ظفراقبال خان متعدد علمی اور سنجیدہ کتب کے مصنف ہیں۔ بڑے شہروں سے دُور انھوں نے علم و تحقیق کا چراغ روشن کر رکھا ہے۔ یورپی ممالک میں برطانیہ اور دیگر ممالک میں خاص طور پر پاکستان، برطانوی استعمار کی کاشتہ جعلی قادیانی ’نبوت‘ کا نشانہ ہیں۔ اس موضوع پر علمی اعتبار سے گذشتہ ایک سوسال سے زیادہ عرصے سے مسلسل لکھا جارہا ہے۔ ختم نبوت کا مسئلہ اپنی نزاکت اور دین میں اہمیت کے حوالے سے مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ پھر منکرین ختم نبوت بھی پلٹ پلٹ کر مغالطہ انگیزی کے نت نئے دام پھینکتے ہوئے نسلِ نو میں فکرو تشکیک کے کانٹے بکھیر رہے ہیں، تو اس مناسبت سے بھی یہ موضوع مسلسل غوروفکر اور درس و ابلاغ کا تقاضا کرتا ہے۔
مصنف نے زیرنظر کتاب میں معاصر تفسیری لٹریچر سے موضوعِ زیربحث پر قیمتی مباحث کو یکجا کردیا ہے۔ تاہم، اس قابلِ قدر مجموعے کے آغاز میں تھوک کے حساب سے تقریظوں اور پھر اختتام پر، غیرمتعلق تحسینی تبصروں کی بھرمار شامل کرنا مناسب نہیں۔(ادارہ)
مؤلفہ کہتی ہیں کہ دُنیاوی تعلیم کے ساتھ طلبہ کا تعلق صرف اسلامیات تک ہے۔ انھوںنے اپنے اسکول میں پانچویں کلاس سے تدریسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ سورۃ البقرہ پڑھا کر کچھ سوالات پوچھے گئے تو ذہین طلبہ نے کچھ نہ کچھ جوابات لکھ دیئے مگر باقی طلبہ جوابات نہیں دے سکے۔ چنانچہ مؤلفہ نے تمام سورتوں کے چھوٹے چھوٹے سوالات بنا دیئے اور ان کے جوابات قرآن کی روشنی میں لکھ دیئے۔
یہ کتاب قرآنِ حکیم کے ضروری احکام و ہدایات سے روشناس کروانے کی کامیاب کوشش ہے۔ طباعت مناسب ہے مگر قیمت قدرے زیادہ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مصنف، اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں اعلیٰ عہدے پر تحقیق و تجزیہ کی ذمہ داری سے وابستہ رہے۔ اس مناسبت سے انھوں نے ملک کی معاشی، سماجی اور سیاسی صورتِ حال کو بڑی توجہ سے دیکھا اور پرکھا۔ اس سے پہلے مدینہ اکنامکس: انسانیت کا پہلا معاشی نظام لکھ کر ایک اہم علمی خدمت انجام دے چکے ہیں۔
زیرنظر کتاب ۲۴؍ابواب پر مشتمل ہے، جن میں انسانیت، اجتماعیت اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کو زیربحث لاتے ہوئے، خرابیوں کے اسباب پر بحث کی گئی ہے اور اسلامی فکر کی روشنی میں مختلف حل پیش کیے گئے ہیں۔ اگر موضوعات کو دیکھیں تو کائنات، زمین، مذہب، سائنس، فلسفہ، اسلامی تہذیب پر کلام کیا گیا ہے۔ پھر قرآن، سیرتِ طیّبہؐ اور اسلامی معاشی ماڈل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کتاب کے مباحث کا داخلی ربط، قاری کو راست فکری عطا کرتا ہے۔ (ادارہ)
کئی برس پہلے ادارہ فروغِ قومی زبان، اسلام آباد نے ایک منصوبہ بنایا تھا کہ پاکستان کے اساتذہ (جو حقیقی معنوں میں اچھا استاد ہونے کی خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہوں، اُن) پر مضامین لکھوائے جائیںاور انھیں کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔ اسی سلسلے کی یہ دوسری جلد ہے، جسے ڈاکٹرانجم حمید نے مرتب کیا ہے۔
سرورق کا ضمنی عنوان ہے: ’’پاکستان کے مثالی اساتذہ‘‘۔ یہ مثالی اساتذہ فی الواقع اس قابل تھے کہ ان پر کچھ لکھا جائے اور ان کے تعارف و توصیف اور ان کے اوصاف بیان کیے جائیں، تاکہ ان کی زندگیاں، آیندہ نسلوں کو مشعلِ راہ نظر آئیں۔ ان میں ڈاکٹر افتخاراحمد صدیقی جیسے بے مثال محقق ہیں،میجر آفتاب حسن جیسے اُردو زبان کے فروغ کے لیے سب کچھ لٹانے والے، ڈاکٹرمحمد ایوب صابر جیسے علامہ اقبال کی شخصیت اور فکرپر اُڑائی گئی گرد صاف کرنے والے، پروفیسر صابر کلوروی جیسے اپنے پورے جسم و جان سے اپنے تلامذہ کی تربیت اور ان کی مدد کرنے والے، صوفی ضیاء الحق جیسے فاضل اجّل اور بے ریا معلّم، پروفیسر مرزا محمد منور جیسے اقبال شناس، ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی جیسے محقق شامل ہیں۔پاکستان کے طول و عرض میں سیکڑوں ایسے اساتذہ مل جائیں گے، جنھیں اس طرح متعارف کرانا ضروری ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ مقتدرہ اس طرز پر جلد سوم بھی تیار کرائے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
یہ کتاب بنیادی طور پر بچوں کی تربیت کے لیے مرتب کی گئی ہے، جس میں والدین اور اساتذہ کو رہنمائی دی گئی ہے کہ وہ اپنے زیر تربیت بچوں کے ذہنوں میں بنیادی اسلامی اصول راسخ کریں۔ان میں صفائی، نماز، سچائی، حیا، خوش اخلاقی،سادگی، عاجزی، والدین کی خدمت، خدمت ِ خلق، صبر، تلاوت اور میانہ روی کی صورت میں بارہ اُمور کو نمایاں کیا گیا ہے۔
مذکورہ عنوانوں کے لیے قرآن، حدیث، سیرتؐ، بزرگوں کے اقوال اور واقعات سے مدد لے کر سبق راسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تربیت ِ اولاد کے لیے یہ ایک مفید مجموعہ ہے۔(ادارہ)
یہ ماہ نامہ ایک مدت سے دینی اور طبّی موضوعات پر قیمتی تحریریں پیش کر رہا ہے۔ پیش نظر شمارہ ایک فیض رساں حکیم ، قادرالکلام شاعر اور شفیق دوست، جناب حکیم ارشد خاں فارانی (م:۱۳مئی ۲۰۲۳ء)کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ احباب نے ان کی شخصی خوبیوں اور خدمات کا دل کھول کر ذکر کیا ہے۔اللہ کریم انھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے ، آمین۔ (ادارہ)
خالق کائنات نے بنی آدم کو ہدایت دینے کے لیے اپنے نبیؑ اور رسولؑ بھیجے،جنھوں نے ہرعلاقے، ہرقوم اور ہرنسل میں اللہ کا پیغام پہنچایا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس ہدایت کو لوگ بھلاتے اور شرک کے راستوں پر چلتے رہے۔ رحمت ِ خداوندی نے سب سے آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، جنھوں نے انسان کو ماں کی گود سے لے کر قبر کی مٹی تک کے سفر میں زندگی گزارنے کے ڈھنگ بتائے۔
محترمہ فرزانہ چیمہ ایک معروف ادیبہ اور وسیع دینی مطالعے سے فیض یاب ہیں۔ انھوں نے بچوں کو سیرتِ پاکؐ کی تفصیلات، رہنمائی اور اسباق ذہن نشین کرانے کے لیے یہ قیمتی کتاب مرتب کی ہے، جواختصار اور عام فہم اسلوب کے سبب انفرادیت کا حامل تحفہ ہے۔ (ادارہ)
خاتم الانبیا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جب حکم الٰہی سے اعلانِ نبوت فرمایا تو بالغ مردوں میں ایمان کی دولت پانے والوں میں پہلے فرد حضرت ابوبکرصدیقؓ تھے ، جنھوں نے جرأت ایمانی سے حق کی گواہی دی۔ قربانی، بصیرت، بہادری، ثابت قدمی اور دُوراندیشی کے وہ کارنامے انجام دیئے کہ وصالِ نبویؐ کے بعد وہی مسلم اُمت کے پہلے خلیفہ بنے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے شخصی فضائل اور فہم دین کی وسعت کے آثار کتب ِ سیرت، احادیث اور تواریخ میں جگمگا رہے ہیں۔ محترم باقرخاں صاحب نے اس کتاب میں حسنِ ترتیب سے اُن احوال و آثار کو، خوب صورت اسلوبِ بیان میں مرتب کیا ہے۔ مصنّف نے کوشش کی ہے کہ صدیق اکبرؓ کا نظامِ حکومت، عوامی خدمت، شورائی نظام، جنگی اسلامی انسانی اصول اور حکومت اسلامیہ کے قیام کے لیے شبانہ روز جدوجہد جیسی خصوصیات کو نمایاں کیا جائے۔
یہ کتاب تفصیلی مطالعے کا تقاضا کرتی ہے، تاہم چند ابواب کے یہ عنوانات کتاب کی وسعت واضح کرتے ہیں: l اقوامِ عالم پر تین احسانات l اُمت ِ مسلمہ پر تین احسانات lمکّی دور میں احساناتl مدنی دور میں احسانات l وصالِ نبویؐ کے موقعے پر احسانات lخلافت میں اُمت پر احسانات وغیرہ۔ مطالعے کے دوران قاری نہ صرف صحابہ کرامؓ سے محبت کی لذت پاتا ہے بلکہ ایمانی جذبے سے عمل کی اُمنگ بھی اپنے وجود میں موجزن پاتا ہے۔ (ادارہ)
علامہ اقبال کے غیرمتداول اور متروک کلام کا جامع مجموعہ، جسے ابتدائی طور پر عبدالواحد معینی نے مرتب کیا تھا۔ بعدازاں محمدعبداللہ قریشی نے اس میں غیرمعمولی اضافے کیے اور سرودِ رفتہ کے نام سے غلام رسول مہر اور صادق علی دلاوری کی مرتبہ کتاب کا سارا کلام بھی اس میں شامل کرلیا۔ ڈاکٹر صابر کلوروی صاحب نے مختلف مآخذ (علّامہ اقبال کی بیاضیں، اقبال کی مرتبہ درسی کتابوں اور متروک کلام کے مجموعہ وغیرہ) سے مزید کلام جمع کیا اور جملہ جمع شدہ کلام کو کلیاتِ باقیاتِ شعرِاقبال کے نام سے ۲۰۰۴ء میں شائع کردیا۔اب ڈاکٹر خالد علیم نے مذکورہ تمام مجموعوں کو اَزسرِنو کھنگالا، خصوصاً کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال کی ترتیب میں بہت سی مفید تبدیلیاں کیں۔ مثلاً ڈاکٹر صابر کلوروی صاحب کے ہاں بانگِ درا کے متروکات جو تین اَدوار میں بکھرے ہوئے تھے، فاضل محقق نے اُنھیں یکجا کردیا ہے۔ یہ بہتر صورت ہے۔ علیٰ ہذا القیاس، متروکاتِ بالِ جبریل، متروکاتِ ضربِ کلیم وغیرہ۔کلام اقبال کی باقیات اور متروکات کے لیے زیرنظر مجموعہ فی الحال حتمی سمجھ کر، اسے ہی حوالہ بنانا چاہیے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
الطاف حسین حالی نے لکھا تھا:’’اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے‘‘ ، اور اس عجب وقت کا روئے سخن اُمت کے تہذیبی، دینی ، سیاسی، معاشی اور اخلاقی عدم توازن کی طرف ہے، جس نے اسے بے وزن اور بے توقیر بنا کر رکھ دیا ہے۔ حالی نے یہ بات اب سے سوا سو سال پہلے کہی تھی۔ جناب یوسف القرضاوی نے اپنی پوری زندگی، اُمت مسلمہ کو اس خرابے سے نکالنے کے لیے لگادی۔
زیرنظر کتاب جناب قرضاوی کے اُن مقالات کا انتخاب ہے، جس میں مسئلہ زیربحث کی ماہیت اور اسباب کو بیان کرکے، اس کے حل تجویز کیے گئے ہیں۔ ’اُمت وسط‘ کے عمومی تصورِ اسلام میں وسطیت کے مختلف مظاہر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ رواداری کے تصور کے تحت متعدد گروہوں کے وجود کا جواز، انسانیت کی تکریم اور مکالمے کے عصری تقاضے جیسے موضوعات پر اجتہادی راستہ اپناتے ہیں۔
محترم مصنف کو اللہ تعالیٰ نے فہم دین کا خزانہ عطا فرمایا تھا اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ مجاہدانہ جرأت بھی انعام کی تھی۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ کس گہرائی کے ساتھ وہ مُزمن بیماری کے اسباب کی نشان دہی کرتے ہیں، اور ساتھ منصوبۂ عمل بھی تجویز کرتے جاتے ہیں۔
جناب ارشاد الرحمٰن ایک مشاق مترجم ہیں۔ انھوں نے بڑی توجہ سے، یہ امانت عربی سے اُردو میں منتقل کی ہے، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (ادارہ)
