مؤلف جو بیرسٹر ہیں، اسلام، قانون اور حقوقِ انسانی پر کئی کتب کے مصنف ہیں، کتاب کی وجۂ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پیشِ نظر کتاب میں اسلامی تہذیب کے بنیادی اصولوں اور آداب کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسوئہ رسولؐ کے زندہ جاوید آثار کی رہنمائی میں حُسنِ اخلاق سکھلانے والا یہ مجموعہ مرتب کیا گیا ہے جس میں انسانی زندگی کے بہت سے پہلوئوں سے متعلق اسلامی آداب پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘‘۔ (ابتدائیہ)
کتاب میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات اور ابواب کے تحت احادیث کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ انداز ایسا ہے کہ دورانِ مطالعہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ صحبت ِ رسولؐ میں موجود ہو اور براہِ راست آپؐ کی ہدایات سے فیض یاب ہو رہا ہو۔ کچھ عنوانات: ’خندہ پیشانی حُسنِ اخلاق ہے‘، ’تم آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو‘، ’اللہ سے عزت لینے کا آسان طریقہ‘، ’مزاح سنت ہے‘، ’غیبت بدبودار ہے‘، ’بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے‘، ’ایثار شرف کا ثبوت ہے‘۔ آخری باب: ’دعوت انبیا ؑ کا راستہ ہے‘ اس پہلو کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اخلاقی تعلیمات پر نہ صرف خود عمل کرنا ہے بلکہ اسلامی تہذیب و معاشرت کے فروغ کے لیے دوسروں کو دعوت بھی دینا ہے۔ ہرنبی ؑ کی طرح رسولِ کریمؐ کے اسوئہ کا یہ نمایاں ترین پہلو ہے۔
کتاب کی ایک اور خصوصیت اختصار و جامعیت ہے۔ وقت کی کمیابی سے دوچار افراد بھی مختصر وقت میں اخلاقی تعلیمات اور عملی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ طباعت کا معیار ’بہترین‘ ہے۔(امجدعباسی)
انسانی تہذیب و ثقافت میں اظہار و ابلاغ کے متعدد ذرائع رُونما ہوئے۔ پریس کی ایجاد نے اخبارو اطلاعات کی ترسیل کا دائرہ بہت وسیع کردیا۔ یورپ کی استعماری طاقتوں نے اپنے تجارتی اور توسیع پسندانہ عزائم کے تحت جب مسلم ممالک پر قبضہ کیا تو پریس کی طاقت کا استعمال بھی ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں صحافت کے ابتدائی نقوش اُبھرے۔ ۱۷۸۰ء میں ملّی گزٹ سے متحدہ ہندستان میں صحافت کا آغاز ہوا۔ ۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا جس سے اُردوزبان کو تعلیم یافتہ طبقے میں اعتبار حاصل ہوا۔ ۱۸۳۳ء میں کلکتہ سے آئینہ سکندری کے نام سے فارسی زبان میں اخبار شائع ہوا۔ عیسائی اپنے اخباروں کے ذریعے اسلام پر شدید تنقید کررہے تھے۔ اسلامی صحافت کا وجود معاصر حالات کے ردّعمل کے طور پر ہوا۔ ۱۸۳۳ء سے ۱۸۵۷ء تک مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے اخباروں کی تعداد ۴۴ تھی۔
زیرنظر کتاب میں برصغیر میں اسلامی صحافت کے آغاز اور ارتقا پر تحقیقی و تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔ ۱۸۵۷ء میں اخبار سراج الاخبار وغیرہ میں مسلمانوں کے کارنامے منظرعام پر لائے جاتے تھے۔جنگ کے بعد انگریز حکومت نے ایک مدت کے لیے مسلمانوں کے تمام اخبار بند کردیے۔ دہلی اُردو اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو توپ سے اُڑا دیا گیا۔ انگریزی اخبار مسلمانوں کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے۔ سرسیداحمدخاں نے جریدہ سائنٹفک سوسائٹی اور تہذیب الاخلاق کے ذریعے مسلمانوں کو جدید تعلیم و تہذیب کی طرف راغب کیا۔
۱۸۵۸ء سے لے کر ۱۹۰۰ء تک مختلف زبانوں میں متحدہ ہندستان میں ہفت روزوں، ماہناموں، دس روزوں، پندرہ روزوں اور روزناموں کی تعداد ۲۵۱تھی۔ ان اخبارات کے ناموں کے علاوہ ان کے مدیروں کے نام بھی لکھے گئے۔ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۴۷ء تک کے اخبارات کو اُردو صحافت کا سنہری دور کہا گیا ہے۔ انگریزی سامراج کے خلاف زوردار آواز حسرت موہانی نے ۱۹۰۳ء میں رسالہ اُردوے معلٰی میں اُٹھائی۔ محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خان کے اخبارات نے مسلمانوں کی دینی، معاشرتی اور سیاسی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ زیرنظر کتاب میں فاضل محقق نے ان اخبارات کے مقاصد، سیاسی وابستگی، مضامین کے عنوان اور مضمون نگاروں کے نام بھی لکھے ہیں۔ مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان، محمدعلی جوہر، ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی صحافتی زندگی، ان کے اخبار و جرائد کی خصوصیات، سیاسی وابستگی اور ان کے علمی و ادبی کمالات کے علاوہ صحافت کی تاریخ میں ان کے مرتبہ و مقام کا تفصیلاً جائزہ لیا گیا ہے۔ مجلہ معارف ،ترجمان القرآن، اسلامک کلچر، الفرقان اور مجلہ بُرہان پر بھی جامع تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ پاک و ہند میں عربی صحافت کا بھی فاضل محقق نے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف نے ریاض یونی ورسٹی سے ایم اے کے لیے یہ مقالہ عربی زبان میں تحریر کیا تھا جسے مولانا احسن علی خاں ندوی نے اُردو قالب میں ڈھالا ہے۔بعض اندرجات توجہ طلب ہیں: سرسیّد احمد کا سنہ وفات ۱۸۸۹ء نہیں (ص ۴۶) ۱۸۹۸ء صحیح ہے۔ ابوالکلام آزاد نے الہلال دوبارہ ۱۹۲۷ء میں نکالا، اس وقت دوسری جنگ عظیم نہیں بلکہ پہلی جنگ ِ عظیم کی وجہ سے ہندستان پیچیدہ حالات سے گزر رہا تھا(ص ۱۶۲)۔ البلاغ، ۱۹۱۴ء میں نہیں بلکہ ۱۲نومبر ۱۹۱۵ء کو منصہ شہود پر آیا (ص۱۶۲)۔ان کے علاوہ بھی مزید چند مقامات پر تصحیحات کی ضرورت ہے۔(ظفرحجازی)
شاہراہِ وقت پر ترقی اور کامیابی کا سفر تبھی طے ہوسکتا ہے جب انسان متوازن زندگی گزارے۔ محمدبشیر جمعہ کی ترتیب دی ہوئی تازہ کتاب ترقی اور کامیابی بذریعہ تنظیم وقت انسانی زندگی کو مؤثر ، منظم، مستعد اور مربوط بنانے کے عمل میں مشوروں پر مشتمل عمدہ رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ کتاب دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترتیب کار نے کتنی محنت، دقّت نظر اور عرق ریزی کے ساتھ یہ لوازمہ فراہم کیا ہے۔ قرآن و سنت، تاریخی واقعات و شخصیات اور جدید تحقیق کی روشنی میں کامیابی کے گُر سامنے لائے گئے ہیں۔ کتاب میں درج بنیادی ساری باتیںکتابی نہیں عملی بھی ہیں، جن کو کام میں لاکر کوئی چاہے تو زندگی کے میدان میں کامیابی سمیٹ سکتا ہے اور آگے بڑھ سکتا ہے۔
۱۵ ابواب پر مشتمل یہ لوازمہ کامیابی کے مفہوم، وقت کی قدروقیمت، فوائد، اقسام اور استعمال بارے تفصیلی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وقت بہتر انداز میں کیسے استعمال کیا جائے، اور اس کے ضیاع کو کیسے روکا جائے، اس کے اہم اور کلیدی موضوعات ہیں۔ زندگی کے نصب العین کا تعین، تبدیلی کیوں اور کیسے؟ آگے بڑھنے کا عمل، اخلاقِ فاضلہ کوکیسے پروان چڑھایا جائے؟ بُری عادات اور رویّے کیسے ترک کیے جائیں؟ صلاحیتوں کی آبیاری کیسے ہو؟ ترجیحات کا تعین، منصوبہ سازی، کارکردگی میں بہتری اور سستی اور کاہلی کا مقابلہ کیسے ہو؟ گفتگو، تقریر و تحریر اور مطالعہ کیسے کیا جائے کہ یاد رہے۔ یہ اور اس طرح کے عملی مشوروں پر مشتمل یہ کتاب ایک دل چسپ اور مفید کتاب ہے۔ کتاب میں استعمال کی گئی بعض اصطلاحات اُردو خواں طبقے کے لیے نئی ہوسکتی ہیں اور مشورے اجنبی، لیکن ان پر عمل کرنے والا محروم نہیں رہے گا۔ آخر میں جن کتب ، تراجم اور مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے، ان کی فہرست بھی فراہم کردی گئی ہے۔ تمام شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات ان مفید مشوروں سے فیض یاب ہوسکتے ہیں لیکن وہ لوگ جنھوں نے ابھی زندگی کا سفر طے کرنا اور زندگی کے میدان میں کارہاے نمایاں سرانجام دینے ہیں، یہ کتاب ان کے لیے رہنمائی کا عمدہ ذریعہ ہے۔ وہ ایک کامیاب اور متوازن زندگی کے لیے مکمل لائحہ عمل اور پلان ترتیب دے سکتے ہیں۔ بڑے بھی چاہیں تو اس سے نفع پاسکتے ہیں۔
اتنے اہم اور قیمتی مشوروں اور رہنمائی پر مبنی یہ لوازمہ خوب صورت اور معیاری طریقے پر پیش کیا گیا ہے اور قیمت بھی زیادہ نہیں۔(عمران ظہور غازی)
مصنف انجینیرہیں اور مطالعے کا ذوق اور اسلام کا درد رکھتے ہیں۔ا نھوں نے کائنات کے حوالے سے قرآن حکیم کی جتنی آیات اور احادیث مل سکیں ان کو ان ۱۵ مختلف عنوانات کے تحت نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ ان کی تشریح بھی لکھی ہے۔ سائنسی تشریحات اور قرآن و حدیث کی تشریحات کا موازنہ بھی کیا ہے۔ کتاب میں جابجا زمین اور آسمان کے نقشے، اللہ تعالیٰ کے عرش کے مختلف حالتوں کے نقشے ،اور زمین ، آسمان اور سیاروں کے ایک دوسرے سے فاصلے کے جدید ریاضی کے مطابق حسابیات بیان کی گئی ہیں۔ غرض کہ کتاب کی تصنیف بڑی عرق ریزی سے کی گئی ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ یہ سب قرآن اور حدیث کے تصورات کے حدود میں رہیں۔ اس حوالے سے پروفیسر مفتی منیب الرحمن نے بڑی صائب راے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے دی ہے: یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ فہم قرآنی کی ایک علمی کاوش اور بشری سعی ہے۔ ضروری نہیں کہ قطعی اور حتمی ہو، حقیقی اور قطعی علم صرف اللہ کے پاس ہے ، کیونکہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۷)
سائنسی اُمور پر اُردو میں لکھنا جب تک عبور حاصل نہ ہو بیان اور جملوں میں بے ربطی پیدا کردیتا ہے۔ بعض آیات کے ترجمے بھی قابلِ غور ہیں۔ مصنف کی یہ پہلی کوشش ہے توقع ہے کہ آیندہ طباعت میں اس طرف توجہ کی جائے گی۔ (شہزادالحسن چشتی)
انسانوں میں اختلافِ فہم موجود ہے۔ صحابہ کرامؓ میں بھی تھا اور اس کا مظاہرہ متعدد مواقع پر ہوا۔ اختلافِ فہم ، لفظی یا معنوی لحاظ سے تفسیرقرآن میں بھی ہوا۔ متعدد انتظامی اُمور میں بھی اختلافِ فہم رُونما ہوا۔ مصنف کے خیال میں یہ اختلافاتِ صحابہؓ فکرِ انسانی کی آزادی کے حق کو تسلیم کر کے معاشرے میں بہتری کی صورت پیدا کرنے کے مترادف تھے۔ اس اختلاف کی اجازت فطرتِ الٰہی نے دی تھی۔ نیز اس کی سہولت خود حضور اکرمؐ نے بھی عطا کی تھی۔ (ص۶)
حضور اکرمؐ کی راے سے صحابہ کرامؓ کی مختلف راے متعدد مواقع پر رُونما ہوئی۔ غزوئہ بدر سے پہلے مکہ کے قریشی لشکر سے مقابلہ کرنے کے معاملے میں بعض صحابہؓ تذبذب میں تھے اور جنگ کے خلاف تھے۔ میدانِ بدر میں اسلامی لشکر کے پڑائو کے لیے جگہ کے انتخاب میں اختلاف فہم کی بناپر فنِ جنگ کے ماہر حباب بن منذر کی راے قبول کرلی گئی۔ غزوئہ اُحد میں دَرّے میں مقررکیے گئے تیرانداز دستے کے افراد میں اختلافِ فہم ہوا جس کے نتیجے میں ۱۰؍ تیرانداز دَرّے میں موجود رہے۔ باقی لوگ فتح حاصل ہوجانے کا گمان کرتے ہوئے مالِ غنیمت حاصل کرنے کی خاطر اپنی جگہ چھوڑ گئے۔ خالد بن ولید نے اسی دَرّے سے حملہ کر کے مسلمانوں کی فتح کو بُری طرح متاثر کیا۔(ص۱۷)
صحابہ کرامؓ کا آپس میں بھی اختلافِ فہم کا مظاہرہ ہوا۔حضرت خالدؓ بن ولید نے قبیلہ بنوجذیمہ کے بعض افراد کو قتل کردیا تھا ، ان میں مسلمان بھی تھے۔ مقتول مسلمانوں کے عزیزوں نے حضوراکرمؐ سے شکایت کی تو آپؐ نے بیت المال سے مقتولوں کی دیت ادا کی۔
حضور اکرمؐ کو اللہ تعالیٰ نے’شارع‘ کا درجہ عطا فرمایا ہے۔ آپؐ نے جن معاملات میں صحابہ کرامؓ، ازواجِ مطہراتؓ اور دیگر افراد میں رفع اختلاف کے لحاظ سے جو راے دی، صحابہ کرامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ نے اسے دل و جان سے قبول کرلیا۔ یہ لوگ اپنی راے سے دست بردار ہوگئے۔ یوں ہمیں اسوۂ نبویؐ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنے معاملات میں اختلافی صورت پیدا ہوجانے میں اسوئہ نبویؐ کو سامنے رکھتے ہوئے اختلاف ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
کتاب کے مبحث اول میں رسولِ اکرم سے صحابہ کرامؓ کے اختلافات میں مالی اُمور، معاشرتی معاملات، انتظامی معاملات اور فقہی اختلافات کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ازواجِ مطہرات کے حوالے سے رسول اکرمؐ سے ان سے اختلافِ فہم کی مثالیں دی ہیں اور باہمی اختلافات کے تذکرے میں صلح صفائی اور اختلاف رفع کرنے کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔مبحث دوم میں عہدنبویؐ میں صحابہ کے باہمی اختلافات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی، ازدواجی، معاشی، اقتصادی، سیاسی اور فوجی معاملات میں اختلافات کی تحقیق کی گئی ہے۔ ان تمام اختلافات میں حضوراکرمؐ ان کی اصلاح کرتے اور اختلافات کا ازالہ فرما دیتے تھے کہ اس کام کے لیے آپؐ مامور تھے(ص ۱۷۶)۔ غیرمنصوص معاملات میں اگر قطعی کوئی حکم جاری فرما دیتے تو صحابہ کرامؓ بلاچوں و چرا اس پر عمل کرلیتے تھے اور اگر نبیؐ کی طرف سے کوئی حکم قطعی نہ تھا تو اپنی راے و فکر اور آزادیِ خیال و عمل کو راہنما بناتے تھے (ص ۱۷۹)۔ حضور اکرمؐ کے عہد میں یہ اختلافات اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے تمام صحابہ کرامؓ بنیانِ مرصوص بن کر رہے۔ تحمل، بُردباری اور برداشت کا مادہ پختہ ہوا۔ یہی حضوراکرمؐ کے بہترین معاشرے کا طرئہ امتیاز ہے۔ اختلافات کی پیدایش اور ان کا ازالہ دوطرفہ حقوق کی پاس داری میں ممکن تھا۔
امید ہے اس کتاب کے مطالعے سے اختلاف راے کی صورت میں تحمل و برداشت کی صفات پیدا ہوں گی۔ (ظفرحجازی)
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیا و رُسل کو مبعوث کیا۔ ان میں سے بعض کے حالات وضاحت سے قرآن میں ذکر کیے گئے ہیں اور بعض کے حالات بہت مختصر ہیں۔ حضور اکرمؐ اللہ کے آخری نبیؐ ہیں اور آپؐ کی تعلیمات چوں کہ تمام انسانوں کے لیے ہیں، اس لیے قرآنِ مجید میں آپؐ کے متعلق تفصیلاً بتایا گیا ہے کہ آپؐ کی بعثت کی غایت کیا ہے۔ آپؐ کے مخالفین نے قبولِ حق سے کیوں انکار کیا اور کس کس طرح سے دعوتِ دین میں رکاوٹیں ڈالیں۔ آپؐ کی حیاتِ طیبہ کا گوشہ گوشہ آج بھی اسی طرح منور ہے جس طرح بعثت کے وقت روشن تھا۔ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں رسولِ اکرمؐ کے حالات و تعلیمات نہایت احتیاط سے جمع کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود غیرمسلم قوموں نے حضور اکرمؐ پر اعتراضات کیے اور آپؐ کی تعلیمات کوجھٹلایا۔ حضوراکرمؐ کے عہد میں کفار اور مشرکین نے بھی طرح طرح کے الزامات عائد کیے تھے اور مخالفت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں معاندین اسلام کی ریشہ دوانیوں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ۱۱؍ابواب میں مستشرقین کے مختلف اعتراضات کا متعدد عنوانات کے تحت جواب دیا گیاہے۔ پہلے باب میں حضور اکرمؐ پراعتراضات کا تاریخی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں وحی کی کیفیت نزول پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضور اکرمؐ کے زمانے میں ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ قرآنِ مجید حضور اکرمؐ کی اپنی تصنیف ہے، جب کہ دنیا بھر کے اہلِ علم کے لیے قرآنِ مجید کا یہ چیلنج آج بھی موجود ہے کہ تمھیں اگر قرآنِ مجید کے منزل من اللہ ہونے میں کچھ شک ہے تو تم بھی ایسی کوئی ایک ہی سورت بنالائو (البقرہ ۲:۲۳)۔ اپنے عجز کے باوجود یہ اعتراض آج بھی دہرایا جاتا ہے۔ اس اعتراض کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ معجزاتِ نبویؐ کا انکار آج کے دور کا بڑا فتنہ ہے۔ دین کو عقل پر پرکھنے کے مدعی ہر ایسی بات کا انکار کردیتے ہیں جو ان کی عقل میں نہ آئے یا حواسِ خمسہ سے معلوم نہ کی جاسکے۔ ان اعتراضات کا بھی شافی جواب دیا گیا ہے۔ معراجِ نبویؐ کی حقیقت، تعلیماتِ نبویؐ پر مسیحیت کے اثرات، غزواتِ نبویؐ کے محرکات، تعدد ازدواج اور نکاح زینبؓ پر اعتراضات کے بھی تحقیقی اور علمی جوابات دیے گئے ہیں۔ غرض اس کتاب میں سیرت النبیؐ پر ان تمام بڑے بڑے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جس نے آج کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو دین کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کیا اور بعدازاں انکار و اعراض کی راہ پر ڈال دیا۔ مصنف نے علمی، تحقیقی اور تنقیدی نقطۂ نظر سے مدلّل جواب دیے ہیں جو یقینا اہلِ علم کو اپیل کریں گے۔ سیرت النبیؐ پر مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں پر جو کتابیں تصنیف کی گئی ہیں،یہ کتاب ان میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔(ظفرحجازی)
سورۃ الفاتحہ کی متعدد تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ ہر مفسر نے اپنے اپنے انداز میں قرآن کی غواصی کی ہے۔ مولانا فاروق احمد نے تحریکِ اسلامی کے کارکنان کو قرآن سے وابستہ کرنے کے لیے الفاتحہ کی عام فہم اور سادہ زبان میں تشریح کی ہے۔ اس مختصر سی کتاب میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر، معنی و مفہوم، الفاظ کی تشریح اور آمین کا مفہوم اور مسنون ہونا وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں سورئہ فاتحہ کا منفرد انداز میں مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ سورئہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے جس کے کُل کلمات ۲۶ ہیں، جب کہ قرآن مجید کے کُل کلمات کی تعداد ۸۰ہزار ہے۔ قرآنِ مجید میں سورئہ فاتحہ میں آنے والے الفاظ کا بار بار اعادہ ہوتا ہے۔ سورئہ فاتحہ کے کلمات اور الفاظ کو ذہن نشین کرنے کے نتیجے میں تقریباً ۴۰ہزار الفاظِ قرآنی پر دسترس حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کی تفصیل کتاب میں دی گئی ہے۔ تھوڑی سی مشق سے قرآنِ حکیم کے معانی و مفہوم کو آسانی کے ساتھ جانا جاسکتا ہے۔(عمران ظہور غازی)
حیا محض اسلامی شعار ہی نہیں ہے بلکہ ان اقدار میں سے ہے جو قوموں کے عروج و زوال میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ سید مودودی نے اپنی معرکہ آرا کتاب پردہ میں مغرب کی مادہ پرست اور بے حیا تہذیب کس طرح سے معاشرتی اقدار کو تباہ کرتی اور اخلاق کا جنازہ نکالتی ہے، اس کا علمی و تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ اس سے حیا اور پردے کے جامع تصور اور معاشرتی انحطاط و انتشار کی اہمیت بخوبی اُجاگر ہوتی ہے۔ عصرِحاضر میں اخلاقی انحطاط مزید کھل کر سامنے آگیا ہے اور مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں مسلم ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ایسے میں حیا کے جامع تصور کو اُجاگر کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں ۴۵؍احادیث کی روشنی میں حیا کے جامع تصور کو واضح کیا گیا ہے۔ عفت و پاک دامنی، نکاح، پردہ و غضِ بصر، اُم الخبائث، موسیقی، تشبہہ، اختلاط مرد و زن، بے حیائی کے اثرات اور اسلامی اقدار و معاشرتی روایات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ احادیث کی تشریح میں قرآن و حدیث سے استدلال کے ساتھ ساتھ مختصراً عصری مسائل و مباحث بھی بیان کیے گئے ہیں۔ قریبی اعزہ سے پردے کے ضمن میں مولانا مودودی کی راے بھی درج کردی جاتی تو معتدل نقطۂ نظر سامنے آجاتا۔ آخر میں احادیث کے راویوں کا مختصر تذکرہ بھی دیا گیا ہے جس سے صحابہ کرامؓ کی سیرت کے ساتھ ساتھ ان کے قرآن و حدیث سے شغف اور علمی ذوق سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اپنے موضوع پر احادیث کا جامع مجموعہ ہے۔(امجد عباسی)
تاریخ محض کسی قوم کا ماضی ہی نہیں ہوتی بلکہ قوم کے عروج و زوال، ترقی و تنزل، نشیب و فراز اور جدوجہد کے مراحل کی آئینہ بھی ہوتی ہے۔ سوانحی ادب اور نام وَر شخصیات کے تذکرے سے شخصیت کی خدمات کے ساتھ ساتھ اس عہد کی تاریخ اور جدوجہد سے بھی مختصراً آگہی ہوجاتی ہے۔ میربابر مشتاق نے مسلم تاریخ کی اسی اہمیت کے پیش نظر ۱۰۰؍ اہم شخصیات کے حالات یک جا کردیے ہیں۔ اس طرح کے مطالعوں سے نوجوان نسل میں اپنے ماضی کے بارے میں خوداعتمادی اور احساسِ تفاخر پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مختلف اَدوار مختلف پہلوئوں سے نظر کے سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ طرزِتحریر ایسا ہے کہ قاری روانی سے پڑھتا چلا جاتا ہے۔
شخصیات کا انتخاب سات دائروں میں کیا گیا ہے۔ اصحابِ رسولؐ میں خلفاے راشدینؓ، امام حسنؓ، امام حسینؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ محدثین و فقہاے اُمت، محقق و مجدد اور مفسر، صوفیا و مصلح، مجاہدین اسلام، سلاطین و قاضی اور سائنس دان و سیاح اس دائرے میں شامل ہیں۔ چند شخصیات: امام ابوحنیفہ، امام غزالی، ابن خلدون، ڈاکٹر حمیداللہ، علامہ محمداقبال، امام خمینی، سیّد مودودی،امام حسن البنا، قاضی حسین احمد، حسن بصری، جنید بغدادی، مولانا محمد الیاس، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا احمد رضاخان بریلوی، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، عمرمختار، قاضی شریح، ٹیپوسلطان، بوعلی سینا، ابن بطوطہ وغیرہ۔ شخصیات کی ترتیب الف بائی یا ترتیب زمانی کے مطابق ہوتی تو زیادہ بہتر تھا۔ کچھ ناموں کی کمی محسوس ہوتی ہے، تاہم یہ فطری امر ہے کہ اس طرح کے انتخاب میں کچھ نام رہ جائیں۔
اُمت مسلمہ کے شان دار ماضی، تاریخی اَدوار، احیاے اسلام کی جدوجہد اور عہدساز شخصیات سے آگہی، بالخصوص نوجوان نسل کو اپنے مشاہیر اور ہیروز کو جاننے کے لیے اس مفید کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔(محمد ایوب منیر)
مولانا مودودیؒ مختلف اوقات میں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کے علاوہ تین بار علاج کے لیے اور ایک بار ارضِ قرآن کے آثار و مقامات کی سیاحت اور تحقیق کے لیے بیرونِ پاکستان سفر پر روانہ ہوئے۔
زیرنظر کتاب میں انھی مواقع پر شائع ہونے والے مختلف اخباری مضمونوں کے ساتھ ساتھ، ان اسفار پر تین مستقل کتابوں کو بھی کتاب کا حصہ بنادیا ہے۔ جن میںپہلے سفردورہ مشرق وسطیٰ (سفرِعرب و حج بیت اللّٰہ) ستمبر ۲۰۱۲ء، منشورات، لاہور، سفر نامہ ارض القرآن از محمدعاصم الحداد، ۱۹۷۰ء (حالیہ اشاعت الفیصل، لاہور) اور سیّد مودودی کا سفرِ عرب، ازخلیل احمد حامدی، ادارہ معارف اسلامی شامل ہیں۔
یہ تینوں کتب مارکیٹ میں موجود ہیں، مگر یہاں پر ان کی شمولیت یاتلخیص کا جواز نہیں دیا گیا (اگر مستقل کتب کو یوں نئی کتب میں شامل کرنے کا سلسلہ چل نکلا تو اس سے پیچیدگی پیدا ہوگی)۔ بہرحال مولانا مودودی کے ان اسفار میں مقصدیت کا رنگ گہرا ہے، جو دیگر مسافروں کو سبق دیتا ہے کہ زندگی کے لمحے کس طرح ایک اعلیٰ نصب العین کے لیے گزارنے چاہییں۔(سلیم منصور خالد)
شاہراہِ روزگار پر کامیابی کا سفر ، محض ایک کتاب نہیں بلکہ درجنوں کتابوں کا خلاصہ ہے۔ کتاب کے ۲۰ ؍ابواب میں تمام ضروری موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ موضوعات اپنے پڑھنے والے کو جہاں نئے تصورات و خیالات سے آشنا کرتے ہیں وہاں تحرک کا باعث بھی بنتے ہیں۔ موضوعات میں سے چند: ترقی اور کامیابی کے لیے اشارات، شاہراہِ روزگار کے سنگ میل، ملازمت کیسے تلاش کریں؟ انٹرویو بارے ضروری اُمور، کامیاب زندگی کے لیے درکار صلاحیتیں، مثبت رویّے۔ اسی طرح کامیابی کے ۱۰۰؍اُصول،گھریلو زندگی میں کامیابی کے راز، مکاروں اور چال بازوں سے کیسے بچا جائے، اور سب سے بڑھ کر انسانی زندگی پر اللہ سے تعلق کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نیز دعائیں، اذکاراور وظائف کی صورت میں عمدہ لوازمہ فراہم کیا گیا ہے۔ یہ روزگار بارے رہنمائی کا ایک اہم اور عمدہ ذریعہ اور جامع دستاویز ہے۔ اس سلسلے میں دستیاب کتابیں زیادہ تر انگریزی میں ملتی ہیں یا پھر ترجمے ہوتے ہیں۔ تنہا اور گروپ کی صورت میں کتاب کے مطالعے کے لیے بھی رہنمائی دی گئی ہے۔نوجوان نسل کے لیے ایک مفید رہنما کتاب ہے، جب کہ تعمیر سیرت اور کردارسازی کے لیے بھی عمدہ لوازمہ اور غوروفکر کا ساماں ہے۔
کتاب کیا ہے ایک گلدستہ اور خوب صورت دستاویز ہے۔ دیدہ زیب اور بامعنی سرورق کے ساتھ پُرکشش انداز میں پیش کی گئی ہے۔ یہ کتاب بطور تحفہ دینے اور ہرلائبریری کی زینت بننے کے لائق ہے۔(عمران ظہور غازی)
