انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک اہم اور ضروری چیز مال ہے، جس کے پاس مال ہے اسے امیر اور جس کے پاس مال نہیں اسے غریب کہا جاتا ہے۔ امیری وغریبی کی یہ تقسیم نظامِ قدرت کے کمال کی خصوصیت ہے۔ اگر سب کے سب امیر ہی ہوتے تو پھر کوئی بھی محکوم نظر نہ آتا۔ جس کے پاس ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے مال نہ ہو اسے قرض کی ضرورت پڑتی۔ ایسے ہی ضرورت مند اور حاجت مندوں کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ، صدقہ اور قرض جیسی چیزوں کومشروع کیااور زکوٰۃ وصدقہ کی طرح قرض کوبھی باعث ثواب قرار دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کی تکلیف کودُور کرے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی تکالیف کو دور کرے گا۔ اس حدیث سے پتا چلا کہ قرض دینا بھی ایک مستحسن عمل ہے۔
بعض موقعوں پرمحتاج اورتنگ دست حضرات بلاسودی قرض نہ ملنے کی وجہ سے سودی قرض لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ تجربہ شاہد ہے کہ ایک طرف بینکنگ کے نظام نے سودی قرضہ سے لوگوں کے خون کو اس طرح چوسنا شروع کیا کہ لوگ یاتو خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے یا اپنے اہل وعیال کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہوگئے،تو دوسری طرف بعض لوگوں نے اپنے آپ کو بنک بنا کرخود سے سود پر قرضہ دینا شروع کیا۔ حالانکہ ایک زمانے تک نہ بینک کا نام ونشان تھااور نہ اس طرح کا کوئی کاروبار۔ اس کے باوجود محتاجوں کو برابر قرض مل رہا تھااور لوگ اللہ کی رضا کے لیے غریبوں کو بغیر سود کے قرض دیتے آرہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے اندر سے قرض دینے کا مستحسن عمل کیوں متروک ہورہاہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ قرض لینے والوں نے باوجود قرض کی ادائی پر قدرت کے بروقت قرض ادا کرنے میں کوتاہی اور تساہل سے کام لینا شروع کیا۔ حالانکہ قرض لینا مباح اور جائز کام ہے،اس میں کوئی شرمندگی نہیں ، اللہ کے رسولؐ نے بھی قرض لیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے ایک یہودی کے پاس سے ۳۰صاع جَو قرض لیے تھے اور اس کے بدلے آپؐ نے اپنی زرہ رہن میں رکھی تھی (سنن ابن ماجہ: ۲۴۳۹﴾)۔ اس لیے کہ قرض کی ادائی واجب اور ضروری ہے اور عدم ادائی باعث گناہ ہے۔
قرض ادا نہ کرنے والے کے سلسلے میں حدیث میں وعید آئی ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَۃٌ بِدَیْـنِہٖ حَتّٰی یُقْضٰی عَنْہُ (سنن ابن ماجہ: ۲۴۱۳﴾)۔ علامہ عراقی نے اس حدیث کا یہ مطلب نقل کیا ہے کہ مقروض میت کے بارے میں نہ نجات کا فیصلہ ہوگا اور نہ ہلاکت کا یہاں تک کہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی طرف سے قرض ادا کیا گیا یا نہیں(تحفۃ الاحوذی، ج۴،ص۱۶۴﴾)۔ علامہ خطیب شربینی ؒ نے اس حدیث کامطلب اس طرح بیان کیا کہ جب کوئی شخص مقروض ہونے کی حالت میں مرتا ہے تواس کی روح قبر میں محبوس ہوتی ہے اور عالم برزخ میں دیگر روحوں کے ساتھ اسے کشادگی حاصل نہیں ہوتی،اور اسے جنت کی سیر سے محروم رکھا جاتاہے۔ یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا کیا جائے(مغنی المحتاج: ج۳،ص ۹۰﴾)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اس حالت میں مرجائے کہ اس پر ایک دینار یادرہم قرض باقی ہو، تو اس وقت جب درہم و دینار کام نہیں آئے گا،اس کی نیکیوں کے ذریعے قرض ادا کیا جائے گا(سنن ابن ماجہ: ۲۴۱۴﴾)۔ ایک حدیث میں بغیر قرض کے مرنے والے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت سنائی۔آپؐ نے فرمایاکہ جس شخص کی روح اس کے جسم سے اس حال میں جدا ہو کہ اس پر کسی کا قرض نہ ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا(سنن ابن ماجہ:۲۴۱۲﴾)۔ ایک موقع پر آپؐ نے قرض ادا نہ کرنے والوں کو اس فعل سے بچنے اور اس فعل کے سخت گناہ ہونے کو بتلانے کے لیے ایک مقروض پر نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ صحابہ کویہ حکم دیا کہ تم پڑھ لو۔(شرح مسلم،ج۴، ص۵۴﴾)
شریعت اسلامیہ میں کئی مقامات پر قرض کی ادائی کا وقت ہونے پرقرض ادا نہ کرنے والے کے حق میں سختی کا معاملہ کیا گیا ہے۔ مِن جملہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرض کی ادائی کا وقت ہونے کے بعد دائن (قرض دینے والے) کو اس بات کا مکمل اختیار ہے کہ وہ مقروض کو سفر کرنے سے روکے ، یہاں تک کہ وہ قرض ادا کرے پھر سفر کرے(الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج۵،ص۴۵۹﴾)۔ اسی طرح باوجود دین کی ادائی پر قدرت کے جو دین ادا نہ کرے یا ٹال مٹول کرے تو اسے قاضی کے حکم سے قید کیا جائے (الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج۵،ص۴۶۲﴾ )۔اسلام میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے لیکن جب مقروض قرض ادا نہ کرے جس کی بنا پر قرض دینے والا مقروض کا مال اپنے قرض کے بقدر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج۶، ص۱۱۸﴾)
اسلام میں جہاد جیسے اہم وعظیم کام کی فضیلت واہمیت سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن قرض کی ادائی کو جہاد پر مقدم کیا گیا ہے۔چنانچہ امام نووی ؒ فرماتے ہیں: وَالدَّیْنُ الْحَالُّ یُحَرِّمُ سَفَرَ جِھَادٍ وَغَیْرِہٖ اِلَّا بِـاِذْنِ غَرِیْــمِہٖ’’ کہ قرض کی ادائی کا وقت ہونے کے بعد قرض دینے والے کی اجازت کے بغیر جہاد کی غرض سے سفر کرنا حرام ہے (منھاج الطالبین،ج۳،ص۲۶۱﴾)۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْقَتْلُ فِی سَبِیْلِ اللہِ یُکَفِّرُ کُلَّ شَیْ ءٍ اِلَّا الدَّیْنَ ’’ کہ اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے کا ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے، سوائے قرض کے(مسلم :۴۸۸۴﴾)۔ لہٰذا قرض کی ادائی اس پر لازم ہونے کے بعد جہاد جیسے کام کے لیے ادائے قرض کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرض ادانہ کرنے کا گناہ کتنا سخت ہے اور اسلام میں قرض ادا نہ کرنے والے کے ساتھ کس طرح سخت ر ویہ اختیار کیا گیا ہے۔ لہذا قرض لینے والوں کو چاہیے کہ وعدے کے مطابق قرض کو ادا کرنے کوشش کریں، تا کہ قرض دینے والے آیندہ بخوشی قرض دے سکیں۔ آج اگر سارے قرض لینے والے پوری ایمان داری ودیانت داری کے ساتھ قرض ادا کرنے لگیں تو مال داروں کو بھی قرض دینے میں کوئی پریشانی نہ ہوگی، اور سود جیسے بڑے گناہ سے حفاظت بھی ہوگی۔البتہ قرض دینے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مقروض اگر حقیقت میں قرض کی ادائی پر قادر نہیں ہے تو اسے کچھ دنوں تک مہلت دیں۔اس لیے کہ اللہ کا ارشاد ہے:وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ ۰ۭ (البقرہ۲: ۲۸۰﴾) ’’تمھارا قرض دار تنگدست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو‘‘۔
معاشرے کی تعمیروتشکیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز ایفائے عہد بھی ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے میں ایک ایسا توازن پیدا ہوتا ہے، جس سے ماحول خوش گوار بن جاتا ہے اور وقتی رنجش ہو یا دائمی، سب کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی بات پر کوئی معاملہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے، لیکن بروقت اس کی تعمیل نہ کرسکے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی بدمزگی پیداہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ جو معاملہ کرو یا کسی سے وعدہ کرو اس کو بروقت پورا کرو۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات بابرکات کے حوالے سے متعدد مقامات پر فرمایا ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۳۱(الرعد ۱۳:۳۱) یقینا اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ (التوبہ ۹:۱۱۱) اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہے؟
وعدے کا پورا کرنا اللہ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں بھی اس صفت کو جلوہ گر دیکھنا چاہتا ہے، اس لیے اس نے عہد کی پابندی کی بار بار تاکید کی ہے:
وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۳۶ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۷) اور عہد کو پورا کرو، عہد کے بارے میں (اللہ کے یہاں) ضرور بازپُرس ہوگی۔
اور ایک جگہ ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ (النحل ۱۶:۹۱) اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد کیا ہو اور قسموں کو توڑا نہ کرو۔
ایک اور جگہ عہد ِالٰہی کے ایفا کی نصیحت کی گئی ہے، فرمایا:
وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۱۵۲ۙ (انعام۶:۱۵۲) اور اللہ کا قرار پورا کرو۔ یہ اسی نے تم کو نصیحت کردی ہے تاکہ تم دھیان رکھو۔
مومنین کا ایک وصف یہ بھی قرار دیا گیا کہ وہ نہایت درجہ امانت دار اور پابند ِ عہد ہوتے ہیں:
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۸ۙ (المومنون۲۳:۸) اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں۔
دوسری آیت میں ہے:
وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۰ۚ(البقرہ۲:۱۷۷) اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے پورا کریں۔
عہد، ایک تو وہ معاہدہ (Agreement) ہے، جو طرفین کے درمیان کسی معاملے میں انجام پاتا ہے۔ اس کا پورا کرنا فرض ہے اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے، جو کہ حرام ہے۔ دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتےہیں کہ کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم و واجب ہے۔ حدیث میں آیا ہے: الْعِدَّۃُ دِین (وعدہ ایک قسم کا قرض ہے)۔ جس طرح قرض کا ادا کرنا واجب ہے، اسی طرح وعدہ کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ عام طور پر لوگ عہد کے معنٰی صرف قول و قرا ر کے سمجھتے ہیں۔ اسلام میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ حقوق اللہ، حقوق العباد، معاشرت، سیاست، تجارت، اخلاق اور معاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط ہے، جن کی پابندی انسان پر عقلاً، شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً فرض ہے۔ امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:
اَلْاَمَانَۃُ وَالْعَھْدُ یَجْمَعُ کُلَّ مَا یَحْمِلُہٗ الْاِنْسَانُ مِنْ أَمْرِ دِیْـنِہٖ وَدُنْیَاہُ قَوْلًا وَفِعْلًا (قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، جز۱۲، ص ۱۰۷) امانت اور عہد دینی و دُنیوی معاملے پر حاوی ہے، چاہے وہ قولی ہو یا فعلی اور جس کا انسان پابند اور متحمل ہو۔
علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
الآیَۃُ عِنْدَ أَکْثَرِ الْمُفَسِّرِیْنَ عَامَّۃٌ فِیْ کُلِّ مَا ائْتُمِنُوْا عَلَیْہِ وَعُوْھِدُوْا مِنْ جِھَۃِ اللہِ تَعَالٰی وَمِنْ جِھَۃِ النَّاسِ (روح المعانی ، جز۹، ص ۲۱۴) یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک ہر قول و قرار کے لیے عام ہے ، چاہے وہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے مابین ہو یا دو انسانوں کے درمیان۔
عہد اگر خلافِ شرع نہ ہو تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے اور عہد شکنی حرام ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِىْٓ اُوْفِ بِعَہْدِكُمْ۰ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ۴۰ (البقرہ ۲:۴۰) اور تم پورا کرو میرا قرار تو میں پورا کروں تمھارا قرار اور مجھ ہی سے ڈرو۔
قرآن کریم میں عہد کے قریبی معنٰی میں ایک اور لفظ ’عقد‘ استعمال کیا گیا ہے:
يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ (المائدہ ۵:۱) اے ایمان والو، اپنے وعدوں کو پورا کرو۔
وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ۰ۚ (المائدہ ۵:۸۹)مگر جو قسمیں تم کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔
’عقد‘ کےلفظی معنی گرہ کے ہیں۔ اس سے مراد معاملات کی باہمی پابندیوں کی گرہ ہے۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں:
اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اللہ تعالیٰ کے قول: يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ کے ہم معنٰی ہے۔ اس قول میں تمام عقد و معاملات مثلاً بیع، شرکت، یمین، نذر، صلح اور نکاح وغیرہ داخل ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو انسانوں کے درمیان جو عقد اور جو عہد طے پائے دونوں پر اس کا پورا کرنا واجب ہے۔(التفسیر الکبیر، ج۱۰، ج۲۰، ص ۱۶۸)
حضرت حسن بصریؒ نے اس کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
اس سے مراد دینی معاملات ہیں جن کو انسان اپنے اُوپر لازم کر دیتا ہے، مثلاً خریدوفروخت،اجارہ، نکاح، طلاق، زراعت، صلح ، تملیک، خیار، آزادی، سیاست و انتظام وغیرہ۔ یہ تمام اُمور شریعت سے خارج نہیں ہیں۔ اسی طرح جو اُمور اطاعت و بندگی سے متعلق ہیں، مثلاً حج، روزہ، اعتکاف، قیامِ لیل، نذر وغیرہ یہ سب اسلامی احکام ہیں۔(قرطبی، الجامع الاحکام القرآن ، ج۵، جز۶، ص ۳۲)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد شکنی کو نفاق کی خصلتوں میں شمار کیا ہے اور وعدہ خلاف شخص کو منافق قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ ، وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ (بخاری، ۳۳) منافق تین باتوں سے پہچانا جاتا ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
اسی مضمون کی ایک حدیث کچھ مختلف الفاظ میں عبداللہ بن عمروؓ سے بھی مروی ہے:
اَرْبَعٌ مِّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَھَا ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ، وَ اِذَا خَاصَمَ فَـجَرَ (بخاری، ۳۴، ۲۴۵۹، ۳۱۷۸)چار خصلتیں ہیں کہ جس کے اندر پائی جائیں گی، وہ خالص منافق ہوگا اور جس کے اندر اِن میں سے ایک خصلت پائی گئی اس میں منافقت کی ایک خصلت موجود ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے ترک نہ کردے: ۱-جب بولے تو جھوٹ بولے ۲-جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ۳-جب معاہدہ کرے تو توڑ دے ۴- جب جھگڑے تو گالیاں دے۔
اسلام نے محض ایفائے عہد کی تعلیم و تلقین ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ اس کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے عذاب کی وعیدیں بھی آئی ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَاَيْـمَانِہِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللہُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّـيْہِمْ ۰۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۷۷(اٰل عمرٰن ۳:۷۷) وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کر ے گا، بلکہ ان کے لیے تو سخت دردناک سزا ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں عہد کی خلاف ورزی کرنے والے پر پانچ وعیدیں مذکور ہیں:
۱- ان کو جنت کی نعمتوں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ ایک حدیث میں رسولِ کریمؐ نے فرمایا:
مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ الله لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ وَاِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيْرًا، يَا رَسُولَ اللّهِ؟ قَالَ: وَ اِنْ قَضِيْبًا مِنْ أَرَاكٍ (مسلم، کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار، ۲۲۱) جس آدمی نے جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق دبا دیا تو اس نے اپنے لیے آگ کو واجب کرلیا۔ راوی نے عرض کیا کہ خواہ وہ چیز معمولی ہو تب بھی اس کے لیے آگ واجب ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں خواہ وہ درخت کی سبز ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔
۲- اللہ تعالیٰ ان سے بات نہیں کرے گا۔
۳- اللہ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے دن رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔
۴- اللہ تعالیٰ ان کے گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ کیوں کہ عہد کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بندے کا حق تلف ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔
۵- اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِذَا جَمَعَ اللّٰہُ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃُ یُرْفَعَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِـوَاءٌ فَقِیْلَ: ہٰذِہٖ غَدْرَۃُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ (مسلم، باب تحریم الغدر: ۳۳۵۲) اللہ تعالیٰ حشر کے میدان میں جہاں تمام اوّلین و آخرین جمع ہوں گے، عہدشکنی کرنے والے کے پاس ایک جھنڈا بطورِ علامت لگا دے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی غداری کا نشان ہے۔
لِکُلِّ غَادِرٍ لِـوَاءٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدْرِ غَدْرِہٖ اَلَا وَلَا غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ أَمِیْرِ عَامَّۃٍ (مسلم ،باب تحریم العذر، ۴۵۳۸) ہر غدار و عہد شکن کی بے ایمانی کا اعلان کرنے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جو اس کے غدرکے مطابق ہوگا اور یاد رکھو کہ جو سردارِ قوم غدر کرے اس سے بڑا کوئی غدار نہیں ہے۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آگئی کہ قیامت کے روز وعدہ ایفا نہ کرنے والے شخص کی ذلت و رُسوائی میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔ ناکامی، ذلت اور نکبت کا ساراسامان بہم ہوگا۔
جس شخص سے معاہدہ ہے چاہے وہ کافر و مشرک ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ عہدشکنی نہ کرے تو اس کے لیے عہد کی پابندی و استواری اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا ناگزیر ہے اور یہی تقویٰ کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۰ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۷ (التوبہ ۹:۷) ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے؟ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا، تو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیوں کہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔
بَلٰي مَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۷۶ (اٰل عمرٰن ۳:۷۶) جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور بُرائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا ، کیوں کہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔
متذکرہ بالا دونوں آیتوں سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ عہد کا ایفا اللہ کی خوشی و مسرت اور محبت و رضامندی کا موجب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندے کے لیے عظیم انعام و اعزاز ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی اِکرام نہیں۔
