کتاب نما


 

ارمغانِ علامہ علاء الدین صدیقی، مرتبہ: پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت۔ ناشر: شعبہ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب، لاہور۔ جولائی ۲۰۱۲ئ۔ صفحات: ۱۳۵۸+۳۳۔ قیمت: ۴۴۰ روپے۔

علم و ادب، تدریس و تربیت اور تحقیق و تصنیف کے شناور، زندگی بھر ان راستوں پر     سفر کرتے کرتے اس دنیا سے پردہ کر کے اور دوسری زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش    ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے خاوران ہوتے ہیں کہ ان گھاٹیوں کو عبور بھی کر رہے ہوتے ہیں اور پکے ہوئے پھل کی مانند ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں۔ ایسے عالموں، فاضلوں اور محسنوں کی علمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’ارمغانِ علمی‘ کی ایک شان دار روایت کو پروان چڑھانے میں بالخصوص پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو نے پیش رفت کی اور اب اس یونی ورسٹی کے ادارۂ علوم اسلامیہ نے بھی اس راستے پر ایک قدم بڑھایا ہے۔

زیرنظر ارمغان، جامعہ کے سابق وائس چانسلر علامہ علاء الدین صدیقی (۱۹۰۷ئ- ۱۹۷۷ئ) کی خدماتِ جلیلہ کے اعتراف میں مرتب کی گئی ہے، جو مختلف علما کے ۱۷ مقالات کے علاوہ    علامہ مرحوم کے تین انگریزی مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین کی پیش کش میں مطالعۂ تقابل ادیان کا رنگ غالب ہے۔

سبھی مضامین علمی چاشنی اور ٹھوس معلومات کی سوغات لیے ہوئے ہیں، تاہم ان میں نمایاں ترین مقالہ پروفیسر ڈاکٹر سفیراختر برعظیم [پاک و ہند] میں مطالعۂ مذاہب (ص ۳۱-۶۷) کے حسنِ فکرونظر کا نتیجہ ہے۔ مقالات کے موضوعات میں اتنا تنوع اور مباحث میں اتنی وسعت ہے کہ ایک مختصر تبصرہ ان کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ چند مقالات کے عنوانات سے ارمغان کے مزاج کا اندازہ ہوجائے گا:

  • مطالعہ مذاہب کا مغربی منہاج، ڈاکٹر عبدالقیوم
  • محمد سلمان منصور پوری اور مطالعہ مذاہب، ساجد اسداللہ
  • قرآن اور دیگر کتب سماوی کی حفاظت، پروفیسر حافظ محمود اختر
  • زبور میں مذکور ابدی ممدوح الامم، عبدالستار غوری
  • سیدنا یعقوب ؑ کی آپؐ کے بارے میں    پیش گوئی، احسان الرحمن غوری
  • مذاہب عالم کی کتبِ مقدسہ میں صحابہؓ کا تذکرہ ، عثمان احمد
  • اسلام: فکراقبال کی روشنی میں ، ڈاکٹر سید محمد اکرم شاہ
  • مولانا محمد ادریس کاندھلوی: تقابل ادیان میں خدمات، محمد سعد صدیقی
  • مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور مطالعہ مسیحیت، محمد عبداللہ صالح
  • بہائیت اور اس کا نظامِ عبادت، ڈاکٹر جمیلہ شوکت
  • تقابلِ ادیان میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات، محمد اسرائیل فاروقی، محمد شہباز حسن،
  • مولانا عبدالشکور لکھنوی: معروف مبلغ، عاصم نعیم
  • یکساں اخلاقی   نصب العین اور بین المذاہب ہم آہنگی، زاہدمنیرعامر۔ علامہ علاء الدین صدیقی مرحوم کے تین انگریزی مقالات حضرت ابراہیم ؑ، رسول کریمؐ اور اسلام کے بارے میں ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے فی الحقیقت بڑی محنت سے اس گلدستۂ معلومات کو مرتب کیا ہے۔ اس پیش کش میں سلیقہ بھی ہے اور حُسنِ ترتیب بھی۔ ادارہ علومِ اسلامیہ اس نیکی پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ (سلیم منصور خالد)


سفرِعرب اور حج بیت اللہ، سیدابوالاعلیٰ مودودی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات:۱۶۸۔ قیمت: ۱۹۵ روپے۔

تقریباً ۵۵برس پہلے، مولانا مودودی کے پہلے سفرِحج اور اُردن، فلسطین اور شام کے دورے کی روداد پہلے روزنامہ تسنیم اور پھر کتابی شکل میں مولانا مودودی کا دورۂ مشرق وسطـٰی کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب تقریباً نایاب کے درجے میں تھی۔ سلیم منصور خالد صاحب نے اسے دریافت اور بازیافت کرکے ازسرِنو مرتب کیا اور نہایت معلومات افزا حواشی و تعلیقات اور اشاریے کے ساتھ زیرنظر کتاب کی شکل میں شائع کیا ہے۔ سلسلۂ مطالعاتِ مودودی میں اس کتاب کو ایک اعتبار سے بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہوگی۔

جون ۱۹۵۶ء کے اس سفر میں مولانا نے سب سے پہلے دمشق کی مؤتمر اسلامی میں شرکت کی تھی، بعد میں جملہ مندوبین اُردن گئے جہاں اس وقت کے حکمران شاہ حسین نے مندوبین کی دعوت کی۔ عمان سے مولانا بیت المقدس اور فلسطین گئے۔ وہاں سے دمشق پہنچ کر بذریعہ ہوائی جہاز جدہ پہنچے، اور فریضۂ حج ادا کرکے واپس پاکستان آگئے۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ کے اس سفر کی روداد میں مولانا نے اپنے مشاہدات کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور وہاں کے سیاسی، علمی اور دینی طبقوں اورجماعتوں کے اکابر سے ملاقاتوں اور گفتگوئوں کا ذکر کیا ہے۔ اس تذکرے میں بہت سی مفید تجاویز بھی شامل ہیں۔ عرب ممالک کے بارے میں یہ تاریخی اور معلومات افزا روداد پڑھنے کے لائق ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ یہودیوں کی قوت اور مسلمانوں کے ضعف، اسی طرح یہودیوں کی  ترقی و عروج اور مسلمانوں کے زوال اور پستی و پس ماندگی کی وجوہ کیا ہیں؟ انتظاماتِ حج کے سلسلے میں سعودی حکومت کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ ساتھ مولانا نے بہت سے اصلاح طلب پہلوئوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ مجموعی حیثیت سے سعودی عرب کے عام حالات پر تبصرہ کیا ہے اور اس کی صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے تجاویز بھی پیش کی ہیں۔

 بقول مرتب: ’’اس میں مقصدیت کا عنصر غالب ہے۔ عام سفر ناموں کی طرح     کام و دہن، سیروسیاحت اور حیرت و استعجاب کے قصوں کے بجاے حکمت، فکرمندی،دُوراندیشی اور رہنمائی کے واضح اشارات موجود ہیں‘‘۔ کتاب کی ظاہری پیش کش میں سلیقہ اور نفاست  نمایاں ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


شکست آرزو،ڈاکٹر سید سجاد حسین۔ ناشر:اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی، ۳۵-ڈی، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا کراچی، ۷۵۹۵۰۔فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۳۵۲۔قیمت :درج نہیں

۲۰؍ابواب او ر۱۲ ضمیموں پر مشتمل ڈھاکہ یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور انگریزی کے معروف ادیب ڈاکٹر سید سجاد حسین کی یادوں پر مشتمل کتاب The Wastes of Timeکا ترجمہ شکست آرزو  سقوطِ ڈھاکہ کے منظر اور پس منظر کا بہترین تجزیہ ہے۔ ڈاکٹر سید سجاد حسین ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا، بطور طالب علم بھی اور بطور استاد بھی۔ نظریہ پاکستان کی آب یاری کے لیے دی ایسٹ پاکستان سوسائٹی قائم کی اور ایک پندرہ روزہ سیاسی مجلہ پاکستان  جاری کیا۔ انھوں نے دو قومی نظریے کی ترویج کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا اور روزنامہ آزاد کلکتہ اور کامریڈ میں مضامین بھی لکھتے رہے۔

زیر نظر کتاب میں دو قومی نظریے کے لیے جدوجہد اور بنگال میں تحریک پاکستان کے قائدین اور سیاست دانوں کے کردار‘ قیام پاکستان کے بعد کے ۲۴سالوں پرمحیط ان کی کمزوریوں اور نظریہ پاکستان سے وابستگی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

کتاب مصنف کی یادداشتوں پر مبنی ہے جو انھوں نے ۱۹۷۳ء میں قلم بند کی تھیں۔ ابتدائی ابواب میں انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ سلوک، گھر سے گرفتاری، تشدد اور جیل میں گزرے ایام، وہاں موجود اہل کاروں کے رویے، اردو بولنے والوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، تشدد، قتل و غارت اور لوٹ مار کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ جیل میں موجود اپنے ’باغی‘ ساتھیوں کی ذہنی کیفیات، سیاسی افکار اور نظریہ پاکستان کے بارے ان کے جذبات و محسوسات پر نہایت    شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ ان ساتھیوں میں متحدہ پاکستان کے آخری اسپیکر فضل القادر چودھری،  عبدالصبور خان اور خواجہ خیر الدین سابق ڈپٹی سپیکر اے ٹی ایم عبدالمتین اور روزنامہ سنگرام کے ایڈیٹر اخترفاروق قابل ذکر ہیں۔ فاضل مصنف نے چار باب اس موضوع پر لکھے ہیں اور ہرشخصیت پر تفصیلی بحث کی ہے۔

مصنف کے خیال میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طلبا کے علاوہ عام بنگال کے دیہاتی افراد کو زبان کے معاملے سے کوئی خاص دل چسپی نہ تھی۔ ہندوئوں کے زیر اثر بنگلہ قوم پرست عناصر نے اس مسئلے کو ابھارا اور دو قومی نظریے پر یقین رکھنے والے ان لوگوں کی کمزوری اور معذرت خواہانہ رویوںکو بے نقاب کیا۔ مرکزی حکومتوں کی عدم دل چسپی اور نظر انداز کیے جانے والے اقدامات نے اس کو مہمیز دی، کیوں کہ بنگالی سیاست کے اہم ترین سیاسی کردار، یعنی خواجہ ناظم الدین، حتیٰ کہ حسن شہید سہروردی بنگلہ زبان سے واقف تک نہ تھے۔

مصنف نے جداگانہ انتخاب کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کی بنیاد مسلم لیگ کے مطالبے پر رکھی گئی تھی۔ نظریاتی لحاظ سے ناپختہ مسلم لیگی سیاست دانوں نے خود ہی جداگانہ طرز انتخاب کو ختم کرکے دو قومی نظریے کو عملاً غلط ثابت کر دیا، اور حسین شہید سہروردی ہی جداگانہ انتخاب کے خلاف کھڑے ہو گئے اور مخلوط طرز انتخاب کو رواج دے دیا گیا۔

کتاب کے آخر میں ۱۲مختلف ضمیمے بھی شامل کیے گئے ہیں، جن میں قراردادِ لاہور سے بنگال کی تاریخ اور تحریک آزادی پاکستان کے اہم سنگ ہاے میل زیر بحث لائے گئے ہیں۔ (عرفان بھٹی)


ہندستان کے عہدِ ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری، سید صباح الدین عبدالرحمن۔ ناشر: عباد پبلشرز، لاہور۔ ملنے کا پتا: مکتبہ اسلامیہ بالمقابل رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۔صفحات: ۶۷۱۔ قیمت: ندارد۔

 مصنف کا دعویٰ ہے کہ کسی معاشرے میں موانست اور یگانگت و یک جہتی پیدا کرنے میں سب سے بڑا کردار حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ اگر وہ فراخ دلی اور انسان دوستی کا ثبوت دیں تو رواداری کو تقویت ملتی ہے۔ اسی طرح اگر متعصب اہلِ قلم یا مذہبی راہ نما یا سیاسی کارکن، تاریخ کو مسخ کیے   بغیر، ایسے واقعات کو منظرعام پر لائیں جو مذہبی رواداری کو تقویت دیتے ہیں تو معاشرے سے  نفرت و عداوت کے جذبات، اگر کلّی طور پر ختم نہیں، تو کم ضرور کیے جاسکتے ہیں۔

مسلمانوں نے برعظیم پاک و ہند پر صدیوں حکومت کی ہے۔ ہندو اور مسلمان صدیوں ساتھ ساتھ رہے۔ یہ مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری ہی کا اعجاز تھا کہ معاشرہ بالعموم پُرامن رہا۔ کتاب میں عربوں کی سندھ میں آمد اور سوا تین سو سال تک کے عہدِحکمرانی میں حکمران طبقے کے دیگر مذاہب کے لوگوں سے نیک سلوک اور رواداری کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ محمود غزنوی نے غزنی میں ہندوئوں کے لیے محلہ آباد کیا اور سکّوں پر ایک طرف کی عبارت سنسکرت میں کندہ کرائی۔ غزنوی نے ہندو لشکری فوج میں شامل کیے اور ان ہندو سرداروںکو عہدے دے کر ان پر اعتماد کیا۔ اسی حصے میں شہاب الدین غوری، علاء الدین خلجی اور محمد تغلق کے عدل و انصاف اور حُسنِ سلوک  کے واقعات درج ہیں۔ مغل بادشاہوں کے عدل و انصاف اور دیگر مذاہب کے مذہبی پیشوائوں  سے عزت و توقیر کے سلوک کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ مثلاً ہمایوں نے مہاراجا سانگا کی بیوہ کے بیٹوں کو مفتوحہ علاقے واپس کردیے کہ وہ ہمایوںکی راکھی بند بہن بن گئی تھی۔ اکبر نے         ہندو راجے نہ صرف نورتنوں میں شامل کیے بلکہ انھیں بڑے بڑے عہدے دیے اور جاگیریں بخشیں۔ عہد عالم گیری میں بہت سے ہندو منصب دار تھے۔ مزید برآں برہمن خاندانوں کو اور ہندو پجاریوں کو بھی جاگیریں عطا کی گئیں۔ کتاب میں مسلم حکمرانوں کے فراخ دلانہ رویوں پر مشتمل سیکڑوں واقعات درج ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ اس پختہ کردار کا نتیجہ ہے جو اسلامی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


مولانا فتح محمد: حیات و خدمات ، [مرتب: پروفیسر ظفرحجازی]۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور- ۵۴۷۹۰۔فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۲۵۵۔ قیمت: ۲۲۵ روپے۔

یہ سیدابوالاعلیٰ مودودی کا خلوص تھا جسے اللہ نے قبول کرتے ہوئے ان کی تحریر کو ایسی تاثیر بخشی اور ان کی پکار کو ایسا دل کش بنا دیا کہ لوگ ان کی دعوت کی طرف، جو دراصل دین اور اقامت ِ دین کی دعوت تھی، کھنچے چلے آئے۔ کیسے کیسے لوگ تھے جنھیں اللہ نے توفیق بخشی تو وہ جماعت اسلامی میں آشامل ہوئے۔ مولانا فتح محمد صاحب نے ۲۱سال کی عمر میں ۱۹۴۴ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اُٹھایا اور پوری زندگی نہایت خلوص، عزم و یقین اور تن من دھن کی لگن سے اس کٹھن راستے کے نشیب و فراز طے کرتے ہوئے ۲۰۰۸ء میں اپنے رب سے جاملے۔

ان کے سفرزندگی کا زیرنظر گل دستہ ان کے احباب، اہل و عیال ، دُور و نزدیک کے ساتھیوں اور تحریکی دوستوں کی محبت بھری تحریروں سے سجایا گیا ہے۔ مولانا مرحوم بلا کے محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ اوائل میں دُوردراز کے دیہاتوں اور قصبوں تک دعوت پہنچانے کے لیے سائیکل پر دورے  کیا کرتے تھے۔ سادہ مزاج تھے، کم اخراجات میں گزارا کرتے بلکہ دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے۔ شب و روز کا کوئی لمحہ خالی نہ جانے دیتے۔ ۱۹۴۱ء میں میٹرک کیا تھا اور پھر حصولِ تعلیم کی جو دُھن ذہن میں سمائی ہوئی تھی اس کے نتیجے میں ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کی اسناد حاصل کیں۔ ۲۰۰۵ء میں کمپیوٹر کورس کرکے گویا انھوں نے مہد سے لحد تک حصولِ علم کو اپنا کردکھایا۔ خدمتِ خلق ان کا شعار تھا اور ہمہ وقت دوسروں کی مدد کرنے اور ان کے کام آنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ عجز وانکسار کا پیکر تھے۔ مولانا عبدالمالک کے بقول: ’’وہ اخلاقِ حسنہ کا بہترین نمونہ تھے‘‘۔ یہ ساری تفصیل زیرنظر کتاب سے پتا چلتی ہے۔

ص ۱۸ پر بتایا گیا کہ مولانا کو چودھری غلام جیلانی نے نائب امیر صوبہ مقرر کیا مگر ص ۱۶۱ پر خود مولانا فتح محمد کہتے ہیں: مجھے سید اسعد گیلانی نے نائب امیر بنایا۔ مرتب کو تحقیق کر کے وضاحت کر دینی چاہیے تھی۔ بایں ہمہ کتاب پڑھتے ہوئے ایک ہی نقش اُبھرتا ہے کہ ’’ایسے ہوتے ہیں   دینِ اسلام کے خدمت گزار‘‘۔ (ر- ہ )


امریکی دہشت گردی، تاریخ اور اثرات، میربابرمشتاق۔ ناشر: عثمانی پبلی کیشنز، ۸-اے، پاکستان ریلوے ہائوسنگ اسکیم، بلاک ۱۳-بی، گلشن اقبال، کراچی۔ فون: ۴۸۷۴۰۷۴-۰۳۶۴۔ صفحات: ۲۷۹۔ قیمت: ۳۳۰ روپے۔

اس کرئہ ارض پر امریکی عسکری یلغار اور سفارتی گرفت کو ہرباشعور انسان دیکھ اور محسوس کر رہا ہے۔ ایک طرف ’امن، تہذیب اور جمہوریت‘کے نعرے ہیں تو دوسری طرف قتل، تباہی، اور محکومی کی آندھی۔ ان دونوں رویوں کی سرپرستی امریکی ریاستی مشینری کی امتیازی پہچان ہے۔

زیرنظر کتاب میں میربابرمشتاق نے مذکورہ بالا المیے سے متعلق اپنے اور دیگر افراد کے ۳۵مضامین کو یک جا کردیا ہے اور انھیں دہشت گردی کا عنوان دیا ہے۔ یہ مضامین معلومات کی وسعت اور اختصار کی جامعیت لیے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی تاریخ، امریکی دہشت گردی تاریخ کے آئینے میں، امریکا، پاکستان اور افغان جنگ، ویت نام اور عراق میں امریکی درندگی،  سی آئی اے کے سیاہ کرتوت اور امریکا کا مستقبل وغیرہ جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر مزید جامع تحقیقی مطالعے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔(س-م-خ)


تعارف کتب

  •  ماہنامہ مکالمہ بین المذاہب ، مدیر:مولانا عبدالرؤف فاروقی۔ پتا: مرکزتحقیق اسلامی، جامع مسجدخضرا، سمن آباد، لاہور۔ فون: ۴۷۳۱۳۴۷-۰۳۰۰۔صفحات:۲۰۸۔ قیمت: فی شمارہ ۳۰ روپے۔[عصرحاضر میں  مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے ’مکالمہ بین المذاہب‘ پر بہت زور دیا جاتا ہے اور اس کی آڑ میں گمراہ کن نظریات بھی پھیلائے جاتے ہیں۔ مذکورہ مجلہ اپنی نوعیت کا واحد مجلہ ہے جو باطل مذاہب اور تحریکوں کے علمی تعاقب کے ساتھ ساتھ اسلام پر رکیک حملوں کا جواب علمی استدلال سے دیتا ہے۔ زیرنظر شمارے میں تقابل ادیان کے تحت یہودیت اور نصرانیت کا مختلف حوالوں سے مطالعہ پیش کیا گیا ہے، مثلاً الوہیت مسیح کا تصور اور غلط فہمیاں، بائبل میں تضادات ، کیا حضرت عیسٰی ؑکو سولی دی گئی؟ مفصل بحث۔ ’مسیحیت کا ظہور‘ کے عنوان سے مولانا مودودی کی تحریر بھی شاملِ اشاعت ہے۔ تقابل ادیان اور ملک میں مسیحی سرگرمیوں سے آگاہی کے لیے مفید مجلہ۔]
  • آخرت کے مناظر،عنایت علی خاں۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۱۸ روپے۔ [پروفیسر عنایت علی خاں نے آخرت کے حوالے سے شیطانی بہکاووں کا تذکرہ اور جدید ذہن کے شبہات کا مدلل جواب دیتے ہوئے تصورِ آخرت جو دین کے بنیادی تصورات میں سے ہے، کا قرآن و حدیث کی روشنی میں اس طرح سے نقشہ کھینچا ہے کہ آخرت کا تصور انسان کے لیے جیتا جاگتا تصور بن جائے، اور ایک قابلِ تقلید حقیقت بن کر دنیوی اور اُخروی فلاح کا سبب ہو۔]

 

سیکولرزم، مباحث اور مغالطے ، طارق جان۔ ناشر: ایمل پبلی کیشنز، اسلام آباد۔ تقسیم کنندہ: ۱۲-سیکنڈفلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا،اسلام آباد۔صفحات: ۶۴۳۔ قیمت:۸۸۰ روپے۔ /۲۰؍امریکی ڈالر۔   ISBN نمبر: ۶-۰۳-۹۵۵۶-۹۶۹-۹۷۸

یورپ کی فکری تاریخ میں اٹھارھویں صدی ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس صدی میں نہ صرف یورپی تصورِ مذہب بلکہ تصورِ معاشرہ معیشت و سیاست اور ثقافت، غرض زندگی کے اہم شعبوں میں ایک نمایاں اور بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔ عیسائیت اور کلیسا کااقتدار چرچ کی چاردیواری تک محدود ہوگیا اور زندگی کے دیگر معاملات کی حدبندی الگ الگ فلسفوں کے زیراثر عمل میں لائی گئی۔ اس حوالے سے ہیگل،کارل مارکس، ڈارون، ڈیکارٹس، اوگسٹ کومتے اور ہیوم اور مِل کی فکر نے زندگی کے مختلف شعبوں میں گہرے اثرات ڈالے۔ نتیجتاً مادیت، لذتیت، انفرادیت، لادینی جمہوریت، لامحدود معاشی دوڑ نے یورپی معاشرے کی اقدار میں ایک عنصری تبدیلی پیدا کی۔ بعد میں آنے والی دو صدیوں میں ان تصورات کو مزید قبولیت حاصل ہوئی اور اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ احساس اُبھرا کہ وہ جدیدیت جو اٹھارھویں صدی کی پہچان اور بعد کے اَدوار کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی تھی اب ماضی کا قصہ ہے۔ چنانچہ Beyond post Modernism کا نعرہ بلند کیا گیا۔ مغرب کے اس فکری سفر میں اگر قدرِ مشترک تلاش کی جائے تو سیکولرزم یا لادینیت ان تمام تصورات میںکارفرما نظر آتی ہے۔ سیکولرزم دراصل زندگی، حقیقت اور سچائی کو دوخانوں میں بانٹنے کا نام ہے، یعنی ایک خانہ مذہب کا اور دوسرا خانہ دنیا یا مادیت کا۔ اس تقسیم میں حقیقی عامل اور عنصر مادہ اور حِّس کو تسلیم کیا گیا۔ چنانچہ ہر وہ شے جو مادی   طور پر یا حسّی تجربے کے نتیجے میں وجود رکھتی ہو حقیقی قرار پائی اور جو چیز اس معیار پر پوری نہ اُترتی ہو وہ واہمہ، وقتی اور غیرحقیقی سمجھ لی گئی۔ بعدکے آنے والے مفکرین خصوصاً سگمنڈ فرائڈ نے نفسیاتی زاویے سے جائزہ لیتے ہوئے empiricial reality کو بھی لاشعور اور تحت الشعور کا تابع کردینا چاہا۔ اس پورے تہذیبی عمل میں یہ ماننے کے باوجود کہ انفرادی طور پر جو چاہے اور جس طرح چاہے اپنے مذہب پر عمل کرے۔ کاروبارِ حیات کے دروازے مذہب یعنی عیسائیت کے لیے بند کردیے گئے، اور مذہب کو ایک ذاتی اور انفرادی عمل کا مصدقہ مقام دے دیاگیا۔

ہرشعبۂ علم اور ہرحکمت عملی کی تشکیل اسی فکری بنیاد پر رکھی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق و مغرب میں جس شخص نے بھی معاشرتی علوم یا طبعی و تجرباتی علوم کا مطالعہ کیا ، غیرمحسوس طور پر یہ بنیادی مفروضہ اُس کے ذہن اور قلب میں جاگزیں ہوگیا۔

دورِ جدید کی دو قدآور علمی شخصیات علامہ اقبال اور سید مودودی نے اس رمز کو نہ صرف پہچانا بلکہ اس کا علمی اور عقلی جواب اسلام کے جامع تصور سے فراہم کیا۔ گذشتہ ۲۰سال پاکستان کی تاریخ ہی اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس دوران سیکولرزم کو جامعات، انگریزی صحافت اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نظریۂ پاکستان کو کمزور کرنے اور بھارتی نظریاتی یلغار کی پاکستان میں حمایت اور سرپرستی کی غرض سے ہرممکنہ سطح پر عام کرنے کی کوشش سرکاری سرپرستی میں کی گئی۔

طارق جان نے انگریزی میں اس نظریاتی یلغار کا مقابلہ علمی اور ابلاغی سطح پر انتہائی کامیابی کے ساتھ کیا اور گذشتہ دو عشروں میں لادینیت اور اس کے مختلف پہلوئوں پر انگریزی میں اپنی تحریرات سے جہاد کیا۔ میری نگاہ میں ان کا تنہا کام ایک علمی ہراول دستے کے مجموعی کام سے کم نہیں کہاجاسکتا۔ میں ذاتی طور پر ان کی تنقیدی نگاہ، انگریزی زبان پر عبور و مہارت کا معترف آج نہیں، اس وقت سے ہوں جب طارق جوان تھا___ بلکہ وہ آج بھی جوان تر ہے۔ بہت کم افراد ایسے ہوں گے جنھیں طارق جان نے ۴۰ سال تک گوارا کیا ہو، اور تعلقات کی گہرائی میں کوئی فرق نہ آیا ہو۔ ا س لیے توصیفی و تعریفی کلمات کی جگہ___ جس کے وہ لازماً مستحق ہیں، میں پورے اعتماد سے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جدید نسل کے لیے یہ کتاب ایک لازمی مطالعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

برادر محب الحق صاحب زادہ نے بڑی محنت بلکہ جان جوکھوں میں ڈال کر انگریزی کے اصل مضامین کا ترجمہ اُردو میں کیا ہے۔ میرے خیال میں اسے مزید سلیس بنانے کی ضرورت تھی۔ ترجمے کی خوبی کے باوجود جو بات اصل انگریزی مضامین کی ہے وہ اپنی جگہ مسلّم ہے۔

کتاب کا سرورق مصنف کی نصف تصویر آجانے سے زیادہ حسین اور پُرکشش ہوگیا ہے۔ کتاب کے ناشر خصوصی طور پر مبارک باد اور ہمدردی کے مستحق ہیں جنھوں نے خود طارق جان کے بقول ’مجھے برداشت کیا مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد وہ ایک اچھے صابر انسان کے  طور پر اُبھریں گے‘‘۔ میں عین الیقین کی حدتک طارق جان کے اس حُسنِ ظن کی تصدیق کرتا ہوں۔

کتاب ۲۸ طویل اور مختصر مقالات پر مشتمل ہے۔ ہرمقالہ پاکستان کی تاریخ میں اُبھرنے والے کسی حقیقی مسئلے سے تعلق رکھتا ہے اور پاکستانیت اور اسلامیت سے بھرے ہوئے دل کی آواز محسوس ہوتا ہے۔ ہرباب تحقیقی حوالوں سے مزین ہے اور کتاب کے آخر میں فہرست حوالہ جات کے ساتھ مضامین کا انڈکس بھی دے دیا گیا ہے۔

یہ کتاب لادینیت کا اصل چہرہ پیش کرتی ہے اور علمی استدلال کے زور سے علامہ اقبال اور سید مودودی کی فکر کو آگے بڑھاتی ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


عورت، مغرب اور اسلام، ثروت جمال اصمعی۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۴۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

مغربی معاشروں میں خواتین کی موجودہ حالت، اُن کے ساتھ ناروا سلوک، اور پھر اسلام اور اسلام کے معاشرتی نظام کے خلاف بلند آہنگ اشتہاربازی کے باوصف وہاں اسلام کی مقبولیت پر یہ تحقیقی کتاب، دراصل مغرب اور اسلام کے عنوان سے شائع ہونے والے علمی و تحقیقی مجلّے کی ۳۸ویں اشاعت ہے (جلد:۱۵، شمارہ:۱)۔

مجلے کے مدیر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، ابتدایئے میں لکھتے ہیں کہ ’’اب بہت سے مسلم   اہلِ قلم مسلم معاشروں میں خواتین کی درست اسلامی حیثیت کو اُجاگر کرنے کے بجاے، نام نہاد جدید مغربی فکر کے زیراثر انھیں کچھ ’آزاد‘ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں، جب کہ اسلامی شریعت کا دائرہ نہ [خواتین کے] قیدوبند پر مبنی ہے، نہ مادر پدر آزادی پر‘‘۔ مصنف ثروت جمال اصمعی کہتے ہیں کہ اس وقت معروضی صورتِ حال یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے غلبے اور پھیلائو کے باوصف، مغربی عورت، اسلام کی طرف رغبت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ افغان طالبان کی قید  میں اسلام سے متاثر ہوکر، آزادی کے بعد، اُسے قبول کرنے کا اعلان کرنے والی برطانوی صحافی یُوآن رِڈلے کوئی شاذ اور انفرادی مثال نہیں۔ اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے باوجود، برطانیہ، امریکا اور دوسرے مغربی ممالک میں اسلام بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد ہرسال اوسطاً ۲۰ہزار امریکی مسلمان ہورہے ہیں ، اور ان میں خواتین کا تناسب، مردوں سے چار گنا ہے۔ (ص ۱۸)

خواتین میں اسلام کی مقبولیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مر د و زن میں مساوات کے تمام دعووں کے باوجود مغرب میں عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک عام ہے۔ برطانیہ میں ہرسال ۳۰ہزار عورتیں، حاملہ ہونے کی بنا پر ملازمتوں سے فارغ کی جاتی ہیں (ص۳۲)۔ پھر تنخواہوں اور دوسری مراعات میں بھی انھیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے (ص ۳۴)۔ انھیں قُحبہ خانوں اور حماموں میں مزدوروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ ۴۵ فی صد عورتیں کسی نہ کسی طرح گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ جیلوں میں، فوجی ملازمتوں کے دوران، دفتروں اور تفریحی مقامات پر خواتین کے ساتھ زیادتی کے اعداد و شمار حیران کن ہیں، جو فاضل مصنف نے مغربی اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے   جمع کردیے ہیں۔

یُوآن رِڈلے کو جبراً مسلمان نہیں بنایا گیا، بلکہ طالبان کی قید سے رہائی کے بعد لندن پہنچ کر انھوں نے قرآن اور اسلام کا مطالعہ کیا، اور پھر اسلام قبول کیا اور اس نتیجے تک پہنچیں کہ ’’اسلام میں فضیلت کا پیمانہ اخلاقی حُسن ہے، نہ کہ جنسی حُسن، دولت، طاقت ، منصب اور جنسی کشش‘‘۔

سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی خواہرِنسبتی اور معروف برطانوی صحافی لارن بوتھ (Lauren Booth) نے Why I Love Islam میں اپنے قبولِ اسلام کی کہانی بیان کی ہے، اور بتایا ہے کہ جب انھوں نے اپنی بچیوں کو قبولِ اسلام کی خبر دی تو انھوں نے خوش ہوکر نعرہ لگایا: ’’ہم اسلام سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ پھر بچیوں نے اپنی ماں سے کچھ سوال کیے۔ اُن کے آخری سوال نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ انھوں نے کہا: اب جب کہ آپ مسلمان ہوچکی ہیں تو کیا اب بھی آپ اپنا سینہ لوگوں کے سامنے نمایاں کریں گی؟‘‘ (ص ۶۶)

مصنف نے امریکا میں اسلام قبول کرنے والی خواتین کے اپنے بیان، خود وہاں کے محققین کے حوالے سے پیش کیے ہیں۔ ان نومسلموں میں سے ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ اُن کے قبولِ اسلام میں اس یقین و اعتماد نے اہم کردار ادا کیا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے‘‘۔ (ص ۷۸)

مغربی خواتین کے قبولِ اسلام کے اسباب میں اہم ترین ، سرمایہ دارانہ نظام میں اُن کا بطور ایک جنس، استحصال ہے۔ وہاں عورت کو بھی ایک جنسِ بازار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے (یہی حال منڈی کی معیشت اپنا لینے والے دنیا کے تمام ملکوں کا ہے)۔ پھر عیسائیت میں عورت پیدایشی طور پر گناہ گار بتائی گئی ہے کہ اُسی کی وجہ سے اولادِ آدم لعنتی قرار پائی۔ اس کے برعکس اسلام نے عورت اور مرد کے جسمانی اور نفسیاتی فرق کو قبول کر کے اور ملحوظ رکھ کر دونوں کے لیے یکساں شرف اور عزت کے ساتھ ان کے متعین حقوق و فرائض بتا دیے ہیں۔ مصنف نے بڑی تفصیل سے اسلامی قوانین کی رُو سے اُن کا استحصا [احاطہ]کیا ہے (اگرچہ بہت سے مسلم معاشروں میں ان کے مطابق عمل نہیں ہورہا)۔ لیکن مغرب کی پڑھی لکھی سمجھ دار خواتین جب اس حوالے سے اسلام کا مطالعہ کرتی ہیں، اور بعض خاندانوں میں ان اسلامی تعلیمات کو عملاً مروج بھی پاتی ہیں، تو انھیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ موجودہ مسلم معاشرو ں میں عورتوں کے ساتھ بے انصافیاں اور دوسری خرابیاں، اسلامی تعلیمات پر عمل کی وجہ سے نہیں، بلکہ اُن سے انحراف کی وجہ سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکا کی اسلام قبول کرنے والی خواتین میں اکثریت باشعور اور پڑھی لکھی خواتین کی ہے۔

کتاب میں مندرج معلومات اور اعداد و شمار کے لیے برقیاتی ذرائع ابلاغ (ویب سائٹس) کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے، اور ان کے حوالے دیے گئے ہیں۔ ان کے لیے مصنف کی دیدہ ریزی اور محنت قابلِ داد ہے۔ (عبدالقدیر سلیم)


