کتاب نما


اَربعین، امام نو.َ  .َ  وِی۔ ترجمہ و اضافات: ارشاد الرحمن۔ ناشر: دارالتذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار،لاہور-۵۴۰۰۰، فون: ۷۲۳۱۱۱۹۔ صفحات: ۳۹۹۔قیمت:پیپربیک: ۳۵۰ روپے،مجلد: ۴۰۰ روپے۔

تدوین ِحدیث کی تاریخ میں چالیس حدیثوں (اَربعین) کو جمع کرنے کی دیرینہ روایت موجود ہے۔ اس روایت کی آبیاری میں ہمارے اہلِ علم کی کثیر تعداد نے حصہ لیا۔ سب سے زیادہ مقبولیت ساتویں صدی ہجری کے محدث امام یحییٰ بن شرف نو.َ  .َ  وِی کی مرتبہ اَربعین کو حاصل ہوئی۔

امام نووی ایک بلندپایہ عالم اور عابد و زاہد شخص تھے۔ ان کی زندگی حصولِ علم کے لیے غیرمعمولی محنت و کاوش اور حددرجہ قناعت اور فقرودرویشی کے رویوں سے عبارت ہے۔ ان کے خلوص اور حسنِ نیت کا نتیجہ ہے کہ ان کی اَربعین کی بیسیوں شرحیں شائع ہوئیں، پھر اُنھی کی تقلید میں مختلف شائقین نے اپنی اپنی اَربعین (چالیس حدیثوں کے مجموعے) شائع کیے۔

امام نو.َ  .َ  وِی کی منتخب چالیس احادیث موضوعات کے اعتبار سے اس قدر جامع اور ہمہ گیر ہیں کہ ان میں ایک مسلمان کے لیے قرآن وسنت کی اہمیت، حلال و حرام، حقوق و فرائض، تجارت و کاروبار، عبادات و عقائد، معاشرت و معیشت، توبہ واستغفار اور اخلاقیات و معاملات کے بارے میں پوری ہدایات موجود ہیں۔

پیشِ نظر مجموعہ اس اعتبار سے ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے مرتب اور مترجم نے خود امام نووی سے منسوب شرح کا ترجمہ کیا اور ہرحدیث کے موضوع سے متعلق دوسری احادیث، انبیا، علما، صلحا اور بزرگانِ اُمت کے اقوال، نصائح اور اہم نکات بھی یک جا کردیے ہیں۔ مزیدبرآں مرتب نے وطنِ عزیز کے موجودہ حالات و مسائل کے تناظر میںاپنی جانب سے موضوع کی مناسبت سے ضروری تبصرے بھی شامل کردیے ہیں۔ اس طرح ہرحدیث کا مرکزی موضوع ایک جامع اور مستقل مضمون کی شکل اختیار کرگیا ہے، جس میں متذکرہ بالا اضافوں کے علاوہ متنِ حدیث کا اُردو ترجمہ اور لفظی معانی بھی موجود ہیں۔ ہرمضمون کے آخر میں ’فقہ الحدیث‘ کے عنوان سے خلاصۂ کلام کے طور پر ایک ہدایت نامہ بھی مرتب کردیا ہے جس کی حیثیت ’پس چہ باید کرد…‘ کی ہے۔

بحیثیت مجموعی یہ احادیثِ نبویؐ کا ایک نہایت عمدہ مجموعہ ہے۔ نہ صرف انفرادی مطالعے میں، بلکہ اجتماعی مطالعے کے طور پر بھی (اجتماعات یا اسٹڈی سرکل میں) اس کا ایک ایک جزو پڑھا جائے تو قارئین و سامعین پر اُس کے مفید اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے، ان شاء اللہ۔ کتابت اور پیش کاری ناشر کے صاحبِ ذوق ہونے کی علامت ہے۔ امام کا نام اِعراب کے ساتھ (نَوَوِی) لکھنے کا اہتمام ضروری تھا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


درسِ حدیث، مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی، ادارہ القاسم، پہلی منزل، زبیدہ سنٹر، ۴۰- اُردوبازار، لاہور۔ صفحات: ۷۰۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی صاحب محتاجِ تعارف نہیں۔ جامعہ اشرفیہ ان کی پہچان ہے۔ اب جامعہ نے اپنا گرلز کالج بھی قائم کیا ہے۔ ماہنامہ الحسن لاہور میں ان کا درسِ حدیث ۲۰سال سے شائع ہوتا رہا ہے۔ ان دروس میں سے ۱۶۶ احادیث کے درس منتخب کر کے اس کتاب میں جمع کردیے گئے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس وقت جو بھی اہم ضروری مسائل ہیں ان سب کے بارے میں بہت اچھے انداز سے رہنمائی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اس ذیل میں ۶صفحے پر ٹیلی فون کو باعثِ رحمت بنانے پر ایک جامع تحریر مل جاتی ہے۔ اسی طرح قرض کے بارے میں جو حدیث ہے اس کی تشریح میں قرض کے بارے میں تمام ضروری باتیں مل جاتی ہیں۔ قنوتِ نازلہ پر چار صفحے کے درس میں ضروری امور بیان کرکے آخر میں مزید مطالعے کے لیے چار کتابوں کے حوالے مع صفحات نمبر دیے ہیں۔ اسی طرح گھریلو زندگی میں مغربی تہذیب کی نقالی کا موضوع اس حدیث (ص ۶۵۲) پر قائم کیا ہے جو چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہ کرنے کے بارے میں ہے۔

احادیث کا گہرا مطالعہ ہے، مرکزِ شہر میں بیٹھے ہیں اس لیے ایک شہر اور معاشرہ نظر میں ہے۔ ان کی تحریر مسئلے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے لیکن زور نظری بحثوں پر نہیں، عملی رہنمائی پر ہے۔ اندازِ تحریر شُستہ اور سلیس ہے (عالمانہ نہیں)۔ بے حد مفید کتاب ہے۔ اس کے درس اخبارات و رسائل میں نقل کیے جاسکتے ہیں اور کتاب سب کو خاص طور پر طلبہ و طالبات کو پڑھنا چاہیے۔ کتاب میں کوئی ترتیب نہیں، آپ فہرست سے موضوع تلاش کرسکتے ہیں۔ (مسلم سجاد)


ماثورات، اذکار ، اوراد، وظائف، (جیبی سائز)، مرتبہ: حسن البنا شہید، ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۵۴۳۴۹۰۹۔ صفحات:۹۱۔قیمت: ۵۰ روپے۔

اخوان المسلمون کے نظام تربیت کی ایک منفرد خصوصیت تعلق باللہ، ذکرالٰہی اور مسنون دعائوں کا اہتمام ہے۔ بانیِ تحریک امام حسن البنا شہیدؒ نے اس غرض کے لیے ایک نصاب مرتب کیا تھا جو قرآنی اوراد، روزانہ وظائف اور مسنون دعائوں اور اذکار پر مشتمل ہے۔ ان کی ہدایت تھی کہ ہراخوان شب و روز کے کسی بھی حصے میں اس کا اہتمام کرے اور اس کو اپنا معمول بنالے، اور کوئی دن تلاوتِ قرآن سے خالی نہ جائے۔ اخوان المسلمون نے راہِ خدا میں استقامت اور قربانیوں کی جو لازوال تاریخ رقم کی ہے، یہ اسی ہدایت، اخلاص اور تربیت کا فیضان ہے۔ اس کے خوش گوار اثرات اس کے سیرت و کردار اور تحریکی کام پر مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم قاضی حسین احمد اس مجموعے کی اسی اہمیت کے پیش نظر رقم طراز ہیں: ’’اگر ہم امام حسن البنا شہیدؒ جیسے متقی، عابد، شب زندہ دار اور مجاہد فی سبیل اللہ مرشد کی ہدایات کے مطابق ان کو صبح و شام کا ورد بنا لیں، تو یقینا ہمیں للہیت اور اخلاص کی وہ دولت نصیب ہوگی جو اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کے لیے حقیقی ’زادِ راہ‘ ہے‘‘۔ (تقریظ، ص ۱۱)

محترم آبادشاہ پوری مرحوم کے ترجمے کے ساتھ اسے ۱۹۷۱ء میں شائع کیا گیا تھا۔ اب منشورات نے اس ترجمے کو محترم عبدالغفار عزیز کی نظرثانی کے بعد شائع کیا ہے۔ یہ جیبی سائز پر  اس کا نیا اڈیشن ہے۔(امجدعباسی)


آیات، مجلہ، مدیر: ڈاکٹرمحمد ذکی کرمانی۔ ناشر: مسلم ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانس منٹ آف سائنس، دارالفکر،اقرا کالونی، نیوسیدنگر، علی گڑھ، بھارت۔ صفحات: ۲۶۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے بھارتی۔

علی گڑھ میں اسلامی تہذیبی فکر کے حامل دانش وروں نے اب سے تقریباً ۱۲ برس قبل اُردو میں ایک علمی مجلے آیات کا آغاز کیا تھا۔ ان ماہرین میں بیش تر سائنسی علوم کے حاملین تھے اور انھیں سماجی و اسلامی علوم کے ثقہ ماہرین کا تعاون حاصل تھا۔ مضامین کے تنوع اور تحقیقی وتجزیاتی آہنگ نے اس مجلے سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کردی تھیں، لیکن ۱۹۹۸ء کے بعد اس کی اشاعت معطل ہوگئی۔ اب تقریباً ۱۰ برس بعد اس کا پہلا شمارہ زیرتبصرہ ہے۔ مثبت سوچ رکھنے اور زندگی کے معاملات کو مغرب کی نگاہ سے نہ دیکھنے والے اصحابِ علم اس تحقیقی مجلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

۱۰ مقالات، ایک رپورٹ اور مؤثر اداریے پر مشتمل یہ شمارہ اسلام، سائنس اور عالمِ اسلام کو درپیش علمی چیلنج کو زیربحث لایا ہے۔ کم و بیش ہر مقالہ تعارف تبصرے کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم یہ توجہ دلانا ضروری ہے کہ اس معیاری مجلے میں تمام احادیث باقاعدہ حوالے کے ساتھ درج کی جائیں اور اگر کوئی ضعیف حدیث ہو تو کم از کم پاورق میں ادارے کی جانب سے اس کی نشان دہی ضرور کردی جائے۔ مثال کے طور پر ص ۵۷ پر ایک حدیث: ’’عالم کی روشنائی، شہید کے خون سے زیادہ وزنی ہے‘‘ امام غزالی کے حوالے سے درج کی گئی ہے۔ اس روایت پر بڑی جان دار بحثیں، روایت و درایت کے باب میں سامنے آئی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی کمزور بات دی نہ جائے کہ قرآن و سنت کے مجموعی مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی اور اگر درج کی جائے تو اس پر دوسرا   نقطۂ نظر بھی دے دیا جائے، اور حدیث کا عربی متن تو ضرور درج ہو، مکمل حوالے کے ساتھ۔

مدیرمحترم کے فکرانگیز خطبے میں یہ حوالے کہ: ’’نواب واحد علی شاہ کے خاندان کی سائنسی خدمات اٹھارھویں صدی سے شروع ہوکر انیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ خود ۱۰۰کتابوں کے مصنف تھے،اور انھوں نے جدید سائنس کی درجنوں کتابوں کا اُردو زبان میں ترجمہ کرایا تھا۔ افسوس کہ ان کی مفروضہ داستان تعیش سے بچہ بچہ واقف ہے، لیکن علمی خدمات سے لوگ واقف نہیں‘‘ (ص ۱۸۶) واقعی قابلِ توجہ ہے۔ اس پہلو پر ایک جامع تحریر پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔

مناسب ہو تو اس تحقیقی مجلے کو اُردو کا بین الاقوامی جرنل بنا دیا جائے، اور اس کی مشاورت و ادارت میں دیگر ممالک، یعنی پاکستان، عرب دنیا اور مغرب میں معروف دانش وروں کا تعاون حاصل کیا جائے۔ (سلیم منصور خالد)


Israel: Final Chapter of The Jews ،[اسرائیل: یہود کا آخری باب]، مرتبہ: شفیق الاسلام فاروقی۔ ملنے کا پتا: ۴۶-ایم، ماڈل ٹائون ایکسٹینشن، لاہور- فون:۵۱۶۷۸۵۷۔ صفحات: ۳۳۳۔ قیمت: ۲۵۰ روپے (مع ڈاک خرچ)

شفیق الاسلام فاروقی صاحب نہ صرف پاکستانی قارئین بلکہ امریکی جیلوں کے مسلمان قیدیوں اور دنیا کی ان عظیم شخصیات کے لیے جن کو وہ خطوط لکھتے ہیں، (مثلاً کلنٹن، ٹونی بلیئر، آرچ بشپ آف کنٹربری، مسلم ممالک کے سربراہان اور دشمن ممالک کے سفرا) محتاجِ تعارف نہیں۔ اُمت کا درد انھیں اس ’جواں عمری‘ (پ: جنوری ۱۹۲۲ئ) میں بھی تڑپائے رکھتا ہے۔ ۳۳۳صفحات کی اس کتاب میں ۵۸صفحے کا ان کا مقدمہ ہے اور ۸صفحات میں انھوں نے اپنے حالاتِ زندگی لکھے ہیں۔ صہیونیت کی کامیابیوں کا بیان بہت زیادہ کرنے سے ایک رعب سا طاری ہوجاتا ہے اور مقابلے کا حوصلہ ٹوٹنے لگتا ہے لیکن مقابلے کے لیے دشمن سے آگاہی ضروری ہے۔ اس کام کا آغاز ۴۰،۵۰ سال پہلے مصباح الاسلام فاروقی صاحب نے Jewish Conspiracy سے کیا اور ہم لوگ لفظ پروٹوکول سے آشنا ہوئے۔ اب بھی کئی خیرخواہانِ اُمت اس کام میں مشغول ہیں۔ اس میں فاروقی صاحب بھی شامل ہیں۔

یہ کتاب پہلی نظر میں ایک تصنیف لگتی ہے۔ جس میں مصنف کے ۳۷ مضامین جمع کردیے گئے ہیں لیکن آگے انکشاف ہوتا ہے کہ یہ برطانیہ کے اخبارات کے ان مضامین اور کالموں پر مشتمل ہیں جن کے تراشے فاروقی صاحب کو ان کے احباب نے ارسال کیے ہیں۔ان کا عرصہ ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۷ء تک ہے۔ اس دوران برطانوی پریس میں یہودیوں کو خلاف جو کالم شائع ہوئے ہیں وہ آپ کو بڑی حد تک اِس میں مل جائیں گے۔ جیساکہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے، مرکزی نکتہ  یہ ہے کہ صہیونیت اپنے آخری دم پر ہے اور آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ فاروقی صاحب جلد ہی ان خطوط کا مجموعہ شائع کردیں گے جو انھوں نے قیدیوں اور اہم شخصیات کے نام لکھے ہیں  یا ان سے وصول کیے ہیں۔ یہ ان کا سلیقہ ہے کہ ہر چیز فائلوں میں محفوظ ہے، شائع کرنے کے اسباب فراہم ہونے میں وقت لگتا ہے۔ (م- س)


جنٹل مین استغفراللہ (سانحۂ کارگل کے اصل حقائق) کرنل (ر) اشفاق حسین۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۲۷۸۸۔ صفحات: ۲۲۲۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔

سانحۂ کارگل پر تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ دوسرے ایسے ہی قومی حادثوں پر تحقیقات کے مطالبے کی طرح شاید ہی پورا ہو (حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ خفیہ رکھی گئی اور اس پر عمل بھی نہ ہوا)۔ جنٹل مین سیریز کی اس پانچویں کتاب میں جسے غالباً استغفراللہ کا نام رمضان کے ماہِ اشاعت کے حوالے سے دیا گیا ہے، سانحۂ کارگل کے اصل حقائق آشکار کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب انگریزی میں Witness to Blunder کے نام سے ساتھ ہی شائع ہوئی ہے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ عموماً اتنا صبر نہیں کیاجاتا اور ترجمے کا ارادہ رہ جاتا ہے۔

سانحۂ کارگل کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ جنرل مشرف کی کتاب بھی آچکی ہے۔ نواز شریف کا موقف بھی کچھ دوسری کتب میں سامنے آچکا ہے۔ اس کتاب نے اصل ذرائع تک پہنچ کر یہ ثابت کیا ہے کہ فوج میں چار کے ٹولے نے سول حکومت کو بے خبر رکھ کر اتنا بڑا اقدام کرڈالا۔ منصوبہ بندی کا یہ عالم تھا کہ فضائیہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کیونکہ فتح یقینی سمجھی گئی تھی اور یہ فرض کرلیا تھا کہ بھارت جواب نہیں دے گا، اس لیے واپسی کا کوئی انتظام نہیں سوچا گیا تھا (ہم کشتیاں جلانے والے لوگ ہیں)۔ اس مشق سے پاکستانی فوج کی جو جگ ہنسائی ہونی تھی وہ تو ہوئی لیکن فوج کے جوانوں کی قیمتی جانوں کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہوا۔ کتاب ان افراد کی گفتگوؤں اور تبصروں پر مشتمل ہے جنھوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔

کارگل کے حقائق کے ساتھ ہی اس کتاب میں بڑی خوبی سے مسئلہ کشمیر کی پوری تاریخ بیان کردی گئی ہے اور کارگل سے پہلے کے قریبی حالات بھی تفصیل سے آگئے ہیں۔ ساتھ ہی   فوج کے افسروں اور جوانوںنے استقامت اور قربانی کی جو مثال پیش کی وہ بھی ریکارڈ پر آگئی ہے۔ کیا مصنف سے یہ توقع بے جا ہوگی کہ وہ سانحہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر بھی ایسی ہی ایک حقائق کُشا کتاب مرتب کردیں۔ قوم اس حادثے کو انجام دینے والے کرداروں کی اپنی زبان سے یہ جاننا چاہتی ہے کہ ’حبِ وطن‘ کے کن جذبات سے یہ انجام دیا گیا اور ’v‘ کا نشان بناکر دکھایا گیا۔ یہ کہانی تو طویل ہوتی جارہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں جو آپریشن کیے جا رہے ہیں ان کے ’سرجنوں‘ کی طرف سے بھی کچھ حقائق آنے چاہییں تاکہ صاحب ِ کتاب ’جنٹل مین اناللہ‘ لکھ سکیں۔ (م - س)


گھر سے واپس گھر تک کے مسائل و فضائلِ حج،قاری محمد اکرم داد اعوان۔ ناشر:ماڈرن پیپر پروڈکٹس، الکریم مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔صفحات: ۳۲۹۔ قیمت: بلامعاوضہ (۳۰روپے ڈاک خرچ)۔

۱۹۷۴ء سے حج و عمرہ کی مسلسل سعادت حاصل کرنے کے بعد، سفرِحج و عمرہ کے حوالے سے پیش آنے والے مسائل و مشکلات کا عام فہم تذکرہ ہے اور مسائل کے حل کے لیے عملی راہ نمائی بھی دی گئی ہے۔ عموماً اہلِ پاکستان حجِ تمتع (عمرہ اور حج) کرتے ہیں، اس لیے مکہ پہنچ کر پہلے   عمرہ کی ادایگی کرنا ہوتی ہے، لہٰذا عمرہ کا طریقہ بھی تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ حج کی کتابوں میں عام طور پر مدینہ منورہ سے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں۔ مذکورہ کتاب میں مدینہ منورہ کی تاریخ، وہاں کی مساجد وغیرہ کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ کتاب کا ایک اہم پہلو حاجی صاحبان کو حج کے بعد خوداحتسابی کی دعوت دینا ہے کہ حج کرنے کے بعد آپ نے اپنے میں کیا تبدیلی محسوس کی، اور میرا شمار کن لوگوں میں ہوا، نیز حج سے واپسی پر مجھے کن باتوں کو اپنانا چاہیے۔(پروفیسر میاں محمد اکرم)


تعارف کتب

  • شرطِ وفا ، انتظار نعیم ،ناشر: ادارہ ادب اسلامی ہند، ۲۷۰۳، بارہ دری، بلی ماراں، دہلی-۱۱۰۰۰۶۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [شاعری کی کتاب۔ اُمت مسلمہ خاص طور پر برعظیم کے مسلمانوں کا دکھ درد،   اتحاد ملت، پاک بھارت تعلقات، اسلامی نظام، انصاف وغیرہ ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔     ولولہ انگیز انقلابی لب و لہجہ، ۵۰ غزلیں بھی شامل ہیں۔ کتاب کا حسنِ صوری بھی خوب ہے۔]

ابوالامتیاز ع س مسلم، شخصیت اور شاعری ، ڈاکٹر غزالہ یونس، ناشر: علامہ قتیل اورینٹل لائبریری و مرکز تحقیق، پٹنہ بہار ۳۔ صفحات: ۳۱۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [نام ور ادیب، شاعر اور صحافی، ابوالامتیاز ع س مسلم کی سوانح اور فن پر ایک تحقیقی مقالہ، جس پر ونوبا بھاوے یونی ورسٹی ہزاری باغ نے مصنفہ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطاکی۔ یہ کتاب ان کی شخصیت اور شعری اور نثری فن کے تقریباً تمام پہلوئوں کا تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے۔]

  • محسن اسلام ،سیدعلی اکبر رضوی ۔ ناشر: ادارہ ترویج علوم اسلامیہ، ۸۱-بی، کے ڈی اے اسکیم نمبر۱-اے، کارساز روڈ، کراچی۔ صفحات: ۱۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [سیرت کی کتابوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت ابوطالب کے بارے میں متفرق روایات ملتی ہیں، سیدعلی اکبر رضوی نے ان تمام روایات کو جمع کرکے ایک بہت اچھی کتاب تیار کردی ہے۔ کئی کتابوں کے مصنف رضوی صاحب کی سوانح نگاری کی مہارت مسلّمہ ہے۔ مزید کتابوں کا انتظار ہے۔ ناشر نے اعلیٰ معیار پر شائع کی ہے۔]
  • ایک مثالی اسلامی معاشرہ ،منیراحمد خلیلی۔ ادارہ مطبوعات سلیمانی، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ صفحات: ۸۰، قیمت: ۶۰ روپے۔[ہر مسجد میں جمعے کے روز پڑھی جانے والی آیت جس میں عدل و انصاف اور صلۂ رحمی کا حکم دیا گیا ہے اور بُغض، فحش اور منکر سے منع کیا گیا ہے اس کی جامع تفسیر ہے۔  تفہیم القرآن میں بھی اس پر نہایت عمدہ نوٹ موجود ہے۔]

مجلہ تحقیق معاشرتی علوم ،مدیر: ڈاکٹر محمد اسحاق۔ اگست ۲۰۰۴ء سے جولائی ۲۰۰۶ئ۔ پاکستان مجلس تحقیق براے معاشرتی علوم، شعبہ عربی جامعہ، کراچی- ۷۵۲۷۰۔ [تنظیم اساتذہ کی مجلس تحقیق براے معاشرتی علوم کی چوتھی پیش کش ہے۔ اس کے روح رواں جامعہ کراچی کے شعبۂ عربی کے صدر ڈاکٹر محمداسحاق ہیں۔ ۹ مقالات جن میں بہت تنوع ہے، مثلاً تبیین قرآن میں سنت کی حیثیت اور فکرفراہی، سلطنت عثمانیہ کے گوہرآب دار۔ ۹مقالات اور ۵ کتب پر تبصرہ شاملِ اشاعت ہے۔ مدیر کے قلم سے اداریہ قرآن مجید اور پاکستان میں    نصابِ تعلیم کی پالیسی بنانے والوں کے لیے نہایت مفید عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پڑھنے میں دقت پیش آتی ہے، اگر ایک پوائنٹ سائز بڑھا دیا جائے تو ایک مقالہ شاید کم ہوجائے لیکن پھر سب پڑھے جائیں گے۔]

۳۶۵ کہانیاں ،حصہ سوم، مؤلف: محمد ناصر درویش۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ، ST-9E، بلاک ۸،گلشن اقبال، کراچی۔ صفحات: ۲۴۱ (بڑی تقطیع)۔ قیمت (مجلد): درج نہیں۔ [بیت العلم ٹرسٹ کراچی کی دیگر علمی و دینی خدمات کے ساتھ ساتھ بچوں کے معیاری ادب کی تخلیق کے لیے کہانیوں کا سلسلہ۔ ۳۶۵ کہانیاں، حصہ سوم، کل چار حصے ہیں۔کہانیاں جدید دور کے مکالماتی اور دل چسپ انداز میں لکھی گئی ہیں۔ نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت اور دیگر اخلاقی و سبق آموز کہانیوں کے ساتھ ساتھ اسلاف کی زندگی کے روشن پہلوئوں کا بالخصوص تذکرہ۔]

قرآنی ارشادات، اول، دوم۔ محمد انعام الحق۔ ملنے کا پتا: عباداللہ فیملی ویلفیئر ٹرسٹ، مکان نمبر ڈی/۱۲-۳-۱۰، مہدی پٹنم، حیدرآباد-۲۸، بھارت۔ صفحات (بڑی تقطیع) اول: ۵۵۷، دوم: ۶۸۳۔ قیمت: اول و دوم: ۳۰۰ روپے۔دونوں جلدیں: ۵۰۰ روپے (بھارتی )

دو ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب قرآن پاک کی رکوع بہ رکوع تشریح ہے۔ ہر رکوع پر عنوان لگایا گیا ہے، مثلاً سورئہ بقرہ کے رکوع ۲۴ پر ’ جہاد، فتنہ اور حج‘، سورئہ انعام کے رکوع ۱۲ پر ’ساری کائنات انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے‘، سورئہ اعراف کے رکوع ۱۵ پر ’جادوگروں کا ایمان لانا۔ سورہ کے آغاز پر مضامین سورہ کا مختصر بیان، عربی متن کا التزام نہیں ہے، تشریح کے درمیان ضرورت ہے تو دیا گیا ہے۔ متن اور ترجمہ اور عنوانات نیلے، یعنی مختلف رنگ میں ہیں۔

ہمارے ملک میں رجوع الی القرآن کے جو مظاہر نظر آتے ہیں (منظم برائی کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ) غالباً اسی طرح بھارت میں بھی مسلمانوں میں اس طرف رجحان ہے۔ اُمت مسلمہ میں یہ شعوربیدار ہو رہا ہے کہ اس کا مستقبل اور عروج قرآن کو اختیار کرنے سے وابستہ ہے۔    اسی لیے کیسٹ، سی ڈی، فلمیں، درسِ قرآن اور محفل حسنِ قراء ت، سب میں مسلسل اضافہ ہے۔

بڑی تقطیع کی دو ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب اعلیٰ معیار کے کاغذ اور دو رنگ میں چھاپی گئی ہے۔ اسے تفسیر نہیں کہا جاسکتا، تشریح کہنے میں بھی تکلف ہوتا ہے، ترجمے کو ذرا کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ ایک طرز کی ترجمانی کہا جاسکتاہے۔ فہم قرآن کے لیے جو گہرائی میں نہیں جانا چاہتے یا گہرائی میں جانے کا وقت نہیں رکھتے، ان کے لیے یہ کتاب بہت مفید ہے۔ میٹرک، یا جب کسی مسلمان لڑکے اور لڑکی کو اُردو پڑھنا اور سمجھنا آجائے اور وہ پروگرام کے تحت قرآن کے تمام مضامین سے آگاہی چاہتا ہو، تو یہ کتاب اس کے لیے ہے۔ خواہش مند اپنے روابط کے ذریعے حیدرآباد دکن سے حاصل کریں۔ محمد انعام الحق صاحب حکومت آندھرا پردیش کے (ر) انجینیر ہیں۔

اس تشریح کو لکھتے ہوئے تفہیم القرآن، تدبر قرآن، تفسیر عثمانی اور مولانا شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ اور اکبرشاہ خاں نجیب آبادی کی تاریخ اسلام کو سامنے رکھا گیا ہے۔ تعارفی کتابچے میں اس کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں: محتاط اندازِ بیان، سلیس و شگفتہ زبان، اسلامی تاریخی واقعات کا جامع پرتو، نوجوانانِ ملت کے لیے بہترین دینی تحفہ، جو تبصرہ نگار کی نظر میں درست بیان ہے۔ (مسلم سجاد)


مولانا صدرالدین اصلاحی: حیات و خدمات (مقالاتِ سیمی نار)۔ ناشر: انجمن طلباے قدیم، مدرسۃ الاصلاح، سراے میر، اعظم گڑھ۔ صفحات: ۵۰۴۔ قیمت: ۲۶۰ روپے۔

مولانا صدرالدین اصلاحی کی شخصیت برعظیم کے دینی اور اسلامی خصوصاً اسلامی تحریکوں کے حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر جماعت اسلامی کے قیام سے بھی پہلے دارالاسلام پٹھان کوٹ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اگرچہ ان کی طالب علمی کا زمانہ مدرسۃ الاصلاح سراے میر میں گزرا لیکن ان کی علمی اور ذہنی و فکری نشوونما میں دارالاسلام کی فضا اور مولانا مودودی کی رفاقت کا بھی خاصا دخل ہے۔

مدرسۃ الاصلاح کی انجمن طلباے قدیم نے اپنے اس علمی سپوت کی یاد میں ۲۷-۲۹ اپریل ۲۰۰۶ء کو ایک سیمی نار منعقد کیا تھا۔ زیرنظر کتاب اسی سیمی نار کے نظرثانی شدہ مقالات پر مشتمل ہے۔

انجمن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ضیاء الدین اصلاحی خطبۂ استقبالیہ میں لکھتے ہیں: ’’مولانا صدرالدین اصلاحی نے قرآن وسنت سے وابستگی کی جو فضا تیار کی اور ہدایت کے ان بنیادی مآخذ سے لوگوں، بالخصوص تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کا تعلق استوار کر کے کوشش کی اور دعوتِ دین اور تحریکِ اسلامی کی جدوجہد میں جس ایثار و قربانی اور عظمت و عزیمت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کے پیغام کو عام کرنا، لوگوں کو اس سے روشناس کرانا اور اس کی ضروری تدابیر اختیار کرنا ہماری اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے‘‘(ص ۴)۔ اس پس منظر میں زیرنظر مقالات کی صورت میں مولانا اصلاحی کی سوانح، شخصیت، ان کے علمی اور فکری اکتسابات اور ان کی علمی و دینی خدمات کے مختلف پہلو نمایاں ہوگئے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی ان کی مختلف حیثیتیں بھی: بطور استاد، بطور ایک دینی مفکر و مصنف اور بطور ترجمہ نگار ان کا مقام و مرتبہ، فہم قرآن کی راہ ہموار کرنے کے ضمن میں ان کی کاوشیں، نوجوانوں کی رہنمائی، مولانا کی قرآنی توضیحات اور دین کی تعبیر و تفہیم کے متعلق ان کا مؤقف، تفہیم القرآن کی تلخیص وغیرہ۔ غرض موصوف کے مجموعی کارنامے کے تقریباً تمام پہلو واضح ہوگئے ہیں۔ بیش تر مقالات بڑی محنت و کاوش سے تیار کیے گئے ہیں۔ شخصی تعلق کے حوالے سے مولانا اصلاحی سے لکھنے والوں کا محبت و اپنائیت کا تعلق واضح ہے۔ خود، مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر رضوان احمد فلاحی کا وقیع مضمون بہت معلومات افزا ہے۔

یہ کتاب ان لوگوں کے زیرمطالعہ ضرور آنی چاہیے جو تحریک اسلامی کے علمی و فکری مشاغل سے وابستہ ہیں۔ یہ اعلیٰ معیار پر، بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


عزیمت کے راہی، حافظ محمد ادریس، ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۱۰ روپے۔

ایک صاحب نے کسی دوست کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جانے والوں کی یاد میں آنسو بہانا اور رونا بہت آسان ہے مگر ان کی یاد میں قلم اٹھانا اور دوچارسطریں   لکھ دینا بہت مشکل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رخصت ہونے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ عموماً    ’آج مرے، کل دوسرا دن‘ کا سا ہوتا ہے حالانکہ مرحومین کی نیکیوں اور خدمات کو یاد رکھنا اور انھیں دوسروں تک پہنچانا بجاے خود بہت بڑی نیکی اور کارخیر ہے۔

حافظ محمد ادریس کا زیرنظر مجموعۂ مضامین چند ایسی شخصیات کی خدمات کو سامنے لاتا ہے جواپنی منفرد خوبیوں کی بنا پر اپنی مثال آپ تھے۔ ڈاکٹر نذیراحمدشہید، خرم مراد، مولانا عبدالرحیم چترالی، قاری منہاج الدین انور، مولانا خان محمد ربانی، محموداعظم فاروقی، چودھری بشیراحمد، خلیل احمد حامدی، جنرل (ر) محمد حسین انصاری، حاجی غلام نبی عباسی، کنورسعیداللہ خاں، ملک وزیر احمد غازی، رانا اللہ دادخاں، شیخ محمد انور زبیری، میاں محمدعثمان، ڈاکٹر عذرا بتول، بیگم ملک غلام علی،     یہ تمام تر شخصیات تحریکِ اسلامی سے وابستہ رہی ہیں۔ شخصیات پر مصنف کی اسی نوعیت کی دو کتابیں: مسافرانِ راہِ وفا اور چاند تارے کے نام سے اس سے پہلے بھی شائع ہوچکی ہیں۔

