کتاب نما


حیات النسائ: (مناکحات)، میاں مسعود احمد بھٹہ ۔ ناشر: آہن ادارہ اشاعت و تحقیق، لاہور۔ ملنے کا پتا: ۳-انجمن اسلامیہ بلڈنگ، ۳۹-لوئرمال، لاہور۔ صفحات: ۷۸۱۔ قیمت (مجلد): ۸۰۰ روپے۔

دورِ جدید کے مسائل میں جہاں معیشت بنیادی اہمیت اختیار کرگئی ہے وہاں معاشرتی مسائل بالخصوص اسلامی نظامِ حیات سے مناسب واقفیت نہ ہونے کے سبب ازدواجی زندگی افراط و تفریط کا شکار ہوگئی ہے۔ وہ گھرانے بھی جو بظاہر دین دار شمار کیے جاتے ہیں، بہت سی ایسی رسومات و رواج کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں جو اسلام کی روح کے منافی ہیں۔ ایک جانب ایمان و تقویٰ پر   درس ہوتا ہے تو دوسری جانب ’برادری کی عزت‘ کے نام پر ان جاہلی رسوم پر عمل بھی ہوتا ہے جنھیں دور کرنے کے لیے اسلام آیا تھا۔

اسلام سے عمومی ناواقفیت کی بنا پر آج بھی عالمِ اسلام بشمول پاکستان میں خاندانی زندگی اور معاملات میں بے شمار غیراسلامی روایات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سرکاری اور غیرسرکاری نظامِ تعلیم میں خاندان کی اہمیت، مرکزیت اور اس کے قیام و بقا کے حوالے سے مفصل ابواب شامل کیے جائیں، تاکہ آنے والی نسلیں وہ غلطیاں اور حماقتیں نہ کریں جو ان کے بزرگ عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

میاں مسعود احمد بھٹہ صاحب کی تالیف حیات النساء (مناکحات) اس حیثیت سے ایک بروقت تالیف ہے جس میں آدابِ زوجیت، نکاح، حق مہر، طلاق و عدت اور شوہر اور بیوی کے باہمی حقوق پر بہت مفید مواد جمع کر دیا گیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب حیات النساء کے زیرعنوان مجوزہ تین جلدوں پر مبنی تالیف کی جلد دوم ہے جسے جلد اوّل اور سوم سے قبل طبع کر دیا گیا ہے۔

کتاب سلیس زبان میں لکھی گئی ہے اور مناکحات کے باب میں پیش آنے والے اکثر مسائل و معاملات پر قیمتی مواد یک جا کر دیا گیا ہے۔ گو قرآن و حدیث کے حوالے مکمل دیے گئے ہیں لیکن دیگر ذرائع سے اخذ کردہ معلومات کے حوالوں میں علمی تحقیق کے رویے کو بنیاد نہیں بنایا گیا ہے۔ اگر ہر حوالہ مکمل ہوتا تو پڑھنے والوں کو مزید لوازمے تک پہنچنے میں آسانی ہوتی اور کتاب کی تحقیقی قدرو قیمت میں اضافہ ہوجاتا۔ بعض مقامات پر غیرضروری معلومات بھی دے دی گئی ہیں جنھیں باآسانی حذف کیا جاسکتا تھا۔

بعض مقامات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ کتاب کے آغاز میں زوجیت اور مقاصدِ حیات کے زیرعنوان شوہر اور بیوی کے درمیان ’مساویانہ‘ رویے پر زور دیا گیا ہے (ص ۴) جو بادی النظر میں بالکل درست ہے، لیکن اس کا یہ مدعا لینا غلط ہوگا کہ اسلام مغربی تہذیب کی طرح عورت اور مرد کی مساوات کا قائل ہے۔ بلاشبہہ، انسانی بنیاد پر سورئہ نساء نے بات کو واضح کر دیا کہ چونکہ دونوں کو ایک نفس سے پیدا کیا گیا ہے اس لیے ان میں خون، رنگ، نسل وغیرہ کی تفریق نہیں کی جاسکتی اور دونوں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی مخلوق ہیں جن سے وہ یکساں محبت کرتا ہے لیکن یہ کہنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت بھی دیتا ہے اور ’فرائض‘ میں واضح طور پر فرق کرتا ہے۔ دراصل اس موضوع اور اس جیسے دیگر موضوعات پر مغربی اور مشرقی اقوام کے اعتراضات سے بلند ہوکر صرف اور صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر ان مسائل کا حل اور تعبیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کسی قسم کے سمجھوتے کی ضرورت نہیں۔

آغاز ہی میں ایک راے کا اظہار کیا گیا ہے: ’’ہمیں جدید زوجیت کی ابتدا میں آدم و حوا کی صورت میں انسانی جوڑے کی خوب صورت پہچان ملتی ہے جس میں (عورت) حوا نے جنت سے نکالے جانے کے بعد زمین میں ایک طویل عرصے تک اپنے ساتھی ’زوج‘، یعنی آدم ؑ کا انتظار کیا۔ اس طرح عورت میں مرد کے ساتھ وفاداری کے جذبے کی شناخت ہوئی اور عورت (حوا) کے اس انتظار نے اپنے جوڑے سے تعلق اور محبت کا عملی ثبوت فراہم کیا، اور آج بھی حوا کی بیٹیاں اپنے جوڑے، یعنی مرد کے لیے صبر اور شکر اور محبت کے حقیقی جذبات لیے انتظار کرتی رہتی ہیں۔ آدم ؑ و حواؑ کا جوڑا زوجیت کی اوّلین بہترین مثال ہے‘‘۔ (ص ۵)

مؤلف نے بغیر کسی قرآنی آیت اور حدیث یا آثار کے حوالے کے یہ کہنا چاہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا: قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا (البقرہ۲:۳۸) ،یعنی تم سب یہاں سے اُتر جائو تو یہ کام قسطوں میں ہوا۔ پہلے سیدہ حواؑ کو بھجا گیا چنانچہ وہ عرصے تک حضرت آدمؑ کی منتظر رہیں اور پھر حضرت آدمؑ کو نیچے اُتارا گیا۔ حالانکہ بات واضح ہے کوئی وجہ نہیں کہ پہلے سیدہ حواؑ کو دنیا میں بھیجا جاتا اور اس کے کچھ عرصے بعد حضرت آدمؑ کو، جب کہ دونوں کو بیک وقت عفو و درگزر کے بعد جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا تھا اس کی تکمیل، یعنی زمین پر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی خلافت اور     امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادایگی کے لیے ایک مقررہ مدت کے لیے اُتارا گیا۔

کتاب بحیثیت مجموعی مفید ہے۔ اگر اختصار کا پہلو اختیار کیا جاتا تو یہ قیمتی مواد کم صفحات میں بھی آسکتا تھا اور زیادہ آسانی سے مطالعہ کیا جاتا۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


رُک جایئے(منہیات کا انسائی کلوپیڈیا) الشیخ ابوذر محمد عثمان۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔

دین کی اصل تعلیم احکامات ہیں جن کی دو صورتیں ہیں: امر اور نہی، یعنی ایسے کام جن کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے اور ایسے کام جن کے کرنے سے روکا گیا ہے۔ ان احکامات کی بجاآوری کے پیش نظر علماے دین نے ان کی درجہ بندی بھی کی ہے، مثلاً: حرام، مکروہ، مکروہِ تحریمی، مکروہِ تنزیہی اور حلال، جائز، مباح وغیرہ۔ اس موضوع پر اُردو میں شائع ہونے والی مفصل کتاب علامہ یوسف القرضاوی کی الحلال والحرام فی الاسلام کا ترجمہ ہے (حلال و حرام، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز)۔ اب کئی کاوشیں سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک رُک جایئے بھی ہے جس کا ذیلی عنوان ہے: ’’اللہ اور اس کے رسولؐ نے منع کیا ہے‘‘، اور اسے ’منہیات کا انسائی کلوپیڈیا‘ قرار دیا گیا ہے۔ مصنف نے قرآنِ مجید اور احادیث نبویؐ میں وارد اوامر و نواہی کو فقہی ترتیب اور عنوانات کے تحت اختصار کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ طہارت، نماز، جنازہ، زکوٰۃ، روزہ، حج، تجارت، نکاح و طلاق، جہاد، کھانے پینے، قسموں، نذروں، طب، لباس اور آداب کے مسائل سے متعلق ممنوعات کو بیان  کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب اُن بڑے بڑے امور کی نشان دہی کرتی ہے جن سے ایک مسلمان کو اجتناب کرنا چاہیے۔

کتاب وسنت کی منہیات سے آگاہی یقینا ہر مسلمان کو ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے یہ مختصر ضخامت کی کتاب بہت سے مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مصنف نے جہاں ضروری سمجھا ہے آیت یا حدیث کی وضاحت بھی کردی ہے۔ اطاعتِ رسولؐ پر بہت مؤثر مقدمہ شامل کتاب ہے۔ بیرونی اور اندرونی بہت سی خوبیوں کی حامل یہ کتاب کچھ عربی طرزِ تصنیف کا رنگ لیے ہوئے ہے۔  بعض مسائل کی ممانعت درج کرنے کے ساتھ ہی اُن کا جواز بھی درج کردیا گیا ہے۔ یوں عمل کا فیصلہ قاری کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ کئی جگہوں پر حدیث کے مدعا کی تفہیم میں ابہام موجود ہے۔ کچھ مسائل کی تکرار بھی ہے، تاہم دیدہ زیب سرورق، عمدہ کاغذ، بہترین طباعت اور مضبوط جلد     و ڈسٹ کور سے مزین یہ کتاب ناشر کے حسنِ ذوق کی آئینہ دار ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


یہودی مذہب، مہد سے لحد تک، رضی الدین سیّد۔ ناشر: بیت السلام، شان پلازہ، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۰۳۸۱۶۳- صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: درج نہیں۔

ہم اُردو قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایٹمی قوت اور نام اسرائیل و صہیونیت کی ہٹ لسٹ پر، سب سے اُوپر ہے اور یہ کہ آشوبِ عراق و افغانستان (اور اب پاکستان) کے پس پردہ یہود کی مسلم دشمنی ہی کام کر رہی ہے۔ چنانچہ بقول مصنف: ’’معاملاتِ عالم کو تباہی و بربادی کی جانب دھکیلنے میں اصل ہاتھ صہیونیوں کا ہے‘‘۔

لیکن خود یہودی کون ہیں؟ ان کے عقائد، ان کا مذہب اور روز مرہ معاشرتی طور طریقے کیا ہیں؟ اس بارے میں ہماری معلومات درجۂ سوم کے طلبہ کے برابر بھی نہیں ہیں۔ جناب رضی الدین سیّد نے مقدس صحیفوں (زبور و تورات) کے ساتھ یہودیوں کی بعض قدیم اور مستند کتابوں کو کھنگال کر ایسی معلومات فراہم کی ہیں جو آج تک اُردو میں، اتنی عمدگی اور خوبی کے ساتھ کسی نے پیش نہیں کیں۔

یہود و یہودیت کے اس تعارف میں، مصنف نے ان کے عقیدۂ توحید، تصورِ خدا، قربانی، نمازوں، یومِ سبت، مختلف تہواروں، روزوں، شادی بیاہ، طلاق، تبدیلی مذہب، میت کے کفن دفن وغیرہ، یعنی یہودی شریعت اور یہودی فقہ کی جزئیات اور تفصیل مہیا کردی گئی ہے۔

موسوی شریعت میں ان کی تحریفوں اور محمدی شریعت سے مماثلتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ بتایا ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں مماثلت کے پہلو موجود ہیں۔ مثلاً: یہودی بھی مسلمانوں کی طرح خدا اور بندے کے درمیان کسی واسطے کے قائل نہیں ہیں۔ یہودی مذہب بھی ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ نماز، روزہ لازمی ہے (تفصیل میں اختلاف ہے۔ مردوں کے لیے دن میں تین نمازیں اور عورتوں کے لیے صرف دو نمازیں فرض ہیں۔ نماز باجماعت کو ترجیح حاصل ہے۔ لازمی روزے سال بھر میں صرف چھے ہیں)۔بچوں کا ختنہ ضروری ہے۔ وہ ذبیحے کے قائل ہیں۔ سود کو حرام سمجھتے ہیں۔ ہدایت ہے کہ میت کی تدفین میں جلدی کی جائے۔ کفن سفید ہو۔ مرنے والے کی طرف سے صدقہ و خیرات کریں۔ یہودی بچوں کو صبح بیداری اور سوتے وقت کی جو دعائیں سکھاتے ہیں، وہ مسلم دعائوں سے بڑی حد تک مماثل ہیں وغیرہ۔ ان وجوہ سے یہودی کی ’بہت سی خوبیاں‘ انھیں ’اسلام سے قریب تر‘ کردیتی ہیں (ص ۱۳)۔ اور ’اس لحاظ سے یہودیوں کو فی الاصل مسلمانوں ہی کا دوست اور خیرخواہ ہونا چاہیے لیکن تین ہزار سالہ ہٹ دھرمی اور اپنی نسل کے اعلیٰ و ارفع ہونے کے تصور نے انھیں مسلمانوں کا دشمن بنا دیا ہے‘‘ (ص ۱۳)۔ تمام غیر یہودیوں کو ’جاہل اور وحشی‘ سمجھتے ہیں۔ پس خدائی چہیتے اوراعلیٰ ترین نسل ہونے کے خبط ہی نے انھیں ’دوسری قوم سے برتر‘ بنا کر گمراہی کے راستے پر ڈالا۔ اس گمراہی کے کئی پہلو ہیں، مثلاً: یہودی اپنی تقریبات بلکہ عبادات تک میں، شراب کا استعمال ضروری سمجھتے ہیں۔ سودی کاروبار پھیلانے میں انھی کا ہاتھ ہے۔ اِسی طرح ’تقیّہ‘ کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اور اسی تقیّے کے تحت غیریہودیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے شرعی احکام سے تجاوز اور نتیجتاً اُن پر ظلم و زیادتی بھی اُن کے نزدیک بالکل جائز ہے (ص ۱۱۱)۔ جس کی ایک واضح مثال، فلسطینیوں سے ان کا نفرت انگیز رویّہ ہے۔

مصنف نے کتاب کے آخری حصے میں یہودیوں کی تاریخ اور اسرائیل کے قیام کے بارے میں ضروری کوائف شامل کیے ہیں۔ مزیدبرآں عبرانی زبان، یہودی کیلنڈر، یومِ سبت، ہولوکاسٹ، اسرائیل کا قومی ترانہ، قومی پرچم، دیوار گریہ کی وضاحت کی گئی ہے (یومِ سبت کو حسب ِ ہدایت ’منانا‘ اچھا خاصا گورکھ دھندا معلوم ہوتا ہے)۔

مصنف کہتے ہیں کہ ’’بہت سے مسلمانوں کی طرح، یہودیوں میں بھی مذہب پر عمل پیرا (practicing) یہودی کم ہیں اور اُن میں بھی دورِ جدید کی وبا کی طرح سیکولرزم اور لبرل ازم در آیا ہے جس کی بنیاد پر، وہ بڑی حد تک مذہب سے بیزار نظر آتے ہیں، تاہم یہ بات طے ہے کہ یہودی چاہے لبرل ہوں، قدامت پرست ہوں یا دہریہ، وہ بہرحال یہودی رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۶۴)۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر اور مفتی ابولبابہ شاہ منصور نے تقریظات میں جناب رضی الدین سیّد کی زیرنظر کاوش کو بجا طور پر مستحسن قرار دیا ہے۔ معیارِ اشاعت بھی اطمینان بخش ہے البتہ آیاتِ قرآنی پر اعراب کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے، نیز: ’زکریا‘ درست ہے نہ کہ ’ذکریا‘ (ص ۲۰)۔ (رفیع الدین ہاشمی)


عزیمت کے راہی، دوم، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت (مجلد): ۲۳۵ روپے

برعظیم پاک و ہند میں تحریکِ اسلامی کا موجودہ قافلہ سیدابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ کا صدقۂ جاریہ ہے، جس نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال اور عمل کی لذت سے سرشار کیا ہے۔ اس تحریک کے بے شمار وابستگان کی زندگیاں کئی حوالوں سے شان دار مثالوں کا عنوان ہیں۔ اس دنیا میں آنے والے ہر فرد نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اسی قانونِ قدرت کے تحت اس قافلے کے رفتگان بھی اپنی یادوں کا سرمایہ چھوڑ کر آخرت کو سدھارتے ہیں۔

حافظ محمد ادریس کے رواں قلم نے ان افراد کی زندگیوں کی یادوں کو قلم بند کرنے کے لیے مقدور بھر کاوش کی ہے۔ ان کی یہ یادداشتیں اور تاثرات ہفت روزہ ایشیا لاہور میں اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں۔ اب نظرثانی اور اضافوں کے بعد انھیں کتابی شکل دی گئی ہے۔ مصنف ان مرحومین کے ساتھ اپنے کسی نہ کسی ذاتی تعارف یا شخصی ربط کے حوالے سے تذکرے کا باب کھولتے ہیں، پھر شخصیت کی دینی خدمات، پُرکشش کردار اور وسیع اثرات کو موضوعِ تحریر بناتے ہیں۔ اس طرح یہ مختصر اور درمیانی ضخامت پر پھیلے ہوئے تذکرے درحقیقت دین سے وابستگی کی بنیاد پر متشکل ہوتے ہیں۔ جن کو روشن مثالوں اور زندہ جذبوں کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان تذکار کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ مرحومین کے اہلِ خاندان، برادریاں اور علاقے کے لوگ بھی ان سے نسلی یا علاقائی وابستگی کے باعث ایک ذاتی کشش، زندہ کسک اور عمل کی دعوت کو محسوس کرسکتے ہیں۔

کتاب میں حسب ذیل حضرات کا تذکرہ ہے: مولانا جان محمد عباسی، محمد مامون الہضیبی،   ملک غلام علی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا فتح محمد، مولا محمد سلطان، میاں فیض الدین، طالب الہاشمی، آسی ضیائی، زیلم خان شہید، حافظ محمد سرور، ملک ظفراللہ خان، چودھری سلطان احمد، مختار حسن، خالد بزمی، ڈاکٹر محمد سعید، ڈاکٹر جمیل الرحمن، مولانا شمس الدین، ضیاء الرحمن، عبیدالرحمن مدنی، شیخ عبدالرشید، سوہنے خاں، جب کہ خواتین میں ساجدہ زبیری، عطیہ راحت، زیب النسائ۔ بنیادی طور پر یہ تذکرہ  مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی برپا کردہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ شخصیات کا ہے، تاہم اس میں بعض ایسی شخصیات کا ذکر بھی آگیا ہے، جن کا شخصی تعلق اگرچہ مولانا مودودی سے، یا جماعت اسلامی سے نہ تھا،  مگر بالواسطہ ان کا تعلق قافلۂ احیاے اسلامی ہی سے ہے۔(سلیم منصور خالد)


تعارف کتب

  • حج و عمرہ کی قبولیت ___ مگر کیسے؟ ڈاکٹر رحمت الٰہی۔ الفوزاکیڈمی، سٹریٹ ۱۵، E-4/11، اسلام آباد۔ فون: ۲۵۱۸۸۲۹- ۲۲۲۲۴۱۸-۰۵۱۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [مصنف نے اپنے ۲۰۰۸ء کے سفرِحجاز کے تجربات و مشاہدات کی مدد سے زائرین حج و عمرہ کے لیے ایک مفید کتاب تیار کی ہے جس میں بقول مصنف: ’’کوشش کی گئی ہے کہ دعائوں اور اس کی روح کے ساتھ حج پر لکھی گئی تمام کتب کا نچوڑ آجائے‘‘۔ کتاب میں ضروری مسائل، زائرین کے لیے ہدایات اور دعائیں بھی شامل ہیں۔ تیسرا باب (حج کا حاصل) اہم اور  توجہ طلب ہے۔ مصنف کا موقف یہ ہے کہ زائرین، مناسکِ حج و عمرہ ’’ان کی اصل روح کے ساتھ ادا کریں تاکہ وہ گوہرمقصود ہاتھ آئے، جس کے لیے بہت بڑے پیمانے پر لگایا جانے والا سرمایہ، گھر اور بچوں سے دور اُٹھائی جانے والی پُرمشقت قربانیاں، رائیگاں نہ جائیں‘‘ (ص ۱۱)۔ یہی ’’قبولیت کیسے؟‘‘ کا جواب ہے۔]

دوامِ حدیث (جلد اوّل ، دوم)، حافظ محمد گوندلوی، تحقیق و تعلیق: حافظ شاہد محمود۔ ناشر: اُم القریٰ پبلی کیشنز، کمشنر روڈ، فتومنڈ، گوجرانوالہ، فون: ۸۱۱۰۸۹۶-۰۳۳۳۔ صفحات (بالترتیب) ۶۰۰، ۵۰۰۔ قیمت:درج نہیں۔

’’احادیث کس طرح مرتب اور جمع ہوئیں اور ہم تک کس طرح پہنچیں، دین میں ان کی کیا حیثیت ہے، اور قرآن و حدیث کا باہمی تعلق کیا ہے‘‘___ یہ وہ مباحث ہیں جن کے بارے میں غلام احمد پرویز کے حلقۂ فکر کا مخصوص نقطۂ نظر ۱۹۵۳ء میں مقامِ حدیث کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں سامنے آیا۔ یہ کتاب غلام احمد پرویز، تمنا عمادی اور حافظ محمد اسلم جیراج پوری کی تحریروں پر مشتمل تھی۔ معروف عالمِ دین اور علمِ حدیث میں منفرد اور نمایاں مقام رکھنے والے استاذ حافظ محمد گوندلوی (۱۸۹۷ئ-۱۹۸۵ئ) نے اس کا ایک برجستہ جواب لکھا جو ۱۹۵۷ء اور ۱۹۵۸ء کے مختلف مجلات میں شائع ہوا۔ اب ایک نوجوان محقق (حافظ شاہد محمود) نے اس علمی سرمایے کو مرتب و مدوّن کرکے کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔ مرتب نے وقیع علمی حیثیت کی حامل تعلیقات بھی شامل کی ہیں۔

اس کتاب میں ان شکوک و شبہات کا بڑی حد تک ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو احادیث کے ضمن میں عموماً مخصوص ذہن پیش کرتا ہے۔ چونکہ مصنف کے پیش نظر مقامِ حدیث کے اعتراضات کا جواب دینا تھا، لہٰذا ہر اعتراض کا جواب علومِ حدیث کے متعدد پہلوئوں سے بھی بحث کرتاہے۔ یوں علمِ حدیث کی نہایت گراں قدر بحثیں کتاب میں سمٹ آئی ہیں اور معترضین کے اُٹھائے گئے سوالات کے تشفی بخش جواب فراہم ہوگئے ہیں۔

دوامِ حدیث کی جلد دوم ان مباحث پر مشتمل ہے جو حدیث کے متعلق اسی نوعیت کے اُن اعتراضات کا جواب ہے جو ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے دو اسلام کے عنوان سے ۱۹۴۹ء میں شائع کیے تھے۔ ڈاکٹر برق کی اس کتاب کے متعدد علما نے جواب لکھے اور ہر مصنف نے اپنے انداز میں اس کا جواب فراہم کیا۔ حافظ محمد گوندلوی نے مقامِ حدیث کی طرح دو اسلام کا جواب بھی محدثانہ اسلوب میں مذکورہ تحریر کے ذیل میں ہی لکھ دیا تھا۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق تاریخِ حدیث لکھ کر دواسلام کے مشتملات سے دست بردار ہوگئے تھے لیکن افسوس ہے کہ بعض بددیانت ناشر اسے مسلسل شائع کر رہے ہیں اور بہت سے نوخیز ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔

یہ تالیف علمِ حدیث کے گراں قدر اُردو سرمایے میں نادر علمی، تاریخی اور فنی نوعیت کا اضافہ ہے۔ تدوین میں ایک کمی رہ گئی۔ دوامِ حدیث کا عنوان مقامِ حدیث کے متقابل اختیار کیا گیا ہے لیکن سرورق پر اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کتاب مقامِ حدیث کا جواب ہے۔ اسی طرح جلددوم پر بھی وضاحت درج نہیں کہ یہ حصہ دو اسلام کا جواب ہے۔ دونوں مجلدات کو مذکورہ وضاحت کے ساتھ الگ الگ شائع کیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ (ارشاد الرحمٰن)


کلامِ اقبال میں انبیاے کرام کا تذکرہ، زیب النساء سرویا۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، ایوانِ اقبال (ایجرٹن) روڈ،لاہور۔ صفحات: ۴۶۱۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

یہ ایم فل اقبالیات کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جو علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے حصولِ سند کے لیے ڈاکٹر وحیدعشرت مرحوم کی نگرانی میں قلم بند کیا گیا تھا۔  کلامِ اقبال کی بہت سی جہات پر خاصا کام سامنے آچکا ہے مگر کلامِ اقبال کی ایک نئی جہت اور نسبتاً اس نئے موضوع پر یہ ایک مبسوط اور تفصیلی جائزہ ہے۔

مقالہ نگار نے اقبال کے اُردو اور فارسی کلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کر کے مختلف منظومات و غزلیات میں مذکور ۱۶؍ انبیاے کرام کا تذکرہ اور ان کا پس منظر تیارکیا ہے۔ ساتھ ساتھ انبیاے کرام ؑکی سوانح پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ سوانح مرتب کرنے کے لیے مختلف مآخذ مثلاً تورات، انجیل، قرآن مجید، تفاسیر اور عربی کتاب سے استفادہ کیا ہے۔

کتاب پانچ ابواب میں منقسم ہے۔ باب اوّل کو ’وحی و نبوت فکرِاقبال کے مآخذ کی حیثیت سے‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ دوسرا باب دو حصوں میں بانٹا گیا ہے:(ا) اقبال کا شعورِ ولایت،   شعورِ نبوت اور شعورِ ختم نبوت، (ب) مقصودِ نبوت و رسالت محمدیؐ، یہ دونوں ابواب پس منظری مطالعے کی حیثیت سے کتاب کا حصہ ہیں۔

تیسرے باب ’انبیاے کرام ؑ اقبال کی نظر میں‘ ۱۶ انبیاے کرام کا تذکرہ شامل ہے۔ حضرت خضر ؑ کو ایک بڑا طبقہ پیمبروں کی صف میں شمار کرتا ہے۔ ان کا ذکر بھی کلامِ اقبال میں ملتا ہے۔ مقالہ نگار نے ان کا ذکر نہیں کیا اس کی وجوہ اور اختلافی آرا کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے تھا۔

۳۲۵ صفحات کی زیرنظر کتاب میں مقالہ نگار کا طریقہ تحقیق یہ ہے کہ پہلے اقبال کے    اُن اشعار کو درج کیا گیا ہے جن میں متعلقہ نبی کا تذکرہ ہے۔ پھر قرآنِ پاک کی متعلقہ آیات دی ہیں۔ اس کے بعد ہرنبی کی سوانح اور اس سوانح کو مدنظر رکھتے ہوئے شعرِاقبال کے پس منظر میں موجود تصور اخذ کیا گیا ہے۔ اس عمل میں اقبال کی نثری تحریریں بھی مصنفہ کے پیش نظر رہی ہیں۔ حسب ِ موقع مختلف ماہرین اقبال کی آرا بھی استعمال کی گئی ہیں۔

باب ۴ کا عنوان ہے: ’اقبال کی فکر پر انبیاے عظام کے اثرات‘۔ آخری باب ۵   ’حاصلِ بحث‘ میں تمام مباحث کو سمیٹ دیاگیا ہے۔ بقول مقالہ نگار: [اقبال نے] سلسلۂ نبوت کی نمایندہ ہستیوں (انبیاے کرام ؑ) کا ذکر کر کے ثابت کیا ہے کہ اِن انبیا کا سرچشمۂ علم، مصور و عرفان، اور منزل و سمت ایک ہے۔ نیز ان کا پیغامِ دعوت اور ان کے دستورالعمل کی روح بھی ایک ہے اور ان سب میں اصولی اور بنیادی اختلاف ہرگز نہیں ہے۔ تمام انبیاے کرام ؑ کی تعلیمات روحانی و معاشرتی تقاضوں سے بھرپور ہیں اور کارگاہِ حیات میں پیش آنے والی مشکلات کا حل ان کی بتائی ہوئی تعلیمات کی اطاعت و پیروی میں پوشیدہ ہے۔ اصل ضرورت صدقِ دل سے ان پر عمل کی ہے (ص ۴۴۷)۔کہیں کہیں طوالت کا احساس ہوتا ہے، خصوصاً اوّلین دو ابواب میں یہ طرزِ تالیف اصولِ تحقیق سے مناسبت نہیں رکھتا۔ مجموعی طور پر یہ تحقیق محنت سے کی گئی ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)


کتابیاتِ سرسیّد، ضیاء الدین لاہوری۔ ناشر: مجلس ترقی ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ صفحات: ۲۲۸۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

مختلف علوم میں تحقیق، ترقی اور پیش رفت میں بہ حیثیت مجموعی اہلِ مشرق خاص طور پر  اُردو دنیا، مغرب کے مقابلے میں خاصی پیچھے ہے۔ من جملہ دیگر اسباب کے ایک بڑی وجہ ان آلاتِ تحقیق کی عدم موجودگی اور تحقیق کے مختلف اصولوں اور تکنیکی طریقوں سے عدم واقفیت ہے۔ کسی خاص موضوع پر تحقیق کے لیے کتابیات اور اشاریے بنیادی آلاتِ تحقیق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُردو میں متعدد موضوعاتی اشاریے اور کتابیاتیں تیار کی گئی ہیں۔ مشاہیرادب کے حوالے سے بھی ایسی کاوشیں ہوئی ہیں۔

زیرنظر کتاب اُردو کے ایک بڑے اہم اور نام وَر مصنف سرسید احمد خاں کی توضیحی کتابیات ہے۔ مرتب نے سال ہا سال تک لندن کے انڈیا آفس، برٹش میوزیم، رائل ایشاٹک سوسائٹی اور لندن یونی ورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS)کی لائبریریوں میں اپنے بقول: ’خاک چھانتے ہوئے‘ سرسیّد پر کئی تحقیقی اور تالیفی کام کیے جس کے نتیجے میں سرسیّد پر بہت سی کتابیں تیار ہوگئیں۔

زیرنظر کتاب میں سرسیّد کی تالیفات، ان کی مستقل تصنیفات، تراجم، ایسی کتابیں جو سرسیّد کی زندگی میں شائع نہ ہوسکیں، اسی طرح ان کے کتابچوں، مضامین اور دوسری زبانوں میں تصانیف سرسیّد کے ترجموں وغیرہ کی تفصیل اور بعض قدیم اشاعتوں کے سرورق شامل ہیں۔ آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ سرسیّد احمد خاں کی ہمہ نوع تحریروں سے متعلق یہ کتاب معلومات کا ایک ایسا خزینہ ہے جسے بڑے سلیقے سے اور استناد کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔ مجلس ترقی ادب کی یہ پیش کش قابلِ تحسین ہے، کاش مجلس اسی طرح کی مزید کتابیات بھی ایسی محنت اور عمدگی کے ساتھ مرتب کرا کے شائع کرے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تجارت کی کتاب،تالیف و تخریج:حافظ عمران ایوب لاہوری،از تحقیق و افادات:علامہ ناصر الدین البانی۔ ناشر:فقہ الحدیث پبلی کیشنز،لاہور۔ ملنے کا پتا:نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اُردو بازار لاہور۔ صفحات:۱۸۲۔قیمت:۲۱۰روپے۔

