’’دین کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے‘ قرآن و سنت کا حوالہ دیجیے مگر ایسا نہ کہیے کہ یہ بات سلف نے کہی ہے۔ سلف کیا ہوتا ہے؟ کل ہم بھی سلف ہوں گے۔ اصل چیز تو دین ہے‘‘۔ کئی برس ہوتے ہیں‘ ایک بار تبصرہ نگار کے ایک سوال پر مولانا امین احسن ؒاصلاحی (م:دسمبر۱۹۹۷ء) نے اپنے مخصوص جلالی لہجے میں یہ جواب دیا تھا۔ واقعی کل تک وہ چلتے پھرتے انسان تھے اور آج اسلاف میں ان کا ایک مقام ہے۔ علوم القرآن کا یہ خصوصی نمبر ‘ اصلاحیؒ صاحب کے اس مرتبے کے تعین میں بہت سی منزلوں کی نشان دہی کرتا ہے۔
اسی طرح ۱۹۸۷ء میں ایک ملاقات کے دوران مولانا اصلاحیؒ صاحب نے فرمایاتھا: ’’میری زندگی میں‘ دو چیزوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر بات نہیں ہے۔ پہلی یہ کہ مجھے مولانا حمیدالدین فراہیؒ کی شاگردی کی سعادت نصیب ہوئی اور دوسری یہ کہ مولانا فراہی ؒ نے اپنے ابتدائی درس میں مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ کسی چیز کو آنکھیں بند کرکے قبول نہ کرنا‘ حق پانے کے لیے سوال پوچھنے کی ہمت پیدا کرنا اور اختلاف کرنے کا سلیقہ سیکھنا۔ واقعہ یہ ہے کہ مجھے زندگی میں انھی دو چراغوں نے روشنی دی ہے‘‘۔ زیرنظر مجلے میں اصلاحیؒ صاحب کی بیان کردہ دوسری بات کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ ان کے چاہنے والوں نے اصلاحیؒ صاحب پر کلام کرتے ہوئے کشادہ ذہن کے ساتھ خود اصلاحیؒ صاحب کی تحریروں کو پڑھ کر تحسین و نقد کی ذمہ داری ادا کی ہے۔
مولانا اصلاحی ؒکے انتقال کے بعد پاکستان سے جو دو تین پرچے ان پر خصوصی اشاعتیں لائے‘ ان میں مولانامرحوم کے کام اور مقام پر کلام کرنے کے بجائے اُن کے مجلسی جلال کا اظہار ملتا ہے یا پھر جماعت اسلامی یا مولانا مودودیؒ کو ہدف بنانے کے لیے اس موقع کو استعمال کیا گیا ہے‘ (جس سے یہی تاثر بنتا ہے کہ مولانا اصلاحیؒ بس ہجو کے بادشاہ تھے‘ باقی جو کام ہوا وہ تو بروزن بیت تھا)۔ اس کے برعکس زیرنظر پرچہ مولانا اصلاحیؒ کی جلالت ِ علمی کو نمایاں کرنے کی ایک بامعنی خدمت ہے۔
اس مجلے میں شامل تحریروں کی حیثیت روایتی تعزیتی حاشیوں کی نہیں‘ بلکہ یہ اہم موضوعات پر تحقیقی مضامین ہیں‘ جن میں مولانا کی قابل قدر خدمات کے اعتراف وتائید کے ساتھ ان سے مودبانہ اختلاف کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ اس ضمن میں الطاف اعظمی‘ نعیم الدین اصلاحی‘ ابوسفیان اصلاحی اور محمد مسعود عالم قاسمی کے مضامین دلچسپ اور بصیرت افروز ہیں۔
سلطان احمد اصلاحی نے ’’تفسیر اصلاحی کے غیر فراہی عناصر‘‘کو نمایاں کرتے ہوئے بعض مقامات پر فراہیؒ اور اصلاحی ؒ کے تفردات میں فرق کو واضح کیا ہے۔ خالد مسعود نے ’’مولانا اصلاحی کی خدمت حدیث‘‘ پر مضمون میں متن حدیث کے قبول کرنے میں اصلاحیؒ صاحب کی اپروچ کو یوں بیان کیا ہے: ’’ہم رسولؐ کی طرف ان ]صحابہؓ[ کی منسوب کردہ حدیث کے بارے میں یہ رائے رکھیں کہ وہ پوری امانت و دیانت کے ساتھ روایت کی گئی ہے‘ اور اس کے بارے میں بلاوجہ کسی شبہے میں نہ پڑیں۔ البتہ جہاں تک سلسلہ روایت کے باقی راویوں کا تعلق ہے‘ وہ سب کے سب تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ ان سب کی امانت و دیانت‘علمی مرتبہ‘ حافظہ‘دین پر عمل ہر چیز کو پرکھا جائے گا‘‘ (ص ۲۶۰)۔ اسی طرح: ’’مولانا اصلاحیؒ کی حدیث فہمی کاانداز بالکل منفرد ہے۔ وہ متن حدیث کے ایک ایک لفظ اور ٹکڑے پر غور کرتے اور اس کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور یہ متعین کرنا چاہتے ہیں کہ واقعتا روایت کا کتنا حصہ صحیح ہے اور کس حصے کی روایت میں کوئی خامی رہ گئی ہے‘‘۔ (ص ۲۶۹)
صفدر سلطان اصلاحی نے ’’مولانا اصلاحی کی تحریکی خدمات‘‘ (ص ۳۹۴) پر ایک متوازن مضمون کے ذریعے اصلاحیؒ صاحب کی تحریکی زندگی کے مدوجزر کا تذکرہ کرتے ہوئے اعتراف و اختلاف کے منطقوں سے قاری کو روشناس کرایا ہے۔و ہ لکھتے ہیں: ’’چنددینی اور سیاسی امور میں ]مولانا مودودی مرحوم سے[ شدید اختلاف کی وجہ سے مولانا اصلاحی ؒنے جماعت سے رکنیت کا رشتہ منقطع کر لیا تھا اور ایک مختصر عرصے میں ان کے مولانا مودودیؒ سے انتہائی سخت لب و لہجے میں قلمی مباحثے بھی ہوئے‘ لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کا جو ہمہ گیر تصور اور اس کے غلبے کی جو جدوجہد انھوں نے تحریک ]جماعت اسلامی[ میں رہتے ہوئے کی تھی‘ تحریک سے علیحدگی کے بعد بھی وہ اسی نہج پر کام کرتے رہے۔ ان کی تفسیر تدبر قرآن میں غلبہ دین کے اسی جذبے اور ولولے کی کارفرمائی نظرآتی ہے‘‘۔ (ص ۴۳۳)
مولانا امین احسنؒ اصلاحی ایک غیر معمولی فقیہانہ بصیرت کے مالک تھے۔ انھوں نے بجا طور پر فرمایا تھا: ’’دور حاضر میں تدوین قانون اسلامی کی جو کوشش کسی ایک فقہ کے اندر محصور ہو کر کی جائے گی‘ کبھی کامیاب اور قابل قبول نہ ہوگی‘‘ (ص ۳۱۵)۔ اور یہ کہ: ’’اگر ہمیں اس ملک ]پاکستان[ میںا سلامی قانون کے نفاذ کا مقصد عزیز ہے‘ تو ہمارے علما حنفی اور اہل حدیث کی اصطلاحوں میں بات کرنے کے بجائے قرآن و حدیث کی اصطلاحوں میں بات کریں اور اپنے مدارس میں متعین فقہوں کی تعلیم دینے کے بجائے پوری اسلامی فقہ کی تعلیم دیں‘ تاکہ طلبہ کے ذہنوں میں وسعت اور رواداری پیدا ہو‘‘۔ (اسلامی قانون کی تدوین‘امین احسن اصلاحی‘ ص ۱۰۳)۔ مذکورہ بالا دونوں اقوال مولانا اصلاحیؒ کی دانش برہانی کے غماز ہیں۔
یہ مختصر تبصرہ نہ تو مولانا امین احسن اصلاحی جیسے کوہ وقار کی علمی لطافتوں اور فکری عظمتوں کا احاطہ کر سکتا ہے اور نہ علوم القرآن کے خصوصی نمبر پر خاطر خواہ روشنی ڈال سکتا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مولانا اصلاحیؒ کے علمی کارناموں کی غیر جذباتی پیمایش کے لیے‘ فاضل مقالہ نگاروں کے تعاون سے یہ خوب صورت گلدستہ پیش کیا۔ (سلیم منصور خالد)
براعظم ایشیا کے قلب (افغانستان) پر اشتراکی روس کے حملے (۱۹۷۹ء) کے ۲۲ سال بعد‘ دوسرا حملہ استعماری امریکہ نے کیا ہے۔ بظاہر اشتراکیت اور سرمایہ داری میں بعدالمشرقین ہے لیکن استعماریت ‘ سامراجیت اور توسیع پسندی کے ضمن میں دونوں میں حیرت انگیز اتفاق پایا جاتا ہے۔ دونوں کا ہدف افغانستان کے بے پناہ قدرتی وسائل اور قیمتی معدنیات پرقبضہ جما کر اُنھیں ہڑپ کرنا ہے (اس کی تفصیل معتوب اور ان دنوں پابند سلاسل ایٹمی سائنس دان بشیرالدین محمود اپنے ایک مضمون میں پیش کر چکے ہیں)۔ تاریخ میں جہاں یہ امر مملکت خداداد پاکستان کے لیے طرہ امتیاز رہے گا کہ اُس نے اشتراکی حملے کے خلاف افغانیوں کے جہاد میں ان کی پوری طرح پشتی بانی کی‘ وہاں اس کے دامن پر ایک سیاہ دھبا ثبت ہے کہ آزاد اسلامی مملکت‘ افغانستان پر امریکی یلغار اور قتل و غارت گری میں وہ امریکہ کا مددگار بن گیا ۔ اس کی پیشانی پر کلنک کا یہ ٹیکا اہل پاکستان کو مدتوں شرمسار رکھے گا۔
افغانستان پر امریکی حملہ گذشتہ دو تین ماہ میں ہماری صحافت خصوصاً کالم نگاروں کا سب سے بڑا موضوع رہا ہے۔ اس ضمن میں جن اہل قلم نے پاکستانی نقطۂ نظر اور اسلامی جذبات کی صحیح ‘ موثر اور بھرپور ترجمانی کی ان میں روزنامہ نوائے وقت کے سینئر ڈپٹی ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف کا نام بہت نمایاں ہے۔ انھوں نے بڑی جرأت‘ توازن اور ایک جذبۂ ایمانی کے ساتھ اس موضوع کے مالہٗ وما علیہ کو موثر انداز میں پیش کیا۔ زیرنظر کتاب اسی موضوع پر ستمبر‘ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں لکھے ہوئے ان کے کالموں (طلوع) کا مجموعہ ہے۔ ان تحریروں میں ایک صاحب دل پوری درد مندی کے ساتھ اور ہر طرح کی مصلحت اندیشی کو بالاے طاق رکھتے ہوئے اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا نظرآتا ہے جو دراصل پاکستان کے جمہور مسلمانوں کی ترجمانی ہے۔
معاصر صحافیانہ تحریروں میں کوئی ادبی اسلوب یا دانش ورانہ نکتہ آفرینی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے مگر ارشاد احمد عارف کے ہاں جان دار‘ تیکھے اور موثر انداز تحریر کی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں جن کی معنی خیزی قابل داد ہے‘ مثلاً: mطالبان کی کیفیت اس وقت شریف گھرانے کی ایسی عورت کی ہے جس کو بیچ چوراہے کے اخلاق باختہ نوجوانوں نے گھیر رکھا ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ ہنسی خوشی اپنی عزت کا سودا کر لو ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جائو (ص ۱۲)۔ mمادی ضروریات اور جسمانی خواہشات مقصدِحیات بن جائیں توآدمی مزاحمت اور مقابلے کے بجائے خود سپردگی اور لذت کیشی کو ترجیح دیتا ہے (ص ۱۳)۔ m انسان کو اقتدار نہیں‘ کردار زندہ رکھتا ہے۔ قدرت ہر انسان ‘ گروہ اور قوم کو یہ موقع ضرور فراہم کرتی ہے کہ وہ فیصلے کی گھڑی میں اپنا وزن درست پلڑے میں ڈال سکے (ص ۴۲)۔ m امریکہ کا نشانہ پاکستان‘ بہانہ افغانستان ہے (ص ۳۷)۔ m ہر فیصلہ زمین پر نہیں ہوتا‘ کچھ فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں اور ان کا ایک وقت مقرر ہے جس کا کسی کو علم نہیں ورنہ امریکہ کم از کم ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو ضرور بچا لیتا۔ (ص ۵۰)
ارشاد احمد عارف بار بار ہمارے امریکی آلۂ کار بن جانے کے فیصلے پر اظہار افسوس کرتے ہیں: ’’ماضی میں امریکی گیم پلان کا حکمرانوں کو علم ہوتا تھا‘عوام کو نہیں۔اب صورت حال اس کے برعکس ہے کہ عوام باخبر ہیں مگر امریکہ سے خوش گمان حکمران بے خبر نظر آتے ہیں یا اس کی ایکٹنگ کر رہے ہیں (ص ۹۸)۔
مصنف بنیادی طور پر ایک سنجیدہ اداریہ نویس اور کالم نگار ہیں مگر ان کی حسِّ مزاح بھی جگہ جگہ اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ درزی اور چالاک ترک سردار کے حوالے سے ’’ٹھگ‘‘ میں‘ اسی طرح دنبے‘ بیل اور اُونٹ کی مثالوں کے ساتھ ’’چارہ‘‘ میں مزاح کی ایک زیریں لہر موجود ہے۔
امید ہے یہ مجموعۂ مضامین دل چسپی کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان کو درپیش مسائل میں سے اہم ترین مسئلہ جسے مسائل کی جڑ بھی قرار دیا جا سکے‘ کیا ہے؟ اس بارے میں اتفاق رائے سے کچھ کہنا مشکل ہے‘ تاہم بہت سے لوگوں کے خیال میں اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ اس کی کمزور معیشت ہے۔
بلاشبہہ پاکستان کو قدرت نے وسیع انسانی و قدرتی وسائل عطا کیے ہیں‘ تاہم پے درپے برسراقتدار رہنے والی سیاسی و فوجی قیادت کی بدانتظامی اور بدعنوانی کی بنا پر‘ ہم قدرت کی ان وافر نعمتوں سے درست طور پر استفادہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس صورت حال پر ہر صاحب دل فطری طور پر پریشان ہے۔ حامد سلطان تجارت و صنعت سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنے کامیاب کاروباری تجربات کی روشنی میں بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس خراب صورت حال کی اصل وجہ بدانتظامی اور بددیانتی ہے ورنہ جب ایک عام کاروباری یونٹ حسن انتظام کی بنا پر نفع آور ہو سکتا ہے تو آخر پاکستان جیسا قدرتی وسائل سے مالا مال ملک اقتصادی طور پر بدحالی کا شکار کیوں ہو۔
حامد سلطان معاشیات یا سیاسیات کے ماہر نہیں ہیں‘ تاہم ایک کامیاب کاروباری منتظم کی حیثیت سے اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ‘ وہ بہت سے مقامی‘ ملکی اور بین الاقوامی برآمدی کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے متعلق بھی رہے ہیں۔ یوں انھیں پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی معیشت اور صنعت و تجارت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ان کی یہ کتاب ان کے ذاتی مشاہدات اور تاثرات پر مبنی ۲۵ مضامین پر مشتمل ہے جو انھوں نے اخبارات کے لیے تحریر کیے ہیں۔ ہر مضمون کسی خاص خبر یا واقعے کو بنیاد بنا کر تحریر کیا گیا ہے۔ بیشتر مضامین میں تاثرات و دلائل کی تکرار کا احساس ہوتا ہے۔ مصنف نے اپنے دلائل کے حق میں آیات قرآنی اور احادیث کا بھی وقتاً فوقتاً حوالہ دیا ہے۔ مختصراً ان دلائل کا احاطہ کیا جائے تو خود مصنف کے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا پیمانہ وہاں کا سیاسی کلچر ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کلچر نے حلقہ بندیوںکی بنیاد پر سرمایہ داروں‘ جاگیروں اور اسمگلروں‘ حرام خوروں‘ ابن الوقتوں‘ موقع پرستوں اور منافقوں کے مفادات کا پورا پورا تحفظ کیا ہے‘‘ (ص ۴۳)۔ چنانچہ پاکستانی قوم کو درپیش مسائل کی اصل وجہ سیاست میں جاگیرداروں اور بڑے سرمایہ داروں کی اجارہ داری اور نتیجتاً حکومتی سطح پر بدانتظامی و بدعنوانی ہے۔ اس صورت حال کا حقیقی مداوا اسی وقت ممکن ہے جب ملکی سیاست و حکومت کی باگ ڈور واقعی ایسی قیادت کے ہاتھ میں ہو جو حسن انتظام اور امانت و دیانت کے احساس کے ساتھ قومی وسائل کواس طرح استعمال کرے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور عام آدمی کی اقتصادی صورت حال بھی بہتر ہو۔
عمدہ سرورق کے ساتھ شائع شدہ یہ کتاب سادہ انداز میں ایک محب وطن پاکستانی تاجر کے خیالات پر مشتمل ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زیرنظر مضامین عام پاکستانی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مضامین کے ساتھ ان کی تاریخ اشاعت بھی درج کرنا مفید ہوتا ۔ (خالد رحمٰن)
۱۹۸۸ء میں شیطان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب کی اشاعت کے بعد‘ بھارت کے معروف سیاست دان اور اسکالر ڈاکٹر رفیق زکریا نے اس کے جواب میں یہ کتاب لکھی جو پینگوئن بکس نے امریکہ ‘برطانیہ اور بھارت سے بیک وقت شائع کی۔ اس پر دنیا کے معروف رسائل میں تبصرے شائع ہوئے‘ یہ اس کا اردو ترجمہ ہے جو ڈاکٹر مظہرمحی الدین‘ پرنسپل‘ مولانا آزاد کالج اورنگ آباد‘ مہاراشٹر نے کیا ہے۔ جواب کا انداز جذباتی انداز سے اُلجھنے کے بجائے اہم امور کے بارے میں اسلام کا صحیح موقف مثبت انداز سے پیش کرنے کا ہے۔ اس لیے اس نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے اسلام کی حقیقت سمجھانے والی ایک موثر دعوتی کتاب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
پہلے باب میں غزوات اور ازواج مطہرات کا بیان ہے۔ دوسرے میں قرآن کی آیات میں سے ایک ہزار ایک سو ۱۱ آیات کا انتخاب دیا گیا ہے۔ ہر سورہ سے پہلے مختصر تعارف کروایا گیا ہے۔ آیات کے ترجمے میں تفہیم القرآن کا ترجمہ بھی پیش نظر رہا ہے۔ تیسرے میں قصص الانبیا اور چوتھے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح وہ سب موضوعات آگئے جنھیں رشدی نے اپنا نشانہ بنایا تھا۔ مصنف نے درست لکھا ہے: ’’میں نے تعصب کا جواب دلیل سے‘ غلط فہمی کا جواب حقائق سے‘ اور تہمتوں کا جواب ناقابل تردید تاریخی مواد کے تجزیے کے ذریعے دینے کی کوشش کی ہے‘‘۔ ۴۰ صفحے کے مقدمے ’’پیغمبراسلام کا مشن‘‘ میں مصنف نے مستشرقین کے حوالے سے قیمتی بحث کی ہے۔ (مسلم سجاد)
زبان قرآن کی تفہیم و تعلیم کے لیے مختلف ادارے اور تحریکیں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے طریقہ ہاے تدریس کے اختلافِ نوعیت کے باوجود تسہیل کا دعویٰ تقریباً ہر ایک کے ہاں پایا جاتا ہے جو کہ عصرحاضر کے علمی رجحان کا تقاضا ہے۔ خلیل الرحمن چشتی کی کتاب قواعد زبان قرآن اسی تقاضاے علمی کی آئینہ دار ہے۔
عصرحاضر کی ضرورت کے مطابق جدید تدریسی تکنیک کو ملحوظ رکھتے ہوئے زیرنظر کتاب متعلمین عربی کے لیے ایک مفید اور عمدہ کاوش ہے۔ دینی مدارس میں عام طور پر ’’ابواب الصرف‘‘ اور عربی گردانوں کو (رٹا لگا کر) حفظ کرانا تعلیم عربی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس روایتی رٹا سسٹم سے گردانوں وغیرہ کو یاد کرنے کی تلقین کے بجائے مرتب موصوف نے تبدیلی افعال کے اصولوں کی تفہیم کو اصل اہمیت دی ہے۔ ’’گردانوں کو رٹانے کے بجائے‘ فعل کے ظاہری تغیر کی مناسبت سے‘ معنوی تبدیلی کو ذہن نشین کرانے کے لیے ایسے جدول وضع کیے گئے ہیں کہ طالب علم ان کو پرُ کر کے صیغوں پر عبور حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح فعل کے مختلف ابواب پر مہارت حاصل کرنے کے لیے کئی مشقیں وضع کی گئی ہیں‘‘۔ (ص ۱۷)
اس کتاب میں جہاں جدید اصطلاحات و تراکیب کا اہتمام کیا گیا ہے وہاں ہر سبق کے اختتام پر مشق کے لیے خالی جگہیں رکھی گئی ہیں ’’گویا یہ کتاب ایک ورک بک (work book)بھی ہے‘‘ (ص ۱۷)۔ خالی کالموں کو پر کر کے مشق سبق کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ایسی ضخیم اور قیمتی کتاب کا ورک بک کے طور پر استعمال درست معلوم نہیں ہوتا۔ بہتر یہ ہوتا کہ ہر سبق کے آخر میں صرف مشق تجویز کر دی جاتی۔
کتاب کے آخر میں ’’تحفۃ الاعراب‘‘ کے نام سے مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے منظوم قوا عدِنحو کتاب میں شامل کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح عربی اصطلاحاتِ قواعد کے انگریزی مترادفات کی فہرست بھی کتاب کی تفہیم و افادیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ مجموعی طور پر ایک جامع اور مفید کتاب ہے۔ (محمد حماد لکھوی)
برطانوی استعمار نے ہندستان کے مسلمانوں کو آزادی دیتے وقت مسئلہ کشمیر کاخنجر بھی گھونپ دیا تھا۔ اسی کشمیر کا سرد جہنم ’’سیاچن‘‘ ہے۔
آزاد کشمیر میں چین کی سرحد کی جانب‘ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیر سیاچن کی اسٹرے ٹیجک حیثیت مسلمہ ہے۔ یہ مقام‘ موت کی سرد وادی ہے۔ اپریل ۱۹۸۴ء میں‘ جب پاکستان‘ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں افغانوں کا ایک سرگرم پشتی بان تھا‘ تب بھارت نے اچانک پیش قدمی کرتے ہوئے آزادکشمیر کے علاقے سیاچن پر قبضہ کر لیا۔ بعدازاں پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کو بڑی حد تک پیچھے دھکیلا‘ لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ اب تک سخت تشویش ناک صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس کتاب میں‘ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلا م آباد کے نوجوان محقق ارشاد محمود نے ممکن حد تک سیاچن محاذ کے جملہ پہلوئوںکااحاطہ کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب میںقاری کو‘ سیاچن کے محاذ کے خدوخال‘ پس منظر‘ پیش منظر‘ مذاکراتی عمل اور فوجی و سفارتی میدان میں رونما ہونے والی پیش قدمی و پسپائی کے بہت سے مناظر دیکھنے اور غوروفکر کرنے کے لیے میسر آتے ہیں۔ یہ عجب بات ہے کہ جانی‘ مالی اور جغرافیائی اعتبار سے اس قدر خطرناک محاذ پر اردو زبان میں ڈھنگ کی کوئی دستاویز پڑھنے کو نہیں ملتی۔ ارشاد محمود نے اس مختصر مگر جامع کتاب میں بنیادی اور قیمتی معلومات کو یک جا کر دیا ہے۔ پاکستان کے سابق نائب سپہ سالار جنرل (ر) خالد محمود عارف نے پیش لفظ میں‘ اس کتاب کو ’’پاکستان کی خدمت‘‘ قرار دیا ہے۔ اس پیش کش میں پروف خوانی بھی کتاب کے شایان شان ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ (س - م - خ)
پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم‘ پنجاب یونی ورسٹی میں شعبہ طبیعیات کے صدر‘ سائنس فیکلٹی کے ڈین اور متعدد دیگر ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ طبیعیات کے موضوع پر ان کے تحقیقی مقالات اور کتابیں برطانیہ اور امریکہ کے ممتاز جریدوں اور ناشرین نے شائع کی ہیں۔ پنجاب یونی ورسٹی سے سبک دوشی کے بعد‘ ان کی توجہ اردو میں تصنیف و تالیف کی طرف منعطف ہوئی۔ داراشکوہ احوال و افکار (تبصرہ: ترجمان نومبر ۱۹۹۶ء) اور قائداعظم محمد علی جناح: سیاسی و تجزیاتی مطالعہ(مارچ ۱۹۹۹ء) کے بعد اب ان کی زیرنظر کتاب منصّہ شہود پر آئی ہے‘ جس کا مقصد اس عمومی غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ علامہ اقبال محض ایک شاعر اور فلسفی تھے جو زندگی بھر عملی سیاست سے الگ تھلگ اور گوشہ نشین رہے۔
پروفیسر محمد سلیم کو شکوہ ہے کہ اس عظیم مسلم مفکر اور شاعر کو ایک عالم نے خراج تحسین پیش کیا مگر سیاست میں ان کے عملی کردار کو عام طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ علامہ نے یورپ سے واپسی (۱۹۰۸ء) کے تقریباً چار سال بعد‘ عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور تادمِ وفات ‘ وہ اس میدان میں سرگرم عمل رہے۔ مصنف نے ۱۲-۱۹۱۱ء سے اقبال کی وفات تک ہندستانی سیاست کے اتار چڑھائو‘ مسلم لیگ اور کانگریس کی سرگرمیوں‘ تقسیم بنگال کی منسوخی‘ حادثہ کان پور ‘ تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون‘ پنجاب کونسل کے انتخابات‘ سائمن کمیشن‘ خطبہ الٰہ آباد‘ گول میز کانفرنس‘ تحریک کشمیر اور ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں اقبال کی دلچسپیوں ‘ ان کے تحریری و تقریری ردعمل‘ اور موقع بہ موقع ان کی عملی شرکت کی تفصیل فراہم کی ہے۔
سیاست میں علامہ اقبال کی شرکت کا مقصد وحید‘ ہندی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی مجموعی فلاح و بہبود تھا۔ ۱۹۲۳ء میں ان کے احباب نے اصرار کیا کہ وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیں مگر وہ آمادہ نہ ہوئے‘ لیکن تین سال بعد ۱۹۲۶ء میں یہ اصرار اتنا بڑھا کہ وہ رضامند ہو گئے۔ اس موقع پر ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’میں نے مسلمانوں کو صحیح زندگی کے مفہوم سے آشنا کرنے‘ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے اور ناامیدی ‘ بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے ۲۵ سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی۔ اب ان کی عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا‘‘۔
مصنف نے علامہ کی سیاسی زندگی کی جو تفصیل فراہم کی ہے اس کے مطابق علامہ نے پنجاب اسمبلی کی تین سالہ رکنیت کے دوران مسلمانوں کی نمایندگی کا حق ادا کر دیا۔ مسلم مفادات کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے۔ ان کی تقریر عموماً گہری تحقیق‘ اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی ہوتی تھی۔ اسی زمانے کا واقعہ ہے‘ ۳ مئی ۱۹۲۷ء کو کوچہ درزیاں لاہور میں ہندوئوں اور سکھوں نے نہتے مسلمانوں پر جو عشاء کی نماز پڑھ کر لوٹ رہے تھے‘ حملہ کر دیا اور تین مسلمان شہید کر دیے۔ علامہ اقبال نے یہ خبر سنی تو رات کے بارہ بج رہے تھے‘ مگر وہ موقع پر پہنچے اور صبح پانچ بجے تک اُس مکان میں بیٹھے رہے جہاں ابتدائی تفتیش ہو رہی تھی۔ دو گھنٹے کے وقفے کے بعد صبح سات بجے دوبارہ شیخ عبدالقادر کی معیت میں موقع واردات پر پہنچ گئے اور مسلمانوں کو اپنے آپ پر قابو رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ شام پانچ بجے تقریباً ۵۰ہزار مسلمانوں نے یونی ورسٹی گرائونڈ میں شہیدوں کی نماز جنازہ ادا کی۔ علامہ اقبال اور سر محمد شفیع لوگوں کو صبر و سکون سے کام لینے کی تاکید کرتے رہے۔ ۱۱ مئی ۱۹۲۷ء کوروزنامہ انقلاب لاہور نے لکھا کہ علامہ اقبال نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اپنی سعی سے مسلمانان لاہور کی نمایندگی کا حق ادا کر دیا ہے۔ (ص ۳۲)
