تزکیہ و تربیت


انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک اہم اور ضروری چیز مال ہے، جس کے پاس مال ہے اسے امیر اور جس کے پاس مال نہیں اسے غریب کہا جاتا ہے۔ امیری وغریبی کی یہ تقسیم نظامِ قدرت کے کمال کی خصوصیت ہے۔ اگر سب کے سب امیر ہی ہوتے تو پھر کوئی بھی محکوم نظر نہ آتا۔ جس کے پاس ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے مال نہ ہو اسے قرض کی ضرورت پڑتی۔ ایسے ہی ضرورت مند اور حاجت مندوں کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ، صدقہ اور قرض جیسی چیزوں کومشروع کیااور زکوٰۃ وصدقہ کی طرح قرض کوبھی باعث ثواب قرار دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کی تکلیف کودُور کرے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی تکالیف کو دور کرے گا۔ اس حدیث سے پتا چلا کہ قرض دینا بھی ایک مستحسن عمل ہے۔

بعض موقعوں پرمحتاج اورتنگ دست حضرات بلاسودی قرض نہ ملنے کی وجہ سے سودی قرض لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ تجربہ شاہد ہے کہ ایک طرف بینکنگ کے نظام نے سودی قرضہ سے لوگوں کے خون کو اس طرح چوسنا شروع کیا کہ لوگ یاتو خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے یا اپنے اہل وعیال کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہوگئے،تو دوسری طرف بعض لوگوں نے اپنے آپ کو بنک بنا کرخود سے سود پر قرضہ دینا شروع کیا۔ حالانکہ ایک زمانے تک نہ بینک کا نام ونشان تھااور نہ اس طرح کا کوئی کاروبار۔ اس کے باوجود محتاجوں کو برابر قرض مل رہا تھااور لوگ اللہ کی رضا کے لیے غریبوں کو بغیر سود کے قرض دیتے آرہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے اندر سے قرض دینے کا مستحسن عمل کیوں متروک ہورہاہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ قرض لینے والوں نے باوجود قرض کی ادائی پر قدرت کے بروقت قرض ادا کرنے میں کوتاہی اور تساہل سے کام لینا شروع کیا۔ حالانکہ قرض لینا مباح اور جائز کام ہے،اس میں کوئی شرمندگی نہیں ، اللہ کے رسولؐ نے بھی قرض لیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے ایک یہودی کے پاس سے ۳۰صاع جَو قرض لیے تھے اور اس کے بدلے آپؐ نے اپنی زرہ رہن میں رکھی تھی (سنن ابن ماجہ: ۲۴۳۹﴾)۔ اس لیے کہ قرض کی ادائی واجب اور ضروری ہے اور عدم ادائی باعث گناہ ہے۔

قرض ادا نہ کرنے والے کے سلسلے میں حدیث میں وعید آئی ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَۃٌ بِدَیْـنِہٖ حَتّٰی یُقْضٰی عَنْہُ (سنن ابن ماجہ: ۲۴۱۳﴾)۔ علامہ عراقی نے اس حدیث کا یہ مطلب نقل کیا ہے کہ مقروض میت کے بارے میں نہ نجات کا فیصلہ ہوگا اور نہ ہلاکت کا یہاں تک کہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی طرف سے قرض ادا کیا گیا یا نہیں(تحفۃ الاحوذی، ج۴،ص۱۶۴﴾)۔ علامہ خطیب شربینی ؒ نے اس حدیث کامطلب اس طرح بیان کیا کہ جب کوئی شخص مقروض ہونے کی حالت میں مرتا ہے تواس کی روح قبر میں محبوس ہوتی ہے اور عالم برزخ میں دیگر روحوں کے ساتھ اسے کشادگی حاصل نہیں ہوتی،اور اسے جنت کی سیر سے محروم رکھا جاتاہے۔ یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا کیا جائے(مغنی المحتاج: ج۳،ص ۹۰﴾)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اس حالت میں مرجائے کہ اس پر ایک دینار یادرہم قرض باقی ہو، تو اس وقت جب درہم و دینار کام نہیں آئے گا،اس کی نیکیوں کے ذریعے قرض ادا کیا جائے گا(سنن ابن ماجہ: ۲۴۱۴﴾)۔ ایک حدیث میں بغیر قرض کے مرنے والے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت سنائی۔آپؐ نے فرمایاکہ جس شخص کی روح اس کے جسم سے اس حال میں جدا ہو کہ اس پر کسی کا قرض نہ ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا(سنن ابن ماجہ:۲۴۱۲﴾)۔ ایک موقع پر آپؐ نے قرض ادا نہ کرنے والوں کو اس فعل سے بچنے اور اس فعل کے سخت گناہ ہونے کو بتلانے کے لیے ایک مقروض پر نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ صحابہ کویہ حکم دیا کہ تم پڑھ لو۔(شرح مسلم،ج۴، ص۵۴﴾)

شریعت اسلامیہ میں کئی مقامات پر قرض کی ادائی کا وقت ہونے پرقرض ادا نہ کرنے والے کے حق میں سختی کا معاملہ کیا گیا ہے۔ مِن جملہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرض کی ادائی کا وقت ہونے کے بعد دائن (قرض دینے والے) کو اس بات کا مکمل اختیار ہے کہ وہ مقروض کو سفر کرنے سے روکے ، یہاں تک کہ وہ قرض ادا کرے پھر سفر کرے(الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج۵،ص۴۵۹﴾)۔ اسی طرح باوجود دین کی ادائی پر قدرت کے جو دین ادا نہ کرے یا ٹال مٹول کرے تو اسے قاضی کے حکم سے قید کیا جائے (الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج۵،ص۴۶۲﴾ )۔اسلام میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے لیکن جب مقروض قرض ادا نہ کرے جس کی بنا پر قرض دینے والا مقروض کا مال اپنے قرض کے بقدر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج۶، ص۱۱۸﴾)

اسلام میں جہاد جیسے اہم وعظیم کام کی فضیلت واہمیت سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن قرض کی ادائی کو جہاد پر مقدم کیا گیا ہے۔چنانچہ امام نووی ؒ فرماتے ہیں: وَالدَّیْنُ الْحَالُّ یُحَرِّمُ سَفَرَ جِھَادٍ وَغَیْرِہٖ  اِلَّا بِـاِذْنِ  غَرِیْــمِہٖ’’ کہ قرض کی ادائی کا وقت ہونے کے بعد قرض دینے والے کی اجازت کے بغیر جہاد کی غرض سے سفر کرنا حرام ہے (منھاج الطالبین،ج۳،ص۲۶۱﴾)۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْقَتْلُ فِی سَبِیْلِ اللہِ  یُکَفِّرُ کُلَّ شَیْ ءٍ  اِلَّا الدَّیْنَ ’’ کہ اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے کا ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے، سوائے قرض کے(مسلم :۴۸۸۴﴾)۔ لہٰذا قرض کی ادائی اس پر لازم ہونے کے بعد جہاد جیسے کام کے لیے ادائے قرض کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرض ادانہ کرنے کا گناہ کتنا سخت ہے اور اسلام میں قرض ادا نہ کرنے والے کے ساتھ کس طرح سخت ر ویہ اختیار کیا گیا ہے۔ لہذا قرض لینے والوں کو چاہیے کہ وعدے کے مطابق قرض کو ادا کرنے کوشش کریں، تا کہ قرض دینے والے آیندہ بخوشی قرض دے سکیں۔ آج اگر سارے قرض لینے والے پوری ایمان داری ودیانت داری کے ساتھ قرض ادا کرنے لگیں تو مال داروں کو بھی قرض دینے میں کوئی پریشانی نہ ہوگی، اور سود جیسے بڑے گناہ سے حفاظت بھی ہوگی۔البتہ قرض دینے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مقروض اگر حقیقت میں قرض کی ادائی پر قادر نہیں ہے تو اسے کچھ دنوں تک مہلت دیں۔اس لیے کہ اللہ کا ارشاد ہے:وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ  ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۲۸۰﴾) ’’تمھارا قرض دار تنگدست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو‘‘۔

 

معاشرے کی تعمیروتشکیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز ایفائے عہد بھی ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے میں ایک ایسا توازن پیدا ہوتا ہے، جس سے ماحول خوش گوار بن جاتا ہے اور وقتی رنجش ہو یا دائمی، سب کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی بات پر کوئی معاملہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے، لیکن بروقت اس کی تعمیل نہ کرسکے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی بدمزگی پیداہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ جو معاملہ کرو یا کسی سے وعدہ کرو اس کو بروقت پورا کرو۔

وعدہ پورا کرنـے کی فضیلت اور تاکید

اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات بابرکات کے حوالے سے متعدد مقامات پر فرمایا ہے:

اِنَّ اللہَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۝۳۱(الرعد ۱۳:۳۱) یقینا اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ (التوبہ ۹:۱۱۱) اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہے؟

وعدے کا پورا کرنا اللہ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں بھی اس صفت کو جلوہ گر دیکھنا چاہتا ہے، اس لیے اس نے عہد کی پابندی کی بار بار تاکید کی ہے:

وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۷) اور عہد کو پورا کرو، عہد کے بارے میں (اللہ کے یہاں) ضرور بازپُرس ہوگی۔

اور ایک جگہ ہے:

وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ (النحل ۱۶:۹۱) اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد کیا ہو اور قسموں کو توڑا نہ کرو۔

ایک اور جگہ عہد ِالٰہی کے ایفا کی نصیحت کی گئی ہے، فرمایا:

وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۱۵۲ۙ (انعام۶:۱۵۲) اور اللہ کا قرار پورا کرو۔ یہ اسی نے تم کو نصیحت کردی ہے تاکہ تم دھیان رکھو۔

مومنین کا ایک وصف یہ بھی قرار دیا گیا کہ وہ نہایت درجہ امانت دار اور پابند ِ عہد ہوتے ہیں:

وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝۸ۙ (المومنون۲۳:۸) اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں۔

دوسری آیت میں ہے:

وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰ۚ(البقرہ۲:۱۷۷) اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے پورا کریں۔

وعدے  کا مفہوم اور وسعت

عہد، ایک تو وہ معاہدہ (Agreement) ہے، جو طرفین کے درمیان کسی معاملے میں انجام پاتا ہے۔ اس کا پورا کرنا فرض ہے اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے، جو کہ حرام ہے۔ دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتےہیں کہ کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم و واجب ہے۔ حدیث میں آیا ہے: الْعِدَّۃُ دِین (وعدہ ایک قسم کا قرض ہے)۔ جس طرح قرض کا ادا کرنا واجب ہے، اسی طرح وعدہ کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ عام طور پر لوگ عہد کے معنٰی صرف قول و قرا ر کے سمجھتے ہیں۔ اسلام میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ حقوق اللہ، حقوق العباد، معاشرت، سیاست، تجارت، اخلاق اور معاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط ہے، جن کی پابندی انسان پر عقلاً، شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً فرض ہے۔ امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:

اَلْاَمَانَۃُ وَالْعَھْدُ یَجْمَعُ کُلَّ مَا یَحْمِلُہٗ الْاِنْسَانُ  مِنْ أَمْرِ دِیْـنِہٖ  وَدُنْیَاہُ قَوْلًا وَفِعْلًا  (قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، جز۱۲، ص ۱۰۷) امانت اور عہد دینی و دُنیوی معاملے پر حاوی ہے، چاہے وہ قولی ہو یا فعلی اور جس کا انسان پابند اور متحمل ہو۔

علامہ آلوسی فرماتے ہیں:

الآیَۃُ  عِنْدَ أَکْثَرِ الْمُفَسِّرِیْنَ عَامَّۃٌ  فِیْ کُلِّ مَا ائْتُمِنُوْا عَلَیْہِ وَعُوْھِدُوْا  مِنْ جِھَۃِ  اللہِ تَعَالٰی  وَمِنْ جِھَۃِ  النَّاسِ (روح المعانی ، جز۹، ص ۲۱۴) یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک ہر قول و قرار کے لیے عام ہے ، چاہے وہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے مابین ہو یا دو انسانوں کے درمیان۔

عہد اگر خلافِ شرع نہ ہو تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے اور عہد شکنی حرام ہے:

وَاَوْفُوْا بِعَہْدِىْٓ اُوْفِ بِعَہْدِكُمْ۝۰ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ۝۴۰ (البقرہ ۲:۴۰) اور تم پورا کرو میرا قرار تو میں پورا کروں تمھارا قرار اور مجھ ہی سے ڈرو۔

عہد کا ہم معنی لفظ ’عقد‘

قرآن کریم میں عہد کے قریبی معنٰی میں ایک اور لفظ ’عقد‘ استعمال کیا گیا ہے:

 يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۝۰ۥۭ (المائدہ ۵:۱) اے ایمان والو، اپنے وعدوں کو پورا کرو۔

وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ۝۰ۚ (المائدہ ۵:۸۹)مگر جو قسمیں تم کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔

’عقد‘ کےلفظی معنی گرہ کے ہیں۔ اس سے مراد معاملات کی باہمی پابندیوں کی گرہ ہے۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں:

 اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ  اللہ تعالیٰ کے قول:  يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ  کے ہم معنٰی ہے۔ اس قول میں تمام عقد و معاملات مثلاً بیع، شرکت، یمین، نذر، صلح اور نکاح وغیرہ داخل ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو انسانوں کے درمیان جو عقد اور جو عہد طے پائے دونوں پر اس کا پورا کرنا واجب ہے۔(التفسیر الکبیر، ج۱۰، ج۲۰، ص ۱۶۸)

حضرت حسن بصریؒ نے اس کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

اس سے مراد دینی معاملات ہیں جن کو انسان اپنے اُوپر لازم کر دیتا ہے، مثلاً خریدوفروخت،اجارہ، نکاح، طلاق، زراعت، صلح ، تملیک، خیار، آزادی، سیاست و انتظام وغیرہ۔ یہ تمام اُمور شریعت سے خارج نہیں ہیں۔ اسی طرح جو اُمور اطاعت و بندگی سے متعلق ہیں، مثلاً حج، روزہ، اعتکاف، قیامِ لیل، نذر وغیرہ یہ سب اسلامی احکام ہیں۔(قرطبی، الجامع الاحکام القرآن ، ج۵، جز۶، ص ۳۲)

وعدہ  شکنی نفاق کی علامت

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد شکنی کو نفاق کی خصلتوں میں شمار کیا ہے اور وعدہ خلاف شخص کو منافق قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ ، وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ (بخاری، ۳۳) منافق تین باتوں سے پہچانا جاتا ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

اسی مضمون کی ایک حدیث کچھ مختلف الفاظ میں عبداللہ بن عمروؓ سے بھی مروی ہے:

اَرْبَعٌ مِّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ  فِیْہِ  خَصْلَۃٌ مِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَھَا ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ، وَ اِذَا  خَاصَمَ  فَـجَرَ (بخاری، ۳۴، ۲۴۵۹، ۳۱۷۸)چار خصلتیں ہیں کہ جس کے اندر پائی جائیں گی، وہ خالص منافق ہوگا اور جس کے اندر اِن میں سے ایک خصلت پائی گئی اس میں منافقت کی ایک خصلت موجود ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے ترک نہ کردے: ۱-جب بولے تو جھوٹ بولے ۲-جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ۳-جب معاہدہ کرے تو توڑ دے ۴- جب جھگڑے تو گالیاں دے۔

وعدے کی پابندی نہ کرنے والے پر وعید

اسلام نے محض ایفائے عہد کی تعلیم و تلقین ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ اس کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے عذاب کی وعیدیں بھی آئی ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَاَيْـمَانِہِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللہُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّـيْہِمْ ۝۰۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۷۷(اٰل عمرٰن ۳:۷۷) وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کر ے گا، بلکہ ان کے لیے تو سخت دردناک سزا ہے۔

مذکورہ بالا آیت میں عہد کی خلاف ورزی کرنے والے پر پانچ وعیدیں مذکور ہیں:

۱- ان کو جنت کی نعمتوں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ ایک حدیث میں رسولِ کریمؐ نے فرمایا:

مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ الله لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ  وَاِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيْرًا، يَا رَسُولَ اللّهِ؟ قَالَ: وَ اِنْ قَضِيْبًا  مِنْ أَرَاكٍ (مسلم، کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار، ۲۲۱) جس آدمی نے جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق دبا دیا تو اس نے اپنے لیے آگ کو واجب کرلیا۔ راوی نے عرض کیا کہ خواہ وہ چیز معمولی ہو تب بھی اس کے لیے آگ واجب ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں خواہ وہ درخت کی سبز ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔

۲- اللہ تعالیٰ ان سے بات نہیں کرے گا۔

۳- اللہ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے دن رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔

۴- اللہ تعالیٰ ان کے گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ کیوں کہ عہد کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بندے کا حق تلف ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔

۵- اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اِذَا جَمَعَ اللّٰہُ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃُ  یُرْفَعَ  لِکُلِّ غَادِرٍ  لِـوَاءٌ  فَقِیْلَ: ہٰذِہٖ غَدْرَۃُ  فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ (مسلم، باب تحریم الغدر: ۳۳۵۲) اللہ تعالیٰ حشر کے میدان میں جہاں تمام اوّلین و آخرین جمع ہوں گے، عہدشکنی کرنے والے کے پاس ایک جھنڈا بطورِ علامت لگا دے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی غداری کا نشان ہے۔

لِکُلِّ غَادِرٍ  لِـوَاءٌ  یَوْمَ الْقِیَامَۃِ  یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدْرِ غَدْرِہٖ  اَلَا  وَلَا غَادِرَ  أَعْظَمُ  غَدْرًا  مِنْ أَمِیْرِ عَامَّۃٍ (مسلم ،باب تحریم العذر، ۴۵۳۸) ہر غدار و عہد شکن کی بے ایمانی کا اعلان کرنے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جو اس کے غدرکے مطابق ہوگا اور یاد رکھو کہ جو سردارِ قوم غدر کرے اس سے بڑا کوئی غدار نہیں ہے۔

اس سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آگئی کہ قیامت کے روز وعدہ ایفا نہ کرنے والے شخص کی ذلت و رُسوائی میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔ ناکامی، ذلت اور نکبت کا ساراسامان بہم ہوگا۔

وعدے کا پابند خدا کا محبوب

جس شخص سے معاہدہ ہے چاہے وہ کافر و مشرک ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ عہدشکنی نہ کرے تو اس کے لیے عہد کی پابندی و استواری اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا ناگزیر ہے اور یہی تقویٰ کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۷ (التوبہ ۹:۷) ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے؟ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا، تو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیوں کہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔

بَلٰي مَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۷۶  (اٰل عمرٰن ۳:۷۶) جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور بُرائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا ، کیوں کہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔

متذکرہ بالا دونوں آیتوں سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ عہد کا ایفا اللہ کی خوشی و مسرت اور محبت و رضامندی کا موجب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندے کے لیے عظیم انعام و اعزاز ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی اِکرام نہیں۔

بلاشبہہ اللہ کی تلقین کردہ ہدایت ہی اصل ہدایت ہے،یعنی یہی راہِ حق ہے ،یہی راہِ مستقیم ہے جسے قرآن نے ’ صراطِ مستقیم ‘سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ نکتہ بہت اہم و لائقِ توجہ ہے کہ قرآن میں تین مقام (البقرۃ۲ :۱۲۰، آل عمران۳: ۷۳،الانفال۸:۷۱) پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے یہ ا علان فر مایا ہے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے: قُلْ  اِنَّ ھُدَى اللہِ  ھُوَالْہُدٰى۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۰)، ’’اے رسولؐ [صاف صاف ] کہہ دیجیے کہ اصل ہدایت بس اللہ ہی کی ہدایت ہے‘‘،یعنی سیدھا راستہ وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے، جسے اس نے اپنی کتاب کے ذریعے روشن کر دیا ہے۔ یہ آیت اس حقیقت کو مزید واضح کر رہی ہے: اِنَّ  ھٰذَا الْقُرْاٰنَ  یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل۱۷ : ۹) ’’بے شک یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے‘‘۔اللہ کے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ مبارکہ اِسی راہ کو دکھانے میں بسر ہوئی۔ در اصل انسان کے لیے حقیقی کامیابی و اُخروی نجات کی ر ا ہ یہی ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ ا للہ ربُّ العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کے نام پنے اولین پیغام ہی میں ا س نکتہ کو واضح کردیا تھا اور ان کے توسط سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے باخبر کردیا تھا۔ اس بنیادی پیغام کے پہلے حصہ میں اس حقیقت کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا کہ زمین میں اس کی سکونت اور وہاں کے مال و متاع سے انتفاع بس ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہی ہے، یعنی دنیا کی زندگی عارضی و فانی ہے اور یہاں کا ساز و سامان بھی دائمی نہیں ہے ،ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والا ہے، لہٰذا اے انسانو! بہت سنبھل کر زندگی بسر کرنا اور گزر بسر کے لیے جو چیزیں تمھیں عطا کی جائیں ان کا مالک اپنے کو نہ سمجھنا اور نہ انھیں پاکر کسی فریب اور تکبر میں مبتلا ہونا ۔ دنیا کی زندگی اور یہاں کے مال و اسباب، یہ سب عطائے الٰہی ہیں۔ لہٰذا، ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منعمِ حقیقی کو یاد کر تے رہنا اور اسی کی مرضی کے مطابق انھیں استعمال کرنا ۔ارشادِ ربّانی ہے:

وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۝۳۶ (البقرۃ ۲: ۳۶ ) اور تم سب کے لیے زمین میں جائے قیام اور ساز وسامان [سے انتفاع ]ایک [محدود]مدت تک کے لیے ہے۔

سورۃ الاعراف کی آیت۲۴ میں بھی یہی پیغام مذکور ہے اور اس کے بعد کی آیت۲۵ میں انسان کو یہ حقیقت بھی یاد دلائی گئی ہے: قَالَ فِیْہَا تَحْیَوْنَ وَفِیْہَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْہَا تُخْرَجُوْنَ۝ ’’اللہ نے فرمایا: اسی زمین میں تم لوگ زندگی بسر کرو گے،اسی میں تمھیں موت آئے گی اور پھر اسی سے تم سب [ زندہ کر کے] نکالے جائو گے‘‘۔ اس آیت کے ذریعے انسان کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ دنیا کی مختصر زندگی کے خاتمے اور اس عارضی و فانی مستقر سے رخصتی کے بعد پھر تمھیں زندہ کرکے زمین سے نکالا جائے گا۔ اس کے بعد کیا واقعات ( تمھیں کہاں جانا ہے، کس کے سامنے حاضر ہونا ہے، حساب و کتاب سے کس طرح گزرنا ہے، اعمال نامہ کیسے حوالہ کیا جائے گاا اور پھر اسی کے مطابق جزا یا سزا کا فیصلہ سننا ہے، پھر ایک نئے مستقر یا ٹھکانے میں رہنا ہے، وہاں کتنے عرصہ رہنا ہے؟) رونما ہوں گے ، ان سے متعلق ساری تفصیلات دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔ گویا صاف لفظوں میں انسان کو بتا دیا گیا کہ ارضی دنیا میں جو کچھ مختصر یا طویل زندگی میسر ہوگی، اسے یہیں گزارنی ہے، یہیں موت بھی آنی ہے۔ اسی پر بس نہیں، ایک دن اسے اسی زمین سے نکالا جائے گا،یعنی زندہ کرکے اٹھایا جا ئے گا اور مالک الملک کے حضور پیش کیا جائے گا،لہٰذا اس سب سے بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کواچھی طرح تیار کرلو۔ یہاں سے رخصتی کے بعد تم چاہو گے بھی اور رو کر، گڑگڑا کر التجا کرو گے تو بھی مہلت نہیں دی جائے گی ۔

سورۃ البقرہ کی آیت۳۶ میں یہ پیغام دیتے ہوئے اللہ رب العزت نے اس کے بعد کی آیت میں ایک اور انتہائی اہم پیغام حضرت آدم علیہ السلام کے توسط سے سارے انسانوں کو دیا ہے جسے اولین پیغام کی تکمیل کہا جاسکتا ہے۔ یہ پیغام یہ بتانے کے لیے دیا گیا ہے کہ انسان دنیا کی مختصر و عارضی زندگی کس طر یقہ سے بسر کرے کہ اس کے لیے ہمیشہ ہمیش کی زندگی پُرسکون،  فرحت بخش اور ہر طرح کے رنج و غم سے پاک بن جائے۔ اس آیت میں تمام انسانوں کو اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ جو کوئی دنیوی زندگی کے شب وروز اللہ ربّ العزت کی ہدایت کے مطابق گزارے گا تو اسے سکون و آرام نصیب ہو گا اور دائمی زندگی میں اسے نہ کوئی غم لاحق ہو گا اور نہ کوئی خوف و خطر دامن گیر ہوگا ، یعنی وہ بامراد ہوگا اور آخرت میں سرخ روئی و کامیابی سے شاد کام ہوگا ۔ ارشادِ ربانی ہے:

فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۳۸ (البقرۃ۲:۳۸) پس میری طرف سے جو ہدایت تمھیں پہنچے تو جو لوگ بھی میری ہدایت کی پیروی کریں گے، انھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی رنج۔

یہ امر بدیہی ہے کہ اس پیغام ِ الٰہی ( جسے ہبوط آدم و حوّا علیہما السلام کے وقت،یعنی زمین پر بھیجتے ہوئے نے ان کے گوش گزار کیا گیا تھا) کے مخاطب اولین انسان و اولین پیغمبر حضرت آدمؑ کے توسط سے پوری نسلِ انسانی یا رہتی دنیا تک کے تمام انسان ہیں ۔ بلاشبہ یہ پیغام اپنے مضمون اور مخاطب دونوں لحاظ سے انتہائی اہم اور معنویت سے بھر پور ہے۔ ان دونوں آیات کے پیغام کا ماحصل آسان اسلوب میں یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کا ساز وساما ن عارضی و فانی ہے، انسان کا اصل سرمایہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی ہے۔ دوسری آیت اس لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اللہ ربّ العزت نے انسان کو اپنی ہدایت کی پیروی کی جانب متوجہ کیا ہے اور اسی پر اسے فوز وفلاح اور سکون و اطمینان نصیب ہونے کی بشارت دی ہے۔گویا کہ ارضی دنیا میں انھیں بھیجتے ہوئے ان سے دو ٹوک انداز میں یہ خطاب ِ الٰہی ہوا : اے انسان!ربِّ کائنات کی مرضی کے مطابق تمھیں دنیا میں بھیجا جا رہا ہے ،لیکن یہ جان لو اور یقین کرلو کہ تم سب کی کامیابی اس ا وّلین پیغام کو قبول کرنے اور دنیوی زندگی کے ہر معاملہ میں اس پر عمل کرنے میں ہے۔

ہدایت الٰہی کے لیے رہنمائی

رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کی ہدایت اس کے بندوں تک کیسے پہنچے گی؟ اسے دوسری آیات میں واضح کردیا گیا۔ سورۃ الاعراف میں قصۂ حضرت آدم علیہ السلام کے بیان میں انسان کو اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ انھیں ہدایتِ الٰہی اور اس کی تفصیلات ا للہ تعالیٰ کے محبوب و برگزیدہ بندوں، یعنی رسولوں کے ذریعے پہنچے گی،پس جو کوئی تقویٰ کی راہ اختیار کرے گا اور ہدایاتِ ربّانی کی روشنی میں اپنے حالات سدھارے گا، وہ ابدی زندگی میں سکون و طمانیت سے شاد کام ہوگا ۔ارشادِ ربَّانی ہے:

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۝۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَاہُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۳۵ (الاعراف۷:۳۵) اے بنی آدم! یاد رکھو، اگر تمھارے پاس خود تم ہی میں سے (میرے) رسول آئیں جو تمھیں میری آیات سنا رہے ہوں تو جو کوئی نافرمانی اور گناہوں سے پرہیز کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا تو اسے نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ کسی رنج ہی سے دوچار ہو گا ۔

 یہاں یہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ قرآن کی مختلف سورتوں میں حضرت آدم و حوّا علیہما السلام کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کا واقعہ بیان ہوا ہے اور ہر مقام پر کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ بنیادی پیغام ان کے توسط سے سارے انسانوں کے گوش گزار کیا گیا ہے، جیساکہ صاحبِ تفہیم القرآن  نے سورۃ الاعراف کی آیت۳۵ کی تشریح کرتے ہوئے حاشیہ میں اس قیمتی نکتہ کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ’’ بنی نوع انسان کی زندگی کا جب آ غاز ہورہاتھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی‘‘ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲،ص۲۵ ،حاشیہ ۲۸ )۔   

سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت ۳۸ کی نسبت سے یہ و ضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ بعض مفسرین کی تشریح کے مطابق اللہ کی ہدایت کی پیروی یا اس کی بتائی ہوئی راہ اختیار کرنے پر دنیا و آخرت دونوں جہاں میں سکون و اطمینان میسر ہوگا،یعنی اس آیت میں خوف و غم سے نجات کا تعلق دنیوی و اُخروی دونوں زندگی سے ہے (صلاح الدین یوسف، تفسیر احسن البیان، دارالسلام، ریاض، ص۹،حاشیہ ۲ )۔

مفسرِقرآن مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے سورۃ النحل کی آیت۹۷ : مَنْ عَمِلَ صَالِحًا  مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً ۝۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۹۷  [ اہلِ ایمان میں جو کوئی نیک عمل کرے گا،خواہ مرد ہو یا عورت،ہم اسے پاکیزہ و خوش گوار زندگی عطا کریں گے اور ہم انھیں ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ ضرور عطا کر یں گے ] کی تفسیر میں یہ واضح کیا ہے کہ اس بشارت کا تعلق دنیوی و اخرو ی دونوں زندگی سے ہے اور بیان القرآن  کے مؤلف گرامی مولانا اشرف علی تھانویؒ کا یہ بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’ مفسر تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اس بشارت سے یہ مراد نہیں کہ مومن صالح کو کبھی فقر و فاقہ یا مرض طاری نہ ہوگا، بلکہ مطلب یہ کہ اطاعت کی برکت سے اس کے قلب میں ایسا نور پیدا ہوگا،جس سے وہ ہر حال میں شاکر و صابر اور تسلیم ورضا سے رہے گا اور سکون و جمعیتِ خاطر کی اصل یہی رضا ہے‘‘(تفسیر ماجدی، ج ۲،  ص۲۲۹- ۲۳۰،حاشیہ ۱۵۶)     

مزید یہ کہ جدید دور کے بعض مفسرین نے اس آیت کے پہلے حصے سے دنیوی زندگی کی خوش گواری ہی مراد لی ہے، اس لیے کہ اس کے آخری حصے میں خاص طور سے اُخروی زندگی سے متعلق خوش خبری سنائی گئی ہے۔ مذکورہ آیت کی تشریح میں احسن البیان کے مؤلف گرامی تحریر فرماتے ہیں : ’’حیاتِ طیبہ (بہتر زندگی) سے مراد دنیا کی زندگی ہے،اس لیے کہ آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے [ وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا  کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ]  میںہے‘‘ ( تفسیر احسن البیان،  محولہ بالا ، ص۳۶۳،حاشیہ ۱)۔

اس آیت کے حوالے سے مولانا سید عبد الکبیر عمریؒ نے بجا فرمایا ہے: ’’جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی دولت سے فیض یاب ہوتے ہیں ان کی زندگی بڑی ہی پُر سکون اور خوش گوار ہوتی ہے۔ دنیا کے مصائب و مشکلات میں بھی انھیں ایک طرح کا قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘ (نورِ ہدایت، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، عمر آباد،۱۹۱۴ء،ص ۲۷)۔    

اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ اولین پیغام کے دوسرے حصے ( ہدایتِ الٰہی کی اتباع میں انسان کے لیے فوز وفلاح ہے) کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو متنبہ کردیا ہے جن کی زندگی ہدایتِ الٰہی کے خلاف گزر تی ہے یا گزرے گی کہ انھیں ا خرو ی زندگی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کے عذاب میں گرفتار رہیں گے، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے گا، یعنی ہدایتِ الٰہی کے خلاف زندگی گزارنے والوں کو ان کے بدترین انجام کی خبربھی سنا دی گئی ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۳۹ (البقرہ ۲: ۳۹) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنم والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔

اسی سے متعلق سورۃ الاعراف کی آیت ۳۶ ملاحظہ ہو: وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْہَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۳۶ ’’اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان (رسولوں) کے تئیں تکبر و سرکشی کا رویہ اختیار کریں گے ،وہ دوزخ والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے‘‘،یعنی ہد ایتِ الٰہی قبول کر نے اور راہِ راست اختیار کرنے والوں کے برخلاف جو لوگ ہدایتِ الٰہی کا انکار کرنے والے،اس سے منہ موڑنے والے اور راہِ ہدایت کی طرف دعوت دینے والوں سے مخالفت و عداوت کا معاملہ کرنے والے ہیں ان کا بدترین انجام یہ ہوگا کہ وہ ابدی زندگی میں جہنم کی آگ میں جھلسا ئے جا ئیں گے،اس سے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ اس کے علاوہ قرآن میں دو سرے مقام پر شیطان کے پیروکاروں کو صاف طور پر خبر دار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ابلیس یا شیطان کی پیر و ی میں پوری زندگی گز ار دے گا اور کفروانکار اور سرکشی،یعنی اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی و نافرمانی کی راہ پر چلتا رہے گا جہنم کو اس سے بھر دیا جائے گا۔ اللہ ربُّ العزت کا فرمان ہے : 

لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ لَاَمْلَــــَٔـنَّ جَہَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۱۸ (الاعراف۷:۱۸) ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے تم سب سے[ ان کے سمیت] جہنم کو بھر دوں گا۔

 مزید برآں شیطان اور اس کے متبعین کو مخا طب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں فرمایا:

قَالَ فَالْحَقُّ۝۰ۡوَالْحَقَّ اَقُوْلُ۝۸۴ۚ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۸۵ (صٓ۳۸: ۸۴-۸۵) اللہ نے فرمایا :حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں کہ جہنم کو تجھ سے اور ان تمام لوگوں سے بھر دوں گا جو ان[میرے بندوں] میں سے تمھاری پیروی کریں گے۔  

راہِ حق اور صراطِ مستقیم

رہا یہ مسئلہ کہ مختلف آیات میں مذکور اللہ کی ہدایت سے کیا مراد ہے جس کی پیروی میں حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے اور جس کی خلاف ورزی دنیا وآخرت میں امن وسکون غارت کرنا، سب سے بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا اور عذابِ الیم کو دعوت دینا ہے؟ اس سوال پر غور وفکر سے پہلے یہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ ربُّ العالمین ہے،سارے جہاں کا پرور دگار اور تمام انسانوں کا پالنہار ہے،وہ اپنے بندوں پر بے حد رحم و کرم فر ما نے والا ہے۔اللہ کی ربوبیت یا پروردگاری انسان کی مادی وروحانی تمام ضروریات کو محیط ہے۔یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی ہدایت سے با خبر نہ کرتا ،یعنی انھیں وہ راستہ نہ دکھاتا جس پر چل کر وہ اس کی خوشنودی اور دنیوی و اُخروی زندگی میں حقیقی کامیابی سے مشرف ہوسکتے۔ متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ربِّ رحیم و کریم نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ہی اسے گزر بسر کے لیے دنیوی ساز و سامان عطا کیا اور اسے اپنی ہدایت سے باخبر کرنے کا بھی اہتمام فرمایا ،تاکہ وہ اسی کے مطابق شب وروز بسر کرے اور اپنے خالق ومالک کی رضا حاصل کرے (طہٰ۲۰:۵۰؛ الشعراء۲۶:۷۸؛ عبس۸۰:۲۰؛ الاعلیٰ: ۸۷؍۲-۳، البلد ۹۰:۱۰)۔

قرآن نے تو ایک مقام پر بہت ہی واضح انداز میں اس حقیقت سے انسان کو آگاہ کردیا ہے کہ اللہ نے انسان کو راہِ حق دکھا دی ہے،اب یہ اس کی پسند ہے کہ وہ اسے اختیار کر کے اپنے رب کا شاکر بندہ بنتا ہے، ا سے راضی کرتا ہے اور دونوں جہاں میں فوزو فلاح پاتا ہے یا اس کے برخلاف راہِ باطل پر چل کر ناشکرا بندہ بن جا تا ہے، اپنے رب کو ناراض کرتا ہے اور خود اپنی تباہی و بربادی کا ساز وسامان جمع کرتا ہے۔ آیتِ ذیل میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے :      

اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ  اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا۝۳ (الدھر۷۶:۳) بے شک ہم نے اسے [سیدھی] راہ دکھادی ہے، اب یا وہ شاکر بن جائے، یا ناشکرا بن جائے۔

اللہ رب العزت نے ا سی راہ ِ ہدایت دکھانے کے لیے انبیا علیہم السلام کی بعثت ا ور اپنی کتابوں کے نزول کا سلسلہ جاری کیا ۔ یہ سلسلہ، جیسا کہ بخوبی معروف ہے، اوّلین نبی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا اور آپ ؐ ہی کے توسط سے   اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات کا آخری مکمل مجموعہ قرآن کی صورت میں سارے انسانوں کو عطا فرمایا، تاکہ وہ اس کی روشنی میں راہِ ہدایت د یکھ لیں اور پالیں۔ بلاشبہہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ سچ پوچھئے تو پورا قرآن شریف شروع سے آخر تک ’ ھدی اللہ‘ کی تشر یح و توضیح ہے اور بعض آیات میں مختصر و جامع ا نداز میں اس کی تعبیر یہ ملتی ہے کہ اللہ کو ربّ العالمین مان لینا اور صبح سے شام تک اس کی بندگی بجالانے میں مصروف رہنا ،یعنی زندگی کے ہر معاملے میں حکمِ الٰہی پر عمل کرنا ہی راہِ ہدایت ہے ،یہی’’ صراطِ مستقیم ‘‘ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے :  

اِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۝۵۱  (اٰل عمرٰن۳:۵۱) بے شک اللہ ہی میرا رب اور تم سب کا ر ب ہے، پس اسی کی عبادت کرو ،یہی صراط مستقیم ہے۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ ہدایتِ الٰہی نصیب ہونا صراط مستقیم پالینے سے عبا رت ہے،یعنی جس نے راہِ مستقیم اختیار کر لیا وہ گویا اللہ کی ہدایت سے مشرف ہوگیا۔راہِ مستقیم کیسے نصیب ہوتی ہے یا اس پر چلنے کے لیے راہیں کیسے ہموار ہوتی ہیں ؟ اس سوال کا جو اب اس آیت میں ملاحظہ فرمائیں: 

وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۱۰۱(اٰل عمرٰن ۳:۱۰۱) اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے اسے راہِ مستقیم دکھا دی گئی۔

اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے سے مراد،جیسا کہ مفسرین نے واضح فرما یا ہے ، ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنا ، اللہ سے تعلق مضبوط کرنا اور ہر معاملے میں اس کے احکام پر کاربند رہنا ہے۔ درحقیقت اسی طور پر شب وروز گزارنے والے راہِ راست پر ہوتے ہیں اور انھی لوگوں کے لیے صلاح و فلاح کی بشارت ہے ( مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، ج۲،ص۱۲۵)۔

اسی کے ساتھ یہ نکتہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ اللہ سے تعلق کی مضبوطی کے لیے قرآن کریم سے گہری وابستگی اور اس کی ہدایات پر مضبوطی سے جمے رہنا ضروری ہے۔ یہ نکتہ بھی ا سی عظیم ترین کتابِ ہدایت سے منکشف ہوتا ہے۔ اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۴۳ (الزخرف ۴۳:۴۳) پس اس چیز [کتاب] کو مضبوطی سے تھامے رہو جو تمھاری طرف وحی کی گئی، یقیناً تم سیدھے راستہ پر ہو۔

 بلاشبہہ یہ آیت ا س نکتہ کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ تمسک بالکتاب اور ہدایت ِ الٰہی نصیب ہونا لازم و ملزوم ہے۔ دوسرے،یہ امرِ بدیہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام اہلِ ایمان کو اس نکتہ سے باخبر کرنا مقصود ہے۔

اہلِ حق کی خصوصیات

اللہ کی ہدایت سے مشرف ہو جا نے والوں کی کیا خصوصیات ہیں یا ہدایت یافتہ ہونے کی کیا علامات ہیں ؟،اس باب میں سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات سے کلیدی رہنمائی ملتی ہے۔ ان میں قرآنی ہدایت سے فیض یاب ہونے والوں، یعنی ا ہلِ تقویٰ (خوفِ ا لٰہی اور آخرت میں بازپُرس کے احساس سے اپنے کو گناہوں سے بچانے والوں اور اطاعتِ الٰہی کو اپنا شعار بنانے والوں )کے بنیادی اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: 

الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِـمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۙ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۝۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵ (البقرہ۲:۳-۵) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز کا اہتمام کرتے ہیں،ہمارے عطا کردہ مال میں سے انفاق کرتے ہیں،اورجو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تم پر نازل کی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئیں، اور جوآخرت میں یقین رکھتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی [اصلاً] فلاح پانے والے ہیں۔

تقریباً یہی مضمون سورۂ لقمان کی ابتدائی آیات(۲ تا۵) میں بھی مذکور ہے۔ یہاںیہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیات میں اہلِ تقویٰ کے اوصاف (ایمان میں پختگی کے ساتھ ان اعمال کی انجام دہی جو اللہ رب العزت کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں) بیان کرنے کے بعد یہ ارشادِالٰہی ہے:

اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵ (البقرہ ۲:۵) ایسے ہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ ہدایت پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔

آیت کا یہ آخری حصہ اس لحاظ سے خصوصی توجہ کا طالب ہے کہ ان میں مذکورہ بالا صفات سے متصف لوگوں کو اس سند سے نوازا گیا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ،یعنی اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنے والے ہیں، اور اسی کے ساتھ انھیں یہ بشارت بھی سنائی گئی ہے کہ وہی صحیح معنوں میں فلاح یاب یا با مراد ہو ں گے، یعنی وہ جہنم سے محفوظ رہیں گے اور انھیں جنت میں داخلہ نصیب ہو گا ۔ ایک دوسری آیت میں اُن اہلِ ایمان کے بارے میں ، جو اپنے ایمان و یقین میں خالص ہیں اور اپنے ایمان کو سب سے بڑے گناہ (شرک) یا باطل عقائد سے گڈ مڈ نہیں کرتے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہی اصلاً ہدایت یاب ہیں اور انھیں امن و سکون کی نعمت نصیب ہوگی۔ ارشادِ ربّانی ہے:

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲) جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم[یعنی سب سے بڑے گناہ شرک ] سے مخلوط نہیں کیا ان کے لیے امن ہے اور وہی[ صحیح معنوں میں] راہِ ہدایت پر ہیں ۔

 مزید یہ کہ ایک دوسرے مقام پر ان اہل ِ ایمان کو ،جو مصیبت و پریشانی کی حالت میں صبر سے کام لیتے ہیں،دینِ حق پر جمے رہتے ہیں،اپنی زندگی اور ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انھیں اپنے رب کے پاس واپس لوٹ جانا ہے،یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ انھیں ربِّ کریم کی عنایات نصیب ہوں گی اور وہ رحمتِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے (البقرہ۲ :۱۵۶-۱۵۷)۔ واقعہ یہ کہ اللہ ربُّ العزت کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہدایت یافتہ ( یا ایمان و عملِ صالح والے) لوگ سکون و اطمینان کے ساتھ رضائے الٰہی کا انعام لیے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں یا ہوں گے، جیسا کہ سورۃ الفجر کی یہ آیات شہا دت دے رہی ہیں:

يٰٓاَ يَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ۝۲۷ۤۖ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃً۝۲۸ۚ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۝۲۹ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۝۳۰ۧ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) اے نفسِ مطمئنّہ تو اپنے رب [کے جوارِ رحمت] کی طرف واپس لوٹ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے، پس شامل ہوجا میرے[محبوب] بندوں میں اور داخل ہوجا میری [تیار کی ہوئی] جنت میں ۔ 

 رہا یہ معاملہ کہ نفسِ مطمئنّہ کو یہ راحت بخش خطابِ الٰہی کس وقت ہوگا؟ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے یہ واضح کیا ہے کہ قیامت میں حساب و کتاب کے بعد ہوگا، جب کہ بعض کی رائے میں یہ خطاب دنیا ہی میں موت کے وقت ہوتا ہے۔ بعض قدیم مفسرین کا خیال[جو زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے] یہ ہے کہ ارواحِ مومنین کو یہ خطاب دونوں وقت( موت کے وقت اور قیامت میں بھی ) ہوگا۔ قدیم مفسرین میں ابن کثیر اسی رائے کے حامل ہیں ( ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت ، دیو بند ، ۱۴۲۳ھ؍ ۲۰۰۲ء ج ۴،ص ۴۵۸ ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: معارف القرآن، ج ۸،ص۷۴۴-۷۴۵)۔

 اسی مسئلہ سے متعلق ایک حدیث کا حوالہ بھی برمحل معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے :   حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ربُّ العزت جنتیوں سے فرمائے گا:اے اہلِ جنت! وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں،ہر طرح کی سعادت و خیر تیرے ہی ہاتھوں میں ہے۔اللہ پوچھے گا: کیا تم راضی ہو؟ وہ کہیں گے،اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں جو تو نے کسی مخلوق کو نہیں دی ہیں۔  اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمھیں اس سے افضل چیز نہ عطا کروں؟تو وہ پوچھیں گے ان [جنت کی نعمتوں] سے افضل کون سی چیز ہے؟ اللہ فرمائے گا:میں تمھیں اپنی رضا مندی (رضوان) عنایت کرتا ہوں، اب میں اس کے بعد تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا ( صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار)۔ 

اس سے معلوم ہوا کہ ا للہ کے بندوں میں جو راہِ ہدایت پر چلنے والے ( ایمان و عمل صالح والے ) ہیں،انھیں جنت میں سب سے بڑ ی نعمت یہ نصیب ہو گی کہ وہ یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے ’رضائے الٰہی‘ سے سرفراز کیے جا ئیں گے ۔

اللہ ربُّ العزت نے ایمان و عملِ صالح سے مزین ہوکر رضا ئے الٰہی سے شاد کام ہونے والے ا پنے محبوب بندوں کو کتنے عظیم الشان خطاب سے نوازا ہے، یہ جاننے کے لیے سورۃ البیَّنۃ کی آیت۷ پر نظر ڈالیں جس میں انھیں ’ خیر البریۃ ‘ کے لقب سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اردو مترجمینِ قرآن نے ان الفاظ کا ترجمہ ’’ بہترین خلائق،سب خَلق سے بہتر،ساری مخلوقات میں افضل و اشرف‘‘ کیا ہے۔ واقعی یہ کتنابڑا اعزاز ہے، جس سے ایمان اور عمل صالح کی پونجی والے ( چاہے وہ دنیوی مال و اسباب کے اعتبار سے مفلس و بے مایہ ہی کیوں نہ ہوں) مشرف کیے گئے ہیں ۔کیا اس سے بڑا اور کوئی لقب ہے جس سے ارضی مخلوقات میں کسی کو نوازا گیا ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ ہدایت الٰہی کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، کفر و نافرمانی کا راستہ اختیار کر تے ہیں اور پوری زندگی اپنے آپ کو خواہشات ِنفسانی کا غلام بنا ئے رہتے ہیں انھیں اسی سورہ میں نہ صرف’شرّ البرّیۃ ‘ (بدترین خلائق) کہا گیا ہے، بلکہ اِس بدترین انجام سے بھی خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔ ان سب کے علاوہ اُخروی زندگی میں اس درد ناک عذاب سے دوچار ہونے کو انسان کے لیے ’خسران مبین‘ (بالکل کھلے ہوئے یا سب سے بڑے نقصان ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربَّانی ہے:  

قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۝۱۵ لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ۝۰ۭ (الزمر۳۹:۱۵) کہہ دیجیے،اصل گھاٹے والے تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے قیامت کے دن اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو گھاٹے میں ڈال دیا۔اچھی طرح سن لو! یہی کھلا ہوا نقصان ہے۔ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے چھائی ہوں گی، اور نیچے سے بھی۔ 

مزید یہ کہ سورۃ البلد ( آیت۱۸) میں مومنین صالحین کو ’اصحٰب المیمنۃ‘( خوش قسمت؍ نصیبے والے) اور سورۃ الواقعہ ( آیت ۲۷)میں ’اصحٰب الیمین‘( نیک بخت؍ معزز و مکرم) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور منکرین و مکذّبین ’اصحٰب المشئمۃ‘  (بدنصیب/ذلت کے مارے) (البلد۹۰ :۱۹) اور ’اصحٰب الشمال‘( نحوست ، ناکامی و محرومی کے شکار)(الواقعۃ۵۶:۴۱) قرار دیے گئے ہیں ۔ اللہ ا حکم الحاکمین اپنے بندوں کے بارے میں جو فیصلہ فرمائے اسے کون بدل سکتا ہے۔

ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ توحید، رسالت اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان میں سچے ہیں، آخرت (یعنی بعث بعد الموت،اللہ رب العزت کے حضور حاضری، دنیوی زندگی کے اعمال کے بارے میں بازپُرس ،اعمال نامہ ملنے اور اسی کے مطابق جزا یا سزا کا نظام قائم ہونے اور جنت نصیب ہونے یا نارِ جہنم میں ڈالے جانے ) پر یقین میں پختہ ہیں، افضل العبادۃ نماز کی ادائیگی کا اہتمام کر تے ہیں اوراللہ کے عطا کردہ مال سے کار ِخیر میں انفاق کے لیے سرگرم رہتے ہیں، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق بجا لانے میں سنجید ہ و مخلص ہیں وہی دراصل صراط مستقیم پر گامزن ہیں، وہی حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں اور انھی کی ابدی زندگی خوشگوار اور فرحت بخش ہوگی ۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی کی تلقین و تاکید کے ساتھ قرآن میں باربار انسان کو یہ نکتہ بھی گوش گزار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ہدایت کا طلب گار ہوگا ،اس راہ میں دوڑ بھاگ کرے گا اور اس کی توفیق طلب کرنے کے لیے اللہ سے رجوع کرے گا اور دعائیں مانگے گا اور راہِ ہدایت پر چلنا میسر آجا نے پر اس پر چلتا رہے گا تو اپنے کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور اپنا ہی بھلا کرے گا ،اور جو کوئی گمراہی کو پسند کرے گا، راہِ حق سے منہ موڑے گا اور انکار و ہٹ دھرمی کا رویہ اپنائے گا تو اپنے ہی کونقصان پہنچائے گا،اپنی تباہی مول لے گا اور ناکامی و نامرادی کو گلے لگائے گا۔ارشادِ ربّانی ہے:

مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْــتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۝۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۵)  جو کوئی بھی راہِ ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہوجائےاس کا وبال اس پر آکر رہے گا۔

قُلْ يٰٓاَ يُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا ج وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۝۱۰۸ۭ (یونس ۱۰:۱۰۸) اے رسولؑ! بتا دیجیے اے لوگو!تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے حق آچکا ہے، پس جو کوئی سیدھی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کرے گا اور جو کوئی اس راہ سے بھٹک جائے گا تو اس کا وبال اپنے اوپر لائے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا ہوں [کہ تمھیں ہدایت یافتہ بنا کر ر ہوں] ۔

 مزید برآں قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کتابِ ہدایت کی روشنی میں راست روی اختیار کرنے، اس پر قائم رہنے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی ایک بہت بڑی برکت یہ نصیب ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت ان اوصاف کے حاملین کے لیے ہدایت اختیار کرنے کی منازل میں ترقی عطا فرماتا ہے یا ان کے لیے ہدایت پر چلنے کی راہیں مزید ہموار کرتا رہتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَيَزِيْدُ اللہُ الَّذِيْنَ اہْتَدَوْا ہُدًى۝۰ۭ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ مَّرَدًّا۝۷۶(مریم۱۹:۷۶) اور راہِ ہدایت پر چلنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک اجر اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔

وَالَّذِيْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًى وَّاٰتٰىہُمْ تَقْوٰىہُمْ۝۱۷ (محمد۴۷:۱۷) وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں ان کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔

اس میں شبہہ نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے،بشری تقاضے سے ان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، بھول چوک بھی ہوتی رہتی ہے،لیکن انھیں جب اپنی غلطیوں پر تنبہ ہوتا ہے، خطا کے ارتکاب کا احساس جاگ اٹھتا ہے تو ایمان کی تازگی و عمل کی پاکیزگی کے لیے اللہ سے رجوع کرتے ہیں، اپنے اصلاح یا راہ ِ ہدایت پر جمے رہنے کا پختہ عزم کر تے ہیں اور  ربِّ کریم سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں اوراستقامت کی توفیق کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، تو اللہ رحمٰن و رحیم انھیں اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔ یہ آیت ایسے خطاکا ر وں کو یہ مژدہ سنا رہی ہے:  وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰى۝۸۲ ( طٰہ۲۰:۸۲) ’’اور میں بے شک خوب مغفرت سے نوازنے والا ہوںان لوگوں کو جو [خطا سرزد ہوجانے پر] توبہ کرلیں اور [صحیح معنوں میں] ایما ن لائیں، نیک عمل کر تے رہیں اور راہِ ہدایت پر چلیں‘‘۔

راہِ حق پر استقامت

ان سب باتوں کے ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ کتابِ ہدایت ہی ہمیں بتاتی ہے کہ راہِ حق ا و ر اس پر استقامت کی نعمتیں اللہ ہی کی توفیق سے نصیب ہوتی ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ اٰيٰتٍؚ  بَيِّنٰتٍ۝۰ۙ وَّاَنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ۝۱۶ (الحج ۲۲:۱۶) ’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو واضح آیتوں کے ساتھ نازل کیا ہے اور بے شک اللہ جسے چاہتا ہے اپنی ہدایت سے نوازتا ہے‘‘۔ ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ (الزمر۳۹:۲۳) ’’یہی اللہ کی ہدایت ہے جسے چاہتا ہے اسے نصیب کرتا ہے‘‘۔ وَاللہُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَہُوَ يَہْدِي السَّبِيْلَ۝۴ (الاحزاب ۳۳:۴) ’’اللہ حق بات ہی کہتا ہے اور وہی راہِ حق دکھاتا ہے‘‘ ۔ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۲۱۳ (البقرہ۲: ۲۱۳) ’’اور اللہ جسے چاہتا ہے راہِ مستقیم دکھا دیتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ یہ نعمت کسے عنایت کرتا ہے؟، اسے بھی ربِّ کریم نے اپنی کتاب میں واضح فر ما دیا ہے۔ ارشادِالٰہی ہے:

 اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ  اِلَيْہِ  مَنْ يُّنِيْبُ۝۱۳(الشورٰی۴۲:۱۳) اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے منتخب کرلیتا ہے اور ہدایت اسی کو نصیب کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے ۔  

یہی حقیقت سورۃ الرعد کی آیت۲۷  میں بیان ہوئی ہے: وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَ۝۲۷ ، ’’وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے‘‘‘۔ 

اوپر یہ واضح کیا گیا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے،ہدایت سے نوازتا ہے ،اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ صحیح معنوں میں کون ہدایت یافتہ ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔ واقعہ یہ کہ راہِ ہدایت پر چلتے ہوئے ،اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہوئے بہت زیادہ خوش گمانی یا ضرورت سے زیادہ اعتماد کی کیفیت میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے،بس اس راہ میں کوشش اور اس میں کامیابی کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن کی متعدد آیات میں اس نکتہ کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۷ ملا حظہ ہو:

اِنَّ رَبَّكَ ہُوَ اَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِہٖ ۝۰ۚ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۝۱۱۷ (الانعام ۶:۱۱۷) بے شک تیرا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔

تقریباً یہی حقیقت چھ دیگر آیات میں بھی واضح کی گئی ہے(النحل:۱۶؍۱۲۵،بنی اسرائیل ۷ا:۸۴،القصص۲۸:۵۶-۸۵، النجم۵۳:۳۰، القلم۶۸:۷)۔

واقعہ یہ کہ تزکیۂ نفس و تطہیرِقلب( دل کی پاکی و صفائی)،تقویٰ و پرہیزگاری( اللہ ربّ العزت کی عظمت کا احساس اور اس کی گرفت کا خوف جو انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے)، اھتداء (ہدایت یافتہ ہونا یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت پر چلنا)، اخلاصِ نیت ( اللہ کی خوش نودی کے لیے نیک عمل کرنا)، ان سب کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل کا حال،اس کی کیفیت اور اس کے تحت صادر ہونے والے اعمال کی نوعیت اور ان کی قبولیت کے مقام و مرتبہ کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے،جیسا کہ ان آیات سے واضح ہوتا ہے: 

 فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۝۳۲ۧ (النجم۵۳: ۳۲) پس اپنے آپ کو بہت پاک نہ سمجھو،وہی[اللہ ہی] بہتر جانتا ہے کہ واقعی کون متقی ہے۔ 

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ۝۰ۭ بَلِ اللہُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ (النساء۴:۴۹) کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جو اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں،حالاں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاکیزگی عطا فرماتا ہے۔

رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ۝۰ۭ ( بنی اسرائیل۱۷:۲۵) تمھارا رب سب سے زیادہ جاننے والا ہے اس بات کو جو تمھارے دلوں میں ہے۔

اَوَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۰ ( العنکبوت۲۹:۱۰) کیا اللہ کو دنیا کے لوگوں کے دلوں کا حال بخوبی معلوم نہیں؟

ان سب کے ساتھ یہ بھی ہمارے پیشِ نظر رہے کہ انسانی دلوں کا اُلٹ پھیر ( تصریفِ قلوب) کا اختیار اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ان کی کیفیت میں جو کچھ تبدیلی ہوتی ہے،اسی کی مشیت سے ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے( صحیح مسلم، کتاب القدر، باب تصریف اللہ تعالٰی  القلوب کیف یشاء)۔ 

استقامت کے لیـے دُعا

ان حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو اپنے ہدایت یافتہ ہونے یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت اختیار کرنے کے بارے میں بہت لمبے لمبے دعوے نہیں کرنے چاہیے اور نہ اپنے کو بہت زیادہ پاکیزہ، بہت بڑا متقی سمجھنا چاہیے، بس اس راہ میں کوشش جاری رکھتے ہوئے اللہ سے رجوع کرنا چاہیے اور دل کی پاکیزگی ، نیت کے اخلاص اور ارادہ کی پاکی کے لیے مستقل دعا مانگتے رہنا چاہیے۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میںیہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ راہِ ہدایت طلب کرنا ہو، اسے اختیار کرنا ہو،اس پر مستقل چلتے رہنا ہو، یعنی راہِ ہدایت پر استقامت یا اس کی ترقی کی منازل طے کرنے کا معاملہ ہو ، خطائیں سرزد ہونے پر مغفرت ِ الٰہی کے لیے التجاء کرنی ہو، ان سب نعمتوں کے نصیب ہونے کے لیے رجوع الی اللہ اور ربِّ کریم سے دعا مانگنا نہ صرف مطلوب،بلکہ بہت ضروری ہے ۔اس ضمن میںاہم بات یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے لیے دعائیں بھی تلقین کی ہیں۔   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے ہمیں اسی کی تعلیم دی ہے۔سورۃ الفاتحہ، جیساکہ بخوبی معروف ہے، پوری کی پوری دعا سے تعبیر کی جاتی ہے اور اس میں خا ص دعا اللہ سے ہدایت طلبی (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) ہے۔راہِ حق پر استقامت کی قرآنی دعائوں میں ایک بہت ہی معروف و مقبول دعا یہ بھی ہے: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۝۸  (اٰل عمرٰن۳:۸) ’’اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی نہ آنے دے اس کے بعد کہ تونے ہمیں ہدایت کی توفیق بخش دی اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما، بے شک تو خوب عطا فرمانے والا ہے ‘‘۔

اسی طرح ہدایت پر جمے رہنے کے لیے یہ مسنون دعائوں میں ایک بہت مشہو ر دعا ہے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ( جامع ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب دعا) ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے‘‘ ۔ ان سب کے ساتھ اس دعا کا اہتمام بھی ضروری ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَہُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اِجْتِنَابَہُ  ( ابن کثیر، تفسیر القرآن الکریم ، محولہ بالا ،۲؍ ۳۲۸ ( تفسیر سورۃ البقرۃ،آیت۱۳ ۲) [اے اللہ ہمیں حق کو حق کی حیثیت سے دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما، اور باطل کو باطل کی حیثیت سے دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما]۔ اس لیےمومن کو ہر حال میں ان دعاؤں کو مستقل مشغلہ یا شیوہ بنا لینا چاہیے ۔ اللہ کرے ہمیں اس کی توفیق نصیب ہو، آمین!

مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب کی متعدد آیات میں ہدایتِ الٰہی،اس پر استقامت اور اس کے فیوض وبرکات اور خوش گوار نتائج سے متعلق حقائق بار بار واضح کیے گئے ہیں ۔ ان کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے، بس خلاصہ کے طور پر یہ عرض کرنا ہے کہ متعلقہ آیاتِ کریمہ پر تدبر و تفکر سے انسان کے نام اولین پیغامِ الٰہی سے یہ قیمتی نکات سامنے آتے ہیں :

  • دنیا کی زندگی اور یہاں کا ساز وسامان عارضی و فانی ہے،ان سے تعلق و انتفاع بس ضرورت کی حد تک ہی مفید ر ہے گا۔
  • دنیا میں گزر بسر کے لیے جو کچھ ملا ہوا ہے وہ سب اللہ رب العزت کا عطیہ اور اس کی امانت ہے، انھیں استعمال کرتے ہوئے منعمِ حقیقی کو یاد کرنا اور اس کی مرضیات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ 
  • زندگی کے ہر معاملے میں ہدایتِ الٰہی کی پیروی دنیا کے عارضی قیام میں سکونِ قلب و اطمینان نصیب کرے گی اور آخرت میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رضائے الٰہی اور جنت کی لازوال نعمتوں سے شاد کام کرے گی اور مستقل مستقر [جنت] کو ایسا فرحت بخش اور خوشگوار بنائے گی کہ وہاں نہ کسی چیز کا خوف لاحق ہو گا اور نہ کوئی غم ہی ہوگا ۔
  • ہر حال میں مومن سے ذکرِ الٰہی،شکرِالٰہی،رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار مطلوب ہے۔      

اللہ رب العزت ہم سب کو ہر شعبۂ حیات میں ہدایاتِ ربّانی پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے، اپنی رضا سے ہمیں نوازے اور عارضی و دائمی دونوں ٹھکانوں[ دنیا و آخرت ] میں سکون و اطمینان نصیب فرمائے: وَ مَا تَوْفِیْقی اِلَّا بِاللہ۔ رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔ آمین ثمَّ آمین! 

۱۳۵۴ھ/ مارچ ۱۹۳۶ء کے حج کے موقعے پر امام حسن البنا ؒ نے ’سعودی جوانوں کی انجمن‘ کے زیراہتمام منیٰ میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تقریر اخباراُم القریٰ نے ۱۹ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ [۱۳مارچ ۱۹۳۶ء]کے شمارے میں شائع کی۔

میرے معزز بھائیو! میں آپ کی اجازت سے اپنی گفتگو کا آغاز، اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں سے خطاب سے کرنا چاہتا ہوں:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝۱۰۳ (اٰل عمرٰن  ۳:۱۰۳) [سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے، شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے]۔

اسی مناسبت سے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی سنانا چاہتا ہوں:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۰ۧ (الحجرات ۴۹: ۱۰) [مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امیدہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا ]۔

اسلام کا بہترین ہدیہ، سلام آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! میں کوئی پیشہ ور خطیب نہیں ہوں لیکن الشباب العربی السعودی نے حجاج کرام کو باہمی تبادلۂ خیالات اور تعارف کا یہ موقع فراہم کیا ہے، اللہ تعالیٰ انھیں اجر سے نوازے۔ میں سمجھتا ہوں باہمی تعارف اور تبادلۂ خیالات حج کی تکمیل کا حصہ ہے۔ آپ سے مخاطب ہونے کا جذبہ، پُرجوش اور مفید تقریریں سننے کے بعد اُبھرا ہے۔

معزز نوجوانو! میں آپ کی تعریف میں وقت صرف نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی مہمان نوازی کا تذکرہ بھی نہیں کروں گا بلکہ ہم اپنی امیدوںاور مسائل کے حوالے سے گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے۔ آپ سے محبت اور شیفتگی پہلے بھی تھی لیکن اب یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت بن چکی ہے۔ اس محبت کو اللہ تعالیٰ کا یہ مبارک ارشاد اُبھارتا ہے:

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۝۰ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى۝۰ۭ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَہِّرَا بَيْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۝۱۲۵  (البقرہ ۲: ۱۲۵) [اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو، اور ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑکو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو] ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب حضرت عائشہ صدیقہؓ نے مکہ مکرمہ کا ذکر کیا تو اس کی خوب صورتی اور رعنائیوں کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں تر ہو گئیں اور کہا: ’’ذرا دل کو قرار پکڑنے دو، اور اس تذکرے کو سمیٹو‘‘۔ مکہ پر حضرت بلالؓ کے اشعار بھی یاد آتے ہیں۔

ہم بچپن سے یہ سارے تذکرے سنتے آئے ہیں۔ انھوں نے آتش شوق کو مزید تیز کردیا۔ ہم ہمیشہ اس مبارک دن کے انتظار میں رہے جب ہم مکہ مکرمہ کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے اورخیف میں کھڑے ہوں گے ، مجنوں کی لیلیٰ کے شوق میں نہیں، ہر ایک کی اپنی لیلیٰ ہوتی ہے۔ اب یہ آپ کی محبت ہمیں یہاں لے آئی ہے۔ آپ کی محبت کوئی افسانوی چیز نہیں بلکہ یہ ایک قابل محسوس حقیقت ہے۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے اس تعلق اور رابطے کو بھلائی اور برکت کا سرچشمہ بنائے۔ آمین!