تجارت اور لین دین ہر انسان کی ضرورت ہے۔ ماضی بعید میں انسان اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کا محتاج نہ تھا ۔ ہر فرد اپنی محدود ضروریات خود پیدا کرتا اور استعمال میں لاتا۔جیسے جیسے انسانی تمدن نے ترقی کی، انسانی ضروریات بھی بڑھیں اور ان کا باہمی تبادلہ بھی ہونے لگا۔ ابتدائی طور پر انسان نے براہِ راست تبادلے کا طریقہ اختیار کیا۔ لیکن اس طریقے کی مشکلات نے انسان کو مجبور کیا کہ کوئی آلۂ مبادلہ ہو تاکہ لین دین کی مشکلات پر قابو پایا جا سکے ۔ اسی ضرورت کے پیش نظر انسان نے پہلے سکّے ایجاد کیے اور بعد میں کاغذی نوٹ اور پلاسٹک منی کا دور آیا۔ لیکن اس پورے عمل کے دوران بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ دین اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کی طرح اس پہلو سے متعلق بھی تفصیلی ہدایات عطا فرمائیں تا کہ اس نظام کی خرابیوں کو دور کیا جائے اور اسے ایک اخلاقی ضابطے کا پابند بنایاجائے۔اسی ضابطے سے متعلق احکام قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب علامہ ناصرالدین البانی کے افادات کی روشنی میں اس موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ مؤلف نے اس کتاب میں حلال و حرام ، تجارت کی فضیلت و احکام، فسخ بیع، تجارت کے ناجائز طریقوں ، سودی معاملات ، بیع سلم، شراکت و مضاربت، اجارہ ، مساقات ، مزارعت، قرض، گروی، دیوالیہ ، وقف، عاریت، امانت ، ضمانت ، اسلامی بنکاری ، ملٹی لیول مارکیٹنگ، بلیک مارکیٹنگ، ٹیکسوں اور بجلی و گیس کی چوری، عورت کی ملازمت اور اسی طرح کے دیگر معاملات پر جن سے انسان کو روزمرہ زندگی میں واسطہ پڑتا ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی آرا دی ہیں۔بعض آرا پر تحفظات ہوسکتے ہیں، تاہم مجموعی طور پر یہ کتاب بہت سے موضوعات پر فقہی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب کی ایک اہم خوبی احادیث کی تخریج ہے۔ جس سے اس موضوع پر صحیح احادیث کے مطالعے کا موقع بھی ملتاہے۔ تاہم بعض مقامات پر مؤلف کی بے احتیاطی کھلتی ہے، مثلاً حنفی مسلک کو فرقہ لکھنا (ص ۲۱) اسی طرح ارسطو کو بیسویں صدی کا فلسفی قرار دینا (ص ۲۵) وغیرہ۔(میاں محمد اکرم)


ڈاکٹر عبدالقدیر خان، مہرمحمد بخش نول، مہر عدنان فیصل پبلشرز، مکان نمبر۳۳۱-بی،    گلستان کالونی نمبر۲، فیصل آباد۔ فون:۸۶۶۰۲۸۴-۰۳۲۱ صفحات: ۵۵۴۔ قیمت: ۵۳۰ روپے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ان سائنس دانوں میں سب سے نمایاں ہے جنھوں نے اس سلطنت ِ خداداد کو ایٹمی اسلحے سے لیس کر کے دنیا میں باوقار مقام پر لاکھڑا کیا لیکن اس ’جرم‘ کی پاداش میں ان میں سے بیش تر سائنس دان معتوب ہوئے، چند ایک پابندِسلاسل بھی اور کچھ ’زیرنگرانی‘ رہے۔ آخر میں پرویز مشرف نے اس ’گناہ‘ کا سارا ملبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں پر ڈال کر، اُن سے   وہ ’سلوک‘ کیا جو دنیا جانتی ہے۔

زیرنظر کتاب ملّتِ اسلامیہ کے اس ہیرو کو خراجِ تحسین پیش کر کے مرتب کی گئی ہے لیکن کتاب میں، اس مرکزی موضوع سے ہٹ کر، بہت سے ضمنی اور متعلقہ اور قدرے غیرمتعلقہ پہلوئوں اور موضوعات پر بھی مفید معلومات و تفاصیل شامل کر دی گئی ہیں، مثلاً: قرآن میں ۷۵۶ آیات صرف سائنس سے متعلق ہیں:

  • ایٹم بم کی تکنیک، تاریخ اور تباہ کاریاں
  •  پہلا ایٹمی ملک امریکا ہے جسے عالمی تاریخ میں پہلی بار ایٹم بم چلانے کا ’اعزاز‘ حاصل ہے (اور یہ اس ’امن کے داعی‘ اور بظاہر ’دہشت گردی‘ کے خلاف کمربستہ ملک کا اصلی روپ ہے۔
  • روس، بھارت اور پاکستان کے ایٹم بم کی تاریخ lایران کا ایٹمی پروگرام  (بتایا گیا ہے کہ امریکا اور یورپ ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کا عزم کرچکے ہیں، عزم تو ان کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے) lایٹم بم بنانے کے لیے لیبیا اور شمالی کوریا کی تیاری
  • اسرائیلی ایٹم کے پروگرام کی خفیہ کہانی اور
  • قازقستان میں یورینیم کی دنیا کی سب سے بڑی کان کا ذکر ہے (جس میں اسرائیل نے سرمایہ کاری کررکھی ہے) lعراق کے جوہری پلانٹ
  • مصر کے ایٹمی رجحان lایٹمی ٹکنالوجی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی دل چسپی وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹر خان کے سوانحی حالات میں پاکستان کے ایٹمی سفر ، ایٹمی پروگرام کے آغاز اور ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بعد میں آنے والے سربراہانِ مملکت کے طرزِعمل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح پرویزمشرف کے ساتھ نوازشریف کے اختلافات، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کی جاسوسی کے لیے مسلم دشمن عناصر کے مختلف ہتھکنڈے ، پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کے لیے بھارت، امریکا اور اسرائیل کی سازشیں۔ کتاب میں بہت سے ایٹمی سائنس دانوں (محمد رفیع چودھری،  ثمرمبارک مند، سلطان بشیرالدین محمود وغیرہ) کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب خوب صورت تصاویر سے مزین ہے۔

کتاب میں مختلف لوگوں کے کالم اور مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں ’بُزدل قومی غدار‘ (عباس اطہر) ’عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘ (قاضی حسین احمد) نسبتاً اہم مضامین ہیں۔ آخر میں مختلف زبانوں مثلاً پنجابی، اُردو، عربی، براہوی، بلوچی،سرائیکی، سندھی اور پشتو میں ڈاکٹر صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اورکتابیات بھی شامل ہے۔ (قاسم محمود احمد)


تعارف کتب

  • چہرے کا پردہ ،واجب، مستحب یا بدعت؟ مؤلف: حافظ محمد زبیر۔ ناشر: مکتبہ رحمۃ للعالمینؐ، نذیرپارک، غازی روڈ، لاہور۔ فون: ۴۸۷۰۰۹۷-۰۳۰۱۔ صفحات: ۲۱۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[زیرنظر کتاب چہرے کے پردے کے واجب ہونے کے لیے قرآنی محکمات کی مقبول تفاسیر، احادیث نبویہ کی معروف توضیحات،     آثارِ صحابہ و تابعین، اہلِ سنت کے مذاہب ِ اربعہ کی آرا و قضایا،اور اُمت کے تواتر عملی کے استدلال پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے دوسرے نقطۂ نظر کے دلائل پیش کر کے ان کا علمی محاکمہ کیا گیا ہے۔]
  • International Refugee Law, Islamic Shariah and Afghan Refugees in Pakistan،(عالمی قوانین براے مہاجرین، اسلامی شریعت اور پاکستان میں افغان مہاجرین)، مرتبین: خالد رحمن، فقیہا محمود۔ ناشر:انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔ فون: ۲۶۵۰۹۷۱-۰۵۱۔ صفحات:۱۱۲۔ قیمت: درج نہیں۔[مذکورہ موضوع پر ایک سیمی نار کی گفتگو کو پیش کیا گیا ہے۔ اسلامی شریعت کے حوالے سے محمدمنیر کا مضمون شامل ہے، جب کہ اس سیمی نار کے نمایاں شرکا میں پروفیسرخورشید احمد، جنرل اسد درانی، ایس ایم ظفر اور رستم شاہ درانی وغیرہ شامل ہیں۔]

تفسیری نکات و افادات، حافظ ابن القیمؒ، جمع و ترتیب اور ترجمہ: مولانا عبدالغفار حسن۔  ناشر: مکتبہ اسلامیہ، بالمقابل رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، لاہور۔ فون: ۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۳۔ صفحات: ۴۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔

حافظ ابن القیم آٹھویں صدی ہجری کے ممتاز عالم دین اور علومِ عربیہ کے ماہر تھے۔  حافظ ابن رجب کی راے میں یوں تو اُنھیں جملہ علومِ اسلامیہ میں دخل تھا لیکن تفسیر میں اُن کی نظیر نہیں ملتی۔ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ اور علم الکلام میں بھی اُنھیں کمال حاصل تھا۔ وہ ابن تیمیہؒ کے صحیح اور وفادار جانشین تھے۔

ابن القیم نے کوئی جامع تفسیر قرآن نہیں لکھی مگر متعدد سورتوں اور آیات کی تشریح و تفسیر   پر مبنی چند فاضلانہ تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ مولانا عبدالغفار حسن (م: ۲۲ مارچ ۲۰۰۷ئ) نے    ابن القیم کے تفسیری جواہر پاروں کو اُن کی مختلف تالیفات سے جمع کر کے اُن کا ترجمہ اور ترجمانی زیرنظر کتاب کی صورت میں پیش کر دی ہے۔ یہ کام اُنھوں نے اوائلِ عمر ہی سے اس وقت شروع کیا تھا، جب وہ مالیر کوٹلہ کے مدرسہ کوثرالعلوم میں مدرس تھے۔ اُس وقت تک امام ابن القیم کی التفسیر القیم بھی شائع نہیں ہوئی تھی۔ مولانا عبدالغفار حسن لکھتے ہیں: ’’ان تفسیری افادات کے مطالعے سے اچھا خاصا تفسیری ذوق پیدا ہوسکتا ہے اور سلف صالحین کے طریقۂ کار کے دائرے میں رہتے ہوئے فہمِ قرآن کا ذوق حاصل ہوسکتا ہے‘‘۔ (ص ۲۱)

حافظ ابن القیم کے اسلوبِ شرح نویسی کا اندازہ حسب ذیل مثال سے ہوگا: ’’اِِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo (التکویر ۸۱:۱۹)، بے شک وہ بزرگ رسول کا قول ہے۔ یہاں رسول سے  یقینی طور پر جبرئیل ؑہی مراد ہیں۔ بعد والی صفات اسی مراد کو معین کرتی ہیں۔ ہاں سورئہ الحاقہ میں رسولِ کریمؐ سے محمد رسولؐ اللہ مراد ہیں کیونکہ وہاں اس کے بعد دشمنوں کے اس قول کی تردید ہے کہ یہ قرآن شاعر یا کاہن کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نسبت کبھی تو رسول مَلَکی (جبرئیل ؑ) اور کبھی رسولِ بشری (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف فرمائی ہے۔ لیکن اس نسبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان دونوں نے ازخود یہ قرآن بنا لیا ورنہ پھر تو آیات میں تناقض اور ٹکرائو نظر آئے گا بلکہ یہاں نسبت بلحاظ تبلیغ ہے۔ خود لفظ رسول اس معنی کی تائید کر رہا ہے۔ رسول وہی ہوتا ہے جو مرسل (بھیجنے والے) کے کلام کو پہنچائے، نہ کہ اپنے کلام کو۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ یہ کلام اُس ذات کا ہے جس نے محمدؐ اور جبرئیل ؑکو منصب ِ رسالت پر فائز فرمایا۔ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے قطعاً گنجایش نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے متکلم بالقرآن ہونے کے منکر ہیں، بلکہ یہ آیت تو اس کے برعکس مضمون پر روشنی ڈالتی ہے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے اور ان رسولوں نے صرف تبلیغ کا فرض انجام دیا ہے‘‘۔ (ص ۳۳۱- ۳۳۲)

ناشر نے کتابت و طباعت میں بڑا اہتمام کیا ہے۔ بعض الفاظ کا املا درست نہیں (گذشتہ صحیح ہے نہ کہ گزشتہ۔ پرواہ غلط ہے ، صحیح: پروا وغیرہ)۔ فہرست ڈھنگ سے نہیں بنائی گئی۔ ہر جگہ  قمری سنین لکھے گئے ہیں۔ سہیل حسن صاحب نے اپنے ’پیش لفظ‘ میں قمری تاریخ کے ساتھ شمسی تاریخ بھی لکھ دی مگر حافظ ابن القیمؒ کی شمسی تاریخِ ولادت و وفات ندارد۔ جب ایک علمی کتاب موجودہ زمانے کے قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے تو موجودہ زمانے میں مروّج شمسی سنہ دینے سے اِحتراز کیوں؟ (رفیع الدین ہاشمی)


پیغمبرؐاسلام اور اخلاقِ حسنہ، حافظ زاہد علی۔ ناشر: راحت پبلشرز، یوسف مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۹۴۴۵۴۴۱-۰۳۰۰۔صفحات: ۳۵۸، قیمت(مجلد): درج نہیں۔

سیرتِؐ پاک لکھنا سعادت ہے، اعلیٰ ترین نیکی ہے، لیکن وہ جو اس کارِخیر کی انجام دہی کے لیے ایک ایک لفظ کی صحت پر دھیان دیں، ہرچیز کو پوری ذمہ داری سے پیش کریں، یقین کامل ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے گا۔ زیرنظر کتاب، اخلاقِ حسنہ اور اسوئہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلکیوں پر مشتمل ایسی دستاویز ہے کہ ورق، ورق پر قاری اپنے آپ کو عہدِ سعادت سے جڑا محسوس کرتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ ان تجلیوں سے اپنے قلب و نظر کو منور کرتا چلا جائے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق العباد کی نزاکت کو واضح کرنے کے لیے اپنے قول اور عملِ مبارک سے ہزاروں نمونے پیش فرمائے۔ ان نمونوں کے مخاطب اور ان کے ثمرات سے فیض پانے والوں میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ غیرمسلم و مشرک بھی شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ  دین اسلام کوئی نسلی دین نہیں بلکہ دعوتی دین ہے۔ اس لیے کردار کی ان روشن قندیلوں نے کتنے ہی مُردہ دلوں کو اسلام کی روشنی سے منور کیا۔ یہ کتاب ان کرنوں کا ایک ہالہ پیش کرتی ہے۔

فاضل مؤلف نے ہرچیز کو اس کے مکمل حوالے اور صحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔    رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا ایک عکس پانے کے لیے یہ کتاب مددگار ہوسکتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


سفرِسعادت، پروفیسر عاشق حسین شیخ۔ ناشر: امیرخان پبلی کیشنز، اٹک۔ ملنے کا پتا: مکتبہ تحریکِ محنت، نزد گرلز ہائی سکول نمبر۱، اٹک، موبائل: ۵۱۰۷۷۳۸-۰۳۰۷۔صفحات:۹۶۔ قیمت: ۹۰ روپے۔

زیرنظر کتاب حج اور عمرے کے زائرین کے لیے ایک نہایت عمدہ راہ نما کتاب ہے۔ مصنف انگریزی زبان و ادب کے ایک ’وظیفہ یاب‘ (ریٹائرڈ کا اُردو مترادف ہے، جو یوپی اور دکن میں استعمال ہوتا ہے) استاد ہیں۔ انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں سفرِحرمین کی عملی مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی تراکیب بتائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: حج نہایت مشکل اور جان جوکھوں کا کام ہے، اس لیے کسی مرحلے پر گھبرانا نہیں چاہیے۔ جدہ ہوائی اڈے پر اہل کاروں کے درشت اور بے لچک رویے کو محسوس نہ کریں کیوں کہ یہ تکلیف بھی عبادت ہے۔ زیادہ سامان ساتھ لے جانا پریشانی اور تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ جدہ سے مکہ جانے کے لیے بس پر سوار ہوں تو پانی کم از کم پئیں اورجن لوگوں کو پیشاب کی تکلیف ہو وہ ایک بوتل ساتھ رکھیں کیونکہ مکّہ پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں اور راستے میں بس سے اُترنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

پھر یہ کہ کمزور اور بیمار لوگ ویل چیئر پر طواف اور سعی کریں۔ پیسہ بچانے کے لیے پیدل مت چلیں کیونکہ آپ کا اصل مقصد حج کرنا ہے اور ایک تھکا ہُوا اور مضمحل آدمی دل جمعی کے ساتھ مناسکِ حج ادا نہیں کرسکتا۔ کھانے پینے میں بھی احتیاط ضروری ہے۔ مصنف کی ہدایت ہے کہ ترجیحاً سبزیاں اور دالیں استعمال کریں۔ دوپہر کو کھانا مت کھائیں، اس کے بجاے پھل استعمال کریں۔ مصنف نے نہایت تفصیل سے اور بہت جزئیات میں جاکر ہدایات دی ہیں جن کی بنیاد اُن کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی شامل ہے۔

گمان ہے اگر کوئی زائر حج و عمرہ اس کتاب کو پڑھ کر مصنف کی ہدایات کو پلّے باندھ لے تو سفر کی بیش تر مشکلات سے محفوظ رہے گا اور یقینی طور پر مصنف کے حق میں دعاگو بھی ہوگا۔ (ر-ہ)


امریکا ، زوال کی جانب، رضی الدین سید۔ ناشر: بیت السلام، شان پلازا، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۰۳۸۱۶۳-۰۲۱۔ صفحات: ۷۸۔ قیمت: درج نہیں۔

نیشنل اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ کراچی کے زیراہتمام تالیف و شائع کردہ یہ ایک مختصر مگر جامع اور اپنے موضوع پر عمدہ کتاب ہے۔ مصنف نے خبروں، تجزیوں اور تبصروں کی مدد سے امریکا کی زوال پذیری کے اسباب (اخلاقی گمراہ روی، خاندانی نظام کی تباہی، شرح پیدایش میں خطرناک کمی، یہودی سازشیں، معیشت کا زوال وغیرہ) پر اعداد وشمار اور حقائق کی مدد سے بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: امریکا کے معاملے میں سارے اسباب زوال جمع ہوکر اجتماعی طور پر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اس لیے اب ’’امریکا کا جانا ٹھیر گیا ہے ، صبح گیا یا شام گیا‘‘۔

اپنے موقف کی تائید میں مشرق و مغرب کے تجزیہ کاروں اور دانش وروں کی آرا بھی پیش کی ہیں۔ ضمیمے (مغرب میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی) میں گذشتہ ۴،۵ برسوں کی اہم خبریں اور اعداد و شمار درج کرنے کے بعد مصنف یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’مسلم آبادی میں اضافے کی وجہ سے مغرب میں عملی، دعوتی اور اسلام پسند نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے اثرات وسیع ہوں گے‘‘ (ص ۷۱)۔مصنف کا اسلوب تحقیقی ہے۔ آخر میں اُردو انگریزی کتابیات بھی شامل ہے۔ (ر-ہ)


معیار ۳ (تحقیقی مجلّہ) مدیران: معین الدین عقیل، نجیبہ عارف۔ ناشر: شعبہ اُردو، بین الاقوامی اسلامی  یونی ورسٹی، ایچ-۱۰، اسلام آباد۔ فون: ۹۰۱۹۵۴۷۔ ضخامت: ۴۸۸۔ قیمت: درج نہیں۔

یونی ورسٹیاں اپنی عمارتوں کے شکوہ اور فن تعمیر کی انفرادیت کے بل پر نہیں، بلکہ اپنے    علمی کارناموں اور تحقیقی منصوبوں کی بنیاد پر پہچانی جاتی ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے  سب سے کم عمر شعبے نے جب معیار کے نام سے علمی و تحقیقی مجلے کا اجراکیا تو اس کا پہلا شمارہ ہی اپنے نادر اور معیاری لوازمے اور پیش کش کی ندرت کے سبب اہلِ علم کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اندیشہ تھا کہ مجلے کے لیے اپنا معیار قائم رکھنا مشکل ہوگا، مگر مجلسِ ادارت کی پختہ فکری، علمی اُپج اور مسلسل محنت نے، ایک سے بڑھ کر ایک شمارہ پیش کیا۔ (اوّلیں شمارے پر تبصرہ دیکھیے: ترجمان، نومبر ۲۰۰۹ئ)۔ ہمارے ہاں رسائل پر کم ہی تبصرے شائع ہوتے ہیں، لیکن اس مجلے کا دامن علمی اتنا مالا مال ہے کہ تازہ شمارے کا تعارف ضروری محسوس ہوتا ہے۔

زیرنظر شمارہ متعدد حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ ممتاز محقق عارف نوشاہی کے  ’مطالعاتِ تخصیص‘ (ص ۱۱-۲۵۴) ان کی تحقیق و جستجو کی عمدہ مثال ہیں، خصوصاً ’مجالس جہانگیری‘ (ص۴۳-۸۶) تو خاصّے کی چیز ہے۔ جناب اکرام چغتائی (ص ۲۷۳) اور حکیم محمود احمد برکاتی (ص ۲۵۵) کے مضامین بھی معلومات افزا ہیں۔ ’دریافت و انکشاف‘ (ص ۲۸۹-۳۳۱) کا گوشہ شاید پاکستانی کلچر کی بحث کو تیسری مرتبہ برپا کرنے کا ذریعہ بن جائے، جس میں کلچر پر جناب فیض احمد فیض کے ایک خصوصی لیکچر اور سوال و جواب کی نشست کو پہلی مرتبہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ لیکچر ۱۹۷۴ء میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ جناب فیض کا لیکچر اپنے موضوع کے اعتبار سے خاصا سرسری ہے، تاہم ایک بڑے ادیب کی گفتگو کے حوالے سے غورطلب ہے۔ اس سے اگلے مضمون میں محمد حمزہ فاروقی نے فیض کے ترجمہ اقبال (پیامِ مشرق) کا غیر جذباتی، مگر لسانی، لغوی اور سخن ورانہ اُپج سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’فیض کی فکر، تصورات اقبال سے متناقض تھی، چناں چہ انھوں نے ترجمے میں جابجا ٹھوکر کھائی اور اصل مفہوم کو اُردو میں منتقل نہ کرسکے… اقبال نے اگر چھوٹی بحروں میں دریا سے معانی کو غزل یا رباعی کے کوزے میں بند کیا تھا تو فیض صاحب نے طویل بحروں میں الفاظ کا گورکھ دھندا پیش کر کے مفہوم مسخ کیا‘‘ (ص ۳۰۹)۔ اس کے بعد حمزہ فاروقی نے کلامِ اقبال، ترجمہ فیض اور شائع شدہ ترجمہ فیض کا چارٹ پیش کر کے تقابلی مطالعے کی سہولت فراہم کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اکثر مقامات پر نئی ترامیم پائی جاتی ہیں، جو شاید صوفی تبسم کی تراوش فکر کا نتیجہ تھیں‘‘۔ (ص ۳۰۹)

بصیرہ عنبرین نے اُردو تضمین نگاری کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ نجیبہ عارف نے ’ادب کا نومزاحمتی رجحان‘ میں ’نائن الیون‘ کے حوالے سے مسلم دنیا کے آشوب پر  لکھی گئی افسانوی تحریروں کا جامع تجزیہ پیش کیا ہے۔ یہ مقالہ ملّی درد اور تنقیدی شعور کا عمدہ نمونہ ہے۔

پروفیسر فتح محمد ملک نے جسونت سنگھ کی متنازع کتاب جناح: اتحاد سے تقسیم تک کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں تاریخ اور اصل حقائق کو مسخ کر کے برہمنی سوچ کو جس ’مہارت‘ سے پیش کیا گیا ہے، مبصر نے بڑی عمدگی سے اس پر گرفت کی ہے۔ اس طرح قائداعظم کے لیے تحسینی کلمات کی مٹھاس میں لپٹی کڑواہٹ کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ تبصرے کی حسب ِذیل آخری سطور مقالے کے موڈ اور زیرتبصرہ کتاب کی روح کو بڑی خوبی سے پیش کرتی ہیں: ’’درج بالا سطور (زیرتبصرہ کتاب کے ص ۴۹۸) میں ڈنکے کی چوٹ اعلان کیا گیا ہے کہ پنڈت نہرو کی سیکولر ملائیت اور جسونت سنگھ کی ہندو احیائیت، ہردو اُس وقت طبلِ جنگ پر چوٹ لگاتی رہیں گی، جس وقت تک پاکستان جداگانہ مسلم تقویت کی نظریاتی اساس پر قائم ہے۔ بھارت سے دوستی کی فقط ایک ہی شرط ہے کہ پاکستان اپنی نظریاتی بنیاد منہدم کردے۔ پاکستان کی محکوم اشرافیہ تو شاید اس شرط کو قبول کرلینے پر آمادہ ہو، مگر آزادپاکستان کے غیور عوام کے نزدیک: ’ایں خیال است و محال است و جنوں‘ (ص ۴۲۶)‘‘۔ (س- م- خ )


ماہنامہ سیارہ، لاہور، ادارۂ تحریر: حفیظ الرحمن احسن، خالد علیم، عارف کلیم، سالار مسعودی۔ پتا: کمرہ نمبر۵، پہلی منزل، نور چیمبرز، بنگالی گلی، گنپت روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۰۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

۱۹۶۲ء میں جاری ہونے والے ماہ نامہ سیارہ کا ۵۷واں خاص شمارہ شائع ہوا ہے۔  حمد، نعت، داناے راز،(اقبالیات)، مقالات، منظومات، بازیافت، مراسلت، غزلیات، یادِرفتگاں، افسانے، مطالعہ خصوصی (کتب کا مطالعہ) اور تبصرۂ کتب اس پرچے کے مستقل سلسلے ہیں۔ زیرنظر شمارے کے ’گوشۂ جلیل عالی‘ میں دورِحاضر کے ایک نام وَر اُردو شاعر کے فکروفن پر ۱۳مضامین اور ان کا مکمل کوائف نامہ بھی شامل ہیں۔ داناے راز میں دو مضامین ’علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کا خواب‘ از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ’اسلامی ادب کی ترویج میں اقبال کا کردار‘ از ڈاکٹر تحسین فراقی نہایت اہم ہیں۔ ڈاکٹر مقبول الٰہی کے مضمون ’مصورانہ خطاطی اور تحریفِ قرآن‘ میں مصورانہ خطاطی کے اس رجحان پر اچھا محاکمہ کیا گیا ہے جس میں قرآنی آیات کے الفاظ کی صورت بگڑ جاتی ہے۔ ’یادِ رفتگاں‘ کے تحت ڈاکٹر وحید عشرت، ڈاکٹر آفتاب نقوی شہید، جعفربلوچ، پروفیسر نذیراشک اور عبدالعزیز خالد کی وفات پر تعزیتی مضامین و منظومات ہیں۔ سیارہ کی مجلسِ ادارت خصوصاً   حفیظ الرحمن احسن کی محنت و کاوش قابلِ داد ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ شمارہ ایک معتبر ادبی دستاویز اور ادبِ اسلامی کی ترجمانی کا عمدہ نمونہ ہے۔ (قاسم محمود احمد)


تعارف کتب

  • ریاض الانوار ، مرتبہ: محمد وقاص، ناشر: تحریکِ محنت پاکستان، پوسٹ بکس ۳۲، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔ صفحات: ۵۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [نسلِ نو کو آنحضوؐر کی ذات والاصفات سے قریب تر کرنے اور آپؐ کے پیکرِ نور کی جھلک عام فہم زبان میں اس طرح پیش کی جائے کہ اُردو خواں طبقے کے سامنے آپؐ کی متحرک تصویر پیش کی جاسکے___ اسی تقاضے کے پیش نظر کتب ِ حدیث سے سیرتِ پاکؐ کا عام فہم انتخاب پیش کیا گیا ہے۔]
  • رقصِ ابلیس ، محمد صدیق شاہد۔ العصر پبلی کیشنز، مسعود منزل، بک سٹریٹ، ۱۴- مزنگ روڈ، لاہور۔    فون: ۳۷۰۰۵۲۸۷-۰۴۲۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [۱۹۴۷ء میں پاکستان آنے والے قافلوں کی ہجرت کے چشم دید واقعات سادہ زبان میں قلم بندکیے گئے ہیں۔ مہاجرین پر سکھ اور ہندو بلوائیوں کے حملے اور ان کے مظالم کا تذکرہ لرزہ خیز ہے۔ میڈیا نے ایسی چیزوں کو ہماری نظروں سے اوجھل کر دیا اور ہمارے   سیکولر دانش ور ’دوستی‘ کے نام پر تاریخِ پاکستان کے اس باب کو بدستور فراموشی کے کوڑے دان ہی میں رہنے دینا چاہتے ہیں___ مگر حوادث کی یہ سچی تصویریں، نئی نسل کے لیے قابلِ مطالعہ ہیں۔ خصوصاً ماہِ آزادی (اگست) میں تو سکھوں اور ہندوئوں کے مظالم کی یہ داستانیں، ’’گاہے گاہے بازخواں‘‘ کا تقاضا کرتی ہیں۔]
  • تذکرہ وسوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ۔ صفحات: ۳۱۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی شخصیت و کردار، اخلاص و للہیت ، زہد و استغنا، تقویٰ و خشیت، علم و عمل، خطابت، قیدوبند، شعروادب، حاضرجوابی، قرآن سے محبت و شیفتگی وغیرہ پر مشتمل ایمان افروز دل چسپ واقعات۔ مختلف رسائل اور جرائد سے خوشہ چینی پر مبنی تذکرہ و سوانح۔]
  • طلبہ کے لیے مثالی تحفہ ، مؤلف: مولانا محمد اصغر کرنالوی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سینٹر، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۶۰۳۷۴-۰۲۱۔ صفحات: ۴۷۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔[اسلامی تہذیب و تمدن میں   علمی روایت کے تذکرے، قدیم علمی ورثے، اور جدید معلومات پر مبنی، طلبہ کے لیے ایک مفید کتاب۔ تعلیم کا مقصد، اس کی اہمیت، حصولِ علم کے لیے شوق اور تڑپ، فہم قرآن کے اصول، وقت کے بہتر استعمال کے لیے رہنمائی، اساتذہ کے آداب و حقوق اور ذمہ داریاں، طلبہ کے فرائض، رویے اور تربیت جیسے موضوعات پر اکابر کے طالب علمی کے واقعات، طلبہ کے مفید نصائح اور حصولِ علم کے آداب۔ دل چسپ اور واقعاتی انداز۔]

سیدنا محمد رسول اللّٰہa (جلد اوّل و دوم، کُل ضخامت: ۱۳۵۰ صفحات)  دیدہ زیب طباعت کے ساتھ شائع ہوگئی ہے۔ ان خواتین و حضرات کی خدمت میں تحفتاً پیش کی جارہی ہے، جو شب و روز دعوت اور خدمت ِدین میں مصروف ہیں۔ اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں سے متعلق افراد متعلقہ ادارے کے سربراہ کا تصدیقی خط ، جب کہ تحریک سے وابستہ حضرات امیرضلع کا تصدیق نامہ لاکر کتاب دستی وصول کریں۔ آنے سے قبل ٹیلی فون پر رابطہ کریں۔

