کتاب نما


Qur'anic Key Words: A Reference Guide، [قرآنی اصطلاحات: ایک حوالہ جاتی گائیڈ] عبدالرشید صدیقی۔اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، برطانیہ،۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔

قرآن کریم اور سیرت پاکؐ کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو ہرہفتے نہیں تو کم از کم سال کے ۱۲ مہینوں میں کسی نہ کسی معروف رسالے میں تحقیقی مقالہ اور کسی معروف ناشر کے ذریعے کوئی علمی کتاب منظرعام پر آتی رہی ہے۔ لیکن اس کثرت کے باوجود قرآن کریم کے مضامین و موضوعات اور سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جہات کا احاطہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ استنبول کے ایک عظیم تحقیقی مرکز میں ۸۰۰ کے لگ بھگ قرآن کی تفاسیر ایک چھت کے نیچے پائی جاتی ہیں۔

زیرنظر کتاب جناب عبدالرشید صدیقی کی تازہ تالیف ہے۔ وہ ایک عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور وہاں کی اسلامی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔ کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے لکھا ہے۔

انگریزی اب ایک تجارتی زبان کی حیثیت سے وہی مقام اختیار کرچکی ہے جو ایک طویل عرصہ لغتِ قرآن کو حاصل رہا، اس لیے مغرب ہی کا نہیں خود مشرق میں بھی ان اقوام میں جن کی سیاسی آزادی صرف اور صرف اسلام اور قرآن و سنت کی سربلندی کے لیے حاصل کی گئی ہو، نیز ایسی اقوام میں بھی ذہنی غلامی اور انگریزی کے فروغ کے سبب قرآن کریم اور اسلام سے واقفیت کے لیے ایسی کتب کی ضرورت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جو عام انگریزی سمجھنے والے کو اسلامی فکر اور قرآنی مضامین سے متعارف کرا سکے۔ ان معنوں میں نہ صرف یہ کتاب بلکہ اس نوعیت کی مزید کتب اس دور کی ضرورت ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اصل ماخذ سے براہِ راست تعلق کے بغیر اسلام کا صحیح فہم حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ان اصطلاحات میں بعض بہت بنیادی ہیں مثلاً اللہ، دین، زکوٰۃ، جہاد، انسان، آخرت، حسنات، فلاح، دعوۃ، بِّر، اخوہ، صوم، صدقہ، ایمان وغیرہ۔

کتاب میں ۱۴۰قرآنی اصطلاحات کا مفہوم انگریزی پڑھنے والے اور براہِ راست عربی مصادر تک نہ پہنچ پانے والے افراد کے لیے سادہ زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر اصطلاح کا لغوی معنی، اس کا قرآن کریم اور عربی میں متبادل اور قرآن کریم میں اس کے استعمال کا حوالہ دینے کے ساتھ اختصار سے معنی بیان کیے گئے ہیں۔ معنی بیان کرتے وقت یہ خیال رکھا گیا ہے کہ اس کے پڑھنے والے ان الفاظ کے بارے میں جن شبہات کا شکار ہوں انھیں بھی رفع کر دیا جائے مثلاً جہاد کے حوالے سے اس کے مختلف مفاہیم کو بیان کرکے سمجھایا گیا ہے کہ اس سے محض قتال اور قوت کا استعمال مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع اصطلاح ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ تحسین علمی کام ہے اور اسلام اور اسلامی فکر کو سمجھنے میں غیرمعمولی طور پر مددگار۔

انتہائی کامیاب کوشش میں بھی ہمیشہ مزید بہتری کی گنجایش رہتی ہے۔ اس کتاب کو آیندہ مزید بہتر بنانے میں اگر چند امور کا خیال رکھ لیا جائے تو ان شاء اللہ اس کی افادیت میں اضافہ ہوگا۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ا ل ہ سے ال کے اضافہ سے اللہ کی اصطلاح بنی ہے(ص ۱۱)۔ اللہ کا کوئی مصدر نہیں ہے۔ مصدر صرف الٰہ کا ہے اور وہ ا ل ہ ہے (ملاحظہ ہو تفسیر ماجدی)۔ صدقہ کا ترجمہ charityگو عبداللہ یوسف علی نے بھی کیا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے (ص۲۰۲)۔ درست ترجمہ تحفہ یا ہدیہ ہوگا۔ مفہوم بیان کرتے ہوئے مصنف کو شاید مہر کا ذکر کرنا یاد نہ رہا اسے بھی صدقہ کہا گیا ہے، جب کہ وہ charity نہیں ہے اور خلوصِ نیت اور سچی خواہش کے اظہار کا نام ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کو alms کہنا (ص ۲۶۸)گو مستعمل ہے لیکن اس کے مفہوم سے متضاد ہے۔ یہ خیرات نہیں ہے بلکہ عبادت اور حق ہے، یعنی right اور due۔ یہاں بھی غالباً عبداللہ یوسف علی صاحب کا ترجمۂ قرآن استعمال کرنے کے سبب مصنف نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کے باوجود کتاب کی افادیت میں کمی واقع نہیں ہوتی اور خصوصاً نوجوان نسل کے لیے اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


تحریکِ احمدیت: یہودی و سامراجی گٹھ جوڑ، بشیراحمد، مترجم: احمد علی ظفر۔ ناشر: ادارہ اصلاح و تبلیغ، آسٹریلیا بلڈنگ، ریلوے روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۶۶۳۸۹۶۔ صفحات: ۹۸۷۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مسلم اُمہ کو ہر زمانے میں مختلف فتنوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔ ابتدائی زمانے میں مُسیلمہ کذاب نے جس جعلی نبوت کا اعلان کیا تھا، اس سلسلے کی ایک کڑی مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں اہلِ ہند کو دیکھنے کوملی۔ دیگر جعلی نبوتوں کے برعکس مرزاے قادیان کی ہرزہ سرائی کو اس زمانے کی سپرطاقت تاج برطانیہ کی پشت پناہی حاصل تھی، مقامی سطح پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی ہمدردی میسر تھی، اور آج کے مغربی سامراج کی طرف سے اسے مسلسل کمک بھی مل رہی ہے۔

کم و بیش سوا سو سال سے اس فتنے کی دل آزاریوں اور حشرسامانیوں پر اہلِ علم نے مختلف سطحوں اور مختلف حوالوں سے داد تحقیق دی، دینی اورسیاسی حوالے سے بھی بہت سارے گوشے وا کیے۔ بشیراحمد کی زیرتبصرہ کتاب: Ahmadiya Movement: British-Jewish Connection کے رواں اور شُستہ اُردو ترجمے پر مشتمل ہے۔ جس کے ۲۸ ابواب میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بہت سی ہوش ربا تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہ تفصیلات قادیانیت کے مغربی سامراجیوں اور یہودیوں سے گٹھ جوڑ کی گواہی پیش کرتی ہیں۔

جناب بشیراحمد ایک سنجیدہ محقق اور جاں کاہی سے مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے ایک ایک مقدمے کو مکمل حوالے، ثبوت اور غیرجذباتی تجزیے سے اس طرح پیش کیا ہے کہ معاملات کے پس پردہ بیش تر کردار ترتیب ِ زمانی کے ساتھ قاری کے سامنے آجاتے ہیں۔ فاضل مؤلف نے یہ کتاب ایک عالمِ دین کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مؤرخ کی حیثیت سے مرتب کی ہے، اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ کتاب فی الحقیقت قادیانیت کی ایک تاریخ ہے، جس کے آئینے میں اس باطل مذہب کے باطن کو دیکھا جاسکتا ہے۔ کتاب کی تقریظ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے تحریر کی ہے۔ آخر میں قادیانی لٹریچر کے عکس، جامع کتابیات و مآخذ کی فہرست بھی درج ہے۔ (سلیم منصور خالد)


رسولؐ اللہ کا طریقۂ حج، تالیف: مولانا مفتی محمد ارشاد القاسمی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔فون: ۲۷۲۵۶۷۳-۰۲۱۔ صفحات: ۷۵۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

عازمینِ حج کے لیے راہ نما کتابیں ہرقسم کی دستیاب ہیں۔ عام ضرورت ایسی کتاب کی ہے جو ہاتھ میں لی جاسکے اور ہروقت اس سے رجوع کیا جاسکے۔ زیرتبصرہ کتاب اس سے کچھ مختلف ہے۔ اس میں مؤلف نے حج کے ۵ ایام کے علاوہ، حج کے فضائل و ترغیب، عورتوں کے حج اور مختصراً زیارتِ مدینہ پر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ایک ترتیب سے جمع کردیے ہیں اور ہرایک کے بعد فائدہ کے عنوان سے اس کی وضاحت کردی ہے۔ ۳۰صفحات کی فہرست سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ۷۵۰ صفحے کی اس کتاب میں کتنی تفصیل سے تمام جنرئی مسائل تک زیربحث لائے گئے ہیں۔

حج کے دوران پیش آنے والے ہر طرح کے امکانات پر براہِ راست حدیث رسولؐ کی رہنمائی مل جاتی ہے۔ اختلافی مسائل پر بھی سب کا موقف بیان کر کے اچھی بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کو بجاطور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ حج و عمرہ کے متعلق شمائل، سنن و احکام کا وسیع اور مستند ذخیرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ (مسلم سجاد)


کلیسا سے واپسی، مرتب: عبیداللہ عابد۔ ناشر: کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اسلام کی قوتِ تسخیر کا اندازہ کرنا ہو تو اس کا ایک حوالہ نومسلموں کے حالاتِ زندگی اور  قبولِ اسلام کے واقعات کا مطالعہ ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی طرف یہ رغبت ان حالات میں ہے کہ مغرب میں عام طور پر اسلام کے اصل تصور کو مسخ کر کے، مسلمانوں کو وحشی، خون کے پیاسے اور تنگ نظر قوم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ اسلام کی خاطر نومسلم جس طرح سے جان، مال، خاندان، کیریئر اور ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہیں، اس سے اسلام کے دورِ عزیمت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

زیرنظر کتاب اسی موضوع کے تحت ۳۲ افراد کے قبولِ اسلام کا ایک مطالعہ ہے۔ تاہم، اس کی انفرادیت یہ ہے کہ بیش تر واقعات کا تعلق عیسائی پادریوں کے قبولِ اسلام سے ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیت کے عقائد (بالخصوص تین خدائوں کا تصور، حضرت عیسٰی ؑ کا انسانیت کے گناہوں کی تلافی کے لیے قربانی دینا وغیرہ) عیسائی پادریوں کو بھی مطمئن نہ کرسکے۔ یہ عقیدہ بھی اُلجھن کا باعث ہے کہ گناہ کی معافی کے لیے کسی پادری کے سامنے اعتراف ضروری ہے، گناہ کے اعتراف کے لیے براہِ راست خدا سے رجوع نہیں کیا جاسکتا، جب کہ اسلام میں مذہبی پیشوا کا ایسا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ کسی دوسرے کے سامنے گناہ کا اعتراف ہی ضروری ہے۔ براہِ راست  اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جاسکتی ہے۔ عیسائیت میں غوروفکر اور حقیقت کی تلاش کے لیے سوالات اُٹھانے کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، جب کہ اسلام کی تعلیمات، غوروفکر اور تدبر کی دعوت پر مبنی ہیں جو جدید ذہن کو اپیل کرتی ہیں۔ اسلام کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ان کا جواب بھی سامنے آتا ہے جس سے تقابلِ ادیان کے ساتھ ساتھ اسلام کی فوقیت بھی ثابت ہوتی ہے۔(امجدعباسی)


آدابِ شناخت، ڈاکٹر سید عبدالباری۔ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، ۳۱۰۸ وکیل والی گلی، کوچہ پنڈت، لال کنواں، دہلی ۶۔ صفحات:۲۲۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

اُردو ادب کی دنیا، بڑی حد تک پاکستان اور بھارت کی طرح، دو الگ الگ دنیائوں میں منقسم ہے، اس لیے اگر ڈاکٹر سید عبدالباری کا نام پاکستان کے ادبی حلقوں میں کسی قدر اجنبی محسوس ہو تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ موصوف اُردو کے معروف ادبی نقاد ہیں۔ اوائل میں وہ ’شبنم سبحانی‘ کے قلمی نام سے زیادہ تر شعرگوئی کرتے تھے۔ اب گذشتہ ۵،۷ برسوں میں ان کی متعدد تنقیدی کاوشیں (بشمول ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے) مطبوعہ صورت میں سامنے آئی ہیں (لکھنؤ کا شعروادب، ۱۸۵۷ء تک۔ لکھنؤ کے ادب کا ثقافتی و معاشرتی مطالعہ، ۱۹۴۷ء تک، ادب اور وابستگی، کاوشِ نظر، افکارِ تازہ، ملاقاتیں وغیرہ۔ ان میں سے بعض پر ترجمان میں تبصرہ بھی ہوچکا ہے)۔ فی الوقت وہ ماہنامہ پیش رفت دہلی کے مدیر اور ادارہ ادبِ اسلامی ہند کے صدر ہیں۔

ادبی تنقیدی مقالات کا زیرنظر پانچواں مجموعہ انھوں نے ہم فکر ادبی شخصیات ڈاکٹر ابن فرید اور ڈاکٹر عبدالمغنی سے منسوب کیا ہے۔ مرحومین کی طرح سید عبدالباری بھی ادب میں مثبت اور تعمیری نظریات و اقدار کے قائل ہیں۔ بجاطور پر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُردو کی موجودہ ادبی تنقید زوال پذیر ہے، کیوں کہ ماضی کے برعکس موجودہ تنقید میں کوئی تعمیری، متوازن اور شائستہ طرزِ فکر سامنے نہیں آسکا۔ پروفیسر محمود الٰہی کے بقول ڈاکٹر سید عبدالباری حق و ناحق اور خیروشر کا ایک متعین پیمانہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے قلم کو جاہ و منصب کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اخلاص کے ساتھ ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔

مجموعے کا پہلا مضمون ’اکیسویں صدی میں ادب کی اہمیت‘ نہایت فکرانگیز ہے۔ انھوں نے مستقبل کی ادبی جہات و اقدار کی ممکنہ سمت نمائی کی ہے۔ انھیں کچھ تشویش بھی ہے مگر وہ پُرامید ہیں کہ ’’اہلِ قلم کی ایک معتدبہ تعداد درباری نفسیات کی گرفت میں نہ آسکے گی اور وہ حقیر مفادات سے اُوپر اُٹھ کر عام انسانوں کی بہی خواہی اور بلندمقاصد کے احترام کو مدنظر رکھ سکے گی (ص ۱۳)۔ معروف ترقی پسند شاعر مجروح سلطان پوری کے بارے میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ آخری دور میں ان پر اشتراکیت کا طلسم زائل ہوچکا تھا اور مجروح اپنی اصل سے وابستگی کو اپنے لیے باعثِ فخر تصور کرتے تھے۔ (ص ۸۱)

بعض مضامین کا تعلق چند ادبی شخصیات (غالب، میرانیس، شبلی، ابوالحسن علی ندوی، جگن ناتھ آزاد، کیفی اعظمی، عرفان صدیقی، مجروح سلطان پوری) اور ان کی تخلیقات سے ہے اور بعض کا تعلق ادب اسلامی کی تحریک کے وابستگان (سہیل احمد زیدی، رشیدکوثر فارقی، طیب عثمانی، ابوالمجاہد زاہد، ابن فرید، علقمہ شبلی، حفیظ میرٹھی) سے___ (رفیع الدین ہاشمی)


جیلانی بی اے، حیات اور ادبی خدمات، بشیراحمد منصور۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے

جیلانی بی اے (۲۷؍اکتوبر ۱۹۲۱ء- ۱۹ جنوری ۱۹۹۰ء) ایک بلندپایہ ادیب اور منجھے ہوئے افسانہ نگار تھے۔ عمر کا آخری حصہ کوچۂ صحافت میں گزرا۔ اس کے ساتھ وہ جماعت اسلامی کے  ایک نمایاں راہ نما کی حیثیت سے بھی قابلِ قدر خدمات انجام دیتے رہے۔جماعت میں امیرضلع فیصل آباد، امیرضلع لاہور اور امیرصوبہ پنجاب کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں۔ صحافت میں وہ ہفت روزہ ایشیا کے مدیر رہے۔ صحافت میں اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی ترقی کو مرکزی حیثیت دیتے تھے۔ اس طرح جیلانی بی اے کی ساری زندگی بامقصد حیات کا ایک نمونہ ہے۔ وہ ایک مقصدیت پسند ادیب تھے۔اسلامیہ کالج لاہور کے زمانۂ متعلمی میں مولانا مودودیؒ کے براہِ راست شاگرد رہے۔ اس نسبت کو انھوں نے عمربھر مولانا مودودیؒ کے راستے پر چل کر بخوبی قائم رکھا۔

بشیراحمد منصور نے زیرنظر کتاب میں جیلانی بی اے کے مذکورہ بالا حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ایک تحقیقی مقالہ ہے جو ایم فل اُردو کی سند حاصل کرنے کے لیے تحریر کیا گیا تھا۔ اب اسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب کو چھے ابواب میں منقسم کیا ہے، جن میں جیلانی بی اے کی سوانح اور شخصیت، ان کی افسانہ نگاری، اُن کی مضمون نگاری اور اُن کے قلم سے نکلنے والی دیگر اصنافِ نثر (ترجمہ، تلخیص، رپورتاژ، سفرنامہ، تعزیتی حاشیے اور صحافتی تحریریں)، نیز اُن کے اسلوبِ بیان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری باب اُن کی مجموعی علمی و ادبی خدمات کے جائزے پر مبنی ہے۔

بشیر منصور نے مقالہ بڑی سلیقہ مندی سے مرتب کیا ہے۔ ان کی یہ ادبی کاوش اس اعتبار سے مستحسن ہے کہ انھوں نے ایک ایسے بلندپایہ ادیب اور افسانہ نگار کو، جو اَب تک گوشۂ گم نامی میں رہا، علمی و ادبی دنیا سے متعارف کروایا اور اس کی علمی و ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا۔ گو، اس مقالے سے جیلانی صاحب کے ادبی اور فنّی کمالات پوری طرح ظاہر نہیں ہوتے، تاہم اُن پر کام کرنے والوں کے لیے یہ کاوش دلیلِ راہ کا کام دے گی۔ معیارِ اشاعت اطمینان بخش ہے۔ موضوع اور شخصیت سے سرورق کی مناسبت قابلِ داد ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)

تعارف کتب

  •  بلغ العلٰی بکمالہٖ ،خورشید ناظر۔ ناشر: نشریات، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [سرورق پر ’’اُردو میں ساڑھے سات ہزار اشعار پر مشتمل منظوم سیرت نبویؐ کا ایک مستند شاہکار‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ کُل ۵۶ باب ہیں اور ہر باب کا عنوان کسی نہ کسی مصرعے کو بنایا گیاہے۔ چونکہ خورشید ناظر کی اس کاوش کی بنیاد آنحضوؐر سے سراسر محبت و عقیدت کے جذبات ہیں، اس لیے یہاں شاعری کی فنی خوبیاں تلاش کرنا قرینِ انصاف نہ ہوگا مگر مصنف کی لگن اور محنت قابلِ داد ہے۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر کا فاضلانہ مقدمہ (۳۵صفحات) سیرت النبیؐ کے لٹریچر کا ایک جامع احاطہ پیش کرتا ہے۔]
  •  مسجد کے فضائل و احکام ، مولانا مفتی محمد ارشاد۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [مسجد کی تعمیر، صفائی، آبادی، آدابِ مسجد، عبادت کا طریقہ، خواتین اور مسجد، مسجد میں دعائیں، جوتا کیسے رکھیں، بچے مسجد میں، دنیاوی امور اور مسجدوغیرہ۔ غرض کتاب اسی طرح کے ۱۷۲ احادیثی موضوعات اور عنوانات پر مشتمل ہے۔ مرتب جون پور، یوپی، بھارت کے ایک عالم ہیں۔ جن کا خیال ہے کہ ’’موضوع کے متعلق ایسی جامع ترین کتاب شاید آپ [کہیں سے] نہ پا سکیں‘‘۔]
  • مسلمان خواتین کی دینی و علمی خدمات ، پروفیسر سید محمدسلیم۔ ناشر: زوار پبلی کیشنز، اے-۴/۱۷،   ناظم آباد ۴، کراچی ۷۴۶۰۰۔ فون: ۶۶۸۴۷۹۰۔ [مصنف مرحوم کی یہ نہایت مفید کتاب پہلی بار ربع صدی قبل شائع ہوئی۔ اب تیسری بار چھپی ہے۔ مصنف کی غرض یہ تھی کہ اسلامی تہذیب کی علَم بردار خواتین کے کردار و گفتار و اعمال کی ایک جھلک قدرے وسیع تناظر میں پیش کرے۔ عالمِ اسلام بشمول برعظیم میں علومِ قرآن، حدیث، فقہ، شعروادب، تاریخ، فلسفہ، ریاضی، خطاطی، زراعت، تجارت وغیرہ مختلف شعبوں کی ماہر خواتین کا دل چسپ تذکرہ ___ مختصر مگر جامع کاوش۔ آخر میں سید سلیمان ندوی کا مضمون ’خواتین اور جنگی تعلیم‘ شامل ہے۔]
  •  جنت کے پھول از گلدستۂ رسولؐ، تالیف:مفتی محمدمسلم منصوری۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات:۱۴۴۔ قیمت:۱۰۰ روپے۔ [زیرنظر ۴۰ احادیث کے مجموعے مرتب کرنے کی روایت کے تسلسل میں ’اربعین الاطفال‘ کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے۔ بچوں کے حوالے سے اس نوعیت کامجموعہ کہیں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔مؤلف نے ہر حدیث کی تخریج ، تشریح اوردیگر احادیث کاتذکرہ اورمستند حوالہ جات کااہتمام بھی کیا ہے۔ بچوں کے فرصت کے حوالے سے والدین کے لیے ایک مفید راہ نماکتاب تیار ہوگئی ہے۔]
  •  سرمایۂ اعتبار ،رئیس احمد نعمانی۔ ناشر: مرکز تحقیقات فارسی، کلچرل قونصلر، سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران، نئی دہلی۔ صفحات: ۱۸۶۔ قیمت: درج نہیں۔[علی گڑھ میں مقیم جناب رئیس نعمانی معروف ناقد اور فارسی شاعر اور متعدد کتابوں کے مؤلف ہیں۔ یہ ان کی منتخب فارسی شاعری (منظومات، غزلیات، تعزیتی نظمیں وغیرہ) کا مجموعہ ہے۔ اہلِ ذوق اور فارسی خواں استفادہ کرسکتے ہیں۔]
  •  نخل اُمید کا خوش رنگ ثمر ،ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر۔ ترتیب و تدوین: ڈاکٹر ممتاز عمر۔ ملنے کا پتا: ۴۷۵-ٹی، کورنگی نمبر۲، کراچی۔صفحات: ۱۳۸۔ قیمت: بلامعاوضہ۔ [مؤلف نے اپنے والد ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر کا     مجموعۂ کلام مرتب کیا ہے جو پختہ اور مقصدیت کا حامل ہے۔ منفرد لہجہ، روایتی شاعری سے مختلف ہے، ایک طرح سے آپ بیتی اور عصرحاضر کے ظلم و جبر کے خلاف چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔]

اسلام کا نظامِ سیاست و حکومت، مولانا عبدالباقی حقانی، مترجم، جلد اول: مولانا سید الامین انور حقانی، جلد دوم: مولانا شکیل احمد حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامع ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد نوشہرہ۔ صفحات: جلد اول: ۷۱۵۔ جلد دوم: ۸۳۱۔ قیمت: درج نہیں۔

مولانا عبدالباقی حقانی صاحب افغانستان میں طالبان کے دورِ حکومت میں اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ زیرنظر مفصل کتاب میں انھوں نے مغرب زدہ اور لادینی عناصر کے اس اعتراض کو دلائل کے ذریعے رفع کیاہے کہ یا تو اسلام کا کوئی سیاسی نظام ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو ماضی کے قصوں میں درج ہے۔ اس نقطۂ نظر سے کتاب لادینی عناصر کے لیے اعتراضات کا ایک عمدہ جواب فراہم کرتی ہے۔

کتاب اصلاً پشتو میں لکھی گئی ہے جس کا ترجمہ دو فاضل مترجمین نے اُردو میں کیا ہے۔ پہلی جلد میں جن موضوعات کو اٹھایا گیا ہے وہ یہ ہیں: اسلامی خلافت، معنی، اقسام، استخلاف، مترادف الفاظ، خلافت کے ثمرات، اسلامی آئین و قانون، قانونِ الٰہی کی خصوصیات پر سلف کے اقوال، مکارمِ اخلاق، اسلام کے عادلانہ نظامِ عدل کے مختلف پہلو، مساوات کی تعریف، اجتماعیت کے فوائد، اسلامی قانون کے ماخذ، فقہ اور سیاست، سیاست شرعیہ، سیاست کی اقسام، سلف اور علما کی نگاہ میں شریعت و سیاست کا تلازم، اسلامی دولت و حکومت، اسلامی امیر کے انتخاب کی شرائط اور اس پر علما کی مفصل آرا، امیر کی تقرری کا حکم، خلیفہ اور اس کے انتخاب کے طریقے، اہل حل وعقد کی صفات، امیر اور خلیفہ ایک ہی فرد ہو، اسلامی حکومت کی خصوصیات، حکومت کے عناصر، شوریٰ کا مفہوم، پارلیمان کی حیثیت اور اوصافِ ارکان، اسلامی حکومت کے اہداف، فوج اور سیاست، رعیت اور اس کی اقسام اور بحث کا خلاصہ۔

دوسری جلد میں جن مضامین سے بحث کی گئی ہے اس کی ایک جھلک یہ ہے: ادارے کا مفہوم اور اقسام، اسلامی ادارے کے سربراہ کی صفات اسلاف کے اقوال کی روشنی میں، تقویٰ، حق، عید، عدل، حیا ، علم، نظم، قوت، شجاعت، صبر، عفو ودرگزر، حفظ مراتب و وظائف کی تقسیم، توکل، مشورے کی اہمیت، استغنا، تواضع، ایثاروقربانی، جود وسخاوت، بلندہمتی، جواب دہی، شکر، خوش مزاجی، لباس میں سادگی، مروت۔ اسی طرح سلبی صفات پر تعقلی بحث ہے، مثلاً ظلم، جھوٹ، غصہ، حسد، کینہ، بدگمانی، بخل وغیرہ۔ اداروں کے لیے ذمہ داران کے انتخاب کی شرائط ان کے حقوق اور ذمہ داریاں، اسلامی اداروں میں کام کرنے والوں کے باہمی تعلقات، امیر کی ذمہ داریاں، وزرا کی ذمہ داریاں، معزولی اور اس کے اسباب ، استعفا اور اس کے اسباب وغیرہ۔

موضوعات کا تنوع ظاہر کررہا ہے کہ بات کو ضرورت سے زیادہ پھیلا دینے کے نتیجے میں اصل موضوع سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ اکثر موضوعات پر معروف مسلم مفکرین کے خیالات سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں بطورِ سندکے پیش کیا گیا ہے لیکن ڈیڑھ ہزار صفحات پر مبنی کتاب میں کسی ایک مقام پر، چاہے بطور تنقید و اختلاف، سید مودودی کا ذکر نہیں آنے پایا۔ تمام حسنِ ظن کے باوجود معروضی طور پر اسے مؤلف کی ’لاعلمی‘ ہی سمجھنا ہوگا اور اسے کتمانِ حق سے تعبیر نہیں کرنا پڑے گا۔

غیرضروری طوالت کے باوجود کتاب طالبان کے تصورِ حکومت و ریاست پر ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


داعی کامنصب حقیقی، حسن الہضیبی، مترجم:گل زادہ شیرپائو۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات:۳۶۰۔قیمت:۲۴۰روپے

استاذ حسن الہضیبی اخوان المسلمون مصر کے دوسرے مرشدعام تھے۔امام حسن البنا کی شہادت کے بعد اخوان المسلمون کے مرشدعام مقرر ہوئے۔مرشدعام کے طورپر ان کو اندرونی و بیرونی طور پر کئی چیلنجوں کاسامنا کرنا پڑا۔ ان کٹھن اورمشکل حالات میں انھوں نے نہایت دانش مندی اورحوصلے سے اخوان کی قیادت کی اوربحرانوں کامقابلہ کیا۔ انھوں نے اپنی کتاب دعاۃ الاقضاۃ میں ان حقیقی مسائل کاتذکرہ کیا ہے جو اس زمانے میں ان کو پیش آئے۔ زیرنظر، مذکورہ کتاب کاترجمہ ہے۔ کتاب کا نام داعی کامنصب زیادہ مناسب ہوتا۔

کتاب ایک خاص پس منظر میں لکھی گئی ہے ۔ مصر میں اخوان پر جس طرح ظلم وستم ڈھایا گیا، قریبی زمانے میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔اس کے نتیجے میںاخوانی نوجوانوں میں ردعمل پیدا ہوا اوروہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کلمۂ توحید کااقرار کرنے اورخدا اورآخرت کو ماننے والے دین اسلام کے پیرئووں پر اتنے ظلم وستم کیوں روا رکھے جاتے اوراتنی سخت سزائیں کیوں دی جاتی ہیں۔

کتاب کے ابتدائی مخاطبین اخوان کے وہ رفقا و کارکنان تھے جو ابتلا و آزمایش سے گزرے ۔ اس کتاب میں الہ، رب، عبادت، دین، کفروشرک، ارتداد، منافقت، حاکمیت الٰہی اور تقاضے،جہالت،خطا،اوراکراہ، طاغوت کا مفہوم اورفہم دین کا طریق کار کوموضوع بنایا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کا قیام ضرورت، تقاضے، اسلامی جماعت کی شرعی حیثیت، فرائض، حقوق، فرد کی  ذمہ داری اوراطاعتِ امر کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت،طریق کار اورقوت کا استعمال اورداعی دین کی ذمہ داریوں پر تفصیلی بحثیں موجود ہیںجن پر نہایت عمدگی کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا ہے۔ داعیان دین کے لیے یہ ایک اہم اورقیمتی دستاویز ہے۔ (عمران ظہور غازی)


اُردو کا دینی ادب، پروفیسر ہارون الرشید۔ ناشر: میڈیا گرافکس، ۹۹۷-اے، سیکٹر اے-۱۱، نارتھ کراچی-۷۵۸۵۰۔ فون: ۳۷۳۸۶۰۷-۰۳۳۳۔ صفحات: ۴۸۸۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب کے دیباچہ نگار اے خیام کے الفاظ میں: ’’اُردو کے جدید نثری ادب کا احاطہ کوئی آسان کام نہیں‘‘۔ پروفیسر ہارون الرشید نے (جو نیاز فتح پوری کے دینی افکار کے عنوان سے ایک قابلِ قدر کتاب لکھ چکے ہیں) جدید نثری ادب کی تاریخ لکھنے کے مشکل، نازک اور پیچیدہ کام میں ہاتھ ڈالا مگر اس ذمہ داری سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ نہیں ہوسکے۔ یہاں ہم پھر اے خیام کے الفاظ مستعار لیتے ہیں کہ اکثر کتابیں یا تو: ’’سرسری طور پر لکھی گئی ہیں یا پھر ایک سی باتیں دہرائی جاتی رہی ہیں۔ کچھ کتابیں ایسی بھی ملیں گی جن کے مرتبین نے تحقیق اور مطالعے کے بجاے محض تلخیص اور تقلید سے کام لیا ہے‘‘۔

مصنف کا زاویۂ نظر (تنقیدی جائزوں میں اخلاقیات اور ادیب کے ذہن کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے) تو قابلِ قدر ہے مگر ان کی فہرست میں اخلاقیات کے ممتاز علَم بردار افسانہ نگاروں (جیلانی بی اے، محمود فاروقی اور ابوالخطیب وغیرہ) کے نام نظر نہیں آتے۔ اسی طرح ’چند ممتاز   ناقد و محقق‘ کے زیرعنوان گیان چند، امتیاز علی خاں عرشی، ابن فرید، نجم الاسلام اور رشیدحسن خاں جیسے جید محقق و ناقد نظرانداز ہوگئے ہیں۔ ’چند ممتاز مصنفین‘ میں فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، مختارمسعود، شیخ منظورالٰہی، مشتاق احمد یوسفی اور رضا علی عابدی جیسے منفرد صاحبانِ اسلوب کا ذکر نہیں ملتا، البتہ بعض نام فقط نام لینے یا گنتی کی حد تک درج کردیے گئے ہیں۔ کتاب میں کہیں کہیں تکرار ہے اور کہیں معلومات میں کمی اور غلطی بھی۔ (ص ۹۳، ۱۱۹ وغیرہ)

مجموعی تاثر یہ بنتا ہے کہ ایک وسیع اور متنوع جہات والا موضوع، ہمارے محترم مؤرخ ادب کی گرفت میں نہیں آسکا، چنانچہ کتاب کا موجودہ معیار انٹرمیڈیٹ سطح سے اُوپر نہیں آسکا۔ بایں ہمہ یہ کتاب ہر درجے کے (بی اے اور ایم اے وغیرہ) طلبہ کے لیے یقینا اپنے اندر افادیت کا پہلو رکھتی ہے کیوں کہ خود بی اے اور ایم اے کا معیار بہت نیچے آگیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تجلیات رمضان، پروفیسر محمدالطاف طاہر اعوان۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: ۱۲۵ روپے۔