یہ حقیقت کس سے مخفی ہے کہ اسرائیلی ریاست، فلسطین کی ریاست پر قبضہ کر کے قائم کی گئی ہے۔ رون ڈیوڈ سمیت کئی مغربی محققین اسرائیل کے خوف ناک عزائم کے حوالے سے کتابیں یا مضامین تحریر کرچکے ہیں۔ اسرائیل اردگرد کے ممالک خصوصاً سعودی عرب اور عراق پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اُمت کو اس کا احساس ہی نہیں ہے۔ زیرتبصرہ کتاب Arabs and Israel کی تلخیص ہے۔ مترجم نے اہم موضوعات کا خلاصہ دودو، تین تین صفحات میں کردیا ہے۔مصنف نے تاریخی دستاویزات اور حوالوں سے بھی اسرائیل میں یہودیوں کی غیرفطری آمد کا جائزہ لیا ہے۔ یہودیوں نے اردگرد کے ممالک کو دائمی طور پر اپنے تسلط میں لانے کے لیے جو فوجی و غیرفوجی تفصیلی منصوبے تیارکر رکھے ہیں اُس کا سرسری جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ تاہم کچھ مقامات پر غیرمعمولی اختصار اور اصطلاحات کا ترجمہ کھٹکتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کو مختصر طور پر سمجھنے کے لیے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ ترجمہ رواں دواں ہے۔(محمد ایوب منیر)
شرارِ بولہبی ازل سے چراغِ مصطفوی سے ستیزہ کار رہا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مستشرقین نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلوئوں پر طرح طرح کے اعتراضات کیے۔ محبانِ رسولؐ نے ہر دور میں ایسے دریدہ دہنوں کو دندان شکن جواب دیا۔اللہ غریق رحمت کرے سرسیّداحمد خاں، سیّد امیرعلی اور مولانا مودودی و دیگر رحمہم اللہ کو، جنھوں نے منطقی انداز سے اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا اور اسلام اور رسولؐ مخالفوں کے اعتراضات کے جوابات دیے۔
زیرنظر کتاب میں فلسفہ و منطق اور علم الکلام کے ذریعے پروفیسر محمد اکرام طاہر نے حیاتِ رسولؐ پر مستشرقین کے اعتراضات کا تجزیہ کر کے ان کے جوابات دیے ہیں، مثلاً: اس اعتراض کا کہ اسلام میں عورت کو مرد کی نسبت آدھا حصہ کیوں ملتا ہے؟ جواب دیتے ہوئے مصنف نے کہا کہ وہ آدھا باپ کے گھر سے لے جاتی ہے۔ پھر خاوند کی جایداد میں بھی اس کا آٹھواں حصہ ہے۔ چنانچہ بعض صورتوں میں وہ مرد سے زیادہ حصہ وصول کرتی ہے۔
مستشرقین اسلام کے نظامِ زکوٰۃ و عشر، جزیہ، خمس، فَے، قرضِ حسنہ اور سود کی ممانعت پر اعتراضات کرتے ہیں۔ ان کے جوابات دیتے ہوئے عربوں کی معاشی حالت، قبل از اسلام اور بعد از اسلام کا تجزیہ و موازنہ کر کے بتایا گیا ہے کہ اسلام کا معاشی نظام دنیا کا بہترین نظام ہے۔
مصنف نے رسولؐ اللہ کی قانونی، ریاستی اور سیاسی اصلاحات او ر انصاف کی بلاتفریق فراہمی اور تعزیراتِ اسلام جیسے موضوعات پر مدلل گفتگو کر کے ثابت کیا ہے کہ عالمِ انسانیت کے لیے اسلام ہی واحد راہِ عمل اور راہِ نجات ہے۔ اسی طرح اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے کا دوسرے معاشروں سے تقابل کر کے بتایا ہے۔ اسلام نے عورت کی جو عزت افزائی کی ہے اس کی مثال ماقبل اسلام یا بعد کسی معاشرے میں نہیں ملتی۔
بعض مستشرقین معتدل مزاج دکھائی دیتے ہیں جیسے: منٹگمری ڈبلیوواٹ، مائیکل ایچ ہارٹ اور برناڈلیوس وغیرہ مگر ان کے ہاں بھی کچھ مغالطے ہیں۔ ان کے مغالطوں کا جائزہ لے کر مناسب جوابات دیے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر کتاب اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتی نظر آتی ہے اور حیاتِ رسولؐ پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات کے مدلل اور منطقی جوابات دیتی ہے۔(قاسم محمود احمد)
زیرتبصرہ کتاب مصنف کے سیرت النبیؐ پر لکھے گئے ۱۳ مقالات کا ایک انتخاب ہے۔ ان ۱۳ مقالات سیرتِ النبیؐ کے متعدد پہلوئوں پر تحقیقی انداز میں اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ یہ مقالات رسولِ اکرمؐ کی گھریلو زندگی، آپؐ کے زہد و قناعت، آپؐ کے تبسم، مناسکِ حج میں آپؐ کی اصلاحات، حلف الفضول میں آپؐ کی شرکت، صلح حدیبیہ، عصرِحاضر کے محروم و مظلوم طبقات کے مسائل میں آپؐ کا اسوئہ حسنہ، سیرت نگاری میں معجزات کا مقام اور سیرت نگاری کی تاریخ پر نہایت جامعیت کے ساتھ تاریخی ریکارڈ کھنگالا گیا ہے اور ان عنوانات پر قرآن و حدیث اور تاریخ و سیر کی کتب کے حوالوں سے حقیقت تک رسائی کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک مقالہ ابن نفیس کے الرسالۃ الکاملیۃ فی السیرۃ النبویۃ کے تعارف و تجزیے پر مشتمل ہے۔ آخری چودھویں باب میں سیرت النبیؐ پر لکھی گئی ۱۱ ؍مطبوعات پر تحقیقی و تنقیدی تبصرے سپردِ قلم کیے گئے ہیں۔
یہ کتاب حدیث اور تاریخ کے گہرے مطالعے کے نتیجے میں سیرت النبیؐ کے بعض گوشوں کو واضح کرتی ہے۔ مصنف نے کتب ِ سیرت کے قدیم و جدید ذخیرے کو تحقیقی اور تنقیدی نقطۂ نظر سے مطالعہ کر کے مفید، قابلِ عمل اور عصرِحاضر کے مسائل کی تحلیل کے لائق حاصل مطالعہ پیش کیا ہے ۔ (ظفرحجازی)
چراغ حسن حسرت بڑے پائے کے صحافی، ادیب اور شاعر تھے۔ ان کی عمر کوچۂ صحافت میں بسر ہوئی۔ انھوں نے بچوں اور نوجوانوں کے لیے شخصیات پر سادہ زبان اور آسان اسلوب میں بہت سی کتابیں بھی لکھیں، کہانیاں بھی تحریر کی ہیں۔
زیرنظر کتاب کا موضوع سیرت النبیؐ اور سیرتِ خلفاے راشدینؓ ہے۔ ابتدا میں سرزمینِ عرب کے جغرافیے، موسم، فضا اور عربوں کے مزاج، زبان اور شعرگوئی کا بیان ہے۔ پھر ضمنی عنوانات (ہمارے نبیؐ، بچپن، جوانی، بی بی خدیجہؓ، ایک جھگڑے کا فیصلہ، نبوت وغیرہ) کے تحت آپؐ کے مختصر حالات، قریش کی مخالفت، مسلمانوں پر ظلم و ستم، ہجرت اور غزوات کا ذکر کرتے ہوئے اس تذکرے کو آں حضوؐر کی وفات پر مکمل کیا ہے۔چاروں خلفاے راشدین اور ان کے عہدِخلافت کے نمایاں واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ حالات و واقعات نئے نہیں ہیں لیکن چراغ حسن حسرت کے اسلوب کی تازگی اور شگفتگی کی وجہ سے قاری کتاب کو دل چسپی کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔
ناشر نے مصنف کے نام کے ساتھ ’مولانا‘ کا سابقہ لگایا ہے، حالانکہ کلین شیوڈ حسرت، مولانا تھے نہ اپنی تصانیف پر یہ لفظ لکھتے تھے، نہ خود کو مولانا سمجھتے تھے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تاریخِ پاکستان کے بڑے سانحات پر رپورٹیں تیار ہوئیں اور کتابیں بھی لکھی گئیں۔ اسی ضمن میں محترمہ بے نظیربھٹو کے قتل پر ایک کتابGetting Away wtih Murder شائع ہوئی ہے۔ ہیرالڈومیونوز جو اقوام متحدہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ انکوائری کمیشن کے سربراہ ہیں، وہ اس کے مصنف ہیں۔ موصوف جنوری ۲۰۱۰ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے بے نظیر قتل کیس کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ مقررہوئے۔ انھوں نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا: ’’یہ کتاب سال بھر طویل انکوائری کے دوران ملنے والے پس پردہ شواہدوتجربات پر مبنی ہے۔ یہ کتاب بے نظیربھٹوکے قتل اور ان کے متعلق میرا ذاتی نقطۂ نظر ہے اور اقوام متحدہ یا تفتیشی کمیشن کے دیگر ارکان کے خیالات کا لازمی طور پر عکاس نہیں‘‘۔
آٹھ ابواب، مابعدتحقیق، حاصل بحث اور آخر میںحوالوں پر مشتمل کتاب میں بے نظیر کے عروج کی کہانی بھی ہے اور پاکستان میں سیاسی قتل کی تاریخ بھی۔ ’لبرل‘ اور ’اسلامسٹوں‘ کی کش مکش بھی ہے اور پاک امریکاتعلقات، وفا وبے وفائی کے قصے بھی۔ مشرف اور پاکستانی طالبان کے تذکرے بھی ہیں،آئی ایس آئی، سی آئی اے تعلقات کے اُتار چڑھائو بھی۔ اس کتاب میںجہاں تفتیش اورتحقیق کا دعویٰ پایا جاتاہے وہاں تاریخ سے بے خبری ، اسلام سے تعصب نمایاں ہے۔
’عدم استحکام کی ابتدائی تاریخ‘ کے عنوان سے لیاقت علی خان سے بے نظیر بھٹو کی موت تک کی کہانی بیان کرتے ہوئے زمانی لحاظ سے انتہائی فاصلے پرواقع واقعات کو بڑی مہارت کے ساتھ جوڑا گیاہے: ’’۲۹سالہ افغانی سید اکبر نامی قاتل خوست کے افغانستان کے سردارکا بیٹا تھا۔ اکبر ایبٹ آبادمیں رہتا تھا۔ وہی شہرجہاں کئی عشرے بعد اسامہ بن لادن کے خلاف حتمی کارروائی ہوئی‘‘۔ ’’جس پارک میں وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا‘ … وہی جگہ جہاں پر ۶۰ برس بعد بے نظیربھٹوکو قتل کیاگیا۔جس ڈاکٹر نے لیاقت علی خان کا معائنہ کیاتھا، آج اُن کے بیٹے ڈاکٹرمصدق نے ۶۰برس بعد اپنے باپ کی طرح بے نظیربھٹوکی زندگی بحال کرنے کی کوشش کی‘‘۔’’ ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اس شہرمیں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیاگیاتھا اور یہیں پر ذوالفقارعلی بھٹوکی بیٹی بے نظیر کو قتل ہوناتھا‘‘۔(ص۳۴)
حیرت ہوتی ہے کہ ایک بین الاقوامی ادارے سے وابستہ تحقیق و تفتیش کے علم بردارمصنف نے بعض باتیں بڑی’آسانی‘ سے بغیر تحقیق کے بلکہ تعصب کی بنیاد پر لکھ دیں، مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’مودودی، بانیِ پاکستان محمدعلی جناح کو کافر سمجھتا تھا اور اس نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کو بھی کافر قراردیا‘‘ (ص۳۷)۔ تاریخ کی تھوڑی سی واقفیت رکھنے والاکوئی بھی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا تھا کہ مولانا مودودی نے کبھی کسی شخص کو کافر قراردیاہو۔ قائداعظم تو دُور کی بات ہے وہ توان لوگوں کے معاملے کو بھی اللہ پر چھوڑ دیتے تھے جنھوں نے خود مولانا مودودی پر کُفر کے فتوے لگائے تھے۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مولانا مودودی نے کبھی کافر قرار نہیں دیا۔ اسی طرح ریمنڈ ڈیوس کے بلاوجہ تذکرے میںبھی مصنف نے لکھا ہے کہ’’ریمنڈ ڈیوس نے ڈاکا زنی کی کوشش کرنے والے دوآدمیوں کو مار ڈالا‘‘(ص ۱۴۸) جو خلافِ واقع ہے۔
پانچویں باب’پاکستانی معاملات میں امریکی سنجیدگی‘ کے زیر عنوان کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن کے مطالعے سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک جائیں گے۔ مثلاً جنرل ایوب خان نے ستمبر۱۹۵۳ء میں واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ افسرسے کہا:’’ اگر آپ چاہیں توہماری فوج آپ کی فوج بن سکتی ہے‘‘ ۔بے نظیر کے پہلے دوراقتدار کے بارے میں مصنف رقم طراز ہیں کہ ’’بے نظیر امریکی مشیروں میں گھِر گئیں‘‘(ص ۷۱)۔ پھر: ’’۱۹۹۵ء کے اوائل میں رمزی یوسف کی گرفتاری اور امریکا کے حوالے کرنے کی وجہ سے بے نظیر بھٹوکواپریل ۱۹۹۵ء کے اپنے دورۂ واشنگٹن کے دوران ایک مرتبہ پھر میڈیا اور سیاسی اشرافیہ کی جانب سے پذیرائی ملی۔ اسی طرح جون ۱۹۹۷ء میں نواز شریف نے ایمل کاسی کو پکڑنے کے پاک امریکا مشترکہ آپریشن کی اجازت دی اور: ’’حوالگی کے قواعدوضوابط پورے کیے بغیر کاسی کو امریکا بھیجوادیاگیا‘‘ (ص۷۴)۔بے نظیربھٹو کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ وہ پاکستان آمدسے پہلے ۱۵؍اگست ۲۰۰۷ء کونیویارک کونسل براے فارن ریلیشنز کے ایک غیرمعمولی اجلاس میں شریک ہوئیں۔ بے نظیر نے اس اجلاس میں پاکستان جانے اور عسکریت پسندوں اور انتہاپسند قوتوں سے دودوہاتھ کرنے کا عزم ظاہرکیا۔ مصنف لکھتاہے: ’’مشرف نہیں چاہتاتھا کہ بے نظیر انتخابات سے پہلے پاکستان آجائیں، لیکن وہ انتخابی مہم کے لیے اپنی آمدضروری سمجھ رہی تھیں‘‘۔
۲۷دسمبر۲۰۰۷ء کو بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد پارک سے باہرایک حملے میںجان کی بازی ہارگئیں۔ پیپلزپارٹی نے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کا فیصلہ کیا۔ جنوری ۲۰۰۸ء کے اوائل میں آصف علی زرداری نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا: ’’میں اقوام متحدہ سے درخواست کرتاہوں کہ میری بیوی کے قتل کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کی غرض سے مفصل تفتیش شروع کریں‘‘۔ جب وہ ۶ستمبرکو صدربنے تویہ مطالبہ ایک ریاست کی طرف سے سرکاری درخواست بن گئی۔ لیکن اقوام متحدہ کے کمیشن کو ایسے شواہد نہ مل سکے جنھیں وہ دوٹوک طور پرقتل سے منسلک کرسکتے‘‘(ص۱۲۷)۔آخر میں مصنف نے لکھا ہے کہ’’شایدہمیں قطعی طور پر کبھی معلوم نہیں ہوسکے گا کہ بے نظیربھٹو کوکس نے قتل کیا؟ قتل کی منصوبہ سازی کے پیچھے کون تھا؟‘‘ (حمیداللّٰہ خٹک)
اسلامی افکار کا ترجمان علمی و ادبی اور تحقیقی مجلہ ماہنامہ تعمیرافکار ۱۴برس سے باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ اس عرصے میں اس نے بعض علما (پروفیسر سید محمد سلیم ، علامہ محمد طاسین، مولانا سید زوار حسین شاہ، مفتی غلام قادر، مولانا محمد اسماعیل آزاد) اور بعض موضوعات (سیرت النبیؐ، قرآن حکیم مطالعہ سیرت اور عصرحاضر) پر خاص اشاعتیں پیش کی ہیں۔ علمی رجحان کا حامل، یہ ایک صاف ستھرا دینی رسالہ ہے۔ ادارے نے ۱۳برس میں شائع ہونے والے ۱۳۳ شماروں کا ایک جامع اشاریہ تیار کیا ہے۔ پہلا حصہ بہ لحاظ مصنفین و مقالہ نگار ، دوسرا حصہ بہ لحاظ مضامین و عنوانات، تیسرا حصہ بہ لحاظ موضوعات، چوتھا حصہ رسالے میں مطبوعہ حمدونعت و منقبت اور پانچواں حصہ تبصرۂ کتب کے حوالوں پر مشتمل ہے۔ تبصرۂ کتب کے بھی دو حصے ہیں بہ لحاظِ مؤلف کتاب اور بہ لحاظ عنوانِ کتاب۔
اشاریہ عمدگی سے مرتب کیا گیا ہے اور تحقیق کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کے لیے افادیت کا حامل ہے، البتہ بہت سے دوسرے اشاریوں کی طرح ایک خامی اس میں بھی موجود ہے۔ ہرحوالے کے ساتھ شمارے کے ماہ و سال کی نشان دہی تو کی گئی ہے اور صفحہ نمبر بھی درج ہے، یہ مضمون کے آغاز کا صفحہ نمبر ہے، مگر پتا نہیں چلتا کہ مضمون ختم کس صفحے پر ہوتا ہے ۔ (رفیع الدین ہاشمی)
کتاب میں مصنف نے اپنے ۲۴مقالات میں مختلف موضوعات پر تنقیدی اور تحقیقی نقطۂ نظر سے اپنی منفرد آرا پیش کی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ’اعضا کی پیوند کاری‘ ،’کیا عصرِحاضر میں خلافت راشدہ کا قیام ممکن ہے؟‘، ’سیاسی، مذہبی اور روحانی ملوکیتیں‘، ’اظہار راے کی آزادی کا قرآنی تصور‘ ، ’رویت ہلال میں سائنسی علوم کا کردار‘، ’خُلع میں قاضی کا اختیار‘، ’ہمسایے کے حقوق‘، ’اتحادِ اُمت کی راہ میں رکاوٹیں‘ اور بعض دوسرے عنوانات کے تحت فکرانگیز بحث کی ہے۔ ان کے خیال میں خلفاے راشدین کے عہد کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے ملوکیت کے ماحول میں جب خلافت علی منہاج نبوت قائم کر کے دکھا دی تو بعد کے اَدوار میں اس کا قیام کیوں کر ناممکن ہے۔ اسی طرح ان کے خیال میں آج فلکیات کے سائنسی مشاہدات کے یقینی نتائج کو علماے کرام کے عینی مشاہدے سے ملاکر فیصلہ کن راے قائم کرنے میں کیا ہرج ہے۔
فاضل مصنف نے جن عنوانات پر اپنی راے ظاہر کی ہے، ان سے مختلف راے رکھنے والے مکاتب ِ فکر بھی موجود ہیں۔ فاضل محقق نے اپنی آرا کو پیش کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ خبر ملی، انھیں ۱۸ستمبر کو کراچی میں بعض لوگوں نے شہید کردیا۔ پروفیسر شکیل صاحب، جامعہ کراچی میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ تھے۔(ظفرحجازی)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی گزارنے اور رہنمائی کے لیے قرآنِ پاک عطا کیا۔ یہ انسانیت کی فلاح اور ہمیشگی والیِ زندگی کی رہنمائی کے لیے اُترا ہے۔ اگر یہ ہرعمر کے لوگوں کے لیے ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ معاشرے کی بنیادی اکائی ’گھر‘ اور اس کے ایک اہم عنصر ’بچوں‘ سے قرآن مخاطب نہ ہو۔
سیّد نظرزیدیؒ نے اس کاوش میں بچوں کے لیے جابجا پھیلے ہوئے انمول موتیوں کو سمیٹ کر عام فہم انداز میں وہ تمام بنیادی باتوں کو یک جا کر دیا ہے جو آج کل کی زبان میں کردار سازی میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ اسلوبِ بیان ایسا ہے کہ اگر بچہ خود مطالعہ کرکے مستفید ہونا چاہے تو ہوسکتا ہے۔ انداز عام فہم، جگہ جگہ عام مثالوں اور حکایات سے بات کو واضح کرنا اور پھر ہر موضوع کے آخر میں سوالات (مشق) کہ اہم باتیں ذہن نشین ہوسکیں۔ گویا فی زمانہ اخلاقی اقدار، دینی تعلیم، عادات و اَطوار، معاملات اور کردار سازی کے جتنے عنوانات ممکن ہوسکتے ہیں، سب لے لیے گئے ہیں۔ اس سے قبل نظرزیدی مرحوم کی یہ کتاب قرآن کی باتیں کے نام سے دو حصوں میں شائع ہوئی تھی۔ اب اسے نئے نام کے ساتھ یک جا شائع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس خوب صورت اور مفید پیش کش پر مصنف اور ناشر کو اجر عطافرمائے۔(علیم پراچہ)
مولانا عبدالسلام نیازی (۱۸۶۴ء- ۳۰جون ۱۹۶۶ء) ایک ایسے عالم، فلسفی اور سلوک و طریقت کے رمزشناس تھے کہ درِ تذکار بند کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ کتاب علم و عرفان کے گوہرشناسوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔
جماعت اسلامی سے وابستگان کے لیے نیازی صاحب کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ سیدابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۷برس کی عمر میں ان کی شاگردی سے بھی فیض پایا۔ تاہم، اس حوالے سے ہٹ کر بھی مولانا عبدالسلام نیازی کی شخصیت کی قوسِ قزح اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے اور انھیں جاننے کی پیاس بڑھاتی چلی جاتی ہے، حالانکہ: ’’مولوی [عبدالسلام] صاحب ایک حیرت انگیز مجموعہ اضداد تھے‘‘ (ص ۱۰۶)۔ اس انداز کو اپنانے کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ ’’مولوی صاحب اس نظریے پر عمل پیرا ہوں، اور ایسی حرکات جان بوجھ کر کر گزرتے ہوں تاکہ دیکھنے والے ان کو قابلِ نفرت سمجھنے لگیں۔ لیکن مذلت و رُسوائی کی ان کوششوں کے باوجود ان کی تعظیم و تکریم میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا اور لوگ اُن کی اِن باتوں کو بھی قلندرانہ ادائوں سے تعبیر کرتے رہے‘‘۔(ص ۴۷)
اس کتاب کے تعارف کے لیے داخلی شہادتوں سے گفتگو کو یوں پھیلایا جاسکتا ہے: ’’مولانا نیازی کا وطن میرٹھ تھا، جوانی میں دلی آگئے تھے‘‘ (ص ۲۳)۔ ’’سرآرنلڈ کو عربی پڑھائی اور ان سے انگریزی سیکھی۔ جرمن مستشرق ڈاکٹر ہریمن کو عربی پڑھائی اور ان سے جرمن اور فرانسیسی زبانیں سیکھیں۔ عربی، فارسی، سنسکرت، فرانسیسی، جرمن، لاطینی سمیت ۲۰ زبانوں پر عبور رکھتے تھے‘‘ (ص۳۱، ۳۲)۔اسی طرح ’’ابوطاہر کے بقول: مولانا نیازی سریانی، عبرانی، مکرانی، جمیری وغیرہ زبانوں [پربھی] عبور رکھتے تھے، اور آثارِ قدیمہ اور کتبات کی وضاحت کرسکتے تھے‘‘(ص ۱۸۸)، جب کہ ’’سنسکرت زبان و ادب کے اکتساب کے لیے انھوں نے برسہا برس ایک سادھو کے بھیس میں ہردوار، متھرا، پریاگ اور کاشی میں علماے ہنود کی صحبت میں گزارے‘‘۔ (ص ۳۲، ۸۹)
’’مولانا عبدالسلام نیازی کا پسندیدہ موضوع وحدت الوجود تھا‘‘ (ص ۳۷)۔ ’’وہ بڑے خدارسیدہ اور قلندر منش تھے۔ قوالی سننے کا شوق تھا‘‘(ص ۳۸،۳۹)۔ ’’ان کی صحبت میں بہ یک وقت علم دوست حضرات اور جہلا دونوں موجود ہوا کرتے تھے‘‘(ص ۹۸)۔ ’’علامہ اقبال کے اشعار کو بڑی دل چسپی اور بہت ذوق و شوق کے ساتھ سنا کرتے تھے، اور انھیں علومِ مشرقی و مغربی کی پوٹ کہا کرتے تھے۔ خود علامہ اقبال بھی مولوی صاحب سے بہت عقیدت مندانہ انداز میں ملا کرتے تھے‘‘ (ص ۱۰۳)۔ مولانا نیازی کہا کرتے تھے: ’’آدمی اور انسانیت الگ الگ لفظ ہیں۔ غالب نے جب کہا تھا کہ ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘تو اسی جانب اشارہ کیا تھا‘‘۔(ص ۱۲۳)
مولانا عبدالسلام نیازی: ’’مشرقی علوم کے حرفِ آخر تھے۔ قرآن، حدیث، منطق، حکمت، تصوف، عروض، معنی و بیان، علم الکلام، تاریخ، تفسیر، لغت، لسانی قواعد، ادب اور شاعری کے امام تھے‘‘(ص ۱۳۸) اور: ’’ان علما کی آخری یادگار تھے، جن پر اسلامی تمدن کبھی ناز کیا کرتا تھا‘‘۔ (ص ۱۱۴)
چونکہ یہ مجموعہ مختلف تحریروں کا گلدستہ ہے، اس لیے کہیں کہیں تکرار ہے اور کچھ روایت کے متحارب اور الحاقی بیانات بھی دَر آئے ہیں۔ مرتب نے فاضل لوازمے کو بلاتبصرہ پیش کردیا ہے کہ قاری اپنے اپنے ذوق کے مطابق اخذ و اکتساب کرے۔ یوں تو تمام تحریریں دل چسپ ہیں، البتہ رزمی جے پوری، مسعود حسن شہاب، مقصود زاہدی ، خلیق انجم ،انورسدید ، مسعود حسن شہاب اور عاصم نعمانی کی تحریریں خصوصی توجہ کی طالب ہیں ۔ اُردو اکیڈمی بہاول پور اور راشد اشرف اس خدمت پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
کیوٹو (Kyoto) یونی ورسٹی، جاپان کی فعال اور بڑی یونی ورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ایریا اسٹڈی منصوبے کے تحت ’جنوبی ایشیا میں مطالعاتِ اسلام‘ کے سلسلے میں بعض تحریکوں اور شخصیتوں کا مطالعہ کیا جاتا رہا ہے۔ اسی ضمن میں یونی ورسٹی کی ایک طالبہ نوریکو ساساوکی (Noriko Sasaoki) کو سیّدابوالاعلیٰ مودودی (بانی جماعت اسلامی) کی تصانیف کی وضاحتی فہرست تیار کرنے کا کام سونپا گیا۔ نوریکو کا ماحصلِ تحقیق جاپانی زبان میں تیار ہوا تھا،اب اسے انگریزی زبان میں منتقل کرکے شائع کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے سلسلے میں نوریکو نے کئی بار پاکستان کا سفر کیا۔ وہ ہفتوں اور مہینوں یہاں مقیم رہیں۔ مولانا کی تمام دستیاب کتابیں خریدکر لے گئیں۔ تصانیفِ مودودی کا ایک بڑا ذخیرہ اوساکا یونی ورسٹی اور وہاں کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سویامانے کے کتب خانے میں موجود ہے۔ سویامانے اُردو کے استاد اور عالم ہیں اور زیرنظر تحقیقی کام انھی کی دل چسپی سے اور انھی کی نگرانی میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ دیباچہ بھی انھی کا تحریر کردہ ہے۔
نوریکو نے اپنے دیباچے میں اختصار کے ساتھ مولانا مودودی کے سوانح، جماعت اسلامی کا تعارف، جماعت کے قیام کا احوال اور پھر اپنے زیرنظر تحقیقی کام کی نوعیت بیان کی ہے۔ انھوں نے راقم کی تیار کردہ فہرست ’’تصانیف مودودی: ایک اشاعتی اور کتابیاتی مطالعہ‘‘ مشمولہ: تذکرہ سیّد مودودی:۳ اور ’’سیّد مودودی: فکری و قلمی آثار‘‘ (مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصورخالد) مشمولہ: ابوالاعلٰی مودودی، علمی و فکری مطالعہ سے بھی مدد لینے کا اعتراف کیا ہے۔
تصانیف مودودی کی یہ وضاحتی فہرست نہایت سلیقے سے اور تصانیف مودودی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے مرتب کی گئی ہے (قرآن اور حدیث سے متعلق کتابیں، مولانا کی مرتبہ اور ان کی نگرانی میں تیار شدہ کتابیں، کتابچے ، خطوں کے مجموعے، مولانا کی ترجمہ کردہ کتابیں دوسروں کی مرتبہ کتابیں)۔ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ مولانا کی فلاں کتاب یا کتابچہ اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا۔ دراصل یہ کتاب بھی مولانا مودودی، جماعت اسلامی اور سلسلۂ تحریکاتِ اسلامی کے مطالعات کی ایک کڑی ہے جو گذشتہ صدی کے آخری برسوں سے کئی ممالک خصوصاً جاپان میں شروع کیے گئے ہیں۔ خود سویامانے بھی اس سلسلے پر کچھ لکھ چکے ہیں۔ مولانا مودودی اور ان کے نظریات سے جاپانیوں کی دل چسپی کے بارے میں ڈاکٹر معین الدین عقیل نے بھی کچھ معلومات مہیا کی ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
شیخ محی الدین ابن عربی، نظریۂ وحدت الوجود کے سب سے بڑے مبلّغ اور مفسر سمجھے جاتے ہیں۔ فصوص الحکم ان کی ایک بڑی اور معروف تصنیف ہے۔ ابن عربی مفکر اور عالم ہونے کے ساتھ شاعر بھی تھے۔ عربی، فارسی اور اُردو کی فکریات پر ان کے اثرات ہمہ جہت ہیں۔ فصوص الحکم کے کئی اُردو ترجمے ہوئے اور متعدد شرحیں بھی لکھی گئی ہیں۔ یہ کتاب مدارس کے مختلف نصابات میں بھی شامل رہی ہے۔ مولانا محمد عبدالقدیر صدیقی (استاد، شعبۂ اسلامیات جامعہ عثمانیہ) نے بھی اس کا ایک ترجمہ کیا اور اس کی شرح بھی لکھی، مگر یہ ترجمہ اور شرح زبان و بیان کے اعتبار سے بہت ادَق اور مشکل تھی۔ ان کے ایک نبیرہ محمد عبدالاحد صدیقی نے اس کی زبان اور اسلوب کو موجودہ عہد کی زبان میں ڈھالا تاکہ تفہیم آسان ہو، چنانچہ اب یہ ترجمہ اور شرح بقول ڈاکٹر معین الدین عقیل: ’’ہرشخص کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ استفادہ ہوگئی ہے‘‘۔ اُمید ہے فصوص الحکم کے قارئین کے لیے یہ کتاب مفید اور سودمند ثابت ہوگی۔(رفیع الدین ہاشمی)
بیسویں صدی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (م: ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) داعی تحریک اسلامی تھے، تو ان کے دست ِ راست میاں طفیل محمد (م: ۲۵ جون ۲۰۰۹ء) معمارِ تحریک اسلامی تھے۔ میاں صاحب کی للہیت، خلوص، ایثار اور خدمت ِ دین ضرب المثل ہے۔
