تزکیہ و تربیت


محبوب سے وصال کے لمحات جوں جوں قریب آتے ہیں، محب کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں۔ ہر نئی آنے والی صبح اسے یہ حسرت ہوتی ہے کہ یہ روز آنکھ بند کرتے ہی گزر جائے۔ خزاں کا موسم اُسے بہار سے بھی بھلا لگتا ہے۔ موسمِ گرما کی لب و رُخسار کو جھلسا دینے والی ہواؤں میں اُسے بادِ صبا کی تازگی محسوس ہوتی ہے۔ اندھیری رات کی رُتوں میں آسمان پر جلتے قمقمے رنگ و نور کی بارات کامنظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ فضا ایک مانوس سی خوشبو سے معطر ہوجاتی ہے۔ ہر شے میں گُل و بُلبل کی سرگوشیاں سُنائی دیتی ہیں اور لگتا ہے کہ اُسی کی باتیں ہورہی ہیں۔ گزرتے وقت کا ایک ایک لمحہ اُسے پہاڑ سے زیادہ بھاری لگتا ہے، اُس کا دل چاہتا ہے کہ اُس کے پرَ لگیں اور وہ اُڑ کر محبوب کے پاس پہنچ جائے۔

بس یہی حال تھا حبیبِ کبریا حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ محبوب سے ملاقات کے شوق میں رمضان کا انتظار کرتے رہتے تھے اور فرطِ محبت میں ماہِ شعبان ہی سے پُکارتے تھے: اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانْ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانْ ، اے اللہ! شعبان میں ہمارے لیے برکتیں   رکھ دے اوررمضان نصیب فرمادے۔

رمضان کے بابرکت مہینہ کی آمد  : مبارک ہو آپ کو کہ خوش نصیب ہیں آپ! رمضان آپ کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ بس اب تو دنوں اور گھنٹوں کی بات ہے اور ایک انوکھا مہمان اپنی ساری رعنائیوں، برکتوں، مغفرتوں اور رحمتوں کے ساتھ آپ پر سایہ فگن ہوگا۔l ایک ایسا مہمان جس کے ہوتے نیکی کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔l ایک ایسا مہمان جس کے ہوتے خیر ہی خیر، جی ہاں خیر ہی خیر ہوگی۔ lایک ایسا مہمان جس کے آتے ہی شیطان کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے گا تاکہ آپ کو نقصان نہ پہنچاسکے۔l ایک ایسا مہمان جس کے آتے ہی نفس پاکی کی راہ لے گا۔ lایک ایسا مہمان جس کے ہوتے محبتیں اور صرف محبتیں (اجتماعیت) پروان چڑھیں گی۔  lایک ایسا مہمان جس کے ہوتے نہ کوئی چھوٹا ہوگا اور نہ بڑا، نہ کوئی کالا ہوگا نہ گورا۔l ایک ایسا مہمان جس کی راتوں میں قرآن کی زبانی محبوب سے راز و نیاز ہوگا۔l ایک ایسا مہمان جس کی رُتوں میں اپنائیت کا احساس ہوگا۔

ذرا سوچیں، کتنے خوش نصیب ہیں ہم، جو ایک ایسے مہمان کو خوش آمدید کہنے جارہے ہیں جس کے انتظار میں کتنے ہی پیارے ملکِ عدم سدھار گئے۔ ہاں، کتنے ہی قصۂ پارینہ بن گئے، اور ہوسکتا ہے اگلے برس ہم بھی قصۂ پارینہ بن چکے ہوں۔

اس ماہ کی عظمت اور برکت بلاشبہہ عظیم ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کی رحمتیں و برکتیں ہراس شخص کے حصے میں آجائیں جو اس مہینے کو پائے۔ کسان کی طرح محنت کریںگے تو اچھی فصل تیار ہوگی اور اس کا پھل جنت کی شکل میں ملے گا۔ اگر غافل کسان کی طرح سوتے رہ جائیں تورمضان کی ساری بارش اس طرح بہہ جائے گی جیسے چکنے پتھر سے پانی۔ تو آئیے سوچیں کہ اس بارش سے کیسے سیراب ہوں اور کون سے ایسے کام کریں کہ اس کے لمحات امر ہوجائیں؟

نیت اور ارادہ: نبی کریمؐ نے فرمایا: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)۔ لہٰذا رمضان المبارک کے استقبال کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ابھی سے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی خالص نیت اور پختہ ارادہ کرلیں۔ رمضان کے پیغام اور عظمت کو اپنے اندر تازہ کرلیں۔ اس سے فائدہ اُٹھانے کی خالص نیت کریں اور ایسے کام کرنے کا عزم و ارادہ کریںکہ جس سے تقویٰ حاصل ہو۔ یہی دراصل روزہ کا اصل مقصود ہے۔

دُعا: رمضان سے پہلے ہی دُعا مانگنے کا عمل تیز کردیں۔ کیونکہ ہادیٔ برحقؐ کے بقول دُعا مومن کا ہتھیار ہے اور دُعا ہی ہر عبادت کا مغز ہے۔ اپنی نمازوں کے بعد، رات کی تنہائیوں میں، سفر کی حالت میں، بازاروں میں چلتے ہوئے اُمتِ مسلمہ کے پستی سے نکلنے کی، ملک کے استحکام و سالمیت کی، اُمتِ مسلمہ کے اتحاد اور کھوئے مقام کو واپس دلانے کی، بیماروں کے لیے شفا کی، گزرے ہوؤں کی مغفرت کی اور آنے والے رمضان سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی دُعا اس بات کو یاد رکھتے ہوئے کیجیے کہ جبریلِ ؑامین نے کہا کہ: ’’ـاس آدمی کے لیے ہلاکت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی نہ حاصل کرسکا، اور آپؐ نے اس کے جواب میں آمین کہا‘‘ (حاکم)۔

خریداری کی تکمیل: تیزی سے بدلتی ہوئے دنیا کے معیارات نے ہر طرف ایک افرا تفری کا سماں پیدا کردیا ہے اوراس کے اثرات سے دیگر اقوام کی طرح مسلم اُمہّ بھی نہ بچ سکی۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ رمضان المبارک کی ساعتوں کو اللہ کی عبادت کرکے اُس کی رضا حاصل کرنے کے بجاے بازار کے چکر لگانے میں صرف کردیتے ہیں۔ رمضان کی ساعتوں سے بہتر انداز میں مستفید ہونے کے لیے بہتر ہوگا کہ رمضان اور عید الفطر کی خریداری رمضان کی آمدسے پہلے ہی کرلیں تاکہ اس ماہِ مبارک کی قیمتی راتیں ، خصوصاً شبِ قدر اور عید کی چاند رات کے قیمتی لمحات ضائع نہ ہوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرے گا تو اس بندے کا دل مُردہ نہیں ہو گا، جس دن اوروں کے   دل مُردہ ہوجائیں گے‘‘۔

 رمضان کی چاند رات : رمضان کی چاند رات کو مغرب کی نماز کے فوراً بعد غسل کریں، صاف ستھرے کپڑے پہنیں، خوشبو لگائیں اور اپنے محلے،گاؤں، قصبے اور دسترس میں تمام لوگوں کو رمضان کی مبارکباد دینے نکل کھڑے ہوں۔ جو ملاقاتیں عشاء سے پہلے ہوسکتی ہوں کرلیں، باقی تراویح کے بعد کریں۔ اس ملاقات میں بس لوگوں کے پاس جائیں، سلام دُعا کے بعد رمضان کی مبارک باد دیں۔ اگر ممکن ہو تو رمضان کی برکتوں سے متعلق ایک دو حدیثیں بیان کرکے خوش خبریاں سنائیں۔ اگر کوئی تحفہ ساتھ لے جائیں تو بہت ہی بہتر ہے۔ تحفے میں مسواک، خوشبو، کتابچے وغیرہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ نہیں تو مسنون دُعاؤں کی فوٹو کاپی ہی ساتھ لے لیں۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد: حقوق اللہ میں اگر کسی قسم کی کوتاہی ہوگئی ہو تو کوشش کرکے اس کا ازالہ رمضان سے پہلے کرلیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو اللہ سے گڑگڑا کرمعافی مانگ لیں، وہ توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ خدانخواستہ اگر کسی بندے کے حق کی ادایگی میں کوتاہی ہوگئی ہے تو اس کو رمضان سے پہلے ادا کردیں یا اُس سے بالمشافہ ملاقات کرکے معاف کرالیں۔ اگر اپنے اندر اتنی ہمت نہ پائیں تو تحریر لکھ کر اس کے پاس بھیج دیںکہ رمضان کے مہینے سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کو معاف کردینا چاہیے۔ اگر کوئی آپ سے ناراض ہے یا آپ کسی سے ناراض ہیں تو ان ناراضیوں کو آپ آگے بڑھ کر دُور کرلیںکیونکہ مومن کی یہی شان ہے۔

نمازوں میں تکبیرِ اولٰی: الحمد للہ آپ نمازیں تو پڑھتے ہی ہیں بس اس بات کا اہتمام کریں کہ پورے رمضان اذان ہوتے ہی سارے کام چھوڑ کر گھر سے وضو کرکے مسجد چلے جائیں، کیونکہ نبی کریمؐ کی سنت یہی تھی کہ آپؐ اذان سنتے ہی پوری دنیا کے لیے اجنبی ہوجایا کرتے تھے اور سیدھے مسجد کا رُخ کرتے تھے۔ مسجد پہنچ کر دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کریں، پہلی صف میں بیٹھیں اور پورے رمضان کسی بھی نماز کی تکبیرِ اولیٰ فوت نہ ہونے دیں۔ یاد رہے امام کے     سورۃ الفاتحہ شروع کرنے سے پہلے پہلے جماعت میں شامل ہونے پر تکبیرِ اولیٰ کا ثواب مل جاتا ہے۔ خواتین کوشش کریں کہ اپنے گھروں میں اوّل وقت میں نماز کی ادایگی کو ممکن بنائیں۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی تہیہ کرلیں کہ اگلے رمضان تک مذکورہ بالا عمل کو اپنی عادت بنالیں گے۔

رمضان چارٹ کی تیاری اور خود احتسابی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’روزہ (گناہوں سے بچنے کے لیے) ڈھال ہے، پس اس کو ڈھال بناؤ۔ روزہ دا ر بدکلامی کرے نہ چیخے چلّائے۔ اگر کوئی اس کو بُرا کہے یا اس سے لڑے تو یہ کہہ کر الگ ہوجائے کہ میں روزے سے ہوں، میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ ان بُرے کاموں میں مشغول ہوں‘‘۔

ایک رمضان چارٹ بنائیں جس میں اپنے کمزور پہلو لکھیں اور پورے رمضان انھیں دُور کرنے کے کی کوشش کریں اور ہر رات اس چارٹ کا جائزہ لیں اور کالم بناکران پر ٹِک لگاتے رہیں، مثلاً نمازیں، تلاوتِ قرآن، مطالعہ حدیث، مطالعہ دینی کتب، دین کے حوالے سے ملاقاتیں، انفاق فی سبیل اللہ، بیماروں کی عیادت وغیرہ۔ دوسری طرف غیبت، چغلی، لعن طعن، بدگمانی، تکبر، جھوٹ، وعدہ خلافی، بد نگاہی، حسد، بُغض وغیرہ جیسی اخلاقی بُرائیوں کا جائزہ لیں ۔ اس طرح آپ اپنے آپ کو خوداحتسابی کے عمل سے گزاریں گے اور ایک مسحور کن تبدیلی اپنے اندر پائیں گے۔

سحر و افطار: روزہ رکھنے کے لیے سحری لازماً کھائیں کیونکہ سحری کھانا سنت ہے۔ کچھ لوگ رات دیر سے کھانا کھاتے ہیں اور سو جاتے ہیں اور سحری کے بغیر روزہ رکھ لیتے ہیں۔ یہ درست فعل نہیں ہے۔ ’’سحری میں برکت ہے، اسے ہر گز نہ چھوڑو۔ اگر کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے، کیونکہ سحری میں کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دُعاے خیر کرتے ہیں‘‘ (مسند احمد)۔نبی مہربانؐ نے فرمایا: ’’میری اُمت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک افطار میں عجلت اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی‘‘ (مسند احمد)۔

تہجد کی ادایگی: سحری کے وقت سے کم از کم آدھا گھنٹہ پہلے اُٹھ جائیں۔ یہ تہجد کا وقت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سب سے زیادہ انھی گھڑیوں میں متوجہ ہوتی ہے۔ یہ محبوب سے ملاقات کا سب سے بہترین وقت ہے۔ ایسے وقت میں اُس سے کچھ راز و نیاز کی باتیں کرلیں اور رو رو کر دنیا اور آخرت کے لیے دُعائیں مانگیں۔ لیکن مانگنے کی ایک شرط ہے کہ پورے یقین کے ساتھ مانگیں کہ آپ کو ضرور ملے گا ۔ آپ کا یقین بالکل اس بچی کی طرح ہونا چاہیے جو اپنے باپ کے ساتھ نمازِ استسقا کے لیے جارہی تھی اور راستے میں رُک کر اپنے والد کو کہا: ابا جان ایک منٹ۔ میں گھر سے ہو کر ابھی آئی۔ والد نے پوچھا کیا کرنے جارہی ہو؟ بچی نے معصومیت سے جواب دیا: ابا جان ہم اللہ میاں سے بارش کی دُعا مانگنے جارہے ہیں اور چھتری تو بھول ہی گئے۔ واپسی پر بارش ہوگی تو ہم بھیگ جائیں گے، اس لیے میں چھتری لینے جارہی ہوں۔

کھانے میں اعتدال: روزہ ایک مکمل تربیت کا نام ہے اور اس میں سب سے بڑی تربیت اپنی خواہشات پر قابو ہے لیکن اکثر لوگ رمضان کو لذتوں اور چٹخاروں کا مہینہ بنالیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے پرہیز کریں۔ اس سے آپ کی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوںگے۔ صاحب ِ حیثیت خواتین و حضرات اپنے دسترخوانوں کو غریبوں و مسکینوںکے لیے دراز کریں۔

انفاق فی سبیل اللہ: مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً   ط (البقرہ ۲:۲۴۵) ’’تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے تاکہ اللہ اُسے کئی گُنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اس کی حاجت پوری کرے گا۔جو شخص کسی مسلمان کی کسی پریشانی کو دُورکرے گا تواللہ قیامت کے دن اس کی پریشانی دُور کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘ (بخاری، مسلم، عن ابن عمرؓ)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھے اور آپؐ کی سخاوت تیز چلتی ہوئی ہوا سے زیادہ ہوتی تھی (مشکٰوۃ)۔ کوشش کریں رمضان کا ایک دن بھی انفاق فی سبیل اللہ کے بغیر نہ گزرے، چاہے اللہ کی راہ میں روزانہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ دیا جائے۔ روزہ داروں کی افطاری کا اہتمام کریں، یتیموں کی کفالت کریں، عزیز رشتہ داروں کی مدد کریں، زکوٰۃ کی ادایگی کریں۔

تاریخ سے رشتہ: یاد رکھیے! وہ قومیں کبھی تباہ نہیں ہوتیں جو اپنے روشن ماضی کو ہروقت یاد رکھتی ہیںاور اس سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ آج اُمّتِ مسلمہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ اپنی تاریخ کی جانب پلٹنا ہے اور اسی طرح جدوجہد کرنا ہے جس طرح ہمارے اسلاف نے ماضی میں اپنا تن من دھن قربان کرکے کی۔ رمضان المبارک اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں درجِ ذیل واقعات پیش آئے جو آج بھی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے ہوئے ہیں اور تاقیامت لکھے رہیں گے۔ ان ایام کو منانے کا بھرپور اہتمام کریں، تاکہ ۱۰رمضان المبارک کو’یومِ باب الاسلام‘ مناتے ہوئے ہمارے اندر بھی اُمتِ مسلمہ سے محبت کا جذبہ پروان چڑھے۔ ۱۷رمضان المبارک کو ’یومِ بدر‘ مناتے ہوئے اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت پر ایمان پختہ ہو۔ ۲۱ رمضان المبارک کو ’یومِ فتح مکہ‘ مناتے ہوئے اللہ ربّ العزت کا تمام طاقتوں کا منبع ہونے کا حقیقت کی نگاہ سے مشاہدہ ہوسکے۔ ۲۷ رمضان المبارک کو یومِ نزولِ قرآن مناتے ہوئے قرآن کے برحق ہونے کا یقین پختہ ہوسکے۔

قرآن سے تعلق: رمضان کا مہینہ دراصل قرآن کی سال گرہ کا مہینہ ہے اور اسی مہینے میں تورات و انجیل نازل ہوئیں۔ رمضان کی ساری شان و عظمت قرآن ہی کی وجہ سے ہے۔ یہ قرآن ایک چلتا پھرتا، جیتا جاگتا اور زندہ و جاوید معجزہ ہے۔ یہ جس سرزمین پر اُترا اُسے امن والا بنادیا، جس قوم پر اُترا اُسے اُمت ِ وسط بنادیا، جس مہینے میں اُترا اُسے سب مہینوں سے افضل بنادیا، جس رات اُترا اُسے ہزار مہینوں سے بہتر بنادیا اور جس نبیؐ پر اُترا اُسے امام الانبیا ؑ بنادیا۔ لہٰذا اس ماہِ مبارک میں قرآن سے خصوصی تعلق قائم کیجیے اور تلاوت کیجیے، ترتیل کے ساتھ پڑھیے، اسے یاد کرنے کی کوشش کیجیے اور پورے رمضان میں روزانہ کم از کم ایک آیت ضرور حفظ کرلیں۔ اس طرح رمضان کی تکمیل تک آپ کو ۳۰ آیات حفظ ہوجائیں گی۔

قرآن پڑھتے وقت اس کے ترجمے کو ضرور سامنے رکھیں، تب ہی آپ کو سمجھ آئے گا کہ یہ آپ سے کیا کہہ رہا ہے۔ اگر ترجمے کے ساتھ اس کی تفسیر بھی دیکھ لی جائے تو بہت سے ایسے راز آپ پر منکشف ہوںگے جن کی آپ کو جستجو تھی۔ اس رمضان سے قرآن کے حوالے سے ایک نئی چیز اپنے اندرپیدا کریںکہ اس کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے قرآن سے محبت رکھنے والوں کی بہت سی کاوشیں بازار میں دستیاب ہیں لیکن اگر آپ انفرادی طور پر ان سے مستفید ہونا چاہیں تو بہت آسان نہیں، سیکڑوں میں سے کوئی ایک آدھ کامیاب ہو تو ہو لیکن اگر اس کو چند دوست، محلے دار یا کم از کم گھر کے افراد اجتماعی طور پر فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو یہ کام بہت آسان ہوجائے گا اور اس کی پابندی بھی ہوسکے گی۔ پھر اس قرآن ہی کے حوالے سے ایک کام اور کریں کہ اس کے کہے پر عمل کرکے دیکھیں۔ آپ کو لگے گا کہ آپ نے ایک نئی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے، جہاں سرور، اطمینانِ قلب اور سکون ہی سکون ہے جس کی تلاش میں دنیا بھٹک رہی ہے۔ اس رمضان سے اس قرآن کی دعوت کو عام کرنے کی فکر اور جدوجہد کو بھی اپنا شعار بنالیں تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت بھی سکون اور اطمینانِ قلب کی طرف پلٹ آئے۔

 آیئے عہد کریں :

    ۱-  اس رمضان میں کسی بھی نماز میں تکبیرِ اولیٰ فوت نہیں ہونے دیں گے۔

    ۲-  رمضان چارٹ بنا کر اپنی کمزوریوں کا ازالہ کریں گے۔

    ۳-  ہر روز حسبِ توفیق کچھ نہ کچھ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ضرور خرچ کریں گے۔

    ۴-  تہجد کی ادایگی کو اپنا شعار بنائیں گے۔

    ۵-  کسی ایک فرد کو قرآن پڑھنا سکھانا شروع کریں گے۔

    ۶-  قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پابندی سے پڑھنے کا آغاز کریں گے۔

    ۷-  اہلِ خانہ کے ساتھ قرآن ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کریں گے۔

    ۸-  امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ اسلامی روح کے ساتھ انجام دیں گے۔

    ۹-  ہر کام میں اجتماعیت کو فروغ دیں گے۔

    ۱۰- دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیں گے۔

روزہ داروں کو ایسے خزانوں کا ہمیشہ اشتیاق رہتا ہے جنھیں وہ اپنی روز مرہ زندگی میں بالعموم اور رمضان میں بالخصوص پائیں اور ان سے استفادہ کریں۔ یہ سونے چاندی کے خزانے نہیں، بلکہ خیرو رحمت کے خزانے ہیں۔ اللہ اپنے روزہ دار بندوں کو یہ خزانے رمضان میں عطا فرماتا ہے تاکہ وہ ہمیشہ ان کے کام آئیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جہاں خزانے ہوتے ہیں، وہاں ان کی حفاظت کا بھی بندوبست ہوا کرتا ہے۔ یہ خزانے مقفل ہوتے ہیں اور چابیوں سے ہی ان خزانوں کے تالوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ خیر و رحمت اور بخشش و برکت کے خزانوں کی چابیاں روزوں میں مخفی ہیں۔ جس نے یہ چابیاں دریافت کر لیں، وہ خزانوں کا مالک بن گیا۔ چابیاں پاس ہوں گی تو خزانوں کے تالے کھولنا مشکل نہ ہوگا۔

آئیے انھی خزانوں اور ان کی چابیوں کی کچھ بات کریں۔

پہلی کنجی ___  بـے بہا اجر:روزے دار کو روزے کی جزا اور اس کے عظیم اجر کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ اسے یہ اجرو ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ جس چیز کا اجر زیادہ ہوتا ہے، اس کے آداب بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرزندِ آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ ایک ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ گالی گلوچ نہ کرے، نہ شور و شغب کرے۔ اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑائی کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد ؐکی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ جب وہ روزہ کھولتا ہے تو اپنی افطاری کرنے سے خوش ہوتا ہے اور جب وہ اپنے پروردگار سے ملے تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہوگا‘‘ (متفق علیہ)۔ یہ تو بخاری کی روایت تھی، جب کہ ہدایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’وہ اپنی شہوتوں اور کھانے پینے کو میری خاطر چھوڑتا ہے‘‘۔

روزے کی جزا کے بارے میں ارشاد نبویؐ ہے: ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے سب پہلے گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (بخاری ومسلم)۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کو ایمان و احتساب کے ساتھ قائم کیا، اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (مسلم)۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے الریان کہا جاتاہے۔ اس دروازے سے قیامت کے روز روزہ دار داخل ہوں گے، روزہ داروں کے سوا اور کوئی اس میں سے داخل نہ ہوگا۔ کہا جائے گا: روزہ دار کہاں ہیں؟ چنانچہ روزے دار کھڑے ہوں گے، وہی اس میں سے داخل ہوں گے۔ جب وہ داخل ہوجائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اورکوئی اوراس میں سے داخل نہ ہو پائے گا‘‘ (بخاری ومسلم)۔ ارشادِرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتاہے‘‘(بخاری ومسلم)۔

روزے کے اجر و ثواب کی فضیلت و عظمت کا احساس روزے دار میں اس کے حصول کی جو خواہش پیدا کرتا ہے، یہ خواہش روزہ دار کو محنت و کوشش پر آمادہ کرتی ہے۔ وہ اپنے تمام کاموں میںآدابِ شریعت کی پابندی کرتا ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہے۔

 دوسری کنجی ___ تقویٰ : روزہ کی غرض تقویٰ ہے۔ روزہ دار کو معلوم ہونا چاہیے کہ روزے اور تقویٰ میں کیا باہمی تعلق ہے؟

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرۃ ۲:۱۸۳) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔

تقویٰ کے آسان ترین معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو وہاں نہ دیکھے، جہاں جانے سے اس نے منع فرمایا ہے اور جہاں پر ہونے کا حکم دیا ہے وہاں اسے اِدھر اُدھر نہ پائے۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ روزہ دار محتاط رہے کہ وہ کسی ایسی چیز کا مرتکب نہ ہو جس سے اس کی عبادت اور اخلاق تباہ ہو جائیں۔ انسان عبادت کے ضوابط اور اس کے آداب کی پابندی کرتا ہے تو وہ نافرمانی میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔ جب انسان اس احتیاط اور پرہیز کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کی زندگی بہتر سے بہترین ہو جاتی ہے۔ پھر بھی اگر کہیں اس کے قدم پھسلتے ہیں تو وہ سچی توبہ کرکے خطاوگناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔

جب انسان روزے کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے تو وہ تقویٰ کے حصول کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔ محض کھانے پینے اور شہوت کی تکمیل سے بچنے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ تو گناہ و معصیت کی تاریکی میں گرنے سے نفس کو بچانے اور پابندیوں کا عادی ہونے کا نام ہے۔ رسول اکرمؐ نے اسی حقیقت کو ان الفاظ ِ مبارکہ میں بیان فرمایا ہے: ’’جو شخص جھوٹی بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کوکوئی ضرورت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘ (بخاری)۔

اگر تقویٰ کی چابی روزے دار کے ہاتھ میں آجائے تو ایک اتنا بڑا خزانہ اس کے ہاتھ لگے گا جو قیامت کے دن اس کے نامۂ اعمال کو چمک دار اور روشن کر دے گا۔

تیسری کنجی ___ تعمیرسیرت و کردار : اس بات پر غور کیجیے کہ روزے ’چند دنوں‘ کے کیوں ہیں؟ یعنی صرف ایک مہینہ۔ روزوں کا اس سے کم مدت کا پروگرام کیوں نہیں؟ اس غور وفکر سے روزہ دار روزوں کی غرض و غایت، یعنی تقویٰ کو جان لے گا۔ اس پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوگی کہ عبادت کا انسانی ارادے سے گہرا تعلق ہے، یعنی انسان جن عبادات سے مانوس ہوتا ہے، انھیںچھوڑنایا تبدیل کرنا دراصل انسانی ارادے پر منحصرہے، اور اس کا عبادت سے گہرا تعلق ہے۔ وہ فجر سے لے کر مغرب تک اپنی تمام ضروریات کو ترک کر دیتا ہے اور اپنی عادات میں تبدیلی لاتا ہے۔ عادات کو تبدیل کرنا ایک دشوار کام ہے۔ اس کی تربیت حاصل کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ اسلامی شریعت میں انسانی ارادے کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ ارادے سے محروم شخص اپنی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہوتا ہے ۔ حضرت علیؓ نے انسانی ذمہ داری کو یوں بیان فرمایا ہے: ’’اللہ نے جبراً کسی کو مکلف نہیںکیا، انبیا ؑکو بلا مقصد نہیں بھیجا، اس نے حکم دیا ہے اختیار کرنے کی آزادی کے ساتھ، نہی فرمائی ہے ڈراوے کے ساتھ‘‘۔

انسان اگر اپنی عادات کو بدل لیتا ہے اور انھیں بہترین صورت میں ڈھال لیتا ہے اور اپنے جس نادرست طرزِ عمل کا عادی ہے، اسے چھوڑ کر درست طرزِ عمل اپنا لیتا ہے تو یقینا اس کے ہاتھوں میں خزانے کی کنجی آجاتی ہے۔ ہمارا ہر سال کا مشاہدہ ہے کہ لوگ رمضان کی پہلی تاریخ سے ہی اپنے آپ کو نئی تبدیلیوں کے لیے آمادہ کر لیتے ہیں۔ اگر ایک مسلمان اپنے روزوں کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ارادے کو خوب تر رخ پر ڈھالنے کی کوشش کرے تو اس میں بڑی انقلابی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے۔

چوتھی کنجی ___ روزہ اور آسانی : اگرچہ روزے دار سے بہت زیادہ اجرو ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، پھر بھی اسلامی شریعت کی ایک نمایاں خصوصیت آسانی بہم پہچانا ہے:

فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ  ط(البقرۃ ۲:۱۸۴)اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم میں سے کوئی بھول جائے، پس کھا یا پی لے تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے، اسے اللہ نے کھلایا یا پلایا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے: ’’بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے وقت غسلِ جنابت کرتے اور روزہ رکھتے‘‘ (بخاری و مسلم)۔ روزوں کی آیات میں ہے:

اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ط  ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ط عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَاعَنْکُمْج (البقرۃ ۲:۱۸۷)تمھارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیاہے۔ وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگراُس نے تمھارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔

آسانی مہیا کرنے سے انسان کو اطاعت و فرمانبردار جاری رکھنے کی ترغیب ملتی ہے، نیز اسے اسلامی قانون سازی کی حقیقت جاننے کا بھی موقع ملتا ہے۔ روزے سزا نہیں ہیں بلکہ انسانی ارادے کی تربیت اور اطاعت کا عادی بنانے کا ذریعہ ہیں۔ انسان جب لوگوں کے ساتھ معاملہ کرے تو اسے بھی آسانی بہم پہنچانے کی فکر کرنا چاہیے کیونکہ روزوں سے اسے یہی تربیت ملتی ہے۔

 پانچویں کنجی ___ قرآن : رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج  فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط (البقرۃ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اورایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔لہٰذا، اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے اور اس ہدایت کے نزول کا زمانہ رمضان ہے۔ قرآن رمضان میں اترنا شروع ہوا۔ ترقی کا خواہاں اور روزہ دار قرآن ہی کی بدولت ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور اس کتاب (کو نظر انداز کرنے کی پاداش میں) پستی سے دوچار کر دیتا ہے‘‘ (مسلم)۔

