بیسویں صدی میں مسلم نشاتِ ثانیہ میں علامہ اقبال نے اہم کردار اداکیا۔ ان کے بعد دوسرا بڑا نام مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا ہے جنھوں نے مسلم اُمّہ کے درد کو اپنے دل میں محسوس کیا اور ہمہ وقت اس کی چارہ گری اور مسیحائی میں مصروف رہے۔
جناب فضل الرحمن، نعیم صدیقی (۱۹۱۶ء-۲۰۰۲ء) مولانا مودودی کے دیرینہ اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ ایک پختہ گو شاعر، ادیب، مفکر اور صحافی تھے۔ ان کی قلمی کاوشیں زیادہ تر جماعت اسلامی کی فکر سے وابستہ رسائل و جرائد (ایشیا، چراغ راہ، تسنیم، کوثر اور ترجمان القرآن وغیرہ) میں شائع ہوتی رہیں۔ خود انھوں نے سیارہ کے نام سے ایک وقیع علمی و ادبی جریدہ جاری کیا جو آج بھی حفیظ الرحمن احسن کی زیر ادارت شائع ہو رہا ہے۔ زیرنظر کتاب جناب نعیم صدیقی کی علمی و ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کا ایک تحقیقی مقالہ ہے۔
مصنف نے نعیم صدیقی کے سوانح اور خاندانی پس منظر کی تلاش و تحقیق میں خاصی عرق ریزی سے کام لیاہے۔ نعیم صاحب ہمہ جہت ادیب تھے۔ وہ بہ یک وقت شاعر، افسانہ نویس، مؤرخ، سیرت و سوانح نگار اور طنزنگار تھے۔ مصنف نے ان سب حوالوں سے الگ الگ باب یا ان کی فصول قائم کی ہیں۔ بحث و تمحیص، حوالوں اور معاصرین کے ساتھ موازنے و مقابلے کے بعد نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ دورِ جدید کے نہایت اہم شاعر، نثرنگار اور سوانح نگار تھے۔ ان کے ہاں شعرونثر محض لفاظی اور ’ادب براے ادب‘ نہیں بلکہ ان کے خیال میں اصلاحِ معاشرہ اور فلاحِ انسانیت زیادہ اہم چیزیں ہیں۔ ان کا شعری و نثری سرمایہ ایک خاص مقصدِحیات اور ایک متعین نصب العین کا عکاس ہے۔ انھوں نے ادب کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ ایک باب بطور دینی اسکالر بھی قائم کیا گیاہے جس میں قرآن و حدیث اور فقہ پر ان کی مہارت کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ دانی، تعلیمی نظریات اور معاشرتی افکار کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ مقالے کے آخر میں مصنف نے نعیم صدیقی صاحب کی علمی و ادبی اور تحریکی و صحافتی سرگرمیوں کا مجموعی جائزہ پیش کیا ہے۔ ضمیمہ جات کے تحت ان کے مضامین و مقالات کی فہرست، عکسِ تحریر اور شجرۂ نسب (حضرت ابوبکر صدیقؓ ) تک دیا گیا ہے۔ کتاب اپنی پیش کش، زبان و بیان کی سلاست، تحقیق و جستجو اور تنقید و تبصرے کے حوالے سے مصنف کی محنت، لگن اور شوق کی غماز ہے۔
اس سے پہلے نسبتاً ایک مختصر کتاب نعیم صدیقی: حیات و خدمات ادارہ معارف اسلامی لاہور سے ۲۰۰۹ء میںشائع ہوئی تھی جو زیادہ تر تاثراتی مضامین پر مشتمل ہے۔ کتاب ہذا نعیم صدیقی کی حیات اور ان کے افکار کا مربوط، مرتب اور تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے، اس طرح یہ ان پر اوّلین مستند اور باحوالہ کتاب ہے۔ (قاسم محمود احمد)
جماعتِ اسلامی نے اپنے قیام (۱۹۴۱ء) ہی سے اُمت مسلمہ کو درپیش فکری چیلنج کا بھرپور جواب دیتے ہوئے مغربی تہذیب کے غلبے کے سحر کوتوڑا۔ مزیدبرآں اپنے افکار، لٹریچر، تنظیم اور کردار سے ہرطبقے کے لوگوں کو متاثر کیا اور بہت سوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ زیرتبصرہ کتاب ایسے ہی ۵۹ نفوسِ قدسیہ کے دل چسپ اور ایمان افروز احساسات و جذبات کا گراں قدر مجموعہ ہے۔ قوتِ عمل کو مہمیز دینے والے یہ تاثراتی مضامین اور مکالمات (انٹرویو) کی صورت میں ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو سیّد مودودی کی شخصیت، کردار، ایثاروقربانی، طرزِ استدلال، انداز افہام و تفہیم اور دل سوزی سے متاثر ہوئے، اور وہ بھی ہیں جو جماعت کی تنظیم، طریق کار سے متاثر ہوئے اور اس قافلۂ عزیمت کے ہمرکاب ہوئے، اور وفاداری بشرط استواری اصل ایمان کا مصداق بن گئے۔
مولانا گوہر رحمان جماعت اسلامی میں آنے کے بعد اپنے اندر آنے والی تبدیلیوں اور کیفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جماعت نے دین کا جامع تصور دیا، علمی غرور سے نجات ملی، عام کارکن کی حیثیت سے کام کرنے اور دین کی تبلیغ کا جذبہ ملا۔ الجہاد فی الاسلام کے مطالعے سے یہ تاثر ملا کہ مولانا مودودی بڑے عالم دین ہیں (ص ۱۷)۔ معروف ادیب مائل خیرآبادی کو مولانا کی کتاب پردہ کے اسلوب اور زبان کی چاشنی نے اپنا اسیر بنالیا(ص ۵۲)۔ مولانا عروج قادری کو جماعت اسلامی کے کُل ہند اجتماع الٰہ آباد (اپریل ۱۹۴۶ء) کے انتظامات، نظم وضبط، کارکنوں کی سرگرمی، خلوص، شرکا کی باہمی محبت، مواخات، نصب العین کا شعور، ذمہ داری کا احساس، مقصد زندگی کی تڑپ اور لگن اور پنج وقتہ نمازوں کے اہتمام نے متاثر کیا۔ (ص ۵۴)
متاثر ہونے والوں میں زیادہ تر وہ ہیں جو مولانا مودودی (اور ان کی تحریروں) سے متاثر ہوئے۔ اس لیے کتاب کا نام ’’ہم سید مودودی سے کیسے متاثر ہوئے؟‘‘ زیادہ مناسب تھا۔ تحریکِ اسلامی کے افکار، تاریخی پس منظر، روایات و اقدار، نظامِ تربیت، فکرانگیز لٹریچر اور تابناک ماضی کو جاننے اور حال اور مستقبل کے لیے عملی رہنمائی کے لیے مفید اور قیمتی لوازمہ ہے۔ تاثرات لکھنے یا بیان کرنے والوں میں اکثریت غیرمعروف لوگوں کی ہے، ان کا مختصر تعارف بھی دینا چاہیے تھا۔ سرورق پر جماعت اسلامی کا مخصوص ’لوگو‘ دیا گیا ہے، جو روایت اور مصلحت کے منافی ہے۔(عمران ظہور غازی)
زیرنظر تفصیلی تذکرہ دو ضخیم جِلدوں پر مشتمل ہے، جس میں خانوادئہ بُگوِیَہْ کے علما و مشائخ کے حالات اور ان کی دینی، علمی اور تبلیغی خدمات کے ساتھ بعض معاصر شخصیات اور تحریکوں کا ذکر بھی آگیا ہے۔ بُگوِیَہْ خاندان میں ایسے متعدد عالم، محدّث، فقیہ اور صاحب ِقلم بزرگ گزرے ہیں جن کی سرگرمیوں کا محور و مرکز حفاظتِ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت تھا۔ جیساکہ مصنف نے بتایا ہے یہ حضرات ہمیشہ سرکار دربار سے گریزاں اور صاحبانِ اقتدار سے فاصلے پر رہے۔ مناصب، عہدوں اور ملازمتوں کو قبول نہیں کیا۔ توحیدِ خالص اور تصوف براے تزکیۂ نفس کے قائل تھے۔ انھوں نے تحریکِ خلافت، تحریکِ پاکستان اور تحریکِ مدحِ صحابہؓ کی تائید میں، اور قادیانیت، شیعیت اور خاکسارانِ علامہ مشرقی کی تردید میں عملاً حصہ لیا یا ان سب کی مخالفت میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا۔
ان کی قائم کردہ مجلس حزب الانصار کے تحت بھیرہ میں دارالعلوم عزیزیہ، کتب خانہ عزیزیہ اور ماہنامہ شمس الاسلام نے بھی اپنے اپنے دائرے میں مفید خدمات انجام دیں۔ رسالے کے اداریوں کی فہرست (از جولائی ۱۹۴۸ء تادسمبر ۱۹۷۵ء برصفحہ ص ۳۲۰ تا ۳۲۶، جلد دوم) کتاب میں شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمس الاسلام میں مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مفتی سیاح الدین کاکاخیل اور مولانا علی میاں وغیرہ کی تحریریں بھی شائع ہوتی تھیں۔
مجلس کے سالانہ جلسوں اور تبلیغی کانفرنسوں میں ہندستان کے مختلف علاقوں اور مختلف مکاتب ِ فکر کے علما شامل ہوتے تھے۔ غیراسلامی فتنوں کے استیصال کے لیے مجلس کی عسکری تنظیم ’محمدی فوج‘ بھی سرگرمِ کار رہی۔ بُگوِیَہْ علما بریلوی اور دیوبندی تقسیم کے برعکس راہِ اعتدال و اتحاد پر گامزن رہے، چنانچہ مولانا ظہور احمد بُگوِی کی وفات (۱۹۴۵ء) پر تعزیت کرنے والوں میں بہت سے سجادہ نشینوں کے ساتھ نام وَر علماے دیوبند (مثلاًقاری محمد طیب اور مفتی کفایت اللہ وغیرہ) بھی شامل تھے۔
مصنف میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ دائرہ معارف نوعیت کا یہ علمی و تحقیقی کارنامہ انھوں نے فقط اپنے ذوق و شوق اور اجداد کے کارناموں کو محفوظ کرنے کے خیال سے انجام دیا ہے۔ یہ ان کی ۱۰،۱۲ برس کی محنت کا حاصل ہے۔ استناد کے لیے مطبوعہ مآخذ کے علاوہ غیرمطبوعہ اُردو اور انگریزی مصادر (مثلاً دستاویزات، بیاضوں، رقعات وغیرہ) سے بھی مدد لی گئی ہے۔ کتاب تصاویر سے مزین ہے۔ تقطیع بڑی اور قیمت مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
کچھ عرصہ قبل اس مجلے کے دو شمارے (بہ ادارت: ڈاکٹر محمد ارشد) شائع ہوئے تھے (تبصرہ: ترجمان ، فروری ۲۰۰۹ء)۔ اب تیسرا شمارہ نئی ادارت کے تحت سامنے آیا ہے۔
محنت سے گریز اور سہولت پسندی کے اس دور میں، علمی و تحقیقی اعتبار سے معیاری مقالات کا حصول آسان نہیں۔ زیرنظر مجلے کے ۵، اُردو ۳، انگریزی اور ۲ عربی مقالات مجموعی اعتبار سے اطمینان بخش حد تک معیاری ہیں، جس پر جہات الاسلام کے مدیر، تحسین کے مستحق ہیں۔ موضوعاتِ تحقیق سب بہت مناسب اور اچھے ہیں، مثلاً: ’وحی اور اس کی کیفیت ِنزول‘ (بعض اعتراضات کا جائزہ)، یا ’صحابہ کرامؓ کے اسالیبِ اجتہاد‘یا، ’نبوتِ محمدیؐ کی آفاقیت‘، اسی طرح ’غیرمسلم معاشرے میں مسلمانوںکے مسائل اور اُن کا حل‘ وغیرہ۔ البتہ مؤخر الذکر مضمون علمی اور تحقیقی نہیں ہے، دل چسپ اور معلومات افزا ضرور ہے۔ ایک طرح کی معلوماتی رپورٹ ہے۔
مضامین کی زبان و بیان کو قدرے آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ ’صحابہ کرامؓ کے اسالیب اجتہاد‘ میں مقالہ نگار کا خطاب اس عام مسلمان سے ہے جس سے اُن کا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں انفرادی طور پر بھی اجتہاد کرے لیکن اس مضمون میں عام قاری کے لیے زبان و بیان بہت اَدق ہے۔ مثلاً چند عنوانات ہی دیکھیے: ’روح تشریع کے ادراک سے غیرمنصوص حکم کی تلاش‘ (ص ۷۳)، ’متحمل الوجوہ نص کی کسی ایک وجوہ کا تعین‘، یا ’نص کی عدم موجودگی میں عمومات و کلیات سے استدلال‘ (ص ۷۷)، ’عام مسلمان‘ (ص ۶۴) کے لیے اس طرح کی گاڑھی زبان سمجھنا اور استفادہ کرنا بہت مشکل ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ چند مضامین میں آیاتِ قرآنی پر اِعراب کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن بعض مضامین میں آیات قرآنی بلااعراب چھوڑ دی گئی ہیں۔ ہمارے خیال میں ایک تحقیقی مجلے میں نہ صرف قرآنی بلکہ حدیث نبویؐ اور جملہ نوعیت کی عربی ، عبارات و اشعار وغیرہ پر اِعراب کا اہتمام ضروری ہے۔ یہ شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۸ء کا ہے، ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ پرچہ بروقت شائع کرنے کے لیے مجلس خصوصی توجہ، بلکہ جدوجہد سے دریغ نہیں کرے گی۔ (ر- ہ)
بائبل، بدھا اور تورات کے ساتھ ۱۰۰، ۱۰۰ منٹ کے بعد، اب اسی ناشر نے ’قرآن کے ساتھ ۱۰۰منٹ‘ شائع کی ہے۔ یہ قرآن سے مختلف آیات کا انتخاب ہے۔ اُردو میں اس طرح کے کئی انتخاب دستیاب ہیں۔ فاضل مرتب کے پیش نظر مغرب کے افراد ہیں تاکہ وہ قرآن کی حتمی تعلیمات سے براہِ راست واقف ہوں اور یہ جانیں کہ بائبل، تورات اور قرآن ایک ہی خالق کی بھیجی ہوئی کتب ِ ہدایت ہیں۔ اس کتاب کو تخلیقِ آدم سے شروع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد قصص الانبیاء ہیں۔ پھر اچھے اور بُرے لوگوں کے جو نمونے قرآن نے بتائے ہیں، وہ پیش کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد بنیادی حقوق وفرائض، عائلی زندگی کے متعلق قوانین، تجارت، سیاست، تعزیر وجرم اور جنگ اور امن کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح قرآنی تعلیمات کا ایک خلاصہ سامنے آگیا ہے۔ اکثر جگہ مرتب نے مختصر تشریح بھی کی ہے جو اپنی جگہ قیمتی ہے اور اہم امور کی وضاحت کرتی ہے۔
قرآن کے علاوہ بھی اسلامی تصورات ہیں۔ ان کو زیربحث نہیں لایا گیا۔ مثلاً فتویٰ کا ادارہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کتاب میں اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ اسے قرآنی آیات کا ایک جامع اور اچھا انتخاب سمجھتے ہوئے اُردو میں شائع کیا جاسکتا ہے۔ اس میں مختصر تشریح اسے ایک منفرد چیز بنا دے گی۔ (مسلم سجاد)
نیکی اور بدی انسانی فطرت میں گندھی ہوئی ہیں۔ یہ والدین اور اساتذہ کی تربیت، حالات اور ماحول کے عناصر ہیں جو اس کی فطرت کے کچھ عناصر کو نمایاں کردیتے ہیں اور کچھ دیگر عناصر دب جاتے ہیں۔ ایک اصلاح کار، مبلغ اور معاشرے کی حقیقی فلاح چاہنے والا ہمیشہ انسانی فطرت کے مثبت پہلوئوں کو اس طرح اُجاگر کرتاہے کہ وہ منفی رجحانات کا قلع قمع کردیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں مؤلف نے نہایت دل چسپ اور دل نشین انداز میں ایسے واقعات اور ایسی حکایات تحریر کی ہیں جن میں تحیّر بھی ہے اور افسانے کی چاشنی بھی۔ قاری ان ۱۰۰ سے زائد واقعات کو پڑھ کر ان وجوہات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے جو معاشرے کے اضطراب کا باعث ہیں۔ کتاب کے آخر میں چند ادبی موضوعات بھی شامل ہیں جو درست ہونے کے باوجود موضوع سے لگّا نہیں کھاتے۔ مجموعی طور پر کتاب دل چسپ ہے اور سوچ کو مثبت سمت عطا کرتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
ایک سو چالیس سال پہلے ۱۸۷۱ء میں لندن سے سفرِحج اور انگلستان کے احوال پر مشتمل انگریزی کتاب Pilgrimage to The CAABA and Charing Cross شائع ہوئی تھی۔ اس کا اُردو ترجمہ غلام مصطفی خان مارہروی نے ماہنامہ العلم ، کراچی میں قسط وار کیا تھا۔ عبدالسلام سلامی صاحب نے اسی ترجمے کو معروف ادیب اور نونہال کے ایڈیٹر جناب مسعود احمد برکاتی کے مختصر دیباچے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ۱۸۷۰ء میں ریاست ٹونک کے امیر نواب محمد علی خان حج کے ارادے سے چلے تو ان کے ایک وزیر حافظ احمد حسن بھی ان کے ہمراہیوں میں شامل تھے۔ حافظ صاحب نے رودادِ سفرِحج انگریزی میں قلم بند کی، اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے سفرِلندن کا احوال بھی کتاب میں شامل کر دیا۔
مسعود احمد برکاتی کے بقول: ’’یہ کتاب ہمیں ڈیڑھ صدی پہلے لے جاتی ہے اور مشرق و مغرب کی طرزِ زندگی، معاشرت اور تمدن سے روشناس کراتی ہے‘‘۔ حافظ احمد حسن نے رودادِ حج سے پہلے انگریزوں کے ہاتھوں نواب محمد خاں کی بلاجواز اور ظالمانہ برطرفی کا ذکر کیا ہے۔ نواب موصوف ایک صاحب ِ تدبیر اور بلند کردار حکمران تھے مگر ان کی ریاست ہندو راجائوں کے علاقے میں واقع تھی جنھوں نے باقاعدہ ایک سازش کر کے انگریزوں سے انھیں برطرف کرا دیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریز حکمرانوں، افسروں اور اہل کاروں میں بھی پرلے درجے کے متعصب، مسلم دشمن اور لارڈ کلائیو اور وارن ہیس ٹنگز جیسے بددیانت اور رشوت خور لوگ موجود تھے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ جدہ میں ایک تو چُنگی کے افسروں نے حجاج سے بُرا سلوک کیا، دوسرے وہاں کا پانی بھی کڑوا اور بدذائقہ تھا۔ جدہ سے مکہ تک کا مشقت بھرا سفر اُونٹوں پر کیا۔ پھرمکّے سے مدینے تک کا سفر تو اور بھی خطرناک اور تکلیف دہ تھا۔ نیم وحشی بدوئوں اور لٹیروں کے گروہوں سے بچنا مسافروں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ لوگ گروہ در گروہ، مسلح محافظوں کے جلو میں سفر کرتے تھے، ورنہ جو لوگ قافلے سے ذرا پیچھے رہ جاتے تھے، وہ اکثر اوقات جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
سفرنامہ پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے، آج کے زائرین ہزار درجہ زیادہ امن و سکون، راحت و آرام اور سہولتوں کے ساتھ عمرہ و حج ادا کرتے ہیں۔ آخری باب میں مؤلف نے جدہ سے انگلستان تک کے سفر کا حال قلم بند کیا ہے۔بہت خوب صورت مشینی کتابت، عمدہ، مضبوط مگر وزن میں ہلکا کاغذ، بے داغ طباعت اور نفیس جلدبندی، یہ سب کچھ، کتاب تیار اور پیش کرنے والے (سلامی صاحب) کے اعلیٰ ذوق اور سلیقے کی شاہد ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
حدیثِ رسولؐ وہ سرمایہ علم ہے جس کی بنیاد پر دین کی تفصیلات کو جاننا امت کے لیے ممکن ہوا۔ سنتِ رسولؐ مصدرِ شریعت ہے اور حدیثِ رسولؐ اس مصدر تک پہنچنے کا ذریعہ۔ خود حدیث بھی بہت سے امور میں مصدر اور ماخذِ دین بن جاتی ہے۔ فقہاے اُمت نے حدیث نبویؐ سے مسائل کا استنباط کیا، محدثین نے احادیث کو روایت بھی کیا اور ان سے مسائل بھی اخذ کیے۔ فقہا اور محدثین کی تعبیرات اور اخذِ مسائل میں اختلاف کیوں واقع ہوا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو دینی امور میں غور وفکر کرنے والے ہر فرد کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ عموماً اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کم ہی کی جاتی ہے۔ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کے ایک شاگرد محمد عوّامہ نے اس نکتے پر توجہ مرکوز کرکے اختلافِ ائمہ فقہا کے اسباب بیان کرنے کی ایک قیمتی سعی کی ہے۔ جنوبی افریقہ میں حدیث کے استاد علاء الدین جمال نے ان کی عربی تالیف اثر الحدیثِ الشریف فی اختلاف الائمۃ الفقہاءؒ کااردو ترجمہ پیش کیا ہے۔مصنف نے ان بہت سی وجوہ کو چار اسباب کے تحت بیان کیا ہے جوحدیثِ رسولؐ کے حوالے سے ائمۂ فقہا کی تعبیرات میں اختلاف کی بنیاد بنے ہیں۔
شیخ محمد عوّامہ نے حدیث و فقہ کے وسیع ذخیرے سے مختصراً چند اسباب کو ذکر کرکے حدیث و فقہ کے طلبہ واساتذہ کے لیے ایک معتدل راستے کی طرف نشان دہی کی ہے۔ ان کے زاویۂ نگاہ سے جزوی طور پر اختلاف کیا جا سکتا ہے، تاہم موضوع کی اہمیت اور ان کی مخلصانہ کوشش کی قدر وقیمت سے انکار نہیں۔ اگرچہ اس موضوع پر قدیم علما کی تحریریںبھی موجود ہیں، تاہم اسے مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اُن احادیثِ رسولؐ کو نشان زد کرکے بیان کرنے کی ضرورت ہے جن کی اساس پر فقہا کی آرا سامنے آئی ہیں۔ بالفاظِ دیگر جو احادیث فقہ کا ماخذ ہیں اُن کو یکجا کیا جائے۔ فقہا کی آرا، قرآن و سنت اور حدیث رسولؐ سے الگ ہو کر مصدر دین کی حیثیت نہیںرکھتیں۔ یہ آرا استنباط ہیں جن کی بنیادیں اور مآخذ تلاش کرکے متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً احادیث پر کام کی اشدضروت ہے۔ (ارشاد الرحمن)
ناموس رسالتؐ پر مغرب کے حملوں اور پھر اس پر امت کے رد عمل نے اسے ایک جیتا جاگتا مستقل زندہ مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے جن میں سے ۱۳ تحریریں اس مجموعے میں جمع کی گئی ہیں۔ لکھنے والوں میں خود مولّفہ کے علاوہ، خرم مرادؒ پروفیسر خورشید احمد، اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ، شاہ نواز فاروقی،پروفیسر ساجد میر، مظفر اعجاز، شوکت علی، حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر انیس احمد اورڈاکٹر عادل باناعمہ شامل ہیں۔ تحریروں میں اس مسئلے پر بحث کے ہر پہلو کو سمیٹ لیا گیا ہے۔ آخر میں اقبال کا فارسی زبان میں منظوم نذرانۂ عقیدت اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔ اس بے حدقیمتی لوازمے کو ایک مناسب مربع سائز کے آرٹ پیپر پر دل کش انداز میں اور خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ویمن اینڈ فیملی کمیشن کے ذمہ داروں نے ایک اہم مسئلے پر یہ کتاب بروقت شائع کی ہے۔ اس سے ناموس رسالتؐ کا مسئلہ نکھر کر واضح ہو گیا ہے۔ (مسلم سجاد)
بھارت میں قبولِ اسلام کے اکثر واقعات میں وہاں مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کا نام آتا ہے۔ اس کتاب میں ۱۸ نومسلم افراد کے بیش تر واقعات میں بھی وہی مرکزی شخصیت ہیں۔ ان میں ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی، مرد بھی اور عورتیں بھی۔ بھارت سے باہر کے بھی ہیں، مثلاً مائیکل جیکسن کے بھائی جرمن جیکسن۔ ہمارے کرکٹر محمد یوسف کی اور مشہور و معروف کملا ثریا کی داستان بھی شامل ہے۔ ہرکہانی پڑھنے کے لائق ہے۔ ہم پیدایشی مسلمانوں پر یہ عجب اثر کرتی ہیں، دل گداز ہوتا ہے اور آنسو قابو میں نہیں رہتے۔ یہ دین کی قدر کرنے والے ہیں اور ہم ناقدرے ہیں۔ پھلت مظفر نگر یوپی (بھارت) سے ایک رسالہ ارمغان نکلتا ہے جس میں یہ کہانیاں آتی ہیں۔ اس کتاب کی پہلی تین جلدیں نظر سے نہیں گزریں۔ اس کتاب کا ہر واقعہ اپنے اندر بڑے سبق لیے ہوئے ہے۔ ہدایت کے یہ سفر ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی کتابیں بہت عام ہوجائیں، ہر پڑھنے والا پڑھے تو اُمید ہے کہ پیدایشی/ خاندانی مسلمانوں کا ایمان بیدا رہوگا اور معاشرے پر خوش گوار اثرات پڑیں گے۔ (م- س)
دنیا میں ذہنی دبائو اور افسردگی (ڈیپریشن) کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق خدشہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں ہر پانچواں شخص اس مرض کا شکار ہو گا، مگر پاکستان میں ابھی سے ۴۴ فی صد لوگ اس مرض کی گرفت میں ہیں۔ یہ مرض آگے بڑھ کر جرم یا خودکشی پر منتج ہوتا ہے۔ زیرنظر کتاب میں ڈیپریشن کا اہم محرک مادہ پرستی، حسد اور دولت و شہرت کے حصول میں ناکامی کو قرار دیا گیا ہے۔ اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ڈیپریشن یا نفسیاتی امراض کا سبب صرف غربت نہیں ہے، اس لیے کہ مغربی ممالک میں خوش حالی کے باوجود ذہنی امراض اور خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ صرف امریکا میں ہرسال ۴۰ لاکھ افراد ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور امریکا میں دنیا میں سب سے زیادہ سکون آور ادویات تیار کی جاتی ہیں (ص ۳۲)۔ دراصل تمام تر ترقی کے باوجود انسان کا اضطراب اور بے چینی، زندگی کا مقصد واضح نہ ہونے اور خدا سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ مصنف،مغربی ماہرینِ نفسیات کی آرا اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ڈیپریشن کا علاج بتاتے اورعمل کی راہیں سجھاتے ہیں۔ قرآنی آیات اور احادیث کا برمحل استعمال کتاب کی خوبی ہے۔ اسلام کس طرح سے رہنمائی اور سکون کا باعث بنتا ہے، اس حوالے سے نومسلموں کے ایمان افروز واقعات بھی درج ہیں۔(امجد عباسی)
ماہر نفسیات ارشد جاوید کے بقول ان کی ’زندگی بدلنے والی‘ یہ دسویں کتاب (نویں: روزمرہ آداب) اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند وناپسند کی روشنی میں اچھے اور بُرے مسلمان کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ہر عنوان کے تحت پسندوناپسند کے حوالے سے آیات اور احادیث پیش کی گئی ہیں۔ پہلے دو ابواب جہنم اور جنت کے بعد ایمانیات، عبادات اور زندگی کے ہر دائرے سے متعلق متفرق موضوعات ہیں۔ اخلاقیات کے (نمبر۴۹) بعد ۲۲ذیلی عنوانات کے تحت جھوٹ، غیبت، فضول خرچی، قول و فعل میں تضاد وغیرہ بیان ہوئے ہیں۔ علم دینے کے لیے اچھی کتاب ہے، لیکن ہمارا مسئلہ نہ جاننے کا نہیں، نہ کرنے کا ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے (لیکن طبیعت اِدھر نہیں آتی) لیکن لوگ، یعنی مسلمان، بُرے مسلمان رہنے پر خوش اور مطمئن ہیں بلکہ اچھے مسلمانوں کو احمق سمجھتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل کیا کتابوں سے ہوجائے گا؟ عنوان بہت بُرا لگا، بھلا مسلمان بھی بُرا ہوتا ہے؟ (م - س)
یہ کتاب شیخ فتح اللہ گولن کی عربی تصنیف القدر فی ضوء الکتاب والسنۃ کا ترجمہ ہے۔ شیخ فتح اللہ نے عربی میں کئی کتب تصنیف کی ہیں جن میں سے اکثر کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں کیا جاچکا ہے۔ تقدیر کے مسئلے پر یہ کتاب مساجد میں دیے گئے مواعظ اور طلبہ اور مریدین کے لیے منعقد کی گئی خصوصی مجالس میں سوالات و جوابات کا مجموعہ ہے۔ تقدیر پر ایمان لانا ایمان کے چھے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ تقدیر کے مسئلے کا تعلق انسان کے جزئی ارادے سے ہے۔ اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی اور فطری تقاضوں کے حوالے سے عام فہم انداز میں بحث کی گئی ہے اور تقدیر سے متعلق سوالات اوران کے جوابات کی صورت میں بھی گفتگو ہے۔ تقدیر کے مسئلے کو سمجھنے میں یہ کتاب مفید ہوگی۔ مولانا مودودیؒ کی تصنیف مسئلہ جبروقدر کا مطالعہ مسئلے کے تمام پہلوئوں کوواضح کر دے گا، ان شاء اللہ! (شہزاد الحسن چشتی)