معزز نوجوانو، آپ کے پہلے خطیب نے یہ کہا کہ اسلام دین اور دنیا کے مصالح اور بھلائیوں کو جمع کرتا ہے۔ یہ ایک مانوس اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے۔ آپ چشم تصور سے نماز پر غور کریں۔ تمام اعمال کا مغز اور پاکیزہ ترین عمل ہے۔ آپ کی یہ عبادت قرآن کی تلاوت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ آپ اپنے رب سے سرگوشی میں مصروف ہیں۔ اللہ کا قرآن آپ سے کیا کہہ رہا ہے؟ (یہاں امام حسن البنا ؒنے سورہ البقرہ کی آیات (۲۸۱-۲۸۳) تلاوت کیں جن میں لین دین کے معاملات لکھنے اور انصاف سے معاملات کرنے کا حکم دیا گیا ہے)۔

اسی طرح قرآن آپ سے مخاطب ہے کہ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ یہ دین کے اٹل اور قطعی معاملات ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ رزق کی تلاش اور کسب حلال میں مصروف ہیں جو دنیاوی کاموں میں سرفہرست ہیں۔ اس سلسلے میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان آپ جانتے ہیںکہ ’’اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے۔ اور یہ کہ جو شخص اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہے، وہ اپنی بخشش کا سامان کرتا ہے‘‘۔دیکھیے رزق حاصل کرنا اور روزی کمانا دنیاوی کام ہے لیکن یہ آخرت کے کاموں سے مربوط ہے اور نجات اور مغفرت کا سبب بن رہا ہے۔

شریعت کے ہر گوشے میں دین اور دنیا کا گہرا تعلق آپ کو نظر آئے گا۔ لیکن مسلمان دین کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں۔

آپ کے دوسرے خطیب نے حجاز کی ترقی کی بات کی۔ اگرچہ یہ ترقی اور پیش رفت اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ لیکن یہ ابتدائی مراحل اور خدوخال ان شاء اللہ نمایاں نقوش میں بدل جائیں گے۔ فطرت کا یہی قانون ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا: جب میں نے ہلال کو روز افزوں دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ ایک دن ماہ کا مل بن جائے گا۔

ترقی اور انقلاب کی باتیں خوش آیند ہیں اور اس سلسلے میں مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امیدیں اور تمنائیں آپ کے چہروں پرپڑھی جا سکتی ہیں اور زبانوں پر اس کا تذکرہ ہے۔ ترقی اور انقلاب امید سے زندہ رہتے ہیں اور نااُمیدی اور مایوسی اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ زندگی میں ناامیدی کا کوئی عمل دخل نہیں، ناامیدی اور زندگی کا ساتھ نہیں رہ سکتا۔ آج کے زندہ حقائق کل تک محض خواب تھے اور آج کے خواب مستقبل کے زندہ حقائق ہوں گے۔ جسے مہلت ملی ان شاء اللہ ضرور دیکھے گا۔ تنگی کے ساتھ فراخی ہے اور بے شک تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔ اللہ تعالیٰ مایوسی اور ناامیدی کو اپنی کتاب میں حرام قرار دیتا ہے:

يٰبَنِيَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْہِ وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۷ (یوسف ۱۲: ۸۷)[میرے بچو، جا کر یوسف ؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگائو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ]۔

یہ حالات قوموں کو پیش آتے رہتے ہیں لیکن صورت حال ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی، کمزور طاقت ور بن جاتے ہیں اور زبردست زیردست بن جاتے ہیں:

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۝۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۰) [اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں]۔

جو شخص اس آیت کی تلاوت کرے اور غوروفکر سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ امت کی طاقت کے لیے کوشاں نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ، اُمتوں اور اقوام کے حالات کو کس طرح بدل دیتا ہے، اور اس کا عدل مظلوم کا ظالم سے کیسے بدلہ لیتا ہے، اور سرکشی اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کو حق داروں کا حق دلوانے پر کس طرح مجبور کرتا ہے، سورۃ القصص کی یہ آیات تلاوت کیجیے، ان میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے:

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝۴ وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝۵ۙ  وَنُمَكِّنَ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ۝۶  (القصص ۲۸: ۴-۶) [واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا ]۔

یہ کتاب ابدی کا ابدی حکم ہے۔ اگر یہ ماضی میں ہو سکتا ہے تو مستقبل میں کیوں نہیں ہو سکتا:

ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۸  (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) [یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لیے ہدایت اور نصیحت]۔

آپ کے تیسرے خطیب نے کہا کہ تعمیر و ترقی کی بنیاد اور اساس اسلام ہے۔ اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی نشاتِ ثانیہ سے یہ ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔

میرے بھائیو، تم حقیقت کا ادراک کر چکے ہو اور ہدایت کی طرف رہنمائی پا چکے ہو۔

میں اس موقع پر، آپ کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو آپ سے میری محبت اور شفقت کا لازمی تقاضا ہے۔

جنگ عظیم کے بعد مشرق ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی اندھا دھند تقلید کا ہے اور دوسرا راستہ مشرقی تہذیب و تمدن اور اسلام کی نشات ثانیہ کا ہے۔ دونوں راستوں پر اس کے حامی لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں، ترغیب دے رہے ہیں، اور اپنے اپنے نظام کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ بعض مشرقی اقوام مغرب کی تقلید میں ان سے بھی سبقت لے گئیں اور بعض اقوام نے مزاحمت کا رویہ اپنایا، لیکن بعض مغرب کی ترقی کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ خواہش نفس اور اتباع ھویٰ انھیں مغرب کے قریب کر رہی ہے، اور ایمان انھیں دوسری سمت میں کھینچ رہا ہے۔ ایک صالح گروہ جو اپنی دینی روایات اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چل رہا ہے وہ اپنی مشرقی اور عربی اقدار پر نازاں ہے۔

امت مسلمہ کی یہ حالیہ تصویر ہے۔ مسلم نوجوانوں سے ہماری توقع اور امید ہے کہ وہ یہ سبق سیکھ لیں گے کہ اسلام کامل دین ہے اور دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ انسانوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ انسانوں کی تمام مشکلات اور مصائب کا واحد حل اسلام ہے۔ عنقریب اس حقیقت کوساری دنیا جان لے گی۔ انسانیت کا گلا خشک ہو چکا ہے اور اس کے حلق میں شک اور الحاد کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔ پیاسی انسانیت کی پیاس صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے چشمۂ صافی سے بجھ سکتی ہے۔

اسلام کی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو اور اپنی روایات اور اقدار کو سینے سے لگائے رکھو۔ ساری دنیا کو یہ باور کرا دو کہ تم حق پر ہو اور دوسرے لوگ شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کتاب اللہ کو اپنے درد کادرماں بنائو، وہ دلوں کی بیماریوں کے لیے پیغام شفا ہے۔ تڑپتی اور سسکتی انسانیت کے سامنے اللہ کا دین پیش کرو۔ نت نئے افکار کی دل فریبییوں سے بچو، اور شیطان اور نفس کے دام فریب سے اپنا دامن بچائو۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین تبدیل نہیں ہوتے:

اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا۝۰ۭ وَمِـمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْہِ فِي النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْيَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ۝۰ۥۭ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۝۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ۝۱۷(الرعد ۱۳:۱۷) [اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کرچل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے]۔

اسلام میں مقاصد اور ذرائع الگ الگ ہیں۔ اس اصطلاح کی کئی ایک تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک یوسف علیہ السلام کی طرح ان کی تعبیر و تاویل کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ تفصیل طلب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کافی ہے: خدا کی قسم! کوئی بھلائی ایسی نہیں ہے جس کے کرنے کا میں نے تمھیں حکم نہ دیا ہو، اور کوئی شر ایسا نہیں ہے جس سے باز آنے کا میں نے نہ کہا ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا:

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ۝۰ۡيَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۵۷ (الاعراف ۷:۱۵۷)[(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت و نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں، جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے ، وہی فلاح پانے والے ہیں ]۔

اے نوجوانو، اپنے آپ کو حقیرنہ جانو اور نہ اپنے مقصد کو کم تر سمجھو کیونکہ آپ کو دنیا کی قیادت سنبھالنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی امانت انسانیت کوپہنچانی ہے۔ آج آپ شوروغوغا سن رہے ہیں کہ جرمن عظیم قوم ہے، اٹلی کا کوئی مدمقابل نہیں، برطانیہ سب سے عظیم ہے،وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان کے جھوٹے دعوے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ کمزوروں کو تر نوالہ بناسکیں۔

اے اسلام کے سپاہیو، تم ان القاب اور اوصاف کے زیادہ حق دار ہو۔ اگر تم یہ دعویٰ کرو تو یہ بے جا اور خالی خولی دعویٰ نہ ہوگا بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جو قیامت تک قرآن مجیدمیں محفوظ ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۱۰ (اٰل عمٰرن ۳:۱۱۰) [اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو ان ہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیش تر افراد نافرمان ہیں ]۔

یہ اس لیے نہیں کہ تم کمزوروں پر دست ستم اٹھائو یا پرامن لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائو، بلکہ تمھارا مقصد نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا ہے۔

میرے بھائیو، مجھ پر اعتماد کرو ، جب میں عربوں کالفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے پیش نظر وہ محدود مفہوم نہیں ہوتا جو جغرافیائی بندشوں میں مقید اور جکڑا ہوا ہوتا ہے بلکہ میں اس لفظ کو وسیع مفہوم میں استعمال کرتا ہوں جو پوری رُوئے زمین کے مسلمانوں پر محیط ہے۔

اے نوجوانو، اللہ تعالیٰ نے آپ کے نبیؐ کو تمام انسانیت کے لیے معلم بنا کر بھیجا ہے اور انھوں نے یہ امانت آپ کے سپرد کر دی ہے۔ آپؐ نے جس کام کا آغاز فرمایا تھا، اسے تکمیل تک پہنچانا اب آپ کا فریضہ ہے۔ اب آپ انسانیت کے معلم اور رہنما ہیں۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہو اور آپؐ کے بعد روشن نشانیوں والے صحابہ کرامؓ کے وارث ہو۔ بعض لوگ روشن چراغ ہوتے ہیں گویا کہ وہ حقیقی ستارے ہیں۔ ان کا اخلاق، ان کا اجالا اور روشنی ہے۔ ان کے اخلاق کا جادو ہر سمت میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کی پیروی کیجیے اور ان کے نقش قدم پر چلتے رہیے۔ ان کی میراث اور عظمت رفتہ کو اَزسرنو زندہ کیجیے۔ اللہ کی تائید تمھارے ساتھ ہے۔

مصر کے نوجوانوں کے دل تمھارے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ان کے جذبات اور احساسات تمھارے جذبات سے مختلف نہیں ۔ وہ تمھارے اس جہاد میں شریک ہوں گے، یا منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں گے یا اس راستے میں جان نچھاور کر دیں گے!

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین

قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۸۵) [رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے]۔

یہی ارشادِ خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہِ رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھا اور اس اطاعت ِ الٰہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت ِ قوم خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لانے کے لیے یہاں جمع ہوئے۔

بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ طاعت ِ حق، یعنی عبدیت کے فرائض کی بجاآوری میں پورا نکلے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تہوار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے، جو خدائے پاک کی فرماں برداری میں پورا اُترنے کی عید مناتی ہو۔

مؤرخین کے بیان کے مطابق ۲ ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ صدقۂ عیدالفطر کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضوؐر نے پہلے ایک خطبہ دیا جس میں اس صدقہ کے فضائل بیان فرمائے پھر صدقہ کا حکم دیا۔ عیدالفطر کی نمازباجماعت عیدگاہ میں اسی سال ادا فرمائی۔ ۲ ہجری سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔

اسلام کے ارکان، یعنی توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج جب نبی اُمّی ؐ کی زبان سے خالقِ اکبر نے بندوں کی اصلاح و فلاح کے لیے ہدایت فرمائے تو مقصود یہ تھا کہ ان کی پابندی سے مسلم بحیثیت فرد وہ انسان بن سکے جسے وحیٔ خداوندی احسن التقویم کے نام سے تعبیر کرتی ہے اور ملّت ِاسلامیہ وہ ملّت بن جائے جو قرآنِ پاک کے الفاظ کے مطابق دُنیا کی بہترین اُمت ہو اور اپنے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کے اصول کو ہمیشہ سامنے رکھنے والی ہو۔ اسلام کا ہررکن انسانی زندگی کے صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزارہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی رکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنا ہیں جسے ’صوم‘ کہتے ہیں اور جس کی پابندی کے شکرانہ میں آج آپ عید منارہے ہیں۔

  • روزے کا فلسفہ: روزے پہلی اُمتوں پر بھی فرض تھے۔ گو، اُن کی تعداد وہ نہ ہوجو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لیے قرار دیئے گئے کہ انسان پرہیزگاری کی راہ اختیار کرے۔ خدا نے فرمایا: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ (البقرہ ۲:۱۸۳) [تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی]۔گویا روزہ انسان کو پرہیزگاری کی راہ پر چلاتا ہے۔ اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں۔ یہ خیال کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے، صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کی صفائی کا یہ طریق، یہ ضبط، یہ حیوانی خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملّت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔

وہ فائدے جو ایک ’فرد‘ کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہوسکتے تھے کہ روزے بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لیے جاتے یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور مہینوں میں رکھ لیے جاتے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اس کی روحانی نشوونما پیش نظر ہوتی تو بے شک یہ ٹھیک تھا لیکن ’فرد‘ کے علاوہ تمام ملّت کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارع برحق کے سامنے تھی۔

  • عید کی حکمت :آج کی عید عیدالفطر کہلاتی ہے۔ پیغمبر ؐ خدا نے جب عید کے لیے عیدگاہ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ساتھ ہی صدقہ عیدالفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ تعجب نہیں کہ عید کا دن مقرر کرنے کی غرض ہی شارع علیہ الصلوٰۃ کے نزدیک صدقۂ عیدالفطر کا جاری کرنا ہو۔ حق یہ ہے کہ زکوٰۃ اور اصولِ تقسیمِ وراثت کے بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا صدقات کا تھا، اور ان صدقات میں سب سے بڑھ کر صدقۂ عیدالفطر کا اس لیے کہ یہ صدقہ ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
  • روزوں کا ملّی فائدہ:رمضان کا مہینہ آپ نے اس اہتمام سے بسر کیا ہے کہ کھانے پینے کے اوقات کی پابندی سیکھ لی۔ اپنی صحت درست کرلی۔ آیندہ گیارہ مہینے کئی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے قابل اپنے آپ کو بنا لیا۔ کفایت شعاری سیکھی۔ رزق کی قدروقیمت سیکھی۔ یہ سب ذاتی فائدے تھے۔ صیام کا قومی اور ملّی فائدہ یہ ہے کہ صاحب ِ توفیق مسلمانوں کے دلوں میں اپنی قوم کے مفلس اور محروم افراد کی عملی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور صدقۂ فطر کے ادا کرنے سے قوم میں ایک گونہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم ہو۔ حکم یہ ہے کہ ’عید‘ کی نماز میں شرکت سے پہلے ہرصاحب ِ توفیق مسلمان صدقۂ فطر ادا کرکے عیدگاہ میں آئے۔ اس سے مقصود یہ نہیں کہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات صرف ایک آدھ دن کے لیے قائم ہوجائے، بلکہ ایک مہینہ کا متواتر ضبط ِ نفس تم کو اس لیے سکھایا گیا ہے کہ تم اقتصادی اور معاشرتی مساوات کو قائم رکھنے کی کوشش تمام سال کرتے رہو۔
  • نزولِ قرآن کی سالگرہ:باقی رہا یہ امر کہ روزے ماہِ رمضان کے ساتھ ہی کیوں مختص کیے جائیں؟ سو، واضح رہنا چاہیے کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار کو مدنظر رکھ کر ’صیام‘ کے زمانی تسلسل کو ضروری سمجھا ہے۔ اس تسلسل کے لیے وقت کی تعیین لازم تھی اور چونکہ اسلام کا اصل مقصود انسانوں کو احکامِ الٰہی کی فرماں برداری میں پختہ کرنا تھا، اس لیے صیام کو اس مہینہ سے مختص کیا گیا جس میں احکامِ الٰہی کا نزول شروع ہوا تھا۔ بالفاظِ دیگر یوں کہو کہ مسلمانوں کو ہرسال ایک پورا مہینہ کامل تزکیۂ نفس کے ساتھ نزولِ قرآنِ حکیم کی ’سالگرہ‘ منانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ احکامِ الٰہی کی حُرمت و تقدیس ہمیشہ مدنظر رہے اور نمازِ تراویح پر کاربند ہوکر قوم کے ہرفرد کو اجتماعی حیات کا قانون عملاً اَزبر ہوجائے۔

اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔ قرآن میں جہاں مسائل ’صیام‘ کے ذکر کے بعد یہ فرمایا کہ تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝۱۸۷  (البقرہ ۲:۱۸۷) [یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے]۔  وہاں ساتھ ہی ملحق بطور ان تمام باتوں کے نتیجے کے یہ حکم بھی دیا: وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۸ۧ  (البقرہ ۲:۱۸۸) [اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے اُن کو اِس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے]۔

  • دوسروں کے اموال پر ناجائز تصرف:روزہ رکھ کر مفلسوں سے محض ہمدردی کا احساس پیدا کرلینا کافی نہ تھا۔ عید کے دن غرباء کو دوچار دن کا کھانا دے دینا کافی نہ تھا۔ طریق وہ اختیار کرنا مقصود تھا جس سے مستقل طور پر دُنیاوی مال و متاع سے انتفاع کے قواعد اس طور پر قائم ہوں کہ جہاں تقسیمِ وراثت اور زکوٰۃ سے ملتِ اسلامیہ کے مال و متاع میں ایک گونہ مساوات پیدا ہو، وہاں اس مساوات میں ایک دوسرے کے اموال میں ناجائز تصرف سے کسی قسم کا خلل نہ آئے۔ روزوں کے التزام سے صرف انفرادی روحانیت کی ترقی یا زیادہ سے زیادہ انسانوں کے ساتھ  ایک ہنگامی ہمدردی ہی مقصود نہیں بلکہ شارع کی نظر اس بات پر ہے کہ تم اپنے اپنے حلال کے کمائے ہوئے مال پر قناعت کرو اور دوسروں کے کمائے ہوئے مال کو باطل طریقوں سے کھانے کی کوشش نہ کرو۔ اس باطل طریق پر دوسروں کا مال کھانے کی بدترین روش قرآن کے نزدیک یہ ہے کہ مال و دولت کے ذریعے حکام تک رسائی حاصل کی جائے اور ان کو رشوتوں سے اپنا طرف دار بناکر اوروں کے مالوں کو اپنے قبضہ میں لایا جائے۔
  • مقدمے عدالتوں میں نہ لـے جاؤ : مذکورہ بالا آیت میں اثم کے معنی بعض مفسرین نے جھوٹی گواہی کے لیے ہیں۔ علمائے قرآن نے ’حکام‘ سے مرادمسلمانوں کے اپنے مفتی ، قاضی اور سلطان لیے ہیں۔ جب اپنے فقیہوں اور قاضیوں کے پاس جھوٹے مقدمے بنا کر لے جانے والے کو خدا نے مذموم قرار دیا ہو تو سمجھ لو کہ غیراسلامی حکومتوں کے حکام کے پاس اس قسم کے مقدمات لے جانا کس قدر ناجائز ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھنے کی آخری غرض یہ تھی کہ آیندہ تمام سال اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو کہ اگر اپنا مال ایک دوسرے کو بانٹ کر دے نہیں سکتے تو کم سے کم ’حکام‘ کے پاس کوئی مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جائو جس میں ان کو رشوت دے کر حق و انصاف کے خلاف دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا مطلوب ہو۔

آج کے دن سے تمھارا عہد ہونا چاہیے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآنِ حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے اس کو تم ہمیشہ مدنظر رکھو گے۔

  • اِسراف اور مقدمہ بازی چھوڑو:مسلمانانِ پنجاب اس وقت [یعنی ۱۹۳۲ء میں] تقریباً سوا ارب روپے کے قرض میں مبتلا ہیں اور اس پر تقریباً بیس کروڑ روپیہ سود ادا کرتے ہیں۔ کیا اس قرض اور اس سود سے نجات کی کوئی سبیل سوائے اس کے ہے کہ تم احکامِ خداوندی کی طرف رجوع کرو اور مالی اور اقتصادی غلامی سے اپنے آپ کو رہا کرائو۔ تم اگر آج فضول خرچی چھوڑنے کے علاوہ مال و جائیداد کے جھوٹے اور بلاضرورت مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دو تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ چند سال کے اندر تمھارے قرض کا کثیر حصہ اَزخود کم ہوجائے گا اور تم خود تھوڑی مدت کے اندر قرض کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کرا لو گے۔ نہ صرف یہ بلکہ مالی مقدمات کا ترک تمھیں اس قابل بنا دے گا کہ تم وہی روپیہ جو مقدموں اور رشوتوں اور وکیلوں کی فیسوں میں برباد کرتے ہو، اس سے اپنی تجارت اور اپنی صنعتوں کو فروغ دے سکو گے، کیا اب بھی تم کو رجوع الی القرآن کی ضرورت محسوس نہ ہوگی اور تم عہد نہ کرلو گے کہ تمام دُنیاوی اُمور میں شرعِ قرآنی کے پابند ہوجائو گے؟

کس انتباہ کے ساتھ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ اِیَّـاکُمْ وَالْدِّیْنَ فَاِنَّہٗ ھَمٌّ بِاللَّیْلِ وَمذَلَّۃٌ بِالنَّھَارِ[البیہقی فی شعب الایمان، فصل التشدید فی الدین، حدیث:۵۲۹۴] دیکھو قرض سے بچنا، قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔

حضورؐ کی ایک حدیث

اس خطبے میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے صرف اقتصادی پہلو ہی پر نظر ڈالی گئی ہے۔ شاید عیدالاضحی کے موقعے پر اسی قسم کے ایک خطبے میں اسلامی زندگی کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ فی الحال میں حضور سرورِ کائناتؐ کی ایک حدیث پر اس خطبے کو ختم کرتا ہوں جو ایک نہایت لطیف پیرایہ میں رُشد و ہدایت کی تمام شاہراہوں کو انسان پر کھول دیتی ہے:

أَمَرَنِیْ رَبِّیْ بِتِسْعٍ الْاِخْلَاصِ فِی السِّرِّ  وَالْعَلَانِیَۃُ ، وَالْعَدْلِ فِی الْغَضَّبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدِ  فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی ،  وَ أَنْ اُعْفُوَ  عَنْ  مَنْ  ظَلَمَتَی  ، ووأَصِلُ منْ قَطَعَنِی  ، وَأُعْطِیَ مَنْ حَرَمَنِیْ  ، وَأَنْ یَکُوْنَ نُطْقِیِ ذِکْرًا   وَصَمَتِی فِکْرًا  وَنَظَرِیْ عِبْرَۃِ [الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، جلد۷، ص۳۴۶، دارعالم الکتب،الریاض، ۲۰۰۳ء] مجھے میرے ربّ نے نو باتوں کا حکم دیا ہے: ظاہر و باطن میں اخلاص پر کاربند رہنا، غضب و رضا دونوں حالتوں میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانےدینا، فقروتونگری میں میانہ روی، جو شخص مجھ پر زیادتی کرے، اس کو معاف کردوں، جو مجھ سےقطع رحمی کرے، میں اس سے صلۂ رحمی کروں، جو مجھے محروم کرے، میں اس کو اپنے پاس سے دوں، میرا بولنا ذکرالٰہی کے لیے ہو۔ میری خاموشی غوروفکر کے لیے، اور میرا دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لیے ہو۔(ماہ نامہ رسالہ صوفی، مارچ ۱۹۳۲ء، مقالاتِ اقبال، مرتبہ: سیّد عبدالواحد معینی، محمد عبداللہ قرشی، آئینہ ادب، ۱۹۸۸ء،ص ۲۸۲-۲۸۸)

{علّامہ محمد اقبال ؒنے یہ خطبہ عیدالفطر۱۳۵۰ھ/۱۹۳۲ء کو دیا، جسے ’انجمن اسلامیہ پنجاب‘ لاہور نے شائع کیا۔}

دُعائوں کی صورت میں، عربی زبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤثر نثری نمونے ہیں، جو سچے انسانی تاثرات، پاکیزہ و بلندپایہ قلبی احساسات اور بلیغ ترین اسلوب و طرز ادا پر مشتمل ہیں۔ آپؐ کی حیاتِ مبارک سراپا تقویٰ تھی اور سچے انسانی احساسات سے آراستہ تھی۔ آپؐ عربوں کے فصیح ترین قبیلے قریش میں پیدا ہوئے اور فصیح ترین ہی قبیلے بنوسعد میں آپؐ کی پرورش ہوئی۔ پھر آپؐ نے وحی الٰہی کے سایہ اور الہامِ سماوی کی آغوش میں تربیت پائی۔ پھر خوان قرآنی سے کسبِ فیض فرمایا۔ بھلا آپؐ سے زیادہ پاکیزہ گفتار، شیریں کلام، راست گو اور بلیغ و مؤثر تعبیرات والا کون ہوسکتا تھا؟ صلی اللہ علیہ وسلم__ اللہ کی طرف سے آپؐ پر بے شمار درود و سلام ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ادب پارے سب کے سب نثری ہیں، کیونکہ خود آپؐ نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ اس کی شہادت خود کتابِ الٰہی د ے رہی ہے:

وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہٗ۝۰ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ۝۶۹ۙ (یٰس ۳۶:۶۹)  ہم نے اس [نبیؐ] کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے۔ یہ تو ایک نصیحت ہے، اور صاف پڑھی جانے والی کتاب ۔

کلامِ نبویؐ بیک وقت سادہ بھی ہے اور پرکار بھی۔ اس میں بے تکلفی بھی ہے اور شیرینی بھی۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں گویا معانی کی ایک دُنیا آباد ہے۔ محل اگر اختصار کا متقاضی ہے تو کلام مختصر ہے اور اگر ضرورت دراز نفسی کی طالب ہے تو کلام طویل ہے۔ آپؐ کی گفتگو تکلف و تصنع سے پاک اور رواں دواں ہوتی تھی۔ آپؐ نامانوس اور اجنبی کلمات سے دُور اور سوقیانہ، عامی الفاظ سے نفور تھے۔ آپؐ کا کلام، ادب کی مختلف عمدہ اصناف پرمشتمل ہے، مثلاً: تمثیلاتِ فائقہ، اقوالِ حکیمانہ و عالیہ، امثالِ نفیسہ، وصایائے مفیدہ، رُشد و ہدایت، شریعت و تربیت اور مناجات و دُعا وغیرہ۔

پھر ان تمام اصناف میں سب سے زیادہ پُرتاثیر، اپنے ربّ کے حضور آپؐ کی دُعائیں ہیں۔ یہ دُعائیں اس قدر طاقت ور، جامع اور پُراثر ہیں کہ ان سے عربی ادب میں نہ صرف یہ کہ ایک نئی صنف کا آغاز ہوا بلکہ اس نے ادب کی طاقت ور ترین صنف کا درجہ حاصل کرلیا۔ اسلوب کے لحاظ سے یہ دُعائیں متین ہیں اور معنویت سے لبریز بھی۔نیز دُعا کرنے والے کے اندرونی احساسات، اس کے اُبلتے ہوئے جذبات اور اپنے ربّ کے حضور اس کی لجاجت و انکسار کی بلیغانہ تصویرکشی کرتی ہیں۔

اس کی ایک مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دُعا ہے، جو آپؐ نے طائف میں فرمائی تھی۔ جہاں آپؐ ایک اجنبی اور غریب الوطن کی حیثیت رکھتے تھے اور کسی حامی و مددگار کی تلاش میں تشریف لے گئے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپؐ کے چچا ابوطالب وفات پاچکے تھے، جو قوم کی ایذائوں سے آپؐ کو بچاتے تھے اور آپؐ کی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہؓ بھی وفات پاچکی تھیں، جو آپؐ کی معاون و غمگسار تھیں۔ لیکن طائف جو مکہ جیسا ہی شہر تھا، وہاں کے باشندوں کے درمیان آپؐ کو اہلِ مکہ سے بھی زیادہ سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں کے سرداروں نے آپؐ کو سختی کے ساتھ جھڑک دیا اور وہاں کے شرارت پسند آپؐ کے پیچھے لگ گئے۔ پھر انھوں نے آپؐ پر اس قدر پتھر برسائے کہ آپؐ کے دونوں پائے مبارک لہولہان ہوگئے۔ اس وقت آپؐ کا دل شدتِ الم سے چُور چُور تھا۔ ظالموں نے مکہ سے طائف تک کے طویل سفر کے بعد آپؐ کو دم لینے کی مہلت بھی نہ دی تھی۔ اس لیے آپؐ طائف کی آبادی سے باہر نکل کر ایک کھلی جگہ میں بیٹھ گئے، جہاں شاید بجز آپؐ کے خادم و غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ کے نہ کوئی مونس تھا، نہ غم گسار۔ آپؐ نے اس حال میں یہ دُعا فرمائی، جو آپؐ کی زخموں سے چُور لیکن حلیم شخصیت کی راست ادبی تصویر ہے:

  •  اللَّھُمَّ اِلَیْکَ أَشْکُوْا ضَعْفَ قُوَّتِیْ، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ، وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ،  أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ ،    اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ إِلٰی عَدُوٍّ یَتَجَھَّمُنِی أَمْ إِلٰی قَرِیبٍ مَّلَّکْتَہُ أَمْرِی؟ إِنْ لَّمْ یَکُنْ غَضْبَانَ عَلَیَّ فَلَا أُبَالِیْ غَیْرَ أَنَّ عَافِیَتَکَ أَوْسَعُ لِیْ، أَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ أَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ وَصَلَحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ، أَنْ یَنْزِلَ بِیْ غَضَبُکَ أَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ الْعُتْبَی حَتَّی تَرْضَی وَلَا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ. [الطبرانی، کتاب الدعاء، باب الدعاء عند الکرب والشدائد، ج۱، ص۳۱۵) اے اللہ! میں آپ سے اپنی کمزوری اور بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین ذات! آپ مجھے کس کے حوالے کر رہے ہیں؟ کیا اس دُور دراز شخص کے جو مجھ سے برہمی کے ساتھ پیش آتا ہے؟ یا آپ نے میری زمامِ کار کسی دشمن کو سونپ دی ہے؟ لیکن اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے ان سب کی کچھ پروا نہیں ہے۔ مگر پھر بھی آپ کے سایۂ عافیت میں میرے لیے زیادہ گنجایش ہے۔ میں آپ کی ذات کے اس نُور کی پناہ چاہتا ہوں، جس سے ظلمتیں روشن ہیں اور جس کے سہارے دُنیا و آخرت کے تمام اُمور اپنے صحیح رُخ پر چل رہے ہیں۔ اس بات سے پناہ کہ مجھ پر آپ کا غصہ اُترے اور آپ ناراضی نازل فرمائیں۔ آپ ہی کا حق ہے کہ آپ کو منایا جائے تاآنکہ آپ راضی ہوجائیں۔ آپ کی مدد کے بغیر نہ کسی طاقت کا وجود ہے، نہ قوت کا۔

