محبت کا جذبہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا ہے۔ اگر ماں اور باپ میں یہ محبت نہ ہوتی تو آپ اور مَیں، شاید اس دنیا میں آج اس جگہ نہ ہوتے جہاں ہیں۔ اس طرح بھائی بہن کے رشتے کو دیکھیں، قریبی رشتے داروں کی محبت اور استاد کی شاگرد سے شفقت دیکھیے تو محسوس ہوگا کہ محبت کےبغیر تو یہ دنیا ہی ادھوری ہے۔ جن معاشروں میں یہ رشتے ناطے مفقود ہوتے جارہے ہیں وہاں نہ چھوٹے کو بڑے کی خبر اور نہ بڑے کو چھوٹے کی فکر۔ زندگی ہے کہ بس حیوانوں کی طرح گزر رہی ہے۔
شاید اسی لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے محبت و احترام کو لازم قرار دے دیا ہے۔ کیونکہ صبر، تحمل، رواداری، ہمدردی، رحم دلی، ایثار، خیر خواہی، حِلم، بردباری اور بے شمار خوبیاں ایسی ہیں، جن کے سوتے ’سرچشمۂ محبت‘ ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اگر باہمی محبت کا جذبہ ختم ہو کر نفسانیت کی گدلاہٹ چشمۂ دل میں پیدا ہوجائے تو پھر مذکورہ بالا خوبیوں کے بجائے کِبر، حسرت، نفرت، انتقام، تصادم، اشتعال، غیبت، تشدد، جتھے بندیاں، سازشیں اور اس طرح کے دوسرے رذائل انسان کی زندگی پر چھا جاتے ہیں۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔
ہادیٔ برحق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا ایک تقاضا یہ بتایا کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی (یعنی) مسلمان کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (بخاری)،یعنی:
پس، جو جواب تم ان سوالوں سے اپنے لیے چاہتے ہو، وہی اپنے ہر بھائی بہن کےلیے چاہو۔ محبت ہو تو آدمی اپنے اقربا اور رفقا کی خوبیوں اور ان کے فضائل کی قدر کرتا ہے، ان کی کمزوریوں سے درگزر کرتا ہے۔ اور اگر کسی کمزوری کی اصلاح مطلوب ہو تو ایسے خیر خواہانہ انداز سے بات چیت کرتا ہے کہ اختلافات کے پہاڑ، رُوئی کے گالوں کی طرح اُڑ جاتے ہیں۔ محبت دوسروں کے دلوں کو نرم رکھتی ہے اور بند دروازے کھول دیتی ہے ۔ کسی کو بھائی کہہ کر بلانا، پاس بٹھانا، خود اس کے پاس چل کر جانا، اس کے شکوک و شبہات دُور کرنا، اس سے شکایت ہو تو خوب صورت طریقے سے بیان کرنا، یہ سب کچھ بہترین نتائج کا ذریعہ بن جاتا ہے۔محبت ہوتی ہے تو آدمی دوسرے بھائی کو معاف کرنے کےلیے بآسانی رضامند ہوجاتا ہے اور محبت ہی یہ ترغیب بھی دلاتی ہے کہ ایک شخص خود آگے بڑھ کر دوسرے سے اپنی کسی غلطی کی معافی مانگے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کن کاموں سے محبتوں کو ایک دوسرے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دُور کر دی، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ جس نے کسی تنگ دست آدمی کو سہولت بخشی، اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت بخشے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے راوی محمد بن عبداللہؓ بن نمیر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جانے میں اس کا سارا جسم شریک ہو جاتا ہے‘‘۔(مسلم)
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دُور کرتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ (ترمذی)
ایسے میں بالمشافہ ملاقات محبت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔محبت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ ملے، اس کے پاس بیٹھے۔یہ دلوں کو قریب لانے کے لیے مؤثر ترین چیز ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ملاقاتیں ہی تھیں جنھوں نے حضرت عثمان ؓابن عفان، حضرت عبدالرحمٰن ؓبن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت زبیرؓ بن عوام اور ان جیسے بہت سے صحابہ کرامؓ کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو دیکھنے اور ملاقات کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پیچھے ۷۰ ہزار فرشتے ہوتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یہ صرف تیرے لیے جڑا ہے تُو اسے جوڑ دے۔ اگر تم سے ممکن ہو تو اپنے جسم سے یہ (ملاقات کا) کام ضرور لو‘‘۔ (مشکوٰۃ)
ایک صاحب نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے کہا کہ ’’میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنائی کہ ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے، جو میرے لیے باہم مل کر بیٹھتے ہیں ، میرے لیے ایک دوسرے سے ملنے کو جاتے ہیں ، اور میرے لیے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ملاقات سے نہ صرف تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کا اجر بھی بڑا عظیم ہے۔ آئیے عہد کریں کہ محبتوں کو فروغ دینے اور اس کے صلے میں اللہ کی محبت اپنے لیے واجب کرنے کےلیے ہم ایک دوسرے سے ملاقات کو اپنا شعار بنائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت صبح کو کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ شام ہوجائے۔ اور شام کو عیادت کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔ عیادت کرنے والے کے لیے جنت میں میوؤں کے باغات ہیں‘‘۔ (ترمذی)
معروف حدیثِ قدسی کا حصہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، حالانکہ تُو تو رب العالمین ہے؟ اللہ فرمائے گا: کیا تُو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)
اللہ سے دُعا کریں کہ اللہ توفیق و ہمت عطا فرمائے کہ محبتوں کو فروغ دینے کے لیے جہاں کسی بیمار کی اطلاع ملے اُس کی عیادت کریں گے تاکہ اپنے ربّ سے وہاں شرفِ ملاقات حاصل کرسکیں۔
ویسے بھی محبت چمکتے سورج کی طرح ہے کہ اگر اس میں تصنع اور بناوٹ کی آمیزش نہ ہو اور اخلاص کا رنگ ہو تو افعال و کردار سے جھلکتی نظر آتی ہے۔
اخوت اور محبت، ایمان کی لازمی شرط ہے۔ جس کے سامنے اس کے دین کا نصب العین جتنا واضح ہوگا ، اسے اپنے بھائی سے تعلقات اتنے ہی عزیز ہوں گے۔ جب ایک کا دکھ درد دوسرے کا دکھ درد اور ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی بن جائے تو ایسے تعلقات وہ تعلقات کہلائیں گے جو تحریک کو زندگی اور حرارت بخشتے ہیں اور تحریک کی کامیابی کاضامن ہوتے ہیں۔
خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۱۹۹ (اعراف ۷ : ۱۹۹) ، اے نبیؐ! عفو و درگذر کا طریقہ اختیار کرو، نیکی کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ مسلمان جو لوگوں میں ملاجلا رہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے، اس مسلمان سے بہتر ہے جو ملنا جلنا چھوڑ دے اور ایذاؤں پر صبر نہ کرے‘‘(ترمذی)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے خاموش رہے ، تو اللہ ایسے بندے کی زبردست مدد فرماتا ہے‘‘۔
جو دنیا میں اپنے بھائیوں کی خطائیں معاف کریں گے، اللہ آخرت میں اجرعطا فرمائے گا:
وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۲۲ (النور ۲۴: ۲۲) اور چاہیے کہ وہ عفو و درگزر سے کام لیں۔ کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اللہ عزوجل تمھیں بخش دے ؟ اور اللہ تو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا ، اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑے رکھ اور ہمارے تعلقات کی اصلاح فرمادے۔
وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۶۳ (انفال ۸ :۶۳) وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے۔ مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ مہذب انسانی تاریخ۔ انسانوں نے اپنے معبودوں کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیں یہاں تک کہ اپنی جان کی بھی۔ اس کی مثالیں تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ ایک مثال قدیم مصر میں دریائے نیل کے خشک ہونے پر کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر قربان کیے جانے کی ہے۔ جس کو حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں ان کے ایک خط نے ختم کیا۔
قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا حضرت آدمؑ ہی کے زمانے میں شروع ہوا۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے انبیا ؑکے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو سورۂ آل عمران کی آیت ۱۸۳میں بیان فرمایا کہ انھوں نے کہا: ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے‘‘،حالانکہ یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی۔
اُمت محمدیہؐ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت ان کے لیے حلال کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں بلکہ ایک حکمِ شرعی کی تعمیل اور سنتِ ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔ چنانچہ واضح الفاظ میں فرمایا کہلَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۰ۭ(الحج۲۲:۳۷)’’اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔
وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ۰ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۰ۭ (المائدہ ۵:۲۷)اور ذرا انھیں آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو ۔ جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی، اور دوسرے کی نہ کی گئی ۔
امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔ تاہم، عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے۔
سورئہ حج کی آیت ۳۴ میں ہے : ’’اور ہم نے ہر اُمت کےلیے قربانی اس غرض کےلیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ اُسی کی فرماں برداری کرو، اور خوش خبری سنادو اُن لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں‘‘۔
سورۂ حج کی آیت نمبر ۶۷ میں ہے کہ ’’ہم نے ہر اُمت کے لوگوں کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک نحر کے دن( یعنی ۱۰ذی الحجّہ) کو قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں۔ قیامت کے روز قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے نہیں پاتا کہ اللہ کے یہاں مقبول ہو جاتا ہے۔ لہٰذا قربانی دل کی خوشی اور پوری آمادگی سے کیا کرو۔ (ترمذی، ابنِ ماجہ)
ایک اور حدیث میں آتا ہے:صحابہ ؓ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول ؐ اللہ یہ قربانی کیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ اس میں ہمارے لیے کیا اجرو ثواب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ (ترمذی ، ابنِ ماجہ)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے آج کے دن، یعنی بقرعید کے دن ہماری پہلی عبادت نماز اور پھر ذبح کرنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہمارے ساتھ یہ نماز (یعنی بقرعید کی) پڑھے وہ نماز کے بعد ذبح کرے۔
حضرت انَسؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدؐ نے عید الاضحی کے دن فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا اس کو دوبارہ قربانی کرنی چاہیے اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوگئی اور اس نے ٹھیک مسلمانوں کے طریقے کو پالیا۔
یاد رکھیں! ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔ کچھ علمائے کرام نے اسے سنت مؤکدہ سے تعبیر کیا ہے۔ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر آپؐ نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے، حتیٰ کہ اس کا عید گاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔ قربانی درج ذیل چھے شرطوں سے واجب ہوتی ہےـ:’’ مسلمان ہونا، مقیم ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، صاحب نصاب ہوناــ‘‘۔ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ فرضیت ِزکوٰۃ اور وجوب ِقربانی کا نصاب ایک ہی ہے۔ حالانکہ دونوں کا نصاب الگ الگ ہے۔ زکوٰۃ کے لیے نصاب پر سال گزرجانا ضروری ہے لیکن قربانی کے لیے سال گزرجانے کی شرط نہیں ہے بلکہ عیدِ قرباں کے وقت صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے۔
عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجر ہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبۂ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مینارۂ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہوجانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا۔ اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرسکو گے۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورکشاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں۔
چنانچہ آپؐ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ ہرسال قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)
قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندۂ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ (الانعام۶:۱۶۲)۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ،معاشرتی، سماجی اور اُخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔
ہمارا یہ طرزِ عمل نہیں ہونا چاہیے کہ فقط جانور ذبح کردیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکیں۔ قربانی ہمیں درس دیتی ہے کہ
۱-اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعلیٰ منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہنچانے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔
۲- اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع نہیں دے سکتے تو اس کی حسرتوں کاخون بھی نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔
۳-قربانی کا حکم آنے پر ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنابھی گوارا نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ اپنی خواہشاتِ نفس کو اللہ کے حکم کے تابع کردیں۔
۴-ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کے لیے کوئی جانور خرید سکتے ہیں اور نہ کوئی صاحب ِثروت انسان انھیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا حصہ دینا گوارا کرتاہے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ مسلم اُمہ کے ناداروں کی بھوک و پیاس کا خیال رکھیں۔ انھیں اپنے جسم ہی کا ایک حصہ سمجھیں اور ان کی داد رسی پورے سال کرتے رہیں۔
۵-قربانی ہمیں درسِ اخوت دیتی ہے کہ خاندان اور محلوں میں کسی سے بھی کسی بات پر ناچاقی ہوجانے کی صورت میں اپنی انانیت کے بت کوپاش پاش کردیں اور اپنی ضد کی قربانی دیں اور ہر کسی کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں۔
۶- قربانی ہمیں درسِ اجتماعیت دیتی ہے کہ جیسے پوری مسلم اُمہ تین دن مل کر قربانی کے جانور ذبح کرتی ہے، اسی طرح زندگی کے ہر ہر عمل پر ایک ہونے کا مظاہرہ کرے تاکہ اسلام دشمنوں کو جرأت نہ ہوسکے کہ وہ شعائر اسلامی، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی بے حُرمتی تو دور کی بات اُن کا مذاق بھی نہ اُڑاسکیں۔
۷-قربانی ہمیں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کا سبق دیتی ہے کہ جس طرح اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے اس کی راہ میں اللہ اکبر کہہ کر جانور کو ذبح کیا، بالکل اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اُس ربّ کی کبریائی کو نمایاں کریں۔ اپنے رسم و رواج، اپنی ثقافت، وراثت، معاشرت، معیشت، عدالت، سیاست، داخلی معاملات، خارجی معاملات، خانگی معاملات، غرض ہرجگہ پر اللہ کی کبریائی نظر آئے۔
محبت اور نفرت، انسانی نفس کی دو ایسی خصوصیات ہیں، جو بیک وقت انسانی وجود میں موجود ہیں، جو انسانی نفس اور انسانی زندگی کی بڑی وسعتوں پر اثرانداز ہیں۔ بالکل اس طرح جیساکہ خوف اور اُمید کی بیک وقت موجودگی انسانی نفس کی وہ پُراثر خصوصیات ہیں، جو انسانی زندگی کے بیش تر پہلوئوں پر چھائی ہوئی ہیں۔ اسلام نے جس طرح خوف اور اُمید کی خصوصیات کو صحیح رُخ عطا کیا ہے، اسی طرح اس نے انسانی فطرت میں موجود محبت و نفرت کی خصوصیات کو مستحکم کرکے انھیں ہم آہنگی، توازن اور اعتدال بخشا ہے۔ ان کی حقیقی کارکردگی اور عمل کا تعین کیا ہے۔
انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے اور اپنے وجود سے محبت رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ نمایاں ہو، طاقت ور ہو، غالب ہو اور اقتدار کا حامل ہو۔ وہ بہت سی آسائشیں اور بے شمار نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹ لینے کا خواہش مند رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بڑی عمر پائے اور تمام کائنات کا محور و مرکز بن جائے:
وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ۸ۭ(العٰدیٰت۱۰۰: ۸) اور وہ مال و دولت کی محبت میں بُری طرح مبتلا ہے۔
ان خواہشوں، آرزوئوں اور تمنائوں کے حصول میں حائل ہونے والی ہر مادی یا فکری رکاوٹ کو انسان ناپسند کرتا ہے۔ پھر اس انسان سے نفرت کرتاہے، جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنے، جواسے نقصان پہنچائے اور جو اس کے ان حقوق میں حصہ دار بننے کی کوشش کرے، جنھیں وہ محض اپنے لیے مخصوص سمجھتا ہے۔
بہرحال، محبت و نفرت کے جذبات انسان کے نفس کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ اسلام فطرت کے ان میلانات و رجحانات سے برسرِپیکار ہونے کے بجائے، ان کو مہذب اور شائستہ بناتا ہے اور ان کو منظم اور منضبط کرتا ہے۔کیونکہ اگر محبت و نفرت کے جذبات کسی نظم و ضبط کے بغیر انسانی مزاج پر حاوی ہوکررہ جائیں تو وہ جذبات انسانیت کے جوہر کو تباہ اور اس کی قوتوں کو ضائع کردیتے ہیں اور انسان کو غلام بنا لیتے ہیں۔ یہ جذبات نہ صرف دوسروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں بلکہ یہ قوتیں نفس کی گہرائیوں میں باہم متصادم ہوکر خود نفسیاتی وجود کے لیے مہلک بن جاتے ہیں۔
اسی لیے اسلام نے محبت و نفرت کے جذبات پر روح اورعقل کے ضابطے قائم کیے ہیں اور ان ضابطوں کو اللہ کی ذات سے منسوب کر دیا ہے۔ اسلام انسان کو اس بات سے منع نہیں کرتا کہ وہ محض اپنی ذات سے محبت رکھے۔ محبت ایک طاقت ور فطری جذبہ ہے جو انسان کو عمل و کارکردگی اور تعمیروترقی پر اُبھارتا ہے۔ جو ظاہر ہے خود اسلام کے بھی مقاصد ہیں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ انسان بہرطور عمل پر آمادہ رہے۔
مگر اسلام کی نظر میں حُب ِ نفس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ انسان لذتوں کے حصول کے پیچھے دوڑتا رہے بلکہ اسلام کی نظر میں ہروقت لذتوں کے تعاقب میں رہنا، اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ درحقیقت ہرلحظہ نفس کی خواہشات کے تعاقب میں رہنا، نفس کو ہلاکت میں ڈال دینا ہے۔
دراصل اسلام کی نظر میں حُب ِ ذات کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نصیحت کرتارہے اور اس کی صحیح سمت میں رہنمائی کرے، ایسی رہنمائی جو اسے دُنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کی جانب رہنمائی کرے اور آخرت کی فلاح بطورِ خاص ملحوظ ہو۔ اس لیے کہ آخرت کی زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی ہے اور اس کی نعمتیں دائمی ہیں۔ جب کہ دُنیاوی زندگی محض لہوولعب اور فانی زندگی ہے اور دُنیا کی فانی زندگی کو آخرت کی باقی اور دائمی زندگی پر ترجیح دینا حماقت اور نادانی ہے:
اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۰ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۰ۭ (الحدید ۵۷:۲۰) یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی۔ پھروہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔
زندگی کی حفاظت اسی طرح ہوسکتی ہے اور حُب ِ ذات کے فطری جذبے کی تکمیل کا صحیح راستہ یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو شہوتوں کا غلام بننے اور آخرت کی رُسوائی اور عذاب سے بچائے۔
اسلام اسی تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان کے خوف و نفرت کے جذبات کو صحیح رُخ دیتا اور ان کی مناسب رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم جذبۂ حُب نفس کو بروئے کار لانے کے لیے اس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے جذبات محبت بیدار کرتا ہے جو نعمتوں کا حقیقی مرکزوسرچشمہ ہے اور جس نے انسان کو زندگی عطا کی ہے اور انسان کو تمام قوتیں، صلاحیتیں اور خصوصیات بخشی ہیں:
اللہ ہی نے انسان کےلیے روئے زمین پر زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کی ہیں، اور اسے ہرقسم کی آسانیاں بخشی ہیں تاکہ زندگی رواں دواں رہے۔ اور حیاتِ انسانی نکھرتی اورسنورتی رہے:
اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے اور وہ اپنے بندوں کو ان کی قوت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور ہرمعاملے میں اس خدائے برتر نے انسانیت کی بھلائی کا پہلو پنہاں فرما دیا ہے:
مزید برآں یہ کہ اللہ سبحانہٗ اپنے خطاکار اور گناہ گار بندوں کو معاف فرما دیتا ہے:
اسلام اللہ کی پیدا کردہ کائنات سے محبت کا جذبہ اُبھارتاہے اور انسان اور کائنات کے درمیان صداقت اور دوستی کا تعلق قائم کرتا ہے اور باہمی یگانگت اور رشتۂ اخوت استوار کرتا ہے، تعلق عبادت پیدا کرتا ہے کہ کائنات کی ہرشے اسی کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہے اور اللہ سبحانہٗ نے تمام کائنات کو انسان کے مفادات کی تکمیل میں لگا دیا ہے۔ نیز یہ کہ ساری زندہ کائنات اس زمین پر انسان کے ساتھ شریک ِ زندگی ہے اور خاص طور پر بنی نوع انسان ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے تمام انسانوں کے درمیان رشتۂ اخوت اور تعلقِ محبت استوار ہونا چاہیے، اس لیے کہ تمام انسان بلحاظ تخلیق بھی بھائی بھائی ہیں اور بلحاظ رحم بھی آپس میں بھائی ہیں۔ چونکہ ان کے مفادات مشترک اور ان کا آغاز اور ان کا انجام مشترک ہے، اس لیے بھی وہ بھائی بھائی ہیں۔ قرآن اسی تعلق کو انتہائی دل نشین پیرایہ میں بیان کرتا ہے اور انسانی وجدان کو جِلا عطا فرماتا ہے:
اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں بیان کیا گیا ہے:
تَبَسُّمُکَ فِیْ وَجْہِ اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ (ابن حبان، کتاب البر والاحسان، حدیث:۴۷۵، بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۳۲۲۰) تمھارا اپنے بھائی کی خاطر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔
غرض یہ تمام ہدایات انسان کی اس جانب رہنمائی کرتی ہیں کہ انسان باہم پاکیزہ، صاف اور شفاف محبت رکھیں اور اپنی ذات سے محبت میں توازن اور اعتدال قائم رکھیں اور اس کا صحیح مقام پر اظہار کریں اور اپنی ذات کی خاطر دوسرے برادر انسانوں پر ظلم و زیادتی نہ کریں اور دوسروں کے حقوق غصب نہ کریں۔
اسلام نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ شر اور بُرائی کو ہر رنگ اور ہر صورت میں ناپسند کرے اور انھیں بُرا سمجھے۔ اسلام نے حکم دیا ہے کہ ظلم خواہ کسی بھی صورت میں ہو اور کسی بھی نوعیت میں ہو، یہ بہرحال ایک بُرائی ہے جسے بُرا سمجھناچاہیے اور جس کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ جیساکہ حدیث قدسی میں فرمان الٰہی مروی ہے کہ آپؐنے فرمایا :
اسی طرح کسی پر زیادتی کرنا بھی بُرائی ہے اور اس بُرائی اور شر کی مزاحمت کرنی چاہیے:
معاشرے کے کمزور،پچھڑے اور پسے ہوئے لوگوں سے ناانصافی روا رکھنا بھی ’شر‘ ہے۔ اس کو بھی بُرا سمجھنا چاہیے اور اس کی مزاحمت کرنی چاہیے:
بلکہ خود اپنی ذات سے ناانصافی بھی ظلم ہے اور قرآن نے اس کی مزاحمت کا بھی حکم دیا ہے:
زمین میں فساد پھیلانا اور خدا اور رسولؐ سے برسرِ پیکار ہونا اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا بھی ظلم ہے اور شر ہے اور اس شر کو بھی بُرا سمجھنا چاہیے اور اس کا مقابلہ کرنا چاہیے:
تمام کھلی اور چھپی بُرائیاں قابلِ نفرت اور قابلِ مزاحمت شر ہیں:
اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم سے ہر انحراف قابلِ نفرت اور قابلِ مزاحمت شر اور بُرائی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہربُرائی اور ہر شر کا منبع شیطان ہے۔ وہی انسانوں کو بہکاکر شر اور بُرائی کی جانب لے جاتا ہے اس لیے اس سے مکمل نفرت کی جانی چاہیے اور اس سے پوری طرح برسرِپیکار رہنا چاہیے اور اس سے کوئی سمجھوتا اور تعاون نہیں ہونا چاہیے:
مومن اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ساری زندگی باطل کی قوتوں اور شیطانی بُرائیوں کے خلاف برسرِ پیکار رہتا ہے اور شر کی طاقتوں پر خیر کی قوتوں کو غالب کردینے کے جہاد میں مصروف رہتا ہے۔ اس سے اس کی زندگی میں محبت و نفرت میں توازن اور اعتدال پیدا ہوجاتا ہے۔
ہمیں اپنی زندگی میں ایسی منصوبہ بندی کرنے کی عادت ہونی چاہیے کہ آیندہ پوری زندگی اس انداز سے گزرے کہ ہمار ا آج کا دن، گذشتہ کل سے بہتر ہو اور آنے والا دن آج کے دن سے بہتر ہو۔اے اللہ تو ہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی، درمیانے حصے کو بہبودی اور آخری حصے کو کامرانی بنادے، آمین!