قومِ یہود کی تاریخ، احسان فراموشی، محسن کشی، زرپرستی اور سازش و نفاق سے بھری پڑی ہے۔ انفرادی سطح پر کچھ بھلے لوگوں کا وجود تو کہیں بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، مگر مجموعی طور پر ایک قومی مزاج ہوتا، جسے کسی قوم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ زیرنظر کتاب میں فاضل مصنف نے یہود کے جرائم اور فطرت میں رچی خرابی کو قرآن کریم کے ارشادات کی روشنی میں یکجا بیان کردیا ہے۔
آج مسلم دُنیا کے دولت مند ممالک، قرآن کریم کی ہدایت کو نظرانداز کرکے، نسل پرست اسرائیل کی ناجائز حکومت و ریاست کو تسلیم کرنے کی دوڑ میں شریک نظر آتے ہیں ۔ اس صورتِ حال میں یہ کتاب بھولے ہوئے سبق کی یاد دہانی کراتی ہے۔ (ادارہ)
محمد متین خالد قادیانیت کے مختلف پہلوئوں پر اب تک متعدد کتابیں شائع کرچکے ہیں، جن میں ثبوت حاضر ہیں کو خاص طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے مرزا قادیانی کی اصل کتابوں اور تحریروں کے عکس دیے ہیں۔ اب انھوں نے زیرنظر کتاب پیش کی ہے۔
قادیانیت پر مولانا ظفر علی خان کے مضامین، مقالات، توضیحات، اداریوں، مکاتیب اور شاعری کا ایک خوب صورت گلدستہ ہے۔ مولانا نہایت قادرالکلام، نثرنگار اور شاعر تھے۔ وہ جس چیز کو درست سمجھتے تھے، اسے لگی لپٹی رکھے بغیر، بہ بانگ دہل کہہ دیتے اور لکھ دیتے تھے۔ ان کی یہ سب تحریریں، ان کے اپنے اخبار زمیندار میں شائع ہوتی رہیں۔بعدازاں انھوں نے بہت سے مضامین کو کتابی شکل میں بھی شائع کیا۔ کتاب کے ایک حصے میں مولانا ظفر علی خان کی شخصیت اور قادیانیت کی بیخ کنی کے سلسلے میں ان کی خدمات پر مختلف اہل قلم (شورش کاشمیری، چراغ حسن حسرت، عنایت اللہ نسیم سوہدری، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، خالد بزمی، ڈاکٹر نظیرحسنین زیدی، فاطمہ اطہر وغیرہ) کے مضامین جمع کیے گئے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
انٹرویو ایک ایسی صنف ہے ، جس میں کسی بھی صاحب ِ علم و فن سے اُن باتوں کی تفصیل معلوم کی جاسکتی ہے کہ جو وہ لکھ نہیں سکے یا اُن اُمور کو سمجھا جاسکتا ہے جو وہ بیان نہیں کرسکے، یا پھر سائل اپنی اُلجھن دُور کرنے کے لیے ان سے مدد کا طالب ہوتا ہے۔
پروفیسر رفیع الدین ہاشمی نے زندگی کا طویل عرصہ اقبالیات اور ادبیات کے استاد و محقق کے طور پر گزارا ہے۔ اس دوران اُن سے طالب علموں اور اخبار نویسوں نے مذکورہ موضوعات پر بہت سے استفسارات کیے۔ یہ کتاب ایسے ہی سوال و جواب پر مشتمل ہے، جس میں اقبال اور ادب کی مناسبت سے دلچسپی کا عنصر غالب ہے، معلومات بھی ہیں ، اور علمی و ادبی اُلجھنوں کا مداوا بھی۔
کتاب کا پہلا حصہ تو انٹرویوز پر مشتمل ہے، جب کہ دوسرے حصے میں انھوں نے جب اپنے چند کرم فرمائوں کے بارے میں تفصیلات بیان کیں تو انھیں مکالمے کے حصے سے نکال کر شخصی تاثرات کی صورت میں یکجا کردیا گیا ہے۔ یہ سبھی لوگ اپنی اپنی جگہ نہایت قابلِ قدر ہیں۔ کتاب کا اشاریہ مطالعے کو سہل بناتا ہے اور متن میں پوشیدہ احوال کو نمایاں کرتا ہے۔ (ادارہ)
نئی نسل کی تربیت اور مزاج بگاڑنے کے ہزار وسیلے ہیں، لیکن اُمت کے اس قیمتی ترین سرمائے کو بچانے، سنوارنے اور معیاری انسان بنانے کے ذرائع اور محرک بہت کم ہیں۔ پاکستانی قوم پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی صورت میں طلبہ کی تنظیم، بہت سے اداروں سے بڑھ کر یہ مبارک کام کرر ہی ہے کہ نئی نسل کو تہذیبی و ثقافتی حملے سے محفوظ رکھے اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے جوڑدے۔
ماہ نامہ ساتھی ان تعمیری کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جو گذشتہ نصف صدی سے یہ کارِنمایاں انجام دے رہا ہے کہ بچوں کو اعلیٰ ادب پڑھنے کے لیے فراہم کرے۔ زیرنظر شمارہ ایک خصوصی اشاعت ’خواہش نمبر‘ کی صورت شائع کیا گیا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اس پرچے کے خریدار بنیں اور اپنے بچوں اور بچیوں کو اس تربیت گاہ سے گزاریں۔ (ادارہ)
سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے، تمام زمانوں میں سرچشمۂ ہدایت ہے اور اس سے براہِ راست فیض پانے والے صحابۂ کرامؓ دُنیا کے خوش نصیب ترین انسان ہیں۔ اور ان میں سب سے بلند مرتبہ وہ اصحابِ رسولؐ ہیں، جنھیں عشرہ مبشرہؓ یعنی وہ دس لوگ کہ جنھیں اِس دُنیا میں آخرت میں کامیابی کی بشارت دے دی گئی تھی۔
حافظ محمد ادریس صاحب کی زندگی علم کی شاہراہ پر چلتے اور دعوتِ حق کے پھول کھلاتے گزری ہے۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے انھیں صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں کے مطالعے اور اس سے حاصل کردہ نتائجِ فکر نوجوانوں میں بیان کرنے سے طبعی رغبت تھی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ صحابہؓ کی زندگی کی مناسبت سے ان کی پہلی کتاب روشنی کے مینار شائع ہوئی۔بعدازاں سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مربوط سسٹم کے تحت پڑھا بھی، لکھا بھی اور سیکڑوں اجتماعات میں بیان بھی فرمایا۔
عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں: حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت سعید بن زیدؓ__ ان صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں پر الگ الگ اور یک جا صورت میں کئی فاضلین نے پہلے بھی گراں قدر سوانحی کتب تحریر کی ہیں۔ ان کی موجودگی کے باوجود جناب حافظ محمد ادریس کی زیرنظر کتاب کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ جس میں انھوں نے ان حضرات کی زندگیوں کی دعوتی کاوشوں، عملی کارناموں، تربیتی اسلوب اور انسانیت کی تعمیروترقی میں ہمہ پہلو کردار کومرتب انداز میں پیش کیا ہے۔ حافظ صاحب کا اسلوبِ بیان سادہ، رواں اور دل میں اُترنے والا ہے۔ یہ کتاب طالبانِ علم کے لیے واقعی روشنی کے میناروں کی بلندی کا ذریعہ بنے گی۔(س م خ )
علّامہ اقبال کے سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی زمانے میں وہ قادیانیوں کے بارے میں قدرے نرم گوشہ رکھتے تھے، لیکن محمد الیاس برنی کی کتاب قادیانی مذہب کا مطالعہ ان کے لیے چشم کشا ثابت ہوا۔ پھر علّامہ اقبال نے قادیانیوں اور قادیانیت کی اصلیت کو متعدد مضامین کے ذریعے بے نقاب کیا۔ جناب علّامہ کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد ایک غالی قادیانی تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب مظلوم اقبال میں علّامہ اقبال کے موقف کو مصلحت پرستانہ قرار دیا، جس کی مدلّل تردید زندہ رُود میں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے کی ہے۔
علّامہ اقبال اور قادیانیت کے موضوع پر بیسیوں اہل قلم نے مضامین لکھے۔ قادیانیت شناس محمد متین خالد نے اس موضوع پر جملہ تحریروں کو یکجا کرکے زیرنظر کتاب مرتب کی ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مفصل اور مبسوط مطالعہ ہے۔ مجلد کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ڈاکٹر انوار احمد بگوی کے بقول:’’ڈاکٹر ظفراقبال علم کے دھنی اور قلم کے مجاہد ہیں، جو ایک دُورافتادہ مقام پر بیٹھ کر تسلسل کے ساتھ تحقیقی و تصنیفی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جھنگ کے ایک دُورافتادہ قصبے حویلی بہادر شاہ میں انھوں نے تعمیرانسانیت لائبریری کے نام سے ایک بڑا کتب خانہ فراہم کر رکھا ہے‘‘۔وہ بیرون شہر سے آنے والے تحقیق کاروں کو استفادے کی سہولت دیتے ہیں اور اُن کی مہمان نوازی بھی کرتے ہیں۔
زیرنظر کتاب میں انھوں نے فلسفۂ ختم نبوت کے سلسلے میں بعض گمراہ مصنّفین اور مفکرین (خصوصاً غلام احمد پرویز، ڈاکٹر عبدالودود، اسلم جیراج پوری وغیرہ) کی تاویلات کا تجزیہ کرکے ان کا رَد پیش کیا ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مدلل اور مفصل کتاب ہے۔ اسلوبِ بیان فلسفیانہ ہے، اس لیے عام فہم نہیں بلکہ عالمانہ ہے۔ کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
نول صاحب نے یہ ایک منفرد نوعیت کی کتاب تصنیف کی ہے جو پاکستان کے شہروں، قصبوں، گوٹھوں اور گائوں اور ان کے اندر واقع قلعوں، بیراجوں، عمارتوں کی تاریخ اور تعارف پر مشتمل ہے۔ بڑے شہروں پر تو معلوماتی کتابیں مل جاتی ہیں اور قصبوں پر بھی کچھ نہ کچھ لکھا گیا ہے مگر چھوٹے چھوٹے گائوں کا تذکرہ پہلی بار سامنے آیا ہے، مثلاً کسی گائوں کا پرانا نام، آباد کیسے اور کب ہوا؟ آبادی؟ کس قریبی شہر یا قصبے سے فاصلہ؟ وہاں اسکول پرائمری یا مڈل یا ہائی؟ پینے کا پانی؟ اسلام کوٹ نام کے دو گائوں ہیں، اسی طرح اسلام گڑھ (چولستان)، اسلام گڑھ (گجرات)، ایک شہر، قصبے یا گائوںکی تاریخ کے ساتھ اس کی معروف شخصیات کا تعارف مع تصاویر، تصاویر بکثرت۔نول صاحب نے بذریعہ سائیکل، موٹرسائیکل، بس، چنگ چی اور اپنی گاڑی سے سفر کیا اور اپنے کیمرے سے تصاویر بنائیں۔ کل ۲۲۰۰ مقامات کا تذکرہ ہے۔
تقریباً اسّی برس کی عمر میں مصنف کی جانب سے ایسی گہری تحقیق کرنا اور ایک طرح کا دائرہ معارف (انسائی کلوپیڈیا) مرتب کرنا، جان جوکھوں اور کمال کا کام ہے۔ نول صاحب، مبارک باد کے مستحق ہیں۔ صدارتی تمغے اور اوارڈ کا مستحق اُن سے زیادہ کون ہوگا؟ (رفیع الدین ہاشمی)
تمام انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور تحفہ قرآن ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے،جو پوری انسانیت کے لیے رُشدوہدایت کا ذریعہ ہے۔ ہرمسلمان کی دینی اور دُنیاوی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے۔
اُردو میں قرآن کریم کا پہلا ترجمہ حکیم محمد شریف خان دہلوی (م: ۱۸۰۷ء) نے کیا ، مگر وہ کبھی شائع نہ ہوسکا۔ اس لیے شاہ ولی اللہ کے صاحبزادوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کے ترجمے کو اُردو میں قرآن کا پہلا ترجمہ قرار دیا جاتا ہے، جو انھوں نے ۱۷۸۸ء ہی میں مکمل کرلیا تھا ۔ شاہ عبدالقادر کاترجمہ ۱۸۰۵ء میں شائع ہوا،اور شاہ رفیع الدین کا ۱۸۳۸ء میں طبع ہوا۔