رمضان المبارک میں نیکیوں کی طرف رجحان فطری امر ہے۔ رجوع الی اللہ کے اس  موسم بہار میں استقبالِ رمضان کی روایت کو بھرپور انداز میں آگے بڑھانے میں خرم مراد مرحوم نے اہم کردار ادا کیا۔ تجلیاتِ رمضان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

یہ ان تقاریر کا مجموعہ ہے جو سالِ گذشتہ میں ریڈیو پاکستان سرگودھا کی سحری کی نشریات میں پورے ۳۰ روز (ایک گھنٹہ روزانہ) نشر ہوئیں۔ اب انھیں نظرثانی اور اضافوں کے بعد   کتابی صورت میں پیش کیا گیاہے۔ رمضان المبارک کے احکام و مسائل، برکات و فضائل،     ضبطِ نفس، یوم الفرقان، فتحِ مکہ، لیلۃ القدر، اعتکاف اور دیگر بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے اور قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور تاریخِ اسلام کے مستند حوالوں سے استشہاد کیا گیا ہے۔    اندازِ بیان مؤثر، عام فہم اور دل نشین ہے۔ نیکیوں کے موسمِ بہار میں یہ کتاب جہاں فرد کو عمل کے لیے تحریک دیتی ہے، وہاں رجوع الی اللہ اور ان بابرکت لمحات سے استفادے کے لیے ترغیب کاباعث بھی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)

تعارف کتب

  •  ۲۰۰ مشہور ضعیف احادیث ، حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ناشر: فقہ الحدیث پبلی کیشنز، لاہور۔ فون: ۴۲۰۶۱۹۹-۰۳۰۰۔ صفحات: ۹۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [۲۰۰ ایسی روایات جمع کی گئی ہیں جو معاشرے میں مشہور ہوچکی ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ ان روایات کو چار بڑے عنوانات کے تحت دیا گیا ہے: احادیث قدسیہ، ایمان سے متعلقہ روایات، عقائد سے متعلقہ روایات،اور علم سے متعلقہ روایات۔ حاشیے میں ان روایات کے بارے میں ائمہ محدثین کی تحقیق بھی پیش کی گئی ہے۔]
  •  چودھری علی احمدخاںؒ، مرتب:ڈاکٹر عبدالغنی فاروق۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی، منصورہ لاہور۔ صفحات:۸۰۔ قیمت:۶۰روپے۔[سید مودودیؒ کے قریبی رفیق کار چودھری علی احمدخاںؒ کایہ تذکرہ       ڈاکٹر عبدالغنی فاروق نے سید اسعد گیلانی مرحوم کی ترتیب دی ہوئی کتاب چودھری علی احمد خان سے اخذ کر کے اور ان کے چھوٹے بھائی چودھری غلام احمد سے معلومات حاصل کرکے مرتب کیا ہے۔   چودھری علی احمدخاں کی زندگی کارکنان تحریک کے لیے ایک قابلِ قدر مثال کادرجہ رکھتی ہے جس کامطالعہ   جذبہ و تحرک کاباعث ہے۔]
  •  حقوقِ انسانی (رپورٹ ۲۰۰۸ء) ، نگران: اخلاق احمد۔ ناشر: ہیومن رائٹس نیٹ ورک، سندھ چیپٹر، قباآڈیٹوریم، بلاک ۱۳، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۶۸۰۴۹۹۵-۰۲۱۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [ہیومن رائٹس نیٹ ورک سندھ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت حال کا گذشتہ برس کا جائزہ مختلف عنوانات: پارلیمنٹ و جمہوریت، قانون و عدالت، صحافت، صحت، تعلیم، پولیس مظالم، جیلوں کی حالت زار اور خواتین پر مظالم وغیرہ کے تحت پیش کیا ہے۔ امریکا، بھارت، کشمیر، عراق، افغانستان اور فلسطین کے اعداد و شمار الگ مرتب کیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے مسائل کا عکس دیکھ سکتے ہیں اور حل کے لیے راہیں بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ حوالہ جات کے اہتمام سے رپورٹ کی افادیت مزید بڑھ سکتی ہے۔]
  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا جرم کیا ہے؟  اکرم کمبوہ۔ ناشر: راحیل پبلی کیشنز، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۲۶۷۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔ [ڈاکٹر عافیہ صدیقی افغانستان کے بدنامِ زمانہ امریکی عقوبت خانے (بگرام جیل) میں پانچ سال محبوس رہنے کے بعد آج امریکی جیل میں مظالم کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ ان کے بارے میں ۵۸مضامین /کالموں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں جہاں ظالم کے وحشیانہ ہتھکنڈے نمایاں نظر آتے ہیں وہاں اُمت مسلمہ کی بے حسی اور اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کی بے حمیتی قابلِ افسوس ہے۔]

 

شاہکار انسائی کلوپیڈیا قرآنیات، (مع عالمی مذاہب) ،ادارت: سید قاسم محمود۔ ناشر:    شاہکار بک فائونڈیشن، ۳۵-بی، اقبال ایونیو، گرین ٹائون، لاہور- ۵۴۷۷۰۔ فون: ۵۹۴۵۴۲۹۔ قیمت: فی قسط: ۱۰۰ روپے، سالانہ رکنیت: ۱۰۰۰ روپے۔

قرآن کریم اور علوم القرآن سے اُمت مسلمہ کا تعلق یوں تو ہر دور میں نمایاں نظر آتا ہے جس کی ایک دلیل تفسیری ادب میں شاہکار تصانیف کا پایا جانا ہے۔ چنانچہ اسلام کے دورِ احیا میں صرف ۲۰ویں صدی میں ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی، یوسف علی، سیدابوالاعلیٰ مودودی،  مفتی محمد شفیع، سید قطب شہید اور محمداسد کی تفاسیر نہ صرف وجود میں آئیں بلکہ قبولیت عام حاصل کرنے کے بعد اُمت مسلمہ پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا ذریعہ بنیں۔ شاہکار انسائی کلوپیڈیا قرآنیات خود مدیراعلیٰ کے الفاظ میں تفسیر نہیں ہے، گو مضامین کی تیاری میں معتبر و مستند تفاسیر سے مدد لی گئی ہے۔ اس کی اصل خوبی سلیس اُردو میں اُردو اصطلاحات کی بنیاد پر قرآنیات سے متعلق مضامین پر مقالات کا یک جا کر دینا ہے۔ بعض مقالات معروف مسلمان مفکرین کی تحریرات سے اخذ کیے گئے ہیں اور اکثر اس مجموعے کے لیے لکھوائے گئے ہیں۔ ہر ماہ ایک قسط کی اشاعت کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اب تک چار اقساط شائع ہوچکی ہیں۔ پہلی قسط جنوری ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی تھی۔

مضامین میں خصوصی طور پر یہ خیال رکھا گیا ہے کہ مسلکی رنگ نہ آنے پائے۔ بعض مقالات مثلاً ’آثارِ قدیمہ‘ (ج ۱، ص ۱۹-۳۹)، ’آدم‘ (ص ۵۳ تا ۶۹)، ’آیات‘ (ج ۳، ص ۱۷۴ تا ۲۰۷)، ’ابراہیم‘ (ج ۳، ص ۲۱۵ تا ۲۳۲)، ’آفرینش‘ (ج ۳، ص ۱۲۹ تا ۱۳۹) دیگر مقالات کے مقابلے میں زیادہ تفصیلی ہیں، جب کہ دیگر مضامین میں مواد کی تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ بعض مضامین میں غیرضروری معلومات شامل کر دی گئی ہیں، مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد پر دوسری جلد میں قرآنیات کے حوالے سے ان کی خدمات پر معلومات کے ساتھ ساتھ بہت سی غیر ضروری تفصیلات کا لانا مناسب نہ تھا۔ اسی طرح بعض ایسے مضامین جن کا براہِ راست تعلق قرآنیات سے نہیں بنتا، ان کی شمولیت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، مثلاً آستر (Esther) پر مقالہ یا آسٹریلیا کے اصلی باشندوں پر مقالہ (ص ۱۱۲ تا ۱۱۶، ج ۲) براہِ راست موضوع سے مناسبت نہیں رکھتے۔ اسی طرح جلداول میں آچاریہ شنکر پر مقالہ (ص۴۱ )، پر آخش پر مختصر نوٹ (ص ۴۸) غیرضروری محسوس ہوتا ہے۔ گو    یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قرآنیات کی اس انسائی کلوپیڈیا میں قوسین میں (عالمی مذاہب) کو    بھی شامل کیا گیا ہے، اس بنا پر یہ معلومات درج کر دی گئی ہیں، مثلاً جلد اول میں آریہ مذہب پر (ص ۷۷ تا ۸۰) ایک مقالہ شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کا بنیادی موضوع چونکہ قرآنیات ہے اس لیے بہتر ہوتا کہ مدیراعلیٰ عالمی مذاہب پر ایک الگ انسائی کلوپیڈیا مرتب فرماتے اور قرآنیات کو قرآن کریم سے متعلق مضامین تک ہی محدود رکھا جاتا۔ اس طرح قرآنیات پر زیادہ مقالات کی گنجایش نکل آتی، اور بعض مختصر نوٹ بڑھ کر باقاعدہ مقالات کی شکل میں آجاتے۔

قرآنیات پر یہ تعارفی سلسلہ اُردو خواں حضرات کے لیے بہت مفید ہے لیکن گذشتہ پانچ دہائیوں میں جس تیزی کے ساتھ اُردو فہمی میں پاکستان میں زوال پیدا ہوا ہے، اس کے پیش نظر   یہ معلومات اگر سادہ انگریزی میں بھی آجاتیں تو ہمارے نوجوان طلبہ کے لیے بہت مفید ہوتیں۔

محترم سید قاسم محمود اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت شاہکار انسائی کلوپیڈیا اسلام اور شاہکارانسائی کلوپیڈیا پاکستان جیسی وقیع کتب ہیں۔ گو شاہکار انسائی کلوپیڈیا فلکیات اور سیرت النبیؐ ابھی منظرعام پر نہیں آسکیں لیکن اب تک جو کام تنہا سیدصاحب نے کیا ہے، وہ انتہائی قابلِ تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس سلسلے کو مکمل کرنے کی توفیق دے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


ہجرت کا اسلامی تصور، حمیدنسیم رفیع آبادی۔ ناشر: مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۲۵۶۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

ہجرت کی اصطلاح اپنے گھربار، وطن، ملک، علاقے اور شہر کو اللہ کے راستے میں چھوڑ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے، تاہم اس کا لغوی مفہوم کسی جگہ یا مقام سے دوسری جگہ نقل مکانی ہے۔ قرآن و حدیث نبویؐ کی رُو سے ہجرت کا تقاضا ہے کہ انسان نفس کی بے جا خواہشات ناپسندیدہ اور بُرے اخلاق اور عاداتِ بد سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ نبیؐ مہرباں کا فرمان ہے: مہاجر وہ ہے جو شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے۔

زیرنظر کتاب کو اپنی نوعیت کی منفرد کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے حمیدنسیم رفیع آبادی مولانا جلال الدین عمری کے تلمیذ رشید اور شعبۂ فلسفہ مسلم یونی ورسٹی کے ریسرچ فیلو رہے۔ ہجرت کا اسلامی تصور میں قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تصورِہجرت کے مختلف پہلوئوں (ہجرت کے مختلف معانی و مفاہیم، مراحل، مقاصد، وجوب اور فلسفے) کو خوب صورت اسلوب اور پیرایۂ بیان میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے ہجرت کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ساتھ غنیمت، خمس، وراثت اور دیگر مسائل وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔

ڈاکٹر حیات عامر نے اپنے مدلل و مفصل اور وقیع مقدمے میں موضوع کا بھرپور احاطہ کیا ہے جس نے کتاب کی افادیت دوچند کر دی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر سیدمطلوب حسین کا فکرانگیز مضمون ’واقعۂ ہجرت کی عالم گیر اہمیت‘ اور مولانا عبدالرحمن پرداز اصلاحی کا ’ہجرت کے بارے میں مستشرقین کا موقف‘ کے عنوان سے مستشرقین کے رکیک جملوں کے جواب پر مبنی مشتمل مضمون بھی شاملِ کتاب ہے۔ آخر میں مآخذ بھی درج ہیں۔ ہجرت کے موضوع پر اتنا وقیع اور مفصل مواد یک جا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ پروف خوانی احتیاط سے کی گئی ہے۔ معیارِ طباعت بھی اطمینان بخش ہے۔ اس طرح کتاب حسن صوری و معنوی کا عمدہ نمونہ ہے۔ (عمران ظہورغازی)


مجلہ ’صحیفہ‘ ۱۸۵۷ء نمبر، مجلس ترقی ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔

مجلسِ ترقیِ ادب لاہور کے تحقیقی و تنقیدی صحیفہ کی تازہ اشاعت جنگ ِ آزادی ۱۸۵۷ء سے متعلق ہے۔ یہ شمارہ جنگ ِ آزادی کے ایک سو پچاس سال مکمل ہونے پر قدرے تاخیر سے شائع ہوا ہے۔ اس میں ۱۸۵۷ء کا پس منظر و پیش منظر، حالات و واقعات، شخصیات، فکرونظر، تاریخی و ادبی مآخذ، نوادر کے علاوہ موضوعات پر معروف اہلِ علم کے مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ معین الدین عقیل نے ’جنگ ِ آزادی، اسباب و نتائج‘ کے عنوان سے ۱۸۵۷ء سے قبل اور مابعد پیش آمدہ واقعات کا تجزیہ کیا ہے اور اُن محرکات کی نشان دہی ہے جو اس صورت حال کا موجب بنے۔ عقیل صاحب کا ایک اور مضمون ’سوانح افسری‘ کے تعارف پر مبنی ہے۔ ’سوانحِ افسری‘ ۱۸۵۷ء کا ایک غیرمعروف مآخذ پر آپ بیتی حیدرآباد دکن کی فوج کے ایک مسلمان افسر کی ہے جو ۱۸۵۷ء اور بعدازاں انگریزی افواج کی اعانت کا مرتکب ہوتا رہا۔

ڈاکٹر محمدسلیم اختر نے مختلف تواریخ اور انگریز افسروں کی یادداشتوں کی مدد سے ’موجودہ پاکستان علاقوں کا جنگ ِ آزادی میں کردار‘ کے موضوع پر مضمون لکھا ہے جو ۱۸۵۷ء کے دوران  اِن علاقوں کی صورتِ احوال پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسی طرح غلام شبیر رانا کے مضمون بعنوان ’تاجر سے تاج ور تک‘ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے تناظر میں، میں انگریز تاجروں کے اُن حیلے بہانوں، جارحانہ ہتھکنڈوں اور ظالمانہ حربوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو انھوں نے اپنے قیام ہندستان کے دوران اہلِ ہندستان سے روا رکھے۔

نوادرات کے گوشے میں مرہٹوں کے اُس وقت کے پیشوا نانا فرنویس کا ایک اُردو اشتہار خاصے کی چیز ہے جس میں ہندوستان کے باشندوں کو غاصب انگریزوں کے خلاف بغاوت پر اُکسایا گیا ہے۔ یہ اشتہار ۶؍جولائی ۱۸۵۷ء کو شائع کیا گیا تھا۔ اسی گوشے میں اختر حسین راے پوری کی ایک ہندی تحریر کا ترجمہ (از خالد ندیم) شامل ہے جس میں بہادرشاہ ظفر اور اُن کے بچے کھچے خاندان کی اُس حالت کا نقشہ بعداز تحقیق کھینچا گیا ہے جو انقلاب ۱۸۵۷ء کے نتیجے پر اس گھرانے کے رنگون آنے کے بعد رہی۔ اسی حصے میں ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی نے مدرسہ عبدالرب، دہلی کی ایک اپیل کو (جو ۱۸۵۷ء کے پس منظر میں ہے) مع عکس پہلی مرتبہ پیش کیا ہے۔

۱۸۵۷ء اور شخصیات کے گوشے میں ’غالب، تحریکِ مجاہدین اور ۱۸۵۷ء‘ کے موضوع پر خالد امین کا مضمون نئی معلومات فراہم کرتا ہے اگرچہ اس کے کچھ مندرجات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ’محمدحسین آزاد اور ۱۸۵۷ء‘ از رفاقت علی شاہد بھی اُس عہد کے ایک بڑے ادیب اور ہنگامِ انقلاب کے اُن پر اثر کو واضح کرتا ہے۔

ایک گوشے میں معروف محقق خلیل الرحمن دائودی کی ۱۸۵۷ء سے متعلق تحریروں کو یک جا کیا گیا ہے۔ یہ تحریریں اُس دور کے حالات و واقعات اور مختلف اشخاص پر اجمالی نظر ڈالتی نظر آتی ہیں۔ ’رفتارِ ادب‘ صحیفہ کا مستقل سلسلہ ہے۔ اس میں جنگ ِ آزادی سے متعلق شائع شدہ کتب پر تبصرے کیے گئے ہیں۔ آخر میں ۱۸۵۷ء پر مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور کی مطبوعات سے جو اقتباسات پیش کیے گئے ہیں، وہ اپنے اپنے موضوعات پر مکمل مضامین ہیں، مثلاً: ’ جنگ ِ آزادی اور ادب‘، ’جنگ ِ آزادی اور پُرشکوہ آبادی‘ اور ’دہلی میں اٹھارہ سوستاون‘ وغیرہ۔

اپنے مشمولات کے اعتبار سے صحیفہ کا یہ خاص شمارہ تاریخِ برعظیم کے ایک نہایت  اہم ترین واقعے کی اہم دستاویز قرار دیا جاسکتا ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)


انتظارِ انقلاب (نظامِ تعلیم کے تناظر میں)، ابوحفصہ عبدالحلیم۔ ناشر: اقرا کتاب گھر، ضیاء الحق کالونی، گلشن اقبال، بلاک I، کراچی۔ صفحات: ۳۱۹۔ قیمت (مجلد): ۱۵۰ روپے۔

نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود، پاکستان جیسی نظریاتی مملکت میں وہ نظامِ تعلیم نافذ نہ ہوسکا جو ایک طرف ہمارے نظریاتی تقاضے پورے کرتا، نئی نسل میں اسلامی فکروشعور کی آبیاری کرتا اور دوسری طرف یہاں کے باشندوں کو ذمہ دار اور بااصول شہری بناتا۔ ایسا کیوں نہ ہوا؟ زیرتبصرہ کتاب میں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تعلیم سے متعلق اہم مباحث کو زیربحث لایا گیا ہے۔ ذریعۂ تعلیم کے بارے میں مختلف دانش وروں کی آرا دی گئی ہیں اور قدیم و جدید ماہرینِ تعلیم کے افکار سے جگہ جگہ استدلال کیا گیا ہے۔ اسلامی نظامِ تعلیم، اس کی بنیادیں اور عملی خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ مغربی نظامِ تعلیم کا پس منظر، اہداف اور اس کے معاشرے پر مضر اثرات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مغربی نظامِ تعلیم اور اسلامی نظامِ تعلیم کا تقابل بھی کیا گیا ہے۔ تعلیمِ نسواں کو الگ سے موضوع بنایا گیا ہے اور خواتین کے لیے مردوں سے الگ نصاب کی سفارش کی گئی ہے۔ ایک باب میں دینی مدارس کے بارے میں پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات کو دُور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، نیز علماے کرام اور مدارس کے حقیقی کردار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ تجویز کیا گیا ہے کہ نصابِ تعلیم دینی اور سائنسی تعلیم کا امتزاج ہونا چاہیے اور غوروفکر اور تدبر کی دعوت پر مبنی ہونا چاہیے۔ جدید افکارونظریات، جدید ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے مضر اثرات کے جائزے کے بعد انھیں اپناتے ہوئے محتاط رویے کی ضرورت ہے۔

مصنف نے خلوصِ دل سے توجہ دلائی ہے کہ تعلیمی انقلاب رجوع الی اللہ اور فوری جدوجہد کا متقاضی ہے، اور جب تک نظامِ تعلیم صحیح خطوط پر استوار نہیں ہوتا انتظارِ انقلاب، کارِ عبث ہے۔ فہرست مآخذ سے کتاب کی وقعت اور جامعیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ (امجدعباسی)


ساجدہ زبیری، کچھ یادیں، کچھ باتیں، مرتبہ: عابدہ عبدالخالق۔ ناشر: ایڈوائس بک کلب، جیل روڈ، لاہور۔فون: ۴۵۰۰۹۶۱-۰۳۲۲ ۔ صفحات: ۳۱۳۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

دنیاے فانی سے رخصت ہونے والوں کو یاد کرنا، خصوصاً ان کی نیکیوں کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار اور ان کی خدمات کو بطور مثال پیش کرنا ایک مستحسن روایت ہے۔

زیرنظر کتاب، تحریک اسلامی سے وابستہ ایک ایسی خاتون کے سوانح اور خدمات کا تذکرہ ہے جو اپنی دینی اور اسلامی خدمات کی بنا پر مدتوں یاد رکھی جائیں گی۔ کتاب میں شامل ان کے والدین، بہن بھائیوں، زوجِ محترم، سسرالی رشتہ داروں، اساتذہ کرام، سہیلیوں اور جملہ احباب، واقفانِ حال بلکہ ملازمین سبھی کی تحریریں اس امر کی شاہد ہیں کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ ان کا ہر ایک سے بھرپور تعلق تھا۔ وہ حقوق و فرائض کی انجام دہی میں ایک توازن کے ساتھ عہدہ برآ ہوتی رہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو تحریک کے کام کو ’اپنا کام‘ جان کر پوری تن دہی اور لگن سے مصروفِ عمل رہتے ہیں اور صحت کی خرابی یا دیگر عذرات کی بنا پر اپنی راہیں کھوٹی نہیں کرتے۔

حلقہ ہاے درس کو چلانے کا معاملہ ہو، بیرونی روابط کا مسئلہ ہو، گھریلو امور، مہمان نوازی اور رشتہ داریاں نبھانے کی ذمہ داری ہو، ساجدہ زبیری ہر کام کو اعلیٰ معیار پر انجام دینے کی قائل تھیں۔ ان کا کوئی بھی کام سرسری اور رسمی یا خانہ پُری کی خاطر نہ ہوتا تھا۔ ان کی اس خوبی پر بہت سوں نے اس کتاب میں گواہی دی ہے۔ ساجدہ نے بیماری کا ایک طویل عرصہ جس صبر واستقلال سے گزارا، وہ بھی مثالی ہے۔

کتاب میں شامل ساجدہ زبیری کے نو نثرپارے ان کے ادبی ذوق کے غماز ہیں۔ عنوانات مختلف ہیں، مگر ہر ایک میں نظریاتی رچائو موجود ہے، اور ان کے حسِ مزاح کی جھلک بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔

اس کتاب کی مرتب اور ساجدہ زبیری کی خواہر عابدہ عبدالخالق لکھتی ہیں: ’’اس کتاب کی اشاعت کا مقصد شخصیت پرستی کے کسی جذبے کی تسکین نہیں، اس کاوش کا مقصد اپنے اردگرد کے ماحول میں کمزور ہوتے ہوئے خاندانی نظام اور معدوم ہوتی ہوئی اعلیٰ انسانی قدروں کو پھر سے تقویت دینا ہے۔ انسانیت کے گم گشتہ سچے جذبوں کو پھر سے پا لینے کی کوشش کرنا ہے‘‘۔ (ص۶-۷)

اس اعتبار سے یہ کتاب اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے اور قارئین بالخصوص خواتین کے لیے ایک گراں بہا تحفہ ہے۔ معیارِ طباعت نہایت عمدہ ہے۔ سرورق سادہ اور جاذبِ نظر ہے۔ (زبیدہ جبیں)


دین و دنیا کی خوش حالی کیسے حاصل ہو؟ جمال الدین عبدالرحمن ابن جوزی، ترجمہ: محمدارشاد القاسمی۔ ناشر: زم زم پبلی کیشنز، شاہ زیب سنٹر، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۲۰۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

علامہ ابن جوزی (۵۰۸ھ-۵۹۷ھ) کی کتاب کتاب البر والصِّلۃ کا ترجمہ ہے۔ ابن جوزی مقدمے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے زمانے کے نوعمروں کو دیکھا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی جانب متوجہ نہیں ہوتے، نیز اعزہ و اقربا سے تعلقات کو توڑتے ہیں جن کو اللہ پاک نے جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے مال سے غریبوں اور فقیروں کی مدد اور ان کے ساتھ غم خواری سے اِعراض کرتے ہیں۔

یہی اس کتاب کے موضوعات ہیں۔ اس میں والدین کی خدمت، رشتہ داروں کے ساتھ روابط، لوگوں کے ساتھ باہمی تعاون اور معاشرتی نیکی و بھلائی اور خیرخواہی کا مفصل بیان ہوا ہے اور ان امور سے غفلت پر دونوں جہاں کی خسارے کی وعید سنائی گئی ہے۔ کُل۵۴ ابواب میں سے ۱۸باب صرف والدین کے موضوع پر ہیں۔ ہر موضوع سے متعلق احادیث بیان کر کے حکم نکالا گیا ہے۔

ہم مسلمانوں کا مسئلہ آج کل علم کی کمی کا نہیںہے بلکہ سب کچھ جانتے ہوئے عمل نہ کرنے کا اور اس کے لیے جواز اور بہانے تلاش کرنے کا ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک جامع تصنیف ہے۔ ابن جوزی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روزانہ کچھ نہ کچھ لکھتے تھے اور اس طرح انھوں نے ۲ہزار کتابیں لکھی ہیں۔ کتاب میں ان کے مفصل حالات بھی ملتے ہیں۔ (مسلم سجاد)

تعارف کتب

  •  امام لاہوری کے رسائل ، مرتبہ: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، خالق آباد، ضلع نوشہرہ (سرحد)۔ صفحات: ۳۳۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [مولانا احمدعلی لاہوری مرحوم و مغفور نے طویل عرصے تک قرآن کی تدریس اور اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لیے اندرون لاہور میں خدمات انجام دیں۔ اس ضمن میں نہ صرف وعظ و تلقین سے کام لیا، بلکہ ایک گراں قدر تحریری ورثہ بھی چھوڑا جس میں اسلام کی حقانیت اور جملہ مسائل ومعاملات پر رہنمائی موجود ہے۔ مولانا احمد علی مرحوم کے ان رسائل کو کتابچوں کی صورت میں صدیقی ٹرسٹ کراچی نے شائع کیا تھا۔ یہ کتابچے اس مجموعے میں یک جا پیش کر دیے گئے ہیں، جن میں مختلف مسائل کو اختصار کے ساتھ قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔]
  •   Islam and Service for Mankind، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی، بھارت۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۱۱۰ روپے بھارتی۔ [فی زمانہ خدمت کا تصور بھی وسیع ہوگیا ہے۔ عالمی پیمانے پر بڑی بڑی انجمنیں بڑے بڑے بجٹوں کے ساتھ خدمتِ خلق کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ اسلام میں خدمتِ خلق کا بہت جامع اور وسیع تصور موجود ہے۔ اس کتاب میں خدمتِ خلق کے تمام پہلو سیرحاصل انداز سے بیان کیے گئے ہیں۔ انفرادی و اجتماعی دائروں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ دین کا یہ تصور معاشرے میں رائج ہو تو خیروبرکت کا باعث ہو۔ کتاب اُردو میں اسلام میں خدمت کا تصور کے نام سے پہلے شائع ہوچکی ہے۔ (مفصل تبصرہ، ترجمان القرآن، فروری ۲۰۰۷ء)۔]
  •   اکلوتا فرزند ذبیح: اسحق ؑ یا اسمٰعیل ؑ ، عبدالستار غوری، ڈاکٹر احسان الرحمن غوری۔ اُردو ترجمہ: عثمان سبحان غوری، ڈاکٹر احسان الرحمن غوری۔ ناشر: المورد، ۵۱-کے، ماڈل ٹائون، لاہور۔ [مصنّفین نے ثابت کردیا ہے کہ  ’ذبیح‘ فی الواقع حضرت اسماعیل ؑ ہی تھے (انگریزی کتاب پر تفصیلی تبصرے کے لیے دیکھیے: ترجمان القرآن، نومبر ۲۰۰۸ء)۔]
  •   کھلتی کلیاں، مہکتے پھول ، فرید بروہی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارفِ اسلامی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۷۱۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ [’بچیوں کی تربیت، ایک نسل کی تربیت‘ کے مصداق خصوصی توجہ کی متقاضی ہے۔ نوعمر بچیوں کے لیے کہانی اور گفتگو کے خوب صورت اور دل چسپ پیرایے میں اخلاق و کردار کو سنوارنے، شخصیت سازی اور روزمرہ آداب سکھانے کے لیے مفید کہانیاں۔]

 

قرآنی اُردو (اشتقاقی انسائیکلوپیڈیا)، لیفٹیننٹ کرنل (ر) عاشق حسین۔ ناشر: بک کارنر، مین بازار، جہلم۔فون (مؤلف) : ۷۷۴۹۶۰۷-۰۳۲۱۔ صفحات: ۴۰۵۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

مصنف اگرچہ عربی کے اسکالر نہیں، اس کے باوجود انھوں نے ایک نہایت دل چسپ، مفید اور معلومات افزا کام انجام دیا ہے (اس کی توقع کسی عربی زبان کے محقق سے ہی کی جاسکتی تھی)۔ کتاب کا ضمنی عنوان ہے: ’’اُردو میں مستعمل قرآنی الفاظ کے بارے میں لسانی و ادبی تحقیق ۲۰۰۰ سے زائد منتخب اُردو اشعار کے حوالہ جات کے ساتھ‘‘، مگر اس سے پوری طرح اندازہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کس نوعیت کی کتاب ہے۔ مصنف نے ثابت کیا ہے کہ اُردو زبان اپنی اصل میں قرآنی زبان ہے۔ اس کتاب میں قرآن حکیم کے تقریباً ۱۲۰۰ ایسے لفظی مادّوں [بنیادی مصادر] کو حروفِ تہجی کی ترتیب سے لکھا گیا ہے جو اُردو میں مستعمل ہیں۔ پھر ہرمادے سے ماخوذ اُردو الفاظ کی نشان دہی کرکے بطور حوالہ ایسے دستیاب اُردو اشعار بھی درج کیے گئے ہیں جن میں وہ الفاظ (اصل یا ماخوذ حالت میں) استعمال ہوئے ہیں۔ (ص ۱۵)

یہ اُردو زبان کا ایک مطالعہ ہے جو مؤلف کے ذاتی ذوق و شوق اور دل چسپی کا نتیجہ ہے  اور ان کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اُردو زبان ادب میں بالواسطہ یا بلاواسطہ استعمال ہونے والے ۹۴فی صد الفاظ قرآنی (قرآن سے ماخوذ) ہیں۔ اس بنا پر وہ کہتے ہیں کہ اُردو دان طبقے کے لیے قرآن حکیم کے مطالب کو سمجھنا نہایت آسان ہے۔

مقدمے میں (ص ۲۲ تا ۳۳) انھوں نے اپنی تحقیق کا پس منظر، طریق کار اور اپنے موقف کی تائید میں مختلف پہلوئوں سے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، جو بجاے خود تعلیمی اور معلوماتی لحاظ سے قابلِ قدر ہیں، مثلاً بتایا ہے کہ اُردو محاورات کی بہت بڑی تعداد قرآنی تصورات سے ماخوذ ہے جیسے ’پلک جھپکنے کی دیر میں‘ کلمحِ البَصَرِ سے، ’دل کا اندھا ہونا‘ تَعْمَی الْقُلُوْب سے اور ’کفِ افسوس ملنا‘ فَاَصْبَحَ یَقَلِّبُ کَفّیْہِ سے ماخوذ ہے۔ بعض محاورات تو براہِ راست قرآن سے اخذ کیے گئے ہیں، جیسے: اناللہ پڑھنا، الم نشرح ہونا، طوعاًکرھاً، قیل و قال کرنا وغیرہ۔ اسی طرح بہت سی تلمیحات اور علامتی تراکیب بھی قرآن سے لی گئی ہیں جیسے برادرانِ یوسف، صبرِایوب، یدبیضا وغیرہ۔ امدادی افعال اور حروفِ جار وغیرہ بھی اُردو کی بہت سی خوب صورت تراکیب کو   وجود میں لانے کا باعث ہوئے ہیں، جیسے: علی الاعلان، من و عن، لیت و لعل کرنا، فی الحال وغیرہ۔ مزید برآں بعض قرآنی الفاظ قرآنی تلفظ کے ساتھ مستعمل ہیں، مگر اُردو میں آکر ان کے معنی تبدیل ہوگئے ہیں۔ بعض قرآنی الفاظ اُردو میں کثیرالمعانی ہوگئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