یا د رکھیے وقت کو بچایا نہیں جاسکتا بلکہ اسے بہتر طریقے سے استعمال کرنے کو ہی وقت بچانا سمجھا جاتا ہے۔وقت کی بچت کے سلسلے میں سب سے زیادہ مددگار اور معاون وہ شعور اورسوچ ہوتی ہے جو انسان وقت کی نسبت سے اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر پہلوئوں پر ہماری نظر رہنی چاہیے ، جن میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
یہاں وقت بچانے کے حوالے سے مختلف ماہرین کی آرا اور مشوروں کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ماہرین نےاپنے اپنے تمدن و ثقافت اور حالات کے مطابق مشورے دیے ہیں۔چند دن ان مشوروں پر عمل کریں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ نتائج غیر متوقع طور پر کتنے حوصلہ افزا ہیں۔ ہم نے ان مشوروں اور اشارات کو تین گروپس میں تقسیم کیا ہے : l ذاتی یا انفرادی زندگی اور تعلیمی زندگی
بخل، جود و کرم اور سخاوت کی ضد ہے۔ لغت میں ’بخل‘ کے معنی ہیں انسان کے پاس جو کچھ مال و دولت ہے اس کو روک کر رکھنا، دوسروں کو نہ دینا اور خرچ نہ کرنا۔ اس کے اصطلاحی معنی علامہ راغب اصفہانی کے نزدیک یہ ہیں: بخل، ضروریاتِ زندگی کو روک کر رکھنا، جن اُمور میں خرچ کرنا لازمی ہو، ان میں خرچ نہ کرنا۔ علامہ ابن حجر نے بخل کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: اَلْبُخْلُ ھُوَ مَنْعُ مَا یُطْلَبُ مِـمَّا یُقْتَضٰی (بخل ان ضروریات پر خرچ نہ کرنے کا نام ہے جن پر خرچ کرنا وقت اور حالات کا تقاضا ہو)۔ القیومی نے کہا ہے: اَلْبُخْلُ فِی الشَّـرْعِ ھُوَ مَنْعُ الْوَاجِبِ (شریعت میں بخل واجبی خرچ سے رُکنے کا نام ہے)۔
’بخل‘ ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے ۔ جس شخص کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، وہ خود دنیا کی ساری چیزوں کا مالک بن کر رہنا چاہتا ہے، لیکن کسی کو کچھ بھی نہیں دینا چاہتا۔ اس کے دل و دماغ میں خودغرضی اور خودنمائی سمائی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے ہر رویے سے تنگی جھلکتی ہے۔ مزاج و طبیعت میں بخل نظر آتا ہے۔ اس مزاجی کیفیت کی جھلک کبھی مال و دولت میں دکھائی دیتی ہے، کبھی علم و فن میں اس کا رنگ ظاہر ہوتا ہے اور کبھی اخلاق و عادات اور رویے میں اس کی آہنگ سنی جاتی ہے۔
بخیل شخص مال و دولت پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے ، نہ خود کھاتا ہے، نہ دوسروں کو کھانے دیتا ہے۔ وہ اگر عہدے اور منصب کو حاصل کرلیتا ہے یا پھر قوت و طاقت کا مالک بن جاتا ہے تو سارے اختیارات اپنی مٹھی میں رکھتا ہے۔ اس کے ماتحت کام کرنے والے پریشان رہتے ہیں۔ پورا نظام تباہ و برباد ہوکر رہتا ہے۔ اسی طرح بخیل شخص اگر علم و فن کے خزانوں پر قابض ہوجاتا ہے تو اس کے فیض سے انسانیت محروم رہتی ہے۔ قرآن نے اس طرح کے رویے پر سخت وعید سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہِ ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۰) ’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا، جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس ہے چھپائے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسولؐ کے بعد سب سے بڑا سخی وہ شخص ہے جس نے علم کو سیکھا اور اس کو پھیلایا‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب العلم)۔
بخیل شخص کے اخلاق، معاملات اور رویے میں بھی تنگی کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے۔ وہ شفقت، ہمدردی، احسان، رواداری،حُسنِ سلوک جیسے اوصاف سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ دوسروں کو پھلتا پھولتا، خوش حال اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کی ذات سے دوسروں کو کلفت اور زحمت ہی ملتی ہے۔ اسے پھول سے الجھن ہوتی ہے، وہ راستوں میں کانٹے ڈالنے کا ہی کام کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رویے پر ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۵ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۶ۙ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۷ۧ (الماعون۱۰۷: ۴ - ۷) پھر تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں میں غافل رہتے ہیں اور جو دکھاوا کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی معمولی چیزوں کو مانگنے پر نہیں دیتے۔
دین اسلام نے انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے کام آنے کی تعلیم دی ہے۔ حدیث میں انسانوں کی پریشانیوں کو دُور کرنے اور انھیں خوش کرنے کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نیکی کا حکم دینا، بُرائی سے روکنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادینا، بہرے کو بات سمجھا دینا، اندھے کو راہ دکھا دینا، کمزوروں کو سواری پر چڑھا دینا، اچھی اور پیاری باتیں بولنا، یہاں تک کہ اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے‘‘ (بخاری، مسلم ابن حبان)۔
لوگوں کے لیے سلامتی اور بھلائی کی دُعا نہ کرنا بھی بخل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَبْخَلُ النَّاسِ مَنْ بَخِلَ بِالسَّلَامِ (ابن حبان، الصحیح الالبانی)’’وہ شخص بہت بڑا بخیل ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلْبَخِیْلُ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ (ترمذی، حسن صحیح) ’’بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود و سلام نہ بھیجے‘‘۔
اچھے جذبات اور احساسات کا اظہار نہ کرنا بھی بخل ہے۔ اس کوتاہی سے کتنے خاندان بکھر جاتے ہیں، کتنے جوڑے بچھڑ جاتے ہیں، بچے یتیم ہوجاتے ہیں، گھر اُجڑ جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف دوسروں کے لیے بہتر جذبات و احساسات کا اظہار کرنے سے تعلقات استوار ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ وَأَنَـا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ (ترمذی) ’’تم میں بہتر شخص وہ ہے جو تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں‘‘۔
بہت سے بچے جذبات کے بخل کی وجہ سے گوشہ گیر ہوجاتے ہیں۔ انھیں انسانوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ مزاج میں چڑچڑاپن اور یک رُخا پن آجاتا ہے۔ بعض بچے تشدد اورانحراف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ سکون کی تلاش میں نشہ آور چیزیں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ رقم نہ ملنے کی صورت میں انھیں چوری کی لت لگ جاتی ہے۔ پھر وہ ہر طرح کی سماجی بُرائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
بخیل شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے: ’چمڑی چلی جائے دمڑی نہ جائے‘۔ وہ جسمانی طور پر بڑے سے بڑا خسارہ برداشت کر لیتا ہے لیکن اس کے ہاتھ سے چند سکّے نہیں نکلتے۔ وہ دولت کے لیے سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ اخوت، محبت، رشتہ، عزت، ہرچیز کو دولت جمع کرنے کی ہوس میں ضائع کر دیتا ہے۔ ایسے انسان سے لوگ دُور رہتے ہیں۔ ان سے تعلقات باقی نہیں رکھنا چاہتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
السَّخِیُّ قَرِیْبٌ مِنَ اللہِ ، قَرِیْبٌ مِنَ الْجَنَّۃِ ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّاسِ ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّارِ، وَالْبَخِیْلُ بَعِیْدٌ مِنَ اللہِ ، بَعِیْدٌ مِنَ الْجَنَّۃِ ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّاسِ ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّارِ (ترمذی، دارقطنی) سخی اللہ سے قریب ہوتا ہے، جنّت سے قریب ہوتا ہے، لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جہنم سے دُور ہوتا ہے۔ بخیل اللہ سے دُور ہوتا ہے، جنّت سے دُور ہوتا ہے، لوگوں سے دُور ہوتا ہے اور جہنم سے قریب ہوتا ہے۔
وہی چیز باقی رہتی ہے جو نفع بخش ہو، اور جو نفع بخش نہ ہو اللہ اس کو مٹا دیتا ہے:
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً ۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ ۰ۭ (الرعد ۱۳:۱۷) جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔
انسانی تعلقات کو خراب کرنے میں تنگ دلی اور شُح نفس اور بخل کا اہم کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تباک و تعالیٰ نے مرد اور عورت کے تعلقات کی خرابی کے موقعے پر ارشاد فرمایا: وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ (النساء۴:۱۲۸) ’’نفس تو تنگ دلی کی طرف جلد ہی مائل ہوجاتے ہیں‘‘۔
تنگ دل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے تعلقات منقطع کرلیتے ہیں، جب کہ کشادہ دل اور سخی افراد لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ عفوو درگزر سے کام لیتے ہیں۔ ایسے میں لوگوں سے ان کے خوش گوار تعلقات باقی رہتے ہیں۔ عربی کا شاعر کہتا ہے:
اِذَا قَلَّ مَالُ الْمَرْءِ قَلَّ صَدِیْقُہٗ
ضَاقَتْ عَلَیْہِ أَرْضُہٗ وَسَمَاءُہٗ
[انسان کی فیاضی اور سخاوت میں جب کمی آجاتی ہے، تو اس کے دوست کم ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے زمین و آسمان تنگ ہوجاتے ہیں]۔
تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَالدِّرْھَمِ وَالْقَطِیْفَۃِ وَالْخَمِیْصَۃِ اِنْ اُعْطِیَ رَضِیَ وَاِنْ لُمْ یُعْطَ لَمْ یَرْضَ (بخاری) ہلاک و برباد ہوں درہم و دینار کے بندے، ہلاک و برباد ہوں ریشم و حریر کے خوب صورت کپڑوں کے بندے۔ اگر اسے عطیہ دیا جائے تو خوش ہوتا ہے اور اسے کچھ نہ دیا جائے تو ناراض ہوتا ہے۔
عربی کا شاعر کہتا ہے ؎
یُظْھِرُ عَیْبَ الْمَرْءِ فِی النَّاسِ بُخْلُہٗ
وَیَسْتُرُہٗ عَنْھُمْ جَمِیْعًا سَخَاؤُہٗ
[آدمی کا بخل لوگوں میں اس کے عیوب کو کھول دیتا ہے، اور فیاضی اور سخاوت انسان کے عیبوں پر پردے ڈال دیتی ہے۔]
خون خرابہ اور قتل : بخیل شخص مال سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ہے اور اس کے اعزہ و اقارب، مفلوک الحال اور پریشان رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان کے دل میں اس سے نفرت کی آگ بھڑکتی ہے۔آئے دن اخبارات میں ایسی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں جن سے بخل اور کنجوسی کا تعلق جڑتا ہے۔ بخل کی وجہ سے لوگوں کے حقوق غصب ہوتے ہیں اور ظلم ہوتا ہے اور ہرظلم تباہی و بربادی پر منتج ہوتا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:
اِتَّقُوْا الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَاتَّقُوْا الشُّحَّ فَاِنَّ الشُّحَّ أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حَمَلَھُمْ عَلٰی أَنْ سَفَکُوْا دِمَاءَ ھُمْ وَاسْتَحَلُّوْا مَحَارِمَھُمْ (مسلم) ظلم سے بچو، ظلم قیامت کے دن انسان کے لیے تباہی کا ذریعہ ہوگا۔ بچو بخل اور شُحِ نفس سے۔ نفس کی تنگی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک و برباد کردیا ہے، کیونکہ اسی چیز نے انھیں خون خرابہ پر آمادہ کیا اور عزت و ناموس کوبرباد کیا۔
اگر پوری قوم کے اندر بخل کی روش پیدا ہوجائے تو اللہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر کہیں وہ تمھارے مال میں سے مانگ لے اور سب کا سب تم سے طلب کرلے تو تم بخل کرو گے اور وہ تمھارے کھوٹ اُبھارلائے گا، دیکھو تم لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ اس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کرتے ہیں حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے۔ اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘ (محمد۴۷: ۳۷-۳۸)۔
بخل کی شدت جہاں دین و ایمان کو کھا جاتی ہے، وہیں اس سے دلوں میں نفاق بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ انسانی سماج کی بہت ساری بُرائیاں اس کے بطن سے پیدا ہوتی ہیں۔ حرص، طمع، شُح نفس، تنگ دلی، تنگ ظرفی، بددیانتی، بے مروتی، بے رحمی، بزدلی، پست ہمتی، نفرت، بُغض و عداوت، حسد، یہ وہ سماجی بُرائیاں ہیں جن کا کہیں نہ کہیں رشتہ بخل سے جاملتا ہے۔
اسلام نے زکوٰۃ، نفلی انفاق اور صدقات کی ترغیب دے کر اس کی مکمل بیخ کنی کی ہے۔ مسکینوں کو کھانا نہ کھلانے، اور ان پر رحم نہ کرنے کو جہنم میں جانے کا سبب بتایا ہے:
مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ(مدثر۷۴:۴۲) تم کو دوزخ میں کیا چیز لے گئی؟ کہیں گے: ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔
سورئہ ہمزہ میں بخیل کی اس خام خیالی پر ضرب لگائی گئی ہے کہ مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا: الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ۲ۙ يَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ۳ۚ كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَۃِ۴ۡۖ (الھمزہ۱۰۴:۲-۴) جس نے مال کو اکٹھا کیا اور اس کو گن گن کر رکھا کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا، ہرگز نہیں، وہ ضرور دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
بخل کی انھی تباہ کاریوں کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو خصلتیں مومنوں میں جمع نہیں ہوسکتی ہیں: بخل اور بدخلقی (ترمذی)۔فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، ’’اے اللہ! میں بزدلی اور بخل سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ (ابوداؤد)۔
اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ۱۲۸ۧ (النحل۱۶:۱۲۸) بے شک اللہ پرہیز گاروں اور احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۴ (التوبۃ۹:۴،۷) بے شک اللہ پرہیز گاروں سے محبت رکھتا ہے۔
وَاللہُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ۱۹ ( الجاثیہ ۴۵:۱۹) اللہ تقویٰ والوں کا کارساز ہے۔
یہ آیات اس حقیقت کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ گناہ سے اجتناب سے انسان کو اللہ کی رحمت اور اس کی نصرت نصیب ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے ہیں اور پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں، ا للہ ربُّ العزت انھیں پسند فرماتا ہے، اور جسے اللہ پسند فرمائے اور جسے مالک الملک اپنی نصرت کا یقین دلائے ،اس کی سرخروئی و کامیابی میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے ۔
ان آیات سے اللہ کی نگاہ میں تقویٰ والوں کا محبوب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ تقویٰ ،جیسا کہ بخوبی معروف ہے، ایک ایسی باطنی صفت یا اندرونی خوبی کا نام ہے جو انسان میں گناہ سے نفرت اور نیکی کی رغبت پیدا کرتی ہے۔ اس صفت سے متصف یا متقی ہونے کا مطلب ہی ہے اللہ کی عظمت و کبریائی کے احساس، اس کے خوف اور روزِ جزا باز پرس کے ڈر سے گناہوں سے بچنے والا اور خیر کی راہ میں آگے بڑھنے والا۔ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری و باز پرس کا احساس ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی سے بچاتا ہے اور گناہوں سے دور رکھتا ہے۔ گناہ سے اپنے کو دُور رکھنا (جس کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے) بہت بڑی نیکی ہے۔ اسے دیگر متعدد آیات میں ’احسان‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ نکتہ ان آیات سے بھی منکشف ہوتا ہے، جن میں اللہ کے سامنے حاضری و جواب دہی کے خوف سے اپنے کو ہوا وہوس، یعنی گناہ کے کاموں سے بچنے والوں کو جنّت کی بشارت دی گئی ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۴۰ۙ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰى۴۱ (النٰزعٰت: ۷۹ :۴۰-۴۱) اور جو بھی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو بے جا خواہشات سے دور رکھا تو جنّت اس کا ٹھکانا ہے۔
یہاں یہ پیشِ نظر رہے کہ گناہ سے اجتناب اللہ کی نگاہ میں اس وجہ سے محبوب ہے کہ اس میں نفس کے خلاف مجاہدہ ،خواہشات کی قربانی اور رضائے الٰہی کی خاطر لذائذ و مرغوبات کو تیاگ دینا ہے۔ ایک حدیث میں نفس کے خلاف جہاد کرنے والے کو اصل مجاہد کہا گیا ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:
المُجَاھِدُ مَن جَاھَدَ نَفسَہٗ ،مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔ (جامع ترمذی، ابواب فضائل الجہاد،باب ماجاء فی فضل فی من مات مرابطاً ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں: سید سلیمان ندوی ،سیرۃ النبیؐ ، محولہ بالا، ۵؍ ۲۷۶ )
قرآن کریم میں انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اللہ کی عبادت کو قرار دیا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۵۶ (الذاریٰت۵۱:۵۶) ’’اور میں نے جن وانسان کو اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے‘‘ ۔ حقیقت یہ کہ ممنوعات یا گناہوں سے بچنا اللہ کی عبادت و بندگی کا تقاضا ہے۔بلاشبہہ اللہ کی عبادت کا تقاضا اسی وقت پورا ہوسکتا ہے،جب عبادت بجا لانے والا اپنے کو اللہ ربُّ العزت کی مرضیات کے حوالے کردے ، ہر معاملہ میں اس کی اتباع کرے اور ان تمام کاموں سے اپنے کو دُور رکھے جو اللہ کی ناراضی کا موجب بنتے ہیں۔
یہ بات یقینی ہے کہ منہیات سے قریب جانا اللہ کی ناراضی مول لینا ہے اور ان سے کُلّی اجتناب کرنا خوشنودیِ الٰہی کا مستحق بننا ہے۔ اس لیے کہ گناہ سے اجتناب میں بڑی آزمایشوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ان میں سب سے سخت آزمایش اندرونی و بیرونی دشمن ( نفس و شیطان) سے جنگ ہے۔ اہم بات یہ کہ حدیث میں اس شخص کو سب سے بڑا عبادت گزار(أَعْبَدَ النَّاسِ) بتایا گیا ہے جو ’ محارم‘ ( حرام چیزوں) سے بچے ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ایک طویل حدیث ِ نبویؐ کا پہلا حصہ ملا حظہ ہو: اتَّقِ المَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ(جامع ترمذی،ابواب الزہد عن رسولؐ اللہ،باب من اتّقٰی المحارم اعبد الناس )۔ حرام کاموں سے بچو تو سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے۔اس حدیث کے حوالے سے نامور فقیہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی یہ وضاحت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔خود انھی کے الفاظ میں:’’ پہلا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ اتَّقِ المَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ ،یعنی تم حرام کاموں سے بچو تو تم تمام لوگوںمیں سب سے زیادہ عبادت گذار بن جاؤ گے۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملہ کے ذریعے یہ حقیقت واضح فرما دی کہ فرائض وواجبات کی تعمیل کے بعد سب سے زیادہ اہم چیز مومن کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ناجائز وحرام کاموں سے بچائے،نفلی عبادتوں کا معاملہ اس کے بعد آتا ہے۔اگر کوئی شخص اس دنیا میں اپنے کو گناہوں سے بچالے تو ایسا شخص سب سے زیادہ عبادت گزار ہے،چاہے وہ نفل زیادہ نہ پڑھتا ہو۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کے ذریعے ایک بہت بڑی غلط فہمی کا ازالہ فر مایا ہے، وہ یہ کہ ہم لوگ بسااوقات نفلی عبادتوں کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں،مثلاً نوافل پڑھنا، تسبیح، مناجات،تلاوت وغیرہ،حالانکہ ان میں سے کوئی ایک کام ایسا نہیں ہے جو فرض ہو۔ چاہے نفلی نمازیں ہوں،یا نفلی روزے ہوں یا نفلی صدقات ہوں،ان کوتو ہم نے بڑی اہمیت دی ہوئی ہے، لیکن گناہوں سے بچنے کا اور ان کو ترک کرنے کا اہتمام نہیں۔یاد رکھیں کہ یہ نفلی عبادات انسان کو نجات نہیں دلا سکتیں،جب تک انسان گناہوں کو نہ چھوڑے‘‘۔(اصلاحی خطبات، کتب خانہ نعیمیہ،دیوبند،۲۰۰۷ء، جلد۱۶،ص ۹۰-۹۱)