معاصر ایرانی فارسی ادب کے بارے میں یہ ایک نصابی فارسی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے۔ مصنف نے اسے مدرسوں اور یونی ورسٹیوں کے فارسی زبان و ادب کے طلبہ کی ضرورت کے تحت ایک ’معاون‘ (help book) کی صورت میںتیار کیا ہے۔ زیادہ تر حصہ قریبی زمانے کے فارسی ادبی جائزے پر مشتمل ہے، جس میں فارسی داستان نویسی، زمانہ انقلاب کی نثر، ڈراما نگاری، ادبیات اور نظری علوم میں تحقیق، فارسی میں صحافت کے ارتقا اور بچوں اور نوجوانوں کے ادب کا احاطہ کیا گیا ہے، لیکن مقدمے میں کلاسیکی ادوار کا تعارف بھی شامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مصنف نے تاریخ ادب فارسی کے دریا کو ساڑھے تین صفحات کے کوزے میں بند کر دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مصنف (پ: ۱۹۳۶ء) تہران کی بعض جامعات و کلیات میں مختلف تدریسی، تحقیقی اور انتظامی مناصب پر فائز رہے۔ آج کل مرکزِ مطالعاتِ اسلامی، مک گل یونی ورسٹی کینیڈا میں پروفیسر ہیں۔ اگرچہ زیرنظر پانچویں اڈیشن کے دیباچے میں خاصے کسر و انکسار کا اظہار کیا گیاہے مگر مترجم کے بقول یہ ان کی سب سے زیادہ مقبول، کثیرالاشاعت اور اپنے موضوع پر کلیدی اور معتبر کتابوں میں سے ہے جو مدرسوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کے ساتھ ساتھ فارسی ادب کے اساتذہ اور عام قارئین کے لیے بھی ایک معلومات افزا اور چشم کشا کتاب ہے۔ مترجم فارسی زبان وادب کے فاضل قادر الکلام شاعر اور معروف استاد ہیں۔ ان حوالوں سے ان کی دیگر خدماتِ علمی و ادبی کی طرح یہ خدمت بھی قابلِ تحسین ہے۔ (ر- ہ)
طبیعیات کی یہ نصابی کتب بی، ایس، سی(آنرز) اور ایم ایس سی نصاب کے مطابق اردو میں تحریر کی گئی ہیں۔ ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے اور یہ قابلِ قدر بات ہے کہ سائنسی علوم میں سے اکثر پر پہلے ہی قومی زبان اردومیں کتب شائع کی جا چکی ہیں۔ اب یہ تین کتب طبیعیات پر شائع کی گئی ہیں۔ اردو یونی ورسٹی اور ان کتب کے مؤلفین اساتذہ قابلِ مبارک باد ہیں۔ طبیعیات کی زیر تبصرہ کتب عمدہ اور سلیس اردو میں تحریر کی گئی ہیں اور دقیق عنوانات کی تشریح آسان اور قابل فہم انداز میں اس طرح کی گئی ہے کہ نہ صرف طلبہ کو سمجھنے میں آسانی ہو بلکہ جو لوگ بھی طبیعیات سے دل چسپی رکھتے ہیں وہ بھی بآسانی سمجھ سکیں۔ ان کتب میں مساوات اور ریاضی کی حسابی تفصیلات، جو اس طرح کی کتب کے لیے ضروری ہیں، واضح طور پر مناسب مقامات پر موضوع کے سمجھنے کے لیے دی گئی ہیں۔ انگریزی اصطلاحات کے اردو مترادفات جامعہ کراچی اور مقتدرہ قومی زبان کے وضع کردہ استعمال کیے گئے ہیں۔
ان سائنسی کتب میں اسلامی طرز فکر کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ الحادی تہذیب نے مقبول نقطۂ نظر یہ بنا دیا ہے کہ جیسے اس کائنات میں سب کچھ خدا جیسی کسی ہستی کے بغیر اپنے آپ ہورہاہے۔ مسلمان اہل علم اور سائنس دان بھی ذاتی عقیدہ درست رکھتے ہوں، صاحب ایمان ہوں، لیکن اس نوعیت کی سائنسی کتب لکھتے ہوئے مغربی، یعنی الحادی انداز ہی اختیار کرتے ہیں حالانکہ جو کچھ بیان کرتے ہیں دراصل اللہ تعالیٰ کے قوانین ہیں۔ سائنس تو ہے ہی آیاتِ الٰہی کا بیان۔ مسلمان اہل قلم کو ان کتب کی تصنیف اس طرح اور اس انداز سے کرنا چاہیے کہ طالب علم کائنات کی اصل حقیقت سے آشنا ہو، اور سائنس کا مطالعہ اس کا ایمان مضبوط کرے۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اس نوعیت کی ایک فزکس کی نمونے کی کتاب لکھی تو انھی قوانین کو God's Lawکہہ کر بیان کیا۔ اتنی سی بات سے پورا منظر نامہ بدل گیا۔سائنس الحاد کے بجاے ایمان کی پیغام بر بن گئی۔ مسلم اُمہ کو مستقبل میں جو چیلنج درپیش ہیںنئی نسل کو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی نقطۂ نظر سے لکھی گئی کتابوں کی ضرورت ہے ہمارے اساتذہ کو سائنسی و وفنی درسی اور غیر درسی کتب میں بلکہ درس و تدریس کے دوران میں بھی اسلامی نقطۂ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ (ش-ح- چ)
اُردو زبان اس اعتبار سے بھی دنیا کی ایک بڑی زبان ہے کہ قرآنِ حکیم، سیرتِ رسولؐ اور علومِ اسلامیہ سے متعلق جتنا بڑا، متنوع اور مختلف الجہات ذخیرۂ مطبوعات اُردو زبان میں موجود ہے (باستثناے عربی) کسی اور زبان میں موجود نہیں ہوگا۔ قرآن حکیم کے تعلق سے اُردو مطبوعات میں رسائل و جرائد کے ایک سو سے زائد قرآن نمبر خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی دو جِلدوں پر مشتمل تعمیرافکار کا زیرنظر خصوصی شمارہ ہے۔
اسے دیکھتے ہوئے ہمیں ۴۱ سال قبل کا سیارہ ڈائجسٹ کاقرآن نمبر یاد آگیا جو ۱۹۷۰ء میں تین خوب صورت جِلدوں میں غیرمعمولی اہتمام سے شائع کیا گیا تھا جس میں کثیرتعداد میں علمی اور تحقیقی مضامین کے ساتھ، متعدد مشاہیر کے مصاحبے (انٹرویو)، سچی کہانیاں اور لکھنے والوں کے ذاتی مشاہدات بھی شامل تھے۔ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ویسی تحقیق، محنت، اہتمام، تیاری اور دل چسپ لوازمے کے اعتبار سے شاید ہی کوئی اور قرآن نمبر اس سے لگا کھاتا ہو۔ اسے کراچی سے پروفیسر خورشید احمد کی نگرانی و کاوش سے اور لاہور سے جناب نعیم صدیقی کی زرخیز ذہنی و قلبی آبیاری سے مرتّب کیا گیا تھا۔ [پروفیسر اقبال جاوید صاحب نے خورشیدعالم کو اس کا ’مدیر‘ لکھا ہے (زیرتبصرہ تعمیرافکار کا قرآن نمبر، ص ۶۸۴) مگر مذکورہ بالا قرآن نمبر کی تیاری میں خورشیدعالم کی کسی کاوش کا دخل نہ تھا، وہ فقط سیّارہ ڈائجسٹ کے عام شماروں کے مدیر تھے ]
تعمیرافکار کے زیرتبصرہ قرآن نمبر کی مجلسِ ادارت نے بھی خاصی محنت اور کوشش سے نئے پرانے مطبوعہ اور غیرمطبوعہ، طبع زاد اور ترجمہ شدہ ہر نوع کے مضامین جمع کیے ہیں۔ بلاشبہہ بقول مدیر: ’’قرآن کریم کے موضوعات، مضامین و مباحث اور اس کے علمی نکات کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ‘‘ ہے۔ چنانچہ زیرنظر اشاعت کو مدیرمحترم نے ’’ایک عاجزانہ کاوش کے طور پر پیش کیا ہے‘‘۔ لکھنے والوں میں نام ور علماے کرام کے ساتھ واجب الاحترام اور معروف مفسرین عظام، اُردو ادب اور علومِ اسلامیہ کے بلندپایہ محقق، نقاد، اور بعض نسبتاً نئے لکھنے والے اہلِ قلم شامل ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ قرآنی موضوعات کے علاوہ اس ضمن میں بعض اکابر کی خدماتِ قرآنی کا تجزیہ اور مختلف زبانوں (ہندی، فارسی، انگریزی، سندھی اور پشتو) میں قرآن حکیم کے تراجم و تفاسیر کا جائزہ بھی پیش کیا جائے۔ بعض مستشرقین کے تراجم قرآن پر نقد کرتے ہوئے، ان کی دانستہ تحریفات اور نادانستہ کوتاہیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
آخر میں ایک تو پروفیسر اقبال جاوید صاحب کا مرتّبہ اشاریہ شامل ہے، اوّل: رسائل و جرائد کے ۹۹ قرآن نمبروں کا (بہ ترتیبِ زمانی) اشاریہ، جو ایک قابلِ قدر تحقیق ہے۔ دوسرا ادارے کا تیار کردہ اشاریہ: ’مضامینِ اشاریہ قرآن‘ ہے، مگر یہ مضامینِ قرآن کا اشاریہ نہیں ہے بلکہ قرآن کے تعلق سے مختلف رسائل میں مطبوعہ مقالات، مضامین، تفاسیر اور تبصروں وغیرہ کی مصنف وار فہارس ہیں اور وہ بھی ناتمام اور اس اعتبار سے ناقص ہے کہ خود مرتّبین کے بقول: ’’اس میں بھی بعض رسائل کو شامل نہیں کیا جاسکا‘‘ (ص ۶۸۹)۔ (رفیع الدین ہاشمی)
کتاب میں عہدنبویؐ کے مبارک دور میں تعلیم سے متعلق مختلف پہلوئوں کااحاطہ کیا گیا ہے۔ نصابِ تعلیم کا باب بہت دل چسپ ہے۔ اس میں سورئہ بقرہ کی آیات ۱۱-۱۵ سے نصاب اخذ کیا گیا ہے۔یہ نصاب قراء ت قرآن، تزکیہ، تعلیمِ کتاب، تعلیمِحکمت، علومِ نو کی تعلیم، عسکری تربیت پر مشتمل تھا۔علومِ نو کے حوالے سے عبرانی اور دوسری غیرملکی زبانیں سیکھنا، خوش نویسی، تقسیمِ ترکہ کی ریاضی، بیماری و طب، علمِ ہیئت، علم الانساب وغیرہ شامل تھے اور عسکری تربیت میں تیراندازی، گھڑسواری، اُونٹ سواری، تیراکی وغیرہ شامل تھی۔
انسان کے مختلف نظام ہاے زندگی، مثلاً اخلاقی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی وغیرہ اس وقت تک اسلامی نہیں ہوسکتے جب تک کہ یہ اسلامی عقائد، یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے تصورات پر استوار نہ ہوں۔ یہ بات بڑی وضاحت سے باب دوم میں اسلامی نظام تعلیم کے تحت بیان کی گئی ہے۔ بعض بوجھ بجھکڑوں کا خیال ہے کہ تعلیم کے ساتھ صرف دینیات کا دم چھلّا لگادینے سے تعلیمی نظام اسلامی بن جاتاہے، اور اب تو صورت یہ ہے کہ اگر جہاد کی قرآنی آیات اور ارشاداتِ نبویؐ کو نصابی کتب سے نکال دیاجائے اور توحید، آخرت اور رسالت کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر بھی تعلیم اسلامی ہی رہتی ہے۔
رسول کریمؐ نے یقینا ایک ایسے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی تھی جس کی بنیاد پر ایک تعلیمی انقلاب برپا ہوا۔ مصنف کے بقول: رسول کریمؐ نے جس تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھی وہ بتدریج ارتقا پذیر تھا۔ ۲۳سال کی قلیل مدت میں ان باتوں کی اساس رکھ دینا کیا کچھ کم تھا؟ جس کے دُور رس نتائج سے ساری دنیانے رہنمائی لی اور آج کا ترقی یافتہ دور اسی کا مرہونِ منت ہے۔ (ص ۱۲۳)
رسول کریمؐ کو ربِ رحیم نے اقراء کی تعلیم سے نوازا۔ پھر دو سال بعد حکم دیا کہ عوام النّاس کو اس تعلیم سے بہرہ ور کیا جائے، لہٰذا آپؐ ہر ہرشخص کے پاس خود تشریف لے گئے، مجمعِ عام میں تعلیم پہنچائی، بااثر لوگوں کی مجالس میں تعلیم کا انتظام کیا۔ اس طرح آپؐ نے ایک سفری تعلیمی ادارے کی ذمہ داری بڑی خوبی سے نبھائی اور اس میںمنہمک رہے۔ آپؐ کی تعلیمی پالیسی کا یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
اس کتاب میں طول طویل اقتباسات بہت زیادہ ہیں جو گراں گزرتے ہیں۔ پھر کئی مقامات پر قرآنی آیات میں اغلاط ہیں، جب کہ انگریزی ہندسے طبیعت پر شاق گزرتے ہیں۔ تاہم، کتاب ایک اچھی، سلجھی ہوئی تحریر، قابلِ اعتماد، علمی معلومات کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ (شہزادالحسن چشتی)
علاج معالجہ انسانی زندگی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ مریض معالج کے پاس آتا ہے، تو گویا اپنی زندگی اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس لیے معالج کو ایک مونس، بے لوث، ہمدرد اور امین شخص کا کردار ادا کرنا چاہیے، مگر بے رحم مادہ پرستی کی فضا نے بیش تر معالجین کو دولت پرستی اور سنگ دلی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک مسلمان معالج کا اس صورت حال پر رنجیدہ اور حالات کی بہتری کے لیے فکرمند ہونا فطری امر ہے، مگر اس اُلجھی ڈور کا سرا پکڑنے والے خال خال نظر آتے ہیں۔
اس پس منظر میں امام حسن البنا، علامہ محمد اقبال، سیدابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب شہید کی دینی و ملّی فکر سے فیض یافتہ ڈاکٹروں نے اپنے اپنے خطۂ زمین میں، یا جہاں جہاں وہ پہنچے، اس افسوس ناک صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اجتماعی جدوجہد کرتے ہوئے ڈاکٹروں کی تنظیمیں اور انجمنیں بنائیں، جن کا مطمحِ نظر گریڈوں کی دوڑ اور تنخواہوں کے فراز کے پیچھے لپکنا نہیں، بلکہ اسلام کے مطلوب معالج کی فکری، دینی اور عملی تربیت ہے۔ انھی تنظیموں نے مل کر دسمبر ۱۹۸۱ء میں اورلینڈ، فلوریڈا (امریکا) میں فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز (FIMA) قائم کی جس نے دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلی راست فکر اسلامی میڈیکل تنظیمات کو ایک لڑی میں پرو دیا۔
زیرنظر کتاب درحقیقت اسی قابلِ قدر تنظیم کی تعمیری سوچ اور علمی رہبری کا مظہر ہے۔ اگرچہ کتاب کے عنوان سے نفسِ مضمون کی وضاحت ہوجاتی ہے، تاہم مندرجات کے تعارف کے لیے مختلف ابواب کے موضوعات اس طرح ہیں: lجنوب مشرقی ایشیا کے میڈیکل نصاب میں اسلامی اقدار کو سمونے کا تجربہ lعلاج معالجے سے قبل بنیادی میڈیکل تدریس اور میڈیکل نصاب میں اسلامی فکر کی ترویج lمیڈیکل نصاب کی تدریس میں مسائل و مشکلات کا اسلامی تناظر میں حل lمیڈیکل کی پیشہ ورانہ تدریس، اسلامی نقطۂ نظر سے lاسلامی یونی ورسٹی ملایشیا میں میڈیکل کی تدریس پر آموزگار lاسلامی تصورِ طبی تعلیم اور حیاتی اخلاقیات lاسلامی اصولوں کی روشنی میں میڈیکل تعلیم سے متعلق اخلاقی امور lمسلمانوں کا تحقیق میں حصہ: ماضی، حال اور مستقبل lمعالجین بطور مؤثر تحقیق کار lکلینیکل تحقیق اسلامی تناظر میں lمیڈیکل تعلیم میں معیار کا مسئلہ ، اسلامی مناسبت سے۔
سائنس دان لفظوں کے استعمال میں خاصے کفایت شعار اور ہدف کی براہِ راست وضاحت پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ چنانچہ اتنے اہم اور وسیع موضوعات کو ڈاکٹر صاحبان نے کم سے کم الفاظ میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ مقصدیت، خدمت اور دین و دنیا میں کامیابی کے لیے فکرمندی پر مبنی، پیشہ ورانہ رہنمائی سے موسوم یہ کتاب تقاضا کرتی ہے کہ میڈیکل کی تعلیم و تدریس سے وابستہ ہراستاد کے زیرمطالعہ آئے۔ اگر اسے اُردو میں ترجمہ کرلیا جائے تو اس خطۂ ارضی میں استفادے کا دائرہ زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ کتاب کی جاذبِ نظر پیش کش پر ’فیما‘ اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) تحسین کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
کتاب کا نام عبدالرحمن بزمی (۱۹۳۰ء-۲۰۰۵ء) کے ایک شعر ؎
نہیں ہے انتہاے شوق بزمی
مگر حرفِ تمنا مختصر ہے
سے ماخوذ ہے۔ یہ مجموعہ شاعر کی وفات کے چھے برس بعد ان کے احباب (رفیع الدین ہاشمی، جاوید اقبال خواجہ، حفیظ الرحمن احسن) کی کوششوں سے منظرعام پر آیا ہے۔ برنی صاحب کی ولادت کینیا میں ہوئی اور عمر کا بیش تر حصہ انگلستان میں گزرا مگر وہ اُردو زبان اور پاکستان و پاکستانیوں سے بے حد انس رکھتے تھے۔ برطانیہ میں رہتے ہوئے بھی بزمی صاحب کے تعلقات اُردو دان طبقے اور پاکستانی احباب سے استوار رہے۔ اس کی ایک مثال حفیظ جالندھری سے ان کے دوستانہ مراسم کی استواری ہے۔ اسی طرح وہ ماہرالقادری، حفیظ تائب، جعفر بلوچ، پروفیسر محمد منور، ڈاکٹر وحید قریشی، ضمیرجعفری، مشفق خواجہ اور صلاح الدین شہید سے بھی ذاتی مراسم رکھتے تھے۔
حرفِ تمنّا بزمی صاحب کی قادرالکلامی کا بھرپور اظہار ہے۔ بیش تر اصنافِ شاعری (نعت، سلام، غزل، نظم، قطعہ، مرثیہ) حرفِ تمنّا کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں معروف دینی، علمی، سیاسی و ادبی شخصیات کی نذر کی گئی منظومات بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔ متفرق موضوعات اور مختلف تہنیتی مواقع پر کہی جانے والی شعری تخلیقات، اساتذہ کی زمینوں میں غزلیات بھی اس مجموعے میں موجود ہیں۔ بیش تر منظومات و غزلیات کے بعد تاریخِ تخلیق بھی درج ہے، اور وہ موقع محل بھی بیان کیا گیا ہے جہاں یہ تخلیق پیش کی گئی۔ غرض اس شعری مجموعے میں ہرصاحب ِ ذوق کے لیے شعر کے مذاق کا کچھ نہ کچھ سامان موجود ہے۔ بزمی صاحب کی شاعری پر سب سے زیادہ اثر علامہ اقبال کا نظر آتا ہے۔ وہ اقبال کے فکری قافلے میں شامل تھے۔ اس تعلق سے حرفِ تمنّا میں ۱۰، ۱۲ نظمیں موجود ہیں۔
کتاب کے آغاز میں جاوید اقبال خواجہ کا ایک مضمون ’بزمی صاحب: باتیں اور یادیں‘ شامل ہے۔ حفیظ الرحمن احسن نے دیباچے میں ان کی شاعری کا بھرپور تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔ دونوں مضمون صاحب ِ مجموعہ کی شخصیت اور شاعری کی تفہیم میں معاون ہیں۔ کتاب کے آخر میں رفیع الدین ہاشمی کا مختصر اختتامیہ بھی شامل ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)
مصری ادیب نجیب کیلانی کے بارے میں پڑھا تو تھا کہ عرب دنیا کے ممتاز ناول نگار ہیں لیکن ان کی اخوان المسلمون سے وابستگی کا اندازہ اس ناول کو پڑھ کر ہی ہوا۔ ناول کا موضوع کچھ بھی ہو، اس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لے اور شروع کرے تو ختم کیے بغیر نہ رہے۔ یہ خوبی اس میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔
ناول کا عنوان رحلت الی اللّٰہ (ترجمہ: سفرِآخرت) میںکوئی گہری معنویت ضرور ہوگی لیکن کوئی ناول کاشوقین اس جیسے عنوان کی کتاب کو کیوں ہاتھ میں لے! یہ ناول مصر میں جمال عبدالناصر کے عہدصدارت میں اخوان المسلمون پر کیے گئے ظلم و ستم کی داستان ہے۔ عطوہ ملوانی مصر کی جیل کا سربراہ ہے، ۳۵ سال کا ہے، اس کی شادی نبیلہ سے طے ہے۔ عطوہ چاہتا ہے کہ نبیلہ شادی سے پہلے ہی اپنے کو اس کے حوالے کر دے۔ پورے ناول کی کہانی یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے کو اس سے بچاتی ہے۔ اور اس کے دوران ہی جیل کے بے قصوروں کی پکڑدھکڑ، نت نئے ٹارچر کے مناظر اور وہ سب کچھ جو انسان دیکھ سکتا ہے اور سن سکتا ہے بیان کیے گئے ہیں۔
قیدیوں کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک ہوتا ہے،اخوان کس صبروتوکل سے اسے سہتے ہیں، عجب عجب مناظر ہیں۔ عطوہ کا محبوب کتا بیمار ہوجاتا ہے تو اخوان ڈاکٹر اس کا علاج کرتا ہے اور قیدیوں میں کسی شاعر کو اس کتے کا قصیدہ لکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو سب کو کورس میں گانا پڑتا ہے___ نجیب کیلانی نے کہانی تو بیان کر دی ہے لیکن تبصرہ نگار اس کی جھلک بھی نہیں دکھا سکتا۔
۶۳برس کے بعد اخوان کو مصر میں آزادی سے سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ نجیب کیلانی نے مختلف ممالک کے دورے کیے اور مختلف تہذیبوں اور معاشرتوں کا مطالعہ کیا۔ نائیجیریا کے انقلاب کے بعد اور ایتھوپیا کے دورے کے بعد فلسطین کے قیام کے دوران خصوصی ناول لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اُن کی بہت سی تصانیف ہیں اور کئی ادبی انعامات بھی ان کو ملے ہیں۔ یقینا وہ اسلامی ادب کے میدان کی منفرد شخصیت ہیں۔ نجیب کیلانی کے دوسرے ناولوں کے ترجمے بھی پیش کرنے چاہییں۔ اس وقت جب کہ ’عرب بہار‘ کے بعد اخوان المسلمون توجہ کا مرکز ہے، اس ناول کو ہرپڑھے لکھے فرد تک پہنچاناچاہیے۔(مسلم سجاد)
سوڈان کے عالم ڈاکٹر مالک بدری نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے اپنے تعلق کے آغاز و ارتقا پر کئی سال پہلے انگریزی میں ایک مضمون لکھا تھا۔ سید مودودیؒ کی کرشماتی شخصیت اور ان کی پُرتاثیر کلامی نگارشات پر یہ ایک عمدہ تحریر ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ ماہنامہ ترجمان القرآن کی سیدمودودیؒ پر اشاعتِ خاص میں شائع ہوا (مئی ۲۰۰۴ء)۔ اب ادارہ معارف اسلامی کراچی نے کسی اظہارِ تشکر کے بغیر زیرنظر کتابچے کی شکل میں شائع کیا ہے۔
مصنف پہلے پہل ۵۰ کے عشرے میں امریکن یونی ورسٹی بیروت کے زمانۂ طالب علمی میں سید مودودی سے آشنا ہوئے تھے۔ ان دنوں وہ اخوان المسلمون سے متاثر تھے مگر اخوان کی بعض پالیسیوں کے بارے میں شدید بے اطمینانی کا شکار تھے۔ اتفاقاً رسالہ دینیات (کا انگریزی ترجمہ) ان کے ہاتھ لگا، بس اسی تحریر نے انھیں سید مودودیؒ کا گرویدہ بنا دیا۔ کہتے ہیں: ’’سید مودودیؒ نے میرے اس تمام ذہنی اور روحانی خلجان کو دُور کر دیا جس کا شکار میں امریکی یونی ورسٹی کے نام نہاد اسلامی فلسفہ کورس پڑھنے کے دوران ہوچکا تھا‘‘۔
مالک بدری نے مولانا مودودی سے خط کتابت کی اور پھر اُن سے ملاقات کے لیے، اپنے ایک دوست کے ساتھ کویت سے بذریعہ پاکستان کا مشقت بھرا سفر کیا ۔ یہاں کچھ عرصہ رہ کر مولانا کے شب و روز اور اس کے ساتھ جماعت اسلامی کے طریقۂ کار کا مطالعہ کیا۔ مولانا سے ملاقاتیں رہیں۔ اس مضمون میں وہ ہر جگہ ان کا ذکر اپنے ایک محسن اور اپنی محبوب شخصیت کے طور پر کرتے ہیں۔ مالک بدری نے سید مودودی کو ایک نابغۂ روزگار شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے اور ان کی بعض خوبیوں کا ذکر کیا۔ مضمون پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ برعظیم پاک و ہندکی اُمتِ مسلمہ نے سید مودودیؒ کی قدر نہیں پہچانی۔ (ر- ہ )
اسلامی نظامِ تعلیم میں قرآن مجید کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قرآنِ مجید کو ہرسطح پر لازمی نصاب کے طور پر پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ و طالبات جب تعلیمی مراحل سے فارغ ہوں تو انھیں قرآن کا فہم و شعور اور اس کی بنیادی تعلیمات سے مناسب آگاہی حاصل ہوچکی ہو۔ اسی ضرورت کے تحت زیرنظر کتاب مرتب کی گئی ہے۔
شیخ عرض محمد بنیادی طور پر انجینیر ہیں لیکن دل دردمند رکھتے ہیں۔ انھوں نے قرآن مجید کی تعلیمات پر مبنی اس درسی کتاب کی تیاری کے لیے کم و بیش ۱۸ سال تحقیق کی۔ ڈاکٹر زبیری نے اسے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کی تدریس کا طریق کار بھی سہل اور عام فہم ہے۔ ہررکوع کی تلاوت اور ترجمے کے بعد صرف دو سوالوں کے ذریعے طلبہ و طالبات کو قرآنی تعلیمات کا فہم دیا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے قرآن پاک کے نصاب کی آؤٹ لائن ہے۔ اس میں گریڈ I سے گریڈ III تک کے طلبہ کے لیے اساتذہ اور والدین کو کچھ ہدایات دی گئی ہیں، جب کہ دیگر جماعتوں اور سائنس گریجویٹس کے لیے قرآن پاک کی سورتوں کو نظام الاوقات دے کر تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر رکوع کے آخر میں جائزے اور فیڈبیک کے لیے دو سوالات دیے گئے ہیں۔ مرتب کے خیال میں قرآن فہمی کے لیے طلبہ کو مادری زبان ہی میں تعلیم دینی چاہیے اور بہتر ہے کہ تلاوتِ قرآن کے لیے کیسٹ یا سی ڈی استعمال کی جائے۔ اگر گھروں میں اس کتاب کا ایک تسلسل سے اجتماعی مطالعہ کیا جائے تو قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کا شعور ایک بڑے دائرے میں بآسانی عام کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت ترجیح کے تعین اور سنجیدگی سے اس کے لیے کوشش کرنے کی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
معروف شاعر، ادیب، محقق اور صحیفہ نگار ابوالامتیاز عبدالستار مسلم صاحب کی متعدد تصنیفاتِ منظوم و منثور پر ان صفحات میں تبصرہ کیا جاچکا ہے۔ دو جِلدوں پر مشتمل ان کی زیرنظر نئی تالیف ان کے زرخیز ذہن، غیرمعمولی شعری صلاحیتوں اور ان کے ذخیرۂ شعرونعت کے حیرت انگیز تنوع پر مہرتصدیق ثبت کرتی ہے۔ مسلم صاحب کے چار نعتیہ مجموعوں (زبور نعت، زمزمۂ سلام، زمزمۂ درود، کاروانِ حرم) میں جتنے کچھ شعر موجود ہیں، ان سب کو یا بیش تر کو اسماء النبیؐ کے حوالے سے الف بائی ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔ اسماء النبیؐ میں فقط آں حضوؐر کے معروف ۹۹ ذاتی یا صفاتی نام ہی نہیں بلکہ آپؐ کے لیے مستعمل گوناگوں تراکیب بھی شعروں میں استعمال کی گئی ہیں، جیسے: آرامِ جاں، آسرا ہمارا، پیشواے دوجہاں، صیقلِ فکروشعور، متاعِ دین و ایماں، نورِ بصر وغیرہ۔
