قرآن حکیم میں عذاب قبر کا کیوں بیان نہیں؟ حالانکہ اسے جاننے اور اس پر ایمان لانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ انسان خوف کرے اور تقویٰ اختیار کرے۔
اس کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے رسول پر دو قسم کی وحی اُتاری اور لوگوں پر واجب کردیا کہ دونوں طرح کی وحی پر ایمان لا کر عمل کرتے رہیں۔ فرمایا: ’’وہی ہے جس نے امیّوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اُٹھایا‘ جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگیاں سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (الجمعۃ ۶۲:۲)
’’کتاب‘‘ سے مراد قرآن اور ’’حکمت ‘‘سے مراد بالاتفاق سنت ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جن باتوں کی خبر دی ان پر ایمان و تصدیق‘ ان باتوں کی طرح ہے جن کی حق تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی زبانی خبر دی۔ یہ مسلمانوں کا ایک اجماعی اصول ہے۔ کوئی فرقہ اس کے خلاف نہیں ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کتاب کے ساتھ اس کی مانند سنت بھی دی گئی۔ لہٰذا اگر کوئی مسئلہ قرآن میںنہیں اور حدیث میں ہے تو سمجھ لو‘ گویا قرآن ہی میں ہے کیونکہ حدیث بھی مثل قرآن ہی کے ہے۔
قرآن پاک میں بھی کئی جگہ برزخ کے عذاب و ثواب کا بیان ہے۔ مثال کے طور پر اس آیت میں: وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ ج اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْط اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ o (الانعام ۶:۹۳) ’’کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈُبکیاں کھا رہے ہوتے اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’’لائو‘ نکالو اپنی جان‘آج تمھیں اُن باتوں کی پاداش میں ذِلّت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔
یہ باتیں فرشتے موت کے وقت مرنے والوں سے کہہ رہے ہیں۔ فرشے سچے ہوتے ہیں۔ اگر یہ عذاب ان سے دنیا میں مرتے ہی ختم ہو جاتا تو یہ جملہ الیوم تجزون (آج تمھیں عذاب دیا جا رہا ہے) صحیح نہ ہوتا۔ فرمایا: فَوَقٰہُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ o اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا ج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ o (المومن ۴۰:۴۵-۴۶) ’’آخرکار اُن لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اُس مومن کے خلاف چلیں‘ اللہ نے اُن سب سے اُس کو بچا لیا‘ اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے۔ دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں‘ اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو‘‘۔
اس آیت میں صراحت سے برزخ و آخرت کے عذاب کا بیان ہے۔ فرمایا: فَذَرْھُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِیْ فَیْہِ یُصْعَقُوْنَ o یَوْمَ لاَ یُغْنِیْ عَنْھُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا وَّلاَھُمْ یُنْصَرُوْنَo وَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُونَ ذٰلِکَ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لاَیَعْلَمُوْنَ o (الطور ۵۲:۴۵-۴۷) ’’پس اے نبیؐ، انھیں اِن کے حال پر چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے اُس دن کو پہنچ جائیں جس میں یہ مار گرائے جائیں گے‘ جس دن نہ اِن کی اپنی کوئی چال اِن کے کسی کام آئے گی نہ کوئی ان کی مدد کو آئے گا۔ اور اُس وقت کے آنے سے پہلے بھی ظالموں کے لیے ایک عذاب ہے‘ مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں‘‘۔
عذاب قبر: اس سلسلے میں مختصر جواب تو یہ ہے کہ اس کے اسباب جہالت‘ حق تلفیاں اور گناہ ہیں۔ حق تعالیٰ ارباب محبت و معرفت اور فرماں برداروں کے بدنوں اور رُوحوں پر عذاب نہیں فرماتا‘کیونکہ عذابِ قبروعذاب آخرت اللہ کے غصے اور ناراضی کی نشانی ہیں۔جس نے دنیا میں اللہ کو غصہ دلایا اور اسے ناراض کیا‘ پھر بلاتوبہ کے مر گیا‘ اس پر بقدر اللہ کی ناراضی کے‘ برزخ میں عذاب ہوگا۔ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ‘ خواہ وہ برزخ کے عذاب کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔
حدیث میں ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں پر قبر میں عذاب ہوتا دیکھا۔ آپؐ نے عذاب قبر کی دووجوہ بتائیں۔ ایک تو اِدھر کی اُدھر لگایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے نہیں بچا کرتا تھا۔ دوسرے نے تو پاکی کو چھوڑ دیا تھا جو واجب تھی‘ اور پہلا ایسی حرکت کرتا تھا کہ اس کی زبان سے لوگوں میں عداوت ہو جاتی تھی‘ اگرچہ واقعات سچے ہی بیان کرتا ہو۔
معلوم ہوا کہ جھوٹ و بہتان اور کذب و افترا سے لوگوں میں عداوت پیدا کرنے والا سخت ترین عذاب قبر میں مبتلا ہوگا ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے نماز چھوڑ دی‘ جس کی شرطوں میں سے ایک شرط پیشاب سے پاکی بھی ہے‘ وہ بھی سخت ترین عذاب قبر میں مبتلا ہوگا۔ ابن مسعودؓ کی حدیث میں ہے کہ ایسا کوڑا مارا جس سے اس کی قبر آگ سے بھر گئی کیونکہ اس نے بلاوضو کے ایک نماز پڑھ لی تھی اور مظلوم کے پاس سے گزرا تھا تو اس کی مدد نہیں کی تھی۔ بخاری کی سمرۃ والی حدیث میں گزر چکا کہ اُس پر قبر میں عذاب ہو رہا تھا جو جھوٹ بولا کرتا تھا اور دنیا میں اس کا جھوٹ پھیل جایا کرتا تھا ‘ اور اس پر بھی عذاب ہو رہا تھا جو قرأت قرآن کے باوجود رات کو سو جاتا تھا اور دن میں اس پر عمل نہ کرتا تھا۔ اسی طرح رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے زناکار مردوں اور عورتوں پر اور سودخوروں پر برزخ میں عذاب کا مشاہدہ فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ کچھ لوگوں کے سر پتھر سے کچلے جا رہے تھے‘ کیونکہ ان کے سر نماز سے بھاری ہو جاتے تھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ ضریح و زقوم (دوزخ کے پھل) کھاتے تھے کیونکہ وہ زکوٰۃ نہیں دیا کرتے تھے۔ کچھ لوگ بدبودار سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے کیونکہ زناکار تھے۔ بعض لوگوں کے ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے‘ کیونکہ وہ اپنی باتوں اور تقریروں سے فتنے بھڑکایا کرتے تھے۔ بعض کے منہ میں انگارے ٹھونسے جا رہے تھے جو ان کی دبر سے نکل جاتے تھے۔ یہ ظلم سے یتیموں کا مال کھانے والے تھے۔ کچھ عورتوں کی چھاتیاں بندھی ہوئی تھیں اور لٹک رہی تھی‘ یہ زناکار عورتیں تھیں۔ بعض کی کروٹوں سے گوشت کاٹ کاٹ کر انھی کو کھلایا جا رہا تھا‘ یہ چغل خور تھے۔ بعض کے تانبے کے ناخن تھے اور ان سے اپنا منہ اور سینہ کھرچ رہے تھے‘ یہ لوگوں کی آبروریزی کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے غنیمت کے مال میں سے چادر چرا لی تھی۔ آپؐ نے بتایا کہ اس پر اس کی قبر میں آگ بھڑک رہی ہے حالانکہ اس کا بھی مال غنیمت میں حق تھا۔ پھر جس کا کسی مال میں حق نہ ہو اور ظلم سے کسی کا مال مارے اس پر تو بدرجہ اولیٰ عذاب ہوگا۔
عذاب قبر کے مختلف اسباب: عذاب قبر دل‘ آنکھ‘ کان‘ منہ‘ زبان‘ پیٹ‘ شرم گاہ ‘ ہاتھ‘ پائوں اور تمام بدن کے گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اِدھر کی اُدھر لگانے والا‘ جھوٹا‘ چغل خور‘ جھوٹا گواہ‘ پاک دامنوں پر الزام لگانے والا‘ فتنہ بھڑکانے والا‘ بدعت کی اشاعت کرنے والا‘ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر جھوٹ باندھنے والا‘ اللہ کے کلام میں اٹکل اور رائے سے کام لینے والا‘ سود کھانے والا‘ ناحق یتیموں کا مال ہڑپ کرنے والا‘ رشوت وغیرہ سے حرام کھانے والا‘ ناحق مسلمان کا مال کھانے والا‘ شراب پینے والا‘ شجرملعونہ سے نوالہ توڑنے والا‘ لواطت و زنا کرنے والا‘ چور‘ خائن‘ غدار‘ دھوکا باز‘ مکار‘ سود کا گواہ و کاتب‘ حلالہ کرنے اور کرانے والا‘ اللہ کے فرائض ساقط کرنے کے لیے حیلے بہانے کرنے والا‘ حرام کا ارتکاب کرنے والا‘ مسلمانوں کو ایذا دینے والا‘ ان کے عیبوں کے پیچھے لگنے والا‘ غیر شرعی قانون سے فیصلہ کرنے والا‘ غیر شرعی باتوں کا فتویٰ دینے والا‘ گناہوں اور زیادتیوں پر تعاون کرنے والا‘ ناحق قتل کرنے والا‘ حرم میں بے دینی پھیلانے والا‘ اسما و صفات کے حقائق معطل کرنے والا اور ان میں الحاد سے کام لینے والا‘ اپنی رائے‘ ذوق اور تدبر کو سنت پر مقدم کرنے والا‘ نوحہ کرنے والی‘ نوحہ سننے والے‘ حرام گانا گانے والے اور انھیں سننے والے‘ قبروں پر مسجدیں بنانے والے‘ ان پر قندیلیں اور چراغ جلانے والے‘ لیتے وقت پورا لینے والے مگر دیتے وقت کم دینے والے‘ جبار‘ متکبر‘ ریاکار‘ آنکھ یا زبان وغیرہ سے نکتہ چینی کرنے والے‘ اسلاف کو برا کہنے والے‘ کاہن‘ نجومی‘ رَمّال‘ جفر اور فال وغیرہ کھولنے والوں کے پاس جانے والے اور ان سے پوچھ کر ان کی باتوں کی تصدیق کرنے والے‘ ظالموں کے مددگار‘ جنھوں نے غیروں کی دُنیا کے بدلے اپنی آخرت فروخت کر ڈالی‘ اللہ سے ڈرانے اور پندوموعظت کے باوجود نہ ڈرنے والے اور گناہوں سے باز نہ رہنے والے لیکن مخلوق سے ڈرائے جائیں تو ڈرنے والے اور باز آجانے والے وہ لوگ جن کی اگر قرآن و سنت سے رہنمائی کی جائے تو پروا نہ کریں اور راہ پر نہ آئیں لیکن جن سے حسن عقیدت ہے اگر ان کی کوئی بات بتا دی جائے تو دل و جان سے قبول کرلیں‘ حالانکہ انبیا کے سوا تمام لوگ غیرمعصوم ہیں اور سب سے غلطیاں ہوتی ہیں۔
وہ جنھیں قرآن سنایا جائے تو اس سے متاثر نہ ہوں بلکہ گھبرانے لگیں لیکن اگر شیطانی کلمات‘ زنا کا منتر اور نفاق کا مادہ سن لیں تو کھل جائیں‘ حال پر حال آنے لگیں‘ دل میں بے حد مسرت محسوس کرنے لگیں ‘ دلی خواہش رکھیں کہ گانے والے یا گانے والیاں خاموش نہ ہوں۔ اللہ کی جھوٹی قسم کھانے والے اور غیراللہ کی جھوٹی قسموں کو کسی حال میں بھی نہ ترک کرنے والے خواہ کتنی ہی سخت سزا کیوں نہ دی جائے۔ گناہوں پر فخر کرنے والے‘ اور اپنے بھائیوں اور دوستوں میں دل کھول کر بے پروائی سے خوب گناہ کرنے والے‘ وہ جن سے لوگوں کی عزتیں اور مال محفوظ نہ ہوں‘ بدزبان و بدخلق ‘ جن کے غنڈے پن سے ڈر کر لوگ انھیں چھوڑ دیں۔ آخری وقت نماز پڑھنے والے‘ مرغ کی طرح ٹھونگیں مارنے والے اور اللہ کا ذکر نہ کرنے والے‘ خوشی سے زکوٰۃ نہ دینے والے‘قدرت کے باوجود حج نہ کرنے والے‘ قدرت کے باوجود حقوق نہ ادا کرنے والے۔ حرام نگاہ سے‘ حرام بات سے اور حرام لقمہ و حرام قدم سے نہ بچنے والے‘ کمائی میں حرام و حلال کی تمیز نہ کرنے والے‘ صلہ رحمی نہ کرنے والے۔ مسکینوں‘ بیوائوں‘ یتیموں اور بے زبان جانوروں پر ترس نہ کھانے والے بلکہ یتیموں کو ڈانٹنے والے اور محتاجوں کو کھانے کی رغبت نہ دلانے والے‘ دکھاوے کے لیے عمل کرنے والے۔ برتنے کی چیزوں کو روکنے والے اور اپنے عیب و گناہ چھوڑ کر لوگوں کے عیب و گناہ ٹٹولنے والے۔ غرضیکہ ہر قسم کے گناہ گار اپنے اپنے گناہوں پر قبر کے عذاب کا شکار ہوں گے اور گناہوں کے ہلکے اور سنگین ہونے سے عذاب قبر بھی سنگین یا ہلکا ہو گا۔
قبر کی پکار: اکثر لوگ گنہ گار ہوتے ہیں اس لیے اکثر مرُدوں پر عذاب ہوتا ہے۔ عذاب قبر سے محفوظ رہنے والے تھوڑے ہیں۔ آہ! بہ ظاہر قبروں پر مٹی ہے مگر ان کے اندر عذاب اور حسرتوں کے انبار ہیں۔ ان پر مٹی یا نقشین پتھروں کی عمارات ہیں لیکن اندر مصائب و آفات ہیں جن میں حسرتیں کھول رہی ہیں‘ جیسے ہانڈیوں میں کھانا کھولتا ہے اور انھیں کھولنا بھی چاہیے۔ انسان کے اور اس کی خواہش و تمنائوں کے درمیان قبروں کے مصائب حائل ہیں۔ اللہ کی قسم! قبر ایسا جامع وعظ ہے جس نے کسی واعظ کے لیے کوئی بات نہیں چھوڑی۔
قبروں سے آواز آ رہی ہے: اے دنیا میں رہنے والو! تم نے ایسا گھر آباد کر رکھا ہے جو بہت جلدی تم سے چھن جائے گا اور اس گھر کو اُجاڑ رکھا ہے جن میں تم تیزی سے منتقل ہونے والے ہو۔ تم نے ایسے گھر آباد کر رکھے ہیں جن میں دوسرے رہیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے اور وہ گھر اُجاڑ رکھے ہیں جن میں تمھیں دائمی زندگی گزارنی ہے۔ دنیا دوڑ دھوپ کرنے کا اور کھیتی کی پیداوار مہیا کرنے کا گھر ہے اور قبر عبرتوں کا مقام ہے۔ یہ یا تو باغیچۂ جنت ہے‘ یا جہنم کا خطرناک گڑھا !
