تزکیہ و تربیت


سیّد قطب شہیدؒ (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) کی لافانی تحریروں نے لاکھوں دلوں کوگرمایاہے اور ان میں ایمان ویقین کی تازگی پیدا کی ہے۔ ان کی تصانیف کاترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکاہے۔  سیّد قطب شہید کی ایک قیمتی تحریر افراح الروح  کے نام سے ہے۔جس میں انھوں نے متعدد ا ہم موضوعات پر اپنے قلبی احساسات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس تحریر کا اردو ترجمہ ہے۔
سیّد قطب شہیدؒ پہلی مرتبہ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔ ۳۱؍جولائی ۱۹۵۵ء کو ۱۵سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔۱۰ سال کے بعد ۱۹۶۴ء میں انھیں رہائی ملی۔ اس نام نہاد رہائی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور ایک ڈھونگ نما عدالت سے فیصلہ کرواکے ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔یہ تحریر سیّد قطب نے قید وبند کے انھی ایام میں کسی موقعے پر اپنی بہن اورمعروف ادیبہ امینہ قطب کے نام ایک خط کی صورت میں لکھی تھی۔ ۱۵نکات پر مشتمل اس تحریر کے ہر نکتے کو سیّدقطب نے ’خاطرہ‘ کہا ہے۔ واضح رہے کہ ذیلی عنوانات محترم مترجم کے قائم کردہ ہیں۔ادارہ

پہلا خیال: زندگی کے مقابلے میں موت کی حقیقت

موت کا تصوربرابر تمھارے فکر وخیال پر چھایارہتا ہے۔ تم اسے ہر جگہ اور ہر چیز کے پیچھے گمان کرتی ہو۔ اسے ایک ایسی سرکش قوت سمجھتی ہو، جو زندگی اور زندوں پر حاوی ہے اور اس کے مقابلے میں زندگی کو کم زور ، کھوکھلی اور خوف زدہ پاتی ہو۔
تاہم، میرا نقطۂ نظر تمھارے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میں زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں، موت کو ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت سمجھتاہوں۔ موت کچھ نہیں کرپاتی، سوائے اس کے کہ اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان سے کوئی گراپڑا ٹکڑا اٹھالے۔
میرے ارد گرد زندگی کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ ہرچیز پروان چڑھ رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ مائیں حمل سے ہورہی ہیں اور بچے جن رہی ہیں۔ اس معاملے میں انسان اور جانور برابر ہیں۔ پرندے،مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے انڈے دے رہے ہیں، جن سے زندگی پھوٹ رہی ہے اور جان دار نکل رہے ہیں۔ زمین سے پودے پھوٹ رہے ہیں، جن سے پھل پھول نکلتے ہیں۔ آسمان سے موسلادھار بارش ہورہی ہے، اورسمندروں میں موجیں اُٹھ رہی ہیں۔ غرض اس روے زمین پر ہرچیز نموپذیر ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
درمیان میں کبھی کبھی موت اچانک نمودار ہوتی ہے اور ایک جھپٹّا مارکر آگے بڑھ جاتی ہے، یا چپکے سے اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان پر سے کوئی ٹکڑا اٹھالیتی ہے۔ زندگی کا کارواں رواں دواں رہتا ہے۔ اس کی موجیں اچھلتی، کودتی اورجوش مارتی رہتی ہیں۔ اسے موت کا مطلق احساس ہوتا ہے نہ وہ اسے دکھائی دیتی ہے۔
بسااوقات، جب موت زندگی کے جسم کو ایک مرتبہ نوچتی ہے تو درد سے اس کی چیخ نکل پڑتی ہے، لیکن زخم بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں اور درد کی چیخ بہت جلد راحت میں بدل جاتی ہے۔ انسان اور حیوان ، پرندے اور مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، پیڑپودے، سب اپنی اپنی راہ پر گا م زن رہتے ہیں۔ اس طرح روے زمین زندگی اور زندوں سے معمور رہتی ہے۔ موت کہیں کونے میں دبکی رہتی ہے۔ پھر اسی دوران میں اچانک ایک جھپٹاّ مارتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے، یا زندگی کے دسترخوان سے کوئی ٹکڑا گرجاتاہے، جسے وہ اٹھالیتی ہے۔
سورج نکل رہا ہے اور غروب ہو رہاہے، زمین اس کے گرد گردش کررہی ہے، زندگی کی کونپلیں اِدھر اُدھر نکل رہی ہیں___ ہرچیز نموپذیر ہے۔ اضافہ تعداد میں بھی ہورہاہے اور نوعیت میں بھی۔ کمّیت میں بھی ہورہاہے اور کیفیت میں بھی۔ اگر موت، زندگی کو نگل جانے کے قابل ہوتی تو زندگی کی روانی ٹھیرجاتی، لیکن زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں موت ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت دکھائی دیتی ہے۔ زندۂ جاوید، اللہ واحد کی قوت سے زندگی کی کونپل نکلتی ہے ، یہاں تک کہ ایک تناور درخت وجود میں آجاتا ہے۔

دوسرا خیال:طویل زندگی کا راز، مقصد کے لیے جینا

ہم جب صرف اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں تو زندگی ہمیں مختصر، معمولی اور حقیر نظر آتی ہے۔ ہمارے ہوش سنبھالتے ہی اس کاآغاز ہوتاہے اور محدود عمر کے اختتام کے ساتھ ہی اس کاخاتمہ۔
لیکن جب ہم دوسروں کے لیے، یا کسی مقصدکے لیے جیتے ہیں تو اس صورت میں زندگی بہت طویل اور گہری نظرآتی ہے۔ اس کاآغاز وہاں سے ہوتاہے، جہاں سے انسانیت کاآغاز ہوا ہے اور اس روے زمین سے ہماری جدائی کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہتاہے۔
اس طرح ہم اپنی انفرادی عمر میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ یہ اضافہ حقیقی معنوں میں ہوتاہے، نہ کہ خیالی طورپر۔ اس طرح زندگی کاتصور دنوں، گھنٹوں اور لمحوں کے بارے میں ہمارے احساس کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔
زندگی برسوں کی گنتی کانام نہیں ہے،بلکہ احساسات و جذبات کا شمار زندگی سے عبارت ہے۔ اس صورت میں جس چیز کو عقلیت پسندوں کا گروہ وہم اور تصوراتی چیز قرار دیتا ہے، وہ اصل میں ’حقیقت ‘ہوتی ہے، ان کے تمام حقائق سے زیادہ درست حقیقت!
اس لیے کہ زندگی انسان کے شعورِ حیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔کسی انسان سے اس کا شعورِ حیات چھین لیا جائے تو حقیقت میں وہ زندگی ہی سے محروم ہو جائے گا، اور اگر کسی انسان کا احساس اپنی زندگی کے بارے میں کئی گنا بڑھ جائے تو عملاً اس کی زندگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
مجھے لگتاہے کہ یہ مسئلہ اتنا بدیہی ہے کہ اس میں کسی بحث اور جھگڑے کی ضرورت نہیں۔
ہم جب دوسروں کے لیے جیتے ہیں تو درحقیقت خود اپنی زندگی میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ اسی طرح جس قدر دوسروں کے بارے میں ہمارے احساس میں اضافہ ہوگا، خود اپنی زندگی کے بارے میں ہمارا احساس بڑھے گا اور آخرکار خود زندگی کو ہم کئی گنا بڑھالیںگے۔

تیسرا خیال: خیر  کی مضبوطی اور ’شر‘ کی کمزوری

’شر‘کا بیج لہلہاتا ہے، لیکن ’خیر‘ کا بیج پھل دیتا ہے۔ ’شر‘ کا درخت فضا میں تیزی سے بڑھتا ہے، لیکن اس کی جڑیں مٹی میں گہری نہیں ہوتی ہیں۔ بسا اوقات اس کی پھیلی ہوئی شاخیں ’خیر‘ کے درخت تک روشنی اور ہوا نہیں پہنچنے دیتیں،جب کہ ’خیر‘ کادرخت سست رفتاری کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی ہیں، جو اسے گرمی اور ہوا کا بدل فراہم کرتی رہتی ہیں۔
جب ہم ’شر‘ کے درخت کے پُرفریب اور زرق برق مظاہر کی چکاچوند سے آگے بڑھ کر اس کی حقیقی قوت اور مضبوطی کاجائزہ لیتے ہیں، تو وہ ہمیں بہت کم زور اور خستہ دکھائی دیتا ہے، اور اس میں کوئی حقیقی پاے داری نظرنہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں ’خیر‘ کادرخت آزمایشوں پر جمارہتا ہے، آندھی اور طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑپاتے۔ وہ پُرسکون انداز میں دھیرے دھیرے بڑھتا رہتا ہے اور ’شر‘ کے درخت کی جانب سے آنے والے جھاڑجھنکاڑ اور کانٹوں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔

چوتھا خیال: خیر کی حوصلہ افزائی کیجیے!

ہم جب لوگوں کے دلوں میں اچھے پہلو کو محسوس کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں بہت کچھ خیر بھی موجود ہے، جوپہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا۔
میں نے اس کا تجربہ کیاہے۔ بہت سے لوگوں میں، میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی، جن کے بارے میں ابتدا میں بہ ظاہر اندازہ ہوتاہے کہ وہ شرپسند یا شعور واحساس سے عاری ہیں۔
ان کی غلطیوں اورحماقتوں پر معمولی ہم دردی کیجیے، ان سے حقیقی محبت کاتھوڑااظہار کیجیے، ان کی دلچسپیوں اور مسائل کی جانب بغیر کسی بناوٹ کے معمولی توجہ تو دیجیے، پھر آپ ان کے دلوں میں خیرکاچشمہ پھوٹتا ہوا دیکھیںگے۔ آپ انھیں صدق و صفا اور اخلاص کے ساتھ اپنی جانب سے جو کچھ دیںگے، وہ اگرچہ مقدار میں معمولی اورحقیر ہوگا، لیکن اس کے بدلے میں وہ والہانہ پن سے اپنی محبت و مودّت اور اپنا اعتماد آپ کے حوالے کردیںگے۔
نفسِ انسانی میں شرکی جڑیںاتنی گہری نہیں ہوتیں،جتنا ہم بسااوقات تصور کرتے ہیں۔ اکثر اوقات تو وہ پھل کے اس اوپری سخت چھلکے کی طرح ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ بقا کے لیے زندگی کی جدوجہد کرتا ہے۔ چنانچہ جب وہ کسی اندیشے سے محفوظ ہوجاتا ہے، تو وہ سخت چھلکا ہٹ جاتاہے اور اندر سے شیریں و لذیذ گودا نکل آتا ہے۔ یہ شیریں پھل اسی شخص کو حاصل ہوتاہے، جو لوگوں کو اپنی جانب سے امن، اپنی محبت پر اعتماد اور ان کی جدّوجہد ، پریشانیوں، غلطیوں اور حماقتوں پر حقیقی ہم دردی کااحساس دلاسکے۔
ابتدا ہی میں کشادہ دلی کے معمولی مظاہرے سے یقینی طورپر یہ سب چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں، اور یہ اس سے قریب تر ہوگا جس کی لوگ توقع کرتے ہیں۔ میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اپنی ذات پر اسے برتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتاہوں کہ یہ خواب و خیال کی باتیں نہیں ہیں۔

پانچواں خیال: ہمدردی اور محبت کا بیج پروان چڑھایئے!

ہم اپنے دلوں میں اگر محبت، ہم دردی اور خیر کے بیج پروان چڑھالیں، تو اپنے آپ کو بہت سی مشقتوں، زحمتوں اور بے جا تکلیفوں سے بچالیں گے۔ پھر ہمیں دوسروں کی چاپلوسی کی ہرگز ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس لیے کہ اس وقت ہم ان کی مدح و ثنا کرنے میں سچے اور مخلص ہوںگے۔ ہم ان کے دلوں میں خیر کے چھپے خزانوں کو پالیں گے، اور ان کی ایسی پاکیزہ امتیازی خصوصیات دیکھیںگے، جن کی صدق دل سے تعریف وتحسین کرسکیں گے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے، کہ جس میں خیرکاکوئی پہلو یا کوئی اچھی امتیازی صفت نہ ہو، جو اسے کلمۂ خیرکامستحق بناتی ہو، لیکن افسوس کہ ہم اس سے واقف نہیں ہوتے۔ ہمیں اس کا علم اسی صورت میں ہوپاتا ہے، جب ہمارے دلوں میں محبت کا بیج پروان چڑھتا ہے۔
اسی طرح ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ان سے دل تنگ کرنے اور ان کی غلطیوں اور حماقتوں پر صبر کرنے کی مشقت برداشت کریں۔ اس لیے کہ جب ہمارے دلوں میں ہم دردی کا بیج پروان چڑھے گا، تو ان کی کم زوریوں اورخامیوں کے مواقع پر ہم ان کے ساتھ ہمدردی کااظہار کریںگے اور ان کم زوریوں سے واقف ہونے کے لیے ان کی ٹوہ میں نہیں لگیںگے۔
اس طرح فطری طورپر ہم اپنے آپ کو ان سے بغض و نفرت کی مشقت یا ان سے پہلو بچانے کی پریشانی میں نہیں ڈالیںگے۔ دوسروں سے ہماری نفرت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے دلوں میں خیر کے بیج کی نشو ونما اچھی طرح نہیں ہوتی اور ہم دوسروں سے اس لیے خوف کھاتے ہیں، کیوں کہ خود ہمارے اندر خیر پر اعتماد کاعنصر کم ہوتا ہے۔
ہم خود کو کتنی طمانینت، راحت اور سکینت پہنچائیںگے، جب دوسروں کو اپنی ہم دردی اور اعتماد کی سوغات پیش کریںگے، تو ہمارے دلوں میں محبت اور خیر کے بیج پروان چڑھیںگے۔

چھٹا خیال:حقیقی عظمت گھل مل کر رہنے میں ہے

ہم جب لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اپنے اس احساس کی بنا پر، کہ ہماری روحیں ان سے زیادہ پاکیزہ ، ہمارے دل ان سے زیادہ صاف شفاف، ہمارے نفس ان سے زیادہ کشادہ اور ہماری عقل ان سے زیادہ تیز ہے، تو یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہوتا ،بلکہ اس طرح ہم اپنے لیے سب سے آسان راستہ اور سب سے کم زحمت کا انتخاب کرلیتے ہیں۔
 حقیقی عظمت اس میں ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں۔ ان کی کم زوری، خامی اور غلطی پر بردباری اور ہم دردی کابھرپور مظاہرہ کریں، اور انھیں پاک صاف کرنے، تہذیب یافتہ بنانے اور حتی الامکان اپنے معیار تک بلند کرنے کی حقیقی خواہش رکھیں۔
اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بلند اخلاق اور اعلیٰ اقدار سے دست بردار ہوجائیں، یا ان لوگوں کی چاپلوسی کریں اور ان کی گھٹیا حرکتوں پر ان کی مدح وثنا کریں، یا انھیں یہ احساس دلائیں کہ ہم ان سے برتر ہیں۔ ان متضاد امور کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور اس راہ میں آنے والی پریشانی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہی حقیقی عظمت ہے۔

ساتواں خیال: دوسروں سے تعاون چاہنا ، کوئی عیب نہیں

ہم جب قدرت و صلاحیت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیں گے، تب ہمیں احساس ہوگا کہ دوسروں سے مدد طلب کرنا ہمارے لیے عیب کی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اُن لوگوں سے مدد طلب کرنے کی صورت میں بھی نہیں، جو ہم سے کم صلاحیت کے حامل ہوں۔
 اس سے ہماری قدر وقیمت کم نہیں ہوتی کہ دوسروں سے تعاون لیں۔ ہم ہر کام اپنے دم پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بات میں اپنی عار سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے مدد چاہیں، یا ان کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد میں شامل کرلیں۔ ہمیں اس بات میں اپنی بے وقعتی کااحساس ہوتاہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، کہ ہمارے ذریعے اس چوٹی کے سرہونے میں اُن کی مدد کا بھی دخل تھا۔ یہ سب ہم اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں اپنے اوپر زیادہ اعتماد نہیں ہوتا، یا ہم بالفعل کسی پہلو میں  کم زور ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم فی الواقع طاقت ور ہوں، تو ہمیں اس کا ہرگز احساس نہیں ہوگا۔بچہ جب چلنے کی کوشش کرنے لگتاہے تو وہ اس ہاتھ کو جھٹک دیتا ہے، جو اسے سہارا دیے ہوئے ہوتا ہے۔
لیکن جب ہم طاقت و قوت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیںگے، تو دو سر وں کی مدد کو شکر و سپاس اور خوشی و مسرت کے جذبے کے ساتھ قبول کریںگے۔ شکریہ اس بات پر کہ ہماری مدد کی گئی، اور مسرت اس چیز کی کہ جس پر ہمارا ایمان ہے اس پر ایمان رکھنے والے دوسرے لوگ بھی ہیں، جو جدّوجہد اور ذمے داری میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ یقین کریں کہ شعور کی ہم آہنگی پر فرحت و مسرت کااحساس بڑا پاکیزہ اور مقدس احساس ہے۔

آٹھواں خیال: ہمارے افکار کی قبولیت ، مقامِ مسرت ہـے

اگر ہم اپنے افکارو عقائد کو اپنے لیے خاص کیے رہیں اور جب دوسرے انھیں اختیارکرنے لگیں تو اس پر اپنے غیظ وغضب کا اظہارکریں اور پوری کوشش کریں کہ ان کی نسبت ہماری طرف ہی کی جائے اور دوسرے لوگ ان کے دشمن بنے رہیں۔ ایسا فعل کوئی فرد اس وقت کرتا ہے جب ان افکار و عقائد پر اس کا ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ وہ دل کی گہرائیوں سے تائید نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ بلاارادہ وہ افکار و عقائد ظاہر ہوجاتے ہیںاور ان سے نسبت رکھنے والا انھیں اپنی جان سے زیادہ محبوب نہیںرکھتا۔
حقیقی خوشی ہی فطری نتیجہ ہے اس چیز کاکہ ہم اپنے جیتے جی اپنے افکار و عقائد کو دوسروں کی زندگیوں میںرُوبۂ عمل دیکھیں۔ محض اس بات کا تصور کہ یہ افکار و عقائد ہمارے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد دوسروں کے لیے آسودگی اور سیرابی کا ذریعہ بنیںگے، اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دل رضا، سعادت اورطمانیت سے لب ریز ہوجائیں۔
یاد رہے، صرف تاجرہی اپنے سامانِ تجارت پر ٹریڈ مارک لگاتے ہیں، تاکہ دوسرے لوگ ویسا سامان نہ بناسکیں اور ان کے منافع کو ہڑپ نہ کرسکیں۔ رہے مفکرین، داعی اور عقائد کے حاملین تو وہ اس چیز کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان کے افکار و عقائد میں حصہ دار بن جائیں، اور ان پر اس حد تک ایمان لائیں کہ انھیں ان کے اوّلین علم برداروں کی طرف منسوب کرنے کے بجاے اپنی طرف منسوب کرنے لگیں۔
 وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہی ان افکار و عقائد کے سکّہ بند’مالک‘ ہیں، بلکہ وہ خود کو ان کی منتقلی اور ترجمانی کے لیے محض ’واسطہ‘ گردانتے ہیں۔ انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جس سرچشمے سے وہ سیراب ہوتے ہیں، نہ وہ ان کاپیدا کیاہوا ہے اور نہ ان کے اپنے ہاتھوں کا بنایاہوا۔ انھیں حاصل ہونے والی خوشی و مسرت کاپاکیزہ احساس ان کے اس اطمینان کاثمرہ ہوتاہے کہ اس اصلی سرچشمے سے ان کا گہرا تعلق ہے۔

نواں خیال: ’حقائق‘ اور ’فہم‘ میں  فرق ہـے

’ہم حقائق کو سمجھیں‘ اور ’ہم حقائق کا فہم حاصل کریں‘___ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے، بہت زیادہ فرق۔ اس میں پہلی چیز علم ہے اور دوسری چیز معرفت۔
 پہلی بات میں ہمارا تعامل مجرد الفاظ و معانی کے ساتھ، یا جزئی تجربات اور نتائج کے ساتھ ہوتا ہے،جب کہ دوسری بات میں ہم زندہ قبولیتوں اور کلّی مطالب کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔
پہلی صورت میں ہمیں اپنی ذات کے باہر سے معلومات حاصل ہوتی ہیں، پھر وہ ہماری عقلوں میں جاگزیں ہوکر امتیازی صورت میں محفوظ رہتی ہیں۔ دوسری صورت میں حقائق ہمارے اندرون سے پھوٹتے ہیں۔ ان میں خون اسی طرح دوڑتاہے، جس طرح ہماری رگوںاور اعضا میں دوڑتا ہے اور ان کی شعاعیں ہماری نبض سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔
پہلی صورت میں مختلف خانے اور ان کے ذیلی عنوانات ہوتے ہیں:علم کاخانہ اوراس کے تحت مختلف عنوانات، مذہب کاخانہ اور اس کے تحت مختلف ابواب و فصول، آرٹ کاخانہ اور اس کے تحت مختلف مناہج اور رجحانات۔ اور دوسری صورت میں صرف ایک طاقت ہوتی ہے، جو کائنات کی عظیم ترین طاقت سے مربوط ہوتی ہے، صرف ایک دھارا ہوتا ہے، جو اصل سرچشمے سے جاملتا ہے۔

دسواں خیال: اعلٰی روحانی قوت کا حصول

ہمیں انسانی علوم کی تمام شاخوں میں ماہرین کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کی جو اپنی تجربہ گاہوں اور دفاتر کو عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی شکل دے دیں، جو اپنے دائرۂ اختصاص کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ صرف قربانی کے جذبے سے نہیں، بلکہ اس میں انھیں اس عبادت گزار کی طرح لذت کا بھی احساس ہو، جو اپنی روح کوبہ خوشی اپنے معبود کے حوالے کردیتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں اس چیز کا ادراک کرنابھی ضروری ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو زندگی کو کوئی رُخ دیتے ہیں، یا انسانیت کے لیے کوئی راہ طے کرتے ہیں۔
رہنمائی ہمیشہ انھی لوگوں نے کی ہے اور آیندہ بھی وہی کریںگے جو اعلیٰ روحانی قوتوں کے مالک ہوں۔ یہی ہیں وہ لوگ، جو ایسے پاکیزہ شعلے کے حامل ہوتے ہیں، جس کی حرارت میں علوم و معارف کے تمام ذرات پگھل جاتے ہیں اور جس کی روشنی میں زندگی کے راستے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اعلیٰ اور بلند تر ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے وہ تمام جزئیات سے مالامال رہتے ہیں اور انھیں بہترین زادِ راہ حاصل رہتا ہے۔ یہ رہنما اپنی بصیرت سے اُس ہمہ گیر وحدت کا فہم حاصل کرلیتے ہیں، علم ،فن، عقیدہ اور عمل جس کے مختلف مظاہر ہیں۔ چنانچہ وہ نہ تو ان میں سے کسی کو حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں اور نہ کسی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
چھوٹے لوگ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مظاہر کی ان قوتوں کے درمیان تضاد اور تصادم ہے۔ چنانچہ وہ مذہب کے نام پر علم سے برسرپیکار رہتے ہیں،یا علم کے نام پر مذہب سے محاذآرا۔
یہ لوگ فن کو عمل کا نام دے کر اس کی تحقیر کرتے ہیں ،یا تحریک پیدا کرنے والی قوتِ حیات کو صوفیانہ عقیدہ کہہ کر اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان طاقتوں میں سے ہر طاقت کو الگ سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ سب ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی ہیں،اس عظیم ترین قوت سے جس کا تسلط اس کائنات پر قائم ہے۔ لیکن بڑے رہنما اس وحدت کا ادراک کرلیتے ہیں، اس لیے کہ ان کا اس اصل سرچشمے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ اس سے فیض اٹھاتے رہتے ہیں۔
اعلیٰ روحانی قوتوں کے حاملین کم ہیں۔ تاریخ انسانیت میں ان کی تعداد بہت قلیل ہے، بلکہ ان کا وجود نادر ہے، لیکن انھی لوگوں سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ جو قدرت الٰہیہ اس کائنات کی نگرانی کررہی ہے، اسی نے ان کی صورت گری کی ہے اور طے شدہ اور مطلوبہ وقت میں انھیں بیدار کیاہے۔

گیارھواں خیال: فہم سے بالاتر چیزوں کے بارے میں مناسب رویہ

خرقِ عادت چیزوں،کشف و کرامات اورغیر مرئی قوتوں پر ہی اعتقادکو مطلق تسلیم کرنا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ وہ خرافات تک لے جاتا اور زندگی کو بہت بڑے وہم میں مبتلا کردیتا ہے۔ لیکن اس اعتقاد کا مطلق انکار کرنا بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ اس لیے کہ یہ چیز ’ نامعلوم‘ تک رسائی کے تمام دروازوں کو بندکردیتی اور ہر اَن دیکھی طاقت کا انکار کردیتی ہے، محض اس بنا پر کہ وہ ہماری زندگی کے کسی مرحلے میں ہمارے انسانی فہم و ادراک سے پرے تھی! اس طرح ہمارا فہم اس کائنات کے مقابلے میں حجم، طاقت اور قدروقیمت کے اعتبار سے چھوٹا ہوجاتا ہے اور ’معلوم‘ کی حدود سے گھرجاتاہے۔ اور وہ اس لمحے تک، جب کائنات کی عظمت سے اس کامقابلہ کیاجائے، حقیر___ انتہائی حقیر ہوتا ہے۔
اس روے زمین پر انسان کی زندگی، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قوتوں اور ان کے مظاہر کے فہم و اِدراک سے عاجزہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ انسانی زندگی ان قوتوں کے فہم و ادراک پر قدرت کا تسلسل ہے۔ جب بھی انسان نے بندشوں سے چھٹکارا پایا اور اپنے طویل راستے میں آگے کی طرف قدم بڑھایا ہے، اسے ان قوتوں کا ادراک ہواہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی ان قوتوں میں سے، جو کبھی انسان کے لیے نامعلوم اور اس کے اِدراک سے پرے تھیں، کسی قوت کے اِدراک پر اس کا قادر ہوجانا اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے دیکھ لے کہ کائنات میں دوسری بہت سی قوتیں ایسی ہیں، جن کاابھی وہ اِدراک نہیں کرسکا ہے۔ اس لیے کہ ابھی تک وہ تجربے کے مرحلے سے گزررہاہے۔
انسانی عقل کے احترام کا تقاضاہے کہ ہم اپنی زندگی میں ’نامعلوم ‘ کومناسب مقام دیں۔ اس لیے نہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات اس کے حوالے کردیں ، جیساکہ اوہام و خرافات کے دل دادہ کرتے ہیں،بلکہ اس لیے تاکہ ہم حقیقی طورپر اس کائنات کی عظمت کااحساس کرسکیں اور اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی قدرو قیمت پہچان سکیں۔
اسی طرح اس کایہ بھی تقاضا ہے کہ وہ انسانی روح کے لیے بہت سی قوتوں کے دروازے کھول دے، جس سے معرفت حاصل ہوسکے اور ان روابط کاعلم ہوسکے، جو ہمیں اور ہماری داخلی دنیا کو اس کائنات سے جوڑے ہوئے ہیں۔ اس بات میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ یہ قوتیں ان تمام چیزوں سے زیادہ عظیم اور وسیع اور گہری ہیں، جن کاہم نے اب تک اپنی عقلوں سے اِدراک کیاہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے سامنے ہر دن کسی نئے ’نامعلوم‘ کا انکشاف ہورہاہے اور ہم برابر اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔

بارھواں خیال: اللہ کی عظمت کااعتراف اور انسان کی قدروقیمت

اس زمانے میں بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مطلق عظمت کا اعتراف کرنے سے: ’’انسان کی قدرو قیمت کم ہوجاتی ہے اور اس کائنات میں اس کی شان گھٹ جاتی ہے‘‘۔ گویا اللہ اور انسان دو حریف ہیں ،جو اس کائنات میں عظمت اور قوت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ایسا سوچنا محض جہالت ہے۔
میرااحساس ہے کہ جوں جوں اللہ کی مطلق عظمت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ ہوگا، اسی قدر ہمیں بھی عظمت حاصل ہوگی۔ اس لیے کہ ہم اس عظیم ہستی کی تخلیق ہیں۔
جولوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کامقام اس وقت بلند ہوتاہے، جب وہ اپنے خیال میں اپنے خالق اور معبود کا درجہ گرادیتے یا اس کا مطلق انکارکردیتے ہیں، تو یقین مانیے ایسے لوگ بے چارگی اور عقلی افلاس کی اس سطح پر گرے ہوئے ہیں کہ جو قریبی افق کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔
وہ گمان کرتے ہیں کہ انسان نے اپنے ’ضعف‘ اور ’عجز‘ کے زمانے میں اللہ کی پناہ حاصل کی تھی، لیکن اب، جب کہ وہ ’طاقت ور‘ ہوگیا ہے، اسے کسی معبود کی ضرورت نہیں! گویا کہ ضعف، بصیرت کے دروازے وَا کرتا اور طاقت وقوت اس پر خطِ نسخ پھیر دیتی ہے۔ انسان کے شایانِ شان یہ ہے کہ جوں جوں اس کی قوت بڑھے، اسی قدر اللہ کی عظمت ِمطلق کے بارے میں اس کے احساس میں اضافہ ہو۔ اس لیے کہ اس کی قوتِ ادراک میں جس قدر اضافہ ہوگا، اسی قدر وہ اس قوت کے سرچشمے کا بہ خوبی ادراک کرسکے گا۔