علامہ کی زندگی میں‘ اس طرح کے بیسیوں واقعات ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دکھ درد اور مسائل و مفادات کو اپنے آرام پر مقدم سمجھتے تھے۔ جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا‘ فوراً ‘جیسا بھی ممکن ہوتا‘ اقدام کرتے۔ اپنے شاعرانہ مزاج اور خرابی صحت کے باوجود‘ انھوں نے مسلمانوں کے مفادات کی خاطر ہمیشہ ایک مستعد‘ فعال‘ متحرک اور دردمند راہنما کا کردار ادا کیا۔ مسلم عوام بھی ان کے قدردان تھے۔
شاعر اور فلسفی ہونے کے باوجود وہ خداداد غیر معمولی سیاسی بصیرت رکھتے تھے۔ وہ انگریز حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں اور پنجاب کے برطانیہ نواز جاگیرداروں اور سکندرحیات کے عزائم کو بخوبی سمجھتے تھے۔ ان کی سیاست اصولی اور ملّی مفادات کے تابع تھی۔ مصنف نے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے‘ لکھتے ہیں: ’’اقبال جداگانہ انتخاب کے اصول کو ہندستان میں مسلمانوں کے قومی تشخص کے لیے لازمی سمجھتے تھے اور کسی صورت میں بھی اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہی نکتہ اُن کی تمام سیاسی فکر کا محور تھا۔ اس لیے وہ کانگریس سے لڑتے‘ محمد علی جناح سے جھگڑتے اور محمد علی جوہر سے الجھتے رہے مگر اس اصول پر مستقل مزاجی سے قائم رہے‘‘۔
مصنف کے نزدیک اقبال کی سیاسی جدوجہد اُن کے خلوص‘ وژن اور عملی سیاست میں ان کے شان دار کردار کی غماز ہے۔ ان کی تمام جدوجہد کا مقصد اسلامی شریعت کا نفاذ تھا جس کے لیے وہ آزاد مملکت کا قیام نہایت ضروری سمجھتے تھے (ص: ۱۶۴)۔ ان کے وژن کے سلسلے میں ایک دو اقتباسات غورطلب ہیں‘ فرمایا: ’’میری نصیحت ہے کہ آپ دل سے مسلمان بنیں‘‘--- ایک اور موقع پر کہا: ’’جب مسلمانوں کی تعداد صرف چند لاکھ تھی تو دنیا کی عظیم سلطنتیں ان کے قدم چومتی تھیں۔ آج جب وہ ۴۰کروڑ ہیں تو ہر جگہ کفار ان پر مسلط ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے اور اُس کی روح سے کنارہ کش ہو گئے ہیں‘‘۔
اقبال کی سیاسی زندگی پر اس سے پہلے اُردو اور انگریزی میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں مگر پروفیسر محمد سلیم صاحب نے جس اختصار و جامعیت کے ساتھ اور علمی و سائنسی انداز میں اس موضوع کو پیش کیا ہے‘ ہماری نظر میں وہ اس سے پہلے کسی مصنف سے ممکن نہیں ہوا۔ ان کا اسلوب بے حد سادہ‘ صاف اور صریح ہے۔ آخر میں کتابیات اور اشاریہ شامل ہے۔ کتاب کا معیار طباعت اطمینان بخش ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
قبل ازیں تفہیم المسائل ہی کے نام سے شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن کے شہرہ آفاق فتاویٰ کی پانچ جلدیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ اب اسی نام سے پروفیسر مفتی منیب الرحمن صاحب کے فتاویٰ سامنے آ رہے ہیں۔ مفتی صاحب قرآن و سنت اور فقہی ذخیرے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بیدار مغز ہیں اور انھوں نے مختلف مسائل پر جس طرح کلام کیا ہے‘ اس سے ان کے فتاویٰ کی افادیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک قیمتی علمی تحقیق ہے۔مصنف نے بعض مفتیان کرام کو ان کی غلطی اور لغزش پر فقہی دلائل اور حوالوں سے موثر تنبیہہ کی ہے۔
دعا بعد الاذان کے کلمات پر بحث کی ہے۔ احادیث سے کلمات دعا کو‘ اور اصولی دلائل سے اس دعا کی صحت کو ثابت کیا ہے۔ سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قرآنیہ کی کتنی مقدار واجب ہے؟ اس پر فقہی فتاویٰ کے علاوہ معاصر مفتیان کرام کے فتاویٰ کے حوالوں سے تفصیلی بحث ملتی ہے۔ امام کاسُترہ تمام مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ جب امام کے آگے سُترہ ہو تو اگر کوئی مقتدیوں کی صف کے سامنے سے گزرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے لیکن جس آدمی کی ایک یا دو یا زیادہ رکعت رہ جائیں تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد‘ جب وہ آدمی اپنی بقیہ نماز پڑھے گا تو کیاایسی صورت میں اس کے سامنے سے گزرنے والا گنہگار ہوگا یا نہیں‘ جب کہ امام کے فارغ ہو کر چلے جانے کے بعد امام کا سُترہ اپنی جگہ موجود ہو؟ اس مسئلے پر دارالافتا دارالعلوم زکریا کراچی کے مفتی محمد نصراللہ احمد پوری نے فتاویٰ شامی کے حوالے سے فتویٰ دیا کہ مذکورہ شخص کے آگے سے گزرنے والا گنہگار نہیں لیکن مفتی منیب الرحمن نے انھیں متنبہ کیا کہ شامی کی پوری عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کے لیے اب وہ حکم نہیں ہے جو امام کی اقتدا کی صورت میںتھا۔ اب وہ منفرد ہے۔ اب نہ امام ہے نہ اس کا سُترہ۔ یہ وقیع‘ علمی اور تحقیقی بحث ص ۵۶ سے لے کر ص ۱۱۳ تک پھیلی ہوئی ہے۔ مفتی صاحب نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کا حق ادا کر دیا ہے۔
بعض مسائل پر مفتی منیب الرحمن صاحب نے متعدد دیگر جیّد علما اور مفتیانِ عظام سے اختلاف کیا اور دلائل کے ساتھ انھیں توجہ دلائی تو انھوں نے اپنے فتاویٰ سے رجوع کر لیا۔ اسی طرح قضاء عمری ‘ بزرگان دین کے مزارات پر عقیدت‘ فیکٹری میں نماز جمعہ‘ حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت‘ مفتی محمد یوسف لدھیانوی صاحب سے اختلاف اور دیگر مسائل پر سیرحاصل‘ سلیس اور عام فہم انداز میںقابل قدر بحث کی گئی ہے۔ اصحاب علم کے لیے یہ ایک مفید علمی مجموعہ ہے۔ طلبہ‘ اساتذہ‘ مفتیان کرام اور عوام سب کے لیے اس میں استفادے کا سامان ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
عبدالماجد دریابادی کی حیوانات قرآنی کے بعد ‘ یہ ایک نئی کوشش ہے کہ احادیث میں جن حیوانات کا ذکر آیا ہے ‘ ان کا تذکرہ ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ مصنف نے اپنی کتاب قرآنی جانوروں کا انسائیکلوپیڈیا کا حوالہ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کتاب میں بعض جانوروں کی تفصیل میں نہیں گئے۔ (یہ کتاب تبصرہ نگار کی نظر سے نہیں گزری۔)
کتاب میں ۶۰ جانوروں کا تذکرہ ہے۔ ہر جانور کا عربی‘ پشتو‘ انگریزی اور اردو نام دیا گیا ہے۔ عام معلومات کے بعد‘ متعلقہ احادیث اور سیرت کے واقعات کا ذکر ہے (براق کے حوالے سے واقعہ معراج کی تفصیلات مل جاتی ہیں)۔ مطالعے کے بعد یہی تاثر ہوا کہ سیرت کی ایک کتاب پڑھی ہے۔جانوروں کے بارے میں متنوع اور دل چسپ معلومات ملتی ہیں۔ ہر باب کے آخرمیں حوالے دیے گئے ہیں۔ آغاز میں جانوروں سے حسن سلوک پر ایک مضمون ہے۔ (مسلم سجاد)
عبدالرشید صدیقی لسٹر یونی ورسٹی (برطانیہ) کی اسلامک سوسائٹی کے زیراہتمام مسلسل دو عشرے سے خطبہ جمعہ دیتے ہیں۔ انھوں نے ۳۰ موضوعات پر چار چار‘ پانچ پانچ صفحات کے یہ خطبے تحریر بھی کر دیے اور یوں ایک موثر پیش کش کے ذریعے ان سے استفادے کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ ہر خطبے کا آغاز کسی قرآنی آیت سے ہوتا ہے۔ موضوع پر آیات و احادیث بھی پیش کی گئی ہیں۔ اندازِ بیان عام فہم‘ اور دلوں کو اٹھانے والا ہے۔ خطبہ اوّل اور ثانی کے عربی متن کے ساتھ‘ انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔ علم پہلا موضوع ہے‘ اور اُمت آخری۔ عقائد‘ ارکان‘ ہجرت‘ دعوہ‘ جہاد‘ تزکیہ‘ سیرت‘ اخوت‘ استغفار سب ہی اہم موضوعات ہیں۔ ایک طرف تو عالم اسلام اور عالم مغرب میں ان انگریزی خطبوں کی افادیت ہے‘ دوسری طرف یہ پاکستان ‘ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں انگریزی اخبارات و رسائل اور کالجوں کے مجلوں کے لیے مختصر مضامین کے طور پر بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر خورشیداحمد نے پیش لفظ میں جمعہ اور جمعے کے خطبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور تجویز دی ہے کہ ۲۲ مزید خطبے بھی تیار کیے جائیں تاکہ سال کے ۵۲ جمعوں کے لیے ہو جائیں۔ (م - س)
مختار حسن (۱۹۴۰ء-۱۹۹۵ء) معروف صحافی اور امور افغانستان کے ماہر ترین افراد میں سے تھے۔ ایک طویل عرصے تک مسئلہ افغانستان سے وابستہ رہے بلکہ جہاد افغانستان کے ہراول دستے میں بھی شامل رہے۔ انھیں بجا طور پر ’’پاکستان کا نمایاں ترین مجاہد افغانستان‘‘ (حمیدگل) کہا گیا۔ وہ اردو اور انگریزی کے علاوہ پشتو اور فارسی زبانیں بھی بہ خوبی جانتے تھے۔ انھوں نے بارہا خود افغانستان جا کر بڑے خطرات مول لے کر مختلف محاذوں کی چشم دید رودادیں مرتب کیں‘ بلکہ بعض مواقع پر جنگ کے متحرک مناظر کو فلم بند کرکے بیرونی دنیا تک پہنچایا۔ اسی ضمن میں انھیں روس کی کٹھ پتلی حکومت کے دور میں کابل میں قیدوبند کی صعوبت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ بایں ہمہ انھوں نے ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ افغانستان ‘خصوصاً جہاد افغانستان اور مابعد کی صورت حال کے مختلف پہلوئوں پر تجزیاتی مضامین اور رپورٹیں لکھیں۔ ان کے تجزیوں اور تبصروں میں تاریخ کا مطالعہ‘ ایک صحافی کے ذاتی مشاہدات اور ایک سیاسی مبصر کی بصیرت شامل ہے۔ بلاشبہ یہ اعزاز کم از کم پاکستان کے کسی اور صحافی کو حاصل نہیں۔
زیرنظر کتاب افغانستان پر ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے مرتبین نے بڑی کاوش و محنت اور محبت کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ کریملن‘ کابل اور افغان کے نام سے چھپ چکا ہے (تبصرہ: ترجمان‘ جون ۲۰۰۰ء)۔ زیرنظر مضامین ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۵ء تک کے عرصے میں لکھے گئے۔ ۱۹۷۲ء کے دو مضامین بھی شامل ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مختارحسن مکمل کمٹ منٹ اور اپنی پوری شخصیت کے ساتھ افغانستان کے مسئلے اور جہاد میں شریک اور دخیل(involve) ہو چکے تھے اور یہ موضوع ان کے اندر رچا بسا تھا۔ افغانستان کی تاریخ پر گہری نظر کے ساتھ وہ افغانوں کے مزاج‘ ماحول اور قبائلی روایات سے بھی بخوبی واقف تھے۔
اپنے تبصروں اور تجزیوں میں وہ افغانوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ہمدردانہ نقد و جرح کرتے ہوئے مجاہدین کی کمزوریوں اور پاکستان کی فاش غلطیوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ صورت احوال کی وجوہ‘ ممکنہ نتائج اور مختلف امکانات کا ذکر کر کے وہ بعض خدشات اور خطرات کی طرف بھی اشارے کرتے ہیں۔ وہ بار بار افغانستان گئے۔ انھوں نے مجاہدین کی مختلف جماعتوں اور ان کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے انٹرویو لیے۔ بہت سے محاذوں پر جا کرجنگ کی ہولناکیوں اور افغانستان کی بربادی کا بذات خود مشاہدہ کیا‘ اس لیے ان کی باتوں میں وزن ہے۔
ان تحریروں سے جہاد افغانستان کی پوری تاریخ اور اس کے مختلف مراحل کی تفصیل سامنے آتی ہے۔ یہ تفصیل دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ چشم کشا اور عبرت انگیز ہے۔ آج ہم جب افغان بحران کے ایک نازک ترین مرحلے سے دوچار ہیں تو اس تفصیل سے ‘چاہیں تو ‘ ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ان مضامین کو پڑھتے ہوئے ایک دو باتوں کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اول یہ کہ روسی فوجوں کی واپسی کے ساتھ ہی افغانستان کے بارے میںامریکیوں نے ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا آغاز کر دیا تھا۔ جہادی گروپوں کا باہمی انتشار و افتراق بھی بجا‘ لیکن امریکہ نے بھرپور کوشش کی کہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت قائم اور مستحکم نہ ہو جو افغانستان کے اسلامی تشخص کو پروان چڑھا سکے۔ اس لیے دخل اندازی کے ذریعے‘ ایسی سازشوں میں وہ برابر لگا رہا کہ اس کی من پسند حکومت بننے کی خواہش پوری ہو سکے--- اپنی فطرت کے لحاظ سے امریکہ کو ایسا ہی کرنا تھا مگر تعجب انگیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے بعض کارپرداز‘ پالیسی ساز اور وزارت خارجہ کے بزرجمہرامریکی عزائم کی تکمیل کے لیے اس کے آلہ کار بنتے رہے۔ مختارحسن نے جگہ جگہ یہ نشان دہی کی ہے کہ پاکستان کی سول اور خاکی بیوروکریسی اپنے طورپر ‘ بعض اوقات صدر مملکت یا وزیراعظم یا چیف آف آرمی سٹاف کے مشورے کے بغیر ہی اقدام کرتی رہی۔ بارہا ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ حرکت میں آئے اور سارے معاملے کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ آج کے افغانستان میں فساد اور انتشار بنیادی طور پر امریکی ڈپلومیسی کی عیاری اور پاکستانی سفارت کی ناپختہ کاری کا نتیجہ ہے۔
مختارحسن بار بار بتاتے ہیں کہ مختلف مواقع پر حکومت پاکستان کی پالیسیوں کی ایسی کایا کلپ ہوئی کہ انھوں نے ۱۸۰ درجے کا یو ٹرن لیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ’’پاکستان کے قومی مفادات اور افغان عوام کی جدوجہد آزادی امریکی انتظامیہ کی خواہش کی بھینٹ‘‘ چڑھتی رہی۔ کتاب کے مقدمے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمیدگل نے ’’دست شرانگیز ‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے: ’’جس کی مدد کے لیے اس دوران ہمارے حکمرانوں نے بڑا افسوس ناک رول ادا کیا ہے‘‘۔ حمیدگل کا کہنا ہے کہ ہم کئی مواقع پر امریکی دبائو کی وجہ سے آزادانہ حیثیت میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکے اور آج تو یہ بات کسی ثبوت کی محتاج بھی نہیں رہی کہ ہم اس ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ اور ’’دست شرانگیز‘‘ کے چنگل میں پوری طرح پھنس چکے ہیں۔
مختارحسن نے ۱۹۹۲ء میں جو کچھ لکھا تھا ‘ ایک عشرے کے تجربات کے بعد آج حکومت پاکستان اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ ’’افغانستان میں پاکستان کی دوست حکومت سے زیادہ کوئی معاملہ اہم نہیں‘‘۔ (ص ۱۷۳)
ہمارے خیال میں اردو تو کیا انگریزی میں بھی افغانستان پر ایسی معلومات افزا کتاب نہیں لکھی گئی۔ مختارحسن نے جو کچھ لکھا وہ نہ صرف امور افغانستان پر ان کی مہارت کا ثبوت ہے بلکہ یہ تحریریں افغانستان ‘ پاکستان اور پورے عالم اسلام کے ملی جذبات اور دھڑکنوں کی ترجمان ہیں۔ اس کتاب کا مطالعے کیے بغیر مسئلہ افغانستان کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنا آسان نہیں ہوگا۔ آخر میں چار اہم معاہدوں (معاہدہ جینیوا‘ معاہدہ پشاور‘ معاہدہ جلال آباد اور معاہدہ اسلام آباد) کا متن شامل ہے۔ کتاب اچھے معیار پر طبع کی گئی ہے۔ نقشوں اور مفصل اشاریے نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مولانا مودودی نے حیدر آباد دکن سے ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعے جس دعوت کا آغاز کیا ‘ علامہ اقبال کے مشورے اور چودھری نیاز علی خاں مرحوم کے تعاون سے اس سلسلے میں پہلا ادارہ دارالاسلام (نزد پٹھان کوٹ) کے نام سے قائم ہوا۔ (دو تین سال کے بعد اسی تسلسل میں اگست ۱۹۴۱ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا)۔
ریحانہ قریشی صاحبہ نے ادارہ دارالاسلام کی تاریخ کا ایک ’’تحقیقی مطالعہ‘‘ (سرورق) پیش کیا ہے۔ یہ مطالعہ ادارے کے بارے میں مطبوعہ اور منتشر لوازمے اور چند ایک مختصر مصاحبوں (انٹرویوز) کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔
مصنفہ نے اپنے تئیں خاص کاوش کی ہے جو اپنی جگہ لائق تحسین ہے‘ لیکن بعض باتیں کھٹکتی ہیں‘ مثلاًایک جگہ بتایا گیا ہے کہ ۱۹۳۶ء کے آخری مہینوں میں چودھری نیاز علی خاں صاحب علامہ اقبال کے پاس جاوید منزل میں تشریف لائے (ص ۲۰)۔ آگے چل کر کہا گیا ہے کہ غالباً اگست ۱۹۳۵ء میں چودھری صاحب علامہ اقبال سے پہلی بار ملے--- اسی طرح ایک جگہ مولانا مودودی کے دارالاسلام پہنچنے کی تاریخ ۱۶ مارچ بتائی گئی ہے (ص۴ ۲)۔ لیکن دوسری جگہ ۱۸ مارچ ۔ص ۲۴پر کہا گیا ہے کہ مولانا: ’’۱۶ مارچ ۱۹۳۸ء کو بطور سربراہ دارالاسلام پہنچ گئے‘‘۔ ۱۶ مارچ کو تو ادارہ قائم ہی نہیں ہوا تھا (یہ اکتوبر ۱۹۳۸ء میں قائم ہوا‘ص ۳۶)۔ ادارے کے قیام سے پہلے ہی کوئی شخص اس کا سربراہ کیسے ہو سکتا ہے؟--- اس بات میں بھی مبالغہ ہے کہ ۱۹۳۸ء میں دارالاسلام کی کل آبادی چار پانچ افراد سے زیادہ نہ تھی (ص ۵۵)۔ اگلے ہی صفحات میں جن اصحاب اور ان کے اہل خانہ کا تذکرہ کیا گیا ہے ‘ ان کی تعداد کم از کم ۵۰‘ ۶۰ بنتی ہے۔ صفحات ۵۶ تا ۶۰ کی تفصیل ۱۹۳۸ء کے ذیل میں دی گئی ہے‘ مگر ہمیں اس کی صحت پر شبہ ہے۔ یہ حالات ۱۹۴۲ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیانی زمانے کے ہیں۔
ہمارے خیال میں ابھی اس موضوع پر کہیں زیادہ دقت نظر اور کاوش کے ساتھ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ (ر - ہ )
عبدالرشید ارشد صاحب ملت اسلامیہ کو دشمنوں کے منصوبوں ‘ تدبیروں ‘ چالوں اور کارگزاریوں سے آگاہ کرنے کے لیے جس جہاد میں مصروف ہیں‘ یہ دونوں کتابیں اس کا ثبوت ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی دشمن ایک ہے: یہود‘ وہی اپنے حقائق (protocols)کے مطابق دنیا کو انگلیوں پر نچا رہے ہیں اور ہمارے سب دشمنوں (ہنود و نصاریٰ و کمیونسٹ) کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ مصنف کی محنت اور نظررسا کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ انھوں نے اس ’آخری‘ صلیبی جنگ کے تمام ہی محاذوں کا جائزہ لیا ہے اور دشمن جو کچھ کر رہا ہے اسے شواہد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہو‘ خاندانی منصوبہ بندی ہو‘ میڈیا خصوصاً ٹی وی میں اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنا ہو‘ تعلیم سے لاپروائی یا اسے سیکولر بنانا ہو‘ عیسائیت کی کھلے عام تبلیغ ہو‘ اسلامی احکامات کا استہزا ہو‘ این جی اوز کا کردار ہو‘ غرض اُمت مسلمہ ‘خصوصاً پاکستان کے موجودہ منظر نامے پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی خوب مستند تصویر کشی کی گئی ہے اور دردمندوں کو جھنجھوڑا ہے۔ بعض این جی اوز کے رسالوں میں خواتین کے حوالے سے اسلامی احکامات کا جس طرح مضحکہ اڑایا جاتا ہے وہ تبصرہ نگار کے لیے ناقابل یقین ہوتیں اگر ان کی نقول نہ دی گئی ہوتیں۔ سراسر مسلمانوں کی غیرت کو للکارنے والا انداز ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ للکارنے والے مسلمان ہیں۔ اس طرح کی کتابوں کی حقیقی افادیت یہ ہے کہ ان کی اشاعت عام ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کوئی نیٹ ورک نہیں کہ اس نوعیت کی کتابیں تعلیمی اداروں کی اور پبلک لائبریریوں میں خرید لی جائیں۔
اچھا ہو کہ محترم مصنف اب تیسرا حصہ یہ لکھیں کہ اس جنگ میں اُمت مسلمہ کی طرف سے کیا کچھ کیا جا رہا ہے یا کیا کچھ مطلوب ہے۔ (مسلم سجاد)
سالِ قائداعظم (۱۹۷۶ء) کے موقع پر شائع ہونے والی اس کتاب کو دوبارہ چھاپا گیا ہے۔ مصنف نے اسلام سے قائداعظم کی وابستگی اور تعلّق کو ۱۶ ابواب میں مختلف عنوانات (خانگی زندگی‘ عشق رسول ؐ، مذہبی مسلک‘ اسلامی تہذیب کے داعی‘ مسلم مفاد کے علم بردار‘ اتحاد اسلامی کے نقیب‘ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ‘ غازی علم الدین شہید کا مقدمہ‘ مسجد شہید گنج‘ قائداعظم علما کی نظر میں‘ قائداعظم اور عالم اسلام وغیرہ) کے تحت واضح کیا ہے۔ بہ کثرت تائیدی اور وضاحتی بیانات‘ بیش تر قائداعظم کی اپنی تحریروں یا تقریروں یا اُن کے قریبی حلقہ احباب کے بیانات سے لیے گئے ہیں۔ مجموعی تاثر یہ بنتا ہے کہ قائداعظم ایک مخلص‘ سچّے اور کھرے مسلمان تھے۔ اُمت مسلمہ کے خیرخواہ اور اسلامی نشات ثانیہ کے متمنی۔ نمازسنّی العقیدہ مسلمانوں کی طرح ادا کرتے تھے‘ مگر خود کوسنّی یا شیعہ کے بجائے مسلمان کہلانا پسند کرتے تھے۔ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے‘ علما کا احترام کرتے تھے۔ مظہر سلیم مجوکہ نے کتاب کو ذوق و شوق اور اہتمام سے شائع کیا ہے۔ (ر-ہ)
عبداللہ یوسف علی‘ برعظیم کے ان قابل قدر افراد میں سے تھے جنھوں نے اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کیا۔ ان کے کارنامۂ حیات سے آگاہی کے لیے یہ ایک قیمتی کتاب ہے جس میں فاضل محقق نے‘ عبداللہ یوسف علی کے لیے ہمدردانہ جذبات رکھنے کے باوجود‘ حقائق سے چشم پوشی یا بے جا تاویل و اِستدلال سے کام نہیں لیا۔
عبداللہ یوسف علی ۴ اپریل ۱۸۷۲ء کو سورت‘ (گجرات) کے داؤدی بوہرہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد‘ برطانوی پولیس کے سابق افسر تھے۔ عبداللہ یوسف علی نے انجمن اسلام‘ بمبئی کے اسکول کے بعد عیسائی مشنری ادارے ولسنز اسکول میں تعلیم پائی۔ پھر بمبئی یونی ورسٹی سے امتیازی پوزیشن کے ساتھ گریجوایشن کی‘ اور سینٹ جانز کالج ‘ کیمبرج کے لیے وظیفہ پایا۔ ۱۸۹۴ء میں انھوں نے انڈین سول سروس کا امتحان پاس کیا۔برطانوی سرکار کی یہ ملازمت ان کے علمی ذوق کی آبیاری میں رکاوٹ نہ بنی۔ انھوں نے تعلیم‘ تاریخ‘ ثقافت اور علوم دینیہ پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اور بڑی کامیابی سے اپنے دائرئہ تحریر میں وسعت پیدا کی۔ اسی دوران برطانوی حکومت کے سفیر براے ثقافتی امور کی حیثیت سے ترکی اور عرب دُنیا کا دورہ کیا۔
عبداللہ یوسف علی کی شخصیت پہلودار اور عجیب و غریب تھی--- ایک طرف وہ تاجِ برطانیہ کے نہایت وفادار تھے اور دوسری طرف انھی کے اقتدار میں مسلمانوں کی بھلائی اور فلاح کا خواب دیکھنے والوں میں سے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ: ’’ترقی پسند اسلام‘ برطانوی استعمار کے قدم بہ قدم چل کر راستہ پا سکتا ہے ‘‘(ص ۸۳)۔ انھوں نے۱۹۲۴ء میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو (پنجاب) کی ’جمعیت تنظیم‘ سے وابستگی اختیار کی‘ جو تشددپسند ہندو تحریک سنگھٹن کی جارحانہ سرگرمیوں کا توڑ کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی (ص ۷۷)۔ ایک مرحلے پر ریاست حیدرآباد‘ دکن میں وزارت کا قلم دان سنبھالا‘ پھر اچانک اسے بھی چھوڑ کر چل دیے۔ کتاب کے پانچویں باب ’’جنیوا سے لاہور تک‘‘ (ص ۸۹-۱۱۸) میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ عبداللہ یوسف علی کن عزائم کے ساتھ اسلامیہ کالج لاہور سے وابستہ ہوئے اور کن حالات اور ارباب کالج کے متضاد رویوں کے باعث لاہور سے واپس گئے۔