بلاشبہہ اللہ کی تلقین کردہ ہدایت ہی اصل ہدایت ہے،یعنی یہی راہِ حق ہے ،یہی راہِ مستقیم ہے جسے قرآن نے ’ صراطِ مستقیم ‘سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ نکتہ بہت اہم و لائقِ توجہ ہے کہ قرآن میں تین مقام (البقرۃ۲ :۱۲۰، آل عمران۳: ۷۳،الانفال۸:۷۱) پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے یہ ا علان فر مایا ہے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے: قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۰)، ’’اے رسولؐ [صاف صاف ] کہہ دیجیے کہ اصل ہدایت بس اللہ ہی کی ہدایت ہے‘‘،یعنی سیدھا راستہ وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے، جسے اس نے اپنی کتاب کے ذریعے روشن کر دیا ہے۔ یہ آیت اس حقیقت کو مزید واضح کر رہی ہے: اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل۱۷ : ۹) ’’بے شک یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے‘‘۔اللہ کے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ مبارکہ اِسی راہ کو دکھانے میں بسر ہوئی۔ در اصل انسان کے لیے حقیقی کامیابی و اُخروی نجات کی ر ا ہ یہی ہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ا للہ ربُّ العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کے نام پنے اولین پیغام ہی میں ا س نکتہ کو واضح کردیا تھا اور ان کے توسط سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے باخبر کردیا تھا۔ اس بنیادی پیغام کے پہلے حصہ میں اس حقیقت کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا کہ زمین میں اس کی سکونت اور وہاں کے مال و متاع سے انتفاع بس ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہی ہے، یعنی دنیا کی زندگی عارضی و فانی ہے اور یہاں کا ساز و سامان بھی دائمی نہیں ہے ،ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والا ہے، لہٰذا اے انسانو! بہت سنبھل کر زندگی بسر کرنا اور گزر بسر کے لیے جو چیزیں تمھیں عطا کی جائیں ان کا مالک اپنے کو نہ سمجھنا اور نہ انھیں پاکر کسی فریب اور تکبر میں مبتلا ہونا ۔ دنیا کی زندگی اور یہاں کے مال و اسباب، یہ سب عطائے الٰہی ہیں۔ لہٰذا، ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منعمِ حقیقی کو یاد کر تے رہنا اور اسی کی مرضی کے مطابق انھیں استعمال کرنا ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۳۶ (البقرۃ ۲: ۳۶ ) اور تم سب کے لیے زمین میں جائے قیام اور ساز وسامان [سے انتفاع ]ایک [محدود]مدت تک کے لیے ہے۔
سورۃ الاعراف کی آیت۲۴ میں بھی یہی پیغام مذکور ہے اور اس کے بعد کی آیت۲۵ میں انسان کو یہ حقیقت بھی یاد دلائی گئی ہے: قَالَ فِیْہَا تَحْیَوْنَ وَفِیْہَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْہَا تُخْرَجُوْنَ ’’اللہ نے فرمایا: اسی زمین میں تم لوگ زندگی بسر کرو گے،اسی میں تمھیں موت آئے گی اور پھر اسی سے تم سب [ زندہ کر کے] نکالے جائو گے‘‘۔ اس آیت کے ذریعے انسان کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ دنیا کی مختصر زندگی کے خاتمے اور اس عارضی و فانی مستقر سے رخصتی کے بعد پھر تمھیں زندہ کرکے زمین سے نکالا جائے گا۔ اس کے بعد کیا واقعات ( تمھیں کہاں جانا ہے، کس کے سامنے حاضر ہونا ہے، حساب و کتاب سے کس طرح گزرنا ہے، اعمال نامہ کیسے حوالہ کیا جائے گاا اور پھر اسی کے مطابق جزا یا سزا کا فیصلہ سننا ہے، پھر ایک نئے مستقر یا ٹھکانے میں رہنا ہے، وہاں کتنے عرصہ رہنا ہے؟) رونما ہوں گے ، ان سے متعلق ساری تفصیلات دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔ گویا صاف لفظوں میں انسان کو بتا دیا گیا کہ ارضی دنیا میں جو کچھ مختصر یا طویل زندگی میسر ہوگی، اسے یہیں گزارنی ہے، یہیں موت بھی آنی ہے۔ اسی پر بس نہیں، ایک دن اسے اسی زمین سے نکالا جائے گا،یعنی زندہ کرکے اٹھایا جا ئے گا اور مالک الملک کے حضور پیش کیا جائے گا،لہٰذا اس سب سے بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کواچھی طرح تیار کرلو۔ یہاں سے رخصتی کے بعد تم چاہو گے بھی اور رو کر، گڑگڑا کر التجا کرو گے تو بھی مہلت نہیں دی جائے گی ۔
سورۃ البقرہ کی آیت۳۶ میں یہ پیغام دیتے ہوئے اللہ رب العزت نے اس کے بعد کی آیت میں ایک اور انتہائی اہم پیغام حضرت آدم علیہ السلام کے توسط سے سارے انسانوں کو دیا ہے جسے اولین پیغام کی تکمیل کہا جاسکتا ہے۔ یہ پیغام یہ بتانے کے لیے دیا گیا ہے کہ انسان دنیا کی مختصر و عارضی زندگی کس طر یقہ سے بسر کرے کہ اس کے لیے ہمیشہ ہمیش کی زندگی پُرسکون، فرحت بخش اور ہر طرح کے رنج و غم سے پاک بن جائے۔ اس آیت میں تمام انسانوں کو اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ جو کوئی دنیوی زندگی کے شب وروز اللہ ربّ العزت کی ہدایت کے مطابق گزارے گا تو اسے سکون و آرام نصیب ہو گا اور دائمی زندگی میں اسے نہ کوئی غم لاحق ہو گا اور نہ کوئی خوف و خطر دامن گیر ہوگا ، یعنی وہ بامراد ہوگا اور آخرت میں سرخ روئی و کامیابی سے شاد کام ہوگا ۔ ارشادِ ربانی ہے:
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۳۸ (البقرۃ۲:۳۸) پس میری طرف سے جو ہدایت تمھیں پہنچے تو جو لوگ بھی میری ہدایت کی پیروی کریں گے، انھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی رنج۔
یہ امر بدیہی ہے کہ اس پیغام ِ الٰہی ( جسے ہبوط آدم و حوّا علیہما السلام کے وقت،یعنی زمین پر بھیجتے ہوئے نے ان کے گوش گزار کیا گیا تھا) کے مخاطب اولین انسان و اولین پیغمبر حضرت آدمؑ کے توسط سے پوری نسلِ انسانی یا رہتی دنیا تک کے تمام انسان ہیں ۔ بلاشبہ یہ پیغام اپنے مضمون اور مخاطب دونوں لحاظ سے انتہائی اہم اور معنویت سے بھر پور ہے۔ ان دونوں آیات کے پیغام کا ماحصل آسان اسلوب میں یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کا ساز وساما ن عارضی و فانی ہے، انسان کا اصل سرمایہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی ہے۔ دوسری آیت اس لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اللہ ربّ العزت نے انسان کو اپنی ہدایت کی پیروی کی جانب متوجہ کیا ہے اور اسی پر اسے فوز وفلاح اور سکون و اطمینان نصیب ہونے کی بشارت دی ہے۔گویا کہ ارضی دنیا میں انھیں بھیجتے ہوئے ان سے دو ٹوک انداز میں یہ خطاب ِ الٰہی ہوا : اے انسان!ربِّ کائنات کی مرضی کے مطابق تمھیں دنیا میں بھیجا جا رہا ہے ،لیکن یہ جان لو اور یقین کرلو کہ تم سب کی کامیابی اس ا وّلین پیغام کو قبول کرنے اور دنیوی زندگی کے ہر معاملہ میں اس پر عمل کرنے میں ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کی ہدایت اس کے بندوں تک کیسے پہنچے گی؟ اسے دوسری آیات میں واضح کردیا گیا۔ سورۃ الاعراف میں قصۂ حضرت آدم علیہ السلام کے بیان میں انسان کو اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ انھیں ہدایتِ الٰہی اور اس کی تفصیلات ا للہ تعالیٰ کے محبوب و برگزیدہ بندوں، یعنی رسولوں کے ذریعے پہنچے گی،پس جو کوئی تقویٰ کی راہ اختیار کرے گا اور ہدایاتِ ربّانی کی روشنی میں اپنے حالات سدھارے گا، وہ ابدی زندگی میں سکون و طمانیت سے شاد کام ہوگا ۔ارشادِ ربَّانی ہے:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَاہُمْ يَحْزَنُوْنَ۳۵ (الاعراف۷:۳۵) اے بنی آدم! یاد رکھو، اگر تمھارے پاس خود تم ہی میں سے (میرے) رسول آئیں جو تمھیں میری آیات سنا رہے ہوں تو جو کوئی نافرمانی اور گناہوں سے پرہیز کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا تو اسے نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ کسی رنج ہی سے دوچار ہو گا ۔
یہاں یہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ قرآن کی مختلف سورتوں میں حضرت آدم و حوّا علیہما السلام کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کا واقعہ بیان ہوا ہے اور ہر مقام پر کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ بنیادی پیغام ان کے توسط سے سارے انسانوں کے گوش گزار کیا گیا ہے، جیساکہ صاحبِ تفہیم القرآن نے سورۃ الاعراف کی آیت۳۵ کی تشریح کرتے ہوئے حاشیہ میں اس قیمتی نکتہ کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ’’ بنی نوع انسان کی زندگی کا جب آ غاز ہورہاتھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی‘‘ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲،ص۲۵ ،حاشیہ ۲۸ )۔
سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت ۳۸ کی نسبت سے یہ و ضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ بعض مفسرین کی تشریح کے مطابق اللہ کی ہدایت کی پیروی یا اس کی بتائی ہوئی راہ اختیار کرنے پر دنیا و آخرت دونوں جہاں میں سکون و اطمینان میسر ہوگا،یعنی اس آیت میں خوف و غم سے نجات کا تعلق دنیوی و اُخروی دونوں زندگی سے ہے (صلاح الدین یوسف، تفسیر احسن البیان، دارالسلام، ریاض، ص۹،حاشیہ ۲ )۔
مفسرِقرآن مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے سورۃ النحل کی آیت۹۷ : مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً ۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۹۷ [ اہلِ ایمان میں جو کوئی نیک عمل کرے گا،خواہ مرد ہو یا عورت،ہم اسے پاکیزہ و خوش گوار زندگی عطا کریں گے اور ہم انھیں ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ ضرور عطا کر یں گے ] کی تفسیر میں یہ واضح کیا ہے کہ اس بشارت کا تعلق دنیوی و اخرو ی دونوں زندگی سے ہے اور بیان القرآن کے مؤلف گرامی مولانا اشرف علی تھانویؒ کا یہ بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’ مفسر تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اس بشارت سے یہ مراد نہیں کہ مومن صالح کو کبھی فقر و فاقہ یا مرض طاری نہ ہوگا، بلکہ مطلب یہ کہ اطاعت کی برکت سے اس کے قلب میں ایسا نور پیدا ہوگا،جس سے وہ ہر حال میں شاکر و صابر اور تسلیم ورضا سے رہے گا اور سکون و جمعیتِ خاطر کی اصل یہی رضا ہے‘‘(تفسیر ماجدی، ج ۲، ص۲۲۹- ۲۳۰،حاشیہ ۱۵۶)
مزید یہ کہ جدید دور کے بعض مفسرین نے اس آیت کے پہلے حصے سے دنیوی زندگی کی خوش گواری ہی مراد لی ہے، اس لیے کہ اس کے آخری حصے میں خاص طور سے اُخروی زندگی سے متعلق خوش خبری سنائی گئی ہے۔ مذکورہ آیت کی تشریح میں احسن البیان کے مؤلف گرامی تحریر فرماتے ہیں : ’’حیاتِ طیبہ (بہتر زندگی) سے مراد دنیا کی زندگی ہے،اس لیے کہ آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے [ وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ] میںہے‘‘ ( تفسیر احسن البیان، محولہ بالا ، ص۳۶۳،حاشیہ ۱)۔
اس آیت کے حوالے سے مولانا سید عبد الکبیر عمریؒ نے بجا فرمایا ہے: ’’جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی دولت سے فیض یاب ہوتے ہیں ان کی زندگی بڑی ہی پُر سکون اور خوش گوار ہوتی ہے۔ دنیا کے مصائب و مشکلات میں بھی انھیں ایک طرح کا قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘ (نورِ ہدایت، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، عمر آباد،۱۹۱۴ء،ص ۲۷)۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ اولین پیغام کے دوسرے حصے ( ہدایتِ الٰہی کی اتباع میں انسان کے لیے فوز وفلاح ہے) کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو متنبہ کردیا ہے جن کی زندگی ہدایتِ الٰہی کے خلاف گزر تی ہے یا گزرے گی کہ انھیں ا خرو ی زندگی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کے عذاب میں گرفتار رہیں گے، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے گا، یعنی ہدایتِ الٰہی کے خلاف زندگی گزارنے والوں کو ان کے بدترین انجام کی خبربھی سنا دی گئی ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۳۹ (البقرہ ۲: ۳۹) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنم والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
اسی سے متعلق سورۃ الاعراف کی آیت ۳۶ ملاحظہ ہو: وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْہَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۳۶ ’’اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان (رسولوں) کے تئیں تکبر و سرکشی کا رویہ اختیار کریں گے ،وہ دوزخ والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے‘‘،یعنی ہد ایتِ الٰہی قبول کر نے اور راہِ راست اختیار کرنے والوں کے برخلاف جو لوگ ہدایتِ الٰہی کا انکار کرنے والے،اس سے منہ موڑنے والے اور راہِ ہدایت کی طرف دعوت دینے والوں سے مخالفت و عداوت کا معاملہ کرنے والے ہیں ان کا بدترین انجام یہ ہوگا کہ وہ ابدی زندگی میں جہنم کی آگ میں جھلسا ئے جا ئیں گے،اس سے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ اس کے علاوہ قرآن میں دو سرے مقام پر شیطان کے پیروکاروں کو صاف طور پر خبر دار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ابلیس یا شیطان کی پیر و ی میں پوری زندگی گز ار دے گا اور کفروانکار اور سرکشی،یعنی اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی و نافرمانی کی راہ پر چلتا رہے گا جہنم کو اس سے بھر دیا جائے گا۔ اللہ ربُّ العزت کا فرمان ہے :
لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ لَاَمْلَــــَٔـنَّ جَہَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ۱۸ (الاعراف۷:۱۸) ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے تم سب سے[ ان کے سمیت] جہنم کو بھر دوں گا۔
مزید برآں شیطان اور اس کے متبعین کو مخا طب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں فرمایا:
قَالَ فَالْحَقُّ۰ۡوَالْحَقَّ اَقُوْلُ۸۴ۚ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ اَجْمَعِيْنَ۸۵ (صٓ۳۸: ۸۴-۸۵) اللہ نے فرمایا :حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں کہ جہنم کو تجھ سے اور ان تمام لوگوں سے بھر دوں گا جو ان[میرے بندوں] میں سے تمھاری پیروی کریں گے۔
رہا یہ مسئلہ کہ مختلف آیات میں مذکور اللہ کی ہدایت سے کیا مراد ہے جس کی پیروی میں حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے اور جس کی خلاف ورزی دنیا وآخرت میں امن وسکون غارت کرنا، سب سے بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا اور عذابِ الیم کو دعوت دینا ہے؟ اس سوال پر غور وفکر سے پہلے یہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ ربُّ العالمین ہے،سارے جہاں کا پرور دگار اور تمام انسانوں کا پالنہار ہے،وہ اپنے بندوں پر بے حد رحم و کرم فر ما نے والا ہے۔اللہ کی ربوبیت یا پروردگاری انسان کی مادی وروحانی تمام ضروریات کو محیط ہے۔یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی ہدایت سے با خبر نہ کرتا ،یعنی انھیں وہ راستہ نہ دکھاتا جس پر چل کر وہ اس کی خوشنودی اور دنیوی و اُخروی زندگی میں حقیقی کامیابی سے مشرف ہوسکتے۔ متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ربِّ رحیم و کریم نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ہی اسے گزر بسر کے لیے دنیوی ساز و سامان عطا کیا اور اسے اپنی ہدایت سے باخبر کرنے کا بھی اہتمام فرمایا ،تاکہ وہ اسی کے مطابق شب وروز بسر کرے اور اپنے خالق ومالک کی رضا حاصل کرے (طہٰ۲۰:۵۰؛ الشعراء۲۶:۷۸؛ عبس۸۰:۲۰؛ الاعلیٰ: ۸۷؍۲-۳، البلد ۹۰:۱۰)۔
قرآن نے تو ایک مقام پر بہت ہی واضح انداز میں اس حقیقت سے انسان کو آگاہ کردیا ہے کہ اللہ نے انسان کو راہِ حق دکھا دی ہے،اب یہ اس کی پسند ہے کہ وہ اسے اختیار کر کے اپنے رب کا شاکر بندہ بنتا ہے، ا سے راضی کرتا ہے اور دونوں جہاں میں فوزو فلاح پاتا ہے یا اس کے برخلاف راہِ باطل پر چل کر ناشکرا بندہ بن جا تا ہے، اپنے رب کو ناراض کرتا ہے اور خود اپنی تباہی و بربادی کا ساز وسامان جمع کرتا ہے۔ آیتِ ذیل میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے :
اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا۳ (الدھر۷۶:۳) بے شک ہم نے اسے [سیدھی] راہ دکھادی ہے، اب یا وہ شاکر بن جائے، یا ناشکرا بن جائے۔
اللہ رب العزت نے ا سی راہ ِ ہدایت دکھانے کے لیے انبیا علیہم السلام کی بعثت ا ور اپنی کتابوں کے نزول کا سلسلہ جاری کیا ۔ یہ سلسلہ، جیسا کہ بخوبی معروف ہے، اوّلین نبی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا اور آپ ؐ ہی کے توسط سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات کا آخری مکمل مجموعہ قرآن کی صورت میں سارے انسانوں کو عطا فرمایا، تاکہ وہ اس کی روشنی میں راہِ ہدایت د یکھ لیں اور پالیں۔ بلاشبہہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ سچ پوچھئے تو پورا قرآن شریف شروع سے آخر تک ’ ھدی اللہ‘ کی تشر یح و توضیح ہے اور بعض آیات میں مختصر و جامع ا نداز میں اس کی تعبیر یہ ملتی ہے کہ اللہ کو ربّ العالمین مان لینا اور صبح سے شام تک اس کی بندگی بجالانے میں مصروف رہنا ،یعنی زندگی کے ہر معاملے میں حکمِ الٰہی پر عمل کرنا ہی راہِ ہدایت ہے ،یہی’’ صراطِ مستقیم ‘‘ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے :
اِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۵۱ (اٰل عمرٰن۳:۵۱) بے شک اللہ ہی میرا رب اور تم سب کا ر ب ہے، پس اسی کی عبادت کرو ،یہی صراط مستقیم ہے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ ہدایتِ الٰہی نصیب ہونا صراط مستقیم پالینے سے عبا رت ہے،یعنی جس نے راہِ مستقیم اختیار کر لیا وہ گویا اللہ کی ہدایت سے مشرف ہوگیا۔راہِ مستقیم کیسے نصیب ہوتی ہے یا اس پر چلنے کے لیے راہیں کیسے ہموار ہوتی ہیں ؟ اس سوال کا جو اب اس آیت میں ملاحظہ فرمائیں:
وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۱۰۱(اٰل عمرٰن ۳:۱۰۱) اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے اسے راہِ مستقیم دکھا دی گئی۔
اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے سے مراد،جیسا کہ مفسرین نے واضح فرما یا ہے ، ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنا ، اللہ سے تعلق مضبوط کرنا اور ہر معاملے میں اس کے احکام پر کاربند رہنا ہے۔ درحقیقت اسی طور پر شب وروز گزارنے والے راہِ راست پر ہوتے ہیں اور انھی لوگوں کے لیے صلاح و فلاح کی بشارت ہے ( مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، ج۲،ص۱۲۵)۔
اسی کے ساتھ یہ نکتہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ اللہ سے تعلق کی مضبوطی کے لیے قرآن کریم سے گہری وابستگی اور اس کی ہدایات پر مضبوطی سے جمے رہنا ضروری ہے۔ یہ نکتہ بھی ا سی عظیم ترین کتابِ ہدایت سے منکشف ہوتا ہے۔ اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۴۳ (الزخرف ۴۳:۴۳) پس اس چیز [کتاب] کو مضبوطی سے تھامے رہو جو تمھاری طرف وحی کی گئی، یقیناً تم سیدھے راستہ پر ہو۔
بلاشبہہ یہ آیت ا س نکتہ کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ تمسک بالکتاب اور ہدایت ِ الٰہی نصیب ہونا لازم و ملزوم ہے۔ دوسرے،یہ امرِ بدیہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام اہلِ ایمان کو اس نکتہ سے باخبر کرنا مقصود ہے۔
اللہ کی ہدایت سے مشرف ہو جا نے والوں کی کیا خصوصیات ہیں یا ہدایت یافتہ ہونے کی کیا علامات ہیں ؟،اس باب میں سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات سے کلیدی رہنمائی ملتی ہے۔ ان میں قرآنی ہدایت سے فیض یاب ہونے والوں، یعنی ا ہلِ تقویٰ (خوفِ ا لٰہی اور آخرت میں بازپُرس کے احساس سے اپنے کو گناہوں سے بچانے والوں اور اطاعتِ الٰہی کو اپنا شعار بنانے والوں )کے بنیادی اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے:
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِـمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۳ۙ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۵ (البقرہ۲:۳-۵) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز کا اہتمام کرتے ہیں،ہمارے عطا کردہ مال میں سے انفاق کرتے ہیں،اورجو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تم پر نازل کی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئیں، اور جوآخرت میں یقین رکھتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی [اصلاً] فلاح پانے والے ہیں۔
تقریباً یہی مضمون سورۂ لقمان کی ابتدائی آیات(۲ تا۵) میں بھی مذکور ہے۔ یہاںیہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیات میں اہلِ تقویٰ کے اوصاف (ایمان میں پختگی کے ساتھ ان اعمال کی انجام دہی جو اللہ رب العزت کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں) بیان کرنے کے بعد یہ ارشادِالٰہی ہے:
اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۵ (البقرہ ۲:۵) ایسے ہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ ہدایت پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔
آیت کا یہ آخری حصہ اس لحاظ سے خصوصی توجہ کا طالب ہے کہ ان میں مذکورہ بالا صفات سے متصف لوگوں کو اس سند سے نوازا گیا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ،یعنی اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنے والے ہیں، اور اسی کے ساتھ انھیں یہ بشارت بھی سنائی گئی ہے کہ وہی صحیح معنوں میں فلاح یاب یا با مراد ہو ں گے، یعنی وہ جہنم سے محفوظ رہیں گے اور انھیں جنت میں داخلہ نصیب ہو گا ۔ ایک دوسری آیت میں اُن اہلِ ایمان کے بارے میں ، جو اپنے ایمان و یقین میں خالص ہیں اور اپنے ایمان کو سب سے بڑے گناہ (شرک) یا باطل عقائد سے گڈ مڈ نہیں کرتے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہی اصلاً ہدایت یاب ہیں اور انھیں امن و سکون کی نعمت نصیب ہوگی۔ ارشادِ ربّانی ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲) جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم[یعنی سب سے بڑے گناہ شرک ] سے مخلوط نہیں کیا ان کے لیے امن ہے اور وہی[ صحیح معنوں میں] راہِ ہدایت پر ہیں ۔
مزید یہ کہ ایک دوسرے مقام پر ان اہل ِ ایمان کو ،جو مصیبت و پریشانی کی حالت میں صبر سے کام لیتے ہیں،دینِ حق پر جمے رہتے ہیں،اپنی زندگی اور ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انھیں اپنے رب کے پاس واپس لوٹ جانا ہے،یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ انھیں ربِّ کریم کی عنایات نصیب ہوں گی اور وہ رحمتِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے (البقرہ۲ :۱۵۶-۱۵۷)۔ واقعہ یہ کہ اللہ ربُّ العزت کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہدایت یافتہ ( یا ایمان و عملِ صالح والے) لوگ سکون و اطمینان کے ساتھ رضائے الٰہی کا انعام لیے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں یا ہوں گے، جیسا کہ سورۃ الفجر کی یہ آیات شہا دت دے رہی ہیں:
يٰٓاَ يَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ۲۷ۤۖ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃً۲۸ۚ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۲۹ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۳۰ۧ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) اے نفسِ مطمئنّہ تو اپنے رب [کے جوارِ رحمت] کی طرف واپس لوٹ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے، پس شامل ہوجا میرے[محبوب] بندوں میں اور داخل ہوجا میری [تیار کی ہوئی] جنت میں ۔
رہا یہ معاملہ کہ نفسِ مطمئنّہ کو یہ راحت بخش خطابِ الٰہی کس وقت ہوگا؟ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے یہ واضح کیا ہے کہ قیامت میں حساب و کتاب کے بعد ہوگا، جب کہ بعض کی رائے میں یہ خطاب دنیا ہی میں موت کے وقت ہوتا ہے۔ بعض قدیم مفسرین کا خیال[جو زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے] یہ ہے کہ ارواحِ مومنین کو یہ خطاب دونوں وقت( موت کے وقت اور قیامت میں بھی ) ہوگا۔ قدیم مفسرین میں ابن کثیر اسی رائے کے حامل ہیں ( ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت ، دیو بند ، ۱۴۲۳ھ؍ ۲۰۰۲ء ج ۴،ص ۴۵۸ ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: معارف القرآن، ج ۸،ص۷۴۴-۷۴۵)۔
اسی مسئلہ سے متعلق ایک حدیث کا حوالہ بھی برمحل معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے : حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ربُّ العزت جنتیوں سے فرمائے گا:اے اہلِ جنت! وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں،ہر طرح کی سعادت و خیر تیرے ہی ہاتھوں میں ہے۔اللہ پوچھے گا: کیا تم راضی ہو؟ وہ کہیں گے،اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں جو تو نے کسی مخلوق کو نہیں دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمھیں اس سے افضل چیز نہ عطا کروں؟تو وہ پوچھیں گے ان [جنت کی نعمتوں] سے افضل کون سی چیز ہے؟ اللہ فرمائے گا:میں تمھیں اپنی رضا مندی (رضوان) عنایت کرتا ہوں، اب میں اس کے بعد تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا ( صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار)۔
اس سے معلوم ہوا کہ ا للہ کے بندوں میں جو راہِ ہدایت پر چلنے والے ( ایمان و عمل صالح والے ) ہیں،انھیں جنت میں سب سے بڑ ی نعمت یہ نصیب ہو گی کہ وہ یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے ’رضائے الٰہی‘ سے سرفراز کیے جا ئیں گے ۔
اللہ ربُّ العزت نے ایمان و عملِ صالح سے مزین ہوکر رضا ئے الٰہی سے شاد کام ہونے والے ا پنے محبوب بندوں کو کتنے عظیم الشان خطاب سے نوازا ہے، یہ جاننے کے لیے سورۃ البیَّنۃ کی آیت۷ پر نظر ڈالیں جس میں انھیں ’ خیر البریۃ ‘ کے لقب سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اردو مترجمینِ قرآن نے ان الفاظ کا ترجمہ ’’ بہترین خلائق،سب خَلق سے بہتر،ساری مخلوقات میں افضل و اشرف‘‘ کیا ہے۔ واقعی یہ کتنابڑا اعزاز ہے، جس سے ایمان اور عمل صالح کی پونجی والے ( چاہے وہ دنیوی مال و اسباب کے اعتبار سے مفلس و بے مایہ ہی کیوں نہ ہوں) مشرف کیے گئے ہیں ۔کیا اس سے بڑا اور کوئی لقب ہے جس سے ارضی مخلوقات میں کسی کو نوازا گیا ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ ہدایت الٰہی کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، کفر و نافرمانی کا راستہ اختیار کر تے ہیں اور پوری زندگی اپنے آپ کو خواہشات ِنفسانی کا غلام بنا ئے رہتے ہیں انھیں اسی سورہ میں نہ صرف’شرّ البرّیۃ ‘ (بدترین خلائق) کہا گیا ہے، بلکہ اِس بدترین انجام سے بھی خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔ ان سب کے علاوہ اُخروی زندگی میں اس درد ناک عذاب سے دوچار ہونے کو انسان کے لیے ’خسران مبین‘ (بالکل کھلے ہوئے یا سب سے بڑے نقصان ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربَّانی ہے:
قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۰ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۱۵ لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ۰ۭ (الزمر۳۹:۱۵) کہہ دیجیے،اصل گھاٹے والے تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے قیامت کے دن اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو گھاٹے میں ڈال دیا۔اچھی طرح سن لو! یہی کھلا ہوا نقصان ہے۔ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے چھائی ہوں گی، اور نیچے سے بھی۔
مزید یہ کہ سورۃ البلد ( آیت۱۸) میں مومنین صالحین کو ’اصحٰب المیمنۃ‘( خوش قسمت؍ نصیبے والے) اور سورۃ الواقعہ ( آیت ۲۷)میں ’اصحٰب الیمین‘( نیک بخت؍ معزز و مکرم) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور منکرین و مکذّبین ’اصحٰب المشئمۃ‘ (بدنصیب/ذلت کے مارے) (البلد۹۰ :۱۹) اور ’اصحٰب الشمال‘( نحوست ، ناکامی و محرومی کے شکار)(الواقعۃ۵۶:۴۱) قرار دیے گئے ہیں ۔ اللہ ا حکم الحاکمین اپنے بندوں کے بارے میں جو فیصلہ فرمائے اسے کون بدل سکتا ہے۔
ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ توحید، رسالت اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان میں سچے ہیں، آخرت (یعنی بعث بعد الموت،اللہ رب العزت کے حضور حاضری، دنیوی زندگی کے اعمال کے بارے میں بازپُرس ،اعمال نامہ ملنے اور اسی کے مطابق جزا یا سزا کا نظام قائم ہونے اور جنت نصیب ہونے یا نارِ جہنم میں ڈالے جانے ) پر یقین میں پختہ ہیں، افضل العبادۃ نماز کی ادائیگی کا اہتمام کر تے ہیں اوراللہ کے عطا کردہ مال سے کار ِخیر میں انفاق کے لیے سرگرم رہتے ہیں، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق بجا لانے میں سنجید ہ و مخلص ہیں وہی دراصل صراط مستقیم پر گامزن ہیں، وہی حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں اور انھی کی ابدی زندگی خوشگوار اور فرحت بخش ہوگی ۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی کی تلقین و تاکید کے ساتھ قرآن میں باربار انسان کو یہ نکتہ بھی گوش گزار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ہدایت کا طلب گار ہوگا ،اس راہ میں دوڑ بھاگ کرے گا اور اس کی توفیق طلب کرنے کے لیے اللہ سے رجوع کرے گا اور دعائیں مانگے گا اور راہِ ہدایت پر چلنا میسر آجا نے پر اس پر چلتا رہے گا تو اپنے کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور اپنا ہی بھلا کرے گا ،اور جو کوئی گمراہی کو پسند کرے گا، راہِ حق سے منہ موڑے گا اور انکار و ہٹ دھرمی کا رویہ اپنائے گا تو اپنے ہی کونقصان پہنچائے گا،اپنی تباہی مول لے گا اور ناکامی و نامرادی کو گلے لگائے گا۔ارشادِ ربّانی ہے:
مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْــتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۵) جو کوئی بھی راہِ ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہوجائےاس کا وبال اس پر آکر رہے گا۔
قُلْ يٰٓاَ يُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا ج وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۱۰۸ۭ (یونس ۱۰:۱۰۸) اے رسولؑ! بتا دیجیے اے لوگو!تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے حق آچکا ہے، پس جو کوئی سیدھی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کرے گا اور جو کوئی اس راہ سے بھٹک جائے گا تو اس کا وبال اپنے اوپر لائے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا ہوں [کہ تمھیں ہدایت یافتہ بنا کر ر ہوں] ۔
مزید برآں قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کتابِ ہدایت کی روشنی میں راست روی اختیار کرنے، اس پر قائم رہنے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی ایک بہت بڑی برکت یہ نصیب ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت ان اوصاف کے حاملین کے لیے ہدایت اختیار کرنے کی منازل میں ترقی عطا فرماتا ہے یا ان کے لیے ہدایت پر چلنے کی راہیں مزید ہموار کرتا رہتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَيَزِيْدُ اللہُ الَّذِيْنَ اہْتَدَوْا ہُدًى۰ۭ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ مَّرَدًّا۷۶(مریم۱۹:۷۶) اور راہِ ہدایت پر چلنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک اجر اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔
وَالَّذِيْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًى وَّاٰتٰىہُمْ تَقْوٰىہُمْ۱۷ (محمد۴۷:۱۷) وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں ان کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔
اس میں شبہہ نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے،بشری تقاضے سے ان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، بھول چوک بھی ہوتی رہتی ہے،لیکن انھیں جب اپنی غلطیوں پر تنبہ ہوتا ہے، خطا کے ارتکاب کا احساس جاگ اٹھتا ہے تو ایمان کی تازگی و عمل کی پاکیزگی کے لیے اللہ سے رجوع کرتے ہیں، اپنے اصلاح یا راہ ِ ہدایت پر جمے رہنے کا پختہ عزم کر تے ہیں اور ربِّ کریم سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں اوراستقامت کی توفیق کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، تو اللہ رحمٰن و رحیم انھیں اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔ یہ آیت ایسے خطاکا ر وں کو یہ مژدہ سنا رہی ہے: وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰى۸۲ ( طٰہ۲۰:۸۲) ’’اور میں بے شک خوب مغفرت سے نوازنے والا ہوںان لوگوں کو جو [خطا سرزد ہوجانے پر] توبہ کرلیں اور [صحیح معنوں میں] ایما ن لائیں، نیک عمل کر تے رہیں اور راہِ ہدایت پر چلیں‘‘۔
ان سب باتوں کے ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ کتابِ ہدایت ہی ہمیں بتاتی ہے کہ راہِ حق ا و ر اس پر استقامت کی نعمتیں اللہ ہی کی توفیق سے نصیب ہوتی ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ اٰيٰتٍؚ بَيِّنٰتٍ۰ۙ وَّاَنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ۱۶ (الحج ۲۲:۱۶) ’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو واضح آیتوں کے ساتھ نازل کیا ہے اور بے شک اللہ جسے چاہتا ہے اپنی ہدایت سے نوازتا ہے‘‘۔ ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ (الزمر۳۹:۲۳) ’’یہی اللہ کی ہدایت ہے جسے چاہتا ہے اسے نصیب کرتا ہے‘‘۔ وَاللہُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَہُوَ يَہْدِي السَّبِيْلَ۴ (الاحزاب ۳۳:۴) ’’اللہ حق بات ہی کہتا ہے اور وہی راہِ حق دکھاتا ہے‘‘ ۔ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۲۱۳ (البقرہ۲: ۲۱۳) ’’اور اللہ جسے چاہتا ہے راہِ مستقیم دکھا دیتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ یہ نعمت کسے عنایت کرتا ہے؟، اسے بھی ربِّ کریم نے اپنی کتاب میں واضح فر ما دیا ہے۔ ارشادِالٰہی ہے:
اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۱۳(الشورٰی۴۲:۱۳) اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے منتخب کرلیتا ہے اور ہدایت اسی کو نصیب کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے ۔
یہی حقیقت سورۃ الرعد کی آیت۲۷ میں بیان ہوئی ہے: وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَ۲۷ ، ’’وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے‘‘‘۔
اوپر یہ واضح کیا گیا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے،ہدایت سے نوازتا ہے ،اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ صحیح معنوں میں کون ہدایت یافتہ ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔ واقعہ یہ کہ راہِ ہدایت پر چلتے ہوئے ،اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہوئے بہت زیادہ خوش گمانی یا ضرورت سے زیادہ اعتماد کی کیفیت میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے،بس اس راہ میں کوشش اور اس میں کامیابی کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن کی متعدد آیات میں اس نکتہ کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۷ ملا حظہ ہو:
اِنَّ رَبَّكَ ہُوَ اَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِہٖ ۰ۚ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۱۱۷ (الانعام ۶:۱۱۷) بے شک تیرا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔
تقریباً یہی حقیقت چھ دیگر آیات میں بھی واضح کی گئی ہے(النحل:۱۶؍۱۲۵،بنی اسرائیل ۷ا:۸۴،القصص۲۸:۵۶-۸۵، النجم۵۳:۳۰، القلم۶۸:۷)۔
واقعہ یہ کہ تزکیۂ نفس و تطہیرِقلب( دل کی پاکی و صفائی)،تقویٰ و پرہیزگاری( اللہ ربّ العزت کی عظمت کا احساس اور اس کی گرفت کا خوف جو انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے)، اھتداء (ہدایت یافتہ ہونا یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت پر چلنا)، اخلاصِ نیت ( اللہ کی خوش نودی کے لیے نیک عمل کرنا)، ان سب کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل کا حال،اس کی کیفیت اور اس کے تحت صادر ہونے والے اعمال کی نوعیت اور ان کی قبولیت کے مقام و مرتبہ کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے،جیسا کہ ان آیات سے واضح ہوتا ہے:
فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۰ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۳۲ۧ (النجم۵۳: ۳۲) پس اپنے آپ کو بہت پاک نہ سمجھو،وہی[اللہ ہی] بہتر جانتا ہے کہ واقعی کون متقی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ۰ۭ بَلِ اللہُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ (النساء۴:۴۹) کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جو اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں،حالاں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاکیزگی عطا فرماتا ہے۔
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ۰ۭ ( بنی اسرائیل۱۷:۲۵) تمھارا رب سب سے زیادہ جاننے والا ہے اس بات کو جو تمھارے دلوں میں ہے۔
اَوَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ۱۰ ( العنکبوت۲۹:۱۰) کیا اللہ کو دنیا کے لوگوں کے دلوں کا حال بخوبی معلوم نہیں؟
ان سب کے ساتھ یہ بھی ہمارے پیشِ نظر رہے کہ انسانی دلوں کا اُلٹ پھیر ( تصریفِ قلوب) کا اختیار اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ان کی کیفیت میں جو کچھ تبدیلی ہوتی ہے،اسی کی مشیت سے ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے( صحیح مسلم، کتاب القدر، باب تصریف اللہ تعالٰی القلوب کیف یشاء)۔
ان حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو اپنے ہدایت یافتہ ہونے یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت اختیار کرنے کے بارے میں بہت لمبے لمبے دعوے نہیں کرنے چاہیے اور نہ اپنے کو بہت زیادہ پاکیزہ، بہت بڑا متقی سمجھنا چاہیے، بس اس راہ میں کوشش جاری رکھتے ہوئے اللہ سے رجوع کرنا چاہیے اور دل کی پاکیزگی ، نیت کے اخلاص اور ارادہ کی پاکی کے لیے مستقل دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میںیہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ راہِ ہدایت طلب کرنا ہو، اسے اختیار کرنا ہو،اس پر مستقل چلتے رہنا ہو، یعنی راہِ ہدایت پر استقامت یا اس کی ترقی کی منازل طے کرنے کا معاملہ ہو ، خطائیں سرزد ہونے پر مغفرت ِ الٰہی کے لیے التجاء کرنی ہو، ان سب نعمتوں کے نصیب ہونے کے لیے رجوع الی اللہ اور ربِّ کریم سے دعا مانگنا نہ صرف مطلوب،بلکہ بہت ضروری ہے ۔اس ضمن میںاہم بات یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے لیے دعائیں بھی تلقین کی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے ہمیں اسی کی تعلیم دی ہے۔سورۃ الفاتحہ، جیساکہ بخوبی معروف ہے، پوری کی پوری دعا سے تعبیر کی جاتی ہے اور اس میں خا ص دعا اللہ سے ہدایت طلبی (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) ہے۔راہِ حق پر استقامت کی قرآنی دعائوں میں ایک بہت ہی معروف و مقبول دعا یہ بھی ہے: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۸ (اٰل عمرٰن۳:۸) ’’اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی نہ آنے دے اس کے بعد کہ تونے ہمیں ہدایت کی توفیق بخش دی اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما، بے شک تو خوب عطا فرمانے والا ہے ‘‘۔
اسی طرح ہدایت پر جمے رہنے کے لیے یہ مسنون دعائوں میں ایک بہت مشہو ر دعا ہے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ( جامع ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب دعا) ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے‘‘ ۔ ان سب کے ساتھ اس دعا کا اہتمام بھی ضروری ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَہُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اِجْتِنَابَہُ ( ابن کثیر، تفسیر القرآن الکریم ، محولہ بالا ،۲؍ ۳۲۸ ( تفسیر سورۃ البقرۃ،آیت۱۳ ۲) [اے اللہ ہمیں حق کو حق کی حیثیت سے دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما، اور باطل کو باطل کی حیثیت سے دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما]۔ اس لیےمومن کو ہر حال میں ان دعاؤں کو مستقل مشغلہ یا شیوہ بنا لینا چاہیے ۔ اللہ کرے ہمیں اس کی توفیق نصیب ہو، آمین!
مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب کی متعدد آیات میں ہدایتِ الٰہی،اس پر استقامت اور اس کے فیوض وبرکات اور خوش گوار نتائج سے متعلق حقائق بار بار واضح کیے گئے ہیں ۔ ان کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے، بس خلاصہ کے طور پر یہ عرض کرنا ہے کہ متعلقہ آیاتِ کریمہ پر تدبر و تفکر سے انسان کے نام اولین پیغامِ الٰہی سے یہ قیمتی نکات سامنے آتے ہیں :
اللہ رب العزت ہم سب کو ہر شعبۂ حیات میں ہدایاتِ ربّانی پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے، اپنی رضا سے ہمیں نوازے اور عارضی و دائمی دونوں ٹھکانوں[ دنیا و آخرت ] میں سکون و اطمینان نصیب فرمائے: وَ مَا تَوْفِیْقی اِلَّا بِاللہ۔ رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔ آمین ثمَّ آمین!
۱۳۵۴ھ/ مارچ ۱۹۳۶ء کے حج کے موقعے پر امام حسن البنا ؒ نے ’سعودی جوانوں کی انجمن‘ کے زیراہتمام منیٰ میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تقریر اخباراُم القریٰ نے ۱۹ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ [۱۳مارچ ۱۹۳۶ء]کے شمارے میں شائع کی۔
میرے معزز بھائیو! میں آپ کی اجازت سے اپنی گفتگو کا آغاز، اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں سے خطاب سے کرنا چاہتا ہوں:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۱۰۳ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳) [سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے، شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے]۔
اسی مناسبت سے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی سنانا چاہتا ہوں:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۱۰ۧ (الحجرات ۴۹: ۱۰) [مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امیدہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا ]۔
اسلام کا بہترین ہدیہ، سلام آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! میں کوئی پیشہ ور خطیب نہیں ہوں لیکن الشباب العربی السعودی نے حجاج کرام کو باہمی تبادلۂ خیالات اور تعارف کا یہ موقع فراہم کیا ہے، اللہ تعالیٰ انھیں اجر سے نوازے۔ میں سمجھتا ہوں باہمی تعارف اور تبادلۂ خیالات حج کی تکمیل کا حصہ ہے۔ آپ سے مخاطب ہونے کا جذبہ، پُرجوش اور مفید تقریریں سننے کے بعد اُبھرا ہے۔
معزز نوجوانو! میں آپ کی تعریف میں وقت صرف نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی مہمان نوازی کا تذکرہ بھی نہیں کروں گا بلکہ ہم اپنی امیدوںاور مسائل کے حوالے سے گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے۔ آپ سے محبت اور شیفتگی پہلے بھی تھی لیکن اب یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت بن چکی ہے۔ اس محبت کو اللہ تعالیٰ کا یہ مبارک ارشاد اُبھارتا ہے:
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۰ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى۰ۭ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَہِّرَا بَيْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۱۲۵ (البقرہ ۲: ۱۲۵) [اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو، اور ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑکو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو] ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب حضرت عائشہ صدیقہؓ نے مکہ مکرمہ کا ذکر کیا تو اس کی خوب صورتی اور رعنائیوں کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں تر ہو گئیں اور کہا: ’’ذرا دل کو قرار پکڑنے دو، اور اس تذکرے کو سمیٹو‘‘۔ مکہ پر حضرت بلالؓ کے اشعار بھی یاد آتے ہیں۔
ہم بچپن سے یہ سارے تذکرے سنتے آئے ہیں۔ انھوں نے آتش شوق کو مزید تیز کردیا۔ ہم ہمیشہ اس مبارک دن کے انتظار میں رہے جب ہم مکہ مکرمہ کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے اورخیف میں کھڑے ہوں گے ، مجنوں کی لیلیٰ کے شوق میں نہیں، ہر ایک کی اپنی لیلیٰ ہوتی ہے۔ اب یہ آپ کی محبت ہمیں یہاں لے آئی ہے۔ آپ کی محبت کوئی افسانوی چیز نہیں بلکہ یہ ایک قابل محسوس حقیقت ہے۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے اس تعلق اور رابطے کو بھلائی اور برکت کا سرچشمہ بنائے۔ آمین!
معزز نوجوانو، آپ کے پہلے خطیب نے یہ کہا کہ اسلام دین اور دنیا کے مصالح اور بھلائیوں کو جمع کرتا ہے۔ یہ ایک مانوس اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے۔ آپ چشم تصور سے نماز پر غور کریں۔ تمام اعمال کا مغز اور پاکیزہ ترین عمل ہے۔ آپ کی یہ عبادت قرآن کی تلاوت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ آپ اپنے رب سے سرگوشی میں مصروف ہیں۔ اللہ کا قرآن آپ سے کیا کہہ رہا ہے؟ (یہاں امام حسن البنا ؒنے سورہ البقرہ کی آیات (۲۸۱-۲۸۳) تلاوت کیں جن میں لین دین کے معاملات لکھنے اور انصاف سے معاملات کرنے کا حکم دیا گیا ہے)۔
اسی طرح قرآن آپ سے مخاطب ہے کہ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ یہ دین کے اٹل اور قطعی معاملات ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ رزق کی تلاش اور کسب حلال میں مصروف ہیں جو دنیاوی کاموں میں سرفہرست ہیں۔ اس سلسلے میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان آپ جانتے ہیںکہ ’’اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے۔ اور یہ کہ جو شخص اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہے، وہ اپنی بخشش کا سامان کرتا ہے‘‘۔دیکھیے رزق حاصل کرنا اور روزی کمانا دنیاوی کام ہے لیکن یہ آخرت کے کاموں سے مربوط ہے اور نجات اور مغفرت کا سبب بن رہا ہے۔
شریعت کے ہر گوشے میں دین اور دنیا کا گہرا تعلق آپ کو نظر آئے گا۔ لیکن مسلمان دین کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں۔
آپ کے دوسرے خطیب نے حجاز کی ترقی کی بات کی۔ اگرچہ یہ ترقی اور پیش رفت اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ لیکن یہ ابتدائی مراحل اور خدوخال ان شاء اللہ نمایاں نقوش میں بدل جائیں گے۔ فطرت کا یہی قانون ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا: جب میں نے ہلال کو روز افزوں دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ ایک دن ماہ کا مل بن جائے گا۔
ترقی اور انقلاب کی باتیں خوش آیند ہیں اور اس سلسلے میں مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امیدیں اور تمنائیں آپ کے چہروں پرپڑھی جا سکتی ہیں اور زبانوں پر اس کا تذکرہ ہے۔ ترقی اور انقلاب امید سے زندہ رہتے ہیں اور نااُمیدی اور مایوسی اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ زندگی میں ناامیدی کا کوئی عمل دخل نہیں، ناامیدی اور زندگی کا ساتھ نہیں رہ سکتا۔ آج کے زندہ حقائق کل تک محض خواب تھے اور آج کے خواب مستقبل کے زندہ حقائق ہوں گے۔ جسے مہلت ملی ان شاء اللہ ضرور دیکھے گا۔ تنگی کے ساتھ فراخی ہے اور بے شک تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔ اللہ تعالیٰ مایوسی اور ناامیدی کو اپنی کتاب میں حرام قرار دیتا ہے:
يٰبَنِيَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْہِ وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۸۷ (یوسف ۱۲: ۸۷)[میرے بچو، جا کر یوسف ؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگائو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ]۔
یہ حالات قوموں کو پیش آتے رہتے ہیں لیکن صورت حال ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی، کمزور طاقت ور بن جاتے ہیں اور زبردست زیردست بن جاتے ہیں:
اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۰ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۰) [اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں]۔
جو شخص اس آیت کی تلاوت کرے اور غوروفکر سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ امت کی طاقت کے لیے کوشاں نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ، اُمتوں اور اقوام کے حالات کو کس طرح بدل دیتا ہے، اور اس کا عدل مظلوم کا ظالم سے کیسے بدلہ لیتا ہے، اور سرکشی اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کو حق داروں کا حق دلوانے پر کس طرح مجبور کرتا ہے، سورۃ القصص کی یہ آیات تلاوت کیجیے، ان میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۴ وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۵ۙ وَنُمَكِّنَ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ۶ (القصص ۲۸: ۴-۶) [واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا ]۔
یہ کتاب ابدی کا ابدی حکم ہے۔ اگر یہ ماضی میں ہو سکتا ہے تو مستقبل میں کیوں نہیں ہو سکتا:
ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۱۳۸ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) [یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لیے ہدایت اور نصیحت]۔
آپ کے تیسرے خطیب نے کہا کہ تعمیر و ترقی کی بنیاد اور اساس اسلام ہے۔ اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی نشاتِ ثانیہ سے یہ ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔
میرے بھائیو، تم حقیقت کا ادراک کر چکے ہو اور ہدایت کی طرف رہنمائی پا چکے ہو۔
میں اس موقع پر، آپ کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو آپ سے میری محبت اور شفقت کا لازمی تقاضا ہے۔
جنگ عظیم کے بعد مشرق ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی اندھا دھند تقلید کا ہے اور دوسرا راستہ مشرقی تہذیب و تمدن اور اسلام کی نشات ثانیہ کا ہے۔ دونوں راستوں پر اس کے حامی لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں، ترغیب دے رہے ہیں، اور اپنے اپنے نظام کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ بعض مشرقی اقوام مغرب کی تقلید میں ان سے بھی سبقت لے گئیں اور بعض اقوام نے مزاحمت کا رویہ اپنایا، لیکن بعض مغرب کی ترقی کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ خواہش نفس اور اتباع ھویٰ انھیں مغرب کے قریب کر رہی ہے، اور ایمان انھیں دوسری سمت میں کھینچ رہا ہے۔ ایک صالح گروہ جو اپنی دینی روایات اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چل رہا ہے وہ اپنی مشرقی اور عربی اقدار پر نازاں ہے۔
امت مسلمہ کی یہ حالیہ تصویر ہے۔ مسلم نوجوانوں سے ہماری توقع اور امید ہے کہ وہ یہ سبق سیکھ لیں گے کہ اسلام کامل دین ہے اور دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ انسانوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ انسانوں کی تمام مشکلات اور مصائب کا واحد حل اسلام ہے۔ عنقریب اس حقیقت کوساری دنیا جان لے گی۔ انسانیت کا گلا خشک ہو چکا ہے اور اس کے حلق میں شک اور الحاد کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔ پیاسی انسانیت کی پیاس صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے چشمۂ صافی سے بجھ سکتی ہے۔
اسلام کی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو اور اپنی روایات اور اقدار کو سینے سے لگائے رکھو۔ ساری دنیا کو یہ باور کرا دو کہ تم حق پر ہو اور دوسرے لوگ شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کتاب اللہ کو اپنے درد کادرماں بنائو، وہ دلوں کی بیماریوں کے لیے پیغام شفا ہے۔ تڑپتی اور سسکتی انسانیت کے سامنے اللہ کا دین پیش کرو۔ نت نئے افکار کی دل فریبییوں سے بچو، اور شیطان اور نفس کے دام فریب سے اپنا دامن بچائو۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین تبدیل نہیں ہوتے:
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا۰ۭ وَمِـمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْہِ فِي النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْيَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ۰ۥۭ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ۱۷(الرعد ۱۳:۱۷) [اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کرچل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے]۔
اسلام میں مقاصد اور ذرائع الگ الگ ہیں۔ اس اصطلاح کی کئی ایک تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک یوسف علیہ السلام کی طرح ان کی تعبیر و تاویل کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ تفصیل طلب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کافی ہے: خدا کی قسم! کوئی بھلائی ایسی نہیں ہے جس کے کرنے کا میں نے تمھیں حکم نہ دیا ہو، اور کوئی شر ایسا نہیں ہے جس سے باز آنے کا میں نے نہ کہا ہو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا:
اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ۰ۡيَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۰ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۱۵۷ (الاعراف ۷:۱۵۷)[(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت و نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں، جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے ، وہی فلاح پانے والے ہیں ]۔
اے نوجوانو، اپنے آپ کو حقیرنہ جانو اور نہ اپنے مقصد کو کم تر سمجھو کیونکہ آپ کو دنیا کی قیادت سنبھالنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی امانت انسانیت کوپہنچانی ہے۔ آج آپ شوروغوغا سن رہے ہیں کہ جرمن عظیم قوم ہے، اٹلی کا کوئی مدمقابل نہیں، برطانیہ سب سے عظیم ہے،وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان کے جھوٹے دعوے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ کمزوروں کو تر نوالہ بناسکیں۔
اے اسلام کے سپاہیو، تم ان القاب اور اوصاف کے زیادہ حق دار ہو۔ اگر تم یہ دعویٰ کرو تو یہ بے جا اور خالی خولی دعویٰ نہ ہوگا بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جو قیامت تک قرآن مجیدمیں محفوظ ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۱۱۰ (اٰل عمٰرن ۳:۱۱۰) [اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو ان ہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیش تر افراد نافرمان ہیں ]۔
یہ اس لیے نہیں کہ تم کمزوروں پر دست ستم اٹھائو یا پرامن لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائو، بلکہ تمھارا مقصد نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا ہے۔
میرے بھائیو، مجھ پر اعتماد کرو ، جب میں عربوں کالفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے پیش نظر وہ محدود مفہوم نہیں ہوتا جو جغرافیائی بندشوں میں مقید اور جکڑا ہوا ہوتا ہے بلکہ میں اس لفظ کو وسیع مفہوم میں استعمال کرتا ہوں جو پوری رُوئے زمین کے مسلمانوں پر محیط ہے۔
اے نوجوانو، اللہ تعالیٰ نے آپ کے نبیؐ کو تمام انسانیت کے لیے معلم بنا کر بھیجا ہے اور انھوں نے یہ امانت آپ کے سپرد کر دی ہے۔ آپؐ نے جس کام کا آغاز فرمایا تھا، اسے تکمیل تک پہنچانا اب آپ کا فریضہ ہے۔ اب آپ انسانیت کے معلم اور رہنما ہیں۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہو اور آپؐ کے بعد روشن نشانیوں والے صحابہ کرامؓ کے وارث ہو۔ بعض لوگ روشن چراغ ہوتے ہیں گویا کہ وہ حقیقی ستارے ہیں۔ ان کا اخلاق، ان کا اجالا اور روشنی ہے۔ ان کے اخلاق کا جادو ہر سمت میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کی پیروی کیجیے اور ان کے نقش قدم پر چلتے رہیے۔ ان کی میراث اور عظمت رفتہ کو اَزسرنو زندہ کیجیے۔ اللہ کی تائید تمھارے ساتھ ہے۔
مصر کے نوجوانوں کے دل تمھارے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ان کے جذبات اور احساسات تمھارے جذبات سے مختلف نہیں ۔ وہ تمھارے اس جہاد میں شریک ہوں گے، یا منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں گے یا اس راستے میں جان نچھاور کر دیں گے!