تیرھواں خیال:غلامی آزادی کے لبادے میں

بعض اوقات غلامی، آزادی کے لبادے میں چھپ جاتی ہے اور اس کا اظہار تمام پابندیوں سے آزادی، عرف اور روایات سے آزادی کی شکل میں ہوتا ہے۔
ذلت، دباؤ اور کم زوری کی قیود سے آزادی اور انسانیت کی قیود اور ذمے داریوں سے آزادی، دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ اول الذکر ہی حقیقی آزادی ہے، جب کہ دوسری آزادی فی الواقع ان قدروں سے عاری ہونا ہے، جنھوںنے انسان کو انسان بنایاہے اور اسے حیوانیت کی بھاری بیڑیوں سے آزاد کیا ہے۔یہ بناوٹی آزادی ہے۔ اس لیے کہ یہ حقیقت میں حیوانی جذبات و میلانات کے آگے خودسپردگی اور ان کی غلامی ہے۔ انسانیت نے ایک طویل عرصہ اس غلامی کی بیڑیوں کو کاٹنے اور آزاد فضا میں سانس لینے کی جدّوجہد کرتے گزارا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت اپنی ناگزیر ضروریات کے اظہار سے کیوں شرماتی ہے؟
دراصل وہ محسوس کرتی ہے کہ ان ضروریات سے بلندہو جانا انسانیت کی اوّلین قدر ہے۔ اس کی بیڑیوں سے نجات پانا ہی حقیقی آزادی ہے ۔ گوشت اور خون کے محرکات پر غلبہ پانا اور کم زوری اور ذلّت کے اندیشوں پر قابو پانا ، انسانیت کے مفہوم کو گہرا کرنے میں دونوں کا کردار برابر ہے۔

چودھواں خیال: بے عملی کا نظریہ، زندگی نہیں موت ہـے

میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اصولوں کو افراد سے الگ کرکے پیش کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے اور حرارت بخش عقیدے کے بغیر اصول کی کوئی حیثیت نہیں، اور ایسا عقیدہ انسان کے دل کے علاوہ اور کہیں کیوں کر پایاجاسکتا ہے؟
اصول اور افکار اگر حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے عقیدے پر مبنی نہ ہوں تو وہ محض کھوکھلے الفاظ ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ بے جان معانی ہیں۔ جو چیز ان کو زندگی بخشتی ہے وہ ایمان کی حرارت ہے، جو کسی انسان کے دل سے نکلتی ہے۔ دوسرے لوگ ہرگز کسی ایسے اصول یا نظریے پر ایمان نہیں لائیںگے ،جو کسی حرارت بخش دل میں نہیں، بلکہ جذبے اور اعلیٰ احساس سے عاری ذہن میں پیداہوا ہو۔
پہلے تم خود اپنے نظریے پر ایمان لاؤ۔ اس پر تمھارا ایمان حرارت بخش عقیدے کی حد تک ہو! تبھی دوسرے لوگ بھی اس پر ایمان لائیںگے ،ورنہ اس کی حیثیت محض چند کھوکھلے الفاظ کی ہوگی، جو روح اور زندگی سے عاری ہوں گے۔
اُس نظریے کے لیے کوئی زندگی نہیں جو کسی انسان کے سانچے میں نہ ڈھلاہو اور جس نے کسی ایسے زندہ وجود کی شکل نہ اختیار کی ہو، جو روے زمین پر کسی انسان کی صورت میں چلتاپھرتا ہو۔ اسی طرح اِس میدان میں اُس انسان کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، جس کے دِل میں کسی ایسے نظریے نے گھر نہ کیاہو، جس پر وہ حرارت اور اخلاص کے ساتھ ایمان ر کھتاہو۔
نظریے اور فرد کے درمیان فرق کرنا، روح اور جسم یا معنی اور لفظ کے درمیان فرق کرنے کا ہم معنی ہے۔ بسااوقات ایسا کر پانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر نظریے کو فرد سے الگ کردیاجائے، تو اکثر وہ فنا کے گھاٹ اترجاتا ہے۔صرف اسی نظریے کو زندگی ملتی ہے، جس کی پرورش انسان کے خونِ جگر سے ہوتی ہے۔ رہے وہ افکار جو اس پاکیزہ غذا سے محروم رہتے ہیں، وہ مردہ ہوتے ہیں اور ان میں انسانیت کو ایک بالشت بھی آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہوتی۔

پندرھواں خیال : گھٹیا ذریعے سے پاکیزہ مقصد کا حصول درست نہیں

میرے لیے یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ ہم کسی گھٹیا وسیلے کو کام میں لاکر کسی پاکیزہ مقصد تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکیزہ مقصد کسی پاکیزہ دل ہی میں زندہ رہ سکتا ہے۔ پھر اس دل کے لیے کیوں کر ممکن ہے کہ وہ کسی گھٹیا وسیلے کو بروئے کار لانے کو گوارا کرے؟
ہم جب کسی سرسبز و شاداب علاقے میں پہنچنے کے لیے کسی کیچڑ بھرے راستے سے ہوکر گزریںگے، تو ضروری ہے کہ اپنی منزل تک کیچڑ میں لت پت ہوکر پہنچیں۔کیچڑ سے ہمارے پیر بھی گندے ہوجائیںگے اور وہ جگہیں بھی، جہاں ہمارے پیر پڑیںگے۔ یہی حال اس وقت ہوگا، جب ہم کوئی گھٹیا اور گندا وسیلہ اختیار کریں گے۔ گندگی ہماری روحوں سے چپک جائے گی اور اس کے اثرات ہماری روحوں پر بھی پڑیں گے اور اس مقصد پر بھی جسے ہم حاصل کرناچاہتے ہیں۔
روح کے معاملے میں وسیلہ مقصد کا ایک جز ہے۔ عالمِ روح میں یہ امتیازات اور تقسیمیںنہیں ہوتیں۔ صرف انسانی شعور ہی ایسا ہے کہ جب اس میں کسی پاکیزہ مقصد کااحساس پیداہوتا ہے، تو وہ ہرگز کسی گھٹیا وسیلے کو اختیار کرنا گوارا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطری طورپر وہ ہرگز اسے اختیار نہیں کرے گا۔
’’مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی وسیلہ اختیار کیاجاسکتاہے‘‘___ یہ مغرب کاعظیم فلسفہ ہے! اس لیے کہ مغرب کی عظمت کاپرتو اپنے ذہن ودماغ کی شکست خوردگی کی وجہ سے ہے۔ وسائل اور مقاصد کے درمیان تقسیم اور فرق کرناذہنی طور پر ہی ممکن ہے،عمل کی دنیا میں نہیں۔

حج بیت اللہ کے لیے اللہ کے مہمان پوری شان اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دَر پر حاضری دیتے ہیں۔ بلاشبہہ بیت اللہ کی سعادت عظیم سعادت ہے۔ مسلم، عاقل، بالغ اور استطاعت رکھنے والے مرد و خواتین پر اس کی فرضیت مسلّم ہے، البتہ خواتین کے لیے محرم کی موجودگی بھی شرط ہے۔
حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے خوش نصیب عموماً اس کی تیاری کے لیے سازوسامان، احرام اور سفر سے متعلق اُمور کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں، جن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بنیادی اہمیت کے حامل اُمور کی طرف توجہ مبذول کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ذیل میں ان اُمور کا تذکرہ کیا جارہا ہے:

نیت کا استحضار

نیت قصد القلب، یعنی دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔ نیت عمل کے ذریعے اللہ کی اطاعت اور قربت حاصل کرنے کا نام ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات میں جابجا نیت کی اہمیت اُجاگر کی گئی ہے۔ حدیث النیات میں بھی متوجہ کیا گیا کہ اعمال کی قبولیت عنداللہ کا دارومدار نیت کی درستی پر ہے۔ بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں بھی صراحت ہے کہ لوگوں کو قیامت کے دن ان کی نیتوں کے مطابق اُٹھایا جائے گا۔(بخاری، بدء الوحی، حدیث: ۱، عن عمر بن خطابؓ)
گویا کہ نیت کا بنیادی مقصد عادت اور عبادت میں تمیز کرنا ہے۔ اسی طرح نیت کے  پیش نظر ایک عبادت کو دوسری عبادت سے ممتاز بھی کیا جاتا ہے۔ آج دین سے دُوری کے اس عالم میں عبادات بھی روایت بن گئی ہیں، پھر رسم و رواج کی صورت اختیار کرگئی ہیں۔ چنانچہ ان اہم عبادات اور فریضہ کی ادایگی کے لیے جاتے وقت صرف رضاے الٰہی کی نیت کی جائے، اللہ کی خوشنودی کو مدنظر رکھا جائے اور اپنے گناہوں کی بخشش کروانے کی سعی کی جائے۔

ریا سے اجتناب

 شیطان نے اولادِ آدم ؑ کو گمراہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

ثُمَّ لَاٰتِيَنَّہُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَيْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِيْنَ۝۱۷(اعراف ۷:۱۷) پھر مَیں آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا۔

یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ شیطان کبھی بھی تمام انسانوں کی گمراہی کے لیے یکساں اسلوب اختیار نہیں کرتا بلکہ ہرفرد کو اس کی مرغوباتِ نفس اور گمراہی کے اسباب کے مطابق ہی گمراہ کرتا ہے۔ بھیس بدل بدل کر اور نئے رُوپ میں آکر گمراہی کا سامان کرتا ہے۔ چنانچہ کبھی شیطان نیکوکاروں کو ان کی عبادت پر غرور کرنے، اوروں کو حقیر سمجھنے اور دکھاوے کے ذریعے گمراہ کردیتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ: میں تمھاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ چھوٹا شرک ’ریا‘ ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! چھوٹا شرک کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’ریاکاری‘۔ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریاکاروں سے اللہ فرمائے گا ان لوگوں کے پاس جائو جن کو دکھانے کے لیے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اور دیکھو کیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔ (مسنداحمد، حدیث:۲۳۶۳۰)
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا:جب الحزن  سے اللہ کی پناہ مانگو۔
صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! جب الحزن  کیا ہے؟
آپؐ نے فرمایا کہ: ’’یہ جہنّم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ اس میں وہ لوگ ڈالے جائیں گے جو نیکی محض لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
ان احادیث میں ہمارے لیے وعید ہے خصوصاً جب سے موبائل فون اور کیمرے کا استعمال بڑھا ہے، عمرہ و حج کے مناسک کی ادایگی کے دوران بھی کئی حاجی صاحبان ان کا استعمال کرتے ہیں جس سے پرہیز ضروری ہے۔

حقوق العباد کی ادایگی

اس سفرِ مقدس سے پہلے اس بات کا التزام کرنا چاہیے کہ جن لوگوں کی حق تلفی کی گئی ہو ان کے حق کی ادایگی کی جائے اور ان سے معافی تلافی کرلی جائے تاکہ یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول و منظور ہوسکے۔ اسی طرح اگر کسی کے ذمے کسی کے معاملات ہوں یا قرضہ و میراث کی ادایگی باقی ہو تو تمام تر حسابات بے باک کرلیے جائیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہؓ سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ (صحابہؓ نے اپنی دانست کے مطابق فرمایا) ہم مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں، دنیا کا سازوسامان نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری مراد اس وقت وہ مفلس نہیں۔ میری مراد  وہ شخص ہے جو قیامت کے دن اپنے اعمال میں نمازیں، روزے، عبادات لے کر آئے، لیکن لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس کی نیکیاں لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں اور لوگوں کے گناہ  اس کے نامۂ اعمال میں ڈال دیے جائیں۔ حقیقی مفلس وہ شخص ہوگا (ترمذی، ابن ماجہ)۔ چنانچہ ہمیں حقوق العباد کی ادایگی کرکے اپنے اعمال کے اجروثواب کی حفاظت کرنی چاہیے۔

حلال کا اہتمام

رزقِ حلال کے بغیر نہ کوئی دُعا قبول ہوتی ہے اور نہ عبادت کو شرفِ قبولیت ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ آپؐ نے اس شخص کا تذکرہ فرمایا جو دُوردراز کا سفر کرکے جائے۔ اس کے بال پراگندہ، منتشر، تھکاوٹ کے آثار غالب ہوں اور وہ اخلاص و عاجزی کا پیکر بن کر بارگاہِ الٰہی میں خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر ہاتھ اُٹھائے اور دُعائیں مانگے۔ لیکن آپؐ نے فرمایا: اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اس کی غذائیت حرام۔ پس اس کی دُعا کیسے قبول کی جاسکتی ہے؟(مسلم)
لہٰذا، حرام مال کی آمیزش سے اجتناب انتہائی ضروری ہے، وگرنہ عبادات کا اجروثواب کبھی حاصل نہ ہوگا۔ عبادت مکمل توجہ کے ساتھ ہو۔ ہر عبادت میں خشوع و خضوع اور عجزوانکسار مطلوب ہے۔ اور پھر حج بیت اللہ کی عبادات تو فقر ، عجز اور درویشی کا ایسا کامل اظہار ہیں کہ جس میں    سب ایک ہی طرح کے لباس، یعنی احرام میں ملبوس ہوں۔ وہ لباس سلا ہوا نہ ہو۔ مردوں کے سر پر کوئی چادر ٹوپی وغیرہ نہ ہو۔ سب کی صدا  لبیک اللھم لبیک ہو۔ بلاشبہہ یہ عجز و انکسار کا کامل نمونہ اور توجہ و انابت کا مکمل مظہر ہے۔ لہٰذا، عبادت کی طرف توجہ اور خشوع و خضوع کا اظہار مقصود ہے۔

مناسکِ حج کی تربیت 

حج کی تعلیمات ، مناسک اور احکام و آداب کو سیکھنے کے لیے مستند کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وزارتِ مذہبی اُمور اور بعض پرائیویٹ حج ٹور آپریٹر تربیتی پروگرامات کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان میں شرکت کی جائے اور بھرپور استفادہ کیا جائے۔ اگر شرعی اُمور کی سمجھ نہ آئے اور بعض وضاحت طلب اُمور ہوں تو علما سے رجوع کر کے علمی رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس حوالے سے مختلف اداروں کی ویڈیوز بھی دستیاب ہیں جن سے استفادہ مفید ہوتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ احرام کی پابندیاں ، مکروہات اور مفسداتِ حج، دم واجب ہونے کی صورتیں جاننا انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ اُمور پہلے سے سمجھ لیے جائیں تو دورانِ حج آسانی رہتی ہے۔ بصورتِ دیگر دورانِ حج تفصیلی نہ سہی، سرسری طور پر معلّمین سے رہنمائی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔

دیگر فقہی احکام کی معلومات

عام طور پر اور حج کے دنوں میں خصوصی طور پر حرم میں تقریباً ہرنماز کے بعد نمازِ جنازہ    ادا کی جاتی ہے۔ نمازِ جنازہ کا طریقہ سیکھ لیں اور اپنے دیگر ہم سفر ساتھیوں کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ حرمین میں فجر کی اذان سے قبل تہجد کی اذان دی جاتی ہے، جس کے بعد لوگ جوق در جوق مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ اس وقت کی عبادات کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ عموماً خواتین کو باجماعت نماز کے طریقے کی آگاہی نہیں ہوتی ۔انھیں اس بارے میں پہلے سے معلومات دینی چاہییں تاکہ کامل یکسوئی سے وہ عبادت کریں۔ کبھی امامِ حر م جہری نماز میں آیت سجدہ کی تلاوت کرکے     اللہ اکبر کہہ کر سیدھے سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی آگاہی اور علم ضروری ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں فرمایا: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۝ (القلم۶۸:۴) ’’اور بے شک آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں‘‘۔

حُسنِ اخلاق کے بارے فرمانِ رسولؐ

۱- عَنْ مَالِکٍ اَنَّہٗ قَدْ بَلَغَہٗ  اَنَّ رَسُوْلُ اللہِ قَالَ: بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ (موطا،امام مالک، حدیث: ۱۶۲۷) امام مالکؒ سے روایت ہے کہ ان کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
’مکارم اخلاق‘ سے مراد وہ بہترین اخلاقی تصورات، اصول اور اوصاف ہیں، جن پر ایک پاکیزہ انسانی زندگی اور ایک صالح انسانی معاشرے کی بنیاد قائم ہو۔
۲- دوسری روایت:  اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ [السنن الکبرٰی، البیہقی، حدیث: ۱۹۳۳۱]’’مجھے تمام اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
’مکارم اخلاق کی تکمیل‘ سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاؑاور ان کے صالح پیروکار مختلف اوقات میں اور مختلف قوموں اور ملکوں میں اخلاقی فضائل کے مختلف پہلوئوں کو اپنی تعلیم سے نمایاں کرتے رہے اور اپنی عملی زندگی میں ان کے بہترین نمونے بھی پیش کرتے رہے، مگر کوئی ایسی جامع شخصیت اس وقت تک نہ آئی تھی کہ جس نے انسانی زندگی کے  تمام پہلوئوں سے متعلق اخلاق کے صحیح اصولوں کو مکمل طور پر بیان کیا ہو۔پھر ایک طرف خوداپنی زندگی میں ان کو برت کردکھایا ہو اور دوسری طرف ایک سوسائٹی اور ریاست کا نظام بھی انھی اصولوں کی بنیاد پر بنایا ہو اور چلا کر دکھایا ہو ۔ یہ کام باقی تھا جسے انجام دینے ہی کے لیے حضور نبی آخرالزماں  محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں خود مکارم اخلاق کی تکمیل کو اپنی بعثت کا اصل مقصد قرار دیا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مکارم اخلاق کی تکمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ضمنی کام نہیں تھا کہ آپؐ کا مشن تو کچھ اور ہو اور ضمناًآپؐ نے یہ کام بھی کردیا ہو، بلکہ دراصل یہ وہ اہم کام ہے جس کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مبعوث فرمایاتھا۔ ایک حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہؓنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں بتایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنُ  ، یعنی حضوؐرکا اخلاق قرآن تھا۔[مسنداحمد، حدیث: ۲۴۰۷۵]

ایمان اور اخلاق کا باہمی تعلق

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ: اَکْمَلُ الْمُؤمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا [ابوداؤد ، حدیث: ۴۰۸۳] ’’بروایت ابوہریرہؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مومنوں میںسے کامل تروہ ہے جو ان میں سے اخلاق میں بہتر ہے ‘‘۔ ایک اور حدیث کا ترجمہ  یہ ہے :’’سب سے وزنی چیز جوقیامت کے دن مومن کی میزان میں رکھی جائے گی وہ اس کا   حُسنِ اخلاق ہوگا‘‘۔ [ترمذی، حدیث: ۱۹۷۵]
اس حدیث میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کو کمال ایمان کا مدار قراردیا ہے۔ اس سے بھی اخلاق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ سے روایت ہے: اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنُکُمْ  اَخْلَاقًا [بخاری، حدیث: ۳۳۸۷  ]’’تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اخلاق کے اچھے ہیں‘‘۔

اخلاق حسنہ کی نصیحت

حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ (یمن کی طرف) پابہ رکاب ہونے کے بعد آپؐ نے سب سے آخری وصیت یہ فرمائی تھی کہ : اَحْسِنْ خُلُقَکَ لِلنَّاسِ [موطا،امام مالک، حدیث: ۱۶۲۱] ’’اے معاذؓ!لوگوں کے ساتھ بہتر اخلاق سے پیش آنا‘‘۔حضرت معاذؓ کو یمن بھیجتے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ آخری نصیحت فرمائی۔

مکارم اخلاق کی بنیادیں

۱- تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ  کی ایک حدیث میں جس کی روایت عطیہ السعدی نے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اہل تقویٰ کا مقام نہیںپاسکتا تا وقتیکہ وہ   ان چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دے جن میں (بظاہر )کوئی حرج نہیں ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ ان چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے جن میں حرج (گناہ ) ہے‘‘۔[ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الورع والتقویٰ، حدیث: ۴۲۱۳]
مراد یہ ہے کہ بعض اوقات جائز امور بھی حرام کاموں کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ اس لیے ایک مومن کے سامنے صرف جواز کا ہی پہلو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اس لحاظ سے بھی چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں یہ جائز کام حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔
۲-متقیانہ زندگی کا اصول:ابن ماجہ اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت عائشہؓنے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اے عائشہؓ! حقیر گناہوں سے بچتی رہنا، اس لیے کہ ان کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی‘‘۔ [ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، حدیث: ۴۲۴۱]
صغیرہ گناہ بظاہر ہلکا نظرآتاہے لیکن اسے بار بار کیا جائے تو دل زنگ آلود ہوجاتاہے اور کبائر سے نفرت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح صغیرہ گناہ کم خطرناک نہیں ہے۔ متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے صغیرہ گناہ سے بھی بچنا چاہیے۔
حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس خدا کی بڑائی کو سامنے رکھو جس کی نافرمانی کی جسارت کی جا رہی ہے‘‘۔اگر خداے بزرگ و برتر اورمالک یوم الدین کی عظمت اور اس کے عذاب کی ہولناکیاں پیش نظر ہوں، یعنی چشمِ تصور میںرہیں تو پھر انسان کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر بھی دلیر نہیں ہوسکتا۔
۳- وسائل و ذرائع کی پاکیزگی: مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ     ابن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کوئی شخص بھی خدا کے مقر ر کردہ رزق کو حاصل کیے بغیر موت کا لقمہ نہ بنے گا۔ سنو!اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور رزق کے حصول میں جائز ذرائع و وسائل کام میںلائو۔ رزق کے حصول میں تاخیر تمھیں ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، ج۲،ص۴۵۲)
اس روایت میں دو اہم دینی حقائق بیان کیے گئے ہیں:
اگر کسی بھی انسا ن کو رزق کے حصول میں ناکامی یا تاخیر محسوس ہو تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے رزق کی جو مقدار اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہے وہ بہرحال دیریا سویر اسے مل کر رہے گی۔
 یوں تو انسان بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی بظاہر دُنیاوی خوش حالی اور آسایش پا لیتا ہے ،لیکن یہ دراصل خدا کی طرف سے مہلت ہوتی ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تازیانہ برستا ہے ۔ حقیقی خوش حالی اور راحت و سکون تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہوئے حاصل ہو۔
مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص حرام مال کمائے ،پھر اس میں سے صدقہ دے تو وہ قبول کرلیا جائے اور پھر وہ اپنے مال میں برکت سے بھی نوازاجائے۔ اس کا متروکہ حرام مال صرف جہنم کا توشہ بن سکتا ہے ( اس سے آخرت کی سعادت و کامرانی حاصل نہیں کی جاسکتی)۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے۔ (یہ ایک حقیقت ہے کہ ) نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘۔ [مسنداحمد، حدیث: ۳۵۶۶]
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض مقصد کا پاک ہونا ہی کافی نہیںہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔
۴-علامت تقویٰ : ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت حسن بن علیؓ نے کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کلمات یاد کرلیے ہیں: ’’جو چیز شک میں مبتلا کرنے والی ہو، اسے چھوڑکر اس کام کو پسند کرلو جو شک و شبہہ سے با لاتر ہو۔ اس لیے کہ سچائی سراپا سکون و اطمینان ہے اور جھوٹ سراپا شک و تذبذب‘‘۔ (ترمذی، الذبائح، حدیث: ۲۵۰۲)
۵-توکّل: ترمذی  کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے، کہ ایک آدمی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹ کو باندھ کر توکل اختیار کروں یا اسے چھوڑ کر؟‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ لے اور پھر خدا پر توکّل کر‘‘۔(ترمذی، الذبائح، حدیث: ۲۵۰۱)
ترمذی اور مشکوٰۃ  کی ایک اور حدیث جس کی روایت حضرت عمرؓ نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :
اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو، جس طرح کہ توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ صبح سویرے خالی پیٹ (آشیانوں سے ) نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر پلٹتے ہیں۔ [ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب التوکل والیقین، حدیث: ۴۱۶۲]
پرندوں کے ساتھ تشبیہہ د ے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پیر توڑکر گھر میں بیٹھا رہے، بلکہ توکل یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے اسباب و وسائل کو کام میں لا کر نتائج خدا کے حوالے کردے۔
۶-شکر: مسنداحمد کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابو ہریرہؓ نے کی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’شکر گزار بے روزہ انسان صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح ہے‘‘ [مسنداحمد، حدیث: ۷۶۲۹]۔یعنی جو صبر کے ساتھ نفلی روزے رکھتا ہے اور جو شکر کے ساتھ خدا کی دی ہوئی حلال روزی کھا کر دن گزارتاہے، دونوں خدا کے ہاں درجہ میں برابر ہیں ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینے کے بعد بھی شکر اداکرتے تھے۔
ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابوہریرہؓنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو تم میں سے ( مال ، جسم اور وجاہت کے اعتبار سے) بالا تر ہیں، ان کو نہ دیکھو، اور جو تم سے (اس لحاظ سے)فروتر ہیں ،ان کو دیکھو ۔ اس طرح یہ صلاحیت پیدا ہوسکے گی کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے‘‘[صحیح ابن حبان ، کتاب الرقائق، باب الفقر، حدیث:۷۱۳]۔ ایک اورروایت ہے: ’’جب تم میں سے کسی کی نگاہ ایسے شخص کی طرف اٹھے جو مال اور جسمانی طاقت میں اس پر فضیلت دیا گیا ہے توچاہیے کہ اسے دیکھے جو ( اس لحاظ سے ) فروتر ہے‘‘۔ [مسلم، کتاب الزہد، والرقائق، حدیث:۵۳۷۵]
شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور دل و دماغ کی صلاحیتوں کو اللہ کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کیا جائے۔
۷- صبر:مسلم کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت صہیبؓ نے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا کام خیر ہی خیر ہے۔ یہ (سعادت) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اسے دُکھ پہنچتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے، تویہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اُسے خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ سراپا شکر بن جاتا ہے تویہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ گویا وہ ہرحال میں خیر ہی سمیٹتاہے‘‘۔[مسلم، کتاب الزہد والرقائق، حدیث:۵۴۲۹]
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جوایک قبر کے پاس بیٹھی رورہی تھی۔آپؐ نے فرمایا :’’اللہ کا تقویٰ اختیار کراور صبر سے کام لے‘‘۔ اس عورت نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچانتے ہوئے کہا :اپنی راہ لو ،میری جیسی مصیبت تم پر تو نہیں پڑی ہے۔ کسی نے اس سے کہا کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو تمھیں صبر کی تلقین فرمارہے تھے تووہ دوڑی ہوئی آئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بس صبر وہی ہے جو سینے پر پہلی چوٹ لگتے وقت کیاجائے‘‘۔ایک اور حدیث ہے کہ :’’اگر کوئی اللہ سے صبر کی توفیق مانگے تو اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے‘‘۔[بخاری، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور ، حدیث: ۱۲۳۶]

انفرادی اخلاق 

۱- ضبط نفس: حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو (حریف کو میدان میں )پچھاڑ دے ، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میںرکھے ‘‘۔(مسلم ، کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث: ۴۸۳۰)
حضر ت ابوہریرہؓنے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے نصیحت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا :’’غصہ نہ کرو‘‘۔ یہ بات آپؐ نے بار بار فرمائی:  لَا تَغْضَبْ(غصہ نہ کرو )۔[بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حدیث: ۵۷۷۱]
۲-عفو و حلم:حضرت عائشہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی سے کبھی بھی انتقام نہیں لیا مگر یہ کہ اللہ کی حرمت (شعائر اللہ یا حدوداللہ) پامال ہوتیں توآپ اللہ کے لیے انتقام لیتے تھے ۔ [بخاری ، کتاب الحدود، حدیث: ۶۴۱۶]
حضرت انسؓ دس سال تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہے۔     وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے نہیں ڈانٹا، نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوںنہیں کیا، نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا۔[مسلم، کتاب الفضائل، حدیث: ۴۳۷۰]
۳- وسعتِ ظرف:ابوالاحوص جشمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ انھو ں نے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:اگر میں کسی شخص کے پاس سے گزروں اور وہ میری ضیافت و مہمانی کا حق ادا نہ کرے اور کچھ عرصے کے بعد اس شخص کا گزر میرے پاس سے ہوتوکیا میں اس کی مہمانی کا حق اداکروں یا اس کی (بے مروتی اور روکھے پن )کا بدلہ لے لوں؟ توآپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ تم اس کی مہمانی کا حق ادا کرو‘‘۔(صحیح ابن حبان، حدیث:۵۴۹۳) 
۴-حیا: ۱-حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیاایمان ہی کی ایک شاخ ہے‘‘۔(مسنداحمد، حدیث: ۹۵۱۸]
 حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برہنہ ہونے سے بچو، کیونکہ تمھارے ساتھ وہ ہیں جو تم سے کبھی جدانہیں ہوتے اِلا یہ کہ رفع حاجت یا صنفی تعلق (میاں بیوی کے فرائض زوجیت)قائم کرنے کا موقع ہو۔ ان (فرشتوں ) سے شرمائو اور ان کا احترام کرو‘‘۔[ترمذی، الذبائح، ابواب الادب عن رسول اللہ، حدیث: ۲۷۹۵]
موطا، امام مالکؒ کی ایک حدیث ہے:’’ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتاہے۔ اسلام کا بنیادی وصف حیا ہے‘‘۔[شعب الایمان للبیہقی ،  فصل فی التواضع، حدیث: ۷۸۹۵]
۵-تواضع و انکساری:حضرت عمرؓ نے ایک بار منبر پر سے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو!تواضع وانکساری اختیار کرو۔ اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ’’جو اللہ کے لیے جھکتا ہے، اللہ اسے بلند کرتاہے۔ وہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے، حالانکہ وہ لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہے۔ اور جس نے تکبر کیا، اسے اللہ تعالیٰ گرادیتا ہے تو وہ لوگوں کی نگاہوں میں چھوٹا ہے، حالاںکہ وہ خود اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے ،یہاں تک وہ ان کے سامنے کتے اور سؤر سے بھی زیادہ ذلیل ہوجاتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے او رنہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپؐ کے پیچھے دو آدمی چلتے ہوئے دیکھے گئے ہوں (ابو داؤد، مشکوٰۃ)۔یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع و انکساری کا حال تھا۔
۶- شہرت سے پرہیز:حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اَنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِیَّ الْغَنِیَّ الْخَفِیَّ [مسلم، کتاب الزہدوالرقاق، حدیث: ۵۳۷۸] ’’اللہ تعالیٰ متقی،غنی اور گمنام بندے کوپسند کرتاہے‘‘۔
اس حدیث میں غنی کے معنی خود دار اور قناعت پسند کے بھی لیے جاسکتے ہیں اور اس کے معنی خوشحال کے بھی ہوسکتے ہیں ۔ الخفی سے مراد ایسا شخص ہے جو شہرت اور ناموری کا بھوکا نہ ہو۔
۷-قناعت:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو اسلام لایا اور اسے گزارے کے مطابق روزی میسر آگئی اوراللہ تعالیٰ نے اسے اپنی دی ہوئی روزی پر قناعت کی توفیق بخشی تو وہ فلاح و کامرانی سے ہم کنار ہوگیا‘‘۔[مسلم،مشکوٰۃ ،روایت عبداللہ بن عمرؓ ]
۸- میانہ روی:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خَیْرُالْاُمُوْرِ اَوْسَطُہَا ۔ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’حسن سیرت، بردباری اور میانہ روی ،نبوت کے اجزا میں سے چوبیسواں حصہ ہے‘‘۔ (ترمذی)۔ایک اور حدیث ہے: ’’اخراجات میں میانہ روی سے معاشی مسئلہ نصف رہ جاتا ہے‘‘۔ [شعب الایمان، البیہقی، باب الاقتصاد فی النفقۃ، حدیث: ۶۲۸۱]
۹-مستقل مزاجی: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین کے کاموں میں سے پسندیدہ کام وہ ہے جس پر کرنے والا پابندی کرے اور مستقل مزاجی دکھائے اگرچہ تھوڑا ہو‘‘[مسلم، حدیث: ۱۳۴۵]۔ استقلال کے ساتھ تھوڑا کام نتائج کے لحاظ سے بہتر ہے کہ وقتی جوش کے تحت ہنگامی کام کرڈالے اور پھر خاموش ہوجائے‘‘۔
۱۰-فیاضی: حضرت عبداللہ بن زبیرؓسے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓاور حضرت اسماؓ بنت ابوبکر سے بڑھ کر فیاض عورتیں نہیں دیکھیں۔
۱۱- امانت و دیانت: ۱-حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار چیزیں تمھیں میسر ہوں تو دُنیا کی کسی چیز سے محرومی تمھارے لیے نقصان دہ نہیں ہے: (۱)امانت کی حفاظت(۲) راست گفتاری (۳)خوش خلقی اور (۴) روزی میں پاکیزگی‘‘۔ [مسند احمد، حدیث: ۶۴۸۲]
۱۲- حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو تمھارے پاس امانت رکھے، اسے اس کی امانت ادا کردو، اور جوتم سے خیانت کرے، تم اس سے خیانت نہ کرو‘‘۔[ترمذی، ابواب البیوع عن رسولؐ اللہ، حدیث: ۱۲۲۲]
اللہ تعالیٰ ہمیں حُسنِ اخلاق کی اہمیت کو سمجھنے،مکارم اخلاق کی بنیادوں کو مضبوط بنانے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں بہترین انفرادی اخلاق کو اپنانے اور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔

احنف بن قیس ایک بڑے عرب سردار تھے۔ مشہور تھا کہ: اگر احنف کو غصّہ آتا ہے تو ایک لاکھ تلواروں کو غصّہ آجاتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت تو انھوں نے نہیں کی، مگر آپؐ کی زیارت کرنے والوں کی زیارت کی اور ان کے ساتھ رہے۔ خاص طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بڑے معتقد اور مخلص تھے۔ ایک دن کسی قاری نے یہ آیت تلاوت کی:

لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ  ذِكْرُكُمْ ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۰ۧ (الانبیا ۲۱:۱۰)     ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا ہی تذکرہ موجود ہے۔ تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے؟ عربی اُن کی زبان تھی، یہ سن کر چونک پڑے۔ گویا نئی بات سنی، کہنے لگے: ’’ہمارا تذکرہ! ذرا قرآن تو لائو، دیکھوں میرا کیا تذکرہ ہے اور میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں؟‘‘قرآن مجید دیکھا تو لوگوں کی صورتیں ان کے سامنے سے گزرنے لگیں۔

ایک گروہ آیا جس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَہْجَعُوْنَ۝۱۷ وَبِالْاَسْحَارِہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۝۱۸ وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۱۹ (الذاریات   ۵۱:۱۷-۱۹) وہ لوگ رات کو بہت کم سوتے تھے اور آخر شب میں استغفار کیا کرتے تھے اور ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق تھا۔

پھر کچھ ایسے لوگ آئے جن کا حال یہ تھا کہ:

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۡوَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۱۶ (السجدہ   ۳۲:۱۶) ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے رب کو اُمید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔

پھر کچھ ایسے کہ:

يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا۝۶۴ (الفرقان   ۲۵:۶۴) راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدے اور قیام میں لگے رہتے ہیں۔

پھر ایک قافلہ گزرا جس کی شان یہ تھی کہ:

يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ۝۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۳۴ۚ(اٰل عمرٰن   ۳:۱۳۴) خرچ کرتے ہیں فراغت میں اور تنگی میں اور غصے کو ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور اللہ ایسے نیکوکاروں کو محبوب رکھتا ہے۔

ابھی نظر بھر کر ان کو دیکھ نہیں سکے تھے کہ کچھ ایسے جوان مرد سامنے آگئے جن کا عالم یہ تھا:

وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۝۰ۭۣ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۹ (الحشر   ۵۹:۹) دوسروں کو اپنے اُوپر ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کو تنگی و فاقہ ہو اور (واقعی) جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے وہ بڑا کامیاب ہے۔

ابھی ہٹے ہی تھے کہ ایک دوسرا نمونہ سامنے آیا:

كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْـفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ہُمْ يَغْفِرُوْنَ۝۳۷ۚ وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۝۰۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ  ۝۰۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳۸ۚ (الشوریٰ   ۴۲:۳۷-۳۸) جو بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں اور جب ان کو غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور و ہ نماز کے پابند ہیں اور ان کا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور ہم نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

حضرت احنف اپنے کو پہچانتے تھے۔ کہنے لگے: ’’خدایا! میں تو ان میں کہیں نظر نہیں آتا‘‘۔ اب انھوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اس میں ان کو اور طرح طرح کے آدمی نظر آنے لگے۔

ایک بھیڑ ملی، جس کا حال یہ تھا:

اِذَا قِيْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ۝۰ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ۝۳۵ۙ وَيَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِـہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ۝۳۶ۭ (الصّٰفّٰت   ۳۷:۳۵-۳۶) جب ان سے کہا جاتا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کیا کرتے اور کہتے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعرِ دیوانہ کی وجہ سے چھوڑ دیں گے؟

اور آگے بڑھے تو کچھ ایسے لوگ ملے کہ:

وَاِذَا ذُكِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ (الزمر   ۳۹:۴۵) جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں، اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھِل اُٹھتے ہیں۔

کچھ ایسے بدقسمت بھی کہ جب ان سے کہا گیا: مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ ۝ (المدثر ۷۴:۴۲)’’تم کو دوزخ میں کس بات نے داخل کیا؟‘‘ تو وہ جواب دیں گے:

قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۝۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۝۴۴ۙ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۝۴۵ۙ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۝۴۶ۙ حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۝۴۷ۭ (المدثر   ۷۴: ۴۳-۴۴) ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے اور نہ غریب کو کھانا کھلایا کرتے تھے اور ہم باتیں بنانے والوں کے ساتھ خود بھی مشغول ہوجاتے تھے اور ہم آخرت کا انکار کرتے تھے، یہاں تک کہ ہم کو موت آگئی۔

حضرت احنف یہ صورتیں دیکھ کر گھبرا گئے۔ کہنے لگے کہ خدایا! ایسے لوگوں سے تیری پناہ! مَیں ان سے بے زار ہوں، اورمجھے ان سے کوئی تعلق نہیں۔

وہ اپنے متعلق نہ تو دھوکے میں تھے اور نہ ایسے بدگمان کہ اپنے کو مشرکوں اور باغیوں میں سمجھ لیں۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت دی ہے اور ان کا مقام بہت بلند نہ سہی مگر ان کی جگہ مسلمانوں ہی میں ہے۔ ان کو ایسی صورت کی تلاش تھی جس کو وہ اپنی کہہ سکیں۔ ان کو اپنے ایمان کا یقین بھی تھا اور اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا علم بھی۔ اور اللہ کی رحمت اور مغفرت پر بھروسا بھی۔ نہ ان کو اعمال پر غرہ تھا نہ خدا کی رحمت سے مایوسی۔ ان کو اس ملی جلی صورت کی تلاش تھی اور اس کا یقین تھا کہ وہ صورت اس جامع و مکمل، اس زندہ و تازہ کتاب میں ضرور ملے گی۔ انھوں نے سوچا: کیا ایسے خدا کے بندے نہیں ہیں جو ایمان کی دولت بھی رکھتے ہیں ، اپنے گناہوں اور تقصیروں پر شرمندہ بھی ہیں؟ کیا خدا کی رحمت ان کو محروم رکھے گی؟ کیا اس کتاب میں جو سارے انسانوں کے لیے ہے، ان کی صورت اور ان کا تذکرہ نہیں ملے گا؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔

حنف کو بالآخر اپنی تلاش میں کامیابی ہوئی اور اللہ کی اس پاک کتاب میں اپنے کو ڈھونڈ نکالا:

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّــئًا ۝۰ۭ عَسَى اللہُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ  اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۰۲ (التوبۃ   ۹:۱۰۲) اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنی خطائوں کا اقرار ہے۔ انھوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے کچھ بُرے۔ اللہ سے اُمید ہے کہ ان کے حال پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے۔بلاشبہہ اللہ بڑی مغفرت والابڑی رحمت والا ہے۔

انھوں نے کہا: بس بس میں مل گیا۔ میں نے اپنے کو پالیا۔ مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ مجھے خدا کی توفیق سے جو کچھ نیک اعمال ہوئے ان کا انکار نہیں۔ ان کی ناقدری نہیں، ناشکری نہیں۔ مجھے خدا کی رحمت سے نااُمیدی نہیں: وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۝۵۶ (الحجر ۱۵:۵۶) ’’اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوسکتے ہیں جو گمراہ ہیں‘‘۔ ان سب سے مل جل کر جو صورت تیار ہوئی وہ میری صورت ہے۔ اس آیت میں میرا اور میرے جیسوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور ان کا نقشہ کھینچا گیا ہے___ قربان اپنے رب کے جس نے اپنے گناہ گار بندوں کو فراموش نہیں فرمایا۔

حضرت احنف کی تلاش کا یہ قصہ ختم ہوگیا۔ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے پاس پہنچ گئے، مگر یہ کتاب موجود ہے اور قیامت تک رہے گی۔ قومیں اگر اپنے کو اس میں تلاش کریں گی تو پالیں گی۔ جماعتیں اور مختلف طبقے اگر اپنے کو اس آئینے میں دیکھنا چاہیں تو دیکھ لیںگے۔ افراد ، ہم اور آپ___ اگر اپنے کو تلاش کرنے نکلیں گے تو ان شاء اللہ ناکام واپس نہیں ہوں گے۔ حضرت احنف نے ہم کو سچی تلاش کا ایک نمونہ دکھلایا اور قرآن پڑھنے اور اس پر غور کرنے کا صحیح طریقہ سکھا گئے۔ ہمیں اس نمونے اور تعلیم سے فائدہ اُٹھا کر قرآنِ مجید کا مطالعہ شروع کرنا چاہیے۔

حسن بصریؒ فرماتے ہیں: اے ابن آدم!دن تمھارے پاس مہمان ہوکرآتا ہے اس لیے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرو۔ اگر تم بہتر سلوک کرو گے تو وہ تمھاری تعریف کرتے ہوئے چلا جائے گا۔ اگر بدتر سلوک کرو گے تو تمھاری مذمت کرتے ہوئے چلا جائے گا۔ اسی طرح رات کا بھی معاملہ ہے۔

ان ہی کا قول ہے: ابن آدم پر آنے والا ہر دن کہتا ہے اے ابن آدم! میں نئی مخلوق ہوں، تیرے کاموں پر گواہ ہوں، اس لیے مجھ سے فائدہ اُٹھا کیوں کہ جب مَیں چلا جائوں گا تو قیامت تک واپس نہیں آئوں گا۔ تم جو چاہو اگلی زندگی کے لیے پیش کرو، تم اس کو اپنے سامنے پائوگے اور جو چاہو پیچھے کرو وہ لوٹ کر دوبارہ تمھارے پاس نہیں آئے گا۔

تنظیمِ وقت کے بارے میں ہدایات

منصوبہ بندی اور فہرست اُمور کی تکمیل کے بعد اور ان کے نفاذ کے دوران رکاوٹوں سے بچنے اور بہترین نتائج و ثمرات حاصل کرنے کے لیے چند ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

  • اپنے یومیہ کاموں کی فہرست پر نظر رکھیں اور اس فہرست کو بنانے کی عادت ڈال لیں اور اس پر عمل کریں۔
  •  کاموں کو جلدی انجام دینے والے بنیں اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ سب سے اہم قدم ابتدائی ہوتے ہیں۔ میزائل اپنے بارود کا ۸۰ فی صد حصہ پہلے لمحات میں پھینکتا ہے۔

قرآن کریم نے مسابقت اور جلدی کرنے پر ہم کو اُبھارا ہے:

  •  وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۳ۙ (اٰل عمرٰن۳:۱۳۳) اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف لپکو  جس کی وسعت آسمان اور زمینوں کے برابر ہے جو متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان پر پیش آنے والے سب سے زیادہ سخت ترین حالات میں بھی ہم کو مسابقت کا حکم دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر قیامت آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو اور اس کو بو سکتا ہو تو بوئے۔ کیا تم نے اس سے زیادہ مسابقت کی خواہش دیکھی ہے کہ پودا بویا جائے اور اس کے نتیجے کا انتظار نہ کیا جائے۔

  •  ہمیشہ مشکل یا طبیعت پر بار کاموں سے ابتدا کریں اور ان کو نشاط و چُستی کے اوقات میں انجام دیں۔ یہ اصول اچھی طرح سمجھ لیں کہ ابتدا جس طرح ہوگی انتہا بھی اسی طرح ہوگی، یعنی جتنے اچھے اور بہتر انداز میں کام کی ابتدا ہوگی اسی اچھے انداز میں وہ کام انجام پائے گا۔
  • بڑے کاموں پر زیادہ توجہ دیں۔ اس کو اجزا میں تقسیم کریں یا متعدد کاموں میں بانٹ دیں، اور ان کو انجام دینا شروع کردیں، ان شاء اللہ وہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچیں گے۔

کاموں کو انجام دینے والے بنیں، اس طور پر کہ:

  • ایک ہی کام پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ اپنی محنت اور دماغ کو تقسیم نہ کریں۔ ایک ہی وقت میں ایک سے زائد کام نہ کریں،اور اللہ کا فرمان یاد رکھیں:

 مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِہٖ ۝۰ۚ (الاحزاب ۳۳:۴) اللہ تعالیٰ نے  کسی شخص کے دھڑ میں دو دل نہیں بنارکھے۔

  •  تردّد نہ کریں، جو کام اپنے سامنے ہو اسے انجام دیں۔ اس کو مکمل کرنے سے پہلے دوسرا کام ہرگز شروع نہ کریں: اگر تم صاحب الراے ہو تو پختہ ارادے والے بنو، کیوں کہ راے کے بگاڑ کی وجہ سے تردّد ہوتا ہے۔
  • اپنے کاموں میں پختگی پیدا کریں۔ کاموں کو انجام دینے کے لیے بہترین طریقہ اپنائیں۔ کاموں میں پختگی دینی فریضہ ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے اور اس سے آپ کی محنت اور وقت کی بچت ہوتی ہے۔ اپنے کیے ہوئے کام کی طرف دوبارہ رجوع کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی (اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کو انجام دے تو پختگی کے ساتھ انجام دے)۔
  • حتی الامکان وقت ِ مقررہ پر کام پورا کرنے کی کوشش کریں۔
  • معذرت کرنا اور ’نہ‘ کہنا بھی ایک فن ہے جسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، وہاں ’نہ‘ کا لفظ استعمال کرنا مشکل کا باعث بن جاتا ہے اور اس سے کبھی ذمہ دار کو غصہ آسکتا ہے۔ اس لیےکبھی ’نہ‘ نہ کہو، لیکن نفی اس انداز میں کریں کہ کسی کو غصہ نہ آئے، یعنی سلیقے سے معذرت کریں، مثلاً آپ اپنے ذمہ دار کے پاس جائیں اور اپنی ذمہ داریوں اور پہلے انجام دیے جانے والے ضروری کاموں کی تفصیل بتائیں تاکہ اس کو اطمینان ہوجائے کہ آپ مشغول ہیں۔
  • اپنے کاموں کو منقطع نہ کریں بلکہ مکمل کرنے کی عادت ڈالیں۔
  • حافظ عینی نے اپنی کتاب عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ امام محمد بن سلام املا کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ الحدیث بیان کر رہے تھے کہ محمد بن سلام کا قلم ٹوٹ گیا۔ انھوں نے اعلان کرنے کا حکم دیا کہ ایک دینار میں ایک قلم چاہیے۔ ہر طرف سے قلموں کی بارش ہوگئی۔ انھوں نے ایک قلم کے لیے ایک دینار کی قربانی دی تاکہ اپنے شیخ کا جاری کام منقطع نہ ہو (دینار اس دور میں بہت بڑی رقم تھی)۔
  • خطیب بغدادی نے جاحظ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ جب بھی کوئی کتاب اس کے ہاتھ لگتی تو اس کو شروع سے آخر تک پڑھتے، لیکن آج کے دور میں سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی کتاب کو خریدنے والے ۱۰ فی صد لوگ بھی پہلی فصل سے آگے نہیں بڑھتے۔ کیا آپ نے سنجیدہ قوم اور بیکار قوم کے درمیان فرق دیکھ لیا؟
  • وقت ضائع کرنے والی چیزوں کا مقابلہ مہارت سے کیجیے۔ وقت ضائع کرنے والے بعض اُمور شخصی ہوتے ہیں، مثلاً منصوبہ بندی اور کاموں کی حوالگی کی ضرورت، انتشار، ٹال مٹول، انکار کی عدم صلاحیت، دل چسپی کا فقدان اور اُکتاہٹ، زائد مثالیت، مناقشہ اور جدل سے دل چسپی اور لگائو۔وقت ضائع کرنے والے بعض اُمور ہنگامی ہوتے ہیں، مثلاً ملاقاتی، فون، ٹی وی، میٹنگوں کی کثرت، انتظار، ہنگامی حالات، خطوط کی کثرت، روٹین اور تجاویز،  یہ بات صرف آپ پر ہی موقوف ہے کہ آپ ان اُمور کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔
  • دورِ حاضر کی ایجادات جس میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں، ان کے فوائد بھی بہت ہیں مگر اس میں احتیاط کی بہت ضرورت ہے۔
  • ٹیلی وژن ___ اس کا استعمال کسی ایک چینل کی خبروں تک تو معلومات کی ضرورت پورا کرتا ہے مگر اہتمام کے ساتھ روز کے چند گھنٹے اس پر خرچ کرنا اپنے ساتھ ظلم ہے۔ یہ کچھ لوگوں کا ایک کاروبار ہے جس کے نفع میں ہمارا وقت، توانائی اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔
  • انٹرنیٹ، ای میل اور ٹیکسٹ میسجز میں توازن رکھیں کہ یہ آپ کے وقت کو کھا جاتے ہیں۔
  • سوشل میڈیا پر اتنا ہی وقت خرچ کریں جس کا آپ کو فائدہ ہو اور غیرضروری طور پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔
  • ہنگامی افکار و خیالات سے بچنا۔ کاموں کے دوران بہت سے افکار ذہن میں آتے ہیں، جن کو ہم اس وقت اہم سمجھتے ہیں ۔ کبھی ہم اس کی خاطر اپنا کام منقطع کرتے ہیں یا کم از کم تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ان میں مشغول ہوجاتے ہیں، مثلاً فلاں سے رابطہ، کسی گم شدہ چیز کی تلاش اور دوسرے کام کو شروع کرنا وغیرہ۔ اس وقت آپ پر مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے:
  • ان افکار کو قبول نہ کریں کیونکہ یہ وقت برباد کرنے والے ہیں۔
  • اپنا کام منقطع نہ کریں ، مگر یہ کہ کوئی واقعی ضرورت ہو۔
  • ان افکار کو بعد میں غور کرنے کے لیے کسی کاغذ پر لکھ لیا کریں۔ پھر اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اس فہرست پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
  • اپنے کاموں کو پانچ منٹ کے نسخے سے انجام دیں۔ بہت سے کام پانچ منٹ سے زیادہ کے نہیں ہوتے، مثلاً کسی کی راے معلوم کرنا، مختصر رپورٹ تیار کرنا وغیرہ۔ ان کاموں کو  فی الفورانجام دے کر ان سے چھٹکارا پانا چاہیے۔ اسی انداز سے ٹیلی فون اور موبائل پر اپنی پچھلی ملاقات سے اب تک کا حال بیان نہ کریں۔
  • انتظار کے باعث ضائع ہونے والے اوقات سے فائدہ اُٹھایئے، مثلاً سواری کے انتظار میں گزرنے والا وقت اور کاموں کے درمیان ملنے والے اوقات وغیرہ۔ یہ انتظار کے اوقات ہمارے تصور اور گمان سے زیادہ ہیں۔ اگر ہم ان اوقات سے استفادہ کریں گے تو ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔ہم ان کاموں کی فائل تیار کرسکتے ہیں جن کو ضائع ہونے والے اوقات میں انجام دیا جاسکتا ہے، مثلاً اخبارات کا مطالعہ، قرآن کی تلاوت، کسی کتاب کا مطالعہ، کیسٹس سننا، فون پر کسی سے رابطہ کرنا، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے حالات دریافت کرنا وغیرہ۔ دورِحاضر میں موبائل فون پر موجود سہولتوں سے خاص کر ای میل ڈرافٹ کی جاسکتی ہیں۔
  • ایک کام ختم ہونے کے بعد اپنے دوسرے کام کی طرف منتقل ہوجائیں۔ کاموں کے درمیان کا اپنا وقت ضائع نہ کریں۔

 قاضی شریح کا گزر جولاہوں کی قوم سے ہوا، وہ کھیل رہے تھے۔ قاضی صاحب نے ان سے پوچھا: تم کھیل کیوں رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: ہم اپنے کاموں سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اس پر قاضی صاحب نے فرمایا: کیا فارغ شخص کو اسی کا حکم دیا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہے:

             فَاِذَا  فَرَغْتَ فَانْصَبْ O (الم نشرح ۹۴:۷) جب تم فارغ ہوجائوتو میری عبادت کے لیے کھڑے ہوجائو۔

  •   ایک کام اور دوسرے کام کے درمیان وقت کو ضائع نہ کریں۔
  • اپنے وعدوں کا خیال رکھیں۔ جس سے کسی بھی قسم کا وعدہ کریں اسے کاغذ، کارڈ یا موبائل پر ریکارڈ کرلیں۔
  • اپنے مقررہ اوقات کو اچھی طرح ترتیب دیں۔
  • وقت، جگہ اور مقررہ جگہ پہنچنے کے وسائل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرلیں۔
  • پہلے سے وقت کے تعین کے بغیر کسی سے ملاقات کے لیے نہ جائیں۔ دوسروں سے ان کے اپنےاوقات سے استفادہ کرنے میں تعاون کریں۔
  • ملاقات کے آداب کا خیال رکھیں۔
  • اُکتاہٹ سے بچیں، راحت اور آرام کے لیے بھی ایک وقت متعین کریں، لیکن اس کی بھی حد ہو۔
  • شیخ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں: ’’ہماری زندگی سنجیدہ ہونا ضروری ہے جس کے دوران کچھ راحت کا وقت ہو، نہ کہ ہماری زندگی راحت بن جائے اورسنجیدگی کے لیے کچھ وقت دیا جائے‘‘۔
  •  سیّدنا علیؓ نے فرمایا: ’’دلوں کو راحت دو کیونکہ دل جب تھک جاتے ہیں تو اندھے ہوجاتے ہیں‘‘۔
  • ہماری مشکل یہ ہے کہ راحت اور آرام اپنے حق سے زیادہ وقت لے لیتے ہیں۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ راحت کے لیے مناسب وقت ہو اور اس کی مناسب حدود ہوں اور یہ گناہ کی حد تک نہ پہنچ جائے، بلکہ اگر انسان مفید چیزوں کے ذریعے اپنے نفس کو راحت پہنچائے تو آرام کے مقابلے میں یہ زیادہ بہتر ہے۔
  •  ابن عباسؓ جب گفتگو سے تھک جاتے تو کہتے: ’’شعرا کا دیوان لے آئو‘‘۔محدث ابن شعبہؒ جب حدیث کو اِملا کرا کے تھک جاتے تو اشعار گنگنانے لگتے۔ بہتر یہ ہے کہ ہمارے منصوبے کے ضمن میں راحت بھی ہو۔ اس طرح اُکتاہٹ کا احساس بھی ختم ہوجائے گا اور راحت کے اوقات بھی متعین ہوجائیں گے۔
  • اُکتاہٹ کے اسباب کو معلوم کر کے اس کا علاج بھی کرنا چاہیے۔ اسی طرح اپنے کام کرنے کی جگہ یا اپنی ڈائریوں کی تبدیلی سے بھی اُکتاہٹ دُور ہوجاتی ہے۔
  • ورزش: اپنے جسم کو چست و توانا بنانے کے لیے ورزش پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر انجام دے سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ہمیشہ یاد رکھیں: ’’طاقت ور مومن بہتر اور پسندیدہ ہے، کمزور مومن کے مقابلے میں‘‘۔
  • پرانی کہاوت ہے: ’’صحیح و سالم جسم میں عقلِ سلیم ہونی چاہیے‘‘۔
  • محمد بن ابی حاتم امام بخاری کے بارے میں کہتے ہیں: ’’میں بہت سالوں تک ان کے ساتھ رہا لیکن میں نے صرف دو مرتبہ ان کے تیر کا نشانہ خطا ہوتے دیکھا۔ دوڑ میں ان کے مقابلے میں کوئی کامیاب نہیں ہوتا تھا‘‘۔
  • امام بخاری علم میں اپنی مشغولیات کے باوجود نشانہ بازی اور دوڑ میں حددرجہ مشق کرتے تھے۔ سوچنا چاہیے کہ ہمارے لیے ان لوگوں کی پیروی کرنا کتنا ضروری ہے۔
  • اپنے وقت کی ترتیب کی پابندی کیجیے،اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے۔ اپنے آپ کو صبر اور پابندی کے ہتھیار سے مسلح رکھیں اور ہروقت ذہن میں یہ آیت کریمہ مستحضر رہے:

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا  لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت ۲۹:۶۹) جو ہم میں کوشش اور مجاہدہ کرتے ہیں، ہم ان کے لیے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔

اہم ہدایات

  •  مؤثر (effective)بننے کی کوشش کریں۔ وہ کام کریں جو آپ کا فریضہ ہے۔
  •  جو کام آپ کا ہے اس کے لیے مستعد (efficient) بننے کی کوشش کریں۔ یعنی سلیقے سے، بہتر انداز سے اور کم وقت میں کرنے کی کوشش کریں۔
  • اپنے یومیہ اوقات کی پابندی کریں۔
  •  کاموں کو جلدی انجام دینے والے بنیں۔
  •  مشکل کاموں سے ابتدا کریں۔
  • اپنے پرائم ٹائم یا نشاط کے اوقات کا خیال رکھیں اور اس میں اہم ترین کاموں کو کرنے کی کوشش کریں۔
  •  بڑی ذمہ داریوں پر خصوصی توجہ دیں۔
  •  کاموں کو انجام دینے والے بنیں۔
  •  اپنے کاموں میں پختگی پیدا کریں۔
  • مقررہ وقت پر کام مکمل کریں۔
  • کبھی کام کرنے سے انکار نہ کریں۔
  • اپنے کام کو منقطع نہ کریں۔
  • وقت ضائع کرنے والی چیزوں سے بچیں۔
  • ہنگامی افکار و خیالات سے بچیں۔
  •  پانچ منٹ کا نسخہ اپنائیں۔
  • انتظار کے باعث ضائع ہونے والے وقت سے استفادہ کریں۔
  • ایک کام مکمل کرکے اپنی دوسری ذمہ داریوں کی طرف منتقل ہوجائیں۔
  •  اپنے وعدوں کی پابندی کریں۔
  •  اُکتاہٹ سے بچیں۔
  • ورزش کی پابندی کریں۔
  • اپنے وقت کی ترتیب کی پابندی کریں۔

نگرانی اور جائزہ

نگرانی اور جائزے کا مطلب سابقہ منصوبے کے نفاذ کا موازنہ اس مقصد سے کرنا کہ غلطیوں کا تعین کیا جائے اور مثبت اُمور سے فائدہ اُٹھایا جائے اور منفی اُمور سے بچا جائے۔

فعال نگرانی کرنے کے اوصاف مندرجہ ذیل ہیں:

 نگرانی کی نوعیت

مفہوم

فوری

نگرانی اور جائزہ منصوبے کے نفاذ کے ساتھ ہی الاوّل فالاول کے اعتبار سے کی جائے تاکہ وقت نکلنے سے پہلے کوتاہیوں اور خامیوں کا علاج کیا جاسکے۔

استمراری

نگرانی مسلسل جاری رہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد نتائج کو جمع کیا جائے۔

اقتصادی

وقت اور محنت فائدہ سے زیادہ نہ خرچ کیے جائیں۔

اصلاحی

صرف غلطیوں کو لکھنے اور نفس کو ڈانٹنے کے مقصد سے نہ ہو۔

مضبوط

صرف حقیقت سے ہٹ کر جامد کارروائیاں نہ ہوں بلکہ منصوبہ اور اس کو نافذ کرنے کے حالات بھی مناسب ہوں۔

  •  کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے، اگر آپ کو زندگی کے پچاس سال نماز پڑھنے کی توفیق ملتی ہے، اور آپ فرض نمازوں کے ساتھ سنتیں بھی ادا کرتے ہیں، اور کسی قدر نوافل کا اہتمام بھی کرتے ہیں، تو آپ اپنی زندگی میں کتنی مرتبہ سورۃ الفاتحہ اور التحیات پڑھتے ہیں؟

 ایک مسلمان جسے اللہ نماز کی توفیق دے، وہ زندگی میں بلا مبالغہ لاکھوں مرتبہ سورۃ الفاتحہ پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ التحیات پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ نماز کے دوسرے اذکار اور دعائیں پڑھتا ہے۔ نماز کے یہ تمام اذکار اس پوری کائنات میں ادا کیے جانے والے بہترین کلمات ہیں۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ لاکھوں بار پڑھے جانے والے ان بہترین اذکار کا مفہوم بھی پڑھنے والے کے ذہن میں موجود رہے، اور جب وہ یہ بہترین کلمات لاکھوں بار اپنی زبان سے ادا کرے تو ہر بار  ان کے مفہوم کا لطف بھی اٹھائے؟