انسان کے جسمانی نظام میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی صحت و درستی پر نہ صرف جسمانی نظام کی بہتری و عمدہ کارکردگی منحصر ہوتی ہے، بلکہ فکر ی و عملی نظام کی اصلاح و پاکیزگی بھی اسی پر موقوف ہے۔ اللہ کی نگاہ میں محبوب بننے اور اس کی قربت سے مشرف ہونے کے لیے قلب کی تطہیر،نفس کا تزکیہ، یعنی بُرے خیالات کی آلودگی و گناہ کی آلایشوں سے دل کو صاف رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر دل اللہ کی محبت کے لائق نہیں بن سکتا۔ یہ حقائق ان آیات کی روشنی میں اچھی طرح سمجھے جاسکتے ہیں جن میں یہ ذکر ملتا ہے کہ اللہ ربّ العزت کن لوگوں کو پسند فرماتا ہے اور کن کو ناپسند ۔ قرآن کے مطابق اللہ ان لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے جو کفر و انکارِ حق، ظلم و زیادتی، فتنہ و فساد، کبر و غرور،خیانت و بد دیانتی،اسراف و فضول خرچی اور ناشکری یا کسی بھی گناہ کے کام میں مبتلا ہیں ( آل عمران ۳: ۳۲ ؛ ا لروم۳۰:۴۵؛ البقرۃ۲:۱۹۰؛ آل عمران ۳:۵۷،۱۴۰؛ المائدۃ ۵:۸۷؛ الشوریٰ۴۲:۴۰ ؛ البقرۃ ۲:۲۰۵؛ المائدۃ۵:۶۴؛ القصص ۲۸: ۷۷؛ النساء ۴:۳۶؛ النحل ۱۶:۲۳؛ الحدید۵۷:۲۳ ؛ القصص ۲۸:۶ ۷ ؛ النساء۴:۱۰۷؛ الانفال۸: ۵۸؛ الحج۲۲: ۳۸ ؛ الاعراف ۷:۳۱ ؛ البقرۃ ۲:۲۷۶ )۔
l آفات و مصائب کاسبب:اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال کیسے موجبِ خیر بنتے ہیں اور اسے ناراض کرنے والے اعمال کس طرح انسان کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں؟ اس کی وضاحت ایک حدیث قدسی سے ملتی ہے۔ حضرت ابو درداءؓ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم یہ ہے کہ فرمانِ الٰہی ہے کہ میں اللہ ہوں،میرے سوا کوئی معبود نہیں۔میں بادشاہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔میں بادشاہوں کا مالک ہوں، بادشاہوں کا بادشاہ ہوں… لہٰذا اے میرے بندو! [ایسی حالت میں ] ان بادشاہوں کو کوسنے اور انھیں بد دُعا دینے کے بجائے میری یاد میں لگ جاؤ اور [حالات میں تبدیلی کے لیے] ذکر اورتضرع ( رو نے اور گڑگڑانے ) میں مصروف ہوجاؤ۔ میں ان بادشاہوں ( کے شر سے حفاظت کے) لیے تمھاری کفایت کروں گا،یعنی تمھیں اپنی نصرت سے نوازوں گا (محمدابن عبداللہ الخطیب تبریزی، تحقیق : محمد ناصر الدین الالبانی)، مشکوٰۃ المصابیح [کتاب الامارۃ والقضا، الفصل الثالث]، منشورات المکتب الاسلامی، دمشق، ۱۳۸۱ھ؍ ۱۹۶۱ء ، ۲؍ ۳۲۸۔۳۲۹)۔
بلاشبہہ گنا ہ کا ارتکاب،چاہے صغیرہ ہو یا کبیرہ، اللہ کی نافرمانی ہے۔ ( اگر اس کی معافی نہیں ہوئی تو ) ا نسان دنیا میں بھی اس کے وبال سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔اس کا خمیازہ کسی نہ کسی صورت میں اسے بھگتنا پڑتا ہے یا پڑے گا ۔ قرآن و حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ برے اعمال یا گناہ کے کام اللہ کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا وبال پریشانیوں و مصیبتوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۴۱( الروم۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں ہر طرف فساد برپا ہوگیا لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے،تاکہ وہ انھیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید وہ اللہ سے رجوع کر لیں[ اور بُرے اعمال سے باز آجائیں ] ۔
صاحبِ معارف القرآن تفسیر روح المعانی کے حوالے سے اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’ فساد سے مراد قحط اور وبائی امراض اور آگ لگنے اور پانی میں ڈوبنے کے واقعات کی کثرت اور ہر چیز کی برکت کا مٹ جانا،نفع بخش چیزوں کا نفع کم نقصان زیادہ ہو جا نا وغیرہ آفات ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان دنیوی آفات کا سبب انسان کے گناہ اوراعمالِ بد ہوتے ہیں،اور یہی مضمون ایک دوسری آیت میں اس طرح آیا ہے: وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۳۰ۭ (الشوریٰ ۴۲:۳۰ ) تمھیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمھارےہاتھوں کی کمائی کے سبب ہے،یعنی ان معاصی کے سبب جو تم کرتے رہتے ہو اور بہت سے گناہوںکو تو اللہ تعالیٰ معاف ہی کردیتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمھارے گناہ ہوتے ہیں۔گرچہ دنیا میں نہ ان گناہوں کا پورا بدلہ دیا جاتا ہےاور نہ ہر گناہ پر مصیبت و آفت آتی ہے،بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کردیا جاتا ہے۔بعض گناہ پر ہی گرفت ہوتی ہے اور آفت و مصیبت بھیج دی جاتی ہے۔اگر ہر گناہ پر دنیا میں مصیبت آیا کرتی تو ایک انسان بھی زمین پرزندہ نہ رہتا،مگر ہوتا یہ ہے کہ بہت سے گناہوں کو حق تعالیٰ معاف ہی فرمادیتے ہیں اور جو معاف نہیں ہوتے ان کا بھی پورا بدلہ دنیا میں نہیں دیا جاتا،بلکہ تھوڑا سا مزہ چکھایاجاتا ہے، جیساکہ اسی آیت کے آخر میں فرمایا: لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِىْ عَمِلُوْا (الروم ۳۰:۴۱)،یعنی تاکہ چکھا دے اللہ تعالیٰ کچھ حصہ ان کے بُرے اعمال کا‘‘ (معارف القرآن، مکتبہ مصطفائیہ،دیوبند، ۶؍ ۷۵۲-۷۵۳) ۔
مذکورہ بالا آیت کی اس ترجمانی کے حوالے سے یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ انبیا کرامؑ اور اللہ کے نیک و متقی بندے بھی مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ اس کا جواب مفسرین نے اس طور پر دیا ہے کہ آیت میں گناہوں کو مصائب کا سبب ضرور بتایا گیا ہے ،لیکن اسے علتِ تامّہ یا سببِ واحد کے طور پر نہیں ذکر کیا گیا ہے، یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب بھی کسی پر کوئی مصیبت آپڑے اس کا گنہگار ہونا لازمی ہے۔بعض اوقات مصائب و مشکلات آزمایش و امتحان اور اس سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے کی صورت میںرفعِ درجات کے لیے ہوتی ہیں۔انبیا کرامؑ کے تعلق سے مصائب و پریشانیوں سے یہی مقصود رہا ہے اور کسی بھی دور میں نیک لوگوں کے مصائب و پریشانی سے دوچار ہونے پر ان کی یہی علّت یا حکمت سمجھنی چاہیے(معارف القرآن، ۶؍۷۵۴-۷۵۵)۔
ا وپر کی باتوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انسان کے لیے مصائب و مشکلات سے نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ ربِّ کریم کو راضی کر لے ،یعنی اپنے آپ کو ان تمام کاموں سے دور رکھے جنھیں اللہ تعالیٰ نا پسند فرماتا ہے ۔ بلاشبہہ گناہوں سے بچنے سے اللہ کی خوش نودی نصیب ہو تی ہے اور یہ بالآخر موجبِ رحمت و قربتِ الٰہی بنتی ہے ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ البقرۃ میں اوامر یا نواہی کے ذکرکے بعد نو مقامات پر فرمانِ الٰہی ہے: وَاتَّقُوْااللہَ۔اس آیت کا ترجمہ مختلف طور پر (اللہ سے ڈرو، اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرو، اللہ کی ناراضی سے بچو،اللہ کے غضب سے بچو) کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ کہ یہ اللہ کا خوف ہی ہے جو انسان کو اللہ رب العزت کی نافرمانی،اس کی ناراضی کے کاموں یا اس کے غضب سے بچنے پر اُبھارتا ہے۔
اسی ضمن میں اس جانب متوجہ کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گنا ہ کا ایک دنیوی وبال یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان نیک عمل کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے، اور گناہ سے بچنے کا ایک فیض یہ ہے کہ اس سے نیک اعمال کی توفیق نصیب ہوتی ہے ۔ یہ نکتہ خود قرآن کریم کی بعض آیات سے سامنے آتا ہے۔ سورۃ المومنون کی آیت:۵۱ يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۰ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۵۱ۭ ’’ اے رسولوؑ! پاک چیزیں کھاؤ اور عمل صالح کرو،بے شک میں اس سے با خبر ہوں جو تم کرتے رہتے ہو‘‘کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے یہ واضح فرمایا ہے : ’’علما نے فرمایا کہ ان دونوں( پاک روزی و عملِ صالح) کو ایک ساتھ لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ حلال غذا کا عملِ صالح میں بڑا دخل ہے۔جب غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے اور غذا حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس میں مشکلات حائل ہوجاتی ہیں ‘‘ (معارف القرآن، ۶؍ ۳۱۶)۔ بلا شبہہ حرام مال کمانا اور اسے استعمال کرنا سخت گنا ہ ہے۔ اس کے بہت نقصانات میں سے یہ بھی ہے کہ آمدنی یا مال سے برکت اُٹھ جاتی ہے، جسمانی، ذہنی و فکری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اور حرام مال سے اولاد کی پرورش پر بھی اس کا بُرا اثر پڑتا ہے۔
ایک جدید عربی تفسیر’ نظرات فی کتاب اللہ کی مؤلفہ محترمہ زینب الغزالی نے بھی مذکورہ آیت کے حوالے سے حلال روزی کی برکات کو بڑے اچھے انداز میں واضح کیا ہے۔ متعلقہ حصہ کا اردو ترجمہ ملا حظہ ہو: ’’ پھر اللہ نے اپنے رسولوں اور تمام مخلوقات کو حکم دیا کہ وہ حلال اور پاکیزہ کما ئی کھائیں اور نیک اعمال کریں۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حلال عملِ صالح میں معاون بنتا ہے۔ اللہ سبحانہٗ ظاہراو ر باطن ہر چیز سے واقف ہے۔حلال کی تلاش برکت کا سبب ہے۔اسی طرح حلال کی تلا ش سے انسان کو عمل صالح میں تعاون ملتا ہے۔حلال کھانے کا نفس پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے،جس کے نتیجے میں نفس خیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور برائی سے باز رہتا ہے،کیوں کہ بدن کی غذا اگر حرام ہے تو بدن پر تاریکی چھا جاتی ہے ،اگر حلال ہے تو جسم میں نور اور صالح قوت پیدا ہوتی ہے جو ہدایت کا سبب بنتی ہے‘‘ (زینب الغزالی، اردومترجم:عبد الحمید اطہر ندوی،نظرات فی کتاب اللہ، المنار پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،۲۰۲۰ء،۲؍۴۹۸)
l دُعا کی قبولیت:مزید یہ کہ گناہوں سے اجتناب کی ایک بہت بڑی برکت یہ ہے کہ اس سے دعاؤں کی قبولیت کی راہ ہموار ہوتی ہے،یعنی رزقِ حلال استجابتِ دعا کا مستحق بنا تا ہے ۔ دوسری جانب یہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ حرام کمائی دعاؤں کی قبولیت میں حارج بنتی ہے۔ ہادیِ برحق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکلِ حلال کی تعلیم دیتے ہوئے ایک دفعہ مذکورہ بالا آیت اور سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۶۸ (يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِـمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا)کی تلاوت فرمائی اور پھر صاف لفظوں میں واضح کیا کہ حرام روزی کھانے والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی، خواہ وہ بار باردونوں ہاتھ پھیلا کر رب سے دعا کیوں نہ کرتے رہیں۔ اس حدیث میں بڑی عبرت و نصیحت ہے:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! اللہ پاک ہے اور پاک چیزہی قبول کرتا ہے اور اللہ نے جس کا م کا حکم پیغمبروں کو دیا تھا اسی کا حکم مومنوں کو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں سے فرمایا ’’تم سب پاک چیز کھاؤ اور تم جوکچھ کروگے میں اس سے با خبر ہوں‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے مو منین سے فرمایا ’’مومنو! ہم نے جو چیزیں تم کو عطا کی ہیں ان میں سے پاک چیزیں کھاؤ‘‘۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا ذکر کیا جس نے لمبا سفر اختیار کیا اور جس کے بال پریشاں و گرد آلود ہورہے ہیں اور وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر کہہ رہا ہے: اے پروردگار، اے پروردگار (یعنی دعا مانگ رہا ہے) [ لیکن حالت یہ ہے کہ ] اس کا کھانا بھی حرام، پینا بھی حرام ہے، لباس بھی حرام ہے اور غذا بھی حرام۔ پھر کیوں کر اس کی دعا قبول ہوسکتی ہے] ۔ (صحیح مسلم )
مزید اہم بات یہ کہ روزانہ صبح کو جن دعاؤں کا مانگنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا ہے، ان میں یہ دُعا بھی شامل تھی:
اللّٰھُمَّ اَنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَ رِزْقًا طَیَّبًا وَ عَمَلًا متقبّلًا (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب یقالُ بعد التسلیم) اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم ، پاک روزی او ر ( تیری بارگاہ میں ) مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کی توفیق طلب فرماتے تھے ان کے موجبِ خیر و برکت ہونے میں کیا شبہہ ہو سکتاہے۔
مختصر یہ کہ گناہ کے ارتکاب کے دنیوی و اخروی نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان اللہ ربّ العزت کی ناراضی ہے۔ سچ یہ کہ جس سے اللہ ناراض ہوجائے اسے کہاں پناہ مل سکتی ہے؟ بلاشبہہ ہر انسان ہر حال میں اللہ کی مدد کا محتاج ہوتا ہے اور ہر ایک اس کی نصرت کا طلب گار ہوتا ہے۔ قرآن کا بہت ہی صاف صاف اعلان ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ۰ۚ وَاللہُ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۱۵ (فاطر۳۵ :۱۵) اے لوگو! تم سب ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اوراللہ( ہر حال میں) لائقِ حمد و ستایش ہے۔
موجودہ حالات میں ، جب کہ طرح طرح کے مصائب و مسائل کا سامنا ہے،اللہ سے رجوع اور اس کی نصرت طلب کرنے کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔اس لیے یہ ہمارے لیے انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان تمام کاموں سے دور رکھیں جو اللہ کو ناپسند ہیں، گناہ سے خود بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔ بلا شبہہ اللہ کو راضی کرنے کا یہ بڑا مؤثر ذریعہ ہے ۔ حقیقت یہ کہ ربِ کریم کو راضی کیے بغیر ہمارا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں اور نہ مصائب و مشکلات ہی سے نجات ملنے والی ہے۔ اللہ کرے یہ حقیقت اچھی طرح ہم سب کے ذہنوں میں بیٹھ جائے۔
دعوت وتبلیغ کے دوران قرآن سنانے کا التزام جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، اسی چیز کا اہتمام کرنا آپؐسے تربیت پانے والے صحابہ کرامؓ کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔
نبوت کے پانچویں سال قریش کے مظالم سے تنگ سو کے قریب مسلمان مردوخواتین جب ہجرت کر کے حبشہ پہنچ گئے تو قریش کو یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ ان کے آبائی دین کے باغی ایک دوسرے ملک میں امن وعافیت کی زندگی گزاریں اور ان کا دین وہاں پھلے پھولے۔چنانچہ قریش کے ایک اجتماعی فیصلے کے تحت سیاسی وسفارتی امور کے ماہر عمروبن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کی دورکنی سفارت حبشہ کے دربار میں بھیجی گئی۔ اس سفارت نے وہاں پہنچ کر پہلے درباری امرا اور عیسائی پیشواؤں کو قیمتی تحائف پیش کر کے انھیں اپنے موقف کا ہم نوا بنایا۔انھیں اس نئے دین کے خطرے سے آگاہ کیا جس کے ماننے والے حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے تھے اور کہا کہ یہ لوگ آپ کے مذہب کے لیے بھی اتنا ہی خطرہ ہیں جتنا ہمارے آبائی دھرم کے لیے۔
پھر نجاشی کے دربار میں پہنچ کر اسے شاہی آداب کے مطابق سجدہ کیا، رؤسائے مکہ کی طرف سے اعلیٰ عربی نسل کا گھوڑا اور نفیس ترین ریشمی جبہ بطور نذرانہ پیش کیا اور باد شاہ سے درخواست کی کہ آپ کے ملک میں ایک نئے دین کے پیرو کار ہمارے پیچھے بھاگ کر آ گئے ہیں ۔ ہمیں ان کے سرپرستوں نے اس لیے بھیجا ہے کہ آپ انھیں ہمارے ساتھ واپس بھیج دیں تا کہ وہ آپ کے پُرامن ملک میں اپنی تبلیغ سے کوئی فتنہ نہ کھڑا کر دیں جیسے انھوں نے مکہ میں کیا ہوا ہے ۔ درباری امرا اور پادریوں نے ان کے موقف کی حمایت کی لیکن نجاشی نے کہا کہ دوسرے فریق کی بات سنے بغیر فیصلہ کرنا خلاف انصاف ہو گا۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی دربار میں حاضری کا حکم ہوا۔ جب مسلمان دربار میں حاضر ہوئے تو انھوں نے شاہی آداب کے مطابق نجاشی کو سجدہ نہ کیا تو درباریوں نے اس پر ناک بھوں چڑھایا۔ مہاجرین کے ترجمان حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب نے عمروبن عاص کے پیش کیے گئے موقف کی ایک ایک دلیل کا توڑ کیا، پھر دین اسلام اور اللہ کے رسولؐ کی رسالت کے خصائص اور نمایاں تعلیمات بتائیں۔ اور آخر میںنجاشی کی خواہش پر سورئہ مریم، سورئہ کہف، سورئہ روم اور سورئہ عنکبوت کے ابتدائی حصے تلاوت کیے۔
اکثر روایات میں صرف سورۂ مریم کے ابتدائی حصے کے پڑھنے کا ذکر ملتا ہے لیکن شیخ عبداللہ بن محمدبن عبدالوہاب نے کتاب مختصر سیرت الرسول میں ان چار سورتوں کے پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ یہ چاروں سورتیں ہجرت حبشہ کے قریبی زمانے میں نازل ہوئی تھیں اور سورۂ کہف کی ابتدا میں دین مسیح قبول کرنے کے نتیجے میں باد شاہ کے مظالم سے بچنے کے لیے غار میں پناہ لینے والے چند نوجوانوں کا تحسین آمیز ذکر ہے ۔ سورۂ روم میں روم کے عیسائی حکمرانوں کے غلبے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جب کہ اس وقت ایران نے رومی عیسائیوں کا بھرکس نکال دیا تھا اور سورۂ مریم میں حضرت یحییٰ ؑو مریم ؑکی پاکیزگیِ کردار اور حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدایش کا ذکر ہے۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ مسیحی باد شاہ کے دربار میں حکمتاً حضرت جعفرؓ نے ان حصوں کا انتخاب کیا۔
تمام روایات میں ذکر ہے کہ آیات الٰہی سن کر نجاشی پر رقّت طاری ہو گئی ،آنکھیں پُرنم ہوگئیں اور بے اختیار وہ پکار اُٹھا:’’خدا کی قسم! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں۔ یہ تو وہی رسول ہیں جن کی خبر یسوع مسیح ؑنے دی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے ان کا زمانہ ملا‘‘۔
نجاشی نے مکے کی سفارت کو کہا کہ میں ان لوگوں کو تمھارے سپرد نہیں کروں گا۔اگلے دن عمروبن عاص نے پادریوں سے مل کر باد شاہ کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کے لیے دربار میں یہ مسئلہ اٹھادیا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ ؑکو عیسائیوں کی طرح اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔ یہ بڑا نازک مسئلہ تھا۔ اگر مسلمان نجاشی کے عقیدہ کے خلاف اپنا عقیدۂ توحید بیان کرتے تو نجاشی کی مذہبی عصبیت ان کے خلاف بھڑک سکتی تھی لیکن مسلمانوں نے سچی بات کے کہنے کا عزم کیا اور بھرے دربار میں کہا کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ کے بندے ، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری اور پاکدامن حضرت مریم ؑکی طرف القاء کیا اور یہ کہنے کے بعد حضرت جعفر طیارؓ نے سورئہ مریم کے ابتدائی دورکوع تلاوت کیے۔
یہ سن کر نجاشی نے اپنی مسواک سے ایک بار یک تنکا لیا اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’واللہ جو کچھ تم نے بیان کیا ہے، حضرت عیسیٰؑ اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہ تھے۔ یہ ضرور وہی رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ؑ نے دی تھی، جن کا تذکرہ ہم انجیل میں پاتے ہیں۔اللہ کی قسم! اگر باد شاہت کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے جوتے اٹھاتا‘‘۔ اپنے غلط عقیدے کی عصبیت میں جب پادری بُڑ بُڑائے تو نجاشی نے انھیں بھی یہی حقیقت بیان کی ۔ نجاشی نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے والوں پر جرمانہ عائد کر دیا۔ اہل مکہ کے تحائف انھیں واپس لوٹا دیئے۔ شاہی مصلحت کے تحت اس نے اپنے قبولِ اسلام کا اظہار تو نہ کیا البتہ چند سال بعد وہ علانیہ مسلمان ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت جعفر طیارؓ نے دونوں مرتبہ اپنی تقریر کے دوران قرآن سنایا اور اس کے حیرت انگیز اثرات مسلمانوں کے حق میں ظاہر ہوئے (مسند احمد، فتح الباری، ج۲، ص ۱۳۰، البدایہ،ج۳،ص ۶۹، بیہقی، طبرانی،ج۶، ص۳۱)۔
