تزکیہ و تربیت


اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نےہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان کے روزے رکھنے کا موقع عطا فرمایا ۔ اسی کی توفیق سے ہم روزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ ہمیں روزے کی حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

 روزے کی فرضیّت اور مقصد

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ  لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ  o (البقرہ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ اس کا بنیادی مقصدانسان میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کھانے پینے سے پرہیز اسی تقویٰ کے حصول کا  ایک ذریعہ ہے۔

’صوم‘ کا مطلب ہے (اپنے آپ کو ) روکنا ا ور اس کے معنی صبرہیں ۔ صبر کا کم سے کم تقاضا حرام سے رُکنا ہے، اور مزید یہ کہ اللہ اور رسولؐ کے احکام کی تعمیل جائے۔

رمضان کی عظمت

رمضان کی عظمت قرآن کی وجہ سے ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی ۱۰ سے ۷۰۰ گنا تک بڑھائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیوںکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (متفق علیہ)

قرآن اور رمضان

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن صَامَ رَمَضَانَ ایمانًـا وَّاحتسابًـا غُفِرَلَہُ ما تَقدَّمَ مِن ذنبہ ومَن قامَ  رَمَضَانَ ایمانًـا وَّاحتسابًـا غُفِرَلَہُ ما تَقدَّمَ مِن ذنبہ (بخاری ،  مسلم)جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ 

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی روایت کردہ حدیث میں ہے:

الصَّیَامُ و القرآنُ یَشفعَانِ لِلْعَبْدِ ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: اَی ربِّ اِنّیِ  مَنَعْتُہُ  الطَّعَامَ  والشَّھوات ِ بِالنَّھارِ  فشَفِّعْنِیْ   فِیْہِ ، وَ یقُو لُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّو مَ باللَّیلِ فَشِفِّعْنِیْ فِیْہِ ،   فَیُشَفَّعَانِ (مشکوٰۃ) روزہ اور قرآن (قیامت کے دن) بندےکے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے رب! میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ۔ اور قرآن یہ کہے گا : میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے)  سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی(اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا)۔

پس رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے جڑنے ، اس کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔نیز قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

روزے کی حقیقت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل احادیث میں روزے کی حقیقت وضاحت سے بیان کی گئی ہے:

  •  حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے روزے کی حالت میں بےہودہ باتیں (مثلاً: غیبت ، بہتان ، تہمت ، گالی گلوچ ، لعن طعن ، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے‘‘۔(بخاری)
  • حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سواے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی ، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے، اور کتنے ہی رات کو تہجد میں قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں‘‘۔(دارمی ، مشکوٰۃ)
  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتاہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا۔ پس، جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے ، نہ شور مچائے۔ پس اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تودل میں کہے یا زبان سے اس کو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں، اس لیے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا، کہ روزہ اس سے مانع ہے۔ (بخاری، مسلم ،  مشکٰوۃ)
  • حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْھَا (نسائی) ، ’’روزہ ڈھال ہے، جب تک (تم) اس میں سوراخ نہ کر دو‘‘۔

درجہ بالا احادیث میں جن بُرے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزے کی افادیت اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسےڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے اور اس سے بچاؤ کا کام نہیں لیا جا سکتا۔

کس روزے پر اجر کا وعدہ ہے؟

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کار وزہ رکھا ، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے، ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ (صحیح ابنِ حبان ، بیہقی)۔ گویا کھانے پینے سے رُکنے کے ساتھ ساتھ بُرے اعمال سے بھی رکا جائے اور منہ کے روزے کے ساتھ دوسرے اعضا کا روزہ بھی ہونا ضروری ہے۔

وہ روزہ جس میں آنکھ ، زبان ، کان ، ہاتھ ، پاؤں اور دیگر اعضا کے گناہوں سے بچا جائے، وہی حقیقی روزہ ہے۔ یہی ان اعضا کا روزہ بھی ہے جس پر اللہ سے پورے اجر کی اُمید کی جا سکتی ہے اور جو زندگی میں تبدیلی کا باعث بھی بنے گا۔

آنکھ کا روزہ

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی  لَھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَo (النور ۲۴:۳۰) اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جوکچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ’’نظر ، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا‘‘ ۔(الحاکم )

کس قدر گناہ کی بات ہے کہ کئی مسلمان ٹی وی اور کمپیوٹر پر بے ہودہ اور فحش فلمیں اور پروگرام دیکھتے ہیں، یا فضول ناول یا کتابیں پڑھتے ہیں، اورپھر کہتے ہیں کہ بس کیا کریں روزہ ہے، وقت گزارنے کے لیے کر رہے ہیں۔

کان کا روزہ

کان کا روزہ یہ ہے کہ حرام اور مکروہ اور فضول باتوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا  ط (مریم ۱۹: ۶۲)وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے، جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔

 سورئہ واقعہ میں ہے کہ لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا o  (۵۶:۲۵) ’’ وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے‘‘۔ اسی طرح سورۃ النبا میں ہے: لَا  یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا (۷۸:۳۵) ’’ وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے‘‘۔

روزے کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور صرف یہ نہیں کہ فضول، گناہ والی اور جھوٹی باتیں کرنے سے پرہیز کیا جائے بلکہ ان کو سنا بھی نہ جائے۔ لغو سے پرہیز بہت اہم کام ہے اور یہ لفظ تینوں آیات میں مشترک ہے اور اس سے مراد تمام لایعنی اور بے مقصد باتیں ہیں۔ عموماً یہی بے ہودہ باتیں گناہ ، جھوٹ اور بے حیائی کی بنیاد فراہم کرتی ہیں ۔

زبان کا روزہ

زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔ اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’روزہ ڈھال ہے۔ پس، جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بے ہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کام کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے، تو کہہ دے کہ میر ا روزہ ہے‘‘۔

کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ کے حکم پر ہم روزے میں سحری سے لے کر افطاری تک  حلال کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں، لیکن اسی اللہ نے قرآن میں جس چیز (یعنی غیبت ) کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے اس حرام کو ہم رغبت سے کھاتے ہیں :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا  ط  اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ  مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ  ط وَاتَّقُوا اللّٰهَ  ط اِنَّ اللّٰهَ  تَوَّابٌ  رَّحِيْمٌ  o (الحجرات ۴۹: ۱۲) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

 منہ اور پیٹ کا روزہ

حرام سے پرہیز تو ہر حال میں ضروری ہے مگر اِفطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے‘‘۔ ( احمد ، ترمذی  ،ابن ماجہ  ،الحاکم)

اگر شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزے سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوت توڑنے کا مقصد حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام کھانے پینے میں مشغول ہو جائے۔ 

افطار کے وقت روزہ دار حالت خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود ؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے،اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔

بقیہ اعضا کا روزہ

روزے کا تقاضا ہے کہ ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ  ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ  كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا   o (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقینا آنکھ ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے۔

ہاتھ کسی ناجائز اور حرام کام میں مشغول نہ ہوں اور پاؤں کسی گناہ کی طرف نہ اٹھیں:

اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ  o (یٰسٓ ۳۶: ۶۵)آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور اُن کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں۔

دل کا روزہ

 دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے ۔ البتہ وہ دُنیا جو دین کے لیے مقصود ہو وہ تو دُنیا نہیں بلکہ توشۂ آخرت ہے۔   چار چیزوں کی کثرت سے پرہیز کیا جائے: طعام، کلام، نیند اور اختلاط۔ اور ان راستوں کی نگہبانی کی جائے جہاں سے دل کی بیمار ی لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، یعنی آنکھ، کان، زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی جائے ۔

رمضان کی آخری شب مغفر ت کا پروانہ

 ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیے اور اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں ڈھونڈنے کی (ترجیحاً اعتکاف میں)کوشش بھی کرنی چاہیے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ اس حدیث کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بخشش کی جاتی ہے میر ی اُمّت کی رمضان کی آخری رات میں‘‘۔ عر ض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا:’’نہیں، بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے‘‘۔ گویا جب اہلِ ایمان پورے اہتمام سے حقیقی روزہ رکھتے ہیں تو رمضان المبارک کی آخری شب اُجرت اور انعام کے طور پر ان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔

ہمیں یہ رات فضولیات اور خرافات میں نہیں بلکہ عبادات اور دوسرے نیک اعمال میں گزارنی چاہیے کہ معلوم نہیں پھر یہ رات ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائے اور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرلے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے، آمین!

اسی طرح انسان اپنی طرف سے اچھے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن کبھی کبھی اس کے یہ کام ضائع ہو جاتے ہیں اور بارآور ثابت نہیں ہوتے۔لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اس ضیاع کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کو بچا کر رکھنے کی بھی کوشش کرے۔

اعمال ضائع ہونے سے مراد

قرآنِ مجید میں اعمال کے ضائع ہونے کے لیے ’حبط ِ عمل‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس کا لغوی مفہوم ہے: برباد ہونا، اکارت جانا،بیکار جانا،باطل ہونا، ایک قسم کی نباتات کھانے سے پیٹ پھول جانا۔ قرآن مجید میں حبطِ عمل کی ترکیب ان ۱۶آیات میں استعمال ہوئی ہے: بقرہ:۲۱۷، آل عمران:۲۲، مائدہ: ۵ و ۵۳، انعام: ۸۸، اعراف: ۱۴۷، توبہ: ۶۹، ھود:۱۶، کہف:۱۰۵، احزاب:۱۹، الزمر: ۶۵، محمد:۹ و ۲۸و ۳۲، الحجرات:۲۔

حبط ِ عمل یا عمل ضائع ہونے یا رائیگاں جانے کو ابدی فلاح کی کتاب، قرآنِ مجید میں ان تمثیلوں سے سمجھایا گیا ہے:

چٹان پہ سے مٹی بہہ جانا

یٰٓـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی لا  كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ط  فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا  ط لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا ط وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ ز (البقرہ ۲:۲۶۴)اے ایمان لانے والو ! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک چٹان تھی جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کامینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اورصاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں ، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا ، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔

یہاں چٹان کے اوپر کی مٹی کی مثال دی گئی ہے،جوبخلاف زرخیز مٹی کے ناکارہ ہوتی ہے۔اور بجاے کھیتی اگانے کے خود ہی بہہ جاتی ہے۔ اس مثال میں نیکی ضائع ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ نیکی کی نیت غلط تھی۔

آخر عمر میں جمع پونجی برباد ہونا

اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنْ نّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ  ۙ لَهٗ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ   ۙ  وَاَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاۗءُ  ښ فَاَصَابَهَآ اِعْصَارٌ فِيْهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ   ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ O  (البقرہ ۲:۲۶۴) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ  اس کے پاس ہرا بھرا باغ ہو ، نہروں سے سیراب ، کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا ، اور وہ عین اس وقت ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھلس جائے، جب کہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو۔

بے ثبات کگر والی عمارت کاگرجانا

اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ    ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ (البقرہ ۲:۲۶۶)پھر تمھارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جاگری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا ۔

اس بظاہر بہت بڑی نیکی (مسجد کی تعمیر)کے ضائع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ، اس کوکرنےکی نیت ہی فاسد تھی۔

نیکی اور بدی کے بدلے کا عمومی ضابطہ

اس دنیا میں نیکی اور بدی کا بدلہ مل سکتاہے ، لیکن یہ ضروری نہیں ہے اور اگر ملے تو یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ پورا ہو ۔ آخرت میں بدلے کا عمومی ضابطہ یہ ہے کہ جیسا عمل ،ویسی جزا۔ ایک برائی کا بدلہ ایک برائی اور ایک نیکی کا بدلہ دس اچھائیاں۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ دوسرے اصول بھی ہیں:

  •  کچھ نیکیوں کا اجر مزید بڑھ سکتاہے،سات سو گنا تک۔
  • نیکیاں کرنے کےمعمول کے ساتھ،کسی عذر کی بنا پر نیکی نہ ہو،تب بھی نیکی کا اجر ملتا رہتاہے، مثلاً بیماری میں (بخاری)، سفر میں معمول کی عبادات کا۔ تمنا اور جذبے کی شدت ہو تو بھی نیکی کا اجر مل جاتا ہے، مثلاً جہاد کا(سورۂ توبہ،بخاری)
  • جاہلیت کی حالت میں موت آجائے تو بظاہر اچھے عمل بھی نیکی نہیں رہتے، لیکن ایمان لانے کے بعد جاہلیت کے اچھے اعمال بھی نیکی بن جاتے ہیں اور ان کا اجر ملے گا۔(نسائی)
  • کچھ نیکیاں ختم ہونے کے بعد بھی ان کا اجر جاری رہتا ہے۔مثلاً صدقات ِ جاریہ کی مختلف شکلیں ۔اسی طرح کچھ برائیوں کابدلہ بھی جاری رہتا ہے جنہیں سیئاتِ جاریہ کہتے ہیں۔ سورۂ اعراف میں ہے کہ ہر پیشرو گروہ کے لیے دہرا عذاب ہے۔ (۷:۳۸)
  •  اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور عفو سے کچھ برائیوں کا بدلہ نہیں ملتا ، کچھ کا حساب سے اسقاط ہوجاتاہے، کچھ کی ستار العیوب قیامت میں پردہ پوشی کرلیتا ہے، کچھ خطائیں نامۂ اعمال سے ہی مٹادی جاتی ہیں (تکفیر)۔اسی لیے توبہ و استغفار کا حکم ہے، مختلف گناہوں کا کفارہ بتایا گیا ہے،اور عمومی اصول دیا گیا کہ نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں(ھود ۱۱:۱۱۴) اور کبیرہ گناہوں سے بچتے رہیں تو صغیرہ گناہوں کی معافی کی امید ہے۔
  •  کچھ اچھے عمل ضائع ہو جاتے ہیں ،جسے حبطِ عمل کہا گیا۔

ضائع ہو جانے والے اعمال

یہ پانچ طرح کے اعمال ہیں:

                ۱-            دنیا کے کارنامے جو صرف دنیا کے لیے ہی کیے گئے ہوں۔

                ۲-            بظاہر نیکیاں___ اگر ان کا محرک اللہ کی رضا اور آخرت کا اجر نہ ہواور ان کو کرنے والا کھلےکفر، شرک یا نفاق میں مبتلا ہو۔

                ۳-            بظاہر نیکیاں ،جن کے کرنے والے کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے،۔لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے یا اس نیت میں ملاوٹ ہوتی ہے۔

                ۴-            ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو۔

                ۵-            نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں۔

ان سب ضائع ہونے والے اعمال اور ان کی وجوہات کو تفصیل سے دیکھ لیتے ہیں۔

حصولِ دنیا کے لیے کیے گئے  کام

دنیا کے کارنامےجو صرف دنیا کے لیے ہی کیے گئے ہوں ۔تہذ یبی مظاہر،تمدن کی ترقیاں، تعمیرات، محلات، ایجادات،صنعتیں،کارخانے، سلطنتیں، عالی شان تعلیمی و مالی ادارے، جامعات و تجربہ گاہیں، علوم کے ذخیرے (بشمول ڈگریاں،نظریات ،فلسفے)، فنون،عجائب گھر۔

ان کارناموں کے ضائع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب صرف دنیا ہی کے لیے کیا گیا تھا،خواہ غیر مسلم نے کیا ہو یا نام نہاد مسلم نے ( ایک مسلم خلافت فی الارض کی ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے اللہ وآخرت کومدنظر رکھتے ہوئے یہی کام کرے گا تو یہی کام ثمر آور درخت ہیں)۔

مندرجہ ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام صرف دنیا کے لیے کیے گئے کیونکہ ان کو کرنے والے درج ذیل صفات کے حامل تھے: آیات کا کفر،تکذیب اور مذاق اڑانا، آخرت کا کفر و تکذیب، رسول کا مذاق اڑانا۔

 مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ  اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبَطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۡ   (ھود۱۱:۱۵-۱۶) جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔(وہاں معلوم ہو جائے گا کہ )جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا O  اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا O اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا O ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا O (الکہف۱۸:۱۰۳-۱۰۶) اے نبیؐ ! ان سے کہو ، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا(ملاقاتِ رب کا انکار کیا)۔ اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ، قیامت کے روز ہم انھیں  کوئی وزن نہ دیں گے۔ان کی جزا جہنم ہے اُس کفر کے بدلے جو انھوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۭ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (اعراف۷:۱۴۷) ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا اِنکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔ کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ ’’جیسا کریں ویسا بھریں؟‘‘

  • بظاہر نیکیاں: کافر، مشرک، منافق کی بڑی سے بڑی نیکی بھی ضائع ہوجائے گی، مثلاً دوسروں کی مدد، انفاق،رفاہی کام، اخلاق، صلہ رحمی اور ظاہری عبادات بھی ۔اگر ان کو کرنے والا کفر، شرک یا نفاق میں مبتلا ہو ، اور ان کا محرک اللہ کی رضا اور آخرت کا اجر نہ ہو۔ غیر مسلم کے کیے گئے بظاہر نیک کام ضائع ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح کلمہ گو مسلمان بھی کفر،شرک، نفاق،فسق اور   ظلم میں مبتلا ہواور اپنے بظاہر نیک اعمال کے متعلق کبھی یہ نہ سوچے کہ یہ اللہ اور آخرت کے لیے ہیں، صرف انسانیت کی خدمت یا اپنے دل کے سکون کے لیے کام کرے، تویہ بظاہر نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے۔

اس کے متعلق درج ذیل آیات و احادیث پڑھنے سے پہلے ، ہرمسلمان کو  اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کفر، شرک ، نفاق اور فسق ایک کلمہ گو میں بھی دَر آتا ہے۔قرآن میں کافروں،مشرکین ،منافقین اور فاسقین کی صفات تفصیل سے بتائی ہیں ۔ان کا بڑا مقصد یہ ہے کہ مومن اور مسلم ان صفات سے بچیں۔ ہمارا روزمرہ زندگی کا مشاہدہ بھی ہے کہ یہ صفات مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس لیے کفر، شرک ،نفاق اور فسق کی صفات کو پہچانیں اور ان سے بچیں۔ کیوںکہ ان سے حبطِ عمل ہوسکتاہے۔

مندرجہ ذیل آیات میں کافر/ مشرک/ منافق/ فاسق کا ذکر کر کےاورکہیں ان کی صفات کے ذکر کے بعد حبطِ عمل بتایا گیا ہے۔وہ صفات یہ ہیں: اللہ کی نازل کردہ تعلیم سے کراہت /اللہ کے راستے سے کراہت/اللہ کی ناراضگی والے راستے کی پیروی،استکبار،سرکشی میں حد سے گزرنا، صد عن سبیل اللہ، یعنی دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکنا۔ نفاق(برائی کا حکم،بھلائی سے روکنا، خیر سے روکنا، اللہ کو بھولنا، دنیا کے مزے لوٹ کر، بحثیں کرنا۔)انبیاکاقتل اور ان سے جھگڑا کرنا، مصلحین سے دشمنی رکھنا۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ  (محمد۴۷:۸) رہے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے تو اُن کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے ۔

سورئہ نور (۳۹-۴۰) میں بھی سراب کی طرح عمل بے معنی رہنے کی وجہ کفر بتائی ہے۔

سورئہ ابراہیم(۱۴:۱۸) میں اعمال راکھ کی طرح اڑنے ،کی وجہ رب سے کفر بتائی گئی ہے:

وَلَقَدْ اُوْحِيَ  اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ     ۚ  لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ O (الزمر۳۹:۶۵) یہ بات تمھیں ان سے صاف کہہ دینی چاہیے کیوںکہ تمھاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیا کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارا عمل ضائع ہو جائے ،گا اور تم خسارے میں رہو گے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ  کَرِھُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ  فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْ (محمد ۴۷:۹) کیوں کہ انھوں نے اُس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے، لہٰذا اللہ نے اُن کے اعمال ضائع کر دیے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۙ وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ O اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ  ۡ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ  O (اٰل عمرٰن۳: ۲۱-۲۲) جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں جو خلق خدا میں سے عدل و راستی کا حکم دینے کے لیے اُٹھیں ، ان کو درد ناک سزا کی خوش خبری سنا دو۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے ، اور اُن کا مددگار کوئی نہیں ہے۔

كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّاَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا ۭ فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِيْ خَاضُوْا   ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ     ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ O  (التوبہ۹:۶۹)تم لوگوں کے   رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمھارے پیش روؤں کے تھے ۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے ۔ پھر انھوں نے دنیا میں اپنے حصہ کے مزے لوٹ لیے اور تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اُسی طرح لُوٹے جیسے انھوں نے لُوٹے تھے ، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے ، سو ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کا سب کیا دھرا ضائع ہوگیا اور وہی خسارے میں ہیں۔

سورئہ فرقان (۲۱ تا ۲۳) میں اعمال غبار کی طرح اڑنے کی وجہ آخرت کا انکار، استکبار، سرکشی میں حد سے گزر جانا،بتایا ہے۔

سورئہ آل عمران (۱۱۷) میں پالے والی ہواکے کھیتی پر چلنے کی طرح، اعمال کے ضائع ہونے کی وجہ ،ظلم بتائی ہے۔

سورئہ توبہ (آیت ۱۰۹) میں اوپر درج کی گئی قرآنی امثال میں، کھوکھلی بے ثبات کگر پر بننے والی عمارت گرنے کی مثال، مسجد ضرار کے لیے دی گئی ہے جو کہ منافقین نے مدینہ میں بنائی تھی۔ نفاق کے ساتھ ،مسجد کی تعمیر جیسا مقدس کام بھی  مقدس نہیں رہتا اور رائیگاں چلا جاتا ہے۔

عدیؓ بن حاتم طائی سے روایت ہے کہ میں نے رسول ؐاللہ سے پوچھامیرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور بھی بہت اچھے اچھے کام کرتے تھے،انھیں کچھ ملے گا،یعنی اجر؟آپؐ نے جواب دیاکہ تمھارے والد کی جو نیت تھی وہ انھیں حاصل ہوگئی۔(احمد)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہےکہ انھوں نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ !ابن جدعان بڑی مہمان نوازی اور بڑی صلہ رحمی کرتاتھااور بھی بہت اچھے اچھے کام کرتاتھا۔ ان کاموں کااسے فائدہ ہوگا؟فرمایا، نہیں۔اس نے کسی دن یہ نہیں کہامیرے پروردگار! قیامت میں میری خطاؤں سے درگزر کرنا۔(مسلم،حاکم)

بظاہر نیکی مگر نیت کی خرابی

وہ کام جن کے کرنے والے کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔

انفاق ضائع ہوجاتا ہے(ابطال)،اگر اس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف دی جائے یا دکھاوے کے لیے کیا جائے۔اور اس کے لیے  چٹان پر سے مٹی ہٹنے کی مثال دی گئی ہے، اور کسب کی مقدرت نہ ہونا کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۴ )

 اعمال دنیا ہی کی نیت سے کیے جائیں تو  بڑھاپے میں باغ یا آمدنی کا واحد ذریعہ ختم ہو جانے کی مثال دی گئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۶ )

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ  ښ  وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ   O (التوبہ۹:۱۷) مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآنحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ اور جہنم میں انھیں ہمیشہ رہنا ہے۔

اس آیت میں اصل میں تو کافر و مشرک کا ذکر ہے لیکن مسلم کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ‘ مسجد حرام کی دیکھ بھال’ جیسی نیکی بھی ضائع ہو سکتی ہے۔اور اس کے بعد والی آیت کے مطابق ’حاجیوں کو پانی پلانا‘ بھی ۔

حدیثِ نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید، عالم اور سخی کو جہنم میں ڈال گیا کیوںکہ یہ دکھاوے کے لیے عمل کرتے تھے۔ اس طرح جان کی قربانی، حصولِ علم، صدقہ کیا ہوا مال ضائع ہوسکتے ہیں۔(نسائی، عن ابی ہریرہ)

  • نماز کو ورزش،روزے کو ڈائٹ پلان اور حج کو سیاحت کی نیت سے کرنے سے یہ عبادتیں بے معنی ہوسکتی ہیں۔ اچھے کام میں نیت بھی اچھی ہی رکھیں۔ یعنی صرف اللہ کی خوش نودی اور آخرت کا اجر۔

نیکیاں جن کے آداب کو ملحوظ نہ رکھا گیا

ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کیا گیا ہو ، قبول نہ ہوں گی،خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں، مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے،یا روزہ،حج اور دیگر عبادات  جن کے ارکان و شرائط علما نے الگ سے جمع بھی کردیے ہیں،وہ ان کا خیال رکھے بغیر کیے جائیں۔یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں ،جو ایک مومن کے لیے صحیح نہیں۔علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا،مومن سے مناسبت نہیں رکھتا۔

 وضو کے بغیر نماز اور غلول سے صدقہ قبول نہیں۔(ابوداؤد)

دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کوکسلمندی سے کیا جائے ،یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے،یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔

سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لیے نہیں،بلکہ نمازیوں کے لیے ہی تباہی کی وعید ہے۔ سورئہ نساء (آیت ۱۴۲) نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اور دکھانے کے لیے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔

اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔(سنن ابن ماجہ، ابو مسعود)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہےمگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔پوچھا گیا وہ کیسے ؟۔انھوں نے کہا: کیوںکہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود، نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: ایک شخص اسلام میں بوڑھا ہو گیا اور ایک رکعت بھی اس نے اللہ کے لیے مکمل نہیں پڑھی۔پوچھا گیا کیسے یا امیر المومنین؟فرمایا: اس نے اپنا رکوع پورا کیا اور نہ سجود۔

امام احمد بن حنبل نے فرمایا:انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے لیکن وہ نماز نہیں ہوگی۔

 حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ لاحاصل رہ کرصرف بھوک اور قیامِ لیل بے معنی ہو کر صرف جاگنا بن سکتا ہے۔(ابن ماجہ، ابو ہریرہ)

زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھنے کا ذکر ہے۔(التوبہ۹:۹۸)

جنید بغدادی کا ایک واقعہ کتب میں لکھا ہے،جس میں وہ ایک واپس آنے والے حاجی سے مناسکِ حج کے ساتھ کچھ کیفیات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ جب وہ نفی میں جواب دیتا ہے ،تو وہ اسے حج دوبارہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

کپڑے پہن کر ننگی رہنے والیوں کے لیے وعید ہے۔ اسی طرح خواتین کے ایسے عبایے جو ظاہری چمک و رنگ اور چستی سے مزید کشش کا باعث ہوں ، بے مقصد اور لایعنی پہناوا ہیں۔ مہمان نوازی کرکے ،مہمان کے جانے کے بعد اس پر تنقید و مذاق ،مہمان کی تکریم کی نفی ہے۔

  • نیکی کرنے کا طریقہ بھی صحیح رکھیں اور اس کے لیے اس کا علم حاصل کریں۔
  • نیکی کے دوران اس کے آداب اور دل کی کیفیات کا خیال رکھیں۔پوری رضامندی اور خوشی کے ساتھ نیکی کریں۔
  • نیکی کرتے ہوئے ڈرتے رہیں۔کیونکہ مومنوں کوعمل قبول نہ ہونے کاڈر رہتا ہے اور خشیت مومنوں کی کیفیت ہے۔ سورئہ انبیاء (آیت ۹۰) میں نیکیوں کی دوڑ دھوپ کے ساتھ خوف کا بھی ذکر ہے۔ رسول ؐ کو بھی اپنے عمل سے نہیں، اللہ کے ٖفضل اور رحمت سے ہی جنت میں جانے کی امید تھی(بخاری،ابو ہریرہ)
  • نیکی کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کر لیں۔ خواہ وہ نماز ہو، کوئی انفاق ہو، دین کے لیے نکلنا اور چلنا ہو، یا کسی بندے سے معاملہ ہو۔

 نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اللھم انی اسئلک علما نافعا و رزقا طیبا و عملا متقبلا،اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں نفع بخش علم،پاکیزہ روزی اور قبول ہونے والے عمل کا(ابن ماجہ، اُمِ سلمہؓ)۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دُعا کی تھی: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا،اے ہمارے رب ،ہم سے قبول فرمالے۔(البقرہ۲:۱۲۷)

علما نے کچھ دعاؤں میں سعی مشکور مانگی ہے،یعنی ایسی کوشش جس کی قدردانی کی گئی ہو۔

۵-نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں ،لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں۔ ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی negative marking سے دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر ،صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں ،جو صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لیتے ہیں۔ یہ برائیاں جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتی ہیں ،وہ یہ ہیں:

  •  نبی ؐ کے احترام میں کمی: نبیؐ کے احترام میں کمی دراصل اللہ کے احترام میں کمی اور باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O (الحجرات۴۹:۲ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آوازنبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہو اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔

  •  نبی ؐ کے احترام میں کمی: سورئہ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ        ۭ  فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ   O    وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ  جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ      ۭ  حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَO (المائدہ ۵:۵۲-۵۳) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔ اور اُس وقت اہلِ ایمان کہیں گے: ’’ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں؟‘‘۔ ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے۔

'یعنی جو کچھ انھوں نے اسلام کی پیروی میں کیا،نمازیں پڑھیں،روزے رکھے،زکوٰۃ دی، جہاد میں شریک ہوئے، قوانینِ اسلام کی اطاعت کی،یہ سب کچھ اس بناء پر ضائع ہوگیا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص نہ تھا اور وہ سب سے کٹ کر صرف ایک خدا کے ہوکر نہ رہ گئے تھے بلکہ اپنی دنیا کی خاطر انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے باغیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ رکھا تھا۔( تفہیم القرآن،سورئہ مائدہ۵:۵۳)

بنیادی طور پر اس کی وجہ یہی ہے کہ حق اور باطل دونوں سے تعلق رکھنا، نفاق ہی کی قسم ہے:

باطل دوئی پسند ہے ،حق لاشریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ  (محمد۴۷:۳۳ )اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔

اس آیت کے پسِ منظر کے لحاظ سے بھی، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کش مکش میں جان مال نہ لگاکر،محنت نہ کرکے اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔

حضرت کعب بن مالک کےواقعہ سے سبق ملتا ہےکہ وہ کسی بدنیتی کے بغیر صرف دنیوی مصروفیات کی وجہ سےحق و باطل کی کش مکش میں حق کا ساتھ نہ دے سکے تو ان کی پچھلی ساری عبادت گزاریا ں اور قربانیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔

  •  بُرائی سے منع نہ کرنا ، سمجھوتہ کرلینا : سورئہ اعراف میں اہلِ سبت کا ذکر ہے،جنھوں نے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے دوسروں کو منع نہ کیا ، تو ان کی اپنی نیکیں اکارت چلی گئیں۔ بستی پر عذاب کی ابتدا’نیک‘ شخص سے کی جائے کیوںکہ اس نے بستی والوں کو برائیوں سے منع نہیں کیا تھا۔ اس طرح اس شخص کی اپنی نیکیاں بھی ضائع ہوگئیں۔(ترمذی،ابوبکر صدیقؓ)

بنی اسرائیل کے علماء نے فاسقوں کو منع کرنے کے بجاے ان کے ساتھ کھانا،پینا اور بیٹھنا شروع کردیا تو ان پر بھی لعنت کی گئی۔(ابوداؤد، ترمذی،عبداللہ بن مسعود)

  •  فسق پر مبنی رویّہ: استطاعت کے باوجود ہجرت نہ کرنا:(النساء۴:۹۷-۹۸)

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ   ۭ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ    (التوبہ ۹:۵۳) ان سے کہو ’’ تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت ، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے ۔ کیوں کہ تم فاسق لوگ ہو۔‘‘

کبیرہ گناہ ڈھٹائی سے کرنے سے،کبھی کبھار کی گئی، یا چھوٹی نیکیوں کی قبولیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

مسلم کی روایت کے مطابق،حرام مال کھانے اور پہننے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی اگرچہ وہ لمبا سفر کرکے ،غبار آلود بالوں میں ،آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگے ۔اسی طرح حرام کمائی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ،تو وہ قبول نہیں ہوتا۔

سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندہ جب ایک لقمۂ حرام کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کا عمل قبول نہیں کرتا۔

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:میں اپنی امت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی، تو اللہ عز وجل ان نیکیوں کو غبار بنا دے گا۔حضرت ثوبان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !ہمیں ان لوگوں کی نشانیاں بتائیے،ہمارے لیے ان لوگوں کا حال   بیان فرمائیے،تاکہ ایسا نہ ہوکہ ہم انھیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوجائیں۔

رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:وہ تم لوگوں کے بھائی ہوں گے اور تم ان لوگوں کی جلد میں سے ہوں گے، اور رات کی عبادات میں سے اسی طرح لیں گےجس طرح تم لوگ لیتے ہو۔لیکن ان لوگوں کا معاملہ یہ ہوگاکہ جب وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو انھیں استعمال کریں گے۔(ابن ماجہ)

حضرت بُریدہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے عصر کی نماز چھوڑی ،اس کے عمل اکارت ہوئے(فقد حبط عملہ)۔(بخاری)

 عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے شراب پی، اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازیں قبول نہیں کرتا۔(لم یقبل اللہ) ۔ (ترمذی)

  •  اجتماعی معاملات میں بے احتیاطی:حضرت عبداللہ بن عمروسے روایت ہے کہ نبیؐ کو فتح ہوتی اور مالِ غنیمت حاصل ہوتا تو حضرت بلالؓ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کریں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ لے آئے۔لوگوں کے پاس جو مالِ غنیمت ہوتا، وہ اسے لے آتے۔جب سب مال جمع ہو جاتا تو پھر رسولؐ اللہ پہلے اس میں سے خمس الگ کرتے، پھر باقی مال کو تمام مجاہدین میں تقسیم فرمادیتے۔ ایک دفعہ مالِ غنیمت تقسیم ہو جانے کے بعد ایک آدمی بالوں کی ایک لگام لے آیا اور کہا کہ یہ لگام بھی ہم نے مالِ غنیمت میں پائی تھی۔آپؐ نے فرمایا:تم نے بلال کا اعلان جو اس نے تین دفعہ کیا تھا،سنا  تھا۔اس نے جواب دیا :ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:پھر بروقت کیوں نہ لے کرآئے؟ اس نے جواب دیا: بس دیر ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو اسے قیامت کے دن لے کرآنا،میں اب تم سے قبول نہیں کر سکتا۔(ابوداؤد)

حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایک غزوہ کیا۔ لوگوں نے (جلدبازی میں دوسروں کے اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کردی اور آمد و رفت کے راستے بندکردیے۔(جب آپؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے ایک منادی بھیجاکہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ جو اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کرے گا یا راستے بند کرے گا،اس کا جہاد اکارت۔(ابوداؤد)

حضرت ابوالدرداءؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: جس نے جزیہ کی  زمین خریدی،اس نے اپنی ہجرت کا عمل اکارت کردیا اور جس نے کسی کافر کی گردن سے ذلت کا طوق نکال کر اپنے گلے میں ڈال لیا ،اس نے اسلام کی طرف اپنی پشت کردی۔ (ابوداؤد)

  •  معاملات میں راست نہ ہونا:کسی کو گالی دینے، تہمت لگانے، قتل کرنے سے  انسان کے نماز ،روزہ اور زکوٰۃ دوسرے انسان کو  مل جاتے ہیں۔(ترمذی،عن ابوہریرہؓ)

 حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی۔ایک وہ امام جس کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ دوسرے وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں۔(ابنِ ماجہ)

حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی پاکباز عورت پر تہمت لگانے سے سو سال کے عمل برباد ہوجاتے ہیں۔

قرض واپس نہ کرنے سے شہید کا بھی جنت میں داخلہ رُک جاتا ہے۔(نسائی،محمد بن جحشؓ)

حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔(ابن ماجہ)

مندرجہ بالا احادیث میں کلمہ گو مسلمانوں کا ہی ذکر ہے اور ضائع ہونے والی چیز ان کی نیکیاں ہی ہیں۔

مندرجہ بالا احادیث کو دیکھتے ہوئےعلما نے تشریح کی ہے کہ کوئی گناہ ایسا ہےکہ اس سے کوئی مخصوص عمل ہی ضائع ہوتا ہے یا کسی مخصوص مدت کے لیے قبول نہیں ہوتا ۔اور کوئی گناہ ایسا ہے کہ اس کی شدت کے لحاظ سے نیکیاں بھی ضائع ہو سکتی ہیں۔لیکن ان کا کوئی ضابطہ ہم طے نہیں کرسکتے۔ (ترجمان السنۃ،جلد دوم،مولانا بدر عالم میرٹھی) البتہ یہ کہ گناہ کی شدت کے اضافے کے لحاظ سے احتیاط بھی اتنی ہی زیادہ ہونا چاہیے۔ ان سب پہلوؤں سے ایک مومن کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔

  •  ارتداد: پچھلی ساری عمر کی نیکیاں ختم ہونے کی ایک وجہ،ارتداد ہے۔یہاں تک کہ فقہا نے کہا ہے کہ مرتد اگر تجدیدِ ایمان کرے تو اس کے بعد نکاح کی بھی تجدید کرے اور حج دوبارہ کرے۔

وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ      ۚ  وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ   ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ   (البقرہ ۲:۲۱۷)

تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ  وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ     (المائدہ ۵:۵) اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ اُن کے مہر ادا کرکے نکاح میں اُن کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو ۔اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔

اہلِ کتاب خواتین سے نکاح کے بعد ارتداد یا ایمان کے منافی روش کا خطرہ ہے۔

تفسیر:اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے  طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائےوہ اپنے ایمان و اخلاق کی طرف سے ہوشیار رہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔( تفہیم القرآن)

  • ارتداد فقہی مفہوم کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے۔لیکن مومنوں کو ایک عمومی بات کاخیال رہنا چاہیے کہ نیکیوں کے راستے پرچلتے چلتے، وہ راستہ چھوڑنا نہیں چاہیے ، یا کوئی نیک عمل شروع کرکے ترک نہیں کرنا چاہیے۔

مندرجہ بالا حبط شدہ اعمال کی پانچ اقسام میں سے تین کا مقصود ،اللہ اور آخرت نہ ہونا واضح ہے۔گویا دنیوی کام اور اخلاقی امور صرف دنیا کے لیے کرنا یا نیت میں ملاوٹ ہونا۔قسم چار اور پانچ میں بھی اصل یہ ہوتی ہے کہ اس انسان کی نیت اور کمٹمنٹ میں ہی فتور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وہ عمل ناقص رہتا ہے۔قسم ۴میں علم کی کمی ،کیفیت کی کمی یا دوسرے اعمال کے ذریعے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے۔قسم ۵ پانچ،یعنی دوسری برائیوں کی وجہ سےاچھائیوں کے نمبر منفی اس لیے ہوجاتے ہیں کہ وہ درحقیقت عمل صالح تھے ہی نہیں۔ ابلیس کی پچھلی تمام ریاضتیں اسی لیے ضائع ہو گئیں۔ حدیث میں بھی ایسے انسان کا ذکر ہے جو تمام عمر اچھے کام کرکے آخر میں ایسے عمل شروع کردیتا ہے جو اسے دوزخ میں لے جائیں۔(بخاری،عبداللہ بن مسعود)

  نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان نیکیوں کو بچا کر رکھنے کی بھی فکر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو کہ ہرا بھرا باغ جل چکا ہے اور کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے (البقرہ۲:۲۶۶) ،اور جو بہت اچھا سمجھ کر کیا تھا ، وہ سب بیکار تھا۔ (الکہف۱۸:۱۰۵)

یارب میرے سجدوں کو لٹنے سے بچا لے چل

(نعیم صدیقی)

شعبان المعظّم قمری کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ہے، جو رجب اور رمضان کے درمیان آتا ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ شعبان وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے رکھے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان فرماتے ہیں:

قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللہِ لَمْ اَرَکَ تَصُوْمُ شَھْرًا مِنَ الشُّھُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ قَالَ ذَلِکَ شَھْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ  وَ رَمَضَانَ وَ ھُوَ شَھْرٌ تُرْفَعُ فِیْہِ الْاَعْمَالُ اَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ فَاُحِبُّ اَنْ یُرْفَعَ عَمَلِیْ وَاَنَـاصَائِمٌ (سنن النسائی، کتاب الصیام، حدیث: ۲۶۲۴) میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ!میں نے آپؐ کو شعبان کے علاوہ کسی مہینے کے اتنے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس کی فضیلت سے لوگ غافل ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ پس میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے کی حالت  میں ہوں۔

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان کے پورے مہینے میں اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے کسی ایک دن کو مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔

اُم المو منین حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں:

مَا رَایْتُ النَّبِیَّ یَصُوْمُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ الَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ (ترمذی ، ابواب الجمعۃ، ابواب الصوم عن رسو ل اللہ ، باب ماجاء فی وصال شعبان برمضان، حدیث: ۷۰۰) میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے علاوہ پے در پے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:

کَانَ رَسُوْلُ اللہِ  یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ: لَا یُفْطِرُ وَ یُفْطِرُ  حَتّٰی نَقُوْلَ:  لَا  یَصُوْمُ ،    فَمَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ اسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ اَلَّا رَمَضَانَ وَ مَا رَأَ یْتُہُ اَکْثَرَ صِیَاماً مِنْہُ فِیْ شَعْبَان (بخاری ، کتاب الصوم، باب صوم شعبان، حدیث: ۱۸۸۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے آپؐ روزہ رکھنا نہ چھوڑیں گے، اور آپ ؐ روزے چھوڑتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ؐ کبھی روزہ نہ رکھیں گے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آپؐ کو شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

ان احادیث سے ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی اہمیت کا علم ہوتا ہے۔ تاہم، پورے شعبان کے روزے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مختص تھے، جب کہ امت کو نصف شعبان کے بعد عمومی طور پر روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ وہ افراد اس سے مستثنیٰ ہیں جو ایامِ بیض یا پیر اور جمعرات کے روزے رکھتے ہوں یا گذشتہ رمضان کے قضا روزے رکھنا چاہتے ہوں۔ (سنن ابن ماجہ )

شعبان اور شب برا ٔ ت

 نصف شعبان کی رات عمومی طور پر شب ِ برأ ت کے نا م سے منائی جاتی ہے جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔ نیز اس کی فضیلت کے بارے میں کسی روایت میںبھی لیلۃ البرأت کا نام نہیں ملتا۔ برأ ت کے لفظی معنی اظہار بیزاری کے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ توبہ میں فرمایا:

بَرَاۗءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ (التوبہ ۹:۱) اعلانِ برأت ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے۔

اس آیت مبارکہ میں برأ ت کا لفظ مشرکین مکہ سے بیزاری کے اظہار کے لیے استعمال ہوا ہے۔ بالفرض اس لفظ کو اس رات کی وجۂ تسمیہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون کس سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے اور اس کا نصف شعبان کی رات سے کیا تعلق ہے ؟

  • نصف شعبان کی رات اور نزولِ قرآن : بعض لوگ نصف شعبان کی رات کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے سورۃ الدّخان کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۝۳  فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۝۴ۙ (الدخان ـ۴۴:۳-۴)ہم نے اِسے ایک بڑی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیوں کہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہرمعاملے کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ان آیات میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد نصف شعبان کی رات ہی ہے یا اس سے مراد کوئی اوررات ہے؟ لیلۃ مبارکۃ کے بارے میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا اور مبارک رات سے مراد لیلۃ القدر ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ  (القدر۹۷:۱ ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا‘‘۔ اور یہ لیلۃ القدر رمضان کی رات تھی جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:  شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ ۲:۱۸۵ ) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ، ص۴۰۸)

ابن کثیر ؒ کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد لیلۃالقدر ہے نہ کہ نصف شعبان کی رات۔ کیوںکہ قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل ہوا اور لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی ایک رات کا نام ہے۔ نیز لیلۃا لقدر ہی وہ رات ہے جس میں تمام امور کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق بھی لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہیے۔

حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبادہ بن صامت ؓنے بیان کیا کہ آپؐ اس لیے نکلے کہ ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتائیں۔ اتنے میں دو مسلمان لڑ پڑے تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’میں تمھیں شب قدر کے بارے میں بتانے کے لیے نکلا تھا لیکن فلاں کے لڑنے سے بھول گیا اور شاید تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم اس کو ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷،۲۹ میں تلاش کرو‘‘۔ (بخاری)

اُم المو منین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ؐ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے: ’’ رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر تلاش کرو‘‘۔ ( بخاری )

سورۃ الدّخان کی آیات کی تفسیر اور صحیح احادیث مبارکہ لیلۃ القدر کے رمضان میں ہونے کی وضاحت کے بعد یہ دعویٰ درست نہیں کہ لیلۃ القدر نصف شعبان کی رات ہے یا لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکۃ دو مختلف راتیں ہیں۔

  • نصف شعبان کی رات اور عبادات: نصف شعبان کی رات کے حوالے سے بعض عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے جو شرعاً ثابت نہیں ہیں۔ یہ عبادات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ کے دور کے بعد کی ایجاد ہیں۔ صحابہ کرام ؓ امت کے بہترین لوگ تھے۔ اگر اس طرح کی عبادات پسندیدہ ہوتیں تو وہ ان کو اپنانے میں پہل کرتے۔

حافظ ابن رجب لکھتے ہیں: ’’ نصف شعبان کی رات میں اہل شام کے تابعین میں سے   خالد بن معدان ، مکحول اور لقمان بن عامر وغیرہ بڑی محنت سے عبادت کرتے تھے۔ انھی تابعین سے لوگوں نے اس رات کی تعظیم اور فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جن میں بصرہ کے کچھ    عبادت گزار تھے، مگر علماے حجاز کی اکثریت نے اس کا انکار کیا۔ جن میں امام مالک ، عطاء ابن ابی ملیکہ اور دیگر فقہاے مدینہ شامل تھے۔ سب ہی نے اسے بدعت کہا‘‘۔

عبادات کے لیے مخصوص دنوں اور راتوں کا ذکر واضح طور پر قرآن اور احادیث میں ملتا ہے۔ مثلاً محرم الحرام میں یومِ عاشورہ ، عشرہ ذوالحجہ ، یومِ عرفہ، یوم النحر ، ایام تشریق ، ماہ رمضان ، لیلۃ القدر ، یوم جمعہ، ایام بیض، یعنی ہر قمری مہینے کی ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ وغیرہ مگر شب براء ت کی عبادت کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔

  • اَلصَّلاَ ۃُ الْاَلْفِیَۃُ : نصف شعبان کی رات کی جانے والی ایک عبادت اَلصَّلَاۃُ الْاَلْفِیَۃُ ہے۔یہ سورکعت نماز ہے اور ہر رکعت میں سورۃ الاخلاص دس مرتبہ پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح سورۃ الاخلاص کی کل تعداد ایک ہزار مرتبہ ہو جاتی ہے۔

برعظیم پاک وہند میں اس نماز کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے۔ لوگ غروب آفتاب سے کچھ پہلے ہی مساجد میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ فرض نمازیں ادا نہ کرنے والے بھی یہ نماز پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ اس رات کی برکت سے ان کے سابقہ تمام گناہ اور خطائیں معاف ہو جائیں گی اور ان کی عمر، کاروبار اور رزق میں برکت ہو جائے گی۔ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات میں کوئی مخصوص نماز نہیں پڑھی اور نہ خلفاے راشدینؓ ہی نے اور نہ ائمہ دین امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ ، امام ثوریؒ ، امام اوزاعیؒ ، اور امام لیث ؒ میں سے کسی نے اسے قبول کیا ہے۔

اس بارے میں جو روایات منقول ہیں بالاتفاق تمام اہل علم اور محدثین کے نزدیک موضوع ہیں۔ اس کی ابتدا کے بارے میں علامہ مقدسی ؒ فرماتے ہیں: ’’ہمارے ہاں بیت المقدس میں نہ صلوٰۃ الرّغائب  (جو رجب کے مہینے میں پہلے جمعہ کو ادا کی جاتی ہے ) کا رواج تھا،      نہ صلوٰۃِ شعبان کا۔ صلوٰۃ شعبان کا رواج ہمارے ہاں سب سے پہلے اس وقت ہوا جب ۴۴۸ھ میں ایک شخص ’ابن ابی الحمراء ‘ نابلس سے بیت المقدس آیا۔ وہ بہت اچھا قرآن پڑھتا تھا۔ وہ شعبان کی پندرھویں تاریخ کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کھڑا ہوا۔ اس کی حسنِ قراء ت سے متاثر ہو کر ایک شخص اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا، پھر ایک اور پھر ایک اور، اس طرح کافی لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر وہ دوسرے سال بھی پندرھویں شعبان کی شب آیا اور حسب سابق لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھی۔ پھر سال بہ سال اسی طرح ہوتا رہا اور یہ بدعت زور پکڑ گئی، بلکہ گھر گھر پہنچ گئی اور اب تک جاری ہے‘‘۔

مُلّا علی قاری صَلَاۃُ الْاَلْفِیَہُ کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری کہتے ہیں کہ: نصف شعبان کے روزے کی فضیلت میں مجھے کوئی صحیح اور مرفوع حدیث نہیں ملی۔ (تحفۃ الاحوذی، ج۳، ص ۵۰۵)

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اضافے اصل دین میں ہوتے رہتے ہیں اور فتہ رفتہ دین کا حصہ بن جاتے ہیں ، یوں دین اسلام کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔

  • سلامی روزہ: استقبالِ رمضان کے طور پر ، سلامی روزہ شعبان کے آخر میں رکھا  جاتا ہے۔ یہ روزہ نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا اور نہ کسی اور کو رکھنے کا حکم دیا۔    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب نصف شعبان باقی رہ جائے تو اس کے بعد روزہ نہ رکھو‘‘۔ (ترمذی )

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’رمضان سے ایک یا دو دن پہلے کوئی شخص روزہ نہ رکھے، البتہ وہ شخص جو اپنے معمول کے مطابق روزے رکھتا آ رہا ہے وہ رکھ سکتا ہے‘‘ (بخاری ) ۔یعنی کسی کا فرض روزہ رہتا ہو تو وہ رکھ لے یا وہ شخص جو پیر یا جمعرات کے مسنون روزے رکھتا ہے اور وہ دن رمضان سے پہلے آ رہے ہوں تو ایسا شخص روزہ رکھ سکتا ہے۔

  • مخصوص اذکار و حلقے: نصف شعبان کی رات لوگ مسجدوں میں حلقہ بنا کر بیٹھتے ہیں اور ہرحلقے کا ایک ذمہ دار ہوتا ہے ۔ دیگر افراد ذکر اور تلاوت میں اس کی اقتداء کرتے ہیں، مثلاً کلمہ طیبہ یا دوسرے اذکار کو خاص طرز اور ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں۔یہ خود ساختہ اعمال ہیں جن کی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔

نصف شعبان کی رات اور مختلف رسومات

  • قبرستان جانا: نصف شعبان کی رات کے بارے میں ایک بات مشہور کر دی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بقیع کے قبرستان تشریف لے گئے اور دلیل کے طورپر مندرجہ ذیل روایت پیش کی جاتی ہے:

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے پاس ہوتی تو آخرِ رات میں بقیع (قبرستان ) کی طرف نکلتے اور کہتے :

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُوْمِنِیْنَ وَاَتَـاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ غَدًا مُؤَ جَّلُوْنَ وَاِنَّـا اِنْ  شَا ءَ   اللہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ  اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ  لِاَھْلِ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ  ( مسلم ، کتاب الجنائز، باب ما یُقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا ، حدیث ۱۶۷۱) سلام ہو  تم پر اے گھر والو مومنو! جس کل کا تم سے وعدہ تھا کہ تمھارے پاس آنے والا ہے،  وہ تمھارے پاس آ چکا اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ !  بقیع غرقد والوں کو بخش دے۔

اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نصف شعبان کی رات کو خاص طور پر قبرستان جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ آپؐ اپنے معمول کے مطابق قبرستان گئے تھے۔

  • قبر پر لکڑی گاڑنا: قبر پر لکڑی گاڑ کر مُردے کے حسب حال کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور اس سے باتیں کی جاتیں ہیں، دعائیں اور گریہ وزاری کی جاتی ہے ۔ ان اعمال کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
  • روحوں کی واپسی: بعض لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خاندان کی میّتوں کی روحیں  اس رات اپنے گھر آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ ان کے لیے کیا پکایا گیا ہے۔ چنانچہ لوگ مٹھائیاں، حلوے اور دیگر اشیا بنانے کا اہتمام کرتے ہیں اور انھیں گھروں میں مخصوص مقامات پر رکھا جاتا ہے تا کہ میّت کی روح وہاں آ کر خوش ہو۔ اس طرح گھروں کو صاف کیا جاتا ہے۔ یہ من گھڑت اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ کیونکہ قرآن اور سنت کے مطابق نیک روحیں عِلّیین میں اوربری روحیں سِجّین میں ہوتی ہیں۔ان روحوں کا یہ حصار توڑ کر دنیامیں آ جانا گویا اللہ کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے:

وَمِنْ وَّرَاۗىِٕہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝۱۰۰ (المومنون۲۳: ۱۰۰ ) اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے، دوسری زندگی کے دن تک۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک شبِ برأ ت کے موقعے پر ختم کی رسم ادا نہ کی جائے تو میت کا شمار مردہ میں نہیں ہوتا اور اس کی روح معلق رہتی ہے۔ یہ بھی ایک غلط عقیدہ ہے جس کا ثبوت قرآن مجید یا احادیث مبارکہ میں نہیں ملتا۔

  • مُردوں کی عید: بعض لوگ نصف شعبان کو مُردوں کی عید کہتے ہیں۔ ان کے مطابق عید الفطر زندوں کی عید، جب کہ شبِ براء ت مُردوں کی عید ہے۔ اگر کوئی مر جائے تو شبِ برأ ت کی فاتحہ دلائے بغیر کوئی خوشی کا دن نہیں منایا جا سکتا ۔ یہ بھی ایک من گھڑت بات ہے۔
  • حلوہ پکانا: نصف شعبان کے دن حلوہ پکا کر تقسیم کرنا بھی ایک ضروری امر بن چکا ہے اور اس فعل میں عوام کی اتنی بڑی تعداد شامل ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جنگ ِ اُحد میں شہید ہوئے تو ان کو حلوہ بنا کر کھلایا گیا۔ حالا ں کہ جنگ ِ اُحد شوال میں ہوئی اور حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی ؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اتباع میں دانت شہید کیے اور انھوں نے حلوہ کھایا۔ اس روایت میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس طرح کی بے بنیادباتوں کی ایک طویل فہرست پائی جاتی ہے۔

  • چراغاں و آتش بازی: گھروں ، چھتوں، مسجدوں، درختوں اور قبرستانوں وغیرہ پر چراغاں کرنا، قندیلیں روشن کرنا، پٹاخے چھوڑنا، آتش بازی کرنا اور پوری رات اس کھیل تماشے کے ساتھ جاگ کر گزارنا، نصف شعبان کی رات میں ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ ہندوئوں کی دیوالی ، مجوسیوں کی آتش پرستی کی نقل کے سوا کچھ نہیں ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلم اقوام کی مشابہت سے سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ  مِنْھُمْ (سنن ابی داؤد ، کتاب اللباس، باب فی بس الشّھرۃ، حدیث ۳۵۳۰) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انھی میں سے ہے۔

ضعیف روایات

نصف شعبان کی رات کی فضیلت سے متعلق جو روایات بیان کی جاتی ہیں وہ نہایت ضعیف ہیں جن سے استدلال کرنا کسی طور درست نہیں، مثلاً :

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ماہِ رمضان کے بعد کس ماہ میں روزہ رکھنا افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ماہِ رمضان کی تعظیم میں شعبان کا روزہ ۔ پھر دریافت کیا کہ کس ماہ میں صدقہ وخیرات کرنا افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:ماہِ رمضان میں صدقہ کرنا۔

امام ابن الجوزی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا کیوںکہ اس کا ایک راوی صدقہ بن موسیٰ درست نہیں۔ ابن حبان نے کہا کہ صدقہ جب روایت کرتا ہے تو حدیثوں کو الٹ دیتا ہے۔ امام ترمذی ؒ نے کہا کہ محدثین کے نزدیک صدقہ ، قوی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ روایت ابو ہریرہؓ کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں بیان ہے کہ ماہِ رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا ہے۔

  • اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات نبی اکرم صلی اللہ    علیہ وسلم کو بستر سے گم پایا۔ میں آپ ؐ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ ؐ بقیع میں ہیں۔ مجھے دیکھ کر    نبی اکرم ؐنے فرمایا: کیا تو اس بات کا خوف کھاتی ہے کہ تجھ پر اللہ اور اس کا رسولؐ ظلم کریں گے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ ! میں نے سمجھا کہ آپ ؐ کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان کی نصف شب کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔

امام ترمذی ؒ نے کہا ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی اس حدیث کو ہم حجاج کی سند سے جانتے ہیں اور میں نے امام بخاری ؒ سے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام دارقطنی ؒ نے کہا: یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے اور اس کی سند مضطرب ہے اور غیر ثابت ہے۔ علامہ البانی ؒ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

موضوع روایات

بہت سی روایات تو ’موضوع‘، یعنی من گھڑت ہیں جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا بھی گناہ ہے۔

  • رجب اللہ کا مہینہ ہے، اور شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔

حافظ ابوالفضل بن ناصرؒ نے اس کے ایک راوی ابو بکر نقاش کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ دجال اور حدیث گھڑنے والا ہے۔ ابن وحیہؒ ، علامہ ابن الجوزیؒ ، علامہ صغانیؒ اور علامہ سیوطیؒ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔

  • اے علیؓ ! جو شخص نصف شعبان کو سو رکعت نماز پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الاخلاص دس مرتبہ پڑھے۔ اے علیؓ ! کوئی بندہ نہیں ہے جو ان نمازوں کو پڑھے مگر اللہ تعالیٰ اس کی ہر حاجت اور ضرورت کو جو وہ اس رات مانگے پوری کر دیتا ہے۔

علامہ ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے موضوع ہونے میں مجھے کوئی شک وتردد نہیں ہے اور اس حدیث کے تینوں طُرقُ (طریقوں) میں مجہول اور انتہائی درجے کے ضعیف راوی ہیں۔ علامہ ابن القیم ؒ، علامہ سیوطیؒ اور علامہ شوکانی ؒنے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے۔

جو شخص نصف شعبان کو بارہ رکعت نماز پڑھے جس میں ہر رکعت میں( قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ )  تیس بار پڑھے تو وہ نماز مکمل کرنے سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانا نہ دیکھ لے گا۔

علامہ ابن القیمؒ، علامہ سیوطی ؒاور علامہ ابن الجوزی ؒنے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ اس کے راویوں میں ایک پوری جماعت مجہول لوگوں کی ہے۔

  • حضرت علیؓ بن ابو طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب نصف شعبان ہو تو تم اس رات قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے بعد آسمانِ دنیا میں نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی ہے مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں! کوئی ہے روزی کا خواستگار کہ میں اسے روزی دوں! کوئی ہے مصائب کا گرفتار کہ میں اسے عافیت دوں اور کوئی ہے ___اور کوئی ہے ___یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جائے۔

علامہ بوصیریؒ کے مطابق اس کے راویوں میں ابو بکر بن عبداللہ بن محمد بن ابی سبرہ ہے، جس کے بارے میں امام احمد ؒ، ابن معینؒ اور حافظ ابن حجرؒ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔

خلاصۂ بحث : ان روایات کے مطالعے کے بعد بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جشنِ شبِ برأ ت اور اس میں کی جانے والی عبادات کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام عبادات کا اصل مقصد اللہ کی خوشنودی اور رضا کا حصول ہے۔ ہمیں بالکل اختیار نہیں کہ ہم خود سے دین میں ، کسی عبادت کو کسی خاص وقت یا طریقے سے متعین کر لیں، جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں نہیں دیا۔ اگر ہم ایسا کریں تو ہم اللہ کے دین کو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو نامکمل سمجھنے کی عظیم غلطی کر رہے ہیں اور ایک بدعت کے مرتکب ہو رہے ہیں (نعوذ باللہ من ذلک )۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَہَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۲۱ (الشعراء ۴۲: ۲۱) پھر میں تمھارے خوف سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما لیا۔

لہٰذا ضروری ہے کہ جس وقت، طریقے ، تعداد اور انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی، یاکرنے کا حکم دیا ہے، ہم ان کو اسی طرح ادا کریں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱(الحجرات ۴۹: ۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کُلُ مُحْدَثَۃٍ  بِدْعَۃٌ  وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَ کُلُّ ضَلاَلَۃٍ فِی النَّارِ (النسائی ، کتاب صلوٰۃ العیدین، کیف الخطبۃ، حدیث ۱۷۶۷) ہر نیا کام (دین میں داخل کرنا) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں جانے والی ہے۔

عبادات میں آپ ؐ کے طریقے کی من وعن پیروی میں ہی ہماری دین ودنیا کی کامیابی اور اُخروی نجات کا دارومدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج     وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج    وَاتَّقُوا اللہَ ۝۰ۭ   اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۷ۘ (الحشر۵۹: ۷)جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

ایسی بہت سی غیر تحقیق شدہ باتیں ہمارے دین میں داخل ہو چکی ہیں۔ اکثر جہالت ، لا علمی یا نادانی کے سبب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور بعض اوقات جانتے بوجھتے غلو کرتے ہوئے ایسا کیا جاتا ہے۔ ان سے اجتناب بہت ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّار (بخاری ، کتاب العلم، باب اِثم من کذب علی النبی، حدیث:۱۰۶)  جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ گھڑا اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اصل دین پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیا ل کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر نہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔ (التحریم ۶۶:۶)

اللہ، ربِ مہربان ہمیں خود کو اوراپنے اہل خانہ کو دوزخ کی شدید آگ سے بچنے کا حکم دے رہے ہیں۔ وہ آگ جس پر مقرر فرشتوں کے دلوں میں کسی کے لیے کوئی نرمی نہ ہوگی۔ کسی کی فریاد اور آہ وبکا ان پر کوئی اثر نہ کرے گی۔ وہ دوزخ جس کی آگ دنیا کی آگ سے ستّر گنا زیادہ شدید ہو گی۔

جہاں شدید تپش اور جلن ہو گی لیکن پینے کو ٹھنڈا پانی نہ ہو گا، بلکہ جلتے ہوئے زخموں سے نکلنے والی پیپ اور کھولتا ہوا پانی ہو گا، اللہ کی پناہ!