پہلی جِلد میں مذکورہ بالا چار مجموعوں سے ۴۵۶۵ شعر منتخب کیے گئے جن میں اسماء النبیؐ کی تعداد ساڑھے تین تا چار ہزار ہے۔ اسماء اور صفات کے علاوہ ’اشعار کی ایک بہت بڑی تعداد میں آپؐ کا ذکر یا آپؐ سے استغاثہ اسماے ضمائر (مثلاً: اس، ان، انھیں، وہ، وہی، تو، تم، تیرا، تمھیں) جیسے الفاظ میں ہوا ہے (جلد اوّل، ص ۱۷)۔ ان کے حوالے سے دوسری جِلد صدفِ ضمائر میں کے عنوان سے مرتب کی گئی ہے۔ قدیم و جدید شاعری میں اور خاص طور پر نعتیہ شاعری میں اسم ضمیر کے استعمال کی بہت عمدہ اور بامعنی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ اس جِلد میں بقول ریاض مجید: ’’مسلم صاحب نے اپنی نعتیہ کتابوں میں سے ان ضمیروں کے محلِ استعمال کے نمونوں کی جمع آوری کی ہے جو مطالعاتِ نعت میں ایک منفرد اور معتبر کام ہے‘‘ (ص ۲۹، جلددوم)۔ اس جِلد میں ۳۷۰۵، اشعار یک جا کیے گئے ہیں۔ ضمائر کی تعداد ۴۵ ہے۔
دونوں جِلدوں پر مصنف کے علاوہ پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم، پروفیسر ریاض مجید، بشیرحسین ناظم اور ڈاکٹر عاصی کرنالی کے دیباچے اور تقاریظ شامل ہیں۔ یہ تحریریں موضوع کی وضاحت بڑی عمدگی سے کرتی ہیں اور ان سب نے ابوالامتیاز صاحب کو ان کی فن کارانہ اور فن شعر میں ان کی استادانہ مہارت پر خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔
مصنف کی سابقہ کتابوں کی طرح یہ دونوں جِلدیں بھی کتابت، طباعت اور ترتیب وتدوین کے لحاظ سے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں، البتہ قیمتیں زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
بڑے، بچوں کے لیے چیزیں تلاش کرتے ہیں اور جب کوئی بہت اچھی چیز مل جاتی ہے تو بچوں کی طرح خوش ہوجاتے ہیں۔ یہی کیفیت تبصرہ نگار کی ہے۔
جھل مل، جگمگ اور رم جھم کچھ ایسی ہی چیزیں ہیں (ایک نہیں، تین تین، یعنی خوشی دوبالا نہیں بلکہ سہ بالا) جن کے لیے خوب صورت کا رسمی لفظ کفایت نہیں کرتا، حسین! نہیں، چندے آفتاب، چندے ماہتاب۔ ہر صفحہ ایک سینری ہے، کیا خوب ہے کہ بس، نظر بددور! دبیز آرٹ پیپر پر خوش نما رنگین طباعت۔ طباعت کی باریکی ملاحظہ کریں کہ پیلا، لال، ہرا، سفید، کاسنی، نارنجی، سرمئی، الفاظ اسی رنگ میں لکھے گئے ہیں، یعنی پیلا پیلے رنگ میں… (ص ۷۸، جھلمل)۔ اسی طرح دھنک لفظ کئی رنگوں میں (ص ۷۶، جھلمل)۔ یہ تو ہوا ظاہر، باطن کی طرف آئیں تو ناعمہ صہیب نے کیا خوب کام کیا ہے کہ بس واہ واہ، اللہ ان کے لیے جنت میں اپنے قریب محل بنائے! اور ڈیزائنر فرحان حنیف، مہ جبیں قرشی اور صبا نقوی کی کتنی تحسین کی جائے کہ انھوں نے ہرصفحے پر زندگی بکھیر دی ہے۔
ان تینوں کتابوں کو محض کہانیوں کی کتابیں کہنا زیادتی ہوگا۔ سب سے اہم بات اور خوشی کا اصل سبب یہ ہے کہ یہ شعوری طور پر مرتب کی گئی تعلیم و تربیت کی کتابیں ہیں جن میں نہایت مہارت سے، دلنشین اسلوب میں، آسان زبان میں مخاطب کی عمر اور معیارِ فہم کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی عقائد، اقدار، اخلاق اور معاشرت کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ پہلی، چھے سے آٹھ سال، دوسری سات سے نوسال اور تیسری ۱۰ سے ۱۲سال تک کے بچے اور بچیوں کے لیے ہے۔
جھلمل میں ۱۱؍ ابواب میں ۳۱، جگمگ میں ۱۲؍ابواب میں ۲۸، اور رم جھم میں ۱۰؍ابواب میں ۲۸ کہانیاں یا سبق ہیں۔ اسماے حسنیٰ کے عنوان سے آٹھ مضامین ہیں لیکن اس طرح کہ’کوئی دیکھ رہا ہے‘ کے عنوان سے ’السمیع البصیر‘ کے تعارف کے لیے حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں دودھ میں پانی ملانے سے انکار کرنے والی بچی کا قصہ ہے جسے حضرت عمرؓ نے اپنی بہو بنایا، جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کی نانی بنیں۔ انبیا کے ۱۲ قصص میں دل چسپ انداز میں کشتی کا سفر، خطرناک آندھی، عجیب اُونٹنی اور بے ایمان تاجر کے عنوان سے حضرت نوحؑ، قومِ عاد،حضرت صالحؑ اور حضرت شعیب ؑ کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ سیرتِ پاکؐ کے واقعات ہر کتاب میں مختلف عنوانات سے آگئے ہیں۔ آخری نبیؐ (ص ۲۹-۴۳، رم جھم) میں زندگی بھر کے مختصر حالات ہیں۔
ان کتابوں میں نظمیں بھی ہیں، حمدو نعت بھی۔ ’یہ گھر وہ گھر‘ (ص۱۲۸-۱۳۳، جگمگ) میں زاہد کے گھر میں سخت بدانتظامی ہے، اور عمار کے گھر میں سلیقہ ہی سلیقہ۔’پھلوں کا مشاعرہ‘ صوفی غلام مصطفی کی پہیلی سے ماخوذ ہے (ص ۷۴-۷۵، جگمگ)۔ علامہ اقبال کی پرندے کی فریاد اور ہمدردی بھی شامل ہیں اور خواجہ عابد نظامی کی ’محنت میں برکت‘۔ (ص ۶۴،۱۰۴،۱۱۵، رم جھم)
آداب کے حوالے سے کھانے کے آداب، سونے کے آداب (جھلمل) نماز کے آداب (جگمگ)، گفتگو کے آداب (رم جھم) تو عنوان کے تحت بیان ہوئے ہیں لیکن آداب تو ہر سبق میں رچے بسے ہیں۔ استاد کے عالی مقام کی خاطر ایک علیحدہ ’استاد کا ادب‘ ہے۔
گھر میں مُنّا ہوا اور امی ہر وقت اس کے کام کرنے لگیں تو ’بڑے‘ بھائی کو امی سے ہمدردی ہوگئی۔ خالہ آئیں تو بتایا کہ امی نے اپنا کیا حال بنا لیا ہے۔ خالہ نے بتایا کہ جب تم تشریف لائے تھے تو تم نے بھی تین ماہ امی کو ایسے ہی تکلیفیں دی تھیں۔ اب انھیں اس طرح آرام پہنچائو اور دس طریقے گنا دیے مثلاً تولیہ پکڑا دو وغیرہ (ص ۱۲۸-۱۳۲، جھلمل)۔ ’عجیب سفر‘ کے عنوان سے اسکول کے گندے واش روم کا استاد اور طالب علموں کے مل جل کر دھونے کا بیان ہے۔ ساتھ ہی آداب کا بھی بیان ہوگیا (ص ۹۰-۹۴، جھلمل)۔ جانوروں کے چوپال (ص ۴۶-۶۱، جھلمل) میں کہانی کہانی میں علمِ حیوانیات کی بنیادی معلومات دے دی گئی ہیں۔ ’سوال ہی سوال‘ میں بنیادی سوال: ’ہماری دنیا کہاں سے آئی‘ کائنات، کہکشاں، نظامِ شمسی، ستارے، سورج، سیارے سب کا ذکر ہے اور مناسب انداز سے قرآنی آیات بھی دی ہیں(ص۳۶، جگمگ)۔ ’خطرہ‘ کے عنوان سے ایک سبق میں ایسی ۱۵ ہدایات دے دی گئی ہیں جو خطرے سے بچائیں مثلاً چھری سے نہ کھیلیں، گرم استری نہ چھوئیں وغیرہ۔ (ص ۱۰۳، جگمگ)
رم جھم دیکھیں تو ابواب کے عنوانات سے ایک اندازہ ہوجاتا ہے۔ ۱-اسماے حسنیٰ ۲-انبیاے کرام ۳- فرائض ۴- حقوق ۵- آداب ۶- اجتماعیت ۷-سائنس کی دنیا ۸- تہذیب و تمدن ۹-ماحولیات ۱۰- اخلاقیات۔ ’ہمیشہ دیر کردیتے ہو‘ (ص ۴۴-۴۷، رم جھم) میں جو بچہ امی کے کہنے کے باوجود بھی آخر وقت میں نماز پڑھتا ہے، خواب میں یوم الحساب میں پکڑے جانے کا پورا نقشہ اور کیفیات کا بیان ہوتا ہے اور بالکل آخری وقت میں بچا لیا جاتا ہے۔ ’شیطی کون تھا‘ میں شیطان کس طرح گمراہ کرتا ہے، اس سے مقابلے کا بیان ہے۔ (ص ۱۰-۱۴، جگمگ)
وطن کا قرض (ص ۵۸-۶۲، رم جھم) میں مشکور حسین یاد کی ’آزادی کے چراغ‘ سے ہمیں پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ عبدالغنی فاروق کی کتاب ہم کیوں مسلمان ہوئے؟ سے وہ واقعہ لیا گیا ہے جس میں ایک برطانوی فوجی افسر مسلمان سپاہی کے رمضان میں دوڑائے جانے کے باوجود پانی نہ پینے سے متاثر ہوکر بالآخر مسلمان ہوجاتا ہے۔ ’عظیم شہر باکمال لوگ‘ (ص ۷۲-۷۶، رم جھم) میں بغداد اور اندلس کے حوالے سے ہارون الرشید کے دارالحکمت اور الزہراوی کا ذکر ہے۔ ’کیسے کیسے لوگ‘ (ص ۷۷-۸۴، رم جھم) میں آئزک، نیوٹن، لوئی پاسچر، تھامس ایڈی سن کی خدمات کا تذکرہ ہے۔کائنات اور سائنس سے متعلق سبق ہارون یحییٰ کے حوالے سے لیے گئے ہیں، مثلاً ’اندھی مخلوق‘ (ص ۷۰، رم جھم) میں دیمک کی کہانی۔ مسعود احمد برکاتی کے سفرنامے ’دومسافر، دو ملک‘ سے بچے لندن اور پیرس کی سیر کر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی اتنا کچھ سیکھتے ہیں کہ بس! (ص ۸۵، رم جھم)
تبصرے میں تفصیل ہوتی جارہی ہے، دل چاہتا ہے کہ قارئین کو مکمل جھلک دکھادی جائے، لیکن شاید یہ ممکن نہیں۔
اگر تعلیم یافتہ والدین ان کتابوں کی ورک بک استعمال کروائیں تو یہ سارے سبق بچے کی شخصیت پر نقش ہوجائیں گے۔ جو اسکول اسے نصاب یا اضافی نصاب کے طور پر پڑھائیں اور ورک بک بھی استعمال کریں، یقینا ان طلبہ کے والدین بچوں کو اچھا شہری، اچھا پاکستانی، اچھا مسلمان بنانے پر، جس کی برکتیں بچے دنیا اور آخرت میں سمیٹیں گے، ان کے احسان مند ہوں گے۔
بڑے بھی طالب علم بن کر پڑھیں تو بہت کچھ سیکھیں گے، یہ ’کہانیاں‘ آپ کو عالم (جاننے والا) قابل اور بااخلاق اچھا مسلمان بناتی ہیں۔
جو بڑے بڑے اسکول یا دسیوں اسکولوں کے نیٹ ورک چلا رہے ہیں، ان کی ذمہ داری بلکہ فرض ہے کہ اپنے زیرتعلیم اس عمر کے بچوں کو ان کتابوں کے فیض سے محروم نہ رکھیں۔
یہ کتابیں نہایت سستی ہیں۔ مارکیٹ کے لحاظ سے ان کی قیمت ۷۰۰، ۷۰۰ روپے بھی ہوتی تو زیادہ نہ ہوتی۔ ۶۵۰ روپے میں بچوں کے لیے تین خوب صورت سواکلو وزنی کتابیں ہرلحاظ سے اچھا تحفہ ہے۔ تحفۂ رمضان بنا لیں یا تحفۂ عید۔ (مسلم سجاد)
علم و فضل اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے لیکن ان لوگوں پر تو یہ نعمت نور بن کر اُترتی ہے جو اس امانت کو رضاے الٰہی کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں، دین اسلام کے داعی بنتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ غلام بن کر زندگی کے لمحات صَرف کرتے ہیں۔ محبی و محترمی ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم (۱۹۵۰ء-۲۰۱۰ء) بھی ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، جنھوں نے سعادت کی راہوں میں عظمت و دانش کے پھول چُنے۔
محمود احمد غازی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر نصف صد مضامین، اور ان کے افادات کا یہ گلدستہ خوش رنگ بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔ دین و دانش اور تفقہ فی الدین کی اس قوسِ قزح میں، زیرنظر مجموعے کا قاری زیربحث قابلِ رشک زندگی سے والہانہ وابستگی محسوس کرتا ہے۔
ان تحریروں میں مرحوم کی حیرت انگیز علمی جاں فشانی، ہر دم جواں غیرتِ ایمانی، سراپا جرأت بیان اور بعض مقامات پر محکم اجتہادی سوچ کا پرتو نظر آتا ہے۔ یہ مختصر تعارفی تحریر نہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے خدوخال کا خاکہ پیش کرسکتی ہے اور نہ الشریعۃ کی اس اشاعتِ خاص کے دامن میں موجود نقوش کا احاطہ کرسکتی ہے۔ یہ مجموعہ تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ (۲۷۰ صفحات) تاثرات، مشاہدات اور شخصی تعلقات کی بنیاد پر معلومات سے آگاہ کرتا ہے۔ دوسرا حصہ ۱۸۰صفحات پر مشتمل ہے، جن میں ۱۰ مضامین کے ذریعے غازی صاحب کے علمی کارنامے کا تعارف پیش کیا گیا ہے، تاہم یہ فکری تعارف تشنگی کا احساس چھوڑتا ہے، جس کے لیے زیادہ محنت سے تحلیل و تجزیے کی ضرورت ہے، اور آخری حصے میں ان کے منتخب افادات شامل ہیں۔ ادارہ الشریعۃ نے صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں کمالِ محنت اور لگن سے یہ اشاعت پیش کرکے ایک قابلِ رشک مثال قائم کی ہے۔ جس پر پرچے کی مجلس ادارت تحسین کی مستحق ہے۔(سلیم منصور خالد)
ایمان و حکمت کے سدابہار پھول دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی مہکار بکھیر رہے ہیں۔ اگرچہ بعض بڑے شہروں کو تہذیب و دانش کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، تاہم مضافاتی قصبوں اور شہروں میں جب یہ پودے برگ و بار لاتے ہیں تو ان کی تاثیر اور تاثر دوچند ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ایسے صدقاتِ جاریہ میں ایک مرکز جھنگ میں خدمتِ قرآن کا کارِعظیم انجام دے رہا ہے، جہاں سے زیرمطالعہ ماہ نامہ شائع ہوتا ہے۔
آج، جب کہ پاکستان کی سرحدوں کو ہدف بنانے کے پہلو بہ پہلو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ کرنے کا مغربی حملہ زوروںپر ہے، تو یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوتا ہے کہ عموماً ہمارے اہلِ دانش اور مقتدر حلقے اس یلغار سے بے خبر یا لاتعلق ہیں۔اس بے حسی کی فضا میں حکمتِ بالغہ کی یہ اشاعت خاص ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔ چھے حصوں پر مشتمل اس اشاعت میں پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے کی تفہیم اور پس منظر کی بخوبی وضاحت کی گئی ہے۔ ازاں بعد دو قومی نظریے کے فروغ، تحریکِ پاکستان میں نظریۂ پاکستان کے خدوخال کی تشریح، پاکستان کی بطور اسلامی ریاست شناخت اور اس حوالے سے بے حس مقتدرہ کے ہاتھوں تعلیمی المیے کے ظہور اور بہتری کی راہوں کی نشان دہی کو موضوعِ بحث بنایاگیا ہے۔ بالفاظِ دیگر دو قومی نظریہ، نظریۂ پاکستان اور نظامِ تعلیم ایک ہی وجود کے تین پہلو ہیں۔ اگر ان تینوں میں سے کسی ایک پہلو کو نظرانداز کردیا جائے تو پاکستان کا مطلوبہ نظامِ تعلیم تشکیل نہیں پاسکتا۔ (س- م - خ)
کسی اسلامی تحقیقاتی ادارے سے مجلے کی اشاعت کا آغاز یقینا ایک اچھی خبر ہے۔ مجلہ ادارے کے مشن کا علَم بردار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ادارے کی اپنی تحقیقاتی کاوشیں اور دوسرے مقالے ششماہی رسالے میں شامل ہونے چاہییں۔ تفسیرالمنار: تحلیل و تجزیہ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا قیمتی ’مقالہ خصوصی‘ (۲۱ صفحات) ہے جس سے عالمِ عرب کی اس عصری تفسیر کا بخوبی تعارف ہوجاتا ہے۔ ہندستان میں عسکری انقلابی تحریک، انگریزوں کے خلاف جدوجہد کا ایک باب سامنے لاتاہے۔ حدیث استخارہ اور استنباط مسائل پر حافظ عنایت اللہ کا مقالہ استخارے کے تمام مباحث اور پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر مقالے بھی معیاری ہیں۔ تعارف و تبصرہ کے تحت چارکتابوں پر تبصرہ ہے۔ انگریزی حصے میں بھی چار مختصر مضمون ہیں جس میں سے ایک میں تشدد و دہشت گردی کے تریاق کے طور پر صوفی ازم پر گفتگو کی گئی ہے۔ امریکا بے ضرر غیرجہادی اسلام کو تصوف کے پردے میں صوفی ازم کے نام سے متعارف کروا رہا ہے۔دوسرے میں قرآن میں داعی کے ہم معنی الفاظ اور ان کے مختلف پہلو زیربحث آئے ہیں۔ اُمید ہے کہ علمی حلقوں میں اس کی پذیرائی کی جائے گی۔ (م- س)
الحافظات ٹرسٹ پاکستان کے زیراہتمام کراچی میں گذشتہ ۱۲ سال سے کام کرنے والے گوشہ عافیت کا یہ نیوزلیٹر اس کی سرگرمیوں کا ایک عکس ہے اور اس کے مقاصد بھی واضح کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین جن مسائل سے دوچار ہوتی ہیں اور پھر جس طرح بے بس و لاچار ہوجاتی ہیں (کہ رشتے دار بھی دشمن بن جاتے ہیں)، اس پس منظر میں اصحابِ خیر کے بنائے ہوئے گوشہ عافیت جیسے ادارے ایک نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ یہ باعزت پناہ گاہ ہزاروں خواتین کے لیے ایک سہارا ہے۔ یہاں نہ صرف ضروریاتِ زندگی فراہم کی جاتی ہیں بلکہ زندگی کا مقصد واضح کیا جاتا ہے اور ہنر سکھا کر خوداعتمادی دی جاتی ہے۔ اب تک ۱۹۰۰ خواتین یہاں آکر جاچکی ہیں۔ بہت سی ورثا کے سپرد ہوئیں، لاوارثوں کی شادیاں بھی کروائی گئیں۔ کئی خواتین کی آپ بیتیاں بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ انڈسٹریل ہوم بھی اس عمارت میں قائم ہے۔ یہ ٹرسٹ کی اپنی عمارت ہے۔
امیرجماعت اسلامی سیدمنور حسن کے مطابق: ’’گوشہ عافیت بے سہارا خواتین و بچوں کو تحفظ، ان کی کفالت اور ان کو فنی تعلیم میں برکت دے کر اپنے پائوں پر کھڑا کرکے معاشرے کا مفید شہری بنانے میں مصروف ہے‘‘۔ (م- س)
ایک عام مسلمان قرآنِ پاک کا مطالعہ کرتا ہے تو بظاہر بے ربط متفرق آیات کا مجموعہ ہونے کا تاثر ملتا ہے، لیکن قرآن پر تدبر اور غوروفکر کرنے والے جانتے ہیں کہ ہر سورت دوسری سورت سے، ہر آیت دوسری آیت سے مربوط ہے، اور مضامین میں ایک غیرمعمولی نظم پایا جاتا ہے۔ مولانا حمیدالدین فراہیؒ نے نظم قرآن کے حوالے سے بڑی خدمت انجام دی ہے۔ مجموعہ تفاسیر فراہی نے پہلی بار اُردو دان طالبینِ قرآن کے سامنے نظم کی دنیا کھولی۔ قرآن کا مرکزی نظم جسے وہ عمود کہتے ہیں، اس کے گرد ساری سورتوں کے عمود گھومتے ہیں۔ قرآن معانی اور بیان کے لحاظ سے ایک غیرمعمولی منظم اور مربوط معجز کلام ہے جو کلام الٰہی ہونے کے شایانِ شان ہے۔
نظمِ قرآن کے حوالے سے خلیل الرحمن چشتی صاحب کی خدمات محتاجِ تعارف نہیں۔ ان کی تازہ ترین زیرتبصرہ کتاب ان کے پندرہ برس کے غوروفکر کا حاصل ہے۔ اس میں قرآن کی تمام سورتوں کا نظم جلی (macro) واضح کیا گیا ہے۔ نظم خفیف میں آیت اور آیت، اور آیت کے الفاظ کا نظم مطالعے کا موضوع ہوتا ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں ۳۰ صفحات پر مشتمل اُصولِ تفسیر بیان کیے گئے ہیں، جس سے قرآن فہمی کا وہ منہج سامنے آتا ہے جسے اس کتاب میں پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ ہرسورت کا زمانۂ نزول، خصوصیات، صحیح احادیث پر مشتمل فضائل بیان کرکے کتابی ربط بیان کیا گیا ہے کہ اس کا پچھلی اور اگلی سورتوں سے کیا تعلق ہے۔
ہر سورت کو چند بڑے پیراگرافوں میں تقسیم کرکے انھیں عنوان دیا گیا ہے اور پیراگراف کے پیراگراف سے ربط و تعلق کو تلاش کر کے سورت کے مرکزی مضمون کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہرسورت کے کلیدی الفاظ و مضامین کی وضاحت کی گئی ہے، جو سورت کے فہم میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ہر سورت کے تنظیمی ہیکل کو ایک دائرے کی شکل میں واضح کیا گیا ہے۔ ہر سورت کے مضامین کو چارٹ کی شکل میں پیش کرنے کی غالباً یہ پہلی کاوش ہے۔ ایک تصویر ہزار تفسیری الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ یہ امیج ایک دیرپا نقش ہے۔
رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن کا دورہ کرنے اور کرانے والوں کے لیے یہ نہایت مفید ہے۔ سورت کی تلاوت اور ترجمے کے مطالعے سے پہلے اس کتاب کا خلاصہ پڑھ لیا جائے تو پوری سورت کا نقشہ ذہن میں آجاتا ہے۔(مسلم سجاد)
’رسائل و مسائل‘ بھارت کے معروف علمی و دینی ماہ نامے زندگی نو کا ایک مستقل سلسلہ ہے جس میں دورِحاضر میں درپیش مسائل پر سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء تا ۱۹۸۶ء تک مجلے کے مدیر سید احمد عروج قادریؒ جوابات دیتے رہے۔ پھرادارہ تحقیق و تصنیف علی گڑھ کے ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی جواب دینے لگے۔ زیرنظر کتاب ندوی صاحب کے جوابات کا مجموعہ ہے۔ جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں تمام فقہوں (احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیہ) کو مدنظر رکھ کر دیے گئے ہیں۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں نت نئے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ دورانِ نماز موبائل فون کی گھنٹی، کرنسی نوٹ میں نصابِ زکوٰۃ، حجاب اور برقعہ، ملازمت پیشہ خواتین کا پردہ، دینی اجتماعات کی فوٹوگرافی اور خواتین کے اجتماعات میں پروجیکٹر کا استعمال وغیرہ۔ ندوی صاحب نے اس نوعیت کے جملہ مسائل کے جواب متوازن اور مناسب انداز میں دیے ہیں، مثلاً اگر دورانِ نماز موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگے تو کیا کرنا چاہیے؟ جواب میں مسجد کی اہمیت، عبادت کی روح اور خشوع و خضوع کی اہمیت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: موبائل دورانِ نماز ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر یا باہر نکال کر فوراً بند کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس طرح بند نہ ہو تو نماز توڑ کر موبائل بند کردیں اور دوبارہ نماز میں شامل ہوجائیں (ص ۱۸، ۱۹)۔اسی طرح کرنسی نوٹ میں زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے؟ کے جواب میں کہتے ہیں: ادایگی زکوٰۃ کے لیے فقہا نے چاندی کو معیار مانا ہے۔ اس میں غریبوں اور مستحقین کی مصلحت اور مفاد پیش نظر ہے۔ جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم کے برابر کرنسی نوٹ ہوں، اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔
عصری مسائل کے علاوہ بھی زیرنظر کتاب میں بہت سے شرعی مسائل کا جواب نہایت متوازن اور مدلل انداز میں دیاگیا ہے، مثلاً: نمازِ فجر کی سنتیں، عورتوں کی نماز، نمازِ وتر کی رکعتیں اور خواتین اور زیارتِ قبور وغیرہ جیسے مسائل زیربحث آئے ہیں۔
مصنف کا انداز عالمانہ ہے اور انھوں نے کتاب بڑی محنت و کاوش سے مرتب کی ہے۔ جوابات حوالوں سے مزین ہیں۔ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں بالخصوص نوجوان نسل کو ایسی کتابوں سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔ (قاسم محمود احمد)
سیدمودودیؒ کے مکاتیب مختلف احباب نے مرتب کرکے شائع کیے ہیں۔ اس سلسلے کی نئی کتاب مکاتیب سید مودودیؒ ہے، جس میں ۲۵۹مکاتیب مختلف رسائل و جرائد [ترجمان القرآن، آئین، ذکریٰ، قومی ڈائجسٹ، سیارہ، تعمیرافکار، میثاق، ہفت روزہ ایشیا اور روزنامہ جسارت] اور بعض دیگر ذرائع سے جمع کیے گئے ہیں۔ مکتوب الیہوں میں قومی و ملکی، دینی و سیاسی شخصیات، (شورش کاشمیری، ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمد شفیع، جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ، غلام جیلانی برق، مولانا سمیع الحق، ملک نصراللہ خاں عزیز، مولانا امین احسن اصلاحی، سیداسعدگیلانی، عبدالرحیم اشرف، طالب ہاشمی، سید فضل معبود، مولانا راحت گل، پروفیسر سید محمدسلیم وغیرہ) شامل ہیں۔
سیدمودودیؒ کے یہ مکاتیب نصف صدی کے دورانیے پر محیط ہیں۔ سادہ و سلیس، عام فہم اور خوب صورت زبان و بیان اور متنوع موضوعات پر مبنی یہ مکاتیب، جہاں ذاتی و شخصی مسائل سلجھانے، اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں، وہیں ملکی و قومی مسائل سے لے کر عالمی مسائل، علمِ دین اور فقہی مسائل سے آگہی اور شعور کا باعث ہیں۔ ان مکاتیب کا امتیاز یہ ہے کہ یہ قاری میں اقامت دین کی تڑپ، داعیانہ احساسِ ذمہ داری اور خدمتِ دین کا جذبہ پیدا کرتے بلکہ اُسے شعلۂ جوالہ بناتے اور یوں راہِ راست کی جانب پیش قدمی کا ایک سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح یہ مکاتیب تحریکِ اسلامی کے مختلف مراحل، قیامِ جماعت اور تاریخِ جماعت سے متعلق کتنی ہی کڑیوں کو ملانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ خطوط کے ساتھ اس کے حواشی بھی شامل ہیں جو خطوط کے سیاق و سباق کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔
حسن صوری و معنوی سے آراستہ، یہ ایک خوب صورت دستاویز ہے، جو سید مودودیؒ کی سیاسی و دینی بصیرت کی کئی جہتیں روشن کرتی ہے۔ اشاریہ بھی شامل ہے۔ کتاب کا ابتدائی لوازمہ پروفیسر نورور جان نے فراہم کیا، ادارہ معارف اسلامی کے رفقا نے تدوین و تحقیق کے بعد اسے موجودہ شکل دی۔ (عمران ظہورغازی)
ناصر قریشی بنیادی طور پر ادیب ہیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کی اور فیچر لکھے۔ بہت سے دوستوں کے خاکے بھی قلم بند کیے۔ ان کے حج بیت اللہ کے سفرنامے سرزمینِ آرزو پر تبصرہ انھی اوراق میںکیا جا چکا ہے۔ اب انھوں نے اپنی ۳۰سالہ ملازمتی زندگی کی یادوں کی محفل سجائی ہے۔ کہتے ہیں: ’’ماضی کی یادیں، باتیں، واقعات، شخصیات، تقریبات حتیٰ کہ سانحات بھی میرے لیے وہ پھول ہیں جن کی خوشبو سے مدام میرے قلب و ذہن معطر رہتے ہیں‘‘ (ص ۸)۔ وہ ۱۹۶۳ء میں بطور پروڈیوسر ریڈیو پاکستان میں بھرتی ہوئے۔ دورانِ ملازمت میں انھیں آزاد کشمیر ریڈیو کے مظفرآباد اور تراڑکھل اسٹیشنوں کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے متعدد مراکز (لاہور، بہاول پور، ملتان، کوئٹہ، خضدار) میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس سارے عرصے میں انھیں نامور ادیبوں، شاعروں اور ’’اہلِ قلم و علم و ادب اور اساتذۂ فنون‘‘ کی صحبت میسر آئی جن سے انھوں نے اپنے بقول ’’بہت کچھ سیکھا‘‘۔ ان میں سید عابد علی عابد، اشفاق احمد، اعجاز حسین بٹالوی، مولانا صلاح الدین احمد، انجم رومانی، صفدرمیر، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، امجدالطاف، شہرت بخاری سرفہرست تھے۔ پھر ریڈیو کے بزرگوں اور رفقاے کار کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی وجہ سے ’’ریڈیو پاکستان ہمہ خانہ آفتاب تھا مہتاب تھا‘‘۔ چوں کہ ملازمتی زندگی میں ناصر قریشی کا مسلک ’’ریڈیو کے توسط سے دین اور سرزمین کی خدمت‘‘ تھا (انھوں نے ریڈیو کے لیے سید مودودیؒ کا ایک طویل انٹرویو بھی لیا تھا، جو کتاب کی صورت میں شائع بھی ہوچکا ہے)، اس لیے انھیں ملازمت میں بارہا تبادلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض احباب کا ذکر وہ بہت محبت سے کرتے ہیں، جیسے یوسف ظفر اور بعض لوگوں سے ان کی ناپسندیدگی چھپی نہ رہ سکی، جیسے قاضی احمد سعید۔