یہ کلام الٰہی کا ہی اعجاز تھا کہ کافروں نے درباری امراء وپیشواؤں کو اپنا ہم نوا بنایا، باد شاہ کو قیمتی تحائف دیے ،باد شاہ کےعقیدے کے خلاف ایک نازک بحث کو چھیڑا ، اس کے باوجود باد شاہ مسلمانوں کے حق میں مہربان رہا۔ایک حکمران قوم کے دربار میں اس کے عقیدے کے خلاف عقیدے کے بیان کو نہ صرف برداشت کرنا بلکہ سراہنا قرآن کی تاثیر سے ہی ممکن ہوا۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مدینہ کافاتح قرآن ہے۔ ابو نعیم نے امام زہری سے مروی یہ حدیث بیان کی کہ انصار مدینہ نے حضرت معاذ بن عفراء اور رافع بن مالک کو حضوؐرکی خدمت میں یہ پیغام دے کر مکے بھیجا کہ آپؐ اپنے ہاں سے ہمارے پاس ایک ایسا آدمی بھیج دیں جو لوگوں کو کتاب اللہ سنا کر دعوت دے ۔ کیونکہ اس کی بات ضرور قبول کی جائے گی۔ چنانچہ حضوؐر نے حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ مدینے بھیج دیا۔
اسی مضمون کی حامل ایک تفصیلی روایت حضرت عروہؓ بن زبیر سے مروی ہے کہ جب انصار قبول اسلام کے بعد یثرب چلے گئے تو اگلے سال حج کے موقع پرانھوں نے حضور ؐ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ دعوت دینے کے لیے کتاب اللہ کا عالم ان کے پاس بھیجیں ۔حضورؐ نے حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب روانہ کر دیا۔ وہ بنی غنم میں حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے ہاں ٹھیرے۔ وہ لوگوں کو حضورؐ کی باتیں بتاتے اور قرآن پڑھ کر سناتے، حتیٰ کہ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ مسلمان ہو گئے اور ان کے سرداروں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ یثرب میں حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو ’مُقرِی(قرآن پڑھانے والا)کے نام سے پکارا جاتا تھا(حلیۃ الاولیاء،ج۱،ص۱۰۷)۔ طبرانی کی ایک روایت کے مطابق حضرت مصعب ؓ نے قرآن سنا کر انھیں حضورؐ اور دین کی طرف دعوت دی۔
حضرت مصعبؓ بن عمیر نے قرآن کے ذریعے کس طرح دعوت دی اور اس کے کیا اثرات ظاہر ہوئے؟ اس بارے میں عبداللہ بن ابی بکر کی ایک طویل اور دلچسپ روایت اوّلین سیرت نگار ابن اسحاق نے بیان کی ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ وہ حصہ بیان کریں گے جو براہِ راست ان کی دعوت بالقرآن سے متعلق ہے:
حضرت مصعبؓ نے نہایت تحمل سے کہا: ’’ذرا بیٹھ کر ہماری بات تو سن لو ۔ اگر پسند نہ آئے تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات سے رک جائیں گے‘‘۔ اسید نے جواباً کہا:’’تم نے انصاف کی بات کی ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے نیزہ زمین میں گاڑ کر مجلس میں بیٹھ گئے ۔حضرت مصعب ؓ نے اسلام کے بارے میں ان سے بات کی اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ قرآن سنتے ہی اُسید کے چہرے کی چمک اور رقت سے انھیں محسوس ہو گیا کہ یہ اسلام ضرور قبول کر لیں گے۔ چنانچہ اُسید نے کہا:یہ کتنا اچھا اور عمدہ کلام ہے۔پھر کلمۂ شہادت پڑھ کر داخلِ اسلام ہوگئے۔اس کے بعد حضرت اُسیدؓ نے ان دونوں سے کہا:’’میرے پیچھے ایک شخص ہے، میں اسے تمھارے پاس بھیجتا ہوں۔ اگر اس نے تمھاری بات مان لی تو ان کے قبیلے کا کوئی فرد بھی ان سے پیچھے نہ رہے گا‘‘۔یہ دیکھ کر حضرت اُسید ؓ بن حضیر جلدی جلدی سعد بن معاذ کے پاس گئے اور انھیں ایسی بات کہی کہ وہ مجلس کی طرف چل پڑے۔
سعد بن معاذ نے بھی کھڑے کھڑے انھیں بُرا بھلا کہا اور پھر اسعدؓ بن زرارہ سے کہا:’’اللہ کی قسم !اگر تم میرے خالہ زاد بھائی نہ ہوتے تو تم ہمارے محلے میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکتے‘‘۔حضرت مصعب ؓ نے ان سے کہا:’’اللہ کے بندے بیٹھ کر ہماری بات تو سن لو، اگر پسند آئے تو قبول کر لینا اور اگر پسند نہ آئے تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات پر اصرار نہیں کریں گے‘‘۔ یہ سن کر سعد نے کہا:’’آپ نے انصاف کی بات کہی ‘‘۔یہ کہہ کر انھوں نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑا اور مجلس میں بیٹھ گئے۔ حضرت مصعبؓ نے اسلام پیش کیا اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ موسیٰ بن عقبہ کا بیان ہے کہ انھوں نے سورئہ زخرف کی ابتدائی آیات سنائیں۔ قرآن سنتے ہی حضرت سعدؓ کے چہرے کی چمک اور نرمی سے دونوں مبلّغین نے محسوس کر لیا کہ یہ بھی اسلام قبول کر لیں گے۔ چنانچہ انھوں نے کلمۂ شہادت پڑھا۔ اور شام تک بنی عبدالا شہل کے تمام مردوعورت مسلمان ہو چکے تھے(البدایہ،ج۳،ص ۱۵۲)۔
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّيَۃُ وَالنَّطِيْحَۃُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ۰ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ۰ۭ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ ط (المائدہ ۵:۳) تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیاگیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اوروہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعالِ فسق ہیں۔
میں ان کو اسلام کی دعوت دینے لگا لیکن وہ اس کا انکار کرتے رہےبالآخر کچھ عرصے بعد وہ مسلمان ہو گئے(طبرانی ، مستدرک حاکم، ج۳،ص ۶۴۱، ہیثمی، ج۹، ص ۳۸۷)۔
lصحابہ کرامؓ میدانِ جنگ میں بھی دعوت بالقرآن کا اہتمام کرتے تھے اور وہ اس طریقے پر حضوؐر کے بعد بھی کاربند رہے۔واقدی کے مطابق جنگ یرموک (عہد فاروقی میں لڑی گئی) کے دن رومی لشکر کے سرداروں میں سے جرجہ نامی ایک سردار نے حضرت خالدؓ بن ولید سے اسلام کے متعلق بہت سے سوال کیے۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیے۔ ایک جواب یہ دیا کہ نبیؐ کے پاس آسمان سے خبریں آتی تھیں۔ وہ ہمیں قرآن سناتے تھے اور ہمیں معجزے دکھاتے تھے۔ جرجہ کو جب اطمینان ہو گیا تو اسی موقع پر وہ مسلمان ہو گئے اور پھر رومی فوج کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو گئے(البدایہ، ج۷،ص ۱۲، الاصابہ، ج۱، ص ۲۶۰)۔
عہد رسالتؐ میں باطل کے اوپر نظریاتی برتری کا سب سے بڑا ہتھیار مسلمانوں کی نظر میں قرآن تھا۔ جس کے سننے سنانے کے مواقع مسلمان پیدا کرتے رہتے تھے۔
مکے میں ایک مرتبہ اصحابِ رسولؐ آپس میں کہنے لگے کہ قریش نے آج تک با ٓواز بلند تلاوت نہیں سنی۔ کوئی ایسی صورت ہو کہ ان کے سامنے کلام الٰہی سنایا جائے۔یہ سن کر نوخیز لڑکے عبداللہ بن مسعودؓ نے فوراًخود کو اس کام کے لیے پیش کیا۔اگلی صبح جب حسب معمول حرم میں قریش کی مجالس برپا ہو گئیں تو حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے با ٓواز بلند قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ مشرکین مکہ کچھ دیر سکتے کے عالم میں سنتے رہے بالا ٓخر مشتعل ہو کر ابن مسعودؓ پر پِل پڑے۔ ان کے جسم کے کئی حصوں سے خون بہنے لگا۔ لیکن وہ پٹتے جا رہے تھے اور قرآن سناتے جا رہے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے جو سورت شروع کی تھی وہ مکمل ہو گئی ۔ ابن مسعودؓ جب سوجے ہوئے چہرے کے ساتھ اصحابِ رسولؐ کے پاس پہنچے تو انھوں نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا :’’اے ابن ام عبد! اسی خدشے کی وجہ سے ہم تمھیں روک رہے تھے‘‘۔یہ سن کر دبلے پتلے ابن مسعودؓ نے کہا:’’اللہ کی قسم! مشرکین کے بڑے بڑے سردار مجھے اتنے کمزور کبھی دکھائی نہ دیئے تھے جتنے وہ آج دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے توارادہ کر لیا ہے کہ کل پھر انھیں کلام الٰہی سناؤں گا۔ یہ سن کر سب صحابہؓ نے کہا:جس کلام کو سننا مشرکین کو سخت ناگوار تھا، اس کو تم نے ان کے کانوں تک پہنچانے کا حق ادا کردیا۔ اتنا ہی کافی ہے‘‘(سیرۃ ابن کثیر،ج۱،ص۴۴۴)۔
حضرت ابو بکرصدیقؓ بھی کافروں کو قرآن سنانے کے لیے دستیاب مواقع کو پورا استعمال کرتے تھے ۔حضرت ابو بکرؓ جب حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکل کر مکہ سے دور چلے گئے تو راستے میں انھیں قبائل احابیش کا سردار ابن دغنہ مل گیا۔ وہ آپؓ کے اخلاق فاضلہ کا قدر دان تھا۔ آپؓ کو اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ حضرت ابو بکرؓ جب اپنے گھر میں بلند آواز سے تلاوت کرتے اور کافروں کی عورتیں، بچے اور نوجوان مکانوں پر چڑھ کر اور دیواروں سے لگ کر آپؓ کی پُرسوز تلاوت قرآن سننے کے لیے جمع ہونے لگے تو کافروں نے ابن دغنہ پر دباؤ ڈالا۔ بالآخر اس نے حضرت ابو بکرؓ کو کہا کہ اگر وہ قرآن بلند آواز سے پڑھیں گے تو میں اپنی پناہ جاری نہ رکھ سکوں گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مجھے ایسی پناہ کی ضرورت نہیں جس میں مجھے تلاوت بھی اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت نہ ہو (ابن ہشام ،ص۳۲۳)۔
اللہ کے رسولؐ جس طرح دعوت دیتے ہوئے تلاوت قرآن کا اہتمام فرماتے تھے ایسے ہی لوگوں کے مسلمان ہو جانے کے بعد ان کی تربیت کے لیے بھی تعلیم قرآن کا اہتمام فرماتے۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد میں مکہ میں حضوؐر کے پاس ٹھیرگیا۔ آپؐ نے مجھے اسلام سکھایا اور میں نے کچھ قرآن بھی پڑھ لیا‘‘(طبرانی)۔
روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضورؐ کی تعلیم وتربیت کے باعث صحابہ کرامؓ خود بھی اپنے طور پر تعلیم قرآن کی مجالس کا اہتمام کرتے اور حضورؐ ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚ بِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۴۱ۭ (النساء۴:۴۱) ’’اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کو بلائیں گے اور آپ کو بھی ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے ‘‘۔پھر آپؐ نے فرمایا: ’’رُک جاؤ‘‘۔ میں جب تلاوت سے رک گیا تو دیکھا کہ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے(بخاری، کتاب التفسیر)۔
قرآن کو سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا وہ عمل ہے جس کے کرنے والے کو اللہ کے رسولؐ نے سب سے بہتر قرار دیا: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ (بخاری، نسائی، ترمذی، ابوداؤد)۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والے ہر نو مسلم کے لیے دین کو سمجھنے کے لیے قرآن سیکھنا ضروری قرار دیا۔گویا یہ ہر مسلمان کی تربیت کے لیے لازمی نصاب ہے۔
عمیر بن وہب جمحی نبیؐ کو قتل کرنے کے ارادے سے مکے سے مدینے پہنچا۔ حضوؐر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے قیدی بیٹے کی رہائی کے لیے آیا ہے جو جنگ بدر میں قید ہو گیا تھا۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہواور تم نے صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم کعبہ میں بیٹھ کر منصوبہ بنایا ہے۔ صفوان نے تیرا قرض اتارنے اور تیرے اہلِ وعیال کے زندگی بھر کے اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری لی ہے۔ یہ ایسا معاملہ تھا کہ صفوان اور عمیر کے سوا کسی اور کو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ عمیر سمجھ گئے کہ یہ ضروراللہ نے انھیں بتایا ہے چنانچہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔اب رسولؐ اللہ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: فقّھوا ،اپنے بھائی میں دین کی سوجھ بوجھ پیدا کرو، قرآن پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کر دو(سیرت ابن ہشام، ص۵۹۵) ۔
مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ بھی حضورؐ کی طرح دعوت وتبلیغ میں تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ حضورؐ نومسلموں کو قرآن کے مختلف حصوں کی تعلیم کا اہتمام کرتے اور تعلیم قرآن کا اہتمام کرنے والے صحابہ کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے ۔ صحابہ کرامؓ کافروں کو قرآن سنانے کے مواقع پیدا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کی عظمت کلام کے سامنے وہ بے بس ہیں۔ مشرکین بھی قرآن کی تاثیر کلام سے خوف زدہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن کے سننے سنانے کے عمل کے نتیجے میں ان کے غلبے کا ٹوٹ جانا یقینی ہے:
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۲۶ (حم السجدہ۴۱:۲۶) یہ کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو، اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اسی طرح تم غالب آجاؤ۔
آج ہم جدید تعلیم یافتہ اور مغربی فکر سے متاثر لوگوں کو جدت پسندانہ مباحث سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ دشمن کو زیر کرنے کے لیے ہمیں ہتھیار اس چیز کو بنانے کی ضرورت ہے جس کا توڑ ہمارے دشمن کے پاس نہیں ہے اور وہ ہے اللہ کا کلام۔
الْحَکِیْمِ ___ آخری کتابِ الٰہی کے متعدد ناموں میں سے ایک ہے جوسورئہ یونس کی پہلی آیت: الۗرٰ۰ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ۱ ، سورئہ لقمان کی دوسری آیت: الۗمّۗ۱ۚ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ۲ۙ ، اور سورئہ یٰسٓ کی دوسری آیت: يٰسۗ۱ۚ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ۲ۙ میں وارد ہوا ہے۔
الْحَکِیْم کے تین معنی بیان کیے گئے ہیں: الْمُحْکَمْ ، پختہ ، بلاشبہہ۔ الْمُبِیْن کھلا ہوا۔ المُوَضّحَ ، واضح۔یہ تینوں معنی قرآن حکیم پر اس طرح صادق آتے ہیں کہ یہ کتاب لاریب اپنی آیات، تعلیمات، احکامات، مواعظ و نصائح ، امثال و عبِر، ہرحوالے اور پہلو سے حکمت و دانش سے لبریز ، ہر بات کو کسی اُلجھن ، جھجک اور مصلحت کے بغیرکھول کر، پوری وضاحت اور تفصیل سے بیان کرنے والی ہے۔ الۗرٰ ۰ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ (ھود۱۱:۱) ’’ال ر، فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہیں‘‘۔
الْحَکِیْمِ ___اس کتاب کو نازل کرنے والے اللہ ذوالجلال والاکرام کا صفاتی نام بھی ہے۔ اس لیے اسے ’قولِ حکیم‘ قراردینا زیادہ اَنسب ہے۔ سورئہ ہود میں ارشاد ہوا: مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ۱ۙ (ھود۱۱:۱) ’’یہ قرآن صاحب حکمت و آگہی کی جانب سے ہے‘‘۔ سورئہ فصلت میں ارشاد ہوا: تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ۴۲ (حٰمٓ السجدہ ۴۱:۴۲) ’’حمدوثنا کے سزاوار اور صاحب ِ حکمت کی طرف سے نازل کردہ ہے‘‘۔ سورۃ الجاثیہ اور سورۃ الاحقاف میں بیان ہوا: تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۲ (الاحقاف۴۶:۲)، ’’اس کتاب کا نزول اللہ غالب و صاحب ِ حکمت کی طرف سے ہے‘‘۔
مفصل و محکم آیات، واضح تعلیمات، روشن حقائق، الہامی علوم و معارف اورقطعی ارشادات و احکامات پر مشتمل صاحب ِحکمت و تدبیر، صاحب ِ تحمید و تمجید ، صاحبِ قوت و اختیار، صاحب ِ غلبہ واقتدار، صاحب ِ علم و آگہی ، مالکِ عرش و اَرض، خالق و مدبر و منتظم و متصرفِ کائنات، ربِّ جِنّ و انس، ربِّ عالمین، ربِّ مشرقین و مغربین کی جانب سے نازل کی جانے والی کتاب بلاشبہہ اور یقینی طور پر سرچشمۂ حکمت و دانش ’کتابِ حکیم‘ ہے۔ جو نہ شاعرانہ تخیل ہے، نہ لفظوں کی جادوگری، نہ کاہنوں کی لفاظی، نہ نثرنگاروں کا لفظی کمال، نہ دانش وروںکے تجاربِ حیات، نہ جادوٹونے کی کتاب، نہ وظیفوں، چلّوں،دُعا و مناجات کا مجموعہ، نہ تاریخ کےعبرو مواعظ کا خزینہ اور نہ محض کچھ لفظوں، پاروں، سورتوں سےبھرے اوراقِ مقدّسہ کا بے کیف و سُرور ، بے معنٰی و مطلب اور بے نتیجہ و ثمر، بے سندوحوالہ محض ایک کتاب، دیگربےشمارکتابوں کی طرح۔ یہ تو سب کتابوں کی سردار، سب سے جدا، سب سے منفرد، سب کی حکمتوں کا ماخذ، منبع و مصدر و مرجع ہے۔ اسی لیے یہ الْکِتٰبْ قرار دی گئی، بلکہ اُمُّ الْکِتٰبْ کے نام سے بھی موسوم ہوئی۔
قرآنِ حکیم ___ ہرعہد کے انسانوں کے تصورات، اندازوں اوررویوں کے یکسرعلی الرغم حکمت و دانش کا مُرقّع، نصیحت کا مؤثر و بلیغ شاہکار، علوم و معارف کا بحرِ ذخّار، حقائق و مظاہرِ قدرت کا راہنما، قلب و نظر، روح و فکر،عقیدہ و عمل کا مرکز و محور ہے۔ دنیا وآخرت کی صلاح و فلاح اور نجات کاضامن ہے۔ نظامِ حیات کے ہرپہلو کا مُرشد و مُقتدا، ہرجسمانی وروحانی ضرورت، ہرفکری وعملی اُلجھن کی سُلجھن، ہرعہد اور ابناےانسانی کی ہمہ جہت ضرورتوں کا کفیل ہے۔
قرآنِ حکیم ___ اس امر کا واضح اعلان اور اس حقیقت کا روشن اظہارہے کہ بندگانِ خدا کےپاس موجود علم و آگہی، شعور و حکمت،دانش و مہارت سب کچھ ہیچ اور نامکمل اور محض ایک انتہائی قلیل حصہ ہے اُس حکمت و دانش کے مقابل ، جو صاحب ِحکمت خداے لم یزل نے کتاب ِ حکمت، قرآنِ حکیم کی صورت میں انسانیت کو عطا کی۔ اُن کے پاس آسمان کی بلندیوں، زمین کی پنہائیوں، سورج و چاندکی تسخیر، ہواؤں، فضاؤں اورسمندر کی لہروں پر تسلّط اور ذرّوں کو ہولناک قوتوں میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کےدعوے اور مظاہر، قسم قسم کے بے شمار علوم و فنون سب محدود، نامکمل اوربے کار ہیں۔ اگروہ کتابِ علم و حکمت کے اس اَزلی و اَبدی سرچشمۂ ماضی سے مربوط اور اس کے زیراثر نہ ہوں، اورانسان کو اپنی ذات، مقام و مرتبت، فرائض و حدودِ کار کے شعورسے آگاہ و خبردارنہ کریں اوراس کا تابع بناکر طاقتوں کے واحد مرکز اپنے خالق و مالک اورپالنہار، محسن و مُنعم سے مربوط اور اس کے سامنے سربسجود ہونےپر مجبورنہ کردیں، اوراُسی کے بندوں کو معبودِ حقیقی و اصلی، معبودِواحد کی بندگی کی چوکھٹ پرلاکھڑا کرکے بے بندگی کی ذلّت، شرمندگی اوراَبدی ہلاکت، بربادی، تباہی اورخُسرانِ عظیم سے محفوظ نہ کردیں۔
اس ’کتابِ حکیم ‘ اور’قولِ حکیم‘ کے مہبط، معلّم اور مُبلّغ، مُفسِّر مُبین اور شارح صاحب ِ حکمت اللہ عزوجل کا وہ فرستادہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، جس سے بڑا حکیم و دانا، نہ کبھی پیدا ہوا ، نہ ہوسکے گا۔ جس کی حکمت و دانش کے سارے حوالے اورناتے وحی الٰہی کے سلسلوں پرمبنی اور منبع علم و حکمت سے مسلسل مربوط تھے، جس نےفرائض منصبی کے پہلے تعارفی اورکلیدی نکتے کے طورپر اقرأ کے حکمِ الٰہی کے ذریعے علم کو اختیار کیا اور اس علم و حکمت کے فروغ کولائحہ عمل بنایا۔ وہ معلّم کتاب و حکمت کہلایا۔
کتابِ حکمت، قرآنِ حکیم نے اس کا تعارف اور فرائض رسالت کو یوں بیان کیا: یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)۔ وہ لوگوں کو حکمت اور کتاب کی تعلیم دیتا ، اوراُن کی زندگیوں سے بے حکیمانہ، جاہلانہ، مفسدانہ نظریات، افکارو اعمال کو اُکھاڑ پھینکتا ہے۔ اس ظلمت و جہالت کے نتیجے میں غیرحکیمانہ رویوں، طریقوں، پابندیوں اور بوجھوں کو اُتارکر روشنیوں سے ہمکنار کرتا ہے: يَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۰ۭ (اعراف ۷:۱۵۷) اور يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۰ۭ (البقرہ۲: ۲۵۷)۔
وہ ہستی(صلی اللہ علیہ وسلم) جس کے بطورِ رسول تقرر کے اعلان و تصدیق کے لیے سرچشمہ و حکمت ___ کتابِ حکمت کی قسم کھائی گئی: يٰسۗ۱ۚ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ۲ۙ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۳ۙ (یٰسٓ ۳۶: ۱-۳) ’’یٰس،قسم ہے قرآنِ حکیم کی کہ تم یقینا رسولوں ؑ میں سے ہو‘‘۔ یہ محض ائمہ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفعت ِ شان،عُلُوِّ عظمت، شکوہ حُسن و جمال، پاکیزگی و کردار، اعلیٰ نسبی اوربے شمار ذاتی و صفاتی خصائص کے بجاے سلسلۂ حکمت سے جوڑا اور اسے منصبی فرض قرار دیا۔
اس داعی و مُبلّغ حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کواس کتابِ حکمت کی تشریح و توضیح کا ذمہ دار بناکر، عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ،بالکل درست، سیدھی اور بَرحق راہِ ہدایت و نظامِ حیات کا راہبر و راہنما قرار دے کر انسانیت کے لیے تاقیامت اسوئہ کامل ، اسوئہ حسنہ اور واجب الاتباع بناکر شریعت و رسالت کا حرفِ آخر ٹھیرایا گیا۔ اس کی اطاعت و محبت کو دُنیا و آخرت کی کامیابیوں کاواحد ذریعہ بتایا گیا۔
اس کتابِ حکمت، مجمع حکمت، صراطِ حکمت اور صاحب ِحکمت رسولؐ کی نسبت اجرا و اِصدار، الْعَزِیْزِ الرَّحِیْم ، غالب و مہربان ربّ کی طرف کی گئی، تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ (یٰٓس ۳۶:۵)۔