اس دُعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار غالب و قادر و مہربان کے سامنے اپنی ناتوانی کا بیان فرما رہے ہیں، جو اس وقت عملاً سامنے آئی اور وہ یہ کہ رُؤسائے ثقیف کے سامنے آپؐ کی ایسی بےوقعتی ہوئی جو آپؐ جیسے قریشی کے لیے بالکل نئی چیز تھی۔ کیونکہ قبیلۂ ثقیف کے قریش کےساتھ قریبی برادرانہ روابط تھے۔ پھراپنے پروردگار سے مہربانیوں کی طلب کرتے ہوئے اور اس کی جناب میں الحاح و زاری کرتے ہوئےعرض کرتے ہیں: رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ ، (اے کمزور سمجھ لیے جانے والوں کے پالنہار)، پھر اللہ سے رحمت کی خواستگاری کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں: اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ إِلٰی عَدُوٍّ یَتَجَھَّمُنِی أَمْ إِلٰی قَرِیبٍ مَلَّکْتَہُ أَمْرِی؟ (آپ مجھے کس کے حوالے کررہے ہیں؟ کیا اس دُور دراز شخص کے جو مجھ سے برہمی کے ساتھ پیش آئے؟ یا آپ نے میری زمامِ کار کسی دشمن کو سونپ دی ہے؟)۔ پھر آپؐ کو تنبیہ ہوتی ہے اور آپؐ تاسف و اضطراب کی کیفیت پر قابو پالیتے ہیں۔ یہ حقیقت پیش نظر آجاتی ہے کہ آپؐ کا ربّ ان سب باتوں کو جانتا ہے۔ آپؐ کا کوئی معاملہ اس سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور نہ وہ آپؐ سے غافل ہے۔ اسی نے تو آپؐ کو منتخب فرمایا اور منصب ِ رسالتؐ پرفائز کیا ہے، نیز تبلیغ رسالت کی ذمہ داری عائد کی ہے، تو کیا وہ آپؐ کو یوں ہی بے یارومددگار چھوڑ دے گا؟ لیکن آخر یہ سب کچھ ہوا کیوں کر؟ کیا آپؐ کا پروردگار آپؐ سے ناراض ہے؟ اس لیے عرض کرتے ہیں:

اِنْ لَمْ تَکُنْ غَضْبَانَ عَلَیَّ فَلَا أُبَالِیْ غَیْرَ أَنَّ عَافِیَتَکَ أَوْسَعُ لِیْ ،  اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں تو یہ جو کچھ ہوا مجھے اس کی پروا نہیں ہے، مگر پھر بھی آپ کا سایۂ عافیت میرے لیے زیادہ گنجایش رکھتا ہے۔

پھر آپؐ اللہ تعالیٰ سے پناہ کی درخواست ، اس کی عظمت و رحمت کا تذکرہ اور ہمیشہ کی رضا کا سوال کرتے ہیں، کیونکہ اس کی مدد کے بغیر نہ طاقت کا وجود ہے اور نہ قوت کا۔

دُعا و مناجات کلامِ انسانی کی جولاں گاہ ہے، جہاں صاحب ِ دُعا کے باطنی احساسات صاف نظر آتے ہیں۔ جہاں اس کے بے چین و غم زدہ دل کی تصویرسامنے آجاتی ہے، اور جہاں جذبات مجسم ہوجاتے ہیں اور الفاظ کا ایسا جامہ پہن لیتے ہیں کہ ان میں اثرانگیزی کی صفت پیدا ہوجاتی ہے،اور وہ سننے والے کے دل میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔ پھر اگر صاحب ِ دُعا کا یہ رُتبہ ہو کہ زبان و بیان پر اس کی اعلیٰ درجے میں گرفت ہو اوراس کا کلامِ بلاغت کا درجہ رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں قاری و سامع، صاحب ِ دُعا کے الفاظ میں اس کی روح کو چھو کر محسوس کرسکتا۔

چنانچہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائوں کی یہی شان ہے۔ ان میں آپؐ کی معجزانہ بلاغت پوری طرح جلوہ گر ہے اور یہ ایسی خصوصیات و امتیازات سے مزین ہیں، جن کا سرچشمہ قرآنِ پاک کی مؤثر تعلیمات ہیں، کیونکہ اگلے انبیا و رُسل علیہم السلام کی دُعائوں کے مؤثر قرآنی نمونے آپؐ پر نازل ہوئے اور آپؐ نے انھی کی آغوشِ رحمت میںتربیت پائی۔ یہ دیکھنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ آپؐ نے اپنے باطنی احساسات کی تصویرکشی اور ترجمانی کس طرح فرمائی ہے؟ اس کی ایک مثال تو وہ دُعا تھی جس کا ذکر طائف کے سلسلے میں گزر چکا۔

دوسری مثال دُعائے بدر ہے۔ اس دن بھی آپؐ پر بے چینی اور اضطراب کی اثرانگیز کیفیت طاری تھی۔ اس دن مسلمان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں پہلی بار دشمنانِ کفّار کے مقابل صف آرا ہوئے تھے۔ یہ اسلام کے حق میں ایک فیصلہ کن دن تھا۔ وہ اسلام جس کی تبلیغ اور استحکام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام صلاحیتیں اور قوتیں لگا دی تھیں۔ اس کے بچائو کی تدبیریں کی تھیں اور اس کی راہ میں آپؐ نے اور آپؐ کے نیکوکار صحابہ نے ہر طرح کی اذیتیں جھیلی تھیں۔ یقینا یہ ایک عظیم الشان فیصلہ کن دن تھا۔ اس دن کفّارِ مکّہ چاہتے تھے کہ اپنی تمام تر طاقت،  قوت اور شان و شوکت کا مظاہرہ کریں اور اسلام کے خلاف جو کچھ کرسکتے ہیں ، کرگزریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حریف کے مقابل اپنے لشکر کو صف آرا کیا، اور مقدور بھر تیاری اور سازوسامان کی فراہمی کی، اور پھر تنہائی میں ایک چھپر تلے اپنے ربّ کے حضور مصروفِ دُعا و مناجات ہوگئے۔ وہاں بجز حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اور کوئی نہ تھا۔ رسول ؐ اللہ کی یہ کیفیت تھی کہ آپؐ اپنے ربّ سے اس مدد کی طلب فرما رہے تھے، جس کا اللہ کی طرف سے وعدہ تھا۔ دُعا کے درمیان خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری تھے:

  • اللَّھُمَّ اِنَّکَ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ الْیَوْمَ لَا تُعْبَدُ  [دلائل النبوۃ للبیہقی، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ط ۱، ۱۹۸۸ء، ج ۳،ص ۸۱ ] اے اللہ! اگر آج کے دن یہ مٹھی بھر جماعت مٹ گئی، تو پھر آپ کی عبادت نہ کی جاسکے گی۔

پھر آپؐ کی مناجات اور الحاح و زاری اس قدر بڑھ گئی کہ آپؐ کے رفیق حضرت ابوبکرصدیقؓ بے چین ہوکر کہہ اُٹھے:’’اے اللہ کے نبیؐ! اب بس کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ سے کیے ہوئے وعدے کو ضرور پورا فرمائے گا‘‘۔

دُعائے بدر کے سلسلے میں راویوں سے یہی چھوٹا سا جملہ منقول ہے، جسے آپؐ کے الحاح و اضطراب کی ایک علامت اور سُلگتے ہوئے احساسات کی ترجمانی کہہ سکتے ہیں ۔ اگر دُعا کی پوری عبارت منقول ہوتی،جس کا یہ جملہ ایک جزو ہے، تو وہ شدتِ تاثیر اور خوبی ٔ ادا کی ایک اور شان دار مثال سامنے آتی۔ اس کا کسی قدر اندازہ ہم آپؐ کی ایک دوسری دُعا، ’دُعائے عرفات‘ سے لگا سکتے ہیں۔ یہ دُعا بھی آپؐ کے احساساتِ قلب کی تصویر اور ربّ العالمین کے حضور عبودیت ِ خالصہ کی تعبیر ہے۔ اس دُعا کے الفاظ میں ایک خاص طرح کی متانت اوراسلوب میں نرمی و لطافت ہے۔ عرض کرتے ہیں:

  • اللَّھُمَّ اِنَّکَ تَسْمَعُ کَلَامِی، وَتَرَی مَکَانِی، وَتَعْلَمُ سِرِّی وَعَلَانِیَتِیْ، لَا یَخْفَی عَلَیْکَ شَیْئٌ مِنْ أَمْرِیْ [المعجم الکبیر للطبرانی، مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، ط۲، ۱۹۹۴ء، ج۱۱، ص۱۷۴] اے اللہ! آپ میری باتوں کو سن رہے ہیں، میری صورتِ حال کو دیکھ رہے ہیں۔ میرا باطن و ظاہر آپ کے علم میں ہے، میرا کوئی معاملہ آپ سے مخفی نہیں۔

اس کلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جلیل و کریم ربّ کے حضور اپنی ناتوانی کا اعتراف فرما رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اپنے ربّ کے حضور، بندے کی حالت و کیفیت دوسرے تمام احوال و کیفیات سے غایت درجہ مختلف ہوتی ہے۔ اسے نہ کسی بادشاہ اور اس کی کسی رعایا کی وضع و کیفیت کے مشابہ کہہ سکتے ہیں، اور نہ کسی آقا اور اس کے کسی غلام کی صورتِ حال کے مماثل قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں تو یہ کیفیت ہے کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں اس کا ایک بندہ حاضر ہے، جسے اپنے ربّ کی کامل و ہمہ جہت ربوبیت پر پورا ایمان اور اس قدرتِ کاملہ پر کُلی اعتماد ہے۔ آپؐ نے اس دُعا میں ربِّ عظیم کے سامنے اپنی حالت ِ زار پیش کی ہے اور چنانچہ عرض کرتے ہیں:

أَنَـا الْبَائِسُ الْفَقِیْرُ، اَلْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ [المعجم الکبیر للطبرانی، مکتبۃ ابن تیمیۃ، ج۲، ۱۹۹۴ء، ج۱۱، ص ۱۷۴] میں ہوں بے چارہ، مصیبت زدہ، محتاج ، فریادی، پناہ جُو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ذریعے ، اس اشارئہ ربانی کی موافقت فرمائی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَالضُّحٰى۝۱ۙ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى۝۲ۙ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى۝۳ۭ وَلَلْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى۝۴ۭ وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى۝۵ۭ اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى۝۶۠ وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَہَدٰى۝۷۠ وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى۝۸ۭ (الضحٰی۹۳: ۱-۸) قسم ہے روزِ روشن کی اور رات کی، جب کہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے، (اے نبیؐ) تمھارے ربّ نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ اور یقینا تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمھارا ربّ تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجائو گے۔ کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقف ِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کر دیا۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وقت ِ چاشت اور وقت ِ صبح کو اس بات کا گواہ بنایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا معاملہ خصوصی توجہ اور رحمت ِ خاص کا ہے، اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کے لیے حالت ِ احتیاج و ناتوانی میں وسائل زندگی فراہم کیے۔ کیونکہ وراثت میں آپؐ کو نہ مال ملا، نہ دولت۔ پھر آپؐ کا کوئی کفیل بھی نہ تھاکیونکہ آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی والدماجد وفات پاچکے تھے اور ابھی عہدِ طفولیت ہی تھا کہ والدہ محترمہ بھی چل بسیں، پھر کم سنی ہی میں مکرم و معظم دادا کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس طرح جب آپؐ نے رواں دواں زندگی کے حدود میں قدم رکھا تو آپؐ بےسروسامانی میں تھے لیکن ربّ رؤوف نے آپؐ کی دست گیری فرمائی اور آپؐ کے لیے اسبابِ غنٰی فراہم کر دیئے۔ تلاوتِ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا ہی، اس لیے آپؐ اپنی دُعا میں ان تمام اُمور کو ملحوظ رکھ کر عرض کرتے ہیں:

  • أَنَـا الْبَائِسُ الْفَقِیْرُ، اَلْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ [المعجم الکبیر للطبرانی، مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، ط۲، ۱۹۹۴ء، ج۱۱، ص۱۷۴] میں ہوں بے چارہ، مصیبت زدہ، محتاج، فریادی، پناہ جُو۔

پھرجب آپؐ کی نگاہ تبلیغِ رسالت کی اس عظیم ذمہ داری کی جانب ملتفت ہوئی، جو آپؐ کے کندھوں پر ڈال دی گئی تھی، اور جس کے بوجھ تلے پشت ِ مبارک گویا ٹوٹی جارہی تھی۔ جب آپؐ نے راہِ تبلیغ میں اپنی کوششوں کا جائزہ لیا اور انھیں درجۂ مطلوب سے کم سمجھا تو آپؐ پر خشیت طاری ہوگئی اور اعترافِ خطا کا اعلان فرماتے ہوئے مصروفِ دُعا ہوگئے:

اَلْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفْ  بِذَنْبِہٖ [میں ہی ہوں اپنی خطائوں کا معترف اور مقر]۔

پھر آپؐ نے احساسِ ناتوانی کی اس فضا میں کامل درجہ الحاح و زاری کے ساتھ عرض فرمایا:

أَسْئَلُکَ مَسْألَۃَ الْمِسْکِینِ، وأَبْتَھِلُ اِلَیْکَ اِبْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیلِ، وأدْعُوْکَ دُعاءَ الْخَائفِ الضَّرِیْرِ، مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہ، وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہ، وذَلَّ لَکَ جِسْمُہ، وَرَغِمَ لَکَ أَنْفُہ  [معجم الشیوخ لابن جمیع الصیداوی، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، طبع:۱، ۱۹۸۵ء، ص:۲۱۳]میں ایک بڑے بے کس کی طرح آپ سے سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی طرح گڑگڑاتا اور آہ و زاری کرتا ہوں جو خطاکار بھی ہو اور  بے عزّت بھی ہو، اور خوف زدہ و آفت رسیدہ شخص کی طرح آپ کو پکارتا ہوں، جس کی گردن آپ کے آگے جھکی ہوئی ہو اور جس کا بدن احساسِ ذلّت سے دبا جارہا ہو اور جو کہ احساسِ ندامت سے ناک رگڑ رہا ہو۔

اس حالت سے بڑھ کر فروتنی اور لجاجت کی اور کون سی حالت ہوگی، جس میں ناتوانی ، بے کسی اور تحیر کی تمام کیفیات جمع ہوگئی ہیں۔ اور جس کی ترجمانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربِ قادر و جلیل کی ربوبیت کے سامنے عبدیت ِ کاملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمائی ہے:

  • اللَّھُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَائِکَ شَقِیًّا، وَکُنْ بِیْ رَؤُوْفًا رَحِیْمًا، یَا خَیْرَ المَسْؤُوْلِیْنَ، وَیَاخَیْرَ الْمُعْطِینَ [المعجم الصغیر للطبرانی، ج۲،ص۱۵] اے اللہ! میں نے یہ دُعا جو آپ سے کی ہے، اس میں مجھے ناکام نہ بنایئے، مجھ پر مہربان و رحیم ہوجایئے۔ ان سب سے بہتر جن سے مانگا جائے اور اے ان سب سے بہتر جو دے سکتے ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ذریعے اپنے ربّ کو پکارا ہے۔ اس سے سرفرازی، رحمت، حفاظت اور مہربانی کی درخواست کی ہے۔

اب یہ دعا مکمل اور مسلسل صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کی عبارت میں ایک خاص طرح کی ہم آہنگی اور مسحورکُن حُسن ہے۔ پھر ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی جانب منتقل ہونے کا عمل بھی فطری محسوس ہوتا ہے۔ آپؐ عرض کرتے ہیں:

  • اللَّھُمَّ إنَّکَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ، وَتَرَی مَکَانِیْ، وَتَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَتِیْ، لَا یَخْفَی عَلَیْکَ شَیْئٌ مِنْ أَمْرِیْ، وَأَنَا  الْبَائِسُ الْفَقِیرُ، الْمُسْتَغِیثُ الْمُسْتَجِیرُ، الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ، الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنْبِہٖ، أَسْئَلُکَ  مَسْألَۃَ الْمِسْکِیْنِ، وأَبْتَھِلُ إلَیْکَ اِبْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیْلِ، وأَدْعُوْکَ دُعَاءَ الْخَائِفِ الضَّرِیْرِ، مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہ، وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہ، وذَلَّ جَسَدُہ، وَرَغِمَ أَنْفُہ، اللَّھُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَائِکَ شَقِیًّا، وَکُنْ بِیْ رَؤُوْفًا رَحِیْمًا، یَا خَیْرَ المَسْؤُوْلِیْنَ، وَیَا خَیْرَ الْمُعْطِینَ [معجم الشیوخ لابن جمیع الصیداوی، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، طبع:۱، ۱۹۸۵ء، ص:۲۱۳] اے اللہ! آپ میری باتوں کو سن رہے ہیں، اور میری صورتِ حال کو دیکھ رہے ہیں، میرے باطن و ظاہر سے واقف ہیں، میری کوئی بات آپ سے پوشیدہ نہیں ہے، میں ہوں مصیبت زدہ ، محتاج، فریادی، پناہ جُو، ترساں، ہراساں، اپنی خطائوں کا معترف۔ میں آپ سے بے کس کی طرح سوال کرتا ہوں۔ گناہ گار کی طرح آپ کے آگے گڑگڑاتا ہوں۔ خوف زدہ و آفت رسیدہ کی طرح آپ کو پکارتا ہوں۔ اس شخص کی پکار کی طرح جس کی گردن آپ کے آگے جھکی ہوئی ہو، اس کے آنسو آپ کے لیے بہہ رہے ہوں، وہ فروتنی کیے ہوئے ہو اور آپ کے آگے اپنی ناک رگڑ رہا ہو۔ اے اللہ! مجھے اپنی اس دُعا میں ناکام نہ بنایئے۔ مجھ پر مہربان و رحیم ہو جایئے۔ اے مانگے جانے والوں میں سب سے بہتر اور اے دینے والوں میں سب سے بہتر۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کو ’مغز عبادت‘ بتلایا ہے۔ فی الواقع یہ دُعا کی بہت عمدہ تعریف ہے۔ اس لیے کہ دُعا ایک ایسا عمل ہے، جس کےتمام گوشے اور زاویے روحِ عبودیت سے معمور ہوتے ہیں۔ اسی طرح دُعا، صاحب ِ دُعا کے ذہن و دماغ کو اپنے خالق و پروردگار سے حددرجہ قریب کر دیتی ہے۔ چنانچہ، دُعا خواں جب اخلاص و طمانیت کے ساتھ اپنے ربّ سے محوِ مناجات ہوتا ہے، تو ایسا لگتا ہے گویا وہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکا ہوا ہے اور بار بار اسے دیکھے جارہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کی تعبیر کلمۂ ’احسان‘ سے فرمائی ہے۔

چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں: ’احسان‘ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو۔ یہ کیفیت حاصل نہ ہوسکے تو یہ تو حقیقت ہی ہے کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی یہی کیفیت تھی۔ رہ گئیں آپؐ کی دُعائیں اور مناجاتیں، تو وہاں یہ کیفیت قوی ترین شکل میں ظاہر ہوتی تھی۔ چنانچہ آپؐ جب مصروفِ دُعا ہوتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا اس جانی پہچانی دُنیا سے نکل کر کسی اور دُنیا میں تشریف فرما ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دُعائیں جو اسلوب کے لحاظ سے اُن قرآنی دُعائوں سے بہت قریب ہیں، جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آپؐ کی تعلیم کے لیے فرمایا ہے، یا انبیائے سابقینؑ کی دُعائوں کے سیا ق میں کیا ہے۔آپؐ کی دُعائوں کا جائزہ لیا جائے تو انسانی قلب ان کی قدروقیمت کے احسا س سے معمور اور ان کے زیراثر پیدا شدہ فضا کی بلند پائیگی سے مسحور ہوجاتا ہے۔ ان دُعائوں کا اسلوبِ بیان کمال درجے کا سادہ ہے: کبھی چشمۂ صافی کی طرح سبک خرام اور کبھی چٹانوں کے درمیان سے گزرنے والے پر شور دریا کی مانند تیزگام۔

اب ہم آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائوں کے چند مسلسل اور مربوط نمونے پیش کرتے ہیں، جو آپؐ نے مختلف اوقات میں اپنے ربّ کے حضور کی ہیں۔ یہ دُعائیں کسی شرح اور ترجمانی سے بے نیاز ہیں:

  • اللَّھُمَّ فَارِجَ  الْھَمِّ، کَاِشفَ الْغَمِّ، مُجِیْبَ دَعْوَۃِ الْمُضْطَرِّیْنَ، رَحْمَانَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَرَحِیْمَھُمَا، أنْتَ تَرْحَمُنِیْ، فَارْحَمْنِیْ بِرَحْمَۃٍ تُغْنِیْنِیْ بِھَا عَنْ رَحْمَۃِ مَنْ سِوَاکَ [المستدرک للحاکم، اول کتاب المناسک، کتاب الدعاء، حدیث: ۱۸۳۷] اے ہموم و افکار کے دُور کرنے والے! غم و اَلم کے زائل کرنے والے! مجبوروں و بے بسوں کی پکارسننے والے! اہلِ دُنیا کے رحمٰن و رحیم! آپ ہی مجھ پررحم کریں گے۔ آپ ایسی رحمت نازل فرمایئے، جو مجھے دوسروں کے رحم و ہمدردی سے بے نیاز کردے۔

اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، وَإِلَیْکَ الْمُشْتَکَی، وَبِکَ الْمُسْتَغَاثُ، وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ [الدعوات الکبیر للبیہقی، غراس للنشر والتوزیع، کویت، طہ۱، ۲۰۰۹ء، ج۱، ص ۳۵۴] اے اللہ! حمد کا استحقاق آپ ہی کو ہے، تکلیف و مصیبت کا عرض معروض آپ ہی سے کیا جاتا ہے۔ فریاد رس آپ ہی کی ذات ہے۔ مدد آپ ہی سے طلب کی جاسکتی ہے۔ طاقت و قوت آپ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں۔

  • اللَّھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ، لَا أُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ [صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ ،ذکر ما یستحب للمصلی أن یتعوذ برضاء اللہ، حدیث: ۱۹۵۶]اے اللہ! میں پناہ چاہتا ہوں آپ کی رضا کی، آپ کی ناخوشی سے، آپ کے عفو کی، آپ کی عقوبت سے اور آپ کی پناہ چاہتا ہوں خود آپ سے، میں آپ کی تعریف کا حق نہیں ادا کرسکتا۔ آپ اسی تعریف کے مستحق ہیں، جو آپ نے اپنی ذات کی خود فرمائی ہے۔

اللَّھُمَّ إِنَّـا نَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ أَوْ نَجْھَلَ أَوْ یُجھَلَ عَلَیْنَا [سنن الترمذی، کتاب الذبائح، أبواب الدعوات عن رسولؐ ، حدیث: ۳۴۳۲] اے اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں، مچل جانے سے، یا کسی کو مچلانے سے، یا کسی کو گمراہ کرنے سے، یا کسی پر ظلم کرنے سے، یا خود نشانۂ ظلم بننے سے، یا جہالت کرنے سے، یا کسی کی جہالت کا شکار بننے سے یا گمراہ ہونے سے، یا گمراہ کیے جانے سے۔

  • أَعُوذُ  بِنُوْرِ وَجْھِکَ الکَرِیمِ الَّذِی أَضائَتْ لَہُ السَّمٰوٰتُ وَالأَرْضُ وأشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُماتُ وصَلَحَ علیہِ أمْرُ الدُّنْیَا والآخِرَۃِ أنْ تُحِلَّ عَلَیَّ غَضَبَکَ أوْ تُنْزِلَ عَلَیَّ سَخَطَکَ وَلَکَ العُتْبی حَتَّی تَرْضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلاَّ بِکَ (الفتح الکبیر فی ضم الزیادۃ إلی الجامع الصغیر، جلال الدین السیوطی، دار الفکر، بیروت،لبنان، ط ۱، ۲۰۰۳ء] میں پناہ چاہتا ہوں آپ کی ذاتِ گرامی کے نُور کی، جس سے آسمان روشن ہیں، ظلمتیں تاباں ہیں اور جس کے سہارے دُنیا و آخرت کے تمام اُمور اپنے صحیح رُخ پر چل رہے ہیں۔ اس بات کی پناہ کہ مجھ پر آپ کا غصہ ہو، یا آپ اپنی ناخوشی مجھ پر ظاہر کردیں۔ آپ ہی کا حق ہے کہ آپ کو منایا جائے،تاآنکہ آپ راضی ہوجائیں۔ آپ کی مدد کے بغیر نہ طاقت ہے، نہ قوت۔
  • اللَّھُمَّ وَاقِیَۃً کَوَاقِیَۃِ الْوَلِیْدِ [کتاب الدعاء للطبرانی، باب ما کان النبیّ یدعو بہ، حدیث: ۱۳۴۵] اے اللہ! جس طرح کسی بچے کی نگہبانی کی جاتی ہے، بس ایسی ہی آپ سے نگہبانی چاہتا ہوں۔
  • اللَّھُمَّ اِنِّیْ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ الْأَعْمَیَیْنِ [المعجم الکبیر للطبرانی، باب العین، عائشۃ بنت قدامۃ بن مظعون الجمحیۃ، حدیث: ۲۰۷۰۱] اے اللہ! مجھے دو اندھادھند باتوں، یعنی سیلاب اور حملہ آور اور اُونٹ کے شر سے اپنی پناہ میں لے لیجیے۔
  • رَبِّ أَعِنِّی وَلَا تُعِنْ عَلَیَّ، وَانْصُرْنِی وَلَا تَنَصُرْ عَلَیَّ، وَامْکُرْ لِی، وَلاَ تَمْکُرْ عَلَیَّ، وَاھْدِنِی وَیَسِّرِ الْھُدَی لِی، وَانْصُرْنِی عَلَی مَنْ بَغَی عَلَیَّ، رَبِّ اجْعَلْنِی لَکَ شَاکِرًا، لَکَ ذَاکِرًا، لَکَ أَوَّاھًا، لَکَ مِطْوَاعًا، لَکَ مُخْبِتًا أَوَّاھًا مُنِیبًا، رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِی، وَاغْسِلْ حَوْبَتِی، وَأَجِبْ دَعْوَتِی، وَثَبِّتْ حُجَّتِی، وَاھْدِ قَلْبِی، وَسَدِّدْ لِسَانِی، وَاسْلُلْ سَخِیمَۃَ قَلْبِی [صحیح ابن حبان، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ط ۲، ۱۹۹۳، ج۳، ص۲۲۸] اے پروردگار! میری مدد کیجیے اور میرے برخلاف مدد نہ کیجیے۔ مجھے کامیابی دیجیے اور میرے خلاف کامیابی نہ دیجیے۔ میرے لیے تدبیر فرمایئے اور میرے خلاف تدبیر کو کامیاب نہ بنایئے۔ مجھے ہدایت دیجیے اور میرے لیے راہِ ہدایت کو آسان کردیجیے۔ جو مجھ پر زیادتی کرے اس کے خلاف میری مدد فرمایئے۔ اے اللہ! مجھے ایسا بنا دیجیے کہ میں آپ کو بہت یاد کیا کروں، آپ کا بڑا شکرگزار بنوں، آپ سے بہت زیادہ ڈرتا رہوں۔ آپ کا بہت زیادہ فرماں بردار بنوں، آپ کا بہت زیادہ اطاعت گزار رہوں، آپ ہی سے سکون پانے والا بنوں اور آپ ہی کی طرف متوجہ ہونے اور رجوع کرنے والا رہوں۔ اے پروردگار! میری توبہ قبول فرمایئے۔ میرے گناہ دھو دیجیے۔ میری پکار سن لیجیے۔ میری حجت قائم رکھیے۔ میری زبان درست رکھیے۔ میرے دل کو ہدایت دیجیے اور میرے سینے کی کدورت نکال دیجیے۔
  • اللَّھُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا، وَاھْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَیْنَا، إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ، وَاجْعَلْنَا شَاکِرِینَ لِنِعْمَتِکَ، مُثْنِینَ بِھَا، قَابِلِیھَا وَأَتِمَّھَا عَلَیْنَا  [سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب تفریع أبواب الرکوع والسجود، باب التشہد، حدیث: ۸۳۸]

اے اللہ! ہمارے دلوں میں باہم اُلفت پیدا کر دیجیے۔ ہمارے باہمی تعلقات درست فرما دیجیے، ہمیں سلامتی کی راہیں دکھلایئے، ہمیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف پہنچا دیجیے۔ ہمیں ظاہری و باطنی بے حیائیوں سے دُور رکھیے۔ برکت عطا فرمایئے، ہماری شنوائیوں میں، ہماری بینائیوں میں، ہمارے قلوب میں،ہماری ازواج میں اور ہماری اولاد میں۔ ہماری توبہ قبول فرمایئےکہ آپ ہی ہیں بار بار توبہ قبول فرمانے والے اور نہایت مہربان۔ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکرگزار، ثناخواں اور ان کا اہل بنایئے اور ہم پر اپنی نعمتیں پوری پوری اُتاردیجیے۔

  • اللَّھُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا یَحُولُ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَعَاصِیکَ، وَمِنْ طَاعَتِکَ مَا تُبَلِّغُنَا بِہِ جَنَّتَکَ، وَمِنَ الیَقِینِ مَا تُھَوِّنُ بِہِ عَلَیْنَا مُصِیبَاتِ الدُّنْیَا، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْیَیْتَنَا، وَاجْعَلْہُ الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَی مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَی مَنْ عَادَانَا، وَلاَ تَجْعَلْ مُصِیبَتَنَا فِی دِینِنَا، وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْیَا أَکْبَرَ ھَمِّنَا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لاَ یَرْحَمُنَا [سنن الترمذی، کتاب الذبائح، ابواب الدعوات عن رسول ؐ، باب ماجاء فی عقد التسبیح بالید، حدیث: ۳۵۰۷] اے اللہ! ہمیں اپنی خشیت سے اتنا فیض یاب فرمایئے کہ وہ ہمارے اور آپ کی نافرمانیوں کے درمیان حائل ہوجائے، اور اپنی طاعت سے اس قدر حصہ دیجیے کہ اس کے ذریعے آپ ہمیں اپنی جنّت تک پہنچا دیں، اور ایمان و یقین سے اس حد تک بہرہ ور فرمایئے کہ اس کے ذریعے آپ دُنیا کی مصیبتیں ہم پر سہل فرما دیں۔ جب تک ہمیں زندہ رکھیے، ہمیں ہماری شنوائیوں، بینائیوں اور قوتوں سے مالامال رکھیے اور اسے ہمارا وارث بنایئے۔ جو ہم پر ظلم کرے اس سے ہمارا انتقام لیجیے اور جو ہم سے دشمنی کرے اس کے مقابل ہماری مدد فرمایئے۔ ہماری مصیبتیں ہمارے دین سے متعلق نہ فرمایئے۔ دُنیا کو ہمارا محور، ہمارے علم کی معراج اور ہماری غایت محبت کا درجہ نہ دیجیے۔ بے رحموں کو ہم پر مسلط نہ فرمایئے۔
  • اللَّھُمَّ زِدْنَا وَلاَ تَنْقُصْنَا، وَأَکْرِمْنَا وَلاَ تُھِنَّا، وَأَعْطِنَا وَلاَ تَحْرِمْنَا، وَآثِرْنَا وَلاَ تُؤْثِرْ عَلَیْنَا، وَارْضِنَا وَارْضَ عَنَّا [سنن الترمذی، کتاب الذبائح، ابواب تفسیر القرآن عن رسولؐ ، باب: ومن سورۃ المؤمنون، حدیث: ۳۱۷۹] اے اللہ! ہمیں بڑھایئے ، ہمارے اندر کمی نہ فرمایئے۔ ہمیں باآبرو رکھیے، رُسوا نہ کیجیے، ہمیں نوازیئے محروم نہ رکھیے، ہمیں مقدم رکھیے۔ ہمارے برخلاف ترجیح نہ دیجیے۔ ہمیں خوش کر دیجیے اور ہم سے خوش ہوجایئے۔
  • اللَّہُمَّ لَا تَدَعْ لِی ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَہُ، وَلَا ہَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَہُ، وَلَا دَیْنًا إِلَّا قَضَیْتَہُ، وَلَا حَاجَۃً مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ إِلَّا قَضَیْتَھَا بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِین [المعجم الاوسط للطبرانی، دار الحرمین، ۱۹۹۵ء، القاہرہ، باب الجیم: من اسمہ جبرون، ج۳، ص۳۵۸] اے اللہ! میرا کوئی گناہ باقی نہ رہنے دیجیے، معاف فرمایئے، کچھ مہموم افکار باقی نہ رہنے دیجیے دُور کر دیجیے۔ کوئی قرض باقی نہ رکھیے، چکا دیجیے اور دُنیا و آخرت کی تمام ضروریات پوری فرما دیجیے، اے ارحم الراحمین!

