کتاب نما


الحکمت فی الدعوۃ الی اللہ تعالیٰ، سعید بن علی بن وہف، مترجم: آصف جاوید۔ ناشر: النورپبلی کیشنز، H-۱۰۲، گلبرگ، لاہور۔ فون: ۳۵۷۴۸۷۳۷-۰۴۲۔صفحات: ۴۹۷۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

الحکمت فی الدعوۃ الی اللّٰہ تعالٰی، معروف عرب عالمِ دین سعید بن علی بن وہف القحطانی کے ایم اے علومِ اسلامیہ کا مقالہ ہے۔ یہ مقالہ امام محمد بن سعود اسلامی یونی ورسٹی، سعودی عرب میں پاکستانی عالم دین ڈاکٹر فضل الٰہی کی زیرنگرانی لکھا گیا۔مقالہ نگار نے قرآن و سنت کی نصوص اور رسولؐ اللہ کے دعوتی کردار کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی مصادر اور صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے نمونے پیش کیے ہیں۔ احادیث و آثار کو مصادر اصلیہ سے لیا گیا ہے۔ صحیح اور حسن احادیث سے استدلال کیا گیا ہے۔ احادیث اور آثار کے فرق کو بھی ساتھ ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔

کتاب کے مشتملات کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب حکمت کے مفہوم، انواع، درجات، ارکان اور حصول کے ذرائع پر مشتمل ہے۔ دوسرا باب ’حکیمانہ کردار‘ پر بحث کرتا ہے جس میں رسولؐ اللہ ، صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین اور عبقری شخصیات کے حکیمانہ کردار کو پانچ فصول میں الگ الگ بیان کیا ہے۔ رسولؐ اللہ کے کردار کو قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت کے دو مراحل میں تقسیم کرکے بیان کیا گیا ہے۔ مخاطبینِ دعوت کے ساتھ حکیمانہ کلام کے تحت ملحدین، مشرکین، اہلِ کتاب اور اہلِ اسلام کے ساتھ دعوتی گفتگو ،مباحثہ و مکالمہ کو زیربحث لایا گیا ہے۔ غیرمسلم مخاطبینِ دعوت کے ساتھ گفتگو کے لیے خاص طور پر اور اہلِ اسلام کے ساتھ خطاب دعوت کے لیے عمومی طور پر رہنمائی دی گئی ہے۔ مخاطبینِ دعوت کے خلاف قوت کے حکیمانہ استعمال کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ اسے بھی دو فصول: ۱-کفار کے خلاف قوت کا حکیمانہ استعمال، اور ۲- عاصی اہلِ اسلام کے خلاف قوت کے حکیمانہ استعمال کو شرعی نصوص اور دلائل و نظائر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حدود و تعزیرات کے حکیمانہ نفاذ اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے استعمال میں حکمت سے  کام لینے کے حوالے سے دلائل کو جمع کیا گیا ہے۔

مصنف ِ کتاب نے ’حکمت ِ دعوت‘ کو جس جامع اور مختصر انداز میں بیان کیا ہے، اس کی بناپر یہ کتاب دنیا بھر کے حلقاتِ دعوت کی بنیادی ضرورت قرار دی جاسکتی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ اُردو کے دعوتی ادب میں قیمتی اضافہ ہے۔ مترجم نے کتاب کو اُردو قالب میں ڈھالنے کی قابلِ قدر سعی کی ہے، تاہم ترجمے میں عربیت کا رنگ متعدد مقامات پر نظر آتا ہے۔بنیادی اور مستند مصادر سے ماخوذ ہونے کی بناپر یہ کتاب کارکنانِ دعوت کی ناگزیر ضرورت قرار دی جانی چاہیے۔ اس کتاب کا مطالعہ قاری کو نہ صرف دعوتی وسائل اور ذرائع سے آگاہ کرتا ہے بلکہ دین کے وقیع اور مستند علم سے بھی بہرہ ور کرتا ہے۔(ارشاد الرحمٰن)


کلید ِ جنت، مولانا عبدالحق ہاشمی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات:۳۰۳۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

’جنت‘ اور ’جحیم‘ قرآن مجید کی دو ایسی اصطلاحات ہیں جو انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی  رضا وناراضی کا استعارہ ہیں۔جس تفصیل سے جحیم (جہنم) کی ہولناکیوں کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے اس سے کہیں بڑھ کر جنت کی خوش گواریوں کی داستان قرآن بیان کرتا ہے۔ کلیدِ جنت، جنت اور متعلقاتِ جنت پر بحث کرتی ہے۔ پہلا حصۂ کتاب میں جنت کے طبعی خواص کے علاوہ ایسے منفرد عنوانات پر بحث کی گئی ہے جو بالعموم اُردو زبان میں کم ہی پائے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے اشکالات کی وضاحت بھی آگئی ہے جو بعض جدید ذہنوں میں اُلجھن کا باعث بنتے ہیں۔  جنت کی خوش خبری پانے والے خوش نصیب صحابہؓ و صحابیاتؓ کی بڑی تعداد کا تذکرہ یک جا طور پر یہاں آگیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں عربی متن، ترجمے اور تشریح کے ساتھ اُن احادیث کو درج کیا گیا ہے جن میں مختلف اعمالِ جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اعمالِ جنت کا یہ مجموعہ  ضخیم ذخیرۂ احادیث سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس مجموعے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہربات کو قرآن، حدیث اور دیگر نصوص کے مستند حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

جنت کی زندگی کے طبعی اصول اور اہلِ جنت کی کیفیات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حجراسود، مقامِ ابراہیم، تابوتِ سکینہ، دریاے نیل، فرات، سیہون، جیحوں، عجوہ کھجور، ریاض الجنۃ اور منبر رسولؐ وہ جنتی چیزیں ہیں جو دنیا میں موجود ہیں۔ انفرادی طور پر بشارت پانے والوں میں ۷۸صحابہؓ اور ۲۰صحابیاتؓ کا تذکرہ ہے۔ اجتماعی طور پر بشارتیں پانے والوں میں عہدرسالت،قبل از رسالت اور بعد از رسالت کے متعدد گروہوں کا تذکرہ شامل ہے۔ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاق پر مشتمل اُن اعمالِ صالحہ کا مرتب بیان بھی ہے جو جنت میں داخلے کا سبب بتائے گئے ہیں۔ یہ کتاب وسعت ِ علم، حکمت ِ بیان اور احاطۂ موضوع کے اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے اور ایک وقیع انسائی کلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہرمتمنی جنت کو ایک بار اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ (ارشاد الرحمٰن)


رسول اکرمؐ کی رضاعی مائیں، ڈاکٹر پروفیسر محمد یٰسین مظہرصدیقی۔ ملنے کا پتا: ملک اینڈ کمپنی،   رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۔صفحات:۱۶۸۔ قیمت: درج نہیں۔

حضور اکرمؐ کی سیرت پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپؐ کی شخصیت و کردار کی متعدد جہتیں ایسی ہیں جو کتابوں میں بہت مختصر طور پر مذکور ہیں۔ ان میں ایک موضوع آپؐ  کی رضاعت ہے۔

زیرنظر کتاب میں ایسی خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جنھیں تھوڑے یا زیادہ وقت کے لیے حضوراکرمؐ کو دودھ پلانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ بچوں کو ان کی والدہ محترمہ کے سوا، دوسری خواتین سے دودھ پلانے کی روایت عربوں میں موجود تھی۔اس لیے حضرت عبدالمطلب نے بطورخاص حلیمہ سعدیہ سے کہا تھا کہ وہ ان کے بیٹے عبداللہ کے صاحبزادے محمدؐ کو دودھ پلائے۔ جب حضرت حلیمہ نے بچے کو لے جانے کی ہامی بھری تو عبدالمطلب کا چہرہ خوشی سے تمتا اُٹھا۔

زیرتبصرہ کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضور اکرمؐ کو دودھ پلانے والی خواتین میں ان کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے علاوہ دو اور خواتین بھی تھیں۔ حضرت آمنہ کے بعد حضرت ثویبہ اور ان کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ کا نام آتا ہے۔ ان تین خواتین کے علاوہ اگرچہ دیگر خواتین کا تذکرہ بھی سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں میں کیا گیا ہے لیکن ان کی رضاعت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ بعض مصنفینِ سیرت نے ۱۰ خواتین کا تذکرہ کیا ہے اور بعض سیرت نگاروں نے   آٹھ خواتین کا ذکر کیا ہے۔ زمانۂ رضاعت کے لحاظ سے حضرت حلیمہ سعدیہ نے زیادہ عرصے تک نبی اکرمؐ کی رضاعت کی۔ اسی دور میں معجزۂ شق صدر رُونما ہوا۔ مصنف نے قدیم تاریخی مآخذ اور احادیث کی معتبر و مستند کتابوں کے حوالے سے اپنے موقف کو مضبوط کیا ہے۔

مصنف کا اسلوبِ بیان عالمانہ انداز کا ہے۔ کتاب میں عربی کے ثقیل الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں لیکن مفہوم سمجھنے میں دقت پیش نہیں آتی۔ باریک بینی سے تحقیقی ضابطوں کے مطابق ایک نادر موضوع پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ یہ کتاب سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ (ظفرحجازی)


غبارِ رہِ حجاز، محمد رفیق وڑائچ (دانش یار)، ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۰۴۲۳۵۴۳۲۴۷۶-  صفحات: ۴۱۶۔ قیمت: ۳۸۵ روپے۔

رہِ شوق کے مسافروں کا سفر صدیوں سے جاری ہے۔ ان میں سے کچھ اہلِ قلم نے سولھویں صدی میں حرمین شریفین کے سفرنامے لکھنے کا آغاز کیا اور ان سفرناموں نے مسافروں کی جستجو اور ذوق و شوق میں مزید اضافہ کیا۔ اب تاریخ، جغرافیہ، سماجیات اور ثقافت کے علاوہ افسانہ و ناول کی ادبی چاشنی کے یک جا ہونے سے یہ سفرنامہ دورِحاضر کی مقبول ادبی صنف بن چکا ہے۔ زیرنظر سفرنامہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

مصنف کا ایک سفرنامہ حرمین شریفین میں کے نام سے چند سال پہلے منظرعام پر آیا جس میں انھوں نے اپنے احساسات اور مشاہدات کو اسی اسلوب میں قلم بند کیا۔ زیرتبصرہ سفرنامے میں بھی مصنف نے محبتوں، عقیدتوں اور قلبی و ارادات کا ذکر اثرانگیز پیراے میں کیا ہے۔ ان کے وسیع مطالعے، موضوعات کے تنوع اور تحریر کی پختگی نے اسے اور زیادہ وقیع بنادیا ہے۔

یہ ایک سفری دستاویز بھی ہے اور زنبیل بھی جس میں مسافر نے اپنی شب و روز کی مصروفیات، تشنہ لبی اور عقیدتوں کو ادبی پیراے میں بیان کیا ہے۔ سعودی عرب کی تاریخ مستند حوالوں سے، اختصار کے ساتھ قلم بند کی ہے۔ سعودی عرب کی معاشرت، آلِ سعود کی اقتدار کے لیے تگ و دو اور سلطنت کے حُسنِ انتظام، سیاسی نظام، معیشت ، ریل، آبی وسائل، شاہراہوں، بندرگاہوں، ٹیلی کمیونی کیشن، تیل کے دریافت کی کہانی، عرب لیگ اور دیگر بہت سے موضوعات پر قابلِ قدر معلومات فراہم کی ہیں۔ سفرنامے میں سیماب پائی کیفیات اور تاریخ و جغرافیہ ایک ساتھ چلتے ہیں۔ کتاب میں طائف کے علاوہ حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کی وادی کے احوال و آثار کا ذکر ایک خاصے کی چیز ہے۔

اُمید ہے مناسک حج و عمرہ کے لیے جانے والوں اور سعودی عرب کے احوال جاننے کے خواہش مند حضرات کے لیے یہ سفرنامہ ایک رہنما اور مہمیز کا کام دے گا۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


خطباتِ پاکستان، مؤلف : مولانا سید جلال الدین عمری، ترتیب و تدوین : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔  ناشر : منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔صفحات :۱۹۰۔ قیمت :۹۶ ۱ روپے۔

خطباتِ پاکستان مولانا سید جلال الدین کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو اپنے حالیہ دورۂ پاکستان کے موقع پر انھوں نے مختلف دینی، تحریکی اور علمی مجالس میں ارشاد فرمائے۔ مولانا  سید جلال الدین عمری جماعت اسلامی ہند کے امیر، معروف دینی سکالر اور جید عالم دین ہیں۔  ممتاز محقق، خطیب اور صاحب ِطرز مصنف ہیں۔قرآن و سنت اور جدید علوم و افکار ان کا خاص موضوع ہیں۔ اسلوب کی انفرادیت ،موضوع کا تنوع ،منفرد طرز استدلال اور زبان و بیان کی شگفتگی ان کی تحریر کے نمایاں اوصاف ہیں۔

