر اس کے لیے تواضع اورانکساری کا باعث بنتی ہے۔
وہ جس کی چال متکبرانہ ہے اور زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتا ہے‘ اسے چاہیے کہ پاؤں آہستہ رکھے کیونکہ وہ خود بھی مٹی سے بنا ہے کل مٹی ہو جائے گا اور قدموں سے پامال کیا جائے گا۔ انسان بندگی کی حقیقت سے پہلوتہی تب ہی کرتا ہے جب وہ اپنی ابتداو انتہا کی حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے مطرف بن الشخیرؒ متکبرین و متفخرین کے بارے میں فرمایا کرتے تھے: اے ابن آدم تو اپنی ابتدا میں پانی کا ایک ناپاک قطرہ ہی تھا اور اپنی انتہا پر ایک غلیظ مردہ ہوگا‘ اور اس دوران تو گناہوں کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین ۳/۳۴۰)
انسان تب ہی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتا ہے اور سرکشی کا راستہ اختیار کرتا ہے جب اس حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے۔ اور سجدہ اس زمین اور اس خا ک میں مل جانے کی بڑی بلیغ یاددہانی ہے جو ان تمام معانی کی یاد دلاتا ہے اور ان تمام اثرات کو یقینی بناتا ہے۔
جب سجدہ کرنے والا اس ہیئت میں ہوتا ہے‘ جب کہ وہ اﷲ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے اور اپنے ربِّ اعلیٰ کے نام کی تسبیح کر رہا ہوتا ہے تواس کے ہاں یہ دونوں اُمور‘ دنیا کی زوال پذیری کی معرفت اور عبودیت کی عظمت کا ادراک جمع ہو جاتے ہیں اور وہ جان لیتا ہے کہ اس کے لیے مناسب نہیں کہ دنیا کی حیثیت کو اس حیثیت سے زیادہ بڑھائے جو اس نے سجدہ میں دیکھی ہے۔ اور اس وقت اس کا دل دنیا کی زیب و زینت کی طرف راغب نہیں ہوتا اور نہ اس کی چمک ہی ‘اس کی بصارت و بصیرت کو اچک لیتی ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی کی حقیقت سے منہ موڑ لے۔
سجدے کی ہیئت انسان کو یہ شعور دلاتی ہے کہ دنیا وہ نہیں ہے جس طرح کہ وہ چاہتا ہے اور نہ اُس طرح ہی ہے جس طرح شیطان اسے مزین کرکے دکھاتا ہے کہ اس میں ایسا اور ایسا سامان زیست ‘ عمدہ چیزیں ‘ لذتیں اور مرغوبات ہیں جو اس بات کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے لیے اپنا وقت اور اپنی مساعی صرف کرے اور ان کی فکر میں گھلتا رہے۔ سجدہ اس زعم باطل کا ازالہ کر دیتا ہے اور جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے پاس اعلیٰ علییّن میں ہے مسلمان کو اس کے ساتھ مربوط کر دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ دنیا پرستی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اوراس سے اپنی نظروں کو ہٹا لیتا ہے ۔ جب بندۂ مومن اس حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے تو وہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔
جب بندہ دنیا کے سحر اوراس کی محبت سے آزاد ہو گیا ‘ اور اس سے امید ‘ اس کے خوف اوراس کے نفع ونقصان سے بے نیاز ہو گیا تواس نے کمال بندگی حاصل کر لیا۔ اسے معلوم ہو گیا کہ اس کا انحصار صرف اﷲ پر ہے اور اسے یقین ہو گیا کہ وہ اﷲ سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتا‘ اور وہی اس کی امیدوں کا مرکز ہے ‘ جیسا کہ اس کا فرمان ہے: فَفِرُّوْا اِلَی اﷲِ (الذّٰریٰت ۴۹:۵۰) ’’پس دوڑو اﷲ کی طرف‘‘۔ یہ توایک معروف حقیقت ہے کہ ہر چیز جس سے وہ خوفزدہ ہوتی ہے اس سے گریزاں رہتی ہے سوائے اﷲ تعالیٰ کی جانب کے کہ جب کوئی چیز ا س سے خوفزدہ ہوتی ہے تواسی کی طرف دوڑ کر جاتی ہے ‘اور یہی تعلیم نبی کریمؐ نے دی ہے۔ اـ ـسی لیے سجدہ قرب کا موقع ہوتا ہے کیوںکہ اس میں اﷲ کی طرف یکسوئی اپنے کمال پر ہوتی ہے۔
m عاجزی و فقیری:پانچواں نکتہ یہ کہ سجدے میں انسانی جسم کے بڑے بڑے اعضا شریک ہوتے ہیں۔ انسان جب وقوف یا رکوع میں ہوتا ہے توا پنے بعض اعضا سے کام لیتا ہے‘لیکن جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے تو وہ اپنے دونوں ہاتھوں‘ دونوں پاؤں ‘ دونوں گھٹنوں ‘ ناک اور پیشانی کے ساتھ زمین پر ہوتا ہے۔یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پورے کا پورا اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہے اور یہ بھی کہ اس کے سارے حواس اﷲ کی ہدایت کے مطابق استعمال ہورہے ہیں۔
پس اس کی آنکھیں‘ اس کے ہاتھ‘ اس کے پاؤں اور اس کی ہر چیز اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا عاجز اور فقیر بندہ ہے‘ لہٰذا مناسب نہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو سجدہ کرے اور پھر اپنی آنکھوں اور ہاتھوں سے اللہ کی نافرمانی کرے یا قدموں کے ساتھ منکرات کی طرف چل کر جائے۔اسی طرح اس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں کہ شہوات اور لذات کے سامنے سرنگوں ہو جائے ۔ یہ معنی ہیں سجدے کے ‘ اس شخص کے لیے جو اسے سمجھنے کے لیے اس پر غوروفکر کرتا ہے اور یہ کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی بندگی و فرمانبرداری کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو اوراس کی نافرمانی سے زیادہ سے زیادہ بچنے والا ہو۔ یہ بندے کے لیے اس کے رب اور مولا سے قرب کے اسباب ہیں۔
m معراجِ بندگی:چھٹا نکتہ یہ ہے کہ سجدہ انسان اور شیطان کے درمیان تفریق کرتا ہے ۔ وہ شیطان کے لیے محرومی اور دوری کا سبب ہے‘ اس لیے کہ اس کو سجدے کا حکم دیا گیا مگر اس نے انکار کر دیا ۔ چنانچہ وہ انکاراس پر تاقیام قیامت لعنت کا سبب بن گیا۔ پھر آخرت میں اس کے لیے عذاب ہے۔ لیکن جو جھکتا ہے اور اﷲ کے حکم کی تعمیل میں سجدہ کرتا ہے‘ وہ اپنی عبودیت کا ثبوت دیتا ہے اور شیطان سے دشمنی کا اعلان کرتا ہے۔ شیطان کو سجدے سے انکار پر دھتکارا گیا اور اﷲ کی رحمت سے دور کر دیا گیا۔ لیکن تیرا معاملہ اس کے برعکس ہے‘ تو سجدہ کرتا ہے تو اﷲ کے قرب اور اس کی رحمت کے سایے میں ہوتا ہے ۔
سجدے کے ساتھ جہاں انسان دنیا اور اس کے فتنے ‘ لوگوں کی طرف مائل ہونے اور ان پر بھروسا کرنے سے بے نیازہو جاتا ہے وہیں اس کے اعضا اور ان کے اعمال کو اﷲ کی رضا وخوشنودی کے خلاف استعمال ہونے سے آزادی مل جاتی ہے۔ وہ شیطان کی گمراہ کن راہوں اور اس کی دھوکا دہ چالوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس کے اور شیطان لعین کے مابین دوریاں اور فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ اس نے اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے انکار کیا مگر یہ اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا اعلان کرتا ہے ۔ چنانچہ اس طرح اسے فلاح کے کتنے اسباب میسر ہو گئے اور ایمان میں اضافے اور اﷲ کی رضا کے کتنے ہی اسباب ہاتھ آگئے۔بے شک ہم نے اس حقیقت کو پالیا کہ سجدہ بندے کا سب سے اونچا مقام اور قرب الٰہی کی بلیغ ترین صورت ہے۔
m آخرت کی یاد: ساتواں نکتہ دنیا اورآخرت کے سجدے کی یاددہانی ہے اور وہ سجدے کرنے والے مومن اور انکار کرنے والے کافر کے درمیان فرق ہے۔ بندہء مومن کو دنیا میں سجدے کے لیے بلایا گیا تواس نے سجدہ کیا اور کافروں کو بلایا گیا تو انھوں نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔چنانچہ وہ قیامت کے دن سجدہ کرنے کی تمنا کریں گے مگر وہ اس سے روک دیے جائیں گے‘سجدہ کرنے کے ارادے اور اس کی رغبت کے باوجود ایسا نہ کر سکیں گے۔ ان کی پیٹھیں تختہ ہو جائیں گی اور ان میں سے ایک بھی اس قابل نہ ہوگا کہ اپنی کمر کو خم کرکے سجدہ کر لے۔مفسرین نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی معنی لیے ہیں: یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَـلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ (القلم ۶۸:۴۲) ’’جس روز سخت وقت آپڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے‘‘،یعنی ان کے اور ان کے ارادے کے مابین رکاوٹ پیدا کر دی جائے گی۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب حقیقت کو منکشف فرمائے گا تو سب مومن مرد اور عورتیں سجدے میں گرجائیں گے لیکن جو کہ دنیا میں دکھاوے اور شہرت کے لیے سجدہ کرتا تھا ‘ وہ باقی رہ جائے گا۔ وہ چاہے گاکہ سجدہ کرے مگر اس کی پیٹھ ایک ہی طبق بن جائے گی۔بندہ مومن کو جب اس مقام کا خیال آتا ہے تو سجدے کی طرف مسابقت اسے اُس سخت مقام اور ہولناک موقع سے نجات و خلاصی دکھائی دیتی ہے اور وہ اسے رب عظیم کے تقرب اور دردناک عذاب سے بچاؤ کی ایک صورت دکھائی دیتی ہے۔اس لیے سجدہ کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ سجدہ جو دنیا میں سب سے بڑی عبادت اور قرب ِالٰہی کا باعث ہے وہ ان لوگوں کے لیے‘ جنھوں نے دنیا میں سجدہ کرنے سے پہلوتہی کی ‘ بڑے بنے رہے‘ سجدہ نہیں کیا اور اﷲ کے حضور میں نہیں جھکے‘ قیامت کے روز حسرت وندامت کے ساتھ مصیبت زدہ ‘ جھکی ہوئی گردنوں اور ذلیل چہروں کے ساتھ ہوں گے اور یہ رسوائی کے ساتھ عذاب کی ایک بہت بڑی صورت ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ابلیس اوراس کے ساتھیوں کے عذاب کی کیفیت کے سیاق میں ارشاد فرمایا: فَکُبْکِبُوْا فِیْھَا ھُمْ وَالْغَاو‘نَ (الشعرائ: ۲۶:۹۴) ’’پھر وہ معبود اور یہ بہکے ہوئے لوگ اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس(جہنم) میں اوپر تلے دھکیل دیے جائیں گے‘‘۔اور ایسا ہی اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا قول ہے: فَکُبَّتْ وَجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ (النمل ۲۷:۹۰ )’’ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے‘‘۔اور ایسا ہی حضرت ـمعاذؓ کی حدیث سے مترشح ہوتا ہے۔ جب نبیؐ نے ان سے کہا:یعنی اے معاذ ‘ تمھاری ماں تجھے گم کرے ‘کیا لوگ اپنی زبانوں کے غلط استعمال کے نتائج کے علاوہ بھی کسی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ گرائے جائیں گے؟(سنن الترمذی کتاب الایمان)
عذاب کی شدید ترین صورت مشقت اور اہانت کے لحاظ سے یہ ہے کہ منکر کو منہ کے بل آگ میں پھینکا جائے ‘ اس لیے کہ اس نے بندگی سے انکار کیا تھا۔ لیکن سجدہ کرنے والا جس نے دنیا کے اندر اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں اس کی عظمت کے اعتراف کے ساتھ ‘ اس سے خیر کا سوال کرتے ہوئے اوراس کے عذاب سے بچنے کے لیے عاجزی اور انکساری اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو منہ کے بل گرایا تھا وہ اس عذاب سے نجات پا جائے گا۔سجدے کی اس حقیقت کے استحضار کے ساتھ مسلمان کو یہ ادراک حاصل ہو جاتا ہے کہ سجدہ نجات اور بچاؤ کا سبب ہے اور بندے کے لیے رفعت اور اﷲ تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ۔
لہٰذا سجدہ (جو مقام قرب ہے ) پر غور کرنے والے شخص کو چاہیے کہ اس حقیقت کو فراموش نہ کرے۔ ان جملہ معانی کو جب بندہ مومن اپنے دل میں اپنے رب کی تسبیح کے ساتھ تازہ رکھتا ہے تووہ خالص عبودیت کی معراج پر ہوتا ہے۔ بلاشبہہ وہ نماز کے دوران دعا کے لیے سب سے بڑا موقع ہوتا ہے کیوں کہ وہ مقام قرب ہے۔اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ جب تم سربسجود ہو کر اﷲ کے قریب ہوتے ہوتواس کے حضور میں عجز و انکساری کے ساتھ اپنا سوال پیش کرنے کے اہل ہوتے ہو۔ تم اپنے اوپراﷲ کے فضل کو یاد کر رہے ہوتے ہو اور تمھیں اپنی فنا اور انتہا یاد آ رہی ہوتی ہے‘ اس حال میں کہ دنیا تمھاری نظروں سے اوجھل ہوتی ہے اور تم لوگوں سے بے تعلق ہوتے ہو اور تمھارے اعضا و حواس صرف اﷲ کی بندگی کے لیے مخصوص ہوتے ہیں اور تمھارا راستہ شیطان کی راہ سے الگ ہوتا ہے۔ پھر تمھاری نظر اﷲ کی جزاوسزاکی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔
سجدے میں دعا کی کثرت مستحب ہے جیسا کہ ہم نے قرب کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اس کا ذکرکیا ہے اور یہ کہ نبیؐ کی نماز میں دعا زیادہ تر سجدے کی حالت میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیم ؒ نے کہا ہے:’’نماز میں دعا کے سات مواقع ہیں اور ان میں سے اہم ترین سجدے کامقام ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی کثرت سجدے میں ہوتی۔(زاد المعاد ۱/۲۵۶)
سجدہ دعا کے لیے مختص ہے جس کے ساتھ وہ نماز میں دیگر مواقع اور شکلوں سے ممیز ہے اور اسی بارے میں صحیح حدیث میں وارد ہے :اے لوگو‘ مبشرات نبوت میں سے صرف سچا خواب باقی ہے جسے کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے لیے دِکھایا جائے۔ سنو ‘ مجھے رکوع وسجود کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ رکوع میں اپنے رب تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں خوب دعا کرو او ر وہ اس لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے(مسلم)‘ یعنی سجدہ قبولیت دعا کا اہم ذریعہ ہے۔
سجدے میں گریہ وزاری‘ تاثر اور انفعال کی کمال صورتوں میں سے ہے۔ نماز میں مسلمان کا رونا زیادہ تر دو مقامات پر ہوتا ہے :قیام میں اور سجدے میں۔
قیام میں جب وہ قرآن کریم کی آیات پڑھتا یا سنتا ہے جس میں وعدہ ہوتا ہے‘وعید ہوتی ہے‘ جنت اور جہنم کا ذکر ہوتا ہے توا ﷲ کے جلال سے اس کا دل مرعوب ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اور سجدے کا موقع اسے یاد دلاتا ہے کہ وہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور میں گرا پڑا ہے ‘ نیز وہ اسے اس کے ضعف اور رب ذوالجلال کی جناب میں اپنی تقصیر کو یاد دلاتا ہے۔ اسی لیے رونے کا ذکر سجدے کے ساتھ آیا ہے: اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا (مریم۱۹:۵۸)’’ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمن کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًا (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۹)’’ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے‘‘۔
پھر ان کی زبان اﷲ کی عظمت اور اس کے وعدہ کی سچائی کے ساتھ ہلنے لگ جاتی ہیں۔ وہ پکار اٹھتے ہیں: سُبْحَانَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا’’پاک ہے ہمارا رب ‘ اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘ اوراس کے ساتھ ان کے سینوں میں جو جذبات ابھرتے ہیں الفاظ ان کی تصویرکشی کرنے سے قاصر ہیں۔ اور آنسواس ناقابل بیان مخفی تاثیر کی تعبیر بن کر ان کی آنکھوں سے ٹپکنے لگتے ہیں۔ پس سجدے میں خشوع کامل کی تعریف یہ ہے کہ اس میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں عجز و انکساری اور گریہ و زاری بتمام و کمال جمع ہو جاتی ہیں۔
کمال سجدہ کے لوازم میں سے ہے کہ بندہ خوف و رجا کے درمیان متغیر رہتا ہے جب وہ اﷲ کے حکم کی تعمیل میں سجدہ کرتا ہے اور ابلیس کی مشابہت کی مخالفت کرتا ہے جس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ اور وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوتا جو سجدہ کرنے سے مجتنب رہتے ہیں۔ لہٰذا وہ امید رکھتا ہے کہ اس کا سجدہ اﷲ کی رضا کے حصول اوراس کی دعا کی قبولیت کا باعث بن جائے گا۔ لیکن جس وقت اسے ابلیس کے لیے لعنت یاد آتی ہے اور اسے وہ موقع یاد آ جاتا ہے جب آخرت میں کافروں کو سجدہ کرنے کی قدرت حاصل نہ ہوگی۔ نیزاسے ابلیس اوراس کے پیروکار بلکہ اور بھی بعض گناہگاروں کے اوندھے منہ جہنم میں پھینکے جانے کا خیال آتا ہے تو وہ اپنے رب کے غضب سے کانپ اٹھتا ہے ا ور اس کے عذاب سے خوف زدہ ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ ہمیں آیات قرآنی میں سجدے اور امید و بیم کے درمیان یہ ربط نظر آتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ (السجدۃ۳۲:۱۵) ’’ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ ایمان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں‘ اپنے رب کو خوف اور طمع سے پکارتے ہیں‘اور رحمن کے بندوں کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ وہ اپنے رب کے حضورسجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں‘ جو دعائیں کرتے ہیں: اے ہمارے رب‘ جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ‘ اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔
یہ سب مفاہیم اہلِ ایمان کو اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ مقام تک رسائی دلاتے ہیں اور وہ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے سزاوار ہو جاتے ہو۔اسی لیے تو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے زیادہ سے زیادہ اس کی بندگی کریں‘اس کے حضور میں اپنی عاجزی‘ زاری و انکساری کا اظہار کریں‘ اپنی احتیاج کو پیش کریں اور اپنے دست سوال کو اس کے حضور میں پھیلائے رکھیں۔ یہی قربِ الٰہی ہے‘ یہی معراج بندگی ہے اور یہی حقیقتِ سجدہ ہے!