مؤلف نے پیش نظر تحقیقی کام بڑی توجہ ، محنت اور دل کی لگن کے ساتھ انجام دیا ہے۔ ان کا اُردو ادب کا مطالعہ بھی قابلِ رشک ہے۔ آخر میں اُردو میں غیرمستعمل قرآنی الفاظ کی ایک فہرست شامل کر دی ہے۔ مؤلف کا یہ اندازہ قرین قیاس ہے کہ مستقبل قریب میں اُردو پر انگریزی زبان کے اثرات تیزی سے مرتب ہوں گے اور اُردو، انگریزی تہذیب و زبان سے بڑی حد تک مغلوب ہوگی  مگر اپنے مذہبی اور تہذیبی ورثے سے دست بردار نہیں ہوگی، ان شاء اللہ (رفیع الدین ہاشمی)


Slippery Stone: An Enquiry into Islam's Stance on Music ، [پھسلواں پتھر: موسیقی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر پر ایک تحقیق]،  خالدبیگ۔ ناشر: اوپن مائنڈ پریس، گارڈن، گروو (Grove)، کیلی فورنیا، امریکا۔ صفحات:۳۶۱۔ قیمت: درج نہیں۔

مذہب اور مناجات، دیدہ اور نادیدہ خدا اور دیوتائوں کے حضور عجز و عاجزی، خوب صورت آواز اور آہنگ میں دعا اور جذبات کا اظہار، غالباً انسان کی سرشت میں داخل ہیں کہ ہرمذہب میں اس کے نشان اور شواہد ملتے ہیں۔ نغمہ دائودی سے لے کر راج کماری میرا کے بھجن تک، عرضِ مُدعا کے لیے انسانوں نے اپنی سوچ اور صلاحیت کے مطابق خوب سے خوب تر اظہار کے لیے ہمیشہ کوشش کی ہے۔ لیکن وہ موسیقی جو انسان اپنی آواز اور آلات سے پیدا کر رہا ہے، خواہ وہ مذہبی ہو یا ’غیرمذہبی‘ اور خالصتاً ’طربیہ‘ اور تفریحی، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

مصنف کہتے ہیں کہ ہم گاڑیوں، مشینوں اور کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں اور آلودگی کے خلاف بہت کچھ کہتے اور سنتے ہیں، لیکن اس شور پر کم ہی توجہ دیتے ہیں، جو غِنا اور موسیقی کی مشینوں نے برپا کر رکھا ہے۔ آج یہ موسیقی ہمارے نظامِ اعصاب، جسم اور سب سے اہم یہ کہ ہماری روح کو کس طرح برباد کر رہی ہے، کم ہی لوگ اس کا شعور رکھتے ہیں۔ آج کے مقبول ’مسلم میوزیکل گروپوں‘ سے لے کر پیشہ ور اور غیرپیشہ ور کلاسیکی اور جدید طائفوں تک اور انفرادی فن کار سبھی اس ’کارِطرب انگیز‘ میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

محترم خالد بیگ نے غنا اور موسیقی اور اُن کی تمام صورتوں اور ہیئتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، اور قرآن پاک کی تعلیمات، احادیث مبارکہ اور علما کے نقطۂ نظر کا بڑی محنت اور دقّتِ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ کتاب تین اجزا پر مشتمل ہے۔ وہ قبلِ اسلام کی شاعری، اور پھر عرب شاعری پر اسلام کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسلام نے کس طرح کی شاعری کی اجازت دی، اور کس طرح کی شاعری کو رد کیا۔ اگرچہ موسیقی، مسلم دورِ حکمرانی میں بھی باقی رہی، لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں اُسے کیا مقام دیا گیا اور مسلم علما کی اس سلسلے میں کیا راے رہی ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ ۱۸ویں/ ۱۹ویں صدی عیسوی میں مسلم ممالک پر یورپی اقوام کے غلبے اور نوآبادیاتی تسلط کے بعد ہمارے ہاں اس سلسلے میں گراموفون، ریڈیو، فلم اور ٹیلی وژن اور پھر میوزک وڈیوز، انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے جو جوہری تبدیلی واقع ہوئی، ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم دنیا میں مغرب سے آئی ہوئی جدید فنّیات (modern  technologies) کو جس طرح بلاسوچے سمجھے بے تکلفی سے قبول کرلیا گیا ہے، اس نے ہمارے معاشرے پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پھر مستشرقین اور ہمارے مؤرخین نے ماضی میں موسیقی اور غنا کے سلسلے میں ہمارے اسلاف کے کارناموں کو جس فخریہ انداز سے پیش کیا ہے، اس سے بھی ہمارے نوجوانوں میں اس کے لیے پذیرائی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ ہمارے بعض صوفیہ (اور علما) نے سماع کے جواز کے جو فتوے دیے ہیں، انھیں بھی بلاتنقید قبول کرلیا گیا ہے۔ حالانکہ ابن حزم اور طاہرالمقدسی (جن کی راے پہ انحصار کر کے جامعہ الازہر کے مفتیوں نے سماع اور ملاحی کے جواز کا فتویٰ دیا) کی راے سے نہ صرف اہلِ سنت کے چاروں مکاتبِ فکر (مالکی، حنفی، شافعی اور حنبلی) بلکہ سلفی اور شیعہ بھی اختلاف کرتے ہیں، اور موسیقی اور سماع کو   درست نہیں گردانتے۔ اگرچہ مصنف نے ان کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن صوفیہ میں شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) اور نقش بندی مکتب ِ فکر کے تمام صوفیہ، موسیقی، وجد، حال اور اس طرح کے تمام اشغال کو سختی سے رد کرتے ہیں۔

موسیقی، غنا، لہوولعب، وقت ضائع کرنے والے فضول مشاغل اور ناروا، ناپسندیدہ تفریحات کے سلسلے میں قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور صحابہ کرامؓ کے اقوال اور رویوں کی تفصیلات ۳ ابواب میں بڑی محنت سے جمع کی گئی ہیں۔

موسیقی کے حوالے سے آج مسلم دنیا کی کیا کیفیت ہے؟ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے عرب دنیا پر حملہ کیا، تو مصری افواج کے افسر اور سپاہی اُم کلثوم کے غنا میں مدہوش تھے۔ ۲۰ویں صدی کے اواخر اور ۲۱ویں صدی میں اسلام کے خلاف نضر بن الحارث (وہ دشمن اسلام، جس نے قرآن اور اسلام سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے مکہ میںگانے والی کنیزوں کی خدمات حاصل کی تھیں) کی حکمت عملی کو سلیقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لاکھوں برقی آلات، ۲۴ گھنٹے عوامی کلچر کے نام پر ایک یلغارِ بے اماں میں مصروف ہیں، اور ان میں ’دینی اور مذہبی‘ ادارے بھی شریکِ کار ہیں۔ لوئی لامیہ ابسن الفاروقی (Lois Lamya Ibsen) ایک امریکی موسیقار جو مسلمان ہوگئی___ ’ہندسۃ الصوت‘ کے نام سے لحنِ قرانی، مذہبی نشید (قوالی)، اختلافی شعرو موسیقی، جنگی ترانوں اور گھریلو تقریبات کی موسیقی سے لے کر ناپسندیدہ ہیجانی جذباتی موسیقی تک، اس ’فن‘ کو ۱۰درجات پر استوار کر کے فروغ دیتی ہیں اور ساری دنیا میں موسیقی کی تعلیم کو عام کرنے کی وکالت کرتی ہیں۔ مصنف نے اس رجحان کا سختی سے (درست طور پر) محاکمہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسیقی کا مسئلہ، محض ایک علمی بحث نہیں، بلکہ اس پُرآشوب دور میں اسلام اور مسلمانوں کی صحت کے ساتھ بقا کا مسئلہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی دانائی کی بات کی ہے کہ حلال و حرام تو واضح ہیں، لیکن ان کے درمیان مشتبہات ہیں۔ اکثر لوگوں کو اُن کی حیثیت کا علم نہیں، پس جس نے ان مشتبہات (مشکوک اُمور) سے پرہیز کیا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچالیا۔ اور وہ جو اِن مشکوک اُمور میں مبتلا ہوگیا، وہ اُس چرواہے کی طرح ہے، جو اپنے جانور کسی نجی چراگاہ کے آس پاس چرا رہا ہے۔ کسی بھی لمحے اِس کا امکان ہے کہ وہ اِس چراگاہ میں داخل ہوجائے۔ خبردار! ہربادشاہ کی ایک نجی چراگاہ ہے۔ خبردار! اللہ کا ممنوعہ علاقہ وہ زمین ہے جس میں داخل ہونے سے اُس نے روکا ہے‘‘۔

انگریزی زبان میں یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد دستاویز ہے، جس میں قرآنِ مجید، احادیث، فقہا اور جدید علوم کے ماہرین کی آرا کے ۶۰۰ سے زیادہ حوالے، اور ۱۰۰ سے زیادہ سوانحی نوٹ، نیز وسیع کتابیات شامل ہیں۔ اس کتاب کو ہماری جامعات، اور نوجوانوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کتب خانوں میں ضرور رکھا جاناچاہیے۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


امریکی مکاریوں کی تاریخ، جان پرکنز، ترجمہ: محمد یحییٰ خان۔ ناشر: نگارشات پبلشرز، ۲۴-مزنگ روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۲۷۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

جان پرکنز معروف امریکی نقاد اور مصنف ہیں، اپنی معروف کتاب اکنامک ہٹ مین (اقتصادی غارت گر) میں انھوں نے امریکی سیاست، معیشت اور ذرائع ابلاغ سمیت زندگی کے ہرشعبے میں یہودی گرفت، ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرنے اور آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دوسرے بین الاقوامی امدادی اداروں اور تنظیموں کے گھنائونے کردار سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کی زیرنظر دوسری کتاب The Secret History of American Empire کے نام سے سامنے آئی ہے، جس کا خوب صورت اور رواں ترجمہ بزرگ اور کہنہ مشق صحافی محمد یحییٰ خان نے کیا ہے۔

امریکی استعمار اپنے دو حربوں (اکنامک ہٹ مین (EHMS) اور گیدڑوں (Jackals) کی فوج) کے ذریعے جس طرح سے قرضوں کے جال میں الجھاتا اور سازشوں کے ذریعے استحصال کرتا ہے، اس کا جائزہ لیتے ہوئے جان پرکنز نے زیرنظر کتاب میں امریکی سامراج کی خفیہ تاریخ اور عالمی کرپشن کا پردہ چاک اور خاص طور پر ایشیا، لاطینی امریکا، مشرق وسطیٰ، براعظم افریقہ میں کی جانے والی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ’دنیا میں تبدیلی کیسے لائی جائے‘ کے تحت امریکی حکمت عملیوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ کتاب کا انداز دل چسپ اور کہانی کے طرز پر ہے۔ یہ نیویارک ٹائمز کی best seller کتابوں میں شامل رہی جس کا دنیا کی ۱۲ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور اس کا مطالعہ امریکی مکاریوں، عیاریوں اور ریشہ دوانیوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ (عمران ظہور غازی)


تعلیمی کامیابی، پروفیسر ارشد جاوید۔ ناشر: کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی پبلی کیشنز، ۶۸۱-شادمان I، لاہور۔ صفحات: ۲۵۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

کامیابی کیا ہے؟ اس کے حصول کا کیا طریقہ ہے اور یہ کن لوگوں کو حاصل ہوتی ہے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات انسانی ذہن میں جنم لیتے ہیں اور ہرفرد اپنی ذہنی اُپچ، سوچ اور فکر کے مطابق ان کا جواب دیتا ہے۔ ہر آدمی کے نزدیک کامیابی کا اپنا مفہوم ہے۔ پروفیسر ارشد جاوید ماہر نفسیات ہیں۔ اس موضوع پر ان کی یہ کتاب نہ صرف دنیاوی کامیابی کے لیے آمادہ و تیار کرتی ہے بلکہ اخروی کامیابی کا بھی داعیہ پیدا کرتی ہے۔ ایسے ۲۵مضامین شاملِ کتاب ہیں جن میں کامیابی کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں۔ چند معروف شخصیات کی کامیابیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے اور ان خوبیوں اور صفات کا بیان ہے جو انسان کو آگے بڑھانے اور کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بنیادی طور پر کتاب طلبہ کی تعلیمی رہنمائی، تعمیر شخصیت اور کیریئر پلاننگ کے لیے لکھی گئی ہے، لہٰذا تعلیمی کامیابی کے لیے مفید اصول اور عملی رہنمائی دی گئی ہے جس سے طلبہ اپنی کارکردگی بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ نفسیات کے اصولوں کے مطابق ترتیب دی گئی یہ کتاب زندگی کے تمام ہی دائروں میں کامیابی کے حصول کے لیے مؤثر نسخہ فراہم کرتی ہے۔ (ع- ظ-غ)


الاسرہ، غوث محی الدین، ناشر: ادارہ معارف اسلامی، ڈی بلاک، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات:۴۸۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

اخوان المسلمون کے تربیتی نظام کی بنیاد اور اکائی اسرہ ہے۔ مصنف کو اپنے امریکا و کینیڈا قیام کے دوران نظام الاسرہ کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ ۵۰ کے عشرے میں، کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے نظام الاسر کا تجربہ کیا تھا جو بہت کامیاب ثابت ہوا تھا لیکن بوجوہ جاری نہ رہ سکا۔ غوث محی الدین صاحب نے اخوان کے نظام کا دل چسپی لے کر گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس کے مقاصد، طریق کار اور تجربات کے حوالے سے اپنا مطالعہ اور تاثرات غوروفکر کے لیے پیش کیے ہیں۔ اسرہ ایک نقیب اور پانچ رفقا پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے تمام مسائل، باہمی تربیت اور تحریکی کاموں میں شریک ہوتے ہیں۔ طالب علموں میں، مردوں میں اور خواتین میں، پیشے کی بنا پر یا کسی بھی یگانگت کی بنیاد پر اسرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مصنف نے پی آئی اے میں مزدور یونین پیاسی کے قیام اور کامیابی کا سبب اسلامی جمعیت طلبہ کے چار سابقین کی بطور اسرہ کارکردگی کو قرار دیا ہے۔ تربیت کا نظام چلانے والوں کو اس کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ (مسلم سجاد)


عورت کی قرآنی تصویر، ڈاکٹر حسن الدین احمد۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی ، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

یہ عورت کے موضوع پر کوئی روایتی دینی کتاب نہیں۔ مصنف نے اپنے گہرے مطالعۂ قرآن، دعوت کے عملی تجربات اور مغربی معاشرے میں طویل قیام کے پس منظر میں اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور دل نشیں انداز میں مسئلے کے تمام پہلو واضح کیے ہیں۔ پہلے چار ابواب میں عورت بحیثیت انسان، بحیثیت عورت، رشتۂ ازدواج اور گھریلو مسائل کے تحت ذیلی عنوانات قائم کر کے متعلقہ قرآنی آیات کا اطلاق بیان کیا ہے۔ دوسرے حصے میں چند شبہات کے تحت ان معاملات کو لیا ہے جو آج کل اعتراضات کی زد میں ہیں، مثلاً میراث میں نصف حصہ، گواہی، تعددِ ازدواج، پردہ اور جرم و سزا۔ ہر مسئلے پر انھوں نے اسلام کے موقف کو دلائل کے ساتھ اعتماد سے پیش کیا ہے۔ قاری پر قرآنی احکامات کی حکمت واضح ہوجاتی ہے۔

اس کتاب کو انگریزی میں بھی نیویارک سے The Quranic Portrayal of Woman کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ مصنف سے رابطہ کر کے حاصل کی جاسکتی ہے (ای میل: hasanuddinahmad@yahoo.com)۔ (م-س)


Al-Fateha & Its Significance ، شمیم اے صدیقی۔ ملنے کا پتا: The ، Forum for Islamic Work, 265-Flatbush Avenue, Brooklyn NY-11355، امریکا۔ صفحات: ۱۰۶۔ قیمت: ۶ ڈالر۔

قرآن پاک کی پہلی سورۃ الفاتحہ معانی کا ایک سمندر ہے۔ دین کی بنیادی ضروری تعلیمات اس میں آگئی ہیں۔ تفسیر کی جائے تو جلدیں لکھی جاسکتی ہیں۔ شمیم صدیقی نے نسبتاً گہرائی میں جاکر معانی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے مثلاً اھدنا الصراط المستقیم کے حوالے سے ہدایت و ضلالت کی پوری بحث آگئی ہے۔ اسی طرح تصورِ عبادت اور دیگر موضوعات۔ ساتھ ہی داعیانہ جوش سے اُمت کو توجہ بھی دلائی گئی ہے کہ وہ اس سورہ کے تقاضوں کو پورا کرے تو عروج حاصل کرسکتی ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے عالمانہ مقدمے سے فنِ تفسیر کے اہم نکات سے آگہی ہوتی ہے۔ (م- س)

تعارف کتب

  •  ترجمہ قرآن بزبان نیپالی ، مترجم: مولانا علاء الدین فلاحی۔ ناشر: اسلامی سنگھ نیپال، گھنٹہ گھر، کے آئی ایم، نیپال۔ صفحات:۱۱۶۸۔ ہدیہ: درج نہیں۔ [نیپالی زبان نیپال کے علاوہ بھوٹان اور بھارت کے سکم و دارجلنگ کے بہت سے باشندے اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ابھی تک نیپالی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ نہیں ہوا تھا۔ اسلام سنگھ نیپال میں تحریکِ اسلامی کی نمایندہ جماعت ہے، اس نے پہلی بار نیپالی زبان میں قرآن مجید کے ترجمے کا اہتمام کیا ہے۔ مولانا علاء الدین فلاحی نے ترجمۂ قرآن کی سعادت حاصل کی ہے۔ ترجمے کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مختلف علماے کرام نے اس پر نظرثانی کی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تین ماہرلسانیات سے بھی زبان کی تصحیح کروائی گئی ہے۔ یہ کسی اُردو، ہندی یا انگریزی ترجمے کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ عربی متن کی نیپالی زبان میں ترجمانی ہے۔ اس کی تیاری میں اُردو زبان کے مشہور تراجم و معروف تفاسیر، ہندی اور انگریزی زبانوں میں موجود تراجم کے ساتھ ساتھ متداول عربی تفاسیر سے بھی مدد لی گئی ہے۔]
  •  مجلہ تحقیق ، شمارہ ۱۶، ناشر: شعبۂ اُردو، سندھ یونی ورسٹی، جام شورو،حیدرآباد، سندھ۔ صفحات: ۹۳۰۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔ ملنے کا پتا: شعبۂ اُردو، آرٹس فیکلٹی، سندھ یونی ورسٹی، علامہ آئی آئی کیمپس، جام شورو- ۷۶۰۸۰۔ فون: ۹۷۷۱۶۸۱-۰۲۲۔ [شعبۂ اُردو سندھ یونی ورسٹی کا زیرنظر مجلہ تحقیق ہائر ایجوکیشن کمیشن کے درجۂ اوّل کے معیاری رسائل میں شمار ہوتا ہے۔ اسے شعبے کے سابق صدر ڈاکٹر نجم الاسلام مرحوم نے جاری کیا تھا۔ زیرنظر شمارہ ۲۵ مقالات اور چند مختصر تبصروں پر مشتمل ہے۔ ضابطے کے مطابق انگریزی زبان میں ہر مقالے کا خلاصہ بھی دیا گیا ہے۔ معیارِ کتابت و طباعت اور مجموعی پیش کش قابلِ تحسین ہے۔ سندھ یونی ورسٹی سے اُردو زبان و ادب پر ایسے معیاری اور بلندپایہ تحقیقی مجلے کی اشاعت بے حد مستحسن ہے اور قریب قریب ایک معجزے کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ وائس چانسلر مظہر الحق صدیقی، فیکلٹی ڈین ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو اور مدیر ڈاکٹر سید جاوید اقبال (صدر شعبۂ اُردو) داد و تحسین کے مستحق ہیں۔]

 

اسلام اپنی نگاہ میں، ڈاکٹر ساجیکو مراتا ، ولیم سی چیٹک۔ مترجم: محمد سہیل عمر۔ ناشر: اقبال اکیڈیمی پاکستان، لاہور و ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ طبع اول ۲۰۰۸ء، صفحات: ۶۳۳۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

عالمی جامعات میں خصوصاً امریکا میں انڈر گریجوایٹ  طلبہ کے لیے انسانی علوم میں تعارفی کورس لینے کا رواج ہے اور اکثر طلبہ مذہبیات، عمرانیات، نفسیات یا موسیقی بطور ایک مددگار کورس کے لیتے ہیں۔ شعبہ ہاے فلسفہ و مذہب طلبہ کی سہولت، ذہنی ترقی اور معلومات کے لیے اکثر ایسے کورس وضع کرتے ہیں اور طلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد ان میں دل چسپی لیتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں اس کے بالکل برعکس اسلامیات ایک لازمی مضمون ہونے کے باوجود اساتذہ، لوازمہ اور طرزِ تدریس تینوں پہلوئوں سے عدمِ دل چسپی کی اعلیٰ مثال نظر آتا ہے۔

زیرنظر کتاب اسلام اپنی نگاہ میں دراصل انگریزی کتاب Vision of Islam کا ترجمہ ہے جو ۱۹۹۴ء میں طبع ہوئی۔ چیٹک اور مراتا اپنے پیش لفظ میں وضاحت کرتے ہیں کہ  یہ کتاب ان کے اسلام پر تعارفی کورس پڑھانے کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اس میں طلبہ اور خصوصاً مغربی ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کا ایک عمومی تعارف پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس سے قبل اسلام کے تعارفی مطالعہ کے لیے جو کتب امریکا میں عموماًاستعمال کی جاتی رہی ہیں ان سے استفادہ کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کوشش کی جائے کہ قرآن و حدیث اور خصوصاً امام غزالی کی احیا علوم الدین سے مدد لیتے ہوئے جابجا حوالے شامل کرلیے جائیں اور بڑی حد تک غیرمتعصبانہ انداز میں اسلام کا ایک تصور (vision) سامنے آجائے۔ اس سے قبل ایچ آر گب کی Mohammdanism (طبع اول ۱۹۴۹ء)، الفرڈ گیوم کی Islam (طبع اول ۱۹۵۴ء)، جان اے ولیمز کی Islam (طبع اول ۱۹۶۳ء)، کینٹ ول اسمتھ کی Islam in Modern History (طبع اول ۱۹۵۷ء)، فلپ کے ہٹی کی Islam: A Way of Life(طبع اول ۱۹۷۰ء)، فضل الرحمن کی Islam (طبع ۱۹۶۶ء)، کینتھ کریگ  کی Islam from Within(طبع اول ۱۹۸۰ء) اور بعد میں آنے والی کتب میں وکٹر ڈینر کی The Islamic Tradition: An Introduction (طبع ۱۹۸۸ء)، گائی ایٹن کی Islam and The Destiny of Man(طبع ۱۹۸۵ء)، جان اسپوزیٹو کی Islam: The Straight Path (طبع ۱۹۸۸ء)، جے رینارڈ کی In the Footsteps of Muhammad (طبع ۱۹۹۲ء)،  این میری شمل کی Islam: An Introduction (طبع ۱۹۹۲ء) مختلف جامعات میں اساتذہ کی اپنی ترجیحات کے پیشِ نظر بطور تعارفی کتب استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ان سب کی موجودگی میں چیٹک جو اس سے قبل Imaginal World: Faith and Practice of Islam; The Sufi Path of Love; The Self Disclosure of God طبع کر چکے تھے، کا اس کتاب کو تحریر کرنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ جملہ کتب کی موجودگی میں طلبہ اور خصوصاً مغربی ذہن کی ضرورت کے پیش نظر ایک تعارفی کتاب کی مزید ضرورت تھی اور یہ ضرورت سابقہ کتب سے پوری نہیں ہو رہی تھی۔

کتاب ۴ حصوں میں اور ۹ ابواب پر مشتمل ہے جن میں ارکانِ دین، ایمان، توحید، نبوت، آخرت، مسلم فکر، احسان کی قرآنی بنیادیں اور اسلام، تاریخ اور تصورِ تاریخ شامل ہیں۔

کتاب کا مرکزی مضمون حدیث جبریل ؑ کے تین اہم نکات اسلام، ایمان اور احسان ہیں۔ مندرجہ بالا ابواب انھی تین بنیادوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اس لحاظ سے مغربی طالب علم کے لیے یہ اسلام کا ایک مختلف نوعیت کا تعارف ہے۔ اپنے تمام تر متوازن اور ہمدردانہ طرزِبیان کے باوجود بعض فکری پہلو اختلاف اور اصلاح کی گنجایش رکھتے ہیں مثلاً تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے اللہ اور الٰہ کی بحث میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ’’اسلام میں ایمان کا پہلا رکن خدا ہے‘‘ (ص ۱۱۳)۔ آگے چل کر اس کی وضاحت کی گئی ہے: ’’الٰہ ہر وہ چیز ہے جسے پرستش، عقیدت اور اطاعت کا مرکز بنایا جائے‘‘ (ص ۱۱۴)۔ تفصیلی بحث کے بعد ’’الٰہ کو god یعنی جھوٹا خدا یا سچا خدا‘‘ اور ’’Godکو ازروے تعریف سچا خدا‘‘ (ص ۱۱۶) سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ انگریزی میں ’اللہ‘ کی اصطلاح مغربی ذہن کو پریشان کرتی ہے، جب کہ اللہ کی جگہ God کہنا زیادہ درست اور افضل ہے۔

ہمیں اس سے فکری بنیاد پر اختلاف ہے۔ اگر ہندوازم کو پڑھاتے ہوئے ایک امریکی غیرہندو استاد Brahma کو ہندو God نہیں کہتا بلکہ برہما ہی کہتا ہے اور یہودیت پڑھاتے ہوئے  یہودیوں کے God کی جگہ Yahweh ہی کہتا ہے تو اسلام کے درس میں اللہ کیوں نہیں کہا جاسکتا۔ ایک پہلو جسے اکثر مسلم مفکرین نے بھی بغور نہیں دیکھا، یہ ہے کہ اللہ اسمِ ذات ہونے اور خود قرآن کے تجویز کردہ اسمِ باری تعالیٰ ہونے کے ساتھ عدد اور جنس کی قید سے آزاد اور اللہ کی صمدیت کی علامت ہے، جب کہ God چاہے بڑے G سے ہو چاہے چھوٹے g سے۔اس کی جمع اور تانیث، یونانی مذہب ہو یا ہندو ازم، دونوں جگہ عدد اور جنس کی شکل میں پائی جاتی ہے، چنانچہ Goddess اور Gods دونوں کا وجود تاریخِ ادیان کا حصہ ہے۔

دورِ حاضر میں اسلام سے بحث کرتے ہوئے مصنف نے جو خیالات ظاہر کیے ہیں ان میں سے بعض قابلِ غور ہیں۔ اس بات کی صداقت کے باوجود کہ دورِ حاضر میں اسلام، ایمان اور احسان کی تین جہات شاید تمام تحریکاتِ اسلامی میں بدرجۂ اتم نہ پائی جاتی ہوں، تحریکاتِ اسلامی کی اسلام کی تعبیر کو سیاسی اور اس بنا پر انھیں جدیدیت پرست کہنا محلِ نظر ہے (ص ۵۷۱- ۵۷۴)۔ ’’جدیدیت زدہ اسلام عمومی طور پر روایت کی عقلی تفہیم کو رد کر دیتا ہے مگر یہ کہ اسے سیاسی اصطلاحات کے لبادے میں پیش کیا جائے۔ اسلام کی سیاسی تعلیمات اپنی جگہ ایک چیز ہیں لیکن ان کی حیثیت ہمارے ہاں ثانوی اور غیراہم رہی ہے۔ ان سیاسی تعلیمات کو مرکزی حیثیت دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اپنی روایت سے کٹ رہے ہیں۔ ہمارے زمانے کی اسلامی تحریکوں کے سیاسی منشور اور اس کی تہ میں کارفرما آئیڈیالوجی کا اسلام کی تعلیمات سے شاذ ونادر ہی اساسی تعلق ہوتا ہے۔ اس کی جگہ ان میں قرآن و حدیث کی ایک ایسی تعبیرِ نوملتی ہے جس کی بنیاد جمہوریت یا دوسری قسم کی ’اچھی‘ طرزِ حکومت کے متعلق جدید مفروضات پر رکھی جاتی ہے (ص ۵۷۴)۔ طویل تر لذیذ حکایت کے بعد یہ حاصلِ تحقیق کلمات بظاہر نہ معروضی کہے جاسکتے ہیں نہ مبنی برعدل۔

بعض اوقات حکایت کا تذکرہ حکایت سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے جس کی زندہ مثال برادرعزیز سہیل عمر صاحب کا یہ ترجمہ ہے۔ ایک عرصہ بعد ایسا ترجمہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جو ترجمہ بھی ہے اور ترجمانی بھی۔ کسی لمحے یہ احساس نہیں ہوتا کہ آدمی ترجمہ پڑھ رہا ہے، اس کے باوجود چند ایک مقامات پر اگر دوبارہ غور کرلیا جائے تو اچھا ہو۔ تلک اٰیات الحکیم کا اُردو ترجمہ ’’یہ آیات ہیں پکی کتاب کی‘‘ ( لقمان ۳۱:۲) ص ۱۲۱ اگرچہ مستعمل ہو، الحکیم کے مفہوم کو واضح نہیں کرتا بلکہ محکم کے مفہوم سے قریب تر ہے۔ بہترترجمہ ’’یہ حکمت کی (بھری ہوئی) کتاب کی آیات ہیں‘‘ ہوگا۔

مصنف نے دین کا مفہوم بیان کرتے وقت سیدابوالاعلیٰ مودودی کی معرکہ آرا کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں سے بھرپور استفادہ کے باوجود کہیں حوالہ دینا پسند نہیں کیا۔ ایسے ہی تنزیہہ کی بحث کرتے ہوئے ہم عصر مفکر اسماعیل الفاروقی الراجی کا تذکرہ نہ کرنا علمی معروضیت کے منافی نظر آتا ہے۔ اسلام پر کسی تعارفی کتاب میں خود علامہ اقبال اور علامہ مودودی کا تذکرہ نہ آنا اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ علمی تحریرات مسلکی اور ذاتی تعصبات سے پاک ہوں تو وقعت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


آزادی اور جمہوریت کا تصور اُردو نظموں میں ، ڈاکٹر شائستہ نوشین۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی۔ صفحات: ۱۹۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے (بھارتی)۔

۱۸۵۷ء کے حادثے نے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح برعظیم کے اُردو شعروادب پر بھی اثرات مرتب کیے خصوصاً اُردو شاعری اور بطور خاص نظم کے میدان میں نئے نئے اسالیب اور ہئیتوں کے تجربات ہوئے۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی ۴،۵ عشروں میں اس حوالے سے بہت سی چیزیں لکھی گئیں کیونکہ اس دور میں برعظیم کے عوام فرنگی قابضین کے خلاف ایک مسلسل جدوجہد سے گزر رہے تھے اور ان کے جذبات اُردو ادب، خاص طور سے اُردو نظم میں ظاہر ہو رہے تھے۔

اودھ یونی ورسٹی (بھارت) کی پی ایچ ڈی اسکالر شائستہ نوشین نے آزادی اور جمہوریت کے موضوع پر اُردو کے ذخیرۂ منظومات کا تنقیدی جائزہ (۱۹۴۷ء-۱۹۰۱ء) لیا ہے۔ اُن کا یہ مقالہ کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ۵ ابواب پر مشتمل اس مقالے میں آزادی اور جمہوریت کا مفہوم، اُردو ادب میں آزادی و جمہوریت کی جھلک اور ۲۰ویں صدی کے اہم شعرا کے اُردو نظموں میں آزادی اور جمہوریت کے تصورات سے بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں حالی و شبلی کے بعد شعرا کی دو درجہ بندیاں کی گئی ہیں۔ ایک درجے میں ترقی پسند شعرا اور دوسرے زمرے میں غیرترقی پسند شعرا کی کاوشوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ فیض، ساحر، مجاز، مخدوم، کیفی، علی سردار جعفری ایسے شعرا کو   اس لیے پہلے درجے میں جگہ ملی ہے کہ وہ ترقی پسندوں کے زمرے میں شامل ہیں، جب کہ اقبال، اکبر الہ آبادی، ظفر علی خاں، اور چکبست وغیرہ کو غیرترقی پسند شعرا کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورت ہے۔ مزیدبرآں اکبر الہ آبادی اور ظفر علی خاں ایسے شعرا کو ۴،۴صفحات میں سمیٹا گیا ہے اور تلوک چند محروم اور ساغر نظامی کو ان سے زیادہ صفحات کا مستحق سمجھا گیا ہے، حالانکہ اس سلسلے میں اکبر اور ظفرعلی خاں کی خدمات کسی طور تلوک چندمحروم اور ساغر نظامی سے کم نہیں۔

مجموعی جائزے میں بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ آزادی اور جمہوریت کے تصورات کی ترجمانی اور عوامی بیداری کے فروغ میں اُردو نظم نے تاریخ ساز اور ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے اور اس ضمن میں شعرا حضرات کی خدمات کسی سیاسی کارکن سے کسی طور کم نہیں۔