کتاب کے ۱۰ ابواب‘ عبداللہ یوسف علی کے مزاج‘ رجحان طبع‘ افکار‘ مہم جویانہ ذوق اور علمی پیش رفت کی رنگا رنگ تصویریں پیش کرتے ہیں۔ فاضل ممدوح کا زندہ رہنے والا کارنامہ‘ قرآن عظیم کی انگریزی تفسیر و ترجمہ ہے۔ مصنف کے خیال میں وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ سائنسی تحقیق و تفتیش‘ اپنی سچائی تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے‘ تاہم اس باب میں ان کا رویہ سرسید جیسے مجرد عقل پرست (crude rationalist)فرد جیسا نہیں تھا(ص ۱۷۹-۱۸۰)۔
اس تفسیر میں قرآنی متن کی تشریح کے لیے کئی مقامات پر تاویل و اِستدلال کا جو انداز اختیار کیا گیا ہے‘ وہ مسلمہ اسلامی تعلیمات اور فکر سے ٹکراتا ہے (مثال کے طور پر: فرشتے‘ جنت‘ جِنّ‘ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی تائید وغیرہ) ۔عبداللہ یوسف علی کا اصل علمی ورثہ یہی تفسیر ہے‘ مگر زیرنظر کتاب میں اس پر سیرحاصل بحث نہیں کی گئی۔ اس وجہ سے ایک گونہ تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ ضمیمہ نمبر ۱ میں مصنف نے نشان دہی کی ہے کہ اس انگریزی تفسیر کے کس کس ایڈیشن میں اصلاحات کی گئی ہیں۔ اب صورت یہ ہے کہ یوسف علی کا جو ترجمہ و تفسیر مارکیٹ میں موجود ہے‘ وہ مصنف کی رحلت کے بعد سے اب تک مختلف اصحاب کی اصلاح و تصحیح‘ کانٹ چھانٹ اور ترمیم و اضافہ شدہ شکل ہے۔ مگر افسوس اور تعجب یہ ہے کہ ترمیم و اضافہ کرنے والے افراد کے ناموں کو واضح نہیں کیا گیا۔ اس صورت واقعہ پر معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا یہ اعتراض بڑا وزنی ہے کہ: ’’مصنف کی مرضی کے بغیر اس کے متن میں ترمیم و تغیر کا یہ عمل ایک خطرناک رجحان کو پروان چڑھائے گا۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ مصنف کے متن کو جوں کا توں رہنے دیا جائے اور اتفاق و اختلاف کو فٹ نوٹ کے ذریعے واضح کیا جائے‘‘ (ص ۲۲۷)۔ بہرحال ۱۹۳۴ء کے بعد سے اصلاحات اور ترامیم کے مسلسل عمل سے گزرنے والی یہ انگریزی تفسیر مقبولیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ انگریزی زبان و ادب پر عبداللہ یوسف علی کی گرفت اور اسلوب بیان کی نیرنگی نے اسے کلاسیک کا درجہ دے دیا ہے۔
اس معروف اسکالر کی عائلی زندگی تلخیوں سے عبارت تھی۔ چنانچہ لمبے عرصے تک تنہائی کا دکھ اٹھانے کے بعدوہ نہایت بے بسی و بے کسی اور کس مپرسی کے عالم میں‘ سینٹ اسٹیفن ہسپتال (برطانیہ) میں ۸۱ برس کی عمر میں ۱۰ دسمبر ۱۹۵۳ء کو انتقال کر گئے۔ ایم اے شریف کا پیرایۂ بیان بہت دل چسپ ہے اور انھوں نے اس تذکرے کو مصدقہ معلومات کے موتیوں سے سجایا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اور ان کے رفقا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایسی کتابوں کی اشاعت سے اسلامی علوم کے ورثے تک رسائی کی راہیںکشادہ ہوں گی ۔ (سلیم منصور خالد)
ہمارے ملک میں تعلیم کو آزادی کے بعدصحیح رخ نہیں دیا گیا۔ نظریہ حیات کے حوالے سے واضح تصورات رکھنے کے باوجود ہم نے زمانے کی ہواکے ساتھ چلنا گوارا کیا ۔ تعلیم میں حقیقی پیش رفت کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم اس دائرے میں بے منزل و بے مقصد کاررواں کی طرح ترقی کے ایک جھوٹے تصور کی خاطر ادھر ادھر ٹکریں مار رہے ہیں۔ پروفیسر عمر قادری نے اس کتاب میں ۱۰ عنوانات کے تحت‘ تعلیمی صورت حال کے پس منظر میں‘ اصلاح کے لیے صحیح خطوط اجاگر کیے ہیں۔ ذریعہ تعلیم اور یکساں نظام تعلیم کے ابواب میں انھوں نے اہم بنیادی امور کی نشان دہی کی ہے۔ اس وقت‘ جب کہ ایک منظم کوشش معاشرے کو خصوصاً تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی ‘ کی جا رہی ہے‘ ان باتوں کی اہمیت دوچند ہے‘ لیکن ان کا لکھنا اور شائع کرنا کافی نہیں‘ انھیں پھیلانااور پہنچانا بھی ضروری ہے۔ (مسلم سجاد)
یہ ایک طرح سے ۵۰ سال کے پاکستانی ادب کا جائزہ ہے جسے مختلف اصناف ادب (غزل‘ نظم‘ نعت‘ ناول‘ افسانہ‘ سفرنامہ‘ خود نوشت ‘ انشائیہ‘ خاکہ نگاری‘ ڈراما‘ طنز و مزاح‘ اسلامی ادب‘ اقبال شناسی‘ مزاحمتی ادب‘ تنقید‘ تحقیق) کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ آخری حصے میں پنجابی ‘ سرائیکی‘ سندھی‘ پشتو ‘ بلوچی اوربراہوی ادبوں کا ذکر ہے۔ ۵۰ سالہ ادبی تاریخ کا اس طرح سے جائزہ لینا کہ تجزیہ و تبصرہ بھی ہو اور جائزہ و تنقید بھی اور مختلف رویوں اور رجحانات کی نشان دہی بھی کی جائے‘ آسان کام نہیں ہے۔ اس کے باوجود غفور شاہ قاسم نے‘ جو ایک نوجوان تحقیق کار اور نقاد ہیں‘ اپنے مطالعے میں وسعت اور جائزوں میں مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ۵۰ سالوں کے اصناف وار جائزے کے لیے خاص وقت اور محنت کے ساتھ گہری تحقیق کی ضرورت ہے۔
یوں تو ہر صنفِ ادب الگ الگ مفصل تحقیقی کتاب کا تقاضا کرتی ہے لیکن مصنف کے لیے اس کا موقع تھا اور نہ وقت۔ چنانچہ انھوں نے اخذ و استفادے سے بھی کام لیا اور اسے اپنے مطالعے اور محنت سے آمیز کر کے یہ جائزہ پیش کر دیا۔ خوب تر کی گنجایش ہمیشہ باقی رہتی ہے‘ مثلاً: مزاحمتی ادب کے ذیل میں کشمیر اور افغانستان پر اعجاز فاروقی کے افسانوں یا فلسطین اور یروشلم پر نعیم صدیقی کی منظومات وغیرہ کا ذکر نہیں آسکا۔ تاہم ‘ جائزے میں اسلامی ادب کے تحت ایسی مفید معلومات آگئی ہیں جو عام ادبی تاریخوں میں نہیں ملتیں۔
اردو ادب و تحقیق کی دُنیا میں غفور شاہ قاسم کی اس کاوش کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ (ر-ہ)
انفرمیشن ٹکنالوجی نے عام آدمی کے لیے معلومات کا حصول اتنا آسان بنا دیا ہے کہ چند برس پہلے اس کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور چند برس بعد کیا صورت ہوگی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انفرمیشن ٹکنالوجی کے ایک امریکی ماہر اور استاد کے بقول عین ممکن ہے کہ مستقبل میں آج کی کتابیں‘ اخبارات‘ ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ عجائب گھر کی زینت بن چکے ہوں اور ان پر ’’زمانہ قدیم کے ذرائع معلومات‘‘ کا لیبل لگا ہوا ہو۔
انفرمیشن ٹکنالوجی کے برپا کردہ اس انقلاب میں انٹرنیٹ کا کردار سب سے اہم اور دُور رس ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے آدمی گھر بیٹھے ہر قسم کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اپنی مرضی اور پسند کی مخصوص معلومات حاصل کرنا بالعموم ایک طویل اور صبرآزما کام ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ’’ورلڈ وائڈ ویب‘‘ پر اس قدر کثیر سائٹس موجود ہیں کہ ان کا شمار کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ایسے میں اگر انٹرنیٹ چالو کرنے سے پہلے آدمی کسی ایسی کتاب سے مدد لے لے جس میں مختلف موضوعات پر معلومات مہیا کرنے والی ویب سائٹس کی گروہ بندی کر دی گئی ہو‘ تو اس کا بہت سا وقت بچ سکتا ہے۔ زیرنظر انٹرنیٹ ڈائرکٹری کے مرتبین نے انٹرنیٹ کے صارفین کی اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کتاب مرتب کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اس مقصد کے لیے اَن تھک محنت کی ہے جس کی بدولت یہ کتاب قارئین کے ایک وسیع حلقے کے لیے مفید اور کارآمد بن گئی ہے۔
اس کتاب میں مجموعی طور پر ۵۵ عنوانات کے تحت ایک ہزار سے زائد ویب سائٹس کی گروہ بندی کی گئی ہے۔ اہم موضوعات میں تعلیم‘ اسلام‘ ماحولیات‘ بنکنگ اور بزنس‘ پاکستان‘ افواج پاکستان‘ پاکستانی سپورٹس‘ رشتے‘ روزگار‘ سیاسیات‘ سائنس اور خلابازی‘ کھیل‘ سیروسیاحت‘ موسمیات اور گھرداری شامل ہیں۔ اہم ویب سائٹس کے بارے میں مختصر یاتفصیلی تعارف دے کر کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے موضوع پر عالمی اسلامی تحریکوں‘ خصوصاً جماعت اسلامی‘ حماس اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ وغیرہ کے علاوہ اسلامی معلومات فراہم کرنے والی کئی ویب سائٹس کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں انٹرنیٹ سے متعلق اصطلاحات کی ایک فرہنگ (glossary)دی گئی ہے جو ایک عمدہ اضافہ ہے‘ تاہم بعض ویب سائٹس کے پتوں (addresses)میں کچھ گڑبڑ معلوم ہوتی ہے‘ جس کی وجہ غالباً پروف ریڈنگ کا نقص ہے۔ چونکہ کمپیوٹر میں ’ایک شوشے کا فرق‘ بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے جس ویب سائٹ کے ایڈریس میں معمولی سا بھی تغیر ہو‘ اسے تلاش کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ پروف خوانی اور ایڈیٹنگ کی غلطیاں بقیہ متن میں بھی نظر آتی ہیں‘ اگرچہ بہت زیادہ نہیں۔
کتاب کا لَے آئوٹ خوب صورت ہے اور عمدہ سفید کاغذ کے ساتھ قیمت بھی مناسب ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کے آیندہ ایڈیشن میں غلطیوں کی تعداد کو کم سے کم کیا جائے گا اور آئی ٹی کے میدان میں ہونے والی ہمہ وقت تبدیلیوں کے مطابق اصلاحات اور اضافے شامل کیے جائیں گے۔ (فیضان اللّٰہ خاں)
٭ کب رات بسر ہوگی؟ پروفیسر شیخ محمد اقبال۔ ناشر: آل پاکستان تھنکرز فورم‘ ۱۳۱- رحمت پارک‘ کالج روڈ‘ سرگودھا۔ صفحات: ۱۳۴۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ ]استاد‘ شاعر اور نقاد اور نابینائوں کی انجمن کے صدر شیخ محمد اقبال کے فکر انگیز اور مثبت انداز فکر کے ترجمان مضامین کا مجموعہ۔ دراصل ماہنامہ سفید چھڑی کے اداریے: زندگی کے تضادات‘ توہمات اور غیرصحت مند تصورات و رجحانات پر تنقید بلکہ اُن کے خلاف ’’قلمی جہاد‘‘۔ بقول مصنف: ’’ہمیں قسمت اور تقدیر کی شکایت کرنے کے بجائے ان زمینی خدائوں کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے ]اور[یہ ممکن ہی نہیں کہ برائی کی قوتیں ہمیشہ کے لیے اپنی عمل داری برقرار رکھ سکیں۔ بشرطیکہ درست سوچ رکھنے والے سپرانداز نہ ہوں‘‘۔[
ہمارے ہاں رواداری کا لفظ بالعموم فراخ دلی‘ وسیع القلبی‘ بردباری‘ تحمل یا toleranceکے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مصنف نے زیرنظر کتاب میں بعض اکابر کے بیان کردہ اصطلاحی مفہوم کے حوالے بھی دیے ہیں‘ جن کی روشنی میں اِس وقت پاکستانی مسلمانوں سے زیادہ شاید ہی کوئی قوم روادار ہوگی--- مصنف کا خیال ہے کہ اسی رواداری کے نتیجے میں پاکستان میں غیر مسلموں کو ہر طرح کی رعایات‘ سہولتیں اور حقوق حاصل ہیں لیکن افسوس ہے کہ اب اس رعایت کا خطرناک حد تک غلط استعمال ہو رہا ہے۔
بخاری صاحب ‘ اس سے قبل رواداری اور مغرب تالیف کر چکے ہیں۔ (تبصرہ: ترجمان القرآن‘ جون۲۰۰۰ء)--- زیرنظر کتاب بھی اسی تسلسل میں بڑی کدوکاوش اور محنت شاقہ سے تالیف کی گئی ہے اور موضوع سے متعلق مختلف اصحاب کی‘ وقتاً فوقتاً شائع ہونے والی تحریروں کو بھی بڑی خوب صورتی سے کتاب میں سمیٹ لیا گیا ہے۔ ابواب و مباحث پر ایک نظر ڈالنے سے جامعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رواداری کا مفہوم‘ رواداری: تہذیب اسلامی کا ایک اہم وصف‘ پاکستان میں اقلیتیں اور غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کی حالت ِ زار‘ پاکستانی اقلیتوں کی مذہبی و تبلیغی سرگرمیاں‘ قادیانی اقلیت‘ اقلیتوں کے سیاسی‘ معاشی اورمذہبی حقوق اور ہماری رواداری‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیرمسلم اقلیتوں کی گرفت‘ قومی غیرت و آزادی کے خلاف ہونے والی سازشیں اور رواداری کے نام پر ہماری بے حسی اور بے حمیتی--- وغیرہ۔
مصنف کا خیال ہے کہ ہماری رواداری‘ ایک درجے میں فتنہ بن چکی ہے۔ اس کا آغاز اکبر کے ’’دین الٰہی‘‘ سے ہوا اور اب پاکستان میں موجود اقلیتوں کے ’’مخصوص افراد‘‘ رواداری کی آڑ میں ہماری ہی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں--- مولانا زاہد الراشدی نے سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان میں مسیحی اقلیت کو آخرکون سا حق حاصل نہیں ہے؟ شہریت ‘ کاروبار‘ ملکیت زمین و مکان و جایداد ‘ شراب نوشی‘نقل و حرکت‘ تحریر و تقریر‘ تعلیم‘ ووٹ‘ الیکشن‘ تنظیم سازی اور مذہبی تبلیغ وغیرہ کے حقوق تو حاصل ہیں--- البتہ انھیں نبیؐ کی شان میں گستاخی کا حق حاصل نہیں ‘ اور نہ ہم رواداری کے نام پر انھیں یہ حق دینے کے لیے تیار ہیں۔ دورِحاضر میں انسانی حقوق کے نام پر بہت گرد اڑائی جارہی ہے‘ مگر کیا گستاخی بھی انسانی حق ہے؟ اللہ پاک کے پیغمبروں کی اہانت‘ انسانی حقوق میں شامل نہیں (ص ۲۲۴)--- محمد عطا ء اللہ صدیقی صاحب نے مقدمے میں لکھا ہے: کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے جنت ہے کیوں کہ یہاں اقلیتوں کو شعائر اسلامی کا مذاق اُڑانے اور ہر طرح کی اشتعال انگیز مہم جوئی کی اجازت ہے۔
محمد صدیق شاہ بخاری نے ملّی دردمندی اور ایک گہرے جذبہ حمیت کے ساتھ‘ مگر توازن و اعتدال سے موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ مسلم مذہبی طبقے‘ سیاست دانوں اور صحافتی حلقوں کے ہاں پائی جانے والی عدم رواداری کی بھی بجا طور پر نشان دہی کر دی ہے۔
یوں تو ساری کتاب ہی اپنے موضوع پر ایک معلومات افزا اور دل چسپ دستاویز ہے کیوں کہ اس سے پہلے رواداری کے موضوع پر ایسی جامع کتاب کبھی مرتب نہیں کی گئی ‘مگر کتاب کے بعض حصے بے حد چشم کشا اور عبرت انگیز ہیں اور ’’اے کشتۂ ستم! تری غیرت کو کیا ہوا‘‘ کی دعوت ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اُمت مسلمہ کے لیے اسوئہ حسنہ ‘ اطاعت و اتباع ذاتِ نبویؐ ہے‘ اور حدیث و سنت ہی اس کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ائمہ حدیث نے حدیث کی صحت و ثقاہت کے لیے ایسے کڑے معیار قائم کیے ہیں کہ شاید ہی علوم اسلامیہ کے کسی دوسرے فن میں اس کی مثال ملتی ہو‘ جیسے: اصولِ روایت و درایت‘ اسناد کا علم‘ جرح و تعدیل اور فن اسماء الرجال وغیرہ۔ اس کے علاوہ حدیث نبویؐ سے کماحقہ استفادے کے لیے معجم (انڈکس) و اشاریے بھی مرتب کیے ہیں۔
سترھویں اور اٹھارھویں صدی عیسوی میں مستشرقین نے علومِ اسلامیہ بالخصوص علوم الحدیث پر مختلف اعتراضات کیے۔ جواب میں ائمہ حدیث اور محققین اسلام نے ان کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا مگریہ کام زیادہ تر عربی اور اُردو زبانوں میں ہوا ۔ انگریزی میں خالص علمی و تحقیقی کام جن محققین نے کیا ان میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ‘ ڈاکٹر احمد حسن‘ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی‘ ڈاکٹر زبیراحمد صدیقی‘ اور زیرنظر کتاب کی مصنفہ ڈاکٹرجمیلہ شوکت صاحبہ شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ علومِ اسلامیہ کی استاذ ہیں اور علوم الحدیث پر خصوصی مطالعے کا ذوق رکھتی ہیں۔ آپ نے مسندامام اسحٰق بن راھویہ پر تحقیقی کام کر کے کیمبرج یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی تھی۔ زیرنظرکتاب ان کے حسب ذیل علمی و تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے جو مختلف علمی جرائد میں شائع ہوتے رہے:
۱- علوم الحدیث‘ تجزیاتی مطالعہ‘۲- اقسامِ کتب حدیث ‘ ۳- تحمل حدیث کے اسالیب‘ ۴- اخذ حدیث کے لیے سفر‘ ۵- علمِ حدیث میں اسناد کا مقام‘ ۶- مطالعہ مسانید دوسری و تیسری صدی ہجری‘ ۷- مطالعہ المصنفات دوسری و تیسری صدی ہجری‘ ۸- اطراف الحدیث وغیرہ۔
ڈاکٹر صاحبہ نے علوم الحدیث کے ان اہم فنون کے بارے میں بنیادی مآخذ و مصادر سے مواد جمع کیا ہے اور پھر اسے بڑے عمدہ انداز میں مرتب کیا ہے۔یوں تو سبھی مقالات اپنی نوعیت میں معیاری ہیں‘ مگر مطالعہ مسانید اور مطالعہ المصنفات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کتب حدیث کی ان دو اقسام کے ارتقا اور مناہج پر عمدہ گفتگو کی ہے اور اس ضمن میں جامع اور بھرپور معلومات پہنچائی ہیں۔ اُردو یا انگریزی میں اس سے قبل ان دو موضوعات پر ایسی معیاری علمی و تحقیقی تحریر نظر سے نہیں گزری۔ بلاشبہ یہ دونوں مقالات پڑھنے سے تعلّق رکھتے ہیں۔ معروف محقق ڈاکٹر ظفراسحق انصاری نے اپنے پیش لفظ میں علم حدیث میں محققین کے کام کے جائزے کے ساتھ انگریزی زبان میں اب تک کے کام کی تفصیل رقم کی ہے۔ کتاب کے شروع میں مفتاح المراجع اور آخر میں بنیادی مآخذ کی تفصیلی فہرست دی گئی ہے۔ حدیث و علوم الحدیث کے طلبہ‘ محققین اور علومِ اسلامیہ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ (حافظ محمد سجاد تترالوی)
سفیرختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ۱۹۹۰ء میں دارالعلوم دیوبند میں ردّ قادیانیت کے موضوع پر تربیتی لیکچر دیے تھے‘ جنھیں مولانا سلمان منصورپوری نے جو ایک باصلاحیت اور ماہر عالم دین اور مفتی ہیں‘ مرتب کر دیا ہے۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ان پر نظرثانی کی اور ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب سے نظرثالث کروائی اور ترامیم و اصلاح کے بعد انھیں زیرنظر کتابی شکل میں شائع کر دیا۔عالمی شہرت کے حامل متعدد اہل علم اور زعماے ملّت نے مولانا کی علمی کوشش کی تعریف کی ہے۔ پیش لفظ مولانا عبدالحفیظ مکّی (مکّہ مکرمہ) کا اور مقدمہ (۹۵صفحات) ڈاکٹرخالد محمود صاحب کا ہے ۔کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے: اوّل: مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی اور اس کے دعاوی کاتعارف‘ دوم: قادیانیوں سے بحث کے لیے تعین موضوع اور موضوعات کی ترتیب‘ سوم: مرزا غلام احمد قادیانی کا دجل و کذب‘ چہارم اور پنجم: حضرت عیسٰی علیہ السلام کا رفع و نزول‘ ختم نبوت کے دلائل اور ان پر اعتراضات کے جوابات۔
مولانا منظور احمد چنیوٹی کو ردّ قادیانیت کے ساتھ خصوصی لگن ہے۔ ان کا یہ جذبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرد پڑنے کے بجائے بڑھتا چلا گیا ہے۔ وہ ہمیشہ قادیانیوں کے تعاقب کے لیے فکرمند رہے اور مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ‘ مولانا محمد یوسف بنوریؒ ‘ اور دیگر علما کے ذریعے مسلسل کوشش کرتے رہے کہ قادیانی حج اور عمرے کے بہانے اور ملازمتوں کے نام پر سعودی عرب اور حرمین شریفین نہ جا سکیں۔ چنانچہ انھوں نے بہت سے قادیانیوں کی نشان دہی کی اور ان کا داخلہ سعودی عرب میں بند کرا دیا۔ اسی طرح اپنے ادارہ دعوت وارشاد چنیوٹ‘ بلکہ پاکستان کے دیگر مدارس اور سعودی عرب میں بھی‘ طلبہ کو قادیانیت سے متعارف کرنے اورانھیں علمی و تربیتی کورسوں سے گزارنے کے لیے مسلسل کوششیں کیں۔ جامعہ اسلامیہ بنوری ٹائون اور مدینہ یونی ورسٹی میں لیکچر دیے۔ یہ لیکچر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہمیت اس اصول کی ہے کہ قادیانیوں کے سامنے اصل بات جسے پیش کیا جانا چاہیے یا جسے علمی مباحثہ میں سرفہرست رکھنا چاہیے‘ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی سیرت و کردار اور صدق و کذب کا موضوع ہے۔ قادیانیوں کا اصل مقصد مرزا غلام احمد کی نبوت کی طرف دعوت ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اس موضوع کو اولیت دینا چاہیے۔ دوسرے موضوعات رفع و نزول عیٰسی ؑ اور ختم نبوت بے شک ثابت شدہ حقائق اور مسلمات دین ہیں لیکن قادیانیوں کے سامنے انھیں اولاً پیش کرنے اور ان میں اُلجھنے کا کیا فائدہ ہے۔
اس میدان میں گراں قدر علمی اور بیش قیمت جامع اور کامل تحقیقی کام خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اور ان کے تلامذہ نے کیا ہے جن میں استاذ العلماء مولانا محمد چراغ ؒسرفہرست ہیں جنھوں نے مولانا محمد حیات کو ردّقادیانیت کی تیاری کرائی تھی۔ وہ وسیع النظر‘ راسخ العلم‘ محقق‘ مدقق‘ حاضردماغ اور اصول فروع پر حاوی علمی شخصیت کے مالک تھے جن کے علم اور بحث کے سامنے کسی قادیانی کا ابلیسی دجل و فریب نہیں چل سکا۔ وہ شاطر و عیار قادیانی مبلغین و مناظرین کی گردن پر ایسا مضبوط ہاتھ ڈالتے کہ وہ ہزارہاتھ پائوں مارنے کے باوجود ان کی گرفت سے نہیں نکل سکتے تھے۔ وہ علمی‘ اخلاقی اور اسلامی آداب کی پوری پوری رعایت کرتے‘ اس لیے قادیانی ان کی زبان سے نکلے ہوئے کسی لفظ کو چیلنج کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے تھے۔ حضرت امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے ملتان میں مدرسہ تحفظ ختم نبوت قائم کیا تو فارغ التحصیل علماء کو ردّقادیانیت کا مخصوص کورس کرانے کے لیے فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات ؒ کو وہاں استاذ اور مربی مقرر فرمایا۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی لکھتے ہیں: راقم الحروف نے ۱۹۵۱/ ۱۹۵۲ء میں ملتان مدرسہ تحفظ ختم نبوت میں داخل ہوکرردّقادیانیت کی تربیت حاصل کی اور پھر استاذ محترم کے ہمراہ قادیانیوں سے مناظرے شروع کر دیے اور پھر پوری زندگی اس دجالی فتنے کی سرکوبی کے لیے وقف کر دی۔
حضرت مولانا محمد حیات کو بجا طور پرعلماے اُمت نے ’’فاتح قادیان‘‘ اور ان کے شاگرد رشید مولانا منظور احمد چنیوٹی کو ’’فاتح ربوہ‘‘ (چناب نگر) کا لقب دیا ہے۔ لذالک فلیتنافس المتنافسون- اور اس عظیم کام میں استاذ العلماء حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کا نام اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ بجا طور پر گدڑی میں چھپے ہوئے موتی کے مصداق ہیں۔
یہ کتاب بلاشبہ قادیانیت کے زریں اصول کے نام کی مستحق ہے اور علما اور فضلا کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے جو جلیل القدر ‘ متبحر اور ماہرین فن کی عمر بھر کی علمی محنتوں اور کاوشوں کا نچوڑ ہے۔ دعوت کے میدان میں کام کرنے والے اسلامی تحریک کے کارکنان اور علماے کرام کو اس کتاب سے کماحقہ استفادہ کرنا چاہیے۔ قادیانیت کے موضوع پر یہ جامع و مانع انسائیکلوپیڈیا ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی (پروفیسر یونی ورسٹی آف پیٹرولیم و معدنیات‘ دہران‘ سعودی عرب) نے کئی برس کی محنت و کاوش سے ایک فقہی دائرہ معارف (انسا ئیکلوپیڈیا) مرتب کیا جس میں خلفاے راشدین‘ کبار صحابہ کرامؓ اور بعض تابعین عظام کی فقہی آرا کو جدید فقہی انداز میں مرتب کر دیا۔ فقہ کے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے یہ ایک بڑی قیمتی اور نادر چیز ہے۔ ادارہ معارف اسلامی نے اس کا اردو ترجمہ کرانے کا بیڑا اٹھایا اور اس سلسلے کی پہلی جلد فقہ حضرت ابوبکرؓکے عنوان سے ۱۹۸۹ء میں شائع ہوئی۔ بعدازاں فقہ حضرت عمرؓ، فقہ حضرت عثمانؓ،فقہ حضرت علیؓ،فقہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ، فقہ حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ شائع کی گئیں(کتاب نما میں بعض حصوں پر تبصرے آچکے ہیں)۔ اب اس سلسلے کی ساتویں کتاب فقہ عبداللّٰہ بن عباسؓ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓایک برگزیدہ صحابی تھے اورمختلف علوم دینیہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں غیر معمولی بصیرت اور مہارت عطا کی تھی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی اکرم ؐ نے آپ کے لیے ایک سے زائد مرتبہ دعا فرمائی کہ اے اللہ‘ اسے کتاب کا علم سکھا اور دین کی فقاہت عطا فرما۔ زیرنظر کتاب کے مصنف نے اپنے سیرحاصل مقدمے میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے مختصر حالات‘ حضورؐ کی صحبت‘ دیگر صحابہؓ سے استفادے‘ ذہانت‘ طلب علم میں جدوجہد‘ تقویٰ اور ان کی فقیہانہ بصیرت وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