خطبات پاکستان ان کے دو اسفارِ پاکستان کی رُودادوں اور اس دوران مختلف مجالس اور سیمی ناروں میں ان کی تقاریر کا مجموعہ ہے۔ان خطبات میں ’’اسلام‘‘ کے حوالے سے جامع اور وسیع تر تناظر میں بات کی گئی ہے جس میں تحریک اسلامی ،اقامت دین اور اس کے علمی و عملی تقاضے ، احیاے اسلام کی مختلف تدابیر ، غلبۂ اسلام کی جد وجہد اور اس کی جہتیں ،ذاتی اصلاح و تربیت ، ہندستانی مسلمانوں کے حالات، مشکلات و مسائل ،اہم شخصیات کا تعارف ، پاکستان کے حالات، دینی و تحریکی حلقوں کی سرگرمیاں اور جماعت اسلامی ہند کا تذکرہ شامل ہے۔ اخبارات و رسائل کو دیے گئے مختلف انٹر ویو بھی کتاب کاحصہ ہیں۔ خطبات پاکستان ایک صاحب دل بزرگ کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے جس سے پاکستان اور ہندستان میں اسلامی تحریک کا کام کرنے والوں کے لیے قیمتی نکات اور عمدہ لوازمہ فراہم ہو گیاہے۔(عمران ظہور غازی)


خدا کی بستی میں، ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی۔ ناشر: القلم پبلی کیشنز، ٹرک یارڈ، بارہ مولہ-۱۹۳۱۰۱۔ [مقبوضہ] کشمیر۔ صفحات: ۲۳۰۔ قیمت: ۱۲۵ روپے۔

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی (شعبۂ علوم اسلامیہ) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے زیرنظر سفرنامے کا نام، ترقی پسند ادیب اور جانگلوس کے مصنف شوکت صدیقی (م: ۱۸دسمبر ۲۰۰۶ء) کے معروف ناول خدا کی بستی کی یاد دلاتا ہے (صدیقی کا عبرت ناک تعارف، ابوالامتیاز ع س مسلم کی خودنوشت لمحہ بہ لمحہ زندگی میں ملتا ہے)، مگر ناول اور سفرنامے کے نام میں جزوی مماثلت ارادی نہیں، غالباً اتفاقی ہے۔ لاہور اور اسلام آباد کے دو سفروں (۱۹۸۸ء اور ۲۰۱۱ء) کی یہ رُوداد زیادہ تر افراد و اشخاص (اساتذہ، پروفیسروں، ریسرچ اسکالروں، اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے وابستگان اور مصنف کے ہمراہ بھارت سے آنے والے مندوبین سیرت سیمی نار) کے گرد گھومتی ہے۔ فلاحی صاحب نے ہر ایک کا تعارف (مع تواریخ ولادت و فہارسِ تصانیف) کرادیا ہے۔ ان شخصیات میں مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا گوہررحمن، ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری، پروفیسر خورشیداحمد، خرم مراد (متعلقہ باب کا عنوان: خرم مراد کا جادو)، ڈاکٹر محمود غازی، ڈاکٹر انیس احمد قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے بارے میں ضروری معلومات بھی ہیں اور تصانیف سے بھی آگہی ہوتی ہے۔ سابق صدر ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ تقریبِ ملاقات کا ذکر ہے جس میں موضوع نسیم حجازی تھے۔ دعوہ اکیڈمی کی بچوں کی کتب کی فہرست بھی موجود ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ قارئین کو اس بستی میں ہونے والی تحریکی علمی سرگرمیوں سے اور شخصیات سے خوب اچھی طرح واقف کرا دیں۔

لاہور کے جس ناشر نے بلااجازت مصنف کی کتاب شائع کی، اس کی ’بے شرمی اور ڈھٹائی‘ کے ذکر کے ساتھ مجلہ نقوش کے جاوید طفیل کے حُسنِ سلوک کا اعتراف کیا ہے اور یہ بھی کہ ’’لاہور میں۸،۹ دنوں کی اقامت، تفریح اور علمی و ادبی مصروفیات نے ذہنی آسودگی عطا کی تو فکری فارغ البالی اور علمی سیرابی بھی ہوئی‘‘۔ اسی طرح لاہوری ناشتے کا ذکر: ’’گرم جلیبی، پٹھورا اور اس پر کم از کم ایک لیٹر لسّی، آسودہ حال ہوجاتے‘‘۔(ص ۸۷)

آخری باب: حق گوئی قابلِ تحسین اور ’’امن، دوستی، شانتی‘‘ کی خواہش بھی بجا مگر پلٹ کر دیکھیے کہ کشمیریوں سے جو سلوک کیا جا رہا ہے، اس کے پیش نظر دوستی اور شانتی کا خواب کیوں کر شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے؟ ___ بہرحال لکھنے والا عالم ہے، اس لیے اِسے ایک علمی سفرنامہ کہنا بے جا نہ ہوگا جو معلومات افزا ہے اور دل چسپ بھی۔(رفیع الدین ہاشمی)


۲۱؍ اسلامی انقلابی شخصیات (تعارف، کارنامے، ملّی خدمات)، انجینیرمختار فاروقی۔ ناشر: قرآن اکیڈیمی، لالہ زار کالونی نمبر۲، جھنگ۔ صفحات: ۳۱۶۔ قیمت: ۳۸۰ روپے۔

زیرنظر کتاب میں مصنف نے ان ۲۱ مجاہدعلما، فقہا، عادل حکمرانوں اور جدید تعلیم یافتہ دردمند رہنمائوں کا تعارف اور ان کی جدوجہد کا تذکرہ کیا ہے جنھیں ملت ِ اسلامیہ کی تجدید و   احیاے دین کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان مردانِ کار نے اپنے اپنے عہد میں مسلمانوں کی آزادی، حُرمت کی خاطرلڑنے اور علمی خدمات انجام دینے میں امتیازی حیثیت سے کام کیا۔    غلبۂ اسلام کے لیے ان عادل اور خداترس حکمرانوں نے باطل سے ٹکرلی اور اللہ کے حکم کے مطابق اصولِ جنگ کی پاسبانی کی۔ ان عظیم اہلِ علم اور مجاہد حکمرانوں میں سے چند ایک کے اسماے گرامی یہاں دیے جاتے ہیں: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، امام ابوحنیفہؒ، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، اورنگ زیب عالم گیرؒ، شاہ ولی اللہؒ ، سلطان ٹیپوؒ، مولانا محمود حسنؒ اور علامہ اقبالؒ۔

مصنف نے ان تجدیدی کارناموں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ، ان چودہ سو برس میں یہودیوں اور عیسائیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ تعلیمی، دعوتی اور اصلاحی کارناموں کے علاوہ بعض علما کی تزکیۂ نفس کے لیے کی گئی کوششوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔اُمید ہے اس کتاب کی اشاعت ثانی میں پروف خوانی میں محنت اور توجہ سے کام لیا جائے گا۔(ظفرحجازی)


تعارف کتب

  •   اربعینِ حسینؓ، عبداللہ دانش۔ ناشر:مرکزالحرمین الاسلامی، ستیانہ روڈ، فیصل آباد۔ فون: ۳۰۱۰۷۷۷-۰۳۱۴۔ صفحات: ۱۷۲۔ قیمت: درج نہیں۔[ایسی ۴۰ روایات کا مجموعہ جن کا تعلق براہِ راست یا بالواسطہ امام حسینؓ سے ہے۔ ان میں فضیلت ِ حسین ؓ، اہلِ بیت کے اعزاز، شہادتِ حسینؓ اور اس سے متعلق بعض تفصیلات کو پیش کیا گیا ہے۔ ان روایات میں احادیث ِ رسولؐ، آثار، اقوال، حکایات اور تاریخی بیانات کو شامل کر کے ۴۰کی تعداد  پوری کی گئی ہے۔ تمام روایات کے بارے میں حدیث ہونے کا تاثر دیا گیا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ کتاب آرٹ پیپر پر خوب صورت سرورق کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔]
  •  آدم (انسان) اور شیطانِ لعین، انجینیرمحمد امان اللہ سدید۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی،  ملنے کا پتا: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات:۱۸۶۔ قیمت:۱۵۰ روپے۔[قرآنی آیات کی روشنی میں واقعۂ آدم اور شیطان کے زیرعنوان تخلیق آدم ؑ، تعلیم آدم ؑ، آدم ؑ کے لیے حکم سجدہ، آدم ؑ کی رہایش جنت اور ہبوطِ آدم ؑ کے ذکر کے بعد شیطان کی حیثیت، کردار اور فریب کاریوں اور چالوں کا تذکرہ ہے۔ آخر میں شیطان سے حفاظت کی تدابیر بتائی گئی ہیں۔ عمومی انداز میں شیطان کے کردار کو بیان کر کے اس سے محفوظ اور ہوشیار رہنے کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔]
  • محمد منصورالزمان صدیقی (تذکرہ و سوانح اور آثار و افکار)، تالیف:مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۳۶۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [محمد منصور الزمان صدیقی، صدیقی ٹرسٹ کراچی کے بانی و صدر نشین ہیں جو دعوت و اشاعت دین اور خدمت خلق کے حوالے سے ایک معروف اور قدیم ٹرسٹ ہے۔ زیرتبصرہ کتاب صدیقی صاحب کے احوال و سوانح اور ان کی تبلیغی و دعوتی اور خدمت ِ خلق کے حوالے سے جدوجہد پر مبنی ایمان افروز تذکرہ ہے۔ صدیقی ٹرسٹ کے تحت پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں روپے کے اثاثوں سے مساجد و مدارس کا قیام، مختلف زبانوں میں دعوتی و تدریسی کتب کی ترسیل، طبی اور رفاہی خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ نام و نمود، شہرت اور پبلسٹی سے بے نیاز منصورالزمان صدیقی کی خدمات اور صدیقی ٹرسٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ محدود وسائل اور اخلاص سے کیا جانے والا کام برگ و بار لاکر رہتا ہے۔ ]
  • رہنماے تجوید،مرتب:قاری محمد سعید الدین محمد شرف الدین ۔ملنے کا پتا :شفیق پرنٹنگ پریس، اُردو بازار کراچی۔ فون: ۲۰۳۷۷۲۱-۰۳۲۱۔صفحات: ۱۲۲۔قیمت: درج نہیں۔[قرآن کریم کی درست تلاوت اور علم التجوید سے آگاہی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مطہرہ میں قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے مزین کرنے اور درست تلفظ کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ۔ کتاب میں علم التجوید کے تعارف کے بعد حروف کے مخارج اور صفات حروف کا ذکر کیا گیا ہے اور وقف و ابتدا اور مد و قصر کے احکام بھی بیان کیے گئے ہیں، نیز تلاوت کی خوبیاں اور عیوب بتائے گئے ہیں۔ آخر میں قرآن کریم کے سات حروف اور قراء توں کے حوالے سے مفتی محمد شفیع ؒ کی تحریر شامل اشاعت ہے۔ بحیثیت مجموعی مبتدی طلبہ وطالبات کے لیے مفید کتاب ہے۔ مخارج کی وضاحت کے لیے تصاویر(diagrams)بھی دی گئی ہیں۔]
  • صحیح خطباتِ رسولؐ، الشیخ ابراہیم ابوشادی، مترجم: ابوانس محمد سرور گوہر۔ ناشر: دارالکتب السلفیہ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔[زیرنظر مجموعے میں صحیح احادیث سے سیرت النبیؐ کا ایسا مرقع تیار کیا گیا ہے کہ ان کی روشنی میں روزمرہ کے تقریباً سبھی معمولات اسوئہ نبویؐ کے مطابق سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔ جن احادیث میں یہ وضاحت تھی کہ حضور اکرمؐ کا یہ کلام خطبہ تھا، صرف انھی احادیث کو مختلف عنوانات کے تحت جمع کیا گیا ہے۔ چند ایک عنوان یہ ہیں: تمھارا رب ایک ہے، رسولؐ اللہ اپنے صحابہؓ کو نماز کی تعلیم فرماتے، ہلکی نماز پڑھانے کا حکم، زکوٰۃ اور صدقات، روزہ، حج، جنائز، جہاد، قرآن کریم اور اس سے وابستگی، فتح مکہ کے دن کا خطبہ۔ زیرنظر کتاب عربی سے اُردو میں ترجمہ ہے۔ ترجمہ عام فہم اور رواں ہے ۔]

 

قرآنِ مجید کے منتخب اُردو تراجم کا تقابلی جائزہ، پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج۔ ناشر:  مکتبہ قاسم العلوم۔ تقسیم کار: ملک اینڈ کمپنی، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۴۰۲۱۴۱۵-۰۳۲۱۔ صفحات:۲۸۲۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