اس رسولِ حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب، اس کی توضیح و تبیین طے کر دیا گیا کہ یہ نازل کرنے والے حکیم ربّ کی حکمت و علم کا تقاضا تھا: وَيُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۱۸ (النور۲۴:۱۸) ’’اللہ تمھیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے‘‘۔
اس کتابِ حکیم میں موجود اور رسولؐ کو عطا کردہ حکمت ِ الٰہی کے سرچشموں اور وحی الٰہی کے ذریعے حاصل ہونے والی حکمت و دانش کی تبلیغ کے مراحل کار طے کر دیے گئے۔ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰــتِہٖ۔ زبانِ جبرائیل ؑ کے ذریعے صدرِ رسولؐ تک پہنچائے جانے والے قرآن کی کسی کمی بیشی، تغیروتبدل، ترمیم و اضافے کے بغیر انسانوں تک منتقلی بذریعہ تلاوتِ آیات۔پھر اُن کے نفوس کی پاکیزگی، فکری و عملی طہارت کے اقدامات، تزکیہ و تربیت کے ذریعے، وَیُزَکِّیْھِمْ۔ ذہنوں اور دلوں کی آمادگی کے بعد يُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۚ (ال عمرٰن ۳:۱۶۴)، کتاب حکمت کےعلوم و معارف اور حکمتوں کا بیان اورحکیمانہ رویوں، کردار،اخلاق،اوصاف،اعمال سے آگہی کا مربوط و مسلسل کارِنبوت۔ بندگانِ خداے حکیم و خبیر پر پروردگار کی نعمتوں اور احسانات کی تکمیل کا بڑا مظہر۔ اُن کی تعلیم، سرچشمۂ حکمت کے اصولوں، ضابطوں کے مطابق۔ گویا فرائض رسالت کا ہرحوالہ، ہرراستہ، ہربنیاد حکمت ودانش کے ساتھ مربوط ومستحکم کردیا گیا۔ واضح اعلان ہوا: وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ۶ (النمل ۲۷:۶) ’’اور(اےنبیؐ) بلاشبہہ تم یہ قرآن ایک حکیم و علیم ہستی کی طرف سے پارہے ہو‘‘۔
حکمت و دانش کا یہ حوالہ ، یہ نسخۂ کیمیا، یہ راہنما ،یہ مصدرو منبع اور مرجع___ قرآنِ حکیم کے سوا اورکچھ نہیں، جو معلم کتاب و حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکیمانہ انقلاب کا بنیادی ہتھیار، ترجیح اوّل اورحتمی ہدف تھا۔ جس نے اِقْرَاْ کے ذریعے اس سرچشمۂ حکمت، ربّ کائنات سے متعارف و مربوط کیا، جس نے قلم کے ذریعے علم و حکمت کو فروغ دیا___ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ (العلق ۹۶:۱) اور عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (العلق ۹۶:۴)___ اور انسانیت کو سلسلۂ علم و حکمت کے بنیادی آلات و اوزار___ قلم و قرطاس___ کے ساتھ جوڑدیا۔
سورۃ النساء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و تدبر اور اس کے مصادر پر مُہرتصدیق ثبت کر دی گئی۔ وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۰ۭ (النساء: ۴:۱۱۳) ’’اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمھیں معلوم نہ تھا‘‘۔ آپؐ کو کتاب و حکمت بھی عطا کی گئی، حکمت کے سب زاویے اور پہلوبھی آشکار کیے گئے اور کائنات کی وہ ساری حقیقتیں عیاں اورمعلومات فراہم کردی گئیں، جو فرائضِ رسالت کی ادایگی کے لیے ضروری اور ربِ علیم و حکیم کےعلم و حکمت کاپرتو اور تقاضا تھا۔
بندگانِ خدا کی حیات و ممات اور دُنیا و آخرت کے لیے تین فیصلہ کن اور مؤثر و غالب کردار___ اللہ، رسولؐ اورکتاب___ طے ہوئے اور ’حکمت‘ اِن کا مشترک حوالہ اوراَصل قرارپایا۔ اور یہی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ قرآن کا ۲۳سالہ الٰہی طریقہ اور اس کی تعلیم، تبلیغ اور تنفیذ کا لائحہ عمل ٹھیرایا گیا۔ معلم کتاب و حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا: اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶:۱۲۵)،’’اے نبیؐ! اپنے ربّ کےراستے کی طرف دعوت دو حکمت اورعمدہ نصیحت کےساتھ‘‘۔ حکمت، نصیحت، دعوت اورفکری وعملی تغیر و تبدل کا تدریجی وارتقائی عملی نمونہ بھی اِسی حکمت کا ۲۳سالہ مظاہرہ بن کر داعیانِ حق کے لیےراہنما اُصول بن گیا۔
’حکمت‘ انسانیت پربہت بڑی نعمت ِ خداوندی ہے۔یہ حکمت کسے اور کتنی دینی ہے؟ اور اس سے کیا نتائج اخذ کرنے ہیں؟ یہ حکیمِ کبیر، علیم و خبیر، عزیز و رحیم کی اپنی صواب دید ہے، مگر یہ حقیقت ظاہر و کائنات پرغالب ہے: وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۰ۭ (البقرہ ۲:۲۶۹)، جسے ’حکمت‘ جب ، جتنی اور جس مقصد کے لیے عطا کی گئی ، دراصل اُسے دُنیا جہان کی سب سے بہتر، قیمتی، مفید، مؤثر،فیصلہ کن نتائج، بھلائیوں، کامرانیوں اورعظمتوں کی کنجی عطا کردی گئی۔
اللہ ربّ العزت نےاپنی حکمت و مشیت کے تحت اوّلاً اپنے انبیاؑ و رُسلؑ کو ’حکمت‘ عطا کی۔ یہ اپنےاپنے عہد کے خیرالخلائق، پاکیزہ، خدا کے مقرب ترین اورتااَبد انسانیت کے لیےمقتدا و راہنما ہیں۔ اسی طرح کچھ دیگر نیک اورپارسا لوگوں کو بھی حکمت کی دستارِ فضیلت سے نوازتا رہا ہے اور اُن کے اقوالِ حکمت اورطریق حکمت کو کتابِ حکمت ’قرآنِ حکیم‘ میں ذکرکرکے اُنھیں اَمر کردیا۔ حضرت لقمانؑ جو اغلباً پیغمبرنہیں تھے مگر حکمت الٰہی کےوصول کنندہ ہوئے۔ وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَۃَ (لقمٰن ۳۱:۱۲)’’ہم نے لقمان ؑ کو حکمت سے نوازا‘‘۔ یقینا یہ اللہ ہی ہے، جو حکمت بھی دیتا ہے اور اُس راہِ حیات کے انتخاب اور افکار و اعمال کا شعوربھی عطا کرتاہے اور پاکیزہ و قائدانہ کردار کی مسند تک پہنچاتا اور حکمت سے بہرہ مند ہونے والوں کو انسانیت کا راہنماقرار دیتا ہے، جو حکیمانہ فکروعمل کا لازمی نتیجہ ہے۔ جس علم و حکمت سے یہ نتائج حاصل نہ ہوں، وہ نہ علم ہے، نہ حکمت۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے، تو ’حکمت‘ تو ہرذی نفس کو کسی نہ کسی صورت اور مقدار میں ضرور ملتی ہے۔ بالخصوص انسان اس حکمت و تدبر سے کام لے کر اپنی معاش کا خوب اہتمام کرتا ہے، مگرحکمت ِ رسالت و نبوت سے اِعراض کرکے اپنی معاد (آخرت) کا سامان نہیں کرپاتا۔ اس طرح غیرانسانی مخلوق کو بھی اتنی حکمت و صلاحیت ضرور دی جاتی ہے، جس سے وہ کم از کم اپنی خوراک حاصل اور اسے استعمال اور اپنے مالک کی تابع داری کرسکیں، مگر اللہ نے اِن غیرانسانی مخلوقات کو عطا کردہ حکمت کے نتیجے میں اُنھیں نہ کوئی اختیاردیا ہے، نہ اپنی بندگی کا شعوری پابند ہی بنایا ہے۔ اُن کو حاصل حکمت محض محدود و معدود مقاصد کے لیے ہی ہے۔ البتہ انسان کو حکمت ِ الٰہی ، حکمت نبوی اور حکمت ِ قرآنی کے ذریعے بہت سے تقاضوں کا مکلف ٹھیرایا ہے۔ ان کےدو بڑے مقاصدو تقاضے بتائے گئے ہیں۔
سورہ لقمان میں پہلا تقاضا بیان ہوا: وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَۃَ اَنِ اشْكُرْ لِلہِ۰ۭ (لقمٰن۳۱:۱۲)’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کاشکرگزارہو‘‘۔ اللہ کی شکرگزاری کا لازمی اورمستقل رویہ و معمول، بے حدوحساب، بے شمارنعمتوں جن کا ذکرو شمار انسانی حد سے یقینا باہر___ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۰ۭ (ابراہیم ۱۴:۳۴)۔ انسان کی تخلیق، تجسیم، تصویر، تشکیل ، عقل، شعور، آگہی، تعلیم، ربوبیت کے جملہ تقاضوں کی تکمیل، خیروشر کی تمیز، غلط اور صحیح کی صلاحیت ِ تفریق، قوتِ فکر، طاقت ِ اظہار، مرضی اپنانے کی آزادی، زندگی گزارنے کے لیے ہرعمر، ماحول،مزاج کے موافق بے شمار نعمتیں، وسائل، مواقع اور عیش و عشرت کے سارے سامان، ہدایت و ضلالت کے سب راستوں کا شعور اور ردّ وقبول کا اختیار۔ اور ان سب نعمتوں میں سب سے بڑی، جامع، کامل، اَتم و اَہم نعمت، زندگی گزارنے کا درست طریقہ، عزّت و عظمت کا راستہ، صلاح و فلاح کاضامن ضابطہ، دین اسلام، دین ہدایت، دین حکمت، دین فطرت،دین یُسر۔ ہرپہلو سےواضح،روشن اورمکمل۔ ایک کتاب ِ حکمت کی محفوظ، جامع، مفصل اور واضح آیات و تعلیمات کے ساتھ ایک رسولِ حکمت کے اُسوہ وسیرت کےذریعے حق و باطل کو واضح کرتے ہوئے اِنذار و تبشیر، تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ، تدریج کے حکیمانہ اُسلوب، نصیحت و موعظت کو طریق کار بناکر، کسی جبرواِکراہ کے بغیردعوتِ اِلَی الحق، دعوتِ اِلَی اللہ، دعوت الی الخیر، دعوتِ اِلَی المغفرۃ ،دعوت اِلَی النجاۃ، دعوت اِلَی الفوز والفلاح، دعوتِ اِلَی الخیر والابقٰی اور دعوتِ اِلَی السلم کافۃ ، دعوتِ اِلَی الجنۃ اوردعوت اِلَی العتق من النار کے منبع و مصدر و معطیٔ حکمت، دین حکمت، کتابِ حکمت ، رسولِؐ حکمت کی طرف رہنمائی کی نعمت عظمیٰ و کبریٰ پر شکرگزاری، تسلیم و رضا، اطاعت و وفاکے ذریعے حکمت کے اس بلیغ، اعلیٰ اور انتہائی مطلوب و مقصود درجے حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ تک پہنچنا ہے، جو اتمامِ حجت کا مظہر اور اس کے لیے کافی اور حتمی حد ہے۔
اس حکمت کا دوسرا تقاضا کائنات اور مظاہر قدرت اور حکیم و علیم و خبیر کے افعال و احکامِ حکمت پرغوروتدبرہے۔ کتاب ِ حکمت ___ قرآنِ حکیم ___ اَوَلَمْ یَرَوْا ،اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا ، اَوَلَمْ یَتَدَّبَّـرُوْا، اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا ، اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا ، ترغیبات و تنبیہات و احکامات کے ذریعے اس حکمت آمیز دین اور اس کے احکام کی طرف متوجہ کررہی ہے، مگر اُسے جواس پرایمان لائے صدقِ دل سے، اس کے ہرحرف، لفظ ،حکم کوتسلیم کرے اور روشنی و ہدایت طلبی کے لیے اس میں غوطہ زن ہو۔اپنے دل کےقفل توڑ کر، جہالت کی عصبیتوں کے حصار سے نکل کر اور ظلمتوں کے اندھیروں اور خودساختہ رسوم و قیود کی بیڑیاں توڑ کر ظلمات سے نُور کے اُجالوں کی جانب سفرکا آغاز کرے اوراس پر مُدام چلتا رہے۔ اپنےدائمی نفع و ضرر کا شعور حاصل کرے۔قدرت کے مظاہرکا مشاہدہ کرکے، اس کی نشانیوں کا مطالعہ کرکے اپنی فطرتِ سلیمہ سے آشنائی حاصل کرے۔ اپنے مقصدِ حیات کااِدراک کرے، اپنے ربّ، محسن و منعم حقیقی کو پہچانے۔ مظاہر قدرت و فطرت میں حکیم اعلیٰ و بالا کی حکمت کی نشانیاں تلاش کرے۔ فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَا یَخْلُوْ عَنِ الْحِکْمَۃِ کہ اُس دانا و بینا کا کوئی کام حکمت ودانش سے خالی نہیں۔ بے مقصدیت اورافراط و تفریط کاشکار ہے، نہ عدم توازن سے دوچار۔بندگانِ خدا پرلازم ہے کہ حکمت الٰہی کےاس مشاہدہ و مطالعہ کے نتیجے میں کائنات کے تمام شاہ کاروں کو حکمت الٰہی کی تصویروں اور دلیلوں اور اُس کی کارفرمائی کی شہادتوں کےطورپر قبول کرے، اور زندگی کے غلط راستوں،ضابطوں اورطریقوں کےانتخاب میں گمراہی سے محفوظ ہوجائے۔
اللہ و رسولؐ اور الکتاب کی حکمت کا لازمی نتیجہ ’صراطِ مستقیم‘ ہے، جو بندگی کےمکمل اورلازمی اظہارکے طورپرقبول کیا جانا شکرگزاری کا واحدذریعہ ہے۔ یہ صراطِ مستقیم بندگانِ خدا کو اپنے فرائض، دوسروں کے حقوق، دُنیا میں ذمہ داریوں کے تعین، ان کی ادایگی کے طریق، روحانی و اُخروی سعادت اور برتری کے سلسلوں کے تتبع کے ذریعے کامیابی و کامرانی اورفوزِ مُبین و عظیم کی منزلِ مراد تک پہنچاتا ہے۔ جس کے بارے میں منبع حکمت نے فرمایا: اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیـْمًا ،فَاتَّبِعُوْہُ اور جس کی طلب کی بنیادی دُعا بندگانِ خدا کو سکھائی گئی: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۔ یہی راستہ اللہ کے محبوب بندوں کا راستہ ہے، جنھیں وہ بےپناہ نعمتوں اور سعادتوں، عزّتوں، عظمتوں سے نوازتا ہے۔ حکمت ِ قرآنی سےباغی علم و شعور اور حکمت و دانش کی خودفریبی،بلاشبہہ جہالت وذلّت کا راستہ ہے۔ جو حکمت کے یکسرمخالف بلکہ اس سے متصادم ہے اوراللہ کے غضب کاشکار ہونےوالوں کا طرزِعمل۔
رُشد و ہدایت اورسلامتی فکروعمل کے اِن تینوں منابع و مراکز نے اس ’حکمت‘ کو اختیار اورخودپرلازم ٹھہرانے والوں کو حکمت و دانائی کےہرسرچشمے کا وارث و حق دار اوراہل قراردےکر اسے لازماً اختیارکرنے اورمَہدسے لحد تک اکتسابِ علم و حکمت کرتے رہنے کا حکم دیا۔ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ ،’’مومن کی گم شدہ میراث یہی حکمت ہے‘‘۔ اس پر لازم ہے کہ ان تینوں اساسی مصادرو منابع سے وابستہ رہتے ہوئے،ان ہی کے زیراثر ہر سرچشمہ تک رسائی حاصل کرے۔ یہ ہر مردوزن پربالخصوص اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں پرفرض و واجب ہے۔ جہاں سے بھی، جس صورت میں حکمت و دانائی کا کچھ بھی حصہ ملے، وہ اُسے اپنی گم شدہ میراث سمجھتے ہوئے، اُچک لے، حاصل کرلے اور اپنی جبینِ فضیلت پر حکمت کا ہرروشن چراغ اور دانش کے تاج سجا کر اپنےماتھے کا جھومر بنالے، مگراس یقین،اعتماد اورحقیقت کے اعتراف کےساتھ کہ حکمت کے یہی تینوں سرچشمے ہیں۔ واجب القبول اورصلاح و فلاح کے ساتھ دُنیاو آخرت کی ہرعظمت کے ضامن___ ’ذاتِ حکیم‘ ، ’رسولِ حکیم‘ اور’ قولِ حکیم‘۔
آفاتِ سماوی، وبائیں ، سیلاب، طوفان ، زلزلے یہ سب عذاب ہیں، آزمایش ہیں، تنبیہ وعبرت یا یہ محض ایک کائناتی اور فطری عوامل کے تحت رونما ہونے والے واقعات وحوادث؟ منکرینِ مذہب ان حادثات کی محض واقعاتی توجیہہ کو اہمیت دیتے ہیں لیکن ایک بندۂ مومن کا نقطۂ نظر اس سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے۔ وہ حوادث کے واقعاتی عوامل کے ساتھ ان کے پس منظر میں اللہ کی مرضی کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کو جب بیماری لاحق ہوتی ہے اور پھر اللہ اسے صحت یاب کر دیتا ہے تو اس کی بیماری اس کے پچھلے گناہوں کے لیے کفارہ اور آیندہ کے لیے نصیحت بن جاتی ہے، جب کہ منافق جب بیمار پڑتا ہے اور صحت یاب ہوتا ہے تو اس کی حالت اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے نہیں معلوم کہ اس کے مالک نے اسے کیوں باندھا اور کیوں کھولا؟ (ابو داؤد:۳۰۸۹)۔
حضرت جابرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مومن کی مثال گندم کی بال (خوشے) کی طرح ہے کہ ہوا چلنے سے کبھی نیچے ہوتی ہے تو کبھی سیدھی ، جب کہ کافر کی مثال صنوبر کے درخت کی ہے، جو ہمیشہ اکڑا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے اور اسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا‘‘۔ (مسنداحمد)
بخاری ومسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال کھیتی کے نرم پودے کی طرح ہے۔ ہوا چلتی ہے تو اسے ایک جانب جھکا دیتی ہے ، ہوا رُکتی ہے تو وہ سیدھا ہو جاتا ہے، یعنی بلا سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور فاسق وبدکار کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے جو اکڑ کر سیدھا کھڑا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اللہ چاہتا ہے ، اسے بیخ و بُن سے اکھیڑ پھینک دیتا ہے (بخاری :۵۶۴۴)
قرآن کے مطابق انسان کے لیے اس کی ناگوار چیزیں ہی نہیں پسندیدہ چیزیں بھی ذریعۂ آزمایش ہیں:
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّـرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً۰ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۳۵ (الانبیاء ۲۱:۳۵) ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ اور آخر کار تمھیں ہماری طرف لوٹنا ہے۔
مراد یہ کہ جب انسان کو موت کے بعد ہماری طرف پلٹنا ہی ہے تو خیر وشر کی اس آزمایش میں دورانِ زندگی ہی رب کی طرف رجوع کیوں نہیں کر لیتے۔دوسرے مقام پر فرمایا :
وَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّـيِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۱۶۸ (الاعراف ۷:۱۶۸)اورہم آسایشوں اور تکلیفوں سے ان کی آزمایش کرتے رہے تاکہ وہ (ہماری طرف) رجوع کریں۔
آسایش وآرام کی آزمایش ہو یا تکلیف اور مصیبت کی، سب کا مقصد بندوں کو ان کے رب کی طرف پلٹنے اور رجوع کرنے پر آمادہ وتیار کرنا ہے ۔ اللہ کی طرف رجوع کا اظہار یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں حسنِ عمل اختیار کر لے:
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۷ (الکھف ۱۸:۷)زمین میں جو کچھ بھی سروسامان ہے، اسے ہم نے زمین کی زینت بنا یا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔
آزمایش :اللہ کی طرف پلٹنے کا موقع
یہ خوب صورت سرزمین، جسے اللہ نے ندی نالوں ، دریاؤں، آبشاروں، پہاڑوں، میدانوں، سمندروں، شجروحجر اور چرند پرند سے زینت بخشی تھی، انسان کی ملک گیری کی ہوس اور سرمایہ پرستی نے اس کی فطری زینت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ سرمایہ پرستی کے زیرتسلط سائنسی ترقی نے جنگلی حیات برباد کردی ، آبی جانوروں کی ہلاکت کا سامان کر دیا۔ ہوا اور فضا کو اس قدر آلودہ کر دیا کہ تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ حُب ِعاجلہ اور جلد ملنے والے نفع کے لالچ میں کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کا اخراج اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ انسانی زندگی کے لیے صاف ہوا کا حصول بھی شاید سرمایہ داروں کے رحم وکرم پر ہو گا۔ زمینی پانی کے سوتے خشک ہوتے جا رہے ہیں اور جو پانی باقی بچا ہے وہ زہر آلود ہوتا جا رہا ہے ۔ قرآن حکیم کے مطابق یہ تمام فساد انسانی ہاتھوں کی کمائی ہے لیکن اس کے نتیجے میں انسان جو کچھ بھگت رہا ہے ،اس میں رجوع الی اللہ کا بھی امکان موجود ہے:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۴۱ (الروم۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تا کہ مزا چکھائے اُن کو اِن کے بعض اعمال کا ، شاید کہ وہ باز آجائیں۔
انسان پر جتنی آفتیں وباؤں ، امراض، طوفانوں اور زلزلوں کی صورت میں آتی ہیں، وہ بڑے عذاب کے مقابلے میں بہت چھوٹی سزائیں ہیں کیونکہ ان سزاؤں کا مقصود تو انسان کو رجوع الی اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہے اور اگر وہ ایسا کرے تو آنے والے بڑے عذاب سے بچ سکتا ہے:
وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۲۱ (السجدہ ۳۲:۲۱) اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش)سے باز آجائیں۔
قوم فرعون کو بھی بڑی تباہی سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذابوں کا شکار کیا گیا۔ کبھی کھٹمل کا عذاب، کبھی خون کا اور دیگر عذاب، تا کہ وہ پلٹ آئیں :
وَمَا نُرِيْہِمْ مِّنْ اٰيَۃٍ اِلَّا ہِىَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِہَا۰ۡوَاَخَذْنٰہُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۴۸ (الزخرف ۴۳:۴۸) ہم ایک پر ایک ایسی نشانی اُن کو دکھاتے چلے گئے جو پہلی سے بڑھ چڑھ کر تھی، اور ہم نے ان کو عذاب میں دھر لیا کہ وہ اپنی روش سے باز آئیں۔
لیکن جو قومیں رب کی طرف پلٹنے کی بات کو نشانۂ تضحیک بنائیں ، ان کے نفس کا غرور اور تکبر انھیں وہیں پہنچا دیتا ہے جہاں فرعون اور اس کے لشکر پہنچ گئے:
وَاسْـتَكْبَرَ ہُوَ وَجُنُوْدُہٗ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اِلَيْنَا لَا يُرْجَعُوْنَ۳۹ فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰہُمْ فِي الْيَمِّ۰ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِــمِيْنَ۴۰ (القصص ۲۸:۳۹-۴۰) اس [فرعون] نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انھیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے۔آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔
تباہ شدہ اقوام کی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے رجوع کے مواقع کو گنوا دیا:
وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۲۷ (الاحقاف ۴۶:۲۷) تمھارے گردوپیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں ۔ ہم نے اپنی نشانیاں بھیج کر بار بار طرح طرح سے ان کو سمجھایا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔
وہ عذاب کہ جس کے نتیجے میں پوری کی پوری سرکش قومیں صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں اور اہل ایمان کو ان میں سے چھانٹ کر مامون ومحفوظ نکال لیا گیا ، انبیا ؑ کی مخاطب اقوام پر واقع ہوا۔ اس لیے کہ وہ اپنی قوم پر نہ صرف دعوت وتبلیغ اور اپنے عمل کی شہادت سے ان پر اتمام حجت کر چکے ہوتے ہیں بلکہ وہ عقل کو اپیل کرنے والے دلائل کے ساتھ ساتھ عقل کو عاجز کرنے والے معجزات اور کھلی کھلی نشانیاں دکھا کر بھی حق کا حق ہونا اور اپنے نبی ہونے کو واضح کر چکے ہوتے ہیں ۔ اس لیے قوم نوح ہو یا عادوثمود ، قوم مدین ہو یا آلِ فرعون ، ان میں سے اہل حق کو نکال کر اہل باطل کو نیست ونابود کر دیا گیا ،یا اہلِ حق کو باطل پر فتح دے دی گئی۔ انبیاؑ کے علاوہ اہلِ حق چونکہ انبیاؑ کی طرح دعوتِ دین کے ابلاغ کا حق ادا نہیں کر سکتے، اس لیے ان کی مخاطب اقوام پر اللہ بھی وہ سخت فیصلہ نافذ نہیں کرتا کہ پوری کی پوری قوم صفحۂ ہستی سے مٹا دی جائے، البتہ انسانیت کی رہنمائی اور بالا دستی سے متعلق استبدال قوم اور قوموں کے عروج و زوال کا عمل جاری رہتا ہے۔ کوئی قوم یا فرد ظلم و سرکشی اور تکبر میں حد سے بڑھ جائے تو اللہ اس پر گرفت ضرور کرتا ہے، البتہ ایک ایک جرم پر سزا دینا سنت الٰہی نہیں ہے:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَہْرِہَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۚ (فاطر ۳۵:۴۵) اگر کہیں وہ لوگوں کو ان کے کیےکرتوتوں پر پکڑتا تو زمین پر کسی متفنس کو جیتا نہ چھوڑتا۔ مگر وہ انھیں ایک مقرر وقت تک کے لیے مہلت دے رہا ہے۔
اللہ انسان کو غلطی پر سنبھلنے کا موقع دیتا ہے ۔ اگر ایک ایک عمل پر فوری سزا ملتی تو انسان کی آزمایش بھی ممکن نہیں تھی۔ آزمایش ہی یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کی گرفت کو دیکھے بغیر مانتا ہے کہ نہیں؟
یہ معلوم ہونے کے بعد کہ اللہ کی طرف سے جتنی سختیاں آتی ہیں، وہ درحقیقت رجوع الی اللہ کی طرف مائل ومتوجہ کرنے کے لیے ہیں، یہ معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ رجوع الی اللہ کس رویے کا نام ہے ؟کیا محض اللہ اللہ کرنے ، دعائیں مانگنے اور کانوں کو ہاتھ لگانے کا یا کہ اس سے کچھ زیادہ؟
l توبہ و استغفار: رجوع الی اللہ کی اہم صورت ظالمانہ رویے سے استغفار ہے ۔ارشادِ الٰہی ہے :
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا۶۴ (النساء ۴:۶۴) جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمھارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسولؐ بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقینا اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔
کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر اسے کسی دوسری جگہ رکھنا ظلم کہلاتا ہے ، وضع شی فی غیر محلّہ ۔ عبادت اللہ کا حق ہے۔ اس کی بجائے کسی اور کے لیے مراسم عبودیت ادا کرنا شرک اور اللہ نے اسے ظلم عظیم قرار دیا ہے۔ اِنَّ الشِّـرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ۱۳ (لقمان ۳۱:۱۳) ’’حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔
نماز ،روزہ ، زکوٰۃ اور حج کو اللہ نے بندوں پر فرض کیا ہے۔، اللہ کے اس حق کو ادا نہ کرنا ظلم ہے۔ اسی طرح اللہ نے والدین اور اولاد کے ، میاں بیوی اور رشتہ داروں کے ،پڑوسی ،استاد، شاگرد، حاکم ورعایا کے حقوق مقرر کیے ہیں۔حکومت اور معاشرے نے انسانوں کے انسانوں پر کچھ حقوق وفرائض مقرر کیے ہیں۔ اب جو ان حقوق کو پامال کرتا ہے،وہ ظالم ہے ۔ حتیٰ کہ غیبت، طعنہ زنی ،عیبوں کی ٹوہ لگانا ، بدگمانی کرنا، نام بگاڑنا ، ان سب کو اللہ نے ظلم قرار دیا ہے اور ان سے توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۱۱(الحجرات ۴۹:۱۱) ’’جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘۔ ہمارے ہاں قتل ، چوری، ڈاکا زنی ، بدکاری کو تو ظلم سمجھا جاتا ہے لیکن مذکورہ معاشرتی برائیوں کو ظلم سمجھا ہی نہیں جاتا کہ جن سے بڑے بڑے فتنے برپا ہوتے ہیں ، اور جب انھیں ظلم سمجھا نہیں جائے گا تو ان سے توبہ کرنے کا خیال کیسے آئے گا؟ کسی بھی قوم کی تباہی کا بڑا سبب اس کا ظالمانہ رویہ ہے:
وَمَا كُنَّا مُہْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ۵۹ (القصص۲۸:۵۹)اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجاتے۔
ایک روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ کے دور میں زلزلہ آیا تو انھوں نے زمین پر پاؤں مارا اور فرمایا:’’ اے زمین تو کیوں ہلتی ہے ؟کیا عمر نے تیرے اوپر انصاف سے حکومت نہیں کی ‘‘؟
انسان ظلم کر بیٹھے تو استغفار کا حکم ہے ، یعنی غلطی کی اصلاح کرنا ، غلط راے ، غلط تدبیر، غلط فیصلے پر نظرثانی کرنا ۔ افراد بھی استغفار کریں اور قوم بھی ۔ تمام گناہوں اور زیادتیوں سے احساسِ ندامت کے ساتھ توبہ کرنا ۔آیندہ ظلم نہ کرنے کا عزم ، جس سے زیادتی کی ہے، اس سے معافی چاہنا ، جس کا حق دبایا ہے اس کا حق ادا کرنا ___ یہ ہے استغفار ۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو آفات ومصائب کا ٹلنا یقینی ہے:
وَمَا كَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۳۳ (الانفال ۸:۳۳)اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے۔
انسان سے غلطی کا ہونا اتنی بڑی غلط بات نہیں جتنا کہ غلطی پر اڑ جانا غلط ہے۔ افراد سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور تنظیموں ، اداروں اور حکومتوں سے بھی۔ ان پر نظر ثانی کرتے رہنا بھی استغفار کی ایک شکل ہے۔ یہ استغفار زبان سے بھی ہوگا اور عمل سے بھی ۔ اللہ کے رسولؐ دن میں سوسو مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم کو عذاب سے بچنے کے لیے یہی دعوت دی تھی:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفَّارًا۱۰ۙ (نوح ۷۱:۱۰)میں نے کہا: ’’اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ‘‘۔
l شکرگزاری: عذاب ٹلنے کا یقینی ذریعہ شکر گزاری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَا يَفْعَلُ اللہُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ۰ۭ وَكَانَ اللہُ شَاكِرًا عَلِــيْمًا۱۴۷ (النساء ۴:۱۴۷) آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں خواہ مخواہ سزا دے ،اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو ۔ اللہ بڑا قدر دان اور سب کے حال سے واقف ہے۔
ایسا جانور جو تھوڑا چارہ کھا کر موٹا تازہ نظر آئے اور دودھ بھی زیادہ دے عربی میں اسے دَابۃً شَکورًا کہتے ہیں ۔گویا انسان کا اللہ کی چھوٹی سی نعمت پر بھی احسان مند ہونا، ملی ہوئی نعمت کی قدر کرنا شکر ہے۔ انسان پر اللہ کی نعمتیں تھوڑی نہیں بلکہ اتنی زیادہ ہیں کہ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۰ۭ (النحل ۱۶:۱۸) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے لگو تو نہ کر سکو گے ‘‘۔ لیکن انسان دوسرے کے مقابلے میں خود کو ملی ہوئی نعمتوں کو حقیر سمجھتا ہے اور یہ ناشکری ہے ۔ قرآن نے قومِ سبا کی خوش حالی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَہٗ۰ۭ (السباء ۳۴:۱۵) کھاؤ اپنے رب کا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا ۔
لیکن انھوں نے اس ہدایت سے منہ موڑا تو بند توڑ سیلاب کے نتیجے میں ان کے باغات جھاڑ جھنکار بن کر رہ گئے اور اللہ نے اس کی وجہ یہ بتائی:
ذٰلِكَ جَزَيْنٰہُمْ بِمَا كَفَرُوْا۰ۭ وَہَلْ نُجٰزِيْٓ اِلَّا الْكَفُوْرَ۱۷ (السبا۳۴:۱۷) یہ تھا ان کے کفر کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا، اور نا شکرے انسان کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔
آج زرعی ومعدنی وسائل اور موسموں کی ساز گار ی کے اعتبار سے اسلامی ممالک جتنی نعمتوں سے مالا مال ہیں، شاید ہی کوئی دوسری قوم اتنی خوش قسمت ہو لیکن یہ نا شکری کا رویہ ہے کہ ذات سے لے کر خاندان تک ، معاشرے سے لے کر بین الاقوامی ایوانوں تک، ہم اپنے وسائل کو ضائع کر رہے ہیں۔ یہ بھی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ دوسری طرف حقوق اور ترقی کی جنگ کے مغربی تصور نے بحیثیت مجموعی انسانی مزاج میں ناشکر گزاری کی پرداخت کی ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پوری انسانیت زرعی اور معدنی وسائل اور خوراک کے وافر ذخائر ہونے کے باوجود بھوک اور خوف کا شکار ہے۔ قرآن کے مطابق یہ سزا ہے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی:
وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْيَۃً كَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَىِٕنَّۃً يَّاْتِيْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہِ فَاَذَاقَہَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ۱۱۲ (النحل ۱۶:۱۱۲) اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن واطمینان کی زندگی بسر کررہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بافراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر ان شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھا یا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں ۔
شکر گزاری کے جذبات دل میں بھی موجزن ہوں اور حاصل شدہ نعمتوں کا اعتراف زبان پر بھی آنا چاہیے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی:وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۱۱ۧ (الضحٰی ۹۳:۱۱) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ اس آیت کی رُو سے نعمتوں کا صحیح استعمال اپنی ذات پر بھی ہو اور اس میں محروم لوگوں کو بھی شامل کیا جائے کہ ملی ہوئی نعمتوں میں سائل اور محروم کا ایک متعین حق ہے: وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۲۴۠ۙ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۲۵ (المعارج ۷۰:۲۴-۲۵)۔شکرگزاری نعمتوں میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہے، جب کہ ناشکری اللہ کے عذاب کا باعث بنتی ہے: لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۷ (ابراہیم ۱۴:۷) ’’اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔
l تجدیدِ ایمان:عذاب سے بچنے کے لیے تجدید ایمان کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ سورئہ نساء میں نجات کے لیے شکرگزاری کے ساتھ ساتھ ایمان کی روش کو نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے:
مَا يَفْعَلُ اللہُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ۰ۭ وَكَانَ اللہُ شَاكِرًا عَلِــيْمًا۱۴۷ (النساء ۴:۱۴۷) آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں خواہ مخواہ سزا دے ،اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو ۔ اللہ بڑا قدر دان اور سب کے حال سے واقف ہے۔
لہٰذا جو ایمان نہیں لائے، وہ ایمان لائیں جیسے حضرت یونس ؑ کی قوم عذاب کو دیکھ کر بحیثیت قوم ایمان لے آئی اور عذاب ان سے ٹل گیا، اور جو پہلے سے مومن ہوں، وہ اپنے ایمان کی تجدید کریں۔ آثار صحابہؓ کے مطابق صحابہؓ ایک دوسرے کو تجدید ایمان کی یاد دہانی کروایا کرتے تھے۔
مغربی تہذیب نے نفوسِ انسانی میں کہیں سائنس کی خدائی کا سکّہ جما دیا ہے تو کہیں قومیت کو خدائی کے مقام پر بٹھا دیا ہے۔ انسانیت پرستی (Humanism)کے نام پر انسانی خواہش نفس کو ’الٰہ ‘ کا درجہ دے دیا ہے۔ معیشت وسرمایہ کے دیوتا کی پرستش بھی اس تہذیب کا خاصّہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی فطرت خدا کے بغیر گزارا نہیں کر سکتی۔ جب اصل خدا کو معاشرت ومعیشت اور تمدن و سیاست سے بے دخل کر دیا گیا تو کسی کو تو ’خدا‘ کے مقام پر بٹھا نا تھا، سو مغرب نے کئی طرح کے بت تراشے لیکن افسوس کہ مسلمانوں کے ماہر ین معیشت وسیاست کی اکثریت بھی انھی بتوں کے سامنے سجدہ ریز دکھائی دیتی ہے ۔
l اصلاحِ معاشرہ کے لیے جدوجہد:عذابِ الٰہی سے بچنے کا ناگزیر تقاضا یہ ہے کہ معاشرے میں اصلاح کی کوشش کرنے والے افراد، مؤثر طورپر موجود ہوں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُہْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا مُصْلِحُوْنَ۱۱۷ (ھود ۱۱:۱۱۷) تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔
قوموں کا بگاڑ جب بگاڑ اور سرکشی چاہنے والوں کی وجہ سے بڑھتا ہے تو ان کے مقابلے میں خیروصلاح چاہنے والوں کا سرگرم ہونا بھی ضروری ہے:
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِيَّۃٍ يَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْاَرْضِ اِلَّا قَلِيْلًا (ھود ۱۱:۱۱۶) پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم۔
ان دونوں آیات کی تفسیر میں سیّد مودودی لکھتے ہیں:’’پچھلی انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں، ان سب کو جس چیز نے گرایا، وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا تو خوش حالی کے نشے میں مست ہوکر زمین میں فساد برپا کرنے لگیں اور ان کا اجتماعی ضمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو بُرائیوں سے روکتے، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سے فساد نہ رُک سکا۔یہی چیز ہے جس کی بدولت آخرکار یہ قومیں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوئیں، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کر رہے ہوں اور اللہ ان کو خواہ مخواہ عذاب میں مبتلا کردے۔ اس ارشاد سے یہاں تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:
’’ایک یہ کہ ہراجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگوں کا موجود رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے اور شر سے روکنے والے ہوں۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے، اور لوگوں کے شرور کو اگر اللہ برداشت کرتا بھی ہے تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہو، اور اُسی وقت تک کرتا ہے جب تک ان کے اندر خیر کا کچھ امکان باقی رہے۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہلِ خیر سے خالی ہوجائے اور اس میں صرف شریر لوگ ہی باقی رہ جائیں، یااہلِ خیر موجود ہوں بھی توکوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے، تو پھر خدا کا عذاب اس کے سر پر اس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کب اس کا وضع حمل ہوجائے۔
’’دوسرے یہ کہ جو قوم اپنے درمیان سب کچھ برداشت کرتی ہو مگر صرف اُنھی چند گنے چُنے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو جو اُسے بُرائیوں سے روکتے اور بھلائیوں کی دعوت دیتے ہوں، تو سمجھ لو کہ اس کے بُرے دن قریب آگئے ہیں، کیونکہ اب وہ خود ہی اپنی جان کی دشمن ہوگئی ہے۔ اسے وہ سب چیزیں تو محبوب ہیں جو اس کی ہلاکت کی موجب ہیں اور صرف وہی ایک چیز گوارا نہیں ہے جو اس کی زندگی کی ضامن ہے۔
’’تیسرے یہ کہ ایک قوم کے مبتلاے عذاب ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دعوتِ خیر پرلبیک کہنےوالے عناصر کس حد تک موجود ہیں۔ اگر اس کے اندر ایسے افراد اتنی تعداد میں نکل آئیں جوفساد کو مٹانے اور نظامِ صالح کو قائم کرنے کے لیے کافی ہو تو اس پر عذابِ عام نہیں بھیجا جاتا بلکہ ان صالح عناصر کو اصلاحِ حال کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر پیہم سعی و جہد کے باوجود اس میں سے اتنے آدمی نہیں نکلتے جو اصلاح کے لیےکافی ہوسکیں، اور وہ قوم اپنی گود سے چند ہیرے پھینک دینے کے بعد اپنے طرزِعمل سے ثابت کردیتی ہے کہ اب اس کے پاس کوئلے ہی کوئلے باقی رہ گئے ہیں، تو پھر کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ بھٹی سلگا دجاتی ہے جوان کوئلوں کو پھونک کر رکھ دے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد۲،ص ۳۷۲-۳۷۳)
آزمایش کی اس گھڑی میں اسوئہ رسول ؐ کی روشنی میں رجوع الی اللہ وقت کا تقاضا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ اللہ کی بندگی اختیار کریں۔ نافرمانی اور غفلت اور دورنگی اور منافقت کی روش کو ترک کر دیں۔اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیں اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ دوسری طرف حکومتِ وقت کا فرض ہے کہ وہ اسلامی نظامِ حکومت کو قائم کرے اور اللہ سے بغاوت کی روش کو ترک کردے۔ رجوع الی اللہ کے نتیجے میں ہی ہم اللہ کی رحمت کے حق دار ٹھیر سکیں گے اور اس وبا اور آزمایش سے بچ سکیں گے:
وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَـنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ۰ۭ (ھود ۱۱:۳) اور تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحب ِ فضل کو اُس کا فضل عطا کرے گا۔
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے خوف کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے ضرورت سے بہت زیادہ چیزیں بازار سے خرید کر رکھ لی ہیں۔اس کی وجہ سے بہت سے لوگ ضرورت کی چیزیں خریدنے سے محروم رہ گئے۔ کچھ کاروباری حضرات نے اپنی دکانوں پر اشیاء کی قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔ اس مصیبت کے وقت اس طرح کی حرکت کرنے والوں میں رحم کا کوئی مادہ نہیں ہے۔ اسلام اس رویے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ مسلم تاجروں کو اس قبیح عمل سے بچنا چاہیے۔ یاد رہے ایمان دار تاجر کا اسلام میں بڑا مقام ہے۔ افسو س کہ ہمارے مسلم معاشرے میں اس بے ضابطگی کو ایک فطری عمل تصور کیا جارہا ہے اور اسے انجام دینے میں کوئی شرمندگی یا گناہ کا احساس نہیں پایا جارہا، بلکہ ایسا کام کرنے والے لوگوں کو اسمارٹ اور ذہین تصور کیا جاتا ہے۔
بعض اوقات یہ صاف نظر آتا ہے کہ کچھ نیم مسلمان حضرات صرف سور کے گوشت اورشراب ہی کو حرام سمجھتے ہیں،بقیہ ساری چیزیں ان کے لیے حلال ہیں۔ اور اس امید پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں کہ رمضان میں افطاری کرانے سے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ اس لیے کہ اس نیت سے گنا ہ کر نا کہ اللہ معاف کردےگا دوگنا گناہ ہے۔ اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی اور کثرت نفع خوری سے منع فرمایا ہے۔ اس کے متعلق بہت سی احادیث مبارکہ ہیں،جو احتکار اور نفع خوری سے منع کرتی ہیں:
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنِ احْتَکَرَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ طَعَامَھُمْ ضَرَبَہُ اللہُ بِالْجُذَامَ وَالْاِفْلَاسِ (سنن ابن ماجہ، باب التجارات باب الحكرۃ والجلب:۲۱۵۵)
حضرت عمر بن خطاب ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوکوئی مسلمانوں کے درمیان ذخیرہ اندوزی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے برص کی بیماری اور غربت میں مبتلا کردےگا۔
اس حدیث کو امام ابن حجر عسقلانی نے حسن قرار دیا ہے، یعنی اس حدیث سے احکامی مسئلہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح سے ایک اور حدیث کاتذکرہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں کیا ہے: جو لوگ گرانی اور مہنگائی کی غرض سے غلہ اور دیگر اشیاء کو روکتے ہیں وہ گنہگار ہیں۔ اﷲ کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کرنے والا بدترین شخص ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذخیراندوزی کرنے والے تاجر کی نفسیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بِئْسَ الْعَبْدُ اِنْ سَمِعَ بِرُخْصٍ سَاءَہُ وَ اِذَا سَمِعَ بِغَلَاء فَرِحَ (مجمع الزوائد: ۱۰۴/۴)
بہت بُرا ہے وہ شخص جو خود ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔جب قیمت گرنے لگتی ہے تو بہت برا محسوس کرتا ہے اور جب قیمت بڑھتی ہے تو بہت خوش ہوتا ہے۔
حالانکہ ایک مسلم تاجر کا معاملہ ایسا ہونا چاہیے کہ جب نقصان ہونے لگے تو صبر کرے اور جب فائدہ ہونے لگے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الْجَالِبُ مرزوقٌ وَالمحتَكِرُ ملعونٌ (سنن ابن ماجہ: ۳۴۸/۱) بازار میں مال لانے والے کو رزق دیا جاتا ہےاور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ذخیرہ اندوزی اور کثرت نفع خوری کا چلن تھا۔ آپؐ اس کو روکنے کے لیے بازار بھی جاتے تھے اور متعدد مرتبہ بازار میںخردبرد اور دھوکادہی کے معاملے میں تاجروں کی گرفت بھی کرتے تھے۔