زیرنظر ترجمہ قرآن اتنا آسان، سہل ،رواں اور عام فہم ہے کہ دل چاہتا ہے ایک ہی نشست میں مطالعہ کرلیا جائے۔ اس کے مترجم محمد عبدالحلیم، اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن اور حلقہ (عزیز آباد، کراچی) کے ناظم بھی تھے۔ انھوں نے حرم شریف کی دوسری بڑی توسیع اور صفا و مروہ کے توسیعی منصوبے کے سینئر آرکیٹکٹ کی حیثیت سے سولہ سال تک خدمات انجام دیں۔ انھی کی زیرقیادت پہلی مرتبہ بیت اللہ کے فرش کے اندر بہت گہری کھدائی ہوئی، جس سے بیت اللہ کی تعمیر کے تمام اَدوارکی تاریخ معلوم ہوئی، جو پہلے کسی کو بھی معلوم نہ تھی۔ کعبۃ اللہ کی دیوار کی تعمیر کے دوران موجود نصب حجر اسود ،جو نو(۹) ٹکڑے لاکھ سے جڑے ہوئے ہیں، عین اس کے پیچھے حجراسود کا ایک انتہائی حسین ٹکڑا جو 253 x 112 31 ملی میٹر کا دیوار کے اندر فولادی شکنجے میں محفوظ ملا، اسے دوبارہ نصب کرنے کا شرف بھی مترجم کو حاصل ہوا، نیز میوزیم حرمین شریفین کی توسیع، ڈیزائن ، تعمیر اور ہر مرحلے کے آرکیٹکٹ بھی رہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران دل میں باربار قرآن کریم کے ترجمے کا خیال اللہ ربّ العزت کی طرف سے آتا رہا اور پھر وہیں پر ترجمۂ قرآن کاعظیم کام مکمل کیا۔ اس ترجمۂ قرآن میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ایک عام آدمی چاہے وہ کتنا ہی کم پڑھا ہوا کیوں نہ ہو، وہ بھی قرآنِ مبین کو آسانی سے سمجھ لے اورقرآن کو مشکل نہ سمجھے ۔اس وجہ سے عام بول چال میں بولے جانے والے الفاظ ہی اس میں استعمال کیے گئے ہیں ۔ اشاعت سے قبل کبار علمائے کرام، اہل علم اور کم پڑھے افراد کو متن فراہم کرکے ان کی آراء حاصل کیں۔ سبھی نے اس ترجمے کو بہت آسان اور عام فہم قرار دیا ہے اور محکمۂ اوقاف نے بھی اس پر تصدیقی مہر ثبت کردی کہ ’’یہ ترجمۂ قرآن اغلاط سے پاک ہے‘‘۔پہلی جلد پندرہ پاروں پر سورۂ فاتحہ سے سورۂ کہف تک، اعلیٰ کاغذ پر شائع کی گئی ہے (دوسری جلد تیاری کے آخری مراحل میں ہے)۔ (شبیرابنِ عادل)
سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر محبانِ رسولؐ نے بےشمار زاویوں سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے اور بعض علمی تحریرات عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی مصدقہ معلومات کے لیے مصادر کا درجہ رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر تسنیم احمد صاحب کی یہ کاوش خصوصیت رکھتی ہے کہ اس سےسیرت کے واقعات کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ الکتاب اور صاحب ِکتاب کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کا ارشاد ہے: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ۔
تیرہ جلدوں پر مشتمل روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوتؐ میں نہ صرف سیرتِ رسولؐ ہے بلکہ ۲۳ سالہ دعوت اسلامی کے مراحل کی رُوداد بھی ہے ۔ جس میں نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیّبہ اور اصحابؓ و صحابیاتؓ کے بارے میں قیمتی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں۔ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے جامع انقلاب کا ایک تجزیاتی جائزہ پیش کرتی ہے ۔ تحریک اسلامی کے کارکنان کے لیے اس کا مطالعہ افادیت کا باعث ہوگا۔ کتاب میں ہجری اور میلادی تاریخوں کے حوالے بھی فراہم کر دیے گئے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی جن مراحل و مشکلات اور مصائب سے گزری، اس کے لیے ترتیب نزولی مطالعے کا ایک پہلو تو ہے، تاہم قرآن کریم کے مطالعے اور ہدایت سے فیض یاب ہونے کے لیے جس ترتیب سے خالق کائنات نے جبرئیل امینؑ کے ذریعے اپنے رسولؐ کو ہدایت دے کر مرتب فرمایا، اسی ترتیب سے یہ مطالعہ ہدایت فراہم کر سکتا ہے ۔ اگرچہ بعض مسلم علما اور غیر مسلم مستشرقین نے ترتیب نزولی کو موضوع بنایا ہے ،جو قرآن کا مدعا نہیں ہے۔ مستند مآخذ سے مرتب کردہ ان قیمتی معلومات کا مطالعہ ان شاء اللہ نئی نسل کو سیرت پاکؐ اور کلام عزیز دونوں سے قریب لائے گا۔(پروفیسرڈاکٹر انیس احمد)
سیرتِ نبویؐ پر عربی کے بعد اُردو زبان میں سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں۔ سیرت کی بیسیوں شاخیں ہیں۔ مذکورہ کتاب صرف ایک شاخ (مکاتیب ِ نبویؐ) کو سامنے لاتی ہے۔ رسولِ کریمؐ نے بیسیوں خطوط لکھوا کر بھیجے۔ مرتب نے خطوط کے تراجم کو مع پس منظر و پیش منظر یکجا کیا ہے۔ ہرمکتوب الیہ کا تعارف اور اس کی حیثیت، جو ایلچی (صحابہ کرامؓ) خطوط لے کر گئے، اُن کا تعارف، حالات، مکتوب الیہ پر مکتوبِ نبویؐ کے اثرات ، نتائج، آپؐ کے مکتوبات، کہاں کہاں اور کس ملک میں کس کی ملکیت میں ہیں، بتایا ہے۔ متعلقات کی وسعت کو بیان کیا ہے۔تاہم اسے انسائی کلوپیڈیا کہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ابتدا میں دس تقریظ نگاروں نے مرتب کی بجاطور پر تحسین کی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مغربی سامراجیوں نے گذشتہ صدیوں میں جب مسلم علاقوں کو غلام بنایاتو اپنے فوجی اور انتظامی اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے جن شعبوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا، اُن میں سرفہرست قانون اور تعلیم کے شعبے تھے۔ بظاہر پاکستان سے انگریزی سامراج کو براہِ راست حکمرانی چھوڑے ۷۵برس گزر چکے ہیں، لیکن اس علاقے پر حاکمیت کے لیے وہ جس انتظامی، سیاسی، عسکری، تعلیمی اور فکری ڈھانچے کو چھوڑ کر گئے تھے، وہ ذُریت پوری فعال ہے، مقتدر بھی ہے اور بدوضع بھی۔
آصف محمود ایڈووکیٹ، تخلیقی ذہن کے حامل دانش ور، قانون دان اور استاد ہیں، جنھوں نے زیرنظر کتاب میں، خصوصاً پاکستان کے شعبہ قانون پر انگریزی سامراجی باقیات کو گہرے مطالعے اور باریک بین مشاہدے کے بعد قلم بند کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ یہ محض قانونی غلامی کا شکنجا نہیں ہے، بلکہ تہذیبی وفکری غلامی سے نموپانے والے احساسِ کمتری کا وہ زہر ہے، جس نے حُریت فکروعمل اور آزادیٔ خیال و اظہارپر تالا چڑھا کر غلامی کی اتھاہ میں دھکیل دیا ہے۔
اس کتاب کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ یہ کوئی خطیبانہ الزام تراشی نہیں ہے، بلکہ ٹھوس شواہد پر مشتمل وثیقہ ہے، جو گذشتہ دوسو برسوں میں لکھی گئی درجنوں کتب کا مطالعہ کرکے مرتب کیا گیا ہے۔ پاکستان میں مغربی تہذیب، لبرلزم اور سیکولرزم کے سرچشموں کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے یہ مختصر مگر جامع کتاب ایک قیمتی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے کتاب کا استقبال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’پاکستان کے قانونی و عدالتی نظام میں بامعنی اصلاحات کے خواہش مند یہ کتاب شوق سے پڑھیں گے، اور یہ ججز، وکلا اور قانون کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ عام لوگوں کے لیے بھی بہت مفید ثابت ہوگی‘‘ (ص ۴)۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ایک ماہ میں اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا اور اب دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ (سلیم منصور خالد)
زندگی گزارنے کے لیے لوگ کاروبار، محنت اور ملازمت کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں، مگر ہرزندگی کے چاروں طرف حقیقی زندگی کے جو رنگ بکھرے ہوئے ہیں، بہت کم لوگ زندگی کے ان رنگوں کو مجسم تحریر میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے یا اہمیت سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر امجد علی ثاقب زمانۂ طالب علمی میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی شاگردی اور مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کی مجالس سے فیض پاتے ہوئے، پاکستان کے اعلیٰ تربیتی و انتظامی اداروں میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے انھیں پاکستان کے مقتدر طبقوں اور شخصیتوں تک رسائی حاصل رہی ہے۔ انھوں نے آپ بیتی میں زندگی کے مختلف کرداروں کی سوچ، عمل اور رویے کو دل چسپ معلومات کی صورت میں یک جا کردیا ہے۔ یہ لوگ، بلندپایہ اساتذہ اور قابلِ غور اہلِ فکرودانش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حُسنِ نیت و حُسنِ اخلاق سے بگڑے ہوئے لوگ ٹھیک اور اُلجھے ہوئے کام سلجھ جاتے ہیں، اور بگڑے ہوئے انسانی روابط درست ہوجاتے ہیں۔ اگر ہربات احتیاط اور دُوراندیشی سے کی جائے تو نتائج بڑے مثبت ہوتے ہیں‘‘۔(ص ۲۵)
یہ تذکرہ خوش رنگ تو ہے ہی، لیکن تاریخ کے کئی موڑ بہت قریب سے دکھاتا ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے پیش لفظ میں بجاطور پر لکھا ہے: ’’اس [آپ بیتی] میں سوچ بچار کے شگوفے کھلتے ہیں‘‘ (ص۲)۔ اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد کتاب ہے۔(س م خ)
انسانی زندگی سوچ، ارادے اور عمل سے عبارت ہے۔ انسان اگر تعمیری سوچ اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے کسی اچھے عمل کا ارادہ کرے تو ایسی زندگی قابلِ رشک اورانسانی تعمیر اور سماجی و تہذیبی کمال کا سنگ میل بن جاتی ہے۔
معاشیات کے استاد اور سماجیات کی حرکیات پر نظر رکھنے والے ممتاز دانش ور فیاض باقر نے زیرنظر کتاب میں اسی سوچ، ارادے اور عمل سے نسبت رکھنے والے چند قابلِ قدر انسانوں کو ہمارے بیمار معاشرے سے منتخب کرکے زندگانی سے بھرپور چند مثالوں کو یکجا کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے چاروں جانب پھیلی گھٹاٹوپ میں اپنے حصے کی شمع جلاتے ہوئے روشنی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ نظریاتی پس منظر کے حوالے سے شاید یہ لوگ آزاد خیال ہیں، لیکن خدمت کی مثال پیش کرنے میں مصروف کار ہیں۔ایسی مثالیں سبق آموز ہیں ۔
حرفِ آغاز میں جناب مؤلف لکھتے ہیں:’’ہمارے میڈیا کی توجہ بدقسمتی سے [ملک کے] قرضوں، مالی بدعنوانی اور اقتصادی گداگری پر اٹکی ہوئی ہے....[مگر ایک سطح پر] پاکستان میں ایک خاموش تبدیلی آرہی ہے: خودکفالت، قومی خودداری ، انصاف اور ترقی کے اصولوں پر قائم ایک نیا نظام جنم لے رہاہے... [اسی مناسبت سے] ہم نے یہ کہانیاں اکٹھی کی ہیں‘‘(ص۷)۔ بلاشبہہ یہ عمل کی راہیں سجھانے والی داستانیں ہیں۔ ان کا مطالعہ خدمتی جدوجہد سے منسوب کارکنوں کو رہنمائی دیتا ہے اور حوصلوں کو بلندی عطا کرتا ہے۔ (س م خ)
قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد کا اعزاز ۳۰دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں قائم ہونے والی کُل ہند مسلم لیگ کو حاصل ہے۔ پھر برطانوی مقبوضہ ہند کے تمام صوبوں اور ریاستوں میں آزادی کے لیے سب سے زیادہ ذہنی وعلمی یکسوئی کے ساتھ کوششیں، خطۂ بنگال کے مسلمانوں ہی نے کی تھیں۔ ان کاوشوں میں ہند کے دیگر علاقوں میں بسنے والے اسلامیان نے بھی اپنا حصہ ادا کیا ۔۱۴ـ؍ اگست ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم کی قیادت میں یہ سفر مکمل ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
خطۂ بنگال جو تحریکِ پاکستان کا دھڑکتا ہوا دل اور اس کی سراپا پہچان تھا، مگر قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد یہ خطّہ اندیشہ ہائے دُور دراز کی دلدل میں اس طرح دھنستا چلا گیا کہ اگر ایک طرف تحریک ِقیامِ پاکستان کے دشمن ملک نے اپنا جال پھینکا ، تو دوسری طرف تنگ نظر بنگالی قوم پرستوں نے جسدِ ملّی میں مبالغہ آمیز پراپیگنڈے کا زہریلا مواد بھردیا، اور تیسری جانب مغربی پاکستان کی سیاسی، انتظامی اور فوجی قیادت کی حماقتوں نے اس منفی عمل کو تیز تر کر دیا ۔ یوں، وہ مرکز جو قیام پاکستان کا عنوان تھا، ۲۴ برس بعد اندرونی تخریب، بیرونی یلغار اور حکومتی بداعمالیوں کی بھینٹ چڑھ کر، مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا اور اس طرح ایک آزاد پاکستان کے بجائے دشمن ملک کی طفیلی ریاست بن کر رہ گیا۔
یہ ایک بڑا تکلیف دہ، اور حد درجہ عبرت ناک سفر ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز صحافی ،منفرد تجزیہ نگار اور راست فکر دانش ور جناب الطاف حسن قریشی (پ:مارچ۱۹۳۰ء)نے اس سفرکی کھلی اور چھپی داستان کو ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ ، ہفت روزہ زندگی اور روز نامہ جسارت کے اوراق پر رقم کیا۔انھوں نے ۷۲ مضامین کی صورت میں اپنے گہرے مشاہدے ، وسیع مطالعے ، مسلسل تحقیق، فکرانگیز مکالمے اور ایمان افروز تجزیے سے اس عمل معکوس کو پرکھا ہے ، اور برملا سچائی بیان کرنے میں کسی کوتاہی ،سستی اور مداہنت کو قریب تک نہیں پھٹکنے دیا۔اس دوران وہ دو مارشل لا حکومتوں اور ایک فسطائی حکومت کے تحت قیدوبند سے بھی گزرے، مگر ثابت قدم رہے۔
۹۲ سالہ الطاف صاحب کا یہ تحریری سرمایہ پاکستان کی تاریخ کے نازک ترین دورکی ایسی نمایاں تصویر پیش کرتا ہے جس میں ایک ایک کردار اپنی پستی کے ساتھ بے نقاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری، ٹھیک اس ماحول میں پہنچ جاتا ہے جب رنج واَلم کے ہرکارے اور وطن فروشی وغداری کی بساط کے مہرے ستم ڈھارہے تھے ،مگر افسوس کہ قوم اور قوم کے اہل حل وعقد مصنف کی پکار سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ابتدا میں ’محشرِخیال‘ کے عنوان سے الطاف صاحب کا ۲۳صفحات کا طویل دیباچہ پڑھنے کے لائق ہے۔
۱۹۶۴ء سے لکھی جانے والی یہ تحریریں المیۂ سقوطِ مشرقی پاکستان ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء اور پھر اس کے بعد قومی احتساب کی بانگِ درا بن کر نیند کے ماتوں کو جگانے کی مسلسل کوشش کرتی آ رہی ہیں ۔ ان تحریروں میں پاکستان کے: دستوری ، بین الصوبائی ، ثقافتی ، لسانی ،تعلیمی ، معاشی ، صحافتی ، فوجی، حکومتی ، مذہبی ، انتظامی اور عدالتی شعبوں کی دانستہ اور نادانستہ کج رویوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پھر غور سے دیکھیں تو اصلاحِ اَحوال کے لیے اس کتاب کے اوراق پہ ایک بے لاگ قومی پارلیمنٹ کے پُرمغز اور فاضلانہ مباحث کا گمان ہوتا ہے، جہاں تیرہ شبی سے لڑنے والا جہاں دیدہ قلم کار، پُرپیچ گرہوں کو کھولنے کے ساتھ، اُلجھے معاملات کو سدھارنے کا راستہ بھی دکھا رہا ہے۔ جس میں کمال کی چیز یہ ہے کہ ہرلمحہ حسِ اعتدال اور ہمدردی ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہے۔جہاں جس کو جادئہ اعتدال سے ہٹا دیکھا، اسے نمایاں کردیا اور جس فرد کو معقول بات یا عمل کرتے دیکھا، اس کا کھلا اعتراف کیا۔بدقسمتی سے عموماً ہمارے لکھنے والے اس خوبی کو اپنانے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
سقوطِ مشرقی پاکستان پر بیش تر لکھی گئی کتابیں بعد اَز مرگ واویلا کی بازگشت ہیں، یا پھر وکیل صفائی کا بیان ، ورنہ استغاثہ کا دفتر۔ مگر یہ کتاب ، ایک بھلے چنگے ملک کو بیماری سے بچنے ، بداعمالی سے پرہیز برتنے اورعلاج کے لیے خبر دار کرنے کا دیانت دارانہ نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں دانش ، درد مندی اور عبرت کے اتنے رنگ ہیں اور معلومات کے اتنے خزانے ہیں کہ ایک مختصر تبصرہ ان کو نمایاں طور پر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اگر ہمارے صحافی بھائی بے خبری کے گنبد اور زعم باطل کے افیون کدے سے نکل کر اس کتاب کو پڑھیں گے تو ان کے لیے یہ ایک صحافتی تربیت اور مطالعۂ تاریخ کا نصاب ہے۔ فوج اور سول انتظامیہ کے افسران پڑھیں گے تو انھیں جھنجوڑنے کا تازیانہ اور منصبی فرائض انجام دینے کا آموختہ ہے۔ سیاست دان پڑھیں گے تو ان کے لیے سیاسی شغل کاری سے توبہ کرنے اور قومی خدمت و احساسِ ذمہ داری بیدار کرنے کا درس ہے۔ اساتذہ اور طلبہ پڑھیں گے تو ان کے لیے تاریخ سے زندہ سبق سیکھنے کا ریفریشر کورس ہے، اور اگر سفارت کار پڑھیں گے تو ان کے لیے سفارت کاری کی باریکیوں کو سمجھنے کا زائچہ ہے۔
بظاہر کتاب کی قیمت زیادہ لگتی ہے، لیکن امرواقعہ ہے کہ خریدنے والا، جب مطالعہ کرے گا تو اسے محسوس ہوگا کہ اس کی رقم ضائع نہیں ہوئی۔ ناشر بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ پاکستانی تاریخ کے ایک اہم باب کو بلاکم و کاست پیش کیا ہے۔ کتاب میں بنگالی اور بنگال سے متعلق شخصیات کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
انسانیت کے تین بڑے مسائل میں روحانیات، اخلاقیات اور معاشیات سرفہرست ہیں۔ یہ چیلنج ہزاروں برسوں سے انسان کے لیے بڑے نازک اور سلگتے سوال لے کر سامنے آتا ہے، جن کا جواب دینے کے لیے فلسفیوں، دانش مندوں اور ماہرین اجتماعیات نے سرتوڑ کوششیں کیں، مگر ناکام رہے۔ وہ ایک سوال کا جواب دینے کے قریب آئے تو دوسرا سوال پھن پھیلائے ڈسنے کو لپکا۔
یہ اسلام ہی ہے اور پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ رہنمائی کہ جنھوں نے بہ یک وقت روح، اخلاق اور معاش کو درپیش مسائل کا ایک چھت کے نیچے اس خوب صورت اور متوازن انداز سے حل فرمایا کہ معاشرہ خداترسی،سکون اور عدل اجتماعی کی تصویر بن گیا۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق محقق اور ممتاز ماہر معاشیات محمد منیراحمد کی یہ کتاب درحقیقت اسی کارنامۂ نبویؐ کی تشریح پر مبنی تاریخی، علمی اور عملی دستاویز ہے، جو پندرہ ابواب پر مشتمل ہے۔
کتاب کا مطالعہ فرد کو گذشتہ ۱۵سو برسوں کے دوران انسان کی معاشی زبوں حالی اور مدنی ؐ دست گیری سے متعارف کراتا ہے۔ ایسی خوب صورت علمی کتاب کا استقبال اہلِ علم پر واجب ہے۔ (س م خ)
صبیح رحمانی نے زیرنظر کتاب میں معروف شاعر امیرمینائی کی نعتیہ شاعری پر مختلف اہلِ قلم اور نامور نقادوں کے مضامین جمع کیے ہیں۔ امیرمینائی نے محبت ِ رسولؐ کا اظہار طرح طرح سے کیا ہے۔ امیرمینائی کی نعت پر مضامین کے ساتھ، ان کے قصائد اور غزلوں میں نعتیہ رنگ اور ان کی نعتیہ تضمینات پر نقدوتبصرہ بھی شامل ہے۔ مرتب نے اپنے پیش لفظ میں امیرمینائی کی نعت پر اہم نکات پیش کیے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
اُردو زبان میں سیرتِ پاکؐ پر بہت قیمتی کتب لکھی گئی ہیں، لیکن کاروانِ نبوت اپنی ترتیب، اسلوب اور پیش کش کے اعتبار سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ یہ اس کتابی سلسلے کی بارھویں کڑی ہے، جس میں صلح حدیبیہ، غزوئہ تبوک، ہمسایہ سلاطین کے نام خطوط، غزوئہ خیبر، عمرئہ قضا، معرکۂ موتہ اور فتح مکہ کی تفصیلات پر ابواب کے ساتھ قریشِ مکہ اور یہود کی مخالفت کے اجمالی جائزے پر دو معلوماتی اور فکرانگیز ابواب بھی کتاب میں شامل ہیں۔
سیرتِ رسولؐ کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کی مناسبت سے متعدد بصیرت افروز نکات بیان کیے ہیں۔ اسی طرح جہاں عہد ِ نبوی میں جاہلیت سے کش مکش کا ذکر ہے، وہاں عصرحاضر کی جہالتوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ کتاب کا طرزِ بیان عام فہم ہے۔ عبارت کی سلاست اسے قاری کے لیے دل چسپ بناتی ہے اور کتاب کا مطالعہ قاری کو عمل پر اُبھارتا ہے۔ کتاب کی ٹائپ کاری اور مطالعے کے مرکزی نکات کو نمایاں کرنے کا انداز، انفرادیت کا حامل ہے۔ (ادارہ)
جناب حافظ محمدادریس ایک عالم، مترجم، خطیب اور منفرد ادیب ہیں۔ وہ بہ یک وقت اسلامی تاریخ، قومی و ملّی اُمور، افسانہ اور وفیات پر دلی لگن کے ساتھ لکھتے ہیں۔ عزیمت کےراہی سلسلے میں یہ ان کی آٹھویں کتاب ہے۔ اس سلسلے میں وہ عصرحاضر کے اُن رفقائے تحریک اسلامی کے احوال، واقعات اور یادداشتوں کو مرتب کرتے ہیں، جو اس دُنیا میں اپنا رول ادا کرکے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوجاتے ہیں۔
زیرنظر مجموعہ، تحریک اسلامی کی مرکزی شخصیات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ جن میں چودھری غلام محمد، سیّد منور حسن، عبدالغفار عزیز، حاجی عبدالوہاب (امیر تبلیغی جماعت)، شیخ ظہوراحمد، ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی، ڈاکٹر سیّد وسیم اختر، ڈاکٹر محمد مرسی شہید، جسٹس فدا محمد خاں، حفیظ الرحمٰن احسن، نعمت اللہ خاں ایڈووکیٹ، مسعود احمد خاں وغیرہ سمیت ۲۷ سعادت مند زندگیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
یہ کتابی سلسلہ، دعوت و عزیمت کے چراغ روشن کرتا ہے۔ سچ پوچھیے تو احباب میں مطالعے کی زبوں حالی کا حوالہ دیکھ کر دل رنجیدہ ہوا، کہ صرف چھے سو کی تعداد میں کتاب شائع ہوئی ہے، کیا یہ بات خود باقی زندہ رہ جانے والوں کے لیے ایک تازیانہ نہیں؟ (ادارہ)