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۰)
مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو۔
یٰٓاَ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلاَ نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ (الحجرات ۴۹:۱۱)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں‘ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔
یٰٓاَ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا (الحجرات ۴۹:۱۲)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔
۱- حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کو (بلاوجہ) بُرا بھلا کہنا بڑا گناہ ہے اور اس سے (بلاوجہ) لڑنا (قریبِ) کفر ہے۔ (بخاری و مسلم)
۲- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص (لوگوں کے عیوب پر نظر کر کے اور اپنے آپ کو عیوب سے بری سمجھ کر بطور شکایت کے) یوں کہے کہ لوگ برباد ہوگئے تو یہ شخص سب سے زیادہ برباد ہونے والا ہے (کہ مسلمانوں کو حقیر سمجھتا ہے)۔ (مسلم)
۳- حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: چغل خور (قانوناً سزا بھگتنے بغیر) جنت میں نہ جائے گا۔ (بخاری و مسلم)
۴- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز سب سے بدتر (حالت میں) اس شخص کو پائو گے جو دو رُخا ہو‘ یعنی جو ایسا ہو کہ اِن کے منہ پر ان جیسا‘ اُن کے منہ پر اُن جیسا ۔ (بخاری و مسلم)
۵- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو غیبت کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ خوب جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا (غیبت یہ ہے کہ) اپنے بھائی (مسلمان) کا ایسے طور پر ذکر کرنا کہ (اگر اس کو خبر ہو تو) اُسے ناگوار ہو۔ عرض کیا گیا کہ یہ بتلایے کہ اگر میرے (اس) بھائی میں وہ بات ہو جو میں کہتا ہوں (یعنی اگر میں سچی برائی کرتا ہوں)‘ آپؐ نے فرمایا: اگر اس میں وہ بات ہے جو تو کہتا ہے تب تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ بات نہیں ہے جو تو کہتا ہے تو تو نے اس پر بہتان باندھا۔ (مسلم)
۶- سفیان بن اسد حضرمیؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ بہت بڑی خیانت کی بات ہے کہ تو اپنے مسلمان بھائی سے کوئی ایسی بات کہے کہ وہ اس میں تجھ کو سچا سمجھ رہا ہے اور تو اس میں جھوٹ کہہ رہا ہے۔(ابوداؤد)
۷- حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو کسی گناہ سے عار دلا دے تو اس کو موت نہ آوے گی جب تک کہ خود اس گناہ کو نہ کرے گا (یعنی عار دلانے کا یہ وبال ہے۔ اگر کسی خاص وجہ سے وہ گناہ سرزد نہ ہو تو اور بات ہے۔ اور خیرخواہی سے نصیحت کرنے کا کچھ ڈر نہیں)۔ (ترمذی)
۸- حضرت واثلہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مسلمان بھائی کی (کسی دنیوی یا دینی بری) حالت پر خوشی مت ظاہر کر ‘ہوسکتا ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرما دے اور تجھ کو اُس حالت میں مبتلا کر دے۔ (ترمذی)
۹- عبدالرحمن بن غنمؓ اور اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندگان خدا میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جو چغلیاں پہنچاتے ہیں اور دوستوں میں جدائی ڈلواتے ہیں۔ (احمد و بیہقی )
۱۰- حضرت ابن عباسؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اپنے بھائی (مسلمان) سے (خواہ مخواہ) بحث نہ کیاکرو اور نہ اس سے (ایسی) دل لگی کرو (جو اس کو ناگوار ہو) اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کوتم پورا نہ کرو۔ (ترمذی)
۱۱- البتہ اگر کسی عذر کے سبب پورا نہ کر سکے تو معذور ہے]یعنی ناقابلِ مواخذہ[۔ چنانچہ زید بن ارقمؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس وقت پورا کرنے کی نیت تھی مگر پورا نہیں کر سکا اور اگر آنے کا وعدہ تھا اور وقت پر نہ آسکا (اس کا یہی) مطلب ہے کہ کسی عذر کے سبب ایسا ہوگیا) تو اس پر گناہ نہ ہوگا۔ (ابوداؤد و ترمذی)
۱۲- عیاض مجاشعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی فرمائی ہے کہ سب آدمی تواضع اختیار کریں یہاں تک کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے‘ اور کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے (کیونکہ فخر اور ظلم تکبر ہی سے ہوتا ہے) ۔ (مسلم)
۱۳- حضرت جریرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم)
۱۴- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بیوہ اور غریبوں کے کاموں میں سعی ]دوڑ دھوپ[کرے وہ (ثواب میں) اس شخص کے مثل ہے جو جہاد میں سعی کرے۔ (بخاری و مسلم)
۱۵- حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور وہ شخص جو کسی یتیم کو اپنے ذمے رکھ لے خواہ وہ یتیم اس کا (کچھ لگتا) ہو اور خواہ غیر کا ہو۔ ہم دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپؐ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں میں تھوڑا سا فرق بھی رکھا (کیونکہ نبی اور غیرنبی) میں فرق تو ضروری ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں رہنا کیا معمولی بات ہے۔ (بخاری)
۱۶- نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مسلمانوں کو باہمی ہمدردی اور باہمی محبت اور باہمی شفقت میں ایسا دیکھو گے جیسے (جاندار) بدن ہوتا ہے کہ جب اس کے ایک عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو تمام بدن بدخوابی اور بیماری میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
۱۷- حضرت ابوموسٰی ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپؐ کے پاس کوئی سائل یا کوئی صاحب حاجت آتا تو آپؐ (صحابہؓ سے) فرماتے کہ تم سفارش کر دیا کرو‘ تم کو ثواب ملے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کی زبان کے ذریعے جو چاہے حکم دے (یعنی میری زبان سے وہی نکلے گا جو اللہ تعالیٰ کو دلوانا ہوگا۔ مگر تم کو مفت کا ثواب مل جائے گا اور یہ اس وقت ہے جب جس سے سفارش کی جائے اس کو گرانی ]ناگوار[ نہ ہو جیسا کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا)۔ (بخاری و مسلم)
۱۸- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو‘ خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو۔ ایک شخص نے عرض کیا: یارسول ؐاللہ! مظلوم ہونے کی صورت میں تو مدد کروں مگر ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مدد کروں؟ آپ نے فرمایا: اس کو ظلم سے روک دو۔ تمھارا یہ عمل ہی اس ظالم کی مدد کرنا ہے۔ (بخاری و مسلم)
۱۹- حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے‘ نہ اس پر ظلم کرے اور نہ کسی مصیبت میں اس کا ساتھ چھوڑے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجتیں پوری کرتا رہتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی سختی دُور کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کی سختیوں میں سے اس کی سختی دُور کرے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ (بخاری و مسلم)
۲۰- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ فرمایا: آدمی کے لیے یہ شر ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے (یعنی اگر کسی میں یہ عیب ہو اور شر کی کوئی اور بات نہ ہو تب بھی اس میں شر کی کمی نہیں) مسلمان کی ساری چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں۔ اس کی جان اور اس کا مال اور اس کی آبرو (یعنی نہ اس کی جان کو تکلیف دینا جائز نہ اس کے مال کا نقصان کرنا اور نہ اس کی آبرو کو کوئی صدمہ پہنچانا مثلاً اس کا عیب کھولنا‘ اس کی غیبت وغیرہ کرنا)۔ (مسلم)
۲۱- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی بندہ اُس وقت تک(پورا) ایمان دار نہیں بنتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی بات پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (بخاری)
۲۲- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کے خطرات سے محفوظ نہ ہو(یعنی اس سے ضرر کا اندیشہ لگا رہے)۔ (مسلم)
۲۳- حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہماری جماعت سے خارج ہے جو ہمارے کم عمر پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑی عمر والے کی عزت نہ کرے اور نیک کام کی نصیحت نہ کرے اور برے کام سے منع نہ کرے (کیونکہ یہ بھی مسلمان کا حق ہے کہ مناسب موقع پر اس کو دین کی باتیں بتلا دیا کرے مگر نرمی اور تہذیب سے)۔ (ترمذی)
۲۴- حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت ہوتی ہو اور وہ اس کی حمایت پر قادر ہو اور اس کی حمایت کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی حمایت فرمائے گا۔ اور اگر اس کی حمایت نہ کی حالانکہ اس کی حمایت پر قادر تھا تو دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ اس پر گرفت فرمائے گا۔ (شرح السنۃ)
۲۵- حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (کسی کا) کوئی عیب دیکھے پھر اس کو چھپا لے (یعنی دوسروں پر ظاہر نہ کرے) تو وہ (ثواب میں) ایسا ہوگا جیسا کہ کسی نے زندہ درگور لڑکی کی جان بچا لی (کہ قبر سے اس کو زندہ نکال لیا)۔ (احمد و ترمذی)
۲۶- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک شخص اپنے بھائی کا آئینہ ہے۔ پس اگر اس (اپنے بھائی میں) کوئی گندی بات دیکھے تو اس سے (اس طرح) صاف کر دیتا ہے کہ صرف عیب والے پر تو ظاہر کر دیتا ہے لیکن کسی دوسرے پر ظاہر نہیں کرتا۔ اس طرح اس شخص کو چاہیے کہ اس کے عیب کی خفیہ طور پر اصلاح کر دے‘ فضیحت نہ کرے۔ (ترمذی)
۲۷- حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو ان کے مرتبے پر رکھو (یعنی ہر شخص سے اس کے مرتبے کے مطابق برتائو کرو سب کو ایک لکڑی سے مت ہانکو۔ (اوداؤد)
۲۸- حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘ آپؐ فرماتے تھے: وہ شخص (پورا) ایمان دار نہیں جو خود اپنا پیٹ بھرلے اور اس کا پڑوسی اس کے برابر میں بھوکا رہے۔ (بیہقی)
۲۹- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن الفت (اور لگائو) کا محل (اور خانہ) ہے اور اس شخص میں خیر نہیں جو کسی سے نہ خود الفت رکھے اور نہ اس سے کوئی الفت رکھے (یعنی سب سے روکھا اور الگ رہے۔ کسی سے میل جول ہی نہ ہو۔ باقی دین کی حفاظت کے لیے کسی سے تعلق نہ رکھنا یا کم رکھنا وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ (احمد)
۳۰- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری اُمت میں سے کسی کی حاجت پوری کرے صرف اس نیت سے کہ اس کو مسرور (اور خوش) کرے ‘سو اس شخص نے مجھ کو مسرور کیا اور جس نے مجھ کو مسرور کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو مسرور کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو مسرور کیا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ (بیہقی)
۳۱- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی پریشان حال آدمی کی مدد کرے‘ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ۷۳ مغفرتیںلکھے گا جن میں ایک مغفرت تو اس کے تمام کاموں کی اصلاح کے لیے (کافی) ہے اور ۷۲ مغفرتیں قیامت کے دن اس کے لیے رفع درجات کا ذریعہ بنیں گی۔ (بیہقی)
۳۲- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس وقت کوئی مسلمان اپنے بھائی کی بیمار پرسی کرتا ہے یا ویسے ہی ملاقات کے لیے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو بھی پاکیزہ ہے‘ تیرا چلنا بھی پاکیزہ ہے ‘تو نے جنت میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔(ترمذی)
(بہ شکریہ ‘ تعمیرحیات‘ لکھنؤ‘ جولائی ۲۰۰۲ئ)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی صدسالہ تقریبات کے موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کی دعوت پر ’’احیاے اسلام اور اُمت مسلمہ‘‘ کے عنوان سے ایک دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس ۶-۷ دسمبر ۲۰۰۳ء کولاہور کے ایوانِ اقبال میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں قطر‘اُردن‘ لبنان‘ مصر‘ فلسطین‘ مراکش‘ ایران‘ کویت‘ سوڈان‘ نیپال‘ تیونس‘بنگلہ دیش‘ ملائیشیا اور امریکہ سے اسلامی تحریک کے قائدین‘ مفکرین اور دانش وروں نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک ۲۲ نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں مستقبل کی حکمتِ عملی کے اہم نکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہم اس اعلامیے کا مکمل متن قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
۱- سب سے زیادہ اہم بات اور اُمت کے کرنے کا اولین کام یہ ہے کہ ہر سطح پر مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ ہوں اور اس بات کا عزم صمیم کریں کہ وہ اپنی انفرادی‘ اجتماعی اور قومی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کریں گے۔ اسلامی تعلیمات کو عام کرنا‘ اس پر عمل کرنا اور کرانا ان کی زندگیوں کا اہم ترین مقصد قرار پائے۔
۲- طاغوت اپنے پورے لائو لشکر کے ساتھ مسلمانوں‘ اسلام اور اسلامی تحریکوں بحیثیت مجموعی پوری انسانیت پر حملہ آور ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ اسلامی تحریکوں پر بے بنیاد الزامات لگا کر انھیں بالکل ہی ختم کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے اس نے دینی مدارس اور علما کے خلاف زبردست پروپیگنڈے کا بازار گرم کر رکھا ہے تاکہ دینی مدارس اور علما دونوں کے خلاف اقدامات کرنے کا جواز پیدا ہو جائے۔ اسی طرح نفاذ شریعت کے لیے سرگرم دینی عناصر زیر عتاب ہیں۔ دوسری جانب یہی قوتیں اخلاقی بے راہ روی‘ عریانی‘ بے حیائی اور اخلاقی فساد پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ طاغوت بدی کو فروغ دینے اور نیکی کو مٹانے پر تلاہوا ہے۔ اُمت مسلمہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ خود کو اور انسانیت کو طاغوت کی تباہ کاریوں سے محفوظ کرنے کے لیے منظم اور متحد ہو کر اسوۂ حسنہؐ کی روشنی میں پرامن اور مؤثر جدوجہد کرنے پر کمر بستہ ہو جائے تاکہ دنیا کو تباہی سے بچایا جا سکے۔ نیز ظلم کے خاتمے‘ انصاف کے قیام اور آزادی کے حصول کے لیے تمام تر جدوجہد اسلامی احکامات کے مطابق اور پرتشدد اور خفیہ سرگرمیوں سے پاک ہو اور اس میں انتقام اور دہشت گردی کا کوئی شائبہ بھی نہ پایا جائے۔
۳- اسلام دشمن قوتیں باہم یک جا ہو کر اُمت مسلمہ پر حملہ آور ہیں۔ ان حالات میں اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تمام فروعی اختلافات کو ختم کر کے پوری دنیا کے مسلمان متحد ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔
۴- درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ مسلم دنیا میں تعلیمی معیار کو بلند کیا جائے۔ اپنے ایجنڈے میں تعلیم کو اولیت دی جائے۔ اپنی تہذیبی اقدار کا تحفظ کیا جائے اور جہالت اور جاہلانہ رسوم کا خاتمہ کیا جائے۔ علماے حق اور اسلامی مفکرین کے تعاون سے مثالی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور موجودہ تعلیمی اداروں کو بہتر بنایا جائے۔
۵- آزاد مسلم ممالک میں اسلامی شریعت کو عملاً نافذ کیا جائے تاکہ عدل‘ انصاف‘ مساوات اور امن و امان کا دور دورہ ہو اور مسلم ممالک پوری دنیا کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ بن سکیں۔
۶- اسلامی احکام اور شعائر کے مطابق اجتہاد اور جہاد کی ذمہ داریاں پوری احتیاط اور اسلامی آداب کے مطابق ادا کی جائیں۔ اگر اجتہاد فکری زندگی اور تابندگی کے لیے ضروری ہے تو جہاد انسانی زندگی کو عدل اور انصاف کے مطابق استوار کرنے کا ذریعہ ہے۔ جہاد کو طاغوت نے اپنے مذموم پروپیگنڈے سے دہشت گردی کا جو نام دیا ہے‘ کانفرنس اسے مسترد کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ جہاد‘ ظلم اور استعماری قبضے کے خاتمے اور عدل کے قیام کا ذریعہ ہے۔ یہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس پر کوئی پابندی قبول نہیں کی جا سکتی۔
۷- اُمت کے تمام مکاتب فکر میں اتفاق‘ اتحاد‘ یگانگت‘ برداشت‘ تحمل اور وسعت نظر کے اصولوں کو اپنایا جائے۔ اختلاف رائے کو علمی سطح تک محدود رکھا جائے۔ دشمن کی سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے اس کو اس بات کا موقع نہ دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کو مسلک کے اختلاف کے نام پر باہم لڑا دے۔
۸- اُمت مسلمہ کو ائمہ کفر کے برپا کیے ہوئے فتنوں اور خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کی جائے۔ یہ عناصر متحد ہو کر اُمت مسلمہ کو اپنی چیرہ دستیوں کا ہدف بنا رہے ہیں۔ ان کی کھلی اور چھپی سازشوں کو طشت ازبام کیا جائے۔
۹- ملت کے اجتماعی و سیاسی معاملات اور قومی قیادت کے نصب و عزل کے لیے انتخابات کا منصفانہ جمہوری طریقہ اپنایا جائے۔ اسلام شورائیت کا قائل اور آمریت کا شدید مخالف ہے‘ اس لیے تمام معاملات‘ مشاورت کے ذریعے طے کیے جائیں۔ آمریت اور استعمار کی حاشیہ بردار قیادتوں کے طرز عمل سے ملت کو نجات دلائی جائے تاکہ اجتماعی زندگی کا نظام آزادی‘ جمہوری اور شورائی اصولوں کے مطابق پروان چڑھ سکے۔
۱۰- ملت اسلامیہ کو اس کے قومی‘ معدنی‘ زرعی اور خام وسائل پر استعماری قوتوں کی روز افزوں اجارہ داری سے نجات دلانے اور حکمرانوں کو دشمنوں کا آلہ کار بننے سے روکنے کے لیے افہام و تفہیم اور ابلاغ عامہ کے تمام مؤثرذرائع استعمال کیے جائیں۔
۱۱- ملی وسائل کی ظالمانہ تقسیم کے موجودہ نظام کے خاتمے اور چند مراعات یافتہ طبقات کی اجارہ داری سے نکال کر امانت و دیانت کے ساتھ اُمت کی بہبود اور اس کے وسیع تر مفاد میں خرچ کرنے کے منصوبے بنائے جائیں تاکہ غربت کا خاتمہ ہو سکے اور ملت اسلامیہ حقیقی اور دیرپا معاشی اور معاشرتی ترقی حاصل کر سکے اور مظلوم انسانوں کو ان کے حقوق مل سکیں۔
۱۲- اس حقیقت کو واشگاف کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کیا جائے کہ اسلام کسی تہذیبی تصادم کا نہیں بلکہ تہذیبوں کے درمیان پرامن بقاے باہمی کا علم بردار ہے۔ اسلام انسانی مساوات‘ حقوق کے تحفظ اور احترام آدمیت اور مذہب کی آزادی کا دین ہے۔ تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نعرہ مغربی دنیا نے متعارف کرایا ہے جو ایک خطرناک رجحان ہے۔ یہ نفرت پر مبنی نعرہ ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ ہم اس بات کے حامی ہیں کہ مختلف ادیان اور تہذیبوں کے درمیان معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ مکالمے اور گفت و شنید کے ذریعے طے پائیں تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔
۱۳- عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے پرکشش نام پر استعمار پوری دنیا کو اپنے معاشی اور تہذیبی شکنجے میں جکڑنے کے لیے پوری شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ ملت کو اس خطرے سے آگاہ کیا جائے تاکہ متحد اور منظم ہو کر خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔
۱۴- ملت اسلامیہ اپنی موجودہ سیاسی‘ معاشی‘ اقتصادی اور تعلیمی پستی میں استعماری طاقتوں کے رول اور ریشہ دوانیوں کے پورے شعور اور احساس کے ساتھ اس صورت حال کی تمام تر ذمہ داری صرف استعماری قوتوں پر ڈالنے کے بجاے حقیقت پسندی کے ساتھ خود بھی اپنی کارکردگی کا جائزہ لے کر اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی اصلاح کرے۔ داخلی خرابیوں پر قابو پائے بغیر خارجی دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
۱۵- کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان‘ عراق‘ شیشان‘ مشرقی یورپ‘ اراکان اور مورولینڈ کے مظلوم مسلمانوں اور دیگر مظلوم اور محکوم اقوام کے حق خود مختاری کو تسلیم کرانے اور ظالم کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے اپنا پورا وزن ڈالا جائے۔
۱۶- اعلیٰ تعلیم‘ تحقیق‘ سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کو اولیت دی جائے اور اس بات کا بطورِ خاص اہتمام کیا جائے کہ طلبہ میں جدید علوم میں تحقیق کے ساتھ دینی روح اور جہادی جذبہ پیدا ہو۔
۱۷- مشنری تنظیموں اور بیرونی این جی اوز کے تحت براہِ راست یا بالواسطہ چلنے والے تعلیمی اداروں پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ وہ ہماری نئی نسل کو اپنے رنگ میں رنگ کر اُمت مسلمہ کے خلاف استعمال نہ کر سکیں۔ مغربی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے مسلمانوں کے قائم کیے ہوئے رفاہی اور خیراتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ اس سے متاثر ہو کر بہت سے مفید اداروں کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس طرزِ عمل کی اصلاح کی جائے۔
۱۸- بیرونی امداد پر سرگرم عمل نام نہاد این جی اوز کا احتساب بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ان کا اصل ہدف ہمارے خاندانی نظام کی تخریب‘ تہذیبی اقدار سے انحراف اور ایمان کی بنیادوں کو تشکیک کا نشانہ بنانا ہے۔ یہ تنظیمیں استعماری مقاصد کی تکمیل کے لیے مسلم دنیا میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے لیے اہل دانش تمام وسائل بروے کار لا کر اپنا مذہبی اور ملّی فرض ادا کریں۔
۱۹- اُمت مسلمہ کے عالمی مسائل پرمضبوط آواز اٹھانے کے لیے او آئی سی کو نہ صرف فعال بنایا جائے بلکہ میڈیا‘ تجارت‘ تعلیم‘ صنعت اور دفاع کے شعبوں میں مشترکہ مؤقف اور پالیسیاں اپنائی جائیں تاکہ اُمت مسلمہ اپنا عالمی کردار ادا کرے اور کشمیر‘ فلسطین‘ شیشان‘ اراکان‘ مورولینڈ وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں کو استعمار کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے اُمت ِمسلمہ تعمیری کردار ادا کر سکے۔
۲۰- ابلاغ عامہ کی تمام اصناف ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ انٹرنیٹ‘ اخبارات و جرائد ایک بہت بڑی قوت ہیں۔ ان کو انسانوں کی اصلاح‘ امن عامہ‘ محبت و اخوت اور اسلام کے پیغام کی تشہیر اور ملت کے مفاد میں استعمال کرنے کے منصوبے بنائے جائیں۔ اس وقت یہ قوت بڑ ی حد تک بدامنی کے فروغ‘ بے حیائی اور عریانی عام کرنے اور تشدد کا پرچار کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ اس کا تدارک ضروری ہے۔
۲۱- اسلام نے خواتین کو جو حقوق‘ احترام کا مقام اور تحفظ عطا کیا ہے اسے اجتماعی زندگی میں پوری دیانت داری کے ساتھ بروے کار لایا جائے۔ عورتوں کی حق تلفی کے رواجی اور جاہلانہ طریقوں اور رسومات کا خاتمہ کیا جائے جن کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ سیکولر عناصر عورتوں کے حقوق کے معاملے کو اسلامی احکام کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں اس کا موقع نہ دیا جائے۔
۲۲- ملت اسلامیہ کے وہ لوگ جو معلومات کی کمی یا کسی غلط فہمی کے باعث ایسی راہوں پر چل پڑے ہیں جن کا نقصان اُمت کو اور فائدہ استعماری قوتوں کو پہنچ رہا ہے‘ انھیں چاہیے کہ وہ کھلے دماغ کے ساتھ اپنی روش پر نظرثانی کریں اور دشمن کی تقویت کا ذریعہ بننے کے بجاے اُمت کے ساتھ تعاون اور اس کی تقویت کی راہ اپنائیں۔
یہ کانفرنس اپنے اس پختہ یقین کا اظہار کرتی ہے کہ طاغوتی قوتیں اپنے وسائل‘ عسکری قوت اور مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود ناکام اور نامراد ہوں گی اور ان شاء اللہ باطل مغلوب اور حق غالب ہو گا اور اسلام کا آفاقی‘ عادلانہ اور منصفانہ نظام مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائے گا اور اللہ کا کلمہ سربلند ہو گا۔ ان شاء اللہ!