کتاب کے سرورق پر موجود بھارت کے نقشے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آزادی اور جمہوریت کی جدوجہد فقط انھی علاقوں میں ہوتی رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آزادی و جمہوریت کے ضمن میں بنگال اور پنجاب کے شعرا اور عوام کی خدمات بھی برعظیم کے دیگر علاقوں کے باشندوں سے کم نہیں۔ اس اعتبار سے یہاں صرف بھارت کے بجاے پورے برعظیم کا نقشہ دینا زیادہ قرینِ انصاف ہوتا۔مجموعی طور پر کتاب اپنے موضوع پر ایک اچھی کاوش ہے، تاہم اس موضوع پر مزید کام کی گنجایش موجود ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)


احمدی دوستو! تمھیں اسلام بلاتا ہے؟ محمد متین خالد۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۳۸۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے (مجلد)

۱۹ ویں صدی میں انگریزی سامراج نے ہندستان میں پنجے گاڑے تو اس نے مختلف سطحوں پر اپنے اقتدار کے جواز کے لیے کام کیا۔ مثال کے طور پر جنگی میدان میں، تعلیمی محاذ پر، ثقافتی پہلو سے اور مذہبی دنیا کے اندر۔ ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مسلمان اس کافرانہ حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے، اس لیے انھوں نے اسلام کی من مانی تعبیر کے لیے مختلف حلقوں کو اُبھارا۔ اس مہم میں مرزا غلام احمد آف قادیان انگریزوں کے ہم سفر اور رفیق بنے اور اسلام کی ایک نئی تعبیر پیش کی، جو بہت سے لوگوں کی گمراہی اور ارتداد کا سبب بنی۔ مسلمانوں نے اس چیلنج کا ہر سطح پر مقابلہ کیا اور بالآخر پاکستان کی پارلیمنٹ نے کھلے مباحث کے بعد قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا۔

محمد متین خالد قادیانیت پر لکھنے والوں میں ایک معروف نام ہے۔ آپ قادیانیت کے تضادات اور اس کے باطل ہونے اور اسلام کی حقانیت پر بہت سی کتب، ٹھوس دلائل اور کھلے کھلے شواہد کے ساتھ لکھ چکے ہیں۔ اسلام چونکہ صراطِ مستقیم اور راہِ اعتدال کی دعوت کا علَم بردار ہے، لہٰذا ایسی کتاب کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی تھی جس میں نہایت دل سوزی کے ساتھ قادیانیوں کو اسلام اور نجات کی راہ کی طرف دعوت دی جائے۔ زیرتبصرہ کتاب اسی ضرورت کے پیش نظر لکھی گئی ہے۔

مصنف نے دلیل اور ثبوت کے ساتھ دردمندی سے ’احمدیوں‘ [قادیانیوں] کو یہ دعوتِ فکر دی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی اور مرزا بشیرالدین صاحبان کی اصل تحریروں کو پڑھ کر کسی نتیجے پر پہنچیں، اور ظاہر ہے وہ نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جس چیز کو مرزا صاحب نے پیش کیا ہے وہ فکری پراگندگی ہے، اسلام نہیں۔ کتاب کا اسلوب مناظرانہ نہیں، تحقیقی اور داعیانہ ہے۔ اس میں بڑے مرزا صاحب کی ۴۷ اور بشیرالدین صاحب کی ۱۰ کتب کے صفحات سے اصل عکس پیش کرکے اسلام اور قادیانیت کا مقدمہ پیش کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے یہ کتاب قادیانی حضرات کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے اور تحفے میں پیش کرنے کے قابل ہے۔ (سلیم منصور خالد)


منّتِ ساقی، محمد سرور رجا۔ ناشر: اوٹی انٹرپرائزز۔ پتا: ایم ایس رجا، ۶۰ روسل ڈرائیو، سٹیپل فورڈ نوٹنگھم، این جی ۹، ۷-ای جے، برطانیہ۔ پاکستان میں ملنے کاپتا: منشورات، منصورہ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ صفحات: ۱۵۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

جناب محمد سرور رجا طویل عرصے سے دُور دیس (برطانیہ) میں مقیم ہیں تاہم اُردو زبان و ادب، پاکستان اور علامہ اقبال سے ان کا رشتہ و رابطہ، وطن عزیز میں رہنے والے اہلِ قلم ہی کی طرح قائم و استوار ہے۔ اس تعلق کا سب سے اہم پہلو علامہ اقبال اور ان کے افکار و تصورات سے ان کی دلی وابستگی ہے۔ چنانچہ انھوں نے علامہ کے فارسی کلام کا بہت سا حصہ منظوم اُردو میں منتقل کرکے اس کا ثبوت مہیا کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ زیرنظر کتاب منّتِ ساقی ایک تازہ کڑی ہے جو پیامِ مشرق کے تقریباً تین چوتھائی منتخب کلام کا منظوم اُردو ترجمہ ہے۔

اقبال کا فارسی کلام اور اس کا منظوم اُردو ترجمہ آمنے سامنے (باہم بالمقابل) دیے گئے ہیں۔ اس کا کچھ حصہ قبل ازیں ہالۂ نور کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ بقول مترجم: ترجمے میں التزام ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ بھی اسی بحر میں ہو جس میں فارسی غزل ہے۔ اور جہاں ممکن ہو،  قوافی بھی اصل کے مطابق لائے گئے ہیں۔ اسی طرح فارسی اور اُردو دونوں زبانوں میں جو حسین مطابقت ہے، اسے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کلامِ اقبال کا زیرنظر ترجمہ اُردو اور فارسی دونوں زبانوں اور فنِ شاعری پر مترجم کی دسترس کا ثبوت ہے۔ متعدد فاضل اہلِ قلم نے رجاصاحب کی زیرنظر کاوش کو سراہا ہے۔ مجلسِ اقبال لندن کے ناظم جناب محمد شریف بقا لکھتے ہیں: ’’اکثر مقامات پر آپ نے علامہ اقبال کے فارسی اشعار کا اتنا مناسب، برمحل اور عمدہ ترجمہ کیا ہے کہ بے اختیار آپ کی شعری مہارت اور خوبی ٔترجمہ کی داددینا پڑتی ہے‘‘۔

جلی کتابت، پایدار کاغذ، اُجلی طباعت اور مضبوط جِلد کے ساتھ کتاب اچھے معیار پر شائع کی گئی ہے۔ ہمیں امید ہے اقبالیات کے شعبۂ تراجم میں یہ مجموعہ ایک قابلِ قدر اضافہ قرار پائے گا۔(رفیع الدین ہاشمی)


رہنمایانِ جماعت اسلامی اور مثالی کارکنان ، محمد کلیم اکبر صدیقی۔ ملنے کا پتا: بی-۱۹۰، گلگشت کالونی، ملتان، فون: ۶۲۲۴۲۹۲-۰۶۱۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

یہ کتاب ایک کارکن کے تاثرات و مشاہدات ہیں جس میں مؤلف نے اپنے مشاہدے میں آنے والے، جماعت کے مرکزی، صوبائی، ضلعی اور مقامی رہنمائوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض حضرات گرامی فرضِ بندگی ادا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے ہیں، اور دوسرے  حقِ بندگی ادا کرنے میں کوشاں ہیں۔ میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، پروفیسر غلام اعظم، چودھری رحمت الٰہی، پروفیسر عبدالغفور، حافظ محمد ادریس، لیاقت بلوچ، میاں مقصود احمد، ڈاکٹر نذیر احمد شہید، محمد باقر خان کھرل، چودھری نذیر احمد، مولانا خان محمد ربانی، مرزا مسرت بیگ، مولانا معین الدین، شیخ عبدالمالک، سیدنصرشاہ، محمد عقیل صدیقی، ملک وزیرغازی، حکیم عبدالکریم جاذب، ڈاکٹر محمداعظم صاحبان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

جماعت کے ابتدائی کارکنان کی زندگیوں کا یہ تذکرہ، نئے آنے والوں کے لیے جہاں جذبے اور ولولے کا باعث ہے وہیں تاریخ کی جھلکیاں پیش کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس اعتبار سے اس میں متعدد دل چسپ معلومات یک جا ہوگئی ہیں۔(عمران ظہور غازی)

تعارف کتب

  •  سید مودودی کا داعیانہ کردار: محمد حسین شمیم۔ ناشر: مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۵۶۔ قیمت: ۴۰ روپے۔ [مصنف نے کئی برس پہلے سید مودودی: پُرعزم زندگی، گم نام گوشے کے نام سے مولانا مودودی سے متعلق اپنی یادداشتیں کتابی صورت میں مرتب کی تھیں۔ زیرنظر    کتابچہ ایک اعتبار سے انھی یادداشتوں کا تکملہ ہے۔ ’ذاتی مشاہدات و تاثرات‘ کو انھوں نے مختلف عنوانات (سید مودودی: پُروقار شخصیت، سید کے معمولات، بسلسلہ خط کتابت، نماز باجماعت، وقت کی پابندی، بیماری، خوراک، اِستغنا، اہل و عیال، بصیرت) کے تحت پیش کیا ہے۔ سید مودودی کی شخصیت اور گئے وقتوں میں جماعت اسلامی کا مزاج اور افتاد و نہاد کیا تھی، یہ جاننے کے شائق قارئین اس کتاب کو دل چسپ اور معلومات افزا پائیں گے۔]
  •  گنجینہ مہر (اول و دوم) ، مرتب: محمد عالم مختارِ حق۔ ناشر: مغربی پاکستان،اُردو اکیڈمی۔ ۲۵- سی، لوئرمال، لاہور۔ فون: ۷۵۱۲۷۲۴۔ صفحات، اول:۲۸۸، دوم: ۲۷۹۔ قیمت، اول و دوم : ۲۵۰ روپے۔ [جناب محمد عالم مختارِ حق کے نام مولانا غلام رسول مہر مرحوم کے ۳۱۴ طویل اور مختصر رقعات اور مکتوبات کا مجموعہ، مع حواشی و تعلیقات از مکتوب الیہ۔ مہرصاحب کی شخصیت، تصنیفی اور صحافتی سرگرمیاں، علمی ذوق شوق، معاصرین کے ساتھ ان کا تعلق، خصوصاً علامہ اقبال سے ربط و ضبط، اسی طرح تاریخی روایات و واقعات کی صراحت، لفظوں کی لغوی تحقیق، غرض ان مکتوبات میں بلا کا تنوع ہے۔ مہرصاحب کا ذوقِ شعر ان کے مرشدِ معنوی ابوالکلام آزاد کی یاد دلاتا ہے۔ اہلِ علم اور ذوق مطالعہ رکھنے والوں کے لیے ایک دل چسپ کتاب۔]

 

مقاصدِ شریعت ، ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی ۔ ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی   یونی ورسٹی، اسلام آباد ۔ صفحات: ۳۲۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

عصرحاضر کے معاشی، سیاسی، معاشرتی اور قانونی معاملات کے حوالے سے عموماً مغربی تعلیم یافتہ طبقے کی طرف سے یہ سوال گاہے بہ گاہے اٹھتا رہتا ہے کہ قرآن و سنت کے وہ قوانین جو ایک بدویانہ معاشرے میں آج سے ۱۵۰۰ سال پہلے نافذ کیے گئے تھے آج کس طرح نافذ کیے جاسکتے ہیں؟ یہ اور اس قبیل کے بہت سے سوالات جن میں اسلامی قوانین میں شدت کا عنصر، عورت کی گواہی خصوصاً حدود کے معاملات میں، عورت کا ووٹ کاحق ، خود اسلامی حکومت کا شرعی جواز وغیرہ شامل ہیں، کوئی نوزائیدہ سوالات نہیں ہیں۔ ان پر مختلف ادوار میں مختلف زایوں اور لہجوں میں بات ہوتی رہی ہے اور ان سوالات کا بار بار اٹھنا ایک لحاظ سے بہت مفید بھی ہے کہ اس طرح اہلِ فکر کو مزید غور اور تحقیق کرنے کا داعیہ ہوتا ہے اور اسلام کے روشن اور عملی پہلو مزید اُجاگر ہوکر سامنے آتے ہیں۔ اس نوعیت کے سوال اٹھنے کا ایک سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فکر اور فقہ کی تدوین کن بنیادوں پر ہوئی اور آج بھی ہوسکتی ہے، اس پہلو پر ہمارے نظامِ تعلیم میں کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ دینی مدارس بھی اس اہم پہلو کو نظرانداز کرجاتے ہیں۔

اسلامی فقہ اور قانون میں ایک بہت اہم شعبہ مقاصد الشریعہ کا ہے جس کی نسبت   حضرت عمرؓ کے علم اسرار دین کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ معروف مسلم فقہا نے اس موضوع پر     براہِ راست اور بالواسطہ غیرمعمولی تحقیقی کام کیے ہیں جنھیں امام غزالی کی المُصتسفٰیاور امام الشاطبی کی الموافقات کا تذکرہ کیے بغیر اس علم کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ دورِ جدید میں محمد الطاہر ابن عاشور (۱۸۶۸ء-۱۸۱۵ء) کی معرکہ آرا تصنیف مقاصد الشریعۃ (جس کا انگریزی ترجمہ ابھی حال ہی میں لندن اور واشنگٹن سے بین الاقوامی ادارہ فکراسلامی ، ہرنڈن ورجینیا، امریکا سے طبع ہوا ہے) گذشتہ معروف کتب سے استفادہ کرتے ہوئے نئی راہوں کی نشان دہی کرنے والی ایک تصنیف ہے۔

اُردو میں اس موضوع پر تراجم کو چھوڑتے ہوئے غالباً یہ پہلی طبع زاد تصنیف ہے جو معروف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے مقالات پر مبنی کتابی شکل میں شائع کی گئی ہے۔

اس موضوع پر تعارفی اور اعلیٰ تحقیقی مواد کی ضرورت ایک عرصے سے شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی تھی۔ برادر محترم نجات اللہ صاحب نے اس کمی کو پورا کرتے ہوئے اس موضوع پر مزید توجہ اور تحقیق کی طرف اُمت مسلمہ کو متوجہ کیا ہے۔ کتاب ۸ ابواب پر مشتمل ہے جن میں  مقاصد شریعت کا ایک عصری مطالعہ، مقاصد شریعۃ اور معاصر اسلامی فکر، مقاصد شریعت کی پہچان اور تطبیق، مقاصد کے فہم و تطبیق میں اختلاف کا حل، مقاصد کی روشنی میں اجتہاد کی حالیہ کوششیں، مقاصد کی روشنی میں معاصر اسلامی مالیاتی مسائل کا جائزہ، مقاصد اور مستقبلِ انسانیت اور مقاصد اور فہم و تطبیق شامل ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو اس علم کے صحیح طور پر فہم و عبور کے بغیر کسی بھی دور میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل مناسب انداز میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ ایک بنیادی علم ہے۔ لیکن نہ صرف برعظیم بلکہ عالمِ اسلام کی دینی جامعات میں اس پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جس کا یہ مستحق ہے۔ عموماً تاریخ، فقہ اسلامی، فقہ الطہارہ، فقہ العبادات، فقہ المعاملات، فقہ العقود، فقہ الاسرہ وغیرہ کی تعلیم  بقدر ضرورت دے دی جاتی ہے اور کئی سال کے دورانیے میں ایک ضمنی موضوع کے طور پر مقاصد کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے۔ ایک طالب علم یہ جاننے کے باوجود کہ حفظِ نفس کا تعلق قصاص و دیت کے باب سے ہے، بہت کم غور کرتا ہے کہ حُرمتِ نفس جو شریعت کا ایک بنیادی مقصد ہے اس کے براہِ راست اثرات کن کن شعبوں پر پڑتے ہیں، کیا ماحولیاتی آلودگی کو اس سے الگ کیا جاسکتا ہے، کیا غذا میں ملاوٹ سے اس کا براہِ راست تعلق نہیں ہے، کیا دواساز اداروں میں ایسے کیمیاوی اجزا کا استعمال جو طویل مدت میں انسانی جان کے وجود کے لیے خطرہ ہو اس بحث سے خارج ہوں گے؟

حقیقت یہ ہے کہ فقہ کے وجود میں آنے کا براہِ راست تعلق مقاصد شریعہ سے ہے اور اس علم سے کماحقہ، واقفیت اور عبور کے بغیر ایک فقیہہ فتاویٰ اور معروف کتب فقہ، مثلاً البدائع والصنائع یا ھدایہ اور قدوری کی بنیاد پر ایک مستند راے تو دے سکتا ہے لیکن جدید مسائل کا صحیح فہم اور حل پیش نہیں کرسکتا۔

نجات اللہ صاحب شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اُردو خواں طبقہ کے لیے ایک انتہائی اہم موضوع پر غوروفکر کا مواد فراہم کیا ہے۔

تجدید و احیاے دین کی اسلامی تحریکوں کے حوالے سے جائزہ لیتے ہوئے (ص ۵۶) مصنف نے سیاست میں حصہ لینے اور حکمران وقت کے خلاف قوت کے استعمال کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بعض عصری مسائل کا تذکرہ کیا ہے جن میں کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت، عورت کا بغیر محرم سفر کرنا، صدقہ فطر کی نقد ادایگی، قطبین میں نماز روزہ کے اوقات، لیزنگ وغیرہ سے بحث کی ہے، اور عصرِحاضر کے معروف مفکرین کی آرا بھی نقل کی ہیں جن میں شیخ یوسف قرضاوی، مفتی محمدشفیع، شیخ بن باز، شیخ غزالی اور حسن ترابی بھی شامل ہیں۔ لیکن ۲۰ویں صدی کے ایک ایسے مفکر کا نام اشارتاً بھی کہیں نظر نہیں آیا جس نے شاید ان سب سے زیادہ مقاصد شریعہ کی بنیاد پر نصوص پر مبنی سیاسی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور تعلیمی مسائل پر لکھا۔ بلاشبہہ عورت کی سربراہی کے معاملے میں جب سیدابوالاعلیٰ مودودی نظربند تھے، مفتی محمد شفیع مرحوم نے فتویٰ دیا لیکن اس فتوے کی توثیق کرتے ہوئے پشاور سے کوئٹہ تک دلائل کے ساتھ جو کام استاذ مودودی نے کیا، اس کا ذکر نہ آنا ایک غیرمعمولی اور غالباً غیرشعوری بھول ہے۔

کتاب کی ایک بڑی خوبی سلاست بیان ہے، چنانچہ ایک علمی موضوع پر ہونے کے باوجود ایک عام قاری اسے بوجھل محسوس نہیں کرے گا۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان کے لیے اس کا مطالعہ دعوتی مقاصد کے لیے بہت مفید ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب، تالیف: ڈاکٹر طٰہٰ جابر فیاض العلوانی۔ ناشر: الفرقان ٹرسٹ، خاں گڑھ،ضلع مظفرگڑھ۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۷۳۲۰۳۱۸۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت مجلد: ۲۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب ڈاکٹر طٰہٰ جابر فیاض علوانی کی کتاب آداب الاختلاف فی الاسلام کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں شیخ عبداللہ بن محمد الغنیمان کا کتابچہ اختلافی مسائل میں ذاتی میلانات و رجحانات کا اثر اور ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید کا مقالہ ’سلیقۂ اختلاف‘ بھی شامل کیا گیا ہے۔

مؤلف نے اختلافات کی حقیقت، عہدِرسالت میں اختلافات، استنباط میں مناہج ائمہ کے اختلافات بیان کیے ہیں۔ مزیدبرآں وہ ایمان افروز واقعات ذکر کیے گئے ہیں جن کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ائمہ کرام رحمہم اللہ کے درمیان علمی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے لیے کتنا احترام تھا اور پھر محبت و مودت کی یہ فضا اُن کے شاگردوں میں بھی قائم رہی۔

فقہ اور فروعی مسائل میں اختلافی مسائل کو کفر اور اسلام کا مسئلہ سمجھنے والوں اور اس بنیاد پر تکفیروتفسیق کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے اس میں بہترین درس موجود ہے۔ ڈاکٹر طٰہٰ جابر فیاض علوانی رقم طراز ہیں: ’’مسلمانوں کا عموماً اور داعیانِ دین کا خصوصاً سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ اسلامی جماعتوں اور ان کے داعیوں کو متحد رکھنے کا عمل شروع کریں اور سارے باہمی اسبابِ اختلاف ختم کرڈالیں۔ اگر کہیں اختلاف ضروری ہو جب بھی اس کا دائرہ محدود رکھیں اور سلف صالحین کے آداب کا ہرطرح خیال رکھیں۔ (ص ۱۳۶)

مجموعی طور پر یہ کتاب اس اہم موضوع پر مفید اضافہ ہے، تاہم اس موضوع پر مزید تفصیل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ بعض مقامات پر پروف کی غلطیاں توجہ طلب ہیں، مثلاً واصل بن عطاء کو واصل بن عطار (ص ۱۳)، محمد بن حنیفہ کو  جعفر بن محمد بن حنیفہ (ص ۷۹) لکھا گیا ہے۔  (ساجد انور)


سیرت النبیؐ قدم بہ قدم، جلداوّل و جلد دوم، عبداللہ فارانی۔ ناشر: ایم آئی ایس پبلشرز، ۵۲۳- بلاک سی، آدم جی نگر، کراچی۔ فون: ۴۹۳۱۰۴۴۔ ۴۹۴۴۴۴۸-۰۲۱۔ صفحات: ۲۹۴۔   قیمت (مجلد):۳۵۰ روپے۔

بچوں کے لیے مجلد خوب صورت گردپوش کے ساتھ مکی اور مدنی زندگی پر ۲ جلدوں پر مشتمل سیرت النبیؐ کی یہ کتاب مؤلف نے مستند مآخذ سے بہت ہی سہل انداز میں مرتب کی ہے۔ کتاب حُسنِ طباعت کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کی ہے۔ اہم مقامات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ بہترین کاغذ پر کھلے کھلے الفاظ میں تحریر نگاہوں کو کھینچتی ہے۔ یہ مضامین پہلے ہفت روزہ بچوں کا اسلام میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ کردار کی تعمیر اور شخصیت کے نکھار میں سیرت پاکؐ کے مطالعے کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ آج ہم دورِ نبوتؐ سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں لیکن اس طرح کی کتابوں میں حالات پڑھ کر اپنے کو دورِ نبویؐ میں محسوس کرتے ہیں۔ پیارے نبیؐ سے محبت کا رشتہ  استوار ہوتا ہے اور اتباع کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔

ایم آئی ایس پبلشرز نے روشن ستارے کے نام سے صحابہؓ کے حالات پر بھی کتابیں شائع کی ہیں، نیز بچوں کے لیے کیسٹ اورسی ڈی وغیرہ بھی پیش کی ہیں۔ (مسلم سجاد)


شوہر کی اصلاح، عبدالقادر بن محمد بن حسن ابوطالب، مترجم: ابوالوفا عبدالرحمن عزیز۔ ملنے کا پتا: مکتبہ الکتاب، حق سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔صفحات: ۲۰۷۔قیمت: ۱۲۰ روپے

ان دنوں عربی میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی جارہی ہیں جن میں دین کی تعلیمات کو   موجودہ دور کے لحاظ سے عملی انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور اچھی بات یہ ہے کہ ان کے ترجمے شائع کیے جا رہے ہیں۔

عائلی زندگی اور میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں قرآن میں اور بالخصوص حدیث میں جو چھوٹی چھوٹی باتیں آئی ہیں،اس ۲۰۰ صفحے کی کتاب میں مرتب کرکے پیش کردی گئی ہیں۔ کتاب کی خاص بات عنوان قائم کرنا اور ان سب کو فہرست میں لکھ دینا ہے۔ اسی لیے فہرست ۶صفحات پر مبنی ہے۔ چند عنوانات سے اندازہ ہوگا کہ کتاب میں کیا کچھ ہے، ہر بات کی سند دی گئی ہے: شوہر کو بیوی کی بعض بدذوقیوں پر صبر کرنا چاہیے، بیوی کی تفریح کے لیے بعض تفریحی امور کا اہتمام کرنا چاہیے، بیوی خاوند کی شکایتیں لگانے سے پرہیز کرے وغیرہ۔

آخر میں سعودی عرب کے مشہور فقیہہ محمد بن صالح العثیمین کے دو مقالے شامل کیے گئے ہیں: ’نوجوانوں کی مشکلات اور اس کا حل‘ اور دوسرا :’اصلاحِ معاشرے میں عورت کا کردار‘ جس میں تربیت اور دعوت کے ضمن میں عورت کی ذمہ داری بتائی گئی ہے۔ (م - س)


حماس، عزام تمیمی۔ ترجمہ: محمد یحییٰ خان۔ ناشر: نگارشات، پبلشرز، ۲۴- مزنگ روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۳۹۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب عزام تمیمی کی انگریزی کتاب Hamas: Unwritten Chapters کا ترجمہ ہے جو بزرگ صحافی محمد یحییٰ خاں نے کیا ہے۔ کتاب حماس کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر، آگہی اور شعور کا مرقع ہے۔ حماس کے بارے میں تازہ ترین معلومات، موقف، مقاصد کا تذکرہ، حماس کے قائدین،معتقدین کی سوچ، اقدار، جدوجہد اور نظریات کی تفصیل دی گئی ہے۔ پیش آمدہ چیلنجوں سے کیسے عہدہ برآ ہوئے، دوست اور دشمن کے ساتھ رویہ کیا رہا، ناکامیوں کا سامنا کس طرح کیا؟ غرضیکہ حماس کو عالمی سیاق و سباق اور تناظر میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

۲۰۰۳ء میں انگریزی میں لکھی جانے والی یہ کتاب حماس کی جدوجہد کا حقیقی اور صحیح رُخ پیش کرتی ہے۔ آغاز میں مترجم نے فلسطین کی ابتدائی تاریخ ، برطانوی قبضہ، پہلی جنگ ِ فلسطین، سویز سنائی جنگ، ۶روزہ جنگ اور جنگ اکتوبر کے نام سے چند نقشہ جات کا اضافہ بھی کیا ہے۔ کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ مغرب، حماس اور حزب اللہ جیسی تحریکوں کے بارے میں اپنے غیرمنصفانہ موقف کے باعث شدید غلط فہمیوں کا شکار ہے اور ’حماس‘ کو القاعدہ سے جوڑنا شدید  قسم کی بے انصافی اور انتہاپسندی ہے۔ کتاب ۱۰ ابواب، ۶ ضمیموں اور چند نقشوں پر مشتمل ہے اور مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو سمجھنے کے لیے مفید ہے۔ ترجمے سے اُردوخواں طبقے تک بھی رسائی ممکن ہوگئی ہے جو مفید کاوش ہے۔ (عمران ظہور غازی)


سہ ماہی Insights ، (جلد۱، شمارہ۱)، مدیراعلیٰ: پروفیسر عبدالجبار شاکر، مدیر: عبدالرحمن صالح۔ ناشر: دعوہ اکیڈیمی، فیصل مسجد، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: درج نہیں۔

اسلامی تحقیقاتی اور دعوتی اداروں کی جانب سے اعلیٰ معیار کے مجلے اُردو میں کمیاب اور انگریزی میں نایاب ہیں۔ اس صورت حال میں ۷ معیاری مقالات کا یہ مجموعہ خوش گوار ہوا کا جھونکا ہے جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی منظر پر اسلام کو پیش کرے گا۔ حجۃ الوداع پر ظفراسحاق انصاری کا مقالہ ہے۔ ایازافسر نے انگریزی کی درسی کتب میں مناسب اسلامی، ثقافتی پس منظر پیش کرنے کے بارے میں تجاویز دی ہیں۔ عبدالجبار شاکر نے سیرتِ نبویؐ پر رحمت کے حوالے سے لکھا ہے۔ ترکی کے محمود عائیدین نے ویٹی کن کونسل اور عیسائی مسلم تعلقات پر معلومات دی ہیں۔ ایک مضمون حضرت عمر فاروقؓ کے بیت المقدس کے لوگوں کے ساتھ معاہدے پر ہے۔ آسٹریا میں اسلام پر ۲۵صفحے کے مقالے میں تازہ تفصیلی معلومات ملتی ہیں۔ مراد ہوفمین کی ڈائری سے بنیادی مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ برنارڈ لیوس کی The Crisis of Islam: Holy War and Unholy Terrorپر امتیاز ظفر نے تبصرہ کیا ہے۔ مجموعی طور پر جیساکہ موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے، ایک وقیع رسالے کا اضافہ ہوا ہے۔ امید ہے ہر سہ ماہی پر آتا رہے گا۔

انگریزی میں دعوتی رسالوں کا ذکر ہے تو دو دوسرے رسالوں کا ذکر بھی مناسب ہوگا۔ یہ بھی سہ ماہی ہیں۔ ایک INTELLECT بڑے سائز کے ۸۲ صفحات، آرٹ پیپر پر بہترین معیار پر طبع شدہ۔ مدیرہ: بنت زاہد۔ (مکتبہ فہم دین نزد مسجد دارالسلام، فیزIV، ڈی ایچ اے، کراچی-۷۵۵۰۰، فون: ۴۲۵۱۶۵۳-۰۲۱) ۔دوسرا خواتین کے لیے HIBA کے نام سے ہے جس کی چھٹی جِلد کا پہلا شمارہ میرے سامنے ہے۔ یہ ۴۸ صفحات کا ہے، آرٹ پیپر پر، قیمت : ۱۵۰ روپے، مدیرہ: رانا رئیس خان (یونٹ نمبر۲، بلڈنگ سی/۲۲، اسٹریٹ ۱۴، آف خیابان شمشیر، فیزV ، ڈی ایچ اے، کراچی، فون: ۵۳۴۳۷۵۷-۰۲۱)۔ اس شمارے میں شیطان کو موضوع بناکر مؤثرانداز سے تذکیر کی گئی ہے کہ گھر میں کس طرح آتا ہے، عورتوں پر کس طرح حملہ کرتا ہے وغیرہ۔ دونوں رسالے پڑھنے کے ساتھ دیکھنے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اچھا کام اچھے معیار پر دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ (م - س)

تعارف کتب

  •  The Provision For Akhirah  [زادِ راہ]، مولانا جلیل احسن ندوی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ۳۵-ڈی، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۳۷۱۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ زادِ راہ مولانا جلیل احسن ندوی کا مرتبہ مجموعہ احادیث ہے جو مختصر تشریح کے ساتھ تحریکی کارکنوں کے لیے تیار کیا گیا ہے اور طویل مدت سے استعمال میں ہے۔ اس میں عبادت، معاملات، اجتماعی تقاضے، فضائل اور زائل اخلاق کے ساتھ اسوئہ رسولؐ، اسوئہ صحابہؓ اور داعیانہ کردار جیسے موضوعات دیے گئے ہیں۔ اس کے انگریزی ترجمے کے ۱۶ صفحے کے مقدمے میں مترجم نے تحریکاتِ اسلامی کی دلدل میں پھنسنے اور مقصد سے دُور ہوجانے پر تبصرہ کیا ہے، نیز تشریح کے ساتھ اپنے نوٹ بھی جگہ جگہ بڑھائے ہیں جن کے بغیر یہ کتاب زیادہ بہتر تھی۔ (مفصل تبصرہ: ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۵ء)۔]
  •   الاسما الحسنٰی ، محمد الغزالی۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۷۴۔ قیمت: ۸۰روپے۔ [۹۹ اسما الحسنیٰ کا بیان مختصر تشریح کے ساتھ کہیں دو صفحے، کہیں ایک صفحے پر دو۔ مجموعی مطالعے سے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات نظر سے گزر جاتی ہیں اور توحید کا تصور واضح ہوجاتا ہے۔]
  •   فکرونظر، جولائی دسمبر ۲۰۰۸ء، خصوصی اشاعت، ڈاکٹر سید ابوالخیرکشفی۔ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد۔ صفحات: ۴۰۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [ڈاکٹر ابوالخیر کشفی جامعہ کراچی میں اُردو کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے اسلامی حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے اور خدمات انجام دیں۔ ادارے نے ان پر یہ یادگار نمبر شائع کیا ہے۔ کشفی صاحب پر ۹مقالے، ان کی تصانیف پر ۱۱ مقالے، ان کی منتخب ۹ نگارشات اور ان کے نام ۲۴ خطوط پر مشتمل یہ مجموعہ کشفی صاحب کے احباب کی طرف سے شایانِ شان ہدیہ ہے۔]
  •   الایضاح، مدیراعلیٰ: ڈاکٹر دوست محمدخاں۔ شمارہ ۱۷، شیخ زاید مرکز اسلامی، جامع پشاور، پشاور۔ صفحات: عربی: ۷۸، انگریزی: ۵۲، اُردو: ۱۴۷۔قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [ہماری جامعات میں علمی رسائل کے اجرا کی کوئی مضبوط روایت نہیں ہے۔ جامع پشاور کے شیخ زاید سنٹر کا انگریزی، عربی اور اُردو میں اہم اسلامی موضوعات پرمواد کا یہ مجموعہ خوش آیند ہے۔ اُردو حصے میں توہینِ رسالت، ضابطہ قسامت، نفاذ حجر، عصرِحاصر اور اجماع جیسے موضوعات پر وقیع مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔ انگریزی حصے میں صوبہ سرحد کے دو اضلاع کا خواتین کی تولیدی صحت کا جائزہ اسلامی پس منظر میں پیش کیا گیا ہے اور قیمتی معلومات دی گئی ہیں۔]
  •   اپنے رب کو راضی کرنے کے طریقے، عبدالعزیز الشفیع، ترجمہ: طارق نورالٰہی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ صفحات:۷۲۔ قیمت: ۳۳ روپے۔ [رب کوراضی کرنا ہر ایک کا مسئلہ ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے مصنف نے ۹ عنوانات مثلاً: دعا، توبہ واستغفار، ظلم سے اجتناب، صدقہ، شکرگزاری وغیرہ کے تحت عملی باتیں مؤثر انداز سے پیش کی ہیں۔ جو مطالعہ کرے گا ضرور فائدہ اٹھائے گا اور عمل کرے گا تو رب کو راضی کرے گا۔]
  •   حفظ و تحفیظ قرآن کیسے؟ ، قاری عبدالرزاق زاہد۔ ملنے کا پتا: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: ۳۰ روپے۔[حفظ قرآن کے رجحان میں فروغ کے پیش نظر اساتذہ اور والدین اور طلبہ کی عملی رہنمائی کے لیے یہ کتابچہ مرتب کیا گیا ہے۔ حفظ قرآن کی فضیلت، حفظ کے اساتذہ کے اوصاف اور جدید اندازِ تدریس، درست تلاوتِ قرآن کے لیے، تجوید کے مختصر قواعد، سبق یاد کرنے کا طریقہ، سبقی، پارہ اور  منزل سننے کے مختلف طریقے، نیز طلبہ کے لیے نصائح اور مفید مشورے اور تجربات و مشاہدات بیان کیے گئے ہیں۔]