کتاب میں الفاظ‘ موضوعات اور اصطلاحات کی ابجدی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اس کے ذیل میں الگ الگ عنوانات کے تحت حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی فقہ کو مدون کیا گیا ہے۔ مصنف نے تقابلی حوالوں کا بھی اہتمام کیا ہے اور ہر باب کے آخر میں حوالہ جات درج ہیں۔
مذکورہ فقہی دائرہ معارف کی اشاعت اُردو کے علمی ذخیرے میں ایک وقیع اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم یہ سلسلۂ کتب عام قارئین کی نسبت فقہ کے طالب علموں‘ اساتذہ‘ علما اور منصفین عدالت وغیرہ کے لیے زیادہ مفیداور قابل استفادہ ہے۔ (ر - ہ)
مولانا دریا بادی ؒ نے ۱۹۵۶ء میں محمد علی جوہر مرحوم سے اپنے روابط کے احوال‘ اور اُن کے ملّی ‘ سیاسی اور ادبی کارناموں پر مشتمل کتاب محمد علی‘ ذاتی ڈائری دو حصوں میں شائع کی تھی جس سے بلاشبہ جوہر کی حیرت انگیز اور غیر معمولی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور خود مصنف (دریابادی) کی زندگی کے بہت سے پہلو بھی واضح ہو کر سامنے آتے ہیں۔
جوہر پر یہ کتاب ایک عرصے سے ناپید تھی‘ معروف اسکالر اور محقق ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی نے نظرثانی کرتے ہوئے دونوں حصوں کو یک جا صورت میں نئے نام مولانا محمد علی جوہر: سیرت و افکار سے مرتب کر دیا ہے۔ محمد علی ؒ جوہر کی نابغہ روزگار شخصیت اور ان کے کارناموںکو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ محمد راشد شیخ صاحب نے کتاب کو نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ (ر- ہ)
مجلہ السیرۃ میں سیرت طیبہؐ کے مختلف پہلوئوں اور گوشوں کا مطالعہ مختصر اور جامع انداز میں یک جا کر دیا گیا ہے ‘ اس طرح عصرحاضر کے مختلف النوع انفرادی و اجتماعی مسائل سے متعلق سیرت طیبہؐ سے رہنمائی کا حصول مختصر وقت میں ممکن ہو گیا ہے۔ سیرت خیرالانام سے متعلق ماہرین علوم اسلامیہ کی عرق ریزی اور تحقیقی کاوشوں پر مشتمل یہ مجلہ تشنگان علم سیرت کے لیے ایک انتہائی مفید مجموعہ ہے۔ مضامین کے انتخاب و ترتیب میں دَورِحاضرکے مسائل اور علمی ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ’’مصائب و آلام میں اسوئہ حسنہ‘ دورحاضر کے تناظر میں‘‘ کے عنوان کے تحت شمارے کا اداریہ وقت کا اہم ترین موضوع ہے۔ تمام ہی مضامین اہم اور مفید ہیں‘ لیکن پروفیسرظفراحمد کا مضمون ’’فکرونظر کی مستحکم بنیادیں‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں مطالعہ سیرت کے حوالے سے ممکنہ فکری لغزشوں اور سیرت فہمی میں خلط مبحث سے بچنے کے لیے دلائل نقلیہ و عقلیہ سے رہنمائی حاصل کی گئی ہے۔ ’’آئینہ حیات ہادیٔ اعظم‘‘ کے عنوان سے زمانی ترتیب کے ساتھ واقعات سیرت کا انتہائی جامع ’’اختصاریہ‘‘ بھی معلومات افزاہے۔
تمام مضامین میں حوالہ جات کا اہتمام رسالے کے تحقیقی اسلوب کی نشان دہی کرتا ہے لیکن چند مقامات پر حوالہ جات کی غلطیاںاور قرآنی آیات تک میں کتابت کی غلطیاں نظر آتی ہیں جو کسی علمی رسالے کے لائق شان نہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)
دینی مدارس قومی اور ملّی سطح پر بین الاقوامی تناظر میں ایک گرم موضوع بن گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی کامیابی نے ان مدارس کو ایک نئی اہمیت دی ہے۔ مغرب بھی مسلمان معاشروں کو زیر کرنے میں انھیں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ ہمارے سیکولر ارباب اقتدار کوبھی ان کا وجود ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ ان پر حملے بھی ہوتے ہیں اور اصلاح کے لیے تدابیر و تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی کا نام اس لحاظ سے معروف ہے کہ سرگرم اور فعال حیثیت میں بہ خوبی دفاع بھی کرتے ہیں‘ اور دردمندی سے اصلاح کے لیے تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر عملی اور حالات حاضرہ کا لحاظ رکھنے والی اور راست فکر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
یہ ان کی کوئی مربوط کتاب نہیں ہے بلکہ اس موضوع کے حوالے سے ان کے رسالے الشریعہ اور دیگر اخبارات میں شائع شدہ مختلف تحریروں کی یک جا اشاعت ہے جسے عبدالوحید اشرفی صاحب نے جمع کر دیا ہے۔ عنوان کتاب کے مندرجات کی وسعت کا احاطہ نہیں کرتا جس میں خدمات‘ زبان‘ مسائل اور مستقبل کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ ۱۲ تحریروں میں سے کئی برطانیہ کے مدارس سے متعلق ہیں اور وہاں کی ضروریات کے لحاظ سے جامع نصاب تجویز کیا گیا ہے‘ البتہ طالبات پر گفتگو نہایت تشنہ ہے۔
مولانا زاہد الراشدی کا دفاع کا جارحانہ انداز چشم کشا ہوتا ہے۔ائمہ مساجد چندوں پر گزارا کیوں کرتے ہیں‘ محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ اس کے جواب میں انھوں نے یہ اصول بیان کیا کہ اجتماعی کام کرنے والوں کے اخراجات اجتماعی آمدنی میں سے ہی دیے جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کو تنخواہ بھی اسی طرح ادا کی جاتی ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ اسے ٹیکس کہتے ہیں اور حکومت کے نظام کے تحت جمع کیا جاتا ہے۔ جج بھی تو نیکی کے کام کرتے ہیں‘ وہ تنخواہ نہ لیں‘ محنت مزدوری کرکے پیٹ پالیں۔ اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں کہتے! (ص ۷۲)
تبدیلی کی بات شروع سے کہی جا رہی ہے لیکن ذمہ داران مدارس‘ معاشرے کی مخصوص ضروریات پوری کرنے کو اوّلیت دیتے ہیں اس لیے اس نوعیت کی تبدیلیوں سے احتراز کرتے ہیں جو ان کے طلبہ کو دنیاوی مسابقت کی دوڑ میں لے جائیں۔ یہ قربانی کا سوچا سمجھا رویہ ہے۔ نظام حیدرآباد کی پیش کش تھی کہ ریاست کی ضروریات کے لحاظ سے نصاب میں تبدیلی کریں تو ملازمت بھی دی جائے گی اور مکمل اخراجات بھی اٹھائیں گے۔ مگر یہ پیش کش ردّ کر دی گئی ۔(ص ۲۴)
جمود‘ اور تبدیلی کی مزاحمت کی شدت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ترجمہ قرآن پڑھانے‘ اور ڈاک خانہ‘ ریلوے کے قواعد اور تعزیرات ہند پڑھانے کی تجاویز پیش کرتے کرتے تھک گئے کہ اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا ۔(ص ۱۰)
مصنف نے متعدد مفید اور عملی تجاویز پیش کی ہیں اور اس پر زور دیا ہے کہ مختلف مسالک کے مدرسوں کے ذمہ داروں کی باہمی مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ تبدیلی کا کچھ نہ کچھ عمل جاری ہے لیکن ضرورت درست سمت میںرفتار بڑھانے کی ہے۔ (مسلم سجاد)
مصنف نے اُمت مسلمہ کی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ کے ان حوادث و سانحات اور عبرت ناک واقعات کو بڑی کاوش اور محنت و تحقیق کے ساتھ جمع کیا ہے جو اگرچہ بہت تلخ‘ ناخوش گوار اور پریشان کن ہیں لیکن مصنف کا مقصد اس تفصیل سے سبق آموزی اور حصول عبرت ہے۔ سقوطِ بغداد (عذاب الٰہی کا پہلا کوڑا)‘ سمرقند سے عذاب الٰہی کا ظہور (فاتح اعظم تیمور اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار)‘ دہلی میں تیمور کی تلوارِ بے نیام (تذکرہ ایک قیامت ِ صغریٰ کا)‘ سرزمین اندلس مسلمانوں پر کیسے تنگ ہو گئی؟ وسط ایشیا اور قفقاز‘ روسی مسلمان اژدھا کے چنگل میں‘ سلطنت ِ مغلیہ کی ٹوٹ پھوٹ اور نادرشاہ کی شکل میں خدائی عذاب‘ تخت گاہ سے قتل گاہ تک (ہنگامہ ۱۸۵۷ء) ‘مسلمانوں کی آخری بڑی سلطنت (عثمانیہ) کی بربادی کی دل خراش داستان‘ سقوط ڈھاکہ (بیسویں صدی میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قیامت کی کہانی) جیسے عنواناتِ ابواب سے کتاب کے وسیع کینوس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بقول مصنف: ’’اسلامی تاریخ میں ملت کو پیش آنے والے صدمات و حادثات میں سے ہم نے صرف انھی واقعات کو منتخب کیا ہے جن کے اثرات صدیوںتک محسوس کیے گئے یا کیے جائیں گے۔ یہ وہ دردناک حوادث ہیں جن کے لگائے ہوئے زخموں سے اب تک خون رِس رہا ہے‘‘۔ (ص ۱۴)
ملتِ اسلامیہ کو یہ حادثات کیوں پیش آئے ؟مصنف نے دیباچے میں متعدد وجوہ کی طرف اشارہ کیا ہے: ’’مسلمان گذشتہ کئی صدیوں سے فلسفہ توحید کو مکمل طور پر جزو ایمان نہ بنانے کی وجہ سے ذلت و نکبت میں مبتلا ہیں‘ خصوصاً اس قوم کے طبقہ اُمرا کے دل سے غیرت‘ حمیت اور ایمان کا نور بالکل ہی نکل چکا ہے‘‘۔ مصنف کہتے ہیں کہ خرابی ہمیشہ اندر سے واقع ہوتی ہے اور پھر سرطان کی طرح پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب پھوڑا متعفن ہو جاتا ہے تو پھر نشتر اور آپریشن ناگزیر ہو جاتا ہے۔ قدرت کا کوڑا برستا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کے نشان چھوڑ جاتا ہے‘ یہ کوڑا کبھی چنگیز کی شکل میں نمودار ہوتا ہے‘ کبھی ہلاکو کی شکل میں‘ کبھی تیمور کی صورت میں اور کبھی آپس میں لڑلڑمرنے کی صورت میں۔
’’قدرت کی طرف سے یہ عذاب اس وقت نازل ہوتے ہیں جب اصلاح کا جذبہ اجتماعی طور پر ختم ہو جائے یا اصلاح کی طرف متوجہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کی بات نہ سنی جائے بلکہ ان کی تذلیل کی جائے‘‘ (ص ۱۸)۔مصنف نے حوادث وواقعات کے اسباب بھی بیان کیے ہیں اور ان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ ان کے نزدیک بعض اسباب ہر سانحے میں کارفرما نظر آتے ہیں ‘جیسے :عدم اتفاق‘ فرقہ وارانہ افتراق اور حکمرانوں کا شدید بے غیرتی اور فسق و فجور میں مبتلا ہونا۔
پوری کتاب عبرت ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ نادر شاہ کی فوج دلی کی طرف بڑھی چلی آرہی تھی اور محمد شاہ رنگیلا (بلکہ بیش تر دہلی والے) عیش و عشرت میں ایسے منہمک تھے کہ نادر شاہی فوج کی آمد کی خبر سب سے پہلے ان گھسیاروں کو ملی جو صبح سویرے گھوڑوں کا چارہ حاصل کرنے کے لیے دلّی سے تین چار میل باہر چلے گئے تھے اور کسی طرح بچ بچا کر زخموں سے چور گرتے پڑتے واپس دلّی پہنچے۔ مگر اس سے بھی زیادہ عبرت ناک بات سقوطِ بغداد سے متعلق ہے۔ ہلاکو خان نے فتح بغداد کے بعد آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو کھانے پر بلایا‘ اس کے سامنے سونے چاندی کے ڈھیر رکھ دیے اور کہا: ’’اسے تناول فرمایئے‘‘۔ خلیفہ: ’’میں سونا کس طرح کھا سکتا ہوں؟‘‘۔ ہلاکو: ’’پھر آپ نے سونے کو اتنی حفاظت اور اہتمام سے کیوں رکھا ہوا تھا‘‘۔ ہلاکو نے سیم و زر اور جواہرات سے لبریز بڑے بڑے آہنی صندوقوں کی طرف تلوار سے اشارہ کرتے ہوئے خلیفہ سے کہا: ’’آپ نے ان صندوقوں کے فولاد سے فوج کے لیے تیر کیوں نہ بنوائے؟ اور یہ تمام سونا اور جواہر اپنے سپاہیوں میں تقسیم کیوں نہ کیے اور آپ نے بغداد سے باہر نکل کر پہاڑوں کے دامن ہی میں مجھے روکنے اور مقابلہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟‘‘۔ خلیفہ: ’’مشیت ایزدی یہی تھی‘‘۔ ہلاکو: ’’اچھا تو اب ہم جو سلوک آپ سے کریں‘اُسے بھی مشیت ایزدی سمجھنا‘‘۔ ہلاکو نے مستعصم اور اس کے بیٹوں کو نمدے میں زندہ لپیٹ کر سلوایا اور پھر خونخوار تاتاری سپاہیوں نے ان نمدوں پر گھوڑے دوڑائے اور سموں کے نیچے انھیں مکمل طور پر روند ڈالا۔ بغداد کی تباہی اسلامی تاریخ کا نہایت الم ناک واقعہ ہے۔ بغداد اس وقت مرکز خلافت تھا اور ’’دنیاے اسلام کا سب سے شان دار اور آباد شہر تھا۔ قلعہ بندیاں مضبوط تھیں ‘لیکن نہ دل اور نہ ایمان مستحکم تھے‘‘ ۔(ص ۲۲)
مصنف کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی نہیں ہے‘ وہ ہر جگہ ذلت و خواری میں مبتلا ہیں۔ کشمیر‘ بوسنیا‘ کوسووا‘ چیچنیا‘ عراق‘ افغانستان‘ بھارت‘ فلسطین غرض دنیا کے ہر گوشے میں مسلمانوں ہی کا خون بہہ رہا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اُمت مسلمہ جس اعلیٰ مشن کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئی تھی وہ اس سے غافل ہو چکی ہے اور اس نے مادّی ضروریات کی تکمیل ہی کو مقصد زندگی بنا لیا ہے اور اسی لیے وہ حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ مصنف نے ملتِ اسلامیہ کی جو دل خراش داستان بیان کی ہے وہ عبرت انگیز ضرور ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ قدرت ابھی تک مسلمانوں سے مایوس نہیں ہوئی۔ یہ سانحے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ہیں۔ اگر قدرت اس قوم سے مایوس ہو چکی ہوتی تو یہ جھٹکے بار بار نہ لگائے جاتے۔ عضومعطل کو بحال کرنے کے لیے ہی بار بار جھٹکے لگائے جاتے ہیں۔
کتاب تمام تاریخ پر مبنی ہے‘ مگر افسانہ و داستان سے زیادہ دل چسپ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فکرانگیز بھی۔ بیش تر واقعات و احوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُمرا کی عیش کوشی‘ جاہ و مناصب اور اقتدار کی ہوس ‘ زر و مال سے محبت‘ شراب نوشی‘ باہمی نفاق و بغض‘ فریب کاری‘ دغابازی کے ساتھ ساتھ علما و صوفیا کی بے عملی اور ذہنی جمود‘علمی تحقیقات سے غفلت‘ اور جہاد سے بے اعتنائی بھی زوال و ادبار کی وجوہ میں شامل تھے۔ جب تلواریں کند ہو کر رہ جائیں تو قوموں کی تاریخ میں سانحات کا پیش آنا غیر فطری نہیں۔
اس بے اعتنائی‘ بے نیازی بلکہ بے حمیتی کو کیا نام دیا جائے کہ جب غرناطہ کے مجبور و محصور مسلمانوں نے سلطنت ِ عثمانیہ سے‘ جو اس زمانے میں ایک مضبوط و مستحکم قوت تھی‘ اسلامی اخوت کے نام پر مدد چاہی تو ترک شہنشاہ نے وہ خط پاپائے روم کو‘ اور اس نے غرناطہ کا محاصرہ کرنے والے عیسائی شاہ فرڈی ننڈ کو بھیج دیا۔
میاں محمد افضل صاحب نے جس محنت و تحقیق‘ خلوص و دل سوزی اور نہایت درجہ دردمندانہ ملّی جذبے کے ساتھ کتاب لکھی ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے‘ خصوصاً نوجوانوں کے لیے اس کا مطالعہ نسبتاً ضروری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مولانا سید مناظر احسن گیلانی ؒ (۱۸۹۲ء-۱۹۵۶ء) نے دارالعلوم دیوبند کے مجلہ القاسم میں اس کے اجرا کے موقع پر چھ قسطوں میں’’دارالعلوم کے بانی کی کہانی‘ انھی کی زبانی‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مقالہ شائع کیا تھا۔محمد عامر قمر نے مذکورہ مقالے کے ساتھ قاری طیب کی ایک تحریر ’’بانی دارالعلوم‘‘ بھی شامل کرکے زیر نظر کتاب مرتب کر دی ہے۔ پیش لفظ‘ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کا ہے جس میں علامہ سیدمناظر احسن گیلانی ؒ کی انشا پردازی اور اسلوب نگارش پر اظہارخیال کیا گیا ہے۔
علامہ سید مناظر احسن گیلانی ؒکو اللہ تعالیٰ نے ذہن رسا‘ طبیعت اخاذ اور نکتہ آفرینی عطا فرمائی تھی۔ وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تو ان کے سامنے معلومات کا انبار اور ذہن میں افکار و خیالات کا ہجوم ہوتا۔ پھر چھوٹا سا عنوانِ مقالہ بھی ایک ضخیم تصنیف کی صورت اختیار کر لیتا۔ مولانا گیلانی ؒنے مختلف موضوعات: قرآن‘ حدیث سیرت‘ فقہ‘ تاریخ‘ مذاہب عالم‘ تصوف‘ معاشیات‘ تعلیم و تربیت وغیرہ پر علمی و تحقیقی تصنیفات یادگار چھوڑی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے سیکڑوں مقالات مختلف علمی و تحقیقی رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ ان تحریرات کو محفوظ کرنے اور ازسرنو مرتب کرنے کے لیے ’’مجلس یادگار گیلانی‘‘ کا قیام عمل میںلایا گیا ہے اورزیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
زیرنظر مقالے کے علاوہ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒنے بعدازاں سوانح قاسمی کے عنوان سے مولانا قاسم نانوتوی ؒکے حالات زندگی پر ضخیم اور مبسوط کتاب تحریر کی‘ مگر زیرنظر تحریر کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ مولانا گیلانی ؒ‘سوانح قاسمی کے مقدمے میں رقم طراز ہیں: ’’انشا و علم نگاری کی ابتدا بھی القاسم ہی سے ہوئی تھی اور انتہا بھی القاسم پر ہو جائے‘‘۔ مولانا گیلانی ؒنے اپنے مقالے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے جسے فاضل مرتب نے پانچ ابواب (سوانح حیات پر ایک سرسری نظر‘ تالیفات و تصنیفات‘ سیرت جلیلہ کا ایک زریں ورق‘ حضرت قاسم العلوم کی فطرت سلیمہ‘ شاہ جہان پور کا میلہ خدا شناسی) کے عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ مولانا گیلانی ؒنے سیرت کا جو حسین مرقع تیار کیا ہے اس میں بانی دارالعلوم کا زہد و تقویٰ‘ علم و عرفان‘ اخلاص و للہیت‘ کمال استغنا اور عشق حبیب کبریا ؐکی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا گیلانی ؒ ان قدسی صفات حضرات کی سیرت کے عملی مظاہر پیش کرتے ہوئے قارئین کو بھی ان صفات سے متصف ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ کتاب عمدہ انداز میں شائع ہوئی ہے۔ (حافظ محمد سجاد تترالوی)
یہ کتاب قائداعظم پر مختلف کتابوں اور مضامین سے اخذ کردہ اقتباسات کا مجموعہ ہے۔ اقتباسات سے بقول مرتب ’’قائداعظم کی ایک زندہ اور متحرک تصویر‘‘ بنتی ہے۔ ہر اقتباس اپنی جگہ مکمل ہے اور اُس پر عنوان بھی دیا گیا ہے۔ کتاب کہیں سے کھولیں اور پڑھنا شروع کر دیں۔ قائداعظم کی شخصیت کا کوئی نہ کوئی دل چسپ پہلوسامنے آئے گا۔ ہر اقتباس کے ساتھ مصنف کا نام تو دیا گیا ہے مگر کتاب یا رسالے کا حوالہ نہیں دیا اور یہ اس کتاب کی بنیادی خامی ہے۔اشاعت معیاری ہے۔ (ر-ہ)
زیر تبصرہ کتاب‘ ہماری قومی و ملّی زندگی کے بعض حوادث کی پس پردہ کہانیوں کو بہت عمدگی سے بے نقاب کرتی ہے۔
مصنف نے پہلے حصے میں تحریک پاکستان کے ایک نوجوان اور فعال کارکن کی حیثیت سے اپنے مشاہدات اور سرگرمیوں کی تصویر پیش کی ہے۔ جب وہ قائداعظم ؒاور دیگر بہت سے قائدین سے ملاقاتوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں تو پڑھنے والا اپنے آپ کو ان واقعات کا چشم دید سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
۳۰ جولائی ۱۹۴۴ء کو لاہور میں مسلم لیگ کونسل کا سالانہ اجلاس تھا۔ حسب ضابطہ کارڈ دکھا کر ہی پنڈال میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ڈیوٹی پر موجود نوجوان نے قائداعظمؒ کو بھی کارڈ دکھائے بغیر اندر جانے سے روک دیا (ص ۵۶)۔ یہ نوجوان اس کتاب کے مصنف تھے۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے کے ایسے واقعات‘ قاری کی طبیعت میں ایک ولولہ پیدا کرتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد مصنف نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا‘ اور متعدد اہم عہدوں پر فائز رہے۔ کتاب میں انھوں نے اس روایت کو توڑا ہے‘ جس کے تحت بہت سی اہم باتیں بیان کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے کھلی آنکھوں سے واقعات کو دیکھا‘ کھلے کانوں سے واقعات کی چاپ سنی اور بیدار ذہن کے ساتھ انھیں اس آپ بیتی میں ریکارڈ کر دیا ہے۔
’’پاکستانی فوج کی قلب ماہیت‘‘ (ص ۸-۱۴۲) میں انھوں نے قیام پاکستان کے بعد کی فوجی دنیا کے مغربیت زدہ کلچر کا ذکر کیا ہے جہاں شراب اور رقص و سرود مغربی طرز حیات کے لازمی اجزا تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۲ء میں نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ٹکا خان نے فوج میں شراب کے استعمال کی ممانعت کر دی‘ مگر اس سے آگے بڑھ کر پاکستانی فوج کو نظریاتی اعتبار سے اسلامی قالب میں ڈھالنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی‘ تاآنکہ جنرل ضیاء الحق مارچ ۱۹۷۶ء میں فوج کے سربراہ مقرر ہوئے تو انھوں نے فوج کے لیے ماٹو تجویز کیا: ایمان‘ تقویٰ ‘ جہاد فی سبیل اللہ۔ اس وقت میں ہیڈ کوارٹر میں ڈائریکٹر پرسونل سروسز (DPS)تھا‘ اور فوج کا دینی شعبہ میرے زیرنگرانی تھا۔ چنانچہ مجھے جنرل ضیاء الحق نے احکام جاری کیے کہ تمام ہیڈ کوارٹروں اور یونٹوں کے صدر دروازوں اور ریڈنگ روم وغیرہ میں یہ ماٹو جلی حروف میں لکھا جائے اور فوج کے اندر ان کی اہمیت واضح کرنے کا بندوبست کیا جائے‘ تاکہ ہر افسر پر واضح ہو جائے کہ ایک اسلامی فوج کے کیا تقاضے ہوتے ہیں (ص ۱۴۲-۱۴۳)۔ اس باب میں انھوں نے ان اقدامات کی تفصیل بیان کی ہے‘ جو گیریژن کی فضا کو اسلامی کلچر سے مربوط کرنے کے لیے کیے گئے۔
۱۹۶۲ء میں مصنف کا تقرر ملٹری انٹیلی جنس میں ہوا۔ انھی دنوں ان کے انچارج جنرل نوازش ملک نے کہا کہ کمانڈر انچیف جنرل موسٰی خاں محسوس کر رہے ہیں کہ فوجی افسروں میں پیشہ ورانہ سوچ میں کمی آرہی ہے‘ وہ اس کی وجوہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے فوری طور پر انھیں مختصراً اس کی تین وجوہ سے آگاہ کیا۔ اوّل: کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد کی رہایشی اسکیموں میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی دوڑ۔ دوم: بنکوں سے قرضے لینے کی وبا۔ سوم: حاضر سروس فوجی افسروں میں پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ خالی رقبوں کو الاٹ کرانے کا کلچر۔ میں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح افسروں کی توجہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر سرمایہ کاری کی طرف مبذول ہو رہی ہے (ص ۱۵۸-۱۵۹)۔ آخر یہی ہوسِ زر ہماری قومی معیشت کی تباہی اور بربادی کا باعث بن گئی۔