مصلحت کوشی یا اصولوں پر سمجھوتا کبھی قابلِ قبول نہیں رہا، اسی لیے وہ معتوب بھی رہے۔ ان کا لب و لہجہ بہت بے باکانہ ہے۔ متن کے علاوہ بعض نثرپاروں کے عنوانات ہی سے لکھنے والے کی حق گوئی اور بے باکی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مثلاً ’’ذرائع ابلاغ کا مجرمانہ کردار‘‘ یا ’’پی ٹی وی کے کرشمے‘‘ یا ’’ہم بنیاد پرست ہیں‘‘ (جس کا اختتام یوں ہوتا ہے: ’’ضیاء الحق کے زمانے میں ٹی وی پر فلموں میں رقص و سرود پر پابندی ہوتی تھی۔ اب ماشاء اللہ وہ پابندی بھی اُٹھ گئی ہے۔ دیکھیے اب کیا کیا اُٹھتا ہے؟ہماری شرافت اور تہذیب و ثقافت کی اللہ خیر کرے‘‘۔ ص۲۲۷)۔
یہ کتاب کوئی باقاعدہ اور مربوط آپ بیتی نہیں۔ ناصرقریشی نے دو دو، چار چار صفحے کے مختصر مضامین کی کیاریوں میں یادوں کے (مختلف موسموں کے) ’’پھول اور شگوفے‘‘ کھِلائے ہیں۔ یہ نثرپارے مختلف زمانوں اور موسموں میں لکھے گئے، اس لیے ان میں کہیں کہیں تکرار بھی ہے۔ کتابی شکل دیتے وقت تواریخِ تحریر کو ملحوظ رکھا جاتا اور ہر نثرپارے کے آخر میں اس کا زمانۂ تحریر دے دیا جاتا تو تاریخی اعتبار سے کتاب کا پایہ بڑھ جاتا۔
ابتدا میں (بطور دیباچہ) ناصر قریشی کا تعارف شامل ہے مگر تعارف نگار کون ہے؟ کچھ پتا نہیں چلتا___ کتاب معلومات کا خزانہ ہے۔ افراد و اشخاص، ریڈیو پاکستان کا کردار اور ریڈیو کو شخصی مفادات اور پاکستان کا چہرہ بگاڑنے کے لیے استعمال کرنے والوںکے عزائم بے نقاب ہوتے ہیں۔ کبھی ریڈیو پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ کتاب بطور حوالہ کام آئے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پانچ مقالات پر مشتمل یہ مجموعہ مجلہ مغرب اور اسلام کی اشاعتِ خاص کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ عالم گیریت کے چیلنج اور مسلمانوں کے حوالے سے سلسلۂ مضامین کا یہ دوسرا حصہ ہے، جس میں ڈاکٹر محمدعمر چھاپرا کے دو عالمانہ مقالوں (۱۶-۴۷ اور ۱۰۴-۱۳۴) میں بین الاقوامی مالیاتی استحکام میں مالیات کے کردار، عالم گیریت کے موجودہ چلن اور مسلم دنیا کو اس طرح زیربحث لایا گیا ہے کہ یہاں پر پھیلے ہوئے سماجی جبر اور معاشی ظلم کو عدل کی راہوں پر گام زن کرنے کے امکانات اور وسائل کی نشان دہی ہوتی ہے۔ یہ تحقیقی مقالات معاشیات، سماجیات اور سیاسیات کے طالب علموں کے لیے ایک قابلِ قدر مصدر ہیں۔ اسی طرح ایک منفرد مقالہ معروف عالم اور محقق ڈاکٹر محموداحمد غازی مرحوم و مغفور کا ہے، جس میں انھوں نے اسلام کے قانون بین الاقوامی کی روشنی میں آج کی دنیا کے تعلقات کے بحران اور بے اعتمادی و ظلم کے نظام کا بہ حسن و خوبی نہ صرف تجزیہ کیا ہے، بلکہ مروجہ بین الاقوامی قانون میں اسلامی قانون بین الاقوامی کی فوقیت اور امتیازی پہلوئوں کو بھی پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی اسلامی ماخذ کی روشنی میں تمام اقوام و ملل کو احترام و یگانگت کا رستہ بھی سمجھایا ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون: ’عالمی امن اور قیامِ عدل، اسلامی تناظر میں‘ انھی مباحث کی تفہیم لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔
البتہ اس مجموعے میں ایان مارکھیم کے مضمون: ’عالمی امن و انصاف: مسیحی تناظر‘ (۶۶-۷۸) کی وجۂ جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ مسیحی اسٹیبلشمنٹ جو ظلم کی خاموش حلیف اور عام انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا دوسرا نام ہے،اس سے عالمی امن و انصاف کی توقع عبث ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قیمتی، قابلِ مطالعہ معلومات افزا مجموعۂ مضامین ہے۔ (سلیم منصور خالد)
موت کا سایہ ہرزندگی کے تعاقب میں رہتا ہے، اس اعتبار سے زندگی سے متصل سب سے اہم سچائی موت ہی ہے۔ فطری اور طبعی موت، باوجود صدمے کے، رنج و الم کا وہ کہرام بپا نہیں کرتی جس غم و اندوزہ کا مشاہدہ غیرطبعی موت پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس غیرفطری موت کا نکتۂ آغاز وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل تھا۔ بعدازاں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے ہمراہ اعلیٰ درجے کی فوجی قیادت کا طیارے کی تباہی میں قتل بھی قرائن و شواہد کے اعتبار سے سبوتاژ کارروائی کا نتیجہ ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اور پھر دسمبر ۲۰۰۷ء کی انتخابی مہم کے دوران ملک کی تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی امیدوار بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قتل نے ملک کی سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات ثبت کیے۔
زیرنظر کتاب، بے نظیر بھٹو کے اسی الم ناک قتل کی تحقیقات پر مبنی ایک دستاویز ہے، جسے پاکستان کے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے تین سال کی مسلسل تحقیق و جستجو کے بعد پیش کیا ہے۔ اگرچہ اس سانحے پر متعدد کتب آچکی ہیں، لیکن اپنی پیش کش، اسلوب اور لوازمے کی ترتیب کے اعتبار سے اس کتاب کو کئی پہلوئوں سے دوسری کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ مصنف نے جُملہ تحقیقی رپورٹوں کے نتائج اور اشتراکات و اختلافات کو پیش کرنے کے ساتھ، موقعے کی شہادتوں کا بڑی خوبی سے تجزیہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس قتل سے منسوب تمام مفروضوں کو پیش کر کے ان کا غیرجذباتی سطح پر تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں پیپلزپارٹی کے داخلی اختلافات، مرحومہ کی گھریلو اور خانگی زندگی پر مشاہدات اور دوستوں کی یادداشتیں شامل کی ہیں۔ تیسرے حصے میں بے نظیر سے مصنف کے متعدد انٹرویو، ان کی شخصیت کے مختلف زاویوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
اضافی طور پر جاے حادثہ کے تصویری خاکے، نقشہ جات، معلوماتی جداول نے قاری کے لیے کتاب کو دل چسپ اور معلومات افزا بنا دیا ہے۔ اس سے ایک جانب تو بے نظیر کی شخصیت، جدوجہد اور عزائم کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے، دوسری جانب قدم قدم پر پاکستان کی سیاسی زندگی پر بیرونی بلکہ امریکی اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ، بامقصد، غیرجذباتی اور فنی اعتبار سے منفرد کتاب ہے۔ تاریخ، سیاسیات، سماجیات کے طلبہ اور پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل سے دل چسپی رکھنے والے قارئین اگر اس کا مطالعہ نہ کرسکے تو ان کی معلومات میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہ جائے گی۔ (س - م - خ)
سیاسی اور بین الاقوامی مسائل پر اسلام کی رہنمائی زیادہ تر اصولی ہدایات پر مبنی ہے۔ اس کی تفصیلات سے بہت زیادہ بحث نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مسائل کے بارے میں ہمارے فقہی ذخیرے میں آرا کا ایک تنوع موجود ہے۔ گویا یہ مسائل ہر عہد کے اہلِ اسلام کو اسلام کی فراہم کردہ اصولی ہدایات کی روشنی میں خود حل کرنے ہوں گے جس کی مثالیں فقہا کی آرا کی صورت میں موجود ہیں۔ ’فقہی مباحث‘ میں بعض ایسے ہی اہم اور نازک مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آٹھ عنوانات میں منقسم یہ کتاب بہت جامعیت کے ساتھ اسلامی شریعت میں اجتہاد کے عمل، دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور (جدید عالمی تناظر میں)، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر اسلامی قانون اور حدود کا نفاذ، غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات، اسلام کا قانونِ قصاص و دیت اور قذف و لعان کے احکام پر بھرپور رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
کتاب کی یہ خوبی خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے کہ مصنف نے ذاتی تبصرے کا دخل بہت کم رکھا ہے۔ قرآن و حدیث کے نصوص اور فقہاے اسلام کی آرا ہی سے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگرچہ فقہی مباحث کے مسائل خالص فقہی نوعیت کے ہیں مگر جامع علمی اسلوب کی بنا پر عام فہم انداز میں سامنے آتے ہیں۔ غیرمسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں اور مسلم ممالک میں مقیم غیرمسلموں کے لیے اسلامی شریعت نے جو رہنمائی فراہم کی ہے، اُردو قارئین کے لیے اس سے استفادے کی ایک صورت اس کتاب کا مطالعہ ہوسکتی ہے۔ مصنف نے انکسار کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ’’ ان مسائل کی نوعیت ایک طالب علم کے قلم سے زیربحث موضوعات کے تعارف اور ان پر اظہارِ خیال کی ہے۔ یہ کسی فرد یا ادارے کی ترجمانی نہیں ہے‘‘۔ (ص ۹)
مجلہ تحقیقاتِ اسلامی میں شائع شدہ مزید ایسے علمی و فقہی ذخیرے کو کتابی صورت میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ بایں ہمہ زیرنظر کتاب کسی محقق و عالم کی بنیادی ضرورت کو بھی بخوبی پورا کرتی ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)
تجوید جیسے فنی موضوع پر ایک خاتون کی جانب سے اتنی عمدہ معیاری کتاب مسلمان خواتین کی درخشاں علمی روایت کا تسلسل ہے۔ اس کتاب کی مؤلفہ شاہدہ قاری نے اس سے قبل فضیلتِ قرآن اور قواعد فنِ تجوید کے نام سے بھی کتابیں لکھی ہیں۔
جَوّدِ القرآن ۱۰ ابواب پر مشتمل بڑے سائز کی ضخیم مجلّد کتاب ہے جس میں علم التجوید کے مشکل مباحث کو نہایت سلیس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلا طویل باب ’تعارف قرآنِ مجید‘ (۷۲صفحات) ایک منفرد کاوش قرار دیا جاسکتا ہے۔ متعلقہ احادیث ترجمہ اور قابلِ توجہ نکات کے ساتھ، آدابِ قرآن، آدابِ تلاوت، حقِ قرآن (عمل پر تاکید) تجوید، ترتیل، عیوبِ تلاوت، معلومات، جمع قرآن، قراے سابعہ اور ان کے راویوں کے حالات، اس میں سب ہی کچھ ہے۔ بعد کے آٹھ ابواب میں حروف کے مخارج اور صفات کی پہچان کے لیے نقشوں، چارٹس اور تصاویر سے مدد لی گئی ہے۔ مختلف رنگوں کے استعمال سے تفہیم کا انداز مزید سہل بنا دیاگیا ہے۔ ایسے وقت میں کہ ملک میں تجوید کے ساتھ قراء ت کرنے کا مبارک رجحان روز افزوں ہے، اس طرح کی دل کش کتابیں ایک بڑی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔یہ کتاب دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کے لیے انتہائی مفید ہے۔ کتاب کی ترتیب اس طرح ہے کہ اسے نصاب کے طور پر بھی پڑھایا جاسکتا ہے۔ اپنے شوق سے تجوید سیکھنے والے افراد بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اگر قرآن انسٹی ٹیوٹ اس کا آڈیو وڈیو کیسٹ تیار کر دے تو کیا کہنا۔ طباعت اور پیش کش کا معیار اعلیٰ ہے۔ (حافظ ساجد انور)
سیرتِ رسولؐ ایک نہ ختم ہونے والا موضوع ہے۔ روایتی مضامین اور کتب شائع ہوتی ہیں، ان کی اپنی کشش اور ضرورت ہے۔ لیکن کبھی غیرروایتی پیش کش بھی سامنے آجاتی ہے۔ زیرتبصرہ خصوصی اشاعت اسی زمرے سے ہے۔
یہ کہا تو جاتا ہے کہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آج کے دور کے انسان کی زندگی کے ہرطرح کے مسائل کا حل ہے لیکن اس حوالے سے مسائل کا تعین کرکے خصوصی مطالعے پیش کرنا اور وہ بھی یک جا، ایسا کام ہے جس کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہوگا۔
اس خصوصی اشاعت کو نو ابواب میںتقسیم کیا گیا ہے، مثلاً شخصی ارتقا، لائف اسٹائل، سماج کے کمزور طبقات، عالمی مسائل، تمدنی مسائل، معاشی اور معاشرتی مسائل۔ ان کے تحت ۴۹ مقالات پیش کیے گئے ہیں۔ چند عنوانات یہ ہیں: انسانی وسائل کا فروغ، صارفین کا مسئلہ، مالیاتی بحران، آرٹ کلچر اور تفریحات، خواتین کے مسائل، معذوروں کا مقام، جنگی اخلاقیات، جنگی قیدی، ماحولیاتی بحران، وطن پرستی، حقوق انسانی، فحاشی و عریانی، معاشی پس ماندگی، urbanisation، (شہرکاری) بین المذاہب ڈائیلاگ وغیرہ۔ کئی مقالات عمومی نوعیت کے ہیں۔ لکھنے والوں میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ڈاکٹر محمد رفعت، رضی الاسلام ندوی، یٰسین مظہرصدیقی، پروفیسر عبدالواسع اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔ یہ اشاعت معنوی اعتبار سے وقیع اور دستاویزی ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہری طور پر دیدہ زیب اور دل کش ہے۔ (مسلم سجاد)
جنیدثاقب ۲۰۰۸ء میں شدید بیمار ہوگئے۔ کہتے ہیں یوں لگا کہ میرا سفر زندگی تمام ہوا، مجھے شدید پچھتاوا ہوا کہ استطاعت کے باوجود حج نہیں کرسکا۔ اب اگر میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں تو اپنے رب کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گا (ص ۱۳)۔ یہی پچھتاوا ان کے لیے سفرِحج کا محرّک بن گیا۔ چنانچہ ۲۰۰۹ء کے سفرِحج کی روداد انھوں نے اپنے استاد (پروفیسر محمد اکرم طاہر) کے شوق دلانے پر لکھ ڈالی۔ طاہرصاحب نے ’پیش لفظ‘ میں اسے ’حج کے سفرناموں میں ایک نہایت قابلِ قدر اضافہ‘ قرار دیا ہے (ص۹)۔ (اضافہ ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ تاریخِ ادب کرے گی مگر) سفرنامہ دل چسپ ضرور ہے۔
حج اور عمرے کے بیش تر معاصر سفرناموں میں جو کچھ ہوتا ہے، مثلاً جدہ کیسے پہنچے؟ ہوائی اڈے پر حجاج سے کیا سلوک ہوا؟ مکّہ پہنچنے میں غیرمعمولی تاخیر، معلّم کی بے حسی، وزارتِ مذہبی امور کی بے نیازی، حرم سے قیام گاہوں کی دُوری، طواف کی لذت، مِنٰی اور عرفات کی سختیاں اور پریشانیاں، شیطانوں پر کنکرزنی، اپنے خیمے کا راستہ بھولنا، طوافِ وداع میں غیرمعمولی ہجوم وغیرہ، غرض سفرِحج کی تمام آزمایشوں کا ذکر اس سفرنامے میں بھی موجود ہے لیکن اس کے چند پہلو قاری کو متاثر کرتے ہیں، مثلاً زائر کی صاف گوئی ، حرم میں زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر، ’نیکیاں کمانے‘ کی معصومانہ خواہش (جس پر جنید ثاقب نے دوستوں کے ساتھ جدہ جانے کا پروگرام بھی قربان کردیا) (ص ۶۳)۔ اسی طرح حرمین کے مختلف مقامات کی یادیں جوان کی رومانوی افتادِ طبع سے چمٹ کر بار بار تازہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح اتباعِ سنت کی قابلِ تعریف کوشش۔ (ص ۸۴)
نام مکّہ میں نیا جنم اس لحاظ سے معنی خیز ہے کہ اس سفر میں جنید ثاقب کو دو اعتبار سے نئی زندگی ملی۔ اوّل اس لحاظ سے کہ حج قبول ہوا (تو حقوق العباد کو چھوڑ کر) زائر نے گناہوں سے پاک و صاف ہوکر گویا ’نیا جنم‘ لیا۔ دوم: روزِ عرفات انھیں جسمانی طور پر بھی نئی زندگی عطا ہوئی۔ وہ موت کے بہت قریب پہنچ کر بچ نکلے۔ مسجد نمرہ سے نکلتے ہوئے ایک بھگدڑ کی زد میں آگئے تھے۔ کہتے ہیں کہ میرے اللہ نے مجھے ’’اُس بھیڑ اور خوف ناک بھگدڑ سے نکال دیا جس میں گیارہ لوگ شہید ہوئے اور لاتعداد زخمی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میںکیسے وہاں سے نکل آیا؟‘‘ (ص ۴۷)۔ بارھویں یہ بھی ہوسکتے تھے، اس لیے واقعی یہ ان کا ’نیا جنم‘ تھا۔ تین صفحات پر مشتمل مسجدنمرہ پہنچنے اوروہاں سے نکلنے کی اس روداد میں افسانے کا ساتحیّر(suspense) ہے۔ اسی طرح کے افسانوی بیانات سفرنامے کے بعض دوسرے حصوں میں بھی ملتے ہیں، مثلاً مدینہ منورہ میں ان کی بیلٹ کسی تیزدھار آلے سے کاٹی گئی۔ بیلٹ میں واپسی کی ہوائی ٹکٹ، پاسپورٹ کی نقل اور دوہزار ریال تھے مگر ’’خدا نے میری جان اور مال دونوں کو محفوظ رکھا، مجھے بچا لیا گیا‘‘۔ (ص ۱۱۴)
بیش تر نئے قلم کاروں کی طرح جنید ثاقب کے ہاں بھی زبان و بیان کی خامیاں موجود ہیں۔ سب سے تکلیف دہ انگریزی لفظوں کا بلاضرورت استعمال ہے اور اس طرح کے جملے ہیں: ’فاسٹ فوڈ کے ہوٹلز کی ایک چین ہے‘‘ یا ’’فاسٹ فوڈ کھانے کا موڈ ہوتا‘‘ (ص ۳۷)۔ کیا اُردو زبان کی آلودگی میں اضافہ کرنے والے انگریزی الفاظ کی جگہ اُردو میں موجود متبادل الفاظ استعمال نہیں کیے جاسکتے؟براہ کرم ’انگریزیت‘ سے بچنے کی شعوری کوشش کیجیے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تاریخ جہاں مختلف واقعات و حوادث کا مرقع ہے وہیں پر مردانِ بے باک و جری کے تذکرۂ جانفزا کا نام ہے___ تاریخ دراصل قوموں کے حافظے کا نام ہے جس سے قومیں اپنے مستقبل کا لائحہ عمل متعین کرتی اور آگے بڑھنے کا موقع پاتی ہیں۔
تاریخِ اسلام میں اپنی جدوجہد اور معرکہ آرائی کے اَنمٹ نقوش ثبت کرجانے والے چار مردانِ ذی وقار کا خوب صورت اور ایمان افروز تذکرہ درس و عبرت کے عنوان سے (جو مناسبت نہیں رکھتا) محسن فارانی نے ترتیب دیا ہے جن میں امیر عبدالقادر جزائریؒ، مہدی سوڈانیؒ، غازی انورپاشاؒ اور عمرمختار السنوسی کے دل چسپ تذکرے شامل ہیں۔
سید بادشاہ کے مصنف آباد شاہ پوری نے عالمِ اسلام کی ان چار افسانوی شخصیات کا احوال شگفتہ طرزِ تحریر اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ رقم کیا ہے۔ مزاحمت کی علامت سمجھی جانے والی تاریخِ اسلام کی ان بلندپایہ اور بلندقامت شخصیات پر طبع ہونے والے یہ مضامین جہاں ان کے کارناموں کو اُجاگر کرتے ہیں وہیں فرانسیسی، روسی، برطانوی اور اطالوی سازشوں، ریشہ دوانیوں، وحشت ناک مظالم اور دہرے معیارات کا پردہ چاک کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ صدی میں اہلِ مغرب بالخصوص امریکا اور یورپ کی مرضی سے عالمِ اسلام کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور اس کا پس منظر سمجھنے میں یہ مختصر کتاب ایک اچھا موقع فراہم کرتی ہے۔ آج ہم کو سوپر پاور سے ڈرانے والے دیکھیں کہ ان مجاہدوں سے سوپرپاور ڈرا کرتی تھیں۔ ان نوجوانوں کے لیے جنھیں پاکستان کا مستقبل تعمیر کرنا ہے، یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ (عمران ظہور غازی)
ایک عام سے موضوع پر بظاہر ایک عام سی کتاب ہے لیکن ہاتھ میں لے کر ورق گردانی کریں تو محسوس ہوگا کہ پروفیسر ارشد جاوید صاحب نے ۱۰۰ سے بھی کم صفحات میں ۲۱ عنوانات کے تحت ایک خزانہ جمع کر دیا ہے۔ بڑوں کا خیال ہوتا ہے کہ آداب سیکھنا بچوں کا کام ہے، بڑوں کو اس سے کیا کام! لیکن جیساکہ سرورق پر لکھا گیا ہے کہ یہ ’’ہرپاکستانی کے لیے ضروری‘‘ ہے۔ پاکستانی لکھ کر مصنف نے تکلف سے کام لیا ہے۔ یہ ہر اُردو پڑھنے والے کے لیے ہے اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوجائے تو ان زبانوں کے قارئین کے لیے بھی___ مسلمان ہونے کی بھی شرط نہیں، اس لیے کہ یہ آداب کسی بھی انسانی معاشرے کو شائستگی، باہمی احترام اور سکون دے سکتے ہیں۔پہلے باب میں اخلاقی آداب کے حوالے سے اخلاقی خوبیوں اور خرابیوں پر سب سے طویل تحریر ہے۔ جھوٹ، ایمان داری، قَسم، وعدہ، معاہدہ، غیبت، چغلی، بدگمانی، مذاق اُڑانا، طعنہ زنی، فحش گوئی، لڑائی جھگڑا، نرم مزاجی، چوری اور غصہ کے عنوانات سے آپ اس کی جامعیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس کے بعد سونے جاگنے کے، کھانے پینے کے، لباس کے، مجلس کے، سفر کے، ٹریفک کے، حتیٰ کہ جنازے کے آداب، نیز صفائی اور پاکیزگی، صحت، شکرگزاری، پھر پڑوسی کے حقوق، راستے کے حقوق، والدین کے حقوق، ہر ایک پر اختصار لیکن جامعیت سے گفتگو کی گئی ہے اور آج کے حالات کا پورا لحاظ رکھاگیا ہے۔ آخری خوب صورت باب دعائوں کے موضوع پر ہے۔ ابتدائی ضروری گفتگو کے بعد خاص موقعوں کی دعائیں ترجمے کے ساتھ درج کر دی گئی ہیں۔
یہ مختصر کتاب ہرگھر کی ضرورت ہے۔ ہر بچے اور بڑے کی ضرورت ہے۔ اس کے ابواب رسائل میں بطور مضمون شائع ہوسکتے ہیں۔ بچوں کے رسائل تو باری باری سب کچھ نقل کرسکتے ہیں۔
کوئی کمی نہ بتائی جائے تو تبصرہ مکمل نہیں ہوتا۔ اگر ٹیلی فون کے آداب، انٹرنیٹ اور ای میل کے آداب اور فیس بُک کے آداب پر بھی ابواب ہوتے تو یہ کتاب زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتی (اب بھی کرتی ہے)۔ ان مشاغل میں بڑے اور بچے اپنا بہت زیادہ وقت صَرف کر رہے ہیں۔ اس بارے میں انھیں کچھ آداب سکھانے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ یہ آداب پر روایتی کتاب نہیں، قرآن اور حدیث پر ضرور مبنی ہے لیکن عملی اِطلاق میں کارگرنکات نے اسے ایک عام کتاب نہیں بلکہ جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا ایک غیرمعمولی کتاب بنا دیا ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ خواندہ اور زندہ معاشرہ ہوتا تو ایسی کتاب چند دنوں میں ایک ملین فروخت ہوتی۔(م- س)
اسلام ایمان و عمل ہے اور تحریک و تہذیب بھی۔ اس مناسبت سے وہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھتا ہے اور ان کی مثبت تشکیل کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے اسلام صرف مسجد اور عبادت گاہوں کا دین نہیں بلکہ وہ کھیتوں، کھلیانوں، صنعت گاہوں اور ایوانِ اقتدار کے باسیوں سے بھی مخاطب ہوتا ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد جوں ہی صنعتی انقلاب کے دائرے میں وسعت آئی، تو سرمایے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہوا اور انسانی محنت و مشقت کا استحصال اپنی انتہائوں کو چھونے لگا۔ یہی کچھ ہمارے سماج میں بھی ہوا۔
سید مودودی علیہ الرحمہ نے جب معاشرے کو خطاب کیا تو ان میں ایک مظلوم ترین طبقہ، پسے ہوئے مزدوروں کی صورت میں سامنے آیا، جس کا خون پسینہ ایک طرف سرمایہ دار نچوڑ رہا تھا تو دوسری جانب اشتراکی مزدور تحریک سرخ انقلاب کے خواب دکھلا کر سودے بازی کر رہی تھی۔ اسی مؤخر الذکر طبقے نے ان کی قیادت پر اجارہ داری بھی قائم کررکھی تھی۔ تحریکِ اسلامی نے مولانا مودودی کی رہنمائی میں ظلم کی اس دوہری زنجیر کو کاٹنے کے لیے اسلامی مزدور تحریک کا ڈول ڈالا۔ پہلے پہل اسے ایک اجنبی آواز کی طرح سنا گیا، مگر تحریکِ اسلامی سے وابستہ مزدور تحریک کے اَن تھک کارکنوں نے بہ یک وقت ظالم سرمایہ دار اور سرخ پیشہ ور لیڈرشپ، دونوں سے نبردآزما ہوئے۔ یہ کتاب اس حوالے سے کی جانے والی جدوجہد اور پیش آنے والے اُتارچڑھائو کا قیمتی ریکارڈ پیش کرتی ہے اور مولانا مودودی کی معاشی فکر کے بھولے بسرے گوشوں کو بھی نمایاں کرتی ہے۔ کتاب کا دیباچہ محترم سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔(سلیم منصور خالد)
آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی ایک بھرپور دینی و سیاسی جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ کرنل محمد رشید عباسی مرحوم نے اس ننھے سے پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ زیرتبصرہ کتاب اسی تفصیل پر مبنی ہے۔
مرتب محمد صغیر قمر کو مرحوم کے قریب رہنے کا وافر موقع ملا اور اُن کا خیال ہے کہ کرنل مرحوم نے آزاد کشمیر کے کونے کونے میں عوام الناس تک تحریکِ اسلامی اور تحریکِ جہاد کا پیغام پہنچایا۔