  • ذرا سوچیں، ہم نماز میں جو کلمات ادا کرتے ہیں، ان کا معنی ومطلب کتنا عظیم الشان اور زبردست ہوتا ہے، جبھی تو اللہ پاک نے زندگی بھر لاکھوں مرتبہ اپنے نیک بندوں کو انھیں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز کے اذکار زندگی کو سنوارنے، نفس کو پاکیزہ بنانے اور شخصیت کو ترقی دینے کی زبردست اور بے مثال تاثیر رکھتے ہیں۔ جب جسم کی حالت، زبان کے الفاظ اور دماغ کی کیفیت بالکل ایک سی ہوجاتی ہے، اور جب تینوں ایک ساتھ نماز ادا کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں تو دل کو نماز کا حقیقی لطف حاصل ہوتا ہے، اور نماز مومن کی معراج بن جاتی ہے۔
  • نماز تو ایمان اور عمل کی بے پناہ دولت کا زبردست خزانہ ہے۔ نماز سے زندگی کے ہر موڑ پر بہت بڑی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ نماز انسان کو ایسی بلندیوں تک پہنچاتی ہے جن کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایسی نماز کو زندگی بھر سمجھے بغیر پڑھتے رہنا سمجھ داری کا کام نہیں ہے۔ اقامت الصلوٰۃ کی طرف نہایت ضروری قدم ہے نماز کو سمجھ کر پڑھنا۔
  • کوئی کہہ سکتا ہے کہ نماز میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں اسے سمجھنا عام طور سے نہ تو نماز کے ارکان میں ذکر کیا جاتا ہے، نہ سنتوں میں اور نہ مستحبات اور آداب میں، تو پھر اس پر اتنا زور کیوں؟ میرے بھائی، حقیقت یہ ہے کہ نماز کو سمجھ کر پڑھنا تو نماز کی روح میں شامل ہے۔ اگر آپ کو رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِيْ کا مطلب معلوم نہ ہو اور آپ دونوں سجدوں کے درمیان اسے دُہراتے رہیں، اور ایک دن مطلب معلوم ہوجائے کہ ’’میرے رب مجھے معاف کردے اور میرے اوپر رحمت نازل کردے‘‘ اور پھر آپ یہ دعا دُہرائیں، یقین کریں آپ کو بہت بڑا فرق محسوس ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ مفہوم کے اثر سے آپ کا دل سوز سے لبریز ہوجائے اورآپ کی آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہوں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص ذائقے کے احساس سے محروم ہو اور بہترین قسم کے شیریں آم کھاتا رہے، پھر ایک دن اس کے ذائقے کی حس جاگ اٹھے اور آم کھاتے ہوئے اس پر انکشاف ہو کہ وہ کیسے شان دار ذائقے والی چیز مزا لیے بغیر کھارہا تھا۔ بلاشبہہ اس وقت اسے محسوس ہوگا کہ ذائقے کا احساس کتنی بڑی نعمت ہے جس سے وہ محروم تھا۔
  • عربی زبان نہ جاننے والے نماز کو سمجھ کر کیسے پڑھیں؟ یہ سوال بہت سے لوگوں کو فکر مند رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ مشورے یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
  • ٭پہلی بات: اس کام کو ضروری سمجھیں۔ امام سفیان ثوریؒ کہتے تھے: آدمی کو اس کی نماز کے اتنے حصے کا اجر ملے گا جتنا حصہ وہ سمجھ کر ادا کرے گا (حلیۃ الاولیاء)۔ مولانا محمد منظور نعمانیؒ بڑی دردمندی سے لکھتے ہیں: ’’خشوع وخضوع کی طرح نماز میں فہم ومعنی کی طرف سے بھی عام طور سے غفلت برتی جاتی ہے اور اس کی کوئی خاص ضرورت واہمیت نہیں سمجھی جاتی، حالانکہ خشوع وخضوع کی طرح یہ بھی نماز کی روح ہے اور بلاشبہہ اس کے بغیر نماز بہت ناقص درجے کی رہتی ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اللہ اللہ، دنیا میں کسی معمولی سے معمولی آدمی سے بھی بے سوچے سمجھے بات کرنا کسی کو پسند نہیں، مگر اللہ تعالیٰ سے عرض ومعروض کرنے کے لیے خود اپنی بات کا مطلب سمجھنے کی ضرورت اور اہمیت نہیں سمجھی جاتی، افسوس‘‘۔
  • دوسری بات: نماز میں دُہرائے جانے والے اذکار کا ترجمہ یاد کرلیں، مقدار کے لحاظ سے یہ بہت کم ہیں اور انھیں یاد کرلینا بہت آسان ہے۔ قارئین کی سہولت اور فوری عمل درآمد کے لیے یہاں ان اذکار کا ترجمہ درج کیا جارہا ہے۔

اللہ اکبر: اللہ سب سے بڑا ہے۔

 ثنا: اے اللہ !ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہیں، اور تیرا نام با برکت ہے، اور تیری شان اونچی ہے، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

  • استعاذہ: میں مردود شیطان سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔

 بسملہ: اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔

 سورۃ الفاتحۃ: ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے انسانوں کا ربّ ہے، رحمان اور رحیم ہے، روز جزا کا مالک ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، اور جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔

  •  سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْم: میں اپنے عظیم ربّ کی عظمت اور پاکی بیان کرتا ہوں۔
  • سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ : اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد کی۔
  •  رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ: ہمارے ربّ، تیرے ہی لیے حمد ہے۔
  •  سُبْحَانَ رَبِّيَ  الْاَعْلٰی: میں اپنے بلند ربّ کی پاکی اور عظمت بیان کرتا ہوں۔

 التحیات: تعظیم کے کلمات اللہ کے لیے، نیازمندیاں اللہ کے لیے، خوبیاں اللہ کے لیے۔ سلامتی ہو اے نبی آپ پر، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

  •  درود: اے اللہ محمدؐ پر اور محمدؐ کی آل پر رحمت نازل فرما، جس طرح ابراہیمؑ پر اور ابراہیم ؑ کی آل پر رحمت نازل فرمائی، بے شک حمد تیری ہے اور تو اونچی شان والا ہے۔ اے اللہ، محمدؐ پر اور  محمدؐ کی آل پر برکت نازل فرما جس طرح ابراہیم ؑپر اور ابراہیم ؑکی آل پر برکت نازل فرمائی، بے شک حمد تیری ہے اور تو اونچی شان والا ہے۔

 دعا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ  وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ، اے اللہ میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا، اور گناہوں کو معاف کرنے والا صرف تو ہے، اپنی طرف سے خاص معافی دے کر مجھے معاف کردے، اور مجھے رحمت عطا فرمادے، بلا شبہہ تو بہت معاف کرنے والا اور بہت مہربان ہے۔

 اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ: تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔

  •  مولانا محمد منظور نعمانیؒ ان اذکار کے حوالے سے بڑی حوصلہ افزا بات لکھتے ہیں: ’’اگر بالکل بے پڑھے آدمی بھی کوشش کریں تو ان شاء اللہ ہفتہ وعشرہ میں ان تمام اذکار کے معنی یاد کرسکتے ہیں‘‘۔
  •  تیسری بات: جو سورتیں آپ کو یاد ہیں، ان کا ترجمہ پہلی فرصت میں بار بار پڑھ کر ذہن میں بٹھالیں۔ عوام کو عام طور سے کچھ ہی سورتیں یاد ہوتی ہیں، ان کا ترجمہ وہ تھوڑی توجہ سے ذہن نشین کرسکتے ہیں۔ جو عربی دعائیں یاد ہیں ان کا مطلب معلوم کرتے رہنے کو بھی اپنا پسندیدہ شوق بنالیں۔ نمازوں میں ان دعاؤں کو ان کا مفہوم سمجھتے ہوئے دُہرانے میں ناقابل بیان لطف حاصل ہوتا ہے۔
  •  چوتھی بات: آج سے عہد کریں کہ جو بھی ذکر یا دعا یا سورت یاد کریں گے، اس کا ترجمہ بھی ضرور ذہن نشین کرلیں گے، اور وقتاً فوقتاً اسے تازہ کرتے رہیں گے۔
  •  پانچویں بات: عربی نہ جاننے والوں کو یہ سوال بہت زیادہ پریشان کرتا ہے کہ امام صاحب جب نماز میں قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کرتے ہیں، تو اسے مقتدی کیسے سمجھ کر سنیں؟ اس کا آسان اور بہترین حل موجود ہے، البتہ اس حل میں دو پروگرام ہیں۔ ایک زندگی بھر کے لیے مستقل پروگرام، اور دوسرا قلیل مدتی پروگرام، جس پر فوری عمل درآمد ہوسکتا ہے۔
  • مستقل پروگرام یہ ہے کہ روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کے لیے کچھ وقت مخصوص کرلیں، اور تلاوت کرتے ہوئے معمول یہ بنالیں کہ ہر ایک آیت کی تلاوت کے ساتھ ہی اس آیت کا ترجمہ بھی پڑھیں گے۔ اس طرح آیت بہ آیت ترجمے کے ساتھ قرآن ختم کرنے کو اپنا معمول بنالیں۔ اس طرح کے چار پانچ ختم کے بعد ایسا ہونے لگے گا کہ امام صاحب جب قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کریں گے تو آپ کے ذہن میں ایک ایک آیت کے ساتھ اس کا مفہوم بھی سامنے آتا رہے گا۔
  •  کم مدت والے فوری پروگرام کی تفصیل یہ ہے (اور یہ بڑے پتے کی بات ہے) کہ زیادہ تر ائمہ کرام اپنی نمازوں میں کچھ خاص سورتوں اور آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ ان سورتوں اور آیات کا آیت بہ آیت ترجمہ زیادہ کثرت سے پڑھیں تو ان کا مفہوم بہت کم وقت میں آپ کے ذہن نشین ہوجائے گا۔ سورۃ البقرۃ کا آخری رکوع، اسی طرح سورئہ آل عمران، سورۃ الفرقان،  سورۃ الزمر، سورۃ الحشر، سورۃ الصف، سورۃ المنافقون، سورۃ التحریم، ان سب سورتوں کے آخری رکوع۔ مزید سورۃ الجمعۃ، سورۃ الملک، سورۃ القیامۃ اور سورۃ المرسلات مکمل۔ اور آخری پارے کی تمام سورتیں، اور ان میں بھی خاص طور سے سورۃ الاعلیٰ سے سورۃ الناس تک کی سورتیں۔ ان سورتوں اور آیتوں کا مفہوم ذہن نشین کرنا اس لیے بھی بہت مفید ہے کہ ان میں ایمانی تربیت کا بہت خصوصی انتظام ہے۔
  •  ان کے علاوہ آپ خود بھی دھیان دے سکتے ہیں کہ آپ کی مسجد کے امام صاحب زیادہ تر کون سی سورتیں پڑھتے ہیں، ان سورتوں کا ترجمہ ذہن نشین کرنے پر آپ فوری توجہ دیں۔    آپ روزانہ اگر مناسب وقت اس اہم کام کے لیے خاص کرتے ہیں، تو یقین کریں چند ماہ کے اندر آپ زیادہ تر نمازوں میں محسوس کریں گے کہ امام صاحب نماز میں جو آیتیں تلاوت کررہے ہیں، وہ آپ بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ اس سے نماز کے لطف میں وہ اضافہ ہوگا کہ آپ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہے گا، اور آپ خود محسوس کریں گے کہ کتنی بڑی سعادت آپ کے حصے میں آگئی۔
  •  البتہ طویل مدتی منصوبہ، یعنی پورا قرآن مجید آیت بہ آیت ترجمے کے ساتھ ختم کرتے رہنے کا سلسلہ زندگی بھر جاری رہنا چاہیے۔ اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ یہ منصوبہ آپ کی زندگی کو بدل دینے کی قوت رکھتا ہے۔ جسے آیت بہ آیت تلاوت وترجمہ کا لطف مل جاتا ہے، وہ پھر عمر بھر  اسی معمول کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتا ہے۔
  •  اب تک ہمارے گھروں میں، مسجدوں میں اور کسی قدر اسکولوں میں بھی نماز سکھانے اور یاد کرانے کا تو اہتمام رہا ہے، مگر نماز سمجھ کر پڑھنے کی تربیت دینے پر توجہ بہت کم رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان اکثر لوگ نماز کو بِنا سمجھے پڑھتے ہیں۔ آپ کو اپنے بچوں اور آنے والی نسل کے سلسلے میں اہم فیصلہ کرنا ہے، وہ یہ کہ ان کی آخرت کو بہتر بنانے کے لیے انھیں نماز سمجھ کر پڑھنے کی تعلیم اور تربیت لازمی طور پر دی جائے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل ابتدائی عمر میں اگر اذکار کچھ  سمجھے بغیر یاد کرائے جائیں، اور مفہوم ذہن نشین کرانا ممکن نہ لگے، تو کچھ ہوشیار ہوجانے کے بعد   ان اذکار کا مفہوم ذہن نشین کرانے کا اہتمام کرلیا جائے۔ بہرحال، آپ کے دل میں یہ فکر پیدا ہوجائے کہ ہمارے بچے سمجھ کر نماز پڑھنے والے بن جائیں۔ یقین کریں آپ کی یہ فکر اور کوشش آپ کے بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے میں بہت معاون ہوسکتی ہے۔
  • مولانا نسیم غازی (معروف نومسلم عالم) نے غیر مسلموں کے لیے ایک کتابچہ لکھا: اذان اور نماز کیا ہے؟‘ اس کتابچے میں انھوں نے نماز میں پڑھی جانے والی چیزوں کا ترجمہ لکھا۔ جب غیر مسلموں کے ہاتھ میں یہ کتاب پہنچی، تو حیرت انگیز تاثرات سامنے آئے۔ بہت سے وہ لوگ جو مسجدوں اور نمازوں کے سلسلے میں سخت بدگمانی رکھتے تھے، ان کی راے بالکل بدل گئی، اور انھوں نے کہا کہ یہ نمازیں تو اس ملک کے لیے اور یہاں کے باشندوں کے لیے خیر اور بھلائی کا باعث ہیں، ایسی نمازیں تو ضرور پڑھی جانی چاہییں۔ جن نمازوں میں ایسی اچھی اچھی باتیں کہی جاتی ہوں، وہ نمازیں یقینا بہت اچھے انسان بنائیں گی۔
  •  سوچنے کا اصل مقام مسلمانوں کے لیے ہے۔ وہ ایسے اَنمول کلمات کوجنھیں وہ زندگی میں لاکھوں مرتبہ بِنا سمجھے دُہراتے ہیں، سمجھ کر پڑھنے کا فیصلہ کتنی جلدی کریں گے، تاکہ ان کی زندگی ان کی نمازوں کے نور سے روشن ہوسکے۔

 یاد رکھیے، موقعے بار بار نہیں ملا کرتے ہیں۔ اگر ابھی موقع ملا ہے اور توجہ ہوئی ہے، تو  آج ہی سے اپنے اندر یہ بہت آسان مگر بہت عظیم تبدیلی لانے کا فیصلہ کرلیں، اور اسے زندگی کی میز پر اپنے ’سب سے اہم اور فوری‘ کاموں کی فائل میں سب سے اُوپر رکھ لیں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔

’حسد‘ عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لُغوی معنی کینہ، جلن، ڈاہ، بدخواہی یاکسی کا زوال چاہنے کے ہیں۔ اِصطلاحِ عام میں حسد اُن خداداد نعمتوںاور ترقیات و بلندیِ مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر کو علم وہُنر ، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت ونام وری یا کاروبار وتجارت کے طورپر حاصل ہوئے ہوں۔ یہ نہایت رذیل اور بدترین خصلت ہے۔ یہ بیماری پست ذہن وفکر رکھنے والوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔

یہ خصلت کسی کی ترقی و شہرت، کامیابی ومقبولیت، مقام ومنصب کی بلندی اورعام انسانوںمیں اس کی عزت و نام وری کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔ اِس لیے کہ حاسداپنے یا اپنے متعلقین کے علاوہ کسی کی عزت و سرخ روئی یا ترقی وبلندی کو برداشت نہیں کرپاتا۔ وہ ہر قسم کی عزت و سرخ روئی یا ترقی و سربلندی کامستحق صرف اور صرف خود کو سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ’محسود‘ [جس سے حسد ہو] میں طرح طرح کے عیب نکالتا ہے، اس کی خوبیوںاور ہنرمندیوں کو خامیوں سے تعبیر کرتاہے۔  اس کی نیکی، تقویٰ اور حسنِ اخلاق وکردارکو ریاکاری، خودپسندی اور نام ونمود کامظہر قرار دیتا ہے۔ اس کے علمی وفکری کارناموںاور قومی وملّی خدمات کے حوالے سے لوگوں کو طرح طرح سے بدگمان کرتا ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں کی آرا خراب کرتا ہے۔ اس لیے کہ خود وہ ان اعلیٰ محاسن وفضائل تک نہیں پہنچ پاتا۔ وہ چاہتاہے کہ ’محسود‘ کے سلسلے میںایسی فضا بنادے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور چھوٹا یا بڑا جو مقام و مرتبہ اس کو ملاہے، وہ چھِن جائے۔ وہ ہر وقت اپنی تمام تر صلاحیتوںکو ’محسود‘ کوزیروپست کرنے میں صرف کرتاہے۔ وہ یہ بھول جاتاہے کہ عزت وذلت اور ترقی و تنزل    اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت صاف اور واضح طورپر ارشاد فرمایاہے:

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۝۰ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۶  (اٰل عمٰرن۳:۲۶)کہو : اے اللہ! ملک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

حسد کامرض انسان میں اُس اعتقادی کم زوری کے نتیجے میں پیداہوتاہے، جو اسلامی زندگی کی روح اور اساس ہے۔ وہ یہ کہ تمام تر خوش حالی و بدحالی اور پستی و بلندی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہی انسان کو بدحالیوں سے نجات دیتا ہے اور خوش حالیوں ، مسرتوں اور شادکامیوں سے ہم کنار کرتا ہے۔ اِسے قرآنِ مجید میں اس طرح بیان کیاگیا ہے:

 وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ ۝۰ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۷  (انعام۶:۱۷)اگراللہ تمھیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں، جو تمھیں اس نقصان سے بچاسکے اور اگر وہ تمھیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

حسد اور رشک

کبھی کبھی لوگ اپنی کم فہمی، لاعلمی اور کج روی کی وجہ سے حسد اور رشک کو ایک ہی خانے میں رکھ کر طرح طرح کی بے جا اور بعیداز فہم تاویلیں کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جوکچھ کررہے ہیں وہ حسد نہیں ہے۔ حالاںکہ حسد ایک روحانی بیماری ہے، جو انسان کے اندر بزدلی ، پست ہمتی، کم ظرفی اور پست وارذل ماحول میں رہنے، پلنے بڑھنے اور پروان چڑھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جب کہ رشک ایک صالح اور پاکیزہ جذبہ ہے، جو کسی کے اندر صالح و پاکیزہ تربیت، ذہنی وفکری بلندی اور معیاری خاندانی اثرات سے پیدا ہوتااور پروان چڑھتا ہے۔ اِسے ہم چراغ سے چراغ جلنے یا جلانے سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ رشک وہ اعلیٰ جذبہ ہے، جس کی وجہ سے انسان کسی پڑوسی، ہم سایے، ہم پیشہ یا ہم عصر کی ترقی و بلندی اور رفعت وعظمت کو دیکھ کر خوش ہوتاہے اور وہ یہ جاننے کے لیے بے چین اور مضطرب ہوجاتاہے کہ اُسے جو ترقی اور خوش حالی نصیب ہوئی ہے، اس کے لیے اُسے کیا کیاکرنا پڑا ہے اور وہ کن مراحل سے گزرکر اس مقامِ بلند تک پہنچا ہے۔ یہ سب جان لینے کے بعد وہ بھی محنت ومشقت اور سعی و کاوش کرکے خوشی و مسرت، شہرت و نام وری اور خوش حالی و نیک نامی کے اس مقام بلندتک پہنچتا یا پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کسی کو پست و ذلیل یا زوال پزیر کرنے کا نہیں، بل کہ اعلیٰ ظرفی، بلند ہمتی اور روحانی طہارت وپاکیزگی کاجذبہ ہے۔ اسلام نے اِس جذبے کی تحسین بھی کی ہے اور ترغیب بھی دی ہے۔ قرآنِ مجید میں اِسے تنافس سے تعبیر کیاگیا ہے:

وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنٰفِسُوْنَ۝۲۶ۭ (المطففین ۸۳:۲۶)جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں، وہ اس چیز کو حاصل کرنے کی بازی لے جانے کی کوشش کریں۔

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ(البقرہ۲:۱۴۸) پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔

سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ (الحدید۵۷:۲۱) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک بہت مشہور حدیث ہے کہ ایک بار غریب و مفلس مہاجرین کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ عرض کی: یارسول اللہ! مال دارو خوش حال لوگ مرتبے میں ہم سے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ لوگ ہماری ہی طرح نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری ہی طرح روزے رکھتے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ چوں کہ وہ ارباب ثروت ہیں، اس لیے وہ حج بھی کرلیتے ہیں، عمرہ بھی کرلیتے ہیں اور جب جہادکا وقت آتاہے تو وہ مال و دولت سے بھرپور مدد کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیںاور ضرورت پڑنے پر غریبوں،مفلسوں اور حاجت مندوں کی بھی امداد کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ہم ان پر سبقت نہیں حاصل کرسکتے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی اُس جماعت کی بات سنی اور ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتادوں، جس سے تم بھی ان سب کے برابر ہوجائو، تم اپنے پیچھے رہنے والوں سے بہت آگے بڑھ جائو، اور تمھاری برابری اُن لوگوں کے سوا کوئی نہ کرسکے جو وہی عمل کریں، جو میں تمھیںبتانا چاہتاہوں؟ سب نے خوشی خوشی بہ یک زبان کہا: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسولؐ! ضرور ارشاد فرمائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوق وطلب کو دیکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہر فرض نماز کے بعد ۳۳، ۳۳ مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ ، الْحَمْدُلِلہِ اور اللہُ اَکْبَرُ کہہ لیا کرو۔ (بخاری، مسلم، بیہقی، کتاب الصلوٰۃ ، باب ما یقول بعد السلام، حدیث: ۳۴۸)

یہ حدیث اپنے عہد کے نام ور عالم حدیث امام محی الدین النَووِیؒ نے صحیحین کے حوالے سے اپنی مشہور کتاب ریاض الصالحین میں کتاب الاذکار کے باب فضل الذکر و الحث علیہ میں نقل کی ہے ۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں سیکڑوں ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے پتا چلتاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں صدقات وخیرات اور نیکی و تقویٰ کے سلسلے میں باہم رشک و تنافس پایاجاتاتھا اور وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ سیدناحضرت ابوبکرصدیق اورسیدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہما بھی اکثر خیر اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ مذکورِ بالا آیات، احادیث اور واقعات سے اِس نتیجے تک پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ اچھائی اور نیکی کے کاموں میں رشک و تنافس اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا جذبہ، ایک محمود واَحسن جذبہ ہے۔ اِس سے انسان کے بلندیِ درجات کا اندازہ ہوتا ہے۔

حاسد دوسروں کو حاصل شدہ دولت و نعمت کا بدخواہ ہوتاہے۔ اس دولت و نعمت کے سلسلے میں وہ لوگوں میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور شکوک وشبہات پھیلاتاہے، حتیٰ کہ وہ اِس سلسلے میں فرضی اور من گھڑت واقعات عام کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ اس کی ساری کوشش صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ ’محسود‘ ذلیل و خوار ہو، اس کی شہرت و نام وری میں بٹّا آجائے، اس کی عزّت و عظمت مشکوک اور اس کی شخصیت و خاندانی شرافت داغ دار ہوجائے۔ خواہ خود حاسد کو وہ دولت ونعمت، عزت و عظمت اور شہرت و نام وری مل سکے یا نہ مل سکے۔ حاسد کایہ رویہ دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت ومصلحت پر عدم اعتماد ویقین کامظہر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اُسے (نعوذباللہ)     اللہ تعالیٰ کا حریف ومدمقابل بھی کہہ سکتے ہیں۔

اسلام میں حسد کی مذمت

اسلام امن وسکون اور خیر وخیرخواہی کا علم بردار ہے۔ وہ انسانی معاشرے کو سعید و خوش گوار دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس نے انسان کو اخلاقیات اور معاشرتی آداب سے آشنا و باخبر کیاہے اور پوری انسانی برادری کو لاضرر ولاضرار( کوئی بھی انسان کسی انسان کو چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا نقصان نہ پہنچائے) کا درس دیا ہے اور بتایا ہے کہ ایک اِنسان کو دوسرے انسان کے لیے رنج وغم اور دُکھ درد کا علاج، اس کے آرام و راحت کاسامان اور ایک دوسرے کے لیے محبت واخوت کاپیکر ہوناچاہیے۔ اسلام اس بات کو قطعی پسند نہیں کرتا کہ معاشرے میں حسد یا جلن کی آگ بھڑکے اور اس کے اثر سے پورا معاشرہ نفرت وتعصب اور جوڑ توڑ کی آماج گاہ بن جائے۔

اسلام نے حسد کی اخلاقی برائی اور اس کی شناعت کو واضح اور واشگاف انداز میں بیان کرکے انسان کو اس کی ہلاکتوں اور تباہیوں سے خبردارکیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَقَاطَعُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ  اِخْوَانًـا (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھی عن التحاسد ، حدیث ۴۷۴۸) آپس میں بغض و حسد، قطع تعلق اور ترک معاونت نہ کرو۔ اللہ کے بندو! تم اخوت ومحبت کے ساتھ رہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

دَبَّ اِلَیْکُمْ دَاءُ الْاُمَمِ قَبْلَکُمْ الْحَسَدُ  وَالْبَغْضَاءُ  ____ اَلَا أُنَبِّئْکُمْ بِشَیْ ءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ اَفْشُوْالسَّلَامَ بَیْنَکُمْ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، حدیث۲۴۹۴)تم سے پچھلی امتوں کی بیماریوں میں سے بغض و حسد کی بیماری تمھارے اندر سرایت کرگئی ہے۔ کیا میں تمھیںکوئی ایسی چیز نہ بتائوں، جو تمھارے اندر محبت پیداکردے؟ وہ یہ ہے کہ تم باہم سلام کو عام کرو۔

اللہ تعالیٰ نے جب پہلے انسان ابوالابا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی، اُنھیں نبوت کے اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا اور جِنّ وملک کو حکم دیا کہ سب اُنھیں سجدہ کریں، تو سب نے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔ بس ایک ابلیس تھا جو حسد کی آگ میں جل اُٹھا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اللہ کی نافرمانی پر اترآیا۔ اُسے یہ بات نہ بھائی کہ ایک مٹی کے پیکر کو اتنا بلند مقام ملے کہ اُسے جن و ملک سجدہ کریں۔ اس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل، رسوا اور راندۂ درگاہ قرار پایا۔ اس کابیان قرآنِ مجید میں بہت واضح طورپر آیاہے:

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۝۰ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۝۳۴ (البقرہ ۲:۳۴) پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیاکہ آدم ؑکے آگے جھک جائو،تو سب جھک گئے، مگرابلیس نے انکار کیا، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔

ابلیس نے جو رویہ اختیارکیا، حسد، جلن اور اپنے آپ کو آدم کے مقابلے میں اعلیٰ وبرتر سمجھنے کے ہی نتیجے میں اختیار کیا۔ وہ اِس مقامِ بلند کا مستحق خود کوسمجھتاتھا۔ دراصل انسان جب کسی کی عظمت و بلندی، عزت و شہرت یا ترقیِ درجات سے جلتاہے تو اس میں یہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ یہ شخص اِس کامستحق نہیں ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتاہے کہ اِسے جو کچھ بھی حاصل ہے، وہ محض اللہ کا عطیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے جو کچھ دیاہے، وہ مستحق و حق دار سمجھ کر ہی دیاہے۔ وہ جس کومناسب سمجھتا ہے ، دیتاہے اور جسے نہیں چاہتا، اُسے نہیں دیتا۔ اس کے ہاں سفارش کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کی ترقی وکام یابی سے جلتا یا حسد کرتاہے گویا وہ خود کو (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ سے زیادہ عقل و فہم والاسمجھتا ہے۔

’حسد‘اسلامی مزاج کے منافی ایک شیطانی جذبہ ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کی خصلتوں میں سے ہے۔ یہ انسانیت سے گری ہوئی ایسی خصلت ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا اور بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ حسد بڑی خاموشی سے دلوں میں گھر کرلیتا ہے۔ حسد کا مریض کبھی کبھی یہ باور کرلیتاہے کہ وہ جو کچھ کررہاہے، اظہار حق کے طورپر اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے پیش نظر کررہاہے۔ لیکن اگر وہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو حاضر وناظر اور آخرت میں اس کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ سوچے اور غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح اور منکشف ہوجائے گی کہ وہ بڑی مہلک روحانی بیماری کا شکار ہے۔

’حسد‘ احساس کم تری، متعلقہ میدان میںحاسد کی ناکامی و نامرادی اور کسی دیرینہ کدورت کی وجہ سے جنم لیتاہے۔ احساسِ برتری، کبرو نخوت اور خودپسندی وخودبینی بھی حسد کا مظہر ہے۔ انسان کی تنگ نظری وبخل مزاجی بھی حسد کاسبب بنتا ہے۔ تنگ نظر و بخیل کسی کو اچھے حال میں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنے ہم سفروں، ہم جماعتوں اورپڑوسیوں کی پریشانی و بدحالی پردل ہی دل میں شادو مسرور ہوتاہے۔

کبھی کبھی یہ بھی دیکھاگیاہے کہ لوگ کسی بھوکے کو کھانا کھلادیتے ہیں اور اگر اس کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں تو کپڑوں کاانتظام کردیتے ہیں، لیکن جب اُس شخص کی خستہ حالی، پریشانی اور مفلسی ختم ہوجاتی ہے، وہ خود کفیل ہوجاتاہے اورمعاشرے میں سراٹھاکر چلنے کے لائق ہوجاتاہے، تو وہی لوگ اس سے جلنے اور اس پر شکوک و شبہات کی انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں اور سماج میں اس کی تصویر خراب کرنے لگتے ہیں، جو کبھی اس کی بھوک کی حالت میںاُسے کھانا کھلاچکے ہوتے ہیں اور بے لباسی کی صورت میں اسے لباس فراہم کرچکے ہوتے ہیں۔