ان کے داماد محمد اسلم جمال نے اس عظیم شخصیت کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بہت محبت سے یک جا کردیاہے۔ اگرچہ کتاب کا محور میاں صاحب کی شخصیت ہے، مگر اس تذکرے میں ان کا خاندانی پس منظر اور ان کے اعزّہ و اقربا کا ذکر بھی تفصیلاً آگیا ہے، جب کہ جماعت اسلامی کے مختلف گوشے واقعاتی اور بیانیہ انداز میں سامنے آئے ہیں۔ بلاشبہہ بعض معلومات پہلے سے ریکارڈ پر موجود ہیں، مگر یہاں یک جا آگئی ہیں۔
میاں طفیل محمد مرحوم کے دست ِ راست چودھری رحمت الٰہی صاحب نے بجافرمایا ہے: ’’میاں صاحب شعائر اسلام کے سختی سے پابند تھے، بالخصوص نمازیں پورے خضوع و خشوع سے ادا فرماتے تھے‘‘ (ص ۲۸)۔ اور محترم سید منور حسن کے بقول: ’’فریضہ اقامت ِ دین، ان کی بابرکت زندگی کا نصب العین اور جلی عنوان بنا۔ انھوں نے نماز کو اپنی زندگی کا امام قرار دیا ہوا تھا… میاں صاحب ہمیشہ راضی برضا نظر آئے اور صبروتحمل کا کوہِ گراں دیکھے گئے‘‘۔ (ص ۲۴-۲۶)
ان دو اقتباسات میں جو نکات نمایاں ہیں، ساری کتاب میں انھی کی تفصیل بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔(سلیم منصور خالد)
۲۳ خاکوں کے اس مجموعے کا نام ’اعتراف‘ معنی خیز ہے۔ سرورق پر ’اعتراف‘ کے ساتھ ’شخصی خاکے‘ کی توضیح درج ہے۔ خاکے تو ’شخصی‘ ہی ہوتے ہیں اور اس لیے بعض اوقات انھیں، ’شخصیہ‘ اور خاکہ نگاری کو ’شخصیت نگاری‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے مگر سعید اکرم صاحب نے انھیں ’شخصی خاکوں‘ کا نام اس لیے دیا ہے کہ یہ معروف شخصیتوں، دانش وروں، مشاہیر شعروادب یا اکابر سیاست کے نہیں، بلکہ یہ ان افراد کے خاکے ہیں جن سے خاکہ نگار کو اپنے بچپن، لڑکپن، جوانی اور موجودہ (بڑھاپے) زمانوں میں واسطہ رہا۔ یہ ان کے گائوں اور ان کے شہر کے مختلف کردار ہیں جن میں سے زیادہ تر اساتذہ ہیں (جن کے سامنے انھوں نے زانوے تلمذ تہ کیا یا کچھ ایسے پروفیسر حضرات جو کالجوں میں ان کے رفیقِ کار رہے)۔
سیّد نیاز حسین شاہ (شاہ جی) گائوں کی مسجد کے خطیب تھے مگر روایتی اماموں اور خطیبوں سے قطعی مختلف۔ عربی اور فارسی کے عالم، مطالعے کے رسیا اور خوش خطی کا ذوق رکھنے والے شگفتہ مزاج شخص تھے۔ ایک صاحب ِ حیثیت (میاں بشیر سہگل) نے گائوں میں سکول کھولا تو شاہ جی عربی فارسی کے استاد مقرر ہوگئے۔ اسی طرح حافظ فیروزالدین (حافظ جی) ’قناعت کی زندگی‘ کی ایک مثال تھے۔ نرے حافظ جی نہ تھے، اپنے وقت کے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر اعتماد کے ساتھ بات کرتے اور دینی مسائل میں لوگوں کو اچھی خاصی رہنمائی فراہم کرتے۔ اسی طرح حافظ محمد صادق، اسی طرح پروفیسر چودھری سلطان بخش (پرنسپل) جو ڈسپلن کے معاملے میں ذرا سی رُو رعایت کے بھی قائل نہ تھے۔ سخت گیر اور سخت مزاج مگر طلبہ کے حق میں بہت شفیق۔ بہت انہماک سے پڑھاتے اور وقت سے پہلے کلاس کبھی نہ چھوڑتے۔کلاس سے باہر بھی طلبہ کی تربیت اور ان کے ذہن کو جِلا دینے کا سامان پیدا کرتے رہتے۔ ’ہماری مائیں‘ گائوں کی ان روایتی مائوں کا خاکہ ہے جو فقط کسی ایک بچے سے نہیں، بلکہ گائوں اور گلی محلے کے سارے بچوں سے اپنے بچے کا سا پیار کرتی ہیں۔ ایسے حقیقی کرداروں میں ماسی ولایتاں، ماں بھاگی، ماں سرداراں اور ماں مکھی وغیرہ شامل ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’تو یہ تھی ہماری مائیں،جنھوں نے ہمیں پالا پوسا، بڑا کیا اور انسان بنایا۔ آج ہمارے اندر انسانیت نام کی کوئی رمق ، احترام اور عزت کے جذبے کا کوئی شائبہ اور محبت کے مادے کا کوئی ذرہ موجود ہے تو یہ صرف ان ہستیوں کی دین ہے‘‘۔ ان خاکوں میں آپ بیتی کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ پرانے وقتوں کی تصاویر بھی شاملِ کتاب ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ملک کے بقول: ’’انھوں نے اپنے محسنوں کی شخصیات کے نہایت ہی اعلیٰ خاکے کھینچ کر اپنی وفا اور اپنے قلم کا حق ادا کردیا ہے‘‘۔ طباعت و اشاعت، جلدبندی مناسب اور کاغذ عمدہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
نقوشِ زندگی (خودنوشت سوانح حیات)، مولانا محمد عبدالمعبود۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ۔ صفحات: ۲۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔
خودنوشت سوانح عمریوں کی روایت قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ معیاری سوانح عمری کے بارے میں متعدد آرا ملتی ہیں۔مغربی ادبیات میں اس کے اصول و قواعد اور معیار کا پیمانہ مشرقی ادبیات سے مختلف ہے۔ تاہم آ پ بیتی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات ، محسوسات، نظریات اور عقائد کی ایک مربوط داستان ہوتی ہے جو خود اس نے بے کم و کاست قلم بند کردی ہو، جسے پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں۔
زیرنظر آپ بیتی مصنف کی زندگی کے حالات کی راست تصویر کشی ہے۔ ان کے موے قلم نے واقعات کے ایسے خوش نما پیکر تیار کیے ہیں کہ گذشتہ ۵۰برس کے ملکی حالات سامنے آجاتے ہیں۔ مصنف ایک عالم دین ہیں، اپنی تعلیمی اور تدریسی زندگی کے کوائف کے علاوہ اپنے اساتذہ، پیرومرشد اور عزیز واقارب سے متعلق اپنے روابط صاف صاف طریقے سے بیان کردیے ہیں۔ جس ماحول میں مصنف کی تعلیمی زندگی گزری، وہاں سیّد مودودیؒ کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں تھا، چنانچہ زیرنظر کتاب کے مطابق مصنف نے دل کھول کر اس محاذ آرائی میں حصہ لیا جو اُس دور کے علما اور مولانا مودودیؒ میں جاری تھی۔ تحریری و تقریری مباحثے اور مناظرے بھی زوروں پر تھے۔
اس آپ بیتی میں مصنف نے ملکی اور غیرملکی استعمار کا ذکر بھی کیا ہے۔ بیرونِ ملک سفرناموں کے سلسلے میں بھارت کا سفر یادگار سفر کہا جاسکتا ہے، جس میں ’شیخ الہند سیمی نار‘ میں ایک مقرر کے پاکستان کے خلاف تبصرے پر مصنف اور ان کے ساتھی اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے باہر چلے گئے (ص ۲۶۰)۔ اسی سفر میں آگرہ قلعے کی سیر کے موقعے پر یہ افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا کہ مصنف کے وفد کے ایک پاکستانی فرد کو قلعے کے دروازے پر اپنی ٹوپی اُتار کر قلعے کے محافظ ہندوئوں کے پائوں پر رکھنی پڑی لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوئے (ص ۲۶۱)۔ (ظفرحجازی)
مصنف ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں۔ مختلف عنوانات پر کئی کتب کے مصنف ہیں۔ کراچی میں ’نیشنل اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ‘ کے کرتا دھرتا ہیں جہاں سے صہیونیت پر منظم اور سائنٹی فک انداز میں ۱۵قیمتی کتب شائع کی جاچکی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے امریکا کے خلاف عالمی نفرت، اخلاقی بے راہ روی، امریکی شرح پیدایش میں تیزرفتار کمی، معیشت کا زوال، امریکا پر یہودی اثرات، امریکا میں اسلحہ کی بہتات اور اس کے استعمال کے خطرناک اثرات، اور مختلف مفکرین کے خیالات اور آرا پیش کی ہیں۔ امریکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو قوم اخلاقی زوال کا شکار ہوجائے اور جس کے امن و سلامتی کے تصورات اپنے لیے کچھ اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہوں اور جو اپنی سیاسی اور سماجی غلبے کے خبط میں ہراخلاقی اصول کو تاراج کردے، اگر وہ ترقی کی معراج پر ہے تو لازماً تباہی کی طرف گامزن ہوگی اور یہی حال امریکا کا ہے۔ ہم روس کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ وہ افغان مجاہدین کے ساتھ معرکہ میں جس بُری طرح بکھرا اور ٹوٹا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی وجوہات وہی ہیں جو اُوپر بیان ہوئیں۔ اپنے گہرے مشاہدے کی بنیاد پر مولانا مودودیؒ نے ایک صدی قبل روس کے زوال کی پیش گوئی کی تھی اور ساتھ ہی ساتھ امریکی زوال کی پیش گوئی بھی۔ بس اب وقت کا انتظار ہے!(شہزادالحسن چشتی)
مدیر بیدار ڈائجسٹ نے اپنے ماہنامے میں حکایاتِ حکمت و دانش کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ بڑے پیمانے پر اس کی پذیرائی ہوئی۔ چنانچہ قارئین کی بڑی تعداداور پبلشر کے اصرار پر ملک صاب نے زیرنظر کتاب میں کہانیوں اور تحریروں کا ایک انتخاب مختلف عنوانات (علم بارے مختلف حکایات، حکایاتِ شکر، امانت و دیانت، محنت و ہمت، ذہانت و فطانت، دوستی، سخاوت، لالچ اور بخل، وعدوں کی پاس داری اور متفرق حکایات) کے تحت مرتب کردیا ہے۔
کہانیاں اور تحریریں مختصر ہیں۔ ایک صفحہ، دو صفحہ یا زیادہ سے زیادہ تین چار صفحے۔کسی ایک مضمون یا کہانی کے آخر میں اگر جگہ بچ گئی ہے تو اسے کسی حدیث، دعا، اشعار یا دل چسپ واقعے سے پُر کردیا ہے۔ تحریروں کی زبان آسان اور اسلوب سادہ ہے۔ پڑھنا شروع کریں تو چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک ایسے وقت میں، اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں اخلاقی قدروں کی گم شدگی سب سے بڑا مسئلہ ہے، تحفہ دینے کے لیے یہ بہت اچھی کتاب ہے جو چھوٹوں اور بڑوں سب کو گم شد دینی و اخلاقی قدروں کی بحالی کا احساس دلاتی ہے۔ بعض حکایات دوسری کتابوں سے نقل کی گئی ہیں مگر حوالے نامکمل ہیں جیسے ص ۱۸، ۵۷، ۹۵ وغیرہ۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مغربی لادینیت اور اس کے زیراثر چلنے والے عالمی نظامِ سرمایہ داری نے اپنی بعض خباثتوں کو غازہ استعمال کر کے دنیا کی بہت سی اقوام کے لیے بہت پُرکشش بنا دیا ہے۔ ان میں سے ایک ’نیوکلیر‘ تصورِ خاندان ہے جس میں کچھ عرصہ قبل تک شوہر اور بیوی اور ان کے حد سے حد دوبچوں کو خاندان کا نام دیا جاتا اور ان کے علاوہ دیگر افراد قانونی طور پر خاندان تصور نہیں کیے جاتے تھے۔ چنانچہ شوہر کے ماں باپ، بھائی بہن ہوں یا بیوی کے ماںباپ، ان کی حیثیت اضافی سمجھی جاتی تھی۔ اب اس میں مزید ’ترقی‘ یوں ہوئی ہے کہ خاندان کی تعریف میں شوہر اور بیوی کی شادی کے لیے ’partners‘کی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے، تاکہ جو کچھ تھوڑا بہت تقدس میاں بیوی کے درمیان باقی رہ گیا تھا، اسے دو دوستوں کا نام دے کر ہم جنس رشتوں کو بھی قانونی حیثیت دے دی جائے۔پاکستان میں بھی مغرب پر ’ایمان بالغیب‘ لانے والے بعض افراد اور نام نہاد غیرسرکاری تنظیمیں اس تگ و دو میں ہیں کہ یہاں بھی قانون میں یہ تبدیلی لائی جائے۔ اللہ تعالیٰ ملکِ عزیز کو اس شیطانی فتنے سے محفوظ رکھے۔
زیرتبصرہ کتاب پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ علومِ اسلامیہ کے ڈاکٹریٹ کے ایک مقالے پر مبنی ہے جسے معمولی تبدیلیوں کے بعد خود شعبۂ علوم اسلامیہ نے شائع کیا ہے۔کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے جن میں کوشش کی گئی ہے کہ عائلی زندگی کے معاشرتی، علمی اور قانونی پہلوئوں کو بڑی حد تک زیربحث لے آیا جائے۔
گو عصری مسائل پر اچھا لوازمہ جمع کیا گیا ہے لیکن بالعموم روایتی فکر کی توثیق کا رویہ اختیار کیا گیا ہے، مثلاً گھریلو کام میں عورت کی ذمہ داری (۳۱۳-۳۲۱) میں مختلف اقوالِ فقہا درج کرنے کے بعد ایک چوتھائی اقلیت کی راے کو کہ بیوی نہ صرف شوہر بلکہ سسرال والوں کی خدمت بھی بطور تطوع کرے، اختیار کیا گیا ہے، جب کہ محققہ خود تین ائمہ، یعنی امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے اجماع کو بیان کرنے کے بعد امام ابن القیم کے موقف کو ترجیح دیتی ہیں۔ بلاشبہہ ہرمحقق کو اس کا پورا اختیار ہے لیکن ڈاکٹریٹ کی سطح پر ہم یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ایک محقق یا محققہ تنقیدی نگاہ سے جائزہ لے کر اپنے حقِ اختلاف کا استعمال کرے۔
بعض معلومات اخباری اطلاعات پر مبنی ہیں۔ انھیں مصدقہ سمجھنا غورطلب ہے۔ شادی اور طلاق کے حوالے سے پاکستانی معاشرے کی موجودہ صورت حال کا جو نقشہ اخبارات سے جمع کردہ معلومات کے سہارے ہمیں ملتا ہے وہ تشویش ناک حد تک پریشان کن ہے (ص ۴۷-۸۴)۔ محققہ کے مطابق نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک عورت نے خلع کی درخواست میں یہ کہا کہ اس کے شوہر نے اس کی شاشلک کھانے کی فرمایش پوری نہیں کی، اس لیے اسے خلع دی جائے۔ کتاب کے اعداد و شمار کی رُو سے پنجاب میں لاہور کی عدالتوں میں ۲۰۰۸ء میں صرف چار ماہ کے دوران ، یعنی اپریل تک ۳ہزار ۵سو ۲۳ مقدمات دائر کیے گئے۔ گویا روزانہ ۸۰ یا ۸۵ مقدمات۔ یہ اس وقت جب عدالتوں میں کیس داخل کرانا ہمت کا کام ہے اور بے شمار مرد اور عورتیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے مقابلے میں ظلم برداشت کرلینا بہتر سمجھتے ہیں۔ گویا اصل تنازعات یقینی طور پر ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
مسئلے کا حل کیا ہو؟ مصنفہ نے کتاب کے آخری باب میں نتائج و سفارشات کے زیرعنوان ۱۴تجاویز دی ہیں جن میں زیادہ اہم کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:
پہلی اصلاح یہ ہونی چاہیے کہ نظامِ تعلیم میں خاندانی زندگی کی اہمیت اور اس کے اسلامی اصول قرآن وسنت کی روشنی میں داخل نصاب ہونے چاہییں۔ ایک عرصے سے مَیں خود اس تجویز کو پیش کرتا رہا ہوں لیکن ابھی تک اس پر کوئی عمل نظر نہیں آیا۔ سورئہ بقرہ ، النساء، آلِ عمران، النحل، بنی اسرائیل، لقمان اور دیگر مقامات سے قرآنی آیات کی عمومی تفہیم و تشریح کو داخل نصاب کیا جائے تاکہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے حقوق و فرائض کا علم ہو۔
برقی ابلاغِ عامہ نے خصوصاً طلاق اور حلالہ کو نہ صرف آسان حل بلکہ ایک مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔ اہلِ علم اپنے فریضے کی ادایگی میں تکلف کا شکار ہیں۔ صحیح اسلامی فکر جو قرآن و حدیث کے الفاظ و معانی دونوں کو سامنے رکھ کر لوگوں کی تربیت کرسکے ناپید ہے۔ ابلاغِ عامہ کے تعمیری استعمال کے بغیر ہم ملک کے دُوردراز خطوں میں دین کا صحیح علم نہیں پہنچا سکتے۔ اس ذریعے کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت اور دستور ساز اداروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی اور مسلم فیملی لا آرڈی ننس اور تحفظ ِ نسواں بل کے غیرشرعی حصوں کو منسوخ اور اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ گھر، تعلیم گاہ، ابلاغِ عامہ اور حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ خود معاشرے میں اخلاقی اقدار کا احیا کیے بغیر مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا۔ اگر عورت کو معاشی دوڑ میں شامل کیا گیا تو مغرب نے اس کی قیمت گھر کی تباہی کی شکل میں ادا کی۔ ان نتائج کو دیکھنے کے بعد جانتے بوجھتے خود کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
خواتین کا ایسے موضوعات پر قلم اُٹھانا ایک نیک فال ہے۔ ان موضوعات پر مزید علمی کام اور علم کی اشاعت کی ضرورت ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
الایام کی بانی (اور موجودہ) مدیر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے مسلسل توجہ، محنت اور تگ ودو سے رسالے کو اس معیار پر پہنچا دیا کہ ہائرایجوکیشن کمیشن نے اسے کسی جامعہ کا مجلہ نہ ہونے کے باوجود، فقط اس کے معیار کے پیش نظر، اسے منظورشدہ مجلات کی فہرست میں شامل کرلیا۔ شمارہ نمبر۸ سے رسالے کی تقطیع بڑھا دی گئی ہے اور اب اس میں نسبتاً زیادہ لوازمہ شامل ہوتا ہے۔ گذشتہ برس الایام نے شمارہ نمبر۷،علی گڑھ کی ایک علم دوست اور فاضل شخصیت ڈاکٹر کبیراحمد جائسی کی یاد میں وقف کیا تھا جس میں جائسی کے بارے میں تقریباً ۴۰ مضامین اور مرحوم کی چند منتخب تحریریں شامل تھیں۔ قدردانی کی یہ ایک اچھی مثال ہے۔
زیرنظر شمارے کا بڑا حصہ ۱۰ مضامین پر مشتمل ’گوشۂ علامہ شبلی نعمانی‘ ہے جس میں پاکستان اور بھارت کے شبلی شناسوں نے مولانا شبلی کی سیرت نگاری، ملّی شاعری، مکاتیب، عربی زبان وادب سے ان کے تعلق اور اپنی تحقیقات میں عربی زبان و ادب سے استفادے کی نوعیت پر دادِ تحقیق دی ہے (آیندہ شمارے میں ’گوشۂ حالی‘ کے لیے اہلِ قلم سے نگارشات بھیجنے کی درخواست کی گئی ہے)۔ مقالات کے حصے میں پروفیسر سیّد نواب علی رضوی کے احوال و آثار کا ایک مفصل تعارف اور جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر عارف نوشاہی کا سفرنامۂ فرانس علمی معلومات اور مشاہدے کا عمدہ امتزاج ہے۔ مباحث کے ضمن میں حافظ محمد شکیل اوج نے ’کیا عصرِحاضر میں خلافت ِ راشدہ کا قیام ممکن ہے؟‘ کے موضوع پر ایک مختصر بحث کے بعد لکھا ہے کہ یہ ممکن ہے، بشرطیکہ ہمارے حکمرانوں میں کوئی ایسا ہو جو عصرِحاضر کا عمر بن عبدالعزیز بن کر سامنے آئے۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ۳۲ خطوط، تعارف اور تعلیقات و حواشی کے ساتھ مرتب کر کے پیش کیے ہیں۔ ’مطبوعاتِ جدیدہ‘ میں کتابوں پر مختصر تبصرے شامل ہیں۔ ’بیادِ رفتگاں‘ کے تحت ماضی قریب میں مرحوم ہونے والی علمی و ادبی شخصیات کے تعزیتی تعارف شامل ہیں۔ ’افکارِ قارئین‘ کے تحت ایک خط اور ’رپورٹ‘ کے تحت پاکستان میں بھارت کی علمی و ادبی شخصیات کی آمد کا مختصر احوال درج ہے۔ مجلے کے انگریزی حصے میں تین تحقیقی مضامین شامل ہیں۔
تحقیقی اعتبار سے اس مجلے کی ایک اہم چیز (اگر سب سے اہم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا) ۴۵۵ خاکوں پر مشتمل کتابوں کی ایک فہرست ہے جسے کراچی کے ایک کتاب دوست جناب راشداشرف نے ایک مفصل تمہید و تعارف کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ فہرست مصنف وار ہے۔ گذشتہ شمارے (نمبر۸) میں راشد اشرف نے ۷۸۱ اُردو خود نوشتوں (آپ بیتیوں) کی فہرست شائع کی تھی۔ اس شمارے ’قرآن اور ظفر علی خان‘ میں طاہرقریشی کا ۹۸صفحاتی مقالہ بھی شامل ہے۔
اُردو ادب کے طالب علموں، تحقیق کاروں اور عام قارئین کے لیے بھی یہ فہرستیں ایک قیمتی لوازمے اور معاونِ تحقیق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک اس طرح کی جامع فہرستیں ابھی تک شائع نہیں ہوئیں۔ امید ہے کہ ایسی ہی مزید فہرستیں الایام میں شائع ہوں گی۔(رفیع الدین ہاشمی)
ڈاکٹر نورباقی کی یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۸۵ء میں ترکی زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا انگریزی ترجمہ ترکی میں ہوا۔ پھر اس کا اُردو ترجمہ سیّد فیروزشاہ گیلانی نے کیا جو ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا، اور اب اس کا جدید ایڈیشن ۲۰۱۴ء میں شائع کیا گیا ہے۔
قرآنِ حکیم سائنس کی کتاب نہیں، وہ انسانوں کے لیے کتابِ ہدایت ہے۔ کائنات اور اس کے اندر موجود تمام چیزوں کی تخلیق اللہ رب العزت نے ہی کی ہے اور قرآنِ حکیم بھی اس کا ہی کلام ہے، لہٰذا اپنی تخلیق شدہ چیزوں کے بارے میں بعض مادی حقائق بھی بیان کیے ہیں۔ یہی وہ باتیں ہیں جو علم سائنس کا میدان بھی ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے ان عنوانات پر جو تحقیقات کی ہیں بعض جگہ وہ قرآن کے بیان سے قریب تر ہیں۔ ان عنوانات ہی کو اس کتاب میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں تقریباً ۷۵۰مرتبہ سائنسی حقائق کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔
کتاب میں ۵۰ متنوع موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہر عنوان کے حوالے سے آیاتِ قرآنی پیش کی گئی ہیں۔ ان کا ترجمہ اور تفسیر بھی اور ساتھ ہی سائنسی تحقیقات بھی، مثلاً: سورئہ اعلیٰ آیت ۵ سے تیل کی پیشین گوئی ، سورئہ یٰسین، آیت ۳۶ سے آکسیجن کی پیشین گوئی۔ اسی طرح بعض اسلامی مذہبی عقائداور تعلیمات کو بھی سائنسی انداز میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، مثلاً وضو، روزہ، دوزخ، جنت، صحرا کے اسرار، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت آدم ؑ کی تخلیق وغیرہ۔
کتاب کا تفصیلی اور جامع تعارف اور مقدمہ پروفیسر ڈاکٹر سیّد رضوان علی ندوی نے لکھا ہے اور مقدمے کے حق ادا کردیا ہے۔پاکستان میں سائنس کے محققین اور طلبہ کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔آیندہ اشاعت میں ترجمے کی کمزوریوں اور انگریزی اصطلاحات کے اُردو مترادفات پر نظرڈال لی جائے۔(شہزاد الحسن چشتی)
زیرنظر کتاب میں ’عرف‘ کی تفصیل احسن انداز میں بیان کی گئی ہے۔ ’عرف‘ کے مترادفات میں سے عادت اور معروف بھی ہیں۔ فقہا کے ہاں اصطلاحی طور پر عرف وہ ہے جو عقلی شہادتوں کی بنیاد پر دلوں میں راسخ ہو اور طبع سلیم اس کو قبولیت کا درجہ دے۔
کتاب میں عرف کی قانونی حیثیت، فتویٰ میں عرف کا لحاظ، عرف کی بنیادی تین اقسام اور عرف کا شرعی حکم زیربحث آئے ہیں۔ اسی طرح عرف کے بدلنے سے فتویٰ کی تبدیلی کے حوالے سے ’قدیم عرف کے خلاف فتویٰ‘ کے عنوان سے کئی مثالیں بھی ذکر کی گئی ہیں جس سے شرعی حکم میں عرف کے مؤثر ہونے کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ آخر میں ’چند جدید عرفی مسائل‘ بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ کتاب میں اختصار ہے، تاہم موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔(حافظ ساجد انور)
حسنین نازش ایک نوجوان ادیب اور افسانہ نگار ہیں۔ انھیں ایک وفد کے ساتھ ترکی کے دورے کا موقع ملا تو انھوں نے پہلے زبانِ یار، یعنی ترکی زبان سیکھی، ترکی کی تاریخ، معاشرت اور اہم شخصیات کے افکار کا مطالعہ کیا۔ سفر کے دوران میں کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، یہی وجہ ہے کہ سفرنامے میں مصنف نے جزئیات نگاری سے کام لیا ہے۔ انھوں نے ترکی زبان اور اُردو کے مشترکات تلاش کیے ہیں اور بتایا ہے کہ ان زبانوں کے کم و بیش پانچ ہزار الفاظ معمولی فرق کے ساتھ مشترک ہیں۔ کتاب کا عنوان ’قاردش‘ کا مطلب ترکی زبان میں ’دوست، بھائی‘ ہے۔
حسنین نازش سفرنامے کے لوازمات اور تکنیک سے واقف ہیں۔ وہ افسانہ نگار ہیں، اس لیے سفرنامے میں کہیں کہیں افسانوی رنگ زیادہ ہوگیا ہے۔ تاہم استنبول، قیصری، کوہِ ارجیس، بورسہ، قونیہ اور دیگر قابلِ دید مقامات کا ذکر انھوں نے دل چسپ انداز میں کیا ہے اور بعض عنوانات میں جدت ہے۔ ترکی میں جن مسلم مفکرین نے دین کو ازسرِنو زندہ و تابندہ کیا ہے، ان میں بدیع الزمان سعید نورسی کا نام سرفہرست ہے۔ وہ نصف صدی تک باطل قوتوں سے برسرِپیکار رہے۔ سیکولر قوتوں نے انھیں مظالم کا نشانہ بنایا مگر وہ ڈٹے رہے۔ ان کے علاوہ شیخ محمد فتح اللہ گولن کی خدمات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ مصنف نے گولن کے افکار اور طریقۂ کار کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ گولن کے بہت قائل معلوم ہوتے ہیں۔ آج کے ترکی کو سمجھنے کے لیے یہ سفرنامہ مفید ہے۔
مصنف کے اسلوب میں ہلکے پھلکے مزاح نے سفرنامے کو دل چسپ اور پُرکشش بنا دیا ہے۔ البتہ کہیں کہیں محاوروں کا نادرست استعمال اور زبان و بیان کی خامیاںبُری طرح کھٹکتی ہیں۔ سرورق ، گٹ اَپ اور طباعت مناسب ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
کالجوں کے رسالے عموماً ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہوتے ہیں۔ کچھ دائیں بائیں سے چیزیں لے کر طالب علم پیش کرتے ہیں یا پھر ابتدائی درجے کی چیزیں نئی نسل کی آواز سے متعارف کراتی ہیں۔ کالج کی سرگرمیوں کی تصویریں ، رپورٹیں اور حاضر ملازمت پرنسپل کی تعریف کے بہانے اور مواقع پیدا کیے جاتے ہیں۔ لیکن مجلہ ارقم کالجوں کے رسائل میں ایک مختلف رنگ لیے ہوئے ہے۔ علمی و ادبی اور اشاعتی مراکز سے دُور دراز واقع ایک پہاڑی علاقے کے کالج نے ایک انوکھا چراغ روشن کیا ہے۔ موضوعات کا تنوع، لکھنے والوں کی کہکشاں اور مضامین کے ذائقے اس طور بہ یک وقت چلتے نظر آتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سال پرانے کالج بھی منہ دیکھتے رہ جائیں۔