اقبالیاتی مکاتیب اوّل، بنام رفیع الدین ہاشمی، مرتبہ: ڈاکٹر خالد ندیم۔ ناشر: الفتح پبلی کیشنز، ۳۹۲-اے، گلی ۵-اے، لین نمبر۵، گل ریز ہائوسنگ اسکیم۲، راولپنڈی ۔ فون: ۵۸۱۴۷۹۶۔ صفحات: ۲۹۶ مع اشاریہ۔ قیمت: ۳۶۰ روپے۔

گذشتہ سو برس سے اقبالیات، اہلِ علم و دانش میں ایک زندہ موضوع کی حیثیت سے مرکز نگاہ ہے۔ شعرِاقبال، قولِ اقبال اور حرفِ اقبال کے کتنے پہلو ہیں جنھیں ہزاروں خردمندوں نے غوروفکر کا محور بنایا ۔ اقبالیاتی مکاتیب کا یہ حصہ اوّل اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے زمانۂ طالب علمی سے اقبالیات کو اپنی محبت کا حوالہ بنایا۔ اس ضمن میں انھوں نے ذاتی تحقیق و جستجو کے پہلو بہ پہلو مختلف اہلِ علم و ہنر سے نامہ و پیام کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ یہ کتاب ۴مئی ۱۹۷۱ء سے ۲ جون ۲۰۱۱ء کی درمیانی مدت کی خط کتابت پر مشتمل ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر سید عبداللہ، پروفیسر حمید احمد خاں، احمد ندیم قاسمی، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر جاویداقبال، آل احمد سرور، عبداللہ قریشی، مشفق خواجہ، سید نذیر نیازی، ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، عاشق حسین بٹالوی، گیان چند، رشید حسن خاں، سعید اختر درانی، ڈاکٹر خلیق انجم، ہیروجی کتائوکا، ملک حق نواز، شانتی رنجن بھٹاچاریہ اور صابر کلوروی سمیت ۴۲ مشاہیر اس بزم میں شریک ہیں۔

کتاب کے بعض خطوط تو مختصر ہیں لیکن بعض کی نوعیت مستقل مضامین کی ہے۔ یہ سب اقبالیات کے کسی نہ کسی اہم نکتے کی توضیح و تشریح کے در وَا کرتے ہیں۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کی سلیقہ شعاری اور جزرسی نے اس قیمتی ذخیرئہ مکتوبات کی امانت کو محفوظ رکھنے کا وسیلہ بنایا۔ ان نابغۂ روزگار انسانوں کی یہ مختصر، مشفقانہ، عالمانہ اور وضاحتی تحریریں علم اور مکالمے کی ایک ایسی محفل سجاتی ہیں کہ ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ پھر ہاشمی صاحب کے عزیز شاگرد ڈاکٹر خالد ندیم (سرگودھا یونی ورسٹی) نے محنت اور جاں کاہی سے اسے مرتب کیا اور اس پر حواشی اور تعلیقات کا اضافہ کیا ہے۔ ان کی اس جستجو نے کتاب کے تحقیقی وژن کو دوچند کردیا ہے۔

ادبیات کی تاریخ اور اقبالیات کی رمزشناسی کے جویا اس مجموعۂ مکاتب کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہیں گے۔ (سلیم منصور خالد)


Calling Humanity [انسانیت کو پکارنا]، شمیم احمد صدیقی۔ ناشر: فورم فار اسلامک ورک، ۲۶۵- فلیٹ، بُش ایونیو، بروکلین، نیویارک-۱۱۳۵۵۔ صفحات: ۲۵۰۔ قیمت: ۹۵ئ۱۱ ڈالر۔

شمیم احمد صدیقی کی یہ اہم کتاب پیغام دیتی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان عمومی طور پر، اور امریکا میں مختلف رنگ و نسل کے مسلمان خصوصی طور پر، اس حقیقت سے آگاہی حاصل کریں کہ اُن کی اور آنے والی نسلوں کی بقا اِسی میں ہے کہ مسلمان دین کو سمجھیں ، اُس پر عمل پیرا ہوں اور اِس کی دعوت کے علَم بردار بن کر دُنیا بھر میں قرآن کریم اور اُسوئہ رسولؐ کا پیغام عام کردیں۔

یہ تصنیف پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آنے والے اُن مسلمانوں کی اولاد کے لیے لکھی گئی ہے جو امریکا میں مقیم ہیں اور اُردو رسم الخط سے ناواقف ہیں یا اُردو کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔  امریکا میں دعوت و تبلیغ اور اقامت ِ دین کی مختلف تنظیموں کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ اُن پر قدرے تنقید بھی کی ہے۔

مصنف کا موقف ’’دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں داعی تیار کریں‘‘ (ص ۱۲۳) محلِ نظر ہے کیونکہ کفر اور اُس کے نمایندے سیاسی اقتدار پر قابض ہیں۔ اس لیے سیاسی جدوجہد کو ترک نہیں کیا جاسکتا، اُن کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ’’دعوتی لٹریچر لاکھوں کی تعداد میں موجود ہے‘‘ (ص ۸۲)۔ امریکا میں اسلامی دعوت کا کام کریں اور راہنما کردار ادا کریں‘‘ (ص ۲۰۵)۔ امریکا میں بسنے والے مسلمان سرگرم زندگی گزار رہے ہیں اور اُن کی صلاحیتوں کا لوہا مانا جاتا ہے۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ بھی اسلامی تحریکات سے سیکھیں۔ امریکا میں رہنے والے مسلمان سود، مخلوط معاشرے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور طالبانائزیشن کا مقابلہ کیسے کریں، اس کا ذکر نہیں۔ (محمد ایوب منیر)


عصرحاضر کی مجاہد خواتین، مریم السیّد ہنداوی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۱۰روپے۔

آج اخوان دنیا کا موضوع ہیں لیکن یہ تحریک اس سے پہلے کس کس مرحلے سے گزری، یہ حالیہ تاریخ کی ایک عجیب داستان ہے۔ اخون سے مسلسل قلبی تعلق اور ان کے بارے میں ہمارے لٹریچر کے آگاہی دینے سے ایسا لگتا ہے کہ نصف صدی سے زیادہ کی یہ پوری تاریخ ہماری آنکھوں کے سامنے گزری ہے۔

حسن البنا کی شہادت، چھے قائدین کو پھانسی دیا جانا، اور پھر سیدقطب کی پھانسی، جیسے سب کل کی باتیں ہیں۔ مولانا مسعود عالم ندوی کی دیارِعرب میں چند ماہ نے پاکستان کی تحریک اسلامی کو عالمِ عرب سے، وہاں کی تحریکات سے، شخصیات سے، اہم کتب، رسائل اور فکری لہروں سے آگاہ کیا۔ پھر یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں مختلف افراد کے ذریعے جاری رہا۔ ۱۹۵۲ء میں مصری انقلاب میں شاہِ فاروق کا تخت اُلٹ گیا، اور معروف ہے کہ ناصر اور اس کے ساتھیوں کی پشت پر اخوان تھے۔ ۲۰، ۲۵ سال میں اخوان نہ صرف مصر، بلکہ دوسرے عرب ممالک میں ایک قوت بن چکے تھے۔ لیکن پھر ناصر کے سازشی ذہن اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی خاطر ایک جلسے میں ناصر پر قاتلانہ حملے کا ڈراما رچایا گیا اور اس کا الزام اخوان پر رکھ کر پورے ملک میں جیلیں اخوان سے  بھر دی گئیں اور داروگیر کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو دراز ہی ہوتا گیا۔

اس دور میں اخوان پر اور ان کے قائدین پر کیا گزری، اس کی ایک جھلک ان مجاہد خواتین کے تذکرے میں ملتی ہے۔ یہ ان خواتین کی زندگی کی مختصر کہانیاں ہیں جو دراصل مصری حکومت کے اخوان اور مصری عوام کے ساتھ سلوک کا آنکھوں دیکھا بلکہ برتا ہوا مستند بیان ہے۔ عموماً یہ خواتین ان قائدین کی شریکِ حیات یا بہنیں، بیٹیاں ہیں جس میں یہ تفصیل آتی ہے کہ ان کے مرد جیلوں میں بند تھے لیکن مصر کی حکومت کے ان کے اور ان کے جاننے والوں کے ساتھ کتنے سخت جابرانہ رویے تھے۔ یہ اپنے بیٹوں، عزیزوں کی رہائی کے لیے ایک سے دوسری جیل پھرتی رہیں۔ شوہر کا جسدخاکی اس شرط پر باپ کو دیا گیا کہ تدفین میں کوئی عزیز شریک نہیں ہوگا۔ ایک گائوں کرداسہ کے شہدا کی لاشوںکو کئی روز تک دفن نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ مساجد بند کردی گئیں اور نماز پر پابندی عائد کردی گئی۔ ۱۹۴۸ء میں پہلی پابندی کے وقت جو اخوان گرفتار ہوئے اور عدم ثبوت پر رہا کردیے گئے تھے، ۱۹۶۰ء میں ان سب کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور پھر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ڈاکٹر رخسانہ جبیں نے چند جملوں میں پوری کتاب کی مکمل تصویر بیان کردی ہے: ’’یہ انتہا درجے کی جدوجہد کی مثالیں ہیں کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، غلبۂ دین کی جدوجہد کیسے جاری رکھنا ہے۔ شوہر شہادت پاجائیں، جیل میں قیدوبند کی اذیتیں سہ رہے ہوں، کمسن بچے گرفتار ہورہے ہوں، نوبیاہتا دولہا کو پولیس گھسیٹ کر لے جارہی ہو، گھروں کو اُلٹ پلٹ کیا جارہا ہو، جوان بیٹوں کو لہولہان کیا جارہا ہو،ہر حال میں صبرواستقامت کا دامن تھامے رکھنا ہے، بلکہ آلِ یاسر کی طرح اقامتِ دین کی تحریک کو اپنے خون سے سینچنا ہے‘‘۔لاریب ان خواتین نے یہ فریضہ پوری کامیابی سے انجام دیا۔ (وقار احمد زبیری)


ایفاے عہد، جنرل (ر) حمید گل، مرتب: مبین غزنوی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۲۳۳۶-۰۴۲صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۴۰۰ روپے ۔

پاکستان کے موجودہ مسائل اور مصائب کے مختلف پہلوئوں پر زیرنظر مضامین کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر دردمند مسلمان اور پاکستانی محسوس کرتا ہے کہ  ع

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

اس میں اُمت ِ مسلمہ پر نائن الیون کے ڈرامے کے دُور رس اثرات، جنرل مشرف کا پاکستان کی گردن میں امریکی غلامی کا طوق ڈال دینا ، افغانستان پر امریکی حملہ، ہماری کشمیر پالیسی، پاکستان پر بھارت کا دبائو اور اس کا قافیہ تنگ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکا کی ہلاشیری جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔

گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں کے دوران میں جنرل حمیدگل صاحب نے بہت کچھ لکھا۔ ان کے ایک مداح مبین غزنوی نے اخبارات میں شائع شدہ ان کے ۳۸منتخب مضامین پر مشتمل یہ مجموعہ مرتب کیا ہے۔ یہ مضامین، لکھنے والے کی حب الوطنی ، پاکستان کی سربلندی، امریکی غلامی سے نجات، نہ صرف افغانستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کی امریکا سے رہائی اور بہ حیثیت مجموعی اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے اس کی آرزو اور تمنائوں کے ترجمان ہیں۔

جنرل صاحب کشمیر کو بجا طور پر پاکستان کی ایسی شہ رگ سمجھتے ہیں جس کے بغیر پاکستان کی بقا مشکوک ہے۔ چنانچہ زیرنظر کتاب کا سب سے بڑا موضوع مسئلۂ کشمیر ہے (۱۰ مضامین)۔    ان کے خیال میں ’خودمختار کشمیر‘ ایک ہلاکت آفریں سراب ہے۔ جنرل صاحب نے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو درست سمت دینے کے لیے ۱۱ تجاویز پیش کی ہیں۔ مسئلۂ افغانستان ان تحریروں کا دوسرا بڑا موضوع ہے۔ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت ان کے خیال میں امریکا کا چھوڑا ہوا ’شیطانی اور بے بنیاد شوشہ‘ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کی رخصتی، افغان دھڑوں کا باہمی اتحاد اور نفاذِشریعت ہی سے افغانستان میں قیامِ امن ممکن ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ امریکا (درپردہ صہیونی) نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کو خوابِ غفلت سے بیداری اور نشاتِ ثانیہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کا معاملہ وہی ہے کہ بیمار ہوئے جس کے سبب، اُسی عطار کے ’صاحب زادے‘ سے    دوا لیتے ہیں۔ یہ مضامین جنرل حمیدگل کے پیشہ ورانہ تجربے، تاریخ کے مطالعے اور حکمت و دانش کے امتزاج کے عکاس ہیں۔ انھوں نے یہ مضامین بہ تقاضاے ایمان، ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لکھے ہیں۔ (ر - ہ )


تعارف کتب

  • نبویؐ اسلوبِ دعوت، سید فضل الرحمن، ناشر: ریجنل دعوہ سنٹر، سندھ، کراچی۔ پی ایس ۱/۵، کے ڈی اے اسکیم ۳۳، احسن آباد، نزد گلشن معمار، کراچی۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: درج نہیں۔[نبی کریمؐ کے اسوہ کی روشنی میں دعوت کا اسلوب، حکمت دعوت ، دعوت کے اصول و آداب اور تقاضوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان  اصلاح طلب پہلوئوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جنھیں کارِ دعوت میں پیش نظر رکھنا چاہیے۔]
  • وحدت اُمت، مفتی محمد شفیع۔ ناشر: دارالاشاعت، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [مولانا سید محمدانور شاہ ؒ نے فرمایا: ہماری عمر کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کدوکاوش کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کردیں۔ اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی؟ کیا حاصل ہے اس کا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو درست مسلک جس میں خطا کا احتمال موجود ہے، ثابت کردیں، اور دوسرے کے مسلک کو غلط مسلک جس کے حق ہونے کا احتمال موجود ہے۔ اس سے آگے کوئی نتیجہ نہیں ان تمام بحثوں اور تحقیقات کا جن میں ہم مصروف ہیں (ص ۱۵-۱۶)۔ اس کتابچے میں اتحاد اُمت کی اسی اہمیت، افتراق اُمت کے اسباب، مذموم و محمود اختلاف راے کے حدود، اختلاف راے اور جھگڑے و فساد میں فرق کو واضح کرتے ہوئے اسلام کی دعوت اتحاد کو اُجاگر کیا گیا ہے۔]
  • پتھروں میں سوئی آوازیں، میک دزدار، مترجم: ڈاکٹر محمد حامد۔ناشر:نیشنل بک فائونڈیشن، اسلام آباد۔ صفحات:۱۵۰۔ قیمت:۳۰۰ روپے۔[خوب صورت، ۱۵۰ صفحے کی کتاب پر ہرصفحے کی شاعری پڑھنے کے لائق اور قاری کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ لکھا گیا ہے کہ اُردو کے قالب میں میک دزدار جوکہ بوسنیا کے قومی شاعر ہیں کے اشعار ایسے ہیں جیسے ہم اقبال کے اشعار قالب بدل کر پڑھ رہے ہوں۔ وہ عزتِ نفس، خودی، آزادی کی تڑپ اور ایمان کے جذبے کی تحریک پیداکرتا ہے ۔ ترجمہ کار ڈاکٹر محمد حامد ، قصیدہ بردہ شریف کو   پانچ زبانوں میں ترجمہ کرچکے ہیں۔ روسی ترکستان کا نام بھی شامل ہے۔ اس کتاب کے فلیپ پر فتح محمد ملک، کشور ناہید، امجد اسلام امجد کے کلمات درج ہیں۔]
  • حرف کمیاب (سائنسی غزلیات)، یونس رمز۔ ناشر: عبیدپبلی کیشنز، ۲۲-ای، کمرشل ایریا، ناظم آباد، کراچی۔ صفحات: ۲۶۳۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔[سائنسی اصطلاحات کو اُردو کے پیکر میں ڈھال کر شاعری آسان کام نہیں۔ شاعری ویسے بھی جگرسوزی ہے اور سائنسی شاعری تو کوئی پختہ اور قادرالکلام شاعر ہی کرسکتا ہے۔ یونس رمز نے اس پیچیدہ عمل کو اپنے کارگہ فن میں ڈھالا اور خوب صورت انداز میں سائنسی شاعری کو پیرہن بخشا جو ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کتاب سات تعارفی مضامین، دو حمدونعت، اور ۱۰۹ سائنسی غزلیات پر مشتمل خوب صورت پیش کش ہے جس میں جابجا سائنسی اصطلاحات نگینے کی طرح جڑی نظر آتی ہیں۔]

الصَّارم المسلول علٰی شَاتِم الرَّسول،شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ، ترجمہ: پروفیسر غلام احمد حریری، تحقیق و نظرثانی:حافظ شاہد محمود۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۱۱۲۴-۰۴۲۔ صفحات: ۷۴۸۔ قیمت:درج نہیں۔

اس کتاب کی اہمیت اور ثقاہت کے لیے امام ابن تیمیہؒ کا نام گرامی ہی کافی ہے۔ امام  ابن تیمیہؒ چھٹی صدی ہجری کے معروف و مشہور عالمِ دین ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کی بنیاد یہ عنوان ہے کہ ’’رسول کریمؐ کی توہین کا مرتکب (خواہ مسلم ہو یا کافر) واجب القتل ہے‘‘۔ کتاب کے وجود میں آنے کی تحریک آپ کے دور کا یہ واقعہ ہے، جو رجب ۶۹۳ھ میں وقوع پذیر ہوا کہ ایک عساف نامی نصرانی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہے۔ امام ابن تیمیہؒ اس حوالے سے رقم طراز ہیں کہ: ’’یہ الم ناک سانحہ اس امر کا موجب ہوا کہ مَیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تحقیر کرنے والے کے لیے جو سزا مقرر ہے اس کو ضبطِ تحریر میں لائوں خواہ اس کا ارتکاب کرنے والا  مسلم کہلاتا ہو یا کافر، نیز اس کے تمام متعلقات و توابع کو شرعی احکام و دلائل کی روشنی میں بیان کروں، اور وہ ذکر و بیان اس قابل ہو کہ اس پر بھروسا کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ علما کے ان اقوال کا تذکرہ کروں جو میرے ذہن میں محفوظ ہیں اور ان کے اسباب و علل بھی ذکر کروں‘‘۔ (ص ۳۸)

اس کتاب میں دوسرا مسئلہ توہینِ رسولؐ کے حوالے سے ہی یہ بیان ہوا ہے کہ توہین کرنے والا شخص اگر ذمّی ہو تو بھی اسے قتل کیا جائے، نہ اس پر احسان کرنا جائز ہے اور نہ فدیہ لینا روا ہے۔ ایک اور متعلقہ مسئلہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ’’کیا اِس کی توبہ قبول ہے یا نہیں‘‘ اور یہ مسئلہ بھی بیان ہوا ہے کہ سَبّ (گالی دینا) کی تعریف کیا ہے؟ کون سی چیز سَبّ ہے اور کون سی نہیں ہے اور یہ کہ سَبّ اور کفر میں کیا فرق ہے؟ امام صاحب نے اصحابِ شافعی میں سے ابوبکر فارسی کا قول نقل کیا ہے کہ ’’اس امر پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اس کی  حدِشرعی قتل ہے‘‘۔ اسی طرح قاضی عیاض نے فرمایا ہے کہ ’’اس بات پر اُمت کا اجماع ہوا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص رسول کریمؐ کی توہین کرتا ہے یا آپؐ کو گالی نکالے تو اُسے قتل کیا جائے۔ اسی طرح دوسرے علما نے بھی رسولِ اکرمؐ کی توہین کرنے والے کے واجب القتل ہونے اور کافر ہونے کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے‘‘۔ (ص ۳۹)

عصرحاضر میں نائن الیون کے واقعے کے بعد دنیا میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ اسلام کے خلاف سَبّ و شتم بڑھ رہی ہے۔ خصوصاً اہلِ مغرب اور غیرمسلموں میں یہ بات عام ہوئی ہے۔ یہ سب سوچی سمجھی سازش ہے کہ پیغمبرؐ اسلام کے گستاخانہ خاکے اور فلمیں بنائی جارہی ہیں اور آپؐ کی شخصیت اور سیرت پر بے سروپا اور سبّ و شتم سے بھرپور کتب شائع ہورہی ہیں۔ ان حالات میں امام صاحب کی یہ کتاب انتہائی اہم ہے۔ (شہزادالحسن چشتی)


معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات، مرتبین: اوصاف احمد، عبدالعظیم اصلاحی۔ ناشر: ادارہ علوم القرآن، پوسٹ بکس ۹۹، شبلی باغ روڈ، علی گڑھ، بھارت۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۶۰روپے بھارتی۔

قرآن پاک بنیادی طور پر ایک نظامِ زندگی کے اصول انسان کو دیتا ہے۔ ان اصولوں پر چل کر انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ قرآن پاک میں جہاں ایمانیات کی مضبوطی کی تعلیمات ہیں، وہیں قرآنِ پاک کا ایک بڑا حصہ معاملات کے بارے میں اصولی ہدایات سے انسان کو نوازتا ہے۔ ان معاملات میں بھی ایک بڑا حصہ معاشی معاملات سے متعلق ہے۔

علی گڑھ میں قائم ادارہ علوم القرآن نے انھی تعلیمات کی تفہیم کے لیے ایک سیمی نار نومبر ۲۰۱۰ء میں منعقد کیا۔ جہاں پیش کیے گئے مقالات کو کتابی صورت میں معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات کے عنوان سے ادارہ نے شائع کیا ہے۔ اس سیمی نار میں معروف اسلامی معاشیات دان جناب اوصاف احمد نے اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا، جب کہ عبدالعظیم اصلاحی نے ’قرآنی معاشیات پر ادبیات کا ایک مختصر جائزہ‘پیش کیا۔ جناب نسیم ظہیراصلاحی نے ’قرآنی نظامِ معیشت کی بعض خصوصیات‘ کے عنوان سے قرآنی نظامِ معیشت کا دیگر نظام ہاے معیشت سے تقابل کرکے بتایا کہ قرآنی نظام دوسرے نظاموں سے کیونکر مختلف ہے۔ محمدعمر اسلم اصلاحی نے سورۂ بقرہ کے حوالے سے چند اہم معاشی تعلیمات کو اپنے مقالے کا موضوع بنایا۔ محی الدین غازی نے ’فساد فی الارض کا مالی اور معاشی پہلو قرآنِ مجید کی روشنی میں‘ پیش کیا۔ شاہ محمد وسیم کا موضوع ’قرآنی معاشرہ، معیشت اور تجارت: ایک مختصر خاکہ‘ تھا۔ جناب محمد یاسین مظہرصدیقی کے مقالے کا عنوان: ’اسلام میں ربا کی تحریم، مختلف جہات کا تنقیدی تجزیہ‘ تھا۔ قرآنِ مجید میں افزایش دولت کا تصور، ایک جائزہ‘ ابوسفیان اصلاحی کے مقالے کا عنوان تھا۔ محمد رضی الاسلام نے ’اسلامی نظامِ معیشت میں عورت کے حصہ‘ کے موضوع پر بحث کی۔ عنایت اللہ سبحانی نے ’نظام المیراث فی القرآن‘ کے موضوع پر    عربی میں مقالہ پیش کیا۔ اس سیمی نار میں اُردو، عربی اور انگریزی میں مقالات پیش کیے گئے۔     اپنے موضوعات کے حوالے سے یہ مقالات وقیع بھی ہیں اور متنوع بھی۔ (میاں محمد اکرم)


تلاش، اللہ: ماورا کا تعین، عکسی مفتی، ناشر: الفیصل، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۳۱۔ قیمت: ۱۲۰۰ روپے۔

پیشِ نظر کتاب عکسی مفتی کی انگریزی تصنیف Allah: Measuring the Intangible کا اُردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ کار ڈاکٹر نجیبہ عارف (استاد، بین الاقوامی یونی ورسٹی،     اسلام آباد) کہتی ہیں کہ ’’اللہ سے مَیں نے بار بار پوچھا   ُتو کیا ہے، کہاں ہے، میری سمجھ میں کیوں نہیں آتا؟… اللہ نے بالآخر مجھے اس نیم جانی سے رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا… عکسی مفتی سے     یہ کتاب لکھواکر مجھے بھیجی ہے کہ جا پڑھ لے…‘‘ (ص ۱۱)

مصنف کہتے ہیں کہ: ’’سائنس کو علم کے تمام ذرائع پر برتری حاصل رہی ہے… یہ ’اجماع‘ کا نام ہے، یہ ’سچائی‘ کی تجربی میزان ہے (ص ۳۱)۔ اور ’’اللہ ایک ماورائی حقیقت ہے۔ نادیدہ اور ناقابلِ بیان___ صرف ایک باطنی تجربہ۔ ہم وجدانی طور پر اُسے سمجھتے ہیں، مگر عقلی طریقے سے اس کی وضاحت نہیں کرسکتے… اللہ کو ان مظاہر کے ذریعے بیان کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایکس ریز کا تجزیہ کرنا یا روشنی کی غیرمرئی لہروں کو مرئی رنگوں کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش کرنا… (ص ۴۲)۔ ان کے خیال میں مغرب میں خدا بے زاری اور الحاد کا سبب، کلیسائی خدا کا  وہ تصور تھا، جس میں اسے ایک سخت گیر اور جابر باپ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ مغرب میں اس سے چھٹکارے کے طور پر بے لگام آزادی اور اس کے ردعمل میں مشرق میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ ملا۔ ان کے خیال میں ’’سائنس، دراصل خود آگاہی کا نام ہے، یا یوں کہیے کہ سائنس دراصل    ’خدا آگاہی‘ کا نام ہے۔ ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد نہیں کیوں کہ خودی خدا کا جزو ہے۔ یہ الگ بات کہ بہت چھوٹا سا جزو، جیسے ایک ایٹم ایک شمسی نظام کا جزو ہوتا ہے۔ زمینی عناصر سے بناہوتا ہے اور وہی خواص رکھتا ہے‘‘۔ (ص ۷۹)

اپنے سائنسی پس منظر کے باوجود ان کے بعض بیانات مبہم اور بعض حقیقت سے دُور   نظر آتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’آئن سٹائن نے تحقیق کے دوران دو مختلف قوتیں، یعنی کششِ ثقل (gravity ) اور برقی مقناطیسیت (electromagnetism) دریافت کیں…‘‘ (ص ۶۴)۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ سائنس کی بنیاد اخلاقی سوالات پر قائم ہے، اور سائنس کی اخلاق سے عاری ہونے کی باتیں اٹھارھویں صدی کی شعبدہ بازی ہے‘‘ اور دوسری طرف ’’لُولی لنگڑی سائنس‘‘ کے توازن کی تلاش بھی کرتے نظر آتے ہیں اور انھیں سائنسی ترقی، محرومیت کی خبر دیتی ہے۔ ’’ہماری سائنس، حقیقت کی اعلیٰ سطح پر مزید ترقی کرنے سے قاصر نظر آتی ہے‘‘۔ (ص ۸۰-۸۱)

اسماے الٰہی کے ضمن میں حضرت ابوہریرہؓ کے حوالے سے امام ترمذی کے روایت کردہ  اللہ تعالیٰ کے ۹۹ نام اور ان کے معانی اور مفہوم بیان کرنے کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ ’’یہی علم… مخفی اسما کا علم ہی دراصل وہ طاقت تھی جو اللہ نے آدم کو اپنے نائب، اپنے معاون تخلیق کار کی حیثیت سے عطا کی تھی اور اپنی سلطنت کی تمام مخلوق کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت [کذا] دی تھی‘‘(ص ۱۰۴)۔ لیکن یہ فراموش شدہ علم ابھی تک اسرار کی دُھند میں لپٹا ہوا ہے‘‘۔ یہ اسما بار بار دُہرائے جاتے ہیں اور اس طرح ایک ’چکّر‘ کے تصور کو پیش کرتے ہیں۔ بعض قدیم مذاہب میں حقیقت مطلق کو ایک چکّر (wheel) کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ مگر گردش کے لیے ایک مرکز کی ضرورت ہوتی ہے اور ہرمذہب میں یہ مرکز اللہ کی ذات ہے۔ ’’خدا، رُوح ہے اور انسان مادہ‘‘.... خدا اور انسان، رُوح اور مادہ، خالق اور مخلوق، ایک ہی تسلسل کے مختلف پہلو ہیں.... جیسے مادہ اور توانائی ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں‘‘۔ (ص ۳۰۱-۳۰۲)

’’خدا کی بھوک: On Eating God‘‘ (ص ۳۱۱) کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہمارے جسمانی وجود کو ایک متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی نشوونما کے لیے اللہ کے ذکر، اس کی صفات کو اپنے اندر سمو لینا انسان کی روحانی پرورش کے لیے ضروری ہے۔ اللہ کو خود میں سمو لینے، اس کی صفات کو اپنا لینے، اُسے اپنے اندر جذب کرلینے کا یہ صوفیانہ تصور ہے۔ جیسے ایک بڑے پیڑے کو ایک دم نہیں کھا سکتے، بلکہ تھوڑا تھوڑا کتر کر چکھتے ہیں، اسی طرح ’’اللہ بھی جو انسان کی روحانی غذا ہے، اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ ایک دم بہت بڑی روحانی خوراک بھی روحانی بدہضمی کا باعث بن جاتی ہے، اور انسان کو مریض بنا دیتی ہے.... صوفی خدا کو تھوڑا تھوڑا چکھتا رہتا ہے‘‘ (ص ۳۱۳)۔ وہ مثبت اور منفی کے اصول کو ’تنترا‘ اور ہندو دیولامائی جنسی آثار و نقوش کا غماز بتاتے ہیں، جو بقول ان کے تمام مذاہب میں مروج اور جاری و ساری ہے، اور مختلف جہتوں سے حرکت و سکون، ظاہر و باطن، مادہ و روح اور ’حی و میّت‘ کی اشکال اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں قدیم و جدید سائنس دانوں کے کئی اقتباسات بھی پیش کرتے ہیں، اور اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ ’چوں کہ اللہ، انسان کے وجود کا سبب، اس کی علّت ہے، اور اس کی ذات کا جوہر اس کا عطر ہے، اس لیے اللہ کی اطاعت، خود اپنی ہی اطاعت کے مترادف ہے‘‘ (ص ۴۵۱)۔ شاید منصور کا ’اناالحق‘ اس کا اظہار ہے۔ ’’اللہ، الجامع‘‘ ہے، یعنی وہ ہر چیز کو اکٹھا کردیتا ہے۔ وہ کُلیّت ہے، جو ہرشے کو آپس میں جوڑدیتی ہے۔ اللہ سب سے آخری امتزاج (synthesis) ہے۔ کُل ہے، جو جزو کو معنویت عطا کرتا ہے… اللہ کو اس کی جامعیت میں سمجھنے کی کوشش ہی سائنس اور انسانیات [انسیات]، ایمان اور استدلال کے درمیان موجود یہ خلیج پاٹ سکتی ہے… اللہ… وہ یکتا آئیڈیل ہے جو پوری بنی نوع انسان کو تمام اختلافات اور انحرافات سے بالاتر ہوکر ایک وحدت میں جوڑ دیتا ہے۔ یہ کُل (whole)کی ایک بے مثال خصوصیت ہے، جو اس کے اجزا (parts) میں نہیں ملتی۔ جیساکہ امریکی ماہر طبیعیات اور فلسفی فریجوف کیپرا (Fritjof Capra) نے کہا ہے کہ شکر کا  ذائقہ نہ تو کاربن میں ملتا ہے، نہ ہائیڈروجن میں نہ آکسیجن کے ایٹموں میں۔ حالانکہ یہی شکر کے   اجزا ہیں۔ یہ ذائقہ تو صرف شکر ہی میں مل سکتا ہے، جو ان سب کا مجموعہ ، ان سب کا کُل ہے‘‘ (ص۴۵۶)___یہ ہے اللہ کا ذائقہ چکھنے کی دعوت اور ماورا کا تعین! (عبدالقدیر سلیم)


دینی مدارس، روایت اور تجدید، علما کی نظر میں، ڈاکٹر ممتاز احمد۔ ناشر: اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ، اسلام آباد۔ تقسیم کنندہ: ایمل مطبوعات نمبر۱۲، سیکنڈفلور، مجاہدپلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۰۶۔ قیمت: ۵۹۰ روپے۔

تقریباً ۴۰سال ہونے کو آئے ہیں۔ ڈاکٹر ممتاز احمد (ڈائرکٹر ، اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ) نے ڈاکٹریٹ کی تحقیق کے لیے برعظیم میں دینی تعلیم اور دینی مدارس کا موضوع منتخب کیا ۔ انھوں نے تحقیقی کام کے لیے شکاگو (امریکا) جانے سے پہلے لوازمہ جمع کرنا شروع کیا اور اس ضمن میں دینی مدارس کے علماے کرام سے کچھ مصاحبے (انٹرویو) کیے۔ تحقیق مکمل ہونے پر انھیں ڈگری ملی۔ برعظیم بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں دینی تعلیم اور دینی اداروں کے موضوع پر ڈاکٹر ممتاز احمد ایک سند (اتھارٹی) مانے جاتے ہیں۔ اسی لیے امریکا میں اُن کے طویل قیام کے زمانے میں بہت سے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں، بلکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی ان کی تحقیق سے فائدہ اُٹھایا۔

زیرنظر کتاب میں مصاحبوں کو تاریخی ریکارڈ کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ ۱۶علما میں ہرخیال اور مختلف مکاتب ِ فکر کے علما شامل ہیں۔سید ابوبکر غزنوی، جمیل احمد تھانوی، محمد ایوب جان بنوری، محمد حسین نعیمی، گلزار احمد مظاہری، ملک غلام علی، عبدالحق (اکوڑہ خٹک)، محمد ناظم ندوی، احمد سعید (سرگودھا)، مفتی محمد یوسف اور مولانا عبدالرحیم (پشاور)، چودھری نذیراحمد اور خان محمد (ملتان) وغیرہ۔ ایک تازہ ترین زاہد الراشدی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔

ان مصاحبوں میں رائج الوقت دینی تعلیم کا دفاع کیا گیا ہے لیکن علما نے بعض اُمور میں کمی رہ جانے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد نے ان مصاحبوں کے زمانے میں علما کے بارے میں جو تاثر قائم کیا، وہ بہت مثبت ہے اور ایک طرح سے علما کے لیے یہ ڈاکٹر ممتاز احمد کا خراجِ تحسین ہے۔ وہ افسوس کرتے ہیں کہ ’’اولیا اللہ کی صفت رکھنے والے وہ علما کہاں‘‘۔ (ص ۹)