یہ بات ہمیں، آپ کو اور ہر اہلِ ایمان کو یاد رکھنی چاہیے کہ ’محسود‘ کے ساتھ حاسد کی بدخواہی، اس کے زوال و تنزل کی خواہش، اس کی مصیبت و پریشانی پرمسرت وشادمانی اور اس کی خوش حالی و شادمانی پر کبیدہ خاطری منافقین کی خصلت ہے۔ حاسد کو ’محسود‘ سے قطعِ تعلق ، ترک تعاون اور نفرت وبُعد اسلامی مزاج کے منافی اور اظہارِ محبت و اخوت کرتے ہوے دل میں جلن، بغض اور کینہ رکھنا سراسر نفاق ہے۔ یہ عمل ایمان سے دُور کردیتا ہے۔ ’محسود‘ کی غیبت، چغلی، اس پر کسی قسم کااتہام، اس کی ہتکِ عزت یا اس کے کسی راز کاافشا اور اس کااستخفاف و استہزا یا اس کے حقوق سے بے نیازی غیرمومنانہ اور ناجائز رویہ ہے۔

انسانی زندگی پر حسد کے اثرات

حسد کے روحانی مرض میں مبتلاشخص گرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوںسے بہرہ ورافراد کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کرکے اپنے نفس کی تسکین محسوس کرتا ہے اور بسااوقات ’محسود‘ کو وہ کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی ہوجاتاہے ۔ تاہم، ’محسود‘ کا یہ نقصان یاکسی قسم کی تکلیف و پریشانی       وقتی و عارضی ہوتی ہے۔ اس نقصان یا تکلیف وپریشانی کی تلافی اس کے صبرو تحمل اور ایمانی استقامت کے ذریعے سے بہت جلد ہوجاتی ہے، جب کہ حاسد کی زندگی ہمیشہ دکھ، درد، اضطراب اور بے چینی سے دوچار رہتی ہے۔ اس کے حالات وکیفیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرحت وانبساط،     مسرت وشادمانی اور بشاشت و تازگی کی دولت سے محروم ہوچکا ہے۔ بعض حکما نے حسد کو جسمانی مرض بھی بتایاہے۔ الحسد داء الجسد (حسد جسم کی بیماری ہے)  کا عربی مقولہ بہت مشہور ہے۔ حاسد کا وقار گرجانا، لوگوں کا اس سے منحرف ومتنفرہوجانا اور اس کو مشکوک و مشتبہ نگاہوں سے دیکھنا حسد کے لازمی اثرات میںسے ہے۔ یہ اثرات حسد کرنے والے کی زندگی پر کسی نہ کسی درجے میں مرتب ہوکر رہتے ہیں۔ وہ کبھی باعزت و سرخ رو نہیںہوسکتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

شَرُّالنَّاسِ مَنْ یُبْغِضُ النَّاسَ وَیُبْغِضُوْنَہٗ ، سب سے برا وہ شخص ہے، جو لوگوں سے بغض و کینہ رکھے اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے بغض و کینہ رکھیں۔ (المعجم الکبیر، الطبرانی، حدیث: ۱۰۵۸۲)

اُخروی زندگی پر حسد کے اثرات

اب تک کی کسی قدر تفصیلی گفتگو سے یہ بات واضح اور منکشف ہوجاتی ہے کہ حسد ایک انتہائی قبیح، رذیل اور ذلیل خصلت ہے۔ اس کے اندر بے شمار دینی، اعتقادی، سماجی، معاشرتی، روحانی اور جسمانی مفاسد ہیں اور اس کااُخروی انجام نہایت خطرناک اور تباہ کن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

اِیَّـاکُمْ وَالْحَسَدَ فَاِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَاْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد،حدیث ۴۲۷۸) تم اپنے آپ کو حسد سے بچائو، اس لیے کہ حسد نیکیوںکو اس طرح جلادیتاہے، جس طرح کہ آگ لکڑی جلادیتی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شب و روز کی زندگی کاجائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بیماری ہمارے اندر سرایت کرکے ہمارے خرمنِ دین و ایمان کو جلاکر راکھ کررہی ہو، تاکہ ہم جو کچھ چھوٹی بڑی نیکیاں کررہے ہیں اور جو ہم سے تھوڑے بہت کار خیر انجام پارہے ہیں،     وہ ہمارے لیے اُخروی فلاح وکام یابی اورحصولِ جنت کا وسیلہ بن سکیں۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے طریق سے ایک حدیث بیان کی ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیِ رسولؐ کے سلسلے میں جنت کی بشارت سنائی۔ صحابہ نے اُن صحابی کے اعمال کابہ غور مطالعہ و مشاہدہ کیا تو اُنھیںاعمال کے اعتبار سے کسی اعلیٰ و بلند مقام پرنہیں پایا۔ اُن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی بشارت کی وجہ پوچھی تو انھوںنے بتایاکہ میرے حق میں جنت کی بشارت کی وجہ صرف یہ ہے کہ میںنے آج تک کسی بھی مسلمان سے بغض و حسد کا معاملہ نہیں کیا‘‘۔(مسند احمد ،ج۳، ص ۱۶۶)        

حسد کا علاج

حسد کا علاج کسی دو ا دارو، جھاڑپھونک یا شیخ و مرشد کی توجہ سے ممکن نہیں، بل کہ یہ علم و عمل دونوں کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیرحسد کا علاج نہیںہوسکتا۔ یہ بات ہم سب پر واضح رہنی چاہیے کہ حسد سے ’محسود‘ کا نہ کوئی دنیوی نقصان ہوتا ہے اور نہ اُخروی، بل کہ اخروی طورپراس کے لیے یہ مفید اور باعث اجرو ثواب ہے۔ اس لیے کہ حاسد غیبت، چغلی اور لگائی بجھائی کے ذریعے سے ’محسود‘ کی آخرت کے لیے ہدیہ و توشہ فراہم کرتا ہے۔ میں نے کبھی کہاتھا:

مری ذات ہی اس کا موضوع تھی

وہ میرے گناہوں کو دھوتا رہا

اِس شعر میں اس فرمانِ رسولؐ کی ترجمانی کی گئی ہے، جس میں حاسد کو ’محسود‘ کے گناہوں کا دھوبی کہاگیاہے۔ جب کوئی کسی کی غیبت کرتاہے یا اس کی شبیہ بگاڑنے کا کام کرتاہے تو گویا وہ اس کے گناہوں اور خرابیوں کا صفایا کرتاہے۔

حسد کی تباہ کاریوں سے بچنے کا بہترین علاج یہی ہے کہ جس سے ہمیں کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا جسے ہم کسی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں اور اس کی فلاح و کامیابی ہمیںایک آنکھ نہ بھاتی ہو، ہم اپنے آپ کو اس سے راضی کریں۔ اس کی ترقیِ درجات سے خوش ہونے کی عادت ڈالیں۔  اس کی عزت و شہرت سے تنگی و کوفت محسوس کرنے کی بہ جائے دل سے مسرت وشادمانی کا اظہار کریں۔ اگر ممکن ہوتو اس کی عزت و شہرت میں کچھ نہ کچھ اضافے کی کوشش کریں۔جس محفل و مجلس میں اس کا تذکرہ ہورہا ہو، اس میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں اور اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ حسب موقع اس کی دعوت کریں اور تحائف وہدایا کااہتمام کریں اور اس کے دکھ درد اور خوشی و مسرت میں شریک ہوں۔ یہ علاج ہے تو تلخ مگر اس میں نہایت مؤثر و مفید شفا پوشیدہ ہے۔ اگر یہ طریقۂ علاج ہم نے اختیارکرلیا تو اس میں ہمارے لیے غیرمعمولی سکون و راحت کا سامان ہے۔

ہماری زندگی میں ایسے بہت سے کاموں کی مثالیں ہیں کہ جنھیں کرنے یا انجام دینے والے کو گمان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے، لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔

بظاہر نیکی مگر نیت کی خرابی

انفاق ضائع ہوجاتا ہے(ابطال)،اگر اس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف دی جائے یا دکھاوے کے لیے کیا جائے۔اور اس کے لیے چٹان پر سے مٹی ہٹنے کی مثال دی گئی ہے۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ (البقرۃ۲:۲۶۴)

 اعمال دنیا ہی کی نیت سے کیے جائیں تو بڑھاپے میں باغ یا آمدنی کا واحد ذریعہ ختم ہوجانے کی مثال دی گئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۶ )

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ  ښ  وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ   O (التوبہ۹:۱۷) مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآںحالیکہ اپنے اُوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں انھیں ہمیشہ رہنا ہے۔

اس آیت میں اصل میں تو کافر و مشرک کا ذکر ہے لیکن مسلم کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ  ’مسجد حرام کی دیکھ بھال‘ جیسی نیکی بھی ضائع ہو سکتی ہے،اور اس کے بعد والی آیت کے مطابق ’حاجیوں کو پانی پلانا‘ بھی ۔

حدیثِ نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید، عالم اور سخی کو جہنم میں ڈال گیا کیوںکہ یہ دکھاوے کے لیے عمل کرتے تھے۔ اس طرح جان کی قربانی، حصولِ علم، صدقہ کیا ہوا مال ضائع ہوسکتے ہیں۔(نسائی، عن ابی ہریرہؓ)

نماز کو ورزش،روزے کو خوراک کنٹرول کرنے کا منصوبہ، اور حج کو سیاحت کی نیت سے کرنے سے یہ عبادتیں بے معنی ہوسکتی ہیں۔

  • اچھے کام میں نیت بھی اچھی رکھنا ضروری ہے، یعنی صرف اللہ کی خوش نودی اور آخرت کا اجر۔

نیکیاں جن کے آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائے

ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو ، قبول نہ ہوں گی،خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں، مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے،یا روزہ،حج اور دیگر عبادات جن کے ارکان و شرائط علما نے الگ سے جمع بھی کردیے ہیں،وہ ان کا خیال رکھے بغیر کیے جائیں۔یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں ،جو ایک مومن کے لیے صحیح نہیں۔علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے، لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا،مومن کی شان سے مناسبت نہیں رکھتا۔

دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کو بے دلی یا سُستی سے کیا جائے،  یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے،یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لیے نہیں،بلکہ بعض نمازیوں کے لیے بھی تباہی کی وعید ہے۔   سورئہ نساء (آیت ۱۴۲) نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اور دکھانے کے لیے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔ اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔(ابن ماجہ، ابومسعود)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے،مگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔پوچھا گیا وہ کیسے ؟انھوں نے کہا: کیوںکہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود، نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’ایک شخص اسلام میں بوڑھا ہو گیا اور ایک رکعت بھی اس نے اللہ کے لیے مکمل نہیں پڑھی‘‘۔پوچھا گیا: کیسے یا امیرالمومنین؟‘‘ فرمایا: ’’اس نے اپنا رکوع پورا کیا اور نہ سجود‘‘۔

امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:’’انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے، لیکن وہ نماز نہیں ہوگی‘‘۔

جنید بغدادیؒ کا ایک واقعہ کتب میں لکھا ہے،جس میں وہ ایک واپس آنے والے حاجی سے مناسکِ حج کے ساتھ کچھ کیفیات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ جب وہ نفی میں جواب دیتا ہے ،تو وہ اسے حج دوبارہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

کپڑے پہن کر عریاں رہنے والیوں کے لیے وعید ہے۔ اسی طرح خواتین کے ایسے عباے جو ظاہری چمک و رنگ اور چستی سے مزید کشش کا باعث ہوں ، بے مقصد اور لایعنی پہناوا ہیں۔ مہمان نوازی کرکے ،مہمان کے جانے کے بعد اس پر تنقید و مذاق ،مہمان کی تکریم کی نفی ہے۔

  • نیکی کرنے کا طریقہ بھی صحیح رکھنا چاہیے اور اس کے لیے علم حاصل کرنا چاہیے۔
  • نیکی کے دوران اس کے آداب اور دل کی کیفیات کا خیال رکھنا چاہیے۔پوری رضامندی اور خوشی کے ساتھ نیکی کرنا چاہیے۔
  • نیکی کرتے ہوئے ڈرتے رہنا چاہیے،کیوںکہ مومنوں کوعمل قبول نہ ہونے کاڈر رہتا ہے اور خشیت مومنوں کی کیفیت ہے۔ سورئہ انبیاء (آیت ۹۰) میں نیکیوں کی دوڑ دھوپ کے ساتھ خوف کا بھی ذکر ہے۔ رسول کریم ؐ کو بھی اپنے عمل سے نہیں، اللہ کے ٖفضل اور رحمت سے ہی جنت میں جانے کی اُمید تھی(بخاری،ابو ہریرہ)
  • نیکی کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کرنی چاہیے، خواہ وہ نماز ہو، کوئی انفاق ہو، دین کے لیے نکلنا اور چلنا ہو، یا کسی بندے سے معاملہ ہو۔

 نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ رِزْقًا طَیِّبًا وَّعِلْمًا نَافِعًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا،اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں پاکیزہ روزی، نفع بخش علم اور قبول ہونے والے عمل کا(ابن ماجہ، اُمِ سلمہؓ)۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دُعا کی تھی: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط(البقرہ۲:۱۲۷)’’اے ہمارے رب ،ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے‘‘۔

علما نے کچھ دعاؤں میں سعی مشکور مانگی ہے،یعنی ایسی کوشش جس کی قدردانی کی گئی ہو۔

نیکیاں برباد کرنے والے اعمال

نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں ،لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ   وہ ضائع ہوجائیں۔ ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی منفی پیمایش ( negative marking) سے  دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر ،صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں ،جو صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لیتے ہیں۔ یہ برائیاں جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتی ہیں ،وہ یہ ہیں:

  •  نبی ؐ کے احترام میں کمی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں کمی دراصل اللہ کے احترام میں کمی اور باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O (الحجرات۴۹:۲ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنی آوازنبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔

 نبی ؐ کے احترام میں کمی: سورئہ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ        ۭ  فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ   O    وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ  جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ      ۭ  حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَO (المائدہ ۵:۵۲-۵۳) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں    دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکّر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔ اور اُس وقت اہلِ ایمان کہیں گے: ’’ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں؟‘‘ ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے۔

'یعنی جو کچھ انھوں نے اسلام کی پیروی میں کیا،نمازیں پڑھیں،روزے رکھے،زکوٰۃ دی، جہاد میں شریک ہوئے، قوانینِ اسلام کی اطاعت کی،یہ سب کچھ اس بنا پر ضائع ہوگیا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص نہ تھا اور وہ سب سے کٹ کر صرف ایک خدا کے ہوکر نہ رہ گئے تھے، بلکہ اپنی دنیا کی خاطر انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے باغیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ رکھا تھا۔( تفہیم القرآن،سورئہ مائدہ۵:۵۳)

بنیادی طور پر اس کی وجہ یہی ہے کہ حق اور باطل دونوں سے تعلق رکھنا، نفاق ہی کی قسم ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ  (محمد۴۷:۳۳ )اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔

اس آیت کے پسِ منظر کے لحاظ سے بھی، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کش مکش میں جان و مال نہ لگاکر،محنت نہ کرکے اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔

حضرت کعبؓ بن مالک کےواقعے سے سبق ملتا ہےکہ وہ کسی بدنیتی کے بغیر صرف دنیوی مصروفیات کی وجہ سےحق و باطل کی کش مکش میں حق کا ساتھ نہ دے سکے، تو ان کی پچھلی ساری عبادت گزاریا ں اور قربانیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔

  •  بُرائی سے منع نہ کرنا ، سمجھوتہ کرلینا : سورئہ اعراف میں اہلِ سبت کا ذکر ہے،جنھوں نے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے دوسروں کو منع نہ کیا ، تو ان کی اپنی نیکیاں اکارت چلی گئیں۔ بستی پر عذاب کی ابتدا’نیک‘ شخص سے کی جائے کیوںکہ اس نے بستی والوں کو برائیوں سے منع نہیں کیا تھا۔ اس طرح اس شخص کی اپنی نیکیاں بھی ضائع ہوگئیں۔(ترمذی،ابوبکر صدیقؓ)

بنی اسرائیل کے علما نے فاسقوں کو منع کرنے کے بجاے ان کے ساتھ کھاناپینا اور اُٹھنا بیٹھنا شروع کردیا تو ان پر بھی لعنت کی گئی۔(ابوداؤد، ترمذی،عبداللہ بن مسعود)

  •  فسق پر مبنی رویّہ: استطاعت کے باوجود ہجرت نہ کرنا:(النساء۴:۹۷-۹۸)

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ   ۭ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ    (التوبہ ۹:۵۳) ان سے کہو ’’ تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بہ کراہت، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے ۔ کیوں کہ تم فاسق لوگ ہو۔‘‘

کبیرہ گناہ ڈھٹائی سے کرنے سے،کبھی کبھار کی گئی، یا چھوٹی نیکیوں کی قبولیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

مسلم کی روایت کے مطابق،حرام مال کھانے اور پہننے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی اگرچہ وہ لمبا سفر کرکے ،غبار آلود بالوں میں ،آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگے ۔اسی طرح حرام کمائی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ،تو وہ قبول نہیں ہوتا۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندہ جب ایک لقمہ حرام کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کا عمل قبول نہیں کرتا۔

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اپنی امت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں، جو قیامت والے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی، تو اللہ عز وجل ان نیکیوں کو دُھول بنا دے گا۔ حضرت ثوبانؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !ہمیں ان لوگوں کی نشانیاں بتائیے،ہمارے لیے ان لوگوں کا حال بیان فرمائیے،تاکہ ایسا نہ ہوکہ ہم انھیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوجائیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ تم لوگوں کے بھائی ہوں گے اور تم ان لوگوں کی نسل میں سے ہو گے، اور رات کی عبادات میں سے اسی طرح حصہ لیں گےجس طرح تم لوگ لیتے ہو۔لیکن ان لوگوں کا معاملہ یہ ہوگاکہ جب وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو انھیں استعمال کریں گے۔(ابن ماجہ)

حضرت بُریدہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے عصر کی نماز چھوڑی ،اس کے عمل اکارت ہوئے(فقد حبط عملہ)۔(بخاری)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے شراب پی، اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازیں قبول نہیں کرتا۔(لم یقبل اللہ) ۔ (ترمذی)

  •  اجتماعی معاملات میں بے احتیاطی:حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ نبیؐ کو فتح ہوتی اور مالِ غنیمت حاصل ہوتا تو حضرت بلالؓ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کریں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ لے آئے۔لوگوں کے پاس جو مالِ غنیمت ہوتا، وہ اسے لے آتے۔ جب سب مال جمع ہو جاتا تو پھر رسولؐ اللہ پہلے اس میں سے خمس الگ کرتے، پھر باقی مال کو    تمام مجاہدین میں تقسیم فرمادیتے۔ ایک دفعہ مالِ غنیمت تقسیم ہو جانے کے بعد ایک آدمی بالوں کی ایک لگام لے آیا اور کہا کہ یہ لگام بھی ہم نے مالِ غنیمت میں پائی تھی۔آپؐ نے فرمایا:تم نے بلال کا اعلان جو اس نے تین دفعہ کیا تھا،سنا تھا؟اس نے جواب دیا :ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:پھر بروقت کیوں نہ لے کرآئے؟ اس نے جواب دیا: بس دیر ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو اسے قیامت کے دن لے کرآنا،میں اب تم سے قبول نہیں کر سکتا۔(ابوداؤد)

حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایک غزوہ کیا۔ لوگوں نے جلدبازی میں دوسروں کے اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کردی اور آمد و رفت کے راستے بندکردیے۔جب آپؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے ایک منادی بھیجاکہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ جو اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کرے گا یا راستے بند کرے گا،اس کا جہاد اکارت۔(ابوداؤد)

حضرت ابوالدرداءؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جزیہ کی زمین خریدی،اس نے اپنی ہجرت کا عمل اکارت کردیا، اور جس نے کسی کافر کی گردن سے ذلت کا طوق نکال کر اپنے گلے میں ڈال لیا ،اس نے اسلام کی طرف اپنی پشت کردی۔ (ابوداؤد)

  •  معاملات میں راست نہ ہونا:کسی کو گالی دینے، تہمت لگانے، قتل کرنے سے  انسان کے نماز ،روزہ اور زکوٰۃ دوسرے انسان کو مل جاتے ہیں۔(ترمذی،عن ابوہریرہؓ)

 حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی۔ایک وہ امام جس کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ دوسرے، وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے، دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں۔(ابنِ ماجہ)

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کسی پاکباز عورت پر تہمت لگانے سے سو سال کے عمل برباد ہوجاتے ہیں۔

قرض واپس نہ کرنے سے شہید کا بھی جنت میں داخلہ رُک جاتا ہے۔(نسائی،محمد بن جحشؓ)

حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔(ابن ماجہ)

مندرجہ بالا احادیث میں کلمہ گو مسلمانوں کا ہی ذکر ہے اور ضائع ہونے والی چیز ان کی نیکیاں ہیں۔ اسی لیے علما نے تشریح کی ہے کہ کوئی گناہ ایسا ہےکہ اس سے کوئی مخصوص عمل ہی ضائع ہوتا ہے یا کسی مخصوص مدت کے لیے قبول نہیں ہوتا ۔اور کوئی گناہ ایسا ہے کہ اس کی شدت کے لحاظ سے نیکیاں بھی ضائع ہو سکتی ہیں۔لیکن ان کا کوئی ضابطہ ہم طے نہیں کرسکتے۔ (ترجمان السنۃ،جلد دوم،مولانا بدر عالم میرٹھی)۔ البتہ یہ کہ گناہ کی شدت کے اضافے کے لحاظ سے احتیاط بھی اتنی ہی زیادہ ہونا چاہیے۔ ان سب پہلوؤں سے ایک مومن کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔

  •  ارتداد: پچھلی ساری عمر کی نیکیاں ختم ہونے کی ایک وجہ،ارتداد ہے۔یہاں تک کہ فقہا نے کہا ہے کہ مرتد اگر تجدیدِ ایمان کرے تو اس کے بعد نکاح کی بھی تجدید کرے اور حج دوبارہ کرے:

وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ      ۚ  وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ   ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ   (البقرہ ۲:۲۱۷)

تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ  ط وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ     ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ  O (المائدہ ۵:۵) اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ تم اُن کے مہر ادا کرکے نکاح میں اُن کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو۔ اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔

اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد تنبیہہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:’’جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائےوہ اپنے ایمان و اخلاق کی طرف سے ہوشیار رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو‘‘۔

’ارتداد‘ فقہی مفہوم کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے۔لیکن مومنوں کو ایک عمومی بات کاخیال رہنا چاہیے کہ نیکیوں کے راستے پرچلتے چلتے، وہ راستہ چھوڑنا نہیں چاہیے ، یا کوئی نیک عمل شروع کرکے ترک نہیں کرنا چاہیے۔

مندرجہ بالا حبط شدہ اعمال کی پانچ اقسام میں سے تین کا مقصود ،اللہ اور آخرت پر ایمان نہ ہونا واضح ہے۔گویا دنیوی کام اور اخلاقی امور صرف دنیا کے لیے کرنا یا نیت میں ملاوٹ ہونا۔  قسم چار اور پانچ میں بھی اصل یہ ہے کہ اس انسان کی نیت اور کمٹمنٹ میں ہی فتور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وہ عمل ناقص رہتا ہے۔قسم چارمیں علم کی کمی ،کیفیت کی کمی یا دوسرے اعمال کے ذریعے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے۔قسم پانچ،یعنی دوسری برائیوں کی وجہ سےاچھائیوں کے نمبر منفی اس لیے ہوجاتے ہیں کہ وہ درحقیقت عمل صالح تھے ہی نہیں۔ ابلیس کی پچھلی تمام ریاضتیں اسی لیے ضائع ہو گئیں۔ حدیث میں بھی ایسے انسان کا ذکر ہے جو تمام عمر اچھے کام کرکے آخر میں ایسے عمل شروع کردیتا ہے جو اسے دوزخ میں لے جائیں۔(بخاری،عبداللہ بن مسعودؓ)

  نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان نیکیوں کو بچا کر رکھنے کی بھی فکر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو کہ ہرا بھرا باغ جل چکا ہے اور کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے (البقرہ۲:۲۶۶) ،اور جو بہت اچھا سمجھ کر کیا تھا ، وہ سب بیکار تھا۔ (الکہف۱۸:۱۰۵)

اسی مناسبت سے محترم نعیم صدیقی ؒ نے فرمایا تھا:’یارب میرے سجدوں کو لٹنے سے بچا لے چل‘۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نےہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان کے روزے رکھنے کا موقع عطا فرمایا ۔ اسی کی توفیق سے ہم روزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ ہمیں روزے کی حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

 روزے کی فرضیّت اور مقصد

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ  لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ  o (البقرہ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ اس کا بنیادی مقصدانسان میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کھانے پینے سے پرہیز اسی تقویٰ کے حصول کا  ایک ذریعہ ہے۔

’صوم‘ کا مطلب ہے (اپنے آپ کو ) روکنا ا ور اس کے معنی صبرہیں ۔ صبر کا کم سے کم تقاضا حرام سے رُکنا ہے، اور مزید یہ کہ اللہ اور رسولؐ کے احکام کی تعمیل جائے۔

رمضان کی عظمت

رمضان کی عظمت قرآن کی وجہ سے ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی ۱۰ سے ۷۰۰ گنا تک بڑھائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیوںکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (متفق علیہ)

قرآن اور رمضان

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن صَامَ رَمَضَانَ ایمانًـا وَّاحتسابًـا غُفِرَلَہُ ما تَقدَّمَ مِن ذنبہ ومَن قامَ  رَمَضَانَ ایمانًـا وَّاحتسابًـا غُفِرَلَہُ ما تَقدَّمَ مِن ذنبہ (بخاری ،  مسلم)جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ 

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی روایت کردہ حدیث میں ہے:

الصَّیَامُ و القرآنُ یَشفعَانِ لِلْعَبْدِ ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: اَی ربِّ اِنّیِ  مَنَعْتُہُ  الطَّعَامَ  والشَّھوات ِ بِالنَّھارِ  فشَفِّعْنِیْ   فِیْہِ ، وَ یقُو لُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّو مَ باللَّیلِ فَشِفِّعْنِیْ فِیْہِ ،   فَیُشَفَّعَانِ (مشکوٰۃ) روزہ اور قرآن (قیامت کے دن) بندےکے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے رب! میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ۔ اور قرآن یہ کہے گا : میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے)  سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی(اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا)۔

پس رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے جڑنے ، اس کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔نیز قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

روزے کی حقیقت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل احادیث میں روزے کی حقیقت وضاحت سے بیان کی گئی ہے:

  •  حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے روزے کی حالت میں بےہودہ باتیں (مثلاً: غیبت ، بہتان ، تہمت ، گالی گلوچ ، لعن طعن ، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے‘‘۔(بخاری)
  • حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سواے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی ، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے، اور کتنے ہی رات کو تہجد میں قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں‘‘۔(دارمی ، مشکوٰۃ)
  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتاہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا۔ پس، جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے ، نہ شور مچائے۔ پس اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تودل میں کہے یا زبان سے اس کو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں، اس لیے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا، کہ روزہ اس سے مانع ہے۔ (بخاری، مسلم ،  مشکٰوۃ)
  • حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْھَا (نسائی) ، ’’روزہ ڈھال ہے، جب تک (تم) اس میں سوراخ نہ کر دو‘‘۔

درجہ بالا احادیث میں جن بُرے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزے کی افادیت اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسےڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے اور اس سے بچاؤ کا کام نہیں لیا جا سکتا۔

کس روزے پر اجر کا وعدہ ہے؟

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کار وزہ رکھا ، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے، ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ (صحیح ابنِ حبان ، بیہقی)۔ گویا کھانے پینے سے رُکنے کے ساتھ ساتھ بُرے اعمال سے بھی رکا جائے اور منہ کے روزے کے ساتھ دوسرے اعضا کا روزہ بھی ہونا ضروری ہے۔

وہ روزہ جس میں آنکھ ، زبان ، کان ، ہاتھ ، پاؤں اور دیگر اعضا کے گناہوں سے بچا جائے، وہی حقیقی روزہ ہے۔ یہی ان اعضا کا روزہ بھی ہے جس پر اللہ سے پورے اجر کی اُمید کی جا سکتی ہے اور جو زندگی میں تبدیلی کا باعث بھی بنے گا۔

آنکھ کا روزہ

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی  لَھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَo (النور ۲۴:۳۰) اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جوکچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ’’نظر ، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا‘‘ ۔(الحاکم )

کس قدر گناہ کی بات ہے کہ کئی مسلمان ٹی وی اور کمپیوٹر پر بے ہودہ اور فحش فلمیں اور پروگرام دیکھتے ہیں، یا فضول ناول یا کتابیں پڑھتے ہیں، اورپھر کہتے ہیں کہ بس کیا کریں روزہ ہے، وقت گزارنے کے لیے کر رہے ہیں۔

کان کا روزہ

کان کا روزہ یہ ہے کہ حرام اور مکروہ اور فضول باتوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا  ط (مریم ۱۹: ۶۲)وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے، جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔

 سورئہ واقعہ میں ہے کہ لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا o  (۵۶:۲۵) ’’ وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے‘‘۔ اسی طرح سورۃ النبا میں ہے: لَا  یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا (۷۸:۳۵) ’’ وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے‘‘۔

روزے کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور صرف یہ نہیں کہ فضول، گناہ والی اور جھوٹی باتیں کرنے سے پرہیز کیا جائے بلکہ ان کو سنا بھی نہ جائے۔ لغو سے پرہیز بہت اہم کام ہے اور یہ لفظ تینوں آیات میں مشترک ہے اور اس سے مراد تمام لایعنی اور بے مقصد باتیں ہیں۔ عموماً یہی بے ہودہ باتیں گناہ ، جھوٹ اور بے حیائی کی بنیاد فراہم کرتی ہیں ۔

زبان کا روزہ

زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔ اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’روزہ ڈھال ہے۔ پس، جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بے ہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کام کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے، تو کہہ دے کہ میر ا روزہ ہے‘‘۔

کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ کے حکم پر ہم روزے میں سحری سے لے کر افطاری تک  حلال کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں، لیکن اسی اللہ نے قرآن میں جس چیز (یعنی غیبت ) کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے اس حرام کو ہم رغبت سے کھاتے ہیں :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا  ط  اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ  مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ  ط وَاتَّقُوا اللّٰهَ  ط اِنَّ اللّٰهَ  تَوَّابٌ  رَّحِيْمٌ  o (الحجرات ۴۹: ۱۲) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

 منہ اور پیٹ کا روزہ

حرام سے پرہیز تو ہر حال میں ضروری ہے مگر اِفطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے‘‘۔ ( احمد ، ترمذی  ،ابن ماجہ  ،الحاکم)

اگر شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزے سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوت توڑنے کا مقصد حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام کھانے پینے میں مشغول ہو جائے۔ 

افطار کے وقت روزہ دار حالت خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود ؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے،اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔

بقیہ اعضا کا روزہ

روزے کا تقاضا ہے کہ ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ  ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ  كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا   o (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقینا آنکھ ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے۔

ہاتھ کسی ناجائز اور حرام کام میں مشغول نہ ہوں اور پاؤں کسی گناہ کی طرف نہ اٹھیں:

اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ  o (یٰسٓ ۳۶: ۶۵)آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور اُن کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں۔

دل کا روزہ

 دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے ۔ البتہ وہ دُنیا جو دین کے لیے مقصود ہو وہ تو دُنیا نہیں بلکہ توشۂ آخرت ہے۔   چار چیزوں کی کثرت سے پرہیز کیا جائے: طعام، کلام، نیند اور اختلاط۔ اور ان راستوں کی نگہبانی کی جائے جہاں سے دل کی بیمار ی لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، یعنی آنکھ، کان، زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی جائے ۔

رمضان کی آخری شب مغفر ت کا پروانہ

 ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیے اور اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں ڈھونڈنے کی (ترجیحاً اعتکاف میں)کوشش بھی کرنی چاہیے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ اس حدیث کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بخشش کی جاتی ہے میر ی اُمّت کی رمضان کی آخری رات میں‘‘۔ عر ض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا:’’نہیں، بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے‘‘۔ گویا جب اہلِ ایمان پورے اہتمام سے حقیقی روزہ رکھتے ہیں تو رمضان المبارک کی آخری شب اُجرت اور انعام کے طور پر ان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔

ہمیں یہ رات فضولیات اور خرافات میں نہیں بلکہ عبادات اور دوسرے نیک اعمال میں گزارنی چاہیے کہ معلوم نہیں پھر یہ رات ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائے اور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرلے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے، آمین!