ایک جگہ انھوں نے اپنے ایک ساتھی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’افسوس کہ فوج کا یہ بہادر اور قابل سپوت اپنی ناپسندیدہ ’’غیر نصابی سرگرمیوں‘‘ کی وجہ سے جنرل کے عہدے پر ترقی نہ پا سکا‘‘ (ص ۱۹۳)۔ آگے چل کر مصنف نے راز ہاے درون خانہ کے ایک شاہد کی حیثیت سے فوجی قیادت کے ایک عاقبت نااندیشانہ فیصلے کی تفصیل بیان کی ہے۔ جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء سے چند ماہ قبل پاک فضائیہ کے سربراہ نے تجویز پیش کی تھی کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں‘ ہم پاک آرمی کے کمانڈوز کو دشمن کے ]اہم جنگی[ ہوائی ڈوں پر پیراشوٹ کے ذریعے اُتار دیں گے اور یہ کمانڈوز بھارتی طیاروں اور تنصیبات کو تباہ کر کے چھپتے چھپاتے واپس آجائیں گے ۔ تمام خطرات کے باوجود جنرل ہیڈ کوارٹر نے ہاں کہہ دی۔ جنگ شروع ہوئی تو پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل نورخان نے اس تجویز پر عملی جامہ پہنانے کا تقاضا کر دیا۔ ایس ایس جی کے کمانڈر نے دبے لفظوں میں اس کی مخالفت کی‘ مگر بریگیڈیئر بلگرامی نے اس موقف کو یہ کہہ کر ردّ کر دیا کہ اس نازک لمحے پر اگر ہم نے یہ بات نہ مانی تو فضائیہ کے جذبۂ اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ چنانچہ ۱۸۰ بہترین تربیت یافتہ کمانڈوز‘ ۶ اور ۷ ستمبر کی درمیانی رات‘ پٹھان کوٹ‘ آدم پور اور بلواڑہ کے ہوائی اڈوں پر پیراشوٹوںکے ذریعے اُتار دیے گئے جو دشمن کو کوئی خاطر خواہ نقصان نہ پہنچا سکے۔ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے‘ بہت سے قیدی بنا لیے گئے۔ صرف ایک کیپٹن حضور حسنین چند ہفتوں بعد بہاول پور کے قریب سرحد عبور کر کے واپس آگئے (ص ۱۹۸-۱۹۹)۔ یہ واقعہ‘ ہمارے اس سماجی رویے پر نوحہ کناں ہے کہ ہمارے ہاں اکثر احمقانہ اقدام‘ اس ’’مجبوری‘‘ کے تحت اٹھا لیے جاتے ہیں کہ ’’لو گ کیا کہیں گے؟‘‘ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس ’’کیا کہیں گے‘‘ کے جبر کے نتیجے میں جو قیمتی جانی نقصان ہوگا‘ اس کا خون کس کی گردن پر ہوگا۔ یہ کتاب ایسی ہی عبرت آموز تفصیلات پیش کرتی ہے۔
مصنف نے سیاسی حوالے سے بھی بعض اہم انکشافات کیے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں: اگر تلہ سازش کیش صحیح تھا‘ صدر ایوب خان اس کے ملزموں میں‘ شیخ مجیب کو شخصی طور پر ملوث نہیں کرنا چاہتے تھے‘ مبادا یہ مقدمہ سیاسی ایشو بن جائے۔ مگر وزیر دفاع اے آر خاں اور گورنر مشرقی پاکستان عبدالمنعم خاں‘ مجیب سے ذاتی انتقام لینا چاہتے تھے‘ ان کے اصرار پر مجیب کا نام بھی مقدمے میں شامل کر دیا گیا۔ اس بھیانک غلطی سے مقدمے کی نوعیت سیاسی ہو گئی اور عوام کو ایوب کے خلاف بھڑکانے کا موقع مل گیا۔ (ص ۲۱۱)
آگے چل کر وہ بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۷ء میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کے دوران لاہور میں فوج کے افسروں نے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا۔ مصنف کا ذاتی خیال ہے کہ یہ سوچ نظم و ضبط کے منافی تھی۔
مصنف کی بصیرت کے نشان کتاب کے صفحات پر بکھرے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے عملی زندگی کے آغاز ہی سے اجتماعی زندگی کے معاملات میں دلچسپی لی اور سیاسی و قومی جدوجہد میں حصہ لیا۔ ظاہر ہے کہ ان کاموں میں وہی فرد حصہ لے سکتا ہے‘ جو دل دردمند رکھتا ہو۔ ہمارے خیال میں یہ کتاب اہل سیاست ‘ اہل دانش اور ان سے بڑھ کر فوجی قیادت کے لیے بصیرت کے باب وا کرتی ہے۔ سچائی کے اظہار‘ اسلوب بیان کی سادگی اور مقصدیت کے احساس نے کتاب کو دل چسپ بنا دیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)
رام پور یوپی سے شائع ہونے والے‘ خواتین اور طالبات کے رسالے حجاب کا تعارف’’کتاب نما‘‘ میں پہلے بھی آچکا ہے (مثلاً: اگست ۲۰۰۰ء)۔ بھارت کے معروف ادیب‘ نقاد اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ابن فرید اور ان کی اہلیہ امّ صہیب رسالے کو نہایت نامساعد حالات اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود‘ نیز مالی خسارہ اٹھاتے ہوئے بھی‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ ’’ایک بھرپور گھریلو رسالہ ‘‘ ہے جس میں ہر ماہ حمد و نعت کے ساتھ سیرت اور دینی تعلیمات پر مضامین اور خواتین کے فقہی مسائل‘ صحت اور طعام کے مستقل صفحات کے علاوہ ادبی و شعری حصہ بھی شامل ہوتا ہے (اصلاحی افسانے اور غزلیں وغیرہ)۔ حجاب نے وقتاً فوقتاً خاص نمبر بھی شائع کیے ہیں۔
حال ہی میں حجاب نے ’’ارشادات رسولؐ نمبر‘ خواتین سے متعلق‘‘ شائع کیا ہے۔ خواتین سے متعلق احادیث کے عنوانات کے ساتھ ایک ایک‘ ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے میں تشریح کی گئی ہے۔خواتین کے جملہ مسائل کے بارے میں ان احادیث سے بڑی جامع ہدایات ملتی ہیں۔ ۱۰ تشریحات امّ صہیب کی اور باقی تشریحات ڈاکٹر ابن فرید کے قلم سے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ادیب ہیں‘ علم نفسیات سے بھی بخوبی واقف ہیں اور دین کا فہم بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی تشریحات مختصر ہونے کے باوجود نپی تلی جامع اور موثر ہیں۔ زیادہ تر انھوں نے عصر حاضر کے تناظر میں بات کی ہے۔ حجاب‘ جو خدمت انجام دے رہا ہے اس کے پیش نظر ‘ اس کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
حکیم محمد سعید ؒکی ذات محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی اُن گنی چنی شخصیات میں سے ہیں جنھوں نے اپنے وسائل اور اختیارات کو ذاتی خواہشات کی تکمیل کے بجائے قومی اور ملّی مقاصد کے حصول اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا‘ اور عمر بھر ’’خدمت‘‘ کو اپنا شعار بنایا‘ چنانچہ وہ نیک نام کے ساتھ رخصت ہوئے اور شہادت کے مرتبۂ بلند پر فائز ہوئے۔
زیرنظر کتاب شہید حکیم ؒکے ان مصاحبوں (انٹرویوز) پر مشتمل ہے جو اخبارات اور رسائل میں چھپے۔ پہلا مصاحبہ پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوا۔ ان مصاحبوں سے حکیم صاحب کی شخصی اور نجی زندگی اور اُن کی شخصیت اور ذہن و فکر کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ساتھ ملکی‘ قومی‘ ملّی ‘ تعلیمی‘ طبّی اور انتظامی امور و مسائل پر ان کے طرزِعمل اور رویوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
حکیم صاحب نے نہایت صاف گوئی کے ساتھ اور کھرے انداز میں اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں‘ اُن کی دلچسپی بنیادی طور پر دو شعبوں سے رہی۔ ایک: طب‘ اور دوسرے: تعلیم۔ صحت کو وہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ سمجھتے تھے لیکن وہ یونانی یا مشرقی طب کی اہمیت کے ساتھ ساتھ ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھک کے بارے میں کسی تعصّب میں مبتلا نہیں تھے۔ ہاں‘ وہ یہ چاہتے تھے کہ طّب کا بڑا انحصار نباتات پر ہونا چاہیے اور ہمیں synthetic دوائیں استعمال نہیں کرنی چاہییں کیونکہ انسانی جسم پر ان کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس بات سے شاید ہی کوئی طبیب ‘ ڈاکٹر یا ہومیوپیتھ اختلاف کرے گا۔
حکیم صاحب کو اس بات کا بھی بڑا قلق تھا کہ پاکستان میں تعلیم کو نظرانداز کر کے قوم کو جاہل رکھا گیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان اور صاحبانِ اقتدار اگر پاکستان کے دوست ہوتے تو پاکستان میں اولیّت تعلیم کو حاصل ہوتی (ص ۱۰۵)۔ اسی طرح اُن کے خیال میں علماے کرام کو نفاذِ اسلام کے ساتھ تعلیمی نفاذ کی بات بھی کرنی چاہیے۔ کیونکہ ’’جب تک تعلیمی انقلاب اسلامی برپا نہیں کیا جائے گا‘ اسلامی انقلاب نہیں آئے گا‘‘ (ص ۱۰۶)۔ ان کی زندگی کی اوّلین و آخرین خواہش یہ تھی کہ وطن کے ہر انسان کو صحت اور تعلیم کی سہولت میسر ہو۔ انھیں افسوس تھا کہ ہم نے اپنے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں لوگوں کو پاکستان سے محبت کرنے کا کوئی درس نہیں دیا (ص ۱۷)۔ مرحوم کو اپنی زندگی ہی میں جو شہرت اور عزت حاصل ہوئی‘ وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے‘ کیوں؟
اشاعتی پیش کش ‘ ہمدرد کے عمدہ معیار کے مطابق ہے۔ (ر - ہ)
گذشتہ نصف صدی میں ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں نے پاکستان سے بھارت کا سفر کیا اور سیکڑوں افراد نے اس وسیع و عریض ملک کے جس حصے کا بھی سفر کیا اس کے بارے میں اپنے مشاہدات‘ تجربات اور تاثرات قلم بند کیے۔ زیرنظر سفرنامہ بھارت میں چار ہفتے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ہر سفرنامے کے مصنف کا میدانِ عمل ‘ اسلوب تحریر‘ زاویہ نگاہ اور اندازِ بیان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی لیے یہ صنف ادب زیادہ دل چسپی سے پڑھی جاتی ہے۔ سید علی اکبر‘ اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے‘ اور بنارس یونی ورسٹی ان کی مادرِ علمی رہی۔ اب بھی ان کے بعض اعزہ و اقارب وہیں مقیم ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ بھارت کے بارے میں ان کی معلومات کا دائرہ خاصا وسیع ہے‘ چنانچہ ان کے مشاہدات میں گہرائی ہے۔ لکھنؤ‘ بنارس‘ اعظم گڑھ‘ علی گڑھ‘ کلکتہ اور دہلی کے سفر کی یہ داستان دل چسپ ہے۔ اس سفرنامے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو بھارت کے دیگر سفرناموں میں نہیں ملتا اور وہ یہ کہ اس سفر میں علی اکبر صاحب بیسیوں مذہبی (خصوصاً شیعی تعلیمی) اداروں میں گئے (زیادہ تر لکھنؤ میں) جن سے متعلق کتاب میں نادر معلومات درج ہیں۔ کتاب میں ۶۰ سے زائد تصاویر بھی شامل ہیں۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
افغانستان کے طالبان ‘مغرب کے لیے ایک بڑا اہم سوال بن چکے ہیں۔ پہلے تو صرف ان کی مذہبی پالیسیاں خصوصاً خواتین کے بارے میں ان کا ’’کٹرپن‘‘ یا اسامہ بن لادن کے بارے میں بے لچک رویہّ ہی قابل اعتراض تھا۔ اب بدھا کے مجسّموں کی توڑ پھوڑ نے اہل مغرب کے ساتھ بعض مشرقی ممالک (جاپان‘ تھائی لینڈ‘ نیپال وغیرہ) کو بھی طالبان کے بارے میں فکرمند اور پریشان کر دیا ہے‘ اگرچہ خود طالبان کسی کی دادو تحسین یا مذمت سے بے نیاز ہیں۔ وہ اپنی ہی دُھن میں مگن جو چاہتے ہیں‘ کر گزرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کے قابل قدر اقدامات کی بھی قدر نہیں کی جاتی‘ جیسے بھارت کے اغوا شدہ طیارے سے طالبان کا کامیابی سے نمٹنا یا پوست کی کاشت کا کامیابی سے خاتمہ کرنا۔ (اب وہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو بجا طور پر طعنہ دیتے ہیں کہ تمھارے لاڈلے شمالی اتحاد کے علاقے میںتو پوست بدستور کاشت ہو رہی ہے۔) باوجود اپنی علاقائی اور سیاسی ’’تنہائی‘‘ کے‘ ان کا رویہّ اب بھی بے لچک ہے۔ غالباً اس لیے کہ وہ پاکستان کی تائید سے بڑی حد تک مطمئن ہیں۔ ان کے بارے میں امریکہ کی واضح طور پر معاندانہ پالیسی‘ دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی مخالفت‘ اقوام متحدہ کی پابندیوں حتیٰ کہ پاکستان کے سوا اپنے تمام مسلم ہمسایوں سے تعلّقات میں کشیدگی اور اندرونِ ملک بے روزگاری ‘ غربت اور قحط کے مسائل نیز شمالی اتحاد سے برسرِ جنگ ہونے کے باوجود طالبان اپنے موقف پر جرأت اور بہادری سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ آج افغان ہی دنیا کی سب سے زیادہ آزاد قوم ہے۔
ان عجیب و غریب طالبان کو سمجھنے کے لیے برطانوی پیٹر مارسڈن نے آٹھ سال سے زائد عرصہ مختلف برطانوی ایجنسیوں اور گروپوں کے رابطہ افسر کی حیثیت سے افغانستان میں گزارا۔ یہ مختصر کتاب ان کے آٹھ سالہ تجربے‘ مشاہدے اور تحقیق کا حاصل ہے۔ اس کا دائرہ موضوعات خاصا وسیع ہے (یعنی: افغانستان کا جغرافیہ‘ تاریخ‘مذہبی‘ لسانی اور قبائلی تصورات‘ مجاہدین کی تحریک‘ طالبان کی قیادت‘ ان کے عقائد‘ طور طریقے اور پالیسیاں وغیرہ۔) مارسڈن نے طالبان پر عالم اسلام کی بعض بڑی تحریکوں (اخوان المسلمون‘ سعودی عرب کی وہابی تحریک‘ لیبیا اور ایران کے انقلابات) کے اثرات کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے مگر ان کا خیال ہے کہ طالبان پرکسی خاص تحریک کا ٹھپہ لگانا دانش مندی نہ ہوگی (ص ۵۶)۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان پر سب سے غالب اثر علما کا ہُوا ہے (ص ۶۳)۔
مارسڈن کی رائے میں ملا محمد عمر کا مقصد افغانستان کو بدعنوان‘ مغرب زدہ اور موقع پرست لیڈروں سے نجات دلانا ہے۔ ان کی منفی پالیسی کی سختی دراصل افغان خواتین کو مغربی اثرات سے محفوظ رکھنے کی ایک جان توڑ کوشش ہے (ص ۷۳)۔ مارسڈن نے طالبان کو قریب سے دیکھا ہے اور اس کا رویہّ طالبان سے ہمدردانہ ہے۔ اوّل: مارسڈن کا خیال ہے کہ اسلام کے بارے میں اہل مغرب ابھی تک صلیبی جنگوں کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے (شاید اسی لیے وہ طالبان کو سمجھ نہیں پا رہے)۔ دوم: مارسڈن یہ سوال اٹھاتا ہے کہ بجا ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک اپنے اصول و ضوابط کی روشنی میں طالبان کو تسلیم نہیں کر رہے لیکن یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جو حکومتیں طالبان سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں انھیں کیوں تسلیم کر لیا گیا ہے؟ (مارسڈن نے کسی کا نام نہیں لیا)۔
مصنف کا خیال ہے کہ طالبان کی مشکلات اور مسائل کا حل پیش کرنا آسان نہیں۔ افغانستان کے داخلی حالات میں مسلسل اتارچڑھائو کی وجہ سے نت نئی پیچیدگیاں اور اُلجھنیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اس وجہ سے آیندہ کیا ہوگا؟ یا کیا کرنا چاہیے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
عربی کے فارغ التحصیل مارسڈن نے یہ بیانیہ کتاب تجزیاتی اور تحقیقی انداز میں لکھی ہے۔ ابتدا میں ضروری نقشے شامل ہیں اور اشاریہ بھی۔ آخر میں مآخذ کی فہرست ہے۔ افغانستان اور طالبان پر اردو میں لکھنے والوں کو مارسڈن کے طریقہ تصنیف و تالیف سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ ایک غیر ملکی ناشر نے کتاب اتنے اچھے معیار پر شائع کی ہے (گو‘ قیمتاً گراں ہے) کہ ملکی ناشرین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تاریخ جہاں گشائی منگولوں‘ خوارزم شاہیوں اور اسماعیلیوں کی تاریخ کی ایک مستند‘ ثقہ اور بنیادی مآخذ کی کتاب ہے۔ عطا ملک الجوینی (متوفی ۶۸۱ھ) ہولاکو کے دَور میں ایران اور عراق کا گورنر رہا۔ وہ منگولوں کے ہاں میرمنشی کی حیثیت سے آیا اور گورنر کے عہدے تک پہنچا۔ وہ ہولاکو کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے والے تمام حادثات و واقعات کا عینی شاہد ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس نے اُس دَور کے مؤرخین کو بھی منگولوں کی طاقت سے متعلق موثق مواد فراہم کیا۔ یہ کتاب خوارزم شاہیوں کی تاریخ کا تفصیلی بیان بھی مہیّا کرتی ہے۔ نیز اسماعیلیوں کے عقائد اور اُن کی خفیہ دعوت سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔ تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب منگولوں کی قدیم تاریخ سے لے کر ۶۴۴ھ تک کے تمام واقعات‘ خوارزم شاہی سلاطین کے حالات اور ہولاکو کی بلادِ غربیہ میں آمد تک کے واقعات اور ہولاکو کے بلادِ غربیہ پر تسلّط ‘ اس کے ہاتھوں ان کی بربادی اور اس کے بعد رکن الدین خورشاہ کے قتل تک کے واقعات اور اسماعیلی خاندان کی مکمل تباہی کی تفصیل پیش کرتی ہے۔
زیرنظر جلد سوم اسماعیلیوں کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس میں ہولاکو کی ملاحدہ کے قلعوں کی تسخیر‘ باطنیوں اور اسماعیلیوں کے عقائد‘ ان کی دعوت‘ قرامطہ کے ظہور‘ اسماعیلی حکومت کے فروغ‘ مصر میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور منگولوں کے ہاتھوں‘ بالآخر بلادِ غربیہ کی مکمل تباہی کا احوال بیان کیا گیا ہے۔
مترجم نے کتاب کے آغاز میں مصنف کے حالات زندگی‘ کتاب کی تاریخی اہمیت اور ترجمے سے متعلق بعض توضیحات شامل کی ہیں اور آخر میں تین ضمیمے مع حواشی بھی دیے ہیں جو قاری کو ایران‘ عراق اور خراسان کے اسماعیلیوںکی تاریخ کے اور قریب کر دیتے ہیں۔ اردو ترجمے کی زبان سلیس اور آسان ہے۔ حسب ضرور ت قوسین میں مناسب الفاظ کی مدد سے تفہیم میں آسانی پیدا کرنے کی بھی سعی کی گئی ہے۔ کہیں کہیں لیکن بہت کم‘ کمپوزنگ اور پروف خوانی میں کوتاہی کے سبب الفاظ غائب نظر آتے ہیں یا عبارت کی غلطی سامنے آجاتی ہے۔ تاریخ کے طلبہ اور تاریخ کا ذوق رکھنے والے دوسرے لوگوں کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی دستاویز ثابت ہو سکتی ہے۔ (سعید اکرم)
قرآن حکیم کی تمام سورتوں کا خلاصہ آسان زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ دیباچے میں بتایا گیا ہے کہ بدریہ کاظم صاحبہ نے خلاصہ مرتب کرتے ہوئے تفہیم القرآن کے علاوہ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی تصانیف اور قرآن پاک کے انگریزی ترجمے مصحف المدینہ النبویہ سے بھی رہنمائی لی ہے۔ سورتوں کے خلاصے کے ساتھ کہیں کہیں پس منظر اور تبصرہ بھی آگیا ہے۔ یہ خلاصہ تقریباً اُسی نوعیت کا ہے‘ جو ہمارے ہاں تراویح کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔
مولفہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے۔ انھوں نے کتاب کو اعلیٰ درجے کے (قریب قریب) آرٹ پیپر پر شائع کیا ہے۔ خدا کرے ان کی یہ کوشش ان کے اپنے حسب خواہش ‘ ان کے لیے توشۂ آخرت ثابت ہو۔ (ر - ہ)
جناب محمد موسیٰ بھٹو سندھ کے ممتاز اہل قلم میں سے ہیں۔ انھوں نے اردو اور سندھی زبان میں اسلام کے فکری اور دعوتی نقطۂ نظر سے لائق مطالعہ کتابیں مرتب کی ہیںاور بعض اہل قلم کی اردو کتابوں کو سندھی زبان میں پیش کر کے مفید خدمت انجام دی ہے۔ بیداری کے نام سے ایک سندھی ماہنامہ نکال رہے ہیں۔ ان کی فکر متوازن اور معقولیت پسندانہ ہے۔ افراط و تفریط کے ماحول میں ایسی کتابوں کی افادی قدروقیمت کو یقینا محسوس کیا جائے گا جو اسلام کے صحیح اور مضبوط فکری موقف کی جانب رہنمائی کرتی ہیں۔
زیرنظر کتاب میں مصنف نے سرزمین سندھ کی ایسی ۵۶ شخصیات کے تعارفی خاکے پیش کیے ہیں جن کا تعلق مختلف تحریکوں کے نمایندہ افراد‘ علما و مشائخ‘ اہل قلم اور اصحاب فکرونظر سے ہے۔ مذکورہ اصحاب نے اپنے اپنے دائرے میں دعوتی‘ علمی و تحقیقی اور سماجی و سیاسی پہلو سے خدمات انجام دی ہیں۔ ان خاکوں میں شخصیات کا مختصر اور اجمالی تعارف پیش کرتے ہوئے مصنف نے بصیرت افروز تنقیدی شعور سے کام لیا ہے اور محاسن کے فیاضانہ اعتراف کے ساتھ ساتھ کمزور پہلوئوں کی نشان دہی بھی بے لاگ طریقے سے کی ہے۔ اندازِ تحریر شگفتہ اور دل نشیں ہے۔
ہر تعارفی خاکے کے آخر میں وہ خطوط بھی شامل ہیں جو ان شخصیتوںکی جانب سے مصنف کو تحریر کیے گئے۔ اس سے کتاب کی افادی حیثیت بڑھ گئی ہے۔ اصل کتاب سندھی زبان میں لکھی گئی تھی۔ مصنف نے اسے اردو قالب میں ڈھال کر اردو کے قارئین کو ایک مفید کام سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کے دل میں احیاے اسلام کے لیے ایک تڑپ اور مخلصانہ جذبہ موجود ہے اور یہی جذبہ ان کی قلمی کاوشوں اور علمی سرگرمیوں کا اصل محور ہے۔ وہ باب الاسلام سندھ میں علاقائی نیشنلزم‘ سوشلزم‘ لادینیت اور مغربیت کے بجائے اسلامی فکر کو فروغ پذیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی نظر ملّت اسلام کے مستقبل اور نئی نسل کی صحیح رہنمائی پر ہے۔ پاکستان اور سندھ کے پس منظر میں لادینی قوتوں کی فتنہ انگیزی کو محسوس کرنے اور اسلامی شعور کو بیدار کرنے میں کتاب یقینا معاون ہوگی اور مصنف کی مساعی کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا ۔ (انیس احمد اعظمی)
سید قاسم محمود اردو کے معروف ادیب‘ مصنّف‘ مولف‘ مترجم اور منصوبہ سازناشر ہیں۔ گذشتہ تین چار دہائیوںمیں انھوں نے جو مختلف النوع علمی منصوبے تیار کیے‘ کتابیں تصنیف و تالیف اورشائع کیں‘ اور جو رسالے جاری کیے‘ ان کا سرسری جائزہ لینا بھی آسان نہیں ہے۔ حال ہی میں انھوں نے علم القرآن کے عنوان سے قرآن حکیم کے ۳۰ پارے ‘انگریزی اور اردو ترجمے اور مختصر تفسیری حواشی کے ساتھ مرتب کر کے شائع کیے ہیں۔ اسے انھوں نے ’’اردو کی بہترین تفاسیر کا انتخاب‘‘ کا نام دیا۔ پہلا کالم: اردو ترجمہ‘ مولانا فتح محمد جالندھری‘ دوسرا کالم: انگریزی ترجمہ‘ عبداللہ یوسف علی‘ تیسرا کالم: ترجمانی یا ترجمہ‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی۔
سرورق پر ۲۳ مفسّرین کی فہرست دی گئی ہے۔ لیکن تفسیری حواشی میں خاصا اختصار ہے (یہ مناسب بھی ہے ورنہ ضخامت بڑھ جاتی)۔ پارہ نمبر ۵ تک حواشی ‘ علم القرآن کے عنوان سے ہر پارے کے آخر میں سورت اور آیت کا حوالہ دے کر عنوان وار دیے گئے ہیں۔ مگر پارہ نمبر ۶ سے تفسیری حواشی کو حسب موقع‘ آیات کے تراجم کے ساتھ ہی منسلک کر دیا گیا ہے۔ بعض موضوعات پر مستقل اور مفصّل مضامین‘ پاروں کے آغاز و اختتام پر شامل کیے گئے ہیں‘ جیسے:’’تاریخ حدیث‘‘ اور ’’تاریخ فقہ‘‘ از ڈاکٹر محمد حمیداللہ (جو دراصل ان کے خطبات بہاول پور ہیں)۔ ’’قرآن کا طرزِ استدلال‘‘ از حمیدالدین فراہی۔ ’’قرآن مجید کے حروف مقطّعات‘‘ از الطاف علی قریشی۔ جنگ بدر اور جنگ تبوک پر مصباح الدین شکیل کے مفصل مضامین (مگر جنگ خندق پر صرف ۷سطریں؟)۔ ’’انسانی پیدایش کے چھ مراحل‘‘ ابوالکلام آزاد۔ ختم نبوت کے اہم موضوع پرایک گونہ تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔
زیرنظر کتاب میں‘ مدیر کے بقول: ’’اردو کی بہترین اور دستیاب تفاسیر کا انتخاب و خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ مفسّرین کے ناموں سے زیادہ ان کی تفسیروں پر توجہ مرکوز رہی ہے۔ طریقہ یہ رہا ہے کہ مختلف تفاسیر سے جملے اُٹھا کر انھیں اس طرح باہم شیروشکر کر دیا گیا ہے کہ یہ معلوم ہونا دشوار ہو گیا ہے کہ کون سا جملہ کس
مکتب فکر کے مفسّرکا ہے۔ گویا تمام مفسّرین ایک مجلس میں یک جا ہو کر محو کلام ہیں‘‘۔ (پارہ ۱‘ ص ۱۱)
سرورق پر ۲۳ مفسّرینکے نام درج ہیں‘ مگر قاسم محمود صاحب کہتے ہیں کہ ’’یہ فہرست تو محض علامت ہے‘ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جتنی بھی تفاسیر دستیاب ہیں‘ وہ میرے زیرمطالعہ ہیں‘‘ (دیباچہ ‘ پارہ ۲)۔ ابتدا میں مفسّرین کی فہرست میں محمد علی لاہوری کا نام بھی شامل تھا‘ اس پر اعتراض ہوا تو انھوں نے لکھا: ’’جن مفسّرین کی تصانیف میرے زیرمطالعہ رہتی ہیں‘ ان میں بہت سے غیر مسلم ہیں‘ یہود بھی‘ نصاریٰ بھی‘ ہنود بھی---‘‘ (دیباچہ‘ پارہ ۶)۔ سرورق پر موجودہ فہرست میں‘ مفسّرینکی فہرست میں ’’جناب غلام احمد پرویزؒ‘‘ ]کذا [کا