یہ کانفرنس جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد اور منتظمین کی شکر گزار ہے کہ ایسے نازک مرحلے اور موڑ پرایک طویل عرصے کے بعد دنیاے اسلام کے چیدہ اور منفرد علما‘ رہنمائوں اور دانش وروں کو مل بیٹھنے‘ اپنے خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔ کانفرنس کو توقع ہے کہ اس کی جانب سے جاری کیا جانے والا یہ متفقہ اعلامیہ دنیاے اسلام کے لیے ایک بروقت پیغام ثابت ہو گا جس کے ان شاء اللہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ باہمی ملاقاتوں‘ تبادلہ خیال اور تعاون کا یہ سلسلہ مزید جاری رہے گا۔
انسانی زندگی ایک کل ہے جس کے مختلف اجزا ہیں‘ ایک وحدت ہے جس کے مختلف پہلو ہیں: مادی اور روحانی‘ انفرادی اور اجتماعی‘ اخلاقی اور معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی۔ اسلام کی نظر میں زندگی کے یہ سارے پہلو توجہ کے طالب ہیں اور عنایت کے مستحق ہیں۔ اپنی اپنی جگہ پر ہر خیر کی ترقی بذاتہ مقصودہے‘ اور پوری زندگی کی تکمیل بحیثیت کل مطلوب ہے۔ اسلام نہ تنہا مادی ترقی چاہتا ہے‘ نہ تنہا روحانی طاقت‘ نہ صرف نفس کا تزکیہ اسے مطلوب ہے اور نہ صرف معاشرے کی تعمیر‘ نہ محض عبادات میں انہماک اس کے پیش نظر ہے‘ نہ محض اخلاق کی تحسین‘ نہ تنہا معاشی فلاح و بہبود عزیز ہے اور نہ صرف سیاسی عدل و انصاف۔ اسلام تمام شعبہ ہاے زندگی کی تکمیل اور یوں زندگی کی بحیثیت کل ترقی چاہتا ہے۔
ہماری تاریخ میں کبھی فلسفہ‘ کبھی تصوف‘ کبھی ذاتی میلان اور کبھی بعض روایات کے زیراثر صرف علم و عرفان کو غایت زندگی قرار دیا گیا ہے‘ کبھی ذات الٰہی میں فنا اور استغراق کو مقصود بتایا گیا ہے اور کبھی ذکروعبادت کو حاصل دین کہا گیا ہے۔ یہ سارے تصورات ناقص اور یک طرفہ ہیں۔
اسلام کو پوری زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل مطلوب ہے۔ اس حقیقت کا اظہار شریعت اسلامی کے تمام ممتاز شارحین اور حکما نے کیا ہے جن میں حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، فقیہ اندلس ابواسحاق شاطبیؒ، عزالدینؒ ابن عبدالسلام اور شاہ ولی ؒ اللہ شامل ہیں۔ میں یہاں صرف علامہ شاطبیؒ کا قول نقل کروں گا۔ فرمایا:
الاحکام الشرعیہ انما شرعت لجلب المصالح او درء المفاسد ‘ وھی مسبباتھا قطعاً (الموافقات فی اصول الشریعۃ‘ ابواسحاق الشاطبی ‘تصحیح شیخ عبداللہ دراز‘ المکہ التجارید‘ مصر‘بدون‘ سنہ ‘ ج ۱‘ ص ۱۹۵) شریعت کے احکام مصالح کے حصول اور مفاسد کے ازالے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ یقینا یہی چیزیں ان کی تشریع کا سبب ہیں۔
اعنی بالمصالح ما یرجع الی قیام حیوۃ الانسان وتمام عیشہ ونیلہ ما تقتضیہ اوصافہ الشھوانیہ والعقلیۃ علی الاطلاق حتی یکون منعما علی الاطلاق (ایضاً‘ ج ۲‘ ص ۲۵) مصالح سے میری مراد وہ ساری چیزیںہیں جن سے انسانی زندگی کا قیام اور اس کی تکمیل عبارت ہے‘ جن سے انسان کے تمام جسمانی اور عقلی مقاصد پورے ہوتے ہیں اور انسان ہر اعتبار سے خوش اور کامیاب ہوتا ہے۔
زندگی کی ہمہ جہت تکمیل کے مقصد کے پیش نظر شریعت نے زندگی کے تمام شعبوں میں ہمارے لیے اہداف مقرر کیے ہیں۔ ان میں سے بعض اہداف کی تحصیل لازمی اور ضروری قرار دی ہے‘ یہ فرض و واجب ہیں۔ اور بعض کو پسندیدہ کہا ہے اور ان کے حصول کی ترغیب دی ہے‘ یہ مستحب اور مندوب ہیں۔ پھر ان میں کون زیادہ اہم ہے‘ کون کم اہم اور کس کو کس پر ترجیح حاصل ہے‘ اس کی مختلف انداز سے وضاحت بھی شریعت نے کر دی ہے۔ اس کام کو نہ ہماری عقل پر چھوڑا ہے‘ نہ ہماری پسند اور میلان طبع پر‘ اور نہ کسی کے کشف و الہام ہی پر۔
شریعت کے مقرر کردہ لازمی اہداف کی تکمیل اور پسندیدہ و مستحب اہداف کی بیش از بیش تحصیل اور اس کاوش میں ان ترجیحات کا لحاظ جن کی نشان دہی شریعت نے کر دی ہے وہ عبادت جامعہ ہے جسے خالق نے ہماری تخلیق کی غایت قرار دیا ہے‘ فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ o (الذّٰریٰت ۵۱: ۵۶) میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیداکیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
اس عبادت جامعہ کا ایک اہم جز معروف عبادات ہیں۔ دوسرے تمام اجزا کی طرح عبادات بھی بذات خود مقصود ہیں۔ نماز ہو یا روزہ‘ ذکر ہو یا تلاوت‘ حج ہو یا قربانی‘ یہ ساری عبادتیں فی نفسہ مطلوب ہیں۔ بلاشبہہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی اصلاح و تعمیر میں ان کا اہم کردار ہے‘ لیکن یہ ان کی ثانوی حیثیت ہے۔ اولاً واصلاً یہ بذاتِ خود مقصود و مطلوب ہیں۔ یہی ان کی اصل حقیقت ہے۔ دوسرے مقاصد کے حصول میں ان کی افادیت ان کی اصل حقیقت نہیں ہے۔
قرآن و حدیث کی تصریحات کی روشنی میں نماز ایک طرف اللہ رب العزت کی حمدوثنا‘ تسبیح و تقدیس‘ تکبیروتعظیم ہے‘ دوسری طرف انسان کی اپنی بندگی کا اثبات‘ عجزونیازمندی کا اظہار‘ رکوع و سجود ہے‘ تیسری طرف رب کے کلام کی تلاوت‘ اس کے احکامات کا استحضار‘ اس کی اطاعت کا محور‘ اس سے رہنمائی اور مدد کی درخواست‘ اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کی دعا ہے۔
یہی نماز کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے فحش و منکرسے روکنا‘ اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا‘ اطاعت کا خوگر بنانا‘ اجتماعیت کا احساس بیدار کرنا وغیرہ‘یہ نماز کے فوائد ہیں۔ ان سب کی حیثیت ثانوی ہے۔ کسی چیز کی اصل حقیقت اور غایت اور اس کے ذیلی فوائد میں جو فرق ہوتا ہے وہی فرق یہاں بھی کرنا چاہیے۔ قرآن نے اس فرق کی نشان دہی اس طرح فرمائی ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُط (العنکبوت ۲۹: ۴۵) بے شک نماز فحش اور منکر سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان لانے والو‘ تمھارے اوپر روزے ایسے ہی فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے۔ توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
تقویٰ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ناخوشی سے بچنے اور اس کے احکامات بجا لانے کا نام ہے۔ روزہ انسان کے لیے بھوکا‘ پیاسا اور جنسی عمل سے دُور رہنے کی مشق اور ضبطِ نفس کی غیرمعمولی تربیت ہے۔ مگر یہ مشق اور یہ تربیت بذاتِ خود مقصود نہیں‘ مقصود تقویٰ ہے۔ تقویٰ کی تفصیل قرآن مجید میں مختلف مقامات پر آئی ہے‘ جیسے البقرہ ۱ تا ۴ اور ۱۷۷‘ آل عمران ۱۳۳ تا ۱۳۵‘ اللیل ۱۷ تا ۲۱ وغیرہ۔ ان آیات کی روشنی میں تقویٰ اس عبادت جامعہ کی انجام دہی کا ایک اسٹیج ہے جس کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے۔ معروف عبادات میں سے نماز‘ تلاوت قرآن‘ اور ذکر روزے کے اول اجزا ہیں۔ روزے میں انھی کی کثرت ہوتی ہے ‘ اور انھی پر بیشتر قوت صرف ہوتی ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اللہ کی نافرمانی سے بچنا اور اس کے احکامات بجا لانا‘ خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک‘ ہمدردی اور مواساۃ‘ ان ساری چیزوں کا نمبر بعد میں آتا ہے‘ اگرچہ کہ یہ دونوں اجزا‘ ربانی اور انسانی روزے کی حقیقت میں شامل ہیں اور بذاتہ مطلوب ہیں۔
خدا کا ذکر نماز اور روزے میں محصور نہیں ہے۔ قرآن نے کھڑے‘ بیٹھے اور لیٹے ذکر کی تلقین کی ہے اور دو بار ذکرکثیر کی ترغیب دی ہے(الاحزاب ۳۳:۳۵‘ ۴۱)۔ اللہ کے رسولؐ نے بتایا ہے کہ صبح و شام‘ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے‘ گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے‘ مسجد میں قدم رکھتے اور باہر جاتے‘ لباس زیب تن کرتے وغیرہ وغیرہ مختلف اوقات اور مواقع پر اللہ تعالیٰ کو کیسے یاد کیا جائے‘ اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس کی وحدانیت کا اثبات کیسے کیا جائے‘ اس کی تسبیح و تقدیس کس طرح کی جائے‘ تکبیر و تعظیم کے لیے کیا الفاظ ادا کیے جائیں۔ اس کی نعمتوں پر شکر‘ آزمایشوں پر صبر‘ اس کے عذاب سے پناہ‘ اس کی مدد کی طلب‘ اور اس سے معافی کی درخواست کس ڈھنگ سے کی جائے‘ ان ہی ساری چیزوں کا اہتمام وہ ’’ذکرکثیر‘‘ ہے جس کا حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔
عبادات بذاتِ خود مقصود اور مطلوب ہیں‘ اب تک کی گفتگو اس موضوع پر تھی۔ اب عبادات کے دوسرے پہلو‘ یعنی دین کے دوسرے مقاصد کے حصول میں ان سے کیا مدد ملتی ہے‘ اس پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
نماز اور خاص طور پر تہجد کی نمازاللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط بنانے میں بے حد موثر ہے۔ خدا کے ساتھ اخلاص‘ محبت‘ اعتماد اور بھروسے کی کیفیت پروان چڑھانے‘ نتائج اور انجام کو اللہ کے حوالے کر کے دین کی اشاعت اور اس کی اقامت میں ہمہ تن لگ جانے کے لیے انسان کو تیار کرنے میں تہجد کی نماز کا کردار غیرمعمولی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو کارِ رسالت کی گراں قدر ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیاری کا جو پروگرام تجویز کیا اس میں قیام لیل سرفہرست تھا۔ فرمایا:
اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلاً o اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا o وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً o رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًاo (المزمل ۷۳:۶-۹) درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر ہے۔ اور قرآن ٹھیک ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ دن کے اوقات میں تمھارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔ وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں‘ لہٰذا اسی کو اپنا سرپرست بنا لو۔
بنی اسرائیل نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو پورا کرنے‘ راست روی‘ اظہار حق‘ اقامت صلوٰۃ‘ ایتاء الزکوٰۃ‘ امر بالمعروف ونھی عن المنکرکی بھاری ذمہ داری ادا کرنے میں رب سے مدد طلب کرنے کی صورت انھیں یہ بتائی گئی:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o (البقرہ ۲:۴۵) صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر عاجزی کرنے والے بندوںکے لیے نہیں۔
تحویل قبلہ کی اجازت نے صحابہؓ کی اسلامی جماعت کو ایک علیحدہ تشخص عطا کیا۔ اس نعمت کے ساتھ ایک دوسری بڑی نعمت کی بشارت بھی انھیں دی گئی۔ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمھارے دین کی تکمیل بھی فرما دے گا۔ اولاً نعمت کا شکر ادا کرنے اور دوسرے نعمت عالیہ کے لیے اپنے کو تیار کرنے کے لیے یہ ہدایت دی گئی:
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲: ۱۵۲-۱۵۳) مجھے یاد کیا کرو‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا۔ میرے انعامات کا شکر ادا کرو‘ ناشکری مت کرو۔ اے ایمان لانے والو! نماز اور صبر سے مدد چاہو۔ بے شک اللہ صابرین کے ساتھ ہوتا ہے۔
عبادات کا اسلامی زندگی میں کیا مقام ہونا چاہیے‘ اس کا صحیح جواب نبی کریمؐ اور آپؐ کے اصحابؓ کی سیرت ہی میں ملتا ہے۔ جہاں تک حضورؐ کا تعلق ہے یہ معلوم ہے کہ آپؐ پنج گانہ نمازوں کے علاوہ تہجد کا پابندی سے اہتمام فرماتے۔ ابتدا میں رات کا بیشتر حصہ قیام میں گزرتا حتیٰ کہ پائوں سوج جاتے۔ بعد میں مصروفیات بڑھیں تو آٹھ اور دس رکعتیں پڑھنے لگے۔ طلوع آفتاب کے بعدضحی کی نماز اور مغرب کے کچھ دیر بعد چند رکعتیں پڑھتے۔ ضحی کی نماز کی تو قریبی اصحاب کو تاکید فرماتے۔
میں نماز کے بہت سے اسرار کا ذکر کر چکا ہوں۔ ایک اور کا ذکر یہاں کرنا ضروری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی ساری خطائیں‘ اگلی اور پچھلی معاف کر دی ہیں۔ آپؐ اس قدر طویل نمازیں کیوں پڑھتے ہیں؟ فرمایا: ’’کیا میں خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں‘‘ (صحیح مسلم‘ باب اکتار الاعمال والاجتہاد فی العبادۃ‘ حدیث ۲۸۲۰)
آپؐ پر اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی اور بے شمار نعمتیں کی تھیں آپؐ اس طرح ان کا شکر ادا کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَنَّکُمْ (ابرٰھیم ۱۴: ۷) اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھیں اور دوں گا۔
نمازوں کے علاوہ حضور صبح و شام ‘ مختلف حالات اور مختلف مواقع کے ذکر کا اہتمام فرماتے۔ خود کرتے اور دوسروں کو ترغیب دیتے۔ زندگی کا ہر لمحہ خدا کی اطاعت اوراس کے کلمے کے اعلاء میں صرف ہوتا‘ لیکن اس کے باوجود یہ احساس آپؐ کو ہمیشہ رہتا کہ مجھے جو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر سکا۔ چنانچہ دن میں سو سو بار استغفار فرماتے۔ آخری دنوں میں تو سجدہ کی حالت میں بھی تسبیحات کے ساتھ بار بار معافی مانگتے (کتاب التفسیر‘ حدیث ۴۹۶۸)۔ جب قرآن کی وہ آیات پڑھتے یا سنتے جن میں رسالت کی ذمہ داریوں کے بارے میں سوال کا ذکر ہے تو آنکھیں اشکبارہو جاتیں (الطبقات الکبریٰ‘ ابن سعد‘ دارالکتب العلمیہ‘ بیروت‘ ۱۹۹۲ئ‘ ص ۲۶۱-۲۶۲)۔ راہِ خدا کی تکلیفیں جب حد سے بڑھ جاتیں تو نماز کا سہارا لیتے۔ فرماتے: ’’نماز میں میرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے‘‘۔ (سنن النسائی‘ کتاب عشرۃ النسائ‘ حدیث ۳۹۴۹)
آپؐ کے اصحاب کا حال مختلف نہیں تھا‘ حضرت ابوبکرؓ کو لیجیے۔ آپ راتوں میں دیر تک قیام کرتے‘ جب قرآن کی تلاوت کرتے تو گریہ طاری ہو جاتا۔ آخرت کی جواب دہی کا احساس اس قدر شدید تھا کہ ہرا بھرا درخت دیکھتے تو کہتے کاش اس جیسا ہوتا کہ جواب دہی نہ کرنی پڑتی (خلفاے راشدین‘ معین الدین ندوی‘ دارالمصنفین‘ اعظم گڑھ‘ ۱۹۵۴ئ‘ ج ۱‘ ص ۸۸)۔
ایک روز رسولؐ اللہ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ آج تم میں سے روزہ سے کون ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: آج کس نے جنازے کی مشایعت کی؟ کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ کس نے مریض کی عیادت کی؟ ان سارے سوالوں کے جواب میں جو زبان گویا ہوئی وہ حضرت ابوبکرؓ کی تھی۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایک دن میں اتنی نیکیاں جمع کی ہوں وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘ (مسلم‘ کتاب فضائل الصحابہ‘ باب فضائل ابی بکر‘ حدیث ۱۰۲۸)۔ خلیفہ ہونے کے بعد بھی یہ معمولات جاری رہے‘ اگرچہ مصروفیات کی وجہ سے ان میں کمی آگئی۔آپ کی سیرت کے اس انتہائی مختصر تذکرے میں بھی زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے جو اسلام کے پیش نظر ہے۔
عہدرسالتؐ اور عہدصحابہؓ اور کئی صدیوں بعد تک اہل کمال کی توجہ شریعت کے ظاہری اعمال کی بجاآوری پر تھی‘ دوسری چیزوں پر نہیں۔ ان کا احسان یہ تھا کہ نماز اور روزہ‘ ذکروتلاوت‘ اور حج ادا کریں‘ صدقہ دیں اور جہاد کریں۔ ان میں سے کسی نے بھی ایک لمحے کے لیے مراقبہ نہیں کیا۔ اذکار اور اعمال کے علاوہ کسی اور طریقے سے اللہ کو یاد نہیں کیا۔ ان کے محققین نماز و ذکر میں خدا سے مناجات کا لطف اٹھاتے‘ تلاوت کے دوران اپنا محاسبہ کرتے‘ غیراللہ سے تعلق ختم کرنے اور بخل سے نجات پانے کے لیے زکوٰۃ دیتے۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔
ان میں سے کسی نے چیخ نہیں ماری‘ نہ ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوئی‘ نہ کسی سے غیرمعمولی حرکات سرزد ہوئیں‘ اور نہ نظمات کا صدور ہوا۔ تجلی اور استقار جیسی کیفیات سے وہ بالکل ناآشنا تھے۔ صرف جنت کے طلب گار اور جہنم سے خائف تھے۔ کشف و کرامت‘ خوارق عادات‘ سکرو و غلبات ان کے یہاں پائے نہیں جاتے۔ اگر کوئی چیز ظاہر بھی ہوئی تو اتفاقیہ ہوئی۔ قصد و ارادے کی پیداوار نہیں تھی کہ ذاتی ملکہ سے صادر ہو۔ اگر ان میں سے کسی نے کہا: ’’طبیب ہی نے تو مجھے بیمار کر ڈالا ہے‘‘ تو وہ ایسا ہے جیسے کہ عام آدمی کو کسی چیز میں بصیرت حاصل ہو جائے۔ یہ تھے احوال اس طبقے کے ۔(ھمعات‘ شاہ ولی اللہ‘ تصحیح نورالحق علوی و غلام مصطفی قاسمی‘ شاہ ولی اللہ اکیڈمی‘ حیدر آباد‘ پاکستان‘ ۱۹۶۴ئ‘ ص ۱۶-۱۷)
صحابہؓ کے سلوک کی یہ تصویر مکمل ہو جائے گی اگر اس کے ساتھ اقامت دین کے لیے ان کی جدوجہد‘ اس راہ کی تکالیف اور آزمایشوں میں ان کی استقامت‘ رجوع الی اللہ اور انابت‘ بندگانِ خدا کی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی ان کی کوشش‘ معیشت اور سیاست کو شریعت کا پابند کرنے اور خلق خدا کی خوشی اور خوش حالی کے لیے یہ جامع سلوک صحابہؓ کے بعد بھی ایک دو صدی تک معمول تھا۔ بعد میں دھیرے دھیرے تبدیلیاں ہونے لگیں۔ کچھ چیزیں دوسری قوموں سے لی گئیں‘ اور کچھ تجربات خود کیے گئے۔ اس کے نتیجے میں ایک نئی روحانیت وجود میں آئی۔ نمازوں کی بے حد کثرت ہوئی‘ مسلسل روزے رکھے گئے۔ ذکر کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے‘ اور ان میں ایسا انہماک ہوا کہ دین کے دوسرے پہلو آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ شروع میں ان کی طرف توجہ نہیں ہوئی‘ بعد میں انھیں اعتنا کے قابل نہیں سمجھا گیا۔نماز‘ روزہ‘ ذکرو تلاوت ہی اصل دین اور سارا دین قرار پائے۔ دین کے دوسرے شعبے خاص طور پر جن کا تعلق دین کے اجتماعی نظام اور دنیا کی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے سے ہے وہ دین نہیں دنیا شمار ہونے لگے اور ان کے لیے جدوجہد دین داری نہیں دنیا پرستی قرار پائی۔
گذشتہ صدی میں اسلام کے احیا کی جو تحریکیں برعظیم پاک و ہند‘ ممالک عربیہ‘ اور اسلامی دنیا کے دوسرے حصوں میں اٹھی ہیں‘ انھوں نے دین کے اس محدود اور یک طرفہ تصور پر تنقید کی۔ دین کے اجتماعی پہلو کی اہمیت بتائی۔ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کو اسلامی خطوط پر کیسے استوار کیا جائے‘ اس کی وضاحت کی‘ اور دین کے اس حصے کے قیام کی کوشش کو اسلامی زندگی میں جو اہمیت حاصل ہے اسے اجاگر کیا اور اس طرح شریعت کے اصل مقاصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے اُمت کو منظم اور متحرک کیا۔ البتہ اس امر کا ادراک اور احتساب بھی ضروری ہے کہ احیاے دین اور اقامتِ شریعت کے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے فرد اور اجتماع دونوں کو تیار کرنے کے لیے جس درجے کے تزکیے‘ کردار سازی‘ تعلق باللہ اور فکرِآخرت کی ضرورت ہے اور اسلام کے احیا کی اس کوشش میں عبادات کو جو مقام ملنا چاہیے وہ کہاں تک حاصل کیا جاسکا؟ نماز‘ روزہ‘ ذکرو تلاوت‘ سب بذاتہ مقصود ہیں‘ یہ تصور صحیح معنی میں کہاں تک ہماری زندگیوں میں رچ بس سکا‘ اسلامی زندگی میں انھیں جو جگہ ملنی چاہیے وہ مطلوبہ حد تک ملی یا اس میں کچھ کمی رہ گئی؟---یہ سوال اٹھا کر اور تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اس پر غور کی دعوت دیتے ہوئے میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے توفیق عمل کی دعا کرتا ہوں۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو مٹی کی ایک مٹھی اور روح کی ایک پھونک سے پیدا فرمایا۔ مٹی کے جزو کے لیے کھانا پینا آسان کر دیا جس سے جسم نشوونما پاتا ہے اور بدن میں قوت آتی ہے‘لیکن جہاں تک روح کا تعلق ہے وہ ایک بڑا راز ہے جس کی حقیقت کو انسان نہیں سمجھ پاتا۔
روح کی غذا‘ قوت‘ زندگی اور اس کی حفاظت اس کے خالق اور موجد کے مقرر کردہ طریق کار سے ہی ممکن ہے: اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَط وَھُوَ الَّلطِیْفُ الْخَبِیْرُ (الملک ۶۷:۱۴) ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ نے روح کے لیے وہ چیز بنائی ہے جس سے اسے بلندی‘ ارتقا‘ لطافت اور سرور حاصل ہو۔
]’’ذکر‘‘ کا لفظ قرآن میں اصطلاحاً کلامِ الٰہی کے لیے استعمال ہوا ہے جو سراسر نصیحت بن کے آتا ہے۔ پہلے جتنی کتابیں انبیا پر نازل ہوئی تھیں وہ سب بھی ’’ذکر‘‘ تھیں اور یہ قرآن بھی ’’ذکر‘‘ ہے۔ ذکر کے اصل معنی ہیں ’’یاد دلانا‘‘، ’’ہوشیار کرنا‘‘، اور ’’نصیحت کرنا‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۴۹۸)[
’’روح کو جس چیز سے سب سے زیادہ توانائی اور راحت حاصل ہوتی ہے وہ اس کے خالق کا ذکر ہے۔اسی سے وہ غذا پاتی ہے اور وہی اس کی معراج اور زینت ہے۔ وہی اس کا ہتھیار ہے جس سے وہ تقویت پاتی ہے۔یہ وہ پروانۂ ولایت ہے کہ جسے دیا گیا وہ منزل پر پہنچا اور جس سے روک لیا گیا وہ محروم رہا۔ یہ لوگوں کے دلوں کی خوراک ہے کہ جب وہ نہیں ملتی تو ان کے جسم قبریں بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ان کے گھروں کی آبادی ہے کہ جب وہ اس سے خالی ہو گئے تو وہ برباد ہو گئے۔ یہ وہ اسلحہ ہے جس کے ساتھ وہ رہزنوں سے لڑتے ہیں۔یہ وہ پانی ہے جس سے وہ آگ کے شعلے بجھاتے ہیں اور یہ بیماریوں کی وہ دوا ہے کہ جب نہیں ملتی تو ان کے دل بیمار پڑجاتے ہیں۔ یہ قرب کا وہ وسیلہ ہے جو انھیں علام الغیوب تک پہنچاتا ہے۔ اسی کے ذریعے وہ آفات سے اپنا دفاع کرتے ہیں‘ اسی سے تکالیف دور ہٹاتے ہیں اوراسی کے باعث مصیبتیں ان پر آسان ہوجاتی ہیں ۔ جب ان پر کوئی آزمایش آتی ہے تو وہی ان کی پناہ گاہ ہے۔جب بلائیں ان پر نازل ہوتی ہیں تو وہی ان کو بچاتا ہے۔ وہی ان کے جنت کے باغات ہیں جن میں وہ چلتے پھرتے ہیںاور ان کی خوش بختی کا راس المال بھی وہی ہے جس سے وہ تجارت کرتے ہیں۔وہ افسردہ دل کو مسرت سے ہم کنار کر دیتا ہے۔ وہ ذاکر کو مذکور سے ملاتا ہے اور اسے ذاکر و مذکور بنا دیتا ہے‘‘ (تہذیب المدارج‘ ص ۴۶۳) --- کتنی عمدہ ہے ذکر کی یہ تعریف جو ابن القیمؒ نے کی ہے۔ وہ کتنے بڑے صاحب فہم ہیں۔ ان معانی پر غور تو کرو!