حکیم محمد یوسف حضروی (۱۸۵۵ء۔۱۹۵۹ء )حضرو (ضلع اٹک) ایک ماہر طبیب کے علاوہ بہت اچھے پختہ قلم ادیب بھی تھے۔ تقریباً دس کتابوں کے مصنف تھے۔ سیرِ سوات ان کی ’’ایک ماہ [جون ۱۹۴۴ء]کی سیاحت ِ سوات کا خوش نماآئینہ ہے۔ اس آئینے میں حکیم صاحب کے احوالِ سفر کی رنگا رنگ تصویریں ،ان کے مشاہدے کی دل پذیر جھلکیاں ہیں‘‘۔(ص ۳۱)
حکیم صاحب کا اسلوبِ نگارش دیکھیے: ’’ان [پہاڑوں]کی آغوش میں ملک کے اندرونی حصے ہر طرف تختہ ہائے گلاب، گلِ مہتاب، گلِ لالہ ویاسمین کے شاداب اور رنگین ندیم عشرت پھولوں کے ایسے چمن کھلے ہوئے ہیں، جن پر انسانی نگاہ فردوس ارضی کا دھوکا کھاتی اور شب کو چاند اور تاروں کی لطیف روشنی مسکراتی ہے۔ صبح کے دھند لکے میں نسیم خوش گوار کا ایک ہلکا سا جھونکا ان پھولوں کو چھیڑ کر مسکرانے پر آمادہ کرتا ہے، کلیاں بنتی ہیں اور خوشبو سے تمام فضا معطر ہو جاتی ہے‘‘۔(ص۵۳)
ڈاکٹر ناشاد نے ۳۰صفحات پر مشتمل سیرحاصل مقدمے میں حکیم صاحب کے حالاتِ زندگی کے ساتھ، ان کے آباواجداد کے اَحوال ،تصانیف اور مہارتِ طب پر روشنی ڈالی ہے۔ متن کی صحت کے ساتھ مختصر حواشی اور اشاریے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ترجمان کی گذشتہ اشاعتوں (فروری ۲۰۱۴ء، اپریل ۲۰۱۵ء، اپریل ۲۰۱۶ء) میں ہم نے انجینئر مختار فاروقی مرحوم کی تصانیف اور رسالے پر تعارف و تبصرہ شائع کیا تھا۔ مختار صاحب ۱۳ستمبر ۲۰۲۱ء کو اپنے ربّ سے جاملے۔ ان کی وفات پر درجنوں اہلِ قلم نے مرحوم کی شخصیت، علم و فضل اور تصنیفی و تالیفی کارناموں پر قلم اُٹھایا اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ زیرنظر مجموعۂ مضامین مرحوم سے لکھنے والوں کی ملاقاتوں، گفتگوئوں اور باتوں کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ اوریا مقبول جان کہتے ہیں: ’’میں ان کے رسالے کا مدتوں مستقل قاری رہا۔ وہ بہت نیک اورسادہ انسان تھے۔ جب بولتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ ان کے اندر سے علم آرہا ہے اورعلم بھی دین کا علم‘‘ (ص ۲۲۳)۔
کسی معاشرے میں مختارفاروقی جیسے لوگوں کا وجود اور دین کے لیے ان کی کاوشیں اس معاشرے پر ربِّ کریم کی عنایات کے مترادف ہے۔ آخر میں بہت سے اہلِ علم کے تعزیتی پیغامات شامل ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر کتاب، ایک نعتیہ دیوان ہے۔’ ’دیوان‘‘ عام نعتیہ مجموعوں سے اس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے کہ اس میں شامل نگارشات کی ردیفوں کے آخری حروف کو حروفِ تہجی کے لحاظ سے مرتب کیا جاتا ہے۔ یعنی ’الف‘ سے ’ی‘ تک کےحروف پر ختم ہونے والی نعتوں کو ترتیب وارشاملِ مجموعہ کیا جاتاہے‘‘(پروفیسر ریاض مجید)۔ اس دیوان میں ’ڑ‘، ’ڑھ‘، ’ژ‘ جیسے حروف پر ختم ہونےوالی ردیفیں بھی شامل ہیں۔
مقصود علی شاہ کی فنی مہارت، ان کی تخلیقی صلاحیت، اور جودتِ طبع کا ایک اور پہلو ان کی تراکیب سازی ہے، اور ان کی تراکیب میں بہت تنوع اور جدّت ہے، مثلاً دو لفظی تراکیب: نوید ِ مدام، اِحلالِ مجلّٰی، محیطِ تقویم، مہرِوہاج__ پھر سہ لفظی تراکیب: فیضِ نسبتِ عترت، اِمکان گَہِ صعود مدارِ بہجت ِ طالعی، تعلیقِ اوجِ میم__ پھر اسی طرح چار لفظی تراکیب: حصارِ مدحت خیرالوریٰ، آلودۂ نگارش غیرثنا، بہرِ نوید موجۂ دیدار، جمالِ مقطعِ بعدِ ابد__ چار سے زائد لفظوں کی تراکیب بھی ہیں، جیسے: نعت الہام مجلّٰی بہ حرائے وطن، پیش دہلیز ِ شہِ اقلیمِ ملکِ کبریا__ بلاشبہہ یہ تراکیب شاعر کے فنی کمال کا ثبوت ہیں۔ صبیح رحمانی اور جلیل عالی نے مجموعے کی تحسین کی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اکثر کتابیں ،’کتاب برائے کتاب‘ کی تصویر پیش کرتی ہیں، اور بہت کم کتب ایسی ہوتی ہیں کہ جو واقعی کسی علمی ،سماجی، تاریخی یا تہذیبی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔تاہم، اس فضا میں ’’قومی ترانہ :فارسی یا اردو‘‘ کی شکل میں ایسی کتاب سامنے آئی ہے، جو واقعی ایک کمی کو بخوبی پورا کرتی ہے۔
کتاب کے مصنف نے راست جذبے، قومی لگن اور تحقیقی ذوق کی مثال قائم کرتے ہوئے ایک مغالطے کی جڑ کاٹ کے رکھ دی ہے۔ جب سے برقی ذرائع ابلاغ اوربرق رفتار سماجی ابلاغیات کا طوفان اٹھا ہے تو جہالت بھی حد درجہ بے لگام ہو کر قدم قدم پر اور لمحہ بہ لمحہ مغالطہ انگیزی پھیلانے میں سرگرم ہے۔ گذشتہ بیس برسوں کے دوران میں ایک مخصوص ذہن پاکستان کے ’قومی ترانے ‘کو ہدف بنانے کے لیے طرح طرح کی شرانگیزی کرتا چلا آیا ہے۔ پہلے کہا گیا کہ ’’قائد اعظم نے جگن ناتھ آزاد کو قومی ترانہ لکھنے کو کہا تھا‘‘۔ جب اس بے بنیاد دعوے کو ملیامیٹ کیا گیا تو دوسرا حملہ ہوا: ’’قومی ترانہ پاکستان کی کسی زبان میں نہیں ہے، یہ تو فارسی میں لکھا گیا ہے اور اس میں صرف ایک لفظ ’کا‘ اردو سے لیا گیا ہے۔‘‘دراصل یہ افسانہ طرازیاں پاکستان سے وابستہ قابلِ احترام علامتوں کو مشکوک قرار دینے یا استہزا کا نشانہ بنانے کی ایک مربوط مہم کا حصہ ہیں۔
جناب عابد علی بیگ نے کمال درجہ محنت سے قومی ترانے کے ایک ایک لفظ پر تحقیق وجستجو کرکے اور مدلّل نظائر کے ساتھ،ان دعوئوں کو دھول بنا کر ہوا میں اڑا دیا ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ الفاظ عربی، فارسی ،سنسکرت سے پیدائشی تعلق رکھنے کے باوجود فی الحقیقت آج اردو ہی کے الفاظ ہیں اور ہمارے روز مرہ کے الفاظ ہیں، جنھیں عمومی سطح پر سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعے کے نتیجے میں نہ صرف قومی ترانے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ قاری علم وادب کے ان جواہرات تک رسائی پاتا ہے، جن تک پہنچنا عام طور پر ممکن نہیں ہوتا ۔ قومی ترانے کے خالق جناب حفیظ جالندھری کا یہ قول واقعی بہت اہم ہے کہ ’’اس سے مشکل کام میں نے زندگی بھر نہیں کیا ‘‘۔کتاب بڑی محبت اور حسنِ پیش کش کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ (س م خ )
قائد اعظمؒ کی زندگی پر یہ ایک عمومی نوعیّت کی عمدہ کتاب ہے، بقولِ مصنف : ’’اس میں حیاتِ قائد کے ایسے پہلوئوں (اسلام، پیغمبرؐ اسلام سے محبت، دیانت ،اصول پسندی، عالی ظرفی، وقت کی پابندی، خواتین کا احترام ،نوجوانوں سے محبت ،علما اور ہم عصر مشاہیر سے تعلقات وغیرہ) کو اُجاگر کیا گیا ہے‘‘۔
کتاب ۴۸ اُردو اور انگریزی کتابوں کی مدد سے تیار کی گئی ہے، جو قائداعظم اور ان کے متعلقات موضوع وار اقتباسات مع حوالہ باب کے آخر میں موجود ہے۔ بعض ابواب تو پورے کے پورے ایک ہی کتاب سے اخذ کیے گئے ہیں۔ کتاب کو جامع بنانے کے لیے مؤلّف نے موضوع کے متعلقات (قومی پرچم ،قومی ترانہ ،جناح کیپ ،کرنسی، اثاثہ جات کی تقسیم، بائونڈری کمیشن اور تقسیم ہند میں دھاندلی وغیرہ)کا مختصر سا تعارف بھی دیا ہے۔
کتاب سے تحریک پاکستان ،مطالعۂ پاکستان ،قیام پاکستان اور قائد اعظم کے ذہن میں تصویر پاکستان واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی
مرحوم ومغفور ڈاکٹر محمود احمد غازی کا نام اور شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ ایک عالمِ دین تھے اور محقّق اور مفکّر بھی۔ ماہنامہ تعمیر افکار نے غازی صاحب پر ۲۰۰۳ء میں ایک خصوصی اشاعت شائع کی تھی۔ پیشِ نظر جلد دوم میں بھی غازی صاحب کی متنّوع خدمات کا جائزہ شامل ہے۔ اس میں آپ کے محاضرات سمیت، تصانیف کا تعارف اور آپ کی خدمات کے مختلف پہلوئوں پر اہلِ علم کی نگارشات دی گئی ہیں۔ مختلف اداروں سے آپ کا جو تعلق رہا ،ان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے سترہ برس کی عمر میں درسِ نظامی سے فارغ ہو کر مولانا عبدالجبار غازی کے مدرسۂ عربیہ ملّیہ ،راولپنڈی میں تدریس شروع کر دی تھی۔ ۱۹۶۹ء میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے بحیثیت محقّق منسلک ہو گئے ۔بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے قیام میں ان کی کاوشوں کا بھی دخل ہے ۔وہ اس کے سربراہ بھی رہے۔اسّی کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں قادیانی ،خود کو مسلمان ظاہر کرکے ،قادیانیت پھیلا رہے تھے ۔وہاں کے مسلمانوں نے سپریم کورٹ میں درخواست گزاری کہ انھیں غیر مسلم قرار دیا جائے۔ انھوں نے حکومت ِ پاکستان سے چند قدیم علوم کے علما اور جدید قوانین کے ماہر بھیجنے کی درخواست کی۔ حکومت نے جو وفد بھیجا، اس میں غازی صاحب بھی شامل تھے، جن کے دلائل سے عدالت کو فیصلہ کرنے میں بہت مدد ملی۔
غازی صاحب فیصل مسجد میں خطیب ،شریعہ اکیڈمی کے ناظم اعلیٰ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے۔ بحیثیت وزیرمذہبی اُمور گراں قدر خدمات کے علاوہ انھوں نے وفاقی شرعی عدالت میں بطور جج بھی کام کیا۔ وہ نہایت ذہین اور ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔(رفیع الدین ہاشمی)
دُنیا بھر میں جدیدیت کی تیز لہر نے گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں کے دوران جس تہذیبی قلعے پر شدید ترین حملہ کیا ہے، اس قلعے کا نام ’خاندان‘ ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ عالمی سامراجیت کے زیراثر تعلیم، معاشرت، عائلی قوانین میں ریاستی مداخلتوں اور فکرونظر کی تبدیلی نے بڑی تیزی سے ، مسلم دُنیا کے خاندانی نظام کی بنیادوں کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے۔جس کے نتیجے میں عائلی یا خاندانی مسائل کا ایک طوفان ہے، جو مسلم معاشروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر عبدالحی ابڑو(سابق ڈائرکٹر جنرل، شریعہ اکیڈمی) نے ایک محقق اور استاد کی حیثیت سے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں طویل عرصے تک خدمات انجام دی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے اسلام کے خاندانی نظام کے جملہ اُمور پورے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ عقدِنکاح، احکامِ مہر، احکامِ نفقہ،احکامِ طلاق، عدالتی تفریق، احکامِ خلع، احکام نسب و حضانت اور احکامِ عدت کی مناسبت سے پیش آمدہ مسائل کی کیفیت اور اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کے تحت رہنمائی، نہایت عام فہم انداز سے پیش فرمائی ہے۔
اس موضوع پر متعدد کتب اُردو میں موجود ہیں، لیکن یہ کتاب ان سب کی جامع ہے۔ علما، اساتذہ اور بالخصوص وکلا کو زیرمطالعہ لانا چاہیے۔(س م خ)