عذاب قبرسے رہائی بخشنے والے اعمال: ان تمام اسباب سے بچنا چاہیے جو عذاب قبر کا باعث ہیں۔
اس سلسلے میں ایک انتہائی نفع بخش عمل یہ ہے کہ انسان رات کو سوتے وقت تھوڑی دیر اپنے نفس کا حساب لینے بیٹھ جائے اور دن بھر کی کمائی کا حساب لگائے کہ کیا کھویا اور کیا پایا‘ نفع ہوا یا نقصان؟ سچے دل سے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ سے توبہ کرے اور پکا ارادہ کر لے کہ اگر صبح تک زندہ رہا تو پھر گناہ نہیں کروں گا اور اسی توبہ پر سوئے۔ روزانہ رات کوسوتے وقت تجدید توبہ کرتا رہے۔ اگر رات میں فوت ہو گیا تو توبہ پر فوت ہوگا اور اگر زندہ رہا تو نیک عملوں کے لیے خوشی خوشی کمربستہ ہو گا کہ حق تعالیٰ نے مجھے زندگی کا ایک دن اور بخش دیا کہ ربّ کی ملاقات کے لیے تیاری کر لوں‘ اور جو کچھ زیادتیاں ہوئی ہیں ان کی رو دھو کر تلافی کر لوں اور معافی مانگ لوں۔ انسان کے لیے اس نیند سے زیادہ نفع بخش کوئی عمل نہیں جس کے بعد اللہ کا ذکر ہو۔ نیز ان دعائوں کو استعمال میں رکھا جائے جو سوتے وقت رحمت عالمؐ سے ثابت ہیں اور انھی کو پڑھتے پڑھتے نیند آجائے۔ بڑا خوش نصیب ہے وہ جسے اللہ اس عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ توفیق و قدرت اسی کی طرف سے ہے۔
اس سلسلے میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی سن لیجیے:
حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ایک صحابیؓ نے لاعلمی میں ایک قبر پر خیمہ گاڑ لیا۔ اندر سے سورہ ملک پڑھنے کی آواز آئی۔ صاحب قبر نے اول سے آخر تک اس سورہ کی تلاوت کی۔ آپؐ نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہ واقعہ بیان کیا۔ فرمایا: یہ سورہ عذاب قبر روکنے والی اور اس سے نجات دینے والی ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابن عباسؓ نے ایک شخص سے کہا: کیا میں تمھیں ایک حدیث بطور تحفہ نہ سنائوں‘ تم اسے سن کر خوش ہوگے؟ وہ شخص بولا: ضرور سنایئے۔ فرمایا: سورہ ملک پڑھا کرو‘ اسے تم بھی یاد کر لو‘ اپنے بیوی بچوں کو بھی یاد کرا دو اور اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے بچوں کو بھی یاد کرا دو‘ کیونکہ یہ نجات دلانے والی اور جھگڑنے والی ہے۔ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے رب سے جھگڑے گی۔ اگر وہ جہنم میں ہوگا تو ربّ سے درخواست کرے گی کہ آپ اسے جہنم کے عذاب سے بچا دیں۔ اللہ پاک اس کی وجہ سے عذاب قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری تمنا ہے کہ سورہ ملک میری امت کے ہر فرد کو یاد ہو (عبدبن حمید)۔یہ صحیح حدیث ہے کہ رحمت عالمؐ نے فرمایا: ۳۰ آیتوں والی سورہ (سورہ ملک) نے اپنے پڑھنے والے کی یہاں تک سفارش کی کہ حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ (ابن عبدالبر)
عذاب قبر سے بچانے کے بارے میں دلوں کو اطمینان دینے والی حدیث ابوموسیٰ اپنی کتاب‘ ترغیب و ترہیب میں بیان کرتے ہیں:
حضرت عبدالرحمنؓ بن سمرۃ روایت کرتے ہیں کہ ہم مدینہ کے ایک چبوترے پر جمع تھے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور کھڑے ہو کر فرمایا: کل رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ ملک الموت اس کی روح قبض کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے ہیں لیکن ماں باپ کی اطاعت آکر ملک الموت کو اس سے ہٹا دیتی ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ شیطانوں نے اسے بوکھلا رکھا ہے لیکن ذکر لاالٰہ آکر تمام شیطان اس سے بھگا دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اسے عذاب کے فرشتوں نے وحشی بنا رکھا ہے لیکن اس کی نماز آکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیتی ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا‘ پیاس سے بے تاب تھا‘ جس حوض کے پاس جاتا ہے‘ دھکا دے دیا جاتا ہے اور بھگا دیا جاتا ہے لیکن رمضان کے روزے آکر اسے خوب سیراب ہو کر پانی پلاتے ہیں۔
میں نے دیکھا‘ انبیا اپنے اپنے حلقے باندھ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ جس حلقے میں جاتا ہے ‘ اس کا غسل جنابت اس کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لا کر بٹھا دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اس کے چاروں طرف اور اُوپر نیچے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ وہ اس میں حیران و سراسیمہ ہے لیکن اس کا حج اور عمرہ آکر اسے اندھیرے سے نکال کر اُجالے میں پہنچا دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ آگ کے شعلوں اور انگاروں سے بچنا چاہ رہا ہے‘ اتنے میں اس کا صدقہ آکر اس کے اور آگ کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور اس کے سر پر سایہ بھی کر لیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ مومنوں سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی اس سے بات نہیں کرتا لیکن اس کی صلہ رحمی آکر کہتی ہے‘ مسلمانو! یہ صلہ رحمی میں پیش پیش رہتا تھا‘ اس سے بولو چالو۔ آخر مسلمان اس سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور مصافحہ بھی کرتے ہیں۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اسے جہنم کے فرشتوں نے پریشان کر رکھا ہے لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکرآکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیتے ہیں اور رحمت کے فرشتوں میں داخل کر دیتے ہیں۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ دوزانو بیٹھا ہے اور اس کے اور اللہ کے درمیان پردہ حائل ہے لیکن اس کا حسن خلق آتا ہے اور ہاتھ پکڑ کر اللہ کے پاس لے جاتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اس کا اعمال نامہ اس کی بائیں طرف سے دیا جاتا ہے لیکن خوف الٰہی اس کے پاس آکر اعمال نامہ لے کر دائیں طرف رکھ دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا اس کی تول ہلکی ہو گئی ہے لیکن اس کے پاس کم سنی میں مر جانے والے بچے آتے ہیں اور اس کا وزن بھاری کر دیتے ہیں۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ جہنم کے کنارے کھڑا ہے لیکن اس کے پاس اللہ سے اُمید آتی ہے اور اسے وہاں سے ہٹا لیتی ہے اور وہ چلا جاتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ آگ میں گر گیا ہے لیکن آنسو کا وہ قطرہ آتا ہے جو اللہ کے خوف سے گرا تھا اور اسے جہنم سے نکال لیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ پل صراط پر کھڑا ہوا اس طرح کانپ رہا ہے جیسے آندھی میں کھجور کا تنا ہلتا ہے لیکن اس کا اللہ کے ساتھ حسن ظن آکر اس کی کپکپاہٹ کو دُور کر دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ پل صراط پر گھسٹ رہا ہے‘ کبھی گھسٹتا ہے اور کبھی لٹک جاتا ہے لیکن اس کی نماز آ کر اسے اس کے پیروں پر کھڑا کر دیتی ہے اور بچا لیتی ہے‘ اور ایک اُمتی کو دیکھا کہ جنت کے دروازوں پر پہنچ جاتا ہے‘ دروازے بند ہو جاتے ہیں‘ لیکن کلمہ توحید آکر دروازے کھلوا کر اسے جنت میں داخل کرا دیتا ہے۔
حافظ ابوموسٰی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اعلیٰ درجے کی حسن ہے۔ اسے حضرت سعید بن مسیب‘ حضرت عمر بن زر اور حضرت علی بن زید روایت کرتے ہیں۔ ایسی ہی احادیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نبیوں کے خواب بھی وحی ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر ہے۔ یہ خواب ان خوابوں کی طرح نہیں جو تعبیر کے محتاج ہیں۔ اس خواب میں مختلف عذابوں کے ساتھ ان اعمال کا بھی بیان ہے جو صاحب عمل کو عذاب سے چھڑا دیتے ہیں۔ میں نے شیخ الاسلام سے اس حدیث کی عظمت سنی۔ آپؐ نے فرمایا: سنت کے اصول اس کی گواہی دیتے ہیں اور یہ بہترین احادیث میں سے ہے۔ (کتاب الروح‘ تدوین: مسلم سجاد)
تربیت اور تعمیر شخصیت کے حوالے سے اب ہم ان عناصر کا مطالعہ کریں گے جن کا تعلّق فکرکی تربیت اور عقل سلیم سے ہے۔
الف- ایک شخص‘ گائوں سے اپنے رشتے دار کو شہر دکھانے کے لیے لے آیا۔ شہری نے اپنا مکان دکھایا۔ سب چیزیں حیران کن تھیں۔ مگر جب شہری نے اسے باتھ روم دکھایا تو اس کی حیرانی اور بھی بڑھ گئی۔ اسے وہاں کوئی بالٹی‘ ڈرم اور مٹکے وغیرہ نظر نہ آئے جن میں پانی بھرا ہوا ہو۔ وہ یہی سوچتا رہا کہ بہ ظاہر یہ لوگ اتنے ترقی یافتہ ہیں مگر بغیرپانی کے کیسے گزارا کرتے ہوں گے۔
گائوں کے شخص کے ذہن میں تہذیب و تمدّن کی ایک علامت پانی کا استعمال تھا۔ وہ اسے وہاں نظر نہیں آیا اس لیے فوراً ہی وہ حیرانی میں مبتلا ہو گیا۔ اس کی نظر ان پائپ لائنوں اورنلکوں کی طرف نہیں گئی جنھیںعقل نے سہولت کا ذریعہ بنایا کہ پانی بھرنے کی تکلیف سے انسان بچ جائے۔ بعض لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی سوچ میں گم ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا اپنا طریقۂ کار ہی سب سے بہتر ہوتا ہے‘ باقی لوگوں کو کم تر سمجھتے ہیں--- اپنی سوچ کے اس جال سے باہر آنے کی کوشش کیجیے۔
ب- ایک امریکی وسط ایشیا کے کسی علاقے میں گیا۔ وہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی تھی۔ علاقے کے باسی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ اس باشندے نے امریکی سے اپنے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا امریکہ میں یہ چیز استعمال ہوتی ہے؟اس نے جواب دیا: کہیں کہیں‘ بہت کم۔
باشندہ یہی سمجھا کہ امریکہ اتنا پس ماندہ ہے کہ وہاں روشنی کا یہ ذریعہ ابھی پہنچا ہی نہیں‘ اور اسے امریکیوں کی غربت پر افسوس بھی ہوا۔ مگر صورت حال یہ تھی کہ اس شخص نے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس ہی کو ترقی کی علامت سمجھا تھا اور اسی کی امریکہ میں موجودگی کے متعلق سوال کیا تھا‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں بجلی اور توانائی کا استعمال ہو رہاتھا۔
ہم لوگوں کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے۔ ہماری بھی عجیب قسم کی کیفیت ہے۔ ہمارے اپنے ترقی کے تصورات ہیں‘انھی سے ہم دوسروں کو ناپتے ہیں۔ ہم نظارہ اور مشاہدہ نہیں کرتے‘ بس اپنے ہی قفس میں بند رہتے ہیں اور اسی کو کائنات سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اس ذہنی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کیجیے اور اقدار کو ناپنے کے پیمانے تبدیل کیجیے۔
ج- کہتے ہیں کہ جب آٹوموبائل (موٹرگاڑی) ایجاد ہوئی تو اس زمانے میں امریکہ ہی کا کوئی دیہاتی جاگیردار نیویارک شہر پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں گاڑیاں جو کہ اپنے ابتدائی مرحلے میں تھیں اور گھوڑا گاڑی سے مشابہت رکھتی تھیں‘ کافی تیزی سے سفر کر رہی تھیں۔ اس دیہاتی نے معلومات حاصل کیں کہ وہ اتنی تیز کیسے چلتی ہیں۔ لوگوں نے بتایا ‘ان میں ہارس پاور مشین لگی ہوئی ہے۔ اس شخص نے معلومات حاصل کر کے کسی فیکٹری سے ہارس پاور مشین خریدی اور اپنے دیہات آگیا‘ اور پھر اس مشین کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق گھوڑا گاڑی میں فٹ کر دیا اور اسے مع گھوڑا چلانے کی کوشش کی۔ گھوڑا اپنی عمومی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔ دیہاتی پریشان تھا کہ ہارس پاور مشین کے لگنے کے باوجود اس کی گھوڑا گاڑی میں وہ تیزی پیدا نہیں ہوئی جو کہ نیویارک میں اس کے مشاہدہ میں آئی تھی۔