نوٹ: کتاب بذریعہ ڈاک بھجوانے کا انتظام نہیں ہے

شیخ عمر فاروق: جامعہ تدبر القرآن، 15-B ، وحدت کالونی، لاہور- فون: 37585960

تذکرۂ معاصرین، مالک رام۔ ناشر: الفتح پبلی کیشنز، ۳۹۲-اے، سٹریٹ ۵-اے، لین۵، گلریز ہائوسنگ سکیم-۲، راولپنڈی۔ فون: ۵۱۷۷۴۱۳-۰۳۲۲۔ صفحات: ۱۰۶۰۔ قیمت:۱۵۰۰ روپے۔

مالک رام (۱۹۰۶ئ-۱۹۹۳ئ) اُردو کے معروف محقق، ادیب اور مصنف تھے۔ انھیں ’ماہرغالبیات‘ بھی کہا جاتا ہے مگر وہ خود عمربھر نام و نمود سے بے نیاز رہتے ہوئے، ایک سنجیدہ مزاج قلم کار کی طرح کام کرتے رہے۔ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی غبارِخاطر، خطباتِ آزاد اور ترجمان القرآن پر بڑی لگن کے ساتھ عالمانہ حواشی لکھے۔ مذکورہ کتابیں،بھارت کے بعد پاکستان میں بھی کئی بار شائع ہوچکی ہیں۔ بسلسلہ ملازمت وہ طویل عرصے تک قاہرہ میں مقیم رہے۔ اس دوران اُنھیں ترکی، اور بیش تر عرب ملکوں کے دورے کرنے کا موقع ملا۔ مالک رام علومِ اسلامیہ سے بھی دل چسپی رکھتے تھے۔ ان کی ایک معروف تصنیف عورت اور اسلامی تعلیم (۱۹۵۱ئ) کے عربی اور انگریزی تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی دل چسپی کا ایک اور اہم موضوع ’وفیات نگاری‘ تھا۔ تذکرہ ماہ و سال (۱۹۹۱ئ) میں انھوں نے اُردو ادب سے متعلق مرحوم شخصیات کی تواریخ ولادت و وفات یک جا کی تھیں مگر بکثرت غلطیوں کی وجہ سے اسے دنیاے ادب و تحقیق میں اعتبار حاصل نہ ہوسکا۔ اس سلسلے کی ان کی دوسری زیرنظر کتاب چار حصوں پر مشتمل تھی۔ اب پہلی بار ایک نئی ترتیب سے اس کا یک جِلدی اڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ اس مفید اور معلومات افزا کتاب میں ۲۱۹ ایسے ادیبوں اور شاعروں کے سوانحی حالات مع نمونۂ کلام ملتے ہیں جو ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۷ء تک کے عرصے میں راہی ملکِ بقا ہوئے۔ ان میں رشید احمد صدیقی، حمید احمد خاں، امتیاز علی تاج، سید وقارعظیم، باقی صدیقی، سجاد ظہیر، عبدالرحمن چغتائی، دیوان سنگھ مفتون، ملک نصراللہ خاں عزیز اور غلام رسول مہر جیسے معروف مشاہیرِ ادب کے ساتھ ہزار لکھنوی، ماچس لکھنوی، لالہ لال چند فلک، صوات ٹونکی، محشر مرزا پوری، طالب رزاقی، شمس منیری، صوفی بانکوٹی، لائق لکھنوی جیسے غیرمعروف اہلِ قلم کا تذکرہ بھی شامل ہے۔

یہ کتاب فقط وفیات نامہ نہیں، اچھے خاصے سوانحی تعارفی مضامین کا مجموعہ ہے۔ مصنف نے یہ مضامین علمی مجلس دہلی (جو انھی کی قائم کردہ تھی) کے سہ ماہی جریدے تحریر میں لکھنا شروع کیے تھے۔ اسی طرح کے تعزیتی مضامین مرحوم ماہرالقادری فاران کراچی میں لکھا کرتے تھے، مگر فاران کے اس نوع کے مضامین اپنے معیار اور درجہ بندی میں شاید مالک رام کے مضامین سے اُوپر جگہ پائیں گے۔ ایک فروگذاشتوں کے باوجود، تاریخ ادب اُردو، خصوصاً سوانحی ادب میں مالک رام کے ان مضامین کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ طالب علم تحقیق کاروں کے لیے خاص طور پر یہ بہت راہ نما اور مفید ہیں۔ ڈاکٹر عقیل نے تذکرۂ معاصرین کو ’’اپنے دور کے حوالے سے ممتاز اہلِ قلم اور اہلِ علم و دانش کے تعارف و مطالعے کا ایک بنیادی اور ناگزیر ماخذ‘‘ قرار دیا ہے۔ (ص ۳۸)

زیرنظر یک جِلدی اڈیشن کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ابتدا میں ’وفیات نویسی کی روایت‘ کے عنوان سے فارسی کے معروف محقق ڈاکٹر عارف نوشاہی اور اُردو کے معروف محقق ڈاکٹر معین الدین عقیل کے تفصیلی مقدمے شامل ہیں (ڈاکٹر نوشاہی ماہرالقادری کے تعزیتی مضامین کی دو حصوں پر مشتمل کتاب یاد رفتگان کا ذکر کرنا بھول گئے)۔ ان مقدموں میں نہ صرف اُردو بلکہ عربی، فارسی اور ترکی وفیات نگاری کی پوری تاریخ آگئی ہے۔ کتاب کا دوسرا امتیازی پہلو، اس کے آخر میں شامل دو ضمیمے ہیں۔ پہلا ضمیمہ ۲۱۹ شخصیات کی سنہ وار تاریخ ہاے وفات پر مشتمل ہے، اور دوسرا ضمیمہ کتب و رسائل کے اشاریے پر مبنی ہے۔ ناشر نے یہ کتاب بصد ذوق و شوق اور نہایت اہتمام سے عمدہ معیار پر شائع کی ہے۔ قیمت زیادہ ہے یا مناسب؟ اس کا انحصار اول: خریدار کی ضرورت اور دوم: اس کی قوتِ خرید پر ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


میرے تجزیات (تحریکِ آزادیِ کشمیر)،عبدالرشید ترابی۔ ناشر: کشمیر انفارمیشن اینڈ ریسرچ سنٹر، چنار چیمبرز، گلی نمبر ۴۸، بی سکس- ون/ون، اسلام آباد۔ فون: ۵۵۱۱۴۱۷-۰۵۱۔ صفحات: ۳۱۷۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

تحریک آزادیِ کشمیر مختلف مراحل سے گزری اور خطرات سے دوچار ہوئی، لیکن اہلِ کشمیر کے پاے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ عالمی قوتوں کے دبائو، بھارتی حکومت کی چالوں اور حکومتِ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں اُتارچڑھائو، بالخصوص دوستی کے نام پر وفود کی آمدورفت، مسئلہ کشمیر کے روایتی موقف سے انحراف کے لیے مختلف حل، کشمیری قیادت کا المیہ اور تحفظات وغیرہ___ جدوجہد آزادیِ کشمیر کے مختلف مراحل اور غوروفکر کے پہلو ہیں۔ عبدالرشید ترابی تحریک آزادیِ کشمیر کے ان مراحل کو اُجاگر کرنے، خطرات کی نشان دہی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے   اہلِ کشمیر کی وکالت کا فریضہ انجام دینے کے لیے وقتاً فوقتاً ملکی اخبارات و رسائل میں مضامین سپردِقلم کرتے رہے۔ زیرنظر کتاب انھی تجزیات پر مشتمل ہے۔

یہ کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں حکمران، پالیسی ساز اور ہر کردار اپناچہرہ دیکھ سکتا ہے۔ ہم سب خوداحتسابی کرتے ہوئے ایسی جامع اور حکیمانہ پالیسی تشکیل دے سکتے ہیں جو جلد منزل کے حصول کا ذریعہ بن سکے۔ (عمران ظہور غازی)


تعارف کتب

  • حکمت الفرقان، مؤلف: ڈاکٹر سید امان اللہ ترمذی۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [قرآن حکیم کے مضامین کا عصری تقاضوں کے تناظر میں انتخاب اور دعوت فکروعمل۔قرآنی تعلیمات کو پانچ عنوانات یعنی توحید، رسالت، آخرت، فہم قرآن اور دعوت و جہاد کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں انفرادی اور اجتماعی جائزے کے لیے خوداحتسابی کا چارٹ دیا گیا ہے۔]

 شمشیر و سناں اوّل (عظیم سپہ سالاروں کی عظیم داستان) ، مرتب: خواجہ امتیاز احمد۔ ناشر: ہارون شہید اکیڈمی، پیپلزکالونی، گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔[ ۲۱ نام وَر مسلمان سپہ سالاروں کے تذکرے پر مبنی کتاب جس میں مبالغہ آرائی کے بجاے مستند حوالوں اور معیاری کتب تاریخ کی مدد سے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ ان سپہ سالاروں میں خالد بن ولیدؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، عقبہ بن نافع فہریؒ، جلال الدین خوارزم شاہ، موسیٰ بن نصیر، یوسف بن تاشفین، حجاج بن یوسف ثقفی، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری وغیرہ کے حالات شامل ہیں۔ اس بے بنیاد الزام کا بھی مدلل جواب دیا گیا ہے کہ ’اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے‘۔]

  • شوق کا اُجالا ، محمد اظہر علی۔ ناشر: اسلامک کلچرل سنٹر ناروے۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۲۰۰ کرائون۔ [اسلامک کلچرل سنٹر ناروے (اوسلو) کی تعمیر کے منصوبے، جدوجہد کے صبرآزما مراحل اور ۲۰۰۹ء میں ایک  دیدہ زیب جدید عمارت، دفاتر، اسلامی سکول، جدید سہولیات پر مبنی لائبریری اور خوب صورت مسجد کی تکمیل کی روداد۔ ۱۹۷۴ء سے ۲۰۰۹ء تک روشنی کے سفر کی داستان۔ کتاب بیرونِ ملک مقیم لوگوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔]

Muhammad The Prophet Par Excellence & The Divine Origin of The Quran [نبی اکرمؐ اور قرآن کلامِ الٰہی]،  پروفیسر محمد اسلم۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی،فیصل مسجد، اسلام آباد۔ صفحات: ۵۰۲۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

مستشرقین نے ایک طرف تو قرآن کو (نعوذ باللہ) کلامِ الٰہی کے بجاے نبی کریمؐ کی خودساختہ کتاب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اور دوسری طرف نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر طرح طرح کے اعتراضات عائد کیے ہیں۔ زیرنظر کتاب کے مصنف نے طویل مطالعے کے بعد مغربی اہلِ قلم کی تحریروں سے ان اعتراضات کے جواب پیش کیے ہیں۔ اہلِ مغرب خصوصاً عیسائی اور یہودی مستشرقین نے دین اسلام، پیغمبرؐاسلام اور قرآن مجید کو ہدفِ تنقید بنایا ہے، اُس کے رد میں سادہ اور آسان زبان میں مرتبہ یہ کتاب ایک معقول جواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے درجنوں عیسائی مصنّفین کی تحریروں سے ضروری اور متعلقہ حوالہ جات یک جا کردیے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ کی امانت و دیانت، خاندانی، زندگی اور بطور سربراہ مملکت کردار کو ہر دور کے نام وَر اہلِ علم و دانش نے ہر قسم کی آلایشوں سے پاک قرار دیا ہے۔

’اسلام کے خلاف یہود و نصاریٰ کے ردعمل کا پس منظر‘ میں، مصنف بتاتے ہیں کہ سائنسی میدان میں ہمہ پہلو ترقی کے باوجود، یورپ کا ذہن ’روایت پرست‘ ہے۔ اس لیے دین اسلام کے خلاف گھسے پٹے الزامات کو نئے الفاظ کے ساتھ دُہرایا جا رہا ہے۔مصنف نے برنارڈشا،       بوس ورتھ سمتھ، پروفیسر کل ورلے، ینز، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے متعدد دانش وروں کی گواہی یک جا کردی ہے جس کے مطابق اسلام کے خلاف نفرت اور نبی علیہ السلام کے خلاف الزامات کے ذریعے عالمِ انسانیت کو دین اسلام سے دُور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ خصوصاً کیتھولک اور پروٹسٹنٹ اُن گمراہیوں کی طرف رُخ ہی نہ کریں جو انبیا ؑکے دین میں، خرافات کی صورت میں اکٹھی کردی گئی ہیں۔

مصنف نے بتایا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کے برعکس خداے واحد کا تصور تثلیث کی صورت میں تبدیل کردیا گیا، پھر اسلام کے خلاف نفرت کی آگ کو برس ہا برس ہوا دی جاتی رہی۔ بطور ثبوت مؤلف نے سوزینی، جان ملٹن، جان لاک، تھامس ایملن، جوزف پریسٹلے، تھیوفی لس لینڈے، وغیرہ کی تحریروں سے اقتباس پیش کیے ہیں۔

اس اہم تحقیقی تصنیف کا دوسرا حصہ نبی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کا تاریخ کی روشنی میں جائزے پر مشتمل ہے۔یہ تفصیلی باب نبی اکرمؐ کی پیدایش سے لے کر زمانۂ قبل نبوت کے ۴۰سال، مکّی زندگی کے ۱۳سال اور مدنی زندگی کے ۱۰برسوں کا احاطہ کرتا ہے۔

کتاب کے تیسرے حصے میں قرآن کے اسلوب وابلاغ کو زیربحث لایا گیا ہے۔ اس باب میں انجیل کے اُن حصوں میں سے کچھ مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں کہ جو توحیدِ خالص کے پیغام کی علَم بردار ہیں۔ انجیل اور قرآن کے جن واقعات میں مماثلت ہے اُن کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ آثارِ کائنات سے مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح کائنات کی ایک ایک چیز خداے واحد کی ہستی اور اُس کی حکمت کی عکاس ہے۔

مستشرقین کے اعتراضات کی حقیقت اور علمی بددیانتی اور اسلام اور مغرب کے درمیان موجودہ کش مکش کو سمجھنے میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک نادر ونایاب تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)


قرآن کریم میں رسول اکرمؐ کا عالی مقام، مولانا عبدالرحمن کوثر مدنی۔ ناشر: زم زم پبلی کیشنز، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۶۰۳۷۴-۰۲۱۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

قرآن مجید کی جن آیات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل، آپؐ کو ملنے والے معجزات اور آپؐ کی سیرتِ کاملہ کا تذکرہ ہے، زیرنظر کتاب ان آیات کے مطالعے اور تفسیر پر مبنی ہے۔ سیرتِ مصطفیؐ پر ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آیندہ بھی لکھی جائیں گی لیکن زیرتبصرہ کتاب ایک نئے انداز میں عشق مصطفیؐ پیدا کرتی ہے: ’’میں نے قرآن کی تفسیر میں سیرت کو پڑھا‘‘ کے مصداق سیرتِ رسولؐ پر حق کی گواہی ہے۔

غلو سے بچتے ہوئے سیرت کو بیان کرنا انتہائی مشکل کام ہے مولانا مفتی عبدالرحمن کوثر مدنی نے اس مشکل کو انگیز کرتے ہوئے ایک خوب صورت کتاب پیش کی ہے جو عاشقانِ مصطفیؐ کی نگاہ انتخاب میں مقام حاصل کرے گی اور سیرت کے مطابق عمل کو مہمیز دے گی۔ اگر ذاتِ مصطفیؐ پر دورِحاضر میں ہونے والے اعتراضات اور حملوں کا بھی احاطہ کرلیا جاتا تو کتاب کی افادیت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔(معراج الھدٰی صدیقی)


سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، علامہ محمد ناصرالدین الالبانی، تہذیب و اختصار: ابوعبیدہ مشہور بن حسن آلِ سلمان، مترجم: عبدالحمید سندھی۔ ناشر: فضلی بک،سپرمارکیٹ، ۳/۵۰۷، ٹمپل روڈ، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۸۹۰۔ قیمت: ۷۰۰ روپے

علامہ ناصرالدین الالبانی (۱۹۱۴ئ-۱۹۹۹ئ) کو علمِ حدیث میں ممتاز مقام حاصل تھا۔ یوں تو اُن کے سبھی تصنیفی کام وقیع ہیں مگر سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ کو نسبتاً زیادہ شہرت ملی۔ متعدد جلدوں پر محیط یہ سلسلے باہمت علماے حدیث کی کاوشوں سے اُردو قارئین تک بھی پہنچ گئے ہیں۔

علامہ البانی کی سلسلۂ احادیث صحیحہ کا زیرنظر اختصار اُن کے شاگرد کا مرتب کردہ ہے۔ ۳ہزار سے زائد صحیح احادیث کو ۲۸ عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اخلاق و آداب، عقیدہ و ایمان، عبادت و تجارت، حکومت و امارت، طہارت و نظافت اور سفروجہاد کے موضوعات سے متعلق احادیث کا رواں ترجمہ کیا گیا ہے۔ مرتب نے اصل کتب کی احادیث میں سے انتخاب کرکے احادیث کی پوری اسناد کے بجاے سند کا اختصار درج کیا ہے۔ اس مجموعے میں شامل احادیث کا نمبرشمار نیا ہے، اصل کتاب کے مطابق نہیں، تاہم حواشی میں سلسلۂ صحیحہ کا حدیث نمبر درج کردیاگیا ہے۔

علامہ الالبانی کے اس مجموعۂ احادیث میں صحاحِ ستہ کے علاوہ حدیث کے معروف اور بنیادی مجموعوں سے احادیث لی گئی ہیں۔ ایک ہی جِلد میں ان تمام مباحث کو سمیٹ دیا گیا ہے۔ ناشر (اور مترجم) نے اس ضخیم مجموعے کو اِعراب (زیر، زبر، پیش) سے آراستہ کرنے میں غیرمعمولی محنت سے کام لیا ہے۔ اس بنا پر متن احادیث کو صحت کے ساتھ پڑھنا آسان ہوگیا ہے۔ تخریجِ احادیث کو مناسب حد تک مختصر رکھا گیا ہے۔ تخریج کا متن کے اندر نمبر اُردو کے بجاے عربی عبارت پر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ احادیث کی تخریج میں درجنوں کتب کے نام آئے ہیں، کتاب کے آخر میں کتابیات دینی چاہیے تھی۔ مترجم نے اتنے بڑے مجموعے کو اُردو قالب میں ڈھالنے کی صبرآزما مشقت اٹھائی۔یہ مجموعہ اپنی جامعیت اور صحت کی بنا پر بہت مفید ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


Who Killed Karkare? [کرکرے کا قاتل کون؟]، ایس ایم مشرف، ناشر: فیرس میڈیا اینڈ پبلشنگ لمیٹڈ،۸۴- ڈی، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر نئی دہلی- صفحات: ۳۳۵، مع اشاریہ۔ قیمت: ۱۵ ڈالر۔

ہمسایہ ملک بھارت کی دنیا الگ ہے اور چہرہ بھی وہ نہیں، جو ظاہر میں دکھائی دیتا ہے۔ اس بات کی تصدیق زیرنظر کتاب کرتی ہے۔ اگرچہ اس کا عنوان یہ ہے کہ ’’کرکرے کا قاتل کون؟‘‘  مگر سچی بات ہے کہ اس بے گناہ، فرض شناس اور پیشہ ورانہ دیانت کے حامل افسر کے قتل نے، اُن خوف ناک مناظر سے پردہ ہٹایا ہے، جنھیں ’سیکولرزم‘ ، ’جمہوریت‘ اور ’روشن خیالی‘ کے نام پر بھارتی نیتائوں نے چھپا رکھا تھا۔

مصنف بھارتی صوبہ مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ فرض شناسی کے باعث اُن کی حب الوطنی بھارت میں کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ہیمنت کرکرے جیسے دیانت دار افسر نے مذہبی یا نسلی تعصب سے بالاترہوکر، ممبئی ریل بم دھماکے (۱۱ جولائی ۲۰۰۶ئ)، مالیگائوں بم دھماکے (۸ستمبر ۲۰۰۶ئ)، سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکے (۱۹فروری ۲۰۰۷ئ)، اجمیردرگاہ دھماکے (۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۷ئ)، سلسلہ وار دھماکے (۲۳ نومبر ۲۰۰۷ئ)، جے پور دھماکے (۱۳ مئی ۲۰۰۸ئ)، احمدآباد بم دھماکے (۲۶جولائی ۲۰۰۸ئ)، دہلی بم دھماکے (۱۳ستمبر ۲۰۰۸ئ) وغیرہ کی تحقیقات میں عجیب و غریب مماثلت دیکھتے اور ایک ہی نوعیت کا تال میل پاتے ہوئے یہ متعین کیا:’’ان دھماکوں کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ نہیں ہے‘‘، بلکہ کرکرے نے واضح طور پر اشارہ بھی کیا کہ اس بہیمانہ قتل و غارت کے ذمہ دار کون ہیں، تو انھوں نے اس حقیقت کو   بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی نشان دہی نے ہندو قوم پرستوں کے ہاتھوں ہیمنت کرکرے کو  ممبئی میں قتل کرا دیا، تاکہ سچائی کو دیکھنے والی آنکھ اور اسے بیان کرنے والی زبان ہمیشہ کے لیے بندکردی جائے۔

مشرف نے اپنی اس تحقیقی کتاب میں بڑی جاں سوزی سے اس فسطائی ذہنیت کا کھوج لگایا ہے، جس نے انیسویں صدی سے لے کر آج تک ہندستان میں ہندو مسلم فسادات کی آگ دہکا رکھی ہے۔ انھوں نے اپنے طویل محکمانہ تجربے، گہرے مشاہدے، وسیع سماجی مطالعے اور بے شمار فسادات پر لکھی جانے والی تحقیقاتی رپورٹوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بھارت میں ہندو قوم پرستی، اصل میں برہمنیت کا دوسرا روپ ہے، اور یہی اس فساد کی جڑ ہے، اور اس نے بھارت کے امن و سکون کو برباد کر رکھا ہے۔ ان واقعات کے پیچھے سازش، سنگ دلی، سرکاری محکموں خصوصاً انٹیلی جنس بیورو میں موجود ’ہندوتا‘ کے علَم برداروں کا اتحاد کام کر رہا ہے اور ہندستان کے ۲۰کروڑ مسلمانوں کو ہر آن دہشت کے دبائو میں رکھ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔

بھارت میں یہ کتاب ایک سال کے اندر تین بار شائع ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے لیے دو قومی نظریہ کوئی پایدار اصول یا مستقل نظریہ نہیں، فقط ایک وقتی ردعمل کا نام ہے، وہ اگر اس کتاب کو پڑھیں گے تو ان پر چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ وہ لوگ جن کی نظر کو بھارتی فلموں کی چکاچوند نے چندھیا دیا ہے، اگر اس کا مطالعہ کریں گے تو جان لیں گے کہ ’دوستی‘ اور ’ایک ہی کلچر‘ کی باتیں فقط سُراب ہیں، اور ان پر بھارت کے نام نہاد جمہوری سیکولرزم کی قلعی کھل جائے گی۔ یہ کتاب اگرچہ ایک پولیس افسر کے قتل سے منسوب ہے، مگر اس میں بھارتی تعصب اور مسلم دشمنی کی تاریخ کی زندہ تصویر اُبھر کر سامنے آجاتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


۵-اے ذیلدار پارک، حصہ اول و دوم۔ مرتبین: مظفربیگ،حفیظ الرحمن احسن۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز، راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات (علی الترتیب): ۳۲۳، ۴۶۱۔ قیمت : ۲۲۰ ، ۲۵۰ روپے۔

لاہور کی نواحی بستی اچھرہ میں واقع ۵-اے ذیلدار پارک، نہ صرف مولانا مودودی مرحوم کی رہایش گاہ تھی بلکہ اسی عمارت میں ۲۷برس تک جماعت اسلامی پاکستان کا مرکز بھی قائم رہا۔ اس مناسبت سے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر سے متلاشیانِ حق مولانا سے رہنمائی کی غرض سے ۵-اے، ذیلدار پارک کا رُخ کیا کرتے تھے۔

مولانا مودودیؒ کا مدتوں یہ معمول رہا کہ نمازِ عصر کے بعد اپنے گھر (۵-اے، ذیلدارپارک) کے سبزہ زار میں ملاقاتیوں کے درمیان آکر بیٹھ جاتے اور لوگوں کے سوالات اور اِشکالات کے جواب دیتے۔ سوال جواب کی اس محفل میں بڑے قیمتی نکات سامنے آتے مگر ابتدائی زمانے میں میں انھیں محفوظ کرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ مظفربیگ (مرحوم)، مدیر آئین نے اپنے قارئین کو بھی صاحبِ تفہیم القرآن کی اس مجلس سے مستفید کرنے کا عزم کیا۔ پہلے پہل ان کے ایما پر    رفیع الدین ہاشمی ان نشستوں میں ہونے والی گفتگو کو مرتب کرنے لگے۔ پہلا کالم ۲۷ جون ۱۹۶۵ء کو آئین میں شائع ہوا۔ بعدازاں جناب حفیظ الرحمن احسن اور پھر خود مظفربیگ مرحوم نے بھی وقتاً فوقتاً یہ ذمہ داری ادا کی۔آئین کا یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا اور لوگ اس کے منتظر رہتے۔

اس مجلس میں دینی حقائق، فقہی مسائل اور سائنس و فلسفے جیسے موضوعات بھی چھڑجاتے اور کچھ عام قسم کی سرسری باتیں بھی ہوتیں، نیز ملکی حالات بھی زیربحث آتے: ایوب خان کے    زمانۂ اقتدار کے آخری ایام، جنرل یحییٰ خان کے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات، دستور سازی کے مسائل، جماعت اسلامی کی انتخابی پالیسی اور جدوجہد، شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات کا ہنگامہ،  سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ، ذوالفقارعلی بھٹو کا دورِ حکومت اور اسلامی سوشلزم، بھٹو کے خلاف عوامی احتجاج اور تحریک نظامِ مصطفیؐ، مولانا مودودی سے بھٹو کی ملاقات اور ان کی تجاویز وغیرہ۔ اس طرح کتاب ہذا میں ہماری تاریخ کے بڑے نازک اور ہنگامہ خیز دور کی عکاسی ہوتی ہے۔

مولانا مودودیؒ کے سوال و جواب پر مبنی تین مجموعے ۵-اے ذیلدار پارک کے زیرعنوان تین حصوں میں شائع کیے گئے تھے۔ زیرتبصرہ کتاب ہلکے پھلکے انداز میں علمی نکات اور عملی معاملات پر ایک قیمتی مجموعہ ہے۔ اس سے مولانا مودودی کی شخصیت کے منفرد پہلو، نیز تحریکی جدوجہد کے مختلف مراحل کی روداد بھی سامنے آتی ہے۔ تین حصوں پر مشتمل یہ کتاب سالہا سال سے چھپتی چلی آرہی ہے۔ اب ناشر نے کتاب کے پہلے اورتیسرے حصے کو شائع کیا ہے، مگر دوسرا حصہ کسی وجہ سے شائع نہیں کیا جاسکا تو انھوں نے تیسرے حصے پر ’دوم‘ لکھ دیا ہے۔ یہ ایک نامناسب بات ہے، اور اس سے قارئین اُلجھن کا شکار ہوں گے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وضاحت کی ضرورت تھی۔ (عمران ظہور غازی)


گوانتانامو میں پانچ سال، مراد کرناز، اُردو ترجمہ: ریاض محمود انجم۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

مُراد کرناز، کی یہ روداد صرف ترک نژاد جرمن نوجوان کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ گوانتانامو جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بننے والے ہزاروں افراد کی رودادِ زندگی بھی ہے۔ تہذیب و تمدن کی دعوے دار عالمی طاقتوں نے افغانستان سے سیکڑوں افراد کو صرف شبہے میں گرفتار کیا اور مجرموں تک پہنچنے کی کوشش میں معصوم شہریوں پر جس قسم کے مظالم توڑے گئے اُس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قلم کانپ اُٹھتا ہے۔ مُراد کرناز کو ۳ ہزار ڈالر کے عوض فروخت کیا گیا تھا۔ اُس نے ۱۶۰۰ دن اس طرح کاٹے کہ اُسے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، قیدتنہائی میں رکھا گیا، سونے نہ دیا گیا، انتہائی گرم اور انتہائی ٹھنڈے کمروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا، لیکن اُس کا عزم و ارادہ کمزور نہ ہوا۔ وہ  کس جرم کوقبول کرنے کا اعلان کرتا، جب کہ اُس نے کوئی جرم کیا ہی نہیں تھا! گوانتانامو جیل میں قیدیوں پر اس قدر ظلم و تشدد کیا گیا کہ ان میں سے درجنوں قیدی ہلاک ہوگئے اور سیکڑوں کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ اپنے آپ کو موت کے شکنجے میں جکڑا ہوا پاتے۔

ریڈکراس کی کوششوں سے پانچ برس بعد مُراد کرناز، اپنے گھر والوں کے درمیان لوٹ آیا۔ مُراد کرناز سے تفتیش کس طرح کی جاتی تھی، اُس کا ایک انداز یہ تھا: ’’اُنھوں نے برقی سلاخ میرے پیروں کے تلووں کے نیچے رکھ دی، بیٹھے رہنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میرا بدن خود بخود اُچھل رہا ہو۔ میں نے برقی رَو اپنے پورے بدن میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کی۔ میں سخت اذیت اور تکلیف میں مبتلا تھا۔ مجھے اپنے بدن میں گرمایش، جھٹکے اور اینٹھن محسوس ہوتی۔ میرا خیال تھا کہ میں اس اذیت میں مر جائوں گا‘‘.... ایک اور قیدخانے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یہ ایک ایسا قیدخانہ تھا جہاں کسی قسم کی خلوت کا تصور نہ تھا۔ہماری گفتگو پر بھی پابندی تھی اور پھر ایک مضحکہ خیز قانون یہ تھا کہ پہرے داروں سے گفتگو تو درکنار، ان کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ مزید ستم یہ کہ ہم ریت میں اپنی اُنگلیوں سے کوئی خیالی تصور یا تحریر بھی نقش نہیں کرسکتے تھے بلکہ مسکرانا بھی قوانین کی خلاف ورزی میں شامل تھا‘‘۔ مترجم ریاض محمود انجم کے ترجمے میں طبع زاد تحریر جیسی روانی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


تعارف کتب

  • محسن نسواں ، شگفتہ عمر۔ ناشر: دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۳۲ روپے۔ [معاشرے میں عورت کا کردار اور اس کے حقوق کا تعین ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہا ہے۔ فی الواقع محسنِ نسواں اگر کوئی ہستی ہے تو نبی کریمؐ کی ہستی ہے جس نے خواتین کے لیے ہر دائرے میں حقوق و فرائض کی ادایگی میں وہ توازن قائم کیا جس کی نظیر تاریخِ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ زیرنظر کتابچے میں سرورِعالمؐ کے خواتین پر احسانات کے واقعات کو ۳۷ عنوانات کے تحت دل نشین اور دل کش اسلوبِ بیان میں پیش کیا گیا ہے۔]
  • عباد الرحمن ، پروفیسر الطاف طاہر اعوان۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ ص ۳۲۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [اللہ کے محبوب بندوں کی صفات، عبادات، ذمہ داریوں اور بشارتوں کا بیان۔ اس غرض کے لیے پورے قرآن مجید کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر ایک جامع مطالعہ اپنے جائزے اور عمل کے لیے عباد الرحمن کی صفات کا آئینہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ بقول مؤلف: اس کا مقصد مطالعہ کرنے والے کے دل میں ارتعاش پیدا کرنا اور انقلاب کے لیے تحریک بیدار کرنا ہے۔]