زوال وانحطاط نے ہماری زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح تعلیم وتعلّم اور تحقیق وتدوین کو بھی متأثّر کیا ہے، چنانچہ قریبی زمانے میں لکھے جانے والے جامعات کے تحقیقی مقالے سرسری پن کی وجہ سے مطلوبہ معیار سے بہت فروتر ہیں۔ کبھی کبھار کوئی اِستثنائی نمونہ نظر سے گزرتا ہے۔ زیر نظر مقالہ فی الواقع تحقیق کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس مقالے پر ۲۰۰۷ء میں پنجاب یونی ورسٹی نے محموداحمد کاوش کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی تھی۔
مشفق خواجہ بنیادی طور پر محقق تھے۔ ان کے جملہ قلمی آثار میں، حتیٰ کہ طنزومزاحیہ تحریروں میں بھی تحقیقی رنگ موجود ہے، لیکن ان کی کثیرالجہات شخصیت کا اظہار ان کی شاعری، ان کے کالموں، ہزارہا خطوط اور تراجم میں ملتا ہے۔ وہ ادبی مجلات کے ایڈیٹر بھی رہے۔کاوش صاحب کی زیرنظر کاوش میں مشفق خواجہ کی مختلف حیثیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تحقیقی اور تدوینی خدمات میں ان کی ۱۳ کتابوں، ایک ہزار سے زائد خطوط اور متفرقات (دیباچہ ،تبصرہ،خاکہ،ترجمہ، ادارت) کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ آخری باب میں خواجہ صاحب کے ادبی مقام ومرتبے کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقالہ نگار لکھتے ہیں:’’ مشفق خواجہ ایک ایسے ادیب تھے جن کی ذات میں بیک وقت تخلیق اور تحقیق دونوں کی اعلیٰ پائے کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ تحقیق کی سنگلاخ وادیوں میں گھومتے گھومتے جب وہ تھک جاتے تو تھوڑی دیر کے لیے تبدیلیِ آب وہوا کے لیے تخلیق کی وادیِ گل رنگ میں آنکلتے۔ ‘‘ چنانچہ کاوش صاحب نے بجا طو ر پر انھیں ’خواجۂ تخلیق وتحقیق ‘ قرار دیا ہے۔
ہماری آج کے تحقیق کا ر چاہیں تو اس مقالے کو راہ نما بنا سکتے ہیں۔ اشاعتی معیار اطمینان بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی )
مسلم دُنیا میں، اسلامی بنکاری کے نام پر خدمت بھی کی جارہی ہے اور ایک کھیل بھی کھیلا جارہا ہے۔ جناب اشتیاق احمد فاروق نے اس بڑے اور پھیلے ہوئے موضوع پر، پاکستان میں ہونے والی پیش رفت کواختصار اور گہرائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انھوں نے پاکستان میں ریاستی سطح اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں مسئلے کو دیکھا ہے اور بتایا ہے کہ درست طرزِ عمل کون سا ہے، جس سے اسلامی بنکاری کو تشکیل دیا جانا چاہیے۔(س م خ)
کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل میں پانچ مضامین ہیں، ایک بانی ِجماعت سیّدمودودی پر، اور چار امرائے جماعت (میاں طفیل محمد،قاضی حسین احمد، سیّد منور حسن ، سراج الحق) پر۔ حصہ دوم میں جماعت اسلامی کی تنظیم، قیادت، دستور، شورائی نظام، مالیاتی نظام، تربیتی پروگرام، کارکنانِ جماعت کے اوصاف اور تفہیم القرآن کا تعارف کرایا گیا ہے۔ حصہ سوم میں ایسی تحریریں اور مصنف کے کالم یکجا ہیں، جن سے جماعت اسلامی کی عملی سرگرمیاں، اتحادی سیاست، سندھ میں جماعت اسلامی، کرپشن کے خلاف جماعت کی مہم اور جماعت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا پتا چلتا ہے۔
میرافسر امان ایک سینئر کالم نگار، دانش ور، تجزیہ نگار ہیں۔ انھوں نے جماعت اسلامی کی دعوت پھیلانے کے لیے اسلام آبادمیں قلم کارواں اور ’اقبال، قائد اور سیّد مودودی فکری فورم‘ بنا رکھا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
پروفیسر محمد اسلم (سابق صدر شعبۂ تاریخ، پنجاب یونی ورسٹی لاہور) نے ایک زمانے میں (بشمول خفتگانِ خاکِ لاہور اور خفتگانِ کراچی) وفیات کے سلسلے میں کئی کتابیں شائع کیں۔ ڈاکٹر محمدمنیر سلیچ نے بھی سلسلۂ وفیات میں متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ اسی انداز میں یہ کتاب تیار کی ہے، جس میں ضلع گوجرانوالا میںمدفون اور ضلع گوجرانوالا کے مشاہیر مگر ضلع گوجرانوالا سے باہر مدفون مرد و زن کے مختصر حالات اور بہت سوں کی قبروں کے کتبے نقل کیے ہیں۔ مؤلف کی زیرنظر کتاب سے مستقبل کے مرتبّینِ تاریخ گوجرانوالا کو بہت سہولت ملے گی۔(رفیع الدین ہاشمی)
آنکھوں میں نمی رکھنا ،ڈاکٹر محمد اورنگ زیب رہبر۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰- ۳۶۸۰۹۲۰۱- ۰۲۱۔ صفحات:۱۳۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [رہبر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر مجموعے میں خاصی مقدار میں نظمیں (شیخ احمد یاسین شہید، صاحبِ تفہیم مودودی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، الحرا اسکول کے لیے، میری جمعیت، اہلِ کشمیر کا عزم، سیّد منور حسن، عنایت علی خاں، کراچی خوب صورت ہے) شامل ہیں۔ دو حمدیں، چار نعتیں اور چند متفرق اشعار بھی۔ شاعر کی اسلام دوستی ایک ایک شعر سے عیاں ہے۔]
صدیقی صاحب ایک عرصے سے دینی مدارس اور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں تدریس کرتے رہے ہیں ۔قرآن پاک کا ترجمہ سکھاتے اور پڑھاتے ہوئے انھیں ایک سوال کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ ’’ترجمہ، متنِ قرآن کے ہر لفظ کے نیچے ہو، ساتھ ہی ترجمہ بامحاورہ بھی ہو اور دو دو سطروں میں بھی نہ ہو‘‘۔
اس سوال کو حل کرنے کے لیے انھوں نے بعض علمائے دین (مثلاً: مفتی شیر محمد مدنی، جامعہ اشرفیہ لاہور؛ حافظ عبدالمنان، گوجرانوالہ؛ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، لاہور؛ مولانا عبدالمالک، منصورہ ) کے مشوروں اور ہدایات کے بعد خود ہی ذمہ داری اُٹھائی اور برسوں کی محنت کے بعد اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ لکھتے ہیں: ’’میں نے اس ترجمے کے لیے شاہ رفیع الدین ، حافظ فتح محمد جالندھری، پیر محمد کرم شاہ ، شیخ محمود حسن [محمودالحسن درست نہیں]،سیّد شبیر احمد ،حافظ نذر محمد اور خاص طور پر شیخ التفسیر مولانا عبدالفلاح کے مجموعۂ تفاسیر ، تفسیر اشرف الحواشی سے بہت استفادہ کیا ہے‘‘۔
قاری صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ ہم وہ خوش قسمت اور بد قسمت قوم ہیں جو قرآن کو اپنی انفرادی و اجتماعی اور ملکی وعالمی ہر مرض کا علاج (فِیْہِ شِفَاءُ لِلْنَّاسِ) مانتے ہیں لیکن بد قسمت ہیں کہ اس پر عمل نہیں کرتے ۔( رفیع الدین ہاشمی )
را اور بنگلہ دیش، محمدزین العابدین ۔ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی ،ڈی ۔۳۵، بلاک ۵،فیڈرل بی ایریا، کراچی ۔فون :۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات ۲۸۸،قیمت :ایک ہزار روپے ۔
متحدہ پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے اسباب ،واقعات اور نتائج پر مبنی اردو اور انگریزی میں بیسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ زیر نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک آنکھیں کھولنے والی کتاب ہے۔
محمد زین العابدین نے سقوطِ مشرقی پاکستان سے پہلے مکتی باہنی میں شامل ہو کر بھارت جاکر مار دھاڑ کی تربیت حاصل کی، پھر بھارتی فوجوں کے ہمراہ مشرقی پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں میں شریک رہے۔ کہتے ہیں کہ ۱۹۷۱ء سے پہلے ایک بزرگ نے مجھے سمجھایا کہ بھارت مسلمانوں کا کبھی مخلص اور سنجیدہ دوست نہیں ہو سکتا، مگر میری آنکھوں پر پاکستان دشمنی کی پٹی بندھی ہوئی تھی اور ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد جب ’’بھارتی فوجیوں نے بڑے پیمانے پر لوٹ مار شروع کی، بھارتی فوجیوں کے ہاتھ جو کچھ لگا وہ بھارت لے گئے۔ لوٹ مار میں آسانی کے لیے چھوٹے بڑے شہروں،قصبوں، تجارتی مراکز، بندر گاہوں اور صنعتی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ۔ بھارتی فوجی صرف ہتھیار ہی نہیں بلکہ پنکھے اور نل تک نکا ل کر لے گئے ۔ بھارتی فوج کی ہزاروں گاڑیوں میں لوٹا ہوا مال بھارت پہنچادیا گیا اور یہ ساری لوٹ مار بھارت کی طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر دی جانے والی اجازت کے بغیر ممکن نہ تھی، تب میری آنکھوں پر بندھی پٹّی کھلی‘‘۔
مصنف نے چشم دید واقعات ،تجربات اور تحقیقات کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان میں بنیادی کردار بھارت کے خفیہ جاسوسی ادارے ’را‘ کا ہے۔ ’را‘ کی بنیاد کو ٹلیہ کی ارتھ شاستر ہے۔ ’را‘ بھارت کا سب سے طاقت ور ادارہ ہے۔ چند سال پہلے تک اس کا بجٹ ۱۵ ہزار کروڑ تھا۔ اس کا ہدف پاکستان، سری لنکا ، بھوٹان، نیپال وغیرہ کو بھارت کا حصہ بنا دینا ہے۔ مصنف نے ’را‘ کے طور طریقوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اہلِ پاکستان (عوام اور حکومت) اس کا ادراک کر کے اپنے دفاع کی تدابیر کریں۔
کتاب کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تعلق برعظیم کی مردم خیز ریاست بھوپال سے ہے۔ ان کے جدِّ امجد شہاب الدین غوری کی فوج کے ایک کمانڈر تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے والد بھوپال میں مقیم ہو گئے تھے۔
عبدالقدیر خان بھوپال سے میٹرک کرنے کے بعد ۱۹۵۲ء میں پاکستان چلے آئے۔ کراچی سے بی ایس سی کیا۔ ۱۹۶۱ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے ۔ ہالینڈ میں بھی زیر تعلیم رہے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انھوں نے یورپ کے بعض تحقیقی اداروں میں کام کیا اور اپنے فن پر پوری طرح دسترس حاصل کرلی۔ بعض غیر ملکی اداروں کی جانب سے پُر کشش پیش کشوں کو نظر انداز کرکے وہ پاکستان آ گئے اور یہاں اٹامک انرجی کمیشن میں جوہری بم بنانے کا پروگرام شروع کیا۔