وہ شخص نیویارک کی گاڑی کی ہیئت اور ترکیب کا مطالعہ نہ کر سکا کہ اس ہارس پاور مشین کو لگانے کے لیے گھوڑے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ گاڑی کے نظام میں بنیادی تبدیلی کرنی پڑتی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ گھوڑا گاڑی اور موٹرگاڑی دو مختلف نظاموں کی شکلیں ہیں۔ ایک کی چیز دوسری میں لگا کر کام نہیں چلایا جا سکتا ہے۔
کچھ یہی کیفیت ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو کہ مغرب اور امریکہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور ان کی چند چیزوں کو ہمارے معاشرے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ دونوں معاشروں کی بنیادیں بالکل مختلف ہیں۔ اس کے لیے ہمیں عقل کے استعمال کی ضرورت ہے۔
فکری طور پر شخصیت کی تعمیر کے لیے ہمیں درج ذیل عناصر کی تربیت کی ضرورت ہے:
۱- عقل انسانی: عقل انسان کے بڑے بڑے مسئلے حل کر دیتی ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ کسی زیرتعمیر گیراج کی دیوار میں ایک سوراخ تھا۔ پرندہ سیمنٹ کی اس دیوار کے اندر سوراخ میں گر چکا تھا۔ یہ سوراخ تقریباً ۳۰ انچ گہرا‘ ۴ انچ لمبا اور ڈیڑھ انچ چوڑا تھا۔ گیراج کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدور بہت پریشان تھے کہ اس بچے پرندے کو باہر کیسے نکالیں۔
ایک ۱۰ سالہ لڑکا وہاں کسی کام سے پہنچ گیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا۔ کچھ دیر دماغ لڑانے کے بعد اس نے ریت کا ایک ڈولچہ لیا اور پھر مٹھی بھر کے آہستہ آہستہ ریت سوراخ میں گراتا گیا۔ سوراخ جیسے جیسے ریت سے بھرتا جاتا‘ بچہ اُوپر اٹھتا آتا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی کوشش کے بعد اس لڑکے کی کوشش سے بچہ باہر نکل آیا۔
اس لڑکے نے یقینا اپنے ذہن کے ذریعے بہت سارے حل تلاش کیے ہوں گے۔ اس ترکیب کے استعمال نے اسے کامیابی عطا کی۔ بے شک اس نے عقل کو استعمال کیا۔ درحقیقت عقل سلیم کا یہ استعمال بہت سارے مسائل حل کر دیتا ہے۔
واقعات میں آتا ہے کہ ایک شخص پیاس کے باعث بہت پریشان تھا۔ اسے کنواں نظر آیا مگر ڈول نہیں تھا۔ وہ نیچے اترا ‘ پانی پیا اور باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے زبان نکالے کھڑا ہے۔ اس شخص کو احساس ہوا کہ اسے بھی میری طرح پیاس لگی ہوگی۔ ڈول تو نہیں تھا‘ مگر اس نے عقل استعمال کی۔ نیچے اترا‘ اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھرا اور اسے منہ سے پکڑ کراُوپر لے آیا اورکتے کو پانی پلایا۔ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس نیکی کے باعث بخش دیا۔ اس شخص نے کیا کیا۔ اسے احساس تھا‘ ہمدردی ہوئی‘ اور عقل کو استعمال کیا اور کامیابی کی بشارت ہو گئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے ابتدائی زمانے میں حجراسود کا مسئلہ چادر کے ذریعے حل کر کے ایک بہت بڑی ممکنہ جنگ کو ختم کیا اور ہر ایک کومطمئن‘ شریک اور خوش کر کے سب کی جیت کا تصور دیا۔ انسان نے عقل کے استعمال سے نئی نئی غذائوں کے راز دریافت کیے‘ نئے نئے ریشوں سے لباس بنائے‘ بڑے بڑے پل‘ فلک بوس عمارتیں‘ کارخانے‘ گھر اور مختلف مقاصد کے لیے بے شمار چیزیں پیدا کر لیں۔ اس نے زمین سے معدنی چیزیں نکالیں اور انھیں لوہے‘ ایلومینیم‘ سیسے‘ تانبے‘ ٹین اور دوسری دھاتوں کی شکل دے دی۔ یہ دریافت کر لیا کہ ایندھن محفوظ طریقوں پر کیونکر جلایا جا سکتا ہے۔ عقل کے استعمال سے لاتعداد مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ نصب العین اور مقاصد زندگی کو سامنے رکھ کر اور اپنی ذات کے مفاد کو بیچ میں لائے بغیر یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے ذہن سے کام لے کر اسے عقل سلیم بنا دیں۔
۲- عقل معیار ہے: عقل سب سے بڑی بخشش ہے۔وہ اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ اسی سے نیکیوں کے اصول بنتے ہیں۔ انجام کا لحاظ کیا جاتا ہے‘ اور باریکیوں کو سمجھا جاتا اور فضائل حاصل کیے جاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ کسی شخص کے اسلام کو اس وقت تک بلند مرتبہ نہ سمجھو جب تک کہ اس کی عقل کی گرفت کو نہ پہچان لو۔ ابوزکریا ؒ کا قول ہے کہ جنت میں ہر مومن اپنی عقل کے مطابق لذت حاصل کرے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا مقولہ ہے کہ عقل (انسان کی ایک طبعی صفت ہے جو اس کی ماہیت کے ساتھ) گڑی ہوئی شے ہے۔ محاسبی ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: عقل ایک نور ہے۔ ایک تعریف یہ ہے کہ عقل ایک قوت ہے جس کے ذریعے سے معلومات کی حقیقتوں کو جدا جدا کیا جاتا ہے۔ ایک اعرابی سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس نے جواب دیا: عقل تجربات کا نچوڑ ہے جو بطور غنیمت ہاتھ لگ جائے۔ عقل فرق کو سمجھنے کا نام ہے۔ اسی عقل کا صحیح استعمال ہو اوردل میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے تو انسان تقویٰ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور یہی کیفیت حکمت کا سرچشمہ بن جاتی ہے جس سے علم و دانش کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
۳- ذہانت‘ فہم اور ذکاوت: ذہن وہ قوت ہے جو آرا حاصل کرنے کے لیے مستعد اور تیار ہوتاہے۔ فہم کی تعریف یہ ہے کہ کسی قول کو سنتے ہی اس کے معنی کا علم ہو جائے۔ ذکاوت فہم کی قوت کی تیزی کا نام ہے۔ اس کے معنی سمجھ کی پختگی کے بھی ہیں۔
۴- عقل کی تکمیل کے لیے ضروری صفات: علامہ ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں کہ کسی عاقل کی عقل پر اس کی مناسب موقع پر خاموشی اور سکون اور نیچی نظر اور برمحل حرکات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ عقل مند اپنے فیصلے میں‘ خواہ کھانے پینے کے معاملے میں یا کسی قول و فعل کے معاملے میں‘اسی امر کو اختیار کرے گا جو انجام کے اعتبار سے اعلیٰ ہوگا‘ اور جس چیز سے نقصان ہوگا اس کو ترک کر دے گا‘ اور اسی کام کی تیاری کرے گا جس کا پورا ہونا ممکن ہو۔
حضرت ابوالدرداء ؓ سے مروی ہے‘ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ کیا میں عاقل کی علامتیں بتائوں؟ وہ یہ ہیں کہ اپنے سے بڑے کے ساتھ تواضع سے پیش آئے‘ چھوٹے کو حقیر نہ سمجھے۔ اپنی گفتگو میں بڑائی کے اظہار سے بچے۔ لوگوں کے ساتھ معاشرت میں ان کے آداب معاشرت کو ملحوظ رکھے اور اپنے اور خدا کے درمیان تعلّق کو سخت اور مضبوط رکھے تو وہ عقل مند ہے۔ وہ دُنیا میں اس تعلّق کو ہر نقصان سے بچاتا ہوا پھرتا ہے۔
وہاب بن منبہ سے منقول ہے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے بیٹے! انسان کی عقل کامل نہیں ہوتی جب تک اس میں دس صفات نہ پیدا ہو جائیں :
مکحول سے حضرت لقمان کا یہ قول مروی ہے‘ جو انھوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ انسان کے شرف و سرداری کی بنا حسنِ عقل پر ہے ۔ جس کی عقل اعلیٰ درجے کی ہوگی وہ اس کے تمام گناہوں کو ڈھک دے گی اور اس کی تمام برائیوں کی اصلاح کر دے گی۔ اس کو رضاے الٰہی حاصل ہو جائے گی۔ کسی کا قول ہے کہ بڑائی کی بات یہ ہے کہ کسی بڑے شخص کی عقل زبان سے بڑھی ہوئی ہو‘ یہ نہیں کہ زبان عقل سے بڑھی ہوئی ہو۔
۵- مثبت انداز فکر: حسن ظن‘ خوش گمانی اور مثبت انداز فکر تعمیر و ترقی شخصیت کے لیے اہم ہیں۔فکر کا یہ انداز انسان کو مایوسی سے بچاتا ہے اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ ایک گلاس میں نصف پانی ہو اور باقی خالی ہو تو مثبت فکر انسان کے لیے وہ آدھا بھرا ہوا ہے‘ جب کہ منفی فکر انسان کے لیے آدھا خالی ہے۔ اوّل الذکر شخص کی یہ سوچ زندگی کے عمومی معاملات پر حاوی ہوتی ہے۔ وہ تلخ و نامساعد حالات میں بھی امید اور اچھائی کا پہلو تلاش کرتا ہے۔ وہ ہر مشکل کو موقع سمجھتا ہے اور اسی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔ دوسری طرف منفی فکر کا انسان عموماً قنوطیت‘ مایوسی اور احساس کمتری کا شکار رہتا ہے۔ ہر معاملے کے برے پہلو سے اس کی فکر اور قوت عمل میں کمزوری آتی ہے ‘وہ اولوالعزم نہیں رہتا۔ مثبت انداز فکر انسان میں قوت پیدا کرتا ہے۔ اس قوت کے ذریعے وہ اندھیروں میں ستاروں کی روشنی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔
۶- شکر: شکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو اس کی پسندیدہ چیزوں میں استعمال کیا جائے۔ ہروہ انسان جس نے کسی چیز کو ایسے کام میں استعمال کیا جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی تو اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران (ناشکری) کی۔ شریف انسان سے رذیل کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ بہترین صلاحیتوں کے افراد سے معمولی معمولی کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمیں جو وسائل (انسانی اور مادّی) دیے گئے ہیں ان کا صحیح انداز سے جائزہ لیں اور ان وسائل کو ان کے اوصاف اور قوتوں اور قابلیتوں کے مطابق استعمال کریں۔ یہ شکر کی عملی کیفیت ہے۔ دل کا شکر یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کا ارادہ کرے اور تمام مخلوق کا بھلا چاہے۔ زبان کا شکر یہ ہے کہ اللہ کی تعریف کرتا رہے۔ اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا احساس کرے۔ ایک قول ہے کہ نعمت ایک جنگلی جانور ہے اسے شکر کی زنجیروں سے باندھ کر رکھو۔ مثبت اندازِ فکر ‘ حسن ظن اور شکر‘ قوت عمل پیدا کرتے ہیں۔ انھیں اپنے مزاج کا حصہ بنا لیجیے۔
۷- احساس وجود: اپنے وجود کا احساس اور اس کے تقاضوں کی سمجھ بھی ضروری ہے۔ ہر انسان سونے اور چاندی کی کانوں کی مانند ہے۔ بات اسے استعمال کرنے اور اخذ کرنے کی ہے۔ اس سے انسان صاحب زر‘ زیور اور زیرک بن سکتا ہے۔ وجود کا احساس غصے اور سختی کے ساتھ حکم دینے سے نہیں کرایا جا سکتا۔ مگر اپنے ماحول میں ہم جو کرنا چاہتے ہیں اس میں کامیابی ضروری ہے۔ ہمیں دوسروں کے سامنے فوراً جھک نہیں جانا چاہیے۔ ہماری جو معلومات ہیں اور جس چیز کو ہم صحیح سمجھتے ہیں اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ جب پھول اپنی خوشبو پھیلا سکتے ہیں‘ پانی زمین کو نرم کر سکتا ہے‘ ہوائیں پتوں کو ہلا سکتی ہیں تو پھر ہم اپنے اخلاق اور قوت نافذہ سے اپنے ارد گرد اور معاشرے میں تبدیلی کیوں نہیں لا سکتے۔ دوسری طرف اگر اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو پھر بحث‘ ہٹ دھرمی کی علامت ہے اور ایسے موقع پر اعتراف میں عظمت ہے۔
۸- تجزیاتی صلاحیت: حالات و واقعات کا تجزیہ کرنا‘ ان کے اسباب پر غور کرنا‘ نتائج کی جانب دیکھنا اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اسے آپ تجزیاتی صلاحیت کا نام دے سکتے ہیں۔ کسی بات کے مثبت اور منفی پہلو پر غور کرنا اور اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔
۹- ارادہ و عزم: اپنے ارادے اور عزم کو بلند رکھیے اور اپنے عزائم کو صالح بنایئے اور ان کی عملی تنفیذ (عمل درآمد) کی کوشش کیجیے۔ محض عزم باندھنے اور عمل نہ کرنے سے دُنیا میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ مشکلات سے ڈرنا نہیں چاہیے‘ یہ تو انسان کو بنانے کے لیے آتی ہیں۔ ناکامیوں اور اندھیروں سے گھبرانا نہیں چاہیے‘ یہ تو ستاروں کی چمک کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ شاہراہ حیات پر جب سرخ سگنل نظر آئے تو اسے ناکامی مت سمجھیے‘ چند لمحے آرام کیجیے اور سبز سگنل کا انتظار کیجیے۔ ان لمحوں میں قوت جمع کرنے کی کوشش کیجیے۔ مشکلات ہمیشہ نہیں رہتی ہیں‘ یہ تو قرب خداوندی کا باعث ہوتی ہیں۔ حبس سے مت گھبرایئے‘ یہ تو بارش کی علامت ہے۔ بس عزم کیجیے‘ اپنے مقاصد حاصل کیجیے۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے عزم کی مثال دی ہے: شام کا وقت تھا اور سورج غروب ہو رہا تھا۔ ڈوبتے ہوئے سورج نے پوچھا :ہے کوئی جو میری جگہ لے۔ کسی جھونپڑے میں ایک دِیا تھا--- وہ ٹمٹما رہا تھا۔ اس نے جواب دیا: ہاں‘ میں کوشش کروں گا۔ اس نے اس گھر کی کائنات کو روشن کر دیا۔