کرنل محمد رشید عباسی مرحوم ۱۹۸۰ء میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر بنے اور اپنی تمام صلاحیتیں اپنی دعوت کو پھیلانے میں کھپا دیں۔ یہاں تک کہ ۱۹۸۹ء میں وہ اپنے رب سے جاملے۔ رحلت سے قبل اُنھوں نے ایک بڑی ٹیم ایسے باصلاحیت نوجوانوں کی تیار کردی جنھوں نے غلبۂ اسلام اور استصواب راے کا علَم بلند رکھا، اور یہ جدوجہد ایک تسلسل سے آج بھی جاری ہے۔
جناب عبدالرشید ترابی، جناب الیف الدین ترابی، جناب حافظ محمد ادریس، جناب یعقوب شاہق کے مضامین خصوصی معلومات کے حامل ہیں۔ دیگر حضرات کے مضامین میں بھی قابلِ قدر معلومات ملتی ہیں۔ دو صد سے زائد صفحات میں مرحوم کے اہلِ خانہ کے علاوہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے اہم رہنمائوں اور اُن کے زیرتربیت رہنے والے کارکنوں کے احساسات کو بھی شاملِ اشاعت کیا گیا ہے۔ کتاب میں آزادی کی جدوجہد کے مختلف مراحل پر کشمیر کا نقشہ اور دیگر تفصیلات پر مبنی مضمون بھی شامل ہوتا تو اس کی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ عالمی اسلامی تحریکات، تحریکِ آزادیِ کشمیر اور تحریکِ اسلامی کے موضوعات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے مفید کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
شریعت ِ اسلامیہ کی تشریح و تعبیر کا قدیم سرمایہ اس بات کی دلیل ہے کہ فہم و استنباط میں تمام ذہن ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی اپنے وسیع مطالعے، گہرے غوروفکر اور حالات و زمانے کی رعایت کے پیش نظر بہت سے مسائل میں اعتدال کی راہ نکالی اور ایک محقق عالم کی طرح بعض قدیم اسالیب سے اپنی تحقیق اور فہم کے مطابق اختلاف بھی کیا۔ جسے بعض حلقوں نے ہدفِ تنقید بنایا۔
مولانا مودودیؒ نے تصورِ اقامت ِ دین اور اسلام بطور نظامِ زندگی کو جس مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، اس کی بنیاد تین مآخذ ہیں: یعنی قرآن، حدیث اور فقہ۔ یہ حقیقت ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اسلام کی تشریح و تعبیر میں حدیثِ نبویؐ کو وہی حیثیت دی ہے جو فقہا و محدثین دیتے رہے ہیں۔
زیرنظر کتاب میں سید مودودیؒ کی خدمات حدیث پر بحث کی گئی ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے پہلے باب میں سید مودودیؒ کی ۱۷ تصانیف میں استدلال بالحدیث پر گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں علمِ حدیث کے فنی پہلوئوں روایت، درایت اور تطبیق و ترجیح میں ان کا اسلوب زیربحث آیا ہے۔ تیسرا باب حدیث کی تشریح میں سید مودودی کے انداز کے بارے میں ہے۔ چوتھا باب دفاعِ حدیث کے حوالے سے اُس جدوجہد کی طرف مختصر اشاروں پر مشتمل ہے جو انھوں نے حدیث کی آئینی حیثیت منوانے کے لیے کی۔ پانچواں باب حدیث کے حوالے سے سید مودودی پر اعتراضات کا بیان ہے۔ تیسرے اور چوتھے باب کو کتاب کا مرکزی حصہ قرار دیا جاسکتا ہے اور انھی ابواب میں اس اسلوب کا ذکر ہے جو بعض کے نزدیک موردِ تنقید ٹھیرایا گیا۔
زیرنظر کتاب میں سید مودودی کی خدمات ِ حدیث پر اُن بعض اعتراضات کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بعض حلقوں کی جانب سے اُٹھائے جاتے ہیں، تاہم چند پہلو تشنۂ بحث ہیں۔ (ارشاد الرحمٰن)
اسلام سے متعلق، مستشرقین کی تحقیقات میں یہ چیز بہت واضح دکھائی دیتی ہے کہ اسلام ایک علاقائی، نسلی اور لسانی پس منظر رکھتا ہے۔ یہ عربوں کا مذہب ہے اور عرب ثقافت ہی اس کی بنیاد ہے___ یہ ’تحقیق‘ پیش کر کے، بعض مستشرقین سوال اُٹھاتے ہیں کہ یہ قدیم شریعت جدید دور میں کس طرح قابلِ عمل ہوسکتی ہے؟
زیرتبصرہ کتاب مستشرقین کے پیدا کردہ اسی ابہام اور تشکیک کو دُور کرنے کی ایک کاوش ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت جن بنیادی عناصر سے تشکیل پاتی ہے، قرآن کی روشنی میں اُن کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ایسے مصنّفین کی تصحیح کی کوشش کی ہے جو اسلامی ثقافت کو بھی دیگر ثقافتوں پر قیاس کرتے ہیں، اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اسلامی ثقافت کسی معاشرتی ارتقا کی بنیاد پر پروان نہیں چڑھی ہے، بلکہ اس کی جڑیں اُن آفاقی اقدار میں ہیں جو کسی بھی معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت قیامت تک کے لیے رکھتی ہیں۔
اسلامی فکروثقافت کی ان قرآنی بنیادوں کو علم و تفقہ، وحیِ الٰہی، مقاصد شریعت و انسانیت، ذکرو فکر اور تزکیہ و تدبر کے عنوانات دیے گئے ہیں۔ یہ وہ نکات ہیں جو اس فکروثقافت کا تعارف بھی ہیں اور اس کا ڈھانچا بھی۔ مصنف نے ایک نکتے کو دوسرے سے مربوط کر کے بہت جامع انداز میں زیربحث موضوع کو سمیٹا ہے۔ ’پیش لفظ‘ میں موضوع پر اظہارِ خیال کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ جدید ذہن میں پیدا ہونے والے بہت سے سوالات کا جواب اس کتاب کی صورت میں فراہم ہوگیا ہے۔(ا-ر )
سیردریا اُردو کے ابتدائی اور قدیم سفرناموں میں سے ایک ہے۔ مصنف مرزا محمد کاظم برلاس ۱۸۹۷ء میں ہندستان سے سری لنکا گئے تھے اور واپسی پر اپنے تاثرات و مشاہدات کو زیرنظر سفرنامے کی شکل میں پیش کیا۔ اگرچہ سیردریا کے بعض حصوں پر اُردو داستانوں کا اثر محسوس ہوتا ہے،تاہم اس کی نثر کا مجموعی مزاج اور رنگ و آہنگ دورِ سرسیّد کا ہے۔
مرزا برلاس متعدد کتابوں کے مصنف تھے جن کی تفصیل زیرنظر سفرنامے کے مرتب ڈاکٹر شفیق انجم نے اپنے مقدمے میں دی ہے۔ رودادِ سفر کا اسلوبِ تحریر بیانیہ ہے۔
مصنف نے اختصار کے ساتھ سری لنکا جزیرے کا جامع تعارف کرایا ہے جس میں لنکا کی تاریخ، جغرافیہ، شہروں اور بستیوں (کولمبو، کنڈی، گالے، رتناپور )، باشندوں اور قوموں (تامل، چولی، جنگلی، ڈچ وغیرہ)، زرعی پیداوار (چائے، کافی، چاول، ناریل، صندل، نارجیل وغیرہ) اور جانوروں (ہاتھی، ’بھگرا‘ نامی شیر سے چھوٹا جانور، ریچھ، کنڈی وغیرہ) کا تعارف شامل ہے۔
سری لنکا سے اس زمانے میں ہاتھی بھی برآمد کیے جاتے تھے۔ مصنف نے تفصیل سے بتایا ہے کہ انھیں کیسے پکڑا یا ان کا ’شکار‘ کیا جاتا تھا۔ اسی طرح سمندر سے موتیوں اور سیپیوں کے نکالنے کا احوال بھی لکھا ہے (ص ۵۸ تا ۶۵)۔ واپسی پر مرزا برلاس نے مالدیپ جزیرے پر مختصر قیام کیا۔ سفرنامے میں وہاں کے ایک اور قریبی جزیرے لکادیپ کے حالات بھی ملتے ہیں۔ بعض معلومات حیران کن ہیں، مثلاً لکھتے ہیں: ’’مالدیپ کے متعلق تمام جزائر میں ایک قوم آباد ہے جس کی نسل عرب معلوم ہوتی ہے۔ مذہب ان کا اسلام ہے۔ تمام خلقت نماز گزار اور قرآن خواں ہے--- تمام معاملات قانونِ شرع محمدی کے مطابق فیصل ہوتے ہیں۔ اس کا حاکم مسلمان ہے اور اس کا لقب سلطان ہے۔ انگریزوں کا کوئی تصرف اس جگہ نہیں، تاہم معاملات قاضی کے حکم سے فیصلہ پاتے ہیں‘‘(ص ۸۳)۔ سرسید دور میں ہمارے بیش تر ادیبوں کا ذہن مصلحت یا مصالحت پسندی کا تھا، مگر مرزا کاظم برلاس نے حسبِ موقع ’’لٹیروں اور دغابازوں‘‘ (انگریزی حکومت) پر سخت تنقید کی ہے۔ ایک جگہ ہندستان کے انگریزی تعلیمی نظام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’انسان کا بچہ خاصا حیوان بن کر سکون سے نکلتا ہے۔ یہ اس تعلیم کا نتیجہ ہے کہ جس میں ادب اور اخلاق بالکل نہیں‘‘۔
ڈاکٹر شفیق انجم نمل یونی ورسٹی میں اُردو کے استاد ہیں۔ انھوں نے بڑی محنت و کاوش سے سیردریا مرتب کی ہے۔ اس ’ترتیب‘ میں صحت و تدوینِ متن، تعلیقات، فرہنگ اور مفصل مقدمہ شامل ہیں۔ مرتب نے الفاظ و محاورات کے معنی کے ساتھ متعلقہ کتابِ لغت کا حوالہ بھی دے دیا ہے، کہیں کہیں اِملا میں اصولِ امالہ سے بے نیازی بھی کھٹکتی ہے۔
’’تعلیقات‘‘ میں اماکن و رجال، سری لنکا کی تاریخ اور جغرافیے سے متعلق بعض افراد، اماکن، عقائد، تہواروں اور زبانوں کی وضاحت ہے، مثلاً سیتاجی، بدھ مت، تامل، آدم کا پُل، گالے مُکتی وغیرہ۔ سیردریا میں اشاریہ بھی شامل کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مغرب نے پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ایک مہم چلا رکھی ہے۔ کتاب کے مصنف نے اس مہم کی بنیادوں کو نمایاں کرنے کے لیے مغرب کے چیدہ چیدہ دانش وروں کے استدلال کو پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ جہاد کے بارے میں اسلام کی تاریخ، تعلیمات، واقعات اور تازہ حالات کی گمراہ کن تشریح و تعبیر کا سلسلہ کیسے اور کن صورتوں میں جاری ہے۔ وہ مغربی سوچ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’اسلام ایک تہذیبی قوت کے طور پر شکست کھا چکا ہے… اور اس کی جگہ مغرب نے لے لی ہے، اور شکست خوردہ عناصر اسلام کے غلبے کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ (ص ۳۱)
مصنف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ: ’’مغرب اسلام کا ایک خودساختہ تعارف پیش کرنے اور اس میں اپنے لیے ایک خطرہ کشید کرنے کے ساتھ ساتھ اس الزامی استدلال کو اسلامی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے (ص ۳۷)۔ ’’مغرب ایک الزام متعین کرتا ہے، اس کی سماعت بھی خود کرتا ہے اور خود ہی منصف بن کر یہ فیصلہ دیتا ہے کہ اب اس کا انسداد ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اس کے تھنک ٹینک اس پر کام کرتے ہیں، مذہب کے بارے میں نئے مباحث اُٹھائے جاتے ہیں اور ان میں اسلام پر تنقید کی جاتی ہے‘‘۔ (ص ۴۳-۴۴)
مغرب پہلے زبان، قلم اور قرطاس استعمال کر کے راہ ہموار کرتا ہے اور پھر میزائل،بمبار طیارے خطۂ زمین پر آگ برسانے لے آتا ہے۔ دورِحاضر میں جاری فکری اور عملی جنگ میں عالمِ اسلام کو اپنے مسائل اور مغربی یلغار کو سمجھنے میں یہ کتاب ایک مفید ماخذ ہے۔ مرزا محمد الیاس نے اپنے گہرے فکری اور مطالعاتی نتائج کو مدلل انداز میں بیان کیا ہے، تاکہ مغرب اور اسلام کے مابین جاری جنگ میں ہونے والی تباہی کا پتا لگایا جاسکے، اور دنیا کو امن کے گہوارے میں بدلنے کے لیے الزام تراشوں کی الزام تراشیوں کا جواب دیا جاسکے۔(محمد الیاس انصاری)
مرد کُہستانی (مولانا عبدالحق بلوچ مرحوم)، مولانا عبدالحق ہاشمی۔ ناشر: مکتبہ الہدیٰ، پٹیل روڈ، کوئٹہ۔ ملنے کا پتا: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔
مولانا عبدالحق بلوچ معروف عالمِ دین ، جماعت ِ اسلامی کے مرکزی راہنما اور قومی اسمبلی کے رُکن تھے۔ وہ ۱۵ برس تک جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر رہے۔ ان کی ساری زندگی اقامت ِ دین کی جدوجہد میں بسر ہوئی اور اُن کی بدولت ایک بڑی تعداد اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنے والے قافلے کی شریکِ سفر ہوئی۔ مولانا عبدالحق بلوچ سے طویل رفاقت اور قریبی تعلق رکھنے والے دوست مولانا عبدالحق ہاشمی نے اُن کی زندگی کے نمایاں پہلوئوں: تحریکی جدوجہد، علمی ذوق، کتابوں سے محبت، بذلہ سنجی اور بلوچ تہذیب و ثقافت سے آگہی کے حوالے سے مولانا مرحوم کے تجربات اور دستیاب معلومات کو زیرتبصرہ کتاب کی صورت میں یک جا کر دیا ہے۔
مولانا بلوچ مرحوم متواضع شخصیت کے حامل تھے۔ علم و دانش، قرآن وسنت سے استنباط اور تقریر و خطابت کے اوصاف کے ساتھ ساتھ علماے کرام میں باہمی اتحاد و یک جہتی کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔ مولانا کے خاندان، ذکری فرقے اور بلوچستان کے مجموعی حالات کے بارے میں اس کتاب میں معلومات افزا تفصیلات ملتی ہیں۔ جس زمانے میں وہ قومی اسمبلی کے رکن رہے، کتاب میں اُس دور کی ملکی سیاسی سرگرمیوں اور سیاست دانوں کی قلابازیوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں۔ چند نادر تصاویر بھی شاملِ کتاب ہیں۔ بایں ہمہ مولانا بلوچ مرحوم کے عزیز و اقارب اور قریبی دوستوں کے تذکرے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مولانا کے شاگردوں اور اُن سے متاثر لوگوں کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے۔ اگر اُن کے تاثرات بھی شامل ہوجاتے تو کتاب کی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ پیش لفظ جناب سید منور حسن اور تقریظ جناب قاضی حسین احمد نے تحریر کی ہے۔ اُمید ہے مولانا عبدالحق ہاشمی نے اسلاف اور دورِ جدید میں اہلِ اللہ کے تذکرے کے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے اسے مزید آگے بڑھائیں گے۔ (محمد ایوب منیر)
نماز باجماعت کی اہمیت اسلام میں مسلّم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں اس کا ازحد اہتمام اس حکم کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ مصنف نے دین اسلام کے اس اہم حکم کو سیرتِ رسولؐ اور آثارِ صحابہؓ کی روشنی میں احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔ کتاب چار بنیادی مباحث اور ان کی ذیلی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ نماز باجماعت کے فضائل و فرضیت، نبی کریمؐ اور سلف صالحین کا باجماعت نماز کے لیے اہتمام، نیز نماز باجماعت کے بارے میں علماے اُمت کا موقف زیربحث آئے ہیں۔ فقہی آرا، ائمہ اربعہ اور اہلِ ظاہریہ کے نقطۂ نظر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں خواتین کے لیے بھی شریعت مطہرہ کی روشنی میں نماز کے لیے احکامات و مسائل پر بات کرتے ہوئے ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے: ۱-خاتون کے گھر کی نماز کا باجماعت نماز سے اعلیٰ ہونا ثابت ہے۔ ۲-اپنے مردوں کو باجماعت نماز کی دعوت دے کر جماعت کا اجر پانا حدیث سے ثابت ہے۔ ۳-شرعی آداب کی پابندی کرتے ہوئے خاتون کا باجماعت نماز کے لیے جانے کی اجازت دین میں موجود ہے۔(حافظ ساجد انور)
ناشر مرزا اعظم بیگ نے دورِ جدید میں جاہلیت جدیدہ (مزار پرستی،قبر پرستی، شرک اور بدعت وغیرہ) کے روز افزوں اور وسیع ہوتے ہوئے دائرے سے پریشان ہوکر یہ کتابچہ شائع کیا ہے۔ ماہرالقادری (م:۱۹۷۸ء) نے یہ مقالہ: ’’توحید کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے اپنے رسالے فاران کے توحید نمبرکے اداریے کے طور پر لکھا تھا۔اس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں بعض مشرکانہ عقائد کا بُطلان کیا گیا ہے۔ ماہرصاحب ’عشقِ رسولؐ ‘کے نام پر کی جانے والی بدعات کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’کتنا بڑا دھوکا ہے جو ’عشق و محبت‘ کے نام پر شیطان نے دے رکھا ہے؟‘‘ (ص ۴۷)___ عالم الغیب کون؟عبدیت اور بشریت، وسیلے کی تلاش اور زیارتِ قبور جیسے عنوانات سے مباحث کی نوعیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ماہرالقادری شاعر تھے مگر قرآن و حدیث پر ان کی نظر گہری تھی، اس لیے ان کی گرفت اور بدعات کے خلاف اُن کا استدلال متاثر کرتا ہے۔ مرزا اعظم بیگ بڑی دردمندی سے صفحہ ۳پر کہتے ہیںکہ یہ کتابچہ جن بہن بھائیوں تک پہنچے، میری اُن سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ ہرقسم کی فرقہ پرستی سے خالی الذہن ہوکر اس کا مطالعہ کریں ۔ (ر-ہ )
فقہی مسائل اور فتاویٰ کے حوالے سے جب بھی کسی کتاب کا تصور آتا ہے تو مشکل الفاظ، طویل جملے، بھاری بھرکم عبارتیں، جائز ہے، ناجائز ہے کی صورت میں عدالتی انداز کے حکم ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد جو کہ تعلیم، علومِ اسلامیہ، تقابل ادیان اور دعوت و ابلاغ میں معروف مقام رکھتے ہیں، زیرتبصرہ کتاب میں رویتی اسلوب سے ہٹتے ہوئے عصری مسائل کا جواب دیا ہے اور عصرِحاضر کے ایک اہم تقاضے اور علمی ضرورت کو پورا کیا ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد نے جس شجرِعلم کے سایے میں پرورش پائی، اس کی آبیاری سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کی تھی جن کا داعیانہ انداز ان کے اظہارِ بیان پر غالب تھا۔ اس لیے آپ نے جب بھی کسی مسئلے کے جائز یا ناجائز کا فیصلہ سنایا تو پہلے پورے سلیقے سے معاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے، مسائل کو احسن انداز میں سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کی۔ معاملے کے کسی جزو کی وضاحت پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے دینی، معاشرتی اور سماجی پہلوئوں کا جائزہ بھی لیا، تاکہ سائل فتوے پر عمل کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار کرلے۔
یہ کہنا بہت آسان ہے کہ طلاق ہوگئی، چھوڑ دو، اختیار کرلو، لیکن سائل کو ایک اچھا مسلمان بنانا، اسے بہتر معاشرتی زندگی کے لیے تیار کرنا اور معاشرے کا مفید اور کارآمد فرد بنانا انتہائی ضروری ہے، تاکہ سائل ذہنی طور پر قائل اور قلبی طور پر مطمئن ہوجائے۔ زیرنظر کتاب میں بیش تر مسائل کا جواب دیتے ہوئے ایسا ہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں سید مودودیؒ کے انداز کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
بعض مسائل کے حوالے سے احساس ہوتا ہے کہ اگر فقہی مراجع کا ذکر نسبتاً مفصل انداز میں آجاتا تو شاید فقہی مزاج رکھنے والوں کی تشفی زیادہ ہوجاتی۔ بیش تر مسائل کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث کا ذکر نسبتاً تفصیل سے کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے میں مختلف قسم کے تعصبات میں پلنے والے لوگ اپنی جہالت اور ذاتی اختلافات کی بنا پر اُن فتاویٰ کو خاطر میں نہیں لاتے جن میں بعض معروف فقہا کا حوالہ موجود نہ ہو، حالانکہ قرآن و سنت کا حوالہ اصل ہے اور فقہاے اُمت نے انھی ذرائع سے مسائل کو سمجھا اور سمجھایا ہے۔
کتاب میں جدید و قدیم دونوں طرح کے مسائل کا ذکر موجود ہے جو عصری ضرورت کے حوالے سے کتاب کی معنوی اہمیت افادیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ چند مرکزی موضوعات حسب ذیل ہیں: lبچوں کو فقہ کی تعلیم lشادی سے قبل ملاقاتیں lپریشان کن گھریلو مسائل کا حل lمشترکہ خاندانی نظام: چند عملی مسائل lمساجد میں خواتین کی شرکتlتحدید نسل اور تربیت اولاد lٹیلی فون پر دوستی اور ریڈیو پروگرام میں گفتگو lانشورنس کا متبادل lاسلامی بنکاری: چند ذہنی الجھنیں lمذہبی جماعتوں کی ناکامی lوقت اور صلاحیتوں کی تقسیم اور کارِ دعوت lآرمی میں رگڑا کی روایت l طبی اخلاقیات اور دواسازکمپنیاں۔ یہ فقہی مسائل ترجمان القرآن میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں، اور اب انھیں کتابی صورت میں یک جا شائع کیا گیا ہے۔کتاب خاص طور پر جدید مسائل سے دوچار نوجوانوں اور عام مسلمانوں کے لیے بہت مفید ہے۔ (حبیب الرحمٰن عاصم)
بھارت کو جمہوری ملک سمجھا جاتا ہے۔یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ اس کا سلوک بے حد ناروا ہے۔ اس نے ہمسایہ ممالک میں سازشوں کے جال پھیلا رکھے ہیں۔کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو دبانے کے لیے ظلم و تشدد کا بازار الگ سے گرم کر رکھا ہے۔ ان میں سے ہر موضوع تفصیلی مطالعے کا حق دار ہے۔
مصنف پاکستان کے معروف صحافی ہیں۔ طویل عرصے تک روزنامہ پاکستان ٹائمز اور روزنامہ فرنٹیرپوسٹ کے ساتھ منسلک رہے۔ اُنھوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی اور اس کے عالمی کردار کے حوالے سے موقع بہ موقع جو مضامین تحریر کیے، اُنھیں کتابی صورت میں یک جا کردیا گیا ہے۔ ان میں معلومات، تجزیہ اور بھارت کے اصل چہرے کی نقاب کشائی بھی ہے۔ آغاز میں بتایا گیا ہے کہ ہندومت نے کس طرح بدھ مت کو اُکھاڑ پھینکا۔ پھر اُن حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے جن میں پاکستان وجود میں آیا۔ ایک باب میں ۲۰کروڑ اچھوتوں کا تذکرہ ہے۔ علاوہ ازیں ۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے قتلِ عام کا ذکر، پھر تحریکِ آزادیِ کشمیر ایک لاکھ کشمیریوں کی شہادت کا تذکرہ ہے۔ دوسری جانب بھارت کے کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں بڑی تعداد اقلیتوں کی ہے۔ مصنف کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ان حالات کے باوجود بھارت ۷ء۳۲ ارب ڈالر دفاعی بجٹ پر کیوں خرچ کرتا ہے؟
کتاب سے بھارت کی اندرونی تصویر بھی سامنے آتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان ڈیڑھ لاکھ بھارتی کسان خودکشی کرچکے ہیں مگر داخلی مسائل حل کرنے کے بجاے بھارتی حکومتوں کی تمام توپوں کا رُخ پاکستان، چین اور بنگلہ دیش کی طرف ہے۔ مختلف بھارتی صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں جاری ہیں: اُڑیسہ، جھاڑکھنڈ اور چھتیس گڑھ کی تحریکیں، مسلح باغیوں کے ہمراہ سرگرمِ عمل ہیں۔ نیکسلائیٹ تحریک ان میں سب سے نمایاں ہے۔ خالصتان کی تحریک کے بارے میں بھی تفصیلی مضمون شامل ہے۔
اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ بھارت کی اکثریتی حکومت، اقلیتوں کے خلاف ناروا اقدامات کرتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’شیوسینا‘ جیسی انتہاپسند تنظیموں کی سرپرستی بھی جاری ہے، جو بھارت میں غیرہندو کے باقی رہنے کے حق ہی میں نہیں ہیں۔ جس کا نتیجہ مساجد اور گرجا گھروں کو آگ لگانے اور مسلمانوں کو زندہ جلائے جانے (احمدآباد) جیسے واقعات کی صورت میں نکلتا رہتا ہے۔ بھارتی مسلح افواج کے غیراخلاقی کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس پہلو کا تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت تھی۔ تاہم عام بھارتی فوجی اور سینیر جرنیل تک ایسے ایسے اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کی مثال دنیا کی دیگر فوجوں میں مشکل ہی سے ملے گی۔
مصنف کا کہنا ہے کہ بھارت افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین، نیپال،مالدیپ، بنگلہ دیش، بھوٹان میں بھارتی کارروائیوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور قارئین کو یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کودبانے کے لیے کس قدر وحشیانہ قوت کا استعمال کیاہے۔ نہ اُسے اقوامِ متحدہ کا اندیشہ ہے نہ امریکا کا ڈر۔ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں کے ساتھ جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اُس کی تفصیلات مضامین کی صورت میں بھی موجود ہیں اور درجنوں تصاویر بھی شامل کردی گئی ہیں جن کو دیکھ کر انسان کانپ اُٹھتا ہے۔ اس کتاب کا خاص باب ’پانی کے مسئلے‘ کے بارے میں ہے۔ اس معاملے میں بھارت نے پاکستان کو قحط زدہ ملک بنانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ ادھر پاکستانی حکمران ہیں جو ہرقیمت پر بھارت سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔
کتاب میں حقیقت پسندانہ تجزیے سے بھارت کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ تاہم جن موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے اُن میں سے ہر موضوع پر ایک نہیں کئی کتابیں تحریر کی جانی چاہییں۔ مصنف، پاکستانی قوم کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں کہ جنھوں نے اپنے قلم کو بھارت جیسے ملک کے حقیقی چہرے کو سامنے لانے میں صرف کیا۔ (محمد ایوب منیر)
حج بیت اللہ ایک سعادت ہے، جو کروڑوں لوگوں میں چند لاکھ کو نصیب ہوتی ہے۔ اس محرومی کے مادی اسباب میں: کہیں عزم و ارادے کی کمی، کہیں ترجیحات کا نقص اور کہیں مالی تنگ دستی آڑے آتی ہے۔ تاہم ہرمسلمان کا دل اپنے مولد و مسکن وطن کے علاوہ جس خطۂ زمین میں اٹکا رہتا، یا اس خاکِ ارضی کی طرف لپکتا ہے، وہ ہے ارضِ حجاز، حرمین الشریفین۔