کثرت سے تلاوت کیجیے، تدبر کیجیے۔ ہر حرف پڑھنے پر ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس گنا بڑھتی ہے۔ الف حرف ہے، لام حرف ہے اور میم حرف ہے جیسا کہ ترمذی میں ابن مسعودؓ سے مروی روایت میں ہے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں میں سے سب سے اچھاوہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے‘‘ (بخاری)۔  غرضیکہ یہ کتاب دنیا و آخرت میں ترقی کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا: پڑھ اور ترقی کی منازل طے کرتا جا، اس طرح ٹھیر ٹھیر کر پڑھ جیسے کہ تو دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا۔ تیری منزل وہ ہو گی، جہاں تو آخری آیت پڑھے گا‘‘۔ (ترمذی، ابوداؤد)

رمضان اور قرآن کے مابین تعلق روزے دار کو اسی بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس کتاب کی ہدایت سے بہرہ یاب ہو اور یوں وہ اس کتاب کو پڑھ کر سمجھ کر، اسے سیکھ کر اور سکھا کر اور اس پر عمل کرکے ترقی و کمال سے ہم کنار ہو۔

چھٹی کنجی ___ قربِ الٰہی : روزوں کی آیات میں ان کے فرض ہونے کا تذکرہ ہے، نیز روزوں میں دی گئی آسانی کا بیان ہے۔ روزوں کے احکام کے دوران ہی ایک ایسی آیت ہے جو بعض حضرات کے نزدیک روزوں سے متعلق نہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ روزوں کے سیاق و سباق میں اس آیت کاوجود ایک عظیم حقیقت پر دلالت کر رہا ہے مگر اس حقیقت کو جاننے کے لیے غور وفکر کی ضرورت ہے۔ وہ آیت یہ ہے:

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرۃ ۲:۱۸۶)اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میںاُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اورجواب دیتا ہوں۔ لہٰذاانھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یہ بات تم انھیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔

جو روزوں کے احکام کی پابندی کرتا ہے اور قرآن کی راہ نمائی سے استفادہ کرتا ہے وہ قربِ الٰہی کا مستحق ٹھیرتا ہے اور اللہ سبحانہٗ کی محبت کا اہل بن جاتا ہے۔ رمضان میں کثرت سے نوافل کی ادایگی انسان کو اللہ کا محبوب بنا دیتی ہے۔ مشہور حدیث قدسی ہے: ’’بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے، حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں‘‘۔

روزے دار کے ہاتھ میں جب یہ چابی آجاتی ہے تو اسے دعا کی ضرورت و اہمیت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ دعا عبادت ہے۔ انسان جب کثرت سے دعا کرتا ہے اور یوں اللہ سے اس کا رابطہ مضبوط ہو جاتا ہے تو وہ لامحالہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے، اس کے احکام کو قبول کرتا اور ان پر عمل کرتاہے۔ دعا اللہ کی پناہ میںآنا ہے، اللہ کو یاد کرنا ہے اور جب بندہ اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے توربّ بھی اپنے بندے کو یاد فرماتا ہے۔ ارشاد ہے:

فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْ کُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ o(البقرۃ ۲:۱۵۲) لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو کُفرانِ نعمت نہ کرو۔

روزے دار فرائض و نوافل ادا کرکے تمام نیک اعمال بجا لا کے قربِ الٰہی کا مستحق بنتا ہے، پھراللہ اسے اپنے قرب سے نوازتا ہے اور اس کی دعاؤں کو سنتا اور قبول فرماتا ہے۔

ان کنجیوں کی مدد سے روزہ دار کو موتیوں اور ہیروں سے بھرے خزانے مل سکتے ہیں۔ ان خزانوں کے منہ رمضان کے مہینے میں کھلتے ہیں، اور اس عہدوعمل کو تازہ رکھنے والوں پر رمضان کے بعد بھی کھلے ہی رہتے ہیں۔ روزے دار اپنی دنیوی زندگی کے لیے بھی ان سے بہت کچھ   لے سکتا ہے اور یہیں سے آخرت کی دائمی زندگی کے لیے بہت کچھ پا سکتا ہے۔ گویا ان چابیوں کی مدد سے وہ تمام مراحل میں ترقی کر سکتا ہے اور ان خزانوں سے کافی حد تک فائدہ اٹھا سکتاہے۔ آئیے اب یہ دیکھیں کہ یہ خزانے ہیں کون کون سے؟

پرہیز کے خزانے

روزہ دار جب اطاعت ملحوظ رکھتا ہے، نافرمانی ترک کر دیتا ہے، روزوں کے آداب کی پابندی کرتا ہے، اپنے ارادے کو قوی کر لیتاہے، اسے عادات کی غلامی سے بچا لیتا ہے تو ان سب کاموں سے وہ روزوں کی فرضیت کا اصل مقصد، یعنی تقویٰ پا لیتا ہے۔ اس میں مشق و تربیت کے ذریعے برے کاموں سے بچنے اور دور رہنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یوں اب وہ پرہیز و احتیاط کے خزانوں کا مالک بن جاتا ہے۔ وہ اس استعداد کی بدولت اپنے طرز عمل کو ہر خرابی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس پر یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے ارادے کو بروے کار لا کر جب پابندیاں اختیار کرتا ہے، ہر قبیح و شر سے بچتا ہے تو اسے پرہیز کا خزانہ ملتا ہے۔ اللہ پر اس کا اعتماد بڑھتا ہے، خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، پھر شیطان اس پر وار نہیں کر سکتا، وسوسہ اندازی کرکے اسے گمراہ نہیں کرسکتا۔ روزے دار کو تقویٰ و پرہیز گاری کی دولت مل جاتی ہے اور یہی دولتِ بے بہا انسان کو منکرات و شہوات اور گناہوں سے دور رکھتی ہے۔

ترقی کے خزانے

روزہ رکھنے اور راتوں کو قیام کرنے کا اجرو ثواب یقینی ہے۔ روزے دار اجر وثواب کا دنیا میں بھی منتظر رہتا ہے اور آخرت میں تو اجرو ثواب کی صورت میں جزا کا ملنا اس کے لیے یقینی ہے۔ معلوم ہوا کہ ثواب کی چابیوں کا تعلق قرأتِ قرآن ، دعا، قیام، اعتکاف وغیرہ جیسے اعمال سے ہے۔ انھی چابیوں سے روزے دار کو عظیم خزانہ ملتا ہے، یہ ہے ترقی کا خزانہ۔ اس لیے کہ جو شخص اللہ کی مہربانی و عنایت سے تقویٰ کی صفت سے بہرہ ور ہو جاتا ہے تو وہ ایمان کی مٹھاس سے آشنا ہوجاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ اسے سب سے زیادہ محبوب ہو جاتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تمام طاعات(فرض ہو یا نفل) کی پابندی کی جائے اور فرماںبرداری میں خوب کوشش کی جائے۔ یہ خزانہ نیک اعمال سے بھرپور ہے۔ تلاوتِ قرآن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں رمضان میں خوب سخاوت، روزے داروں کی افطاری کے انتظام، صلہ رحمی، یتیموں کا خیال رکھنا اوررمضان میں ہر طرح کی نفل عبادت زیادہ سے زیادہ کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا راستہ ہے۔

ان تمام کاموں سے روزہ دار ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے اور اللہ کی رضا کا حق دار بنتا ہے۔

حبّ الٰہی کے خزانے

جس شخص کو تقویٰ و پرہیز گاری کی نعمت اور اطاعتِ الٰہی میں ترقی کے مواقع ملے ہوں وہی اس بات کا حق دار ہے کہ اللہ کی عنایات کا بھی مستحق بنے۔ بندے پر اللہ کی سب سے بڑی عنایت محبت ہے۔ بندے کے لیے یہ بہت بڑی جزا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اوراس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو اسے ضرور دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ مانگے توضرور اسے پناہ دوں گا‘‘۔

روزہ دار چاہتا ہے کہ اس نے قرآن سے جو تعلق قائم کیا ہے، اس کا اسے اجر ملے۔ وہ پورے مہینے میں لیلۃ القدر کا متلاشی رہا ہے، اسے اس رات کا نور ملے۔ اسے اعتکاف اور شب بیداری کا ثواب ملے، اسے آخری عشرے کی دوڑ دھوپ کا اجر حاصل ہو۔

روزہ دار چاہتا ہے کہ وہ جہنم سے آزادی پائے، اللہ اس کے روزے قبول کرے۔ یہ بات یہاں ملحوظ رہے کہ اللہ کے فضل کی یہ اُمید عمل، محنت اور جدوجہد کے بعد کی جا رہی ہے۔ روزے دار کو ملنے والے یہ خزانے رب کریم کے عطیے ہیں۔ یہ خزانے روزہ دار کے لیے زندگی بھر باعثِ تقویت رہیں گے۔ قبولیت دعا کے لیے بھی، اسے انھی خزانوں پر بھروسا ہوگا مگران تمام آرزوؤں کا انحصار عمل پر ہے۔ اس لیے ارشاد ہوا:

فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْ مِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرۃ۲: ۱۸۶) لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یہ بات تم انھیں سنادو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔

یا اللہ! ہمیں خزانوں کی کنجیاں عطا فرما۔

جب ہم رمضان کا مہینہ گزار لیں تو ہم تیرے فضل سے مالا مال ہوں۔

پھر ہم تیرے فضل و کرم سے ہمیشہ مالا مال رہیں۔

یا اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم رمضان کا احترام کریں۔

اس کی چابیاں اورخزانے ہمارے ہاتھ لگیں۔

ان چابیوں سے ہمیں اپنی ہدایت کے خزانے کھولنے کی توفیق عطا فرما دے۔آمین!

تُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ ___! یہ قرآنِ مجید کی بڑی جامع پکار اور بار بار متوجہ کرنے والی یاددہانی ہے، جس پر اہلِ ایمان کو زندگی کے تمام معمولات سرانجام دیتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ اپنی توجہ دینی اور مہلت ِ عمل ختم ہونے، یعنی موت آنے سے پہلے پہلے اپنی خطاؤں، قصوروں اور غلطیوں کی معافی طلب کرنی چاہیے ، اور یہ عمل باربار دُہرانا چاہیے۔ اپنے خالق و مالک اور معبودِ حقیقی کے حضور استغفار کرنا نہ تو شرم کا باعث ہے، نہ عار کی بات۔ یہ تو بندگی کی شان اور اُس کے اور ربّ کے درمیان معاملہ ہے۔ مگر ہے بہت اہم اور انسان کے دائمی مستقبل، یعنی آخرت کے لیے انتہائی فیصلہ کن۔
اِس بات کا قوی امکان ہے کہ بشری تقاضوں اور انسانی فطرت کے زیراثر انسان سے خطائیں سرزد ہوں، قصور اور کوتاہیاں ظاہر ہوں، اپنے ربّ کے حق میں بھی اور اُس کے بندوں، مخلوق کے حق میں بھی۔ مگر اللہ ہمارا خالق و مالک، آقا و مولا جو بہت رحمٰن و رحیم ہے، نے اپنے بندوں کو بھی نہ تو گناہوں، خطاؤں کی ظلمتوں میں بھٹکتا چھوڑ ا ہے، نہ کسی بندگلی میں دھکیلا ہے، جہاں تلافیِ مافات کی کوئی صورت نہ ہو اور نہ کوئی واپسی ہی کا راستہ میسر ہو۔ توبہ ایسا ہی ایک اللہ کو بے حد پسندیدہ عمل ہے جو انسان کو ضمیر کا بوجھ اور قصورو خطا کی دلدل سے نجات عطا کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ اور اُس کے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ ایمان ہی نہیں، کائنات کے تمام انسانوں کو توبہ و استغفار کی بار بار دعوت دی اور تلقین کی ہے۔

توبہ کا مفہوم: توبہ کا لفظی معنٰی پلٹنا، واپس آنا ، رجوع کرنا ہے۔ انسان سے اگر کوئی ایسی خطا اور قصور سرزد ہوجائے، جو شرعی طور پر بھی ممنوع ہو اور اخلاقی طور پر بھی۔ جب بھی اُسے اپنی غلطی اور کوتاہی کا احساس ہو، وہ اپنے اُس رویے سے رجوع کرے، غلطی کی اصلاح اور تلافی کرنے کا فیصلہ کرے، غلط راستے کو فوری طور پر ترک کرکے درست رویہ اور سمت اختیار کرلے ، تو تائب کہلائے گا اور اُس کا یہ رویہ توبہ کے مترادف ہوگا۔ یہ کس قدر جہالت اور حماقت ہوگی کہ ایک انسان کو اُس کے راستے، رویّے، عمل یا عقیدے کی غلطی کا علم بھی ہوجائے اور وہ اُس کی خرابیوں، خامیوں ، ہلاکتوں اور نقصانات و بُرے نتائج سے آگاہ ہونے کے باوجود اُسی راستے پر چلتا رہے۔ کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے ایسا ممکن ہے، نہ مناسب۔ یقینا وہ درست راستے کی طرف پلٹ کر جانب ِ منزل روانہ ہوگا۔
اسلامی تعلیمات میں توبہ کا تعلق انسان کے عقائد و اعمال سے ہے۔ اِن سب کی تفصیل اور درست راستوں کی وضاحت اور مطلوب اعمال و عقائد کی نشان دہی، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی تعلیمات ، احکامات، یعنی قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ اہلِ ایمان کے لیے تو ہرگز جائز ہے    نہ ممکن کہ وہ اِن بتائے گئے راستوں، اُصولوں اور عقائد و اعمال سے مختلف رویوں کا انتخاب کریں۔ اس حوالے سے اُن پر لازم ہے کہ وہ حددرجہ محتاط رہیں۔ قرآن و حدیث، سنت ِ طیبہ اور سیرتِ طیبہ کے ساتھ علماو صلحا و اتقیاے اُمت کے ساتھ فکری و عملی طور پر وابستہ رہیں۔ یقینا گمراہی کے امکانات کم ہوجائیں گے۔ اور اگر شیطان کے بہکاوے، بشری کمزوریوں یا کسی دوسری وجہ سے اُن سے قصور، خطا، اور غلطی سرزد ہوجائے تو اُن پر لازم ہے کہ فوراً  تَـابَ وَاَصْلَحَ ،درست راستے کی طرف پلٹ کر، اپنی غلطی کی اصلاح اور تلافی کرکے رب، رحمٰن و رحیم کی بارگاہ میں مغفرت طلبی کے لیے رجوع کریں۔ اسی عمل کو توبہ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ گناہ کرنے سے انسان کے دل پر سیاہ نقطے پڑ جاتے ہیں اور اگر وہ انسان توبہ کرلے تو یہ سیاہی دُور ہوجاتی ہے، بصورتِ دیگر یہ سیاہی سارے دل پر پھیل کر انسان کو توبہ و استغفار اور غلطی کے احساس و شعور سے محروم کر دیتی ہے۔

خطاکار بندے اور اللہ کا  تعلق : قرآنِ عظیم میں گناہ سرزد ہوجانے کو دل پر مَیل چڑھ جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ  (المطففین ۸۳:۱۴) ’’خبردار! لوگوں کے دلوں پر میل کچیل کی تہیں چڑھی ہوتی ہیں‘‘۔ انسان طبعاً گندگی کو ناپسند کرتا اور کراہت محسوس کرتا ہے۔ مگر جب میل کچیل کی تہیں بڑھ جائیں، تو اُس کی ناگواری کی حِس دَم توڑ دیتی اور اُس سیاہی، گندگی اور اُس کی بُو کو قبول کرلیتی ہے۔ پھر وہ شخص اِس کے وجود اور شعور سے عاری ہوجاتا ہے اور اُسے دُور کرنے کی فکر سے بے نیاز۔ اسلام نے تو معمولی سے معمولی گندگی اور کراہت کی ہرچیز خواہ وہ منہ کی بدبو ہو ، بالوں، ناخنوں میں بے ہنگم اضافہ، یا جسم سے خارج ہونے والی ریح، خون، پیپ یا کوئی اور صورت کو ناپسند کیا ہے۔ غسل، وضو، صفائی کا حکم اس طرح دیا کہ اُسے نصف ایمان گردانا گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ طہارت و پاکیزگی کا علَم بردار دین دل کے زنگ، آلودگی، میل اور سیاہی کو پنپنے دے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک معروف حدیث کے مطابق دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیساکہ لوہا اگر وہ کھلی فضا میں پڑا رہے تو نمی سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ دل گناہوں سے زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔اس زنگ کو دُور کرنے اور دل کو مجلّٰی و مصفّٰی بنانے کا طریقہ تلاوتِ قرآن اور موت کے ذکر کی کثرت کو بتایا گیا۔ بالکل اسی طرح دل کے میل، گندگی اور آلایشوں سے نجات و خلاصی کا دوسرا اور بنیادی طریقہ اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں توبہ و استغفار ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت کردہ ایک حدیث کے مطابق اللہ اپنے اُس خطاکار بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو اپنےقصور و خطا کی معافی طلب کرنے کے لیے اُس کی بارگاہ میں سرجھکائے، ہاتھ اُٹھائے اور توبہ کرے۔اُس شخص کی خوشی سے بھی زیادہ، جو لق ودق صحرا میں سفر کرتے ہوئے اپنے سامانِ زیست سے لَدی ہوئی اُونٹنی سے محروم ہوجائے، اُسے اپنی موت سامنے نظر آرہی ہو، پھر اچانک وہ اُونٹنی اُسے مل جائے۔ نااُمیدی، مایوسی اور ہلاکت کے اندیشوں سے نجات کے عالم میں اُس کی ناقابلِ بیان خوشی کا جو انداز اور اظہار کا جو بے ساختہ پن ہوگا اور خوشی و بے خودی کے عالم میں وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُسے اپنا بندہ اور خود کو اُس کا ربّ کہہ گزرے، تو اللہ ربّ العالمین اُس پر غصہ کرنے کے بجاے مسکرا دیتے ہیں۔ اللہ کی یہ خوشی توبہ کرنے والے بندے کے لیے اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اللہ یقینا يَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ  ’’اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتے ہیں‘‘ مگر اس کے لیے ایک مہلت طویل بھی ہے اور محدود بھی۔ انسان سے ساری زندگی میں بلااِرادہ بے شمار قصور سرزد ہوں، لیکن اگر موت سے پہلے اور زندگی کی آخری ہچکی سے قبل توبہ کرلے، تو اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے___ تَوَّابٌ رَحِیْمٌ۔ مگر یہ مہلت اس طرح محدود ہے کہ کسی کو کیا خبر کہ اُس کی موت کب آئے گی، وہ کتنا اور جیئے گا اور کب اُس کی آخری ہچکی ظہورپذیر ہوگی؟ اِس اعتبار سے توبہ کی مہلت بہت قلیل ہے۔ بندے کو غلطی کا احساس ہونے کے بعد توبہ میں ہرگز تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اور فوراً ربّ، رحمٰن اور رحیم کی بارگاہ میں سر جھکا دینا اور ہاتھ اُٹھا دینے چاہییں۔
اگر انسان جان بوجھ کر گناہ، قصور اور خطا نہ کرے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق جسے امام مسلمؒ نے اپنے مجموعۂ احادیث میں شامل کیا کہ ایک دن میں بندئہ خدا ایک سو بار بھی خطا کرے اور اللہ کے حضور معافی طلب کرے تو اُس کی توبہ قبول کی جاتی ہے۔  تُوْبُوْا اِلَی اللہِ  وَاسْتَغْفِرُوْہُ  ’’اللہ سے توبہ اور استغفار کرتے رہا کرو‘‘۔ فَاِنِّیْ  اَتُوْبُ فِیْ الْیَوْمِ مِأَۃَ مَرَّۃٍ ۔ اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دن میں سو بار خطائیں اور قصور سرزد ہوتے تھے۔ یقینا وہ تو معصوم عن الخطا تھے۔ یہ تو اُمت کے لیے تعلیم ہے کہ خواہ خطائیں ہوں یا نہ ہوں، وہ بار بار بارگاہِ الٰہی میں توبہ اور مغفرت طلب کرتے رہیں۔ ممکن ہے اُن سے اَنجانے میں کچھ ایسے قصور سرزد ہوگئے ہوں، بڑے یا چھوٹے، جن کا اُنھیںشعورو اِدراک نہ ہوسکا ہو۔ یوں وہ بھی معاف ہوجائیں گے۔ اور اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی اللہ کو اپنے بندوں کا اپنی بارگاہ میں بار بار پلٹنا، رجوع کرنا اور توبہ کرنا ، استغفار کرنا یقینا بہت محبوب ہے۔اور یہ استغفار بندوں کے لیے دیگر بے شمار انعاماتِ الٰہی کا موجب بن جاتا ہے۔
توبہ کے حوالے سے قرآنِ عظیم نے دو مختلف رویوں کی نشان دہی کی۔ ایک حضرت آدم  و حوا علیہما السلام کا رویہ اور دوسرا شیطانِ مردود کا طرزِعمل۔ اللہ ربّ العزت نے حضرت آدم ؑ و حواؑ کو جنّت میں ایک مخصوص درخت کے پاس جانے اور اُس کا پھل کھانے سے منع کیا۔ جب اُن سے غلطی سرزد ہوگئی، تو فوراً اُس کا احساس و ادراک ہوجانے کے بعد ربّ العزت کی بارگاہ میں پلٹے، اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور مغفرت کے خواستگار ہوئے: رَبَّنَا  ظَلَمْنَآ  اَنْفُسَنَا ’’اے ہمارے پروردگار ہم سے بھول ہوگئی اور ہم نے خود اپنے ہاتھوں خود پرظلم ڈھا لیا‘‘۔ وَ  اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا  وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ  مِنَ الْخٰسِرِیْنِ ۝۲۳  (الاعراف ۷:۲۳)’’اے مالک! اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو یقینا ہم بڑے خسارے سے دوچار ہوجائیں گے‘‘۔
دوسری طرف جب شیطان مردود نے اللہ کے بے شمار انعامات، احسانات، تقرب و فضیلت عطا کیے جانے کے باوجود اللہ کے حکم کی مخالفت کی، بجاے اپنی غلطی تسلیم کرنے اور طالب ِ مغفرت ہونے کے سرکشی، بغاوت اور طغیانی کا راستہ اپنایا۔ اپنی اصلاح اور توبہ کے بجاے اپنی غلطی کا الزام بھی اللہ پر لگا دیا۔ لہٰذا، اللہ نے اُس پر ہمیشہ کے لیے توبہ کے دروازے بند کردیے اور اُسے اپنی بارگاہ سے مستقلاً خارج کر دیا۔

قبولیتِ توبہ کی شرائط: قبولیت ِ توبہ کے لیے قرآن میں چند شرائط کا ذکر ہے۔ پہلی یہ کہ انسان اپنی غلطی کا احساس ہوجانے پر حضرت آدم ؑ و حواؑ کی طرح اعترافِ خطا کرے۔ خودکو کسی فریب کا شکار ہونے دے نہ کسی بے بنیاد اور بے حیثیت سہارے کے آسرے پر رہے۔ اللہ کے سوا معاف کرنے اور سزا سے بچانے پر کوئی ذرّہ برابر بھی قادر نہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ معافی کے لیے انسان اللہ کی طرف رجوع کرے۔ کسی قسم کی فکری و عملی بغاوت، سرکشی اور بے نیازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ انسان کودنیا بھر میں کہیں امان مل سکتی ہے نہ سکون، سواے رب العالمین، پروردگار و مالک، رحیم و کریم خداے برحق کے دامنِ عفو وکرم اور سائبانِ رحمت کے۔تیسری شرط یہ ہے کہ وَاَصْلَحَ  ، انسان فی الفور اپنی غلطی کی اصلاح، کوتاہی کی تلافی کرے، بگڑی ہوئی بات کو درست کرلے۔ یہ گناہ، خطا اور کوتاہی برقرار رہے،توبہ کی قبولیت اور مغفرت کی اُمید کی جائے، ناممکن ہے کہ بارآور ہو، توبہ قبول اور معافی مل سکے۔ قرآن میں یہ دونوں شرائط بار بار دُہرائی گئیں: تَابُوْا  وَاَصْلَحُوْا ، اس کے ساتھ ایک اور شرط لگائی گئی: وَبَیَّنُوْا ، اپنی غلطی کو اچھی طرح جان کر  اس عزم و ارادے اور اعلان کو واضح کیا جائے کہ وہ دوبارہ اس بُرے کام اور غلطی سے شعوری طور پر خود کو دُور اور باز رکھے گا۔ اس عزم و اعلان کے بغیر بھی توبہ کی قبولیت ممکن نہیں۔
توبہ کی قبولیت کی ایک اہم شرط ندامت اور اللہ کے حضور آنسو بہاکر، گڑگڑاکر توبہ کرنا ہے۔ جو شخص توبہ کی فوری قبولیت کا خواہش مند ہو، اُس پر لازم ہے کہ دل میں اپنے گناہ اور خطا پر شرمندگی محسوس کرے اور حتی الوسع تلافی کے بعد اللہ کے حضور پیش ہو۔ گناہ اور خطا پر بغاوت، سرکشی، اطمینان کا احساس اور پشیمانی کے جذبے سے عاری توبہ شاید زبان سے بھی اچھی طرح ادا نہ ہوسکے اور توبہ توبہ کے لفظ ادا ہو بھی جائیں تو دل کا حال تو اللہ خوب جانتا ہے۔ توبہ لوگوں کو دکھانے، جتانے کے لیے نہ کی جائے۔دل کے خالص جذبے، شرمندگی کے قوی احساس، غلطی کے واضح شعور، تلافی اور عاجزی کے ساتھ ربّ، رحمٰن و رحیم کی بارگاہ میں چھپ چھپا کر، لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر، سجدے میں گرکر، آہ و زاری کے ساتھ پیش کی جائے، تو توبہ کہلائے گی۔
توبہ کرنے والے پرلازم ہے کہ حُسنِ عمل کے ذریعے اپنے ربّ کو اپنی سچائی اور خلوصِ نیت کا یقین دلائے ۔اگرچہ اللہ کو سب کچھ خبرہے۔ نیتیں، ارادے، عزائم، سینے کے راز، سب کچھ۔ تاہم، عملِ صالح بھی مطلوب ہے، جو اس توبہ کو مزید مؤثر و کارگر بنا دے گا۔ سورئہ مریم میں ارشاد الٰہی ہے: مَنْ تَابَ  وَاٰمَنَ  وَعَمِلَ  صَالِحًا(مریم ۱۹:۶۰) ’’جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عمل اختیار کرلیں‘‘۔
توبہ کے ساتھ تلافیِ مافات اس لیے ضروری قرار دی گئی کہ مہلت ِ عمل اور زندگی محدود ہونے کے باعث ممکن ہے کہ گناہ وخطا کی تلافی یا حُسنِ عمل کا موقع میسر نہ آئے، اگر تاخیر کی جائے۔ بالکل اُسی طرح جیسے فرعون نے مرتے وقت ایمان لانے اور توبہ کرنے کا اعلان کیا، مگر اُس کے پاس مہلت ِ عمل ختم اور موت کا لمحہ حتمی طور پر قریب آچکا تھا۔ لہٰذا یہ بھی توبہ کی شرائط میں سے ہے کہ گناہ کے فوراً بعدتوبہ کی جائے، اس کو نہ تو مؤخر کیا جائے، نہ ٹالا جائے۔ قرآن نے رہنمائی عطا کی: اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَي اللہِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ(النساء۴:۱۷)۔ اس آیت میں ایک اور پہلو سے رہنمائی کی گئی۔ اللہ پر توبہ کی قبولیت واجب ہے، مگر اُن لوگوں کے لیے جو محض نادانی میں گناہ و خطا کربیٹھیں اور پھر فوراً توبہ کرلیں۔ جان بوجھ کر اور مسلسل اور عرصۂ دراز تک گناہ کیے چلے جانا اور وقت ِ آخر توبہ کی رسمی کارروائی توبہ کے دروازے بند کرنے کا موجب ہوسکتی ہے۔ سورۃ النساء میں ارشادِ الٰہی ہے: وَلَيْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ۝۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ (النساء۴:۱۸) ’’مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بُرے کام کیے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے، اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی‘‘۔
ساری زندگی خوب جی بھر کر گناہ کیے اور خطائیں کیں اور موت آنے پر توبہ کرنا چاہی، ایسے لوگوں کے لیے توبہ کا دروازہ بندہے۔ البتہ وقت ِ آخر کوئی گناہ ہوگیا، ندامت کے احساس، تلافی کے جذبے اورسچے عزم کے ساتھ توبہ کی جائے، تو موت کی آخری ہچکی سے پہلے توبہ کادروازہ کھلا رہتا ہے، مگر عادی مجرم اور سرکش و باغی انسان کے لیے نہیں۔
سورۃ النساء ہی میں قبولیت ِ توبہ کے کچھ اور پہلو بتائے اور دُہرائے گئے:تَـابُوْا، لوگ  توبہ کریں، وَاَصْلَحُوْا، کیے گئے گناہ یا خطا کی تلافی اور اصلاح احوال کرلیں۔ وَاَعْتَلَمُوْا بِاللہِ  ، اللہ کی تعلیمات، احکامات ، ہدایات، اللہ کی ذات سے جڑ جائیں،یعنی شیطان اور بُرائی کے راستوں سے یکسر خود کو علیحدہ کرکے اللہ کے راستے پر چلنے لگیں۔ وَاَخْلَفُوْا  دِیْنَھُمْ لِلٰہِ ، اپنے دین، یعنی  نظام و معاملات و معمولاتِ حیات کواللہ کے لیے خالص، اُس کے اور رسولؐ کے احکامات و قوانین اور  فرامین کے تابع کرلیں، تو اُن کی توبہ قبول ہوگی، اور فَأُوْلٰئِکَ  مَعَ  الْمُؤْمِنِیْنَ  ، ایسے لوگوں کا شمار اور معاملہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہوگا۔
ایسے لوگ جو اِن شرائط کو پورا اور ہدایات کو اختیار کرتے ہوئے بارگاہِ ربّ العالمین میں توبہ کے لیے دست ِ دُعا اُٹھائیں گے، آنسو بہائیں اورگڑگڑائیں گے تو اللہ فرماتے ہیں: اَنَا  التَّوَابُ الرَّحِیْمِ ، میں بہت بہت توبہ قبول کرنے والا اور اپنے بندوں پر اُن کی توقعات سے بڑھ کر رحم و کرم کا معاملہ کرنے والا ہوں۔ اللہ ایسی سچّی اور مخلصانہ توبہ کرنے والوں کو بہت محبوب رکھتا ہے، اِنَّ اللہَ  یُحِبُّ  التَوَّابِیْنَ  ۔اللہ جس سے محبت کرے، اُس کی نیک بختی، خوش نصیبی اور سعادت کا کیا ٹھکانہ ہوگا، اور کون بندہ ایساہوگا جو گناہ و خطا بھی کرے اور اللہ کی محبت اور رحم و کرم کا متمنی نہ ہو اور بے نیازی کا رویہ اختیار کرے۔