جہاں کھانے کو ایسا زہریلا اور کانٹے دار درخت ’تھوہر‘ ہو گا کہ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’اگر دوزخ کے’ تھوہر‘ کا ایک قطرہ بھی دنیا میں ٹپک پڑے تو یہا ں رہنے والوں کا جینا دو بھر ہو جائے ۔پھر ان پر کیا بیتے گی جن کی غذا ہی ’تھوہر‘ ہو گی‘‘۔ (ترمذی )

کیا ہمیں معلوم ہے کہ دوزخ میں لے جانے والے اعمال کون کون سے ہیں؟

کیا ہم نے ان سے خود اور اپنے اہل وعیال کو بچانے کا کوئی منصوبہ بنا رکھا ہے ؟

ماں تو وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں کو ایک کانٹے کا چبھنا بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ بچہ بیمار ہو تو ماں کی جان پر بن جاتی ہے۔ وہ علاج کے ساتھ ساتھ اللہ کے آگے ہاتھ بھی پھیلا دیتی ہے، اور سب ملنے والوں سے کہتی پھرتی ہے کہ میرے بچے کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ اس کی سکول کی تعلیم کے لیے سخت پریشان ہوتی ہے اور اس میں کوتاہی پر بچے کی مار کٹائی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اس کی صحت ، کاروبار اور دیگر مادی ضروریات کے لیے وظیفے کرتی ہے اور کراتی ہے۔ الغرض اپنے بچے کی دنیوی ضروریات کے لیے ایک ماں نہ اپنا آرام دیکھتی ہے، نہ دن اور رات کا چین۔

لیکن کتنی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ فکر ہو کہ بچے جنت کے باغوں کے پھول بن رہے ہیں یا دوزخ کا ایندھن بننے جارہے ہیں؟

اور کتنی تحریکی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ تڑپ ہو کہ ان کے بچے ان کے نصب العین کے وارث بنیں اور اقامت دین کی تحریک کے باعمل ومتحرک داعی بنیں ؟

حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق: ’’ہم راعی ہیں اور ہم سے ہماری رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ‘‘۔

اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ دنیا میں بھی ایک اَن پڑھ اور پڑھے لکھے فرد کے امتحانی سوالات کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک غیر تحریکی اور کم شعور رکھنے والی ماں کا حساب کچھ اور طرح کا ہوگا، اور زندگی کا مقصد سمجھ کر اس کو عملاً اپنانے والی ماں کا بحیثیت راعی ذمہ داریوں کا حساب فرق ہوگا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہم سے آسان حساب لے اور نرمی کا معاملہ کرے۔ آمین !

ایک خصوصی قلیل المیعاد منصوبہ بنائیں اور بہت ساری خصوصی دعائیں کریں تا کہ ہم    روزِ قیامت کے اس منظر کو دیکھنے سے بچ سکیں کہ خدا نخواستہ ہمارے اہل وعیال میں سے کسی کو فرشتے طوق اور زنجیریں پہنا کر دوزخ کی طرف کھینچ رہے ہوں، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا۔

اس وقت ہماری زندگیاں تین طرح کی معاشرت کا ملغوبہ ہیں:

  • کچھ اسلامی شعائر پر مبنی طرزِ زندگی
  • جاہلیتِ قدیمہ اور خاندانی رسومات
  • جدید تعلیم اور مغربی معاشرت تیزی سے ہماری زندگی پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ خصوصاً معاشرتی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ دین داری ’انتہا پسندی‘ ٹھیری ہے۔ شرافت، حیا، عزت کے سکّے کھوٹے ہورہے ہیں۔ سادگی ، کفایت شعاری کی جگہ مادیت پرستی اور ریا کاری نے لے لی ہے۔

اصل اور خالص اسلام خال خال نظر آتا ہے۔ دین کا فہم اور زندگی کا شعورو مقصد رکھنے والی ایک ماں کو نہ صرف ماحول کے اثرات سے اپنے بچوں کو بچانا ہے، بلکہ اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ  وہ اصلاحِ معاشرہ اور فروغ دین کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرے، تا کہ اللہ کی زمین شیطان کے حملوں سے محفوظ ہو سکے اور اللہ کے بندے اللہ کی جانب رجوع کر کے دوزخ سے بچ سکیں۔

اور ایسی مائیں بگاڑ کے اس دور میں یقینا انقلاب برپا کر سکتی ہیں، ان شاء اللہ ۔ شرط یہ ہے کہ دل میں تڑپ پیدا ہو جائے اور اتنی حرارت پیدا ہو جو انھیں متحرک کر دے۔

کرنا کیا چاہیے ؟___اس کے لیے لائحہ عمل پیش ہے!

l والدین کا کردار :رب کائنات کے فرمان کے مطابق پہلا حکم ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ(التحریم ۶۶:۶)اے ایمان والو ! اپنے آپ کو بچائو۔

سب سے پہلے ماں اور باپ کو اپنے ایمان وعمل کا تجزیہ کرنا ہے۔ اس کی اصلاح کرنی ہے۔ اپنے آپ کو صحیح اور سچا مسلمان بنانا ہے۔ رول ماڈل بننا ہے۔ کیونکہ بچے کی تربیت کا آسان طریقہ اپنا بہترین کردار بچے کے سامنے رکھنا ہے۔ نمازی ماں کے بچے نا سمجھی کی عمر میں بھی   جاے نماز لے کر اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، اور گالیاں دینے والے والدین کے بچے  گھٹی میں گالیاں ہی سیکھتے ہیں۔ اس لیے ذرا ان نکات پر غور کریں:

  • ہمارا ایمان کس درجے کا ہے ؟
  • فکر آخرت کتنی ہے ؟
  • اپنے انجام سے کتنے  خوف زدہ رہتے ہیں؟
  • حب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس درجے کی ہے ؟
  • عبادات کی کیفیت کیا ہے ؟
  • نمازیں کس پابندی اور کتنے خشوع سے ادا ہوتی ہیں ؟
  • قرآن پاک سے تعلق کتنا ہے ؟
  • دیگر عبادات اور انفاق فی سبیل اللہ کس قدر ہے ؟
  • بچوں اور اہل خاندان سے معاملات کیسے ہیں ؟
  • میاں بیوی کے تعلقات کیسے ہیں ؟

یقینا جھوٹ بولنے والی ، غیبتیں کرنے والی ماں کی اولاد کا حسن خلق سے آراستہ ہونا بہت مشکل ہے۔ (الا ما شاء اللہ!)

ماں کا لبا س حیا دار ہو گا تو بچے بھی حیا سے آراستہ ہوں گے۔ باپ غیرت مند ہو گا تو اولاد بھی ویسی ہی ہو گی۔ ان شاء اللہ !

اسی طرح تمام معاملات میں احساس ذمہ داری ماں کے اندر کتنا ہے ؟___وہ کاموں کو احسن طریقے سے انجام دینے والی ہے یا ذمہ داریوں میں ڈنڈی مارنے والی ہے ؟___ الغرض ماں اور باپ وہ سانچے ہیں جن کے مطابق اولاد ڈھلتی ہے اور اس کا بہترین پیمانہ خود رب کائنات نے تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ خاندان کی تشکیل سے لے کر موت تک تقویٰ کا حکم دیا:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ (النساء۴:۱) اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو ، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ۔

یہ تقویٰ ایک پیمانہ ہے۔ برعظیم کے ایک معروف عالمِ دین سے کسی نے اولاد کی نافرمانی کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایا :اپنی زندگی کو دیکھو !تم اللہ کے کتنے فرماں بردار ہو ؟ گویا اولاد کی صالحیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین اللہ کے اطاعت گزار اور اس سے ڈرنے والے ہوں۔ ان شاءاللہ رحیم وکریم اللہ اولاد کو ضائع نہیں کرے گا (اِلا یہ کہ کوئی آزمایش مطلوب ہو) ۔

l گھر کا ماحول: والدین کے کردار کے بعد بچوں پر اثر انداز ہونے والی دوسری چیز گھر کا ماحول ہے۔ جہاں ماحول غیر اسلامی ہو ، گھر میں رات دن فحش فلمیں اور ٹی وی ڈرامے چلتے ہوں، جہاں لڑائی جھگڑا رہتا ہو، مخلوط معاشرت ہو، اسراف وتبذیر ہو، طرزِ زندگی اسلام کے بجاے مادیت پرستی کا علَم بردار ہو، گھر کی پاکیزہ معاشرت کے بجاے مصنوعی سجاوٹ وبناوٹ پر زیادہ زور ہو، وہاں بچوں کا صالح بن کر اُٹھنا دشوار ہے۔ لہٰذا، والدین کی ذمہ داری ہے کہ اولاد کے دنیا میں آنے سے قبل اپنے گھر کے ماحول کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی بھرپور کوشش کریں۔

عمومی زندگی سے لے کر خصوصی تقریبات تک سب پر اللہ کا رنگ غالب ہو تو بچوں پر بھی یہ ہی رنگ چڑھے گا۔ ان شاء اللہ !

صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً ز(البقرہ ۲:۱۳۸) اللہ کا رنگ، اور   اللہ کے رنگ سے اچھا اور کون سا رنگ ہو سکتا ہے۔

کاش! ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ یہی بہترین رنگ ہے، بہترین ماحول ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی اسی میں عافیت ہے۔ اگر ایسا ہو جائے کہ ہمارا سونا جاگنا، کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھنا،    اُوڑھنا بچھونا، سجاوٹ بناوٹ ، سب کچھ درست ہو جائے۔ تقریبات میں ہندووانہ تہذیب کی بجاے اللہ کا رنگ غالب آ جائے، اور لباس ، وضع قطع یہودو نصاریٰ جیسی بنانے کے بجاے جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا خاتونِ جنت جیسی بنا کر ہمیں سکون واطمینان حاصل ہو، تو بھلا خاندان پر اسلامی سوچ کیوں نہ غالب ہو گی!

یقینا ، جس گھر میں توحید کا بول بالا ہوتا ہے ، وہ شرک اور بدعات سے بچ جاتا ہے۔ اس گھر کے بچوں پر مفاد پرست اور علماے سوء کی تعلیمات اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ ان شاء اللہ !

جو مائیں جنوں اور چڑیلوں کی کہانیاں سنانے کے بجاے اپنے بچوں کو قصص الانبیا ؑسناتی ہیں، ان کا آئیڈیل انبیا علیہم السلام ہی بنتے ہیں۔

جو مائیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رول ماڈل بناتی ہیں، وہ ان کی زندگی کے خدوخال سے اپنے بچوں کو گفتگو میں، کھانے پر، اُٹھتے بیٹھتے آگاہ کرتی رہتی ہیں، تو بچے اس ماحول میں خود کو پروان چڑھاتے ہیں۔

تاہم، اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل امور میں بچوں کی رہنمائی ضروری ہے:

بنیادی تعلیمات راسخ کرنا

l توحید:بچوں میں توحید راسخ کرنے کی شعوری اور انتہائی کوشش کرنا بہت ضروری ہے، اس لیے کہ ’شرک‘ وہ گناہ ہے جو معا ف نہ ہو گا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج (النساء ۴:۴۸)اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے۔

 شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے:

اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ (المائدہ۵ :۷۲) جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا ، اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی۔

موجودہ دور کے خطرات اور شرور میں ’دین کے نام پر بے دینی کے سود اگروں ‘ کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ خصوصاً میڈیا کی وجہ سے بے حیائی کے ساتھ ساتھ بدعات اور شرک کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ لہٰذا بہت چھوٹی عمر میں کلمہ طیبہ کا مفہوم بچوں کے ذہن میں پختہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لیے انھی دو چیزوں کو مضبوطی سے تھامنا ضروری ہے، جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے ، یعنی قرآن اور سنت رسولؐ۔

لہٰذا ،اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہمارے گھروں میں ان بنیادوں سے وابستگی کتنی ہے ؟ ان کی تعلیم وتدریس کا کیا بندوبست ہے ؟ بچے قرآن وحدیث کو کتنا سمجھتے ہیں ؟ کتنے بچے قرآن پاک کا ترجمہ سمجھتے ہیں؟ اور تفسیر کی شد بد ھ رکھتے ہیں ؟ اور اس کے لیے کتنی محنت کی جاتی ہے ؟ اس کا ایجنڈا بنانا اور بچوں کی عمر کے لحاظ سے نصاب طے کرنا اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے ۔

  • نبی کریم ؐکی محبت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق بچوں کے اندر پیدا کرنا___ اتنی محبت، اتنی محبت، کہ جو تمام محبتوں پر غالب آ جائے ورنہ تو ایمان ہی مکمل نہیں۔ چھوٹے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم دل نشین انداز میں کہانی کی صورت میں قسط وار سنائی جائے، اور بڑے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرایا جائے۔
  • فکرِ آخرت:آخرت پر مضبوط ایمان اور فکر آخرت ہی شرور سے بھری اس دنیا میں گناہوں اور برائیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ بچوں کے اندر جنت کا شوق ، دوزخ کا ڈر مؤثر طریقے سے پیدا کیا جائے۔ اس طرح کہ بچے جنت کے حصول اور دوزخ سے بچنے کی تیاری میں لگ جائیں۔

میڈیا کے بگاڑ کے اس دور میں خشیت الٰہی اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو اس کے نقصانات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ والدین پاس موجود ہوں یا نہ ہوں، بچے کو یہ شعور ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے، تو یہ فکر بہترین محاسب ہے۔ ان شاء اللہ !

  • صحابہ کرامؓ بطور مثال: بدلتی ہوئی قدروں اور اس زوال پذیر معاشرت میں، جب بھانڈ، گویے اور کھلاڑی نوجوانوں کے آئیڈیل بنا دیے گئے ہیں، ان کی سوچ اور تخیل کو درست رکھنے کے لیے اعلیٰ ترین کردار بطور مثال ان کے سامنے پیش کرنے ضروری ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور صحابیات ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست تربیت کردہ مثالی انسان تھے۔ عشقِ رسولؐ سے بچوں کو سرشار کرنے کے بعد، اس عشق کے تقاضے پورے کرنے والوں کی عملی تصاویر اور نمونے، آج کے ہیروز کے ساتھ تقابل کر کے اصل روح کے ساتھ بچوں کے سامنے رکھے جائیں۔ بچپن میں کہانیوں کی صورت میں اور بعد میں لٹریچر اور سٹڈی سرکلز کی صورت میں تاکہ وہ اپنے تصور میں طے کرلیں کہ ’بڑا ہو کر کیا بنوں گا۔‘اور پھر ان کو ویسا بننے میں پوری مدد ومعاونت فراہم کی جائے۔
  • عبادات:خصوصاً نماز کی عادت پختہ کرنا۔ ابتدائی عمر سے تقریباً سولہ سال کی عمر تک بچوں کی نماز کے معاملے میں نگرانی اور یاددہانی کا تسلسل رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد الحمد اللہ بچے پختہ عادات اپنا لیتے ہیں۔ اس دوران محض ’نماز پڑھو‘ کی گردان نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ’نماز مومن کی معراج‘ بناکر بچوں کے قلب وروح کے اندر اتاری جائے اور ہر دکھ درد، مشکل کا علاج بذریعہ نماز سکھایا جائے۔ نیز اس کا دین کا ستون ہونا دلائل سے ثابت کیا جائے۔ پھر نماز نہ پڑھنے پر حکمِ رسولؐ کے مطابق کچھ نہ کچھ سختی ضروری ہے، تا کہ انھیں احساس ہو کہ نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔
  • شیطانی حربے:شیطان ، اس کے چکر ، اس کا وسواس الخناس ہونا، اس کے حربے قرآن وسنت کی روشنی میں بچوں کو بتائے جائیں۔ قدم قدم پر اسے باور کرایا جائے کہ وہ سوچے  کہ کس کے راستے پر چل رہا ہے ، اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر یا شیطان کے ؟ حلال وحرام کی حدود، معروف ومنکر کے بدلتے تصورات (مثلاً موسیقی، تصاویر وغیرہ کا معاملہ )، اخلاق وکردار ، میڈیا میں درست یا غلط، تمام امور میں واضح رہنمائی دینا ضروری ہے۔
  • مادیت پرستی سے بچانا:شیطان کا بہت بڑا وار مادیت کے راستے پر دھکیلنا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے، جس کے بارے میں نبی کریم ؐ نے خبر دار کیا تھا :’’اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں ہے کہ تم مفلس ہوجائو گے۔ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی جیسے تم سے پہلی امتوں پر یہ کشادہ ہوئی تھی ۔ پھر تم اسے چاہنے لگو گے جیسے انھوں نے اسے چاہا۔ پھر تم اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرو گے جیسے انھوں نے کیا۔ پھر یہ د نیا کی فراوانی اور اس کی طرف بے انتہا رغبت تمھیں تباہ کر کے رکھ دے گی جیسے اس نے تم سے پہلوں کو کیا۔‘‘ (متفق علیہ)

اسی کو’ وہن‘ بھی کہا گیا اور یہ مال ودولت کی دوڑہی ہے جس نے دنیا کا سکون تباہ کر دیا ہے۔ فساد ، قتل وغارت گری عام ہو گئی ہے، اور ساہو کاروں او ر سرمایہ داروں کی گندی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مال بٹورنے کی خاطر دنیا کو بے حیائی کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔

لہٰذا صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کی مثالیں دیتے ہوئے ان کا سادہ اور غریبانہ طرزِ زندگی واضح کرنا، غنٰی کے معنی بتانا اور برکات کے حصول کے طریقے سکھانا، قناعت اختیار کرنے پر رغبت دلانا، یہ سب مائوں کے کام ہیں ( بشرطیکہ مائیں خود سادگی اور قناعت کے راستے پر چل رہی ہوں۔ )

  • اخلاق و معاملات: بچوں کے اخلاق پر چھوٹی عمر ہی سے نظر رکھنا ضروری ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہ ؓ سناتے ہوئے ان کے بہترین اور آئیڈیل اخلاق کو واضح کرنا اور بچوں کے لیے اس کے حصول کو ہدف بنانا ضروری ہے۔ اس وقت جب ہمارا معاشرہ اخلاقی اصولوں کی پاس داری سے بہت حد تک عاری ہے، بچوں کا بہترین اخلاق پر عمل اسی وقت ممکن ہے جب والدین اس کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ طہارت ، صفائی،  بہترین شہری کی صفات پیدا کرنا، قانون کی پاس داری کا جذبہ بیدار کرنا، ملک وملت سے محبت اور امت کے ’جسدواحد ‘ ہونے کا تصور پیدا کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔

حیا، ایمان اور اخلاق کا اہم ترین جز ہے۔ ’حیا ‘ پر ہی شیطان نے کاری وار کرکے   ہماری قوم کی غیرت کا جنازہ نکال دینے کی سر توڑ کوشش کی ہے۔ بچوں کے اندر حیا پیدا کرنا ضروری ہے ۔ نماز کی عمر کو پہنچیں تو مکمل لباس کی عادت بن جانی چاہیے۔ لڑکے پانچ سال کی عمر کے بعد نیکر اور لڑکیاں چھوٹی آستین اور جانگیہ نہ پہنیں۔ بچیوں کو نماز کی عمر سے دوپٹے اور اسکارف کی عادت ڈالی جائے۔ مائیں بھی اپنے طرزِ عمل پر ضرور نظر ڈالیں کہ گھروں میں مکمل لباس میں ملبوس ہوتی ہیں یا دروازے پر گھنٹی بجے تو دوپٹہ ڈھونڈنے دوڑتی ہیں۔

 ’لباس التقویٰ ‘ کی تشریح مائوں کو بھی آتی ہو اور بچوں کو بھی سمجھائیں۔ اس حدیث کو یاد رکھیں کہ ’عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو ہزاروں میل سے آتی ہو گی‘‘۔ پتلا، چست اور نامکمل لباس، سبھی یہاں مراد ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ ’لباس کے احکام ‘ گھر کے اندر کے لیے ہوتے ہیں، باہر کے لیے حجاب کے احکا م ہیں۔ قرون اولیٰ میں یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی عورت بغیر حجاب کے محض لباس پہن کر باہر جائے گی۔ شیطان کی اس چال سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ عورتیں گھروں میں ایسا لباس پہن سکتی ہیں جو ساتر نہ ہو۔ یاد رکھیں غیر ساتر لباس میں نماز قبول نہیں ہوتی ۔ اس لیے پتلے کپـڑوں میں پڑھی گئی نماز یں ضائع ہو جائیں گی۔ لہٰذا، اپنے بچوں کو دوزخ سے بچانے اور جنت میں داخل کرا نے کے لیے بے حیائی وبے حجابی سے بچانا اشد ضروری ہے۔ لڑکیوں کے لباس کا حیا دار ہونا بھی ضرور ی ہے۔

  • تعلیم و تربیت:تعلیم کا قبلہ درست رکھنا، ’اصل علم ‘ کا مفہوم سمجھنا اور اس کے مطابق بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر ضروری ہے۔ یاد رکھیں ! تعلیم کے نام پر اس وقت ’تجارت ‘ ہے اور ’سوداگری‘۔ یہ سودا گر ایمان کے بدلے مال کما رہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم نے نسلیں تباہ کر دی ہیں۔

 بقول مولانا مودودی ؒ : ’’یہ تعلیم گاہیں نہیں ، قتل گاہیں ہیں‘‘۔ اس تعلیم نے آکر ہماری نسلوں کو مکمل کافر نہیں بنایا تو مسلمان بھی کم ہی چھوڑا ہے۔ صحابہ کرامؓ کبھی سوچ سکتے تھے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب مسلمان ـ’قرآن ‘ کے معنی تو نہ جانتے ہوںگے لیکن اوکسفرڈ اور ہارورڈ کی کتابیں گھول کر پیتے ہوں گے اور فرنگی علوم کے ماہر ہونے پر فخر کرتے ہوں گے ۔ افسوس کہ’ تعلیم کے تیزاب‘ نے ہماری نوجوان نسل کے ایمان کو جلاکر بھسم کر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

یہ والدین ہی کا فرض ہے کہ وہ ’تعلیمی ادارے ‘ کے انتخاب میں اللہ کے نور کی روشنی سے دیکھیں اور ایسے ادارے کا انتخاب کریں، جو عصری علوم سے بہرہ ور تو کرے لیکن ’ایمان کی قیمت ‘ پر نہیں۔ اور اگر اسکول میں وہ تعلیم نہیں، جو بچوں کو ان کا مقصد زندگی سمجھا کر اس کی ادایگی کے لیے تیار کر سکے تو اس کا بندوبست گھر میں کرنا ہو گا، جیسے فزکس اور کیمسٹری کے لیے ٹیوٹر رکھا جاتا ہے۔ ’قرآ ن وحدیث ‘ کے لیے بدرجۂ اولیٰ استاد کا بندوبست کرنا اور ترجمہ وتفسیر باقاعدہ سکھانے کا اہتمام کرنا والدین کا فرضِ عین ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی نظام غالب آ جائے اور سکولوں کا قبلہ درست ہو جائے ، ان شاء اللہ!

  •  شادی بیاہ: بہوکی تلاش میں آج کل ’مال دار حوریں‘ تلاش کی جاتی ہیں اور داماد کی تلاش میں بڑے قدوجسامت کے ساتھ ساتھ ’موٹی آسامی‘ ۔ اس معاملے میں دین کی ترتیب کو بالکل اُلٹ کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی شرافت کی وجہ سے ، اس کی خوب صورتی کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے ۔ اور تُو دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر۔ اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی آخرت میں تجھ کو ندامت ہو گی )‘‘۔ (متفق علیہ )

اگر دین دار والدین کا معیار بھی دوسروں جیسا ہی ہو گا، تو اس ترتیب کو درست کون کرے گا؟ دین سب سے پہلے ہے، حسن ونسب اور دولت اس کے بعد۔ تحریکی شادیوں کو رواج دیا جائے تو ان شاء اللہ، تحریکی خاندان وجود میں آئیں گے۔ اللہ کا حکم ہوا تو نسل در نسل دین کا کا م جاری رہے گا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی کتنی پیاری دعا ہے :

رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ص(البقرہ ۲: ۱۲۸) ’اے رب ! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان )بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری فرماںبردار ہو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے اُمت مسلمہ کی تمنا کرتے ہیں۔ سوچ کی بلندی دیکھیے! اگلی نسلوں کی فکر کرنا انبیا ؑ کی سنت ہے۔ نسلوں کی تعمیر کی پہلی اینٹ وہ ’رشتہ ‘ ہے جو ہم اپنے بچوں کے لیے چنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہترین شادی اسے قرار دیا گیا ہے ’جو کم خرچ ہو‘۔  اس کی فکر کرنا، اسراف وتبذیر سے بچنا اور اپنے بچوں کو بچانا ، تقریبات میں ’رضاے الٰہی ‘ مد نظر رکھنا ، یہ سب والدین کی ذمہ داریاں ہیں۔ اس معاملے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو مجبوری بنا کر اللہ کے حکم سے رُوگردانی کرنا مومنین کا شیوہ نہیں ہے۔

  •  خاندان کا استحکام: مسلمانوں کا مستحکم خا ندانی نظام اس وقت دشمنانِ دین کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اور اس پر چاروں اطراف سے شیطانی قوتیں حملہ آور ہیں۔ خاندان کے استحکام کے لیے جہاں مائوں کو خود اچھی ساس اور بہو بننا ہے وہیں اپنے بیٹوں کو اچھا ’قوّام ‘ بنانے کی شعوری کوشش کرنا ہے۔ ان کے اندر خودی اور عزت و احترام کو بیدار کرنا ہے۔ لیکن ’جاہل مرد‘ بننے سے بچانا یقینا ایک سمجھ دار ماں کا ہدف ہونا چاہیے اور لڑکوں کی تربیت اس ضمن میں لڑکیوں سے زیادہ اہم ہے۔ اچھا شوہر کیسا ہوتا ہے؟ یہ تعلیم اسکول نے نہیں ، والدین نے دینی ہے۔

اسی طرح لڑکیوں میں ’صالحات اور قانتات ‘ کی روح پیدا کرنی ہے۔ اچھی بیوی اور بہو کی صفات اُجاگر کرنا ، محبت کے خمیر میں اس کے اخلاق کو پروان چڑھانا،محنت ومشقت کا عادی بنانا ، قربانی اور صبر وحوصلہ کی صفات پیدا کرنا، یہ سب ہو گا تو خاندان مستحکم ہو گا (یاد رہے کہ اپنے بچوں میں ’تقویٰ ‘ جو کہ خاندان کے استحکام کی بنیاد ہے، پیدا کرنے کی بات ہم پہلے کر چکے ہیں)۔

گھر کے بزرگوں کے ساتھ نرمی ومحبت کا برتائو، ان کی خدمت اور آرام کا خیال رکھنا، جو مائیں سکھائیں گی کل کو ان کے بچے بھی ان کی خدمت کر رہے ہوں گے، اور ’حیات طیبہ ‘ بسر کرنے والے خاندان وجود میں آئیں گے۔ ان شاء اللہ !