شخصیت نگاری دوسری اصنافِ ادب کی طرح ایک صنف نثر ہے جسے بعض اوقات خاکہ نویسی بھی کہا جاتا ہے۔ حافظ محمد ادریس کی شخصیت نگاری کا اپنا ایک اسلوب ہے جس میں شخصیت کے مقام و مرتبے، اس کی مختلف النوع خدمات، خاندانی پس منظر، سوانحی حالات، شخصیت کے اہم عناصر، تحریک اسلامی سے وابستگی، ملّی اور دینی خدمات کے مختلف پہلو، اور اس کے ساتھ ہی متعلقہ شخصیت سے مصنف کا ذاتی اور شخصی تعلق جس میں بیتے دنوں کی ملاقاتوں اور گفتگوئوں کی تفصیل بھی بیان کرتے ہیں۔ اس طرح وہ شخصیت کا پورا مرقّع تیار کرکے رکھ دیتے ہیں۔ حافظ صاحب کا اسلوبِ تحریر صاف، واضح اور رواں ہے۔ کہیں کہیں اشعار کا حوالہ شعروادب سے ان کے تعلق کی غمازی کرتا ہے۔ بالعموم وہ عام قارئین کے ادیب ہیں اور اسی لیے ان کی تحریر پڑھتے ہوئے کہیں کوئی رکاوٹ، دقت یا ابہام محسوس نہیں ہوتا اور کسی لکھنے والے کی یہ بہت بڑی خوبی ہے۔(ر- ہ)


زبورِ نعت، ابوالامتیاز ع س مسلم۔ناشر: مقبول اکیڈمی، لاہور۔ صفحات: ۳۶۷۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

ابوالامتیاز ع س مسلم نظم و نثر دونوں میں یکساں روانی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اُردو کے علاوہ انگریزی اور پنجابی زبانوں پر بھی انھیں دسترس حاصل ہے اور ان کو بھی   وسیلۂ اظہار بناتے ہیں۔

حمدباری تعالیٰ کی طرح نعت گوئی بھی ایک مشکل فن ہے لیکن جو ٹھیرائو اور احتیاط ع س مسلم کے ہاں نظر آتی ہے وہ ان کی اس فن میں بطور خاص ریاضت کی شہادت دیتی ہے۔ مروجہ انداز سے ہٹ کر سرورِ کونینؐ کی ذاتِ بابرکت کی ان صفات کو کلام میں سمونے کی کوشش نظر آتی ہے جو  قرآنِ حکیم میں بیان ہوئی ہیں۔ ان سے قبل معروف نعت گو شاعر عبدالعزیز خالد نے نہ صرف آپؐ کی قرآنی صفات کو بیان کیا ہے بلکہ اس سے قبل کی آسمانی کتابوں میں آپؐ کی جن صفات اور اسما کا ذکر ہے ان کو بھی اپنے کلام میں سجایا ہے۔

زیرنظر نعتوں میں مسلم صاحب نے جہاں آپؐ کی صفات کا تذکرہ کیا ہے اورقرآنی حوالے پیش کیے ہیں وہاں ذخیرئہ احادیث نبویؐ سے بھی اعتنا کیا ہے۔ ان اسنادِ حدیث کو انھوں نے کتاب کے آخر میں شامل کیا ہے جس سے کتاب کی افادیت و وقعت بڑھ گئی ہے۔ ان کی نعت گوئی پر ڈاکٹر ریاض مجید، پروفیسر وصی احمد صدیقی اور محمد انور قمر شرق پوری کے مقالات بھی شاملِ کتاب ہیں۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


معلم القرآن، ترجمہ و تفسیر: پروفیسر قاری جاوید انور صدیقی۔ ناشر: ادارہ معلم القرآن والحدیث، ہجویری ہائوسنگ سکیم، ہربنس پورہ، لاہور۔ فون: ۴۷۷۹۴۷۸-۰۳۰۰۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات:۱۰۴۵۔ ہدیہ: درج نہیں۔

قرآن مجید کے بہت سے تراجم و تفاسیر، لفظی و بامحاورہ ترجمے، قرآن کی ترجمانی، مختلف رنگوں کے استعمال سے ترجمہ وغیرہ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ جہاں قرآن کے فہم کوعام کرنے کے لیے کوشش ہے وہاں قرآن کے عجائب کا بھی ایک پہلو ہے۔ زیرنظر ترجمۂ قرآن بھی اپنی جگہ ایک منفرد کاوش ہے، جس میں ترجمۂ قرآن میں بعض ایسے پہلوئوں کو سامنے لایا گیا ہے جن کی طرف توجہ کی ضرورت تھی۔

معلم القرآن کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں: یہ مختصر تفسیر سمیت ایک سطر میں لفظی و بامحاورہ منفرد ترجمہ ہے۔ بین السطور ہے تاکہ لفظ ڈھونڈنا نہ پڑے بلکہ ایک نظر میں دونوں نظر آئیں۔ ڈبوں میں لفظی اور پھر نیچے بامحاورہ الگ الگ ترجمہ نہیں کیا گیا بلکہ ایک ہی سطر میں لفظی اور بامحاورہ ایسا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اگر الگ الگ پڑھیں تو لفظی ہے اور اکٹھا پڑھیں تو بڑی حد تک بامحاورہ ہے۔ تفسیر الگ حاشیے پر نہیں کی گئی کہ تلاش کرنے میں وقت صرف ہو بلکہ موقع بموقع مختصر تفسیر ساتھ ہی دی گئی ہے۔ ہر ہر لفظ کا ترجمہ الگ الگ ہے۔ کسی بھی لفظ کا ترجمہ چھوڑا نہیں گیا۔ لفظ خدا کی جگہ لفظ اللہ استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ کے لیے صیغۂ واحد کا ترجمہ واحد میں اور جمع کا جمع میں   کیا گیا ہے۔ اللہ کی صفات والی آیتوں کا ترجمہ جوں کا توں کیا گیاہے۔ جملۂ معترضہ کے لیے کھڑی بریکٹ [] استعمال کی گئی ہے۔ ترجمہ اتنا آسان ہے کہ معمولی پڑھا لکھا بھی آسانی سے استفادہ کرسکتا ہے۔ مختلف مسالک کے علماے کرام نے اسے سراہا ہے اور تائید بھی کی ہے۔ اسی انداز میں مختصر صحاح ستہ، مختصر صحیح مسلم اور مشکوٰۃ پر بھی کام جاری ہے۔(امجد عباسی)


تصوف، ایک تحقیقی مطالعہ، مؤلف: محمد صدیق مغل۔ ناشر: دارالتقویٰ کراچی۔ ملنے کا پتا:  علمی کتاب گھر، مین اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۳۰۲۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

تصوف مذہبی و فلسفیانہ فکر کا ایک ایسا موضوع ہے جس پر صدیوں سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور ہنوز اس کا سلسلہ جاری ہے۔ تصوف کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: اسلامی اور غیر اسلامی یا حقیقی اور غیرحقیقی تصوف۔ اس کے برعکس مؤلف اس تیسرے نظریے کے حامی اور مؤید نظر آتے ہیں جس کی رو سے تصوف سراسر غیر اسلامی اور دین اسلام کے متوازی ایک دین ہے۔ انھوں نے بحث ونظر سے کام لیتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مروجہ تصوف کے فلسفیانہ مباحث یونانی، اشراقی اور ویدانتی فلسفوں سے ماخوذ و مستنبط، اس کے مذہبی و دینیاتی افکار کا سرچشمہ شیعیت اور باطنیت اور اس کے اعمال و مجاہدات مسیحی رہبانیت کا چربہ ہیں۔

کتاب میں نظریۂ وحدت الوجود اور برعظیم پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کیا صوفیا کی تبلیغ و سعی کی رہینِ منت ہے؟ ان دو موضوعات پر بڑی جان دار اور مدلل اور سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب اگرچہ اہم اور مدلل مباحث پر مبنی ہے لیکن پوری کتاب کے موضوعات و مباحث میں ایک عمدہ تصنیف و تالیف کا منطقی و معنوی ربط و تسلسل مفقود ہے جس سے یہ کتاب ایک مربوط بحث اور سلسلۂ کلام کے بجاے منتشر و متفرق افکار و مسائل کا ایک مجموعہ نظر آتی ہے۔ کتاب کا معیار طباعت و اشاعت گوارا ہے۔ (سمیع اللّٰہ بٹ)


تعارف کتب

  • تحریک آزادی میں اُردو کا حصہ ،ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ مجلس ترقی ادب، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۸۲۲۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔[ڈاکٹر معین الدین کا یہ تحقیقی مقالہ ۳۵ سال بعد دوبارہ اب مجلس ترقی ادب لاہورنے بہ سلسلہ ۱۵۰ سالہ تقریبات جنگ آزادی ۱۸۵۷ء شائع کیا ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی تحقیقی کاوش ہے جس سے مصنف نے تحقیق کے میدان میں اپنی آمد کا اعلان کیا۔ تحریک آزادی اور اُردو جس کا موضوع ہے، وہ اس کتاب سے بے نیاز نہیں رہ سکتا ہے۔]
  • محرابِ توحید ،امین راحت چغتائی۔ ناشر: بک سینٹر، ۳۲-حیدرروڈ، راولپنڈی کینٹ۔ صفحات: ۳۱۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [بلندپایہ نعتیہ کلام، حمد باری تعالیٰ میں پانچ نظمیں، بعدہٗ ۱۷۰ نعتیں شامل کتاب ہیں۔ ثناے خواجہ میں مبالغے سے پرہیز، عمدہ تشبیہات و تلمیحات، صفت گری ایسی کہ گویا موتی پرو دیے گئے ہیں۔ اُردو کے نعتیہ ذخیرے میں ایک بیش قیمت اضافہ۔]
  • بلوچستان ایک مطالعہ ، ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ ناشر: ادارۂ تصنیف و تحقیق بلوچستان، کوئٹہ۔ صفحات: ۱۸۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[پانچ اُردو اور تین انگریزی زبان میں مضامین پر مشتمل یہ بلوچی ادب و تاریخ پر عمدہ کتاب ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے بہت محنت اور تحقیق سے مضامین لکھے ہیں۔ انگریزی زبان میں مضامین شخصیات پر ہیں، جب کہ دیگر ادبی شخصیات پر لکھے گئے ہیں جن میں رابعہ خزداری، غالب اور ناطق اور زیب مگسی شامل ہیں۔ بلوچی ادب میں عمدہ اضافے کے ساتھ ساتھ نئی تحقیق کے لیے بنیادی لوازمہ بھی ہے۔]
  • تاریخ بلگرام،سید فرزند احمد صغیر بلگرامی۔ ناشر: صغیربلگرامی اکیڈمی، فلیٹ نمبر۱۰۳، کرسٹل ہومز، ۶۳ شرف آباد بالمقابل بیدل لائبریری، شرف آباد کلب،کراچی۔ صفحات: ۱۸۹۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [صغیربلگرامی، مرزاغالب کے معاصر تھے۔ اپنے وطن بلگرام کی اس تاریخ میں وہاں کی مردم شماری، پھر مرثیہ خوانوں، مقاماتِ عجوبہ،    اسلام و رواج وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ قدیم انداز و اسلوبِ کتابت اور متروک املا میں___ یہ طبع اوّل کا عکس ہے۔ پروفیسر مختارالدین احمد کا عالمانہ مقدمہ، معلومات افزا ہے۔بحیثیت ایک ’یادگار‘ کے محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔]
  • علم، میاں محمد اشرف ، ناشر: فروغ علم اکیڈمی، ۱۱۷۹-ماڈل ٹائون، ہمک اسلام آباد۔ صفحات:۱۲۳۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [کتاب کا ضمنی عنوان: ’عیسائیت، اسلام اور مغرب کے حوالے سے، ایک مطالعہ‘۔ مصنف کا موقف: مسلمانوں کو عروج، ان کے علمی کمال کے سبب، حاصل ہوا۔ آج علمی پستی کے سبب وہ زوال پذیر ہیں۔ ان کے لیے دوبارہ ترقی کرنا بجز علمی ترقی کے ممکن نہیں۔ مباحث: عیسائیت کی علم دشمنی، اسلام کی علم دوستی اور مغرب کی ترقی میں ان کی علم دوستی کا کردار___ ایک دل چسپ کتاب ہے۔]
  • ڈاکٹر غلام مصطفی خاں: حالات، علمی و ادبی خدمات، ڈاکٹر مسروراحمد زئی۔ ناشر: ادارہ انوار ادب، ۳۷۱-سی ون، یونٹ ۸،لطیف آباد، حیدرآباد، سندھ۔ صفحات: ۹۳۶۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔ [علمی و ادبی دنیا کی معروف فاضل شخصیت سابق صدر شعبہ اُردو سندھ یونی ورسٹی کے حالات اور علمی و ادبی کارناموں کا سیرحاصل جائزہ۔ بحیثیت روحانی بزرگ تعارف۔ ان کے اساتذہ اور شاگرد کا تعارف۔ اس تحقیقی مقالے پر مصنف کو ڈاکٹریٹ کی سند ملی۔]

خلاصۂ تراویح اور دعائوں کے کتابچے مفت حاصل کریں:  ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا؟ تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآنِ کریم کے حصے کا خلاصہ اور قرآنی و مسنون دعائیں مفت تقسیم کی جارہی ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات کم از کم ۸ روپے کے ڈاک ٹکٹ بنام ڈاکٹر ممتاز عمر T-473، کورنگی نمبر2، کراچی-74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔

The Plan for Eradication of Poverty in Pakistan: Without Government or Foreign Grants [پاکستان سے غربت کے خاتمے کا منصوبہ: حکومت اور بیرونی امداد کے بغیر]، محمدعبدالحمید۔ ناشر: بُک مین، الشجربلڈنگ، نیلاگنبد، لاہور۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۲۱۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک جامع پلان کی حیثیت رکھتی ہے جس میں ضلعی حکومتوں کو اپنا رول ایک خاص حد تک ادا کرنا ہے، جب کہ بنیادی طور پر غربت کے خاتمے کایہ تمام منصوبہ نجی کمپنیوں کے ہاتھوں تشکیل اور فروغ پائے گا۔ اس منصوبے کا لبِ لباب یہ ہے کہ شہری اوردیہی علاقوں میں ہر فرد اپنا کاروبار یا ملازمت حاصل کرسکے، ملک کا ہرشہری،  دیہی یا شہری کی تخصیص کے بغیر ۱۵۰۰ مربع فٹ کے ایک فلیٹ کا مالک بن سکے جس کے لیے  اسے ابتدائی طور پر صرف ۲۵۰۰ روپے کرایہ ادا کرنا پڑے اور زرعی زمین کی کم از کم ملکیت کو ساڑھے ۱۲ ایکڑ کی سطح تک لایا جاسکے جو کہ معاشی لحاظ سے مناسب رقبہ (economic size) ہے۔

مصنف نے مندرجہ بالا اہداف کے حصول کے لیے ایک جامع تحریر لکھی، جو کہ ان کے موضوع پر گرفت کو ظاہر کرتی ہے اور مصنف کی اپنے گردوپیش کے حالات پر گہری نظر کو ظاہر کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ضروری قانون سازی کے لیے ڈرافٹ بھی کتاب میں شامل ہیں۔ مصنف کے خیال میں یہ پلان اگر نافذ کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں بہت بڑی معاشی سرگرمی فروغ پذیر ہوگی اور سماجی ڈھانچے میں ایک بہت بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہوگی۔

کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری اپنے آپ کو ایک تصوراتی دنیا (utopia) میں پاتا ہے، جس کے لیے ایک تصوراتی محل کھڑا کیا گیا اور اس محل کی ایک ایک تفصیل بیان کردی گئی ہے۔    یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں تصورات (concepts) پیش کیے جاتے ہیں اور لوگ ان پر غوروفکر کرکے عمل کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ کبھی مکمل طور پر اور کبھی جزوی طور پر کچھ باتوں کو لے کر عمل کی دنیا میں اس پر عمارات کھڑی کی جاتی ہیں، اس لحاظ سے یہ کتاب ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔

کچھ باتیں اس میں محلِ نظر معلوم ہوتی ہیں، خاص طور پرسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب مسئلہ ملکیت زمین کو موضوع بحث بناکر اس کا تنقیدی جائزہ اضافی نظر آتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک اور پاکستانی طرزِ معاشرت کے لیے جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے وہ ہمارے ہاں بظاہر بہت کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ کاروباری مقاصد کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے آج تقریباً تمام ادارے بنکوں کے قرض پر انحصار کرتے ہیں۔ نجی کمپنیاں اپنے پاس سے رقوم کیوں کر خرچ کریں گی، جب کہ وہ فیکٹریاں اور منافع بخش ادارے قائم کرنے کے لیے بھی بنکوں کے قرض پر انحصار کرتی ہیں۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات اُٹھنے کے باوجود کتاب قابلِ قدر ہے اور معیشت دانوں اور فیصلہ سازوں کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)


تحفۃ الائمۃ، محمد حنیف عبدالمجید۔ناشر: بیت العلم ٹرسٹ، جی-۳۰، اسٹوڈنٹ بازار نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۷۲۶۵۰۹۔ صفحات: ۷۸۲۔ قیمت (مجلد): ۳۵۰ روپے۔

ائمہ مساجد کا حقیقی مقام معاشرے کے قائدین کا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب انھوں نے اپنا یہ مقام عموماً کھو دیا ہے اور وہ صرف دو رکعت کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ اسلامی نظام قائم ہو تو حکمران مساجد میں نماز کی امامت کریں لیکن موجودہ نظام میں تو یہ حال ہے کہ اگر موجودہ حکمران امامت کے مصلے پر آجائیں تو مقتدی مسجد خالی کردیں۔ معاشرے کی قیادت اور امامت میں یہ دُوری دورِ زوال اور دورِ غلامی کا نتیجہ ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسجدوں کے امام، جو کوئی بھی ہیں، اپنے بلند مقام سے آگاہ ہوں اور اس کے مطابق طرزِعمل اختیار کریں۔ تحفۃ الائمۃ محمدحنیف عبدالمجید کی ایک ایسی نہایت بھرپور اور مؤثر کاوش ہے جس میں ائمہ مساجد کی صفات،  ان کے لیے نصائح اور وعظ کے آداب پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ کافی اچھی بحث اس مسئلے پر ہے کہ آئمہ کرام کا دائرہ صرف مسجد نہیں ہے، بلکہ مسجد سے باہر کا معاشرہ بھی ہے جس میں انھیں دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ادا کرنا چاہیے۔

وحدت اُمت کے حوالے سے بھی بہت مناسب اور پُرزور توجہ دلائی گئی ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب کا مضمون اس حوالے سے نقل کیا گیا ہے۔ تاریخ سے مثالیں دی گئی ہیں کہ افتراق و انتشار نے اُمت کو کیا نقصان پہنچایا ہے۔ مذاہب اربعہ کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ جن چند مذموم صفات کی بنا پر ان میں دشمنی اور بُغض مستحکم ہوگیا ہے: ’’ان صفاتِ مذمومہ میں سے ایک صفتِ مذموم مذہبی تعصب، جہالت اور اپنی غلط بات پر ڈٹ جانا ہے‘‘۔  (ص ۵۴۰)مقتدیوں کی تربیت کیسے کی جائے؟ اس پر بھی بہت وسیع دائرے میں کلام کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں نماز کے آداب، نماز پڑھنے کا درست طریقہ، مسجد کے آداب، صف بندی کے آداب سبھی کچھ پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ ائمہ کرام کے مطالعہ کے لیے کتب کی فہرست دی گئی ہے۔ ساتھ ہی مقتدیوں کے لیے، ان کے اہلِ خانہ کے لیے اور انگریزی پڑھنے والے مقتدیوں کے لیے فہرست کتب دی گئی ہے۔

ہم اپنی مساجد میں اچھے اچھے ائمہ کو دیکھتے ہیں جو نماز پڑھانے سے زیادہ اپنا کوئی کام نہیں سمجھتے۔ مقتدیوں کی تربیت سے ان کو واسطہ نہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بھی عموماً وہ آنکھیں بند رکھتے ہیں حالانکہ یہ ان کا اصل میدانِ کار ہے۔

محمد حنیف عبدالمجید صاحب نے ۷۸۲ صفحے کی اس کتاب میں موضوع کے ہر پہلو پر نہایت دل نشین انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ معیاری سفید کاغذ پر روشن اُجلے حروف قاری کو پڑھنے میں آسانی فراہم کرتے ہیں۔ دوسری طرف کتاب میں بلاتکلف آٹھ آٹھ دس صفحے عربی کے بلاترجمہ نقل کیے گئے ہیں اس لیے کہ مصنف کے نزدیک پڑھنے والے اہلِ علم ہیں (شاید انھیں اہلِ علم کے مبلغ علم کا اندازہ نہیں)۔ لکھنے والے تو ابھی تک ’ان کو‘کے بجاے ’انکو‘ لکھ رہے ہیں اوریہاں دوسری طرف انتہا یہ ہے کہ بلکہ کو ’بل کہ‘ لکھا گیا ہے۔ یہ کتاب جہاں ائمہ کے لیے تحفہ ہے، پڑھنے والے مقتدیوں کے لیے بھی تحفہ ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ کتاب کا ضخیم ہونا قارئین کی تعداد کم کردیتا ہے، لیکن مصنف اپنے اہلِ علم سے خوش گمان ہیں اس لیے کہ انھوں نے اطمینان سے ہرموضوع پر کلام کیا ہے اور ضخامت کی پروا کیے بغیر کیا ہے۔

بیت العلم ٹرسٹ کی جانب سے گذشتہ عرصے میں کئی مفید چیزیں آئی ہیں: تحفۂ دلہن، تحفۂ دلہا، مثالی ماں، مثالی باپ، مثالی استاد۔ بچوں کے لیے ۳۶۵ کہانیاں (۳جلدیں) اور ماہنامہ ذوق و شوق۔ اللہ تعالیٰ اصلاح کی ان کوششوں کو قبول کرے، ان میں برکت ڈالے اور مسلمانوں کے دل اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے کھولے۔ (مسلم سجاد)


غزواتِ نبوی ؐ کے اقتصادی پہلو، پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی ۔ناشر: مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۱۴۰

زیرتبصرہ کتاب میں فاضل مصنف نے غزواتِ نبویؐ اور سرایا کے نتیجے میں مدنی معیشت پر مرتب ہونے والے معاشی اثرات کے جائزہ لیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مدنی معیشت میں ان غزوات و سرایا کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کا بہت تھوڑا حصہ بنتا ہے اور مدنی معیشت کا انحصار اس مالِ غنیمت پر نہ تھا بلکہ دوسرے ذرائع آمدن مثلاً زکوٰۃ، صدقات، لوگوں کی طرف سے رضاکارانہ رقوم کی فراہمی وغیرہ پر تھا۔ مصنف نے مستشرقین کی طرف سے اٹھائے گئے ان اعتراضات کا جواب دینے کے لیے عربی، اُردو اور انگریزی میں لکھی گئی کتب اور رسائل سے نتائج اخذ کرتے ہوئے کتاب میں حوالے بھی درج کردیے ہیں۔

فاضل مصنف نے آغاز میں کتبِ مغازی کے سلسلہ میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے مغازی کے موضوع پر لکھی گئی کتب اور ان کے عرصۂ اشاعت کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے بعد غزوات نبویؐ اور سرایا (جن لڑائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہ تھے) کا سال بہ سال جائزہ پیش کیا ہے، ان غزوات و سرایا سے حاصل ہونے والے اموالِ غنیمت، قیدیوں اور دیگر پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے اور ان غزوات پر آنے والے مصارف کا بھی تجزیہ پیش کیا ہے (ص ۱۱۷ تا ۱۲۱)۔ اسی طرح جنگی قیدیوں پر اٹھنے والے مصارف، اور دیگر جانی و مالی نقصانات پر بحث کی ہے (ص ۱۲۱ تا ۱۲۵)، جب کہ مدنی معیشت کے مختلف پہلوئوں کا تجزیہ کیا ہے۔ (ص ۱۲۶ تا ۱۴۱)

کتاب میں مختلف کتب و رسائل کے متعلق تعلیقات و حواشی (ص۱۴۲ تا ۲۰۸ ) بہت اچھا اضافہ ہے۔ غزوات و سرایا کا ایک نظر میں جائزہ لینے کے لیے مختلف غزوات کا گوشوارہ (ص ۲۰۹ تا ۲۲۴ )بنایا گیا ہے، جس میں غزوہ یا سرایہ کا نام، سال و ماہ، مسلمانوں اور کافروں کی تعداد اور    ان کے قائدین کے نام اور نتائج بیان کیے گئے ہیں۔

اپنے موضوع کے حوالے سے یہ کتاب اپنی طرز کی اچھوتی کتاب ہے، جو کہ فاضل مصنف کی محنت ِشاقہ اور تحقیقی ذہن کی عکاسی کرتی ہے، اور مستشرقین کے اعتراضات کا ایک شافی جواب ہے۔ (م - م - ا)


شیطانی ہتھکنڈے (صحیح تلبیس ابلیس) تالیف: علامہ ابن جوزیؒ۔انتخاب و تحقیق و تخریج:   علی حسن علی عبدالحمید تلمیذ رشید علامہ ناصرالدین البانیؒ، ترجمہ: سلیم اللہ زمان۔ ناشر: دارالابلاغ،   رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۶۲۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

خیروشر اور نیکی و بدی کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ شیطان اپنی تمام تر فریب کاریوں، عیاریوں، مکاریوں اور اکساہٹوں کے ساتھ مورچہ زن ہے۔ مگر قرآن و حدیث سے اس کے ہتھکنڈوں سے بچنے کے لیے وسیع رہنمائی ملتی ہے۔ امام ابن جوزیؒ نے شیطان لعین کی دسیسہ کاریوں، فریب کاریوں اور دھوکے بازیوں پر جامع کتاب تالیف کر کے اُمت کو شیطان لعین کے حملوں سے بچانے کے لیے سامان فراہم کیا ہے۔

برعظیم پاک و ہند میں اس کے متعدد اڈیشن چھپتے رہے، اب مکتبہ دارالابلاغ نے  ’تلبیس ابلیس‘ کا نیا رواں اور شُستہ ترجمہ اغلاط سے پاک کمپوزنگ کرکے شائع کیا ہے۔ ترجمے کے لیے علامہ ناصرالدین البانی کے شاگرد رشید علی حسن عبدالحمید کا ترتیب دیا ہوا نسخہ پیش نظر    رکھا گیا۔ علی حسن علی عبدالحمید نے تخریج کرتے ہوئے صرف صحیح احادیث کا انتخاب کیا، جب کہ ضعیف احادیث یکسر خارج کردیں۔

امام ابن جوزیؒ ایک بلندپایہ عالم دین، محدث، مؤرخ، واعظ اور مربی تھے۔ انھوں نے ۱۷۸ اساتذہ سے کسب ِفیض کیا، ان کی تصانیف کی تعداد ۲۵۰ کے لگ بھگ ہے۔ زاد المسیر کے نام سے قرآن کی تفسیر لکھی اور پہلے مفسرکہلائے۔ حنبلی مسلک پر سختی سے عمل پیرا ابن جوزی، فرائض و احکامات کے معاملے میں خود بڑے سخت اور متشدد تھے۔انھوں نے تلبیس ابلیس میں روایات لینے کے سلسلے میں خاص احتیاط کا اہتمام کیا اور ثقہ روایات لیں۔ ترغیبات و ترہیبات کے ضمن میں ضعیف روایات لے لی جاتی ہیں، صحاح ستہ میں فضائل کے باب میں ضعیف اور   کمزور روایات موجود ہیں جو تذکیر کے لیے نقل ہوتی ہیں۔ کمزور اور ضعیف روایات کو تلبیس ابلیس سے خارج کر کے کتاب کی چاشنی کو کم کردیا گیا اور اس طرح اس کا دائرہ بھی محدود کردیا گیا،  میرے خیال میں اس ضمن میں درمیانی راہ نکالنی چاہیے تھی، تاکہ اصل کتاب کا حُسن برقرار رہتا۔(عمران ظہور غازی)


تعمیر ِ شخصیت کے رہنما اصول، حافظ محمد ہارون معاویہ۔ زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔صفحات: ۵۲۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

عموماً کسی شخص کے ظاہری خدوخال، بول چال اور چال ڈھال سے اس کے بارے میں ایک راے قائم کی جاتی ہے۔ شخصیت دراصل ان منفرد اوصاف کی میکانکی تنظیم اور وحدت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو عطا کیے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر میں جہاں ارثی اور ماحولیاتی عناصر کا کردار نمایاں ہوتا ہے وہاں فرد کے خیالات اور سوچ کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔

مصنف نے شخصیت کے تعمیراتی عناصر اور اصولوں کا مطالعہ، مختلف ماہرین نفسیات اور علما کی آرا کی روشنی میں کیا ہے اور پھر اپنے مشاہدات اور تجزیے سے ان اصولوں پر بحث کی ہے جن سے شخصیت کی تعمیروترقی ممکن ہے۔ ان کا خیال ہے تن بہ تقدیر ہوکر بیٹھ رہنے کے بجاے ایک فرد اپنے اندر خوداعتمادی، قوتِ فیصلہ، قوتِ ارادی، غوروفکر اور عزم و ہمت جیسے اوصاف کو بیدار کرلے تو وہ پسندیدہ اور کامیاب زندگی بسر کرسکتا ہے۔ زندگی کا نصب العین چونکہ زندگی کا رُخ متعین کرتا ہے، اس لیے ایک فرد کی زندگی کا مرکز و محور یہی قرار پاتا ہے، اور یہی باقی اوصاف کو بیدار کرنے کے لیے تحریک پیدا کرتا ہے۔

کتاب میں ۱۶ ایسے بنیادی اصولوں پر بحث کی گئی ہے جو شاہراہِ حیات پر کامیابی کے سفر کے لیے مفید ہیں۔ شخصیت کی تعمیر اور کیریئر پلاننگ کے لیے ایک مفید کتاب ہے۔ اسلوبِ بیان سادہ اور پُرکشش ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


ٹال مٹول کی عادت سے نجات، ریٹاایمٹ، مترجم:حافظ مظفرحسن۔ ناشر: سیونتھ سکائی پبلی کیشنز، غزنی سٹریٹ، الحمدمارکیٹ، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۲۳۵۸۴۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۲۰۰روپے

لیت و لعل اور ٹال مٹول کی عادت ایک عادتِ بد ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی زندگی میں بے حد نقصان اٹھاتا ہے۔ ٹال مٹول کی عادت کسی بھی انسان کو وراثت میں نہیں ملتی اور نہ یہ عادت انسان کی شخصیت اور کردار کا حصہ ہی ہوتی ہے۔ یہ محض ایک عادت اور رویہ ہے اور یہ عادت انسان کی زندگی پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہے جس کی وجہ سے انسان دبائو اور تنائو کا شکار ہوجاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

مصنفہ نے انسان کے خوف و ہراس میں مبتلا ہونے کی ممکنہ وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ کون کون سے خوف اور خطرات ہیں، جو انسان کی راہ کی دیوار بنتے ہیں اور ان سے کیسے نبٹا جاسکتا ہے۔ پھر بہتر زندگی گزارنے کے لیے کام کو بروقت اور منصوبہ بندی کے تحت سرانجام دینے کے بہت سے گُر بتائے ہیں۔ مختلف لوگوں کی ذاتی زندگیوں کے تجربات کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔ منظم، بھرپور اور متحرک زندگی گزارنے کے لیے اہم اصولوں کو زیربحث لایا گیا ہے۔ مترجم نے Stop Procrastinating کا ٹال مٹول کی عادت سے نجات خوب صورت ترجمہ کیا ہے۔ وقت کی قدروقیمت جاننے، اپنے معمولات کو بے ترتیب ہونے سے بچانے اور منصوبوں کو احسن طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ مفید رہنمائی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)


روبہ زوال امریکی ایمپائر ، حامدکمال الدین ، ناشر: مطبوعات ایقاظ، ۶-اے ذیلدار پارک اچھرہ ، لاہور۔ صفحات: ۱۲۱۔قیمت: ۱۰۰ روپے

دہشت گردی کی نام نہاد امریکی جنگ نے عالم اسلام کے اصحاب دانش کو بھی غور و فکر کے نئے دوراہوں پر لاکھڑا کیاہے۔مغرب کی اس نئی اور کھلی جارحیت کے پس منظر اور داعیے کو    سمجھنے سمجھانے کی بحث زوروں پر ہے۔فاضل مصنف نے ابن ابی شیبہ کی اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ فارس تمھاری ایک ٹکر ہوگا (یابڑی حد) دو ۔پھر فارس کو اللہ مفتوح کرادے گامگر روم کے کئی سینگ ہوں گے۔اس کا ایک سینگ ہلکان ہوگا تو نیا سینگ نکل آئے گا۔