اسی طرح انسان اپنی طرف سے اچھے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن کبھی کبھی اس کے یہ کام ضائع ہو جاتے ہیں اور بارآور ثابت نہیں ہوتے۔لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اس ضیاع کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کو بچا کر رکھنے کی بھی کوشش کرے۔

اعمال ضائع ہونے سے مراد

قرآنِ مجید میں اعمال کے ضائع ہونے کے لیے ’حبط ِ عمل‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس کا لغوی مفہوم ہے: برباد ہونا، اکارت جانا،بیکار جانا،باطل ہونا، ایک قسم کی نباتات کھانے سے پیٹ پھول جانا۔ قرآن مجید میں حبطِ عمل کی ترکیب ان ۱۶آیات میں استعمال ہوئی ہے: بقرہ:۲۱۷، آل عمران:۲۲، مائدہ: ۵ و ۵۳، انعام: ۸۸، اعراف: ۱۴۷، توبہ: ۶۹، ھود:۱۶، کہف:۱۰۵، احزاب:۱۹، الزمر: ۶۵، محمد:۹ و ۲۸و ۳۲، الحجرات:۲۔

حبط ِ عمل یا عمل ضائع ہونے یا رائیگاں جانے کو ابدی فلاح کی کتاب، قرآنِ مجید میں ان تمثیلوں سے سمجھایا گیا ہے:

چٹان پہ سے مٹی بہہ جانا

یٰٓـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی لا  كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ط  فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا  ط لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا ط وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ ز (البقرہ ۲:۲۶۴)اے ایمان لانے والو ! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک چٹان تھی جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کامینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اورصاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں ، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا ، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔

یہاں چٹان کے اوپر کی مٹی کی مثال دی گئی ہے،جوبخلاف زرخیز مٹی کے ناکارہ ہوتی ہے۔اور بجاے کھیتی اگانے کے خود ہی بہہ جاتی ہے۔ اس مثال میں نیکی ضائع ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ نیکی کی نیت غلط تھی۔

آخر عمر میں جمع پونجی برباد ہونا

اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنْ نّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ  ۙ لَهٗ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ   ۙ  وَاَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاۗءُ  ښ فَاَصَابَهَآ اِعْصَارٌ فِيْهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ   ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ O  (البقرہ ۲:۲۶۴) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ  اس کے پاس ہرا بھرا باغ ہو ، نہروں سے سیراب ، کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا ، اور وہ عین اس وقت ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھلس جائے، جب کہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو۔

بے ثبات کگر والی عمارت کاگرجانا

اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ    ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ (البقرہ ۲:۲۶۶)پھر تمھارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جاگری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا ۔

اس بظاہر بہت بڑی نیکی (مسجد کی تعمیر)کے ضائع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ، اس کوکرنےکی نیت ہی فاسد تھی۔

نیکی اور بدی کے بدلے کا عمومی ضابطہ

اس دنیا میں نیکی اور بدی کا بدلہ مل سکتاہے ، لیکن یہ ضروری نہیں ہے اور اگر ملے تو یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ پورا ہو ۔ آخرت میں بدلے کا عمومی ضابطہ یہ ہے کہ جیسا عمل ،ویسی جزا۔ ایک برائی کا بدلہ ایک برائی اور ایک نیکی کا بدلہ دس اچھائیاں۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ دوسرے اصول بھی ہیں:

  •  کچھ نیکیوں کا اجر مزید بڑھ سکتاہے،سات سو گنا تک۔
  • نیکیاں کرنے کےمعمول کے ساتھ،کسی عذر کی بنا پر نیکی نہ ہو،تب بھی نیکی کا اجر ملتا رہتاہے، مثلاً بیماری میں (بخاری)، سفر میں معمول کی عبادات کا۔ تمنا اور جذبے کی شدت ہو تو بھی نیکی کا اجر مل جاتا ہے، مثلاً جہاد کا(سورۂ توبہ،بخاری)
  • جاہلیت کی حالت میں موت آجائے تو بظاہر اچھے عمل بھی نیکی نہیں رہتے، لیکن ایمان لانے کے بعد جاہلیت کے اچھے اعمال بھی نیکی بن جاتے ہیں اور ان کا اجر ملے گا۔(نسائی)
  • کچھ نیکیاں ختم ہونے کے بعد بھی ان کا اجر جاری رہتا ہے۔مثلاً صدقات ِ جاریہ کی مختلف شکلیں ۔اسی طرح کچھ برائیوں کابدلہ بھی جاری رہتا ہے جنہیں سیئاتِ جاریہ کہتے ہیں۔ سورۂ اعراف میں ہے کہ ہر پیشرو گروہ کے لیے دہرا عذاب ہے۔ (۷:۳۸)
  •  اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور عفو سے کچھ برائیوں کا بدلہ نہیں ملتا ، کچھ کا حساب سے اسقاط ہوجاتاہے، کچھ کی ستار العیوب قیامت میں پردہ پوشی کرلیتا ہے، کچھ خطائیں نامۂ اعمال سے ہی مٹادی جاتی ہیں (تکفیر)۔اسی لیے توبہ و استغفار کا حکم ہے، مختلف گناہوں کا کفارہ بتایا گیا ہے،اور عمومی اصول دیا گیا کہ نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں(ھود ۱۱:۱۱۴) اور کبیرہ گناہوں سے بچتے رہیں تو صغیرہ گناہوں کی معافی کی امید ہے۔
  •  کچھ اچھے عمل ضائع ہو جاتے ہیں ،جسے حبطِ عمل کہا گیا۔

ضائع ہو جانے والے اعمال

یہ پانچ طرح کے اعمال ہیں:

                ۱-            دنیا کے کارنامے جو صرف دنیا کے لیے ہی کیے گئے ہوں۔

                ۲-            بظاہر نیکیاں___ اگر ان کا محرک اللہ کی رضا اور آخرت کا اجر نہ ہواور ان کو کرنے والا کھلےکفر، شرک یا نفاق میں مبتلا ہو۔

                ۳-            بظاہر نیکیاں ،جن کے کرنے والے کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے،۔لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے یا اس نیت میں ملاوٹ ہوتی ہے۔

                ۴-            ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو۔

                ۵-            نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں۔

ان سب ضائع ہونے والے اعمال اور ان کی وجوہات کو تفصیل سے دیکھ لیتے ہیں۔

حصولِ دنیا کے لیے کیے گئے  کام

دنیا کے کارنامےجو صرف دنیا کے لیے ہی کیے گئے ہوں ۔تہذ یبی مظاہر،تمدن کی ترقیاں، تعمیرات، محلات، ایجادات،صنعتیں،کارخانے، سلطنتیں، عالی شان تعلیمی و مالی ادارے، جامعات و تجربہ گاہیں، علوم کے ذخیرے (بشمول ڈگریاں،نظریات ،فلسفے)، فنون،عجائب گھر۔

ان کارناموں کے ضائع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب صرف دنیا ہی کے لیے کیا گیا تھا،خواہ غیر مسلم نے کیا ہو یا نام نہاد مسلم نے ( ایک مسلم خلافت فی الارض کی ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے اللہ وآخرت کومدنظر رکھتے ہوئے یہی کام کرے گا تو یہی کام ثمر آور درخت ہیں)۔

مندرجہ ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام صرف دنیا کے لیے کیے گئے کیونکہ ان کو کرنے والے درج ذیل صفات کے حامل تھے: آیات کا کفر،تکذیب اور مذاق اڑانا، آخرت کا کفر و تکذیب، رسول کا مذاق اڑانا۔

 مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ  اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبَطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۡ   (ھود۱۱:۱۵-۱۶) جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔(وہاں معلوم ہو جائے گا کہ )جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا O  اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا O اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا O ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا O (الکہف۱۸:۱۰۳-۱۰۶) اے نبیؐ ! ان سے کہو ، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا(ملاقاتِ رب کا انکار کیا)۔ اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ، قیامت کے روز ہم انھیں  کوئی وزن نہ دیں گے۔ان کی جزا جہنم ہے اُس کفر کے بدلے جو انھوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۭ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (اعراف۷:۱۴۷) ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا اِنکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔ کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ ’’جیسا کریں ویسا بھریں؟‘‘

  • بظاہر نیکیاں: کافر، مشرک، منافق کی بڑی سے بڑی نیکی بھی ضائع ہوجائے گی، مثلاً دوسروں کی مدد، انفاق،رفاہی کام، اخلاق، صلہ رحمی اور ظاہری عبادات بھی ۔اگر ان کو کرنے والا کفر، شرک یا نفاق میں مبتلا ہو ، اور ان کا محرک اللہ کی رضا اور آخرت کا اجر نہ ہو۔ غیر مسلم کے کیے گئے بظاہر نیک کام ضائع ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح کلمہ گو مسلمان بھی کفر،شرک، نفاق،فسق اور   ظلم میں مبتلا ہواور اپنے بظاہر نیک اعمال کے متعلق کبھی یہ نہ سوچے کہ یہ اللہ اور آخرت کے لیے ہیں، صرف انسانیت کی خدمت یا اپنے دل کے سکون کے لیے کام کرے، تویہ بظاہر نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے۔

اس کے متعلق درج ذیل آیات و احادیث پڑھنے سے پہلے ، ہرمسلمان کو  اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کفر، شرک ، نفاق اور فسق ایک کلمہ گو میں بھی دَر آتا ہے۔قرآن میں کافروں،مشرکین ،منافقین اور فاسقین کی صفات تفصیل سے بتائی ہیں ۔ان کا بڑا مقصد یہ ہے کہ مومن اور مسلم ان صفات سے بچیں۔ ہمارا روزمرہ زندگی کا مشاہدہ بھی ہے کہ یہ صفات مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس لیے کفر، شرک ،نفاق اور فسق کی صفات کو پہچانیں اور ان سے بچیں۔ کیوںکہ ان سے حبطِ عمل ہوسکتاہے۔

مندرجہ ذیل آیات میں کافر/ مشرک/ منافق/ فاسق کا ذکر کر کےاورکہیں ان کی صفات کے ذکر کے بعد حبطِ عمل بتایا گیا ہے۔وہ صفات یہ ہیں: اللہ کی نازل کردہ تعلیم سے کراہت /اللہ کے راستے سے کراہت/اللہ کی ناراضگی والے راستے کی پیروی،استکبار،سرکشی میں حد سے گزرنا، صد عن سبیل اللہ، یعنی دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکنا۔ نفاق(برائی کا حکم،بھلائی سے روکنا، خیر سے روکنا، اللہ کو بھولنا، دنیا کے مزے لوٹ کر، بحثیں کرنا۔)انبیاکاقتل اور ان سے جھگڑا کرنا، مصلحین سے دشمنی رکھنا۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ  (محمد۴۷:۸) رہے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے تو اُن کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے ۔

سورئہ نور (۳۹-۴۰) میں بھی سراب کی طرح عمل بے معنی رہنے کی وجہ کفر بتائی ہے۔

سورئہ ابراہیم(۱۴:۱۸) میں اعمال راکھ کی طرح اڑنے ،کی وجہ رب سے کفر بتائی گئی ہے:

وَلَقَدْ اُوْحِيَ  اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ     ۚ  لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ O (الزمر۳۹:۶۵) یہ بات تمھیں ان سے صاف کہہ دینی چاہیے کیوںکہ تمھاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیا کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارا عمل ضائع ہو جائے ،گا اور تم خسارے میں رہو گے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ  کَرِھُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ  فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْ (محمد ۴۷:۹) کیوں کہ انھوں نے اُس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے، لہٰذا اللہ نے اُن کے اعمال ضائع کر دیے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۙ وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ O اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ  ۡ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ  O (اٰل عمرٰن۳: ۲۱-۲۲) جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں جو خلق خدا میں سے عدل و راستی کا حکم دینے کے لیے اُٹھیں ، ان کو درد ناک سزا کی خوش خبری سنا دو۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے ، اور اُن کا مددگار کوئی نہیں ہے۔

كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّاَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا ۭ فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِيْ خَاضُوْا   ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ     ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ O  (التوبہ۹:۶۹)تم لوگوں کے   رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمھارے پیش روؤں کے تھے ۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے ۔ پھر انھوں نے دنیا میں اپنے حصہ کے مزے لوٹ لیے اور تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اُسی طرح لُوٹے جیسے انھوں نے لُوٹے تھے ، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے ، سو ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کا سب کیا دھرا ضائع ہوگیا اور وہی خسارے میں ہیں۔

سورئہ فرقان (۲۱ تا ۲۳) میں اعمال غبار کی طرح اڑنے کی وجہ آخرت کا انکار، استکبار، سرکشی میں حد سے گزر جانا،بتایا ہے۔

سورئہ آل عمران (۱۱۷) میں پالے والی ہواکے کھیتی پر چلنے کی طرح، اعمال کے ضائع ہونے کی وجہ ،ظلم بتائی ہے۔

سورئہ توبہ (آیت ۱۰۹) میں اوپر درج کی گئی قرآنی امثال میں، کھوکھلی بے ثبات کگر پر بننے والی عمارت گرنے کی مثال، مسجد ضرار کے لیے دی گئی ہے جو کہ منافقین نے مدینہ میں بنائی تھی۔ نفاق کے ساتھ ،مسجد کی تعمیر جیسا مقدس کام بھی  مقدس نہیں رہتا اور رائیگاں چلا جاتا ہے۔

عدیؓ بن حاتم طائی سے روایت ہے کہ میں نے رسول ؐاللہ سے پوچھامیرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور بھی بہت اچھے اچھے کام کرتے تھے،انھیں کچھ ملے گا،یعنی اجر؟آپؐ نے جواب دیاکہ تمھارے والد کی جو نیت تھی وہ انھیں حاصل ہوگئی۔(احمد)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہےکہ انھوں نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ !ابن جدعان بڑی مہمان نوازی اور بڑی صلہ رحمی کرتاتھااور بھی بہت اچھے اچھے کام کرتاتھا۔ ان کاموں کااسے فائدہ ہوگا؟فرمایا، نہیں۔اس نے کسی دن یہ نہیں کہامیرے پروردگار! قیامت میں میری خطاؤں سے درگزر کرنا۔(مسلم،حاکم)

بظاہر نیکی مگر نیت کی خرابی

وہ کام جن کے کرنے والے کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔

انفاق ضائع ہوجاتا ہے(ابطال)،اگر اس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف دی جائے یا دکھاوے کے لیے کیا جائے۔اور اس کے لیے  چٹان پر سے مٹی ہٹنے کی مثال دی گئی ہے، اور کسب کی مقدرت نہ ہونا کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۴ )

 اعمال دنیا ہی کی نیت سے کیے جائیں تو  بڑھاپے میں باغ یا آمدنی کا واحد ذریعہ ختم ہو جانے کی مثال دی گئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۶ )

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ  ښ  وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ   O (التوبہ۹:۱۷) مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآنحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ اور جہنم میں انھیں ہمیشہ رہنا ہے۔

اس آیت میں اصل میں تو کافر و مشرک کا ذکر ہے لیکن مسلم کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ‘ مسجد حرام کی دیکھ بھال’ جیسی نیکی بھی ضائع ہو سکتی ہے۔اور اس کے بعد والی آیت کے مطابق ’حاجیوں کو پانی پلانا‘ بھی ۔

حدیثِ نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید، عالم اور سخی کو جہنم میں ڈال گیا کیوںکہ یہ دکھاوے کے لیے عمل کرتے تھے۔ اس طرح جان کی قربانی، حصولِ علم، صدقہ کیا ہوا مال ضائع ہوسکتے ہیں۔(نسائی، عن ابی ہریرہ)

  • نماز کو ورزش،روزے کو ڈائٹ پلان اور حج کو سیاحت کی نیت سے کرنے سے یہ عبادتیں بے معنی ہوسکتی ہیں۔ اچھے کام میں نیت بھی اچھی ہی رکھیں۔ یعنی صرف اللہ کی خوش نودی اور آخرت کا اجر۔

نیکیاں جن کے آداب کو ملحوظ نہ رکھا گیا

ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کیا گیا ہو ، قبول نہ ہوں گی،خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں، مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے،یا روزہ،حج اور دیگر عبادات  جن کے ارکان و شرائط علما نے الگ سے جمع بھی کردیے ہیں،وہ ان کا خیال رکھے بغیر کیے جائیں۔یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں ،جو ایک مومن کے لیے صحیح نہیں۔علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا،مومن سے مناسبت نہیں رکھتا۔

 وضو کے بغیر نماز اور غلول سے صدقہ قبول نہیں۔(ابوداؤد)

دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کوکسلمندی سے کیا جائے ،یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے،یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔

سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لیے نہیں،بلکہ نمازیوں کے لیے ہی تباہی کی وعید ہے۔ سورئہ نساء (آیت ۱۴۲) نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اور دکھانے کے لیے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔

اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔(سنن ابن ماجہ، ابو مسعود)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہےمگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔پوچھا گیا وہ کیسے ؟۔انھوں نے کہا: کیوںکہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود، نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: ایک شخص اسلام میں بوڑھا ہو گیا اور ایک رکعت بھی اس نے اللہ کے لیے مکمل نہیں پڑھی۔پوچھا گیا کیسے یا امیر المومنین؟فرمایا: اس نے اپنا رکوع پورا کیا اور نہ سجود۔

امام احمد بن حنبل نے فرمایا:انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے لیکن وہ نماز نہیں ہوگی۔

 حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ لاحاصل رہ کرصرف بھوک اور قیامِ لیل بے معنی ہو کر صرف جاگنا بن سکتا ہے۔(ابن ماجہ، ابو ہریرہ)

زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھنے کا ذکر ہے۔(التوبہ۹:۹۸)

جنید بغدادی کا ایک واقعہ کتب میں لکھا ہے،جس میں وہ ایک واپس آنے والے حاجی سے مناسکِ حج کے ساتھ کچھ کیفیات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ جب وہ نفی میں جواب دیتا ہے ،تو وہ اسے حج دوبارہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

کپڑے پہن کر ننگی رہنے والیوں کے لیے وعید ہے۔ اسی طرح خواتین کے ایسے عبایے جو ظاہری چمک و رنگ اور چستی سے مزید کشش کا باعث ہوں ، بے مقصد اور لایعنی پہناوا ہیں۔ مہمان نوازی کرکے ،مہمان کے جانے کے بعد اس پر تنقید و مذاق ،مہمان کی تکریم کی نفی ہے۔

  • نیکی کرنے کا طریقہ بھی صحیح رکھیں اور اس کے لیے اس کا علم حاصل کریں۔
  • نیکی کے دوران اس کے آداب اور دل کی کیفیات کا خیال رکھیں۔پوری رضامندی اور خوشی کے ساتھ نیکی کریں۔
  • نیکی کرتے ہوئے ڈرتے رہیں۔کیونکہ مومنوں کوعمل قبول نہ ہونے کاڈر رہتا ہے اور خشیت مومنوں کی کیفیت ہے۔ سورئہ انبیاء (آیت ۹۰) میں نیکیوں کی دوڑ دھوپ کے ساتھ خوف کا بھی ذکر ہے۔ رسول ؐ کو بھی اپنے عمل سے نہیں، اللہ کے ٖفضل اور رحمت سے ہی جنت میں جانے کی امید تھی(بخاری،ابو ہریرہ)
  • نیکی کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کر لیں۔ خواہ وہ نماز ہو، کوئی انفاق ہو، دین کے لیے نکلنا اور چلنا ہو، یا کسی بندے سے معاملہ ہو۔

 نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اللھم انی اسئلک علما نافعا و رزقا طیبا و عملا متقبلا،اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں نفع بخش علم،پاکیزہ روزی اور قبول ہونے والے عمل کا(ابن ماجہ، اُمِ سلمہؓ)۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دُعا کی تھی: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا،اے ہمارے رب ،ہم سے قبول فرمالے۔(البقرہ۲:۱۲۷)

علما نے کچھ دعاؤں میں سعی مشکور مانگی ہے،یعنی ایسی کوشش جس کی قدردانی کی گئی ہو۔

۵-نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں ،لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں۔ ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی negative marking سے دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر ،صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں ،جو صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لیتے ہیں۔ یہ برائیاں جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتی ہیں ،وہ یہ ہیں:

  •  نبی ؐ کے احترام میں کمی: نبیؐ کے احترام میں کمی دراصل اللہ کے احترام میں کمی اور باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O (الحجرات۴۹:۲ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آوازنبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہو اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔

  •  نبی ؐ کے احترام میں کمی: سورئہ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ        ۭ  فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ   O    وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ  جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ      ۭ  حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَO (المائدہ ۵:۵۲-۵۳) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔ اور اُس وقت اہلِ ایمان کہیں گے: ’’ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں؟‘‘۔ ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے۔

'یعنی جو کچھ انھوں نے اسلام کی پیروی میں کیا،نمازیں پڑھیں،روزے رکھے،زکوٰۃ دی، جہاد میں شریک ہوئے، قوانینِ اسلام کی اطاعت کی،یہ سب کچھ اس بناء پر ضائع ہوگیا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص نہ تھا اور وہ سب سے کٹ کر صرف ایک خدا کے ہوکر نہ رہ گئے تھے بلکہ اپنی دنیا کی خاطر انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے باغیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ رکھا تھا۔( تفہیم القرآن،سورئہ مائدہ۵:۵۳)

بنیادی طور پر اس کی وجہ یہی ہے کہ حق اور باطل دونوں سے تعلق رکھنا، نفاق ہی کی قسم ہے:

باطل دوئی پسند ہے ،حق لاشریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ  (محمد۴۷:۳۳ )اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔

اس آیت کے پسِ منظر کے لحاظ سے بھی، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کش مکش میں جان مال نہ لگاکر،محنت نہ کرکے اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔

حضرت کعب بن مالک کےواقعہ سے سبق ملتا ہےکہ وہ کسی بدنیتی کے بغیر صرف دنیوی مصروفیات کی وجہ سےحق و باطل کی کش مکش میں حق کا ساتھ نہ دے سکے تو ان کی پچھلی ساری عبادت گزاریا ں اور قربانیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔

  •  بُرائی سے منع نہ کرنا ، سمجھوتہ کرلینا : سورئہ اعراف میں اہلِ سبت کا ذکر ہے،جنھوں نے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے دوسروں کو منع نہ کیا ، تو ان کی اپنی نیکیں اکارت چلی گئیں۔ بستی پر عذاب کی ابتدا’نیک‘ شخص سے کی جائے کیوںکہ اس نے بستی والوں کو برائیوں سے منع نہیں کیا تھا۔ اس طرح اس شخص کی اپنی نیکیاں بھی ضائع ہوگئیں۔(ترمذی،ابوبکر صدیقؓ)

بنی اسرائیل کے علماء نے فاسقوں کو منع کرنے کے بجاے ان کے ساتھ کھانا،پینا اور بیٹھنا شروع کردیا تو ان پر بھی لعنت کی گئی۔(ابوداؤد، ترمذی،عبداللہ بن مسعود)

  •  فسق پر مبنی رویّہ: استطاعت کے باوجود ہجرت نہ کرنا:(النساء۴:۹۷-۹۸)

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ   ۭ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ    (التوبہ ۹:۵۳) ان سے کہو ’’ تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت ، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے ۔ کیوں کہ تم فاسق لوگ ہو۔‘‘

کبیرہ گناہ ڈھٹائی سے کرنے سے،کبھی کبھار کی گئی، یا چھوٹی نیکیوں کی قبولیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

مسلم کی روایت کے مطابق،حرام مال کھانے اور پہننے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی اگرچہ وہ لمبا سفر کرکے ،غبار آلود بالوں میں ،آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگے ۔اسی طرح حرام کمائی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ،تو وہ قبول نہیں ہوتا۔

سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندہ جب ایک لقمۂ حرام کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کا عمل قبول نہیں کرتا۔

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:میں اپنی امت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی، تو اللہ عز وجل ان نیکیوں کو غبار بنا دے گا۔حضرت ثوبان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !ہمیں ان لوگوں کی نشانیاں بتائیے،ہمارے لیے ان لوگوں کا حال   بیان فرمائیے،تاکہ ایسا نہ ہوکہ ہم انھیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوجائیں۔

رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:وہ تم لوگوں کے بھائی ہوں گے اور تم ان لوگوں کی جلد میں سے ہوں گے، اور رات کی عبادات میں سے اسی طرح لیں گےجس طرح تم لوگ لیتے ہو۔لیکن ان لوگوں کا معاملہ یہ ہوگاکہ جب وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو انھیں استعمال کریں گے۔(ابن ماجہ)

حضرت بُریدہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے عصر کی نماز چھوڑی ،اس کے عمل اکارت ہوئے(فقد حبط عملہ)۔(بخاری)

 عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے شراب پی، اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازیں قبول نہیں کرتا۔(لم یقبل اللہ) ۔ (ترمذی)

  •  اجتماعی معاملات میں بے احتیاطی:حضرت عبداللہ بن عمروسے روایت ہے کہ نبیؐ کو فتح ہوتی اور مالِ غنیمت حاصل ہوتا تو حضرت بلالؓ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کریں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ لے آئے۔لوگوں کے پاس جو مالِ غنیمت ہوتا، وہ اسے لے آتے۔جب سب مال جمع ہو جاتا تو پھر رسولؐ اللہ پہلے اس میں سے خمس الگ کرتے، پھر باقی مال کو تمام مجاہدین میں تقسیم فرمادیتے۔ ایک دفعہ مالِ غنیمت تقسیم ہو جانے کے بعد ایک آدمی بالوں کی ایک لگام لے آیا اور کہا کہ یہ لگام بھی ہم نے مالِ غنیمت میں پائی تھی۔آپؐ نے فرمایا:تم نے بلال کا اعلان جو اس نے تین دفعہ کیا تھا،سنا  تھا۔اس نے جواب دیا :ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:پھر بروقت کیوں نہ لے کرآئے؟ اس نے جواب دیا: بس دیر ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو اسے قیامت کے دن لے کرآنا،میں اب تم سے قبول نہیں کر سکتا۔(ابوداؤد)

حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایک غزوہ کیا۔ لوگوں نے (جلدبازی میں دوسروں کے اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کردی اور آمد و رفت کے راستے بندکردیے۔(جب آپؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے ایک منادی بھیجاکہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ جو اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کرے گا یا راستے بند کرے گا،اس کا جہاد اکارت۔(ابوداؤد)

حضرت ابوالدرداءؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: جس نے جزیہ کی  زمین خریدی،اس نے اپنی ہجرت کا عمل اکارت کردیا اور جس نے کسی کافر کی گردن سے ذلت کا طوق نکال کر اپنے گلے میں ڈال لیا ،اس نے اسلام کی طرف اپنی پشت کردی۔ (ابوداؤد)

  •  معاملات میں راست نہ ہونا:کسی کو گالی دینے، تہمت لگانے، قتل کرنے سے  انسان کے نماز ،روزہ اور زکوٰۃ دوسرے انسان کو  مل جاتے ہیں۔(ترمذی،عن ابوہریرہؓ)

 حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی۔ایک وہ امام جس کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ دوسرے وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں۔(ابنِ ماجہ)

حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی پاکباز عورت پر تہمت لگانے سے سو سال کے عمل برباد ہوجاتے ہیں۔

قرض واپس نہ کرنے سے شہید کا بھی جنت میں داخلہ رُک جاتا ہے۔(نسائی،محمد بن جحشؓ)

حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔(ابن ماجہ)

مندرجہ بالا احادیث میں کلمہ گو مسلمانوں کا ہی ذکر ہے اور ضائع ہونے والی چیز ان کی نیکیاں ہی ہیں۔