توبہ کرنے والوں کے لیے انعامات: قرآن بتاتا ہے کہ اللہ توبہ کرنے والوں کو   متعدد انعامات سے نوازتا ہے۔ حضرت آدم ؑ نے جب جنّت میں اپنے قصور پر معافی مانگی، تو اللہ ربّ العالمین نے اُنھیں نبوت عطا کرکے انسانیت کی رُشد و ہدایت کے منصب پر فائز کردیا اور انسانوں کا باپ، جدالاجداد بنا دیا اور قیامت تک اُن کی نسل کو تکریمِ آدمیت اور شرفِ انسانیت سے بہرہ وَر کرکے اشرف المخلوقات بنا دیا۔
ظلم، زیادتی اور گناہ و خطا کے بعد توبہ اور اصلاحی اعمال کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اللہ بھی بندے کی طرف متوجہ ہوتا اور اُسے اپنی رحمتوں اور مغفرتوں کے حصار میں لے لیتا ہے۔ سورۃ المائدہ میں ارشاد الٰہی ہے: فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ يَتُوْبُ عَلَيْہِ۝۰ۭ(المائدہ ۵:۳۹)۔ گویا اللہ بھی اُس کی طرف توجہ فرمائے گا۔ ایک دوسری جگہ سورۃ الانعام میں ارشاد فرمایا: مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢ ا بِجَــہَالَۃٍ  ثُمَّ تَابَ مِنْۢ  بَعْدِہٖ  وَاَصْلَحَ۝۰ۙ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵۴ (الانعام ۶:۵۴)۔ جو شخص نادانی سے کوئی خطا کربیٹھے، پھر اُس کے فوراً بعد اللہ کی طرف پلٹ آئے، توبہ واستغفار کرے اور غلطی کو درست کرلے، تو اللہ بہت معاف اور رحم کرنے والا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ اپنے بندے کی طرف رُخ نہ کرے، توجہ نہ کرے، اُس کی توبہ قبول نہ کرے ، اُسے معاف نہ کرے، اُس پر اپنے رحم و کرم کا سایہ نہ کرے۔ اللہ کا بندے کی طرف پلٹنا یہی ہے کہ وہ اُسے معاف کردے، اُس کے دامن سے اُس قصور کو دھو ڈالے ، اور اُس پر اپنے انعامات کی بارش برسا دے اور اُس کو اہلِ ایمان میں شمار کرتے ہوئے اپنی محبت سے نوازے۔
اللہ توبہ کرنے والے بندوں پر ایک اور بڑاا نعام یہ کرتا ہے کہ اُن کی خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے ۔ سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوا: اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ (۲۵:۷۰)، توبہ، ایمان اور عملِ صالح اُس بندے کو اس انعام کے اہل بنادیتے ہیں کہ ربِّ کریم اپنی خاص رحمت سے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کا انوکھا انعام کرتا ہے، جو اُس کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ اس قدر لطف و کرم، بخشش و عطا صرف اُسی کا کام ہے۔

توبۃ النصوح: اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار اہلِ ایمان کو متوجہ کرکے توبہ کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلانا اپنے بندوں پر رحم و کرم کے سوا کسی اور چیز کا ثبوت نہیں۔ بس یہ کہ اُس کے بندے اُس کی طرف پلٹ آئیں، اُس کی بارگاہ میں عاجزی، اِلحاح و زاری اور مغفرت طلبی کا رویہ اپنائیں۔ زبان سے توبہ توبہ کرنے کے بجاے عملی طور پر توبہ کے سچے اور حقیقی راستے کا انتخاب کریں اور مثبت رویہ اپنائیں۔ قصور و خطا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اس سے خبردار اور محتاط رہنا لازم ہے، مگر گناہ سرزد ہونے کی صورت میں، جو ناممکن نہیں___ اللہ کی بارگاہ میں پلٹنا، توبہ کرنا، قصور کا اعتراف کرکے معافی مانگنا ،اُس کی تلافی ، اصلاح کرنا ہی بچاؤ اور دین و دنیا کی سلامتی کا واحد ذریعہ اور راستہ ہے۔ بندگانِ خدا سے مطلوب ’توبۃ النصوح‘ ہے۔ ایک سچی، کھری، پُرعزم اور آیندہ نہ کرنے کے پختہ ارادے کی توبہ۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ توبہ کے بے شمار کھلے دروازوں اور مواقع کے باوجود توبہ کیوں نہیں کرتے؟ اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ   اِلَی اللہِ  وَیَسْتَغْفِرُوْنَہُ  ط (المائدہ ۵:۷۴)۔کیوں اُس سے مغفرت نہیں مانگتے حالانکہ وَاللہُ  غَفُوْرٌ  رَحِیْمٌ  ، اللہ بہت معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔توبہ نہ کرنا اور اس آس و اُمید پر بیٹھے رہنا کہ اللہ معاف کر ہی دے گا، درست رویہ نہیں۔ یہ خام خیالی اور حددرجہ جہالت و حماقت ہے کہ انسان گناہ پر گناہ کرتاچلا جائے۔ توبہ و استغفار سے منہ موڑے رکھے اور اللہ پر توقع اور اُمید باندھے کہ وہ توبہ و مغفرت طلبی کے بغیر ہی اس کے گناہ دھو ڈالے گا۔
اہلِ کفر بھی اگر اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں، اللہ و رسولؐ پر ایمان لاکر، حلقہ بگوشِ اسلام ہوجائیں،اپنے ماضی کو بھلا کر گناہوں کی سچے دل کے ساتھ معافی طلب کریں، تو لازماً بخشے جائیں گے، مگر اُن پر لازم ہوگا کہ بقیہ زندگی کو اللہ کے احکام اور شریعت کے قوانین کے مطابق بسر کریں اور سابقہ گناہوں سے محتاط رہیں۔
اہلِ ایمان کو توبہ و مغفرت طلبی کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں یہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ رَبَّنَا  لَا تُزِغْ  قُلُوْبَنَا  بَعْدَ  اِذْ ھَدَیْتَنَا ، اے ہمارے ربّ، ہدایت و راستی عطا کرنے کے بعد، دلوں کو ہرقسم کی فکری و عملی کجی، خرابی، ٹیڑھ اور گندگی و آلودگی سے بچاتے رہنا۔ وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ  رَحْمَۃً ج ،  اور اپنی جناب سے ہمیں رحمت سے نوازتے رہنا۔ اِنَّکَ  اَنْتَ الْوَھَّابُ  (اٰلِ عمرٰن ۳:۸)،  اے پروردگار! آپ بہت عطا کرنے والے ہیں۔ مغفرت، رحم، کرم، انعام، ہدایت و راستی، سلامتیِ فکروعمل، ایمان پر استقامت و استقلال اور استحکام، سب عطا فرما۔ آمین!

ارشادِ الٰہی ہے:
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۝۳۴  ( بنی اسرائیل۱۷:۳۴)  اور وعدہ کو پورا کرو، بے شک وعدہ کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔
انسان اللہ ربّ العزت سے عہد کرتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے سے بھی قول و قرار کرتا ہے،یعنی ایفاے عہد کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے ہے۔ بلاشبہہ دینِ برحق دونوں حقوق کی اد ایگی سے عبارت ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے اس آیت میں جس عہد یا وعدہ کے پورا کرنے کا حکم دیا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے۔ قرآن کریم میں دونوں عہد کے پورا کرنے کی بار بار تاکید بھی ہے ۔ مذکورہ بالا آیت سے نامور سیرت نگار مولانا سید سلیمان ندویؒ کا اخذ کردہ یہ نکتہ لائقِ توجہ ہے کہ ’’ جس کی باز پرس خدا فرمائے اس کی اہمیت کتنی بڑی ہوگی‘‘(سیرۃ النبیؐ، دارالمصنّفین، شبلی ا کیڈمی، اعظم گڑھ،ج۶،ص ۳۹۵)۔
 یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قرآن میں وعدہ کے لیے مختلف الفاظ (عہد، میثاق، وعد ، موعد) استعمال ہوئے ہیں، لیکن ان میں سب سے جامع لفظ ’ عہد ‘ ہے، جس میں دیگر الفاظ کے مفہوم شامل ہیں۔ قر آ ن کریم میں عہد یا وعدہ کو پورا کرنے کی جو ہدایت دی گئی ہے اس میں وہ عہد شامل ہے جو فطری طور پر اللہ اور انسان کے مابین قرار پاتا ہے۔ وہ عہد بھی شامل ہے، جو اللہ بندے سے لیتا ہے۔ وہ وعدہ بھی جو بندہ اللہ سے کرتا ہے اور وہ قول و قرار بھی اس میں آتے ہیں، جو اللہ کے بندوں کے مابین ہوتے ہیں۔ قرآن میں یہ سب وعدے یاد دلائے گئے ہیں۔
l وعدہ کا جامع مفہوم: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۱۵۲ۙ (الانعام۶:۱۵۲) ’’ اور اللہ کا وعدہ پورا کرو، اس نے اس کی تم سب کو نصیحت کی ہے تاکہ یاد کرلو‘‘۔ صاحبِ تفہیم القرآن اس آیت کی تشریح میں تحریر فرماتے ہے: ’’’اللہ کے عہد ‘ سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے،اور وہ بھی جو انسان اور خدا اور انسان اور انسان کے درمیان ا سی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے‘‘ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۶۰۰ ) ۔
ان سب سے یہ واضح ہوا کہ قرآن کی رُو سے عہد یا وعدہ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ عام طور پر لوگ عہد سے مراد صرف وہ قول و قرارلیتے ہیں جو معاملات طے کرتے ، بالخصوص مالی معاملہ کے وقت کیا جاتا ہے، جب کہ وسیع مفہوم میں اس کا اطلاق مذہب،اخلاق، معاشرت، معیشت اور عام معاملات کی ان تمام صورتوں پر ہوتا ہے جن کا پابند رہنا شرعی،اخلاقی اور قانونی اعتبار سے فرض کے برابر ہے۔
اللہ ربّ العزت سے کیے گئے وعدہ کی اہمیت اس سے بخوبی واضح ہوتی ہے کہ قرآن وعدہ کرنے والوں کو اس سے متنبہ کرتا ہے کہ اسے بہرحال پورا کرنا ہے ،ورنہ اس سے متعلق بازپُرس سے بچ نہیں سکتے۔ منافقین کو دین کی خاطر قربانی کے لیے ان کے وعدے کو یاد دلاتے ہوئے قرآن انھیں اس طور پر متنبہ کرتا ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَلَقَدْ كَانُوْا عَاہَدُوا اللہَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ۝۰ۭ وَكَانَ عَہْدُ اللہِ مَسْـُٔــوْلًا۝۱۵ (الاحزاب۳۳:۵ا) اور اس سے قبل انھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ[مخالفین سے جنگ میں] پیٹھ نہیں پھیریں گے اور اللہ سے کیے گئے عہد کے بارے میں باز پرس تو ہو نی ہی تھی۔
قرآن میں اُس عہد یا وعدے کو پورا کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے جو انسان اللہ کا نام لے کر کر تا ہے اور اس پر قسمیں کھا کر اسے پختہ کرتا ہے۔ ایسے عہد کو نہ توڑنے کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے ۔ ارشادِ الٰہی ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۹۱ (النحل ۱۶: ۹۱) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو، جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بنا چکے ہو۔اللہ تمھارے سب اعمال سے با خبر ہے۔
لو گ آپس میں ایک دوسرے سے جو وعدے ( خاص طور سے مالی معاملات سے متعلق ) کر تے ہیں ان کی پابندی کی ہدایات کے ضمن میں عام طور پر اس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۝۰ۥۭ ( المائدۃ ۵:۱) ’’اے اہلِ ایمان قول و قرار پورا کرو‘‘۔ بعض مفسرین نے ’ عقود‘ میں روز مرّہ زندگی سے متعلق شریعت کے تمام اصول و ضوابط کو شامل کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ شریعتِ الٰہی کا ہر ضابطہ ( ا للہ پر ایمان لانے کے بعد) ایک طرح سے صاحبِ ایمان کا اللہ سے معاہدہ ہوتا ہے اس کو پورا کرنے اور اس کو کسی بھی حالت میں نہ توڑنے کا۔ اور آیت میں دراصل اسی قول و قرار کی پابندی کی ہدایت دی گئی ہے جو شریعت کو قبول کرنے والا اللہ سے کرتا ہے ( تفہیم القرآن، ج۱، ص ۴۳۷ )۔
 ایفاے وعدہ اہلِ ایمان کی شناخت ہے۔ اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنینِ صادقین یا اپنے مخلص بندوں کی امتیازی خصوصیات میں یہ بیان کیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو پورا کرنے والے ہیں:
الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ۝۲۰ۙ وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ ( الرعد۱۳:۲۰-۲۱) اور وہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑتے نہیں۔ اور ان کی یہ روش ہوتی ہے کہ اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انھیں جوڑتے ہیں۔
ان آیات کے حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ نے یہ واضح کیا ہے کہ پہلے عہد کا تعلق اللہ سے کیے گئے وعدے سے ہے، جب کہ دوسرے کا ان وعدوں سے جو اہلِ قرابت آپس میں فطری طور پر کرتے ہیں ( سیرۃ النبیؐ،ج۶،ص  ۲۹۸)۔ قرآن میں اللہ کے مومن بندوں کی شان یہ بتائی گئی ہے: وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰ۚ(البقرہ۲:۱۷۷) ’’اور جب وہ عہد کریں تو اسے پورا کریں‘‘۔ اسی طرح اللہ کی بندگی بجا لانے میں سر گرم رہنے والوں کا ایک امتیاز یہ بھی بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝۳۲(المعارج ۷۰:۳۲) ’’اور جو اپنی امانتوں کی حفاظت کرنے والے اور اپنے عہد کا پاس و لحاظ کرنے والے ہیں‘‘۔ مزید برآں مومنین صادقین کا ایک وصفِ خاص یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو سچ کر دکھاتے ہیں، جیسا کہ یہ آیت بتا رہی ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۝۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ (الاحزاب۳۳:۳ ۲) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایاہے۔ ان میںکوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔
l وعدہ خلافی ، جھوٹ اور منافقت:یہاں یہ پیشِ نظر رہے کہ قرآن و حدیث دونوں میں اہلِ ایمان کے مطلوبہ اوصاف میں ایفاے وعدہ اور امانت داری دونوں خوبیاں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں میں بہت گہرا تعلق ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ اس کے برخلاف عہد شکنی کرنے والوں کو مفسد قرار دیتے ہوئے ان کے انجامِ بد سے اس طور پر انھیں متنبہ کیا گیا ہے:       
وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِہٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۙاُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ۝۲۵ (الرعد ۱۳:۲۵) جو اللہ سے کیے گئے عہد کو اسے مضبوط باند ھ دینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز کواللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں، ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے [آخرت میں] بدترین گھر ہے۔
 ان آیات سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ اللہ سے کیے گئے عہد کو توڑنا انتہائی سنگین جرم ہے اور بار بار اس جرم کو کرنے والے خیر کی قبولیت کی صلاحیت سے محروم اور رحمتِ الٰہی سے   دُور کردیے جاتے ہیں اور آخرت میں ان کا جو بدترین انجام ہو گا وہ علیحدہ ہے۔
قرآن سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ وعدہ خلافی و کذب دونوں برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ دونوں کا نفاق سے بہت گہرا تعلق ہے۔ دونوں کو نفاق کی و ا ضح علامت قرار دیا گیا ہے۔  قرآن میں منافقین کو کاذبین و مفسدین کہا گیا ہے (البقرۃ ۲:۱۱-۱۲، ۲۷، الرعد ۱۳:۲۵، المنافقون ۶۳:۱) اور اس سے بھی باخبر کیا گیا ہے کہ کاذب و عہد شکن کا وہی انجام ہوتا ہے جو منافقین کے لیے مقدر ہے (النساء ۴: ۱۴۰،۱۴۵)۔ مزید یہ کہ قرآن یہ بھی بتاتاہے کہ عہد شکنی و وعدہ خلافی سے دل میں نفاق کی پرورش ہوتی ہے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کے ذکر میں جنھوں نے اللہ سے یہ عہد وپیمان کیا تھا کہ اگر اللہ کے فضل و کرم سے انھیں مال نصیب ہوا تو وہ صدقہ و خیرات کریں گے، لیکن مال ملنے کے بعد وہ اس وعدہ کو بھول گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:   
فَاَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِہِمْ اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝۷۷ (التوبۃ۹:۷۷) نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جوبولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھادیا جو اس کے حضور ان کی پیشی تک پیچھا نہ چھوڑے گا ۔
نفاق کی علامات کے بارے میں یہ حدیث بہت مشہور ہے:
 عَنْ اَبِیْ   ھُریْرَۃَ  انَّ رَسُوْلَ اللہَ   قَالَ : آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ، وَاِذَا اوئْتُمِنَ خَانَ (بخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس کا قلب نفاق کا مسکن بن جائے اس کا انجام بڑا تباہ کن ہوگا۔
دیگر متعدد احادیث میں بھی وعدہ پورا کرنے کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور وعدہ خلافی کو سخت گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت انسؓ کی یہ روایت بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا ہو اور یہ نہ فرمایا ہو: لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ  ، ’’اس کا دین دین نہیں جسے عہد کا پاس و لحاظ نہ ہو‘‘ (احمد ابن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، الکتب العلمیہ، بیروت،۱۹۹۹ء،ج۶،ص ۴۷۱)۔
ایک حدیث کے مطابق ایفاے وعدہ ان خصوصی اوصاف میں شامل ہے جن سے مزین ہونے والوں کو جنت نصیب ہو نے کی ضمانت دی گئی ہے۔ حضرت عبادہ ابن صامتؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے چھے چیزوں (کے پورا کرنے) کا ذمہ لے لو تو میں تمھارے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں: اضْمَنُوْا لِیْ سِتًّا مِنْ اَنْفُسِکُمْ  اَضْمَنْ لَکُمُ الْجَنَّۃ (مسنداحمد، سندالانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت، حدیث:۲۲۱۶۶) ان چھے باتوں میں سے اولین دو کا تعلق سچ بولنے اور وعدہ پورا کرنے سے ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص اللہ کا نام لے کر عہد کرے اور پھر اسے توڑ دے تو وہ ایک حدیثِ قدسی میں مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان تین افراد میں شامل ہوگا جن کے خلاف روزِ قیامت خود اللہ تعالیٰ خصم (فریقِ مقدّمہ) بنیں گے۔ حدیث کا متعلقہ حصہ ملاحظہ ہو:
 عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  عَنِ النَّبِیِّ  قَالَ قَالَ اللہُ  عَزَّ وَ جَلَّ ثَلَاثَۃٌ اَنَـا خَصْمُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، رَجَلٌ اَعْطیٰ  بِیْ   ثُمَّ غَدَرَ (بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حُرّاً) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا[یعنی ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا] ۔ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑدیا۔
حقیقت یہ کہ ایفاے عہد کے باب میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارکہ مثالی رہا ہے ۔ آپؐ پوری زندگی سچا ئی، ایفاے عہد اور امانت داری کا مظاہرہ بلاکسی امتیاز سب کے ساتھ کرتے رہے ۔ غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم فوجیوں کی تعداد میں کمی گوارا کرلی، لیکن کفّارِ مکہ(جنھوں نے دوصحابیوں کو پکڑنے کے بعد اس شرط پر رہا کیا تھا کہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد جنگ میں شریک نہ ہوں گے) سے کیے گئے وعدے کو توڑنا گوارا نہ کیا۔ ان دونوں صحابہ ؓ کو غزوہ میں شرکت کی اجازت نہ دی اور یہ کہہ کر انھیں واپس بھیج دیا کہ ہم کو صرف اللہ کی مدد درکا رہے ( سیرۃ النبی ؐ،ج۲،ص ۲۷۷ ) ۔
 بلا شبہہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قیمتی سبق ملتا ہے کہ قول وقرار کی پابندی اور وفاے عہد مومن کی شان ہوتی ہے، جس سے وہ کسی قیمت پر دستبردار ہونا گوارا نہیں کرتا ( سیرۃ النبیؐ، ج۲، ص ۲۷۶، ۲۷۷ ،ج۶،ص۳۹۹، ۴۰۰) ۔
l وعدہ خلافی اور معاشرتی مسائل : ان تفصیلات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث کی نظر میں عہد کا پاس ولحاظ رکھنے اور وعدہ پورا کرنے کی بڑی اہمیت ہے اور یہ کہ عہد شکنی یا وعدہ خلافی ایک سنگین جرم یا بڑے گناہ کا کام ہے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ اللہ کے بندوں سے کیے گئے وعدے یا قول و قرار کی خلاف ورزی کا معاملہ اس پہلو سے بھی سنگین ہوجا تا ہے کہ یہ معاملہ حکمِ الٰہی کی سرتابی کے ساتھ اللہ کے بند وں کے لیے باعثِ زحمت و موجبِ تکلیف ہوتا ہے۔ قرآن کا یہ صاف اعلان ہے کہ اللہ ہر گز ایسے کام کو پسند نہیں فرماتا جس سے اس کے بندوں کو تکلیف پہنچتی ہے یا ان کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔
ان سب ہدایات و تعلیمات کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرے میں جو خرابیاں در آئی ہیں ان میں وعدہ خلافی نے ایک عام برائی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اسے برائی بھی نہیں سمجھتے۔ لوگوں کے ذہنوں سے ایفاے وعدہ کی اہمیت نکلتی جارہی ہے۔ وعدہ خلافی کو بہت معمولی گناہ سمجھا جاتا ہے اور یہ احساس بھی نہیں ہو تا کہ اس کے لیے آخرت میں جواب دہ ہونا پڑے گا، جب کہ قرآن میں بہت واضح طور پر خبر دار کیا گیا ہے کہ عہد اور وعدے کی بابت بازپُرس ہوگی۔ یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ وعدہ خلافی خود برائی ہے اور بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے جن میں غلط بیانی،کذب ، حقیقی صورتِ حال پر پردہ پوشی، منافقانہ رویہ وغیرہ شامل ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلسل وعدہ خلافی کرنے والے اپنی کوتاہی کو چھپانے کے لیے ایسی ایسی ناپسندیدہ حرکتیں کرتے ہیں کہ بس اللہ کی پناہ۔ بلا شبہہ وعدہ خلافی ان لوگوں کے لیے بھی وبال کا باعث بنتی ہے جو اس بُرائی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ جب بار بار کسی سے وعدہ خلافی ہوتی ہے تو ایسے شخص کا اعتبار اٹھ جاتا ہے یا وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور یہ یقیناً بہت بڑی دولت سے ہاتھ دھونا ہے۔ دوسرے کسی کام کے لیے وعدہ خلافی کرنے پر بعض اوقات اسی کام کے لیے بار بار دوڑنا پڑتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وعدہ خلافی کی وجہ سے ایک بار وہ کام ٹل گیا تو پھر دوبارہ ہو ہی نہیں پاتا جس کے لیے وعدہ کیا گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں اصحابِ معاملہ کا وقت ضائع ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے انھیں جو ذہنی کوفت ہوتی ہے وہ علٰٰیحدہ ہے۔
وعدہ خلافی کی وجہ سے سامنے آنے والی ان تکلیف دہ باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ وعدہ خوب سوچ سمجھ کر کیا جائے اور کسی سے ایسا وعدہ نہ کیا جائے جسے پورا نہ کیا جاسکے یا جس کا پورا کرنا انتہائی مشکل ہو۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے مروی آپؐ کایہ ارشاد گرامی حکمت سے معمور ہے کہ  اپنے بھائی سے ایسا وعدہ نہ کرو جسے تم پورا نہ کرسکو ( وَلَا تَعِدْہُ  مَوْعِداً فَتُخْلِفَہٗ   ، جامع ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء)۔وعدہ خلافی کی وجہ سے پیش آنے والی زحمتوں اور پریشانیوں سے بچنے بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی وجہ سے وعدہ پورا نہ ہو سکے یا پورا نہ ہونے کا اندیشہ ہو، تو اس صورت میں صاحبِ معاملہ( یعنی جس سے کوئی وعدہ کیا گیا ہے) کو اس سے با خبر کردیا جائے اور اگر وقت ہے تو بہتر ہوگا کہ اس کی پیشگی اطلاع دی جائے ۔
♦  ایفاے عہد کی برکات  :دوسری جانب اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ایفاے وعدہ بہت سے فیوض و برکات کا وسیلہ بنتا ہے ۔ اول یہ کہ یہ دونوں اصحابِ معاملہ کے لیے نفع بخش ثابت ہوتا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وعدہ پورا کرنے والے کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے اور اس سے صاحبِ معاملہ کو بھی سہولت و راحت ملتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وعدہ پورا کرنے والا وقت کے ضیاع سے خود محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں کیا شبہہ ہے کہ جو کام وقت پر انجام پا جا تا ہے وہ دونوں فریقِ معاملہ کے لیے وجہِ مسرت ہوتا ہے۔ تیسرے اس وصف کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اعتماد قائم ہوتا ہے،یعنی وعدے کا  پکّا قابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس سے معاملہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ بلاخوف و خطر اس سے معاملات طے کرتے یا لین دین کرتے ہیں۔
سورۃ المعارج کی آیت۳۲ کے حوالے سے اہلِ ایمان کے اوصاف میں ’ایفاے وعدہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سید جلال الدین عمری صاحب نے اس وصف کے فضائل وبرکات میں یہ رقم فرمایا ہے: ’’ اس طرح آدمی کو اطمینان ہوکہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی نہ ہوگی ، جو عہد وپیمان ہوا ہے وہ لازماً پورا ہوگا، تو وہ بے خوف وخطر معاملہ کرسکتا اور آگے بڑھ سکتا ہے۔اس سے پورے معاشرے میں امن و سکون کاماحول ہوگا اور ترقی کی راہیں کھلیں گی‘‘ (راہیں کھلتی ہیں، ۲۰۱۷ء،ص ۸۱) ۔
♦  وعدہ اور احساسِ جواب دہی: رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کے بند وں میں یہ صفت کیسے پرورش پاتی ہے؟ قر آن کریم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ خوبی تقویٰ کے اثر سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، انھیں متقین سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھیں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے (التوبۃ۹ :۴،۷)۔ بلا شبہہ اللہ ربّ العزت کی نگاہ میں محبوبیت کا مقام پالینا بہت بڑا شرف و فضل ہے جو اللہ کے رحم و کرم سے عہد یا وعدہ کی حرمت و تقدس کا پاس و لحاظ رکھنے و ا لوں کو عطا ہوتا ہے ۔ بلا شبہہ وہی شخص وعدہ پورا کرنے کا خوگر ہوتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے اور روزِ جزا اس کے حضور حاضری و بازپُرس کا احساس تازہ رکھتا ہے۔ ایسے شخص کا دل وعدہ کی خلاف ورزی کے خیال سے ہی کانپ اٹھتا ہے ، چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ وعدہ پورا کرکے رہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وعدہ پورا کرنے میں بڑی سخت آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وقت کی قربانی ہے، اپنے ذاتی تقاضوں کو تیاگ دینا ہے ،دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا ہے اور اپنے نقصانات کو گوارا کرنا ہے۔ اس کٹھن آزمایش سے وہی مومن کامیابی کے ساتھ نکل سکتا ہے، جس کا دل تقویٰ کا مَسکن بن جائے اور جس پر اللہ ربّ العزت کے سامنے حاضری اور جواب دہی کا احساس غالب رہے۔
 مختصر یہ کہ وعدہ پورا کرنا اہلِ ایمان کا امتیازی وصف ہے۔ اس سے ان کی شناخت بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وعدہ خلافی مومن کی شان کے خلاف ہے۔ عہد یا وعد ہ کسی سے کیا جائے ، اس کا پورا کرنا بلا شبہ قرآن و حدیث کی رُو سے لازمی ہے۔ اس کی خلاف ورزی ایک بد ترین خصلت ہے اور عند اللہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ یہ برائی دنیا میں موجبِ وبال ہے اور آخرت میں وجہِ خسران اور باعثِ ذلت و رسوائی ہوگی۔اللہ ربّ العزت ہم سب کو ا یفاے وعدہ کی صفت سے متصف فرمائے اور ہمیں ان تمام باتوں و کاموں سے دور ر ہنے کی توفیق عنایت کرے، جو اس کی ناپسندیدگی و ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ اللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ  وَتَرُضٰی، آمین ثمّ آمین!