خاندان کو درپیش تمام خطرات سے مائوں کا آگاہ ہونا اور اپنے بچوں کو ان سے بچانے کی تدابیر کرنا اور ان پر محنت سے عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ سسرال میں پیش آنے والے مسائل سے بچوں کو آگاہ کرنا اور ان کا اسلام کی روشنی میںحل دینا بھی ضروری ہے۔ اسلام نے اس ضمن میں حقوق و فرائض کا واضح طور پر تعین کردیا ہے۔ یہ بدنصیبی ہے کہ شرح طلاق میں اضافہ ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ مائوں کی نا سمجھی بھی ہے۔ بہو کی جائز معاملات میں بھی حمایت نہیں کرتیں اور بیٹیوں کی ناجائز مطالبات میں بھی لڑائی مول لے کر غلط رہنمائی کرتی ہیں۔ لہٰذا اپنے بچوں کے گھر بسانے اور خاندان کو مستحکم بنانے میں ماں کی ’دین داری اور سمجھ داری ‘ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

  • شہداء علی الناس: ہر مسلمان بہ حیثیت ’مسلمان ‘ شہادت حق ادا کرنے کے منصب پر فائز ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک  ’اُمتِ وسط‘ بنایا ہے تا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو۔

والدین بچوں کو جیسے دُنیا میں رزق کمانے کا طریقہ سکھاتے ہیں اور دنیا کے دیگر فرائض ادا کرنے کے لیے محنت سے تیار کرتے ہیں، اس ذمہ داری کے لیے تیار کرنا بھی ان کا فرض ہے اور اس کا حساب بھی روز قیامت ان سے لیا جائے گا۔ وہ والدین جو خود ’مقصد زندگی ‘ سمجھ چکے ہیں اور یہ فرض ادا کر رہے ہیں، ان میں اس ذمہ داری کے بارے میں کتنی حساسیت پائی جاتی ہے ؟ اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے:

  • بچوں کے اندر اقامت دین کی ذمہ داری کی فکر بیدار کرنا۔
  • تحریک سے جوڑنے کے طریقے سوچنا ۔
  • ہم عمر تحریکی ساتھیوں سے ملانا اور اجتماعیت میں شامل کرنا۔
  • تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کرانا اور اس کے لیے مشق اور تیاری کرانا۔
  • تیز رفتار زندگی کی دوڑ میں اس فریضے کو فراموش نہ کرنا۔

یہ فرضِ منصبی ہے، اس مقصد کے لیے :

  • چھوٹے بچوں کو مائیں پروگرام میں اپنے ساتھ رکھیں۔
  • گھروں میں تحریکی رسائل جاری کروائیں۔
  • اور متعلقہ کتب پر سٹڈی سرکل اور ڈسکشن فور مز رکھیں۔
  • قرآن پاک اگر اپنی روح کے ساتھ بچوں کو پڑھا دیا جاے تو نا ممکن ہے کہ بچے اپنے فرض سے غافل رہ جائیں۔
  • دین کے لیے قربانی کا تصور صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر دیا جائے۔
  • بچوں کو آسایشوں سے بچا کر ان میں سخت کوشی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یقینا ایک تحریکی ماں کے بچے ایسے نخرے والے نہیں ہو سکتے کہ فلاں چیز نہیں کھانی اور فلاں لباس نہیں پہننا اور فلاں بستر کے بغیر سو نہیں سکتا وغیرہ ۔

تکمیل تربیت : یقینا بچوں کی تربیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی :

  • جب تک معاشرہ تربیت یافتہ نہ ہو جائے جہاں اس کو زندگی بسر کرنی ہے۔
  • وہ تعلیمی ادارے درست نہ ہو جائیں جہاں اسے تعلیم حاصل کرنی ہے۔
  • میڈیا کا قبلہ درست نہ ہو جائے اور وہ بگاڑ کے بجاے اصلاح کا فریضہ انجام دینے لگ جائے۔
  • جب تک سودی نظام سے نجات نہ مل جائے جو اخلاقِ فاسد پیدا کر رہا ہو، اور رزقِ حرام قبولیت حق میں مانع ہو رہا ہو۔
  • یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اللہ رب العالمین کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ’اسلام ‘ غالب نہیں آ جاتا۔
  • دین غالب نہیں آ سکتا جب تک ہم سب اور ہمارے بچے مل کر اس کے لیے جدوجہد نہیں کرتے اور اس فرض کو ادا کرنے میںتن من دھن لگا نہیں دیتے ۔

کیا ہم اپنا فرض تندہی سے ادا کر رہے ہیں ؟

دُعا ہے کہ: اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا  ’’اے اللہ! ہمارا حساب آسان کرنا‘‘۔

دعائیں 

مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ ج وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَ لِیًّا مُّرْشِدًا O (الکہف ۱۸:۱۷) جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی ومرشد (رفیق: سیدھی راہ دکھانے والا) نہیں پا سکتے ۔ 

لہٰذا ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اوراس کی رحمت کے بغیر ملنی مشکل ہے۔ قرآن و حدیث میں بے شمار دعائیں موجود ہیں، جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں۔ ان کا بکثرت اہتمام ضروری ہے۔ یہ دعائیں ہمارے سامنے اولاد کی تربیت کا معیار بھی رکھ دیتی ہیں اور دل کی تڑپ کو اُجاگر بھی کرتی ہیں، مثلاً حضرت ابراہیم ؑ کی دعا جس کا پیچھے تذکرہ کیا گیا ۔ یہ اولاد کو ایسی امت میں دیکھنے کی تڑپ ہے جو خود ہی مسلمان نہ ہو بلکہ دنیا کو بھی مسلمان بنانے کا ہدف رکھتی ہو۔

اسی طرح سورۂ فرقان (۲۵:۷۴)میں دعا سکھائی گئی کہ :

رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ  اِمَامًا  O

گویا ’اولاد صرف آنکھوں کی ٹھنڈک ہی نہ ہو‘، ’متقین‘ کی بھی امامت کرے، یعنی ’نیکوں میں سب سے نیک ‘اور’امام ‘ ___ امامت کرنے والا ، رہنمائی کرنے والا۔ امام رول ماڈل ہوتا ہے، جس کی لوگ پیروی کرتے ہیں، جس کی اقتداکرتے ہیں۔ گویا اللہ سے یہ دعا کی جائے کہ ہمارے بچے انسانیت کی رہنمائی کرنے والے ’قائدین ‘ ہوں، اور دنیا ان کے پیچھے چلنے والی ہو، اور تمام دنیا کے لیڈر کی طرح نہیں بلکہ ’متقین کے امام ‘ ہوں۔ یہ ایک آئیڈیل ہے جو ہمیں دکھا دیا گیا ۔ لہٰذا اپنے اہل خانہ کے لیے متقین کا امام بننے کے لیے دعائیں اور صلوٰۃ حاجت ، ان کی اصلاح کے لیے ، ان کا فرضِ منصبی سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اور اس کے نتیجے میں دنیا وآخرت کی فلاح کے لیے، ہمارے معمول میں شامل ہونی چاہیے۔ بے شک رب کریم ہے اور ستّر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ ماں جب دردِ دل سے دعا کرتی ہے تو قبول ہوتی ہے:

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا  ط  اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ O (البقرہ ۲:۱۲۷)

اور جو کچھ ہم کر پا رہے ہیں، اس کو قبول فرما۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔

 ترجمہ: عبدالحی

میرے علم کے مطابق ، پیروی کی خواہش رکھنے والے کسی صاحب ِ فہم کے لیے ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت سے زیادہ مفید کوئی وصیت نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ اِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ط (النساء۴:۱۳۱) تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی، انھیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور تم کو بھی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔

اسی طرح آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کی طرف روانہ کرتے وقت فرمایا: ’’اللہ سے ڈرتے رہو جہاں کہیں بھی ہو، اور بُرائی کے بعد نیکی ضرور کرو جو  اس کو مٹادے، اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت معاذؓ کی بڑی قدرومنزلت تھی۔ آپؐ نے ان سے اپنے پیچھے سواری پر ہم رکابی کی حالت میں فرمایا: ’’اے معاذ! بخدا مجھے تم سے محبت ہے‘‘۔ انھوں نے اس وصیت کو جامع سمجھا اور بلاشبہہ یہ ہے بھی بہت جامع، ساتھ ہی یہ قرآنی وصیت کی شرح بھی ہے۔

اس کی جامعیت یوں ہے کہ بندے پر دو قسم کے حقوق ہیں: ایک اللہ تعالیٰ کے، اور دوسرے بندوں کے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جو حق ہے، اس میں بعض اوقات اس سے لازماً کوتاہی سرزد ہوگی، یا تو کسی حکم کی بجاآوری میں یا ممنوعہ چیز کا ارتکاب کرکے۔ اس لیے آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو جہاں کہیں بھی ہو‘‘۔ ’جہاں کہیں بھی ہو‘ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کے لیے ظاہر اور پوشیدہ دونوں حالتوں میں تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہے۔

پھر فرمایا: ’’بُرائی کے بعد نیکی ضرور کرو جو اسے مٹا دے‘‘، اس لیے کہ مریض جب کوئی مضر چیز استعمال کربیٹھے، تو طبیب اسے ایسی چیز کے استعمال کا مشورہ دیتا ہے جو ضرر سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ گناہ بندے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ، پس عقل مند وہ ہے جو بُرائیوں کو مٹانے کے لیے ہمیشہ نیکیاں کرتا رہے۔ نیکیاں بدیوں کی جنس میں سے ہوں، تو انھیں مٹانے میں زیادہ مؤثر اور کارآمد ہوںگی۔

گناہوں کے اثرات تین چیزوں سے زائل ہوتے ہیں: ایک توبہ، دوسرے استغفار، اور تیسرے نیک اعمال۔ استغفار، چاہے توبہ کے بغیر بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی دُعا کی قبولیت میں اسے بخش دیتا ہے ، لیکن اگر توبہ و استغفار جمع ہوجائیں تو یہ کمال درجہ ہے۔ تیسرے نیک اعمال، جو گناہوں کا کفّارہ یا کفّارہ ظہار، یا حج میں بعض ممنوعہ چیزوں کے ارتکاب کا کفّارہ، مثلاً: ۱- جانور کی قربانی، ۲- غلام آزاد کرنا ، ۳- صدقہ و خیرات کرنا، ۴- روزے رکھنا۔

عام نیک اعمال بھی گناہوں کا کفّارہ بنتے ہیں جیساکہ حضرت عمرؓ سے حضرت حذیفہؓ نے فرمایا: ’’انسان سے اپنے اہل و عیال اور ما ل و دولت کے معاملات میں مشغول رہنے کی وجہ سے ذکرالٰہی سے جو غفلت ہوجاتی ہے، نماز، روزہ، صدقہ و خیرات اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر  کے کام انجام دینے سے وہ معاف ہوجاتی ہے۔ قرآن و سنت کے بے شمار شواہد بتاتے ہیں کہ پنجگانہ نماز، صدقات اور دیگر اعمالِ صالحہ گناہوں کا کفّارہ بنتے ہیں۔ ان اعمال کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ، اس لیے کہ انسان کی نشوونما کتنے ہی علمی و دینی ماحول میں ہوئی ہو، بلوغت سے مرتے دم تک جاہلیت کے بعض اعمال کا مرتکب ہو ہی جاتا ہے۔

ہر خاص و عام کے لیے جو چیز نفع بخش ہے اور اسے پریشانیوں سے نجات دلا سکتی ہے، وہ ہے گناہوں کا ارتکاب ہوجانے کے فوراً بعد نیکیاں کرنا جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ گناہوں کو جو چیزیں مٹاتی ہیں ان میں سے ایک قسم ان مصیبتوں اور پریشانیوں کی بھی ہے، جو انسان کو رنج و غم اور مالی، جسمانی و معنوی لحاظ سے پہنچنے والی تکالیف سے عبارت ہے، جن میں انسان کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حق کو بیان فرمانے کے بعد فرمایا: ’’لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنے کا خلاصہ یہ ہے کہ جو قطع تعلق کرے، اس کے ساتھ سلام کلام، عزت و اِکرام، اس کے لیے دُعا و استغفار اور اس کی تعریف کے ذریعے جڑا جائے اور میل جول رکھا جائے۔ جو محروم رکھے، اسے تعلیم و تعلّم سے اور مالی اور غیرمالی ہرطرح سے فائدہ پہنچایا جائے۔ جو جان، مال یا عزت و آبرو کے لحاظ سے ظلم کرے اور نقصان پہنچائے، اس کو معاف کیا جائے۔ ان میں سے کچھ چیزیں تو واجب ہیں اور کچھ مستحب اور مرغوب۔ ’خلق عظیم‘ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان وہ چیزیں انجام دے جو اللہ کو پسند ہیں۔

رہی یہ بات کہ یہ تمام چیزیں اللہ کی وصیت کیوں کر ہیں، تو وہ اس لیے کہ اللہ کے خوف اور تقویٰ میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کے حتمی طور پر کرنے کا ، یا اس سے رُک جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ لیکن چونکہ بسااوقات تقویٰ سے مراد محض اللہ کے عذاب کا ڈر لیا جاتا ہے، اس لیے  حدیث معاذؓ میں لفظ تقویٰ کی شرح بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ نے تقویٰ کی شرح یوں روایت کی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ زیادہ تر کون سی چیز لوگوں کے جنّت میں داخلے کا سبب بنے گی؟ آپؐ نے فرمایا: تقویٰ اور بہترین اخلاق۔ پھر پوچھا گیا کہ کون سی چیز زیادہ تر جہنّم میں لے جائے گی؟ فرمایا: ’’منہ اور شرم گاہ‘‘ (ترمذی)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں سے سب سے کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں‘‘۔

خیر اور نیکی کا سرچشمہ اور بنیاد یہ ہے کہ آدمی عبادت اور استعانت (فریاد طلبی) صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے مخصوص کردے ۔ چنانچہ بندے کو مخلوق سے اپنا دل اسی طرح پھیر لینا چاہیے کہ نہ ان سے کسی فائدےکی اُمید رکھے، اور نہ ان کی خاطر کوئی عمل کرے، بلکہ تمام توجہ اور رُخ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہو۔ اپنی ہرمشکل ، پریشانی ، تنگ دستی اور خطرہ وغیرہ میں اسی کو پکارتا رہے، اور اس کی پسندیدہ چیزیں تیار کرتا رہے۔ جس نے یہ کام کرلیا تو اس کے انجام کا کیا کہنا!

  •  سب سے اچھا   عمل: نیز آپ نے پوچھا ہے کہ فرائض کے بعد سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ تو مختلف لوگوں اور ان کی مصروفیات اور مشاغل کے لحاظ سے، سب کے لیے ایک ہی لگا بندھا جواب ناممکن ہے، لیکن جس چیز پر سب کا تقریباً اتفاق ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیشہ اور ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کا التزام وہ بہترین مشغلہ ہے جس میں بندہ اپنے آپ کو مصروف رکھے۔ مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث اس کی اہمیت واضح کرتی ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں‘‘۔ حضرت ابوالدرداؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں وہ عمل بتائوں جو تمھارے سارے اعمال میں بہتر اور تمھارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے، اور تمھارے درجات کو تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے، اور راہِ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں تمھارے لیے خیر ہے، اور تمھارے لیے اس میں اس جہاد سے بھی زیادہ خیرہے، جس میں تم اپنے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتار دو، اور وہ تمھیں ذبح کریں اور شہید کریں؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’ہاں، یارسولؐ اللہ! (ایسا قیمتی عمل) ضرور بتایئے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ اللہ کا ذکر ہے‘‘۔(ابوداؤد، احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

ذکر کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ بندہ معلمِ انسانیت کے ماثور اذکار کی پابندی کرے، جیسے  صبح و شام کے اذکار، سوتے وقت، بیدار ہونے پر اور فرض نمازوں کے بعد والے اذکار وغیرہ۔ اسی طرح وہ اذکار اور دُعائیں جو مختلف حالات و مواقع کے لیے وارد ہوئی ہیں، جیسے کھانے پینے یا گھر، مسجد اور قضاے حاجت کے لیے داخل ہوتے اور نکلتے وقت کے اذکار۔ اسی طرح بارش ہونے اور بجلی چمکنے اور اسی طرح کے دیگر مواقع پر مسنون دُعائوں کا اہتمام۔ اس سلسلے میں ’شب و روز‘ کے وظائف کے عنوان کے تحت کتابیں موجود ہیں۔ پھر عمومی ذکر کا اہتمام بھی کرے۔ اور اس میں  سب سے بہتر لا الٰہ الا اللہ ہے۔ بعض صورتوں میں سُبْحَانَّ اللہِ ، وَالْحَمْدُلِلہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ اس سے افضل ہے۔

یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اللہ سے قریب کرنے والی ہر چیز، جیسے علم سیکھنا، سکھانا یا امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا،چاہے زبان سے ہو، عمل سے ہو، یا قلب میں اس کا خیال پیدا ہو… وہ بھی اللہ کے ذکر میں شامل ہے۔ چنانچہ جو شخص ادایگی فرائض کے بعد، علمِ نافع کی تلاش میں لگ جائے، یا کہیں بیٹھ کر ایسا علم سیکھے اور سکھائے، تو یہ بھی بہترین ذکر میں شامل ہے۔ اس بنا پر اگر آپ غور کریں تو سب سے بہتر عمل کے سلسلے میں سلف کی باتوں میں آپ کو کوئی بڑا اختلاف نظر نہیں آئے گا۔

بندے کو اگر کسی معاملے کے متعلق اشتباہ ہوجائے تو اسے استخارہ کرلینا چاہیے، اس لیے کہ جو استخارہ کرے گا وہ کبھی نادم و پشیمان نہیں ہوگا۔ استخارہ اور دُعا بکثرت کرنی چاہیے۔یہی چیز ہربھلائی کی کنجی ہے۔ اس بارے میں اسے جلدی کرتے ہوئے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے بہت دُعائیں کیں، مگر قبول نہیں ہوئیں۔ دُعا کے سلسلے میں قبولیت کے اوقات پیش نظر رہنے چاہییں، جیسے رات کا آخری حصہ، نماز کے بعد، اذان کے دوران اور بارش ہوتے وقت وغیرہ۔

  •  وسائلِ رزق:جہاں تک کسب ِ حلال کے سب سے زیادہ نفع بخش ذرائع ووسائل کا تعلق ہے، تو وہ ہیں: اللہ پر توکّل، اس کے کافی اور رزق رساں ہونے پر پورا بھروسا، اور اس کے متعلق اچھا گمان۔ چنانچہ رزق کی تلاش کرنے والے کو چاہیے کہ رزق کے معاملے میں اللہ کا سہارا تلاش کرے اور اسی سے مانگے۔ حدیث قدسی ہے: ’’تم سب بھوکے ہو مگر جس کو میں کھلائوں ، اس لیے تم مجھ ہی سے رزق مانگو، میں تمھیں کھلائوں گا‘‘۔ امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھیں اپنی تمام ضرورتیں اور مرادیں اللہ ہی سے مانگنی چاہییں، حتیٰ کہ اگر تمھارے جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے، تو وہ بھی اپنے رب ہی سے مانگو، اس لیے کہ وہ نہ دینا چاہے تو کچھ میسر نہیں آسکتا‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط (النساء۴:۳۲) ’’اللہ سے اس کا فضل مانگو‘‘۔ مزید ارشاد ہے: فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ (الجمعہ ۶۲:۱۰)’’پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین پر پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘۔   یہ آیت اگرچہ نمازِ جمعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر اس کا اطلاق تمام نمازوں پر ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے آپؐ نے مسجد میں داخل ہوتے وقت اَللّٰھُمَّ افْتَحَ   لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَاور نکلتے وقت اَللّٰھُمَّ  اِنِّیْ  اَسْئَلُکَ  مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ کی دُعائیں پڑھنے کی تعلیم دی ہے۔

حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْہُ وَ اشْکُرُوْا لَہٗ ط (العنکبوت ۲۹:۱۷) ’’اللہ سے رزق مانگو اور اس کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو‘‘۔

یہ اَمر (حکم) ہے اور اَمر واجب ہونے کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا اور رزق کے معاملے میں اسی کا دامن تھامنا، بہت بڑا دینی اصول ہے۔ پھر چاہیے کہ مال کو پورے استثناے نفس کے ساتھ لے، تاکہ اس میں برکت واقع ہو، حرص و ہوس اور دل کی رغبت و شوق سے اسے نہیں لینا چاہیے۔ بندے کے ہاں مال کی حیثیت ایسی ہوجائے کہ اس کی ضرورت تو ہے، مگردل میں اس کی کوئی جگہ نہیں، اور مال و دولت کے لیے دوڑ دھوپ صرف اتنی اور اس حد تک ہونی چاہیے، جیسی قضاے حاجت کے لیے ہوتی ہے۔ ترمذی کی ایک مرفوع حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس پر اس حال میں صبح آئی کہ دُنیا کا حصول ہی اس کا سب سے بڑا مطمح نظر تھا، تو اللہ اس کے معاملات کو پراگندا کردے گا، اور اس کے وسائل رزق کو منتشر کردے گا، اور دُنیا میں سے اسے صرف اتنا ہی حصہ ملے گا، جو اس کی قسمت میں لکھا ہے ، مگر جس پر صبح اس حال میں آئی کہ آخرت ہی اس کا سب سے بڑا مطمح نظر تھا، تو اللہ اس کے معاملات کو سنوار دے گا، اس کے دل میں استغنا اور بے نیازی پیدا کردے گا، اور دنیا مجبور و رُسوا ہوکر اس کے قدموں میں آگرے گی‘‘۔

ایک بزرگ کا قول ہے کہ تمھیں دُنیا میں سے حصہ پانے کی ضرورت تو ہے، مگر آخرت میں سے حصہ پانے کی تمھیں اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، لہٰذا اگر تم نے آخرت کے حصے سے آغاز کیا، تو دنیا کا حصہ تمھیں خود بخود مل کر رہے گا۔

جہاں تک صنعت و حرفت، تجارت و زراعت یا عمارت سازی اور رزق کے اس طرح کے دیگر وسائل و ذرائع میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کا تعلق ہے، تو اس کا دارومدار ہرآدمی کے طبعی میلان پر ہے۔ اس بارے میںکوئی لگابندھا اُصول و قاعدہ میرے علم میں نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے کسی پیشے کو اختیار کرنا چاہے، تو اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے استخارہ پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں ناقابلِ بیان حد تک برکت ہے۔ اس کے بعد جو چیز اسے میسر ہوجائے، اسے چھوڑ کر خواہ مخواہ بلاضرورت کسی اور پیشے میں ٹانگ نہ اُڑائے، اِلا یہ کہ اس میں کوئی شرعی قباحت ہو۔

  •  علمی کتب: جہاں تک علم کے حصول کے لیے مناسب کتابوں کا تعلق ہے تو یہ نہایت وسیع میدان ہے۔ اس کا دارومدار کسی حد تک ان ممالک و علاقہ جات پر بھی ہے جہاں انسان پروان چڑھا ہے، اس لیے کہ بعض ممالک میں علوم و فنون اور اس کے مسلک و مکتب ِ فکر کی ایسی چیزیں میسر ہوتی ہیں جو دوسرے ممالک میں میسر نہیں ہوتیں۔ لیکن خیرونیکی کی بنیاد یہ ہے کہ بندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متوارث علم کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے، اس لیے کہ یہی وہ علم ہے جو علم کہلائے جانے کا سزاوار ہے۔

انسان کو سب سے بڑ ھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اَوامر و نواہی اور آپؐ کے کلام کے مقاصد اور حکمتوں کو سمجھنا چاہیے۔ اگر اس کا دل اس بات پر مطمئن ہوجائے کہ کسی بات کے سلسلے میں حضوؐر کا یہی مطلب اور غرض تھی، تو اسے اللہ کے اور بندوں کے ساتھ تعلق میں حتی الوسع، اسے چھوڑ کر کسی اور بات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ بندے کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے پاس علم کے تمام ابواب کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول بنیاد موجود ہو۔

اگر اختلاف کی وجہ سے کسی معاملے میں اسے شرح صدر حاصل نہ ہو، تو مسلم میں حضرت عائشہؓ کی روایت میں سکھائی گئی دُعا کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھنے کے لیے اُٹھا کرتے تو فرماتے: ’’میرے اللہ! جبریلؑ ، میکایلؑ اور اسرافیلؑ کے رب، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے، کھلے چھپے کے جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں کے اختلافات کے درمیان صحیح فیصلہ کرسکتا ہے، جس میں اختلاف ہے، تو حق کی طرف میری رہنمائی فرما، تو جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی حدیث قدسی میں فرمایا ہے: ’’میرے بندو، تم سب گمراہ کر دہِ راہ ہو، مگر جسے مَیں ہدایت دوں، لہٰذا مجھ ہی سے رہنمائی طلب کرو، میں تمھیں راہ دکھائوں گا‘‘۔

کتابوں میں بخاری سے زیادہ مفید کوئی اور کتاب نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علم کے تمام اصول و مبادی اس میں آگئے ہیں۔ علم کے مختلف ابواب اور فروع میں  تبحر کی خواہش رکھنے والا شخص اپنا پورا مقصد صرف اسی کتاب پر انحصار کر کے حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ دیگر احادیث اور ان معاملات کے بارے میں اہلِ علم و فقہ کے اقوال و آرا کا جاننا بھی ضروری ہے، جن کا علم ان حضرات ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ تاہم، جس شخص کو نُورِ بصیرت سے محروم رکھا گیا ہے، کتب کی بہتات، اس کی سرگردانی اور گمراہی میں اضافہ ہی کرے گی، جیساکہ آں حضوؐر نے حضرت ابوعبیدہ انصاریؓ سے فرمایا تھا: ’’کیا یہود و نصاریٰ کے پاس تورات و انجیل موجود نہیں ہے؟ انھوں (تورات و انجیل) نے انھیں کیا فائدہ پہنچایا؟‘‘۔( وصیّتِ صغریٰ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی رحمت ہیں۔ آپؐ کی جملہ تعلیمات ساری انسانیت کے لیے سراسر رحمت ہے۔ آپؐ کی انسانیت نواز تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم یہ ہے کہ حسد سے بچا جائے اور باہم خیرخواہی کی جائے۔آپؐ نے حسد کی سخت مذمت فرمائی۔ فرمایا: حسد کی آگ انسان کی نیکیوں کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے اور یہ وہ بیماری ہے جس نے سابقہ اُمتوں کے دین و ایمان کو برباد کردیا ہے۔ جس دل میں حسد کی آگ جلتی ہے وہ کسی بھی حال میں اس کو چین لینے نہیں دیتی۔ حاسد محسود کو نیچا دکھانے، اس کی غِیبت کرنے اور موقع پاکر اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ شاید اس طرح وہ اپنے دل کو تسکین کا سامان فراہم کرنے کی سعی لاحاصل میں لگا رہتا ہے۔ اسی لیے بعض دانش وروں نے کہا کہ: ’’حسد ایک ایسی آگ ہے، جس میں انسان خود جلتا ہے ، لیکن دوسروں کے جلنے کی تمنا بھی کرتا ہے‘‘۔

اسلام انسان کو سیرت و کردار کی اس پستی سے اُوپر اُٹھاتا ہے اور ان ساری خامیوں اور خرابیوں کو اس کے سینے سے نکال دیتا ہے جو معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بنتی ہیں اور انسانوں کے دلوں کی کھیتی کو پیار، محبت، ہمدردی، خیرخواہی اور رافت و رحمت کی بارانِ رحمت سے سیراب کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں اطمینان و سکون اور امن و امان بحال ہوتا ہے۔

  •  رشک اور حسد: رشک اور حسد دو مختلف چیزیں ہیں۔ پہلی صفت پسندیدہ ہے تو دوسری مذموم ہے۔ رشک کے اندر اخلاقی اعتبار سے کوئی بُرائی نہیں ہے، بلکہ وہ محاسنِ اَخلاق میں سے ہے اور ترقی کا محرک ہے۔ اس کے بالکل برعکس حسد ہے، جس میں حاسد محسود جیسا بننا نہیں چاہتا، بلکہ اس کی نعمت کا زوال چاہتا ہے، اور بلاوجہ دل میں دشمنی کوپالتا ہے۔ اس کے علاوہ حاسد اللہ کی تقدیر سے ناخوش اور بیزار رہتا ہے۔

امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں: ’’حسدیہ ہے کہ حاسد منعم علیہ سے زوالِ نعمت کی تمنا کرے اور بسااوقات حاسد محسود سے ان نعمتوں کے زوال کے درپے ہوتا ہے‘‘۔ (مفردات القرآن،ص ۲۳۴)

  •  حسد کے مختلف مظاہر : ۱-بنی آدم کا سب سے بڑا حاسد شیطان ہے۔ اس کو عقیدۂ توحید سے بَیر ہے۔ اس عقیدے سے انسانوں کو برگشتہ کرنے کا اس نے پختہ ارادہ کیا ہے، اور اپنے اس ارادے کا اظہار بھی اس نے اللہ کے سامنے کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو اس کی کھلی چھوٹ دے کر فرمایا کہ: ’’جا ان میں سے جس کو جس طرح چاہے گم راہ کر۔ جو ان میں سے تیری پیروی کرے گا، تیرا اور اس کا ٹھکانا جہنّم ہوا، مگر یاد رکھ! میرے مخلص بندوں پر تیرا دائو چلنے والا نہیں‘‘۔(بنی اسرائیل۱۷: ۶۲تا ۶۵)