ایٹم بم بن گیا، اس کا تجربہ بھی ہو گیا۔ بعد ازاں خان صاحب نے سماجی اور دینی خدمات کے سلسلے میں متعدد ادارے قائم کیے۔ جنرل مشرف نے خان صاحب کی کردار کشی اور تذلیل کی مگر مشرف کی رخصتی کے بعد انھیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’نشانِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک منجھے ہوئے قلم کار بھی تھے۔ ادبی اور شعری ذوق بھی رکھتے تھے۔ سات آٹھ کتابیں ان سے یاد گار ہیں۔انھوں نے روز نامہ جنگ میں مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ ان کا لموں میں وہ اپنی آپ بیتی بھی لکھتے رہے۔ اس آپ بیتی میں ایٹم بم بنانے تک کے مراحل کے ساتھ کہوٹہ لیبارٹری کے سائنس دانوں اور عام کارکنوں میں مثبت اور منفی کرداروں کی سرگرمیوں کا تذکرہ بھی آ گیا ہے۔ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ملک کی سا لمیت سے متعلق معاملات میں بھی کرپشن دخل اندازی کرتی ہے مگر سابق صدر غلام اسحاق خان جیسے محب وطن نے ممکنہ حد تک ڈاکٹر عبدالقدیر کی پشت پناہی کی۔ انھوں نے معروف صحافی زاہدملک کے نام ایک خط میں خان صاحب کی شخصیت وکارکردگی اور ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ان کی کاوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
خط کے آخر میں غلام اسحاق خان لکھتے ہیں:ڈاکٹر عبدالقدیر خان حقیقتاً ایک اچھے اور عظیم انسان ہیں۔ اس لیے کہ اپنے ملک کی ترقی اور اپنی قوم کی فلاح وبہبود سے زیادہ عظیم کوئی مقصد ہو نہیں سکتا اور اسی مقصد کی خاطر وہ جیے اور جیتے ہیں۔ انھوں نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا اور جو بھی کارنامے انجام دیے، وہ اپنی گواہی خود دیتے ہیں اور یہ کارنامے ایسے ہیں کہ ان الفاظ سے کہیں زیادہ بلند آواز سے یہ اپنا اعلان خود کرتے ہیں جو الفاظ ان کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکیں ۔ ان کی زندگی کا آئینہ یہ مشہور فارسی مقولہ ہے: مُشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطّار بگوید (مشک وہ ہے جو خود خوشبو دیتا ہے ، نہ کہ وہ جس کا دعویٰ عطار کرے )۔ (رفیع الدین ہاشمی)
محترمہ افشاں نوید کے ۴۱ ،اخباری مضامین پر مشتمل یہ ان کا تیسرا مجموعہ ہے، جو ان کی ’قلبی واردات‘ کا لفظی اظہار ہے۔ ’’میں نے جو دیکھا ، سوچا، محسوس کیا ، اس قلبی واردات کو قلم کی زبان دے دی‘‘۔ چند عنوانا ت دیکھیے :عصر کی قسم۔ فتنوں سے آگاہی۔ میدان کربلا ۔ہماری تاریخ کا چوراہا۔ ماہِ صیام کل اور آج۔ علامہ اقبال اور آداب فرزندی ۔ بات ہے اقدار کی۔ تمھی سے اے مجاہدو! جہاں میں ثبات ہے۔ قانونِ تحفظ نسواں اور بی آپا۔ ۱۶ دسمبر ، یومِ سقوطِ ڈھاکا۔ نصاب اور استاد ، اسٹیفن ہاکنگ ، سڈنی ائر پورٹ، یومِ کشمیر ، شرمین چنائے عبید ، آپ کے نام ۔
کتاب کا ہر کالم لکھنے والے کے حسّاس دل ودماغ کا آئینہ دار ہے۔ ان کے جذبات لفظوں کے قالب میں ڈھل کر کالم بن گئے ہیں۔ ایک کالم میں فلم ساز شرمین عبید چنائے کے حوالے سے لکھا ہے:’’شرمین صاحبہ، آپ نے کیمرے کے توسّط سے ساری دنیا کو پاکستانی عورت کا جھلسا ہوا چہرہ دکھایا اور یہ ڈاکو منڑی آسکرایوارڈ کے لیے منتخب ہو گئی۔ آپ آسیہ اندرابی کے دُکھ کو بھی محسوس کیجیے۔ غلام احمد مسعودی کی صاحبزادی آمنہ مسعودی کو ضرور دکھایئے، جس نے بھارتی اہل کار کے سامنے مزاحمت کی اور شور مچایا تو ظالم نے آمنہ کا گلا دبا کر اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ آپ پر کشمیر اور پاکستان کا یہ فرض ہے کہ آپ آسکر ایوارڈ کی اگلی نامزدگی کے لیے اپنی ڈاکومنٹری کا عنوان: ’کشمیر کی مظلوم عورت ‘ کو بنائیں‘‘۔
افشاں نوید ہر واقعے اور ہر سانحے کو اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں دیکھتی اور اس پر رائے ظاہر کرتی ہیں ۔ شاہ نواز فاروقی لکھتے ہیں:’’بلا شبہہ افشاں نوید صاحبہ کے کالم پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ان کے لیے کالم نگاری ایک مشن ہے۔ ان کے کالموں پر ادبی مطالعے اور ادبی ذوق کا گہرا سایہ ہے، جس کی وجہ سے ان کے کالموں میں پختگی، گہرائی اور سنجیدگی کی خوبیاں پیدا ہو گئی ہیں‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی )
مرحوم کشش صدیقی (مدیر جسارت ، کراچی)، محمد صلاح الدین شہید اور حکیم محمود احمدبرکاتی کے تربیت یافتہ کالم نگار حشمت اللہ صدیقی کا زیرنظر اوّلین مجموعہ بقول نعمت اللہ خان: ’’جذبۂ ایمانی اور حب الوطنی‘ کا مظہر ہے۔ قومی روزناموں (جسارت، جنگ، نوائے وقت، ایکسپریس وغیرہ) میں شائع شدہ یہ مختصر مضامین پاکستان اور اُمت ِمسلمہ کے لیے مصنّف کے دردمندانہ جذبات و احساسات کے عکّاس ہیں۔ متنوع موضوعات پر چند کالموں کے عنوانات: نیشنل ایکشن پلان، سالمیت کی اہم دستاویز، اتحادِ اُمت و علمائے کرام، سندھ اسمبلی، اقلیتی رائٹس بل، اہل حدیث کانفرنس اور امام کعبہ کی آمد، پاک بھارت دوستی اور مسئلہ کشمیر، رُشدی اور مغرب کی اسلام دشمنی، اسلام اور تلوار، زلزلہ: انتباہ یا نظامِ قدرت، دفاعِ پاکستان کونسل، تعارف اور مقاصد، جماعت اسلامی کا ورکرز کنونشن، فرانسیسی جریدے کی دریدہ دہنی، وغیرہ۔
آخر میں چند تصاویر اور کالم نگار کے نام مولانا مودودی، محمد صلاح الدین، پروفیسر غفور احمد، محموداعظم فاروقی اور نعمت اللہ خان کے ایک ایک خط کے عکس شامل ہیں۔معیارِ طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ وہ بصیرت اور آنکھوں کا نُور رکھنے کے باوجود، قومی اور انفرادی زندگی کے گڑھوں کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ٹھوکریں لگتی ہیں مگر کوئی سنبھلنے کو تیار نہیں ہوتا۔
پروفیسر ممتاز عمر کی یہ کتاب اس اعتبار سے قیمتی مجموعۂ مضامین ہے جس میں انھوں نے آنکھیں کھودینے کے باوجود،ہم وطنوں اور دُنیا بھر کے انسانوں کو نُورِ بصیرت اور نُورِ دانش کی ان لپٹوں سے استفادے کا موقع عطا کیا ہے کہ جنھیں ہم آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود دیکھنا نہیں چاہتے۔ مگر جناب ممتاز عمر باربار متوجہ کرتے ہیں کہ صاحبو، زندگی کو یوں ہی غفلت میں نہ گنوا بیٹھو۔ یہ مضامین قلم سے نہیں، دل سے لکھے گئے ہیں۔ (س م خ)
زیرنظر کتاب پروفیسر صاحب کے تیس مضامین کا مجموعہ اُردو زبان سے ان کے تحقیقی شغف کا اظہار ہے۔ ان مضامین میں مختلف الفاظ، تراکیب، روز مرہ اور محاوروں کے استعمال میں غلطیوں، نیز لفظوں پر اِعراب کے سلسلے میں ہماری لاپروائی پر تنقید کی گئی ہے۔ اُردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں عام لوگوں، طلبہ اور اساتذہ تک جن غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، غازی صاحب نے اُن کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کے لیے بہت سی مثالیں دے کر سمجھایا ہے، مثلاً: ’پیشِ لفظ‘ نہیں ’پیش لفظ‘صحیح ہے (پیش کے نیچے کسرہ لگانا غلط ہے)۔ اسی طرح ’پسِ منظر‘ نہیں ’پس منظر‘ صحیح ہے۔ ’بہت بہتر‘ میں ’بہت‘ زائد ہے، صرف ’بہتر‘ لکھنا یا بولنا کافی ہے۔ اسی طرح ’بہت زیادہ‘ یا ’بہت کافی‘ میں بھی ’بہت‘ زائد ہے۔ ’عوام الناس‘ جس کا معنٰی لوگ ہے، اس کے لیے صرف ’عوام‘ لکھناکافی ہے۔ ’لیلۃ القدر‘ کی رات‘ غلط ہے، ’لیلۃ القدر‘ یا ’شب ِ قدر‘ صحیح ہے۔ ’خط و کتابت‘ نہیں ’خط کتابت‘ صحیح ہے۔ ’استفادہ حاصل کرنا ‘ میں ’حاصل‘ بلاضرورت ہے،وغیرہ وغیرہ۔
’اُردو کا عددی نظام (لسانی تناظر میں)‘ غازی صاحب نے ہندسوں کو لفظوں میں لکھتے ہوئے درپیش اُلجھنوں پر بحث کی ہے۔
پروفیسر موصوف کی یہ کتاب ہماری، خصوصاً نئی نسل کی راہ نمائی کرتی اور بتاتی ہے کہ ہمیں اُردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں صحت ِ املاو اعراب کا کیوں کر ، کہاں اور کیسے خیال رکھنا چاہیے۔ اشاعت و طباعت بہت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
، ڈاکٹر تسنیم احمد ۔ ناشرمکتبہ دعوۃ الحق، ۱۹۳-اے، اُٹاوہ سوسائٹی، احسن آباد، کراچی- ۷۵۳۴۰۔ فون: ۹۲۴۲۶۰۶-۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۷۵۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔ [مصنّف موصوف، قبل ازیں، اس سلسلے کی دس جلدیں شائع کرچکے ہیں (جلد۹ پر تبصرہ در ترجمان ، ستمبر۲۰۲۰ء، جلد۱۰ پر تبصرہ در ترجمان اپریل ۲۰۲۱ء)۔ زیرنظر جلد یازدہم کے کلیدی عنوانات یہ ہیں: نزولِ قرآن، سیرۃ النبیؐ، توحید، آخرت، کش مکش حق و باطل۔ یہ ایک طرح سے قرآنِ حکیم کی تفسیر ہے، جس میں سیرت النبیؐ کے اہم واقعات اور آں حضوؐر کی جدوجہد کے مختلف مراحل کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ بقول مؤلف: ’’اب صرف سات سورتوں پر گفتگو باقی ہے‘‘۔]
۔ ناشرمکتبہ المنبر، جامعہ سٹریٹ، بالمقابل ستارہ ٹیکسٹائل ملز، سرگودھا روڈ، فیصل آباد۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [مؤلف مرحوم ایک طبیب، معلّم اور مصنّف کے ساتھ ساتھ عالمِ دین بھی تھے۔ کئی سال پہلے، ریڈیو پاکستان فیصل آباد کی درخواست پر انھوں نے قرآنِ حکیم کے آخری دس پاروں کی بعض منتخب سورتوں کا خلاصہ تیار کیا جو ۱۴۰۴ھ (۱۹۸۴ء) کے رمضان المبارک میں ریڈیو سے نشر ہوا۔ یہ ایک طرح سے بعض آیات کی تشریح و تفسیر ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں علّامہ محمد المدنی کی کتاب کی تلخیص اور ترجمانی و تفہیم ہے۔ یہ سب احادیث ِ قُدسیہ ہیں۔ متن کے ساتھ ترجمہ و تشریح کے لیے دیگر احادیث اور قرآنی آیات سے مدد لی گئی ہے۔ایک اچھی تربیتی کتاب۔]
مرتب: ڈاکٹر طاہرہ انعام۔ ناشر: مہر گرافکس اینڈ پبلشرز، فرسٹ فلور، احسان سنٹر، بھوانہ بازار، فیصل آباد۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔[ڈاکٹر معین الدین عقیل کے بقول: ’’صبیح رحمانی کا نام آج اُردو کی ادبی و روحانی دُنیا میں صنف ِ نعت کے ساتھ اس طرح لازم و ملزوم ہوگیا ہے کہ جہاں ایک نام سننے پڑھنے میں آیا، وہیں دوسرا نام بھی ساتھ ہی چلا آتا ہے‘‘۔ زیرنظر کتاب صبیح رحمانی کے منتخب نسبتاً طویل تبصروں اور تجزیوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے صنف ِ نعت کی ترویج کے ضمن میں جو غیرمعمولی کاوشیں انجام دی ہیں، زیرنظر کتاب کو اسی سلسلے کی کڑی سمجھنا چاہیے۔ ایک مختصر مگر مفید کتاب ہے۔]