کتابت، طباعت، کاغذ، کاغذی جلد، سرورق، ہرچیز خوب صورت اور دل کو بھانے والی ہے مگر قیمت ہوش اڑانے والی اور پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


First Famous Facts of  Muslim World، [مسلم دنیا کے    اہم حقائق]تالیف: ڈاکٹر غنی لاکرم سبزواری، ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی۔ ناشر: لائبریری پروموشن بیورو، کراچی یونی ورسٹی، پوسٹ بکس ۸۹۴، کراچی۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۴۹۴ روپے۔

اس مختصر انگریزی کتاب کے دونوں قابل مؤلفین تجربہ کار لکھاری ہیں کہ ہر ایک نے ۱۰تحقیقی کتب تصنیف کی ہیں جو شائع ہوچکی ہیں۔ زیرتبصرہ کی ترتیب میں ۱۱اہلِ قلم نے مؤلفین کی معاونت کی ہے، اور تقریباً ۱۶؍اہم تحقیقی اداروں کی تحقیقات سے فائدہ لیا گیا ہے۔ اس سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کتاب کو اللہ رب العزت کے نام معنون کیا گیا ہے۔ ابتداے اسلام سے دورِ جدید تک تقریباً ۱۴۳۳ سالوں کے دوران میں پیدا ہونے والی معروف اور نام وَر سیاسی، سماجی، ادبی، سائنسی، مذہبی اور دوسرے تمام شعبوں کی شخصیات اور اپنے اپنے میدانوں میں ان کے کارناموں کو مختصر مگر جامع انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ اسلام سے متعلق اہم مقامات، مثلاً مساجد، اہم کتب و دستاویزات پر بھی اس کتاب میں قابلِ قدر معلومات دی گئی ہیں۔ اسلامی دنیا کی اہم دینی و سیاسی جماعتوں کی بھی معلومات موجود ہیں جنھوں نے کوئی مؤثر کردار ادا کیا ہے۔  غرض کہ ۱۲۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب اسلامی دنیا کی ’مختصر انسائیکلوپیڈیا ‘ ہے۔

کتاب اسلام کے حوالے سے مگر اس میں ڈاکٹر عبدالسلام کا فوٹو اور معلومات دیکھ کر تعجب ہوا۔ غالباً مرتبین ان کو مسلمانوں میں شمار کرتے ہیں جو بنیادی غلطی ہے۔ اسی طرح سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور شیخ حسن البنا جیسے معروف و مشہور اسلامی اور انقلابی مفکرین کا دو حرفی ذکر علی الترتیب ’جماعت اسلامی‘ اور ’مسلم برادرہڈ‘ کے تحت ضرور نظر آتا ہے، جب کہ یہ ان کے مقام اور کام سے بہت فروتر بات ہے۔ مغربی افریقی ملک نائیجیریا کے عثمان ڈان فوڈیو کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا۔

کتاب کے صفحہ اوّل پر عباس ابن فرناس (۸۱۰-۸۸۷) پہلا مسلم سائنس دان جس نے چھے منٹ تک ہوا میں پرواز کی۔ ’اِندلسی، ستارہ شناس اور موجد‘ کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوتی ہے اور اعتماد بڑھتا ہے کہ سب سے پہلے جرأت مندانہ اور قابلِ تقلید تجربہ کیا تھا مگر اب ’’تھے تو وہ آبا ہی تمھارے مگر تم کیا ہو؟‘‘ (ش- ح- چ )


تعارف کتب

  • فہم سیرت، پروفیسر محمد سلیم۔ ناشر: ریجنل دعوہ سینٹر (سندھ) ، کراچی۔ پی ایس-۱/۵-کے ڈی اے اسکیم ۳۳، احسن آباد نزد گلشن معمار، کراچی۔ فون: ۳۶۸۸۱۸۶۲-۰۲۱ ۔ صفحات:۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔[فہم سیرت رسولؐ مطالعہ سیرت کا ایک منفرد پہلو ہے۔ اس کے تحت واقعات سیرت کو زمانی ترتیب سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ واقعات میں پوشیدہ حکمت اور کارِ نبوت کے گہرے تعلق کو بیان کیا جاتا ہے۔ سیرت نگاروں کی اس پہلو پر کم توجہ رہی ہے۔ زیرنظر کتابچے میں اس کی اہمیت و ضرورت کے ساتھ ساتھ اسوہ رسولؐ کا مختصراً مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔]
  • تحقیق ___ تصورات اور تجربات، پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر سفیراختر، ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، مکان نمبر۱، گلی نمبر۸، ۳-/۶-F، اسلام آباد۔ فون: ۸۴۳۸۳۹۱-۰۵۱۔ صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[تحقیق و جستجو انسانی زندگی کا خاصہ اور جوہر ہے اور قوموں کے عروج کا اہم تقاضا ۔ اس سفر کو جاری رکھنے کے لیے ایک طرف جہاں علمی و تحقیقی عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، وہاں میدانِ تحقیق میں نوآمیز اہلِ قلم اور تحقیق کاروں کی آمد بھی ناگزیر ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  میں علمی و فکری اور رہنما نشستوں کی رُوداد پر مبنی ادارے کی ایک کتاب تحقیق: تصورات اور تجربات کے عنوان سے سامنے آئی ہے۔ جس میں پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر سفیراختر اور ڈاکٹر عمرچھاپرا نے اسلامی تصورِ تحقیق، تحقیقی عمل میں سیاق و سباق کی اہمیت، تحقیق کا سفر، کتاب پر تبصرے کا فن اور عالمی مالیاتی بحران پر ایک نظر جیسے موضوعات پر گفتگو کی ہے۔]
  • اعترافِ ذنوب/اعترافِ قصور، مولانا شاہ وصی اللہ،مولانا قمرالزمان۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، نوشہرہ۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت:درج نہیں۔یہ دو کتابوں کا مجموعہ ہے۔ توبہ اور استغفار کے حوالے سے روایات، واقعات، حدیث اور قرآن سب ہی کچھ آگیا ہے۔ استغفار سے بارش کا ہونا، مال اور اولاد کا ہونا، اور باغات اور نہروں کا جاری ہونا تو خود سورئہ نوح کی مشہور آیت سے ثابت ہے۔ گناہ گاروں کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ اور نعمت ہے (جو گناہ نہیں کرتا، وہ اس کتاب کو خواہ مخواہ نہ پڑھے)]۔
  • تنسیخ نکاح ،شگفتہ عمر۔ ناشر: ویمن ایڈ ٹرسٹ، مکان نمبر ۳۶، گلی نمبر۲، ۲/۱۰-جی، اسلام آباد۔ فون:  ۲۲۱۲۹۳۳-۰۵۱۔  صفحات: ۵۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[قرآن عقد نکاح کو پختہ معاہدے سے تعبیر کرتا ہے، جب کہ طلاق کو جائز کاموں میں سب سے ناپسندیدہ عمل۔ تاہم بشری تقاضوں اور ناگزیر وجوہ کی بنا پر اگر نباہ ممکن نہ ہو تو احسان اور نیکی کے اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے اس معاہدے کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ دیگر مذاہب میں یا تو علیحدگی کی گنجایش نہیں ہے، یا اگر ہے توبہت مشکل اور ناقابلِ عمل۔ زیرتبصرہ کتاب میں اسلام کے قانونِ طلاق، طلاق کی مختلف صورتیں، تنسیخ نکاح کے موضوع پر ملکی قوانین اور عائلی قوانین کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے، اور شریعت سے متصادم دفعات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اپنے موضوع پر جامع اور مختصر علمی کاوش!]

سیدابوالاعلیٰ مودودی: سوانح، افکار، تحریک، عبدالرحمن عبد۔ ناشر: ادارہ ترجمان القرآن، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۶۶۶۵-صفحات: ۴۴۶، مع اشاریہ۔ قیمت:۳۵۰ روپے

گذشتہ ایک صدی سے کاروانِ شہادتِ حق کے قائدین میں ایک نمایاں ترین ہستی   مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ہیں۔ ہرعہد کے طالبانِ حق اس امر کے متلاشی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قائدین کے کارنامۂ حیات کو جانیں تاکہ دیکھ سکیں کہ کن حالات میں ان رجالِ کار نے علمِ حق تھاما، بلند کیا اور ایک عہد کے دل و دماغ میں اس پرچم کا پیغام اُتارا۔

اب سے تقریباً ۴۰ برس پہلے پروفیسر عبدالرحمن عبد مرحوم نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ابتدائی زندگی، جدوجہد، آزمایش دارورسن اور تحقیق و تالیف کے تادیر زندہ رہنے والے اُمور پر معلومات جمع کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ اس طرح انھوں نے زیرنظر کتاب جولائی ۱۹۷۱ء میں کاروانِ حق کی خدمت میں پیش کردی۔

اس کتاب میں بھی دیگر کتب کی طرح کئی کمیاں تھیں اور معلومات کی پیش کاری میں بھی کچھ مسائل تھے، تاہم اس حوالے سے کتاب اور کتاب کے مصنف خوش قسمت ہیں کہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے کتاب کی اشاعت کے بعد، اس میں اپنی ذات کے حوالے سے بعض تسامحات کو دُور کرنے کے لیے مصنف کو خط لکھا۔ یہ خط موجودہ ایڈیشن میں نہ صرف شامل ہے بلکہ اس کی روشنی میں مصنف نے پورے مسودئہ کتاب پر نظرثانی بھی کی۔

اس کتاب کا یہ تیسرا یڈیشن ۳۴ برس بعد شائع ہوا ہے۔ جو پہلی دو اشاعتوں سے کئی اعتبار سے بہتر ہے۔ کتاب رواں دواں، دل چسپ اور عام فہم انداز میں، مولانا کی زندگی کے مختلف اَدوار کو پیش کرتی ہے۔ مطالعے سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کے مدارج  بیک نظر سامنے آجاتے ہیں۔ (سلیم منصورخالد)


ترجمان القرآن الکریم و تفہیم القرآن العظیم،ترجمہ و تفسیر: مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی، مرتب: احمد ابوسعید۔ ناشر: اسلامک بک سروس، دریا گنج، نئی دہلی۔فون: ۹۹۴۹۰۳۵۳۵۶-۰۰۹۱۔  صفحات: ۷۰۴۔ قیمت: ۲۰۰ بھارتی روپے۔

احمد ابوسعید صاحب نے اس سے پہلے ذلک الکتاب اور ترجمان القرآن الکریم دوکتابیں پیش کی ہیں۔ اب یہ تیسری ہے۔ اس کا نام اتنا طویل ہے، اور اس کے ساتھ مزید تشریح طویل تر ہے کہ میرا جیسا آدمی تو گھبرا کر کتاب کو چھوڑ دے۔ دراصل یہ کتاب الفاتحہ اور پارہ عم کی   تفہیم القرآن کی تفسیر ہے، جس میں مرتب نے جہاں مولانا مودودی نے پہلی سے چھٹی جلد تک کے حاشیوں کے حوالے ملاحظہ کرنے کے لیے کہا ہے، وہ انھوں نے حوالے پورے پورے نقل کردیے ہیں۔ یہ حصہ صفحہ ۴۰ سے ۶۷۳ تک ہے۔ اس کے ساتھ ہی سورۃ النصر کے ۱۰ مقبول تراجم کا، اور ۱۰مقبول تفاسیر کا تقابلی مطالعہ دیا گیا ہے۔ آغاز میں مقدمہ تفہیم القرآن اور مقدمہ ترجمۂ قرآن مجید مع مختصر حواشی دیا ہے۔ قرآن کے ۲۰۰ ایسے الفاظ کے معنی دیے ہیں جو ان کے مطابق قرآن کریم کے ۶۰فی صد الفاظ پر محیط ہیں۔ اس کے مطالعے سے تیسویں پارے کے مضامین اچھی طرح ذہن نشین اور دل نشین ہوجاتے ہیں۔

توحید، رسالت اور بالخصوص آخرت کا بیان، جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں کا ایسا تذکرہ کہ جیسے سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے۔ الم نجعل الارض مِھٰدا میں چھے جلدوں سے ۹ حواشی ایک ساتھ پڑھنے سے مطالب و معانی کی دنیا کھل جاتی ہے۔ اسی طرح دیگر موضوعات بھی۔ اس کتاب کا ہدیہ اصل لاگت سے بھی کم رکھا گیا ہے اور اس پر بھی تاجرانہ کمیشن دیا جاتا ہے۔ اگر مرتب کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ مفت چیز کی ناقدری ہوگی تو وہ شاید اتنا ہدیہ بھی نہ لیتے۔  اللہ سے دعا ہے کہ ان کی کوششیں جاری رکھے۔ پاکستان کے شائقین کو حیدرآباد (دکن) سے شائع شدہ کتاب کو دہلی سے حاصل کرنے کا انتظام کرنا چاہیے۔(مسلم سجاد)


فقہ اسلامی: تعارف و تاریخ، پروفیسر اختر الواسع، محمد فہیم اختر ندوی۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۱۹۔ قیمت: درج نہیں۔

کتاب و سنت سے تمام علما و فقہا کا احکام اخذ کرنے کا معیار ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا کی آرا میں اختلاف موجود ہے اور رفتہ رفتہ یہ اختلاف فقہی مسلکوں کی صورت اختیار کرگیا اور ہردور میں متعدد فقہی مسلک موجود رہے۔ کچھ آج تک قائم ہیں، کچھ اپنے دور ہی میں ختم ہوگئے، اور کچھ ایک عرصہ قائم رہنے کے بعد ناپید ہوگئے۔ فقہ اسلامی کی اس تاریخ کے آغاز سے حال تک کا بیان مدارس اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی ایک ضرورت تھی جس کو بھارت کے دو اہلِ علم نے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ہندستان کے تعلیمی تناظر کو پیش نظر رکھ کر مرتب کی گئی ہے اور کچھ عرصہ قبل دہلی سے شائع ہوئی۔ اب پاکستانی ناشر نے اسے ٹائپ کاری کے اپنے قالب میں ڈھال کر شائع کیا ہے۔ کتاب کے مندرجات میں فقہ اسلامی کے آغاز، مصادر، تاریخ، مسالک، علوم، اجتہاد و تقلید، فقہی اختلاف اور فقہی کتابوں کے عنوانات پر مختصر مواد پیش کیا گیا ہے۔ یہ اسلامی فقہ کے اجمالی تعارف و تاریخ پر مشتمل کتاب ہے۔ اُمید ہے کہ مصنفین کی یہ کاوش طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ (ارشاد الرحمٰن)


جانبِ حلال، خلیل الرحمن جاوید۔ ناشر: فضلی بک، اُردو بازار، کراچی۔صفحات: ۵۷۶۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

اسلامی(حلال) کاروبار اور خصوصاً اسلامی بنکاری کے موضوع پر جتنی کتابیں آج کل لکھی جارہی ہیں شاید اس سے پہلے کبھی نہ لکھی گئی ہوں گی۔ آئے دن نئی سے نئی کتاب کا منظرعام پر آنا اِس موضوع سے عوام الناس کے شوق میں اضافے کا باعث بن رہا ہے بلکہ ہرنئی تصنیف اِس میدان میں نئی راہیں کھولنے کا موجب بھی بن رہی ہے۔

اسلامی بنکاری و کاروبار کی مشہور تصانیف میں ایک حالیہ قابلِ قدر اضافہ قاری خلیل الرحمن کی جارحانہ اور بے باک تصنیف جانبِ حلال ہے۔کتاب کا نام بہت ہی نفیس و پُرکشش ہے جو اپنے قاری کو کتاب کے بغور مطالعہ کی طرف اُکساتا ہے۔ جس قدر اِس کتاب کا نام خوب صورت ہے اِسی قدر خوب صورتی سے اِس کے اندر مختلف ابواب کی تقسیم کی گئی ہے۔ ہرباب میں موجود ہرموضوع اپنے اندر نہ صرف جامعیت کا حامل ہے بلکہ اپنے اگلے موضوع کی مستحکم بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔

کتاب کے شروع میں ’تقدیم‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عبدالرشید صاحب (صدر مجلس اسلامی، پاکستان) کی ایک خوب صورت تحریر کتاب کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہے۔ ’عرضِ مؤلف‘ و ’ماخذِ شریعت‘ جیسے بنیادی عنوانات کے بعد مؤلف نے کتاب کو چھے ابواب میں بالترتیب ۱-معیشت اور اسلام، ۲- حرام کی جدید شکلیں ۳- حرام کی قدیم مگر مروج شکلیں، ۴-چند حرام اور معیوب پیشے، ۵- اسلامی بنکاری نظام، اور ۶- انشورنس و تکافل میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا باب ’کسب حلال‘ کی ضرورت و اہمیت اِس کے حصول مناسب ذرائع اور اِس میں برکت کی طرف توجہ کی طرف زور دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مؤلف نے حلال و حرام کی تمیز اور اس سے متعلق اِسلام میں انسانی مجبوریوں کا لحاظ بیان فرمایا ہے۔ باب کے آخر میں ’حُرمتِ سود‘ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلاً تحریر کیا گیا ہے۔

دوسرا باب حرام کی جدید اشکال کو واضح کرتا ہے۔ یہ باب بھی انھی جامعیت کے اعتبار سے ایک بھرپور تحریر ہے جس میں مؤلف نے جدید دور کے تمام لین دین سے منسلک اشکال و شکوک و شبہات کا بغور جائزہ لیا ہے۔ کتاب کے اِس حصے میں مختلف قسم کی انعامی اسکیموں، کاروباری حصص کے لین دین، سٹہ بازی، کریڈٹ و کریڈٹ کارڈوں کی موجودہ شکل و ابہام، بی پی فنڈ، پگڑی سسٹم اور دیگر ممالک کی کرنسی کا لین دین کو واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے۔

تیسرے باب میں حرام کی قدیم مگر مروج اشکال پر موضوع کو زیربحث لایا گیا ہے۔ خاص موضوعات میں بیع کی شرائط کا مختلف پہلوئوں سے قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیلی جائزہ، دورِ نبویؐ میں تجارت کی چند مثالیں شامل ہیں۔ باب کا اختتام مولانا تقی عثمانی مدظلہ و دیگر علماے کرام کے موضوع سے متعلق اِشکالات اور مؤلف کی جانب سے اُن کے جوابات پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

چوتھا باب ’چند حرام اور معیوب پیشے‘کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے قابلِ ذکر حرام و معیوب پیشوں میں گلوکاری، رقاصی، مجسمہ سازی، بیوٹی پارلر، ٹی وی، گداگری، ہیئر ڈریسنگ، قوالی وغیرہ جیسے موجودہ زمانے میں عام پائے جانے والے پیشوں کا عقلی و عملی جائزہ لیا گیا ہے۔

آخری پانچواں اور چھٹا ابواب اسلامی بنکاری و انشورنس کے تمام ممکنہ موضوعات کو سامنے رکھ کر مرتب کیے گئے ہیں جس میں اسلامی بنکاری و انشورنس کے تمام اداروں کی تقریباً تمام پروڈکٹس جو شراکتی، تجارتی، سہولیائی اور کرایہ کی بنیاد فراہم کی جاسکتی ہیں، کا مفصل جائزہ مع دیگر علماے کرام کے اِشکالات اور اُن کا مؤلف کی جانب سے قرآن و سنت کی روشنی میں جوابات تحریر کیے گئے ہیں۔

یہ کتاب مکمل طور پر اپنے موضوع پر لکھی گئی ایک جامع کتاب ہے۔ اس میں اپنے موضوع کا تفصیلی احاطہ، قرآن و حدیث کے مناسب و بروقت حوالہ جات، عام فہم شرح و دلیل، منقولات کے معقولات وامثلہ کی بخوبی پیش کش کی بخوبی پیش کش اور دیگر علماے کرام کے اِشکالات کا تفصیلی بیان اور اُن کے جوابات، اس کتاب کی نمایاںخصوصیات میں شامل ہیں۔

کتاب کے ہر موضوع کے آخر میں موضوع سے متعلق معروضی سوالات اور ہرباب کے اختتام پر مختلف موضوعات پر کیس اسٹڈی بشمول سوالات کتاب کی افادیت میں مزید افادیت کا باعث بن سکتے ہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔(محمود شاہ)


مولانا عبدالغفار حسن، حیات و خدمات، مرتبہ: صہیب حسن۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۹۷۔ قیمت:درج نہیں۔

مولانا عبدالغفار حسن رحمۃ اللہ علیہ (۲۰ جولائی ۱۹۱۳ئ، رہتک۔ ۲۲مارچ ۲۰۰۷ئ، اسلام آباد) استاد حدیث اور داعی دین تھے، ایک محقق اور شفیق انسان تھے۔ جنھوں نے ہندستان، پاکستان اور سعودی عرب میں تعلیم و تدریس کے کارہاے نمایاں انجام دیے اور دعوتِ حق کے نقوش ثبت کیے۔ ان کا تحریری اثاثہ تادیر خدمت ِ دین کا حوالہ بنا رہے گا۔

زیرنظر کتاب کے مرتب لکھتے ہیں: ’’میں نے والد مکرم کی زبان سے واقعات و ارشادات کو معمولی تغیر و تبدل کے ساتھ صفحۂ قرطاس کی ترتیب بنانے کی کوشش کی ہے‘‘ (ص۱۴)۔ کتاب کا موضوع مولانا مرحوم کے کارنامۂ حیات کو پیش کرنا ہے۔ تاہم فاضل مرتب نے اسے حسنِ ترتیب سے پیش کرنے کے بجاے متفرق واقعات اور تحریروں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ تکرار کی کثرت اور متعلقہ اُمور پر قرار واقعی تحریر و ترتیب کی کمی کا عنصر نمایاں ہوگیا ہے۔

پھر مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے حوالے سے متعدد مقامات پر ظن و تخمین اور  لب و لہجے میں ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ مولانا عبدالغفار حسن مرحوم سے ملنے والے لوگ جانتے ہیں کہ وہ اس طرزِ تکلم کو روا نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے ’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو…‘ کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔مولانا عبدالغفار حسن، مسلم اُمت کے ایک قیمتی انسان اور استادالکل تھے، لیکن کتاب میں انھیں محافظِ مسلک اہلِ حدیث کے طور پر پیش کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔مرتب کی اس کاوش کا استقبال کرنے کے باوجود، مذکورہ موضوع پر سوانحی کتاب کی تشنگی موجود ہے۔ (س-م- خ)


صرف ۵ منٹ، ہبہ الدباغ، ترجمہ: میمونہ حمزہ۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور- ۵۴۷۹۰۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۷۱۔ قیمت: ۲۷۰ روپے۔

زیرنظر کتاب ملک شام کی طالبہ ہبہ الدباغ کے زمانۂ شباب کے نو برسوں کی خودنوشت ہے۔ یہ ۸۰ کا عشرہ تھا۔ مصنفہ شریعہ کالج میں آخری سال کی طالبہ تھی۔ حکومت پر حافظ الاسد نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس نے اسلامی تحریکات بالخصوص اخوان المسلمون سے تعلق کو گناہِ کبیرہ قرار دے رکھا تھا۔ وہ ظلم و ستم، انتقام و تعذیب اور دہشت گردی میں ہر حد سے آگے نکل گیا تھا۔ ایک تاریک شب ہبہ الدباغ کو خفیہ پولیس کے ایک اہل کار نے رات کے اندھیرے میں آجگایا اور کہا: صرف پانچ منٹ آپ سے گفتگو کرنی ہے، پھر وہ پانچ منٹ نو برسوں پر پھیل گئے۔ ہبہ کبھی اِس جیل میں رہی تو کبھی اس جیل میں۔ یہ جیلیں، بدترین عقوبت خانے تھے۔ ایمان و استقامت کی دولت سے سرشار یہ نوجوان لڑکی درندوں سے اپنی عصمت بچاتی اور مسلسل گوناگوں تکلیفیں اُٹھاتی رہی۔ اسے سونے نہ دیا جاتا، بھوکا رکھا جاتا۔ اگرچہ کبھی کوئی نرم دل ہمدردی کا بول بھی بول دیتا۔ ہبہ کے ساتھ اور بھی خواتین تھیں اور سب وحشیوں کے ظلم و جبر کا نشانہ بنیں مگر اللہ نے ان کو استقامت ، ہمت اور حوصلہ عطا کیا اور ان نو برسوں میں وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں۔

ان کا قصور؟ ظالم حکومت کو شک تھاکہ ان کا تعلق مذہبی جماعتوں کے ساتھ ہے۔ محض شک کی بنا پر یہ سب جورو استبداد کی چکّی میں پستی رہیں۔ ہبہ الدباغ سے پہلے جمال عبدالناصر کی جیل میں زینب الغزالی بھی ایسی ہی تعذیب کا شکار رہیں۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنی زینبیں اور ہبائیں مصری اور شامی حکمرانوں کے ظلم و جبر کا شکار ہوئی ہوں گی۔ خاندانوں کے خاندان اُجاڑ دیے، بچے ذبح کردیے گئے۔ ابوبکر، عمروعثمان اور عائشہ و حفصہ نام کے نوجوان اور بچے بالخصوص قتلِ عام کا نشانہ بنے۔ ہمارے ہاں جنرل پرویز مشرف نے بھی لال مسجد میں یہی کچھ کیا تھا۔

مقدمہ زینب الغزالی نے لکھا ہے اور تقریظ قاضی حسین احمد کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے جہاں ہماری خواتین کے عزم و ہمت اور ایمان میں اضافہ ہوگا، وہاں ہمارے مردوں میں بہادری، غیرت اور حمیت بڑھے گی۔ عربی سے اُردو ترجمہ رواں، کتاب خوب صورت اور قیمت مناسب ہے۔(قاسم محمود احمد)


باتیں ___ کچھ اور بھی ہیں، منظوراحمد۔ناشر: لائٹ ہائوس ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز، سٹی ٹاور، ایبٹ روڈ، لاہور۔ رابطہ: ۶۳۱۴۲۲۹-۰۴۲۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

مصنف سال ہا سال بیرونِ ملک مقیم رہے۔ لکھتے ہیں: ’’یورپ، مڈل ایسٹ اور پاکستان میں ہمیں قوموں کے رہنمائوں، صحافیوں، فوجیوں، جہادیوں، تاجروں، لٹیروں، شیشہ گروں کی حرکات و سکنات کو قریب اور ایسے زاویے سے دیکھنے کاموقع ملا، جو شاید کسی ایک شخص کے لیے ممکن نہ ہوا ہو‘‘ (ص ۱۲)۔ چنانچہ منظوراحمد صاحب نے اپنی زندگی کے ’’غیرمعمولی واقعات کی تصویروں کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ انداز و اسلوب دل چسپ، رواں اور کہیں کہیں شوخ و شگفتہ اور پُرلطف ہے، مزاح سے قریب۔ انگریزی ناموں اور مقامات وغیرہ کو لاطینی حروف میں لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک طرح سے مصنف کی آپ بیتی ہے اور سفرنامہ بھی۔ ۱۹۴۷ء میں ہندستان سے ہجرت کر کے یہ خاندان لاہور پہنچا۔پہلے ماڈل ٹائون رہے، پھر مال روڈ پر واقع ایک کوٹھی میں طویل عرصے تک قیام رہا۔ والد اعلیٰ سرکاری افسر (ڈپٹی کمشنر، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو وغیرہ) ہونے کے باوجود سادہ مزاج، بدعنوانی سے دُور اور اپنے وسائل میں زندگی بسر کرنے کے قائل تھے اور اس پر عامل رہنے کے سبب گھر میں رزق کی بے حد برکت رہی۔ مصنف پڑھ پڑھا کر (گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے کرکے بنک کاری کی تربیت کے لیے) لندن سدھارے۔ بنک کی تربیت چھوڑ کر لندن سے سی اے کیا اور وہیں ٹک گئے۔ حساب کتاب (اکائونٹنسی) کے وکیل رہے۔ درجنوں کمپنیوں کے مشیر اور ڈائرکٹر رہے۔ وائس آف اسلام کے بانی مدیر اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔

اس آپ بیتی میں مصنف کے دوستوں، کرم فرمائوں، علاقوں، مقامات کا ذکر بکثرت آتا ہے مگر اس انداز میں کہ اُکتاہٹ نہیں ہوتی۔ مصنف نے تاریخ، جغرافیہ اور سیاست، سب پر بات کی ہے۔ ایک دنیا دیکھ چکے ، مگر کہنے کو اب بھی بہت کچھ ہے، اسی لیے کہتے ہیں: ’’باتیں___ کچھ اور بھی ہیں‘‘ ___  میرے خیال میں منظوراحمد صاحب کو وہ ’اور باتیں‘ بھی لکھ دینی چاہییں۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تفسیر سورئہ فاتحہ، تحفۃ الاسلام، مولوی حافظ محمد اکرام الدین۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، ضلع نوشہرہ۔صفحات: ۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگردِ رشید حافظ محمد اکرام الدین کی اس کتاب کا مسودہ مولانا عبدالقیوم حقانی کے ہاتھ آگیا۔ ’’اس کتاب نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ قدیم طرزِتحریر اور پرانا ادب ہونے کے باوجود نہایت اعلیٰ درجے کی تحریر ہے جس کی ایک ایک سطر مجھے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ تحریری بانکپن، بیان میں خوب صورتی، علمی نکات میں دل کشی، مسائل میں عمق اور انداز داعیانہ اور واعظانہ ہے۔ اور شاعری ہو یا نثر، حدیث کی توضیح ہو، یا قرآن کی تفسیر، تاریخ کا تذکرہ ہو یا فقہ کا مسئلہ، حُسن اس کی بے ساختگی میں ہے‘‘(ص ۹۰)۔ اب میں اور کیا کہوں، کتاب حاصل کیجیے۔ بچوں کو، طالب علموں کو بھی پڑھوایئے، اس سب سے زیادہ پڑھی جانے والی سورہ کے مطالب ان پر آشکار ہو جائیں گے۔(مسلم سجاد)


قرآنِ حکیم اور ہم، ڈاکٹر اسرار احمد۔ ناشر: مکتبہ خدام القرآن، ۳۶-کے، ماڈل ٹائون، لاہور۔ صفحات: ۴۹۵۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

یہ کتاب ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی آٹھ کتابوں کو یک جا کر کے تیار کی گئی ہے جن میں آپ نے قرآن کاتعارف پیش کیا ہے، اور مسلمانوں سے قرآن کے مطالبات و تقاضے بیان کیے ہیں۔ ۵۰۰صفحے کی اس کتاب میں آٹھ موضوعات پر تقاریر جمع ہیں: ۱-دنیا کی عظیم ترین نعمت قرآنِ حکیم، ۲- عظمت قرآن، بزبانِ قرآن و مصاحب ِقرآن، ۳- قرآنِ حکیم کی قوتِ تسخیر، ۴-تعارفِ قرآن مع عظمتِ قرآن،۵- قرآن اور امنِ عالم، ۶- مسلمانوں پر قرآنِ مجید کے حقوق، ۷- انفرادی نجات اور اجتماعی فلاح کے لیے قرآن کا لائحہ عمل، ۸- جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ۔ ہرخطبہ اپنی جگہ جامع اور راستہ دکھانے والا ہے، بس مسئلہ رستے پر چلنا ہے۔(م- س)


مولانا محمد منظور نعمانی کی سرگزشت اور مولانا مودودی، مرتب: شفیق الرحمن عباسی،   ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، ۳-کورٹ سٹریٹ، لوئرمال، لاہور۔ صفحات: ۳۰۳۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

یہ کتاب اُن مطبوعہ تحریروں کا مجموعہ ہے، جو مولانا مودودی کے ابتدائی ساتھی مولانا محمد منظورنعمانی مرحوم کی جماعت اسلامی سے علیحدگی سے متعلق داستان پر مشتمل ہیں۔  فاضل مرتب نے مولانا نعمانی کی الزامی تحریروں کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے، معاصر حضرات کی جانب سے ان کے جوابات کو اس انداز سے مربوط کرنے کی کوشش ہے کہ دعویٰ اور جوابِ دعویٰ کا منظر بنتا دکھائی دیتا ہے۔اگر اختصار سے کام لیتے ہوئے اس فردِ قرارداد کو متعین الفاظ میں پیش کرکے تجزیہ کیا جاتا تو یہ اور زیادہ مؤثر پیش کش ہوتی۔ تاہم، موجودہ شکل میں بھی یہ صداے بازگشت ایک معنویت رکھتی ہے۔ (س-م-خ)


اُمت کا ایک ہی انتخاب: اسلام اور صرف اسلام، ڈاکٹر ابراہیم عبید۔ ترجمہ: گل زادہ شیرپائو۔ناشر: ادارہ معارف اسلامی ، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۵۶۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

ڈاکٹر ابراہیم عبید کی پونے چھے سو صفحات کی اس کتاب میں پانچ ابواب قائم کر کے سیکولر عناصر کو منہ توڑ جواب دیا گیا ہے۔ الاسلام ھو الحل اس انتخاب میں اخوان کا نعرہ تھا۔ ادارہ معارف اسلامی نے اس کا پہلے باب کا ترجمہ شائع کردیا ہے۔۵۶ صفحے کے اس کتابچے میں جو موضوعات زیربحث آتے ہیں وہ اس طرح ہیں: ۱-اسلامی ریاست کا عروج و زوال، ۲- یورپی انقلاب اور سیکولرزم، ۳- سیکولرزم اور اسلام، ۴-شریعت اسلامی کی بالادستی، ۵-آخری باب صفحہ ۲۵ سے ۵۳ تک ہے، اور اس میں شاید سب ہی متعلقہ اُمور کاذکر ہوگیا ہے، حتیٰ کہ تغیر ِحالات سے   تغیر ِفتویٰ بھی۔ گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ بقیہ ۵۰۰ صفحے کے ترجمے کا انتظار ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس سمندر میں کیا کیا ہے فی الحال تو جیسے ٹریلر چلا دیا ہے۔ (م- س)


احکامِ سُترہ، غلام مصطفی، حافظ شاہد محمود۔ کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۱۰۴۔ قیمت: درج نہیں۔

سُترہ کے حوالے سے ہم صرف یہ حدیث جانتے ہیں کہ سامنے سے گزرنے کے بجاے ۴۰سال بھی کھڑا رہنا پڑے تو کھڑے رہو۔ اب اچھی مسجدوں میں اس کا انتظام ہے کہ بڑے ہال میں کچھ ایسے پارٹیشن لگا دیتے ہیں جس کے پیچھے لوگ سنتیں پڑھتے ہیں۔ کل ہی ایک مسجد میں چھوٹے سائز کے بھی دیکھے کہ نمازی اپنے آگے رکھ لے۔ ایک صاحب ِ علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ایک دو صف آگے تک نہ گزرا جائے لیکن اس کتاب سے یہ معلوم ہوتا ہے (اگر مَیں غلط نہیں سمجھا ہوں) سترہ کی حد وہاں تک ہے جہاں آپ سجدہ کرتے ہیں۔ بہرحال، یہ مسئلہ جو ہرمسجد میں ہرنمازی کا مسئلہ ہے، اس کے تمام پہلو جاننے کے لیے مختصر کتابچہ یقینا مفید ہے۔(م- س)