اُردو زبان میں قرآنِ مجید کے جزوی تراجم دسویں صدی ہجری میں شروع ہوئے۔ چند سورتوں اور چند پاروں کے اُردو ترجمے کا سلسلہ ۱۷۹۰ء میں شاہ عبدالقادر دہلوی کے مکمل اُردو ترجمے موضح قرآن کی صورت اختیار کرگیا۔ اس کے بعد اُردو میں تقریباً ۴۰۰ تراجم ہوچکے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں قرآنِ مجید کے آٹھ منتخب اُردو تراجم کے پارہ عم کی چند منتخب سورتوں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان آٹھ تراجم و تفاسیر میں درج ذیل مترجمین و مفسرین کے تراجم دیے گئے ہیں: مولانا محمود حسن دیوبندی (۱۹۲۰ء)، مولانا احمد رضا خان بریلوی (۱۹۲۱ء)، مولانا ثناء اللہ امرتسری (۱۹۴۸ء)، مولانا عبدالماجد دریابادی (۱۹۷۷ء)، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۷۹ء)، مولانا امین احسن اصلاحی (۱۹۹۷ء)، مولانا پیرمحمد کرم شاہ الازہری (۱۹۹۸ء)، مولانا ابومنصور (۱۹۹۹ء)۔

قرآنی تراجم کے تقابلی مطالعے میں معنویت، لُغویت، ادبیت اور تفسیری نکات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ تیسویں پارے کی ۱۰منتخب آیات معنویت کے لحاظ سے تقابلی مطالعے کے لیے لی گئی ہیں۔ اسی طرح لُغویت کے لحاظ سے تقابل کی خاطر ۱۲ آیات لی گئی ہیں اور ادبیت کے نقطۂ نظر سے سات آیات کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت کا متن دے کر آٹھ مترجمین کا اُردو ترجمہ دیا گیا ہے۔ صرفی نحوی اور لغوی معانی کی بحث کے بعد آٹھوں تراجم میں بعض الفاظ پر بحث کے بعد ایک یا ایک سے زائد اُردو تراجم کی فوقیت بیان کی گئی ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق اور تنقیدی تجزیاتی راے پیش کرنے میں کسی مسلکی تنگ نظری کا ثبوت نہیں دیا۔ سورۃ الاعلیٰ کی آیت ۶ سَنُقْرِئُکَ فَلَاتَنْسٰٓی میں سَنُقْرِئُکَ کے اُردو ترجمے پر بحث ہوئی ہے۔ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ہم آپ کو پڑھائیں گے‘‘ کیا ہے۔ بعض نے تو ’تمھیں‘ تم کا لفظ ترجمے میں استعمال کیا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ’آپ‘ اور ’تو‘، ’تم اور تمھیں‘ میں فرق ہے۔ بعض مترجمین نے ترجمے میں پڑھا دیا کریں گے (عبدالماجد دریابادی) ’ہم پڑھوا دیں گے تجھ کو‘ (سید مودودی) لکھا ہے۔ مصنف کی راے میں پیرمحمد کرم شاہ کا ترجمہ    ’’ہم آپ کو پڑھائیں گے، پس آپ (اسے) نہ بھولیں گے‘‘ مقابلتاً بہتر ہے۔

اس تقابلی مطالعے سے خواہش اور کوشش یہ ہے کہ قرآنِ مجید کا بہتر سے بہتر ترجمہ ہوتا رہے۔ اس سے بہتر فہم حاصل ہوگا اور عملِ صالح بھی بہتر ہوگا۔ یہی ہدایت کا منشا ہے۔ مصنف کی یہ کاوش ان کی قرآنِ مجید سے غایت درجے کی محبت کی دلیل ہے۔ البتہ ہم چند اُمور کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ مصنف نے مترجمین کے تعارف میں ۹۲ صفحات صرف کیے ہیں۔ ان میں متعدد مقامات پر بہت سی اغلاط ہیں۔ سب جگہ محمدعلی جوہر کا سنہ وفات ۱۹۳۱ء کے بجاے ۱۹۳۰ء لکھا گیا ہے (ص ۴۸، ۸۸)۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کے سابق ڈائرکٹر ظفرالحق انصاری نہیں (ص ۱۰۰) بلکہ ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری ہیں۔ سیدمودودی نے مولانا عبدالسلام نیازی سے تعلیم ان کے گھر حاضر ہوکر حاصل کی نہ کہ مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی میں وغیرہ۔

تقابلی مطالعے میں مصنف کا اسلوبِ بیان علمی اور تنقیدی ہے۔اس تحقیقی مقالے میں مترجمین کے سوانحی کوائف اور سنین کی اتنی غلطیوں کا راہ پاجانا تعجب انگیز ہے۔ (ظفرحجازی)

 


دعوتِ نبویؐ اور مخالفت ِ قریش: نوعیت، اسباب، احوال، تاریخ،ڈاکٹر نثاراحمد۔ ناشر:ادارہ نقشِ تحریر، ڈی ۳۲/۲، بلاک ۷، گلشنِ اقبال، کراچی۔صفحات:۴۰۰۔ قیمت: ۳۹۰روپے۔

’دعوتِ دین‘ اور ’مخالفت ِ اعدا‘ لازم و ملزوم ہیں۔ انبیا ؑ کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی رسول ؑاور نبی ؑ نے اللہ کے حکم پر اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے دین سے متعارف کرانے کا آغاز کیا تو قوم کی اکثریت نے رسولؐ کی بات کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس ذمہ داری کی انجام دہی پر بعض انبیا کو قتل بھی کردیا گیا اور بہت سے اپنی ہی قوموں کے ظلم و تشدد سے دوچار ہوتے رہے۔

دعوتِ نبویؐ اور مخالفتِ قریش کے عنوان سے مصنف نے موضوع کے دونوں پہلوئوں ’دعوت‘ اور ’مخالفت‘ کی نوعیت، اسباب، احوال اور تاریخ کو جامع انداز میں مرتب کیا ہے۔ اس موضوع پر مربوط مطالعے کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مخالفت قریش کو سیرت نگاروں نے باقاعدہ موضوعِ مطالعہ نہیں بنایا۔ لہٰذا یہ مطالعہ سیرت النبیؐ کے ایک ایسے باب کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کا بیان سیرت کی پوری تاریخ پر غالب دکھائی دیتا ہے۔

مخالفت و عداوت قریش کا یہ دور اور عہد تاریخی طور پر دو مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے کا آغاز بعثت ِ رسولؐ سے ہوتا ہے اور ہجرت مدینہ سے پہلے تک پوری شدت سے جاری رہتا ہے، یعنی عہدنبوت کا ابتدائی ۱۳سالہ مکی عہد (۶۱۰ء تا ۶۲۲ء) اس میں شامل ہے۔ سیرت نگاروں نے اس دورِ مخالفت کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (ص ۹)

مخالفت ِ قریش کا دوسرا دور ہجرتِ مدینہ کے فوراً بعد شروع ہوا اور فتح مکہ پر اختتام کو پہنچا۔ یہ پہلی تا ۸ہجری، یعنی آٹھ برس (۶۲۲ء تا ۶۳۰ء) پر محیط ہے۔ یہ دور عہدِ ماقبل سے زیادہ اہم ہے  مگر کتب ِ سیرت میں اسے پہلے دور کی طرح اہمیت نہیں دی گئی اور اس کے بیان کو اس زاویے سے نہیں لیاگیا جس سے مخالفت و عداوت کی تاریخ کو بیان کرنے کی ضرورت تھی۔(ص۱۰)

مصنف کے بقول نام وَر سیرت نگاروں میں سے بیش تر نے مخالفت قریش پر بحث نہیں کی البتہ چند بڑے مصنفین کی کتب میں اس موضوع پر تفصیلی اظہار خیال ملتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی پہلے مصنف ہیں جنھوں نے مخالفت ِ قریش کے اسباب کو بطور عنوان لکھ کر ان پر بحث کی ہے۔ (ص ۱۲)

فتح مکہ کا پہلا واضح اور قطعی نتیجہ یہ نکلا کہ آغازِ رسالت اور اجراے تبلیغ سے لے کر فتح مکہ تک کی تقریباً ۲۱سالہ مخالفت و عداوت قریش کی تاریخ اپنے انجام کو پہنچی (ص ۳۶۵)۔ یہ کتاب دعوتِ نبویؐ اور مخالفت ِ قریش پر ایک مربوط، جان دار اورتحقیقی مطالعہ ہے۔ چھے ابواب میں موضوع کا احاطہ کرنا مصنف کے وسعت مطالعہ کا غماز ہے۔ ابواب کے حواشی بھی کم و بیش ابواب کی ضخامت کے برابر صفحات پر محیط ہیں۔ طویل حواشی اگر کسی طرح متنِ کتاب کا حصہ بن جاتے تو بہت مفید ہوتا۔ اسلوبِ بیان رواں دواں ہے مگر کہیں کہیں مرکبات کے استعمال میں تکلف محسوس ہوتا ہے۔ کتاب اگر مزید بڑے پوائنٹ میں اور بڑی تقطیع پر شائع ہو، پروف خوانی پر مزید توجہ دی جائے تو بہتر ہوگا۔ بہرحال یہ ٹھوس مطالعہ ایک ایسے موضوع پر پیش کیا گیا ہے جس کا دعوتِ دین اور  تحریکِ اقامت ِ دین کے کارکنان سے گہرا تعلق ہے۔ مصنف نے آغازِ کتاب میں اپنے مطالعے کی ضرورت و افادیت کے ضمن میں جس راے کا اظہار کیا ہے وہ بہت حد تک درست ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ متقدم سیرت نگاروں کے پیش نظر موضوع کا الگ الگ مطالعہ نہیں تھا بلکہ وہ سوانح نگاری کی طرز پر سیرت کے پہلوئوں کو واضح کرتے رہے۔(ارشاد الرحمٰن)


تاریخ ادبِ عربی، دورِ جاہلیت سے دورِحاضر تک،پروفیسر ڈاکٹر سیدوقار احمد رضوی۔ ناشر: قدیمی کتب خانہ، آرام باغ، کراچی۔ صفحات: ۵۱۷۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

ممتاز ماہر لسانیات، پروفیسر ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی جامعہ کراچی سے نصف صدی کے عرصے کی وابستگی کے بعد اب تصنیف و تالیف کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ان کی تازہ تصنیف تاریخ ادب عربی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عربی ادب کی تاریخ کسی بھی زبان کی تاریخ کی طرح، ایک بحر ناپیدا کنار ہے، جسے پانچ چھے سو صفحات میں سمیٹا نہیں جاسکتا۔ بنیادی طور پر مصنف نے یہ کتاب عربی ادب کے طلبہ کے استفادے کے لیے لکھی ہے جس کا مقصد عربی ادب کے متنوع موضوعات سے طلبہ کو روشناس کرانا ہے۔ بقول مصنف: ’’برعظیم پاک و ہند میں تاریخ ادبِ عربی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ سبع معلقات، متبنی، مقاماتِ حریری، درس نظامی میں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ جدید دانش گاہوں اور جامعات میں بھی عربی ادب پڑھایا جاتا ہے مگر اس پر مواد شاذونادر دستیاب رہا۔ عبدالرحمن طاہرسورتی کی کتاب تاریخ ادبِ عربی، احمد حسن زیات کی کتاب تاریخ آداب للغۃ العربیۃ کا اُردو ترجمہ ہے جو ۱۹۶۵ء کا ہے۔ ڈاکٹرعبدالحلیم ندوی کی کتاب عربی ادب کی تاریخ ۱۹۷۸ء میں چھپی۔ ان دونوں کتابوں سے پہلے ڈاکٹر زبیداحمد نے اپنی کتاب ادب العرب ۱۹۲۶ء میں لکھی جو ایک مفید کتاب ہے لیکن انھوں نے اپنی کتاب میں عربی اشعار اور عربی نثرپاروں کے اُردو تراجم نہیں دیے اور نہ اعراب لگائے، جب کہ مَیں نے اپنی اس کتاب میں عربی اشعار اور عربی نثرپاروں کے اُردو تراجم و معانی دیے ہیں جو مَیں نے خود کیے ہیں اور اشعار پر اعراب بھی لگائے ہیں‘‘۔(ص ۲۶-۲۷)

ڈاکٹر صاحب اس گراں قدر علمی خدمت پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ تاہم طلبہ کے استفادے کے نقطۂ نظر سے عبدالرحمن طاہر سورتی کی تاریخ ادب عربی کی جو اگرچہ احمد حسن الزیات کی کتاب تاریخ آداب اللغۃ کا ترجمہ ہی سہی، افادیت اور اہمیت کم نہیں ہوتی۔ سورتی صاحب نے بھی عربی اشعار اور نثرپاروں کے خوب صورت تراجم پیش کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی جامعات اور مقابلے کے امتحانات کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی یہ محنت سورتی صاحب کی کتاب کی جگہ لے سکے گی یا نہیں؟ اس کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔

ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں عربی زبان کا تہذیبی پس منظر، عربوں کے علوم، مجالس ادب و اسواق، شعرا کے طبقات وغیرہ کا ذکر ہے۔ باب دوم میں عربی ادب منظوم، قصص شاعری اور راویانِ شعر کا ذکر ہے۔ باب سوم میں جاہلی شاعری، سبع معلقات کے شعرا کے حالات اور نمونۂ کلام ہے۔ باب چہارم میں بعثت ِ نبویؐ کے اثرات، آپؐ کی   فصاحت و بلاغت ، خلفاے راشدینؓ کی فصاحت و بلاغت اور ان کے خطبات کا تذکرہ ہے۔ باب پنجم میں دورِ اُموی میں اسلامی علوم کے ارتقا اور اُموی شعرا و خطبا کا تذکرہ ہے۔ چھٹا باب عصرعباسی کے ساتھ مخصوص ہے، جس میں مصنف نے عباسی شعرا کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں ڈاکٹر طہٰ حسین، احمد امین اور اندلس کے ادبا کو بھی شامل کردیا ہے۔ یہ جدت قدیم تواریخ ادب عربی میں نہیں ملتی۔

ساتواں باب کتاب کا آخری باب ہے جس میں عصرِجدید کی عربی نثرونظم سے بحث ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس دور کا اختتام حافظ وشوقی پر کردیتے ہیں حالانکہ ادب المھجر ایک قابلِ ذکر عنوان ہے جس میں وہ شعرا شامل ہیں جو الرابطۃ القلمیۃ (Pen League) کے ممبر تھے۔ کتاب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے خلیل مطران کا مختصر ذکر کیا ہے، مگر میخائل نعیمہ، نسیب عریضہ اور خلیل جبران کے تذکرے سے کتاب خالی ہے۔یہ شعرا شام، لبنان سے ہجرت کر کے بوسٹن جاکر آباد ہوئے اور الرابطۃ القلمیۃ کے تحت وہ ادب تخلیق کیا جس سے ایک دنیا متاثر ہوئی۔ اس وقت بھی خلیل جبران مغرب میں اپنی تخلیقات کے تراجم کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام ہے۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہم تاریخ ادب عربی کے تذکرے کا آغاز امرؤ القیس سے کرتے ہیں جس کی فحش گوئی اور عریاں نگاری کی وجہ سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے    اسے قائدھم الی النار، جہنم کی طرف ان (شعرا) کا سردار کا لقب دیا۔ لیکن عربی ادب کے  نوبل انعام یافتہ نجیب محفوظ کا ذکر نہیں کرتے اگرچہ تنقیدی نقطۂ نظر ہی سے کیوں نہ ہو۔ یاد رہے ایک زمانے میں خورشید رضوی جامعہ پنجاب نے نجیب محفوظ پر تفصیلی مضمون لکھا تھا جو مجلہ فکرونظر میں چھپاتھا۔ ان سب تحفظات کے باوجود راقم محمد رابع حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلما لکھنؤ کی اس راے سے متفق ہے کہ ’’عربی زبان و ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس میں دل چسپی اور افادیت کا بڑا سامان ہے، اور اس کا مطالعہ کرنے والوں کو عربی زبان و ادب کی خوبیوں اور اس کے مختلف اَدوار و اقوام کے اسلوب و طرزِکلام سے واقفیت حاصل ہوگی۔(ڈاکٹر احسان الحق)


خطبات،سیدابوالاعلیٰ مودودی، صفحات:۲۳۲۔ محمد عربیؐ، عنایت اللہ سبحانی، صفحات:۲۸۴۔    راہِ عمل، جلیل احسن ندوی۔ صفحات:۲۶۶۔ آدابِ زندگی، محمد یوسف اصلاحی، صفحات:۲۶۴۔  ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ فون: ۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔

یہ چاروں کتابیں معروف اور مقبول ہیں اور محتاجِ تبصرہ نہیں۔ سب ہی ان کے مندرجات اور موضوع سے واقف ہیں۔ خطبات میں ارکانِ اسلام کا انقلاب آفریں تصور پیش کیا گیا ہے۔ محمدعربیؐ میں رسولؐ اللہ کی زندگی بطورِ داعیِ انقلاب سامنے آتی ہے۔ راہِ عمل احادیث کا مجموعہ ہے جو زندگی کے ہرپہلو کے بارے میں رہنمائی دیتی ہیں۔ آدابِ زندگی میں مصنف نے معاشرتی آداب دل نشیں انداز سے پیش کیے ہیں۔

ناشر نے ان چاروں کتابوں کو اعلیٰ معیار پر شائع کر کے ایک خوب صورت، جاذبِ نظر ہولڈر میں پیش کیا ہے۔ کتاب کیسی بھی کیوں نہ ہو، آج کے دور کی نفسیات کے مطابق پیش کش اعلیٰ نہ ہو تو نظروں میں نہیں آتی۔ ناشر نے اس انداز سے پیش کرکے ایک بڑے طبقے تک رسائی حاصل کی ہے جو اچھی اور خوب صورت کتابوں کا قدردان ہے اور خرچ بھی کرسکتا ہے۔ اُمید ہے کہ تجربہ کامیاب ہوگا۔ ناشر مولاناسیدابوالاعلیٰ اور دیگر مصنفین کی کتابیں اسی معیار پر پیش کریں گے۔ معیار کے لحاظ سے قیمت زیادہ نہیں، ہرکتاب کی ۵۰۰ روپے، کل ۲۰۰۰روپے۔ (مسلم سجاد)


ہفت روزہ ایشیا: بنگلہ دیش: انصاف اور انسانیت کا قتل، مدیر: طارق محمود، مدیراشاعت خاص:  سلیم منصورخالد۔ پتا: اے-۱/۹، نزد حمیدسنٹر، رائل پارک، لاہور- ۳۶۳۷۲۶۲۷-۰۴۲۔ صفحات: ۲۲۷۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

۷۰ کے عشرے میں سن شعور کو پہنچنے والوں کے لیے سقوطِ ڈھاکہ سامنے کی بات نہیں ہے۔ اب تو ۴۰سال سے زائد گزرگئے ہیں، کئی نئی نسلیں جوان ہوچکی ہیں جو اس المیے کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتیں، اس لیے کہ ایک پالیسی کے تحت درسی کتب میں اس کا ذکر تک نہیں ہے۔

گذشتہ برس سے وہاں کی عوامی لیگی حکومت نے ایک نام نہاد عدالت کے ذریعے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسی اور طویل مدت کی سزائیں سنانے کے پروگرام کا آغاز کیا۔ ضرورت تھی کہ پاکستانیوں کو بتایا جائے کہ کیا ہوا کہ پاکستان کا بازو مشرقی پاکستان الگ ہوگیا اور آج وہاں کی حکومت پاکستان کے لیے لڑنے والوں کے ساتھ یہ سلوک کررہی ہے۔ ہماری حکومت نے تو اس پر کوئی مضبوط موقف اختیار نہیں کیا جو اخلاق، دستور اور ہر اصول کے تحت اسے اختیار کرنا چاہیے تھا۔ قومی اخبارات نے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ اداے فرض کیا۔ ہفت روزہ ایشیا نے   ’بنگلہ دیش: انصاف اور انسانیت کا قتل‘کے موضوع پر یہ اشاعت ِ خاص پیش کی ہے جس میں ۱۲قومی اخبارات کے اداریوں اور مضامین سے منتخب حصے جمع کر دیے ہیں۔ روزنامہ اُمت سے ۲۰حصے منتخب کیے گئے ہیں۔ انگریزی اخبارات کی ’غیرحاضری‘ محسوس ہوتی ہے۔ ایک الگ حصے، ’پس منظر‘ میں سات مقالے شامل ہیں جن میں سے خصوصاً پروفیسر غلام اعظم اور پروفیسر خورشید احمد کے، اس مسئلے کے تمام پہلوئوں کو واضح کرتے ہیں۔ آخری حصے میں ۲۰ تحریریں ’افکاروخیالات‘ کے تحت آج کے دور، اس دور کے بھی مضامین ، تاثرات ، سفرنامے، شاعری بھی انتخاب کرکے شامل کیے گئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے یہ دستاویز قابلِ قدر کاوش ہے۔    سلیم منصورخالد اور ادارہ ایشیا اشاعت پیش کرنے پر مبارک باد کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اشاعت ِخاص کی غیرمعمولی اشاعت کا ایک فائدہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ ملّی اور ملکی مسائل سے آگاہ رہنے کے لیے  ہفت روزہ ایشیا کا باقاعدہ مطالعہ کیا جائے۔ (مسلم سجاد)


تذکرہ رفقاے جماعت اسلامی (دورِ اوّل کے احباب)، مولانا فتح محمد۔ مرتب: پروفیسر نورورجان۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۵۰۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

یہ تحریک اسلامی کے ان احباب کا دل نواز تذکرہ ہے جو ابتدائی دور میں سیدمودودی کی برپا کردہ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ تمام زندگی فریضہ اقامت دین کی ادایگی کے لیے مصروفِ جدوجہد رہے۔ گویا ’وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے‘ کا نمونہ اور مصداق بنے رہے۔ بے لوثی، اخلاص، صدق، راستی، استقامت، ثابت قدمی اور ایثار ان کی زندگی کا طرئہ امتیاز رہا۔

۴۰ سے زائد شخصیات کا یہ تذکرہ ، تعزیتی مضامین، عمدہ علمی نکات اور مولانا فتح محمد کے سوزِدل کے آئینہ دار ہیں۔ ان شخصیات کی جماعتی و تحریکی سرگرمیوں، اخلاص، للہیت، راہِ خدا میں استقامت کا ذکر ہے جن میں مولانا جان محمد عباسی، ڈاکٹر اسعد گیلانی، نعیم صدیقی، خرم مراد، رحیم بخش شاہین، مولانا صدرالدین اصلاحی، میاں طفیل محمد، عبدالغفار حسن، چودھری غلام جیلانی، فضل معبود، مولانا گلزار احمد مظاہری، مولانا گوہر رحمن، مولانا معین الدین خٹک، فخرالدین بٹ، راجا بشارت، ملک وزیرغازی وغیرہ کے تذکرے شامل ہیں۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنان و قائدین کے لیے تحرک، روایات کو جاننے اور ابتدائی دور کے اکابرین و کارکنان کی شخصیت اور کردار کے بارے میں رہنمائی فراہم کرنے والی کتاب، جس سے کارکنانِ تحریک بے نیاز نہیں ہوسکتے۔(عمران ظہور غازی)


خطباتِ صدیقی، تالیف: ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی۔ ناشر: نشریات، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۵۹۸۴۱۸-۰۳۲۱۔ صفحات:۵۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔

یہ خطبات دین کی تعلیمات کا خلاصہ ہیں۔قرآن و سنت کی تعلیم پر مبنی یہ خطبات ایمانیات، عبادات، اصلاح و تربیت اور اجتماعی زندگی سے متعلق اسلامی تعلیمات کا احاطہ کرتے ہیں۔    ڈاکٹر محمداسلم صدیقی، صاحب ِتفسیر روح القرآن ہیں، محتاجِ تعارف نہیں۔جامعہ پنجاب سے فراغت کے بعد مختلف مقامات پر دعوتی، دینی اور قرآنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ خطبات کیا ہیں، معلومات کا خزینہ ہیں اور آیاتِ قرآنی، احادیث اور فکرانگیز ایمانی واقعات سے آراستہ ہیں۔ ان میں جابجا اقبال، اکبر، حالی، فیض اور مولانا ظفرعلی خان کے اشعار اس نسخے کی لَے بڑھاتے ہیں۔ موضوعات کا تنوع، زبان و بیان کی خوب صورتی اور معلومات کی فراوانی قاری کی توجہ مرتکز رکھتی ہے۔ چند اہم موضوعات: سورئہ فاتحہ سے متعلق چند حقائق، قرآنِ کریم کا چیلنج، حُب ِدنیا میں بے اعتدالی، تیسری طلاق کے احکام، انسانی بگاڑ کا اصل سبب اور حل۔ دروس دینے والے ہوں، خطباتِ جمعہ دینے والے یا دعوتِ دین کا کام کرنے والے ان خطبات سے فائدہ اُٹھائیں۔(عمران ظہورغازی)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن (جلد اوّل)، مؤلفہ: شکیلہ افضل۔ ملنے کا پتا: J-II-۶۳۷ جوہرٹائون، لاہور۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۴۶۶ ۔ ہدیہ: ۵۰۰ روپے۔