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا (الاحزاب ۳۳: ۴۱ ) ’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو‘ اﷲ کو کثرت سے یاد کرو‘‘۔ اور اس کے لیے وقت کی کوئی تخصیص نہیں۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمِنْ آنَائِ اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی (طٰہٰ ۲۰: ۱۳۰) ’’اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی‘ شاید کہ تم راضی ہو جاؤ‘‘۔اور کوئی حالت بھی ذکر سے مستثنیٰ نہیں‘ فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ (آل عمران ۳:۱۹۱) ’’وہ ہوش مند لوگ جو اٹھتے ‘بیٹھتے اور لیٹتے ‘ ہر حال میں اﷲ کو یاد کرتے ہیں‘‘۔
ذکر غفلت اور نسیان کی ضد ہے۔ غفلت ذکر کو عمداً ترک کر دینا اور نسیان غیر ارادی طور پر ذکر کا ترک ہوجانا ہے۔ قرآن کریم میں غفلت کا حوالہ اس سے ممانعت اور اس سے پرہیزکے ضمن میں دیا گیا ہے۔ وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَ لاَ تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ(الاعراف ۷:۲۰۵) ’’ا پنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو‘دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ ‘اور ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ نیز اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَلاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا (الکہف ۱۸:۲۸) ’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے‘‘۔ نسیان اس طرح کا نہیں ہوتا کیوں کہ اس کا صدور ارادے سے نہیں ہوتا اور اس سے متعلق قرآن عظیم نے وضاحت کی ہے: وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ (الکہف ۱۸:۲۴) ’’اوراگر بھول ہو جائے تو اپنے رب کی تسبیح و تحمید اور اس سے استغفار کرو‘‘۔
قلبی ذکر : تذکر کے معنی کسی شے کا ذہن میں اس طرح استحضار ہے جیسا کہ تمھارا یہ کہنا’’ مجھے ایک ایسا اور ایسا حادثہ یا د آتا ہے ‘‘جب کہ تم نے اس حادثے کو اپنے ذہن میں حاضر کر لیا اور اس کی تفصیلات ذہن کے پردے پر آگئیں۔ یہ معنی ہیں نسیان کی ضد کے۔اور اسی سے متعلق اﷲ تعالیٰ کا قول ہے: وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ (آل عمران ۳:۱۳۵) ’’ایسے نیک لوگ جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اﷲ انہیں یا د آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں‘‘۔پس ذکر کی بنیاد دل میں مذکورہ شے کی یاد اور توجہ ہے۔
قولی ذکر: اس سے مراد زبان سے الفاظ کی ادایگی ہے اور اسی مفہوم میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا جب یہ کہا جائے کہ:’’ فلاں صاحب پابندی سے اذکار کرتے ہیں‘‘ تو مفہوم یہی ہوتا ہے کہ وہ الفاظ سے انھیں ادا کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا (الاحزاب۳۳:۴۱) ’’اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو اﷲ کو کثرت سے یاد کرو‘‘۔
زبان سے قول کو ذکر کا نام دیا گیا ہے۔ کیوں کہ وہ دل کے ذکر پر دلیل ہے۔ اور زیادہ تر زبانی قول کو ذکر کا نام دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ شعوری طور پر وہی ذہن میں آتاہے۔ (المفہم‘۶-۷)
لہٰذا ہمارے نزدیک ذکر دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ ذکر تذکر کے معنی میں‘ جس سے مقصود اﷲ کی یاد‘ اس کی عظمت و خشیت‘ اس کی حفاظت و نگرانی‘ اس کی نعمت کااحساس ‘ حتیٰ کہ بندے کے دل میں اس کی بڑائی سما جائے۔ وہ اﷲ سے ڈرے اور سمجھے کہ وہ اس کی نظر میں ہے اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرے۔ اسی طرح سے زبان سے ذکر ہے جو قلبی ذکر کا ثمرہ ہے‘ اس پرگواہ ہے اور اس کی ترجمانی کرنے والا ہے۔ پس جس نے اﷲ کی عظمت کو دل میں جگہ دی‘ اپنی زبان سے اﷲ کی تسبیح ‘ تہلیل اور تکبیر کی‘ اس کے حضور میں گریہ وزاری اور دعا کی‘ وہی صحیح معنوں میں ذاکر ہے۔
]اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لاشعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔ کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہوگا تو الحمدللہ کہے گا۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کرکے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ‘ الحمدللہ‘ ان شاء اللہ‘ ماشاء اللہ اور اس طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلب گار ہو گا۔ ہرمشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر برائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہوجانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کاج کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی عبادات ہیں ان کے لیے بہرحال کوئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انھیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کادل محض ان خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً اس کے ذکر سے تررہے۔ یہ حالت انسان کی ہوتو اس کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زندگی اس دائمی ذکر خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پرا دا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہوا اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے چل رہا ہو۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۹۶-۹۷)[
ذکر اکبر: اﷲ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ط وَاﷲ ُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ (العنکبوت ۲۹:۴۵) ’’اے نبیؐ، تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو۔ یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اﷲ کا ذکر اس سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ اﷲ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘۔یہ آیت کریمہ واضح دلیل ہے اس پر کہ اﷲ کا ذکر فقط کبیر نہیں ہے بلکہ اکبر ہے اور یہی اس کی اہمیت اور عظیم مرتبے کی دلیل ہے۔
علما ومفسرین نے ذکر کے کئی واضح اور آسان معانی بیان کیے ہیں جو قابلِ توجہ ہیں اور ذکر اکبر کی وضاحت کرتے ہیں۔
اول: اﷲ کا ذکر ہر چیز سے بڑا اور افضل عبادت ہے کیوں کہ جملہ طاعات کا مقصود اﷲ کے ذکر کا قیام ہے ۔ وہ عبادات کا راز اور ان کی روح ہے۔ اس لیے کہ اس کی حقیقت اﷲ سے تعلق ‘اس کی عظمت کا استحضار ‘اس کی نگرانی کا شعور اور اس کے انعامات کی یاد ہے۔ لہٰذا عبادات سب کی سب ذکر ہیں۔
دوم: جب تم اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہو تو وہ تمھارا ذکر کرتا ہے۔ اس کا تمھارے لیے ذکر ‘ اس کے لیے تمھارے ذکر سے بہت بڑا ہے‘ اوریہ عظیم بات ہے۔ اے ضعیف اور عاجز انسان! تو قوی اور قادر مطلق اﷲ کا ذکر کرتا ہے ‘ تو فقیر اور حقیر انسان غنی اور عظیم اﷲ کا ذکر کرتا ہے۔تیرے ذکر کے مقابلے میں اس کا ذکر کتنا عظیم اور کتنا بلند ہے!
سوم: اﷲ کا ذکر اس سے بلند و برتر ہے کہ اس کے ساتھ فحش اور منکر باقی رہے بلکہ جب ذکر مکمل ہوتا ہے تو خطا اور معصیت کو مٹا دیا جاتا ہے۔ بخدا! ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ (تہذیب المدارج‘ ص ۴۶۳)
اجرعظیم: اگرچہ ذکر بذات خود بہت بڑی چیز ہے مگرا س کا اجر بھی بہت بڑا ہے۔ حضرت ابوالدرداء ؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تم کو وہ عمل نہ بتاؤں جو تمھارے سارے اعمال میں بہتر اور تمھارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے۔وہ تمھاری روحوں کودوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور راہِ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں خیرہے‘ اور تمھارے لیے اس میں جہاد سے بھی زیادہ خیر ہے جس میں تم خدا کے دشمنوں کی گردنیں مارو اور وہ تمھاری گردنیں ماریں؟صحابہؓ نے عرض کیا : کیوں نہیں‘ یارسولؐ اﷲ! فرمائیے۔آپؐ نے فرمایا:وہ اﷲ عزوجل کا ذکر ہے۔ (مسند احمد‘ جامع ترمذی‘ ابن ماجہ)
اﷲ اکبر! کتنا بڑا درجہ ہے۔ وہ اﷲ کی راہ میں مال کے خرچ کرنے اوراس کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی بڑا ہے۔غور کرو کہ کس طرح سے نبی ؐ نے یہ بات فرمائی جو اس اجر کی عظمت کا اظہار کرتی اور اس کا شوق دلاتی ہے۔ آنحضورؐنے اس سوال سے ابتدا کی جو جاذب قلب ونظر ہے‘ اور سوال کا مضمون ایسا ترتیب دیا کہ جس سے اہل ایمان میں بے قراری‘ ان کے دلوں میں ولولہ اورجذبات میں تلاطم پیدا ہوا۔ وہ اسے جاننے کے لیے بے تاب ‘ اس پر لبیک کہنے کے مشتاق اور عملی اقدام کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ یہ ذکر کی اہمیت ‘ اس کی بلند منزلت اور اس کے اظہار اور معانی کے واضح ابلاغ کا طریقہ تھا جو آنحضورؐ نے اختیار فرمایا۔
عبادات سے تعلق: ذکر طاعات کا نچوڑ اور عبادات کاجوہر ہے اور اکثر ظاہری فرائض اور شعائر کی بنیاد ہے۔ عبادات کی ادایگی سے قبل ان کے لیے تیاری ہوتی ہے اور ذکر ان کے اعمال اور ارکان کے ساتھ ان کے جزو کے طور پر ہوتا ہے اور عبادات سے فراغت پر اسی کے ساتھ ان کا اختتام ہوتا ہے۔
ہم نماز ہی کی مثال لیتے ہیں۔ ذکر نماز سے پہلے آتا ہے۔ اذان ذکر ہے جو تکبیر‘ تہلیل اور شہادتین کے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے اور مؤذن کی متابعت سنت ہے۔ نبی ؐنے فرمایا :اذان سے فراغت کے بعد جس نے کہا: اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلاَۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدًا نِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗٓ(اے اﷲ اس دعوت تامہ ‘ کاملہ اور اس صلوٰۃ قائمہ کے رب ! محمد(ﷺ) کووسیلہ اور فضیلت کا خاص مرتبہ عطا فرما اور ان کو مقام محمود پر سرفراز فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے) تووہ بندہ قیامت کے دن میری شفاعت کا حق دار ہوگا (بخاری)۔ نماز سے قبل وضو ‘ شرائط نماز میں سے ہے اور وضو سے فارغ ہونے کے بعد بھی ذکر ہے‘ جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کردہ حدیث میں ہے کہ نبی ؐ نے فرمایا: ’’ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے کامل وضو کیا‘ پھر کہا: اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہ‘ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ مگر یہ کہ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھل گئے‘ جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے ‘‘ (مسلم)۔ اور ترمذی نے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کا اضافہ کیا ہے۔
نص قرآنی کی رو سے نماز کا مقصود ذکر ہے۔ وَاَقِمِ الصَّلاَۃَ لِذِکْرِیْ(طٰہٰ ۲۰:۱۴) ’’اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر‘‘۔ اس کا رکن اول ‘تکبیر تحریمہ ذکر ہے اور اس کا رکن اعظم فاتحہ کی قرأت ذکرہے۔ اور اس کے رکوع میں اﷲ کے عظیم نام کی تسبیح ہے اوراس کے سجدے میں اس کے اسم اعلٰی کی تسبیح ہے اور رکوع سے اٹھنے پر حمد ہے اور ذکر ہے۔ اس کے دو سجدوں کے درمیان استغفار ہے اور ذکر ہے‘اور نماز کی ادایگی کے بعد ذکر کی ہدایت کی گئی ہے۔ فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قَیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ (النساء ۴: ۱۰۳) ’’ پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ‘ ہر حال میں اﷲ کو یاد کرتے رہو‘‘۔ نبی ؐ السلام علیکم کہنے کے بعد تین مرتبہ استغفر اﷲ کہتے جیسا کہ حضرت ثعبان ؓسے روایت ہے کہ نبی ؐ جب نماز سے سلام پھیرتے تو تین مرتبہ استغفار کی دعا کرتے اور کہتے: اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَ مِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ یَاذَالْجَلاَلِ وَاْلاِکْرَامِ (مسلم)۔ اور نمازوں کے بعد بہت سے اذکار مسنونہ کی روایت ہے۔ چنانچہ نماز ساری کی ساری ثنا ہے‘ خشوع و خضوع ہے اور دعا ہے۔
دوسری مثال حج کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ ط فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ص وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدَاکُمْ (البقرہ ۲ :۱۹۸) ’’اور حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ‘ تواس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر جب عرفات سے چلو‘ تو مشعرحرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھہر کر اﷲ کو یاد کرو اور اسی طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمھیں کی ہے‘‘۔ حج کا آغاز ذکرہی سے ہوتا ہے۔ احرام کی ابتدا تلبیہ سے ہوتی ہے اور یہ وہ ذکر ہے جس کے ساتھ آوازیں رب سموات وارض کی توحید اور اس کے حضور حاضری کے اعلان کے ساتھ بلند ہوتی ہیں۔طواف اور سعی ذکر ہے ‘اور تکبیر ہے اور تہلیل ‘ جیسا کہ نبی ؐنے فرمایا: ’’بیت اﷲ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمار اﷲ کے ذکر کے لیے مقرر کیے گئے ہیں‘‘۔ عرفات کا وقوف پورے کا پورا اذکار اور دعائیں ہیں اور اس بار ے میں رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین کلمہ وہ ہے جو میں کہتا ہوں اور مجھ سے پہلے انبیا علیہم السلام نے کہا: لا الٰہ الا اﷲ۔ اور حج کے اختتام پر ذکر کی نصیحت ہے: فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ آبَآئَ کُمْ اَوْاَشَدَّ ذِکْرًا (البقرہ ۲: ۲۰۰) ’’ پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو ‘ تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے‘ اس طرح اب اﷲ کا ذکر کرو‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر‘‘۔ حتیٰ کہ جہاد میں صف بندی‘ تلواروں کے ٹکرانے اور اس میں موت کے وقت بھی ذکر کی ہدایت ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکرُوُا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الانفال۸ :۴۵) ’’اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو ‘ جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اﷲ کو کثرت سے یا دکرو‘ توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی‘‘۔
اہل ذکر‘ سبقت لے جانے والے: ذکر بہت بڑی چیز ہے ‘ اس کا اجربہت بڑا ہے اور اہل ذکر سبقت لے جانے والے ہیں۔جیسا کہ رسولؐ اﷲ نے فرمایا: مفردون سبقت لے گئے۔ عرض کیا گیا کہ اے اﷲ کے رسولؐ!مفردون کون ہیں؟ فرمایا: بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور بکثرت ذکر کرنے والی عورتیں۔ (مسلم)
مفردین کے معنی میں ابن قتیبہ نے کہا ہے : وہ لوگ جن کی نسل ہلاک ہو گئی اور وہ تنہا رہ گئے اور اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے باقی رہے۔ اور ابن اعرابی نے کہا: وہ آدمی جس نے غوروفکر کیا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضہ کی ادایگی میں یکسو ہو گیا۔ اور ازہری نے کہا: وہ جو اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے پیچھے رہ گئے ہیں(مسلم‘ بشرح النووی)۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اس اہم صفت کے باعث جس نے ان کو سبقت لے جانے والے بنا دیا دوسروں سے ممتاز اور منفرد ہیںاور وہ صفت کثرتِ ذکر ہے۔
اہل ذکر کا بلند مرتبہ : اہل ذکر فقط نوع بشر کے ہی سابقین نہیں بلکہ وہ بزرگ فرشتوں کے‘ جو کبھی اﷲ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے بجا لاتے ہیں ‘ مشابہ اور ان کے ہاں فخرو مباہات کے مقام پر فائز ہیں۔ وہ فرشتے جو فرماں برداری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ‘ جن کی تخلیق عبادت پر ہے اور جو دن رات بغیر توقف کے اﷲ کی تسبیح بیان کرتے ہیں کیوں کہ ان کی پیدایش کی اصل اور ان کے وجود کی غایت ہی ذکر اور عبادت ہے۔ اور اس سب کچھ کے باوجود مومن اہل ذکر وہ بلند منزلت رکھتے ہیںکہ اﷲ تعالیٰ اہل ذکر کا فرشتوں سے فخرکے ساتھ ذکر فرماتے ہیں۔ (تہذیب المدارج‘ ص۴۶۶)
اس دلیل کی وضاحت حضرت معاویہ ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم اپنے اصحاب کے حلقہ میں تشریف لائے اور استفسار فرمایا:کس چیزنے تمھیں یہاں بٹھایا ہے؟ انھوں نے جواب دیا:’’ہم اﷲ کا ذکر اور اس کی حمد کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور اس کے ساتھ ہم پر احسان فرمایا۔ آنحضور ؐ نے فرمایا:تمھیں اﷲ کی قسم!کیا صرف اسی چیز نے تمھیں بٹھایا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا: بخدا! ہمیں صرف اسی چیزنے بٹھایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’خدا کی قسم! میں نے تم سے حلف تمھارے اوپر کسی بدگمانی کے باعث نہیں لیا بلکہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں اور انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرشتوںکے سامنے تمھارے اوپر فخرفرما رہا ہے‘‘۔ (النہایہ‘ ۱۶۹؍۱)
فرشتے مجالسِ ذکر تلاش کرتے ہیں‘ وہاں جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو ان کی طرف بلاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالیٰ کے معزز فرشتے جو مجالس ذکر کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں ‘ جو نہی وہ کسی مجلس کو پالیتے ہیں جس میں ذکر ہورہا ہو تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں‘ ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانک لیتے ہیں حتیٰ کہ زمین اور آسمان دنیا کے مابین کو بھر دیتے ہیں(مسلم)۔ مشہور حدیث ہے :’’جب اﷲ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگ کتاب اﷲ کو پڑھتے ہیں اور ایک دوسرے کو سکھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے ‘رحمت انھیں ڈھانک لیتی ہے ‘ فرشتے ان کا احاطہ کر لیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں سے فرماتے ہیں‘‘(مسلم) ۔اور سب سے بڑی بات تو وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ نے فرمائی: فَاذْکُرُونِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ(البقرہ ۲:۱۵۲) ’’تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمھیں یا د رکھو ںگا اور میرا شکر کرو‘ کفران نعمت نہ کرو‘‘۔کون سا شرف اور کون سا فخر اس سے برتر ہے کہ اﷲ رب العالمین انھیں یاد فرماتا ہے۔حدیث قدسی ہے : ’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں‘ جب وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو میںاسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکرمجمع میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر مجمع (فرشتوں) میں کرتا ہوں‘‘۔