ایسے خوش نصیبوں میں اب تک کروڑوں لوگوں نے اس سفرِفوزوفلاح سے اپنے روحانی وجود کو معطر کیا ہے، تاہم چند ہزار ایسے بھی ہیں جنھوںنے اس جادۂ شوقِ محبت کی کیفیات و تاثرات کو قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیرنظر کتاب، اُردو میں لکھے اور شائع شدہ ایسے ہی سفرناموں کا ایک فنی اور تاثراتی جائزہ ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ مصنف نے تمام شائع شدہ سفرناموں کو جانچا، پرکھا ہے، البتہ پاکستان اور بھارت وغیرہ میں شائع ہونے والی ایک قابلِ ذکر تعداد کو ضرور پیشِ نظر رکھا ہے۔
ابتدا میں سفرنامہ حج پر بحیثیت صنفِ ادب بحث کی گئی ۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’حج نامہ وہ بیانیہ صنفِ ادب ہے، جس میں حج نامہ نگار، دورانِ سفرحج یا سفر سے واپسی پر اپنے مشاہدات، واقعات، تجزیات اور قلبی تاثرات کو تحریر کرتا ہے‘‘ (ص ۳۳)۔ ’’حج کا سفر مادی دنیا سے روحانی دنیا کا سفر ہے… اس سفر میں بندہ اپنے رب کے گھر کی عظمت سے بھی آشنا ہوتا ہے… حج کا سفر، سفرِآخرت کی مشق بھی ہے‘‘ (ص ۳۴)۔ ’’حج نامہ نگار جب سرزمینِ حجاز میں سفر کرتا ہے تووہ محض حال ہی کا اسیر نہیں ہوجاتا، بلکہ اس کے ساتھ وہ ماضی میں بھی سفر کرتا ہے۔ وہاں کی ہر چیز کو نہایت شوق و تجسس کے ساتھ دیکھتا ہے۔ منظر وموضوع کی وحدت کے باوجود حج ناموں میں جذبات نگاری اور منظرکشی میں خاصا تنوع نظر آتا ہے‘‘ (ص ۳۶)۔ اس تجزیاتی باب میں فنی گہرائی اور ادبی کمال کے ساتھ تنقید نگاری کی گئی ہے۔
اُردو حج ناموں کا پس منظر زیربحث لاتے ہوئے متعین کیا ہے کہ اُردو میں پہلا سفرنامہ حج ماہِ مغرب المعروف کعبہ نما از منصب علی خاں ۱۸۷۱ء میں شائع ہوا۔ ۱۹۰۱ء تا ۲۰۰۹ء تک کے سفرناموں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ حج کے اُردوتراجم پر نہ صرف بحث کی گئی ہے، بلکہ چنیدہ حج ناموں سے اقتباسات پیش کر کے، قاری کو طرزِ بیان کی گوناگوں لذتوں سے خوش کام کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ادبی حوالے سے ایک قیمتی اضافہ تو ہے ہی، مگر ساتھ ساتھ قاری کے دل و دماغ کو اس مرکز ثقل سے جوڑنے کا وسیلہ بھی ہے، جسے ہم دو لفظوں سے متعین کرتے ہیں: حرمین الشریفین۔ (سلیم منصور خالد)
مشاہیر کے خطوط کو چھاپنے کا رجحان روز افزوں ہے۔ اس کتاب میں طالب ہاشمی مرحوم کے ۱۹۹۲ء سے ۲۰۰۷ء تک کے ۸۱ خطوط کو زمانی ترتیب سے یک جا کیا گیا ہے۔ تین دیباچوں میں مکتوب الیہ، مرتب کتاب اور حافظ محمد قاسم نے مرحوم کی شخصیت اور اُن سے اپنے روابط پر روشنی ڈالی ہے (ان میں تکرار ہے، ایک ہی دیباچہ کافی تھا)۔ ہرخط کے موضوع کے اعتبار سے خط کا مختصر یا طویل عنوان قائم کیا گیا ہے، مثلاً: ’’اماں جی مرحومہ و مغفورہ۔ ماہنامہ القاسم کے ساتھ والہانہ محبت۔ علامہ شبلی سرسیّد کے ہم کیش اور ہم عقیدہ نہیں تھے۔ سرسیّد کے عقائد و نظریات سے تو مجھے گِھن آتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات کا دھیان اور کمالِ احتیاط۔ ٹکٹ لگانے اور بُک پوسٹ کے بارے میں مشورہ۔ قابلِ رشک علمی اور اشاعتی مقام اور اصلاحِ تلفظ و اِملا۔ بعض اُردو الفاظ کی ترکیب اور تذکرۃ المصنفین‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ بعض مشاہیر جیسے علامہ اقبال اور رشیداحمد صدیقی کی طرح طالب ہاشمی نے بھی اپنے خطوط نہ چھاپنے کی ہدایت کی مگر اقبال اور رشیداحمد صدیقی کی طرح طالب ہاشمی کے مکتوب الیہ نے بھی اس ہدایت کو نظرانداز کرتے ہوئے زیرنظر مجموعہ شائع کردیا ہے (اس کی افادیت میں کلام نہیں)۔
ان خطوں سے طالب ہاشمی کا طبعی انکسار، درویشانہ افتادِ طبع، علمی کاموں میں اُن کا انہماک، تاریخی واقعات کی صحت کے لیے فکرمندی اور کوشش و کاوش وغیرہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ القاسم اکیڈمی کی مطبوعات اور ماہنامہ القاسم کے خاص نمبروں کی تعریف کرتے مگر دوسرا رُخ بھی دکھاتے تھے، یعنی تبصرہ کرتے ہوئے بڑے حکیمانہ طریقے سے حقائق و واقعات اور کتابت اور اِملا کی غلطیوں کی نشان دہی بھی کرتے اور ساتھ ہی لکھ دیتے کہ ’’چھوٹے موٹے تسامحات تو ہرعلمی اور تحقیقی کتاب میں رہ جاتے ہیں۔ ان سے نہ مصنف کی عظمت پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ شارح کی عظمت پر (ص۴۴)۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں: ’’جب میری کسی تالیف کی کمزوریوں کی کوئی صاحب نشان دہی کرتے ہیں تو مجھے بے حد مسرت ہوتی ہے اور میں تبصرہ نگار کا شکرگزار ہوتا ہوں‘‘ (ص ۵۳)۔ مکتوب نگار بعض الفاظ کے تلفظ، عربی الفاظ پر اعراب اور بعض کے اِملا کے بارے میں بہت حسّاس تھے لیکن مرتب اور ناشر نے طالب ہاشمی کے خط چھاپتے ہوئے ان کے اِملا کا خیال نہیں رکھا (سہواً یا ازراہِ غفلت)، مثلاً ان کے نزدیک رویئے، دعوئوں، لیجئے، دیئے، سینکڑوں وغیرہ غلط، اور رویّے، دعووں، لیجیے، دیے، سیکڑوں صحیح ہے۔ مگر کتاب میں کئی مقامات پر غلط املا اختیار کیا گیا ہے، مثلاً: ص۲۰، ۱۶۵ وغیرہ ۔
اگرچہ بظاہر ان خطوں کے عنوانات بہت ہی عمومی قسم کے معلوم ہوتے ہیں، لیکن بعض خطوں میں نہایت فکرانگیز اور پتے کی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں، مثلاً: ’’کسی کے روحانی مقام و مرتبے کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کوعلم نہیں‘‘ (ص ۱۵۵)،’’قول و فعل کا تضاد اور اخلاصِ عمل کا فقدان، یہ ہیں دو چیزیں جو ہمارے ملک کے ۹۰ فی صد مشائخ کو لے ڈوبی ہیں‘‘ (ص ۵۹)۔ وقت کے حکمرانوں سے ’فیض‘ پانے والے علما اور مشائخ کے بارے میں طالب ہاشمی نے بہت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مدیر القاسم سے گزارش ہے کہ وہ موعودہ ’مکاتیب ِ مشاہیر نمبر‘ میں صحت اِملا کا خاص خیال رکھیں اور پروف خوانی بھی زیادہ توجّہ اور کاوش سے کروائیں۔ اگر ہرخط کو نئے صفحے سے شروع نہ کریں اور ہرخط پر جَلی عنوان نہ لگائیں تو نمبر کی ضخامت کم ہوگی اور قیمت بھی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
جادو، جنات سے بچاؤ کی کتاب، حافظ عمران ایوب لاہوری پر تبصرہ جنوری (۲۰۱۱ء) میں شائع ہوا۔ کتاب ملنے کا درست پتا یہ ہے: نعمانی کتب خانہ، حق سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور فون: ۴۲۰۶۱۹۹-۰۳۰۰
قرآن کریم کا مطالعہ فرض ہے اور خوش بختی بھی۔ جن لوگوں نے اس پیغامِ ربانی کی تعلیم اور لوگوں کو اس سے وابستہ کرنے کے لیے کوششیں کیں، ان کے احسان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دنیا کے ہرخطے اور ہر زمانے میں یہ خدمت انجام دینے والے فرزانے اپنا فرض ادا کرتے رہے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس نے برعظیم پاک و ہند میں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں ہونے والی خدمت ِ قرآنی کے چند مرکزی دھاروں کو اپنی توجہ کا موضوع بنایا ہے۔
جناب رضی الاسلام نہ صرف ایک محقق اور دینی امور پر غوروفکر کرنے والے ہیں بلکہ اپنے نتائج فکر کو خوب صورتی سے بیان کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اُن کی فکرمندی اور تدبر کا محور ہے۔ کتاب چار حصوں میں تقسیم ہے۔
پہلے باب میں سرسیداحمد خاں کی تفسیر پر تنقید اور محاکمے کے ساتھ اس چیز کا تعین بھی کیا گیا ہے کہ خود یہ تفسیر مابعد تفاسیر پر کس پہلو سے اثرانداز ہوئی۔ دوسرے باب میں ایک مقالہ اس حوالے سے معلومات افزا ہے کہ خود یہاں بیسویں صدی میں عربی میں کس قدر تفسیری کام ہوا۔ مصنف کے مطابق بیسویں صدی میں پہلی مکمل عربی تفسیر مولانا ثنا اللہ امرتسری (م:۱۹۴۸ء) نے لکھی، اور مولانا سید سلیمان ندوی نے اس کے بارے میں فرمایا: ’’جلالین کی جگہ اس تفسیر کو رواج دیا جائے‘‘ (ص ۳۸)۔ ’’ازاں بعد مولانا حمیدالدین فراہی (م: ۱۹۳۰ء) نے عربی تفسیر میں نمایاں کام کیا، جو جامعیت، زورِ بیان اور قوتِ استدلال میں اپنا ہم سر نہیں رکھتا (ص۴۰)‘‘۔ اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی (م: ۱۹۴۳ء) نے قابلِ ذکر حواشی لکھے۔ اس مقالے میں برعظیم کے عربی میں تفسیری ادب کا تعارف کرایا گیا ہے اور حروفِ مقطعات پر معلومات افزا بحث کی گئی ہے۔
تیسرے باب میں سید سلیمان ندوی کی خدمتِ قرآن کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’قرآنیات میں ان کی خدمات سیرت اور تاریخ کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہیں، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ان کا خاص میدان قرآنیات کا ہے‘‘ (ص ۷۱)۔ پھر ان کی لفظی تحقیق کی دل چسپ مثالیں پیش کی ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی (م: ۱۹۹۷ء) کے کلامِ عرب سے استشہاد اور لغوی تجزیے پر قیمتی مباحث اور حوالوں سے روشنی ڈالی ہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی (م: ۱۹۹۹ء) کی قرآنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’وہ الفاظِ قرآنی کی لغوی و لسانی تشریح کر کے قرآن کا اعجاز آشکارا کرتے ہیں--- کاش! انھوں نے پورے قرآن کی تفسیر لکھی ہوتی‘‘۔ (ص ۱۴۴)
آگے چل کر مولانا صدر الدین اصلاحی کی قرآنی خدمات پر سیرحاصل معلومات دی ہیں، جن سے عام طور پر لوگ ناواقف ہیں، اور یہ تفصیلات تجزیاتی اعتبار سے نہایت قیمتی ہیں۔ یاد رہے کہ مولانا صدر الدین اصلاحی نے تفسیر تیسیرالقرآن لکھی اور تفہیم القرآن کی تلخیص مرتب کی۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’مولانا مودودیؒ نے قرآن مجید کا جو ترجمہ مختصر حواشی کے ساتھ شائع کیا، اس کے حواشی اگرچہ تفہیم القرآن ہی کے حواشی کا اختصار ہیں، لیکن انھوں نے کچھ حواشی بالکل نئے سرے سے بھی لکھے ہیں۔ اسی طرح ترجمہ اگرچہ تفہیم القرآن ہی کا دیا گیا ہے، مگر اس میں کہیں کہیں مولانا مودودی نے چھوٹی موٹی لفظی ترمیمیں کی ہیں‘‘۔ (ص ۱۸۳)
چوتھے باب میں قرآنی علوم اور موضوعات پر وہ ۳۲ تبصرے پیش کیے ہیں ، جنھیں فاضل مصنف نے بڑی دیدہ ریزی سے تحریر کیا ہے۔ یہ حصہ اس اعتبار سے ایک قیمتی دستاویز ہے جس میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدمتِ قرآن کے باب میں کن عشاق نے کس پہلو اور کس ندرت کے ساتھ اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ جناب رضی الاسلام کی اس کتاب کے مطالعے میں موضوع پر ان کی جانب سے کسی رورعایت کا شائبہ نہیں ملتا ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ وہ ہر لفظ کو گہری فکر کے ساتھ لکھ رہے ہیں، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ کلامِ ربانی کی پیش کاری کا مقدمہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)
کسی ملک کے شہریوں خصوصاً نوجوانوں کی تعلیم و تربیت، حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستانی حکومت اور اس کے ذیلی ادارے اس ذمہ داری کو کس خوبی اور تندہی سے ادا کررہے ہیں، اس کی ایک مثال یہ تصنیف ہے۔ نصابِ تعلیم میں اسلام کے اساسی تصورات کی کتربیونت، جہاد کا اخراج، ’روشن خیالی‘ اور ’آزاد رَوی‘ کا بگھار اور ’جدیدیت کی چاشنی‘ تو نئی درسی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ گریجویشن کی سطح پر ’مطالعۂ پاکستان‘ کے ذریعے بعض اداروں سے اسلامیات کے مضمون کا تقریباً اخراج اس کے مظاہر ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے ابتدائی مدارس سے لے کر جامعات تک میں نئی نسل کی ’آب یاری‘ کس تندہی سے کی جارہی ہے، یہ سنجیدہ تحقیق کے لیے ایک دل چسپ اور چشم کشا موضوع ہوسکتا ہے۔
اسلام، قدامت پسندی، جہاد اور دہشت گردی وہ عنوان ہیں جن پر سماجیات کے علما سے عامی تک سبھی زور شور سے گفتگو کرر ہے ہیں۔ پاکستان میں دوسرے سرکاری اداروں کی طرح اعلیٰ تعلیم کی نگہباں مقتدرہ (ہائر ایجوکیشن کمیشن: HEC) بھی ’دہشت گردی کو جنم دینے والی قدامت پسندی‘ کے خلاف اس ’مقدس جنگ‘ کی حامی ہے۔
مصنف کہتے ہیں: ’’ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں، مگرتعجب ہے کہ مسلمان ابھی تک دیومالائی داستانوں (myths)، عقیدوں (dogmas) اور شدت پسندی (orthodoxy) اور قدامت پسندی (conservatism) کی بھول بھلیوں کے اسیر ہیں اور اپنی فہم وفراست کوترقی دینے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے‘‘ (ص۱۷)۔ مصنف کے نزدیک حالیہ دور میں روشن خیال اور ترقی پسند حلقوں کی طرف سے معاشرے کو راہ پر ڈالنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں، ’نظریاتی اسٹیبلشمنٹ‘ اور ’مذہبی قدامت پسندی‘ کی طرف سے اس کی سخت مزاحمت کی جارہی ہے۔
مصنف بجا طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے پرانے قبائلی نظام کی جگہ عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کی پاس داری کرنے والا ایک روشن خیال نظامِ حیات پیش کیا جس نے قدیم دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا، اور ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور ثمرآور معاشرے کی راہ ہموار کی تھی، مگر آج مسلم دنیا میں عقیدہ پرستی، اور عدم برداشت کا دور دورہ ہے (ص ۲۲)۔ اُن کے خیال میں ’ترقی‘ ایک سیکولر یا غیر مذہبی تصورہے، جو قرونِ وسطیٰ کی اُس فکر سے مطابقت نہیں رکھتا، جس میں ہم ڈوبے ہوئے ہیں (ص ۲۶)۔ وہ کہتے ہیں کہ ۱۴ صدیاں بیت گئیں لیکن آج بھی مسلمان جدید فکر سے اُسی طرح دُور ہیں، جیسے قرونِ اولیٰ کے غاروں میں بسنے والے (ص ۲۹)۔ دینی مدارس، محبت اور بصیرت سے عاری ہیں (ص ۳۶)۔ روشن خیالی جو مسلمانوں کا ورثہ تھی، مُلّاوں کے تاریک حجروں میں تحقیر اور استہزا کا نشانہ بنی ہوئی ہے… جب کہ جدیدیت میں حُسن و آہنگ کی تمام انسانی جہات کا فروغ ہے(ص ۳۹)۔ اُن کے نزدیک سائنس اور صنعتی انقلاب نے روشن خیالی کے لیے جو راہ ہموار کی ہے، اس نے انسانی تہذیب کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا ہے مگر مسلمان ترقی کے اس تصور سے بے بہرہ ہیں۔ (ص ۴۰)
مصنف ایک طرف تو مغربی مصنفین کے حوالے سے یہ دکھاتے ہیں کہ عرب، شرقِ اوسط اور ہسپانیہ کے مسلم علما اور سائنس دانوں کی فکر و تحقیق سے یورپ میں علم کی شمع روشن ہوئی، جن میں جابر بن حیان سے لے کر ابن سینا کے نام آتے ہیں، اور اسلامی فکر کو نکھارنے میں غزالی اور شیخ احمد سرہندی سے لے کر مولانا مودودی (پندرھویں صدی ہجری) تک کا حصہ ہے (ص۵۴-۵۵)۔ ’’تاہم آج کے مسلمان فکری بلوغ سے محروم ہیں… وہ غیرصحت مند اور غیراخلاقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں… بددیانتی، کرپشن، دھوکے بازی، ان کے کردار کی صورت گری کرتے ہیں (ص۱۲۰)۔ انھوں نے خیال کرلیا ہے کہ سائنس، مذہب کے خلاف ہے، اور اس طرح کی کہانیوں پر یقین کرلیا ہے جو بتاتی ہیں کہ دنیا ایک بَیل کے سینگوں پر کھڑی ہے‘‘ (ص ۱۲۲)۔ ’’مسلمان اگرچہ قرآن اور نبی [صلی اللہ علیہ وسلم] کی روایات پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن اپنی زندگی میں اُن اصولوں کو نافذ نہیں کرتے… یوں مُلّا کی قدامت پرستی، انسانی فکر اور حیات کے اعلیٰ مقاصد کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہے‘‘ (ص۱۲۴)۔ مصنف بار بار اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کی طرف رجوع کو ترک کردیا ہے،اس لیے وہ آج کے معاشرے کو پیش آمدہ چیلنج کا جواب نہیں دے سکتے (ص ۱۲۶)۔ قرآنی احکام کو چھوڑ کر وہ خود پرست مُلّائوں کے دکھائے ہوئے خوابوں اور داستانوں میں کھوئے ہوئے ہیں، جن کے خیالات سے ذرا سی رُوگردانی اسلام سے انحراف اور کفر کے فتوے کی طرف لے جاتی ہے (ص ۱۲۶)۔ ان قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ ساری دنیا ان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ اسی ذہنیت سے وہ جہادی کلچر اور دہشت گردی وجود میں آتی ہے، جس کا ظہور امریکا کے ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور خودکش حملوں میں ہوتا ہے۔ (ص ۱۳۲-۱۳۳)
اس میں شک نہیں کہ آج کے بیش تر ممالک میں بحیثیت مجموعی مسلم معاشرہ ہماری اصل اسلامی روایات اور اقدار سے بہت دُور جاچکا ہے، لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں اس کی وجہ مذہب سے لگائو نہیں، بلکہ اس سے دُوری اور وہ نام نہاد’روشن خیالی‘ ہے، جس نے انسان کو ایک ’جبلّی حیوان‘ بنادیا ہے۔ ہمارے روایتی مدارس اور علما اگرچہ عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم انھوں نے اس اسلامی ورثے کو محفوظ رکھنے میں ایک کردار ضرور ادا کیا ہے، جو اگر ضائع ہوجاتا، تو مستقبل میں کوئی نشاتِ ثانیہ بھی ممکن نہ ہوتی۔ دینی اور غیرمذہبی دونوں طرح کے تعلیمی ادارے، قومی تشخص کو بحال کرنے اور روحانی اور مادّی اقدار کو ہم آہنگ کرکے ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ دردمند اصحاب کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ ہماری پستی اور زوال کے لیے یک طرفہ طور پر دینی مدارس اور ’مُلّائوں‘ کو موردِ الزام قرار دینا، مصنف کی ناانصافی ہے، کیوں کہ زمامِ کار جس مقتدرہ کے ہاتھ میں ہے وہ مذہبی نہیں بلکہ سیکولر ہے۔ بیش تر مسلم ملکوں میں پالیسی ساز ادارے ’جدید تعلیم یافتہ‘ غیرمذہبی اربابِ کار کے قبضے میں ہیں۔ اس لیے صرف دینی طبقات کو اس افسوس ناک صورتِ حال کا ذمہ دار کہنا درست نہ ہوگا۔
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں اس کتاب کو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے باقاعدہ نصابی و درسی کتب تو قرار نہیں دیا ہے لیکن گریجویشن کے تمام طلبہ کے لیے اس کے مطالعہ کی سفارش کی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کمیشن اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کرکے نئی نسل کی تعمیر کس رُخ پر کرنا چاہتا ہے۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
مولانا مودودیؒ نے دعوتِ دین کے لیے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو پکارا تو اگرچہ ان کی پکار پر لبیک کہنے والی سعید روحیں گنتی میں کم تھیں، مگر یہ سب ایمان، جذبے اور فکرودانش سے سرشار تھیں۔ انھی حضرات میں ایک نمایاں نام جناب نعیم صدیقی کا ہے، جن کی ساری زندگی ہم سفری میں گزری، پھر وہ ۲۵ ستمبر ۲۰۰۲ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ وہ بیک وقت ایک دانش ور، منصوبہ ساز اور شاعر و ادیب بھی تھے اور ایک مربی و استاد بھی۔
یہ کتاب اُنھی کے نقوشِ فکر کا ایک جان دار حوالہ ہے، جو جناب مقبول الٰہی اور نعیم صدیقی مرحوم کے مابین خط کتابت پر مشتمل ہے۔ مقبول الٰہی سول سروس کے اُن گنے چُنے افسران میں سے ہیں جنھوں نے سرکاری مصروفیات کے باوجود قلم و قرطاس سے رشتہ برقرار رکھا۔ اُردو اور انگریزی کے ساتھ عربی اور فارسی پر دسترس رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کی متعدد کتابوں کے مترجم بھی ہیں۔ علم و ادب اور فکرودانش نعیم صاحب سے ان کی دوستی کا سب سے اہم حوالہ ہے۔کہنے کو تو یہ خطوط ہیں، مگر حقیقت ہے کہ ان خطوط کا دامن فکرودانش اور احساس کے موتیوں سے معمور دکھائی دیتا ہے۔ عام لوگ خطوط کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہیں، حالانکہ خطوں پر مشتمل ان اکثروبیشتر چھوٹے چھوٹے ادب پاروں میں مشاہدے کا نچوڑ اور علم کا عطر سمٹ کر آجاتا ہے (افسوس کہ آیندہ نسلیں خط نویسی کی اس نعمت سے محروم رہ جائیں گی کہ برقی ڈاک [ای میل] اور برقی پیغامات [ایس ایم ایس]نے اس صنفِ ادب و علم کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے)۔
نعیم صدیقی کے خطوں کے بعض حصے دعوتِ فکر دیتے ہیں، مثلاً: ’’عقائد اسلامی اگر موجود ہوں گے تو ان کا نیچرل اثر انسان کی عملی زندگی میں ضرور ظاہر ہوگا، اور اگر یہ اثر نمودار نہ ہو رہا ہو تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان عقائد میں کوئی ایسی تبدیلی یا ایسا ضعف آگیا ہے، یا ان کے ساتھ ایسے اضداد جمع ہوگئے ہیں، یا ان کا شعور اتنا مُردہ ہوگیا ہے کہ ان سے ان کے اثرات ظاہر نہیں ہورہے… اب یہ ہرآدمی کا اپنا کام ہے کہ وہ قرآن کھول کر دیکھ لے کہ ایمان، شرک، فسق، نفاق وغیرہ حالتوں میں سے کس حالت میں وہ مبتلا ہے، اور اللہ کے ہاں کس نوعیت کے لوگوں کے ساتھ اس کا شمار ہوگا‘‘ (ص۱۷)۔ ان سطور میں خود احتسابی کا معیاری اور آسان پیمانہ ہر کلمہ گو کو فراہم کردیا گیا ہے۔
آشوبِ عصر کو وہ ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں: ’’شرافت، دین داری اور تقویٰ کے لبادوں میں نفسانیت کے دیووں اور پریوں کو رقصاں دیکھا۔ مجھے اب اندازہ ہوا کہ ہمارا قحطِ انسانیت کتنی وسعتیںاختیار کرگیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ملک (اور پوری دنیا) کے دردناک اور خطرناک حالات ہیں۔ معلوم نہیں، کب کیا ہوجائے‘‘ (ص ۷۹)۔ پھر اپنے بارے میں لکھتے ہیں: ’’میں خود ’ٹاٹ سکول‘ کا تعلیم یافتہ ہوں‘‘( ص ۱۵۱)۔ ایک خط میں اپنے مخاطب سے کہتے ہیں: ’’صرف مشورہ دوں گا، استادی کا شوق ہے نہ صلاحیت، خود بہت غلطیاں کرتا ہوں‘‘ (ص۲۲)۔ اپنے رفقا کی صلاحیت کا اعتراف کرنے میں ان کا یہ جملہ دیکھیے: ’’رفیع الدین ہاشمی صاحب، اقبال اور اقبال سے متعلق شائع ہونے والے لٹریچر پر اتھارٹی ہیں‘‘۔ (ص ۹۴)
ان خطوط میں ہمیں غم روزگار کا ماتم نہیں بلکہ آشوبِ شہر کا نوحہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ جذبے کی آنچ کی میٹھی گرماہٹ اور مقصد سے بھرپور زندگی گزارنے والے فرد کی دلی کیفیات کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ درحقیقت یہ خطوط ایک طرح کی خود کلامی بھی ہیں اور دعوتِ فکر بھی۔ ہم سب جناب مقبول الٰہی کے شکریے کے مستحق ہیں کہ ان قیمتی خطوط کو محفوظ رکھا اور پیش فرمایا۔ (س- م - خ)
اللہ کی راہ میں جدوجہد میں گزرنے والے تمام لمحے، سعادت کے لمحے ہیں، جن سے راہروانِ شوق جذبہ حاصل کرتے ہیں، جب کہ غیروابستگان کے ذہنوں میں ان لوگوں کو دیکھ کر تجسّس اور حیرت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی ایسے سعادت مند لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے معاشرے کے عقائد و افکار کے زنگ آلودہ قفل کھولے اور زندگی کو اسلام سے نسبت دینے کا پیغام عام کرنے کے لیے ذاتی آرام و آسایش کو تج دیا۔ ایسے ہی ایک فرد چودھری محمد اسلم ہیں، جنھوں نے کارزارِ حیات کی کچھ جھلکیوں کو زیرتبصرہ کتاب میں رقم کیا ہے۔
یہ کتاب تین دائروں کا احاطہ کرتی ہے: ذاتی مشاہدات و تجربات، ضلع گوجرانوالہ کے علاقے میں جماعت اسلامی کے کام کے پھیلائو کے خدوخال اور چیلنجوں کا ذکر اور پاکستان کی تاریخ کے کچھ ابواب پر اظہارخیال۔ پہلے دو امور پر تو ایک حد تک معلومات میں ندرت و دل چسپی کا عنصر موجود ہے، جب کہ تیسرے باب کے لیے الگ سے بحث کی جاتی تو اور زیادہ بہتر ہوتا۔ بہرحال اسی وسیلے کو استعمال کرتے ہوئے ملکِ عزیز کے دوسرے علاقوں سے بزرگ بھی اگر اپنی یادداشتیں قلم بند کرلیں تو یہ مفید مشق ثابت ہوسکتی ہے، کہ جس میں گئی رُتوں کی خوشبو سے فکروذہن کو معطر کیا جاسکتا ہے۔ (س- م - خ)
مسئلہ کشمیر، جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی مظلومانہ غلامی، بھارت کی مکارانہ ڈپلومیسی اور حکومت ِ پاکستان کی ایک قدم آگے دو قدم پیچھے پالیسی کا عنوان ہے۔ ڈوگرہ راج سے شروع اس المیے کا حل تو دُور کی بات ہے، ہر آنے والا دن ان سے نظرانداز کرنے کی سعی و نامسعود کا حوالہ بنتا ہے، مگر وہاں مسلمانوں میں آتشِ حریت تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ دو مختصر مگر جامع کتابیں، مسئلے کی نظریاتی، آئینی اور قومی شناخت کے معاملے کو زیربحث لاتی ہیں۔ محترم مؤلف نصف صدی سے اسی موضوع پر تحقیق و تصنیف سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے جامعیت کے ساتھ زیربحث موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ پاکستان کے اہلِ فکرونظر میں مسئلے کی اہمیت اور ان کی ذمہ داریوں کو اُجاگر کرنے کے لیے ان کتابچوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔ (س- م - خ)