خلاصۂ استدلال یہ ہے کہ موجودہ امریکن ایمپائر اپنے یونانی و رومی پس منظر کے ساتھ   بنی الاصفر (سلطنت روم) ہی کا تاریخی تسلسل ہے۔ مغربی تہذیب کا یہ امام،یونان کی لادینیت، رومن ایمپائر کی قبضے کی ہوس اور موجودہ مسخ شدہ عیسائیت کی شرک و بدعملی کا حقیقی وارث ہے۔ مصنف کے مطابق رومیوں کے ورثا کی اسلام کے ساتھ یہ جنگ اپنی شکلیں تو تبدیل کرتی رہی ہے لیکن تھمی کبھی نہیں۔انجام کار کامیابی یقینا عالم اسلام کا مقدر ہے لیکن اس کے لئے صحیح حکمت عملی، اور شرعی ضوابط کا مکمل التزام ناگزیر ہے ۔کتاب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پس منظر میں لکھے جانے والے لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔(حافظ محمد عبد اللّٰہ)


تعارف کتب

  •  قرآن کی دو عظیم سورتیں ، محمد شریف بقا۔ علم و عرفان پبلشرز، ۳۴-اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۷۰ روپے۔[سورئہ رحمن اور سورئہ یٰسین کا ایک مطالعہ، اس طرح کہ عربی متن کے حصوں کے بعد   آیت و ترجمہ، پھر الفاظ کے معنی، پھر بنیادی نکات۔ بنیادی نکات میں نفسِ مضمون آجاتا ہے، تشریح و توضیح نہیں۔ ان سورتوں کے مضامین سے آگاہ کرنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ طباعت کا کم تر معیار نظروں کو جچتا نہیں۔]
  • رسولوں کی کہانی، قرآن کی زبانی ،محمد صدیق تہامی۔ ملنے کا پتا: نیشنل بک فائونڈیشن، اسلام آباد۔ صفحات: ۶۱۔ قیمت: ۸۰ روپے۔ [بچوں کے لیے قرآنی قصص پر بہت سی کہانیاں دستیاب ہیں لیکن یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ پہلے نبی حضرت آدم ؑ سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیا کے قصص دل چسپ پیرایے میں ایک مسلسل کہانی کے انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت، انبیا کی سیرت و کردار، ان کا مشن اور لازوال قربانیاں، غلبۂ حق کے لیے جدوجہد، اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور    ایک مسلمان کے کردار کا نقش بچوں کے ذہن میں بیٹھتا چلا جاتا ہے جو آگے چل کر ان کی تعلیم و تربیت اور  سیرت و کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بچے خود پڑھیں یا مائیں چھوٹے بچوں کو سلاتے وقت سنائیں۔ بچوں کے ادب میں مفید اضافہ۔]
  • آسان میراث ،مولانا محمد عثمان نووی والا۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ،9E-ST ، بلاک ۸، گلشن اقبال، کراچی-۷۵۳۰۰۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۷۰ روپے۔[میراث کے مشکل مسائل موصوف نے اپنی دانست میں آسان کر کے بیان کردیے ہیں۔ عام آدمی کے لیے پھر بھی مشکل ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ضرور ’نایاب تحفہ‘ ہے۔]
  • خصائل نبویؐ کا دلآویز منظر ، تالیف: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۱۶۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [شمائل ترمذی مشہور کتاب ہے جس میں حضوؐر کی روزمرہ کی زندگی کی تمام جزئیات اور تفصیلات کا بیان ہے۔ مصنف اس کو سلسلے وار شائع کر رہے ہیں۔ یہ اس سلسلے کی ساتویں جلد ہے۔ اس جلد میں ۳۷ احادیث عام فہم تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ آپ کے اخلاق و عادات اور انکسار جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔]

مئی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں Granny Nam Tells the Story پر تبصرہ شائع ہوا تھا۔ بچوں کے لیے باتصویر قرآنی کہانیوں کے تین حصے محترمہ نصرت محمود نے لکھے ہیں۔ ملنے کا پتا: 191-J ، ڈی ایچ اے،  سیکٹر ای ایم ای، ایسٹ کینال بنک، لاہور ، فون: 7511655۔ قیمت: 300 روپے علاوہ ڈاک خرچ

Muhammad, The Messenger of God and The Law of Blasphamy in Islam and The West،[محمدؐ: پیغمبرخدا اور اسلام اور مغرب میں قانون توہینِ رسالتؐ] محمداسماعیل قریشی۔ ناشر: نقوش، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۴۴۔ قیمت: ۷۰۰ روپے

محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ عرصۂ دراز سے دفاعِ توہینِ رسالتؐ کا فریضہ عدالت کے ایوانوں میں سرانجام دے رہے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں اُن کی درخواست پر عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ ’قانون توہینِ رسالتؐ، کو عملی طور پر نافذ کیا جائے۔ مصنف کی آٹھ کتابیں اسی موضوع پر شائع ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت انگریزی میں اب ہوئی ہے، تاہم اسی موضوع پر   ۱۹۹۴ء میں اُردو میں کتاب: ناموسِ رسولؐ بھی شائع ہوچکی ہے۔

زیرتبصرہ کتاب ۱۳ ابواب اور سات ضمیموں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے ابتدائی ابواب میں عہدنامۂ قدیم کے علاوہ جدید مغربی مفکرین، مثلاً کارلائل، مائیکل ہارٹ، کیون آرمسٹرانگ، شہزادہ چارلس،لین پول کی جنابِ رسالت مآبؐ اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے بارے میں آرا درج کی گئی ہیں۔ مصنف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مغرب اسلام سے خوف زدہ بھی ہے اور ناواقف بھی۔ اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ ۱۰۹۵ء سے اسلام کے خلاف مسیحیت نے جو جنگ جاری کی تھی، اُس میں کوئی وقفہ نہیں آیا۔ ۲۰ویں اور ۲۱ویں صدی میں حملے کے انداز تبدیل ہوئے ہیں ورنہ قرآن، رسالت مآب کی ذات اور اسلامی تعلیم جہاد کو ہر دور میں ہدفِ تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔

مصنف نے صحابہ کرامؓ کے دور سے لے کر صلاح الدین ایوبی اور دورِ اندلس کے علما کے حوالے سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قانونِ توہینِ رسالتؐ کے مرتکب افراد کو      ہر دور میں سزا کا مستحق گردانا گیا۔ وہ سلمان رُشدی کے معاملے پر بھی تفصیلی بحث کرتے ہیں اور مغرب نے جس قسم کا تعصب روا رکھا اُس کو زیربحث لائے ہیں۔ یاد رہے پاکستان میں     قانونِ توہینِ رسالتؐ کی سزا میں اب تک کسی کو عدالتی سزا نہیں ملی ہے۔ امریکا، برطانیہ کے اہم قانونی تعلیمی اداروں اور مغرب کے انصاف پسند حلقوں نے قانون توہینِ رسالتؐ کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا ہے اُس کا تذکرہ اس کتاب میں تفصیل سے شامل ہے۔

عالمِ عرب کے علما کی راے درج کرنے کے بعد وہ بھارت کے عالمِ دین وحید الدین خان کی راے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی فرد کو ’مصالح‘ کے پیش نظر شانِ رسالتؐ کے مسئلے پر کمزوری دکھانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف دساتیر میں آزادیِ راے کی حیثیت، نیز پاکستان کے نمایاں علما کے خیالات کو بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ عامر عبدالرحمن چیمہ شہید، نیز ڈنمارک میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بارے میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس کتاب کے مطالعے سے یہ احساس اُبھرتا ہے گویا کہ اس کے مخاطب مسلمان ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مغربی ممالک اور مغرب کا پروردہ ذہن جن دلائل کو قبول کرتا ہے انھیں اہمیت دی جائے۔ قانونِ توہین رسالتؐ، جہاد، دہشت گردی جیسے موضوعات پر بحث مباحثہ ختم ہونے والا نہیں ہے، اس بارے میں جس قدر جامع تحریریں، منظرعام پر آسکیں، مفید ہیں۔ (محمد ایوب منیر)


Managing Finances: A Shariah Compliant Way [انضباطِ مالیات، شریعت کے مطابق]، محمدمصطفی انصاری۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب، اُردو بازار،  ریڈیو پاکستان، کراچی۔ صفحات: ۲۶۹۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ منشورات سے دستیاب ہے۔

پوری دنیا میں عموماً اور دنیاے اسلام میں خصوصاً غیراسلامی تجارتی اصولوں سے بے زاری اور اسلامی تجارتی طریقوں کی آگاہی اور اس میں تیز پیش رفت اسلامی بنکاری میں انقلاب برپا کرچکی ہے۔ اسلامی مالی اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور روایتی بنکوں میں اسلامی بنکاری کی خصوصی سہولتوں کا قیام عام لوگوں کی اسلامی بنکاری کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس دوران ایک بنکار کو اسلامی بنکاری سے مناسب آگاہی نہ صرف بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے میں مدد دے سکتی ہے بلکہ اسلامی بنکاری کی تیزترین ترقی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں اسلامی معاشی نظام اور اس کے مختلف اداروں کے تعارف کے ساتھ ساتھ ۱۹۸۰ء میں شروع ہونے والی اسلامی بنکاری اور آج ہونے والی اسلامی بنکاری کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اسلامی بنکاری کی اصل بنیاد اور سود کی اصل متبادل اساس، یعنی مشارکہ اور مضاربہ کے تصور، شرائط اور عملی طور پر استفادہ کے حوالے سے تفصیلات، ڈائیگرام کے ذریعے پیش کی گئی ہیں۔ یہ کتاب کی انفرادیت ہے۔

مشارکہ اور مضاربہ کے علاوہ دیگر ذرائع میں اجارہ، مرابحہ، توارق سلم، استصناع وغیرہ کی تفصیلات اور عملی شکلوں پر بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے اور صارفین کے لیے وسائل کی فراہمی کے ذرائع کا جائزہ لیتے ہوئے گھرفنانس، کار فنانس، بدلہ کا کاروبار، کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ، چارج کارڈ اور ATM کے تصورات کا شرعی تقاضوں کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔

مزید برآں کاروباری معاملات میں ملازمین و آجرین کے حقوق و فرائض، عام کاروباری معاملات، طویل المدت اور قلیل المدت بچتوں اور ان کے استعمال، ٹیکس کاری اور اس کے مسائل، انشورنس، بنک گارنٹی، مارکیٹنگ، تکافل، فنانشل رپورٹنگ اور زکوٰۃ کے مختلف مسائل کا جائزہ پیش  کیا گیا ہے اور ان کی شرعی حیثیت کا تعین کیا گیا ہے۔

اس کتاب کی خاص بات ان موضوعات پر سہل اور تفصیلی بحث ہے جو نہ صرف اسلامک بنکاری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ آنے والے دور میں جدید اسلامی بنکاری کی بنیاد ہوسکتے ہیں اور جن کا جاننا ایک اچھے بنکار کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کتاب کی ایک اور خاص بات اس کے عنوانات کا ترتیب وار سلسلہ ہے جو قاری کو آسان سے پیچیدہ اسلامی تصورات کی طرف  کسی رکاوٹ کے بغیر بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ کتاب جدید اسلامی بنکاری کے تقاضوں پر نہ صرف پورا اُترتی ہے بلکہ علومِ اسلامی بنکاری میں مفید اضافہ ہے۔ مصنف اسلامی بنکاری کے میدان میں اس عظیم کاوش پر خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ (محمد محمود شاہ خان)


عصرحاضر میں اجتہاد ، مولانا ابوعمار زاہد الراشدی۔ ناشر: الشریعہ اکادمی، کنگنی والا، گوجرانوالہ۔ صفحات: ۳۲۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

لغت کا ایک لفظ ہے ’یلغار‘۔ اس لفظ کے ساتھ فوری طور پر یہ تصویر ذہن میں بنتی ہے کہ ایک گروہ یا لشکر اپنی قوت کے بل بوتے پر دوسرے کو پچھاڑنے، بے بس کرنے یا اپنی مرضی کا تابع بنانے کے لیے اُمڈا چلا آرہا ہے۔ گذشتہ سو ڈیڑھ سو برس سے دین اسلام کے کچھ ’ہمدردوں‘ نے تو واقعی اس لفظ کے پردے میں خود اسلام کی ’تشکیل نو‘ کے لیے یلغار کر رکھی ہے۔ وہ جو دین کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور وہ جو اس لفظ کے دائرۂ اثر کی نزاکتوں اور عملی سطح پر اس کی وسعتوں تک سے بے خبر ہیں وہ بھی اس لفظ کو اس زعم میں گھما پھرا کر اسلامی فکریات کے ایوان پر دے مارتے ہیں کہ گویا اہلِ دین تو دین اور دنیا سے بے خبر بیٹھے ہیں اور عقل و دانش کی دولت بس اس یلغاری گروہ کی ملکیت ہے۔ یہ ایک عجیب منظر ہے۔ مولانا زاہدالراشدی اس کتاب میں مذکورہ صورت حال پر نظر دوڑانے کے ساتھ علماے کرام کو دین، ایمان اور عقل کی بنیاد پر وسعت نظر، منصبی ذمہ داری اور قوتِ عمل کی دعوت دیتے ہیں: ’’ایک طرف سرے سے اجتہاد کی ضرورت سے انکار کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف اجتہاد کے نام پر اُمت کے چودہ سو سالہ علمی مسلمات اور اجتماعی اصولوں کا دائرہ توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، جب کہ حق ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے‘‘۔ (ص ۲۸۷)

زیرنظر کتاب اجتہاد کے حوالے سے اس بحث کے پس منظر، عملی جہتوں، اس کے مقدمات، نظائر، امکانات اور مضمرات کو اس طرح پیش کرتی ہے کہ قاری بڑی حد تک معاملے کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھ لیتا ہے۔ چونکہ یہ کتاب مولانا راشدی کے ان بیش تر اخباری کالموں پر مشتمل ہے، جو انھوں نے اکتوبر ۱۹۹۰ء سے تاحال سپردِ قلم کیے (مگر اخباری کالم ہونے کے باوجود ان میں گہرائی اور تازگی ہے)، چنانچہ اس عرصے کے دوران میں زیربحث موضوع کے بارے میں اُٹھنے والے مناقشوں کا ایک ریکارڈ بھی سامنے آجاتا ہے۔ مصنف نے استدلال کے لیے عام فہم نظائر اورمثالوں کو خوبی سے چن چن کر فکروخیال کا دیوان سجایا ہے۔ چند در چند ناہمواریوں کے باوجود اہلِ دین ان کی اس کاوش کو یقینا خوش آمدید کہیں گے۔

مصنف کو علمی حلقے ایک معتدل شخصیت کے طور پر جانتے ہیں، تاہم زیرتبصرہ کتاب میں  یہ نثرپارہ ان کی مذکورہ حیثیت کو متاثر کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مولانا [عبیداللہ] سندھیؒ اور ابوالکلام آزادؒ کے علمی تفردات پر ان کے شاگردوں اور معتقدین نے دفاع اور ہر حال میں انھیں صحیح ثابت کرنے کی وہ روش اختیار نہیں کی، جو خود مولانا مودودی اور ان کے رفقا نے ان کی تحریروں پر علما کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات پر اپنا لی تھی۔ چنانچہ اس روش کے نتیجے میں وہ جمہور علما [؟] کے مدمقابل ایک فریق کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے‘‘ (ص ۳۱۷)۔ اس ٹکڑے میں الزام تراشی اور مبالغہ آمیزی کا وہ لحن کارفرما ہے جو گذشتہ صدی کے پانچویں اور چھٹے عشرے میں منظر پر چھایا ہوا تھا [موصوف نے یہ عجب دعویٰ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی نے اس غوغا آرائی کا جواب نہ ہونے کے برابر دیا، اور ان کے رفقا نے گنتی کی چند چیزوں کے سوا کوئی جواب نہیں دیا، جب کہ دوسری جانب سے تنقید کا ایک طوفان اٹھایا جاتا رہا]۔ سبحان اللہ، ان ’جمہور علما‘ میں سے واقعی کتنے حضرات نے خدا ترسی اور علمی مناسبت سے تنقید کی اور کتنے حضرات نے عصبیت کی چوکھٹ پر سچائی، اخلاق، علم اور شائستگی کا خون کیا؟ مذکورہ بالا فردِ جرم کا جائزہ اور ’جمہورعلما‘ کے اسلوبِ نگارش کا گل دستہ اس مختصر تبصرے میں پیش کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ’کرم فرمائوں‘ کو خوش رکھے۔ (سلیم منصور خالد)


لمعاتِ زنداں، خرم مراد، مرتبہ: لمعت النور۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-    فون: ۵۴۳۴۹۰۹۔ صفحات: ۱۰۶۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

۲۳ سال بعد، یہ اس کتاب کی طبع نو ہے۔ یہ محترم خرم مراد کے اپنی اہلیہ کے نام خطوط کے آئینے میں ایوب خاں کے اس دور کی تصویر ہے جب حکومت اپنی دانست میں جماعت اسلامی کا نام و نشان مٹانے کے درپے تھی اور اس پر پابندی لگا کر تمام رہنمائوںکو پابندِسلاسل کردیا تھا۔   خرم مراد اس وقت جماعت اسلامی ڈھاکا کے امیر تھے۔ ڈھاکا جیل کے شب و روز سے زیادہ، یہ خطوط آزمایش کے اس مرحلے میں ، ایک مومن کے جو جذبات و کیفیات ہونا چاہییں اس کے آئینہ دار ہیں۔ اپنے رب سے تعلق، قرآن سے تعلق، تحریک کے اس مرحلے پر ایمان افروز تبصرے، کامیابی کا یقین، ساتھ ہی اپنی رفیقۂ حیات کو صبروحوصلے کی تلقین، قاری ایمان و یقین کی ایک کیفیت سے گزرتا ہے۔

یہ تحریک کے ہر کارکن کے لیے ذاتی تربیت و تزکیہ کی کتاب ہے۔ خرم مراد سے جو واقف ہیں، ان کے لیے اس میں مزید لطف ہے۔ ان کی اہلیہ محترمہ لمعت النور نے ان خطوط کو خود مرتب کیا ہے، اور ’اسلامی جمعیت طلبہ کی نوخیز زندگیوں‘ کو ہدیہ کیا ہے۔ (محمد اسماعیل)


وقت کا بہتر استعمال، مرتبہ: محمد بشیر جمعہ۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب، پوسٹ بکس ۱۲۳۵۶، کراچی۔ ۷۵۵۰۰۔صفحات: ۲۷۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ منشورات لاہور سے دستیاب ہے۔

وقت ہی زندگی ہے۔ انسان کے لیے مہلت عمل ہے۔ اسی وقت کے صحیح یا غلط استعمال پر آخرت کی ابدی تکلیف یا راحت کا انحصار ہے۔ انتظامیات اور کیریر کے حوالے سے آج یہ   مغربی دنیا کا مقبول موضوع ہے جس پر بہت مفید چیزیں لکھی جارہی ہیں۔ محمد بشیر جمعہ نے، جنھیں اُردو میں ان موضوعات پر لکھنے کا پہل کار (pioneer) قرار دیا جاسکتا ہے، زیرتبصرہ کتاب میں سلف و حال کے ۲۰رجال کی ۲۶ تحریریں چھے عنوانات کے تحت جمع کردی ہیں۔ ان کے مطالعے سے وقت کے بارے میں صحیح دینی تصور اُبھر کر سامنے آتا ہے اور انسان کو ذاتی زندگی کے لیے   قیمتی عملی رہنمائی، نہ صرف دنیاوی کیریر کے لیے بلکہ اخروی کیریر کے لیے بھی ملتی ہے۔ حافظ    ابن رجب، امام غزالی، حسن البنا، شیخ عبدالرحمن السدیس، مولانا اشرف علی تھانوی، حفظ الرحمن سیوہاری، مولانا عبدالمالک، ڈاکٹر حسن صہیب مراد، خالد رحمن، ڈاکٹر منصور علی اور خود بشیرجمعہ لکھنے والوں میں شامل ہیں۔ ان سب کو جو زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں (تاکہ آخرت میں کامیاب ہوں) خصوصاً اداروں میں کام کرنے والوں اور نوجوان طلبہ و طالبات کو اس کا خصوصی مطالعہ کرنا چاہیے۔ دعوتِ دین کے کارکن بھی اس کی روشنی میں اپنے کو منظم کریں تو اپنی سرگرمیوں کو کئی گنا زیادہ مؤثر کرسکتے ہیں۔ (مسلم سجاد)


قافلے دل کے چلے (سفرنامہ حج)، جاوید اقبال راجا۔ ناشر: ایف آئی پرنٹرز، کشمیر روڈ،    صدر راولپنڈی۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

زیرنظر کتاب ایک زائر حرم کی طلب صادق اور وارداتِ قلبی کا نام ہے۔ مختصر مگر دل کی تاریں ہلانے اور آنکھیں نمناک کر دینے والایہ سفرنامہ خوب صورت الفاظ ، اردو، پنجابی اور انگریزی اشعار، برجستہ جملوں اور سیدھے سادے انداز کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ تصنع ہے نہ بناوٹ، ذاتی واردات اور تاریخی روایات و حکایات کا مجموعہ ہے۔ یہ سفرنامہ طبعی بذلہ سنجی، شوخی اور جدت کی تلاش و جستجو کا مرقع ہے۔ عزیزوں، دوستوں سے ملنے کا تذکرہ جابجا نظر آتا ہے مگر قاری کی دل چسپی قائم رہتی ہے۔ اس کتاب کو سفرحج پر جانے والوں کے لیے ہلکے پھلکے انداز میں لکھی جانے والی  ایک راہنما کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ سعود عثمانی کے پیش لفظ نے کتاب کے حسن میں مزید اضافہ کیا ہے۔ (عمران ظہورغازی)


جلال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، عبدالحمید ڈار۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۱۰۹۔ قیمت:۳۹ روپے

زیرنظر کتاب میں پروفیسر عبدالحمید ڈار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کو جمع کیا ہے جن میں آپؐ نے ناپسندیدہ امور کی نشان دہی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی، وعید اور عتاب، سرزنش و ممانعت اور اظہار براء ت کا اعلان فرمایا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ان احادیث کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ہماری روزمرہ روش پر تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کا وہ پہلو بھی نمایاں ہوکر سامنے آجاتا ہے جس میں آپؐ نے عقائد، عبادات اور معاملات میں ایک مومن کی شخصیت کے ناپسندیدہ عناصر کی نشان دہی فرمائی ہے۔ چند موضوعات: نمازباجماعت بلاعذر ترک کرنا، زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے وعید، جاہلیت کی پکار پر اظہار ناراضی، اموردین میں تشدد، احکاماتِ شریعت کو کھیل بنانا، پڑوسی کو دین کی تعلیم دینے میں کوتاہی پر سرزنش، عیب چینی پر گرفت، مصنوعی افزایش حُسن پر لعنت، زرپرستی کی مذمت، لین دین میں بددیانتی پر زجر، غاصب کے لیے شدید وعید، مسلمان پر ہتھیار اٹھانے کی مذمت، حکمرانوں کے جھوٹ کو سچ کہنے اور ظلم میں مدد پر وعید وغیرہ۔ گویا ایک آئینہ فراہم کردیا گیا ہے کہ اپنا احتساب کیا جائے اور خدا کے غضب سے بچا جائے۔(امجدعباسی)


الحکمۃ، مرتب: شیخ عمرفاروق۔ ناشر: جامعہ تدبر القرآن، ۱۵-بی، وحدت کالونی، لاہور۔ فون: ۷۵۸۵۹۶۰۔ صفحات: (بڑی تقطیع) ۱۰۰۰۔ ہدیہ: طلبِ صادق۔

احادیث مبارکہ کا یہ دل نشیں مجموعہ دوسری دفعہ کئی موضوعات اور ۲۵۰ صفحات کے اضافوں کے ساتھ شائع ہواہے۔ عبادات، معاملات، فضائل و رذائل اخلاق اور نظامِ حکومت سے متعلق احادیث کی تشریح شیخ عمرفاروق صاحب نے خود بھی کی ہے لیکن بیش تر یہ اہتمام ہے کہ کسی مستند اور مقبول کتاب سے متعلقہ حصہ اخذ کر کے پیش کردیں۔ اس طرح مطالعہ کرنے والوں اور درس و تدریس کرنے والوں کے لیے ایک حسین گلدستہ تیار ہوگیا ہے (مزید تعارف کے لیے دیکھیے: تبصرہ    پہلا اڈیشن ستمبر ۲۰۰۴ئ)۔ شائقین بلامعاوضہ حاصل کرسکتے ہیں لیکن کڑی شرط یہی ہے کہ آکر    لی جائے، ترسیل کا انتظام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ عمر فاروق کو جزاے خیر دے کہ ایسی ہی دوسری کتابوں کے ذریعے خیر کے چشمے جاری کر رکھے ہیں۔ (م - س)


تعارف کتب

  • اسلام کیا ہے؟ محمد ایوب خاں۔ ناشر: ادارہ اشاعت القرآن، ۲۹۴- ایکسٹینشن، کیولری گرائونڈ،     لاہور کینٹ۔ فون: ۶۶۵۰۱۲۰۔ صفحات:۱۳۵۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ [کسی غیرمسلم معاشرے کے افراد کے لیے جو اسلام کو جاننا چاہتے ہیں یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ اختصار سے مکمل تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ہر بات کی دلیل قرآن سے لائی گئی ہے۔ عقائد، عبادات کے ساتھ نظامِ معیشت، نظامِ حکومت، جہاد، اُمت مسلمہ، ہرپہلو کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔]
  • آئینۂ حدیث ، محمد جاویداقبال۔ ملنے کا پتا: ڈی-۱۰، کریم پلازا، گلشن اقبال، بلاک ۱۴، کراچی۔ فون: ۴۹۴۸۲۴۶۔ صفحات:۶۴۔ قیمت: ۴۰ روپے۔ [اس مختصر کتاب میں ۷۱ عنوانات کے تحت ایسی احادیث جمع کردی گئی ہیں کہ مرتب کے بقول آج ہمیں جو مسائل درپیش ہیں ان کا حل ارشادات رسولؐ کی روشنی میں ڈھونڈ سکیں، نیز غربت، مہنگائی، مایوسی، خودکشی، کاروکاری، فحاشی، فرقہ پرستی، بدعنوانی، عورتوں پرمظالم، بڑھتے جرائم جیسے مسائل کا سدباب کرسکیں۔]
  • فانی زندگی کے چند ایام ، اہتمام: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، نوشہرہ۔ فون: ۶۳۰۲۳۷-۰۹۲۳ صفحات: ۱۵۴۔ قیمت: درج نہیں۔[کتاب دراصل شیخ الحدیث مولانا حسن جان شہید کی خودنوشت سوانح حیات ہے۔ بنیادی طور پر یہ دورِ طالب علمی کی یادداشتیں ہیں۔ سفرِحج کا دل کش بیان ہے۔ دیگر اسفار بھی قاری کو دنیا کے مختلف حصوں میں لے جاتے ہیں، مثلاً بنگلہ دیش، ازبکستان، عرب امارات، جنوبی افریقہ، کینیا اور سمرقند و بخارا۔]
  • ہمدرد نونہال ،خاص نمبر۔ مدیراعلیٰ: مسعود احمد برکاتی۔ دفتر: ہمدرد ڈاک خانہ، ناظم آباد، کراچی-۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۳۵ روپے۔[یہ رسالے کا ۳۲ واں، ۲۱ ویں صدی کا آٹھواں خاص نمبر ہے۔ ہر تحریر تعمیری، بچوں کے لیے دل چسپ، ساتھ ساتھ معلومات اور ذہنی ترقی بھی۔ رچی بسی مشرقیت اور اسلامی اقدار۔ بچوں کے لیے بہترین تحفہ۔ ترتیب دینے میں محنت کرنے والوں کا بچوں کی جانب سے بہت شکریہ۔]

  • آسان میراث ،مولانا محمد عثمان نووی والا۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ،9E-ST ، بلاک ۸، گلشن اقبال، کراچی-۷۵۳۰۰۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۷۰ روپے۔[میراث کے مشکل مسائل موصوف نے اپنی دانست میں آسان کر کے بیان کردیے ہیں، تاہم عام آدمی کے لیے پھر بھی مشکل ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ضرور ’نایاب تحفہ‘ ہے۔]
  • خصائل نبویؐ کا دلآویز منظر ، تالیف: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۱۶۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [شمائل ترمذی مشہور کتاب ہے جس میں حضوؐر کی روزمرہ کی زندگی کی تمام جزئیات اور تفصیلات کا بیان ہے۔ مصنف اس کو سلسلے وار شائع کر رہے ہیں۔ یہ اس سلسلے کی ساتویں جلد ہے۔ اس جلد میں ۳۷ احادیث عام فہم تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ آپ کے اخلاق و عادات اور انکسار جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔]

مولانا امین احسن اصلاحی، حیات و افکار، ڈاکٹر اختر حسین عزمی۔ ناشر: نشریات، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۳۲۰۳۱۸۔ صفحات: ۶۶۴۔ قیمت (مجلد): ۴۵۰ روپے۔

مولانا امین احسن اصلاحی (۹۷-۱۹۰۴ئ) ایک عالم، مفسرِقرآن، متکلم، مفکر اور خطیب تھے۔ ان کے تحقیقی نظائر، حق کے طالبوں کے لیے غوروفکر کے باب کھولتے رہیں گے۔ افسوس کہ مولانا کی رحلت کے بعد ان کے بعض ’فکری وارثوں‘ اور خودساختہ ’طالب علموں‘ نے اصلاحی صاحب کے کارنامۂ حیات اور علمی اثاثے کی عظمتوں کو پیش کرنے کے بجاے، ان کی بعض آرا کو اپنی   تجدد پسندی اور معاصرین کو ہدف تنقید بنانے کے لیے استعمال کیا۔ اس فضا میں نوجوان محقق    اختر حسین عزمی نے مولانا کی تحریروں کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ شروع کیا۔ مریدانہ شکست خوردگی یا مخالفانہ یلغار جیسے جذبات سے دامن بچا کر حقیقت کا کھوج لگانے کی کوشش کی، اور ان کایہ کام ڈاکٹریٹ کے مقالے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس میں انھوں نے مشینی یا میکانیکی اندازِ تحقیق اپنانے کے بجاے تازگی اور گہرائی کا اسلوب اختیار کیا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب کے ۱۰ باب قاری کے سامنے معلومات کا ایک وسیع دفتر پیش کرتے ہیں، جس کا جائزہ اس مختصر تبصرے میں لینا آسان نہیں ہے، بہرحال زیرنظر کتاب سے قاری پر واضح ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی نے تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، تزکیہ و تربیت اوردعوت کے موضوعات پر دادِ تحقیق دیتے ہوئے بڑا منفرد طرزِ اظہار اپنایا۔ تفسیر کے باب میں وہ روایتی اسلوب سے ہٹ کر قرآنی فہم کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بقول اخترحسین: نو جلدوں پر مشتمل تفسیر تدبر قرآن کے ۵ہزار ۸سو ۴۴ صفحات میں اصلاحی صاحب صرف ۸۸ احادیث سے تفسیری مطالب متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان میں سے بھی ایک چوتھائی کو بطور استدلال نہیں پیش کرتے (ص ۱۴۵-۱۴۶)۔ اس کے بجاے وہ قدیم عربی ادب سے الفاظ کے مفہوم کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصلاحی صاحب کے اسی منفرد اندازِ تحقیق نے بعض ماہرین علوم اسلامیہ کو ان کے بارے میں منفی راے رکھنے کی دلیل فراہم کی۔ تاہم کتاب کے مقدمہ نگار ڈاکٹر محمود احمد غازی کے الفاظ میں: ’’مولانا اصلاحی کے غالی عقیدت مند ان کو ائمہ مجتہدین کا ہم پلّہ یا شاید ان سے بلند تر مرتبے کا حامل قرار دیتے ہیں، اور ناقدین کا گروہ ان سے ایسے ایسے خیالات منسوب کرتا ہے جن سے وہ بلاشک بری تھے‘‘۔ (ص ۱۰)

اس کتاب میں مولانا اصلاحی مرحوم کے تحقیق و تجزیے کے نتائج کو ایک ترتیب اور تنقیح کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ممدوح کی مداحی سے زیادہ ایک تحقیق کار کی طلب حق کی گواہی ہے۔ اسی لیے وہ اصلاحی صاحب کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں، مگر حسب موقع گرفت بھی کرتے ہیں۔ البتہ ان کی اس راے سے اتفاق نہیں ہے کہ: ’’مولانا [اصلاحی] سے قبل علماے تفسیر میں کسی نے بھی پورے قرآن کو ایک منظم کتاب کے طور پر پیش نہیں کیا‘‘ (ص ۲۸۹)۔ تاہم اس نوعیت کے جملے خال خال ہیں، جب کہ ساری کتاب ٹھیرے، جمے اور گہرے طرزِاظہار کو پیش کرتی ہے۔

مولانا اصلاحی کے ہاں مطالعہ حدیث کا مزید گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے،  جب کہ ان کے ادبی اسلوب کی باریکیوں اور محاسن کو آشکارا کرنے کا کام ادبیات کے نقادوں کے ذمے ہے۔

اگر کتاب کی کمپوزنگ قدرے جلی پوائنٹ میں ہوتی اور ساتھ ہی اشاریہ بھی شامل ہوتا تو اس قابلِ قدر کتاب کی خوب صورتی اور معنویت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ (سلیم منصور خالد)