ذکر کے فوائد و ثمرات
اجر و ثواب کا آسان نسخہ
مسلمان ثواب کے حصول کا حریص اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا طلب گار ہے۔طاعات میں کوشاں رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم مصروفیات کی کثرت‘ مشکلات‘دل کش بہکاووں اور تفریح گاہوں کے ہوتے ہوئے بھی فکرمند رہتے ہوکہ اپنی نیکیوں کے کھاتے میں اضافہ کرو۔ آئو میں تمھیں بتاتا ہوں کہ ذکر اجر کے بہت بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ میں تمھیں ذکر کے بڑے اجر وثواب کا انکشاف کرنے والی نصوص کا چھوٹا سا مجموعہ پیش کروں گا جو سمندر میں سے ایک قطرے کے مصداق ہے ۔
(الف) حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ اﷲ نے فرمایا:’’ جس نے ہر فرض نما زکے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اﷲ ‘ ۳۳ مرتبہ الحمد للّٰہ اور ۳۳ مرتبہ اﷲ اکبر کہا اور یہ ۹۹ ہوئے اور ۱۰۰ پورا کرنے کے لیے لا اِلٰہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ‘ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر کہا تو اس کی خطائیں معاف کر دی گئیں‘ اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں‘‘۔(مسلم)
(ب)۔ حضورؐ کا ارشاد ہے :’’ دو کلمے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے مگر میزان میں بہت وزنی ہیں‘ رحمان کو بہت پیار ے ہیں: سبحان اﷲ و بحمدہ‘ سبحان اﷲ العظیم‘‘- (متفق علیہ )
(ج) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ:’’جس نے لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ‘ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قد یر دن میں ۱۰۰ مرتبہ کہا تو اس کے لیے ۱۰ غلاموں کو آزاد کرنے کے ساتھ ۱۰۰ نیکیاں لکھی جائیں گی اور ا س کے ۱۰۰ گناہ مٹا دیے جائیں گے‘ اور اس دن شام تک وہ شیطان کے شر سے بچا رہے گا۔ اور جس شخص نے یہ پڑھا تو کوئی اس سے بہتر عمل نہ کر سکے گا سوائے ا س کے جو اس عمل کو اس سے زیادہ کرے۔ (مسلم)
(د) حضور ؐ نے فرمایا : ’’مجھے سبحان اﷲ والحمد للّٰہ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر کہنا ہر اس چیز سے عزیز تر ہے جس پر سورج چمکتا ہے۔ (مسلم)
(ہ) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم رسولؐ اﷲ کے پا س جمع تھے کہ آنحضورؐ نے فرمایا:’’ کیا تم میں سے کوئی اس سے عاجز ہے کہ وہ روزانہ ہزار نیکیاں کما لے؟‘‘ مجلس میں سے کسی نے سوال کیا:’’وہ ہزار نیکیاں کیسے کما سکتا ہے ؟‘‘ تو آپ ؐ نے فرمایا:’’وہ ۱۰۰ مرتبہ سبحان اﷲ کہے تواس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کی ہزار خطائیں مٹا دی جائیں گی۔‘‘ (مسلم)
اﷲ تعالیٰ نے ذکر کرنے والے کے لیے ذکر کو شیطان کے وسوسے‘ اس کی برائی ‘ اس کی پھونک اورتھوک سے حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے۔ لہٰذا ذاکر‘ اﷲ کے اذن سے محفوظ رہتا ہے اور اسے کوئی تکلیف نہیں چھوتی۔ ذکر سے اسے محفوظ پناہ گاہ اور مضبوط باڑ حاصل ہے‘ اس لیے کہ اس کے دل میں اﷲ کی یاد ہے اور اس کی زبان پر اﷲ کا ذکر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے:
ا - حضرت عبداﷲ بن خبیب ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ :’’تم قل ھو اﷲ اور معوذتین صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھو‘ وہ تمھارے لیے ہر چیز سے کفایت کریں گی۔‘‘ (ابوداؤد‘ ترمذی)
ب- حضرت ابوہریرہؓ سے رسولؐ اﷲ کا ارشاد مروی ہے کہ ’’جب نماز کے لیے نداد ی جاتی ہے تو شیطان گوز اڑاتا ہوا پیچھے کو بھاگتا ہے اور جب اذان ہوچکتی ہے تو وہ آگے بڑھتا ہے۔اور جب تکبیر کہی جاتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔جب اقامت ہو چکتی ہے تو آگے بڑھتا ہے۔ وہ آدمی کے دل میں وسوسے ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے فلاں چیز یاد کر‘ فلاں چیز یاد کر۔جب تک کہ وہ یاد نہیں کر لیتا اس کو اس کی وسوسہ اندازی جاری رہتی ہے۔حتیٰ کہ بندے کو کچھ یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے‘‘۔(متفق علیہ)
ج- حضرت انس ؓ نے کہاکہ رسولؐ اﷲ کا فرمان ہے:’’ جو شخص اپنے گھر سے نکلا اور اس نے بِسْمِ اللّٰہَ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ پڑھ لیا توا سے کہا جاتا ہے کہ تیرے لیے یہ کافی ہے اور تو بچ گیا اور تو نے ہدایت حاصل کرلی۔ اور شیطان کو اس سے ہٹا دیا جاتا ہے‘‘۔ (ترمذی)
د- حضرت عثمان بن عفان ؓ نے کہا کہ رسولؐ اﷲ نے فرمایا ہے کہ ’’جو مسلمان ہر روز صبح اور شام کو بِسْمِ اﷲِ الَّذِیْ لاَ یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآئِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (اس اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز ضرر نہیں پہنچا سکتی‘ وہ سننے اور جاننے والا ہے)۳مرتبہ پڑھے اسے کوئی شے نقصان نہیں دے گی ‘‘۔ (ابوداؤد ‘ ترمذی)
ھ- حضرت ابومسعود انصاری ؓ نے حضور ؐ سے روایت کیا ہے ’’ جو شخص سورہ البقرۃ کی آخری دو آیات رات کے وقت پڑھ لے تو وہ اس کے لیے کفایت کریں گی۔‘‘ (متفق علیہ )
ذرا تم ان اثرات پر غور کرو جو ذاکر ہونے سے تم حاصل کرو گے۔ اپنے ماحول پر نظر دوڑاؤ اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو دیکھو۔ تم دیکھو گے کہ کسی کو جن نے چھو رکھا ہے ‘ کوئی سحر زدہ ہے یا اسے شیطان نے بہکا رکھا ہے‘اور تم اﷲ کے فضل سے اس سب کچھ سے محفوظ ہو۔ بلکہ اﷲ عز وجل کا ذکر نفاق سے امان ہے کیوں کہ منافقین اﷲ تعالیٰ کا ذکر کم ہی کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں فرمان الٰہی ہے: لاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلاَّ قَلِیْلاً (النساء ۴:۱۴۲) ’’وہ خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔ حضرت کعبؓ نے کہا:’’ جس نے اﷲ کا ذکر کثرت سے کیا وہ نفاق سے بری ہو گیا (الوابل الصیب ‘ص ۱۷۲۔۱۷۳) ۔ابوخلاد المصری نے ذکر کی قلعہ بندی کے بارے میں کتنی عمدہ با ت کہی ہے:’’ جو اسلام میں داخل ہو ا وہ قلعہ میں داخل ہوا‘ جو مسجد میں داخل ہو ا وہ دو قلعوں میں داخل ہوااور جو اﷲ کا ذکر کرنے والی مجلس میں بیٹھا وہ تین قلعوں میں داخل ہوگیا‘‘۔(الوابل الصیب )
ذکر دلوں کی زندگی اور غفلت ان کی موت ہے۔ ذکر سے دلوں کو حقیقی ایمان کی زندگی ملتی ہے اور اﷲ کے ساتھ دائمی تعلق قائم ہوتا ہے۔ حضور ؐ سے روایت ہے:’’ اپنے رب کو یاد کرنے والے اور اسے یاد نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے‘‘ (بخاری)۔ مسلم کی روایت ہے:’’اس گھر کی مثال جس میں اﷲ کا ذکر ہوتا ہے زندہ کی ‘ اور جس گھر میں ذکر نہیں ہوتا مردہ کی ہے‘‘۔ گھرکے زندہ اور مردہ سے مراد گھر کے رہنے والے ہیں۔ ذاکر کے زندہ ہونے کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ وہ نور حیات سے مزین ہے‘ اور اس کا باطن نور معرفت سے‘ جب کہ ذکر نہ کرنے والوں کے گھر ظاہری طور پر بنجر اور باطنی طو رپر ویران اور تاریک ہوتے ہیں۔
جب دل زندہ ہوتا ہے تووہ ایما ن کے ساتھ آباد ہوتا ہے اور اسی وجہ سے نصیحت اس پر اثر انداز ہوتی ہے اور یاد دہانی اسے فائدہ دیتی ہے‘ وعدہ اسے طمع اور ترغیب دلاتا ہے اور وعید اسے خوف دلاتی ہے۔پس وہ زندگی میں کامل اور بڑا اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ:
(الف) وہ نرم ہوتا ہے نہ کہ سخت۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَ قُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ (الزمر ۳۹:۲۳) ’’اﷲ کا ذکر(قرآن مجید) سن کران لوگوں کے جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اﷲ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں‘‘۔ اور جس کا دل سخت ہوا اور وہ اسی حال میں مر گیا ‘ اس کے بارے میں اﷲ کا فیصلہ ہے: فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِّنْ ذِکْرِ اﷲِ (الزمر۳۹:۲۲) ’’تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اﷲ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے‘‘۔ایک شخص نے حسن بصریؒ سے کہا ’’اے ابوسعید !میں تم سے اپنے دل کی قساوت کی شکایت کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے کہا:’’اسے ذکر سے پگھلاؤ۔ یہ اس لیے کہ دل میں جتنی شدید غفلت ہوتی ہے ‘ اتنی ہی شدید اس میں سختی آتی ہے اور جب اس میں اﷲ کی یاد آتی ہے تویہ قساوت تحلیل ہوجاتی ہے‘‘۔
بے شک قرآن کریم زندہ دلوں کوتحریک دیتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَوا اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیَاتُہ‘ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (الانفال۸:۲) ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اﷲ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اﷲ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ‘ اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں‘‘۔بلکہ ذکر کا اثر بہت بڑا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہ‘ خَاشِعاً مُّتَصَدِعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اﷲِ (الحشر۵۹:۲۱) ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اﷲ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے ‘‘۔
(ب) وہ یاد رکھنے والا نہ کہ بھلا دینے والا اور غور وفکر کرنے والا نہ کہ غفلت شعار ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُ ولِی الاَلْبَابِo اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(آل عمران۳:۱۹۰-۱۹۱) ’’زمین اور آسمانوں کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے‘ بیٹھتے اور لیٹتے‘ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) ’’ پروردگار‘ یہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے‘ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔پس اے رب‘ ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘۔ جب اس نے عظمت تخلیق دیکھی تو اس نے خالق کو یاد کیا‘ اس کی تسبیح بیان کی‘ اسی کے بارے میں غور وفکر کیا اور نتیجتاً دل کی گہرائیوں سے توجہ اورعجز و نیاز کے ساتھ ا س کو یاد کیا۔پھر اس کے حضور میںآتش دوزخ کے عذاب سے بچنے کی دعا اور گریہ وزاری میں مشغول ہوا۔ ذکر کی بدولت زندہ ہونے کی تاثیر سے جس کے دل کی یہ کیفیت ہو تواس کا دل علم و عمل اور فہم و ادراک کی بہترین حالت میں ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَاتَّقُوا اللّٰہَط وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہَط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ (البقرہ ۲:۲۸۲) ’’اﷲ کے غضب سے بچو ‘ وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے‘‘۔
پس جس نے اپنے رب کا ذکر کیا اس کا دل پاک و صاف ہو گیا‘ اس کا فہم بڑھ گیا ‘ اﷲ نے اس کے علم و فہم میں اضافہ کر دیا حتیٰ کہ اس کا دل صفائی اورشفافیت میں اس درجہ کو پہنچ گیا کہ وہ حق و باطل میں تفریق کر سکتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (الانفال۸:۲۹) ’’اے لوگو‘ جوایمان لائے ہو‘ اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اﷲ تمھارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمھاری برائیوں کو تم سے دور کرے گا اور تمھارے قصور معاف کرے گا‘ اﷲ بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔ لیکن وہ جس کا دل مردہ ہو گیا وہ فہم و ادراک سے محروم ہو گیا کیوں کہ دل دو چیزوں ‘ غفلت اور گناہ سے زنگ آلود ہوتا ہے‘ اور اس کی جِلا دو چیزوں‘ استغفار اور ذکر سے ہوتی ہے۔ پس جو اکثر اوقات غفلت میں رہتا ہوتواس کے دل پر زنگ تہہ بہ تہہ چڑھ جاتا ہے اور وہ زنگ اس کی غفلت کی نسبت سے ہوتا ہے۔ اور جب دل زنگ آلود ہو جاتا ہے توا س میں معلومات کی صورتیں اپنی اصلی حالت میں منعکس نہیں ہوتیں ۔ وہ باطل کو بصورت حق دیکھتا ہے اور حق کو بصورت باطل۔ کیوں کہ تہہ بہ تہہ زنگ سے دل تاریک تر ہو جاتا ہے اور اس میں حقائق کی صورتیں اصلی حالت میں نہیں آتیں ۔ پس جب دل پر تہہ بہ تہہ زنگ چڑھ گیا اور وہ بہت سیاہ اور میلاکچیلا ہو گیا توا س نے اس کے فہم و ادراک کوروک دیا۔(الوابل الصیب ‘ ص ۸۹)
ذاکر‘ ذکر کے ساتھ اپنے رب کی بندگی کی حقیقت اور اس سے استعانت کی طلب کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے‘ کیوں کہ اذکار کے الفاظ اﷲ کی عظمت کا اقرار ‘ اور اس کی نعمتوں پر اس کی حمد اور اس کی توحید کا اعلان کرتے ہیں۔ جب ذاکر کہتا ہے : سبحان اﷲ والحمد للّٰہ ولا اِلٰہ الا اﷲ واﷲ اکبر ‘تو اس کو اس کا شعور بھی ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے اپنے رب کو واحد باور کیا‘ اس کی تعظیم کی تو وہ اس کی جناب میں اپنے فقر کا شعور رکھتا ہے ‘اور اپنے آپ کو اس کے حضور میں گرا پڑامحسوس کرتا ہے اور اس کی مدد کا طلب گار ہوتا ہے۔ اگر دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو ذاکر ہر طرح کے حالات میں ذاکر ہوتا ہے ‘ نتیجتاً وہ ہر عمل کی ابتداء میں یا حالات کے بدلنے پر اﷲ کو یاد کرتا ہے تواسے اپنی حاجت یاد آ جاتی ہے جس کے لیے وہ اﷲ سے مدد کی درخواست کرتا ہے‘مثلاً جب وہ گھر سے نکلتا ہے تواس موقع کے لیے ایک ذکر ماثور ہے۔ جب اس نے ذکر کے وہ الفاظ کہے تواسے اپنے رب سے اپنی حفاظت اور اپنے رزق کے لیے مدد مانگنا یا د آگیا اور جب وہ کسی موٹر کار یا کسی جانور پر سوار ہوا اور ا س نے اﷲ کا زبان سے ذکر کیا تو اس کے دل میں اﷲ کی یاد آگئی اور اسے اپنی حاجت کے لیے اﷲ سے مدد مانگنے کا خیال آگیا‘ اور اسی طرح سے جب اس نے لباس پہنایا اسے اتارااور جب وہ سویا یا بیدار ہوا تو اس نے اﷲ سے استعانت کی حاجت محسوس کی۔
ہم بسم اﷲ کی واضح مثال لیتے ہیں جس کاہرکام کے آغاز میں پڑھنا نبی ؐ کی حدیث کی روسے مستحب ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا:’’ہر وہ عمل جو بسم اﷲ سے شروع نہ کیا گیا وہ بے برکت ہوا‘‘۔ اعمال کے آغاز میں‘ نیز کثیر اذکار میں بسم اﷲ وارد ہے۔پس کھانا کھانے کے وقت بسم اﷲہے‘ گھر میں داخل ہونے اور نکلنے کے وقت بسم اﷲ ہے اور اس کے دو معانی ہیں:
۱- جب بندے نے کہا بسم اﷲ تواس کو اپنا خالق و مالک یاد آیا اور یہ کہ وہ عاجز بندہ ہے جومسلسل اﷲ کا ذکر کرتا اور اسی کا نام لیتا رہتا ہے اور اس کے فضل کااعتراف کرتا رہتا ہے۔ دنیا میں لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر معاملے میں اپنے مالک کا ذکرکرتے رہتے ہیں۔ فرد کا نام اس کے مالک کے نام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ اعلیٰ مثال تو اﷲ ہی کی ہے۔پس اے انسان! تو بندگی میں اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اﷲ کے نام کے ساتھ لوگوں سے مخاطب ہو۔
۲- بسم اﷲ کہنے میں اللہ کی مدد کی طلب بھی ہے۔جس طرح کہ کھانے کے وقت جب بندہ کہتا ہے کہ میں اﷲ کے نام کے ساتھ کھاتا ہوں اور نکلنے کے وقت وہ کہتا ہے کہ میں اﷲ کے نام کے ساتھ نکلتا ہوں‘ تواس کے اندر بھی مدد کی طلب پائی جاتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ بندے کے لیے مصائب برداشت کرنے اور آزمایشوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اﷲ کا ذکر بہت بڑی تاثیر کا حامل ہے۔ مصیبت کے وقت وہ کہتا ہے: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ(البقرہ۲:۱۵۶) ’’ہم اﷲ ہی کے ہیں اور اﷲ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ تو ا س کے نفس کو سکون اور دل کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔ اس کی عزیمت قوی اور اس کی ہمت بلند ہو جاتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اﷲ کا ذکر مشکل کو آسانی‘ تنگی کو فراخی اور مشقت کو خفیف کر دیتا ہے۔ اﷲ کا ذکر شدت کے بعد خلاصی‘ تنگی کے بعد فراخی‘ رنج و غم کے بعداس سے رہائی ہے۔ وہ ذاکر کو قوت مہیا کرتا ہے۔ ذکر کے ساتھ وہ وہ کچھ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے جو اس کے بغیر نہیںکرسکتا۔ (الوابل الصیب‘ص ۱۶۳)
جب حضرت فاطمہؓ بنت محمد ؐنے اپنے والد گرامی جناب رسولؐ اﷲ سے گھر کے کام میں معاونت کے لیے خادم مانگا تو آنحضورؐنے انھیں اور ان کے شوہر حضرت علیؓ سے فرمایا:’’کیا تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمھارے لیے خادم سے بہتر ہے؟ جب تم بستر پر لیٹو تو اﷲ کی تسبیح ۳۳ مرتبہ‘ تحمید ۳۳ مرتبہ اور تکبیر ۳۴ مرتبہ کرو۔ یہ تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے‘‘(متفق علیہ)۔
اﷲسبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِاﷲِ ط اَلاَ بِذِکْرِ اﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد۱۳:۲۸) ’’جنھوں نے نبیؐ کی دعوت کو مان لیا‘ان کے دلوں کو اﷲ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہنا اﷲ کی یاد ہی وہ چیزہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے اطلاع ہے کہ وہ اپنے دلوں کو اﷲ کے ذکر سے مطمئن کریں۔ وہ دلوں کے قلق و اضطراب کو زائل کر دے گا اور انھیں راحتیں اور لذتیں مہیا کرے گا۔ مزیدیہ کہ وہ اﷲ کے ذکر کے سوا کسی چیز سے مطمئن ہوتے بھی نہیں۔ کیوں کہ دلوں کے لیے ان کے خالق کی محبت ‘اس کے انس اور اس کی معرفت سے بڑھ کر کوئی چیز لذیذ نہیں۔ (تفسیر السعدی‘ج ۴‘ ص ۱۰۸)
طمانیت ‘ دل کا کسی چیز کے ساتھ سکون حاصل کرنا اوراضطراب و قلق کا خاتمہ ہے۔ (تہذیب المدارج‘ ص ۵۰۳)۔ ذاکر کا سکونِ قلب خوش حالی و بدحالی ‘تنگی و فراخی ہر حال میں دائمی ہے۔
اگر ذکر سے یہاں مراد قرآن کریم ہے توقرآن وہ ہے جس سے اہل ایمان کے دلوں کو طمانیت حاصل ہوتی ہے۔دل ایمان اور یقین کے بغیر مطمئن نہیں ہوتے اور ایمان و یقین کے حصول کا کوئی راستہ قرآن کریم کے علاوہ نہیں ہے۔ دل کا سکون اور اس کی طمانیت یقین سے ہے‘ جب کہ اس کا اضطراب اور قلق شک سے ہے۔ پس جس نے قرآن سے تعلق پیدا کر لیا تو اس سے اسے عقل کا اطمینان ‘نفس کی سکینت میسر آئی اور اس کے دل نے ایمان و یقین کے ساتھ سکون پا لیا۔
اﷲ تعالیٰ کا ذکر‘ ذاکرین کے افعال اور ان کے معمولات میں برکت پیدا کرتا ہے۔ ذکر منعم کی نعمت اور رازق کی عطا پر دل و دماغ میں اس کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ذکر منعم کے شکر اور اس کی حمد پرمشتمل ہے۔جس نے اﷲ کی نعمت کا اقرار کیا اور اس پر اس کا شکر ادا کیا تو اﷲ تعالیٰ نے وہ نعمت ا س کے لیے محفوظ فرما دی بلکہ اس میں اضافہ فرمایا جیسا کہ اﷲ عزوجل کا ارشاد ہے: لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم۱۴:۷) ’’ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔
امام مسلم کی صحیح روایت کردہ حدیث پر غور کرو کہ حضورؐ نے فرمایا:’’ اﷲ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ بندہ جب کھانا کھاتا ہے توا س پر اﷲ کی حمد بیان کرتا ہے اور جب کوئی مشروب پیتا ہے تو اس پر اﷲ کی حمد بیان کرتا ہے‘ اور یہ سب کچھ کھانا اور پینا اسے کھلانے ‘ پلانے‘ عطا کرنے والے کی یاد دلاتا ہے۔‘‘ پس وہ منعم کی عظمت کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے ہوئے اور اس کی نعمت کی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتے ہوئے جو کہ اس نے انسانوں کے لیے آسان فرما دی ہے‘ اس کی حمد و شکر کے ساتھ اپنی زبان کو تر رکھتا ہے۔
پانی ہی کو لیجیے جو ایک نعمت ہے ۔ اگر انسان کو ا س سے محروم کر دیا جائے تواس کی کتاب زندگی کا آخری صفحہ آجائے اور وہ دنیا کو چھوڑ جائے۔ پانی کا ایک پیالہ شدید پیاس کی حالت میں پوری دنیا کے برابر ہے‘ توپھر ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم نہ تو اﷲ کی حمد بیان کرتے ہیں اور نہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں! کیا اس کی تذکیر و تنبیہ ہماری آنکھیں نہیں کھولتی؟ اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط وَھُوَ الَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (الملک۶۷:۱۴) ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟ حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔ کیا ہم اس کی تحذیر سے نہیں ڈرتے؟ اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَo لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنَاہُ اُجَاجًا فَلَوْ لاَ تَشْکُرُوْنَ(الواقعہ۵۶:۶۸-۷۰) ’’کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا‘ یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تواسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں‘ پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟‘‘
ذکر سے برکت حاصل ہوتی ہے‘ جب کہ اس کو مٹانے والی چیز کو روک دیا جائے اور ابلیس کے تسلط اور کھانے پینے میں شرکت سے تحفظ حاصل کرلیاجائے۔حدیث میں ہے:’’ شیطان آدمی کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ کھانے پینے میں حصہ دار بن جاتا ہے‘جب کہ اسے وہاں سے ہٹانے والا کوئی ذکر نہ ہو‘ روکنے والا کوئی مضبوط قلعہ نہ ہو اور اس کو رد کرنے والی کوئی دعا نہ ہو‘‘۔
بیشتر لوگ اس ذکر مسنون سے بے خبرہیں جو آدمی کو اپنی اہلیہ کے ساتھ مباشرت کے موقع پر کرنا چاہیے۔ غلبہ خواہش کے وقت اسے بھول جاتے ہیں‘ حالانکہ وہ بڑا اہم ذکر ہے۔ اﷲ نے جو اولاد ان کے مقدر میں لکھی ہو‘ اس کے حفظ و امان میں اس ذکر کی تاثیر ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے: لَوْ اَنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَاْتِیَ اَھْلَہٗ قَالَ بِسْمِ اﷲِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا فَاِنَّہٗ یُقَدَّرُ بَیْنَھُمَا وَلَدٌ لَمْ یَضُرَّہٗ شَیْطَانٌ اَبَدًا (متفق علیہ) ’’جب تم میں سے کوئی بیوی کے پاس جاتے وقت بسم اﷲ کہے اور یہ کہے ’’اے اﷲ! تو شیطان کے شرسے ہمیں بچا اور جو اولاد ہمیں عطا کرے اسے بھی بچا تو اگر ان کے بچہ مقدر ہوگا تو شیطان اس کو کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا‘‘۔ اس حدیث میں مذکور اس حفاظت کے معانی میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیطان اس پر اﷲ کے نام کی برکت کی وجہ سے کبھی غالب نہ آئے گا۔ اس میں وہ سارے بندے پیش نظر ہیں جن کے متعلق کہا گیا ہے: اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ اِلاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ(الحجر۱۵:۴۲) ’’بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ تیرا بس تو صرف ان بہکے ہوئے لوگوں پر ہی چلے گا جو تیری پیروی کریں‘‘۔
اجر و ثواب کے ان عظیم فوائد اور آثار پر غور کرو‘ نیز حفظ و سلامتی‘ زندگی اور علم ‘ برکت اور نعمت‘ عبودیت اور استعانت اور جو اس سے بھی عظیم تر ہے اس پر غور کرو۔
کیا تم اپنے نفس کے لیے بخل کرنے اور اسے ان بھلائیوں اور برکتوں سے محروم رکھنے پر راضی ہو؟ کیا تم اجر سے بے نیا زہو کر ذکر کو ترک کر دو گے‘ جب کہ وہ اجرکا بڑا ذریعہ اور سبب ہے؟
تم کیسے اپنے نفس کو شیطان کی تیر اندازی اور اپنے دل کو اس کے غلبے کے لیے کھلاچھوڑ دو گے‘ جب کہ تم ذکر کرنے والوں میں سے نہ ہوئے؟ اور تم اپنے دل کے روگ اور اس کی موت کا احساس نہ کرو گے‘ جب تم منکر پر نکیر نہ کرو گے اور اﷲ کی حرمات کی حفاظت کے حریص نہ بنو گے؟
تم کیسے اپنے ضعفِ فہم اور قلت ِعلم کی طرف توجہکرو گے‘ جب کہ تم غافل رہو گے؟اور تم کیسے اپنے خالق ‘ اپنے مالک ‘ اپنے رازق اور نعمتوں کے عطا کرنے والے کے ذکر سے غافل بنوگے؟ بلاشبہہ ان میں سے کوئی چیز بھی تمھیں پسند نہیں بلکہ تم ان سب سے پناہ مانگتے ہو۔ لہٰذا ذکر کی طرف بڑھو‘ اس کے خواہش مند بنو اور اس میں سے مسنون اذکار حفظ کر لو‘ ان کے ساتھ اپنے دل کو متحرک کرو اور اپنی عقل کو ان میں مشغول رکھو‘ اور اپنی زبان کو ان کے ساتھ تر رکھو تاکہ تم ذاکرین میں شمار کیے جاؤ اور علیین میں اٹھائے جاؤ۔
ذکر کی اس تاثیر اور اجر کے ساتھ کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جو ان کو اختیار کرنے میں مددگار ہیں۔
ذکرسہل ہے ‘مشکل نہیں۔ وہ کسی بدنی عمل کا محتاج نہیں اور نہ ذہنی کاوش ہی کا۔ وہ استحضار قلب اور تعاون نفس کے ساتھ زبان سے ادایگی ہے‘ جب کہ دوسری عبادات میں بڑی محنت ہوتی ہے۔ رمضان کے روزوں میں بھوک و پیاس کی مشقت ہوتی ہے۔ زکوٰۃ میں بذل و انفاق کی نفسیاتی مشقت ہوتی ہے۔ حج میں سفر اور مناسک کی ادایگی میں بدنی مشقت ہوتی ہے۔ مگر ذکر سب سے زیادہ آسان عبادت ہے اور پھر وہ ان میں سے برتر و افضل بھی ہے‘ جب کہ وہ زبان کی حرکت ‘اعضا و جوارح کی حرکات میں سے سب سے ہلکی اور آسان ہے۔(الوابل الصیب‘ ص ۹۷)
مزید برآں ذکر کی کوئی شرائط نہیں ہیں‘ مثلاً نماز کے لیے وضو اور وقت کا ہونا ناگزیر ہے‘ اور حج کے لیے بیت اﷲ کا قصد ضروری ہے‘ اورزکوٰۃ سال میں صرف ایک بار ہے‘ اور روزوں کے لیے رمضان کا چاند نظر آنا ضروری ہے لیکن ذکر میں اس طرح کی کوئی قید نہیں۔ وہ جملہ عبادات میں سے سب سے زیادہ آسان ہے جس میں کوئی محنت و مشقت نہیں۔عبید بن عمیر نے اس بارے میں کہا ہے:’’اگر یہ رات تم پر بھاری ہے کہ تم اس کی مشقت جھیلو‘ اور اگر تم نے مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ہے‘ اور اگر تم دشمن خدا سے لڑنے سے اجتناب کرتے ہو توکثرت سے اﷲ عزوجل کا ذکر کرو۔‘‘
ذکربلا قید دن اور رات کے تمام اوقات پر مشتمل ہے۔ فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِھَا ج وَمِنْ اٰنَآئِ اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی (طٰہٰ۲۰:۱۳۰) ’’پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو‘ اور اپنے رب کی حمد وثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو‘ سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروںپر بھی‘ شاید کہ تم راضی ہوجاؤ‘‘۔ا س کی ادایگی ہر جگہ اور ہر حال میں بیٹھے‘ کھڑے اور لیٹے کی جاسکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں‘‘(آل عمران۳:۱۹۱) ۔ اس طرح کا کوئی اور عمل نہیں ہے جس میں اوقات واحوال کی عمومیت پائی جاتی ہو۔ (الوابل الصیب‘ص ۱۰۸)
اس مرحلے پر ہم رسولؐ اﷲ کے معمول مبارک سے متعارف ہوتے ہیں کہ حضور ؐ ہر حال میں اﷲ کا ذکر کرتے تھے۔ اور ذکر میں تنوع وہ خصوصیت ہے جو بہت سارے اذکار مسنون کے ضمن میں نمایاں ہے۔دعاے استفتاح میں رسولؐ اﷲسے متنوع صورتیں وارد ہیں اور صبح و شام کے بہت سے اذکار ہیں جن میں سے بعض دوسروں سے بے نیا زکردیتے ہیں۔
ذکر جس میں قلب زبان کے ساتھ ہوتا ہے‘ نفس پر اس کی عظیم اور براہ راست تاثیر ہوتی ہے‘ اس لحاظ سے کہ وہ زبان کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے ۔جس پر کوئی مصیبت آپڑی اور اس نے کہا: انا للّٰہ وانا الیہ راجعون اور لا حول و لا قوۃ الا باﷲ تواس نے شرح صدر اور اطمینان قلب محسوس کیا اور اﷲ تعالیٰ کے فیصلے اور اس کی تقدیر پر اپنی رضا کا اظہار کیا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تم مجھے یاد رکھو میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو‘ کفران نعمت نہ کرو ۔ اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو‘‘(البقرہ۲:۱۵۲-۱۵۳) ۔اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت ہر مصیبت میں جاے پناہ اور ہر تکلیف میں موجب راحت ہے۔
ذکر کی کئی قسمیں ہیں۔ ابن القیم ؒ نے کہا ہے:’’ذکر کی تین قسمیں ہیں: وہ ذکر جس میں دل زبان کا رفیق ہو‘ وہ سب سے اونچا درجہ ہے۔ اور دل کے ساتھ ذکر اس کا دوسرا درجہ ہے۔ اور صرف زبان سے ذکر اس کا تیسرا درجہ ہے۔‘‘(تہذیب المدارج‘ ص ۴۶۷)
ابن حجر ؒنے کہا ہے: ’’ ذکر بعض اوقات زبان سے ہوتا ہے اور اس پر ذاکر کو اجر دیا جاتا ہے اور اس کے معانی کا استحضار شرط نہیں ہے۔ لیکن وہ اس سے مشروط ہے کہ اس کا مقصود اس کے معنی کے علاوہ کچھ اور نہ ہواور اگر الفاظ کے ساتھ دل کو ملا لیا جائے تو وہ کامل ترہے۔ اگر زبان وقلب کے ساتھ معنی کو جمع کر لیا جائے اور وہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت پر مشتمل ہو اور اس کے نقائص سے مبرا ہو تو اس کے کمال میں اضافہ ہو جائے گا‘اوراگر یہ ذکر نماز اور جہا دجیسے دیگر فرائض میں واقع ہو تواس کا کمال اور بڑھ جائے گا۔ اگر اس میں توجہبھی درست ہو اور نیت بھی خالصتاً اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو توکمال آخری حد کو پہنچ جائے گا‘‘(الفتح ‘ج ۱۱‘ ص ۲۰۹)۔
فخرالدین رازیؒ نے کہا ہے: ’’ زبان کے ذکر سے مراد وہ الفاظ ہیں جو اﷲ کی تسبیح‘ تحمید‘ تکبیر اور تمجید پر دلالت کرتے ہوں ۔ دل کے ساتھ ذکر‘ اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات کے شواہد میں غور و فکر کرنا ہے۔ اﷲ کی تخلیق کے آثار میں غور و فکر‘ نیز اوامر و نواہی کے دلائل میں سوچ بچار‘ حتیٰ کہ بندہ ان کی حکمت سے آگاہ ہو جائے ۔ اعضاے جسمانی کے ساتھ ذکر دراصل طاعات میں شدتِ انہماک ہے‘‘۔ (الفتح ‘ ج۱۱‘ ص ۲۰۹)
ابن القیم ؒنے کہا ہے:’’ذکر کی تین قسمیں ہیں:ثنا‘ دعا اور رعایت۔ ذکرِ ثنا یوں ہے : سبحان اﷲ والحمد للّٰہ ولا اِلٰہَ اِلاَّ اﷲ واﷲ اکبر۔ ذکرِ دعا: رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(الاعراف ۷:۲۳)’’اے رب ‘ ہم نے اپنے اوپر ستم کیا اور اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم گمراہ ہو جائیں گے‘‘۔ یاحی یاقیوم برحمتک استغیث۔ا ور جہاں تک ذکرِ رعایت کا تعلق ہے تو وہ ذاکر کے اس قول کے مثل ہے: اللھم معی‘ اللّٰہ ناظر علی ‘ اﷲ شاھدی‘ اور اس طرح کا ذکر جس سے اﷲ کے ساتھ حضوری کی تقویت استعمال کی جاتی ہے ۔ اور اس میں دل کی اصلاح کی رعایت ہو‘ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ادب کی حفاظت‘ اور غفلت اور شیطان اور نفس کی برائی سے اجتناب ہو۔ (تہذیب المدارج‘ ص ۴۶۸)
]اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے فرمایا: ’’اے نبیؐ، اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو۔ دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ (الاعراف ۷:۲۰۵)
یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی‘ خواہ وہ زبان سے ہو یا خیال سے۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں اور ان اوقات میں اللہ کی یاد سے مقصود نماز ہے‘ اور صبح و شام کا لفظ ’’دائماً‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہنا ہے… اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ تمھارا حال کہیں غافلوں کا سا نہ ہوجائے۔ دنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو فساد بھی رونما ہوا ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ خدا اُس کا رب ہے اور وہ خدا کا بندہ ہے اور دنیا میں اُس کو آزمایش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہوگا۔ پس جو شخص راہِ راست پر چلنا اور دنیا کو اُس پر چلانا چاہتا ہو اُس کو سخت اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھول کہیں خود اُس کو لاحق نہ ہو جائے۔ (تفہیم القرآن‘ ج۲‘ ص ۱۱۴-۱۱۵)[
]ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ’’یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے‘‘۔ (النحل ۱۶:۴۴)
تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی‘ اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کرکے بھی‘ اور ’’ذکرِالٰہی‘‘ کے منشا کے مطابق اُس کے نظام کو چلا کر بھی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازماً ایک انسان ہی کو پیغمبر بناکر بھیجا جائے۔ ’’ذِکر‘‘ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچایا جا سکتا تھا۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت و ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ’’ذکر‘‘ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے۔ وہ اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنھیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے۔ جنھیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں اُن کے مقابلے میں وہ اُس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جواِس ’’ذکر‘‘ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انھیں زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے‘ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے‘ اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام ’’ذکر‘‘ کے منشا کی شرح ہو۔ (ایضاً‘ ص ۵۴۳)[
تم نے دیکھ لیا ہے کہ ذکر میں کتنی بھلائیاں ہیں۔ وہ کتنا سہل و آسان ہے۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ اوقات کے حوالے سے اس میں کتنی وسعت ہے؟
عظیم نعمتیں ہیں جو اﷲ نے ہماری طرف بھیجی ہیں‘تو کیا ہم ان سے غافل رہیں اور محرومین میں سے ہو جائیں؟ ہماری زندگی میں غفلت ‘ اچانک وارد ہو نے والا خطرہ ہے۔ دل بہلاوے اور اکتاہٹیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ جھوٹ اور گھٹیا کلام ‘ ناجائز دولت‘گستاخ شاعری‘ غیبت کی اشاعت ‘چغلی کی کثرت‘ باہمی گالی گلوچ اور بڑی برائیوں کے ساتھ زبان درازی کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے اور اس سب کچھ نے قلب کے نور کو بجھا دیا ہے اور اس کی قساوت کو بڑھا دیا ہے۔بلائیں بڑھ گئی ہیں اور مصیبتیں شدید ہو گئی ہیں‘ جب کہ اﷲ کے سوا انھیں کو ئی دور کرنے والا نہیں۔
غفلت بلا شبہہ دنیا میں بیماری ہے ‘اور آخرت میں ندامت و بدبختی۔ رسولؐ اﷲ نے فرمایا: ’’جو لوگ بیٹھے اور اس نشست میں اﷲ کا ذکر نہیں کیا تو یہ نشست ان کے لیے حسرت اور خسران کا باعث ہوگی۔ اﷲ چاہے گا تو سزا دے گا اور چاہے گا تو معاف فرما دے گا‘‘ (ترمذی) ۔ افسوس اور حسرت ہے غفلت شعاروں پر!..
ذکر کی مجالس فرشتوں کی مجالس ہیں اور غفلت کی مجلسیں شیطان کی مجلسیں ہیں‘اور جس کی جس کے ساتھ نسبت ہے وہ اسی کی مثل ہے(الوابل الصیب‘ص ۱۵۸)۔ تم دونوں میں سے کس فریق کے ساتھ ہونا چاہتے ہو؟
آخرمیں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا قول ہے :’’ذکر دل کے لیے ایسا ہی ہے جیسا مچھلی کے لیے پانی۔ مچھلی جب پانی سے جدا ہوتی ہے تواس کا کیا حال ہو جاتا ہے ؟ (الوابل الصیب‘ ص ۹۳)۔ یہ وہ معروف سوال ہے جس کا جواب ہے:’’ احتیاط‘غفلت سے احتیاط‘ اور اﷲ ہی اﷲ کا ذکر ‘‘۔
بعید نہیں کہ اﷲ ہمیں ذاکرین میں سے بنا دے اور ذکر کی بدولت ہمارے اجر بڑھا دے ‘اس کے لیے ہمارے سینوں کو کھول دے اور اس کے باعث ہمارے رنج و غم مٹا دے اور اس کے ساتھ ہماری روحوں کو راحت حاصل ہو!