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۸۵) [رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے]۔
یہی ارشادِ خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہِ رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھا اور اس اطاعت ِ الٰہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت ِ قوم خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لانے کے لیے یہاں جمع ہوئے۔
بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ طاعت ِ حق، یعنی عبدیت کے فرائض کی بجاآوری میں پورا نکلے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تہوار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے، جو خدائے پاک کی فرماں برداری میں پورا اُترنے کی عید مناتی ہو۔
مؤرخین کے بیان کے مطابق ۲ ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ صدقۂ عیدالفطر کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضوؐر نے پہلے ایک خطبہ دیا جس میں اس صدقہ کے فضائل بیان فرمائے پھر صدقہ کا حکم دیا۔ عیدالفطر کی نمازباجماعت عیدگاہ میں اسی سال ادا فرمائی۔ ۲ ہجری سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔
اسلام کے ارکان، یعنی توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج جب نبی اُمّی ؐ کی زبان سے خالقِ اکبر نے بندوں کی اصلاح و فلاح کے لیے ہدایت فرمائے تو مقصود یہ تھا کہ ان کی پابندی سے مسلم بحیثیت فرد وہ انسان بن سکے جسے وحیٔ خداوندی احسن التقویم کے نام سے تعبیر کرتی ہے اور ملّت ِاسلامیہ وہ ملّت بن جائے جو قرآنِ پاک کے الفاظ کے مطابق دُنیا کی بہترین اُمت ہو اور اپنے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کے اصول کو ہمیشہ سامنے رکھنے والی ہو۔ اسلام کا ہررکن انسانی زندگی کے صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزارہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی رکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنا ہیں جسے ’صوم‘ کہتے ہیں اور جس کی پابندی کے شکرانہ میں آج آپ عید منارہے ہیں۔
وہ فائدے جو ایک ’فرد‘ کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہوسکتے تھے کہ روزے بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لیے جاتے یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور مہینوں میں رکھ لیے جاتے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اس کی روحانی نشوونما پیش نظر ہوتی تو بے شک یہ ٹھیک تھا لیکن ’فرد‘ کے علاوہ تمام ملّت کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارع برحق کے سامنے تھی۔
اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔ قرآن میں جہاں مسائل ’صیام‘ کے ذکر کے بعد یہ فرمایا کہ تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۱۸۷ (البقرہ ۲:۱۸۷) [یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے]۔ وہاں ساتھ ہی ملحق بطور ان تمام باتوں کے نتیجے کے یہ حکم بھی دیا: وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۸۸ۧ (البقرہ ۲:۱۸۸) [اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے اُن کو اِس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے]۔
آج کے دن سے تمھارا عہد ہونا چاہیے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآنِ حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے اس کو تم ہمیشہ مدنظر رکھو گے۔
کس انتباہ کے ساتھ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ اِیَّـاکُمْ وَالْدِّیْنَ فَاِنَّہٗ ھَمٌّ بِاللَّیْلِ وَمذَلَّۃٌ بِالنَّھَارِ[البیہقی فی شعب الایمان، فصل التشدید فی الدین، حدیث:۵۲۹۴] دیکھو قرض سے بچنا، قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔
اس خطبے میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے صرف اقتصادی پہلو ہی پر نظر ڈالی گئی ہے۔ شاید عیدالاضحی کے موقعے پر اسی قسم کے ایک خطبے میں اسلامی زندگی کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ فی الحال میں حضور سرورِ کائناتؐ کی ایک حدیث پر اس خطبے کو ختم کرتا ہوں جو ایک نہایت لطیف پیرایہ میں رُشد و ہدایت کی تمام شاہراہوں کو انسان پر کھول دیتی ہے:
أَمَرَنِیْ رَبِّیْ بِتِسْعٍ الْاِخْلَاصِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃُ ، وَالْعَدْلِ فِی الْغَضَّبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدِ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی ، وَ أَنْ اُعْفُوَ عَنْ مَنْ ظَلَمَتَی ، ووأَصِلُ منْ قَطَعَنِی ، وَأُعْطِیَ مَنْ حَرَمَنِیْ ، وَأَنْ یَکُوْنَ نُطْقِیِ ذِکْرًا وَصَمَتِی فِکْرًا وَنَظَرِیْ عِبْرَۃِ [الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، جلد۷، ص۳۴۶، دارعالم الکتب،الریاض، ۲۰۰۳ء] مجھے میرے ربّ نے نو باتوں کا حکم دیا ہے: ظاہر و باطن میں اخلاص پر کاربند رہنا، غضب و رضا دونوں حالتوں میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانےدینا، فقروتونگری میں میانہ روی، جو شخص مجھ پر زیادتی کرے، اس کو معاف کردوں، جو مجھ سےقطع رحمی کرے، میں اس سے صلۂ رحمی کروں، جو مجھے محروم کرے، میں اس کو اپنے پاس سے دوں، میرا بولنا ذکرالٰہی کے لیے ہو۔ میری خاموشی غوروفکر کے لیے، اور میرا دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لیے ہو۔(ماہ نامہ رسالہ صوفی، مارچ ۱۹۳۲ء، مقالاتِ اقبال، مرتبہ: سیّد عبدالواحد معینی، محمد عبداللہ قرشی، آئینہ ادب، ۱۹۸۸ء،ص ۲۸۲-۲۸۸)
{علّامہ محمد اقبال ؒنے یہ خطبہ عیدالفطر۱۳۵۰ھ/۱۹۳۲ء کو دیا، جسے ’انجمن اسلامیہ پنجاب‘ لاہور نے شائع کیا۔}
دُعائوں کی صورت میں، عربی زبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤثر نثری نمونے ہیں، جو سچے انسانی تاثرات، پاکیزہ و بلندپایہ قلبی احساسات اور بلیغ ترین اسلوب و طرز ادا پر مشتمل ہیں۔ آپؐ کی حیاتِ مبارک سراپا تقویٰ تھی اور سچے انسانی احساسات سے آراستہ تھی۔ آپؐ عربوں کے فصیح ترین قبیلے قریش میں پیدا ہوئے اور فصیح ترین ہی قبیلے بنوسعد میں آپؐ کی پرورش ہوئی۔ پھر آپؐ نے وحی الٰہی کے سایہ اور الہامِ سماوی کی آغوش میں تربیت پائی۔ پھر خوان قرآنی سے کسبِ فیض فرمایا۔ بھلا آپؐ سے زیادہ پاکیزہ گفتار، شیریں کلام، راست گو اور بلیغ و مؤثر تعبیرات والا کون ہوسکتا تھا؟ صلی اللہ علیہ وسلم__ اللہ کی طرف سے آپؐ پر بے شمار درود و سلام ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ادب پارے سب کے سب نثری ہیں، کیونکہ خود آپؐ نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ اس کی شہادت خود کتابِ الٰہی د ے رہی ہے:
وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہٗ۰ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ۶۹ۙ (یٰس ۳۶:۶۹) ہم نے اس [نبیؐ] کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے۔ یہ تو ایک نصیحت ہے، اور صاف پڑھی جانے والی کتاب ۔
کلامِ نبویؐ بیک وقت سادہ بھی ہے اور پرکار بھی۔ اس میں بے تکلفی بھی ہے اور شیرینی بھی۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں گویا معانی کی ایک دُنیا آباد ہے۔ محل اگر اختصار کا متقاضی ہے تو کلام مختصر ہے اور اگر ضرورت دراز نفسی کی طالب ہے تو کلام طویل ہے۔ آپؐ کی گفتگو تکلف و تصنع سے پاک اور رواں دواں ہوتی تھی۔ آپؐ نامانوس اور اجنبی کلمات سے دُور اور سوقیانہ، عامی الفاظ سے نفور تھے۔ آپؐ کا کلام، ادب کی مختلف عمدہ اصناف پرمشتمل ہے، مثلاً: تمثیلاتِ فائقہ، اقوالِ حکیمانہ و عالیہ، امثالِ نفیسہ، وصایائے مفیدہ، رُشد و ہدایت، شریعت و تربیت اور مناجات و دُعا وغیرہ۔
پھر ان تمام اصناف میں سب سے زیادہ پُرتاثیر، اپنے ربّ کے حضور آپؐ کی دُعائیں ہیں۔ یہ دُعائیں اس قدر طاقت ور، جامع اور پُراثر ہیں کہ ان سے عربی ادب میں نہ صرف یہ کہ ایک نئی صنف کا آغاز ہوا بلکہ اس نے ادب کی طاقت ور ترین صنف کا درجہ حاصل کرلیا۔ اسلوب کے لحاظ سے یہ دُعائیں متین ہیں اور معنویت سے لبریز بھی۔نیز دُعا کرنے والے کے اندرونی احساسات، اس کے اُبلتے ہوئے جذبات اور اپنے ربّ کے حضور اس کی لجاجت و انکسار کی بلیغانہ تصویرکشی کرتی ہیں۔
اس کی ایک مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دُعا ہے، جو آپؐ نے طائف میں فرمائی تھی۔ جہاں آپؐ ایک اجنبی اور غریب الوطن کی حیثیت رکھتے تھے اور کسی حامی و مددگار کی تلاش میں تشریف لے گئے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپؐ کے چچا ابوطالب وفات پاچکے تھے، جو قوم کی ایذائوں سے آپؐ کو بچاتے تھے اور آپؐ کی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہؓ بھی وفات پاچکی تھیں، جو آپؐ کی معاون و غمگسار تھیں۔ لیکن طائف جو مکہ جیسا ہی شہر تھا، وہاں کے باشندوں کے درمیان آپؐ کو اہلِ مکہ سے بھی زیادہ سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں کے سرداروں نے آپؐ کو سختی کے ساتھ جھڑک دیا اور وہاں کے شرارت پسند آپؐ کے پیچھے لگ گئے۔ پھر انھوں نے آپؐ پر اس قدر پتھر برسائے کہ آپؐ کے دونوں پائے مبارک لہولہان ہوگئے۔ اس وقت آپؐ کا دل شدتِ الم سے چُور چُور تھا۔ ظالموں نے مکہ سے طائف تک کے طویل سفر کے بعد آپؐ کو دم لینے کی مہلت بھی نہ دی تھی۔ اس لیے آپؐ طائف کی آبادی سے باہر نکل کر ایک کھلی جگہ میں بیٹھ گئے، جہاں شاید بجز آپؐ کے خادم و غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ کے نہ کوئی مونس تھا، نہ غم گسار۔ آپؐ نے اس حال میں یہ دُعا فرمائی، جو آپؐ کی زخموں سے چُور لیکن حلیم شخصیت کی راست ادبی تصویر ہے:
اس دُعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار غالب و قادر و مہربان کے سامنے اپنی ناتوانی کا بیان فرما رہے ہیں، جو اس وقت عملاً سامنے آئی اور وہ یہ کہ رُؤسائے ثقیف کے سامنے آپؐ کی ایسی بےوقعتی ہوئی جو آپؐ جیسے قریشی کے لیے بالکل نئی چیز تھی۔ کیونکہ قبیلۂ ثقیف کے قریش کےساتھ قریبی برادرانہ روابط تھے۔ پھراپنے پروردگار سے مہربانیوں کی طلب کرتے ہوئے اور اس کی جناب میں الحاح و زاری کرتے ہوئےعرض کرتے ہیں: رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ ، (اے کمزور سمجھ لیے جانے والوں کے پالنہار)، پھر اللہ سے رحمت کی خواستگاری کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں: اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ إِلٰی عَدُوٍّ یَتَجَھَّمُنِی أَمْ إِلٰی قَرِیبٍ مَلَّکْتَہُ أَمْرِی؟ (آپ مجھے کس کے حوالے کررہے ہیں؟ کیا اس دُور دراز شخص کے جو مجھ سے برہمی کے ساتھ پیش آئے؟ یا آپ نے میری زمامِ کار کسی دشمن کو سونپ دی ہے؟)۔ پھر آپؐ کو تنبیہ ہوتی ہے اور آپؐ تاسف و اضطراب کی کیفیت پر قابو پالیتے ہیں۔ یہ حقیقت پیش نظر آجاتی ہے کہ آپؐ کا ربّ ان سب باتوں کو جانتا ہے۔ آپؐ کا کوئی معاملہ اس سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور نہ وہ آپؐ سے غافل ہے۔ اسی نے تو آپؐ کو منتخب فرمایا اور منصب ِ رسالتؐ پرفائز کیا ہے، نیز تبلیغ رسالت کی ذمہ داری عائد کی ہے، تو کیا وہ آپؐ کو یوں ہی بے یارومددگار چھوڑ دے گا؟ لیکن آخر یہ سب کچھ ہوا کیوں کر؟ کیا آپؐ کا پروردگار آپؐ سے ناراض ہے؟ اس لیے عرض کرتے ہیں:
اِنْ لَمْ تَکُنْ غَضْبَانَ عَلَیَّ فَلَا أُبَالِیْ غَیْرَ أَنَّ عَافِیَتَکَ أَوْسَعُ لِیْ ، اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں تو یہ جو کچھ ہوا مجھے اس کی پروا نہیں ہے، مگر پھر بھی آپ کا سایۂ عافیت میرے لیے زیادہ گنجایش رکھتا ہے۔
پھر آپؐ اللہ تعالیٰ سے پناہ کی درخواست ، اس کی عظمت و رحمت کا تذکرہ اور ہمیشہ کی رضا کا سوال کرتے ہیں، کیونکہ اس کی مدد کے بغیر نہ طاقت کا وجود ہے اور نہ قوت کا۔
دُعا و مناجات کلامِ انسانی کی جولاں گاہ ہے، جہاں صاحب ِ دُعا کے باطنی احساسات صاف نظر آتے ہیں۔ جہاں اس کے بے چین و غم زدہ دل کی تصویرسامنے آجاتی ہے، اور جہاں جذبات مجسم ہوجاتے ہیں اور الفاظ کا ایسا جامہ پہن لیتے ہیں کہ ان میں اثرانگیزی کی صفت پیدا ہوجاتی ہے،اور وہ سننے والے کے دل میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔ پھر اگر صاحب ِ دُعا کا یہ رُتبہ ہو کہ زبان و بیان پر اس کی اعلیٰ درجے میں گرفت ہو اوراس کا کلامِ بلاغت کا درجہ رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں قاری و سامع، صاحب ِ دُعا کے الفاظ میں اس کی روح کو چھو کر محسوس کرسکتا۔
چنانچہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائوں کی یہی شان ہے۔ ان میں آپؐ کی معجزانہ بلاغت پوری طرح جلوہ گر ہے اور یہ ایسی خصوصیات و امتیازات سے مزین ہیں، جن کا سرچشمہ قرآنِ پاک کی مؤثر تعلیمات ہیں، کیونکہ اگلے انبیا و رُسل علیہم السلام کی دُعائوں کے مؤثر قرآنی نمونے آپؐ پر نازل ہوئے اور آپؐ نے انھی کی آغوشِ رحمت میںتربیت پائی۔ یہ دیکھنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ آپؐ نے اپنے باطنی احساسات کی تصویرکشی اور ترجمانی کس طرح فرمائی ہے؟ اس کی ایک مثال تو وہ دُعا تھی جس کا ذکر طائف کے سلسلے میں گزر چکا۔
دوسری مثال دُعائے بدر ہے۔ اس دن بھی آپؐ پر بے چینی اور اضطراب کی اثرانگیز کیفیت طاری تھی۔ اس دن مسلمان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں پہلی بار دشمنانِ کفّار کے مقابل صف آرا ہوئے تھے۔ یہ اسلام کے حق میں ایک فیصلہ کن دن تھا۔ وہ اسلام جس کی تبلیغ اور استحکام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام صلاحیتیں اور قوتیں لگا دی تھیں۔ اس کے بچائو کی تدبیریں کی تھیں اور اس کی راہ میں آپؐ نے اور آپؐ کے نیکوکار صحابہ نے ہر طرح کی اذیتیں جھیلی تھیں۔ یقینا یہ ایک عظیم الشان فیصلہ کن دن تھا۔ اس دن کفّارِ مکّہ چاہتے تھے کہ اپنی تمام تر طاقت، قوت اور شان و شوکت کا مظاہرہ کریں اور اسلام کے خلاف جو کچھ کرسکتے ہیں ، کرگزریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حریف کے مقابل اپنے لشکر کو صف آرا کیا، اور مقدور بھر تیاری اور سازوسامان کی فراہمی کی، اور پھر تنہائی میں ایک چھپر تلے اپنے ربّ کے حضور مصروفِ دُعا و مناجات ہوگئے۔ وہاں بجز حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اور کوئی نہ تھا۔ رسول ؐ اللہ کی یہ کیفیت تھی کہ آپؐ اپنے ربّ سے اس مدد کی طلب فرما رہے تھے، جس کا اللہ کی طرف سے وعدہ تھا۔ دُعا کے درمیان خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری تھے:
پھر آپؐ کی مناجات اور الحاح و زاری اس قدر بڑھ گئی کہ آپؐ کے رفیق حضرت ابوبکرصدیقؓ بے چین ہوکر کہہ اُٹھے:’’اے اللہ کے نبیؐ! اب بس کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ سے کیے ہوئے وعدے کو ضرور پورا فرمائے گا‘‘۔
دُعائے بدر کے سلسلے میں راویوں سے یہی چھوٹا سا جملہ منقول ہے، جسے آپؐ کے الحاح و اضطراب کی ایک علامت اور سُلگتے ہوئے احساسات کی ترجمانی کہہ سکتے ہیں ۔ اگر دُعا کی پوری عبارت منقول ہوتی،جس کا یہ جملہ ایک جزو ہے، تو وہ شدتِ تاثیر اور خوبی ٔ ادا کی ایک اور شان دار مثال سامنے آتی۔ اس کا کسی قدر اندازہ ہم آپؐ کی ایک دوسری دُعا، ’دُعائے عرفات‘ سے لگا سکتے ہیں۔ یہ دُعا بھی آپؐ کے احساساتِ قلب کی تصویر اور ربّ العالمین کے حضور عبودیت ِ خالصہ کی تعبیر ہے۔ اس دُعا کے الفاظ میں ایک خاص طرح کی متانت اوراسلوب میں نرمی و لطافت ہے۔ عرض کرتے ہیں:
اس کلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جلیل و کریم ربّ کے حضور اپنی ناتوانی کا اعتراف فرما رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اپنے ربّ کے حضور، بندے کی حالت و کیفیت دوسرے تمام احوال و کیفیات سے غایت درجہ مختلف ہوتی ہے۔ اسے نہ کسی بادشاہ اور اس کی کسی رعایا کی وضع و کیفیت کے مشابہ کہہ سکتے ہیں، اور نہ کسی آقا اور اس کے کسی غلام کی صورتِ حال کے مماثل قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں تو یہ کیفیت ہے کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں اس کا ایک بندہ حاضر ہے، جسے اپنے ربّ کی کامل و ہمہ جہت ربوبیت پر پورا ایمان اور اس قدرتِ کاملہ پر کُلی اعتماد ہے۔ آپؐ نے اس دُعا میں ربِّ عظیم کے سامنے اپنی حالت ِ زار پیش کی ہے اور چنانچہ عرض کرتے ہیں:
أَنَـا الْبَائِسُ الْفَقِیْرُ، اَلْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ [المعجم الکبیر للطبرانی، مکتبۃ ابن تیمیۃ، ج۲، ۱۹۹۴ء، ج۱۱، ص ۱۷۴] میں ہوں بے چارہ، مصیبت زدہ، محتاج ، فریادی، پناہ جُو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ذریعے ، اس اشارئہ ربانی کی موافقت فرمائی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَالضُّحٰى۱ۙ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى۲ۙ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى۳ۭ وَلَلْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى۴ۭ وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى۵ۭ اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى۶۠ وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَہَدٰى۷۠ وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى۸ۭ (الضحٰی۹۳: ۱-۸) قسم ہے روزِ روشن کی اور رات کی، جب کہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے، (اے نبیؐ) تمھارے ربّ نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ اور یقینا تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمھارا ربّ تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجائو گے۔ کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقف ِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کر دیا۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وقت ِ چاشت اور وقت ِ صبح کو اس بات کا گواہ بنایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا معاملہ خصوصی توجہ اور رحمت ِ خاص کا ہے، اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کے لیے حالت ِ احتیاج و ناتوانی میں وسائل زندگی فراہم کیے۔ کیونکہ وراثت میں آپؐ کو نہ مال ملا، نہ دولت۔ پھر آپؐ کا کوئی کفیل بھی نہ تھاکیونکہ آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی والدماجد وفات پاچکے تھے اور ابھی عہدِ طفولیت ہی تھا کہ والدہ محترمہ بھی چل بسیں، پھر کم سنی ہی میں مکرم و معظم دادا کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس طرح جب آپؐ نے رواں دواں زندگی کے حدود میں قدم رکھا تو آپؐ بےسروسامانی میں تھے لیکن ربّ رؤوف نے آپؐ کی دست گیری فرمائی اور آپؐ کے لیے اسبابِ غنٰی فراہم کر دیئے۔ تلاوتِ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا ہی، اس لیے آپؐ اپنی دُعا میں ان تمام اُمور کو ملحوظ رکھ کر عرض کرتے ہیں:
پھرجب آپؐ کی نگاہ تبلیغِ رسالت کی اس عظیم ذمہ داری کی جانب ملتفت ہوئی، جو آپؐ کے کندھوں پر ڈال دی گئی تھی، اور جس کے بوجھ تلے پشت ِ مبارک گویا ٹوٹی جارہی تھی۔ جب آپؐ نے راہِ تبلیغ میں اپنی کوششوں کا جائزہ لیا اور انھیں درجۂ مطلوب سے کم سمجھا تو آپؐ پر خشیت طاری ہوگئی اور اعترافِ خطا کا اعلان فرماتے ہوئے مصروفِ دُعا ہوگئے:
اَلْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفْ بِذَنْبِہٖ [میں ہی ہوں اپنی خطائوں کا معترف اور مقر]۔
پھر آپؐ نے احساسِ ناتوانی کی اس فضا میں کامل درجہ الحاح و زاری کے ساتھ عرض فرمایا:
أَسْئَلُکَ مَسْألَۃَ الْمِسْکِینِ، وأَبْتَھِلُ اِلَیْکَ اِبْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیلِ، وأدْعُوْکَ دُعاءَ الْخَائفِ الضَّرِیْرِ، مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہ، وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہ، وذَلَّ لَکَ جِسْمُہ، وَرَغِمَ لَکَ أَنْفُہ [معجم الشیوخ لابن جمیع الصیداوی، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، طبع:۱، ۱۹۸۵ء، ص:۲۱۳]میں ایک بڑے بے کس کی طرح آپ سے سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی طرح گڑگڑاتا اور آہ و زاری کرتا ہوں جو خطاکار بھی ہو اور بے عزّت بھی ہو، اور خوف زدہ و آفت رسیدہ شخص کی طرح آپ کو پکارتا ہوں، جس کی گردن آپ کے آگے جھکی ہوئی ہو اور جس کا بدن احساسِ ذلّت سے دبا جارہا ہو اور جو کہ احساسِ ندامت سے ناک رگڑ رہا ہو۔