مرتب: پروفیسر محمد طیب اللہ۔ ناشر: مکتبہ الاحرار، چارسدہ روڈ، مردان۔ فون: ۹۸۷۲۰۶۷-۰۳۳۲۔ صفحات:۱۸۴۔قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [پروفیسر محمد طیب اللہ نے اپنے دادا محمد عبدالجمیل کا تذکرہ مرتب کیا ہے۔ موصوف کے بقول: علّامہ محمدعبدالجمیل ایک عبقری شخص تھے۔ نہایت باصلاحیت اور ذہین، بعض قدیم علوم (صرف و نحو، علم منطق، علم معانی و بیان اور علم فقہ وغیرہ) کے فاضل تھے۔ انھوں نے اِن علوم کی بعض کتابوں کی شرحیں بھی لکھی ہیں۔ فارسی میں اپنی آپ بیتی بھی لکھی ہے۔ مرتب نے اُن کی خود نوشت اور ڈائری سے بعض دل چسپ واقعات نقل کیے ہیں، جیسے: مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ دوملاقاتوں کا ذکر، جس میں بتایا ہے کہ دوسری ملاقات میں محمد عبدالجمیل کی پیش گوئی کے عین مطابق مرزا آں جہانی ہوگیا۔ مرتب کے الفاظ میں اس کتاب کی ترتیب کا مقصد یہ ہے کہ اُس بہادر اور صاحب ِ ہمت انسان کی زندگی کے روشن پہلو نسلِ نو کے سامنے آجائیں‘‘۔]
ناشراشرف اکادمی، شارع اشرف، ۶کلومیٹر سرگودھا روڈ، فیصل آباد۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ندارد۔ [طبیبوں کے خانوادے میں ڈاکٹر زاہد اشرف کی حیثیت نمایاں ہے۔خود طبیب ہیں اور طب کے معلّم اور مقرر بھی۔ مختلف موضوعات پر متعدد تصانیف شائع کرچکے ہیں۔ یہ عربی میں ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے باب اوّل کا اُردو ترجمہ ہے۔ اصل موضوع تھا: ابن سینا کی شہرئہ آفاق کتاب القانون فی الطب: دراسات و تحلیل ۔ حضرت آدمؑ سے تاحال، مختلف اَدوار میں، مختلف خِطّوں اور ملکوں میں طب کے فن میں ،عہد بہ عہد ترقی اور اس ضمن میں بعض شخصیات (طبیبوں) کی خدمات، مسلمانوں کے طبی کارہائے نمایاں کا تذکرہ۔]
[پتا: الندوۃ التحقیق الاسلامی ، بہادر کوٹ ، کوہاٹ۔ مقامِ اشاعت: پشاور]۔ [ایک دینی، علمی، تحقیقی اور فکری رسالہ۔ چند عنوانات: مغربیت اور قادیانیت کے تمدنی وار (اداریہ)۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی، قرآن کریم کی طب سے متعلق آیات کا عصری تناظر میں مطالعہ، افغانستان، جدید تہذیب، ملّت اسلامیہ اور مستقبل کی صورت گری۔ آخر میں مولانا عبدالماجد دریا بادی کا ۱۹۵۶ء کا ایک خط نقل کیا گیا ہے، جس سے مولانا کے شب و روز کی مصروفیت اور نظم اوقات کا پتا چلتا ہے۔ رسالے کا آغاز تو اچھا ہے، انجام؟؟]
برصغیر پاک و ہند کی مجلاتی تاریخ میں ماہ نامہ معارف ، اعظم گڑھ (اجرا: ۱۹۱۶ء) ایک سدابہار لہلہاتا شجرِ علم و فضل ہے، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:’’ معارف ، ایک ایسا رسالہ ہے، جس کے پڑھنے سے حرارتِ ایمان میں ترقی ہوتی ہے‘‘ ، اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے بقول: ’’ساری دُنیائے اسلام میں، عرب ہو کہ عجم، کوئی رسالہ اسلامیات پر، معارف کے معیار کا نہیں‘‘۔ بلاشبہہ مختلف اوقات میں اس کے معیار میں اُتارچڑھائو آتے رہے ہیں، لیکن جس جاںفشانی سے اس کے مدیران نے اس کو باقاعدہ رکھا کہ وہ خود تاریخ کا روشن باب ہے۔
فاضل مرتب نے اس علمی مجلّے سے سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ۳۱مقالات کا انتخاب مرتب کرکے پیش کیا ہے۔ سبھی عناوین اور مباحث دل نواز ہیں اور ایمان افروز۔(س م خ)
ابوالکلام آزاد کی غبارِخاطر کے مکتوب الیہ مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی ’صدریار جنگ‘ کے نام سے بھی معروف ہیں۔ ڈاکٹر سفیراختر نے ۳۸ نام وَر شخصیات (الطاف حسین حالی، مولوی عبدالحق، عبدالعزیز میمن،امتیاز علی خان عرشی، سیّد سلیمان ندوی اور مسعود عالم ندوی وغیرہ) کے نام نواب صاحب کے خطوط مرتب کیے ہیں۔ پاورق میں حواشی و تعلیقات بھی شامل ہیں، اور آخر میں خطوں کے مآخذ اور اشاریہ۔ کتاب تدوین کی ایک خوب صورت مثال ہے۔
خطوں کی اہمیت کا اندازہ ’پیش لفظ‘ نگار ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے: ’’میں اسے دیکھ کر اتنا مسرور ہوا کہ کیفیتِ مسرت کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے سے قاصر ہوں‘‘۔ پھر سیّدصاحب نے ان خطوں کی خوبیاں گنوانے کے بعد بجاطور پر لکھا ہے کہ ’’اخترراہی [سفیراختر] نے یہ مکاتیب جمع کرکے بڑی خدمت انجام دی ہے‘‘۔(رفیع الدین ہاشمی)
طاقت کے سرچشموں پر ذمہ داریاں ادا کرنے والوں کی زندگی اور اُن کے ذاتی مشاہدات و واقعات سے واقفیت حاصل کرنا، عام اور خاص لوگوں کا فطری تقاضا ہے۔ زمانۂ وسطیٰ سے لے کر آج تک ایسے بہت سے مقتدر حضرات نے خود نوشت تحریر کیں، یا اُن کی سوانح عمریاں لکھی گئیں۔ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ صاحب نے پاکستانی مسلح افواج کی قیادت ایک بڑے کٹھن دور میں کی۔ ان کی زندگی، مشاہدات اور تاثرات پر مشتمل یہ ایک دل چسپ اور معلومات افزا کتاب ہے۔
کتاب میں جنرل صاحب نے پاکستان کے ابتدائی زمانے کی فوجی زندگی اور خاص طور پر جہادِ افغانستان، ایٹمی پروگرام، جمہوریت کی بحالی اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ، وغیرہ پر بہت سی نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ اس کتاب کے مبصرین نے عام طور پر مختلف سیاسی رہنمائوں کے حوالے ہی سے کتاب کو اہمیت دی ہے، لیکن اس کا نہایت اہم حصہ مشرقی پاکستان کے المیے سے متعلق ہے۔ یہاں اسی پہلو پر چند حوالے پیش کیے جارہے ہیں۔
جنرل صاحب نے بتایا ہے کہ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں اور مقتدر طبقوں کی تمام تر ناانصافیوں کے باوجود مشرقی پاکستان میں نفرت کی آنچ تیز نہ ہوسکی۔ اہلِ فکرونظر اس بے رحمی سے باز آنے کے لیے بار بار توجہ بھی دلاتے رہے۔مذکورہ کمزوری سے دشمن ملک نے بہ سہولت فائدہ اُٹھایا۔ وہ بتاتے ہیں: ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ نے مشرقی پاکستانی بھائیوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی کہ تین طرف سے بھارت سے گھرے مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے صرف ایک ڈویژن فوج، فضائیہ کا ایک سکواڈرن اور بحریہ کے محض چند جہاز تھے (ص۸۱)۔ ازاں بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی شعلہ بار خطابت اور عبدالحمید بھاشانی کے ’’جالن جالن، آگن جالن‘‘ [جلائو جلائو، آگ جلائو] کے نعروں نے مشرقی پاکستان میں آگ لگادی (ص۸۳)۔ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے انتخابات (دسمبر ۱۹۷۰ء) میں دو کے علاوہ مشرقی پاکستان سے تمام نشستیں جیت لیں۔ صدر جنرل یحییٰ خاں نے ۳مارچ ۱۹۷۱ء کو اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا، مگر فروری کے وسط میں مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اجلاس ملتوی کرنے کے لیے دبائو بڑھایا اور ۲۸فروری کو دھمکی دی کہ ’’مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑی دی جائیں گی‘‘ (ص۸۵) اور جنرل یحییٰ خان نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ امیرجماعت اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے اس اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’اکثریتی پارٹی کو نئے آئین کا مسودہ پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، اور دوسروں کو اعتراض ہو تو دلائل کے ساتھ اپنی تجاویز پیش کریں.... صورتِ حال اتنی نازک ہے کہ غلط سمت میں اُٹھایا جانے والا ایک قدم بھی پاکستان ٹوٹنے کا سبب بن سکتا ہے‘‘ (ص۸۴)۔ بھٹو، یحییٰ غیردانش مندانہ اقدام نے مشرقی پاکستان میں عدم تعاون کی خونی تحریک کو راستہ دیا، اور’’سول انتظامیہ مفلوج ہوکر رہ گئی۔ تمام احکامات عملاً عوامی لیگ کے سیکرٹریٹ سے جاری ہونے شروع ہوئے....پاکستان کے صوبوں کے مابین سیاسی توازن بحال رکھنے میں ناکام ہوگیا‘‘۔ (ص۸۵)
اس طرح مشرقی پاکستان عملاً انارکی کا شکار ہوکر اگلے ساڑھے آٹھ ماہ کے دوران بغاوت اور بھارتی جارحیت میں گھِر گیا۔ امن و امان کی بحالی کے لیے پاکستانی فوج کی تائید کرنے کی سزا کےطور پر مشرقی پاکستان سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشنگھو ( اسلامی جمعیت طلبہ) کے نیک اور صالح لوگوں پر جھوٹے مقدمات قائم کرکے انھیں آج تک پھانسی کی سزائیں سنائی جارہی ہیں، مگر ’’پاکستان کی طرف سے سرکاری سطح پر ان اقدامات کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھائی گئی‘‘ (ص۸۴)۔
جنرل صاحب دل گرفتگی سے لکھتے ہیں: ’’ان نامساعد حالات میں بھی ہماری فوج نے بڑی ہمت اور جاں فشانی کا مظاہرہ کیا اور قربانیاں دیں، جنھیں ہم نے بھلا دیا۔ کتنے آفیسر اور جوان شہید ہوئے، جنھیں ہم یاد بھی نہیں کرتے‘‘ (ص ۹۴)۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’بھارت کی ایسٹرن کمان کے چیف آف سٹاف جنرل جیکب لکھتے ہیں کہ ’’پاکستانی سپاہی ایک ایک انچ زمین کے لیے لڑے۔ پانی میں اور دلدلی علاقوں میں مسلسل چل چل کر ان کے پائوں گل چکے تھے، نیند سے بے حال تھے، لیکن پھر بھی کوئی [پاکستانی]سپاہی بھاگا اور نہ ہی پیچھے ہٹا، بلکہ آخری دم تک لڑتا رہا‘‘ (ص۹۵)۔
یوں جنرل بیگ نے متعدد تفصیلات بڑے واشگاف لہجے میں بیان کی ہیں۔ بلاشبہہ اس کے باوجود کئی گوشے ایسے ہیں کہ جن پر اختصار کے بجائے تفصیل سے لکھنے اور بتانے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ کتاب اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھی خاصی منفرد ہے، یعنی ایک میں تین: کہیں کتاب کے فاضل مرتب کرنل (ر) اشفاق حسین کا بیان ہے، کسی جگہ محترم جنرل صاحب کی تحریر ملتی ہے، اور پھر درمیان میں سوال و جواب شروع ہو جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس شان دار کتاب کو مختلف خلا پُر کرکے، ہموار انداز سے شائع کیا جائے۔ محترم مرتب اور ناشر اس خدمت پر قابلِ تحسین ہیں۔ (س م خ)
اس کتاب کے حصّۂ اوّل پر تبصرہ ترجمان القرآن ستمبر ۲۰۱۸ء میں شائع ہوا تھا۔اِسی تسلسل میں زیرنظر جلد بارہ مصاحبوں اور عربی مضامین (بعض کے تراجم) پر مشتمل ہے۔ جن حضرات سے مصاحبے کیے گئے، اُن میں نام وَر بزرگ عبدالغفار حسن، مصطفیٰ صادق، جسٹس محمد افضل چیمہ، راجا محمد ظفرالحق، حکیم سیّد ظلّ الرحمٰن اور بیگم مولانا عبدالرحیم اشرف شامل ہیں۔ ان گفتگوئوں میں زاہد اشرف صاحب اپنے والد مرحوم سے بارہ شخصیات کے تعلق اور ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہیں اور قارئین کے لیے اُن کا تعارف بھی پیش کرتے ہیں۔ اِن گفتگوئوں میں مولانا عبدالرحیم اشرف کی شخصیت کے علاوہ اسلامی تحریکات، پاکستان میں نظامِ اسلامی کے امکانات، اُمت مسلمہ کے مسائل وغیرہ بھی زیربحث آئے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)