لوح بھی تو، قلم بھی تو، سعید اکرم۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۸۸۹۸۶۳۹-۰۳۰۰۔ صفحات: ۱۵۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سعید اکرم کا زیرنظر نعتیہ مجموعہ اس اعتبار سے لائق تحسین ہے کہ انھوں نے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے عام روش سے ہٹ کر ایک الگ راہ نکالی۔ انھوں نے کالی کملی اور زلفوں کی باتیں کرنے کے بجاے آپؐ  کے اوصافِ حمیدہ، آپؐ  کی بہادری و شجاعت اور آپؐ  کے مقامِ رسالت کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ آپؐ کی فیض رسانی، خلّاقیِ آئین جہاں داری اور آپؐ  کی تمدن آفرینی کی طرف اشارے کیے ہیں۔

حمدودعا کے بعد، کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے بعنوان ’غرورِ شوق کا دفتر‘ میں تخلیقی نعتیں ہیں جو غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں۔ ان نعتوں سے شاعر کا وفورِ شوق اور واردارتِ قلبی مترشح ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر یہ نعتیں کہی ہیں۔ بقول خود: ع  ’’مدینے سے مجھے پیغام کچھ منظوم آتے ہیں‘‘۔ ا س حصے میں کُل ۴۴ نعتیں شامل ہیں۔

دوسرے حصے بعنوان ’شہادتِ جبرئیل ؑ‘ میں آیاتِ قرآنی کے منظوم تراجم پر مشتمل ۳۴نعتیں شامل ہیں۔ یہ تراجم ایسی آیات کے ہیں جن میں رسولؐ اللہ سے خطاب کیاگیا ہے یا آپؐ کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے۔ اس حصے کا آغاز سورئہ فاتحہ کے ترجمے سے اور اختتام درود شریف کے ترجمے پر ہوتا ہے۔ تراجم آزاد نظم کی ہیئت میں مناسب اور مکمل ہیں۔ اس حصے کا نام   ’شہادتِ جبرئیل ؑ اس لیے رکھا کہ جو کچھ پہلے کہا گیا ہے، اس پر جبرئیل امین ؑ کی گواہی ہوجائے۔

مجموعی طور پر یہ ایک وقیع اور عمدہ مجموعۂ نعت ہے جس سے شاعر کی والہانہ عقیدت،  جذب و سُرور اور فراوانیِ محبت ِ رسولؐ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہرمسلمان شاعر تو نہیں ہوسکتا کہ وہ شعری پیرایے میں اس طرح اظہارِ محبت کرے مگر کتاب پڑھ کر اس کے دل میں حُب ِ رسولؐ کا جذبہ ضرور موجزن ہوگا اور بقول رسولِ مقبولؐ تبھی وہ ایمان دار ہوگا۔ اللہ ہرمسلمان کے دل میں ایسی محبت پیدا کرے۔ دیباچہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا اور تقریظ محمد اشرف آصف کی ہے۔(قاسم محمود احمد)


لغاتِ قرآن اور عورت کی شخصیت، پروفیسر خورشیدعالم۔ ناشر: چودھری غلام رسول اینڈ پبلشرز،  الکریم مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۵۶۰۔ قیمت:۸۵۰ روپے۔

فاضل مصنف نے ۳۰برس تک عربی زبان کی تدریس کا کام کیا۔ کچھ عرصہ تو پنجاب کے مختلف کالجوں میں، پھر ۲۰سال تک ریاض (سعودی عرب) میں تعلیم و تدریس اور ملازمت کے سلسلے میں مقیم رہے۔ زیربحث کتاب میں انھوں نے عورت کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے۔ خواتین سے متعلق قرآن پاک میں جتنے کلمات و اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں،ان کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے جمع کیا ہے۔ کُل ۲۸ ابواب ہیں۔ اس میں چند ایسے کلمات بھی آگئے ہیں جو اگرچہ عورت کے لیے براہِ راست مخصوص نہیں مگر عورتیں ان احکامات میں مردوں ہی کی طرح مخاطب ہیں، مثلاً الأنس، البشر، عبد، طائفۃ ، الناس، النفس اور  الیتیم وغیرہ۔ ہرباب میں متعلقہ لفظ کے معنی و مطالب کتب ِ تفاسیر، حدیث، عربی لغت،گرامراور عربی شاعری کی رُو سے متعین کیے گئے ہیں۔ بعدازاں وہ ان سے اخذ ہونے والے مسائل و نتائج پر روشنی ڈالتے چلے جاتے ہیں۔

مصنف کتاب کے ایک ایک صفحے پر یہ واضح کرتے نظر آتے ہیں کہ مرد و عورت میں کامل مساوات ہے۔ عورت بھی وہ ساری صلاحیتیں رکھتی ہے جو مردوں میں موجود ہیں: ’’خاتون کو قدرومنزلت، جو قرآن نے عطا کی تھی وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی، اور یہ تصور لوگوں کے رگ و پے میں سرایت کرگیا کہ خاتون مرد سے گھٹیا ہوتی ہے۔ قرآنی آیات کی غلط تاویل کی گئی۔ جن آیات میں قرآن نے وہ حقوق عطا کیے تھے، جو آج تک ان کو حاصل نہ تھے انھی آیات کو اس کی تنقیص کے لیے پیش کیا گیا، احادیث وضع کی گئیں محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مرد افضل ہے اور خاتون فروتر‘‘۔ (ص ۱۱۲)

’’خواتین ان فنون میں بازی لے گئیں جو مردوں کے ساتھ مخصوص سمجھے جاتے ہیں، مثلاً حکمرانی ، عسکری قیادت، تحریر و تقریر اور زُہد و تقویٰ‘‘۔ (ص ۱۲۷)

’’مرد و زن میں جو حیاتیاتی امتیاز پایا جاتا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک دوسرے کے کام کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اس کا دائرۂ کار الگ ہے‘‘۔ (ص ۱۳۰)

’’حیاتیاتی اختلاف فرد کے رویوں کو متعین نہیں کرتا۔ جب کسی معاشرے میں حالات بدلتے ہیں تو رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ ہرصنف کے وجود میں مردانہ اور زنانہ دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ سرجری کے ذریعے مرد خاتون بن جاتا ہے اور خاتون مرد‘‘۔ (ص ۱۳۰)

’’ماضی میں خاتون کی صرف ایک حیثیت تھی،گھریلو ذمہ داری۔ اب ایک دوسری حیثیت، یعنی کارکن کی بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اگر شوہر عورتوں کو ملازمت کی اجازت دے رہے ہیں تو ہمیں اعتراض کا کیا حق حاصل ہے۔ کٹر سے کٹر روایتی گھرانوں اور ملکوں میں دائرۂ کار کی تخصیص ختم ہوچکی ہے۔ دنیا کی موجودہ اقتصادی صورت حال میں کسی ملک کی نصف آبادی کو زندگی کے تمام میدانوں میں شریک ہونے سے روک دیا جائے تو ترقی کیسے ہوگی؟ دونوں کے مل کر کام کرنے سے ہوگی‘‘۔ (ص ۱۳۱)

مصنف چہرے کے پردے کے قائل نہیں ہیں: ’’چہرے کا پردہ کتاب و سنت سے ثابت نہیں‘‘ (ص ۱۲۰)۔اس طرح یہ کتاب عربی لُغت اور گرامر کے پردے میں عورت کے بارے میں پورا مغربی ایجنڈا مسلمانوں میں قرآن کے نام پر رائج کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔ اگر اپوائی بیگمات یا این جی اوز اسلام کے خاندانی اور تمدنی و معاشرتی مسائل کے بارے میں بات کریں تو سب کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ مسلم معاشرے میں گمراہی پھیلائی جارہی ہے، مگر گمبھیر مسئلہ تو اس وقت بنتا ہے جب نام نہاد علما و فاضل حضرات اپنے علم و فضل کے زعم میں، عربی لُغت کے زور پر  اور اپنی چرب زبانی کی بنیاد پر وہی کام کرتے نظر آتے ہیں جو اہلِ مغرب کو مطلوب ہے، تو پھر یہ تلبیس ابلیس ہمارے لیے بہت خطرناک بن جاتی ہے۔

تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ ’روشن خیال‘ حضرات جو حسبنا کتاب اللہ کا دعویٰ رکھتے ہیں، جو خود اللہ ا ور اس کے رسولؐ کو بھی قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کا حق دینے کو تیار نہیں، ان کو اپنی  عربی دانی پر اتنا بھروسا ہے کہ اسی کی بنیاد پر فرنگیت کو اسلام میں داخل کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ مغربی فکر کو زبردست لفاظی کے ذریعے قرآن و حدیث میں سے کشید کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہ تاویل اور اجتہاد کا کلہاڑا ہاتھ میں لے کر عربی گرامر، لغت اور عربی شاعری کی مدد سے عورت کا دائرۂ کار وہی متعین کرتے نظر آتے ہیں جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے ’سیڈا‘ (CEDAW) کو  مطلوب ہے۔ غرض مصنف نے ’پرویزی‘ فکر کو آگے بڑھایا اور ’غامدی فکر‘ کو پروان چڑھایا ہے۔ لغاتِ قرآن کے پردے میں شیطان کو کمک بہم پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ مارِ آستین ہیں جو اپنے فسادِ فکرونظر سے اُمت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کے لیے پوری طرح کوشاں ہیں۔ اس تمام خلط مبحث کا علمی انداز میں جواب تو دیا جاسکتا ہے ، مگر اس ’مختصر‘ تبصرے میں گنجایش نہیں، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔ (ثریا بتول علوی)


کلام بنت مجتبیٰ مینا، مرتبہ: زہرا نہالہ۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:  ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۳۳۰ روپے۔

بنت مجتبیٰ مینا کے کلام کو صرف تحریکی حلقوں میں ہی نہیں، عام ادبی حلقوں میں بھی اہمیت دی جائے گی کیونکہ ایسا کلام ہے جو اپنی اہمیت خود منوائے گا۔

جس ماحول میں ان کی پرورش اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے اس کا تقاضا یہی تھا کہ محض  حصولِ علم پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اپنے عمل سے علم کے مثبت پہلوئوں کا اظہار بھی کیا جائے۔ اس لیے انھوں نے طویل عرصے تک نور کی ادارت کی، بتول میں مضامین لکھے، حریم ادب کی نشستوں میں نئی نسل کی رہنمائی بھی کی۔ تحریک کی ذمہ داریوں کو نبھاتی رہیں اور ہرجگہ کامیاب اور کامران رہیں۔

بنت مجتبیٰ مینا مکمل شاعرہ ہیں کیونکہ شاعر وہی ہوتا ہے جو اپنے احساسات کو خوب صورت الفاظ کی لڑی میں پرو کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ سننے والا بھی اس چبھن اور کسک کو محسوس کرتا ہے جو شاعر کا مقصد ہوتا ہے۔ مفہوم کی ادایگی اور اس کا ابلاغ ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ انھوں نے تمام اصناف سخن کو پوری مہارت سے برتا ہے۔ انھوں نے حمدونعت کہی ہیں، قطعات لکھے ہیں، غزلیں اور نظمیں کہی ہیں لیکن ہمارے ہاں مروجہ انداز کی آزاد نظموں سے مکمل اجتناب برتا ہے۔

بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے بنت مجتبیٰ مینا کی شاعری ایک واضح مقصد کے لیے ہے اور وہ اپنے مقصد کے اظہار میں پوری طرح کامیاب ہیں، یعنی ان کی شاعری مقصدی ادب میں  خوش گوار اضافہ ہے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی نعتوں میں بڑی دل سوزی اور عقیدت و احترام ہے۔ انھوں نے کہا    ؎

کچھ ہوش نہیں رہتا جب وقت حضوری ہو

دیوانے سے دیوانے، دیوانے محمدؐ کے

ان کی چھوٹی بحرکی نعتیں خوب نہیں بہت خوب ہیں۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ غزل کی زیادہ کامیاب شاعرہ ہیں یا نظم کی۔ شاہدہ یوسف کے مطابق: ’’ان کی غزلوں میں ایک کربِ مسلسل ہے جو، ان کے احساس تنہائی، دل شکستگی اور درمندی کا آئینہ دار ہے۔ چند اشعار:

غمِ دوراں، غمِ ہجراں، غمِ جاناں، غمِ دل

اِک دنیا ہے یہاں، کہتے ہو تنہائی ہے

کچھ تو مجھ کو ملا

اِک دل بیتاب سہی

پھر کسی تازہ واردات کی خبر

غنچہ دل کو کیوں ہنسی آئی

ان کی نظم کے بارے میں کہا گیا: ’’سماجی اور معاشرتی المیوں سے مالا مال ہے‘‘۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کی نظمیں تاریکیوں میں روشنی اور جبر میں اختیار و اعتبار کا پیغام دیتی ہیں۔ ’ہارسنگھار‘، ’صدقہ‘، ’رات گزر جائے گی‘، ’چاک گریباں‘، ’آواز‘ ایسی نظمیں ہیں جن سے پُرآشوب حالات میں بھی جینے کا اور مسائل سے نمٹنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ان کی تمام نظموں میں مفہوم کی ادایگی اور مکمل ابلاغ نمایاں ہے۔ بطور مجموعی ان کی شاعری اُجالا پھیلانے والی شاعری ہے۔

منشورات نے اہتمام سے چھاپی ہے۔ سرورق پر خوب صورت جدت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کی داد دینی چاہیے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی صاحب زادی زہرا نہالہ کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی والدہ کے خوب صورت کلام کو زمانے کی دستبرد سے محفوظ کرلیا۔ (وقاراحمد زبیری)


تعارف کتب

  • سراپا رحمت (رحمت عالم اور رفاہی کام) مؤلف: مولانا امیرالدین مہر۔ ناشر: غزالی اکیڈمی، مکان نمبراے-۳، بلاک اے-۲، سیٹلائٹ ٹائون، میرپورخاص۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: درج نہیں۔فون: ۳۲۰۲۹۶۲-۰۳۳۴۔ [مولانا امیرالدین مہر نے  سیرتِ طیبہ، سوانح اقدس اور ذخیرئہ احادیث سے آپؐ کی سیرت کے رفاہی پہلو کو منفردانداز میں پیش کیا ہے۔ اسلام اور حقوق العباد کے بعض ایسے گوشے سامنے آئے ہیں جو سیرتِ رسولؐ کا جوہر ہیں۔ مولانا مہر نے اسے اپنے ۲۰سالہ مطالعے کے دوران قرآن، حدیث، سیرت کے مطالعے اور غوروفکر کے نتائج کی روشنی میں مرتب کیا ہے۔ خدمت کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے قرآن و سنت سے عمدہ لوازمہ ۔]
  • قومی ذریعۂ تعلیم ، ڈاکٹر محمد شریف نظامی۔ ناشر: پاکستان قومی زبان تحریک، ۲۶-اے، بلاک رحمن پورہ کالونی،فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۴۳۲۵۸۳۵-۰۳۰۳۔ صفحات:۳۲۔ قیمت: درج نہیں۔[پاکستان کی فوجی اور سیاسی حکومتوں نے انگریزی کی محبت میں، پاکستان کے نظامِ تعلیم کو بربادی کی جس ڈھلوان سے لڑھکا دیا ہے، سب کے سامنے ہے۔ اس الم ناک صورتِ حال کے پس منظر کو اختصار کے ساتھ قلم بند کردیا گیا ہے۔ ملک کے مستقبل کا درد رکھنے والوں کے لیے ایک مفید مطالعہ۔]
  • Gender Equity in Islam [اسلام میں صنفی انصاف]، ڈاکٹر جمال بداوی۔ ناشر: قلم پبلی کیشنز، بی-۲۲۶، سیکٹر ۱۱-اے، نارتھ کراچی۔صفحات:۶۹۔ قیمت:درج نہیں۔ [اسلام نے رنگ و نسل کی تفریق سے بالا ہوکر، اور صنفی امتیازات کے جابرانہ شکنجوں کو توڑتے ہوئے، انسانی فطرت کے عین مطابق حقوق و فرائض اور عدل و انصاف کا ایک متوازن نظام عطا کیا ہے۔ آج مغربی تہذیب اور لادینیت کے پروپیگنڈے سے متاثر لوگوں کے ہاں اس حوالے سے بہت سے خلجان پائے جاتے ہیں، جن کے تحت وہ کم علمی یا بے خبری کے باعث اسلام میں خواتین کی حیثیت اور مقام و مرتبے کے بارے میں شاکی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کتاب میں ایسے تمام قابلِ ذکر اعتراضات پر مشتمل نکات کو سامنے رکھ کر، کہ جو اہلِ مغرب کے ہاں اسلام کے بارے میں فسادِ خبر کی بنیاد بنے ہوئے ہیں، نہ صرف شافی جواب دیا گیا ہے، بلکہ مثبت طور پر اسلام کا نقطۂ نظر بھی پیش کیا گیا ہے۔]
  • روزہ اور صحت، جدید سائنس کی روشنی میں، ڈاکٹر شکیل احمد۔ناشر: رہبر پبلی شرز، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۶۲۸۴۸۴-۰۲۱۔ [رمضان کی خیروبرکات اور روزے کے طبی فوائد کے ساتھ ساتھ حفظانِ صحت کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ عام بیماریوں، مثلاً ذیابیطس، امراضِ قلب، بلڈپریشر، سانس اور یرقان وغیرہ کے بارے میں روزے کے دوران عمومی مسائل پر رہنمائی دی گئی ہے، نیز رمضان کے مخصوص پکوان اور متوازن غذا کے پیشِ نظر سحر اور افطار کے مینو دیے گئے ہیں۔ یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ رمضان میں سیر کے معمول کو سحری ے قبل یا تراویح کے بعد جاری رکھیے۔]
  • اُمت مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل، ڈاکٹر محمود احمد غازی، تدوین: سید عزیز الرحمن۔ ناشر: ریجنل دعوۃ سینٹر، سندھ۔ پی ایس- ۱/۵- کے ڈی ۲۱ ،اسکیم ۳۳، احسن آباد نزد گلشن معمار، کراچی۔ فون: ۳۶۸۸۱۸۶۲-۰۲۱۔ صفحات:۳۲۔ قیمت: درج نہیں۔ [آج اُمت مسلمہ کو ہمہ گیر چیلنج کا سامنا ہے اور ماضی میں درپیش تمام چیلنج مجتمع ہوکر سامنے آگئے ہیں۔ پانچ دائروں (اساسیات دین، تعلیماتِ شریعت ، تحقیق، ذاتی ذوق اور فرقہ واریت، نیز عالم گیریت)میں ان چیلنجوں کا احاطہ کر کے ان کا حل اور عملی لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔]

شمائل ترمذی، امام ابوعیسیٰ محمد الترمذی، ترجمہ و تخریج: حافظ زبیر علی زئی۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۔ صفحات: ۴۶۷۔ قیمت: درج نہیں۔

ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی(م: ۲۷۹ھ) کے روایت کردہ مجموعۂ احادیث جامع ترمذی کا شمار صحاحِ ستہ میں ہوتا ہے۔ یہی مجموعہ امام کی شہرت کا باعث ہے۔ اس بہت بڑے اعزاز کے ساتھ انھیں یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ انھوں نے رسول کریمؐ کی شخصیت ، عادات و خصائل اور آداب و اخلاق کے بارے میں محدثانہ اسلوب میں الشمائل کے نام سے ایک کتاب مرتب فرمائی۔ غالباً امام ترمذی محدثین میں سے پہلے فرد ہیں جنھوں نے اس موضوع پر احادیث کو باقاعدہ طور پر یک جا کیا۔ آپ کے بعد ا س موضوع پر بہت سے علماے حدیث نے کام کیا جن میں    امام بغوی (م: ۵۱۶ھ)، امام نسفی (م: ۴۳۲ھ) ، امام اصبہانی (م: ۳۶۹ھ)، ابن کثیر (۷۷۴ھ) اور السیوطی (۹۱۱ھ) کے نام نمایاں ہیں۔ ان تمام کتب میں شمائل ترمذی کو جو قبولِ عام حاصل ہوا، اس کا تسلسل اب بھی قائم ہے۔

شمائل ترمذی کی متعدد عربی شرحیں بھی علماے حدیث نے رقم کی ہیں۔ ان میں  مُلّاعلی قاری (م: ۱۰۱۶ھ)، ابراہیم الشافعی (م:۱۲۷۷ھ) اور ناصرالدین الالبانی (م:۱۴۲۰ھ) کے نام معروف ہیں۔ شمائل ترمذی کی اُردو شرح پر بھی خاصا کام ہوا ہے۔ ان میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا، امیرشاہ گیلانی،عبدالصمد ریالوی و منیراحمد وقار اور عبدالقیوم حقانی کی شروح معروف ہیں۔

 اُردو میں موجود ان شرحوں میں زیرنظر کتاب کی صورت میں ایک جان دار اضافہ   شمائل ترمذی: ترجمہ، تحقیق و فوائد کے نام سے سامنے آیا ہے۔ مصنف علمِ جرح و تعدیل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے شمائل ترمذیکے ترجمہ و شرح کو تحقیقی خوبیوں سے آراستہ کرکے پیش کیا ہے۔ ترجمانی اور تحقیق میں توازن اور جامعیت سے کام لیا گیا ہے۔دو قلمی نسخوں اور بعض مطبوعہ نسخوں سے تقابل کرکے متن کی تصحیح کی گئی ہے۔ عربی متن کے ساتھ اُردو ترجمے کے بعد ہرحدیث کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ صحیح ہے، حسن ہے یا ضعیف وغیرہ۔ امام ترمذی نے جن محدثین کی روایت کردہ احادیث کا ذکر کیا ہے، اُن کے حوالے بھی درج کردیے گئے ہیں۔’شرح و فوائد‘ کے عنوان سے مختصر مگر جامع شرح میں مفید نکات ملتے ہیں۔ آغازِ کتاب میں اُردو اور آخر میں عربی فہرست ِابواب دی گئی ہے۔ ۵۶؍ابواب میں ۴۱۷ احادیث کا مستند متن، آسان ترجمہ، اسنادی حیثیت اور مختصر شرح پیش کی گئی ہے۔

اس کا اسلوبِ تحریر و تحقیق خالصتاً محدثانہ و عالمانہ ہے۔ اس بنا پر یہ کتاب عوام کی نسبت  علمِ حدیث کے طلبہ، اساتذہ، محققین اور مقررین و خطبا کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوگی۔شمائل ترمذیکی اُردوشرحوں میں اس کتاب کو سب سے مستند اور جامع قرار دیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کو اس کاوش پر اجرعظیم عطا فرمائے۔ آمین! (ارشاد الرحمٰن)


تکمیلِ رسالت و نبوت و حیات خاتم النبیینؐ، لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) محسن اختر۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی، ۳۵-ڈی، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات: ۶۴۸۔ قیمت: ۷۰۰ روپے

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر لکھی گئی کتب میں آپؐ کی شخصیت کے کسی نہ کسی پہلو کو نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے۔ سیرت النبیؐ پر بعض کتب تصوف کا رنگ لیے ہوتی ہیں، بعض دوسری کتابوں میں ان کے مجاہدانہ کارناموں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب کے مصنف نے بنی نوعِ انسان کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ آپس کی نفرت و کدورت، لڑائی جھگڑے میں نہ اُلجھیں اور سب اپنے آقا کی تابع داری میں لگ جائیں (ص ۳۱)۔ یہ کتاب بنیادی طور پر اہلِ مغرب کے لیے انگریزی زبان میں لکھی گئی اور امریکا میں شائع ہوئی۔ اس کا اُردو ترجمہ بھی مصنف نے خود کیا ہے۔ کتاب ۲۲۲عنوانات اور ۳۲۵ ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے، ان تمام چھوٹے بڑے عنوانات کے تحت حضور اکرمؐ کی پیدایش سے قبل، عالمی مذہبی حالت، سیاسی تاریخ، قبائل کے حالات، حضور اکرمؐ کے اجداد اور عرب  تہذیب و ثقافت، حضور اکرمؐ کی پیدایش، آپؐ کی بعثت اور سیرت و سوانح سے متعلق تفصیلات سے لے کر آپؐ کی وفات تک کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ حسب ِضرورت قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کتاب میں سیرت النبیؐ اور قرآنی تعلیمات کو حالاتِ حاضرہ سے مطابقت دینے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ مصنف حضور اکرمؐ کی سیرتِ مبارکہ کے واقعات قلم بند کرتے ہوئے آج کے مسلمانوں کو دعوتِ عمل دیتے ہیں اور صورت حال کی تبدیلی اور ترقی کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔

کتاب کے آخری حصے میں مسلمان اقوام کے زوال کے اسباب لکھے گئے ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ ملوکیت کا تسلط ہے۔ قرآن و سنت ترک کر دینے کی بنا پر مسلمانوں پر نکبت و ادبار کی گھٹا چھانے لگی۔ اس کے ازالے کے لیے اُسی صراطِ مستقیم کو اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے جو  رسول اکرمؐ نے طے کردی۔ آج انسان تمام قسم کے نظریاتی ازموں کو آزماچکا ہے، اسے اگر سکون و قرار مل سکتا ہے تو قرآن و سنت کے مطابق ضابطۂ حیات اپنانے سے مل سکتا ہے۔ (ظفرحجازی)


حج و عمرہ کے احکام، شگفتہ عمر۔ مکتبہ راحت الاسلام، مکان ۲۶، سٹریٹ ۴۸، ایف ایٹ فور، اسلام آباد۔ صفحات: ۴۳۸۔ قیمت: ۱۴۵۰ روپے۔

پاکستان سے ہر سال دو لاکھ مسلمان فریضۂ حج ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ سوال ہو کہ ان میں سے کتنے حج کے مسائل اور احکام سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں اور شعوری طور پر احکامِ حج پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں تو اس کا جواب آسان نہ ہوگا۔ پس اسی لیے نہایتضروری ہے کہ عازمِ حج پہلی بار ہی مسائل کا بخوبی مطالعہ کر کے، تربیت حاصل کر کے اور یوں احکام و مسائل سے پوری طرح واقف ہوکر سفرمقدس پر روانہ ہو۔ اس تربیت اور واقفیت کے لیے زیرنظر کتاب عازمینِ حج کی بخوبی اور کافی و شافی راہ نمائی کرتی ہے۔ مؤلفہ کو دو تین بار حج و عمرے کا موقع ملا۔ اولین حج (۱۹۸۸ئ) کے بعد ہی سے انھوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں ایک راہ نما کتاب کی تیاری شروع کردی تھی جو اُن کے ۲۰، ۲۲ برسوں کے مشاہدے کے نتیجے اور مطالعے کے نچوڑ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ اس کی ضخیم کتاب میں حج اور عمرے کے احکام و مسائل اور جملہ متعلقات کو بنیادی مآخذ کی مدد سے سادہ اور عام فہم انداز میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

مسائل و احکام کی تشریح اور وضاحت کا زیادہ تر رُخ خواتین عازمینِ حج و عمرہ کی طرف ہے۔ اور یہ اس لیے کہ عام کتابوں میں خواتین کے لیے احکام کو وضاحت و تفصیل سے اور عام فہم انداز میں بیان نہیں کیا جاتا تاہم مرد عازمین کو بھی اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے کوئی کمی   محسوس نہیں ہوگی۔ بجا طور پر سرورق پر لکھا گیا ہے: ’’مکمل راہنما کتاب براے خواتین و حضرات‘‘۔ حاجیوں کو تربیت دینے والے افراد اور ادارے (ٹرینر) بھی فقط اسی ایک کتاب کی مدد سے  عازمینِ حج کی بخوبی تربیت کرسکتے ہیں۔

اس نوع کی کتابوں کے اندر عموماً مسلکی اختلافات اور ترجیحات کسی نہ کسی طور جھلکتی ہیں۔   اس کتاب میں فقہی اختلافات کا ذکر تو ہے مگر کسی ایک مسلک کی راے کو دوسروں پر ترجیح نہیں    دی گئی۔ چنانچہ مختلف مسالک کے قدیم و جدید علما (مولانا محمد میاں صدیقی، مولانا عبدالمالک، مولانا محمد راغب حسین نعیمی، مولانا مصباح الرحمن یوسفی اور ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم وغیرہ) نے مؤلفہ کی اس کاوش کی تحسین کی ہے، بلاشبہہ اپنے موضوع پر یہ ایک جامع، عمدہ، مستند اور متوازن کتاب ہے جس کی تصنیف و تالیف توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ محترمہ شگفتہ عمر صاحبہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ یہ کتاب لکھ کر گویا انھوں نے آخرت کا زادِر اہ تیار کرلیا ہے۔ مجلد کتاب مناظر و مراحلِ حج کی رنگین تصاویر سے مزین ہے۔ کاغذ عمدہ اور طباعت بے داغ مگر قیمت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

ساڑھے چار سو صفحات کا مطالعہ ہر عازمِ حج و عمرہ کے لیے ممکن نہیں چنانچہ مؤلفہ نے    کم ضخامت کے چند کتابچے بھی شائع کیے ہیں (حجاج کرام کے لیے مفید معلومات اور مشورے، ۱۶۰ص۔ تاریخ و فلسفہ حج، ۲۸ص، راہنما بروشر وغیرہ) جن میں ضروری مسائل اور ہدایات کو مختصراً بیان کردیا گیا ہے۔ (دو کتابچے انگریزی میں بھی ہیں)۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سچی بات کالموں کی زبانی،سید فیاض الدین احمد۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی ۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۲۵۵۔ قیمت: درج نہیں۔

سید فیاض الدین احمد صحافت و ادب سے گذشتہ ۴۵ برس سے وابستہ ہیں، اور اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پاکستان بنتے دیکھا اور پھر ان کی نظروں کے سامنے ۲۵ برس بعد ملک دولخت ہوگیا۔ آج، جب کہ تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے وہ ہر محب وطن پاکستانی کی طرح ملک کی سلامتی اور بگڑتی ہوئی صورت حال کے بارے میں تشویش سے دوچار ہیں۔ انھوں نے عوام کے جذبات کو زبان دیتے ہوئے ان کے دل کی بات کو سچّی بات کی صورت میں پیش کردیا ہے۔

کتاب مختلف مواقع پر لکھے گئے کالموں کا مجموعہ ہے۔ مصنف نے ملکی سلامتی کو درپیش خطرات، مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت، امریکا کی بالادستی اور بڑھتی ہوئی دراندازی، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج اور خمیازہ، معاشی بحران، قرضوں کا بوجھ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی، اداروں کی بدحالی، لوڈشیڈنگ، معاشرتی مسائل، اخلاقی انحطاط اور دیگر موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ انھوں نے جہاں مسائل کی نشان دہی کی ہے، وہاں اُمید کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور مسائل کے حل کے لیے عملی تجاویز پیش کی ہیں۔ ملکی تاریخ کے اہم مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں اور سقوطِ مشرقی پاکتان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کی قربت کے لیے ثقافتی روابط بڑھانے پر زور دیا ہے۔ کراچی، لاہور اور پشاور کے حوالے سے ان شہروں کی ماضی کی ثقافت پر روشنی ڈالی ہے۔ مصنف کو دنیا بھر میں گھومنے کا موقع ملا، کچھ مفید تجربات سے بھی قارئین کو آگاہ کرتے ہیں۔ موضوعات کے تنوع، تاریخ کے احوال، مشاہدات اور تجربات اور   دل چسپ اندازِ بیان کی وجہ سے قاری کتاب کو پڑھتا چلا جاتا ہے۔ کتاب مایوسی کے اندھیروں میں اُمید اور عزم کا پیغام، اور عمل کے لیے تحریک دیتی ہے۔(عمران ظہور غازی)


خوش حالی کچھ مشکل نہیں، پروفیسر ارشد جاوید۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۲۳۳۶-۰۴۲صفحات: ۳۰۰۔ قیمت: ۲۱۱ روپے ۔

ڈیل کارنیگی نے کتابوں کی جو نسل شروع کی تھی وہ ٹائم مینجمنٹ اور دیگر انتظامیات سے ہوتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہے کہ لوگوں کو اپنے ہر کام اور ہر مسئلے کے لیے چھپی چھپائی آزمودہ ترکیبیں مل جاتی ہیں۔ کوئی کامیابی کے سات راستے بتا رہا ہے، کوئی کامیاب انٹرویو دینے کے گُر۔ پیش نظر کتاب معروف ماہر نفسیات پروفیسر ارشد جاوید کے بقول ان کی ۲۵سالہ محنت اور ریسرچ کا نتیجہ ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں کیا کچھ ہوگا۔

خیال آتا ہے کہ آج کل ترقی کا جو تصور ہے جس کا ماڈل ہمارے سامنے امریکا اور یورپ ہے اور ہم جیسے پس ماندہ، ترقی پذیر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتنا ان کے جیسے ہوجائیں، اتنا ہی ہم ترقی یافتہ ہیں۔ ہمارے کسی ماہر عمرانیات یا معاشیات کو مسلمانوں کے، یعنی اسلام کے تصورِ ترقی پر کوئی کاوش پیش کرنا چاہیے۔ ہم اپنے آپ کو غلط معیار پر ناپتے ہوئے خواہ مخواہ ہی احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔

اس کتاب کا جیسے عنوان بتا رہا ہے مرکزی خیال یہی ہے کہ پڑھنے والے کو خوش حال بننے کی کوشش کرنے کی طرف راغب کیا جائے، حوصلہ افزائی کی جائے، اسے آسان کام بنایا جائے اور اس کے لیے اپنی کُل صلاحیت لگانے کے طریقے بتائے جائیں۔ مصنف نے احادیث اور آیات سے استدلال کیا ہے۔ صاحب ِ کتاب تو بہت زیادہ اس کے حق میں ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اسے مادیت کی دوڑ قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں یہ وہ لوگ کہتے ہیں جو خوش حال نہیں ہوسکے، یعنی انگور کھٹے ہیں۔ انھوں نے خوش حالی کا معیار یہ قرار دیا ہے کہ اس شخص کے پاس اپنا گھر،   بڑی گاڑی، خاندان کے چار افراد کے لیے ماہانہ ۳ لاکھ کی آمدن ہو۔ اس سے زیادہ والا امیر ہوتا ہے جس کی روزانہ آمدنی ایک کروڑ اور اس کے پاس ایک ارب روپے ہوں۔ (ص ۲۷)