قرآن ایک سدابہار کتاب ہے اور تفسیر قرآن ایک سدابہار موضوع۔ مختلف زبانوں میں بلامبالغہ ہزاروں تفاسیر لکھی جاچکی ہیں، مگر نہ تو قرآنی موتیوں کی تلاش میں کمی آئی اور نہ اس ضرورت کے احساس میں۔ اُردو زبان بھی تفسیرقرآن کے لٹریچر کے تنوع سے مالامال ہے۔شاہ رفیع الدینؒ کے ترجمۂ قرآن سے لے کر زیرتبصرہ تفسیر تک سیکڑوں تفسیریں منظرعام پر آئی ہیں جن میں سے ہر ایک کا اپنا انداز اور اپنا مقام ہے اور ہر ایک کا اپنا فائدہ اور حُسن ہے۔ زیرنظر تفسیر میں مؤلفہ نے تیسیرالقرآن، عبدالرحمن کیلانی، تفسیر ابن کثیر(شاید اُردو ترجمہ)، تفسیر احسن البیان، حافظ صلاح الدین یوسف اور استاذہ نگہت ہاشمی صاحبہ کے لیکچروں کا خلاصہ انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔

انداز یہ اپنایا گیا ہے کہ آیت کے بعد سلیس اُردو زبان میں آیت کا ترجمہ درج کیا گیا ہے اور اس کے بعد ’خلاصۂ تفسیر‘کے عنوان سے حاصل مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ حوالہ دینے سے اجتناب کیا گیا ہے، غالباً اس لیے کہ یہ تفسیر جن قارئین کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے اُن کے لیے حوالہ نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں تھا، بلکہ شاید طوالت اور اُکتاہٹ کا باعث بن جاتا۔ اس طرح یہ تفسیر اُن عام قارئین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے جو مختصر وقت میں قرآنی مفاہیم سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

تفسیر کے شروع میں قرآنی ترتیب کے مطابق موضوعات کی تفصیلی فہرست دی گئی ہے جس سے کسی موضوع کی تلاش میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اگر کاغذ اور طباعت کا معیار بہتر ہوتا تو موضوع کے ساتھ انصاف ہوتا۔ (گل زادہ شیرپاؤ)


سفرِآرزو، ملک مقبول احمد۔ ناشر: مقبول اکیڈمی، ۱۰-دیال سنگھ مینشن، مال روڈ، لاہور۔ فون:۳۷۳۵۷۰۵۸-۰۴۲۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

سفرِآرزو کے مصنف ملک مقبول احمد درجن بھر سے زائد کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔ لیکن زیرنظر کتاب ان سب پر فوقیت رکھتی ہے کہ اس میں انھوں نے تشنۂ تکمیل آرزوئوں کے پورا ہونے کی رُوداد میں اپنے مشاہدات اور احساسات کو تصنع سے مبرا سادگی سے پیش کیا ہے۔ مصنف کو تین بار حج اور متعدد بار عمرہ ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس طرح ان کے مشاہدات کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے ان مقدس مقامات کی زیارت کے لیے پوری تیاری کی، وسیع مطالعہ کیا۔ اس سے انھیں اپنے مشاہدات اور تاثرات کو قلم بند کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور کتاب میں دل چسپی کا عنصر بھی قائم رہا۔

اب تک حج اور عمرہ کے متعدد سفرنامے شائع ہوچکے ہیں اور ہرمصنف نے اپنے انداز اور اپنے اسلوب سے قارئین تک معلومات بھی بہم پہنچائیں اور قلبی واردات اور ذہن پر مرتب ہونے والے تاثرات سے آگاہ کیا۔ سفرِآرزو کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تاریخ، جغرافیہ، ثقافت اور روحانیت گھل مل گئے ہیں۔ مصنف نے پوری کوشش کی ہے کہ یہ سفرنامہ زیادہ سے زیادہ مفید اور دل چسپ ہو۔ چنانچہ انھوں نے مناسکِ حج و عمرہ کی ادایگی کے طریقہ ہاے کار اور مسنون دعائوں (مع تراجم) کے علاوہ بیت اللہ، چاہِ زم زم ، مختلف مساجد، غزوات اور قربانی و رمی کے مختصر پس منظر پر سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اندازِ بیاں کی سادگی ہی اس کا حُسن ہے۔ کتاب میں اہم مقامات کی رنگین تصاویر بھی موجود ہیں۔ اُمید ہے مقدس مقامات کی زیارت کو جانے والے اس سے کماحقہ مستفید ہوں گے اور یہ کتاب مصنف کے لیے خیروبرکت کا باعث بنے گی۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


سیرتِ محمد رسولؐ اللہ، تاریخ کے تناظر میں، ڈاکٹر سید معین الحق، مترجم: رفیع الزمان زبیری۔ ناشر: فضلی سنزلمیٹڈ، اُردوبازار، کراچی۔ فون:۳۲۲۱۲۹۹۱-۰۲۱۔ صفحات: ۶۷۲۔ قیمت:۶۹۵روپے۔

زیرتبصرہ کتاب سیرت النبیؐ کے موضوع پر معروف تاریخ دان ڈاکٹر معین الحق کی انگریزی میں لکھی گئی کتاب محمد، لائف اینڈ ٹائمز کا اُردو ترجمہ ہے جس میں حضور اکرمؐ کی زندگی کے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ان پر مغربی غیرمسلم مصنّفین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔

کتاب کے کُل ۳۱ ابواب ہیں جن میں ظہورِاسلام سے قبل کے حالات سے لے کر   حضور اکرمؐ کی وفات تک کے حالات و واقعات، مستند و معتبر مآخذ کے حوالوں سے بیان کیے گئے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی اساس اور بنیادی اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مصنف کے خیال میں حضور اکرمؐ نے قرآن و سنت کے ذریعے جو ضابطہ حیات دیا، یہ ابدی ہے (ص ۲۹)۔ اسے قائم رکھنے کے لیے اسلامی ریاست تشکیل دی گئی۔ بعض مستشرقین نے حضوراکرمؐ کے غزوات و سرایا کو جارحانہ جنگیں قرا ر دیا ہے (ص ۳۲۲)۔ مصنف نے عہدنبویؐ کی جنگوں کے اسباب و محرکات کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ انسانی تاریخ کی یہ ایسی جنگیں ہیں جن میں بہت کم قتل و غارت ہوئی۔ جارحیت کے مرتکب تو قریش تھے جو مکہ سے باربار حضور اکرمؐ پر حملہ آور ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور حضور اکرمؐ کی جنگی حکمت عملیوں نے مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کیا۔

حضور اکرمؐ کی شخصیت، آپؐ کی خصوصیات اور آپؐ کی امتیازی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی مصنف نے مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دیا ہے (۶۱۵)۔ مصنف نے حضور اکرمؐ کی زندگی کے تقریباً تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترجمے کی روانی، بے ساختگی اور اسلوب نے اسے طبع زاد کتاب کی صورت دے دی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں میں زیرتبصرہ کتاب اپنے اسلوبِ بیان اور موضوع کی ندرت کے لحاظ سے نہایت اہم تصنیف گردانی جائے گی۔(ظفر حجازی)


اسالیب ِدعوت اور مبلّغ کے اوصاف، شیخ محمد فتح اللہ گولن، مترجم: محمد اسلام۔ ناشر: ہارمنی پبلی کیشنز، مکان نمبر ۹، ایف-۱۰/۲، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۱۲۲۵۰-۰۵۱۔صفحات: ۲۳۶۔قیمت: ۴۰۰ روپے۔

مصنف ترکی نژاد عالم باعمل ہیں۔ ترکی کے علاوہ عربی اور فارسی پر بھی عبور ہے۔ آپ نے دین کی تبلیغ کا آغاز ازمیر کی جامعہ مسجد ’کستانہ بازاری‘ سے ملحق مدرسہ ’تحفیظ القرآن‘ سے کیا اور چلتے پھرتے واعظ کے طور پر اناطولیہ کے گردونواح میں واعظ کے طور پر کام کرتے رہے اور  ۱۹۷۰ء میں تربیتی کیمپ لگانا شروع کیا اور باہمی گفت و شنید، افہام و تفہیم اور تعصب سے پاک دعوت و تبلیغ کی مؤثر تحریک بپا کی۔ اسی سلسلے میں وٹی کن سٹی میں پوپ کی دعوت پر ان سے ملاقات کی اور اسلام کی دعوت پہنچائی۔ مؤلف نے اسلام کے مختلف عنوانات پر ۱۶سے زیادہ کتب تصنیف کی ہیں جن میں سے نو کتب اُردو میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے پہلی فصل: تبلیغ کا تعارف میں عنوانات کے تحت، خوب صورت اور مؤثرانداز میں تبلیغ کو قرآن و حدیث مبارکہ کی روشنی میں مقصد زندگی قرار دیا ہے۔ پھر اس کی ضرورت اور اہلیت کی شرائط بیان کی ہیں۔ اس کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ مختلف پیغمبروں ؑ کی دعوت و تبلیغ کے تاریخی واقعات بیان کیے ہیں۔

دوسری فصل: ’دعوت و تبلیغ کے اصول و ضوابط‘ کے تحت ۱۱ عنوانات کے تحت ہر وہ متعلق بات بیان کردی ہے جو دعوتِ دین کے لیے انتہائی ضروری ہے، مثلاً علم اور دعوت کا تعلق، اسلامی حقائق اور دورِحاضر سے آگاہی، جائز ذرائع کا استعمال، مخاطب کے مزاج سے آگاہی، دعوت کے لیے ایمان، تزکیہ اور اخلاص کی اہمیت، مستقل مزاجی وغیرہ۔ اسی طرح تیسری فصل: ’مبلغ تحریر کے آئینے میں‘  وہ تمام اہم خصوصیات بیان کردی ہیں جو مبلغ میں ہونا ضروری ہیں، مثلاً شفقت، ایثارو قربانی،  منطقی طرزِاستدلال اور واقعیت پسندی، عفو و درگزر، شوق و اشتیاق وغیرہ۔ جگہ جگہ قرآن، حدیث اور تاریخ اسلامی سے استدلال کتاب کی جان ہے۔ ص ۵۷ کی درج ذیل تحریر سے کتاب کی اہمیت کا بہتر اندازہ کیا جاسکتا ہے: حقیقی ایمان اور اس کی بقا کے لیے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے: ۱- اپنی زندگی میںصرف حق بات کی پیروی کرے، ۲- ظلم کے خلاف گونگے شیطان کی طرح خاموش تماشائی نہ بنا رہے، ۳- زندگی اور موت کی پرواہ نہ کرے، ۴-ہمیشہ صحابہ کرامؓ کے وضع کردہ مفاہیم کے دائرے میں رہے، ۵- امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھے۔ مذکورہ اُمور کے بغیر زندگی بالکل ہی بے فائدہ ہے۔

اس کتاب کے مقدمے میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، وائس چانسلر رفاہ یونی ورسٹی اسلام آباد نے بڑی وقیع بات کہی ہے: ’’اس موضوع پر استاد عبداللہ کریم زیدان، استاد ابوالاعلیٰ مودودی،  امام حسن البنا، استاد مصطفی مشہور، استاد عبداللہ بن بدیع سقر، استاد فتحی یکن اور دیگر اساتذہ نے جن مضامین دعوت پر اُمت کو متوجہ کیا تھا، استاد گولن کی یہ تحریر انھی خصوصیات پر ایک جامع لیکن مختصر تحریر ہونے کی بنیاد پر ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ہرمسلمان کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ کارِتبلیغ ایک اہم فریضہ ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے یہ کتاب نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔(شہزاد الحسن چشتی)


Muslims Today: Changes within, Challenges without  [آج کے مسلمان: داخلی تغیرات ، خارجی چیلنج ]، ڈاکٹر چندرا مظفر، سیریز ایڈیٹر: ڈاکٹر ممتاز احمد۔ناشر: ایمل مطبوعات، آفس نمبر۱۲، سیکنڈ فلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔ فون:۲۸۰۳۰۹۶-۰۵۱۔ صفحات: ۲۸۲۔ قیمت: ۷۸۰ روپے

ڈاکٹر چندرا مظفر، ملیشیا کی سائنس یونی ورسٹی میں ’گلوبل اسٹڈیز‘ کے پروفیسر ہیں۔   وہ انگریزی اور ملائی زبانوں میں ۲۵ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں، اور بین الاقوامی سیاسی اور سماجی اُمور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ پیش نظر کتاب اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (IRD) ، شعبۂ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد نے شائع کی ہے۔ عصری اسلامی فکر کے مطالعے کے سلسلۂ کتب میں IRD کی یہ پہلی کتاب ہے۔ ادارے کے ڈائرکٹر پروفیسر ممتاز احمد کے بقول: ’’مسلمانوں کو درپیش عصری سوالات کے یہ تجزیے نہ صرف وقت کا تقاضا ہیں، بلکہ قرآن و سنت کی حُریت فکر پر مبنی ہیں‘‘۔ مصنف برٹرینڈرسل، نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، رچرڈ فالک اور ہمارے عہد کی عظیم درخشندہ ہستیوں کی روایت پر مضبوطی سے قائم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مسلم اور غیرمسلم قارئین کو عصری اسلام میں تنقیدی اور اہم آوازوں سے آشنا کرنے کے لیے ان کا ادارہ کوشاں ہے۔ تصورات کی اس جنگ کو وہ مسلم دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