 

اقبالیات: تفہیم و تجزیہ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، چھٹی منزل، ایوانِ اقبال، لاہور۔ فون: ۶۳۱۴۵۱۰-۰۴۲۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

اقبالیات ایک وسیع مضمون ہے، جسے بیش تر لوگوں نے پیشہ ورانہ ترقی کے حصول کا ذریعہ یا دانش ورانہ زورآزمائی کے لیے اپنی مشق ستم کا نشانہ بنایا ہے۔ اس فضا میں جن معدودے چند دانش وروں اور تحقیق کاروں نے واقعی اقبالیات کو آگہی کا وسیلہ اور دانش کے سفر کا زینہ بنایا ہے، ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب ۱۴ مضامین پر مشتمل ہے اور مباحث کا بڑا حصہ فکرِاقبال کے عصری حوالوں کی تعبیر و تشریح پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر: ’خطباتِ اقبال: تفہیم، رجحانات، معنویت‘ ،’فکراقبال اور مغرب کی تمدنی اور استعماری یلغار‘ ،’اقبال اور عالمی نظام کی تشکیلِ نو‘، ’اقبال کے ہاں ذوقِ سحرخیزی‘، ’اقبال کاتصورِ جہاد‘، ’اسلامی نشاتِ ثانیہ اور اقبال‘ وغیرہ ___ وہ تحریریں ہیں، جن کے مطالعے سے فہمِ اقبال میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ ان موضوعات پر اقبال کے ہاں جو جرأتِ بیان پائی جاتی ہے، ڈاکٹر ہاشمی نے اسے کسی مرعوبیت کے کمبل میں لپیٹنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ جس کے نتیجے میں فکرِاقبال کے داخلی حسن اور ایمانی جہت کو مؤثرطرزِبیان کے ساتھ آشکارا کرنے میں ایک سنگِ میل طے کیا ہے۔ وگرنہ مغربی اسٹیبلشمنٹ کے دھن، دھونس اور غیرمشروط اطاعت کے زیراثر بعض دانش ور  تو اقبال کو بھی ایک سیکولر اور تابع مہمل شاعر بنانے اور علومِ اسلامیہ کی خودساختہ تعبیروتشکیل کا حوالہ بنانے پر زور لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔

ڈاکٹر ہاشمی کی اقبالیاتی تحقیق و جستجو کا اعتراف کرتے ہوئے، کتاب کے مقدمے میں  ممتاز دانش ور ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں: ’’مجھے یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ ہاشمی صاحب نے  ۳۰، ۳۵ برس میںاقبال کو مسلسل سینے سے لگائے رکھا، اور اس سمت میں ان کی تحقیق نئے نئے انکشافات پیش کر کے محققین سے دادِ تحقیق وصول کرتی ہے‘‘ (ص ۱۰)۔ کتاب کے دیگر مضامین مثلاً ’میرانیس اور اقبال‘، ’اقبال صدی کی سوانح عمریاں‘، ’کلامِ اقبال کی تدوین ِ جدید‘ اور ’بالِ جبریل کا غیرمطبوعہ کلام‘ وغیرہ بھی علمی کھوج لگانے اور حقائق کو درست ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کی معتبر مثالیں پیش کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کتاب حسنِ پیش کش، حسنِ بیاں اور حسنِ فکر سے آراستہ ایک مستند حوالہ اور ایک تحقیقی دستاویز ہے۔ (سلیم منصور خالد)


حکمت ِ بالغہ ، (حقیقت علم نمبر)، مدیر: انجینیرمختارحسین فاروقی۔ ملنے کا پتا: قرآن اکیڈمی، گورنمنٹ ایمپلائز کوآپریٹو سوسائٹی، لالہ زار کالونی نمبر۲، جھنگ صدر۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۵۰ روپے۔

قرآن اکیڈمی (انجمن خدام القرآن، جھنگ) کے زیراہتمام شائع ہونے والے ماہنامے کے اس شمارے کا خصوصی موضوع ’علم‘ ہے۔ پورا شمارہ مدیرمحترم ہی کی تحریروں پر مشتمل ہے۔

مدیر/مصنف نے ساری بحث کو پانچ عنوانات کے تحت سمیٹ دیا ہے: مشاہدہ، تجربہ اور عقل، تجرباتی علوم پر تعقل کی حکمرانی، سوشل سائنسز کی تشکیل و ترقی، فکرِ مغرب کا فطری اساسات سے انحراف اور اس کے تباہ کن نتائج اور پس چہ باید کرد___ علاج وغیرہ۔

وہ ذرائع علوم کو تجرباتی اور تدریسی علم میں تقسیم کرتے ہیں (وحی اور الہام کا یہاں ذکر نہیں کرتے) ’’جو ساری دنیا کے انسانوں کا مشترک سرمایہ ہے‘‘ (ص ۱۶-۱۷) اور فطری علوم میں ۱۴ویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کی پیش رفت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد علم کی مشعل مغرب کے بے خدا دانش وروں کے ہاتھ آتی ہے، جس میں ڈارون، میک ڈوگل، سگمنڈ فرائڈ، کارل مارکس اور ایڈلر کے تصورات پر گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف کے نزدیک مغرب کی خدابیزار، زوال آمادہ، استحصالی، فاحش تہذیب نے انھی ملحد مفکرین کے تصورات اور فلسفوں سے جنم لیا ہے۔ آج ہمارے کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ ’’جدید علوم کے تجرباتی [اطلاقی] حصے کو علیحدہ کرکے اس کا تعلق انبیاے کرام اور آسمانی وحی سے دوبارہ جوڑ دیا جائے۔ اس ٹوٹے ہوئے تعلق کے بحال ہوتے ہی انسان کو باطنی سکون میسر آئے گا، اور دنیا آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمۃ للعالمینی کے سائے میں آجائے گی، جہاں سکون، امن اور عدل و انصاف ہوگا‘‘۔ (ص ۹۳)

ایک جگہ مصنف لکھتے ہیں: ’’ہر بندۂ مومن کو علامہ اقبال کے اس مصرعے کا مصداق   قرار دیا جاسکتا ہے‘‘ ع  لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب (ص ۱۳)۔ حالانکہ یہ اقبال کی نظم ’ذوق و شوق‘ کے اشعار ہیں جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عقیدت کانذرانہ پیش کیا گیا ہے، نہ کہ ’ہر بندۂ مومن‘ کے لیے۔ ’جدید تعلیم یافتہ حضرات میں علومِ قرآنی کے فروغ کا نقیب‘___ اگر ان کمزوریوں/ تساہل سے مبرا ہو، تو یقینا زیادہ مفید ہوسکتا ہے۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


تذکرہ مولانا محمد حسن جان شہید، مرتبہ: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: جامعہ ابوہریرہ،  خالق آباد، نوشہرہ، سرحد۔ فون: ۲۰۱۸۵۷-۰۹۲۳۔ صفحات: ۶۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔

علمِ دین حاصل کرنے والے لاکھوں سعادت مند ہیں، لیکن تفقہ فی الدین اور جرأتِ اظہار خال خال خوش نصیبوں کو حاصل ہوتا ہے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے فارغ التحصیل شیخ الحدیث مولانا محمد حسن جان شہید (م: ۲۰۰۷ء) ایسے ہی خوش نصیب انسان ہیں۔ وہ علم دین کی تدریس و تربیت کے ساتھ ملّی سطح پر بے لاگ موقف اختیار کرتے ہوئے رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کر رہے تھے۔

وہ صاحب علم بھی تھے اور اجتماعی زندگی میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے مجاہد بھی۔ انھوں نے بالخصوص آخری ایامِ زندگی میں بے خوف و خطر راست موقف اختیار کیا۔ ایک مغربی اسکالر نے لکھا: ’’مولاناحسن جان نہایت صلح جو اور امن پسند شخصیت ہیں۔ وہ بندوق کے نہیں، مکالمے کے آدمی ہیں‘‘ (ص ۴۷)۔ ’’صوبہ سرحد کے طول و عرض میں خودکش حملوں پر مولانا انتہائی رنجیدہ تھے، اور سوات کے مولانا فضل اللہ کو بھی انھوں نے ہدایت کی تھی کہ وہ لال مسجد انتظامیہ کا راستہ اختیار نہ کریں۔ کیونکہ پاکستانی فوج اور عوام کو آپس میں لڑانے کا فائدہ صرف ہندستان اور امریکا کو ہوگا‘‘ (ص ۵۷۷)۔ ’’افسوس کہ مکالمے کی بات کرنے والے شخص کو ہم نے گولیوں کی زبان سے ضائع کردیا‘‘ (ص ۳۲۰)۔ دراصل: ’’وہ پاکستان میں خودکش حملوں کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ لال مسجد کے سانحے کا انھیں انتہائی دکھ تھا۔ انھیں اپنے ملک اور وطن سے والہانہ محبت تھی، وہ اپنے ملک کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے‘‘ (ص ۴۸)۔ ’’ان پر محدثانہ رنگ غالب تھا، اس لیے اتباعِ سنت بدرجۂ اتم موجود تھی‘‘ (ص ۵۷‘)۔ ’’احادیث ِ ضعیفہ اور موضوعہ کی کتابوں کے حوالے دینے سے منع فرماتے تھے۔ اس سلسلے میں اپنے استاد ناصرالدین البانی سے متاثر تھے‘‘ (ص ۵۸)۔ ۱۹۹۱ء میں قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’پختون خواہ کے نام سے مجھے نفرت ہے‘‘ (ص ۳۰۰)۔ ان اقتباسات سے مولانا حسن جان شہید کے طرزِ فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مولانا عبدالقیوم حقانی نے ماہ نامہ القاسم کی اس اشاعت ِ خاص میں اس ممتاز عالمِ دین اور جرأت مند انسان کے احوال کو حلقہ احباب کی مدد سے مرتب کر کے اہم خدمت انجام دی ہے۔(سلیم منصور خالد)


چودھری افضل حق اور ان کی تصنیف زندگی[سوانح اور فکری و فنی مطالعہ]، ڈاکٹر اسلم انصاری۔ ناشر: دارالکتاب، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۵۰۹۴-۰۴۲ صفحات: ۲۸۰۔ قیمت: ۲۷۵ روپے

اردو ادب کی جو کتابیں اپنے مصنفین کی دائمی شہرت اور مسلم تہذیب پر دُور رَس اثرات کا باعث بنیں، ان میں چودھری افضل حق(۷ جنوری ۱۸۹۳ ء-۸ جنوری ۱۹۴۲ء) کی کتاب زندگی (۱۹۳۰ء) بہت نمایاں ہے۔ بعض گھریلو اور معاشی مجبوریوں کے پیش نظر وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہو گئے۔ سرکاری ملازمت کے چار پانچ برس انھوں نے دل پر جبر کرکے گزارے، تاہم ایک جلسے میں ڈیوٹی کے دَوران سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے خطاب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انگریز کی ملازمت سے مستعفی ہو گئے۔ کانگریس، تحریک خلافت اور مجلس احرار سے وابستہ رہے اور گرفتار ہوئے۔ چودھری صاحب اپنی شبانہ روز سیاسی سرگرمیوںاور شعلہ بیانی کے باعث سول نا فرمانی کی تحریک کے دوران گرفتار ہوئے اور انھیں گورکھپور کی جیل میں بند کر دیا گیا۔ قید کے دنوں میں انھیں احساس ہوا کہ زندگی کی حقیقتوں کی نقاب کشائی کرنی چاہیے تاکہ لوگوں میں زندگی کا شعور پیدا ہو۔ زندگی کے نام سے منصہ شہود پر آنے والی یہ کتاب عالمِ مثال، عالمِ ارواح یا جہانِ افلاک کی روحانی یا تخیلی سیر پر مبنی ابو العلا معری کے رسالۃ الغفران ، حکیم سنائی کی مثنوی سیر العباد الی المعاد ، دانتے کی طربیہ ایزدی اور اقبال کی جاوید نامہ کی طرز پر اردو کی اب تک واحد تصنیف ہے۔

ڈاکٹر اسلم انصاری داد کے مستحق ہیں، جنھوں نے اس کتاب کو اپنی تحقیق کے لیے منتخب کیا۔ محقق نے ابو یوسف قاسمی کی تالیف(مفکرِ احرار: چودھری افضل حق) ، محمد امین زبیری کی تصنیف : سیاستِ مِلیہ، مولانا غلام رسول مہر کے مضمون : پیکرِ عزیمت (مطبوعہ روزنامہ آزاد ، لاہور) اور چودھری افضل حق کی خود نوشت: میرا افسانہ کی مدد سے مصنف کی زندگی کا جامع سوانحی خاکہ ترتیب دیا ہے۔ انھوں نے ان کی سیرت و کردار ، اخلاقی ومعاشرتی افکار و حیات سے روشناس کرانے کے لیے تحقیق کی اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ محقق نے بڑی عرق ریزی سے زندگی کا بطور تمثیل جائزہ لیا ہے اور عالمِ مثال اور عالمِ بزرخ کے زیرِ عنوان پیش کی گئی عالمِ مثال کی پانچ پاک روحوں اور نو ناپاک روحوں پر بحث کے علاوہ چودھری افضل حق کے تاریخی شعور اور زندگی کی تمثیلی معنویت پر روشنی ڈالی ہے۔ زندگی کے فلسفۂ مذہب اور فلسفۂ اخلاق (نظریۂ خیروشر) کا جائزہ لینے کے بعد زندگی  کا فنی و تکنیکی اور اسلوبیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔یہی وہ مقامات   ہیں، جہاں محقق کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھربور موقع مِلا ہے۔ کتاب کے آخر میں زندگی کو عالمی ادب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر اسلم انصاری اردو، فارسی اور انگریزی کے معتبر شاعر اور اقبال شناس کی حیثیت سے اپنی انفرادیت کا نقش ثبت کر چکے تھے، اس مقالے کی اشاعت سے وہ ایک سنجیدہ محقق کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ان کی اس کاوش سے اردو زبان و ادب کے ناقدین و محققین کے لیے نئی منزلوں کی نشان دہی ہورہی ہے ۔ بلند تر تحقیقی معیار، اعلیٰ تنقیدی ذوق اور شگفتہ اسلوب کی حامل یہ کتاب محقق کے مقام و مرتبے کے دوبارہ تعین کا تقاضا کرتی ہے۔(ڈاکٹر خالد ندیم)


کشمیر، تاریخ کے گرداب میں، سید عارف بہار۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات: ۲۳۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

جموں و کشمیر جنت نظیر خطے کے ایک کروڑ سے زائد باشندوں کے ساتھ گذشتہ ۶۰ برسوں میں جو سلوک ہوا، اُس کاتجزیہ اگرچہ متعدد ماہرین سیاسیات نے کیا ہے اور اس پر بیسیوں کتابیں چھپ چکی ہیں۔ اس کے باوجود، اس موضوع پر ایک سنجیدہ مطالعے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

سید عارف بہار گذشتہ دو دہائیوں سے کشمیر، پاکستان اور سیاسیاتِ عالم کے حوالے سے مضامین قلم بند کرنے میں مصروف ہیں۔ اُن کے مضامین نے کشمیر کے حوالے سے کئی نئے گوشے وا کیے اور پاکستانی عوام کو کشمیریوں کے حالات و واقعات اور اُن کی جدوجہد ِ آزادی اور بھارت کے مظالم سے روشناس کرایا ہے۔

انگریزی دور میں بھارتی استبداد میں اور اب عالمی ایوان ہاے سیاست میں مسئلہ کشمیر سے جس طرح غفلت برتی گئی ہے، زیرنظر کتاب میں اُس کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔ تہذیب، تعلیم، زراعت، ثقافت، وزراے اعظم، صدور اور تمام ممکنہ تفصیلات کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں سیاسی پنڈتوں کی بازی گری کا بے لاگ تجزیہ کیا گیا ہے اور پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی مجرمانہ خامشی اور غلط حکمت عملیوں پر بھرپور گرفت کی گئی ہے۔ اس مختصر کتاب میں اہم معلومات کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں، الحاق کی دستاویز جسے مہاراجا ہری سنگھ نے ۱۹۴۷ء کو نافذ کیا، معاہدۂ تاشقند، شملہ معاہدہ اور اعلانِ لاہور کو ’دستاویزات‘ کے تحت دیاگیا ہے۔ اگر ان معاہدوں کا اصل عکس بھی شائع کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ کشمیر کے موضوع پر اس کتاب کی اشاعت سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے ایک مفید علمی خدمت انجام دی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


مسلمانوں کی پستی، اسباب اور حل، فضل کریم بھٹی۔ناشر: فیض الاسلام پریس، راولپنڈی۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۳۷۰ روپے۔

ساتویں صدی عیسوی سے سترھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا لیکن اس کے بعد جو زوال شروع ہوا وہ کہیں تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ چنانچہ اس زوال کے اسباب کا پتا چلانے کے لیے اور اس سے نکلنے کے لیے دردمنددل کوشاں ہیں۔ جہاں تک حکمران طبقے کی بات ہے انھیں تو اس کا احساس ہی نہیں ہے لیکن ہمارے دانش ور اس کا بخوبی احساس رکھتے ہیں۔

مصنف نے پوری اُمت ِمسلمہ کو پیش نظر رکھا ہے اور اس میں خاص طور پر برعظیم اور پاکستان کے حالات کو مرکزی حیثیت دی ہے۔ ان کے نزدیک اس کا ایک بڑا سبب ہمارا تعلیمی زوال ہے۔ ہمارا نصابِ تعلیم بہت زیادہ اصلاحات چاہتا ہے۔ اس پر علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒنے توجہ دلائی لیکن جس سطح پر کام ہونا چاہیے، وہ نہیں ہوا۔ اس پر اسی صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے کہ ہم اسلامی علوم کے ساتھ جدید علوم کو بھی سیکھیں اور من حیث القوم ہماری سوچ کا    مرکز و محور ایک ہونا چاہیے۔ یہ کتاب ایک دردمند دل کی پکار ہے۔(محمد ایوب لِلّٰہ)


شگفتہ شگفتہ، فرزانہ چیمہ۔ ناشر: مکتبہ خواتین میگزین، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ اشاعت اول: جون ۲۰۰۸ء۔ صفحات: ۲۰۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

زندگی کتنی تہہ دار، ہمہ پہلو اور رنگا رنگ ہے، اس میں کتنی جدت اور ندرت ہے اس کا اندازہ فرزانہ چیمہ کی متنوع تحریروں کو پڑھ کر بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ان کی تازہ کتاب شگفتہ شگفتہ جو ۲۸ مضامین پر مشتمل ہے، واقعتا شگفتگی، مزاح اور دل چسپ انداز لیے ہوئے ہے۔

مزاحیہ ادب تخلیق کرنا مشکل کام ہے، اور مصروف ترین زندگی میں یہ کام مشکل تر بن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گھریلو کام کاج، سرکاری ڈیوٹی اور بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ پڑھنے اور لکھنے کے لیے وقت نکالنا اور اپنے اردگرد پھیلے ہوئے واقعات کو کہانی، انشائیہ اور فکاہیہ تحریروں کا روپ دینا کچھ اتنا آسان کام نہیں۔قوتِ تخلیق، مشاہدہ، وسعت ِ مطالعہ، گہری سوچ اور قلم کے ساتھ مضبوط اور پختہ وابستگی کے نتیجے میں ہی یہ ممکن ہے۔ زبان عام فہم اور آسان، پنجابی الفاظ، محاورے اور کتنے ہی اشعار کتاب کا حُسن دوبالا کر رہے ہیں۔ جنٹل مین سیریز کے کرنل اشفاق حسین کے ’جنگ جو لکھاری‘ اور سلمیٰ یاسمین نجمی کی ’اے رہبرِ فرزانہ‘ نے اس کتاب کے کئی خفیہ گوشے وا کیے ہیں۔ ایک خوب صورت اور دل چسپ کتاب۔(عمران ظہور غازی)

تعارف کتب

  •  عہدنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق  ،نجمہ راجا یٰسین(بنت خلیل)۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی ۔ فون: ۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[عرب تمدن، تاریخی پس منظر، ظہورِ اسلام سے قبل عرب معاشرے کی حالت، عہدنبویؐ میں بلدیاتی اداروں کی تنظیم و تشکیل اور عہدنبویؐ میں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ عصری سماجیاتی ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ (مفصل تبصرے کے لیے دیکھیے: ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۷ء)۔]
  •  مولانا مودودی اور محترمہ مریم جمیلہ کی مراسلت، مترجم: ڈاکٹر عبدالغنی فاروق۔ ناشر:کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۲۸۔قیمت: ۸۰ روپے۔ [گذشتہ صدی کے چھٹے عشرے میں، امریکی نژاد نومسلمہ محترمہ مریم جمیلہ نے تلاشِ حق کے لیے مولانا مودودی کے ساتھ خط و کتابت کی۔ اس میں دین اسلام، اسلامی معاشرت، نیز فکری اور سماجی مسائل پر قیمتی نکات زیربحث آئے ہیں۔      یہ مراسلت انگریزی میں تھی۔ اس کا یہ ترجمہ ۲۵ سال بعد دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔]
  •  درخت اور اس کا پھل، امجدحیات ملک۔ ملنے کا پتا: بی/۲۴۳- نیو چوبرجی پارک، لاہور۔ فون: ۷۴۱۸۸۰۴-۰۴۲۔صفحات:۶۴۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ [نیو ورلڈ آرڈر کے تمام پہلوئوں، یعنی تاریخی، سیاسی، مذہبی، معاشی و معاشرتی وغیرہ کا مبنی برحقائق احاطہ۔ ان قطعی حقائق اور ناگزیر حقیقتوں سے بے خبری کی وجہ سے ہمارے ملک میں اعلیٰ سطح پر بڑے نازک فیصلوں میں نقص اور بگاڑ پیدا ہوتا رہا ہے۔ ان اہم حقائق سے ہمیں یہ شعور بھی حاصل ہوتا ہے کہ اس دنیا میں طاغوتی طاقتوں کی موجودگی کے علی الرغم قادرِ مطلق ہستی کیسے بنی نوع انسان کو بتدریج اپنے وضع کردہ حقیقی عالمی نظام کی طرف لے جارہی ہے۔ کتاب کے نام سے موضوع واضح نہیں۔]

 

سراپا رحمت (رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور رفاہی کام)، مؤلف: پروفیسر امیرالدین مہر۔ ناشر: غزالی اکیڈمی، میرپور خاص۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ سدابہار پاکیزہ اور محبوب موضوع ہے جس پر حضرت حسانؓ بن ثابت سے لے کر پوری اسلامی تاریخ میں آپؐ کی سیرتِ طیبہ، صورتِ مبارکہ، آپؐ کے پاکیزہ و تاباں اخلاق، اعمال و افعال اور زندگی کے تمام گوشوں پر مسلسل کہا، لکھا اور نشر کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ذخیرہ اتنا وسیع، عمیق اور زیادہ ہے کہ مزید اس پر لکھنے اور پڑھنے کا تقاضا موجود ہے۔

سیرتِ طیبہؐ کو حیطۂ تحریر میں لانے کی ایک کوشش مولانا امیرالدین مہر نے بھی کی ہے۔ انھوں نے آپؐ کی سیرت کا رفاہی، اصلاحی، فلاحی اور خدمت ِ خلق کا پہلو بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے دو بڑے حصے ہیں۔ ایک حصے میں آپؐ کے وہ کارنامے، اعمال و اقدام بیان کیے گئے ہیں جو آپؐ نے بنفسِ نفیس سرانجام دیے، اور دوسرے حصے میں آپؐ کی وہ احادیث، ارشادات و فرمودات ہیں جن سے خدمت ِ خلق اور رفاہی کاموں کی ضرورت، اہمیت اور اس کے دنیوی و اخروی اثرات و ثمرات اور اجروثواب کا تذکرہ ہے، جیسے آپؐ کا حلف الفضول میں شرکت، حجراسود کا نصب کرنا، مظلوم و یتیم کا حق دلانا اور میثاقِ مدینہ کا معاہدہ ۔ اس طرح آپؐ نے مدینہ منورہ اور گردونواح کے باشندوں میں امن قائم کردیا۔ اسی طرح مواخات، اصحابِ صفہ کی خدمت، مسجدقبا اور مسجدنبویؐ کی تعمیر وغیرہ ہے۔ اس سے ایک طرف سیکڑوں مہاجرین کی آمد کا مسئلہ حل ہوا تو دوسری طرف تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی ہوگیا ہو اور اسلامی ریاست مستحکم ہوئی۔

اپنے موضوع پر یہ منفرد کتاب ہے اس لیے کہ اُردو زبان میں پہلی مرتبہ سیرت کے اس پہلو کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یوں اہل علم و فضل کی توجہ اس طرف منعطف کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ سیرت کے اس پہلو کو نمایاں کر کے پیش کریں، اور اسلام اور حاملینِ اسلام کے بارے میں اس تاثر کو دُور کیا جاسکے کہ مسلمانوں میں رفاہی کام کی وہ اہمیت نہیں ہے جو دوسرے مذاہب اور آزاد خیال لوگوں میں ہے۔ سیرت کے اس پہلو پر ایسی تحریر آنے سے یہ تاثر دُور ہوگا اور رفاہی کام کرنے والے حق الیقین سے کام کریں گے۔

مولانا امیرالدین مہر دعوتی و تبلیغی حلقوں میں جانی پہچانی علمی شخصیت ہیں۔ انھوں نے اُردو اور سندھی میں ۴۰ کے قریب کتابیں اور کتابچے مرتب کیے اورترجمے کیے ہیں۔ ان کے منجملہ تالیفات و تصنیفات میں قرآن مجید کا سندھی ترجمہ، تفہیم القرآن اور تلخیص تفہیم القرآن کا سندھی ترجمہ نمایاں ہیں۔ (شہزاد چنا)


ناموسِ رسالتؐ کے سات شہید، راے محمد کمال، ناشر: جہانگیر بک ڈپو، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۲۰۷۸۹۔ صفحات: ۴۴۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

ایک مسلمان کے لیے حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایک جذبے، روح اور خوشبو کی مانند ہے، جسے قانون اور علمِ سماجیات کے پیمانوں پر تولا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ اس جذبے کی لذت و حلاوت کا ذائقہ وہی وجود چکھ سکتا ہے، جس کا نام خود خالقِ کائنات سے مسلم رکھا ہے۔

۲۰ویں صدی کے پہلے چار عشرے جہاں سیاسی و سماجی ہنگامہ خیزی کے لیے برعظیم کی تاریخ کا ایک اہم دور تصور کیے جاتے ہیں، وہیں ناموسِ رسالتؐ کے باب میںیہ زمانہ روشنی کا  ایک مینار بن کر سامنے آتا ہے۔ ہندو آریہ سماجیوں نے جب بھی رسولِؐ خدا کی شانِ اقدس میں پے درپے گستاخانہ جسارتیں کیں، مسلمان نوجوانوں نے پروانہ وار آگے بڑھ بڑھ کر اپنے ایمان اور جان کی گواہی پیش کی۔ یہ کتاب انھی جان نثاروں کے احوال پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر عبدالرشید شہید [۱۴ نومبر ۱۹۲۷ء]، علم دین شہید [۳۱ اکتوبر ۱۹۲۹ء]، عبدالقیوم شہید [۱۹ مارچ ۱۹۳۵ء]،محمد صدیق شہید [۹ مارچ ۱۹۳۵ء]، مرید حسین شہید [۲۴ستمبر ۱۹۳۷ء]، میاں محمد شہید [۱۲اپریل ۱۹۳۸ء]۔ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان کے احوال و واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو شہادت کی یہ زندہ علامتیں، روشنیاں بکھیرتے ہوئے ایمان کی دنیا سیراب کرتی ہیں۔

مصنف نے محنت، محبت، سلجھائو اور متوازن اسلوب کے ساتھ ملّی تاریخ کے ان روشن نقوش کو یک جا پیش کیا ہے، جن کی روشنی میں دو قومی نظریہ پوری آب و تاب کے ساتھ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ہمارے سیکولر دانش وروں کی کج فہمی اور متحدہ قومیت کے طرف داروں کی کور فہمی کی دُھند، مطالعہ کرتے ہوئے بتدریج صاف ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ اگرچہ ہندودانش، مسلمانوں کے دینی جذبات پر پے درپے حملہ آور رہی، تاہم یہ ممکن نہ ہوا کہ ایمانی وابستگی کے ساتھ مسلمان، ہندو اکثریت کی غلامی قبول کرلیتے۔ گویا کہ تخلیقِ پاکستان میں حب ِ رسولؐ کے ان درخشاں حوالوں اور گستاخیِ رسولؐ کے اذیت ناک واقعات نے ایک طاقت ور عنصر کی حیثیت سے ایک نمایاں کردار ادا کیا ۔ (سلیم منصور خالد)


First Things First for Inquiring Minds and Yearning Hearts، خالد بیگ۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب، گیزری، ڈی ایچ اے، کراچی۔ ملنے کا پتا: کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار لاہور۔ صفحات: ۴۲۱۔ قیمت: درج نہیں۔

لندن سے شائع ہونے والے شہرئہ آفاق انگریزی مجلے امپیکٹ نے ایک نسل کی رہنمائی کی ہے۔ اس مؤقر جریدے میں اوّلین کالم First Things First کے عنوان سے شائع ہوتا رہا۔ اس کالم کے اثرات ابھی تک امپیکٹ کے قارئین کے دلوں پر نقش ہیں۔ ان مضامین کو مفید ومؤثر پاکر کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

زیرنظر کتاب ایک ایسے درد دل رکھنے والے صاحب ِ دل کے تاثرات ہیں جو مغرب کے تہذیبی رویوںاور طرزِعمل سے بخوبی آگاہ ہے اور انسانیت کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ خوب صورتی سے ان کا اسلامی حل پیش کرنے کی کوشش کرتاہے، اُس کا انداز دوست کا بھی ہے، عالم دین کا بھی، اور معاملات کو اُن کی تہہ تک سمجھنے والے دانش ور کا بھی۔

خالد بیگ نے انسان کو مخاطب کیا ہے۔ دو دوتین تین صفحات کی مختصر دل نشین تحریروں میں وہ کوئی انتہائی بنیادی سوال اٹھاتے ہیں اور پھر قاری کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے دل ودماغ کے دریچے وَا کرے اور سوچے کہ مادہ پرست تہذیب، خصوصاً سائنس و ٹکنالوجی کو خدا سمجھنے والے انسان، انسانیت کے آنسو پونچھنے میں ناکام کیوں رہے ہیںاور آج، دنیا کو جنگ و جدل، غربت، بیماری،  عدمِ انصاف اور عدم رواداری جیسے مصائب کا کیوں سامنا ہے؟

ابتدائی چار ابواب میں کلامِ پاک، سنت ِ رسولؐ ، بنیادی عقائد، عبادات کو موجودہ پس منظر میں زیربحث لایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اصلاحِ ذات، خواتین، تعلیم، تاریخ، سیکولرزم، مسلم اتحاد کے موضوعات پر بھی قلم اٹھایاگیا ہے۔

اکثر مضامین کا آغازکسی نہ کسی تازہ ترین واقعے سے ہوتا ہے جو مغربی دنیا میں وقوع پذیر ہوا ہو، پھر وہ انسانی ذہن کو جھنجھوڑتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کے تابناک ماضی کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا ایمان افروزتذکرہ بھی ملتا ہے۔ اسی اثنا میں ہمیں حیران کن معلومات بھی مل جاتی ہیں، مثلاً یہ کہ دنیا میں چوتھائی ٹریلین ڈالر کی رقم شراب نوشی میں صرف کردی جاتی ہے یا یہ کہ ترقی یافتہ مغرب میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ’توہم پرست‘ اور ’وہمی‘ موجود ہے یا یہ کہ مالتھس کے آبادی اور خاندان کے بارے میں نظریات زمین بوس ہوچکے ہیں۔ یہ مضامین حرکت و عمل پر اُبھارتے ہیں۔ اندازِ بیان سادہ اور پُرلطف ہے۔ اس کے کئی زبان میں تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔ (محمد ایوب منیر)