نامِ نامی بھی شامل ہے۔ اس پر بھی ایک صاحب نے اعتراض کیا تو قاسم محمود صاحب نے جواب میں میر تقی میر کے ایک شعر کا سہارا لے کر‘ اپنی ’’وسیع المشربی‘‘ کا حوالہ دیا--- ’’وسیع المشربی‘‘ بلاشبہ اچھی بات ہے‘ مگر اس صورت میں انھیں ان تمام یہود و ہنود اور نصاریٰ ]نیزقادیانی ‘ منکرین حدیث‘ بلکہ بہائی [مفسّروں کے نام بھی سرورق پر درج کرنے کی جرأت کرنی چاہیے تھی‘ جن کی تفسیریں اُن کے ’’زیرمطالعہ‘‘ رہیں--- ظاہر ہے کہ ایسا کرنا‘ ان کے لیے ممکن نہیں تو پھر محض لفظی طور پر وسیع المشربی کا ’’قشقہ‘‘ کھینچنے کا فائدہ؟ ہمارا خیال ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ میں’’متفق علیہ بات ہی درج کروں گا‘‘ (دیباچہ‘ پارہ ۶)‘ تو پھرتفاسیر یا مفسّرینکے ضمن میں بھی اسی اصول کو پیشِ نظر رکھناچاہیے تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ’’متعّہ‘‘ اور اس طرح کے دیگر مسائل پر دیے گئے تفسیری حواشی پر بھی اعتراضات سے بچا جا سکتا تھا۔
مجموعی حیثیت سے علم القرآن ایک قابل قدر کاوش ہے‘ ہماری تجویز ہے کہ اول: سرورق پر مفسرین کی فہرست دینے کی ضرورت نہیں۔ دوم: زیرنظر پاروں کے شروع میں وہ اداریے جوں کے توں شامل ہو گئے ہیں جو ہر ماہ رسالے میں علوم القرآن کی اوّلیں اشاعت کے موقع پر تحریر کیے جاتے تھے‘ اب انھیں ترمیم و نظرثانی کے بعد ہی پاروں کے ساتھ شامل رکھنا چاہیے--- اس صورت میں‘ ہمارا خیال ہے کہ بعض اعتراضات بڑی حد تک دُور ہو جائیں گے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ قاسم محمود صاحب نے احادیث نبویؐ کا ایک انتخاب پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے (دیباچہ‘ پارہ ۲۹)۔ دیکھیے‘ کب پورا ہوتا ہے! (رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو یوں نظر آتا ہے جیسے یہاں حکومت کا دوسرا نام
’’فوجی کنٹرول‘‘ ہے۔ اس لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھی جائے تو اس کا زیادہ تر حصہ فوجی حکومتوں کے جواز‘ عدم جواز اور تجربات و مضمرات ہی پر مشتمل ہوگا۔
پاکستان میں فوجی حکومتیں ایک اہم موضوع ہے مگر اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ عجلت پسندی کے ہاتھوں موضوع کا صحیح معنوں میں نہ احاطہ ہو سکا اور نہ اس کا صحیح تجزیہ ہی کیا جا سکا۔ کتاب میں زیربحث موضوع کے مختلف پہلوئوں کو سرسری بیانات کے ذریعے اور غیرمناسب انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بعض جگہ اسلوب رپورتاژ کا ہے اور بعض مقامات پر افسانہ نگاری کا۔ چار ناکام فوجی سازشوں پر جوبات کی گئی ہے‘ وہ نہایت تشنہ اور ادھوری ہے۔ مثال کے طور پر پنڈی سازش (ص ۳۳-۳۸)‘ ۱۹۷۲ء سازش (ص ۲۷۸-۲۷۹)‘ جنرل تجمل سازش (ص ۳۳۵-۳۳۷)‘ بریگیڈیر عباسی سازش (ص ۳۸۱-۳۸۲)۔ قاری بجا طور پر جاننا چاہتا ہے کہ ان سازشیوں کا پروگرام کیا تھا؟ ان کے مقاصد کیا تھے ؟ ان کے اثرات کیا مرتب ہوئے؟ لیکن اس حوالے سے اس کتاب کے صفحات خاموش ہیں۔
مولف نے ثانوی بلکہ پروپیگنڈا لٹریچر پر زیادہ انحصار کیا ہے‘ اسی لیے وہ لکھ گئے ہیں: ’’لاہور کے گول باغ میں شیخ مجیب الرحمن کے جلسے ]۱۹۷۰ء[ میں جماعت اسلامی نے ہنگامہ کر دیا تھا اور وہ اسٹیج پر ڈٹے رہے تھے (ص ۲۳۹)۔ یہ بات سرے سے غلط اور گمراہ کن ہے۔ اگر فاضل مولف اس زمانے کے چار پانچ روزناموں کو دیکھ لیتے تو ایسی بے سروپا بات نہ لکھتے۔ اسی طرح وہ لکھتے ہیں: ’’جماعت اسلامی نے ]۱۹۷۰ء میں[ اپنے ]قومی اسمبلی کے[ ۱۰۱‘ امیدواروں کا اعلان کیا تو ان میں کوئی بھی امیدوار مشرقی پاکستان سے نہ تھا‘‘ (ص ۲۴۰)۔ حالانکہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی ۸۰ اور مشرقی پاکستان سے ۷۱ نشستوں پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جماعت کے قومی اسمبلی کے امیدواروں نے ۱۰ لاکھ ۴۴ ہزار ۱۳۵ (۰۷.۶ فی صد)ووٹ لیے اور وہ عوامی لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر رہے‘ جب کہ مشرقی پاکستان سے صوبائی اسمبلی کی ۱۷۴ نشستوں پر جماعت نے حصہ لیا‘ (دیکھیے: رپورٹ آف جنرل الیکشنز ۱۹۷۰ء‘ اسلام آباد)۔ اس نوعیت کی اور بھی کئی باتیں ہیں جو کتاب کی ثقاہت کو بری طرح مجروح کرتی ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
شیخ محمد الغزالی ؒ(م: ۹ مارچ ۱۹۹۷ء) امام حسن البنا شہیدؒ کے اولین ساتھیوں میں سے تھے۔ تعلیم و تعلّم سے وابستہ رہے۔ اُم القریٰ یونی ورسٹی‘ مکہ مکرمہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ جامعہ الامیر عبدالقادر‘ الجزائر میں علمی مجلس کے صدر رہے۔ دُنیا کے کئی ممالک کا دورہ کیا اور پانچ درجن تصانیف یادگار چھوڑیں۔
محمد ظہیر الدین بھٹی نے شیخ کی خود نوشت سوانحِ حیات کا اردو ترجمہ پیش کیا ہے۔ ابتدا میں شیخ کی خدمات اور فکروفن پر بعض نام ور عرب تحریکی شخصیات کے مضامین بھی شامل ہیں۔ مترجم نے شیخ کی ذات اور دعوتی زندگی پر خود بھی ایک مختصر تعارفی مضمون سپردِ قلم کیا ہے۔
احیاے دین کی مبارک جدوجہد دنیا کے جس حصے میں بھی جاری و ساری ہو‘ اُس کے متعلقین بھی اور اُس کے قائدین بھی‘ اِس چیز کے مستحق ہیں کہ اُن کی ذاتی زندگی اور اجتماعی جدوجہد کو وسیع پیمانے پر نشر کیا جائے تاکہ نشات ثانیہ کے علم بردار ایک دوسرے سے توانائی حاصل کر سکیں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ محمد ظہیر الدین صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ عالم عرب اور مسلم دنیا کے حوالے سے ان کا قلم رواں ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف شیخ کی ذاتی زندگی کے حوادث و حاصلات کا پتا چلتا ہے بلکہ اخوان المسلمون میں شرکت کے بعد جو جو تجربات دعوتی اور سیاسی جدوجہد کے میدان میں ہوئے اُن کا بھی کہیں اجمالی اور کہیں تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ شیخ نے ۱۹۵۶ء میں اخوان سے علیحدگی کے باوجود اپنی جدوجہد تمام عمر جاری رکھی۔ حکومت نے انھیں اخوان کے خلاف استعمال کرنا چاہا۔ انھوں نے جیل جانا قبول کر لیا لیکن اخوان کے خلاف الزام تراشی اور بیان بازی سے احتراز کیا۔ سوانح نگاری ایک دلچسپ فن ہے اور سوانح حیات دل چسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں‘ تاہم اس کتاب میں کہیں کہیں واقعات کی تکرار محسوس ہوتی ہے۔ اسلامی تحریک نشات‘ عالم عرب اور اخوان المسلمون کے موضوعات پر یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
یہ مصنف ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو سری نگر کے ایک کالج میں بطور لیکچرر کام کر رہے تھے۔ شیخ عبداللہ کو اقتدار ملا تو نیشنل کانفرنس کے ’’ہوم گارڈز‘‘ میں بطور کمانڈر ان کا تقرر ہو گیا اور اس حیثیت میں وہ جموں اور کشمیر کے مختلف علاقوں میں اپنے فرائض انجام دینے لگے۔ لیکن حالات سے بددل یا مایوس ہو کر بہت جلد (جنوری ۱۹۴۸ء میں) وہ اپنی ’’ہوم گارڈز کی کمانڈری والی بندوق سمیت‘‘ آزاد کشمیر چلے آئے (کچھ عرصہ حکومت آزاد کشمیر کی ملازمت میں رہے پھر برطانیہ چلے گئے اور وہیں کے ہو رہے)۔محمود ہاشمی نے کشمیر میں اپنے چند ماہ کے مشاہدات اور ان سے اُبھرنے والے تاثرات و احساسات کو ادبی پیرایے میں بیان کیا ہے۔ چار مضامین پر مشتمل یہ رپورتاژ پہلے پہل ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا تھا۔ اب اسے ایک طویل اختتامیے کے اضافے کے ساتھ دوبارہ (بلکہ سہ بارہ) شائع کیا گیا ہے۔ نصف صدی پرانی یہ کتاب آج بھی اتنی ہی بامعنی اور تروتازہ ہے جتنی ۵۰ سال پہلے تھی‘ بلکہ کشمیر کی حالیہ تحریک آزادی کے حوالے سے شاید اس کی معنوی اور ادبی قدروقیمت اور زیادہ ہو گئی ہے۔
اردو کے چوٹی کے نقادوں نے محمود ہاشمی کے اس رپورتاژ کی تعریف کی ہے۔ درحقیقت اس رپورتاژ میں مولف نے اپنے مشاہدات اور تاثرات کے ساتھ تاریخ کے نشیب و فراز کو بھی آمیز کیا ہے۔ یہ کشمیر کی باقاعدہ تاریخ نہیں لیکن اس میں کشمیری جدوجہد آزادی کے سارے نشیب و فراز‘ موڑ اور اہم اور نازک لمحات اور بیشتر کردارآگئے ہیں۔ ۷۵ لاکھ میں جموں و کشمیر کی خریداری‘ ۱۹۳۰ء میںغلامی اور جبر کے خلاف اہل کشمیر کی پہلی باغیانہ آواز‘ مہاراجا کے انسانیت سوز مظالم‘ شیخ عبداللہ کا کردار (طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی--- بقول مصنف: ’’تاریخ کے صفحات میں جہاں کلائیو اور امی چند ملے ہیں‘ انھیں کوئی نہ کوئی میرجعفر بھی ملا ہے‘‘ ص ۳۹۔ یہ تگڈم مائونٹ بیٹن‘ نہرو اور شیخ عبداللہ سے مکمل ہوتی ہے)۔ ہری سنگھ کا سری نگر سے فرار‘ نیشنل کانفرنس والوں کی لوٹ مار وغیرہ۔ رپورتاژ میں کہیں کہیں چھوٹی موٹی کہانیاں بھی ہیں مگر ان معمولی کہانیوں کے پس پردہ اہم حقائق صاف نظر آ رہے ہیں۔
مصنف نے کشمیری صحافی شمیم احمد شمیم کا یہ دل چسپ تجزیہ نقل کیا ہے: ’’شیخ عبداللہ ہماری امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز بھی ہیں اور مدفن بھی۔ ان کی ذات سے ہماری تحریک کی صبح بھی عبارت ہے اور شام بھی۔ وہ ایک خوب صورت آغاز اور حسرت ناک انجام کی علامت ہے‘‘ (ص ۳۳۸)۔ شیخ عبداللہ نے اپنے بیٹے فاروق عبداللہ کو اپنی مسند پر بٹھایا۔ محمود ہاشمی نے (بھارت اور پاکستان کے سیاسی منظر کے حوالے سے) پتے کی بات کہی ہے کہ برسرِاقتدار والد یا والدہ صرف اپنے بیٹے بیٹی کو ہی اُس منصب کے لائق سمجھتے ہیں جو حالات نے انھیں عطا کیا ہو اور جمہوریت میں ملوکیت کا یہ پیوند سیاست کا اٹوٹ انگ بنتا جا رہا ہے ۔(ص ۳۴۰)
کشمیر اُداس ہے پرمغز ‘ دل چسپ اورقابل مطالعہ کتاب ہے۔ ایک ایسی خوب صورت ادبی تخلیق‘ جس کے پس پردہ مصنف کی دردمند شخصیت جھلکتی ہے۔ مصنف کا مشاہدہ گہرا اور بصیرت قابل داد ہے۔ ۵۰سال پہلے محمود ہاشمی نے جو تجزیہ کیا آج بھی وہ صحیح اور برمحل معلوم ہوتا ہے۔ مصنف کے ایک دوست اور ہوم گارڈز میں ان کے ساتھی اپورب نے ایک بار جذباتی انداز میں ان سے پوچھا تھا: ’’وہ صبح جس کے ہم انتظار میں ہیں‘ جانے کب ہو؟‘‘ اس کا حتمی جواب کون دے سکتا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ زیرنظر کتاب کی تحریر و تصنیف کے ۵۰ سال بعد آج بھی: ’’کشمیر اُداس ہے!‘‘۔ (ر - ہ )
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (۲۶۱ھ) کے مشہور رسالے‘ رفع الملائم عن آئمۃ الاعلام کے سلیس اور باقاعدہ ترجمے (پروفیسر غلام احمد حریری) کو جناب محمد خالد سیف نے ایک بھرپور مقدمے اور تخریج کے ذریعے مزید مستند و محقق بنا دیا ہے۔فاضل مترجم نے اپنے مقدمے میں ائمہ اربعہ کے حالات زندگی اور اتباع کتاب و سنت کے حوالے سے اقوال نقل کیے ہیں۔ مقدمہ نگار نے سنت و حدیث کی حجیت پر عقلی و نقلی دلائل پیش کیے ہیں اور منکرین و مستشرقین کے اعتراضات کو مدنظر رکھ کر ان کا جواب دیا ہے۔
امام ابن تیمیہؒ نے اپنے اس رسالے میں اکابر علما خصوصاً ائمہ اربعہ کی جانب منسوب اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ہے کہ انھوںنے دانستہ حدیث نبویہؐ کو نظراندازکر کے اپنے مقلدین کو اپنے اقوال و افکار کی پیروی کا حکم دیا۔ بقول امام ابن تیمیہؒ: ’’کسی امام نے بھی سنت رسولؐ سے کبھی انحراف نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کوامت کی جانب سے قبول عام کی سند حاصل ہوئی‘ البتہ جب کسی امام کا قول حدیث صحیح کے خلاف ہو تو اس حدیث کے ترک کرنے کی وجہ ان کے ہاں ضرور ہوگی۔ وہ عذر یہ ہیں کہ امام سمجھتا ہو گا کہ حضورؐ نے یہ حدیث سرے سے ارشادنہیں فرمائی۔ امام کے نزدیک اس کا مفہوم وہ نہ ہوگا جو قائل سمجھا‘ یا امام کے نزدیک حدیث منسوخ ہو گی۔ امام صاحب نے مذکورہ تینوں قسموں کے ۱۰ اسباب گنوائے ہیں اور فرمایا ہے کہ کتاب و سنت سے اخذ و استنباط میں اپنی اپنی مہارت اور اصول و ضوابط کے مطابق استخراجِ مسائل کی وجہ سے جو اختلاف پیدا ہوا وہ اجتہادی بصیرت کے ضمن میں آتا ہے۔ اس ضمن میں خطا یا صواب دونوں میں اجر و ثواب ملتا ہے۔
امام ابن تیمیہؒ نے حدیث و آثار اور اقوال صحابہ و تابعین سے بکثرت ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن میں صحابہ کرامؓ ‘ تابعین عظام اور ائمہ اربعہ کے مابین استنباط میں اختلاف ہوا مثلاً کسی کے ہاں وہ حدیث پہنچی ہی نہیں‘ کسی نے اس کو مخصوص جانا‘ کسی نے مقید‘ کسی نے اسے منسوخ قرار دیا۔ ایک امام بعض اوقات
ایک حدیث کو اس لیے نظرانداز کر دیتا ہے کہ وہ حدیث سند کے لحاظ سے اس کے ہاں صحیح نہیں ہوتی‘ علیٰ ہذا القیاس۔ پورا رسالہ اسی قسم کے اسباب و وجوہ پر مبنی ہے۔ البتہ ائمہ اربعہ کا موقف یہی ہے کہ اصل دین
کتاب و سنت کی پیروی کا نام ہے اور یہ آئمہ اربعہ کتاب و سنت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔
کتاب عمدہ انداز میں شائع ہوئی ہے۔ مضبوط جلد‘ عمدہ کمپوزنگ اور بہترین تدوین نے کتاب کے حسن کو مزید نکھار دیا ہے۔ (حافظ محمد سجاد تترالوی)
اصول فقہ کے موضوع پر انگریزی زبان میں قانون کے طلبہ اور شریعہ و قانون سے دل چسپی رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے یہ ایک مفید اور کارآمد نصابی کتاب ہے۔ اصول فقہ جیسے موضوع کی تشریح و توضیح میں ایسی باریکیاں قاری کے سامنے آتی ہیں کہ اس کا ذہن اُلجھتا ہے اور پوری بات کو سمجھنے کے لیے اُسے اپنے ذہن پر کافی بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔ عمران احسن خاں نیازی نے اپنی اس کتاب میں نسبتاً آسان پیرایہ اختیار کیا ہے تاکہ ایک عام قاری بھی اصول فقہ کے مشکل اور پیچیدہ قواعد کو آسانی سے سمجھ سکے۔ وہ قانون کے طالب علم کے لیے ایک ٹیکسٹ بک کی حیثیت سے ایک وقیع اور مفید نصابی کتاب کا عالمانہ معیار برقرار رکھنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔
ایک زمانے میں پنجاب یونی ورسٹی لا کالج کے نصاب میںاس موضوع پر بیرسٹر عبدالرحیم کی فقہ محمدی کے اصول (The Principles of Muhammadan Jurisprudence)شامل تھی۔ سرعبدالرحیم مدراس ہائی کورٹ کے جج بھی رہے۔ انھوں نے کلکتہ یونی ورسٹی میں ۱۹۰۷ء میں بطور ٹیگور پروفیسر جو لیکچر دیے تھے‘ ان ہی کو مرتب کر کے انھوں نے یہ کتاب ۱۹۱۱ء میں شائع کی تھی۔ لیکچروں کے سلسلے میں انھوں نے مسٹر میکڈانلڈ کی کتاب ’’محمڈن تھیالوجی‘‘ (Muhammadan Theology)سے بھی مدد لی تھی۔ اگرچہ کتاب کا بیش تر حصہ اصول الفقہ پر صدر الشریعت کی کتاب توضیح کے انگریزی ترجمے پر مشتمل ہے‘ تاہم اپنی کتاب کے دیباچے کے آخری پیراگراف میں سرعبدالرحیم نے ریورینڈ کینن ایڈورڈسیل کا اس بنا پر شکریہ ادا کیا کہ پادری صاحب نے عربی الفاظ کے انگریزی میںترجمے پر نظرثانی کی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید سر عبدالرحیم اصول الفقہ کے موضوع پر لکھی گئی امہات الکتب سے براہِ راست پوری طرح استفادہ نہیں کر سکے تھے بلکہ انھوں نے غیر مسلموں یعنی مسٹر میکڈانلڈ کی کتاب اور ریورینڈ کینن ایڈورڈ سیل کے ذریعے استفادہ کیا تھا۔
اس کے مقابلے میں زیرتبصرہ کتاب کے مصنف عمران احسن خاں نیازی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ ایک طرف اصول الفقہ کے موضوع پر امہات الکتب مثلاً الثعلبی کی الاحکام فی اصول الاحکام‘ فخر الاسلام بزدوی کی اصول البزدوی اور علائوالدین عبدالعزیز بن احمد کی کشف الاسرار عن اصول فخرالاسلام بزدوی‘ امام غزالی کی المنخول من تعلیقات الاصول اور المستصفٰی من علم الاصول‘ ابن رشد کی بدایۃ المجتہد‘ابوبکر احمد بن علی الجصاص الرازی کی مشہور کتاب الاحکام القرآن اور اصول الجصاص‘ الکرخی کی رسالہ فی الاصول‘ الکاسانی کی بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع اور الماوردی کی الاحکام السلطانیہ جیسی ثقہ کتابوں سے براہِ راست استفادہ کر سکیں ‘اور دوسری طرف جان آسٹن کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب لیکچرز آف جیورس پروڈنس‘ ایڈگر بوڈن ہائمر کی جیورس پروڈنس‘ فلاسفی اینڈ میتھڈ آف لا اور کولسن کی ہسٹری آف اسلامک لا اور بعض دوسرے مغربی مصنّفین کی مفید کتب سے بھی براہِ راست استفادہ کر سکیں۔ اس بنا پر میرے خیال میں زیر تبصرہ کتاب سر عبدالرحیم کی کتاب سے بہتر‘ عالمانہ اور محققانہ نصابی کتاب ہے جو قانون کے طلبہ اور پیشہ وکالت اور عدلیہ سے وابستہ حضرات کے لیے بہت مفید ہے۔
مصنف نے تعارف میں فقہ‘ اصول الفقہ اور بنیادی اصطلاحات کی تشریح کی ہے۔ پہلے حصے میں حکم شرعی یعنی اسلامی قانون کی تعریف و توضیح بیان کرنے کے ساتھ حکم شرعی کی مختلف اقسام (یعنی واجب‘ مندوب‘ حرام‘ مکروہ اور مباح کی وضاحت کی ہے‘ نیز حاکم‘ محکوم فیہ‘ انسانی حقوق اور ان کی اقسام‘ محکوم علیہ) پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے عورت کی حیثیت‘ عورت کی شہادت اور اس عنوان کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۸۹ء کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا ہے جو رشیدہ پٹیل بنام فیڈریشن آف پاکستان مقدمے میں دیا گیا تھا۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ایک عورت کی شہادت پر حد تو جاری نہیں کی جا سکتی‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجرم کو کوئی اور سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں قانون سازی کر کے حد کے برابر دوسری سخت سزا دے سکتی ہے۔ اس باب کے تحت انھوں نے عورت کے وراثت میں حصے‘ طلاق کے حق اور دیت وغیرہ کی بحث بھی کی ہے۔ دوسرے حصے میں فاضل مصنف نے اسلامی قانون اور تیسرے حصے میں اجتہاد کی تعریف‘ مجتہد کی صفات‘ اجتہاد کے طریقوں اور نسخ اور ترجیح کی توضیح کی ہے۔ چوتھے حصے میں فقیہہ ‘ اس کے طریق کار پر بحث کے بعد بتایا ہے کہ تقلید کی تعریف کیا ہے۔
عمران احسن نیازی نے قانون اور شریعہ کے استاد اور محقق کی حیثیت سے اصول الفقہ کے موضوع پر قدیم و جدید اہم کتب سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے حق تحقیق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ ایک بات قابل توجہ ہے کہ سر عبدالرحیم نے بطور بیرسٹر اور بطور جج ہائی کورٹ اپنے وسیع علمی تجربے کی بنیاد پر اپنی کتاب میں اعلیٰ عدالتوں مثلاً کلکتہ ہائی کورٹ‘ الٰہ آباد ہائی کورٹ‘ مدراس ہائی کورٹ اور بعض دوسری عدالتوںکے ۴۰ اہم مقدمات کے حوالے بھی دیے تھے۔ اس کے مقابلے میں عمران احسن نیازی کے ہاں عدالتی فیصلوں کے حوالے بہت کم ہیں۔ ایک تو وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۸۹ء کے فیصلے کا حوالہ ہے اور چند ایک مزید عدالتی فیصلوں کے حوالے۔ دوسرے ایڈیشن میں اگر وہ مزید عدالتی فیصلوں کے حوالے شامل کر سکیں تو کتاب کی وقعت میں اضافہ ہوگا۔
کتاب کی طباعت و اشاعت اعلیٰ معیار کی ہے۔ کتابیات اور اشاریے نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ (محمد اسلم سلیمی)
مصنّف کا نام اگرچہ عالم اسلام کے ایک معروف ماہر معاشیات کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن وہ ادب کے رمزشناس اور عالمی اسلامی تحریک کے ایک نباض بھی ہیں۔ درس و تدریس‘ تحقیق و ترجمے اور تنقید و تجزیہ میں ان کا شمار صف اوّل کی شخصیات میں ہوتا ہے۔
اسلام‘ معاشیات اور ادب بنیادی طور پر مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ جس میں خود مرتب کے لکھے ہوئے خطوط کی تعداد ۳۲ ہے‘ جب کہ کل خطوط ۲۲۲ ہیں۔ کتاب کے ۸۲ مکتوب نگاروں میں سید مودودی‘ ابواللیث ندوی‘ امین احسن اصلاحی‘ ابوالحسن علی ندوی‘ اختر حسن اصلاحی‘ ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘ صدر الدین اصلاحی‘ محمد یوسف بنوری‘ ڈاکٹر ذاکر حسین‘ ڈاکٹر سید عابد حسین‘ ڈاکٹر مشیرالحق‘ پروفیسر خورشید احمد‘ عبدالماجد دریابادی‘ سید منور حسن‘ احمد عروج قادری‘ سعید احمد اکبرآبادی‘ پروفیسر محمد تقی امینی‘ جلال الدین عمری‘ چودھری غلام محمد‘ پروفیسر عبدالحمید صدیقی‘ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی‘مولانا محمدسراج الحسن‘ فضل الرحمن فریدی‘ نعیم صدیقی وغیرہ جیسے اکابرین بھی شامل ہیں۔
یہ مکاتیب رسمی نوعیت کے نہیں‘ بلکہ ان میں فکروخیال کے گہرے رنگ پوشیدہ ہیں۔ علمی اور اجتماعی حوالوں سے بعض ایسے موضوعات زیربحث آئے ہیں‘ جو فائلوں میں پوشیدہ اور بند اجلاسوںتک محدود تھے۔ ان میں فکرمندی کے ایسے پہلو ہیں‘ جنھیں بیان کرتے وقت جھجک محسوس ہوتی تھی۔ ایسے معاملات پر بحث بھی پڑھنے کو ملتی ہے‘ جن کے بارے میں عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ ان پر کہاں بات ہو سکتی ہے؟ خطوط کے بعض جملے تکلیف دہ ہیں‘ مگر اس کے ساتھ بہت سے حصے روشنی کے دیے ہیں۔
یہ کتاب نصف صدی کے دوران تحریک اسلامی کے اہل علم و دانش کے علم‘ تفقہ فی الدین‘ مشاہدے‘ دردمندی‘ تڑپ‘ جستجو‘ عزم‘ مایوسی‘ تحرک اور اختلاف رائے کی منہ بولتی دستاویز ہے۔ عامتہ الناس سے زیادہ اس میں اہل علم کے لیے دل چسپی کا عنصرملتا ہے۔
ان خطوط سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ تحریک اسلامی کے اہل دانش کی فکری دنیا میں کتنے نشیب و فراز ہیں‘ ان کے شب و روز کن کن تفکرات میں گھلتے ہیں‘ وہ کیسی کیسی تپش محسوس کرتے اور کون سی گرمی بانٹتے ہیں۔ ان کے مابین شخصی سطح پر گہرا اختلاف ہونے کے باوجود اجتماعیت میں اتفاق و یک جہتی کی کتنی مضبوطی ہے۔ کیوں کہ ان رجالِ کار کی تگ و تاز کا محور رضاے الٰہی کا حصول ہے۔
ان خطوط سے یہ حقیقت بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ تحریک اسلامی کا کوئی بھی فرد شخصیت پرستی کے گنبد کا اسیر نہیں ہے بلکہ ان کے لیے قرآن و سنت رسول ؐاللہ ہی حتمی سچائیاں ہیں‘ اور وہ کسی فرد کو ایمان و دانش کا خراج دینے کے روادار نہیں۔ یہ وہ عظمت کردار ہے جسے پیدا کرنے کے لیے قرآن و سنت کا صحیح فہم ضروری ہے۔ اس فہم کو عام کرنے کے لیے مولانا مودودی نے علما‘ صوفیا اور مشائخ کی روایتی ڈگر سے ہٹ کر نیا راستہ اختیار کیا اور اپنے آپ کو ’’پیرومرشد‘‘ بننے سے بچایا۔ اسی چیز نے وہ حریت فکر پیدا کی‘ جس کی متلاطم لہریں اس کتاب کے کینوس پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے نہ صرف ایسے قیمتی سرمایہ مکاتیب کو محفوظ رکھا‘ بلکہ شائع کرنے کا بھی اہتمام کیا۔ چونکہ یہ خطوط اشاعت کی غرض سے نہیں لکھے گئے تھے‘ اس لیے ان میں بے تکلفی کا عنصرغالب ہے۔ ممکن ہے بعض مکتوب نگاروں کو ان کی اشاعت پر ذہنی تحفظ ہو کہ یہ تحریریں عام کرنے کے لیے نہیں تھیں۔ لیکن ہمارے خیال میں ان کی اشاعت بوجوہ مفید ہے--- خصوصاً اسلامی تحریکوں کے وابستگان کے لیے مصنّف کے مشاہدات اور تجربات استفادے کا باعث ہوں گے۔ (سلیم منصور خالد)