اپنی مقدور بھر کوشش کیجیے اور ضرور کیجیے۔ نتائج کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیکھیے۔ نیت صاف ہوگی‘ محنت صحیح رُخ پر ہوگی اور وفاداری ہوگی تو پھر نتائج تو جو مطلوب ہیں وہی آتے ہیں بلکہ اس سے بہتر‘ اور اگر کسی وجہ سے نہ بھی مل سکیں تو آخرت کو کتنی دیر ہے۔ جس کی رضا کے لیے محنت کی ہے اس کے ہاں تو اجر باقی ہے اور وہ تو اپنے ظرف کے مطابق اجر دیتا ہے ؎
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
عزم کی ایک اور تمثیل ہے کہ کسی پہاڑ سے چشمہ پھوٹا اور پھر میدان میں ندی کی صورت اختیار کر گیا۔ میدان میں ایک شخص ٹہل رہا تھا۔ وہ اس منظر سے محظوظ ہو رہا تھاکہ پانی اپنا راستہ کیسے بناتا ہے۔ اس کی نظر ندی میں بہتے ہوئے ایک بچھو پر پڑی۔ اسے اس جانور پر ترس آیا۔ اور اس نے اسے نکال لیا۔ بچھو نے اپنا کام دکھایا‘ ڈس لیا‘ اور کود کر پھر ندی میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس شخص کو پھرخیال آیا اور اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر بچھو کو نکال لیا۔ بچھونے اپنا وہی کردار دہرایا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص کو بچھو کی جان کا پھر خیال آیا۔ اس نے جان بچانے کی کوشش کی اور بچھو نے اپنا وہی رویہ اختیار کیا۔ ایک اور شخص جو اس منظر کو دیکھ رہا تھا‘ اس سے رہا نہ گیا اور اس نے کہا: ’’ارے یہ حیوان ہے‘ اپنی حیوانیت نہیں چھوڑے گا ‘تم اپنی جان کیوں ہلاکت میں ڈال رہے ہو‘‘۔ بچھو کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے شخص نے کہا:
’’جب ایک حیوان اپنی حیوانیت نہیں چھوڑ سکتا تو میں انسان اپنی انسانیت کیسے چھوڑ سکتا ہوں‘‘۔
یہ شخص اپنی انسانیت اور انسانی کردار کے بارے میں پرُعزم تھا اور اس نے عمل کر کے بھی دکھا دیا۔ ہم جس معاشرے میں ہیں وہاں درندگی‘ سفاکی‘ حیوانیت‘ بدعنوانی اور بے حیائی ہے۔ ہم جن کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں وہ احسان فراموش بن جاتے ہیں۔ ہم جن کی معاش میں مدد کرتے ہیں وہ ہمارا استحصال کردیتے ہیں۔ ہم جنھیں تربیت پرواز دیتے ہیں وہ اڑتے ہوئے ہمیں اپنے پنجوں میں جھپٹ لیتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آج کل ماحول کو دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
لیکن پھربھی فطرت انسانی کا تقاضا ہے کہ بروں کے ساتھ ہم برے نہ بنیں بلکہ اپنی انسانیت کو نہ چھوڑیں۔ مکافات عمل کا انتظار کیجیے۔زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔
۱۰- جوکھم (Risk): دنیا میں ہر کام کے کرنے میں جوکھم ہے۔ ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہم اس جوکھم کا اندازہ کر لیں اور اپنے معاملات کی تیاری اس کے مطابق کریں۔ چھٹی حِس ‘ ذہنی صلاحیتوں میں ایک اہم حِس ہے۔ قدآور شخصیات میں یہ حِس کارفرما ہوتی ہے۔
فرض کیجیے آپ سو رہے ہیں اور چولہے میں آگ روشن چھوڑ دی۔ ایک شرارہ اُڑا اور اس نے مکان کو جلا ڈالا۔ ایسی حالت میں آپ کا یہ عذر نہیں سنا جائے گا کہ ’’اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نیند کی حالت میں کس طرح چنگاریاں اور شرارے اُڑنے سے روک سکتا تھا‘‘۔ اس معاملے میں آپ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم تھا کہ آپ عنقریب سونے والے ہیں اور نیند کی تیاری کر چکے ہیں اور اس بات کا علم تھا کہ اس حالت میں حواس کا شعور معطل ہو جاتا ہے‘ اس لیے ضروری تھا کہ اپنے بیداریِ حواس کے وقت ان ذرائع کا سدباب کرتے جن کی وجہ سے نیند کے وقت یہ حادثہ پیش آیا‘ یعنی اوّل آگ بجھاتے اور پھر سوتے۔
تدبیر یہ ہے کہ اُونٹ کو کھونٹے سے باندھیں اور اس کے بعد توکل کریں۔ بغیر کھونٹے سے باندھے اُونٹ کو چھوڑ دیں گے تو یہ آپ کی نادانی ہوگی اور آپ غیر ضروری جوکھم سے اپنا اور نہ معلوم کس کس کا امتحان لینے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔
شکر: ہر وقت ہمیں بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہوتی ہیں: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْھَا ط (ابراہیم ۱۴:۳۴) ’’اگراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گنو تو شمار نہ کر سکو گے‘‘۔ کچھ نعمتیں تو ایسی ہیں کہ کوئی چیز مل گئی جیسے رزق مل گیا‘ کپڑا مل گیا‘ مال مل گیا‘ ان کو وجودی نعمتیں کہتے ہیں۔ اور کچھ نعمتیں عدمی ہیں کہ چیز ہم سے دُور نہ ہوئی‘ مثلاً اس وقت ہم آرام سے بیٹھے ہیں چھت نہیںگری‘ دیوار نہیں گری‘ آسمان سے پتھر نہیں برس رہے‘ سانپ اور بچھو اور درندہ ہمیں نہیں ستا رہا‘ چور‘ ڈاکو حملہ نہیں کر رہے‘ کوئی زہرنہیں کھلا رہا‘ کوئی قتل نہیں کر رہا۔قبض نہیں ہے‘ بدہضمی نہیں ہے ‘ لقمہ گلے میں اَٹکا ہوا نہیں ہے‘ پانی گلے سے اُتر رہا ہے۔ ہاتھ پائوں‘ آنکھیں‘ کان کام کر رہے ہیں۔ ان سب نعمتوں کا پورا شکر تو ہم کر ہی نہیں سکتے لیکن جتنا کر سکتے ہیں ہم تو اتنا بھی نہیں کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ تو۲۴گھنٹوں میں ایک دفعہ بھی ہم الحمدللہ نہیں کہتے۔ کوئی کہے کہ نماز میں تو الحمدللہ پڑھا ہے‘ تو جواب یہ ہے کہ یہ چھلکے کے درجے میں شکر ادا کیا ہے‘ مغز کے درجے میں ادا نہیں کیا۔ مغز یہ ہے کہ نعمت کی اور نعمت دینے والے کی دل سے قدر ہو۔ کوئی بہت ہی پیارا دوست کوئی ہدیہ بھیجے اور پہلے وہ منہ نہ لگاتا تھا تو اس ہدیے کی کتنی قدر ہوتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے عمربھر اللہ تعالیٰ کے ایک ہدیے کی بھی قدر کی؟ حالانکہ ہر وقت نعمتوں کی بارش ہم پر ہو رہی ہے۔ اگرچہ نعمت پرجوش و خروش ہمارے اختیار میں نہیں‘ لیکن اس کے اسباب تو ہمارے اختیار میں ہیں‘ جیسے تحصیل دار لگ جانا تو ہمارے اختیار میں نہیں‘ اس کے اسباب جیسے امتحان پاس کرنا‘ درخواست دینا وغیرہ‘ یہ تو اختیار میں ہیں۔
ہم میں شکر کا کوئی درجہ نہیں ہے۔ نہ عقلی شکر ہم کرتے ہیں نہ طبعی۔ کیونکہ شکر کے لیے لازم ہے کہ نعمت دینے والے کے حق ادا کیے جائیں اور اس کی نافرمانی نہ کی جائے اور ہم صبح سے شام تک نافرمانی کر رہے ہیں۔ ہم نے صرف چند چیزوں کو ہی نافرمانی سمجھ رکھا ہے: چوری‘ زنا‘ غصب‘ قتل‘ شراب۔ حالانکہ گناہ ہاتھ سے بھی ہوتا ہے اور پائوں سے بھی‘ آنکھ سے بھی ہوتا ہے اور دل سے بھی‘ جیسے حسد‘ تکبر‘ حرص‘ حب مال و جاہ‘ کینہ۔
صبر: یہ تو شکر کا حال تھا۔ باقی رہا صبر‘ تو اس کے دو موقعے ہیں: ایک مصیبت‘ وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶)‘کہ خوش خبری دے دیں ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں‘ جب ان کو مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو سب اللہ تعالیٰ کے ہیں اور ان ہی کی طرف لوٹیں گے۔ یعنی وہ شکوہ شکایت نہیں کرتے اور ان کے دل میں حق تعالیٰ سے ناشکری اور حق تعالیٰ سے بے تعلّقی نہیں ہوتی۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ذرا سی تکلیف میں شکوہ شکایت زبان پر یا کم از کم دل میں آجاتا ہے۔ دوسرا موقع صبر کا عبادت ہے۔ تو نماز میں حال یہ ہے کہ خشوع و خضوع تو دُور کی چیز ہے‘ رکوع و سجدہ بھی ہماراٹھیک نہیں ہے۔ آپ کسی دوست سے کہیں کہ ہمیں ایک آدمی لا دو۔ وہ چارپائی پر ڈال کر ایک اندھا‘ گونگا‘ لنگڑا‘ ہاتھوں سے لنجا لا دے تو آپ خوش ہونے کی جگہ ناراض ہوں گے۔ ایسے ہی ہماری نماز سے اللہ تعالیٰ خوش ہونے کی جگہ ناراض ہوتے ہیں۔ اب یہ نہ کرو کہ چھوڑ دو‘ بلکہ اصلاح کرتے رہو‘ کرتے رہو یہاںتک کہ نماز اعلیٰ ہوجائے۔ پوری کوشش کے بعد جس درجے کی بھی نماز ہو جائے گی آقا قبول فرما لیں گے۔ فَاُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ (الفرقان ۲۵: ۷۰)۔ حسنات کی تفسیر حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ توبہ کی برکت سے وہ ہماری نماز کو‘جو گناہ کہلانے کے قابل ہے‘ عبادت ہی شمار فرما لیتے ہیں‘ جیسے غریب لوگ مٹی کے تربوز اور خربوزے تحفہ لاتے ہیں تو سخی رئیس ان کو ہی قبول کر لیتے ہیں۔ خشوع کی آسان صورت یہ ہے کہ ہر لفظ اور ہر رکوع اور سجدہ ذرا سوچ کر کر لے۔ شروع میں کچھ مشق ہو گی‘ پھر عادت سے آسانی ہو جائے گی۔ ایسے نہ پڑھیں جیسے گھڑی کو ایک دفعہ چابی دے دیتے ہیں‘ پھر وہ ۲۴ گھنٹے تک چلتی ہی رہتی ہے۔ چند دن ضرور مشق کرنی ہوگی۔ یہ نہیں کہ ایک دن میں مکمل ہو جائے ؎
صوفی نشود صافی تا در نہ کشد جامے
بسیار سفر باید تاپختہ شود خامے
صوفی صاف دل والا اس وقت تک نہیں ہو تا جب تک کہ مشقت کا پیالہ نہیں پیتا۔ پختہ ہونے کے لیے بہت سے سفر کی ضرورت ہے۔
مجذوب بن جانا کمال نہیں‘ سنت کی پیروی کمال ہے۔ ایک مجذوب نماز میں کھڑا ہوا جب تک آواز نہ آئی رکوع نہ کیا لیکن یہ کمال نہیں ہے۔ کمال صرف اتباع سنّت میں ہے۔ بیماری میں بھی درمیانہ درجہ یہ ہے کہ ضرورت کے وقت ظاہر کرے‘ ہر وقت نہ گاتا پھرے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار تھے۔ کسی نے حال پوچھا تو فرمایا: طبیعت اچھی نہیں۔ کسی نے کہا‘ آپ شکایت کرتے ہیں؟ فرمایا: کیا میں اللہ میاںکے سامنے پہلوانی کروں؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا تھا: اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ (یوسف ۱۲:۸۶)‘ کہ میں تو اپنے درد و غم کی شکایت صرف اللہ تعالیٰ سے کرتا ہوں۔
ہرحال میں صبروشکر: ہماری ایک حالت ایسی بھی ہے جس میں صبر اور شکر دونوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ موقع مصیبت ہی کا ہوتا ہے‘ مثلاً طبیب ناراض ہو گیا۔ وہ جلاب کی دوا لکھ کر نہیں دیتا ہے۔ کوشش کے بعد جب وہ راضی ہوا تو نسخہ لکھ دیا‘ تو اب ہم اس کے شکرگزار ہوں گے۔ اب یہاںتکلیف پر صبر بھی ہے اور طبیب کا شکر بھی ادا ہو رہا ہے۔ ایک طبیب کا تو ہم شکر ادا کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اگر جلاب دیں تو ہم شکر کیوں ادا نہیں کرتے؟ مصیبت روحانی جلاب ہے کیونکہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ بات احادیث سے ثابت ہے۔ کسی کا بچہ فوت ہو جائے تو اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جاتا ہے جس کا نام بیت الحمد رکھا جاتا ہے۔ اب یہ نام اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ موقع اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کا ہے‘ یعنی شکر کرنے کا ہے۔ اگر یہ صرف مصیبت ہی ہوتی تو نام بیت الصبر ہوتا۔