ارقم۴ کئی حصوں پر مشتمل ہے، تقسیم دیکھیے: l تحقیق و تنقید (سات مضامین) lگوشۂ چراغ حسن حسرت (سات مضامین) lکشمیریات (تین مضامین) l گوشۂ عبدالعزیز ساحر (۱۳مضامین) l مشاہیر (تین مضامین) l فکرونظر (تین مضامین) وغیرہ۔ اس موٹی موٹی تقسیم سے حُسنِ ترتیب کا کچھ اندازہ ہوجاتا ہے لیکن تحریروں کے معیار اور تحقیق کے آہنگ سے پیدا ہونے والا احساس ، کلمۂ تحسین کہے بغیر نہیں رہتا۔ مضامین علمی اور معلوماتی اعتبار سے خوب تر کا نمونہ ہیں۔ اس تمام خوب صورتی و رعنائی کے ساتھ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مجلہ اپنے کالج کے طالب علموں کی تحریروں کے لیے بھی کوئی گنجایش رکھتا ہے یا پھر طالب علموں کو معروف اہلِ قلم کی تحریرو ں کا گلدستہ پیش کرنے ہی کو اپنی ترجیح قرار دیتا ہے؟ ہمارے خیال میں دونوں کا امتزاج مناسب حل ہے، یا پھر طلبہ و طالبات کا الگ میگزین شائع کیا جائے، جیسا اورینٹل کالج کے شعبۂ اُردو میں ہے: بازیافت تحقیقی مجلہ ہے اور سنخن طلبہ و طالبات کا میگزین۔ (سلیم منصور خالد)
فاضل مرتب نے اس موضوع پر ۲۰۰۲ء میں اپنے مطالعے کو پیش کیا تھا، تاہم ۱۱برس بعد دوبارہ یہ موضوع ایک نئی کتاب کے رُوپ میں نظرنواز ہوا ہے، جس میں بیسویں صدی میں شائع ہونے والے اُردو رسائل و جرائد کے ۱۰۱خصوصی قرآن نمبروں کا تعارف ہے۔
قرآن خالق کائنات کا اَبدی پیغام ہے۔ اس پر غوروفکر کے ہزاروں اسلوب ہیں اور لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے بے شمار ڈھنگ اسلام کے پرستاروں نے اختیار کیے ہیں۔ انھی میں ایک طریقہ رسائل و جرائد کے قرآن پر خصوصی شمارے ہیں۔ پروفیسر اقبال جاوید نے اس ضمن میں اپنے انتخاب کا آغاز سیّد حسن بقائی کے ماہ نامے پیشوا، دہلی (جنوری ۱۹۳۳ء) سے کیا اور خالد سیف اللہ رحمانی کے سہ ماہی حرا ، حیدرآباد دکن (جولائی ۲۰۰۰ء) پر تمام کیا ہے۔
مرتب نے اس چیز کا خاص خیال رکھا ہے کہ اس کتاب سے عام قاری استفادہ کرسکے، اور وہ تحقیق و تجزیے کے بوجھل دائرے میں جانے کے بجاے یہ جان سکے کہ: ان خصوصی اشاعتوں میں قرآن سے محبت اور قرآن کی خدمت کن رنگوں اور کن لہجوں میں کی گئی ہے۔ کس اشاعت نے کس پہلو کو فوقیت دی اور کس پہلو پر غوروفکر کے لیے ندا بلند کی۔ گویا کہ یہ مجموعہ ہمیں بیسویں صدی میں، اُردو خواں طبقے کی حب ِ قرآن کی ایک جھلک دکھا دیتا ہے۔(سلیم منصور خالد)
اس کتاب میں فاضل مصنف نے ۳۰موضوعات کے تحت روزے کے انقلابی پہلوئوں کو بیان کیا ہے۔ رب سے تعلق، خود اپنی تربیت اورتزکیہ، اور پھر انسانی زندگی کے ہرہر پہلو اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہرہردائرے میں روزے کا جو کردار ہے اسے سادہ زبان میں اور نہایت محکم دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں اسلامی زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے اور قرآن اور اسوہ نبویؐ کی روشنی میں پوری زندگی کی صحیح خطوط پر تعمیروتشکیل کی جاسکتی ہے۔ اس میں جس جامعیت کے ساتھ زندگی کے روحانی، اخلاقی، معاشرتی اور تہذیبی، غرض ہمہ پہلوئوں پر روزے کے اثرات کا احاطہ کیا گیا ہے وہ اسے ایک منفرد علمی اور دعوتی کاوش بنا دیتا ہے۔ اس مجموعے کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں رمضان المبارک کے دوران جو اہم تاریخی واقعات رُونما ہوئے ہیں انھیں بھی بڑے ایمان افروز انداز سے ایک خوب صورت یاد دہانی کے طور پر بیان کردیا گیا ہے اور اس طرح سندھ میں اسلام کی آمد، غزوئہ بدر کا فیصلہ کن تاریخی موڑ اور قیامِ پاکستان بھی اس سنہری سلسلے کی کڑیاں بن جاتی ہیں۔(مسلم سجاد)
رمضان المبارک آتا ہے تو روزے کے حوالے سے مختلف امراض کے بارے میں رسائل میں مضامین پر نظر پڑتی ہے لیکن یہ غالباً پہلی دفعہ ہے کہ اس موضوع پر ایک جامع کتاب ایک ماہرفن نے پیش کی ہے۔ ڈاکٹر محمد واسع شاکر اعصابی امراض کے ماہر ہیں اور آغا خان یونی ورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ ان کے وہ ۳۰لیکچر ہیں جو رمضان ۲۰۱۲ء میں ویب ٹی وی چینل ’راہ‘ ٹی وی سے نشر ہوئے۔ پہلے دو باب اسلامی تصورِ عبادت اور سیرتِ طیبہؐ کی روشنی میں صحت و غذا کے بارے میں ہیں۔ صحت پر تراویح کے اثرات پر ایک الگ باب ہے۔ صحت کے حوالے سے روزے کے بارے میں جو عام غلط تصورات رائج ہیں ان کا بھی بیان ہے، پھر روزے کے جسمانی اثرات اور مختلف امراض: بلڈپریشر، امراضِ قلب، ذیابیطس، گردے، جگر، معدے اور آنتوں کی بیماریاں، نفسیاتی بیماریاں، جوڑوں کی بیماری، حتیٰ کہ دانتوں پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا بیان ہے۔ طبی ثمرات کے عنوان کے تحت مثبت اثرات بیان کیے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکا اور یورپ میں اس موضوع پر بہت ریسرچ ہورہی ہے اور اسے مختلف امراض کے علاج میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب صرف ڈاکٹروں اور مریضوں کی رہنمائی نہیں کرتی، بلکہ عام افراد کے لیے بھی اس میں ضروری بنیادی معلومات موجود ہیں۔ (مسلم سجاد)
اگر دورِحاضر کی مسلم نابغۂ عصر شخصیات کی ایک فہرست بنائی جائے تو چند ابتدائی ناموں میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ کا نام ضرور موجود ہوگا۔ علومِ اسلامیہ کے یہ نام وَر اسکالر اور محقق ۱۲برس پہلے ۱۷دسمبر ۲۰۰۲ء کو انتقال کرگئے تھے۔ زیرنظر کتاب کے مرتب محمد راشد شیخ کے الفاظ میں: ’’ڈاکٹر صاحب مرحوم کا انتقال صرف ایک انسان کا گزرنا نہیں بلکہ دراصل یہ ایک طویل اور علمی خدمات سے بھرپور عہد کا بھی خاتمہ تھا‘‘۔ گذشتہ ۱۲برسوں میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے عقیدت مندوں نے ان کے خطوط اور ان کے سوانح اور علمی خدمات پر لکھے جانے والے سیکڑوں مضامین پر مشتمل متعدد مجموعے تیار کر کے شائع کیے ہیں۔
محمد راشد شیخ صاحب نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ سے اپنی عقیدت و ارادت کا ثبوت زیرنظر کتاب کی شکل میں پیش کیا ہے۔ جیساکہ کتاب کے ضمنی عنوان سے ظاہر ہے، پہلا حصہ بعنوان: ’احوالِ ذاتی‘ سوانحی تفصیلات پر مشتمل ہے جس میں مرحوم کے بھتیجے احمد عطاء اللہ کے ساتھ خود ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے تین مضمون شامل ہیں جن کی نوعیت خودنوشت کی سی ہے۔ دوسرے حصے میں مرحوم کی تحریروں کی فہرست کو کتابیات کے اصول پر خود راشد شیخ صاحب نے مرتب کیا ہے۔ تقریباً ۳۰۰ صفحات پر مشتمل تیسرے حصے میں مرحوم کی علمی اور ادبی خدمات، ان سے ملاقاتوں کی یادداشتوں اور ان کی وفات پر لکھے جانے والے تاثراتی مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ اس حصے کی حیثیت ایک طرح سے ’یادنامہ‘ کی ہے۔ لکھنے والوں میں علومِ اسلامیہ ، عربی زبان، اُردو ادب اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بعض نام وَر اور ثقہ نام (ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ، ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، ڈاکٹر محموداحمد غازی، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، حکیم محمد سعید، پروفیسر محمد منو ر اور محمد صلاح الدین وغیرہ) نظر آتے ہیں۔آخری حصے میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے ۱۵۰ سے زائد منتخب خطوط جمع کیے گئے ہیں اور مرتب نے ان پر مختصر حواشی بھی تحریر کیے ہیں۔
علمی دنیا میں ڈاکٹر حمیداللہ کے سیکڑوں عقیدت مند موجود ہیں، اور وہ مرحوم سے غیرمعمولی لگائو اور محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر مرحوم کے بارے میں بہت کم لوگوں نے اچھی، یادگار تحریریں لکھی/کتابیں تیار کی ہیں۔ راشد شیخ کی مرتبہ زیرنظر ایک ایسی جامع کتاب ہے جس میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے بارے میں تمام ضروری معلومات و کوائف یک جا مل جاتے ہیں اور ان کی علمیت اور علمی کارنامے کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
خلافت ِ اسلامیہ کا دور، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے روزِ انتخاب (۶۳۲ء) سے شروع ہوکر اتاترک کے ہاتھوں عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی کی معزولی (۱۹۲۴ء) تک قائم رہا۔ یہ عرصہ ۱۳۳۱ سالوں پر محیط ہے۔
اتاترک کے ہاتھوں تنسیخ خلافت (۱۹۲۴ء) کے دو سال بعد ۱۹۲۶ء میں ملت اسلامیہ کے چند بزرگ: سلطان عبدالعزیز والی سعودی عرب، سیّد سلیمان ندوی، علامہ رشید رضا، مفتی امین الحسینی، محمد علی جوہر، مفتی کفایت اللہ دہلوی، موسیٰ جار اللہ، محمد علی علوبہ پاشا اور رئیس عمر (انڈونیشیا) حج کے موقعے پر مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے اور ’موتمرالعالم اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے اس کا صدر دفتر کراچی میں ہے۔ موتمر کے مرحوم سیکرٹری ڈاکٹر انعام اللہ خان نے تقریباً ۲۵ سال پہلے ایک فاضل شخصیت مولانا عبدالقدوس ہاشمی سے فرمایش کرکے یہ کتاب لکھوائی تھی۔ اپنے موضوع پر بہت عمدہ اور حوالے کی کتاب ہے۔اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کا اختصار اور جامعیت ہے۔خلافت کی ۱۳۳۱ سالہ تاریخ کو پونے تین سو صفحات میں بیان کر کے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا گیاہے۔ ’خلافت‘ کے تحت خلافت کے اصولوں، خلافت کی افادیت اور ادارہ خلافت کی عدم موجودگی میں اُمت مسلمہ کے نقصانات کا ذکر کیا گیا ہے۔ دنیا کے تقریباً ۵۰مسلم ممالک اگر آج بھی مل کر ادارہ خلافت قائم کرلیں تو مصنف کے بقول: ’’شاید دنیا کی تقدیربدل جائے‘‘۔ مصنف نے خلافت کے قیام کے لیے چند تجاویز بھی دی ہیں۔ دوسرے حصے میں ۲۰صفحات کا ایک گوشوارہ خلفاے اسلام کے ناموں، ان کے زمانۂ خلافت اور ان کے دارالخلافوں کے ناموں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور کے چند اہم واقعات (زکوٰۃ کی ادایگی سے انکار، سرحدوں پر حملے اور پانچ افراد کے نبوت کے دعوے وغیرہ) کا ذکر ہے۔ اسی طرح ایک ایک کر کے جملہ مابعد خلفا کے حالات، ان کے دورِ خلافت کے عام اقدامات، طرزِ حکومت، فتوحات اور ان کے کارناموں کا بیان ہے۔ اُموی اور عباسی خلفا (وہ خود کو ’خلفا‘ کہتے تھے، حالانکہ تھے: ’بادشاہ‘)کا تذکرہ اور ان کے عہد کے واقعات نسبتاً مختصر ہیں۔ کتاب میں تفصیل کی گنجایش ہی نہ تھی تاہم چیدہ چیدہ واقعات اور اہم باتیں شامل ہیں۔ آخر میں عثمانی خلفا کے حالات اور ان کی فتوحات کامختصر ذکر ہے۔
اس کتاب کی اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ ۱۳۳۱ برسوں کے حالات و واقعات کا زمانی گوشوارہ (chronology) ہے جس میں ممکن حد تک ہرخلیفہ کی تاریخ پیدایش، تاریخِ وفات اور عہدخلافت کا زمانہ، اسی طرح اس کی مدتِ خلافت کا تعین کیا گیا ہے۔ حوالے کی یہ کتاب بہت سی ضخیم کتابوں کا نچوڑہے۔ پونے تین سو صفحات کے کوزے میں ساڑھے تیرہ سو سال کی طویل مدت کا دریا بند کرنا آسان نہ تھا مگر فاضل مصنف نے یہ کردکھایا۔(رفیع الدین ہاشمی)
ادبیات میں تخیل کی رفعت تاثیر اور تخلیقی حُسن فن پارے کی بقا اور مقبولیت کا ضامن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظم و نثر کے ظہور کے ساتھ ہی زمانے کی نظریں اس کے حُسن و قبح، فنی معیار اور ادبی محاسن پر مرتکز ہوجاتی ہیں۔ تحسینِ نظم و نثر کے پیمانوں پر پورا اُترنے والے ادب پاروں کو قبولِ عام کی سند سے نوازا جاتا ہے۔ یہی ادب پارے زندہ رہتے ہیں، جب کہ غیر معیاری تحریریں زمانے کی گرد میں دب کر فراموش کردی جاتی ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب میں جدید اُردو شاعری اور نثر کے میلانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ تنقیدی مضامین گذشتہ ۲۵ ، ۲۶ برسوں میں لکھے گئے، تاہم ان مباحث کی تازگی اور اسلوبِ بیان کی شگفتگی آج بھی قائم ہے۔ ان میں بعض مضامین کتابوں پر تبصرے کے ذیل میں آتے ہیں اور بعض نگارشات علمی، تنقیدی اور تجزیاتی ہیں۔ مجیدامجد کی شاعری کا زمان و مکان کے حوالے سے جائزہ لے کر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مجیدامجد کے ہاں وقت مجتمع ہوکر لمحہ موجود میں سمٹ آیا ہے۔ مجیدامجد کے ہاں زمانے کے حوالے سے مسلسل ایک ارتقائی سفر پایا جاتا ہے(ص ۲۳)۔ وقت کی بحث وزیرآغا کی تین کتابوں: شام اور سایـے، دن کا زرد پہاڑ اور نردبان کے جائزے میں بھی جاری رہتی ہے۔ وہی وقت جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ کائناتی تغیر کا احساس ہے (ص ۲۵)، مضمون ’زمان و مکان کی صلیب‘ میں ماضی، حال اور مستقبل کے الفاظ میں ڈھل جاتا ہے (ص ۹۱)۔ شعری مطالعے کے ۱۲ مضامین ہیں۔ پاکستان میں لکھی گئی اُردو کی جدید شاعری کے رجحانات، میلانات اور امکانات کا جائزہ لے کر اُردو شاعری کے روشن مستقبل کی نوید سنائی گئی ہے۔
نثری مطالعے میں بھی کتابوں پر تنقید، محاکمہ اور مبصرانہ نکتہ طرازیان ملتی ہیں۔ول ڈیورانٹ اور ان کی اہلیہ کی تصنیف The Lessons of History کا تنقیدی جائزہ مصنف کی وسیع النظری، ژرف نگاہی اور ان کی عادلانہ نکتہ آفرینیوں کا ثبوت ہے۔ انھوں نے مصنفین کی جانب داری، تعصب اور اسلام دشمنی کی نشان دہی کرتے ہوئے مدلل و مسکت جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ قرآنِ مجید کو یہودیت سے ماخوذ قرار دینے والے ان بے خبر مصنفین کو مضمون نگار نے سورئہ فرقان کی آیت ۴،۵ کے حوالے سے حقیقت حال سے باخبر کیا ہے۔ سیرت النبیؐ پر لکھنے والوں کے لیے یہ مسئلہ ہمیشہ زیربحث رہا ہے کہ وہ ضعیف اور مرفوع روایات سے دامن کیسے چھڑائیں۔ مضمون نگار نے سوال اُٹھایا ہے کہ ہمیںفیصلہ کرنا ہے کہ ترجیح کس کو دیں؟ حدیث کو یا تاریخ کو؟ (ص۱۷۹)۔ ہمارے خیال میں شبلی نعمانی نے اس سوال کا جواب سیرت النبیؐ (جلداوّل) میں دینے کی کوشش کی ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ کتاب کے صفحہ ۱۱۴ اور صفحہ ۱۱۵ پر دی گئی قرآنی آیات، پاک وہند میں متداول قرآنِ مجید کے عربی متن کے مطابق نہیں ہیں۔(ظفرحجازی)
عبدالقادر مُلّاؒ کی شہادت بلاشبہہ اہلِ اسلام کے لیے ایک المیہ ہے، مگر اصل المیہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلام (چند مستثنیات کے سوا) سویا ہوا ہے۔ دوسروں کا تو کیا گِلہ، خود پاکستان جس کی بقا اور تحفظ کے لیے مُلّا عبدالقادر اور ان کے ساتھیوں نے جان کے نذرانے تک پیش کردیے، اسی پاکستان کی حکومت اور اسی حکومت کے ذمہ داران اپنی مصلحتوں اور ناقابلِ فہم مجبوریوںکی بنیاد پر مُہربہ لب ہیں۔
پاکستان کا شاید ہی کوئی اخبار یا رسالہ ہوگا جس نے عبدالقادر مُلّا کی شہادت کے سانحے پر تبصرہ نہ کیا ہو اور بہت کم کالم نگار ایسے ہوں گے جو اس موضوع سے بے نیازانہ گزرے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی زیادتی، بے انصافی، بے اصولی اور بددیانتی کو ’غیر جانب دار‘ لوگ بھی برداشت نہیں کرسکے، مگر آفریں ہے پاکستان کی ایک بڑی ’عوامی‘ پارٹی کے مرکزی راہ نما پر جنھوں نے کہا تھا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے، وہ یہاں بھی ہونا چاہیے۔ یہ فرمان اُس ہونہار راہ نما کا ہے جس کے نانا نے کہا تھا: ’اُدھر تم اِدھر ہم‘ اور یہ کہ: ’’اسمبلی کا جو رکن اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی‘‘۔ اس نوخیز نادان کو یہ اندازہ نہیں کہ غیرذمہ دارانہ اور اُوٹ پٹانگ بیانات کے نتائج افراد اور جماعتوں تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ملکوں اور قوموں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ بہرحال عبدالقادر مُلّا تو ؎
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدّعی کے واسطے دار و رَسن کہاں
کی مثال قائم کرگئے۔ اب انصاف اور انسانیت کے سفاک قاتلوں کا یومِ حساب زیادہ دُور نہیں ہے___ اور: ’لہو پکارے گا آستیں کا‘‘۔
پاکستان کی تاریخ میں غالباً کسی سانحے پر ایسا کم ہی ہوا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مضامین اور کالم اور اداریے لکھے گئے ہوں۔ سلیم منصور خالد نے بڑی جستجو کے ساتھ یہ ساری تحریریں جمع کیں، اور انھیں نہایت سلیقے اور خوش اسلوبی سے مرتب کردیا۔ کتاب کا مقدمہ پروفیسر خورشیداحمد کے قلم سے ہے۔ اشاریے نے کتاب کی وقعت بڑھا دی ہے۔ یہ کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے حکمرانوں اور اہلِ اقتدار و اختیار کو بہت کچھ نظر آئے گا۔ ہمارا مؤرخ اس کتاب کی مدد سے تاریخ دعوت و عزیمت کا ایک اہم باب مرتب کرسکے گا۔ تادمِ تحریر، دو اڑھائی ماہ کی قلیل مدت میں اس کتاب کا چوتھی بار شائع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اہلِ پاکستان اس المیے سے کس درجہ قلبی وابستگی رکھتے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ماہ نامہ فانوس کی زیرنظر اشاعت ِ خاص کا بڑا حصہ زاہدہ خاتون شیروانیہ کی کلیات پر مشتمل ہے (ص۹ تا ۴۰۴)۔ مرتب خالد علیم نے کلیات کے ابتدا میں ۳۲صفحات کا مقدمہ بھی شامل کیا ہے۔
زاہدہ خاتون شیروانیہ بیسویں صدی کے ربع اوّل کی معروف شاعرہ تھیں۔ انھوں نے اپنی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے باعث دنیاے ادب پر اپنے اثرات ثبت کیے۔ اکبر الٰہ آبادی اور علامہ اقبال جیسی شخصیات نے بھی ان کی خدمات کو سراہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیاے ادب نے زاہدہ خاتون شیروانیہ کو فراموش کردیا۔ خالد علیم صاحب نے انھیں دریافت کر کے اور بزمِ فانوس نے اسے شائع کر کے علم دوستی کا ثبوت دیا ہے۔
زاہدہ خاتون فکرِاقبال سے متاثر تھیں۔ ہم انھیں حالی، اکبر اور اقبال جیسے اکابر کا تسلسل کہہ سکتے ہیں۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز اور اُمت مسلمہ کا درد واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہ غلامیِ فرنگ اور اس پر قانع مسلمانوں سے نالاں نظر آتی ہیں۔ وہ خداے ذوالجلال کے حضور فریاد کرتی ہیں۔ اہلِ اسلام کو جھنجھوڑتی ہیں کہ وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔
اپنے دور کی مقامی اور عالمی سیاسی صورت حال پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے تقسیم بنگال کی تنسیخ، جنگِ طرابلس، جنگ ِ بلقان، شہادتِ مسجد کان پور اور پہلی جنگ عظیم جیسے سانحات کو بنظر تعمق دیکھا، محسوس کیا اور ان پر اپنا شعری ردعمل ظاہر کیا۔
زاہدہ خاتون ۲۷سال اور دو ماہ کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ زندگی میں انھوں نے نہ صرف شاعر بلکہ اُمت مسلمہ کی راہنما کے طور پر بلند مقام حاصل کیا۔ اس مختصر مدت میں انھوں نے شاعری کا ایسا ذخیرہ چھوڑا جو اُردو کے بعض کہنہ مشق اور بزرگ شعرا کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے، خصوصاً ملّی شاعری کے حوالے سے۔
خالد علیم خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے محنت اور دیدہ ریزی سے اس کلیات کو مرتب کیا ہے۔ اسے الگ کتابی صورت میں بھی شائع کرنے کی ضرورت ہے۔(قاسم محمود احمد)
سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس کا حق ادا کیا۔ ان کی تحریر یں قرآن و حدیث، اسلامی افکار اور جدید و قدیم لٹریچر کے گہرے مطالعے کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ آج کے دور کا اہم ترین موضوع ’معاشیات‘ اور ’اسلامی معاشیات‘ قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ کے علما کی تحریروں میں تو نظر آتاہے، لیکن علامہ ابن خلدون ؒ کے بعد کے اَدوار میں مغرب کے اسکالروں کی تحریریں ہی نظر آتی ہیں۔ مسلمان علما نے اس موضوع پر بہت کم لکھا۔
سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس موضوع پر لکھا اور لکھنے کا حق ادا کیا۔ ان کے بعد ان کے رفقا نے اس موضوع پر خوب لکھا۔ آج اس موضوع پر ہزاروں کتابیں، کتابچے اور مقالات لکھے جاچکے ہیں۔ سیّد مودودیؒ نے اس موضوع پر ۱۹۳۰ء کے عشرے میں لکھنا شروع کیا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے تک مولانا کی تحریروں کو پروفیسر خورشیداحمد نے معاشیاتِ اسلام کے قالب میں ڈھالا اور اس کتاب کی تدوین کی۔ بعدازاں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ لاہور سے شائع ہوا۔
First Principles of Islamic Economics ،معاشیاتِ اسلام کاایک جدید اور جامع ترجمہ ہے۔ احمد امام شفق ہاشمی نے خوب صورت اور جامع انگریزی میں یہ ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں اسلامی معاشیات کے تقریباً تمام ہی نظری مباحث موجود ہیں۔ سیّد مودودیؒ نے دورِجدید کے تناظر میں قرآن و سنت کی روشنی میں معاشی مسائل پر بحث بھی کی ہے اور جدید ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی دیے ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے فلاح کے اسلامی تصور کی وضاحت بھی کی ہے اور دیگر معاشی نظاموں سے موازنہ بھی، خصوصاً نظامِ سرمایہ داری سے۔ قرآن پاک کی معاشی تعلیمات کا نچوڑ بھی پیش کیا ہے اور اسلام کے معاشی فلسفے پر بحث بھی کی ہے۔ اسلامی معاشی نظام کے مقاصد کے ساتھ معاشی زندگی کے اسلامی اصول بھی بیان کیے ہیں۔ اسلامی معاشی نظام کے اہم خدوخال بیان کرتے ہوئے زمین کی ملکیت کے اسلامی تصور، سود کی حُرمت اور اس کے دلائل، زکوٰۃ کا نظریہ اور عملی اطلاق کی صورتیں، سماجی انصاف (Social Justice) کی ضرورت و اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ دورِ جدید کے مسائل متعلقہ محنت و مزدور، انشورنس اور قیمتوں کے تعین (price control)کے بارے میں اسلامی تعلیمات پیش کی ہیں۔ دورِ جدید میں اسلامی معاشی قوانین کی تشکیل جدید پر بحث سے اس کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔
یقینا یہ کتاب انگریزی دان طبقے ، جامعات کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ محققین کی لائبریری میں ایک قابلِ قدر اضافہ ثابت ہوگی۔سرورق جاذبِ نظر ہے۔(ڈاکٹر میاںمحمد اکرم)
’’قاضی حسین احمد تاریخِ پاکستان کے بڑے آدمیوں میں سے تھے‘‘۔ ممکن ہے اس جملے پر بعض لوگ چونکیں اور انھیں اس بیان کو تسلیم کرنے میں کچھ تامّل ہو اور وہ سوال کریں: وہ کیوں ایک بڑے آدمی تھے؟
اس کی متعدد وجوہ ہیں: وہ ایک بڑی دینی اور سیاسی پارٹی (جماعت اسلامی) کے سربراہ تھے۔ ایک ایسی جماعت کے سربراہ جس نے قیامِ پاکستان کے مقاصد اور نصب العین (لاالٰہ الا اللہ کا نفاذ، بصورتِ اسلامی شریعت) کو تروتازہ رکھا، اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ، کہ جس نے دوسری پارٹیوں کی طرح وسائلِ پاکستان کولوٹ کر،اپنی جیبوں میں منتقل نہیں کیا، اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ جس نے پاکستان کی بقا اور تحفظ کے لیے عملاً سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور اس پر اپنے نوجوانوں کی جانیں تک نچھاور کردیں۔ پھر قاضی حسین احمد کو ایک سیاسی پارٹی کی سربراہی وراثت میں نہیں ملی تھی، بلکہ وہ اپنی صلاحیتوں کی بناپر اپنی جماعت کے سربراہ مقرر کیے گئے تھے۔ ان کا شمار اس لیے بھی بڑے آدمیوں میں ہونا چاہیے کہ انھوں نے سیاست دانوں کی طرح، پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کے باوجود مادی وسائل اور پلاٹ جمع نہیں کیے تھے اور وہ کسی بنک کے نادہندہ بھی نہیں تھے۔ جب پاکستان کے دفاع کی بات کی جائے گی تو پاکستان کے ساحلوں تک پہنچنے کے عزائم رکھنے والے سرخ ریچھ کو افغانستان کی سرحد پر روکنے اور پھر وہیں سے اس کا منہ پھیرنے کی منصوبہ بندی میں بھی قاضی صاحب نے بہت بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
زیرنظر کتاب عزیزجہاں، قاضی حسین احمدؒ اسی بڑے آدمی کو خراجِ تحسین کی ایک صورت ہے۔ یہ اُن چھوٹے بڑے مضامین کا مجموعہ ہے جو قاضی صاحب کی وفات کے بعد لکھے گئے، اخبارات اور رسائل میں چھپے اور بعض تقاریب میں بھی پڑھے گئے اور بعض مکالمے ٹیلی ویژن پر بھی ہوئے۔ لکھنے والوں میں مرحوم کے اہلِ خانہ، عالمی رہنما اور قائدین، جماعتی رفقا، ملکی، سیاسی و دینی قائدین اور اہلِ علم و قلم شامل ہیں۔ حکومتوں کے عہدے دار، سیاسی پارٹیوں کے سربراہ، اسلامی تحریکوں کے قائد، صحافی، ادیب، حتیٰ کہ قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کے نظریاتی مخالفین نے بھی قاضی صاحب کی نیک نفسی، اعتدال، درویشی اور بے لوثی کی تعریف و تحسین کی ہے۔ بلاشبہہ قاضی حسین احمد کی زندگی سعادت کی زندگی تھی اور ان کا رخصت ہوجانا غمگین کردینے والا تھا۔ انھوں نے اپنے کردار اور اخلاق سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا اور کروڑوں دلوں میں اپنے لیے جگہ بنائی۔ زیرنظر کتاب بتاتی ہے کہ دلوں میں جگہ کیسے بنائی جاتی ہے!