اردو شعرا کا سب سے خوش نصیب طبقہ وہ ہے‘ جسے شعر گوئی کی توفیق ملی‘ تو اس نے فقط نعت گوئی ہی کو اپنا شعار بنایا۔ حکیم شریف احسن کی اوّل و آخر حیثیت نعت گو ہی کی ہے۔ ان کے لیے باعث فخر ہے کہ ان کی شعر گوئی سراسر نعت گوئی ہے۔ انھوں نے نعت کے علاوہ کبھی کسی اور صنف شعر پر قلم نہیں اٹھایا۔ اگر شاعر کی افتاد طبع بلند‘ ذوقِ شعری رچا ہوا‘ اور محبت رسولؐ کا جذبہ والہانہ شیفتگی کے درجے کو پہنچا ہوا ہو تو نعت جس درجے اور معیار کی ہوگی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
حکیم شریف احسن اونچے درجے کا علمی ذوق رکھتے ہیں۔ علوم اسلامیہ‘ مشرقیات اور عربی فارسی کا مطالعہ وسیع ہے۔اوائل عمر ہی سے اسلامی تحریکوں سے وابستگی رہی اور تحریر و تصنیف سے بھی علاقہ رہا۔ چنانچہ ان کی نعتیں نعت کی جملہ ادبی و شعری خوبیوں سے متصف ہیں۔ اہم بات تو یہ ہے کہ انھوں نے رسول اکرمؐ سے شدید نوعیت کی محبت اور وابستگی کے باوجود اظہار محبت کا ایک قابل قدر توازن اور معیار برقرار رکھا ہے۔ عرفی نے کہا تھا کہ نعتیہ شعر کہنا تلوار کی دھار پرچلنے کا فن ہے۔ حکیم شریف احسن نے اسی نزاکت کا خیال رکھا ہے۔ ان کے توازن فکر ونظر اور ذوق سلیم نے انھیں بھٹکنے نہیں دیا۔
ان کی نعتیں صرف روایتی پہلو تک محدود نہیں ہیں‘ بلکہ وہ محبت رسولؐ کو اپنے گردوپیش کی صورت حال سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں اور جہاںتہاں تشویق کا اظہار بھی کرتے ہیں ؎
احسن درِ سرکار سے اِعراض کا انجام
دنیا کہ تھی جنت کبھی‘ ہے آج جہنم
زیرنظر مجموعے کے آغاز میں حافظ لدھیانوی مرحوم (جو خود بھی بہت اچھے نعت گو تھے) اور ڈاکٹر ریاض مجید نے حکیم شریف احسن کی نعت گوئی پر بڑی عمدگی سے ناقدانہ بحث کی ہے۔ اس مجموعے کی ایک منفرد خوبی یہ ہے کہ اشعار پر حواشی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بعض الفاظ‘ اصطلاحات‘ تلمیحات اور تراکیب (قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ تاریخ‘ فقہ‘ اعلام وغیرہ) کی بخوبی وضاحت کی گئی ہے۔ ’’یہ حواشی شائقین نعت کو قرآن و سیرت کے مزید اور براہِ راست مطالعے کی ترغیب دے کر ان کے جذبہ محبت اور اطاعت رسولؐ میں اضافے کا موجب بنیں گے‘‘۔ (ص ۱۴۷)
عبدہ ورسولُہٗ اردو نعت میں ایک قابل لحاظ اضافہ ہے۔بلاشبہ اس کا شمار چند منتخب نعتیہ مجموعوں میں ہوگا۔ حسن معنوی کے ساتھ‘ طباعت و اشاعت میں حسن صوری کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ۔(رفیع الدین ہاشمی)
مصنّف اوائل میں شعبۂ تعلیم سے منسلک رہے‘ پھر پاکستان اور آزاد کشمیر میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ۱۹۷۴ء میں ناروے چلے گئے اور تاحال وہیں مقیم ہیں۔ چونکہ طبعاً قلم و قرطاس سے بھی تعلّق رہا اس لیے وقتاً فوقتاً مختلف جلسوں اور تقاریر کے لیے مضامین قلم بند کرتے رہے۔ زیرنظر کتاب میں انھیں یک جا کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں لکھا ہے: ’’وطن عزیز سے ہزاروں میل دُور آباد ایک عام پاکستانی اپنے آپ کو کس طرح اپنے وطن اور اہل وطن سے منسلک رکھتا ہے‘ اپنی اسلامی اور پاکستانی شناخت کو برقرار رکھنے اور قومی شعور کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے کس قسم کی ریاضت کرتا ہے‘ شاید اس کتاب میں شامل ان مضامین میں اس کی ایک ہلکی سی آنچ آپ کو بھی محسوس ہو۔ یہی اس کتاب کا جواز ہے‘‘۔
پاکستان کی تاریخ‘ آزادیٔ کشمیر اور پاکستانی ثقافت کے علاوہ پانچ مضامین علامہ اقبال پر اور ایک ایک مضمون قائداعظم‘ ضیاء الحق اور محمد صلاح الدین پر ہے۔ ناروے میں اردو کی صورت حال اور وہاں مقیم پاکستانیوں کو درپیش کچھ دُوسرے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ بلاشبہ ان مضامین میں ایک ایسے پاکستانی مسلمان کے احساسات کی خوشبو رچی بسی ہے جس نے یہ سب کچھ خلوص‘ درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ لکھا ہے۔ (ر-ہ)
بدرالزماں قاسمی کیرانوی‘ نامور عالم دین وحید الزماںکیرانوی کے صاحبزادے ہیں۔ اس جامع کتاب میں مولف نے مختلف مواقع کی روز مرہ گفتگو کے نمونے دیے ہیں۔ اردو ترجمہ بھی دیا ہے تاکہ عربی زبان سے دل چسپی رکھنے والے‘ عام بول چال کی زبان سے واقفیت چاہنے والے‘ اور جدید عربی گفتگو کے شائقین سبھی استفادہ کر سکیں۔ اس کتاب کی تین نمایاں خصوصیات ہیں: ۱- بنیادی عربی سے آگہی حاصل کرنے کے لیے ضروری الفاظ کو یک جا کر دیا گیا ہے‘ ۲- ایئرپورٹ پر انٹرویو کے موقع پر اور ملاقات اور سفر کے دوران درپیش جملوں کا تفصیلی تذکرہ ہے‘ ۳- سائنس اور ٹکنالوجی کے جو الفاظ عربی زبان میں شامل ہوئے ہیں‘ اُن کا اندراج ہے۔ ابتدا میں ناشر یہ وضاحت کر دیتے کہ یہ کتاب بھارتی مصنف کی ہے تو کوئی حرج نہ تھا۔ بہرحال ایک قابل قدر کاوش ہے اور بنیادی عربی سیکھنے والوں کے لیے ایک اچھا تحفہ ہے! (محمد ایوب منیر)
بقول مصنفہ: برائی ہر زاویے سے‘ ہر پہلو سے محل اور جھگی نشینوں تک یکساں پہنچائی جا رہی ہے‘ اور برائی کا یہ عفریت جس کا نام میڈیا ہے‘ ہر وقت‘ ہر جگہ اپنی اندھیری یلغار سے نیکی اور اخلاق کے چراغ گل کرتا جا رہا ہے ‘تو کیا مسلمان کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ان اندھیروں کو اُجالوں میں بدلنے کے لیے ایک نئی تڑپ اور ولولے کے ساتھ اٹھے! شرما کر نہیں‘ ڈر کر نہیں بلکہ ایک کڑک کے ساتھ برملا دنیا کی پہچان کرا دے‘‘۔
میڈیا کی تعریف‘ اس کی مختلف صورتوں (اخبارات‘ ٹی وی‘ اشتہارات‘انٹرنیٹ‘ انفارمیشن ٹکنالوجی وغیرہ) کے قابل اعتراض پروگراموں اور اخلاقی پہلوئوں وغیرہ کے بارے میں تعارفی معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ ’’میڈیا دراصل وہ میدان ہے جہاں ریس لگانے سے آپ کسی کو نہیں روک سکتے۔ لیکن اگر آپ کھڑے رہے تو لوگ آپ کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے‘‘۔ مصنفہ کہتی ہیں کہ ہمیں پوری قوت اور اعتماد کے ساتھ اپنے ذرائع اور وسائل کو بروے کار لاتے ہوئے اپنے عقائد اور نظریات کو پھیلانا ہوگا۔ (ر-ہ)
زیرنظر کتاب میں ثانوی مدارس تک کے بچوں کو دینی نوعیت کے الفاظ و تراکیب اور اصطلاحات کے ذریعے دین کی بنیادی تعلیمات ‘ عقائد‘ عبادات‘ اسلامی تاریخ‘ دینی شخصیات اور دینی اماکن وغیرہ سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے (مثلاً: اشراق‘ فارقلیط‘ ذمّی‘ اشہر الحرام‘ تشہّد‘ جنت المعلّٰی‘ شنبہ‘ خسوف‘ صحاح ستّہ‘ طور‘ سبا‘ سجدئہ سہو‘ رکن یمانی‘ شارع‘ کفو وغیرہ)۔ اس اعتبار سے اہم بنیادی دینی الفاظ و اصطلاحات کی تشریح و تفصیل پر مبنی اس مفید کتاب میں‘ فراہمی معلومات کے ساتھ تربیتِ اطفال کا مقصد بھی پیشِ نظر رہا ہے۔ چنانچہ بعض صفحات پر بچی ہوئی خالی جگہوں کو ۴۰ مختصر احادیث کے متن اور ترجمے کے ذریعے پُر کیا گیا ہے۔ احادیث کا یہ انتخاب بچوں کے لیے خاص معنویت رکھتا ہے اور ذہن سازی میںمعاون ہے۔
بچوں کا دینی لغت کی زبان سلیس اور آسان ہے۔ اختلافی مباحث سے گریز کرتے ہوئے مولّف نے اعتدال و توازن کو ملحوظ رکھا ہے۔ مولّف نے یہ کام ویسی محنت‘ لگن اور باریک بینی سے انجام دیا ہے جو معیاری تحقیق کا خاصہ ہے۔ صحت تلفظ کے لیے الفاظ و اصطلاحات پر اِعراب لگائے گئے ہیں۔ مزیدبرآں الفاظ کے بجائے ہجائی ارکان (syllables) کے ذریعے درست تلفظ کی صراحت کر دی گئی ہے۔ لغت میں یہ اہتمام اس لیے قابل قدر ہے کہ متعدد الفاظ و تراکیب کے تلفظ اور املا میں غلطی کی جاتی ہے‘ جیسے: شبِ بَراْ ئَ ت‘
قِرا ئَ ت‘ لِلّٰہ‘ رحمتہٌ للعالمین (یہی ان کی صحیح صورت ہے)۔ البتہ بعض الفاظ کے اِملا میں تبصرہ نگار کو مولّف سے اتفاق نہیں ہے‘ مثلاً: جراء ت (ص ۱۶۹) میں ہمزہ زائد ہے۔ اسی طرح ’’اشیاء’’ (ص ۱۶۹) (اور اسی طرح شعرا‘ ارتقا‘ وغیرہ)کو بلاہمزہ لکھنا بہتر ہے کیوں کہ اب یہ اُردو الفاظ ہیں‘ نہ کہ عربی--- (جیسا کہ بیسیوں عربی الفاظ‘ اردو میں رائج ہوئے تو اِن کا املا بدل گیا‘ اور اس تبدیل شدہ اِملا ہی کو صحیح سمجھا جاتا ہے‘ جیسے: مولا (نہ کہ مولیٰ) وغیرہ۔ کہیں تشنگی کا احساس ہوتا ہے جیسے: ص ۱۶۹پر عجمی غلام کا نام دینا مناسب تھا۔ ص ۱۷۲ پر احادیث کے متن میں اِعراب رہ گئے۔
آخر میں ۱۶ تصاویر کے ذریعے اداے نماز کا صحیح طریقہ سمجھایا گیا ہے۔ نیت باندھنے‘ ہاتھ باندھنے‘ رکوع‘ قومے‘ سجدہ اور اس میں ہاتھوں‘ پیروں اور پیشانی کی حالت‘ اسی طرح جلسے اورقعدے میں مردوں اور خواتین کے پیروں کی حالت (بچوںاور بچیوں کی) تصاویر شامل ہیں۔
بچوں کا دینی لغت اپنی نوعیت کی ایک مستحسن اور قابل قدر کوشش ہے جو بچوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں‘ بلکہ بڑوں کے لیے بھی لائق استفادہ ہے۔ پروفیسر اصغر علی شیخ کی یہ تجویز قابل توجہ ہے کہ اس لغت کو انگریزی کے قالب میں ڈھال کر بھی چھاپنا چاہیے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ستمبر ۱۹۳۲ء میں ماہ نامہ ترجمان القرآن کی ادارت سنبھالی تو حیدرآباد (دکن‘ ہندستان) سے نکلنے والے اس رسالے کے بارے میں اس کے مدیر سمیت شاید کسی کو یہ اندازہ نہ ہوگا کہ ایک ڈیڑھ عشرے میں یہ جریدہ برصغیر میں احیاے اسلام کی تحریک کا ایک منفرد علم بردار ثابت ہوگا۔ اس کی فکر بالآخر سارے عالمِ اسلام کی رہنمائی میں ایک ممتاز مقام اختیار کر لے گی‘ اور لوگ اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کریں گے۔ مولانا مودودیؒ نے رسائل و مسائل کے عنوان سے اس جریدے میں ایک مستقل سلسلہ شروع کیا تھا‘ جس میں وہ لوگوں کے استفسار پر اُن کے شبہات‘ اشکالات اور مختلف نوعیتوں کے سوالات کے جواب دیتے تھے۔ بعد میں ملک غلام علیؒ اور پھر دوسرے حضرات کے ذریعے ترجمان میں یہ سلسلہ جاری ہے۔
مولاناؒ کی زندگی ہی میں رسائل و مسائل کے عنوان سے ان سوالات و جوابات کو مرتب کر کے شائع کر دیا گیا تھا۔ اس کتاب کی پہلی پانچ جلدیں مولاناؒ کے جوابات پر مشتمل ہیں اور چھٹی اور ساتویں ملک غلام علیؒ کے جوابات پر۔ سوالات کی نوعیت‘ آخرت‘ آسمان‘ آلات موسیقی سے لے کر ملازمین کے حقوق‘ واقعۂ قرطاس‘ وضو اور ویٹو تک اتنے متنوع موضوعات پر مشتمل ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ مولانا اپنی بھرپور مصروفیات کے باوجود ان مسائل پر غوروفکر اور (اکثر) تشفی بخش جوابات کے لیے کیوں کر وقت نکال پاتے تھے۔ بعض جوابات تو اتنے تفصیلی ہیں کہ اپنی جگہ ایک پورے مقالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
رسائل و مسائل کی جلدوں میں اگرچہ ان جوابات کو مختلف عنوانوں کے تحت جمع کر دیا گیا تھا‘ تاہم اس کی ضرورت تھی کہ ان سب جلدوں کے عنوانات کو ایک تفصیلی اشاریے کے تحت یک جا کیا جاتا کہ ان سے رجوع کرنے میں آسانی ہوتی۔ خرم جاہ مرادؒ نے اس ضرورت کو محسوس کیا‘ اور میجر (ر) محمد اقبال نے ان کی ایما پر اس کام کی تکمیل کی۔ پیشِ نظر اشاریے میں الف بائی ترتیب کے ساتھ رسائل و مسائل کی
سات جلدوں کے موضوعات کو ’’آخرت‘‘ سے لے کر ’’یہودی‘‘ تک کے عنوانات کے تحت جمع کر دیا گیا ہے۔ ان کتابوں کے دو ایڈیشنوں (اپریل ۱۹۹۵ء سے شائع ہونے والے اور مئی ۱۹۹۷ء سے اشاعت پذیر) کے صفحات کے حوالے دیے گئے ہیں۔ لیکن ۱۹۹۵ء میں شائع شدہ چھوٹی تقطیع کے ایڈیشن دراصل اس سے پہلے ہی کے شائع شدہ ہیں‘ اس کی وضاحت ضروری تھی۔ اس اشاریے میں موضوع کے بعد متعلقہ جلد اور صفحے کے حوالے کے بعد موضوع کی مختصر وضاحت بھی کر دی گئی ہے‘ جس سے جواب کے مشتملات کا پتا چلتا ہے (تاہم بعض عنوانات جیسے ’’قزع‘‘ ‘ ’’قیام للخیر‘‘ ‘ ’’محرمات‘‘ کی بہتر وضاحت ہو جاتی تو اچھا تھا)۔ اس طرح رسائل و مسائلکے اس نہایت قابل قدر ذخیرے تک رسائی نہایت سہل ہو گئی ہے اور قاری رسائل و مسائلکے سیکڑوں صفحات کی ورق گردانی سے بچ سکتا ہے۔ اگرچہ بغیر کسی متعین سوال کے بھی ان صفحات کی ورق گردانی ایک نہایت مفید‘ مسّرت انگیز اور حیران کن تجربہ ہوگی۔ مولاناؒ کی تحریریں‘ علم و آگہی کا ایک بحرِزخّار ہیں۔ کاش کوئی ادارہ ان سب کا ایک معیاری اشاریہ تیار کر دے اور سب کتابیں ایک معیاری ہیئت (format) میں شائع ہو جائیں۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
صحابہ کرام ؓ کی حیات مقدسہ پر لکھنا ایک سعادت ہے۔ تاہم‘ سیرت صحابہؓ پر لکھنے کے لیے ایمان و ایقان کی نعمت کے ساتھ ساتھ علمی دیانت کی دولت بھی ضروری ہے۔ مزید برآں فکرونظر کا وہ زاویہ بھی جو حقائق اور حکایات و قصص میں تفریق کر سکے۔ گذشتہ چودہ سو برس کے دوران بہت سے اہل ایمان اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر انھیں بارہا سوقیانہ حملوں‘ حتیٰ کہ کفر کے فتووں کا سامنا کرنا پڑا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسی فتوے بازیوں میں مگن حضرات‘ جیسی تحقیقات پر اپنے قبیلے کے لوگوں کو معاف کرتے رہے ہیں‘ ویسی تحقیقات پر دوسروں کو زندیق قرار دے کر ان پر سب و شتم کے تیر چلاتے رہے۔ اس ضمن میں نشانہ ستم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی بنایا گیا۔
زیرنظر کتاب مولانا محمد میاں کی تصنیف شواہد تقدس کا ایک بے لاگ جائزہ ہے۔ یاد رہے کہ شواہد تقدس مولانا مودودی کی خلافت و ملوکیت کے رد میں لکھی گئی تھی۔ مولانا عامر عثمانی مرحوم‘
علامہ شبیر احمد عثمانی ؒکے حقیقی بھتیجے‘ مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد رشید اور فاضل دیوبند تھے۔ عامر عثمانی مرحوم نے‘ مولانا محمد میاں کی مذکورہ بالا کتاب (اور آخر میں تجدید سبائیت از مولانا محمد اسحاق سندیلوی) کو علمی سطح پر جانچتے ہوئے اپنے رسالے ماہ نامہ تجلّی دیوبند کے دو خصوصی شمارے شائع کیے تھے۔ یہ معرکہ خیز تحریر تجلّی میں دب کر رہ گئی تھی‘ جس کی بازیافت کر کے سید علی مطہر نقوی نے اسے تجلیات صحابہؓکے نام سے کتابی شکل دی ہے اور استفادہ عام کا ذریعہ بنایا ہے۔
تجلیات صحابہؓکا مطالعہ بعض علما کی‘ مخالفت براے مخالفت اور حقائق کو مسخ کرنے کی پے درپے کوششوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اونچی مسندوں پر جلوہ افروز بعض سکّہ بند لوگ کس طرح غصے اور نفرت سے مغلوب ہو کر عدل و انصاف کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ دوسری جانب مولانا مودودیؒ کے متوازن اسلوب کی پرتیں کھلتی ہیں اور مقصدیت کی کرنیں روشنی بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اس موضوع پر مطالعہ کرتے ہوئے اگر تجلیات صحابہؓکے ساتھ دو اور کتابیں بھی پڑھ لی جائیں تو مسئلے کی تفہیم کا دائرہ اور وسیع ہو جاتا ہے: پہلی خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا علمی جائزہاز جسٹس ملک غلام علی اور دوسری عادلانہ دفاع اور علماے اہل سنت از جمیل احمد رانا--- مولانا عامر عثمانی بڑے تاسف سے سوال اٹھاتے ہیں: ’’آخر چاروں طرف سے ]مولانا[ مودودیؒ پر یلغار کیوں؟کیوں ایک امر قطعی میں کیڑے ڈالے جا رہے ہیں‘ کیوں قلم انگارے اُگل رہے ہیں‘ اور زبانیں گولیاں برسا رہی ہیں؟ اس کی وجہ پر اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو اس کے سوا کوئی بات تہہ سے نہیں نکلے گی کہ اصل محرک اس شوروغل کا‘ حسد و تعصب ہے‘‘۔ (ص ۱۹۵-۱۹۶)
تجلیات صحابہؓمیں حقائق کی کھوج کا ری کے دوران‘ عامر عثمانی مرحوم نے سنگ بدست کرم فرمائوں کی طرزِ ادا کا جواب دیتے وقت بعض مقامات پر مناظرانہ رنگ بھی اختیار کیا ہے مگر اس رنگ نے ان کے
تفقہ فی الدین اور تحقیقی اسلوب کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے سیرت‘ تاریخ اور تفسیر کے ہزاروں صفحات کا مطالعہ کیا اور غیر جذباتی انداز سے تجلیات صحابہؓکے مضامین سپردقلم کیے۔ (سلیم منصور خالد)
پاکستانی جامعات میں تحقیقی سرگرمیوں کی کمی کا شکوہ اور معیارِ تحقیق پر عدمِ اطمینان کا اظہار بالعموم کیا جاتا ہے مگر اس کے برعکس بعض حوصلہ افزا مثالیں بھی سامنے آتی ہیں۔ شعبہ اردو‘ سندھ یونی ورسٹی کا تحقیقی مجلہ اس کی ایک مثال ہے۔ یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ کسی پاکستانی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کا یہ سب سے معیاری اور بلند پایہ تحقیقی رسالہ ہے۔ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تازہ ضخیم شمارہ (نمبر ۱۲ اور ۱۳) علمی و ادبی مقالات‘ مکتوبات‘ تبصرات اور تحقیقی نوعیت کی فہارس کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ ایک گوشہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر عربی ڈاکٹر مختارالدین احمد کے مقالات اور ان کے نام امتیاز علی عرشی‘ قاضی عبدالودود‘ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی‘ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ غلام رسول مہر‘ عبدالماجد دریابادی‘ مالک رام‘ پروفیسر حمیداحمد خاں اور مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی جیسی نامور شخصیات کے ۲۲۵ علمی مکتوبات پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ پوری ایک کتاب کے بقدر ہے۔ مکتوب الیہ کے حواشی و تعلیقات نے ان مکاتیب کی قدروقیمت بڑھادی ہے۔ ان سے تقریباً نصف صدی کے ایک دَور کے بہت سے نامور عالموں کے علمی مشاغل و مصروفیات اور اُن کی تحقیقی کاوشوں میں پیش رفت پر روشنی پڑتی ہے۔ علمی تحقیق سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس مجلے میں رہنمائی کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔ ڈاکٹر نجم الاسلام اس مجلے کے بانی مدیر تھے (اسلامی ادب خصوصاً دینی نثر پر ان کا تحقیقی کام بہت وقیع ہے۔ ۱۳ فروری کو ان کا انتقال ہوا‘ اللہ ان کی مغفرت کرے)۔ زیرنظر شمارے میں خود مرحوم کے چار مقالے شامل ہیں (شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی کی اردو تفسیر۔ موضح قرآن از شاہ عبدالقادر دہلوی کی دو روایتیں‘ حکیم شریف خان دہلوی کا ترجمہ قرآن‘ قاضی محمد معظم سنبھلی کی تفسیر ہندی قلمی) ۔ڈاکٹر محمد سلیم اختر نے نامور ایرانی مصنف اور دانش ور ڈاکٹر سید جعفر شہیدی کی علمی شخصیت کا احاطہ کیا ہے۔ (ر-ہ)
اس کتاب میں ایک حدیث کی رُو سے کسی کام کو اچھی طرح سے کرنا اسلام کا تقاضا بتایا گیا ہے۔ کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہوئے یہی امید تھی کہ ایک بہت اچھا مجموعہ‘ بہت اچھی تشریح کے ساتھ‘ بہت اچھی طرح شائع کیا گیا ہے۔
اربعین کے نام سے ۴۰ احادیث کا انتخاب ہمارے علما کا طریقہ رہا ہے۔ امام نوویؒ نے ان ۴۲ احادیث میں (حافظ ابوعمر بن صلاح کی ۲۹ میں ۱۳ کا اضافہ) دین کی بنیادی تعلیمات جمع کر دی ہیں اور مولانا امیرالدین مہر نے ان کے معنی کو وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ نفس مضمون کی تائید میں دیگر آیات اور احادیث بھی وہ لائے ہیں۔ اکثروبیشتر موجودہ ماحول کا بھی حوالہ ہے‘ مثلاً غصّے والی حدیث کی تشریح میں ’’آج کا دَور ذہنی و نفسیاتی اُلجھنوں کا دَور ہے‘‘ (ص ۹۴) لیکن کہیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ مفہوم سے زائد بات کہی جا رہی ہے۔ مثلاً لاضرر ولاضرار کی تشریح میں یہود و ہنود کی سازش‘ قرضوں کا جال اور شہوت پرستی کے چکر کا ذکر (ص ۱۵)۔ شارح نے تعارف میں بتایا ہے کہ ان اربعین میں عقائد و ایمانیات‘ قانون و قواعد‘ عبادات و معاملات‘ اخلاق و معاشرت وغیرہ کے اہم پہلو بیان ہوئے ہیں۔ اگر محنت کر کے ان احادیث کو ابواب میں تقسیم کر دیا جاتا تو یہ ایک اضافی خدمت ہوتی۔ اچھا ہوتا کہ امام نوویؒ کے حالات زندگی پر دو تین صفحات کا نوٹ ہوتا۔ قاری کا تعلّق اپنے محسن سے جڑتا ہے‘ اس کے لیے دعاے خیر کرتا ہے اور اس کے بارے میں جاننے کا شائق ہوتا ہے۔
اگرچہ احادیث پر اعراب لگانے کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن صحتِ متن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ آیات قرآنی میں بہت سے مقامات پر غلطیاں نظر آتی ہیں۔ یہ امر ہر قاری کے لیے دلی اور ذہنی کوفت اور تکلیف کا باعث ہوگا۔ اس کی ذمّہ داری ناشر پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اگر ناشر کتاب واپس نہیں لے سکتے تو اغلاط نامہ لگانا اپنا فرض جانیں۔ (مسلم سجاد)
ہمارے ہاں ایک طبقہ تو ویسے ہی قرآن و سنت سے نابلداور بے بہرہ ہے اور شاید اُسے اپنی بے خبری کا شعور بھی نہیں ہے۔ دین دار طبقے میں بھی کثیر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو حدیث کی ضرورت و اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ کچھ لوگ فقط قرآن کو رہنمائی کا کافی ذریعہ گردانتے ہوئے حدیث و سنت کو پس پشت ڈالتے ہیں یا نظرانداز کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ قرآن و سنت کی تفہیم کے بجائے بزرگوں اور ائمہ کے چند مجموعہ ہاے اقوال کو مکمل دین تصور کرتے ہیں۔ ان حالات میں حدیث کی ضرورت و اہمیت پر یہ عام فہم کتاب مؤلف کے دینی جذبے اور وابستگی قرآن و سنت کی علامت ہے۔اس کتاب میں نہ صرف مقام حدیث کی آسان اندازمیںوضاحت کی کوشش کی گئی ہے بلکہ علم حدیث سے متعلق ابتدائی معلومات کے علاوہ کتابت حدیث‘ اصطلاحات حدیث اور اصول حدیث کی مختلف جہات کا احاطہ بھی مختصر انداز میں کیا گیا ہے۔ حدیث پر عمل کرنے کے حوالے سے چند بنیادی فقہی اصول بھی شامل کتاب ہیں۔ کتاب کا انداز علمی سے زیادہ تدریسی ہے جو کتاب کی مقصدیت کو واضح کرتا ہے۔
کتاب کے تقریباً ایک چوتھائی صفحات حدیث کی اہمیت و ضرورت کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ بقیہ تین چوتھائی صفحات اصول وتاریخ حدیث سے متعلق ہیں۔ کتاب کا موضوع قانونی‘ آئینی‘ معاشرتی اور دیگر حوالوں سے حجیت حدیث کے دلائل کا تقاضا کرتا ہے۔ مؤلف کا طرز تحریر و ترتیب اور اندازِ استدلال بہت عمدہ اور عام فہم ہے۔ مثلاً ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کی وضاحت کے لیے قانون اور آئین سے متعلق چند مثالیں دی گئی ہیں۔ اسی طرح ’’معاشرت میں سنت کے مقام‘‘ کی وضاحت کے لیے عورت کے گھر سے نکلنے کی اجازت سے متعلق دو احادیث نقل کر کے معاشرتی حوالے سے سنت کی اہمیت ثابت کی گئی ہے۔ اسی طرح ’’حلال و حرام میں سنت کا مقام‘‘ اور ’’انفرادی اور اجتماعی سنتیں‘‘ کے عنوانات بھی قابل توجہ ہیں۔