سیّد قطب شہیدؒ (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) کی لافانی تحریروں نے لاکھوں دلوں کوگرمایاہے اور ان میں ایمان ویقین کی تازگی پیدا کی ہے۔ ان کی تصانیف کاترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکاہے۔  سیّد قطب شہید کی ایک قیمتی تحریر افراح الروح  کے نام سے ہے۔جس میں انھوں نے متعدد ا ہم موضوعات پر اپنے قلبی احساسات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس تحریر کا اردو ترجمہ ہے۔
سیّد قطب شہیدؒ پہلی مرتبہ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔ ۳۱؍جولائی ۱۹۵۵ء کو ۱۵سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔۱۰ سال کے بعد ۱۹۶۴ء میں انھیں رہائی ملی۔ اس نام نہاد رہائی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور ایک ڈھونگ نما عدالت سے فیصلہ کرواکے ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔یہ تحریر سیّد قطب نے قید وبند کے انھی ایام میں کسی موقعے پر اپنی بہن اورمعروف ادیبہ امینہ قطب کے نام ایک خط کی صورت میں لکھی تھی۔ ۱۵نکات پر مشتمل اس تحریر کے ہر نکتے کو سیّدقطب نے ’خاطرہ‘ کہا ہے۔ واضح رہے کہ ذیلی عنوانات محترم مترجم کے قائم کردہ ہیں۔ادارہ

پہلا خیال: زندگی کے مقابلے میں موت کی حقیقت

موت کا تصوربرابر تمھارے فکر وخیال پر چھایارہتا ہے۔ تم اسے ہر جگہ اور ہر چیز کے پیچھے گمان کرتی ہو۔ اسے ایک ایسی سرکش قوت سمجھتی ہو، جو زندگی اور زندوں پر حاوی ہے اور اس کے مقابلے میں زندگی کو کم زور ، کھوکھلی اور خوف زدہ پاتی ہو۔
تاہم، میرا نقطۂ نظر تمھارے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میں زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں، موت کو ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت سمجھتاہوں۔ موت کچھ نہیں کرپاتی، سوائے اس کے کہ اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان سے کوئی گراپڑا ٹکڑا اٹھالے۔
میرے ارد گرد زندگی کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ ہرچیز پروان چڑھ رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ مائیں حمل سے ہورہی ہیں اور بچے جن رہی ہیں۔ اس معاملے میں انسان اور جانور برابر ہیں۔ پرندے،مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے انڈے دے رہے ہیں، جن سے زندگی پھوٹ رہی ہے اور جان دار نکل رہے ہیں۔ زمین سے پودے پھوٹ رہے ہیں، جن سے پھل پھول نکلتے ہیں۔ آسمان سے موسلادھار بارش ہورہی ہے، اورسمندروں میں موجیں اُٹھ رہی ہیں۔ غرض اس روے زمین پر ہرچیز نموپذیر ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
درمیان میں کبھی کبھی موت اچانک نمودار ہوتی ہے اور ایک جھپٹّا مارکر آگے بڑھ جاتی ہے، یا چپکے سے اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان پر سے کوئی ٹکڑا اٹھالیتی ہے۔ زندگی کا کارواں رواں دواں رہتا ہے۔ اس کی موجیں اچھلتی، کودتی اورجوش مارتی رہتی ہیں۔ اسے موت کا مطلق احساس ہوتا ہے نہ وہ اسے دکھائی دیتی ہے۔
بسااوقات، جب موت زندگی کے جسم کو ایک مرتبہ نوچتی ہے تو درد سے اس کی چیخ نکل پڑتی ہے، لیکن زخم بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں اور درد کی چیخ بہت جلد راحت میں بدل جاتی ہے۔ انسان اور حیوان ، پرندے اور مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، پیڑپودے، سب اپنی اپنی راہ پر گا م زن رہتے ہیں۔ اس طرح روے زمین زندگی اور زندوں سے معمور رہتی ہے۔ موت کہیں کونے میں دبکی رہتی ہے۔ پھر اسی دوران میں اچانک ایک جھپٹاّ مارتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے، یا زندگی کے دسترخوان سے کوئی ٹکڑا گرجاتاہے، جسے وہ اٹھالیتی ہے۔
سورج نکل رہا ہے اور غروب ہو رہاہے، زمین اس کے گرد گردش کررہی ہے، زندگی کی کونپلیں اِدھر اُدھر نکل رہی ہیں___ ہرچیز نموپذیر ہے۔ اضافہ تعداد میں بھی ہورہاہے اور نوعیت میں بھی۔ کمّیت میں بھی ہورہاہے اور کیفیت میں بھی۔ اگر موت، زندگی کو نگل جانے کے قابل ہوتی تو زندگی کی روانی ٹھیرجاتی، لیکن زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں موت ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت دکھائی دیتی ہے۔ زندۂ جاوید، اللہ واحد کی قوت سے زندگی کی کونپل نکلتی ہے ، یہاں تک کہ ایک تناور درخت وجود میں آجاتا ہے۔

دوسرا خیال:طویل زندگی کا راز، مقصد کے لیے جینا

ہم جب صرف اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں تو زندگی ہمیں مختصر، معمولی اور حقیر نظر آتی ہے۔ ہمارے ہوش سنبھالتے ہی اس کاآغاز ہوتاہے اور محدود عمر کے اختتام کے ساتھ ہی اس کاخاتمہ۔
لیکن جب ہم دوسروں کے لیے، یا کسی مقصدکے لیے جیتے ہیں تو اس صورت میں زندگی بہت طویل اور گہری نظرآتی ہے۔ اس کاآغاز وہاں سے ہوتاہے، جہاں سے انسانیت کاآغاز ہوا ہے اور اس روے زمین سے ہماری جدائی کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہتاہے۔
اس طرح ہم اپنی انفرادی عمر میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ یہ اضافہ حقیقی معنوں میں ہوتاہے، نہ کہ خیالی طورپر۔ اس طرح زندگی کاتصور دنوں، گھنٹوں اور لمحوں کے بارے میں ہمارے احساس کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔
زندگی برسوں کی گنتی کانام نہیں ہے،بلکہ احساسات و جذبات کا شمار زندگی سے عبارت ہے۔ اس صورت میں جس چیز کو عقلیت پسندوں کا گروہ وہم اور تصوراتی چیز قرار دیتا ہے، وہ اصل میں ’حقیقت ‘ہوتی ہے، ان کے تمام حقائق سے زیادہ درست حقیقت!
اس لیے کہ زندگی انسان کے شعورِ حیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔کسی انسان سے اس کا شعورِ حیات چھین لیا جائے تو حقیقت میں وہ زندگی ہی سے محروم ہو جائے گا، اور اگر کسی انسان کا احساس اپنی زندگی کے بارے میں کئی گنا بڑھ جائے تو عملاً اس کی زندگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
مجھے لگتاہے کہ یہ مسئلہ اتنا بدیہی ہے کہ اس میں کسی بحث اور جھگڑے کی ضرورت نہیں۔
ہم جب دوسروں کے لیے جیتے ہیں تو درحقیقت خود اپنی زندگی میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ اسی طرح جس قدر دوسروں کے بارے میں ہمارے احساس میں اضافہ ہوگا، خود اپنی زندگی کے بارے میں ہمارا احساس بڑھے گا اور آخرکار خود زندگی کو ہم کئی گنا بڑھالیںگے۔

تیسرا خیال: خیر  کی مضبوطی اور ’شر‘ کی کمزوری

’شر‘کا بیج لہلہاتا ہے، لیکن ’خیر‘ کا بیج پھل دیتا ہے۔ ’شر‘ کا درخت فضا میں تیزی سے بڑھتا ہے، لیکن اس کی جڑیں مٹی میں گہری نہیں ہوتی ہیں۔ بسا اوقات اس کی پھیلی ہوئی شاخیں ’خیر‘ کے درخت تک روشنی اور ہوا نہیں پہنچنے دیتیں،جب کہ ’خیر‘ کادرخت سست رفتاری کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی ہیں، جو اسے گرمی اور ہوا کا بدل فراہم کرتی رہتی ہیں۔
جب ہم ’شر‘ کے درخت کے پُرفریب اور زرق برق مظاہر کی چکاچوند سے آگے بڑھ کر اس کی حقیقی قوت اور مضبوطی کاجائزہ لیتے ہیں، تو وہ ہمیں بہت کم زور اور خستہ دکھائی دیتا ہے، اور اس میں کوئی حقیقی پاے داری نظرنہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں ’خیر‘ کادرخت آزمایشوں پر جمارہتا ہے، آندھی اور طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑپاتے۔ وہ پُرسکون انداز میں دھیرے دھیرے بڑھتا رہتا ہے اور ’شر‘ کے درخت کی جانب سے آنے والے جھاڑجھنکاڑ اور کانٹوں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔

چوتھا خیال: خیر کی حوصلہ افزائی کیجیے!

ہم جب لوگوں کے دلوں میں اچھے پہلو کو محسوس کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں بہت کچھ خیر بھی موجود ہے، جوپہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا۔
میں نے اس کا تجربہ کیاہے۔ بہت سے لوگوں میں، میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی، جن کے بارے میں ابتدا میں بہ ظاہر اندازہ ہوتاہے کہ وہ شرپسند یا شعور واحساس سے عاری ہیں۔
ان کی غلطیوں اورحماقتوں پر معمولی ہم دردی کیجیے، ان سے حقیقی محبت کاتھوڑااظہار کیجیے، ان کی دلچسپیوں اور مسائل کی جانب بغیر کسی بناوٹ کے معمولی توجہ تو دیجیے، پھر آپ ان کے دلوں میں خیرکاچشمہ پھوٹتا ہوا دیکھیںگے۔ آپ انھیں صدق و صفا اور اخلاص کے ساتھ اپنی جانب سے جو کچھ دیںگے، وہ اگرچہ مقدار میں معمولی اورحقیر ہوگا، لیکن اس کے بدلے میں وہ والہانہ پن سے اپنی محبت و مودّت اور اپنا اعتماد آپ کے حوالے کردیںگے۔
نفسِ انسانی میں شرکی جڑیںاتنی گہری نہیں ہوتیں،جتنا ہم بسااوقات تصور کرتے ہیں۔ اکثر اوقات تو وہ پھل کے اس اوپری سخت چھلکے کی طرح ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ بقا کے لیے زندگی کی جدوجہد کرتا ہے۔ چنانچہ جب وہ کسی اندیشے سے محفوظ ہوجاتا ہے، تو وہ سخت چھلکا ہٹ جاتاہے اور اندر سے شیریں و لذیذ گودا نکل آتا ہے۔ یہ شیریں پھل اسی شخص کو حاصل ہوتاہے، جو لوگوں کو اپنی جانب سے امن، اپنی محبت پر اعتماد اور ان کی جدّوجہد ، پریشانیوں، غلطیوں اور حماقتوں پر حقیقی ہم دردی کااحساس دلاسکے۔
ابتدا ہی میں کشادہ دلی کے معمولی مظاہرے سے یقینی طورپر یہ سب چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں، اور یہ اس سے قریب تر ہوگا جس کی لوگ توقع کرتے ہیں۔ میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اپنی ذات پر اسے برتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتاہوں کہ یہ خواب و خیال کی باتیں نہیں ہیں۔

پانچواں خیال: ہمدردی اور محبت کا بیج پروان چڑھایئے!

ہم اپنے دلوں میں اگر محبت، ہم دردی اور خیر کے بیج پروان چڑھالیں، تو اپنے آپ کو بہت سی مشقتوں، زحمتوں اور بے جا تکلیفوں سے بچالیں گے۔ پھر ہمیں دوسروں کی چاپلوسی کی ہرگز ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس لیے کہ اس وقت ہم ان کی مدح و ثنا کرنے میں سچے اور مخلص ہوںگے۔ ہم ان کے دلوں میں خیر کے چھپے خزانوں کو پالیں گے، اور ان کی ایسی پاکیزہ امتیازی خصوصیات دیکھیںگے، جن کی صدق دل سے تعریف وتحسین کرسکیں گے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے، کہ جس میں خیرکاکوئی پہلو یا کوئی اچھی امتیازی صفت نہ ہو، جو اسے کلمۂ خیرکامستحق بناتی ہو، لیکن افسوس کہ ہم اس سے واقف نہیں ہوتے۔ ہمیں اس کا علم اسی صورت میں ہوپاتا ہے، جب ہمارے دلوں میں محبت کا بیج پروان چڑھتا ہے۔
اسی طرح ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ان سے دل تنگ کرنے اور ان کی غلطیوں اور حماقتوں پر صبر کرنے کی مشقت برداشت کریں۔ اس لیے کہ جب ہمارے دلوں میں ہم دردی کا بیج پروان چڑھے گا، تو ان کی کم زوریوں اورخامیوں کے مواقع پر ہم ان کے ساتھ ہمدردی کااظہار کریںگے اور ان کم زوریوں سے واقف ہونے کے لیے ان کی ٹوہ میں نہیں لگیںگے۔
اس طرح فطری طورپر ہم اپنے آپ کو ان سے بغض و نفرت کی مشقت یا ان سے پہلو بچانے کی پریشانی میں نہیں ڈالیںگے۔ دوسروں سے ہماری نفرت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے دلوں میں خیر کے بیج کی نشو ونما اچھی طرح نہیں ہوتی اور ہم دوسروں سے اس لیے خوف کھاتے ہیں، کیوں کہ خود ہمارے اندر خیر پر اعتماد کاعنصر کم ہوتا ہے۔
ہم خود کو کتنی طمانینت، راحت اور سکینت پہنچائیںگے، جب دوسروں کو اپنی ہم دردی اور اعتماد کی سوغات پیش کریںگے، تو ہمارے دلوں میں محبت اور خیر کے بیج پروان چڑھیںگے۔

چھٹا خیال:حقیقی عظمت گھل مل کر رہنے میں ہے

ہم جب لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اپنے اس احساس کی بنا پر، کہ ہماری روحیں ان سے زیادہ پاکیزہ ، ہمارے دل ان سے زیادہ صاف شفاف، ہمارے نفس ان سے زیادہ کشادہ اور ہماری عقل ان سے زیادہ تیز ہے، تو یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہوتا ،بلکہ اس طرح ہم اپنے لیے سب سے آسان راستہ اور سب سے کم زحمت کا انتخاب کرلیتے ہیں۔
 حقیقی عظمت اس میں ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں۔ ان کی کم زوری، خامی اور غلطی پر بردباری اور ہم دردی کابھرپور مظاہرہ کریں، اور انھیں پاک صاف کرنے، تہذیب یافتہ بنانے اور حتی الامکان اپنے معیار تک بلند کرنے کی حقیقی خواہش رکھیں۔
اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بلند اخلاق اور اعلیٰ اقدار سے دست بردار ہوجائیں، یا ان لوگوں کی چاپلوسی کریں اور ان کی گھٹیا حرکتوں پر ان کی مدح وثنا کریں، یا انھیں یہ احساس دلائیں کہ ہم ان سے برتر ہیں۔ ان متضاد امور کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور اس راہ میں آنے والی پریشانی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہی حقیقی عظمت ہے۔

ساتواں خیال: دوسروں سے تعاون چاہنا ، کوئی عیب نہیں

ہم جب قدرت و صلاحیت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیں گے، تب ہمیں احساس ہوگا کہ دوسروں سے مدد طلب کرنا ہمارے لیے عیب کی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اُن لوگوں سے مدد طلب کرنے کی صورت میں بھی نہیں، جو ہم سے کم صلاحیت کے حامل ہوں۔
 اس سے ہماری قدر وقیمت کم نہیں ہوتی کہ دوسروں سے تعاون لیں۔ ہم ہر کام اپنے دم پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بات میں اپنی عار سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے مدد چاہیں، یا ان کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد میں شامل کرلیں۔ ہمیں اس بات میں اپنی بے وقعتی کااحساس ہوتاہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، کہ ہمارے ذریعے اس چوٹی کے سرہونے میں اُن کی مدد کا بھی دخل تھا۔ یہ سب ہم اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں اپنے اوپر زیادہ اعتماد نہیں ہوتا، یا ہم بالفعل کسی پہلو میں  کم زور ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم فی الواقع طاقت ور ہوں، تو ہمیں اس کا ہرگز احساس نہیں ہوگا۔بچہ جب چلنے کی کوشش کرنے لگتاہے تو وہ اس ہاتھ کو جھٹک دیتا ہے، جو اسے سہارا دیے ہوئے ہوتا ہے۔
لیکن جب ہم طاقت و قوت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیںگے، تو دو سر وں کی مدد کو شکر و سپاس اور خوشی و مسرت کے جذبے کے ساتھ قبول کریںگے۔ شکریہ اس بات پر کہ ہماری مدد کی گئی، اور مسرت اس چیز کی کہ جس پر ہمارا ایمان ہے اس پر ایمان رکھنے والے دوسرے لوگ بھی ہیں، جو جدّوجہد اور ذمے داری میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ یقین کریں کہ شعور کی ہم آہنگی پر فرحت و مسرت کااحساس بڑا پاکیزہ اور مقدس احساس ہے۔

آٹھواں خیال: ہمارے افکار کی قبولیت ، مقامِ مسرت ہـے

اگر ہم اپنے افکارو عقائد کو اپنے لیے خاص کیے رہیں اور جب دوسرے انھیں اختیارکرنے لگیں تو اس پر اپنے غیظ وغضب کا اظہارکریں اور پوری کوشش کریں کہ ان کی نسبت ہماری طرف ہی کی جائے اور دوسرے لوگ ان کے دشمن بنے رہیں۔ ایسا فعل کوئی فرد اس وقت کرتا ہے جب ان افکار و عقائد پر اس کا ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ وہ دل کی گہرائیوں سے تائید نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ بلاارادہ وہ افکار و عقائد ظاہر ہوجاتے ہیںاور ان سے نسبت رکھنے والا انھیں اپنی جان سے زیادہ محبوب نہیںرکھتا۔
حقیقی خوشی ہی فطری نتیجہ ہے اس چیز کاکہ ہم اپنے جیتے جی اپنے افکار و عقائد کو دوسروں کی زندگیوں میںرُوبۂ عمل دیکھیں۔ محض اس بات کا تصور کہ یہ افکار و عقائد ہمارے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد دوسروں کے لیے آسودگی اور سیرابی کا ذریعہ بنیںگے، اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دل رضا، سعادت اورطمانیت سے لب ریز ہوجائیں۔
یاد رہے، صرف تاجرہی اپنے سامانِ تجارت پر ٹریڈ مارک لگاتے ہیں، تاکہ دوسرے لوگ ویسا سامان نہ بناسکیں اور ان کے منافع کو ہڑپ نہ کرسکیں۔ رہے مفکرین، داعی اور عقائد کے حاملین تو وہ اس چیز کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان کے افکار و عقائد میں حصہ دار بن جائیں، اور ان پر اس حد تک ایمان لائیں کہ انھیں ان کے اوّلین علم برداروں کی طرف منسوب کرنے کے بجاے اپنی طرف منسوب کرنے لگیں۔
 وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہی ان افکار و عقائد کے سکّہ بند’مالک‘ ہیں، بلکہ وہ خود کو ان کی منتقلی اور ترجمانی کے لیے محض ’واسطہ‘ گردانتے ہیں۔ انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جس سرچشمے سے وہ سیراب ہوتے ہیں، نہ وہ ان کاپیدا کیاہوا ہے اور نہ ان کے اپنے ہاتھوں کا بنایاہوا۔ انھیں حاصل ہونے والی خوشی و مسرت کاپاکیزہ احساس ان کے اس اطمینان کاثمرہ ہوتاہے کہ اس اصلی سرچشمے سے ان کا گہرا تعلق ہے۔

نواں خیال: ’حقائق‘ اور ’فہم‘ میں  فرق ہـے

’ہم حقائق کو سمجھیں‘ اور ’ہم حقائق کا فہم حاصل کریں‘___ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے، بہت زیادہ فرق۔ اس میں پہلی چیز علم ہے اور دوسری چیز معرفت۔
 پہلی بات میں ہمارا تعامل مجرد الفاظ و معانی کے ساتھ، یا جزئی تجربات اور نتائج کے ساتھ ہوتا ہے،جب کہ دوسری بات میں ہم زندہ قبولیتوں اور کلّی مطالب کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔
پہلی صورت میں ہمیں اپنی ذات کے باہر سے معلومات حاصل ہوتی ہیں، پھر وہ ہماری عقلوں میں جاگزیں ہوکر امتیازی صورت میں محفوظ رہتی ہیں۔ دوسری صورت میں حقائق ہمارے اندرون سے پھوٹتے ہیں۔ ان میں خون اسی طرح دوڑتاہے، جس طرح ہماری رگوںاور اعضا میں دوڑتا ہے اور ان کی شعاعیں ہماری نبض سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔
پہلی صورت میں مختلف خانے اور ان کے ذیلی عنوانات ہوتے ہیں:علم کاخانہ اوراس کے تحت مختلف عنوانات، مذہب کاخانہ اور اس کے تحت مختلف ابواب و فصول، آرٹ کاخانہ اور اس کے تحت مختلف مناہج اور رجحانات۔ اور دوسری صورت میں صرف ایک طاقت ہوتی ہے، جو کائنات کی عظیم ترین طاقت سے مربوط ہوتی ہے، صرف ایک دھارا ہوتا ہے، جو اصل سرچشمے سے جاملتا ہے۔

دسواں خیال: اعلٰی روحانی قوت کا حصول

ہمیں انسانی علوم کی تمام شاخوں میں ماہرین کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کی جو اپنی تجربہ گاہوں اور دفاتر کو عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی شکل دے دیں، جو اپنے دائرۂ اختصاص کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ صرف قربانی کے جذبے سے نہیں، بلکہ اس میں انھیں اس عبادت گزار کی طرح لذت کا بھی احساس ہو، جو اپنی روح کوبہ خوشی اپنے معبود کے حوالے کردیتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں اس چیز کا ادراک کرنابھی ضروری ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو زندگی کو کوئی رُخ دیتے ہیں، یا انسانیت کے لیے کوئی راہ طے کرتے ہیں۔
رہنمائی ہمیشہ انھی لوگوں نے کی ہے اور آیندہ بھی وہی کریںگے جو اعلیٰ روحانی قوتوں کے مالک ہوں۔ یہی ہیں وہ لوگ، جو ایسے پاکیزہ شعلے کے حامل ہوتے ہیں، جس کی حرارت میں علوم و معارف کے تمام ذرات پگھل جاتے ہیں اور جس کی روشنی میں زندگی کے راستے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اعلیٰ اور بلند تر ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے وہ تمام جزئیات سے مالامال رہتے ہیں اور انھیں بہترین زادِ راہ حاصل رہتا ہے۔ یہ رہنما اپنی بصیرت سے اُس ہمہ گیر وحدت کا فہم حاصل کرلیتے ہیں، علم ،فن، عقیدہ اور عمل جس کے مختلف مظاہر ہیں۔ چنانچہ وہ نہ تو ان میں سے کسی کو حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں اور نہ کسی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
چھوٹے لوگ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مظاہر کی ان قوتوں کے درمیان تضاد اور تصادم ہے۔ چنانچہ وہ مذہب کے نام پر علم سے برسرپیکار رہتے ہیں،یا علم کے نام پر مذہب سے محاذآرا۔
یہ لوگ فن کو عمل کا نام دے کر اس کی تحقیر کرتے ہیں ،یا تحریک پیدا کرنے والی قوتِ حیات کو صوفیانہ عقیدہ کہہ کر اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان طاقتوں میں سے ہر طاقت کو الگ سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ سب ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی ہیں،اس عظیم ترین قوت سے جس کا تسلط اس کائنات پر قائم ہے۔ لیکن بڑے رہنما اس وحدت کا ادراک کرلیتے ہیں، اس لیے کہ ان کا اس اصل سرچشمے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ اس سے فیض اٹھاتے رہتے ہیں۔
اعلیٰ روحانی قوتوں کے حاملین کم ہیں۔ تاریخ انسانیت میں ان کی تعداد بہت قلیل ہے، بلکہ ان کا وجود نادر ہے، لیکن انھی لوگوں سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ جو قدرت الٰہیہ اس کائنات کی نگرانی کررہی ہے، اسی نے ان کی صورت گری کی ہے اور طے شدہ اور مطلوبہ وقت میں انھیں بیدار کیاہے۔

گیارھواں خیال: فہم سے بالاتر چیزوں کے بارے میں مناسب رویہ

خرقِ عادت چیزوں،کشف و کرامات اورغیر مرئی قوتوں پر ہی اعتقادکو مطلق تسلیم کرنا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ وہ خرافات تک لے جاتا اور زندگی کو بہت بڑے وہم میں مبتلا کردیتا ہے۔ لیکن اس اعتقاد کا مطلق انکار کرنا بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ اس لیے کہ یہ چیز ’ نامعلوم‘ تک رسائی کے تمام دروازوں کو بندکردیتی اور ہر اَن دیکھی طاقت کا انکار کردیتی ہے، محض اس بنا پر کہ وہ ہماری زندگی کے کسی مرحلے میں ہمارے انسانی فہم و ادراک سے پرے تھی! اس طرح ہمارا فہم اس کائنات کے مقابلے میں حجم، طاقت اور قدروقیمت کے اعتبار سے چھوٹا ہوجاتا ہے اور ’معلوم‘ کی حدود سے گھرجاتاہے۔ اور وہ اس لمحے تک، جب کائنات کی عظمت سے اس کامقابلہ کیاجائے، حقیر___ انتہائی حقیر ہوتا ہے۔
اس روے زمین پر انسان کی زندگی، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قوتوں اور ان کے مظاہر کے فہم و اِدراک سے عاجزہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ انسانی زندگی ان قوتوں کے فہم و ادراک پر قدرت کا تسلسل ہے۔ جب بھی انسان نے بندشوں سے چھٹکارا پایا اور اپنے طویل راستے میں آگے کی طرف قدم بڑھایا ہے، اسے ان قوتوں کا ادراک ہواہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی ان قوتوں میں سے، جو کبھی انسان کے لیے نامعلوم اور اس کے اِدراک سے پرے تھیں، کسی قوت کے اِدراک پر اس کا قادر ہوجانا اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے دیکھ لے کہ کائنات میں دوسری بہت سی قوتیں ایسی ہیں، جن کاابھی وہ اِدراک نہیں کرسکا ہے۔ اس لیے کہ ابھی تک وہ تجربے کے مرحلے سے گزررہاہے۔
انسانی عقل کے احترام کا تقاضاہے کہ ہم اپنی زندگی میں ’نامعلوم ‘ کومناسب مقام دیں۔ اس لیے نہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات اس کے حوالے کردیں ، جیساکہ اوہام و خرافات کے دل دادہ کرتے ہیں،بلکہ اس لیے تاکہ ہم حقیقی طورپر اس کائنات کی عظمت کااحساس کرسکیں اور اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی قدرو قیمت پہچان سکیں۔
اسی طرح اس کایہ بھی تقاضا ہے کہ وہ انسانی روح کے لیے بہت سی قوتوں کے دروازے کھول دے، جس سے معرفت حاصل ہوسکے اور ان روابط کاعلم ہوسکے، جو ہمیں اور ہماری داخلی دنیا کو اس کائنات سے جوڑے ہوئے ہیں۔ اس بات میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ یہ قوتیں ان تمام چیزوں سے زیادہ عظیم اور وسیع اور گہری ہیں، جن کاہم نے اب تک اپنی عقلوں سے اِدراک کیاہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے سامنے ہر دن کسی نئے ’نامعلوم‘ کا انکشاف ہورہاہے اور ہم برابر اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔

بارھواں خیال: اللہ کی عظمت کااعتراف اور انسان کی قدروقیمت

اس زمانے میں بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مطلق عظمت کا اعتراف کرنے سے: ’’انسان کی قدرو قیمت کم ہوجاتی ہے اور اس کائنات میں اس کی شان گھٹ جاتی ہے‘‘۔ گویا اللہ اور انسان دو حریف ہیں ،جو اس کائنات میں عظمت اور قوت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ایسا سوچنا محض جہالت ہے۔
میرااحساس ہے کہ جوں جوں اللہ کی مطلق عظمت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ ہوگا، اسی قدر ہمیں بھی عظمت حاصل ہوگی۔ اس لیے کہ ہم اس عظیم ہستی کی تخلیق ہیں۔
جولوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کامقام اس وقت بلند ہوتاہے، جب وہ اپنے خیال میں اپنے خالق اور معبود کا درجہ گرادیتے یا اس کا مطلق انکارکردیتے ہیں، تو یقین مانیے ایسے لوگ بے چارگی اور عقلی افلاس کی اس سطح پر گرے ہوئے ہیں کہ جو قریبی افق کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔
وہ گمان کرتے ہیں کہ انسان نے اپنے ’ضعف‘ اور ’عجز‘ کے زمانے میں اللہ کی پناہ حاصل کی تھی، لیکن اب، جب کہ وہ ’طاقت ور‘ ہوگیا ہے، اسے کسی معبود کی ضرورت نہیں! گویا کہ ضعف، بصیرت کے دروازے وَا کرتا اور طاقت وقوت اس پر خطِ نسخ پھیر دیتی ہے۔ انسان کے شایانِ شان یہ ہے کہ جوں جوں اس کی قوت بڑھے، اسی قدر اللہ کی عظمت ِمطلق کے بارے میں اس کے احساس میں اضافہ ہو۔ اس لیے کہ اس کی قوتِ ادراک میں جس قدر اضافہ ہوگا، اسی قدر وہ اس قوت کے سرچشمے کا بہ خوبی ادراک کرسکے گا۔