مندرجہ بالا احادیث کو دیکھتے ہوئےعلما نے تشریح کی ہے کہ کوئی گناہ ایسا ہےکہ اس سے کوئی مخصوص عمل ہی ضائع ہوتا ہے یا کسی مخصوص مدت کے لیے قبول نہیں ہوتا ۔اور کوئی گناہ ایسا ہے کہ اس کی شدت کے لحاظ سے نیکیاں بھی ضائع ہو سکتی ہیں۔لیکن ان کا کوئی ضابطہ ہم طے نہیں کرسکتے۔ (ترجمان السنۃ،جلد دوم،مولانا بدر عالم میرٹھی) البتہ یہ کہ گناہ کی شدت کے اضافے کے لحاظ سے احتیاط بھی اتنی ہی زیادہ ہونا چاہیے۔ ان سب پہلوؤں سے ایک مومن کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔

  •  ارتداد: پچھلی ساری عمر کی نیکیاں ختم ہونے کی ایک وجہ،ارتداد ہے۔یہاں تک کہ فقہا نے کہا ہے کہ مرتد اگر تجدیدِ ایمان کرے تو اس کے بعد نکاح کی بھی تجدید کرے اور حج دوبارہ کرے۔

وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ      ۚ  وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ   ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ   (البقرہ ۲:۲۱۷)

تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ  وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ     (المائدہ ۵:۵) اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ اُن کے مہر ادا کرکے نکاح میں اُن کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو ۔اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔

اہلِ کتاب خواتین سے نکاح کے بعد ارتداد یا ایمان کے منافی روش کا خطرہ ہے۔

تفسیر:اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے  طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائےوہ اپنے ایمان و اخلاق کی طرف سے ہوشیار رہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔( تفہیم القرآن)

  • ارتداد فقہی مفہوم کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے۔لیکن مومنوں کو ایک عمومی بات کاخیال رہنا چاہیے کہ نیکیوں کے راستے پرچلتے چلتے، وہ راستہ چھوڑنا نہیں چاہیے ، یا کوئی نیک عمل شروع کرکے ترک نہیں کرنا چاہیے۔

مندرجہ بالا حبط شدہ اعمال کی پانچ اقسام میں سے تین کا مقصود ،اللہ اور آخرت نہ ہونا واضح ہے۔گویا دنیوی کام اور اخلاقی امور صرف دنیا کے لیے کرنا یا نیت میں ملاوٹ ہونا۔قسم چار اور پانچ میں بھی اصل یہ ہوتی ہے کہ اس انسان کی نیت اور کمٹمنٹ میں ہی فتور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وہ عمل ناقص رہتا ہے۔قسم ۴میں علم کی کمی ،کیفیت کی کمی یا دوسرے اعمال کے ذریعے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے۔قسم ۵ پانچ،یعنی دوسری برائیوں کی وجہ سےاچھائیوں کے نمبر منفی اس لیے ہوجاتے ہیں کہ وہ درحقیقت عمل صالح تھے ہی نہیں۔ ابلیس کی پچھلی تمام ریاضتیں اسی لیے ضائع ہو گئیں۔ حدیث میں بھی ایسے انسان کا ذکر ہے جو تمام عمر اچھے کام کرکے آخر میں ایسے عمل شروع کردیتا ہے جو اسے دوزخ میں لے جائیں۔(بخاری،عبداللہ بن مسعود)

  نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان نیکیوں کو بچا کر رکھنے کی بھی فکر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو کہ ہرا بھرا باغ جل چکا ہے اور کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے (البقرہ۲:۲۶۶) ،اور جو بہت اچھا سمجھ کر کیا تھا ، وہ سب بیکار تھا۔ (الکہف۱۸:۱۰۵)

یارب میرے سجدوں کو لٹنے سے بچا لے چل

(نعیم صدیقی)

شعبان المعظّم قمری کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ہے، جو رجب اور رمضان کے درمیان آتا ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ شعبان وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے رکھے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان فرماتے ہیں:

قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللہِ لَمْ اَرَکَ تَصُوْمُ شَھْرًا مِنَ الشُّھُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ قَالَ ذَلِکَ شَھْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ  وَ رَمَضَانَ وَ ھُوَ شَھْرٌ تُرْفَعُ فِیْہِ الْاَعْمَالُ اَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ فَاُحِبُّ اَنْ یُرْفَعَ عَمَلِیْ وَاَنَـاصَائِمٌ (سنن النسائی، کتاب الصیام، حدیث: ۲۶۲۴) میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ!میں نے آپؐ کو شعبان کے علاوہ کسی مہینے کے اتنے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس کی فضیلت سے لوگ غافل ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ پس میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے کی حالت  میں ہوں۔

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان کے پورے مہینے میں اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے کسی ایک دن کو مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔

اُم المو منین حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں:

مَا رَایْتُ النَّبِیَّ یَصُوْمُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ الَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ (ترمذی ، ابواب الجمعۃ، ابواب الصوم عن رسو ل اللہ ، باب ماجاء فی وصال شعبان برمضان، حدیث: ۷۰۰) میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے علاوہ پے در پے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:

کَانَ رَسُوْلُ اللہِ  یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ: لَا یُفْطِرُ وَ یُفْطِرُ  حَتّٰی نَقُوْلَ:  لَا  یَصُوْمُ ،    فَمَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ اسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ اَلَّا رَمَضَانَ وَ مَا رَأَ یْتُہُ اَکْثَرَ صِیَاماً مِنْہُ فِیْ شَعْبَان (بخاری ، کتاب الصوم، باب صوم شعبان، حدیث: ۱۸۸۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے آپؐ روزہ رکھنا نہ چھوڑیں گے، اور آپ ؐ روزے چھوڑتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ؐ کبھی روزہ نہ رکھیں گے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آپؐ کو شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

ان احادیث سے ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی اہمیت کا علم ہوتا ہے۔ تاہم، پورے شعبان کے روزے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مختص تھے، جب کہ امت کو نصف شعبان کے بعد عمومی طور پر روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ وہ افراد اس سے مستثنیٰ ہیں جو ایامِ بیض یا پیر اور جمعرات کے روزے رکھتے ہوں یا گذشتہ رمضان کے قضا روزے رکھنا چاہتے ہوں۔ (سنن ابن ماجہ )

شعبان اور شب برا ٔ ت

 نصف شعبان کی رات عمومی طور پر شب ِ برأ ت کے نا م سے منائی جاتی ہے جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔ نیز اس کی فضیلت کے بارے میں کسی روایت میںبھی لیلۃ البرأت کا نام نہیں ملتا۔ برأ ت کے لفظی معنی اظہار بیزاری کے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ توبہ میں فرمایا:

بَرَاۗءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ (التوبہ ۹:۱) اعلانِ برأت ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے۔

اس آیت مبارکہ میں برأ ت کا لفظ مشرکین مکہ سے بیزاری کے اظہار کے لیے استعمال ہوا ہے۔ بالفرض اس لفظ کو اس رات کی وجۂ تسمیہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون کس سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے اور اس کا نصف شعبان کی رات سے کیا تعلق ہے ؟

  • نصف شعبان کی رات اور نزولِ قرآن : بعض لوگ نصف شعبان کی رات کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے سورۃ الدّخان کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۝۳  فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۝۴ۙ (الدخان ـ۴۴:۳-۴)ہم نے اِسے ایک بڑی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیوں کہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہرمعاملے کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ان آیات میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد نصف شعبان کی رات ہی ہے یا اس سے مراد کوئی اوررات ہے؟ لیلۃ مبارکۃ کے بارے میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا اور مبارک رات سے مراد لیلۃ القدر ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ  (القدر۹۷:۱ ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا‘‘۔ اور یہ لیلۃ القدر رمضان کی رات تھی جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:  شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ ۲:۱۸۵ ) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ، ص۴۰۸)

ابن کثیر ؒ کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد لیلۃالقدر ہے نہ کہ نصف شعبان کی رات۔ کیوںکہ قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل ہوا اور لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی ایک رات کا نام ہے۔ نیز لیلۃا لقدر ہی وہ رات ہے جس میں تمام امور کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق بھی لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہیے۔

حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبادہ بن صامت ؓنے بیان کیا کہ آپؐ اس لیے نکلے کہ ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتائیں۔ اتنے میں دو مسلمان لڑ پڑے تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’میں تمھیں شب قدر کے بارے میں بتانے کے لیے نکلا تھا لیکن فلاں کے لڑنے سے بھول گیا اور شاید تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم اس کو ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷،۲۹ میں تلاش کرو‘‘۔ (بخاری)

اُم المو منین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ؐ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے: ’’ رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر تلاش کرو‘‘۔ ( بخاری )

سورۃ الدّخان کی آیات کی تفسیر اور صحیح احادیث مبارکہ لیلۃ القدر کے رمضان میں ہونے کی وضاحت کے بعد یہ دعویٰ درست نہیں کہ لیلۃ القدر نصف شعبان کی رات ہے یا لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکۃ دو مختلف راتیں ہیں۔

  • نصف شعبان کی رات اور عبادات: نصف شعبان کی رات کے حوالے سے بعض عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے جو شرعاً ثابت نہیں ہیں۔ یہ عبادات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ کے دور کے بعد کی ایجاد ہیں۔ صحابہ کرام ؓ امت کے بہترین لوگ تھے۔ اگر اس طرح کی عبادات پسندیدہ ہوتیں تو وہ ان کو اپنانے میں پہل کرتے۔

حافظ ابن رجب لکھتے ہیں: ’’ نصف شعبان کی رات میں اہل شام کے تابعین میں سے   خالد بن معدان ، مکحول اور لقمان بن عامر وغیرہ بڑی محنت سے عبادت کرتے تھے۔ انھی تابعین سے لوگوں نے اس رات کی تعظیم اور فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جن میں بصرہ کے کچھ    عبادت گزار تھے، مگر علماے حجاز کی اکثریت نے اس کا انکار کیا۔ جن میں امام مالک ، عطاء ابن ابی ملیکہ اور دیگر فقہاے مدینہ شامل تھے۔ سب ہی نے اسے بدعت کہا‘‘۔

عبادات کے لیے مخصوص دنوں اور راتوں کا ذکر واضح طور پر قرآن اور احادیث میں ملتا ہے۔ مثلاً محرم الحرام میں یومِ عاشورہ ، عشرہ ذوالحجہ ، یومِ عرفہ، یوم النحر ، ایام تشریق ، ماہ رمضان ، لیلۃ القدر ، یوم جمعہ، ایام بیض، یعنی ہر قمری مہینے کی ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ وغیرہ مگر شب براء ت کی عبادت کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔

  • اَلصَّلاَ ۃُ الْاَلْفِیَۃُ : نصف شعبان کی رات کی جانے والی ایک عبادت اَلصَّلَاۃُ الْاَلْفِیَۃُ ہے۔یہ سورکعت نماز ہے اور ہر رکعت میں سورۃ الاخلاص دس مرتبہ پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح سورۃ الاخلاص کی کل تعداد ایک ہزار مرتبہ ہو جاتی ہے۔

برعظیم پاک وہند میں اس نماز کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے۔ لوگ غروب آفتاب سے کچھ پہلے ہی مساجد میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ فرض نمازیں ادا نہ کرنے والے بھی یہ نماز پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ اس رات کی برکت سے ان کے سابقہ تمام گناہ اور خطائیں معاف ہو جائیں گی اور ان کی عمر، کاروبار اور رزق میں برکت ہو جائے گی۔ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات میں کوئی مخصوص نماز نہیں پڑھی اور نہ خلفاے راشدینؓ ہی نے اور نہ ائمہ دین امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ ، امام ثوریؒ ، امام اوزاعیؒ ، اور امام لیث ؒ میں سے کسی نے اسے قبول کیا ہے۔

اس بارے میں جو روایات منقول ہیں بالاتفاق تمام اہل علم اور محدثین کے نزدیک موضوع ہیں۔ اس کی ابتدا کے بارے میں علامہ مقدسی ؒ فرماتے ہیں: ’’ہمارے ہاں بیت المقدس میں نہ صلوٰۃ الرّغائب  (جو رجب کے مہینے میں پہلے جمعہ کو ادا کی جاتی ہے ) کا رواج تھا،      نہ صلوٰۃِ شعبان کا۔ صلوٰۃ شعبان کا رواج ہمارے ہاں سب سے پہلے اس وقت ہوا جب ۴۴۸ھ میں ایک شخص ’ابن ابی الحمراء ‘ نابلس سے بیت المقدس آیا۔ وہ بہت اچھا قرآن پڑھتا تھا۔ وہ شعبان کی پندرھویں تاریخ کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کھڑا ہوا۔ اس کی حسنِ قراء ت سے متاثر ہو کر ایک شخص اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا، پھر ایک اور پھر ایک اور، اس طرح کافی لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر وہ دوسرے سال بھی پندرھویں شعبان کی شب آیا اور حسب سابق لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھی۔ پھر سال بہ سال اسی طرح ہوتا رہا اور یہ بدعت زور پکڑ گئی، بلکہ گھر گھر پہنچ گئی اور اب تک جاری ہے‘‘۔

مُلّا علی قاری صَلَاۃُ الْاَلْفِیَہُ کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری کہتے ہیں کہ: نصف شعبان کے روزے کی فضیلت میں مجھے کوئی صحیح اور مرفوع حدیث نہیں ملی۔ (تحفۃ الاحوذی، ج۳، ص ۵۰۵)

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اضافے اصل دین میں ہوتے رہتے ہیں اور فتہ رفتہ دین کا حصہ بن جاتے ہیں ، یوں دین اسلام کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔

  • سلامی روزہ: استقبالِ رمضان کے طور پر ، سلامی روزہ شعبان کے آخر میں رکھا  جاتا ہے۔ یہ روزہ نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا اور نہ کسی اور کو رکھنے کا حکم دیا۔    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب نصف شعبان باقی رہ جائے تو اس کے بعد روزہ نہ رکھو‘‘۔ (ترمذی )

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’رمضان سے ایک یا دو دن پہلے کوئی شخص روزہ نہ رکھے، البتہ وہ شخص جو اپنے معمول کے مطابق روزے رکھتا آ رہا ہے وہ رکھ سکتا ہے‘‘ (بخاری ) ۔یعنی کسی کا فرض روزہ رہتا ہو تو وہ رکھ لے یا وہ شخص جو پیر یا جمعرات کے مسنون روزے رکھتا ہے اور وہ دن رمضان سے پہلے آ رہے ہوں تو ایسا شخص روزہ رکھ سکتا ہے۔

  • مخصوص اذکار و حلقے: نصف شعبان کی رات لوگ مسجدوں میں حلقہ بنا کر بیٹھتے ہیں اور ہرحلقے کا ایک ذمہ دار ہوتا ہے ۔ دیگر افراد ذکر اور تلاوت میں اس کی اقتداء کرتے ہیں، مثلاً کلمہ طیبہ یا دوسرے اذکار کو خاص طرز اور ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں۔یہ خود ساختہ اعمال ہیں جن کی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔

نصف شعبان کی رات اور مختلف رسومات

  • قبرستان جانا: نصف شعبان کی رات کے بارے میں ایک بات مشہور کر دی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بقیع کے قبرستان تشریف لے گئے اور دلیل کے طورپر مندرجہ ذیل روایت پیش کی جاتی ہے:

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے پاس ہوتی تو آخرِ رات میں بقیع (قبرستان ) کی طرف نکلتے اور کہتے :

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُوْمِنِیْنَ وَاَتَـاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ غَدًا مُؤَ جَّلُوْنَ وَاِنَّـا اِنْ  شَا ءَ   اللہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ  اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ  لِاَھْلِ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ  ( مسلم ، کتاب الجنائز، باب ما یُقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا ، حدیث ۱۶۷۱) سلام ہو  تم پر اے گھر والو مومنو! جس کل کا تم سے وعدہ تھا کہ تمھارے پاس آنے والا ہے،  وہ تمھارے پاس آ چکا اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ !  بقیع غرقد والوں کو بخش دے۔

اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نصف شعبان کی رات کو خاص طور پر قبرستان جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ آپؐ اپنے معمول کے مطابق قبرستان گئے تھے۔

  • قبر پر لکڑی گاڑنا: قبر پر لکڑی گاڑ کر مُردے کے حسب حال کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور اس سے باتیں کی جاتیں ہیں، دعائیں اور گریہ وزاری کی جاتی ہے ۔ ان اعمال کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
  • روحوں کی واپسی: بعض لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خاندان کی میّتوں کی روحیں  اس رات اپنے گھر آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ ان کے لیے کیا پکایا گیا ہے۔ چنانچہ لوگ مٹھائیاں، حلوے اور دیگر اشیا بنانے کا اہتمام کرتے ہیں اور انھیں گھروں میں مخصوص مقامات پر رکھا جاتا ہے تا کہ میّت کی روح وہاں آ کر خوش ہو۔ اس طرح گھروں کو صاف کیا جاتا ہے۔ یہ من گھڑت اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ کیونکہ قرآن اور سنت کے مطابق نیک روحیں عِلّیین میں اوربری روحیں سِجّین میں ہوتی ہیں۔ان روحوں کا یہ حصار توڑ کر دنیامیں آ جانا گویا اللہ کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے:

وَمِنْ وَّرَاۗىِٕہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝۱۰۰ (المومنون۲۳: ۱۰۰ ) اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے، دوسری زندگی کے دن تک۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک شبِ برأ ت کے موقعے پر ختم کی رسم ادا نہ کی جائے تو میت کا شمار مردہ میں نہیں ہوتا اور اس کی روح معلق رہتی ہے۔ یہ بھی ایک غلط عقیدہ ہے جس کا ثبوت قرآن مجید یا احادیث مبارکہ میں نہیں ملتا۔

  • مُردوں کی عید: بعض لوگ نصف شعبان کو مُردوں کی عید کہتے ہیں۔ ان کے مطابق عید الفطر زندوں کی عید، جب کہ شبِ براء ت مُردوں کی عید ہے۔ اگر کوئی مر جائے تو شبِ برأ ت کی فاتحہ دلائے بغیر کوئی خوشی کا دن نہیں منایا جا سکتا ۔ یہ بھی ایک من گھڑت بات ہے۔
  • حلوہ پکانا: نصف شعبان کے دن حلوہ پکا کر تقسیم کرنا بھی ایک ضروری امر بن چکا ہے اور اس فعل میں عوام کی اتنی بڑی تعداد شامل ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جنگ ِ اُحد میں شہید ہوئے تو ان کو حلوہ بنا کر کھلایا گیا۔ حالا ں کہ جنگ ِ اُحد شوال میں ہوئی اور حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی ؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اتباع میں دانت شہید کیے اور انھوں نے حلوہ کھایا۔ اس روایت میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس طرح کی بے بنیادباتوں کی ایک طویل فہرست پائی جاتی ہے۔

  • چراغاں و آتش بازی: گھروں ، چھتوں، مسجدوں، درختوں اور قبرستانوں وغیرہ پر چراغاں کرنا، قندیلیں روشن کرنا، پٹاخے چھوڑنا، آتش بازی کرنا اور پوری رات اس کھیل تماشے کے ساتھ جاگ کر گزارنا، نصف شعبان کی رات میں ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ ہندوئوں کی دیوالی ، مجوسیوں کی آتش پرستی کی نقل کے سوا کچھ نہیں ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلم اقوام کی مشابہت سے سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ  مِنْھُمْ (سنن ابی داؤد ، کتاب اللباس، باب فی بس الشّھرۃ، حدیث ۳۵۳۰) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انھی میں سے ہے۔

ضعیف روایات

نصف شعبان کی رات کی فضیلت سے متعلق جو روایات بیان کی جاتی ہیں وہ نہایت ضعیف ہیں جن سے استدلال کرنا کسی طور درست نہیں، مثلاً :

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ماہِ رمضان کے بعد کس ماہ میں روزہ رکھنا افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ماہِ رمضان کی تعظیم میں شعبان کا روزہ ۔ پھر دریافت کیا کہ کس ماہ میں صدقہ وخیرات کرنا افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:ماہِ رمضان میں صدقہ کرنا۔

امام ابن الجوزی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا کیوںکہ اس کا ایک راوی صدقہ بن موسیٰ درست نہیں۔ ابن حبان نے کہا کہ صدقہ جب روایت کرتا ہے تو حدیثوں کو الٹ دیتا ہے۔ امام ترمذی ؒ نے کہا کہ محدثین کے نزدیک صدقہ ، قوی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ روایت ابو ہریرہؓ کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں بیان ہے کہ ماہِ رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا ہے۔

  • اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات نبی اکرم صلی اللہ    علیہ وسلم کو بستر سے گم پایا۔ میں آپ ؐ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ ؐ بقیع میں ہیں۔ مجھے دیکھ کر    نبی اکرم ؐنے فرمایا: کیا تو اس بات کا خوف کھاتی ہے کہ تجھ پر اللہ اور اس کا رسولؐ ظلم کریں گے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ ! میں نے سمجھا کہ آپ ؐ کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان کی نصف شب کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔

امام ترمذی ؒ نے کہا ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی اس حدیث کو ہم حجاج کی سند سے جانتے ہیں اور میں نے امام بخاری ؒ سے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام دارقطنی ؒ نے کہا: یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے اور اس کی سند مضطرب ہے اور غیر ثابت ہے۔ علامہ البانی ؒ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

موضوع روایات

بہت سی روایات تو ’موضوع‘، یعنی من گھڑت ہیں جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا بھی گناہ ہے۔

  • رجب اللہ کا مہینہ ہے، اور شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔

حافظ ابوالفضل بن ناصرؒ نے اس کے ایک راوی ابو بکر نقاش کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ دجال اور حدیث گھڑنے والا ہے۔ ابن وحیہؒ ، علامہ ابن الجوزیؒ ، علامہ صغانیؒ اور علامہ سیوطیؒ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔

  • اے علیؓ ! جو شخص نصف شعبان کو سو رکعت نماز پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الاخلاص دس مرتبہ پڑھے۔ اے علیؓ ! کوئی بندہ نہیں ہے جو ان نمازوں کو پڑھے مگر اللہ تعالیٰ اس کی ہر حاجت اور ضرورت کو جو وہ اس رات مانگے پوری کر دیتا ہے۔

علامہ ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے موضوع ہونے میں مجھے کوئی شک وتردد نہیں ہے اور اس حدیث کے تینوں طُرقُ (طریقوں) میں مجہول اور انتہائی درجے کے ضعیف راوی ہیں۔ علامہ ابن القیم ؒ، علامہ سیوطیؒ اور علامہ شوکانی ؒنے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے۔

جو شخص نصف شعبان کو بارہ رکعت نماز پڑھے جس میں ہر رکعت میں( قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ )  تیس بار پڑھے تو وہ نماز مکمل کرنے سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانا نہ دیکھ لے گا۔

علامہ ابن القیمؒ، علامہ سیوطی ؒاور علامہ ابن الجوزی ؒنے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ اس کے راویوں میں ایک پوری جماعت مجہول لوگوں کی ہے۔

  • حضرت علیؓ بن ابو طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب نصف شعبان ہو تو تم اس رات قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے بعد آسمانِ دنیا میں نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی ہے مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں! کوئی ہے روزی کا خواستگار کہ میں اسے روزی دوں! کوئی ہے مصائب کا گرفتار کہ میں اسے عافیت دوں اور کوئی ہے ___اور کوئی ہے ___یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جائے۔

علامہ بوصیریؒ کے مطابق اس کے راویوں میں ابو بکر بن عبداللہ بن محمد بن ابی سبرہ ہے، جس کے بارے میں امام احمد ؒ، ابن معینؒ اور حافظ ابن حجرؒ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔

خلاصۂ بحث : ان روایات کے مطالعے کے بعد بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جشنِ شبِ برأ ت اور اس میں کی جانے والی عبادات کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام عبادات کا اصل مقصد اللہ کی خوشنودی اور رضا کا حصول ہے۔ ہمیں بالکل اختیار نہیں کہ ہم خود سے دین میں ، کسی عبادت کو کسی خاص وقت یا طریقے سے متعین کر لیں، جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں نہیں دیا۔ اگر ہم ایسا کریں تو ہم اللہ کے دین کو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو نامکمل سمجھنے کی عظیم غلطی کر رہے ہیں اور ایک بدعت کے مرتکب ہو رہے ہیں (نعوذ باللہ من ذلک )۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَہَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۲۱ (الشعراء ۴۲: ۲۱) پھر میں تمھارے خوف سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما لیا۔

لہٰذا ضروری ہے کہ جس وقت، طریقے ، تعداد اور انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی، یاکرنے کا حکم دیا ہے، ہم ان کو اسی طرح ادا کریں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱(الحجرات ۴۹: ۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کُلُ مُحْدَثَۃٍ  بِدْعَۃٌ  وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَ کُلُّ ضَلاَلَۃٍ فِی النَّارِ (النسائی ، کتاب صلوٰۃ العیدین، کیف الخطبۃ، حدیث ۱۷۶۷) ہر نیا کام (دین میں داخل کرنا) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں جانے والی ہے۔

عبادات میں آپ ؐ کے طریقے کی من وعن پیروی میں ہی ہماری دین ودنیا کی کامیابی اور اُخروی نجات کا دارومدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج     وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج    وَاتَّقُوا اللہَ ۝۰ۭ   اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۷ۘ (الحشر۵۹: ۷)جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

ایسی بہت سی غیر تحقیق شدہ باتیں ہمارے دین میں داخل ہو چکی ہیں۔ اکثر جہالت ، لا علمی یا نادانی کے سبب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور بعض اوقات جانتے بوجھتے غلو کرتے ہوئے ایسا کیا جاتا ہے۔ ان سے اجتناب بہت ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّار (بخاری ، کتاب العلم، باب اِثم من کذب علی النبی، حدیث:۱۰۶)  جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ گھڑا اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اصل دین پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیا ل کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر نہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔ (التحریم ۶۶:۶)

اللہ، ربِ مہربان ہمیں خود کو اوراپنے اہل خانہ کو دوزخ کی شدید آگ سے بچنے کا حکم دے رہے ہیں۔ وہ آگ جس پر مقرر فرشتوں کے دلوں میں کسی کے لیے کوئی نرمی نہ ہوگی۔ کسی کی فریاد اور آہ وبکا ان پر کوئی اثر نہ کرے گی۔ وہ دوزخ جس کی آگ دنیا کی آگ سے ستّر گنا زیادہ شدید ہو گی۔

جہاں شدید تپش اور جلن ہو گی لیکن پینے کو ٹھنڈا پانی نہ ہو گا، بلکہ جلتے ہوئے زخموں سے نکلنے والی پیپ اور کھولتا ہوا پانی ہو گا، اللہ کی پناہ!

جہاں کھانے کو ایسا زہریلا اور کانٹے دار درخت ’تھوہر‘ ہو گا کہ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’اگر دوزخ کے’ تھوہر‘ کا ایک قطرہ بھی دنیا میں ٹپک پڑے تو یہا ں رہنے والوں کا جینا دو بھر ہو جائے ۔پھر ان پر کیا بیتے گی جن کی غذا ہی ’تھوہر‘ ہو گی‘‘۔ (ترمذی )

کیا ہمیں معلوم ہے کہ دوزخ میں لے جانے والے اعمال کون کون سے ہیں؟

کیا ہم نے ان سے خود اور اپنے اہل وعیال کو بچانے کا کوئی منصوبہ بنا رکھا ہے ؟

ماں تو وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں کو ایک کانٹے کا چبھنا بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ بچہ بیمار ہو تو ماں کی جان پر بن جاتی ہے۔ وہ علاج کے ساتھ ساتھ اللہ کے آگے ہاتھ بھی پھیلا دیتی ہے، اور سب ملنے والوں سے کہتی پھرتی ہے کہ میرے بچے کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ اس کی سکول کی تعلیم کے لیے سخت پریشان ہوتی ہے اور اس میں کوتاہی پر بچے کی مار کٹائی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اس کی صحت ، کاروبار اور دیگر مادی ضروریات کے لیے وظیفے کرتی ہے اور کراتی ہے۔ الغرض اپنے بچے کی دنیوی ضروریات کے لیے ایک ماں نہ اپنا آرام دیکھتی ہے، نہ دن اور رات کا چین۔

لیکن کتنی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ فکر ہو کہ بچے جنت کے باغوں کے پھول بن رہے ہیں یا دوزخ کا ایندھن بننے جارہے ہیں؟

اور کتنی تحریکی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ تڑپ ہو کہ ان کے بچے ان کے نصب العین کے وارث بنیں اور اقامت دین کی تحریک کے باعمل ومتحرک داعی بنیں ؟

حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق: ’’ہم راعی ہیں اور ہم سے ہماری رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ‘‘۔

اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ دنیا میں بھی ایک اَن پڑھ اور پڑھے لکھے فرد کے امتحانی سوالات کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک غیر تحریکی اور کم شعور رکھنے والی ماں کا حساب کچھ اور طرح کا ہوگا، اور زندگی کا مقصد سمجھ کر اس کو عملاً اپنانے والی ماں کا بحیثیت راعی ذمہ داریوں کا حساب فرق ہوگا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہم سے آسان حساب لے اور نرمی کا معاملہ کرے۔ آمین !