کتاب کی کتابت جلی ہے مگر متنِ احادیث و آیاتِ قرآنیہ میں اعراب کی غلطیاں خاصی ہیں۔کتابت کی عمومی غلطیاں بھی ہیں۔ اتنی زیادہ غلطیوں کا دوسرے ایڈیشن میں بھی باقی رہ جانا باعث تشویش ہے۔ عام قاری کی سہولت کے لیے اعراب کے التزام کے ساتھ اصطلاحات حدیث کو چارٹوں کی صورت میں تکنیکی مہارت کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے۔ حدیث کی بنیادی کتابوں کا تعارف اور ان کی مرویات کی نوعیت اور صحت سے متعلق مفید ابتدائی معلومات بھی کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔ کتاب درست فکری جہت کی طرف رہنمائی اور تعلیمات کتاب و سنت کے فروغ کے علاوہ عام قارئین کو علم حدیث سے روشناس کرانے کی مفید اور مخلصانہ کاوش ہے۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے اس کتاب میں سیرت پاکؐ کا مطالعہ صرف اس پہلو سے کیا گیا ہے کہ آپؐ کے خلاف کیا مخالفتیں اور سازشیں کی گئیں‘ کیا ظلم روا رکھے گئے اور آپؐ نے کس طرح ان کے مقابلے میں صبروثبات کا مظاہرہ کیا۔ مصنّف نے مقدمے میں اختصار سے آپؐ کی عظمتِ کردار کے مختلف پہلو بیان کرنے کے بعد صرف اس ایک موضوع کو لیا ہے۔ سیرت کا مطالعہ ہمیشہ اس لحاظ سے کیاجانا چاہیے کہ یہ محض تاریخی دل چسپی کے گزرے ہوئے واقعات نہیں بلکہ ان کے آئینے میں آج کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ آج اُمّتِ مسلمہ کے خلاف جو سازشیں کی جا رہی ہیں اور جس طرح انھیں ظلم و جبر کا شکار کیا جا رہا ہے‘ یہ اپنی اصل میں اس سے مختلف نہیں جو کفار و مشرکین نے رسولؐ سے روا رکھے۔ مسلم ممالک میں اسلام کے علم برداروں کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے گذشتہ ۵۰‘ ۶۰ برسوں میں جو کچھ ہوا ہے‘ چاہے مسلمان نام کے افراد نے کیا ہو‘ وہ بھی یہی کچھ ہے۔ افغانستان پر پابندیوں کو ہم شعب ابی طالب سے مختلف کیوںسمجھیں؟
اگر مسلمان خود سیرت کی اتباع میں داعی کی زندگی نہ گزار رہے ہوں تو سیرت کا یہ پہلو ان کے لیے بے معنی ہو جاتا ہے۔ خود عمل ہو تو ان واقعات سے رہنمائی اور توانائی ملتی ہے۔ عبدالرحمن کیلانی نے اس زاویے سے سیرت کا مطالعہ پیش کر کے مخالف و موافق سب کے لیے ایک خدمت انجام دی ہے۔ (م - س)
] ایم فل اقبالیات کا تحقیقی مقالہ۔ معروف ادبی رسالے نیرنگ خیال میں اقبالیات سے متعلق لوازمے کا جائزہ اور اشاریہ--- ایک مفید کاوش[
اگرچہ اصول معاش کے بارے میں اِکاّ دکاّ مفکرین نے ازمنہ قدیم میں بھی سوچا اور لکھا ہے‘ تاہم معاشیات بطور ایک علم کے ‘زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کی صورت گری انیسویں صدی کے آخر میں ہوئی۔ ستم یہ ہوا کہ آغاز ہی سے اس علم کی آبیاری لادین‘ آزاد خیال اور غیر مسلم مفکرین کے ہاتھوں ہوئی۔ اس وقت تقریباً سارا عالم اسلام غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس صورت حال میں دیگر علوم کی طرح معاشیات کے نظریات میںبھی مسلمان اساتذہ اور مفکرین مغربیوںکے خوشہ چین بن گئے۔
اس صدی کے وسط میں‘ جب آزادی کی لہر عالم اسلام میں پھیلنے لگی اور مسلمان مفکرین (ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سرفہرست ہیں) نے اس روایت کو توڑ کر ہر میدان میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کابیڑا اٹھایا تو معاشیات کی اسلامی بنیادیں تلاش کرنے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں۔
پروفیسر خواجہ نسیم شاہد کی کتاب ’’اسلامی معاشیات: نوعیت اور بنیادیں‘‘ اسلامی معاشیات پر موجود قلیل لٹریچر میں ایک قابل قدراضافہ ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر خواجہ نسیم شاہد مُلک کے ایک معروف معاشیات دان ہیں جو کالج اور یونی ورسٹی کی ہر سطح کی کلاسوں کو پڑھانے کا تقریباً ۳۵ سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا شمار ان معدودے چند لوگوں میں ہوتا ہے جوگھسی پٹی راہوں پر چلنے کے بجائے اپنی راہ خود تراشتے ہیں۔
انھوں نے اسلامی معاشیات کی ایسی جامع تعریف و ضع کی ہے جو مشہور و معروف اسلامی معیشت دانوں کی وضع کردہ تعریفوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور مکمل ہے۔ ان کی وضع کردہ تعریف یہ ہے: ’’اسلامی معاشیات وہ جامع‘ عمرانی علم ہے جو انسان کے اس اسلامی طرز عمل کا مطالعہ کرتا ہے جو اسلامی معاشرہ (یا اس کے ماڈل) میں متبادل استعمال رکھنے والے کمیاب مگر جائز ذرائع کی مدد سے فلاح کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو‘‘۔
یوں تو یہ تعریف جامع اور مکمل ہے لیکن اگر الفاظ میں معمولی ردوبدل کر دیا جائے تو یہ تعریف ہر لحاظ سے بہتر ہو جائے گی جو یوں ہو گی: ’’اسلامی معاشیات ایک جامع عمرانی علم ہے جو ایسے انسان کے طرزِ عمل کا مطالعہ کرتا ہے جواسلامی معاشرے (یا اس کے ماڈل) میں متبادل استعمال رکھنے والے کمیاب مگر جائز ذرائع کی مدد سے فلاح کے حصول کے لیے کوشاں ہو‘‘۔
۱۶۰ صفحات کی یہ کتاب پیش لفظ اور حواشی و حوالہ جات کے علاوہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ ان میںاسلامی معاشیات کی نوعیت و وسعت‘ نظریاتی اساس‘ اس کے اسالیب تحقیق اور اس کی اخلاقی بنیادوں کو (جو ۲ ابواب پر مشتمل ہیں) مثالوں‘ نقشوں‘ گرافوں اور چارٹوں سے واضح کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے معاشیات کے طالب علم کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح جاگزیں ہو جاتی ہے کہ اسلامی معاشیات کی بنیادوں کو قرآن و سنت اور خلفاے راشدین کے عمل میں تلاش کرنا چاہیے۔ اسے یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ اسلامی معاشیات اور لادینی معاشیات کا نقطۂ نظر ایک دوسرے کا الٹ ہے۔ ان کے مقاصد مختلف ہیں۔
پروفیسر خواجہ نسیم شاہد کی رو سے لادینی معاشیات میں حلال و حرام کا تصور غائب ہے۔ جب کہ اسلامی معاشیات میں حلال و حرام کا تصور موجود ہے۔ اسلامی‘ معاشی نظام کا ایک اہم خاصا زکوٰۃ کے ذریعے پسماندہ طبقات و افراد کی امداد ہے۔ زکوٰۃ محصول سے الگ چیز ہے۔ لادینی معاشی نظام میں محصول کے علاوہ کسی دیگر ذریعے سے کوئی حصہ پسماندہ طبقات اور افراد کی امداد کے لیے مختص نہیں کیا گیا۔ مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی اقتصادی نظام انسانوں کو اشتراکی اور سرمایہ دارانہ معاشی نظاموں کی افراط و تفریط سے بچاتا ہے اور معاشرے میں فطری انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔
مصنف نے بتایا ہے کہ لادینی نظام معیشت میں محض عدل اعلیٰ ترین قدر ہے جب کہ اسلامی نظام معیشت میں عدل کے علاوہ احسان کو افضل ترین قدر تسلیم کیا گیا ہے۔ عدل کا مطلب ہر فرد کو اس کا حق ادا کرنا ہے۔ جب کہ احسان کا مطلب کسی شخص کو اس کے جائز حق کے علاوہ کچھ زائد دینا ہے جس کا محرک رضاے الٰہی ہے۔
کتاب اپنے مندرجات اور طباعت کے لحاظ سے اعلیٰ پائے کی ہے۔ البتہ کہیں کہیں ہجوں کی اور دیگر طباعتی اغلاط رہ گئی ہیں۔ مثلاً صفحہ ۵ پر خانقاہوں کی جگہ خانقانوں‘ صفحہ ۵۱ پر توجیہہ کے بجائے توضیع‘ صفحہ ۵۱ ہی پر منطقی استقرا کے بجائے منطقی استخراج اور صفحہ ۶۷ پر مجروح کے بجائے مجروع چھپ گیا ہے۔ مصنف نے "Behaviour"کا ترجمہ ’’رویہ‘‘ کیا ہے‘ جس کا موزوں ترجمہ’’ طرز عمل’’ یا ’’کردار‘‘ ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ’’رویہ‘‘ تو "Attitude" کا ترجمہ ہے۔ یقینا ان معمولی اغلاط کی اگلی اشاعت میں تصحیح کر لی جائے گی۔ بہرحال کتاب شستہ ادبی انداز میں لکھی گئی ہے۔ قاری مؤلف کے اندازِ تحریر کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میری رائے میں یہ کتاب ملک میں اسلامی نظام معیشت قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ قیمت زیادہ نہیں۔ اسے معاشیات‘ بالخصوص اسلامی معاشیات کے اساتذہ اور طلبا کو ضرور پڑھنا چاہیے (پروفیسر نیاز عرفان)۔
اکثر بڑے یا معروف لوگوں کو اپنی نجی زندگی کے بارے میں کچھ لکھنے کا موقع نہیں ملتا ‘ یا پھر بعض اصحاب اس کام کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ حالاں کہ ان شخصیات کے ذاتی احوال جاننے کے لیے بہت سے لوگوں کو اشتیاق ہوتا ہے ۔ بیش تر صورتوں میں یہ شوق ایک ناتمام حسرت کا شکار ہو کررہ جاتا ہے۔ ایسے معروف لوگوں سے دل چسپی کی باتیں دریافت کر کے عام افراد تک پہنچانے کے لیے جستجو‘ لگن اور حاضر طبیعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہفت روزہ پیمان کراچی کے معاون مدیر (۱۹۷۱ء-۱۹۷۶ء) ان مہم جو صحیفہ نگاروں میں سے ہیں‘ جنھوں نے اس سلسلے میں مفید خدمات انجام دی ہیں۔
زیرنظر کتاب ۱۲ معروف عالم اور خطیب حضرات سے دل چسپ گفتگوئوں اور مصاحبوں کا مرقع ہے۔ سوال و جواب کی سطح بلند اور تعلیم و آگہی کا کینوس خاصا وسیع ہے۔ تاہم دو باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں‘ اوّل یہ کہ: انٹرویو نگار‘ شیعہ سنی فرقہ واریت کی آنچ کو ٹھنڈا کرنے اور اس خلیج کو پاٹنے کی پیہم جستجو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس فرقہ وارانہ تنائو کو محسوس کرتے ہوئے باہم اشتراک و اتحاد اور احترام کے رشتوں کو استوار کرنے کے لیے شعوری طور پر اور بڑے تسلسل سے سوال اٹھاتے ہیں‘ جو واقعی ایک بڑی خدمت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ خطابت اور فن تقریر کے رموز کو آشکارا کرنے کے لیے کرید کرید کر سوال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں آغا شورش کاشمیری اور شیعہ علما کرام کی آرا بڑی دل چسپ ہیں۔
مولانا مودودی کا انٹرویو (ص ۳۱ تا ۶۲) اور ان کے معمولات کی روداد بڑی دل چسپ ہے جو درحقیقت فاضل مرتب کی موعودہ کتاب کی جھلکیوں پر مشتمل ہے۔ علامہ رشید ترابی اور مولانا احتشام الحق تھانوی سے ملاقاتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ محراب و منبر سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات سے عطر بیز ملاقاتوں کی رودادیں اردو کے مکالماتی ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے (سلیم منصور خالد)۔
فری میسن ہمارے ملک میں کچھ لوگوں کی خاص دل چسپی کا موضوع ہے۔ عبدالرشید ارشد صاحب نے تھنکرز فورم ریاض ‘ سعودی عرب کے حوالے سے اسی دل چسپی کی تسکین کی کوشش کی ہے اور پہلی سے تیسری ڈگری تک کے لاجوںمیں ہونے والی کارروائی کی مصدقہ و مسلمہ روداد پیش کر دی ہے (یوں ابھی ۳۰ ڈگریاں باقی ہیں!) کتاب کا انتساب مرحوم مصباح الاسلام فاروقی کے نام ہے جن کی دو کتابوں نے ۶۰ کے عشرے میں اس موضوع کو ملک میں متعارف کروایا تھا۔ انتساب میں ان کی موت کو ’’طبعی‘‘ لکھ کر غالباً کوئی اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی اگر فری میسن نے ساری کی ساری خرید لی تو بازار میں نہیں ملے گی۔ کتاب پڑھ کرحیرانی ہوتی ہے کہ ۲۰ ویں صدی میں بھی یہ تمام عجیب و غریب اور جاہلانہ رسومات اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ ادا کرتے ہیں (مسلم سجاد)۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیزگذشتہ ۲۰ سال کے عرصے میں امت مسلمہ کو درپیش معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی اہمیت کے حامل متنوع موضوعات پر بلند پایہ تحقیقی کتب شائع کر چکا ہے۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سید نواب حیدر نقوی ہمارے ملک کے نامور معاشی محقق اور صاحب طرز مصنف ہیں جن کے قلم سے ترقیاتی و زرعی معاشیات اور معاشی نظامات کے تقابلی مطالعے کے مختلف پہلوئوں پر گراں قدر کتب اور مقالات منصّۂ شہود پر آچکے ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے پاکستان میں‘ بالخصوص گذشتہ عشرے کے دوران میں‘ اقتصادی منصوبہ بندی کے لیے اختیار کی گئی حکمت عملی کا معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے اور بتایاہے کہ اس حکمت عملی نے ملکی معیشت کے میلانِ نمو کو نہ صرف بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ ملکی معیشت کی اساسات کو مضمحل کر کے اسے گھمبیر بحرانوں سے دوچار کر دیا ہے۔ ان میں شرح افزایش کا بحران‘ ملکی وسائل کو متحرک کرنے کا بحران‘ ادایگیوں کے توازن کا بحران‘ بیرونی قرضوں کا بحران اور آمدنیوں کی تقسیم کا بحران خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مصنف کے نزدیک اس صورت حال کا جلد اور مؤثر انداز میں مداوا نہ کیا گیا تو ملکی معیشت ایک بہت بڑے حادثے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ مصنف کی نگاہ میں اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے معاشی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جائیں۔ اس عمل کی شاہ کلید یہ ہے کہ معیشت کی شرح افزایش کو اس قدر بڑھا دیا جائے کہ کم سے کم وقت میں فی کس آمدنی موجودہ سطح سے دگنی ہو جائے۔
اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریاست اور منڈی (state and market) دونوں قوتوں کے متوازن ارتباط کو بروے کار لانا چاہیے۔
محترم نقوی صاحب نے ملکی معیشت کو بحرانوں کے گرداب سے نکال کر اصلاح و افزایش کی راہ پر ڈالنے کاجو ماڈل پیش کیا ہے وہ تکنیکی اعتبار سے وزن رکھنے کے باوجود اپنے اندر روایتی قسم کا رنگ ہی لیے ہوئے ہے ۔ ہمارے ہاں معاشی اور سیاسی دائروں میں مفاداتی گروہ اس قدر قوی ہو چکے ہیں کہ سرکار اور بازار دونوں ان کے سامنے بے بس ہیں۔ بات یہ نہیں کہ ’ہم غریب ہیں اس لیے کہ ہم غریب ہیں‘ بلکہ یوں ہے کہ ’ہم غریب ہیں اس لیے ہم کرپٹ (بددیانت) ہیں‘۔ اصل مسئلہ اخلاقی بحران کا ہے جب تک اس بحران پر قابو نہیں پایا جاتا کسی بھی معاشی بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔ادایگیوں کے توازن کے بحران کا حل برآمدات میں اضافے سے وابستہ ہے۔ سرمایہ یعنی بددیانت اہل کار رشوت کی دیواریں کھڑی کر کے اور بازار یعنی برآمدکنندگان ملاوٹ اور گھٹیا معیار کی اشیا سپلائی کر کے منڈیوں سے ملک کو محروم کر دیتے ہیں وغیرہ۔ جب تک اس انسان کے معیار اخلاق و کردار کو بہتر بنانے کے عمل کو اقتصادی منصوبہ بندی کا جزو اعظم نہیں بنایاجاتا‘ فنی اور تکنیکی اعتبار سے درست ترقیاتی ماڈل ملک کی تقدیر ہرگز نہیں بدل سکتے۔ محض آبادی کی شرح افزایش کو کم کر کے معاشی خوش حالی کے خواب ایک سراب کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔اب وقت ہے کہ ماہرین روایتی انداز سے ہٹ کر پاکستان کے اساسی نظریے اور اسلامی اقدار پر مبنی (value-based) ترقیاتی ماڈل تیار کریں جن میں اصل اہمیت انسان یعنی خلیفۃ اللّٰہ کو حاصل ہو۔
اب نجات کی یہی ایک راہ ہے (عبدالحمید ڈار)۔
پروفیسر اکبر رحمانی کئی سال سے تعلیمی مجلہ ’’آموز گار‘‘ شائع کر رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب اس کے اداریوں کا انتخاب ہے جو ’’بڑے اہم‘ قابل غور اور فکرانگیز خیالات کے علاوہ تعلیم و تدریس سے متعلق ان کے تجربات کا نچوڑ ہیں‘‘ (مقدمہ از ضیاء الدین اصلاحی)۔ ان اداریوں کا تعلق بھارتی مسلمانوں کی تعلیمی اور ملّی زندگی سے ہے۔ ڈاکٹر اکبر رحمانی معلّم رہے‘ نقد و تحقیق سے بھی ان کا واسطہ رہا ہے۔ انھوں نے اردو ذریعہ تعلیم‘ تعلیم کے گوناگوں مسائل و موضوعات (امتحانات میں نقل نویسی‘ طلبہ میں بے راہ روی کا رجحان‘ مخلوط تعلیم‘ پرائمری تعلیم‘ دینی مدارس کا نصاب‘ معلم کا منصب‘ تاریخ کی درسی کتابیں‘ اقلیتوں کے تعلیمی حقوق‘ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب وغیرہ) پر مختصر مگر جامع انداز میں ایک ایسے ہوش مند معلم کا موقف پیش کیا ہے جسے اپنے ملی تشخص پر اصرار ہے اور وہ اسی لیے مسلمانوں کی نژادِ نو کے مستقبل کے بارے میں فکرمند بھی ہے۔ انھوں نے اربابِ تعلیم کو‘ اور خود بھارتی مسلمانوں بالخصوص متعلمین اور ماہرین تعلیم کو تعلیمی دنیا کے اہم نظری و فکری اور پیشہ ورانہ مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اس طرح یہ پُراز معلومات کتاب بھارتی مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر غوروفکر کی دعوت دیتی ہے--- انھیں سوچنا ہوگا کہ ایک مخالفانہ اور بعض صورتوں میں متعصبانہ ماحول میں‘ انھیں کس طرح اپنا راستہ نکالنا ہے (رفیع الدین ہاشمی)۔
ہمارے ملک میں سائنس اور سائنسی تعلیم کی جو قدروقیمت ہے‘ سائنس دانوں کی حیثیت اور مقام بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں۔ سوائے چند ایک سائنس دانوں کے (جنھیں ’’قومی ہیرو‘‘ کا درجہ حاصل ہو گیا ہے) ہم اپنے ملک کے ذہین اور باصلاحیت سائنس دانوں اور ان کے کارناموں سے بڑی حد تک بے خبر ہیں۔ زیرنظر کتاب میں پاکستانی سائنس دانوں کے حالاتِ زندگی اور ان کی کارکردگی سے آگاہی کی اہم ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پاکستان کے کچھ سائنس دان تو ایسے ہیں جن کا نام تقریباً ہر شخص جانتا ہے (ڈاکٹر عبدالقدیر خاں‘ پروفیسر عبدالسلام‘ سلیم الزماں صدیقی اور پروفیسر عطا ء الرحمن وغیرہ) لیکن ان کے علاوہ بھی کئی سائنس دان پاکستان کے اندر رہتے ہوئے عالمی معیار کی تحقیق کر رہے ہیں۔ ان میں قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے ڈاکٹر ریاض الدین سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ قائداعظم یونی ورسٹی‘ پنسٹیک‘ عبدالقدیر خاں ریسرچ لیبارٹریز‘ اور ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے کیمیا‘ کراچی سے منسلک کئی سائنس دان نمایاں ہیں۔ بعض پاکستانی سائنس دان ایسے بھی ہیں جو بیرون ملک اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی اعلیٰ پائے کا تحقیقی کام سرانجام دے رہے ہیں اور انھیں وہاں نہایت اعلیٰ مرتبہ و مقام حاصل ہے (مثلاً ڈاکٹر محمد منور چودھری جو برطانیہ کی مشہور زمانہ کیونڈش لیبارٹری کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر ہیں)۔
مصنف نے (۶۰ سے زیادہ) سائنس دانوں سے متعلق معلومات جمع کر کے انھیں مرتب کرنے کے لیے خاصی محنت اور جاں فشانی سے کام کیا ہے۔ ان کی یہ کوشش لائق تحسین ہے۔ تاہم مصنف خود چونکہ سائنس کے شعبے سے منسلک نہیں ہیں اور کتاب کی تالیف میں جن مآخذ پر انحصار کیا گیا ہے‘و ہ بھی لازمی طور پرمستندنہیں ہیں لہٰذا کئی مقامات پر ایسی باتیں آگئی ہیں جو حقائق کے خلاف ہیں مثلاً صفحہ ۶۳ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر امان اللہ (کون امان اللہ؟ یہ کچھ نہیں بتایا گیا) کو نیوٹن اور آئن سٹائن کے بعد تیسرا بڑا سائنس دان مانا جاتا ہے۔ اسی طرح کراچی کے پروفیسر قادر حسین کے اس دعوے کو (کئی دوسرے ناقابل اعتبار دعووں سمیت) پذیرائی بخشی گئی ہے کہ انھوں نے قانونِ بقائے توانائی کو غلط ثابت کرتے ہوئے ایک ایسی مشین ایجاد کی ہے جو کم توانائی حاصل کر کے زیادہ توانائی پیدا کرتی ہے۔ شاید مستند ذرائع سے تصدیق کیے بغیر‘ محض اخباری بیانات پر انحصار کرنے سے یہ صورت پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان کے بعض صفِ اوّل کے سائنس دانوں (مثلاً حمید احمد خاں‘ فیاض الدین‘ سہیل زبیری‘ اسلم بیگ‘ قاسم مہدی‘ وقار الدین احمد اور انور وقار وغیرہ) کا اس کتاب میں کوئی تذکرہ نہیں ہے جب کہ بعض ایسی شخصیات کے بارے میں معلومات شامل کی گئی ہیں جن کی ملک و قوم کے لیے دیگر خدمات تو یقینا قابل قدر ہیں تاہم سائنسی تحقیق میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک سائنسی تحقیق سے منسلک بے شمار پاکستانیوں میں سے صرف ایک کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کے زیرترتیب حصہ دوم میں ایسی تمام کمیوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یوں تو یہ کتاب بیش تر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہو گی لیکن طالب علموں میں عمومی طور پر اس کا مطالعہ سائنس کی طرف رغبت پیدا کرے گا اور سائنس کے طالب علموں کو تحقیق کی راہ اختیار کرنے پر ابھارے گا (فیضان اللّٰہ خان)۔
پروفیسر رشید احمد انگوی نباتیات کے استاد ہیں‘ ملی اور دینی جذبے سے سرشار ہیں اور ’’انھیں ملتِ اسلامیہ کی زبوں حالی کا غم بے چین رکھتا ہے‘‘۔ علامہ اقبال کی تلقین انھیں اپنے جذبات سے ہم آہنگ محسوس ہوئی۔ زیرنظر مجموعۂ مضامین اسی ہم آہنگی اور احساساتِ دینی و ملّی کی ترجمانی کرتا ہے۔ تقریباً تین درجن مختلف عنوانات کے تحت مصنف نے اپنے دردمندانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ]عنوانات: تعلیم کی اہمیت‘ مغربی نظام تعلیم کا حاصل‘ مکتب کا جواں‘ غلام قوموں کا غلام ضمیر‘ مسلمان اور قرآن‘ فقر و استغنا‘ فرنگی‘ عالم عرب اور اسلامی دنیا‘ فکر اقبال اور اکیسویں صدی وغیرہ و غیرہ[۔ ہر شذرے کا آغاز کلامِ اقبال سے ہوتا ہے۔
انتساب ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے نام ہے۔ مصنف نے ’’فکر اقبال کے تمام گوشے بہت وضاحت سے پیش کیے ہیں‘‘ (مقدمہ از پروفیسر ظفر حجازی)۔ کتاب نہایت اہتمام سے خوب صورت انداز میں شائع کی گئی ہے (ر-ہ)۔
مصنف نے خواتین کے حقوق کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ گیارہ ابواب میں خواتین کی حیثیت‘ سماجی کردار‘ حقوق‘ فرائض‘ سربراہی‘ وراثت اور مغرب میں حالتِ زار جیسے اہم اور وسیع موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ہے‘ ابواب کے عنوان نجانے کیوں تجویز نہیں کیے گئے۔
حرفِ آغاز میں ڈاکٹر خان تحریر کرتے ہیں: قومی اور ملّی زندگی میں خواتین کی صحیح تعلیم و تربیت زندگی کے ہر شعبے میں نہایت عمدہ اور فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ مرد کا بگاڑصرف ایک فرد کا بگاڑ ہو سکتا ہے مگر عورت کا بگاڑ پوری نسل بلکہ نسل در نسل تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر خان نے اسلامی نقطۂ نظر سے خواتین کے لیے متعین حقوق پر بحث کی ہے اور قرآن و سنت کو اپنا ماخذ بنایا ہے‘ ڈاکٹر خان نے قرآنی آیات اور اُن کی تفسیر کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلا م کے پیروکار خود ہی قرآن کی تعلیمات سے روگردانی کر رہے ہیں اور اس کا خمیازہ انھیں معاشرتی نظام میں خلل کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مختلف ابواب میں مصنف نے مغربی تہذیب اور اسلامی معاشروں میں اس کے نفوذ پر خصوصاً روشنی ڈالی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ مغرب کی اندھا دھند نقالی مسلمان خواتین ہی کو نہیں پوری مسلم امت کو شدید نقصان پہنچائے گی۔ ہر باب کے آخر میں حواشی اور کتاب کے آخر میں مجموعی کتابیات درج ہے۔ موضوعات منتشر ہیں‘ تاہم اپنے موضوع پر یہ ایک اچھی تحریر ہے (محمد ایوب منیر)۔
جیبی تقطیع۔ ہدیہ: درج نہیں۔ ] باری تعالیٰ کے ۹۹ صفاتی نام نفیس رقم کی خوب صورت کتابت میں۔ ابتدا میں مرتب نے وظیفہ
اسماء الحسنیٰ کا طریقہ بتایا ہے جس سے ’’ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے‘‘[۔