تیرھواں خیال:غلامی آزادی کے لبادے میں

بعض اوقات غلامی، آزادی کے لبادے میں چھپ جاتی ہے اور اس کا اظہار تمام پابندیوں سے آزادی، عرف اور روایات سے آزادی کی شکل میں ہوتا ہے۔
ذلت، دباؤ اور کم زوری کی قیود سے آزادی اور انسانیت کی قیود اور ذمے داریوں سے آزادی، دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ اول الذکر ہی حقیقی آزادی ہے، جب کہ دوسری آزادی فی الواقع ان قدروں سے عاری ہونا ہے، جنھوںنے انسان کو انسان بنایاہے اور اسے حیوانیت کی بھاری بیڑیوں سے آزاد کیا ہے۔یہ بناوٹی آزادی ہے۔ اس لیے کہ یہ حقیقت میں حیوانی جذبات و میلانات کے آگے خودسپردگی اور ان کی غلامی ہے۔ انسانیت نے ایک طویل عرصہ اس غلامی کی بیڑیوں کو کاٹنے اور آزاد فضا میں سانس لینے کی جدّوجہد کرتے گزارا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت اپنی ناگزیر ضروریات کے اظہار سے کیوں شرماتی ہے؟
دراصل وہ محسوس کرتی ہے کہ ان ضروریات سے بلندہو جانا انسانیت کی اوّلین قدر ہے۔ اس کی بیڑیوں سے نجات پانا ہی حقیقی آزادی ہے ۔ گوشت اور خون کے محرکات پر غلبہ پانا اور کم زوری اور ذلّت کے اندیشوں پر قابو پانا ، انسانیت کے مفہوم کو گہرا کرنے میں دونوں کا کردار برابر ہے۔

چودھواں خیال: بے عملی کا نظریہ، زندگی نہیں موت ہـے

میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اصولوں کو افراد سے الگ کرکے پیش کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے اور حرارت بخش عقیدے کے بغیر اصول کی کوئی حیثیت نہیں، اور ایسا عقیدہ انسان کے دل کے علاوہ اور کہیں کیوں کر پایاجاسکتا ہے؟
اصول اور افکار اگر حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے عقیدے پر مبنی نہ ہوں تو وہ محض کھوکھلے الفاظ ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ بے جان معانی ہیں۔ جو چیز ان کو زندگی بخشتی ہے وہ ایمان کی حرارت ہے، جو کسی انسان کے دل سے نکلتی ہے۔ دوسرے لوگ ہرگز کسی ایسے اصول یا نظریے پر ایمان نہیں لائیںگے ،جو کسی حرارت بخش دل میں نہیں، بلکہ جذبے اور اعلیٰ احساس سے عاری ذہن میں پیداہوا ہو۔
پہلے تم خود اپنے نظریے پر ایمان لاؤ۔ اس پر تمھارا ایمان حرارت بخش عقیدے کی حد تک ہو! تبھی دوسرے لوگ بھی اس پر ایمان لائیںگے ،ورنہ اس کی حیثیت محض چند کھوکھلے الفاظ کی ہوگی، جو روح اور زندگی سے عاری ہوں گے۔
اُس نظریے کے لیے کوئی زندگی نہیں جو کسی انسان کے سانچے میں نہ ڈھلاہو اور جس نے کسی ایسے زندہ وجود کی شکل نہ اختیار کی ہو، جو روے زمین پر کسی انسان کی صورت میں چلتاپھرتا ہو۔ اسی طرح اِس میدان میں اُس انسان کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، جس کے دِل میں کسی ایسے نظریے نے گھر نہ کیاہو، جس پر وہ حرارت اور اخلاص کے ساتھ ایمان ر کھتاہو۔
نظریے اور فرد کے درمیان فرق کرنا، روح اور جسم یا معنی اور لفظ کے درمیان فرق کرنے کا ہم معنی ہے۔ بسااوقات ایسا کر پانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر نظریے کو فرد سے الگ کردیاجائے، تو اکثر وہ فنا کے گھاٹ اترجاتا ہے۔صرف اسی نظریے کو زندگی ملتی ہے، جس کی پرورش انسان کے خونِ جگر سے ہوتی ہے۔ رہے وہ افکار جو اس پاکیزہ غذا سے محروم رہتے ہیں، وہ مردہ ہوتے ہیں اور ان میں انسانیت کو ایک بالشت بھی آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہوتی۔

پندرھواں خیال : گھٹیا ذریعے سے پاکیزہ مقصد کا حصول درست نہیں

میرے لیے یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ ہم کسی گھٹیا وسیلے کو کام میں لاکر کسی پاکیزہ مقصد تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکیزہ مقصد کسی پاکیزہ دل ہی میں زندہ رہ سکتا ہے۔ پھر اس دل کے لیے کیوں کر ممکن ہے کہ وہ کسی گھٹیا وسیلے کو بروئے کار لانے کو گوارا کرے؟
ہم جب کسی سرسبز و شاداب علاقے میں پہنچنے کے لیے کسی کیچڑ بھرے راستے سے ہوکر گزریںگے، تو ضروری ہے کہ اپنی منزل تک کیچڑ میں لت پت ہوکر پہنچیں۔کیچڑ سے ہمارے پیر بھی گندے ہوجائیںگے اور وہ جگہیں بھی، جہاں ہمارے پیر پڑیںگے۔ یہی حال اس وقت ہوگا، جب ہم کوئی گھٹیا اور گندا وسیلہ اختیار کریں گے۔ گندگی ہماری روحوں سے چپک جائے گی اور اس کے اثرات ہماری روحوں پر بھی پڑیں گے اور اس مقصد پر بھی جسے ہم حاصل کرناچاہتے ہیں۔
روح کے معاملے میں وسیلہ مقصد کا ایک جز ہے۔ عالمِ روح میں یہ امتیازات اور تقسیمیںنہیں ہوتیں۔ صرف انسانی شعور ہی ایسا ہے کہ جب اس میں کسی پاکیزہ مقصد کااحساس پیداہوتا ہے، تو وہ ہرگز کسی گھٹیا وسیلے کو اختیار کرنا گوارا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطری طورپر وہ ہرگز اسے اختیار نہیں کرے گا۔
’’مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی وسیلہ اختیار کیاجاسکتاہے‘‘___ یہ مغرب کاعظیم فلسفہ ہے! اس لیے کہ مغرب کی عظمت کاپرتو اپنے ذہن ودماغ کی شکست خوردگی کی وجہ سے ہے۔ وسائل اور مقاصد کے درمیان تقسیم اور فرق کرناذہنی طور پر ہی ممکن ہے،عمل کی دنیا میں نہیں۔

حج بیت اللہ کے لیے اللہ کے مہمان پوری شان اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دَر پر حاضری دیتے ہیں۔ بلاشبہہ بیت اللہ کی سعادت عظیم سعادت ہے۔ مسلم، عاقل، بالغ اور استطاعت رکھنے والے مرد و خواتین پر اس کی فرضیت مسلّم ہے، البتہ خواتین کے لیے محرم کی موجودگی بھی شرط ہے۔
حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے خوش نصیب عموماً اس کی تیاری کے لیے سازوسامان، احرام اور سفر سے متعلق اُمور کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں، جن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بنیادی اہمیت کے حامل اُمور کی طرف توجہ مبذول کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ذیل میں ان اُمور کا تذکرہ کیا جارہا ہے:

نیت کا استحضار

نیت قصد القلب، یعنی دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔ نیت عمل کے ذریعے اللہ کی اطاعت اور قربت حاصل کرنے کا نام ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات میں جابجا نیت کی اہمیت اُجاگر کی گئی ہے۔ حدیث النیات میں بھی متوجہ کیا گیا کہ اعمال کی قبولیت عنداللہ کا دارومدار نیت کی درستی پر ہے۔ بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں بھی صراحت ہے کہ لوگوں کو قیامت کے دن ان کی نیتوں کے مطابق اُٹھایا جائے گا۔(بخاری، بدء الوحی، حدیث: ۱، عن عمر بن خطابؓ)
گویا کہ نیت کا بنیادی مقصد عادت اور عبادت میں تمیز کرنا ہے۔ اسی طرح نیت کے  پیش نظر ایک عبادت کو دوسری عبادت سے ممتاز بھی کیا جاتا ہے۔ آج دین سے دُوری کے اس عالم میں عبادات بھی روایت بن گئی ہیں، پھر رسم و رواج کی صورت اختیار کرگئی ہیں۔ چنانچہ ان اہم عبادات اور فریضہ کی ادایگی کے لیے جاتے وقت صرف رضاے الٰہی کی نیت کی جائے، اللہ کی خوشنودی کو مدنظر رکھا جائے اور اپنے گناہوں کی بخشش کروانے کی سعی کی جائے۔

ریا سے اجتناب

 شیطان نے اولادِ آدم ؑ کو گمراہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

ثُمَّ لَاٰتِيَنَّہُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَيْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِيْنَ۝۱۷(اعراف ۷:۱۷) پھر مَیں آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا۔

یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ شیطان کبھی بھی تمام انسانوں کی گمراہی کے لیے یکساں اسلوب اختیار نہیں کرتا بلکہ ہرفرد کو اس کی مرغوباتِ نفس اور گمراہی کے اسباب کے مطابق ہی گمراہ کرتا ہے۔ بھیس بدل بدل کر اور نئے رُوپ میں آکر گمراہی کا سامان کرتا ہے۔ چنانچہ کبھی شیطان نیکوکاروں کو ان کی عبادت پر غرور کرنے، اوروں کو حقیر سمجھنے اور دکھاوے کے ذریعے گمراہ کردیتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ: میں تمھاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ چھوٹا شرک ’ریا‘ ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! چھوٹا شرک کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’ریاکاری‘۔ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریاکاروں سے اللہ فرمائے گا ان لوگوں کے پاس جائو جن کو دکھانے کے لیے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اور دیکھو کیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔ (مسنداحمد، حدیث:۲۳۶۳۰)
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا:جب الحزن  سے اللہ کی پناہ مانگو۔
صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! جب الحزن  کیا ہے؟
آپؐ نے فرمایا کہ: ’’یہ جہنّم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ اس میں وہ لوگ ڈالے جائیں گے جو نیکی محض لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
ان احادیث میں ہمارے لیے وعید ہے خصوصاً جب سے موبائل فون اور کیمرے کا استعمال بڑھا ہے، عمرہ و حج کے مناسک کی ادایگی کے دوران بھی کئی حاجی صاحبان ان کا استعمال کرتے ہیں جس سے پرہیز ضروری ہے۔

حقوق العباد کی ادایگی

اس سفرِ مقدس سے پہلے اس بات کا التزام کرنا چاہیے کہ جن لوگوں کی حق تلفی کی گئی ہو ان کے حق کی ادایگی کی جائے اور ان سے معافی تلافی کرلی جائے تاکہ یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول و منظور ہوسکے۔ اسی طرح اگر کسی کے ذمے کسی کے معاملات ہوں یا قرضہ و میراث کی ادایگی باقی ہو تو تمام تر حسابات بے باک کرلیے جائیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہؓ سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ (صحابہؓ نے اپنی دانست کے مطابق فرمایا) ہم مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں، دنیا کا سازوسامان نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری مراد اس وقت وہ مفلس نہیں۔ میری مراد  وہ شخص ہے جو قیامت کے دن اپنے اعمال میں نمازیں، روزے، عبادات لے کر آئے، لیکن لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس کی نیکیاں لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں اور لوگوں کے گناہ  اس کے نامۂ اعمال میں ڈال دیے جائیں۔ حقیقی مفلس وہ شخص ہوگا (ترمذی، ابن ماجہ)۔ چنانچہ ہمیں حقوق العباد کی ادایگی کرکے اپنے اعمال کے اجروثواب کی حفاظت کرنی چاہیے۔

حلال کا اہتمام

رزقِ حلال کے بغیر نہ کوئی دُعا قبول ہوتی ہے اور نہ عبادت کو شرفِ قبولیت ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ آپؐ نے اس شخص کا تذکرہ فرمایا جو دُوردراز کا سفر کرکے جائے۔ اس کے بال پراگندہ، منتشر، تھکاوٹ کے آثار غالب ہوں اور وہ اخلاص و عاجزی کا پیکر بن کر بارگاہِ الٰہی میں خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر ہاتھ اُٹھائے اور دُعائیں مانگے۔ لیکن آپؐ نے فرمایا: اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اس کی غذائیت حرام۔ پس اس کی دُعا کیسے قبول کی جاسکتی ہے؟(مسلم)
لہٰذا، حرام مال کی آمیزش سے اجتناب انتہائی ضروری ہے، وگرنہ عبادات کا اجروثواب کبھی حاصل نہ ہوگا۔ عبادت مکمل توجہ کے ساتھ ہو۔ ہر عبادت میں خشوع و خضوع اور عجزوانکسار مطلوب ہے۔ اور پھر حج بیت اللہ کی عبادات تو فقر ، عجز اور درویشی کا ایسا کامل اظہار ہیں کہ جس میں    سب ایک ہی طرح کے لباس، یعنی احرام میں ملبوس ہوں۔ وہ لباس سلا ہوا نہ ہو۔ مردوں کے سر پر کوئی چادر ٹوپی وغیرہ نہ ہو۔ سب کی صدا  لبیک اللھم لبیک ہو۔ بلاشبہہ یہ عجز و انکسار کا کامل نمونہ اور توجہ و انابت کا مکمل مظہر ہے۔ لہٰذا، عبادت کی طرف توجہ اور خشوع و خضوع کا اظہار مقصود ہے۔

مناسکِ حج کی تربیت 

حج کی تعلیمات ، مناسک اور احکام و آداب کو سیکھنے کے لیے مستند کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وزارتِ مذہبی اُمور اور بعض پرائیویٹ حج ٹور آپریٹر تربیتی پروگرامات کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان میں شرکت کی جائے اور بھرپور استفادہ کیا جائے۔ اگر شرعی اُمور کی سمجھ نہ آئے اور بعض وضاحت طلب اُمور ہوں تو علما سے رجوع کر کے علمی رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس حوالے سے مختلف اداروں کی ویڈیوز بھی دستیاب ہیں جن سے استفادہ مفید ہوتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ احرام کی پابندیاں ، مکروہات اور مفسداتِ حج، دم واجب ہونے کی صورتیں جاننا انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ اُمور پہلے سے سمجھ لیے جائیں تو دورانِ حج آسانی رہتی ہے۔ بصورتِ دیگر دورانِ حج تفصیلی نہ سہی، سرسری طور پر معلّمین سے رہنمائی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔

دیگر فقہی احکام کی معلومات

عام طور پر اور حج کے دنوں میں خصوصی طور پر حرم میں تقریباً ہرنماز کے بعد نمازِ جنازہ    ادا کی جاتی ہے۔ نمازِ جنازہ کا طریقہ سیکھ لیں اور اپنے دیگر ہم سفر ساتھیوں کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ حرمین میں فجر کی اذان سے قبل تہجد کی اذان دی جاتی ہے، جس کے بعد لوگ جوق در جوق مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ اس وقت کی عبادات کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ عموماً خواتین کو باجماعت نماز کے طریقے کی آگاہی نہیں ہوتی ۔انھیں اس بارے میں پہلے سے معلومات دینی چاہییں تاکہ کامل یکسوئی سے وہ عبادت کریں۔ کبھی امامِ حر م جہری نماز میں آیت سجدہ کی تلاوت کرکے     اللہ اکبر کہہ کر سیدھے سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی آگاہی اور علم ضروری ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں فرمایا: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۝ (القلم۶۸:۴) ’’اور بے شک آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں‘‘۔

حُسنِ اخلاق کے بارے فرمانِ رسولؐ

۱- عَنْ مَالِکٍ اَنَّہٗ قَدْ بَلَغَہٗ  اَنَّ رَسُوْلُ اللہِ قَالَ: بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ (موطا،امام مالک، حدیث: ۱۶۲۷) امام مالکؒ سے روایت ہے کہ ان کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
’مکارم اخلاق‘ سے مراد وہ بہترین اخلاقی تصورات، اصول اور اوصاف ہیں، جن پر ایک پاکیزہ انسانی زندگی اور ایک صالح انسانی معاشرے کی بنیاد قائم ہو۔
۲- دوسری روایت:  اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ [السنن الکبرٰی، البیہقی، حدیث: ۱۹۳۳۱]’’مجھے تمام اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
’مکارم اخلاق کی تکمیل‘ سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاؑاور ان کے صالح پیروکار مختلف اوقات میں اور مختلف قوموں اور ملکوں میں اخلاقی فضائل کے مختلف پہلوئوں کو اپنی تعلیم سے نمایاں کرتے رہے اور اپنی عملی زندگی میں ان کے بہترین نمونے بھی پیش کرتے رہے، مگر کوئی ایسی جامع شخصیت اس وقت تک نہ آئی تھی کہ جس نے انسانی زندگی کے  تمام پہلوئوں سے متعلق اخلاق کے صحیح اصولوں کو مکمل طور پر بیان کیا ہو۔پھر ایک طرف خوداپنی زندگی میں ان کو برت کردکھایا ہو اور دوسری طرف ایک سوسائٹی اور ریاست کا نظام بھی انھی اصولوں کی بنیاد پر بنایا ہو اور چلا کر دکھایا ہو ۔ یہ کام باقی تھا جسے انجام دینے ہی کے لیے حضور نبی آخرالزماں  محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں خود مکارم اخلاق کی تکمیل کو اپنی بعثت کا اصل مقصد قرار دیا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مکارم اخلاق کی تکمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ضمنی کام نہیں تھا کہ آپؐ کا مشن تو کچھ اور ہو اور ضمناًآپؐ نے یہ کام بھی کردیا ہو، بلکہ دراصل یہ وہ اہم کام ہے جس کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مبعوث فرمایاتھا۔ ایک حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہؓنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں بتایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنُ  ، یعنی حضوؐرکا اخلاق قرآن تھا۔[مسنداحمد، حدیث: ۲۴۰۷۵]

ایمان اور اخلاق کا باہمی تعلق

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ: اَکْمَلُ الْمُؤمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا [ابوداؤد ، حدیث: ۴۰۸۳] ’’بروایت ابوہریرہؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مومنوں میںسے کامل تروہ ہے جو ان میں سے اخلاق میں بہتر ہے ‘‘۔ ایک اور حدیث کا ترجمہ  یہ ہے :’’سب سے وزنی چیز جوقیامت کے دن مومن کی میزان میں رکھی جائے گی وہ اس کا   حُسنِ اخلاق ہوگا‘‘۔ [ترمذی، حدیث: ۱۹۷۵]
اس حدیث میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کو کمال ایمان کا مدار قراردیا ہے۔ اس سے بھی اخلاق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ سے روایت ہے: اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنُکُمْ  اَخْلَاقًا [بخاری، حدیث: ۳۳۸۷  ]’’تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اخلاق کے اچھے ہیں‘‘۔

اخلاق حسنہ کی نصیحت

حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ (یمن کی طرف) پابہ رکاب ہونے کے بعد آپؐ نے سب سے آخری وصیت یہ فرمائی تھی کہ : اَحْسِنْ خُلُقَکَ لِلنَّاسِ [موطا،امام مالک، حدیث: ۱۶۲۱] ’’اے معاذؓ!لوگوں کے ساتھ بہتر اخلاق سے پیش آنا‘‘۔حضرت معاذؓ کو یمن بھیجتے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ آخری نصیحت فرمائی۔

مکارم اخلاق کی بنیادیں

۱- تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ  کی ایک حدیث میں جس کی روایت عطیہ السعدی نے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اہل تقویٰ کا مقام نہیںپاسکتا تا وقتیکہ وہ   ان چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دے جن میں (بظاہر )کوئی حرج نہیں ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ ان چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے جن میں حرج (گناہ ) ہے‘‘۔[ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الورع والتقویٰ، حدیث: ۴۲۱۳]
مراد یہ ہے کہ بعض اوقات جائز امور بھی حرام کاموں کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ اس لیے ایک مومن کے سامنے صرف جواز کا ہی پہلو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اس لحاظ سے بھی چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں یہ جائز کام حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔
۲-متقیانہ زندگی کا اصول:ابن ماجہ اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت عائشہؓنے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اے عائشہؓ! حقیر گناہوں سے بچتی رہنا، اس لیے کہ ان کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی‘‘۔ [ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، حدیث: ۴۲۴۱]
صغیرہ گناہ بظاہر ہلکا نظرآتاہے لیکن اسے بار بار کیا جائے تو دل زنگ آلود ہوجاتاہے اور کبائر سے نفرت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح صغیرہ گناہ کم خطرناک نہیں ہے۔ متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے صغیرہ گناہ سے بھی بچنا چاہیے۔
حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس خدا کی بڑائی کو سامنے رکھو جس کی نافرمانی کی جسارت کی جا رہی ہے‘‘۔اگر خداے بزرگ و برتر اورمالک یوم الدین کی عظمت اور اس کے عذاب کی ہولناکیاں پیش نظر ہوں، یعنی چشمِ تصور میںرہیں تو پھر انسان کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر بھی دلیر نہیں ہوسکتا۔
۳- وسائل و ذرائع کی پاکیزگی: مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ     ابن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کوئی شخص بھی خدا کے مقر ر کردہ رزق کو حاصل کیے بغیر موت کا لقمہ نہ بنے گا۔ سنو!اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور رزق کے حصول میں جائز ذرائع و وسائل کام میںلائو۔ رزق کے حصول میں تاخیر تمھیں ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، ج۲،ص۴۵۲)
اس روایت میں دو اہم دینی حقائق بیان کیے گئے ہیں:
اگر کسی بھی انسا ن کو رزق کے حصول میں ناکامی یا تاخیر محسوس ہو تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے رزق کی جو مقدار اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہے وہ بہرحال دیریا سویر اسے مل کر رہے گی۔
 یوں تو انسان بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی بظاہر دُنیاوی خوش حالی اور آسایش پا لیتا ہے ،لیکن یہ دراصل خدا کی طرف سے مہلت ہوتی ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تازیانہ برستا ہے ۔ حقیقی خوش حالی اور راحت و سکون تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہوئے حاصل ہو۔
مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص حرام مال کمائے ،پھر اس میں سے صدقہ دے تو وہ قبول کرلیا جائے اور پھر وہ اپنے مال میں برکت سے بھی نوازاجائے۔ اس کا متروکہ حرام مال صرف جہنم کا توشہ بن سکتا ہے ( اس سے آخرت کی سعادت و کامرانی حاصل نہیں کی جاسکتی)۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے۔ (یہ ایک حقیقت ہے کہ ) نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘۔ [مسنداحمد، حدیث: ۳۵۶۶]
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض مقصد کا پاک ہونا ہی کافی نہیںہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔
۴-علامت تقویٰ : ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت حسن بن علیؓ نے کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کلمات یاد کرلیے ہیں: ’’جو چیز شک میں مبتلا کرنے والی ہو، اسے چھوڑکر اس کام کو پسند کرلو جو شک و شبہہ سے با لاتر ہو۔ اس لیے کہ سچائی سراپا سکون و اطمینان ہے اور جھوٹ سراپا شک و تذبذب‘‘۔ (ترمذی، الذبائح، حدیث: ۲۵۰۲)
۵-توکّل: ترمذی  کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے، کہ ایک آدمی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹ کو باندھ کر توکل اختیار کروں یا اسے چھوڑ کر؟‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ لے اور پھر خدا پر توکّل کر‘‘۔(ترمذی، الذبائح، حدیث: ۲۵۰۱)
ترمذی اور مشکوٰۃ  کی ایک اور حدیث جس کی روایت حضرت عمرؓ نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :
اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو، جس طرح کہ توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ صبح سویرے خالی پیٹ (آشیانوں سے ) نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر پلٹتے ہیں۔ [ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب التوکل والیقین، حدیث: ۴۱۶۲]
پرندوں کے ساتھ تشبیہہ د ے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پیر توڑکر گھر میں بیٹھا رہے، بلکہ توکل یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے اسباب و وسائل کو کام میں لا کر نتائج خدا کے حوالے کردے۔
۶-شکر: مسنداحمد کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابو ہریرہؓ نے کی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’شکر گزار بے روزہ انسان صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح ہے‘‘ [مسنداحمد، حدیث: ۷۶۲۹]۔یعنی جو صبر کے ساتھ نفلی روزے رکھتا ہے اور جو شکر کے ساتھ خدا کی دی ہوئی حلال روزی کھا کر دن گزارتاہے، دونوں خدا کے ہاں درجہ میں برابر ہیں ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینے کے بعد بھی شکر اداکرتے تھے۔
ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابوہریرہؓنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو تم میں سے ( مال ، جسم اور وجاہت کے اعتبار سے) بالا تر ہیں، ان کو نہ دیکھو، اور جو تم سے (اس لحاظ سے)فروتر ہیں ،ان کو دیکھو ۔ اس طرح یہ صلاحیت پیدا ہوسکے گی کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے‘‘[صحیح ابن حبان ، کتاب الرقائق، باب الفقر، حدیث:۷۱۳]۔ ایک اورروایت ہے: ’’جب تم میں سے کسی کی نگاہ ایسے شخص کی طرف اٹھے جو مال اور جسمانی طاقت میں اس پر فضیلت دیا گیا ہے توچاہیے کہ اسے دیکھے جو ( اس لحاظ سے ) فروتر ہے‘‘۔ [مسلم، کتاب الزہد، والرقائق، حدیث:۵۳۷۵]
شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور دل و دماغ کی صلاحیتوں کو اللہ کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کیا جائے۔
۷- صبر:مسلم کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت صہیبؓ نے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا کام خیر ہی خیر ہے۔ یہ (سعادت) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اسے دُکھ پہنچتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے، تویہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اُسے خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ سراپا شکر بن جاتا ہے تویہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ گویا وہ ہرحال میں خیر ہی سمیٹتاہے‘‘۔[مسلم، کتاب الزہد والرقائق، حدیث:۵۴۲۹]
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جوایک قبر کے پاس بیٹھی رورہی تھی۔آپؐ نے فرمایا :’’اللہ کا تقویٰ اختیار کراور صبر سے کام لے‘‘۔ اس عورت نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچانتے ہوئے کہا :اپنی راہ لو ،میری جیسی مصیبت تم پر تو نہیں پڑی ہے۔ کسی نے اس سے کہا کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو تمھیں صبر کی تلقین فرمارہے تھے تووہ دوڑی ہوئی آئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بس صبر وہی ہے جو سینے پر پہلی چوٹ لگتے وقت کیاجائے‘‘۔ایک اور حدیث ہے کہ :’’اگر کوئی اللہ سے صبر کی توفیق مانگے تو اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے‘‘۔[بخاری، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور ، حدیث: ۱۲۳۶]