 ۱۳؍ابواب پر مشتمل یہ کتاب، چندرا مظفر کی مختلف تصانیف سے ماخوذ تحریروں سے ترتیب دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت مسلم معاشرہ ایک عالمی استعمار کا شکار ہے۔ جبر پر مبنی یہ غلبہ خارجی بھی ہے اور داخلی بھی کہ ۱۲ویں صدی سے مسلم علما نے یا تو غالب مسلم حکمرانوں سے سمجھوتا کرلیا ہے ، اور اس طرح دین کی تفہیم کو اپنا اجارہ بنا لیا ہے، اور اب حال یہ ہے کہ مسلم اکثریت، فقہ اور حدود کے منتخب قوانین ہی کو اسلام تصور کرنے لگی ہے، اور قرآن کے آفاقی اصولوں سے اغماض برت رہی ہے۔ مصنف کے خیال میں اللہ پر ایمان اور اس کا پختہ شعور، خلیفۃ اللہ فی الارض کی انسانی حیثیت اور اس کی ذمہ داریاں، آفاقی اقدار اور اصولوں کے مطابق زندگی، زیادہ اہم ہیں۔ یہ قواعد و قوانین، عبادات اور دوسرے اوامر و نواہی پر فوقیت رکھتے ہیں‘‘ (ص ۱۱)۔ اپنے مضامین میں وہ ’مسلم ممالک‘ کو ہمیشہ ’اسلامی ممالک‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ ’تقلید‘ اور قوت اور استبداد کے ذریعے شریعت کو نافذ کرنے کی حکومتی روش پر تنقید کرتے ہیں۔

اسلام کے تصورِ مساوات کے ضمن میں وہ قرآنِ مجید کی متعدد آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں۔ چوں کہ سارے انسان ایک ہی جوڑے سے بنائے گئے ہیں اور کسی عرب کو غیرعرب پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی، اس لیے انسانوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ ’ترقی پسند اسلام‘ بمقابلہ ’روایتی، قدامت پسند اسلام‘ کی فکر پر باربار تنقید کرتے ہیں۔     وہ مولانا ابوالکلام آزاد کو اپنے نقطۂ نظر کی سب سے بڑی سند بتاتے ہیں (ص ۱۶)۔ وہ کہتے ہیں  کہ ابتدا میں مسلمانوں کو دوسرے گروہوں اور انسانوں سے ایک علیحدہ جماعت قرار دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اُن کو کوئی خاص رعایت دی جائے، بلکہ غرض محض یہ تھی کہ خطرات سے دوچار لوگوں کو معاندانہ رویے کے حامل معاشرے سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ (ص ۱۵)

افغانستان کا نام لیے بغیروہ کہتے ہیں کہ ایک مسلم ملک میں طویل جدوجہد اور قتل و غارت کے ذریعے جب ’اسلامی حکومت‘ قائم ہوئی، تو ہزاروں مسائل سے قطع نظر کرکے حکمرانوں نے خواتین کے حجاب کے قانون ہی کو اوّلیت دی۔ ایک دوسرے ملک [پاکستان] میں اداروں/دفاتر میں نماز کی ادایگی ہی کو اہمیت دی، حالانکہ غربت، بھوک، بیماری جیسے بیسیوں مسائل توجہ طلب تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام بحیثیت ایک ’نظامِ حیات، انصاف ہی کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، مگر اسلامی /مسلم ملکوں میں غیرمسلموں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ افسوس ناک امتیاز برتا جارہا ہے (افغانستان، سوڈان، سعودی عرب) (ص ۶۸)۔ اقبال کا ’ترانۂ ہندی‘ ان کے خیال میں بہترین قومی نظم ہے۔ (ص ۱۷۶)

تقلید، جمود، انتہاپسندی، خود راستی کا تصور، امتیاز پسندی، اقتدار اور غلبے کی ہرصورت میں خواہش___ یہ آج کے مسلم معاشروں کی تصویر ہے۔ عالمی امریکی تسلط کے نتیجے میں دنیا کے  ڈیڑھ ارب انسان انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ ہمیں اس بے انصافی کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے۔

انھیں بیش تر مغربی ذرائع ابلاغ سے بھی گِلہ ہے کہ وہ اسلام کو درست طور پر پیش نہیں کررہے۔ اُنھیں صرف مسلمان ہی انتہاپسند اور متشدد نظر آتے ہیں، حالاں کہ یہ ’خوبیاں‘ اُن کے ہاں بھی موجود ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ اپنی فلموں اور سنجیدہ تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کو  ایک ’فتنہ‘ اور ’خودکش بمبار‘ بناکر پیش کر رہے ہیں، جو ایک یک طرفہ فکر ہے۔

احیاے اسلام کی تحریکوں کو درپیش حقیقی چیلنج اب یہ ہے کہ وہ قرآن کی اصل رُوح کو دریافت اور بازیافت کریں، اور اس کے مطابق اپنے لائحہ عمل مرتب کریں۔ اس سلسلے میں وہ اقبال، جمال الدین افغانی، علی شریعتی اور فضل الرحمن کی کاوشوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ تاہم، مصنف کا یہ خیال بحث طلب ہے کہ اسلامی دنیا پر مغربی استعمار کے تسلط کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ  مسلم معاشروں کی فکر میں ایک وسعت آئی ہے، اور وہ قدامت پسندی کے بجاے اب ’آفاقی اقدار‘ کی طرف رجوع کررہے ہیں۔

عمدہ کاغذ پر نفاست سے طبع شدہ اس کتاب میں جگہ کا ضیاع، اغلاط (ابوالکلام کی جگہ عبدالکلام ) اور اشاریہ کی عدم موجودگی کھٹکتی ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


مغرب اور اسلام [مغربی افکار اور آج کی مسلم دنیا ] مدیر: پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، گلی نمبر۸، ۳؍۶-F، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۳۳۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کی ادارت میں علمی و تحقیقی مجلہ، مغرب اور اسلام قابلِ قدر مضامین پیش کر رہا ہے۔ حال ہی میں ’مغربی افکار اور آج کی مسلم دنیا‘ کے زیرعنوان ۲۰۱۳ء کا پہلا شمارہ منظرعام پر آیا ہے۔ اداریے میں مغرب اور اسلام پر جدید مباحث کے تناظر میں مکالمے پر زور دیا گیا ہے۔

’اسلام اور مغرب: موجودہ مسائل اور مسلمانوں کا ردعمل‘ (پروفیسرخورشیداحمد)کے زیرعنوان مغرب اور مشرق کی اہم تحریکوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مسلم دنیا کہاں کھڑی ہے؟ صاحب ِ مضمون کی تجویز ہے کہ ’انسانیت اور مسلم اُمہ کی بھلائی کے لیے ضروری ہے کہ ’ایسے کو تیسا‘ اور جذباتی ردعمل کے بجاے، جس کے جواز پر بھی دلائل دیے جاسکتے ہیں، ہمیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا،تاکہ انسانیت کی مجموعی فلاح کے لیے ہم اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھال سکیں۔ اُن کا یہ جملہ قابلِ قدر ہے کہ ’’جب تک اسلامی تحریکیں لوگوں کو اُن کے موجودہ مسائل کا حل نہیں بتائیں گی، ہمارا تقسیم شدہ ووٹ ہمیشہ محدود رہے گا‘‘۔

تحقیقی مقالے کے بعد سوال و جواب شامل کیے گئے ہیں جو قابلِ قدر اور فکرافروز ہیں۔ اسی طرح ’تحقیق کے مغربی اور اسلامی اسلوب تحقیق کی اساسیات‘ (پروفیسر خورشیداحمد) ایک اہم مقالہ ہے جس میں سیکولرزم پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ عالم گیر دنیا کے لیے عالم گیر اخلاقیات پر پروفیسر انیس احمد نے قلم اُٹھایا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے عالمی معاشی بحران کا تجزیہ پیش کیا ہے اور بحران کے حل کے لیے نظری و عملی پہلوئوں اور اسلام کے معاشی قوانین پر عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ مجلہ اہلِ علم کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔(محمد ایوب منیر)


عسکریت اور رعیت، تنازعات اور عوامی استحصال کا تاریخی پس منظر، سعد اللہ جان برق۔ ناشر: نیریٹوز پرائیویٹ لمیٹڈ، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۹۱۵۸۶-۰۵۱۔ صفحات:۲۲۔ قیمت: ۴۵۰روپے۔

زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے مروجہ نظریات، فلسفے، عقائد اور رویوں سے ہٹ کر ہمیں ایک منفرد نظریے سے متعارف کروایا ہے۔ انھوں نے نوعِ انسانی کو عسکریت اور رعیت کے دو طبقات میں تقسیم کیا ہے اور پھر اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے پوری انسانی تاریخ، تاریخ کا بنیادی فلسفہ، قدیم و جدید ادب اور نظریات، عقائد، یونانی، ہندی اور قدیم تہذیبوں کے دیومالائی قصوں کا سہارا لیا ہے۔ اپنے نظریے کو پیش کرتے ہوئے مصنف ہمیں ڈارون، ہیگل، روسو، کارل مارکس اور سرسیّد وغیرہ سے متاثر نظر آتے ہیں، تاہم وہ اپنے نظریات مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔

موجودہ دور عسکریت پسندی، تشدد، ظلم و زیادتی اور استحصال کا دور ہے۔ دنیا اس وقت ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ روس کے زوال کے بعد امریکا تمام دنیا پر چڑھ دوڑا ہے اور جہاں چاہتا ہے ظلم و ستم کا بازار گرم کردیتا ہے۔ نائن الیون کے بعد اگرچہ عسکریت پسندی پر بہت کچھ لکھا    گیا ہے لیکن زیرتبصرہ کتاب اس موضوع پر مفید کتاب ہے جو ہمیں نہ صرف موجودہ دور کے  عسکریت پسندانہ اور جدید نظریات کا فہم عطا کرتی ہے بلکہ گزرے ہوئے زمانوں کا وسیع اِدراک بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ کتاب موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے رہنمائی دیتی ہے۔(طاہر آفاقی)

تجلیاتِ قرآن، مولانا سید جلال الدین عمری،ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔ ڈی-۳۰۷، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵۔ صفحات: ۵۶۰۔ ہدیہ:۳۰۰ روپے۔

مولانا سید جلال الدین عمری برعظیم پاک و ہند کی ایک معروف دینی شخصیت ہیں اور اسلام کی جدید تفہیم قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کرنے والے اصحابِ علم میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت میں جس نوعیت کا علمی اور تحقیقی ذوق ہونا چاہیے اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔ دین مطالبہ کرتا ہے کہ جو لوگ اس کی دعوت کو لے کر دنیاکو بدلنے کے لیے نکلیں، وہ  کم از کم دین کے بنیادی ماخذ: قرآن کریم اور سنت رسولؐ سے براہِ راست واقفیت رکھتے ہوں۔   یہ اس لیے ضروری ہے کہ دعوتِ دین ایک اجتہادی عمل ہے۔ یہ ایک میکانکی عمل نہیں ہے کہ چند تعلیمات کو یادداشت میں محفوظ کرلیا اور انھیں جہاں چاہا دہرا دیا، بلکہ یہ ہرہرصورت حال میں جائزہ لینے، تحقیق کرنے اور مرض کی جڑ تلاش کرنے کے بعد قلب و دماغ میں پائے جانے والے غیرصالح تصورات و عقائد کی اصلاح اور عمل کی تطہیر کا نام ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکن ہوں یا قائدین، دعوتِ دین دیتے وقت انھیں اسلام کے ان دو بنیادی ذرائع سے اپنے آپ کو اس حد تک وابستہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ قرآن و سنت کی نگاہ بن جائے اور ان کے معاملات صرف قرآن و سنت کی روشنی میں طے ہوں۔

تجلیاتِ قرآن مولانا عمری صاحب کے تحریکی لیکن تحقیقی مضامین کا ایک خوب صورت مجموعہ ہے جو ایک طویل عرصے میں مختلف علمی رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اوّل میں مضامین کا تعلق قرآن کریم کے نزول، عظمت، تلاوت     کے آداب، قرآن کریم کے علمی اعجاز اور اس کے عالمی طور پر اثرانگیزی (impact) سے ہے۔ اس حصے میں اقوامِ عالم کے عروج و زوال کا قرآنی اصول بھی پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں قرآنِ مجید کی بنیادی اصطلاحات اور ان کے ذریعے قرآن کے نزول اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ بعثت سے بحث کی گئی ہے۔ آخری باب میں قرآن کریم کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کا تذکرہ ہے کہ وہ قرآن پر غور اور تدبر کرنے والے افراد کی پہلی جماعت کی حیثیت رکھتے ہیں۔