۱- انسان اور نیکی ۲- انسان اور گناہ، حافظ مبشرحسین لاہوری۔ مبشراکیڈمی، لاہور۔ فون:۴۶۰۲۸۷۸-۰۳۰۰۔ صفحات (علی الترتیب): ۱۸۴، ۴۴۸۔ قیمت: ۱۲۰، ۲۰۰ روپے۔

انسان اپنی زندگی نیکی اور گناہ کے درمیان گزارتا ہے۔ آخری فیصلہ اس پر ہوگا کہ دونوں میں سے کس کا وزن زیادہ ہے۔ اسی لیے ہر عاقبت اندیش کو اچھی طرح جاننا چاہیے کہ گناہ کیا   ہے، اور نیکی کیا ہے۔ یہ سراسر اس کے ذاتی مفاد سے متعلق ہے۔ حافظ مبشرحسین اپنی تحریروں اور رفتار تحریر واشاعت ہر دولحاظ سے علمی دنیا میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ ۲۰ سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اس سیریز میں انسان اور قرآن، انسان اور فرشتے اور انسان اور شیطان بھی موجود ہیں۔

دبیزمضبوط جلد اور خوب صورت طباعتی معیار کتاب کو ہاتھ میں لینے کا پہلا سبب ہوتا ہے، اس کے ساتھ مؤلف کا آیات و احادیث مع متن ترجمہ اور سند، اور سلف کی تحریروں سے موضوع کے ہرپہلو کا احاطہ کرنے کا انداز کتاب کو جویائے حق کے لیے پُرکشش بناتا ہے۔ زبان سلیس ہے، اور پس منظر آج کے دور کا ہے، نیز بہت زیادہ عنوانات قاری کو بہت سہولت دیتے ہیں۔

انسان اور نیکی میں طویل مقدمہ شیخ علی طنطاوی کی کتاب [نیکی یا گناہ، کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے] سے ماخوذ ہے اور اختتام: [انسانی زندگی پر گناہ کے ۲۰ اثرات [حافظ   ابن قیم] کے حوالے سے ہوتا ہے۔ درمیان کے پانچ ابواب میں ان نیکیوں کا بیان ہے جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے اور ان کے دنیاوی و اخروی فوائد اور اجر بتائے گئے ہیں۔

انسان اور گناہ، متذکرہ بالا کتاب کے مقابلے میں زیادہ جامع اور ضخیم تر ہے۔ گناہوں کے دنیاوی و اُخروی، انفرادی اور اجتماعی، طبی اور جسمانی اثرات اور قانونی سزائیں سب کا بیان ہے۔ تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ایک علیحدہ باب (نمبر ۱۱) میں معاشرے میں مروج خطرناک گناہ، ۹۰عنوانات کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔ مؤلف نے سگریٹ نوشی کو بھی گناہ بلکہ تقریباً حرام قرار دیا ہے۔ گناہوں سے توبہ اور گناہ ترک کرنے کے انعامات کا بھی بیان ہے۔

ایسی کتابوں کے مطالعے کا کلچر عام کرنے کی ضرورت ہے۔ متنوع مشاغل اور دل چسپیوں کے درمیان مطالعے کے لیے وقت نکالنا، اس کی اہمیت اور افادیت محسوس کرنا ایک مجاہدہ ہے۔  اس کا ذوق ہوجائے تو پھر آسانی ہے۔ (مسلم سجاد)


اسلامی طرزِ فکر (اول، دوم، سوم)، ادارت: عادل صلاحی، ترتیب و ترجمہ: عبدالسلام سلامی،   کلیم چغتائی۔ ملنے کا پتا: ۴۰۴- قمر ہائوس، ایم اے جناح روڈ، کراچی، فون: ۲۳۱۲۴۹۵-۰۲۱۔ صفحات: ۴۷۸، ۴۸۴، ۴۴۸۔ قیمت: بلامعاوضہ۔

آج کے دور میں دین پر عمل کرنے والوں کو روز مرہ زندگی میں بے شمار مسائل میں  قرآن و سنت کی درست رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرت و معیشت کی تبدیلی نے ہر طرف سوالات ہی سوالات اُٹھا دیے ہیں۔ اب تو انٹرنیٹ پر بھی جوابات کے لیے کتنی ہی سائٹس کام کررہی ہیں۔ زیرتبصرہ تین کتابوں (کُل ۱۴۱۰ صفحات) میں عقائد، عبادات اور معاملات کے تین بڑے عنوانات قائم کر کے متعدد ذیلی عنوانات کے تحت ان جوابات کا ترجمہ جمع کردیا گیا ہے جو عرب دنیا کے مشہور اخبار Arab News میں ساری دنیا سے ان کے قارئین کے بھیجے گئے سوالات کے عادل صلاحی نے دیے۔ یہ وہ علما کے ایک پینل کی مدد سے تیار کرتے تھے اور ہر ہفتے Our Dialogue کے نام سے اخبار میں شائع ہوتے تھے۔ ان کتابوں میں دسمبر ۸۴ء سے  اپریل ۲۰۰۴ء تک کے دورانیے کے سوالات شامل کیے گئے ہیں۔ سوالات کا دائرہ اتنا وسیع ہے جتنا کوئی سوچ سکتا ہے۔ ہر طرح کے چھوٹے بڑے مسائل، آج کل کے مسائل۔ کچھ مثالوں کا بیان اسے محدود کردے گا۔ جوابات کا بہت  ہی اچھا انداز ہے۔ عملی رہنمائی ہے، غیرضروری تفصیلات نہیں ہیں۔ عادل صلاحی کے مطابق ’’سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح کوشش ہوتی ہے کہ   ایسا جواب دیا جائے جس کی تائید میں مضبوط بڑی شہادت موجود ہو۔ ہم شدت پسندی اور متنازع پہلوئوں سے دُور رہتے ہیں اور خود کو کسی ایک فقہی امام کے نقطۂ نظر اور راے تک محدود نہیں کرتے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ مسئلے کا ایسا حل پیش کیا جائے جو عصرِحاضر میںقابلِ قبول اور قابلِ عمل ہو.... قرآن کی تعلیم یا مصدقہ حدیث کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ (ص ۸، حصہ اول)

عبدالسلام سلامی اور کلیم چغتائی صاحبان کا اتنا شُستہ اور رواں ترجمہ، کہ ترجمے کا شبہہ بھی نہ ہو، قارئین پر احسان ہے، جزاھما اللّٰہ۔

محمد عارف صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ۱۹۸۹ء میں Our Dialogueانگریزی میں شائع کی تھی۔ اب اُردو میں یہ تین جلدیں بلاقیمت پیش کی ہیں۔ کراچی کے احباب قمرہائوس جاکر لیں، دیگر شہروں والے پتا ارسال کر کے درخواست کریں، اور کتابیں آنے پر دعائیں دیں۔

آخری بات، کتاب کا نام ’اسلامی طرزعمل‘ بہتر ہوتا کہ اس میں الف تا ی سب باتیں عمل کے لیے ہیں۔ (م - س)


القدس اور اختتامِ وقت ، قرآن کی روشنی میں، شیخ عمران نذر حسین، ترجمہ: محمدجاوید اقبال۔ ملنے کا پتا: ڈی-۱۰، کریم پلازا، گلشن اقبال، بلاک ۱۴، کراچی۔ فون: ۴۹۴۸۲۴۶-۰۲۱۔ صفحات: ۲۳۹۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

اُمت مسلمہ کے مستقبل کے امکانات کے حوالے سے مختلف تجزیے سامنے آتے رہتے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس لحاظ سے منفرد تجزیہ ہے کہ اس میں مستقبل قریب میں پیش آنے والے واقعات اور موجودہ صدی میں حق و باطل کا آخری معرکہ برپا ہونے اور غلبۂ اسلام کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس تجزیے کی بنیاد قرآن کی پیش گوئیوں، مستند احادیث اور زمینی حقائق پر رکھی گئی ہے۔

مصنف عصری علوم اور تقابل ادیان کے ماہر ہیں، نیویارک میں اسلامی مشن کے ڈائرکٹر رہے ہیں اور کئی کتب کے مصنف ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی عالمی شہرت یافتہ کتاب Jerusalem in Quran کا اُردو ترجمہ ہے۔

فاضل مصنف کی تحقیق کے مطابق سورئہ انبیا کی روشنی میں وہ بستی جہاں سے یہود کو نکالا گیا تھا اور ان پر حرام کردیا گیا تھا کہ وہ وہاں واپس جاسکیں دراصل یروشلم ہے (الانبیاء ۲۱:۹۵-۹۶)، اور ان کی واپسی تب ممکن ہوگی، جب عبرت ناک سزا کا مرحلہ اور وعدئہ برحق (قیامت) پورا ہونے کا وقت قریب آن لگا ہو۔ گویا ہم وقت کے آخری مرحلے میں جی رہے ہیں۔ ایک حدیث کی روشنی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جھیل کناریٹ (بحرگیلیلی) کا پانی خشک ہوجائے گا۔ آج یہ زمینی حقیقت ہے کہ جھیل کا پانی بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔یہی وہ مرحلہ ہے جب اہلِ فلسطین پانی کو ترس جائیں گے، اور یہود کے ظلم و جبرکی انتہا ہوگی۔ تب اللہ کی مدد و نصرت آئے گی، امام مہدی دجال کا مقابلہ کریںگے، حضرت عیسٰی ؑ کا نزول ہوگا، اور خراسان سے (جس میں افغانستان، پاکستان، وسطی ایشیا اور ایران کا کچھ حصہ شامل ہے) اہلِ ایمان کا لشکر ان کی مدد کو پہنچے گا اور بالآخر دجال اپنے لشکروں سمیت ہلاک ہوجائے گا، یہود عبرت کا نشان بنا دیے جائیں گے، اور اسلام غالب آجائے گا۔

مصنف کا اندازہ ہے کہ اگلے ۶۰ برس میں ہم اس مرحلے تک پہنچ جائیں گے۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو مشکل حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے اور سادہ زندگی گزارنی چاہیے۔جہادِ فلسطین کی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے، اس کے لیے ہرممکن تعاون کرنا چاہیے۔ اپنی کوتاہیوں پر اللہ سے توبہ کرتے ہوئے اطاعت و بندگی کی روش اپنانی چاہیے۔ گویا غلبۂ اسلام اور یہود کی بربادی میں تھوڑی ہی مدت   باقی ہے۔ چند دیگر اقدامات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے، جیسے صہیونی سرمایے کی گرفت سے نکلنے کے لیے متبادل کرنسی کا اجرا اور مہاتیرمحمد کی اس کے لیے کوشش وغیرہ۔

اس تجزیے اور نقطۂ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، تاہم یہ اپنی نوعیت کا منفرد تجزیہ ہے جو عنقریب پیش آنے والے واقعات کی توضیح اور غلبۂ اسلام کی بشارت پر مبنی ہے۔ کتاب دل چسپ ہے اور غوروفکر کے لیے نئے پہلو سامنے لاتی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)


Policy Perspectives [خاص نمبر، افغانستان]، مدیر: خالد رحمن۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، نصرچیمبرز، مرکز F-7، بلاک ۱۹، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۵۹۔ قیمت: ۴۰۰ روپے سالانہ، بیرون ملک ۴۰ ڈالر/ ۲۰ پائونڈ۔

پالیسی پرسپیکٹوز، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا مؤقر علمی جریدہ ہے جس میں علمی و تحقیقی انداز میں اُمت مسلمہ کے مسائل اور درپیش چیلنجوں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اپریل ۲۰۰۸ء میں اس کا خصوصی ’افغانستان نمبر‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں افغانستان و پاکستان کے ایک سروے کے علاوہ آٹھ اہلِ قلم کی رشحاتِ فکر کو شامل کیاگیا ہے۔ یہ کہنا شاید مبالغہ نہ ہو کہ ’افغانستان کے منظرنامے کے مختلف پہلوئوں کو ۱۵۹ صفحات میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے مدیر     اس میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ طالبان کے انخلا کے بعد کے چھے برسوں میں افغانستان اور   اہلِ افغانستان پر کیا گزری اس کا جائزہ جناب خالد رحمن نے لیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ افغانستان کی داخلی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ کرزئی حکومت کا صرف ۳۰ فی صد علاقے پر کنٹرول ہے۔ ۱۰ ارب ڈالر کی جس امداد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ ابھی تک افغانستان نہیں پہنچی۔ موجودہ حکومت مسائل سے نبرد آزما ہونے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ فضل الرحیم مظفری اپنے مضمون: ’افغانستان، علاقائی سلامتی اور ناٹو‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ افغانستان سے ملنے والی ۲۴ سو کلومیٹر طویل سرحد پر ۸۰ہزار پاکستانی جوان تعینات ہیں اور اُن کا مقصد وحید یہ ہے کہ طالبان کا راستہ روکا جائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ناٹو افواج عرصۂ دراز سے افغانستان میں ہرقسم کی کارروائیوں کے باوجود، واشنگٹن کو مطمئن نہیں کرسکی ہیں۔ اس مضمون میں چشم کُشا حقائق شامل کیے گئے ہیں۔

افغانستان کے متحارب گروہوں کے درمیان اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے ’ٹریک ٹو‘ سفارت کاری کا خاکہ عائشہ احمد نے پیش کیا ہے۔ افغانستان میں درپیش صورت حال کے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات پر کیا اثرات مرتب ہوںگے، یہ جائزہ امتیاز گُل نے لیا ہے۔ انھوں نے پاکستانی حکومت پر لگائے گئے کئی الزامات کی تردید بھی کی ہے اور اعدادوشمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ پاکستانی حکومت ، انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کررہی ہے اوراس کا سبب، امریکی احکامات پر عمل ہے، تاہم وہ مذاکرات کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔

احمد شائق قسّام کے مضمون میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے، نیز افیون کی کاشت کے جو اثرات ہیں اُس کے مختلف پہلوئوں کو واضح کیا گیا ہے۔ نسرین غفران کے مضمون میں پاکستان میں افغان مہاجرین، اور مصباح اللہ عبدالباقی کے مضمون میں افغانستان میں مدارس کے ذریعے تعلیم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے آئی پی ایس کے سیمی نار کی رپورٹ میں بھی اس مسئلے کے کئی پہلوئوں کو شامل کیا گیا ہے۔ افغان حکومت کا نقطۂ نظر شامل کیا جاتا تو یہ شمارہ اور بھی مفید ثابت ہوتا۔نئے افغانستان پر پاکستان میں، اب تک شائع ہونے والے مطالعات میں یہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ (محمد ایوب منیر)


اکبرنامہ، ایس ایم بُرکے، مترجم: مسعودمفتی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، ۳۴- اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مغل شہنشاہ جلال الدین محمداکبر کے بارے میں ایس ایم بُرکے نے تقریباً ۶۰ برس پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کی Historical Society کے تحت اکبر کے مذہبی لگائو پر ایک مقالہ پڑھا تھا۔ بعدازاں انھوں نے اکبر کی سوانح حیات لکھی جس کا اُردو ترجمہ زیرتبصرہ ہے۔ اکبر کا مذہب کے ساتھ رویہ ہی سب سے زیادہ موضوع بحث رہا ہے اور کتاب کا سب سے طویل باب ’اکبر کے مذہبی رجحان‘ پر لکھا گیا ہے۔ یہ دل چسپ موضوع ہے اور آج مغربی ممالک جو پالیسیاں براہِ راست یا بالواسطہ مسلمان ممالک میں نافذ کروا رہے ہیں ان کا اکبر کی پالیسیوں سے تقابلی مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو مذہب سے بے گانہ کرنے کے لیے کیا کچھ پہلے کیا جاتا رہا اور کیا کچھ آج کیا جا رہا ہے۔ مصنف نے اس کی مذہبی پالیسی کو سراہا ہے۔

اس کتاب کے باب اوّل میں ’اکبر کے آباو اجداد اور ابتدائی دور‘ کے بارے میں تذکرہ  ہے۔ دوسرا باب ’بغاوتیں، فتوحات اور امورِخارجہ‘ سے بحث کرتا ہے۔ تیسرے باب کا ہم اُوپر تذکرہ کر ہی چکے ہیں۔ چوتھا باب ’مرکزی حکومت‘ کے بارے میں ہے۔ پانچویں باب میں ’فنونِ لطیفہ‘ کو زیربحث لایا گیا ہے۔ چھٹا باب ’اکبر کی زندگی کے آخری برس‘ کی بابت ہے، جب کہ سب سے  اہم باب ساتواں ہے جو’اکبر کے دورِحکومت کا ایک جائزہ‘ کے عنوان سے ہے جس میں مونٹ سٹارٹ الفن سٹون، سمتھ، وولسلے ہیگ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ایس ایم اکرم اور دیگر دانش وروں اور مؤرخوں کی آرا کی روشنی میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ اکبر کے عہد کا ایک مفید مطالعہ ہے۔ تاریخ پاک و ہند سے دل چسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (م-ا-ا)


تعارف کتب

  • تذکرہ گمنام مشاہیر ، توراکینہ قاضی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی، رحمن سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔  فون: ۷۲۳۲۷۸۸۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۳۵ روپے۔ [گمنام مشاہیر کا یہ تذکرہ ایسے گمنام مشاہیر پر مشتمل ہے جو اپنے زمانے میں تو بہت معروف تھے، اور انھوں نے اپنے عہد کو متاثر کیا لیکن وقت گزرنے کے    ساتھ ساتھ ذہن سے محو ہوگئے، یا ان کے کارناموں سے آج لوگ پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ ان میں سے بیش تر گمراہ تھے، اور دنیا میں ظلم و فساد کا باعث بنے۔ کیا انھیں مشاہیر کہا جاسکتاہے؟]
  • شبستانِ حرا ، شبیراحمد انصاری۔ ناشر: حرا فائونڈیشن پاکستان (رجسٹرڈ) پوسٹ بکس نمبر ۷۲۷۲، کراچی۔ صفحات: ۲۸۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [قدیم و جدید شعرا کے ایسے اشعار کو، جن میں لفظ حرا آتا ہے، شعرا کے ناموں کی الف بائی ترتیب سے یک جا کیا گیا ہے۔ زیادہ تر اشعار نعتوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ حرا کے موضوع پر چند ایک پوری پوری نظمیں، اسی طرح قطعات اور رباعیات، نیز مخمس، مسدّس، دوہے، ثلاثی اور ہائیکو کی حیثیت کے اشعار بھی شامل ہیں۔ یہ ایک دل چسپ انتخاب ہے مگر کتاب کے آخر میں شامل اشتہار اس مجموعے میں بالکل نہیں جچتے۔ بقول مرتب: ’’غارِحرا سے منسوب اشعار کی روح پرور انتھالوجی‘‘۔]

معتدل اسلامی فکر،مصطفی محمدالطحان، مترجم: مولانا گل زادہ شیرپائو۔ مکتبہ المصباح، لاہور۔ صفحات: ۵۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔

نام ور عرب محقق پروفیسر مصطفی محمد الطحان کتاب الفکرالاسلامی الوسط کی اصل فکر امام حسن البنا شہید (التعالیم) کی ہے۔ حسن البنا شہید ’اخوان المسلمون‘ کے بانی تھے اور اُمتِ مسلمہ کے لیے دلِ دردمند رکھتے تھے۔ انھوں نے اخوان المسلمون میں بیعت کے لیے ۱۰ ارکان (فہم، اخلاص، عمل، جہاد، قربانی، اطاعت، ثابت قدمی، یکسوئی، اخوت اور اعتماد) بیان کیے ہیں۔  پروفیسر الطحان نے ان ۱۰ ارکان کو شرح و بسط کے ساتھ اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اور ان تمام مباحث میں قرآن و حدیث کو بنیاد بنایا ہے اور جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں سیرت النبیؐ     اور سوانح صحابہؓ سے بھی مثالیں پیش کی ہیں۔ دورِحاضر کے مسلمان اپنی زندگی کے دروبست کی   درستی و اصلاح کے لیے اس کتاب سے ایک متوازن فکر اپنا سکتے ہیں۔

مولانا گل زادہ شیرپائو نے کتاب مذکور کا ترجمہ شُستہ اور رواں انداز میں کیا ہے، نیز جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں پاورق میں بعض ضروری امور کی وضاحت اور اضافے بھی کیے ہیں۔ اس اہم کتاب کے ترجمے سے نہ صرف اخوان المسلمون کی تحریک اور اس کے بانی کی فکر سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ اس نہج پر چلنے والوں کی فکری رہنمائی بھی ہوتی ہے، نیز خالص اسلامی فکر کی نمایندہ تحریکوں کے درمیان ربط و ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت اور اہمیت و افادیت کا احساس ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دورِحاضر کی منتشر خیالی کے سیلاب کو روکنے کے لیے ایک متوازن اور معتدل فکر اپنانے میں یہ کتاب صحیح سمت میں رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے معصوم شکار، ڈاکٹر ایم اے سلومی، ترجمہ: محمد یحییٰ خان۔ ناشر: نگارشات پبلشرز، ۲۴-مزنگ روڈ، لاہور۔ فون: ۷۳۲۲۸۹۲۔ صفحات: ۴۱۶۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

ظلم اور مظلومیت، آفت اور بے سروسامانی، جنگ اور تباہی انسانی زندگی کے وہ کرب ناک پہلو ہیں، جن سے بظاہر فرار ممکن نہیں ہے۔ مگر ان تمام صورتوں میں متاثرین کی دست گیری اور سہارے کے لیے بعض افراد اور ادارے ایسی بے لوث خدمت انجام دیتے ہیں کہ انھیں بے ساختہ محسن کہا جاتا ہے۔ سرکاری انتظام سے ہٹ کر جو ادارے یہ کارہاے نمایاں انجام دیتے ہیں، انھیں غیر سرکاری تنظیمیں، رضاکار تنظیمیں یا نان گورمنٹل آرگنائزیشنز (NGO's) کہا جاتا ہے۔

ان این جی اوز میں سے بعض تو فی الواقع انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار، خیر النّاس من ینتفع الناس پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن بعض این جی اوز خدمت کے نام پر ہمہ وقت عالمی سامراجی طاقتوں کے تزویراتی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ایسی تنظیموں کو نہ صرف سامراجی چھتری میسر ہے بلکہ بے حد و حساب مالی وسائل اور دیگر سہولتیں بھی ان کے لیے مختص ہیں۔ یہ تنظیمیں مسلم دنیا میں لادینی تہذیبی یلغار کے ہراول دستوں کا کام کررہی ہیں۔

مگر اسی جہان رنگ و بو میں دوسرا منظر یہ ہے کہ مسلمانوں کی رفاہی رضاکار تنظیموں پر مغربی اور مشرقی سامراجیوں نے نہ صرف عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے، بلکہ ان کے فنڈ منجمد کرنے، ان کے رضاکاروں کو ہراساں کرنے اور انھیں قید اور جلاوطن کرنے کے ساتھ، عطیات دینے والے افراد تک کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں، بلکہ ان خدمت گار  تنظیموں کو نام نہاد دہشت گردی کا مددگار بھی کہا جا رہا ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اس گھٹیا مقصد کے لیے خود اقوام متحدہ کو آلۂ کار بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جا رہا۔

زیرتبصرہ کتاب میں ڈاکٹر سلومی نے بڑی محنت کے ساتھ مغربی دنیا کے دہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے اور مسلم دنیا کی رفاہی رضاکار تنظیموں کی سرگرمیوں اور ان سرگرمیوں کے خلاف مغربی ریاستی پابندیوں کے استحصال اور ظالمانہ اقدامات پر مبنی رویوں کو گہرے تحقیقی مطالعے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بوسنیا، کوسووا، افریقہ، ایشیا اور خاص طور پر فلسطین میں متحرک اسلامی رفاہی تنظیموں کی قربانیوں اور اَن تھک جدوجہد کا بہترین ریکارڈ پیش کیا ہے۔ لیکن معلوم نہیں کہ کس وجہ سے فاضل مصنف نے بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے والوں کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ اس کتاب کی ایک بڑی خامی ہے۔ اگرچہ بعض مقامات پر مصنف کے نقطۂ نظر میں اختلاف کی گنجایش موجود ہے۔ یہ کتاب مسلم رضاکار تنظیموں پر اعتماد کوپختہ کرتی ہے اور حالات کی سنگینی کا احساس بیدار کرتی ہے، تاہم معروف صحافی محمدیحییٰ خاں نے اسے انگریزی سے اُردو کے رواں اور عام فہم قالب میں ڈھالا ہے۔ انسانی خدمت کے کسی بھی دائرے میں متحرک فرد کے لیے یہ مفید مطالعہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)


سرود سحر آفریں (فکروفنِ اقبال کے چند گوشے)، غلام رسول ملک۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، چھٹی منزل، ایوانِ اقبال، لاہور۔ صفحات: ۱۶۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

علامہ محمد اقبال فکروفن پر ۱۱ مقالات کا یہ مجموعہ اقبال اکادمی نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی ’تقدیم‘ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ پروفیسر ملک انگریزی زبان و ادب کے استاد اور کشمیر یونی ورسٹی  سری نگر میں شعبۂ انگریزی کے صدر ہیں۔ وہ عربی اورفارسی زبانوں پر بھی بہت اچھی دسترس رکھتے ہیں۔ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ Iqbal and English Romantics  بھی اقبالیات پر ہے۔

زیرنظر کتاب میں اقبال کی شاعری اور فکر کا مطالعہ مختلف جہتوں اور زاویوں سے پیش کیا گیا ہے: اقبال کی عظمت کا راز، اقبال کے مذہبی افکار کی معنویت، اقبال اور ملتِ اسلامیہ کا احیاے نواور اقبال کا قرآنی انداز فکراقبال کے چند نہایت اہم موضوعات ہیں۔ بعض مضامین میں شخصیات کے حوالے سے تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے: اقبال اور شاہِ ہمدان، اقبال اور ورڈز ورتھ۔ بعض مضامین غزلوں اور نظموں کے تجزیے پر مشتمل ہیں (ذوق و شوق، بزم انجم، محاورہ مابین    خدا و انسان)۔ دو مضامین (اقبال کے پسندیدہ اصنافِ شعر، بانگِ درا کی غزلیں)سے اقبال کے شعری فن کی بوقلمونی کا اندازہ ہوتا ہے۔

مصنف نقد و انتقاد میں اسلامی اور مشرقی فکروادب کے ساتھ ساتھ مغربی علوم کی صالح روایات کو بھی بروے کار لائے ہیں۔ ان کی آنکھ سرمۂ افرنگ کی بجاے خاکِ مدینہ سے روشن ہے۔ مصنف نے اقبال کے ان معترضین کا مدلل اور مُسکت جواب دیا ہے جنھیں اقبال کی اسلامیت پر اعتراض ہے۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اقبال ایک ایسا مفکر ہے جو دین فطرت کی بنیادوں پر عالمِ انسانیت کا ہمہ گیر ارتقا چاہتا ہے۔ متوازن اور عالمانہ افکار کا یہ مجموعہ ذخیرئہ اقبالیات میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)


Pakistan: A Proud Nation, But Failing State، اقبال ایس حسین۔ ملنے کا پتا: ۱۶-کرشن نگر، گوجرانوالہ۔ صفحات: ۳۶۶۔ قیمت: ۵۰۰ روپے/۲۰ ڈالر۔

پاکستان کی سلامتی کا راز انصاف کی بالادستی میں ہے، یہی رب تعالیٰ کا حکم ہے اور یہی پاکستانی قوم کی اُمنگ ہے۔ زیرنظر کتاب میں اقبال ایس حسین نے حالیہ برسوں میں درپیش    اُن چیلنجوں کاجائزہ لیا ہے جن کی بدولت پوری قوم ذہنی اضطراب میں مبتلا ہوچکی ہے اور آزمایشوں کا ایک سلسلہ ہے جو مسلسل منظرعام پر آتا رہتا ہے۔

اگرچہ مصنف کی نصف درجن سے زائد کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں اور پاکستان و بیرون پاکستان میں مقبولیت حاصل کرچکی ہیں، تاہم زیرتبصرہ کتاب میں خالصتاً پاکستان، پاکستانی عوام، لال مسجد، سپریم کورٹ، عوامی سیاست، مذہبی جکڑبندی اور حکمرانوں کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حکمرانوں کو ان اقدامات کے نقصان کا صحیح اندازہ نہیں ہے، ورنہ وہ سپریم کورٹ کے ججوں، عدالتوں کے وکلا، قبائلی علاقوں کے زُعما اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو یک قلم منظر سے ہٹانے کی جسارت نہ کرتے۔

جنرل ایوب خان کے خلافِ آئین اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد جنرل پرویز مشرف کے غیرقانونی اقدامات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اگر صدر پاکستان نے امریکی اشارے پر اپنے ہی عوام پر گولیاں نہ برسائی ہوتیں اور سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ، پنجہ آزمائی نہ کی ہوتی تو اُس خلفشار سے بچ سکتے، جس نے اُنھیں عوام الناس میں یکسر غیرمقبول بنا دیا۔

اس کتاب کا ایک خاص پہلو قانون دانوں اور طبقۂ وکلا سے متعلق ہے، جس میں انتہائی جان دار انداز میں وکلا کی تحریک کا جائزہ لیا گیا ہے اور اُن قانونی نکات کی وضاحت کی گئی ہے جو شہریوں کو، عدالتوں کو اور ججوں کو بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مصنف کا موقف ہے کہ اخلاقی گراوٹ کا سب سے بڑا مظاہرہ ججوں کو برطرف کرکے کیا گیا، اس کتاب کے کئی نکات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، تاہم مجموعی طور پر پاکستانی سیاست کے پیچ و خم سمجھنے میں اس سے غیرمعمولی مدد لی جاسکتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


مغربی فلسفۂ تعلیم ، ایک تنقیدی مطالعہ ، سیدمحمدسلیم۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، ۱ے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی ۷۴۶۰۰۔ فون: ۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

پروفیسر سید محمد سلیم (۱۹۲۳ئ-۲۰۰۰ئ) اپنی ذات میں ایک جہانِ علم ودانش تھے۔ ان کی حیات ہمہ پہلو کمالات کا مجموعہ تھی۔ ان کی زندگی تعلیم و تعلم کے میدان میں گزری۔ تعلیم پر انھوں نے بڑا وقیع تحریری سرمایہ چھوڑا ہے جس میں زیرتبصرہ کتاب ایک ایسی کتاب ہے جس کا اُردو میں کوئی ثانی نہیں۔ نو ابواب پر مشتمل اس کتاب میں مغربی فلسفۂ تعلیم کا عمیق مطالعہ اور اس کے اثرات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یورپ کا کلیسائی معاشرہ، مسلکِ لادینیت کا آغاز، لادینی نظریات کی فتوحات، لادینیت کا فکری نظام، لادینی نظریات میں تزلزل، لادینی تحریک تعلیم گاہ میں، مغربی نظام تعلیم کی اقدار مقاصدِتعلیم اور دورِ جدید اسلام کی برکت ہے۔ پاکستان کے بے ثمر تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ اڈیشن پروفیسر سید محمدسلیم اکیڈمی کے زیراہتمام شائع کیا گیا ہے۔ (ملک نواز احمد اعوان)


Granny Nam Tells Me Story، نصرت محمود۔ ناشر: ۱۹۱-جے، ڈی ایچ اے، ای ایم ای سیکٹر، ایسٹ کینال بنک، لاہور۔ صفحات، اول: ۴۰، دوم: ۴۳، سوم: ۳۵۔ قیمت: درج نہیں۔

کہانیاں معصوم ذہنوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ والدین، دادی اور نانی سے سنی ہوئی کہانیاں ذہن پر گہرا نقش چھوڑتی ہیں۔ اسکول کے ابتدائی برسوں میں بچہ سب سے زیادہ کہانیوں پر توجہ دیتا ہے۔ مسلم گھرانوں میں اس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ شہزادوں، شہزادیوں کی کہانیاں بھی اخلاقی پیغام رکھتی ہوں۔

محترمہ نصرت محمود نے آسان انگریزی میں ابتدائی جماعتوں کے بچوں کے لیے مختصر کہانیاں تحریر کی ہیں۔ ان کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم میں جن جانوروں کا ذکر آیا ہے، اُن کے حوالے سے کہانی تشکیل پاتی ہے۔ اخی اور سارہ نامی بچے ان سے ملتے ہیں۔ وہ جانور، اپنے الفاظ میں اپنی کہانی سناتے ہیں اور یہ کہانی کسی نبی ؑکی زندگی کے حالات سے جڑ جاتی ہے۔ مچھلی  اپنی کہانی سناتی ہے تواسی دوران میں حضرت یونس علیہ السلام کا تذکرہ تفصیلاً بیان کردیا جاتا ہے۔ مصنفہ نے کوشش کی ہے کہ قرآنی تفصیلات تک ہی محدود رہیں، مثلاً دائود علیہ السلام کے بارے میں عہدنامۂ قدیم و جدید میں جو تفصیلات ملتی ہیں، اُن کو کہانی میں شامل نہیں کیا گیا۔

تین حصوں پر مشتمل اس سیریز کے ذریعے ۳۰ جانوروں اور حشرات کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے گویا دادی اماں، چھوٹے بچوں کو کہانی سنا رہی ہوں۔ طباعت کا معیار عمدہ ہے اور حسبِ موقع جانوروں کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ بچوں کے لیے یہ انگریزی باتصویر کہانیاں ایک خوب صورت تحفہ ہیں۔ (م - ا - م)