انفرادی اخلاق 

۱- ضبط نفس: حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو (حریف کو میدان میں )پچھاڑ دے ، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میںرکھے ‘‘۔(مسلم ، کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث: ۴۸۳۰)
حضر ت ابوہریرہؓنے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے نصیحت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا :’’غصہ نہ کرو‘‘۔ یہ بات آپؐ نے بار بار فرمائی:  لَا تَغْضَبْ(غصہ نہ کرو )۔[بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حدیث: ۵۷۷۱]
۲-عفو و حلم:حضرت عائشہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی سے کبھی بھی انتقام نہیں لیا مگر یہ کہ اللہ کی حرمت (شعائر اللہ یا حدوداللہ) پامال ہوتیں توآپ اللہ کے لیے انتقام لیتے تھے ۔ [بخاری ، کتاب الحدود، حدیث: ۶۴۱۶]
حضرت انسؓ دس سال تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہے۔     وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے نہیں ڈانٹا، نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوںنہیں کیا، نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا۔[مسلم، کتاب الفضائل، حدیث: ۴۳۷۰]
۳- وسعتِ ظرف:ابوالاحوص جشمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ انھو ں نے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:اگر میں کسی شخص کے پاس سے گزروں اور وہ میری ضیافت و مہمانی کا حق ادا نہ کرے اور کچھ عرصے کے بعد اس شخص کا گزر میرے پاس سے ہوتوکیا میں اس کی مہمانی کا حق اداکروں یا اس کی (بے مروتی اور روکھے پن )کا بدلہ لے لوں؟ توآپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ تم اس کی مہمانی کا حق ادا کرو‘‘۔(صحیح ابن حبان، حدیث:۵۴۹۳) 
۴-حیا: ۱-حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیاایمان ہی کی ایک شاخ ہے‘‘۔(مسنداحمد، حدیث: ۹۵۱۸]
 حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برہنہ ہونے سے بچو، کیونکہ تمھارے ساتھ وہ ہیں جو تم سے کبھی جدانہیں ہوتے اِلا یہ کہ رفع حاجت یا صنفی تعلق (میاں بیوی کے فرائض زوجیت)قائم کرنے کا موقع ہو۔ ان (فرشتوں ) سے شرمائو اور ان کا احترام کرو‘‘۔[ترمذی، الذبائح، ابواب الادب عن رسول اللہ، حدیث: ۲۷۹۵]
موطا، امام مالکؒ کی ایک حدیث ہے:’’ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتاہے۔ اسلام کا بنیادی وصف حیا ہے‘‘۔[شعب الایمان للبیہقی ،  فصل فی التواضع، حدیث: ۷۸۹۵]
۵-تواضع و انکساری:حضرت عمرؓ نے ایک بار منبر پر سے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو!تواضع وانکساری اختیار کرو۔ اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ’’جو اللہ کے لیے جھکتا ہے، اللہ اسے بلند کرتاہے۔ وہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے، حالانکہ وہ لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہے۔ اور جس نے تکبر کیا، اسے اللہ تعالیٰ گرادیتا ہے تو وہ لوگوں کی نگاہوں میں چھوٹا ہے، حالاںکہ وہ خود اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے ،یہاں تک وہ ان کے سامنے کتے اور سؤر سے بھی زیادہ ذلیل ہوجاتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے او رنہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپؐ کے پیچھے دو آدمی چلتے ہوئے دیکھے گئے ہوں (ابو داؤد، مشکوٰۃ)۔یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع و انکساری کا حال تھا۔
۶- شہرت سے پرہیز:حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اَنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِیَّ الْغَنِیَّ الْخَفِیَّ [مسلم، کتاب الزہدوالرقاق، حدیث: ۵۳۷۸] ’’اللہ تعالیٰ متقی،غنی اور گمنام بندے کوپسند کرتاہے‘‘۔
اس حدیث میں غنی کے معنی خود دار اور قناعت پسند کے بھی لیے جاسکتے ہیں اور اس کے معنی خوشحال کے بھی ہوسکتے ہیں ۔ الخفی سے مراد ایسا شخص ہے جو شہرت اور ناموری کا بھوکا نہ ہو۔
۷-قناعت:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو اسلام لایا اور اسے گزارے کے مطابق روزی میسر آگئی اوراللہ تعالیٰ نے اسے اپنی دی ہوئی روزی پر قناعت کی توفیق بخشی تو وہ فلاح و کامرانی سے ہم کنار ہوگیا‘‘۔[مسلم،مشکوٰۃ ،روایت عبداللہ بن عمرؓ ]
۸- میانہ روی:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خَیْرُالْاُمُوْرِ اَوْسَطُہَا ۔ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’حسن سیرت، بردباری اور میانہ روی ،نبوت کے اجزا میں سے چوبیسواں حصہ ہے‘‘۔ (ترمذی)۔ایک اور حدیث ہے: ’’اخراجات میں میانہ روی سے معاشی مسئلہ نصف رہ جاتا ہے‘‘۔ [شعب الایمان، البیہقی، باب الاقتصاد فی النفقۃ، حدیث: ۶۲۸۱]
۹-مستقل مزاجی: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین کے کاموں میں سے پسندیدہ کام وہ ہے جس پر کرنے والا پابندی کرے اور مستقل مزاجی دکھائے اگرچہ تھوڑا ہو‘‘[مسلم، حدیث: ۱۳۴۵]۔ استقلال کے ساتھ تھوڑا کام نتائج کے لحاظ سے بہتر ہے کہ وقتی جوش کے تحت ہنگامی کام کرڈالے اور پھر خاموش ہوجائے‘‘۔
۱۰-فیاضی: حضرت عبداللہ بن زبیرؓسے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓاور حضرت اسماؓ بنت ابوبکر سے بڑھ کر فیاض عورتیں نہیں دیکھیں۔
۱۱- امانت و دیانت: ۱-حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار چیزیں تمھیں میسر ہوں تو دُنیا کی کسی چیز سے محرومی تمھارے لیے نقصان دہ نہیں ہے: (۱)امانت کی حفاظت(۲) راست گفتاری (۳)خوش خلقی اور (۴) روزی میں پاکیزگی‘‘۔ [مسند احمد، حدیث: ۶۴۸۲]
۱۲- حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو تمھارے پاس امانت رکھے، اسے اس کی امانت ادا کردو، اور جوتم سے خیانت کرے، تم اس سے خیانت نہ کرو‘‘۔[ترمذی، ابواب البیوع عن رسولؐ اللہ، حدیث: ۱۲۲۲]
اللہ تعالیٰ ہمیں حُسنِ اخلاق کی اہمیت کو سمجھنے،مکارم اخلاق کی بنیادوں کو مضبوط بنانے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں بہترین انفرادی اخلاق کو اپنانے اور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔

احنف بن قیس ایک بڑے عرب سردار تھے۔ مشہور تھا کہ: اگر احنف کو غصّہ آتا ہے تو ایک لاکھ تلواروں کو غصّہ آجاتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت تو انھوں نے نہیں کی، مگر آپؐ کی زیارت کرنے والوں کی زیارت کی اور ان کے ساتھ رہے۔ خاص طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بڑے معتقد اور مخلص تھے۔ ایک دن کسی قاری نے یہ آیت تلاوت کی:

لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ  ذِكْرُكُمْ ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۰ۧ (الانبیا ۲۱:۱۰)     ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا ہی تذکرہ موجود ہے۔ تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے؟ عربی اُن کی زبان تھی، یہ سن کر چونک پڑے۔ گویا نئی بات سنی، کہنے لگے: ’’ہمارا تذکرہ! ذرا قرآن تو لائو، دیکھوں میرا کیا تذکرہ ہے اور میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں؟‘‘قرآن مجید دیکھا تو لوگوں کی صورتیں ان کے سامنے سے گزرنے لگیں۔

ایک گروہ آیا جس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَہْجَعُوْنَ۝۱۷ وَبِالْاَسْحَارِہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۝۱۸ وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۱۹ (الذاریات   ۵۱:۱۷-۱۹) وہ لوگ رات کو بہت کم سوتے تھے اور آخر شب میں استغفار کیا کرتے تھے اور ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق تھا۔

پھر کچھ ایسے لوگ آئے جن کا حال یہ تھا کہ:

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۡوَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۱۶ (السجدہ   ۳۲:۱۶) ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے رب کو اُمید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔

پھر کچھ ایسے کہ:

يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا۝۶۴ (الفرقان   ۲۵:۶۴) راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدے اور قیام میں لگے رہتے ہیں۔

پھر ایک قافلہ گزرا جس کی شان یہ تھی کہ:

يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ۝۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۳۴ۚ(اٰل عمرٰن   ۳:۱۳۴) خرچ کرتے ہیں فراغت میں اور تنگی میں اور غصے کو ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور اللہ ایسے نیکوکاروں کو محبوب رکھتا ہے۔

ابھی نظر بھر کر ان کو دیکھ نہیں سکے تھے کہ کچھ ایسے جوان مرد سامنے آگئے جن کا عالم یہ تھا:

وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۝۰ۭۣ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۹ (الحشر   ۵۹:۹) دوسروں کو اپنے اُوپر ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کو تنگی و فاقہ ہو اور (واقعی) جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے وہ بڑا کامیاب ہے۔

ابھی ہٹے ہی تھے کہ ایک دوسرا نمونہ سامنے آیا:

كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْـفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ہُمْ يَغْفِرُوْنَ۝۳۷ۚ وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۝۰۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ  ۝۰۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳۸ۚ (الشوریٰ   ۴۲:۳۷-۳۸) جو بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں اور جب ان کو غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور و ہ نماز کے پابند ہیں اور ان کا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور ہم نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

حضرت احنف اپنے کو پہچانتے تھے۔ کہنے لگے: ’’خدایا! میں تو ان میں کہیں نظر نہیں آتا‘‘۔ اب انھوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اس میں ان کو اور طرح طرح کے آدمی نظر آنے لگے۔

ایک بھیڑ ملی، جس کا حال یہ تھا:

اِذَا قِيْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ۝۰ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ۝۳۵ۙ وَيَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِـہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ۝۳۶ۭ (الصّٰفّٰت   ۳۷:۳۵-۳۶) جب ان سے کہا جاتا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کیا کرتے اور کہتے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعرِ دیوانہ کی وجہ سے چھوڑ دیں گے؟

اور آگے بڑھے تو کچھ ایسے لوگ ملے کہ:

وَاِذَا ذُكِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ (الزمر   ۳۹:۴۵) جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں، اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھِل اُٹھتے ہیں۔

کچھ ایسے بدقسمت بھی کہ جب ان سے کہا گیا: مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ ۝ (المدثر ۷۴:۴۲)’’تم کو دوزخ میں کس بات نے داخل کیا؟‘‘ تو وہ جواب دیں گے:

قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۝۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۝۴۴ۙ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۝۴۵ۙ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۝۴۶ۙ حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۝۴۷ۭ (المدثر   ۷۴: ۴۳-۴۴) ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے اور نہ غریب کو کھانا کھلایا کرتے تھے اور ہم باتیں بنانے والوں کے ساتھ خود بھی مشغول ہوجاتے تھے اور ہم آخرت کا انکار کرتے تھے، یہاں تک کہ ہم کو موت آگئی۔

حضرت احنف یہ صورتیں دیکھ کر گھبرا گئے۔ کہنے لگے کہ خدایا! ایسے لوگوں سے تیری پناہ! مَیں ان سے بے زار ہوں، اورمجھے ان سے کوئی تعلق نہیں۔

وہ اپنے متعلق نہ تو دھوکے میں تھے اور نہ ایسے بدگمان کہ اپنے کو مشرکوں اور باغیوں میں سمجھ لیں۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت دی ہے اور ان کا مقام بہت بلند نہ سہی مگر ان کی جگہ مسلمانوں ہی میں ہے۔ ان کو ایسی صورت کی تلاش تھی جس کو وہ اپنی کہہ سکیں۔ ان کو اپنے ایمان کا یقین بھی تھا اور اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا علم بھی۔ اور اللہ کی رحمت اور مغفرت پر بھروسا بھی۔ نہ ان کو اعمال پر غرہ تھا نہ خدا کی رحمت سے مایوسی۔ ان کو اس ملی جلی صورت کی تلاش تھی اور اس کا یقین تھا کہ وہ صورت اس جامع و مکمل، اس زندہ و تازہ کتاب میں ضرور ملے گی۔ انھوں نے سوچا: کیا ایسے خدا کے بندے نہیں ہیں جو ایمان کی دولت بھی رکھتے ہیں ، اپنے گناہوں اور تقصیروں پر شرمندہ بھی ہیں؟ کیا خدا کی رحمت ان کو محروم رکھے گی؟ کیا اس کتاب میں جو سارے انسانوں کے لیے ہے، ان کی صورت اور ان کا تذکرہ نہیں ملے گا؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔

حنف کو بالآخر اپنی تلاش میں کامیابی ہوئی اور اللہ کی اس پاک کتاب میں اپنے کو ڈھونڈ نکالا:

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّــئًا ۝۰ۭ عَسَى اللہُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ  اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۰۲ (التوبۃ   ۹:۱۰۲) اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنی خطائوں کا اقرار ہے۔ انھوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے کچھ بُرے۔ اللہ سے اُمید ہے کہ ان کے حال پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے۔بلاشبہہ اللہ بڑی مغفرت والابڑی رحمت والا ہے۔

انھوں نے کہا: بس بس میں مل گیا۔ میں نے اپنے کو پالیا۔ مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ مجھے خدا کی توفیق سے جو کچھ نیک اعمال ہوئے ان کا انکار نہیں۔ ان کی ناقدری نہیں، ناشکری نہیں۔ مجھے خدا کی رحمت سے نااُمیدی نہیں: وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۝۵۶ (الحجر ۱۵:۵۶) ’’اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوسکتے ہیں جو گمراہ ہیں‘‘۔ ان سب سے مل جل کر جو صورت تیار ہوئی وہ میری صورت ہے۔ اس آیت میں میرا اور میرے جیسوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور ان کا نقشہ کھینچا گیا ہے___ قربان اپنے رب کے جس نے اپنے گناہ گار بندوں کو فراموش نہیں فرمایا۔

حضرت احنف کی تلاش کا یہ قصہ ختم ہوگیا۔ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے پاس پہنچ گئے، مگر یہ کتاب موجود ہے اور قیامت تک رہے گی۔ قومیں اگر اپنے کو اس میں تلاش کریں گی تو پالیں گی۔ جماعتیں اور مختلف طبقے اگر اپنے کو اس آئینے میں دیکھنا چاہیں تو دیکھ لیںگے۔ افراد ، ہم اور آپ___ اگر اپنے کو تلاش کرنے نکلیں گے تو ان شاء اللہ ناکام واپس نہیں ہوں گے۔ حضرت احنف نے ہم کو سچی تلاش کا ایک نمونہ دکھلایا اور قرآن پڑھنے اور اس پر غور کرنے کا صحیح طریقہ سکھا گئے۔ ہمیں اس نمونے اور تعلیم سے فائدہ اُٹھا کر قرآنِ مجید کا مطالعہ شروع کرنا چاہیے۔

حسن بصریؒ فرماتے ہیں: اے ابن آدم!دن تمھارے پاس مہمان ہوکرآتا ہے اس لیے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرو۔ اگر تم بہتر سلوک کرو گے تو وہ تمھاری تعریف کرتے ہوئے چلا جائے گا۔ اگر بدتر سلوک کرو گے تو تمھاری مذمت کرتے ہوئے چلا جائے گا۔ اسی طرح رات کا بھی معاملہ ہے۔

ان ہی کا قول ہے: ابن آدم پر آنے والا ہر دن کہتا ہے اے ابن آدم! میں نئی مخلوق ہوں، تیرے کاموں پر گواہ ہوں، اس لیے مجھ سے فائدہ اُٹھا کیوں کہ جب مَیں چلا جائوں گا تو قیامت تک واپس نہیں آئوں گا۔ تم جو چاہو اگلی زندگی کے لیے پیش کرو، تم اس کو اپنے سامنے پائوگے اور جو چاہو پیچھے کرو وہ لوٹ کر دوبارہ تمھارے پاس نہیں آئے گا۔

تنظیمِ وقت کے بارے میں ہدایات

منصوبہ بندی اور فہرست اُمور کی تکمیل کے بعد اور ان کے نفاذ کے دوران رکاوٹوں سے بچنے اور بہترین نتائج و ثمرات حاصل کرنے کے لیے چند ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

  • اپنے یومیہ کاموں کی فہرست پر نظر رکھیں اور اس فہرست کو بنانے کی عادت ڈال لیں اور اس پر عمل کریں۔
  •  کاموں کو جلدی انجام دینے والے بنیں اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ سب سے اہم قدم ابتدائی ہوتے ہیں۔ میزائل اپنے بارود کا ۸۰ فی صد حصہ پہلے لمحات میں پھینکتا ہے۔

قرآن کریم نے مسابقت اور جلدی کرنے پر ہم کو اُبھارا ہے:

  •  وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۳ۙ (اٰل عمرٰن۳:۱۳۳) اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف لپکو  جس کی وسعت آسمان اور زمینوں کے برابر ہے جو متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان پر پیش آنے والے سب سے زیادہ سخت ترین حالات میں بھی ہم کو مسابقت کا حکم دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر قیامت آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو اور اس کو بو سکتا ہو تو بوئے۔ کیا تم نے اس سے زیادہ مسابقت کی خواہش دیکھی ہے کہ پودا بویا جائے اور اس کے نتیجے کا انتظار نہ کیا جائے۔

  •  ہمیشہ مشکل یا طبیعت پر بار کاموں سے ابتدا کریں اور ان کو نشاط و چُستی کے اوقات میں انجام دیں۔ یہ اصول اچھی طرح سمجھ لیں کہ ابتدا جس طرح ہوگی انتہا بھی اسی طرح ہوگی، یعنی جتنے اچھے اور بہتر انداز میں کام کی ابتدا ہوگی اسی اچھے انداز میں وہ کام انجام پائے گا۔
  • بڑے کاموں پر زیادہ توجہ دیں۔ اس کو اجزا میں تقسیم کریں یا متعدد کاموں میں بانٹ دیں، اور ان کو انجام دینا شروع کردیں، ان شاء اللہ وہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچیں گے۔

کاموں کو انجام دینے والے بنیں، اس طور پر کہ:

  • ایک ہی کام پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ اپنی محنت اور دماغ کو تقسیم نہ کریں۔ ایک ہی وقت میں ایک سے زائد کام نہ کریں،اور اللہ کا فرمان یاد رکھیں:

 مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِہٖ ۝۰ۚ (الاحزاب ۳۳:۴) اللہ تعالیٰ نے  کسی شخص کے دھڑ میں دو دل نہیں بنارکھے۔

  •  تردّد نہ کریں، جو کام اپنے سامنے ہو اسے انجام دیں۔ اس کو مکمل کرنے سے پہلے دوسرا کام ہرگز شروع نہ کریں: اگر تم صاحب الراے ہو تو پختہ ارادے والے بنو، کیوں کہ راے کے بگاڑ کی وجہ سے تردّد ہوتا ہے۔
  • اپنے کاموں میں پختگی پیدا کریں۔ کاموں کو انجام دینے کے لیے بہترین طریقہ اپنائیں۔ کاموں میں پختگی دینی فریضہ ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے اور اس سے آپ کی محنت اور وقت کی بچت ہوتی ہے۔ اپنے کیے ہوئے کام کی طرف دوبارہ رجوع کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی (اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کو انجام دے تو پختگی کے ساتھ انجام دے)۔
  • حتی الامکان وقت ِ مقررہ پر کام پورا کرنے کی کوشش کریں۔
  • معذرت کرنا اور ’نہ‘ کہنا بھی ایک فن ہے جسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، وہاں ’نہ‘ کا لفظ استعمال کرنا مشکل کا باعث بن جاتا ہے اور اس سے کبھی ذمہ دار کو غصہ آسکتا ہے۔ اس لیےکبھی ’نہ‘ نہ کہو، لیکن نفی اس انداز میں کریں کہ کسی کو غصہ نہ آئے، یعنی سلیقے سے معذرت کریں، مثلاً آپ اپنے ذمہ دار کے پاس جائیں اور اپنی ذمہ داریوں اور پہلے انجام دیے جانے والے ضروری کاموں کی تفصیل بتائیں تاکہ اس کو اطمینان ہوجائے کہ آپ مشغول ہیں۔
  • اپنے کاموں کو منقطع نہ کریں بلکہ مکمل کرنے کی عادت ڈالیں۔
  • حافظ عینی نے اپنی کتاب عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ امام محمد بن سلام املا کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ الحدیث بیان کر رہے تھے کہ محمد بن سلام کا قلم ٹوٹ گیا۔ انھوں نے اعلان کرنے کا حکم دیا کہ ایک دینار میں ایک قلم چاہیے۔ ہر طرف سے قلموں کی بارش ہوگئی۔ انھوں نے ایک قلم کے لیے ایک دینار کی قربانی دی تاکہ اپنے شیخ کا جاری کام منقطع نہ ہو (دینار اس دور میں بہت بڑی رقم تھی)۔
  • خطیب بغدادی نے جاحظ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ جب بھی کوئی کتاب اس کے ہاتھ لگتی تو اس کو شروع سے آخر تک پڑھتے، لیکن آج کے دور میں سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی کتاب کو خریدنے والے ۱۰ فی صد لوگ بھی پہلی فصل سے آگے نہیں بڑھتے۔ کیا آپ نے سنجیدہ قوم اور بیکار قوم کے درمیان فرق دیکھ لیا؟
  • وقت ضائع کرنے والی چیزوں کا مقابلہ مہارت سے کیجیے۔ وقت ضائع کرنے والے بعض اُمور شخصی ہوتے ہیں، مثلاً منصوبہ بندی اور کاموں کی حوالگی کی ضرورت، انتشار، ٹال مٹول، انکار کی عدم صلاحیت، دل چسپی کا فقدان اور اُکتاہٹ، زائد مثالیت، مناقشہ اور جدل سے دل چسپی اور لگائو۔وقت ضائع کرنے والے بعض اُمور ہنگامی ہوتے ہیں، مثلاً ملاقاتی، فون، ٹی وی، میٹنگوں کی کثرت، انتظار، ہنگامی حالات، خطوط کی کثرت، روٹین اور تجاویز،  یہ بات صرف آپ پر ہی موقوف ہے کہ آپ ان اُمور کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔
  • دورِ حاضر کی ایجادات جس میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں، ان کے فوائد بھی بہت ہیں مگر اس میں احتیاط کی بہت ضرورت ہے۔
  • ٹیلی وژن ___ اس کا استعمال کسی ایک چینل کی خبروں تک تو معلومات کی ضرورت پورا کرتا ہے مگر اہتمام کے ساتھ روز کے چند گھنٹے اس پر خرچ کرنا اپنے ساتھ ظلم ہے۔ یہ کچھ لوگوں کا ایک کاروبار ہے جس کے نفع میں ہمارا وقت، توانائی اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔
  • انٹرنیٹ، ای میل اور ٹیکسٹ میسجز میں توازن رکھیں کہ یہ آپ کے وقت کو کھا جاتے ہیں۔
  • سوشل میڈیا پر اتنا ہی وقت خرچ کریں جس کا آپ کو فائدہ ہو اور غیرضروری طور پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔
  • ہنگامی افکار و خیالات سے بچنا۔ کاموں کے دوران بہت سے افکار ذہن میں آتے ہیں، جن کو ہم اس وقت اہم سمجھتے ہیں ۔ کبھی ہم اس کی خاطر اپنا کام منقطع کرتے ہیں یا کم از کم تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ان میں مشغول ہوجاتے ہیں، مثلاً فلاں سے رابطہ، کسی گم شدہ چیز کی تلاش اور دوسرے کام کو شروع کرنا وغیرہ۔ اس وقت آپ پر مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے:
  • ان افکار کو قبول نہ کریں کیونکہ یہ وقت برباد کرنے والے ہیں۔
  • اپنا کام منقطع نہ کریں ، مگر یہ کہ کوئی واقعی ضرورت ہو۔
  • ان افکار کو بعد میں غور کرنے کے لیے کسی کاغذ پر لکھ لیا کریں۔ پھر اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اس فہرست پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
  • اپنے کاموں کو پانچ منٹ کے نسخے سے انجام دیں۔ بہت سے کام پانچ منٹ سے زیادہ کے نہیں ہوتے، مثلاً کسی کی راے معلوم کرنا، مختصر رپورٹ تیار کرنا وغیرہ۔ ان کاموں کو  فی الفورانجام دے کر ان سے چھٹکارا پانا چاہیے۔ اسی انداز سے ٹیلی فون اور موبائل پر اپنی پچھلی ملاقات سے اب تک کا حال بیان نہ کریں۔
  • انتظار کے باعث ضائع ہونے والے اوقات سے فائدہ اُٹھایئے، مثلاً سواری کے انتظار میں گزرنے والا وقت اور کاموں کے درمیان ملنے والے اوقات وغیرہ۔ یہ انتظار کے اوقات ہمارے تصور اور گمان سے زیادہ ہیں۔ اگر ہم ان اوقات سے استفادہ کریں گے تو ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔ہم ان کاموں کی فائل تیار کرسکتے ہیں جن کو ضائع ہونے والے اوقات میں انجام دیا جاسکتا ہے، مثلاً اخبارات کا مطالعہ، قرآن کی تلاوت، کسی کتاب کا مطالعہ، کیسٹس سننا، فون پر کسی سے رابطہ کرنا، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے حالات دریافت کرنا وغیرہ۔ دورِحاضر میں موبائل فون پر موجود سہولتوں سے خاص کر ای میل ڈرافٹ کی جاسکتی ہیں۔
  • ایک کام ختم ہونے کے بعد اپنے دوسرے کام کی طرف منتقل ہوجائیں۔ کاموں کے درمیان کا اپنا وقت ضائع نہ کریں۔

 قاضی شریح کا گزر جولاہوں کی قوم سے ہوا، وہ کھیل رہے تھے۔ قاضی صاحب نے ان سے پوچھا: تم کھیل کیوں رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: ہم اپنے کاموں سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اس پر قاضی صاحب نے فرمایا: کیا فارغ شخص کو اسی کا حکم دیا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہے:

             فَاِذَا  فَرَغْتَ فَانْصَبْ O (الم نشرح ۹۴:۷) جب تم فارغ ہوجائوتو میری عبادت کے لیے کھڑے ہوجائو۔

  •   ایک کام اور دوسرے کام کے درمیان وقت کو ضائع نہ کریں۔
  • اپنے وعدوں کا خیال رکھیں۔ جس سے کسی بھی قسم کا وعدہ کریں اسے کاغذ، کارڈ یا موبائل پر ریکارڈ کرلیں۔
  • اپنے مقررہ اوقات کو اچھی طرح ترتیب دیں۔
  • وقت، جگہ اور مقررہ جگہ پہنچنے کے وسائل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرلیں۔
  • پہلے سے وقت کے تعین کے بغیر کسی سے ملاقات کے لیے نہ جائیں۔ دوسروں سے ان کے اپنےاوقات سے استفادہ کرنے میں تعاون کریں۔
  • ملاقات کے آداب کا خیال رکھیں۔
  • اُکتاہٹ سے بچیں، راحت اور آرام کے لیے بھی ایک وقت متعین کریں، لیکن اس کی بھی حد ہو۔
  • شیخ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں: ’’ہماری زندگی سنجیدہ ہونا ضروری ہے جس کے دوران کچھ راحت کا وقت ہو، نہ کہ ہماری زندگی راحت بن جائے اورسنجیدگی کے لیے کچھ وقت دیا جائے‘‘۔
  •  سیّدنا علیؓ نے فرمایا: ’’دلوں کو راحت دو کیونکہ دل جب تھک جاتے ہیں تو اندھے ہوجاتے ہیں‘‘۔
  • ہماری مشکل یہ ہے کہ راحت اور آرام اپنے حق سے زیادہ وقت لے لیتے ہیں۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ راحت کے لیے مناسب وقت ہو اور اس کی مناسب حدود ہوں اور یہ گناہ کی حد تک نہ پہنچ جائے، بلکہ اگر انسان مفید چیزوں کے ذریعے اپنے نفس کو راحت پہنچائے تو آرام کے مقابلے میں یہ زیادہ بہتر ہے۔
  •  ابن عباسؓ جب گفتگو سے تھک جاتے تو کہتے: ’’شعرا کا دیوان لے آئو‘‘۔محدث ابن شعبہؒ جب حدیث کو اِملا کرا کے تھک جاتے تو اشعار گنگنانے لگتے۔ بہتر یہ ہے کہ ہمارے منصوبے کے ضمن میں راحت بھی ہو۔ اس طرح اُکتاہٹ کا احساس بھی ختم ہوجائے گا اور راحت کے اوقات بھی متعین ہوجائیں گے۔
  • اُکتاہٹ کے اسباب کو معلوم کر کے اس کا علاج بھی کرنا چاہیے۔ اسی طرح اپنے کام کرنے کی جگہ یا اپنی ڈائریوں کی تبدیلی سے بھی اُکتاہٹ دُور ہوجاتی ہے۔
  • ورزش: اپنے جسم کو چست و توانا بنانے کے لیے ورزش پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر انجام دے سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ہمیشہ یاد رکھیں: ’’طاقت ور مومن بہتر اور پسندیدہ ہے، کمزور مومن کے مقابلے میں‘‘۔
  • پرانی کہاوت ہے: ’’صحیح و سالم جسم میں عقلِ سلیم ہونی چاہیے‘‘۔
  • محمد بن ابی حاتم امام بخاری کے بارے میں کہتے ہیں: ’’میں بہت سالوں تک ان کے ساتھ رہا لیکن میں نے صرف دو مرتبہ ان کے تیر کا نشانہ خطا ہوتے دیکھا۔ دوڑ میں ان کے مقابلے میں کوئی کامیاب نہیں ہوتا تھا‘‘۔
  • امام بخاری علم میں اپنی مشغولیات کے باوجود نشانہ بازی اور دوڑ میں حددرجہ مشق کرتے تھے۔ سوچنا چاہیے کہ ہمارے لیے ان لوگوں کی پیروی کرنا کتنا ضروری ہے۔
  • اپنے وقت کی ترتیب کی پابندی کیجیے،اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے۔ اپنے آپ کو صبر اور پابندی کے ہتھیار سے مسلح رکھیں اور ہروقت ذہن میں یہ آیت کریمہ مستحضر رہے:

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا  لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت ۲۹:۶۹) جو ہم میں کوشش اور مجاہدہ کرتے ہیں، ہم ان کے لیے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔

اہم ہدایات

  •  مؤثر (effective)بننے کی کوشش کریں۔ وہ کام کریں جو آپ کا فریضہ ہے۔
  •  جو کام آپ کا ہے اس کے لیے مستعد (efficient) بننے کی کوشش کریں۔ یعنی سلیقے سے، بہتر انداز سے اور کم وقت میں کرنے کی کوشش کریں۔
  • اپنے یومیہ اوقات کی پابندی کریں۔
  •  کاموں کو جلدی انجام دینے والے بنیں۔
  •  مشکل کاموں سے ابتدا کریں۔
  • اپنے پرائم ٹائم یا نشاط کے اوقات کا خیال رکھیں اور اس میں اہم ترین کاموں کو کرنے کی کوشش کریں۔
  •  بڑی ذمہ داریوں پر خصوصی توجہ دیں۔
  •  کاموں کو انجام دینے والے بنیں۔
  •  اپنے کاموں میں پختگی پیدا کریں۔
  • مقررہ وقت پر کام مکمل کریں۔
  • کبھی کام کرنے سے انکار نہ کریں۔
  • اپنے کام کو منقطع نہ کریں۔
  • وقت ضائع کرنے والی چیزوں سے بچیں۔
  • ہنگامی افکار و خیالات سے بچیں۔
  •  پانچ منٹ کا نسخہ اپنائیں۔
  • انتظار کے باعث ضائع ہونے والے وقت سے استفادہ کریں۔
  • ایک کام مکمل کرکے اپنی دوسری ذمہ داریوں کی طرف منتقل ہوجائیں۔
  •  اپنے وعدوں کی پابندی کریں۔
  •  اُکتاہٹ سے بچیں۔
  • ورزش کی پابندی کریں۔
  • اپنے وقت کی ترتیب کی پابندی کریں۔

نگرانی اور جائزہ

نگرانی اور جائزے کا مطلب سابقہ منصوبے کے نفاذ کا موازنہ اس مقصد سے کرنا کہ غلطیوں کا تعین کیا جائے اور مثبت اُمور سے فائدہ اُٹھایا جائے اور منفی اُمور سے بچا جائے۔

فعال نگرانی کرنے کے اوصاف مندرجہ ذیل ہیں:

 نگرانی کی نوعیت

مفہوم

فوری

نگرانی اور جائزہ منصوبے کے نفاذ کے ساتھ ہی الاوّل فالاول کے اعتبار سے کی جائے تاکہ وقت نکلنے سے پہلے کوتاہیوں اور خامیوں کا علاج کیا جاسکے۔

استمراری

نگرانی مسلسل جاری رہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد نتائج کو جمع کیا جائے۔

اقتصادی

وقت اور محنت فائدہ سے زیادہ نہ خرچ کیے جائیں۔

اصلاحی

صرف غلطیوں کو لکھنے اور نفس کو ڈانٹنے کے مقصد سے نہ ہو۔

مضبوط

صرف حقیقت سے ہٹ کر جامد کارروائیاں نہ ہوں بلکہ منصوبہ اور اس کو نافذ کرنے کے حالات بھی مناسب ہوں۔

  •  کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے، اگر آپ کو زندگی کے پچاس سال نماز پڑھنے کی توفیق ملتی ہے، اور آپ فرض نمازوں کے ساتھ سنتیں بھی ادا کرتے ہیں، اور کسی قدر نوافل کا اہتمام بھی کرتے ہیں، تو آپ اپنی زندگی میں کتنی مرتبہ سورۃ الفاتحہ اور التحیات پڑھتے ہیں؟

 ایک مسلمان جسے اللہ نماز کی توفیق دے، وہ زندگی میں بلا مبالغہ لاکھوں مرتبہ سورۃ الفاتحہ پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ التحیات پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ نماز کے دوسرے اذکار اور دعائیں پڑھتا ہے۔ نماز کے یہ تمام اذکار اس پوری کائنات میں ادا کیے جانے والے بہترین کلمات ہیں۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ لاکھوں بار پڑھے جانے والے ان بہترین اذکار کا مفہوم بھی پڑھنے والے کے ذہن میں موجود رہے، اور جب وہ یہ بہترین کلمات لاکھوں بار اپنی زبان سے ادا کرے تو ہر بار  ان کے مفہوم کا لطف بھی اٹھائے؟

  • ذرا سوچیں، ہم نماز میں جو کلمات ادا کرتے ہیں، ان کا معنی ومطلب کتنا عظیم الشان اور زبردست ہوتا ہے، جبھی تو اللہ پاک نے زندگی بھر لاکھوں مرتبہ اپنے نیک بندوں کو انھیں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز کے اذکار زندگی کو سنوارنے، نفس کو پاکیزہ بنانے اور شخصیت کو ترقی دینے کی زبردست اور بے مثال تاثیر رکھتے ہیں۔ جب جسم کی حالت، زبان کے الفاظ اور دماغ کی کیفیت بالکل ایک سی ہوجاتی ہے، اور جب تینوں ایک ساتھ نماز ادا کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں تو دل کو نماز کا حقیقی لطف حاصل ہوتا ہے، اور نماز مومن کی معراج بن جاتی ہے۔
  • نماز تو ایمان اور عمل کی بے پناہ دولت کا زبردست خزانہ ہے۔ نماز سے زندگی کے ہر موڑ پر بہت بڑی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ نماز انسان کو ایسی بلندیوں تک پہنچاتی ہے جن کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایسی نماز کو زندگی بھر سمجھے بغیر پڑھتے رہنا سمجھ داری کا کام نہیں ہے۔ اقامت الصلوٰۃ کی طرف نہایت ضروری قدم ہے نماز کو سمجھ کر پڑھنا۔
  • کوئی کہہ سکتا ہے کہ نماز میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں اسے سمجھنا عام طور سے نہ تو نماز کے ارکان میں ذکر کیا جاتا ہے، نہ سنتوں میں اور نہ مستحبات اور آداب میں، تو پھر اس پر اتنا زور کیوں؟ میرے بھائی، حقیقت یہ ہے کہ نماز کو سمجھ کر پڑھنا تو نماز کی روح میں شامل ہے۔ اگر آپ کو رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِيْ کا مطلب معلوم نہ ہو اور آپ دونوں سجدوں کے درمیان اسے دُہراتے رہیں، اور ایک دن مطلب معلوم ہوجائے کہ ’’میرے رب مجھے معاف کردے اور میرے اوپر رحمت نازل کردے‘‘ اور پھر آپ یہ دعا دُہرائیں، یقین کریں آپ کو بہت بڑا فرق محسوس ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ مفہوم کے اثر سے آپ کا دل سوز سے لبریز ہوجائے اورآپ کی آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہوں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص ذائقے کے احساس سے محروم ہو اور بہترین قسم کے شیریں آم کھاتا رہے، پھر ایک دن اس کے ذائقے کی حس جاگ اٹھے اور آم کھاتے ہوئے اس پر انکشاف ہو کہ وہ کیسے شان دار ذائقے والی چیز مزا لیے بغیر کھارہا تھا۔ بلاشبہہ اس وقت اسے محسوس ہوگا کہ ذائقے کا احساس کتنی بڑی نعمت ہے جس سے وہ محروم تھا۔
  • عربی زبان نہ جاننے والے نماز کو سمجھ کر کیسے پڑھیں؟ یہ سوال بہت سے لوگوں کو فکر مند رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ مشورے یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
  • ٭پہلی بات: اس کام کو ضروری سمجھیں۔ امام سفیان ثوریؒ کہتے تھے: آدمی کو اس کی نماز کے اتنے حصے کا اجر ملے گا جتنا حصہ وہ سمجھ کر ادا کرے گا (حلیۃ الاولیاء)۔ مولانا محمد منظور نعمانیؒ بڑی دردمندی سے لکھتے ہیں: ’’خشوع وخضوع کی طرح نماز میں فہم ومعنی کی طرف سے بھی عام طور سے غفلت برتی جاتی ہے اور اس کی کوئی خاص ضرورت واہمیت نہیں سمجھی جاتی، حالانکہ خشوع وخضوع کی طرح یہ بھی نماز کی روح ہے اور بلاشبہہ اس کے بغیر نماز بہت ناقص درجے کی رہتی ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اللہ اللہ، دنیا میں کسی معمولی سے معمولی آدمی سے بھی بے سوچے سمجھے بات کرنا کسی کو پسند نہیں، مگر اللہ تعالیٰ سے عرض ومعروض کرنے کے لیے خود اپنی بات کا مطلب سمجھنے کی ضرورت اور اہمیت نہیں سمجھی جاتی، افسوس‘‘۔
  • دوسری بات: نماز میں دُہرائے جانے والے اذکار کا ترجمہ یاد کرلیں، مقدار کے لحاظ سے یہ بہت کم ہیں اور انھیں یاد کرلینا بہت آسان ہے۔ قارئین کی سہولت اور فوری عمل درآمد کے لیے یہاں ان اذکار کا ترجمہ درج کیا جارہا ہے۔

اللہ اکبر: اللہ سب سے بڑا ہے۔

 ثنا: اے اللہ !ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہیں، اور تیرا نام با برکت ہے، اور تیری شان اونچی ہے، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

  • استعاذہ: میں مردود شیطان سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔

 بسملہ: اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔

 سورۃ الفاتحۃ: ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے انسانوں کا ربّ ہے، رحمان اور رحیم ہے، روز جزا کا مالک ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، اور جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔

  •  سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْم: میں اپنے عظیم ربّ کی عظمت اور پاکی بیان کرتا ہوں۔
  • سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ : اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد کی۔
  •  رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ: ہمارے ربّ، تیرے ہی لیے حمد ہے۔
  •  سُبْحَانَ رَبِّيَ  الْاَعْلٰی: میں اپنے بلند ربّ کی پاکی اور عظمت بیان کرتا ہوں۔

 التحیات: تعظیم کے کلمات اللہ کے لیے، نیازمندیاں اللہ کے لیے، خوبیاں اللہ کے لیے۔ سلامتی ہو اے نبی آپ پر، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

  •  درود: اے اللہ محمدؐ پر اور محمدؐ کی آل پر رحمت نازل فرما، جس طرح ابراہیمؑ پر اور ابراہیم ؑ کی آل پر رحمت نازل فرمائی، بے شک حمد تیری ہے اور تو اونچی شان والا ہے۔ اے اللہ، محمدؐ پر اور  محمدؐ کی آل پر برکت نازل فرما جس طرح ابراہیم ؑپر اور ابراہیم ؑکی آل پر برکت نازل فرمائی، بے شک حمد تیری ہے اور تو اونچی شان والا ہے۔

 دعا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ  وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ، اے اللہ میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا، اور گناہوں کو معاف کرنے والا صرف تو ہے، اپنی طرف سے خاص معافی دے کر مجھے معاف کردے، اور مجھے رحمت عطا فرمادے، بلا شبہہ تو بہت معاف کرنے والا اور بہت مہربان ہے۔

 اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ: تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔

  •  مولانا محمد منظور نعمانیؒ ان اذکار کے حوالے سے بڑی حوصلہ افزا بات لکھتے ہیں: ’’اگر بالکل بے پڑھے آدمی بھی کوشش کریں تو ان شاء اللہ ہفتہ وعشرہ میں ان تمام اذکار کے معنی یاد کرسکتے ہیں‘‘۔
  •  تیسری بات: جو سورتیں آپ کو یاد ہیں، ان کا ترجمہ پہلی فرصت میں بار بار پڑھ کر ذہن میں بٹھالیں۔ عوام کو عام طور سے کچھ ہی سورتیں یاد ہوتی ہیں، ان کا ترجمہ وہ تھوڑی توجہ سے ذہن نشین کرسکتے ہیں۔ جو عربی دعائیں یاد ہیں ان کا مطلب معلوم کرتے رہنے کو بھی اپنا پسندیدہ شوق بنالیں۔ نمازوں میں ان دعاؤں کو ان کا مفہوم سمجھتے ہوئے دُہرانے میں ناقابل بیان لطف حاصل ہوتا ہے۔
  •  چوتھی بات: آج سے عہد کریں کہ جو بھی ذکر یا دعا یا سورت یاد کریں گے، اس کا ترجمہ بھی ضرور ذہن نشین کرلیں گے، اور وقتاً فوقتاً اسے تازہ کرتے رہیں گے۔
  •  پانچویں بات: عربی نہ جاننے والوں کو یہ سوال بہت زیادہ پریشان کرتا ہے کہ امام صاحب جب نماز میں قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کرتے ہیں، تو اسے مقتدی کیسے سمجھ کر سنیں؟ اس کا آسان اور بہترین حل موجود ہے، البتہ اس حل میں دو پروگرام ہیں۔ ایک زندگی بھر کے لیے مستقل پروگرام، اور دوسرا قلیل مدتی پروگرام، جس پر فوری عمل درآمد ہوسکتا ہے۔
  • مستقل پروگرام یہ ہے کہ روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کے لیے کچھ وقت مخصوص کرلیں، اور تلاوت کرتے ہوئے معمول یہ بنالیں کہ ہر ایک آیت کی تلاوت کے ساتھ ہی اس آیت کا ترجمہ بھی پڑھیں گے۔ اس طرح آیت بہ آیت ترجمے کے ساتھ قرآن ختم کرنے کو اپنا معمول بنالیں۔ اس طرح کے چار پانچ ختم کے بعد ایسا ہونے لگے گا کہ امام صاحب جب قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کریں گے تو آپ کے ذہن میں ایک ایک آیت کے ساتھ اس کا مفہوم بھی سامنے آتا رہے گا۔
  •  کم مدت والے فوری پروگرام کی تفصیل یہ ہے (اور یہ بڑے پتے کی بات ہے) کہ زیادہ تر ائمہ کرام اپنی نمازوں میں کچھ خاص سورتوں اور آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ ان سورتوں اور آیات کا آیت بہ آیت ترجمہ زیادہ کثرت سے پڑھیں تو ان کا مفہوم بہت کم وقت میں آپ کے ذہن نشین ہوجائے گا۔ سورۃ البقرۃ کا آخری رکوع، اسی طرح سورئہ آل عمران، سورۃ الفرقان،  سورۃ الزمر، سورۃ الحشر، سورۃ الصف، سورۃ المنافقون، سورۃ التحریم، ان سب سورتوں کے آخری رکوع۔ مزید سورۃ الجمعۃ، سورۃ الملک، سورۃ القیامۃ اور سورۃ المرسلات مکمل۔ اور آخری پارے کی تمام سورتیں، اور ان میں بھی خاص طور سے سورۃ الاعلیٰ سے سورۃ الناس تک کی سورتیں۔ ان سورتوں اور آیتوں کا مفہوم ذہن نشین کرنا اس لیے بھی بہت مفید ہے کہ ان میں ایمانی تربیت کا بہت خصوصی انتظام ہے۔
  •  ان کے علاوہ آپ خود بھی دھیان دے سکتے ہیں کہ آپ کی مسجد کے امام صاحب زیادہ تر کون سی سورتیں پڑھتے ہیں، ان سورتوں کا ترجمہ ذہن نشین کرنے پر آپ فوری توجہ دیں۔    آپ روزانہ اگر مناسب وقت اس اہم کام کے لیے خاص کرتے ہیں، تو یقین کریں چند ماہ کے اندر آپ زیادہ تر نمازوں میں محسوس کریں گے کہ امام صاحب نماز میں جو آیتیں تلاوت کررہے ہیں، وہ آپ بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ اس سے نماز کے لطف میں وہ اضافہ ہوگا کہ آپ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہے گا، اور آپ خود محسوس کریں گے کہ کتنی بڑی سعادت آپ کے حصے میں آگئی۔
  •  البتہ طویل مدتی منصوبہ، یعنی پورا قرآن مجید آیت بہ آیت ترجمے کے ساتھ ختم کرتے رہنے کا سلسلہ زندگی بھر جاری رہنا چاہیے۔ اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ یہ منصوبہ آپ کی زندگی کو بدل دینے کی قوت رکھتا ہے۔ جسے آیت بہ آیت تلاوت وترجمہ کا لطف مل جاتا ہے، وہ پھر عمر بھر  اسی معمول کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتا ہے۔
  •  اب تک ہمارے گھروں میں، مسجدوں میں اور کسی قدر اسکولوں میں بھی نماز سکھانے اور یاد کرانے کا تو اہتمام رہا ہے، مگر نماز سمجھ کر پڑھنے کی تربیت دینے پر توجہ بہت کم رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان اکثر لوگ نماز کو بِنا سمجھے پڑھتے ہیں۔ آپ کو اپنے بچوں اور آنے والی نسل کے سلسلے میں اہم فیصلہ کرنا ہے، وہ یہ کہ ان کی آخرت کو بہتر بنانے کے لیے انھیں نماز سمجھ کر پڑھنے کی تعلیم اور تربیت لازمی طور پر دی جائے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل ابتدائی عمر میں اگر اذکار کچھ  سمجھے بغیر یاد کرائے جائیں، اور مفہوم ذہن نشین کرانا ممکن نہ لگے، تو کچھ ہوشیار ہوجانے کے بعد   ان اذکار کا مفہوم ذہن نشین کرانے کا اہتمام کرلیا جائے۔ بہرحال، آپ کے دل میں یہ فکر پیدا ہوجائے کہ ہمارے بچے سمجھ کر نماز پڑھنے والے بن جائیں۔ یقین کریں آپ کی یہ فکر اور کوشش آپ کے بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے میں بہت معاون ہوسکتی ہے۔
  • مولانا نسیم غازی (معروف نومسلم عالم) نے غیر مسلموں کے لیے ایک کتابچہ لکھا: اذان اور نماز کیا ہے؟‘ اس کتابچے میں انھوں نے نماز میں پڑھی جانے والی چیزوں کا ترجمہ لکھا۔ جب غیر مسلموں کے ہاتھ میں یہ کتاب پہنچی، تو حیرت انگیز تاثرات سامنے آئے۔ بہت سے وہ لوگ جو مسجدوں اور نمازوں کے سلسلے میں سخت بدگمانی رکھتے تھے، ان کی راے بالکل بدل گئی، اور انھوں نے کہا کہ یہ نمازیں تو اس ملک کے لیے اور یہاں کے باشندوں کے لیے خیر اور بھلائی کا باعث ہیں، ایسی نمازیں تو ضرور پڑھی جانی چاہییں۔ جن نمازوں میں ایسی اچھی اچھی باتیں کہی جاتی ہوں، وہ نمازیں یقینا بہت اچھے انسان بنائیں گی۔
  •  سوچنے کا اصل مقام مسلمانوں کے لیے ہے۔ وہ ایسے اَنمول کلمات کوجنھیں وہ زندگی میں لاکھوں مرتبہ بِنا سمجھے دُہراتے ہیں، سمجھ کر پڑھنے کا فیصلہ کتنی جلدی کریں گے، تاکہ ان کی زندگی ان کی نمازوں کے نور سے روشن ہوسکے۔

 یاد رکھیے، موقعے بار بار نہیں ملا کرتے ہیں۔ اگر ابھی موقع ملا ہے اور توجہ ہوئی ہے، تو  آج ہی سے اپنے اندر یہ بہت آسان مگر بہت عظیم تبدیلی لانے کا فیصلہ کرلیں، اور اسے زندگی کی میز پر اپنے ’سب سے اہم اور فوری‘ کاموں کی فائل میں سب سے اُوپر رکھ لیں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔

’حسد‘ عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لُغوی معنی کینہ، جلن، ڈاہ، بدخواہی یاکسی کا زوال چاہنے کے ہیں۔ اِصطلاحِ عام میں حسد اُن خداداد نعمتوںاور ترقیات و بلندیِ مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر کو علم وہُنر ، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت ونام وری یا کاروبار وتجارت کے طورپر حاصل ہوئے ہوں۔ یہ نہایت رذیل اور بدترین خصلت ہے۔ یہ بیماری پست ذہن وفکر رکھنے والوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔

یہ خصلت کسی کی ترقی و شہرت، کامیابی ومقبولیت، مقام ومنصب کی بلندی اورعام انسانوںمیں اس کی عزت و نام وری کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔ اِس لیے کہ حاسداپنے یا اپنے متعلقین کے علاوہ کسی کی عزت و سرخ روئی یا ترقی وبلندی کو برداشت نہیں کرپاتا۔ وہ ہر قسم کی عزت و سرخ روئی یا ترقی و سربلندی کامستحق صرف اور صرف خود کو سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ’محسود‘ [جس سے حسد ہو] میں طرح طرح کے عیب نکالتا ہے، اس کی خوبیوںاور ہنرمندیوں کو خامیوں سے تعبیر کرتاہے۔  اس کی نیکی، تقویٰ اور حسنِ اخلاق وکردارکو ریاکاری، خودپسندی اور نام ونمود کامظہر قرار دیتا ہے۔ اس کے علمی وفکری کارناموںاور قومی وملّی خدمات کے حوالے سے لوگوں کو طرح طرح سے بدگمان کرتا ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں کی آرا خراب کرتا ہے۔ اس لیے کہ خود وہ ان اعلیٰ محاسن وفضائل تک نہیں پہنچ پاتا۔ وہ چاہتاہے کہ ’محسود‘ کے سلسلے میںایسی فضا بنادے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور چھوٹا یا بڑا جو مقام و مرتبہ اس کو ملاہے، وہ چھِن جائے۔ وہ ہر وقت اپنی تمام تر صلاحیتوںکو ’محسود‘ کوزیروپست کرنے میں صرف کرتاہے۔ وہ یہ بھول جاتاہے کہ عزت وذلت اور ترقی و تنزل    اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت صاف اور واضح طورپر ارشاد فرمایاہے:

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۝۰ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۶  (اٰل عمٰرن۳:۲۶)کہو : اے اللہ! ملک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

حسد کامرض انسان میں اُس اعتقادی کم زوری کے نتیجے میں پیداہوتاہے، جو اسلامی زندگی کی روح اور اساس ہے۔ وہ یہ کہ تمام تر خوش حالی و بدحالی اور پستی و بلندی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہی انسان کو بدحالیوں سے نجات دیتا ہے اور خوش حالیوں ، مسرتوں اور شادکامیوں سے ہم کنار کرتا ہے۔ اِسے قرآنِ مجید میں اس طرح بیان کیاگیا ہے:

 وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ ۝۰ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۷  (انعام۶:۱۷)اگراللہ تمھیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں، جو تمھیں اس نقصان سے بچاسکے اور اگر وہ تمھیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

حسد اور رشک

کبھی کبھی لوگ اپنی کم فہمی، لاعلمی اور کج روی کی وجہ سے حسد اور رشک کو ایک ہی خانے میں رکھ کر طرح طرح کی بے جا اور بعیداز فہم تاویلیں کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جوکچھ کررہے ہیں وہ حسد نہیں ہے۔ حالاںکہ حسد ایک روحانی بیماری ہے، جو انسان کے اندر بزدلی ، پست ہمتی، کم ظرفی اور پست وارذل ماحول میں رہنے، پلنے بڑھنے اور پروان چڑھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جب کہ رشک ایک صالح اور پاکیزہ جذبہ ہے، جو کسی کے اندر صالح و پاکیزہ تربیت، ذہنی وفکری بلندی اور معیاری خاندانی اثرات سے پیدا ہوتااور پروان چڑھتا ہے۔ اِسے ہم چراغ سے چراغ جلنے یا جلانے سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ رشک وہ اعلیٰ جذبہ ہے، جس کی وجہ سے انسان کسی پڑوسی، ہم سایے، ہم پیشہ یا ہم عصر کی ترقی و بلندی اور رفعت وعظمت کو دیکھ کر خوش ہوتاہے اور وہ یہ جاننے کے لیے بے چین اور مضطرب ہوجاتاہے کہ اُسے جو ترقی اور خوش حالی نصیب ہوئی ہے، اس کے لیے اُسے کیا کیاکرنا پڑا ہے اور وہ کن مراحل سے گزرکر اس مقامِ بلند تک پہنچا ہے۔ یہ سب جان لینے کے بعد وہ بھی محنت ومشقت اور سعی و کاوش کرکے خوشی و مسرت، شہرت و نام وری اور خوش حالی و نیک نامی کے اس مقام بلندتک پہنچتا یا پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کسی کو پست و ذلیل یا زوال پزیر کرنے کا نہیں، بل کہ اعلیٰ ظرفی، بلند ہمتی اور روحانی طہارت وپاکیزگی کاجذبہ ہے۔ اسلام نے اِس جذبے کی تحسین بھی کی ہے اور ترغیب بھی دی ہے۔ قرآنِ مجید میں اِسے تنافس سے تعبیر کیاگیا ہے:

وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنٰفِسُوْنَ۝۲۶ۭ (المطففین ۸۳:۲۶)جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں، وہ اس چیز کو حاصل کرنے کی بازی لے جانے کی کوشش کریں۔

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ(البقرہ۲:۱۴۸) پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔

سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ (الحدید۵۷:۲۱) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک بہت مشہور حدیث ہے کہ ایک بار غریب و مفلس مہاجرین کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ عرض کی: یارسول اللہ! مال دارو خوش حال لوگ مرتبے میں ہم سے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ لوگ ہماری ہی طرح نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری ہی طرح روزے رکھتے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ چوں کہ وہ ارباب ثروت ہیں، اس لیے وہ حج بھی کرلیتے ہیں، عمرہ بھی کرلیتے ہیں اور جب جہادکا وقت آتاہے تو وہ مال و دولت سے بھرپور مدد کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیںاور ضرورت پڑنے پر غریبوں،مفلسوں اور حاجت مندوں کی بھی امداد کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ہم ان پر سبقت نہیں حاصل کرسکتے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی اُس جماعت کی بات سنی اور ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتادوں، جس سے تم بھی ان سب کے برابر ہوجائو، تم اپنے پیچھے رہنے والوں سے بہت آگے بڑھ جائو، اور تمھاری برابری اُن لوگوں کے سوا کوئی نہ کرسکے جو وہی عمل کریں، جو میں تمھیںبتانا چاہتاہوں؟ سب نے خوشی خوشی بہ یک زبان کہا: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسولؐ! ضرور ارشاد فرمائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوق وطلب کو دیکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہر فرض نماز کے بعد ۳۳، ۳۳ مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ ، الْحَمْدُلِلہِ اور اللہُ اَکْبَرُ کہہ لیا کرو۔ (بخاری، مسلم، بیہقی، کتاب الصلوٰۃ ، باب ما یقول بعد السلام، حدیث: ۳۴۸)

یہ حدیث اپنے عہد کے نام ور عالم حدیث امام محی الدین النَووِیؒ نے صحیحین کے حوالے سے اپنی مشہور کتاب ریاض الصالحین میں کتاب الاذکار کے باب فضل الذکر و الحث علیہ میں نقل کی ہے ۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں سیکڑوں ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے پتا چلتاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں صدقات وخیرات اور نیکی و تقویٰ کے سلسلے میں باہم رشک و تنافس پایاجاتاتھا اور وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ سیدناحضرت ابوبکرصدیق اورسیدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہما بھی اکثر خیر اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ مذکورِ بالا آیات، احادیث اور واقعات سے اِس نتیجے تک پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ اچھائی اور نیکی کے کاموں میں رشک و تنافس اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا جذبہ، ایک محمود واَحسن جذبہ ہے۔ اِس سے انسان کے بلندیِ درجات کا اندازہ ہوتا ہے۔

حاسد دوسروں کو حاصل شدہ دولت و نعمت کا بدخواہ ہوتاہے۔ اس دولت و نعمت کے سلسلے میں وہ لوگوں میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور شکوک وشبہات پھیلاتاہے، حتیٰ کہ وہ اِس سلسلے میں فرضی اور من گھڑت واقعات عام کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ اس کی ساری کوشش صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ ’محسود‘ ذلیل و خوار ہو، اس کی شہرت و نام وری میں بٹّا آجائے، اس کی عزّت و عظمت مشکوک اور اس کی شخصیت و خاندانی شرافت داغ دار ہوجائے۔ خواہ خود حاسد کو وہ دولت ونعمت، عزت و عظمت اور شہرت و نام وری مل سکے یا نہ مل سکے۔ حاسد کایہ رویہ دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت ومصلحت پر عدم اعتماد ویقین کامظہر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اُسے (نعوذباللہ)     اللہ تعالیٰ کا حریف ومدمقابل بھی کہہ سکتے ہیں۔

اسلام میں حسد کی مذمت

اسلام امن وسکون اور خیر وخیرخواہی کا علم بردار ہے۔ وہ انسانی معاشرے کو سعید و خوش گوار دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس نے انسان کو اخلاقیات اور معاشرتی آداب سے آشنا و باخبر کیاہے اور پوری انسانی برادری کو لاضرر ولاضرار( کوئی بھی انسان کسی انسان کو چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا نقصان نہ پہنچائے) کا درس دیا ہے اور بتایا ہے کہ ایک اِنسان کو دوسرے انسان کے لیے رنج وغم اور دُکھ درد کا علاج، اس کے آرام و راحت کاسامان اور ایک دوسرے کے لیے محبت واخوت کاپیکر ہوناچاہیے۔ اسلام اس بات کو قطعی پسند نہیں کرتا کہ معاشرے میں حسد یا جلن کی آگ بھڑکے اور اس کے اثر سے پورا معاشرہ نفرت وتعصب اور جوڑ توڑ کی آماج گاہ بن جائے۔

اسلام نے حسد کی اخلاقی برائی اور اس کی شناعت کو واضح اور واشگاف انداز میں بیان کرکے انسان کو اس کی ہلاکتوں اور تباہیوں سے خبردارکیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَقَاطَعُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ  اِخْوَانًـا (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھی عن التحاسد ، حدیث ۴۷۴۸) آپس میں بغض و حسد، قطع تعلق اور ترک معاونت نہ کرو۔ اللہ کے بندو! تم اخوت ومحبت کے ساتھ رہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