۲- بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ حسد پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے آسمان میں اللہ کی نافرمانی کی گئی اور زمین پر بھی یہ پہلا گناہ ہے جس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی۔ آسمان میں ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، اور زمین پر پہلا خون اسی سے ہوا ہے کہ آدم ؑ کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد ہی کی بنیاد پر قتل کر دیا تھا۔ (نضرۃ النعیم، ج۱۰، ص ۴۴۲۷)

۳- شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے ۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرائے اور ان کے دلوں میں بُغض و حسد کی آگ بھڑکائے۔ برادرانِ یوسفؑ کے دلوں میں بھی اسی نے حضرت یوسف ؑ کے خلاف حسد کی آگ لگائی تھی اور ان کے قتل پر آمادہ کیا تھا۔ جیساکہ قرآن نے برادرانِ یوسف ؑ کا یہ قول نقل کیا ہے:’’جب انھوں نے آپس میں تذکرہ کیا کہ یوسفؑ اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں، حالاں کہ ہم جماعت کی جماعت ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں۔ چلو یوسفؑ کو قتل کردو یا اس کو کہیں پھینک دو کہ تمھارے ابا کی توجہ تمھاری ہی طرف ہوجائے‘‘۔ (یوسف۱۲:۹)

۴- یہودی مسلمانوں سے بُغض و حسد رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُمت مسلمہ سے پہلے یہودی امامت ِ عالم کے منصب ِ جلیل پر فائز تھے اور سلسلۂ نبوت ان ہی کے خاندان میں چلاآرہا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کی اَخلاقی پستی اور نااہلی کی وجہ سے امامت ِ عالم کے عظیم منصب سے ان کو معزول کردیا۔ نبوت اولادِ اسماعیلؑ کی طرف منتقل کر دی گئی تو یہودی چراغ پا ہوکر غم و غصے اور حسد میں مبتلا ہوگئے کہ یہ نبوت تو ہمارے خاندان کی میراث تھی۔ بنی اسماعیل اس کے کیوں کر مستحق ہوسکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نبوت انعامِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے فضلِ خاص سے نواز دیتا ہے۔اس سلسلے میں حیل و حجت کرنے کا تمھیں کوئی اختیار نہیں ہے:

اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ج  فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا O(النساء۴:۵۴) پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ اگر یہ بات ہے تو انھیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک ِ عظیم بخش دیا۔

  •  حسد کے درجے : حسد کے کئی درجے ہیں۔ ایک، دوسروں کی نعمت کا زوال چاہنا۔ یہ نہایت بُری بیماری ہے اور بہت ہی ناپسندیدہ حرکت ہے۔دوسرے، کسی شخص کو کوئی خاص نعمت حاصل ہے تو اسی کی آرزوکرنا، لیکن اس کی نعمت کے چھن جانے کی آرزو نہ کرنا۔ تیسرے، ایک نعمت جو کسی دوسرے کو حاصل ہے، خاص اسی کی آرزو تو نہ کرنا، لیکن اس جیسی نعمت کی آرزو کرنا۔ اگر وہ نعمت خود کو حاصل نہ ہو تو دوسروں سے زوال کی آرزو بھی نہ کرنا۔
  •  حسد کے اسباب  :مولانا سیّد سلیمان ندویؒ نے حسد کے سات اسباب بیان فرمائے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے:

۱- بُغض و عداوت: ایک دشمن کی آرزو ہوتی ہے کہ اس کا دشمن کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے۔ پھر اتفاق سے اگر اس کا دشمن کسی مصیبت سے دوچار ہوجائے تو اس کو دلی خوشی ہوتی ہے اور یہی حسد ہے۔ کافروں کو مسلمانوں سے اسی قسم کا حسد ہوتا ہے: اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْز وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِھَا  ط (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۲۰)’’تمھارا بھلا ہوتا ہے تو  ان کو بُرا معلوم ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں‘‘۔

۲- ذاتی فخر کاخیال: یہ عموماً امثال واقران (ہم عمر لوگ) میں ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ترقی کرجائے تو اس کے دوسرے ساتھیوں کو یہ بات گراں گزرتی ہے۔

۳- ایک شخص کسی کو اپنے حلقۂ ارادت میں باندھے رکھنا چاہتا ہے، مگر وہ کسی امتیاز کی وجہ سے اس کے حلقے سے نکل جائے تو اس کو حسد پیدا ہوتا ہے۔ کفارِ قریش کا کمزور مسلمانوں سے حسد اسی قسم کا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: اَھٰٓؤُلَآئِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنْم   بَیْنِنَا ط (انعام ۶:۵۳) ’’کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے؟‘‘

۴- اپنی نظر میں کسی کو معمولی اور حقیر سمجھنا، پھر اگر اس کو کوئی شرف حاصل ہوجائے تو اس سے حسد کرنا۔ سردارانِ قوم، انبیا علیہم السلام سے اسی بنیاد پر حسد کرتے تھے۔

۵- دو آدمیوں میں کوئی وجہِ اشتراک ہو۔ ان میں سے کسی ایک کو کامیابی مل جائے تو دوسرا حسد میں مبتلا ہوتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کا حسد اسی قسم کا تھا۔ یا ایک شوہر کی متعدد بیویاں ہوں تو ان میں حسد کی وجہ یہی ہوتی ہے۔

۶- جاہ پرستی اور ریاست طلبی: یہودیوں کو مسلمانوں سے اسی بنیاد پر کدوحسد ہے۔

۷- خبث نفس اور بدطینتی: بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی فطرت ہی میں کجی ہوتی ہے۔ وہ کسی کا بھلا نہیں چاہتے۔ (سیرت النبیؐ، ج۶،ص ۴۸۹)

۸- راضی برضا رہنا: اللہ تعالیٰ اس زمین کا خالق و مالک اور مختارِ کُل ہے۔ وہ اس میں جیسا چاہے تصرف کرسکتا ہے۔ اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فقیر بنادیتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ کسی کو صاحب ِ اولاد بناتا ہے اور کسی کو اولاد سے محروم کردیتا ہے۔ کسی کو صحت دیتا ہے اور کسی کو بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ تمام معاملات کو اللہ کے حوالے کردے اور خود اپنے تئیں راضی برضا رہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط (النساء۴:۳۲) ’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو‘‘۔ اور آگے فرمایا: وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ’’ہاں! اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو‘‘۔

بعض انسانوں کی ذہنیت ہوتی ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے بڑھا ہوا دیکھنا پسند نہیں کرتے، اور یہ ذہنیت اجتماعی زندگی میں فساد کی جڑ ہے۔ اس آیت کریمہ میں اسی غلط فکر کی اصلاح کی گئی ہے اور اس کو بدلنے کی تعلیم دی گئی ہے، تاکہ معاشرہ ہمہ قسم کے فسادات سے پاک ہوسکے۔

  •  حسد سے کوئی فائدہ نہیں :حسد کرنے سے سواے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں ہے، اور جس سے حسد کر رہا ہے، اس کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ حسد کرنے والا خود اپنا دشمن ہوتا ہے۔ حسد کا مطلب تو صاف ہے کہ اللہ نے ایک نعمت کسی کو دی ہے اور کوئی دوسرا شخص اللہ کے اس فیصلے پر   خفا ہے، تو یہ کس قدر بُری بات ہے۔ دنیا میں حاسد ہمیشہ رنج و اَلم میں گرفتار رہتا ہے۔ جس پر حسد کر رہا ہے وہ تو عیش کر رہا ہے اور یہ خود حسد کی آگ میں جل رہا ہے۔ نعمت والے کی نعمت تو اس کے پاس رہی اور دشمن برابر حسد کی آگ میں جلتا رہا، تو یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ آدمی اپنے سر ایسی مصیبت مول لے۔(اسلام کی اخلاقی تعلیمات، ص ۲۰۲)
  •  سابقہ اُمتوں کی ہلاکت کا سبب  :سابقہ اُمتوں کی ہلاکت کا ایک سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسد کو قرار دیا ہے۔ حضرت زبیر بن عوامؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

دَبَّ اِلَیْکُمْ دَاءُ الْامَمِ قَبْلَکُمْ، اَلْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ ھِیَ الْحَالِقَۃُ: لَا أَقُوْلُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰکِنْ تَحْلِقُ الدِّیْنَ  (ترمذی)پہلی اُمتوں کی بیماری آہستہ آہستہ تمھاری طرف سرکتی آرہی ہے۔ وہ حسد اور دشمنی ہے۔ وہ (حالقہ) مونڈنے والی ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ وہ بالوں کو مونڈتی ہے بلکہ دین کو مونڈ کر صاف کردیتی ہے۔

  •  حسد سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں :حسد سے حاسد کی تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ وہ تہی دامن ہوکر محرومی کا شکار ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول ؐ اللہ نے فرمایا:

اِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ ، فَاِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ (کتاب الادب: ۴۹۰۳) لوگو! حسد سے بچو، کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے۔

ان ہی وجوہات کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ اپنے دلوں کو حسدسے بچائے رکھیں اور اس کا تریاق یہ بتایا کہ آپس میں اخوت و محبت کو پروان چڑھائیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَلَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ اِخْوَاناً (بخاری، کتاب الادب: ۶۰۶۶) اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، باہم دشمنی نہ رکھو، اللہ کے بندو! سب   بھائی بھائی بن کر رہو۔

حسد ایمان کے منافی ہے ۔ایک دل میں دونوں نہیں رہ سکتے ۔ اسی لیے فرمایاگیا:

وَلَا یَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ  الْاِیْمَانُ وَالْحَسَدُ (النسائی عن ابی ہریرۃؓ،  کتاب الجھاد:۳۱۱۱، حسن) ’’ کسی بندے کے دل میں ایمان اورحسد جمع نہیں ہوسکتے۔

حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں : ’’میں حاسد کے سواسب آدمیوں کو خوش کرسکتاہوں،کیوں کہ حاسد زوالِ نعمت کے بغیر راضی نہیں ہوتا‘‘۔(نضرۃ النعیم، ج۱۰، ص:۴۴۲۹)

حسد کفار ومشرکین، یہود ونصاریٰ اورمنافقین کی خصلت ہے۔اہلِ کتاب کاذکر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا:

وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْم  بَعْدِ  اِیْمَانِکُمْ کُفَّاراً  حَسَداً مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ  فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہِ  ط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ  O (البقرہ۲:۱۰۹)اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمھیں ایمان سے پھیر کرپھر کفر کی طرف پلٹالے جائیں۔ اگرچہ حق ان پرظاہر ہوچکاہے ، مگر اپنے نفس کے حسد کی بناپر تمھارے لیے ان کی یہ خواہش ہے۔ تم عفو و درگزر سے کام لو۔ یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کردے۔ مطمئن رہوکہ اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے۔

 حسد نہایت بُری بلاہے، جس سے اللہ کی پناہ ڈھونڈنی چاہیے۔ ، قرآن مجید میں حاسد کے شر سے اللہ کی پناہ چاہی گئی ہے ، جیساکہ ارشاد ہے: وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ O (الفلق۱۱۳ :۵) ’’(میں اللہ کی پناہ میں آتاہوں)حاسد کے شر سے، جب کہ وہ حسد کرے ‘‘۔

  •  حاسد سے بچنے کے لیے چند تدابیر:علامہ ابن قیم ؒ نے حاسدکے شر سے بچنے کے لیے دس احتیاطی تدابیر بتائی ہیں :

۱- اللہ کی حفاظت طلب کی جائے اوراس کے لیے دعاؤں کااہتمام کیاجائے ۔

۲-حاسد کی باتوں پرصبر کیاجائے ، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے ، اوراس کو نقصان پہنچانے کا خیال تک دل میں نہ لایاجائے ۔

۳- ہرحال میں تقویٰ کی روش پرقائم رہاجائے اوراللہ تعالیٰ کو یادکرتارہے ۔ جو متقی ہوتا ہے خود اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتاہے،جیساکہ ارشاد الٰہی ہے : وَ اِن تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا ط ( اٰل عمرٰن۳:۱۲۰) ’’مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی، بشر طیکہ تم صبر سے کام لو اوراللہ سے ڈر کرکام کرتے رہو‘‘۔

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عباسؓ سے فرمایاتھا : اِحْفَظِ اللہَ یَحْفَظْکَ اِحْفَظِ اللہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ (ترمذی ، ابواب صفۃ القیامۃ )’’تم اللہ کو یادرکھو، اللہ تمھاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ کو یادرکھو، اللہ کو اپنے سامنے پاؤگے‘‘۔

                ۴- اللہ پر توکل کرے :یہ دفعِ مظالم کے لیے سب سے طاقت ورذریعہ ہے۔جس کے لیے اللہ کی ذات کافی ہواس کوکسی دشمن کے ضررسے خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اللہ کا ارشادہے :  وَمَن یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ط (الطلاق۶۵:۳)’’جو اللہ پر بھروسا کرے،  اس کے لیے وہ کافی ہے ‘‘۔

۵- حاسد کی فکر سے دل کوفارغ کرلے ،ا وراس کونظر انداز کردے۔ یہ ایک فائدہ مند نسخہ ہے اوراس کے شر سے خود کوبچانے کی ایک بہترین تدبیرہے ۔

۶-اللہ کی طرف متوجہ ہواوراس سے اپنے تعلق کو اخلاص ،انابت اوراس سے محبت اوررضا کی بنیاد پر استوارکرے۔ ایسابندہ اللہ کی حفظ وامان میں ہوتاہے ، جیساکہ ارشادہے :

اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ (الحجر۱۵:۴۲) بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پرتیرابس نہیں چلے گا۔

۷-اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں اورنافرمانیوں سے توبہ کرے ، کیوں کہ دشمن کے غلبے اور تسلط کاایک اہم سبب بنی آدم کے گناہ بھی ہیں ، جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُم(الشورٰی ۴۲:۳۰) تم لوگوں پر جوبھی مصیبت آئی ہے تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے ۔

۸- صدقہ وخیرات کرتارہے۔ اس کی بھی بڑی عجیب وغریب تاثیرہے ۔ نظرِ بد ، دفعِ بلا اور حاسد کے شر سے بچنے کی یہ ایک کارگرتدبیر ہے ۔

۹- حاسد کے ساتھ بھلائی اوراحسان کامعاملہ کرے۔ اگرچہ نفس پریہ نہایت شاق گزرتا ہے ، مگر حاسد کے شرسے بچنے کی یہ بڑی اچھی تدبیرہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے :

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (حم السجدۃ۴۱:۳۴-۳۶) (اوراے نبی ؐ!) نیکی اوربدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کروجو بہترین ہو۔تم دیکھوگے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیاہے ۔

۱۰-عقیدئہ توحید پر مضبوطی سے جمارہے اوراپنے معاملات کی باگ ڈوراللہ تعالیٰ کے حوالے کردے، کیوں کہ نفع ونقصان کااکیلا مالک وہی ہے۔اس کی مرضی کے بغیر کوئی کسی کونقصان نہیں پہنچا سکتا اورنہ فائدہ ہی پہنچاسکتاہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے :

وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلاَّ ہُوَ ج  وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖط (یونس۱۰:۱۰۷)اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اُس مصیبت کو ٹال دے ، اوراگروہ تیرے حق میں کسی بھلائی کاارادہ کرے تو اس کے فضل کوپھیرنے والابھی کوئی نہیں ہے۔

موجودہ دور میں مسلم معاشرہ جن مہلک اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہے، ان میں سرفہرست حسد ہے۔شاید ہی کوئی گھرانا اورخاندان اس سے محفوظ ہو۔یہ مرض اس قدر سرایت کرگیا ہے کہ مسلم ممالک بھی آپس میں اس ناسور کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ خود ترقی کرتے ہیں اورنہ دوسروں کی ترقی ہی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں۔مسلم ممالک اور عوام کے پاس اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے، مگر یہ طاقت وصلاحیت تعمیری کاموں میں کم ہی خرچ ہوپاتی ہے۔ملت کی تعمیر وترقی کے لیے ضروری ہے کہ مسلم معاشرے کا ہر فرد اس مہلک مرض سے محفوظ رہے۔ سچ فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے : ’’لوگ اس وقت تک خیر وبھلائی پر رہیں گے ، جب تک ایک دوسرے سے حسد کرنے سے محفوظ رہیں گے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ناسور سے محفوظ رکھے۔ آمین!

اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ   اِیْمَانًا   اَحْسَنُھُمْ  خُلُقًا (ابو داؤد ) اہلِ ایمان میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں ، جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ مقدم یہ بات ہے کہ ایمان جو گومذہب کا اصل الصول ہے لیکن اسی بناپر کہ وہ دل کے اندر کی بات ہے جس کو کوئی دوسراجانتا نہیں اور زبان سے ظاہری اقرار ہر شخص کرسکتا ہے، اس لیے اس ایمان کی پہچان اس کے نتائج و آثار، یعنی اخلاق حسنہ کو قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ مومنون میں عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاق کو بھی اہل ایمان کی ان ضروری صفات میں گنایا گیا ہے جن پر ان کی کامیابی کا مدار ہے۔فرمایا :

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ O  الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خٰشِعُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ   …… وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ O (المومنون۲۳:۱تا۵،اور۸تا۹) یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دُور رہتے ہیں ، زکوٰۃ کے طریقے پرعامل ہوتے ہیں ، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں… اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں،اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔

ان آیتوں میں اہل ایمان کی کامیابی جن اوصاف کا نتیجہ بتائی گئی ہے ان میں وقار و تمکنت (لغویات سے اعراض )،فیاضی (زکوۃٰ)،پاک دامنی اور ایفاے عہد کو خاص رُتبہ دیا گیا ہے ۔

اخلاق حسنہ اور تقویٰ

                اسلام کی اصطلاح میں انسان کی اسی قلبی کیفیت کا نام جو ہر قسم کی نیکیوں کی محرک ہے تقویٰ ہے ۔وحی محمدیؐ نے تصریح کردی ہے کہ تقویٰ والے لوگ وہی ہیں جن کے یہ اوصاف ہیں:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ  وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ط  وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج      وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ج  وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج  وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ O (البقرہ ۲:۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا  دل پسندمال رشتے داروں اور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں ، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

اس سے ظاہر ہوا کہ راست بازی اور تقویٰ کا پہلا نتیجہ جس طرح ایمان ہے اسی طرح ان کا دوسرا لازمی نتیجہ اخلاق کے بہترین اوصاف فیاضی ،ایفاے عہد اور صبر و ثبات وغیرہ بھی ہیں۔

اللہ تعالٰی کا نیک بندہ ہونے کا شرف

                محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم میں اللہ تعالیٰ کے نیک اور مقبول بندے وہی قراردیے گئے جن کے اخلاق بھی اچھے ہوں اور وہی باتیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے مقبول ہونے کی نشانی ہیں:

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰہِلُوْنَ   قَالُوْا سَلٰمًا O  وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا O وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ ق اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا O  اِنَّھَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا O وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ        قَوَامًا O  وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا O (الفرقان ۲۵: ۶۳-۶۸) رحمٰن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام جو اپنے ربّ کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں جو دعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے ربّ ، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں___ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ۔

وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا O وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا O وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا O (الفرقان۲۵: ۷۲ تا ۷۴) (اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھُوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں ۔ جنھیں اگر ان کے ربّ کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے ۔جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے ربّ ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا‘‘۔

دیکھو ایک ایمان کی حقیقت میں عفو ودرگزر، میانہ روی اور قتل و خوںریزی اور بدکاری نہ کرنا اور مکرو زور میں شریک نہ ہونا وغیرہ اخلاق کے کتنے مظاہر پوشیدہ ہیں۔

اہل ایمان کے اخلاقی اوصاف

وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیارے اور مقبول بندے ہیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے اخلاقی اوصاف یہ بیان ہوئے ہیں:

وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ O وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَ O  وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ص وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ O وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ O وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا ج  فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ O وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیْھِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ O اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط  اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ O (الشوریٰ ۴۲: ۳۶ تا ۴۳) وہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیںاور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔جو بڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو در گزر کر جاتے ہیں،جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ، ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں،اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں___بُرائی کا بدلہ ویسی ہی بُرائی ہے ، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے، تو یہ بڑی اُولوا العزمی کے کاموں میں سے ہے۔

اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ O الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ O(اٰل عمرٰن ۳: ۱۳۳-۱۳۴) اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال ، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔

اُولٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ O وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَ قَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلٰمٌ ز عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَO  (القصص ۲۸: ۵۴-۵۵) یہ وہ لوگ ہیں  جنھیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اُس ثابت قدمی کے بدلے جو انھوں نے دکھائی۔ وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جب انھوں نے بے ہودہ بات سنی تو    یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہو گئے کہ ’’ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے ، تم کو سلام ہے ، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ  مِسْکِیْنًا  وَّیَتِیـْمًا  وَّاَسِیْرًا  (الدھر۷۶:۸)  اور   اللہ کی محبّت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ا یمان اورا خلاقِ حسنہ کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ O (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو ‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: اُیُّ الْاِیْمَا نِ اَفْضَلُ ’سب سے افضل ‘سب سے اعلیٰ اور سب سے عمدہ ایمان کون سا ہے؟‘‘۔ جواب میں ارشاد فرمایا: خُلُقٌ حَسَنٌ’’یعنی وہ ایمان  جس کے ساتھ اخلاق حسنہ موجود ہوں‘‘۔

ارشاداتِ نبویؐ کی روشنی میں

اَکْمَلُ   الْمُؤْمِنِیْنَ   اِیْمَاناً   اَحْسَنُھُمْ  خُلُقًا  (ابوداؤد ) اہلِ ایمان میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں ، جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔

اِ نَّمَا بُـعِـثْتُ   لِاُتَمِّمَ   مَکَارِ مَ  الْاَخْلاَقِ (الادب المفرد للبخاری و مسند احمد) میں اخلاق کریمہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔

 اِنَّ   اَثْقَلَ شَیءٍ یُوْضَعُ  فِیْ  مِیْزَانِ  الْمُؤْمِنِ  یَوْمَ  الْقِیَامَۃِ خُلُقٌ  حَسَنٌ (ابوداؤد،  الترمذی)قیامت کے دن ، مومن کی میزانِ عمل میں ، جو سب سے وزنی اور بھاری چیز رکھی جائے گی، وہ اُس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔

اَ لْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ(رواہ احمد ابو داؤد )نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے۔

اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ  وَ اَ قْرَبِکُمْ مِنِّیْ مَجْلِسًا  یَوْ مَ الْقِیٰمَۃِ أَ حْسَنُکُمْ أَ خْلَا قًا (بخاری) بے شک مجھے تم میں سے سب سے محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اچھے اخلاق والے ہیں ۔

وَ عَنْ رُجُلٍ مِنْ مُزَ یْنَۃَ قَا لَ : قَا لُوْ ا : یَا رَ سُوْ  لَ اللّٰہِ  مَا خَیْرُ مَا اُعْطِیَ الْاِنْسَانُ؟  قَا لَ : اَلْخُلُقُ الْحَسَنُ (بیہقی فی شعیب الایمان) مزینہ قبیلہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا :اے اللہ تعالیٰ کے رسول،انسان کو جو کچھ عطا ہو ا ہے اس میں سب سے بہتر کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا:حُسن اخلاق۔

اِنَّ   الْمُؤْمِنَ   لَیُدْرِکُ   بِحُسْنِ  خُلُقِہٖ   دَرَجَۃَ  قَائِمِ   اللَّیْلِ   وَصَائِمِ   النَّھَارِ    (ابوداؤد، عن عائشۃؓ ) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : مومن، اپنے اچھے اخلاق سے ان لوگوں کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ، جو رات بھر نفلی نمازیں پڑھتے ہوں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہوں۔

ایمان اور اخلاق حسنہ لازم و ملزوم

  •  ارشاد نبوی ؐ:  لَیْسَ الْمُؤْ مِنُ  بِا لطَّعَّانِ  وَ  لَا  اللَّعَّا نِ وَلَا الْفَا حِشِ  وَلَا الْبَذِیْءِ (سنن ترمذی) ’’مومن کبھی طعنے دینے والا ،لعنت ملامت کرنے والا،فحش گوئی کرنے والا اور بداخلاق نہیں ہوسکتا ‘‘۔
  •   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وَ اللّٰہِ  لاَ  یُؤْ مِنُ  ،   وَ اللّٰہِ  لاَ  یُؤْ مِنُ  ، وَ اللّٰہِ  لاَ  یُؤْ مِنُ   قِیْلَ وَ مَنْ یَا رَسُوْ لَ اللّٰہَ ’’خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ،خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ،خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ۔پوچھا گیا :اے اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کون ؟‘‘۔

                                جواب میں ارشاد فرمایا : اَ لَّذِ یْ لاَ  یَأْ مَنُ جَا رُ ہُ  بِوَا یِقَہُ، وہ شخص جس کی ایذارسانی سے اس کا پڑوسی چین یا امن میں نہیں۔

  •   نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لَا  اِ یْمَانَ لِمَنْ لَّا  اَمَا نَۃَ لَہُ ، وَ لَا دِ یْنَ  لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہُ (مشکوٰۃ ) جس کے اندر امانت نہیں، اس کے اندر ایمان نہیں اور جسے عہد کا پاس نہیں، اس کے پاس دین نہیں ہے۔

 اخلاق حسنہ کے لیے جذبۂ محرکہ 

ایمان باللہ ، ایمان بالآخرۃ، اللہ تعالیٰ کی محبت ،اللہ تعالیٰ کی رضا جو ئی ،اللہ تعالیٰ کا خوف، تقویٰ،یہ احساس کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ،اخلاقِ حسنہ کے لیے جذبۂ محرکہ ہیں۔  اسی طرح یہ فکرہے کہ آخرت کا خوف،آخرت کی جواب دہی کا احساس کہ ہر سانس کے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے ۔اس کے لیے شعور کو تازہ رکھنا اور ہر قدم پر اپنا محاسبہ کرنا کے کہیں مجھ سے کوئی غلط فعل سرزد نہ ہو جائےناگزیرہے۔    

ایک دنیا یہ ہے جس میں ہم اور آپ رہتے بستے ہیں اور جس میں ہماری زندگیوں کا ایک حصہ گزر چکا ہے اور کچھ باقی ہے۔ اس دنیا کی چیزوں کو ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کی آوازوں کو کانوں سے سنتے ہیں۔ یہاں کی خوشبو بدبو کو ہم سونگھ کر جان لیتے ہیں۔ اسی طرح یہاں کی سردی گرمی محسوس کرتے ہیں۔ سختی نرمی کو چھوکر اور اچھے بُرے مزے کو چکھ کر دریافت کرلیتے ہیں۔ الغرض ہماری یہ دنیا ایسی دنیا ہے کہ اس کو ہم خود اپنے خداداد علم سے جانتے ہیں اور کوئی ہمیں بتائے یا نہ بتائے، ہم اس کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہم خود اپنے علم سے اور اپنے مشاہدے اور تجربے سے یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دنیا میں آرام اور راحت بھی ہے اور تکلیف اور مصیبت بھی___ یہاں کی بھوک پیاس، بیماری، زیادہ سردی اور زیادہ گرمی یہاں پر تکلیف کی چیزیں ہیں۔ اسی طرح تندرستی، خوش حالی، کھانے پینے کی اچھی چیزیں، اچھا موسم، اچھی ہوا، اچھا مکان، اچھی فضا یہ یہاں کی آرام اور راحت کی چیزیں ہیں۔

پھر یہ بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جانتے ہیں کہ یہاں کی ہماری زندگی ایک محدود مدت کے لیے ہے اور یہاں کی ہرتکلیف و مصیبت اور ہر عیش و راحت بھی محدود الوقت اور چند روزہ ہے۔ کتنے افراد پیدا ہونے والے جوانی سے بھی پہلے بچپنے ہی میں چل دیتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں، کہ  جوانی میں چلے جاتے ہیں۔ پھر جن کو جوانی کی بہار دیکھنے کا موقع ملتا ہے، آخرکار بڑھاپے میں وہ بھی چلے ہی جاتے ہیں۔ آج کل ۸۰، ۹۰ سال کی عمر بھی کسی کو کم ہی ملتی ہے۔ بہرحال، ہم اپنے تجربے اور مشاہدے سے جس طرح اس دنیا کو جانتے ہیں، اسی طرح یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی ہرتکلیف و راحت بس چند روزہ ہے۔

  •  آخرت کی دنیا: ہم اور آپ بہ حیثیت مسلمان اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا کو بھی مانتے ہیں، کہ وہ مرنے کے بعد والی اور آخرت کی دنیا ہے۔ وہ دنیا کہ جس کو ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور نہ کسی اور طریقے سے ہم نے اُس کو اپنے علم سے جانا ہے، بلکہ اُس کی خبر اللہ کے پیغمبروں ؑ نے دی ہے جن کی سچائی پر ہمیں پورا یقین ہے۔ ہماری اس دنیا میں بھی، جس میں ہم رہ بس رہے ہیں، ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، بلکہ دوسرے لوگوں سے سن سن کر ہی ہم اُن پر یقین لے آئے ہیں۔

اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ آخرت میں اور وہاں کی تکلیفوں اور راحتوں کو اگرچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، لیکن اللہ کے پیغمبروں ؑ ، خاص کر آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلانے سے اور اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کے بیان سے ہم نے اس کو جانا اور مانا ہے___ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کے سب پیغمبروںؑ نے یہی بتایا کہ: موت سے انسان کا بالکل خاتمہ نہیں ہو جاتا، بلکہ انسان دوسرے عالم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اس کی روح جو انسان کی اصل حقیقت ہے وہ دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے۔ اس لیے ’موت‘ کو ’انتقال‘ بھی کہتے ہیں۔

اس کی ایک مثال ہم سب پر گزر بھی چکی ہے، جس کی وجہ سے اس کا سمجھنا زیادہ مشکل  نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں آنے سے پہلے چند مہینے اپنی ماں کے پیٹ میں رہا ہے۔ ذرا سوچیے اگر کوئی ایسا آلہ ایجاد ہوجائے جس کے ذریعے پیٹ کے بچے تک بات پہنچائی جاسکے اور اس سے کہا جائے کہ اے بچے! اس وقت تو جس دنیا میں ہے، یہ اصل دنیا نہیں ہے، اصل دنیا میں تُو چند دنوں کے بعد پہنچے گا اور وہ لاکھوں کروڑوں کلومیٹر کی لمبی چوڑی دنیا ہے۔ اس میں دریا ہیں، پہاڑ ہیں، جنگل ہیں، اور اربوں انسان بس رہے ہیں، ریلیں چل رہی ہیں، موٹریں دوڑ رہی ہیں، ہوائی جہاز اُڑ رہے ہیں ، حکومتیں قائم ہیں، جنگیں ہوتی ہیں، توپیں چلتی ہیں، الغرض اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اگر ماں کے پیٹ کے بچے سے اس کا ذکر کیا جائے اور اس کو بتایا جائے کہ چنددن کے بعد تو بھی اس دنیا میں پہنچ جائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ بچہ جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ کی ایک بالشت کی دنیا میں ہے اور اس سے باہر کی کسی بات کو جانتا ہی نہیں، وہ اگر ان باتوں کو کسی طرح سمجھ بھی لے تو بھی آسانی سے یقین نہ کر سکے گا، لیکن پیدا ہونے کے بعد جب وہ اس دنیا میں آئے گا اور کچھ دیکھنے سمجھنے کے لائق ہو جائے گا تو ان سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ بالکل یہی مثال ہماری اس زندگی کی اور عالم آخرت کی ہے۔

ہم اس دنیا میں ہیں تو اس دنیا سے آگے کی کسی بات کو خود نہیں جان سکتے۔ اور اپنی ان آنکھوں سے آگے کی کوئی منزل نہیں دیکھ سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انبیاے علیہم السلام کو عالمِ آخرت کا علم دیا ہے۔ انھوں نے ہمیں بتایا اور سب سے زیادہ وضاحت اورتفصیل سے خدا کے آخری نبی ورسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ مرنے کے بعد تم ایک دوسرے عالم اور دوسرے جہان میں پہنچ جائو گے جس کی پہلی منزل عالم برزخ ہے ( یعنی موت سے لے کر قیامت تک جہاں اور جس حال میں رہنا ہو گا)۔ دوسری منزل حشر اور حساب کی منزل ہے، جہاں ہر شخص کے اعمال کی جانچ اور ان کا فیصلہ ہوگا، اور اس سے آگے آخری منزل دوزخ یا جنت کا دائمی ٹھکانا ہے۔پھر  دوزخ میں جو طرح طرح کے درد ناک عذاب ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی شان قہاری کے جو نہایت ہیبت ناک منظر سامنے آئیں گے ان کو بھی آپؐ نے تفصیل سے بتلایا، اور جنت میں عیش وراحت اور لذت و مسرت کے جو بے انتہا سامان ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت وکرم کے جو نئے نئے تجربے اور مشاہدے ہوں گے ان کی بھی آپؐ نے پوری تفصیل بیان فرمائی۔

میں مانتا ہوں کہ اس زندگی میں ان باتوں میں سے کسی ایک کو بھی ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے اور نہیں دیکھ سکتے، لیکن ہمارا یہ نہ دیکھنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ کی منزل میں کسی بچے کا اس دنیا کو نہ دیکھ سکنا ، اور جس طرح ہر بچہ یہاں آ جانے کے بعد وہ سب کچھ دیکھ لیتا ہے جو آنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتا تھا، اسی طرح ہمیں یقین ہے اور ہم اس پر قسم کھا سکتے ہیں کہ اس دنیا سے جانے کے بعد ہم میں سے ہر ایک وہ سب کچھ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لے گا جس کی اطلاع اللہ کے سارے سچے نبیوں اور رسولوں نے دی ہے اور سب سے آخر میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تفصیل اور وضاحت سے دی ہے۔

بہر حال، ہمیں کہنا یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے ، ہم اور آپ جو اپنے کو مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں ، آخرت والی دنیا کو مان چکے ہیں اور اس پرایمان لا چکے ہیں___ بلکہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی آخری کتاب قرآن مجید نے آخرت اور دوزخ وجنت کی جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں ہم اور آپ ان تفصیلات پر بھی ایمان لائے ہیں۔

 مثلاً ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح ہماری اس زندگی میں بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے، اسی طرح دوزخ میں بھی دوزخیوں کو بھوک اور پیاس کی تکلیف ہو گی جو یہاں کی اس تکلیف سے ہزاروں گنا زیادہ ہو گی___ پھر اگر یہاں کسی کو بھوک لگے اور اسے کہیں سے کھانے کی کوئی چیز نہ ملے تو بس یہی تو ہو گا کہ دوچار ہفتے تڑپ تڑپ کے ایڑیا ں رگڑ رگڑ کے جان دے دے گا اور اس طرح موت کے ساتھ اس کی بھوک کی تکلیف کا بھی خاتمہ ہو جائے گا، لیکن دوزخ میں دوزخی ہزاروں لاکھوں سال بھوک پیاس کی شدید تکلیف میں تڑپے گا اور اس سے چھٹکارا پانے کے لیے اسے موت بھی نہ آئے گی، قرآن مجید کا بیان ہے: لَا یُقْضٰی عَلَیْھِمْ فَیَمُوْتُوْا(الفاطر ۳۵:۳۶)‘‘۔

  •  آخرت کا عذاب:آخرت کے عذاب کے متعلق قرآن مجید نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں، ان میں سے بس دو باتیں اور سن لیجیے ۔ ان سے اندازہ ہوجائے گا کہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو بھی آخرت کی تکلیفوں سے کیا نسبت ہے :

خیال کیجیے ! اس دنیا میں اگر کسی زندہ آدمی کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے تو بس چند منٹ میں جل بھن کر اور تڑپ تڑپ کر جان دے دے گا۔ اور چند منٹ کی یہ تکلیف بھی ایسی ہو گی کہ جس بے چارے پر گزرے گی اس کا تو کیا ذکر، دیکھنے والوں کے بھی ہوش خراب ہو جائیں گے اور کتنوں پر اختلاج قلب کے دورے پڑ جائیں گے ۔ لیکن قرآن مجید میں دوزخیوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے اور ان کے جسم کی کھالیں پک پک جائیں گی اور پھر ان کی جگہ نئی کھال آ جائے گی اور پھر اسی طرح وہ جھونکے جائیں گے ، الغرض ان کو یہ عذاب مسلسل دیا جاتا رہے گا ___ قرآن مجید کے الفاظ ہیں : کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًاغَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ط(النساء ۴:۵۶) ’’اور جب اُن کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کریں گے، تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں‘‘۔

اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی سن لیجیے:

آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ دوزخ میں جس شخص کو سب سے ہلکے درجے کا عذاب ہوگا، اس کا حال یہ ہو گا کہ اس کے پائوں کے تلوے کے نیچے دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری رکھ دی جائے گی جس سے اس کا بھیجا سر میں اس طرح پکے گا جس طرح چولھے پر ہانڈی پکتی ہے اور اس کا اپنا اندازہ اور احساس یہ ہو گا کہ سب سے زیادہ عذاب میں آج میں ہی ہوں‘‘۔

ہم آپ سب اس پر ایمان لائے ہیں کہ آخرت اور دوزخ کے بارے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات اور قرآن مجید کے یہ بیانات بالکل صحیح ہیں، یقینی ہیں، ان میں کسی شک وشبہے کی گنجایش نہیں ہے۔

  •  جنّت اور اس کی نعمتیں:اب اسی طرح جنت اور اس کی نعمتوں کے متعلق بھی  اللہ اور اللہ کے رسول ؐ کے چند ارشادات اس وقت ذہن میں تازہ کر لیجیے!

یوں تو جنت اور اہل جنت کے متعلق قرآن مجید میں بہت کچھ بیان فرمایا گیا ہے۔ لیکن ایک بات کئی جگہ قرآن مجید میں ایسی کہی گئی ہے کہ جنت کے متعلق کچھ اندازہ کرنے کے لیے بس وہی کافی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ انسان کے دل اور اس کی طبیعت میں جو بھی خواہشیں اور جو بھی اُمنگیں اور آرزوئیں ہیں اور ہو سکتی ہیں جنت میں ان سب کے پورا ہونے کا پورا سامان ہے اور وہ سب پوری کی جائیں گی۔ ارشاد ہے: وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ o (حم السجدہ ۴۱:۳۱) ’’وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: لَھُمْ فِیْھَا مَا یَشَآئُ وْنَ ط (النحل ۱۶:۳۱)، اور ایک تیسری جگہ فرمایا گیا ہے: فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ ج (الزخرف ۴۳:۷۱) (یعنی جنت میں تمھارے لیے وہ سب کچھ ہے جس کو تمھارے جی چاہتے ہیں اور تمھاری آنکھوں کو جس کے دیکھنے سے لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے)۔

سوچیے اس کے بعد باقی کیا رہا ؟ ہمارا جی عیش وراحت والی اور لذت ومسرت والی ایسی زندگی کو چاہتا ہے جو کبھی ختم نہ ہو، جنت میں وہ موجود ہے۔ ہمارا جی اچھے مکانات کو چاہتا ہے    جن سے نکلنے کا کبھی اندیشہ نہ ہو، جنت میں وہ بھی موجود ہیں۔ ہمارا جی اچھے کھانوں اور اچھے لذیذ میووں اور پینے والی اچھی خوش ذائقہ خوش رنگ چیزوں کو چاہتا ہے، جنت میں وہ بھی موجود ہیں بلکہ ان کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ ہمارا جی اچھی حسین اور سلیقہ شعار اور خدا کو یاد کرنے والی بیویوں کو چاہتا ہے، جنت میں وہ بھی موجود ہیں۔

یہ تو عام انسانوں کی خواہش کی چند چیزوں کا ذکر ہے اور جنت میں بلاشبہہ یہ سب چیزیں بھر پور موجود ہیں ۔ لیکن اس سے آگے اللہ تعالیٰ کی رضا، اللہ تعالیٰ کی وہ معرفت جس کا اس دنیا میں امکان نہیں، اور پھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور اس کا دیدار___ یہ جنت کی وہ نعمتیں اور لذّتیں ہیں جن کی چاہت سے اللہ کے خاص بندوں کے سینے بھرے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا اپنے ان چاہنے والوں کی اس چاہت کو بھی وہاں پورا کرے گا۔

اس کے بعد اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی سن لیجیے۔ ارشاد فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک اور فرماںبردار بندوں کے لیے جنت میں جو نعمتیں اور  لذت وراحت کے جو سامان تیار کیے ہیں وہ ایسے اچھوتے اور البیلے ہیں کہ کسی آنکھ والے کی آنکھ نے ان کی جھلک تک نہیں دیکھی، اور کسی کے کان میں ان کی بھنک تک نہیں پڑی، اور کسی کے دل میں ان کا خیال اور خطرہ بھی نہیں گزرا ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں : مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ (بخاری، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ، حدیث: ۳۰۸۸)

ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلے میں اور سن لیجیے ، جس میں آپ ؐ نے جنت کے عیش اور دوزخ کے عذاب کی شدت کو ایک خاص عنوان سے سمجھانا چاہا۔

آپ ؐ نے فرمایا: آخرت میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص کو طلب فرمائے گا، جس نے دنیا میں خدا سے بے تعلق اور بے خوف ہو کر اور اس کے احکام سے بے پروا ہو کر کفر اور شرارت کی زندگی گزاری ہو گی اور دنیا میں ایسے عیش وآرام سے رہا ہوگا کہ کبھی کسی تکلیف کا اس نے منہ بھی نہ دیکھا ہو گا۔ پھر فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اس کو دوزخ کی ہوا کھلا لائو ۔ فرشتے حکم کی تعمیل کریں گے اور اس کو دوزخ کی ذرا آنچ دکھا کر نکال لائیں گے۔ اسی سے اس کا یہ حال ہو جائے گا کہ سر سے پائوں تک بس تکلیف اور بے چینی ہو گی، چیخے گا اور تڑپے گا۔ پوچھا جائے گا کیا حال ہے ؟ بے چارہ اپنی تکلیف اور اپنے دکھ کا حال بیان کرے گا۔ پھر پوچھا جائے گا کچھ یاد ہے کہ اس سے پہلی زندگی میں، یعنی دنیا میں تُو کیسے عیش وآرام سے رہا تھا۔ وہ بندہ غالباً قسم کھا کر کہے گا کہ خدا وند ا میں نے عیش وآرام کی کبھی صورت بھی نہیں دیکھی ، میں تو بس اس تکلیف ہی کو جانتا ہوں جس میں اس وقت مبتلا ہوں۔ گویا دوزخ کی آگ کی صرف ہوا لگ جانے سے آدمی اس دنیا کی پوری زندگی کے عیش وراحت کو بالکل بھول جائے گا ___ !

حضوؐر فرماتے ہیں کہ پھر ایک ایسے نیک بندے کو بلایا جائے گا جو دنیا کی زندگی میں ہمیشہ تکلیف اور پریشانی ہی میں رہا تھا اور فرشتوں کو حکم ہو گا کہ جائو ہمارے اس بندے کو ذرا جنت کی ہوا کھلا لائو۔ فرشتے اس حکم کی بھی تعمیل کریں گے اور اس کو جنت کی فضا میں سے گزار کر لے آئیں گے۔ بس جنت کی ہوا لگنے اور اس کی فضا میں سے صرف گزر جانے سے اس بندے کو ایسا چین وسکون اور ایسا عیش و سُرور حاصل ہو گا کہ پہلی زندگی کی ساری عمر کی تکلیف بھول جائے گا، اور جب اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ بندے کچھ یاد ہے کہ پہلی زندگی کیسی تکلیف سے گزری تھی، تو وہ عرض کرے گا کہ میرے پیارے پروردگار! مجھے تو کسی تکلیف کی صورت دیکھنا بھی یاد نہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پورے بیان کا حاصل یہی ہے کہ آخرت کی تکلیفیں اور وہاں کا عذاب اتنا سخت ہے کہ اس کا ایک لمحہ اس دنیا کے عمر بھر کے عیش کو بھلا دے گا ۔ اور اسی طرح وہاں کا عیش وآرام اور وہاں کی لذتیں ایسی ہیں کہ انھیں صرف دیکھ کر بندہ ساری عمر کی تکلیفیں بھول جائے گا۔

دوزخ اور جنت کے متعلق قرآن وحدیث کے ان بیانات پر الحمدللہ ہمارا ایمان ہے اور ہم آپ سب اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ سب حق ہے اور اس دنیا سے جانے کے بعد ہم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ ہمیں اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہہ نہیں ہے۔

  •  دنیا اور آخرت کے علم و یقین کا اثر:اب خدارا اپنی اور اپنے سب مسلمان بھائیوں کی اس حالت پر غور کرو کہ دنیا کی جن حقیقتوں کا اور یہاں کی جن تکلیفوں اور آراموں کا اور جن نفعوں اور نقصانوں کا ہمیں اپنے مشاہدے اور تجربے سے علم ہوا ہے، ا ن کا ہماری زندگی پر کتنا اثر ہے۔ مثلاً ہمیں یقین ہے کہ آگ جلا دیتی ہے تو اس علم کا ہم پر یہ اثر ہے کہ ہم بھول کے بھی آگ سے نہیں کھیلتے، بلکہ جب کہیں آگ کے پاس سے بھی گزرتے ہیں تو اپنے جسم کو اور کپڑوں کو پوری طرح بچاتے ہوئے گزرتے ہیں ۔ اسی طرح ہم نے معتبر آدمیوں سے سن رکھا ہے کہ زہر آدمی کو ہلاک کر ڈالتا ہے اور سانپ کے کاٹنے سے آدمی مرجاتا ہے، تو کبھی ہم آزمایش کے خیال سے بھی زہر پی کر دیکھنے کی یا سانپ کو ہاتھوں میں لے لینے کی جرأت نہیں کرتے ۔

اسی طرح ہم میں سے جو غریب یہ جانتے ہیں کہ وہ اگر آج مزدوری نہیں کریں گے تو  کل ان کے بچوں کو فاقہ ہو جائے گا۔ وہ گھر میں نہیں بیٹھے رہتے بلکہ دسمبر جنوری کی سخت کڑاکے کی سردی میں بھی اور جون کی جُھلسا دینے والی لُو میں بھی وہ بے چارے باہر نکل کر مزدوری کرتے ہیں۔ اسی طرح ملازم پیشہ حضرات چونکہ جانتے ہیں کہ اگرہم بر وقت ڈیوٹی پر نہ پہنچیں گے تو    ہم سے باز پُرس ہو گی اور ہماری  ملازمت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس لیے خواہ جی چاہے یا نہ چاہے بے چارے ڈیوٹی پر جانے اور وہاں کی مقررہ خدمت انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ صرف اس لیے کہ اس دنیا کے نفع نقصان اور یہاں کے اپنے معاملات کے نتائج کا جو علم ویقین ہمیں اپنے ذریعوں سے حاصل ہوا ہے وہ ہم سے یہ سب کچھ کرا لیتا ہے۔

اب دیکھیے کہ آخرت کے نتائج کے بارے میں جو باتیں ہمیں اللہ کی مقدس کتاب اور  اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے معلوم ہوئی ہیں اور جن پر ہم ایمان لائے ہیں ان کے علم ویقین کا ہماری زندگی پر کتنا اثر ہے ؟___ میرے نزدیک یہ کوئی باریک علمی مسئلہ نہیں جس کا سمجھنا کسی کے لیے مشکل ہو۔ ہر شخص خود ہی سوچے کہ وہ دنیا کی آگ اور دنیا کے سانپوں بچھوئوں سے بچنے کی جتنی فکر کر تا ہے، کیا آخرت کی دوزخ والی آگ اور دوزخ کے سانپوں بچھوئوں سے بچنے کی وہ اتنی فکر کر رہا ہے، اور کیا یہاں کی بھوک پیاس سے اور یہاں کی تکلیفوں مصیبتوں سے بچنے کے لیے وہ جو محنت اور جیسی دوڑ دھوپ کرتا ہے کیا ویسی ہی وہ آخرت کی بھوک پیاس اور دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لیے کر رہا ہے؟

اسی طرح ہر شخص سوچے کہ اس دنیا میں آرام اور عزت حاصل کرنے کے لیے اور ترقی کے بلند درجوں پر پہنچنے کے لیے وہ جیسی فکر اور جیسی جدوجہد کر رہا ہے، کیا جنت کا عیش اورآخرت میں سرفرازی اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے بھی وہ ویسی ہی فکر اور جدوجہد کر رہا ہے؟ ۔

یقینا آپ سب کا بھی یہی خیال ہو گا کہ ہم میں اکثر کا بلکہ قریب قریب سب کا حال اس کے خلاف ہے___آخر ایسا کیوں ہے ؟

اس وقت پیش نظر مقصد یہی ہے کہ آپ کو اس سوال کی طرف اور اس صورتِ حال کی طرف توجہ دلائوں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو قرآن مجید نے ایمان نہ لانے والوں کی اور اللہ ورسول ؐ کی باتوں کا یقین نہ کرنے والوں کی بتلائی ہے --- ایک جگہ ارشاد ہے: کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o(القیامۃ ۷۵:۲۰-۲۱)’’اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو‘‘۔

دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَیَذَرُوْنَ وَرَآئَ ھُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا o (الدھر ۷۶:۲۷) ،یعنی ان کا حال یہ ہے کہ ان کو دنیا کی تو چاہت ہے اور آخرت کے مسئلے کو انھوں نے پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔

میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ہم سب ایمان سے خالی اور خدا اور رسول ؐ کے منکر ہو چکے ہیں، بلکہ میں اپنے بشری علم کے مطابق الحمدللہ شہادت دے سکتا ہوں کہ ہم آپ جو یہاں ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس طرح کے ہمارے وہ سب بھائی جو دنیا کے کسی علاقے میں بھی بس رہے ہیں، الحمدللہ! ہم سب کے دلوں میں ایمان موجود ہے اور ہم اللہ اور     اللہ کے رسول ؐ کی تمام باتوں اور ساری خبروں کو بالکل حق جانتے ہیں اور حق مانتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ ہماری زندگی ایمان والی نہیں ہے ، یا دوسرے لفظوں میں اس کو آپ یوں کہہ لیجیے کہ ہماری زندگی ہمارے ایمان سے مطابقت نہیں رکھتی ___میں آپ کو بس اس سوال کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟

 زندگی میں تضاد کا سبب:اس کی اصل وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمارا آخرت والا یقین جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعے ہمیں ملا تھا، وہ ہمارے دنیا والے اُن یقینوں کے مقابلے میں کمزور ہو گیا ہے جو ہمیں اپنے مشاہدے اور تجربے وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں اور   ان کے نیچے گویا دب کر بے اثر اور بے جان ہو گیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا والا یقین ہم سے اپنے سارے تقاضے پورے کرا لیتا ہے لیکن آخرت والا یقین ہم سے اپنے تقاضے اور اپنے مطالبے پورے کرانے سے عاجز رہتا ہے۔ آپ اس کو واقعاتی مثالیں سامنے رکھ کر سوچیے۔

مثلاً ایک شخص ہے اس کو اللہ اوررسول ؐ کے احکام کے مطابق زکوٰۃ دینی چاہیے۔ اب اپنے ذاتی علم وتجربے سے اس کو ایک یقین تو یہ ہے کہ جتنی رقم میں زکوٰۃ کی دوں گا میری دولت میں اتنی کمی ہو جائے گی اور اس طرح میرا مالی نقصان ہوگا ، اور ایک دوسرا یقین یا عقیدہ اس کا یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ فرض ہے۔ اس کا ادا نہ کرنا بہت بڑا جرم اور سخت ترین گناہ ہے جس کے نتیجے میں آدمی کو دوزخ کا نہایت درد ناک عذاب بھگتنا پڑے گا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر دوسرا یقین پہلے یقین کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہو اور اس سے دبا ہوا نہ ہو تو آدمی یقینا زکوٰۃ ادا کرے گا، لیکن اگر یہ دوسرا یقین کمزور ہو اور پہلا والا یقین زیادہ طاقت ور ہو تو پھر زکوٰۃ اس کی جیب سے نہیں نکلے گی۔

اسی طرح فرض کیجیے کہ ایک شخص حکومت کے کسی عہدے پر ہے۔ کسی معاملے میں اس کو ایک ہزار روپیہ کی رشوت پیش کی جاتی ہے۔ اب اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے سے اس کو ایک یقین تو یہ ہے کہ یہ رقم اگر میں لے لوں گا تو اس سے میری دولت میں اضافہ ہو گا، میرے بہت سے کام نکلیں گے، اور دوسری طرف وہ بہ حیثیت مسلمان اس بات پر بھی یقین اور عقیدہ رکھتا ہے کہ رشوت حرام ہے اور اس کے لینے والے پر خدا کی لعنت ہے، اور دوزخ میں اس کو اس کا سخت ترین عذاب بھگتنا ہو گا۔ اب اگر وہ دوسرے یقین کو نظر انداز کر کے رشوت لے لیتا ہے تو اس کا سبب صرف یہی ہوتا ہے کہ اس کا دوسرا یقین کمزور ہے اور پہلے یقین سے دبا ہوا ہے۔

الغرض ہماری زندگی میں جو یہ تضاد ہے کہ ہم عقیدہ کے لحاظ سے مسلمان ہیں اور ہماری غالب اکثریت کی عملی زندگی ایمان واسلام کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے، اس کی اصل وجہ اور علۃ العلل یہی ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت کے بارے میں وہ یقین جو انبیاے علیہم السلام کے ذریعے ہمیں ملا تھا نہایت کمزور ہو گیا ہے، اور ہمارے دنیا والے وہ یقین جو ہمیں اور عام انسانوں کو اپنے مشاہدے اور تجربے وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں اس پر پوری طرح غالب آ گئے ہیں۔

صحابہ کرامؓ کے حالات آپ نے سنے ہوں گے اور آپ میں سے بہت سے حضرات نے کتابوں میں بھی پڑھے ہوں گے۔ ان کی زندگی کا نقشہ ہمیں بالکل دوسرا نظر آتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کا آخرت والا یقین اتنا جان دار اور طاقت ور تھا کہ ان کے مشاہدے اور تجربے والے اس دنیا کے یقینوں پر غالب تھا۔ ایک تابعی بزرگ غالباً سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کو دیکھا ہے، ان کا امتیاز   یہ نہیں تھا کہ وہ نماز روزہ جیسی عبادات میں تم سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ آگے ان کے الفاظ: وَلٰکِنَّہ شَیءٌ وقرنی قُلُوْبھم، یعنی ان کا اصل امتیاز بس یہ تھا کہ ان کے دلوں میں اللہ اور آخرت کا یقین ایسا جما تھا کہ ان کی پوری زندگی اور ان کا تمام ظاہر وباطن اس کے نیچے دبا ہوا تھا۔ ہمارے لیے جس طرح یہ مشکل ہے کہ ہم اپنے مشاہدے اور تجربے والے یقینوں اور ان کے تقاضوں سے بے فکر اور بے پروا ہو کر زندگی گزاریں، اسی طرح ان کے لیے یہ مشکل بلکہ نا ممکن ہو گیا تھا کہ اللہ اور یومِ آخرت والے یقین اور اس کے مطالبات سے آزاد ہوکر کوئی قدم اٹھا سکیں۔

اب ہمارے اور آپ کے سامنے دو راہیں ہیں:

ایک یہ کہ دین اور ایمان کے لحاظ سے اس وقت جو ہماری حالت ہے ہم خدا نخواستہ اس پر مطمئن ہوں اور اس میں تبدیلی کے لیے ہم میں کوئی بے چینی نہ ہو، اور دن اسی طرح گزرتے رہیں اور ہم اسی حال میں جیتے اور مرتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک ہمارے دلوں میں ایمان کا کوئی ذرہ ہے ہم اس راستے کو شعوری طور پر ہرگز نہیں اپنا سکتے، اور میں کہہ سکتا ہوں کہ شاید آپ میںسے کوئی ایک بندہ بھی جان بوجھ کر اس کو پسند نہیں کرے گا۔

دوسری راہ یہ ہے کہ جس طرح ہم دنیوی زندگی کے بگاڑ سے اور یہاں کی بیماریوں، بربادیوں سے فکر مند ہوتے ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ،اسی طرح ہم اپنے اس دینی بگاڑ اور اُخروی تباہی وبربادی سے فکر مند ہوں اور اپنی حالت کو درست کرنے کی اور اپنی زندگیوں کو ایمان والی زندگی بنانے کی جدوجہد کریں۔ ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا فیصلہ یہی ہو گا۔

اصلاحِ احوال کی صورت

اب سوال یہ ہے کہ یہ کام کس طرح ہو ؟

یہ تو عرض کیا جا چکا ہے کہ ہمارے اس سارے بگاڑ کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ ہمارا ایمان والا یقین کمزور ہو گیا ہے اور دنیا والے ہمارے یقین اس پر غالب آ گئے ہیں۔ اس لیے اب ہمیں صرف اس کی جدوجہد کرنی ہے کہ ہمارے یقین کا کانٹا درست ہو جائے، یعنی اس دنیا میں جو کچھ ہم اپنے مشاہدے اور تجربے سے جانتے ہیں ہمیں اس پر بھی یقین ہو، لیکن اس سے بھی زیادہ گہرا اور پکا یقین ان باتوں پر ہو جو اللہ اوررسول ؐ کے بتلانے سے ہمیں معلوم ہو ئی ہیں۔ بس یہ ہی ہمارا اصل مسئلہ ہے!