صاحب ِکتاب نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور حضرت عثمانؓ کی بار بار مثال دی ہے لیکن حضرت ابوذرغفاریؓ کی مثال نہیں دی۔ ان کی راے میں دنیا کے ۹۰ فی صد مسائل کا حل پیسے میں ہے (ص ۷)۔ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’آج اگر کسی فرد کونبوت اور غربت اکٹھی پیش کی جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ غربت و افلاس والی نبوت قبول کرنے سے معذرت کرے گا‘‘ (ص ۱۵)۔ انھوں نے غربت کو ہر خرابی کا سبب قرار دیا ہے کہ یہ کفر تک لے جاتی ہے۔ انھوں نے یہ نہیں لکھا کہ ہمارے پیارے رسولؐ کی پسندیدہ دعا تھی کہ :’’اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ،مسکینی کی حالت میں موت دے، اور (روزِ قیامت) مساکین کی جماعت میں اُٹھانا‘‘۔ (ابن ماجہ،۴۱۲۶)

کتاب اپنے موضوع پر واقعی اچھی کتاب ہے اور جو خوش حال ہونا چاہتا ہے، اس کا حق ہے کہ وہ خوش حال ہو، اور اخلاقیات اور حلال و حرام کی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی خاطر ہر طرح کی سعی کرے۔ مصنف نے ذاتی مشاہدوں اور تجربات کی بار بار مثالیں دی ہیں اور پاکستان میں ایسی مثالیں کم نہیں کہ وہ زمین سے اُٹھے اور آسمان تک پہنچ گئے۔ لاہور کی کیکس اینڈ بیکس کی شاخیں ۲۰۱۰ء میں ۳۰ بتائی ہیں۔ یہ کام ۵۰۰ روپے سے شروع ہوا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ عبداللہ ہارون نے والدہ سے ۵۰ روپے لے کر ریڑھی لگانے سے کام شروع کیا۔ اس طرح کی مثالیں ہر طرف شائع ہوتی ہیں۔ اس کتاب میں بھی اَن گنت ہیں۔ گورمے (بیکری) کا ذکر ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالوں نے تاثیر میں اضافہ کردیا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے یہ تاثر ہوتا ہے کہ زندگی کا مقصد خوش حالی کا حصول ہے، اور جو خوش حال نہیں وہ ناکام ہے (یقینا صاحب ِکتاب اس تاثر سے اتفاق نہیں کریں گے)۔ ہماری دینی اقدار میں دنیاوی جدوجہد کے لیے جائز اور حلال کے علاوہ کوئی قدغن نہیں لیکن ہم قناعت کو اچھا سمجھتے ہیں۔ ہمارے لیے ان واقعات میں بڑی کشش ہے کہ اُم المومنینؓ نے نیچے بچھائی جانے والی چادر کی تہہ بڑھا دی تو آپؐ دیر تک سوتے رہے اور نماز نکل گئی۔ حضرت عمرفاروقؓ   ایک عظیم الشان سلطنت کے حکمراں تھے لیکن ایسی چٹائی پر سوتے تھے کہ جسم پر نشان پڑجاتے۔

اپنے موضوع پر یہ جامع اور مؤثر رہنما کتاب ہے۔ جو اس کتاب پر عمل کرے گا ان شاء اللہ بغیر مشکل کے خوش حال ہوجائے گا۔ اس کتاب کے آغاز میں مصنف کی ۱۰ کتابوں کی فہرست ہے، اس کے اُوپر لکھا ہے کہ ’’پروفیسر ارشدجاوید کی زندگی میں تبدیلی لانے والی شان دار کتب (یعنی  کم سے کم مصنف کی زندگی میں تو تبدیلی آگئی، یعنی خوش حالی آگئی!)۔  (مسلم سجاد)


ماہنامہ سیارہ لاہور (اشاعت خاص ۵۸)، مدیر مسئول: حفیظ الرحمن احسن۔ ملنے کا پتا: کمرہ نمبر۵،  پہلی منزل، نور چیمبرز، بنگالی گلی، گنپت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۳۳۰۵-۰۴۲۔ صفحات: ۵۸۱۔ قیمت (اشاعت خاص): ۵۰۰ روپے

جناب نعیم صدیقی مرحوم کے جاری کردہ مجلے سیارہ کا خصوصی شمارہ ایک اہم ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ قائداعظم کی رحلت اور حیدرآباد دکن کے سقوط پر لکھے گئے مولانا مودودی کے اداریوں سے پتا چلتا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کے اصول کیا ہیں، جب کہ ’تلاشِ حق‘ میں نعیم صدیقی قیامِ حق کی سرفروشانہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو فی الواقع ہمارے مسائل کا حل بھی ہے۔ اس میں حمدیہ و نعتیہ کلام، نظموں، غزلوں اور منظومات کے علاوہ افسانے، اور خصوصی مقالات شامل ہیں۔ ’گوشۂ خاص‘ کے تحت علامہ اقبال، سید مودودی اور خالد علوی پر خصوصی تحریریں ہیں۔ ’’سید مودودی اپنی ہینڈ رائٹنگ کے آئینے میں‘‘ شخصیت کا ایک دل چسپ مطالعہ ہے۔اسی طرح احمد سجاد اور ڈاکٹر تحسین فراقی کے مصاحبے (انٹرویو)، ’’نعیم صدیقی، میرے پسندیدہ شاعر‘‘ ، ’’عبدالرحمن بزمی، پیکرِ صدقِ رضا‘‘، ’’حفیظ میرٹھی، لندن میں‘‘اور ’’زوال کا چاند ہمارا قومی نشان کیوں ہو؟‘‘ وغیرہ بعض نئے گوشوں کو سامنے لاتے ہیں۔ افسانوں میں  نیربانو  ’حلقہ خواتین‘ میں ادب کے حوالے سے ایک بڑا نام تھا۔ حفیظ الرحمن احسن نے جہاں نیربانو کے ادبی مقام کے جائزہ لیا ہے اور ان کی ایک نادر تحریر ’ابن آدم‘ (ناولٹ) ازسرنو مرتب کر کے محترمہ سلمیٰ یاسمین کے تعاون اور شکریے کے ساتھ شائع کی ہے۔

’اسلام اور ادب‘ کے تحت ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا خطبہ، اور اسی موضوع پر محمد صلاح الدین شہید کا مضمون، ادب اسلامی سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے خاص طور پر قابلِ مطالعہ ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سے افسانے، تبصرے اور چند ایک مزاحیہ تحریریں اس پرچے کو وقیع بناتی ہیں۔ سیارہ معیاری اور تعمیری ادب کا ترجمان اور نمونہ ہے۔ مجلہ سیارہ باذوق اور معیاری ادب کے قارئین کی توجہ چاہتا ہے۔ (امجد عباسی)


گفتگو نما ، ڈاکٹر راشد حمید۔ ناشر: پورب اکادمی، اسلام آباد۔ فون: ۵۵۹۵۸۶۱-۰۳۰۱۔ صفحات: ۲۴۶۔ قیمت: ندارد۔

یہ کتاب ۵۴ شاعروں، ادیبوں اور ناقدین ادب کے مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل ہے اور اس میں ادب کے قارئین کے لیے دل چسپی کے بہت سے پہلو ہیں۔ آپ کو اس طرح کے جملے دیکھنے کو ملیں گے___ ’’ترقی پسند تحریک کی بنیاد حالی نے رکھی جسے اقبال نے زوردار طریقے سے آگے بڑھایا‘‘(ڈاکٹر آفتاب احمد خاں)___ ’’ادب مذہب سے ماورا ہو ہی نہیں سکتا۔ تخلیق کار صرف مشاہدے کا قائل ہو تو بھی مذہب سے فرار ممکن نہیں اور اگر وارداتِ قلبی بیان کرنی ہو تو پھر فرار کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں‘‘(اختر عالم صدیقی)___ ادب میں اختلاف راے ہی ادب کا حُسن ہے اور یہ حُسن ان مکالموں میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ شاعری کی تخلیق کے مختلف پہلو، اچھے افسانے اور افسانہ نگار کی خوبیاں، بہترین مترجم کون ہوتا ہے___ اس طرح کے بے شمار سوال جو ادب کے نئے قارئین کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں انھیں ان سوالوں کا جواب اس کتاب میں مل جاتا ہے۔

مکالمے کے تن بدن میں روح اچھے سوال سے پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر راشد حمید ہیروں کی کان کنی کا فن جانتے ہیں۔ انھوں نے سوال کے کنڈے سے دانش وروں کے لاشعور سے بڑے پتے کی چیزیں اُگلوائی ہیں۔ ان مکالموں میں ایک دانش ور نے کہا ہے کہ اعلیٰ ادب پڑھنے کے بعد آپ وہ نہیں رہتے جو پڑھنے سے پہلے تھے___ اس کتاب کے بارے میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ آپ کے فکروفن میں بڑی تبدیلی آئے گی، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مطالعۂ ادب کے شائقین کو ادب اور ادیبوں کو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


اشاریہ ماہ نامہ شمس الاسلام، مرتب: ڈاکٹر انواراحمد بگوی۔ ناشر: مکتبہ حزب الانصار، جامع مسجد بگویہ، بھیرہ (ضلع سرگودھا)۔ فون: ۴۷۵۴۷۶۹-۰۳۰۰۔ صفحات: ۴۲۵۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

دعوتِ دین کے پھیلائو میں دینی رسائل و جرائد کا بڑا اہم کردار ہے۔ ایسے رسالے صرف بڑے شہروں سے نہیں، بلکہ مضافاتی قصبوں اور دُوردرازکے شہروں سے بھی دین حق کو پیش کرنے کا وسیلہ بنے ہیں۔ اس نوعیت کی ایک روشن مثال ما ہ نامہ شمس الاسلام ہے، جس کا اجرا جون۱۹۲۵ء میں ہوا۔ مختصر اور قلیل وقفوں کے ساتھ اس کی اشاعت نے بہت سے قیمتی مباحث کو پیش کیا۔ زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر انواراحمد بگوی نے تمام شماروں کو سامنے رکھ کر ایک تفصیلی اشاریہ مرتب کردیا ہے، جو متلاشیانِ حق کے لیے ایک قیمتی مصدر ثابت ہوگا۔(سلیم منصور خالد)


تعارف کتب

  • خدمت خلق، قرآنی تعلیمات کی روشنی میں، مولانا امیرالدین مہر۔ناشر: دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی    یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۶۸۔ قیمت: ۴۰ روپے۔ [مادیت اور نفسانفسی کے اس دور میں جب لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن دوسروں کے حقوق ادا کرنے پر راضی نہیں، مصنف نے خدمتِ خلق کے تصور کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اُجاگر کیا ہے، اور حق تلفی پر اللہ کی پکڑ اور وبال سے ڈرایا ہے۔ نیز اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ آج این جی اوز کی سرگرمیاں دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ سماجی بہبود کا تصور مغرب کا دیا ہوا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مفادات سے بالاتر ہوکر محض بندوں کی خدمت کے ذریعے خدا کی خوش نودی کے حصول کا عظیم تصور صرف اسلام کا دیا ہوا ہے۔ اپنے موضوع پر ایک مختصر اورجامع کتاب۔]
  • پروفیسر ڈاکٹر عزیز انصاری علمی خدمات کے آئینے میں ، مرتب: شبیراحمد انصاری۔ حرا فائونڈیشن (وقف) پاکستان، پوسٹ بکس ۷۲۷۲۔ کراچی۔ صفحات: ۳۳۳۔قیمت: ۳۰۰ روپے ۔[ڈاکٹر عزیز انصاری (پ: ۵ جون ۱۹۳۶ئ) ادیب، استاد، محقق اور متعدد کتابوں کے مصنف، تقریباً ۳۰سال گورنمنٹ کالج ٹنڈو آدم میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ نام وَر عالم اور پیر ڈاکٹر غلام مصطفی خان کے معتقد، مرید اور شاگرد ہیں۔     یہ کتاب عزیز انصاری کی علمی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کے سوانحی کوائف سے بھی آگاہ کرتی ہے۔ ان کی تصانیف پر تبصرے اور خود عزیز انصاری کی بعض تحریریں شامل ہیں۔ قدرشناسی کی ایک مناسب مثال ہے۔]
  • ارقم ۳، مشاہیر نمبر ،مدیر اعلیٰ: ظفر حسین ظفر۔دارارقم ماڈل کالج، راولاکوٹ، آزاد کشمیر۔ صفحات:۴۳۱۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[کسی نجی، تعلیمی ادارے کی طرف سے ایسا وقیع، علمی اور خوب صورت رسالہ کم ہی شائع ہوتا ہے۔ یوں تواس میں ہر طرح کی تحریریں (تحقیقی، تنقیدی، غزلیں، نظمیں، تبصرے، خاکے، مراسلے، ارقم نمبر۱ اور نمبر۲ پر تحسینی خطوط وغیرہ) شامل ہیں، لیکن ایک درجن سے زائد کشمیری(علمی، ادبی، سیاسی) شخصیات پر مضامین کی نسبت سے اسے ’مشاہیر نمبر‘کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تقریباً ساری تحریریں غیرمطبوعہ اور معیاری ہیں۔ ادارے نے ایک قابلِ تحسین مثال پیش کی ہے۔ خدا دوسرے اداروں کو بھی ’ارقم‘ کی تقلید کی توفیق بخشے۔]

 

ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا، اُردو اور سندھی زبان میں تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ، نیز رمضان کے تقاضے اور تزکیہ و تربیت پر مبنی مختصر تحریریں، زکوٰۃ کی معاشرتی اہمیت اور ادایگی اور دیگر روزمرہ مسائل کا تذکرہ اور قرآنی و مسنون دعائیں بلامعاوضہ دستیاب ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات عام ڈاک کے لیے ۱۵ روپے اور ارجنٹ میل سروس کے لیے ۳۵روپے کے ڈاکٹ ٹکٹ بنام ڈاکٹرممتاز عمر، T-473 ، کورنگی نمبر۲، کراچی-74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔

 

عالمی ترجمان القرآن حاصل کیجیے

ڈاکٹر طارق محمود مہر، مکان نمبر 165 - بی، نزد پوسٹ آفس ماتھلی، ضلع بدین، سندھ۔ فون: 0332-3247946

قلب، ڈاکٹر سیداسلم علیگ۔ ناشر: سرسید یونی ورسٹی آف انجینیرنگ، یونی ورسٹی روڈ، کراچی۔ ۷۵۳۰۰۔ فون: ۲۱۷۹۹۷۰-۰۳۳۳۔ ملنے کا پتا: مکتبہ تعمیرافکار، عقب بقائی ہسپتال، ناظم آباد، کراچی۔ صفحات:۵۵۲ (طبع چہارم)۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

آج ہم روحانی قلب کی بیماری کے ساتھ بڑے پیمانے پر جسمانی قلب کی بیماری کا شکار ہیں۔ روحانی قلب پر مشق ستم کرنے والوں میں صحافی، سیاست دان اور علمِ دین سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والا ایک طبقہ اپنا کام دکھا رہا ہے، جب کہ دوسری جانب دل کی طبّی بیماری کے  کشتگانِ ستم، مختلف عطائیوں کی چرب زبانی اور متعدد ڈاکٹروں کی جلب زر کے ہاتھوں زندگی اور موت کے درمیان معلق ہیں۔

زیرنظر کتاب کے مصنف ڈاکٹر سیداسلم نے میڈیکل کی تعلیم کنگ ایڈورڈ میڈیکل لاہور، کینیڈا اور امریکا کی اعلیٰ یونی ورسٹیوں سے حاصل کی۔ امراضِ دل کے ماہر معالج کی حیثیت سے ۵۵برس سے بنی نوعِ انسان کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کا ایک اور قابلِ تحسین کارنامہ یہ کتاب ہے، جس میں انھوں نے مرضِ دل کے آغاز، علاج، صحت کی بحالی اور مرض سے بچائو کی تدابیر  عام فہم، مؤثر اور دل چسپ اسلوبِ بیان میں تحریر کی ہیں۔کتاب پڑھتے ہوئے قاری محض امراضِ دل کے آغاز اور نتائج ہی سے واقف نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ سماجیات، صحت، نفسیات اور زندگی گزارنے کی سائنس تک سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے۔

وطنِ عزیز میں تحریر و تقریر میں انگریزی زبان کا غلبہ ہے۔ مصنف نے اُردو اور وہ بھی شُستہ، شائستہ اور عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی اُردو میں سائنس اور طب کے پیچیدہ ترین مسائل و مباحث کو ایسے عمدہ پیرایے میں بیان کیا ہے کہ میڈیکل سائنس کا موضوع بھی ادب اور ابلاغیات کی طرح آسان محسوس ہوتا ہے۔ یہ کتاب تندرست لوگوں کو دل کے مرض سے بچانے اور مرضِ قلب کا شکار مریضوں کو صحت یاب کرنے کا جیبی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اگر کوئی دل چسپی رکھنے والا فرد انگریزی طبّی اصطلاحوں کے اُردو متبادل لفظوں کو اس کتاب سے اخذ کرلے تو میڈیکل کے طالب علموں کو حیرت ہوگی کہ وہ پیچیدہ چیزوں کو کتنے آسان لفظوں میں واضح کرسکتے اور مریضوں کو بات سمجھا سکتے ہیں۔(سلیم منصور خالد)


تعارف کتب

  • مسلمان خاندان (اسلام کی آغوش میں)، ترجمہ و ترتیب: محمد اختر صدیق ۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: درج نہیں۔[مادیت اور مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں مسلمان خاندان بھی متاثر ہو رہا ہے اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح باعث تشویش ہے۔ زیرنظر کتاب میں اسلام کی معاشرتی اقدار، خاندان کی بنیادیں، میاں بیوی کے حقوق، خاوند اور بیوی کی اصلاح جیسے موضوعات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ فقہی اور معاشرتی مسائل کا حل، علماے عرب و عجم کے فتوئوں سے پیش کیا گیا ہے۔ مسائل کی تفہیم کے لیے دل چسپ واقعات بھی شاملِ کتاب ہیں۔ اپنے موضوع پر مفید کتاب۔]
  • سہ ماہی الحنیف ، کراچی، مدیراعلیٰ: سید عرفان طارق۔ ملنے کا پتا: جامعہ حنیفیہ، فاروقی مسجد، سعودآباد، کراچی-۷۵۰۸۰۔ فون: ۳۴۵۰۲۰۶۲-۰۲۱۔ قیمت (فی شمارہ): ۲۵ روپے۔[دینی مدارس کے روایتی مجلوں سے قدرے مختلف انداز لیے ہوئے جامعہ حنیفیہ کا ترجمان۔ قرآن، حدیث، فقہ، سیرت کے علاوہ حالاتِ حاضرہ، معاشرتی مسائل، مغرب اور اسلام کی کش مکش اور تاریخ کے موضوعات پر تحریریں۔ ادب، نعتیہ کلام، غزلیات، طنزومزاح اور حفظانِ صحت کے اصول ___ ایک علمی و فکری اور تحریکی مجلہ!]
  • اُمت مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل ، ڈاکٹر محمود احمد غازی، تدوین: سید عزیز الرحمن۔ ناشر: ریجنل دعوۃ سنٹر (سندھ) کراچی۔ پی ایس ۱/۵- کے ڈی اے اسکیم ۳۳، احسن آباد نزد گلشن معمار، کراچی۔ فون: ۳۶۸۸۱۸۶۲-۰۲۱۔ صفحات: ۳۱۔ قیمت: درج نہیں۔[اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل اور چیلنج کا تاریخی تناظر اورسیرت النبیؐ کی روشنی میں جائزہ۔ فکری و نظریاتی، سیاسی و اقتصادی، تعلیمی و ثقافتی چیلنجوں اور وحدت فکر اور عالم گیریت کے چیلنج کا اِدراک اور حل پیش کیا گیا ہے۔]

ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا، اُردو اور سندھی زبان میں تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ، نیز رمضان کے تقاضے اور تزکیہ و تربیت پر مبنی مختصر تحریریں، زکوٰۃ کی معاشرتی اہمیت اور ادایگی اور دیگر روزمرہ مسائل کا تذکرہ اور قرآنی و مسنون دعائیں بلامعاوضہ دستیاب ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات عام ڈاک کے لیے ۱۵ روپے اور ارجنٹ میل سروس کے لیے ۳۵روپے کے ڈاکٹ ٹکٹ بنام ڈاکٹرممتاز عمر، T-473 ، کورنگی نمبر۲، کراچی-74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔

The Simplified Qur'an ، [قرآن مجید کی عام فہم تفسیر]، (۳۰واں پارہ)   حامدعبدالرحمن الکاف۔ ناشر: گڈ ٹری پبلی کیشنز ، فلیٹ ۴، ۲۷۶/۵۲۳-۱-۸، برندواں کالونی، ٹولی چوکی، حیدرآباد، اترپردیش، بھارت۔ فون: ۹۲۴۶۵۴۵۱۱۷-۹۱۔ صفحات:۲۰۶۔ قیمت:۱۸۰ روپے بھارتی۔ ای-میل: goodtreepublication@gmail.com

قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر پر انگریزی میں بھی بہت سا علمی کام ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود انگریزی خواں حلقوں میں قرآنی تعلیمات سے عمومی غفلت اور بطور تذکیر و یاد دہانی عام فہم ترجمانی کی ضرورت ہے۔ زیرتبصرہ ترجمۂ قرآن اور مختصر تفسیر اسی ضرورت کے پیش نظر عام فہم زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کے مخاطب بنیادی طور پر طالب علم ہیں۔ اسی لیے بہت سے علمی مباحث کو زیربحث نہیں  لایا گیا۔ مفسر کی کوشش ہے کہ آیاتِ قرآنی کے الفاظ اور مفہوم تک بات کو محدود رکھا جائے، اور تلاوتِ قرآن سے قاری کے ذہن میں جو تصویر اُبھرتی ہے، دل پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان پر توجہ مرکوز کی جائے۔ سورتوں کے باہم ربط اور نظم کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ انگریزی ترجموں اور تفاسیر کے عمومی اسلوب سے ہٹتے ہوئے آیات کا ترجمہ ایک تسلسل سے پیراگراف کی صورت میں دیا گیا ہے تاکہ قاری پر ایک مسلسل تحریر کا تاثر قائم ہوسکے۔ ترجمہ اور تفسیر کے بعد آخر میں خلاصے کے طور پر سورہ کے مرکزی مضمون اور اہم نکات کو اختصار سے بیان کردیا گیا ہے۔ ابتدا میں قرآن سے استفادے کے لیے بنیادی اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح قاری قرآنی تعلیمات سے عام فہم انداز میں بآسانی آگاہ ہوجاتا ہے اور عمل کے لیے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ کہیں کہیں تفسیر میں طویل پیراگراف ہیں جنھیں مختصر کرنے کی ضرورت ہے۔

حامد عبدالرحمن الکاف مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ، بھارت سے فارغ التحصیل ہیں۔  آیاتِ قرآنی کے نظم پر تحقیقی کام کرچکے ہیں۔ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ یہ عام فہم ترجمہ و تفسیر سکول اور کالج کے طلبہ کے علاوہ عام انگریزی خواں طبقے کو قرآن کے پیغام اوراس کی روح سے آشنا کرنے کے لیے مفید ہے۔ (امجد عباسی)


سیرتِ حبیبؐ، شیخ ابوبکر جابر الجزائری، ترجمہ: آصف جاوید۔ ناشر: النور پبلی کیشنز، H-۱۰۲، گلبرگ III ، لاہور۔ فون: ۳۵۸۸۱۱۶۹-۰۴۲۔صفحات:۶۵۱۔ قیمت:۷۰۰ روپے۔

شیخ ابوبکر جابر الجزائری نے کتب سیرت کے گلستان رنگارنگ و خوشبودار میں ھذا الحبیب محمدؐ یامحب کے نام سے ایک اچھا اضافہ کیا ہے۔ قبل ازیں مصنف کی کتاب منہاج المسلم عالمِ اسلام سے داد پاچکی ہے۔ سیرتِ حبیبؐ کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ سیرت کے  فن پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لہٰذا مَیں نے اس کتاب کی جمع و ترتیب میں تکرار، طول اور اختصار سے اجتناب کیا، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک ایسا طریقۂ کار اختیار کیا ہے جو تقسیم ابواب اور تفصیل کلام کے حُسن و جمال کے ساتھ ساتھ نہایت جامع، بڑا واضح، بہت آسان اور اس فن میں ایک مثال ہے۔ کتاب کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس کے ہر گوشے کو نتائج و عبر کے تذکرے سے مزین کیا گیا ہے اور کوئی گوشہ بھی غالباً اس سے خالی نہیں۔ (ص۱)

 عرب تہذیب و تمدن اور سیاسی و سماجی پس منظر کے ساتھ ہجرت سے وصالِ رسولؐ تک کے واقعات کو سنہ وار بیان کیا گیا ہے۔ رسولؐ اللہ کی ذات والاصفات کے زیرعنوان آپؐ کے شمائل، خصائل، معجزات، آداب اور آپؐ کے خاندان، اصحابِ خاص، آپؐ سے متعلق اشیا کا ذکر ہے۔ آخر میں رسولؐ اللہ کے ۱۰ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔

سیرتِ حبیبؐ  ایک ایمان افروز، محبت انگیز اور مستند کتاب ہے۔ترجمہ اچھا ہے، تاہم کچھ چیزیں دورانِ مطالعہ روانی کو متاثر کرتی ہیں۔بعض جگہوں پر اشعارکا ترجمہ چھوڑدیا گیا ہے۔ عربی عبارات پر اعراب نہیں لگائے گئے۔ نقشہ جات کسی دوسری عربی کتاب سے لیے گئے ہیں لیکن اُن کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ پروف کی اغلاط اور ٹائپ کاری کا اسلوب بھی توجہ طلب ہے۔ کتاب کی باب بندی بھی نہیں کی گئی۔ اگر ان امور پر توجہ دی جاتی تو کتاب کی پیش کش مزید بہتر ہوجاتی۔  اعلیٰ کاغذ پر عمدہ طباعت ہے۔(ارشاد الرحمٰن)


الفقہ فی السند (فقہاے سندھ اور ان کی فقہی خدمات)،مولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، ضلع نوشہرہ، صفحات:۳۱۴۔ قیمت:درج نہیں۔

محمد بن قاسمؒ کے ہاتھوں سندھ کی فتح کے بعد، اسلامی دور میں سندھ میں اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کے کام کا بھرپور آغاز ہوا۔ عرب علما کی آمد کے علاوہ مقامی اہل علم نے بھی اس علمی تحریک میں حصہ لیا اور دینی علوم اور عربی زبان میں مہارت بہم پہنچائی۔ علماے سندھ کے تذکرے ہمارے کلاسیکل عربی ذخیرے میں جا بجا بکھرے ہیں۔ عہد قریب اور بعید کے سیرو سوانح کے تذکرے کی کتابوں میں انھیں یک جا کرنے کی کاوشیں بھی کی گئیں۔ قدیم تذکروں میں میرمعصوم شاہ بکھری کی تاریخ معصومی، میر علی شیر قانع کی تحفۃ الکرام، معیار سالکان:طریقت اور  مقالات الشعراء ،اور زمانہ قریب میں مولانا عبدالحی حسنی کی نزھۃ الخواطر، مولانا دین محمد وفائی کی تذکرہ مشاہیر سندھ (تین جلدیں، سندھی) اور مولانا قاضی اطہر مبارک پوری کی رجال السند والھند الی القرن السابع نمایاں ہیں۔ سندھ میں فقہی ادب کے ارتقا پر  سندھ یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹر قاضی یار محمد (م:۱۹۸۶ئ) نے سندھ یونی ورسٹی میں۱۹۷۹ء میں ڈاکٹریٹ کی سطح کا مقالہ بھی پیش کیا تھا جو سندھی لینگویج اتھارٹی حیدر آباد سے ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا۔

زیر نظر تذکرہ الفقہ فی السند بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ، جس میں مؤلف نے خطۂ سندھ، اس کے شہروں اورحکمر ان خاندانوں کے اجمالی تعارف اور پھر علم فقہ کے تعارف کے بعد منتخب فقہاے سندھ اور ان کی فقہی تالیفات کا تذکرہ کیا ہے۔ عصر حاضر میں تالیف کی گئی متعد دکتب اور ان کے مؤلفین کو بھی شامل کیا گیا ہے ، مگر کئی کتابوں کے متعلق معلومات بہت مختصر اور مبہم ہیں۔ اس موضوع پر تالیف سے قاری کو یہ امید ہوتی ہے کہ سندھ کے قدیم علما نے جو تالیفی خدمات انجام دی ہیں، ان کا تفصیلی تعارف اور جائزہ پیش کیا جائے، مگر یہاں دورِ جدید کے علما کی تالیفات زیادہ نمایاں ہیں۔ نیز علمِ فقہ کے تعارف میں بھی ایک حد تک تفصیل سے کام لیا گیا ہے۔ علامہ جعفر بوبکانی کی المتانۃ فی مرمۃ الخزانۃ کا نو صفحات (ص ۱۲۲ تا ۱۳۰)پر پھیلا ہوا تعارف پورے کا پورا محمداسحاق بھٹی کی برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ سے حرف بہ حرف لیا گیا ہے مگر کہیں بھی اس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ مؤلف اس سرقے کا کیا جواز پیش کریں گے؟ مجموعی طور پر کتاب سے اجمالاً ہی سہی، موضوع کا اچھا تعارف ہو جاتاہے ۔ (ڈاکٹر عبدالحی ابڑو)


مباحث، مدیر : ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناشر: اُردو منزل، ۳۲۵- اے، جوہر ٹائون، لاہور۔ ملنے کا پتا: مکتبہ سلیمانی، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۵۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

معروف عالم، نقاد، اور دانش ور ڈاکٹر تحسین فراقی نے تدریسی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد، مباحث کے نام سے ایک علمی شش ماہی مجلہ (یا کتابی سلسلہ) شروع کیا ہے۔ یہ سالہا سال سے ان کی اس سوچ بچار کا نتیجہ ہے کہ ایک ایسے تنقیدی، تحقیقی اور تجزیاتی مجلے کی ضرورت ہے جو ادب اور تہذیب کے منظرنامے پر اُبھرنے والے کچھ پریشان کن سوالوں سے قاری کو دوچار بھی کرے اور جوابات کی صورت میں اسے کچھ سوچنے پر مجبور بھی کرے۔ (اداریہ)

زیرنظر پہلے شمارے میں تنقید، تحقیق، پاکستانیات اور معاصر ادب کے تجزیوں پر مشتمل دو درجن سے زائد مقالات اور تبصراتی مضامین شامل ہیں۔ امجدطفیل نے ’پاکستان کا تشخص اسلامی یا سیکولر‘ کے عنوان سے نہایت تفصیلی مضمون میں کہا ہے کہ پاکستان کا آئین پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست قرار دیتا ہے۔ انھوں نے سیکولر لبرل ’دوستوں‘سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے موقف کی تائید میں حقائق اور بیانات کو مسخ نہ کریں۔ طیبہ تحسین نے ہولوکاسٹ کے موضوع پر جناب ہارون یحییٰ کی کتاب The Holocaust Violenceکا تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ خودتحسین فراقی نے معروف جرمن مستشرق این میری شمل کی غالب شناسی پر مفصل تنقید پیش کی ہے جس میں ان کی علمی کاوشوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان کی عاجلانہ افتادِ طبع اور اس کے نتیجے میں ان سے سرزد ہونے والے تسامحات کی نشان دہی کی ہے۔ مجلے کے ایک حصے میں بعض نادر اور قدیم ادبی کتابوں کا تعارف شامل ہے۔ ایک حصے میں مولوی عبدالحق، سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر محمدحمیداللہ، مشفق خواجہ اور فیض احمد فیض کے غیرمطبوعہ خطوط شامل ہیں۔ (سیّد سلیمان ندوی کے بعض مکاتیب قبل ازیں فاران میں چھپ چکے ہیں)۔ متعدد اہم کتابوں پر تبصرے بھی دیے گئے ہیں۔

بحیثیت مجموعی مباحث اُردو کے علمی اور ادبی مجلّوں میں ایک مختلف نوعیت کا مجلہ ہے جسے بڑی توجہ اور محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ فقط ذاتی ذوق و شوق اور کسی ادارے کی اعانت یا سرپرستی کے بغیر انفرادی کاوش سے ایسا مجلہ شائع کرنا ایک بڑی جسارت مگر بے حد قابلِ قدر اقدام ہے۔ کتابت، طباعت اور پیش کش معیاری اور مدیر کے صاحب ِ ذوق ہونے کی دلیل ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعلیم اور اس کے مباحث، مؤلف: ارشد احمد بیگ۔ ناشر: رفاہ سنٹر آف اسلامک بزنس، رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، ۲۷۴-پشاور روڈ، اولڈ سپریم کورٹ بلڈنگ، راولپنڈی کینٹ۔ صفحات: ۸۴۔قیمت: درج نہیں۔

پاکستان کا قیام جن مقاصد کے تحت عمل میں آیا، ان کے حصول کی کوششیں اوّل روز سے جاری ہیں۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کے دو ہی مہینے بعد نومبر ۱۹۴۷ء میں وزارتِ تعلیم و تربیت کے زیراہتمام پہلی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی قراردادوں کے یہ الفاظ لائق توجہ ہیں: ’’پاکستان میں تعلیمی نظام کی بنیادیں دینی قدروں، اسلامی عالم گیر اخوت، رواداری اور عدل و انصاف پر استوار ہونی چاہییں‘‘۔ اس کے بعد پاکستان میں بننے والی تقریباً تمام تعلیمی پالیسیوں میں، اسلامی نظریۂ حیات کی حفاظت، اسلامی اصولوں کے مطابق نظامِ تعلیم کی تشکیل، اسلامی اقدار کے نفاذ، اسلام اور پاکستان سے وفاداری، اسلام اور قرآن کے مطابق عملی قواعد کی بنیاد پر نصاب سازی، اور نظامِ تعلیم کی تیاری کو اساسی حیثیت حاصل رہی۔ زیرتبصرہ کتاب میں پاکستان کے نظامِ تعلیم کے اسلامی تشخص کی تفہیم کی کوشش کی گئی ہے۔

مصنف نے ۲۱ عنوانات کے تحت علم، تعلیم، مقاصد تعلیم،ذریعہ تعلیم، اسلامی تصورِتعلیم، مغربی تصورِتعلیم، نظام ہاے تعلیم کے تقابلی مطالعے، تعلیم کے جامع تصور اور مروجہ تعلیمی نظام کے اخلاقی انحطاط اور دیگر عنوانات پر نہایت موثر اور مدلل طریقے سے حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان میں ہر نئی حکومت نے مقاصد کی حد تک نظامِ تعلیم کی اسلامی شناخت برقرار رکھی ہے لیکن عملاً پاکستان میں تعلیم پہلے سرکاری تحویل میں تھی، پھر نجی ادارے قومیا لیے گئے۔ کچھ عرصے بعد نجی اداروں کی اجازت دے دی گئی، بعدازاں مالی منفعت کی خاطر تجارت بن گئی۔ اس تغیر و تبدل نے نظامِ تعلیم کو اُن مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیا، جو تعمیرپاکستان کی اسلامی بنیادوں میں کارفرما ہیں۔