ایک دفعہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب ؒ مصیبت کے فوائد بیان فرما رہے تھے کہ یہ بھی ایک نعمت ہے۔ اتنے میں ایک آدمی آگیا جو درد کی وجہ سے آہ آہ کر رہا تھا۔ اس نے آکر کہا: حضرت بہت تکلیف ہے‘ دُعا فرمایئے کہ دُور ہو جائے۔ اب اگر وہ دعا نہ فرمائیں کہ ابھی جو بیان فرما رہے تھے کہ مصیبت بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے خلاف ہوگا تو اس آنے والے کی دل شکنی ہوتی۔ حضرت نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے کہ یااللہ بیماری بھی نعمت ہے لیکن ہم کمزور ہیں‘ بیماری کی نعمت کو صحت کی نعمت سے بدل دیجیے۔ پس جب بیماری اور مصیبت نعمت ہے تو یہ موقع صبر کا بھی ہے اور شکر کا بھی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اگر مصیبت ہے تو نعمت نہیں اور اگر نعمت ہے تو مصیبت نہیں‘ تو جواب یہ ہے کہ صورت کے لحاظ سے مصیبت ہے اور حقیقت کے لحاظ سے نعمت ہے۔ جیسے بیماری ہے کہ درد کو دیکھیں تو مصیبت ہے‘ اگر یہ دیکھیں کہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں‘ تو نعمت ہے۔ یہ دیکھیں کہ اس سے نفس میں تہذیب پیداہوتی ہے تو اس لحاظ سے بھی نعمت ہے۔ اسی طرح راحت ظاہری طور پر نعمت ہے اور شکر کا موقع ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے یہ صبر کا موقع ہے۔ کسی کے پاس مال آیا‘ اب شکر کا موقع ہونا تو بالکل ظاہر ہے۔ لیکن یہ صبر کا بھی موقع ہے کہ شریعت کی حد سے آگے خرچ نہ کرے اور بہت زیادہ خوشی کا اظہار بھی نہ کرے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ مصیبت میں شکر بھی واجب ہے اور صبر بھی۔ راحت میں صبر بھی واجب ہے اور شکر بھی‘ اور عبادت میں بھی صبراور شکر دونوں واجب ہیں۔ میری یہ بات الحمدللہ ثابت ہوگئی کہ صبر اور شکر ہر وقت واجب ہیں۔ اگر کسی کو شبہ ہو کہ ہر وقت صبر اور شکر ضروری ہے تو ہر وقت صرف الحمدللہ اور اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھیں‘ نماز روزہ وغیرہ کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ اس شبے کی وجہ سے میں یہ نہ کہوں گا کہ مجھ سے غلطی ہوئی‘ صبر اور شکر ہر وقت ضروری نہیں۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ صبر اور شکر صرف اناللہ پڑھنے کا اور الحمدللہ پڑھنے کا نام نہیں ہے۔ صبر کیا ہے؟ نفس کو روکنا۔ یہ روکنا نماز میں بھی ہے‘ روزے میں بھی ہے اور ہر عبادت میں ہے۔ شکر کے معنی قدردانی کے ہیں۔ اناللہ پڑھنا صورت ہے صبر کی‘ اور الحمدللہ پڑھنا صورت ہے قدردانی کی۔ پس نماز میں صبر بھی ہے شکر بھی ہے۔ روزے میں صبر بھی ہے شکر بھی۔ حج میں صبر بھی ہے شکر بھی ہے۔
خوف اور محبت کی کیفیت: اس ساری تقریر سے آپ کی سمجھ میں یہ تو آگیا ہوگا کہ صبر اور شکر کی ہر وقت ضرورت ہے۔ اب یہ سمجھیے کہ ہر وقت ہم صبروشکر کیسے کریں؟ اس مقصد کے لیے آپ کو دو چیزوں کی اور ضرورت پیش آئے گی۔ ایک اللہ تعالیٰ کا خوف و خشیت‘ اور دوسرے اللہ تعالیٰ سے محبت۔ جب خشیت ہوگی تو نفس کو آپ ایک حد پر لے جا کر روک سکیںگے۔ یہ صبر پایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی تو اس نعمت دینے والے آقا کی خوب قدر کرو گے اور یہ شکر ہے۔ اگر خوف اورمحبت نہ ہوں گے تو صبر اور شکر بھی نہ ہوں گے۔ کیونکہ اگر محبت نہ ہو‘ صرف خوف ہو تو نعمت ملنے سے لذت نہ آئے گی تو شکر ادا نہ ہوگا۔ اگر صرف محبت ہو‘ ساتھ خوف نہ ہو‘ تو محبت کی وجہ سے ناز پیدا ہو جائے گا اور نفس حد پر جا کر نہ رُکے گا بلکہ حد سے آگے نکل جائے گا اس لیے صبر پیدا نہ ہوگا۔
اگر کوئی یہ کہے کہ ایک ہی شخص سے محبت بھی ہو اور اسی سے خوف بھی ہو‘ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جواب یہ ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ناراضی کا خوف بھی ہوتا ہے۔ دونوں جمع ہو جاتے ہیں۔
صبروشکر کا طریقہ: اب یہ سمجھیے کہ خوف اور محبت پیدا کیسے ہوں گے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ متعین وقت روزانہ نکالو۔ اس میں سے آدھا اپنی نافرمانیوں کو اور ان کی سزائوں کو سوچو کہ اس گناہ کی یہ سزا ہے‘ اس گناہ کی یہ سزا ہے‘ خطرہ ہے کہ فرشتے گھسیٹ کر دوزخ میں لے جائیں‘ اور دوسرے آدھے میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں سوچو۔ سزائیں سوچنے سے خوف پیدا ہوگا اور نعمتیں سوچنے سے اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا ہوگی۔ یہ تو طریقہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا خوف کیسے پیدا ہو۔ اب یہ سمجھیے کہ پیدا ہونے کے بعد یہ دونوں چیزیں محفوظ کیسے رہیں۔ محفوظ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ ۱۵ منٹ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزاریں اور ۱۵ منٹ اہل اللہ کی صحبت اور خدمت میں گزاریں۔ ان دونوں کاموں سے صبر اور شکر محفوظ رہیں گے بلکہ ان میں ترقی ہوگی اور صبروشکر کا اعلیٰ درجہ پیدا ہوگا اور پھر اس آیت کا فائدہ آپ کو معلوم ہوگا: اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍo (ابراہیم ۱۴:۵) ’’ اس میں البتہ نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو بہت صبر کرنے والا بہت شکر کرنے والا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب چیزوں پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔ آمین! (تلخیص: مولانا صوفی محمد سرور۔ تدوین: مسلم سجاد) (بہ شکریہ ماہنامہ الحسن‘ جون ۲۰۰۱ء)
ایک نہر ہے جو تیزی سے بہہ رہی ہے اور قرب و جوار کی بستیوں میں تباہی مچا رہی ہے۔ اہل بستی کو یقین ہو گیا کہ اگر بہائو کا یہی حال رہا تو سب ہی غرق ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اہل بستی کے تین گروہ ہوگئے۔
ایک گروہ نے اپنی تمام قوت اور اسباب اس کو روکنے اور بہائو کے آڑے آنے پر صرف کر دیے مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وجہ یہ تھی کہ پانی کو ایک جگہ سے روکا جاتا تو دوسری طرف سے بہہ نکلتا اور دبائو کے باعث مزید تباہی پھیل رہی تھی۔
دوسرا گروہ اس بات پر مصر تھا کہ اس کا سرچشمہ تلاش کیا جائے تاکہ اسے بند کرنے سے اس نہر کا زور کم ہو اور نقصان سے محفوظ رہا جا سکے۔ سرچشمہ مل تو گیا مگر ایک سوت بند کیا جاتا تو دوسرے سوت سے پانی خارج ہونے لگتا۔ چشمے کے ابلنے میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی اور تمام سوتوں کا بند کرنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اس گروہ کے اس اقدام سے بھی بستی والوں کے مکانات نہ بچ سکے اور نہ کھیتیاں پروان چڑھ سکیں۔
تیسرا گروہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ پہلے دونوں گروہوں کے طریقہ کار سے تو مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا‘ اس لیے اس گروہ نے نہ تو پانی روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی سوت بند کرنے کا تہیہ کیا بلکہ انھوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس پر صرف کیں کہ پانی کے اس بہائو کو حسب منشا صحیح راہ پر لگا دیا جائے۔ اور اس کوشش کو
اس طرح شروع کیا کہ نہر کا رخ بنجر زمینوں‘ قابل زراعت کھیتوں کی جانب کیا اور جگہ جگہ ضرورت کے لے پانی کے تالاب بنائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گھاس سے تمام زمین سبزہ زار ہو گئی اور اُس کے ثمرات سے تمام اہل بستی مالامال ہو گئے۔
بلاشبہ تیسرا گروہ کامیاب رہا‘ جب کہ پہلے اور دوسرے گروہ نے وقت ضائع کرنے اور بے نتیجہ محنت کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ کیا۔
ہمارا یہ احساس ہے کہ نہر کے بہائو میں دو عناصرہوتے ہیں۔ ایک تو پانی اور دوسرے اس کے ساتھ چلنے والی مٹی۔ بس یہی عناصر حضرت انسان میں بھی ہیں۔ اس تمثیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری خواہش ہے کہ قومی زندگی کے اس مرحلے پر تیسرے گروہ کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ناقابل تسخیر اور موثر شخصیت کی آگاہی حاصل کریں تاکہ دین اور دنیا کے تقاضے پورے کر سکیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاملے میں صرف مطالعے ہی سے کام نہیں لیا جائے گا بلکہ اپنی شخصیت کے ارتقا اور کامیابی کے لیے تحریری طور پر بھی منصوبہ بندی کر کے اور لائحہ عمل بنا کر کام کیا جائے گا۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے لیے وقت نکال لیتے ہیں‘ دوستوں اور رشتہ داروں سے مل لیتے ہیں مگر نہیں ملتے تو صرف ایک ذات سے‘ اور وہ ہے اپنی ذات۔ ہمیں منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کے نقطہ نظر سے اپنی ذات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۱- ٹھوس نظریہ حیات: آپ جس نظریۂ حیات کے حامل ہیں اس کی بنیادوں اور بنیادی فلسفہ اور اعتقاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔یہ اعتقاد ٹھوس ہو محض توجیہات پر مشتمل نہ ہو۔ اس نظریۂ حیات کے باعث آپ میں مقصد حیات کا سچا شعور پیدا ہو گیا ہو اور اس کی علامتیں ظاہر و باطن‘ دونوں میں اُبھر رہی ہوں۔ لوگ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں بلکہ آپ کو ہوشیار‘ بیدار مغز‘ اور اصول پرست ہونا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں‘ حق و باطل کے ساتھ بیک وقت رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ سیرت کی ان تمام کمزوریوں کا احساس کیجیے جو آپ کی ذات میں باطل کو گھسنے کا موقع دیتی ہیں۔ اپنی حیثیت کا جائزہ لیجیے اور اتنے مستحکم ہو جایئے کہ: لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول۔
۲- اصولوں کا علم اور ان پر عمل: آپ کو اپنے نظریہ حیات کا علم ہو۔ جو علم آپ نے حاصل کیا ہے اور جس تعلیم میں پیش رفت کی ہے اس کے اصولوں کا ادراک ہو‘ احساس ہو اور اس کے ساتھ ان پر عمل بھی ہو۔اصول‘ گفتگو اور بحث اپنی ذات کونمایاں کرنے کے لیے نہ ہوں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوں‘ تب ہی آپ کامیاب ہوں گے۔ سچائی اور ایمان داری‘ ہر نظریہ حیات اور مذہب کے بنیادی اصول ہیں۔ آپ لوگوں کو ان کی تعلیم دیں مگر اپنے معاملات میں اس پر عمل نہ کریں تودرحقیقت خسارے کا سودا کریں گے۔ جیسے جب جھوٹ کی گنجایش ہو تو بول دیں‘ ڈنڈی لگا کر‘ کاموں کو مؤخر کر کے‘ ٹیکس اور کسٹم میں مروجہ طریقہ کے مطابق مالی مفادات حاصل کر کے کام کر لیا جائے تو آپ فوری طور پر تو فائدہ اٹھا لیں گے بلکہ اپنے لیے مکان بھی بنا لیں گے مگر سکون حاصل نہیں ہوگا‘ اور آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس قسم کے مفادات کے حصول کے وقت ممکن ہے پانچ سو یا ہزار گز کا پلاٹ پیش نظر ہو‘ مگر عمر جوں جوں آگے بڑھتی ہے اور انسان ۲x۶ فٹ کے فلیٹ کے قریب پہنچتا ہے‘ تو اس وقت اسے ندامت ہوتی ہے۔
۳- اخلاص نیت اور اخلاص عمل: منہاج القاصدین میں علامہ ابن جوزیؒ نے بیان کیا ہے کہ ارباب بصیرت کو انوارالقرآن سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ سعادت تک پہنچنے کے لیے علم اور عبادت نہایت ضروری ہے۔ دنیا میں سب لوگ ہلاک ہو رہے ہیں مگر علم والے‘ اور سب علم والے ہلاک ہوں گے سوائے عاملین کے‘ اور سب عمل والے ہلاک ہوں گے سوائے مخلصین کے‘ اور مخلص بھی عظیم خطرے میں ہے۔
ہمارے ہاں اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اخلاص نیت کے اپنے اجر ہیں۔ نیت کے مطابق شعور کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان کو عمل کی فرصت نہیں ملتی مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نیت کا اجر مل جاتا ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نیت کا احتساب کریں۔ اس کا جائزہ لیتے رہیں اور اس میں اخلاص پیدا کرتے رہیں۔