اس کے بعد صاف عرض ہے کہ اگر ہماری تقریروں سے ہی یہ بات حاصل ہو سکتی تو مسئلہ بڑا ا ٓسان تھا۔ آپ کو کچھ بھی کرنا نہ پڑتا ۔ ساری محنت ہم کرتے یا تقریر کرنے والے دوسرے حضرات کے پائوں پکڑتے اور ان سے کہتے کہ اُمت میں ایمان والا یقین پھر سے پیدا کرنے کے لیے خوب تقریریں کیجیے اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیے ! اسی طرح میں صاف کہتا ہوں کہ اگر کوئی تعویذ، کوئی وظیفہ، کوئی جادو ایسا ہوتا کہ بس اس سے کام چل جاتا جب بھی مسئلہ بڑا آسان ہوتا ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ کسی تعویذ اور وظیفے سے بھی یہ کام بننے والا نہیں ہے۔

ایمان والے یقین کو بڑھانے کی اور دوسرے دُنیوی یقینوں پر اس کو غالب کرنے کی ہمیشہ سے ایک ہی راہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کو ایسے دینی اور ایمانی کاموں میں لگا دے جو ایمان ویقین کو بڑھانے والے ہوں، اور اگر اس کا ماحول ایمان ویقین کے لیے ساز گار نہیں ہے تو  کم ازکم کچھ عرصے کے لیے کسی ایسے ماحول میں رہے جس میں ایمان ویقین کی ترقی کا سامان ہو۔ صحابہ کرامؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت والا ایمان آفرین ماحول نصیب تھا اور انھوں نے اپنے کو دین کے ان کاموں میں پوری طرح جھونک دیا تھا جو ایمان ویقین کو بڑھانے والے تھے۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ ان کا ایمانی یقین ان کی دوسری تمام بشری معلومات پر غالب تھا۔ پھر قرونِ اولیٰ کے بعد بزرگانِ دین، یعنی صوفیاے کرام نے ایمان ویقین کی ترقی کے لیے جو راہ اختیار کی اس میں بھی بنیادی چیز یہی تھی۔

ہمارا یہ دور عوامی تحریکات کا دور ہے اور ساتھ ہی دین کی طرف سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف سے بے فکری کا دور ہے۔ اس دور میں اس مقصد کے لیے کسی ایسے طریقۂ کار اور ایسی جدوجہد کی ضرورت تھی جو عوامی بھی ہو اور بے طلبوں اور بے فکروں کو کھینچنے کا اس میں کچھ انتظام ہو، ___ یہ تبلیغ ودعوت کی جدوجہد دراصل اسی مقصد کی ایک عوامی کوشش ہے۔

 آج صورت یہ ہے کہ ہمارے امیروں اور غریبوں کا، ہمارے بڑوں اور چھوٹوں کا، ہمارے پڑھوں اور بے پڑھوں کا، سب کا ماحول غیر دینی ہے۔ سوچیے ہمارا ماحول کیاہے؟

ہمارا گھر، ہمارا محلہ ، ہمارے اسکول، ہمارے کالج، ہمارے دفتر، ہماری کچہریاں، ہمارے کارخانے ، ہمارے کھیت کھلیان ، ہمارے بازار اور ہماری منڈیاں ، سب کی زندگیاں   بس انھی ماحولوں میں تو گزر رہی ہیں، اور ہم آپ سب جانتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں آج اللہ اور آخرت کو یاد دلانے والی نہیں، بلکہ بھلانے والی ہیں۔ اسی طرح آج ہمارے جو مشاغل ہیں اور ہمارے کھانے کمانے کے جو ذریعے ہیں وہ بھی ہمارے ایمان والے یقین کو غذا پہنچانے والے نہیں بلکہ دیمک کی طرح کھاکے اس کو کمزور کرنے والے ہیں۔ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگیوں کا پروگرام ایسا ہو کہ کچھ دنوں٭ کے لیے ہم اپنے مشغلوں اور ماحولوں سے نکل کر جنھوں نے ہمارے ایمان ویقین کو کمزوری کی اس حد تک پہنچا دیا ہے، کسی ایسے ماحول اور ایسے مشغلے اور ایسی فضا میں کچھ وقت گزارا کریں جو ایمان ویقین کے لیے ساز گار اور اس کو غذا پہنچانے والی ہو۔

آپ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں۔آخر کب تک زندگی کی گاڑی غلط راستے پر چلائی جائے گی اور کب تک ایمان کے دعووں کے ساتھ غیر ایمانی زندگی گزاری جائے گی___ میں بغیر کسی تکلف اور حجاب کے کہتا ہوں کہ آپ میں سے جو حضرات ایسے مسائل پر غور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں وہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی سے غور کریں، اور میرے جو بھائی ہم لوگوں پر اعتماد کر کے ہماری بات مان سکتے ہوں وہ اعتماد کر کے مانیںاور آگے بڑھیں۔ ہماری بات مان کر آپ کچھ کھوئیں گے نہیں بلکہ اپنے دین وایمان کو درست کر لیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کی دنیا بھی درست کر دے گا۔ صحابہ کرامؓ نے دین کو اصل مقصدِ زندگی بنا کر اس کی فکر کی تھی، اللہ تعالیٰ نے دنیا خود ان کے قدموں میں ڈال دی۔ وہی اللہ اب بھی ہے اور اس کا قانون اب بھی وہی ہے۔

ترجمہ : طارق نور الٰہی

سب سے اہم عبادت نماز پر کار بند افراد کے لیے بشارتوں کا عظیم تحفہ پیش خدمت ہے!

نماز کو رب کائنات نے خصوصی امتیازات سے نوازا ہے۔ نماز تاکیدی عبادت اور بہترین اطاعت ہے۔ یہ قربِ الٰہی کو پانے کا آسان ترین ذریعہ اور بندے اور رب کے درمیان مضبوط تعلق ہے۔ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کو جاننے ماننے کے ساتھ ہی ادایگی نماز ہرمسلمان پر لازم قرار پاتی ہے۔ نماز ہی وہ عمل ہے جس کی قیامت کے روز سب سے پہلے پرکھ ہوگی۔ اگر نماز درست قرار پائی تو باقی کے اعمال نسبتاً درست ہوتے چلے جائیں گے، کیوںکہ نماز فواحش ومنکرات کے روکنے کا سبب ہے۔ اس کی اہمیت جاننی ہو تو دیکھ لیجیے کہ نبی مکرم ؐ کی آخری وصیت بھی اَلصَّلَاۃَ اَلصَّلَاۃَ  تھی۔ نماز کا دھیان رکھنا اور اس کی ادایگی مومن کی کامیابیوں کا زینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کو قائم رکھنے والوں اور شوق وخشوع سے اس کی ادایگی کا اہتمام کرنے والوں کو قرآن واحادیث میں بہت سی بشارتیں دی گئی ہیں، جن میں سے صریح و واضح تیس خوش خبریاں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

نماز کی ادایگی پر بشارتیں

۱- افضل ترین عمل : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا: یا رسولؐ اللہ! کون سا عمل افضل ترین ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: نماز کو وقت پر اداکرنا۔میں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا : والدین سے نیک سلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ (مسلم)

۲- اللہ اور بندے کے درمیان مضبوط تعلق کا ذریعہ: حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو بھی جب بھی حالتِ نماز میں ہوتا ہے تو وہ اس وقت اپنے رب کے ساتھ حالتِ مناجات میں ہوتا ہے(بخاری) ۔ یعنی عبد معبود سے اثناے نماز راز ونیاز کی حالت میں ہوتا ہے جو کہ قربت کا اعلیٰ مقام ہے۔

۳- دین کے ستون کو قائم کرنے کا ذریعہ :  حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمھیں اسلام کے راس العمل اور اس کے ستون اور چوٹی کے عمل کے بارے میں نہ بتا دوں؟میں نے عرض کیا: ضرور یارسولؐ اللہ! تو آپؐ نے فرمایا: راس الامر پورا دین اسلام ہے۔ نماز دین کا ستون ہے اور چوٹی کا عمل جہاد ہے(ترمذی)۔ یعنی جس طرح عمارت کا ستون کے بغیر قائم رہنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا اسی طرح دین کا قیام نماز کے بغیر نا ممکن ہے، اور جو اس ستون کو مضبوط کرتا رہتا ہے وہ دین کی رحمتوں کو پاتا چلا جاتا ہے۔

۴- دنیاوی اور اُخروی نور  : رسولؐ اللہ کا فرمان ہے: الصَّلَاۃُ  نُوْرٌ ، ’’نماز نور ہے‘‘۔ (مسلم ، ترمذی ) ،یعنی نماز ظلمت اور شک وشبہہ کو نُور اور یقین وسکون قلبی میں بدل دیتی ہے۔

۵- منافقت کو ختم کرنے کا سبب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: منافقین پر بھاری ترین نماز ، فجر اور عشاء کی ہوتی ہیں۔ اگر وہ جان لیں کہ ان کی ادایگی میں کیا  فضل و انعام ہے ، تو وہ ان کی ادایگی کے لیے ضرور آئیں چاہے رینگ رینگ کر ہی آنا پڑے (بخاری ، مسلم)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے معلوم ہوا کہ جو تمام نمازیں ادا کرنے کا اہتمام کرتا ہے جن میں یہ دو مذکورہ نمازیں بھی شامل ہیں، وہ منافقت سے بری قرار پاتا ہے۔ یہ بہت بڑی خوش خبری ہے۔

۶- جہنم کی آگ سے نجات :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہر گز جہنم کی آگ میں نہیں ڈالا جائے گا جو طلوعِ آفتاب ( فجر ) سے پہلے اور غروب آفتاب (عصر ) سے پہلے کی نمازوں کی ادایگی کرتا ہے(مسلم )۔لیجیے نارِ جہنم سے امان کی بشارت پائیے اور عمل کیجیے ۔

۷- فواحش ومنکرات سے بچاو ٔ  کا ذریعہ : ارشاد باری تعالیٰ ہے: اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ ط(العنکبوت ۲۹: ۴۵) (اے نبیؐ) ’’تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ یعنی نماز یہ صلاحیت پروان چڑھاتی ہے کہ زندگی سے بد اعمالیوں سے پاک ہونے کا سامان ہوتا چلا جاتا ہے۔

۸- مشکلات میں مددگار اور سہارا : حکم خداو ندی ہے: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط (البقرہ ۲:۴۵) ’’مدد لو صبر اور نماز سے‘‘۔ کارزارِ حیات کی مشکلات میں دو عمل سہولت وآسانی کا سبب بنتے ہیں: ۱- صبر،۲-نماز ۔ معاملات حیات میں دونوں کی خا ص اہمیت ہے۔

۹- باجماعت نماز کی فضیلت : بلندیِ درجات کی یہ نوید اس فرمانِ رسولؐ میں آئی ہے: ’’ نماز باجماعت انفرادی نماز سے ۲۷درجے افضل ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)

۱۰-  اللہ کی حفاظت وضمانت: رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے افراد اللہ عزوجل کی حفاظت کو پالیتے ہیں۔ اگر زندہ ہوں تو ایسا رزق پاتے ہیں جو کفایت والا ہوتا ہے اور جب مر جائیں تو جنت میں داخل کیے جاتے ہیں: lجو گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کرے۔ l جو نماز کی ادایگی کے لیے مسجد میں جائے۔ lجو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جائے (ابوداؤد)

۱۱- فرشتوں کی دعاے مغفرت کا حصول : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک کوئی اپنی نماز کی جگہ وضو کی حالت میں بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں: یااللہ! اس کی مغفرت فرما اور اس پر رحم فرما ۔ (متفق علیہ )

۱۲- گناہوں کی بخشش : حضرت عثمان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، آپؐ کہہ رہے تھے: جو کوئی نماز کے لیے اچھی طرح وضو کرے پھر باجماعت نماز کی ادایگی کے لیے مسجد جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے(مسلم)۔بشارت دربشارت اللہ کی کرم نوازی کی علامت ہے جو وہ نمازیوں کو دے رہا ہے۔

۱۳- گناہوں کے اثرات کو زائل کرنا  : راویِ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: دیکھو! اگر کسی کے گھر کے سامنے ایک نہر بہتی ہو جس میں وہ روزانہ پانچ بارنہا تا ہو تو کیا جسم پہ کوئی میل کچیل باقی رہے گی ؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں۔ اس کے جسم پر کوئی میل باقی نہیں رہے گی۔ آپ ؐ نے فرمایا: یہ پانچ نمازوں کی ادایگی کی مثال ہے کہ جو ان کی ادایگی کرے گااللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو صاف کر دے گا۔ (بخاری، مسلم)

۱۴- جنت میں اللہ کی ضیافت: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی مسجد میں آتا ہے تو ہر بار مسجد آنے جانے پر اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی ضیافت فرمائے گا۔ (متفق علیہ)

۱۵- ہر قدم پر گناہ کی معافی اور درجات کی بلندی : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اپنے گھر سے وضو کی حالت میں اللہ کے گھر فرض نماز پڑھنے جاتا ہے، اس کا قدم اٹھانا اس کی خطا کی معافی اور دوسرا قدم درجے کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ ( مسلم)

۱۶- نماز کا زیادہ اجر : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نمازیوں میں سے زیادہ اجر پانے والا نمازی وہ ہے جو مسجد میں زیادہ فاصلے سے آیا۔ پھر اس کا درجہ ہے جو اس سے بھی زیادہ فاصلے سے آئے۔ اور جو نمازی امام کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے انتظار میں رہتا ہے وہ اس سے زیادہ اجر پاتا ہے جو (امام کے نماز پڑھنے سے پہلے ہی ) نماز پڑھ لے اور پھر سو جائے۔ (متفق علیہ )

۱۷- مسجد میں جلد آنے پر زیادہ اجر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:  اگر لوگوں کو پتا چل جائے کہ اقامت کے وقت اور نماز کی پہلی صف کا کیا درجہ ہے ، تو پھر انھیں  قرعہ اندازی کر کے بھی پہلی صف کو حاصل کرنا پڑے تو وہ ضرور قرعہ ڈالیں ، اور اگر وہ جان جائیں کہ نماز کے لیے جلد آنے میں کیا ہے تو وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں، اور اگر جان جائیں کہ نماز عشاء اور فجر میں کیا ہے تو چاہے گھٹنوں کے بل آنا پڑے تو ضرور آئیں۔(متفق علیہ)

۱۸- اللہ کا مہمان : حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ نبی مکرم ؐ نے فرمایا : جو اپنے گھر سے اچھی طرح وضو کر کے مسجد میں آئے تو وہ اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔ یوں میزبان (یعنی اللہ) پر اس کا حق ہے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت واکرام کرے ۔( الطبرانی وحسنہ الالبانی )

۱۹- نماز کے لیے انتظار نماز ہی کا حصہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کو نماز کے انتظار نے روکے رکھا اس کا یہ انتظار نماز میں ہی شمار کیا جاتا ہے ۔( متفق علیہ )

۲۰- پہلی صف کا خصوصی اجر: رسول مکرم ؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے فرشتے پہلی صف کے نمازیوں پر (خصوصی ) رحمتیں بھیجتے ہیں۔(ابو داؤد،  نسائی ، صححہ الالبانی )

۲۱- سابقہ گناہوں کی معافی:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میںسے جب کوئی آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان پر آمین کہتے ہیں تو اگر دونوں کی آمین ایک وقت پر ادا ہو کر مل جائے، تو اس شخص کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ (متفق علیہ )

۲۲- رحمٰن کے ہاں حاضر ہونے والے وفد میں شمار: ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے وضو کیا اور مسجد میں پہنچا۔ فجر کی سنتیں ادا کیں اور فجر کی باجماعت نماز کے لیے بیٹھا رہا یہاں تک کہ نماز ادا کر لی۔ اس کی نماز ابرار، یعنی نیکو کاروں کی نماز شمار ہوئی اور وہ رحمٰن کے وفد والوں میں شمار کیا گیا ۔ (الطبرانی، حسنہ  الالبانی )

۲۳- اللہ کی حفاظت کی ضمانت : حضرت جندب بن سفیان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح کی نماز (باجماعت ) ادا کی، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ پر ہے۔ پس آدم کے بیٹے دیکھو! اللہ تم سے اپنی ذمہ داری کا مطالبہ نہ کرے (مسلم)۔ یعنی اگر باجماعت نماز فجر کی ادایگی ہو گی تو اللہ کی عنایت سے ہر قسم کے حوادث وپریشانی سے محفوظ رہے گا۔ اگر نہیں پڑھے گا تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ پر نہیں رہے گی۔ اب وہ خود ذمہ دار ہوگا۔

۲۴- بروز قیامت نور تام کی بشارت : حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بشارت دے دو اندھیروں کے وقت مسجد میں جانے والوں کو کہ قیامت کے دن انھیں مکمل وتمام تر نُور سے نوازا جائے گا۔( ابوداؤد ،  ترمذی )

۲۵- فجر اور عصر کی با جماعت ادایگی پر جنت کی بشارت: حضرت ابو موسیٰ الاشعری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دو ٹھنڈی نمازیں ادا کرے گا جنت میں جائے گا (بخاری، مسلم)۔ (ٹھنڈی نمازیں، یعنی فجرو عصر ) ۔

۲۶- قیام اللیل کا ثواب : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جماعت کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری رات کا قیام کیا ۔ (ترمذی)

۲۷- فرشتوں کی گواہی: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے صبح وشام کی ڈیوٹیوں کی تبدیلی پر نماز فجر اور نماز عصر کے وقت خصوصاً مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں، اور جنھو ں نے تمھارے ساتھ رات بسر کی ہوتی ہے جب واپس آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے (جب کہ اللہ ان سے بہتر خود جانتا ہے ) کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے انھیں نماز پڑھنے کی حالت میں چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری، مسلم)

۲۸- یکسوئی اور خشوع سے نماز ادا کرنے والوں کی مغفرت : حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی مسلمان پر فرض نماز کی ادایگی کا وقت آئے اور وہ اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے اور پور ے خشوع وخضوع کے ساتھ اچھی طرح قیام ورکوع وسجود بجا لائے، تو ایسی نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے سواے کبیرہ گناہوں کے ، اور مغفرت کا یہ سلسلہ ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ ( مسلم)

۲۹- اللہ کا فرشتوں کے سامنے نمازیوں پر فخر فرمانا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسولؐ اللہ کے ساتھ نماز مغرب ادا کی۔ جس نمازی کو جانا تھا وہ چلا گیا اور جسے رُکنا تھا وہ رُکا رہا۔ اس وقت رسولؐ اللہ اپنے گھٹنے تک کپڑا اُٹھائے جلدی جلدی ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپؐ کا سانس پھولا ہوا تھا۔ آپ ؐ نے آتے ہی فرمایا: تمھیں مبارک ہو، تمھیں بشارت ہو، تمھارے رب نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھولا۔ وہ، یعنی اللہ اپنے فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرماتا ہوا کہہ رہا ہے: دیکھو میرے (ان ) بندوں کی طرف جنھوں نے ایک فرض ادا کیا اور دوسری فرض نماز کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ (ابن ماجہ، صححہ الالبانی )

۳۰- پل صراط سے باسلامت گزر کر جنت کی بشارت : حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپؐ کہہ رہے تھے: مسجد ہرمتقی پرہیز گار کا گھر ہے۔ جس نے مسجد کو اپنا ٹھکانا بنایا اسے اللہ تعالیٰ رحمت وراحت کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ایسا شخص پل صراط سے باسلامت گزر کر اللہ کی رضا کے ٹھکانے جنت میں بہ آسانی چلا جائے گا۔( الطبرانی وصحہ الالبانی )

یہ ہیں وہ عظیم بشارتیں جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ان افراد کے لیے عطا کی ہیں جو رب کی بندگی کو زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں اور صبح وشام فرائض وسنن کا اہتمام کرتے ہیں۔

اپریل کے اختتام پر سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا۔ ایشیائی ممالک میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ شرکا نے بہت مفید گفتگو اور مشاورت کے بعد مستقبل کے لیے اہم فیصلے کیے۔ اللہ کی توفیق سے ان پر عمل درآمد ہوگیا تو یقینا مفید ہوگا۔ بالخصوص ان ممالک میں کہ جہاں مسلم اقلیت کو اکثریت کے ہاتھوں گمبھیر مشکلات کا سامنا ہے۔

خود سری لنکا میں اکثریتی آبادی کا تعلق بدھ مت سے ہے (تقریباً ۷۰ فی صد)، دوسرے نمبر پہ مسیحی، تیسرے نمبر پہ ہندو ہیں اور چوتھے نمبر پہ مسلمان۔ ماضی میں نسلی تعصبات کی آگ نے بہت نقصانات پہنچائے۔ تامل باغیوں نے ۲۰۰۹ء تک وہاں بہت خوں ریزی مچائی جسے بھارت کی واضح سرپرستی بھی حاصل تھی، بالآخر سری لنکن فوج نے باغیوں کا مکمل خاتمہ کردیا۔ اب الحمد للہ مجموعی طور پر تمام شہری باہم شیر و شکر ہیں۔ سیمی نار کا افتتاحی سیشن قصر صدارت میں ہوا۔ صدر مملکت، وزیراعظم،ا سپیکر، تین مسلمان وزرا، بھارت سے آئے ہوئے مولانا ارشد مدنی صاحب اور سعودی مشیر براے مذہبی اُمور نے خطاب کیا۔

 سری لنکا اپنی تاریخ، جغرافیے، موسم اور تہذیب و عادات کے حوالے سے بہت دل چسپ اور اہم ملک ہے۔ اگرچہ سری لنکا تیسری بار جانا ہوا لیکن اس سفر میں کئی بہت دل چسپ انکشافات ہوئے۔ اتوار کے روز، سفر کے دوران میں پانچ اہم شہروں سے گزرہوا۔ ہرجگہ بچے یونیفارم پہنے اسکول جارہے تھے۔ پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ چھٹی کے دن ہرمذہب کے بچے اپنے مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس مذہبی تعلیم کے نمبر بعدازاں بچے کی مجموعی تعلیمی اسناد میں شامل کیے جاتے ہیں۔ مسلمان بچوں اور بچیوں کے شان دار تعلیمی اداروں میں بھی جانے کا موقع ملا۔ جماعت اسلامی سری لنکا کے کارکنان سے بڑی تعداد میں ملاقاتیں ہوئیں۔ اس ابتدائی تعارف کے بعد صرف ایک مختصر بات پہ غور کرنا پیش نظر ہے۔ اسمبلی کے اسپیکر جناب کارو جے سوریا نے اپنے گھر پہ مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا تو اپنی استقبالیہ تقریر میں کہنے لگے: ’’سری لنکن عوام کی ایک نمایاں پہچان اور عادت یہ ہے کہ We  are the nation of smiling face (ہم مسکراتے چہروں والی قوم ہیں)۔ ہمارے شہری آپ کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔ بعض اوقات دو افراد لڑ رہے ہوتے ہیں، تو اس وقت بھی مسکرا رہے ہوتے ہیں‘‘۔ یقینا یہ بات ۱۰۰ فی صد اسی طرح نہیں ہوگی، لیکن اس دعوے کا جس سری لنکن شہری سے بھی ذکر ہوا، اس نے تائید کی۔

جب سے یہ دعویٰ سنا اور مشاہدہ کیا ہے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بار بار یاد آرہا ہے کہ: تَبَسُّمُکَ لِوَجْہِ اَخِیْکَ صَدَقَۃ ’’اپنے بھائی سے مسکراتے چہرے سے تمھارا ملنا بھی صدقہ ہے‘‘۔ذہن میں بار بار سوال اُٹھتا ہے کہ بدھ اکثریت پر مشتمل ایک پوری ریاست اور پوری قوم اگر مسکراہٹ کو اپنی شناخت اور عادت کے طور پر متعارف کروا سکتی ہے، تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کا باہم مسکرانا تو عین عبادت ہے، ہم اسے کیوں نہیں اپنا سکتے؟ آپؐ کے فرمان ’صدقہ‘ پر غور فرمائیے۔ گویا ہم جب بھی مسکراتے ہیں تو کچھ بھی خرچ کیے بغیر، اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ آپؐ اس بارے میں ہماری مزید حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَ لَو اَنْ تَلْقٰي اَخَاکَ بِوَجْہِ طَلْقٍ ’’کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو، خواہ وہ تمھارا کھِلے ہوئے چہرے اور خندہ پیشانی سے اپنے بھائی کو ملنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کَانَ رَسُولَ اللہ علیہ وسلم بَسَّامًا ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسکرایا کرتے تھے‘‘۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب بھی آپؐ نے مجھے دیکھا، آپؐ مجھے دیکھ کر مسکرادیے: وَ لَا رآنی الا تَبَسَّمَ فِی وَجہِی (متفق علیہ)۔ اس کے باوجود ہم اسے اپنی پہچان کیوں نہیں بناسکے؟

آپؐ کی تعلیمات پر تھوڑا سا مزید غور کیا تو یاددہانی ہوئی، کہ آپؐ نے تو ہمیں ہر قدم پر نیکیاں سمیٹنے کی بشارت اور ترغیب دی ہے۔ خلق خدا کے لیے ہر ہر بھلائی کو صدقہ قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیے:

تَسْلِیمَہ عَلٰی مَنْ لَقِیَہ صَدَقَۃٌ ،جو بھی ملے اسے سلام کہنا صدقہ ہے۔

رَدُّ  الْمُسْلِم عَلَی الْمُسْلِمِ صَدَقَۃٌ، مسلمان کا مسلمان کے سلام کا جواب دینا صدقہ ہے۔

اِمَا طَۃُ الْاَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ، راستے سے کوئی بھی تکلیف دینے والی چیز ہٹا دینا صدقہ ہے۔

اِرْشَادُکَ الرَّجُلَ الطَّرِیْقَ صَدَقَۃٌ، کسی کو راستہ بتادینا صدقہ ہے۔

مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَہٗ کُلَّ یَوْمٍ مِثْلَہٗ صَدَقَۃٌ، تنگ دست مقروض کو مہلت دینا ہر روز قرض کے برابر صدقہ کرنا ہے۔

اِتَّبَاعُکَ الْجَنَازَۃَ صَدَقَۃٌ، کسی جنازے کے ساتھ تمھارا چلنا صدقہ ہے۔

اِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِی دَلْوِ اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ، اپنے برتن سے اپنے بھائی کا برتن بھردینا صدقہ ہے۔

نَصْرُکَ الرَّجُلَ الرَّدِیَٔ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَۃٌ، کمزور نگاہ والے کی مدد کردینا صدقہ ہے۔

تَعْدِلُ بَیْنَ الْاِثْنَیْنِ صَدَقَۃٌ، دو افراد کے درمیان صلح کروادینا صدقہ ہے۔

تُعِیْنُ الرَّجُلَ فِی دَابَتِہ فَتَحْمِلُہٗ عَلَیْہَا اَوْ تَرْفَعُ لَہٗ عَلَیْہَا مَتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ، کسی کو  اس کی سواری پر بیٹھنے میں مدد دینا یا اس کا سامان رکھوانے میں مدد کرنا صدقہ ہے۔

اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃٌ صَدَقَۃٌ، کوئی بھی اچھی بات کہہ دینا صدقہ ہے۔

کُلُّ خُطْوَۃٍ تَمْشِیْہَا اِلَی الصَّلَاۃِ صَدَقَۃٌ، نماز کے لیے جاتے ہوئے ہر قدم صدقہ ہے۔

کُلُّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃٌ، ہر تسبیح صدقہ ہے۔

کُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃٌ، اللہ کی ہر حمد بیان کرنا صدقہ ہے۔

کُلُّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃٌ، کلمۂ طیبہ پڑھنا صدقہ ہے۔

کُلَّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃٌ، ہر تکبیر صدقہ ہے۔

بُضْعَۃُ اَھْلِہٖ صَدَقَۃٌ، میاں بیوی کا ملنا صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ نَفْسَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ، تم جو (رزق حلال) خود کو کھلاتے ہو وہ صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ  وَلَدَکَ فَہُوَ لَکَ  صَدَقَۃٌ، جو کچھ اپنے بچوں کو کھلایا صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ  زَوْجَکَ فَہُوَ لَکَ  صَدَقَۃٌ، جو کچھ اپنی اہلیہ / اپنے شوہر کو کھلایا وہ صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ  خَادِمَکَ فَہُوَ لَکَ  صَدَقَۃٌ ،تم نے جو کچھ اپنے خادم کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے۔

اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔

نَہْيٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ، برائی سے روکنا صدقہ ہے۔

یُمْسِکُ عَنِ الشَّرِّ فَاِنَّہٗ لَہٗ صَدَقَۃٌ، شر سے اپنے آپ کو روک لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔

ان اور اس طرح کی دیگر صحیح احادیث کے آئینے میں دیکھیں تو کئی سبق حاصل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر نیت خالص اور کوشش سچی ہو تو ایک صاحبِ ایمان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ، بہترین عبادت اور رب کی بندگی بن جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر نیت میں فتور، دل میں غرور، ذہن میں ریاکاری کا شائبہ یا زبان و نگاہ سے احسان جتلانے کا ارتکاب ہوجائے، تو بڑی سے بڑی نیکی بھی راکھ بناکر ہوا میں اڑا دی جاتی ہے (ھبائً منثوراً)۔ جن اعمال کو رحمۃ للعالمینؐ نے صدقہ قرار دیا   ان پر غور کریں تو ان کی غالب اکثریت دوسروں سے حُسنِ سلوک، ان کا بھلا سوچنے اور ان سے بھلائی کرنے پر مشتمل ہے۔

ایک اور اصولی بات بھی بہت اہم ہے۔ ہم بعض اوقات حُسن معاشرت یا حُسن عمل کے بہت سارے پہلوئوں کو غیراہم سمجھ لیتے ہیں۔ معاشرے میں پائے جانے والے بڑے بڑے ناسور، اقامت دین کا عظیم فریضہ، ظلم اور ظالموں سے نجات کی جاں گسل جدوجہد، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت جیسے کارِ نبوت ایک جانب رکھیں تو مسکرا کر ملنا، راستے سے اذیت ہٹا دینا، کھانا کھلادینا، عیادت و تعزیت کرلینا یا بعض تسبیحات و اذکار کرلینا، بہت چھوٹی باتیں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ لیکن اسی موقعے پر ایک مسلمان کی زندگی میں توازن کا امتحان ہوتا ہے۔ ہم میں سے کچھ افراد  اذکار و اَوراد ہی پر اکتفا کرتے ہوئے صرف اسے ہی راہِ نجات سمجھ لیتے ہیں۔ بعض دوسرے ان مسنون اعمال کی استہزا تک کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔حالاں کہ دونوں پہلو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