اس بات پر تعجب کا اظہار کیاگیا ہے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی اسلامی سمت موجود ہونے اور اُسے آج تک باقی رکھنے کے بعد اب پورے نظامِ تعلیم کو سیکولر کیوں بنایا جا رہا ہے؟ آج جو لوگ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی سیکولر تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا یہ عمل غیرآئینی اور غیرمنطقی ہے۔کتاب نہایت سلیقے اور ترتیب سے تحریر کی گئی ہے۔ کتاب کے مضامین کی یاد دہانی کے لیے تعلیمی اصولوں کو مدّنظر رکھا گیا ہے۔ قرآنی آیات، احادیث، ماہرین تعلیم کی آرا اور مغربی مفکرین تعلیم کے اقوال سے مزین ہے۔(ظفرحجازی)


بحرانوں کی معیشت،مصنف: محمد جمیل چودھری۔ملنے کا پتا: کتاب سرائے، فرسٹ فلور ، الحمد مارکیٹ، غزنی سٹریٹ اُردو بازار ، لاہور۔فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۴۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔

مصنف معاشیات کے استاد رہے ہیں۔ اسی دوران پاکستان کی معیشت کے مطالعے میں ان کی خصوصی دل چسپی پیدا ہوئی۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے اردو کے ایک موقر روزنامے میں پاکستانی معیشت کے مسائل پر لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کے کالموں میں پاکستانی معیشت کے بڑھتے ہوئے مسائل کی نشان دہی بھی موجود ہے اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز بھی۔ معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ پروفیسر صاحب نے ملک کے سماجی مسائل اور تعلیمی شعبے پر بھی خوب لکھا۔اس حوالے سے انھوں نے قوموں کے عروج زوال میں تعلیم کے کردار پر بھی بحث کی اور کھلی منڈی کی معیشت کے تعلیم پر اثرات کا جائزہ بھی لیا۔ معاشرے کی تعمیر میں استاد کے کردار اور ان کی ذمہ داریوں پر بھی لکھا اور حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی تعلیمی پالیسیو ں کاتجزیہ بھی پیش کیا۔نصاب سازی اور نصابات کی بہتری  کے لیے تجاویز اور کوالٹی ایجوکیشن کے لیے   اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔ یہ مضامین معلومات اور ملکی معاشی مسائل سے آگاہی کا ذریعہ بنے۔

مصنف نے پاکستانی معیشت کے تقریباً ہر پہلو پر قلم اٹھایا ہے۔ معیشت میں خود انحصاری کی ضرورت و اہمیت ،اس کے طریق کار، پاکستان میں ہونے والی زرعی اصلاحات اور ان کے نتائج، زرعی شعبے کے مسائل ، دیہی سطح پر پائی جانے والی غربت، سرمایہ کاری کے راستے کی رکاوٹیں اور ان کا حل ، ملک میں توانائی کے ذرائع ، خصوصا بجلی و گیس کی قلت، اور ان کی کمی پر قابو پانے کے لیے اقدامات ، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ان کے افراطِ زر پر اثرات ، پاکستان کی صنعتی پس ماندگی کی وجوہات، پاکستان پر بڑھتے ہوئے ملکی و غیر ملکی قرضے اور ان سے نجات کے طریق کار ، پاکستان کی کپڑے کی صنعت اور معیشت میں اس کے کردار، پاکستان کی معیشت پر سیاسی اثرات ، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سمیت معیشت کے تقریباً ہر شعبے کے بارے میں اعدادو شمارکی روشنی میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔یہ کتاب جہاں معاشیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے مفیدہے وہاں عام قارئین کے لیے بھی معلومات افزا ہے۔(میاں محمد اکرم)


سفر کہانیاں، عبیداللہ کیہر۔ ناشر: دی ٹرو وژن پبلی کیشنز، کراچی۔ صفحات:۳۲۲۔ قیمت: درج نہیں۔ www.safarkahanian.blogspot.com

عبیداللہ کیہر ایک تجربہ کار مسافر اور سیاح ہیں۔ ان کے سفرناموں میں کچھ مطبوعہ ہیں اور کچھ مشین بند یعنی ڈجی ٹل سفرنامے۔ ان میں سے ایک مطبوعہ سفرکہانیاں کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے جس میں تقریباً ۳۰،۳۵ سفرنامچے جمع کیے گئے ہیں۔ یہ پاکستان، چین، ایران، آذربائیجان، سعودی عرب اور ترکی کے نئے پرانے اسفار اور مختلف اوقات میں عبیداللہ کیہر کی سیاحتوں کی مختصر رودادیں (یا مضامین) ہیں۔

یہ بے ساختہ تحریریں پانچ پانچ، سات سات صفحوں کی ہیں۔ ان میں باہمی ربط اور تسلسل نہیں کیوں کہ یہ الگ الگ علاقوں کی کہانیاں ہیں اور کہانیاں بھی ایسی جو کبھی کبھی اَدھوری رہ جاتی ہیں اور کیہرصاحب اُنھیں انجام تک نہیں پہنچاتے۔ روداد یا کہانی فقط بیانیے تک محدود رہتی ہے۔

عبیداللہ کیہر ایک خالص اور خوش باش سیاح ہیں۔وسط ایشیا یا چین کی طرف جانے والے سیاح، عام طور سے اِدھر سے جاتے ہوئے اور اُدھر سے آتے ہوئے کچھ نہ کچھ سامانِ تجارت لے چلتے ہیں، اس طرح وہ کچھ اخراجاتِ سفر نکال لیتے ہیں (حج کے مقدس سفر میں بھی ایک حد تک تجارت کی گنجایش ہوتی ہے) مگر شرعی و قانونی اجازت کے باوجود، عبیداللہ کیہر کے ’مذہب ِ سیاحت‘ میں اخراجاتِ سفر نکالنے کے لیے سامانِ سفر لے چلنا جائز نہیں۔ ان مختصر رودادوں کا تنوع قاری کے لیے دل چسپی کا باعث ہے مگر ان کا ادھورا پن لکھنے والے کی بے نیازانہ طبیعت کا مظہر ہے۔ عبیداللہ کیہر کی طبیعت میں نظیراکبرآبادی کے قلندرانہ مزاج کی کچھ کچھ جھلک نظر آتی ہے۔ جب وہ سیاحت کے لیے نکلتے ہیں تو جو سواری مل جائے، لے لیتے ہیں، جہاں سے جیسا کھانا میسر آئے، کھالیتے ہیں، البتہ کاروباری لوگوں اور حساب کتاب رکھنے والے ہم راہیوں سے انھیں پریشانی ہوتی ہے۔ ان کا اسلوب کہیں کہیں انگریزی الفاظ کے غیرضروری استعمال کی وجہ سے کھردرا ہے مگر مجموعی طور پر یہ سفرکہانیاں سادہ اور رواں بیانیے میں لکھی گئی ہیں۔

منظرنگاری کے اچھے نمونے بھی ملتے ہیں مثلاً ص ۵۰، ۷۲، ۷۶ وغیرہ ۔اگر وہ اپنے بقیّہ  ڈجی ٹل (مشینی؟) سفرناموں کو بھی کاغذ پر اُتار کر کتابوں کی صورت میں پیش کریں اور زبان و بیان کی طرف تھوڑی سی توجہ دیں تو ان کا شمار اُردو کے قابلِ لحاظ اور معتبر سفرنامہ لکھنے والوں میں ہوگا، کیوں کہ ان کے ہاں ہمارے بعض نام وَر اور سفرناموں کے ڈھیر لگادینے والوں کی طرح کی بناوٹ اور تصنّع نہیں ہے۔ (ر- ہ)


نواے سحر، سلمیٰ یاسمین نجمی۔ ناشر: مکتبہ عفت، بنگلہ نمبر ۲۶۷، نزد اسٹیٹ لائف بلڈنگ، صدر روڈ، راولپنڈی۔ صفحات: ۳۲۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سلمیٰ یاسمین نجمی معروف ادیب، افسانہ و ناول نگار اور نقاد ہیں۔ ان دنوں خواتین کے ماہانہ عفت کی ادارت بھی ان کے سپرد ہے۔

علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ اس دور کی ضرورت ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے تفہیم اقبال کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے۔ سلمیٰ صاحبہ نے اقبال کی بعض مختصر اور طویل نظموں کی تشریحات کا سلسلہ عفت میں شروع کیا تھا۔ اب اسے کتابی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔ یہ تشریحات، کلیاتِ اُردو کی ۱۲ منتخب نظموں کی ہیں۔ ہرنظم کا مختصر تعارف دینے کے بعد شعر بہ شعر  تشریح کی گئی ہے۔ پاورقی حواشی میں مشکل الفاظ کے معنی دیے گئے ہیں، البتہ بہت سے مشکل الفاظ کے معنی (شاید انھیں آسان سمجھ کر) نہیں دیے گئے۔ نظموں کا پس منظر بھی مختصر ہے۔ قدرے زیادہ وضاحت ہوتی تو تفہیم نسبتاً آسان ہوتی۔

تشریحات سے پہلے سلمیٰ صاحبہ نے تمہیدی مضمون بعنوان ’ہمیں علامہ اقبال کو کیوں پڑھنا چاہیے‘ میں بتایا ہے کہ علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر اور شاعری ایک  جنریٹر کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ ہمیں ظلمات اور اندھیروں سے روشنیوں کی طرف لے آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں اندھیرے سے روشنی میں آنا چاہتے ہو تو پھر علامہ کا کلام ہمارا بہت بڑا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی اس کتاب کا جواز ہے اور یہی اس کا محرک ہے۔ ان کے خیال میں علامہ کو پڑھنا اور ان کی شاعری کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ اُمت مسلمہ سوز وسازِ رومی اور پیچ و تاب رازی سے تہی دامن ہوچکی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ہم میں وہی اضطراب اور قوتِ عمل پیدا ہوجائے جو علامہ کو بے چین اور بے قرار رکھتی تھی۔ تشریحات میں ایک توازن ہے، عام فہم ہیں اور راست فکری پر مبنی ہیں۔ (ر- ہ )

تحریک احیاے اسلام کے آٹھ درخشندہ ستارے، مترجم و مؤلف: شفیق الاسلام فاروقی۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۵۶۶۷-۰۴۲۔ صفحات: ۳۵۲۔ قیمت: ۳۶۰ روپے۔

گذشتہ ۲۰۰ برس سے عالمِ اسلام محکومی و زوال کا شکار ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ایک دو ملکوں کے سوا، باقی تمام مسلمان ممالک مغربی استعماری طاقتوں کے غلام بن چکے تھے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں عالمِ اسلام میں احیاے اسلام کی تحریکیں بھی کام کرنے لگی تھیں،  جن کے سربراہوں کے سامنے اوّلین مسئلہ مغربی ممالک کی غلامی سے نجات کا حصول تھا۔ ان تحریکوں کے آٹھ درخشندہ ستاروں کے متعلق، ان کی سوانح اور افکار پر مشتمل کتاب ایک شیعہ   اہلِ علم علی رہنما نے Pioneers of Islamic Revivalism کے عنوان سے شائع کی جس کا دوسرا اڈیشن ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب اسی اڈیشن کا تنقیدی اضافوں کے ساتھ ترجمہ ہے۔

کتاب کے آغاز میں ۴۰صفحات کا ’پیش لفظ‘ مترجم و مؤلف کی ژرف نگاہی، تاریخ فہمی اور عالمی حالات پر محکم گرفت کے علاوہ ان کی تنقیدی بصیرت اور احیاے اسلام کے لیے ان کے سوزوگداز سے معمور جذبات کا آئینہ دار ہے۔ انھوں نے زوالِ اُمت کے اسباب و علل پر بحث کرتے ہوئے ہندستان کے حالات کا معروضی جائزہ پیش کرتے ہوئے سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تحریک احیاے اسلام کا تعارف بھی کرایا ہے۔

کتاب میں پانچ غیرمسلم اہلِ علم کی نگارشات ہیں جن کا تعلق مغربی جامعات کے ان شعبوں سے ہے جو مسلم ممالک کے حالات کے خصوصی مطالعے کے لیے قائم ہیں۔ مصری رہنما محمدعبدہٗ پر مضمون لبنانی عیسائی خاتون یونی حداد نے لکھا ہے۔ محترمہ امریکی جارج ٹائون یونی ورسٹی کے شعبہ ’ہسٹری آف اسلام‘ اور ’عیسائی مسلم تعلقات‘ میں پروفسیر ہیں۔ حسن البنا شہید پر مضمون امریکی دانش ور ڈیوڈ کامنز کے قلم سے ہے جو ڈکنسن کالج میں ہسٹری کے پروفیسر ہیں۔ سید قطب شہید پر تحقیقی مقالہ مغربی اسکالر چارلس ٹرپ کے قلم کا مرہونِ منت ہے۔ لبنانی رہنما موسیٰ الصدر کے متعلق مضمون بوسٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر آگسٹس رچرڈ نورٹن کے قلم سے ہے۔ سید جمال الدین افغانی پر تحقیقی مقالہ نکی آر کیڈیا کی محققانہ نظر کا رہینِ منت ہے۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی پر  سوانحی اور ان کی فکرونظر پر تحقیقی مضمون سید ولی رضانصر کے بصیرت افروز تنقیدی نقطۂ نظر کا حامل ہے جس میں ۷۰ سے زائد حوالہ جات ہیں۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی کی انقلاب انگیز شخصیت پر باقرمعین نے قلم اُٹھایا ہے۔

مترجم نے ان غیرمسلم مضمون نگاروں کے نقطۂ نظر سے اختلاف بھی کیا ہے اور اپنی اختلافی آرا بھی درج کی ہیں۔ ان مضامین کا مرکز و محور وہ شخصیتیں ہیں جو دنیا میں احیاے اسلام کے لیے متحرک رہیں اور ان کی فکرواستدلال نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحرک کیا ہے۔ اس کتاب سے غیرمسلم اہلِ علم کے نقطۂ نظر کا علم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کی تحریکوں کو کس زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور کس قسم کے تاثرات پھیلا رہے ہیں۔ آج مسلم ممالک میں احیاے اسلام کی تحریکوں کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ایک صدی کی حق و باطل کی کش مکش نتیجہ خیز ہوتی نظرآرہی ہے۔ ترکی، مصر، ایران، تیونس، لیبیا اور شام کے حالات نہایت حوصلہ افزا ہیں۔

مسلمانوں کو مغربی استعمار کی غلامی سے نجات دلانے اور احیاے اسلام کے لیے کام کرنے والی ان تحریکوں کے بانیوں کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان انقلابی شخصیتوں کی فکر اور لائحہ عمل کے بارے میں حق اور مخالفت میں ان کی زندگی میں بھی بہت کچھ لکھا گیا اور اب بھی لکھا جا رہا ہے۔ کتاب کے مندرجات کے بارے میں قارئین کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ اسلوبِ بیان عام فہم ہے، ترجمے کے فنی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔ احیاے اسلام کی تحریکوں سے دل چسپی رکھنے والوں اور عام قارئین کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا۔ (ظفرحجازی)


صحابہ کرامؓ اور رفاہی کام، مولانا امیرالدین مہر۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات:۹۹۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے معاشرے کا قیام عمل میں لائے تھے جو ہرلحاظ سے مثالی تھا۔ اخوت، محبت ، امدادِ باہمی اور ایثار اس معاشرے کا طرئہ امتیاز تھا۔ یہی زیرنظر کتاب کا موضوع ہے۔ کتاب میں ۱۰ صحابہ کرامؓ کے جودو سخا کے روح پرور واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں انفرادی امداد، غریبوں، یتیموں، بیوائوں، ناداروں، بے کسوں کے ساتھ تعاون کی مثالیں بھی ہیں، اور اجتماعی فلاحی منصوبوں: نہروں کی کھدائی، سڑکوں، پُلوں، مہمان خانوں، مساجد کی تعمیر، راستوں پر پانی کا انتظام اور چراگاہوں کے بندوبست پر رقم خرچ کرنے کے واقعات بھی۔ ان واقعات کو پڑھ کر آج کے مادہ پرست ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا محرک تھا جس کی بدولت صحابہ کرامؓ نے انفاق و ایثار کے ایسے لازوال نمونے پیش کیے ؟مصنف نے کتاب کے ابتدا میں ’صحابہ کرامؓ میں انفاق کے اسباب و عوامل‘کے عنوان کے تحت اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ حُبِ الٰہی، فکرِآخرت اور دنیا کے مال و اسباب سے بے رغبتی، وہ عوامل ہیں جن کی بدولت صحابہ کرامؓ فقروتنگ دستی سے بے نیاز ہوکر انفاق فی سبیل اللہ کرتے تھے۔

کتاب میں صحابہ کرامؓ کی آمدنی کے ذرائع و وسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جس سے   یہ درس ملتا ہے کہ فلاحی و رفاہی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس معاشرے کے ارکان جائز ذرائع سے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے تگ و دو بھی کریں۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک مفید اور فکرانگیز کاوش ہے، جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گوناگوں خوبیوں کے حامل آسمان نبوت کے یہ ستارے اپنی اپنی جگہ پر ایک مکمل سماجی اور رفاہی ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ آج بھی بڑھتی ہوئی مادہ پرستی اور نفسانفسی کا علاج اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


تذکیر بالقرآن، (حصہ اوّل)، قرآن کریم کی روشنی میں ہماری زندگیاں، تالیف: محمد ریاض اچھروی۔ ناشر: دستک پبلی کیشنز۔ تقسیم کنندہ:شرکت الامتیاز، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۲۳۴۴۸۲۶-۰۳۲۲۔ صفحات: ۷۸۹۔ ہدیہ: درج نہیں۔

محمد ریاض اچھروی ۳۰،۳۲ برس سے برلن، جرمنی میں مقیم ہیں۔ اُردو ، جرمن میں دستک نامی رسالہ نکالتے ہیں۔ مسجد بلال، برلن میں فہم قرآن کلاس کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے طریقۂ تدریس سے بھی استفادہ کرچکے ہیں۔ تذکیر بالقرآن کی غرض و غایت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’’قرآن کا پیغام اس کی اصل روح کے ساتھ آدمی کے دل و دماغ میں گہرا اُتر جائے تاکہ آدمی کا عمل اس کی روشنی میں بہتر سے بہتر ہو۔ یہ قرآن مجید کی تفسیرکم اور تذکیر زیادہ ہے‘‘۔ ’تقریظ‘ میں حافظ محمد ادریس تحریر کرتے ہیں کہ ’’ایک عام قاری کے لیے یہ ایک بہت اچھی اور مفید تذکیر ہے۔ ہر آیت کے ترجمے اور تشریح کے بعد مؤلف نے قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ خود کس مقام پر کھڑا ہے، اور دین پر عمل پیرا ہونے کی تذکیر و تنبیہ کی ہے۔ تشریح کے دوران احادیث کی معروف کتب اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن سے بھی بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔تذکیر بالقرآن میں مولانا فتح محمد جالندھری کے ترجمے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ طباعت معیاری ہے۔ امید ہے سورۃ الفاتحہ سے سورۃ التوبہ کے بعد دیگر حصے بھی جلدمنظرعام پر آئیں گے۔ (محمد ایوب منیر)


علامہ اقبال اور روزنامہ زمیندار ، ڈاکٹر اختر النسائ۔ ناشر: بزمِ اقبال، ۲-کلب روڈ، لاہور۔  صفحات:۲۹۳۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

روزنامہ زمیندار اُردو کا ایک قدیم اخبار ہے جسے مولانا ظفر علی خاں کے والد محترم مولانا سراج الدین احمد خاں نے ۱۹۰۳ء میں لاہور سے جاری کیا۔ حق گوئی و بے باکی کی پاداش میں انگریزی حکومت نے اسے کئی بار بند کیا مگر کسی نہ کسی طرح نکلتا ہی رہا۔اقبالیاتی لوازمے پر مشتمل متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں، مثلاً: حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے، سفرنامۂ اقبال، اقبال کا سیاسی سفر ، افکار و حوادث اور گفتارِ اقبال وغیرہ۔ زیرنظر کتاب کی مرتب ڈاکٹر اخترالنساء کو گفتارِ اقبال پر تحقیق کے دوران میں احساس ہوا کہ اگرچہ گفتارِ اقبالمیں روزنامہ زمیندار کا کچھ اقبالیاتی لوازمہ موجود ہے۔ اس کے باوجود، اس سلسلے کی بہت سی تحریریں اور متفرق لوازمہ ہنوز منظرعام پر نہیں آیا۔ انھوں نے نہایت عرق ریزی سے یہ لوازمہ تلاش کیا اور اسے مختلف عنوانات کے تحت ابواب بندی کرکے کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔

روزنامہ زمیندار سے اخذ کردہ لوازمے میں، علمی و سیاسی سرگرمیوں کی خبریں، اقبال کی تقاریر، بیانات، تبصرۂ کتب، مکاتیب اور تار وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں تصانیفِ اقبال پر مضامین اور تبصرے، ان کی اشاعت کے متعلق اشتہارات، اطلاعات، رپورٹیں، تجزیے، تبصرے، تار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اقبال کی چند نظمیں، سوانحی مواد، معاصرین اور احباب سے تعلّقِ خاطر، انجمنیں، ادارے اور افکار و حوادث میں ذکرِاقبال بھی اس کتاب میں موجود ہے۔ الغرض روزنامہ زمیندار سے اقبال و اقبالیات سے متعلق ہرطرح کی تحریریں اور لوازمہ تلاش و اخذ کرکے کتاب میں شامل کردیا گیا ہے۔ سارے لوازمے کو بڑے سلیقے کے ساتھ زمانی اعتبار سے چھے ابواب میں تقسیم کرکے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس پر حواشی و تعلیقات مستزاد ہیں جو محترمہ اخترالنساء کے محنتِ شاقہ پر دال ہیں۔ ۱۳صفحات کا مفصل دیباچہ بھی لائق مطالعہ ہے۔ یہ کتاب اقبالیاتی ذخیرے میں عمدہ اضافہ ہے اور اس کی اشاعت سے اقبال کی تفہیم اور اقبالیات کی تحقیق میں بہت مدد ملے گی۔ (قاسم محمود احمد)


پسِ آئینہ کوئی اور ہے (سفرنامہ فلسطین)، محمداظہر علی۔ ناشر: غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، غزالی فورم، ناروے۔ فون: ۴۴۵۲۳۲۷-۰۳۰۰۔صفحات: ۳۱۴۔ قیمت: ۶۵۰ روپے(۲۰۰ کراؤن)

انبیا و رسل کی سرزمین فلسطین، مکۃ المکّرمہ اور مدینہ منورہ کی طرح مقدس مقامات میں  شمار ہوتی ہے مگر امریکا و مغرب کی آشیرباد سے قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست اور اس کے غاصبانہ قبضے کے باعث مسلمانوں کا یہاں آناجانا کم ہی ہوتا ہے۔ اس لیے فلسطین و اسرائیل کے حالات و واقعات کے بارے کسی مسلمان کا سفرنامہ کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے محمد اظہر علی اور ان کی اہلیہ طویل عرصے سے ناروے میں مقیم ہیں۔ ان کا بیٹا چونکہ اسرائیل میں یونیسکو کے دفتر میں ملازم تھا، اس بنا پر انھیں فلسطین و اسرائیل دیکھنے کا موقع ملا۔ اپنے اس ۱۰روزہ سفر کے دوران انھوں نے جو دیکھا اُسے رقم کردیا۔ سفرنامہ  عمدہ اسلوب اور معیاری واقعات نگاری، اعداد و شمار، معلومات اور واقعات عبرت کا مرقع ہے۔ اپنے نام پسِ آئینہ کوئی اور ہے سے شاعری کی کتاب معلوم ہوتی ہے مگر پڑھنے سے پتاچلتا ہے کہ یہ سفرنامہ فلسطین و اسرائیل ہے۔ مسجد اقصیٰ اور فلسطین و اسرائیل کے تاریخی مقامات اور ۵۰سے زائد عنوانات کے تحت معلومات جمع کی گئی ہیں، جب کہ آخر میں چند یادگاری تصاویر کتاب کا حُسن دوچند کرتی ہیں۔ آغازِ کتاب میں مصنف نے اس معرکے کو سر کرنے کی داستان بیان کی ہے۔ یہ سفرنامہ فلسطین کی حقیقی اور سچی تصویر پیش کرتا ہے اور اسرائیل کے ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ سفری ادب میں یہ ایک قابلِ قدر ، دل چسپ اور مفید اضافہ ہے۔ اسرائیل و فلسطین سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے براہِ راست حاصل شدہ معلومات اور واقعاتِ عبرت پر مبنی ایک خوب صورت سفرنامہ۔(عمران ظہور غازی)


نہ قفس، نہ آشیانہ، سہیل فدا۔ ناشر: پیرامائونٹ پبلشنگ انٹرپرائزز، ۱۰/۱۵۲- بلاک۲، پی ای سی ایچ سی، کراچی-۷۵۴۰۰۔صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۳۹۵ روپے۔

جہاں زیب کالج سیدوشریف (سوات) میں سالِ اوّل کا طالب علم اپنے کزن کے قتل میں دھر لیا گیا۔ بے گناہ ملزم کے والد نے تھانے دار کو ۲ لاکھ روپے کی رشوت دینے سے انکار کیا تو ملزم پر بے پناہ تشدد ہوا، مقدمہ چلا اور آخر سزاے موت سنائی گئی۔ اس عرصے میں سہیل فدا نے اپنے دادا اور والدہ کی دعائوں، مطالعے کی طرف طبعی رغبت اور (سب سے بڑھ کر) والد کی حوصلہ افزائی کے سہارے بفضلہ تعالیٰ پے درپے تعلیمی امتحانات پاس کیے۔’بین الاقوامی تعلقات‘ میں ایم اے کیا۔ ایک اپیل کے نتیجے میں وفاقی شریعت کورٹ نے سزاے موت عمرقید میں بدل دی۔ بی کلاس کی سہولت ملی، ایم اے تاریخ میں کیا۔ انگریزی ادب میں ایم اے کا نتیجہ مارچ ۲۰۱۲ء میں آنے والا ہے اور سہیل فدا کی رہائی بھی اسی سال متوقع ہے۔

کہنے کو تو یہ ایک نوعمر طالب علم کی آپ بیتی ہے مگر اس سے ہمارے عدالتی نظام، جیلوں، حوالات، پولیس کے طور طریقوں خصوصاً ’تفتیش‘ کے نام پر انسانیت سوز مظالم اور حربوں کے مثبت اور منفی پہلو سامنے آتے ہیں (زیادہ تر منفی)۔ مثبت یہ کہ اگر کوئی ملزم یا مجرم اپنی تعلیمی استعداد بڑھانا چاہے تو برطانوی عہد سے جاری قانون اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور مختلف تعلیمی امتحانات پاس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سزا میں کمی ہوتی جاتی ہے جیساکہ سہیل فدا کے ساتھ ہوا۔

یہ مختصر آپ بیتی ملزموں، مجرموں اور خود حاکموں کے لیے بھی سبق آموز ہے۔ حاکم تو کیا سبق لیں گے، ہاں کوئی نرم دل اور دردمند شخص جیلوں اور پولیس تفتیشی طریقوں کی اصلاح کا بیڑا اُٹھائے تو اس داستان سے مدد ملے گی۔سہیل فدا قابلِ تعریف ہیں کہ انھوں نے رشوت طلب کرنے والے تھانے دار ، تشدد کرنے والے پولیس اہل کاروں، جیل میں امتحان لینے کے لیے آنے والے پروفیسر ممتحنوں اور تشدد سے اَدھ موے ملزم کو مزید ریمانڈ کے لائق (فٹ) اور تشدد کی علامات و نشانات کے باوجود اسے ہٹّا کٹّا قرار دینے والے جیل کے ڈاکٹروں کے خلاف کسی طرح کے انتقامی جذبات کا اظہار نہیں کیا (زندگی میں کامیابی کے لیے صبروتحمل کا یہ وصف غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے)۔

پانچ برس تک سزاے موت کی تلوار سہیل فدا کے سر پر لٹکتی رہی، مگر نماز اور ’’اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع‘‘ (ص ۱۰۳) کرنے سے ان کی گھبراہٹ کافور ہوجاتی۔ انھی پانچ سالوں میں سہیل  نے ایم اے تک کی تعلیم مکمل کی اور بہت کچھ غیرنصابی عمومی مطالعہ بھی کیا۔ ایک جگہ بتایا ہے: معروف کمیونسٹ سبطِ حسن کی تحریروں نے میرے مذہبی معتقدات کو کچھ عرصے کے لیے ہلاکر رکھ دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے ڈر اور کال کوٹھڑی میں اس کی مدد کی شدید ضرورت بالآخر سبطِ حسن کے کچھ نظریات کی بہ نسبت کہیں زیادہ طاقت ور ثابت ہوئی۔ (ص ۱۱۴)

۲۰۱۲ء میں متوقع رہائی کے بعد وہ تعلیمی شعبے میں خدمات انجام دینے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ کتاب کا حُسنِ اشاعت و اہتمام لائقِ داد ہے، مگر قیمت افسوس ناک طور پر زیادہ، بہت ہی زیادہ ہے۔  (رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

  • آیاتِ جاوداں، پروفیسر ڈاکٹر سیّد سعید احمد۔ ناشر: فضلی سنز لمیٹڈ، اُردو بازار ، کراچی۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۵۹۵ روپے۔ [۱۵ عنوانات سے (ذاتِ باری تعالیٰ، ابطالِ شرک، رسولِؐ اکرم، یومِ آخرت، انسان، تقویٰ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، اخلاق وغیرہ) کے تحت قرآنِ حکیم کی منتخب آیات مع بامحاورہ ترجمہ۔ ان میں سے کسی موضوع پر مطالعہ کرنا ہو یا تقریر یا درسِ قرآن تیار کرنا ہو تو یہ کتاب ایک مفید معاون ہے۔ ]
  • ذٰلک عیسٰی ؑابن مریمؑ ، مؤلف: یعقوب سروش۔ ناشر: مکتبہ بساطِ ذکروفکر، شریف کاٹیج، آرمور، ضلع ناظم آباد، بھارت۔ فون: ۹۹۶۳۹۹۷۹۰۹۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: فی سبیل اللہ۔[زیرنظر کتابچے میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات میں مثبت اندازِ فکر اپنانے کے پیش نظر حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت مریمؑ کے بارے میں قرآنی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے تاکہ ان کی مثبت اور قابلِ احترام تصویر سامنے آسکے۔ یہودی، عیسائی، قادیانی اور مختلف باطل گروہوں کی نزولِ مسیح کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا بھی تدارک کیا گیا ہے۔ آیات کا ترجمہ اُردو، انگریزی، ہندی اور تلگو زبان میں کیا گیا ہے۔]
  • اُمہات المومنین ؓ، میربابرمشتاق۔ ناشر: مکتبہ خواتین میگزین، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات:۵۶۔ قیمت:۴۰۔ فون: ۳۵۴۳۵۶۶۷-۰۴۲۔ [ازواجِ مطہراتؓ کا اختصار اور جامعیت کے ساتھ تذکرہ جس میں ان کی سیرت و کردار، اور نبی کریمؐ کی خانگی زندگی،اسلامی معاشرت، اور اشاعت ِ دین کے لیے خدمات کو بیان کیا گیا ہے۔ نیز اُمہات المومنینؓ کے ساتھ ساتھ نبی کریمؐ کی باندیوں کا بھی ذکر ہے۔ ]
  • بدکاروں کی زندگی کا عبرت ناک انجام، مؤلف: مجدی فتحی السید، ترجمہ: پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی۔  ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۴۵۳۳۵۸-۰۴۲۔ صفحات: ۱۹۱۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [قرآن و حدیث، تاریخ اسلام سے بُرے لوگوں کے انجامِ بد پر مبنی سچے واقعات کا انتخاب۔ نیز عالمِ عرب و دیگر ممالک کے واقعات بھی بطور عبرت پیش کیے گئے ہیں، اور توبہ کرنے اور رجوع الی اللہ کی دعوت دی گئی ہے۔]
  • گل دستہ گلزارِ سعدیؒ، مرتب: مولانا محمد کونڈھوی فلاحی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزد مقدس مسجد،   اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۲۹۰۸۹-۰۲۱۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[شیخ سعدی شیرازی کی اخلاقی تعلیمات اور حکایات پر مبنی کتب: گلستان، بوستان اور کریما شہرۂ آفاق اور قیمتی علمی ورثہ ہیں۔ ان کتابوں سے منتخب حکایات کے علاوہ حکمت و نصیحت کی باتیں، اخلاقی تعلیمات اور اقوالِ زریں کو اختصار سے منفراد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اہلِ ذوق کے لیے مختصر اور گراں قدر مجموعہ۔]
  • علمِ نافعہ، مرتب: ڈاکٹر عابد اقبال ملک۔ ناشر: عثمان پبلی کیشنز، کراچی۔ فون: ۴۸۷۴۰۷۴-۰۳۶۴۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔ [نئی نسل آج جتنی فلمی دنیا، کھیلوں اور لہوولعب کی دنیا سے واقف ہے اور انھیں اپنے آئیڈیل قرار دیتی ہے، اتنی اپنے اسلاف، اکابر، خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کے کارناموں سے آشنا نہیں۔ نوجوان نسل کو قرآن و حدیث، سیرتِ رسولؐ و اصحابِ رسولؐ ، تاریخ اسلام، فقہ اور دین کی بنیادی تعلیمات سے آگہی اور حصولِ علم کی تحریک کے جذبے سے یہ کتاب سوال و جواب کی صورت میں مرتب کی گئی ہے۔]
  • میرے سوالات اور قرآن کے جوابات، مرتب: اعزاز افتخار۔ ناشر: سندھو پبلی کیشنز۔ حیدرآباد۔ فون:۳۵۶۵۷۶۷-۰۳۰۱۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: بلامعاوضہ۔[قرآن کے احکامات سے مختصر وقت میں آگہی کے لیے احکامات پر مبنی آیات کو سوالاً جواباً مرتب کیا گیا ہے۔ توحید، شرک، آدم، انسان، شیطان، توبہ، رسالت، قرآن، نماز، روزہ، زکوٰۃ و صدقات، حج، و عمرہ، حقوق العباد، طلاق، وراثت، قیامت، جنت اور جہنم جیسے موضوعات کے تحت ابواب قائم کیے گئے ہیں۔]
  • اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ فخر لوگ، اخذ و ترتیب: غلام مصطفی فاروق۔ ناشر: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۸۳۔ قیمت: درج نہیں۔ [ان آٹھ اُمور کا تذکرہ جن پر کاربند لوگوں کا اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر سے ذکر کرتا ہے اور ان کی مغفرت کا اعلان کرتا ہے۔ ان اُمور میں  یومِ عرفہ کو میدانِ عرفات میں موجودگی، راہِ خدا میں استقامت، مجالس ذکر، نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا، تہجدگزاری، قرآن کی تلاوت و تدریس، اذان اور اقامت کہنا، اور نمازِ فجر اور عصر کی حفاظت شامل ہیں۔ فضائل و برکات کے ساتھ ساتھ بعض غلط فہمیوں اور ضعیف روایات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔]
  • چلتے چلتے، فرزانہ چیمہ۔ ناشر: ادبیات، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۶۱۴۰۸- ۰۴۲۔ صفحات: ۳۸۳۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔ [مایوسی کے موجودہ عمومی حالات میں یقینا    فکاہیہ کالم نگاری اور مزاح نویسی غنیمت ہے جو قارئین کے لیے مزاح، چوٹ، پھبتی اور طنز کے ذریعے مسرت   کا ساماں کرتی ہے اور عبرت، نصیحت اور رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ چلتے چلتے فرزانہ چیمہ کے ہلکے پھلکے انداز میں لکھے گئے ایسے ہی کالموں کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ بتول میں شائع ہوتے رہے، جنھیں اگر  دل چسپ خبریں، شگفتہ تبصرے اور تبسم ریز قلم قتلے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔]
  • زندگی کو خوش گوار بنایئے، ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العریفی، مترجم: معراج محمد بارق۔ ناشر: قدیمی کتب خانہ، مقابل آرام باغ، کراچی۔ فون: ۳۲۶۲۷۶۰۸-۰۲۱۔ صفحات: ۶۴۴۔ قیمت: ۵۶۰ روپے۔[العریفی کی کتاب اِستمتع بحیاتک کا موضوع ’’انسانی تعلقات کا فن اور اس کے اصول و قواعد سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں‘‘ ہے۔ عنوانات کچھ تو ڈیل کارنیگی کی طرح ہیں اور کچھ ناصحانہ اور بزرگانہ ہیں۔ مختصراً یہ کتاب بتاتی ہے کہ ہم اپنے رویوں میں کیسے اصلاح کرکے کامیاب ترین زندگی گزار سکتے ہیں۔ مصنف، اصلاح بذریعہ قرآن اور رسولؐ کے قائل ہیں۔ ترجمہ صاف اور رواں ہے۔ مزید برآں تاریخی اور معاشرتی واقعات کی شمولیت سے کتاب کو اور بھی دل چسپ بنا دیا گیا ۔ ایک فائدہ مند اور قابلِ مطالعہ کتاب۔]