تاریخ فلسطین، ڈاکٹر محسن محمد صالح۔ مترجم: فیض احمد شہابی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۵۲۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

فلسطین کی سرزمین، انبیا اور قبلہ اول کی سرزمین کہلاتی ہے۔ نبیؐ مہربان کے سفرمعراج نے بھی اس کے تقدس و احترام میں اضافہ کیا۔ فلسطین اس وقت سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ یہودی تسلط،  عالمی قوتوں بالخصوص امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے تعاون سے جاری ہے اور فلسطینیوں کو سرزمینِ فلسطین سے بے دخل کرنے کا کھیل گذشتہ نصف صدی سے جاری ہے۔ ہمارے بے حس مسلم حکمرانوں کا کردار کچھ کم نہیں ہے۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برطانوی استعمار نے ۱۹۴۸ء میں صہیونی ریاست کا بیج بویا جو آج ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اہلِ فلسطین اپنی آزادی اور حقوق کے لیے حالت ِ جنگ میں ہیں۔ ہر طرح کا ظلم اُن پر آزمایا گیا، لالچ دیے گئے مگر وہ آزادی سے کم کسی پر راضی نہیں۔

تاریخ فلسطین، ڈاکٹر محمد صالح کی انگریزی کتاب History of Palestine کا رواں، شُستہ اور خوب صورت اُردو ترجمہ ہے۔کتاب فلسطین کی تاریخ کا ہرہر پہلو سے جامع احاطہ پیش کرتی ہے۔ فلسطین، فلسطینی عوام، مقاماتِ مقدسہ، یہودیت، صہیونیت اس کے ظہور، صہیونیت بارے اسلامی موقف، اسرائیل، عرب اسرائیل جنگیں، آزادیِ فلسطین کی تحریکیں، امن منصوبے، اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا کردار جیسے موضوعات اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر محسن محمد صالح خود فلسطینی ہیں اور فلسطین کے بارے میں حقائق، ان کے مشاہدے اور تحقیق پر مبنی ہیں۔ یہ کتاب دانش وروں، طلبہ، صحافیوں اور اہلِ علم کے لیے نادر تحفہ ہے۔ فلسطین کے بارے میں اتنا یک جا مواد کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ (عمران ظہور غازی)

تعارف کتب

  •   نقوشِ سیرت ؐ، عتیق الرحمن صدیقی۔ ناشر: دارالتذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۱۱۱۹۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت (مجلد): ۲۴۰ روپے۔ [نبی کریمؐ کی سیرتِ مبارکہ کے مختلف نقوش کا تذکرہ، عملی زندگی کے اندر ہمارے رویوں پر تنقید کے ساتھ عصرحاضرکے لیے عملی رہنمائی۔ سیرت کی معروف کتب کی خوشہ چینی اور جدید و قدیم تفاسیر سے استفادہ بھی کیا گیا ہے۔ بجا توجہ دلائی گئی ہے کہ دنیا کو درپیش مسائل نئے نہیں، جب بھی زمامِ کار ائمہ ضلالت کے ہاتھ آئی تو انسانیت کو انھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ___ نجات کی راہ نبی کریمؐ کا طریق ہے۔]
  •  صلُّوا علیہ وآلہٖ ، (فضائل درود و سلام)، محمدوقاص۔ ناشر: محنت پبلی کیشنز، پوسٹ بکس نمبر۳۲، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔ فون: ۴۵۳۵۳۳۴-۰۵۱۔ صفحات: ۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔[حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِمحبت کا بہترین ذریعہ درود شریف کا استحضار ہے۔ درود کے فضائل پر بہت سی کتب دستیاب ہیں۔ درود کا مقصد ضرورت، حکمت و فضیلت اور احادیث میں درود کے وارد شدہ الفاظ کے موضوع پر اس کتابچے میں درودشریف کی علمی حیثیت بیان کی گئی ہے جو اس کی انفرادیت بھی ہے اور ایک اہم علمی ضرورت بھی۔ آخری فصل میں نبی کریمؐ کے ادب و مقام پر بحث کی گئی ہے۔]
  •  حیاتِ طیبہ کا ایک دن ، پروفیسر عبدالحمیدڈار۔ ناشر: نشریات، لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۶۷۔ قیمت: درج نہیں۔ [حضوؐر کی کتابِ زیست کا ایک ورق جس میں سیرت نبویؐ کی ایسی تمام تعلیمات کو یک جا کردیا گیا ہے جو ہماری ۲۴گھنٹے کی روزمرہ زندگی میں سنت کا ایک مکمل اور بھرپور نمونہ پیش کرتی ہیں۔ سیرتِ رسولؐ پر ایک مختصر جامع کتاب، تعمیرسیرت اور تزکیۂ نفس کے لیے نمونۂ عمل۔]

Islam and Politics: Emergence of Reformative Movement in Indonesia [اسلام اور سیاسیات: انڈونیشیا میں تحریکِ اصلاح کا ظہور]، سوہیرین محمد صالحین۔ ناشر: انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی ملایشیا۔ صفحات: ۳۰۳، قیمت: ندارد۔

انڈونیشیا، دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست (آبادی: ۲۰ کروڑ) اور کئی لحاظ سے ایک منفرد ملک ہے۔ یہ ۱۳ ہزار ۶سو ۷۷ جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے ۶ ہزار جزائر میں ۳۰۰ مختلف نسلی گروہ آباد ہیں، جو ۲۰۰ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ اس طرح یہ ملک دنیا میں سب سے زیادہ ثقافتی اور تہذیبی بوقلمونی کا آئینہ دار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں علاقائی اور نسلی انتشار اور بغاوت کی کیفیت، ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔

انڈونیشیا پر ۱۹ویں صدی میں ولندیزی استعمار نے قبضہ جمایا۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں جاپانی آئے، اور اُن کے بعد آزادی کی تحریک میں تیزی آئی، جو بالآخر احمد سوئیکارنو کی قیادت میں کامیاب ہوئی، اور ۱۹۴۵ء میں انڈونیشیا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ سوئیکارنو نے ’پنچ شیلا‘ کے عنوان سے حکمرانی کے پانچ بنیادی اصولوں کا اعلان کیا، جو ملک کے آئین کے رہنما اُصول قرار پائے: اللہ پر یقین، انسان دوستی، شورائیت کے ذریعے جمہوریت،  قومی یک جہتی اور سماجی انصاف۔ اشتراکیوں کے لیے اُن کے دل میں نرم گوشہ تھا، کیونکہ سامراج کے خلاف جدوجہد میں ان کا بھی ہاتھ تھا۔ خیال ہے کہ امریکی سازش ہی کے ذریعے سوئیکارنو کا تختہ اُلٹ کر فوج کی مدد سے سوہارتو برسرِاقتدار آئے اور ’آئینِ نو‘ (New Order) کے ذریعے معیشت پر حکومتی کنٹرول کو کم کرکے کاروباری طبقے کو زیادہ آزادی اور مراعات دیں۔ شروع میں اشتراکیت مخالف نوجوانوں نے سوہارتو کو خوش آمدید کہا، تاہم اُن کے ۳بیٹوں اور خاندان کے افراد نے مالی منفعت کے اشتغال میں خوب ہاتھ رنگے اور ان کے خلا ف تحریکیں شروع ہوگئیں۔

اس پس منظر میں انڈونیشیا میں ’اصلاحات‘ کی وہ تحریک شروع ہوئی جس کے سربراہ   امین رئیس نے سماجی، سیاسی اصلاحات کے لیے ’محمدیہ‘ کی بنیاد رکھی۔ اور ’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کے تحت ’دعوہ‘ کا کام شروع کیا۔ اُن کے نزدیک یہ محض زبانی دعوت و نصیحت کا کام نہیں تھا، بلکہ   یہ ایک عملی تحریک تھی حکومت کی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی۔ اُن کے خیال میں دانش ور،     ارکانِ پارلیمان اور مسلم نوجوانوں کے درمیان مکالمے کے ذریعے ہی تبدیلی کی راہ ہموار ہوسکتی تھی۔

امین رئیس، خود بھی ایک دانش ور، اہلِ قلم اور ایک بڑے قائد تھے۔ مولانا مودودیؒ کی طرح انھوں نے اعلان کیا کہ اسلام صرف عبادات اور رسومات کا مجموعہ نہیں، بلکہ زندگی کے ہرشعبے پر محیط ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس میں سیاسی عمل میں بھرپور حصہ لینا بھی شامل ہے۔ گاجامادو یونی ورسٹی میں ملازمت کے دوران انھوں نے نوجوانوں اور اساتذہ کو جمع کرکے ’صلاح الدین اسلامک فورم‘ کی بنیاد رکھی، اور سوہارتو کے ہاتھوں ملک میں ’جدیدیت‘ اور مغربی فکر کی ترویج پر علمی انداز میں بھرپور تنقید کی۔ انھوں نے روایتی علما پر بھی تنقید کی، جو دین کو لے کر عصری تقاضوں سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے خیال میں تبدیلی کا راستہ، تعلیم و تلقین ہے نہ کہ تشدد اور زبردستی سے۔ انھوں نے کہا کہ سوہارتو کے عہد میں مسلمانوں کو دھکیل کر کونے میں پہنچا دیاگیا ہے اور ضرورت انھیں اسٹیج پر لانے کی ہے۔

۱۹۹۰ء میں بی جے حبیبی نے انڈونیشیا کے مسلم دانش وروں کی جماعت بنائی، جس میں امین رئیس کا بھی ہاتھ تھا، تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ انڈونیشیا میں تحریکِ اصلاح کی یہ داستان طویل ہے۔ سوہارتو کی حکمرانی کے ۳۰ سال میں بظاہر جمہوریت کا دور دورہ تھا لیکن کچھ اصلاحات کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے عیسائیوں اور مسلمانوں، دونوں کو راضی کرنے کے باوجود، ناراض کیا۔ اپنی آخری کابینہ میں انھوں نے مسلمان وزرا کی تعداد بڑھا دی تھی، شریعت کے اصولوں پر معیشت کو استوار کرنے، جوئے اور لاٹری پر پابندی، لڑکیوں کو اسکول میں اسکارف پہننے کی آزادی، اسلامی عدالت ِ انصاف کے قیام اور ایسے بہت سے کاموں سے عیسائی زیادہ ناراض ہوئے اور مغرب کو یہ اندیشہ ہونے لگا کہ شاید وہ ملک کو ’اسلامیانے‘ جا رہے ہیں۔

اسلامی تحریک بہرحال اس سارے گرم و سرد میں اپنا کام کرتی رہی۔ سوہارتو کے سقوط کے بعد حبیبی نے اقتدار سنبھالا۔ مگر وہ ایک کمزور حکمران تھے۔ ان کے بعد میگاوتی کے مقابلے میں  غوث دُر (Gus Dur) نے بحیثیت صدر انتخاب کو ’محمدیہ‘ اور ’نہضت العلما‘ ___ یعنی اسلامی قوتوں اور امین رئیس کی فتح قرار دیا تھا، تاہم وہ بھی اس وسیع البنیاد کرپشن کو ختم کرنے میں ناکام رہے، جو انڈونیشیا کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا تھا۔ میگاوتی کی صدارت کے لیے راستہ صاف ہوگیا تھا۔ اس خاتون نے فوج، علما، اسلامی اور عیسائی ، تمام قابلِ ذکر عناصر اور قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ انڈونیشیا میں فوج ہی ایک فیصلہ کُن قوت ہے۔

جیساکہ پیش لفظ میں پروفیسر الفتح عبدالسلام کہتے ہیں: یہ معلوماتی کتاب انڈونیشیا کے دانش وروں، سیاست دانوں اور نوجوان طلبہ کے لیے خصوصاً مفید ثابت ہوگی کہ یہی سوہارتو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے اور ملک کی سیاست میں ایک اہم عامل رہے، مگر مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ مصنف کا بھی خیال ہے کہ انڈونیشیا میں اصلاح کی تحریک مزعومہ نتائج پیدا نہیں کرسکی۔

اس مختصر کتاب میں استعمار سے ’آزادی‘ کے بعد انڈونیشیا جیسے بڑے ملک میں جمہوریت، اصلاحِ معاشرہ اور سیاسی عمل کے ذریعے اسلامی اقدار کے احیا کی کوششوں کے جائزے میں اُن تحریکوں کے لیے بھی سبق ہیں، جو انھی اہداف کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ساری دنیا میں اصلاح، تبدیلی اور انقلاب کے خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک اہم ’مسلم ملک‘ میں ناکامیوں کی اس داستان کا مطالعہ مفید ہی ہوسکتا ہے۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


آزادی کی قومی تحریک: تحقیق و تجزیہ، ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ ناشر: مکتبہ تعمیرانسانیت، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون: ۷۲۳۷۵۰۰-۰۴۲۔صفحات مجلد: ۱۵۶۔ قیمت: ۱۶۵ روپے۔

پاکستان میں عمومی طور پر تاریخ کے مطالعے اور جغرافیے کے فہم کی بنیادیں بے توجہی کا شکار ہیں۔ باوجودیکہ مطالعہ پاکستان ڈگری کلاسوں تک کے طلبہ و طالبات کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، لیکن بے کیف، غیرمربوط، بلکہ تکرار پر مبنی متن کی وجہ یہ مضمون خصوصاً اس میں شامل تحریکِ آزادی کا باب، طالب علموں کی دل چسپی کا باعث نہیں بن سکا، جسے بدقسمتی کے سوا کیا کہا جائے؟

ممتاز محقق اور دانش ور ڈاکٹر معین الدین عقیل کی زیرتبصرہ کتاب اس کمی کو دُور کرنے کی سمت میں ایک بامعنی کاوش ہے۔ یہ ۶ ابواب پر مشتمل ہے، اور زیربحث موضوع پر حقائق و معارف کو اختصار، جامعیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ بلامبالغہ یہ کتاب: ’’ہماری قومی تاریخ [تحریکِ آزادی] کے قریب قریب، تمام اہم محرکات، عوامل اور مراحل کا احاطہ‘‘ (ص ۷) کرتی ہے۔

مصنف نے آغاز ہی میں مغربی توسیع پسندی کے حوالے سے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ: ’’اس میں اہم محرک ہسپانوی عیسائیوں کا وہ مذہبی جنون بھی تھا، جو اسلامی حکومتوں کو اندلس میں ختم کردینے کے بعد افریقہ کے شمالی کناروں پر مور اور بربر [مسلمانوں] پر اپنا جوش انتقام صرف کرنا چاہتا تھا۔ مشرق کے لیے ان کی مہمیں صلیبی جنگوں کو ایک دوسرے انداز سے جاری رکھنے کا ذریعہ تھیں‘‘ (ص ۹)۔ اس پس منظر کواُجاگر کرنے کے بعد مصنف نے برطانوی سامراج کی چیرہ دستیوں اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے مراحل کو رواں نثر اور مربوط انداز سے پیش کیاہے۔

اس جدوجہد ِآزادی میںتحریکِ خلافت کو ایک اہم مقام حاصل تھا جس کے مرکزی کرداروں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’علی برادران [مولانامحمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی]… ابتداً کانگریس اور گاندھی کے وفادار رہے، مگر آہستہ آہستہ ان کی آنکھوں سے پردے اٹھتے گئے‘‘   (ص ۸۱)۔ ہندو کی نسل پرستانہ مذہبیت اور سماجی زندگی میں تنگ نظری نے رفتہ رفتہ ہندی مسلمانوں کے سوادِاعظم کو اس راہ پر پختہ تر کردیا کہ وہ جمہوریت کے نام پر ہندو اکثریت کی غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کریںگے۔ بعدازاں علامہ محمد اقبال کے تصورِ پاکستان اور قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں آزادی کی جدوجہد تحریکِ پاکستان کا عنوان اور تخلیقِ پاکستان کا ذریعہ بنی۔

یہ کتاب اپنے دل چسپ اسلوب، مصدقہ حقائق اور معلومات افزا ذخیرے کے ساتھ  اپنے موضوع پر ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)


لکھنؤ کے ادب کا معاشرتی و ثقافتی پس منظر (۱۸۵۷ء -۱۹۴۷ء) ڈاکٹر سید عبدالباری۔ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی۔ صفحات: ۳۱۵۔ قیمت: ۲۵۰ روپے (بھارتی)۔

ثقافتی و معاشرتی تناظر میں ادب کا مطالعہ تنقید میں بڑا اہم موضوع ہے۔ ادب جہاں معاشرت و ثقافت کو متاثر کرتا ہے، وہاں ان سے خود بھی متاثر ہوتا ہے۔ زندگی کی اقدار تبدیل ہوتی ہیں تو ادب میں بھی اس کی جھلک نظر آنی شروع ہوجاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

ڈاکٹر سیدعبدالباری نے معاشرتی و ثقافتی پس منظر میں لکھنوی ادب کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے انھوں نے قبل ازیں ’’لکھنؤ کا ادب عہد نوابین اودھ کے ثقافتی تناظر میں‘‘ کا مطالعہ پیش کیا۔

۱۸۵۷ء کا سال برعظیم کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے جس نے ادب و زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا۔ چنانچہ اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالباری نے ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے ادب پر ثقافتی و معاشرتی اثرات کا الگ سے جائزہ لیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالباری بتاتے ہیں کہ ۱۹۰۱ء تک کے ادب پر قدیم لکھنؤ کی ثقافت و معاشرت کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔ اصنافِ نظم و نثر میں روایتی لکھنوی انداز موجود ہے۔ داستان اور ڈرامے کو خاص مقبولیت حاصل تھی۔ مثنوی نگاری نے اس عہد کے اخلاقی انحطاط کا بھرپور عکس پیش کیا ہے۔ ریختی اور واسوخت جیسی اصناف    اظہارِ خیال کا وسیلہ تھیں۔ قدیم تہذیب سے وابستگی کا رجحان ان کے ہاں بطور خاص ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالباری بتاتے ہیں کہ ۲۰ویں صدی کے آغاز میں اس جمود میں یکایک ایک لہر اُٹھی اور اس نے نئے سماجی و سیاسی رجحانات کو قبول کرنا شروع کردیا۔ اخلاقی اور روحانی نشاتِ ثانیہ کا احیا ہوا، چنانچہ اس عہد کے ادب میں غیرمعمولی قوتِ نمو اور نشوونما کی صلاحیت نظر آتی ہے۔ اُردو ادب نے خاص طور پر تحریکِ آزادی کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی۔

پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے ڈاکٹر عبدالباری کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے مصنف کی تنقیدی بصیرت کی تحسین کی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ادب کے عمرانی و ثقافتی مطالعے کی راہ آسان کرتی ہے اور ڈاکٹر عبدالباری کا یہ کارنامہ زندگی اور ادب کے مربوط رشتے کو سمجھنے میں تحقیق و تنقید کے نئے دَر وَا کرتا ہے۔ کتاب کا معیار طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


جہات الاسلام (شش ماہی مجلہ)، مدیراعلیٰ: ثمرفاطمہ مسعود، مدیر: محمد ارشد، ناشر: کلیہ علومِ اسلامیہ، جامعہ پنجاب، نیوکیمپس، لاہور۔ صفحات اول: ۲۵۲، شمارہ دوم: ۲۴۰۔ قیمت فی شمارہ: ۱۰۰روپے

معیاری یونی ورسٹیوں کی پہچان کا ایک حوالہ اساتذہ کا علمی مقام اور تحقیقی ذوق ہے، تو دوسری جانب بلندپایہ مقالات کی اشاعت کا ذریعہ بننے والے باقاعدہ تحقیقی مجلے ہیں۔ اقربانوازی اور تساہل پسندی نے جامعات کی اس روایت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ انحطاط کی یہ پرچھائیاں ان اداروں کی کثرت، پرشکوہ عمارتوں اور اساتذہ پر اپنا سایہ ڈالتی نظر آتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر کسی یونی ورسٹی سے بالخصوص ادب یا سماجی علوم پر کوئی معیاری مجلہ نظرنواز ہوتا ہے تو مسرت، امید اور ولولہ تازہ کی لہر کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انھی جذبات و احساسات کی گواہی زیرتعارف تحقیقی مجلہ جہات الاسلام پیش کرتا ہے، جسے نوجوان محقق ڈاکٹر محمد ارشد نے علمی و جمالیاتی ذوق اور پیش کاری و باقاعدگی کے سلیقے کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔

مدیرہ اعلیٰ نے افتتاحی شذرے میں لکھا ہے: ’’مجلے کے اس نام کے پس منظر میں یقینا اراکینِ مجلس کی یہ فکر اور سوچ شامل ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے‘‘ (ص۷) اور اس سوچ کی جھلک ان دونوں شماروں کے مقالات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ شمارہ اول کے مقالات میں: ’محمد بن علی السنوسی کی تجدیدی تحریک‘ از خالد محمود ترمذی، ’عہدنبویؐ میں حکمرانی پر ایک نظر‘ از نثاراحمد، اقبال کا تصورِ اجتہاد، تنقیدی مطالعہ از وحید عشرت، بین الجہاد والارہاب فی العصر الحدیث از ابراہیم محمد، ’خطباتِ اقبال کا تنقیدی مطالعہ‘ از برہان احمد فاروقی، شمارہ دوم میں الاشتباہ والنظائر فی القرآن:تنقیدی جائزہ، سید رضوان علی ندوی، النقد الکلامی للاناجیل، عبدالحکیم فرحات، شوریٰ کا ادارہ، ابتدائی فقہا کی نظر میں از محمد یوسف فاروقی، ’احیا اصلاح اور اسلام کا ملّی تصور، جنوبی ایشیا میں‘ از عبدالرشید متین، ’اسلام اور مغرب‘ از عبدالقدیر سلیم، ’مسلم بنگال کی تعمیرات میں فن خوش نویسی کا تجزیہ‘، محمد یوسف صدیق، وغیرہ دل چسپ اور معلومات افزا مقالات ہیں۔

مجلے کے مضامین اُردو، عربی اور انگریزی میں ہیں۔ مجلس ادارت اس معیاری مجلے کی اشاعت پر مبارک باد کی مستحق تو ہے ہی، تاہم دوستی یا محض اپنے ہی ادارے کے رسمی مقالات کی اشاعت سے اجتناب برتنا بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔ البتہ ایک دو تبصرے مجلے کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتے۔ مجموعی طور پر اس نئے تحقیقی مجلے کے طلوع کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ (س-م-خ)


یادوں کی تسبیح، قاضی عبدالقادر۔ ناشر: مکتبہ الہدیٰ، ڈبائی منزل، ۵۷۷-اے، بلاک جے،   نارتھ ناظم آباد، کراچی۔ صفحات: ۳۸۲۔ قیمت (مجلد): ۴۰۰ روپے۔

ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ: ہر انسان کی زندگی ایک دل چسپ داستان کی حامل ہوتی ہے، مگر اسے بیان کا سلیقہ خال خال لوگوں کو نصیب ہوتا ہے___  کہا جاسکتا ہے کہ قاضی عبدالقادر کی داستانِ حیات دل چسپ بھی ہے اور انھوں نے اسے سلیقہ مندی سے پیش کیا ہے۔

زندگی ایک قیمتی چیز ہے اور اللہ کا انعام بھی۔ جن خوش قسمت لوگوں نے اسے اللہ کی رضا میں لگایا، ان میں سے بہت کم لوگوں نے اپنی یادداشتوں کو محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ قاضی عبدالقادر نے اس مشکل راستے پر چلنے کا چیلنج قبول کیا، اور مضبوط یادداشت، بیدار ذہن، باریک بین نگاہ اور شگفتہ اسلوبِ نگارش کی صفات کے ساتھ، مہ و سال زندگی کا یہ دبستان قلم بند کردیا۔

اوائل میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ اور عملی زندگی میں جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے دست و بازو بنے۔ ان تینوں تنظیموں میں باہمی تعلقات، واقعات و حوادث، جدوجہد اور عزم و ہمت کے مراحل کو اس انداز سے لکھا ہے کہ اس حکایت لذیذ نے ایک دل چسپ ناول کا سا روپ اختیار کرلیا ہے۔ اس بزم میں تحریک اور تاریخ کے بہت سارے معاصر کرداروں کو اپنی فکر اور عمل کے ساتھ چلتے دیکھا جاسکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بظاہر یہ ایک فرد کی شخصی زندگی پر مشتمل خود نوشت گواہی ہے، مگر اس آئینے میں ان اسلامی تحریکات کے کارکنان: ہمت، تاریخ، عبرت اور کامیابی کے گوناگوں رنگوں کے، پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔

مصنف کی راے ہے کہ: ’’تحریکوں کا دورِ اول بہت تابناک ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، یہ تابناکی ماند پڑنے لگ جاتی ہے، اور کبھی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ع   تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘‘ (ص ۳۲۲)۔ یہ تبصرہ دینی، سیاسی، اصلاحی تحریکوں کے لیے غوروفکر کا پیغام لیے ہوئے ہے، اور تاریخ کا مطالعہ دراصل ہوتا ہی اس لیے ہے کہ اس کے آئینے میں بہتری کی جستجو کی جاسکے۔(س-م-خ)

تعارف کتب

  •  گفتار مودودی ، مرتبہ : اخترحجازی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۲۱۵۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔ [مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒنے ۱۴ نومبر۱۹۶۷ء سے ۱۴ اگست ۱۹۶۸ء کے دوران بالخصوص مغربی پاکستان کے دورے میں جماعت اسلامی کے اجتماعات میں جو تقاریر کیں، یہ ان تقاریر کی رپورٹنگ پر مشتمل ہے۔ ان تقاریر کو ایشیا اور آئین سے اخذ کیا گیا ہے۔ تقاریر میں مولانا مودودی نے دعوتِ دین اور اقامت ِ دین کی طرف توجہ دلائی ہے۔ موضوع کی مناسبت سے کتاب کا نام موزوں معلوم نہیں ہوتا۔]
  •  آسان میراث ، مولانا محمد عثمان نووی والا۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ، ST-9E، بلاک ۸، گلشن اقبال، کراچی-۷۵۳۰۰۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۷۰ روپے۔ [میراث کے مشکل مسائل اگرچہ مصنف نے      اپنی دانست میں آسان کر کے بیان کردیے ہیں۔ بایں ہمہ عام آدمی کے لیے اب بھی انھیں سمجھنا مشکل ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے بقول مصنف: ایک ’نایاب تحفہ‘ ۔]
  •  دینی مدارس ، تبدیلی کے رجحانات ،خالد رحمن، معاونت: سید متقین الرحمن، اکرام الحق۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، بلاک ۱۹، مرکز F/7، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۴۱۔ قیمت: ۳۷۵۔ [پاکستان کے مختلف دینی مدارس کے متعلقین کے سامنے انسٹی ٹیوٹ نے وہ سوالات رکھے جنھیں دینی مدارس کی فکر، انتظام، حکمت عملی اور نئے تجربات کے بارے میں لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ ان جوابات کو زیرتعارف کتاب میں یک جا کیا گیا ہے۔]
  •  اراکان (باشندے، سرزمین، تاریخ) سیف اللہ خالد۔ ناشر: ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (وامی) پوسٹ بکس نمبر ۹۱۰۴، دمام، سعودی عرب۔ ملنے کا پتا: حسان خالد، پی او بکس ۵۹۱، کراچی- ۷۴۲۰۰۔ صفحات: ۴۷۔ قیمت: ۵۰ روپے۔[برما کی شمال مغربی ریاست اراکان جو کبھی روہنگیامسلمانوں کی آزاد مسلم ریاست تھی، گذشتہ نصف صدی سے فوجی آمریت کے ہاتھوں مظلوم مسلمانوں کا زندان و مقتل بنی ہوئی ہے اور دنیا اس کی حقیقت سے پوری طرح باخبر نہیں۔ مسلمانوں کی نصف سے زائد آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہے۔ کتابچہ اراکان کے جغرافیائی احوال، تاریخی پس منظر، روہنگیا مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، حکومتی مظالم و جبر بالخصوص قانونِ شہریت جس نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، کے بعد کی صورت حال پر مبنی ایک اہم اور مختصر دستاویز ہے۔]
  •  My Personal Planner [ذاتی منصوبہ ساز]، بشیرجمعہ۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب، پی او بکس ۱۲۳۵۶، گزری، ڈی ایچ اے، کراچی-۷۵۵۰۰۔ ملنے کا پتا: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۵۴۳۴۹۰۹۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [ مؤثر شخصیت، کاروبار یا کیریئر کی منصوبہ بندی، نیز متوازن گھریلو اور سماجی زندگی کے لیے عملی رہنمائی۔ مختلف خاکوں کے ذریعے وقت کے بہتر استعمال اور مؤثر کارکردگی کے لیے بجاطور پر ایک گائیڈبُک۔ عام طور پر دستیاب پرسنل پلانرز سے کئی حوالوں سے ممتاز۔ وقت کے بہتر استعمال اور ضیاع اور بہتر مینجمنٹ سے متعلق ابتدا میں مفید مضامین۔]

دہشت گردی اور مسلمان، (عالمِ اسلام کا مقدمہ، عالمی ضمیر کی عدالت میں)، ثروت جمال اصمعی۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، نصر چیمبرز، بلاک ۱۹، مرکز ایف سیون، اسلام آباد۔  فون: ۲۶۵۰۹۷۱-۰۵۱۔ صفحات: ۲۵۰ ۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

نائن الیون سے لے کر اب تک زبردست ابلاغی مہم کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ لاقانونیت، فسطائیت، جبروتشدد اور ظلم و زیادتی کے ہر بڑے واقعے کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔ اِس طاقت ور مہم کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب و ثقافت، براے نام اقتدار اور شناخت سے محروم ہوجائیں بلکہ دہشت گردی کی عالم گیر جنگ کے دست و بازو بن کر ہر اُس علامت کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکیں جس کا تعلق قرآن، شریعت، اسلامی نظام یا مسلم طرز زندگی سے ظاہر ہوتا ہو۔

ثروت جمال اصمعی نے اس کتاب میں دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا مسلمان سب سے بڑا ظالم نہیں بلکہ سب سے بڑا مظلوم ہے۔ جس عالمی استعمار نے سوپرپاور کے سائے تلے ایران، عراق، لبنان، افغانستان، فلسطین، بوسنیا میں مقتل سجائے ہیں، وہی اصل ظالم و جابر ہے، اور اس کی سازشوں کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر خورشیداحمد نے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ: مغربی اور امریکی مآخذ سے آنے والی چشم کشا دستاویزات کو بنیاد بناکر ثروت جمال اصمعی نے اس کتاب میں عالمِ اسلام کا موقف اور مقدمہ عالمی راے عامہ کے سامنے پیش کردیا ہے۔ ان کا اسلوب سادہ، منطقی، غیرجذباتی اور ہرانصاف پسند کو اپیل کرنے والا ہے۔

کتاب ۱۵ ابواب پر مشتمل ہے۔ مصنف نے بہ دلائل یہ ثابت کیا ہے کہ مغرب آمروں کا سرپرست ہے۔ نائن الیون یہود امریکی سازش تھی۔ افغانستان پر حملے کا مقصد دراصل کیسپین کے تیل تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ عراق کو سُنّی شیعہ اور کُرد علاقوں میں تقسیم کرنے کی سازش برسوں قبل تیار کی گئی تھی۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے سفید جھوٹ جس طرح گھڑے جاتے ہیں ان کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی عرب اور پاکستان بھی اُن کے اگلے اہداف میں شامل ہیں۔ اسرائیل کی حمایت میں واشنگٹن نے گذشتہ ۶۱ برس میں جو اقدامات کیے ہیں اور جس طرح تل ابیب کو قوت اور عالمِ عرب کو ہزیمت پہنچائی گئی ہے، اس کا مفصل تذکرہ ہے۔ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تھنک ٹینک، قرض فراہم کرنے والے ادارے، سرکاری ایوان اور غیرسرکاری تنظیمیں جس طرح سے کام کر رہی ہیں، اُس کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ آخر میں اس گرداب سے نکلنے کے لیے مسلم حکمرانوں، اسلامی تحریکوں، غیرسرکاری تنظیموں اور اہلِ فکر و دانش کے لیے جو حل تجویز کیا گیا ہے وہ بھی تفصیلی مطالعے کا حق دار ہے۔

نیلسن منڈیلا سے منسوب یہ جملہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ ’مسلمان اپنا مقدمہ مغرب کے حکمرانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، جب کہ ہم نے اپنا مقدمہ مغرب کے عوام کے سامنے پیش کیا‘‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کا مقدمہ اور نقطۂ نظر عالمی راے عامہ کے سامنے ناقابلِ تردید حقائق اور شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے۔ مغرب میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اہلِ علم اور عوام کی سطح پر مسلمانوں کے موقف کو جاننے کی خواہش کے پیشِ نظر، بقول مصنف:  ’’اگر مغربی پالیسی سازوں کے مسلمانوں کے خلاف الزامات اور مہم جوئی کے اصل مقاصد، مغرب کے عام لوگوں کے سامنے سلجھے ہوئے انداز میں واضح کیے جائیں، اور مسلمان مغربی راے عامہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ مستحکم دلائل و شواہد کے ساتھ پیش کریں تو ان کی یہ کوشش بے نتیجہ نہیں    رہے گی‘‘۔ (ص ۱۲)