اس حالت سے بڑھ کر فروتنی اور لجاجت کی اور کون سی حالت ہوگی، جس میں ناتوانی ، بے کسی اور تحیر کی تمام کیفیات جمع ہوگئی ہیں۔ اور جس کی ترجمانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربِ قادر و جلیل کی ربوبیت کے سامنے عبدیت ِ کاملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمائی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ذریعے اپنے ربّ کو پکارا ہے۔ اس سے سرفرازی، رحمت، حفاظت اور مہربانی کی درخواست کی ہے۔
اب یہ دعا مکمل اور مسلسل صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کی عبارت میں ایک خاص طرح کی ہم آہنگی اور مسحورکُن حُسن ہے۔ پھر ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی جانب منتقل ہونے کا عمل بھی فطری محسوس ہوتا ہے۔ آپؐ عرض کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کو ’مغز عبادت‘ بتلایا ہے۔ فی الواقع یہ دُعا کی بہت عمدہ تعریف ہے۔ اس لیے کہ دُعا ایک ایسا عمل ہے، جس کےتمام گوشے اور زاویے روحِ عبودیت سے معمور ہوتے ہیں۔ اسی طرح دُعا، صاحب ِ دُعا کے ذہن و دماغ کو اپنے خالق و پروردگار سے حددرجہ قریب کر دیتی ہے۔ چنانچہ، دُعا خواں جب اخلاص و طمانیت کے ساتھ اپنے ربّ سے محوِ مناجات ہوتا ہے، تو ایسا لگتا ہے گویا وہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکا ہوا ہے اور بار بار اسے دیکھے جارہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کی تعبیر کلمۂ ’احسان‘ سے فرمائی ہے۔
چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں: ’احسان‘ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو۔ یہ کیفیت حاصل نہ ہوسکے تو یہ تو حقیقت ہی ہے کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی یہی کیفیت تھی۔ رہ گئیں آپؐ کی دُعائیں اور مناجاتیں، تو وہاں یہ کیفیت قوی ترین شکل میں ظاہر ہوتی تھی۔ چنانچہ آپؐ جب مصروفِ دُعا ہوتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا اس جانی پہچانی دُنیا سے نکل کر کسی اور دُنیا میں تشریف فرما ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دُعائیں جو اسلوب کے لحاظ سے اُن قرآنی دُعائوں سے بہت قریب ہیں، جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آپؐ کی تعلیم کے لیے فرمایا ہے، یا انبیائے سابقینؑ کی دُعائوں کے سیا ق میں کیا ہے۔آپؐ کی دُعائوں کا جائزہ لیا جائے تو انسانی قلب ان کی قدروقیمت کے احسا س سے معمور اور ان کے زیراثر پیدا شدہ فضا کی بلند پائیگی سے مسحور ہوجاتا ہے۔ ان دُعائوں کا اسلوبِ بیان کمال درجے کا سادہ ہے: کبھی چشمۂ صافی کی طرح سبک خرام اور کبھی چٹانوں کے درمیان سے گزرنے والے پر شور دریا کی مانند تیزگام۔
اب ہم آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائوں کے چند مسلسل اور مربوط نمونے پیش کرتے ہیں، جو آپؐ نے مختلف اوقات میں اپنے ربّ کے حضور کی ہیں۔ یہ دُعائیں کسی شرح اور ترجمانی سے بے نیاز ہیں:
اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، وَإِلَیْکَ الْمُشْتَکَی، وَبِکَ الْمُسْتَغَاثُ، وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ [الدعوات الکبیر للبیہقی، غراس للنشر والتوزیع، کویت، طہ۱، ۲۰۰۹ء، ج۱، ص ۳۵۴] اے اللہ! حمد کا استحقاق آپ ہی کو ہے، تکلیف و مصیبت کا عرض معروض آپ ہی سے کیا جاتا ہے۔ فریاد رس آپ ہی کی ذات ہے۔ مدد آپ ہی سے طلب کی جاسکتی ہے۔ طاقت و قوت آپ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں۔
اللَّھُمَّ إِنَّـا نَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ أَوْ نَجْھَلَ أَوْ یُجھَلَ عَلَیْنَا [سنن الترمذی، کتاب الذبائح، أبواب الدعوات عن رسولؐ ، حدیث: ۳۴۳۲] اے اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں، مچل جانے سے، یا کسی کو مچلانے سے، یا کسی کو گمراہ کرنے سے، یا کسی پر ظلم کرنے سے، یا خود نشانۂ ظلم بننے سے، یا جہالت کرنے سے، یا کسی کی جہالت کا شکار بننے سے یا گمراہ ہونے سے، یا گمراہ کیے جانے سے۔
اے اللہ! ہمارے دلوں میں باہم اُلفت پیدا کر دیجیے۔ ہمارے باہمی تعلقات درست فرما دیجیے، ہمیں سلامتی کی راہیں دکھلایئے، ہمیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف پہنچا دیجیے۔ ہمیں ظاہری و باطنی بے حیائیوں سے دُور رکھیے۔ برکت عطا فرمایئے، ہماری شنوائیوں میں، ہماری بینائیوں میں، ہمارے قلوب میں،ہماری ازواج میں اور ہماری اولاد میں۔ ہماری توبہ قبول فرمایئےکہ آپ ہی ہیں بار بار توبہ قبول فرمانے والے اور نہایت مہربان۔ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکرگزار، ثناخواں اور ان کا اہل بنایئے اور ہم پر اپنی نعمتیں پوری پوری اُتاردیجیے۔
دُعا ہائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے انھی چند شہ پاروں پر اکتفا کرتا ہوں، جو ہیں تو بہت زیادہ لیکن یہاں تھوڑی مقدار میں پیش کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ ہمیں اپنی فرماں برداری اور اپنے رسولؐ کی اطاعت کی توفیق نصیب فرمایئے اور اسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنانے کی، صحیح ایمان اور جذبے سے دُعا کرنے کی کوششوں میں کامیاب کیجیے،کیونکہ ارشاد باری ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۲۱ۭ (احزاب ۳۳:۲۱) [درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔]
گناہوں سے بچنے کی قوت، اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر تصور نہیں کی جاسکتی۔
ارشادِ الٰہی ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۵۸ۧ (الانفال ۸:۵۸) بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِـــيْمًا۱۰۷ (النساء۴:۱۰۷) یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔
’خیانت‘ ،جیسا کہ معروف ہے،’امانت‘ کی ضد ہے۔’ خیانت‘ کی برائی کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے قرآن کا یہ اعلان کافی ہے کہ اللہ رب العزت، ’خیانت‘ میں ملوث ہونے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نا پسند فرمائے اس کے انجامِ بد کے بارے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے اور اس کے موجب ِ وبال و مہلک ہونے کے سلسلے میں قرآن کی یہ مزید و ضاحت لائقِ توجہ ہے کہ اللہ کو ہرخیانت کار ناپسند ہے، اس لیے کہ وہ سخت گنہ گار اور ناشکرا ہو تا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا دوسری آیت اور سورۃ الحج کی آیت ۳۸ سے ظاہر ہوتا ہے ۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے اہلِ ایمان! اللہ و رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی [آپس کی ] امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کا ارتکاب کرو۔
اردو تفاسیر میں اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت کا مفہوم جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ ہے : اللہ کے حکموں کو توڑنا ،کتابِ الٰہی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنا اور روز مرہ زندگی میں سنتِ رسولؐ پر عمل سے انحراف کرنا ۔ بعض مفسرین کے یہاں اس کی ایک تعبیر یہ بھی ملتی ہے کہ ظاہر میں تو حکمِ الٰہی پر پابند رہا جائے،لیکن پوشیدہ طور پر یا تنہائی میں اس کی خلاف ورزی کی جائے اسی کا نام خیانت ہے (تفہیم القرآن، ج۶،ص۳۳۔۳۴؛ معارف القرآن، ج۸، ص۵۰۶؛ تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴)۔ ان سب تشریحات کا ما حصل یہ ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت سے مراد ہے: ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا، اللہ کے حکموں کو توڑنا،روز مرّہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِالٰہی کی ہدایات ، اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل نہ کر نا اور اللہ اور رسولؐ اور مسلمانوں کے دشمنوں کو خفیہ طور پر مدد بہم پہنچانا یا مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے خلاف کام کرنا۔
جہاں تک آیت میں مذکور آپس میں امانتوں میں خیانت کا تعلق ہے، اس میں وہ تمام معاملات آ تے ہیں جن کا تعلق حقوق العباد یا اللہ کے بندوں کے حقوق سے ہے ۔ ان حقوق کی عدمِ ادائیگی یا ادائیگی میں غفلت و کوتاہی خیانت ہے۔ اسی طرح کوئی کام یا ذمہ داری کسی کے سپرد ہو اسے نہ انجام دینا یا ا س میں لاپرواہی برتنا خیانت ہے۔
اللہ کے بندوں کے حقوق کی عدمِ ادائیگی سے خیانت کی جو مختلف شکلیں ظہور میں آتی ہیں ان کی ایک جامع تعبیر علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ کے اِن الفاظ میں ملتی ہے: ’’ایک کا جو حق دوسرے کے ذمہ واجب ہو اس کے ادا کرنے میں ایمان داری نہ برتنا خیانت اور بددیانتی ہے۔اگر ایک کی چیز دوسرے کے پاس امانت ہو اور وہ اس میں بے جا تصرف کرتا یامانگنے پرواپس نہ کرتا ہو یہ کھلی ہوئی خیانت ہے ،یا کسی کی کوئی چھپی ہوئی بات کسی دوسرے کو معلوم ہو یا کسی نے دوسرے پر بھروسا کر کے کوئی اپنابھید اس کو بتایا ہو تو اس کا کسی اور پر ظاہر کرنا بھی خیانت ہے۔ اسی طرح جو کام کسی کے سپرد ہو اس کو وہ دیانت داری کے ساتھ انجام نہ دے تو یہ بھی خیانت ہی کہلائے گا،علیٰ ہٰذا، عام مسلمانوں،ائمّۂ وقت اور اپنے متفقہ قومی و ملّی مصالح کے خلاف قدم اٹھانا بھی ملت سے بد دیانتی ہے۔دوست ہو کر دوستی نہ نباہنا بھی خیانت ہے۔بیوی میاں کی وفاداری نہ کرے تو یہ بھی خیانت ہے، د ل میں کچھ رکھنا اور زبان سے کچھ کہنا اور عمل سے کچھ اور ثابت کرنا بھی خیانت ہے۔اسلام کی اخلاقی شریعت میں یہ ساری خیانتیں یکساں ممنوع ہیں‘‘ (سیرۃ النبیؐ، ج۶، ص۳۹۶)۔
مذکورہ آیت کی نسبت سے یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس میں اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت کی ممانعت مقدم ہے۔ اس سے یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت اللہ کے بندوں کے ساتھ خیانت کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ ایک ماہرِعلمِ قرآن نے اسی آیت کے حوالے سے بجاتحریر فرمایا ہے:[ اللہ کے]’’ بندوں سے خیانت کی راہ اللہ اور رسولؐ سے خیانت کی راہ سے ہوکر گزرتی ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرنے والا بندگانِ خدا سے بھی خیانت نہیں کرسکتا‘‘ (سید عبد الکبیر عمری،نورِہدایت،جامعہ دار السلام، عمرآباد،۲۰۱۴ء، ص۲۲۰)۔
یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ و رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے، وہ اللہ سے کیے گئے عہد کا پاس و لحاظ رکھے گااور اس کی عنایت کردہ نعمتوں کو امانت سمجھ کر ان کی قدر کرے گا اور خالق حقیقی کا شکر بجا لائے گا۔ وہ اس کے بندوں کے ساتھ بھی امانت داری و دیانت داری کا معاملہ کرے گا، ان کے ساتھ بے وفائی یا غداری کا معاملہ کرکے انھیں تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ واقعہ یہ کہ جس کسی کے قلب میں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور اس کے احکام کی قدر و قیمت جاگزیں ہوگی وہ اس کے بندوں کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں کرسکتا جو ان کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو۔ ا س سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خیانت و بد دیانتی بہر صورت لوگوں کے لیے زحمت،مضرت اور دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔
در اصل یہ برائی جسم کے مختلف حصوں (دل ،آنکھ اور ہاتھ، پیر وغیرہ کی حرکت ،حتیٰ کہ چشم و ابرو کے اشارے )سے سر زد ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۱۹ (المومن۴۰:۱۹) ’’ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں چھپی ہوئی چیزوں (رازوں / باتوں) تک کو بھی جانتا ہے‘‘۔دل کی خیانت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ راز کی بات کسی کو بتا دی جائے یا کسی کا راز دوسر ے کے سامنے افشاء کردیا جائے۔ اس تحریر کے شروع میں مذکورہ آیت کے شان ِ نزول میں جو واقعہ ( حضرت ابو لبابہ ابن عبدالمنذرؓ کا بنو قریظہ کے لوگوں سے گفتگو میں جسم کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کرکے اہلِ اسلام کے راز کو افشاء کردینا) بیان کیا جاتا ہے اسے دل کی خیانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک آیت میں ان دو خواتین (یا زوجاتِ حضرت نوحؑ و حضرت لوطؑ) کی مثال بدترین عورتوں کے طور پر دی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے شوہروں( جو نبی تھے) کے ساتھ خیانت کی۔ارشادِالٰہی ہے:
ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۰ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ۱۰ (التحریم۶۶:۱۰) اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ و لوطؑ کی بیویوں کوبطور مثال پیش کرتا ہے۔وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں،مگر انھوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ دونوں سے کہا گیا کہ جہنم کی آگ میں داخل ہوجائو داخل ہونے والوں کے ساتھ۔
یہ ان خواتین کی سراسر ہٹ دھرمی ا ور انتہائی محرومی تھی کہ انبیائے کرامؑ کی زوجیت میں ہونے کے باوجود انھوں نے ان کے ساتھ خیانت کی۔اس خیانت کی نسبت سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دل کی خیانت تھی ، اس لیے کہ وہ اپنے شوہروں ( جو نبی تھے) پر ایمان نہیں لائیں۔ انھوں نے دین کے معاملے میں ان کی مخالفت کی اور ان کے مقابلے میں دشمنانِ اسلام کا ساتھ دیتی رہیں۔ مزید یہ کہ خفیہ طور پر انھیں مدد بہم پہنچاتی رہیں اور وہ اس طور پر کہ اپنے شوہروں اور ان پر ایمان لانے والوں کی رازدارانہ باتیں مخالفین کو بتاتی رہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنے شوہر نبیوں کے ساتھ کھلی ہوئی بے وفائی کا ثبوت دیا۔
آیت میں ان کے اس طرزِ عمل کو خیانت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن قرار دیا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ خیانت کی ایک بد ترین شکل تھی ( تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴ ،حاشیہ ۶، معارف القرآن،مکتبہ مصطفائیہ ،دیو بند،۸؍۵۰۶ ) ۔ حقیقت یہ ہے کہ خیانت، خواہ کسی بھی صورت میں ہو، اس کا تعلق انسان کے اندرون یا اس کے نفس سے ہوتا ہے۔خیانت کو چھپی ہوئی برائی یا اندرونی بیماری اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ا س میں سب سے بڑا دخل نیت کی خرابی کا ہوتا ہے۔ در اصل یہ ناپاک ارادے (کسی کو نقصان پہنچانا،کسی کے مخالف یا دشمن کی خفیہ مدد کرنا، کسی کو ذہنی اذیت دینا، بد دیانتی کرکے مال کی ہوس پوری کرنا، اپنے فائدے کے لیے کسی کے راز کو افشاء کر نا) ہوتے ہیں جو خیانت جیسی سنگین برائی کے پیچھے کار فرما ہو تے ہیں ۔
اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ اگر کوئی شخص فی الواقع مومن ہے تو دوسری کمزوریاں اور برائیاں تو اس کے اندر ہو سکتی ہیں،لیکن خیانت ا و ر کذب جیسی منافقانہ خصلتیں اس میں نہیں پائی جا سکتیں۔اتفاقیہ طور سے کسی مومن سے جھوٹ اور خیانت کی برائی بھی سرزد ہوسکتی ہے،لیکن یہ ممکن نہیں کہ خیانت اور جھوٹ اور کذب کو وہ اپنا شعار بنالے‘‘ (کلامِ نبوت، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۵۳۰،حاشیہ ۱) ۔ حقیقت یہ کہ جس برائی کو کذب ( جو موجب غضبِ الٰہی ہے) کی ہم نشینی حاصل ہو اس کا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب، اس کے بندوں کے لیے باعث زحمت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن ہونا یقینی ہے۔ اُس حدیث سے یہ نکتہ نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس کے اندر امانت نہیں۔ یہ امر بدیہی ہے کہ جوشخص نہ تو امانت کا حق ادا کرتا ہے اور نہ اس کے تقاضے ہی پورے کر تا ہے ،یعنی خیانت کی راہ اپنا لیتا ہے، وہ کیسے کامل ایمان والا ہو سکتا ہے ۔ایک دوسری حدیث میں مسلم کی شناخت اس طور پر بیان کی گئی ہے کہ وہ نہ اپنے مسلم بھائی کے ساتھ خیانت کا معاملہ کرتا ہے،نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے الْمُسْلِمْ اَخُو المُسْلِمْ لَا یَخُوْنَہٗ وَلَا یَکْذِبُہٗ وَلَا یَخذِلُہٗ (جامع ترمذی، ابواب البر،باب ماجاء فی شفقۃ المسلم علی المسلم، حدیث:۱۸۹۹)۔ ان تمام تفصیلات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سچائی، دیانت داری اور عہد کی پاس داری اہلِ ایمان کا شیوہ ہے اور کذب، خیانت، اور عہد شکنی منافقین کا طریق کار ہوتا ہے۔
درحقیقت اللہ رب العزت نے جو نعمت بھی کسی کو عطا کی ہے وہ اس کی طرف سے ایک امانت ہے۔ اُس نعمت کا بے جا،بے فائدہ اور بری نیت یا غلط مقصد سے استعمال بلا شبہہ اس کی ناشکری ہے جو منعمِ حقیقی کو انتہائی نا پسند ہے۔ اللہ کی نعمت کا بے جا استعمال فی نفسہ کفران یا ناشکری ہے اور اس میں بری نیت مل جائے تو یقینی طور پر اس گناہ کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ النساء کی ایک آیت میں ’ خوَّان‘ کے ساتھ لفظ ’اثیم‘ ( گنہ گار) بھی آیا ہے: اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِــيْمًا۱۰۷ ( النساء۴:۱۰۷) ’’ یقیناً ً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار و معصیت کار ہو‘‘۔اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خیانت اور گناہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
قرآن و حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خیانت کرنے والے اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔قرآن میں ان لوگوں کی حمایت اور دفاع سے منع کیا گیا ہے، جو خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں (النساء۴:۱۰۶-۱۰۷)۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی نصرت و حمایت انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور اللہ کی عنایت کردہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خیانت کار، دل ودماغ کی قوتوں کو غلط کام پر لگانے، یعنی ناشکرے اس سے محروم رہتے ہیں (الحج ۲۲:۳۸)۔ پھر ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیاہے کہ ذاتی منفعت کے حصول کے لیے اپنے شریکِ معاملہ کے ساتھ خیانت کا رویہ اپنانے والے اور اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اللہ ربّ العزت کی نصرت و عنایت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اِنَّ اللہ تَعَالٰی یَقُوْلُ اَنَـا ثَالِثُ الشَّـرِیْکَیْنِ مَالَمْ یَخُنْ اَحَدُھُمَا صَاحِبَہٗ فَاِذَا خَانَہٗ خَرَجْتُ مِنْ بَیْنَھُمَا (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکۃ، حدیث: ۲۹۵۳) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے دو شریک باہم خیانت کے مرتکب نہ ہوں، میں ان کے ساتھ رہتا ہوں،لیکن جب ایک شریک دوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں بیچ سے نکل جاتا ہوں [ایک دوسری روایت کے مطابق ’’ ا ور پھر شیطان آجاتا ہے‘‘]۔
اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں رقم طراز ہیں: ’’ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے شرکاء آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں اور خیانت سے دور رہتے ہیں، خدا کی مدد ان کو حاصل رہتی ہے،خدا ان کے کاروبار میں برکت عطا فرماتا ہے، لیکن جب ان کی نیتوں میں فرق آجاتا ہے اور کاروبار کے شرکاء میں سے ہر ایک صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور دوسرے کے ساتھ خیانت اور بے انصافی سے کام لینے لگتاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نفع تنہا اسی کے حصے میں آئے، تو ایسی صورت میں خدا کی رحمت ان سے الگ ہوجاتی ہے اور وہ اپنی مدد کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور شیطان کو اس کا پورا موقع مل جاتا ہے کہ وہ ان کے باہمی تعلقات کو خراب کرے اور ان کے کاروبار کو تباہی کے راستے پر ڈال دے‘‘(کلامِ نبوت، ج ۲،ص ۵۳۱- ۵۳۲، حاشیہ ۳)۔ اس سے بڑھ کر محرومی کیا ہوسکتی ہے کہ کو ئی شخص ربِّ کریم کی نصرت و تائید سے محروم ہوجائے۔ ان سب معروضات سے خیانت کے دنیوی و اُخروی وبال کی سنگینی بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔
اللہ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ وہ خیانت جیسی مہلک بیماری سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہمیں نیکیوں کی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین ثمَّ آمین!