اے اﷲ! تُو اپنے ذکر ‘ اپنے شکر اور اپنی بہترین عبادت میںہماری مدد فرما۔
(المجتمع ‘ شمارہ ۱۴۸۳-۱۴۸۵)
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۶ روپے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)
حج کی طرح‘ حج کی تیاری بھی ایک پورا عمل ہے۔ ساری ساری عمر تمنا کرنا‘ دعائیں کرنا‘ یہ بھی تیاری ہے۔ اس تیاری کی کیسی کیسی مثالیں علم میں آتی ہیں‘ پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ساری ساری عمر لوگ زادِ راہ جمع کرتے ہیں‘ رو رو کر دعائیں کرتے ہیں کہ خانہ کعبہ اور روضۂ رسولؐ کی زیارت نصیب ہو۔ اس کے خواب دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔
ایک وقت گزرا کہ قرعہ میں نام نہ نکلنے پر صدمے کی کیفیت ہوتی تھی کہ ابھی بلاوا نہیں آیا اور اگلے سال کا انتظار شروع ہو جاتا اور یوں تیاری جاری رہتی تھی۔
بحری جہاز سے حج کی صورت میں آٹھ دس دن بڑی ہمہ گیر‘ ہمہ وقتی تیاری کا موقع ملتا تھا۔ حج کے سفرناموں میں اس کا خوب بیان ملتا ہے۔ پابندی سے نمازیں‘ ذکرواذکار کی مجالس‘ دعائیں‘ توجہ‘ شوق --- یہاں تک کہ جدہ کا ساحل نظر آجائے اور شوق کی بے تابیاںاگلے مراحل کے لیے فزوں تر ہو جائیں۔
یوں‘ حج کے لیے سفر کی مدت کا طول بھی تیاری کا حصہ بن جاتا ہے۔ نائیجیریا سے آئے ہوئے ایک دوست نے بتایا کہ ایک زمانے میں سفر اتنے ماہ لیتا تھا کہ کسی کو دوسرے سال حج کرنا ہو تو وہ ادھر ہی رک جاتا تھا۔ جانے آنے میں چھ چھ ماہ لگ جاتے تھے۔ عبدالماجد دریابادی کے حج نامے میں ۱۹۲۹ء میں مناسک حج کے لیے نقل و حرکت کا ذریعہ اُونٹنی بیان ہواہے۔
وقت بدلنے کے ساتھ‘ سفر مختصر ہوتا گیا۔ اس سے تیاری کا‘ یعنی کیفیت سے گزرنے کا عمل متاثر ہوا ہے۔ بحری جہاز کا سفر غیر مقبول ہوا اور بالآخر ختم ہوگیا۔ اب حاجی چند گھنٹے اس کیفیت میں گزار کر‘ ہوائی جہاز میں سوار ہو کر چند مزید گھنٹوں کے بعد جدہ پہنچ جاتا ہے۔ ہفتوں اور مہینوں خاص کیفیات میں گزارنے کا تاثر چند گھنٹوں میں تو‘ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے لیے بارش کی مثال دی ہے کہ زمین پر برستی ہے لیکن ہر حصہ اپنی کیفیت اور قوت نمو کے لحاظ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ چٹیل چٹان پر سے تو پانی گزر ہی جاتا ہے۔ اسی طرح حج کی مثال ہے۔ لاکھوں افراد دنیا کے کونے کونے سے جاتے ہیں‘ کئی کئی دن اکٹھے گزارتے ہیں‘ رحمت و مغفرت کی بارشیں جاری رہتی ہیں لیکن ہر ایک اپنے ظرف کے لحاظ سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یقینا کچھ ضرور ایسے ہوں گے‘اللہ کرے سب ہوں‘ جو ایسے معصوم ہو جاتے ہیں جیسے آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔ اس کا انحصار بڑی حد تک تیاری پر ہے۔
اب تیاری خود سے ارادہ کر کے‘ مصروفیات اور زندگی کے ہنگاموں سے وقت نکال کر کرنا ہوگی۔ تربیت حجاج کے کسی پروگرام میں شرکت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن آخری بلکہ اولین بنیادی بات وہی کہ تیاری تو آپ کو خود ہی کرنا ہے‘ خود ہی پروگرام بنانا ہے‘ خود ہی عمل کرنا ہے--- آخر حج بھی تو آپ خود ہی کر رہے ہیں!
تیاری کے سلسلے میں دو اہداف ہونا چاہییں۔ مناسک ِ حج کے لیے تیاری‘ جو ۷ذی الحجہ سے شروع ہوتے ہیں‘ اور مکہ مدینہ کی سرزمین پر ۳۰‘ ۳۵ دن قیام کا جو موقع ملنے والا ہے‘ اس کے لیے تیاری--- تاکہ وہاں کا ہر ہر لمحہ استعمال ہو۔اس مقصد سے‘ جب سے بنکوں میں رقم جمع ہوتی ہے‘ کچھ نہ کچھ تیاری شروع کی جا سکتی ہے۔
جب میں حج کرنے گیا تو میرا خیال تھا کہ میرا کام مکہ مدینہ پہنچنا اور خانہ کعبہ دیکھنا اور طواف کرنا ہے‘ باقی اس دوران کی کیفیات --- جس کا حال سفرناموں میں پڑھا تھا غالباً خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے طاری کی جائیں گی‘ یعنی وہاں جا کر خود بخود طاری ہو جائیں گی۔ معلوم نہیں‘ میں کوئی خاص گنہگار تھا‘ یا سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ حرم میں بیٹھ کر بھی‘ راہوار خیال کو جہاں چاہے لے جا سکتے ہیں۔ شیطان زیادہ طاقت سے زور آزمائی کرتا ہے کہ اللہ کو بتائے کہ دیکھ‘ یہاں تک چل کر آنے والا بھی بہکایا جاسکتا ہے۔ ہر طرح کے ملک ملک کے مناظر وہاں نظر آتے ہیں اور آپ جہاں چاہیں اپنے کو لے جا سکتے ہیں۔ اور حرم سے ذرا باہر نکلیں تو فٹ پاتھ‘ دکانیں‘ ہوٹل--- پورا بین الاقوامی بازار سجا سجایا--- جتنے گھنٹے چاہیں گزاریں‘ جو چاہیں خریدیں--- یوں آزمایش تو بڑھ جاتی ہے۔ خیال تھا کہ یہاں پہنچ گئے تو سب کام آسان ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں پایا۔ اس لیے تیاری کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
تیاری کی پہلی شق یہی ہے کہ پہلے دن سے نیت کو خالص کیا جائے اور پھر کوشش کر کے دورانِ قیام اور دورانِ مناسک حج خالص رکھا جائے۔ ہرشخص خود ہی جائزہ لے کر معلوم کر سکتا ہے کہ نیت میں کہاں‘ کس طرح کا کھوٹ ہے‘ یا آ سکتا ہے۔ اس کی پیش بندی کرے‘ عملی تدابیر کرے اور اللہ سے دعا بھی کرے کہ سارا سفر‘ محنت‘ خرچ محض دوڑ بھاگ ہی نہ ثابت ہو۔
دورانِ قیام کی ایک اہم سرگرمی مسجدحرام اور مسجد نبویؐ کی نمازیں‘ خصوصاً جہری نمازیں ہیں۔ دوسری ساری سرگرمیاں اس کے گرد گھومتی ہیں۔ پہلے سے ذہن میں ہونا چاہیے کہ وہاں نمازیں بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کرنا ہیں (چاہے یہاں کیسی بھی عادات ہوں)۔ اس کے لیے دو باتوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے:
ایک یہ کہ نماز کے بارے میں لٹریچر میں جو کچھ پڑھا ہے‘ اسے تازہ کر لیا جائے۔ پانچ وقت کی نماز کو ذکر کے حقیقی معانی کے ساتھ قائم کیا جائے گا تو اس کی برکات‘ اور زندگی پر اثرات بچشم سر دیکھے جا سکیں گے۔ کتابیں حاصل کر لی جائیں‘ ساتھ رکھی جائیں۔
دوسری بات‘ بہت ضروری یہ ہے کہ اگر آپ کو اتنی عربی آتی ہے کہ قرآن سنتے ہوئے اس کا مفہوم ذہن میں آتا جائے تو اپنی خوش قسمتی پر اللہ کا شکر ادا کیجیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی فکر کیجیے۔ اب بے شمار ایسے کورس چل رہے ہیں جودو تین ماہ میں اتنی شدبُد کرا دیتے ہیں کہ آپ کا یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ روزانہ دو تین گھنٹے دیں‘ تو ایک ہفتے میں بھی ہدف حاصل ہو سکتا ہے (منشورات خرم مراد کے قرآنی عربی کے ۱۵ اسباق جلد ہی شائع کرنے والا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے)۔ یہ نہ ہو کہ فجرو عشا ء میں‘ مسجد نبویؐ اور مسجدحرام کے امام قرآن کی پُرلطف ‘ وجد آفریں تلاوت کر رہے ہوں‘ قوموں کے عروج و زوال کے احوال بیان ہو رہے ہوں‘آخرت کی حقیقت اور مناظر کا نقشہ کھینچا جا رہا ہو‘ احکام الٰہی اور ان کی مصلحتیں بتائی جا رہی ہوں‘ انفس و آفاق کی آیات پر توجہ دلائی جا رہی ہو‘ آپ کے نفس کو جھنجھوڑا جا رہا ہو‘ اور آپ کو کچھ خبر ہی نہ ہو۔
نماز کی اپنی کیفیت ہے‘ لیکن معنی و مطلب کے ساتھ شعوری توجہ ہو تو افادہ ہزار چند ہو جاتا ہے۔ اپنے کو اس سے کیوں محروم رکھتے ہیں؟ جو عربی آپ سیکھیں گے‘ ساری عمر کام آئے گی۔ نمازوں کے علاوہ بھی یہاں تلاوت کا بہت موقع ملتا ہے۔ کئی کئی قرآن ختم کیے جاتے ہیں‘ یہ بامعنی ہوں توکیا کہنے!
ایک تیاری دعائوں کی ہے۔ یہ پورے اہتمام سے کریں‘ زبان کی کوئی قید نہیں لیکن قرآن کی بتائی ہوئی اور رسولؐ اللہ کی کی ہوئی دعائیں‘ آپ کے جذبات کو اور داعیات کو الفاظ کا جامہ پہنا دیتی ہیں اور جذبات کی تہذیب بھی کرتی ہیں۔ اس لیے ان کے مجموعے آپ کے پاس ہونے چاہییں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں دعائوں کے لیے بہت وقت ملتا ہے۔ آپ کے پاس جتنا بھی ذخیرہ ہو‘ کم پڑ جاتا ہے۔ آپ کوشش کرکے جمع کریں‘ یہ تیاری کا حصہ ہے۔ یاد نہ بھی ہوں تو سامنے رکھ کر‘ بیٹھ کر‘ آرام سے کی جا سکتی ہیں۔ (عربی جاننا یہاں بھی کام آئے گا)۔ یہ چار دن کا نہیں‘ مہینے بھر کا موقع ہے۔ اذکار مسنونہ (ابن قیم/ خلیل احمد حامدی) نالہ نیم شب (خرم مراد) کے علاوہ بھی آسان دعائیں اور قرآنی دعائوں کے مجموعے عام ملتے ہیں۔ دعائوں کے لیے خصوصی اوقات اور مقامات کا بیان آپ کو ہر تذکرے میں ملے گا۔
دعوہ اکیڈمی کا شائع کردہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا ۷ روپے کا ایک کتابچہ (وہاں کوئی اسلامی مکتبہ اسے ۷ریال کا فروخت کر رہا تھا!) سیرت نبویؐ دعاؤں کے آئینے میں ‘میرے ساتھ تھا۔ انھوں نے ترجمہ عبدالماجد دریابادیؒ کا نقل کیا تھا۔ ان گلیوں میں رسولؐ اللہ کا قرب آپ محسوس کرتے ہی ہیں‘ پھر آپؐ کی دعائیں‘ بہترین اُردو میں ترجمہ--- میں بیان نہیں کر سکتا کہ یہ مختصر کتابچہ میرے کتنے کام آیا!
تیاری کا ایک اہم حصہ مناسب کتب کا ساتھ رکھنا ہے۔ مطالعے کا وقت وہاں نکالیں۔ جتنا بازاروں اور گپ شپ سے بچیں گے‘ زیادہ مطالعہ کر سکیں گے (شیطان کی خصوصی کوشش ہوتی ہے کہ آپ کو اِدھر اُدھر کے کاموں میں لگائے رکھے اور اصل شغل آپ ملتوی کرتے رہیں کہ بہت وقت پڑا ہے‘ آپ پہلے ہی دن سے چوکنے رہیں‘ اس جال میں نہ آئیں) ۔خود ہی سوچیں کہ مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر حدیث کا مطالعہ‘ چند لمحات کلام نبویؐ کی صحبت میں‘ کی عملی تفسیر بن جاتا ہے۔ مکہ مدینہ کے آثار اور نشانیاں دیکھنے جائیں تو سیرت کا مطالعہ مستحضر ہونا چاہیے۔ تیاری کے ایک حصے کے طور پر اسے بھی تازہ کر لیں۔
اب آیئے اصل حج‘ یعنی مناسک ِ حج کی طرف!
یہ چار پانچ دن ہی وہ اصل دن ہیں جن کی خاطر یہ سفر کیا گیا اور حج کا فریضہ ادا کرنے کے لیے یہ تیاری کی گئی۔ اس حوالے سے ہر طرف ہدایات مہیا ہوتی ہیں‘ بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ خصوصی پروگرام ہوتے ہیں۔ حاصل یہ ہونا چاہیے کہ آپ کے ذہن میں مناسک کا پورا نقشہ‘ روز کا پروگرام تفصیل کے ساتھ آجائے۔
ایک وقت وہ بھی رہا ہوگا جب خانہ کعبہ کی تصویر بھی دیکھنے کو نہ ملتی ہوگی۔ لوگ آکر ہی دیکھتے ہوں گے۔ پھر تصویر آگئی‘ لیکن جو بات اصل کی تھی‘ وہ تصویر میں کہاں--- لیکن اب تو ہمہ وقت خانہ کعبہ کا‘ اس میں نمازیوں کا منظر ٹی وی پر اتنا نظر آتا ہے کہ پہلی دفعہ دیکھنے والی بات اب کہاں--- یہی لگتا ہے کہ جیسے دیکھی ہوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ پھر بھی خود وہاں موجود ہونے‘ اس کا حصہ ہونے‘ اپنی آنکھوں سے خانہ کعبہ کو دیکھنے‘ اپنے قدموں سے طواف کرنے‘ آبِ زم زم‘ چشمہء زم زم پر کھڑے ہو کر پینے کی لذت کیا اور کس طرح بیان کی جائے--- یقینا یہ امور بیان سے ماورا ہیں!
مناسک ِ حج سیکھنے کے لیے‘ پڑھنا بھی چاہیے‘ کسی پروگرام میں بھی شرکت کرنا چاہیے لیکن سب سے موثر کسی فلم کو توجہ سے دیکھ لینا ہے۔ آپ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ سب کیا اور کس طرح کرنا ہے۔ وہاں کوئی آپ کو بتا نہ سکے کہ اس طرح کرو۔ آپ کو صحیح بات کا علم ہونا چاہیے۔ یہ تیاری لازماً کریں‘ یہ نہ سوچیں کہ وہاں معلوم ہو جائے گا‘ کوئی نہ کوئی بتا دے گا‘ سب ہی کر رہے ہوں گے--- آپ کو اعتماد کے ساتھ علم ہونا چاہیے۔
اور آخری بات‘ جو پہلی بات بھی ہو سکتی تھی‘ یہ ہے کہ جانے سے پہلے ایک‘ بلکہ دو تین حج کے سفرنامے پڑھیں اور کیفیات سے گزریں۔ میں نے عبدالماجد دریابادیؒ صاحب کا سفرنامہ حج پڑھا اور حقیقت یہ ہے کہ بہت فائدہ اٹھایا۔ مناسک کے علاوہ‘ اس دور کے حالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ آپ اپنی پسند کے مصنف کا سفرنامہ لیں مگر پڑھیں ضرور۔
یہ تیاری کے لیے کوئی جامع امور نہیں‘ چند متفرق باتیں ہیں۔ امید ہے کہ عازمین حج انھیں مفید پائیں گے۔
تیاری کے سلسلے میں ۱۰۱ نکات بھی بیان کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہاں بعض اہم بنیادی امور کی نشان دہی پیش نظر تھی۔ جزئیات میں جائیں تو یہ بھی کام کی بات ہے کہ جوتوں کے لیے تھیلی بنوا کر لے جائیں‘ لیکن میں نے تو یہ بھی نہیں ذکر کیا کہ عرفات کا دن کتنا اہم ہے‘ منیٰ میں کیسے وقت گزارا جائے‘ مزدلفہ میں کنکریاں کیسے چنی جائیں‘ رمی جمار میں کیا احتیاطیں کریں‘ قربانی کس طرح بہتر رہے گی‘ بار بار عمرے کریں یا نہ کریں‘ طواف کا کیا لطف ہے وغیرہ۔ حج کے ہدایت ناموں میں یہ سب کچھ ملے گا۔ میری بتائی ہوئی باتوں میں کچھ فائدہ محسوس کریں تو دعائوں میں مجھے بھی یاد کر لیجیے گا (فہرست میں کہیں نام لکھ لیں) اور روضہ رسولؐ پر میرا سلام بھی پیش کر دیجیے گا۔ اللہ قبول فرمائے۔
عمومی زندگی میں ہمارے معاملات افراد‘ معاشرہ اور اداروں سے ہوتے ہیں۔ ہماری شخصیت کا اظہار ہمارے معاملات کے انداز‘ ہمارے گفتگو کے طریقے اور اس کے رویے سے ہوتا ہے۔ ہم کبھی کسی ایک فرد سے معاملہ کر رہے ہوتے ہیں‘ کبھی چھوٹے سے گروپ کے ساتھ‘ کبھی تنظیم اور کبھی عوام الناس کے ساتھ۔ عام طور پر یہ دائرہ فرد‘ گروپ اور تنظیم یا ادارے تک محدود رہتا ہے۔ اس فرد‘ گروپ اور تنظیم یا ادارے میں گھر‘ گھرکے افراد‘ اہل خانہ‘ دوست ‘ احباب‘ رشتے دار‘ پڑوسی‘ دفتر کے لوگ‘ کاروباری حلقہ اور سماجی‘ معاشرتی‘ مذہبی اور سیاسی تنظیمیں آجاتی ہیں۔ ہمیں ان ہی کے ساتھ معاملات کرنے ہوتے ہیں اور ان ہی معاملات کے باعث ہماری شخصیت کی قدر ہوتی ہے۔
ذیل میں اسی حوالے سے معاشرتی‘ معاملاتی اور استحکامی عناصرکے نکات پیش کیے جاتے ہیں۔ ان پر غور کیجیے اور لائحہ عمل بنایئے تاکہ لوگ آپ کو قبول کر لیں اور کچھ عرصے کے بعد لوگ آپ کے بارے میں تبصرہ کریں کہ: ع کتنا بدل گیا ہے انسان!