بظاہر یہ کتاب متفرق مضامین کا مجموعہ ہے، مگر یہ ایک بڑے شخص کی داستانِ حیات ہے۔ قاضی حسین احمد نے صرف جماعت اسلامی ہی کی قیادت نہیں کی، بلکہ آگے بڑھ کر مسلم دنیا اور عالمی اسلامی تحریکوں کو درپیش بڑے بڑے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف خطوں (افغانستان، کشمیر، بوسنیا، فلسطین، چیچنیا وغیرہ) کے مظلوم اور مقہور مسلمانوں کے دکھ درد کو محسوس کیا اور حتی المقدور طرح طرح سے ان کی مدد کرتے رہے۔ قاضی صاحب کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ انقلابی نظریات رکھتے تھے اور جماعت کے اجتماعی مزاج میں کچھ تبدیلیوں کے محرک بھی تھے۔یہ ایک بحث کا موضوع ہے مگر اس میں شبہہ نہیں کہ قاضی صاحب کے دورِ امارت میں اوّل تا آخر جماعت کا مقصد اور نصب العین اور لائحۂ عمل کبھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا۔
’عزیزِ جہاں‘ کی ترکیب الطاف گوہر نے سیّدمودودی کے لیے استعمال کی تھی، مگر قاضی حسین احمد کے لیے بھی یہ بالکل درست اور صحیح ترکیب ہے، کیوں کہ وہ سیّدمودودی کے جا نشین تھے۔ جمال عبداللہ عثمان نے کتاب کو مرتب کیا اور شاہد اعوان (انڈسٹری، اسلام آباد) نے قابلِ رشک ذوقِ جمال سے اسے ڈیزائن کر کے شائع کیا ہے۔ کتاب کا معیارِ کتابت و طباعت لائقِ تحسین ہے۔ اس میں شامل بہت سی رنگین تصاویر میں بہت سی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
قرآنِ مجید کی ہدایت کسی ایک عہد تک محدود نہیں بلکہ یہ ہردور کے انسانوں کے لیے سرچشمۂ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید کی منصوص تعلیمات بغیر کسی تبدیلی کے ہر دور میں موجود رہی ہیں۔ نص میں تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ ہر دور کی متغیر تہذیب سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے قرآنی نصوص کی تعبیر و تفسیر کا کام جاری رہا۔ اس تفسیری و تشریحی کام نے ہر دور میں بدلے ہوئے حالات کے باوصف قرآنی ہدایات سے روشنی حاصل کی اور قرآن پر عمل کے لیے راہیں نکالیں۔ یہی کاوش تنقیح و تحقیق اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ فقہاے اسلام کا طرئہ امتیاز بنی۔
زیرتبصرہ کتاب کے بعض مضامین میں مصنف نے مختلف مباحث پر قرآنی نقطۂ نظر سے بات کی ہے اور بعض عنوانات کے تحت انھوں نے اپنے افکارونظریات بھی پیش کیے ہیں۔ جن عنوانات پر انھوں نے اپنی راے پیش کی ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ہدایت و ضلالت میں انتخاب کی آزادی، تعبیرنصوص میں قدیم اور جدید منہج، قوم، اُمت اور ملّت کے قرآنی اطلاقات اور ہماری شناخت، کیا غیرمذاہب کے تمام پیروکار باطل پرست ہیں؟ عذابِ الٰہی اور فطری حوادث کے مابین فرق، نفاذِ شریعت کے قرآنی اصول، قتلِ عمد میں قصاص و دیت، حقیقت ربا اور اس کی اطلاقی نوعیت، امام اعظم کی قرآن فہمی کے چند نظائر، موت و حیات کا قرآنی و مغربی تصور، مسئلہ نسخ اور شاہ ولی اللہ دہلوی۔ تمام مضامین میں قرآنی فکر ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے اور تنقیح و تفہیم سے کام لیا گیا ہے۔
بعض مباحث میں علما کے نقطۂ نظر کا اختلاف موجود ہے۔ مصنف نے ایسے مباحث کو واضح کر کے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے، مثلاً ایمان اور عمل کے تلازم کی بحث (ص۲۷)۔ بعض علما ایمان اور عقیدے کو ترجیح دیتے ہیں اور بعض کے نزدیک عمل کے بغیر عقیدہ متحقق نہیں ہوتا۔ مصنف نے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ مشینی ذبیحے پر بھی علما نے اپنی آرا پیش کی ہیں۔ یورپ اور امریکا میں الیکٹرک شاک سے جانور کو بے ہوش کرکے ذبح کیا جارہا ہے۔ مصنف کے خیال میں اس طرح جانور کا خون پوری طرح خارج نہیں ہوتا۔ قرآن کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ذبح میں جانور کے خون کا مکمل اخراج اور تکبیر ضروری ہے۔
مصنف نے’نصوص‘ کی تعبیر کے حوالے سے بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ مسلمانوں میں جب سے مسلکی تعبیر کی ترویج ہوئی تب سے اختلاف راے نے تشدد کی صورت اختیار کرلی۔ بعدازاں یہی تشدد منافرت میں بدل گیا۔ مسلکی تعبیر میں غلو سے اختلافات کا بازار گرم ہوا تو یہ ملّت اسلامیہ کے انتشار اور اس کے زوال کا باعث بنا۔ مصنف نے قدیم و جدید مناہج تعبیر سے کام لیتے ہوئے اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ تعبیرنصوص کے لیے روایت و درایت کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے۔ مصنف کی آرا سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، یہ اختلاف، راے کا اختلاف ہوگا، اسے کسی مسلکی تنگ نظری یا متجددین کی آزاد خیالی پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کاوش بہرحال آج کے حالات میں ایک نئی آواز ہے جس میں قرآنی بصیرت اور خدمت کا جذبہ شامل ہے۔
مصنف کو احساس ہے کہ وہ مشکل پسندی کا شکار ہیں، تاہم وہ مطمئن ہیں کہ صحافتی زبان اور علمی زبان دو مختلف اسلوبِ بیان کی حامل ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ وہ خداداد بصیرت سے کام لے کر قرآنی معارف و بصائر سے اُردوخواں طبقے کو مستفید کرتے رہیں گے۔(ظفرحجازی)
زیرنظر کتاب ایک انتہائی حساس موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص پیدایشی طور پر کسی مہلک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو یا پھر عمر کے کسی حصے میں وہ مسلسل مہلک بیماری کا شکار ہوجائے اور اس کے شفایاب ہونے کی کوئی ممکنہ صورت نہ نظر آئے، یہاں تک کہ اس کی مثل مثلِ مُردہ کے ہوجاتی ہے کہ اپنا کوئی کام وہ خود نہیں کرسکتا۔ اس کی ساری ضرورتوں کی تکمیل اس کے قریب ترین رشتہ دار انجام دیتے ہیں۔ مریض یا تو مکمل بے حس اور بے حرکت ہو، جیسے کومے یا برین ہیمرج اور فالج کی مخصوص حالتیں ہوسکتی ہیں، یا پھر شدت تکلیف سے مسلسل کراہ رہا ہو اور ایڑیاں رگڑ رہا ہو۔ ایسے میں کسی مناسب تدبیر کے ذریعے یا پھر اس کے علاج معالجے کو روک کر اسے موت کی آغوش میں پہنچاناقتل بہ جذبۂ رحم کہلاتا جے جسے علمِ طب کی اصطلاح میں Euthanasia کہا جاتا ہے یا پھر انگریزی میں Mercy Killing سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ قتل بہ جذبۂ رحم کی عموماً تین قسمیں بیان کی گئی ہیں: ۱-رضاکارانہ ۲- غیررضاکارانہ۳- نادانستہ۔اسی طرح قتل بہ جذبۂ رحم کے لیے مختلف طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر مفتی محمد شمیم اختر قاسمی نے مذکورہ موضوع کا واقعی حق ادا کردیا ہے۔ زیرنظر کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ قتل بہ جذبۂ رحم کے ساتھ ساتھ باب سوم میں خودکشی کا تصور اور اسلام میں اس کا حکم، اور باب چہارم میں مریض، معالج اور اقربا کے حقوق و ذمہ داریاں بھی بیان کی گئی ہیں۔ آخر میں اسلام کا شرعی نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ مریض کی موت کے لیے ایسا اقدام حرام ہے، نیز اس ضمن میں علما کی آرا اور فقہی اداروں کا موقف اور ضمنی مباحث بھی پیش کیے گئے ہیں۔ غرض یہ کتاب اپنے موضوع کا بخوبی احاطہ کرتی ہے۔(حافظ ساجد انور)
تذکارِ بُگویہ کی جلد اوّل و دوم پر ترجمان (نومبر۲۰۱۱ء) میں تبصرہ شائع ہوچکا ہے۔ اب جلد سوم(خطوط، حالات اور خدمات ۱۸۸۳ء-۲۰۱۰ء) منظرعام پر آئی ہے۔
بھیرہ کے خانوادۂ بُگوی کے علما اور اکابر کی علمی، دینی، سیاسی اور تحقیقی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ ۱۰۰ سال پہلے برپا ہونے والی تحریکوں (خلافت اور ترکِ موالات) میں ضلع سرگودھا کے علما کے کردار اور جدوجہد کو مصنف نے تفصیل سے پیش کیا ہے۔ خواجہ ضیاء الدین سیالوی نے گھر میں مستورات کا تیارکردہ دیسی کھدّر کا لباس پہنا اور اسے رواج دیا۔ مریدوں کو تلقین کی کہ سرکاری ملازمت ترک کر دیں۔ مولانا ظہوراحمد بگوی نے ڈیڑھ سال تک سی کلاس میں قید ِ بامشقت کاٹی۔
ماہ نامہ شمس الاسلام ، بھیرہ کے حوالے سے بھی کتاب میں مختلف النوع لوازمہ یک جا کیا گیا ہے۔ زیرنظر جلد میں سیکڑوںخطوط بھی شامل ہیں، جن پر حواشی و تعلیقات کے ساتھ مکتوب نگاروں کے مختصر حالات اور تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترکِ موالات کے جاں نثاروں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ خطوط میں ایک پورے عہد کی تاریخ موجود ہے۔ ان سے علما کی ذہنی قابلیت، بعض کا ادب اور شاعری سے لگائو، اُمورِ شریعت میں ان کا تفقّہ، ان کی دینی غیرت اور آزادی کی تحریکوں میں ان کی دل چسپی ظاہر ہوتی ہے، اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے مختلف مکاتب ِ فکر کے علما بیش تر معاملات میں یک سو تھے اور ان میں رواداری اور برداشت زیادہ تھی۔ تاریخ، سیاسیات، اور اسلامیات کے طالب علموں کے لیے اس کتاب میں بہت قیمتی لوازمہ موجود ہے۔خطوں کی تعداد ۶۸۰ اور سکین شدہ (scanned) خطوں اور دستاویزات کی تعداد ۳۰۰کے لگ بھگ ہے۔ مؤلف نے کمالِ محنت اور تحقیق سے لوازمہ جمع کر کے مرتب کیا ہے۔ قلمی رجسٹروں اور دستاویزات سے بھی مدد لی گئی ہے۔ سکین شدہ دستاویزات کی موضوع وار فہرست اور آخر میں ان کے عکس شامل کردیے ہیں۔اس سے قارئین اور تحقیق کاروں کے لیے استفادہ آسان ہوگیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ادبی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے اساتذہ کی خدمات اور عظمت کے اعتراف میں ارمغان پیش کرنے کی روایت دیگر زبانوں کی طرح اُردو میں بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے ۱۹۵۵ء میں اپنے استاد ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی خدمت میں مجموعۂ مقالات پیش کیا۔ اُس وقت سے اب تک اُردو میں تقریباً دو درجن ارمغان پیش کیے جاچکے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر بھارت میں پیش کیے گئے ہیں۔ ارمغان عموماً کسی ادارے یا مجلس کی طرف سے تیار کیا جاتا ہے۔ زیرنظر ارمغان ڈاکٹر ہاشمی کو ۲۰ نام وَر اساتذہ اور علما (اسکالرز) پر مشتمل ایک ’مجلس سپاس‘ نے پیش کیا ہے جس کے سربراہ سرگودھا یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی بنیادی شناخت ایک معلم اور محقق کی ہے۔
زیرنظر ارمغان چھے حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ اقبال و اقبالیات پر ممتاز دانش وروں کے مقالات پر مشتمل ہے۔ دوسرے، تیسرے اور چوتھے حصے میں ملکی و غیرملکی ممتاز محققین کے تحقیقی مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ پانچویں اور چھٹے حصے میں ہاشمی صاحب کے سوانحی حالات اور ادبی سرگرمیوں اور تحقیقی کارناموں کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے۔ نیز ان کی علمی دل چسپیوں کی مناسبت سے (اقبالیات، مودودیات، اسلام، اُردو تحقیق و تنقید، تاریخ پر ۲۵ مقالات شاملِ اشاعت ہیں۔ ارمغان کی روایت یہی ہے۔ یہ مقالات چار زبانوں (اُردو، انگریزی، ترکی ، فارسی) میں ہیں۔ لکھنے والوں میں پاکستان، بھارت، ایران اور ترکی اور جاپان کے نام وَر اساتذہ شامل ہیں۔یاد رہے کہ ان کی زیرنگرانی پی ایچ ڈی اور ایم فل کے ۳۰ سے زائد اور ایم اے کے ۴۴ سے زائد تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں۔
یہ کتاب کئی حوالوں سے اُردو میں ارمغانِ علمی کی روایت میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ہاشمی صاحب مزاجاً کم آمیز، شہرت سے گریز پا، گوشہ نشین اور کام میں مگن آدمی ہیں۔ ان کے بہت سے اور باصلاحیت شاگردان موجود ہیں(ڈاکٹر عطش درانی، ڈاکٹر محمدایوب صابر، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر راشد حمید، ڈاکٹر زاہدمنیرعامر، ڈاکٹر اختر النساء، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ارشد محمود خان اور ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم وغیرہ)لیکن یہ سعادت ڈاکٹر خالدندیم کے حصے میں آئی اور انھوں نے محبت، محنت اور جاں کاہی سے یہ فریضہ بخوبی نبھایا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
احادیث کی صحت اور سند کے حوالے سے اعتراضات اُٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث محفوظ ہے اور جتنی بھی احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ان سب کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ کون سی احادیث صحیح ہیں اور کون سی حسن کے درجے میں ہیں، اور کون سی ضعیف اور کون سی موضوع ہیں۔ وہ جن اسانید اور راویوں کے ذریعے روایت کی گئی ہیں ان سب کے حالات کی تحقیق اور تفتیش ہوچکی ہے۔ ان سب کے بارے میں معلوم کرلیا گیا ہے کہ ان میں سے کون عادل، ثقہ اور معتبر ہے اور کون غیرعادل، غیرثقہ اور غیرمعتبر۔ ہرراوی کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا، وہ حافظہ رکھتا تھا یا نہیں۔ اس نے کون سی احادیث روایت کی ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے۔
اس کے لیے محدثین کرام نے بڑی محنت کی ہے۔ بڑی مشقتیں اُٹھائی ہیں، دُوردراز کے سفر کیے ہیں اور اُمت مسلمہ کی ایک بے نظیر و بے مثال تاریخ مرتب ہوگئی ہے۔ لاکھوں انسان جنھوں نے احادیث روایت کی ہیں، ان کی زندگیاں بھی محفوظ ہوگئی ہیں اور علم اسماء الرجال وجود میں آگیا ہے۔ علم اسماء الرجال میں راویوں کے حالات بیان کردیے گئے ہیں اور ان کا عادل اور مجروح ہونا بھی پوری تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس کے لیے علم جرح و تعدیل وجود میں آگیا ہے۔
زیرنظرکتاب اس موضوع پر ایک جامع دستاویز ہے۔ اس میں حدیث اور اس کی سند کی تعریف، حدیث کی اقسام، اسناد اور علم جرح و تعدیل کی اہمیت، علم حدیث روایت و درایت، طلب ِحدیث کے لیے علمی اسفار، جرح و تعدیل کی شرعی حیثیت، جرح و تعدیل راوی، ضبط راوی، طبقات راویان حدیث، احکام جرح و تعدیل ، جرح و تعدیل کے مشہور نقاد کرام، جرح و تعدیل کے بارے میں تصنیفات، صحاح ستہ اور دیگر راویوں کے بارے میں تصنیفات ، ثقہ راویوں کے بارے میں تصانیف، ضعیف راویوں کے بارے میں تصانیف، سب موضوعات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر سہیل حسن صاحب، جیسی علمی شخصیت نے جو علومِ حدیث میں مہارت تامہ رکھتے ہیں، اس موضوع پر بحث کا حق ادا کردیا ہے اور علمِ حدیث کے طالب علم کے لیے ایک مستند راہنما کی حیثیت رکھنے والی عظیم کتاب مرتب کردی ہے اور علمِ حدیث سے شغف رکھنے والوں کو بڑی بڑی کتب سے بے نیاز کردیا ہے۔ بے شک علمِ حدیث جو قرآن پاک کی تفسیر اور تشریح بھی ہے، اس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرما دیا ہے کہ قیامت تک کے لیے احادیث رسولؐ سے استفادہ ہوتا رہے۔ قرآن و سنت فقہ اسلامی کا بنیادی مآخذ ہیں اور فقہاے اسلام نے ان کی روشنی میں فقہ اسلامی کا عظیم الشان ذخیرہ مستنبط کیا ہے کہ قانون کی دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت کو اپنا دائمی معجزہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں وحی ہیں اور دونوں اپنے اندر معجزانہ شان رکھتے ہیں اور قیامت تک کے لیے لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کا ذریعہ بنتے رہیں گے، اور انھی دونوں کے سبب قیامت کے روز میرے پیروکار زیادہ ہوں گے۔
مبارک باد کی مستحق ہیں وہ شخصیات جنھوں نے کسی بھی درجے میں قرآن و حدیث کے کسی شعبے کی خدمت کی ہے۔ڈاکٹر سہیل حسن صاحب ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور علمِ حدیث کی خدمت میں زندگی کا طویل عرصہ کھپا دیا ہے۔وہ اس پر اہلِ علم کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب علما اور طلبہ کے لیے ان کی طرف سے ایک نادر تحفہ ہے۔
ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اور اس کے سابق مدیر ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری نے اس کتاب کی ترتیب و اشاعت میں بڑی دل چسپی لی ہے۔ اس پر وہ اور ان کا ادارہ بھی مبارک باد کا مستحق ہے۔(مولانا عبدالمالک)
آج کی دنیا میں خواتین اور ان کے حقوق کا تذکرہ تو بہت ہے، تاہم مشرق ہو یا مغرب، خواتین کو وہ حقوق یقینا حاصل نہیں ہیں جن کی وہ حق دار ہیں۔ جہاں تک قانون، پارلیمنٹ اور آئینی و دستوری تحفظ کا معاملہ ہے ، صورت حال اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائرکٹر جنرل خالد رحمن اور ریسرچ اسکالر ندیم فرحت نے پاکستانی خاتون، قانون سازی اور موجود طرزِفکر کو سمجھنے کے لیے اصحاب علم و دانش کو اکٹھا کیا۔ ۲۰۰۸ء-۲۰۱۳ء تک کام کرنے والی قومی اسمبلی میں خواتین اور خاندان کے حوالے سے جو بل پیش کیے گئے اُن کا تجزیہ ایک نئے انداز سے کیا، اور ہر بل کے حوالے سے مختصر سفارشات اِس پہلو سے مرتب کیں کہ آیا، بل مؤثر تھے یا غیرمؤثر، ان پر عمل درآمد ہوسکا یا نہیں، آیندہ بہتری کے کیا امکانات ہیں۔ اِس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سائنٹی فک اپروچ کی حامل کتاب منظرعام پر آئی ہے۔
کتاب کے پیش لفظ میں مرتبین تحریر کرتے ہیں: پاکستان میں خواتین کے حقوق کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی سے اقتصادی میدان میں کارکردگی تک کتنے ہی چیلنج سامنے آتے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ بیداری کی مہمات چلائی جائیں، تعلیم، ملازمت اور ترقی کے اقدامات کیے جائیں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ قانون سازی کی جائے تاکہ معاشرے میں تبدیلی پیدا ہو۔(ص ۱۱)
ڈاکٹر انیس احمد ’عورت، معاشرہ اور قانون سازی‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ اسلام نے مسلمان خواتین کو تمام مناسب اور ضروری حقوق دیے ہیں۔ اگرچہ ہرمعاشرے میں اس پر عمل درآمد کی کیفیت مختلف رہی۔ اُنھوں نے حقوقِ نسواں کی تحریک پر بھی روشنی ڈالی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’پاکستان میں موجود قوانین، بلکہ دنیا بھر میں موجود قوانین کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے--- نیز مغرب نے صنف کی بنیاد پر کش مکش کا جو نظریہ دیا ہے، اُس کے مقابلے میں اخلاقیات پر مبنی، اسلام کے نظام براے خواتین و حضرات کو تمام عالم کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے‘‘۔ (مقدمہ)
کتاب میں ۲۰۰۲ء-۲۰۰۷ء کے دوران خواتین و خاندان کے حوالے سے پرائیویٹ بل، حکومتی بل اور عمل درآمد نیز قانون سازی کا بھی جامع انداز میں مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ اُس وقت متحدہ مجلس عمل ایک اہم سیاسی گروپ کے طور پر پارلیمنٹ میں موجود تھی، اگر اس کا بھی تفصیلی جائزہ لیا جاتا تو مفید ہوتا۔ پاکستان میں جو اقلیتیں ہیں اُن کی خواتین کس حالت میں ہیں، اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
شادی اور خاندان خصوصاً تعدد ازواج کے حوالے سے پیش کیے جانے والے بلوں کا متن شاملِ اشاعت ہے اور اس حوالے سے پیچیدگیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ’قرآن سے شادی‘ جیسی ناقابلِ فہم رسم کے خلاف پیش کیے جانے والے بل، بچوں کے نان نفقے کے بل کی تفصیلات پیش کرنے کے بعد اُمید ظاہر کی گئی ہے کہ آیندہ پارلیمنٹ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے پیش کیے گئے بل (ص ۱۲۹)، وراثت کے قوانین کے ساتھ ساتھ ، غیرسرکاری طور پر بزرگوں کے ذریعے خاندانوں کے باہمی اور مسلسل میل ملاپ کے ذریعے طلاق کی شرح کم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔مسلم معاشرے میں خواتین کے لیے مہمات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
مرتبین یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان میں حکمران کوئی بھی جماعت ہو، خواتین کو حقوق صرف ایک حد تک دینے پر ہی اتفاق پایا جاتاہے۔ اپنے موضوع پر یہ جامع کتاب خواتین کے مسائل پر غوروفکر اور تحقیق کے کئی نئے پہلو سامنے لاتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے تحریر، تقریر اور تربیت کے ذریعے دین اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی۔ بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں متلاشیانِ حق ان کے چشمۂ فیض سے حیات آفرین پیغام حاصل کر رہے ہیں۔
زیرنظر کتاب درحقیقت، مذکورہ بالا موضوع پر ڈاکٹریٹ کے لیے لکھا گیاتحقیقی مقالہ ہے۔ ڈاکٹریٹ کے مقالوں کے بارے میں آج کل اچھا تاثر نہیں پایا جاتا کیوں کہ زیادہ تر فارمولا قسم کے غیرمعیاری مقالے سامنے آرہے ہیں۔ لیکن امرِواقعہ ہے کہ اس کتاب کا درجہ ہمارے بھیڑچال ڈاکٹریٹ یا ایم فل مقالات سے بہت بلند ہے۔ فاضل محقق نے بڑی لگن سے یہ کوشش کی ہے کہ وہ موضوع کا حق اداکرنے کے لیے اپنی توانائیاں لگادیں۔ اقتباسات سے بقدر ضرورت ہی استفادہ کیا ہے، اور باقی معاملہ تجزیاتی اور تخلیقی سطح پر پہنچ کر کیا ہے۔
مولانا مودودی کی تقریر سننے والے چند لاکھ ہوں گے اور وہ بھی ان کے معاصرین، مگر ان کی نثر: رنگوں کی بوقلمونی، استدلال کی گرفت، منطق کی عظمت، اسلام کے سرمدی پیغام کی خوشبو سے، ہر زمانے کے قاری کو صراطِ مستقیم سے جوڑتی ہے کہ پڑھتے ہوئے حق سے وابستہ ہونے پر دل لبیک کہہ اُٹھتا ہے۔
مصنف نے تنقید کے مسلّمہ ضابطوں سے مولانا مودودی کی نثر کو پرکھا اور وسیع بنیادوں پر اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود کتاب کی نثر اور احتیاط نگاری میں فاضل محقق کے استادگرامی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا رنگ جابجا گواہی دیے بغیر نہیں رہتا۔ اس موضوع پر بھارت میں بھی ڈاکٹریٹ کا ایک مقالہ لکھا جاچکا ہے، اس پر ترجمان کے زیرنظر صفحات میں تبصرہ بھی ہوا تھا مگر محمد جاوید اصغر کی یہ کاوش اس سے کہیں زیادہ بلندپایہ اور معیاری ہے۔(سلیم منصور خالد)
لالہ صحرائی (اصل نام: چودھری محمد صادق، ۱۹۲۰ء-۲۰۰۰ء) افسانہ و ڈراما نگار اور ادیب تھے۔ آخری عمر میں ان کے دل میں نعت گوئی کی تمنّا بیدار ہوئی، دعاگو رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف ِ خاص سے انھیں حرمین شریفین میں حاضر ہونے کا شرف بخشا۔ وہاں مبارک لمحوں میں، دوسری دعائوں کے علاوہ وہ یہ دعا بھی کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے نعت کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کے فضل و کرم کا کرشمہ ملاحظہ ہو کہ جولائی ۱۹۹۱ء کی ایک چمکتی صبح کو ان پر یکایک نعتوں کا نزول شروع ہوگیا۔
زیرنظر کتاب انھی نعت گو لالہ صحرائی کی شخصیت، سوانح اور نعت گوئی پر مضامین اور تاثرات کا مجموعہ ہے، جسے معروف محقق، نقاد اوراقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے مرتب کیا ہے۔کتاب کو ۱۰ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس میں لالہ صحرائی کے ساتھ مصاحبے(انٹرویو)، ان کی شخصیت اور فکروفن، اہلِ علم و ادب کے مضامین ، ان کے اہلِ خانہ کے تاثرات، ان کی وفات پر ان کے احباب اور مداحوں کے تاثرات، ان کی کتب پر تبصرے اور دیباچے، ان کی خدمت میں منظوم خراجِ تحسین اور ان کی وفات پر تعزیت نامے شامل ہیں۔ یوں ہاشمی صاحب نے سارے دستیاب لوازمے کو مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کر کے ایک گل دستہ مرتب کیا ہے۔ اس میں لالہ صحرائی کے متعلق پروفیسر خورشیداحمد، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، مشفق خواجہ، احمدندیم قاسمی، حفیظ تائب، اسلم انصاری، عاصی کرنالی، خورشید رضوی اور حفیظ الرحمن احسن جیسے اکابر علم و ادب کے مضامین شامل ہیں۔مرحوم کے اہلِ خانہ اور بعض اعزہ کی تحریروں سے ان کے ایسے معمولات اور عادات و خصائل کا پتا چلتا ہے جو کسی اور ذریعے سے معلوم نہ ہوسکتی تھیں۔
یہ کتاب درحقیقت لالہ صحرائی کی متواضع، سادہ، منکسرالمزاج اور محبت ِ رسولؐ میں ڈوبی ہوئی شخصیت کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والے محققین کے لیے یہ ایک مستند مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اتنی خوب صورت، عمدہ اور معلومات افزا کتاب کی اشاعت کا سہرا فرزند ِ لالہ صحرائی، ڈاکٹر جاوید احمد صادق کے سر ہے۔(قاسم محموداحمد)
انسانی زندگی سے وابستہ مختلف روزمرہ مسائل پر مبنی سوالات و استفسارات کے شافی جوابات پر مبنی ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا یہ دوسرا مجموعہ ہے۔ یہ سوالات و جوابات جماعت اسلامی ہند کے ترجمان زندگی نو میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب ان کو کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پہلا مجموعہ شائع کیا گیا تھا۔ اس مجموعے میں کُل ۶۱موضوعات ہیں جن میں زندگی کے عام فقہی مسائل بالخصوص بے وضو قرآن کو چھونا، قرآن کے بوسیدہ اَوراق کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ چُھوٹی ہوئی نمازوں کا کفّارہ، مساجد میں عورتوں کی حاضری، تعمیر مسجد میں غیرمسلم کا مالی تعاون، زکوٰۃ سے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادایگی، حج، حجِ بدل، قربانی، شادی کی رسمیں، مصنوعی استقرارِ حمل، بگڑے ہوئے شوہر کی اصلاح کا طریقہ، تحریکی خواتین کا دائرۂ عمل، چہرے اور آواز کا پردہ، سودی کاروبار، کالے خضاب کی شرعی حیثیت وغیرہ شاملِ اشاعت ہیں۔