 دُعا ہائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے انھی چند شہ پاروں پر اکتفا کرتا ہوں، جو ہیں تو بہت زیادہ لیکن یہاں تھوڑی مقدار میں پیش کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ ہمیں اپنی فرماں برداری اور اپنے رسولؐ کی اطاعت کی توفیق نصیب فرمایئے اور اسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنانے کی، صحیح ایمان اور جذبے سے دُعا کرنے کی کوششوں میں کامیاب کیجیے،کیونکہ ارشاد باری ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۝۲۱ۭ (احزاب ۳۳:۲۱) [درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔]

گناہوں سے بچنے کی قوت، اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر تصور نہیں کی جاسکتی۔

ارشادِ الٰہی ہے:

اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۝۵۸ۧ (الانفال ۸:۵۸) بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِـــيْمًا۝۱۰۷ (النساء۴:۱۰۷) یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔

’خیانت‘ ،جیسا کہ معروف ہے،’امانت‘ کی ضد ہے۔’ خیانت‘ کی برائی کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے قرآن کا یہ اعلان کافی ہے کہ اللہ رب العزت، ’خیانت‘ میں ملوث ہونے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نا پسند فرمائے اس کے انجامِ بد کے بارے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے اور اس کے موجب ِ وبال و مہلک ہونے کے سلسلے میں قرآن کی یہ مزید و ضاحت لائقِ توجہ ہے کہ اللہ کو ہرخیانت کار ناپسند ہے، اس لیے کہ وہ سخت گنہ گار اور ناشکرا ہو تا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا دوسری آیت اور سورۃ الحج کی آیت ۳۸ سے ظاہر ہوتا ہے ۔

  • خیانت کی اقسام: امانت کی طرح خیانت کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ قرآن کریم میں جہاں امانت کی ادائیگی کا تاکیدی حکم ہے (النساء۴:۵۸)، وہاں لفظ’امانات‘ ( جمع) استعمال ہوا ہے اور جن آیات میں امانت کی ادائیگی اہلِ ایمان کے ایک امتیازی وصف کے طور پر بیان ہوئی ہے ان میں بھی’امانات‘ ہی مذکور ہے (المؤمنون۲۳:۸؛ المعارج۷۰:۳۲)، اور جہاں امانت میں خیانت کی ممانعت وارد ہوئی ہے(الانفال۸: ۲۷)، وہاں بھی جمع ہی مستعمل ہے۔ اس سے یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ امانت کی مختلف صورتیں ہیں، اسی طرح اس کی ضد، یعنی خیانت کی بھی مختلف قسمیں ہیں اور یہ تمام کی تمام ممنوع ہیں۔ ان میں دو سب سے بڑی یا بد ترین قسم کی خیانت اللہ و رسولؐ اور ا للہ کے بندوں کے ساتھ خیانت ہے۔ ان کے علاوہ خیانت کی اور جتنی شکلیں ہیں وہ سب کسی نہ کسی طور پر ان میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتی ہیں۔ ارشادِربّانی ہیں:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے اہلِ ایمان! اللہ و رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی [آپس کی ] امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کا ارتکاب کرو۔

  اردو تفاسیر میں اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت کا مفہوم جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ ہے : اللہ کے حکموں کو توڑنا ،کتابِ الٰہی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنا اور روز مرہ زندگی میں سنتِ رسولؐ پر عمل سے انحراف کرنا ۔ بعض مفسرین کے یہاں اس کی ایک تعبیر یہ بھی ملتی ہے کہ ظاہر میں تو حکمِ الٰہی پر پابند رہا جائے،لیکن پوشیدہ طور پر یا تنہائی میں اس کی خلاف ورزی کی جائے اسی کا نام خیانت ہے (تفہیم القرآن، ج۶،ص۳۳۔۳۴؛ معارف القرآن، ج۸، ص۵۰۶؛ تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴)۔ ان سب تشریحات کا ما حصل یہ ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت سے مراد ہے: ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا، اللہ کے حکموں کو توڑنا،روز مرّہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِالٰہی کی ہدایات ، اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل نہ کر نا اور اللہ اور رسولؐ اور مسلمانوں کے دشمنوں کو خفیہ طور پر مدد بہم پہنچانا یا مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے خلاف کام کرنا۔

جہاں تک آیت میں مذکور آپس میں امانتوں میں خیانت کا تعلق ہے، اس میں وہ تمام معاملات آ تے ہیں جن کا تعلق حقوق العباد یا اللہ کے بندوں کے حقوق سے ہے ۔ ان حقوق کی عدمِ ادائیگی یا ادائیگی میں غفلت و کوتاہی خیانت ہے۔ اسی طرح کوئی کام یا ذمہ داری کسی کے سپرد ہو اسے نہ انجام دینا یا ا س میں لاپرواہی برتنا خیانت ہے۔

اللہ کے بندوں کے حقوق کی عدمِ ادائیگی سے خیانت کی جو مختلف شکلیں ظہور میں آتی ہیں ان کی ایک جامع تعبیر علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ کے اِن الفاظ میں ملتی ہے: ’’ایک کا جو حق دوسرے کے ذمہ واجب ہو اس کے ادا کرنے میں ایمان داری نہ برتنا خیانت اور بددیانتی ہے۔اگر ایک کی چیز دوسرے کے پاس امانت ہو اور وہ اس میں بے جا تصرف کرتا یامانگنے پرواپس نہ کرتا ہو یہ کھلی ہوئی خیانت ہے ،یا کسی کی کوئی چھپی ہوئی بات کسی دوسرے کو معلوم ہو یا کسی نے دوسرے پر بھروسا کر کے کوئی اپنابھید اس کو بتایا ہو تو اس کا کسی اور پر ظاہر کرنا بھی خیانت ہے۔ اسی طرح جو کام کسی کے سپرد ہو اس کو وہ دیانت داری کے ساتھ انجام نہ دے تو یہ بھی خیانت ہی کہلائے گا،علیٰ ہٰذا، عام مسلمانوں،ائمّۂ وقت اور اپنے متفقہ قومی و ملّی مصالح کے خلاف قدم اٹھانا بھی ملت سے بد دیانتی ہے۔دوست ہو کر دوستی نہ نباہنا بھی خیانت ہے۔بیوی میاں کی وفاداری نہ کرے تو یہ بھی خیانت ہے، د ل میں کچھ رکھنا اور زبان سے کچھ کہنا اور عمل سے کچھ اور ثابت کرنا بھی خیانت ہے۔اسلام کی اخلاقی شریعت میں یہ ساری خیانتیں یکساں ممنوع ہیں‘‘ (سیرۃ النبیؐ، ج۶، ص۳۹۶)۔

 مذکورہ آیت کی نسبت سے یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس میں اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت کی ممانعت مقدم ہے۔ اس سے یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت اللہ کے بندوں کے ساتھ خیانت کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ ایک ماہرِعلمِ قرآن نے اسی آیت کے حوالے سے بجاتحریر فرمایا ہے:[ اللہ کے]’’ بندوں سے خیانت کی راہ اللہ اور رسولؐ سے خیانت کی راہ سے ہوکر گزرتی ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرنے والا بندگانِ خدا سے بھی خیانت نہیں کرسکتا‘‘ (سید عبد الکبیر عمری،نورِہدایت،جامعہ دار السلام، عمرآباد،۲۰۱۴ء، ص۲۲۰)۔

یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ و رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے، وہ اللہ سے کیے گئے عہد کا پاس و لحاظ رکھے گااور اس کی عنایت کردہ نعمتوں کو امانت سمجھ کر ان کی قدر کرے گا اور خالق حقیقی کا شکر بجا لائے گا۔ وہ اس کے بندوں کے ساتھ بھی امانت داری و دیانت داری کا معاملہ کرے گا، ان کے ساتھ بے وفائی یا غداری کا معاملہ کرکے انھیں تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ واقعہ یہ کہ جس کسی کے قلب میں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور اس کے احکام کی قدر و قیمت جاگزیں ہوگی وہ اس کے بندوں کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں کرسکتا جو ان کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو۔ ا س سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خیانت و بد دیانتی بہر صورت لوگوں کے لیے زحمت،مضرت اور دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔

  • خیانت  کیسے جنم پاتی ہے؟: اسے سمجھنے کے لیے یہ پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ   یہ ایک ایسی بُری خصلت ہے جس کا تعلق انسان کے اندرون سے ہے۔ در اصل نیت کا فتور، بُرا ارادہ یا ناپاک جذبہ ہوتا ہے جو انسان کو خیانت کے ارتکاب پر ابھارتا ہے۔ اس میں فریب دہی و بددیانتی مضمر ہوتی ہے اور نفاق و کذب بیانی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ نفاق اور جھوٹ لازم و ملزوم ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں واضح کیا گیا ہے ( المنٰفقون۶۳:۱-۲)۔ حدیث میں منافق کی تین علامات میںپہلی علامت جھوٹ بولنے کو قرار دیا گیا ہے: آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : اِذا حدّث کَذَبَ (صحیح بخاری،کتاب الایمان،باب علامات المنافق، حدیث:۳۳)۔ یہاں یہ واضح رہے کہ نفاق دل میں چھپی ہوئی بیماریوں میں سے ہے۔قرآن کی متعدد آیات میں ’ المنافقون ‘کے ذکر کے فوراً بعد یہ مذکور ہے : وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِـہِمْ مَّرَضٌ (الانفال ۸:۴۹، الاحزاب۳۳: ۱۲،۶۰) ’’اور وہ جن کے دلوں[ اندرون] میں مرض ہے ‘‘۔ خیانت، جو نفاق کی ایک واضح علامت ہے، اس کے باطنی خرابی یااندرونی بیماری ہونے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے۔

در اصل یہ برائی جسم کے مختلف حصوں (دل ،آنکھ اور ہاتھ، پیر وغیرہ کی حرکت ،حتیٰ کہ چشم و ابرو کے اشارے )سے سر زد ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۝۱۹ (المومن۴۰:۱۹) ’’ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں چھپی ہوئی چیزوں (رازوں / باتوں) تک کو بھی جانتا ہے‘‘۔دل کی خیانت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ راز کی بات کسی کو بتا دی جائے یا کسی کا راز دوسر ے کے سامنے افشاء کردیا جائے۔ اس تحریر کے شروع میں مذکورہ آیت کے شان ِ نزول میں جو واقعہ ( حضرت ابو لبابہ ابن عبدالمنذرؓ کا بنو قریظہ کے لوگوں سے گفتگو میں جسم کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کرکے اہلِ اسلام کے راز کو افشاء کردینا) بیان کیا جاتا ہے اسے دل کی خیانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک آیت میں ان دو خواتین (یا زوجاتِ حضرت نوحؑ و حضرت لوطؑ) کی مثال بدترین عورتوں کے طور پر دی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے شوہروں( جو نبی تھے) کے ساتھ خیانت کی۔ارشادِالٰہی ہے:

ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۝۰ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ۝۱۰  (التحریم۶۶:۱۰) اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ و لوطؑ کی بیویوں کوبطور مثال پیش کرتا ہے۔وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں،مگر انھوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ دونوں سے کہا گیا کہ جہنم کی آگ میں داخل ہوجائو داخل ہونے والوں کے ساتھ۔

 یہ ان خواتین کی سراسر ہٹ دھرمی ا ور انتہائی محرومی تھی کہ انبیائے کرامؑ کی زوجیت میں ہونے کے باوجود انھوں نے ان کے ساتھ خیانت کی۔اس خیانت کی نسبت سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دل کی خیانت تھی ، اس لیے کہ وہ اپنے شوہروں ( جو نبی تھے) پر ایمان نہیں لائیں۔ انھوں نے دین کے معاملے میں ان کی مخالفت کی اور ان کے مقابلے میں دشمنانِ اسلام کا ساتھ دیتی رہیں۔  مزید یہ کہ خفیہ طور پر انھیں مدد بہم پہنچاتی رہیں اور وہ اس طور پر کہ اپنے شوہروں اور ان پر ایمان لانے والوں کی رازدارانہ باتیں مخالفین کو بتاتی رہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنے شوہر نبیوں کے ساتھ کھلی ہوئی بے وفائی کا ثبوت دیا۔

آیت میں ان کے اس طرزِ عمل کو خیانت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن قرار دیا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ خیانت کی ایک بد ترین شکل تھی ( تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴ ،حاشیہ ۶، معارف القرآن،مکتبہ مصطفائیہ ،دیو بند،۸؍۵۰۶ ) ۔ حقیقت یہ ہے کہ خیانت، خواہ کسی بھی صورت میں ہو، اس کا تعلق انسان کے اندرون یا اس کے نفس سے ہوتا ہے۔خیانت کو چھپی ہوئی برائی یا اندرونی بیماری اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ا س میں سب سے بڑا دخل نیت کی خرابی کا ہوتا ہے۔ در اصل یہ ناپاک ارادے (کسی کو نقصان پہنچانا،کسی کے مخالف یا دشمن کی خفیہ مدد کرنا، کسی کو ذہنی اذیت دینا، بد دیانتی کرکے مال کی ہوس پوری کرنا، اپنے فائدے کے لیے کسی کے راز کو افشاء کر نا) ہوتے ہیں جو خیانت جیسی سنگین برائی کے پیچھے کار فرما ہو تے ہیں ۔

  • خیانت  سے پناہ طلب کرنا :ان سب کے علاوہ خیانت کے ایک چھپی ہوئی بری خصلت ہونے پر یہ امر بھی شاہد ہے کہ نبی کریمؐ اپنی دعائوں میں جن چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے ان میں خیانت بھی شامل تھی۔آپؐ کے یہ کلماتِ استعاذہ ملاحظہ ہوں: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُوْع فَاِنَّہٗ  بِئسَ الْضَجِیْعُ وَ  اَعُوذُ بِکَ  مِنَ اْلخِیَانَۃِ فَاِنَّہَابِئْسَتِ  الْبِطَانَۃُ  (سنن نسائی، کتاب ۱لا ستعاذۃ ، باب الاستعاذۃ من الجوع ، حدیث: ۷۶۴۱) ’’اے اللہ ! میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں،اس لیے کہ یہ بُرا ساتھی ہے اور میں خیانت سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، بے شک یہ بد ترین باطنی خصلت ہے‘‘۔ اس حدیث پاک کا آخری لفظ البطانۃ  گہری توجہ چاہتا ہے، جس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ خیانت کا تعلق باطن یا انسان کے اندرون سے ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک ایسی اندرونی بیماری ہے کہ جس کو یہ لگ جاتی ہے ، نہ صرف اس کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے، بلکہ جو بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں اور خیانت کی زد میں آتے ہیں ، ان کے لیے بھی تکلیف دہ بنتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ حدیث میں مذکور لفظ ’البطانۃ‘ کا اردو ترجمہ مختلف طور پر: بُری باطنی خصلت، بہت برا اندرونی ساتھی،بدترین چھپا ہوا ساتھی،اندرونی برائی،چھپی ہوئی برائی کیا گیا ہے۔ ’خیانت ‘کے محرکات و نتائج کو محسوس کرکے اس کا توضیحی ترجمہ ’بدترین باطنی خصلت‘ یا ’ بدترین اندرونی بیماری‘ زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ایک باطنی بیماری کی حیثیت سے خیانت کا نفاق سے بہت گہرا تعلق ہے ۔
  • خیانت اور کذب : نفاق کی تین واضح نشانیوں میں کذب او ر خیانت ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت وضاحتی ہو تی ہے کہ خیانت اور کذب میں بہت گہرا تعلق ہے۔ جھوٹ،جھوٹی گواہی، غلط بیانی کا ایک اندرونی برائی ہونا بخوبی معلوم ہے۔ حضرت ابو امامۃؓ سے مروی اس ارشادِنبویؐ میں مزید واضح طور پر سامنے آتا ہے ؛ یُطْبَعُ الْمُوْمِنُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ   اِلَّا الْخِیَانۃَ وَالْکَذِبَ (للبہیقی، کتاب الشہادت، باب من کان منکشف الکذب، حدیث: ۱۹۳۷۷)’’مومن کی طبیعت میں ہرچیز( خصلت) کے پائے جانے کا امکان ہے سوائے خیانت و کذب کے‘‘۔

اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ اگر کوئی شخص فی الواقع مومن ہے تو دوسری کمزوریاں اور برائیاں تو اس کے اندر ہو سکتی ہیں،لیکن خیانت ا و ر کذب جیسی منافقانہ خصلتیں اس میں نہیں پائی جا سکتیں۔اتفاقیہ طور سے کسی مومن سے جھوٹ اور خیانت کی برائی بھی سرزد ہوسکتی ہے،لیکن یہ ممکن نہیں کہ خیانت اور جھوٹ اور کذب کو وہ اپنا شعار بنالے‘‘ (کلامِ نبوت، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۵۳۰،حاشیہ ۱) ۔ حقیقت یہ کہ جس برائی کو کذب ( جو موجب غضبِ الٰہی ہے) کی ہم نشینی حاصل ہو اس کا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب، اس کے بندوں کے لیے باعث زحمت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن ہونا یقینی ہے۔ اُس حدیث سے یہ نکتہ نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس کے اندر امانت نہیں۔ یہ امر بدیہی ہے کہ جوشخص نہ تو امانت کا حق ادا کرتا ہے اور نہ اس کے تقاضے ہی پورے کر تا ہے ،یعنی خیانت کی راہ اپنا لیتا ہے، وہ کیسے کامل ایمان والا ہو سکتا ہے ۔ایک دوسری حدیث میں مسلم کی شناخت اس طور پر بیان کی گئی ہے کہ وہ نہ اپنے مسلم بھائی کے ساتھ خیانت کا معاملہ کرتا ہے،نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے الْمُسْلِمْ اَخُو المُسْلِمْ لَا یَخُوْنَہٗ  وَلَا یَکْذِبُہٗ  وَلَا یَخذِلُہٗ (جامع ترمذی، ابواب البر،باب ماجاء فی شفقۃ المسلم علی المسلم، حدیث:۱۸۹۹)۔ ان تمام تفصیلات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سچائی، دیانت داری اور عہد کی پاس داری اہلِ ایمان کا شیوہ ہے اور کذب، خیانت، اور عہد شکنی منافقین کا طریق کار ہوتا ہے۔

  • مسلم و غیرمسلم سے خیانت جائز نہیں: واقعہ یہ کہ خیانت ایسی بری حرکت اور مہلک خصلت ہے کہ اسلام میں کسی کے ساتھ بھی اس کا ارتکاب روا نہیں ہے۔ مسلم و غیر مسلم، حمایتی و مخالف، کسی کے ساتھ بھی معاملہ کرنے میں اسے روا نہیں رکھا گیا ہے ،حتیٰ کہ کسی کے ساتھ انتقاماً بھی خیانت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر غیرمسلموں کے ساتھ کوئی عہد وپیمان ہوا ہے اور انھوں نے کوئی غلط طرزِ عمل اختیار کیا ہے تو ان کے خلاف کارروائی سے قبل عہد و پیمان کو باقاعدہ منسوخ کرنے کا اعلان کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ کارروائی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی اور خیانت کے زمرے میں آئے گی ،جیسا کہ سورۃ الانفال کی آیت ۵۸ سے واضح ہوتا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ خیانت کا معاملہ کریں، جو ان کے ساتھ خیانت کا رویہ اختیارکرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی ملا حظہ ہو : اَدِّ الْاَمَانَۃَ اِلٰی مَنْ ائْتَمَنَکَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَکَ  (جامع ترمذی، ابواب البیوع، باب اَدِّ الْاَمَانَۃَ اِلٰی      مَنْ ائْتَمَنَکَ، حدیث:۱۲۲۲) ’’امانت اس کے حوالے کردو جس نے تمھیں (کسی چیز کا) امین بنا یا ہے اور اس کے ساتھ( بھی) خیانت نہ کرو جو تمھارے ساتھ خیانت کا معاملہ کرے‘‘۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ اسلام میں امانت کی پاس داری کو کس قدر اہمیت حاصل ہے اور یہ کہ خیانت کتنی بُری حرکت ہے کہ مسلم و غیر مسلم، حمایتی و مخالف، کسی کے ساتھ بھی خیانت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
  • خیانت کفرانِ نعمت ہـے: خیانت اس اعتبار سے بھی نہایت نا پسندیدہ اور اللہ  رب العزت کو ناراض کرنے والی حرکت ہے کہ اس میں کفرانِ نعمت، یعنی اللہ کی عطا کردہ نعمتوں (جسمانی قوت ،ذہنی صلاحیت،سمجھ بوجھ، فہم و علمی استعداد،مال و دولت وغیرہ) کی ناشکری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کی نگاہ میں خیانت کرنے والوں کے ناپسندیدہ ہونے کے ذکر کے فوراً بعد ’کفور‘ ( ناشکرا) کا لفظ آیا ہے: اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۝۳۸(الحج۲۲:۳۸ ) ۔ اس سے خود یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیانت میں کفرانِ نعمت بھی ہے۔اس آیت کی تشریح میں صاحبِ ِتفہیم القرآن  تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ کی ناپسندیدگی اس وجہ سے ہے کہ خائن ؍ خوّان ہر اس نعمت میں خیانت کررہا ہے، جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے اور ہر اس نعمت کا جواب ناشکری اورکفرانِ ِنعمت اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے ( تفہیم القرآن، ج۳، ص ۲۳۱)۔

درحقیقت اللہ رب العزت نے جو نعمت بھی کسی کو عطا کی ہے وہ اس کی طرف سے ایک امانت ہے۔ اُس نعمت کا بے جا،بے فائدہ اور بری نیت یا غلط مقصد سے استعمال بلا شبہہ اس کی ناشکری ہے جو منعمِ حقیقی کو انتہائی نا پسند ہے۔ اللہ کی نعمت کا بے جا استعمال فی نفسہ کفران یا ناشکری ہے اور اس میں بری نیت مل جائے تو یقینی طور پر اس گناہ کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ النساء کی ایک آیت میں ’ خوَّان‘ کے ساتھ لفظ ’اثیم‘ ( گنہ گار) بھی آیا ہے: اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِــيْمًا۝۱۰۷ ( النساء۴:۱۰۷) ’’ یقیناً ً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار و معصیت کار ہو‘‘۔اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خیانت اور گناہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

  • خدا کی نصرت سے محرومی:  خیانت یا خفیہ طور پر بد دیانتی کے ذریعے اپنے فائدہ کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ذہنی اذیت دینے والے کوآخرت میں جس سخت عذاب کاسامنا ہو گا (الانعام ۶:۱۲۴، فاطر ۳۵:۱۰) وہ اپنی جگہ ہے، ایسا کرنے والے دنیا میں اس کے وبال سے بچ نہیں سکتے، جیسا کہ قرآنی آیات سے واضح ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ خیانت کے ارتکاب کے لیے خفیہ تدبیریں،سازشیں و بری چالیں ( چھپانے کی طرح طرح کی حرکتوں کے باوجود) کسی نہ کسی طرح بے نقاب ہوکر رہتی ہیں جو ذلت و رسوائی اور دنیوی گرفت اور مختلف قسم کے نقصانات کا ذریعہ بنتی ہیں (المائدہ ۵: ۱۳؛ الانبیاء۲۱:۷۰؛ الصّٰفّٰت ۳۷:۹۸)۔ دوسرے بعض اوقات خیانت کار اور مکر وفریب کر نے والے خود اپنی ہی بری چالوںمیں گھر جاتے ہیں اور اس سے نکل نہیں پاتے (فاطر۳۵:۴۳)۔ تیسرے اللہ کی تدبیرِ متین کے آگے فریب دہی و بُری چال کے ذریعے خیانت کی حرکتیں چل نہیں پاتیں، بالآخر وہ ناکام ہو کر رہتی ہیں (اٰل عمرٰن ۳:۵۴، الاعراف ۷:۹۹،۱۸۳،یوسف۱۲:۳۴، النمل ۲۷:۵۰، فاطر۳۵:۱۰، المومن۴۰: ۲۵، ۳۷،  القلم ۶۸:۴۵؛الفیل ۱۰۵:۲)۔ اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ کہ ان سب بیانات کے ثبوت میں قرآن نے واقعاتی شواہد بھی پیش کیے ہیں جو متعلقہ آیات کے سیاق و سباق پر گہری نظر ڈالنے سے سامنے آ جا تے ہیں ۔

قرآن و حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خیانت کرنے والے اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔قرآن میں ان لوگوں کی حمایت اور دفاع سے منع کیا گیا ہے، جو خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں (النساء۴:۱۰۶-۱۰۷)۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی نصرت و حمایت انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور اللہ کی عنایت کردہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خیانت کار، دل ودماغ کی قوتوں کو غلط کام پر لگانے، یعنی ناشکرے اس سے محروم رہتے ہیں (الحج ۲۲:۳۸)۔ پھر ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیاہے کہ ذاتی منفعت کے حصول کے لیے اپنے شریکِ معاملہ کے ساتھ خیانت کا رویہ اپنانے والے اور اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اللہ ربّ العزت کی نصرت و عنایت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اِنَّ اللہ تَعَالٰی یَقُوْلُ اَنَـا ثَالِثُ الشَّـرِیْکَیْنِ مَالَمْ یَخُنْ اَحَدُھُمَا صَاحِبَہٗ  فَاِذَا خَانَہٗ  خَرَجْتُ مِنْ بَیْنَھُمَا  (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکۃ، حدیث: ۲۹۵۳) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے دو شریک باہم خیانت کے مرتکب نہ ہوں، میں ان کے ساتھ رہتا ہوں،لیکن جب ایک شریک دوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں بیچ سے نکل جاتا ہوں [ایک دوسری روایت کے مطابق ’’ ا ور پھر شیطان آجاتا ہے‘‘]۔

اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں رقم طراز ہیں: ’’ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے شرکاء آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں اور خیانت سے دور رہتے ہیں، خدا کی مدد ان کو حاصل رہتی ہے،خدا ان کے کاروبار میں برکت عطا فرماتا ہے، لیکن جب ان کی نیتوں میں فرق آجاتا ہے اور کاروبار کے شرکاء میں سے ہر ایک صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور دوسرے کے ساتھ خیانت اور بے انصافی سے کام لینے لگتاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نفع تنہا اسی کے حصے میں آئے، تو ایسی صورت میں خدا کی رحمت ان سے الگ ہوجاتی ہے اور وہ اپنی مدد کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور شیطان کو اس کا پورا موقع مل جاتا ہے کہ وہ ان کے باہمی تعلقات کو خراب کرے اور ان کے کاروبار کو تباہی کے راستے پر ڈال دے‘‘(کلامِ نبوت، ج ۲،ص ۵۳۱- ۵۳۲، حاشیہ ۳)۔ اس سے بڑھ کر محرومی کیا ہوسکتی ہے کہ کو ئی شخص ربِّ کریم کی نصرت و تائید سے محروم ہوجائے۔ ان سب معروضات سے خیانت کے دنیوی و اُخروی وبال کی سنگینی بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔

  • خیانت کا تدارک: رہا یہ مسئلہ کہ یہ اندرونی بیماری کیسے دُور ہوگی؟اس باطنی مرض سے نجات و حفاظت کے لیے ہمارے لیے کون سا نسخہ مفید یاکارگر ثابت ہوگا ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ خیانت کا تعلق،جیسا کہ واضح ہو گیا، انسان کے اندرون سے ہے،یعنی یہ ایک چھپی ہوئی بیماری ہے۔ اس لیے اللہ رب العزت کے عالم الغیب و والشہادۃ ہونے میں یقین کو تازہ بتازہ رکھنا ا و ر اسے مستحکم بنانا اور ہمیشہ اس حقیقت کا استحضار بہت مفید و مؤثر ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ظاہر و باطن ہر بات ،کھلے و چھپے ہر قول و فعل سے باخبر رہتا ہے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کا تجویز کردہ ہے، انھی کے الفاظ میں ملا حظہ فرمائیں:’’خیانت صرف دل ہی سے نہیں ہوتی ہے،بلکہ ایک ایک عضو سے ہو سکتی ہے،یہاں تک کہ چشم و ابرو کے اشاروں سے ہو سکتی ہے،لیکن اگر یہ یقین ہو کہ ایک ذات ہے جو چوری چھپی کی ہرحرکت سے ہر وقت با خبر رہتی ہے تو پھر انسان کو کسی قسم کی خیانت کاری کی جرأت نہ ہو۔اسلام اسی یقین کو پیدا کرکے خیانتوں کا خاتمہ کرتا ہے، فرمایا: يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۝۱۹   (المومن۴۰:۱۹) ’’اللہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کاری کو اور جو چھپا ہوا سینوں میں ہے‘‘ (سیرۃ النبیؐ،ج۶، ص ۳۹۸)۔ 

 اللہ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ وہ خیانت جیسی مہلک بیماری سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہمیں نیکیوں کی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین ثمَّ آمین!