لوگ عام طور پر ان خوبیوں اور باتوں کو پسند کرتے ہیں:
ضد‘ غصے اور ہٹ دھرمی کے بغیر اپنی بات کو سمجھانے اور منوانے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔ اس بات کے حوالے سے منطق کے چار سوالات اپنی ذات سے ضرور پوچھ لیجیے۔ امید ہے ان چار سوالات کے جوابات ہی آپ کا ۵۰ فی صد مسئلہ حل کر دیں گے:
۱- میں کیا بات کر رہا ہوں (کیا‘what)۔ علم کی طرف اشارہ ہے۔
۲- یہ بات کیوں کر رہا ہوں (کیوں‘why)۔ اس بات کا مقصد کیا ہے۔ آپ کے رویے کی جانب اشارہ ہے۔
۳- یہ بات کیسے کی جائے (کیسے‘ how)۔ اس کا تعلق طریقہء کار سے اور آپ کی بات کرنے کی صلاحیت سے ہے۔
۴- یہ بات کب کی جائے (کب‘ when)۔ اس کا تعلق وقت کی مناسبت سے ہے۔
کسی گفتگو اور کام سے پہلے آپ کے ذہن میں یہ چار سوالات اور ان کے جوابات ہیں تو آپ موثر‘ مستعد اور کامیاب ہیں۔ بات کرنے اور بات منوانے کا سلیقہ آپ کو بہت اچھا سیلزمین‘ مبلغ اور داعی بنا دے گا۔
معاشرتی مطابقت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے رویے کے ذریعے دوسروں پر اعتماد کا اظہار کریں۔ اس کے باعث لوگ اپنی ذات میں اعتماد محسوس کریں گے اور آپ کے ساتھ اور آپ کے لیے کام کریں گے۔
گفتگو میں چڑچڑے پن اور ضد سے بچتے ہوئے اپنے دلائل میں نرمی اور شائستگی پیدا کیجیے۔ یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی ہوگی۔
اس دنیا اور معاشرے میں ہم ہر ایک سے لڑ کر اور حجت اور دلیل بازی کے ساتھ نہیں رہ سکتے‘ مفاہمت پیدا کیجیے۔ ہر چیز کو اپنی انا کا مسئلہ مت بنایئے۔ جہاں جھکنا ضروری ہو وہاں جھک جایئے۔ کرکٹ کی دنیا میں آج تک ’’چھکا‘‘ اُچھل کر نہیں لگا ہمیشہ جھک کر لگا ہے۔ ذیل کی تمثیل امید ہے گھریلو زندگی اور کاروباری و سماجی معاملات میں مدد دے گی۔
ایک دریا کے اُوپر لکڑی کا ایک فٹ چوڑا پل تھا۔ اس پل پر ایک طرف سے ایک بکرا آ رہا تھا۔ وہ ابھی بیچ پل پر ہی پہنچا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرا بکرا آگیا۔ دونوں آمنے سامنے ہو گئے۔ آوازیں تیز ہوگئیں اور قریب تھا کہ دونوں دریا میں گرتے‘ اسی اثنا میں ایک بکرے نے دوسرے کو تجویز پیش کی کہ ’’یار میں بیٹھ جاتا ہوں تو میرے اوپر سے گزر جا‘‘۔ اس نے ایک لمحے کی قربانی‘ اپنی اَنا کی قربانی دے کر دونوں کو ایک بڑے سانحے سے بچا لیا۔ یہی لمحے ہیں جس میں اَنا اور ’’میں‘‘ انسان کو تباہ کر دیتے ہیں اور قوموں کو صدیوں تک نقصان پہنچتا ہے۔ کہتے ہیں کہ لمحوں نے غلطی کی اور صدیوں نے سزا پائی۔
ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں بھی ان جیسی مثالوں سے سبق نہیں لیتے اور قرآن اور احادیث کی روشنی میں عمل اور ردعمل کے بجائے شیطان کی آگ میں جھلس جاتے ہیں یا ڈوب جاتے ہیں۔
مفاہمت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم:
__ دوسروں کے نقطۂ نظر کو سننے اور اس کے بعد سمجھنے کی کوشش کریں۔
__ اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے حقائق پیش کیجیے اور بغیر حقائق اپنی رائے مت پیش کیجیے۔
__ ہمیشہ موقع شناس رہیے مگر خود غرض مت بنیے۔ موقع دیکھ کر بات کرنے کوشش کیجیے۔ اچھے اور بہتر انداز سے بات کرنے کی کوشش کیجیے۔
__ تبدیلی قبول کرنے کے لیے اپنی قوت فیصلہ کی تربیت کیجیے۔
__ جب آپ کسی واقف سے ملیں تو خوش اخلاقی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملیں‘ اور اگر وہ اجنبی ہے تب بھی اپنا تعارف کرانے کے بعد خوش اخلاقی اور مسکراہٹ کے ساتھ پیش آیئے۔
__ مجلس میں ‘ لوگوں میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیجیے۔
__ مثبت رویے کا اظہار کیجیے۔
__ پہلی ہی ملاقات میں بہت زیادہ وعدہ مت کر لیجیے ورنہ پریشان ہوں گے۔
جن اداروں سے آپ وابستہ ہوں‘ تو ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں جنھیں پورا کرنا ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ کے لیے آگے بڑھنے کی راہیں کھلتی رہیں گی۔ یہ صفات معاون ثابت ہوسکتی ہیں:
__ ادارے کے ذمہ داروں کی طرف سے دی گئی ہدایات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت۔
__ اپنے ذمہ دار‘ برابر اور ماتحت افراد کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت۔
__ بھروسا کرنے کی صلاحیت۔
__ کام کو چیلنج سمجھنے اور اسے اُمنگ کے ساتھ کرنے کی صلاحیت۔
__ نئے نئے کام اور ٹکنالوجی کو سیکھنے کا جذبہ اور ترقی کرنے کی صلاحیت۔
__ وفاداری اور ایمان داری کی صلاحیت۔
__ تنقید قبول کرنے کی صلاحیت۔
__ اپنے حصے کا کام اچھے‘ موثراور احسن طریقے سے اور وقت پر کر کے دینا۔
__ اوقات کی پابندی۔
__ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لینا اورمعافی مانگ لینا۔
__ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت۔
__ صحیح انداز میں ہدایات دینے کی صلاحیت۔
__ اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی صلاحیت۔
امام غزالی ؒمتقدمین علما‘ فضلا‘ صلحا اور صوفیاے کرام میں ایک خاص مقام کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کی شہرئہ آفاق تصنیف احیا العلومکے علاوہ ان کی تصانیف کی تعداد ۷۷ ہے جن کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب سے مولانا شبلی نعمانی ؒنے اپنی گراں قدر کتاب الغزالی میں تحریر کیے ہیں۔ احیا العلوم میں زندگی میں پیش آمدہ تمام امور کا وضاحت سے بیان ہے اور دین و دنیا سے متعلق تمام مسائل پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
امام غزالی ؒنے رعایا کی نگہداشت اور حکمرانی اور فرماںروائی کے موضوع کو کیمیاے سعادت میں ۱۰عنوانات کے تحت بیان کیا ہے ۔ امام غزالی ؒ کے نزدیک حکمرانی آسان کام نہیں بلکہ نہایت کٹھن اور مشکل فریضہ ہے کیونکہ زمین پر خلیفتہ اللہ کے مقام پر فائز ہونا بہت بڑے فرض کی ادایگی کا نام ہے۔ خلافت کے حقوق کی تکمیل کے لیے ’’عدل‘‘ شرطِ اوّل ہے۔ اگر عدل کے بجائے ظلم ہو تو یہ ’’خلافت ِ الٰہی‘‘ نہ ہوگی بلکہ اسے ’’خلافت ِ ابلیس‘‘ گردانا جائے گا۔ علاوہ ازیں فرماں روائی اور حکمرانی کی بنیاد علم و عمل پر قائم ہے‘ یعنی والی اور حکمران کے لیے ضروری ہے کہ اسے علم ہو کہ اسے اس دنیا میں کیوںکرلایا گیا ہے؟ اور اس کا اصل اور آخری ٹھکانہ کہاں ہے؟ کیونکہ یہ دنیا تو نشانِ راہ ہے‘ اسے منزل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ’’دارالعمل‘‘ ہے ’’دارالجزا‘‘ تواُخروی زندگی ہے۔
سلطانِ عادل کی خصوصیات اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے امام غزالی ؒ یوں رقم طراز ہیں کہ سلطانِ عادل اللہ تعالیٰ کا عزیز ترین دوست اور مقرّب ہوتا ہے‘ جب کہ ظالم حکمران اللہ تعالیٰ کا بدترین دشمن ہوتا ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلّم کے ارشاد گرامی کے مطابق عادل حکمران کے اعمال میں ہر روز اتنے نیک عمل لکھے جاتے ہیں جتنے کہ اس کی رعیّت نے اس روز کیے ہوں۔
امام غزالی ؒکے نزدیک آدابِ حکمرانی کی تکمیل اور انداز فرماں روائی کو رضاے الٰہی کے مطابق ڈھالنے کے لیے‘ حاکم کو درج ذیل قواعد و ضوابط کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
۱- پسند و ناپسند کا معیار : جب کوئی مقدمہ اور معاملہ حاکم کے رُوبرو پیش کیا جائے تو وہ یہ سمجھے کہ وہ رعایا میں سے ایک فرد ہے‘ حاکم کوئی اور شخص ہے ۔پھر وہ اندازہ کرے کہ اسے رعیّت کی حیثیت سے کون سی چیز پسند ہے اور کون سی ناپسند؟ ظاہر ہے اس قاعدے پر عمل کرتے ہوئے حاکم جو اپنے لیے پسند کرے گاوہی رعایا کے لیے پسند کرے گا لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ آدابِ حکمرانی میں خیانت کا مرتکب گردانا جائے گا۔ اس کی تائید کے لیے امام غزالی ؒنے ایک حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے:
غزوئہ بدر کے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم سایے میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپؐ کے اصحاب دھوپ میں تھے۔ عین اس وقت جبریل ؑ آئے اور کہا:--- ’’ آپؐ سایے میں ہیں اور آپؐ کے اصحاب دھوپ میں ہیں؟‘‘ حضرت جبریل ؑنے فرمایا: --- ’’جس کسی کو دوزخ سے نجات اور جنت کے حصول کی خواہش ہو اسے چاہیے کہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر موت کا استقبال کرے‘ اور جو چیز وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہ کسی بھی مسلمان کے لیے پسند نہ کرے‘‘۔
۲- رعایا کی حاجت روائی ‘ ترجیح اوّل : حاکمِ وقت کے خصائل حسنہ میں یہ بات بھی شامل رہنی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل اور مصائب کے حل کے لیے سائلین اور درخواست گزاروں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے‘ اظہارِ نفرت نہ کرے اور نہ بے زاری ہی کا تاثر دے بلکہ اسے یہ فکر دامن گیر رہے کہ مبادا کسی ضرورت مند سائل کی حاجت روائی سے قاصر تو نہیں رہا۔ جب تک تمام امور سلطنت میں مشغول ہو‘ اسے نفلی عبادت کی بھی خواہش پیدا نہ ہو کیونکہ رعایا کی حاجت روائی کو نفلی نماز پر فضیلت ہے۔
اس سلسلے میںایک حکایت درج فرمائی کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒعوام کے مسائل میں اس قدر مصروف رہے کہ نماز ظہر کا وقت آپہنچا اور آپ تھک کر چور ہو رہے تھے۔ چنانچہ اُٹھ کرگھر چلے آئے کہ گھڑی بھر آرام کرلیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر ان کے بیٹے نے کہا: آپ کس بات پر مطمئن ہو گئے؟ اگر ابھی آپ کو موت کا بلاوا آجائے اور باہر کوئی حاجت مند انصاف کے انتظار میں کھڑا ہو تو کیا آپ قصوروار نہ ٹھیریں گے؟--- فرمایا: ہاں بیٹا! تم سچ کہتے ہو۔ یہ کہہ کر اُٹھ بیٹھے اور فوراً باہر چل دیے۔
۳- قناعت و صبر بہ طور شعار: آدابِ حکمرانی میں یہ شامل ہے کہ حاکمِ وقت اپنے آپ کو نفسانی خواہشات میں مشغول نہ کرے‘ عمدہ پوشاک اور لذیذکھانے کا عادی نہ بن بیٹھے بلکہ قناعت و صبر کو اپنا شعار بنائے۔ کیونکہ صبروقناعت کے بغیر عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے جب حضرت سلمان فارسی ؓ سے دریافت کیا کہ میری کون سی بات ہے جو آپ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے ہاں ایک وقت میں دو‘ دو سالن پکتے ہیں اور آپ کے پاس دو پیراہن ہیں جن میں سے آپ ایک دن کو اور ایک رات کو پہنتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس کے علاوہ بھی کچھ سنا؟ کہا: --- نہیں‘ اور تو کچھ نہیں سنا۔ فرمایا: جن دو چیزوں کے بارے میں آپ نے شکایت کی ہے وہ بالکل غلط ہیں۔
۴- درشتی کے بجائے نرمی: عادل حکمران کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرمی اختیار کرے اور ممکنہ حد تک درشتی سے اجتناب کرے۔
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو حکمران رعایا کے ساتھ نرمی کرے گا اس کے ساتھ قیامت کے دن نرمی برتی جائے گی۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلّم نے یوں دعا فرمائی کہ: ’’خدایا! جو والی اور حاکم اپنی رعایا پر رحم کرتا ہے تو قیامت کے روزاس پر رحم فرما اور جو حاکم سختی کرتا ہے اس پر سختی کر!‘‘ اور فرمایا:عطاے حکومت اسی شخص کے لیے نعمت و برکت ہے جو اسے بہ طریق احسن نبھا سکے اور اس کا صحیح طور پر حق ادا کر سکے ورنہ ایسے شخص کے حق میں تو یہ ایک بری چیز ہے جو اس کا حق ادا کرنے سے قاصر رہے‘‘۔
۵- خوشامد پسندی سے اجتناب:حکمران کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ اس کی تمام رعایا اس سے خوش رہے جیسے کہ شریعت مطہرہ کا تقاضا ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ ’’اے لوگو! بہترین حاکم وہ ہے جو تمھیں عزیز رکھے اور تم اسے عزیز رکھو۔ اور بدترین وہ ہے جو تمھارا دشمن ہو اورتمھیں اس سے دشمنی ہو اور تمھاری طرف سے ہمیشہ اس پر لعنت و ملامت ہوتی رہے اور اس کی طرف سے تم پر!‘‘
اسی پانچویں ضابطے کے ضمن میں حاکم کے لیے مزید شرط یہ ہے کہ وہ خوشامد پسند نہ ہو‘ یعنی اگر ہرآنے والا اس کی تعریف ہی کرتا ہے تو یہ نہ سمجھے کہ ہر کوئی واقعی اس سے خوش ہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض جھوٹے خوشامدی ہوں یا سب خوف کے مارے اس کی تعریف کر رہے ہوں۔ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ قابل اعتماد لوگوں کو مقرر کرے اور صحیح صورتِ احوال معلوم کرنے کا اہتمام کرے کیونکہ اپنے عیوب اور حماقتوں کے بارے میں حقیقت حال تو دوسروں ہی سے معلوم ہو سکتی ہے۔
۶- خدا کی خوشنودی کو مقدم رکھنا: حاکم کے لیے‘ اس شرط پر کاربند رہنا ضروری ہے کہ وہ کسی ایسے فرد‘ جماعت یا حکومت کی رضامندی کا جویا نہ ہو جو شریعت کی مخالفت سے رضامند ہو سکتا ہو۔ کیونکہ ایسے افراد کی مخالفت اور ناراضی سے حاکم عادل کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
اس امر کی تائید میں امام غزالی ؒنے حضرت عمرؓ کا قول نقل فرمایا ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں ہر صبح جب بیدار ہوتا ہوں تو آدھی مخلوق کو اپنے سے ناخوش پاتا ہوں اور یہ ہے بھی ناگزیر۔ کیونکہ جو کوئی میرے انصاف سے سزا کا مستحق ٹھیر گیا وہ مجھ سے ناخوش ہی ہوگا۔ میں دو دشمنوں کے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت فریقین کو خوش کرنے سے تو رہا!اور سخت جاہل ہے وہ جو لوگوں کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کو پس پشت ڈال دے۔
ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے امام غزالی ؒ اس امر کی تائید فرماتے ہیں کہ حضرت امیرمعاویہؓ نے حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں بذریعہ خط درخواست کی کہ مجھے کوئی مختصر سی نصیحت فرمایئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے سنا ہے کہ جو حکمران لوگوں کی خوشنودی کو بالاے طاق رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا متلاشی ہوتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کر دیتا ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے عوض لوگوں کی رضا کا طالب ہوتا ہے‘ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی ناخوش و ناراض ہی رکھتا ہے۔
۷- حکمرانی ‘ ایک کٹھن فریضہ : عادل حاکم کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ فرماں روائی اور حکمرانی بڑا کٹھن اور صبرآزما کام ہے‘ اور مخلوق خدا کی خدمت اور حاجت روائی کوئی معمولی چیز اور مذاق نہیں۔ جو حاکم اپنی ذمہ داری کا حق ادا کر سکے‘ اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس مقام بلند پر پہنچا دیا جاتا ہے کہ اس کے بعد کوئی اور سعادت ہو ہی نہیں سکتی‘ اور اگر اس حق کی ادایگی میں کوئی تقصیر یا غفلت ہو جائے تو وہ حاکم ایسی شقاوت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے کہ کفر کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی بدبختی نہیں۔
امام غزالی ؒنے اس ضمن میں ایک حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں آکرغلاف کعبہ کو ہاتھ میںتھام لیا۔ اس وقت قریش کے کچھ لوگ اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: امام اور سلاطین قریش میں سے ہوں گے لیکن اس وقت تک جب تک وہ تین امور پر کاربندرہیں گے:
الف - جب ان سے رحمت طلب کی جائے تو وہ رحمت سے کام لیں۔
ب- جب ان سے انصاف طلب کیا جائے تو انصاف دینے میں بخل سے کام نہ لیں۔
ج- جو کچھ کہیں اسے پورا کریں۔ کیونکہ جو کوئی ایسانہیں کرتا اس پر خدا‘ فرشتوں اور تمام خلائق کی لعنت ہوتی ہے۔ اس کے فرض قبول ہوتے ہیں نہ سنت!
اس سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کے ارشادات گرامی بھی امام غزالی ؒ نے نقل فرمائے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو مسلمانوں پر حکمرانی بخشی جائے اور وہ انھیں اپنے بچوں کی طرح نہ رکھے‘ تو اس سے کہہ دو کہ جائو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لو‘ اور فرمایا: میری اُمت میں دو طرح کے شخص ہوں گے جو میری شفاعت سے محروم رہیں گے۔ ایک ‘ظالم حکمران اور دوسرے‘ وہ بدعتی جو دین میں غلو کرتے کرتے حد سے گزر جائیں‘ اور فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے سخت عذاب ظالم بادشاہوں کو دیا جائے گا۔
۸- علماے حق سے رہنمائی : حکمران کو ہمیشہ علماے حق کی ملاقات کا شوقین رہنا چاہیے کہ ان کے پندونصائح سے وہ بہرہ مند ہوتا رہے‘ اور علماے سوء اور حریص علما سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس حاکم کی بے جا تعریف کریں گے۔ اس کی رضا کے لیے خوشامد کریں گے اور حیلوں بہانوں سے وہ اس سے ناجائز فائدہ اُٹھائیں گے۔
علماے حق کی تعریف یہ ہے کہ جنھیں طمع و لالچ کی ہوا بھی نہ لگی ہو اور وہ حاکم کو ہمیشہ عدل و انصاف پر کاربند رہنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ اس سلسلے میں خلیفہ ہارون الرشید کا ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ خلیفہ نے حضرت شفیق بلخی ؒسے کہا:مجھے کچھ نصیحت فرمایئے۔ آپ نے فرمایا: تو ایک چشمہ ہے اور تیرے مقرر کردہ عامل اس دُنیا میں نہروں اور دریائوں کی مانند ہیں۔ یاد رکھ! اگر چشمہ صاف رہے گا تو دریائوں اور نہروں کی تاریکی نقصان دہ نہیں لیکن اگر چشمہ ہی تاریک ہو تو نہروں کی روشنی اور صفائی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
اس سلسلے میں امام غزالی ؒ نے ایک اور حکایت بیان فرمائی‘ جس میں حاکمِ وقت کی دین پسندی اور علماے حق سے تعلق خاطر کا ذکر ہے۔
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ایک مرتبہ محمد بن کعبؒ سے دریافت کیا کہ عدل کسے کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: عدل یہ ہے کہ جو مسلمان تم سے چھوٹا ہو اس کے ساتھ باپ کی طرح شفقت کرو‘ اور جو تم سے بڑا ہو اُس کے ساتھ بیٹوں کی طرح پیش آئو‘ اور جو تمھارا ہم عمر ہو‘ اسے بھائی سمجھو۔ ہر کسی کو سزا اُس کے جرم کے مطابق‘ اتنی ہی دیا کرو جو اُس کی قوتِ برداشت کے مطابق ہو‘ اور غصے سے بے قابو ہو کر کسی کو تازیانہ نہ لگائو ورنہ تمھارا مقام دوزخ ہوگا۔
۹- انتظامیہ کو ظلم سے روکنا: حکمران کو صرف اسی بات پر قناعت نہ کر لینا چاہیے کہ وہ ظلم سے کنارہ کش ہو گیا ہے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے مقرر کردہ عمل داروں‘ افسروں اور کارندوں کو مہذب اور شائستہ بنائے اور ظلم کرنے کی اجازت نہ دے کیونکہ ان کے اعمال کی بھی پرسش اس سے کی جائے گی۔
حضرت عمرؓ نے اپنے عامل حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کو ایک مکتوب میں لکھا کہ ’’انتہائی نیک بخت عمل دار وہی ہے جو رعایا کے ساتھ نیک بختی کا مظاہرہ کرے اور رعایا اسے نیک بخت کہے‘ اور بدبخت ترین عامل وہ ہے کہ رعایا جس کے ساتھ بدبخت ہو۔ خبردار! کبھی بھول کر بھی بے جا فراخ دلی سے کام نہ لینا۔ کیونکہ تیرے ماتحت افسر بھی ویسا ہی رویہ اختیار کریں گے‘‘۔
آفتابِ عدل کا ظہور پہلے تو حاکم عادل کے اپنے سینے میں ہوتاہے اور پھراس کا نوراس کے اہل خانہ اور خواص میں سرایت کرتا ہے۔ تب اس کی شعاعیں عام رعایا تک پہنچتی ہیں اور جو شخص آفتاب کی عدم موجودگی میں شعاعِ آفتاب کا اُمیدوار ہو وہ ایسی چیز کا متلاشی ہے جس کا حصول ناممکن اور محال ہے۔
۱۰- تکبّر کے بجاے بردباری: والی و حاکم پر تکبّر کا غلبہ ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ تکبّرہی آدمی کو غصّے سے مغلوب کر دیتا ہے اور انتقام کی طرف بلاتا ہے اور غصّہ عقل کا دشمن ہوتا ہے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جن لوگوں نے بردباری کو شیوہ بنایا انھوں نے انبیا‘ اولیا اور صالحین کی سی ناموری حاصل کی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوئے۔ اس کے برعکس جس نے غیظ وغضب کو اپنا شعار بنایا اسے دنیا نے ہمیشہ درندہ صفت احمقوں کے زمرے میں شمار کیا۔
مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص کی پہلوانی کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ یارسولؐ اللہ! فلاں آدمی زبردست طاقت و قوت کا مالک ہے اور اس کی مردانگی کا جواب نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیسے؟ عرض کیا کہ جس سے بھی وہ کشتی لڑتا ہے اسے چاروں شانے چت مار گراتا ہے۔ فرمایا: یہ تو کوئی خاص بات نہیں۔ کیونکہ قوت ومردانگی تو یہ ہے کہ انسان اپنے غصّے پر غالب آجائے نہ یہ کہ کسی کو مار گرائے--- اور فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ جسے میسّرآجائیں اس کا ایمان مکمل ہو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ غصّہ آنے پر بھی باطل کا قصد نہ کرے۔ دوم یہ کہ خوشی و مسّرت میں بھی خدا کو نہ بھولے۔ سوم یہ کہ قدرت رکھنے کے باوجود اپنے حق سے زیادہ نہ لے۔
ایک مقام پر ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: مجھے کوئی ایسا کام بتا دیجیے کہ اس کی بدولت جنت میں داخل ہو جائوں۔ فرمایا: ’’غصّہ چھوڑ دو تو جنت تمھاری ہے‘‘۔
یہ تمام احادیث ‘ حکایات اور اقوال حکمرانوں کی اصلاح کے لیے کافی ہیں بشرطیکہ ایمان کا ایک شمّہ بھی ان کے دل میں باقی ہو۔