اسی طرح بعض علمی مسائل جن میں آیاتِ قرآنی، حدیث نبویؐ سے متعلق اشکالات، سیرتِ رسولؐ، سیرتِ صحابہؓ ، تاریخِ اسلام جیسے موضوعات بالخصوص سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ پڑھنے کی وجہ، قرآنی بیانات میں اختلاف و تضاد؟ علمِ غیب کی کنجیاں، کیا رسولؐ اللہ کا مشن لوگوں کو بہ جبر مسلمان بنانا تھا؟ضعیف اور موضوع احادیث، گمراہ فرقے اور سزاے جہنم، صحابہ کرام کے کرداروں پر مبنی اداکاری،طبی اخلاقیات جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
بنیادی طور پر مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کا رجحان غالب ہے، جب کہ اس دوران علماے سلف اور فقہاے کرام کی آرا بھی نظرانداز نہیں کی گئیں، نیز مسائل سے متعلق جدیدمعلومات اور سائنسی علوم و اعدا و شمار کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ مسائل پر اختلافی نقطۂ نظر کے ساتھ ساتھ اعتدال کے پہلو کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور الجھنوں کے شافی اور اطمینان بخش جواب دیے گئے ہیں۔(عمران ظہور غازی)
زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے ایسے سچے واقعات جمع کیے ہیں جو خلافت ِ راشدہ کے دور میں وقوع پذیر ہوئے۔ ا ن واقعات میں سماجی بہبود، عدل و انصاف اور فلاح انسانیت کے ایسے نقوش نمایاں ہیں جو آج بھی ہمارے لیے لائق تقلید ہیں، اور آج کے حکمرانوں کے لیے چراغِ راہ ہیں۔
کتاب کی ابتدا میں حضور اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ سے کی گئی ہے اور آپؐ کے حُسنِ سلوک اور سادگی کے واقعات لکھے گئے ہیں۔ انعقادِ خلافت کی ضرورت بیان کرنے کے بعد خلفاے راشدین کے عہد میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات، ان کی سادہ زندگی، امانت و دیانت، رعایا کی جان و مال کی حفاظت، ان کی عادلانہ زندگی، سخاوت اور بیت المال میں پوری رعایا کے استحقاق کا خیال، حُسنِ سلوک، کنبہ پروری سے پرہیز اور مستحق لوگوں کے وظائف مقرر کرنے کے واقعات نہایت سلیس انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ رفاہِ عامہ کے کاموں میں دل چسپی، مفتوحہ زمینوں پر لگان اور جزیے کی وصولی میں نرمی کے واقعات بھی خلفاے راشدین کی رعایاپروری کی دلیل ہیں۔ کتاب دل چسپ واقعات کا مجموعہ ہے۔ یہ واقعات تاریخ و سیرت کی متعدد کتابوں سے ماخوذ ہیں۔(ظفرحجازی)
خواتین کے لیے دینی حدود و قیود میں رہتے ہوئے، اجتماعی جدوجہد کرنا کتنا مشکل کام ہے، اس کا اندازہ شاید عام خواتین نہ لگاسکیں، اور اُن خواتین کے لیے بھی اس بات کا اِدراک کرنا مشکل ہے جو خواتین سے متعلقہ شعبہ جات سے منسلک ہیں کہ جماعت اسلامی کی اجتماعی جدوجہد سے وابستہ خواتین کن مشکل حالات میں کام کررہی ہیں۔
اگرچہ دعوت، تبلیغ، تربیت، خدمت ِ خلق اور قرآن کلاسوں کی سرگرمیاں تو گذشتہ ۶۰برسوں سے حلقہ خواتین کے تجربات کا حصہ ہیں، مگر سیاسی جدوجہد میں، خاص طور پر پارلیمنٹ کے مختلف ایوانوں میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنا ایک بالکل نیا امتحان تھا۔ ۲۰۰۲ء میں جب جنرل پرویزمشرف کے مارشل لا نے تمام پارلیمانی ایوانوں میں خواتین کی نشستوں کو بڑھا دیا تو حلقہ خواتین کے لیے ایک نیا چیلنج تھا۔ مگر پارلیمنٹ کی ان رکن خواتین نے دستور سازی، انسانی حقوق کے تحفظ اور قومی و ملّی مسائل پر بڑی فہم و فراست، مہارت اور مستعدی سے نمایندگی کا حق ادا کیا۔ خواتینِ جماعت اسلامی کی اس پارلیمانی کارکردگی کا خود مدِمقابل لابی کی خواتین نے بھی اعتراف کیا ہے۔کتاب کے مطالعے سے قیمتی معلومات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔
کتاب کا اسلوب ایک جامع رپورٹ کا سا ہے، تاہم اس میں ایک کمی رہ گئی ہے کہ اس سے قبل جماعت کے حلقہ خواتین نے پارلیمنٹ میں جو نمایندگی کی تھی، اس کا تذکرہ بھی شامل ہونا چاہیے تھا۔ اگلے ایڈیشن میں وہ دے دینا چاہیے۔(سلیم منصور خالد)
قرآن کریم اپنے بارے میں یہ بات فرماتا ہے کہ ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنادیا ہے۔ پس ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا‘‘ (القمر ۵۴:۳۹)۔ گویا رب کریم نے جو اِس کتاب کا نازل کرنے والا ہے اسے ہر طالب ِ نصیحت و ہدایت کے لیے آسان بنا دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے اور اس عظیم ترین کتاب کا مطالعہ کس طرح ہو؟
مفسرین کرام نے جہاں قرآنِ کریم کے معانی پر روشنی ڈالی ہے، وہیں اس کتابِ ہدایت کے قانونی، ادبی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی پہلوئوں کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹرعرفان احمدخان نے اپنے ۴۰سالہ مطالعہ قرآن کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے ہرسورت کے مضامین کو موضوعاتی ترتیب کے ذریعے سمجھنے اور سمجھانے کی ایک مشق کی ہے اور اس غرض کے لیے قرآن کریم کی آخری ۳۰ سورتوں کا انتخاب کیا ہے۔ ۱۳ عنوانات کے تحت قرآنی اصطلاحات کا مفہوم بیان کیا ہے۔
یہ بظاہر ایک آسان کام نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک لافانی کلام کو محدود موضوعاتی تقسیم میں لانا اور پھر اس میں باہمی ربط پیدا کر کے مفہوم کو سمجھنا ایک محنت طلب کام ہے۔ ڈاکٹر عرفان احمد خان نے اپنی تمام تر توجہ اسی کام پر صرف کی ہے اور اپنی تحقیقی کتاب Reflections on the Quran میں (جو لسٹر برطانیہ سے اسلامک فائونڈیشن نے طبع کی ہے) اپنی قرآنی فکر کو سادہ انداز میں پیش کردیا ہے۔ قرآن کریم کو سمجھنے کا یہ انداز ایک قاری کو خود یہ تربیت دیتا ہے کہ وہ کس طرح براہِ راست قرآن کریم کے پیغام کو سمجھے اور تفسیرقرآن کے نکات جو بعض اوقات قاری اور قرآن کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں، ان سے بچ کر قرآن کا فہم حاصل کیا جاسکے۔ یوں ایک طالب علم کو خود قرآن فہمی پیدا کرنے کی تربیت فراہم کی ہے کہ وہ خود آیات کے درمیان ربط کو تلاش کرسکے اور قرآنِ کریم کے جامع پیغام کو سمجھ کر زندگی میں نافذکرسکے۔
اس کتاب کا تعارف ۵۸صفحات میں الگ کتابی شکل میں طبع کیا گیا ہے جس میں سورئہ علق سے الناس تک چھے منتخب آخری سورتوں پر مبنی تدریسی انداز میں اس طریق فہم قرآن کو واضح کیا گیا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
برقی ابلاغ عامہ کے اس دور میں دنیا کے چار گوشے سمٹ کر ایک بستی بن گئے ہیں لیکن اس کے باوجود مختلف مذاہب اور تہذیبوں کی ایک دوسرے سے ناواقفیت میں کوئی بہت بڑا فرق واقع نہیں ہوا ہے، بلکہ ابلاغِ عامہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے تعصبات اور گمراہ کن تصورات کے پھیلانے میں اچھا خاصا منفی کردار ادا کیا ہے۔ آج مسلمان کا نام سنتے ہی مغرب و مشرق کا ایک غیرمسلم اپنے ذہن میں کسی دہشت گرد کا تصور لاتا ہے۔
مولانا انیس احمد فلاحی مدنی کی یہ تالیف اُردو دان افراد کے لیے ہندوازم، بدھ ازم، سکھ ازم ، عیسائیت، یہودیت اور شینٹوازم کے بارے میں ابتدائی معلومات فراہم کرتی ہے۔ کتاب آسان زبان میں تحریر کی گئی ہے اور اختصار کے ساتھ ان مذاہب کے آغاز، بنیادی تعلیمات اور مصادر کے بارے میں ثانوی ذرائع سے اخذ کردہ معلومات سے بحث کرتی ہے۔ عیسائیت اور یہودیت کے حوالے سے قدیم اور جدید عہدناموں سے مناسب حوالے دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی قرآن کریم نے یہودیت اور عیسائیت کے بارے میں جو حقائق بیان فرمائے ہیں ان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
فلاحی صاحب نے کتاب کے آغاز ہی میں اس کے دو مقاصد بیان کیے ہیں: اوّلًا اپنے اردگرد بسنے والے دیگر مذاہب کے افراد کے بارے میں مستند معلومات حاصل کرنا، اور دعوتی نقطۂ نظر سے مدعوئین کے بارے میں یہ سمجھنا کہ ان کے معتقدات کیا ہیں اور انھیں دعوت کس طرح دی جائے۔
کتاب اکثر عربی مآخذ پر اعتماد کرتی ہے، جب کہ مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے کے لیے ان کے اپنے مصادر کا ان کی اپنی زبان میں جاننا بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ استاذ محمد دراز نے اپنی عربی میں تحریر کردہ کتاب میں جن مغربی مفکرین کا ذکر معرب ناموں کے ساتھ فرمایا ہے اسے جوں کا توں اختیار کرلیا گیا ہے۔ بہت مناسب ہوتا اگر مؤلف ہرمذہب کی تعلیمات کے خلاصے کے ساتھ اُس مذہب کی مقدس کتب کے حوالے بھی براہِ راست درج کردیتے۔
یہ کتاب ابتدائی اور تعارفی معلومات فراہم کرتی ہے۔ اگر اسے تقابل ادیان کے طریقۂ تحقیق کی روشنی میں مرتب کیا جاتا تو اس کی قدر میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب ایک مذہب کا احاطہ کرتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے احیاے اسلام کی تحریک علمی اور تحقیقی بنیادوں پر استوار کی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے رفقا عطا کیے جنھوں نے تحقیقی اور علمی دنیا میں نام پیدا کیا۔ جماعت اسلامی ہند نے تصنیف و تالیف کے لیے جو ادارہ قائم کیا تھا وہ پہلے ادارہ تصنیف کے نام سے رام پور میں کام کرتا رہا، بعدازاں یہی ادارہ ’تصنیف و تالیف اسلامی علی گڑھ‘ کے نام سے علی گڑھ میں کام کرتا رہا۔ اس ادارے کے زیراہتمام ۱۹۸۲ء میں سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی شائع ہونا شروع ہوا۔ بہت جلد یہ تحقیقی مجلہ اہلِ علم کی توجہات کا مرکز بن گیا۔
مولانا جلال الدین عمری نے مجلہ تحقیقات اسلامی میں اسلامی تحقیقی معیار کی بہتری کے لیے متعدد مقالے تحریر کیے۔ انھیں یہ احساس رہا کہ اسلام کی صداقت منوانے کے لیے عصرحاضر کے تحقیقی معیار پر اسلامی تعلیمات کو مدلل انداز میں پیش کرنا ضروری ہے۔ یہ احساس گذشتہ صدی میں مسلم ممالک میں احیاے اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی دینی جماعتوں کے اکثر اہلِ علم کو بھی رہا۔ تقسیم ہند کے بعد بھی مسلمانوں نے دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عمرانی اور طبعی علوم میں تحقیقی کوششیں جاری رکھیں۔
زیرنظر کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے جو سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی میں شائع ہوتے رہے۔ ان مضامین میں انھوں نے توجہ دلائی ہے کہ آج کس کس میدان میں تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ کتاب کے چند ایک مضامین کے عنوانات یہ ہیں:
مصنف نے پیش لفظ میں قومی سطح کی ایک کمزوری کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’ہماری ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وقتی اور ہنگامی کاموں کے لیے تو ہمارے اندر بڑا جوش اور جذبہ پایا جاتا ہے لیکن کسی علمی یا سنجیدہ کام کی تحریک نہ تو ہمارے اندر پیدا ہوتی ہے اور نہ اس کی اہمیت محسوس کی جاتی ہے..... اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے افراد اُمت میں انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جو مختلف میدانوں میں علمی سطح پر اسلام کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کرسکتے ہوں‘‘(ص ۸)۔ (ظفرحجازی)
پاکستان اسلامیانِ ہند کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین نے پاکستان کا مقصد یہ قرار دیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست تشکیل دی جائے۔ اس جمہوری اسلامی ریاست میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہو اور دنیا دیکھے کہ اسلامی تعلیمات آج بھی قابلِ عمل ہیں۔ ۱۹۴۷ء سے آج تک پاکستان میں جمہوریت اور اسلامی ریاست کی بحث نتیجہ خیز نہیں بن سکی۔ دینی جماعتوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا جسے حکومتوں نے حیلے بہانے سے ٹال دیا۔
زیرتبصرہ کتاب مصنف کے مضامین کا انتخاب ہے۔ ان مضامین میں مصنف نے نہایت وضاحت سے اسلامی ریاست، اسلامی نظام اور جمہوریت کے بارے میں علما کا موقف بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی قانون سازی، عوامی مفاد پر مبنی معاشی منصوبہ بندی اور معاشرتی مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے (ص ۱۱۱)۔ خلافت ِ راشدہ نے عملاً فلاحی ریاست کا نمونہ پیش کیا اور حکومت کو عوام کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کا ذمہ دار قرار دیا۔ خلفاے راشدین ہی کے دور میں عوامی ضروریات کی فراہمی کا اہتمام کیا گیا۔ (ص ۱۱۰)
زیرنظر کتاب میں اس امر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ کیا تصادم اور مسلح جدوجہد سے پاکستان میں اسلامی نظام رائج کیا جاسکتا ہے؟ مصنف کا موقف ہے کہ جمہوری نظام کو تسلیم کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھی جائے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کے لیے اقتدار کا حق تسلیم کیا جائے، قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہو۔ انھوں نے کہا ہے کہ علما نے اجتہاد میں اجتماعیت کا راستہ اختیار کیا اور اس کی تنفیذ میں پارلیمنٹ کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا۔ (ص ۸۶)
مصنف نے کتاب میں نو عنوانات کے تحت اظہار خیال کیا ہے۔ یہ عنوان حسب ذیل ہیں: اسلامی ریاست، اسلام کے سیاسی نظام کا تاریخی پہلو، قانون سازی کا طریق کار، اسلام، جمہوریت اور مغرب، سیاسی جماعتیں__ نفاذِ اسلام کی بحث، حکومت کی تشکیل میں عوام کی نمایندگی، پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد اور تصادم اور مسلح جدوجہد کا راستہ۔ ان مضامین میں مصنف نے نہایت سلاست سے مدلل انداز میں اپنے افکار پیش کیے ہیں۔ ان کی زبان شائستہ اور رواں ہے۔ کتاب کے آخر میں پاکستان کے ۳۱ علما کے ۲۲نکات بھی دیے ہیں جن کے بارے میں مصنف کا خیال ہے کہ یہ علما کا اتنا بڑا اجتہادی اقدام ہے کہ قراردادِ مقاصد کے ساتھ یہ ۲۲نکات کسی بھی اسلامی ریاست کی آئینی بنیاد بن سکتے ہیں۔(ظفرحجازی)
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار صفات میں سے ایک صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے لیے بڑے نرم مزاج ہیں۔ ایک خصوصیت یہ بھی بتائی گئی کہ وہ لوگوں کی ہدایت کے اتنے متمنی ہیں کہ ان کے پیچھے غم کے مارے گویا جان کھو دینے والے ہیں۔ حضور اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل اہلِ ایمان کو دوزخ کی آگ سے بچانے والا عمل ہے۔ انسانوں کے لیے آپ کی خیرخواہی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ اپنی جان کے دشمنوں کو بھی معاف کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپؐ دونوں جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے۔ آپؐ نے دین اسلام کی بابت یہ فرمایا کہ دین تو ہے ہی خیرخواہی کا نام۔ دین میں دوسروں کی بھلائی کے سوا اور ہے بھی کیا۔ اسلام کی تعلیمات انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں تاکہ یہ یکسو ہوکر اللہ کی رضا کے لیے اس کی بندگی کریں۔
زیرتبصرہ کتاب مسلمانوں کی اصلاح کے نقطۂ نظر سے مرتب کی گئی ہے۔آج کا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے رُوبہ زوال ہے۔ متعدد بُرائیاں مسلم سوسائٹی میں جڑپکڑ چکی ہیں۔ قرآنی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے اور دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے لوٹ کھسوٹ، رشوت ستانی، ظلم وجبر، بے حیائی، ناپ تول میں کمی اور مکروفریب جیسی بُرائیاں مسلم معاشرے میں عام ہیں۔ چالاکی و ہوشیاری جس سے دوسروں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ قرار دے لیا گیا ہے۔ محاسبہ اور آخرت کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ مسلمانوں نے ہوسِ زر کے باعث اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کو فراموش کردیا ہے۔ کتاب میں ان تمام معاشرتی، اقتصادی، تجارتی اور سیاسی ناہمواریوں کو دُور کرنے کے لیے قرآن اور رسول اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی نہایت دردمندی سے اپیل کی گئی ہے۔ متعدد کتابوں سے اخلاق آموز واقعات لے کر قارئین کو احساس دلایا ہے کہ اللہ کی گرفت میں آنے سے قبل اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔
مصنف نے غیرمسلم مغربی اہلِ دانش کی تحریروں کو بھی پیش کیا ہے اور ان کی اغلاط کی نشان دہی کی ہے۔ مصنف مسلمان مردوں اور عورتوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ دنیا کی مرغوبات عارضی ہیں، آخرت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ مصنف نے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟ جس مسلمان کا مطالبہ خدا اور رسولؐ کر رہے ہیں، وہ مسلمان ہم ہیں یا نہیں (ص۶)۔ مصنف نے کتاب میں ۱۵۰؍احادیث ترجمہ و تشریح کے ساتھ پیش کی ہیں اور مسلمانوں سے توقع کی ہے کہ وہ ان پر عمل پیرا ہوکر صحیح مسلمان بنیں اور اپنے اعمال درست کریں۔(ظفرحجازی)
ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی فارسی کے معروف اور صاحب ِ اسلوب شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا اسلوب ایسا مشکل، اَدق اور پیچیدہ تھا کہ مرزا غالب جیسے مشکل پسند بھی کہہ اُٹھے ؎
طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسداللہ خاں قیامت ہے
اُردو دنیا میں فارسی کے اس نابغہ شاعر کا تعارف زیادہ تر مرزا غالب اور ان کے مذکورہ بالا شعر کا مرہونِ منت ہے۔ اُردو کے اہلِ نقدوتحقیق نے بیدل پر درجن سے اُوپر کتابیں تصنیف اور تالیف و ترجمہ کی ہیں۔ کتابوں کے علاوہ بیسیوں تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
زیرنظر کتاب بیدل کے سوانح ، شخصیت اور فکروفن پر ایسے مقالات کا ایک انتخاب ہے جو رسائل کی پرانی فائلوں میں دفن، نظروں سے اوجھل اور بیدل کے عام قارئین کی دسترس سے دُور تھے۔ مقالات کی تعداد زیادہ نہیں ہے مگر معیار بہت اچھا ہے اور کیوں نہ ہو، جب لکھنے والوں میں محمد حسین آزاد سے لے کر ڈاکٹر نعیم حامدعلی الحامد تک شامل ہوں (بشمول: سید سلیمان ندوی، غلام رسول مہر، ڈاکٹر عبدالغنی، ڈاکٹر جمیل جالبی، مجنوں گورکھ پوری، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر ظہیراحمد صدیقی، پروفیسر حمیداحمد خاں، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی)۔
مرتب ِ کتاب ’یکے از خادمانِ بیدل‘ جناب شوکت محمود کا تفصیلی مقدمہ (ص ۶ تا ۲۴) بجاے خود بیدل شناسی کا ایک عمدہ جائزہ یا سروے ہے۔ انھوں نے زیرنظر مجموعے کی ضرورت اور مطالعۂ بیدل میں اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے ساتھ مشمولہ مضامین کے مآخذ اور ہرمضمون کی نوعیت، یا اس کا خلاصہ بھی بتایا ہے۔ شوکت محمود دُورافتادہ اور خطروں میں گھرے ہوئے شہر بنوں کے پوسٹ گریجویٹ کالج میں اُردو کے استاد ہیں۔ نادر اور وقیع منتخب مقالات کی اس اشاعت کے بعد، وہ اس کی جلد دوم بھی شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
بیسویں صدی کے ربع ثانی میں سیاسی،سماجی اور معاشی حالات نے جو صورتِ حال پیدا کی وہ افسانے کو بہت راس آئی اور یہی دور اُردو افسانے کا زریں دور تھا۔ رومانی اور ترقی پسند تحریکوں کے اثرات خاصے گہرے تھے۔ ان کے خلاف ردِعمل بھی ہوا اور نئے افسانہ نگاروں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں اگرچہ افسانے نے کوئی نئی کروٹ نہیں لی لیکن نئے افسانہ نگاروں نے اچھے افسانے لکھنے شروع کیے ہیں۔ صالحہ محبوب کا شمار ایسے ہی ادیبوں میں کیاجاسکتا ہے۔
صالحہ محبوب کے افسانوں کا مرکز و محور ماں ہے جو مامتا اور محبت و مروت سے بچوں کے ذہنوں کی تشکیل اپنے خوابوں کے مطابق کرتی ہے۔مادیت کی دوڑ میں جب ماں اور باپ کمانے اور ملازمت کی فکر میں ہوں ایسے میں ان افسانوں میں گھر کے حصار اور روایتی گھریلو ماں کے کردار کو عمدگی سے اُجاگر کیا گیا ہے۔تربیت کے اصولوں اور معاشرتی اقدار کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب اور مادیت کے اثرات، نیز معاشرتی مسائل کو بھی زیربحث لایا گیا ہے۔
ایک فن کار کا فن اسی وقت قارئین کے لیے قابلِ قبول ہوتا ہے جب وہ ناصح اور مبلّغ بنے بغیر اپنی سوچ ان کے ذہنوں میں اُتار دے۔ صالحہ محبوب کے افسانے اس معیار پر پورا اُترتے ہیں۔قارئین خصوصاً ایسی مائیں جو بچوں کی صحیح خطوط پر تربیت اور مثبت سوچ دینا چاہتی ہیں ان کے لیے یہ عمدہ سوغات ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
عام طور پر بچوں کو کتا، چھپکلی، لال بیگ یا جن بھوت سے ڈرایا جاتا ہے۔ بظاہر یہ معمولی بات لگتی ہے لیکن اس کے بچوں کی شخصیت اور نفسیات پر دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فوزیہ عباس نے زیرتبصرہ کتاب میں بچوں کے خوف کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے اور اس کے اسباب، علامات اور تدارک کی تجاویز بھی دی ہیں۔ خوف کیا ہے؟ بچوں پر اس کے اثرات، گھر، اسکول، مدرسہ اور کھیل کے میدان میں خوف، نیز معاشرتی و سماجی زندگی کے زیراثر پیدا ہونے والے خوف اور ذرائع ابلاغ کا غیرمحتاط رویہ وغیرہ زیربحث آئے ہیں۔ مصنفہ کے نزدیک بچوں میں خوف پیدا کرنا ایک اخلاقی جرم اور سنگین غلطی ہے جس سے بچے کی پوری زندگی متاثر ہوسکتی ہے، لہٰذا اسے معمولی بات نہ سمجھا جائے۔ بچوں کی تربیت کی بنیاد دین کی تعلیمات پر ہونی چاہیے۔ بچوں کی نفسیات اور حکمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی کام سے روکنا یا سختی برتنی چاہیے۔ بحیثیت مسلمان اللہ پر ایمان خوف کو دُور کرسکتا ہے اور والدین کو ہر ممکن طریقے سے بچوں کا خوف دُور کرنا چاہیے۔ ضرورت پڑنے پر ماہر نفسیات سے بھی رجوع کرنا چاہیے۔ والدین، اساتذہ کرام اور بچوں کی تربیت کے لیے ایک مفید اور عام فہم کتاب۔ (امجد عباسی)
مؤلف نے اس کتاب کی تالیف کا مقصد یوں تحریر کیا ہے کہ: ’’شاید یہ اپنے قارئین کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی صحیح شناخت دے سکے اور ہماری بودوباش اور طرزِ زندگی اس حقیقت کی گواہ بن جائے کہ ہم اللہ مالک الملک کو وہ مقام دینے والے ہیں جو اس کا حق ہے‘‘۔ لہٰذا اس کتاب میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ۹۹؍اسماے حسنیٰ، یعنی وہ تمام الفاظ جو اللہ رب العزت کی صفات اور خصوصیات کو بیان کرتے ہیں اور جن کا ترجمہ اُردو زبان میں ’سب سے اچھے‘ یا ’بہترین ناموں‘ سے کیا جاتا ہے، ان کو بیان کیا گیا ہے۔ عام طور پر چیزوں کی ہر صفت اپنے اندر اچھی اور بُری دونوں کی خصوصیات رکھتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنیٰ کو سب سے اچھا اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ تمام اسما اپنے اندر ذرا بھی بُری خصوصیات نہیں رکھتے۔ ساری صفات صرف اچھی ہی اچھی اور بہترین ہیں۔ پھر ان ساری کی ساری صفات کے لیے کوئی حدود و قیود نہیں۔ ان اسما کا مقصد یہ ہے کہ انھیں سمجھ کر یاد رکھا جائے، ذہن میں ہر وقت تازہ رکھا جائے تاکہ شیطان کے پیدا کردہ وساوس اور بہکاوے میں آکر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی طرف رُخ کرنے سے بھی بچا رہے۔ یہ اسما دعا بھی ہیں، لہٰذا ان کا ورد کرتے وقت ان کی گنتی پوری کرنے کے بجاے ان کے مفہوم کو ذہن میں تازہ رکھا جائے۔
کتاب میں ہر نام کا مفہوم قرآن اور حدیث ِ مبارکہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قرآن میں یہ نام کہاں کہاںاور کتنی بار آیا ہے اور کس کس لفظ کے ساتھ یا اکیلا آیا ہے، مثلاً اَللّٰہُ ۹۸۰ بار، اللّٰہَ ۵۹۲ بار، اللّٰہِ ۱۱۲۵ بار، اور اَللّٰھُمَّ ۵ بار، اس طرح کُل تعداد ۲۶۰۲ ہوئی۔
کتاب بڑی محنت اور توجہ سے سلیس اُردو میں تالیف کی گئی ہے اور قرآن اور حدیث کے سارے حوالے صحت کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ یوں تو الاسماء الحسنیٰ کے حوالے سے کئی کتب تحریر کی گئی ہیں مگریہ ان سب میں منفرد ہے۔ (شہزادالحسن چشتی)
نواب سیّد محمد صدیق حسن خان (۱۸۳۲ء-۱۸۹۰ء) انیسویں صدی کے جیدعلماے دین میں شمار ہوتے ہیں۔ سیّدصاحب نے اپنے قلم کی روانی اور دولت کی فراوانی کو دین اسلام کی اشاعت کے لیے خوب استعمال کیا۔ ریاست بھوپال کے صدرالمہام کے اپنے منصب کو انھوں نے دنیاوی جاہ و جلال کے اظہار کے بجاے دینِ حنیف کی تعلیم و تبلیغ کا ذریعہ بنائے رکھا۔ اُن کے اپنے بیان کے مطابق اُن کی تصانیف ۳۳علوم میں تالیف ہوئی ہیں۔ انھوں نے خود بھی دین کی نصرت و حمایت اور خدمت و اشاعت کے جذبے سے ۲۰۰ سے زائد کتب تالیف کیں۔ دیگر علما کو بھی اس طرف متوجہ کیا اور اُن کے لیے خصوصی وظائف کا بندوبست کر کے اُن سے تصنیف و تالیف کا کام لیا۔ برعظیم پاک و ہند میں کتب ِ حدیث کی اشاعت کا وسیع اہتمام آپ کی توجہ سے ہوا۔ زیرنظر کتاب مسائل عقیدہ کی بحثوں پر مشتمل ہے جو تین مجلدات (تقریباً ۱۸۰۰صفحات) پر محیط ہے۔