۴- احساس ذمہ داری: اس دنیا میں ہم سب لوگ ذمہ دار ہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی انداز میں راعی ہے۔ گھر‘ خاندان‘ دفتر‘ کاروبار اور معاملات اور تنظیم کے حوالے سے ہمیں اپنی متعلقہ رعایا کا احساس کرنا ضروری ہے۔ پورے شعور کے ساتھ ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ پھر ان ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔ ذمہ داری میں اہل خانہ بھی شامل ہیں‘ دفتر کے معاملے میں ملازمت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ آپ کے ساتھیوں اور ماتحت افراد کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ سرکاری ملازم ہیں تو سرکاری وقت‘ وسائل اور خزانے کے متعلق ذمہ داریوں کا احساس اور ادایگی ضروری ہے۔ کاروباری ہیں تو اس کے تقاضوں کا شعور‘ قیمت کا تعین‘ ملازمین کی تنخواہیں اور ان کی خوش حالی‘ اس کے ساتھ ساتھ کاروبار کی ترقی اور پھیلائوکی کوشش اور معیار کا برقرار رکھنا ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بس ہر حال میں کام کا حق ادا کیجیے۔
۵- شجاعت: ضرورت اور حاجت کے وقت مصائب اورخطرات کا ثابت قدمی سے مقابلہ شجاعت کہلاتا ہے۔ جو شخص نتائج پر نگاہ رکھے اور ان کے پیش آنے سے خوف زدہ ہو مگر جب وہ سامنے آجائیں تو ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کرے تو وہ بہادر ہے‘ اور جب کوئی شخص موقع اور محل کی مناسبت سے بہترین کارگزار ثابت ہو وہ ’’شجاع‘‘ ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ خطرے میں کود ہی جائیں تو آپ بہادر ہوں گے بلکہ بہادر اس حالت میں بھی سمجھا جائے گا کہ نتیجے پر نگاہ رکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ اس خطرے کے موقع سے بچنا ہی بہتر طریقہ کار ہے اور اس کا فرض بھی اسے اس بات کا حکم دیتا ہو کہ وہ اپنے کو خطرے سے بچائے۔ درحقیقت سب سے بڑی بہادری‘ مصیبت اور سختی کے وقت دل کا اطمینان اور حاضر حواسی ہے۔ اس لیے بہادر وہ ہے کہ جب اس پر سخت وقت آئے تو اپنے اطمینان اور بیداری حواس کو نہ کھو بیٹھے بلکہ قابلیت اور ثبات قلبی سے اس کا مقابلہ کرے اور ذہنی بیداری اور مطمئن عقل کے ساتھ اس کو انجام دے۔
۶- حیا: انسان میں ایک ایسی قوت اور ملکہ ودیعت کیا گیا ہے جس سے انسان خیر کی طرف اقدام کرتا ہے اورشر سے بچنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ اس قوت یا ملکہ کا نام ’’حیا‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۱) حیا ایمان کی ایک شاخ ہے (۲) حیا خیر کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیتی۔ علامہ ماوردیؒ کہتے ہیں کہ خیروشر پوشیدہ معانی ہیں جو صرف اپنی ان علامتوں کے ذریعے ہی سے پہچانے جاتے ہیں جو ان معانی پر دلالت کرتے ہیں‘ پس خیر کی بہترین علامت حیا و شرم ہے اور شر کی علامت بے حیائی ہے۔ ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے: ’’انسان سے اس کے اخلاق کے متعلق نہ پوچھو‘ خود اس کے چہرے مہرے میں اس کے اخلاق کی شہادت موجود ہے‘‘۔
ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اے اولاد آدم! جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو تیرا جی چاہے کر۔ حیا اللہ تعالیٰ سے کی جاتی ہے‘ لوگوں سے کی جاتی ہے‘ اور اپنے نفس سے کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیا کرو اس درجے جو حیا کا حق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اللہ کی درگاہ میں ہم حیا کا صحیح حق کس طرح ادا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: سر اور جو اس میں محفوظ ہے‘ اور پیٹ اور جو اس میں محفوظ ہے ان کی حفاظت کے ذریعے‘ اور حیات دنیا کی زینت کے ترک‘ اور موت اور بدن کے گل سڑ جانے کی یاد کے ذریعے سے حیا کا صحیح حق جناب باری میں ادا ہوتا ہے۔
۷- میانہ روی و اعتدال: مقدمہ ابن خلدونسے اعتدال اور میانہ روی پر ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے۔ یہ ذمہ داران کے لیے بہت اہم ہے:
تم اپنے تما م کاموں میں میانہ روی اختیار کرو کیونکہ اس سے زیادہ نفع بخش‘ امن و حفاظت کی ذمہ دار اور فضیلت اور بزرگی کی نشانی کوئی چیز نہیں۔امور میں اعتدال ہی انسان کو بھلائی اور بزرگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور بھلائی توفیق ایزدی کی نشانی ہے‘ اور توفیق سعادت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ بلکہ خود دین و سنت رسولؐ کا قرار اسی اعتدال سے ہے اور دنیا کی اصلاح کا بھی اسی پر مدار (منحصر) ہے۔
شخصیت کیتعمیر و ترقی میں میانہ روی اور اعتدال و توازن اہم عناصر ہیں۔ یہ چیزیں مزاج کے لیے بھی ضروری ہیں‘ کام کاج کے لیے بھی‘ تعلقات اور معاملات کے لیے بھی‘ اور اخراجات کے لیے بھی۔ غرض زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر صورت میں یہ تعمیر و ترقی میں بڑی معاون ہے۔
۸- صبر و تحمل: صبر دو قسم کا ہے: ایک‘ بدنی‘ جیسے مشقت برداشت کرنا اور عبادت کے مشکل اعمال برداشت کرنا۔ دوسرا‘ نفسانی‘ یہ خواہش کے تقاضے اور طبیعت کی مرغوب چیزوں سے رُک جانا ہے۔ صبر کی یہ قسم اگر پیٹ اور شرم گاہ کی خواہش سے متعلق ہو‘ تو اس کا نام عفت ہے۔ اگر میدان جنگ میں صبر ہو‘ تو اس کا نام شجاعت ہے۔ اگر غصہ کو دبانے میںصبر ہو تو اس کا نام حلم ہے۔ اگر کسی پریشان کرنے والی مصیبت سے مقابلے میں ہو‘ تو اس کا نام فراخی ہے۔ اگر کسی معاملے کو پوشیدہ رکھنے کے متعلق ہو‘ تو اس کا نام راز کو چھپانا ہے۔ اگر زائد ضروریات سے رکنا ہو‘ تو اس کا نام زہد ہے۔ اور اگر تھوڑی سی ضروریات پر مطمئن ہونا ہو‘ تو اس کا نام قناعت ہے۔
صبروتحمل صرف مشکل وقت کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ بہتر وقت میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ بعض عارفین نے کہا ہے کہ مومن مصیبت پر صبر کر لیتا ہے اور عافیت پر صرف صدیق ہی صبر کر سکتا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا کہ تکلیفوں سے ہماری آزمایش ہوئی تو ہم نے صبر کیا لیکن جب نعمت و آسایش سے آزمایش ہوئی تو ہم صبر نہ کر سکے۔ جوانمرد صرف وہ ہے جو عافیت پر صبر کرے اور یہ صبر شکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب تک شکر کے حقوق ادا نہ ہوں صبر پورا نہیں ہوتا۔ اور نعمت میں صبر مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہاں قدرت حاصل ہوتی ہے‘ جیسے کھانا نہ ہونے کی صورت میں بھوکا زیادہ صبر کر سکتا ہے بہ نسبت لذیذ کھانا موجود ہونے کے۔
صبر کا اپنا وصف ہے کہ بقول حضرت علیؓ ’’ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور معرفت کا یہ حق ہے کہ تم اپنی تکلیف کی شکایت نہ کرو اور اپنی مصیبت کا ذکر نہ کرو‘‘۔
حکما کہتے ہیں کہ مصیبت کا چھپانا نیکی کا خزانہ ہے۔ایک آدمی نے امام احمدؒ سے پوچھا: اے ابوعبداللہ! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ نے کہا: عافیت اور بھلائی سے ہوں۔ اس نے کہا: کل رات آپ کو بخار تھا۔ تو فرمایا: میں نے جب تم سے کہہ دیا کہ میں عافیت سے ہوں تو بس کافی ہے۔ تم مجھ سے وہ بات کیوں کہلوانا چاہتے ہو جس کا زبان پر لانا مجھے پسند نہیں۔
۹- استقامت و باقاعدگی: اپنے معاملات اور اصولوںپرعمل درآمد میں استقامت اور باقاعدگی بہت جلد آپ کی شخصیت کو شاہراہ کامیابی پر گامزن کر دے گی۔ اصولوں پر عمل کا معمول بنایئے۔ اچھے اطوار اور کاموں کو استقامت کے ساتھ کیجیے‘ اور جائزہ لیتے رہیے۔ مستقل مزاجی اور باقاعدگی شخصیت کو معروف اور مقبول بناتی ہے اور ہم منظم رہتے ہیں۔
۱۰- خوفِ خدا اور خوفِ آخرت: تعمیر شخصیت کے تخلیقی عناصر میں اور ہماری رفتار کار اور استعداد کار میں اضافے کا ایک اہم ذریعہ بلکہ بنیادی ذریعہ خوفِ خدا اور خوفِ آخرت ہے۔ خدا خوفی ہمیں برے اعمال سے بچائے گی‘ وقت ضائع کرنے سے بچائے گی‘ حرام کھانے سے بچائے گی‘ لغویات میں ملوث ہونے سے بچائے گی۔ جب ہم بہت ساری گلیوں سے بچ کر صرف ایک سیدھی راہ پر آجائیں گے اور ہمارے سامنے ایک عظیم ذات کے وجود کا احساس اور اس کی صفات و قدرت کا خوف ہوگا تو پھر ہمارے لیے اس سیدھی راہ پر سیدھا اور تیز چلنا آسان ہوگا ۔ آخرت کی گھڑی ہمارا ہدف ہوگی‘ اور اس شاہراہ پر چلتے ہوئے نظریں ادھر ادھر نہیں بھٹکیں گی۔
۱۱- حکمت: حکمت علم اور اس کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔ ابن قتیبہؒ نے کہا: آدمی اس وقت تک حکیم نہیں ہوتاجب تک علم اور عمل کو جمع نہ کرے۔ حکمت‘ نفس کی اس حالت کا نام ہے جس کے ذریعے سے انسان تمام اختیاری امور میں خطا و صواب کے درمیان تمیز کرتا ہے۔ حکمت و عقل کے اعتدال سے حسن تدبیر‘ ذکاوت ذہن‘ باریک بینی‘ راست فکر اور پوشیدہ آفاتِ نفس کا فہم جیسے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔
۱۲- اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے! : ہر وقت یہ احساس رہنا چاہیے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ حسن نیت ‘ عزم اور صحیح طریقہ کار کے مطابق محنت کر کے اپنے معاملات کے نتائج اللہ کے سپرد کر دینے چاہییں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے کا احساس انسان کی نیکیوں میں اضافے اور برائیوں سے رکنے کا باعث ہوتا ہے۔ اسی احساس کے نتیجے میں اس میں غیر مرئی قوت محرکہ اور قوت عمل پیدا ہوتی ہے اور اس کے لیے حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔
۱۳- نفس سے سبقت اور احتساب: انسان پر حسد‘ حرص‘ غضب‘ شہوت اور تندی و تیزی بہت جلد غالب آجاتی ہے اور شیطان انھی راستوں سے اس پر حملہ کرتا ہے۔ بغیر تحقیق اور جلدبازی سے کام کرنا بھی اطاعت نفس ہے اور ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ یہ جذبات اور کیفیات بہت جلد غالب آجاتی ہیں۔ بدگمانی‘ بدظنی اور غلط فہمی موجودہ دور کے مسلمانوں کی بہت بڑی کمزوریاں ہیں۔ مسلمان کو ایٹمی قوت تباہ نہیں کر سکتی مگر بدگمانی تباہ کر ڈالتی ہے۔ بس اس صورت میں کنٹرول اور عقل کی ضرورت ہے۔ حقائق معلوم کرنے کی کوشش کیجیے‘ باتوں اور افواہوں پر فوری ردعمل کی ضرورت نہیں ہے۔
ع بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گرمارا
اس کے ساتھ ساتھ انسان کو روزانہ رات کو سونے سے قبل احتساب بھی کرنا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے۔ اور بقول حضرت جنید بغدادیؒ ’’تم ہروقت یہ سوچتے رہو کہ خدا سے کتنے قریب ہوئے‘ شیطان سے کتنے دُور‘ جنت سے کتنے قریب‘ اور دوزخ سے کتنے دُور‘‘۔ احتساب تحریری ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ تحریری احتساب قوت عمل پیدا کرنے میں آپ کا معاون ہوگا۔
۱۴- دعا: تعمیر شخصیت میں دعا کا اہم مقام ہے۔
دعا سب سے پہلے اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے: ’’ اے اللہ تو نے مجھے اچھی صورت میں پیدا کیا‘ اب میرے اخلاق بھی اچھے کر دے‘‘۔ دعا نفس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے‘ عزائم کی بلندیوں‘ قوتوں کی بحالی اور حالات کی سازگاری اور خوش گواری کے لیے‘ رزق حلال کے لیے‘ بہتر استعداد کے لیے‘ اچھی ٹیم کے لیے‘ سخت گیر لوگوں کے دلوں کی نرمی کے لیے بھی ہونی چاہیے۔
دعا میں یقین کی کیفیت ضروری ہے۔ کسی گائوں میں بارش نہیں ہو رہی تھی تو نماز استسقاء کا اعلان ہوا۔ گائوں والے میدان میں جمع ہو گئے۔ دیکھا گیا کہ ایک گیارہ سالہ بچی بھی اپنے ہاتھ میں چھتری لیے میدان کی طرف آرہی تھی۔ لوگوں نے کہا: بیٹی! ہم تو ابھی بارش کی دعا مانگنے جا رہے ہیں‘ تو چھتری لے کر کیوں آ رہی ہے؟ بچی نے معصومیت سے جواب دیا: جب ہم دعا مانگ کر واپس آ رہے ہوں گے اس وقت تو بارش ہو رہی ہوگی۔ بس یقین کی یہی کیفیت مطلوب ہے!