مدینۃ النبیؐ، ڈاکٹر رانا محمد اسحاق، ڈاکٹر رانا خالد مدنی۔ ناشر: ادارہ اشاعت اسلام،         ۴۰۸-گلشن بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور-۵۴۵۷۰۔ فون: ۳۶۱۲۱۸۵۶-۰۴۲۔ ملنے کا پتا: ادبستان، ۴۳- ریٹی گن روڈ عقب سنٹرل ماڈل سکول، لوئرمال، لاہور۔ صفحات: ۴۶۴۔ قیمت: ۱۵۰۰روپے۔

زیرنظر کتاب کے مؤلف نے ایک صحیح حدیث کا ترجمہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’اے  اللہ تعالیٰ! مدینہ بھی ہمیں مکہ مکرمہ کی طرح محبوب کردے بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب کردے‘‘۔ مؤلف نے مدینہ طیبہ کی برکت، پاکیزگی اور فضائل کے بارے میں مذکورہ بالاحدیث کے علاوہ بھی متعدد احادیث کا ذکر کیا ہے۔

فاضل مصنف نے مدینۃ النبیؐ کے موضوع پر بلکہ اس کے متعلقات پر بھی نئی پرانی تصاویر سمیت بمقدارِ کثیر لوازمہ جمع کردیا ہے۔ بلاشبہہ اسے مدینہ منورہ پر ایک انسائیکلوپیڈیا یا دائرہ معارف قرار دینا غلط نہیں ہوگا۔ کتاب کے موضوعات و محتویات کی فہرست ۱۴ صفحوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ مدینہ طیبہ کے مختلف نام، قرآن اور حدیث میں مدینہ کے صفاتی اسما، حدودِ حرمِ نبویؐ سے متعلق احادیث، مدینہ سے نبی اکرمؐ کی محبت، مدینہ کی عجوہ کھجور کی فضیلت، مسجدنبویؐ کی تعمیر اوّل سے  لے کر اس میں ہونے والی ۱۹۸۴ء تک توسیعات اور تبدیلیوں کی تفصیل (از سنہ ایک ہجری تا ۱۴۰۵ھ مطابق ۱۹۸۴ئ)۔ مسجد نبویؐ کے فضائل، اس کے مختلف حصے، ستون، حجرے، نقشے، تصویریں، زیارتِ قبرنبویؐ سے متعلق احادیث کا تجزیہ وغیرہ۔

مدینہ طیبہ کی ان تفصیلات کے ساتھ سیرتِ طیبہ کی تفصیلات، خصوصاً آنحضوؐر کے مدنی دور کے بعض واقعات، شہداے اُحد، جنگ ِ احزاب، مدینہ کی مختلف مساجد، پہاڑوں، کنوئوں، چشموں، معروف ڈیموں، جنگلات، مدینہ میں زراعت، مدینہ کی مارکیٹیں، معروف لائبریریاں، شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس سٹی، مدینہ یونی ورسٹی، حتیٰ کہ مدینہ کے باشندوں کے معاشرتی طورطریقے، خوشی اور غمی کی رسومات، شادی کی تقریب، حق مہر، دلھن کا انتخاب، مدینہ کے معروف شادی گھر، عید کی تقریب، تعزیت کا طریقہ وغیرہ وغیرہ کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔

فاضل مصنف مدینہ یونی ورسٹی میں زیرتعلیم رہے۔ بعد میں بھی حجازِ مقدس میں کئی سال تک قیام کیا۔ زیرنظر تحقیق موصوف کے زمانۂ قیامِ حجاز کی یادگار ہے جسے اُن کی وفات (۲مئی ۱۹۹۷ئ) کے بعد اُن کے لائق بیٹے، ڈاکٹر رانا خالد مدنی نے بلاشبہہ بڑی کاوش اور اہتمام سے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کی تحریر و تصنیف، طباعت و اشاعت اور پیش کش میں علم و تحقیق سے مصنف اور ناشر کی لگن کا انداز ہوتا اور ان کا تحقیقی و جمالیاتی ذوق بہت واضح نظر آتا ہے۔     مدینۃ النبی اور مسجدنبویؐ کے تعلق سے اتنی مختلف النوع اور اتنی کثیرتعداد میں تصویریں شاید ہی کسی کتاب میں یک جا ملیں گی۔ یہ سب کتاب کے حُسن اور وقار و وقعت میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔

کتاب کے آخر میں آیاتِ قرآنی اور احادیث کے اشاریے، اور مصادر و مراجع کی   ایک مفصل فہرست شامل ہے۔ اس کے علاوہ قرآنی آیات و احادیث بلکہ جملہ عربی عبارات پر اِعراب لگانے کا التزام کیا گیا ہے۔ اُردو والے کہہ سکتے ہیں کہ اب مدینہ طیبہ پر ایسی خوب صورت، جامع اور وقیع کتاب اُردو میں بھی موجود ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


رسول اکرمؐ اور تعلیم، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ترجمہ: ارشاد الرحمن۔ ناشر: دارالتذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۳۔ صفحات: ۲۶۱۔ قیمت: درج نہیں۔

علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کا شمار دورِ حاضر کے جید علما میں کیا جاتا ہے۔ آپ نے دورِحاضر کے مشکل ترین موضوعات و مسائل پر تحقیق کی ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے اُمت مسلمہ کو عمل کی راہ دکھائی ہے۔ اس کتاب میں سنت کو بنیاد بناکر تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ جناب ارشاد الرحمن نے اصل کتاب الرسول والعلم کا بامحاورہ اور سلیس و رواں اُردو ترجمہ کیا ہے۔

مصنف نے ایک وسیع موضوع کو پانچ ابواب میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ابتدا میں علم کی فضیلت اور اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کی اصل کمزوری کی نشان دہی کی گئی ہے۔  تحقیق کا شعبہ پوری اُمت مسلمہ میں زوال کا شکار ہے اور تحقیق خواہ دینی مسائل میں ہو یا دنیاوی علوم و فنون کے بارے میں، علم کی نقل تو ہو رہی ہے لیکن تحقیق و تجربے سے گریز اُمت مسلمہ کا وتیرہ ٹھیرا ہے۔ اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے تحقیق کو جِلا بخشنے، مشاہدہ و تجربے کے ذریعے نتائج اخذ کر کے علم میں اضافے کی جانب سنت رسولؐ سے بڑے مضبوط دلائل فراہم کیے گئے ہیں۔ علم کی اخلاقیات اور حصولِ علم کے آداب اور تعلیم کی اقدار و مبادیات جیسے موضوعات پر گراں قدر مواد جمع کیاگیا ہے۔ اُمت مسلمہ کی پستی کا سبب علم و تحقیق سے دُوری ہے۔ ایک طرف کم شرح خواندگی، معیاری تعلیمی اداروں کی کمی، تحقیق کی کمیابی اور علمی وسائل کا فقدان ہے تو دوسری طرف اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کے علم دشمن رویے ہیں۔

کتاب کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف اکیسویں صدی کے علوم اور مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور آج کے انسان کو قرآن وسنت کی روشنی میں مخاطب کرتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی یہ کتاب تعلیم کے موضوع پر ایک جامع دستاویز ہے اور اساتذہ، خطبا، علما اور تحقیق کے طلبہ کی ضرورت ہے۔ (معراج الھدٰی صدیقی)


مشرق تاباں، ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ ناشر: پورب اکادمی، اسلام آباد۔ فون: ۵۸۱۹۴۱۰-۰۵۱ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۹۵ روپے۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل اُردو دنیا کی معروف شخصیت ہیں اور ادبی تحقیق کے شعبے میں   ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ کئی برس تک اٹلی اور جاپان کی جامعات میں اُردو زبان و ادب کی تدریس کرتے رہے۔ کراچی یونی ورسٹی سے بطور صدرشعبہ اُردو سے سبک دوشی کے بعد ان دنوں  بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں، کلیہ علومِ عمرانی کے ڈین اور پروفیسر شعبۂ اُردو کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

جاپان میں سات سالہ قیام کے دوران میں انھوں نے تصنیف و تحقیق کا سلسلہ برابر جاری رکھا، اور وقتاً فوقتاً ہفت روزہ تکبیر، کراچی میں علمی اور ادبی کالم بھی لکھتے رہے۔ زیرنظر مجموعے میں جاپان سے متعلق ثقافتی اور علمی و ادبی موضوعات پر لکھے گئے کالموں کو جمع کیا گیا ہے۔ (جاپانی سیاست و معاشرت سے متعلق مصنف کے کالم بعدازاں کسی اور مجموعے میں شامل ہوں گے)۔

اس کتاب میں شامل ۱۷ مضامین ادب، تاریخ، تعلیم، خطاطی اور علومِ اسلامیہ کے مختلف اور متنوع پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ بیش تر مضمون قلم برداشتہ لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں بھی مصنف کا تحقیقی ذہن اور علمی رویّہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ کچھ مضامین جاپان کی نمایاں شخصیات پر ہیں، مثلاً پروفیسر سوزوکی تاکیشی جو اُردو کے ایک بڑے خدمت گزار تھے، جدید جاپانی ادب کے ایک رجحان ساز شاعرہاگی وارسکوتارویا، جاپانی خطاط کوٹتشی ہوندا اور سرراس مسعود وغیرہ۔ سر راس مسعود کے سفرجاپان، اسی طرح اُردو کا اوّلین سفرنامۂ جاپان اور سورج کو ذرا دیکھ جیسی کتابوں، پھر جاپان میں اُردو زبان، لسانیات، غالب اور اقبال کے تراجم جیسی تصنیفی کاوشوں کا ذکر ہے۔ جاپان میں اسلام اور دنیاے اسلام کے بارے میں مصنف کے بقول تحقیقی اور علمی کام جو اتفاقِ باہمی اور مشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیے جا رہے ہیں اس کی نظیر اسلامی دنیا میں بھی کہیں نظر نہیں آتی (ص ۱۵)۔ ایک مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا پر نہ صرف مضامین اور کتابوں کی شکل میں بلکہ جامعاتی تحقیق کے حوالے سے بھی قابلِ رشک کام ہو رہے ہیں۔ دو مضامین میں چین کے فرضی سفرناموں کا ذکر ہے۔ ایک مضمون میں معروف سیاح ابن بطوطہ کے سفرچین کے بارے میں بھی شبہہ ظاہر کیاگیا ہے۔

مجموعی طور پر یہ مضامین اپنے موضوعاتی تنوع اور اندازِ بیان کی وجہ سے نہایت دل چسپ اور معلومات افزا ہیں۔ ہرسطح کے اساتذہ، صحافی اور میڈیا سے وابستہ خواتین و حضرات اگر اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو انھیں احساس ہوگا کہ وقت ضائع نہیں ہوا۔(ر- ہ )


ڈاکٹر عبدالقدیرخان کا مقدمہ، نصرت مرزا۔ ناشر: رابطہ پبلی کیشنز، ۷۱۰-سیونتھ فلور،    یونی شاپنگ سنٹر، صدر کراچی۔ فون: ۳۵۲۱۲۷۳۱۔۰۲۱ صفحات: ۴۳۱۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

نصرت مرزا پاکستان کے ان نام وَر صاحب ِعلم و صاحب ِ درد کالم نگاروں میں شامل ہیں جو خونِ جگر میں انگلیاں ڈبو کر علمی، دینی اور تہذیبی مسائل کے بارے میں قوم کو شعور دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مقدمہ، دردِ دل کے ساتھ لکھے جانے والے مضامین کی کتابی صورت ہے۔ پاکستان کو عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے شخص کے ساتھ اغیار ہی نہیں، اپنوں نے بھی محسن کشی کا ثبوت دیا ہے۔

کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے۔ مقدمے میں ڈاکٹر قدیرخان اور دیگر ایٹمی سائنس دانوں پر الزامات کا تجزیہ ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی معلومات اور اس کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا مناسب جواب دیا گیا ہے۔ وہ وثائق و خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ابتدائی کہانی سناتے ہیں۔

کتاب کا مطالعہ جذبۂ حب الوطنی اور دینی تعلق کو توانا کرتا ہے۔ چُست محاوروں کے استعمال اور برموقع اشعار نے کتاب میں دل چسپی کے عنصر میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ کتاب   تاریک دور کے روشن کرداروں کی تاریخ میں گراں قدر اضافہ ثابت ہوگی۔ (م- ص)


ساحرہ کے افسانے، مرتبہ: سعیدہ احسن۔ ناشر: ادارہ بتول، ۱۴-ایف، سید پلازہ، ۳۰-فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۵۸۵۴۴۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۴۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

۳۹ افسانوں کا یہ مجموعہ اُن ’قلم کاروں کے نام‘ کیا گیا ہے ’جنھوں نے حُرمت ِ قلم کا پاس رکھا‘۔ سعیدہ احسن کے یہ افسانے آج سے تقریباً نصف صدی پیش تر ہفت روزہ قندیل میں ’ساحرہ‘ کے قلمی نام سے چھپتے رہے کیوں کہ اس زمانے میں (بعض گھرانوں کی روایات کے مطابق) کسی خاتون کا اپنے اصل نام سے افسانے لکھنا معیوب تصور کیا جاتا تھا۔

سعیدہ احسن کے افسانوں کا بنیادی موضوع ’عورت‘ ہے چنانچہ ان افسانوں میں عورت کی زندگی کے مختلف روپ ملتے ہیں۔ یہ کہانیاں صنفِ نازک کے احساسات و جذبات اور ناسمجھی اور  کم عمری کی وجہ سے جذباتیت کی رو میں بہہ کر کیے گئے فیصلوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ سب کہانیاں معاشرے میں جابجا بکھری نظر آتی ہیں۔ افسانہ نگار نے بہن بھائی کی محبت، میاں بیوی اور ساس بہو کے رشتوں کی نزاکتوں، بھابی، نند، دیورانی، جٹھانی، ملازم اور مالک، اولاد، ہمسایے اور سہیلیوں کے حوالے سے معاشرے کی رنگا رنگ تصویریں پیش کی ہیں۔ سعیدہ احسن نے ان رشتوں اور تعلقات کی اُونچ نیچ کو فن کی چھلنی سے گزار کر الفاظ کا روپ دیا ہے۔ وہ زندگی کے    تلخ حقائق کا گہرا ادراک رکھتی ہیں۔ اگر کوئی افسانہ نویس سرما کی نیم خنک دوپہر سے سورج کی جھلملاتی کرنیں لے لے اور اس کے ساتھ وہ قوسِ قزح کے رنگ بھی جمع کرلے، اور پھر دونوں کو اپنی تحریر میں جذب کرکے رات کی تاریکیوں سے اُجالے کی اُمید دلا دے تو اصلاح کی طرف جانے کا راستہ واضح اور روشن نظر آنے لگتا ہے۔

۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک کے عرصے میں لکھے گئے ان افسانوں میں قیامِ پاکستان کے بعد ٹوٹتی ہوئی اقدار اور مادہ پرستی پر مبنی معاشرے کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ پرانی اقدار پر ضرب پڑ رہی تھی اور نئی اقدار اپنا راستہ بنا رہی تھیں مگر ابھی اس کے فاسد اثرات پوری طرح ظاہر نہ ہوئے تھے۔ سعیدہ احسن جو اُس وقت نوعمر تھیں، انھوں نے ان مضمرات کو محسوس کیا، ان کے کچھ جملے ان کی گہری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں: ’’جان دے کر بھی وہ اپنی کانفرنس کا کفارہ ادا نہ کرسکی تھی‘‘(ص ۷۶)۔ ’’بھڑوں کے ڈنک سے ہونے والی سوجن تو آہستہ آہستہ کم ہونے لگی مگر کسی کی زہریلی زبان کے ڈنک نے اُس کی روح تک کو اس طرح نیلا کر دیا تھا کہ پھر زیست نے آنکھیں کھول کر کسی کو نہ دیکھا‘‘(ص ۲۸۸)۔ ان جملوں کے اندر ایک گہرا پیغام چُھپا ہوا ہے۔

ساحرہ کے کچھ افسانے، زندگی کے روزمرہ مشاہدات پر مبنی ہیں۔ ان کا اسلوب بیانیہ اور سیدھا سادا ہے۔ بظاہر ایک معمولی بات کو جو بظاہر توجہ طلب نہ ہو، اس طرح بناکر پیش کرنا کہ وہ زندگی کی سنگین حقیقت معلوم ہو، لکھنے والے کے ذہنِ رسا کی علامت ہے۔ ساحرہ کی کہانیاں اس کی ذہانت کی عکاس ہیں۔ افسانوں کے وہ قارئین جو روایات و اقدار پر یقین رکھتے ہیں،ان افسانوں کو دل چسپ پائیں گے۔ یہ مجموعہ خواتین کے تعمیری ادب میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔ (زبیدہ جبیں)


تعارف کتب

  • رحمت عالمؐ ، علامہ سید سلیمان ندویؒ۔ ناشر: دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۲۔ قیمت: ۸۰ روپے۔ [علامہ سید سلیمان ندوی کا نام برعظیم کے دینی و علمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ زیرنظر کتاب بنیادی طور پر کم پڑھے لکھے افراد اور عام نوجوانوں کے لیے آسان پیرایۂ بیان میں لکھی گئی ہے۔بقول مصنف: ’’اس (کتاب) میں عبادت کی سادگی، طرزِ ادا کی سہولت اور واقعات کے سلجھائو کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ چھوٹی عمر کے بچے اور معمولی سمجھ کے لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور اسکولوں اور مدرسوں کے کورسوں میں رکھی جاسکے (ص ۹)۔بلاشبہہ کتاب اسکولوں کے نصاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔ بھارت کے صوبہ بہار میں اسلامی مکتبوں میں اسے بطور نصابی کتاب پڑھایا جارہا ہے۔ اس نوعیت کی کتابوں کی اشاعت دعوۃ اکیڈمی کی قابلِ تحسین خدمت ہے۔]
  • ہمارے نبیؐ ، سید احمد علی شاہ۔ ملنے کا پتا: ادار ہ مطبوعات طلبہ، ۱-اے ذیلدار پارک،اچھرہ، لاہور۔ فون: ۴۴۵۵۷۴۸-۰۳۲۲۔ صفحات:۸۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [بچوں کے لیے مختصر، جامع اور آسان الفاظ میں سیرتِ رسولؐ کے ساتھ ساتھ مفید جغرافیائی و تاریخی معلومات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ آخر میں ’سارا جہاں جن کی تعریف کرے‘ عنوان کے تحت مشاہیر عالم (مسلم و غیرمسلم) کے نذرانۂ عقیدت کا تذکرہ بھی ہے۔ ہر باب سے پہلے سوالات کی فہرست دی گئی ہے تاکہ لوازمہ پڑھنے سے پہلے بچوں کو اہداف(حاصلاتِ تعلّم) معلوم ہوسکیں۔ وضاحت کے لیے حسب ِ ضرورت نقشوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔]
  • اُجالوں کا سفر، حکیم محمد منیر بیگ۔ ناشر: شافی پبلی کیشنز، لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۹۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [زیرنظر کتاب مختصر مگر بامقصد تحریروں کا مجموعہ ہے جس میں فاضل مصنف نے زندگی بھر کے تجربات و مشاہدات کو قلم بند کرتے ہوئے زندگی کو بہتر انداز میں بسر کرنے کے گُر بتائے ہیں۔ بعض واقعات مصنف کے قیامِ جاپان کے ہیں۔ انھوں نے دل چسپ واقعات سے مثبت اور سبق آموز نتائج اخذ کیے ہیں۔ اندازِ بیان سادہ مگر دل چسپ اور دل کش ہے۔]

محمدؐ پیغمبرِاسلام، کانسٹنٹ ورجل جیورجیو، ترجمہ: مشتاق حسین میر۔ ناشر: ادارہ ترقی فکر، ۳۱۵-سی، فیصل ٹائون، لاہور۔ صفحات: ۴۲۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

محسنِ عالم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ، انسانی زندگی کا وہ روشن سرچشمہ ہے جس میں واقعی انسانی زندگی گزارنے کے تمام قرینے پائے جاتے ہیں۔ اگر اس حیاتِ مقدسہ کو چھوڑ دیں تو انسانی زندگی، حیوانی زندگی کا حوالہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اصحابِ ایمان نے اس حیاتِ طیبہ کو اپنی والہانہ وابستگی و محبت کا مرکز بنایا تو دوسری جانب وہ سعید روحیں بھی اس نور کی کشش سے دُور نہ رہ سکیں، جنھیں اگرچہ اسلام کی نعمت نہ مل سکی، مگر نورِ نبوت کی روشنی کا اعتراف انھوں نے بھی کیا۔ رومانیہ کے معروف ڈپلومیٹ اور مسیحیت سے وابستہ جیورجیو، ثانی الذکر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

زیرمطالعہ کتاب محمدؐ پیغمبرِاسلام جیورجیو کے اسی اعترافِ عظمت کی شہادت ہے، وہ ایسے فرد کی طرح سیرت کا مطالعہ پیش کرتے ہیں جس نے رسولؐ اللہ کو پیغمبر کے بجاے ایک  عظیم ترین انسان کے طور پر دیکھنے، سمجھنے اور اپنے لفظوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیورجیو نے ایک عجب جذب و مستی میں، سیرتِ پاکؐ کے مختلف پہلوئوں کو خالصتاً عقلی اور تجزیاتی رنگ میںپرکھا اور رواں اسلوب میں قلم بند کیا ہے۔ واقعات کو صحت کے ساتھ پیش کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے اوریہ کوشش بھی کی گئی کہ مطالعہ کرنے والا فرد اگر انھیں پیغمبرؐ نہیں بھی تسلیم کرتا تو کتاب کی اختتامی سطروں پر پہنچ کر وہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہتا کہ انسانیت کا واحد بلند ترین حوالہ بھی بس یہی حیاتِ مقدسہ ہے۔

ترجمے کا اسلوب ایسا پُرکشش ہے کہ قاری، مصنف کی گرفت سے نکل نہیں پاتا۔   اسلوبِ بیان ایسا پُرتاثر ہے کہ کبھی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، تو کبھی قاری اپنے آپ کو ۱۴ سو برس پہلے مکہ و مدینہ کی فضائوں میں موجود پاتا ہے اور ان پیش آمدہ واقعات کا حصہ تصور کرنے لگتا ہے۔بلاشبہہ چند مقامات پر اختلاف کی گنجایش موجود ہے مگر اس میں اختلاف میں بدنیتی کا تاثر نہیں ملتا بلکہ معلومات تک رسائی کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جو بالخصوص غیرمسلم دوستوں میں بڑے پیمانے پر پھیلائے جانے کے قابل ہے۔ مرحوم مشتاق حسن میر ایڈووکیٹ (گجرات) نے ۷۰ کے عشرے میں اُسے اُردو میں منتقل کیا تھا۔ خوب صورت طباعت کے ساتھ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے اس کا نقشِ ثانی پیش کیا ہے، جسے اور زیادہ بامعنی بنانے کے لیے مشہور محقق محسن فارانی نے قیمتی نقشوںسے مزین کیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


فقہ اسلامی: دلائل و مسائل (جلد اوّل)، وہبہ الزحیلی، مترجم: محمد طفیل ہاشمی۔ ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۰۰۸ ۔ قیمت (مجلد): ۱۰۰۰ روپے۔

اسلامی فقہ پر اب تک جو کام ہوچکا ہے، اس کا صرف خلاصہ لکھا جائے تو وہ بھی درجنوں جلدوں پر محیط ہوگا۔ بالکل اسی طرز پر عہدِحاضر میں کیا گیا کام معروف شامی عالمِ دین ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی تصنیف الفقہ الاسلامی وأدلتہ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ عرب یونی ورسٹیوں میں اسلامی قانون کی تدریس کا وسیع تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر وہبہ کی یہ تصنیف ۱۱ جلدوں پر مشتمل ہے۔ متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقاتِ اسلامی نے اس کے اُردو ترجمے کی اشاعت کا بیڑا اُٹھایا ہے۔

ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی اس تصنیف کی پہلی جِلد کا ترجمہ زیرنظر ہے۔ فقہ کے بنیادی مباحث قریباً ۳۰۰ صفحات پر محیط ہیں۔ ان مباحث میں فقہ کا مفہوم اور اس کی خصوصیات، آٹھ بڑے فقہی مذاہب کے بانیوں کا تعارف، فقہا کے درجات اور فقہی کتب، فقہی اصطلاحات اور فقہی تالیفات، فقہا کے اختلافات کے اسباب کا مختصراً ذکر کیاگیا ہے۔ اس کے بعد بنیادی اور عمومی انداز کے اُن سوالات کا جواب دیا گیا ہے جو فقہ کے ہر طالب علم اور عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، مثلاً کیا صرف ایک مذہب کی پابندی ضروری ہے؟ مسئلہ کس درجے کے عالم سے پوچھا جائے؟ وغیرہ۔ ان بنیادی مباحث کا خاتمہ ’نیت‘ کی بحث پر ہوتا ہے۔ یہ بہت جامع بحث ہے۔ عبادات کے ذکر میں بھی اگرچہ اس پر بحث موجود ہے، تاہم یہاں الگ سے مفید بحث کی گئی ہے۔

ایک تہائی صفحات کے بعد ’طہارت‘ اور ’نماز‘ کا بیان ہے۔ یہاں بھی باب اول: طہارت کتاب کے قریباً ۵۰۰ صفحات پر محیط ہے۔ یہ بیان طویل ضرور ہوگیا ہے مگر مسئلے کی کماحقہ توضیح و تشریح جب سامنے آتی ہے تو یہ طوالت اکتاہٹ کے بجاے دل چسپی کا باعث بن جاتی ہے۔ اس باب کو سات حصوں میں تقسیم کر کے پہلے طہارت کے مفہوم کے بعد پانی کے حوالے سے جملہ مسائل کا ذکر ہے۔ پھر وضو، غسل، تیمم اور خواتین کے مسائل پر اس باب کی تکمیل ہوتی ہے۔ آخر میں نماز کے باب کو بھی پہلے باب کی طرح متعدد حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ چار حصوں میں تقسیم کی گئی اس بحث میں نمازوں کے اوقات، اذان و اقامت کے مسائل، اور نماز کی شرائط کو مفصل و مبرہن طور پر بیان کیا گیا ہے۔

یہ کتاب بہت سی اسلامی جامعات میں اسلامی علوم کے اعلیٰ درجات کے طلبہ کو بطور  نصاب پڑھائی جاتی ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ یقینا اُردو خواں لوگوں کے لیے ایک قابلِ قدر تحفہ ہے۔ ڈاکٹر وہبہ نے اسلامی فقہ کا یہ انسائی کلوپیڈیا تیار کر کے نہ صرف اسلامی فقہ کے طلبہ و اساتذہ پر بلکہ موضوع کا مطالعہ کرنے والے عام قاری کے اُوپر بھی احسان کیا ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


امام ابن تیمیہ، ایک عظیم مصلح، مولانا فضل الرحمن بن محمد الازہری۔ ناشر: ریز مشنری سٹور، ۵۳- نشتر روڈ، لاہور۔ فون: ۵۹-۷۶۴۱۳۵۸۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت(مجلد): ۲۵۰روپے۔

عظیم مصلح امام ابن تیمیہ (۱۲۶۲ئ- ۱۳۲۷ئ) نے اپنی اصلاحی کاوشوں کا علَم ایک ایسے تاریک دور میں بلندکیا جب تاتاری غارت گر مسلمان قوموں کو دریاے سندھ سے فرات کے کنارے تک پامال کرچکے تھے۔ مسلسل ۵۰ برس کی ہزیمتوں اور علم و دانش کے مراکز کی تباہی نے مسلمانوں کو انتہائی زوال و اِدبار سے دوچار کر دیا تھا۔ تاتاریوں کے قبولِ اسلام کے بعد بھی نومسلم تاتاری حکمرانوں کے زیراثر عوام، علما اور فقہا و مشائخ سبھی کی اخلاقی سطح بدستور ویسی ہی رہی۔ تقلید جامد کا دور دورہ تھا۔ کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا گویا گناہ بن گیا تھا۔ عوام الناس جاہل، غیرمنظم تھے اور پست ہمت۔ ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ دنیا پرست تنگ نظر علما اور ظالم حکمرانوں کے باہمی اشتراک کے خلاف اصلاح کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ صحیح الخیال علما اور حق پرست صوفیہ کی کمی نہ تھی مگر اس تاریک زمانے میں اصلاح کی آواز بلند کرنے کا شرف جس عظیم حق گو کو حاصل ہوا وہ امام ابن تیمیہ تھے۔ بلاشبہہ تمام علوم پر انھیں گہری دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فلسفہ و کلام، تزکیہ و احسان، تصوف و معرفت، عقائد و احکام، دین و شریعت، غرض تمام موضوعات پر تنقیدی بحثیں کیں۔ امام کی ان کاوشوں کی وجہ سے کتاب و سنت کی اصل روح نکھر کر سامنے آئی۔ تقلید و اجتہاد پر بھی امام ابن تیمیہ نے بے مثل کام کیا۔ مشرکانہ رسوم، بدعات اور اعتقادی و اخلاقی گمراہیوں کے خلاف امام نے جہاد کیا اورکئی بار پابندِ سلاسل ہوئے لیکن تنقید و تنقیح میں انھوں نے کسی سے رعایت روا نہیں رکھی۔ بڑے بڑے نام بھی امام کی تنقید سے بچ نہ سکے۔ اس آزاد اور جرأت مندانہ تنقید کی وجہ سے ایک دنیا اُن کی دشمن ہوگئی جس کا تسلسل آج بھی قائم ہے۔

امام ابن تیمیہ کی زندگی کے حالات و واقعات کے متعلق زیرنظر کتاب میں مستند حوالوں اور مصادر سے معلومات جمع کی گئی ہیں۔ امام کی ابتدائی زندگی، پیدایش، تعلیم اور مسند درس پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعدازاں تاتاری جنگوں کے کچھ حالات بیان کیے گئے ہیں۔ تاتاریوں کے ان حملوں اور جنگوں کے مقابلے میں امام ابن تیمیہ نے جو جہادی کردار ادا کیا، اُسے بھی بیان کیاگیا ہے۔ یہ اگرچہ بہت مختصر بیان ہے مگر امام کی زندگی میں اس باب کی بہت اہمیت ہے۔ بہت سے لوگ    امام ابن تیمیہ کی زندگی کے اس گوشے سے ناواقف بھی ہیں۔ شرک و بدعت کے خلاف امام کے جہاد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور یہ باب امام کی زندگی کا گویا حاصل ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ امام کی ساری زندگی اسی جہاد میں گزری۔ یہ باب امام کے خلاف جعلی صوفیہ کے ہتھکنڈوں اور امام کی تجدیدی و اصلاحی کاوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ امام متعدد ابتلائوںسے دوچار بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اس سے اگلے باب میں امام کے ایک خط الرسالۃ القبرصیۃ کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے جس میں امام نے ایک عیسائی حکمران کو مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی طرف توجہ دلائی اور اسلام کی تعلیمات کی بھی وضاحت کی ہے۔ چھٹا باب امام کے خلاف بُغض و عناد کی شدت کے بیان پر مشتمل ہے، اور یہیں امام کی زندگی کا باب بھی مکمل ہوجاتا ہے۔ ساتویں باب میں امام کے اخلاق و اوصاف، ہم عصر علما کے بیانات کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں۔ آخری باب میں امام ابن تیمیہ کے نام وَر شاگردوں کا بیان ہے جن میں حافظ ابن قیم، حافظ ابن عبدالہادی، حافظ ابن کثیر اور امام الذہبی کے نام نمایاں ہیں۔ اسی باب میں امام کی تصانیف کا تعارف بھی کرا دیا گیا ہے۔ تجدیدی، اصلاحی اور تحریکی و انقلابی ذہنوں کوامام کی زندگی کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرنے کے لیے یہ کتاب مفید کام دے سکتی ہے۔ (ا- ر)