يٰٓاَ يُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو جس کے ایندھن انسان اورپتّھر ہوں گے۔
اس آیت میں مومنین کو ایک انتہائی ا ہم ہدایت ( جس پر انسان کی حقیقی کامیابی کا دارو مدار ہے) دی گئی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کی فکر و کوشش کرنا۔ بلاشبہہ جہنم سے بچ جانا اور جنت نصیب ہونا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے ،جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے:
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۰ۭ (اٰل عمرٰن۳: ۱۸۵) جو جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی (حقیقی معنوں میں) کامیاب ہوا۔
ظاہر ہے کہ جنت نصیب ہونا منحصر ہے روز مرہ زندگی میں اللہ رب العزت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلصانہ اطاعت پر ۔ اہلِ ایمان کے لیے آیت کا پیغام بہت ہی واضح ہے کہ وہ حکمِ الٰہی و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے حالات سدھاریں ، زندگی کے ہر شعبے میں دین کے تقاضوں کو پورا کریں، اور اسی طور پر اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے پور ی کوشش کریں۔ اس آیت کے نزول پر حضرت عمر ابن خطابؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اپنے آپ کو کیسے جہنم سے بچائیں، یہ تو سمجھ میں آگیا ( کہ احکامِ الٰہی پر عمل کریں اور گناہوں سے دُور رہیں )، مگر ہم اپنے اہل و عیال کو کس طرح جہنم سے بچائیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ اس طر ح کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ، اہل وعیال کو ان کاموں سے منع کرو ،اور اللہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان کے کرنے کا انھیں حکم دو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچائے گا (روح المعانی، ج۲۸،ص ۱۵۶)
صاحبِ تفہیم القرآن نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ اپنی ذات کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے،بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ جس خاندان کا وہ سربراہ ہے اس کو بھی ممکن حد تک ایسی تعلیم و تربیت دے کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا بن جائے، تاکہ اللہ رب العزت اس سے راضی ہو جائے اور وہ جہنم سے بچ جائے (تفہیم القرآن، ج۶،ص ۲۹-۳۰، حاشیہ ۱۶ ) ۔
مولانا عبد الباری ندوی اس سورہ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’ انسان کو بحیثیت مجموعی خسران سے بچانے کے لیے صرف کچھ افراد کا اپنی اپنی جگہ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ کا حق ادا کر کے مومنِ صالح بن جانا کافی نہیں ، بلکہ ایمان و عمل صالح کی اس حقّانی زندگی کو پوری نوع انسانی میں پھیلانے اور پیدا کرنے کے لیے آپس میںایک دوسرے کو اس کی فہمایش و تاکید کرتے رہنا بھی لازم ہے ‘‘( قرآن کا دو آیاتی نظامِ صلاح و اصلاح، ۲۰۰۹ء، ص ۱۰۶)۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ زیرِ بحث آیت میں اپنے کو او ر اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچانے کے لیے ’ امر‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،یعنی تاکید کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس نے اس کام کو فرض کا درجہ دے دیا ہے۔ مقصود یہ کہ ا پنی اور گھر والوں کی اصلاح کے لیے کوشش محض مطلوب نہیں ، بلکہ ضروری ہے۔ آیت میں جہنم کی آگ کے بھڑکنے کے ذرائع ذکر کر کے اس کام ( نارِ جہنم سے بچانے) کی ضرورت و اہمیت کو اور بڑھا دیا گیا ہے۔ سچ پوچھئے تو اس سے بڑھ کر ضروری و اہم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے بجا تحریر فرما یا ہے : ’’ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے اسے اٹھائے نہ رکھے۔ جب بھی دیکھے کہ ان کے اندر اللہ کی شریعت سے بے پروائی راہ پارہی ہے،فوراً اس کے سدِّ باب کی فکر کرے‘‘(تدبر قرآن، ج۸، ص۴۶۹)۔
جب یہ آیت وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۲۱۴ (الشعراء :۲۶:۲۱۴) نازل ہوئی ( یعنی آپؐ کو اپنے قبیلہ و خاندان کے لوگوں کو علانیہ انذار کا حکم ہوا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ قریش کی تمام شا خو ں کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک ایک شاخ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میں ( روزِجزا) تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا۔آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ان الفاظ میں مخاطب ہوئے : وَ یَا فَاطِمَۃُ بِنْت مُحَمَّد! سَلِیْـنِیْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِیْ ،لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا (صحیح بخاری،کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء باب وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) ’’اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میرے پاس جو کچھ مال ہے اس میں جو چاہو لے سکتی ہو،لیکن( یاد رکھو کہ) میں قیامت کے دن اللہ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آسکوں گا‘‘۔ حقیقت یہ کہ گھر والوں کی تذکیر اور انھیں نارِ جہنم سے بچانے کی راہ میں کوشش کی نسبت سے اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم سب کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے اور ان مختصر جملوں میں انذار کے پہلو سے جو جامعیت ہے وہ اپنی جگہ مسلَّم ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے حالات درست کرنے یا انھیں راہِ راست پر لانے کی اصل ذمہ داری سرپرست یا نگراں کی ہی ہوتی ہے ،لیکن آیت میں اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم عمومی انداز میں دیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے،جوان ،بوڑھے ، مرد و عورت کی تفریق کے بغیر گھر کے تمام لوگوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موقع و محل کی رعایت کے ساتھ حسبِ استطاعت ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتا ئیں، نیک کاموں کی طرف متوجہ کریں اور برے کاموں پر متنبہ کرتے رہیں، یعنی یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
آج کل تقریباً ہر گھر میں اولاد یا زیرِ نگرانی بچوں کی نسبت سے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے، اس کے حصول میں محنت و مشقت و سنجیدگی کے لیے انھیں باربار نصیحت کی جاتی ہے، ان کی خوب سرزنش ہو تی ہے، ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔ ان سب میں کوئی حرج نہیں،اس لیے کیریئر بنانے اور دنیوی زندگی کی تعمیر و ترقی کے لیے تعلیم کا حصول، اس میں انہماک اور اچھی کارکردگی ضروری ہے، لیکن لمحۂ فکریہ ہے کہ والدین و سرپرستوں کی یہ نصیحت و یاددہانی، سختی وسرزنش،دینی معاملات میں کوتاہی و فرض عبادات کی ادائیگی میں غفلت، اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی اور بُری حرکتوں کے عا دی ہونے کی صورت میں کم ہی نظر آتی ہے، بلکہ بعض اوقات والدین یا سرپرست انھیں ایسی سہولیات مہیا کرتے ہیں، جو بے کار و لایعنی باتوں میں غیرمعمولی دل چسپی، وقت کے ضیاع اور بُری عادتوں کے جڑ پکڑنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
گھر کے لوگوں کی اصلاح کی خاطر ہر گھر میں وقتاًفوقتاً دینی یا تذکیری مجلس کے انعقاد کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور موجودہ حالات میں یہ وقت کا ایک اہم تقاضا بن چکا ہے۔ کرونا لاک ڈائون کے دوران محلّہ کی مساجد میں یا دوسرے کسی مقام پر اجتماعی طور پر دعوتی و تذکیری پروگرام موقوف ہونے کی وجہ سے اس ناچیز کو گھر میں درسِ قرآن کے توسط سے گھر والوں کے سامنے ہفتہ وار کچھ کہنے کا موقع ملا تو ان مجالس کے تجربات نے گھر میں دینی یا تذکیر ی مجالس کے انعقاد کی اہمیت و افادیت کو دل ودماغ میں نقش کردیا۔ یہ احساس غالب ہوگیا کہ اس سلسلے میں اب تک بڑی کوتاہی ہوئی ہے۔
گھر میں تذکیری مجلسیں منعقد کرنے کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں سامنے آیا کہ روزمرہ زندگی سے متعلق قرآن و حدیث کی عام ہدایات و تعلیمات کی طرٖف متوجہ کرنے کے علاوہ بعض اوقات گھر کے کسی فرد کو دین کی کسی خاص بات یا روز مرّہ زندگی کے کسی خاص پہلو کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یا گھر کے لوگوں یا کسی فرد میں خلافِ شریعت معاملات نظر آنے پر انھیں متنبہ کر نا ضروری ہوجا تاہے تو قرآن و حدیث کے حوالے سے جب تذکیری مجلس میں سب کے سامنے یہ باتیں واضح کی جاتی ہیں تو گھر کے تمام لوگوں کو ان سے واقفیت ہوجاتی ہے اور متعلقہ امر یا معاملہ سے متعلق قانونِ شریعت سے عمومی آگاہی ہوجاتی ہے۔ دوسرے اس طرح کی مجالس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غلطی یا کوتاہی پراجتماعی طور پر متنبہ کر دینے کی وجہ سے گھر کے کسی فرد کو انفرادی طور پر نکیر کرنے یا خطاکار /غلطی کرنے والے سے براہ راست کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ خود سمجھ جاتا ہے کہ اس تنبیہ کا اصل مخاطب کون ہے، اس طرح وہ شرم ساری سے بچ جاتا ہے اور متنبہ کرنے والا انفرادی نکیر کے کسی منفی ردِِّ عمل سے محفوظ رہتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی کوئی غلط بات یا برائی کی خبر ہوتی اور آ پؐ اس کی اصلاح کرنا چاہتے تو یہ نہ فرماتے کہ فلاں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا ،ایسا کہتا ہے، بلکہ یہ فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا،ایسا کہتے ہیں (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، بَابٌ فِیْ حُسْنِ العِشْرَۃِ)، یعنی آپؐ مجلس میں خطا کار کا نام لیے بغیریا اسے براہِ راست مخاطب کیے بغیر غلطی پر متنبہ کر تے اور اصلاح فرماتے۔
حضرت اسماعیلؑ کے امتیازی اوصاف میں یہ بیان کیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کے اہتمام ا ور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ ۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّا۵۵ (مریم۱۹: ۵۵) ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کی نگاہ میں پسندیدہ تھے‘‘۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو شرک سے اجتناب اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی نصیحت کے فوراً بعد اقامتِ صلوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہتمام کی تاکید کی تھی۔ ارشادِ ربّانی ہے: يٰبُنَيَّ اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْكَرِ (لقمان ۳۱:۱۷) ’’اے میرے بیٹے! نماز کا اہتمام کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصی حکم فرمایا: وَاْمُرْ اَہْلَكَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہَا۰ۭ (طٰہٰ۲۰:۱۳۲) ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور خود اس پر جمے رہیے‘‘۔
آیت کا آخری حصہ اس لحاظ سے بڑا اہم و سبق آموز ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ گھر والوں کو نماز کی تاکید کرتے رہنے کے ساتھ خود بھی اس پر کار بند رہیں۔ اس سے یہ قیمتی نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کی راہ میں سرگرم رہنے والوں اور انھیں نیک کاموں کی دعوت دینے والوں کو پہلے اپنے آپ کو ان کا خوگر بنا نا نہایت ضروری ہے،ورنہ دعوت و تذکیر بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔سچ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حکمِ الٰہی کی تعمیل میں سرگرم رہنے والا کون ہوسکتا ہے۔
یہاں نماز کے اہتمام کے باب میں اسوۂ مبارکہ سے متعلق صرف ایک حدیث کا حوالہ کافی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام کاج میں لگے رہتے تھے، جیسے ہی نماز کا وقت آجاتا (یا ایک دوسری روایت کے مطابق اذان ہوجاتی) تو آپؐ بلاکسی تاخیر کے اس کی تیاری میں مصروف ہوجاتے تھے (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب کَیْفَ یَکُوْنُ الرَّجُلُ فِیْ اَھْلِہٖ، صحیح بخاری، کتاب النفقات، باب خدمۃ الرجل فی اھلہ)۔
سچ بات یہ کہ ’ نہی عن المنکر‘ کے بغیر ’امربالمعروف‘ کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا، جیسا کہ قرآن کریم میں دونوں کام ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کے ساتھ ساتھ ذکر کے اہتمام سے واضح ہوتا ہے، اور اہلِ ایمان کے امتیازی اوصاف میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے رو کنے کا تذکرہ بار بار ملتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُس صورتِ حال میں جہاں ہر طرف برائیوں کا زور ہو اور لوگ گناہ کے کاموں کے عادی ہوگئے ہوں، وہاں نہی عن المنکر کی ضرورت و ا ہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں زندگی کے ہرپہلو سے متعلق گھر کے لوگوں کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر یا تذکیر و فہمایش کی ضرورت بڑھتی ہی جارہی ہے۔
یہ آیت اسی نکتہ پر غور وفکر کی دعوت دے رہی ہے:اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ (البقرہ۲:۴۴) ’’کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟۔ امام غزالیؒ نے دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی راہ میں قرآنی ترتیب کو اختیار کرنے پر اس انداز میں زور دیا ہے :’’دوسروں کی اصلاح اپنی اصلاح پر مرتب ہوتی ہے، لہٰذا چاہیے کہ انسان اصلاح کے عمل کا آغاز اپنی ذات سے کرے ،پھر اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے، جو خود درست نہیں ہے وہ دوسرے کو کیسے درست کرے گا؟‘‘ (احیاء علوم الدین)۔
مختصر یہ کہ قرآن و حدیث کا واضح پیغام یہ ہے کہ گھر اور خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتاتے رہیں ، نیک کاموں کی یاد دہانی کراتے رہیں اور بُرے کاموں سے باز رکھنے کی کوشش کریں ۔ بلاشبہہ موجود ہ بگڑی ہوئی صورتِ حال میں قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے حالات سدھارنے،انھیں نیک کاموں کی طرف راغب کرنے اور انھیں برائیوں سے دُور رہنے کی تاکید کرنے کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ گھر کے ہر شخص سے یہ مطلوب ہے کہ خود اپنی اصلاح کے ساتھ حسبِ صلاحیت و استعداد حکمت کے ساتھ د وسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کرے اور گھر کے لوگ ایک دوسرے کو اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، ملتے جُلتے اچھی باتیں بتاتے رہیں اور نیک کاموں کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔ گھر میں اگر کوئی علمِ قرآن و حدیث سے بہرہ ور ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ گھر کے لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے با خبر کرے،یا پھر دینی کتابوں کی مدد سے ان کی تذکیر کرے اور دینی احکام کے تعلق سے انھیںسمجھا ئے بجھا ئے۔
خلاصہ یہ کہ گھر میں ایک دوسرے کو انفرادی طور پر سمجھانے بجھانے ، تذکیر و فہمایش، تنبیہ و آگاہی کے ساتھ خاص گھر والوں کے لیے وقتاً فوقتاً اجتماعی پروگرام کا انعقاد بہت ضروری ہوگیا ہے۔ کم از کم ہفتہ میں ایک بار خاص طور سے گھر کے لوگوں کے لیے تذکیری پروگرام کا نظم جاری کیا جائے اور قرآن و حدیث کے حوالے سے انھیں سمجھانے بجھانے کا سلسلہ قائم رکھا جائے ۔ بس اصل مسئلہ ہے اس کام کی اہمیت و افادیت کو دل میں جاگزیں کرنے اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا۔ اس کے لیے ذہن سازی اور مسلسل جد و جہد درکا ر ہے ۔ بلا شبہہ قرآن کی ہربات بر حق ہے۔ا للہ کا کوئی حکم حکمت و نافعیت سے خالی نہیں، وہ بہر صورت موجبِ خیر و برکت ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی نہایت واضح ہدایت ہے کہ لوگوں کو اچھی یا نفع بخش باتیں (جس طریقے سے بھی ممکن ہو) بتاتے رہو، اس سے اہلِ ایمان کو ہر حال میں فائدہ پہنچتا ہے : وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵(الذاریٰت ۵۱:۵۵) ’’اور (ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی) یاددہانی کراتے رہو، بے شک یاد دہانی کرنا اہل ایمان کو نفع پہنچاتا ہے‘‘ ۔
محبت کا جذبہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا ہے۔ اگر ماں اور باپ میں یہ محبت نہ ہوتی تو آپ اور مَیں، شاید اس دنیا میں آج اس جگہ نہ ہوتے جہاں ہیں۔ اس طرح بھائی بہن کے رشتے کو دیکھیں، قریبی رشتے داروں کی محبت اور استاد کی شاگرد سے شفقت دیکھیے تو محسوس ہوگا کہ محبت کےبغیر تو یہ دنیا ہی ادھوری ہے۔ جن معاشروں میں یہ رشتے ناطے مفقود ہوتے جارہے ہیں وہاں نہ چھوٹے کو بڑے کی خبر اور نہ بڑے کو چھوٹے کی فکر۔ زندگی ہے کہ بس حیوانوں کی طرح گزر رہی ہے۔
شاید اسی لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے محبت و احترام کو لازم قرار دے دیا ہے۔ کیونکہ صبر، تحمل، رواداری، ہمدردی، رحم دلی، ایثار، خیر خواہی، حِلم، بردباری اور بے شمار خوبیاں ایسی ہیں، جن کے سوتے ’سرچشمۂ محبت‘ ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اگر باہمی محبت کا جذبہ ختم ہو کر نفسانیت کی گدلاہٹ چشمۂ دل میں پیدا ہوجائے تو پھر مذکورہ بالا خوبیوں کے بجائے کِبر، حسرت، نفرت، انتقام، تصادم، اشتعال، غیبت، تشدد، جتھے بندیاں، سازشیں اور اس طرح کے دوسرے رذائل انسان کی زندگی پر چھا جاتے ہیں۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔
ہادیٔ برحق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا ایک تقاضا یہ بتایا کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی (یعنی) مسلمان کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (بخاری)،یعنی:
پس، جو جواب تم ان سوالوں سے اپنے لیے چاہتے ہو، وہی اپنے ہر بھائی بہن کےلیے چاہو۔ محبت ہو تو آدمی اپنے اقربا اور رفقا کی خوبیوں اور ان کے فضائل کی قدر کرتا ہے، ان کی کمزوریوں سے درگزر کرتا ہے۔ اور اگر کسی کمزوری کی اصلاح مطلوب ہو تو ایسے خیر خواہانہ انداز سے بات چیت کرتا ہے کہ اختلافات کے پہاڑ، رُوئی کے گالوں کی طرح اُڑ جاتے ہیں۔ محبت دوسروں کے دلوں کو نرم رکھتی ہے اور بند دروازے کھول دیتی ہے ۔ کسی کو بھائی کہہ کر بلانا، پاس بٹھانا، خود اس کے پاس چل کر جانا، اس کے شکوک و شبہات دُور کرنا، اس سے شکایت ہو تو خوب صورت طریقے سے بیان کرنا، یہ سب کچھ بہترین نتائج کا ذریعہ بن جاتا ہے۔محبت ہوتی ہے تو آدمی دوسرے بھائی کو معاف کرنے کےلیے بآسانی رضامند ہوجاتا ہے اور محبت ہی یہ ترغیب بھی دلاتی ہے کہ ایک شخص خود آگے بڑھ کر دوسرے سے اپنی کسی غلطی کی معافی مانگے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کن کاموں سے محبتوں کو ایک دوسرے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دُور کر دی، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ جس نے کسی تنگ دست آدمی کو سہولت بخشی، اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت بخشے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے راوی محمد بن عبداللہؓ بن نمیر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جانے میں اس کا سارا جسم شریک ہو جاتا ہے‘‘۔(مسلم)
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دُور کرتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ (ترمذی)
ایسے میں بالمشافہ ملاقات محبت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔محبت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ ملے، اس کے پاس بیٹھے۔یہ دلوں کو قریب لانے کے لیے مؤثر ترین چیز ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ملاقاتیں ہی تھیں جنھوں نے حضرت عثمان ؓابن عفان، حضرت عبدالرحمٰن ؓبن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت زبیرؓ بن عوام اور ان جیسے بہت سے صحابہ کرامؓ کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو دیکھنے اور ملاقات کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پیچھے ۷۰ ہزار فرشتے ہوتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یہ صرف تیرے لیے جڑا ہے تُو اسے جوڑ دے۔ اگر تم سے ممکن ہو تو اپنے جسم سے یہ (ملاقات کا) کام ضرور لو‘‘۔ (مشکوٰۃ)
ایک صاحب نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے کہا کہ ’’میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنائی کہ ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے، جو میرے لیے باہم مل کر بیٹھتے ہیں ، میرے لیے ایک دوسرے سے ملنے کو جاتے ہیں ، اور میرے لیے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ملاقات سے نہ صرف تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کا اجر بھی بڑا عظیم ہے۔ آئیے عہد کریں کہ محبتوں کو فروغ دینے اور اس کے صلے میں اللہ کی محبت اپنے لیے واجب کرنے کےلیے ہم ایک دوسرے سے ملاقات کو اپنا شعار بنائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت صبح کو کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ شام ہوجائے۔ اور شام کو عیادت کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔ عیادت کرنے والے کے لیے جنت میں میوؤں کے باغات ہیں‘‘۔ (ترمذی)