اسلام اشیا ء کی قیمت میں اُتارچڑھاؤ کے فطری عمل سے منع نہیں کرتاہے، لیکن جان بوجھ کر چیزوں کی قیمت بڑھانے پر سخت وعید سناتا ہے۔ ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے آپؐ سے چیزوں کی قیمت متعین کرنے کے لیے کہا توآپؐ نے جواب میں فرمایا:
اللہ ہی ہے جو قیمت کا تعین کرنے والا ہے ، وہی چیزوں کو سستا اور مہنگا کرتا ہے،وہی روزی دینے والا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کروں کہ کوئی شخص تم میں سے مجھ سے خون میں اور مال میں ظلم و ناانصافی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔(غایۃ المرام : ۳۲۳)
اسلام نے تاجروں کو ایک اہم مقام دیا ہے۔ یقینا کسی ملک کی ترقی میں اس کے تاجروں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے اسلام نے ایمان دار تاجروں کی پذیرائی کی ہے اور یہ بشارت دی ہے کہ ایمان دار اور امانت دار تاجر قیامت کے دن شہدا، صدیقین اور انبیاء کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ یہ مسلم تاجروں کے لیے بہت بڑے شرف کی بات ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدیْقِیْنَ وَالشُہَدَآءِ (ترمذی) ایمان دار کاروباری لوگ قیامت کے دن نبیوں، صدیقین اور شہدا کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔
مسلم تاجر حضرات اس ذمہ داری سے آنکھ نہ چُرائیں، ورنہ اس کا انجام قیامت کے روز بڑا دردناک ہوگا۔قرآن مجید میں تقریباً ایک درجن سےز ائد آیات ہیں، جو تجارتی معاملات سے بحث کرتی ہیں۔ اس موقعے پر ان آیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں کو ترغیب دی جانی چاہیے۔
ایک مرتبہ جب جاپان میں سونامی آیا تو ساحل سمندر سے متصل ایک صوبے میں کافی لوگ متاثر ہوئے۔ اس علاقے میں ایک بڑھیا الیکٹرانک کی اشیاء کو بہت ہی کم قیمت پر فروخت کررہی تھی۔ایک خریدار نے پوچھا: آپ کیسے اتنے سستے دام پر اپنی چیزوں کی فروخت کررہی ہیں؟ بڑھیا نے جواب دیا: میں یہ سامان بازار سے ہول سیل قیمت پر خریدتی ہوں، جو سستا پڑتا ہے اور بغیر منافع کے ان اشیاء کو فروخت کرتی ہوں۔ اس کے اس جواب پر خریدار نے سوال کیا: ’’اس طرح کے کاروبار سے آپ کو کیا فائدہ؟آپ کو تو کوئی نفع نہیں ملے گا‘‘۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ مَیں فائدے کے لیے یہ اشیاء نہیں فروخت کررہی ،بلکہ اس طرح سے اپنی قوم کے لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔
اگر مصیبت کے ان دنوں میں ہم اس بڑھیا کی طرح نہیں بن سکتے تو کم سے کم معقول قیمت پر چیزوں کو فروخت کریں۔ یقین مانیے بہت جلدی میں کمایا ہوا پیسہ بہت زیادہ دیر تک انسان کی جیب میں نہیں رہتا اور اس میں کوئی برکت نہیں ہوتی ہے۔ہم جن کے لیے ناجائز طور پر کماتے ہیں وہ ہمارے مرنے کے کچھ برسوں بعد ہمارا نام بھی صحیح طور پر یاد نہیں رکھ سکتے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے کہ اس نے انسان کو آزمائے جانے کے لیے پیدا کیا۔چنانچہ سورۂ ملک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جس نےموت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمھیں آزمائےکہ تم میں سے عمل میں زیادہ بہتر کون ہے‘‘(الملک ۶۷:۳)۔ اسی طرح سورۂ انعام آیت۱۶۵ ،سورۂ ہود آیت ۷،سورہ کہف آیت ۷، اور دیگر سورتوں میں بھی اس بات کودوہرایا گیا ہے۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ سمجھ لیں کہ آزمایشوں کا مقصد کیا ہے؟
lآزمایشوں کی حقیقت:دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے ہم بے شمار امتحان دیتےہیں، اس لیے کہ امتحانات دیے بغیر کبھی بھی ترقی نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی اسکول ایسے بچے کوقبول نہیں کرے گا جس کے والدین یہ شرط لگائیں کہ یہ بہت لاڈلا ہے، لہٰذا اس کا امتحان مت لیجیے گا۔ پس، ہر قابل قدر چیز کی طرح جنت کی بھی ایک قیمت ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:’’بےشک اللہ کا سودا مہنگا سودا ہے۔ سن لو، بےشک اللہ کا سودا جنت ہے‘‘ (ترمذی) ۔ اگر اسکول والے امتحان نہ لیں تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں، لیکن اگر اللہ کی طرف سے امتحان آجائے تو انسان کبھی سوچتا ہے کہ کیا میں ہی رہ گیا تھا؟ ہم اللہ سے آسان امتحان مانگتے ہیں، لیکن جنت کی قیمت چکانےکے لیے امتحان ہوگا ضرور۔
امتحان کے ذریعے ہی کھوٹے اور کھرے کا فرق پتا چلتا ہے۔ ایک صحابیؓ جن کو کافروں نے ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ کافر چلّاکر پوچھتے کہ کہاں ہے تمھارا رب؟ وہ تمھیں کیوں نہیں بچاتا؟ وہ جواب دیتے تھے کہ جب تم مٹکا بھی خریدتے ہو تو اس کو بجا کر دیکھتے ہو کہ یہ مضبوط ہے یاکھوکھلا۔ میرا رب بھی مجھے آزمارہا ہے کہ میں جنت کے قابل ہوں یا نہیں؟
اس امتحان میں ممتحن اللہ تعالیٰ ہیں اور اسی نے امتحان کی کتاب (textbook) یعنی قرآن کریم ہمارے لیے اتارا ہے۔ بلاشبہہ تلاوتِ قرآن پر بھی اجر ہے،لیکن قرآن دراصل عمل کی کتاب ہے:’’یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے ایک برکت والی کتاب۔ پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے‘‘(انعام۶:۱۵۵)۔ اگر اس کو سمجھ کر اس کو اپنے عمل میں ڈھالا جائے تو دنیا اور آخرت کے مراحل خیر اور آسانی سے طے ہو پائیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معلّم ہیں۔ آپؐ نے بھی فرمایا: ’’میں معلم بنا کر بھیجاگیا ہوں‘‘ (ابن ماجہ)۔ اسی لیے آپؐ قرآن کی زندہ مثال تھے (بخاری)۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے محبت کرنا تو ہمارے ایمان کاحصہ ہے، لیکن جب تک آپؐ سےسیکھ کر ان کے نقش قدم پر نہ چلاجائے تو امتحان کا پرچہ صحیح حل نہیں ہوپائے گا: ’’جو کچھ رسول ؐتمھیں دے وہ لے لو، اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ‘‘۔ (الحشر۵۹:۷ )
امتحان کس چیز کا ہے؟ گھروں اور گاڑیوں کا؟ بہترین گریڈوں اور نمبروں کا؟ نہیں، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ کون بہترین عمل کرنے والا ہے؟ (الملک ۶۷:۲) ۔ نیک اعمال ہی آخرت کی کرنسی ہیں اور اسی کے لیے ہماری تگ و دو ہونی چاہیے: ’’پس تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو‘‘ (البقرہ۲:۱۴۸)۔
نتیجہ کب آئے گا؟ نتیجہ آخرت میں آئے گا:’’کامیاب دراصل وہ ہے جو آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنّت میں داخل کردیا جائے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵)۔ جیسے بئر معونہ کے واقعہ میں ایک شخص نے حضرت حرام بن ملحانؓ کو پیچھے سے نیزہ مار کرشہید کیا۔ جب انھوں نے اپنے سینے سے نیزے کی نوک نکلتی دیکھی تو پکار اٹھے: ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا!‘‘ (بخاری)۔ قاتل یہ بات سن کر حیرت میں ڈوب گیا کہ میں نے اس کو قتل کیا اور اس نے کہا کہ میں کامیاب ہوگیا؟ پھر جب اس کو پتا چلا کہ اسلام میں کامیابی اور ناکامی کے تصورات نے آخرت کی وسعتوں کو سمیٹا ہوا ہے اور وہ محض اس دنیاے فانی تک محدود نہیں ہیں، تو اس نے رب العالمین کے آگے اپنا سر جھکالیا اور مشرف بہ اسلام ہوا۔
یہ دنیا کمرۂ امتحان ہے:’’جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے، اِس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘ (الکہف۱۸:۷)۔ امتحان کے ختم ہونے کےساتھ یہ سب بھی ختم ہوجائے گا: ’’آخرکار اس سب کوہم ایک چٹیل میدان بنادینے والے ہیں‘‘ (الکہف۱۸:۸)۔ اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ ہمارے پرچے اور اسباب امتحان ہیں، بہن بھائی سے لے کر گاڑی اور گھرتک: ’’تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں‘‘(التغابن۶۴:۱۵)۔ ان پرچوں کو ہم نےبحسن وخوبی ادا کرکے اپنا مقصد، یعنی رضاے الٰہی اور جنت حاصل کرنا ہے نہ کہ انھی کو اپنا مقصدبنائیں۔
دنیا کے امتحانات میں ہر تھوڑی دیر بعد ایک نئی نسل(batch ) آتی ہے اور اس کا اَز سرِ نو امتحان لیا جاتاہے۔ اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عرب میں ارتداد کی لہر دوڑ گئی اور ہرطرف سے مشکلات نے گھیر لیا۔ انسان سوچ سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم ہی اتنا بڑا تھا، اس کے باوجود اتنی زیادہ مشکلات کیوں؟ دراصل صحابہؓ تو مختلف آزمایشوں سے گزر کر اعلیٰ درجات حاصل کرچکے تھے۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایک نئی کھیپ آگئ تھی اور ان کا امتحان بھی ضروری تھا (جب کہ، صحابہؓ مزید بلند درجات حاصل کرتے گئے)۔
پچھلے امتحانات (past papers ) سے بھی سیکھاجاتا ہے، اس لیے کہ سوال اور طرزِ سوال دُہرائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ابراہیمؑ اور نمرود، موسٰی اور فرعون کے قصے ہمیں اتنی مرتبہ اسی لیے سنائے ہیں کیونکہ ہم ہر دور میںان سے ملتے جلتے کرداروں کو پائیں گے۔
واقعات دُہرانے کا یہی مقصد ہے کہ ہم ان کرداروں کی پہچان، ان کے انجام سے واقفیت، نیکوکاروں سےحوصلہ اور بدکاروں سے عبرت کے اسباق حاصل کریں۔
جن لوگ نے اس زندگی کو آزمایش جان کر گزارا ان کی بلندیاں ہی اور تھیں۔ اگر یہ ایک تصور درست ہوجائے تو سوچ اور عمل کی بہت ساری کجیاں دورہوجاتی ہیں۔ آج دنیا میں مسلمانوں کے جوحالات ہیں، اللہ چاہے تو ایک لمحے میں ان کو درست کرسکتا ہے۔ لیکن دراصل وہ ہمیں آزما رہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ حق اور باطل کی کش مکش میں ہم میں سے کون اپنا حصہ ادا کررہا ہے اور کون محض تماشائی بنابیٹھا ہے: ’’اگرچہ تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بناسکتا تھا، لیکن (اس نے ایسا نہیں کیا) تاکہ جوکچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے، اس میں وہ تمھاری آزمایش کرے‘‘۔ (المائدہ ۵:۴۸)
جب امتحانات گزر جائیں گے اور پورا انعام اور ثواب وصول ہوجائے گا تو انسان ان تمام سختیوں کو بھول جائے گا جو اس نے جھیلیں تھیں۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ قیامت کے دن اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں انتہائی تکلیف دہ زندگی گزاری تھی۔ اس کو جنت میں ایک بار ڈبکی دی جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے: ’’اے ابن آدم، کیا تم نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی؟ کیا تم کبھی کسی پریشانی سے گزرے؟‘‘ وہ جواب دے گا کہ نہیں اللہ کی قسم!میں نے کبھی کسی قسم کی تکلیف نہیں دیکھی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو امتحانِ زندگی میں کامیاب کرے۔ آمین!
lمقصد زندگی: قرآن میں اللہ تعالیٰ ہم سے سوال کرتا ہے: ’’بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمھیں یوں ہی بےمقصد پیدا کردیا، اور تمھیںواپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا؟ تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے، اس کی شان اس سے اونچی ہے (کہ وہ بےمقصد کچھ بنائے)، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرشِ بزرگ کا مالک ہے‘‘۔ (المومنون۲۳:۱۱۵)
ایسی زندگی جس کا کوئی مقصد نہ ہو یوں ہی ہے جیسے ایک جسم ہو جس میں روح نہ ہو، یا ایک قافلہ ہو جس کی کوئی منزل نہ ہو۔ لیکن اللہ نے تو ہمیں بھٹکنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ہماری زندگیاں ایک خوب صورت معنی خیز مقصد کی حامل ہیں جوجب ایک مرتبہ واضح ہوجائے تو بہت ساری الجھنیں دور ہوجاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بارہا ذکر کرتا ہے کہ اس کی کوئی بھی مخلوق بے مقصد پیدا نہیں کی گئی: ’’ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے‘‘(الانبیاء ۲۱: ۱۶-۱۷)۔ یہی مضمون سورة حجر ۱۵: ۸۵-۸۶، سورة یونس ۱۰:۵ اور سورة دخان۴۴: ۳۸-۳۹ میں بھی بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد جوکچھ ہے، سب ایک نہایت گہرا اور پاکیزہ مقصد رکھتےہیں:’’ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق، اور ایک مدتِ خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے‘‘ (الاحقاف ۴۶:۳)۔
پس، وہ مقصد کیا ہے اور انسانی زندگی پر کیسے اثرات چھوڑتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: ’’اُس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘ (الملک۶۷:۲)۔ہم اس دنیا میں اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آزمائے جائیں۔ کیوں؟ اس لیےکہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم نے اللہ تعالیٰ سے عہدکیا تھا کہ وہی ہمارا رب ہے۔ لہٰذا اللہ ہمیں آزما کر دیکھتے ہیں کہ ہم کس حد تک اپنے رب کے وفادار ہیں؟ پھر ہماری وفاداری کے بدلے میں بطور انعام ہمیں جنت ملےگی۔ یہ دراصل ایک سودا ہے: دنیا کی فانی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق، پھر آخرت کی ہمیشگی کی زندگی ہماری مرضی کے مطابق۔
انفرادی سطح پر کامیابی ا للہ کی عبادت سے حاصل ہوگی۔ اللہ کاارشاد ہے:’’میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘ (الذاریات ۵۱:۵۶)۔مگر اللہ کی عبادت کس چیز کو کہتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا ہر کام عبادت ہے،بشرطیکہ وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو اور اس کےپسندیدہ طریقے کے مطابق ہو۔ بلاشبہہ جو روحانی عبادات اللہ نے ہم پر فرض کی ہیں وہ نہایت اہم پیغامات اور یاد دہانیوں کی حامل ہیں اور ان کی ادائیگی ہم پر لازم ہے۔ البتہ اس کے علاوہ اگر ایک مسلمان دیانت داری کے ساتھ اللہ کے احکام پر چلتےہوئے اپنا کاروبار کررہا ہو، اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے رزق حلال کمارہاہے، تو اس کا کمانا عبادت ہے۔ اگر وہ پڑھائی کررہا ہواس نیت سے کہ آگے جاکر وہ اس کے اور دوسروں کے کام آئے اور اس سلسلے میں وہ ا للہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بھی بچا رہے، تو وہ اللہ کی عبادت کررہا ہے۔ اگر وہ اپنے گھر میں ہو اور اپنےگھروالوں کے حقوق کی ادایگی کررہا ہو، تو وہ اللہ کی عبادت کررہا ہے۔ اگر وہ میدان جنگ میں ہو اوراپنے دین اور بھائی بہنوں کی حفاظت کے لیے لڑ رہا ہو تو وہ ا للہ کی عبادت میں ہے۔
البتہ چونکہ ہم پر پہلا اور آخری حق اللہ کا ہے ،لہٰذا اگر ہمیں کبھی ایسی صورتِ حال پیش آئے جس میںایک طرف اللہ کی خوش نودی ہو اور دوسری طرف اس کی ناراضی، تو ہم ہمیشہ اللہ کی خوش نودی پرہی چلیں گے۔
دوسری طرف اجتماعی سطح پر ہمارے بارے میں یہ فرمایا گیا: ’’اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پرایمان رکھتے ہو‘‘ ( اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)۔
بحیثیت امت ہمارافرض ہے کہ ہم حق کو قائم کریں اور باطل کو مٹائیں۔اس کے لیے ہم سب سے پہلے اپنی ذات سے شروع کرتے ہیں، پھر اپنے گھر کی طرف بڑھتے ہیں اوراس کے بعد جہاں تک ہمارا دائرہ اثر جاسکے۔ ایک مسلمان کی زندگی دنیائے فانی کی اشیاء کےساتھ بندھی نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ اپنے رب کی محبت میں اور جنت پانے کے لیے جیتا ہے۔ پھر جب اس دنیا میں اپنی مدت پوری کرکے وہ آخرت کی طرف منتقل ہوجائے گا تو وہ جنت میں بیٹھ کر اپنی پچھلی زندگی کو اس کے تمام راحت اور غم سمیت یاد کرکے کہے گا: "ہم پہلے جب اپنے گھر والوں (یعنی دنیا) میں تھے تو ڈرے سہمے رہتے تھے۔ آخر اللہ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا اور ہمیں جھلسانے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔ ہم اس سے پہلے اس سے دعائیں مانگا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی ہے جو بڑامحسن، بڑا مہربان ہے‘‘۔ (الطور۵۲:۲۶-۲۸)
lقرآن کا تصورِ خدا :جب انسان کو اللہ تعالیٰ کا درست تصور حاصل ہوجائے اس کو بےحد سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے کوئی کھویا ہوا جگری دوست دوبارہ مل گیا ہو۔ مختلف مذاہب کے الگ تصورِ خدارہے ہیں جو فرق رکھنے کے باوجود کچھ باتوں میں مماثلت بھی رکھتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ قرآن نے خدا کے بارے میں کس طرح کا تصور پیش کیا ہے؟
قرآن ہمارا تعارف اللہ تعالیٰ سے کرواتا ہے، ایک ایسی ذات جو اپنی ہر مخلوق سے گہری دل چسپی رکھتی ہے۔ وہ محض ہمارا خالق نہیں ہے، بلکہ وہ ہمیں پرورش اور ہدایت دینے والا بھی ہے: ’’جس نے سب کچھ بنایااور ٹھیک ٹھیک بنایا۔ اور جس نے ہر چیز کو ایک خاص انداز دیا پھر راستہ بتایا‘‘ (الاعلٰی ۸۷:۲-۳)۔ جب اس نے اپنی مخلوق کو اس دنیا میں بھیجا تو انھیں مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں سے نواز کر بھیجا۔البتہ اس کے ساتھ ان کو تسلی بھی دی کہ وہ انھیںکبھی بے یار و مددگار بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑے گابلکہ وہ ان کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں اورکتابوں کو بھیجتا رہے گا تاکہ وہ انھیں سکھائیں کہ جو قوتیں اور صلاحیتیں ان کے پاس ہیں انھیں کس طرح استعمال کیا جائے: ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘(البقرہ۲:۳۸)۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم دنیا اور آخرت میں سکون اور سلامتی کے ساتھ رہیں:’’اوراللہ انھیں سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے‘‘ (یونس۱۰: ۲۵)۔
چاہے ہمارے انفرادی درجے کے معاملات ہوں یااجتماعی، اللہ تعالیٰ سب میں دل چسپی رکھتے ہیں اورپوری محبت کے ساتھ اپنے بندوں کی رہنمائی کرتےہیں۔ پس قرآن میں ہم اللہ تعالیٰ کو تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مسائل کو حل کرتے دیکھتے ہیںجیسے حکومت، عدالت، صلح اور جنگ، میراث(النساء۴:۱۱-۱۲)، رضاعی رشتے، محفل کے آداب(المجادلہ ۵۸: ۸-۱۱)، معاشی معاملات کے اصول، اورشوہر اور بیوی کی آپس کی محبت کو قائم رکھنے کےطریقے: ’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگروہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘ (النساء۴:۱۹)۔قرآن پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کوئی بےلوث دوست، کوئی شفیق استاد یا ایک مشفق والدہم سے مخاطب ہے۔
قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو متحد رہنے پر ابھارتا ہے اور تفرقہ میں پڑنے سے منع کرتا ہے (اٰل عمرٰن۳: ۱۰۳)۔ اس کو یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں اس کے بندوں میں ظلم اورفحاشی نہ پھیل جائے ۔ وہ ہمارے ازلی دشمن شیطان سے ہمیں متنبہ کرتا ہے اور اس سے، اس کے ساتھیوںسے اور ان کی چالوں سے بچنے کی تاکید کرتا ہے۔اللہ ہم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے واقعات بھی ہمیںسناتا ہے تاکہ ہمارے دل مضبوط ہوں اور ہماری ہمت افزائی ہو: ’’اور اے نبیؐ! یہ پیغمبروں کے قصّے جو ہم تمھیں سناتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے سے ہم تمھارے دل کو مضبوط کرتے ہیں‘‘ (ھود: ۱۱:۱۲۰) ۔ بعض اوقات وہ پیار بھرے انداز میں ٹوکتا اورسرزنش بھی کرتا ہے: ’’جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟‘‘ (النور۲۴:۱۲)۔وہ ہماری کوتاہیوں کا تجزیہ کرتا ہےاور جہاں ضرورت ہو ہماری اصلاح کرتا ہے (اٰل عمرٰن۳:۱۵۲)۔