سنہری کرنیں، عبدالمالک مجاہد، ناشر: دارالسلام، ۳۶- لوئرمال، لاہور- فون: ۷۲۴۰۰۲۴۔ صفحات (آرٹ پیپر): ۳۹۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے

مغرب نے ہماری تہذیب کے قلعے، ہمارے گھر پر نقب لگائی بالخصوص خواتین کو اسلام سے بدظن کرنا ہدف بنایا مگر عجب اتفاق ہے کہ آج مغرب میں قبولیت اسلام کا زیادہ رجحان خواتین میں پایا جاتا ہے، اور ہمارے ہاں بھی خواتین اسلام میں جذبۂ اسلام کا بھرپور مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ضرورت ہے کہ خواتین میں تعلیماتِ اسلام کو عام کرنے کے لیے عام فہم، دل چسپ اور ایمان افروز لٹریچر تیار کیا جائے۔ اشاعت کی دنیا میں دارالسلام آج ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ادارے کی ایسی ہی ایک کاوش ہے۔ مسلم خواتین کے بارے میں احادیث اور تاریخ و سیر میں آئے واقعات، نیز آج کل کے ایمان افروز واقعات کو، جن میں خواتین کی پرہیزگاری، ذہانت اور بہادری ظاہر ہوتی ہے، جمع کر کے دل کش پیرایے میں فراہم کیا گیاہے۔ کُل ۱۰۲ واقعات ہیں۔ مطالعہ کرنے والے کو کچھ عربی بھی آتی ہو تو وہ صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوگا۔ واقعات کی پیش کش میں موضوعاتی ترتیب ملحوظ رکھی جاتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔ طباعت کا اعلیٰ معیار، ہر صفحہ آرٹ پیپر، ہر صفحہ رنگین پھول دار حاشیوں سے مرصع، یہ کتاب ۴۰۰ روپے میں بھی سستی لگتی ہے۔ سنہرے اوراق کے بعد سنہری کرنیں، امید ہے کہ یہ سنہری سلسلہ جاری رہے گا۔ (مسلم سجاد)


تعارف کتب

  • ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، شخصیت اور فن۔ ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان، ایچ-۸، پطرس بخاری روڈ،  اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۴۔ قیمت مجلد: ۱۶۵ روپے، پیپربیک: ۱۵۵ روپے۔ [علمی و ادبی شخصیات کے تعارفی سلسلے کی ایک کتاب۔ نام ور محقق اور اسکالر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے سوانح، شخصیت کے اوصاف۔ اُردو، عربی، فارسی اور سندھی زبانوں سے متعلق ان کے وسیع الاطراف علمی کام کا تعارف۔ مصنف نے ایک وسیع موضوع کو عمدگی سے سمیٹا ہے۔]
  • انٹیلی جنس اور اسلام ، ملک عطا محمد۔ ناشر: ۸۵-رحمت پارک، یونی ورسٹی روڈ، سرگودھا۔ صفحات: ۱۲۴۔ قیمت: ۶۰روپے۔ [انٹیلی جنس کے موضوع پر اُردو زبان میں بہت کم مواد کتابی صورت میں دستیاب ہے۔ اگرچہ دنیا کی بعض اہم خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں بعض کتب کے اُردو تراجم دستیاب ہیں، مگر ان سب میں اسلام کے حوالے سے تذکرہ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے زیرنظر کتاب عمدہ کاوش ہے۔ انٹیلی جنس اور جاسوسی پر قریباً ایک سو عنوانات کے ذریعے عام فہم انداز میں قرآن و حدیث سے استدلال کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔ کتابیات سے کتاب کی وقعت میں اضافے کے ساتھ اس موضوع پر مزید تحقیق کے لیے رہنمائی بھی ملتی ہے۔]
  • جادو اور مذہب ،ترجمہ: ڈاکٹر محمد صدیق ہاشمی۔ناشر: مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۷۴۴، قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [زمانہ قبل از تاریخ کے مختلف ادوار سے مابعد کے ادوار تک جادو اور    مذہبی عقائد کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اقتدار کے حصول اور اسے قائم رکھنے کے لیے بادشاہ کیا کچھ کرتے رہے۔جادو ٹونے کے اثرات، جادوگروں اور مذہبی اجارہ داروں کی کارستانیاں اور مختلف اقوام کی عجیب و غریب رسوم و رواج کا تذکرہ ہے۔ مغرب کے انسان کے اعتقادات اور تہذیب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ افریقی ممالک کی رسوم کا ذکر ملتا ہے۔ انگریزی سے ترجمہ ہے لیکن مصنف اور کتاب کے اصل نام کا پتا نہیں چلتا۔]
  • والدین کی قدر کیجیے ، محمدحنیف عبدالمجید۔ ناشر: دارالہدیٰ ، دفترنمبر۸، پہلی منزل، شاہ زیب ٹیرس، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۵۱۹، قیمت: درج نہیں۔ [مادیت ہماری معاشرتی اقدار کو بتدریج متاثر کرر ہی ہے۔ بوڑھے والدین اب بوجھ سمجھے جانے لگے ہیں ۔اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں والدین کے حقوق پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ۱۰۰ سے زائد واقعات بھی درج ہیں جو والدین کی خدمت کرنے اور اخلاق و عمل کے لیے  محرک کا کام کرتے ہیں۔ آیات، احادیث اور دعائوں کے علاوہ اقوال اور ضرب الامثال کا عربی متن اور ترجمہ بھی درج ہے۔ اختصار سے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خواتین، ایک سماجی مطالعہ ، مولانا ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی، اسلامک بک فائونڈیشن، دہلی۔ صفحات: ۲۲۰۔ قیمت مجلد: ۱۲۰ روپے بھارتی۔

۱۲ ابواب پر مشتمل یہ تاریخی اور تجزیاتی کتاب دورِ حاضر کے حرارت پیدا کرنے والے موضوع پر ایک اہم اختلافی تحریر ہے۔ ڈاکٹر صدیقی صاحب نے مختلف تاریخی مآخذ کھنگال کر وہ واقعات یکجا کردیے ہیں جنھیں صحابیاتؓ اور اُمہات المومنینؓ کی معاشرے میں کسی بھی حیثیت سے موجودگی کا ذکر پایا جاتا ہے۔ کتاب کے مباحث کا خلاصہ خود مصنف کے الفاظ میں یوں ہے: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی خواتینِ عصر کی باہمی زیارتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ غیررشتہ دار محرموں کے علاوہ دوست، احباب اور غیرمحرم خواتین کے گھروں میں بھی ملاقات اور زیارت کے لیے جایا جاسکتا ہے۔ محرم رشتہ داروں کی ملاقات و زیارت پر کوئی تو قدغن ہی نہیں ہے سواے سلام و اجازت کی شرائط و آداب کے۔ لیکن غیرمحرموں کے ہاں بھی جانے آنے کی عام اجازت ہے۔ ان کے مردوں اور عورتوں کا مخلوط مجمع ہو تو کسی قسم کی قباحت نہیں ہے سواے پردے کے۔ پردہ اور حجاب کی بحث بہت طویل ہے اور کافی دقت طلب بھی۔ اس کا یہاں موقع نہیں۔ لیکن مختصر بات یہ کی جاسکتی ہے کہ حجاب سے مراد موجودہ برقعہ یا عورت اور مرد کے درمیان ایک ستر کی دیوار کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ساتر لباس ہو اور کئی افراد ہوں تو میل ملاپ اور ملاقات و زیارت میں کوئی چیز مانع نہیں ہے جیساکہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اور عہدنبویؐ میں طریقۂ ملاقات تھا یا آج کے مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ لیکن جو خواتین اور ان کے مرد غیروں سے میل ملاپ نہیں پسند کرتے، ان کے گھروں میں آنا جانا پسندیدہ نہیں ہے۔ اور اگر آنا جانا ہو بھی تو عورتوں سے الگ مجالس میں ہو، تاکہ کسی قسم کا غبار خاطر نہ پیدا ہو‘‘۔ (ص ۱۹۳-۱۹۴)

مزید اسی تسلسل میں آگے یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ ’’شادی شدہ خواتین کے گھروں میں اجنبیوں کی آمدورفت صرف، ان کے شوہروں کی موجودگی اور ان کی بخوشی اجازت کے حال میں ہی صحیح اور جائز ہے۔ ان کی عدم موجودگی میں جانے کی عام ممانعت ہے‘‘۔ پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زوجہ محترمہ کے بارے میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی غیرموجودگی میں وہ متعدد صحابہ کی خاطرمدارات کر رہی تھیں کہ حضرت ابوبکرؓ آئے اور انھیں یہ ناگوار ہوا تو حضور نبی کریمؐ نے یہ اصول نافذ فرمایا کہ شوہر کی غیرموجودگی میں کوئی شخص یا اشخاص کسی شادی شدہ عورت کے گھر میں  نہ جائیں، پھریہ کہا گیا ہے کہ ’’لیکن اسی کے ساتھ یہ جزئیہ بھی ہے کہ اگر کسی شوہر کو اپنی غیرحاضری میں اپنے دوستوں اور عزیزوں کے آنے جانے پر اعتراض نہیں ہے تو اس گھر میں جایا جاسکتا ہے جیساکہ رسول اکرمؐ کی سنت اور صحابہ کرامؓ کے طریق سے معلوم ہوتاہے‘‘۔ (ص ۱۹۴)

کتاب کے آخری پیراگراف میں مصنف نے اپنے تجزیے کا خلاصہ یوں خود بیان فرمایا ہے: ’’سیرت و حدیث اور تاریخی واقعات بلکہ قرآنی آیات سے بھی یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی حدود و  شرعی قیود کے ساتھ مردوزن کے ارتباط اور صنفی اختلاط کی پوری اجازت تھی اور نہ صرف اجازت تھی بلکہ وہ ایک سماجی روایت بھی تھی جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی متواتر سنت کا پشتہ حاصل تھا۔ مردوزن کے اختلاط و ارتباط کا اصل اصول اور صحیح ترین طریقہ یہی طریق نبویؐ اور اندازِ صحابہ کرامؓ تھا، نہ کہ بعدکے خودپسند اور دقت پرست علما و فقہا کا طریقہ اور نہ ہی جدت طراز اور اباحت پسند سماجی دانش وروں کا بے محابا اور بے سلیقہ فکروعمل۔ دنیاوی فلاح و مسرت اور اُخروی بہبود و نجات صرف سنت نبویؐ اور تعامل صحابہؓ میں ہے‘‘۔ (ص ۲۰۵)

تبصرے میں اتنے طویل اقتباسات سخت غیر ضروری ہوتے ہیں لیکن چونکہ مصنف محترم نے بعض ایسے نکات اٹھائے ہیں جن کا ان کے اپنے الفاظ میں قارئین کی نگاہ سے گزرنا ضروری تھا اس لیے یہ جسارت کی گئی ہے۔

دورِ حاضر میں حریت نسواں کی مغربی چیخ و پکار اور مسلم ممالک میں پائی جانے والی آواز بازگشت میں بالعموم قرآن و سنت اور تعامل صحابہ کو الزام دیتے ہوئے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ اب قرآن و حدیث کو بدلے بغیر ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس لیے امت مسلمہ کی فلاح اور نجات و ترقی اسی میں ہے کہ اسلامی مصادر کو نظرانداز کرتے ہوئے دورِحاضر کی ’روشن خیالی‘ یا   خیالی روشنی کو رہنما بنایا جائے اور مسلم معاشروں میں پائی جانے والی روایات کو خصوصاً نام نہاد مشرقی روایت ہی کو بطور مباح، جائز اور قابلِ قبول طرزِعمل کے اختیار کرنا اسلامی روح کے مطابق درست ہے۔ چنانچہ پاکستان اور ہندستان میں جو مشرقی لباس یا سماجی رسومات پائی جاتی ہیں انھیں norms یا قدر کا درجہ دے کر مشرقی ثقافت کے نام پر مخلوط مشاعروں کی محفلیں یا شامِ موسیقی کے ’روح پرور‘ مخلوط اجتماعات کے انعقاد کو تہذیب یافتہ ہونے اور معاشرے کے سرگرم فرد ہونے کی پہچان بنا لیا گیا ہے۔

حوالہ جات سے بھرپور یہ کتاب ایک قدم آگے بڑھ کر ایک عام قاری کو یہ تاثردیتی ہے کہ مخلوط محفلیں اور غیرمحرم افراد کا ’زیارات‘ اور ’اختلاط‘ نہ صرف دھلوی اور لکھنوی ثقافت کے معیار سے بلکہ سنت اور تعامل صحابہ کے عین مطابق اور مطلوب و مقصود طرزِعمل ہونے کی بنا پر دنیا و آخرت میں اجرعظیم کا باعث بھی ہے۔

بعض اوقات ارادے اور نیت کے بغیر تاریخی حقائق کا جزوی اظہار معصومیت کے ساتھ ایک قاری کو مختلف وادیوں میں بھٹکا دینے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ صدیقی صاحب جیسے ماہر تاریخ و اسلامیات سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ تاریخ کے ایک واقعے کو اُس کے سیاق و سباق اور دیگر متعلقہ نصوص سے علیحدہ کرکے جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں، وہ عموماً معروضی نہیں ہوتے۔

۱۹۹۰ء میں مصر کے ایک معروف عالم استاذ عبدالحلیم ابوشقہ (م: ۱۹۹۵ئ) کی کتاب تحریر المراۃ فی عصرالرسالہ: دراسۃ جامعۃ نصوص القرآن الکریم وصحیحین البخاری و مسلم۔ کویت کے دارالقلم للنشر ولتوزیع سے تین جلدوں میں طبع ہوئی۔ ۱۹۹۱ء میں اس کی چوتھی جلد طبع ہوئی (یہ چاروں جلدیں میرے کتب خانے میں موجود ہیں)۔   بعد میں دو جلدیں مزید طبع ہوئیں اور اگر یہ کہا جائے کہ مصنف مرحوم نے قرآن اور حدیث کے نصوص کو بڑی حد تک خواتین کے حوالے سے ایک مقام پر جمع کر کے طالبانِ علم پر ایک بڑا احسان کیا تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کتاب پر شیخ محمدالغزالی مرحوم اور ڈاکٹر شیخ یوسف القرضاوی نے پیش لفظ تحریر کیے۔ استاذ قرضاوی کا پیش لفظ ۱۹ صفحات پر مبنی خود ایک علمی تحریر ہے۔

ڈاکٹر صدیقی صاحب نے جن جن احادیث کا حوالہ اپنی کتاب میں دیا ہے، وہ سب اس عالمانہ کتاب میں اپنی مکمل شکل میں موجود ہیں۔لیکن صدیقی صاحب کے کتابیات کے حوالے میں کہیں بھی اس کتاب کا حوالہ نہیں آنے پایا، گو صدیقی صاحب سے زیادہ شیخ عبدالحلیم نے اسلام میں عورت کے حقوق اور معاشرے میں کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ دوسری جلد میں اجتماعی زندگی میں حضرت نوحؑ سے بنی اسرائیل تک تاریخی طور پر انبیاے کرام کا اسوہ اور پھر الفصل الرابع میں   نساء النبی کا قبل فرضیتِ حجاب اور بعد فرضیتِ حجاب مفصل بیان ہے۔ فصل الخامس میں عصرالرسالۃ میں صحابیات کے طرزِعمل کا تذکرہ ہے۔ بعد کی فصلوں میں عصری حوالے سے بشمول سیاسی سرگرمیوں کے بحث ہے۔

طوالت سے بچتے ہوئے اگر شیخ عبدالحلیم کے موقف کو بیان کیا جائے تو اعتدال کو برقرار رکھتے ہوئے وہ خواتین کو گھر کے باہر ضرورت، حاجت اور تحسین کے علی الرغم سرگرمِ عمل ہونے کا حق دینے کے حامی ہیں لیکن ان کی تحریر سے وہ تاثر نہیںبنتا جو آغاز میں دیے گئے ڈاکٹر صدیقی صاحب کے اقتباسات سے بنتا ہے۔ وہ واضح طور پر یہ بتاتے ہیں کہ دورِ رسالتؐ میں صحابیاتؓ کا معاشرے میں بہت سے کاموں میں حصہ لینا نہ غیرضروری ملاقات و میل جول کہا جاسکتا ہے اور نہ  مکمل طور پر دیوار کھینچ کر الگ کردینا۔لیکن قرآن و سنت کے واضح احکامات کے بعد جن میں ایک شادی شدہ خاتون کو شوہر کی موجودگی کے بغیر کسی غیرمحرم کے ساتھ چاہے وہ ایک ہو یا زائد ہوں، تنہائی اختیار کرنے کی ممانعت کے بعد یہ تاثر دینا کہ آج جس طرح مخلوط مجالس منعقد کی جاتی ہیں یہ مقتضاے سنت و قرآن ہیں۔ کتنی نیک نیتی اور معصومیت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، اگر انحراف اور پریشان فکری نہیں تو ایک انفرادی فکری تجدد ضرور ہے۔

اگر مروجہ پاکستانی لباس اور دوستوں کاغیرمحرم ہونے کے باوجود ایک منکوحہ کے شوہر کی رضامندی سے گھر میں آنا جانا اور ان دوستوں کی ضیافت کرنا ہی ’سنت‘ ہے تو پھر قرآن و سنت کو  محرم و غیرمحرم کی تقسیم کی ضرورت ہی کیا تھی۔ آثار و احادیث کو شارع علیہ السلام اور قرآن کریم کے مقصد و مدعا، مقاصد شریعہ اور ان کے سبب نزول سے الگ کر کے نتائج کی طرف رہنمائی کرنا اور بظاہر بہت احترام سے یہ کہنا،’’ مثلاً غزوئہ اُحد میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شرکت ،رفاہی خدمت اور مسلم مجاہدات کے مادرانہ جہاد کو یہ کہہ کر دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ حجاب کے احکام سے پہلے کا واقعہ ہے۔ لیکن ایسے مجاہد مفکرین و علما نے بعد کے غزوات میں خواتین اسلام کے مسلسل و متواتر شرکت کے واقعات میں حجاب سے قبل و بعد کا سوال نہیں اٹھایا کیونکہ احکامِ حجاب کے بعد تو ان کی شرکت کی کثرت ہوگئی تھی اور تواتر بھی بڑھ گیا تھا۔ غزواتِ خیبر، عمرۃ القضائ،     فتح مکہ، حنین، اوطاس اور طائف کے غزوات میں صحابیات کی تعداد زیادہ اور شمولیت متواتر نظر آتی ہے، بلکہ وہ غزوات کا ایک ضروری حصہ نظر آتا ہے‘‘۔ (ص ۱۹۶)

تاریخی واقعات کی تعبیر کا حق ہر صاحب ِ علم کو ہے لیکن آخری جملہ تاثر یہ دیتا ہے کہ اگر آج سنت مطہرہ کی پیروی کرنی ہے تو اسلامی فوج ظفر موج میں ایک بڑی تعداد مسلم ’مجاہدات‘ کی شامل کیے بغیر دین کی تکمیل نہیں ہوسکے گی۔کتاب کا اصل مسئلہ ایسے الفاظ کا انتخاب اور نتائج کا اخذ کرلینا ہے جو قرآن و سنت کے ظاہرمعنی و مقصد سے مطابقت نہیں رکھتے۔

مرد و زن کا ’میل ملاپ‘، ’زیارت‘، ’صنفی اختلاط‘ یا ’مرد و زن کے اختلاط و ارتباط‘ کی اصطلاحات معنی سے لبریز اصطلاحات ہیں اور ان کا معصومیت کے ساتھ صحابیاتؓ اور اُمہات المسلمینؓ  کے حوالے سے استعمال سیرت وتاریخ کے کسی بھی طالب علم کے لیے قلبی اذیت کا باعث اور   ادب و احترام کے منافی ہے۔

مفکر و فقیہ عصر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی خواتین کی عسکری تربیت کو تسلیم کیا ہے لیکن دلیل کے ساتھ کہ ہرمسلمان عورت اپنی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو، اسے   اسلحے کا استعمال آتا ہو، تیرنا ، سواری کرنا اور نہ صرف اپنا دفاع بلکہ جنگ میں مردوں کا ہاتھ بھی بٹاسکے۔ لیکن اسلامی حدود میں، یعنی بغیر اختلاط کے (ترجمان القرآن ، ج ۳۱، عدد ۳، جولائی ۱۹۴۸ئ، ص۲۶-۲۹)، جب کہ مذکورہ کتاب میں ہرہرصفحے پر زیارت، ارتباط و اختلاط پر اس انداز سے بات کی گئی ہے جیسے اسلام مخلوط مجلسوں کے بغیر نامکمل رہے گا۔ یہ تحریر نام نہاد ’روشن خیال‘     ٹی وی کے ایسے ’علما‘ کو جن کی اصل مصادر شریعہ تک پہنچ نہ ہو، وہ مواد فراہم کرسکتی ہے جو انھیں عرصے سے مطلوب تھا۔ سیاق و سباق کو اس کی اصل شکل میں پیش کیے بغیر منتخب تاریخی حوالے نقل کردینا بعض اوقات فتنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فکروعمل کی ہر لغزش سے محفوظ رکھے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


حضوؐر بحیثیت سپہ سالار، محمدفتح اللہ گلن۔ مترجم: پروفیسر خالد ندیم۔ ناشر: بیت الحکمت، لاہور۔ پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۶۰، قیمت: ۱۰۰ روپے۔

زیر تبصرہ کتاب ترکی کے معروف دانش ور اور مفکر محمد فتح اللہ گلن کی تصنیف Prophet Muhammad as Commander کا ترجمہ ہے۔ کتاب میں غزوات وسرایا کے حوالے سے آپؐ کی حکمت و تدابیر کا تذکرہ ہے اور پیغمبرانہ بصیرت کے ایسے ایسے گوشوں کی نقاب کشائی کی  گئی ہے، جنھیںپڑھتے ہوئے انسان پکار اُٹھتا ہے کہ محمدؐ یقینا اللہ کے رسول ہیں، کیوں کہ عام  انسانی ذہن کی رسائی ان حکیمانہ تدابیر تک ممکن نہیں تھی۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں کو جہاد اور اس کے اعلیٰ مقاصد سے متعارف کرایا، جس کے ذریعے فتنوں کی سرکوبی اور مظلوموں کی اعانت میں مدد ملی۔ انسانی تاریخ میں آپؐ ایک عظیم سپہ سالار کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔

مترجم نے اپنے قلم کو صرف ترجمے تک ہی محدود نہیں رکھا ہے بلکہ بقولِ خود: انگریزی متن سے اُردو ترجمے تک پہنچنے کے لیے قلب و روح کا راستہ اختیار کیا ہے۔ انگریزی تصنیف میں  آیات و احادیث کا صرف ترجمہ دیا گیا ہے۔ مترجم نے آیات کا عربی متن شامل کرکے کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ اُردو ترجمے کے لیے آیات واحادیث کے متن،کتب سیرت سے واقعات کی تصدیق اور حواشی کی ترتیبِ نو نے اس کتاب کو حوالے کی کتاب بنا دیا ہے۔ ترجمے کی زبان عام فہم ہونے کے باوجود ادبی چاشنی کی حامل ہے۔ آیاتِ قرآنی کا ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری کا ہے، جب کہ احادیث کا رواں ترجمہ مترجم نے خود کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآنِ پاک کے ترجمے کو بھی زیادہ رواں اور عصرِحاضر کی لسانی ضرورتوں اور تقاضوں سے      ہم آہنگ کیا جاتا۔ (پروفیسر محمد حسن کلیم)


Man And Destiny  [انسان اور تقدیر]، عبدالرشید صدیقی۔ ناشر: دی اسلامک فائونڈیشن، مارک فیلڈ کانفرنس سنٹر، مارک فیلڈ، برطانیہ۔ ملنے کا پتا: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور ۵۴۷۹۰۔ صفحات: ۲۵+ ۱۲۳۔ قیمت: درج نہیں۔

عبدالرشید صدیقی بمبئی سے معاشیات، سیاسیات اور قانون کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۶ء سے ۱۹۹۷ء تک انفارمیشن لائبریرین کی حیثیت سے برطانیہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ سورئہ فاتحہ اور سورئہ آل عمران پر تفسیری کام کے علاوہ اپنے خطباتِ جمعہ کو Lift up Your Hearts کے نام سے، اور اپنے شعری مجموعے کو نواے بے نوا کے نام سے مرتب کرکے شائع کرچکے ہیں، نیز Key to the Glorious Qur'an: Understanding the Basic Concepts زیرطبع ہے۔

اقبالیاتی تنقید کوپڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اس موضوع پر کام کرنے کے نئے مواقع ختم ہونے والے ہیں۔ پیش نظر کتاب میں بھی اگرچہ کسی نئے موضوع کو نہیںچھیڑا گیا، پھر بھی     یہ کتاب اپنا جواز مہیا کرتی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ عالمِ اسلام بالخصوص مغرب میں آباد     اہلِ اسلام اقبال کے افکار و نظریات سے کچھ زیادہ شناسا نہیں ہیں۔ نوجوانوں میں سے کچھ نے ان کا نام سنا ہوگا یا بچوں کے لیے ان کی چند ایک نظمیں پڑھی ہوں گی۔ مصنف نے ایسے ہی نوجوانوں کو اقبال کے تصوراتِ خودی و انسانِ کامل سے آگاہ کرنے کا عزم کیا ہے۔

ابتدا میں پروفیسر خورشید احمد کا پُرمغز دیباچہ شامل ہے جو نہایت عمدگی سے اقبال کی فکر اور کارنامے کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے اسلامی ریاست، فکرِاقبال کا ارتقا، خدا، انسان اور کائنات، زمان و مکاں، موت اور بقاے رُوح، فرد اور سماج، سیاسی افکار، تصورِخودی، انسانِ کامل وغیرہ پر اجمالی گفتگو کی ہے، لیکن یہ اجمال جامعیت کا حامل ہے، جس سے ان موضوعات پر مزید مطالعے کی تشویق ہوتی ہے۔ اقبال کے فکروفلسفے کے تمہیدی باب کے بعد دوسرے باب میں مردِکامل پر بحث کی گئی ہے۔ ضمنی مباحث میں خودی کی تعریف، خودی: ایک مابعد الطبیعیاتی تصور، انسانی زندگی میں خودی کا کردار [ساقی نامہ]، اُمت مسلمہ کے لیے خودی کی اہمیت [رموزِ بے خودی]، انسانی خودی، آزادی و بقاے فرد اور جاوید نامہ جیسے موضوعات پر تفصیلی بحث کی ہے، جب کہ اقبال کے تصورِ انسانِ کامل میں انسانِ کامل کی تلاش، اقبال کا مردِ مومن، اُمت مسلمہ کے لیے پیغام، ایمان و کفر میں امتیاز، شاہین کا استعارہ، اقبال کا مردِکامل اور نیٹشے کے سپرمَین پر جامع گفتگو کی ہے۔

ضمیموں میں اقبال کے تصورِ خودی اور نیٹشے کے تصورات پر بحث اور ’ساقی نامہ‘ کا ترجمہ شامل ہے۔ بعدازاں حیات نامۂ اقبال، بعض الفاظ واصطلاحات کے مترادفات، حوالے، حواشی اور اشاریہ شامل ہیں۔ ان سے کتاب کی معنویت میں اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ کتاب انگریزی دان یورپی مسلمانوں کے لیے اقبال کے تصورات و افکار کی تفہیم میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ زبان و بیان خوب صورت ہے، انگریزی روپ بھی دیا ہے۔ توقع ہے کہ بقول ناشر: خوب صورت اسلوب کی حامل یہ کتاب نوجوان مسلمانوں کو دین اسلام کی روح اور پیغام کو بہتر انداز میں سمجھنے کے قابل بنادے گی۔ (ڈاکٹر خالد ندیم)


یاد نامہ سید اسعد گیلانی، مرتبہ: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۹۸۔ قیمت:۲۰۰ روپے۔

زندگی اللہ تعالیٰ کا بڑا قیمتی عطیہ ہے، مگر اس عطیے کو اللہ کی خوشنودی کے لیے کھپا دینے والے خوش نصیب خال خال ہیں۔ اس عطیے کا احساس کرنے اور اس احساس کی دولت کو بانٹنے والے قابلِ قدر انسانوں میں ایک اہم نام جناب سید اسعد گیلانی کا بھی ہے۔

اسعد گیلانی ۲۰ ویں صدی کے وسط میں تحریک اسلامی کے ہم قدم بننے والے عظیم انسان تھے۔ ان کے جذب دروں کی حرارت کو اس کتاب کے مطالعے سے ۲۱ویں صدی کا قاری بخوبی محسوس کرسکتا ہے۔ ان مضامین کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری زندگی رائیگاں جارہی ہے۔ پھر یہ جذبہ حاوی ہونا شروع ہوتا ہے کہ مقصدیت اور ایمان سے بھرپور زندگی ہی اس احساس زیاں کا مداوا کرنے کا واحد ذریعہ ہے، اوروہ مقصد رضاے الٰہی کا حصول اور  شہادتِ حق کے منصب پر استقامت سے کھڑے ہونا ہے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے سید اسعد گیلانی کی داعیانہ، مربیانہ، دانش ورانہ، صحافیانہ اور ادیبانہ زندگی کو ایک خوب صورت تنوع کے ساتھ اس کتاب میں جمع کر کے رہروانِ شوق کے لیے فکروعمل کا قابلِ لحاظ سرمایہ جمع کر دیا ہے۔ اس زمانے میں، جب کہ فوٹواسٹیٹ اورتیز رفتار کمپوزنگ کی مدد سے غیرمعیاری کتابوں کا انبار بڑھتا اورمعیار گرتا جا رہا ہے، بہت کم کتابوں سے علمی ذوق کی تسکین ہوتی ہے۔ جناب اسعد گیلانی کی حیات و خدمات اور یادوں کے چراغ مختلف احباب کی تحریروں نے روشن کیے، لیکن مرتب نے انھیں مہارت اور سلیقے سے اس گلدستے میں پیش کیا ہے۔

کاش! مستقبل قریب میں جناب جسٹس (ر) ملک غلام علی کی زندگی پر بھی اسی طرح سلیقے سے مرتب شدہ کوئی کتاب نظرنواز ہو۔ (سلیم منصور خالد)


Issues - Non Issues ، سید فیاض الدین احمد۔ ناشر: انٹرمیڈیا کمیونی کیشنز، بی-۱۳۸، بلاک ڈی، نارتھ ناظم آباد، کراچی۔ صفحات: ۲۱۲۔قیمت: ۳۵۰ روپے/۶ امریکی ڈالر۔

سید فیاض الدین احمد،ترکِ وطن کرکے برطانیہ میں جا مقیم ہوئے۔ عالمی پیمانے پرعمومی اور پاکستان میں ہونے والے واقعات پر خصوصی طور پر اُنھوں نے جو کچھ محسوس کیا، اُسے ضبطِ تحریر میں لے آئے۔ زیرتبصرہ کتاب اُن مضامین، خطوط بنام ایڈیٹر اور مراسلوں کا مجموعہ ہے جو گذشتہ ۱۵برسوں میں اُنھوں نے تحریر کیے اور مختلف قومی و عالمی اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ اِن سب کی مشترکہ خوبی اِن کا اختصار ہے۔ ۶۰ سے زائد تبصروں،خطوط اور مضامین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں اسلام کا عالمی نقطۂ نظر، دوسرے حصے میں برطانیہ میں مسلمان، اور تیسرے حصے میں امورِ پاکستان کے حوالے سے مختصر تحریریں شاملِ اشاعت ہیں۔

مصنف اس کاوش سے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اہلِ پاکستان اگر اپنی ذمہ داریوں کو دُرست طریقے سے سنبھال لیں، اپنے داخلی نظام کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرلیں اور اقوامِ عالم  میں اصول پرست مملکت کی شناخت قائم کرلیں تو پاکستان نہ صرف داخلی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے، بلکہ  عالم گیر سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

کتاب کا دوسرا حصہ خاص طور پر دل چسپی کا حامل ہے کیونکہ اس میں برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کو درپیش مسائل، اُن کے خلاف کی جانے والی سازشیں اور ذرائع ابلاغ کی مہم اور اُن کے اندر موجود خامیوں کا دل چسپ لیکن جامع پیرایے میں ذکر کیا گیا ہے۔ (محمد ایوب منیر)


شاہ ولی اللہ کا قافلہ، ظہورالدین بٹ۔ ناشر: ادارہ ادب اطفال، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ،    اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

برعظیم پاک و ہند میں اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے قیام کے لیے ۲۰۰ سالہ طویل جدوجہد جہاں تاریخی اہمیت رکھتی ہے، وہاں احیاے اسلام کی جدوجہد کے لیے درخشاں باب اور بہت سے عملی سبق کی حامل ہے۔ زیرنظر کتاب میں مصنف نے شاہ ولیؒ اللہ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود حسن کی وفات (۱۹۲۰ئ) تک کی اقامتِ دین کی جدوجہد کو جامعیت اور اختصار کے ساتھ باہم مربوط کیا ہے۔اندازِ بیان سادہ، دل چسپ، معلومات سے بھرپور اور رواں دواں ہے۔

شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ئ-۱۷۶۳ئ) کی علمی، سیاسی جدوجہد، ان کے خلف الرشید شاہ عبدالعزیز کی کاوشوں، سیداحمدشہید، مولانا شاہ اسماعیل شہید کی تحریک جہاد، ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے محرکات اور ناکامی کے اسباب، تحریکِ ریشمی رومال اور شیخ الہند کی عظیم جدوجہد کا تذکرہ اس میں شامل ہے۔

زیرنظر کتاب نوجوان نسل میں دین سے وابستگی اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


تعارف کتب

  • The Holy Quran is Infallible ، [قرآن، خامیوں سے پاک کتاب]، سید شکیل احمد انور۔ ناشر: تلگو اسلامک پبلی کیشنز، ٹرسٹ سندیشیا بھوانم ، لکدکوٹ، چٹابازار، حیدرآباد-۵۰۰۰۰۲، آندھرا پردیش بھارت۔ صفحات: ۲۲۲۔ قیمت: ۱۵۰ بھارتی روپے۔ [عبداللہ عبدالفادی کی کتاب Is The Quran Infallible? میں قرآن کے کلام اللہ ہونے پر اٹھائے گئے اعتراضات کا یہ مدلّل جواب ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ عیسائیوں سے مکالمہ اور دعوت و تبلیغ کے لیے ایک مفید کتاب۔]
  • حجاب ، قرآن و حدیث کی روشنی میں ،مولانا کریم بخش۔ناشر: دارالکتاب، کتاب مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۵۰۹۴۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۸۰ روپے۔ [جدیدیت کے علَم بردار جہاں   اسلام پر اور بہت سے اعتراضات اٹھاتے ہیں، ان میں ایک موضوع عورت اور پردہ بھی ہے۔ زیرنظر کتاب   پردہ پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا مدلّل جواب، پردے کی حکمت و احکامات اور اہم فقہی مباحث کا جامع تذکرہ ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کو بنیاد بنایا گیا ہے، نیز مستند مفسرین کی تفاسیر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔]

حمدباری تعالیٰ (مجموعۂ حمد)، ابوالامتیاز ، ع س، مسلم۔ ناشر: مقبول اکیڈیمی ،لاہور۔ صفحات: ۲۷۹۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

اُردو شعرا نے عام طور پر حصولِ برکت کے طور پر حمد باری تعالیٰ کو اپنے مجموعوں اور کلیات کی زینت بنایا ہے۔ اسی طرح نثر کی بعض کتابوں میں بھی اسے ذریعۂ خیروبرکت سمجھتے ہوئے شامل کیا گیا ہے۔ مجموعی نظر ڈالی جائے تو اُردو شاعری میں حمدیہ مجموعے انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔     یہ مجموعہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بہت عمدہ کوشش کی ہے جو اُردو شاعری میں کئی لحاظ سے    اہم قرار دی جاسکتی ہے۔ جناب مسلم کو ہندی، فارسی اور عربی زبانوں پر جو دسترس حاصل ہے اور جس خوب صورتی سے وہ مذکورہ زبانوں کے الفاظ کو نگینوں کی طرح جڑتے ہیں ان پر آتش کا یہ شعر صادق آتا ہے    ؎

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

حمد لکھنا بھی نعت کی طرح آسان نہیں،نعت نگار کو دو دھاری تلوار پر چلنا پڑتا ہے۔  جناب مسلم نے صراط مستقیم پر چلتے ہوئے قرآن و حدیث کو سامنے رکھا ہے اور اسی کی بدولت ان کا قلم کہیں ڈگمگانے نہیں پایا۔

اس حمدیہ مجموعے میں ڈاکٹر ریاض مجید کا مقالہ شامل ہے، اس سے نہ صرف اس صنفِ شاعری کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم ہوتی ہیں بلکہ اس سے ع س مسلم کی اس صنف سے دل چسپی اور خاص طور پر علم عروض پر ان کی گرفت کی پختگی بھی سامنے آتی ہے۔ انھوں نے اس مجموعے میں بعض نئی تراکیب وضع بھی کی ہیں۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف حمد کہنے کی تحریک دلائی ہے جو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے، بلکہ اس کا ایک عمدہ نمونہ بھی ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


دروسِ سیرت، ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی۔ مترجم:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ صفحات: ۷۱۲۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔ ڈسٹری بیوٹرز: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فضلی بک، سپرمارکیٹ،اُردو بازار، کراچی۔

زیرتبصرہ کتاب السیرۃ النبویۃ کا اُردوترجمہ ہے، جس میں حضور اکرمؐ کی نبوی حیثیت کو نمایاں کرتے ہوئے مغربی فکری گمراہیوںکی تردید کی گئی ہے۔ ڈاکٹر محمدسعید رمضان البوطی شام کے مشہور عالم دین ہیں اور عصری مسائل کو دینی  نقطۂ نظر سے جدید عام فہم اسلوبِ بیان میں پیش کرنے کی خداداد صلاحیت کے مالک ہیں۔

کتاب میں حیات النبی کے درخشاں واقعات کو اگرچہ روایتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔  مصنف کا زیادہ زور مستشرقین اوران کے ہم فکر مشرقی اہلِ علم کی ان گمراہ کن آرا کی تردید پر ہے، کہ جن سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضور اکرمؐ صرف ایک مصلح انسان تھے۔ مصنف نے کتاب کے تمہیدی مباحث میں تاریخ نویسی کے اسلامی اسلوب کو واضح کرتے ہوئے تاریخ نگاری کے جدید نقطۂ نظر پر فاضلانہ بحث کی ہے اور مغربی فکر کے جدید اسلوب تجزیہ و تحلیل کی تردید کی ہے، جس میں حیات النبیؐ کے واقعات کو اس لیے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ ان کی عقلی توجیہہ نہیں ہوتی اور یہ واقعات جدید سائنسی اصولوں پرپورے نہیں اُترتے (ص ۴۸)۔ اس طرزِ فکر کی مثال دیتے ہوئے مصنف نے محمدحسین ہیکل کا یہ دعویٰ پیش ہے: ’’میں اپنی اس کتاب میں سیرت اور حدیث کی کتابوں کا پابند نہیں ہوں، بلکہ میں نے بہتر سمجھا کہ اسے علمی انداز میں پیش کروں‘‘۔ (ص ۴۹)

کتاب میں اس نقطۂ نظر کی تردید کی گئی ہے۔اعتراضات کے جواب میں مصنف کا استدلالی اسلوبِ بیان، عالمانہ اور عام فہم ہے۔ عبارت سادہ اور لفظی و معنوی الجھائو سے پاک ہے۔ اُردو زبان میں اس انداز کی سیرت نگاری کا رواج ابھی عام نہیں ہوا۔ مترجم نے عربی سے اُردو ترجمہ مہارت سے کیا ہے۔ (ظفرحجازی)


نبی کریمؐ کے لیل و نہار، امام حسین بن مسعود بغوی۔ترجمہ و تشریح: حافظ زبیر علی زئی۔ ناشر : حدیبیہ پبلی کیشنز، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات : ۵۶۰۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگہی کے لیے ایک منفرد کاوش ہے۔ بنیادی طور پر یہ امام بغویؒ کی عربی تالیف الانوار فی شمائل نبی المختار کا ترجمہ ہے۔ مؤلف نے سیرت کے روایتی اسلوب سے ہٹتے ہوئے سیرت و سوانح کے واقعات کو ایک ترتیب سے بیان کرنے کے بجاے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سیرت اور آداب و شمائل کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے، اور روز مرہ زندگی میں اسوئہ حسنہ سے عملی راہ نمائی دی ہے۔

ایک ہزار سے زائد احادیث کے اس مطالعے کو مختلف ابواب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ نبی کریمؐ کے معجزات اور منفرد اوصاف و شمائل، آپؐ کا سراپا، رہن سہن، لباس، کھانا پینا اور اخلاقِ عالیہ اور طہارت و نظافت کا دل آویز تذکرہ ہے۔ اسلامی معاشرت اور ازدواجی زندگی کے پہلو کو بھی جامع انداز میں سمویا گیا ہے۔ ’ادعیۂ ماثورہ‘ کے تحت نبی کریمؐ کی دعائوں کا عمدہ انتخاب ہے جسے روزمرہ معمول بنانا حبِ رسولؐ کے ساتھ ساتھ خیروبرکت کا باعث بھی ہوگا۔ نبی کریمؐ کے  مرض الموت اور رفیقِ اعلیٰ کو لبیک کہنا، زندگی کے آخری لمحات اور تدفین کے مناظر اشک بار کردیتے ہیں۔ آخری باب احیاے سنت، اتباع رسولؐ اور محبت مصطفی کے لیے راہ نمائی اور اسوہ پر مبنی ہے اور دعوتِ عمل دیتا ہے۔

نبی کریمؐ کی سیرت کا نمایاں ترین پہلو دعوت اور احیاے اسلام کی جدوجہد ہے، جسے ایک باب کے تحت بیان کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ اس پہلو سے تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ تخریج کے ذریعے احادیث کی صحت و ضعف، حوالوں اور اعراب کے خصوصی اہتمام سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ ترجمے کااسلوب دل نشیں اور عام فہم ہے۔ اپنے موضوع پر ایک مفید علمی اضافہ ہے۔ (امجد عباسی)


سیرتِ اصحابِ عشرہ مبشرہؓ، عبدالرشید عراقی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، ۳۴-اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۸۲۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

مشاہیرِاسلام یا اکابرِاُمت (بالخصوص محدثین اور علما و فقہا) کی سوانح نگاری فاضل مصنف کا خاص موضوع ہے۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے اُن ۱۰ نفوسِ قُدسی کے سوانح حیات کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے جن کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر جنت کی بشارت دی تھی، یعنی حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح، حضرت زبیر بن العوام، حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت سعید بن زید اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔

دراصل قرآن حکیم میں عمومی طور پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سبھی صحابۂ کرامؓ کو جنت کا حق دار ٹھیرایا ہے (التوبہ ۹:۱۰۰، الانفال ۸:۷۴-۷۵) لیکن ان صحابہ میں ایک ایسی جماعت بھی تھی جو اپنی مہتم بالشان دینی خدمات، اپنے غیرمعمولی فضائل و مناقب اور بارگاہِ رسالت میں تقرب کی بنا پر خصوصی اہمیت اور مرتبے کی حامل تھی۔ اصحابِ عشرہ مبشرہ اسی مقدس جماعت کے معزز ارکان تھے۔ فاضل مؤلف نے ان بزرگوں کے سوانح حیات مستند حوالوں کے ساتھ بڑی تفصیل سے قلم بند کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے جو عرق ریزی اور تحقیق کی ہے، وہ لائقِ تحسین و ستایش ہے۔ ان کا اسلوبِ نگارش محققانہ ہونے کے ساتھ بہت سادہ، دل کش اور عام فہم ہے۔ اس سے پہلے اس موضوع پر دو تین اور کتابیں بھی ہماری نظر سے گزر چکی ہیں۔ یہ کتاب ان میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ کتاب میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں کھٹکتی ہیں (طالب ہاشمی)۔ [۱۶فروری ۲۰۰۸ء کو رحلت فرما گئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین]


Islam and The Secular Mind ، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمہ و تدوین: طارق جان۔ اہتمام: ورلڈ آف اسلام ٹرسٹ،اسلام آباد۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۷، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-فون: ۶۳۴۹۸۴۰۔ صفحات: ۲۴۰۔مجلد مع اشاریہ، قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مغربی تہذیب کا طاقت ور مظہر سیکولرزم، ایک کثیرجہتی یلغار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہی سیکولرزم جسے ڈاکٹر انیس احمد اپنے فاضلانہ تعارفی مضمون میں: ’ایک جعلی (pseudo) مذہب‘ (ص ۱-۲۰) قرار دیتے ہیں۔ اس لامذہبی کے مذہب نے خصوصاً اسلام کے خلاف انتہادرجے کا متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے، جس میں یہودیت، نصرانیت اور ہندومت ایک دوسرے کے اتحادی نظر آتے ہیں۔

عہدحاضر میں نام نہاد ’تہذیبی تصادم‘ (جو درحقیقت یک طرفہ مغربی، عسکری، معاشی، مذہبی، سماجی اور فکری یلغار ہے) کے احوال کو موجودہ عہد کے عظیم اسلامی مفکر سیدابوالاعلیٰ مودودی، ہر پہلو سے زیربحث لائے ہیں۔ انھوں نے دلیل، دانش، انصاف اورمنطق سے اس مسئلے کی اخلاقی و انسانی بنیادوں کو واضح کیا ہے۔ اگرچہ مولانا مودودی،مغربی تہذیب کے خودغرضانہ، لادینی اور اباحیت پسندانہ پہلوئوں کو موضوع بحث بناتے ہیں، لیکن وہ مغربی تہذیب کی ان ترقیات و مقدمات  کا بھی کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں، جنھوں نے انسانی فلاح کے لیے کئی حیرت انگیز کارنامے انجام دیے ہیں۔ تاہم وہ برملا یہ بات واضح کرتے ہیں، کہ جب انسان آخرت کی جواب دہی کے احساس سے عاری ہوجاتا ہے تو پھر اس کے بہت سے تعمیری ارادوں پر بھی حیوانی جبلت غلبہ حاصل کرلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب مغرب کے نزدیک برتری کی معراج کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے والا ہی فاتح عالم ہے۔ گذشتہ دو صدیوں کے دوران میں مغرب پر اسی حیوانی جبلت کا پھریرا لہرا رہا ہے۔

کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر خورشیداحمد نے بتایا ہے: ’’ان مضامین میں مولانا مودودی نے مغرب کے اس تصور کا تجزیہ کیا ہے، جس کے تحت وہ معاشرے میں مذہب اور الہامی رہنمائی کو چیلنج کرتا ہے‘‘ (ص xi )۔ مولانا مودودی نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’[مغربی تہذیب نے] نظام زندگی کے ہرشعبے سے مذہب کو عملاً بے دخل کردیا، اور اس کا دائرہ صرف شخصی عقیدہ و عمل تک محدود کرکے رکھ دیا۔ یہ بات تہذیب مغرب کے اصولوں میں داخل ہوگئی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم فن، غرض اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ

اس تہذیب کے رگ رگ میں خدا بیزاری اور لامذہبیت (سیکولرزم) کی ذہنیت پیوست ہوگئی ہے (اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۴۳۷-۴۳۸)۔ مغربی تہذیب کے تجزیاتی مطالعے کے لیے مولانا مودودی نے ردعمل کا شکار ہونے کے بجاے توانا لہجے،     مضبوط قلم، روشن ذہن اور کھلے ضمیر سے انسانوں کے دلوں پر دستک دی۔ معروف ترقی پسند دانش ور فیض احمدفیض نے درست کہا تھا: ’’تہذیب مغرب پر تنقید کے حوالے سے دیگر علما کے مقابلے میں سیدمودودی کا نقطۂ نظر زیادہ معتدل ہے۔ وہ اکثر و بیش تر استدلال عقلی توجیہہ سے کرتے ہیں،  محض روایتی طریقے سے نہیں۔ انھوں نے تہذیب مغرب پر جذباتی انداز سے نہیں بلکہ غیرجذباتی اوراستدلالی انداز سے تنقید کی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس تہذیب کا ایک مرکزی ستون سیکولرزم ہے۔

فاضل مرتب و مترجم طارق جان نے مولانا مودودی کی دو معرکہ آرا کتب تنقیحات اور تفہیمات سے آٹھ مضامین کو منتخب کیا ہے۔ یہ انتخاب قابلِ داد ہے اور تدوین و ترجمے کا معیار اور اسلوب قابلِ رشک ہے۔ مرتب نے نہ صرف مولانا مودودی کی ان سدابہار تحریروں کا شُستہ   اور رواں انگریزی ترجمہ کیا ہے، بلکہ مولانا مودودی کے استدلال اور مقدمے کی تائید کے لیے،     اپنے حواشی میں ڈھائی سوسالہ انگریزی لٹریچر کو کھنگال کر مغربی دانش ور اور فلسفیوں کی تحریروں سے   قیمتی حوالے پیش کیے ہیں۔ یہ تائید مزید مولانامودودی کی تنقید مغرب کی مؤثر معاونت کرتی ہے۔ مولانامودودی کے رفقا میں سے پروفیسر عبدالحمید صدیقی، خرم مراد اور پروفیسر خورشیداحمد نے تہذیب مغرب کے مطالعہ و تحقیق کی جس روایت میں کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں، آج طارق جان نے اسی سلسلۃ الذہب کے ایک قابلِ ذکر دانش ور کی حیثیت سے یہ قیمتی خدمت انجام دی ہے۔

اسلام اینڈ دی سیکولر مائنڈ علمی، فکری، سماجی، تاریخی اور فلسفیانہ حوالے سے خاصے کی چیز ہے جس میں مولانا مودودی نے: ’’ذہنی غلامی، الٰہی اور لادینی قانون،اسلام پہ ’نظرثانی‘، عقل پرستی کے زعم، ڈاوینی ارتقا، مغربی تہذیب کو درپیش چیلنج وغیرہ کوموضوع بحث بنایا ہے۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے فی الواقع اسے شایانِ شان طریقے سے شائع کیا ہے۔ عالمی سطح پر تو اس کتاب کی پذیرائی ہوگی ہی، لیکن خود پاکستان کے سیکولر دانش وروں تک اس کتاب کا پہنچایا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ (سلیم منصور خالد)

مسلمان اور سائنس، سراج الدین ندوی۔ ناشر: ملت اکیڈیمی، ۲۳۳-سی، ابوالفضل انکلیو، ۱۱-شاہین باغ، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ صفحات: ۴۲۴۔ قیمت: ۱۴۰ بھارتی روپے۔

زیرنظر کتاب میں ۲۶۵ سائنس دانوں کے کوائف، خاندانی پس منظر ،ان کے کارنامے  کسی قدر ان کے اور اس دور کی عمومی کیفیات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں موجودہ دور کے مسلمان   سائنس دانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

مصنف نے مسلمان سائنس دانوں کی تصانیف کے بارے میں بہت اہم معلومات فراہم کی ہیں، یعنی یہ کہ وہ اب کہاں ہیں، یا کہاں طبع ہوئی ہیں جیسے حجاج بن مطر کی اقلیدس کو کوپن ہیگن میں،یا طبی انسائی کلوپیڈیا فردوس الحکمت، عربی کے علاوہ سریانی میں لکھی گئی اور اب اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔

زیرنظر کتاب سے پتا چلتا ہے کہ ڈٹمار نے ۱۸۸۴ء میں ایک اہم تحقیق کے بعد سمندری پانی میں حل شدہ نمکیات کی تفصیل فراہم کی مگر ثابت بن قرۃ دانی نے سمندری پانی کے نمکین ہونے کے اسباب کا تذکرہ بہت پہلے کیا تھا۔ اسی طرح زلزلے کے اسباب، زمین کے قطر کا درست تعین، سیلاب روکنے کے آلات وغیرہ ایسی تمام تفصیلات کتاب کے آخری باب ’اہم ایجادات و انکشافات ایک نظر میں‘ میں فراہم کردیے گئے ہیں۔

یہ بات کلی طور پر درست نہیں ہے کہ ’ترقی یافتہ اقوام کے اہلِ علم، اسپین کی اسلامی جامعات میں تعلیم حاصل کر کے مسلمانوں کے ورثے کواپنے ساتھ لے گئے اور سائنس کی اوجِ ثریا تک پہنچے۔ انھوں نے مسلمانوں کی ایجادات و انکشافات کو اپنی جانب منسوب کر کے مسلمان سائنس دانوں کی کاوشوں کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیا۔ جارج سارٹن کی تصانیف، یا ۱۵ جلدوں میں شائع ہونے والی اے ڈکشنری آف سائنٹفک بابو گرافیز میں مسلمان سائنس دانوں کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ جابر بن حیان کو باباے کیمیا، ابن الہیثم کو باباے بصریات کا خطاب اہلِ مغرب ہی نے دیا تھا۔

سراج الدین ندوی نے نہایت محنت سے ایجادات کی تصاویر اور خود سائنس دانوں کی تصاویر حاصل کر کے شائع کی ہیں جو آیندہ کام کرنے والوں کے لیے ابتدائی مآخذ کا کام انجام دیں گی۔ پوری کتاب میں بہت سے دل چسپ اور عبرت ناک واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں جو کتاب کی افادیت میں اضافے کا سبب بنے۔ (ڈاکٹر وقار احمد زبیری)


ماہنامہ سیارہ، لاہور، سالنامہ ۲۰۰۷ئ، مدیر: حفیظ الرحمن احسن۔ ناشر: ایوانِ ادب، چوک اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۴۲۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

محترم نعیم صدیقی کا جاری کردہ سیارہ گاہے بگاہے بعض ادبی رسالوں کی ضخیم اشاعتوں کی یاد دلاتا ہوا شائع ہوتا رہتا ہے۔ اسے پاکستان میں ادب اسلامی سے وابستہ اہلِ قلم کا نمایندہ رسالہ کہا جاسکتا ہے۔ اس اشاعت خاص میں حمدیہ اور نعتیہ کلام، مضامین، نظموں اور افسانوں کے ساتھ ایک خصوصی گوشہ بیاد اقبال ہے، اور دوسرا گوشۂ خاص بھارت کے مشہور دانش ور اور         ادبی نقّاد ڈاکٹر عبدالمغنی کی یاد میں مرتب کیا گیا ہے۔ ۳۶ کتب پر تبصرہ لکھا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ رسالہ عام ادیبوں اور طلبہ اور طالبات کے مطالعے میں آئے، چند مخصوص لوگوں تک محدود نہ رہے۔(مسلم سجاد)


تعارف کتب

  • السلام اے سبز گنبد کے مکیںؐ، ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی۔ملنے کا پتا: نشیمن مارکیٹ، میڈیکل روڈ، علی گڑھ ۲۰۲۰۰۲، بھارت۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: ۱۰ بھارتی روپے۔[اُردو زبان میں منظوم سلام لکھنے کی مستحکم روایت ہے۔ احمدرضا خان بریلوی، اکبر وارثی میرٹھی، ماہرالقادری اور حفیظ جالندھری کے سلام معروف ہیں۔ زیرنظر منظوم سلام بے احتیاطی اور فکری بے اعتدالی سے پاک ایک پُراثر عقیدت نامہ بھی ہے اور پیامِ بیداری بھی۔ متواتر کئی برسوں سے زائرین حرم نبویؐ کے توسط سے روضۂ رسولؐ پر پیش کیا جا رہا ہے۔]
  • سیکولرزم اور اسلام، پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی۔ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی، کراچی۔ تقسیم کنندہ:     مکتبہ معارف اسلامی ، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا ، کراچی-۷۵۹۵۰۔صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۲۰ روپے۔ [مصنف نے بڑی جامعیت سے سیکولرزم اور اسلام کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ اللہ جل شانہٗ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے مسلمان کے لیے یہ نظریہ سمِ قاتل ہے۔ ڈاکٹر علوی نے سیکولرزم کی تعریف وتشریح اور اس کی بنیادوں کی وضاحت کے بعد بتایا ہے کہ کس طرح وہ ماورائی ماخذ (metaphysical source) سے نجات، فطرت سے تصادم، سیاست کی عدمِ تقدیس اوراقدار کے   عدمِ استقلال پر اپنی فکری عمارت تعمیر کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہیں۔]
  • ماہنامہ ذوق و شوق ، کراچی، مدیر: محمدعارف قریشی۔ پتا: پوسٹ بکس نمبر ۱۷۹۸۴۔ گلشن اقبال، کراچی۔ ۷۵۳۰۰۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۱۸ روپے، سالانہ ۳۲۰ روپے ۔[بچوں کے لیے تعمیری اور صحت مند رسائل میں ایک خوب صورت اضافہ۔ مولانا رفیع عثمانی کی سرپرستی مشمولات کے معیاری اور اصلاحی ہونے کی ضمانت ہے۔ متنوع تحریریں علم کا ذوق اور عمل کا شوق بڑھانے والی ہیں۔ خوش ذوقی ہر صفحے سے عیاں ہے۔]

اسلامی ریاست اور مسلم طرزِ حکومت، محمد اسد، مترجم: محمد شبیرقمر۔ ناشر: بیت الحکمت، لاہور۔ ملنے کا پتا: ۱-کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ ،اُردو بازار، لاہور۔ ۲-فضلی بک ، سپرمارکیٹ، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۱۸۳۔ قیمت: ۱۱۰ روپے۔

قیامِ پاکستان کے بعد اہم ترین مسئلہ یہ تھا کہ اس ملک میں آئین و قانون کیا ہونا چاہیے۔ معروف نومسلم محمداسد اُس زمانے میں یہاں موجود تھے، اُنھوں نے متعدد مضامین کے ذریعے واضح کیا کہ اسلامی مملکت میں شورائیت کا کیا مقام ہے، عوام کو کیا حقوق حاصل ہیں اور عوام و حکومت  مل کر اسلامی فلاحی مملکت کس طرح تشکیل دے سکتے ہیں۔ ان مضامین کو کتابی شکل دی گئی جو   The Principles of State and Government in Islam کے نام سے شائع ہوئی۔ متعدد زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوئے۔ اُردو ترجمہ محمدشبیرقمر نے کیا ہے۔

محمد اسد کے نزدیک اسلام میں دین اور نظامِ سیاست متصادم نہیں ہیں، نیز یہ کہ معاشی آزادی، کمیونزم، نیشنل سوشلزم اور عمرانی جمہوریت جیسے مغربی طرزِ فکر، اُس منزل تک نہیں پہنچ سکے ہیں کہ جسے ’نظام‘ کہتے ہیں (ص ۲۹)۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم تیزی سے تغیر آشنا اس دنیا کے مکین ہیں اور ہمارا معاشرہ بھی اس سنگ دل قانون کی زد میں ہے (ص ۳۰)۔ کہتے ہیں کہ معیشت، آرٹ، سماجی بہبود جیسے مسائل پر قانونی بیان دینے کے بجاے اس کے عملی اطلاقات کو زیربحث لانا چاہیے تاکہ قرآن و سنت، اِجماع و قیاس پر مبنی نظامِ حکومت عملی زندگی میں بھی کارگر نظر آئے۔

عوامی راے پر مبنی طرزِ حکمرانی اور مجلس شوریٰ میں وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ معقول افراد پر مشتمل ایک مجلس جب کسی مسئلے کو زیربحث لاتی ہے تو ان کی اکثریت جس فیصلے پر پہنچے گی وہ غالباً درست ہوگا (ص ۸۷)۔ مابعد حصے میں ’حاکمہ اور مقننہ‘ کے مابین ربط و ضبط اور ان کے فرائض اور حقوق کی حدود بیان کی گئی ہیں۔ آخری باب ’حاصلاتِ فکر‘ میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’اگر اسلام کے حقیقی خدوخال کو دیکھنے کی تمنا ہے تو پوری ملتِ اسلامیہ کو اپنی زندگیاں اسلام کے معاشرتی اور معاشی اصولوں سے ہم آہنگ کرلینی چاہیے۔ اس ضمن میں حکومتِ پاکستان کو ’محکمہ احیاے ملت اسلامیہ‘ کے قیام کے ذریعے کوشش کرناچاہیے کہ ہمارے کالج اور اسکول اس نئی زندگی کا پورا پورا نمونہ بن سکیں جو اَب ملت کے سامنے ہے۔

محمد شبیر قمر نے انگریزی زبان سے اس کتاب کو اُردو میں منتقل کیا ہے، تاہم کئی مقامات پر بعض اصطلاحات پیچیدہ محسوس ہوتی ہیں۔ اگر عام فہم زبان استعمال کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے متمنی اور سرگرم داعیانِ دین کے لیے اور خصوصاً علمِ سیاسیات کے طلبہ کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)


کرۂ ارض کے آخری ایام، محمد ابومتوکل،مترجم: رضی الدین سید۔ ناشر: دارالاشاعت،    ایم اے جناح روڈ، اُردوبازار، کراچی۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ جہان فانی ہے اور ایک دن اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے، مگر انجام کیا ہے اور اس سے پہلے کرئہ ارض پر کیا حالات و واقعات رونما ہوں گے؟ اس بارے میں حدیث جبریل ؑ میں تفصیلات موجود ہیں۔ مصنف نے یہی تفصیل اس کتاب میں بیان کی ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینیر ہیں اور انگریزی زبان کے ممتاز اسلامی اسکالر ہیں۔ دراصل یہ ان کی انگریزی کتاب Milestone to Eternity کا جزوی ترجمہ ہے۔

کتاب میں عالمی سرکش اور باغی قوتوں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں اور ہتھکنڈوں کا ذکر کرتے ہوئے قیامت کی بہت سی نشانیوں پر بحث کی ہے، مثلاً زمین سے ٹڈیوں کا خاتمہ،  قتل و خون ریزی کا حد سے بڑھنا، خودکشی کے رجحانات، امانت و دیانت کا خاتمہ، زنا کی کثرت، شراب نوشی، زلزلے، وقت کا مختصر ہونا، جھوٹے انبیا، دخان، دجال، امام مہدی کا دور، ملحۃ الکبریٰ، دابۃ الارض، زمین کے تین دھنسائو، صلیبی جنگیں، سورج کا مغرب سے طلوع وغیرہ شامل ہیں۔ کتاب میں پندونصائح بھی ہیں اور اپنی حالت سدھارنے کا عزم و ہمت اور حوصلہ پیدا کرنے کا سامان بھی۔ (عمران ظہورغازی)


The Reluctant Fundamentalist [مخمصے کا شکار بنیاد پرست]، محسن حامد۔ ناشر: اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس‘ نمبر ۳۸‘ سیکٹر۱۵‘ کورنگی انڈسٹریل ایریا‘ پی او بکس ۸۲۱۴‘ کراچی۔ صفحات: ۱۱۱۔ قیمت: ۱۹۵ روپے۔

ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے نام پر اپنے مذموم مقاصد کے پیش نظر جس جنگ کا آغاز کیا‘ اس کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ مذہب پسند طبقے نے اس کی مخالفت کی۔ زیرنظر ناول میں‘ ناول نگار اس معاشرتی تاثر کو سامنے لایا ہے کہ وہ طبقہ جسے مغرب پرست اور آزاد خیال کہا جاتا ہے، وہ بھی امریکا مخالفت میں اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ محسن حامد ایک پاکستانی ہیں جنھوں نے پرنسٹن یونی ورسٹی اور ہارورڈ لا اسکول سے تعلیم حاصل کی اور نیویارک ہی میں ملازمت اختیار کی۔

اس ناول میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی پیش کی گئی ہے جو دہشت گردی کے نام پر جنگ میں امریکی رویے سے دل برداشتہ ہوکر امریکا سے پاکستان لوٹ آتا ہے‘ اور یہاں ایک امریکی کو اپنی کہانی سنا کر پیغام دینے کی کوشش کرتا ہے۔

افغانستان پر امریکا کی شدید بم باری سے اسے پہلی بار اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھ درد اور بے چارگی کا احساس ہوتا ہے ۔ایک تجارتی سفر کے موقع پر اسے احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ امریکا کا زرخرید غلام ہے، جسے امریکا اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے‘ افغانستان میں اس کے مسلم بھائیوں کا خون کر رہا ہے‘ اور خود اس کا ملک حالتِ جنگ میں ہے۔ شدتِ احساس سے وہ اسی وقت اپنی ملازمت ختم کرنے اور پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگرچہ ایک لمحے کے لیے وہ اپنے مستقبل اور کیریر کے بارے میں بھی سوچتا ہے، مگر پھر اس خیال کو جھٹک دیتا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار کا نام چنگیز ہے، جو وطن واپسی پر بطور لیکچرار ملازمت اختیار کرلیتا ہے۔ مگر اب وہ نوجوانوں کو امریکا کے سامراجی عزائم سے آگاہ کرتا ہے۔

یہ ناول ایک طرف مغرب کی جانب سے اسلام کی توہین پر مبنی سوچ کا ردعمل ہے اور دوسری طرف مغرب بالخصوص امریکا کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ چنگیز جیسے نوجوان بھی نہ صرف امریکا مخالف ہوجاتے ہیں، بلکہ اُنھی کی اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ بن جاتے ہیں۔ (امجد عباسی)


اقتصادی غارت گر ، (Confessions of An Economics Hit Man) جان پرکنز، مترجم: صفوت علی قدوائی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی، کراچی۔ تقسیم کنندہ: مکتبہ معارف اسلامی ، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا ، کراچی-۷۵۹۵۰۔صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