ایک خصوصی قلیل المیعاد منصوبہ بنائیں اور بہت ساری خصوصی دعائیں کریں تا کہ ہم    روزِ قیامت کے اس منظر کو دیکھنے سے بچ سکیں کہ خدا نخواستہ ہمارے اہل وعیال میں سے کسی کو فرشتے طوق اور زنجیریں پہنا کر دوزخ کی طرف کھینچ رہے ہوں، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا۔

اس وقت ہماری زندگیاں تین طرح کی معاشرت کا ملغوبہ ہیں:

  • کچھ اسلامی شعائر پر مبنی طرزِ زندگی
  • جاہلیتِ قدیمہ اور خاندانی رسومات
  • جدید تعلیم اور مغربی معاشرت تیزی سے ہماری زندگی پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ خصوصاً معاشرتی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ دین داری ’انتہا پسندی‘ ٹھیری ہے۔ شرافت، حیا، عزت کے سکّے کھوٹے ہورہے ہیں۔ سادگی ، کفایت شعاری کی جگہ مادیت پرستی اور ریا کاری نے لے لی ہے۔

اصل اور خالص اسلام خال خال نظر آتا ہے۔ دین کا فہم اور زندگی کا شعورو مقصد رکھنے والی ایک ماں کو نہ صرف ماحول کے اثرات سے اپنے بچوں کو بچانا ہے، بلکہ اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ  وہ اصلاحِ معاشرہ اور فروغ دین کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرے، تا کہ اللہ کی زمین شیطان کے حملوں سے محفوظ ہو سکے اور اللہ کے بندے اللہ کی جانب رجوع کر کے دوزخ سے بچ سکیں۔

اور ایسی مائیں بگاڑ کے اس دور میں یقینا انقلاب برپا کر سکتی ہیں، ان شاء اللہ ۔ شرط یہ ہے کہ دل میں تڑپ پیدا ہو جائے اور اتنی حرارت پیدا ہو جو انھیں متحرک کر دے۔

کرنا کیا چاہیے ؟___اس کے لیے لائحہ عمل پیش ہے!

l والدین کا کردار :رب کائنات کے فرمان کے مطابق پہلا حکم ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ(التحریم ۶۶:۶)اے ایمان والو ! اپنے آپ کو بچائو۔

سب سے پہلے ماں اور باپ کو اپنے ایمان وعمل کا تجزیہ کرنا ہے۔ اس کی اصلاح کرنی ہے۔ اپنے آپ کو صحیح اور سچا مسلمان بنانا ہے۔ رول ماڈل بننا ہے۔ کیونکہ بچے کی تربیت کا آسان طریقہ اپنا بہترین کردار بچے کے سامنے رکھنا ہے۔ نمازی ماں کے بچے نا سمجھی کی عمر میں بھی   جاے نماز لے کر اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، اور گالیاں دینے والے والدین کے بچے  گھٹی میں گالیاں ہی سیکھتے ہیں۔ اس لیے ذرا ان نکات پر غور کریں:

  • ہمارا ایمان کس درجے کا ہے ؟
  • فکر آخرت کتنی ہے ؟
  • اپنے انجام سے کتنے  خوف زدہ رہتے ہیں؟
  • حب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس درجے کی ہے ؟
  • عبادات کی کیفیت کیا ہے ؟
  • نمازیں کس پابندی اور کتنے خشوع سے ادا ہوتی ہیں ؟
  • قرآن پاک سے تعلق کتنا ہے ؟
  • دیگر عبادات اور انفاق فی سبیل اللہ کس قدر ہے ؟
  • بچوں اور اہل خاندان سے معاملات کیسے ہیں ؟
  • میاں بیوی کے تعلقات کیسے ہیں ؟

یقینا جھوٹ بولنے والی ، غیبتیں کرنے والی ماں کی اولاد کا حسن خلق سے آراستہ ہونا بہت مشکل ہے۔ (الا ما شاء اللہ!)

ماں کا لبا س حیا دار ہو گا تو بچے بھی حیا سے آراستہ ہوں گے۔ باپ غیرت مند ہو گا تو اولاد بھی ویسی ہی ہو گی۔ ان شاء اللہ !

اسی طرح تمام معاملات میں احساس ذمہ داری ماں کے اندر کتنا ہے ؟___وہ کاموں کو احسن طریقے سے انجام دینے والی ہے یا ذمہ داریوں میں ڈنڈی مارنے والی ہے ؟___ الغرض ماں اور باپ وہ سانچے ہیں جن کے مطابق اولاد ڈھلتی ہے اور اس کا بہترین پیمانہ خود رب کائنات نے تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ خاندان کی تشکیل سے لے کر موت تک تقویٰ کا حکم دیا:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ (النساء۴:۱) اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو ، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ۔

یہ تقویٰ ایک پیمانہ ہے۔ برعظیم کے ایک معروف عالمِ دین سے کسی نے اولاد کی نافرمانی کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایا :اپنی زندگی کو دیکھو !تم اللہ کے کتنے فرماں بردار ہو ؟ گویا اولاد کی صالحیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین اللہ کے اطاعت گزار اور اس سے ڈرنے والے ہوں۔ ان شاءاللہ رحیم وکریم اللہ اولاد کو ضائع نہیں کرے گا (اِلا یہ کہ کوئی آزمایش مطلوب ہو) ۔

l گھر کا ماحول: والدین کے کردار کے بعد بچوں پر اثر انداز ہونے والی دوسری چیز گھر کا ماحول ہے۔ جہاں ماحول غیر اسلامی ہو ، گھر میں رات دن فحش فلمیں اور ٹی وی ڈرامے چلتے ہوں، جہاں لڑائی جھگڑا رہتا ہو، مخلوط معاشرت ہو، اسراف وتبذیر ہو، طرزِ زندگی اسلام کے بجاے مادیت پرستی کا علَم بردار ہو، گھر کی پاکیزہ معاشرت کے بجاے مصنوعی سجاوٹ وبناوٹ پر زیادہ زور ہو، وہاں بچوں کا صالح بن کر اُٹھنا دشوار ہے۔ لہٰذا، والدین کی ذمہ داری ہے کہ اولاد کے دنیا میں آنے سے قبل اپنے گھر کے ماحول کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی بھرپور کوشش کریں۔

عمومی زندگی سے لے کر خصوصی تقریبات تک سب پر اللہ کا رنگ غالب ہو تو بچوں پر بھی یہ ہی رنگ چڑھے گا۔ ان شاء اللہ !

صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً ز(البقرہ ۲:۱۳۸) اللہ کا رنگ، اور   اللہ کے رنگ سے اچھا اور کون سا رنگ ہو سکتا ہے۔

کاش! ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ یہی بہترین رنگ ہے، بہترین ماحول ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی اسی میں عافیت ہے۔ اگر ایسا ہو جائے کہ ہمارا سونا جاگنا، کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھنا،    اُوڑھنا بچھونا، سجاوٹ بناوٹ ، سب کچھ درست ہو جائے۔ تقریبات میں ہندووانہ تہذیب کی بجاے اللہ کا رنگ غالب آ جائے، اور لباس ، وضع قطع یہودو نصاریٰ جیسی بنانے کے بجاے جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا خاتونِ جنت جیسی بنا کر ہمیں سکون واطمینان حاصل ہو، تو بھلا خاندان پر اسلامی سوچ کیوں نہ غالب ہو گی!

یقینا ، جس گھر میں توحید کا بول بالا ہوتا ہے ، وہ شرک اور بدعات سے بچ جاتا ہے۔ اس گھر کے بچوں پر مفاد پرست اور علماے سوء کی تعلیمات اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ ان شاء اللہ !

جو مائیں جنوں اور چڑیلوں کی کہانیاں سنانے کے بجاے اپنے بچوں کو قصص الانبیا ؑسناتی ہیں، ان کا آئیڈیل انبیا علیہم السلام ہی بنتے ہیں۔

جو مائیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رول ماڈل بناتی ہیں، وہ ان کی زندگی کے خدوخال سے اپنے بچوں کو گفتگو میں، کھانے پر، اُٹھتے بیٹھتے آگاہ کرتی رہتی ہیں، تو بچے اس ماحول میں خود کو پروان چڑھاتے ہیں۔

تاہم، اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل امور میں بچوں کی رہنمائی ضروری ہے:

بنیادی تعلیمات راسخ کرنا

l توحید:بچوں میں توحید راسخ کرنے کی شعوری اور انتہائی کوشش کرنا بہت ضروری ہے، اس لیے کہ ’شرک‘ وہ گناہ ہے جو معا ف نہ ہو گا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج (النساء ۴:۴۸)اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے۔

 شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے:

اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ (المائدہ۵ :۷۲) جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا ، اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی۔

موجودہ دور کے خطرات اور شرور میں ’دین کے نام پر بے دینی کے سود اگروں ‘ کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ خصوصاً میڈیا کی وجہ سے بے حیائی کے ساتھ ساتھ بدعات اور شرک کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ لہٰذا بہت چھوٹی عمر میں کلمہ طیبہ کا مفہوم بچوں کے ذہن میں پختہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لیے انھی دو چیزوں کو مضبوطی سے تھامنا ضروری ہے، جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے ، یعنی قرآن اور سنت رسولؐ۔

لہٰذا ،اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہمارے گھروں میں ان بنیادوں سے وابستگی کتنی ہے ؟ ان کی تعلیم وتدریس کا کیا بندوبست ہے ؟ بچے قرآن وحدیث کو کتنا سمجھتے ہیں ؟ کتنے بچے قرآن پاک کا ترجمہ سمجھتے ہیں؟ اور تفسیر کی شد بد ھ رکھتے ہیں ؟ اور اس کے لیے کتنی محنت کی جاتی ہے ؟ اس کا ایجنڈا بنانا اور بچوں کی عمر کے لحاظ سے نصاب طے کرنا اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے ۔

  • نبی کریم ؐکی محبت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق بچوں کے اندر پیدا کرنا___ اتنی محبت، اتنی محبت، کہ جو تمام محبتوں پر غالب آ جائے ورنہ تو ایمان ہی مکمل نہیں۔ چھوٹے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم دل نشین انداز میں کہانی کی صورت میں قسط وار سنائی جائے، اور بڑے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرایا جائے۔
  • فکرِ آخرت:آخرت پر مضبوط ایمان اور فکر آخرت ہی شرور سے بھری اس دنیا میں گناہوں اور برائیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ بچوں کے اندر جنت کا شوق ، دوزخ کا ڈر مؤثر طریقے سے پیدا کیا جائے۔ اس طرح کہ بچے جنت کے حصول اور دوزخ سے بچنے کی تیاری میں لگ جائیں۔

میڈیا کے بگاڑ کے اس دور میں خشیت الٰہی اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو اس کے نقصانات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ والدین پاس موجود ہوں یا نہ ہوں، بچے کو یہ شعور ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے، تو یہ فکر بہترین محاسب ہے۔ ان شاء اللہ !

  • صحابہ کرامؓ بطور مثال: بدلتی ہوئی قدروں اور اس زوال پذیر معاشرت میں، جب بھانڈ، گویے اور کھلاڑی نوجوانوں کے آئیڈیل بنا دیے گئے ہیں، ان کی سوچ اور تخیل کو درست رکھنے کے لیے اعلیٰ ترین کردار بطور مثال ان کے سامنے پیش کرنے ضروری ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور صحابیات ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست تربیت کردہ مثالی انسان تھے۔ عشقِ رسولؐ سے بچوں کو سرشار کرنے کے بعد، اس عشق کے تقاضے پورے کرنے والوں کی عملی تصاویر اور نمونے، آج کے ہیروز کے ساتھ تقابل کر کے اصل روح کے ساتھ بچوں کے سامنے رکھے جائیں۔ بچپن میں کہانیوں کی صورت میں اور بعد میں لٹریچر اور سٹڈی سرکلز کی صورت میں تاکہ وہ اپنے تصور میں طے کرلیں کہ ’بڑا ہو کر کیا بنوں گا۔‘اور پھر ان کو ویسا بننے میں پوری مدد ومعاونت فراہم کی جائے۔
  • عبادات:خصوصاً نماز کی عادت پختہ کرنا۔ ابتدائی عمر سے تقریباً سولہ سال کی عمر تک بچوں کی نماز کے معاملے میں نگرانی اور یاددہانی کا تسلسل رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد الحمد اللہ بچے پختہ عادات اپنا لیتے ہیں۔ اس دوران محض ’نماز پڑھو‘ کی گردان نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ’نماز مومن کی معراج‘ بناکر بچوں کے قلب وروح کے اندر اتاری جائے اور ہر دکھ درد، مشکل کا علاج بذریعہ نماز سکھایا جائے۔ نیز اس کا دین کا ستون ہونا دلائل سے ثابت کیا جائے۔ پھر نماز نہ پڑھنے پر حکمِ رسولؐ کے مطابق کچھ نہ کچھ سختی ضروری ہے، تا کہ انھیں احساس ہو کہ نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔
  • شیطانی حربے:شیطان ، اس کے چکر ، اس کا وسواس الخناس ہونا، اس کے حربے قرآن وسنت کی روشنی میں بچوں کو بتائے جائیں۔ قدم قدم پر اسے باور کرایا جائے کہ وہ سوچے  کہ کس کے راستے پر چل رہا ہے ، اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر یا شیطان کے ؟ حلال وحرام کی حدود، معروف ومنکر کے بدلتے تصورات (مثلاً موسیقی، تصاویر وغیرہ کا معاملہ )، اخلاق وکردار ، میڈیا میں درست یا غلط، تمام امور میں واضح رہنمائی دینا ضروری ہے۔
  • مادیت پرستی سے بچانا:شیطان کا بہت بڑا وار مادیت کے راستے پر دھکیلنا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے، جس کے بارے میں نبی کریم ؐ نے خبر دار کیا تھا :’’اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں ہے کہ تم مفلس ہوجائو گے۔ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی جیسے تم سے پہلی امتوں پر یہ کشادہ ہوئی تھی ۔ پھر تم اسے چاہنے لگو گے جیسے انھوں نے اسے چاہا۔ پھر تم اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرو گے جیسے انھوں نے کیا۔ پھر یہ د نیا کی فراوانی اور اس کی طرف بے انتہا رغبت تمھیں تباہ کر کے رکھ دے گی جیسے اس نے تم سے پہلوں کو کیا۔‘‘ (متفق علیہ)

اسی کو’ وہن‘ بھی کہا گیا اور یہ مال ودولت کی دوڑہی ہے جس نے دنیا کا سکون تباہ کر دیا ہے۔ فساد ، قتل وغارت گری عام ہو گئی ہے، اور ساہو کاروں او ر سرمایہ داروں کی گندی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مال بٹورنے کی خاطر دنیا کو بے حیائی کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔

لہٰذا صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کی مثالیں دیتے ہوئے ان کا سادہ اور غریبانہ طرزِ زندگی واضح کرنا، غنٰی کے معنی بتانا اور برکات کے حصول کے طریقے سکھانا، قناعت اختیار کرنے پر رغبت دلانا، یہ سب مائوں کے کام ہیں ( بشرطیکہ مائیں خود سادگی اور قناعت کے راستے پر چل رہی ہوں۔ )

  • اخلاق و معاملات: بچوں کے اخلاق پر چھوٹی عمر ہی سے نظر رکھنا ضروری ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہ ؓ سناتے ہوئے ان کے بہترین اور آئیڈیل اخلاق کو واضح کرنا اور بچوں کے لیے اس کے حصول کو ہدف بنانا ضروری ہے۔ اس وقت جب ہمارا معاشرہ اخلاقی اصولوں کی پاس داری سے بہت حد تک عاری ہے، بچوں کا بہترین اخلاق پر عمل اسی وقت ممکن ہے جب والدین اس کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ طہارت ، صفائی،  بہترین شہری کی صفات پیدا کرنا، قانون کی پاس داری کا جذبہ بیدار کرنا، ملک وملت سے محبت اور امت کے ’جسدواحد ‘ ہونے کا تصور پیدا کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔

حیا، ایمان اور اخلاق کا اہم ترین جز ہے۔ ’حیا ‘ پر ہی شیطان نے کاری وار کرکے   ہماری قوم کی غیرت کا جنازہ نکال دینے کی سر توڑ کوشش کی ہے۔ بچوں کے اندر حیا پیدا کرنا ضروری ہے ۔ نماز کی عمر کو پہنچیں تو مکمل لباس کی عادت بن جانی چاہیے۔ لڑکے پانچ سال کی عمر کے بعد نیکر اور لڑکیاں چھوٹی آستین اور جانگیہ نہ پہنیں۔ بچیوں کو نماز کی عمر سے دوپٹے اور اسکارف کی عادت ڈالی جائے۔ مائیں بھی اپنے طرزِ عمل پر ضرور نظر ڈالیں کہ گھروں میں مکمل لباس میں ملبوس ہوتی ہیں یا دروازے پر گھنٹی بجے تو دوپٹہ ڈھونڈنے دوڑتی ہیں۔

 ’لباس التقویٰ ‘ کی تشریح مائوں کو بھی آتی ہو اور بچوں کو بھی سمجھائیں۔ اس حدیث کو یاد رکھیں کہ ’عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو ہزاروں میل سے آتی ہو گی‘‘۔ پتلا، چست اور نامکمل لباس، سبھی یہاں مراد ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ ’لباس کے احکام ‘ گھر کے اندر کے لیے ہوتے ہیں، باہر کے لیے حجاب کے احکا م ہیں۔ قرون اولیٰ میں یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی عورت بغیر حجاب کے محض لباس پہن کر باہر جائے گی۔ شیطان کی اس چال سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ عورتیں گھروں میں ایسا لباس پہن سکتی ہیں جو ساتر نہ ہو۔ یاد رکھیں غیر ساتر لباس میں نماز قبول نہیں ہوتی ۔ اس لیے پتلے کپـڑوں میں پڑھی گئی نماز یں ضائع ہو جائیں گی۔ لہٰذا، اپنے بچوں کو دوزخ سے بچانے اور جنت میں داخل کرا نے کے لیے بے حیائی وبے حجابی سے بچانا اشد ضروری ہے۔ لڑکیوں کے لباس کا حیا دار ہونا بھی ضرور ی ہے۔

  • تعلیم و تربیت:تعلیم کا قبلہ درست رکھنا، ’اصل علم ‘ کا مفہوم سمجھنا اور اس کے مطابق بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر ضروری ہے۔ یاد رکھیں ! تعلیم کے نام پر اس وقت ’تجارت ‘ ہے اور ’سوداگری‘۔ یہ سودا گر ایمان کے بدلے مال کما رہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم نے نسلیں تباہ کر دی ہیں۔

 بقول مولانا مودودی ؒ : ’’یہ تعلیم گاہیں نہیں ، قتل گاہیں ہیں‘‘۔ اس تعلیم نے آکر ہماری نسلوں کو مکمل کافر نہیں بنایا تو مسلمان بھی کم ہی چھوڑا ہے۔ صحابہ کرامؓ کبھی سوچ سکتے تھے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب مسلمان ـ’قرآن ‘ کے معنی تو نہ جانتے ہوںگے لیکن اوکسفرڈ اور ہارورڈ کی کتابیں گھول کر پیتے ہوں گے اور فرنگی علوم کے ماہر ہونے پر فخر کرتے ہوں گے ۔ افسوس کہ’ تعلیم کے تیزاب‘ نے ہماری نوجوان نسل کے ایمان کو جلاکر بھسم کر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

یہ والدین ہی کا فرض ہے کہ وہ ’تعلیمی ادارے ‘ کے انتخاب میں اللہ کے نور کی روشنی سے دیکھیں اور ایسے ادارے کا انتخاب کریں، جو عصری علوم سے بہرہ ور تو کرے لیکن ’ایمان کی قیمت ‘ پر نہیں۔ اور اگر اسکول میں وہ تعلیم نہیں، جو بچوں کو ان کا مقصد زندگی سمجھا کر اس کی ادایگی کے لیے تیار کر سکے تو اس کا بندوبست گھر میں کرنا ہو گا، جیسے فزکس اور کیمسٹری کے لیے ٹیوٹر رکھا جاتا ہے۔ ’قرآ ن وحدیث ‘ کے لیے بدرجۂ اولیٰ استاد کا بندوبست کرنا اور ترجمہ وتفسیر باقاعدہ سکھانے کا اہتمام کرنا والدین کا فرضِ عین ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی نظام غالب آ جائے اور سکولوں کا قبلہ درست ہو جائے ، ان شاء اللہ!

  •  شادی بیاہ: بہوکی تلاش میں آج کل ’مال دار حوریں‘ تلاش کی جاتی ہیں اور داماد کی تلاش میں بڑے قدوجسامت کے ساتھ ساتھ ’موٹی آسامی‘ ۔ اس معاملے میں دین کی ترتیب کو بالکل اُلٹ کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی شرافت کی وجہ سے ، اس کی خوب صورتی کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے ۔ اور تُو دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر۔ اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی آخرت میں تجھ کو ندامت ہو گی )‘‘۔ (متفق علیہ )

اگر دین دار والدین کا معیار بھی دوسروں جیسا ہی ہو گا، تو اس ترتیب کو درست کون کرے گا؟ دین سب سے پہلے ہے، حسن ونسب اور دولت اس کے بعد۔ تحریکی شادیوں کو رواج دیا جائے تو ان شاء اللہ، تحریکی خاندان وجود میں آئیں گے۔ اللہ کا حکم ہوا تو نسل در نسل دین کا کا م جاری رہے گا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی کتنی پیاری دعا ہے :

رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ص(البقرہ ۲: ۱۲۸) ’اے رب ! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان )بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری فرماںبردار ہو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے اُمت مسلمہ کی تمنا کرتے ہیں۔ سوچ کی بلندی دیکھیے! اگلی نسلوں کی فکر کرنا انبیا ؑ کی سنت ہے۔ نسلوں کی تعمیر کی پہلی اینٹ وہ ’رشتہ ‘ ہے جو ہم اپنے بچوں کے لیے چنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہترین شادی اسے قرار دیا گیا ہے ’جو کم خرچ ہو‘۔  اس کی فکر کرنا، اسراف وتبذیر سے بچنا اور اپنے بچوں کو بچانا ، تقریبات میں ’رضاے الٰہی ‘ مد نظر رکھنا ، یہ سب والدین کی ذمہ داریاں ہیں۔ اس معاملے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو مجبوری بنا کر اللہ کے حکم سے رُوگردانی کرنا مومنین کا شیوہ نہیں ہے۔

  •  خاندان کا استحکام: مسلمانوں کا مستحکم خا ندانی نظام اس وقت دشمنانِ دین کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اور اس پر چاروں اطراف سے شیطانی قوتیں حملہ آور ہیں۔ خاندان کے استحکام کے لیے جہاں مائوں کو خود اچھی ساس اور بہو بننا ہے وہیں اپنے بیٹوں کو اچھا ’قوّام ‘ بنانے کی شعوری کوشش کرنا ہے۔ ان کے اندر خودی اور عزت و احترام کو بیدار کرنا ہے۔ لیکن ’جاہل مرد‘ بننے سے بچانا یقینا ایک سمجھ دار ماں کا ہدف ہونا چاہیے اور لڑکوں کی تربیت اس ضمن میں لڑکیوں سے زیادہ اہم ہے۔ اچھا شوہر کیسا ہوتا ہے؟ یہ تعلیم اسکول نے نہیں ، والدین نے دینی ہے۔

اسی طرح لڑکیوں میں ’صالحات اور قانتات ‘ کی روح پیدا کرنی ہے۔ اچھی بیوی اور بہو کی صفات اُجاگر کرنا ، محبت کے خمیر میں اس کے اخلاق کو پروان چڑھانا،محنت ومشقت کا عادی بنانا ، قربانی اور صبر وحوصلہ کی صفات پیدا کرنا، یہ سب ہو گا تو خاندان مستحکم ہو گا (یاد رہے کہ اپنے بچوں میں ’تقویٰ ‘ جو کہ خاندان کے استحکام کی بنیاد ہے، پیدا کرنے کی بات ہم پہلے کر چکے ہیں)۔

گھر کے بزرگوں کے ساتھ نرمی ومحبت کا برتائو، ان کی خدمت اور آرام کا خیال رکھنا، جو مائیں سکھائیں گی کل کو ان کے بچے بھی ان کی خدمت کر رہے ہوں گے، اور ’حیات طیبہ ‘ بسر کرنے والے خاندان وجود میں آئیں گے۔ ان شاء اللہ !

خاندان کو درپیش تمام خطرات سے مائوں کا آگاہ ہونا اور اپنے بچوں کو ان سے بچانے کی تدابیر کرنا اور ان پر محنت سے عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ سسرال میں پیش آنے والے مسائل سے بچوں کو آگاہ کرنا اور ان کا اسلام کی روشنی میںحل دینا بھی ضروری ہے۔ اسلام نے اس ضمن میں حقوق و فرائض کا واضح طور پر تعین کردیا ہے۔ یہ بدنصیبی ہے کہ شرح طلاق میں اضافہ ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ مائوں کی نا سمجھی بھی ہے۔ بہو کی جائز معاملات میں بھی حمایت نہیں کرتیں اور بیٹیوں کی ناجائز مطالبات میں بھی لڑائی مول لے کر غلط رہنمائی کرتی ہیں۔ لہٰذا اپنے بچوں کے گھر بسانے اور خاندان کو مستحکم بنانے میں ماں کی ’دین داری اور سمجھ داری ‘ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

  • شہداء علی الناس: ہر مسلمان بہ حیثیت ’مسلمان ‘ شہادت حق ادا کرنے کے منصب پر فائز ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک  ’اُمتِ وسط‘ بنایا ہے تا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو۔

والدین بچوں کو جیسے دُنیا میں رزق کمانے کا طریقہ سکھاتے ہیں اور دنیا کے دیگر فرائض ادا کرنے کے لیے محنت سے تیار کرتے ہیں، اس ذمہ داری کے لیے تیار کرنا بھی ان کا فرض ہے اور اس کا حساب بھی روز قیامت ان سے لیا جائے گا۔ وہ والدین جو خود ’مقصد زندگی ‘ سمجھ چکے ہیں اور یہ فرض ادا کر رہے ہیں، ان میں اس ذمہ داری کے بارے میں کتنی حساسیت پائی جاتی ہے ؟ اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے:

  • بچوں کے اندر اقامت دین کی ذمہ داری کی فکر بیدار کرنا۔
  • تحریک سے جوڑنے کے طریقے سوچنا ۔
  • ہم عمر تحریکی ساتھیوں سے ملانا اور اجتماعیت میں شامل کرنا۔
  • تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کرانا اور اس کے لیے مشق اور تیاری کرانا۔
  • تیز رفتار زندگی کی دوڑ میں اس فریضے کو فراموش نہ کرنا۔

یہ فرضِ منصبی ہے، اس مقصد کے لیے :

  • چھوٹے بچوں کو مائیں پروگرام میں اپنے ساتھ رکھیں۔
  • گھروں میں تحریکی رسائل جاری کروائیں۔
  • اور متعلقہ کتب پر سٹڈی سرکل اور ڈسکشن فور مز رکھیں۔
  • قرآن پاک اگر اپنی روح کے ساتھ بچوں کو پڑھا دیا جاے تو نا ممکن ہے کہ بچے اپنے فرض سے غافل رہ جائیں۔
  • دین کے لیے قربانی کا تصور صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر دیا جائے۔
  • بچوں کو آسایشوں سے بچا کر ان میں سخت کوشی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یقینا ایک تحریکی ماں کے بچے ایسے نخرے والے نہیں ہو سکتے کہ فلاں چیز نہیں کھانی اور فلاں لباس نہیں پہننا اور فلاں بستر کے بغیر سو نہیں سکتا وغیرہ ۔

تکمیل تربیت : یقینا بچوں کی تربیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی :

  • جب تک معاشرہ تربیت یافتہ نہ ہو جائے جہاں اس کو زندگی بسر کرنی ہے۔
  • وہ تعلیمی ادارے درست نہ ہو جائیں جہاں اسے تعلیم حاصل کرنی ہے۔
  • میڈیا کا قبلہ درست نہ ہو جائے اور وہ بگاڑ کے بجاے اصلاح کا فریضہ انجام دینے لگ جائے۔
  • جب تک سودی نظام سے نجات نہ مل جائے جو اخلاقِ فاسد پیدا کر رہا ہو، اور رزقِ حرام قبولیت حق میں مانع ہو رہا ہو۔
  • یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اللہ رب العالمین کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ’اسلام ‘ غالب نہیں آ جاتا۔
  • دین غالب نہیں آ سکتا جب تک ہم سب اور ہمارے بچے مل کر اس کے لیے جدوجہد نہیں کرتے اور اس فرض کو ادا کرنے میںتن من دھن لگا نہیں دیتے ۔

کیا ہم اپنا فرض تندہی سے ادا کر رہے ہیں ؟

دُعا ہے کہ: اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا  ’’اے اللہ! ہمارا حساب آسان کرنا‘‘۔

دعائیں 

مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ ج وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَ لِیًّا مُّرْشِدًا O (الکہف ۱۸:۱۷) جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی ومرشد (رفیق: سیدھی راہ دکھانے والا) نہیں پا سکتے ۔ 

لہٰذا ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اوراس کی رحمت کے بغیر ملنی مشکل ہے۔ قرآن و حدیث میں بے شمار دعائیں موجود ہیں، جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں۔ ان کا بکثرت اہتمام ضروری ہے۔ یہ دعائیں ہمارے سامنے اولاد کی تربیت کا معیار بھی رکھ دیتی ہیں اور دل کی تڑپ کو اُجاگر بھی کرتی ہیں، مثلاً حضرت ابراہیم ؑ کی دعا جس کا پیچھے تذکرہ کیا گیا ۔ یہ اولاد کو ایسی امت میں دیکھنے کی تڑپ ہے جو خود ہی مسلمان نہ ہو بلکہ دنیا کو بھی مسلمان بنانے کا ہدف رکھتی ہو۔

اسی طرح سورۂ فرقان (۲۵:۷۴)میں دعا سکھائی گئی کہ :

رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ  اِمَامًا  O

گویا ’اولاد صرف آنکھوں کی ٹھنڈک ہی نہ ہو‘، ’متقین‘ کی بھی امامت کرے، یعنی ’نیکوں میں سب سے نیک ‘اور’امام ‘ ___ امامت کرنے والا ، رہنمائی کرنے والا۔ امام رول ماڈل ہوتا ہے، جس کی لوگ پیروی کرتے ہیں، جس کی اقتداکرتے ہیں۔ گویا اللہ سے یہ دعا کی جائے کہ ہمارے بچے انسانیت کی رہنمائی کرنے والے ’قائدین ‘ ہوں، اور دنیا ان کے پیچھے چلنے والی ہو، اور تمام دنیا کے لیڈر کی طرح نہیں بلکہ ’متقین کے امام ‘ ہوں۔ یہ ایک آئیڈیل ہے جو ہمیں دکھا دیا گیا ۔ لہٰذا اپنے اہل خانہ کے لیے متقین کا امام بننے کے لیے دعائیں اور صلوٰۃ حاجت ، ان کی اصلاح کے لیے ، ان کا فرضِ منصبی سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اور اس کے نتیجے میں دنیا وآخرت کی فلاح کے لیے، ہمارے معمول میں شامل ہونی چاہیے۔ بے شک رب کریم ہے اور ستّر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ ماں جب دردِ دل سے دعا کرتی ہے تو قبول ہوتی ہے:

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا  ط  اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ O (البقرہ ۲:۱۲۷)

اور جو کچھ ہم کر پا رہے ہیں، اس کو قبول فرما۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