قرآن میں کیا ہے؟ حصہ اوّل (سورئہ فاتحہ تا عنکبوت)، حصہ دوم (سورئہ روم تا والناس)،   ابن غوری۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات (علی الترتیب): ۶۱۳، ۴۹۶۔ قیمت (عام ایڈیشن): ۵۰۰ روپے۔ (اعلیٰ ایڈیشن): ۹۰۰ روپے۔

اس کتاب میں قرآنِ حکیم کی عام سورتوں کا تعارف بڑے ہی خوب صورت اور مؤثر انداز میں کرایا گیا ہے۔ ہر سورہ کا نچوڑ اور مضامین کے اہم گوشے قارئین کے سامنے آجاتے ہیں۔ اندازِ تحریر دل کش ہے۔چھوٹے چھوٹے اور دل نشین جملوں میں مومنین، کافروں اور منافقین کی صفات، انبیاے کرام کا تذکرہ اور گذشتہ قوموں کے ایمان افروز اور عبرت انگیز واقعات، موت اور قیامت کی منظرکشی، اہل جہنم اور اہلِ جنت کے احوال، مناجات و دعائیں، رسولوں اور خصوصاً نبی اکرمؐ کا تعارف، نہی عن المنکر اور امر بالمعروف اور قرآن کے اوامر ونواہی ___ غرض قرآنی تعلیمات کو کچھ اس طرح سے پیش کیا گیا ہے کہ قلب میں سرور وحرارت پیدا ہوتی ہے، قرآن سے قربت پیدا ہوتی ہے اور اس کے پیغام کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے اور قاری عمل کی طرف مائل ہوتا ہے۔

مؤلف نے تفسیر ماجدی اور معارف القرآن (مفتی محمد شفیع) سے استفادہ کرکے سورتوں کی شرح بڑے سلیقے اور ترتیب سے کی ہے۔ پورے قرآن کو ۲۴ابواب میں اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ ہر باب میں سوا پارہ سما جائے تاکہ رمضان المبارک کے دوران روزانہ تراویح     میں ہرچار رکعت کے بعد کے وقفے میں سنایا جاسکے۔ مؤلف نے قرآنِ مجید کے مضامین کے ۱۵موضوعات بیان کیے ہیں اور انھی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ (شہزاد الحسن چشتی)


جرح و تعدیل، تالیف: ڈاکٹر اقبال احمد۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۵۷۱۔ قیمت: درج نہیں۔

’جرح و تعدیل‘ وہ علم اور فن ہے جس میں کسی راوی (حدیث کو سن کر آگے بیان کرنے والے) کی شخصیت کے قابلِ اعتماد ہونے یا نہ ہونے، اس کے کردار کی پختگی، اس کے حافظے اور یادداشت کے معیار، دینی اعتبار سے اس کے عمومی معاملات اور رویوں کے حوالے سے اس کی  درجہ بندی کی جاتی ہے۔یوں تو اسلامی تعلیمات کے مطابق، کسی فرد کے کردار اور ذاتی شخصیت کو عموماً موضوعِ بحث بنانا پسند نہیں کیا گیا، لیکن چونکہ حدیث نبویؐ کا ثبوت و عدم ثبوت ’راوی‘ کی شخصیت پر بہت حد تک منحصر ہے [جیساکہ امام ابن سیرینؒ نے فرمایا: یہ حدیثیں دین ہیں، لہٰذا یہ دیکھ لو کہ   کن سے لے رہے ہو]، چنانچہ ہر راویِ حدیث اس اعتبار سے بڑے کڑے معیار پر جانچا گیا ہے۔

’تاریخِ حدیث‘ کے ذیل میں ’جرح و تعدیل‘ نیا موضوع نہیں ہے۔ عربی زبان میں اس حوالے سے کیے گئے کام کی ایک طول طویل فہرست ہے۔لیکن اُردو میں علمِ حدیث نبویؐ کے خالص فنی مباحث کے حوالے سے تصانیف کا رجحان نیا ہے۔ کتاب چونکہ خالص فنی مباحث پر مشتمل ہے، وہ بھی علومِ حدیث کے ایک خاص شعبے، یعنی ’جرح و تعدیل‘ کے حوالے سے۔ چنانچہ اپنی خاص اصطلاحات کے کثرت سے استعمال کے باعث حقیقت میں تو یہ علومِ حدیث کے طلبہ و اساتذہ ہی کو پورا فائدہ دے گی، جیساکہ اس کے مشتملات سے بھی واضح ہے۔ مثلاً، تعارفی مقدمے کے بعد چار طویل ابواب اسناد و طبقاتِ رجال، قواعدِ جرح و تعدیل، ائمۂ جرح و تعدیل، اور کتبِ جرح و تعدیل کے عنوانات کے تحت ’قدیم و جدید مصادر و مراجع سے‘ جمع و استفادہ کرتے ہوئے مرتب کیے گئے ہیں۔ تاہم علومِ دینیہ سے دل چسپی رکھنے والے ایک عام قاری کے لیے بھی یہاں دل چسپی کا کافی ’لوازمہ‘ موجود ہے۔

 راویانِ حدیث کے تقویٰ اور شوقِ علم کا تذکرہ، ان کے طویل سفر، علمِ حدیث کے حصول اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں ان کی مشقت اور فکرمندی، حدیث نبویؐ کی حفاظت و اشاعت کے لیے علماے اُمت کے ایک بڑے طبقے کا اپنی توجہات کو صرف اسی ایک نکتے پر مرکوز کردینا___ اور سب سے بڑھ کر فرامینِ نبویؐ کی حفاظت کے لیے علوم کی کتنی ہی شاخوں کا    اس طرح مرتب کرنا کہ آج تک ہرروایت کا مقام و مرتبہ معلوم و متعین کرلینا ممکن ہے۔ ساری اُمت اس باب میں ان رجالِ عظیم کی سپاس گزار ہے۔بعض مقامات پر الفاظ نظرثانی کے مستحق ہیں اور مستشرقین پر تنقید میں استعمال کیے گئے الفاظ محلّ نظر ہیں۔ (آسیہ منصوری)


اندلس میں علمِ حدیث کا ارتقا، محمد احمد زبیری۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔  فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸۔ ۲۰۱۱ئ۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔

طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے جنگی کارناموں کا مرکز سرزمین اندلس ایک عرصہ مسلم تہذیب کا گہوارہ بنی رہی جس کے آثار بزبانِ حال آج بھی اپنی داستان بیان کر رہے ہیں۔ اندلس کے سپوتوں میں شاطبی و قرطبی، ابن حزم و ابن رُشد، ابن عربی و ابن عبدالبر، ابن بیطار و ابن طفیل وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔ ان مایہ ناز اور نابغۂ روزگار شخصیات نے قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ و کلام، تصوف و احسان، تاریخ و سیرت، طبیعیات و کیمیا اور طب و جراحت وغیرہ کے جملہ علوم میں دنیا کی رہنمائی کی۔ یہ بہت وسیع تاریخ ہے۔ علمِ حدیث اس کا ایک گوشہ ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں اسی گوشے کے ابتدائی خدوخال کو بیان کیا گیا ہے اور فتح اندلس سے لے کر پانچویں صدی ہجری تک علمِ حدیث کے میدان میں ہونے والی کاوشوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں اندلس کی مختصر تاریخ ، جغرافیہ، معاشرتی حالات اور اقلیتوں کی صورتِ حال کا بیان ہے۔ دوسرے باب میں حدیث کی اشاعت کے پہلے مرحلے پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اولین محدثین کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تیسرا باب اشاعتِ حدیث کے دوسرے مرحلے کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ چوتھا باب پانچویں صدی ہجری کے محدثین کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق صحابہ کرامؓ کی اندلس آمد کے آثار بھی ملتے ہیں، تاہم اوّلین محدثین کے طور پر صعصعہ بن سلام سامی، معاویہ بن صالح اور غازی بن قیس کے نام سامنے آتے ہیں۔ اس ابتدائی دور میں موطا امام مالک حدیث کے طلبہ و علما کا مرکز رہی۔ حدیث کے دوسرے مرحلے میں اس ارتکاز میں کچھ وسعت پیدا ہوئی اور دیگر علماے حدیث کے اصول و آرا پر بھی توجہ ہونے لگی۔ اس مرحلے میں بقی بن مخلد اور ابن وضاح کے نام نمایاں ہیں۔ علمِ حدیث کے ارتقا کی اس تاریخ کے اختتامی عہد میں ابن عبدالبر، ابن المکویٰ، ابن الفرضی، ابوعمر والدانی، ابوالولید الباجی اور حسین بن محمد غسانی کاوشوں کا تذکرہ ہے۔ فاضل محقق نے بہت متوازن اور جامع انداز میں موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ بنیادی مصادر سے رجوع کی بنا پر یہ تحقیق اہمیت کی حامل ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


قطع حیات بہ جذبۂ رحم کی شرعی حیثیت، ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی۔ ناشر: سلیمان اکیڈمی، بہار۔ ملنے کا پتا: ایجوکیشنل بک ہائوس، شمشاد مارکیٹ، علی گڑھ، بھارت۔موبائل: ۰۹۴۱۲۶۷۳۲۲۳۔ صفحات: ۱۲۸۔قیمت: درج نہیں۔

قطع حیات بہ جذبۂ رحم یا جذبۂ رحم کے تحت قتل (euthanasia) ایک اہم موضوع ہے۔ مغرب میں تو عرصے سے اس انسان دشمن تصور پر ’جذبۂ رحم‘ کی اصطلاح کے زیرعنوان عمل کیا جا رہا ہے، کیونکہ مغربی فکر کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ فرداپنی جان، مال اور عزت کا مالک ہے۔  وہ اسے جس طرح اور جب چاہے استعمال میں لائے۔ چنانچہ ایک شخص اپنی مرضی سے جب چاہے اپنی موت کا سامان کرسکتا ہے اور زندگی میں اگر چاہے تو غیراخلاقی تعلقات بھی قائم کرسکتا ہے۔

اسلام میں فرد کو یہ اختیار حاصل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندے کی حیثیت سے اسے اس کی جان، مال اور عزت بطور امانت کے دی گئی ہے اور اس کا فرض ہے کہ ذمہ داری کے ساتھ ان کی قدروحفاظت کرے۔ جس شریعت کا مقصد جان کا تحفظ ہو، وہ کس طرح ایک شخص کو یہ آزادی  دے سکتی ہے کہ وہ جب اور جس طرح چاہے اپنی جان کو ختم کرلے۔قرآن کریم نے صرف ایک آیت مبارکہ میں وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ ۲:۱۹۵) ’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ فرما کر ان تمام ذرائع کا سدباب کردیا ہے، جن کا تعلق انسان کی اپنی صواب دید سے ہے۔ ان ذرائع میں اپنے ہاتھوں سگریٹ پی کر، ہلکی زہرخورانی سے خود کو نقصان پہنچانا ہو، یا شراب اور دیگر منشیات کا استعمال، یا ہاتھ سے کسی آلے کے ذریعے خود کو مارنا یا اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے یہ لکھ کر دینا کہ اس فرد کو اپنے مارے جانے پر کوئی اعتراض نہیں___ یہ سب شامل ہیں۔ گویا خود کو ختم کرنے کی ہروہ شکل جو انسانی ارادہ و اختیار کے دائرے میں آتی ہو، اس آیت مبارکہ کی رُو سے حرام اور ناجائز قرار دے دی گئی۔

گذشتہ چند برسوں سے نہ صرف بیماریوں سے متاثر افراد بلکہ فاقہ کشی اور بے روزگاری کے شکار یا خاندانی جھگڑوں سے تنگ آکر بعض افراد اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے پر آمادہ ہونے لگے ہیں۔ خصوصاً نوجوانوں (لڑکوں، لڑکیوں) میں والدین، معاشرہ اور ابلاغ عامہ کی طرف سے صحیح تربیت نہ ملنے کے سبب یہ رجحان روز افزوں ہے۔

زیرتبصرہ کتاب کا موضوع عمومی خودکشی نہیں ہے بلکہ صرف جذبۂ رحم کے ذریعے ڈاکٹر  کے تعاون سے موت کا واقع ہونا ہے جسے euthanasia کہا جاتا ہے۔ مغربی علمی جرائد میں بھی یہ مسئلہ طبی اخلاقیات کے زیرعنوان زیربحث رہا ہے اور اس پر اچھا خاصا اختلافِ راے پایا جاتا ہے۔ گو، بعض امریکی ریاستوں (یا شاید بعض یورپی ممالک) میں اس کی قانونی اجازت ہے اور ایک ڈاکٹر مریض کے کہنے پر مصنوعی آلات کو منقطع کرکے، مریض کو دنیاے عدم میں پہنچا سکتا ہے۔

مصنف نے قرآن و حدیث اورفقہا کی آرا کو یک جا کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام نہ  تومریض کو، نہ اس کے لواحقین کو اور، نہ ڈاکٹر کو یہ حق دیتا ہے کہ شدید تکلیف سے بچنے کے لیے   active euthanasia کا استعمال کرے۔ اس طرح passive euthanasia بھی ناجائز ہے۔ کیونکہ جان کا تحفظ اسلام کے مقاصد میں سے ہے اور مذکورہ دوائوں سے جان جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر اور اقربا کا فرض ہے کہ وہ اپنی حد تک مریض کی دوا اور نگہداشت میں کوئی کمی نہ کریں۔ اگر کوئی وارث زیادہ اخراجات کی بنا پر یا مریض کو تکلیف کے خیال سے دوا یا علاج روک دیتا ہے تو اسلام کی نگاہ میں یہ قتل ہے اور شریعت کی نگاہ میں وہ وراثت سے محروم ہوجاتا ہے۔ غالباً وراثت سے محرومی کا حکم اس بنا پر دیا گیا تھا کہ لوگ اپنے کسی عزیز کی تکلیف کی طوالت کو بہانا بناکر اس کی میراث پر قابض ہونے کا خواب نہ دیکھیں۔

مصنف نے بہت محنت سے فقہی مواد جمع کیا ہے اور اس موضوع پر ایک علمی کام کیا ہے۔ اس کتاب کو میڈیکل کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ کے لازمی مطالعے کا حصہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو طبی اخلاقیات پر مزید کام کا موقع دے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


حشراتِ قرآنی، ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی (علیگ)۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی، بھارت۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۴۰ بھارتی روپے۔

اس مختصر مگر جامع تصنیف میں مصنف نے سات اقسام کے حشرات (مچھر، مکھی، جوں، گھن، شہد کی مکھی اور چیونٹی) جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہوا ہے، بیان کیے ہیں۔ گھن کے تحت پانچ انواع بیان ہوئی ہیں۔ اس فہرست میں مکڑی بھی شامل ہے حالانکہ وہ حشرات کی سائنسی تعریف میں نہیں آتی۔ اس کو شامل کرنے کی یہ معقول وجہ بیان کی گئی ہے کہ قرآن حکیم میں اس (مکڑی) کے بیان کی  غرض و غایت وہی نظر آتی ہے جو مچھر اور مکھی کی مثالوں کی ہے۔ حرفِ آغاز میں کتاب میں دی گئی معلومات کے بارے میں وضاحت ہے کہ ’’ٹڈیوں، گھن اور جووئوں کو اللہ نے ایسی تمثیلات کے طور پر پیش کیا ہے جو منکرین پر عذابِ الٰہی بن کر ٹوٹ پڑسکتے ہیں۔ ان حشرات کے بارے میں وہی سائنسی معلومات یک جا کی گئی ہیں جو انھیں عذابی شکل دینے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں‘‘۔ اس پہلو سے مصنف کی کوشش بڑی کامیاب ہے۔

مصنف منکرین قرآن کے اس لغو اور جاہلانہ اعتراض کو کہ ’’ایسی تمثیلوں (حقیر حشرات کا بیان) سے اللہ کو کیا سروکار (البقرہ) بڑی خوب صورتی سے احمقانہ ثابت کرنے میں کامیاب ہیں۔ اب تو یہ کیفیت ہے کہ خود منکرین قرآن اس بات پر مجبور ہوئے ہیں کہ ان حقیر حشرات پر تحقیقات کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم کر رہے ہیں، اور ان پر تحقیق میں ایک دوسرے سے بازی    لے جانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لہٰذا یہ حقیر حشرات اب حقیر نہیں رہے کیونکہ ان حشرات نے انسان اور حیوان اور ان کی غذا اور صحت کو نقصان پہنچانے اور تباہ کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ قابلِ لحاظ حشرات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ مصنف نے بڑے اچھے پیرایے میں قدم قدم پر ہرحشر کی جسمانی بناوٹ، دورِ حیات اور ستم سامانیوں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی نشان دہی کی ہے۔ حشرات کے نوعی نام انگریزی میں لکھنا مناسب ہے، مثلاً مچھروں کے نام انوفلیس، کیولکس وغیرہ مگر جسم کے حصوں اور دیگر کے بیان میں انگریزی اصطلاحات کے اُردو مترادفات لکھنا زیادہ بہتر ہوتا، مثلاً انٹینا کے بجاے مماس، مینڈبل کے بجاے جبڑا وغیرہ۔ مطالعہ عام کے لیے    یہ ایک مفید اور پُراز معلومات کتاب ہے۔(ش - ح - چ)


میرا افسانہ، ملا واحدی دہلوی۔ ناشر: نشریات، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۵۸۹۴۱۹-۰۳۲۱۔ صفحات:۱۴۴۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

ہرآدمی کی زندگی بہت سے مشاہدات و تجربات اور سبق آموز واقعات پر مشتمل ہوتی ہے جن سے دوسرے لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ مُلّاواحدی دہلوی (۱۸۸۸ئ-۱۹۷۶ئ) اُردو کے معروف ادیب ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کی سرگذشت میرا افسانہ اسی غرض کے پیش نظر لکھی تھی:   اس سوانح عمری میں بعض ’قابلِ ذکر حضرات‘ کا ذکر ہے، نیز ’تجربے کی باتیں‘ بھی ہیں ’’جنھیں  اس وقت جانا جاتا ہے جب انسان کے پاس ان سے فائدہ اُٹھانے کا وقت نہیں رہتا‘‘۔(ص ۸)

مصنف کے ذاتی احوال، خانگی زندگی، دوستوں سے تعلق اور معروف شخصیات، مثلاً   خواجہ حسن نظامی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا سلیمان پھلواری، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خاں،    مولانا محمدعلی جوہر، اکبر الٰہ آبادی، نیاز فتح پوری کا تذکرہ، سلیس، سادہ اور دلی کی مستند زبان میں پڑھنے کو ملتا ہے۔اُس زمانے کی معاشرت، ثقافت اور طرزِ زندگی اور انسانی رویوں اور اقدار میں تبدیلی سے بھی قاری آگاہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مُلّاواحدی اپنی یہ خودنوشت بیماری کی وجہ سے مکمل نہ کرسکے،  آخر میں لکھتے ہیں کہ: میری عمربھر کی دو ہی قابلِ ذکر باتیں ہیں: اوّل: قلم کاری،     دوم: میونسپل کمیٹی کی ممبری۔ ان دونوں پر ’افسانہ حیات‘ کو نامکمل چھوڑنے کا اعلان کردینے کے باوجود لکھ دیا گیا،  لہٰذا میرا افسانہمکمل سمجھنا چاہیے۔ کچھ ملاقاتیوں کا تذکرہ رہ گیا۔ وہ میری کتابوں: ناقابلِ فراموش لوگ اور مقالات، انشایئے اور شخصیتیں میں کافی ہے۔ مُلّاواحدی اس سرگذشت کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں:’’اپنے حالات آپ لکھنے میں یہ بڑی خرابی ہے کہ طوطے کی طرح انسان کو اپنے منہ سے اپنے تئیں ’میاں مٹھو‘ کہنا پڑتا ہے۔ کچھ نہ کچھ خودنمائی ضرور کرنی پڑتی ہے‘‘(ص ۱۴۴)۔ (امجد عباسی)


تعارف کتب

  • حکمت ِ قرآن، جسٹس شہزاد وشیخ۔ ناشر: مشن انٹولائٹ انٹرنیشنل ، لاڑکانہ، پوسٹ بکس نمبر۷، لاڑکانہ۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔[ریڈیو پاکستان کے پروگرام ’روشنی‘ میں پیش کی گئی تقریروں کا مجموعہ۔ ۵۵ عنوانات کے تحت مختلف موضوعات پر کہیں مفصل اور کہیں مختصر بحث کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی آیات سے استشہاد کیا گیا ہے اور صرف ترجمے پر اکتفا کیا ہے۔ موضوعات میں ایمان و کفر، حقوق و فرائض، عبادات و معاملات، اور اخلاق و فضائل کو قدرے عصری رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔]
  • تذکرہ بزرگان روضۂ اشرفی، مرتبہ: شاہ محمد امین عطا العمری۔ ملنے کا پتا: ۳-سلیم بلاک، اتفاق ٹائون نزدپولیس چوکی، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۲۴۴۱۱۱۸-۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۳۴۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔ [برعظیم پاک و ہند میں اشاعت ِ اسلام میں صوفیاے کرام کی خدمات جلیل القدر ہیں۔ اس حوالے سے سلسلۂ چشتیہ کو باضابطہ وسیع تر خانقاہی نظام کی تشکیل کی بنا پر انفرادیت حاصل ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی برعظیم میں اس سلسلے کے بانی ہیں۔حضرت سید نظام الدین اولیاکی ہدایت پر اُن کے خلفا نے مختلف علاقوں میں روحانی تربیت کے مراکز قائم کیے۔ ان میں راے بریلی(اترپردیش) میں واقع قصبہ سلون کی خانقاۂ کریمیہ خاص طور پر معروف ہے۔زیرنظر تذکرے میں خانقاہ سلون کے اکابرین کے احوال و آثار اور تاریخ اور روحانی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔تصوف اور اس کے مختلف سلسلوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ خانقاہی نظام میں دَر آنے والی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ مؤلف خود بھی اس سلسلۂ طریقت سے وابستہ ہیں۔]
  • کشمیری خواتین کی دردناک اپیل ،ناشر:ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی پاکستان۔ منصورہ،    ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۹۵۲۰-۰۴۲۔ صفحات: ۳۶۔ قیمت: درج نہیں۔[مقبوصہ کشمیر میں نصف صدی سے زائد مدت سے جاری تحریکِ آزادیِ کشمیر میں خواتین جن مظالم، مصائب و مشکلات، معاشی اور نفسیاتی ٹارچر سے دوچار جدوجہدِ آزادی میں مردوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کررہی ہیں، زیرنظر کتابچے میں اس کی  دل دہلا دینے والی تصویر پیش کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ۳۲ہزار سے زائد خواتین شہید، جب کہ ۲لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد ’بیوہ اور نیم بیوہ‘ کی کیفیت سے دوچار ہے جن کے خاوندلاپتا ہیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، پروفیسر الیف الدین ترابی اور میمونہ حمزہ نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کشمیر کی مظلوم خواتین، جو عزیمت کی تاریخ رقم کر رہی ہیں، کا پشتی بان بننے اور اپنا ملّی و اخلاقی فریضہ ادا کرنے کی دردمندانہ اپیل کی ہے!]
  • حکمت کے ہیرے، تالیف: محمد احمد الحجی المصری۔ ترجمہ: امیرالدین مہر۔ناشر:کتب خانہ مکی، فرسٹ فلور، پاک شاپنگ مال، میرپور خاص ، سندھ۔ فون: ۲۹۶۴۴۲۶۔ صفحات: ۸۱۔ قیمت: درج نہیں۔ [انسانی فطرت ہے کہ مثالیں، کہاوتیں اور اقوالِ زریں وغیرہ انسان کو زیادہ متاثر کرتے ہیں اور بآسانی یاد ہوجاتے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ۱۰ ؍ابواب میں ایک نکتے والی باتیں، دوسرے باب میں دو نکتوں والی باتیں اور اسی طرح دسویں باب میں ۱۰نکتوں والی باتیں دل چسپ اور اثرانگیز پیرایے میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ جہاں کتاب کی انفرادیت ہے وہاں تزکیہ و تربیت کا عمدہ سامان بھی ہے۔]

کتاب اللہ پڑھنے کے قواعد، قاضی بشیراحمد۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔  فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۳۶۵۔ قیمت ( مجلد): ۳۲۰ روپے۔

قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِ اطہر پر اُتارا گیا۔ اس کلام کو تلاوت کرکے اسے پڑھنے کے طریقے کی تعلیم دی گئی۔ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا  سے معلوم ہوا کہ  حقِ تلاوت قرآن ٹھیرٹھیر کر پڑھنے ہی سے ادا ہوتا ہے۔ تلاوت میں تلفظ کی درست ادایگی، مخارجِ حروف،  وقف ووصل کے قواعد کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ کتاب آدابِ تلاوت اور طریقۂ تلاوت پر ایک اچھا اضافہ ہے۔ مؤلف نے کتاب میں عام فہم علمی اسلوب اختیار کرکے تجوید کی شُدبُد رکھنے والوں کے لیے عمدہ مواد جمع کر دیا ہے۔

مخارج حروف، صفاتِ حروف، تجوید کے منفرد قواعد، علم وقف، علم رسم الخط، علم قراء ت کے ساتھ ساتھ تلاوت شروع اور ختم کرنے کا طریقۂ کار اور علومِ قرآن کے متعدد موضوعات کو ترتیب دے کر قاری کی دل چسپی کا سامان کر دیا ہے۔ تجویدی اصطلاحات کی لغوی و اصطلاحی تعریفات کو بڑی خوبی سے ابتدا میں پیش کر کے ہرسبق کی تفہیم کو آسان کر دیا گیا ہے۔ اگر کتاب کا سبقاً سبقاً مطالعہ کیا جائے تو عملی مثالوں سے مزین اسباق، قراء ت کا لطف دوبالا کرنے کا سبب ہوں گے۔

یہ کتاب جدید تعلیم یافتہ افراد کے ذوق قرآن کو بڑھانے والی ہے۔ ۱۰؍ ابواب پر مشتمل  یہ کتاب تجوید کے ابواب کا احاطہ کرتی ہے۔ آخر میں رسول کریمؐ کے خطوط کا عکس، جامع قرآن حضرت عثمانؓ کے مصحف کا عکس، کوفی رسم الخط قرآن کا عکس، قرآنی خطاطی کے نمونے اور دیگر عربی خطاطی کے نمونوں کا اضافہ اچھی کاوش ہے۔ (طارق نور الٰہی)


جدید اُردو کتابیات سیرت ، حافظ محمد عارف گھانچی۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے-۴/۱۷،  ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت:۲۲۰ روپے۔

مغرب نے کتابیات نگاری کے فن میں بہت ترقی کی ہے لیکن اس فن کے مسلم بنیاد گزاروں خصوصاً ابن ندیم (صاحب الفہرست) اور حاجی خلیفہ (صاحب ِ کشف الفنون) نے بھی ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں اور مستشرقین ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ اُردو محققین گذشتہ چار پانچ عشروں سے اس فن کی طرف متوجہ تو ہوئے ہیں، مگر ابھی تک ہمارے ہاں کتابیات نگاری کے سائنسی اصول و ضوابط واضح شکل میں مرتب و متعین نہیں ہوسکے۔ اُردو زبان میں سیرتِ نبویؐ نہایت ہی باثروت اور وسعت پذیر موضوع ہے۔ اس لیے اس موضوع پر کم و بیش چار پانچ کتابیات مرتب ہوچکی ہیں، جن کی ترتیب میں نام وَر اساتذہ اور تحقیق کاروں (پروفیسر سیّدافتخار حسین شاہ مرحوم، پروفیسر حفیظ تائب مرحوم، پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم اور ڈاکٹر انورمحمود خالد )نے حصہ لیا ہے۔

زیرنظر کتابیات میں ۱۹۸۰ء اور ۲۰۰۹ء کے درمیانی عرصے میں شائع ہونے والی ۱۷۸۵ کتب ِ سیرت کے حوالے الف بائی ترتیب سے یک جا کیے گئے ہیں۔ ہرحوالہ: مصنف/ مرتب/ مترجم کے نام، کتاب کے نام، مقامِ اشاعت، ناشر، سنہ اشاعت اور  تعدادِ صفحات پر مشتمل ہے۔ اگر فاضل کتابیات نگار دو ایک سطروں میں ہر کتاب کی نوعیت بھی واضح کردیتے تو قاری کو بہتر رہنمائی مل جاتی (جیسا اہتمام بعض سابقہ کتابیات میں ملتا ہے)۔ یہ اس لیے کہ صرف نام سے کتاب کی محتویات کا بسااوقات پتا نہیں چلتا۔ادبِ سیرت میں بعض کتابیں ایک محدود دَور سے متعلق ہیں، بعض آپؐ کی سیرت اور شخصیات کے کسی ایک پہلو یا کسی خاص زمانے کا احاطہ کرتی ہیں، بعض میں صرف حالات ہیں، بعض صرف فضائل پر مشتمل ہیں، بعض بچوں کے لیے ہیں اور بعض حوالوں سے گراں بار، اُونچے درجے کی تحقیق کا حاصل ہیں وغیرہ۔

حافظ گھانچی صاحب ایک جامع کتابیاتِ سیرت تیار کرنے کا عزمِ مبارک رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد کے سیرت و رسولؐ نمبروں کے حوالے، اسی طرح اُردو میں سیرت پر پہلی کتاب سے تاایں دم چھپنے والی کتابوں کے حوالے بھی اس موعودہ کتاب میں شامل ہوں گے۔ جامع کتابیات سیرت وضاحتی (annotated) ہونی چاہیے۔ ا س سے قدروقیمت اور افادیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)


رسولِؐ رحمت تلواروں کے سایے میں، حصہ سوم، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۴۰۸۔ قیمت: ۳۲۵ روپے۔

’رسولِؐ رحمت‘ کا موضوع غزوات و سرایا ہیں۔ اس سلسلۂ تحریر میں مؤلف کی یہ تیسری کاوش ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ۱۹غزوات اور ۲۱ سرایا میں حصہ لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہمیشہ شہادت کی آرزو کی اور فرمایا کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ کتاب سیرتِ پاک کے اس اہم پہلو کو سامنے لاتی ہے ، اور یہودیت کی تاریخ، ان کی احسان فراموشی، ایذا رسانی، صحرانوردی، مدینہ کے مختلف قبائل، بنوقینقاع، بنونضیر، بنوقریظہ، خیبر اور بعض مشرک قبائل کے تذکرے اور تفصیلی تعارف پر مشتمل ہے۔ اخلاق و عادات، ان کے معاہدات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت صحابہؓ کے ساتھ ان کے رویوں کا بیان مستند حوالوں سے بیان کیا گیا ہے۔  ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی، طریق کار اور صلح و امن کے بارے میں سیرحاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس دوران جن احکامات و مسائل کا ذکر آیا ہے، ان کے بارے میں بھی رہنمائی دی گئی ہے۔ کتاب کے کُل ۱۰؍ابواب ہیں۔

 پیش لفظ محترم سید منور حسن اور تقریظ محترم مولانا عبدالمالک نے لکھی ہے۔ اس سے قبل   یہ سلسلۂ مضامین قسط وار ہفت روزہ ایشیا میں جاری رہا ہے۔ (عمران ظہور غازی)


نقوشِ صحابہؓ ،خالدمحمد خالد، ترجمہ: ارشاد الرحمن۔ ناشر:منشورات،منصورہ، ملتان روڈ، لاہور- ۵۴۷۹۰۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۵۸۴۔ قیمت (مجلد): ۴۹۰ روپے۔

زیرنظر کتاب ۵۵؍ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ درخشاں کی داستان ہے۔   یہ تذکرہ اصحابِ رسولؐ کی سوانح عمری کی طرز پر نہیں مرتب کیا گیا بلکہ مذکورہ صحابہ کرامؓ کے کارناموں اور زندگی کے روشن پہلوئوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ وہ لوگ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ’رضی اللہ عنہم و رضو عنہ‘ فرما دیا، اُنھی لوگوں کے کردار کی عملی مثالیں اس کتاب میں درج ہیں۔ تذکرہ قصہ گوئی کے انداز میں ہے اور پڑھتے ہوئے قاری جذب و شوق میں ڈوب جاتا ہے۔

دراصل یہ عربی کتاب رجال حول الرّسول کا اُردو ترجمہ ہے لیکن بقول مترجم:    اس میں حک و حذف اور ترمیم و اضافے سے کام لیا گیا ہے۔ اسی موضوع پر عبدالرحمن رافت پاشا کی کتاب صورٌ من حیاۃِ الصحابہ سے ان واقعات کا اضافہ بھی کیا گیا ہے جو پہلے اس میں موجود نہیں تھے۔ کتاب کی زبان سلیس، عام فہم اور رواں ہے، فصاحت و بلاغت کی اچھی مثال۔   جناب ارشاد الرحمن نے ترجمہ ایسی عمدگی اور مہارت سے کیا ہے کہ ان کی تحریر ترجمہ معلوم نہیں ہوتی، تخلیق کا گمان گزرتا ہے۔(قاسم محمود احمد)