يٰٓاَ يُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو جس کے ایندھن انسان اورپتّھر ہوں گے۔

اس آیت میں مومنین کو ایک انتہائی ا ہم ہدایت ( جس پر انسان کی حقیقی کامیابی کا دارو مدار ہے) دی گئی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کی فکر و کوشش کرنا۔ بلاشبہہ جہنم سے بچ جانا اور جنت نصیب ہونا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے ،جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے:

 فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۝۰ۭ  (اٰل عمرٰن۳: ۱۸۵) جو جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی (حقیقی معنوں میں) کامیاب ہوا۔

ظاہر ہے کہ جنت نصیب ہونا منحصر ہے روز مرہ زندگی میں اللہ رب العزت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلصانہ اطاعت پر ۔ اہلِ ایمان کے لیے آیت کا پیغام بہت ہی واضح ہے کہ وہ حکمِ الٰہی و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے حالات سدھاریں ، زندگی کے ہر شعبے میں دین کے تقاضوں کو پورا کریں، اور اسی طور پر اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے پور ی کوشش کریں۔ اس آیت کے نزول پر حضرت عمر ابن خطابؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اپنے آپ کو کیسے جہنم سے بچائیں، یہ تو سمجھ میں آگیا ( کہ احکامِ الٰہی پر عمل کریں اور گناہوں سے دُور رہیں )، مگر ہم اپنے اہل و عیال کو کس طرح جہنم سے بچائیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ اس طر ح کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ، اہل وعیال کو ان کاموں سے منع کرو ،اور اللہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان کے کرنے کا انھیں حکم دو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچائے گا (روح المعانی، ج۲۸،ص ۱۵۶)

 صاحبِ تفہیم القرآن نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ اپنی ذات کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے،بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ جس خاندان کا وہ سربراہ ہے اس کو بھی ممکن حد تک ایسی تعلیم و تربیت دے کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا بن جائے، تاکہ اللہ رب العزت اس سے راضی ہو جائے اور وہ جہنم سے بچ جائے (تفہیم القرآن، ج۶،ص ۲۹-۳۰، حاشیہ ۱۶ ) ۔

  • نیکی و خیرخواہی کی تاکید: قرآن کریم میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ’خیراُمۃ‘ کے لقب سے مشرف کیا گیا ہے اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ یہ شرف و اعزاز مَر تبت ہے ایک بہت بڑی ذمہ داری ( یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر)سے (اٰل عمٰرن۳: ۱۱۰) ۔  سورئہ توبہ کی آیت۷۱ میں مومن مردوں اور عورتوں کے امتیازی اوصاف میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے باہم رفیق ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی کے پابند ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت میں سر گرم رہتے ہیں ۔ اس آیت سے یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ رفاقت و دوستی ا ور بھائی چارگی کے تقاضے میں سے یہ ہے کہ ایک دوسرے کو نیکی کی دعوت دی جائے اور بُرے کام سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے ۔ مزید برآں حدیث میں دین کو سراپا ’نصیحۃ‘ ( خیر خواہی) سے تعبیر کیا گیا ہے : الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (صحیح مسلم، کتاب الایمان) ۔ اس سے بڑھ کر کسی کی خیرخواہی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے نیکی کی راہ پر چلانے اور برے کاموں سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ سورۃ العصر ایک مختصر لیکن جامع ترین سورہ ہے ۔ اس میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ کس کو حقیقی کامیابی نصیب ہوگی اور کون خسرانِ عظیم سے دوچار ہوگا؟ اس کے مطابق وہ لوگ خسران سے محفوظ رہیں گے جو ایمان و عملِ صالح کے ساتھ ’تواصی بالحق‘ اور’تواصی بالصبر‘ سے شغف رکھتے ہیں۔

مولانا عبد الباری ندوی اس سورہ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’ انسان کو بحیثیت مجموعی خسران سے بچانے کے لیے صرف کچھ افراد کا اپنی اپنی جگہ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ   کا حق ادا کر کے مومنِ صالح بن جانا کافی نہیں ، بلکہ ایمان و عمل صالح کی اس حقّانی زندگی کو پوری نوع انسانی میں پھیلانے اور پیدا کرنے کے لیے آپس میںایک دوسرے کو اس کی فہمایش و تاکید کرتے رہنا بھی لازم ہے ‘‘( قرآن کا دو آیاتی نظامِ صلاح و اصلاح، ۲۰۰۹ء، ص ۱۰۶)۔

  • اہلِ خانہ کی اصلاح :زیر مطالعہ آیت میں اپنے ’ اہل‘ کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی اپنی اصلاح کے ساتھ ’اہل‘ کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ ’اہل‘ سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس آیت کے علاوہ دیگر متعدد آیات میں یہ لفظ آیا ہے اور مختلف معانی (بیٹا، اولاد، بیوی، افراد ِ خانہ ،گھر والے، اہلِ خاندان) میں استعمال ہوا ہے۔ ان سب آیتوں پر غور وفکر کا ما حصل یہ ہے کہ اس کا عمومی اطلاق ان تمام افرا د پر ہوتا ہے جو ایک ساتھ کسی گھر میں رہتے ہیں ۔ اُردو میں اس کی جامع و عام فہم تعبیر ’ گھر والے/ گھر والوں ‘ سے کی جا تی ہے۔ اہم بات یہ کہ بیش تر اردو مترجمینِ قرآن نے ’اہل‘ کا ترجمہ گھر والوں یا اہل و عیال کیا ہے۔ اور بعض مفسرین کی رائے میں’اہل‘ کے دائرہ میں غلام، مستقل ملازمین و خادمین کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے (معارف القرآن، ج۸، ص ۵۰۲) ۔ بہر حال ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ ہو یا’تواصی بالحق‘، اس ذمہ داری کی انجام دہی سب سے پہلے اپنے گھر والوں کی نسبت سے مطلوب ہے۔

اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ زیرِ بحث آیت میں اپنے کو او ر اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچانے کے لیے ’ امر‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،یعنی تاکید کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس نے اس کام کو فرض کا درجہ دے دیا ہے۔ مقصود یہ کہ ا پنی اور گھر والوں کی اصلاح کے لیے کوشش محض مطلوب نہیں ، بلکہ ضروری ہے۔ آیت میں جہنم کی آگ کے بھڑکنے کے ذرائع ذکر کر کے اس کام ( نارِ جہنم سے بچانے) کی ضرورت و اہمیت کو اور بڑھا دیا گیا ہے۔ سچ پوچھئے تو اس سے بڑھ کر ضروری و اہم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے بجا تحریر فرما یا ہے : ’’ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے اسے اٹھائے نہ رکھے۔ جب بھی دیکھے کہ ان کے اندر اللہ کی شریعت سے بے پروائی راہ پارہی ہے،فوراً اس کے سدِّ باب کی فکر کرے‘‘(تدبر قرآن، ج۸، ص۴۶۹)۔

جب یہ آیت وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ (الشعراء :۲۶:۲۱۴) نازل ہوئی ( یعنی آپؐ کو اپنے قبیلہ و خاندان کے لوگوں کو علانیہ انذار کا حکم ہوا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ قریش کی تمام شا خو ں کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک ایک شاخ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میں ( روزِجزا) تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا۔آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ان الفاظ میں مخاطب ہوئے : وَ یَا فَاطِمَۃُ  بِنْت مُحَمَّد! سَلِیْـنِیْ مَا شِئْتِ  مِنْ مَالِیْ ،لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ  شَیْئًا (صحیح   بخاری،کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء باب وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) ’’اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میرے پاس جو کچھ مال ہے اس میں جو چاہو لے سکتی ہو،لیکن( یاد رکھو کہ) میں قیامت کے دن اللہ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آسکوں گا‘‘۔ حقیقت یہ کہ گھر والوں کی تذکیر اور انھیں نارِ جہنم سے بچانے کی راہ میں کوشش کی نسبت سے اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم سب کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے اور ان مختصر جملوں میں انذار کے پہلو سے جو جامعیت ہے وہ اپنی جگہ مسلَّم ہے۔

  • گھر کے نگران کی جواب دہی: مذکورہ بالا آیت کے مطابق گھر والوں کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ بیش تر مفسرین اس کا مخاطب گھر کے سرپرست و نگراں کو قرار دیتے ہیں ، یعنی گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے احوال کی درستی کی ذمہ داری اصلاً گھر کے نگراں و سرپرست یا بڑے بوڑھوں کی ہے کہ وہ گھر کے لوگوں کو سمجھائیں۔انھیں دین کی باتیں بتائیں، اچھے کاموں کی طرف توجہ دلائیں اور بُرے کاموں پر انھیں متنبہ کرتے رہیں۔ اس ضمن میں وہ حدیث بھی نقل کی جاتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں باز پرس ہوگی جو اس کی کفالت/ نگرانی میں رہتے تھے ( صحیح    بخاری)۔

اس سے انکار نہیں کہ گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے حالات درست کرنے یا انھیں راہِ راست پر لانے کی اصل ذمہ داری سرپرست یا نگراں کی ہی ہوتی ہے ،لیکن آیت میں اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم عمومی انداز میں دیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے،جوان ،بوڑھے ، مرد و عورت کی تفریق کے بغیر گھر کے تمام لوگوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موقع و محل کی رعایت کے ساتھ حسبِ استطاعت ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتا ئیں، نیک کاموں کی طرف متوجہ کریں اور برے کاموں پر متنبہ کرتے رہیں، یعنی یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

  • اہلِ علم اور داعیانِ دین کا فریضہ:یہ ذمہ داری گھر کے ان لوگوں پر خاص طور سے عائد ہوتی ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے علمِ دین سے نوازا ہے، یعنی جو قرآن و حدیث سے براہ راست دین کی باتیں اخذ کرنے و جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا جو عام دینی کتب پڑھ کر دینی تعلیمات ، شریعت کے احکام ا ور خیر کی باتوں سے واقف ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو سمجھانے کی استعداد رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ کہ مسلم گھرانے کا ہر فرد، پڑھ کر یا سن کر دین کی ضروری باتوں اور عام اخلاقی تعلیمات کا کچھ نہ کچھ علم رکھتا ہے۔ اس لیے گھر کے لوگوں کو خیر کی طرف متوجہ کرنا یا ا حکامِ الٰہی کی خلاف ورزی پر انھیں متنبہ کرنا ( حکمت کے تقاضوں اور موقع ومحل کی رعایت کے ساتھ ) کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ قرآن و حدیث کا پیغام یہ ہے کہ گھر، خاندان و معاشرہ کے لوگ اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق ایک دوسرے کو اچھی باتوں اور نیک کاموں کی یاددہانی کراتے رہیں ۔
  • اہلِ خانہ کی تربیت میں والدین کا کردار: دوسرے یہ امر بھی غور طلب ہے کہ کسی کے ’اہل‘ میں اس کی اولاد لازمی طور پر شامل ہوتی ہے اور یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں کہ اولاد کی اصلاح، ان میں اخلاقِ حسنہ کی آبیاری، اچھی عادتوں کی پرورش میں سب سے اہم کردار والدین کا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس میں کسی شبہہ کی گنجایش نہیں کہ اولاد کی نسبت سے اصلاحِ احوال کی بنیادی ذمہ داری والدین کی ہی ہوتی ہے۔ ا ولاد کے آرام و سکون کے لیے والدین تمام ممکن سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور ہر قسم ( وقت ،مالی وسائل، جسمانی قوت و ذہنی صلاحیت ) کی قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اسی طرح دینی و اخلاقی لحاظ سے ان کی زندگی کو سنوارنا بھی ان کا بڑا اہم و خوش گوار فریضہ ہے۔ اس ضمن میں اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ بہت بر محل معلوم ہوتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اولاد کے لیے والد کا بہترین تحفہ یہ ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے،بالخصوص انھیں حسنِ ادب کی تعلیم دے۔ حضرت ابن سعدؓ سے مروی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ِ مبارک ملا حظہ فرمائیں: مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ اَدَبٍ (جامع ترمذی، ابواب البر والصلۃ) ’’کسی والد کا ( اپنی) اولاد کے لیے حسنِ ادب سے بہتر کوئی اور تحفہ نہیں ہے‘‘۔

آج کل تقریباً ہر گھر میں اولاد یا زیرِ نگرانی بچوں کی نسبت سے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے، اس کے حصول میں محنت و مشقت و سنجیدگی کے لیے انھیں باربار نصیحت کی جاتی ہے، ان کی خوب سرزنش ہو تی ہے، ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔ ان سب میں کوئی حرج نہیں،اس لیے کیریئر بنانے اور دنیوی زندگی کی تعمیر و ترقی کے لیے تعلیم کا حصول، اس میں انہماک اور اچھی کارکردگی ضروری ہے، لیکن لمحۂ فکریہ ہے کہ والدین و سرپرستوں کی یہ نصیحت و یاددہانی، سختی وسرزنش،دینی معاملات میں کوتاہی و فرض عبادات کی ادائیگی میں غفلت، اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی اور بُری حرکتوں کے عا دی ہونے کی صورت میں کم ہی نظر آتی ہے، بلکہ بعض اوقات والدین یا سرپرست انھیں ایسی سہولیات مہیا کرتے ہیں، جو بے کار و لایعنی باتوں میں غیرمعمولی دل چسپی، وقت کے ضیاع اور بُری عادتوں کے جڑ پکڑنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

  • تربیت کا اوّلین مرکزگھر:کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ماضی میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا اوّلین مرکز گھر ہوتا تھا۔ ما ں کے گہوارے کو بچہ کی پہلی درس گاہ کہا جاتا تھا ( اب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ مسلَّم ہے)۔ ماں باپ کے علاوہ گھر کے دوسرے لوگ انھیں اچھی باتیں سکھانے، ان میں اخلاقی خوبیوں کی نشو ونما اور انھیں ادب و تہذیب سکھانے میں نہ صرف دل چسپی لیتے تھے،بلکہ اہم کردار ادا کرتے تھے۔ اب گھر کا یہ نظامِ تعلیم و تربیت بہت کمزور ہوتا جارہا ہے۔ بچوں کے سلسلے میں نصیحت،تنبیہ، تاکید و یاددہانی کی ترجیحات بد ل چکی ہیں۔ انھیں دینی و اخلاقی باتیں سکھانے یا ان کی تربیت دینے پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں گھر اور خاندان کے بکھرے و بگڑے ہوئے ماحول میں بچوں کے تعلیم و تربیت کے قدیم نظام کے احیا و استحکام کی ضرورت کی شدت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندانی و سماجی زندگی سے متعلق مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں گھروخاندان کی موجودہ صورتِ حال کی اصلاح فوری توجہ کی طالب ہے۔
  • اہلِ خانہ کے لیـے دعوتی اجتماع:عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے گھرانوں کے ایک دو (یا اس سے زیادہ ) فرد دعوتِ دین کے کام میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات عام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ گھر کے بعض لوگ کسی دینی جماعت سے وابستہ ہوکر دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں، تذکیری مجالس منعقد کرتے ہیں اور دعوتی اجتماعات میں خطیبانہ یا تقریر ی صلاحیت کے بھی جوہر دکھاتے ہیں۔ یہ تمام دینی سرگرمیاں مستحسن و مفید ہیں، لیکن یہ کم ہی مشاہدے میں آتا ہے کہ یہ لوگ اپنے گھر کے لوگوں کے لیے بھی دینی مجلس منعقدکرتے ہوں اور انھیں ہفتہ ،دو ہفتہ میں اکٹھا کرکے اجتماعی طور پر قرآن و حدیث کی باتیں سناتے ہوں اور انھیںغلط کام سے دُور رہنے پر متنبہ کرتے ہوں۔ اس کام کی افادیت محتاجِ بیان نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وعظ ونصیحت اور تذکیری و دعوتی سرگرمیوںکے مستحق گھر کے لوگ نہیں ہوتے ؟ یقینا ہوتے ہیں اور سب سے پہلے ہوتے ہیں۔

گھر کے لوگوں کی اصلاح کی خاطر ہر گھر میں وقتاًفوقتاً دینی یا تذکیری مجلس کے انعقاد کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور موجودہ حالات میں یہ وقت کا ایک اہم تقاضا بن چکا ہے۔ کرونا لاک ڈائون کے دوران محلّہ کی مساجد میں یا دوسرے کسی مقام پر اجتماعی طور پر دعوتی و تذکیری پروگرام موقوف ہونے کی وجہ سے اس ناچیز کو گھر میں درسِ قرآن کے توسط سے گھر والوں کے سامنے ہفتہ وار کچھ کہنے کا موقع ملا تو ان مجالس کے تجربات نے گھر میں دینی یا تذکیر ی مجالس کے انعقاد کی اہمیت و افادیت کو دل ودماغ میں نقش کردیا۔ یہ احساس غالب ہوگیا کہ اس سلسلے میں اب تک بڑی کوتاہی ہوئی ہے۔

گھر میں تذکیری مجلسیں منعقد کرنے کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں سامنے آیا کہ روزمرہ زندگی سے متعلق قرآن و حدیث کی عام ہدایات و تعلیمات کی طرٖف متوجہ کرنے کے علاوہ بعض اوقات گھر کے کسی فرد کو دین کی کسی خاص بات یا روز مرّہ زندگی کے کسی خاص پہلو کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یا گھر کے لوگوں یا کسی فرد میں خلافِ شریعت معاملات نظر آنے پر انھیں متنبہ کر نا ضروری ہوجا تاہے تو قرآن و حدیث کے حوالے سے جب تذکیری مجلس میں سب کے سامنے یہ باتیں واضح کی جاتی ہیں تو گھر کے تمام لوگوں کو ان سے واقفیت ہوجاتی ہے اور متعلقہ امر یا معاملہ سے متعلق قانونِ شریعت سے عمومی آگاہی ہوجاتی ہے۔ دوسرے اس طرح کی مجالس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غلطی یا کوتاہی پراجتماعی طور پر متنبہ کر دینے کی وجہ سے گھر کے کسی فرد کو انفرادی طور پر نکیر کرنے یا خطاکار /غلطی کرنے والے سے براہ راست کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ خود سمجھ جاتا ہے کہ اس تنبیہ کا اصل مخاطب کون ہے، اس طرح وہ شرم ساری سے بچ جاتا ہے اور متنبہ کرنے والا انفرادی نکیر کے کسی منفی ردِِّ عمل سے محفوظ رہتا ہے۔

 حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی کوئی غلط بات یا برائی کی خبر ہوتی اور آ پؐ اس کی اصلاح کرنا چاہتے تو یہ نہ فرماتے کہ فلاں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا ،ایسا کہتا ہے، بلکہ یہ فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا،ایسا کہتے ہیں (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، بَابٌ فِیْ  حُسْنِ العِشْرَۃِ)، یعنی آپؐ مجلس میں خطا کار کا نام لیے بغیریا اسے براہِ راست مخاطب کیے بغیر غلطی پر متنبہ کر تے اور اصلاح فرماتے۔

  • نماز کی تاکید __ اولین تقاضا:رہا یہ مسئلہ کہ گھر کے لوگوں کو کن باتوں کی خصوصی تاکید کی جائے اور کن اعمال کی انھیں بار بار یاد دہانی کرائی جائے، یا گھر پر تذکیری مجالس میں  دینی و اخلاقی تعلیمات کے کن پہلوؤں پر زیادہ زور دیا جائے؟ یقینی طور پر فرض عبادات کی ادائیگی کی تاکید سب سے مقدم ہے، بالخصوص گھر کے تمام افراد کو نماز کا پابند بنا نے کی کوشش کی جائے اور اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی و غفلت دُور کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ فرض عبادات میں نماز اوّل نمبر پر ہے۔ یہ افضل العبادت ہے اور اللہ رب العزت کو یاد کرنے اور اس سے تعلق مضبوط کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اہم بات یہ کہ گھر والوں کو اس فریضہ کی ادائیگی کی تاکید کی بابت بعض قرآنی آیات سے رہنما اشارات بھی ملتے ہیں۔

حضرت اسماعیلؑ کے امتیازی اوصاف میں یہ بیان کیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کے اہتمام ا ور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ   ۝۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّا۝۵۵ (مریم۱۹: ۵۵) ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کی نگاہ میں پسندیدہ تھے‘‘۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو شرک سے اجتناب اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی نصیحت کے فوراً بعد اقامتِ صلوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہتمام کی تاکید کی تھی۔ ارشادِ ربّانی ہے: يٰبُنَيَّ اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْكَرِ (لقمان ۳۱:۱۷) ’’اے میرے بیٹے! نماز کا اہتمام کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصی حکم فرمایا: وَاْمُرْ اَہْلَكَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہَا۝۰ۭ (طٰہٰ۲۰:۱۳۲) ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور خود اس پر جمے رہیے‘‘۔

آیت کا آخری حصہ اس لحاظ سے بڑا اہم و سبق آموز ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ گھر والوں کو نماز کی تاکید کرتے رہنے کے ساتھ خود بھی اس پر کار بند رہیں۔ اس سے یہ قیمتی نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کی راہ میں سرگرم رہنے والوں اور انھیں نیک کاموں کی دعوت دینے والوں کو پہلے اپنے آپ کو ان کا خوگر بنا نا نہایت ضروری ہے،ورنہ دعوت و تذکیر بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔سچ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حکمِ الٰہی کی تعمیل میں سرگرم رہنے والا کون ہوسکتا ہے۔

یہاں نماز کے اہتمام کے باب میں اسوۂ مبارکہ سے متعلق صرف ایک حدیث کا حوالہ کافی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام کاج میں لگے رہتے تھے، جیسے ہی نماز کا وقت آجاتا (یا ایک دوسری روایت کے مطابق اذان ہوجاتی) تو آپؐ بلاکسی تاخیر کے اس کی تیاری میں مصروف ہوجاتے تھے (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب کَیْفَ یَکُوْنُ الرَّجُلُ فِیْ اَھْلِہٖ، صحیح بخاری، کتاب النفقات، باب خدمۃ الرجل فی اھلہ)۔

  • دین کی روز مرہ تعلیمات سے آگہی: اسلام،جیسا کہ معروف ہے، مکمل نظامِ حیات سے عبارت ہے، اور قرآن اہلِ ایمان کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ پورے کے پورے سلامتی کے راستہ (یعنی اسلام ) میں داخل ہوجائو (البقرہ ۲:۲۰۸) ۔ اس لیے عبادات کے علاوہ خانگی، معاشرتی و معاشی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق بھی قرآنی ہدایات و حدیث کی تعلیمات کی یاددہانی ایک دوسرے کو مسلسل کراتے رہنا چاہیے۔ روز مرہ زندگی سے متعلق خاص طور سے سلام و کلام، ملاقات ، میزبانی و مہمانی کے اصول و آداب، کھانے پینے ،اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے کے اسلامی طور و طریق سکھانا، والدین، اولاد، بھائی، بہن، اقربا، پڑوسی، خادم و مزدور کے حقوق سے واقف کرانا، فضول خرچی، غیر ضروری رسوم و روایات اور بے مقصد کاموں میں وقت کے ضیاع سے پرہیز پر زور دینا اور لین دین کے معاملات میں دیانت داری و شفافیت کی تعلیم دینا، اور ان سب امور سے متعلق قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کی ایک دوسرے کو تاکید کرتے رہنا زیادہ اہم معلوم ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر پہلو سے کتاب و سنت کی تعلیمات کے بار بار تذکرے یا ان پر عمل کی یاددہانی کے بغیر انسانی زندگی کی اصلاح کا جامع تصور شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
  • معروف و منکر کا فریضہ: اسی ضمن میں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تذکیر ونصیحت کے تعلق سے اگر اسِ وقت کے معاشرہ میں کچھ حرکت نظر آتی ہے تو وہ زیادہ تر امر بالمعروف( اچھی باتیں بتانے و نیک کاموں کی ترغیب) میں محدود رہتی ہے، برائیوں یا گناہ کے کاموں پر متنبہ کرنے اور ان سے باز رکھنے کی کوشش کم دکھائی دیتی ہے۔ عام لوگوں سے قطعِ نظر خواص و دینی جماعتوں میں نہی عن المنکر کے پہلو سے جو غفلت یا بے توجہی پائی جاتی ہے اس پر مولانا حکیم محمد اخترؒ کا تاثر بہت برمحل ہے: ’’منکرات پر روک ٹوک کی عادت اہلِ علم میں بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے منکرات پھیلتے جارہے ہیں۔ جس طرح اچھائیوں کا پھیلانا فرضِ کفایہ ہے اسی طرح برائیوں کو مٹانا بھی فرض کفایہ ہے۔ آج اس سلسلے میں غفلت ہورہی ہے‘‘۔

 سچ بات یہ کہ ’ نہی عن المنکر‘ کے بغیر ’امربالمعروف‘ کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا، جیسا کہ قرآن کریم میں دونوں کام ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کے ساتھ ساتھ ذکر کے اہتمام سے واضح ہوتا ہے، اور اہلِ ایمان کے امتیازی اوصاف میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے رو کنے کا تذکرہ بار بار ملتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُس صورتِ حال میں جہاں ہر طرف برائیوں کا زور ہو اور لوگ گناہ کے کاموں کے عادی ہوگئے ہوں، وہاں نہی عن المنکر کی ضرورت و ا ہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں زندگی کے ہرپہلو سے متعلق گھر کے لوگوں کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر یا تذکیر و فہمایش کی ضرورت بڑھتی ہی جارہی ہے۔

  • اجتماع اہلِ خانہ کا انعقاد کیسے؟ :رہا یہ مسئلہ کہ گھر میں تذکیری مجالس کیسے منعقد کی جائیں ؟ حقیقت یہ کہ ان کا انعقاد کچھ بھی مشکل نہیں۔ شکرِ الٰہی کہ ملک کی مروجہ زبا نوں میں قرآن و حدیث کے تراجم اور ان سے متعلق تفسیری و تشریحی کتب بہ کثرت دستیاب ہیں۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مختلف زبانوں میں کتب و رسائل کی بھی کمی نہیں ہے۔ تعلیم کے اس پروان چڑھتے ماحول میں شاید ہی کوئی گھر یا خاندان پڑھے لکھے افراد سے خالی ہو۔ قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ کرکے تذکیر کرنے میں اگر کچھ دشوار ی ہوتو متعلقہ کتابوں کی مدد سے یہ کام بآسانی کیاجاسکتا ہے ۔ جہاں تک ان مجالس کے لیے وقت فارغ کرنے کا سوال ہے،کیا یہ واقعہ نہیں کہ اس ماحول میں جہاں بہت سے غیر ضروری یا بے مقصد کاموں کے لیے وقت کا بے دریغ استعمال ہو تا رہتا ہے، وہاں ہفتہ وار تذکیری پروگرام سے فیض یابی کے لیے یا آخرت کی تیاری کی خاطر آدھا،پون گھنٹہ وقت فارغ کرنا مشکل نہیں،بلکہ معمولی سی بات ہے۔ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کے لیے وقت فارغ کرنا بلاشبہہ موجب خیر و برکت، وسیلۂ اجر عظیم اور باعثِ افادیت کثیرہ ہے۔ نیک کام و نیکی کمانے کی طلب ہو اور عزم و ارادہ ہو تو بتوفیقِ الٰہی مشکل سے مشکل کام آسان ہوجاتا ہے ۔ دوسرے یہ بھی پیش نظر رہے کہ روز مرہ زندگی سے متعلق اچھی باتیں بتانے اور نیک کاموں کی رغبت پیداکرنے کے لیے لیکچر و تقریریا وعظ ضروری نہیں۔ کون شخص ہے جو اس طرح کی کچھ باتوں سے واقف نہیں، اُٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، بات چیت کرتے یہ کام بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
  • اصلاح کا آغاز: آخر میں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ہر معاملے و ہر مسئلے میں قرآن ہمارے لیے بہترین رہنما ہے۔ گھر والوں یا دوسروں کی اصلاح کے کام کے لیے کیا ترتیب بنائی جائے یا اس کے لیے سب سے پہلے ضروری کام کیا ہے ؟ اس باب میں مذکورہ بالا  آیت سے ہی یہ رہنما ضابطہ اخذ ہوتا ہے اور وہ اس طور پر کہ آیت میں اَنْفُسَكُمْ  کو اَہْلِيْكُمْ  پر مقدم کیا گیا ہے،یعنی اصلاح کے کام کی قرآنی ترتیب یہ ہے کہ پہلے اپنی تعلیم و تربیت اور اصلاح کی فکر کی جائے، پھر اولاد ،گھر والوں یا دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی جائے۔ جیسا کہ اس آیت کی روشنی میں بعض بزرگ علمائے دین نے اصلاحی کوششوں میں اس ترتیب کو ملحوظ رکھنے پر خاص زور دیا ہے اور انھوں نے یہ تاثر بھی ظاہر کیا ہے: ’’ دیکھا بھی جاتا ہے کہ جس کو خود اپنی اصلاح کی فکر ہے اس کو اپنی اولاد و متعلقین کی تعلیم و تربیت کی بھی فکر ہے اور وہ اس کے لیے آسان بھی ہے‘‘ (شاہ وصی اللہؒ ، ’علم ترقی کا اہم ذریعہ ہے‘، دعوۃ الحق،اگست ۲۰۱۵ء،ص۴)۔  گویا جو شخص اپنے حالات کو سدھارنے میں سنجیدہ و سرگرم رہتا ہے اس کے لیے دوسروں کی اصلاح کی راہ ہموار ہوجاتی ہے اور یہ حقیقت تو اپنی جگہ مسلَّم ہے کہ اپنے کو سدھارنے کے بعد دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی جاتی ہے تو اس کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

 یہ آیت اسی نکتہ پر غور وفکر کی دعوت دے رہی ہے:اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ (البقرہ۲:۴۴) ’’کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟۔ امام غزالیؒ نے دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی راہ میں قرآنی ترتیب کو اختیار کرنے پر اس انداز میں زور دیا ہے :’’دوسروں کی اصلاح اپنی اصلاح پر مرتب ہوتی ہے، لہٰذا چاہیے کہ انسان اصلاح کے عمل کا آغاز اپنی ذات سے کرے ،پھر اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے، جو خود درست نہیں ہے وہ دوسرے کو کیسے درست کرے گا؟‘‘ (احیاء علوم الدین)۔

مختصر یہ کہ قرآن و حدیث کا واضح پیغام یہ ہے کہ گھر اور خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتاتے رہیں ، نیک کاموں کی یاد دہانی کراتے رہیں اور بُرے کاموں سے باز رکھنے کی کوشش کریں ۔ بلاشبہہ موجود ہ بگڑی ہوئی صورتِ حال میں قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے حالات سدھارنے،انھیں نیک کاموں کی طرف راغب کرنے اور انھیں برائیوں سے دُور رہنے کی تاکید کرنے کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ گھر کے ہر شخص سے یہ مطلوب ہے کہ خود اپنی اصلاح کے ساتھ حسبِ صلاحیت و استعداد حکمت کے ساتھ د وسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کرے اور گھر کے لوگ ایک دوسرے کو اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، ملتے جُلتے اچھی باتیں بتاتے رہیں اور نیک کاموں کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔ گھر میں اگر کوئی علمِ قرآن و حدیث سے بہرہ ور ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ گھر کے لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے با خبر کرے،یا پھر دینی کتابوں کی مدد سے ان کی تذکیر کرے اور دینی احکام کے تعلق سے انھیںسمجھا ئے بجھا ئے۔

خلاصہ یہ کہ گھر میں ایک دوسرے کو انفرادی طور پر سمجھانے بجھانے ، تذکیر و فہمایش، تنبیہ و آگاہی کے ساتھ خاص گھر والوں کے لیے وقتاً فوقتاً اجتماعی پروگرام کا انعقاد بہت ضروری ہوگیا ہے۔ کم از کم ہفتہ میں ایک بار خاص طور سے گھر کے لوگوں کے لیے تذکیری پروگرام کا نظم جاری کیا جائے اور قرآن و حدیث کے حوالے سے انھیں سمجھانے بجھانے کا سلسلہ قائم رکھا جائے ۔ بس اصل مسئلہ ہے اس کام کی اہمیت و افادیت کو دل میں جاگزیں کرنے اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا۔ اس کے لیے ذہن سازی اور مسلسل جد و جہد درکا ر ہے ۔ بلا شبہہ قرآن کی ہربات بر حق ہے۔ا للہ کا کوئی حکم حکمت و نافعیت سے خالی نہیں، وہ بہر صورت موجبِ خیر و برکت ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی نہایت واضح ہدایت ہے کہ لوگوں کو اچھی یا نفع بخش باتیں (جس طریقے سے بھی ممکن ہو) بتاتے رہو، اس سے اہلِ ایمان کو ہر حال میں فائدہ پہنچتا ہے : وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۵۵(الذاریٰت ۵۱:۵۵) ’’اور (ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی) یاددہانی کراتے رہو، بے شک یاد دہانی کرنا اہل ایمان کو نفع پہنچاتا ہے‘‘ ۔

محبت کا جذبہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا ہے۔ اگر ماں اور باپ میں یہ محبت نہ ہوتی تو آپ اور مَیں، شاید اس دنیا میں آج اس جگہ نہ ہوتے جہاں ہیں۔ اس طرح بھائی بہن کے رشتے کو دیکھیں، قریبی رشتے داروں کی محبت اور استاد کی شاگرد سے شفقت دیکھیے تو محسوس ہوگا کہ محبت کےبغیر تو یہ دنیا ہی ادھوری ہے۔ جن معاشروں میں یہ رشتے ناطے مفقود ہوتے جارہے ہیں وہاں نہ چھوٹے کو بڑے کی خبر اور نہ بڑے کو چھوٹے کی فکر۔ زندگی ہے کہ بس حیوانوں کی طرح گزر رہی ہے۔

شاید اسی لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے محبت و احترام کو لازم قرار دے دیا ہے۔ کیونکہ صبر، تحمل، رواداری، ہمدردی، رحم دلی، ایثار، خیر خواہی، حِلم، بردباری اور بے شمار خوبیاں ایسی ہیں، جن کے سوتے ’سرچشمۂ محبت‘ ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اگر باہمی محبت کا جذبہ ختم ہو کر نفسانیت کی گدلاہٹ چشمۂ دل میں پیدا ہوجائے تو پھر مذکورہ بالا خوبیوں کے بجائے کِبر، حسرت، نفرت، انتقام، تصادم، اشتعال، غیبت، تشدد، جتھے بندیاں، سازشیں اور اس طرح کے دوسرے رذائل انسان کی زندگی پر چھا جاتے ہیں۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہے:  اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ  اِخْوَةٌ    (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔

ہادیٔ برحق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا ایک تقاضا یہ بتایا کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی (یعنی) مسلمان کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (بخاری)،یعنی:

  • تم اپنے ساتھ کیسا برتاؤ چاہتے ہو؟
  • تم دوسروں کی طرف سے کس لہجے میں بات سننا پسند کرتے ہو؟
  • کیا تم کِبر اور تحقیر کو دوسروں کی طرف سے اچھا سمجھتے ہو؟
  • کیا تمھیں یہ اچھا لگتا ہے کہ بات بات پر لوگ تمھیں مجرم ٹھیرائیں؟
  • کیا تمھیں دھمکیاں دی جائیں تو تم خوش ہوتے ہو؟
  • کیا تمھارے کسی فعل کے بارے میں تجسس کیا جائے؟
  • کیا تمھاری غیرموجودگی میں تمھاری برائی، یعنی غیبت کی جائے؟
  • کیا تم پر ایسا عیب لگایا جائے جو تم میں نہیں؟