زیرنظر کتاب اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم کاوش ہے۔ حکمرانوں کو شیشے میں اُتارنے، نوجوان نسل کو جدید تعلیم، تعلیمی اداروں اور انٹرنیٹ کے ذریعے ’آزاد کلچر‘ سے روشناس کرانے اور عراق و افغانستان کے بعد لبنان، شام، پاکستان اور سعودی عرب کی اسلامی افواج کو استعمار کے غلام بنانے کے لیے جو سازشیں تیار کی جارہی ہیں، ان کے تفصیلی جائزے کے لیے بھی مصنف کو مذکورہ موضوعات پر قلم اٹھانا چاہیے۔ اسلام، عالم اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے  دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ (محمد ایوب منیر)


Islam: Essence and Spirit [اسلام: حقیقت اور روح]، محمد زبیر فاروقی۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی، انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۹۸۔ قیمت: ۷۰ روپے

اسلام، پیغمبرؐاسلام اور اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام کے خلاف جس قدر مضامین، تجزیے، ریسرچ رپورٹیں اور کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، اُن کو مدنظر رکھا جائے تو مسلم دنیا کا ردعمل محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتا ہے، تاہم موقع بہ موقع ایسی کتابیں منظرعام پر آتی رہتی ہیں جن سے یہ تاثر دُور ہوتا ہے۔

محمد زبیر فاروقی پیشے کے لحاظ سے انجینیرہیں۔ قبل ازیں اُن کی کتاب اسلام اور اُمت مسلمہ کو درپیش جدید چیلنج کے موضوع پرIslam, The Muslim World Community and Challenges of the Modern Age کے نام سے ۱۹۹۷ء میں شائع ہوچکی ہے۔ زیرنظر کتاب اس کا تسلسل ہے۔

پیش لفظ میں ظفر اسحاق انصاری کے اس نقطۂ نظر سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ مغربی ممالک اور مغربی عوام میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں غلط فہمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک میں، اسلامی شریعت کو بھرپور طریقے پر نافذ نہیں کیا گیا ہے، نہ اس کے نفاذ کی عملی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو دہشت گرد، تنگ نظر اور امنِ عالم کا ’دشمن‘ قرار دینے کی دوڑ نہ ہو تو کیا ہو؟

چھوٹے چھوٹے مضامین میں انصاف، توازن، سماجی شعور، ایمان، توحید، شانِ رسالتؐ، نظائر کائنات، تحصیلِ علم، ماحولیاتی امور، دورِصحابہؓ اور جدید چیلنجوں، مثلاً جوہری توانائی، سماجی ارتقا، میڈیا وار اور اسلام کے خلاف جنگ کو قرآن و حدیث اور مؤثر دلائل کے ساتھ موضوع بحث بنایا گیا ہے۔

اس کتاب میں خاندانی نظام اور اسلام کی اقتصادی برکات اور اسلامی احیا کے موضوعات کو بھی شامل کرلیا جاتا تو اس کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔ (م - ا- م)


شہدا کی سرزمین وادیِ بالاکوٹ، ریاض احمد۔ ناشر: حرا بک سنٹر، ۱۳۷- اے، فرسٹ فلور، برنی پلازا، بالاکوٹ۔ صفحات:۱۶۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

وادیِ بالاکوٹ، جنت نظیر وادی ہونے سے زیادہ سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اور ان کی تحریک مجاہدین کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء میں آنے والے زلزلے نے اس وادی کو ایک اور زاویے سے شہرت دی اور یہ علاقہ زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا۔

زیرنظر کتاب وادیِ بالاکوٹ کے ایک جامع مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی سے وادیِ بالاکوٹ کی تاریخ، جغرافیے، محل وقوع، آبادی، تعلیمی صورت حال، آب و ہوا، تاریخی اہمیت، پہاڑ، جنگلات، فصلوں، جانوروں، شکار، کھیلوں، قوموں، قبیلوں، رسم و رواج، لباس و خوراک غرضیکہ مختلف پہلوؤں پر تحقیق کر کے وادی سے متعلق بنیادی معلومات کو یک جا کردیا ہے۔ فاضل مصنف نے تحریکِ مجاہدین، سیداحمد شہیداور شاہ اسماعیل شہید کے تذکرے کے ساتھ مختصراً کشمیر و افغانستان کے شہدا کے حالاتِ زندگی بھی قلم بند کردیے ہیں۔

اس کتاب کا ایک نمایاں پہلو اکتوبر ۲۰۰۵ء میں آنے والے خوفناک اور ہلاکت خیز زلزلے کے پس منظر اور پیش منظر کا تجزیہ کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں اللہ کی طرف سے قوموں کی آزمایش اور عذاب کا جائزہ لینا ہے۔ وادی کی خوب صورت تصاویر کے علاوہ زلزلے سے وادی کے مختلف علاقوں میں تباہی کی تصاویر بھی شاملِ اشاعت ہیں، نیززلزلے کے پہلے اور زلزلے کے بعد کی احتیاطی تدابیر کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

ایک اور اہم موضوع امدادی اداروں اور این جی اوز کی سرگرمیوں کا جائزہ اور ان کے پس پردہ مقاصد کا تجزیہ ہے کہ یہ ادارے مسلمانوں میں کام کرتے ہوئے کس طرح مسلمانوں کو دیگر مذاہب کی طرف راغب کرتے ہیں۔ خوب صورت سرورق کے ساتھ وادیِ بالاکوٹ پر یقینا یہ ایک جامع کتاب ہے۔ (پروفیسرمیاں محمد اکرم)


سیارہ (سالنامہ ۲۰۰۸ء)، مدیر: آسی ضیائی، حفیظ الرحمن احسن۔ ملنے کا پتا: ایوانِ ادب، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۴۲۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

علمی و ادبی مجلہ سیارہ تعمیری اور فلاحی ادب کا نقیب ہے۔ اس کے مؤسس نعیم صدیقی مرحوم تھے جو اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ سیارہ کو ایک معیاری ادبی جریدہ بنانے کے لیے عمربھر کوشاں رہے۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے رفقاے کار آسی ضیائی اور حفیظ الرحمن احسن اس کارِخیر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ شمارہ مختلف شعری و نثری اصناف سے عبارت ہے۔ غزلیات، منظومات، حمدیہ و نعتیہ  کلام کے ساتھ ساتھ تحقیقی و تنقیدی مقالات، افسانہ، انشائیہ، مزاح، غرض ہر صنفِ ادب کی نمایندگی موجود ہے۔’داناے راز‘ کے عنوان سے تفہیمِ اقبال سے متعلق گوشے میں ایک مذاکرہ اور دو مضامین شامل ہیں۔ مضامین ڈاکٹر عبدالمغنی اور ڈاکٹر مقبول الٰہی کے ہیں جن میں باترتیب ’طلوعِ اسلام‘اور ’قادیانیت اور اقبال‘ کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ مذاکرہ ڈاکٹرنیرمسعود (لکھنؤ)، شمس الرحمن فاروقی (الٰہ آباد) اورعرفان صدیقی مرحوم (بھارت) کے مابین ہے۔ گوشے ہی کا نہیں پورے رسالے کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ مذاکرہ لکھنؤ ریڈیو سے نشر ہوا تھا۔ اس کی تحریری صورت اس رسالے میںشامل کی گئی ہے۔ موضوع شعرِاقبال کی مختلف جہتیں ہیں۔

مقالات کے حصے میں مختلف موضوعات پر انورسدید، عاصی کرنالی، محمدسلیم ملک، جمیل یوسف، مجاہد سید، ضیغم شمیروی اور ممتاز عمر کے مقالے شامل ہیں۔ ایک گوشہ م-نسیم کی یاد میں قائم کیا گیا ہے۔ م-نسیم ۲۰۰۷ء میں انتقال کرگئے تھے اور برعظیم پاک و ہند کی اُردو ادبی دنیا میں بطور افسانہ نگار معروف تھے۔ اس گوشۂ خاص میں اُن کی خدماتِ عالیہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔

’رفتگاں‘ کے تحت شعیب عظیم اور علامہ قمررعینی، حامدحسین اور ضیا محمد ضیا کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ پچھلے ایک سال کے دوران وفات پانے والے اُردو دنیاکی اہم شخصیات کا مختصر ذکر شامل ہے۔

مجلے میں ۲ انشایئے اور ۶ افسانے بھی شامل ہیں۔ بازنوشت کے طور پر قرۃ العین حیدر اور ذوالفقارتابش کی تحریریں شاملِ اشاعت ہیں۔مکاتیب کے گوشے میں خطوطِ فرخ درانی بنام  جعفر بلوچ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر مقبول الٰہی سے مکالمہ بھی اس شمارے کا حصہ ہے۔ غیرملکی ادب کی نمایندگی بھی ہے اور ایک فارسی نثریے کا ترجمہ ’فاتح رومی‘ کے نام سے جلیل نقوی نے    کیا ہے۔

شاعری (غزلیات اور منظومات) میں شان الحق حقی، نعیم صدیقی، انورسدید، ناصرزیدی، رومی کنجاہی، قاضی حبیب الرحمن، غالب عرفان اور آسی ضیائی کے علاوہ دیگر متعدد شعرا کی غزلیات سیارہ کا حصہ ہیں۔ منظومات میں نعیم صدیقی، علیم ناصری، انورمسعود، جعفر بلوچ، تحسین فراقی اور حفیظ الرحمن احسن کے اسما نمایاں ہیں۔

آخر میںتقریباً ۱۹ کتب پر تبصرے شامل کیے گئے ہیں اور ادارے کے نام مختلف احباب کے خطوط شائع کیے گئے ہیں۔ غرض یہ رسالہ اپنی تعطلِ اشاعت کے باوجود، ادبِ اُردو کی خدمت کی اپنی قابلِ ستایش کوشش کیے جا رہا ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)


ڈاکٹر عبدالخالق: حیات و خدمات، میاں خالد محمود۔ ملنے کا پتا: دارالاصلاح، بھائی پھیرو، ملتان روڈ، ضلع قصور۔ صفحات: ۴۲۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

ڈاکٹر عبدالخالق مولانا مودودیؒ کے دیرینہ رفیق اور جماعت اسلامی کے بزرگ رکن تھے۔ زیرنظر کتاب ان کی حیات و خدمات کا تذکرہ ہے۔ مرحوم اخلاص، فقرو درویشی اور اعلیٰ اخلاق کے سراپا اور مثالی مبلغ و داعی الی اللہ تھے۔ مولانا مودودی کی ہدایت پر بھائی پھیرو کو دعوتِ دین اور شہادتِ حق کے فریضے کی ادایگی کے لیے تاحیات اپنا مسکن بنایا اور دارالاصلاح کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ ماہر چشم ہونے کے ناطے جہاں جسمانی امراض کا علاج کرتے، وہاں روحانی تزکیے کا بھی سامان کرتے، نیز لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور کوشش کرتے۔

تفہیم القرآن سے ان کو خصوصی شغف تھا۔ اسی کی بنیاد پر درس قرآن دیتے اور تفہیم القرآن کلاس کا باقاعدہ اجرا کراتے۔ کارکنوں کو ہدایت کرتے تھے کہ بلاناغہ اس کا مطالعہ کریں۔ بنیادی طور پر کتاب مصنف کی ڈائری ہے جس سے مرحوم کی شخصیت، جدوجہد اور خدمات کا بخوبی احاطہ ہوجاتا ہے۔ ذکرو اذکار، روحانیت اور شرکاے پروگرام کی تواضع کا خصوصی اہتمام ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ دعوت و تربیت اور کردار سازی کے لیے مفید رہنمائی ہے۔ (امجد عباسی)


اہم کام پہلے، اسٹیفن آر کووے، اے روجر میرل، ربیکا آر میرل، مترجم: حافظ مظفرمحسن۔ملنے کا پتا: علم و عرفان پبلشرز، اُردو بازار، لاہور- فون: ۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۲۵۰روپے۔

مقاصدِحیات کے تفاوت سے قطع نظر ،مشرق و مغرب میں آسودگی، بہتر زندگی گزارنے اور کامیابی کی خواہش اکثر لوگوں میں صدیوں سے نہ صرف موجود ہے بلکہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ قوموں نے محنت کی عادت اور وقت کی بہتر تنظیم اور استعمال کے ذریعے زندگی گزارنے کے سلیقے سیکھ لیے اور ان کے ہاں دانش ور، ماہرین نفسیات اور ماہرین سماجیات نت نئے طریقوں سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں کہ منصوبہ بندی اور سوچ بچار سے کس طرح زندگی گزارنے کے لیے ترجیحات کا تعین کیا جائے۔ زیرنظر کتاب میں بھی انھی ترجیحات کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

کتاب ۴ حصوں اور ۱۵ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں ایسے محنتی اور ذہین لوگوں کے تجربات بھی مذکور ہیں جنھوں نے اپنی ذہانت سے مشکلات پر قابو پایا اور زندگی میں ترجیحات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کام کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھا جائے اور اہمیت کی شناخت ہی زندگی کے حقیقی رُخ کی سمت نما ٹھیرتی ہے۔ مصنفین کا کہنا ہے کہ اہم کام پہلے ہی حقیقی رُخ ہے۔ کتاب میں وقت کی تنظیم (ٹائم مینجمنٹ) کا نظریہ ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ترجیحات کے تعین کے لیے عملی تدابیر بتائی گئی ہیں، نیز پُرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے عملی رہنمائی دی گئی ہے۔ کتاب ذرا ٹھیرٹھیر کر پڑھنے کا تقاضا کرتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


شہید ناموسِ رسالتؐ، رانا عبدالوہاب۔ ناشر: ادارہ مطبوعات طلبہ، ۱-اے،ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور۔ صفحات: ۱۷۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

علامہ اقبال نے ایک موقع پر مسلمانوں کی بے حسی کے پیش نظر انھیں راکھ کا ڈھیر قرار دیا تھا مگر راکھ کے اس ڈھیر کے اندر کہیں کہیں چھپی چنگاریاں بھی موجود ہیں جو جذبۂ عشق رسولؐ کی بدولت شعلۂ جوالہ بن جاتی ہیں۔ عامر عبدالرحمن چیمہ بھی ایسی ہی ایک چنگاری تھا جس نے ناموسِ رسالتؐ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔

زیرنظر کتاب میں اولاً گستاخِ رسولؐ کی سزا اور تاریخ کے ان واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جب سرور کونین ؑکی شان اقدس میں بعض بدبختوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا۔ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق ارشادات بھی دیے گئے ہیں۔ ثانیاً اس کتاب میں عامر عبدالرحمن شہید کی زندگی بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور خاندانی حالات کا تذکرہ ہے۔ ثالثاً ان کے گھر کے افراد کے تاثرات اور مولانا اظہرمسعود اور عرفان صدیقی کی نگارشات شامل ہیں جو عامر عبدالرحمن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں۔شہید دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے۔ یہ تفصیلات پہلی بار سامنے آئی ہیں۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


تاجرو جنت کیسے جائو گے؟، مولانا مفتی محمد ارشاد۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۱۸۰۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ اسے آزمائے، دنیا میں رہے لیکن دنیا ہی کا  ہوکر نہ رہ جائے۔ تجارت کے پیشے میں رزق کا ۹۰ فی صد حصہ رکھا گیا ہے۔ بظاہر ایک خالص دنیوی کام لیکن اسی کام کو دینی ہدایات کے مطابق انجام دیا جائے تو یہ جنت میں لے جائے گا، اور اگر جواب دہی سے بے نیاز ہوکر نفس کے کہنے پر عمل کیا جائے تو جہنم میں لے جاسکتا ہے۔

تجارت کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کی جو بھی ہدایات ہیں مولانا مفتی محمد ارشاد نے وہ سب اس ۲۰۰ صفحے کی اس کتاب میں جمع کردی ہیں۔ ضروری فقہی مسائل بھی آگئے ہیں۔ سود کے حوالے سے بھی ذکر موجود ہے۔ ۱۸ صفحات کی فہرست پر نظرڈالی جائے تو کتاب کی وسعت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ایک تاجر کا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے؟ اس بارے میں جو کچھ پہلے پڑھا تھا،وہ سب اس کتاب میں موجود ہے۔ مگر یہ کتاب اپنی موجودہ صورت میں ملک کے کتنے تاجروں کے ہاتھ میں جائے گی جو اس سے استفادہ کریں یا عمل کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت کے مقبول ترین بزنس مینجمنٹ کے نصاب میں اس کے ضروری نکات آجائیں۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ اس میں سے عملی باتیں اخذ کر کے مختصر معیاری اور خوبصورت شائع کی جائے اور بازاروں میں گھوم کر ہر تجارت کرنے والے کے ہاتھ میں پہنچائی جائے۔ ناجائز حرام کمائی پر وعید سے آغاز کے بجاے اختتام اس پر ہوتا تو بہتر ہوتا۔(مسلم سجاد)


سنہرے لوگ، ڈاکٹر محمد وسیم انجم۔ ناشر: انجم پبلشرز، کمال آباد۳، راولپنڈی۔ صفحات:۲۱۰۔  قیمت: ۲۰۰ روپے۔

یہ کتاب ۱۶ مذہبی، سماجی اور ادبی، معروف اور غیرمعروف شخصیات کے خاکوں اور تعارفات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند ایک معروف ہیں، مثلاً ڈاکٹر بشیرسیفی، زہیرکنجاہی، حکیم یوسف حسن وغیرہ مگر زیادہ تر افراد غیرمعروف ہیں۔ لیکن شہرت اور نام وری سے قطع نظر ڈاکٹر وسیم انجم کے ممدوح غیرمعروف لوگ بھی اپنے کردار اور عمل کے لحاظ سے نادر روزگار حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی وضع داری، نیک نفسی اور بلندکردار کی وجہ سے ان میں ایک کشش محسوس ہوتی ہے۔ ان میں کچھ شہدا ہیں اور کچھ بزرگانِ دین۔ کہیں کہیں عبارت بوجھل محسوس ہوتی ہے اور کہیں جملوں کی طوالت کے سبب تحریر کا حسن ماند پڑ جاتا ہے۔ مصنف نے خاکے لکھتے ہوئے غیر جانب داری سے کام لیا ہے، تاہم ان کے ہاں ہمدردی کا پہلو موجود ہے جو خاکہ نگاری کا ایک بنیادی وصف مانا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ ممدوح حضرات کے متعلق مصنف کا مشاہدہ کچھ زیادہ گہرا نہیں ہے۔ کتاب میں ماضی کے چند دل چسپ واقعات کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مجموعی حیثیت سے   وسیم انجم کی یہ کاوش قابلِ ستایش ہے۔ (رضوان احمد مجاہد)

تعارف کتب

  •  اہل علم کے خطوط، محمد یوسف نعیم۔ ملنے کا پتا: مکتبہ ایوبیہ، اے ایم نمبر۱، برنس روڈ، کراچی۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۸۰ روپے۔[مؤلف کے نام متعدد اہلِ قلم کے خطوط۔ بڑا موضوع: علمی مسائل و نکات۔ مؤلف کے اپنے خطوط بھی شامل ہیں۔ مکتوب الیہم کے مختصر سوانح۔ بعض خطوں میں مفید نکتے آگئے ہیں مگر زیادہ تر خطوط کو بحیثیت ایک ’یادگار‘ کے محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔]
  •  بندئہ مومن، محمد صدیق تہامی۔ ملنے کا پتا: مکان ۱۰۲۸، سیکٹر جی،۱۰/۴، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۱۸۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔ [قرآن مجید کا جامع تعارف، اسلام کے بنیادی عقائد، عبادات کا مقصد اور تقاضے، اخلاقی تعلیمات، اسلامی معاشرت، رزقِ حلال، آخرت کی فکر اور احوال، اللہ سے محبت اور اصلاح احوال کے لیے توبہ کی روش کے تحت ان رویوں کو پیش کیا گیا ہے جو ایک مسلمان کے کردار اور شخصیت کا حصہ ہونے چاہییں۔ خواتین سے اسلام کے مطالبات اور فرائض و حقوق کے علاوہ ان رسوم و رواج پر بھی گرفت کی گئی ہے جو دین کے نام پر ادا کی جاتی ہیں۔ درس قرآن دینے والوں کے لیے ایک مفید کتاب۔]

 

انسان کی تخلیق، ترتیب و تدوین: پروفیسر شہزاد الحسن چشتی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ۳۵-ڈی، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔صفحات: ۲۲۱۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اہلِ مغرب کو داد دینی پڑتی ہے کہ جتنی بڑی گمراہی ہو، اس کے حق میں اتنے ہی کثیر   علمی دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔ انسان جیسی اشرف المخلوقات کو بندروں کی نسل سے وابستہ کرنے جیسی مضحکہ خیز بات پر کتابوں پر کتابیں لکھیں اور صورت یہ بنا دی کہ اللہ کی انسان کی تخلیق جیسی درست، عقلی اور سچی بات دفاعی انداز میں پیش کی جائے۔ ڈارون نے نہ صرف انسان، بلکہ اس کائنات کے تمام مظاہر حیات کے لیے ارتقا کا نظریہ پیش کیا جو پچھلے ۲۰۰ سال سے علمی اور سائنسی دنیا پر چھایا ہوا ہے اور جس نے صرف حیاتیات ہی نہیں، علوم کے دوسرے دوائر پر بھی اثر ڈالا ہے۔ انسان اور کائنات کی تخلیق کے بارے میں  تفہیم القرآن میں متعلقہ آیات کی تشریح کرتے ہوئے سید مودودیؒ نے جو غیرمعمولی تحریریں لکھی ہیں حیاتیات کے پروفیسر شہزاد الحسن چشتی نے اس کتاب میں  وہ سب یک جا کردی ہیں۔ ان سے، قدرتی بات ہے، ڈارون ازم کا ابطال ہوتا ہے اور انسان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ہستی اپنی صفتِ تخلیق کی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے، صاحب ِ تفہیم القرآن کی دوسری کتابوں سے، جہاں ڈارون ازم پر سوالوں کے جواب دیے گئے ہیں، وہ بھی جمع کر کے ایک باب میں (۱۷ صفحات) پیش کردیے ہیں۔ اتنا کام بھی اس کتاب کو ایک وقیع کتاب بنا دیتا، لیکن انھوں نے اس پر مزید محنت یہ کی ہے کہ ۳۵ صفحات کے پیش لفظ میں ڈارون ازم کے حق میں پیش کیے جانے والے شواہد کی حقیقت بھی بیان کردی ہے۔


کتاب میں کائنات کی تخلیق پر ۴۵ صفحات کا ایک باب ہے۔انسان کی تخلیق پر باب دوم سے ہفتم تک ۱۱۰ صفحات ہیں۔ اسی میں انسان کی تخلیق کے مقصد پر ۳۲ صفحات ہیں۔

مؤلف خود حیوانیات کے پروفیسر رہے ہیں اس لیے ان پر ان کے طالب علموں کا، بلکہ اس اُمت کا یہ حق ہے کہ وہ صرف ۳۵ صفحات کے پیش لفظ ہی میں نہیں، بلکہ ۳۵۰ صفحات کی ایک پوری کتاب میں، اس باطل نظریے کی تائید میں درسی کتابوں میں طلبہ و طالبات کو جو نام نہاد شواہد پڑھائے جاتے ہیں ان کا کچا چٹھا کھول کر بیان کریں۔ اس کتاب کا ہم انتظار کریں گے۔

ڈارون کے نظریے کے بارے میں مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ ’’یورپ نے جو اس وقت تک اپنے الحاد کو پائوں کے بغیر چلا رہا تھا، لپک کر یہ لکڑی کے پائوں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صرف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علومِ عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کرلیا‘‘ (ترجمان القرآن، جنوری فروری ۱۹۴۴ئ)۔ یہ گمراہ کن نظریہ یورپ میں پیش ہوا تو عیسائی اہلِ ایمان نے بھی اس کی خوب خبرلی اور آج تک لے رہے ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں اس کے مقابل تخلیق سائنس (Creation Science) کی ترویج کے لیے تحریک چلاتے ہیں۔ لیکن مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ مسلمان سائنس دانوں اور حیوانیات کے اساتذہ نے سائنسی بنیادوں پر اس کے تاروپود نہ بکھیرے بلکہ علماے دین ہی عقیدے کی بنیاد پر اس کی تردید کرتے رہے۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ترکی کے ہارون یحییٰ نے اس عقیدے کے خلاف منظم مہم چلائی ہے، استدلال سے مزین دل کش اسلوب میں باتصویر کتابیں پیش کی ہیں۔ ۷۰، ۸۰ وڈیو سی ڈی کا ایک سلسلہ ہے جس کا ان کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی ۸۰زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں(haroonyahya.com)٭۔ لیکن آزادی کے بعد ہماری بھی نصف صدی گزر گئی ہے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں طلبہ نے حیوانیات کی کتابوں میں آمنا وصدقنا کہتے ہوئے اسے پڑھا ہے اورمسلمان اساتذہ نے معلوم نہیں کس طرح اپنا عقیدہ محفوظ رکھتے ہوئے اسے پڑھایا ہے لیکن انگریزی میں ہر طرح کا مواد موجود ہونے کے باوجود اُردو میں ۱۰، ۲۰ کتب اور


٭ یہ کتاب بھی دستیاب ہے۔ نظریۂ ڈارون کی تردید ، ہارون یحییٰ، ترجمہ: محمد صادق۔ ناشر:طاہر سنز پبلشرز، ۴۰-بی، اُردو بازار، لاہور۔صفحات: ۳۶۸، قیمت: ۳۵۰ روپے۔

۵۰، ۱۰۰ مقالے بھی اس پر نہیں لکھے گئے (ڈارون کی ۲۰۰ ویں سالگرہ پر محترم خرم مراد ؒنے     مسلم ورلڈ بک ریویو میں اس پر ایک قیمتی مقالہOn Evolutionism لکھا، نمبر۳، ۱۹۸۴ئ)۔

شہزاد چشتی صاحب نے ایک اچھا آغاز کیا ہے جو طالب علموں کے ذہن صاف کرنے میں اکسیر ہوگا۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ حیوانیات کی درسی کتب میں اس نظریے کو بطور ایک عقیدہ نہ پڑھایا جائے اور ساتھ ہی اس کے شواہد پر جو جائز سائنسی تنقید ہے اس کو بھی پڑھایا جائے اور سالانہ امتحان میں اس تنقید کو ہی موضوعِ سوال بنایا جائے۔ اب ہم انسان اور گھوڑے کے شجرے پڑھاتے ہیں، رینگنے والے جانوروں سے اڑنے والے پرندوں کا وجود میں آنا ثابت کرتے ہیں، بصارت جیسے کام کے لیے، آنکھ جیسے پیچیدہ عضو کا بننا محض موروثی تبدیلیوں کے ذریعے ارتقا سے ثابت کرتے ہیں اور معلوم نہیں کیا کیا لطیفے پڑھاتے ہیں۔ ہمارے منہ پر یہ ’غیرسائنسی‘ لیکن عقلی بات نہیں آتی کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس بنیادی بات سے زندگی کا پورا تصور بدل جاتا ہے۔ تہذیب بدل جاتی ہے۔ ہم تو اس پر بھی بحثیں ہی پڑھاتے ہیں کہ بے جان مادے سے جان دار وجود کیسے پیدا ہوا اور تُکے لگاتے ہیں لیکن کلاس روم میں کھڑے ہوکر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے زندگی پیدا کی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں لاکھوں طلبہ پڑھتے ہیں لیکن ان کے ذمہ داروں کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ان کے لیے سائنس کی کوئی ایسی کتاب مرتب کروائیں جس کی بنیاد الحاد پر نہ ہو تاکہ ان کے طلبہ سائنسی علوم میں ضروری شُدبُد رکھتے ہوں لیکن الحاد کی جہالت و جاہلیت سے مبرا ہوں۔ (مسلم سجاد)


روایاتِ سیرت کا تنقیدی جائزہ، محمدناصر الدین البانی، ترجمہ و تلخیص: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: اسلامک فائونڈیشن، ۱۷۸۱ سوئی والان، دہلی، بھارت۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۹۵ روپے۔

سیرت پاکؐ کا مطالعہ نوعِ انسانی کے لیے روشنی کا مینار اور مسلمانوں کے لیے ایمان کی رفعتوں کا وسیلہ ہے۔ سیرت پاکؐ  کا سب سے بنیادی ماخذ قرآن عظیم ہے، اور پھر احادیث مقدسہ۔ تاہم حدیث پاک کے باب میں روایات، سند اور درایت کی کسوٹی بحث و تمحیص کے در کھولتی اور قرآن وسیرت کے جملہ پہلوؤں کی وضاحت اور جزئیات کی تفصیلات فراہم کرتی ہے۔

زیرتبصرہ کتاب شیخ محمد ناصر الدین البانی (۱۹۱۴ئ-۱۴۹۹ئ) کی جانب سے اس نقدو جرح پر مبنی ہے، جو انھوں نے سیرت کی دو کتب: فقہ السیرۃ از شیخ محمد الغزالی اور فقہ السیرۃ النبویہ از ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی پر تحریر کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے مصنفین نے ایسی روایات کو بھی سیرتی کتب میں  پے درپے نقل کرکے، عمومی سطح پر قارئین کے حافظے کا حصہ بنا دیا ہے، کہ جن پر ابتدائی اور وسطانی عہد کے محققین و محدثین نے واضح طور پر جرح وتعدیل کے بعد لکھا تھا کہ فلاں فلاں روایت ضعیف ہے یا موضوع!