دَبَّ اِلَیْکُمْ دَاءُ الْاُمَمِ قَبْلَکُمْ الْحَسَدُ  وَالْبَغْضَاءُ  ____ اَلَا أُنَبِّئْکُمْ بِشَیْ ءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ اَفْشُوْالسَّلَامَ بَیْنَکُمْ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، حدیث۲۴۹۴)تم سے پچھلی امتوں کی بیماریوں میں سے بغض و حسد کی بیماری تمھارے اندر سرایت کرگئی ہے۔ کیا میں تمھیںکوئی ایسی چیز نہ بتائوں، جو تمھارے اندر محبت پیداکردے؟ وہ یہ ہے کہ تم باہم سلام کو عام کرو۔

اللہ تعالیٰ نے جب پہلے انسان ابوالابا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی، اُنھیں نبوت کے اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا اور جِنّ وملک کو حکم دیا کہ سب اُنھیں سجدہ کریں، تو سب نے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔ بس ایک ابلیس تھا جو حسد کی آگ میں جل اُٹھا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اللہ کی نافرمانی پر اترآیا۔ اُسے یہ بات نہ بھائی کہ ایک مٹی کے پیکر کو اتنا بلند مقام ملے کہ اُسے جن و ملک سجدہ کریں۔ اس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل، رسوا اور راندۂ درگاہ قرار پایا۔ اس کابیان قرآنِ مجید میں بہت واضح طورپر آیاہے:

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۝۰ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۝۳۴ (البقرہ ۲:۳۴) پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیاکہ آدم ؑکے آگے جھک جائو،تو سب جھک گئے، مگرابلیس نے انکار کیا، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔

ابلیس نے جو رویہ اختیارکیا، حسد، جلن اور اپنے آپ کو آدم کے مقابلے میں اعلیٰ وبرتر سمجھنے کے ہی نتیجے میں اختیار کیا۔ وہ اِس مقامِ بلند کا مستحق خود کوسمجھتاتھا۔ دراصل انسان جب کسی کی عظمت و بلندی، عزت و شہرت یا ترقیِ درجات سے جلتاہے تو اس میں یہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ یہ شخص اِس کامستحق نہیں ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتاہے کہ اِسے جو کچھ بھی حاصل ہے، وہ محض اللہ کا عطیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے جو کچھ دیاہے، وہ مستحق و حق دار سمجھ کر ہی دیاہے۔ وہ جس کومناسب سمجھتا ہے ، دیتاہے اور جسے نہیں چاہتا، اُسے نہیں دیتا۔ اس کے ہاں سفارش کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کی ترقی وکام یابی سے جلتا یا حسد کرتاہے گویا وہ خود کو (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ سے زیادہ عقل و فہم والاسمجھتا ہے۔

’حسد‘اسلامی مزاج کے منافی ایک شیطانی جذبہ ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کی خصلتوں میں سے ہے۔ یہ انسانیت سے گری ہوئی ایسی خصلت ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا اور بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ حسد بڑی خاموشی سے دلوں میں گھر کرلیتا ہے۔ حسد کا مریض کبھی کبھی یہ باور کرلیتاہے کہ وہ جو کچھ کررہاہے، اظہار حق کے طورپر اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے پیش نظر کررہاہے۔ لیکن اگر وہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو حاضر وناظر اور آخرت میں اس کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ سوچے اور غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح اور منکشف ہوجائے گی کہ وہ بڑی مہلک روحانی بیماری کا شکار ہے۔

’حسد‘ احساس کم تری، متعلقہ میدان میںحاسد کی ناکامی و نامرادی اور کسی دیرینہ کدورت کی وجہ سے جنم لیتاہے۔ احساسِ برتری، کبرو نخوت اور خودپسندی وخودبینی بھی حسد کا مظہر ہے۔ انسان کی تنگ نظری وبخل مزاجی بھی حسد کاسبب بنتا ہے۔ تنگ نظر و بخیل کسی کو اچھے حال میں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنے ہم سفروں، ہم جماعتوں اورپڑوسیوں کی پریشانی و بدحالی پردل ہی دل میں شادو مسرور ہوتاہے۔

کبھی کبھی یہ بھی دیکھاگیاہے کہ لوگ کسی بھوکے کو کھانا کھلادیتے ہیں اور اگر اس کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں تو کپڑوں کاانتظام کردیتے ہیں، لیکن جب اُس شخص کی خستہ حالی، پریشانی اور مفلسی ختم ہوجاتی ہے، وہ خود کفیل ہوجاتاہے اورمعاشرے میں سراٹھاکر چلنے کے لائق ہوجاتاہے، تو وہی لوگ اس سے جلنے اور اس پر شکوک و شبہات کی انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں اور سماج میں اس کی تصویر خراب کرنے لگتے ہیں، جو کبھی اس کی بھوک کی حالت میںاُسے کھانا کھلاچکے ہوتے ہیں اور بے لباسی کی صورت میں اسے لباس فراہم کرچکے ہوتے ہیں۔

یہ بات ہمیں، آپ کو اور ہر اہلِ ایمان کو یاد رکھنی چاہیے کہ ’محسود‘ کے ساتھ حاسد کی بدخواہی، اس کے زوال و تنزل کی خواہش، اس کی مصیبت و پریشانی پرمسرت وشادمانی اور اس کی خوش حالی و شادمانی پر کبیدہ خاطری منافقین کی خصلت ہے۔ حاسد کو ’محسود‘ سے قطعِ تعلق ، ترک تعاون اور نفرت وبُعد اسلامی مزاج کے منافی اور اظہارِ محبت و اخوت کرتے ہوے دل میں جلن، بغض اور کینہ رکھنا سراسر نفاق ہے۔ یہ عمل ایمان سے دُور کردیتا ہے۔ ’محسود‘ کی غیبت، چغلی، اس پر کسی قسم کااتہام، اس کی ہتکِ عزت یا اس کے کسی راز کاافشا اور اس کااستخفاف و استہزا یا اس کے حقوق سے بے نیازی غیرمومنانہ اور ناجائز رویہ ہے۔

انسانی زندگی پر حسد کے اثرات

حسد کے روحانی مرض میں مبتلاشخص گرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوںسے بہرہ ورافراد کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کرکے اپنے نفس کی تسکین محسوس کرتا ہے اور بسااوقات ’محسود‘ کو وہ کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی ہوجاتاہے ۔ تاہم، ’محسود‘ کا یہ نقصان یاکسی قسم کی تکلیف و پریشانی       وقتی و عارضی ہوتی ہے۔ اس نقصان یا تکلیف وپریشانی کی تلافی اس کے صبرو تحمل اور ایمانی استقامت کے ذریعے سے بہت جلد ہوجاتی ہے، جب کہ حاسد کی زندگی ہمیشہ دکھ، درد، اضطراب اور بے چینی سے دوچار رہتی ہے۔ اس کے حالات وکیفیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرحت وانبساط،     مسرت وشادمانی اور بشاشت و تازگی کی دولت سے محروم ہوچکا ہے۔ بعض حکما نے حسد کو جسمانی مرض بھی بتایاہے۔ الحسد داء الجسد (حسد جسم کی بیماری ہے)  کا عربی مقولہ بہت مشہور ہے۔ حاسد کا وقار گرجانا، لوگوں کا اس سے منحرف ومتنفرہوجانا اور اس کو مشکوک و مشتبہ نگاہوں سے دیکھنا حسد کے لازمی اثرات میںسے ہے۔ یہ اثرات حسد کرنے والے کی زندگی پر کسی نہ کسی درجے میں مرتب ہوکر رہتے ہیں۔ وہ کبھی باعزت و سرخ رو نہیںہوسکتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

شَرُّالنَّاسِ مَنْ یُبْغِضُ النَّاسَ وَیُبْغِضُوْنَہٗ ، سب سے برا وہ شخص ہے، جو لوگوں سے بغض و کینہ رکھے اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے بغض و کینہ رکھیں۔ (المعجم الکبیر، الطبرانی، حدیث: ۱۰۵۸۲)

اُخروی زندگی پر حسد کے اثرات

اب تک کی کسی قدر تفصیلی گفتگو سے یہ بات واضح اور منکشف ہوجاتی ہے کہ حسد ایک انتہائی قبیح، رذیل اور ذلیل خصلت ہے۔ اس کے اندر بے شمار دینی، اعتقادی، سماجی، معاشرتی، روحانی اور جسمانی مفاسد ہیں اور اس کااُخروی انجام نہایت خطرناک اور تباہ کن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

اِیَّـاکُمْ وَالْحَسَدَ فَاِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَاْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد،حدیث ۴۲۷۸) تم اپنے آپ کو حسد سے بچائو، اس لیے کہ حسد نیکیوںکو اس طرح جلادیتاہے، جس طرح کہ آگ لکڑی جلادیتی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شب و روز کی زندگی کاجائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بیماری ہمارے اندر سرایت کرکے ہمارے خرمنِ دین و ایمان کو جلاکر راکھ کررہی ہو، تاکہ ہم جو کچھ چھوٹی بڑی نیکیاں کررہے ہیں اور جو ہم سے تھوڑے بہت کار خیر انجام پارہے ہیں،     وہ ہمارے لیے اُخروی فلاح وکام یابی اورحصولِ جنت کا وسیلہ بن سکیں۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے طریق سے ایک حدیث بیان کی ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیِ رسولؐ کے سلسلے میں جنت کی بشارت سنائی۔ صحابہ نے اُن صحابی کے اعمال کابہ غور مطالعہ و مشاہدہ کیا تو اُنھیںاعمال کے اعتبار سے کسی اعلیٰ و بلند مقام پرنہیں پایا۔ اُن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی بشارت کی وجہ پوچھی تو انھوںنے بتایاکہ میرے حق میں جنت کی بشارت کی وجہ صرف یہ ہے کہ میںنے آج تک کسی بھی مسلمان سے بغض و حسد کا معاملہ نہیں کیا‘‘۔(مسند احمد ،ج۳، ص ۱۶۶)        

حسد کا علاج

حسد کا علاج کسی دو ا دارو، جھاڑپھونک یا شیخ و مرشد کی توجہ سے ممکن نہیں، بل کہ یہ علم و عمل دونوں کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیرحسد کا علاج نہیںہوسکتا۔ یہ بات ہم سب پر واضح رہنی چاہیے کہ حسد سے ’محسود‘ کا نہ کوئی دنیوی نقصان ہوتا ہے اور نہ اُخروی، بل کہ اخروی طورپراس کے لیے یہ مفید اور باعث اجرو ثواب ہے۔ اس لیے کہ حاسد غیبت، چغلی اور لگائی بجھائی کے ذریعے سے ’محسود‘ کی آخرت کے لیے ہدیہ و توشہ فراہم کرتا ہے۔ میں نے کبھی کہاتھا:

مری ذات ہی اس کا موضوع تھی

وہ میرے گناہوں کو دھوتا رہا

اِس شعر میں اس فرمانِ رسولؐ کی ترجمانی کی گئی ہے، جس میں حاسد کو ’محسود‘ کے گناہوں کا دھوبی کہاگیاہے۔ جب کوئی کسی کی غیبت کرتاہے یا اس کی شبیہ بگاڑنے کا کام کرتاہے تو گویا وہ اس کے گناہوں اور خرابیوں کا صفایا کرتاہے۔

حسد کی تباہ کاریوں سے بچنے کا بہترین علاج یہی ہے کہ جس سے ہمیں کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا جسے ہم کسی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں اور اس کی فلاح و کامیابی ہمیںایک آنکھ نہ بھاتی ہو، ہم اپنے آپ کو اس سے راضی کریں۔ اس کی ترقیِ درجات سے خوش ہونے کی عادت ڈالیں۔  اس کی عزت و شہرت سے تنگی و کوفت محسوس کرنے کی بہ جائے دل سے مسرت وشادمانی کا اظہار کریں۔ اگر ممکن ہوتو اس کی عزت و شہرت میں کچھ نہ کچھ اضافے کی کوشش کریں۔جس محفل و مجلس میں اس کا تذکرہ ہورہا ہو، اس میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں اور اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ حسب موقع اس کی دعوت کریں اور تحائف وہدایا کااہتمام کریں اور اس کے دکھ درد اور خوشی و مسرت میں شریک ہوں۔ یہ علاج ہے تو تلخ مگر اس میں نہایت مؤثر و مفید شفا پوشیدہ ہے۔ اگر یہ طریقۂ علاج ہم نے اختیارکرلیا تو اس میں ہمارے لیے غیرمعمولی سکون و راحت کا سامان ہے۔

ہماری زندگی میں ایسے بہت سے کاموں کی مثالیں ہیں کہ جنھیں کرنے یا انجام دینے والے کو گمان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے، لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔

بظاہر نیکی مگر نیت کی خرابی

انفاق ضائع ہوجاتا ہے(ابطال)،اگر اس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف دی جائے یا دکھاوے کے لیے کیا جائے۔اور اس کے لیے چٹان پر سے مٹی ہٹنے کی مثال دی گئی ہے۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ (البقرۃ۲:۲۶۴)

 اعمال دنیا ہی کی نیت سے کیے جائیں تو بڑھاپے میں باغ یا آمدنی کا واحد ذریعہ ختم ہوجانے کی مثال دی گئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۶ )

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ  ښ  وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ   O (التوبہ۹:۱۷) مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآںحالیکہ اپنے اُوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں انھیں ہمیشہ رہنا ہے۔

اس آیت میں اصل میں تو کافر و مشرک کا ذکر ہے لیکن مسلم کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ  ’مسجد حرام کی دیکھ بھال‘ جیسی نیکی بھی ضائع ہو سکتی ہے،اور اس کے بعد والی آیت کے مطابق ’حاجیوں کو پانی پلانا‘ بھی ۔

حدیثِ نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید، عالم اور سخی کو جہنم میں ڈال گیا کیوںکہ یہ دکھاوے کے لیے عمل کرتے تھے۔ اس طرح جان کی قربانی، حصولِ علم، صدقہ کیا ہوا مال ضائع ہوسکتے ہیں۔(نسائی، عن ابی ہریرہؓ)

نماز کو ورزش،روزے کو خوراک کنٹرول کرنے کا منصوبہ، اور حج کو سیاحت کی نیت سے کرنے سے یہ عبادتیں بے معنی ہوسکتی ہیں۔

  • اچھے کام میں نیت بھی اچھی رکھنا ضروری ہے، یعنی صرف اللہ کی خوش نودی اور آخرت کا اجر۔

نیکیاں جن کے آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائے

ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو ، قبول نہ ہوں گی،خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں، مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے،یا روزہ،حج اور دیگر عبادات جن کے ارکان و شرائط علما نے الگ سے جمع بھی کردیے ہیں،وہ ان کا خیال رکھے بغیر کیے جائیں۔یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں ،جو ایک مومن کے لیے صحیح نہیں۔علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے، لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا،مومن کی شان سے مناسبت نہیں رکھتا۔

دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کو بے دلی یا سُستی سے کیا جائے،  یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے،یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لیے نہیں،بلکہ بعض نمازیوں کے لیے بھی تباہی کی وعید ہے۔   سورئہ نساء (آیت ۱۴۲) نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اور دکھانے کے لیے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔ اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔(ابن ماجہ، ابومسعود)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے،مگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔پوچھا گیا وہ کیسے ؟انھوں نے کہا: کیوںکہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود، نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’ایک شخص اسلام میں بوڑھا ہو گیا اور ایک رکعت بھی اس نے اللہ کے لیے مکمل نہیں پڑھی‘‘۔پوچھا گیا: کیسے یا امیرالمومنین؟‘‘ فرمایا: ’’اس نے اپنا رکوع پورا کیا اور نہ سجود‘‘۔

امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:’’انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے، لیکن وہ نماز نہیں ہوگی‘‘۔

جنید بغدادیؒ کا ایک واقعہ کتب میں لکھا ہے،جس میں وہ ایک واپس آنے والے حاجی سے مناسکِ حج کے ساتھ کچھ کیفیات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ جب وہ نفی میں جواب دیتا ہے ،تو وہ اسے حج دوبارہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

کپڑے پہن کر عریاں رہنے والیوں کے لیے وعید ہے۔ اسی طرح خواتین کے ایسے عباے جو ظاہری چمک و رنگ اور چستی سے مزید کشش کا باعث ہوں ، بے مقصد اور لایعنی پہناوا ہیں۔ مہمان نوازی کرکے ،مہمان کے جانے کے بعد اس پر تنقید و مذاق ،مہمان کی تکریم کی نفی ہے۔

  • نیکی کرنے کا طریقہ بھی صحیح رکھنا چاہیے اور اس کے لیے علم حاصل کرنا چاہیے۔
  • نیکی کے دوران اس کے آداب اور دل کی کیفیات کا خیال رکھنا چاہیے۔پوری رضامندی اور خوشی کے ساتھ نیکی کرنا چاہیے۔
  • نیکی کرتے ہوئے ڈرتے رہنا چاہیے،کیوںکہ مومنوں کوعمل قبول نہ ہونے کاڈر رہتا ہے اور خشیت مومنوں کی کیفیت ہے۔ سورئہ انبیاء (آیت ۹۰) میں نیکیوں کی دوڑ دھوپ کے ساتھ خوف کا بھی ذکر ہے۔ رسول کریم ؐ کو بھی اپنے عمل سے نہیں، اللہ کے ٖفضل اور رحمت سے ہی جنت میں جانے کی اُمید تھی(بخاری،ابو ہریرہ)
  • نیکی کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کرنی چاہیے، خواہ وہ نماز ہو، کوئی انفاق ہو، دین کے لیے نکلنا اور چلنا ہو، یا کسی بندے سے معاملہ ہو۔

 نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ رِزْقًا طَیِّبًا وَّعِلْمًا نَافِعًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا،اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں پاکیزہ روزی، نفع بخش علم اور قبول ہونے والے عمل کا(ابن ماجہ، اُمِ سلمہؓ)۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دُعا کی تھی: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط(البقرہ۲:۱۲۷)’’اے ہمارے رب ،ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے‘‘۔

علما نے کچھ دعاؤں میں سعی مشکور مانگی ہے،یعنی ایسی کوشش جس کی قدردانی کی گئی ہو۔

نیکیاں برباد کرنے والے اعمال

نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں ،لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ   وہ ضائع ہوجائیں۔ ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی منفی پیمایش ( negative marking) سے  دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر ،صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں ،جو صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لیتے ہیں۔ یہ برائیاں جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتی ہیں ،وہ یہ ہیں:

  •  نبی ؐ کے احترام میں کمی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں کمی دراصل اللہ کے احترام میں کمی اور باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O (الحجرات۴۹:۲ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنی آوازنبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔

 نبی ؐ کے احترام میں کمی: سورئہ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ        ۭ  فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ   O    وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ  جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ      ۭ  حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَO (المائدہ ۵:۵۲-۵۳) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں    دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکّر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔ اور اُس وقت اہلِ ایمان کہیں گے: ’’ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں؟‘‘ ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے۔

'یعنی جو کچھ انھوں نے اسلام کی پیروی میں کیا،نمازیں پڑھیں،روزے رکھے،زکوٰۃ دی، جہاد میں شریک ہوئے، قوانینِ اسلام کی اطاعت کی،یہ سب کچھ اس بنا پر ضائع ہوگیا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص نہ تھا اور وہ سب سے کٹ کر صرف ایک خدا کے ہوکر نہ رہ گئے تھے، بلکہ اپنی دنیا کی خاطر انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے باغیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ رکھا تھا۔( تفہیم القرآن،سورئہ مائدہ۵:۵۳)

بنیادی طور پر اس کی وجہ یہی ہے کہ حق اور باطل دونوں سے تعلق رکھنا، نفاق ہی کی قسم ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ  (محمد۴۷:۳۳ )اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔

اس آیت کے پسِ منظر کے لحاظ سے بھی، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کش مکش میں جان و مال نہ لگاکر،محنت نہ کرکے اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔

حضرت کعبؓ بن مالک کےواقعے سے سبق ملتا ہےکہ وہ کسی بدنیتی کے بغیر صرف دنیوی مصروفیات کی وجہ سےحق و باطل کی کش مکش میں حق کا ساتھ نہ دے سکے، تو ان کی پچھلی ساری عبادت گزاریا ں اور قربانیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔

  •  بُرائی سے منع نہ کرنا ، سمجھوتہ کرلینا : سورئہ اعراف میں اہلِ سبت کا ذکر ہے،جنھوں نے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے دوسروں کو منع نہ کیا ، تو ان کی اپنی نیکیاں اکارت چلی گئیں۔ بستی پر عذاب کی ابتدا’نیک‘ شخص سے کی جائے کیوںکہ اس نے بستی والوں کو برائیوں سے منع نہیں کیا تھا۔ اس طرح اس شخص کی اپنی نیکیاں بھی ضائع ہوگئیں۔(ترمذی،ابوبکر صدیقؓ)

بنی اسرائیل کے علما نے فاسقوں کو منع کرنے کے بجاے ان کے ساتھ کھاناپینا اور اُٹھنا بیٹھنا شروع کردیا تو ان پر بھی لعنت کی گئی۔(ابوداؤد، ترمذی،عبداللہ بن مسعود)

  •  فسق پر مبنی رویّہ: استطاعت کے باوجود ہجرت نہ کرنا:(النساء۴:۹۷-۹۸)

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ   ۭ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ    (التوبہ ۹:۵۳) ان سے کہو ’’ تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بہ کراہت، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے ۔ کیوں کہ تم فاسق لوگ ہو۔‘‘

کبیرہ گناہ ڈھٹائی سے کرنے سے،کبھی کبھار کی گئی، یا چھوٹی نیکیوں کی قبولیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

مسلم کی روایت کے مطابق،حرام مال کھانے اور پہننے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی اگرچہ وہ لمبا سفر کرکے ،غبار آلود بالوں میں ،آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگے ۔اسی طرح حرام کمائی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ،تو وہ قبول نہیں ہوتا۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندہ جب ایک لقمہ حرام کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کا عمل قبول نہیں کرتا۔

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اپنی امت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں، جو قیامت والے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی، تو اللہ عز وجل ان نیکیوں کو دُھول بنا دے گا۔ حضرت ثوبانؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !ہمیں ان لوگوں کی نشانیاں بتائیے،ہمارے لیے ان لوگوں کا حال بیان فرمائیے،تاکہ ایسا نہ ہوکہ ہم انھیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوجائیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ تم لوگوں کے بھائی ہوں گے اور تم ان لوگوں کی نسل میں سے ہو گے، اور رات کی عبادات میں سے اسی طرح حصہ لیں گےجس طرح تم لوگ لیتے ہو۔لیکن ان لوگوں کا معاملہ یہ ہوگاکہ جب وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو انھیں استعمال کریں گے۔(ابن ماجہ)

حضرت بُریدہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے عصر کی نماز چھوڑی ،اس کے عمل اکارت ہوئے(فقد حبط عملہ)۔(بخاری)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے شراب پی، اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازیں قبول نہیں کرتا۔(لم یقبل اللہ) ۔ (ترمذی)

  •  اجتماعی معاملات میں بے احتیاطی:حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ نبیؐ کو فتح ہوتی اور مالِ غنیمت حاصل ہوتا تو حضرت بلالؓ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کریں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ لے آئے۔لوگوں کے پاس جو مالِ غنیمت ہوتا، وہ اسے لے آتے۔ جب سب مال جمع ہو جاتا تو پھر رسولؐ اللہ پہلے اس میں سے خمس الگ کرتے، پھر باقی مال کو    تمام مجاہدین میں تقسیم فرمادیتے۔ ایک دفعہ مالِ غنیمت تقسیم ہو جانے کے بعد ایک آدمی بالوں کی ایک لگام لے آیا اور کہا کہ یہ لگام بھی ہم نے مالِ غنیمت میں پائی تھی۔آپؐ نے فرمایا:تم نے بلال کا اعلان جو اس نے تین دفعہ کیا تھا،سنا تھا؟اس نے جواب دیا :ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:پھر بروقت کیوں نہ لے کرآئے؟ اس نے جواب دیا: بس دیر ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو اسے قیامت کے دن لے کرآنا،میں اب تم سے قبول نہیں کر سکتا۔(ابوداؤد)

حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایک غزوہ کیا۔ لوگوں نے جلدبازی میں دوسروں کے اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کردی اور آمد و رفت کے راستے بندکردیے۔جب آپؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے ایک منادی بھیجاکہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ جو اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کرے گا یا راستے بند کرے گا،اس کا جہاد اکارت۔(ابوداؤد)

حضرت ابوالدرداءؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جزیہ کی زمین خریدی،اس نے اپنی ہجرت کا عمل اکارت کردیا، اور جس نے کسی کافر کی گردن سے ذلت کا طوق نکال کر اپنے گلے میں ڈال لیا ،اس نے اسلام کی طرف اپنی پشت کردی۔ (ابوداؤد)

  •  معاملات میں راست نہ ہونا:کسی کو گالی دینے، تہمت لگانے، قتل کرنے سے  انسان کے نماز ،روزہ اور زکوٰۃ دوسرے انسان کو مل جاتے ہیں۔(ترمذی،عن ابوہریرہؓ)

 حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی۔ایک وہ امام جس کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ دوسرے، وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے، دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں۔(ابنِ ماجہ)

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کسی پاکباز عورت پر تہمت لگانے سے سو سال کے عمل برباد ہوجاتے ہیں۔

قرض واپس نہ کرنے سے شہید کا بھی جنت میں داخلہ رُک جاتا ہے۔(نسائی،محمد بن جحشؓ)

حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔(ابن ماجہ)

مندرجہ بالا احادیث میں کلمہ گو مسلمانوں کا ہی ذکر ہے اور ضائع ہونے والی چیز ان کی نیکیاں ہیں۔ اسی لیے علما نے تشریح کی ہے کہ کوئی گناہ ایسا ہےکہ اس سے کوئی مخصوص عمل ہی ضائع ہوتا ہے یا کسی مخصوص مدت کے لیے قبول نہیں ہوتا ۔اور کوئی گناہ ایسا ہے کہ اس کی شدت کے لحاظ سے نیکیاں بھی ضائع ہو سکتی ہیں۔لیکن ان کا کوئی ضابطہ ہم طے نہیں کرسکتے۔ (ترجمان السنۃ،جلد دوم،مولانا بدر عالم میرٹھی)۔ البتہ یہ کہ گناہ کی شدت کے اضافے کے لحاظ سے احتیاط بھی اتنی ہی زیادہ ہونا چاہیے۔ ان سب پہلوؤں سے ایک مومن کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔

  •  ارتداد: پچھلی ساری عمر کی نیکیاں ختم ہونے کی ایک وجہ،ارتداد ہے۔یہاں تک کہ فقہا نے کہا ہے کہ مرتد اگر تجدیدِ ایمان کرے تو اس کے بعد نکاح کی بھی تجدید کرے اور حج دوبارہ کرے:

وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ      ۚ  وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ   ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ   (البقرہ ۲:۲۱۷)

تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ  ط وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ     ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ  O (المائدہ ۵:۵) اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ تم اُن کے مہر ادا کرکے نکاح میں اُن کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو۔ اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔

اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد تنبیہہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:’’جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائےوہ اپنے ایمان و اخلاق کی طرف سے ہوشیار رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو‘‘۔

’ارتداد‘ فقہی مفہوم کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے۔لیکن مومنوں کو ایک عمومی بات کاخیال رہنا چاہیے کہ نیکیوں کے راستے پرچلتے چلتے، وہ راستہ چھوڑنا نہیں چاہیے ، یا کوئی نیک عمل شروع کرکے ترک نہیں کرنا چاہیے۔

مندرجہ بالا حبط شدہ اعمال کی پانچ اقسام میں سے تین کا مقصود ،اللہ اور آخرت پر ایمان نہ ہونا واضح ہے۔گویا دنیوی کام اور اخلاقی امور صرف دنیا کے لیے کرنا یا نیت میں ملاوٹ ہونا۔  قسم چار اور پانچ میں بھی اصل یہ ہے کہ اس انسان کی نیت اور کمٹمنٹ میں ہی فتور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وہ عمل ناقص رہتا ہے۔قسم چارمیں علم کی کمی ،کیفیت کی کمی یا دوسرے اعمال کے ذریعے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے۔قسم پانچ،یعنی دوسری برائیوں کی وجہ سےاچھائیوں کے نمبر منفی اس لیے ہوجاتے ہیں کہ وہ درحقیقت عمل صالح تھے ہی نہیں۔ ابلیس کی پچھلی تمام ریاضتیں اسی لیے ضائع ہو گئیں۔ حدیث میں بھی ایسے انسان کا ذکر ہے جو تمام عمر اچھے کام کرکے آخر میں ایسے عمل شروع کردیتا ہے جو اسے دوزخ میں لے جائیں۔(بخاری،عبداللہ بن مسعودؓ)

  نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان نیکیوں کو بچا کر رکھنے کی بھی فکر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو کہ ہرا بھرا باغ جل چکا ہے اور کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے (البقرہ۲:۲۶۶) ،اور جو بہت اچھا سمجھ کر کیا تھا ، وہ سب بیکار تھا۔ (الکہف۱۸:۱۰۵)

اسی مناسبت سے محترم نعیم صدیقی ؒ نے فرمایا تھا:’یارب میرے سجدوں کو لٹنے سے بچا لے چل‘۔