کتاب کا سب سے اہم حصہ باب دوم ہے جس میں قرآن کریم کے بنیادی تصورات کو جن کا تعلق براہِ راست فرد، معاشرے اور ریاست کے حوالے سے قرآن کی اہم اصلاحات کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم پر اصطلاحات کے زاویے سے تحقیق اور ان کے مفہوم کا تعین ضمناً تو بے شمار علمی تحریرات میں کیا گیالیکن بقول علامہ محمد قطب، سید مودودی نے پہلی مرتبہ اس زاویے سے سوچنے کی مثال قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات کی شکل میں ایک کتاب کے ذریعے  پیش کی جس نے قرآن کریم میں جستجو و تحقیق کا ایک نیا اسلوب دورِحاضر میں رکھا۔ یہ بات محمدقطب نے بذاتِ خود ایک نجی گفتگو میں میرے ایک سوال کرنے پر بطور مولانا مودودی کے اعترافِ عظمت کے فرمائی، جو میرے خیال میں خود محمد قطب کی علمی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔

اس باب میں قرآن کریم میں حکمت کا تصور، تصورِ تزکیہ، تقویٰ کی صفت، اللہ کے ذکر کا بلند کرنا، ذکر کے طریقے، انابت الی اللہ، دعوت الی اللہ، شہادت علی الناس، اقامت ِ دین اور قلب مرکزخیروشر ، کُل ۱۰ مختصر مگر جامع مضامین ہیں۔ ان میں سے ہر مضمون ایک مستقل کتاب کی شکل میں مناسب اضافوں کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے۔ یہ ۱۰اصطلاحات اور مولانا مودودی کی    قرآن اور  چار بنیادی اصطلاحات، ایک حیثیت سے دین کے اُس تصور کی وضاحت کرتی ہیں جو نہ صرف قرآن و سنت سے قریب ترین بلکہ ایک حرکی تصور ہے۔ یہ دین کو  pro-active    سمجھتے ہوئے اس کی انقلابی تعلیمات کو مختصر طور پر پیش کرتا ہے۔ اس باب کا تحریکِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو خصوصاً مطالعہ کرنا چاہیے۔

ان مضامین کو تحریکِ اسلامی کے تربیتی نصاب میں شامل ہونا چاہیے اور قرآن اور چار بنیادی اصطلاحات کے ساتھ ملا کر مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس علمی اور تحریکی کاوش کو قبولیت عطا فرمائے اور محترم مولانا کو اس پر اجرعظیم سے نوازے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


مسئلہ تکفیر و خروج، مرتب: محمد مجتبیٰ راٹھور۔ اہتمام: پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز، اسلام آباد۔ ناشر: Narratives ، پوسٹ بکس نمبر ۲۱۱۰، اسلام آباد۔فون: ۲۲۹۱۵۸۶-۰۵۱۔ صفحات: ۲۴۷۔ قیمت: ۵۰ روپے۔(انگریزی میں بھی دستیاب ہے)

تکفیر اور خروج کی دونوں اصطلاحیں بالعموم یک جا ذکر کی جاتی ہیں۔ عملی صورت حال کے لحاظ سے یہ ترتیب درست ہے مگر علمی اعتبار سے اوّل الذکر کا تعلق علم الاعتقاد اور دوسری کا تعلق   علمِ سیاست و حکومت کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں قضیے اپنی نزاکت کے باعث اہلِ علم کے ہاں ہمیشہ توجہ کے قابل رہے ہیں۔ فی الاصل کفرپر قائم کسی شخص کو کافر کہنے میں کوئی کلام نہیں۔ اصل نزاع کلمہ گو مسلمان کو کافر قرار دینے میں ہے۔ یہی عمل علمی اصطلاح میں ’تکفیر‘ کہلاتا ہے۔ البتہ ’خروج‘ کا مرحلہ تکفیر کے بعد شروع ہوتا ہے۔

سیاست شرعیہ کی رُو سے ارباب حل و عقد کوکافر قرار دے کر اُن کی اطاعت سے دستکش ہونا اور اُن کے خلاف اعلانِ جنگ ، دراصل ’خروج‘ کہلاتا ہے۔ مسلمانوں کی عام اجتماعیت اس کا ہدف نہیں ہوتی بلکہ صرف حکمران یا اولی الامر ہی اس کی زد میں آتے ہیں۔ بات سمجھنے کے لیے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر خروج کے لیے تکفیر ضروری ہوتی ہے۔ اس کے برعکس تکفیر کے بعد خروج کا ہونا لازمی نہیں۔ اگرچہ اعتقادی حیثیت سے تکفیر کا تعلق نجاتِ اُخروی کے ساتھ ہے، مگر حیاتِ دنیوی میں سماجی حقوق اور اجتماعی رویوں کی تشکیل سے بھی اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ پھر معاشرے میں  پایا جانے والا کم علم غیرمعتدل مزاج اور تعصبات، ایمان و کفر کے اس نزاع کو منفی رُخ دے دیتے ہیں جس کا نتیجہ ایک دوسرے پر گمراہی یا کفر کے فتوئوں اور بالآخر خون خرابے کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ آج کا مسلمان معاشرہ بالعموم، اور پاکستانی سماج بالخصوص، اس مرض میں گرفتار نظر آتا ہے، اور نفرت و ہیجان کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ اس موضوع پر لب کشائی گوناگوں خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ بات خوش آیند ہے کہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے مسئلہ تکفیر وخروج کے عنوان سے ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ایک کتاب شائع کی ہے۔ یہ کتاب دراصل ادارے کے زیراہتمام اس موضوع پر ہونے والے تین مذاکروں کی رُوداد ہے جو ملک بھر کے جیّد اور مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علما اور محققین کے درمیان منعقد ہوئے۔ مرتب نے ان رُودادوں کو کتابی شکل میں اشاعت کے لیے مرتب کیا ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مرتب نے تقاریر کو تحریری اور نثری اسلوب میں ڈھالنے سے گریز کیا ہے۔ اسی بنا پر کتاب کے لوازمے پر رُوبرو گفتگو کا رنگ زیادہ نمایاں معلوم ہوتا ہے۔

ان سیمی نارز کی علمی وقعت کا اندازہ ان میں شریک معروف علما اور معتبر اہلِ تحقیق سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان شخصیات میں: مولانا زاہد الراشدی (مہتمم الشریعۃ اکیڈمی)، مفتی محمد ابراہیم قادری (رکن اسلامی نظریاتی کونسل)، ڈاکٹر قبلہ ایاز(وائس چانسلر پشاور یونی ورسٹی)، ڈاکٹر علی اکبر الازہری  (ڈائرکٹر ریسرچ منہاج القرآن،لاہور)، ڈاکٹر اعجاز صمدانی (دارالعلوم، کراچی)، علامہ عمار خان ناصر (نائب مدیر ماہنامہ الشریعۃ)، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (نائب مدیر ماہنامہ محدث)، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈائرکٹر علما اکیڈمی لاہور)، ڈاکٹر سید محمد نجفی (ڈائرکٹر تقریب مذاہب اسلامی، اسلام آباد)، ڈاکٹرخالد مسعود (سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل) اور ممتاز صحافی خورشید ندیم شامل ہیں۔

کتاب میں تکفیر وخروج کی فقہی تعبیر کے ساتھ اس کے فرقہ وارانہ اور ریاست کے خلاف بغاوت کے پہلوئوں کا علمی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں چند اہم اور بنیادی سوالات قائم کیے گئے ہیں لیکن شرکا کی گفتگو میں ان سوالات کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا۔ شاید ہرشریکِ گفتگو    ان سوالات پر اپنی پوری توجہ قائم نہیں رکھ سکا ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ کتاب اس موضوع پر بلامبالغہ سیکڑوں ضخیم صفحات کا نچوڑ ہے۔ کتاب میں تکفیروخروج کے تناظر میں حالیہ متشددانہ رویوں پر علمی محاکمہ اور تنقید تو موجود ہے مگر اُن عموماتِ شریعت کی متعین تشریح و توضیح نہیں ملتی جن سے استدلال کر کے آج کئی گروہ انتہاپسندی کو اختیار کرچکے ہیں۔ اسی طرح آج کی اسلامی ریاستوں میں حکمرانوں کا وہ طرزِ عمل بھی نقدو جرح سے بالکل رہ گیا ہے جس کے باعث کئی سخت گیر حلقے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان حکمرانوں کی دین و انصاف سے دُوری اور خدا بیزاری کا علاج صرف ان کے خلاف جنگ ہے۔

یہ کتاب اس موضوع پر جمود اور خاموشی کو توڑنے، نئے زاویوں سے غوروفکر کرنے اور جدید مباحث پر دعوتِ تحقیق دینے کی ایک کامیاب کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔حالاتِ حاضرہ سے دل چسپی رکھنے والے اور بالخصوص دینی مدارس کے طلبہ کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ کالج اور یونی ورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے تو اس کا مفید ہونا بہت واضح ہے۔ (عبدالحق ہاشمی)


قصص الانبیاء،علامہ عبدالوہاب النجار المصری، مترجم: مولانا آصف نسیم ۔ ناشر: البیان، اُردوبازار، لاہور۔ ملنے کا پتا: المشرق، دکان نمبر۸، فرسٹ فلور، زبیدہ سنٹر، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۸۸۳۶۹۳۲-۰۳۲۱۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۶۵۰۔ قیمت: ۵۲۵ روپے۔

قرآن کے اہم موضوعات میں سے ایک انبیا کے واقعات ہیں جن میں عبرت کا بہت سامان اور سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اُردو میں اس حوالے سے معروف نام اور کتاب مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی قصص القرآن ہے۔ ترجمہ کار کے بیان کے مطابق زیرتبصرہ کتاب عبدالوہاب النجار المصری کی جس کتاب کا ترجمہ ہے، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی کتاب بھی اسی پر مبنی تھی۔ غالباً اس لیے اس کتاب کا انتساب ان ہی کے نام کیا گیا ہے۔

حضرت آدم ؑ سے حضرت عیسٰی ؑ تک ۲۰ انبیاے کرام ؑ کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو کچھ آیا ہے اسے مرتب کرکے پیش کردیا گیا ہے۔ ہرنبی ؑکے حال کے آغازمیں ایک جدول کی شکل میں متعلقہ سورتوں اور آیات کے نمبر دیے گئے ہیں۔ اسرائیلی روایات سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے لیکن ان کا خرافات اور من گھڑت ہونا بتانے کے لیے تذکرہ ہوگیا ہے (یعنی قاری اس سے محروم نہیں رہتا)۔ عصرحاضر کے سائنسی انکشافات سے قرآن کی تصدیق و تائید کا بھی ذکر ہے۔ آخر میں عبرت و موعظت کے پہلو بیان کیے گئے ہیں۔

کتاب تفصیل سے تبصرے کی متقاضی ہے۔ حضرت آدم ؑ میں نظریۂ ارتقا کا بیان آگیا ہے۔ کیا آدم پہلے انسان تھے؟ اس پر بھی بحث ہے۔ قومِ ثمود میں ناقہ پر پوری بحث ہی تبصرہ نگار کے لیے انکشاف کا درجہ رکھتی تھی۔ غرض اس طرح ہرمقام پر متعلقہ اُمور پر علمی گفتگو کی گئی ہے۔

اصل تعریف تو مصری عالم کی،لیکن ترجمے کے لیے جن افراد نے، خصوصاً مولانا آصف نسیم نے جو محنت کی ہے ، اس کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ چھے خصوصی صفحات رنگین تصاویر سے مزین ہیں، مثلاً ہابیل کا مزار، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت لوطؑ کے مزار، وہ جگہ جہاں حضرت موسٰی ؑ کو آگ نظر آئی تھی، وادیِ مدین، کوہِ طور وغیرہ وغیرہ۔ قیمت کے بارے میں یہ لکھا دیکھ کر   ’براے مہربانی قیمت پر بحث نہ کریں‘ بحث کرنے کو دل تو چاہتا ہے لیکن احتراماً نہیں کی جارہی۔ اتنی قیمتی کتاب کی جو بھی قیمت ہو، کم ہے۔ (مسلم سجاد)


عصرِحاضر کی نفسیاتی اُلجھنیں اور ان کا اسلامی حل، مولانا سلطان احمد اصلاحی۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۳۰۰۔ قیمت:درج نہیں۔