مدحت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا موضوع، اُردو شعرو ادب میں اوائل ہی سے شامل رہا ہے۔ ترقی پسندوں نے اسے ایک مختصر عرصے کے لیے ’دیس نکالا‘ دیے رکھا لیکن جس طرح روس میں انسانی فطرت کو مسخ کرنے یا دبانے کا تجربہ ناکام رہا (اور اس کے نتیجے میں خود اشتراکی نظام روس کی تجربہ گاہ میں ناکام ثابت ہوا)، اسی طرح اُردو شعروادب سے مدحتِ رسولؐ اور نعت کی ’جلاوطنی‘ بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکی۔ گذشتہ تین چار دہائیوں سے اُردو شعرا کی کثیرتعداد نعت گوئی کی طرف بڑے والہانہ انداز میں ملتفت ہوئی ہے___ حتیٰ کہ بڑے بڑے نام وَر ترقی پسند اور لینن اور اسٹالن کی تعریف میں رطب اللسان رہنے والے نظم گو شعرا بھی نعت کہتے نظر آئے۔ ’صبح کا بھولا، شام کو گھر آجائے‘ کے مصداق، اُردو شعرا خصوصاً ترقی پسندوں کے ہاں یہ بڑی مثبت اور خوش آیند تبدیلی تھی ___ بلاشبہہ اس خوش گوار تبدیلی میں چند خارجی عوامل کا بھی ہاتھ ہے، مثلاً جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں مختلف انعامات اور اوارڈوں کے ذریعے سیرت و نعت نگاری کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ چنانچہ تب سے سیرت پر بکثرت کتابیں چھپ رہی ہیں اور نعتیہ شاعری کے مجموعے بھی بڑی تعداد میں شائع ہوتے چلے آرہے ہیں۔ بعض خوش نصیب شعرا نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر دیا، جیسے محسن کاکوروی مرحوم یا حفیظ تائب مرحوم یا لالہ صحرائی مرحوم، یا صبیح رحمانی۔
اُردو نعت کے روز افزوں ذخیرے کو دیکھ کر اُردو تحقیق کاروں کو ایک نیا موضوعِ تحقیق ہاتھ آگیا۔ چنانچہ جامعات میں اب تک سیرت و نعت نویسی پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تقریباً دودرجن تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ اسی طرح کچھ نقادوں نے ’تنقید ِ نعت‘ پر بھی قلم اُٹھایا۔
اُردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ نقد وانتقاد کے ایک عمدہ نمونے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مصنف نے سرورق پر ’شریعت ِ اسلامیہ کے تناظر میں‘ کے الفاظ لکھ کر واضح کیا ہے کہ نعت نگاری کی جانچ پرکھ کا معیار شریعت ِ اسلامیہ کے آفاقی و ابدی اصول ہیں جو ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں متعین ہوتے ہیں۔
نعت ایک شعری صنفِ ادب ہے، اس لیے اسے پرکھنے کے لیے نقدِ شعر و ادب کے اصول بھی پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے۔ مصنف تنقیدِ نعت میں ’صداقت کی پابندی‘ کو ادبیات خصوصاً اسلامی ادب کا ’اہم ترین وصف‘ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر ہم مواد یا اسلوب سے ایک چیز کو ترک کرنے پر مجبور ہوں تو اسلوب کا ترک اولیٰ ہے کیوں کہ ایک نعتیہ فن پارہ اگر اسلامی تعلیمات یا شریعتِ اسلامیہ کے مطابق نہیں تو اسلامی ادب میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، خواہ وہ کیسے ہی اعلیٰ درجے کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہو‘‘ (ص ۱۹)۔ چنانچہ فاضل مصنف نے تنقیدِ نعت کے اسی پیمانے سے بعض نعت نگاروں کی کاوشوں کا جائزہ لیا ہے۔
یہ مصنف کے ۱۰ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں اُردو نعت میں مروّجہ بعض بے اعتدالیوں، بے احتیاطیوں، آنحضوؐر کی تعریف و توصیف میں حدودِ شریعت سے تجاوز اور غُلوّ کے بعض پہلوئوں پر نقد کیا گیا ہے، مثلاً اُردو نعت میں رزم کے پہلو، شانِ الوہیت کا استخفاف، تلمیحات کا غیرمحتاط استعمال، انبیاے سابقین کی رفعتِ شان کا استقصار، نعتوں میں ’یثرب‘ کا استعمال، شاعرانہ تعلّی، ’صلعم‘ کا استعمال اور اس کے مضمرات، ضمائر کا استعمال، وغیرہ۔ مصنف نے ہرپہلو اور نکتے کی وضاحت قرآن و حدیث اور دلائل و براہین کے ساتھ کی ہے، مثلاً بتاتے ہیں کہ ’صلعم‘ گذشتہ صدی کے ایک خوش نویس کی ایجاد و اختراع ہے (ص ۲۶۴)۔ بعض نام وَر ادیبوں اور شعرا نے بھی سوچے سمجھے بغیر ’صلعم‘ کو اپنی تحریروں میں استعمال کیا ہے۔ مصنف نے بہت سی مثالیں دے کر بتایا ہے کہ نہ صرف علما، بلکہ متعدد غیرعلما (مگر صاحب الراے) ادیبوں اور محققین نے بھی ’صلعم‘ لکھنے، بولنے یا اس مہمل لفظ کو نعت میں باندھنے سے منع کیا ہے۔
ایک اور مضمون میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’تو‘، ’تم‘، ’تیرا‘ اور ’آپ‘ اور ’اُن‘ کے استعمال پر بحث کی ہے۔ ان کا خیال بجاہے کہ حضوؐر کے لیے ’آپ‘ کی ضمیر استعمال کرنا ہی صحیح ہے۔
فاضل مصنف نے اپنے سیرحاصل مقدمے میں، تنقید ِ نعت اور شریعت اسلام کی روشنی میں شعرگوئی کے اصولوں کی بڑی عمدگی سے وضاحت کی ہے۔ مصنف نے بجا کہا ہے کہ’ ’نعت نگاری کا اصل سرچشمہ قرآن کریم ہے اور باقی اس کی تشریحات اور تعبیرات ہیں‘‘ (ص ۱۳)۔ مقدمے میں مصنف نے جناب عزیز احسن اور شمس بدایوانی کی بعض تحریروں کو اپنی تنقید کی زد میں لیا ہے۔ شمس بدایونی کی کتاب اُردو نعت کا شرعی محاسبہ (۱۹۸۰ء) کے حوالے سے لکھا ہے کہ شمس صاحب نے اپنے مخصوص عقائد کی روشنی میں نعتیہ شاعری کا تجزیہ کیا ہے۔ اس طرح یہ کہ انھوں نے اپنی دانست میں اہلِ سنت والجماعت ہی کے بعض اساسی عقائد کو غیرمشروع قرار دیا ہے (ص ۱۵)۔ شمس بدایونی کی مذکورہ کتاب تو فی الوقت ہمارے سامنے نہیں ہے، مگر ہمارا خیال ہے کہ یہی ’اساسی عقائد‘ ہی بسااوقات نعت گوئی میں اُن بے اعتدالیوں اور غیرمتوازن طرزِ اظہار کا سبب بن جاتے ہیں جن پر خود رشید وارثی صاحب نے اس کتاب میں جگہ جگہ تنقید کی ہے۔ ضمناً عرض ہے کہ یہ کہنا کہ شمس بدایونی کے ’’اندازِ تحریر میںخلوص و محبت کا فقدان ہے‘‘، ایک نامناسب ’فتویٰ‘ ہے کیوں کہ ’خلوص و محبت‘ باطنی احساسات ہیں جن کے کھرے یا کھوٹے پن کا صحیح صحیح اندازہ لگانے کا کوئی ظاہری پیمانہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔
اُردو نعت گو شعرا کی بے اعتدالیوں (جو بعض اوقات مشرکانہ اظہار تک پہنچ جاتی ہیں) کے خلاف قبل ازیں بھی، بعض حضرات نے تنقیدی احتجاج کیا ہے، مثلاً رئیس نعمانی (علی گڑھ)، یا پروفیسر عبداللہ شاہین (اُردو نعت گوئی اور اس کے آداب، لاہور، ۱۹۹۹ء)۔ زیرتبصرہ کتاب اس سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے۔ اس کے دیباچہ نگار سید یحییٰ نشیط کے بعض خیالات اگرچہ محلِ نظر ہیں، مگر رشید وارثی کے مضامین بحیثیت مجموعی معتدل راست فکری کا نمونہ ہیں۔ اُردو نعت گو شعرا بتوفیق الٰہی ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور تنقیدِ نعت پر قلم اُٹھانے والے ناقدین کو بھی، یہاں سے کچھ نہ کچھ تنقیدی بصیرت مل ہی جائے گی۔ معیارِ کتابت و طباعت اطمینان بخش ہے۔ ’پرواہ‘ غلط اور ’پروا‘ صحیح ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے قرآن مجید سے زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ہدایات جمع کر دی ہیں، ان آیات کا اُردو اور انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نہایت اہم موضوعات کے متعلق قرآنی ہدایات کا گلدستہ پیش کر دیا جائے۔ فاضل مصنف نے نو ابواب میں خالق کائنات اللہ تعالیٰ، انسان کے مقصدِ زندگی، ایمان کی بنیادوں، عبادات، اللہ سے بندے کے تعلق، اخلاقِ حسنہ، خاندانی معاشرت کے اصول، حُسنِ معاشرت، معاشرتی فلاح و بہبود اور اصولِ معاش کے حوالے سے قرآنی ہدایات پیش کی ہیں۔
قرآن مجید کے متعدد اُردو تراجم مشہور ہیں۔ کسی متداول اُردو ترجمے کو اختیار کرکے دیباچے میں اس کا اظہار کردیا جاتا تو مناسب تھا۔ اس طرح ترجمے میں وہ کوتاہیاں راہ نہ پاتیں جو اس وقت پیش نظر ہیں۔ سورئہ مدثر کی آیت ۴۵ (وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الخَائِضِیْنَ) کا اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے: ’’بحث کرنے والوں کے ساتھ ہم بحث کیا کرتے تھے‘‘ (ص ۲۶۲)۔ آج اُردو زبان میں لفظ بحث کا وہ مفہوم ذہن میں نہیں آتا جس کی سنگینی کے سبب بحث کرنے والے کو جہنم میں ڈال دیا جائے۔ اس کڑی سزا کے لیے ترجمے میں کوئی ایسا لفظ لانا چاہیے جو اس عمل کی شناعت اور مذمت کو واضح کرے۔ سید مودودی نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے: ’’حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘‘ (ترجمۂ قرآن،ص ۱۴۹۷)۔ شاہ رفیع الدین نے حاشیے میں صراحت کر دی ہے کہ ’’بات میں دھنستے، یعنی ایمان کی باتوں پر انکار کرتے سب کے ساتھ مل کر‘‘(ص ۶۹۸)۔ اور شاہ عبدالقادر نے موضح قرآن میں لکھا ہے: ہم عیب جوئی کرتے تھے اور طعنہ کرتے تھے عیب ڈھونڈنے والوں کے ساتھ (ص ۶۰۵)۔ راغب اصفہانی نے خوض کے معنی لکھے ہیں: پانی میں اُترنا اور اندر تک چلے جانا۔
ایک اور مقام پر فاضل مصنف نے سود کے عنوان سے لکھا ہے: ’’بڑھا کر لینا منع ہے‘‘۔ اور سورئہ مدثر کی آیت ۶ درج کی ہے: وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُہ ’’اور کسی کو اس غرض سے مت دو کہ اُسے بڑھا کر لے سکو‘‘ (ص ۲۹۴)۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کو مال یا سود کے معنوں میں نہیں لیا بلکہ اس سے ہمت اور اولوالعزمی سکھلائی گئی ہے کہ تبلیغِ رسالت کے پیغمبرانہ کام کی انجام دہی کسی پر احسان نہیں۔ سورئہ حجرات کی آیت۶ میں فاسق کا ترجمہ شریر کیا گیا ہے (ص ۲۶۰)۔ اُردو زبان میں شریر ان معنوں میں نہیں بولا جاتا کہ فاسق کا قرآنی مفہوم سامنے آئے۔
مصنف کی کاوش لائقِ تعریف ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کی جتنی صورتیں ہیں ان کا واحد علاج اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے دستورِ حیات پر عمل کرنے میں ہے۔ ایسی کتابیں جو انسانوں کو صراطِ مستقیم کی طرف بلائیں، زیادہ سے زیادہ مطالعے میں رہنا چاہییں تاکہ عملِ صالح کا داعیہ پیدا ہوتا رہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں قرآن مجید کا عربی متن سعودی عرب میں پڑھے جانے والے قرآنِ مجید کی طرزِ کتابت سے لیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی وہی کتابت دی جائے جو ہمارے ہاں معروف ہے۔ (ظفرحجازی)
ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ طبقہ مغرب سے مرعوب ہے، مغرب کو اہل اور مسلمانوں کو نااہل سمجھتا ہے اور مغرب کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ دوسری طرف سیکولر عناصر ترقی کے لیے مغرب کی طرز پر مذہب سے بغاوت ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو ان کے شان دار ماضی سے روشناس کروایا جائے تاکہ مغرب کے مقابلے میں ان کے احساسِ کمتری کو ختم کیا جاسکے اور عظمتِ رفتہ کے حصول کے لیے وہ ایک نئے جذبے سے سرگرم ہوسکیں، اور دوسری طرف سیکولر عناصر کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو دُور کرکے مسلمانوں کو ترقی کے لیے صحیح رہنمائی دی جائے۔ زیرتبصرہ کتاب اسی ضرورت کے پیش نظر لکھی گئی ہے۔
ڈاکٹر ارشد جاوید ماہر نفسیات ہیں اور سماجی و معاشرتی مسائل پر لکھتے ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں سامنے آچکی ہیں۔ مصنف نفسیات کے ایک اہم اصول کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر آپ ایک کام پہلے کرچکے ہوں تو اسے دوبارہ بھی کرسکتے ہیں۔ تیرھویں صدی عیسوی میں منگولوں نے ہمیں تاراج کیا مگر ہم کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک بار پھر عظیم قوم بن گئے۔ اب پھر ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ ہم پہلے ایسا کرچکے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم پہلے کی طرح دل و جان سے اپنے نظریۂ حیات سے وابستہ ہوجائیں، اور ہر قضیۂ زندگی، خصوصاً اخلاقیات میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں تو عظمت ایک بار پھر ہمارے قدم چومے گی، ان شاء اللہ‘‘۔ (ص ۱۶)
سیکولر عناصر مغرب زدہ ہیں اس لیے وہ ترقی کے لیے مذہب سے بغاوت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت کے عقائد سائنسی ترقی میں رکاوٹ تھے، جب کہ اسلام غوروفکر اور کائنات میں تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن حکیم کا کم از کم آٹھواں حصہ (۷۵۰ آیات) تفکر اور تسخیر، یعنی سائنسی ٹکنالوجی سے متعلق ہے۔ عظیم یورپی مؤرخ بریفالٹ کے مطابق: ’’نیچرل سائنس اور سائنسی مزاج پیدا کرنے میں، جو نئی دنیا کی سب سے بڑی امتیازی قوت اور اس کی کامیابی کا سب سے بڑا مآخذ ہے،[اسلامی] تہذیب نے مہتم بالشان کردار ادا کیا‘‘۔ (ص ۲۰)
مسلمانوں نے یورپ کو بہت سے نئے علوم سے روشناس کروایا اور بہت سی ایجادات سامنے آئیں۔ اس کا مختصر جائزہ ایک باب: ایجادات، انکشافات اور دریافتیں، میں لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف سائنسی میدانوں مثلاً: کیمسٹری، فزکس، میکانیات، معدنیات، علمِ زراعت، ریاضیات، فلکیات، جغرافیہ، میڈیسن، تاریخ نگاری، فلسفہ، موسیقی، تعمیرات وغیرہ میں مسلمانوں کی خدمات کا الگ الگ مختصر مگر جامع تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
کتاب بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے شان دار ماضی کے خلاصے پر مبنی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کردیتا ہے۔ اہلِ علم و تحقیق اور اساتذہ کرام کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل کو سائنسی میدان میں ایک نئے جذبے سے آگے بڑھنے کے لیے رہنمائی فراہم کرسکیں۔ اگر ماضی کے تذکرے کے ساتھ ساتھ آج کی مسلم دنیا میں سائنسی ترقی کے لیے مسلمانوں کا کردار بھی زیربحث آجاتا تو کتاب کی جامعیت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ (امجد عباسی)
مصنفِ محترم نے فرائضِ منصبی (کارِ معلمی) سے سبک دوشی کے بعد، قلم و قرطاس کو اظہارِ محسوسات و جذبات کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ان کی متعدد تصنیفی و تالیفی کاوشوں کا تعارف ترجمان کے انھی صفحات میں محفوظ ہے۔ ایک سچا ’قلم کار‘ علامہ اقبال کی اس نصیحت ’’برآور ہرچہ اندر سینہ داری‘‘ کے مصداق، کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے ہی کو زندگی کی علامت سمجھتا ہے۔ زیرنظر مضامین صدیقی صاحب کے جذباتِ دعوت و تبلیغ اور اقامت ِ دین کے عکاس ہیں۔ ان کے عنوانات یقینا مختلف ہیں: (’اللہ تعالیٰ‘، ’نبی ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم‘، ’قرآنِ حکیم‘، ’دعوت و تزکیہ‘، ’داعیِ حق کی خصوصیات‘، ’قلبِ سلیم‘، ’احسان‘، ’تکبر‘، ’اللہ کی حدیں‘، ’اسلام اور جاہلیت‘ وغیرہ)۔ مگر خود مصنف کے الفاظ میں ان سب میں ’’ایک ہی روح تابندہ، ضوفشاں اور ایک ہی رنگ نمایاں ہے: صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً‘‘۔(ص۸)
مصنف نے اپنی بات کو زیادہ وقیع اور مستند بنانے کے لیے تفہیم القرآن، تدبر قرآن، تفسیر عثمانی، ترجمان القرآن اور ضیاء القرآن ایسی تفاسیر سے لمبے لمبے اقتباسات شاملِ تحریر کیے ہیں۔ مختصر یہ کہ ہرمضمون میں متعلقہ موضوع کا خلاصہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ وضاحتِ مفہوم میں کہیں کہیں علامہ اقبال کے اشعار سے بھی مدد لی ہے۔
یہ کتاب ہر اُس شخص کے لیے باعثِ استفادہ اور سودمند ہوگی جو ان مضامین کو پڑھنے کے لیے وقت نکال سکے۔(ر-ہ)
جادو اور جنات کا موضوع تاریخ کے ہر دور اور ہر معاشرے میں عام رہا ہے۔ خصوصاً معاشی اور تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ معاشروں کے تنگ دست اور ضعیف العقیدہ لوگ جادوگروں، عاملوںاور جعلی پیروں کے ہاتھوں ہمیشہ لٹتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ موضوع قلم کاروں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اور تمام بڑی زبانوں کے لٹریچر میں اس پر کتابیں موجود ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب میں مؤلف نے جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں جادو اور جنات کے وجود کا اثبات کیا ہے وہاں نام نہاد جادوگروں اور عاملوں کے طریقہ ہاے واردات کا بھی ذکر کیا ہے۔ کتاب میں جادو،جنات اور نظربد سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں اور جنات کی آسیب زدگی کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اور رہنمائی دی گئی ہے کہ ان کے اثرات سے بچنے کے لیے کون کون سی قرآنی سورتیں، آیاتِ مبارکہ، مسنون دعائیں اور وظائف ضروری ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
قرآن فہمی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ایک احسان ہے۔ یہ سعادت بزورِ بازو حاصل نہیں کی جاسکتی۔ وہ جس پر اپنی عنایت کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے سینے کو کشادہ کردیتا ہے اور قرآن کریم کی برکات سے نواز دیتا ہے۔ زیرنظر کتاب اس یقین میں مزید اضافہ کردیتی ہے۔ یہ خرم مرادؒ کے ۱۹۸۰ء میں برطانیہ میں دورانِ قیام قرآن کریم پر محاضرات میں سے ایک محاضرہ ہے، جسے ان کے تحریر کردہ نوٹس کی مدد سے عبدالرشید صدیقی صاحب نے قیمتی اضافوں سے مدون کیا ہے۔
مقدمے میں عبدالرشید صدیقی صاحب نے اختصار سے وہ اصولِ تفسیر بھی بیان کردیے ہیں جو اس مقالے میں اختیار کیے گئے ہیں، مثلاً: ۱- تعبیر و تشریح کرتے وقت اسلام کے عمومی اُصول اور سنت رسولؐ کی روح، مزاج اور اسلامی قوانین کو سامنے رکھا جائے اور ان کے دائرے میں رہتے ہوئے قرآن کی تعبیر کی جائے۔ ۲- وہ قرآنی آیات جو کسی خاص مضمون سے تعلق رکھتی ہوں انھیں اسی مضمون سے وابستہ رکھا جائے اور ایسا کرتے وقت قرآن کریم میں تذکیر، تلاوت، تزکیہ اور تحکیم کے فرق کو سامنے رکھا جائے۔ ۳-تعبیر میں محض ندرت و جدت کے شوق میں بلاوجہ مفہوم کو کھینچا تانا نہ جائے۔ ۴- کسی بھی لفظ سے معانی کو اس کے متن اور تاریخی حوالے سے الگ نہ کیا جائے۔ ۵-زبان چونکہ ایک اہم ذریعہ ابلاغ ہے اور اس کے معانی میں تبدیلی بھی واقع ہوتی ہے، اس لیے نئے سیاق و سباق میں بھی اصل معانی کو بنیاد بنایا جائے۔ ۶- نئے سیاق و سباق کے تعلق سے غور کرنے سے قبل تاریخی تناظر میں آیت کے اصل مفہوم کو سمجھ لیا جائے۔ ۷- اگر ضرورت کے پیشِ نظر کسی نئی اصطلاح کا استعمال مفید ہو تو یہ یقین کرلیا جائے کہ اصل معانی سے کوئی انحراف واقع نہ ہو۔ ۸-خصوصی احکامات سے عموم اخذ کیا جائے تاکہ تبدیلیِ زمانہ کے باوجود احکام کو نافذ کیا جاسکے۔
ان عمومی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے خرم مراد مرحوم نے سورئہ کہف کے حوالے سے جو مقالہ تحریر کیا، اس کے مصادر کی تخریج کے ساتھ جن مقامات پر اضافے کی ضرورت تھی، برادرم عبدالرشید صدیقی نے انتہائی محنت سے تحقیق کے ساتھ انھیں مدون کیا ہے۔ اس حوالے سے دجّال سے متعلق احادیث کو ضمیمے میں یک جا کردیا گیا ہے، تاکہ اصل مضمون سے توجہ ہٹ کر اس طرف مبذول نہ ہوجائے۔ پہلے باب میں ایک اضافہ ہے۔ ایسے ہی دوسرے باب میں پانچویں حصے سے آٹھویں حصے تک، اور تیسرے اور چوتھے باب بھی اضافے ہیں، لیکن تحریر کو اس طرح پُرو دیا گیا ہے کہ کسی مقام پر بھی کوئی تشنگی یا خلا محسوس نہیں ہوتا۔
سورئہ کہف کی اہمیت احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور جمعہ کے دن اس کا پڑھنا انتہائی اجر کا باعث ہے۔ احادیث میں اس طرف بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ جو اس سورہ کی ابتدائی ۱۰ آیات کو پڑھے گا وہ دجّال کے اثرات سے محفوظ رہے گا۔ ایسے ہی بعض آیات میں اس کی آخری ۱۰ آیات کے بارے میں اور بعض میں محض ۱۰ آیات کے حوالے سے اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس سورہ کی برکات میں دجّال سے محفوظ رکھنے کی خاصیت تو پائی جاتی ہے لیکن اس سے زیادہ دجّال کے آنے سے قبل عام حالات میں اس کی اہمیت غیرمعمولی ہے اور اسی بنا پر خرم مراد مرحوم نے اسے غور کرنے کے لیے منتخب کیا۔ سورہ کے مضامین کا خلاصہ پہلے باب میں بیان کردینے کے ساتھ اس سورہ کا دیگر سورتوں کے ساتھ تعلق اور خصوصاً سورۂ بنی اسرائیل اور اس میں جو مماثلت پائی جاتی ہے اس پر علمی جائزہ پہلے باب کی خصوصیت ہے۔
سورئہ کہف کا آغاز جن کلمات سے ہو رہا ہے اور سورہ بنی اسرائیل کا آغاز جن کلمات سے ہوتا ہے ان میں ایک گہری معنوی مماثلت پائی جاتی ہے، خصوصاً توحید، ہدایتِ ربانی اور رسول کریمؐ اور انبیا کے حوالے سے ان کا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا عبد ہونا قبل اسلام کے ان تمام تصورات کی تردید کردیتا ہے جن میں انبیا یا بعض دینی شخصیات کو اُلوہیت میں شریک بنا لیا جاتا تھا۔ خود ہدایت الٰہی کے حوالے سے اس پہلو کو سمجھایا گیا ہے کہ کتابِ ہدایت کا اصل مصنف اور بھیجنے والا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہے۔
اصحابِ کہف کے واقعے سے آج کے حوالے سے جو پیغام ملتا ہے وہ ماحول کی آلودگی اور ظلم و طاغوت کی کثرت کو دیکھتے ہوئے دل چھوڑ کر کہیں گوشہ نشین ہوجانا نہیں ہے، بلکہ پوری استقامت اور صبر کے ساتھ مالکِ حقیقی کی طرف رجوع کرتے ہوئے کلمۂ حق ادا کرنا ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی ہے کہ کیا واقعی ہمارے یہ اندازے کہ پانی سر سے اُوپر گزر چکا، اب اصلاح کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی، اس لیے زمین کا پیٹ یا کسی غار کے مکین بن جانے میں نجات ہے درست کہے جاسکتے ہیں، یا اللہ کی مدد سے جس کے بارے بڑے صالح افراد یہ پکار اُٹھے تھے کہ متٰی نصراللّٰہ، ہم مایوس ہوکر ظلم و طاغوت کو من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں، اور اصلاح کی قوتیں اپنے آپ کو ذاتی تحفظ کے نظریے کی روشنی میں میدانِ عمل سے نکال کر گوشہ نشینی اختیار کرلیں۔
یہ مکّی سورہ یہ پیغام دیتی ہے کہ مکہ میں ہونے والے وہ تمام مظالم اور آزمایشیں جن سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ رسولؐ گزر رہے تھے، ان تمام آزمایشوں نے نہ انھیں دل برداشتہ کیا نہ وہ تنہائی کی طرف راغب ہوئے بلکہ اس امتحان نے دین کی دعوت دینے اور اس کے لیے اذیت برداشت کرنے کی لذت میں کچھ اضافہ ہی کر دیا۔
اصحابِ کہف کے قصے سے ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کس طرح قوانینِ فطرت کو اپنی مرضی کے مطابق عموم دیتا ہے اور کس طرح بعض حالات میں استثناء کی شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ ۳۰۰ سال تک سونے کے بعد جاگنا ایک ایسا استثنا ہے، جو مالکِ کائنات کی قدرت، قوت اور حاکمیت کی ایک دلیل اور اس بنا پر ایک آیت کی حیثیت رکھتا ہے۔
آگے چل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت خضر علیہ السلام کے واقعے کا تفصیلی تجزیہ ہے جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کے انبیا بھی تعلیمی سفر سے گزرتے رہے ہیں اور بعض اوقات بے صبری کا مظاہرہ بھی کربیٹھتے ہیں۔ ایک عظیم رسول اور قائد کو جس طرح حضرت خضر ؑنے اسرار سے آگاہ کیا اور جس تجسس و تحقیق کے جذبے کا اظہار حضرت موسٰی ؑکے طرزِعمل کے سامنے آتا ہے اس میں اہلِ علم کے لیے بہت سے سبق ہیں۔