مغربی تہذیب ایک سیکولر تہذیب ہے جس کی بنیاد دین سے ماورا، خودساختہ نظریات پر ہے۔ یہ ایک سفاک تہذیب ہے جوانسانیت کا ہر طرح سے خون چوسنے کو روا قرار دیتی ہے۔ زیرنظر کتاب میں ایک اکنامک ہٹ مین (اقتصادی دہشت گرد) نے عالمی اقتصادی لوٹ کھسوٹ کے ایک گوشے کو بے نقاب کیا ہے۔ اکنامک ہٹ مین (ای ایچ ایم) خطیر معاوضے پر خدمات انجام دینے والے وہ پیشہ ور افراد ہیں جن کا کام ہی دنیا بھر میں ملکوں کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر سے محروم کرنا ہے۔ یہ لوگ عالمی بنک، امریکا کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) اور دیگر غیرملکی امدادی اداروں سے ملنے والی رقوم بڑی بڑی کارپوریشنوں کے خزانے اور اس کرئہ ارض کے قدرتی وسائل پر قابض چند دولت مند خاندانوں کی جیبوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ یہ ایک سچی کہانی ہے جو طلسم ہوش ربا کی طرح دل چسپ اور رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔ اس کتاب کا یہ شگفتہ ترجمہ پہلے روزنامہ جسارت کراچی میں قسط وار چھپتا رہا اور یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا۔ ادارہ معارف نے اسے کتابی شکل میں شائع کردیا ہے۔ تمام سیاسی کارکنوں اور اقتصادیات سے تعلق رکھنے والوں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔(ملک نواز احمد اعوان)


… سورج کو ذرا دیکھ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: کتاب سراے، غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ صفحات: ۲۷۸۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

زیرنظر سفرنامہ چڑھتے سورج کی سرزمین، جاپان میں گزرے ہوئے چار ہفتوں کی داستان ہے۔ اس کے مصنف مارچ ۲۰۰۲ء میں دائتوبنکا یونی ورسٹی جاپان کی دعوت پر بطور وزٹنگ اسکالر جاپان گئے تھے۔

سفرنامہ عام فہم، سادہ اور سلیس زبان میں قلم بند کیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا دوسرا سفرنامہ ہے۔ اس سے پہلے وہ پوشیدہ تری خاک میں …(سفرنامۂ اندلس) بھی شائع کرچکے ہیں جسے نقوش اوارڈ کا اعزاز ملا تھا۔

… سورج کو ذرا دیکھ میں ’جدید‘ سفرنامے کی طرح مہمات سر کرنے کی فرضی کہانیاں بیان نہیں کی گئیں، بلکہ حقائق اور مشاہدات پر توجہ رہی ہے۔ مصنف نے جاپانیوں کے رسوم و روایات، تہذیب و تمدن، رہن سہن اور وہاں کی سیاسی و معاشی حالت، اسی طرح ان کی عادات و خصائل اور وضع داری کا عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔ مناظرِ فطرت کا بیان بھی عمدہ اسلوب میں کیا گیا ہے۔ فطرت کے ساتھ انسان کا قلبی لگائو تو ہوتا ہی ہے لیکن اس سفرنامے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ مصنف فطری مناظر سے غیرمعمولی دل چسپی رکھتے ہیں۔ خاص طور پر ’فوجی سان‘ اور ساکورا کا ذکر تو والہانہ انداز میں کیا گیا ہے۔

یہ سفرنامہ مشاہدے اور تحقیق کا ایک امتزاج ہے جس میں جاپانی مساجد، مندروں، پگوڈوں، پارکوں، پہاڑوں اور اہم تاریخی جگہوں کا تاریخی پس منظر اور تعارف اختصار اور جامعیت سے کرایا گیا ہے۔ مصنف نے جاپانیوں کے بعض مسائل، مثلاً زمین (land) کی قلت، شرحِ پیدایش میں کمی، افرادی قوت میں کمی اور امریکا کے دست نگر ہونے پر بصیرت افروز تبصرے کیے ہیں۔ اسی طرح ہیروشیما پر امریکا کی وحشیانہ دہشت گردی اور اس کے دُور رس اثرات کا ذکر بھی کیا ہے۔ کتاب میں تصاویر اور بعض جاپانی اُردو دانوں کی تحریروں کے عکس بھی شامل ہیں۔ آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے جو سفرنامے کی روایت میں اختراع اور ایک خوش گوار اضافہ ہے۔

سفرنامہ پڑھتے ہوئے قاری اپنے آپ کو جاپان کی فضائوں میں سیر کرتا ہوا محسوس کرتا ہے، بلکہ جاپان جانے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ جاپان جانے سے پہلے یہ سفرنامہ پڑھ لیں تو وہاں آپ کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہیں ہوگی۔ (قاسم محمود احمد)


۱- سفر انقلاب، ۲-قاضی حسین احمد، ۳- اے دخترانِ اسلام، ۴- قاضی اور غازی،  مرتبہ: سمیحہ راحیل قاضی۔ناشر: مکتبہ خواتین میگزین بالمقابل منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: (۱) ۲۰۸، (۲) ۸۰ (۳) ۸۰، (۴) ۱۰۴۔ قیمت (علی الترتیب): ۱۶۰، ۶۰ روپے فی کتاب۔

ان چار کتابوں میں سمیحہ راحیل قاضی نے محترم قاضی حسین احمد کی شخصیت، کردار اور   افکار و خدمات کو مختلف زاویوں سے تاریخ کے ریکارڈ کے لیے محفوظ کردیا ہے۔ ملکی اور عالمی حالات کے پس منظر سے اس دور کی تاریخ کا ایک مطالعہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ پہلی کتاب میں جماعت اسلامی پاکستان کے مختلف اجتماعات کی روداد پیش کی گئی ہے۔ دوسری کتاب میں امارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد کی پانچوں تقاریر کو یکجا کردیا گیا ہے۔ تیسری کتاب میں وہ تقاریر پیش کی گئیں، جو خواتین کو مخاطب کر کے کی گئی ہیں۔ آخری کتاب میں قومی سیاست میں قاضی صاحب کے کردار پر اہلِ قلم کی تحریروں کو جمع کیا گیا ہے۔(ا- ع)


سوے حرم ،خصوصی اشاعت نورالقرآن، مرتب: محمد صدیق بخاری۔ پتا: ۵۳- وسیم بلاک، حسن ٹائون، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۳۱۹۔ تحفتاً دستیاب بعوض ۱۰ روپے ڈاک ٹکٹ۔

اُردو زبان میں تفسیر قرآن پر جتنا کام ہوا ہے، عربی زبان کے بعد شاید ہی کسی زبان میں اتنا وقیع اور معتبر کام ہوا ہو۔ ماہنامہ سوے حرم کی اس خصوصی اشاعت میںاُردو مترجمین و مفسرین کے تراجم اور تفسیری آرا کو یک جا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

زیرنظر اشاعت میں سورئہ فاتحہ مکمل اور سورئہ بقرہ آیت ۱ تا ۱۴۱ سے متعلق آرا کو ترتیب سے جمع کیا گیا ہے۔ دو تین آیات کا عربی متن لکھنے کے بعد پانچ چھے مترجمین کے تراجم الگ الگ رقم کردیے ہیں۔ پھر ہر آیت کے اہم مضامین اور اہم الفاظ کی وضاحت میں مختلف تفسیری آرا اس ترتیب سے بیان کی ہیں کہ اہم لفظ یامضمون کی پہلے ایک سرخی قائم کی ہے اورپھر اس سے متعلقہ تفسیری آرا بیان کردی ہیں۔ ہر تفسیر کی عبارت کی تکمیل پر اس کا پورا حوالہ بین السطور بریکٹ میں درج ہے۔ مرتب نے برعظیم کے تمام مسالک کی نمایندگی، ان کے دلائل کے ساتھ جمع کر دی ہے جس سے فہمِ قرآن کے طالب علموں کے لیے قرآنی مطالب تک رسائی میں سہولت پیدا ہوسکتی ہے۔ (اخترحسین عزمی)


یدِ بیضا، ترجمہ و تحقیق: عبدالستار گریوال۔ ناشر: دارالکتاب، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۶۷۲۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب یدِبیضا ۲۹ مضامین و مقالات پر مشتمل ہے جنھیں مسلم و غیرمسلم دانش وروں نے انگریزی میں تحریر کیا۔ مقالات کی اہمیت کے پیش نظر عبدالستار گریوال نے انھیں اُردو کا روپ دیا ہے۔ یہ مضامین خالصتاً علمی نوعیت کے ہیں۔ بعض مضامین کے مباحث صوفیانہ اور فلسفیانہ ہیں اس لیے عام قاری کے لیے قدرے ثقیل معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ بعض مضامین عمومی دل چسپی کے بھی ہیں، مثلاً اسلامی سیاست کے محرکات، اسلام اور مغرب، آج اور کل، دنیاے مغرب اور اس کا اسلام کو چیلنج اور یورپ کا بھولا بسرا ورثہ وغیرہ۔

بعض مضامین میں تحاریک اور اشخاص کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے جیسے صوفی ازم، وہابی تحریک، مولانا مودودی، سید قطب، احمد وبیلو اور علی شریعتی وغیرہ، اور ایک مضمون دارالعلوم دیوبند پر بھی ہے۔ ان مضامین میں سے چند ایک کو ذیلی سرخیاں دے کر زیربحث لایا گیا ہے۔ ترجمہ رواں ہے اور مترجم نے محنت سے کام لیا ہے۔ مقالہ نگاروں کا مختصر تعارف ہر مقالے کے شروع میں دے دیا جاتا تومناسب تھا۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


قصص النسائ، احمد جاد، ترجمہ: ابوضیا محمود احمدغضنفر۔ ناشر: دارالابلاغ پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، الفضل مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۴۲۹۔قیمت: ۲۵۰ روپے۔

قصے، کہانیوں سے دل چسپی انسان کی فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی اس فطرت کو پیش نظر رکھا ہے۔ ہمیں قرآن پاک میں جابجا توحید و رسالت، عقائد ومعاملات اور دیگر امور سمجھنے کے لیے قرآنی قصص سے واسطہ پڑتا ہے جس میں اخلاقی و روحانی پہلو خاص طور پر نظر آتا ہے۔ مصنف نے احادیث مبارکہ شامل کرکے کتاب کی افادیت کو دوچند کردیا ہے۔

کتاب میں مختلف موضوعات کے تحت مختلف صفات سے مزین خواتین کے قصے دل نشین پیرایے میں بیان کیے گئے ہیں اور ان کے پسندیدہ، دل کش اور دل آویز پہلوؤں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہ قصے بامقصد ،سبق آموز، عبرت ناک اور ایمان افروز ہیں۔ عبارت سلیس اور عام فہم ہے۔ واقعات کو مربوط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ قاری کی راہ نمائی صراطِ مستقیم کی طرف کرتا ہے۔ خصوصاً خواتین ان مومن اور پاک باز بیبیوں کی سیرت کے مطالعے سے اپنے سیرت و کردار سنوارنے کے لیے راہ نما اصول منتخب کرسکتی ہیں، اور کافر عورتوں کی سوانح عمریاں پڑھ کربرائی اور بدی سے بچنے کا اہتمام کرسکتی ہیں۔ (ربیعہ رحمٰن)


تعارف کتب

  • ڈاکٹر جمیل جالبی: شخصیت اور فن، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر۔ ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[معروف ادبی محقق،نقاد، ادیب، مترجم اور کراچی یونی ورسٹی کے سابق  وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی خدمات کا ایک تعارف۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے سلسلے ’پاکستانی ادب کے معمار‘ کی ایک تازہ پیش کش، جس میں جالبی صاب کے سوانح، شخصیت اور فن کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ بڑے توازن اور عمدہ تنقیدی صلاحیت کے ساتھ کیا گیاہے۔ تصانیف اور تحریروں کی مکمل فہرست اور سوانحی خاکہ بھی شامل ہے۔]
  • یہ ہے مغربی تہذیب ، ڈاکٹر عبدالغنی فاروق۔ناشر: بیت الحکمت، لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے،   غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۳۳۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔ [۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۶ء تک (۲۰ سال) کے اخبارات کے تراشے جن سے مغربی تہذیب کا اصل چہرہ (خاندانی زندگی کی تباہی، عورتوں اور بچوں کی حالت زار، اخلاقی اور دیگر ہر طرح کے جرائم کی کثرت وغیرہ) بے نقاب ہے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود ہم خوش قسمت ہیں کہ مغربی تہذیب کے رنگ میں ابھی پوری طرح رنگے نہیں گئے۔]
  • پاکستان کے نعت گو شعرا (تذکرہ)، دوم، سید محمد قاسم۔ ناشر: حرا فائونڈیشن پاکستان (رجسٹرڈ) کراچی۔  تقسیم کار: فضلی سنز، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۲۱۲۹۹۱۔ صفحات: ۴۱۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [ہر شاعر کا ایک یا پون صفحے کا سوانحی تعارف اور ایک ایک نمونے کی نعت۔ ڈاکٹر حسرت کاس گنجوی، طاہر سلطانی اور ڈاکٹر عزیز احمد نے تحسین کی ہے۔ ریسرچ اسکالر شہزاد احمد نے نعتیہ تذکرہ نگاری کی روایت بیان کی ہے۔]
  • ۳۶۵ کہانیاں حصہ دوم، محمد ناصر درویش۔ناشر: مکتبہ بیت العلم، ST-9E بلاک ۸، گلشن اقبال ، کراچی۔ صفحات: ۲۱۸۔قیمت: ۱۵۰ روپے۔[قرآن، حدیث، تفسیر، تاریخ، سیرت و سوانح اور اُردو ادب سے جمع کیے گئے دل چسپ اور سبق آموز واقعات اور کہانیاں۔بچوں کی ذہن سازی اوراسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت کے پیش نظر کہانیوں کے سلسلے کا یہ دوسرا حصہ ہے۔ دین کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ ساتھ گھر، مدرسے اور اسکول میں ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے آداب کو ملحوظ رکھ کر کہانیاں ترتیب دی گئی ہیں۔ قدیم و جدید علمی ورثے کو منتقل کرنے کی ایک کاوش۔]

سیرتِ رحمت عالمa ، ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری۔ مترجم: خدابخش کلیار۔ ناشر: نشریات، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۸۵۶۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

رحمت عالم خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمام صفات و کمالات کی جامع اور انسانیت کی معراجِ کمال ہے  ع  آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نگاری ایک ایسا پاکیزہ موضوع ہے جس پر ہر مکتبِ فکر کے اہلِ قلم گذشتہ چودہ صدیوں میں نہایت وقیع اور قابلِ قدر تصانیف پیش کرچکے ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ مدینہ منورہ کے ایک فاضل محقق ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کی کاوشِ فکر وتحقیق کا نتیجہ ہے۔ اصل کتاب السیرۃ النبویہ الصحیحۃ کے نام سے عربی زبان میں ہے۔ اسے محترم خدابخش کلیار نے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے جن کے عنوانات یہ ہیں: رسولؐ اللہ مکہ میں، رسولؐ اللہ مدینہ میں، مشرکین کے خلاف جہاد، رسالت اور رسولؐ۔

فاضل مصنف نے جہاں یہ خیال رکھا ہے کہ موضوع اور ضعیف روایتیں کتاب میں نہ آنے پائیں، وہاں بعض مشہور لیکن مشتبہ روایتوں کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔ انھوں نے حیاتِ نبوی کے مکی اور مدنی دونوں ادوار کے اہم واقعات اختصار مگر جامعیت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ وہ ان واقعات کے صرف ناقل ہی نہیں بلکہ جگہ جگہ تفکروتعمق سے کام لے کر قارئین کو بھی سوچنے اور    غور کرنے کی دعوت دی ہے، ساتھ ہی سیرتِ نبویؐ سے فکرانگیز نتائج بھی اخذ کیے ہیں۔ اس کتاب میں فاضل مصنف کی ایک اور تصنیف المجتمع فی عھد النبوۃ کا ایک نظرثانی حصہ بھی   شامل ہے۔ اس کے انگریزی ترجمے کا اُردو ترجمہ محترمہ عذرا نسیم فاروقی (م:۲۰۰۴ئ) نے کیا تھا۔ اس سے یقینا کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بلاشبہہ زیرتبصرہ کتاب کتبِ سیرت میں گراں قدر اضافہ ہے۔ البتہ یہ کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ مختلف مقامات، غزوات و سرایا اورافراد کے اسما پر اعراب اور اضافت کی علامات لگانے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ قارئین کو غلط تلفظ سے بچانے کے لیے ایسا اہتمام کرنا بہت ضروری ہے۔ (طالب الہاشمی)


احیاے دین کا مقدمہ، سردارعالم خان۔ ناشر: الفیصل، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۳۹۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

زیرنظر کتاب میں قیامِ پاکستان کا مقصد، اسلام اور مغرب، قوموں کا عروج و زوال،  تجدید واحیاے دین اور احیاے خلافت جیسے اہم موضوعات کو زیربحث لایا گیا ہے۔

آغاز میں قیامِ پاکستان کے مقاصد، تحریکِ پاکستان میں مختلف لوگوں کے کردار اور    نفاذ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی تقاریر سے اقتباسات پیش کر کے ان لوگوں کا موقف غلط ثابت کیا گیا ہے جن کو یہ وہم ہوگیا ہے کہ قائداعظم پاکستان کوسیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں مؤلف نے قیادت کے بحران، دینی قوتوں کے انتشار اور نوآبادیاتی ورثے کو نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں قرار دیا ہے۔

اسلام اور مغرب کے تعلقات کے تحت ساتویں صدی عیسوی سے لے کر اب تک کی تاریخ بیان کی گئی ہے جس میں صلیبی جنگوں، مغربی استعماریت، نوآبادیاتی نظام اور موجودہ صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لیاگیا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ مغرب اپنے ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دنیا بھر میں اسلام کے تیزی سے پھیلتے ہوئے اثرات سے خوف زدہ ہے۔ (ص ۱۳۴)

قوموں کے عروج و زوال کے دائمی اور معروضی اصول بیان کرنے کے ساتھ ساتھ  تجدید و احیاے دین کے زیرعنوان تشکیل معاشرہ کے اصول، اجتہاد کی ضرورت، مجدد کے مقام، تجدید کی ضرورت اور روح پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ ۱۹ویں صدی کے عظیم مجدد عثمان فودیو (۱۷۵۴ئ-۱۸۱۷ئ) کی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں سکوٹو (جمہوریہ نائیجیریا) میں خلافت کے قیام کا شان دار تذکرہ بھی سامنے آتا ہے۔ کتاب مسلمانوں کو اقامت دین کی جدوجہد پر اُبھارتی ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)


نام ور مغربی سائنس دان ، حمید عسکری۔ ناشر: مجلس ترقی ادب، کلب روڈ، لاہور۔ صفحات: مجلد: ۳۶۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

سائنس وہ علم ہے کہ جس کی بنیاد خیال، مشاہدے اور بالآخر تجربے سے منسوب ہے۔ یہ علم، اللہ کی نشانیوں کو پرکھنے کی انسانی کوشش اور ان کوششوں کے ثمر سے انسانوں کو ثمربار کرنے کا وہ علم ہے جس نے حیرتوں کے باب کھولے اور سہولتوں کے خزانوں کا انبار لگا دیا ہے۔

سائنس کا علم انسانیت کی مشترکہ میراث ہے کہ اس اہرام کی تعمیر میں مختلف اوقات میں معروف اور گم نام اہلِ دانش نے اپنے اپنے حصے کا پتھر نصب کیا۔ بلاشبہہ ان سائنسی ایجادات کے پس منظر میں مسلمان سائنس دانوں کی کاوشوں، تحقیقات اور تجربات کا بھی حصہ ہے لیکن آخرکار جس ایجاد یا جس سائنسی کلیے کو حل کرنے کا اعزاز جن مغربی سائنس دانوں کو حاصل ہوا، یہ کتاب ان میں سے ۲۵ محسنوں کے احوال پر مشتمل ہے۔

اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کتنی محنت کی۔ کس قدر بڑے سماجی، معاشی، مذہبی چیلنجوں کا سامنا کیا۔ آج ہم جن آسایشوں کو یوں برت رہے ہیں کہ    شاید یہ آفرینش آدم کے عہد سے جوں کی توں میسر تھیں تو واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ اس کے لیے دنیاے علم کو بڑی مشکلات کو عبور کرنا پڑا ہے۔ فاضل مصنف نے عام فہم انداز میں ان       سائنس دانوں کی داستانِ حیات اور کارنامۂ علم کو پیش کیا ہے۔ ان رجال میں: راجر بیکن، گوٹن برگ، ٹرے ویژن، کوپرنیکس، پیراسیل، ٹامیکوبراہے، گلیلیو، جان کیپلر، ولیم ہاروے، رابرٹ یو ایل،  جوشم باشر، لیون ہک، آئزک نیوٹن اور دیگر ۱۲ سائنس دان شامل ہیں۔ اس سے قبل مجلسِ ترقیِ ادب نام ور مسلم سائنس دان بھی شائع کرچکی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


تعارف کتب

  • قرآن کے بکھرے موتی، مولانا محمد اصغر کرنالوی۔ زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۷۲۵۶۷۳-۰۲۱۔ صفحات: ۵۷۳۔ قیمت (مجلد): ۲۰۰ روپے۔[ قرآن کے عجائب، خزینوں، جواہر اور موتیوں کو جاننے کی سعی اور مطالعہ قرآن کا ذوق بڑھانے کی ایک کوشش۔ ۷۳ تفاسیر اور ۶۵ہزار صفحات کا نچوڑ، بقول مصنف برسوں کے مطالعے کا نتیجہ ۔ عقائد، معاملات، عبادات، جنت، دوزخ، دعوت اور جہاد کے علاوہ فقہ، قانون، سیاست اور تصوف سے متعلق واقعاتی اسلوب میں دل چسپ معلومات۔ ابواب بندی اور موضوعات کا تعین کیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔]
  • عبادات، فضائل و مسائل ، سراج الدین ندوی۔ ناشر: ملت اکیڈیمی‘ دہلی۔ ملنے کا پتا: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ڈی-۳۰۷، دعوت نگر ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۰۶،بھارت۔ صفحات: ۴۲۶۔قیمت:  درج نہیں۔ [نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کے بارے میں اہمیت و فضیلت کے مختصر ذکر کے بعد‘ ضروری فقہی مسائل کا عام فہم اور جامع بیان۔ حنفی مسلک کے ساتھ دوسرے مسلکوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔]
  • لکھاری کیسے بنتا ہے؟ امجد جاوید۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔ فون: ۷۲۳۲۳۳۶۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔ [ابلاغ، تحریر، فنِ تحریر کے لوازم، طریقے، اصنافِ نظم و نثر اور آخر میں جمیل جالبی، عابد علی عابد اور سید مودودی کے چند نصائح۔ کتاب کے مصنف نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ آپ کیسے لکھاری    بن سکتے ہیں (ہمارے خیال میں لفظ لکھاری کے بجاے ’اہلِ قلم‘ یا ’قلم کار‘ بہتر معلوم ہوتا ہے)۔ سو باتوں کی ایک بات، قلم کار بننے کا سب سے مؤثر، بہتر اور کامیاب طریقہ ’می نویس و می نویس و می نویس‘ لکھتے رہیے، لکھتے رہیے،  قلم گھستے رہیے ،ایک سہانی صبح آپ کا شمار اہلِ قلم میں ہوگا۔ صرف اصول اور ضابطے پڑھنے سے لکھاری نہیں بنتا۔ بہرحال لکھاری بننے کے شائقین کے لیے ایک مفید معاون۔]
  • کامیاب طالب علم، روح اللہ نقش بندی۔ناشر: دارالہدیٰ دفتر نمبر۸‘ پہلی منزل‘ شاہ زیب ٹیرس نزد زم زم پبلشرز‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۱۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [ایک طالب علم کن صفات کو اپنا کر علم میں پختگی‘ عمل میں مضبوطی اور اخلاق میں درستی پیدا کرسکتا ہے۔ طالب علم کے لیے ضروری آداب تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں‘ نیز علم کے متعلق اکابر کے واقعات نے کتاب کو دل چسپ بنادیا ہے۔]
  • رہنماے خوش خطی ،محمد اسلم زاہد۔ ناشر: مکہ کتاب گھر‘ الکریم مارکیٹ‘ حق سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ فون: ۷۱۲۴۸۸۲۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔ [نسخ اور نستعلیق سیکھنے سکھانے کے لیے ایک عمدہ کتاب۔ خوش خطی کے اصول اور طریقے‘ مشق کے لیے نمونے کے الفاظ اور تین تین‘ چار چار خالی سطریں مشق کے لیے۔ مصنف‘ سیدنفیس رقم کے تربیت یافتہ خوش نویس ہیں مگر تعجب ہے کہ انھوں نے اِملا کی صحت کو نظرانداز کیا ہے۔ اُردو میں لفظ ’اِملا‘ میں    ہمزہ (ئ) نہیں ہے۔ طلبا کے بجاے’طلبہ‘ ، لئے اور لیجئے کے بجاے ’لیے‘ اور ’لیجیے‘ صحیح ہے۔’پڑھیئے‘ تو قطعی غلط ہے۔]
  • تیرتی قبر ؟ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر۔ ناشر: دارالسلام، ۳۶- لوئر مال، سیکرٹریٹ اسٹاپ، لاہور۔ صفحات: ۵۶۔ قیمت: ۶۵ روپے۔ [چار دوستوں کے مچھلی کے شکار سے شروع ہونے والی کہانی در کہانی میں مچھلیوں کے مشہور قصے، سائنسی معلومات اور قرآن میں ذکر، سب دل نشین انداز سے آگیا ہے۔ ۸ تا۱۲ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے ہے۔ تیرتی قبر سے مراد حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں ہونا ہے۔]

رسائل و مسائل(حصہ ہشتم) ، شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔ صفحات: ۴۱۳۔ قیمت: ۲۱۰روپے۔

’رسائل و مسائل‘ کے زیر عنوان جو روایت مولانا مودودی مرحوم نے قائم کی‘ اسے ان کے تربیت یافتہ افراد نے اپنے مقدور بھر زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ چنانچہ جسٹس ملک غلام علی مرحوم اور خرم مراد مرحوم کے قلم سے نکلے ہوئے جوابات اس سے قبل کتابی شکل میں طبع ہوچکے ہیں۔ اب  اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ادارہ معارف اسلامی لاہور نے شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کے تحریر کردہ جوابات جو ۱۹۸۲ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران ترجمان القرآن میں طبع ہوئے ہیں‘ ایک جلد میں شائع کردیے ہیں۔ کتاب ۱۱ ابواب اور چار مقالات پر مبنی ہے۔ ابواب کے عنوانات یوں ہیں:

  • تفسیر آیات و تاویلِ احادیث
  • عقائد و ایمانیات
  • نماز
  • روزہ
  • قربانی
  • زکوٰۃ
  • معاشی مسائل
  • معاشرتی مسائل
  • عالمِ نسواں 
  • متفرق مسائل
  • دعوت و تحریک۔ مقالات میں اجماع اُمت ‘ مختلف مسالک پر عمل‘ خلافت کا استحقاقِ جہاد شامل ہیں۔

مولانا عبدالمالک کی فقہی آرا ان کی بصیرت کا روشن ثبوت ہیں۔ مولانا عموماً معروف حنفی مصادر کے حوالے سے اپنی راے کا اظہار فرماتے ہیں لیکن اعتدال و توازن کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی بنا پر بعض حساس موضوعات پر بھی ان کی راے کسی فریق کے جذبات کو مجروح نہیں کرتی۔ اس کی عمدہ مثال مشرک کے پیچھے نماز (ص ۸۶-۸۷)‘ بریلوی امام کے پیچھے نماز (ص ۶۱ تا ۸۲) جیسے موضوعات پر تحریر کردہ جوابات ہیں۔ باب ہفتم اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں جدید معاشی مسائل پر مدلل آرا کا اظہار کیا گیا ہے۔ ادارہ معارف اسلامی اس کتاب کو طبع کرنے پر مبارک باد کا مستحق ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


قراردادمقاصد کا مقدمہ ، سردارشیرعالم، چودھری محمد یوسف: ناشر: الشریعہ اکادمی‘ ہاشمی کالونی۔ کنگنی والا‘ گوجرانوالہ۔ فون: ۴۰۰۳۹۴-۰۵۵۔ صفحات: ۲۰۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

اسلام پر پاکستان کی نظریاتی اساس کسی شک و شبہے سے بالا حقیقت ہے۔ تاہم‘ قیامِ پاکستان کے روز ہی سے‘پاکستان میں اسلام اور سیکولرزم کی بحث شروع ہوگئی تھی۔ ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو    پہلی دستور ساز اسمبلی نے اس بحث کا مسکت جواب ’قراردادمقاصد‘ کی منظوری کی صورت میں دیا‘ اور پاکستان کی نظریاتی سمت کو قرارداد مقاصد کے آئینی اور قانونی اعتبار سے متعین کردیا۔ بعدازاں ۱۹۵۶‘ ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں اسے محض دیباچے میں جگہ دی گئی ہے اور ریاست و حکومت اس سے بے نیاز رہے۔ البتہ ۱۹۷۲ء میں جسٹس حمودالرحمن نے ’عاصمہ جیلانی کیس ۱۹۷۲ء‘ میں اس دستاویز کی اہمیت اور دساتیر میں نظرانداز کرنے کے المیے کی جانب لطیف پیرایے میں توجہ دلائی۔

جنرل محمد ضیاء الحق نے قرارداد مقاصد کو دستور کے مقدمے کے بجاے دستور کا مؤثر حصہ بنا دیا۔ جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے ’سکینہ بی بی کیس ۱۹۹۲ء‘ میں فیصلہ دیاکہ دفعہ ۴۵ میں مندرج صدر پاکستان کے اختیارات‘ قرآن و سنت کے پابند ہیں۔ مگر سپریم کورٹ نے ’حاکم خاں کیس ۱۹۹۲ء‘ میں اس کے برعکس فیصلہ دیا:

۱-قرارداد مقاصد کی حیثیت کو محدود کر کے ایک رسمی خواہش کے دائرے میں بند کرنے کی کوشش کی۔ سردار شیرعالم ایڈووکیٹ [م: ۱۰ اپریل ۲۰۰۷ء] نے اس فیصلے کی شدت کو قلب و روح کی گہرائیوں میں محسوس کیا‘ اور اس کا فکری‘ دستوری اور اسلامی بنیادوں پر نہایت فاضلانہ تجزیہ تحریر کیا۔ جس نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیدا شدہ صورت حال کو زیرغور لانے کے لیے سنجیدہ بنیاد فراہم کی۔

زیرنظر کتاب کا مرکزی حصہ اسی مقالے کا رواں اُردو ترجمہ (ص ۱۲۵-۱۸۹) چودھری محمد یوسف نے کیا ہے‘ جب کہ اسی مناسبت سے چند تحریریں اور ۱۹۹۲ء کے مذکورہ دونوں فیصلوں کا بھی ترجمہ پیش کردیا گیا ہے۔(سلیم منصور خالد)


پنجاب کے آثارِ قدیمہ، ڈاکٹر محمد اقبال بھٹہ۔علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔ فون: ۷۲۳۲۳۳۶۔ صفحات:۲۰۵۔ قیمت: ۲۰۰ روپے ۔

اگرچہ آثارِ قدیمہ کو محض عمارات تک محدود نہیں کیا جاسکتا‘ تاہم عرفِ عام میں مذکورہ ترکیب سے ’عمارات‘ ہی مراد لی جاتی ہیں اور زیرنظر کتاب میں بھی اسی حوالے سے مختلف النوع عمارات کے بارے میں تاریخی حقائق اور صورتِ واقعہ پر مبنی‘ مفید معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔

فاضل مصنف آثارِقدیمہ کے مختلف اداروں اور شعبوں سے وابستہ رہے‘ باقاعدہ خطاط بھی ہیں۔ اس فن میں انھیں حافظ یوسف سدیدی مرحوم‘ سیدنفیس رقم اور صوفی خورشید رقم کا تلمذ حاصل ہے۔ ان دنوں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج‘ آرٹ اینڈ کلچر (حکومت پنجاب) میں بطور ڈپٹی ڈائرکٹر کام کر رہے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں آٹھ باغات (ہرن منار‘ شالامار‘ بارہ دری وزیرخاں ‘ چوبرجی وغیرہ) ۱۲مقبروں (نورجہاں‘ آصف خاں‘ انارکلی‘ مہابت خاں‘ علی مردان وغیرہ) دس قلعوں (اٹک‘ روات‘ شاہی قلعہ وغیرہ) اور آٹھ مساجد (وزیرخاں‘ چینیاں والی‘ حمام والی اور بادشاہی مسجد وغیرہ) کے بارے میں خاصی تحقیق اور تجسس کے بعد تاریخی معلومات‘ حوالوں اور اعدادوشمار کے ساتھ فراہم کی گئی ہیں۔ تصاویر بھی شامل ہیں۔

’پنجاب کے فنِ تعمیر‘ کے تذکرے میں مصنف کا یہ تاثر درست معلوم نہیں ہوتا کہ پنجاب اپنا کوئی منفرد فن تعمیر رکھتا ہے‘ یا یہاں ’ایک خاص فن تعمیر کی بنیاد‘ رکھی گئی۔ دراصل پنجاب کی مساجد‘ مقبروں اور مختلف عمارتوں میں بے حد تنوع ہے اور یہ اس لیے ہے کہ یہ فن تعمیر اسلامی اور ہندی تہذیب و تمدن کی روایات اور افغانی اور وسط ایشیائی حملہ آوروں کے اثرات کے نتیجے میں تشکیل پذیر ہوا۔ اس اعتبار سے پنجاب کا فن تعمیر مختلف تعمیراتی فنون کا جامع ہے اور اسی لیے اس کے مختلف علاقوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مکانات اورمقبروں حتیٰ کہ عام قبروں تک کی شکل و صورت بھی بدل جاتی ہے۔