یہ کتاب مصنف کے طبع زاد اور ترجمہ شدہ دونوں طرح کے ۱۵ سے زائد رسائل، یعنی کتابچوں کا مجموعہ ہے۔ جلداوّل:سات رسائل، جلد دوم:چار رسائل اور جلدسوم بھی چار رسائل پر مشتمل ہے۔توحید و شرک ان رسائل کا بنیادی موضوع ہے اور اسی موضوع کی جملہ تفصیلات میں سیکڑوں ذیلی عنوانات کے تحت عقائد سے متعلق مسائل پر جان دار علمی بحثیں کی گئی ہیں۔ بیش تر رسائل عربی کتب یا کتابوں کے تراجم، ماخوذات، اختصارات اور استفادات ہیں۔ نواب سیّد محمدصدیق حسن خان نے ان رسائل عقیدہ میں اہلِ سنت کے متفقہ عقائد کو علماے سلف و خلف کی آرا کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ نواب صاحب کے قائم کردہ عنوانات رسائل سے محمد بن عبدالوہاب کی کتاب التوحید کی شرح فتح المجید (تالیف:عبدالرحمن بن حسن) کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ تاہم اس مجموعے میں اُن کے تحریر کردہ تمام رسائل عقیدہ کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اس مجموعے میں شامل رسائل کے عنوانات عربی میں دیے گئے ہیں، جو مصنف ہی کے قائم کردہ ہیں۔ مجموعہ رسائل عقیدہ کی تسہیل و تخریج کنندگان نے زبان و بیان کی قدامت کو قدرے آسان کیا ہے مگر صرف نہایت ضروری مقامات پر۔ طلبہ و علما کے لیے ان رسائل کا مطالعہ بہت اہمیت اور فائدے کا حامل ہے۔ جاذبِ نظر سرورق کے ساتھ کتاب کی عمدہ اشاعت قابلِ تحسین ہے۔(ارشاد الرحمٰن)
دین، یعنی اسلام کی دعوت اسلامی تاریخ کے ہر عہد کا زندہ موضوع رہا ہے۔ بیسویں صدی اس اعتبار سے نسبتاً نمایاں اور منفرد رہی کہ اس دوران عالمِ اسلام کے متعدد ممالک کے اندر اسلامی تحریکیں برپا ہوئیں جن کا مقصود و مطلوب اسلام کی دعوت اور اس کے نتیجے میں اسلامی نظام کا قیام تھا۔ سرزمینِ ہند بھی اس اعتبار سے زرخیز خطۂ ارضی ثابت ہوا لیکن یہ سفر ابھی جاری ہے۔ برعظیم میں اس کا کوئی منطقی نتیجہ ابھی سامنے نہیں آسکا، تاہم پیش رفت ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی تحریکوں کے قائدین اور علما نے اسلام کی دعوت کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ ہندستان کے معروف عالمِ دین اور امیرجماعت اسلامی مولانا سیّد جلال الدین عمری نے بھی اس موضوع پر نہایت سادہ پیرایۂ اظہار میں اسلام کی دعوت کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی جو ۴۰برس سے مسلسل شائع ہورہی ہے۔ پاکستان میں اس کی اشاعت باعث ِ مسرت ہے۔
یہ کتاب نہایت سلیس زبان میں ہے۔ چار بڑے مباحث کے اندر سیکڑوں ذیلی عنوانات کے تحت موضوع سے متعلق ہر اہم اور ضروری نکتے پر رہنمائی دی گئی ہے۔ پہلے بحث میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے پیغمبر کیوں آتے اور کس طرح اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ دوسری بحث اسلام کی دعوت سے متعلق ہے۔ اس بحث میں اس کام کی صحیح حیثیت، اسلام کے اتباع پر زور، دعوت کی ترتیب، اس کے اصول و آداب پر بات کی گئی ہے۔ تیسری بحث میں وہ خاص اوصاف بیان کیے گئے ہیں جن کا پایا جانا اس دعوت کے حاملین میں لازمی ہے۔ چوتھی بحث میں دعوت اور تنظیم کے تعلق کو واضح کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کسی اسلامی تنظیم کو مضبوط کرنے والی خوبیاں کیا ہیں؟
یہ کتاب ایک جامع خاکہ پیش کرتی ہے جس کی مدد سے دعوتِ دین کے اس پورے مضمون کو سمجھنا نہایت آسان ہوجاتا ہے جو دعوتی کارکن کا موضوع ہی نہیں بلکہ نصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ تحریک سے وابستہ ہر فرد کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔(ارشاد الرحمٰن)
قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’[موسٰی ؑ نے] ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا‘‘۔ مذکورہ بندے (عبداً) کا نام احادیث ِ مبارکہ میں ’خضر‘ بتایا گیا ہے۔حضرت خضر ؑ کا تذکرہ اکثر روایات و حکایات میں موجود ہے۔ شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو ان کے نام سے ناواقف ہو۔ فارسی اور اُردو ادب میں خضر، آبِ حیات اور حیاتِ جاوداں جیسی تلیمحات اسی شخصیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ زمانۂ قدیم سے حضرت خضر ؑ کی ذات ایک رہنما ہی کی ہے۔
زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر غلام قادر لون نے قرآنِ مجید،احادیث، تفاسیر، دیگر کتب سماوی اور مفکرین کے حوالے سے حضرت خضر ؑ کے بارے میں اُٹھنے والے سوالات کے مدلل جوابات دیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ان کے بارے میں ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ نبی تھے، جب کہ دوسری جماعت ان کو ولی کہتی ہے۔ دونوں طرف کے دلائل نقل کرنے کے بعد وہ اس بنیاد پر کہ حضرت موسٰی ؑ حضرت خضر ؑ سے جس طرح مخاطب ہوتے ہیں وہ کوئی غیرنبی نہیں کرسکتا، ان کو نبی قرار دیتے ہیں۔
مصنف ان کی حیاتِ جاوداں کے قائلین اور منکرین کے دلائل پیش کرتے ہیں اور بہت سی احادیث کے حوالے سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔خضر ؑ کس زمانے کی شخصیت تھے؟ مصنف کے مطابق : قرآن مجید سے ان کی ملاقات حضرت موسٰی ؑسے ثابت ہے تو پھر ان کا زمانہ وہی ہے۔ مصنف نے اس خیال کو باطل قرار دیا کہ حضرت خضر ؑ اور حضرت الیاس ؑ ایک ہی شخصیت ہیں۔ آبِ حیات، حیاتِ جاوداں اور سکندر والے قصے کو مصنف نے محض داستان قرار دیا ہے۔ تصوف والے ان کو اپنا رہبر قرار دیتے ہیں اور مشکل وقت میں ان سے مدد طلب کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں حضرت خضر ؑ بھولے بھٹکے لوگوں کو راستہ بتاتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام قادر لون نے عالمانہ اور محققانہ انداز اختیار کرتے ہوئے دونوں طرف کے دلائل دیے ہیں اور منطقی اور استدلالی نتائج اخذ کیے ہیں۔ غالباً حضرت خضر ؑ کی ذات اور شخصیت پر اُردو زبان میں، تحقیقی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے۔(قاسم محمود احمد)
مولانا ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸ء-۱۹۵۸ء) برطانوی ہند میں ایک عظیم الشان عالم کی طرح قومی اُفق پر نمودار ہوئے۔ انھوں نے تحریر، خطابت اور صحافت کے ذریعے مسلمانوں کو بالخصوص اور دیگر مذاہب کے حاملین ہندیوں کو بالعموم جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اُن کی توانا پکار نے مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کو مجتمع کیا۔ تحریکِ آزادیِ ہند کے مسلم اور غیرمسلم ہم راہی، ان کی صداے رستاخیز پر کشاں کشاں کھنچے چلے آئے۔
یہ مختصر مقالہ اپنے دامن میں وسعت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ جس میں جناب عبدالرشید عراقی نے مولانا ابوالکلام کے احوال و خدمات کے ساتھ، مولانا کی چھوٹی بڑی ۱۴۱کتابوں کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے ۔ اس تعارف نامے میں اگر وہ ناشرین کے نام بھی دے دیتے تو عشاقِ مطالعہ کے لیے سہولت رہتی۔ اسی طرح چند الحاقی آثار بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جیسے ’انسانیت موت کے دروازے پر‘۔ وہ اس کے الحاقی ہونے کے خدشے کو رد ، اور عبدالرزاق ملیح آبادی سے اس کے انتساب کی حقیقت واضح کرسکتے تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے مذہبی تفردات اور سیاسی عملیات پر اختلاف کی گنجایش موجود ہے، اور اس حرفِ اختلاف سے تو کسی کو بھی مفر نہیں۔ تاہم مولانا آزاد کے عزم و استقلال سے انکار کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا۔(سلیم منصور خالد)
دین اسلام نے بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے ایسی تعلیمات دی ہیں جو آج بھی قابلِ عمل ہیں۔ اسلام انسانوں کے لیے بہترین ضابطۂ حیات ہے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے عہدِرسالتؐ کی مسلم سوسائٹی نے انسانی فضیلت کی ایسی بے نظیر مثالیں قائم کیں، جو قیامت تک روشنی کا مینار بنی رہیں گی۔ اسلام میں مردوں کے ساتھ ساتھ طبقۂ نسواں کے لیے بھی ہدایات موجود ہیں۔ خواتین کے حقوق و فرائض متعین کیے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حضوراکرمؐ کی تعلیمات نے خواتین کے مرتبہ و مقام کو اس حد تک بلند کیا ہے کہ اس سے زیادہ بلندی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
زیرتبصرہ کتاب میں مسلمان عورت کے اخلاقی اور معاشرتی کردار کی بہترین ترجمانی کی گئی ہے۔ قرآن و سنت اور اسلامی روایات کے حوالوں سے ۱۰؍ ابواب میں ۱۸۶ عنوانات کے تحت مسلمان خواتین کی زندگی کے مختلف دائروں کی خصوصیات، ان کے فرائض اور حدودِ کار کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مسلمان خواتین کی زندگی کا کوئی گوشتہ نہیں چھوڑا گیا جس کے متعلق قرآنی اور نبویؐ روایات نہ دی گئی ہوں۔ اس تذکرے میں جدید دنیاے اسلام کے محققین کی نگارشات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ (ص ۱۱۷-۱۱۸)
اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک مسلمان عورت کا تعلق، عقیدہ اور رویہ کیا ہونا چاہیے؟ ایک مسلمان عورت کو زندگی میں جن اُمور سے واسطہ پڑتا ہے، ان سب کاموں کے بارے میں اسے جو ہدایات دی گئی ہیں، یہ کتاب ان تعلیمات کا احاطہ کرتی ہے۔ زیرنظر کتاب میں مسلمان عورت کے فرائض و کردار کو جس جامعیت ، حُسنِ ترتیب اور مستند و معتبر حوالوں سے بیان کیا گیا ہے، اس کے مطالعے کے بعد کسی نوع کی تشنگی محسوس نہیں ہوتی۔ ایسی جامع کتاب ہرمسلمان عورت کے مطالعے میں رہنی چاہیے۔ کتاب کا ترجمہ رواں، شُستہ اور عام فہم ہے۔(ظفرحجازی)
ادیب معاشرے کی تعمیر و ترقی اور تہذیب و تمدن اور معاشرت کی ترویج میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ افسانہ وہ دل چسپ صنف ہے جس کے ذریعے معاشرتی مسائل اور اقدار و روایات کی نہ صرف نشان دہی کی جاتی ہے بلکہ تہذیب و معاشرت کی بھرپور عکاسی بھی کی جاتی ہے۔ قانتہ رابعہ افسانہ نویسی کے ذریعے ایسی ہی کامیاب کاوش کررہی ہیں اور بامقصد ادب تخلیق کررہی ہیں۔ ثقافتی یلغاراور معاشرتی مسائل و انتشار کے پیش نظر اہلِ ادب کی ذمہ داریاں دوچند ہوگئی ہیں، بالخصوص تحریکِ اسلامی کو عصری تقاضوں کے پیش نظر معیاری ادب کی تخلیق پر ترجیحاً توجہ دینی چاہیے۔ علمی و ادبی حلقوں کے قیام اور نئے لکھنے والوں اور شعرا کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے۔
زیرتبصرہ کتاب قانتہ رابعہ کے افسانوں کا چھٹا مجموعہ ہے۔ ان افسانوں میں معاشرتی انتشار، خاندان کی ٹوٹ پھوٹ، جدید رجحانات اور معاشرتی اقدار و روایات کی نشان دہی اور گرفت کی گئی ہے۔ یہی تو جنت کا راستہ ہے، جہاں افسانوں کے مجموعے کا نام ہے، وہاں واقعتا کتاب کا حاصل بھی ہے اور زندگی کا حاصل بھی۔زبان اور اسلوبِ بیان عمدہ اور افسانہ قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے۔انگریزی الفاظ جابجا استعمال کیے گئے ہیں، جو ہمارے ہاں اُردو کے ساتھ رواج پاتے جارہے ہیں۔ بہتر ہوتا اپنی تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے متبادل اُردو الفاظ استعمال کیے جاتے۔ کتاب کی پیش کش عمدہ اور سرورق دیدہ زیب ہے۔(امجد عباسی)
کیریئر کونسلنگ طلبہ و طالبات اور والدین کے لیے ایک نہایت اہم شعبہ ہے، جس کی ضرورت پاکستان میں بڑے عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات اور والدین کو پاکستان میں دستیاب تعلیمی مضامین اور عملی کیریئر کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ وہ درست فیصلہ کرسکیں اور انفرادی اور اجتماعی مستقبل بہتر بنایا جاسکے۔ ایجوویژن کے ادارے نے اپنے کتابچوں کی اشاعت اور کیریئر کونسلنگ کے ذریعے بڑی عمدگی سے اس ضرورت کو پورا کیا ہے۔
کیریئر گائڈ پر مختلف مضامین کی معلومات کے لیے اب تک مذکورہ کتب سمیت ۱۲کتابچے شائع ہوچکے ہیں۔ ہرمضمون کے متعلق پاکستان کے حوالے سے تمام متعلقہ قابلِ اعتماد معلومات فراہم کی گئی ہیں اور تعلیمی اداروں کی تفصیلات بھی دی ہیں۔ میڈیکل سائنسز کی کتاب میں میٹرک اور ایف ایس سی (پری میڈیکل) کے طلبہ کے لیے ۱۸۴ تعلیمی پروگرام ہیں اور ۴۰میڈیکل اور الائیڈ ہیلتھ کیریئر، ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے لیے داخلہ گائڈ اور دیگر معلومات ہیں۔ اسی طرح انجینیرنگ گائڈ میں ۳۶؍ انجینیرنگ کیریئر، ۱۱۵تعلیمی پروگرام، داخلہ گائڈ براے انجینیرنگ یونی ورسٹیز اور کالجز کی تفصیلات ہیں۔ مینجمنٹ سائنسزگائڈ میں ۲۴ مینجمنٹ کیریئر، ۴۶مینجمنٹ سائنسز کی اسپیشلائزیشنز داخلہ گائیڈ براے بی بی اے اور ایم بی اے اور مینجمنٹ کی تعلیم کے بارے میں تعلیمی اداروں کی نشان دہی کی گئی ہے۔طلبہ و طالبات کو کیریئر کونسلنگ کے حوالے سے رہنمائی بھی دی جاتی ہے۔ متعلقہ طلبہ و طالبات اور والدین کو ایجوویژن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ (شہزاد الحسن چشتی)
ڈاکٹر زاہد منیرعامر معروف ادیب ہیں۔ ان کے ادبی سفر کی کئی جہات ہیں۔ وہ ایک اچھے شاعر، نقاد، شخصیت نگار اور سفرنگار ہیں۔ اب تک ان کی ۳۰سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب جزیرے کا خواب ان کا ایک مختصر مگر دل چسپ اور معلومات افزا سفرنامہ ہے۔
بحرہند کے جنوب مشرقی کنارے پر واقع ماریشس ایک خوب صورت جزیرہ ہے۔ مصنف کو ایک ادبی مجلس کی دعوت پر وہاں جانا پڑا تو ان کا تحقیقی ذوق کروٹ لے کر جاگ پڑا۔ انھوں نے ماریشس کے سرکاری ریکارڈ تک رسائی حاصل کی۔ اس کے ماضی کا کھوج لگایا، حال کا جائزہ لیا۔ ماریشس کے باشندوں کی جدوجہدِ آزادی اور فرانسیسی اور برطانوی سامراج کے مظالم کا ذکر کیا۔ مصنف نے ماریشس کی تحریکِ آزادی اور تحریکِ آزادیِ ہند کی مماثلتیں تلاش کیں اور کالاپانی اور اسیرانِ مالٹا کا تذکرہ بھی کیا۔
مصنف نے ماریشس کا سفر ایک ادبی مجلس کی تقاریب میں اقبال کے فیض کو عام کرنے کے لیے کیا۔ انھوں نے موقع غنیمت جانا اور ماریشس کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے سلطان ٹیپو اور نپولین بوناپارٹ کی خط کتابت کا سراغ لگایا اور اسے منظرعام پر لائے۔ انھوں نے ماریشس کی تاریخ، جغرافیے اور ثقافت کا جائزہ لے کر اسے عمدگی سے پیش کیا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
اُردو زبان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ سیرت النبیؐ پر سب سے زیادہ کتابیں اسی زبان میں لکھی جارہی ہیں۔ پروفیسر شاکر مرحوم کے قائم کردہ کتب خانے ’بیت الحکمت‘ میں دنیا کی ۲۵زبانوں میں ۵ ہزار سے زائد کتب ِسیرت موجود ہیں۔(ص ۸)
زیرنظر کتاب مصنف کی ریڈیائی تقریروں، رسائل میں شائع شدہ مضامین، مقالات اور چند خطبات پر مشتمل ہے۔ مندرجات ۴۰ عنوانات پر محیط ہیں، ان کے تحت سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔چندعنوانات: سیرت النبیؐ کے اختیارات، نبی رحمتؐ صاحب ِ خلق عظیم، حضور اکرمؐ بحیثیت رہبر امورخارجہ، حضوؐر بحیثیت قانون ساز، حضوؐر بحیثیت پیغمبر انقلاب، خطبہ حجۃ الوداع، حضوؐر کی معلّمانہ حکمت عملی، ربیع الاول اور اس کے تقاضے، توہین رسالتؐ اور مغرب، سیدابوالاعلیٰ مودودی بحیثیت سیرت نگار۔
مصنف نے کوشش کی ہے کہ سیرت النبیؐ کے ان پہلوئوں کو اُجاگر کریں جن کے بارے میں مستشرقین نے حقائق کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔ عہد نبویؐ کے ان مقامات کی اہمیت واضح کی ہے جو آج اپنی اصل حالت میں ہیں اور ان کا تذکرہ کتب سیرت کی زینت ہے۔ جدید عسکری علوم کی روشنی میں حضوراکرمؐ کی دفاعی حکمت عملی کی افہام و تفہیم کی کوشش کی ہے۔ رسولِؐ رحمت کے اسوئہ تعلیمی کے نقوش بحسن و خوبی واضح کیے ہیں۔ مصنف مدت العمر ایک معلم کی حیثیت سے ان تجربات و مشاہدات سے گزرے جو حضوؐر اکرم کی معلّمانہ حیثیت کی تفہیم میں معاون ثابت ہوئے۔
سیرت النبیؐ کا موضوع ایک بحرناپیدا کنار ہے۔ اس کی شناوری پروفیسر عبدالجبار شاکر جیسے مشاق اور صاحب ِعزم انسان ہی کرسکتے تھے۔ سیرت النبیؐ پر ان کی تحاریر و تقاریر کی یہ پہلی جلد ہے۔ مزید کام بھی پیش نظر ہے۔ پروفیسر صاحب موصوف کا اسلوبِ بیان علمی، تحقیقی اور معلوماتی ہے۔ ان کی تحریریں بھی ان کے خطاب کی مانند دل چسپ اور فکرانگیز ہیں۔(ظفرحجازی)
شاہ مصباح الدین شکیل سیرت النبیؐ کے موضوع پر ۱۱سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ سیرت النبیؐ البم مصنف کی منفرد کاوش ہے۔ اس میں سیرتِ رسولؐ کو ایک مختلف زاویے سے پیش کیا گیا ہے، اور تفہیم سیرت کے نئے دریچے کھول دیے گئے ہیں۔
سیرت النبیؐ البم کو ایک البم کی طرح ("۱۲x "۹ سائز) میں آرٹ پیپر پر تزئین و آرایش کے ساتھ خوب صورتی سے شائع کیا گیا ہے۔ البم کا آغاز تعمیرکعبہ کی تاریخ سے ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی بنیاد حضرت آدم ؑ نے رکھی، اس میں نماز پڑھی اور اوّلین طواف کیا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے ۱۰مراحل، دیگر تاریخی پہلوئوں اور مسجدحرم کی توسیعِ جدید کا تذکرہ بھی ہے۔ بعدازاں انبیاے کرام ؑ (حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت عیسٰی ؑ)کی دعوت، جدوجہد اور سیرت عہد بہ عہد ایک سرگذشت کے انداز میں دل چسپ پیرایے میں بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد نبی آخرالزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور انقلابی جدوجہد کو مرحلہ وار بیان کیا گیا ہے جو اختتامی مرحلے ، یعنی ’رفیق اعلیٰ کی جانب سفر‘ پر منتج ہوتی ہے۔
گویا سیرتِ النبیؐ کے ساتھ ساتھ تاریخِ اسلام اور احیاے اسلام کی جدوجہد مرحلہ وار دل چسپ اور واقعاتی انداز میں ایک تسلسل سے سامنے آجاتی ہے۔ قاری اپنے آپ کو اس جدوجہد میں شریک پاتا ہے اور آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ واقعات کے ساتھ ساتھ خوب صورت رنگین تصاویر قاری کا ذوق و انہماک اور بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔ البم کا بڑا حصہ نبی اکرمؐ کی سیرت پر مبنی ہے، جسے دیکھ کر، پڑھ کر جہاں حضوؐر سے محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں مختلف آثار و مقامات کی تصاویر دیکھ کر قاری کے دل میں ان مقامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنا بھی تڑپنے لگتی ہے۔ اس تڑپ کو مزید مہمیز حسب موقع اشعار بالخصوص اقبال کے اشعار سے ملتی ہے جن کا عمدگی سے انتخاب کیا گیا ہے۔
یہ اس کتاب کا تیسرا اڈیشن ہے جسے نئے اضافوں کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی حقانیت کا تازہ ثبوت (اَبرہہ کے لشکر پر ابابیل کے برسائے ہوئے کنکر کی دریافت)، پہلی صدی ہجری کے قدیمی قرآنی نسخے، اور آبِ زم زم پر سائنسی تحقیق کا تذکرہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔ یہ خوب صورت کاوش اور پیش کش پی ایس او کے تعاون سے منظرعام پر آئی ہے۔ دوسرے سرکاری اور کاروباری اداروں کے لیے یہ ایک عمدہ مثال ہے۔(امجد عباسی)
اس سے پہلے فاضل مرتب آخری پارے اور سورئہ بقرہ کا مطالعہ اسی انداز سے پیش کرچکے ہیں۔ ان کے پاس تفسیر کی ۲۹ کتابیں موجود ہیں، بعض آٹھ دس جلدوں میں ہیں۔ ان سب سے استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے جو بہتر سمجھا ہے حوالے کے ساتھ اس میں شامل کرلیا ہے۔ متن لکھنے کے بعد ترجمہ اور پھر عربی الفاظ کے معانی لکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے لُغات کی چھے کتب سے فائدہ اُٹھایا۔ اسی مفہوم کی دوسری آیت یا حدیث کو تفہیم بالقرآن اور تفہیم بالحدیث کے عنوان سے نقل کیا ہے۔ آخر میں آیت مبارکہ کی حکمت اور بصیرت کے عنوان سے اہم نکات درج کیے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ قاری عربی زبان کو سمجھ کر قرآن پڑھے۔ انھوں نے عربی کے ۱۵؍اسباق بھی دیے ہیں جن کی مشق کرنے سے ضروری فہم حاصل ہوجاتا ہے۔ قرآن کے طالب علم اور درس دینے والے اس تفسیر سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ اس ضخیم کتاب کی مرتب کوئی قیمت نہیں لیتے۔ چنانچہ جو گھر آکر لے وہ لے جاسکتا ہے۔ دوسرے شہروں کے شائقین ۵۰روپے کے ڈاک ٹکٹ ارسال کردیں تو انھیں کتاب بک پوسٹ کردی جائے گی۔(مسلم سجاد)
حُسن و جمال کے لیے پسندیدگی اور اس جانب رغبت انسانی فطرت کا خاصا ہے۔ مسلمانوں نے اس کی تسکین کے لیے خطاطی، نقّاشی، پچی کاری، ظروف سازی، معماری اور اسی طرح کے فنون ایجاد کیے یا ان کی آبیاری کی۔ ان میں خطاطی ایسا فن ہے جس کے لیے لمبے چوڑے اہتمام یا لوازمات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قریبی صدیوں میں عالمِ اسلام میں خطِ نسخ اور نستعلیق کی مختلف اقسام کے بیسیوں بلکہ سیکڑوں ماہر خطاط ہوگزرے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند میں بھی بہت سے نام وَر خطاطوں نے شہرت حاصل کی جن میں محمد یوسف دہلوی، پرویں رقم، زریں رقم، حافظ محمد یوسف سدیدی، خلیق ٹونکی اور سیّدانور حسین نفیس رقم (المعروف: سید نفیس الحسینی، ولادت: ۱۹۳۳ء- وصال: ۲۰۰۸ء) کے نام نمایاں ہیں۔ زیرنظر کتاب کے مرتب محمد راشد شیخ کے بقول: مؤخرالذکر ’ایک جامع الکمالات‘ بزرگ تھے۔ ’’وہ ایک نام وَر خطاط‘ شیخ طریقت، محقق، مصنف، شاعر اور کئی دیگر حیثیتوں کے مالک تھے‘‘۔ ۱۹برس کی عمر میں وہ نواے وقت میں بطور خطاط ملازم ہوگئے تھے۔ چارسال کے بعد ۱۹۵۶ء میں استعفا دے دیا اور پھر پایانِ عمر آزادانہ خطاطی کی۔ نوادرِ خطاطی کی تخلیق کے ساتھ شاہ صاحب نے خطاط شاگردوں کے ایک وسیع حلقے کی تربیت بھی کی۔
راشد شیخ لکھتے ہیں: ’’یہ چشمۂ فیض ۵۰سال سے زائد عرصے تک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق اس عہد میں آپ کے علاوہ کسی اور خطاط سے اس کثیرتعداد میں تلامذہ نے اکتسابِ فن نہ کیا۔ اس طرح شاہ صاحب سے زیادہ کسی خطاط نے کتب کے سرورق نہیں لکھے۔ اس کثرت کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی شاید ہی کوئی لائبریری ہوگی جس میں پاکستان کی مطبوعہ دینی و علمی کتب موجود ہوں، اور ان میں شاہ صاحب کے خوب صورت خط کا کوئی نمونہ نہ ہو‘‘۔ (ص ۱۷)
نفیس شاہ صاحب کی شخصیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے خالو صوفی مقبول احمد کے زیراثر، اوائل ہی سے تصوف کی طرف راغب ہوگئے تھے اورعالمِ شباب میں مولانا شاہ عبدالقادرراے پوری کے حلقۂ ادارت میں داخل ہوئے۔
زیرنظر کتاب ان کی مختصر سوانح کے ساتھ ان کے فن اور ان کی خطاطی کے مختلف النوع نمونوں کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ اسے پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں سوانح اور فنِ خطاطی میں شاہ صاحب کے اجتہادات کی تفصیل ہے۔ دوسرے حصے میں نفیس رقم کی تحریرکردہ قرآنی آیات، ان کے تراجم اور احادیث نبویؐ،نیز اسماے حسنہ اور اسماء النبیؐ بھی شامل ہیں۔ تیسرا باب نفیس صاحب کی خطاطی میں اشعار اور اُردوفارسی منظومات پر مشتمل ہے۔ چوتھے باب میں شاہ صاحب کے تحریر کردہ مختلف کتابوں کے سرورق جمع کیے گئے ہیں۔ پانچویں حصے میں ان کے خط میں متفرق عبارات یک جا کی ہیں۔
محمد راشد شیخ پیشے کے اعتبار سے انجینیرہیں مگر عمرانی علوم و فنون کا نہایت عمدہ اور فراواں ذوق رکھتے ہیں جو کبھی تو کتابوں کی تصنیف و تالیف ، کبھی بلندپایہ کتابوں کی باسلیقہ اور معیاری اشاعت اور کبھی خطاطی کے ایسے مرقعے شائع کرنے میں اظہار پاتا ہے۔ اس سے پہلے وہ عالمِ اسلام کے نام وَر خطاطوں کے حالات، خدمات اور ان کے نوادر پر مشتمل ایک خوب صورت کتاب تذکرۂ خطاطین کے نام سے شائع کرچکے ہیں۔ (طبع اوّل اضافہ شدہ اڈیشن ۲۰۰۹ء)
ارمغانِ نفیس بلاشبہہ ایک نہایت خوب صورت اور نفیس مرقّع ہے جو راشدصاحب کی کم و بیش ۱۵برس کی محنت ِشاقہ کا حاصل ہے۔ اس کی تیاری میں مرحوم نفیس صاحب کی اجازت اور تائید شامل رہی، بعد میں ان کے فرزند حافظ سید انیس الحسن حسینی مرحوم نے بھی نوادر کی فراہمی میں راشدصاحب کی مدد کی۔ مرتب کے بقول: ’’شاہ صاحب کا کتابی ذوق انتہائی اعلیٰ اور نفیس تھا‘‘۔ زیرنظر مرقعے کی تیاری اور اشاعت میں راشدصاحب نے اسی اعلیٰ اور نفیس معیار کو پیش نظر رکھا ہے۔ کاغذ، طباعت، جلدبندی ، لے آئوٹ، غرض یہ کتاب ہمہ پہلو نفاست، سلیقے اور حُسن و جمال کا مرقع ہے۔ اس تبصرہ نگار کی ایک کتاب تصانیفِ اقبال کا سرورق بھی نفیس شاہ صاحب نے تحریر فرمایا تھا۔ وہ نمونہ اس مرقّعے میں نہیں آسکا تو مبصرکو اپنی محرومی کا احساس ہو رہا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
عہدنبویؐ میں صحابہ کرامؓ کی تعلیم وتربیت براہِ راست وحی الٰہی اور اسوئہ نبویؐ کے زیراثر رہی۔ بعد کے اَدوار میں مسلمانوں کے افکار و نظریات میں تغیر پیدا ہوا تو ان اختلافات نے فرقہ واریت کو جنم دیا۔یہ اختلافات دینی فکرونظر میں بھی تھے اور سیاسی اُمور میں بھی رُونما ہوئے۔ اہلِ علم میں اختلاف راے ممنوع نہیں، لیکن اس اختلاف راے کو مخالفانہ روش کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ جب سے مسلمانوں نے اللہ کے اس واضح حکم کے خلاف اپنی اغراض کے تحت معاملات طے کرنے شروع کیے ہیں، تب سے مسلمانوں میں فرقہ واریت کا زہر سرایت کرگیا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ متعدد فرقے قائم ہوگئے۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کے نتیجے میں، مسلمانوں میں دُوریاں پیدا ہوئیں۔