پھر ذوالقرنین کے واقعے کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ایک ایسا فرماں روا جس کی مملکت مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلی ہوئی ہو اور اس کی فتوحات کے سامنے کسی کی مزاحمت کامیاب نہ ہوسکے، اس کا طرزِعمل فخروامتیاز کا ہو یا حلم و خاکساری کا، وہ خادم ہو یا بادشاہ بن کر بیٹھ جائے۔ اگر اس کے پاس دولت کی کثرت ہو تو کیا وہ اسے سینت سینت کر رکھے یا اسے اللہ کی راہ میں اللہ کے بندوں کی حاجتیں پوری کرنے میں لگا دے۔
آخری حصے میں ایک بہت اہم علمی اور تجزیاتی بحث اس موضوع پر ہے کہ کیا سائنسی ترقی اور مادیت کے دور میں اس دور کے لحاظ سے زندگی گزرنے کے اصول وضع کیے جائیں یا الہامی ہدایت کی روشنی میں قرآن و سنت کے ازلی اور ابدی اصول عمل میں لائے جائیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور توحید کی روشنی میں معاشرہ، معیشت اور سیاست کی تشکیلِ نو کی جاسکتی ہے اور آج کی دنیا کو جو مادیت، انفرادیت پرستی اور ٹکنالوجی کی برتری کی غلام نظر آتی ہے، اس فکری قید سے نکال کر اسلام کے روشن اور ابدی اصولوں کے ذریعے ایک روشن مستقبل کی طرف لے جایا جاسکتا ہے۔
یہ مختصر کلمات کسی لحاظ سے بھی اس کتاب کا خلاصہ نہیں کہے جاسکتے۔ جس قلبی حرارت کے ساتھ اس تحریر کو لکھا گیا ہے اس کی حدت کو نہ صرف محسوس کرنے بلکہ اسے عمل کی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نظامِ کفروطاغوت کی جگہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایات کو نافذ کرنے کے لیے انسانی وسائل کی تعمیر و تشکیل کی جاسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
زیرتبصرہ کتاب میں علم کی اہمیت، ضرورت اور دینی نقطۂ نظر سے اس کے فروغ کے لیے وسیع پیمانے پر کاوشوں کی ضرورت پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف کو اس حقیقت کا شدت سے احساس ہے کہ مروجہ نظامِ تعلیم مسلمانوں کو غلام بنانے کی منظم کوشش ہے جو پوری کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو جکڑے ہوئے ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس غلام ساز نظامِ تعلیم کواسلامی اور قومی تقاضوں کے مطابق تشکیل نہیں دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم فکری اور عملی انتشار کا شکار ہے۔
کتاب کے آٹھ ابواب میں مصنف نے نظامِ معاشرہ اور تہذیبی تصورات، علم کی ضرورت، جدید تعلیمی فکر کی بنیادوں، اسلامی تصورِ تہذیب، عملِ تعلیم کی نمو، پاکستان میں علم سے بیگانہ معاشرے کی صورتِ حال، اور تعلیم کے مقاصد پر بحث کرتے ہوئے نہایت حکیمانہ انداز میں دنیا کی مختلف تہذیبوں، ثقافتوں، نظام ہاے زندگی، اور افکار و نظریات پر تنقید کر کے، اسلامی نظامِ حیات اور دینی عقائد و افکار کو واضح کیا ہے۔ پوری کتاب میں مختلف مباحث میں یہی جذبہ کارفرما ہے کہ صحیح علم اور صحیح تعلیم و تربیت کا مؤثر نظامِ تعلیم کس طرح تشکیل پاتا ہے اور اس کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں، نیز ان خصوصیات کو کس طرح حاصل کی جاسکتا ہے۔ علمی اسلوبِ بیان نے موضوع کی مناسبت سے بعض مقامات پر بعض مباحث میں اسے فلسفۂ تعلیم کی کتاب بنا دیا ہے، تاہم مصنف کی نفسِ مضمون پر عالمانہ گرفت نے اس میں سلاست و روانی بھی پیدا کی ہے۔ ضرورت ہے کہ تعلیم و تعلم سے شغف رکھنے والے اصحابِ علم کے علاوہ، ایسی کتابیں، اُن پیشہ ورانہ تدریسی اداروں اور ان ارباب اقتدار تک پہنچائی جائیں جو نظامِ تعلیم اور مقاصد تعلیم کا تعیین کرکے تعلیمی منصوبے بناتے اور انھیں ملک بھر میں نافذ کرنے کے ذمے دار ہیں۔ (ظفرحجازی)
کتاب کے سرورق پرضمنی عنوان ہے: ’’مذہبی، ثقافتی محرکات: کل اور آج‘‘۔ بقول مصنف: ’’کتاب کا مقصدِ تحریر صرف یہ ہے کہ مسلمانانِ پاکستان کو بالعموم اور نسلِ نو کو بالخصوص یہ باور کرایا جائے کہ ربِ کریم نے اسلام کے نفاذ کے لیے ہمیں جو تجربہ گاہ پاکستان کی شکل میں عطا کی، اس کی قدروقیمت اور اہمیت کو پہچانیں‘‘۔(ص۱۳)
تحریکِ پاکستان کے تاریخی پس منظر کے تحت تحریکِ مجاہدین ’فرائضی تحریک، شمالی علاقوں میں مُلاپاوِندہ اور فقیرایپی کی جہادی اور انگریز مخالف سرگرمیوں، برطانوی استعمار کی چال بازیوں، انگریزوں کے تعلیمی نظام کے تباہ کن اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی طرح ہندوئوں کی مسلم دشمنی اور ان کے مقابلے میں ملّتِ اسلامیہ کے زعما (علامہ اقبال، قائداعظم اور سیدابولاعلیٰ مودودی) کی کاوشوں کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔
مصنف نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ اس کتاب کے حصہ اوّل (ص ۲۵ تا ۱۵۲) میں شامل بیش تر معلومات پروفیسر سیدمحمدسلیم (م: ۲۷؍اکتوبر ۲۰۰۰ئ) کی کتاب تاریخ نظریہ پاکستان سے اخذ کی گئی ہیں، تاہم مصنف نے دیگر مآخذ سے بھی بخوبی استفادہ کیا ہے اور آخر میں کتابیات کی مفصل فہرست بھی دی ہے۔ دیباچہ نگار ڈاکٹر محمد وسیم اکبر شیخ کے خیال میں: مصنف ایک محب ِ وطن اور دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں اور حصولِ پاکستان کے دوران دی جانے والی جانی و مالی قربانیوں کے عینی شاہد بھی ہیں۔ انھوں نے نہایت محنت اور خلوص سے یہ یاد دلایا ہے کہ علاقائی تعصبات اور علیحدگی پسندی اور قومیت پرستی کے رجحانات جیسے سو سال پہلے خطرناک تھے، آج بھی اسی طرح تشویش ناک اور زہرناک ہیں۔ (ص ۲۱، ۲۲)
کتاب کا موضوع بہت عمدہ ہے۔ مصنف نے محنت بھی کی ہے مگر زبان و بیان کمزور ہے، اشعار میں خاص طور پر غلطیاں نظر آتی ہیں: (صفحات: ۱۱، ۱۷، ۲۵، ۲۶، ۳۶، ۳۸، ۳۹، ۴۵، ۶۲، ۶۳، ۱۳۷، ۱۵۲، ۲۶۲، ۳۳۱ اور انتساب کا صفحہ وغیرہ)۔ کتاب کی تدوین بھی ناقص ہے۔ ص ۱۰۱ کے حاشیے کی باتیں،ص ۲۲۵ پر مکرّر لکھ دی گئی ہیں وغیرہ (تھوڑی سی مشاورت یا نظرثانی سے یہ خامیاں دُور ہوسکتی تھیں) مگر بعض کمزور پہلوئوں کے باوجود مصنف کی دردمندی، راست فکری اور پُرخلوص جذبات میں کلام نہیں۔
مصنف نے ایک حاشیے میں نام لیے بغیر علامہ اقبال کے ’بعض مداحوں اور محققوں‘ سے شکوہ کیا ہے کہ انھوں نے علامہ اقبال اور سید مودودی کے باہمی روابط سے صرفِ نظر کرکے تاریخی حقائق سے گریز کیا ہے۔ فاضل مصنف کا یہ شکوہ اس لیے درست نہیں ہے کہ بعض نام نہاد سیکولر دانش وروں، قادیانیوں اور پرویزی مصنفین کے علاوہ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ علامہ اقبال نے مولانا مودودی کو دکن سے ہجرت کر کے پنجاب آنے کی دعوت دی تھی اور مولانا بھی علامہ سے دو تین ملاقاتیں کر کے مطمئن ہوکر مارچ ۱۹۳۸ء میں پٹھان کوٹ پہنچے تھے، مگر اس سے پہلے کہ مولانا لاہور آکر علامہ سے تجدیدِ ملاقات کرتے اور مستقبل کے علمی منصوبوں پر کچھ بات کرتے ۲۱؍اپریل کو باری تعالیٰ نے علامہ کو اپنے پاس بلالیا۔ اقبال اور مودودی کے روابط پر اقبال کے آخری زمانے کے بعض ہم نشین رفقا اور خود ان کے فرزندِ ارجمند ڈاکٹر جاویداقبال کی شہادتیں موجود ہیں۔ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
معیشت و تجارت کا شعبہ انسان کی زندگی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ مادیت پر مبنی سوچ اور فکر نے پرانی قارونی فکر کی بنیاد پر اس معیشت و تجارت کو یوں اہمیت دی ہے کہ انسان کو معاشی حیوان کے درجہ پر فائز کر دیا ہے۔ حالانکہ انسان کی تخلیق خلیفۃ اللّٰہ فی الارض یعنی زمین پر اللہ کے نائب کی حیثیت سے کی گئی تھی اور معیشت و تجارت کو حسب ضرورت اختیار کرنے اور فروغ دینے کی اجازت دی تھی۔ اسلامی تعلیمات میں جہاں تمام شعبہ ہاے زندگی کے متعلق اصول و ضوابط متعین کیے گئے وہاں معاشی و تجارتی معاملات کے بارے میں بھی قوانین اور ضوابط عطا کیے گئے۔
زیرتبصرہ کتاب میں معیشت کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں، بیع، اس کی اقسام، بیع و سود کا تقابل اور خرید و فروخت کے اسلامی اصولوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح جو اشیا فروخت کر دی جائیں ان سے متعلق کیا احکام ہیں؟ اشیا کی قیمتوں کے تعین، نقد و اُدھار قیمتوں کے حوالے سے اشکالات کا جواب دیا گیا ہے۔ کاروباری معاملات میں فریقین کو خیار (option) کا تصور اسلام نے دیا۔ خیار کی مختلف صورتیں اور خیارات کی تنسیخ جیسے مسائل پر بحث کی گئی ہے۔
اسلامی بنکاری میں اجارے کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور اس کی عملی طور پر موجود شکلیں کیا اسلام کے اصولوں کے مطابق ہیں؟ سکوک کا کیا تصور ہے اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اسلام میں زر کیا تصور ہے اور کاغذی زر (کرنسی نوٹ) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کرنسی نوٹ پر زکوٰۃ کے کیا احکام ہیں؟ قرضوں کی اشاریہ بندی کی کیا شرعی حیثیت ہے؟___ یہ وہ چند عنوانات ہیں جن پر فاضل مصنف نے قرآن و سنت کی روشنی اور فقہاے کرام کی آرا کو پیش نظر رکھ کر اپنی راے پیش کی ہے۔ علماے کرام، مدارس کے طلبہ، اسلامی معاشیات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات اور معاشی، تجارتی اداروں میں کام کرنے والے افراد کے لیے یہ کتاب ایک گائیڈ کا کام دے سکتی ہے۔ (میاں محمد اکرم)
قرآنِ حکیم شریعت ِ اسلامیہ کا مصدر اوّل ہونے کے اعتبار سے اُمت مسلمہ کے لیے ایک اٹل قانون ہے۔ اس الٰہی قانون کی حُرمت کو دانستہ یا نادانستہ توڑنا اُمت کے لیے باعث ِ ہلاکت ہے اور اس کو حرزِجاں بنالینا عروج و نجات کا مژدئہ جاں فزا۔ علامہ یوسف القرضاوی کی عربی تالیف کیف نتعامل مع القرآن الکریم (ہم قرآن پر عمل کیسے کریں؟) اسی حقیقت کا بیان ہے۔ انھوں نے قرآن حکیم کی عظمت و حفاظت، جمع و تدوین، اس کی تلاوت و تعلیم کے آداب و فضیلت، قرآن حکیم کے اعجاز و تفوق سے اپنی بات کو شروع کر کے عقیدہ و عمل کے بیان کے ساتھ ساتھ حقوق و فرائض اور معاملاتِ انسانی کے لیے قرآنی ہدایت کو پیش کیا ہے۔ تلاوتِ قرآن مجید کے انسانی زندگی پر اثرات کو خصوصاً بیان کیا گیا ہے۔ انسانی زندگی کے دستور و منشور کے طور پر قرآنِ مجید کی فرد اور معاشرے کے لیے ہدایات بھی بیان کی گئی ہیں۔ انفرادی و اجتماعی معاملات کے ساتھ حکومت و سیاست اور دعوت و ارشاد کے نکات بھی زیربحث آئے ہیں۔
پروفیسر خورشیداحمد صاحب ’پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں: یہ اُردوخواں طبقے کے لیے ایک بڑا قیمتی علمی تحفہ ہی نہیں زندگی کو قرآن کے سایے تلے گزارنے کے لیے نسخۂ عمل بھی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے قرآن کے پیغام کو بڑے مؤثر انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ پوری زندگی کا نقشۂ کار قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ (ص ۱۸)
ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب نے اس کتاب کو اپنی تحقیق و تعلیق اور تلخیص و تجزیہ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کتاب بہت مفید اور اہم ہے لیکن یہ کمی رہ گئی ہے کہ ۲۷۸ صفحات کی کتاب میں ابواب بندی واضح نہیں جس سے قاری کو مطالعے کے دوران دقت پیش آتی ہے۔اسی طرح مصنف کے متن اور مترجمہ کی تحقیق و تعلیق کے درمیان بھی کوئی امتیاز نہیں ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)
امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ-۲۵۶ھ) نے لاکھوں احادیث میں سے چند ہزار احادیث کو اپنی قائم کردہ شرائط پر پرکھ کر فقہی ترتیب کے مطابق یک جا کیا ہے۔ بخاری کی الجامع الصحیح میں بار بار آنے والی احادیث کے بغیر احادیث کی تعداد تقریباً ۴ہزار ہے۔ امام بخاری کا یہ تکرارِ حدیث ایک حدیث سے متعدد مسائل اخذ کرنے کی بنا پر ہے۔ عنواناتِ ابواب سے امام بخاری کی فقہی بصیرت اور وسیع نظری کا اظہار ہوتا ہے۔
زیرنظر کتاب میں بخاری کی مکرر احادیث کو چھوڑ کر احادیث کا مفہومی ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ترتیب اصل کتاب کے مطابق ہے، البتہ احادیث کی اسناد اور ابواب کے عنوانات حذف کردیے گئے ہیں۔ طویل اور مفصل احادیث کے مضامین کو مختصر کیا گیا ہے۔ مؤلف نے اتنی بڑی فنی کتاب کے مفہوم کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے بڑی محنت کی ہے اور اپنی حد تک کتاب کو عام فہم بنانے کی پوری سعی کی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بخاری کی اصل اہمیت اس کی ’صحت‘ کے ساتھ ساتھ اس کے اخذِ مسائل کے پہلو سے بھی ہے، لہٰذا امام کے اخذِ مسائل کو نظرانداز کرکے اس سے بہتر عنوانات قائم کرنا کارے دارد ہے۔ حذفِ تکرار کی بنا پر بعض ضروری باتیں بھی شامل ہونے سے رہ گئی ہیں۔ عنوانات کی تبدیلی نے بھی بہت سے ابہامات پیدا کردیے ہیں۔ عنواناتِ ابواب کی تبدیلی سے بعض احادیث سے اخذ کردہ امام کے بہت اہم مسائل نظرانداز ہوکر رہ گئے ہیں۔ باریک خط اور اغلاط کی کثرت سے بھی کتاب کی ساکھ متاثر دکھائی دیتی ہے۔ بخاری پر ہونے والا کوئی بھی کام امام بخاری کے ذاتی حزم و احتیاط کے پیش نظر پوری دقت نظر سے انجام دیا جانا چاہیے۔ (ا- ر)
احیاے اسلام کے لیے تحریکیں بھی اُٹھیں اور انفرادی مساعی بھی کی گئیں۔ بیسویں صدی میں تو یہ موضوع یونی ورسٹیوں کی اعلیٰ تعلیم کا نصاب بن گیا۔ بہت سے علما و اساتذہ نے اس پر قلم اٹھایا۔ ان میں سے ایک کاوش بغداد یونی ورسٹی کے شعبۂ اسلامیت کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کی اصول الدعوۃ (اصولِ دعوت) کے نام سے سامنے آئی۔ مصنف نے دعوتِ اسلام پر اظہارِ خیال سے پہلے اسلام کا ایک جامع تعارف پیش کر کے دعوت کے جواز بلکہ فرضیت کو ثابت کیا ہے۔ کتاب کا نصف سے زیادہ حصہ اسلام کے معنی و مفہوم، مدعا و مقصود اور طریق و نظام کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ اسلام کی تعریف، خصوصیات، اور زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے اسلام کی تعلیمات (اخلاق، معاشرت، اِفتا و احتساب، حکومت، معیشت، جہاد اور عدالت) پہلے باب کا موضوع ہے، جو قریباً ۴۸۰ صفحات پر محیط ہے۔ اس کے بعد دعوت کا موضوع چار ابواب قریباً ۳۰۰صفحات میں سمیٹا گیا ہے۔ داعی کا مفہوم، صفات، معاونات، اخلاق، دعوت کے مخاطبوں کی اقسام اور ان کی نفسیات پر دوسرے اور تیسرے باب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ چوتھے اور پانچویں باب میں دعوت کے اسالیب، طریقوں اور وسائل کا بیان ہے۔ ان ابواب میں مرض کی تشخیص و علاج اور مخاطبینِ دعوت کے شبہات اور ان کے ردّ اور ازالے کا طریقِ کار بتایا گیا ہے۔
کتاب کی جامعیت، افادیت اور اہمیت کا اندازہ پہلے باب کے مطالعے ہی سے ہوجاتا ہے کہ مصنف نے اختصار مگر ٹھوس دلائل اور ضروری تفاصیل کے ساتھ اسلام کا تعارف کرایا ہے۔ اختصار کے باوجود ہرپہلو اور موضوع کی جزئیات تک کا احاطہ مصنف کی وسیع نظر اور موضوع پر دسترس کا اظہار ہے۔ کارکنان کے ساتھ ساتھ مربی حضرات بالخصوص قائدین تحریک کے لیے اس کتاب کا مطالعہ غوروفکر کے کئی گوشے وا کرے گا۔ مترجم نے بڑی محنت سے مباحث کو آسان بناکر پیش کیا ہے۔(ا- ر)
اُردو ادب میں خاکہ نگاری ایک مستقل صنفِ نثر کی حیثیت رکھتی ہے مگر بہت سی دوسری اصناف (ناول، ڈراما، آپ بیتی، نظم وغیرہ) کی طرح خاکہ نگاری کی حتمی تعریف بھی متعین نہیں ہے، تاہم جو مضمون کسی معروف یا غیر معروف شخصیت پر لکھا جائے، اور وہ شخصیت خواہ کسی بھی شعبۂ حیات سے متعلق ہو اور مضمون طویل ہو یا مختصر___ وہ خاکہ کہلاتا ہے۔
زیرنظر کتاب کے ۴۰ خاکوں میں سے بعض (اخترشیرانی: ۱۲ص۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی: ۱۷ص)، تو مائل بہ طوالت نظر آتے ہیں مگر بحیثیت مجموعی مصنف اختصارپسند ہیں (حسین احمد مدنی: ۲/۱ ۲ص۔ مولانا احمد سعید دہلوی: ۴/۱ ۲ص۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ۴/۱ ۲ص) ۔تین تین یا چارچار صفحات میں پیش کردہ جھلکیاں بھی قاری پر بعض شخصیات کا دیرپا نقش مرتسم کرتی ہیں۔ اس میں حکیم محمود احمد برکاتی کی سادہ اور بامحاورہ زبان اور دل کش اسلوب کو دخل ہے۔ کسی شخص سے ان کا جتنا واسطہ رہا، یا کسی شخصیت میں انھیں کوئی خاص بات نظر آئی، یا انھوں نے کسی کو جتنا کچھ دیکھا___ ان کا بیان اسی کے بقدر اکتفا کرتا ہے۔ برکاتی صاحب کے ان خاکوں کو دل چسپ واقعات، طرزِ بیان کی سادگی، جامعیت اور اثرانگیزی کے اعتبار سے ’گُہرپارے‘ کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ یادوں کی اس بازیافت میں (سرورق پر عنوانِ کتاب کے ساتھ ’بھولتی یادیں‘ کی وضاحت درج ہے۔) چار شہروں (ٹونک، اجمیر، دہلی، کراچی) کی معروف اور غیرمعروف معاصر شخصیات سے ملاقاتوں اور باتوں کا ذکر ملتا ہے۔
برکاتی صاحب کی منصف مزاجی نے افراد و شخصیات کی شخصی خوبیوں کے ساتھ، اُن کی بعض خامیوں کا بھی مختصراً ذکر کر دیا ہے مگر ایسے مہذب لب و لہجے میں کہ کسی خامی کے ذکر سے متعلقہ شخصیت مجروح نہیں ہوتی۔ اس کتاب کے مرتب ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی کے بقول: یہ چند ’’یادگار زمانہ لوگوں کی قلمی تصویریں ہیں‘‘ (ص ۵)۔ مصنف نے ان قلمی تصویروں میں بعض باکمال لوگوں کو گوشۂ گم نامی سے نکال کر (صفحۂ قرطاس پر ہی سہی) زندگی بخش دی ہے۔
مولانا حکیم محمود احمد برکاتی، ایک جیّد عالمِ دین، اور بلندپایہ محقق ہیں مگر شگفتہ بیانی ان کے دل کش اسلوب کا نمایاں وصف ہے جو قاری کو مجبورکرتی ہے کہ ان خاکوں کو مسلسل پڑھتا جائے۔
محمود احمد عباسی کا خاکہ عبرت انگیز ہے۔ خلاصہ یہ کہ عباسی عربی جانتے تھے نہ فارسی۔ انھیں کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ وہ دل سے یزید دوست اور شیعہ دشمن نہیں تھے۔ دانستہ یا نادانستہ کسی اسلام دشمن تحریک یا طاقت کا آلۂ کار تھے اور افتراق بین المسلمین کی مہم میں سرگرم تھے۔ اسی طرح یہ کہ نیاز فتح پوری کی دین دشمنی کی مہم میں، ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کیا کرتے تھے (ص۱۶۳)۔ برکاتی صاحب، مولانا حسین احمد مدنی کے کانگریسی نقطۂ نظر کے مخالف مگر ان کے حُسنِ اخلاق کے مدّاح ہیں۔ کہتے ہیں مولانا مدنی نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی لیکن جب پاکستان بن گیا تو پھر اس کی ترقی کے لیے پُرخلوص طور پر خواہش مند رہے (ص۹۳)۔ بحیثیت مجموعی کتاب بہت دل چسپ، نہایت معلومات افزا اور سبق آموز ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اسلامی نظامت تعلیم، پاکستان میں نظامِ تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی داعی ہے اور زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب پہلی جماعت سے انٹرمیڈیٹ سطح تک کے طلبہ کے لیے کلامِ اقبال سے ایک انتخاب ہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ ۱۲ سال کی عمر تک کے طلبہ، دوسرا حصہ ایلیمنٹری جماعتوں کے طلبہ اور تیسرا حصہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطح کے طلبہ کے لیے ہے۔ مرتبین نے کلامِ اقبال کے انتخاب میں طلبہ کی ذہنی سطح کا خیال رکھا ہے۔ ہر نظم کے متن کے ساتھ اس کا مختصر تعارف اور مشکل الفاظ کے معانی بھی دیے گئے ہیں جس سے کلامِ اقبال کی تفہیم کسی قدر آسان ہوگئی ہے۔ کلامِ اقبال اساتذہ کے لیے ایک معاون کتاب ہے۔ ابھی مزید مشکل الفاظ و معانی شامل کرنے اور شعروں کی تشریح کرکے، تفہیم کو سہل بنانا ضروری ہے۔
ابتدائی جماعتوں اور انٹر کے طلبہ کی ذہنی سطح میں خاصا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس لیے مناسب ہوتا کہ یہ انتخاب الگ الگ شائع کیا جاتا۔ الفاظ و معانی کے ساتھ تراکیب کی توضیحات اور بعض تلمیحات کا پس منظر بھی واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مضامین کے اختتام پر حیاتِ اقبال کے اہم اور دل چسپ واقعات کے اقتباسات دینے کی گنجایش تھی جس سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
دعوتِ دین، درسِ قرآن اور ایک مربی کی حیثیت سے تحریکی حلقوں میں ڈاکٹر فرحت علی برنی (م: اگست ۲۰۰۹ئ) ایک معروف نام ہے۔ سعودی عرب، خلیجی ممالک، یورپ اور امریکا میں آپ کے دروس قرآن سے بذریعہ کیسٹ ہزاروں لوگوں نے استفادہ کیا ہے۔ مرحوم انڈسٹریل انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی تھے۔ کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی، جدہ سے وابستہ رہے۔ اور ۲۰۰۳ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد امریکا چلے گئے مگر زندگی کے آخری ایام اسلام آباد میں گزارے۔ آپ نے تمام عمر قرآن کے پیغام کو عام کرنے اور احیاے اسلام کی جدوجہد میں گزاری۔یوں وہ ان سعید روحوں میں سے تھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد سچ کر دکھایا۔
ڈاکٹر فرحت علی برنی بہترین مقرر تھے اور مؤثر درسِ قرآن دیتے تھے۔ زیرنظر کتاب سورئہ حم السجدہ کی سات آیات (۳۰-۳۶) پر مبنی ایک درسِ قرآن ہے۔ آیاتِ قرآنی کا پس منظر، اہم نکات، قرآن و حدیث سے استدلال کے ساتھ آیات کا فہم واقعاتی انداز میں پیش کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ پر آیات کا انطباق اور درپیش مسائل پر رہنمائی دی گئی ہے، نیز تحریکی تقاضوں کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ اسلوبِ بیان عمدہ ہے اور قدیم و جدید علوم کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ استقامت کی مثالوں میں امام مالکؒ اور امام حنبلؒ کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒ اور سید قطب شہیدؒ کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ مرتب نے ڈاکٹر صاحب کے علمی ورثے کو افادۂ عام کے لیے وضاحتی حاشیوں اور حوالوں کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا ہے اور دیگر کیسٹوں کو کتابی صورت میں لانے کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریکی لٹریچر میں یہ ایک مفید اضافہ ہے۔ (امجد عباسی)
کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے عام طور پر دو طرح کے مجلات شائع ہورہے ہیں۔ کالجوں کے رسالوں میں بالعموم طلبہ اور طالبات کی نگارشات (افسانے، ڈرامے، مزاحیہ مضمون، نظمیں، غزلیں، ادبی سرگرمیاں، کھیلوں وغیرہ کی رودادیں) شائع ہوتی ہیں۔ یونی ورسٹی کے مجلات کا مزاج تحقیقی اور تنقیدی ہوتا ہے اور انھیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معیار پر شائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دارارقم ماڈل کالج راولاکوٹ آزاد کشمیر کے ضخیم مجلے ارقم میں متذکرہ بالا دونوں نوعیتوں کی تحریروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور ڈاکٹر ظفرحسین ظفر کے مضامین ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معیار پر پورے اُترتے ہیں۔ البتہ مجموعی طور پر اور مقداری اعتبار سے بھی رسالے میں طلبہ و طالبات کی نگارشات کا پلّہ بھاری ہے۔ طالب علمانہ معیار کے لحاظ سے یہ تحریریں اچھی ہیں اور لکھنے والوں کے روشن مستقبل کی غماز ہیں۔ انگریزی رسالے میں طلبہ و طالبات کی خاصی بڑی تعداد کی انگریزی نظمیں، انگریزی کے روزافزوں اثرات (تسلط) کا ایک نتیجہ ہے۔ ایک گوشہ کلامِ اقبال فارسی کے مترجم عبدالعلیم صدیقی مرحوم کے لیے اور ایک گوشہ کشمیری مزاح نگار کبیرخان کے لیے مختص ہے۔ کتابوں پر تبصرے بھی شامل ہیں اور کالج کے اساتذہ اور رسالے کے مدیران کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں کی تصویریں بھی شامل ہیں۔ (قاسم محمود احمد)