علوم الحدیث، ڈاکٹر باقر خان خاکوانی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۲۷۸۸-۰۴۲۔ صفحات: ۲۵۳۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

اُمت مسلمہ کا فخر ہے کہ وہ علوم کی ترویج کے ساتھ ساتھ علوم کے ایجاد کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیںرکھتی۔ اس دعوے کی حقیقت اُس وقت آشکار ہوتی ہے جب علوم القرآن و علوم الحدیث میں مسلمانوں کے کارہاے نمایاں کا مطالعہ کیا جائے۔ ڈاکٹر محمد باقر خان خاکوانی کی یہ تصنیف علوم الحدیث میں مسلمانوں کے کارنامے کی ایک مختصر داستان ہے۔ پہلے تین ابواب میں تو اصطلاحات کو آسان کرکے روزمرہ کی زبان میں علوم الحدیث کا تعارف کروایا گیا ہے۔ چوتھا باب حضرت ابن حجر عسقلانی کے عظیم کارہاے نمایاں خصوصاً ’نخبۃ الفکر‘ کے تعارف پر مشتمل ہے۔ پانچویں باب میں حدیث کی اقسام پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اگلے تین ابواب تاریخ علومِ حدیث سے متعلق ہیں اور آخری باب میں علوم الحدیث کی مزید تفصیل، یعنی علم جرح و تعدیل، علم مختلف الحدیث، علم علل الحدیث، علم غریب الحدیث اور علم ناسخ و منسوخ کو پیش کر کے طلبہ علوم الحدیث کی پیاس کو بجھانے کا اہتمام بڑی عمدگی سے کیا گیا ہے۔ بی ایس اور ایم ایس اسلامیات اور علوم الاحادیث میں دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے مفید کاوش ہے۔ (قلبِ بشیر خاور بٹ)


زمانۂ تحصیل، عطیہ فیضی۔ ترتیب و تدوین: محمد یامین عثمان۔ ناشر: ادارہ یادگار غالب، پوسٹ بکس ۲۲۶۸، ناظم آباد، کراچی-۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۱۷۳۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

انیسویں صدی میں برعظیم میں انگریزوں کی آمد خصوصاً ۱۸۵۷ء میں ان کے تسلط کے بعد، بعض علاقوں میں جدید تعلیم کا آغاز ہوا، مگر ابتدا میں انگریزوں نے طبقۂ اناث کے لیے کوئی   سکول کالج قائم نہیں کیا، حتیٰ کہ مسلمانوں میں جدید انگریزی تعلیم کے سب سے بڑے علَم بردار سرسیّداحمد خاں کا رویّہ بھی تعلیمِ نسواں کی جانب عدمِ التفات ہی کا تھا۔ اس ماحول میں عطیہ فیضی کا اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جانا، ایک اچنبھے سے کم نہ تھا۔ وہ تقریباً ایک سال تک لندن میں زیرتعلیم رہیں، پھر خرابیِ صحت کی وجہ سے واپس آگئیں۔

ان کا لندن کا زمانۂ قیام تقریباً ایک سال کا ہے۔ زیرنظر کتاب اِسی ایک برس کا روزنامچہ یا ڈائری ہے۔ انھوں نے حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اِس عرصے میں خوب خوب سیروسیاحت بلکہ سیرسپاٹا بھی کیا۔ طرح طرح کی دعوتوں، پارٹیوں، تقریبات اور جلسوں میں شریک ہوئیں۔ لندن کی قابلِ ذکر عمارتوں، کتب خانوں، عجائب گھروں اور باغات کا مشاہدہ کیا۔ علامہ عبداللہ یوسف علی کے لیکچروں میں شریک ہوتی رہیں۔ اپنے مشاہدات کے بیان میں وہ خواتین کے نئی نئی اقسام کے لباسوں اور زیورات کا ، اور گھروں کی اندرونی سجاوٹوں کا بڑے ذوق و شوق سے ذکر کرتی ہیں۔ وہ لندن کے ’عجائبات‘ اور نئی نئی چیزوں پر متعجب اور حیران ہوتی ہیں مگر اہلِ مغرب اور فرنگی تہذیب پر اظہارِ حیرت کے باوجود کئی جگہ یہ ضرور کہتی ہیں کہ خدا کرے یہ تہذیب اور اس طرح کے بے ہودہ لباس ہمارے ملک میں رائج نہ ہوں۔ لباس میں بھی وہ شائستگی کی قائل ہیں۔

اِس روزنامچے سے ایک صدی پہلے کے لندن کے حالات و کوائف اور ماحول کا پتا چلتا ہے۔ لیکن عطیہ فیضی کے لیے جو باتیں باعثِ تعجب تھیں، ایک صدی گزرجانے، فاصلے سمٹ جانے اور ذرائع ابلاغ میں انقلاب کی وجہ سے آج کے قاری کو ان میں اتنی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی، البتہ اس روزنامچے کی تاریخی اہمیت ضرور ہے۔ روزنامچے کے دیباچہ نگار ڈاکٹر معین الدین عقیل کے خیال میں یہ اوّلین نسوانی سفر ناموں میں سے ایک ہے۔ اس اہم تاریخی ماخذ کو محمد یامین نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے اور متن پر تقریباً ۲۵ صفحات کے مفید حواشی کا بھی اضافہ کیا ہے۔ تاریخ، تعلیم، اقبالیات اور ایک حد تک ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ (ر-ہ)


اسرائیل آغاز سے انجام کی طرف ، میربابر مشتاق۔ ناشر: راحیل پبلی کیشنز، اُردو بازار، کراچی، صفحات:۳۵۰۔ قیمت: ۳۹۰ روپے۔

آج فلسطینی مسلمان بدترین صہیونی مظالم کا شکار ہیں۔ معصوم بچے، بوڑھے، خواتین اور معذور بھی یہودیوں کی سفاکی، درندگی اور بدترین مظالم سے محفوظ نہیں۔ عالمی قوتوں کی جانب داری اور اُمت مسلمہ کی بے حسی اس پر مستزاد ہے۔ زیرنظر کتاب کا مقصد ظلم اور ظالم کو بے نقاب کرنا اور مظلوم کی حمایت اور دادرسی کے جذبے کو بیدار کرنا ہے۔

زیرنظر کتاب ارضِ فلسطین کے تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی حقائق کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی نسلی تفاخر، ان کے بدترین مذہبی تعصب، انتہاپسندی، توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم اور فلسطینی  مسلمانوں پر لرزہ خیز مظالم کی رپورٹوں اور تجزیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی امن کے نام نہاد علَم برداروں اور ٹھیکے داروں کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کے مایوس کُن اور شرم ناک کردار کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ فلسطینی تحریکِ انتفاضہ حماس کی جدوجہد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور مسلمان مجاہدین مرد وزن کی لازوال قربانیاں بھی بیان کی گئی ہیں۔ اسرائیل کے انجام کے بارے میں جامع تجزیے اور اُمت مسلمہ کے لیے لائحہ عمل کی کمی کھٹکتی ہے۔ تاہم، مجموعی طور پر   مفید کاوش ہے جو مسئلۂ فلسطین کی اہمیت اور فلسطینی مسلمانوں کی طویل اور تاریخ ساز جدوجہد کو اُجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ پروفیسر خورشیداحمدصاحب کے پیش لفظ سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


رقصِ ابلیس (ناول) (انقلاب ۱۹۴۷ء کی ایک خُوں چکاں داستان)، ایم اسلم۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۳۸۔ قیمت مجلد: ۳۰۰ روپے۔

۱۹۴۷ء میں برطانوی استعمار برعظیم پاک و ہند سے رخصت ہوا اور دو آزاد ریاستیں بھارت اور پاکستان کی صورت میں وجود میں آگئیں۔ برطانوی ہند کی تمام ریاستوں خصوصاً مشرقی پنجاب، دہلی، یوپی اور ملحقہ علاقوں سے لاکھوں لوگ مشرقی و مغربی پاکستان میں پناہ گزین ہوئے۔ اس مہاجرت کے دوران اندازہ ہے کہ ۷۵ لاکھ انسان جاں بحق ہوئے۔ جن خاندانوں کے افراد نے قربانی دی اُن کی دوسری اور تیسری نسل کو بھی، تڑپا دینے والے واقعات یاد ہیں۔ تقسیم کے موقع پر جس قدر خون بہایا گیا، اُن میں سے چند ہزار واقعات بھی اکٹھے کرلیے جائیں تو آنے والی نسلیں اُس ظلم وستم کو یاد رکھ سکیں گی جو ہندوئوں اور سکھوں نے نہتے مسلمانوں پر کیے۔ مظالم کی ہلکی سی جھلک علامہ شبیراحمدعثمانی، محمد حسن عسکری اور مصنف کے پیش لفظ میں جھلکتی ہے۔

ایم اسلم نے اِس انقلابِ عظیم اور عظیم الشان قربانی کی لازوال داستان کو ناول کی صورت میں مرتب کر دیا ہے۔ اِس ناول کی ایک ایک سطر سے حقیقت ٹپکتی ہے، محسوس یوں ہوتا ہے کہ  ناول نگار نے ہجرت کے عمل کو نہ صرف بہ نظر غائر دیکھا بلکہ اُس کرب کو براہِ راست محسوس کیا جو بیٹی کے اُٹھا لیے جانے، بیٹے کے قتل کیے جانے اور پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اُترتے ہوئے دیکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کا پاکستان، ۱۹۴۷ء کی تقسیم کو فراموش اور ۱۹۷۱ء کے سانحے کو کتابوں میں دفن کرچکا ہے اور ’پسندیدہ قوم‘ سے تعلقات بڑھانے کی جستجو میں سرگرمِ عمل ہے۔ ایم اسلم کا ناول، یقینا ہمیں اپنے ماضی سے جوڑے رکھے گا۔ اِس کی طبع اوّل کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس ناول کو ہر نوجوان کی دست رس اور ہر لائبریری میں ہونا چاہیے۔ (محمد ایوب منیر)


بنگلہ دیش اور ارکانی مہاجرین، مولانا محمد صدیق ارکانی۔ ناشر: جمعیت خالد بن ولید، الخیریہ ، ارکان، میانمار (برما)۔ براے رابطہ: مولانا عنایت اللہ، کراچی۔ فون: ۲۲۶۸۰۹۴-۰۳۲۱۔ صفحات: ۶۰۔ قیمت: درج نہیں۔

میانمار (برما) کے ایک مسلم اکثریتی صوبہ ارکان کے مسلمان عرصۂ دراز سے حکومتی مظالم کے شکار ہیں اور انسانیت سوز مظالم سے تنگ آکر بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہیں۔ مصنف کو    مولانا تنویرالحق تھانوی کے ہمراہ انٹرنیشنل اسلامک کانفرنس میں شرکت کے لیے بنگلہ دیش کے سفر کا موقع ملا۔ انھوں نے ارکانی مہاجرین کے خستہ حال کیمپوں کا بھی دورہ کیا اور جس کسمپرسی کے عالم میں ارکانی مسلمان رہ رہے ہیں ان کا تذکرہ کیا ہے اور تصاویر بھی شائع کی ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کا رویہ بھی مناسب نہیں۔ مصنف کے بقول: دیگر مسائل کے علاوہ ارکانی خواتین کو کیمپوں سے لے جاکر فروخت کردیا جاتا ہے۔ عیسائی تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔ اب تک ۲ہزار سے زائد ارکانی مہاجرین کو مغربی ممالک منتقل کیا جاچکا ہے۔ افسوس کہ مسلم ممالک اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش سے متعلق بنیادی معلومات اور دینی مدارس کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ (امجد عباسی)


تعارف کتب

  • تقرب الی اللہ، مولانا فاروق احمد۔ ناشر: مجلس التحقیق والنشر الاسلامی، ۷۱۸-کامران بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور۔ صفحات ۱۵۲۔ قیمت: ۲۲۰ روپے۔[اللہ کی بندگی اور تحریک اسلامی کی جدوجہد کے لیے تعلق باللہ اساس و بنیاد ہے۔ قربِ الٰہی کے حصول کے لیے زیرنظر کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ایمان اور  عملِ صالح کے تقاضے، فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا اہتمام، دعا کی اہمیت و ضرورت، اسوۂ رسولؐ اور صحابہؓ کے معمولات بیان کیے گئے ہیں۔ تعمیرسیرت کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ آخر میں مقربین و اَبرار کے مقام، اصحابِ یمین کے مرتبے کا تعین اور ترغیب دلائی گئی ہے، نیز اہلِ جہنم اور جہنم کی ہولناکیوں کا تذکرہ اس دل سوزی سے کیا گیا ہے کہ دل لرز کر رہ جاتا ہے۔ اپنے موضوع پر ایک جامع کتاب ہے۔]
  • اسلامی بم کا خالق کون؟، مبین غزنوی، محمد عبداللہ گل۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۲۳۳۶-۰۴۲۔ صفحات: ۱۳۳۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔ [پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں مختلف کتب سامنے آچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ایٹمی پروگرام کا آغاز، تکمیل کے مراحل کی کہانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے کی حقیقت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خاتمے کے لیے کی جانے والی سازشوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت اور نجی زندگی کے کچھ پہلو بھی زیربحث آئے ہیں۔]
  • تذکرۂ مشاہیر چودھواں،تالیف: مولانا عماد الدین محمود۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ۔ صفحات: ۱۹۹۔ قیمت: درج نہیں۔[چودھواں ، ڈیرہ اسماعیل خان کے نزدیک تقریباً ایک ہزار سال پرانا قصبہ ہے۔ یہ خطّہ اس حوالے سے زرخیز ہے کہ یہاں بڑی تعداد میں مشاہیر پیدا ہوئے جنھوں نے دین کی خدمت انجام دی۔ مشاہیر کے تذکرے کے ساتھ ساتھ علاقے کا تاریخی پس منظر، مختلف اقوام کے حالات، بودوباش، تہذیب و ثقافت، علاقائی تہواروں اور رواجوں کا تفصیلی ذکر۔ علاقائی تاریخ مرتب کرنے کی ایک کاوش۔]
  • اے اہلِ پاکستان! تم کیا تھے، کیا ہوگئے؟،ذکیہ ارشد حمید۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۱۵ روپے۔ [قیامِ پاکستان کے تاریخی لمحات، ہندوئوں اور سکھوں کی نہتے مسلمانوں کے ساتھ سفاکیت، خواتین کی بے حُرمتی، پاکستان کی طرف ہجرت کے دلدوز مناظر، قافلوں کی حالت ِ زار، شہدا کا دُکھ اور بچھڑنے والوں کا غم___ ایک ایسی کہانی جس میں یہ    تمام مناظر فلم کی طرح نظروں کے سامنے آجاتے ہیں جس سے دل بوجھل اور آنکھیں نم ناک ہوجاتی ہیں۔ ’پاکستان نے کیا دیا‘ کا شکوہ کرنے والے اور بھارت سے دوستی کے علَم بردار اسے ضرور پڑھیں۔]

رحمۃ للعالمینؐ (جلداوّل)، مؤلف: قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری، تدوین و تہذیب:  مولانا عبدالوکیل علوی، مولانا گل زادہ شیرپائو۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۵۶۰۔ قیمت (مجلد): ۶۵۰ روپے۔

برطانوی عہدِ غلامی میں بعض عیسائی مشنریوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ہرزہ سرائی کی تو جان نثارانِ رسولؐ نے قرطاس و قلم کے ساتھ اس کا دفاع کیا، اس سلسلے میں قاضی محمدسلیمان سلمان منصوری پوری کی کتاب رحمۃ للعالمینؐ ایک معروف و مقبول کتاب ہے۔ ۱۹۱۲ء میں شائع ہونے والی اس کتاب میں سوانح اور واقعات کے ساتھ دوسرے مذاہب کے اعتراضات، صحفِ آسمانی کا موازنہ بالخصوص یہود و نصاریٰ کے دعاوی کا اِبطال، تورات و انجیل اور عیسائی مذہب کے نہایت اہم گوشے خصوصاً مناظرانہ پہلو پیش کیے گئے ہیں۔ عیسائی مستشرقین کے اعتراضات کا مسکت جواب بھی دیا گیا ہے۔ سیرتِ نبویؐ کے واقعات کے ماہ و سال کا تعین کرنے کے ساتھ جامع معلومات کے ساتھ ساتھ غزوات و سرایا اور شہدا کا تفصیلی تذکرہ بھی موجود ہے۔

رحمۃ للعالمینؐ کو کئی اداروں نے شائع کیا ہے مگر ایک مدت گزرنے کے بعد ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ اس عظیم علمی ورثے کو جدید تقاضوں کے پیش نظر ،نظرثانی کے بعد شائع کیا جائے تاکہ موجودہ دور میں بھی اس سے بآسانی استفادہ کیا جاسکے۔ ادارہ معارف اسلامی لاہور نے اس علمی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کتاب کودو جِلدوں میں مرتب و مدّون کیا ہے۔ تدوین کا کام ادارے کے علمی معاون جناب گل زادہ شیرپائو نے انجام دیا ہے۔ اس کی پہلی جِلد زیورِطباعت سے آراستہ ہوکر سامنے آئی ہے۔ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے کہ تدوین نو کرتے ہوئے کتاب کے متن میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ عبارت میں جہاں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی اسے قلّابین میں درج کردیا گیا ہے۔ کتاب کے ابواب و فصول کی تقسیم نئے سرے سے کی گئی ہے اور حوالہ جات و حواشی کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ احادیث کی تخریج اور تکمیل و تصحیح کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ایک اہم پہلو    یہ ہے کہ کتاب میں متن اور حوالہ جات کی بعض اغلاط کی تصحیح بھی کردی گئی ہے۔ اس طرح سے  ایک اہم علمی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے۔ (عمران ظہور غازی)


صحیح بخاری کا مطالعہ اور فتنۂ انکار ِ حدیث (حصہ اول)، تالیف: حافظ ابویحییٰ انور پوری۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، فرسٹ فلور، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ ۹۴۰۱۴۷۴-۰۳۰۰۔ صفحات: ۵۲۸۔ قیمت: درج نہیں۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ-۲۵۶ھ) کی الجامع الصحیح کو احادیث کی کتب میں صحت ِ روایت کے اعتبار سے بلند مقام حاصل ہے۔ امام بخاری نے اس کتاب میں احادیث کو ایک منفرد انداز میں روایت کیا ہے۔ روایت میں پیش نظر رکھی گئی امام کی شرائط سے  مکمل آگاہی صحیح بخاری کی استنادی حیثیت کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ان شرائط سے عدم واقفیت کی بناپر بعض لوگوں کو بخاری کی بعض روایات پر کئی اشکال پیدا ہوئے۔ چند سال قبل بھارت میں لکھی گئی شبیراحمد ازہر میرٹھی کی صحیح بخاری کا مطالعہ: بخاری کی کچھ کمزور احادیث کی تحقیق وتنقید بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کتاب لاہور سے ۲۰۰۵ء میں دو جِلدوں پر مشتمل یک جا شائع ہوئی۔ اس میں راویوں کے حوالے سے متعدد فنی،  عقلی اور تاریخی اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں۔ اس کتاب کے پہلے حصے کا جواب زیرتبصرہ کتاب میں دیا گیا ہے۔ یہ کتاب ۱۸؍احادیث پر اعتراضات کے محاکمے پر مبنی ہے۔ ہرحدیث پر بحث کو الگ الگ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پھر یہ ابواب مزید تین تین فصلوں (حصوں) میں منقسم ہیں۔ پہلی فصل میں فنی اعتراضات، دوسری میں عقلی اعتراضات اور تیسری فصل میں تاریخی اعتراضات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

شبیراحمد ازہر میرٹھی نے بخاری کی بعض روایات، مثلاً تحریکِ شفتین، تحویلِ قبلہ، تکمیلِ دین کے محلِ نزول اور روزِ نزول، سیدنا علیؓ کی فضیلت، مالِ تجارت کو دیکھ کر صحابہ کرامؓ کے خطبۂ جمعہ   چھوڑ کر جانے کا واقعہ، تقسیمِ خمس اور سیدہ عائشہؓ پر بہتان وغیرہ کے حوالے سے اعتراضات اُٹھائے ہیں۔ انھوں نے بعض روایات کو سند کے اعتبار سے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے اور بعض کو عقلی لحاظ سے، اور بعض کو تاریخی طور پر کمزور بتایا ہے، بلکہ بعض جگہوں پر باطل قرار دیا ہے۔

حافظ ابویحییٰ نور پوری کی کتاب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شبیراحمد میرٹھی نے اپنے اعتراضات کی جو عمارت تعمیر کی ہے، وہ بہت کمزور ہے اور غیرمحتاط اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ زیرنظر کتاب اگرچہ رجالِ حدیث کی پیچیدہ علمی بحثوں پر مشتمل ہے، تاہم بخاری پر اُٹھائے گئے اعتراضات کا مدلّل جواب ہے۔ یقینا مصنف اس کارنامے پر مبارک بادکے مستحق ہیں۔ (ارشاد الرحمٰن)


سودی مصائب اور ان کا حل، طارق الدیوانی، مترجم: ڈاکٹر منیراحمد۔ ملنے کا پتا: ۱-بی۶، ایجوکیشن ٹائون، وحدت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۷۲۷۸-۰۴۲۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۲۹۵ روپے۔

معیشت وتجارت اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جوں جوں انسان ارتقا کی منزلیں طے کرتا گیا، ویسے ویسے معیشت و تجارت فروغ پاتی گئی۔ انسان اپنے منافع اور دولت میں اضافے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرتا گیا جن میں بہت سے طریقے انسان کے استحصال پر مبنی تھے۔ اسلامی نظامِ حیات نے جہاں انسان کی معاشرتی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا، وہاں انسان کی معاشرتی ضروریات کا بھی خیال رکھا اور انسان کی پیدا کی ہوئی خرابیوں کودُور کیا۔ ان میں سے ایک بڑی خرابی سود ہے۔ مادیت پر مبنی مغربی سوچ اور فکر نے پرانی قارونی فکر کی بنیاد پر معیشت و تجارت کوسود پر استوار کر کے بنی نوع انسان کے لیے بدترین استحصال کا راستہ وَا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ’وال سٹریٹ پر قبضہ کرو‘ تحریک کی صورت میں اس نظام کے ڈسے ہوئے لوگ سراپااحتجاج ہیں۔

اسی سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ترین ملکوں میں سے ایک برطانیہ ہے ، اور مصنف اسی ملک  کے باسی ہیں۔ انھوں نے اس نظام کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد سود کی تباہ کاریوں کا ایک نئے انداز میں جائزہ لیا۔ مصنف نے انٹراپی کے خالص سائنسی تصور کی وضاحت کرتے ہوئے ،اس کی روشنی میں سود کے مضر اثرات اور قدرتی وسائل پر منفی اثرات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انٹراپی کا طریقہ کسی نظام میں بدنظمی کی مقدار بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ اسی طرح سود انسانی وسائل کے ضیاع اور عالمی ماحول اور خصوصاً عالمی فضائی حرارتی درجے پر منفی اثرات کا حامل ہے۔ ایک باب میں زر کی دھاتی اور کاغذی اقسام کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور تخلیق زر کے طریق کار اور نتائج کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ دور جدید میں کرنسی کا جدید نظام ، اس کو کنٹرول کرنے کے طریقوں کے جائزے کے نتیجے میں ایک بہترین نظام زر کے بارے میں تجویز کیا گیا ہے کہ اسے دھاتوں پر مبنی ہونا چاہیے۔ چوتھے باب میں وضاحت کی گئی ہے کہ پیداواری عمل انسانی ضرورت اور انسانی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے مقابلے میں جوا اور سٹہ وغیرہ پیداواری عمل میں اضافے کا سبب نہیں بلکہ ارتکازِ دولت کا باعث ہیں۔

مصنف نے واضح کیا ہے کہ معاشی کارروائی کی بنیاد مکمل طور مادیت پر مبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کی بنیاد اسلامی بنیادوں پر رکھی جانی چاہیے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے اسلامی طریقوں کو بھی متعارف کروایا گیا ہے۔اسلامی تناظر میں معاہدات (عقود) کی خصوصیات اور شرائط کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسلامی بنکاری کے موجودہ نظام کا جائزہ لے کر اسلامی بنکاری کا ماڈل بھی پیش کیا گیا ہے جو نفع و نقصان کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کی موجودگی میں سرکاری زرعی پالیسی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ معاشیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے یہ کتاب بہت مفید ہے۔ (میاں محمد اکرم)


ملت اسلامیہ کا فکری جمود ___ مسلمان کیسے عظمت حاصل کرسکتے ہیں؟ ،تالیف: فضل کریم بھٹی۔ ناشر: الفلاح تعلیم سوسائٹی، چک لالہ سکیم۳، راولپنڈی۔ صفحات: ۲۸۴۔ قیمت: ۲۸۰ روپے۔

مصنف مسلمانوں کی اخلاقی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دینی پستی سے دل گرفتہ ہیں اور انھوں نے زیرنظر کتاب میں اس کے اسباب کی نشان دہی کی ہے اور مسلمانوں کے سامنے نشاتِ ثانیہ کے لیے تجاویز پیش کی ہیں، مثلاً یہ کہ وہ مفاد پرست طبقے اور کرپٹ جاگیرداروں، سیاست دانوں، خاکی اور سویلین بیوروکریسی، اجارہ دار صنعت کاروں اور تاجروں سے اپنی جان چھڑا لیں۔ باشعور اور دیانت دار قیادت کو سامنے لایا جائے اور قومی ترجیحات کا تعین کر کے ایک ملک گیر تحریک اصلاح کا آغاز کیا جائے۔ اپنی نظر کو وسعت دیں اور جامد تقلید سے اپنے آپ کو آزاد کریں، نیز فرقہ واریت، فروعی مسائل، مثلاً تصویر، چہرے کا پردہ وغیرہ میں اُلجھنے کے بجاے دین کی اصولی تعلیمات کو  فروغ دیں۔نظامِ تعلیم میں دین و دنیا کی تفریق ختم کی جائے۔ دینی علوم مدارس کے بجاے     یونی ورسٹیوں میں پڑھائے جائیں اور جدید علوم اور ٹکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن عام کی جائے۔ زکوٰۃ و عشر کا نظام جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ مصنف کے نزدیک اگر قومی شعور کی آبیاری اور خواندگی کو عام کرنا پہلی ترجیح ہو اور نظامِ تعلیم درست کرلیا جائے تو صرف ۳۰برس میں (یعنی ایک نسل بعد) پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے۔

یہ خواہش بڑی نیک اور اچھی ہے مگر اس کے لیے دینی حکمت عملی کے ساتھ پِتّا مار کر عملی جدوجہد ضروری ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ایسے اچھے خیالات اور فکر رکھنے والے حضرات ملک میں جاری ایسی کسی جدوجہد میں شامل ہوکر اس کو دامے درمے سخنے تقویت پہنچائیں، اور اگر وہ پاکستان میں کی جانے والی کسی بھی اجتماعی جدوجہد سے مطمئن نہ ہوں تو خود انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کی طرح ڈالیں اور اہلِ ملک کو دعوت دیں۔ صرف اچھی خواہشات اور منصوبہ بندی کا اظہار زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ہے۔ کتاب میں صفحات پر نمبر کے لیے انگریزی ہندسوں کو اختیار کیا گیا ہے، جب کہ ہم اُردو کو قومی زبان قرار دیتے ہیں۔ (شہزادالحسن چشتی)


تفہیم دعوت و دین، محمد سفیرالاسلام۔ ناشر: ادارہ مطبوعاتِ سالار، اقبال مارکیٹ، کمیٹی چوک، راولپنڈی۔ فون: ۵۵۵۱۷۴۲-۰۵۱۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب دعوتِ دین کا حکیمانہ طریقے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عمدہ تفسیر ہے۔ کتاب مقالہ نگاری کے طرز پر تحریر کی گئی ہے۔ ادع کے حکم اور لتکن منکم امۃ یدعون کے تحت دعوت، اس کی اہمیت اور ضرورت پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ دعوت فی سبیل اللہ اور بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ کے تحت دعوت کے اسلوب، طریق اور دعوت کے مواقع پر عمدگی سے داعی حضرات کی ضرورت کا سامان کیا ہے۔ البتہ درس، لیکچر، خطبہ پر لکھتے ہوئے مصف نے تکرار سے کام لیا ہے، اور مناقشہ کو بھی واضح نہیں کیا۔ اندیشہ ہے اس طرح مباہلہ کے ساتھ ذکر کرنے سے مناظرے کی راہ نہ کھل جائے۔ آخری حصے میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے حکم کو پورا کرنے کے لیے تنظیم کی اہمیت و افادیت اور داعی کے اوصاف بیان فرمائے ہیں اور احتیاطاً اوصافِ رذیلہ کا تذکرہ کیا ہے تاکہ داعی مثبت اوصاف کو اپنائے اور منفی اوصاف سے نجات حاصل کر کے دعوت کے میدان میں سرخرو ہوسکے۔  (قلبِ بشیر خاور بٹ)


خاموشی پیچھے شور، اخترعباس۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت:۱۲۰ روپے۔

بچوں کے ذوقِ مطالعہ اور ان کے ادب پر ابتدائی دور میں زیادہ کام نہیں ہوا۔ البتہ گذشتہ ربع صدی میں بچوں کے ادب پر نسبتاً توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں کہانیوں کی سیکڑوں کتب اور بیسیوں رسالے منظرعام پر آئے ہیں۔ خصوصاً بچے کی زندگی میں کہانی کی اہمیت کا احساس اُجاگر ہوا ہے  اور بچوں کے رسائل میں تنوع اور معیار میں بہتری آئی ہے۔ کہانیوں پر مشتمل زیرنظرکتاب بچوں کے ادب میں خوب صورت اضافہ ہے۔ بنیادی طور پر ان کہانیوں کی مخاطب نئی نسل ہے۔

بچوں کے لیے ادب کی تخلیق اس سے کہیں مشکل ہے جو بڑوں کے لیے لکھا جاتا ہے۔ بچوں کے دلوں کو مسحور کرنا اور ان کے لیے فن سے مسرت کشید کرنا ریاضت طلب ہوتا ہے۔ اخترعباس گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کہانیوں میں انھوں نے بڑی ریاضت سے کام لیا ہے۔ وہ بچوں کی نفسیات کا اِدراک رکھتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی فکروشعور کی قوتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کامیاب ہوتی ہے۔ ان کہانیوں میں دیمک، اندر کی چٹخنی، چیک بُک اور دربان جیسی کہانیاں ذہنی بالیدگی کا سبب بھی ہیں اور نئی نسل کے احساسات کی تسکین کا ذریعہ بھی۔ ان سے جہاں دل چسپ پیرایے میں معاشرتی اقدار اور انسانی رویوں سے آگاہی ہوتی ہے وہاں ایسے کرداروں کا تعارف بھی ہوتا ہے جو اعلیٰ قدروں کے علَم بردار بھی ہیں اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کے حامل بھی۔ ان کہانیوں کا اسلوب نوجوانوں کے علاوہ بڑوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور فکری رہنمائی اور تعمیر سیرت و کردار کا ذریعہ بنتا ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


ہلاکت خیز غلطیاں اور ان کی اصلاح، تالیف: جمیل احمد زینو، ترجمہ: محمد حسن ظاہری۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۹۰ روپے۔

فاضل مصنف نے بڑی دردمندی سے عام طور پر پھیلی ایسی کوتاہیوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے جن سے غفلت برتی جاتی اور ان کی درجہ بندی کی ہے۔ چند اہم موضوعات یوں ہیں: کفریہ غلطیاں، وہ غلطیاں جو شرکِ اکبر ہیں، اللہ تعالیٰ کے حق میں غلطیاں، عبادات میں، حلال و حرام میں، مسلمانوں کے عمومی احوال میں غلطیاں، غیرمسلموں کے ساتھ معاملات میں غلطیاں وغیرہ۔ ان معاملات کے غلط ہونے کی دلیل قرآن و سنت سے پیش کی گئی ہے اور اس کے مقابلے میں درست موقف کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ مصنف چونکہ عالمِ عرب سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے بعض ایسے معاملات کا ذکر بھی کیا ہے جو ان کے معاشرے کے ساتھ خاص ہیں، مثلاًعربی عصبیت وغیرہ۔ بعض معاملات میں مصنف کے نقطۂ نظر میں شدت دکھائی دیتی ہے، مثلاً یہ عورت کے نام کے ساتھ ’بنتِ فلاں‘  کے بجاے شوہر کا نام لکھنے کو ’غلطیوں‘ میں شمار کرتے ہیں۔ (آسیہ منصوری)

تعارف کتب

  •  توبہ، کامیابی و کامرانی کا راستہ ، مولانا فاروق احمد۔ ناشر: مجلس التحقیق والنشرالاسلامی لاہور۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی، ملتان روڈ، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۸۸۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔ [توبہ کے مختلف پہلوئوں کو قرآن و حدیث سے سہل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ توبہ کے معنی اور قبولیت و عدم قبولیت، قبولیت توبہ کی شرائط،  مغفرت کے لیے ترغیب، ذوقِ عبادت، خشوع و خضوع، جنت اور جہنم کے موازنے کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیا کی دعائیں شامل ہیں۔ قربِ الٰہی اور تزکیۂ تربیت کے لیے مفید کتاب۔]
  •  تاریخ کے بکھرے موتی ، مؤلف: مولانا محمد اصغر کرنالوی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سینٹر، نزد  مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۲۵۶۷۳-۰۲۱۔ صفحات: ۵۲۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔ [تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال کا عکس دیکھا جاسکتا ہے، ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے روشن مستقبل کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ زیرنظر کتاب مختلف تاریخی کتب سے سبق آموز واقعات، نصیحتوں اور اقوال وغیرہ کا انتخاب ہے جس کا مقصد تاریخ کے مطالعے کے لیے ترغیب اور کردار سازی و رہنمائی ہے۔]
  •  آواز دوست ، پروفیسر عبدالحمیدڈار۔ ناشر: نشریات، الحمدمارکیٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۴۵۸۹۴۱۹-۰۳۲۱۔ صفحات: ۹۵۔ قیمت: ۷۰ روپے۔ [پروفیسر عبدالحمید ڈار دینی اور تحریکی حلقوں میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ زیرنظر کتابچہ ان کی یادداشتوں اور تاثرات پر مشتمل ہے۔ یہ تاثرات و احساسات تحریکی روایات واقدار سے متعلق ہیں اور غوروفکر اور تدبر کا سامان بھی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ایسے نکات سامنے آتے ہیں جو بچوں اور بڑوں کے لیے تربیت کا ایک منفرد انداز لیے ہوئے ہیں۔]