زیرنظر کتاب میں مصنف نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کی تاریخ، مختلف اَدوار میں اس کی نوعیت، اسباب و محرکات اور نقصانات پر بحث کی ہے۔ انھوں نے صحیح تجزیہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے داخلی اور خارجی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اختلافات نے مسلمانوں کے زوال کی راہ ہموار کی ہے۔ مصنف نے اختلاف راے کی حدود، اختلاف اور فرقہ واریت میں فرق اور اچھے مقاصد کے لیے جماعت سازی کی اجازت پر بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ اُمت کو قرآن و سنت کی بنیاد پر متحد و متفق رکھنے کی ذمہ داری علماے کرام پر عائد ہوتی ہے(ص۱۵۶)۔کتاب کے آخر میں مسلمانانِ پاک و ہند کے جید علما کی آرا دی گئی ہیں جو فرقہ واریت کو ختم کرنے میں معاون ہوسکتی ہیں۔ ( ظفرحجازی)
عزیمت کے راہی کا یہ چوتھا حصہ ہے جو ۲۳شخصیات کے حالاتِ زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ تحریک تجدید و احیاے ملت کی تاریخ کا یہ ایک نمایاں اور روشن باب ہے۔ یہ ان لوگوں کا تذکرہ ہے جن کی پوری زندگیاں فریضۂ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں گزریں۔ وہ عمربھر ثابت قدمی کے ساتھ اس راستے پر گامزن رہے۔
حافظ محمد ادریس کی گفتگو ہو یا ان کی تحریر’ از دل ریزد بر دل خیزد‘ کی کیفیت پیدا کرنے اور دلوں کو زندگی بخش پیغام دینے والی ہوتی ہے۔ ان کی تحریریں نہ صرف مقصدیت سے آشنا کرتی ہیں بلکہ جذبہ اور جوشِ عمل پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ سیرت و سوانح ان کا خاص موضوع ہے۔ اس موضوع پر ان کی نصف درجن کتب آچکی ہیں ۔ زیرنظر کتاب میں تحریکِ اسلامی کے قائدین بالخصوص قاضی حسین احمد، نجم الدین اربکان، پروفیسر غفور احمد، علی طنطاوی، شیخ جعفرحسین، محترمہ مریم جمیلہ، عبدالوحید خان، شیخ عبدالوحید، ڈاکٹر پرویز محمود، حاجی فضل رازق، ڈاکٹر محمد رمضان، مولانا احمدغفور غواص، صاحبزادہ محمد ابراہیم اور شعیب نیازی شہید پر مفصل مضامین ہیں۔ عزیزوں میں میاں سخی محمد اور حافظ غلام محمد کا تذکرہ شامل ہے۔
تحریکِ اسلامی کے یہ وہ کردار اور روشن مثالیں ہیں جن کے تذکرے سے نیکی و بھلائی کا جذبہ فروغ پاتا ہے، اور قربِ الٰہی کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔ ان مثالی شخصیات کی حیات و خدمات نئی نسل کو تحریک کے ساتھ جوڑنے، روایات سکھانے اور تربیت کا عمدہ ذریعہ ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھل کر قربانی و ایثار کا مرقع اور استقامت کا پیکر ہے۔ وابستگانِ تحریک کے لیے یہ زندگیاں منارۂ نور ہیں۔ تحریک کے کام کو اُسی جذبے، اخلاص، للہیت اور قربانی کے ساتھ آگے بڑھایا جاسکتا ہے، جس جذبے سے ان بنیاد کے پتھروں اور قرنِ اوّل کے لوگوں نے کیا۔ تحریک کے موجودہ وابستگان بھی ان حالات و واقعات سے کسی طرح بے نیاز نہیں ہوسکتے کہ یہی جذبے، ولولے اور اخلاص ہمارا اثاثہ ہیں۔ کتاب کا مطالعہ ایمان و یقین کو جلا دینے اور تحریک کے ساتھ وابستگی کو مضبوطی عطا کرنے والا ہے۔ (عمران ظہور غازی)
اس اشاعت ِ خاص میں پانچ ابواب کے اندر ایک جذباتی مگر ایمانیاتی مسئلے کو نہایت سلیقے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ عظمت ِ مصطفیؐ،عہدِوفاداری، تسلیم اور اسلام، آیت ِ صلوٰۃ و سلام کا زمانۂ نزول، زبان سے صلوٰۃ و سلام کی ادایگی، صلوٰۃ و سلام سے متعلق امام راغب اصفہانی، ابن منظور، مرتضیٰ الزبیدی اور ابن قیم و محب الدین جیسے اہلِ لغت کی لغوی بحثوں کو درج کیا گیا ہے۔ اُردو تفاسیر میں سے مولانا شبیراحمد عثمانی ، مفتی محمد شفیع، مولانا احمد رضا خان بریلوی، پیرمحمد کرم شاہ ازہری، مولانا امین احسن اصلاحی، سیدابوالاعلیٰ مودودی، حافظ صلاح الدین یوسف، سید صفدر حسین نجفی اور علامہ حسین بخش کی تفاسیر سے اقتباس دیے گئے ہیں۔ کتاب جلاء الافہام فی فضل الصلوٰۃ والسلام علٰی محمد خیرالانامؐ میں سے درود شریف پڑھنے کے ۴۰ محل و مقامات کا اندراج ہے۔ ’رسولِؐ رحمت کی رحمۃ للعالمینی کی پھوار اُمت پر‘ کا عنوان دے کر غزوئہ احزاب کے تناظر میں فضیلت صلوٰۃ و سلام کو سورئہ احزاب کی آیت ۵۶ کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ آیات ۴۳اور۴۴ کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ نور وظلمت کو بعثت و نبوتِ انبیا سے مربوط کر کے انسانی و حیوانی فرق و امتیاز کا تذکرہ، کتب ِ سماوی کے مشترکہ خاصے کے طور پر نور کا بیان، اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا مظہر، طہارت و تطہیر، نور اور پاکیزگی، نورِ ہدایت اور نورِقرآن، دعاے نور اور سیدنامحمدؐ اور سلام و تسلیم کا مطالبہ اور منافقین کے کردار کو باہم مربوط کرکے بیان کیا گیا ہے۔ نفاق کے مرض کو عہدحاضر کی صورت حال سے مربوط کر کے دعوتِ فکروعمل دی گئی ہے اور درود وسلام پر بات کو اختتام تک پہنچایا گیا ہے۔ مصنف نے جس تسلسل، ترتیب اور ربط کے ساتھ کڑی سے کڑی جوڑ کر ایمانِ مسلم کو احسانِ مصطفیؐ سے جوڑا ہے وہ لائق مطالعہ ہے۔ مروجہ روایات و رسومات سے ہٹ کر جذبۂ ایمانی کو عمل کے قالب میں ڈھالنے کی سعی دکھائی دیتی ہے۔(ارشاد الرحمٰن)
سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اولین کتاب: مغازیِ رسولؐ اللّٰہ ہے جسے حضرت عروہ بن زبیرؓ (م:۹۴ھ) نے لکھا۔ سیرتِ نبویؐ کا ذخیرہ آج دنیا میں کم و بیش ۱۰۰ زبانوں میں ہزاروں کتب و تراجم کی شکل میں دستیاب ہے۔ اُردو زبان میں ذخیرۂ سیرت ۳ہزار سے متجاوز نظم ونثر کی چھوٹی بڑی مطبوعات کی صورت میں موجود ہے۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا نظر آرہا ہے اور حکومت پاکستان کی سرپرستی میں سیرتِ رسولؐ پر کتب پر سیرت اوارڈ سے بھی اس کی مزید حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ پھر مستشرقین نے نبی اکرمؐ کی سیرتِ مبارکہ پر اعتراضات اُٹھائے تو اس کے رد میں کتب سیرت کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ اسی طرح بعض غیرمسلموں نے بھی نبی اکرمؐ کی شان میں کتب لکھی ہیں جو اپنی جگہ لائق مطالعہ ہیں۔ غرض سیرتِ رسولؐ کے ذخیرے پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک عظیم الشان ذخیرہ ہے جو اہلِ ایمان کا علمی ورثہ ہے اور اسے نئی نسلوں تک سیرتِ رسولؐ کے شایانِ شان اور عصرِحاضر کے جدید تقاضوں کے پیش نظر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز یہ میدان اہلِ علم و تحقیق کو غوروفکر کی دعوت بھی دے رہا ہے۔
ذخیرۂ سیرتِ نبویؐ کو محفوظ کرنے اور نئی نسل تک جدید تقاضوں کے پیش نظر منتقل کرنے کی ضرورت کو محسو س کرتے ہوئے ادارہ نشریات نے کتب ِ سیرت کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ حیات سرورِ کائناتؐجو ماضی قریب میں علمی وادبی حلقے کے ایک معروف نام مُلّا واحدی دہلوی کے قلم سے سامنے آئی، کی اشاعت ِ نو اسی غرض سے کی گئی ہے۔
کتاب کی علمی حیثیت اور مقام کے بارے میں پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم تقریظ میں لکھتے ہیں:’’سیرت النبیؐ کے موضوع پر اُردو میں ہزاروں چھوٹی بڑی کتابیں اور رسائل لکھے گئے ہیں مگر مُلّاواحدی کی کتاب حیاتِ سرورِکائناتؐ اس تمام پاکیزہ ذخیرے میں اپنے مضامین، اسلوب، حسنِ ترتیب، زبان و بیان اور طرزِانشاء کے لحاظ سے یگانہ و ممتاز ہے۔ ہرچند اس تصنیف میں سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، رحمۃ للعالمینؐ از قاضی محمد سلیمان، سلمان منصور پوری اور سیدابوالاعلیٰ مودودی، نیز مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی متعدد تحریروں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ اس طرح جو تصویر سامنے آئی ہے وہ نہ صرف نبی اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ کے سوانحی پہلو کی کامل تصویر پیش کرتی ہے بلکہ اس میں کارنامۂ نبوت کی تمام تر تفصیلات، اسوئہ حسنہ کی پاکیزگی اور تابندگی، معمولاتِ نبویؐ کی جزئیات اور دین و شریعت کی تمام تر تعلیمات کا عکس بھی دکھا دیا گیا ہے....مصنف نے کہیں کہیں مغربی دانش وروں کے ایسے اقوال اور تحریریں بھی درج کی ہیں جن سے عظمت ِ مصطفویؐ اور اعترافِ رسالت کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ کتاب سیرت، نبوت و رسالت کی رواں تفسیر دکھائی دیتی ہے‘‘۔ (ص ۳۱)
سیرتِ نبویؐ کے ذخیرے سے استفادے کا یہ اقدام مبارک باد کا مستحق ہے اور اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اربابِ علم و دانش کو طباعت و تحقیق کی جدید سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر اس پہلو پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ جہاں حب ِ رسولؐ کا تقاضا ہے وہاں علمی ضرورت بھی ہے۔(امجد عباسی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عربی، اُردو، فارسی، انگریزی، فرانسیسی اور جرمن میں اتنی کثیر تعداد میں کتابیں تحریر کی گئی ہیں کہ تاریخ میں کسی بھی انسان پر اتنی بڑی تعداد میں کتابیں تحریر نہیں ہوئیں۔ حضور اکرمؐ کے متعلق ہر مصنف نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق قلم اُٹھایا، مثلاً تصوف کے حوالے سے یا حضور اکرمؐ بطور ایک عظیم سپہ سالار یا بطور ایک انقلابی رہنما یا بطور ایک کامیاب حکمران اور ماہر سیاست دان وغیرہ۔
مصنف نے حضور اکرمؐ کی عملی زندگی میں عدل و انصاف اور معاشی مساوات کے پہلو کو نمایاں کیا ہے۔ مصنف کے خیال میں لوگ حقوق العباد کو بھول چکے ہیں، انھیں حضور اکرمؐ کی سیرت کے حوالے سے اس طرف توجہ دلائی جائے تو یقینا وہ راہِ راست کی طرف پلٹیں گے۔
مصنف نے سیرت النبیؐ کی معتبر و مستند کتابوں اور قرآنِ مجید کے حوالوں سے اپنی کتاب مرتب کی ہے (اگرچہ حوالے کہیں مبہم، کہیں ناقص اور ادھورے ہیں)۔ پہلے ۱۷؍ابواب حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کی وفات تک کے واقعات زمانی ترتیب سے مرتب کیے گئے ہیں۔ باقی حصے میں مختلف موضوعات پر اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اسلامی تعلیمات و ہدایات پیش کی گئی ہیں۔ اکیسویں باب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ میں سے ، جسے مصنف نے عملی قرآن لکھا ہے (ص ۲۹۱) چند ایسے واقعات لکھے ہیں جن سے حضور اکرمؐ کے حُسنِ اخلاق اور حُسنِ معاملہ کا پہلو اُجاگر ہوتا ہے۔
مصنف نے عام فہم زبان میں اللہ کے آخری نبیؐ کی زندگی کو محبت و عقیدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہاں چند ایک اُمور کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے تاکہ نقشِ ثانی میں تصحیح ہوسکے۔ غار، مذکر ہے، اسے مؤنث لکھا گیا ہے (۲۹۸)۔ حضور اکرمؐ کی رضاعی والدہ کا نام ثویبہ ہے، ثوبیہ لکھا گیا ہے (ص ۴۴)۔ حضوراکرمؐ کی سیرت کا سب سے بڑا مآخذ قرآنِ مجید ہے۔ پوری کتاب میں قرآنی حوالوں کے لیے عربی متن کے بجاے صرف اُردو ترجمہ دیا گیا ہے، قرآن کی آیات کا ترجمہ کسی مستند ترجمے سے دیا جائے تو مناسب ہے۔ یہی حال احادیث کی کتاب کے حوالوں میں ہے، یعنی حدیث کی کتاب کا نام دیا ہے، صفحہ نمبر نہیں دیا۔ بعض اشعار بھی غلط نقل ہوئے ہیں۔ بعض حوالے نامکمل ہیں ص ۱۲۶ پر، حوالہ نمبر۲۸ کے تحت صرف پیرکرم شاہ لکھا گیا ہے۔ کتاب کا نام اور صفحہ نمبر مفقود ہے۔ طائف فتح نہیں ہوا (۱۸۴)، حضور اکرمؐ نے چند روز محاصرہ کیا پھر لوٹ آئے۔ اسلوبِ بیان واضح، صاف اور سلیس ہے، کہیں ابہام نہیں۔ اُمید ہے کہ قارئین اس کتاب کے مطالعے سے حضور اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق عمل کا داعیہ محسوس کریں گے۔(ظفرحجازی)
قرآنِ مجید کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کے عجائب کے نہ ختم ہونے کا سلسلہ ہے۔ قرآنِ مجید سے ہدایت و رہنمائی اور اس کے مفہوم کو جاننے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف تفاسیر لکھی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قرآن کا فہم و شعور ایک مختصر اور جامع تفسیر ہے جو انفرادیت کی حامل ہے۔
نبی اکرمؐ کے طریق تعلیم میں ایک پہلو استفہامی انداز بھی تھا۔ آپؐ صحابہ کرامؓ کو متوجہ کرنے کے لیے سوال پوچھتے تھے اور پھر جواب بھی دیتے تھے۔ اس طرح سے جہاں بات پوری طرح سمجھ میں آجاتی تھی وہاں ذہن نشین بھی ہوجاتی تھی۔ راجا محمد شریف قاضی نے جو کئی کتب کے مصنف ہیں اور دعوت و تدریس کے میدان سے وابستہ ہیں، تفسیرقرآن کے لیے اس طریق تعلیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے سورئہ فاتحہ، سورئہ بقرہ اور آخری پارے کی تفسیر کی ہے۔
آغاز میں سورہ کا مختصر تعارف دیا گیا ہے جو کہ سوال و جواب کی شکل میں ہی ہے۔ عربی متن اور ترجمے کے بعد ’لغت‘ کے عنوان سے اہم عربی الفاظ کے معنی، قواعد و ضوابط اور مآخذ و مصادر بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد آیاتِ قرآنی کی مختلف عنوانات کے تحت سوالاً جواباً تشریح دی گئی ہے۔ آیات میں بیان کردہ مضامینِ قرآن کو واضح کرنے کے لیے مختلف ابواب کا تعین کیا گیا ہے اور ہرباب کے آخر میں ’مشق‘ دی گئی ہے تاکہ اہم موضوعات ذہن نشین ہوجائیں۔ تفسیرقرآن کے لیے سیدمودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن کو بنیاد بنایا گیا ہے اور سیدقطب شہیدؒ کی فی ظلال القرآن اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تدبرقرآن سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
استفہامی انداز میں یہ مختصر تفسیر جہاں قرآنِ مجید کے اہم مضامین کو جاننے کا ذریعہ ہے وہاں قرآنی عربی سیکھنے کی رغبت بھی دلاتی ہے۔ اگر قرآنی عربی کا کورس بھی کرلیا جائے تو آیات کے ترجمے کی استعداد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ فہم قرآن اور مدرسین قرآن کے لیے ایک مفید تفسیر ہے۔ اگر اس سلسلۂ تفسیر کو مکمل کرلیا جائے تو قرآن فہمی کے لیے یقینا ایک مفید خدمت ہوگی۔(امجد عباسی)
یہ کتاب مصر میں حسنی مبارک کے بعد، صدر مرسی کے مختصر دور اور پھر جنرل سیسی کے فوجی انقلاب کی صورت حال کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب نے مصر کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا پس منظر فراہم کر کے ایک اہم ضرورت پوری کی ہے۔
مصنف نے اس کتاب کے ایک باب میں حسن البنا سے محمد بدیع تک تمام مرشدین عام اور دوسرے باب میں ’اخوان اہلِ قلم کا قافلہ‘ کے عنوان سے ۱۴شخصیات پر ضروری معلومات فراہم کی ہیں۔ دوتہائی سے زیادہ کتاب گذشتہ دو تین سال کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس دوران جو تجزیے اور رپورٹیں اُردو یا عربی میں شائع ہوئیں ان کا ایک مربوط انتخاب صورتِ حال کی مکمل تصویرکشی کردیتا ہے۔ صدرمرسی کے انٹرویو، ان کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹیں، اسی طرح فوجی بغاوت کے بارے میں ضروری معلومات، سب جمع کردی گئی ہیں۔ ریفرنڈم میں منظورشدہ دستور کا مکمل متن بھی شامل ہے۔ ابتدا میں ہی رابعہ العدویہ، شہدا، بچوں اور بڑے بڑے اجتماعات کی تصاویر سے تحریکِ مزاحمت کی بھرپور جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ نعیم صدیقی کی مشہور نظمیں ’پھر ایک کارواں لٹا‘ ، ’یہ کون تھا کس کا خون بہا؟‘ بھی شاملِ اشاعت ہیں۔
اس کتاب کی حیثیت ایک مستند دستاویز کی ہوگئی ہے۔ اگر سب منتخب تحریرات کے حوالے بھی دیے جاتے تو کتاب زیادہ مستند ہوتی۔ مصنف اس کتاب کی بروقت طباعت پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مستقبل کے مؤرخ کے لیے لوازمہ ایک جگہ فراہم کردیا ہے۔ (طاہر آفاقی)
سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے انتقال (۵جنوری ۲۰۱۳ء) پر جس طرح سے عالمی سطح پر اور اندرونِ ملک حلقوں نے ان سے اظہارِ عقیدت کیا، اس سے ان کی شخصیت اور مقبولیت کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی شخصیت، جدوجہد، خدمات اور درپیش اہم چیلنجوں کا زیرتبصرہ اشاعت ِ خاص میں احاطہ کیا گیا ہے۔ عالمی اسلامی تحریک کے قائدین، علماے کرام، معروف سیاست دان، جماعت اسلامی کے قائدین اور وابستگان اورمعروف اہلِ قلم، دانش وروں اور کالم نگاروں کے افکار و آرا اور انٹرویو اس اشاعت خاص میں یک جا کردیے گئے ہیں۔ قاضی صاحب کا جہادِافغانستان میں اہم کردار تھا، حکمت یار گلبدین نے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ مسئلۂ کشمیر اور جہادِ کشمیر سے قاضی صاحب کی وابستگی پر الیف الدین ترابی اور عبدالرشید ترابی اظہارِ خیال اور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اہلِ خانہ اور احباب کے تاثرات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ مضامین کے ساتھ منظوم خراجِ عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے۔ مجاہد ملت قاضی حسین احمد کی یاد میں ایک ضخیم اشاعت خاص۔(امجد عباسی)
’قتلِ غیرت‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بظاہر اس کے معنی ’غیرت کو قتل کردینا‘ ہوں گے، لیکن مصنف کی مراد اس سے بالکل برعکس یہ ہے کہ غیرت کو باقی رکھنے یا ’پاسِ غیرت‘ میں قتل کرنا۔ انگریزی میں اس کے لیے عام اصطلاح Honour Killing ہے۔
مغرب میں، اور ہمارے ملک میں بھی، عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’غیرت‘ کی بناپر عورتوں پر تشدد، جو اُن کی ہلاکت پر بھی منتج ہوسکتا ہے، صرف مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بقول مصنف: ’’غیرت مغرب کا مسئلہ بھی ہے اور مشرق کا بھی۔ یہ ایک انسانی تقاضا ہے کہ انسان اپنے نسلی و خاندانی کردار پر اُٹھنے والی ہرانگلی کو اپنی عزت و آبرو پر اُٹھنے والا اشارہ تصور کرتا ہے۔ اس تصور کے بعد عمل کیا ہے یہ ایک اور رویّہ ہے، جو مختلف ہوسکتا ہے۔’غیرت‘ قتل ہوجائے تو قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ غیرت رُسوا کرے تو بے حیائی کی نئی تعبیر بھی بن جاتی ہے۔(ص ۱۱)
نام نہاد غیرت کی بنا پر کسی کو قتل کردینا، عام طور پر مردوں کا ہی فعل ہوتا ہے، جس کا شکار کوئی عورت ہوتی ہے، خواہ وہ بیوی ہو، بیٹی، بہو یا ماں، یا خاندان کی کوئی اور عورت۔ پاکستان میں کسی عورت کے جنسی جرم کے نتیجے میں اُسے نظربندی، زبردستی کسی سے نکاح، جسمانی تشدد، بدہیئت بناد ینا (ناک، کان کاٹ دینا، تیزاب سے چہرہ مسخ کردینا) بھی بہت شاذ نہیں۔ مگر اس طرح کے جرائم، نام نہاد ’مہذب مغرب‘ میں بھی عام ہیں اور انھیں ’گھریلو تشدد‘ کا نام دے کر نسبتاً ایک ہلکا سا جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ امریکا میں خواتین پر تشدد کے ایک جائزے پر مبنی رپورٹ (۲۰۰۴ء) کے مطابق، ہر چھے میں سے ایک امریکی عورت اپنی زندگی میں عصمت دری یا مجرمانہ حملے کا نشانہ بنتی ہے۔ لیکن ان کے نصف سے بھی کم واقعات کی رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کی جاتی ہے۔ (ص ۱۰۱)
مصنف نے ’جنسی غلامی‘ پر طویل بحث کی ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کی نام نہاد ’مہذب دنیا‘ میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا، اور ہو رہا ہے، اس کی داستان بڑی دل گداز اور شرم ناک ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران جاپانیوں نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں، روسیوں نے جرمن شکست خوردہ قوم کی عورتوں کے ساتھ، گوئٹے مالا کی خانہ جنگی، کانگو، لائبیریا، چیچنیا، کویت، کشمیر اورسری لنکا، بوسنیا اور خدا جانے دنیا کے کون کون سے گوشے ہیں، جہاں عورتوں پر تشدد اور بدترین سلوک کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ بعض ملکوں میں تو انھیں پانچ فٹ کے ڈربوں میں بند رکھا جاتا رہا۔ اس طرح کے سلوک سے کم ہی عورتیں زندہ بچ پائیں (ص ۲۴۷)۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ فوجیوں کے اس اجتماعی آبروریزی جیسے اقدام میں اعلیٰ فوجی کمان کے فیصلے اور حمایت بھی شامل تھی، جہاں عصمت دری کو بطورِ ہتھیار اور اپنے فوجیوں کی آسایش اور آسودگی (relief/comfort) کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
صنف ِ نازک کے ساتھ انسانوں کا ایسا سلوک، اسفل ترین حیوانات بھی نہیں کرتے۔ کیا کیا جائے؟ اس عقدۂ مشکل کی کشود، انسانی ساختہ قوانین سے نہیں ہوسکتی۔ صرف علیم و خبیر ہستی پر حقیقی ایمان اور جزا و سزا پر اعتقاد ہی سے اس شرم ناک، بلکہ دہشت انگیز طرزِعمل کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ایک اکیلی عورت صحرائوں کو عبور کرتے ہوئے ہزاروں میل کا سفر طے کرتی ہے، اور اُسے سواے خدا کے کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ کاش مصنف ایک باب میں یہ شہادت بھی پیش کردیتے۔(پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
[تزکیۂ نفس کے لیے جہاں نیکی کے لیے ترغیب کی اہمیت ہے وہاں بُرائیوں سے بچنے کی ممانعت میں بھی حکمت ہے۔ مینارۂ نورکے تحت ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن میں نبی کریمؐ نے بُرے اور ناپسندیدہ کاموں سے منع فرمایا ہے۔ اس میں کبیرہ و صغیرہ گناہ اور نازیبا حرکات کا تذکرہ ہے۔ مؤلف نے احایث کو ایمانیات، اخلاقیات، سماجیات اور معاملات کے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے۔ چند عنوانات: تعلق باللہ میں حائل رکاوٹیں، باوقار شخصیت کے لیے ضروری پابندیاں، ماحولیات کی بہتری کے لیے ضروری پابندیاں۔]
[قرآنِ مجید کے موضوعات کا پانچ عنوانات: عقائد (توحید، رسالت اور آخرت)، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور تاریخ کے تحت اختصار اور جامعیت سے بیان۔]
[قانتہ رابعہ ادبی حلقوں میں ادیب اور افسانہ نگار کی شہرت رکھتی ہیں لیکن اسے زندہ کر دوبارہ میں اقبال کے مصرعے ع دل مُردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کے مصداق مختلف سماجی اور معاشرتی مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے تزکیہ وتربیت اور فکری رہنمائی کا سامان کرتی نظر آتی ہیں۔ مختصر ، فکرانگیز اور اثرپذیر نثرپاروں کا مجموعہ۔]
[رزق میں کشادگی کے لیے ۳۰ اُمور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ قرآن و حدیث،اقوال ائمہ اور واقعات سے افادیت بیان کی گئی ہے۔ رزق کی ان کنجیوں میں بیان کردہ اُمور پر تھوڑی سی توجہ سے بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے، مثلاً: اللہ کا ذکر کرنا، استغفار، تقویٰ، گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کہنا، غیبت سے اجتناب، نمازکی ادایگی اور اہلِ خانہ کو توجہ دلانا، مسنون دعائیں، صلۂ رحمی، حصولِ رزق کے لیے منہ اندھیرے اُٹھنا۔ کشادگی رزق کے لیے اقامت حدود، یعنی بدی کا مٹانا بھی ناگزیر ہے۔]
[مسلمانانِ پاکستان اور صاحبانِ اقتدار گذشتہ ۶۶سال سے سودی نظام کے ساتھ سمجھوتا کیے ہوئے ہیں، اس کو عالمی استعمار کی پوری آشیرباد حاصل ہے۔ اس کتابچے میںوطن عزیز میں سود کے خاتمے کے لیے ہونے والی کوششوں کا اجمالی جائزہ سامنے آگیا ہے جو عوامی سطح پر تفہیم اور ابلاغ کی ایک عمدہ کوشش ہے۔]
[سیّد جلال الدین عمری کی اس کتاب میںقرآن کی فضیلت، عظمت، آداب، علمی اعجاز، عالمی اثرات اور اقوامِ عالم کے عروج و زوال کا قرآنی اصول بیان کیے گئے ہیں۔اب یہ پاکستان سے بھی شائع ہوگئی ہے۔ بھارتی اڈیشن پر ڈاکٹر انیس احمد کا تبصرہ عالمی ترجمان القرآن (ستمبر ۲۰۱۳ء) میں شائع ہوچکا ہے۔]
[تعلیم و تربیت، روزگار کے مواقع کہاں ہیں؟ شوق و رجحان کے مطابق کیریئر کا انتخاب کیسے ہو؟ کامیاب اور خوش حال زندگی کیسے بسر کی جاسکتی ہے؟ یہ اور اس طرح کی مہارتوں اور معلومات سے معمور یہ کتاب کیریئر گائیڈنس اور کیریئر پلاننگ پر اُردو میں پہلی کتاب ہے۔ اس ضمن میں ’زندگی کے راستے‘ کا بلاگ (carieer.org.pk) بھی سودمند ہے۔ جس میں کیریئر پلاننگ کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کی دل چسپی کی دوسری معلومات بھی موجود ہیں۔]
[کیا پاکستان حادثاتی طور پر وجود میں آیا تھا؟ قائداعظمؒ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر؟ موقع پرست عناصر نے نظریۂ پاکستان پر کیا کیا حملے کیے اور پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے میں کیا کردارادا کیا؟ علامہ اقبالؒ نے پاکستان بنانے اور مسلمانوں کو بیدار کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ قومی زندگی میں ادب کی کیا اہمیت ہے اور قوم کی تعمیر میں ادب کیا کردار ادا کرتا ہے؟ عظیم تر پاکستان کیسے وجود میں آسکتا ہے؟ یہ کتاب ان سوالات کا جواب دیتی ہے۔]