اگرچہ زیرتبصرہ کتاب قدرے تلخ لہجے میں لکھی گئی تھی، لیکن محمدالغزالی نے شیخ البانی کی پوری تحریر کو اپنی کتاب کے ضمیمے میں اس نوٹ کے ساتھ شامل کیا: ’’استاذ محدث ناصرالدین البانی نے میری نقل کردہ احادیث نبویؐ پر تعلیقات پیش کی ہیں، اور انھیں رضاکارانہ طور پر لکھ کر علمی حقیقت کو نمایاں کرنے اور تاریخی حقائق کو صحیح انداز میں پیش کرنے میں تعاون کیا ہے۔ کسی حدیث کی سندوں کی تحقیق کے بعد شیخ ناصر فرماتے ہیں کہ ’’یہ ضعیف ہے‘‘۔ حدیث میں رسوخ و مہارت کے باعث انھیں یہ راے ظاہر کرنے کا حق ہے، لیکن میں اس حدیث کے متن کو دیکھتا ہوں، تومجھے اس کی روایت میں کوئی حرج دکھائی نہیں دیتا،اور اسے نقل کرنے کو کچھ نقصان دہ خیال نہیں کرتا… بیش تر علما نے ضعیف اور صحیح مرویات کے قبول ورّد میں یہی طریقہ اپنایا ہے کہ ضعیف حدیث اگراسلام کے عام اصول اور جامع قواعد سے ہم آہنگ ہو تو وہ قابلِ قبول ہے‘‘۔ (ص ۱۰۷-۱۰۹)

شیخ البانی کی کلاسیکی بحث نے ذخیرۂ حدیث کے مطالعے کو نیا رُخ دیا ہے جس میں انھوں نے قدیم کتب کے نظائر سے بات کی ہے، جب کہ اسی زمانے میں مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے سند اورروایت سے بڑھ کر خود متن حدیث، الفاظ اور استدلال کو قرآن و سنت اور عقل و نقل کی بنیاد پر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ درایت حدیث کے اس باب میں شیخ البانی کا طریق کار زیادہ محتاط ہے۔

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اس مجموعے کا طبع زاد ترجمہ کیا ہے، جس میں نہ عربی لفظیات کا بوجھ ہے اور نہ اسلوب میں بے جاپیچیدگی۔ (سلیم منصورخالد)


نام وَر مغربی سائنس دان، پہلا دور (بیکن سے نیوٹن تک)، پروفیسر حمیدعسکری۔ ناشر:مجلس ترقی ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ صفحات: ۳۵۹۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

عہدِحاضر کی سائنسی ترقی کے پس منظر میں قدیم سائنس دانوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے جن کے کارناموں کی بدولت آج یہ سب کچھ ممکن ہوپایا ہے۔ مسلمانوں کے عہد ِ زریں میں خصوصاً عہد ِ عباسی میں مسلم سائنس دانوں نے بہت کام کیا اور اس کام کی بنیاد پر اہلِ یورپ نے تحریک احیاے علوم کی نیو ڈالی۔ ایک عرصے تک یورپ کے تعلیمی اداروں میں سائنس سے متعلق مسلمانوں کی کتب پڑھائی جاتی رہیں۔

مسلم اُمہ کے زوال کے بعد تیرھویں صدی میں علم کی یہ قندیلیں یورپ میں روشن ہوئیں۔ زیرتبصرہ کتاب کا آغاز بھی اسی صدی کے ایک نام ور سائنس دان راجر بیکن (۱۲۱۴ئ-۱۲۹۴ئ) سے ہوتا ہے۔ کوسٹر اور گوٹن برگ، کوپرنیکس، گلیلیوگلیلی، ولیم ہاروے، رابرٹ بوائل اور آئزک نیوٹن سمیت ۱۳سائنس دانوں کی حیات و خدمات کو ۱۳ الگ الگ ابواب میں پیش کیا گیا ہے۔ ضمیمے میں مزید ۱۲ سائنس دانوں کی خدمات کا تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ گو مختصر ہے مگر اس طرح مصنف نے سترھویں صدی میں یورپ کے تقریباً تمام نام ور سائنس دانوں کے احوال شاملِ کتاب کردیے ہیں۔

یہ کتاب اُردو کے سائنسی ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اس سے قبل بھی مصنف مسلم سائنس دانوں کے بارے ایک کتاب نام ور مسلم سائنس دان تحریر کرچکے ہیں۔ عموماً سائنسی مباحث خشک قسم کے ہوتے ہیں مگر مصنف نے کوشش کی ہے کہ مذکورہ کتاب کا طرزِ نگارش اور اس کی زبان ادبی معیار کے مطابق ہو اور مصنف اس میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ ان کا اسلوب دل چسپ اور عام فہم ہے۔ سائنس دانوں کے اس تذکرے میں کہیں کہیں کہانی کا سا انداز پیدا ہوگیا ہے جو تحریر کی تاثیر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

سائنس دانوں کی حیات و خدمات کے ساتھ ساتھ اُن کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں مگر یہ تصاویر پرانی اور غیرواضح ہیں۔ مناسب ہوتا کہ نئی اور واضح تصاویر شامل کی جاتیں۔ مجلس ترقی ادب اور مصنف دونوں اس علمی کارنامے پر بجاطور پر فخر کرسکتے ہیں۔ (ساجد صدیق نظامی)


۱- انسان اور جادو، جنات (جادو و جنات کا توڑ اور روحانی علاج معالجہ) ۲-انسان اور کالے پیلے علوم (خرابیِعقائد کا ذریعہ بننے والے ماورائی علوم کا جائزہ وتحقیق)۔ تالیف:   حافظ مبشرحسین، ناشر: مبشراکیڈمی، لاہور- فون: ۴۶۰۲۸۷۸-۰۳۰۰۔ ملنے کا پتا: مکتبہ قدوسیہ /  کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات علی الترتیب: ۲۲۲، ۲۲۸۔ قیمت: درج نہیں۔

پہلی کتاب میں فاضل مؤلف نے جادو اور جنات کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام کا موقف واضح کیا ہے۔ انھوں نے متعدد اعتقادی گمراہیوں کی نشان دہی کے ساتھ جنات اور جادو کے توڑ کے لیے مسنون علاج بھی تجویز کیے ہیں۔ مؤلف کے عملی تجربات اور مشاہدات بھی کتاب میں شامل ہیں۔ روحانی علاج سے متعلقہ چند اصولی مسائل، نظرِ بد کا علاج اور متعدد جسمانی بیماریوں کے روحانی علاج بھی کتاب کا حصہ ہیں۔

دوسری کتاب میں قرآن و سنت کی روشنی میں دست شناسی، علم جفر، علم عدد، علم اسرار الحروف، علمِ نجوم، علمِ رمل، ریکی، یوگا، ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور مسمریزم کی حقیقت اور پوزیشن واضح کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بدشگونی، نحوست اور فالناموں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں صحیح اسلامی موقف پیش کیا گیا ہے۔ مراقبوں اور چِلّہ کشی کی شرعی حیثیت، خوابوں سے متعلقہ مسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں، اور قیافہ شناسی کی شرعی حیثیت بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ اسی طرح الہام، وسوسہ، کشف اور فراست میں فرق کو واضح کرتے ہوئے، اسلام میں ان کی حیثیت بھی بیان کردی گئی ہے۔ کتاب کے آغاز میں وحیِ الٰہی اور وحیِ شیطانی، اور کہانت و عرافت پر بھی عمدہ مباحث بطور تمہید شامل ہیں۔ (خالد محمود)


تعارف کتب

  • جواہر البیان فی تفہیم القرآن (تلخیص مضامینِ قرآن) مؤلف: محمد سرور ارشد۔ نظرثانی: مولانا محمد وسیم میواتی۔ ناشر: الجنت پرنٹنگ پریس، ایم اے جناح روڈ، کراچی- ۲۷۴۱۲۳۷-۰۲۱۔ صفحات: ۴۹۱۔ قیمت: درج نہیں۔[یہ کاوش معروف معنوں میں نہ تو قرآن کا مکمل باقاعدہ ترجمہ ہے اور نہ تفسیر ہے بلکہ مفاہیمِ قرآن کا مختصر بیان ہے۔ ان لوگوں کے لیے ہے جو عربی سے نابلد ہیں اور قرآن پاک کے معانی اور مفاہیم کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہر سورہ کا مختصر خلاصہ اور وجۂ تسمیہ، سورہ سے متعلق احادیث میں وارد فضائل، ہر سورہ کی منتخب آیات کا عام فہم مفہوم اور مختصر تشریح اور آخر میں اہم نکات۔]
  • ماہنامہ رُشد لاہور (حُرمتِ رسولؐ نمبر) ،مدیر: حافظ انس نصر مدنی۔ رابطہ دفتر: ۹۹-جے، ماڈل ٹائون، لاہور۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت (خصوصی اشاعت): ۳۰ روپے۔ [تحفظ ناموسِ رسالتؐ پر یہ اشاعتِ خاص کئی حوالوں سے منفرد ہے۔تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کا علمی جائزہ، توہین آمیز خاکوں کی نوعیت، توہینِ رسالتؐ کے بارے میں استفسارات، مغرب کے نقطۂ نظر کا جائزہ، اُمت مسلمہ کی ذمہ داریاں اور مسلمانوں میں اہانتِ رسولؐ کے مختلف پہلو زیربحث آئے ہیں۔ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت (ستمبر ۲۰۰۵ئ- مارچ ۲۰۰۸ئ) پر ردعمل کی تاریخ وار مختصر روداد کے ساتھ ساتھ آخر میں ۱۹۷۳ء سے تاحال توہینِ رسالتؐ کے موضوع پر رسائل میں شائع شدہ مضامین کا اشاریہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔]
  • مکاتیب الکریم ، مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ۔ صفحات:۳۱۱۔ قیمت: درج نہیں۔[القاسم نے گیارھویں خصوصی اشاعت میں قاضی عبدالکریم صاحب کے تقریباً ۳سو خطوط بنام حقانی شائع کیے ہیں۔یہ خطوط کیا ہیں: اکابرین دیوبند کے مشاہدات و تجربات کا نچوڑ، احسان و سلوک کا عطر، علم و ادب، امثال و اشعار اور لطائف و ظرائف کا مرقع، فقہ اور فتاویٰ کی نادر مثالیں، حکومت و سیاست اور فِرقِ باطلہ کا بھرپور تعاقب، اخلاص و للہیت اور روحانی معمولات۔]
  • ڈاکٹر انعام الحق کوثر: حیات و خدمات ،مرتبہ: ڈاکٹر محمد احتشام الحق۔ ناشر: ادارہ تحقیق و تصنیف بلوچستان، ۲۷۲-اے، بلاک او-III ، سیٹلائٹ ٹائون، کوئٹہ۔ صفحات: ۲۶۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [اُردو اور فارسی زبان و ادب کے نام وَر محقق، مصنف اور معلم ڈاکٹر کوثر عرصۂ دراز سے بلوچستان کی سنگلاخ سرزمین میں ایک عزمِ صمیم کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔ بعمر۷۷ سال بایں پیرانہ سالی، اُن کی ہمت قابلِ داد ہے۔ اُن کی خدماتِ علمی و ادبی کے اعتراف میں اُن کے دوستوں، قدردانوں، رفقاے کار اور شاگردوں کے مضامین کا     یہ مجموعہ قدرافزائی کی قابلِ ستایش کوشش ہے جس سے ان کی طویل جدوجہد کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔]
  • اسلامی طرزِمعاشرت ، تالیف: محمد بن جمیل زینو، ترجمہ: خبیب احمد سلیم۔ ناشر: حدیبیہ پبلی کیشنز،      رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۴۲۶۰۴۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت (مجلد): ۱۴۰ روپے۔       [اپنے موضوع پر ایک مفیدکتاب جس میں صرف عبادات، یعنی نماز،روزے ، حج کا ذکر نہیں ہے بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، اخلاق وعادات،اسلامی معاشرت اور عورت کا مقام جدید دور کے پس منظر میں زیربحث آئے ہیں۔ مشہور بدعات کا تذکرہ ہے۔ موسیقی اور تمباکو نوشی پر بھی بحث ہے۔ جہاد کے موضوع پر جدید مباحث ہیں۔ تقلید کے حوالے سے ائمہ اربعہ کا نقطۂ نظر دیا گیا ہے۔ آخر میں دعائوں کا عمدہ انتخاب ہے۔]
  • حدیث کہانی، نگہت سیما۔ ناشر: المجاہد پبلشرز، چوتھی منزل، دین پلازا، جی ٹی روڈ، گوجرانوالہ۔ فون: ۸۲۰۴۱۷۷-۰۵۵۔ صفحات: ۸۰، قیمت:۴۰ روپے۔[کتاب میں فرموداتِ رسولؐ اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات سے آگہی دی گئی ہے۔ اسلوبِ بیان ایسا عمدہ اور دل چسپ کہ بچہ کہانی پڑھتاچلا جائے اور حدیث کا مفہوم ذہن پر نقش ہوجائے۔ زیادہ مؤثر ہوگا کہ کہانی کے آغاز میں حدیث دینے کے بجاے آخر میں دی جائے۔ بچوں کی احادیث سے آگہی کے لیے مفید کاوش۔]

The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ismael?، [فرزند ِ واحد جس کی قربانی پیش کی گئی:اسحاق یا اسماعیل؟]،عبدالستار غوری و   احسان الرحمن غوری۔ ناشر: المورد، لاہور۔ صفحات: ۳۱۳۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

یہودی، عیسائی اور مسلمان، تینوں براہیمی مذاہب کے ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ، اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر اپنے پیارے بیٹے کو قربان کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔ اختلاف اس میں ہے کہ کون قربانی کے لیے پیش کیے گئے: اسماعیل یا اسحاق؟ بائبل کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کے ’واحد فرزند‘ اسحق تھے جنھیں سوختنی (جلائی جانے والی) قربانی کے طور پر پیش کیا گیا، جب کہ قرآن مجید واضح طور پر حضرت اسماعیل ؑکی قربانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (الصافات ۳۷: ۱۰۲، ۱۰۳)

مصنفین نے اس اختلافی مسئلے کے ضمن میں بڑی کاوش اور عرق ریزی سے تحقیق کی ہے اور نہ صرف عہدنامۂ قدیم و جدید، بلکہ عیسائی لٹریچر اور متعدد حوالہ جاتی کتب سے متعلقہ مواد اخذ و پیش کیا ہے اور قطعیت کے ساتھ ثابت کردیا ہے کہ ’ذبیح‘ فی الواقع حضرت اسماعیل ؑ ہی تھے۔ بائبل کے بیانات میں زور اس بات پر ہے کہ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم ؑنے اپنے ’واحد فرزند‘ کو قربانی کے لیے پیش کیا، جب کہ وہاں یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑکی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم ؑکی عمر ۸۶سال تھی اور حضرت اسحاقؑ کی پیدایش کے وقت وہ ۱۰۰سال کے تھے۔ گویا ۱۴ سال تک حضرت ابراہیم ؑ کے ’واحد فرزند‘ حضرت اسماعیل ؑ ہی تھے اور پھر حضرت اسحاقؑ کی پیدایش کے بعد کسے ’واحد فرزند‘ کا خطاب دیا جاسکتا ہے؟

اس سب کے باوجود بائبل کی کہانی میں یہ بیان کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اسحاقؑ کو قربانی کے لیے لے گئے، اور جب اکیلے واپس ہوئے تو اسحاقؑ کی والدہ سارہ صدمے سے انتقال کر گئیں، حیرت انگیز ہے۔

بہت سے یہودی اور عیسائی اور بدقسمتی سے بعض مسلمان بھی (الطبری) حضرت اسحاقؑ کو ذبیح قرار دے کر گویا حضرت اسماعیل ؑ کو حضرت ابراہیم ؑ کی حقیقی اولاد ہی تسلیم نہیں کرتے، کیوں کہ ان کے خیال میں والدۂ اسحاقؑ ، سارہ ہی حضرت ابراہیم ؑ کی حقیقی بیوی تھیں، اور والدۂ اسماعیل ؑ (حضرت ہاجرہ ـ ؑ) تو محض ایک کنیز تھیں، جن کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد حقیقتاً ’فرزند‘ نہیں کہی جاسکتی۔ اگرچہ حضرت ہاجرہ ؑکا محض کنیز ہونا بھی محلِّ نظر ہے، اور اس کے لیے کوئی قابلِ قبول شہادت نہیں کہ وہ حضرت ابراہیم ؑ کی زوجۂ محترمہ نہ تھیں، لیکن اس سے قطع نظر خود انجیل بتاتی ہے کہ کنیز خاتون (slave woman) کا ولد بھی تمھارا بیٹا ہے، اور میں [اللہ] اس کی اولاد کو ایک عظیم قوم بنائوںگا‘‘ (پیدایش ۲۱:۱۳)۔ (ص ۳۶)

مصنفین نے عہدنامۂ قدیم اور عہدنامۂ جدید کی تاریخی حیثیت پر جو سیرحاصل گفتگو کی ہے اور ضمناً فلسطین کے تاریخی مقامات کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، وہ ایک وسیع لوازمے کو ایک جگہ مرتب کردینے کی نہایت کامیاب کوشش ہے۔ یہ کتاب ہمارے عیسائی اور یہودی بھائیوں کو تحفے میں دینے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ اُردودان طبقے کے لیے بھی اگر اس کا ترجمہ کردیا جائے تو اچھا ہوگا۔ جاویداحمد غامدی نے ’پیش لفظ‘ میں اس کوشش کو اپنے ادارے کے لیے باعثِ فخر قرار دیا ہے۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


نقوشِ سیرت، شیرمحمد زمان چشتی ،مرتب: ڈاکٹر محمد میاں صدیقی۔ پروگریسو بکس، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور، صفحات:۲۴۳۔ قیمت: درج نہیں۔

ڈاکٹر شیرمحمد زمان چشتی (ایس ایم زمان) عربی زبان و ادب کے بلندپایہ اسکالر ہیں۔ عمربھر درس وتدریس سے وابستہ رہے۔ متعدد جامعات کے شیخ الجامعہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ (۱۹۹۷ئ-۲۰۰۳ئ) کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔ زیرنظر کتاب ان کے علمی مقالات، صدارتی خطبات اور کتب ِسیرت پر لکھے جانے والے مقدمات یا تعارفی و انتقادی مضامین پر مشتمل ہے، جنھیں محمدمیاں صدیقی نے نہایت محنت سے ترتیب دیا ہے۔ مرتب نے بعض مقامات پر اضافہ اور بعض جگہ پر نظرثانی کی ہے اور بعض حواشی کو زیادہ بامعنی بنانے کی کوشش بھی کی ہے، جس سے کتاب کا علمی معیار بلند تر ہوگیا ہے۔

کتاب میں کُل ۹ مقالات ہیں جنھیں موضوعات کی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بعض عنوانات اس طرح ہیں: ’عزم و ثبات کا کوہِ گراں‘، ’محمدرسولؐ اللہ: نبی رحمت و عزیمت‘، ’اطاعتِ رسولؐ: فوزوفلاح کا ذریعہ‘ اور ’اسلامی فلاحی ریاست:اسوئہ حسنہ کی روشنی میں‘۔ خطباتِ رسولؐ (از محمدمیاں صدیقی) ثناے خواجہؐ (بریگیڈیر گلزاراحمد) کا مختصر مطالعہ اور عزیزملک کی کتاب تذکارنبیؐ کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کے آخری حصے میں ’اُردو میں سیرت پر چندحالیہ تصانیف: محمدطفیل کی زیرادارت نقوش کے رسولؐ نمبر، محمد رفیق ڈوگر کی الامین اور ظفر علی قریشی کی  ازواجِ مطہراتؓ اور مستشرقین پر ڈاکٹر صاحب نے تنقیدی نظر ڈالی ہے۔

یہ مضامین روایتی انداز میں نہیں لکھے گئے بلکہ ان میں عہدِحاضر کے بنیادی مسائل کا حل سیرت کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عہدِحاضر میں مغربی تہذیب کے زیراثر بعض ناپسندیدہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے دعوتی سرگرمیوں کو باقاعدگی دینے اور دعوتی عمل میں نبی کریمؐ کے ضبط و تحمل اور مستقل مزاجی سے ہدایت ورہنمائی حاصل کرنے کی طرف واضح اشارے دیے ہیں۔ مصنف نے واقعات کی تاریخی حیثیت سے زیادہ ان کے عملی اور سبق آموز پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔

ڈاکٹر خالدعلوی نے مصنف کی استنادی پختگی، زبان و بیان کی لطافت کے ساتھ ایمان اور ادبِ نبوت کی چاشنی، جاں نثارانِ مصطفی کی تصویر کشی اور راست فکری کو سراہا ہے (ص ۱۵)۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول: ڈاکٹر صاحب کا اسلوبِ بیان راست اور نقطۂ نظر دوٹوک اور ابہام سے پاک ہوتا ہے۔ وہ جابجا ایک ایک جملے میں ایک قولِ فیصل سموتے چلے جاتے ہیں، جو نظر کی وسعت، فکر کی گیرائی، عقیدے کی مضبوطی اور چشمِ بصیرت کو کھلا رکھنے کی طویل ریاضت کا ثمرہ ہے (ص۲۳)۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر کے خیال میں ڈاکٹرصاحب نے سیرت شناسی میں ایک ایسا اسلوب وضع کیا ہے، جو ادبی جلال و جمال کی تمام تر دل فریبیوں اور شوکت کے باوجود حقائق آشنا رہتا ہے۔ (ص ۳۵)

ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے مصنف کے کوائف، اشاریے اور فنی تدوین کے ذریعے کتاب کے علمی وقار میں خاطرخواہ اضافہ کردیا ہے۔ (ڈاکٹر خالد ندیم)


مکالماتِ جاوید، مرتب: ڈاکٹر اخترالنسائ۔ ناشر: نشریات، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۱۴۔ قیمت: ۲۰۰روپے۔

علامہ اقبال کے فرزند ِ ارجمند جسٹس (ر) جاویداقبال، ماہر قانون ہونے کے ساتھ ماہرِاقبالیات بھی ہیں اور اقبالیاتی ادب میں ان کی تصانیف خصوصاً اقبال کی سوانح عمری زندہ رود سند کا درجہ رکھتی ہیں۔

زیرنظر کتاب ان کے مصاحبوں (انٹرویوز) کا مجموعہ ہے، جس میں ڈاکٹر اخترالنساء نے متنوع موضوعات پر اخبارات و رسائل میں مطبوعہ ڈاکٹر جاویداقبال صاحب کے ۱۹ مصاحبے جمع کردیے ہیں۔ انٹرویو لینے والوں میں متین فکری، ظفراعوان، طارق نیازی، ایس ایم ناز، محمدجاوید اقبال، رحمت علی رازی، تنویرظہور، صہیب مرغوب، سہیل وڑائچ، اسداللہ غالب اور ڈاکٹر راشد حمید شامل ہیں۔

ان مکالمات کا زمانہ کم و بیش ۴۰ برسوں پر پھیلا ہوا ہے اور سوال جواب میں خاصا تنوع ہے، مثلاً اقبال کا تصورِ پاکستان، نظریۂ جمہوریت،فاشزم، ایرانی انقلاب، اجتہاد، ڈاکٹر ٹامسن کی تضاد بیانی، اقبال اور مودودیؒ وغیرہ ___ اسی طرح علامہ اقبال کی شخصیت کے بعض پہلو اور خود جاویداقبال کے سوانح کی کچھ تفصیلات اور چودھری محمد حسین کی شخصیت وغیرہ۔ الغرض کتاب اپنے موضوعات کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ ڈاکٹر اخترالنساء نے اہم انٹرویو منتخب کرکے انھیں سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ دیباچے میں ڈاکٹر جاویداقبال کے مختصر سوانح، تصانیف کی فہرست اور کارناموں کا ذکر شامل ہے۔ کتاب کی دو ایک کمزوریوں کی طرف توجہ مبذول کرانا نامناسب نہ ہوگا۔ فہرست میں ’پیش لفظ‘ نگار (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی) اور دیباچہ نگار (خود مؤلفہ) کا نام نہیں ہے۔ فہرست میں مصاحبوں کی تاریخیں اور انٹرویو لینے والے کا نام بھی دینا چاہیے تھا۔ بعض الفاظ کا املا دوقسم کا نظر آتا ہے۔ ص ۹۱،۹۲ کی جڑائی غلط ہے اور پروف کی کچھ اغلاط بھی رہ گئی ہیں وغیرہ، مگر ان کوتاہیوں کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ یہ کتاب سیاسیات، پاکستان، تاریخ اور اقبالیات کے طلبہ ہی نہیں، عام قارئین کے لیے بھی نہایت مفید اور دل چسپ ہے۔ (قاسم محمود احمد)


ابن بطوطہ ہوا کرے کوئی، ڈاکٹر صہیب حسن۔ نشریات، لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، غزنی سٹریٹ، لاہور۔ صفحات: ۲۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سفربالعموم خانگی، معاشی و تجارتی، سیاسی اورسماجی ضرورتوں کے لیے ہوتا ہے یا سیروتفریح اور ثقافتی دل چسپیوں کے لیے۔ لیکن سفر کی ایک قسم اور بڑی اہم قسم وہ بھی ہے جسے علمی، ادبی اور دعوتی مقاصد کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔ وہ سفرنامے جو اس نوعیت کے اسفار کے تجربات اور احساسات پر مبنی ہوں غیرمعمولی افادیت رکھتے ہیں۔ ایسے سفرنامے دنیا کے مختلف ممالک، اقوام اور ثقافت و تمدن کے حالات و ظروف کا مرقع اور بڑے قیمتی انسانی تجربات کا گلدستہ بن جاتے ہیں اور ایک طرح دوسروں کی تعلیم کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ میں اس نوعیت کے سفرنامے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور ڈاکٹر صہیب حسن نے مشرق و مغرب کے ۱۰،۱۲ممالک میں اپنے دعوتی اور ملّی اسفار کے احوال و تجربات میں دوسروں کو شریک کرکے بڑی مفید خدمت انجام دی ہے۔ بیت المقدس، بوسنیا، قاہرہ، فیجی، ناروے، بحرین اور سعودی عرب کے اسفار کا تذکرہ تاریخی معلومات، اسلامی تنظیموں اور شخصیات کی سرگرمیوں، اور بڑے سبق آموز انسانی تجربات سے پُر ہے۔ تحریر شگفتہ اور تبصرے معلومات آفریں اور دینی حمیت کے مظہر ہیں۔ آج کے دور میں مسلمان جن مسائل اورمشکلات سے دو چار ہیں اور اچھی اسلامی زندگی کے فروغ کے جو امکانات ہیں، زیرنظر پُراز معلومات سفرنامے میں ان سب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ذاتی تعلقات اور تجربات کی اس داستان کو دل چسپ اور سبق آموز رہنا چاہیے۔ امریکا میں امیگریشن کے عملے کے ہاتھوں ایک معروف عالمِ دین اور معزز شخصیت پر جو گزری، وہ مہذب دنیا کے دہرے معیارات اور گہرے تعصبات کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن جس شرافت اور عزیمت سے ڈاکٹر صہیب حسن نے اس آزمایش کو بھگتا، وہ ان کی بصیرت اور بُردباری کا آئینہ ہے۔

ڈاکٹر صہیب حسن جس جس جگہ گئے ہیںاس سفرنامے میں  ان مقامات کے بارے میں اتنی معلومات محفوظ کردی ہیں کہ اس سفرنامے کا جو قاری بھی اُن دیارو امصار میں جائے گا وہ اپنے کو وہاں اجنبی محسوس نہیں کرے گا۔

اس سفرنامے پر پروفیسر عبدالجبار شاکر نے حرفِ اول کا اضافہ کیا ہے جو اس پہلو سے بڑی مفید تحریر ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کے سفرناموں کی بڑی دل چسپ داستان آگئی ہے اور    اس پس منظر میں ڈاکٹر صہیب حسن کا سفرنامہ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک تازہ کڑی معلوم ہوتا ہے۔ ابن بطوطہ ہوا کرے کوئی اُردو کے سفری ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے، خاص طور پر مسلمانوں کی نئی نسلوں کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے جس کے توسط سے وہ گھر بیٹھے مشرق و مغرب کے دسیوں ممالک کی سیر کرسکتے ہیں اور صرف سیر ہی نہیں، دوسروں کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں۔( مسلم سجاد)


خان محمد باقر خان (مرحوم) کی یاد میں، اعزاز باقر۔ ناشر: محمد باقر خان میموریل ٹرسٹ، مکان ۲۵، گلی ۲۱، ایف سیون ٹو، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۳۵۔ قیمت (مجلد): ۱۰۰ روپے۔

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ احیاے اسلام کی تحریکوں نے اپنے دور اور اپنے معاشرے کے بہترین افراد کو اپنی طرف کھینچا اور وہ انھیں دنیا کے سامنے مثالی انسانوں اور کارکنوں کی حیثیت سے پیش کیا۔ تمام اسلامی تحریکوں میں آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جنھیں مثالی کہا جاسکتا ہے۔ خان محمد باقر خان (۱۹۱۶ئ-۲۰ جنوری ۱۹۶۳ئ) ایک نڈر، دبنگ، مستعد، باذوق شخص تھے جنھوں نے ایک شیعہ خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ اوائلِ عمر میں کچھ عرصہ خاکسار تحریک اور مجلسِ احرار سے بھی وابستہ رہے۔ بعدازاں ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر مسلکِ حنفی اختیار کیا اور جماعت اسلامی سے تعلقِ خاطر دیگر تمام وابستگیوں سے فائق اور بالاتر ثابت ہوا حتیٰ کہ انھوں نے اچھی خاصی سرکاری ملازمت بھی چھوڑ دی۔

زیرنظر کتاب میں ان کے دوستوں، احباب اور بیٹے بیٹیوں کے مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب ۴۸سال کی عمر میں داغِ مفارقت دے جانے والے ایک خوش لباس، خوش گفتار، خوش اطوار انسان کی دل نواز شخصیت کی بعض جھلکیاں پیش کرتی ہے۔

مضمون نگاروں میں ماہرالقادری، سیداقبال شاہ، احسان زبیری، سیداسعد گیلانی، محمد افضل بدر، ڈاکٹر کرامت علی، میاں نصیراحمد، ڈاکٹر عبدالغنی فاروق، ڈاکٹر راشدہ تبسم، ڈاکٹر ریاض باقر، اعزاز باقر، اعجاز باقر اور مرحوم کی اہلیہ محترمہ شامل ہیں۔ سیداسعد گیلانی کا مضمون خاصا مفصل ہے اور اس میں باقرخان مرحوم کی اس ڈائری کے کچھ اوراق بھی شامل ہیں جو انھوں نے جماعت اسلامی کے ایک وفد کے رکن کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران میں لکھی تھی۔ اس کے بعض حصے چشم کشا ہیں، مثلاً لکھتے ہیں: ’’معلوم ہوا کہ یہاں پنجابی افسروں نے اپنے حاکمانہ رعب سے بنگالیوں میں کافی برہمی پیدا کی ہوئی ہے اور پنجابی افسروں کے خلاف یہاں شدید نفرت کا جذبہ پایا جاتا ہے‘‘ (ص ۴۶)۔ مہاجر اور مقامی میں بہت نفرت ہے اور اس نفرت کی خلیج روز بروز وسیع ہورہی ہے (ص ۵۰) وغیرہ۔

چودھری علی احمد خان کے بعد تحریکِ اسلامی میں وہ دوسرے آدمی تھے جو ہرقسم کے چیلنجوں کا جواب دینے اور تحریک کے مہماتی کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا سلیقہ اور ذوق رکھتے تھے۔ بقول سید اسعد گیلانی: مرحوم کے خیال میں وہ تحریک اسلامی کا ایسا بیش قیمت اثاثہ تھے جن کی زندگی کا مطالعہ تحریکِ اسلامی کے وابستگان کے لیے آج بھی دلیلِ راہ بن سکتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


پاکستان صدیوں کا سفر (عالمِ اسلام کی بیداری)، محمد حسین چودھری۔ ملنے کا پتا: محمد حسین چودھری ابدالین، معرفت پوسٹ ماسٹر کھڈیاں خاص، تحصیل و ضلع قصور۔ فون: ۴۹۰۹۰۶۳-۰۳۰۶۔ صفحات: ۵۸۸۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

نئی نسل بالخصوص اسکول کے طلبہ کو یہ آگہی دینا کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی صدیوں کی جدوجہد اور عالمِ اسلام کی بیداری کا عنوان ہے، سببِ تالیف ہے۔ ابتدا میں ۱۰۶ تصاویر کی روشنی میں محمد بن قاسم سے لے کر قائداعظم کے جنازے تک مختصراً انگریزی اور اُردو میں تحریکِ پاکستان کی جدوجہد اور مراحل کو پیش کیا گیا ہے۔ ایک باب میں مختلف مسلم ادوار میں ترقی، غیرمسلموں سے مسلمانوں کا سلوک اور مسلم حکمرانوں کے قابلِ تحسین کردار کا تذکرہ ہے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد مسلمانوں پر ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم، خوں ریزی اور مسلمان عورتوں کی  بے حُرمتی کی پُرآشوب داستان مختصراً پیش کی گئی ہے کہ نئی نسل کو پاکستان کی صحیح معنوں میں قدر ہوسکے۔ ۲۲کالم نگاروں کے منتخب کالموں کے ذریعے پاکستان کو درپیش مسائل کا تذکرہ ہے۔  علامہ اقبال اور قائداعظم کی شخصیت، افکار اور جدوجہد کے ساتھ ساتھ قائداعظم کی شخصیت اور  نظریۂ پاکستان کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ توجہ دلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کی نجات اور ترقی صرف اللہ تعالیٰ کی اتباع اور اسلام پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ مختلف ضمیموں میں منتخب حمدیہ و نعتیہ کلام، حضوؐر کی حیاتِ طیبہ ایک نظر میں، مقاماتِ مقدسہ کی تصاویر، علامہ اقبال کی سیاسی جدوجہد کی مختلف تصاویر، اور آخر میں تعلیم کا مقصد، تربیت کے رہنما اصول اور امتحانات میں کامیابی کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ گویا سمندر کو کوزے میں سمونے کی کوشش ہے۔ اس کتاب کو تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں لازماً ہونا چاہیے۔ (امجد عباسی)


تعارف کتب

  • روح و ریحان ،عبدالرحمن محسن انصاری۔ ادارۂ ادب اسلامی ہند، مہاراشٹر۔ صفحات: ۱۳۱۔ قیمت: ۵۰روپے۔[ محسن انصاری تحریک ادب اسلامی کے وابستگانِ قدیم میں شامل ہیں۔ پہلا مجموعہ رگِ جاں، ان کے دیرینہ دوست اور ہم جماعت سید اسعد گیلانی مرحوم کی مساعی سے الفیصل لاہور نے ۱۹۹۰ء میں شائع کیا تھا۔ زیرنظر مجموعہ ۱۸ حمدونعت اور ۱۰۴ غزلوں پر مشتمل ہے۔پختہ کلام شاعر ہیں۔]
  • آوازِ معلم،  محمد عباس العزم۔ ناشر: مکتبہ معارف اسلامی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ فون: ۶۸۰۹۲۰۱۔ صفحات: ۱۵۱۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔[مصنف نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی تسکین قلب اور ذہنی آسودگی کے ساتھ ساتھ طلبہ اور نوجوانوں میں نئے جوہر پیدا کرنے کے لیے ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی غبارِ خاطر (مجموعۂ خطوط) سے متاثر ہوکر ایک شاگرد کے نام خطوط قلم بند کیے ہیں اور اس طرح تمام نوجوانوں کو مخاطب کرکے ان کی کردارسازی اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ضرب الامثال ، زریں اقوال، انگریزی کے شعر اور دانش وروں کے اقوال وغیرہ۔]
  • اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں ، مؤلف: مہدی آذریزدی، مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۲۷۸۸-۰۴۲۔ صفحات: ۱۹۹۔ قیمت (مجلد): ۲۲۵ روپے۔ [ایرانی ادب کی ہزار سالہ قدیم اور مشہور کتاب مرزبان نامہ کی ۲۱ حکایات کا عام فہم اور    دل چسپ انداز میں فارسی ترجمہ۔ ان میں حکمت و اخلاق کی باتیں جانوروں کی زبان میں دل چسپ پیرایے میں سکھائی گئی ہیں۔ تحسین فراقی نے اُردو میں ان کہانیوں کا پہلا ترجمہ کیا ہے۔ اس سے قبل وہ ایرانی کہانیوں کا ترجمہ بے زبانوں کی زبانی کے نام سے بھی کرچکے ہیں۔پاکستانی بچوں کے لیے ایرانی ادب سے عمدہ تحفہ۔]