معروف حدیثِ قدسی کا حصہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، حالانکہ تُو تو رب العالمین ہے؟ اللہ فرمائے گا: کیا تُو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)
اللہ سے دُعا کریں کہ اللہ توفیق و ہمت عطا فرمائے کہ محبتوں کو فروغ دینے کے لیے جہاں کسی بیمار کی اطلاع ملے اُس کی عیادت کریں گے تاکہ اپنے ربّ سے وہاں شرفِ ملاقات حاصل کرسکیں۔
ویسے بھی محبت چمکتے سورج کی طرح ہے کہ اگر اس میں تصنع اور بناوٹ کی آمیزش نہ ہو اور اخلاص کا رنگ ہو تو افعال و کردار سے جھلکتی نظر آتی ہے۔
اخوت اور محبت، ایمان کی لازمی شرط ہے۔ جس کے سامنے اس کے دین کا نصب العین جتنا واضح ہوگا ، اسے اپنے بھائی سے تعلقات اتنے ہی عزیز ہوں گے۔ جب ایک کا دکھ درد دوسرے کا دکھ درد اور ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی بن جائے تو ایسے تعلقات وہ تعلقات کہلائیں گے جو تحریک کو زندگی اور حرارت بخشتے ہیں اور تحریک کی کامیابی کاضامن ہوتے ہیں۔
خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۱۹۹ (اعراف ۷ : ۱۹۹) ، اے نبیؐ! عفو و درگذر کا طریقہ اختیار کرو، نیکی کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ مسلمان جو لوگوں میں ملاجلا رہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے، اس مسلمان سے بہتر ہے جو ملنا جلنا چھوڑ دے اور ایذاؤں پر صبر نہ کرے‘‘(ترمذی)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے خاموش رہے ، تو اللہ ایسے بندے کی زبردست مدد فرماتا ہے‘‘۔
جو دنیا میں اپنے بھائیوں کی خطائیں معاف کریں گے، اللہ آخرت میں اجرعطا فرمائے گا:
وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۲۲ (النور ۲۴: ۲۲) اور چاہیے کہ وہ عفو و درگزر سے کام لیں۔ کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اللہ عزوجل تمھیں بخش دے ؟ اور اللہ تو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا ، اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑے رکھ اور ہمارے تعلقات کی اصلاح فرمادے۔
وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۶۳ (انفال ۸ :۶۳) وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے۔ مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ مہذب انسانی تاریخ۔ انسانوں نے اپنے معبودوں کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیں یہاں تک کہ اپنی جان کی بھی۔ اس کی مثالیں تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ ایک مثال قدیم مصر میں دریائے نیل کے خشک ہونے پر کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر قربان کیے جانے کی ہے۔ جس کو حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں ان کے ایک خط نے ختم کیا۔
قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا حضرت آدمؑ ہی کے زمانے میں شروع ہوا۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے انبیا ؑکے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو سورۂ آل عمران کی آیت ۱۸۳میں بیان فرمایا کہ انھوں نے کہا: ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے‘‘،حالانکہ یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی۔
اُمت محمدیہؐ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت ان کے لیے حلال کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں بلکہ ایک حکمِ شرعی کی تعمیل اور سنتِ ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔ چنانچہ واضح الفاظ میں فرمایا کہلَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۰ۭ(الحج۲۲:۳۷)’’اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔
وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ۰ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۰ۭ (المائدہ ۵:۲۷)اور ذرا انھیں آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو ۔ جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی، اور دوسرے کی نہ کی گئی ۔
امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔ تاہم، عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے۔
سورئہ حج کی آیت ۳۴ میں ہے : ’’اور ہم نے ہر اُمت کےلیے قربانی اس غرض کےلیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ اُسی کی فرماں برداری کرو، اور خوش خبری سنادو اُن لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں‘‘۔
سورۂ حج کی آیت نمبر ۶۷ میں ہے کہ ’’ہم نے ہر اُمت کے لوگوں کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک نحر کے دن( یعنی ۱۰ذی الحجّہ) کو قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں۔ قیامت کے روز قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے نہیں پاتا کہ اللہ کے یہاں مقبول ہو جاتا ہے۔ لہٰذا قربانی دل کی خوشی اور پوری آمادگی سے کیا کرو۔ (ترمذی، ابنِ ماجہ)
ایک اور حدیث میں آتا ہے:صحابہ ؓ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول ؐ اللہ یہ قربانی کیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ اس میں ہمارے لیے کیا اجرو ثواب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ (ترمذی ، ابنِ ماجہ)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے آج کے دن، یعنی بقرعید کے دن ہماری پہلی عبادت نماز اور پھر ذبح کرنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہمارے ساتھ یہ نماز (یعنی بقرعید کی) پڑھے وہ نماز کے بعد ذبح کرے۔
حضرت انَسؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدؐ نے عید الاضحی کے دن فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا اس کو دوبارہ قربانی کرنی چاہیے اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوگئی اور اس نے ٹھیک مسلمانوں کے طریقے کو پالیا۔
یاد رکھیں! ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔ کچھ علمائے کرام نے اسے سنت مؤکدہ سے تعبیر کیا ہے۔ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر آپؐ نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے، حتیٰ کہ اس کا عید گاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔ قربانی درج ذیل چھے شرطوں سے واجب ہوتی ہےـ:’’ مسلمان ہونا، مقیم ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، صاحب نصاب ہوناــ‘‘۔ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ فرضیت ِزکوٰۃ اور وجوب ِقربانی کا نصاب ایک ہی ہے۔ حالانکہ دونوں کا نصاب الگ الگ ہے۔ زکوٰۃ کے لیے نصاب پر سال گزرجانا ضروری ہے لیکن قربانی کے لیے سال گزرجانے کی شرط نہیں ہے بلکہ عیدِ قرباں کے وقت صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے۔
عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجر ہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبۂ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مینارۂ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہوجانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا۔ اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرسکو گے۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورکشاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں۔
چنانچہ آپؐ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ ہرسال قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)
قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندۂ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ (الانعام۶:۱۶۲)۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ،معاشرتی، سماجی اور اُخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔
ہمارا یہ طرزِ عمل نہیں ہونا چاہیے کہ فقط جانور ذبح کردیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکیں۔ قربانی ہمیں درس دیتی ہے کہ
۱-اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعلیٰ منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہنچانے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔
۲- اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع نہیں دے سکتے تو اس کی حسرتوں کاخون بھی نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔
۳-قربانی کا حکم آنے پر ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنابھی گوارا نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ اپنی خواہشاتِ نفس کو اللہ کے حکم کے تابع کردیں۔
۴-ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کے لیے کوئی جانور خرید سکتے ہیں اور نہ کوئی صاحب ِثروت انسان انھیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا حصہ دینا گوارا کرتاہے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ مسلم اُمہ کے ناداروں کی بھوک و پیاس کا خیال رکھیں۔ انھیں اپنے جسم ہی کا ایک حصہ سمجھیں اور ان کی داد رسی پورے سال کرتے رہیں۔
۵-قربانی ہمیں درسِ اخوت دیتی ہے کہ خاندان اور محلوں میں کسی سے بھی کسی بات پر ناچاقی ہوجانے کی صورت میں اپنی انانیت کے بت کوپاش پاش کردیں اور اپنی ضد کی قربانی دیں اور ہر کسی کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں۔
۶- قربانی ہمیں درسِ اجتماعیت دیتی ہے کہ جیسے پوری مسلم اُمہ تین دن مل کر قربانی کے جانور ذبح کرتی ہے، اسی طرح زندگی کے ہر ہر عمل پر ایک ہونے کا مظاہرہ کرے تاکہ اسلام دشمنوں کو جرأت نہ ہوسکے کہ وہ شعائر اسلامی، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی بے حُرمتی تو دور کی بات اُن کا مذاق بھی نہ اُڑاسکیں۔
۷-قربانی ہمیں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کا سبق دیتی ہے کہ جس طرح اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے اس کی راہ میں اللہ اکبر کہہ کر جانور کو ذبح کیا، بالکل اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اُس ربّ کی کبریائی کو نمایاں کریں۔ اپنے رسم و رواج، اپنی ثقافت، وراثت، معاشرت، معیشت، عدالت، سیاست، داخلی معاملات، خارجی معاملات، خانگی معاملات، غرض ہرجگہ پر اللہ کی کبریائی نظر آئے۔
محبت اور نفرت، انسانی نفس کی دو ایسی خصوصیات ہیں، جو بیک وقت انسانی وجود میں موجود ہیں، جو انسانی نفس اور انسانی زندگی کی بڑی وسعتوں پر اثرانداز ہیں۔ بالکل اس طرح جیساکہ خوف اور اُمید کی بیک وقت موجودگی انسانی نفس کی وہ پُراثر خصوصیات ہیں، جو انسانی زندگی کے بیش تر پہلوئوں پر چھائی ہوئی ہیں۔ اسلام نے جس طرح خوف اور اُمید کی خصوصیات کو صحیح رُخ عطا کیا ہے، اسی طرح اس نے انسانی فطرت میں موجود محبت و نفرت کی خصوصیات کو مستحکم کرکے انھیں ہم آہنگی، توازن اور اعتدال بخشا ہے۔ ان کی حقیقی کارکردگی اور عمل کا تعین کیا ہے۔
انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے اور اپنے وجود سے محبت رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ نمایاں ہو، طاقت ور ہو، غالب ہو اور اقتدار کا حامل ہو۔ وہ بہت سی آسائشیں اور بے شمار نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹ لینے کا خواہش مند رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بڑی عمر پائے اور تمام کائنات کا محور و مرکز بن جائے:
وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ۸ۭ(العٰدیٰت۱۰۰: ۸) اور وہ مال و دولت کی محبت میں بُری طرح مبتلا ہے۔
ان خواہشوں، آرزوئوں اور تمنائوں کے حصول میں حائل ہونے والی ہر مادی یا فکری رکاوٹ کو انسان ناپسند کرتا ہے۔ پھر اس انسان سے نفرت کرتاہے، جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنے، جواسے نقصان پہنچائے اور جو اس کے ان حقوق میں حصہ دار بننے کی کوشش کرے، جنھیں وہ محض اپنے لیے مخصوص سمجھتا ہے۔
بہرحال، محبت و نفرت کے جذبات انسان کے نفس کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ اسلام فطرت کے ان میلانات و رجحانات سے برسرِپیکار ہونے کے بجائے، ان کو مہذب اور شائستہ بناتا ہے اور ان کو منظم اور منضبط کرتا ہے۔کیونکہ اگر محبت و نفرت کے جذبات کسی نظم و ضبط کے بغیر انسانی مزاج پر حاوی ہوکررہ جائیں تو وہ جذبات انسانیت کے جوہر کو تباہ اور اس کی قوتوں کو ضائع کردیتے ہیں اور انسان کو غلام بنا لیتے ہیں۔ یہ جذبات نہ صرف دوسروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں بلکہ یہ قوتیں نفس کی گہرائیوں میں باہم متصادم ہوکر خود نفسیاتی وجود کے لیے مہلک بن جاتے ہیں۔
اسی لیے اسلام نے محبت و نفرت کے جذبات پر روح اورعقل کے ضابطے قائم کیے ہیں اور ان ضابطوں کو اللہ کی ذات سے منسوب کر دیا ہے۔ اسلام انسان کو اس بات سے منع نہیں کرتا کہ وہ محض اپنی ذات سے محبت رکھے۔ محبت ایک طاقت ور فطری جذبہ ہے جو انسان کو عمل و کارکردگی اور تعمیروترقی پر اُبھارتا ہے۔ جو ظاہر ہے خود اسلام کے بھی مقاصد ہیں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ انسان بہرطور عمل پر آمادہ رہے۔
مگر اسلام کی نظر میں حُب ِ نفس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ انسان لذتوں کے حصول کے پیچھے دوڑتا رہے بلکہ اسلام کی نظر میں ہروقت لذتوں کے تعاقب میں رہنا، اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ درحقیقت ہرلحظہ نفس کی خواہشات کے تعاقب میں رہنا، نفس کو ہلاکت میں ڈال دینا ہے۔
دراصل اسلام کی نظر میں حُب ِ ذات کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نصیحت کرتارہے اور اس کی صحیح سمت میں رہنمائی کرے، ایسی رہنمائی جو اسے دُنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کی جانب رہنمائی کرے اور آخرت کی فلاح بطورِ خاص ملحوظ ہو۔ اس لیے کہ آخرت کی زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی ہے اور اس کی نعمتیں دائمی ہیں۔ جب کہ دُنیاوی زندگی محض لہوولعب اور فانی زندگی ہے اور دُنیا کی فانی زندگی کو آخرت کی باقی اور دائمی زندگی پر ترجیح دینا حماقت اور نادانی ہے:
اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۰ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۰ۭ (الحدید ۵۷:۲۰) یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی۔ پھروہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔
زندگی کی حفاظت اسی طرح ہوسکتی ہے اور حُب ِ ذات کے فطری جذبے کی تکمیل کا صحیح راستہ یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو شہوتوں کا غلام بننے اور آخرت کی رُسوائی اور عذاب سے بچائے۔
اسلام اسی تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان کے خوف و نفرت کے جذبات کو صحیح رُخ دیتا اور ان کی مناسب رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم جذبۂ حُب نفس کو بروئے کار لانے کے لیے اس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے جذبات محبت بیدار کرتا ہے جو نعمتوں کا حقیقی مرکزوسرچشمہ ہے اور جس نے انسان کو زندگی عطا کی ہے اور انسان کو تمام قوتیں، صلاحیتیں اور خصوصیات بخشی ہیں:
اللہ ہی نے انسان کےلیے روئے زمین پر زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کی ہیں، اور اسے ہرقسم کی آسانیاں بخشی ہیں تاکہ زندگی رواں دواں رہے۔ اور حیاتِ انسانی نکھرتی اورسنورتی رہے:
اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے اور وہ اپنے بندوں کو ان کی قوت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور ہرمعاملے میں اس خدائے برتر نے انسانیت کی بھلائی کا پہلو پنہاں فرما دیا ہے:
مزید برآں یہ کہ اللہ سبحانہٗ اپنے خطاکار اور گناہ گار بندوں کو معاف فرما دیتا ہے:
اسلام اللہ کی پیدا کردہ کائنات سے محبت کا جذبہ اُبھارتاہے اور انسان اور کائنات کے درمیان صداقت اور دوستی کا تعلق قائم کرتا ہے اور باہمی یگانگت اور رشتۂ اخوت استوار کرتا ہے، تعلق عبادت پیدا کرتا ہے کہ کائنات کی ہرشے اسی کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہے اور اللہ سبحانہٗ نے تمام کائنات کو انسان کے مفادات کی تکمیل میں لگا دیا ہے۔ نیز یہ کہ ساری زندہ کائنات اس زمین پر انسان کے ساتھ شریک ِ زندگی ہے اور خاص طور پر بنی نوع انسان ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے تمام انسانوں کے درمیان رشتۂ اخوت اور تعلقِ محبت استوار ہونا چاہیے، اس لیے کہ تمام انسان بلحاظ تخلیق بھی بھائی بھائی ہیں اور بلحاظ رحم بھی آپس میں بھائی ہیں۔ چونکہ ان کے مفادات مشترک اور ان کا آغاز اور ان کا انجام مشترک ہے، اس لیے بھی وہ بھائی بھائی ہیں۔ قرآن اسی تعلق کو انتہائی دل نشین پیرایہ میں بیان کرتا ہے اور انسانی وجدان کو جِلا عطا فرماتا ہے:
اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں بیان کیا گیا ہے:
تَبَسُّمُکَ فِیْ وَجْہِ اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ (ابن حبان، کتاب البر والاحسان، حدیث:۴۷۵، بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۳۲۲۰) تمھارا اپنے بھائی کی خاطر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔
غرض یہ تمام ہدایات انسان کی اس جانب رہنمائی کرتی ہیں کہ انسان باہم پاکیزہ، صاف اور شفاف محبت رکھیں اور اپنی ذات سے محبت میں توازن اور اعتدال قائم رکھیں اور اس کا صحیح مقام پر اظہار کریں اور اپنی ذات کی خاطر دوسرے برادر انسانوں پر ظلم و زیادتی نہ کریں اور دوسروں کے حقوق غصب نہ کریں۔
اسلام نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ شر اور بُرائی کو ہر رنگ اور ہر صورت میں ناپسند کرے اور انھیں بُرا سمجھے۔ اسلام نے حکم دیا ہے کہ ظلم خواہ کسی بھی صورت میں ہو اور کسی بھی نوعیت میں ہو، یہ بہرحال ایک بُرائی ہے جسے بُرا سمجھناچاہیے اور جس کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ جیساکہ حدیث قدسی میں فرمان الٰہی مروی ہے کہ آپؐنے فرمایا :
اسی طرح کسی پر زیادتی کرنا بھی بُرائی ہے اور اس بُرائی اور شر کی مزاحمت کرنی چاہیے:
معاشرے کے کمزور،پچھڑے اور پسے ہوئے لوگوں سے ناانصافی روا رکھنا بھی ’شر‘ ہے۔ اس کو بھی بُرا سمجھنا چاہیے اور اس کی مزاحمت کرنی چاہیے:
بلکہ خود اپنی ذات سے ناانصافی بھی ظلم ہے اور قرآن نے اس کی مزاحمت کا بھی حکم دیا ہے:
زمین میں فساد پھیلانا اور خدا اور رسولؐ سے برسرِ پیکار ہونا اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا بھی ظلم ہے اور شر ہے اور اس شر کو بھی بُرا سمجھنا چاہیے اور اس کا مقابلہ کرنا چاہیے:
تمام کھلی اور چھپی بُرائیاں قابلِ نفرت اور قابلِ مزاحمت شر ہیں:
اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم سے ہر انحراف قابلِ نفرت اور قابلِ مزاحمت شر اور بُرائی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہربُرائی اور ہر شر کا منبع شیطان ہے۔ وہی انسانوں کو بہکاکر شر اور بُرائی کی جانب لے جاتا ہے اس لیے اس سے مکمل نفرت کی جانی چاہیے اور اس سے پوری طرح برسرِپیکار رہنا چاہیے اور اس سے کوئی سمجھوتا اور تعاون نہیں ہونا چاہیے:
مومن اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ساری زندگی باطل کی قوتوں اور شیطانی بُرائیوں کے خلاف برسرِ پیکار رہتا ہے اور شر کی طاقتوں پر خیر کی قوتوں کو غالب کردینے کے جہاد میں مصروف رہتا ہے۔ اس سے اس کی زندگی میں محبت و نفرت میں توازن اور اعتدال پیدا ہوجاتا ہے۔
ہمیں اپنی زندگی میں ایسی منصوبہ بندی کرنے کی عادت ہونی چاہیے کہ آیندہ پوری زندگی اس انداز سے گزرے کہ ہمار ا آج کا دن، گذشتہ کل سے بہتر ہو اور آنے والا دن آج کے دن سے بہتر ہو۔اے اللہ تو ہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی، درمیانے حصے کو بہبودی اور آخری حصے کو کامرانی بنادے، آمین!
یا د رکھیے وقت کو بچایا نہیں جاسکتا بلکہ اسے بہتر طریقے سے استعمال کرنے کو ہی وقت بچانا سمجھا جاتا ہے۔وقت کی بچت کے سلسلے میں سب سے زیادہ مددگار اور معاون وہ شعور اورسوچ ہوتی ہے جو انسان وقت کی نسبت سے اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر پہلوئوں پر ہماری نظر رہنی چاہیے ، جن میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
یہاں وقت بچانے کے حوالے سے مختلف ماہرین کی آرا اور مشوروں کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ماہرین نےاپنے اپنے تمدن و ثقافت اور حالات کے مطابق مشورے دیے ہیں۔چند دن ان مشوروں پر عمل کریں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ نتائج غیر متوقع طور پر کتنے حوصلہ افزا ہیں۔ ہم نے ان مشوروں اور اشارات کو تین گروپس میں تقسیم کیا ہے : l ذاتی یا انفرادی زندگی اور تعلیمی زندگی