The Roundtable on Issues and Perspectives[مسائل و حالات پر نقطہ ہاے نظر]  شہزادو شیخ۔ ناشر: مشن اَن ٹو لائٹ انٹرنیشنل، لاڑکانہ۔ ملنے کا پتا: فیروز سنز، دی مال لاہور/مسٹر بکس، سپرمارکیٹ، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت: ۴۵۰ روپ۔

شہزادوشیخ کو اندرون و بیرونِ ملک اہم مناصب پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ایک اہم سرکاری افسر کی حیثیت میں اُنھیں نہ صرف حالات و واقعات کو جانچنے کا بھرپور موقع ملا بلکہ اُن کی یہ کوشش بھی رہی کہ مسائل کی تہہ تک پہنچیں اور اُس مقام کا سراغ لگائیں جہاں سے پوری قوم کو زندگی و توانائی سے معمور کیا جاسکتا ہے۔

کتاب میں علم و حکمت، تہذیب و ثقافت، تاریخ، قانون، تہذیبی کش مکش، جدیدیت، بنیادپرستی، فقہ، اجتہاد، جہاد و قتال، سول سوسائٹی اور دیگر اہم موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ اِن مضامین کی خوبی یہ ہے کہ کتاب وسنت سے بھی استفادہ کیا گیا ہے اور قدیم و جدید مغربی مفکرین کی آرا کو اپنے دلائل کے ہمراہ پیش بھی کیا گیا ہے۔مغربی افکار کے حُسن و قبح کو بھی واضح کیا گیا ہے۔

اس کتاب کا ایک مقصد یہ ہے کہ قاری کے سامنے شُستہ انگریزی میں بنیادی نکات رکھ دیے جائیں اور پھر اُسے یہ راہ دکھائی جائے کہ ان کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرے۔ شہزادوشیخ کا خیال ہے کہ علم، اطلاعات میں گم ہوچکا ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان اُمت مسلمہ کو پہنچا ہے۔ دوسرے باب میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا طرزِعمل جو کچھ بھی رہا ہو، شریعت ِ حقہ کی تعلیمات بتمام و کمال موجود ہیں۔ وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں کیمیا، طبیعات، فلکیات کے میدانوں میں جو ترقی کی، اُسی کی بنا پر یورپ، تاریکی کے دور سے نکلا اور آج دنیا بھر کی زمامِ کار اُنھی کے ہاتھ میں ہے۔

مطالعہ تاریخ اور تاریخ نویسی کے حوالے سے اُن کا مشاہدہ یہ ہے کہ تاریخ سے ’عالم گیریت‘ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ حقائق کو اس قدر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے کہ کبھی ایک قوم ظالم بن جاتی ہے اور کبھی وہی قوم محسن بن کر سامنے آتی ہے۔ اصل حقیقت گرداب میں گم ہوچکی ہے۔

کتاب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مغربی فکر اور مغربی اقدامات سے آگاہی اور اُن کے منفی اقدامات پر متوازن تنقید ہے۔حکومتِ پاکستان کے افسران، یونی ورسٹی و کالجوں کے اساتذہ اور اُمت سے ہمدردی و محبت رکھنے والا ہر فرد اس کتاب کو ایک اہم دستاویز پائے گا۔ (محمد ایوب منیر)


ہمارااسلام قبول کرنا، مرتب: پروفیسر خالد حامدی فلاحی۔ ناشر: منشورات، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۳۱۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

یہ کتاب ۶۵ نومسلموں کی آپ بیتیوں کا مجموعہ ہے جنھوں نے آج کے دور میں اسلام قبول کیا ہے۔ یہ آپ بیتیاں پروفیسر خالد حامدی فلاحی کے زیرادارت بھارت کے ماہنامے    اللّٰہ کی پکار میں قسط وار شائع ہوتی رہی ہیں۔ ہر آپ بیتی دل چسپیوں کا نیا جہاں سامنے کھول دیتی ہے۔ ہر واقعہ اسلام کی عظمت و حقانیت پر دلیل بن جاتا ہے۔ اسلام قبول کرنے والی یہ سعید روحیں حق کی متلاشی تھیں اور ان کے گذشتہ مذاہب ان کی روحانی تسکین سے قاصر تھے۔ اللہ کے بے پایاں رحمت نے ان کو قرآنِ مجید دینی کتب اور چند ایسے نیک داعیانِ حق تک پہنچایا جہاں سے ایمان اور جنت کا مبارک سفر شروع ہوا۔ آج کے مسلم معاشرے میں آٹے میں نمک سے بھی کم نظر آنے والے داعیانِ حق کی تعداد بڑھ جائے تو اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں سیکڑوں گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔

مقدمے کے بعد پروفیسر ڈاکٹر بھارتی دیوی کی تحریر ’کوتاہی کس کی ہے؟‘ سمیت کئی جگہوں پر مسلمانوں سے شکوہ موجود ہے کہ نہ تو ان کا کردار قرآن و سنت کے مطابق داعیانہ کردار ہے اور نہ وہ شہادتِ حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ بیش تر واقعات تو ہندستانی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن امریکا کے عبدالعزیز (مائیکل جیکسن کے بھائی) اور سارہ، روس سے لیلیٰ، انگلینڈ سے  سودہ بیگم، ڈنمارک سے نور، یوگنڈا افریقہ سے محمد طٰہٰ، نیپال کے محمداسجد اور پاکستان کے شیخ بشیر کے اسلام میں آنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ اسلام ہی انسانیت کو اپنے جلو میں پناہ و سکون دے سکتا ہے اور ہررنگ و نسل، برادری، ملک، براعظم کے افراد کے لیے کشش رکھتا ہے۔ واقعات کے انتخاب نے قاری کو وسعتِ فکر بخشی ہے۔ یوں ہر واقعہ انوکھا ہے لیکن ہندو، سیکھ، عیسائی، پارسی، قادیانی پس منظر سے تعلق رکھنے والی دس خواتین کی داستان قیمتی ہی نہیں، انسانیت کے لیے قابلِ فخر ہے۔ ایک مسلمان بچی حرا کی داستان جو عبداللہ نے بیان کی ہے حیران کن استقامت کی نظیر ہے۔ اسی طرح مردوں میں اسلام لانے سے پہلے بابری مسجد کو ڈھانے میں حصہ لینے والے ماسٹر محمد عامر ہیں۔ گجرات کے قتلِ عام میں حصہ لینے والے سہیل صدیقی، جرائم پیشہ پس منظر سے عبداللہ، ہندو پجاری عبدالرحمن، انتہائی تعلیم یافتہ محمد قاسم، عبدالواحد، محمدعمر، ڈاکٹر سعیداحمد، ڈاکٹر حذیفہ، محمد خالد، محمداسد، عبداللہ، اے کے عادل، ڈاکٹر محمدعبداللہ، اَپ پڑھ محمدسلیم، محمد لیاقت، غریب محمداحمد اور محمدشفیع شامل ہیں۔

کتاب ضخیم ہونے کے باوجود ایک ہی نشست میں مکمل کرنے کو جی چاہتاہے۔ بعض مقامات پر ایمانی کیفیت کو مہمیز ملتی ہے اور اہلِ ایمان آنسوئوں کے ساتھ اپنے نئے ہم مذہبوں کا استقبال کرتے ہیں۔ مغرب میں عیسائیوں کے قبولِ اسلام پر بہت کتابیں چھپی ہیں۔ عراق اور افغانستان میں اتحادی افواج کے سپاہیوں اور مغربی صحافیوں نے بھی اسلام قبول کیا ہے لیکن ہندو معاشرے میں قبولِ اسلام پر یہ پہلی بڑی دستاویز ہے۔ شہادتِ حق کے فریضے پر اُبھارنے والی اس کتاب کو پڑھے لکھے مسلمان خاص طور پر، ہر داعیِ حق کے مطالعے میں ضرور آنا چاہیے۔ (ڈاکٹر معراج الھدیٰ صدیقی)


تعارف کتب

  • صحابہؓ کے سوال، نبیِ رحمتؐکے جواب، سلمان نصیف دحدوح، مترجم: محمد طیب طاہر، ناشر: نشریات ۴۰-اُردو بازار، لاہور- فون: ۴۵۸۹۴۱۹۔ صفحات:۴۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [مصنف نے عبادات، کاروبار، حکومت و سیاست اور روزمرہ کے نزاعی معاملات، نیز آدابِ زندگی، قیامت اور فتنوں جیسے مسائل سے متعلق احادیث نبویؐ کا انتخاب کیا ہے۔ مفصل اور مختصرتوضیحی نکات بھی درج ہیں۔ رسولؐ اللہ سے صحابہؓ نے کوئی استفسار کیا اور آپؐ نے جواب عنایت فرمایا، انھی سوالات و جوابات (احادیث) کو سوال جواب کی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔ انتخابِ حدیث میں بھی ذرا دقّت سے کام لیا جاتا تو نسبتاً زیادہ جامع اور متعلق بہ موضوع احادیث کو لایا جاسکتا تھا۔ تاہم ایک اچھے ذخیرئہ حدیث کی صورت میں عمومی مطالعے کے لیے اچھا لوازمہ مہیا ہوگیا ہے۔]
  • انسان اور آخرت ، حافظ مبشرحسین۔ ناشر: مبشراکیڈمی،لاہور۔ فون: ۴۶۰۲۸۷۸-۰۳۰۰۔ صفحات: ۱۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [اصلاحِ معاشرہ اور فرد کی فکری تربیت اور تعمیر سیرت کے لیے عقائد و نظریات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بہت سے اخلاقی و معاشرتی مسائل کا بنیادی سبب بھی عقائدو نظریات کا درست نہ ہونا ہے۔ ٹھوس اور پایدار تبدیلی کے لیے تطہیر افکار اور اصلاحِ عقائد ناگزیر ہے۔ پیشِ نظر عقائد اور ایمانیات کے جملہ مباحث کو عام فہم اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ فقہی اور کلامی بحثوں سے ہٹتے ہوئے اس موضوع سے متعلق ضروری معلومات قرآن و حدیث سے جمع کردی گئی ہیں اور حوالہ جات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔]

عکس و آواز

نقا ٹیوب (Naqatube.com)، ایک معیاری اور متبادل ویب سائٹ

۲۰۰۵ء میں پہلی بار متعارف ہونے والی یوٹیوب ویب سائٹ ایک حیران کن ویب سائٹ ہے جو دن بدن مقبول ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس کے ذریعے وڈیو کلپس (وڈیو فلم) بآسانی دنیا بھر میں دیکھے جاسکتے ہیں اور لاکھوں لوگوں تک مؤثر انداز میں اپنی بات پہنچائی جاسکتی ہے۔ اس طرح انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک نیا کلچر متعارف ہوا ہے جو مؤثر ابلاغ کا ذریعہ بھی ہے۔ اس میں خرابی    یہ ہے کہ غیرمعیاری اور اخلاق باختہ وڈیو کلپس بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

یوٹیوب کے ایک بہتر متبادل جو مختلف قباحتوں سے پاک ہو کی تلاش میں ہی نقا ٹیوب کو متعارف کروایا گیا ہے۔ عربی زبان میں نقاء کے معنی خالص اور صاف ستھرے کے ہیں۔     ویب سائٹ کا سلوگن ہی یہ ہے کہ ایک نقی، یعنی صاف ستھری ویب سائٹ کے لیے ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں۔ نقا ٹیوب کا ایک ہدف یوٹیوب کے ناظرین کو ایک بہتر متبادل دینا ہے۔ اس سائٹ میں کلپس لوڈ کرنے سے قبل سنسر کیے جاتے ہیں۔ موسیقی اور خواتین پر مبنی کلپس ممنوع ہیں۔ سائٹ پر مختلف علماے کرام، اسکالرز اور دانش وروں کے نقطۂ نظر کو جاننے کے ساتھ ساتھ مختلف چینل بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ انگریزی کے علاوہ کئی زبانوں میں سائٹ دیکھنے کی سہولت ہے۔ نقا ٹیوب جو کہ چند ماہ قبل متعارف ہوئی ہے تیزی سے مقبول ہورہی ہے، تاہم سروس کے حوالے سے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔(امجد عباسی)

تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ڈی-۳۰۷، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

دورِحاضر میں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور منظرِ جہاں (سنیاریو) نے ایک طرف تو تہذیب اور مذہب کی مسلّمہ اصولوں اور روایات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا اور پرکھنا شروع کردیا ہے، دوسری طرف جدیدیت اور عالم گیریت نے اپنے ہی کچھ ’اصول‘ وضع کرلیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے مسائل کی نئی تعبیرات اور نئی صورت حال میں اجتہاد کی ضرورت بالکل فطری ہے۔ ایک طبقہ اپنی تہذیب اور مذہب پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا طبقہ ’’مسلّمات‘‘ سے جان چھڑا کر  ’نئے تقاضوں‘ اور مذہب کی نئی تعبیرات میں کشش محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے گذشتہ نصف صدی سے اجتہاد کی ضرورت اور عملاً اجتہاد کو بروے کار لانے کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے۔

زیرنظر فقہی مباحث میں اسی صورتِ حال کے پیش نظر کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں متعدد مسائل پر بحث و مباحثے اور مطالعے کی کوشش کی گئی ہے، مثلاً lجدید عالمی پس منظر دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور

  •  اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر اسلامی قانون کا نفاذ
  • اسلامی ریاست اور غیرمسلموں پر حدود کا نفاذ
  • غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات
  • اسلام کا قانون قصاص
  • کیا موجودہ ہندستان (بھارت) دارالحرب ہے؟
  • بھارت میں مسلمانانِ ہند کی دستوری حیثیت کیا ہے؟

مولانا سید جلال الدین عمری (پ: ۱۹۳۵ئ) بھارت کے ایک جیّد عالمِ دین اور ممتاز محقق اور اسکالر ہیں۔ ایک طرف انھیں قرآن وسنت اور علومِ اسلامیہ کے تفسیری اور فقہی ذخیرے پر دسترس حاصل ہے اور دوسری طرف وہ جدید اصولِ تحقیق سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ (وہ علی گڑھ کے ایک ممتاز تحقیقی ادارے ’ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی‘ اور دہلی کی ’تصنیفی اکادمی‘ کے صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں)۔ اس وقت جماعت اسلامی ہند کی امارت کی ذمہ داری چونکہ انھی پر ہے، اس لیے فقہی مسائل پر مباحث میں ان کا قلم بہت محتاط ہے۔ مولانا عمری اصولی مباحث میں ائمہ اور اکابر علما کی آرا اور قدیم علوم سے نظائر کو تو بڑی خوبی سے پیش کردیتے ہیں لیکن موجودہ (خصوصاً بھارت کی) صورت حال میں ان اصول و نظائر کا عملی اطلاق کیسے ہوگا؟ اس سلسلے میں وہ کوئی واضح اور دوٹوک بات نہیں کرتے، مثلاً: غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات کے ضمن میں بھارت میں ہندومسلم شادیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے، عمری صاحب نے اہلِ کتاب سے شادی پر تو اظہارِ خیال کیا ہے مگر ہندو مسلم شادیوں کے مسئلے کو نہیں چھیڑا۔ غالباً اس لیے کہ بہت سی پیچیدگیاں ہونے کا احتمال تھا۔ ایک اور سبب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ مولانا مودودی کے مکتب ِ فکر کے پیروکار ہیں، اس لیے ایسی کوئی بات کرنے سے گریزکرتے ہیں جو فتوے سے قریب تر ہو۔

خوبی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ مصنف علّام نے زیرنظر فاضلانہ مقالات کو ’ایک طالب علم کے قلم سے‘ اور ’موضوعات کے تعارف‘ کے طور پر پیش کیا ہے، اور قارئین سے خامیوں اور فروگذاشتوںکی نشان دہی کرنے کی درخواست کی ہے۔ اُردو کی علمی دنیا میں اس کتاب کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


موسیقی: اسلام اور جدید سائنس کی روشنی میں، ڈاکٹر گوہرمشتاق۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۱۹۶۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

مصنف نے پتے کی بات کہی ہے کہ ’’انسانوں کی اکثریت اپنی فطری کاہلی کی وجہ سے چیزوں کو گہرائی میں دیکھنے کی عادی نہیں ہوتی‘‘۔ شاید اسی وجہ سے وہ گانے بجانے اور موسیقی کو محض تفریح کا ذریعہ اور ’مقامی ثقافت کا اظہار‘ سمجھتے ہیں۔ کیلے فورنیا کی ایک مسجد کے امام طاہرانور کے نزدیک اخلاق اور معاشرت پر موسیقی کے منفی اثرات، منشیات، جنسی بے راہ روی اور خودکشی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ (ص ۱۰)

ڈاکٹر گوہر مشتاق نہ تو معروف معنوں میں عالمِ دین ہیں، نہ انھوں نے علومِ دینیہ میں کوئی سند حاصل کی ہے، مگر قرآن و حدیث کے عالمانہ مطالعے کی بنیاد پر، انھوں نے موسیقی کی حلت و حرمت کے موضوع پر ایک قابلِ لحاظ مفید اور عمدہ کتاب تیار کی ہے۔ موسیقی سے مختلف آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ جمع کی ہیں اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں انسانی جسم پر موسیقی کے اثرات بتائے ہیں۔ پھر معاشرے پر موسیقی کے مہلک اور دُوررس اثرات کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے موضوع سے متعلق مغربی مصنفین کی تحقیقات کو بھی کھنگالا، نتیجہ یہ سامنے آیا کہ موسیقی اکثر صورتوں میں سفلی جذبات کو اُبھار کر بدکاری، نشے اور خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے بہت سے واقعات حوالوں کے ساتھ درج کیے ہیں۔ یہ بھی بتایا ہے تحت الشعور کی گمراہی میں موسیقی کا کیا کردار ہے۔ پھر موسیقی کی حرمت سے متعلق صحابہ کرامؓ، چاروں ائمہ اور قدیم و جدید علماے اسلام کی آرا پیش کی ہیں۔خلاصہ یہ ہے: سواے دف کے آلاتِ موسیقی کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ (ص ۱۲۰)

کچھ لوگوں نے ’اسلامی موسیقی‘ کا شوشہ چھوڑا ہے۔ مصنف نے اسی گمراہی کو بھی بہ دلائل رد کیاہے اور اسی رد میں صوفیاے کرام کی اسلامی موسیقی (سماع) بھی شامل ہے۔ تائید میں (حدیث میں مہارت رکھنے والے) صوفیہ ہی کے دلائل پیش کیے ہیں۔ اس طرح مؤلف نے ’’موسیقی روح کی غذا ہے‘‘ کے مقبولِ عام تصور کو بھی رد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موسیقی ہماری روح میں ایک خلا اور بے حسِی اور لاپروائی پیدا کرتی ہے۔ اور یہ نتیجہ انھوں نے قرآن حکیم اوربعض واقعات کی روشنی میں نکالا ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں مصنف نے ناجائز اور حرام تفریحات (جوا، شراب نوشی، موسیقی، فحش میڈیا اور لٹریچر، ناچ، جانوروں اور پرندوں کی لڑائی) کے مقابلے میں جائز اور حلال تفریحات (پیدل دوڑ، گھڑسواری، کشتی، تیراکی، تیراندازی، قراء تِ قرآن کا سننا، دوستوں کے ساتھ پکنک پر جانا، اسلامی نظمیں سننا، دوستوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ مزاحیہ اور ہلکی پھلکی گفتگو کرنا وغیرہ) کا ذکر بھی کیا ہے۔ مصنف نے اپنے دلائل کو اس طرح ختم کیا ہے: ’’آج مسلمانوں کا موسیقی میں استغراق ایک بیماری نہیں، بلکہ ایک بڑی وَبا کی علامت ہے، یعنی حُبِّ دنیا اور حُبِّ نفس۔ یہ مسلمانوں کی قرآن وسنت سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ اگر سوسائٹی کی اکثریت بُرائی کررہی ہے تو یہ بات اس برائی کو جائز نہیں بنادیتی‘‘ ( ر - ہ)


بلیک واٹر، جیریمی سکاہل، ترجمہ: رانا نوید اقبال، نجم پرویز ایڈووکیٹ۔ ناشر: دارالشعور، ۳۷-مزنگ روڈ، بک اسٹریٹ، لاہور۔فون: ۷۲۳۹۱۳۸-۰۴۲۳۔ صفحات:۴۰۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

امریکی دانش ور جیریمی سکاہل نے ’مہذب‘ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے چہرے سے نقاب سرکاتے ہوئے اس کتاب میں دنیا کے بہت سے منظم اور مسلح کرائے کے ان قاتلوں کا تذکرہ کیا ہے جو ریاستی اداروں، قانون اور اخلاقیات سے بالاتر رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ یہ پرائیویٹ آرمی ہے جس کا خیال امریکی وزیردفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے نائن الیون کے واقعے سے پہلے پیش کیا تھا اور جس کو ایک متعصب عیسائی ایرک پرنس نے امریکا میں قائم کیا۔ دنیا کی واحد سوپرپاور کے غلبے کو قائم رکھنے کے لیے بنائی جانے والی اس پرائیویٹ آرمی کا مرکز امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں ہے اور ۷ہزار ایکڑ پر قائم اس مرکز میں ہزاروں انسانوں کو مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے معصوم انسانوں کا خون بہانے کی تربیت دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ بلیک واٹر انٹرنیشنل نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرلیا اور آج ورلڈ وائڈ اور کئی ذیلی کمپنیوں کے نام سے کام کررہی ہے۔ دنیا بھر کے سفّاک قاتلوں، ماہر دہشت گردوں، بم دھماکوں کے ذریعے موت کی نیند سلانے والوں اور امریکیوں کے لیے مسلمانوں کی مخبری کرنے والے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں       بڑی رقومات کے عوض شامل کرتی ہے۔ یہ ایک قوم کے لوگوں کو دوسری قوم کے خلاف ہی نہیں ایک قوم کے افراد کو اسی قوم کو غلام بنانے اور غلام رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ایرک پرنس    اپنے انٹرویو میں دنیا بھر سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔ ترقی و تعمیر کے معصوم ٹھیکوں کی آڑ میں امریکی بجٹ سے اس کو اربوں ڈالر کے مالی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے اہداف حاصل کرنے کے لیے یہ تنظیم دانش وروں، صحافیوں اور اینکرپرسنز کو بھی بھاری مشاہرے پر خریدتی ہے اور ان کی مناسب تربیت بھی کی جاتی ہے۔

بلیک واٹر امریکی سامراجی منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے عراق، افغانستان، افریقہ، جنوبی امریکا، ہونڈراس اور ایل سلواڈور کے بعد اب پاکستان میں کام کر رہی ہے۔ یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ امریکی بالادستی اور امریکی ہتھیاروں کی صنعت کی ترقی کے لیے دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ جاری رہنا امریکی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے بلیک واٹر کے ذریعے ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔

جیریمی سکاہل کی زیرنظر کتاب کی اشاعت کے بعد، اس کے چند مضامین دی نیشن میں چھپے ہیں جن کا زیادہ تفصیل سے پاکستان میں اس تنظیم کی کارروائیوں کا ذکر ملتا ہے۔     ایرک پرنس نے بھی ایک میگزین میں چھپنے والے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کی تنظیم سی آئی اے کے حکم پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قتل کرنے کے لیے ان کے قریب پہنچ چکی تھی۔ گو کہ کتاب کا ترجمہ مزید سلیس اور رواں کیا جاسکتا تھا، بایں ہمہ، موجودہ صورت میں بھی یہ ایک مفید کاوش ہے۔ (معراج الہدیٰ صدیقی)


دوسرا رُخ، ڈاکٹر فیاض عالم، ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۱۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب معروف صحافی ڈاکٹر فیاض عالم کے کالموں کا مجموعہ ہے جو بالخصوص پاکستان کی تاریخ کے ایک سیاہ باب اور ایک فوجی آمر جنرل پرویزمشرف کے دورِ جبر کا احاطہ کرتے ہیں اور اسی حوالے سے یہ کالم، پاکستان کی ایک تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

کسی زمانے میں صحافت، شخصی صحافت پر مبنی تھی۔ ہماری صحافتی تاریخ اس پر شاہد ہے اور مولانا محمدعلی جوہر، مولانا ظفرعلی خاں اور شورش کاشمیری کے نام اس حوالے سے معروف ہیں۔ اب، جب کہ صحافت صنعت بن چکی ہے مگر مشنری جذبہ بھی موجود ہے، شخصی صحافت نے ’کالم نگاری‘ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ بہرحال کالم بھی جرأتِ اظہار اور مؤثر ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس لیے قارئین، اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔

کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت موجود تناظر کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ کرنا ہے۔ ایک کالم ’حرفِ غلط‘ میں حقوقِ نسواں بل کی مذمت میں اکبر کے دین الٰہی کے انجام سے بات شروع کرتے ہیں۔ عدالتی طاقت بیان کرنے کے لیے وہ فلپائنی صدر السٹراڈا کی مثال دیتے ہیں۔ عوامی طاقت کے بیان میں ۲۲ فروری ۱۹۸۶ء کو فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں دیے جانے والے عوامی دھرنے کی مثال لاتے ہیں۔ یہ انداز و اسلوب قارئین کی دل چسپی کا باعث ہے اور عوام کے لیے بیداری کا سبب بھی۔ ان مثالوں سے اس تاریک دور میں اُمید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ ملکی حالات بالخصوص کراچی کے حالات کا خاص طور پر تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اداروں کی کمزوری، ان کے کھوکھلے پن اور ان کے اندر ہونے والی منفی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے عوام کو اصل حقائق سے روشناس کروایا گیا ہے۔ تحریر شُستہ ورواں اور اسلوبِ نگارش عمدہ ہے۔ ایک افسانوی تجسّس کالم کی دل چسپی کو برقرار رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب فکرانگیز ہے اور پوشیدہ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ (قاسم محمود احمد)


حقوق اور ان کی خریدوفروخت، عمر عابدین قاسمی۔ ناشر: زم زم پبلشرز ، شاہ زیب سنٹر، نزدمقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۷۶۰۳۷۴-۰۲۱۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

دورِ جدید میں جدید ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کی بدولت فاصلے سمٹ گئے ہیں اور کاروبار وسعت اختیار کرچکے ہیں، اور باہمی لین دین کی نت نئی شکلیں اور طورطریقے سامنے آرہے ہیں۔ بعض ممالک میں اثاثوں کی ملکیت اور مختلف قسم کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) نے بھی قواعد و ضوابط تیار کیے ہیں، اور اس ضمن میں پاکستان میں بھی قانون سازی ہوچکی ہے۔ کیا یہ سب قوانین اور قواعد و ضوابط شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہیں؟ یہی جائزہ، محاکمہ اور تجزیہ زیرنظر کتاب کا موضوع ہے۔

حقوق کے معانی، قرآن و حدیث میں لفظ ’حق‘ کا استعمال دیگر اصطلاحات کی لغوی اور اصطلاحی تشریحات کے بعد، حق سے متعلق احکام، اس کی مثالیں اور حق کی منتقلی (transfer of rights) وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ ایک باب کا عنوان ’حقوق کی خریدوفروخت‘ ہے۔ اس باب میں فاضل مصنف نے ’بیع حقوق، مسئلہ کا تعارف‘ کا عنوان باندھا ہے۔ بیع، مال، منافع(مراد شے کی منفعت)کی بیع کے حوالے سے مسالکِ اربعہ کا نقطہ ہاے نظر پیش کیا ہے۔ مزیدبرآں ’خدمت اور تعلیم و تربیت‘، ’حق تعلّی‘، ’حق پگڑی‘، ’حق شرب‘ وغیرہ کے حوالے سے بحث کی گئی ہے اور   قدما اور عصرِحاضر کے اہلِ علم کی آرا کا احاطہ کیا گیا ہے۔

’حقوق کے قابل معاوضہ ہونے اور نہ ہونے کے حوالے سے حقوقِ اصلیہ، حقوقِ ضروری اور حقوقِ عرضیہ کے بارے میں بحث کی گئی ہے، جب کہ مروجہ حقوق جن کی خرید وفروخت ہوتی ہے، وہ بھی زیربحث آئے ہیں۔ ان میں گزرنے کا حق، پانی کی نکاسی، روڈ ٹیکس، پُلوں پر ٹیکس، فضا سے گزرنے کا حق، پینے کے پانی پر ٹیکس، گیس سپلائی اور اس کی خرید وفروخت، حقوق تعلّی، ٹریڈمارک، تجارتی لائسنس، پگڑی، زرِضمانت ایجادات اور حق تصنیف و تالیف وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے موضوع پر یہ کتاب پڑھنے اور سوچنے والوں کے لیے بنیاد کا کام کرسکتی ہے۔ (میاں محمداکرم)


آزاد بچے آزاد والدین، ظہورالدین خان۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

بچوں کو باصلاحیت، مہذب، پُراعتماد اور عزتِ نفس کا حامل بنانے کے لیے ان کی نفسیات اور اُن کی ضروریات کو سمجھنا بے انتہا ضروری ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کیے گئے کئی اقدامات، منفی نتائج بھی پیدا کردیتے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو کہ جہاں بچوں کے حوالے سے مسائل نہ ہوں، اسی لیے والدین کو احتیاط، توجہ اور منظم زندگی کی ضرورت ہے۔

فاضل مصنف نے اس کتاب میں بچوں کو سمجھنے اور اُن کے مسائل کا سائنٹفک انداز میں حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بہتر الفاظ اور بہتر رویے سے بچے کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ اس پہلو پر تفصیلی بحث کی گئی ہے کہ جب تک بچوں کو سنا اور قبول نہیں کیا جاتا، تب تک بچہ اپنے اندر تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اُن کی یہ بھی تجویز ہے کہ بچوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے دھماکے سے پھٹ پڑنے کی دہشت ختم کر دیں۔ بچوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی ناکامیوں کے بارے میں سوچیں اور اس کا جائزہ لیں۔ بچوں کو غم برداشت کرنے کی تربیت بھی دیں۔ چین میں یہ کہاوت عام ہے: ’’غم کو طاقت میں تبدیل کردو‘‘۔

اسی طرح توجہ دلائی گئی ہے کہ گھر ایسی یونی ورسٹی ہے کہ جہاں سکھائی جانے والی بات، تادمِ مرگ اعمال میں شامل رہتی ہے۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ بچے کے مثبت اقدامات کی بھرپور تائید کی جائے اور اس سے بے جا توقعات باندھ کر دبائو نہ ڈالا جائے۔ بچوں کو مکالمے میں براہِ راست شریک کیا جائے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جن بچوں کے لیے ۲۴گھنٹے محنت کی جاتی ہو اُن سے والدین ۲۴منٹ روزانہ بات کرنے کی فرصت نہیں پاتے۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران ایسے درجنوں قیمتی مشورے ملیں گے۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کی جانب سے خاندان سیریز کی یہ پہلی کتاب ہے۔ کہیں کہیں واقعات کی طوالت کھٹکتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