کتاب خاصی محنت و کاوش سے لکھی گئی ہے۔ تعجب ہے کہ ۳۷ مآخذ کی فہرست (کتابیات) میں ان اُردو کتابوں کے نام نہیں دیے گئے جو ’حوالہ جات‘ کے تحت مذکور ہیں۔ کتاب میں فنی تدوین کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ اتنی اچھی تحقیقی کتاب میں فنی تدوین کی کمی اور فنِ اِملا و رموزِ اوقاف سے بے توجہی کھٹکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اُردو املا، رشیدحسن خاں۔ ناشر: مجلس ترقی ادب‘ کلب روڈ‘ لاہور۔ فون: ۶۳۶۸۲۱۸۔صفحات: ۷۰۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

رشیدحسن خاں کا نام اُردو زبان کے ایک نمایاں محقق اور زبان‘ لغت اور املا کی اصلاح و ترقی کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اپنے موضوع پر ان کی زیرنظر تصنیف ایک اہم تحقیقی کاوش ہے‘ جو بھارت کے سرکاری اشاعتی ادارے سے دو بار شائع ہوئی اور اپنی افادیت کے باعث طلبہ‘ قارئین اور علما و محققین میں مقبول ہوچکی ہے۔

کتاب کا دیباچہ بجاے خود ایک تصنیف کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں محقق نے رسمِ خط اور املا‘ املا میں تغیر اور اصلاح‘ اصلاح اور صحت‘ خطاطی‘ رسمِ خط اور املا اور املا کی معیاربندی کے بعد املا کی ازسرنو تعریف متعین کی ہے۔ انھوں نے مرکبات کی درست املا اور مرکبات کو الگ الگ لفظوں میں لکھنے کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کی ہے۔

کتاب عملاً چار حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں املا کے مسائل کو الف بائی انداز میں منضبط کیا گیا ہے۔ الف (الف ممدودہ‘ الف اور ہاے مختفی‘ الف تنوین)، ت ۃ، ت ط، ذزژ، س ص ض، ک گ، ن و، ہ (ہاے ملفوظ، ہاے مختفی، ہاے مخلوط)‘ ہمزہ (ہمزہ اور الف، ہمزہ اور واو، ہمزہ اور ہاے مختفی، ہمزہ اور ی) وغیرہ پر مفصل بحث کر کے املا کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے حصے میں گنتیاں‘ لفظوں کو ملا کر لکھنا‘ نقطے‘ شوشے‘حرفوں کے جوڑ‘ نسخ و نستعلیق کی بعض خصوصیات اور اعراب‘ علامات اور رموزِ اوقاف کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ تیسرا حصہ املاے فارسی کی ذیل میں ہندستانی فارسی اور کلاسیکی ایرانی فارسی کے املا اور املاے فارسی جدید کے لیے مختص کیا گیا ہے‘ جب کہ چوتھے حصے میں تدوین اور املا، اور لغت اور املا جیسے اہم موضوعات کو چھیڑا گیاہے۔ آخر میں بعض اہم الفاظ کا اشاریہ دے دیا گیا ہے۔

محقق نے اپنی تصنیف میں ماضی میں املا کے مسائل کے بارے میں لکھی جانے والی مستند اور قابلِ قبول تحریروں کی مدد سے اصول و قواعد مرتب کیے ہیں اور انھی کی روشنی میں دیگر الفاظ کو قیاس کے دائرے میں لایا گیا ہے‘ تاہم اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ مسلمات کی خلاف ورزی ہو اور نہ خواہ مخواہ کی جدت طرازی۔

امید ہے کہ مجلس ترقی ادب‘ شہزاد احمد کی سرپرستی میں علم دوستی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے اسی معیار کی کتابیں شائع کرتی رہے گی۔ (ڈاکٹر خالد ندیم)


ہم کیوں مسلمان ہوئیں؟ مرتبین: اُم فریحہ/سیف اللہ ربانی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات خواتین‘  بالمقابل تعمیرسیرت کالج‘ منصورہ ملتان روڈ‘ لاہور۔ فون: ۴۱۳۶۴۵۸-۰۳۰۰۔ صفحات: ۵۵۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

عصرِحاضر میں‘ اسلام کی تیزرفتار اشاعت اور کثرت سے غیرمسلم افراد کا مشرف بہ اسلام ہونا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ ہر دور کی طرح اسلام آج بھی زندہ اور متحرک قوت ہے‘ اور انسانیت کا واحد نجات دہندہ بھی۔ یہ انسان کی مادی اور روحانی ضرورت کو بہ طریق احسن پورا کرتا ہے۔ یہ کائنات کا فطری دین ہے جو بنی آدم کو سکونِ قلب جیسی لازوال نعمت عطا کرتا ہے۔

کتاب کا ابتدائیہ متاثر کن اور اپنے موضوع پر کئی حوالوں سے معلومات افزا ہے۔ طرزِنگارش عمدہ ہے۔ یہ اسلام قبول کرنے والی خواتین کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک کی ۱۰۰ سے زائد نومسلم خواتین کے قبولِ اسلام کی سچی داستانیں اور ان کے انٹرویو شامل ہیں۔ یہ ایمان افروز‘ روح پرور اور وجدآفرین سوانح عمریاں جو سبق آموز ہونے کے ساتھ دل چسپ خودنوشت کا رنگ لیے ہوئے ہیں‘ بلاشبہہ ایسی قابلِ فخر مثالیں ہیں جنھیں عام کیا جانا چاہیے۔

ان خواتین کے زندہ و بیدار ایمان‘ ان کی طلبِ علم اسلام‘ ان کے اندر کام کرتا ہوا جذبۂ تعمیر اور جس استقامت و عزیمت سے انھوں نے راہِ حق میں پہنچنے والی ایذائوں کو برداشت کیا‘  کو دیکھ کر قاری اپنے ایمان میں تازگی‘ سرور اور مزید پختگی محسوس کرتاہے اور ایک جذبۂ ندامت بھی کہیں جاگتا ہے کہ ہم کیوں شعوری اور عملی مسلمان نہیں بن پارہے؟

امید ہے کہ مرتبین کی یہ کاوش دعوتِ اسلامی کے فروغ میں مفید ثابت ہوگی۔ مسلمانوں اور خصوصاً غیرمسلم اصحاب کو بطورِ تحفہ پیش کرنے کے لیے ایک بہتر چیز ہے۔ کیا خبر کون سی بات کس کے لیے ہدایت کا سبب بن جائے۔ (ربیعہ رحمٰن)


مولانا مودودی کے حوالے سے علماے کرام کی خدمت میں، شفیق الرحمن عباسی۔ ناشر: اعلیٰ مطبوعات‘ اُردو بازار‘لاہور۔ صفحات: ۵۶۵۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

مولانا مودودی علیہ الرحمہ کو زندگی میں ایک جانب ملحدین‘ اباحیت پسندوں‘ کمیونسٹوں‘ قادیانیوں اور منکرین حدیث وغیرہ کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب متعدد علما نے بھی    اس تنقیدی یلغار میں حسبِ توفیق اپنا حصہ ڈالا۔ مولانا مودودی مرحوم کے فاضل رفقا میں سے    چند احباب نے بروقت اس تنقید کا جائزہ لیا اور علمی پہلوؤں سے بھی تجزیہ پیش کیا۔ زیرنظر کتاب درحقیقت انھی جوابی تحریروں کے چیدہ چیدہ اقتباسات کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔

جن موضوعات پر اقتباسات کو پیش کیا گیا ہے‘ فی زمانہ ان حوالوں سے مولانا مودودی پر  کم ہی تنقید کی جاتی ہے‘ البتہ ’نائن الیون‘ کے بعد کے حالات میں انھیں دوسرے موضوعات کی بنیاد پر ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے اور اس کام میں بھی مقدس اور غیر مقدس دونوں حلقے اپنا کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر: اسلام اور ریاست کا تعلق‘ عورتوں کے حقوق‘ اسلام: جہاد یا دہشت گردی‘ دعوت کی ذمہ داری‘ فریضۂ اقامتِ دین کی حقیقت وغیرہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پروپیگنڈے کا مناسب جواب دیا جائے۔ کتاب کی تدوین میں ضمنی سرخیوں کے اضافے‘ اشاریے کی تدوین اور تمام حوالہ جات کی صحت کے اہتمام سے کام کی اہمیت دوچند ہوجاتی۔ (س-م-خ)


استاد: ملت کا محافظ، پروفیسر ثریا بتول علوی۔ناشر: تنظیم اساتذہ پاکستان (خواتین)۔ تنظیم منزل‘ بہاول شیر روڈ‘ مزنگ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

ہر عہد کے اپنے تقاضے اور چیلنج ہوتے ہیں جن سے باخبر رہنا ایک استاد کے لیے ناگزیر ہے‘ اس لیے کہ معمارِ قوم کی حیثیت سے اسے ایک نسل کی تربیت کرنا ہوتی ہے جسے مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ زیرنظر کتاب‘ مصنفہ نے اسی مقصد کے پیش نظر تحریر کی ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ نائن الیون کے سانحے کے بعد اُمت مسلمہ کو نئے مسائل کا سامنا تھا۔

تعلیم‘ نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کے اصول و مبادی اور اصولی مباحث‘ نیز تعلیم کے نام پر کی جانے والی سازشوں کے علاوہ موجودہ تعلیمی منظرنامہ‘ سیکولرنظامِ تعلیم اور درپیش جدید چیلنج زیربحث آئے ہیں۔ معلم اعظمؐ کا اسوئہ حسنہ‘ مثالی نظامِ تعلیم‘ تعمیر معاشرہ میں استاد کا کردار اور جدید چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اصولی رہنمائی دی گئی ہے‘ جب کہ خواتین اساتذہ کے خصوصی کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ (حمید اللّٰہ خٹک)


لال مسجد کا لہو، اصغر عبداللہ۔ ناشر: نگارشات پبلشرز‘ ۲۴- مزنگ روڈ‘ لاہور۔ فون: ۷۳۲۲۸۹۲۔ صفحات: ۱۵۲+۸۔ قیمت: ۱۲۰ روپے‘ مع اشاریہ۔

دسمبر ۱۹۹۲ء میں ہندو جنونیوں نے بابری مسجد کو شہید کیا‘ مگر اس المیے کے دوران کم از کم کوئی مسلمان اس مسجد میں موجود نہیں تھا۔ جولائی ۲۰۰۷ء کو لال مسجد اسلام آباد کو وحشیانہ فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اور اس سے منسلک جامعہ حفصہ کی طالبات کو زمینی اور فضائی فائرنگ کے نتیجے میں کیمیاوی ہتھیاروں کی بارش سے جلا کر راکھ کردیا گیا۔ جامعہ کے منتظمین کے بقول ایک ہزار سے زائد مسلمان طالبات بھی شہید ہوگئیں۔ صدافسوس کہ یہ حادثہ مملکت خداداد پاکستان میں ہوا۔

اس سانحے کے اسباب‘ کردار اور نتائج پر بحث ہوتی رہے گی‘ اور اس کرب کی ٹیسیں مدتوں تک محسوس کی جاتی رہیں گی۔ زیرنظر کتاب کے فاضل مؤلف نے غیر جذباتی انداز میں مسئلے کے کرداروں کو بے نقاب کرنے اور جامعہ پر حملے کے ’جواز‘ کا مؤثر استدلال سے جواب دینے کی قابلِ ستایش کوشش کی ہے۔ ایک رخ تو وہ تھا جسے حکومتی حلقوں نے اشتہاروں اور کالموں کی صورت میں شائع کیا اور شب و روز ریڈیو‘ ٹی وی سے الاپا۔ اس یک رخی ابلاغی جارحیت کا ایک جگہ پر جواب بڑی حد تک کتاب کے باب ’تصویر کا دوسرا رخ‘ (ص ۱۷-۴۹) میں پیش کیاگیا ہے۔

کتاب میں مرزا محمد اسلم بیگ‘ پروفیسر خورشیداحمد‘ سمیحہ راحیل قاضی‘ ڈاکٹر شاہد مسعود‘   مولانا زاہد الراشدی‘ مفتی محمد رفیع عثمانی‘ مولانا فضل الرحمن خلیل‘ مولانا عبدالعزیز‘ غازی عبدالرشید‘ چودھری شجاعت حسین اور جنرل پرویز مشرف کی تحریر و تقریر کے متعلقہ حصوں کو سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ایک انفرادیت شہید ہونے والی جامعہ حفصہ کی نایاب تصاویر ہیں۔ (س-م-خ)

تعارف کتب

  •  قوم پرستی اور اس کے نقصانات‘ مولانا مرغوب احمد لاجپوری۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ‘ ایس ٹی/۹-ای ‘ بلاک ۸‘  گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: ۴۶۔ قیمت: ۶۰ روپے۔[قوم پرستی ہمارے ملک کے اہم ترین سیاسی مسائل میں سے ایک ہے۔ وعظ و تلقین اس مسئلے کا حل نہیں۔ یہ گہرے مطالعے اور عملی تدابیر کا تقاضا کرتا ہے۔ مصنف نے قرآن و حدیث کی روشنی میں عصبیت کے مہلک مرض کی مذمت کی ہے اور نتائج سے خبردار کیا ہے۔]
  •  عنایت علی خان، شخصیت وفن ، مرتبین: محمد افضال، عبدالطیف انصاری۔ ملنے کا پتا: مکان نمبر ۱۶۲۲‘   اقبال کالونی‘ یونٹ نمبر ۱۲‘ لطیف آباد‘ حیدر آباد‘سندھ۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[عنایت علی خان  خوش قسمت ہیں کہ ان کے دوستوں نے انھیں زندگی ہی میں خراجِ تحسین پیش کردیا۔ ان کے مزاحیہ اور غیرمزاحیہ کلام کا انتخاب‘ کچھ مضامین ‘ خصوصی انٹرویو اور دوستوں کے مضامین شامل اشاعت ہیں۔ ان کی باغ و بہار‘    ہمہ جہت اور متنوع شخصیت کی بہت اچھی جھلک۔]
  •  خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق چند فکری مغالطے ، ریاض الرحمن قریشی۔ بہائوالدین زکریا یونی ورسٹی‘ ملتان۔ صفحات: ۱۴۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں دینی حلقوں کا موقف معروف ہے لیکن جب انھی میں سے کوئی ان کے حق میں لکھے تو کچھ لوگوں کو الجھن ہوجاتی ہے۔ مصنف نے اپنے ایک صاحبِ علم دوست کے ایسے ہی بعض مغالطوں کو دُور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان کی تحریر بھی مکمل دی ہے۔]
  •  الصرف الجمیل (الجزء الاوّل، الجزء الثانی)۔ تالیف: الاستاذ محمد بشیر۔ ناشر: دارالعلم‘ ۶۹۹ آبپارہ مارکیٹ‘ اسلام آباد۔ صفحات، اوّل: ۱۲۸‘ دوم: ۱۹۶۔قیمت بالترتیب: ۵۰ روپے، ۱۰۰ روپے۔ [اس کتاب میں مؤلف نے عربی زبان کے افعال کی گردانوں اور ان کے روزمرہ استعمال کو مؤثر اور سہل اسلوب میں پیش کیا ہے۔ عام فہم اور ہرقاری کے لیے مفید‘ خصوصاً مدارسِ عربیہ میں زیرتعلیم طلبہ و طالبات کے لیے گراں قدر سرمایہ۔ عربی گرامر کے قواعد و ضوابط کو تصاویر کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔]
  •  You Can Climb Up ، محمد بشیرجمعہ۔ ٹائم مینجمنٹ کلب‘ پوسٹ بکس ۱۲۳۵۶‘ ڈی ایچ اے‘ کراچی-۷۵۵۰۰۔ صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ [کامیابی کی شاہراہ پر سفر کرانے کے لیے بشیرجمعہ کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ اس مختصر کتاب میں انھوں نے مطالعے اور امتحان کے طریقے‘ وقت کا بہترین استعمال اور کیریئر کی منصوبہ بندی جیسے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔]

تدبر قرآن پر ایک نظر، مولانا جلیل احسن ندوی‘ترتیب و تعلیق: مولانا نعیم الدین اصلاحی۔ ناشر: دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۷۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی کی عظیم شاہ کار تفسیر ہے۔ گوناگوں خصوصیات کی حامل اس تفسیر کی سب سے بڑی خوبی نظم قرآن کی پیش کاری ہے‘ تاہم غلطیوں‘ تسامحات اور فروگذاشتوں سے انبیاے کرام کے سوا نہ کوئی انسان پاک ہے اورنہ کوئی انسانی کاوش۔ مولانااصلاحی کے نزدیک قرآن فہمی میںعربی ادب‘ نزولِ قرآن کے دور کے عربی لٹریچر اور روایات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے اِن اور بعض دیگر علمی معاملات میں اُن کی راے جمہور علما سے مختلف ہے۔

زیرنظر کتاب میں مولانا جلیل احسن ندوی نے کئی مقامات پر مولانا اصلاحی کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا اور تدبر قرآن کے تسامحات کا محاکمہ کیا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو: سورۂ بقرہ آیت ۲ (ذٰلِکَ الْکِتَاب… للمتقین) کا ترجمہ مولانا اصلاحی نے اس طرح کیا ہے: ’’یہ کتابِ الٰہی ہے، اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں‘ ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لیے‘‘ (تدبر قرآن‘ اوّل‘ ص ۳۷)۔ تفسیری حصے میں ذٰلِکَ کا مطلب بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جو چیز مخاطب کے علم میں ہے یا جس کا ذکر گفتگو میں آچکا ہے‘ اگر اس کی طرف اشارہ کرنا ہو تو وہاں ذٰلِکَ استعمال کریں گے‘‘۔ اس پر مولانا ندوی نے اعتراض کیا ہے کہ تب تو اس (ذٰلِکَ) کا ترجمہ ’وہ‘ سے کرنا چاہیے نہ کہ ’یہ‘ سے۔ صاحبِ تدبر قرآن آگے لکھتے ہیں: یہاں ذٰلِکَ کا اشارہ سورہ کے اس نام کی طرف ہے جس کا ذکر گزر چکا ہے اور بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ الم قرآن عظیم کا ایک حصہ ہے (ایضاً، ص ۴۱)۔ ندوی صاحب لکھتے ہیں: ذٰلِکَ کا ’یہ‘ سے ترجمہ کرنا درست نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ ذٰلِکَ کا اشارہ سورہ کی طرف ہے بلکہ ذٰلِکَ کا ترجمہ ’وہ‘ درست ہے۔ نیزیہاں سورہ کے نام کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ اس کتاب کی طرف اشارہ ماننا چاہیے جس کا اہلِ کتاب بالخصوص یہود انتظار کر رہے تھے جس پر ایمان لانے کا ان سے اللہ نے موسٰی ؑاور دوسرے انبیاے بنی اسرائیل کے ذریعے پختہ عہدوپیمان لیا تھا(ص ۱۱)۔ مصنف نے گروہی تعصبات سے بالاتر ہوکر تجزیہ اور مدلل بحث کی ہے۔ بعض مقامات پر اسلوبِ تنقید قدرے سخت ہے لیکن بحیثیت مجموعی یہ اختلاف و تنقید صاحبِ تدبر قرآن کے پورے احترام کے ساتھ علمی و فکری حدود میں ہے۔

سورئہ بقرہ سے سورئہ فتح تک کی مختلف آیات کے تراجم اور ان کی تفسیر پر مشتمل یہ مضامین وقتاً فوقتاً ماہ نامہ زندگی اور ماہ نامہ حیاتِ نو میں شائع ہوتے رہے۔ نعیم الدین اصلاحی نے انھیں جمع کیا‘ کتابی شکل دی اور اس پر تعلیقات و حواشی کا اضافہ کیا۔ یہ صرف چند سورتوں تک محدود ہیں۔ زیرنظر کتاب قرآنی مطالعے کے سلسلے میں متوازن راے قائم کرنے اور قرآن فہمی کے ذوق میں اضافے کا سبب بنے گی۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


اسلام اور مغرب کا تصادم، اسرارالحق‘ مترجم: وسیم الحق۔ ناشر: کتاب سراے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اسرارالحق کی کتاب The End of Illusionsکے چھٹے باب کا اُردو ترجمہ وسیم الحق نے کیا ہے۔ اس اہم تصنیف میں بہ دلائل یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام‘ قرآن‘ جہاد‘ حجاب اور مسجد کے خلاف مغرب کے چند لوگ نہیں بلکہ صدارتی مشیر‘ انتہائی بااثر تھنک ٹینک‘ پالیسی ساز ادارے‘ یونی ورسٹیاں اور ذرائع ابلاغ کے سرخیل سب کے سب شب و روز سرگرمِ عمل ہیں۔ نام نہاد دہشت گردی کا مرتکب مسلم دہشت گرد قرار پاتا ہے‘ جب کہ کسی عیسائی‘ یہودی‘ جاپانی‘ ہندو یا تامل فرد کے لیے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ اُس کے مذہب کی شناخت کی جائے۔

اسرارالحق صاحب نے سیکڑوں حوالوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ڈنمارک کے خاکہ نگار کے خاکوں نے شہرت حاصل کرلی ورنہ امریکا اور یورپی ممالک کے متعدد صدور‘ سربراہانِ فوج اور پالیسی ساز اداروں کے بیانات بھی اپنی زہرناکی میں خاکوں سے کم نہیں۔ سب سے بڑا عملی ثبوت افغانستان وعراق ہیں کہ جہاں انسانیت کے ہر اصول کو پامال کر کے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

۲۲۳ صفحات کی زیرنظر کتاب میں امریکی ذرائع ابلاغ‘ امریکی کانگرس‘ اقوامِ متحدہ‘ یورپی یونین‘ بھارت اور جاپان کے درجنوں ایسے حوالے درج کیے گئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہاں اسلام کو روے زمین سے نیست و نابود کرنے کے لیے کیا کچھ سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان مسلسل حوالوں اور بیانات کو پڑھ کر ایک بار تو یہ احساس ہوتا ہے کہ میڈیا نے ہمیں اس طرح بے دست و پا کردیا ہے کہ ہم اپنے ہی قتل کے لیے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ نہیں ہیں۔

اسرارالحق نے غیر جانب داری سے اسلامی نظامِ معاشرت‘ تہذیب‘ جذبۂ جہاد‘ شہادت‘ پُرمسرت زندگی‘ شراکتِ اقتدار‘ رواداری اور نظامِ حکومت کے خدوخال اور ان کے رہنما اصولوں کی نشان دہی کردی ہے۔ کتاب کے ابتدائی ۵۷ صفحات تو حقیقتاً آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ انگریزی سے اُردو ترجمہ انتہائی محنت سے کیا گیا ہے۔ مغرب اور مغربی فکر سے آگاہی کے لیے یہ ایک اہم کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


۱- صحت کی حفاظت ، ۲- قدرتی دوائیں،۳- امراض اور علاج ، ڈاکٹر حکیم عبدالحنان۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ‘ پوسٹ بکس ۱۲۳۵۶‘ ڈی ایچ اے‘ کراچی-۲۵۵۰۰۔ صفحات: (علی الترتیب)  ۲۷۲، ۱۵۲،۲۲۴۔ قیمت: ۲۰۰، ۱۳۰،۱۷۰ روپے۔

پرانا محاورہ ہے کہ صحت دولت ہے‘ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ اس دولت کی قیمت بہت بڑھتی جارہی ہے۔ جو بیماری کسی کو ہوجائے معلوم ہوتا ہے کہ ساری عمر کا علاج چاہیے۔ دوائیں غذا اور خوراک کا حصہ بن گئی ہیں۔ پرانے وقتوں میں بہت ساری بیماریاں گھروں ہی میں نبٹائی جاتی تھیں۔ خاندان کی بزرگ خواتین کے پاس اتنے مجرب نسخے ہوتے تھے کہ صرف پیچیدہ بیماریوں کے لیے ڈاکٹر کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ یہ صدری نسخے بھی آہستہ آہستہ متروک ہوگئے اور ڈاکٹری علاج کا چلن بڑھ گیا۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر حکیم عبدالحنان کی یہ تین کتابیں نعمت سے کم نہیں۔ حکیم صاحب نے سادہ اور عام فہم زبان میں اتنا کچھ فراہم کر دیا ہے کہ اگر عام تعلیم یافتہ مرد اور خواتین ان تینوں کتابوں کو کورس کی طرح پڑھ لیں، (یعنی اس پر امتحان میں ۵۰ فی صد سے زائد نمبر لے سکیں) تو نہ صرف وہ اپنی ذاتی صحت ٹھیک رکھیں گے بلکہ خاندان کے دوسرے چھوٹے بڑوں کے لیے ایک حد تک معالج کا کام کرسکیںگے (اور یوں علاج پر خرچ ہونے والے ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں روپے کی بچت کریں گے)۔

صحت کی حفاظت میں بیماریوں سے بچائو اور زندگی گزارنے کے آسان طریقے فراہم کیے گئے ہیں۔ قدرتی دوائیں میں پھلوں‘ سبزیوں اور عام جڑی بوٹیوں سے محفوظ اور مؤثر انداز سے علاج کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ وہ باتیں جو اخبارات اور رسائل میں موسم کے لحاظ سے پڑھنے کو ملتی ہیں‘ سب یہاں یک جا اور مستند موجود ہیں۔ امراض اور علاج میں ہر قسم کے عام امراض (بلڈپریشر‘ ذیابیطس‘ دمہ اور دیگر) کے بارے میں بہت کام کی باتیں اور مفید مشورے دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی طبِ یونانی کے کچھ آسان نسخے بھی بیان کیے گئے ہیں۔

عام فائدے کی یہ معیاری کتابیں ہر فرد کی ضرورت ہیں۔ (مسلم سجاد)


مجھے ہے حکمِ اذاں، اوریا مقبول جان۔ ناشر: کتاب گھر‘ ادارہ الانوار‘ دکان۲‘ انور مینشن‘ بنوری ٹائون‘ کراچی۔ فون: ۴۹۱۹۶۷۳۔ صفحات، حصہ اوّل: ۳۱۰‘ دوم: ۳۱۲۔ قیمت: درج نہیں۔

پاکستان کے اخباری صفحات پر روزانہ لاکھوں الفاظ خرچ کر کے خبریں پیش کی جاتی ہیں اور مضامین یا کالم لکھے جاتے ہیں۔ جملوں اور حرفوں کی یہ برکھا چند گھنٹوں میں فنا کے گھاٹ اُتر جاتی ہے۔ تاہم جو چند ہزار الفاظ زندگی پاتے ہیں‘ ان میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد اوریا مقبول جان کے حصے میں آئی ہے۔ حرفِ راز کے اس پُرعزم رازدان نے لفظوں کو پاکیزگی اور عصری شعور کو دانش کی کسوٹی پر پرکھنے کی روایت میں بامعنی پیش رفت کی ہے۔

ان دو مجموعوں میں شامل مختصر مضامین معروف ہفت روزہ ضربِ مومن میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان نثرپاروں میں ہماری زندگی کے روز مرہ حادثات و واقعات کو تاریخی‘ سماجی‘ دینی‘ اخلاقی اور نفسیاتی تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کا توجہ طلب انداز پایاجاتا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب کے اوراق پر مغرب کی غیرمنصفانہ یلغار‘ دھونس اور زیادتی کے فہم کو نمایاں کیا اور خود مسلم دنیا میں   بکھری بے عملی اور بے حمیتی پر نظر ڈالی گئی ہے۔ مسلم دنیا بھی کیا‘ مسلم قیادتوں کی بے وفائی نے دشمن کے راستے صاف اور آراستہ کرنے کے لیے جو گل کھلائے ہیں‘ ان مضامین میں انھیں دیکھا اور احساسِ زیاں کی کسک محسوس کی جاسکتی ہے۔(سلیم منصورخالد)


دل پہ دستک،اخترعباس۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۳۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اخترعباس صحافتی اور ادبی حلقوں میں جانا پہچانا نام ہے۔زیرنظر کتاب کے ۳۳ اخباری کالم‘ دین‘ وطن اور اپنی اقدارکے ساتھ محبت کرنے والے قلم کار کی سوچ بچار‘ذاتی تجربے‘ مشاہدے اور مطالعے کا عکس ہیں۔ خوب صورت الفاظ‘ عام فہم‘سادہ اور چھوٹے چھوٹے جملوں کے ساتھ بات کہنے کا فن‘ پُرکشش عنوانات کے ساتھ۔ چند عنوانات درج ذیل ہیں: ’انھیں موت دوست لگتی ہے‘، ’خالی ہاتھوں والوں کو کوئی کیسے یاد رکھے‘، ’غلط فیصلوں کے پہاڑ اکثر سر نہیں ہوتے‘، ’جتنا بڑا یقین اتنی بڑی کامرانی‘، ’اتنے سخت دل تو نہ ہوجایا کرو‘۔

اخترعباس نوجوان قلم کار ہیں جنھوں نے قلمی جہاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔واعظانہ انداز کے بجاے خاموشی سے اپنی بات اس طرح کہتے ہیں جس سے امید‘ سرشاری کے جذبات اُجاگر ہوتے ہیں۔ یہی ان کی تحریر کی خوبی اور بات کہنے کا وہ ڈھنگ ہے جو ان کو موجودہ دور کے اہلِ قلم میں ممتاز کرتا ہے۔ اگرچہ یہ کالم پھول ڈائجسٹ میں بچوں کے لیے لکھے گئے ہیں مگر یہ ہرعمرکے قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ جہادِ زندگی میں نئے راستوں اور منزلوں کے متلاشی حضرات کے لیے یہ کتاب ایک انمول تحفہ ہے۔ (عمران ظہور غازی )

تعارف کتب

  •  ماہ نامہ چراغ اسلام، مدیراعلیٰ: مولانا عطاء الرحمن مدنی۔ پتا: جامعہ عربیہ‘ انور انڈسٹری‘ جی ٹی روڈ‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۱۵ روپے۔ [ملک بھر سے نکلنے والے دینی رسائل کی تعداد میں ایک خوش گوار اضافہ‘  چار شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ مضامین کا انتخاب معیاری ہوتا ہے۔ اکتوبر کے شمارے میں اعتکاف ‘شب قدر اور غزوئہ بدر پر مضامین ہیں۔ عیدکارڈ کے خلاف ایک مؤثر مضمون بھی شامل ہے۔]
  •  سہ ماہی الحنیف ، مدیراعلیٰ: قاری افضل اکبر۔پتا: فاروقی مسجد‘ سعود آباد‘ ملیر‘ کراچی-۳۷۔ صفحات: ۶۲۔ قیمت: درج نہیں۔ [یہ بھی ایک اضافہ ہے لیکن سہ ماہی۔ پہلے شمارے میں سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ سید قطب شہید‘ سید ابوالحسن ندوی‘ مولانا گوہر رحمن‘ مولانا جلال الدین عمری‘ علامہ زاہد الرشدی‘ سید عارف شیرازی کے مقالات شامل ہیں۔ ان رسائل کا یہ فائدہ ضرور ہونا چاہیے کہ مدرسے کے استاد اور طلبہ جدید مسائل پر تحقیق کر کے عام فہم انداز سے لکھیں۔]
  •  دوماہی سربکف ، مدیراعلیٰ: منظرعارفی۔ پتا: سربکف‘ پوسٹ بکس ۷۲۷۲‘ کراچی۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: (خاص نمبر) ۸۰ روپے۔ [سیرت پر متعدد اچھی تحریروں کا مجموعہ۔ لکھنے والوں میں مولانا مودودی‘ نعیم صدیقی‘ اسعدگیلانی‘ پروفیسر خورشیداحمد اور خالد علوی صاحبان شامل ہیں‘ نیز ہر صفحے پر معروف شعرا کے اشعار۔]
  •  آزادی نسواں، زوال نسواں، ڈاکٹر جاوید اقبال (ہومیو)۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔ فون: ۷۲۳۲۳۳۶۔ صفحات: ۱۸۳۔ قیمت: ۱۵۰ روپے (مجلد)۔ [مؤلف نے دینی غیرت کے جذبے سے اس منفی پروپیگنڈے کاجائزہ لیاہے جس کے تحت مسلمان خواتین کی بدحالی کی خودساختہ داستانوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ چار ابواب: عورت اور مذاہبِ عالم‘ عورت اور معاشرتی زندگی‘ عورت اور اسلامی احکام‘ آزادیِ نسواں یا زوالِ نسواں ___میں ان مباحث کو سمیٹا گیا ہے۔]
  •  Islam , Essence and Spirit، محمد زبیر فاروقی۔ ناشر: دعوہ اکیڈیمی‘ انٹرنیشنل اسلامک  یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۰۰۔ قیمت: ۷۰ روپے۔ [بنیادی اسلامی عقائد کا فلسفہ۔ ہر لحظہ بدلتی دنیا میں توحید‘ رسالت‘ آخرت کے تصورات‘ مستحکم خاندانی نظام اور نظامِ معاشرت میں اخلاقیات کی غرض و غایت۔ علمِ وحی اور اکتسابی علم نے انسانیت کے لیے کون سے راستے کشادہ کیے ہیں۔ بے خدا تہذیب اور معیشت و معاشرت نے کیا گُل کھلائے‘ ان موضوعات پر قلم اٹھایا گیاہے۔ انگریزی دانوں کے لیے اسلام کا ایک مؤثر تعارف۔]