قرآن کریم ایسے ربِّ جلیل سے ہمارا تعارف کرواتا ہے جو ہر چیزپر قدرت رکھتا ہے اور جس کے لیے کچھ ناممکن نہیں۔ زمین اور آسمان کے خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ مگرسب سے زیادہ طاقت ور ہونے کے ساتھ وہ سب سے زیادہ حکمت اور دانائی والا بھی ہے:’’اللہ زبردست اور حکیم ہے‘‘ (النساء۴:۱۵۸)۔ ہم دنیا میں اپنے اردگرد مستقل تبدیلیاں ہوتے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں کبھی خوف اور پریشانی بھی لاحق ہوجاتی ہے۔ لیکن قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اول تو ہر چیز اس کی اجازت سے ہی ہوتی ہے، اور دوم یہ کہ حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے ہیں:’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتےرہتے ہیں‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۴۰ )۔ پس اللہ جس کو چاہتا ہے عزت اورطاقت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ وہ اندھیروں میں سے روشنی اور روشنی میں سے اندھیرا نکالتا ہے۔ وہ زندوں کو موت اور مردوں کوزندگی بخشتا ہے۔ مگر اس کا کوئی بھی فعل چاہے جس بھی پیمانے پر ہو بے مقصد نہیں ہوتا ہے، بلکہ ’’تیرے ہی لیے سراسر خیر ہی خیر ہوتا ہے، اس لیے کہ: ’’بھلائی تیرےاختیار میں ہے۔ بے شک تُو ہرچیز پر قادر ہے‘‘(آل عمرٰن۳:۲۶)۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ اپنی محبت اور حکمت میںاپنی بعض مخلوق کو دیگر مخلوقات کے فائدہ اورحفاظت کے لیے متعین کرتا ہے۔ اس کی باریک اوربےعیب تدبیروں کی ایک جھلک ہمیں حضرت موسیٰ اور خضرعلیہم السلام کے واقعے میں ملتی ہے۔ غریب ملاح اپنی کشتی میں سوراخ دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئے ہوں گے۔ والدین اپنے بیٹے کی موت پر غم سے نڈھال ہوگئے ہوں گے۔ یتیم بچوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہوگا کہ یہ پردیسی دیوار کیوں تعمیر کررہے ہیں؟ مگر درحقیقت اللہ ملاحوں کے وسیلۂ روزگار کو چھن جانے سے بچا رہے تھے، والدین کو بڑھاپے میں ذلت اٹھانے سے محفوظ رکھ رہے تھے، اور یتیم بچوں کے لیے باپ کی میراث کی حفاظت کا انتظام کررہے تھے۔ جب انسان کا ایسے پیارے رب پر ایمان ہو تو وہ کیوں نہ پکار اٹھے:’’کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسا نہ رکھیں،جب کہ اس نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں!‘‘ (ابراہیم۱۴:۱۲)
قرآن میں اللہ اپنے بندوں کو ترغیب دلاتا ہے کہ وہ ہمیشہ حق کے لیے کھڑے ہوں اور باطل کا کبھی ساتھ نہ دیں۔ پھر جب اس کے بندے واقعی حق اور باطل کی کش مکش میں اترتے ہیں تو وہ محض تماشائی نہیں بنا رہتا ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کو حوصلہ دلاتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے: ’’ڈرو نہیں، میں تمھارے ساتھ ہوں، سن بھی رہا ہوں، دیکھ بھی رہا ہوں‘‘ (طٰہٰ ۲۰: ۴۶)۔
وہ ان کو تسلی دیتا ہے: ’’اگر تمھیں ایک زخم لگا ہے، تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکاہے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۰)۔ وہ ان کی ہمت کو بڑھاتا ہے:’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۳۹)،بلکہ بعض اوقات حق کوباطل سے ممیز کرنے کے لیے وہ دونوں کو آپس میں ٹکراتا ہے۔ پھر جیسے ہی باطل کا کمزور ڈھانچا زمین بوس ہوجاتا ہے، حق ہر ایک کے لیے واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے:’’ سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہوجاتا ہے، اورجو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھیرا رہتاہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے‘‘ (الرعد۱۳:۱۷)۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ اللہ بے نیازہے اور اس کو کسی کی ضرورت نہیں ہے، وہ اپنی مخلوق کی کوششوں کی بےحد قدر کرتا ہے:’’اللہ بڑا قدردان ہے، اور سب کے حالات کا پوری طرح علم رکھنے والا ہے‘‘(النساء۴:۱۴۷)۔ وہ کسی کی ادنیٰ سی نیکی کرنے کوشش کو بھی ضائع ہونے نہیں دیتا:’’اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘ (ھود۱۱:۱۱۵)۔ وہ ہر ایک کو انصاف دلاتا ہے، پس اسی لیے اس نے آخرت کی زندگی بھی رکھی کیونکہ اس محدود دنیا میں اکثرانسان عادلانہ جزا اور سزا سے محروم رہ جاتا ہے: ’’روز جزا کا مالک‘‘(الفاتحہ ۱: ۴)۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کی ذات سب سے عظیم ہے،مگر اس کی کوئی بھی مخلوق، چاہے کتنی ہی چھوٹی اور غیر معروف ہو، کبھی اس کی نظر سےاوجھل نہیں رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ ہر ایک کی بات کو سننے کے لیے موجود ہوتا ہے: ’’بے شک میرا رب قریب ہے اور وہ دُعاؤں کا جواب دینے والا ہے‘‘ (ھود۱۱: ۶۱)۔ ’’بے شک میرا رب دعاؤں کا سننے والا ہے‘‘ (ابراھیم۱۴:۳۹ )۔یہ خدشہ کبھی نہیں ہوتا کہ کہیں وہ تھک کر غفلت میں پڑجائے۔ اس لیے کہ: ’’اس کو نہ اُونگھ آتی ہے نہ نیند‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۵)۔
یہ ہے وہ تصورِ خدا جو انسان کو اپنے رب کی محبت اور اس پر مان اور فخر دلاتا ہے۔ ایسا تصورِ خدامسلمان کو وہ ہمت اور عزم دیتا ہے کہ وہ اپنے رب کےلیے سینہ تان کر کھڑا ہو، اس کی خاطر قربانیاں دے اور پورے اعتماد کے ساتھ کہے: ’’اور ہم اللہ پر اور جو حق ہمارے پاس آگیا ہے اس پر آخر کیوں نہ ایمان لائیں؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل کردے گا‘‘ (المائدہ۵:۸۴) ۔
اللہ کو جاننا، اس کو چاہنا اور اس سے قریب ہونے سےہی دل پُرسکون اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’بے شک دل میں ایک ویرانی ہے جوصرف اللہ کی معیت سے آباد ہوتی ہے۔ اور اس میںایک غم ہے جو صرف اس کو جاننے کی خوشی سےدور ہوتا ہے۔ اور اس میں ایک بےچینی ہے جو صرف اس کی طرف لپکنے سے قرار پاسکتی ہے۔ اور اس میںحسرتوں کی ایک آگ ہے جو صرف اس کے فیصلوںاور احکامات پر راضی ہونے اور صبر کرنے سے بجھ سکتی ہے۔ اور اس میں ایک خلا ہے جو صرف اس کی محبت، اس کی یاد اور اس کے ساتھ مخلص ہونے سے پُر ہوتی ہے۔ اور اگر انسان کو (اس کے بجائے) پوری دنیا بھی مل جائے تو وہ خلا کبھی پر نہیں ہوگا ۔
مہینے، ہفتے، دن ، گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ گزرتے رہے اور یوں سال بہت تیزی سے گزرگیا۔ رمضان جیسا معزز مہمان ہمارے پا س آ گیا، مگر ہم بے سدھ پڑے ہیں، غافل ہیں، اس کے استقبال کے لیے تیار نہیں۔دنیا نے ہمیں غافل کر دیا ہے، ہم زمین سے چمٹے ہوئے ہیں۔ گناہوں نے ہمیں بوجھل بنا دیا ہے، خطاؤں نے ہمیں تھکا دیا ہے، چنانچہ ہم تاریک راستے پر ہی چل رہے ہیں۔ ہم گناہوں سے باز نہیں آتے اور متاع الغرور کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔
ہمیں اللہ کے راستے کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے، اللہ کے روشن راستے پر گامزن ہونے کی حاجت ہے۔ کاش! ہم جانیںکہ ہم اللہ رحمان و مہربان اور بخشنے والا کے قرب کے کس قدر حاجت مند ہیں۔
کیا ابھی ہمارے لیے پلٹنے کا وقت نہیں آیا؟ کیا ہمارے سخت اور پتھر دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم نہیں پڑیں گے؟ کیا ہماری آنکھوں کے لیے خوفِ خدا سے آنسو بہانے کا وقت نہیں آیا؟ کیااندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے روشنی کے راستے پر چلنے کا موقع ابھی نہیں آیا؟ کیا اعضا و جوارح کو اب گناہوں سے استغفار نہیں کر لینا چاہیے؟ اور گناہوں سے باز نہیں آ جانا چاہیے؟ کیا زبان کو غیبت سے رک نہیںجانا چاہیے؟ کیا اسے اللہ کے بندوں کو گالیاں بکنے اور ان پر تہمت تراشنے سے بچنا نہیں چاہیے؟ کیا خواہشات کے بندوں کو ہوش نہیں آنا چاہیے؟ کیاشہوات کے اسیروں کو شہوتوں کے چُنگل سے باہر نکلنے کا وقت نہیں آیا؟
اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو:رمضان کی آمد کے ساتھ ہی میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا: کیا ہماری کامیابی ممکن ہے؟ کیا ہم اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں گے؟ شاید کہ پھر یہ فرصت نہ ملے۔ کیا معلوم کہ آیندہ رمضان آنے سے پہلے ہی ہم رخصت ہوجائیں اور اس کا خیر مقدم نہ کر پائیں اور یوں موقع جاتا رہے؟
میں اسی حیرت میں گم تھا کہ میں نے اپنے اندر سے آواز سنی، یہ میری اپنی آواز تھی: ہاں، ہاں، موقعے سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے۔ میرا رب مہربان ہے، بخشنے والا ہے۔ وہ میرا پروردگار یقینا میری توبہ سے خوش ہوگا، جیسا کہ حبیب مکرمؐ نے بشارت دی ہے ۔ میرے رب نے مجھے مایوسی و نااُمیدی سے روکا ہے۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ وہ سب گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo (الزمر۳۹:۵۳) (اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوںنے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور ورحیم ہے۔
دُنیا میں انسان دشوار گزار راستے پر چلنے والے مسافر کی مانند ہے۔ اسے سفرِ زندگی طے کرنے کے لیے زادِ راہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی منزلِ مراد’جنت‘ تک پہنچ سکے۔ اسے ایمان کا زادِراہ درکار ہے۔ جب بھی اس کا زادِ راہ کم ہونے لگے تو اسے چاہیے وہ از خود یہ زادِ راہ مہیا کرے ورنہ وہ زادِ راہ نہ ہونے کی وجہ سے راستے میں ہی ہلاک ہو جائے گا۔ لہٰذا، اس دنیا میں اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہنا اور ایمان کو زادِ راہ کے طور پر ساتھ رکھنا لازمی ہے۔ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ اللہ بزرگ و برتر نے ہمیں مطلع فرما دیا ہے کہ ایمان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے:
وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ لا قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ز وَمَا زَادَھُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمـًا ۲۲ۭ (الاحزاب ۳۳:۲۲) اور سچے مومنوں نے جب حملہ آورلشکر وں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچی تھی‘‘۔ اس واقعے نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔
پس رمضان کے قریب آتے ہی ہمیں زادِ راہ کی خاطر اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم قربِ الٰہی کیسے حاصل کریں اور ایمان کی تجدید کیسے کریں؟ ہمیں اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات کرنا ہوں گے:
نیت کی درستی: چونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے ہمیں اپنی نیت درست کرنا ہوگی۔ ہماری نیت یہ ہو کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ بھلائیاں سمیٹنا ہیں، عطیات و خیرات بہ کثرت کرنا ہیں۔ اگرہماری نیت یہ ہواور ہم رمضان کی آمد سے پہلے ہی جان بحق ہو جائیں تو بھی حُسن نیت کی وجہ سے ہم اجرو ثواب کے حق دار ٹھیریں گے۔ اگر زندگی ہوئی تو پھر رمضان میں نیک اعمال کی جزا ملے گی۔ یاد رہے کہ قبولیتِ عمل کے دو پَر ہیں: صحیح نیت اور درست عمل۔
توبہ: غیبت، چغل خوری اور جھوٹ سے اپنی زبان کو روکے رکھنا ہمارا فرض ہے تاکہ ہم زبان کی آفات سے محفوظ رہیں۔ ہماری زبانیں فضول گوئی، لغو کلام، بے فائدہ و بے ہودہ باتوں سے دور رہیں۔ فحش گوئی، چاپلوسی اور منافقانہ گفتگو ہماری زبانوں پر نہ آئے۔ ہم سب کو توبہ کرنی چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر اپنا وقت ضائع نہ کریں گے۔ ہم فضولیات کے دیکھنے اور سننے سے بچیں گے۔ فضول بیٹھ کر اپنے اوقات عزیز برباد نہ کریںگے بلکہ اپنے آپ کو ذکر، تسبیح یا استغفار میں مشغول رکھیں گے۔ انسان کو اپنی عمر کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرنا چاہیے کیونکہ یہی اس کا اصل زر ہے۔ کیا یہ معقول حرکت ہوگی کہ ایک آدمی اپنا اصل زر ضائع کردے اور پھر نفع کا منتظر رہے؟
توبہ سے ہماری مراد محض اعضا و جوارح کی توبہ نہیں ہے بلکہ دل کی توبہ مقصود ہے۔ یادرہے کہ اعضا کی معصیت دل کی نافرمانی کے مقابلے میں کم تر ہے۔ حضرت آدم ؑنے شجرممنوعہ کا پھل کھایا تو بھی اللہ نے ان کی توبہ قبول کی اور ان پر رحمت فرمائی:
فَتَلَقّیٰٓ اَدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۳۷ (البقرۃ ۲:۳۷)آدمؑ نے اپنے ربّ سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے ربّ نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ دل کی معصیت اور اعضا کی معصیت میں بہت فرق ہے۔ ابلیس تکبر کے جرم کا مرتکب ہوا اور پھر اپنے تکبر میں بڑھتا ہی گیا تو اللہ نے اسے درد ناک عذاب کی دھمکی دی۔
ہمیں ماہِ رمضان کا استقبال کرتے ہوئے دل کی نافرمانی سے توبہ کرنا ہوگی۔ آئیے ہم اللہ کا قرب پائیں___اس کے لیے ہمیں تکبر، حسد، کینہ، بُغض، کھوٹ اور اپنے آپ پر اترانے جیسی خراب عادتیں اورخصلتیں چھوڑنا ہوں گی۔
ہم اپنے قلب کو اس امر کی تربیت دیں کہ وہ ہر چیز سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرے۔ ہمارا دل اپنے پروردگار کی ملاقات کا مشتاق رہے___ نماز میں، دُعا میں، مناجات میں، ذکر و فکر میں اور تسبیح و استغفار میں۔
عزمِ بلند: رمضان کی آمد سے پہلے ہی عبادات و طاعات کے لیے طبیعت میں آمادگی پیدا کیجیے۔ تقربِ الٰہی کی طلب میں عظیم القدر اہل ایمان کی روش اپنانے کا عہد کیجیے۔ اپنے تمام اعمال میں ثابت قدم رہنے کا فیصلہ کیجیے اور ابھی سے اپنے عزم کو بھلائیوں کے لیے بلند کر لیجیے۔ رمضان سے پہلے ہی عبادات کی مشق کیجیے۔ آپ کے تمام اعمال و افعال ہر لحاظ سے بہترین اور مکمل ہوں۔ جوکھلاڑی کھیل شروع ہونے سے پہلے مشق کرتا ہے، اپنی بدنی اور فنی لیاقت و مہارت کو بڑھاتاہے، اس کی کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس جو کھلاڑی مشق سے احتراز کرتا ہے، سُستی و بے عملی کا شکار ہوتا ہے تو شکست اُس کا مقدر بنتی ہے۔
رمضان میں دو طرح کے مسلمان نظر آتے ہیں۔ ایک گروہ کامیاب و کامران اور دوسرا ناکام و نامراد۔ محنتی گروہ کامیاب ہو جاتا ہے اور موقع کو ضائع کرنے والا ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔ یہ گروہ ڈرامے اور فلمیں دیکھنے میں لگا رہا۔ اس نے اپنا سارا وقت کھیلوں، فلموں اور ڈراموں پر تبصروں میں برباد کر دیا۔ یہ غفلت میں مبتلا ہوا اورمست رہا۔ اگراسے ماہ رمضان کے گزرنے کے بعد ہوش آئے تو یہ عظیم نعمت سے محروم رہے گا۔
رمضان کی قدر کیجیے۔ اس میں کم عبادات پر اکتفا نہ کیجیے۔ اس لیے کہ رمضان میں جو نیکی کا کوئی کام کرتا ہے تو اسے غیر رمضان میں فرض کی ادایگی کا ثواب دیا جاتا ہے اور جو رمضان میں فرض ادا کرتا ہے، اسے غیر رمضان کے ستّر فرضوں کا ثواب ملتا ہے۔
عبادت کا حُسنِ ادایگی: عبادت ادا کرنے سے قبل، ذہنی تصور کو عبادت سے ہم آہنگ کرنے کی عادت ڈالیے اورایسا شعوری طور پر کیجیے۔ اس عمل سے عبادت و اطاعت میں کمال پیدا ہوگا۔ آپ ہمیشہ عبادت کی روح پر غور کیجیے۔ عبادت سے پہلے اس کے اثرات کی فکر کیجیے۔ عبادت کی روح کو سمجھنے اوراس کا بھرپور شعور و ادراک حاصل کیجیے۔ مثال کے طور پر جب آپ نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوں اور تکبیر تحریمہ کہیں تو ’’اللہ اکبر‘‘ کے معنی پر غور کریں۔ اس کلمے کے مطلب میں تدبر و تفکر کیجیے۔ اسی طرح جب آپ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھیں تو اس کے مفہوم پرغور کریں۔ ہر آیت جو آپ نماز میں پڑھیں یا نماز ِ باجماعت میں امام سے سنیں اس پر ضرور تدبر کریں۔ اسے اپنے وجدان و احساسات کا حصہ بنائیں۔
اپنی حقیت پر غور: اپنے آپ کو پہچانیے، اپنے آپ سے پوچھیے کہ میں کون ہوں؟ میرا مخلوقِ خدا سے کیا تعلق ہے؟ اللہ کی مخلوق اور اس کی نعمتوں کے بارے میں سوچیے۔ پھر ان نعمتوں کا اپنی ذات و کردار کے حوالے سے جائزہ لیجیے۔ دیکھیے کہ فرشتوں، آسمانوں، پہاڑوں، سمندروں، ستاروں، سیاروں اور زمین کے مقابلے میں آپ کی حیثیت کیا ہے؟ یوں آپ کو اپنی بے بضاعتی کا احساس ہوگا۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کس قدر بے بس ہیں اور اللہ کے رحم و کرم کے کتنے محتاج ہیں۔ عظمتِ الٰہی کے سامنے آپ کو اپنی عاجزی و بے بسی کا ادراک حاصل ہوگا۔ یوں تکبر و غرور سے نجات ملے گی۔ پھر آپ اپنے پروردگار سے مددمانگیں، مہربانی اور عفو وعافیت کے طلب گار ہوں۔
دنیا میں کم رغبت: دنیا میں دلچسپی کم کیجیے۔ دنیا کا لالچ بری بلا ہے۔ آپ کی نظر دنیا میں حسب حاجت ہو، مگرآپ کی تمام تر دلچسپی کا مرکز آخرت ہو۔ آخرت دنیا کے مقابلے میں بہتر بھی ہے اور پایدار بھی۔ آپ دنیا کی طلب میں بھاگ دوڑ کم کر دیجیے۔ ایسا کرنے سے آپ کے ذہن و قلب کو سکون میسر آئے گا۔ زیادہ تر آخرت پر توجہ دیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں دنیا کا فضل وخیراکٹھا کرنے کے لیے کہا ہے تو اس نے اس کے لیے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں، ان میں آہستگی، ٹھیراؤ اورقرار پایا جاتا ہے، مگر جب اس نے ہمیں آخرت کی خیرحاصل کرنے کی ترغیب دی ہے تو ان الفاظ میں جلدی، تیزی، لپکنے اور سبقت کرنے کا تاثر پایا جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا کی بھلائیوں کو حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہوا:
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الجمعۃ۶۲:۱۰)پھرجب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلاً فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِھَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ ط وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُo (الملک۶۷:۱۵) وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو، اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمھیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔
تاہم، جب اللہ نے ہمیں آخرت کی بھلائی پر آمادہ کیا ہے تو فرمایا ہے:
وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳) دَوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمھارے رَبّ کی بخشش اور اُس کی جنت کی طرف جاتی ہے، جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے۔
سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لا اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۲۱ (الحدید۵۷:۲۱) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رَبّ کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل و الا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ آخرت کے لیے سارعوا اور سابقوا ، دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھو کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو سبقت کرنے والے اور ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کے معنی دیتے ہیں، اور دنیا کے لیے فانتشرو اور فامشو، پھیل جاؤ اور چلو کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں آہستگی، ٹھیراؤ اور قرار پایا جاتا ہے۔
تیاری اور آغاز: ایک اچھا طالب علم امتحان سے بہت پہلے اس کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے الفاظ ہیں: ’’اے اللہ، ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا‘‘۔ ہم جانتے ہیں کہ اس حدیث کے سوا، حضوؐر نے کبھی بھی لمبی عمر کی دعا نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ رمضان ایک عظیم موقع و فرصت ہے کیونکہ رمضان سراسر خیرو برکت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم رمضان کی تیاری کیسے کریں؟ اس کے لیے ہمیں چاہیے کہ یہ کام کر لیں:
۱- اپنے اعضا کو ان تمام باتوں سے روکنے کی تربیت دینا جو اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہیں۔
۲- دل کا روزہ رکھنا، یعنی اپنے تمام اقوال و اعمال میں اللہ کی طرف متوجہ رہنا۔ حرکت و سکون اور گفتگو و خاموشی اسی کی رضا کے لیے ہو۔
۳- اگر ہمیں کسی سے رنجش ہے، ناراضی ہے، نفرت و بغض ہے تو فوراً اس سے صلح کریں تاکہ حصول خیر میں رکاوٹ دور ہو جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’دونوں میں سے اچھا وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے‘‘(مسلم)۔ پھر اس شخص کے لیے ہمیں دعاے خیر و مغفرت کرناہے۔ یوں مسلمان ماہ رمضان میں داخل ہو تو اس کا سینہ پاک صاف ہو۔ اللہ اس کا عمل قبول فرمالے اور وہ مغفرت پالے۔