تعارف کتب

  • ہماری بدلتی قدریں، پروفیسر ثریا بتول علوی۔ملنے کا پتا: تنظیم منزل، ۴۷-ایبک پارک، ۳-بہاول شیرروڈ، مزنگ، لاہور۔صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔ [ہماری معاشرتی اقدار کس طرح بدل رہی ہیں، ان کا مختلف حوالوں سے جائزہ۔ یوم منانے کا نیا رجحان، اسلامی شریعت سے متصادم مغربی تہوار: میراتھن ریس، اپریل فول، ویلنٹائن ڈے، سرکاری سرپرستی میں منعقد کیا جانے والا ہندوانہ تہوار بسنت___ ان موسمی اور شرکیہ تہواروں کی حقیقت، آپ کا یہ ہفتہ کیسا رہے گا؟ کی شرعی حیثیت، لہولعب میں مبتلا ہونے کے نتائج، نیز اپنی اقدار کا تحفظ کیسے ممکن ہے ___ ان سب موضوعات پر سیرحاصل بحث ۔]
  • A Brief Guide To A Distress Free Life ، [ذہنی دبائو کے بغیر زندگی کے لیے مختصر رہنمائی]، عاصم بحروچا۔ ناشر: مکتبہ دارالہدیٰ، کمرہ نمبر۸، پہلی منزل، شاہ زیب ٹیرس، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۵۷۔ قیمت: درج نہیں۔ [ذہنی دبائو (ٹینشن)، مایوسی (ڈیپریشن)، گھریلو پریشانیاں، معاشی مسائل، وقت کی کمی، بلڈپریشر، امراضِ قلب جیسے مسائل عام ہوتے جارہے ہیں۔ بھرپور زندگی تعمیری سوچ کے ساتھ کیسے گزاری جائے، مسائل پر کیسے قابو پائیں___ عام فہم انگریزی زبان میں مفید اور عملی رہنمائی۔ اسباب کے جائزے ساتھ ساتھ،سادہ حل، ذہنی پریشانی سے نجات کے لیے ٹپس، وقت کے بہتر استعمال کے لیے مختصر رہنمائی، کامیابی کے زریں اصول، احتیاطیں اور کرنے کے کام۔ کامیاب زندگی کے لیے ایک مختصر رہنما کتاب۔]

تفسیر مطالب الفرقان کا علمی و تحقیقی جائزہ، ڈاکٹر محمد دین قاسمی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات (جلداوّل): ۶۳۲، جلد دوم ۷۴۴۔ قیمت (علی الترتیب): ۶۰۰+۷۰۰= ۱۳۰۰ روپے

مطالب الفرقان جناب غلام احمد پرویز کی تالیف ہے، جنھوںنے فتنۂ انکارِ حدیث کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اور قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے صاحب ِ قرآن کی قولی وعملی تفسیر سے آنکھیں بند کرلیں۔ زیرتبصرہ کتاب اسی فکر کے محاکمے پر مشتمل ہے۔

قاسمی صاحب نے پرویز صاحب کے اس قول کو پیش نظر رکھ کر ان کی فکر کا جائزہ لیا ہے کہ ’’جو کچھ میں نے لکھا ہے اس پر آپ قرآن کی روشنی میں غور کریں اور آپ کو جہاں سقم نظر آئے، اسے مجھ پر ہی قرآن ہی کی تائید سے واضح کریں‘‘ (نظامِ ربوبیت، ص ۲۳)۔ چنانچہ مؤلف لکھتے ہیں: ’’اس مقالے میں ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ پرویز صاحب کے جملہ افکار و نظریات کا جائزہ صرف اور صرف قرآن ہی کی بنیاد پر لیا جائے۔ لیکن چونکہ قرآن عربی زبان میں ہے اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ کتب لغات سے بھی صرفِ نظر نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی پرویز صاحب کی جملہ کتب سے استفادے کو بھی اس جائزے میں شامل رکھا جائے‘‘۔ (ج ۱، ص ۲۶)

پرویز صاحب اپنے ناقدین کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی طرف سے ایک غلط بات وضع کرکے ہمیں گالیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح پرویز صاحب کو یہ بھی شکایت ہے کہ لوگ اس بات کی تحقیق نہیں کرتے کہ جو کچھ ہماری طرف منسوب کیا جاتا ہے، وہ ہم نے کہا بھی ہے یا نہیں۔ مؤلف پرویز صاحب کی ان شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ہم نے امکان بھر اس امر کی کوشش کی ہے کہ طلوعِ اسلام یا جناب پرویز کے موقف کو خود انھی کے الفاظ میں پیش کرکے اس کا جائزہ لیا جائے‘‘۔ (ج۱، ص ۲۷)

فکرِ پرویز پر مؤلف گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے ابتدا سے لے کر پرویز صاحب کی وفات تک طلوعِ اسلام کے تمام شمارے اور ان کی تمام کتب لفظ بہ لفظ پڑھی ہیں اور ان کا ایک تفصیلی اشاریہ بھی ترتیب دیا ہے۔ تفسیرمطالب الفرقان کا زیرنظر تحقیقی جائزہ دوجلدوں میں ۱۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ مضامین کے عنوانات سے کتاب کے پھیلائو کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پہلی جلد میں مذکورہ تفسیر کے علمی محاکمے کے ساتھ ساتھ اصولی مباحث زیربحث آئے ہیں، جب کہ دوسری جلد میں قصص الانبیا، معجزات انبیا، معاشی نظریات اور عائلی قوانین وغیرہ کا جائزہ لیاگیا ہے۔ آخر میں مقالہ کے ماحصل کے علاوہ ’علما کے ہاں پرویز کی قدروقیمت‘، ’علماے عرب کی طرف سے فتاویٰ‘ اور ’مغربی اسکالروں کی تحسینِ پرویز‘ کے عنوانات سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس تحریک کی اصل بنیاد کیا ہے اور یہ کس کے فائدے یا کس کے نقصان کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ کتاب فکرِ پرویز کی تردید وابطال پر ایک تحقیقی و تجزیاتی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ (گل زادہ شیرپاؤ)


سیرتؐ سیدالمرسلین، ڈاکٹر محمد الطیب النجار، ترجمہ: رخسانہ جبیں۔ ناشر: مکتبہ تعمیرانسانیت، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۷۵۰۰-۰۴۲۔ صفحات: ۴۱۳۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

سیرتؐ سیدالمرسلین عظیم مفکر و ادیب جامعۃ الازہر کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد الطیب النجار کی معرکہ آرا تصنیف القول المبین فی سیرت سیدالمرسلین کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب کی بنیاد اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا قول: کَانَ خُلُقْہٗ الْقُراٰن ہے، یعنی  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآنِ مجید ہے۔ اس لیے کتاب میں قرآنِ مجید کی آیات کے ساتھ سیرت سیدالمرسلینؐ کو بیان کر کے قاری میں فہم قرآن کا ذوق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  ڈاکٹر محمد الطیب دورِحاضر کے چیلنجوں سے بخوبی واقف ہیں اور مغربی مستشرقین کی جانب سے ذاتِ مصطفیؐ پر اٹھائے جانے والے اعتراضات سے بھی مکمل آگہی رکھتے ہیں، اس لیے سیرت کا   یہ بیان کتاب کو سیرت کی قدیم کتب سے ممتاز کرتا ہے۔

تاریخِ سیرت کے علمی موضوعات پر مصنف نے استدلال و حوالہ جات کے ذریعے روشنی ڈالی ہے۔ خانۂ کعبہ کی تعمیر، اصحابِ فیل پر پتھر برسنا، حجراسود کی تاریخ، واقعۂ معراج، واقعۂ شق قمر، جہاد کے اغراض و مقاصد، بنی اسرائیل کی بدعہدیاں، تعددِ ازواج کی حکمت سمیت غزوات پر گراں قدر تفصیلات بھی کتاب میں موجود ہیں۔ آج نہ صرف اُمت مسلمہ یہودی سازش کی لپیٹ میں ہے بلکہ پوری دنیا ان کے چنگل میں پھنسی نظرآتی ہے۔ ایک باب میں یہودیوں کے اس کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہودیوں نے توریت کی ربانی ہدایات سے منہ موڑ کر تلمود وضع کی اور اس کو اللہ کے احکامات پر ترجیح دی۔ تلمود کی تعلیمات کا تفصیلی تذکرہ کرنے کے بعد بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہودیوں نے کس طرح مکر، سازش اور دشمنی کا نشانہ بنایا، پھر اللہ کے رسولؐ نے بالآخر مدینہ منورہ کو یہودیوں سے پاک کیا۔

بقول ڈاکٹر خالد علوی: ’’یہ سہل، شُستہ اور آسان ترجمہ ہے بلکہ ترجمہ نگار نے نصوص کی تخریج بھی کی ہے اور جملہ معلومات اصل مصادر سے اخذ کی ہیں۔ حدیث، سیرت اور تاریخ کے بنیادی مصادر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ادبِ سیرت میں یہ کتاب شان دار اضافہ ہے‘‘۔

کتاب کا حرف حرف محبت کی مٹھاس سے لبریز ہے اور تحریر میں وارفتگی و سپردگی کی وہ چاشنی ہے جو پڑھنے والے کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری سکھاتی ہے اور چراغِ مصطفویؐ کا پروانہ بننے پر تیار کرتی ہے۔ پاکستان نیشنل سیرت کانفرنس میں کتاب کو خصوصی انعام کا حق دار ٹھیرایا گیا ہے۔ (معراج الھدیٰ صدیقی)


راہِ عمل ، مولانا خالدسیف اللہ رحمانی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، نزد مقدس مسجد، اُردوبازار، کراچی۔ صفحات جلداوّل: ۳۶۶+۲۱۲+۲۷۰۔ جلد دوم: ۲۲۴+۲۵۰۔ قیمت (مکمل سیٹ): ۶۰۰ روپے

زیرنظر کتاب مختلف اور متنوع مسائل و موضوعات پر فاضل مؤلف کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ موصوف علومِ اسلامیہ میں مہارت، جدید علوم سے واقفیت اور دورِ جدید کی سیاسی و تہذیبی کشاکش کا اِدراک رکھتے ہیں۔ بظاہر ان شذرات یا مختصر مضامین میں وقتی مسائل سے بحث کی گئی ہے لیکن بیش تر تحریروں کی مستقل قدروقیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

جلداول تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے ’نقوشِ موعظت‘ کے موضوعات دینی اور اسلامی ہیں۔ اسلامی تہوار، شب قدر، انٹرنیٹ کے ذریعے تحریفِ قرآن کی سازش، ہجری کیلنڈر، خشک سالی، نسل پرستی، تہذیبی ارتداد وغیرہ کے حوالے سے افرادِ اُمت کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے حصے بہ عنوان: ’حقائق اور غلط فہمیاں‘ میں اسلام اور شریعت ِ اسلام سے متعلق     غلط فہمیوںاور پروپیگنڈوں (مسلم پرسنل لا، یونیفارم سول کوڈ، عورت اور اسلام، مجسمے کا انہدام،   کم عمری کی شادی، طلاق، پردہ، زنا کی سزا، تعدد ازواج وغیرہ) کا سنجیدہ جائزہ لیتے ہوئے عقل و فطرت اور حکمت و مصلحت سے اسلام کی ہم آہنگی کو واضح کیا گیا ہے۔ تیسرے حصے میں نئے مسائل (نیوکلیر اسلحہ، ماحولیاتی آلودگی، ہڑتال، ایڈز، ووٹ، کلوننگ، تمباکونوشی، سرمایہ کاری، میچ فکسنگ وغیرہ) پر اسلامی نقطۂ نظر سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔

چوتھے حصے میں مغربی ثقافت کے غلبے سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل (اہانتِ رسولؐ، وندے ماترم، جرائم، گداگری، رشوت، منشیات، خودکشی، سِتی، جہیز وغیرہ) پر تبصرہ کرتے ہوئے مناسب رہنمائی دی گئی ہے۔ پانچویں حصے کا موضوع دینی تعلیم اور درس گاہیں ہے۔ یہ مباحث  دینی مدارس کی ضرورت و اہمیت، ان کے نصابِ تعلیم، اسلام کی حفاظت و اشاعت اور ملک و قوم کی تعمیر میں ان کا حصہ، تعلیم نسواں، مخلوط تعلیم، مادری زبان میں تعلیم، اساتذہ کے مقام اور ان کی    ذمہ داریوں سے متعلق ہیں۔

مجموعی حیثیت سے اس ضخیم مجموعۂ مضامین کی افادیت میں کلام نہیں۔ مصنف کا نقطۂ نظر مثبت، تعمیری اور اسلامی ہے۔ سوچ کی سمت بھی صحیح ہے۔ مولانا رحمانی کو اپنی بات مؤثر اسلوب میں پیش کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ زیادہ تر مضامین بھارتی معاشرے کے پس منظر میں  لکھے گئے ہیں، اس لیے مثالیں بھی اسی معاشرے اور نظمِ حکومت سے دی گئی ہیں لیکن بیش تر صورتوں میں پاکستان اور بھارت کی صورت حال یکساں ہے، اس لیے پاکستانی قارئین بھی ان مضامین کو دل چسپ پائیں گے۔ امید ہے بقول مصنف: ’’یہ کم سواد تحریریں [بلاشبہہ] سوئے ہوئے دلوں کو جگانے اور غافل اذہان میں فکر کی چنگاری سلگانے میں کچھ کامیابی حاصل کرسکیں گی‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی)


ابلاغِ حق (الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں عرب و عجم کے جید علما کے فتاویٰ اورآرا)،    مؤلف: مولانا عبدالرشید انصاری۔ ناشر: نور علیٰ نور اکیڈمی، فیصل آباد۔فون: ۲۱۶۲۸۸۳-۰۳۰۶۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

عصرِجدید میں نئی نئی ایجادات اور جدید مسائل کی بنا پر دین کے احکامات جاننے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ ایسے میں علما کے بعض حلقوں کی طرف سے انتہاپسندانہ رویہ بھی سامنے آتاہے۔ اس کی ایک مثال ٹیلی وژن سیٹ کو توڑ دینا بھی ہے۔ زیرنظر کتاب میں ٹیلی وژن پر آنے والی تصویر، وڈیو، ڈیجیٹل تصویر، ٹی وی چینلوں کے قیام کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک نقطۂ نظر تو یہ ہے کہ ٹی وی کی تصویر بھی تصویر کی طرح ہے، لہٰذا حرام ہے۔ ٹیلی ویژن چینل چونکہ گمراہی اور خرافات پھیلانے کا ذریعہ ہیں، لہٰذا ان سے بھی اجتناب کیا جائے۔ مؤلف کتاب نے علماے دیوبند، عرب ممالک کے علما اور پاکستان کے مختلف مکاتب ِ فکر سے تعلق رکھنے والے علما کی آرا اور فتاویٰ کو جمع کر کے اس نقطۂ نظر کو بہ استدلال ثابت کیا ہے کہ ٹیلی ویژن کی تصویر چونکہ عکس ہے، لہٰذا جائز ہے۔ اسی طرح وِڈیو اور ڈیجیٹل تصویر کا معاملہ بھی ہے۔ یہ عکس ہے جو شعاعوں اور لہروں کے ذریعے جدید تکنیک سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ اشباہ بالعکس ہیں (یعنی ان مناظر کی شباہت عکس سے زیادہ ہے)۔ (ص ۱۹۲)

مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی اور دیگر مفتیانِ کرام کے تفصیلی فتاویٰ میں جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں جس طرح سے موضوع پر بحث کی گئی ہے وہ بذاتِ خود بہت جامع اور قیمتی بحث ہے، نیز علما کے بارے میں اس تاثر کی بھی نفی کرتی ہے کہ جدید علوم پر ان کی نگاہ نہیں ہوتی۔ آخر میں مختلف شبہات کا تذکرہ اور ان کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے عصری مسائل پر شرعی استدلال اور علمی بحث کا عمدہ اسلوب بھی سامنے آتا ہے۔ یقینا اپنے موضوع پر یہ ایک جامع کتاب ہے۔ (امجد عباسی)


شام کی صبح، لبنان کی شام (سفرنامہ)، ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔ ناشر: تناظر مطبوعات، ۵۹-نیلم بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا تعلق پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے شعبۂ اُردو سے ہے۔ اِن دنوں جامعہ الازہر قاہرہ کے شعبۂ اُردو میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میٹرک کے زمانے میں مولانا ظفر علی خاں پر تالیفی کام کا آغاز کیا اور آج متعدد کتابیں اور سیکڑوں مقالات  ضبطِ تحریر میں لاچکے ہیں۔ مصر جانے کا فائدہ یہ ہواکہ انھیں شام و لبنان کا سفر کرنے کا اتفاق ہوا جس کے نتیجے میں زیرنظر سفرنامہ وجود میں آیا۔

آج کل سفرنامے بہ کثرت لکھے جا رہے ہیں اور سب ایک جیسے نظر آتے ہیں مگر زیرنظر سفرنامے کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔ دمشق اور بیروت کے اسفار کی یہ روداد آٹھ خطوط پر مشتمل ہے جن میں ’برقی لاسلکی تکلم‘ کے ذریعے مصنف کا رابطہ ڈاکٹر معین نظامی سے قائم ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ سفر اگرچہ ایک علمی کانفرنس کے سلسلے میں تھا لیکن انھوں نے دمشق میں اپنی مصروفیات اور سرگرمیوں کو محض کانفرنس تک محدود نہیں رکھا بلکہ قدیم دمشق کے آثار و مقابر وغیرہ کی زیارت کی اور اپنے مشاہدات قلم بند کرکے قارئین تک پہنچائے ہیں۔ امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر جیسے عظیم مفسر اسی شہر میں آسودۂ خاک ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کے مزارات پر حاضری دی اور ان کے علمی کارناموں سے بھی اجمالاً تعارف کرایا ہے۔ دمشق کانفرنس میں انھوں نے Religious Tolerance and Muhammad Iqbal's Philosophyکے عنوان سے جو انگریزی مقالہ پڑھا، اس کا متن بھی سفرنامے میں شامل ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ شام و لبنان کی سرزمین پر انبیا و صلحا کے بے شمار آثار موجود ہیں لیکن ان پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ جدید زندگی اور اس کے مظاہر جگہ جگہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ میکڈونلڈ وغیرہ ان ممالک میں بھی افراط سے موجود ہیں اور ان میں حرام و حلال کی تمیز نہیں ہے۔

علامہ اقبال ۱۹۳۲ء میں یورپ سے واپسی پر مولانا غلام رسول مہر کے ہمراہ اسکندریہ پہنچے تو غلط فہمی کی بنا پر بعض اخبارات مولانا مہر کی تصویر کو اقبال کے نام کے ساتھ شائع کرتے رہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ لبنان سے شائع شدہ ایک کتاب علامہ اقبال کے بارے میں ہے مگر اس پر تصویر قائداعظم کی بنی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیرونِ ملک ہمارے سفیر ملک کی نمایندگی کا فرض احسن طریقے سے پورا نہیں کرتے۔ طباعت و اشاعت عمدہ، سرورق جاذبِ نظر ہے۔ کتاب بہت سی تصاویر سے مزین ہے۔ (محمدایوب لِلّٰہ)


Afghans in Pakistan[افغان پاکستان میں]، مرتبین: خالد رحمن، عرفان شہزاد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسڈیز، مرکز ایف سیون، اسلام آباد۔ فون: ۲۶۵۰۹۷۱-۵۱۔ صفحات:۹۲۔ قیمت: درج نہیں۔

پاکستان میں مسئلۂ افغان مہاجرین کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کتاب میں اِس امر کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔سابق سفیر پاکستان رستم شاہ مُہمند کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں امریکا اور ناٹو کی افواج کے قبضے کے باوجود افغانستان میں قیامِ امن کا خواب   شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی عدم دستیاب ہیں۔

اعظم شاہ سواتی نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ امریکی انتظامیہ افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کی تیاری کرر ہی ہے (۳۰ ہزار نئے فوجیوں کا باقاعدہ اعلان ہوچکا ہے)۔ پیپلزپارٹی کے راہنما رضا ربانی کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین، ضیاء الحق کی افغانستان میں مداخلت پالیسی کا  تسلسل ہے۔ سابق سیکرٹری خارجہ محمد اکرم ذکی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اُس وقت ختم ہوگی جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے والے ممالک عقل کے ناخن لیں گے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے مطابق پاکستان کی سلامتی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اِس وقت جو افغان مہاجرین ہیں، ان کی نصف تعداد پاکستان ہی میں پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ تمام کے تمام مہاجرین واپس چلے جائیںگے۔ خصوصاً ایسی صورت حال میں کہ جب جارج بش سینیر و جونیئر کے بعد اب اوباما افغانستان میں مزید فوج کشی کی تیاری کرر ہے ہیں، جو حقیقتاً تباہی و بربادی کے نئے دور کا آغاز ہے۔ (محمد ایوب منیر)


تعارف کتب

  • اب کس کا انتظار ہے؟ (علاماتِ قیامت قرآن و حدیث کی روشنی میں)، مولانا محمد ابراہیم حنیف۔ ناشر: نیو امیج پبلی کیشنز، ملنے کا پتا: ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [قیامت کے قریب پیش آنے والے فتنوں کا تذکرہ، اُمت مسلمہ کی حالت زار کا جائزہ اور دورِ فتن میں نجات اور سلامتی کی راہ کی طرف رہنمائی۔ توجہ دلائی گئی ہے کہ نبی کریمؐ کے ارشادات کے مطابق بہت سے فتنوں کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن خدا کی بندگی، آخرت کی فکر اور اپنی حالت کو بدلنے کی ہمیں فکر نہیں۔کتاب کا عنوان بھی یہی ہے کہ قیامت سے پہلے، اب کس کا انتظار ہے!]
  • فطرتِ انسانی اور دعوت و تربیت ، ڈاکٹر اختر حسین عزمی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔  صفحات: ۸۴۔ قیمت: ۵۰ روپے۔ [مؤثر دعوت کے لیے انسانی نفسیات کا جاننا ضروری ہے۔ انسانی فطرت، مزاجِ انسانی کی ترکیب، انسان کی فطری کمزوریاں، دعوتی جدوجہد میں مایوسی کا عنصر، عملی جدوجہد سے کنارہ کش افراد کے مسائل، مایوس کن حالات میں اسوئہ رسولؐ، تعلیم و تربیت کا قرآنی اسلوب جیسے موضوعات پر مفید تحریریں___ انسانی نفسیات کی روشنی میںحکمت ِ دعوت کے ایک منفرد پہلو کا مطالعہ۔]
  • حج کا عالم گیر پیغام ، ڈاکٹر رخسانہ جبیں۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۴۵ روپے۔ [سفرِ حج کی ایمان پرور اور تزکیہ و تربیت کا زادِ راہ لیے منفرد انداز کی رودادِ سفر۔ اس شعور کو اُجاگر کرنے کی خاص طور پر کوشش کی گئی ہے کہ حج سے وہ تربیت کیسے ملے کہ حقیقی ایمان بیدار اور اُمت کے لیے  عالم گیر پیغام عام ہو، نیز ِحج کے نتیجے میں اُمت کی سربلندی کی وہ تحریک جاری ہوجائے جو حج کا اصل مقصود ہے۔]

نشانات ارضِ نبویؐ، شاہ مصباح الدین شکیل۔ ناشر: فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، فضلی بک، سپرمارکیٹ، ۳/۵۰۷، ٹمپل روڈ، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۶۲۹۷۲۴-۰۲۱۔ صفحات: ۳۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے متعلقات، جناب شاہ مصباح الدین شکیل کا خاص موضوع ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے ۱۹۸۶ء میں سیرت احمدؐ مجتبیٰ پیش کی جس پر صدارتی اوارڈ ملا۔ ۱۹۹۲ء میں سیرت النبیؐ البم شائع کیا، ۲۰۰۵ء میں یہی البم زیادہ بہتر صورت میں نشاناتِ ارض قرآن کے نام سے منظرعام پر آیا۔ اب اسی کتاب کو نئے نام نشاناتِ ارضِ نبویؐ سے مزید بہتر، جامع اور کہیں زیادہ خوب صورت اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ایک اعتبار سے یہ ان کا حاصلِ حیات (life work) ہے۔

ابتدا حیات طیبہ کے مختصر بیان سے ہوتی ہیں جسے ماہ و سال کے آئینے میں پیش کیا گیا ہے۔ پھر جزیرہ نما عرب کی تاریخ، جغرافیہ، بعدازاں حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کے مختصر سوانح، تاریخ تعمیرکعبہ، بیت اللہ، رسولؐ اللہ کے آباواجداد، مولد النبی وغیرہ اور سیرت پاکؐ کے اہم تر واقعات کا ذکر ہے۔ اس کی مناسبت سے دسیوں عنوانات قائم کیے گئے اور بعض اوقات کسی ایک عنوان کے تحت ضمنی عنوانات دے کر تفصیل دی گئی ہے، جیسے مسجد نبویؐ کے تحت اسطوانے، محراب، منبر، مقصورہ، گنبد، ابواب اور مینار وغیرہ۔ بتایا گیا ہے کہ ان کی موجودہ صورت کیا ہے؟ کہاں،  کس جگہ حدیث اور قرآن کے حوالے نماز و نوافل کا ثواب کتنا ہے؟ سب مقامات کی مختلف زاویوں سے لی گئی تصویریں، اس پر مستزاد۔ محراب (مصلّٰی) کے تحت ریاض الجنۃ میں محرابِ نبویؐ اور  محرابِ عثمانی کے تذکرے میں مسجدقبا، مسجد سلیمانی (ترکی)، مسجد بیجنگ (چین) اور مسجدقرطبہ (اسپین) کی محرابوں کی تصویریں بھی شامل کر دی گئی ہیں۔

زیرنظر مرقعے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں ارضِ قرآن اور ارضِ نشانات نبویؐ (نجد و حجاز) اور فلسطین بلکہ عالمِ اسلام سے متعلق بیسیوں ایسے آثار کی تصویریں شامل ہیں جن کا وجود اب   مِٹ چکا ہے۔

شکیل صاحب نے جملہ موضوعات اور عنوانات سے متعلق تاریخی حقائق اور واقعات اور ضروری تفصیلات بھی مہیا کی ہیں۔ یوں یہ کتاب قدیم و جدید دور کی ایک بیش بہا تاریخی اور تصویری دستاویز بن گئی ہے۔ ہرصفحے کے نیچے موضوع کی مناسبت سے کوئی نعت یا شعر دیا گیا ہے۔

یہ مرقع مصنف کے برسوں کے مطالعے اور تحقیق کا ماحصل ہے۔ ۲۰۰۱ء میں انھوں نے تحقیقِ مزید کے لیے سعودی عرب، لندن، امریکا اور کینیڈا کا مطالعاتی دورہ بھی کیا تھا۔ ابتدا میں مختلف اصحاب کی تقاریظ شامل ہیں لیکن ’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘ کے مصداق یہ مرقع دوسروں کی تعریف سے مستغنی، خود آپ اپنا تعارف ہے۔ چھوٹوں، بڑوں کے لیے معلومات کا ایسا خزانہ ہے جس سے بقدرِ ظرف و توفیق تازگی ایمان اور حصولِ برکت ممکن ہے۔ اگر عازمینِ حج و عمرہ اس کا مطالعہ کریں تو مکہ اور مدینہ پہنچ کر وہاں کے دَر و دیوار، ماحول اور فضائوں میں زیادہ اپنائیت اور موانست محسوس کریں گے۔

دبیز آرٹ پیپر پر کئی رنگوں کی طباعت، ہرصفحہ آرٹ ورک سے مزین، بڑی تقطیع اور پروف خوانی میں دقتِ نظر کے اہتمام پر ناشر اور طابع کی کاوش بھی قابلِ داد ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


روشن قندیلیں، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶۔ صفحات: ۲۷۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

ہدایت سے سرفراز کوئی مرد ہو یا عورت، یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ پھر اس ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لینے کی توفیق پا لینا اس انعام سے بھی بڑا اعزاز واکرام ہے۔ بلاشبہہ رسول اکرمؐ پر ایمان لے آنے والے مرد و خواتین کو یہ بلند مقام نصیب ہوا بلکہ وہ اس ہدایت کو  قبول کرنے کی پاداش میں تعذیب و تشدد کی آزمایشوں سے استقامت کے ساتھ گزرے تو اُن  کے نصیب کی رفعت و عظمت میں اور اضافہ ہوگیا۔ ان اصحابِ کرام کی زندگیوں کے تذکرے   اہلِ ایمان کے لیے باعثِ ہدایت ہیں۔

صحابۂ و صحابیات رضی اللہ عنہم کی سیرت کو اس زاویۂ نظر سے پڑھنا کہ اُس سے ہمارے ایمان کو تازگی اور حرارت ملے، ہر مسلمان کی خواہش اور کوشش ہونی چاہیے، جس طرح صحابہ کرامؓ نے مسلمان ہونے کا حق ادا کیا، اسی طرح صحابیاتؓ نے بھی اس حق کو ادا کرنے میں کوئی کسر     نہ چھوڑی۔ سیرتِ صحابیاتؓ کی اس تاریخ کو ایک جھلک روشن قندیلیں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ۵۲صحابیات کے تذکروں پر مشتمل اس کتاب کا اسلوب روایتی سوانح سے قدرے مختلف اور ایک حد تک منفرد ہے۔ اُمہات المومنینؓ (ازواج النبیؐ)، بنات مطہرات (رسول اکرمؐ کی بیٹیوں) اور دیگر اہلِ عزیمت و عظمت صحابیاتِ رسولؐ کے حالات کو تاریخی واقعات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر صحابیہؓ کے تذکرے کے آخر میں چند سطور میں تحریر کا ماحصل دے دیا گیا ہے۔ ہر صحابیہؓ کے امتیازی وصف کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اُن کے اعزازات کا بیان بھی ہے۔ اُن کے ذاتی کارناموں کے اعتبار سے بھی اُن کی عظمت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس پہلو کو بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کسی صحابیہؓ کے بھائی، شوہر یا لختِ جگر کے عظیم کردار سے خود اس صحابیہؓ کی عظمت بھی نمایاں ہوتی ہے۔

صحابیات کی یہ سیرت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ قلم بند کی گئی ہے۔ تحریر کی روانی اور اسلوب کی یکسانیت آغاز سے لے کر کتاب کے آخر تک ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے اس کا مقصدِ تحریر بخوبی پورا ہوتا ہے۔ ’’ان عظیم بناتِ اسلام کے مجرد واقعات بھی ایمان کی بالیدگی کا ذریعہ ہیں اور ہرواقعہ پڑھ کر انسان جھوم اُٹھتاہے مگر محض واقعات اور سوانح بیان کرنے کے بجاے یہ تمام سوانح آج کے دور میں حاصل ہونے والے دروسِ عبرت کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ ایک تذکیر کی کتاب ہے۔ اسے اسی نقطۂ نظر سے پڑھنا چاہیے‘‘ (ص ۲۰)۔ (ارشاد الرحمٰن)


اقبال، روح دین کا شناسا، سید علی گیلانی، ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۲۴۵ روپے۔

سیدعلی گیلانی خطۂ کشمیر میں تحریکِ اسلامی کے سرخیل اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے روحِ رواں ہیں۔ وہ تقریباً ۲۵ سال سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے آرہے ہیں۔ بڑھاپے کے ساتھ عارضۂ قلب اور سرطان جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں لیکن اس عالم میں بھی ان کے حوصلے اور جذبے تندرست و توانا اور مستحکم ہیں جس کی ایک دلیل زیرنظر کتاب ہے۔