اُمتِ مصطفویؐ کی کئی اہم عبادات جنھیں ہم نے فراموش کر دیا اور دوسروں نے اپنا لیا ہے کا شدید احساس جاپان جاکر بھی ہوا۔ وہاں موجود احباب نے جاپانی معاشرے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بتائی کہ : ’’کسی جاپانی کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ آپ سے جھوٹ بولے گا، یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ سبحان اللہ ، ایک جاپانی صرف اس لیے جھوٹ نہیں بولے گا کہ وہ جاپانی ہے، اور اس کے معاشرے نے اسے جھوٹ نہ بولنے کی تعلیم دی ہے۔  جھوٹ سے بچنے بلکہ جھوٹ کے بارے میں سوچنے سے بھی منع کرنے کے لیے وہاں کے نرسری اسکولوں ہی سے تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ سچ ہی کی نہیں، محنت، خوداعتمادی، اور دوسروں کی مدد کرنے کی کئی مثالیں مشاہدہ کرنے کو ملیں گی۔ جاپان میں کسی سے راستہ پوچھ لیں تو مکمل تفصیل اور تسلی سے راہ بتائیں گے۔ بعض اوقات تو ساتھ ہی چل دیں گے کہ دشواری نہ ہو۔

صادق و امین ہستی کے اُمتی تو ہم ہیں…؟ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : اَ یَکُونُ المُؤمِنُ کَذَّابًـا؟ کیا کوئی مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔آپؐ نے سچ کو جنّت اور جھوٹ کو جہنّم کی راہ قرار دیا۔ نبی کاملؐ ، دین کامل لے کر آئے۔ ایک کامل اسلامی معاشرہ، اس دین کامل کو اپنا کر ہی وجود میں آسکتا ہے۔

ہم یہ حقیقت بھی جانتے ہیں کہ ذرہ برابر نیکی (مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ) بھی اکارت نہیں جاتی۔ کویت کے ایک دوست کا سنایا ہوا، سچا واقعہ سن لیجیے۔ کہنے لگے کہ: ہماری مسجد میں ایک ہندو نے اسلام قبول کرلیا سب بہت خوش ہوئے۔ نو مسلم بھائی سے قبولِ اسلام کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ ایک خاکروب ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے مسجد کی قریبی سڑکوں پر جھاڑو دیتا ہے۔ فلاں سڑک پر جھاڑو دیتے ہوئے، اذان کی آواز آتی۔پھر فلاں گھر سے ایک صاحب باقاعدگی سے نماز کے لیے نکلتے۔ میرے پاس سے گزرتے ہوئے وہ اپنی جیب سے عطر کی شیشی نکالتے، مسکراتے ہوئے میرے ہاتھ کی پشت پر عطر لگاتے اور مسجد چلے جاتے… بس ان کا یہ خاموش پیغام ہی مجھے آج مسجد لے آیا ہے۔ مسکراہٹ اور خوشبو کا صدقہ یقینا دونوں کو جہنم کی آگ سے بچا گیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظیم الشان سلطنت میں ایک چھوٹے پرندے ہُدہُد اور چھوٹی سی چیونٹی ہی کودیکھ لیجیے۔ ہُدہُد نے دیکھا کہ ملکہ اور اس کی رعایا، اللہ کے بجاے سورج کی پوجا کررہے ہیں، آنکھوں پر یقین نہ آیا، اور تڑپ کر دربار نبوت میں پہنچا۔ پورا ماجرا سنایا اور بالآخر ایک پوری قوم کو اللہ کی بندگی میں لانے کا ذریعہ بن گیا۔

چیونٹی نے دیکھا کہ ساری چیونٹیاں اپنے کام کاج میں مگن ہیں اور سلیمان علیہ السلام کا لشکر سر پہ آن پہنچا ہے۔ تن کے کھڑی ہوگئی، پوری قوت سے چلّائی: یّٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْج   لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ (النمل۲۷: ۱۸) ’’چیونٹیو! فوراً گھروں کے اندر چلی جاؤ۔ یہ نہ ہو کہ سلیمانؑ اور ان کا لشکر تمھیں کچل کر رکھ دے‘‘۔ چیونٹی کی یہ دہائی حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی سن لی، فوراً لشکر کو رکنے کا حکم دیا اور بے اختیار کلمات شکر زبان پر آگئے: رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہٗ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ o(النمل۲۷: ۱۹)  ’’اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ مَیں اُس  احسان کا شکر ادا کرتا رہوں، جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں، جو تجھے پسند آئے، اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر‘‘۔ رب ذو الجلال کو یہ منظر اور اس میں پوشیدہ اسباق اتنے پسند آئے، کہ پورا واقعہ تا قیامت قرآن کریم میں ثبت کردیا۔ ہمیں تعلیم دینا مقصود تھا کہ ہُدہُد اور چیونٹی کے صدقے جتنا بھی صدقہ کروگے(نیکی کا حکم صدقہ ہے) تو پورا پورا اجر ملے گا۔

چیونٹی کی اس پکار میں ایک اور بات بھی بہت اہم ہے۔ حضرت سلیمانؑ اور آپؑ کے لشکر کی آمد سے خبردار کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی کہا: وَھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ، یعنی یہ نہ ہو کہ وہ تمھیں کچل ڈالیں اور انھیں پتا بھی نہ چلے۔ دوسروں سے حُسن ظن کی اس سے جامع مثال شاید کہیں اور نہ ملے۔

سری لنکا کی مسکراہٹ اور تعلیم کا اعلیٰ تناسب، جاپانیوں کی محنت اور سچائی، کویتی بھائی کی لگائی ہوئی خوشبو، ہُد ہُد کی زیرکی اور چیونٹی کی پکار، ہمیں بھی یہ پیغام دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین طے شدہ ہیں۔ جو ان کی پابندی کرے گا، کامیاب و کامران ہوگا   ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا ،شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی

رمضان مکرم کی آمد پر مسلمانوں کا خوش ہونا برحق ہے، کیوں کہ یہ تمام بھلائیوں کو لے کر آتا ہے۔ اس کا دن روزہ، اس کی رات قیام اور اس کے شب و روز نیکیوں اور بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہیں۔ یہ بخشش کا موسم ہے۔ اس میں نیکیوں کے اجر و ثواب میں اضافہ ہے۔ لہٰذا، اس کی نعمتوں، عطیّوں اور مہربانیوں سے مسرور ہونا ہر مسلمان کا حق ہے۔     نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تمھارے زمانے کے ایام میں تمھارے رب کے تمھارے لیے عطیات ہوا کرتے ہیں، لہٰذا ان عطیات کو حاصل کرنے میں لگے رہو‘‘۔

یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مقدس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس ماہ میں نفل کی ادایگی فرض کی مانند ہے اور اس میں فرض ادا کرنا غیر رمضان میں ۷۰فرضوں کی ادایگی کی طرح ہے۔ اس ماہ کی ان ہی برکات کی خاطر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رجب ہی سے اس کے استقبال کی تیاری شروع فرماتے تھے۔

رمضان نفس و روح کی راحت کا مہینہ اور دل کی خوشی کا زمانہ ہے۔ اس میں ایمان کے مظاہر ہر طرف نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت ہوتی ہے، خود غرضی نہیں بلکہ ایثار ہوتا ہے۔ اس میں سختی و تشدد نہیں بلکہ کرم و مہربانی ہوتی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں مسلمان کو خواہ کوئی کتنا ہی برانگیختہ کر دے یا اسے کوئی کتنا ہی غصے میں لے آئے، یااگرخدانخواستہ اسے کوئی گالی بکے یا اس پر کوئی الزام تراشے، ان تمام صورتوں میں مسلمان بس یہ کہتا ہے کہ: ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ مسلمان اپنے منہ سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکالتا جو بے معنی ہو، جو نفس کی گہرائیوں میں ثبت نہ ہو، جو اس کے ایمان کی ترجمانی نہ کرتا ہو، جس سے شیاطین جِنّ و انس پر اسے فتح و کامیابی نہ ملتی ہو۔ مسلمان ’’میں روزے سے ہوں‘‘ کے الفاظ دہراتا ہے تو اس کا ظاہر و باطن ہم آہنگ ہوتا ہے۔   وہ ایک اخلاقی اسلامی شخصیت کا مظہرِ کامل بن کر یہ الفاظ ادا کرتا ہے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، سرکش جنوں کو پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے، دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہنے دیا جاتا۔ بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اوراس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہنے دیا جاتا۔ حق تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ! اور اے شر کے طلب گار پیچھے ہٹ!‘‘۔  اس نداے ربانی پر لبیک کہنے کے لیے کیا مسلمان نیکی کی چاہت میں آگے نہ بڑھے گا؟ ضروربڑھے گا۔

اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ آپ اس ماہِ مبارک میں نازل ہونے والی کتاب کی تلاوت کیجیے اور اس میں خوب تدبر کیجیے۔ آپ غور کیجیے تو آپ کی سماعت سے مخاطب ہو کر کوئی کہہ رہا ہوگا: فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَo (الانفطار ۸۲:۸) ’’اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا، پھر اس کی نوک پلک سنواری، اسے پیدا کیا اور اسے راہ نمائی دی۔

دورانِ تلاوت ہی کوئی آپ سے مخاطب ہو کر آپ کو ایک زندہِ جاوید حقیقت سے آگاہ کررہا ہوگا: یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّک کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِo(الانشقاق ۸۴:۶) ’’اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے ربّ کی طرف چلا جا رہا ہے اور اُس سے ملنے والا ہے‘‘۔

لہٰذا، توبہ کے لیے جلدی کیجیے، اپنے ربّ کی طرف رجوع کیجیے تاکہ آپ تروتازہ چہرے کے ساتھ اس سے ملاقات کر سکیں۔ آپ جلدی قدم بڑھائیے اور اس کے جودو سخا، کرم و لطف اورمغفرت و احسان کے عطیات کو سمیٹ لیجیے۔

آپ اپنے حواس خمسہ پر غور کیجیے، اپنی پیدایش کے بارے میں تدبر کیجیے، اپنی ذات کے بارے میں سوچیے۔ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے جسم کے ہر جز کو خالقِ ارض و سما نے بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔ پھر اس نے ہر عضو کو جو کام کرنا ہے اس سے ہم آہنگ کیا ہے۔  دیکھیے آنکھیں، زبان، ہونٹ اور جسم کے مختلف اعضا اور نظام اپنے اپنے افعال کے ساتھ کیسی مطابقت رکھتے ہیں۔ وہ کون سی ہستی ہے جس نے انھیں اس کام کو کرنے کے ہدایت کی ہے؟ کوئی عضو سننے کے لیے ہے، کوئی دیکھنے کے لیے ہے، کوئی چکھنے اور کوئی چھونے کے لیے ہے، کوئی ہضم کرنے کے لیے ہے۔ انسان اگر اپنے تمام اعضا کو اپنے خالق کی مرضی کے مطابق استعمال کرے تو وہ جنت کا حق دار ٹھیرتا ہے۔

اگر اس ماہِ مبارک میں اترنے والی کتاب نہ اتری ہوتی تو یقینا انسان بھٹکتا رہتا، اور اپنے آپ پر غور و فکر سے محروم رہتا۔ انسان کو کون بتاتا کہ وہ اپنی پیدایش میں، اپنے حواس میں، اوراپنے جسم کے مختلف نظاموں میں ایک معجزہ ہے، قدرت کا شاہکار ہے۔ اس کا جسم اور اس کے تمام اعضا اس کائنات کے ساتھ کس قدر ہم آہنگ ہیں جس میں وہ رہ رہا ہے۔ اگر یہ ہم آہنگی سلب کر لی جائے تو انسان اورکائنات کے مابین رابطہ واتصال ختم ہو جائے۔ ایسی صورت میں انسان کسی آرزو کو پورا کرنے یا کسی چیز کو دیکھنے یا کسی معاملے میں غور و فکر کرنے سے قاصر رہ جائے۔

بلاشبہہ اللہ ہی خالق ہے ، قادر ہے، کائنات کا اور انسان کا پیدا فرمانے والا ہے۔ وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَo (الذٰریٰت ۵۱:۲۱) ’’اور خود تمھارے اپنے وجود میں بہت سی نشانیاں ہیں، کیا تم کو سوجھتا نہیں‘‘۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّط یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَھُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ  لا  وَّ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًاo(الطلاق ۶۵:۱۲) ’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی اُنھی کے مانند۔ اُن کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمھیں اِس لیے بتائی جارہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے‘‘۔

روزے کی حالت میں ان تمام امور پر غوروفکر سے آپ عبادت کے سا تھ ساتھ ایمان کی لذت سے بھی آشنا ہوں گے۔ آپ کی عبادت محض رسم نہیں رہے گی۔

آپ اپنے رب کو پہچانیے، اپنے آپ پر غور کیجیے، اس کائنات کو دیکھیے جس نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ آپ اپنے اور کائنات کے مابین موازنہ کیجیے، اور قرآن کے الفاظ میں اپنے آپ سے دریافت کیجیے: ’’کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اُس کو بنایا، اس کی چَھت خوب اونچی اٹھائی پھر اُس کا توازن قائم کیا، اور اُس کی رات ڈھانکی اور اُس کا دن نکالا۔ اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا، اُس کے اندر سے اس کا پانی اورچارہ نکالا، اور پہاڑ اس میں گاڑ دیے سامانِ زیست کے طور پر تمھارے لیے اور تمھارے مویشیوں کے لیے‘‘۔ (النّٰزٰعت ۷۹: ۲۷-۳۳)۔ قرآن مجید میں غور کرنا چاہیے۔ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَاo (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا اِن لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘

انسان اپنے رب کی نافرمانی کرکے اپنے ساتھ خود زیادتی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان خیانت کیوں کرتا ہے؟ اپنے پروردگار کی معصیت کیوں کرتا ہے؟ وہ تکبر کیوں کرتا ہے؟ اپنے آپ کو بڑا کیوں سمجھتا ہے؟ کیا غور وفکر تجھے اللہ کے شایانِ شان قدر دانی کی دعوت نہیں دیتا کہ تو اللہ کی رحمت کی امید رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرے؟ قرآن نے اس ماہِ مبارک میں نازل ہو کر تجھے وہ کچھ بتا دیا جو تو نہیں جانتا تھا اور یوں اللہ نے تجھ پر فضلِ عظیم کیا۔

امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں: ’’سب سے عجیب بات یہ ہے کہ تم اللہ کو جانتے ہو اور پھر اس سے محبت نہیں کرتے۔ اس کے منادی کی پکار سنتے ہواور پھر جواب دینے اور لبیک کہنے میں تاخیر سے کام لیتے ہو۔ تمھیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کرنے میں کتنا نفع ہے مگر تم دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے پھرتے ہو۔ تم اس کے غضب کی جانتے بوجھتے مخالفت کرتے ہو۔ تمھیں معلوم ہے کہ اس کی نافرمانی کی سزا کتنی بھیانک ہے مگر پھر بھی تم اس کی اطاعت کرکے اس کے طالب نہیں بنتے ہو‘‘۔

افسوس کہ تم اس ماہ مبارک کے قیمتی لمحات ضائع کر دیتے ہو اور ان کے دوران اللہ کے قرب کو تلاش نہیں کرتے۔ ابن قیمؒ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے: روزے دار اپنے معبود کی خاطر اپنی لذتوں کو ترک کرتا ہے۔ وہ اللہ کی محبت اور اس کی رضا کو اپنے نفس کی لذات پر ترجیح دیتا ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جو کوئی بندہ، اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے، تو اس دن کی وجہ سے اللہ جہنم کواس شخص کی ذات سے ۷۰ خریف دُور کر دیتا ہے‘‘۔

امام حسن البناؒ فرماتے ہیں: ’’لوگ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کوئی بھلائی کرتا ہے یا نیکی کی بات کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا فوری معاوضہ ملے۔ اس کے بدلے میں مال ملے جسے وہ   جمع کرے، یا اسے شہرت و نیک نامی ملے، یا اسے کوئی مرتبہ و عہدہ ملے، یا اسے کوئی لقب ملے کہ اس لقب کے ساتھ اس کا شہرہ ہر طرف ہو۔ دوسرا وہ ہے جس کا ہر قول و فعل محض اس لیے ہوتا ہے کہ وہ خیر کو خیر ہونے کی وجہ سے چاہتا ہے۔ وہ حق کا احترام کرتا ہے اور حق سے اس کے حق ہونے کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ دنیا کے معاملے کا سدھار صرف اورصرف حق و خیر سے ہی ہے۔ انسان کی انسانیت دراصل یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو حق و خیر کے لیے وقف کر دے‘‘۔

اے میرے مسلمان بھائی! آپ ان دو قسموں میں سے کون سی قسم کے مسلمان بننا  چاہتے ہیں؟ کتنا اچھا ہو کہ آپ دوسری قسم میں داخل ہوں اور ایسے مسلمان بن جائیں جو حکم کو بجالاتا ہے، جس سے منع کیا گیا ہے اسے ترک کر دیتا ہے، جو کچھ مل گیا ہے اس پر صبر کرتا ہے۔ انعام ملے تو شکر کرتا ہے، آزمایش آئے تو صبر کرتا ہے، گناہ کرے تو مغفرت طلب کرتا ہے۔ آپ بھی ایسے ہی ہو جائیے۔ ایسے لوگوں میں شامل ہو جائیے جن کا دایاں ہاتھ صدقہ دے تو بائیں کو  خبر نہ ہو۔ آپ کم زور کی مدد کیجیے۔ صلہ رحمی کیجیے۔ لوگوں کے بوجھ اٹھایئے، لوگوں کی حصولِ حق میں مدد کیجیے۔ ضرورت مند کا ساتھ دیجیے اور اس کی مدد کے لیے تعاون کیجیے۔ یتیم کے سر پر دستِ شفقت رکھیے، بیوہ کی سرپرستی کیجیے۔

فلسطین، عراق، افغانستان، سوڈان، کشمیر، اریٹیریا اور صومالیہ کے اپنے بھائیوں کی غم خواری کیجیے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی جان، مال، عزت و آبرو خطرے میں ہے ان کے لیے دعائیں کیجیے۔ آپ اُن مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کیجیے، جن کے گھروں کو منہدم کیا گیا اور انھیں ان کے علاقوں سے بے دخل کر دیا گیا۔

آپ صلاح الدین ایوبی کا یہ قول یاد رکھیے: ’’میں کیسے ہنسوں، جب کہ اقصیٰ اسیر ہے؟‘‘

آپ رات میں ضرور نوافل ادا کیجیے تاکہ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے، اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے‘‘۔(الذٰریٰت ۵۱: ۱۷۔۱۹)

دعا مومن کا ایک بڑا ہتھیار ہے۔ دعا کیجیے کہ اللہ ظالموں کے مقابلے میں اہلِ ایمان کی مدد فرمائے۔ دعا میں الحاح دزاری ضرور کیجیے۔ اللہ ظالم سامراجیوں، ان کے آلۂ کاروں کو برباد کرے۔

شیطان کے پھندے سے بچنے کی کوشش کیجیے۔ یہ شیطان انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے۔ یہ شیطان، آپ کے روزے کو بگاڑنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ وہ آپ کو تراویح اور تہجد سے ہٹا کر فلمیں دیکھنے پر آمادہ کریں گے۔ وہ آپ کو موسیقی اور لغویات میں الجھائیں گے، اور آپ ان کے چکّر میں آ کر روزوں کے مقاصد فراموش کر دیں گے اور پھر صیام و قیام کو ہی نظر انداز کردیں گے۔ حالاںکہ رات کے قیام کے بارے میں رب العزت فرماتا ہے:

وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق  عَسٰٓـے اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا o

 (بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) اوررات کو تہجد پڑھو، یہ تمھارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔

شیطان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ رمضان میں مومن ایک ایسی شخصیت بن جاتا ہے جس پر ایمان کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہی شخصیت شرعاً مطلوب ہے۔ اسی شخصیت کے ہاتھوں نصرت ملتی ہے۔ اس لیے شیطان آپ کے اور اس شخصیت کی تشکیل کے مابین حائل ہو جائے گا، کیوں کہ ایسی شخصیت کی تشکیل میں اس کی ہلاکت ہے۔ اگر بحمدللہ، رمضان کے اثرات سے اسلام کی مطلوب شخصیت وجود میں آئے تو یہ انسانیت کی فتح ہے۔

رمضان کے اس پیغام اور وقت کی اس آواز کو توجہ سے سنیے اور اس پر غور کیجیے۔ اس طرح آپ کامران و کامیاب لوگوں میں شامل ہو جائیںگے اور ناکام و نامراد نہ ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ رمضان کو ہم سب کے لیے مبارک بنائے، اور ہم سب کو خوب برکتیں ، رحمتیں اور بخشش عطا فرمائے۔ رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے لیے اسے کیسے گزارا جائے ؟ کن اعمال کی کثرت کی جائے ؟ کن چیزوں سے بچا جائے؟ کا تذکرہ ضروری ہے۔

 ادب،احتیاط اور عاجزی سے رہیں : رمضان المبارک کے دن بھی بابرکت ہیں، اور اس کی راتیں بھی پُر نور ہیں، اور اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ اس لیے اس مہینے کے داخل ہوتے ہی ایمان والوں پر ایک ، خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے___ ادب ،عاجزی اور احتیاط کی کیفیت۔ ایسانہیں ہوتا کہ روزہ افطار کرتے ہی نفس کا جن بوتل سے باہر آ جائے ، اور گناہ کی زندگی شروع ہوجائے۔

انسان کا نفسِ امارہ اور شیطان اس کو الٹی راہ پر ڈالتا ہے۔ رمضان المبارک کا اصل مقصد ہے قربانی، یعنی کم کھانا ، کم پینا ، کم سونا، زیادہ مال خرچ کرنا، اللہ کی راہ میں خوب جدوجہد کرنا۔  اب شیطان نے انسانوں کو سکھا دیا ہے کہ رمضان المبارک کا مطلب ہے : خوب کھانا کہ پیٹ پھول جائے، خوب پینا کہ پیٹ پھٹنے لگے، خوب سونا کہ بستر بھی تنگ آ جائے ۔

 کچھ کام بڑھا دیں: رمضان المبارک میں عام دنوں سے زیادہ عبادات میں محنت کرنی چاہیے، اور محنت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تھکاتی ہے۔ رمضان المبارک کے پہلے لمحے سے لے کر آخری دن سورج غروب ہونے تک ، محنت کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ چنانچہ فوراً یہ کام بڑھا دینے چاہییں:

  • نماز : یعنی فرائض وواجبات کا خوب اہتمام ، اور نوافل کی کثرت۔ رمضان المبارک میں تراویح بہت بڑی نعمت ہے۔ تہجد کا بھر پور اہتمام کیا جائے۔
  • تلاوت : روزانہ کم از کم تین پارے اور زیادہ جس قدر ممکن ہو نیز قرآن کا فہم اور اس سے ہدایت حاصل کی جائے۔
  • صدقات: خوب سخاوت کی جائے، خوب مال خرچ کیا جائے۔ بالخصوص ان مسلمانوں تک افطار اور کھانا پہنچایا جائے، جو اپنے گھروں سے محروم ہجرت پر مجبور ہیں۔ 
  • جہاد : رمضان المبارک جہاد کا مہینہ ہے۔ غزوئہ بدر اسی مہینے میں پیش آیا۔ اس لیے غزوئہ بدرکی ہر یاد تازہ کرنی چاہیے: جان کی قربانی ،مال کی قربانی ، جہاد کی دعوت۔
  • آخرت کی فکر : اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ۔ یہ فکر اور عقیدہ انسان کی اصلاح کے لیے لازمی ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ محاسبہ اور تذکرہ کیا جائے تو فضول کام کرنے، مال جمع کرنے، اور اس دنیا کی خاطر ذلیل ہونے کے عذاب سے نجات مل جائے گی۔

کچھ کام ترک  کر دیں

  • بد نظری : اپنی آنکھوں کی خوب خوب حفاظت کرنی چاہیے ، ورنہ رمضان المبارک کانور حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
  • لغویات :کوشش کرکے ٹی وی کو مہینہ بھر بند کردینے کی مشق کریں اور دیگر لغو کاموں سے بچیں۔
  • مذموم مجلسیں:جن مجالس میں بے حیائی، غیبت اور جھوٹ کا چلن ہو، ان کو ترک کردیں۔

 چند کام کم کردیں

  • کھانا ،پینا، سونا ،جائز لذت حاصل کرنا، گفتگو کرنا کم کر دیں۔

روزانہ کا سوال روزانہ بلاناغہ : دو رکعت نماز صلوٰۃ الحاجات پڑھ کر دعا کیا کریں : یا اللہ ! اس رمضان المبارک کوہمارے لیے رحمت ، مغفرت ، جہنم سے نجات اور عافیت والا مہینہ بنا دے۔ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما، جن پر تیرا فضل ہے، اور جن کی بخشش ہوئی ہے، اور ہمیں اپنی پناہ عطا فرما ان لوگوں میں شامل ہونے سے ،جو رمضان تو پاتے ہیں ، مگر ان کی بخشش نہیں ہوتی۔

 آخری عشرے کی حفاظت :رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔  عید کے لیے نیا جوڑا ضروری نہیں ہے، اور نئے جوتے کے بغیر بھی عید کی خوشیاں پوری طرح سے  مل جاتی ہیں۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بازاروں میںضائع کرنا افسوس ناک ہے۔ اس لیے جس طرح بھی بن پڑے آخری عشرے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، اور اس عشرے کے دن اور رات قیمتی بنائے جائیں۔ افسوس کہ عید کی خریداری کے نام پر اپنی اصل خوشیوں کو برباد کرنے کا رواج مسلمانوں میں عام ہو چکا ہے۔ ممکن ہے یہ رمضان المبارک ہمارا آخری رمضان ہو، اس لیے اسے قیمتی بنا لیں، اور اسے پالیں ۔ یا ارحم الرّحمین ، ہمیں توفیق عطا فرما !

 چار اعمال کی کثرت: بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں چار کاموں کی کثرت کی ترغیب ارشاد فرمائی: اس ماہ میں چار کاموں کی کثرت کرو،  ان میں سے دو کام ایسے ہیں کہ ان کے ذریعے تم اپنے پرور دگار کو راضی کرو گے، اور دو کام ایسے ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہوسکتے ہو۔ وہ دو کام جن سے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل ہو گی :

  •  لا الہ الا اللہ کا ورد رکھنا ،
  • اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہنا۔
  •  وہ دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں رہ سکتے ہو یہ ہیں :

  • جنت کا سوال کرنا
  •  جہنم سے پناہ مانگنا۔

رمضان المبارک میں تو ہر عمل کا اجر ویسے ہی ۷۰ گنا بڑھ جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ باقاعدہ مصلے پر بیٹھ کر ذکر کریں۔ چلتے پھرتے، کھانا پکاتے ، کپڑے دھوتے ،ہروقت زبان پر ذکر اور درود شریف جاری رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اسی طرح روزانہ استغفار کا معمول بنانا چاہیے۔

ہر روزے کے لیے نیت اور سچی شرط ضروری ہے، تاہم نفس کو روکنے کی شرائط بہت سی ہیں۔ چنانچہ کوئی شخص اسی وقت حقیقی روزہ دار ہو گا، جب وہ اپنے پیٹ کو کھانے سے بچائے، اور اپنی آنکھ کو شہوت کی نظر سے ، کان کو غیبت کے سننے سے، زبان کو بے ہودہ اور فضول گفتگو کرنے سے ، اور جسم کو دنیا کی تابعداری اور شریعت کی مخالفت سے محفوظ رکھے۔ کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا کہ : جب تو روزہ رکھے تو ضروری ہے کہ تیرا کان ،تیری آنکھ ، تیری زبان، تیرا ہاتھ اور تیرا ہر عضو روزہ رکھے۔ نیز فرمایا : بہت سے روزے دار ایسے ہیں ، جنھیں روزے سے بھوکا اور پیاسا رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

 روایتی افطار پارٹیاں : رمضان میں شیطان کا ایک پھندا غفلت زدہ افطار پارٹیاں ہیں۔ ان پارٹیوں میں کھانے کی حرص، فضول گپ بازی، اور قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ ہاں، کوئی اجتماع ہو تو اس میں شرکت کر سکتے ہیں۔ بلاشبہہ افطار کی دعوت بہت فضیلت والا عمل ہے۔ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے غریبوں کے گھر ، شہداے کرام کے ورثا، دین کے خدمت گاروں اور مہاجرین کو رقم یا کھانا بھجوا دیں۔ اگر کسی کو افطار پر گھر بلائیں تو دین کی تعلیم کا اہتمام کریں۔ ایک دوسرے کے مقابلے پر دعوتیں نہ کریں، بلکہ اپنے وقت کو قیمتی بنائیں، اور افطاری کا کھانا بھجوا دیا کریں۔

جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ عبادت ، خلوت اور ذکر کی توفیق عطا فرماتا ہے، تو اس انسان کو عجیب مزا آنے لگتا ہے۔ تب خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو جائے۔  اس لیے بھر پور عبادت اور تلاوت کے ساتھ ساتھ یہ بات یاد رہے، کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں۔

 ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود میدانوں میں نکل کر تلوار اٹھاتے ، اور جہاد فرماتے تھے اور دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد فرماتے تھے۔ اس عظیم اور بہترین اُمت کا فرد ہونے کی وجہ سے ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں، اور ہم پرانی اُمتوں کے صوفیوں کی طرح صرف خلوت، عبادت اور تنہائی کے مزے نہیں لوٹ سکتے۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہمارا دل فلسطین ، افغانستان ، عراق ، کشمیر اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے درد کو محسوس کرے۔

ہم ان مجاہدین کے لیے دعا کریں جو ہمارے سرکا تاج ہیں، اس لیے کہ وہ میدانوںمیں لڑ رہے ہیں۔ہم دشمنانِ انسانیت کی جیلوں میں قید اسیرانِ اسلام کے لیے بلک بلک کر دعائیں مانگیں۔ ہم ان تمام اہلِ دین کے لیے دعائیں مانگیں، جن پر دین کی خاطر زمین تنگ کر دی گئی ہے اور ہم اپنے دل کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اُمتی کا دل بنائیں۔