ترجمہ: محمد ظہیر الدین بھٹی
امام حسن البناشہید ؒاتنی عظیم الشان‘ مضبوط بنیادوں والی عمارت بنانے میں کیسے کامیاب ہوئے جس کے نتیجے میں ایمان و عمل سے معمور نسلیں پے درپے چلی آرہی ہیں؟ کیا ان کے پاس جادو کی چھڑی تھی جس سے وہ دلوں پر قبضہ کر لیتے تھے اور لوگوں کو مسخر کرلیتے تھے؟ کیا ان کے پاس کوئی ایسی طاقت تھی کہ لوگ ان کے نظریے کو مان لینے پر مجبور ہو جاتے ‘ ان کی جماعت کی تائید کرنے لگتے‘ اور دعوت کی خاطر جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے؟ امام شہیدؒ اپنی دعوت میں اور اپنے ساتھیوں کی تربیت میں کیوںکر اس طرح کامیاب ہوئے کہ وہ ہمارے لیے بے شمار منفرد نمونے اور عظیم مثالیںچھوڑ گئے۔
آیئے ان سوالات کے جواب تلاش کریں۔
آج بہت سے نوجوان‘ اپنے دَور کی مختلف قسم کی نفسیاتی اور سماجی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ وہ حبِّ جاہ اور حبِّ دنیا کے مرض میں گرفتار ہیں۔ وہ زندگی کے دبائو کا شکار ہیں‘ اور لامتناہی اغراض کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے حقیقی فریضہ --- دعوت الی اللہ--- کو بھول چکے ہیں۔ وہ شیطانِ لعین کا آسان شکار بن چکے ہیں اور اس کی وسوسہ کاری کا نشانہ بن کر بے کارمحض بن گئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے قریب جایئے‘ ان سے بات چیت کیجیے تو وہ اپنے آپ کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں۔ یہ نوجوان کامیاب گروہ کے ساتھ چلنے کی حقیقی خواہش کا اظہار کرتے ہیں‘ وہ نجات کی کشتی میں سوار ہونا چاہتے ہیں‘ وہ پاک دائرے میں داخل ہونے کے متمنی ہیں‘ ایمان سے معمور لشکر کی ہم رکابی کی سعادت حاصل کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں مگر زندگی کی سختیوں اور شیطان کی مسلسل انگیخت کے سامنے سرنگوں ہو کر‘ جلد ہی ان کی یہ خواہش دم توڑ دیتی ہے اور ان کا یہ جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔
نوجوانوں کی مدد کرنے کے لیے اور ان کو درپیش اس مشکل سے نجات دلانے کے لیے کسی ایسے ذریعے کی تلاش بہت اہم ہے جس کے نتائج یقینی ہوں۔ اس کے لیے نوجوانوں کی حالت کے حقیقی اسباب کا کھوج لگانا ضروری ہے۔ تجزیے و مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کا بنیادی اور براہِ راست سبب ایمان کی کمی اور اللہ کے ساتھ رابطے میں کمزوری ہے۔ اگر ہم نوجوانوں کی اصلاح اور ان کے مرض کا درست علاج کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایمان میں اضافے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں مضبوطی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اس مقصد کی خاطر ہمیں ایک بار پھر ’’روحانی تربیت کے مدارس‘‘ کی طرف رجوع کرنا ہے تاکہ ہم شروع ہی سے درست راستے پر چلنے لگیں اور بالآخر اپنا نصب العین پا لیں۔
اس سلسلے میں حسن البنا ؒہمارے لیے ایک عملی نمونہ تھے جو اپنے دور کے بگاڑ و فساد کے باوجود مشکلات پر غالب آئے۔ آپ نے قرآن و سنت کی روشنی میں تربیت کے نئے اسلوب اختیار کیے اور ان کے مطابق نوجوانوں کی تربیت کی۔ اس تربیت سے آپ نے اپنی جماعت میں وہ حقیقی روح پھونک دی جس سے وہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکی۔ آپ کے زیرتربیت نوجوانوں نے ان تربیتی گہواروں سے روحانی و فکری بالیدگی پائی۔ ان تربیتی گہواروں نے سب سے پہلے‘ ایمان اور پروردگار کے ساتھ رابطہ بہتر بنانے پر توجہ کی۔ یہی اس عظیم جماعت کی ترقی کا راز ہے جس نے دشمنوں کے کاری وار سہے‘ پھر بھی اُس کی مضبوطی و بلندی میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اس کے صبر کے سامنے جابر وسرکش حکمرانوں نے بھی ہار مان لی۔ یہ تربیتی گہوارے‘ افراد کی تربیت کتاب اللہ اور منہج نبویؐ کے مطابق کرتے تھے۔
امام البنا ؒ تربیت کے تین ارکان تعارف‘ تفاہم اور تکافل کی وضاحت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
جب آپ نے یہ انفرادی‘ اجتماعی اور مالی ذمّہ داریاں پوری کر دیں تو بلاشبہ اس نظام کے ارکان حاصل ہو جائیں گے اور اگر آپ نے اس میں کوتاہی کی تو یہ نظام مرجھائے گا‘ سکڑے گا ‘ حتیٰ کہ مر جائے گا اور اس کی موت اس دعوت کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہے۔ یہ دعوت تو اسلام اور مسلمانوں کی امید ہے۔
امام شہیدؒ تربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے‘ چنانچہ فرماتے ہیں:
ہم اپنے نفسوں کی تربیت کریں گے تاکہ ہم مسلم بنیں۔ اپنے گھروں کی تربیت کریں گے تاکہ مسلم گھرانے وجود میں آئیں۔ ہم اپنی قوم کی تربیت کریں گے تاکہ ہم ایک مسلم قوم بنیں۔
اس تربیت کے لیے سازوسامان کیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
ہم نے اس کے لیے تیار کیا ہے: نہ ڈگمگانے والا ایمان‘ نہ رکنے والا یعنی مسلسل عمل‘ اور وہ روحیں جو اپنے لیے سب سے بہترین دن وہ سمجھتی ہیں جب وہ اللہ کے راستے میں شہادت پا کر‘ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔
ہمیں سخت ضرورت ہے کہ اپنے خالق سے دلوں کو مربوط کرنے والے ان اقوال پر غور کریں اور پھر اپنا جائزہ لیں۔ بہت سے لوگ کسی دعوت کے حقائق اور اس کی بنیادوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس دعوت کی بنیادوں اور اس کے مظاہر کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ امام حسن البنا ؒ فرماتے ہیں:
لوگ دعوتوں کے صرف عملی مظاہر اور شکل و صورت کو دیکھتے ہیں مگر ان نفسیاتی محرکات اور روحانی الہامات کو اکثروبیشتر نظرانداز کر دیتے ہیں جو فی الحقیقت ان دعوتوں کا اصل سرمایہ اور ان کی غذا ہے‘ اور جن پر ان کی ترقی اور غلبہ موقوف ہے۔
امام البنا ؒنے اسلام کی عظمت و وقار اور شان و شوکت کی ازسرنو بازیابی کی تمام تر امیدیں اور توقعات‘ سچّے ایمان اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھے رابطے و تعلّق کے ذریعے دلوں کو زندہ کرنے سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
...لہٰذا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سب سے پہلے ہم اپنی دعوت میں جس چیز کا اہتمام کرتے ہیں‘ اپنی دعوت کی ترقی اور غلبے میں جس بات پر انحصار کرتے ہیں‘ وہ ہے: روحانی بیداری۔ ہم سب سے پہلے روحانی بیداری‘ دلوں کی زندگی اور وجدان و احساسات کی حقیقی بیداری چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں: زندہ‘ مضبوط اور مستحکم نفوس‘ دھڑکنے والے نئے دل‘ اور غیور و اعلیٰ جذبات!
اللہ اکبر‘ کتنے سچّے ہیں یہ کلمات‘ یہ زندہ معانی‘ اور ازدل خیزد بردل ریزد‘ کے مصداق یہ عبارات! ان کلمات نے اعضا و جوارح پر وہ اثر ڈالا کہ الفاظ نے افعال کی صورت اختیار کر لی‘ کلمات نے زندگی کا روپ دھار لیا۔
امام مربی ؒ نے قلب کی بیداری‘ ایمان کی ضرورت و احساسات و وجدان کی حاضری پر زور دیا ہے کیوں کہ اسی سے مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے اوراس عظیم مہم کو سر کرنے کا اہل بنتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
اس سے پہلے کہ ہم آپ کو اس دعوت کے حوالے سے نماز و روزے کے بارے میں بتائیں‘ قضا و حکم‘ عادات و عبادات‘ اور نظم و معاملات کے متعلق بات کریں‘ ہم آپ سے زندہ دل‘ زندہ روح ‘ بیدار وجدان‘ حسّاس نفس اور گہرے ایمان کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ دل و روح کی یہ بیداری انسان پر اثرانداز ہوتی ہے اور وہ اسلام کا مطلوب نمونہ بن جاتا ہے۔ اسلام انسان کو ایسا فرد بنا دینا چاہتا ہے جو حسّاس وجدان کا مالک ہو‘ حسن و قبح میں تمیز کر سکتا ہو‘ صواب و خطا کا درست ادراک کر سکتا ہو‘ ایسا مضبوط ارادہ رکھتا ہو جو حق کی خاطر کمزور پڑے نہ نرم۔ اسی لیے ہم ہر مسلمان بھائی سے کہتے ہیں کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق عبادت کرے تاکہ اس کا وجدان ترقی کر سکے۔
یہ ہے ایمانی تربیت‘ اسلام کی وہ مضبوط بنیاد جس پر نبی ؐنے اپنی دعوت اور اسلامی مملکت کی تشکیل کی۔ امام شہید ؒ فرماتے ہیں:
حضور نبی کریم ؐنے اپنی دعوت کو راسخ کرنے کے لیے لوگوں کو ایمان کی طرف بلایا‘ پھر محبت و اخوت پر ان کے دلوں کو یک جا کیا۔ چنانچہ عقیدے کی قوت‘ وحدت و اتحاد کی قوت میں بدل گئی۔ آپؐ کی جماعت ایک ایسی جماعت بن گئی جس کے کلمے و دعوت کو ضرور غالب آکے رہنا تھا۔
ایمانی تربیت کا جذبہ امام شہیدؒ پر ہمیشہ غالب رہتا تھا۔ چنانچہ آپ اس مقصد کے لیے ہفتہ وار شبینہ مجالس منعقد کرنے پر زور دیتے تھے۔ ایک بار آپ نے فرمایا:
اخوان المسلمون کا طریقہ ہے کہ وہ ہفتے میں ایک رات تعارف‘ اخوت اور ذکر و دعا کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ قیام اللیل‘ دعا اور استغفار کے بارے میں کچھ باتیں مختصراً عرض کر دوں۔
برادر عزیز! سب سے پاکیزہ مناجات یہ ہے کہ آپ اپنے رب سے اس وقت خلوت میں ہوں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں‘ ماحول پرسکون ہو‘ رات نے اپنے پردے ڈال دیے ہوں۔ اس وقت آپ اپنے دل کو حاضر کریں‘ اپنے پروردگار کو یاد کریں‘ اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھیں‘ اپنے مولا کی عظمت کا تصور کریں‘ اپنے آپ کو اس کے حضور پا کر آپ پرسکون ہوں۔ اس کی یاد سے آپ کا دل مطمئن ہو‘ اس کے فضل پر خوش ہوں اور اس کے خوف سے روئیں۔ اس کی نگرانی کا احساس کریں‘ دعا میں الحاح و اصرار کریں‘ استغفار میں محنت کریں‘ اور پھر اس ذات کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کریں جسے کوئی عاجز کر سکتا ہے نہ غافل۔
لہٰذا ہمیں سب سے پہلے تزکیہ قلوب اور تہذیب نفوس پر توجہ دینا چاہیے تاکہ ہم اطاعت کے عادی ہوجائیں‘ اللہ تعالیٰ ایمان کو ہمارا محبوب بنا دے‘ اور ہمارے دلوں کو اس سے مزین کر دے‘ کفر و فسق اور نافرمانی سے ہمیں نفرت ہو جائے۔ اس ایمانی بیداری کی بنا پر ہی ہم ان شا ء اللہ اُن ایمان والوں میں شامل ہو جائیں گے جو گہرے ایمان کی دولت سے مالا مال کیے جاتے ہیں۔
شہید حسن البنا ؒکے مکتب فکر میں‘ فرد کے اپنے ربّ سے تعلق کو مضبوط کرنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ درج ذیل طریقہ اختیار کرتے ہیں:
روزانہ تلاوتِ قرآن مجید‘ ماثور دعائوں کا ورد‘ ۱۰۰ مرتبہ استغفراللّٰہ‘ ۱۰۰ مرتبہ اَللّٰھُمَّ صل علٰی سیدنا محمد وعلٰی آلہ وصحبہٖ وسلّم‘ ۱۰۰ مرتبہ لا الٰہ الا اللّٰہ۔ اس کے بعد‘ دعوت کی کامیابی اور دعوت کے لیے کام کرنے والوں اور اخوان کے لیے دعا۔ بعدازاں اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے دعا۔ اس کے بعد جتنی دعائیں ممکن ہوں‘ کی جائیں۔ یہ وظیفہ صبح کی نماز کے بعد اور مغرب یا عشا کی نماز کے بعد خشوع کے ساتھ کیا جائے۔ اس ورد میں مجبوری کے سوا‘ دنیوی بات نہ کی جائے۔
اگر ہم واقعی نجات کے طالب ہیں‘ دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا اور فوز و فلاح چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم دلوں میں خفتہ ایمان کو جگانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم اپنی دعوت میں کامیابی چاہتے ہیں‘ اپنے ذرائع میں کامرانی کے متمنی ہیں‘ اپنے اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ایمان کی بیداری ہی اس کا واحد حل ہے--- ایمان جو ایک مضبوط ہتھیار ہے‘ جو ہمارا سب سے بڑا خزانہ ہے!