علامہ اقبال کو عام طور پر اُردو شاعری کے حوالے سے جانا جاتا ہے لیکن اقبال کی فارسی شاعری بھی اپنے اندر ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو رکھتی ہے۔ علی گیلانی نے اقبال کے فارسی کلام سے ان کی شخصیت کے اس منفرد پہلو کو اُجاگر کرکے فی الواقع ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ یہاں ہمیں اقبال ایک فلسفی اور شاعر سے بڑھ کر احیاے اُمت کے داعی اور نبی کریمؐ کے مشن کے علَم بردار نظر آتے ہیں۔ وہ مسلمان سے کہتے ہیں کہ اے لاالٰہ کے وارث! تو اپنی حقیقت کو پہچان اور دینِ حق کو لے کر اُٹھ، یہی تمھارے تمام مسائل کا حل اور علاج ہے۔

علامہ اقبال کے افکارِ عالیہ کا سرچشمہ قرآن و حدیث ہے۔ زیرنظر کتاب میں ۱۶موضوعات کے تحت افکار اقبال کی توضیحات شامل ہیں۔ سید علی گیلانی نے زمانۂ طالب علمی کا کچھ عرصہ لاہور میں گزارا اور یہیں ’پرندے کی فریاد‘ اقبال سے ان کے اوّلین تعارف کا سبب بنی۔ وہ لاہور کا ذکر انتہائی محبت سے کرتے ہیں۔ انھوں نے فکرِاقبال کے ترکیبی عناصر اور اس کے بتدریج ارتقا پر سیرحاصل گفتگو کی ہے اور یہ گفتگو زیادہ تر ان کے شعری شاہ کار جاوید نامہ کے حوالے سے کی گئی ہے۔

جاوید نامہ دراصل ایک تمثیل ہے۔ اس میں اقبال اور رومی مختلف افلاک کا سفر کرتے ہوئے عالمِ بالا میں مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ’قلزمِ خونیں سے ایک غدار کی فریاد‘ کے زیرعنوان گیلانی صاحب نے موجودہ تناظر میں ملک و ملّت کے غداروں کو ان کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مشرقی اقوام بالخصوص اہلِ ہندستان بظاہر آزاد ہوچکے ہیں مگر مسلم مشرق اب بھی استعماری قوتوں کے پنجۂ استبداد میں ہے۔ اس دگرگوں صورتِ حال سے چھٹکارے کے لیے ہم افکارِ اقبال کی روشنی میں اپنا لائحۂ عمل مرتب کرسکتے ہیں۔

سید علی گیلانی کا خیال ہے کہ تحریکِ آزادی اور تبلیغ دین کے کام میں ہمیں کلامِ اقبال سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اقبال روحِ دین کے شناسا ہیں۔ گیلانی صاحب کہیں کہیں اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے ہیں اور شعرِاقبال سے تائید حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے اسبابِ زوالِ اُمت کی نشان دہی کرتے ہوئے فکرِاقبال کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا ہے۔ ان کے خیال میں فکرِاقبال ہی دردِ ملّت کا درماں ہے۔

یہ کتاب علم و حکمت کا خزینہ ہے اور اپنے اندر عام قارئین کے لیے بھی دل چسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ علی گیلانی کی تحریر خوب صورت اسلوبِ نگارش کا مرقع ہے۔ طباعت و پیش کش عمدہ اور معیاری ہے اور قیمت مناسب۔ (قاسم محمود احمد)


اُردو سرکاری زبان از چودھری احمد خاں (علیگ) ۔ ملنے کا پتا: مکتبہ تعمیرافکار، عقب بقائی ہسپتال، ناظم آباد، کراچی۔ فون: ۳۳۵۴۶۲۵-۰۳۳۳۔صفحات:۴۶۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

پاکستان کی بنیاد اسلامی تہذیب و تمدن ہے، اور برعظیم ہند میں اسلامی تہذیب و تمدن کا اہم ستون اُردو زبان ہے۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا مطالعہ کریںتو قدم قدم پر اُردو کا مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس زبان کی اہمیت کو جانتے ہوئے آں جہانی گاندھی نے اُردو کو قرآن کے حروف میں لکھی جانے والی زبان قرار دے کر ہی اس کی مخالفت کی تھی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانگرس‘ نے ۱۸۸۶ء سے ۱۹۳۸ء کے دوران اپنے ۳۸سالانہ اجلاسوں میں اُردو زبان کی ترقی و ترویج اور اسے سرکاری زبان بنانے کے لیے قراردادیں منظور کیں (ص۲۳)، اور پھر آل انڈیا مسلم لیگ نے تحریکِ پاکستان میں اسے اپنے ایجنڈے کا ایک مرکزی نکتہ قرار دیا۔ ۱۹۳۷ء میں صوبائی حکومت کے قیام کے دوران میں کانگرس نے منظم، مؤثر اور مسلسل کوشش کے ذریعے اُردو زبان کو کھرچ پھینکنے کے لیے جارحانہ پالیسی اپنائی۔ دراصل اُردو مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کا سب سے جان دار پہلو تھا، اسی لیے متحدہ قومیت کی علَم بردار کانگرس اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھی (افسوس کہ یہی کام پاکستانی مقتدرہ نے پاکستان میں کر دکھایا)۔

قیامِ پاکستان کے بعد، پاکستانی قوم کی ایک سرکاری زبان اُردو پر اتفاق تھا۔ ہندو لابی کے زیراثر ڈھاکا میں اسے چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی تو قائداعظم نے اُردو زبان کے مسئلے پر کسی سمجھوتے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں پاکستان کے تینوں دساتیر نے اس کی مرکزیت کو تسلیم کیا، اور ۱۹۷۳ء کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور نے تو ۱۵ برس، یعنی ۱۹۸۸ء تک اسے ہر جگہ سرکاری طور پر رائج کرنے کا متفقہ فیصلہ بھی کررکھا ہے، مگر حکمران طبقوں نے دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔

آج صورت یہ ہے کہ بے جا طور پر انگریزی زبان کی لازمی تعلیم و تدریس اور انگریزی ذریعۂ تعلیم نے ہمارے تہذیبی اور قومی نظامِ حیات کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ سرکاری اداروں کی تمام تر خط کتابت اور جملہ کارروائیوں پر انگریزی کے بھوت کو مسلط کر کے، عملاً عوام کو   کاروبارِ ریاست سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ گویا انگریزی کی پرستش کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ  عمومی سطح پر ہمیں احساسِ کمتری کے ناگ نے ڈس لیا ہے۔ اس عمل نے ہماری تاریخ، تہذیب، اخلاقیات اور روایات کو حقارت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ کیا پڑھا لکھا اور کیا اَن پڑھ، انگریزی کے چند الفاظ کی جگالی کو علم،وقار اور شائستگی کا معیار سمجھ بیٹھا ہے۔

زیرنظر کتاب نے اسی قومی المیے کو ترتیب، جامعیت اور اختصار کے ساتھ ایک مقدمے کی صورت میں یک جا پیش کرکے قابلِ تحسین کاوش کی ہے۔ فاضل مؤلف نے گذشتہ ڈیڑھ سو سال کے سرکاری اور غیر سرکاری ریکارڈ سے مؤثر تفصیلات کو غیرجذباتی انداز سے پرو کر رکھ دیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ ہماری بے عملی پر تازیانہ برساتا اور فداکارانہ عمل پر اُبھارتا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


ہندوستان کا اصل چہرہ (The Real Face of India)، ریاض احمد چودھری۔ ناشر: ریاض پبلشرز، فوکسی بلڈنگ، فرسٹ فلور، ۴۳- کمرشل ایریا، کیولری گرائونڈ، لاہور کینٹ، لاہور۔ فون: ۳-۳۶۶۱۰۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

قیامِ پاکستان کو ۶۲ سال گزرچکے ہیں۔ تین نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں اور نئی نسل ان اسباب و حالات سے پوری طرح آگہی نہیں رکھتی جو تقسیم ہند کا سبب بنے تھے۔ وطنِ عزیز کے حکمرانوںنے امریکا کے زیراثر خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایک عشرے سے زائد عرصے میں بھارت سے دوستی بڑھانے کی جہاں بے شمار کوششیں کی ہیں، وہیں دانش وروں اور میڈیا کے اثرات کے تحت بڑے بڑے ذمہ داران کبھی تقسیمِ ہندکو تاریخ کی سب سے بڑی غلطی، ہر پاکستان کے دل میںایک ہندوستان ساہو نے، پاکستان اور ہندستان کی کنفیڈریشن تو کبھی ملکی سرحد کو ظلم کی دیوار قرار دینے پر تلے رہتے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں انگریزی صحافت سے وابستہ صحافی ریاض احمد چودھری ہندستان کے اصل چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں اور اختصار و جامعیت کے ساتھ موضوع کا احاطہ ہی نہیں کرتے بلکہ ناقابلِ تردید اعداد و شمار بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ کتاب جہاں ایک طرف ہندو ذہنیت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے، وہاں چھے عشروں میں بھارت میں مسلم، عیسائیوں، سکھوں اور اچھوتوں کے ساتھ جو ظلم کیا جا رہا ہے اس کی مکمل تصویر بھی پیش کرتی ہے۔ ہندستان کے مسلمانوں کی حالتِ زار کی جو تصویر کھینچی گئی ہے وہ قاری کے دل میں پاکستان کی اہمیت کو اُجاگر بھی کرتی ہے اور اس پس منظر میں سیاست دانوں کے بیانات کا جائزہ لینے، نیز امریکا، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کی صورت میں قائم ہونے والی تکون کی سازشوں کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ (معراج الھدیٰ صدیقی)


سانجھ پئی چو دیس، سلمیٰ یاسمین نجمی۔ ناشر: شاہکار فائونڈیشن، ۳۵- اقبال ایونیو، گرین ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۹۴۵۴۲۹-۰۴۲۔ صفحات: ۷۲۳۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

پوٹھواری تہذیب و معاشرت کا عکاس، اُردو میں یہ پہلا ناول ہے۔ سلمیٰ یاسمین نجمی ایک معروف اور پختہ فکر قلم کار ہیں۔ ان کا شمار افسانوی ادب لکھنے والی ان معدودے چند خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے قلمی جہاد کے ذریعے اصلاحِ معاشرت کو زندگی کا نصب العین قرار دیا ہے۔  اس ناول کو پڑھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دور میں یہ انھیں شہرتِ دوام دے گا۔

ٹیکسلا، حسن ابدال اور اس کے گردونواح کا پوٹھوار علاقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ پنجاب اور صوبہ سرحد کے سنگم پر واقع یہ علاقہ زمانۂ قبل مسیح سے متعدد تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ ایک مخصوص تہذیب اور معاشرت رکھتا ہے۔ مصنفہ نے اسی تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے ان عناصر کو اُبھارا ہے جو کئی تہذیبوں کے ملاپ سے وجود میں آئے ہیں۔ ناول ایک ایسی عورت کی آپ بیتی ہے جو بظاہر نرم رو اور نرم خو ہے لیکن اندر سے چٹان کی طرح مضبوط اور حوصلہ مند ہے۔ جہالت کی ماری اور خودساختہ رسوم وقیود کی پابند تقدیر پرست عورت پوری تہذیب کی نمایندہ ہے اور مصنفہ نوکِ قلم سے اس معاشرت کی اصلاح کی خواہاں ہے۔ ناول کے چار درجن سے زائد کردار اجتماعی زندگی کے کئی پہلوئوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے، قتل، انتقام، منشیات کا عام استعمال اور جاگیرداروں کا مخصوص طرزِ زندگی وغیرہ۔

اس ناول کے دو اور پہلو قابلِ ذکر ہیں: ایک یہ کہ مصنفہ نے محض اپنے تخیل پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کہانی کے تار و پود اور لوازمے کے حصول کے لیے براہِ راست مشاہدے کا راستہ اختیار کیا۔ ’’میں نے لکھنے کا ارادہ کیا۔ اپنی ملازمہ رسیلا کے ساتھ گائوں گائوں گھومی.... بے شمار عورتوں سے ملی.... شادی بیاہ میں شرکت کی، واقعات جمع کیے، لُغت تیار کیا اور خدا جانے کیا کیا....میرؔ کی طرح سو غم جمع کیے تو دیوان ہوا‘‘ ___ اس طرح ان کے مشاہدات نے انھیں حقائق اور ان کے پس منظر سے آگاہی بخشی۔

ناول کی ایک اور انفرادیت اس کی خاص طرح کی زبان ہے۔ مصنفہ نے دیہی کرداروں کے مکالمے پوٹھواری زبان ہی میں تحریر کیے ہیں اور اس کی وضاحت کر دی ہے۔ راقم (مبصر) کو پوٹھواری ماحول و معاشرت میں ربع صدی تک رہنے کا اتفاق ہوا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے افسانوی ادب میں اس تہذیب اور کلچر کی اس سے بہتر عکاسی کسی نے نہیں کی۔ اُردو ادب کے قارئین کے لیے عموماً اور علاقہ پوٹھوار کے باسیوں کے لیے ایک خوب صورت ادب پارہ ہے۔ ناول کا عنوان امیرخسرو کے شعر سے ماخوذ ہے۔ ناول کا اشاعتی معیار، ناشر کے اُونچے ذوق کی دلیل ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تفہیم ترجمۂ قرآن، پروفیسر ریاض احمد طور۔ ملنے کاپتا: B-I ، ایجوکیشن ٹائون، وحدت روڈ، لاہور۔ صفحات:۲۹۴۔قیمت: درج نہیں۔

قرآن فہمی کا شعور عام کرنے کے لیے روایتی درسِ قرآن کے حلقوں کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر قرآن کلاسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک کوشش اُردو اور عربی میں تطابق پیدا کر کے قرآن پاک کو سمجھنے اور عربی متن کا اُردو ترجمہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا بھی ہے۔ یہ جدید طریقۂ تدریس ہے۔ اس طریقے میں عربی گرامر کی مشکل اور پیچیدہ اصطلاحات کو استعمال کیے بغیر عام فہم انداز میں قواعد سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حسنِ اتفاق سے قرآنی عربی کے اکثر الفاظ اُردو میں مستعمل ہیں۔ اس سے قرآن فہمی میں مزید سہولت پیدا ہوگئی ہے۔ زیرنظر کتاب اسی طریقۂ تدریس کے مطابق قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے  اور پڑھانے کے لیے مرتب کی گئی ہے اور ۴۰ روزہ ترجمۂ قرآن کورس کے لیے سورئہ فرقان اور  سورئہ حجرات کے منتخب نصاب پر مبنی ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ۴۰ روزہ کلاس میں اس نصاب کی تدریس کے نتیجے میں ایک درمیانی ذہانت کا آدمی بھی ۵۰ سے ۷۰ فی صد قرآن کا ترجمہ سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس ابتدائی کورس کے بعد مزید مہارت اور فہم دین کے لیے دیگر کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ حقیقت مزید آشکار ہوکر سامنے آتی ہے کہ ’’ہم نے اس قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان بنا دیا ہے، تو ہے کوئی سوچنے سمجھنے والا‘‘۔ (طارق محمود زبیری)

خطابتِ نبویؐ، سید عزیز الرحمن۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے ۴؍۱۷، ناظم آباد ۴، کراچی۔ صفحات: ۲۸۴۔ قیمت: ۲۴۰؍ روپے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خطابت آپؐ کی شخصیت، نبوت اور سیرت کا ایک اہم عنوان ہے۔سیرتِ نبویؐ پر اَن گنت تصانیف و تالیفات ملتی ہیں مگر سیرتِ نگاروں نے بالعموم خطباتِ نبویؐ کو الگ سے کوئی حیثیت دینے کے بجاے اس اہم پہلو کو بھی کتبِ سیرت میں ہی سمو دیا ہے۔ یوں آپؐ کے فنِ خطابت پر کوئی جامع اور تحقیقی کام منظر عام پر نہیں آ سکا۔ اس کتاب کو سید سلمان ندوی نے ’’اپنے موضوع پر ایک کامیاب کاوش‘‘ قرار دیا ہے۔

مؤلف نے فصاحت و بلاغت، فصاحت ِ نبوی کے ترکیبی عناصر،بلاغت ِ نبوی کے خصائص و امتیازات، جوامع الکلم کی اصطلاح کی وضاحت، کلامِ نبوی سے اس کی نسبت اور  حیاتِ مصطفی سے چند ایک مثالیں، مکاتیبِ نبوی کے اجزا اور خصوصیات، اور حضورِ اکرمؐ سے منسوب مسنون دُعاؤں کے ذریعے سے کلامِ نبوی کے امتیازات کو ظاہر کیا ہے۔

مؤلف نے حسن ِ صوت، قبائل کی لغات اور لہجوں سے واقفیت، فصل و ترتیل، برجستگی اور فی البدیہ گفتگو پر مکمل قدرت، اختصار، سجع اور قافیہ بندی، کلام کی جامعیت، دِل سوزی و خیرخواہی ، بامقصد خطاب اور اثر انگیزی کے تحت نبی کریمؐ کی خطابت کا جائزہ پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ  خاص مواقع کی نسبت سے آپؐ کے اندازِ خطابت کی نوعیت بدل جاتی تھی۔

آخری باب (۵۱) میں بحث کو سمیٹتے ہوئے دینی رجحان، منافرت کا اختتام، سادگی، مقصدیت کا فروغ ، قرآن کریم اور کلامِ نبوی سے استشہاد کے حوالے سے خطابت ِ نبوی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں ۱۳۳ ماخذات و مصادر کی جامع فہرست دی گئی ہے۔

مولانا سلیم اللہ خاں نے اس کاوش کی تحسین کرتے ہوئے کتاب کو بہتر بنانے کے لیے چند مفید مشورے دیے ہیں، مثلاً بعض اسرائیلی روایات کی علمی تحقیق، آیاتِ قرآنی میں بین القوسین تشریحات اور بعض مقامات پر حاشیے میں تشریحی نوٹ کی ضرورت وغیرہ، تاہم زبان و بیان، ایجاز و اختصار، ابواب بندی، تحقیقی طریقِ کار ، حواشی و تعلیقات اور مجموعی طور پر ایک علمی اسلوبِ تالیف کے اعتبار سے یہ ایک بلند پایہ تصنیف ہے ۔ (خالد ندیم)


خیرالبشرؐ کے بارہ خادمانِ خاصؓ، طالب الہاشمی، ناشر: طٰہٰ پبلی کیشنز، ۱۹-ملک جلال الدین بلڈنگ، چوک اُردو بازار،لاہور۔ فون: ۶۱۲۰۴۲۲-۰۴۲۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

سیرت النبیؐ، سیرتِ صحابہؓ اور تذکرہ و سوانح نگاری جناب طالب الہاشمی مرحوم کا مخصوص موضوع تھا۔ اس تسلسل میں ان کی آخری کتاب خیرالبشرؐ کے بارہ خادمانِ خاص ہے۔ یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ انھوں نے خود بھی اس کتاب کو اس سلسلے کی آخری اور تکمیلی کتاب قرار دیا ہے (ص ۱۳)۔ یہاں جن اصحابِ رسولؐ کا تذکرہ موجود ہے، اُن میں سے کچھ کے سوانح مصنف کی دیگر کتب میں آچکے ہیں لیکن بقول مصنف: ’’وہاں کے پیرایۂ بیان اور زیرکتاب کے اسلوب نگارش و اندازِ تحقیق میں نمایاں فرق ہے‘‘۔ (ص ۱۴)

اس کتاب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف پانے والے جن ۱۲ صحابہ کرامؓ کا تذکرہ قلم بند کیا گیا ہے اُن میں ایسے اصحاب بھی ہیں جو خدمتِ رسولؐ کے حوالے سے معروف و مشہور میں اور وہ اصحاب بھی جن کا تعارف اس اعتبار کچھ زیادہ اور عام نہیں ہے۔ یہ اصحابِ کرام خدمتِ اقدس میں نام پانے کے علاوہ علم و فضل کے اعتبار سے بھی بلند مرتبہ ہیں۔ بارہ خادمانِ خاص میں حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت بلال بن رباح، حضرت عقبہ بن عامر جہنی، حضرت ثوبان، حصرت ایمن بن عبید، حضرت اسلع بن شریک تمیمی، حضرت انس بن مالک انصاری، حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی، حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ الدوسی، حضرت ذومخمر حبشی اور حضرت ابورافع رضی اللہ عنہم اجمعین کے حالات زندگی کی تفصیل علمی، تحقیقی اور ایمانی طرز و اسلوبِ نگارش میں بیان کی گئی ہے۔ ان تذکروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان ہستیوں کی ہر ہر ادا میں حب ِ رسولؐ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے۔ ان کی انفرادیت و امتیاز بھی اسی بنا پر ہے کہ انھوں نے دنیا ومافیہا کے ہر تعلق پر خدمت ِ رسولؐ کو ترجیح دے رکھی تھی اور یہ سعادت اُن کی کامیابی و کامرانی کے علاوہ نام وَری و شہرت کا باعث بھی بن گئی۔

طالب الہاشمی مرحوم کی یہ تصنیف بھی اُن کی سابقہ تصانیف کی تمام خوبیاں اور خصائص اپنے اندر جمع کیے ہوئے ہے۔ یقینا اُردو قارئین کے لیے یہ ایک بہترین تحفہ ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


عہدفاروقی کے باکمال، پروفیسر علی محسن صدیقی۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، ۱ے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر ۴، کراچی۷۴۶۰۰۔ فون: ۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۳۱۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔  ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔

مصنف کو امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات لکھنے کے دوران میں اس کتاب کو ترتیب دینے کا خیال آیا۔ انھوں نے ان باکمال صحابہ کرامؓ کے حالاتِ زندگی جمع کیے ہیں جنھوں نے دورِ فاروقی میں سرکاری نوعیت کا کام انجام دیا اور بطور خاص کاروبارِ خلافت کی انجام دہی میں جناب امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کی معاونت کی۔ ۳۰صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضرت ابوعبیدہ جراح، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت خالد بن ولید، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ثقفی رضی اللہ عنہم زیادہ اہم ہیں۔ پروفیسر علی محسن صدیقی کا مزاج محققانہ ہے۔ ممکن ہے بعض تحقیقی آرا سے قاری متفق نہ ہوسکے۔ کتاب مجلد اور رنگین مگر سادہ سرورق سے مزین ہے۔ بعض اغلاط باقی رہ گئی ہیں۔ امید ہے آیندہ اڈیشن میں درست کردی جائیں گی۔ (ملک نواز احمد اعوان)


پھر نظر میں پھول مہکے، محمد اکرم طاہر۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور- ۵۴۷۹۰۔  فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

پروفیسر محمد اکرم طاہر کی زیرنظر کتاب ان کے سفرِحج اور عمرہ کے مشاہدات اور وارداتِ قلبی کا نچوڑ ہے۔ حج کے سفرناموں میں طبائع انسانی کے تنوع کے ساتھ ساتھ ادبی اعتبار سے بھی اس سفرنامے میں خاصی جاذبیت ہے۔

جوں جوں ہم رسالت مآبؐ کے زمانے سے دُور ہوتے جارہے ہیں ارکانِ اسلام کی بجاآوری میں بھی غفلت کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ حالی نے بجا کہا تھا: ع  ’’زحمتِ روزہ بھی کرتے ہیں گوارا تو غریب‘‘۔ ایک باشعور مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج کرے اور اپنی کمائی اور رزقِ حلال کو اس سفر کے لیے خرچ کرے (سرکاری اخراجات پر سفر کرنے والوں کے تاثرات کیا ہوتے ہوں گے)؟ البتہ رزق حلال سے حج کرنے والوں کے تاثرات یقینا دلوں میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کرتے ہیں۔ اکرم طاہر کا یہ سفرنامہ ایک ایسے زائر کے جذبات سے لبریز ہے جو اسلامی شعائر سے محبت کرنے والا ہے۔ عشقِ رسولؐ سے قلب و نظر میں جو پاکیزگی و طہارت پیدا ہوتی ہے، وہ بھی اس سفرنامے میں جگہ جگہ عیاں ہے۔

مصنف نے سفرنامے کے شروع میں ان وسوسوں اور اندیشوں کا ذکر کیا ہے جو انھیں ہوّا بن کر ڈراتے تھے اور مانع سفر تھے مگر ان کے عزم بالجزم کے سامنے سارے وسوسے اور اندیشے خودبخود ختم ہوتے چلے گئے۔ سرزمینِ مکہ اور مدینہ کی خاک ایک مسلمان کے لیے سرمۂ نور کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے شب و روز انسانی دل پر بے پناہ اثرات چھوڑتے ہیں۔ دربارِ رسالت میں زبان گنگ ہوجاتی ہے اور جذبات اشکِ رواں کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔ اکرم طاہر اپنے سفرنامے میں اس کیفیت کا نقش ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’شمعِ رسالتؐ کے پروانے آگے  بڑھ گئے، چاروں طرف آنسو کا ایک سیلاب تھا کہ تھمتا نہ تھا۔ آنسو، اپنی اپنی سیاہ کاریوں پر شرم ساری کے آنسو، حبیبِؐ خدا کی قربت میں سرشاری کے آنسو… آج کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ خانہ کعبہ میں ہربے زبان کو زبان مل جاتی ہے۔ درِ رسولؐ پر بڑے بڑے زبان دانوں کی زبان گنگ ہوجاتی ہے‘‘۔

مصنف نے عرب کی قدیم تہذیب کے نمونے بھی پیش کیے ہیں اور معدنی تیل کے ثمرات اور اثرات کا ذکر بھی کیا ہے جس نے عربوں کی اقدارِ حیات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ ایک جملہ ملاحظہ کریں: یہاں تین نئی چیزیں باہم مربوط ہیں: سنہ جدیدہ، سیارۂ جدیدہ و حرمۂ جدیدہ (نیا سال، نئی گاڑی اور نئی بیوی)۔

سفرنامے میں اُمت کی مجموعی حالت پر نوحہ خوانی کا تاثر بھی ملتا ہے۔ کشمیر اور فلسطین جیسے سلگتے مسائل سے اُمت مسلمہ کی عدم دل چسپی اور بے حسی پر بھی افسوس کیا گیا ہے، پھر یہ کہ مملکت سعودی عرب نے سرورِ کونینؐ اور صحابہؓ کے آثار اور یادگار مقامات کو مٹانے میں اعتدال سے   تجاوز کیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ سفرنامہ ایک مسلم قاری کے جذبۂ ایمانی میں نیا جوش پیدا کرتا ہے۔(محمد ایوب لِلّٰہ)


تعلیم کا تہذیبی نظریہ، نعیم صدیقی [مرتبین: ڈاکٹر مشتاق الرحمن صدیقی، نوید اسلام صدیقی]۔ ناشر: الفیصل ناشران، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۷۷۷-۰۴۲۔ صفحات: ۶۷۹۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

ہر معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں تعلیم کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے، جب کہ ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل میں تعلیم کے پہلو بہ پہلو تربیت کو نہایت کلیدی مقام حاصل ہے۔ بیسویں صدی کے دوران میں برعظیم پاک و ہند نے جن اعلیٰ دماغ مسلمان رہنمائوں اور عالموں کو پروان چڑھایا، ان میں ایک نام نعیم صدیقی (۱۹۱۶ء-۲۰۰۲ء) ہے۔ ان کے بارے میں زیرنظر کتاب کے دیباچے میں پروفیسر خورشیداحمد لکھتے ہیں: نعیم صدیقی ایک بالغ نظر مفکر، ایک صاحب ِ دل داعی، اور ایک دردمند مصلح تھے، بیسویں صدی میں تحریکِ اسلامی کی ایک قیمتی متاع(ص ۱۴)، اور اس متاع    نے اپنے قلم، دماغ، زبان، فکر، نظر اور عمل سے جو بے پناہ کام کیا، اس کا تعلق دین اسلام کی   نعمت و صداقت کو اہلِ فکر سے لے کر عام لوگوں تک پہنچانا تھا۔

زیرتبصرہ کتاب کا مرکزی موضوع تعلیم ہے جسے نعیم صدیقی کے مقالات، مکاتیب، خطبات اور رشحات سے مرتب کیا گیا ہے۔ محترم مؤلف رسمی طور پر علم التعلیم (ایجوکیشن) کے ماہر نہ ہونے کے باوجود زیربحث موضوع پر ماہرین تعلیم سے کہیں زیادہ مہارت اور مضبوطی سے کلام کرتے ہیں۔

جناب نعیم صدیقی نے اس کتاب میں نہ صرف مروجہ تعلیمی نظاموں پر نقد و جرح کی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ایک متبادل نظامِ تعلیم کے لیے فکرانگیز تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ شعروادب اور سیاست و صحافت کا یہ حُدی خواں تعلیم کے نام پر اُگنے والے جھاڑ جھنکار کی جڑوں کو جانتا اور ان کے مقابلے میں اسلامی نظام تعلیم کے ایک قابلِ عمل اور   قابلِ طلب ڈھانچے کو گہرے یقین و اعتماد کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

کتاب چار حصوں اور بڑے چھوٹے ۶۷ مضامین پر مشتمل ہے۔ ان مضامین میں نہ صرف فکری مضامین ہیں، بلکہ کم و بیش تمام اصولی اور عملی مسائل بھی زیربحث لائے گئے ہیں۔ مثال   کے طور پر چند جملوں کو ملاحظہ فرمائیں: ’’میں جب ہر روز صدہا ایسے چہروں کو دیکھتا ہوں جن کی لوحِ پیشانی پر جلی خط میں ’لامقصدیت‘ لکھی ہوتی ہے۔ میں جب ماحول میں پریشان فکری،   آوارہ نگاہی، تشدد پسندی، اشاعتِ جرم، تشکیک و بے یقینی، خوف و حزن اور یاس و قنوط کے رنگ دیکھتا ہوں تو میرے اندر یہ سوال بار بار اُبھرتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟‘‘ (ص ۱۹۱)۔ ’’تحریکی و انقلابی شعور کا اوّلین دائرہ عمل، علم وفکر کا میدان ہے۔ ہمیں علمی حیثیت سے یہ واضح کرنا ہے کہ اسلامی ثقافت کی فکری بنیادیں کیا ہیں؟ پھر گہری نظر سے جائزہ لینا ہے کہ ہمارا سرمایۂ ثقافت کیا ہے؟ اور اس میں سے کتنا حصہ قابلِ قدر ہے، جسے نامطلوب کوڑے سے الگ کر کے ساتھ لینا ہے۔ [اس] کے ساتھ ہمیں اپنے حال پر بھی ناقدانہ نگاہ ڈال کر یہ دیکھنا ہے کہ آج ہمارے ثقافتی کباڑخانے میں کیا کچھ بھرا پڑا ہے… ان کی تطہیر کیسے ممکن ہے؟‘‘ (ص ۲۵۲)۔ ’’ہمارے تحریکی و انقلابی شعور کا دوسرا دائرہ عمل نظامِ تعلیم و تربیت ہے۔ اپنی ثقافت کے بارے میں ہم جو جو کچھ علمی حیثیت سے طے کرتے جائیں، ان سارے فیصلوں کو ہمیں اپنے نظام تعلیم و تربیت میں سمو دینا چاہیے۔ انھی کے مطابق ہمیں اپنی موجودہ اور آیند نسلوں کے دل و دماغ، ان کے جمالیاتی ذوق اور ان کے ثقافتی مزاج کو ڈھالنا چاہیے‘‘ (ص ۲۵۳)۔ ان تین اقتباسات سے مصنف کے فکری تعمق اور دائرۂ خیال کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔یوں اس کتاب کے مندرجات پاکستان کے تعلیمی و ثقافتی پالیسی سازوںکی رہنمائی کے ساتھ معلمین و مربیّین کے لیے روشنی کے چراغ مہیا کرتے ہیں۔

کتاب کے مرتبین ڈاکٹر مشتاق الرحمن اور نوید اسلام، ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مصنف کی اِن قیمتی تحریروں کو مربوط اور سائنٹی فک انداز سے مرتب کر کے، اس کتاب کے روپ میں پیش کیا۔(سلیم منصور خالد)