پس، جو جواب تم ان سوالوں سے اپنے لیے چاہتے ہو، وہی اپنے ہر بھائی بہن کےلیے چاہو۔ محبت ہو تو آدمی اپنے اقربا اور رفقا کی خوبیوں اور ان کے فضائل کی قدر کرتا ہے، ان کی کمزوریوں سے درگزر کرتا ہے۔ اور اگر کسی کمزوری کی اصلاح مطلوب ہو تو ایسے خیر خواہانہ انداز سے بات چیت کرتا ہے کہ اختلافات کے پہاڑ، رُوئی کے گالوں کی طرح اُڑ جاتے ہیں۔ محبت دوسروں کے دلوں کو نرم رکھتی ہے اور بند دروازے کھول دیتی ہے ۔ کسی کو بھائی کہہ کر بلانا، پاس بٹھانا، خود اس کے پاس چل کر جانا، اس کے شکوک و شبہات دُور کرنا، اس سے شکایت ہو تو خوب صورت طریقے سے بیان کرنا، یہ سب کچھ بہترین نتائج کا ذریعہ بن جاتا ہے۔محبت ہوتی ہے تو آدمی دوسرے بھائی کو معاف کرنے کےلیے بآسانی رضامند ہوجاتا ہے اور محبت ہی یہ ترغیب بھی دلاتی ہے کہ ایک شخص خود آگے بڑھ کر دوسرے سے اپنی کسی غلطی کی معافی مانگے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ کن کاموں سے محبتوں کو ایک دوسرے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  • عزّت و آبرو: انسان کے نزدیک عزت و آبرو ہر چیز سے بڑھ کر قیمتی ہوتی ہے۔ جہاں یہ منع کیا گیا ہے کہ ایک بھائی کی عزت و آبرو سے نہ کھیلا جائے وہیں اس بات کی بھی تاکید کر دی گئی ہے کہ اگر ایک مسلمان کو برا بھلا کہا جا رہا ہو تو وہ اس کی عزت کا تحفظ کرے اور اس طرح تحفظ کرے جیسے اپنی عزّت کا کرتا ہے۔ حضرت ابودرداءؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی بے عزّتی یعنی اس کی غیبت کرنے سے روکے اور اس کا دفاع کرے تو اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بچائے یا اس سے دوزخ کی آگ کو دُور کردے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ، آیت وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ (الروم ۳۰:۴۷) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنین کی مدد کرنا ہم پر واجب ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دُور کر دی، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ جس نے کسی تنگ دست آدمی کو سہولت بخشی، اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت بخشے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)

  • دُکھ درد میں شرکت: اپنے بھائی کی مدد، حاجت روائی اور حسن سلوک کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ایک کا دکھ درد دوسرا بھی اسی طرح محسوس کرے۔ ایک شخص جو تکلیف محسوس کرے، اس کا مسلمان بھائی بھی اسی طرح اس تکلیف کو محسوس کرے۔ ورنہ کیفیت تو یہ ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے راوی محمد بن عبداللہؓ بن نمیر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جانے میں اس کا سارا جسم شریک ہو جاتا ہے‘‘۔(مسلم)

  • احتساب و نصیحت: ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاں کہیں بھائی کے معاملات میں بگاڑ دیکھے، اسے نصیحت کے ذریعے صحیح کرنے کی کوشش کرے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ دنیا کا احتساب، آخرت کے احتساب سے بہتر ہے۔ چنانچہ اصلاح کرنے والے کا ممنون ہونا چاہیے کہ اس نے آخرت کی پکڑ سے بچا لیا۔ احتساب و نصیحت دل سوزی، اخلاص اور محبت سے ہو تو یہ اُلفت و لگاؤ کو بڑھاتے ہیں اور باہم تعلقات میں استحکام پیدا کرتے ہیں۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دُور کرتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ (ترمذی)

  • ملاقات: آج ہم ایک ایسے مصنوعی دَور سے گزر رہے ہیں جس میں قریب والے بھی دُور ہوگئے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ہزاروں میل دُور ہوتے ہیں۔ یہ دَور ہے ٹکنالوجی کا، یہ دور ہے سوشل میڈیا کا۔ جس کی وجہ سے گھر میں بیٹھے ہوئے بھی ہم واٹس اَیپ، فیس بک، ٹیوٹر اور نہ جانے کن کن سائٹس پر اپنا وقت صرف کررہے ہوتے ہیں یا اکثر اوقات برباد کررہے ہوتے ہیں اور برابر بیٹھے بھائی بہن، ماں باپ، بیوی بچوں سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ جب گھر میں ہماری یہ کیفیت ہو تو باہر کے لوگوں سے ملنا ایک سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔

ایسے میں بالمشافہ ملاقات محبت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔محبت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ ملے، اس کے پاس بیٹھے۔یہ دلوں کو  قریب لانے کے لیے مؤثر ترین چیز ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ملاقاتیں ہی تھیں جنھوں نے حضرت عثمان ؓابن عفان، حضرت عبدالرحمٰن ؓبن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت زبیرؓ بن عوام اور ان جیسے بہت سے صحابہ کرامؓ کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو دیکھنے اور ملاقات کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پیچھے ۷۰ ہزار فرشتے ہوتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یہ صرف تیرے لیے جڑا ہے تُو اسے جوڑ دے۔ اگر تم سے ممکن ہو تو اپنے جسم سے یہ (ملاقات کا) کام ضرور لو‘‘۔ (مشکوٰۃ)

ایک صاحب نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے کہا کہ ’’میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنائی کہ ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے، جو میرے لیے باہم مل کر بیٹھتے ہیں ، میرے لیے ایک دوسرے سے ملنے کو جاتے ہیں ، اور میرے لیے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔

ملاقات سے نہ صرف تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کا اجر بھی بڑا عظیم ہے۔ آئیے عہد کریں کہ محبتوں کو فروغ دینے اور اس کے صلے میں اللہ کی محبت اپنے لیے واجب کرنے کےلیے ہم ایک دوسرے سے ملاقات کو اپنا شعار بنائیں گے۔

  • عیادت: ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا یہ حق ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو وہ اس کی عیادت کو جائے۔ ایک بیمار اپنی جسمانی اور نفسیاتی کیفیات کے باعث دوسروں کی ہمدردی اور خدمت کا محتاج ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر دوسرا بھائی اس کے کام آئے، تو یہ ہمدردی اور خدمت دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہے اور باہمی تعلقات میں استحکام کا باعث بنتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت صبح کو کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ شام ہوجائے۔ اور شام کو عیادت کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔ عیادت کرنے والے کے لیے جنت میں میوؤں کے باغات ہیں‘‘۔ (ترمذی)

معروف حدیثِ قدسی کا حصہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، حالانکہ تُو تو رب العالمین ہے؟ اللہ فرمائے گا: کیا تُو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)

اللہ سے دُعا کریں کہ اللہ توفیق و ہمت عطا فرمائے کہ محبتوں کو فروغ دینے کے لیے جہاں کسی بیمار کی اطلاع ملے اُس کی عیادت کریں گے تاکہ اپنے ربّ سے وہاں شرفِ ملاقات حاصل کرسکیں۔

  • اظہارِ جذبات: دل میں محبت کے جذبات ہوں تو وہ اظہار کے متقاضی ہوتے ہیں ورنہ ہمارے کسی بھائی کو کیا خبر کہ ہم اُس سے محبت رکھتے ہیں۔ محبت کے اظہار سے جذبات میں تازگی رہتی ہے، تعلقات میں حرارت رہتی ہے اور باہم تعلقات مستحکم سے مستحکم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ محبت کو مخفی نہ رکھا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی اپنے بھائی سے محبت کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو خبر کردے کہ وہ اس سے محبت رکھتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

ویسے بھی محبت چمکتے سورج کی طرح ہے کہ اگر اس میں تصنع اور بناوٹ کی آمیزش نہ ہو اور اخلاص کا رنگ ہو تو افعال و کردار سے جھلکتی نظر آتی ہے۔

  • شخصی اور ذاتی اُمور میں دل چسپی: ہمیں کسی سے محبت ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم اسے خوش دیکھیں اور اپنے اند ر خوشی محسوس نہ کریں۔ اُسے غمزدہ دیکھیں تو اُس کی چبھن اپنے اندر نہ پائیں۔ یعنی یہ محبت کا لازمی جُز ہے کہ جس سے محبت ہو اُس کے شخصی اور ذاتی اُمور میں ہم دل چسپی لیں۔ پُرخلوص محبت کا یہ تقاضا ہے کہ آدمی اپنے بھائی کے شخصی اور ذاتی اُمور میں اتنی ہی دل چسپی لے جتنی اپنے کاموں میں لیتا ہے۔ جہاں بھائی کو مدد کی ضرورت ہو، وہاں بڑھ کر اس کی مدد کرے، جہاں اس کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہو، اس کے ساتھ کھڑا ہو۔دُکھ سُکھ کا ساتھی ہو۔ جب بھی اُس محبوب کو کوئی خوشی یا غمی ہو تو سب سے پہلا نام اُس کے ذہن میں آپ ہی کا آئے۔ اسی طرح وقتاً فوقتاً تحفے تحائف بھی دیتے رہنا چاہیے۔ اس سے بھی تعلقات مستحکم ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دوسرے کو تحفے بھیجا کرو۔ اس سے باہمی محبت پیدا ہوگی اور دلوں سے دشمنی دور ہو جائے گی‘‘۔ (بخاری)

اخوت اور محبت، ایمان کی لازمی شرط ہے۔ جس کے سامنے اس کے دین کا نصب العین جتنا واضح ہوگا ، اسے اپنے بھائی سے تعلقات اتنے ہی عزیز ہوں گے۔ جب ایک کا دکھ درد دوسرے کا دکھ درد اور ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی بن جائے تو ایسے تعلقات وہ تعلقات کہلائیں گے جو تحریک کو زندگی اور حرارت بخشتے ہیں اور تحریک کی کامیابی کاضامن ہوتے ہیں۔

  • عفو و درگزر: جب دو آدمیوں کا تعلق استوار ہوتا ہے تو یہ فطری امر ہے کہ ان میں کچھ ایسی باتیں رُونما ہوں جو ناگواری، تلخی اور تکلیف و اذیت کا باعث ہوں۔ تعلقات کی مضبوطی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم دل میں اپنے بھائی کے لیے وسعت رکھیں۔ اپنے غصے کو قابو میں رکھیں۔ اس کی جانب سے غلطی ہوجانے کی صورت میں باوجود قدرتِ انتقام کے انتقام نہ لیں۔ قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جارہا ہے:

خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۝۱۹۹  (اعراف ۷ : ۱۹۹) ، اے نبیؐ! عفو و درگذر کا طریقہ اختیار کرو، نیکی کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو۔

 ابن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ مسلمان جو لوگوں میں ملاجلا رہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے، اس مسلمان سے بہتر ہے جو ملنا جلنا چھوڑ دے اور ایذاؤں پر صبر نہ کرے‘‘(ترمذی)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے خاموش رہے ، تو اللہ ایسے بندے کی زبردست مدد فرماتا ہے‘‘۔

جو دنیا میں اپنے بھائیوں کی خطائیں معاف کریں گے، اللہ آخرت میں اجرعطا فرمائے گا:

وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۝۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۲ (النور  ۲۴: ۲۲) اور چاہیے کہ وہ عفو و درگزر سے کام لیں۔ کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اللہ عزوجل تمھیں بخش دے ؟ اور اللہ تو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

  • دُعا: بھائی کے حق میں دعا بہت سارے حقوق اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ اپنے بھائی کے لیے اللہ عزوجل سے رحمت و مغفرت طلب کیجیے۔ اصلاح احوال اور بھلائی کی دعا کیجیے۔ دعا غائبانہ بھی کیجیے اور بھائی کےسامنے بھی۔ جب وہ یہ دیکھے گا کہ میرا یہ بھائی میرے لیے عملی طور پر بھی بھلائی کی کوشش کرتا ہے اور اللہ کے حضور میری حاجات کے لیے بھی ہاتھ پھیلاتا ہے، میرے دکھ درد پر تڑپ کر میری مشکلوں کی آسانی کے لیے ربّ کے حضور درخواست کرتا ہے اور میرے لیے رب کی بخشش اور عطا کا طلب گار رہتا ہے،تو وہ بھی یہی جذبات آپ کے لیے رکھے گا اور آپ کی بھلائی کا حریص ہوجائے گا۔ اس طرح تعلقات کو وہ لازوال استحکام میسر آئے گا جو زندگی کی آخری سانس تک قائم رہے گا۔ ہمیں دعا کرتے رہنا چاہیے:

اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا ، اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑے رکھ اور ہمارے تعلقات کی اصلاح فرمادے۔ 

وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا  مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۶۳ (انفال ۸ :۶۳) وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے۔ مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔

قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ مہذب انسانی تاریخ۔ انسانوں نے اپنے معبودوں کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیں یہاں تک کہ اپنی جان کی بھی۔ اس کی مثالیں تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ ایک مثال قدیم مصر میں دریائے نیل کے خشک ہونے پر کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر قربان کیے جانے کی ہے۔ جس کو حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں ان کے ایک خط نے ختم کیا۔

قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا حضرت آدمؑ ہی کے زمانے میں شروع ہوا۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے انبیا ؑکے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو سورۂ آل عمران کی آیت ۱۸۳میں بیان فرمایا کہ انھوں نے کہا: ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے‘‘،حالانکہ یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی۔

اُمت محمدیہؐ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت ان کے لیے حلال کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں بلکہ ایک حکمِ شرعی کی تعمیل اور سنتِ ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔ چنانچہ واضح الفاظ میں فرمایا کہلَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۝۰ۭ(الحج۲۲:۳۷)’’اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔

  • انسانی تاریخ کی پہلی قربانی: انسانی تاریخ کی پہلی قربانی حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ۝۰ۘ  اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۝۰ۭ (المائدہ ۵:۲۷)اور ذرا انھیں آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو ۔ جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی، اور دوسرے کی نہ کی گئی ۔

  • قربانی کی فضیلت:قرآن مجید میں قربانی کے لیے تین لفظ آئے ہیں۔ ایک نُسُک ، دوسرا نحر اور تیسرا قربانی۔

 

  • نُسُکْ: یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں عبادت، کہیں اطاعت اور کہیں قربانی کے لیے جیسے سورہ حج کی آیت ۳۴ میں فرمایا: وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ’’اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کر دی ہے‘‘۔ یہاں یہ لفظ جانور کی قربانی کے لیے ہی آرہا ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد مِّنْم بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ  کا لفظ ہے، یعنی ان چوپایوں پر  اللہ کا نام لے کر قربانی کریں جو اللہ نے ان کو عطاکیے۔
  • نحر: دوسرا لفظ قربانی کے لیے قران مجید میں نَحَر کا آیا ہے جو سورۃ الکوثر میں ہے ،یعنی ’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں‘‘۔
  • قربانی: تیسرا لفظ قربانی قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کی ۲۷ویں آیت میں آیا ہے جہاں حضرت آدمؑ کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کے واقعہ کا ذکر ہے کہ’’آپ ان لوگوں کو آدم ؑ کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی‘‘۔

امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔ تاہم، عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے۔

سورئہ حج کی آیت ۳۴ میں ہے : ’’اور ہم نے ہر اُمت کےلیے قربانی اس غرض کےلیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ اُسی کی فرماں برداری کرو، اور خوش خبری سنادو اُن لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں‘‘۔

سورۂ حج کی آیت نمبر ۶۷ میں ہے کہ ’’ہم نے ہر اُمت کے لوگوں کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک نحر کے دن( یعنی ۱۰ذی الحجّہ)  کو قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں۔ قیامت کے روز قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے نہیں پاتا کہ اللہ کے یہاں مقبول ہو جاتا ہے۔ لہٰذا قربانی دل کی خوشی اور پوری آمادگی سے کیا کرو۔ (ترمذی، ابنِ ماجہ)

ایک اور حدیث میں آتا ہے:صحابہ ؓ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول ؐ اللہ یہ قربانی کیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ اس میں ہمارے لیے کیا اجرو ثواب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ (ترمذی ، ابنِ ماجہ)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)

  • قربانی کا حکم:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔ (ترمذی)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے آج کے دن، یعنی بقرعید کے دن ہماری پہلی عبادت نماز اور پھر ذبح کرنا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہمارے ساتھ یہ نماز (یعنی بقرعید کی) پڑھے وہ نماز کے بعد ذبح کرے۔

حضرت انَسؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدؐ نے عید الاضحی کے دن فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا اس کو دوبارہ قربانی کرنی چاہیے اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوگئی اور اس نے ٹھیک مسلمانوں کے طریقے کو پالیا۔

یاد رکھیں! ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔ کچھ علمائے کرام نے اسے سنت مؤکدہ سے تعبیر کیا ہے۔ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر آپؐ نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے، حتیٰ کہ اس کا عید گاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔ قربانی درج ذیل چھے شرطوں سے واجب ہوتی ہےـ:’’ مسلمان ہونا، مقیم ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، صاحب نصاب ہوناــ‘‘۔ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ فرضیت ِزکوٰۃ اور وجوب ِقربانی کا نصاب ایک ہی ہے۔  حالانکہ دونوں کا نصاب الگ الگ ہے۔ زکوٰۃ کے لیے نصاب پر سال گزرجانا ضروری ہے لیکن قربانی کے لیے سال گزرجانے کی شرط نہیں ہے بلکہ عیدِ قرباں کے وقت صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے۔

  • قربانی کا فلسفہ:اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام ہی انبیا ؑ کی امتوں کو کسی نہ کسی طریقے سے قربانی کرنے کا حکم دیا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ابوالانبیا ؑاور خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے ہر سال عید الاضحی کے موقع پر اس بات کا عہد کرتی ہے کہ جس طرح ابوالانبیاؑ ابراہیم ؑ نے اپنے لختِ جگر سیدنا اسماعیل ؑکے گلے پر چھری چلاکر اپنے ربّ کو اس بات کا ثبوت فراہم کیا تھا کہ اے ربّ میں تجھے ہی تخلیق کرنے والا، پرورش کرنے والا، ضرورتوں کا خیال رکھنے والا، مالک، پالنہار اور آقا مانتا ہوں۔ ہم بھی اُسی جذبے سے تیرے حکم کو بجا لاتے ہیں۔

عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجر ہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبۂ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مینارۂ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہوجانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا۔ اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرسکو گے۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورکشاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں۔

  • آدابِ فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن کسی تردد کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تنفیذ کے لیے پیش کر دی۔
  • ایک ماں نے برسوں کی دعاؤں، التجاؤں اور مناجاتوں کے بعد ملنے والے اپنے نور ِ نظر کو بلند حوصلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔
  • ایک عظیم باپ نے کسی تردد کے بغیرپدری جذبات کو اللہ تعالی کے حکم پر قربان کرتے ہوئے تسلیم و رضا کی بلند ترین حدوں کو چھو لیا اور عملی طور پر اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی کوشش فرمائی۔
  • اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اپنے خاص لطف وکرم سے نوازنے کے لیے جس امتحان میں ڈالا تھا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نہیں ان کا پورا گھرانا ہی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گیا۔

چنانچہ آپؐ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ ہرسال  قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)

قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندۂ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ (الانعام۶:۱۶۲)۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ،معاشرتی، سماجی اور اُخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔

ہمارا یہ طرزِ عمل نہیں ہونا چاہیے کہ فقط جانور ذبح کردیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکیں۔ قربانی ہمیں درس دیتی ہے کہ

۱-اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعلیٰ منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہنچانے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔

۲- اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع نہیں دے سکتے تو اس کی حسرتوں کاخون  بھی نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔

۳-قربانی کا حکم آنے پر ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنابھی گوارا نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ اپنی خواہشاتِ نفس کو اللہ کے حکم کے تابع کردیں۔

۴-ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کے لیے کوئی جانور خرید سکتے ہیں اور نہ کوئی صاحب ِثروت انسان انھیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا حصہ دینا گوارا کرتاہے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ مسلم اُمہ کے ناداروں کی بھوک و پیاس کا خیال رکھیں۔ انھیں اپنے جسم ہی کا ایک حصہ سمجھیں اور ان کی داد رسی پورے سال کرتے رہیں۔

۵-قربانی ہمیں درسِ اخوت دیتی ہے کہ خاندان اور محلوں میں کسی سے بھی کسی بات پر ناچاقی ہوجانے کی صورت میں اپنی انانیت کے بت کوپاش پاش کردیں اور اپنی ضد کی قربانی دیں اور ہر کسی کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں۔

۶- قربانی ہمیں درسِ اجتماعیت دیتی ہے کہ جیسے پوری مسلم اُمہ تین دن مل کر قربانی کے جانور ذبح کرتی ہے، اسی طرح زندگی کے ہر ہر عمل پر ایک ہونے کا مظاہرہ کرے تاکہ اسلام دشمنوں کو جرأت نہ ہوسکے کہ وہ شعائر اسلامی، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی بے حُرمتی تو دور کی بات اُن کا مذاق بھی نہ اُڑاسکیں۔

۷-قربانی ہمیں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کا سبق دیتی ہے کہ جس طرح اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے اس کی راہ میں اللہ اکبر کہہ کر جانور کو ذبح کیا، بالکل اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اُس ربّ کی کبریائی کو نمایاں کریں۔ اپنے رسم و رواج، اپنی ثقافت، وراثت، معاشرت، معیشت، عدالت، سیاست، داخلی معاملات، خارجی معاملات، خانگی معاملات، غرض ہرجگہ پر اللہ کی کبریائی نظر آئے۔

محبت اور نفرت، انسانی نفس کی دو ایسی خصوصیات ہیں، جو بیک وقت انسانی وجود میں موجود ہیں، جو انسانی نفس اور انسانی زندگی کی بڑی وسعتوں پر اثرانداز ہیں۔ بالکل اس طرح جیساکہ خوف اور اُمید کی بیک وقت موجودگی انسانی نفس کی وہ پُراثر خصوصیات ہیں، جو انسانی زندگی کے بیش تر پہلوئوں پر چھائی ہوئی ہیں۔ اسلام نے جس طرح خوف اور اُمید کی خصوصیات کو صحیح رُخ عطا کیا ہے، اسی طرح اس نے انسانی فطرت میں موجود محبت و نفرت کی خصوصیات کو مستحکم کرکے انھیں ہم آہنگی، توازن اور اعتدال بخشا ہے۔ ان کی حقیقی کارکردگی اور عمل کا تعین کیا ہے۔

انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے اور اپنے وجود سے محبت رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ نمایاں ہو، طاقت ور ہو، غالب ہو اور اقتدار کا حامل ہو۔ وہ بہت سی آسائشیں اور بے شمار نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹ لینے کا خواہش مند رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بڑی عمر پائے اور تمام کائنات کا محور و مرکز بن جائے:

وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ۝۸ۭ(العٰدیٰت۱۰۰: ۸) اور وہ مال و دولت کی محبت میں بُری طرح مبتلا ہے۔

ان خواہشوں، آرزوئوں اور تمنائوں کے حصول میں حائل ہونے والی ہر مادی یا فکری رکاوٹ کو انسان ناپسند کرتا ہے۔ پھر اس انسان سے نفرت کرتاہے، جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنے، جواسے نقصان پہنچائے اور جو اس کے ان حقوق میں حصہ دار بننے کی کوشش کرے، جنھیں وہ محض اپنے لیے مخصوص سمجھتا ہے۔

بہرحال، محبت و نفرت کے جذبات انسان کے نفس کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ اسلام فطرت کے ان میلانات و رجحانات سے برسرِپیکار ہونے کے بجائے، ان کو مہذب اور شائستہ بناتا ہے اور ان کو منظم اور منضبط کرتا ہے۔کیونکہ اگر محبت و نفرت کے جذبات کسی نظم و ضبط کے بغیر انسانی مزاج پر حاوی ہوکررہ جائیں تو وہ جذبات انسانیت کے جوہر کو تباہ اور اس کی قوتوں کو ضائع کردیتے ہیں اور انسان کو غلام بنا لیتے ہیں۔ یہ جذبات نہ صرف دوسروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں بلکہ یہ قوتیں نفس کی گہرائیوں میں باہم متصادم ہوکر خود نفسیاتی وجود کے لیے مہلک بن جاتے ہیں۔

اسی لیے اسلام نے محبت و نفرت کے جذبات پر روح اورعقل کے ضابطے قائم کیے ہیں اور ان ضابطوں کو اللہ کی ذات سے منسوب کر دیا ہے۔ اسلام انسان کو اس بات سے منع نہیں کرتا کہ وہ محض اپنی ذات سے محبت رکھے۔ محبت ایک طاقت ور فطری جذبہ ہے جو انسان کو عمل و کارکردگی اور تعمیروترقی پر اُبھارتا ہے۔ جو ظاہر ہے خود اسلام کے بھی مقاصد ہیں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ انسان بہرطور عمل پر آمادہ رہے۔

مگر اسلام کی نظر میں حُب ِ نفس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ انسان لذتوں کے حصول کے پیچھے دوڑتا رہے بلکہ اسلام کی نظر میں ہروقت لذتوں کے تعاقب میں رہنا، اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ درحقیقت ہرلحظہ نفس کی خواہشات کے تعاقب میں رہنا، نفس کو ہلاکت میں ڈال دینا ہے۔

اسلام کی نظر میں اپنی ذات سے محبت کا مفہوم

دراصل اسلام کی نظر میں حُب ِ ذات کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نصیحت کرتارہے اور اس کی صحیح سمت میں رہنمائی کرے، ایسی رہنمائی جو اسے دُنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کی جانب رہنمائی کرے اور آخرت کی فلاح بطورِ خاص ملحوظ ہو۔ اس لیے کہ آخرت کی زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی ہے اور اس کی نعمتیں دائمی ہیں۔ جب کہ دُنیاوی زندگی محض لہوولعب اور فانی زندگی ہے اور دُنیا کی فانی زندگی کو آخرت کی باقی اور دائمی زندگی پر ترجیح دینا حماقت اور نادانی ہے:

اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝۰ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۝۰ۭ (الحدید ۵۷:۲۰) یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی۔ پھروہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔

زندگی کی حفاظت اسی طرح ہوسکتی ہے اور حُب ِ ذات کے فطری جذبے کی تکمیل کا صحیح راستہ یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو شہوتوں کا غلام بننے اور آخرت کی رُسوائی اور عذاب سے بچائے۔

اسلام اسی تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان کے خوف و نفرت کے جذبات کو صحیح رُخ دیتا اور ان کی مناسب رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم جذبۂ حُب نفس کو بروئے کار لانے کے لیے اس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے جذبات محبت بیدار کرتا ہے جو نعمتوں کا حقیقی مرکزوسرچشمہ ہے اور جس نے انسان کو زندگی عطا کی ہے اور انسان کو تمام قوتیں، صلاحیتیں اور خصوصیات بخشی ہیں:

  • خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ۝۰ۚ (التغابن۶۴:۳) اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے اور تمھاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے۔
  • اَلرَّحْمٰنُ۝۱ۙ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۝۲ۭ خَلَقَ الْاِنْسَانَ۝۳ۙ عَلَّمَہُ الْبَيَانَ۝۴ (الرحمٰن۵۵: ۱-۴) نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔
  •  سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى۝۱ۙ الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى۝۲۠ۙ (الاعلٰی۸۷:۱-۲) (اے نبیؐ) اپنے ربّ برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا۔
  • وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَـيْـــــًٔـا۝۹ (مریم ۱۹:۹) اس سے پہلے میں تجھے پیداکرچکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔
  •  يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِ۝۶ۙ الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙ  (الانفطار۸۲: ۶-۷) اے انسان،کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھےپیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھےمتناسب بنایا۔
  • اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّۃً (الروم ۳۰:۵۴)   اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمھاری پیدایش کی ابتدا کی۔ پھر اس ضعف کے بعد تمھیں قوت بخشی۔
  • وَاللہُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۝۹۶ (الصٓفٰت۳۷:۹۶) اللہ ہی نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور ان چیزوں کو بھی جنھیں تم بناتے ہو۔
  • وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا۝۷۰ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی اورتری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔
  • لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۝۴ۡ (التین۹۵:۴) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔
  •  الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ۝۷ۚ (السجدہ ۳۲:۷) جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی ، اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی۔
  • اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَيْنَيْنِ۝۸ۙ وَلِسَانًا وَّشَفَتَيْنِ۝۹ۙ وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِ۝۱۰ۚ (البلد۹۰: ۸-۱۰) کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے اور (نیکی اور بدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیئے۔

اللہ ہی نے انسان کےلیے روئے زمین پر زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کی ہیں، اور اسے ہرقسم کی آسانیاں بخشی ہیں تاکہ زندگی رواں دواں رہے۔ اور حیاتِ انسانی نکھرتی اورسنورتی رہے:

  • وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔(البقرہ ۲:۲۹)
  • کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمھارے لیے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے، اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے، اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گرسکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔(الحج ۲۲: ۶۵)
  • اس نے زمین اور آسمان کی ساری ہی چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے۔(الجاثیہ۴۵:۱۳)
  • تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔(الانعام ۶:۱)
  • تمھارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں میں تمھارے لیے پناہ گاہیں بنائیں۔ (النحل  ۱۶:۸۱)
  • اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔(الروم ۳۰:۲۱)
  • وہی ہے جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے اور جس نے تمھارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو۔(الزخرف ۴۳:۱۲)
  • کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے ہیں اور اب یہ ان کے مالک ہیں۔ ہم نے انھیں اس طرح ان کے بس میں کر دیا ہے کہ ان میں سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں، کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں اور ان کے اندر ان کے لیے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں۔پھر کیا یہ شکرگزار نہیں ہوتے؟ (یٰسٓ ۳۶: ۷۱-۷۳)
  • اور تمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمھیں پلاتے ہیں ، یعنی خالص دودھ، جوپینےوالوں کے لیے نہایت خوش گوار ہے۔ (اسی طرح) کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمھیںپلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی۔ یقینا اس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے۔ اور دیکھو تمھارے ربّ نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں، اور درختوں میں، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں، اپنے چھتے بنا،اور ہرطرح کے پھلوں کا رس چُوس ، اور اپنے ربّ کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفاء ہے لوگوں کے لیے۔(النحل ۱۶:۶۶-۶۹)

اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے اور وہ اپنے بندوں کو ان کی قوت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور ہرمعاملے میں اس خدائے برتر نے انسانیت کی بھلائی کا پہلو پنہاں فرما دیا ہے:

  •  ہُوَاجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۝۰ۭ (الحج۲۲:۷۸) اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔
  • يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡ (البقرہ ۲:۱۸۵) اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا۔
  • لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ(البقرہ ۲:۲۸۶) اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمے داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔

مزید برآں یہ کہ اللہ سبحانہٗ اپنے خطاکار اور گناہ گار بندوں کو معاف فرما دیتا ہے:

  • ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزدہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اُوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے،اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں___ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو___ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پراصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے ربّ کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کردے گا اور ایسے باغوں میں انھیں داخل کرےگا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک اعمال کرنےوالوں کے لیے۔(اٰل عمران ۳:۱۳۴-۱۳۶)
  • اِلا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی بُرائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفورٌ رحیم ہے۔ (الفرقان  ۲۵:۷۰)
  • (اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔(الزمر ۳۹:۵۳)
  • اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔(النساء ۴:۴۸)
  • یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔(الزمر ۳۸:۵۳)

اسلام اللہ کی پیدا کردہ کائنات سے محبت کا جذبہ اُبھارتاہے اور انسان اور کائنات کے درمیان صداقت اور دوستی کا تعلق قائم کرتا ہے اور باہمی یگانگت اور رشتۂ اخوت استوار کرتا ہے، تعلق عبادت پیدا کرتا ہے کہ کائنات کی ہرشے اسی کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہے اور اللہ سبحانہٗ نے تمام کائنات کو انسان کے مفادات کی تکمیل میں لگا دیا ہے۔ نیز یہ کہ ساری زندہ کائنات اس زمین پر انسان کے ساتھ شریک ِ زندگی ہے اور خاص طور پر بنی نوع انسان ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے تمام انسانوں کے درمیان رشتۂ اخوت اور تعلقِ محبت استوار ہونا چاہیے، اس لیے کہ تمام انسان بلحاظ تخلیق بھی بھائی بھائی ہیں اور بلحاظ رحم بھی آپس میں بھائی ہیں۔ چونکہ ان کے مفادات مشترک اور ان کا آغاز اور ان کا انجام مشترک ہے، اس لیے بھی وہ بھائی بھائی ہیں۔ قرآن اسی تعلق کو انتہائی دل نشین پیرایہ میں بیان کرتا ہے اور انسانی وجدان کو جِلا عطا فرماتا ہے:

  • يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ  وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۝۰ۭ (النساء ۴:۱) لوگو، اپنے ربّ سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد اورعورت دُنیا میں پھیلا دیئے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔
  • وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ (الِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیئے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔
  •  وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَيْہِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۝۰ۭۣ (الحشر۵۹:۹) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔
  •  وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ (الحجرات ۴۹:۱۱) آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو۔
  • وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۝۰ ۭ  (الحجرات ۴۹:۱۲)اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔
  • وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۳۷) آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔

اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں بیان کیا گیا ہے:

  • لَا یُؤْمِنُ  اَحَدُکُمْ  حَتّٰی یُحِبَّ  لِاَخِیْہِ  مَا یُحِبُّ  لِنَفْسِہٖ (بخاری، کتاب الایمان، حدیث :۱۳) کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔
  • وَتَقْرَأُ  السَّلَامَ  عَلٰی  مَنْ  عَرَفْتَ  وَمَنْ  لَمْ تَعْرِفْ (بخاری، کتاب الایمان، حدیث:۱۲،  مسلم، کتاب الایمان، حدیث:۸۱،  ابوداؤد، کتاب الادب، حدیث: ۴۵۴۱) سلام کرو ہرشخص کو جسے تم جانتے ہو اور جسےنہیں جانتے۔

تَبَسُّمُکَ فِیْ  وَجْہِ  اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ (ابن حبان، کتاب البر والاحسان، حدیث:۴۷۵،  بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۳۲۲۰) تمھارا اپنے بھائی کی خاطر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔

  • ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو اگرچہ نبی نہیں ہیں مگر نبی اور شہید ان پر رشک کرتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ کون لوگ ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو نورِ الٰہی کی بنا پر ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ان کے رحم اور ان کے نسب سے نہیں ہیں۔ ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے، جب لوگ خوف زدہ ہوں گے انھیں کوئی خوف نہیں اور نہ انھیں کوئی غم ہوگا۔ بعدازاں آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اَلَا  اِنَّ  اَوْلِیَاءَ  اللہِ   لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ  وَلَاھُمْ   یَحْزَنُوْنَ‘‘ (ابن حبان، کتاب البر والاحسان، باب الصحبۃ والمجالسۃ، حدیث:۵۸۴) ۔

غرض یہ تمام ہدایات انسان کی اس جانب رہنمائی کرتی ہیں کہ انسان باہم پاکیزہ، صاف اور شفاف محبت رکھیں اور اپنی ذات سے محبت میں توازن اور اعتدال قائم رکھیں اور اس کا صحیح مقام پر اظہار کریں اور اپنی ذات کی خاطر دوسرے برادر انسانوں پر ظلم و زیادتی نہ کریں اور دوسروں کے حقوق غصب نہ کریں۔

شر کی قوتوں سے معاملہ

 اسلام نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ شر اور بُرائی کو ہر رنگ اور ہر صورت میں ناپسند کرے اور انھیں بُرا سمجھے۔ اسلام نے حکم دیا ہے کہ ظلم خواہ کسی بھی صورت میں ہو اور کسی بھی نوعیت میں ہو، یہ بہرحال ایک بُرائی ہے جسے بُرا سمجھناچاہیے اور جس کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ جیساکہ حدیث قدسی میں فرمان الٰہی مروی ہے کہ آپؐنے فرمایا :

  • اللہ سبحانہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اُوپر ظلم کو حرام کرلیا ہے اور تمھارے مابین بھی حرام قراردیا ہے۔ اس لیے اب تم باہم ظلم نہ کرو‘‘(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث: ۴۷۸۰)۔

اسی طرح کسی پر زیادتی کرنا بھی بُرائی ہے اور اس بُرائی اور شر کی مزاحمت کرنی چاہیے:

  •  فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۝۰۠ (البقرہ ۲: ۱۹۴) لہٰذا، جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو۔
  • وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ (البقرہ ۲: ۱۷۹) عقل و خرد رکھنے والو! تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔

معاشرے کے کمزور،پچھڑے اور پسے ہوئے لوگوں سے ناانصافی روا رکھنا بھی ’شر‘ ہے۔ اس کو بھی بُرا سمجھنا چاہیے اور اس کی مزاحمت کرنی چاہیے:

  • آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جوکمزور پاکر دبا لیےگئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔ (النساء۴:۷۵)

بلکہ خود اپنی ذات سے ناانصافی بھی ظلم ہے اور قرآن نے اس کی مزاحمت کا بھی حکم دیا ہے:

  •  جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے، ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوںنے کہا: کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے، بعید نہیں کہ اللہ انھیں معاف کردے۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ (النساء ۴:۹۷-۹۹)
  •  مگر فتنہ قتل سے بھی زیادہ بُرا ہے۔(البقرہ ۲: ۱۹۱)
  • تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرہ  ۲: ۱۹۳)

زمین میں فساد پھیلانا اور خدا اور رسولؐ سے برسرِ پیکار ہونا اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا بھی ظلم ہے اور شر ہے اور اس شر کو بھی بُرا سمجھنا چاہیے اور اس کا مقابلہ کرنا چاہیے:

  • جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دَو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں، ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلاوطن کردیئے جائیں۔(المائدہ ۵:۳۳)

تمام کھلی اور چھپی بُرائیاں قابلِ نفرت اور قابلِ مزاحمت شر ہیں:

  • زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگرتم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔(النور ۲۴:۲)
  • جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔(النور ۲۴:۱۹)

صراطِ مستقیم سے انحراف قابلِ نفرت امر

اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم سے ہر انحراف قابلِ نفرت اور قابلِ مزاحمت شر اور بُرائی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

  • جو شخص تم میں سے کوئی بُرائی دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹادے،اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے اسے بُرا کہے، اور جو یہ بھی نہ کرے وہ دل میں بُرا سمجھے۔ جو ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے(مسلم، کتاب الایمان، حدیث:۹۵)۔

ہربُرائی اور ہر شر کا منبع شیطان ہے۔ وہی انسانوں کو بہکاکر شر اور بُرائی کی جانب لے جاتا ہے اس لیے اس سے مکمل نفرت کی جانی چاہیے اور اس سے پوری طرح برسرِپیکار رہنا چاہیے اور اس سے کوئی سمجھوتا اور تعاون نہیں ہونا چاہیے:

  • اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۶۰ۙ وَّاَنِ اعْبُدُوْنِيْ۝۰ۭؔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِيْمٌ۝۶۱ وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا۝۰ۭ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ۝۶۲ (یٰسٓ ۳۶:۶۰-۶۲) آدم کے بچو، کیا میںنے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمھارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے؟ مگر اس کے باوجود اس نے تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گمراہ کر دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟

مومن اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ساری زندگی باطل کی قوتوں اور شیطانی بُرائیوں کے خلاف برسرِ پیکار رہتا ہے اور شر کی طاقتوں پر خیر کی قوتوں کو غالب کردینے کے جہاد میں مصروف رہتا ہے۔ اس سے اس کی زندگی میں محبت و نفرت میں توازن اور اعتدال پیدا ہوجاتا ہے۔

ہمیں اپنی زندگی میں ایسی منصوبہ بندی کرنے کی عادت ہونی چاہیے کہ آیندہ پوری زندگی اس انداز سے گزرے کہ ہمار ا آج کا دن، گذشتہ کل سے بہتر ہو اور آنے والا دن آج کے دن سے بہتر ہو۔اے اللہ تو ہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی، درمیانے حصے کو بہبودی اور آخری حصے کو کامرانی بنادے، آمین!

یا د رکھیے وقت کو بچایا نہیں جاسکتا بلکہ اسے بہتر طریقے سے استعمال کرنے کو ہی وقت بچانا سمجھا جاتا ہے۔وقت کی بچت کے سلسلے میں سب سے زیادہ مددگار اور معاون وہ شعور اورسوچ ہوتی ہے جو انسان وقت کی نسبت سے اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر پہلوئوں پر ہماری نظر رہنی چاہیے ، جن میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

یہاں وقت بچانے کے حوالے سے مختلف ماہرین کی آرا اور مشوروں کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ماہرین نےاپنے اپنے تمدن و ثقافت اور حالات کے مطابق مشورے دیے ہیں۔چند دن ان مشوروں پر عمل کریں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ نتائج غیر متوقع طور پر کتنے حوصلہ افزا ہیں۔  ہم نے ان مشوروں اور اشارات کو تین گروپس میں تقسیم کیا ہے : l ذاتی یا انفرادی زندگی اور تعلیمی زندگی

  • معاشی زندگی (دفتر اور کاروبار)
  • معاشرتی یا قومی زندگی۔

ذاتی یا انفرادی اور تعلیمی زندگی

  • وقت پرکنٹرول حاصل کرنا یا اس کا نظم و نسق، بہتر زندگی کی طرف پہلا قدم ہے۔ سب کو روزانہ وقت کی مساوی مقدار ملتی ہے۔ اب یہ انسان کے اپنے اختیار اور کنٹرول کی بات ہے کہ وہ کس طرح وقت کے اس قیمتی سرمائے کو استعمال کرتا ہے اور کس طرح اس کی مدد سے اپنی زندگی میں بہتری لاتا ہے۔
  • جو لوگ وقت کو قابو میں کرنا چاہتے ہیں وہ یہ بات یا د رکھیں کہ وقت کو کسی بھی حالت میں کنٹرول نہیں کیا جا سکتا لیکن انسان اپنے آپ کو کنٹرول کر کے ہی وہ نتائج حاصل کر سکتا ہے، جو وقت کو کنٹرول کرنے کے تصور سے وابستہ ہیں۔ کہنے کو ہم وقت گزار رہے ہوتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت ہمیں گزار رہا ہوتا ہے۔
  • کیلنڈر استعمال کیجیے۔اپنے کاموں کے لیے مناسب کیلنڈر، ڈائیری یا سوفٹ ویئر استعمال کیجیے اور اس کے ذریعے اپنے اوقات کی منصوبہ بندی کیجیے۔ اپنے کاموں کی شیڈولنگ کیجیے۔
  • اپنی ہفتہ وار اور ماہانہ منصوبہ بندی کیجیے۔
  • اپنے آپ کو منظم کرنے کے لیے اور اپنی استعداد کار بڑھانے کے لیے کچھ خرچ کرکے کتابیں، کیلنڈر، ڈائری ، نوٹ بک وغیرہ خریدنے کی کوشش کیجیے۔ یہ چیزیں پلاٹ کی مانند ہیں، کچھ عرصے کے بعد آپ کواس سے فائدہ حاصل ہوگا۔
  • اپنے شب و روز کا جائزہ لیجیے اور ٹی وی یا انٹر نیٹ کو دیا جانے والا وقت کم کیجیے۔
  • وقت کو بہتر طور پر اسی وقت گزارا جا سکتا ہے، جب اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی گئی ہو۔ صرف کام کاج کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ گھر والوں کے ساتھ گزارے جانے والے وقت، خریداری، تفریح، ورزش، کھانے پینے، روز مرہ کے کاموں اور دیگر امور کے حوالے سے بھی زیادہ سے زیادہ منصوبہ بندی کیجیے۔
  • اپنی فون کالز، ای میلزاور برقی پیغامات یا خطوط کا جواب دینے کے لیے وقت مختص کرنا چاہیے تاکہ اس سلسلے میں وقت نہ ضائع ہو اور نہ بہت کم مختص کیا ہوا محسوس ہو۔
  • وقت کی منصوبہ بندی کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جو وقت جس کام کے لیے مختص کیا ہے، عموماً اس وقت وہی کام ہونا چاہیے ، اورپھر اپنی ساری توانائی اس کام پر خرچ کردیں تاکہ وہ کام اسی وقت کے اندر ہوجائے۔ یہ منصوبہ بندی کا حاصل ہے۔
  • کام کرتے وقت بہت ساری چیزیں خود آپ کو یاد آتی ہیں جو توجہ کو منتشر کرتی اور انہماک میں خلل ڈالتی ہیں۔ جب آپ منصوبہ بندی کے تحت کوئی کام کرنے بیٹھیں تو انہماک میں خلل ڈالنے والی ہر چیز کو آنے سے روکنے کی صلاحیت بیدار کرلیں۔
  • کام کے دوران ہر چالیس منٹ کے بعد تین منٹ کا وقفہ ضرور کریں۔ اسی انداز سے اپنی مصروف زندگی میں سے چند لمحات فراغت کے نکال کر سیر کیجیے یا دماغی تھکن دُور کیجیے۔
  • ہر روز صبح اپنا دن بھر کا منصوبہ بنالیں اور جو کام آپ کو سارے دن میں کرنے ہیں، انھیں کسی ڈائری یا کاغذ پر لکھ لیجیے۔ جو کام مکمل ہو جائیں انھیں کاٹ دیں۔
  • کاغذ یا چھوٹی نوٹ بک ہمیشہ اپنی جیب میں رکھیں تاکہ فارغ اوقات میں جب کوئی منصوبہ یا نیا خیال آپ کے ذہن میں آئے تو اسے فوراً لکھ لیں۔خیال بھی ایک نعمت ہے۔ اسے پکڑنے کے لیے اپنے پاس نوٹ بک کا جال تیا ر رکھیے۔یہ کام آپ اسمارٹ فون کے ذریعے بھی کرسکتے ہیں۔
  • آرام کے اوقات کو نماز کے اوقات سے ہم آہنگ کر لیں۔
  • اپنے فارغ اوقات کو لکھنے پڑھنے ، سوچنے یا کوئی تعمیری کام کرنے میں استعمال کریں۔
  • اگر آپ کا گزر اپنے پسندیدہ فلنگ اسٹیشن (پٹرول پمپپ) کے پاس سے ہو تو اپنی کار کی پوری ٹنکی بھروالیں، تاکہ صرف ایندھن لینے کے لیے آپ کو وہاں کا سفر نہ کرنا پڑے۔
  • ہروقت کچھ نہ کچھ کھلے پیسے یا ریزگاری اپنی جیب میں ضرور رکھیں، بصورت دیگر آپ کو مشکل صورت حال پیش آ سکتی ہے۔
  • ہر کام کے لیے صحیح اورمناسب طریقۂ کار اختیار کرکے وقت بچایا جاسکتا ہے۔
  • وقت میں برکت کے لیے تقویٰ کی روش ضروری ہے۔صبح اٹھنا ضروری ہے۔ اللہ سے برکت کی دعا کرنا ضروری ہے۔
  • بعض معاملات میں انکار کردینا یا منفی جواب دینا، مثلاً یہ کہہ دینا کہ یہ نہیں ہو سکتا، معذرت خواہ ہوں، ممکن نہیں، اصول کے خلاف ہے، میرے پاس وقت نہیں، کسی اور وقت رجوع کریں وغیرہ ضروری ہوتا ہے۔کچھ لوگ اس رویے کو رواداری کے خلاف سمجھتے ہیں۔
  • چھوٹے چھوٹے کاموں کو ایک ہی وقت میں نمٹانے کی کوشش کیجیے۔
  • ان مسائل کے بارے میں جو کہ آپ کےاوقات کو کھا جاتے ہیں یا آپ ان کا نام تساہل یا بیماری دیتے ہیں انھیں حل کرنے کے لیے ماہرین کی مدد لیں۔جو کام چند پیسے لے کر ایک کاریگر کرسکتا ہے، اس کام کو آپ خو د کرکے اپنے وقت کو مت ضائع کریں۔
  • انتظار کے لمحات کو بہتر طور پر استعمال کرنے لیے اپنے پاس کتاب رکھیں۔
  • یومیہ شیڈول بک استعمال کیجیے اور اپنے اوقات کے مصارف تحریر کیجیے اور ہفتہ وار جائزہ لیجیے۔
  • یومیہ کاموں کی ترجیحات ان کی اہمیت کے مطابق ترتیب دیجیے۔ اہم ترین کاموں کو اوّل وقت میں کرنے کی کوشش کیجیے۔
  • اپنی ہفتہ وار بیلنس شیٹ بنائیے اور اپنی پروگریس کا جائزہ لیتے رہیے۔
  • ہر کام اور ہر پروجیکٹ کے لیے ایک لائحہ عمل بنانے کی کوشش کیجیے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کیجیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ایک نقشہ ساز کی طرح پہلے نقشہ بنائیں گے اور پھر اس کے بعد تعمیر شروع کریں گے۔
  • اپنے لیے قابل عمل مقاصد متعین کیجیے۔ان مقاصد کی منازل بھی متعین کریں۔
  • اپنے ٹیلی فون کے وقت کو کنٹرول کریں ۔ حال احوال میں زیادہ وقت نہ لگائیں۔
  • اپنی صحت ، توانائی اور قوت کار کا خاص خیال رکھیں۔صحت کے حوالے سے تنگ کرنے والی علامات کے سلسلے میں ڈاکٹر یا طبیب سے مشورہ کریں۔
  • آپ کے اوقات کی پچاس فی صد مقدار آپ کے اہم کاموں میں لگنی چاہیے۔
  • توازن اور اعتدال کی حدود میں رہیں۔اس سے باہر نکلے تو وقت اور منصوبے کو نقصان پہنچے گا۔
  • تعلقات میں احتیاط کریں۔ فیس بک کی دوستیاں صرف وقت گزاری ہیں۔ دوستوں کی فیکٹریاں بھی مت کھولیں۔ دوست بہت کم ہوتے ہیں بقیہ واقف کار ہوتے ہیں۔ ضرورت کے وقت فائدہ اٹھانے والے لوگوں کو دوست نہیں کہا جاتا۔
  • اپنے معاملات کو تحریر کریں۔ اپنے خیالات کو تحریر کریں۔ اپنے کرنے کے کاموں کو تحریر کریں۔ اپنی وصیت تحریر کریں۔ اہم چیزیں اور کاروباری معاملات اور اثاثہ جات  نوٹ بک میں لکھ لیں یا گھر والوں کو بتا دیں کہ کہاں رکھے ہیں۔ موت بتا کر نہیں آتی۔
  • ہفتہ وار چھٹیوں اور دیگر چھٹیوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ تھکا دینے والے کاموں کو گھر والوں کے ساتھ بطور تفریح کریں تا کہ یہ کام آسانی کے ساتھ ہوجائیں۔
  • اپنے اور اپنے خاندان کے ذاتی ریکارڈ کو ترتیب اور منظم طریقے سے رکھیں۔ہر فرد کے لیے ایک فولڈر بنائیں اور اس میں اہم کاغذات جیسے برتھ سرٹیفیکیٹ، بلڈ گروپ، میڈیکل ریکارڈ، تعلیمی ریکارڈ، شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور اسی قسم کے دوسرے اہم کاغذات رکھے ہوں۔
  • کرایہ اور ٹیلی فون، بجلی، گیس، موبائل اور دیگر بلوں کے لیے ایک جگہ ضرور بنالیں۔
  • اپنے آپ میں لچک پیدا کریں اور ضد اور ہٹ دھرمی سے بچیں۔غم میں وقت نہ جلائیں۔
  • مناسب آرام، اچھی صحت، متوازن غذا، باقاعدگی سے ورزش، منصوبہ بندی اور محنت کے ساتھ فرائض کی ادایگی، تفکرات کی اللہ کو سپردگی، اللہ کی نعمتوں کا شکر اور محنت کے ساتھ توکّل اور دعا ___ یہ عناصر آپ کو ترقی دینے اور کامیاب بنانے میں اہم ہیں۔
  • ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا بغیر لگام کا گھوڑا ہے۔ جو وقت کی فصل کو روند ڈالتا ہے۔ اسے سرخ بٹن کے ذریعے کنٹرول میں رکھیں تاکہ وقت کے گھوڑے سے آپ گر نہ جائیں۔
  • تعلیم اور مطالعہ کے لیے ٹائم ٹیبل بنائیں اور اس پر سختی سے عمل کریں۔

معاشی زندگی ،دفتر یا کاروبار

  • جب آپ کوئی وقت مقرر کریں تو اس امر کا یقین حاصل کر لیں کہ دونوں فریق اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ صحیح وقت کیا ہے۔اسے دوبارہ دُہرا کر پختہ کرنا بہتر ہے۔
  • مقررہ مقام پر پہنچنے کے لیے سفر میں کچھ نہ کچھ گنجایش غیر متوقع حالات کے لیے بھی رکھ لی جائے تاکہ مقررہ مقام پر بر وقت پہنچنے میں آپ کو کوئی دشواری نہ ہو۔
  • اگر آپ کوئی مقصد ایک خط لکھ کر یا ٹیلی فون کے ذریعے حاصل کرسکتے ہوں تو کوشش کریں کہ ذاتی طور پر متعلقہ لوگوں سے ملنے میں دوطرفہ وقت ضائع نہ ہو۔
  • چھوٹے چھوٹے معاملات پر فیصلے جلد ہوجایا کریں تو اس سے وقت بچایا جاسکتا ہے۔
  • دوسروں کے کاموں میں بے جا مداخلت سے پرہیز کیا جائےتاکہ وقت بچایا جائے۔
  • دوسروں کا وقت ضائع نہ کیجیے۔ دوسروں کو انتظار کی زحمت مت دیجیے۔
  • تیزی سے کام کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مار دھاڑ کے ساتھ کام کریں بلکہ   سُست رفتاری سے بچتے ہوئے اسے مقررہ وقت میں کرنے کی کوشش مرادہے۔
  • ای میل کا جواب تحریر کرکے تھوڑی دیر اسے اپنی سوچ کے فریم میں رکھیے اور اگر کوئی جذباتی بات یا غیر مناسب جواب تحریر کرلیا گیا ہے، تو اسے بھیجنے سے پہلے اہتما م کے ساتھ بار بار دیکھیے۔ کوشش کیجیے کہ اگلے روز جواب بھیجا جائے۔
  • کئی کالز کو جمع کرکے ایک وقت میں فون کرنے کی کوشش کریں۔
  • عام معاملات میں فون پر کوشش کریں کہ تین منٹ میں بات ختم ہوجائے ورنہ پانچ منٹ سے زائد بات کرنا وقت کے ساتھ ظلم ہے۔
  • میٹنگوں کو کم از کم کرنےکی کوشش کریں اور وہ بھی ایجنڈے کے مطابق۔ میٹنگوں کو ادارے کے مفاد کے لیے استعمال کیجیے اور اسے بحث و مباحثے کا میدان مت بنائیے۔
  • دوپہر کے کھانے کے بعد چند لمحات آرام کرلیں۔یہ آپ کے لیے قوت عمل کا باعث ہوگا۔
  • ہم ہر کام نہیں کرسکتے۔ ان مصروفیات پر توجہ دیجیے جو بہت اہم ہیں۔ کم نفع مند کاموں کو مؤخر کرسکتے ہیں یا پھر کسی کو تفویض کرسکتے ہیں۔
  • اپنے وقت کا ریکارڈ رکھیے اور جائزہ لیتے رہیے کہ کتنا کارآمد اور کتنا غیر کارآمد خرچ ہوا۔
  • اپنے اہم کاموں کو اس وقت کرنے کی کوشش کیجیے، جب آپ کے جسم میں قوت زیادہ ہو۔
  • وہ کام جن کو کرنےکو طبیعت مائل نہیں ہورہی ہے، انھیں جلد ازجلد کرنے کی کوشش کیجیے۔
  • غیر متوقع کے لیے بھی متوقع رہیے اور اُن کاموں کو بھی اپنے شیڈول کا حصہ بنائیے جو غیرمتوقع طور پر آجاتے ہیں۔
  • جب بہت زیادہ کام آجائیں تو اپنے کاموں کے دو گروپ بنالیں۔ آج کے کرنے کے کام اور وہ کام جو کل ہو سکتےہیں۔ ترجیحات کا تعین کر لیجیے۔
  • اعلیٰ ترین کام کرنے والا (اکملیت پسند) بننے کی کوشش نہ کریں بلکہ کام کو اپنی استعداد کے مطابق احسن اور بہترین طریقے سے کرنے کی کوشش کریں۔
  • بعض اوقات غیرضروری سوچ اور بہت بڑی منصوبہ بندی بھی آپ کے کام میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ ایسی صورت میں فوری عمل بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔تساہل آپ کو کام شروع کرنے سے روکتا ہے اور اکملیت پسندی آپ کو کام ختم کرنے سے روکتی ہے۔
  • اپنے آپ میں اور اپنے رویے میں لچک رکھیے۔ اتنے سخت بھی نہ بن جائیے کہ ٹوٹنا پڑے۔ اتنے نرم بھی نہ بنیں کہ لوگ آپ کو موڑ توڑ کر رکھ دیں۔
  • ایک جیسے کام ایک جگہ جمع کرلیں۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کو ایک وقت میں نمٹائیے۔
  • ہمیشہ اپنی ترجیحات پر توجہ دیں، اپنی مصروفیات پر نہیں۔
  • فیصلے کرنے میں تاخیر نہ کیجیے اور دوسروں کے اوقات کی قدر کیجیے۔
  • اپنے دفتر کے ساتھیوں کا وقت ضائع نہ کیجیے۔
  • اپنی ذاتی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیتے رہیے اور اپنی اصلاح کرتے رہیے۔
  • اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا سیکھیں۔
  • اپنی تحریر کو بہتر بنائیے۔ لہجے میں شیرینی لانے کی کوشش کیجیے۔ تیکھے لہجے سے احتراز کیجیے۔
  • جو چیزیں اور معاملات عموماً تنگ کرتے ہیں ان کا حل نکالنے کی کوشش کیجیے۔
  • جب کام ختم کرلیں تو پھر اسے سائڈ پر رکھ دیں اور بار بار اس پر نظریں نہ دوڑائیں۔
  • اپنے معاونین کی ہمیشہ رہنمائی کرتے رہیں۔ ان کی عزتِ نفس کا ہمیشہ خیال رکھیں۔ انسانوں کے ساتھ غرور اور تکبر کا رویہ آپ کو بہت جلد بغیر سیڑھیوں کے زمین پر پہنچا دےگا۔
  • میٹنگ سے پہلے ہمیشہ پچھلی میٹنگ کی روداد اور اگلی میٹنگ کا ایجنڈا بھیج دیں۔
  • اپنے اسٹاف کی استعداد کار کا اندازہ بھی رکھیں اور ان کا خیال بھی رکھیں۔
  • زندگی کی جائز تفریحات سے فائدہ اٹھائیں۔
  • معذرت کرنے کا فن استعمال کریں۔ جو کام نہیں کرسکتے اور جو کام آپ کے مقاصد کے مطابق نہیں ہے، اس سے معذرت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
  • دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی دنیا اور اپنی آخرت تباہ نہ کریں۔ اپنی نوکری بچانے کے لیے دوسروں کی کرپشن کا حصہ بن گئے تو دوسرے اتنے طاقت ور ہوجائیں گے کہ وہ اپنے آپ کو تو بچالیں گے اور جیلیں ذلّتیں آپ کاٹیں گے اور مقدمات کی رقومات آپ کی نسلیں (وراثت سے) ادا کریں گی۔
  • اپنے آپ کو اوور کمٹ نہ کریں۔ انسان خود بے وقوفی کرکے اپنے اوپر بوجھ لادتا ہے۔
  • ایک وقت میں ایک چیز یا ایک کام کریں۔ بیل گاڑی یا ٹرانسپورٹ کنٹینر بننے کی کوشش نہ کریں۔
  • جو کام شروع کریں اسے ختم بھی کریں۔ یہ ایک اچھی عادت ہے اور اس سےآپ کی کامیابی کے راز وابستہ ہیں۔ اس عادت سے آپ کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔
  • اپنی شخصیت اور رویے میں لچک پیدا کریں۔ ہٹ دھرمی انسانی تعلقات میں زیب نہیں دیتی۔
  • اچھی طرح سے اور غلطیوں سے پاک کام کرنے کی کوشش کریں۔احسن طریقے سے کام کریں کیونکہ یہ انسانوں سے مطلوب ہے۔
  • ناممکن کاموں کو کرنے کی کوشش نہ کریں۔
  • افراد کی تربیت کریں اور انھیں زیادہ سے زیادہ اُمور تفویض کریں اور آگے بڑھنے کا موقع دیں۔
  • مداخلتی چیزوں کا جائزہ لیں اور انھیں دور کرنے کی کوشش کریں۔
  • اپنے ہر کام کے لیے ٹارگٹ دیں اور مقررہ وقت میں اسے کرنے کی کوشش کریں۔
  • غیر ضروری چیزوں کا مطالعہ نہ کریں اور روزانہ آنے والی ای میلز کو بھی فلٹر کرلیا کریں۔
  • جب کسی کام میں کامیابی ہوجائے تو اس کی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے رب کا شکر ادا کیجیے اور اپنے معاونین کی ان کی محنت پر حوصلہ افزائی کیجیے۔ انھیں کریڈٹ دیجیے۔
  • اپنے گھر اور معاشی مقام میں فاصلہ کم کرنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کے وقت کی بچت ہو۔
  • کام کرنے سے پہلے منطق کے سوالات اپنے آپ سے کریں: کیا؟، کیوں؟ ، کیسے؟ اور کب؟
  • گھر پر کام مت لے جائیں اور گھر کو کام پر مت لائیں۔ جب کام پر آئیں تو گھر سے رابطہ کم از کم رکھیں اور جب گھر جائیں تو گھر والوں کے حقوق ادا کریں۔دفتر والوں سے نشریاتی رابطہ کم کردیں۔ شریک حیات اور بچے اور والدین آپ سے آپ کا وقت، آپ کی باتیں اور آپ کی مسکراہٹیں مانگتے ہیں۔ ان کے لیے اجنبی نہ بنیئے۔
  • خاص اور منتخب کام کریں، جن کے بغیر گزارہ ہوسکتا ہے اسے چھوڑدیں۔
  • وہ کام جو دماغی صلاحیت کا مطالبہ کرتے ہیں انھیں ان اوقات میں کریں جب آپ کا دماغ اس کام کے لیے تیار ہو۔ (اپنی روزگار کی زندگی کی بہتری کے لیے ہماری کتاب شاہراۂ روزگار پر کامیابی کا سفر کا مطالعہ کیجیے)۔

معاشرتی یا قومی زندگی

  • کسی دوست کو اطلاع دیے بغیر یا ٹیلی فون پر رابطہ قائم کیے بغیر اس سے ہرگز نہ ملیے۔اسی انداز سے اپنے دوستوں میں اس کلچر اور عادت کوپروان چڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ تہذیب اور شائستگی کے خلاف ہے۔ اگر آپ بغیر اطلاع کے جاتے ہیں تو اس شخص کوآپ آزمایش میں ڈال دیتے ہیں۔
  • ایسے لوگوں سے بچیں جو بے مروت اور اتنے خود غرض ہوں کہ آپ کا وقت خواہ مخواہ ضائع کرنے کی کوشش کریں۔
  • اپنی مشکل حالت میں اپنوں میں سے غیر اور غیروں میں سے اپنے دیکھنے کی کوشش کیجیے۔
  • ٹیلی فون کے استعمال میں احتیاط۔ بسا اوقات بہت ہی غیر ضروری باتیں سامنے آ جاتی ہیں اور کبھی دوسری جانب سے غیر متعلقہ باتیں اور تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ ایسے مواقع پر حکمت سے کام لیتے ہوئے بات چیت کو مختصر کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
  • فضول گوئی سے اجتناب کرکے بھی وقت بچایا جاسکتا ہے۔
  • وقت کی پابندی کیجیے اور جہاں تک ممکن ہو اپنے گھر، دفتر، معاشرے میں اور تقریبات کے حوالے سے لوگوں کو پابندیٔ وقت کی ترغیب دیجیے۔
    • مرتب کی دیگر کتابیں: مزید مطالعے کےلیے ہماری یہ کتابیں مفید ثابت ہوسکتی ہیں:
      • شاہراہ ِزندگی پر کامیابی کا سفر (بقا، ترقی اور کامیابی کے لیے گائیڈ بک کئی زبانوں میں ترجمہ)
      • شاہراہِ عافیت (تاریخی نصیحت اور وصیت ناموں پر مشتمل مختصر کتاب)
      • شاہراہ وقت پر کامیابی کا سفر
      • شاہراہِ روزگار پر کامیابی کا سفر
      • آج نہیں تو کبھی نہیں
      • وقت کا بہتر استعمال
      • مطالعہ اور امتحان کی تیاری  
      • دُعا اور دعائیں۔