امام شہیدؒ فرماتے ہیں:
ایمان قوت کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے‘ جس کا ادراک سچّے اور مخلص مومن ہی کرسکتے ہیں۔ آج سے پہلے اگر کارکنوں نے جہاد کیا ہے تو ایمان کے ذریعے ہی کیا ہے‘ اور آج کے بعد بھی وہ ایمان ہی کے ذریعے جہاد کریں گے۔ ایمان نہ رہے تو مادی اسلحہ کتنا بھی ہو‘ لوگوں کے لیے کسی کام کا نہیں۔ ایمان موجود ہے تو مقصد تک پہنچنے کا راستہ بھی موجود ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الروم ۳۰:۴۷)
اور ہم پر یہ حق ہے کہ مومنوں کی مدد کریں۔
( ہفت روزہ المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۴۳۹ ‘ ۲۰ فروری ۲۰۰۱ء سے ماخوذ)
تمثیلات خلیل جبران میں ہے کہ ’’تالاب میں پتھر گرا‘ پانی میں لہریں اٹھیں اور دُور چاروں طرف کناروں سے ملنے لگیں۔ ساتھ ہی ایک درخت تھا‘ اسے بھی جوش آیا‘ اس نے بھی تالاب میں ایک پتا گرا دیا۔ لیکن نہ شور ہوا اور نہ تالاب میں لہریں پیدا ہوئیں۔ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا: اے بے وقوف! دنیا میں وہی ہلچل مچا سکتے ہیں جو اپنے اندر وزن رکھتے ہیں‘‘۔
یہ ایک تمثیل ہے مگر ایک حقیقت بھی۔ تالاب میں مزید پتے گرا کے بھی اتنی ہلچل پیدا نہیں ہو سکتی تھی جتنی ایک پتھر کے گرنے سے پیدا ہوئی تھی۔ بس یہی حال ہمارے اداروں کا بھی ہے۔ بعض اوقات افراد کے آنے کے ساتھ ہی تنظیم اور طریق کار میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ انتظام صحیح چل رہا ہے اور کامیابی حاصل ہو رہی ہے‘ جب کہ دوسری طرف افراد ہی کے باعث ادارے غیر موثر ہو جاتے ہیں اوران کی تباہی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ وہ صاحب منصب افراد پتوں کی طرح تنظیم کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں مگر شخصیت میں وزن اور کردار میں پختگی نہ ہونے کے باعث اپنے وجود کا کوئی فائدہ تنظیم‘ ادارے‘ افراد اور اپنی ذات کونہیں پہنچا سکتے۔
آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ ایک ہی دفتر یا ادارے میں ایک ہی وقت میں دو افراد وابستہ ہوتے ہیں۔ انھیں اہداف (targets)‘ افراد اور اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک فرد اپنے متعلقہ شعبے میں ہر دلعزیز بن جاتا ہے‘ افراد اس کے لیے وقت دیتے ہیں اور اس کے کام بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ شخص دفتر میں اتنا وقت بھی نکال لیتا ہے کہ افراد اور ساتھیوں سے ذاتی اور ترقیاتی
معاملات پر گفتگو کر سکے ‘ اور اپنے فیصلوں میں ان کی مشاورت بھی لے سکے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہاں ایک موثر ٹیم بن جاتی ہے جو ادارے کے مسائل اور وسائل کو اپنے ہی مسائل و وسائل محسوس کرتی ہے اور پھر اجتماعی جدوجہد سے ادارہ اور اس کے متعلقہ امور اور کاروباری معاملات میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ وہ فرد سپروائزر‘ پھر مینیجر‘ اس کے بعد مینیجر سے ایگزیکٹو اور پھر لیڈر بن جاتا ہے اور لوگ اسے دل سے چاہتے ہیں۔ کامیابی اس فرد کو تلاش کرتی ہے۔ وہ مصروف ترین فرد ہونے کے باوجود مختلف کاموں کے لیے وقت نکال لیتا ہے۔
وہ فرد اور اس کی ٹیم ہر مشکل کو کامیابی کا موقع سمجھتے ہیں۔ وسعتیں ان کے قریب آجاتی ہیں اور وہ اپنی ذات ‘ اپنی ٹیم‘ اپنے ادارے اور مجموعی طور پر ملک و قوم کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور حدیث کے الفاظ میں خیر الناس من ینفع الناس (تم میں بہتر وہ ہیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں) بن جاتے ہیں۔ اس فرد کے ساتھی افراد جو قانوناً ماتحت ہوتے ہیں‘ ٹیم بن کر کام کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ادارے کے فرد ہیں اور پھر کسی بھی صورت میں ادارے کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔
اسی مشاہدے کے دوران آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوسرا شخص اپنے متعلقہ شعبے میں اپنے ماتحت افراد کے مذاق کا شکار ہو جاتا ہے‘ نہ خود کوئی کام کر سکتا ہے نہ لوگوں سے کوئی کام لے سکتا ہے۔ وہ ہدایت اور حکم دیتا ہے اور لوگ اسے انجانے بن کر ٹال دیتے ہیں۔ اس کے ماتحت افراد کام نہ کرنے کے سیکڑوں بہانے تلاش کر لیتے ہیں۔ اس شعبے میں ہر فرد دوسرے کو اور بالآخر اپنے متعلقہ شعبے کے ذمہ دار کو بے وقوف بنانے کا فن سیکھتا ہے۔ بالآخر وہ شخص بھی‘ اس کا شعبہ بھی‘ اور اس کے متعلقین بھی ناکامی کا شکار ہوتے ہیں‘ بدنام ہوتے ہیں اور شعبے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ چند افراد کا اخراج ہوتا ہے ‘ دوسرے افراد اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور ایک بہت بڑے آپریشن کلین اپ کی ضرورت پڑتی ہے۔
کاروبار ہو یا دفتری زندگی‘ آپ منتظم ہوں یا ماتحت‘ غرض آپ جس حیثیت میں ہوں اور زندگی کے کسی بھی میدان عمل میں ہوں‘ کامیابی کے لیے موثر شخصیت اور شخصی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق تکنیکی صلاحیت صرف ۱۵ فی صد کردار ادا کرتی ہے‘ جب کہ فرد کی شخصی خصوصیات کا کردار ۸۵ فی صد ہوتا ہے۔
ایسا شخص افراد کی تربیت کا کام کرتا ہے‘ اور کل کے لیے لوگوں کو آج سے تیار کر لیتا ہے جس کے باعث لوگوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اس شخصی کردار کے مثبت ہونے اور مقبول ہونے کے باعث فرد نہ صرف خود خوش رہتا ہے بلکہ اس کے افسران‘ اس کے ماتحت اور اس کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی خوش ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے مقاصد اور اہداف بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔ اسے عموماً کام کرنے والے لوگ اور ساتھ دینے والے ساتھی بھی مل جاتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب اور مقبول کردار کے باعث اپنے لیے ایک مخلص ٹیم بنا لیتا ہے۔ وہ ٹیم کی کامیابی‘ اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ وہ ٹیم اس پر جان نثار کرتی ہے اور اسے پرندوں کی طرح طوفان اور بارش کا پتا بھی دیتی ہے‘ اور خطرے کے وقت ایک مضبوط قوت مدافعت بن جاتی ہے۔ آخرکار نتائج سامنے آنے لگتے ہیں اور بہت جلد آتے ہیں۔ اداروں کی کارکردگی اور کامیابی میں توقع سے زیادہ پیش رفت ہوتی ہے۔ کارکردگی بڑھنے کے باعث پیداوار بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں منافع میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث مجموعی قومی پیداوار اور آمدنی میں خوش آیند اضافہ ہوتا ہے۔
فرد اگر صحیح نہ ہو‘ یا اس کی شخصیت میں خامیاں ہوں‘ یا اس کا شخصی کردار غیر معروف اور غیر مقبول ہو تو ادارے میں عموماً بحران کی کیفیت ہوتی ہے۔ کام عموماً افراتفری کے عالم میں ہوتے ہیں۔ افراد کو عموماً دفتر کے اوقات کے بعد بھی بیٹھنا ہوتا ہے۔ ذہنی کیفیت اور انتشار کا عالم یہ ہے کہ ۱۰ ہزار روپے کے اضافی منافع کے لیے ۳۰ ہزار روپے کی اضافی لاگت آجاتی ہے۔ نفع‘ نقصان کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا‘ انگلیاں دوسروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ دوسروں کی طرف ایک انگلی اٹھتی ہے لیکن درحقیقت اس کے ساتھ ساتھ اپنی طرف تین انگلیاںاٹھتی ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا اور بحران بڑھتا رہتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا ذمہ دار وہ فرد ہے جس پر ہم گفتگو کر رہے ہیں۔
وہ مثال بار بار ذہن میں آتی ہے کہ ایک صاحب اپنے گھر میں مطالعہ کررہے تھے۔ ان کا بچہ --- چھوٹا سا بچہ--- بار بار ان کے مطالعے میں مخل ہو رہا تھا۔ ان صاحب نے بچے کو بہت سمجھایا‘ کھلونے دیے مگر اس نے سمجھ کر نہ دیا۔ بالآخر ان صاحب کو ایک ترکیب سوجھی کہ بچے کو بلایا اور اسے دنیا کا ایک نقشہ دکھایا اوراس میں بچے کو مختلف مقامات کی نشان دہی کی کہ یہ پاکستان‘ یہ ہمالیہ‘ یہ امریکہ‘ یہ سعودی عرب وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس نقشے کے ٹکڑے کیے اور بچے کو دے دیے کہ بیٹا پھر سے اسے بنا کر لائیں۔ ابا جان سوچ رہے تھے کہ تین چار گھنٹے کے لیے فراغت ہوئی مگر بچہ تو آدھے گھنٹے ہی میں آگیا اور کہنے لگا: ابو‘ ابو! دنیا کا نقشہ بن گیا۔ ابا جان نے دیکھا سب مقامات اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ بچے کی طرف دیکھا‘ ذہانت پر تعجب ہوا۔ پوچھا ’’بیٹے یہ کارنامہ تم نے کیسے انجام دیا؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’ابو! جب آپ نقشے کے ٹکڑے کر رہے تھے تو اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کے پیچھے آدمی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ بس میں نے اس تصویر کو ٹھیک کر لیا۔ دنیا کا نقشہ خود بخود ٹھیک ہو گیا‘‘۔
ہم اپنے اداروں اور دفاتر‘ کاروبار اور گھر کی کارکردگی بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ان کا نقشہ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی اس بچے کی طرح تصویر ٹھیک کرنی پڑے گی۔ ممکن ہے یہ تصویر ہماری اپنی ہی ہو۔ ہمیں اس تصویر کو اپنے ذہن میں نقش کرنا ہے‘ اسے سمجھنا ہے‘ اس کے ٹکڑوں کو منظم کرنا ہے اور اسے بہت جلد صحیح کرنا ہے تاکہ ہمارے معاشرے اور اجتماعی نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں آجائیں۔
اب ہم شخصیت کے موضوع پر گفتگو کریں گے کہ کس انداز سے ہم دفاتر‘ اداروں‘ کاروبار‘ گھر اور معاشرے میں کام کریں کہ:
اب ہم شخصیت کی تعریف اور تصورات پر بات کریں گے۔ اس کے بعد شخصیت کے حوالے سے مختلف موضوعات اور متعلقہ عناصر پر گفتگو کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی شخصیت کی تشکیل ہو جو کہ ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کے لیے اہم کردار ادا کر سکے۔ بات کمر باندھنے کی ہے۔ عربی مقولے کا ترجمہ ہے:
’’جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کوشش بھی کرتا ہے‘ وہ داخل ہو ہی جاتا ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان سونے چاندی کی کانوں کی طرح ہے۔ جو تم میں زمانہ جاہلیت میں بہترین اوصاف کے مالک تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں۔ یہ اچھے اوصاف انسان کا قیمتی سرمایہ ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا راز اور ذریعہ بھی۔
مختلف ماہرین نے شخصیت کی جو تعریفیں پیش کی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
اب ہم درج ذیل موضوعات اور عناصر پر گفتگو کریں گے:
a