Essays on Muslims and The Challenges of Globalization، مرتبین: خالد رحمن، عرفان شہزاد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، بلاک ۱۹، مرکز F-7، اسلام آباد۔ صفحات: ۴۵۰۔ قیمت: درج نہیں۔

پینے کے پانی سے لے کر بڑے بڑے مسافر طیاروں کی خرید وفروخت تک کاروباری معاملات انتہائی منظم اداروں کے ہاتھ میںچلے گئے ہیں۔ چھوٹی کمپنیاں بیک وقت کئی ممالک میں سرگرم بین الاقوامی فرموں میں ضم ہوچکی ہیں ان میں سے کئی کمپنیوں کے بجٹ کئی ممالک کی سالانہ قومی آمدن سے بھی زائد ہیں۔ اپنے معاشی حجم کو بڑھانے اور اپنی معاشرتی ضرورت میں اضافے کے لیے اِن کمپنیوں نے اہم ممالک کو بھی تجارتی مراعات اور دیگر پھندوں میں پھنسا رکھا ہے اور اس سارے عمل کو ’عالم گیریت‘ کانام دے دیا گیا۔

زیرتبصرہ کتاب میں اِس اہم موضوع پر نمایاں اہلِ علم کی آرا جمع کر دی گئی ہیں۔ چار حصوں میں تقسیم اہلِ قلم کے ۱۳ مضامین کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ان میں اختصار بھی ہے اور موضوع زیربحث کے کسی نہ کسی پہلو کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور اس دلدل سے نکالنے کے لیے قابلِ عمل تجاویز بھی شامل ہوگئی ہیں۔

فرانس ویری لاڈ نے اعلیٰ تعلیم اور عالم گیریت کا جائزہ لیا ہے، جب کہ محمدچھاپرا نے عالم گیریت کے مسئلے کو اسلامی نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسی    عالم گیریت کی ضرورت ہے جس میں تمام انسانوں کا اور اُن کی ثقافت و تاریخ کا احترام ہو۔

پروفیسر خورشیداحمد کا یہ کہنا ہے کہ عالم گیریت کے سیلاب کا نعروں اور جذباتی فضا پیدا کرنے سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ مسلم دنیا کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ غلامی سے نکل کر خودمختاری کی منزل حاصل ہوسکے۔

محمد عمر چھاپرا کا مضمون: ’مسلم دنیا میں سماجی و اقتصادی انصاف‘ ایک ایسی تحریر ہے جو مسلمانوں کو آئینہ دکھاتی ہے۔ مسموم ثقافت، تعلیم، ذرائع ابلاغ اور عالم گیریت کے زیراثر مسلمان نوجوانوں اور خواتین میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں ایک علیحدہ کتاب کا موضوع ہیں؟ امید ہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ان موضوعات پر بھی رہنمائی دے گا۔ (محمد ایوب منیر)

تعارف کتب

  •  قرآن حکیم اورامت مسلمہ، مرتب:محمدمحمودالصواف، ترجمہ :خدابخش کلیارا یڈووکیٹ۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی منصورہ،لاہور۔صفحات:۸۰۔ قیمت:۶۰ روپے۔[اخوان المسلمون کے رہنما محمدمحمود الصواف (۱۹۱۴ء-۱۹۹۲ء) نے مطالعے کے رجحان میں کمی کے پیش نظر بالخصوص نوجوانوں میں قرآن کے فہم کو      عام کرنے کے لیے ایسے مختصر تفسیری کتابچے شائع کرنے کا سلسلہ المکتبہ القرآنیہ کے نام سے شروع کیا  جو عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ دل و دماغ پر قرآن کے اثرات مرتب کرسکیں۔ دل کش اندازِ بیان اور قرآن پر عمل کے لیے تحریک۔اس مفید سلسلے کے دیگر کتابچوں کے ترجمے کی بھی ضرورت ہے۔]
  •  تہذیب الاخلاق، افادات: مولانا اشرف علی تھانویؒ ،مرتبہ: محمداقبال قریشی۔ ناشر: ادارہ تالیفات اشرفیہ، جامع مسجدتھانہ والی، ہارون آباد، بہاول نگر۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۳۵ روپے۔[بعض اخلاقی خامیاں، جیسے بدنگاہی، غیبت، تجسس، بدگمانی، غصہ اور کینہ، اِسراف اور تکبر وغیرہ  کے ازالے کے لیے     مولانا اشرف علی تھانویؒ کے افادات سے رہنمائی کے ساتھ عملی علاج بھی تجویز کیا گیا ہے۔ تزکیہ و تربیت کے لیے اخلاقی خوبیوں کے ساتھ ساتھ صحبت ِ صالح اور شیخ کامل سے تعلق پر بھی زور دیا گیا ہے۔]
  •  نماز کی ظاہری ہیئت اور معنویت ،مرتب: خلیل الرحمن چشتی۔ ناشر: الفوز اکیڈمی، ای-۱۱/۴، گولڑہ، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۲۲۴۱۸- ۰۵۱۔ صفحات: ۱۱۸۔ قیمت: ۸۵ روپے۔ [نماز کے فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات کے اہتمام کی تلقین۔ دعاے استفتاح، رکوع، قومہ ، سجدہ، جلسہ، سلام سے پہلے اور سلام پھیرنے کے بعد کئی کئی مسنون اذکار اور دعائیں باترجمہ ارکانِ نماز کا خلاصہ، نماز کا حاصل، نمازیوں کی قسمیں اور توحید کی قسمیں۔ نماز کی ظاہری و معنوی حالت کو بہتر بنانے اور خضوع وخشوع پیدا کرنے میں معاون کتاب۔]
  • کرم کی برسات (سفرنامۂ حج)، ڈاکٹر خالد عاربی۔ ناشر: دارالتذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ،    اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [حج کے مشاہدات و تاثرات پر مبنی خوب صورت پیراے میں تحریر کی گئی ایمان افروز اور قلبی کیفیات کی آئینہ دار یہ کتاب مطالعے کے دوران قاری پر روحانی اور وجدانی کیفیت طاری کردیتی ہے اور جذبات کو مہمیز دیتی ہے۔ حج کے مسائل کے ساتھ ساتھ حضوؐر کے حج و عمرہ کے اسفار کی تفصیل اور تقاریر کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔]
  • نو زبانی لُغت، پروفیسر عبدالعزیز مینگل۔ ناشر: اُردو سائنس بورڈ، ۲۹۹-اَپرمال، لاہور۔ صفحات: ۶۵۸۔ (بڑی تقطیع)۔قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔ [بہ ترتیب حروفِ تہجی اُردو الفاظ کے بالمقابل بتایا گیا ہے کہ آٹھ دیگر زبانوں (براہوی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، فارسی، انگریزی) میں ان کے مترادفات کیا ہیں۔ مصنف کی محنت قابلِ داد ہے مگر اس کی افادیت محدود ہے۔]
  •  محنت کش، مسائل، مشکلات، حل ،شفقت مقبول۔ناشر: محنت پبلی کیشنز، پوسٹ بکس نمبر۳۲، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔ فون: ۴۵۳۵۳۳۴- ۴۵۳۷۵۵۰-۰۵۱۔ صفحات: ۱۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [اس کتاب میں محنت، کسبِ معاش کی اہمیت و فضیلت، مختلف نظریہ ہاے محنت (سرمایہ داری نظام، اشتراکیت اور اسلام کا نظریۂ محنت)، محنت کش کی انسانی تاریخ، دیگر مذاہب میں اور نظاموں میں مزدور کی حالت، نیز پاکستان میں محنت اور محنت کش کی صورت حال، آجر اور اجیر کے درمیان مثالی تعلقات جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔]

 

عہدنبویؐ میں ریاست کا نشوو ارتقا، ڈاکٹر نثار احمد۔ ناشر: نشریات، ۴۰- اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۰۴۔ قیمت: درج نہیں۔

زیرنظر کتاب ڈاکٹر نثار احمد صاحب کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے پر مبنی ہے۔ ۵۰۰ سے زائد صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب میں جس بنیادی موضوع کا جائزہ لیا گیا ہے وہ عالمِ اسلام کے لیے ہی نہیں بلکہ جدید مغربی مفکرین اور ان کے زیراثر تربیت پانے والے مسلم دانش وروں کی توجہ کا بھی مرکز رہا ہے۔ پاکستان کے قیام اور مستقبل کے حوالے سے بھی یہ موضوع غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ بعض حضرات اسلام کے سرسری مطالعے کی بنیاد پر اور اسلام کو دیگر مذہب کی طرح ایک مذہب تصور کرتے ہوئے اس راے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مدینہ منورہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی معاشرہ توقائم کیا لیکن نہ قرآن میں اور نہ سنت میں ’اسلامی ریاست‘ کی کوئی واضح شکل ملتی ہے اور نہ کوئی دلیل۔ اس لیے اسلام مذہبی تعلیمات و عبادات کا ایک مجموعہ ہے اور اس کا کوئی تعلق سیاست کے ساتھ نہیں ہے بلکہ بعض دانش ور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اسلام کو سیاست اور ریاست کے معاملات میں شامل کیا گیا تو مذہبی جنونیت، شدت پسندی کو تقویت ملے گی اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کی پامالی عمل میں آجائے گی۔

یہ کتاب ایک تحقیقی مقالے کی حیثیت سے ان تمام بے بنیاد تصورات کی نظری، عقلی اور تاریخی شواہد کے ذریعے سنجیدہ اور غیرجذباتی تردید ہے۔ کتاب کے مبنی برتحقیق ہونے کے حوالے سے برعظیم پاک و ہند کے نام ور مؤرخ و مفکر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے تحریر کردہ پیش لفظ میں جو راے دی گئی ہے وہ ایک اعلیٰ علمی شہادت کی حیثیت رکھتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی ناسمجھ ہی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا کہ مذاہبِ عالم میں ایک مذہب کا اضافہ ہوجائے اور جس طرح یہودی، عیسائی، بدھ، زرتشت یا ہندو اپنے مذہبی رسوم و عبادات پر عمل کرتے تھے، ایک اور قوم ایسی پیدا ہوجائے جو مختلف انداز میں عبادات اور چند مخصوص تہوار منا لیا کرے۔ قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا بنیادی مقصد دنیا سے ظلم و طغیان کو مٹاکر عدل اور علم و ہدایت پر مبنی نظامِ حیات کا قیام تھا۔ اس بنا پر مکی دور ہو یا مدنی، دونوں ادوار میں اصل تعلیم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا قیام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے ذریعے قرآن کی معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی تعلیمات کا عملاً مظاہرہ تھا، تاکہ قیامت تک کے لیے انسانیت کے سامنے تعلیمات، احکام و ہدایاتِ قرآنی کے نفاذ کا طریقہ اور تاریخی شواہد کے ذریعے انسانیت کے معاشرتی، سیاسی و معاشی مسائل کا واضح، متعین اور عملی شکل میں آجائے۔ گویا مدینے کی اسلامی ریاست قرآن کریم کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تعلیمات کی تفسیر و تشریح و تشریع کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس ریاست کا نشووارتقا کتاب کا موضوع ہے۔ مصنف نے قرآن و حدیث، معروف تفاسیر، مشہور تاریخی مصادر اور بعد کے لکھنے والوں کی تحریرات کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد حاصلِ مطالعہ کو اپنے قارئین کے سامنے انتہائی مؤثر، مدلل اور سادہ انداز میں پیش کر دیا ہے، جس کے لیے  وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کتاب کی نمایاں خصوصیات میں اس کا مستند و معتبر مصادر پر مبنی ہونا اور غیرجانب دارانہ تحقیق ہے۔

قرآن کریم ، احادیث اور سیرت طیبہؐ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ریاست مدینہ منورہ میں قائم کی، وہ ایک مکمل ریاست تھی جس میں ریاست کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، فلاحی، قانونی وظائف کو آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارکہ ہی میں واضح شکل دے دی تھی۔ ظاہر ہے اس بنیادی خاکے میں بعد کے ادوار میں معاشرتی اور   معاشی ضروریات کے پیش نظر مزید اضافے ہونے فطری تھے لیکن بنیادی تصورات، بنیادی ادارے اور بنیادی خدوخال کے حوالے سے خود خاتم النبیینؐ نے اس کام کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں مکمل فرما دیا اور یہی قرآن کریم کے اس ارشاد کا مفہوم ہے جس میں اسلام کے مکمل کیے جانے کا تذکرہ ہے۔ (المائدہ۵:۳)

اللہ کی حاکمیت اعلیٰ پر قائم ہونے والی اس ریاست میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے خلیفہ فی الارض یا سربراہِ مملکت کی تھی۔ جو نظام قائم کیا گیا اس کی بنیاد شوریٰ اور مالی، عسکری، انتظامی اور عدلیہ کے اداروں کے استحکام پر تھی۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی سے اس پورے نظام کا نقشہ باب پنجم میں (ص ۳۸۵ تا ۴۸۰) اصل مصادر کی مدد سے پیش کر دیا ہے۔

مصنف نے ۲۰ویں صدی کے معروف مسلم مفکرین سے، جنھوں نے اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی ریاست کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے خصوصاً سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، محمد اسد، ڈاکٹر محمدحمیداللہ، امین احسن اصلاحیؒ اور مولانا گوہر رحمنؒ کی تصانیف و تحریرات سے بھی جابجا  استفادہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نثاراحمد صاحب کی یہ کتاب ہرعلمی کتب خانے میں رکھنے کے قابل ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس محققانہ مقالے کو تحریر کرنے پر بہترین اجر سے نوازے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


سیرۃ البخاری، مولانا عبدالسلام مبارک پوری، تعلیق و تخریج: ڈاکٹر عبدالعلیم ، عبدالعظیم بستوی۔ ناشر: نشریات، ۴۰- اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۵۸۹۴۱۹-۰۳۲۱۔صفحات: ۵۰۸ [بڑی تقطیع]۔ قیمت: درج نہیں۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ- ۲۵۶ھ) نے کم سنی ہی میں اہلِ علم اور اساتذۂ فنِ حدیث کی نظر میں بے مثل مقام پا لیا تھا وہ بہت کم افراد کو نصیب ہوتا ہے۔عربی زبان میں امام بخاری پر سوانحی ذخیرہ بہت وسیع ہے مگر ایک صدی قبل تک اُردو میں ایسی مستند کاوش موجود نہ تھی۔ اس ضرورت کو مبارک پور (بھارت) کی زرخیز زمین کے مایہ ناز سپوت مولانا عبدالسلام مبارک پوری نے نہایت اعلیٰ معیار پر پورا کیا۔

سیرۃ البخاری کے نام سے فاضل مصنف نے نو ابواب اور خاتمے پر مشتمل کتاب کے اندر موضوع کا حق ادا کیا ہے۔ امام بخاری کی ولادت و تعلیم سے لے کر روایت و تدوین حدیث اور علمِ رواۃ پر محققانہ اسلوب میں معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ امام کے ابتدائی اساتذہ میں نام ور علماے حدیث کا تذکرہ و تعارف، امام کے علمی و اخلاقی اوصاف کا بیان، آپ کے ۳۲ اساتذہ و شیوخ [جن میں امام احمد بن حنبل بھی شامل ہیں] کی نظر میں آپ کا مقام، اقران و معاصرین کے نزدیک آپ کا رتبہ، امام کے بارے میں بلندخیال لوگوں کی آرا اور امام کے اپنے حکیمانہ ملفوظات کو جامعیت و اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ الجامع الصحیح کے علاوہ امام کی ۲۴ تصانیف کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ الجامع الصحیح کے تعارف و تفصیل میں مصنف نے امام بخاری کے علمی منہج، کتاب کے تراجم (عنوانات) ابواب، شرائط بخاری، احادیث کے تکرار کی توضیح اور اختصار و تقطیع یہ حصہ کتاب جس قدر اہم ہے مصنف نے اسی ذمہ داری کے ساتھ اس کو عالمانہ و محدثانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ صحیح بخاری کو سمجھنے کے لیے یہ باب انتہائی معاون و مددگار ہے۔

الجامع الصحیح کی سیکڑوں علما نے شروح لکھیں، مصنف موصوف نے ۱۴۳، شروح کا مختصر اور معلومات افزا تعارف پیش کیا ہے۔مصنف نے اپنے ہم عصر معترضین کے چند اعتراضات کے شافی جواب بھی دیے ہیں، جس سے مصنف کی وسعت علمی اور اصولِ حدیث پر گرفت کی شان جھلکتی ہے۔

حدیث اور اصولِ حدیث اور فقہ البخاری پر مصنف نے بہت شان دار انداز میں حفاظتِ حدیث کی تاریخ، روایتِ حدیث میں احتیاط، امام بخاری کے طرزِ اجتہاد اور فقہاے محدثین کے طرزِ اجتہاد و اصولِ فقاہت کے بالمقابل فقہاے اہل الراے کا طرزِ اجتہاد و اصولِ فقاہت علمی انداز میں بیان کیا ہے۔ خاتمہ کتاب میں امام بخاری کے ہزاروں شاگردوں میں سے ۱۴ نام وَر محدثین علما کا تعارف پیش کیا ہے۔کتاب کا اختتام مصنف نے امام بخاری تک اپنی سند کے تذکرے پر کیا ہے۔

سیرۃ البخاری اپنا تعارف آپ بہترین انداز میں پیش کرتی ہے۔ لیکن اس کی افادیت کو اس کتاب کے عربی مترجم ڈاکٹر عبدالعلیم بستوی کے عربی حواشی کے اُردو قالب نے بہت بڑھا دیا ہے۔ اس معلومات افزا اور علم افروز کتاب کا نام سیرۃ البخاری ہے مگر اس کا مواد صرف سیرتِ بخاری تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ علومِ حدیث کے متعدد گوشوں اور پہلوئوں سے متعلق علمی نکات پر مشتمل دائرۃ المعارف ہے۔ تدریس حدیث اور تحصیل علمِ حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک بیش بہا خزانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کا پہلا اڈیشن آج سے ایک صدی قبل منظر پر آیا تھا، سید سلیمان ندوی نے بھی اس کی تحسین کی تھی۔ زیرنظر اڈیشن کو نشریات نے صدی اڈیشن کے طور پر نہایت عمدہ کتابت و طباعت اور کاغذ و جلدبندی کے اعلیٰ معیار پر پیش کیا ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


اقبال کی فکری تشکیل، پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر۔ ناشر: نیشنل بک فائونڈیشن، اسلام آباد۔ صفحات: ۵۷۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مصنف موصوف اقبالیات کے متخصص ہیں۔ خاص طور پر اقبال کے مخالفین اور معترضین کی خبر لینے والوں میں پیش پیش ہیں۔ انھوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں بھی اقبال کے   جملہ معترضین کی تحریروں کا تجزیہ کیا تھا۔ پھر اس مقالے کے مختلف حصے مزید اضافوں کے ساتھ  کئی کتابوں کی صورت میں شائع کیے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اس کتاب کے جملہ ۱۳ ابواب کے عنوانات سوالیہ ہیں، مثلاً کیا فکراقبال مستعار ہے؟ کیا اقبال کے ہاں تضاد ہے؟ کیا اقبال جارحیت پسند ہیں؟ کیا اقبال خرد دشمن اور مخالف علم ہیں؟ کیا اقبال وحدت الوجودی ہیں؟ صرف شاعر یا مفکر بھی؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہر باب میں مشرق و مغرب کے ان تمام چھوٹے بڑے، معروف اور غیرمعروف، مسلم اور غیرمسلم، مستشرقین اور مستغربین اہلِ قلم کی تحریروں پر نقد کیا گیا ہے جن کے ہاں فکراقبال کے کسی خاص پہلو پر اعتراض کا شائبہ ملتا ہے۔ ان ناموں میں اقبال کے مخالفین کے ساتھ ساتھ ایسے نام بھی نظر آتے ہیں جو اقبال کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مصنف اقبال کے محقق اور نقاد ہی نہیں بلکہ ان کے طرف دار بھی ہیں، تاہم انھوں نے یہ کام بڑی دقّت نظری اور محنت سے کیا ہے اور اِستناد کا خیال رکھا ہے۔

امید ہے ڈاکٹر محمد ایوب صابر کا یہ کام اقبالیات پر آیندہ کام کرنے والوں کے لیے بہت مفید اور مددگار ثابت ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


نعیم صدیقی:حیات و خدمات، مرتب: پروفیسر نورورجان۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۴۲۔ قیمت: ۲۲۰ روپے۔

محسنِ انسانیتؐ سے عالم گیر شہرت پانے والے نعیم صدیقی کا اصل نام فضل الرحمن تھا۔ آپ کی بنیادی تعلیم منشی فاضل اور تعلق خطہ پوٹھوہار چکوال سے تھا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے کسبِ فیض کیا۔ تحریر و تقریر ہر دو میدانوں میں آپ نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ کی شاعری حُسن و جمال کا مرقع اور پاکیزگی و سلامت روی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ صحافتی زندگی میں ہفت روزہ ایشیا، ترجمان القرآن، چراغِ راہ، شہاب، سیارہ میں ادارتی خدمات سرانجام دینے کے علاوہ، روزنامہ تسنیم لاہور، قاصد لاہور اور جسارت کراچی اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کالم نویسی اور مضمون نگاری کرتے رہے۔ آپ ۲۰ سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔

زیرنظر مجموعے میں آپ کی حیات و خدمات پر تقریباً ۲۸ مضامین، متعدد نظمیں اور مرحوم کی اپنی تحریریں اور خطوط جمع کیے گئے ہیں۔ ناشر کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے کہ مرتب کے ارسال کردہ مسودے میں ہمارے ادارے کے رفقا (برادرم حمیداللہ خٹک اور دیگر) نے بھی خاصی محنت اور ترامیم اور اضافے کیے ہیں۔ غالباً انھی رفقا کی محنت سے کتاب کے تقریباً ایک سو صفحات کا نیا لوازمہ کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ لکھنے والوں میں معروف اور غیرمعروف اہلِ قلم شامل ہیں جن میں مرحوم کے خطوط، کچھ نثری مضامین، انٹرویو اور ان پر بعض نظمیں بھی شامل ہیں جو آپ کی زندگی کے بیش تر پہلوئوں اور ان کی مختلف حیثیتوں (ادیب، شاعر، مقرر، صحافی، مفکر وغیرہ) کو سامنے لاتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اسلوبِ نظم و نثر کیا تھا، ان کے علمی منصوبے کتنے اُونچے پائے کے تھے، اسی طرح یہ کہ ادبیاتِ اُردو میں ان کی تخلیقات کس طرح منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔

یہ مجموعہ اگرچہ جناب نعیم صدیقی کی شخصیت اور خدمات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا لیکن اس عظیم شخصیت کی خدمات کا کماحقہٗ اعتراف اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ایک جامع منصوبہ بناکر مرحوم پر ایک مربوط کتاب یا ان کی سوانح حیات لکھی یا لکھوائی جائے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


معیار (علمی و تحقیقی مجلہ)، مدیران: نجیبہ عارف، معین الدین عقیل۔ ناشر: شعبہ اُردو، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد، ۲۰۰۹ء۔ صفحات: (۳۵۷+۷۴)۔ قیمت: درج نہیں۔

یونی ورسٹیوں میں خصوصاً سماجی علوم اور ادبیات کے شعبوں سے شائع ہونے والے تحقیقی مجلے عموماً اعلیٰ علمی و تحقیقی معیار کے حامل نہیں ہوتے۔ ایسے بے قدری کے موسم میں، مذکورہ یونی ورسٹی کے سب سے کم عمر شعبے، شعبہ اُردو کا یہ مجلہ قاری کو حیرت اور مسرت سے دوچار کرتا ہے۔ باقاعدہ حصوں میں تقسیم کر کے سلیقے کے ساتھ تحقیقی تخلیقات پیش کی گئی ہیں۔ مقالات تقاضا کرتے ہیں کہ فرداً فرداً ان کا تعارف کرایا جائے، مگر پرچے کی تنگ دامانی اجازت نہیں دیتی۔ ان میں بعض مقالات تو واقعی چونکا دینے والے ہیں، اور پھر نوادرات میں علامہ اقبال کے ایک خط کی دریافت اور  غالب و غمگین کی مراسلت نے اسے اور زیادہ قیمتی بنا دیا ہے۔ مجلات کی زندگی میں ’اجتہاد‘ کرتے ہوئے، نایاب مطبوعات کو ایک حصے میں مرتب کرکے پیش کرنے کا عزم بھی اپنی جگہ قابلِ قدر ہے۔

مندرجات کے تنوع اور پیش کش کے حسن میں ڈاکٹر معین الدین عقیل کے ذوق تحقیق کی خوشبو خودبخود ظاہر ہو رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معیار نام رکھ کر ادارے نے بڑا بھاری پتھر اٹھایا ہے، اس لیے کہ اگر وہ اس معیار کو برقرار نہ رکھ سکے تو یہی نام شعبے کے لیے باعث ِخجالت ہوسکتا ہے، سو یہ نام منتظمین ادارہ و مدیرانِ محترم کو پکار پکار کرکہہ رہا ہے: ’جاگتے رہنا‘۔ (سلیم منصور خالد)

تعارف کتب

  • عقوباتِ قرآن اور مفکر قرآن، ڈاکٹر حافظ محمد دین قاسمی۔ ناشر: کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[۲۰ویں صدی میں فتنہ انکارِ حدیث کے علَم برداروں میں ایک نام چودھری غلام احمد پرویز کا بھی ہے۔ اسلام کے قوانین اور تعلیمات، جن میں: قتل و قصاص، زنا، حدِ قذف، حدِ حرابہ، مرتد کی سزا اور سرقہ وغیرہ شامل ہیں انھیں پرویز صاحب نے اپنی خصوصی اپج کا نشانہ بنایا ہے۔ فاضل مصنف نے اس تحقیقی و تجزیاتی کتاب میں خوبی کے ساتھ اس سوچ کے تضادات اور قرآن فہمی میں مبتدیانہ رویے کو پیش کیا ہے۔]
  •  تحفہ حرم، مولانا مرغوب احمد لاجپوری۔ بیت العلم، سٹریٹ، ST-9E ،بلاک نمبر۸، گلشن اقبال، کراچی۔ صفحات: ۲۷۸۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔ [مصنف کے آٹھ رسائل کا مجموعہ، موضوعات: زم زم، حجراسود، مقامِ ابراہیم ؑ، ملتزم، اور رکنِ یمانی، حجِ اکبر، عجوب کے فضائل، سفرِحج میں نماز کی اہمیت___ ہر موضوع پر قرآن وحدیث اور سیرت نبویؐ کی روشنی میں حوالوں کے ساتھ کلام کیا گیا ہے۔ حج اور عمرے کے زائرین کے لیے ایک جامع راہنمائی۔]
  •  سفرِ حجاز ، مولانا عبدالماجد دریابادی۔ صدق فائونڈیشن، خاتون منزل، حیدر مرزا، گولہ گنج، لکھنؤ- ۲۲۶۰۱۸۔ صفحات: ۴۷۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [سرورق: ’’حج بیت اللہ کا مکمل و مفصل ہدایت نامہ‘‘۔ یہ مولانا دریابادی کے ۱۹۲۹ء کے سفرحجاز کا سفرنامہ ہے۔ اسے قبولِ عام حاصل ہوا اور اب یہ پانچویں مرتبہ شائع ہوا ہے۔ سفرنامہ بھی ہے اور سفرِحج اور عمرے کا ہدایت نامہ بھی۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پون صدی پہلے کے مقابلے میں آج حج اور عمرے کا سفر کس قدر سہل، آسان اور پُرراحت ہوگیا ہے۔]
  •  میرے حضوؐر کے دیس میں، جاوید جمال ڈسکوی۔ ناشر: جمال پبلی کیشنز، ڈسکہ۔ ملنے کا پتا: احمد پبلی کیشنز، دوسری منزل، ملک بلڈنگ، ۱۹-اے ایبٹ روڈ، لاہور۔ فون: ۳۶۳۰۷۸۲۸۔ صفحات: ۱۵۱۔ قیمت: ۲۰۰روپے۔ [مکہ اور مدینہ کے مقاماتِ مقدسہ اور نبی کریمؐ کی نسبت سے مقامات کا تاریخی پس منظر اور ان کا ایمان پرور تذکرہ۔بعض ایسے مقامات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے جو عام طور پر زائرین کی نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں یا وہ لاعلمی میں وہاں سے گزر جاتے ہیں۔مختلف مقامات کی رنگین تصاویر سے بھی کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب مفید اور حج و عمرہ اور مقدس مقامات کے زائرین کے لیے ایک گائیڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔]
  •  ماہنامہ مشکوٰۃ المصباح (عظیم شخصیات نمبر)،مدیر: محمد ندیم خٹک۔ ملنے کا پتا: مکتبہ المصباح، 1-اے، ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور۔ فون: ۳۷۵۸۶۸۴۶-۰۴۲۔ صفحات: ۲۳۸۔قیمت: ۸۰ روپے۔ [جمعیت طلبہ عربیہ کے ترجمان مشکوٰۃ المصباح کی یہ اشاعت خاص ان ۲۸سعید روحوں کے تذکرے پر مشتمل ہے، جنھوں نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کھپادی۔ ان میں مولانا فضل معبود، شیخ عبدالعزیز، مولانا حسن جان شہید، مولانا سید نفیس الحسینی، مولانا فتح محمد، مولانا محمد سلطان (عاصم نعمانی)، طالب الہاشمی، ڈاکٹر خالد علوی، مولانا عبدالرشید غازی اور عامرچیمہ شہیدؒ کے نام نمایاں ہیں۔ اکابر کے اخلاص، فداکاری اور صبرواستقامت کا تذکرہ اور تحریکی روایات کا بیان ___ کارکنان کے لیے ولولۂ تازہ اور عزمِ نو۔]
  •  راجا محمد شریف قاضی ، حیات و خدمات ،مرتب: دلشاد احمد دلشاد۔ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، ۳-کورٹ سٹریٹ، لوئرمال، لاہور۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۹۰ روپے۔ [ضلع گجرات پنجاب کے متوطّن (حال: مقیم برطانیہ) راجا محمد شریف قاضی ۷۰ کے عشرے سے جماعت اسلامی کے رکن چلے آرہے ہیں، اہلِ قلم بھی ہیں۔ یہ کتاب ان کی قابلِ ستایش دعوتی، تبلیغی، علمی اور قلمی سرگرمیوں کی تفصیل پیش کرتی ہے۔ لکھنے والوں میں   قاضی حسین احمد، سید منورحسن اور لیاقت بلوچ سے لے کر جماعت اور تحریک کے بہت سے معروف اور غیرمعروف نام شامل ہیں۔ دیباچہ از حافظ محمد ادریس۔]
  •  ستارۂ سحر ، ڈاکٹر زاہد منیرعامر۔ تناظر مطبوعات، ۵۹۶- نیلم بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور۔ صفحات: ۷۶۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ ضمنی عنوان: ’’یادنامہ چودھری محمد منیرخان مرحوم‘‘ مصنف اپنے بچپن ہی میں سایۂ پدری سے محروم ہوگئے۔ زیرنظر کتاب اسی محرومی کا ایک جذباتی اظہار ہے۔ زاہد صاحب شاعر، ادیب اور محقق بھی ہیں اس لیے اس مختصر سی بظاہر غیرعلمی کتاب میں ادبیت اور تحقیق کا اسلوب نمایاں ہے۔ بعض دستاویزات، خطوط اور اسناد وغیرہ بھی شامل ہیں۔]