انسانی جسم کو سہولتیں پہنچانے کے لیے دورِحاضر کی سائنس و ٹکنالوجی آج جتنی سرگرم ہے اتنی کبھی نہ تھی۔ دوسری طرف مغربی تہذیب کے تصورِ آزادی، مساوات اور ترقی نے انسانی خواہشات کو جتنا بے لگام کیا ہے ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔ لیکن مغرب کی سائنسی فکر اور تہذیبی بالادستی کیا انسان کو واقعی روحانی و ذہنی لحاظ سے بھی آسودہ کرسکے گی؟ اس کا جواب اثبات میں دینا ناممکن ہے۔ انسان آج جتنا بے چین و مضطرب اور نفسیاتی لحاظ سے معذور ہے، اتنا کبھی نہ تھا۔ یورپ میں دماغی و نفسیاتی امراض کی جتنی کثرت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عصرحاضر کی بالادست تہذیب انسان کی جسمانی و ذہنی آسودگی کو تو اہمیت دیتی ہے لیکن اس کے روحانی و قلبی تقاضوں کا اِدراک کرنے سے قاصر ہے۔ جرائم و تشدد کی شرح آج مغرب میں کہیں زیادہ ہے۔ معاشی لحاظ سے فلاحی سیکنڈے نیوین ریاستیں ناروے، سویڈن اور ڈنمارک اور مشرق میں ترقی کی علامت جاپان میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح کا ہونا بقول اقبال  ع  تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی، کا منظر پیش کر رہی ہے۔

مولانا سلطان احمد اصلاحی ہندستان کے معروف اسکالر ہیں جن کی اسلامی معاشرت پر بیسیوں تحقیقی کتب شائع ہوچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے مغربی تہذیب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی و اخلاقی بحران، بوڑھوں، نوجوانوں اور عورتوں کی اُلجھنیں،انفرادیت پسندی، تشددپسندی، نشہ، کرپشن اور تعیش پسندی جیسے مسائل کا ذکر کر کے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کا حل بتایا ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ معاصر دنیا کی اخلاقی اساس کیا ہے اور اس کے برعکس اسلامی معاشرت کی اخلاقی اساس کس نوعیت کی ہے۔ نفسیاتی اُلجھنوں کا حل اسلام کے نزدیک ایک طرف ذکروتلاوت اور مراسمِ عبودیت کی بجاآوری ہے، اور دوسری طرف اسلام انسانی زندگی کا مقصود و مطلوب معاشی ترقی کے بجاے رضاے الٰہی کو ٹھیراتا ہے۔ اس طرح بندے کا خدا سے مخلصانہ اور پُرجوش تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ صبروقناعت، صلہ رحمی، بروقت شادیوں کا انعقاد،   خاندانی نظام کا استحکام اور عورتوں مردوں کا مخلوط ماحول سے بچائو، وہ چیزیں ہیں جو افراد کو ذہنی و نفسیاتی عوارض سے بچانے میں ممدومعاون ہوتی ہیں۔ صاف ستھری کتابت اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ یہ ایک اچھی علمی و فکری کاوش ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)


علم کا مسافر (اقبال کی علمی و فکری زندگی کی کہانی)، ڈاکٹر طالب حسین سیال۔ ناشر: ایمل مطبوعات، آفس نمبر۱۲، سیکنڈ فلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔فون: ۲۸۰۳۰۹۶-۰۵۱۔ تقسیم کنندہ:   کتاب سرائے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۱۴۰۔قیمت: ۵۸۰ روپے۔

اس کتاب میں علامہ اقبال کی علمی و فکری زندگی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ کتاب کے  حرفِ اوّل میں ڈاکٹر ممتاز احمد نے لکھا ہے کہ اسلامی فکر کو عالم گیر تناظر میں پیش کرنے کی طرف سب سے پہلے علامہ اقبال نے توجہ مبذول کرائی تھی (ص۹)۔ آج فکرِاقبال کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال نے اسلام اور شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور تحفظ اور اس کی عملی تشکیل کی خاطر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی ضرورت کا احساس دلایا تھا۔ مصنف نے متعدد مقامات پر اقبال کو مغرب کا مداح قرار دیا ہے اور ساتھ ہی صوفیت کا علَم بردار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ اس طرزِفکر کے ساتھ پاکستان ترقی کی کس منزل تک پہنچے گا؟

اقبال اکیڈیمی کے ناظم محمدسہیل عمرنے پیش لفظ میں صحیح لکھا ہے کہ ’’علامہ کی علمی اور  فکری سطح بلند ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اسلامی تہذیب سے تعلق پختہ ہوتا گیا اور قرآنِ مجید کو  سرچشمۂ حیات قرار دینے کا میلان بڑھتا گیا‘‘۔ مصنف نے اقبال کی فکر کو نوجوانوں میں راسخ کرنے کی ضرورت کا لحاظ رکھتے ہوئے علامہ اقبال کی زندگی، ان کی تعلیمی سرگرمیوں، ان کی مغرب پر تنقید اوراسلامی افکارونظریات کی حیات افروز رہنمائی پر نہایت مؤثر انداز میں، اقبال کے اشعار اور نثر کے حوالوں سے ان کی زندگی کا خاکہ پیش کیا ہے۔ ان کا یہ جذبہ لائق تحسین ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو فکرِاقبال سے قریب کیا جائے تاکہ وہ پاکستان کی تعمیر ان افکارونظریات کے مطابق کرسکیں جو علامہ اقبال نے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں پیش کیے۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ ان ابواب میں اقبال کے سوانحی حالات، ان کے افکارونظریات، ان کی تعلیمات اور نثرادِ نو کے لیے پیغام، عصرحاضر کے مسائل سے نبٹنے کے لیے ہدایات اور دیگر موضوعات پر شگفتہ انداز میں اظہارخیال کیا گیا ہے۔

یہ کتاب نوجوانوں کی فکری تطہیر کے لیے نہایت موزوں ہے۔ اسلوبِ بیان سادہ اور لفظی پیچیدگیوں سے پاک ہے۔ کتاب کی قیمت نوجوانوں کے لیے نہیں، بزرگوں کے لیے بھی ہوش ربا ہے۔ (ظفر حجازی)


قائد تحریک اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، علی سفیان آفاقی۔ ناشر: اذان سحر پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۵۶۶۷-۰۴۲۔ صفحات:۱۱۲۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

سید مودودیؒ کی شخصیت ، سوانح اور خدمات پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اسے مولانا مودودی پر پہلی تصنیف کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۵۳ء میں اس وقت سامنے آیا جب فوجی عدالت کی طرف سے مولانا کو سزاے موت سنائی گئی ۔

مصنف معروف صحافی ہیں اور وجۂ تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولانا مودودی کی عجیب و غریب شخصیت ہی تھی جس نے مجھے ان کی زندگی کے بارے میں جستجو پر اُکسایا۔ ایک مولوی جو مولویوں سے قطعی مختلف ہو، ایک لیڈر جو لیڈروں کی محفل میں نمایاں معلوم ہو، ایک پڑوسی جس پر اس کے ہمسایے فخر کریں، ایک باپ جو اپنی اولاد کے لیے باعث ِ رحمت ہو، ایک شوہر جو اپنی بیوی کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہو،ایک حاکم جو اپنے ماتحتوں کی آنکھ کا تارا ہو، یہ تمام خصوصیات مولانا مودودیؒ ہی میں پائی جاسکتی ہیں‘‘ (ص ۱۱)۔

مولانا کی شخصیت کے ان گوشوں کو مولانا کی اہلیہ، صاحب زادے عمرفاروق، پڑوسی اور رفقا کے تاثرات سے واضح کیا گیا ہے۔ ’حاشیے اور یادداشتیں‘ کے تحت مولانا کے مطالعے کا انداز، تقریر کی تیاری کے نوٹس دیے گئے ہیں۔ ’مکاتیب‘ کے تحت مولانا کی خطوط نویسی کو زیربحث لایا گیا ہے اور غیرمطبوعہ خطوط شائع کیے گئے ہیں۔ اسلوبِ بیان بہت دل چسپ ہے کہ قاری پڑھتا چلاجاتا ہے۔ مولانا مودودی کو جاننے کے لیے ایک مفید کتاب۔ (امجد عباسی)


جب خواب حقیقت بنتے ہیں، رفیع الزماں زبیری۔ ناشر:فضلی سنز(پرائیویٹ) لمیٹڈ، سپرمارکیٹ، اُردو بازار، کراچی۔صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

اندرونی سرورق پر ضمنی عنوان (ترکی کے تین سفر) سے مصنف کے خوابوں کا موضوع واضح ہوجاتا ہے۔ پہلا سفر ستمبر ۱۹۸۰ء میں، دوسرا جنوری ۱۹۸۱ء، اور تیسرا ۱۹۸۳ء میں پیش آیا۔  یہ سفر انھوں نے ریڈیو پاکستان کے نمایندے اور رپورٹر کی حیثیت سے اور سربراہانِ مملکت کے دوروں میں شامل رہ کر کیے۔ پہلی بار ترکی گئے تو چند روز پہلے جنرل ایورن کی سرکردگی میں فوج نے وزیراعظم سلیمان ڈیمرل کو برطرف کر کے حکومت پر انقرہ اور استنبول کے علاوہ قبضہ کرلیا تھا۔ اس دورے میں مصنف نے ترکی کے حالات، فوجی حکومت کے عزائم اور جنرل ایورن کی اعلان کردہ پالیسیوں کی تفصیل لکھ بھیجی۔ انقرہ کے بعد استنبول کی سیر بھی کی۔ دوسری اور تیسری مرتبہ وہ   صدرضیاء الحق کے ساتھ جانے والے صحافیوں میں شامل تھے۔ اس بار قونیہ اور ازمیر جانے کا موقع بھی ملا۔ رپورٹنگ کے بعد مصنف نے ہرمرتبہ بڑے ذوق و شوق سے تاریخی مقامات دیکھے اور بازاروں کی سیر کی۔ تیسری مرتبہ واپسی پر انھیں عمرہ ادا کرنے کی سعادت بھی میسر آئی۔

تین اسفار کی اس مختصر مگر جامع داستان میں زبیری صاحب نے بہت کچھ بتا دیا اور کہہ دیا ہے جو اُن کی حب الوطنی، اخوتِ اسلامی، ملّی دردمندی اور خلوص کا عکاس ہے۔ عراق کی فضائوں سے گزرتے ہوئے ایران عراق جنگ میں ۱۵ لاکھ جانوں کے ضیاع اور سات سو بلین ڈالر کے نقصان پر اُن کا دل بھر آتا ہے۔ سعودی عرب کی فضائوں میں اپنے رب سے دعا مانگتے ہیں کہ مقدس سرزمین پر قدم رکھنے کی سعادت بھی جلد نصیب ہو۔ استنبول میں جگہ جگہ انھیں مصطفی کمال کی مذہب دشمنی یاد آتی ہے۔ وہ اتاترک کے بعض اقدامات پر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہیں۔   ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’خلافت کا خاتمہ اگرچہ مصطفی کمال کے ہاتھوں ہوا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے پیچھے استعماری اور صہیونی عزائم کارفرما تھے اور اس کا مقصد عالمِ اسلام کی مرکزیت کو ختم کرنا تھا جس کی نشانی خلافت تھی‘‘ (ص۴۴)۔سادہ اسلوب میں یہ رُوداد ایک ہی نشست میں پڑھی جاسکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


جدید ہتھیار، میربابر مشتاق۔ ملنے کا پتا: مکتبہ نورِحق، شاہراہِ قائدین، کراچی۔ فون: ۴۸۷۴۰۷۴-۰۳۶۴۔ صفحات:۲۹۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

جدید ہتھیار میربابرمشتاق کی تازہ کتاب ہے۔ اس میں سب کو اور بطور خاص نوجوانوں کو ان خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے جو جدید ٹکنالوجی، یعنی موبائل فون، انٹرنیٹ، فیس بک، یوٹیوب کے ذریعے ہمارے معاشرے میں زہر گھولتے جارہے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہوئے کہ جدید ٹکنالوجی سے دُور نہیں رہا جاسکتا، اس سازش کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ مصنف نے بالکل درست کہا کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں مگر مغرب کی ترقی اور چکاچوند کے اثرات ہمارے قلب و ذہن پر تیزی سے مرتب ہورہے ہیں۔ ان اثرات کی کہانیاں روز اخبارات اور دیگر ذرائع سے ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ میربابر نے بھی بہت سی کہانیاں سنادی ہیں۔ اگر کوئی عبرت پکڑنا چاہے تو یہی بہت ہیں۔

کتاب کو کئی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ ہماری اعلیٰ اقدار کو دھندلانے کے لیے کیا کیا سازشیں کی جارہی ہیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ صرف امریکا میں کتنے سو ریڈیو اسٹیشن محض عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ۲۴گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ صرف خطرات سے ہی آگاہ نہیں کیا گیا بلکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بہتر استعمال اور دیکھ بھال کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں۔ زبان رواں اور سادہ ہے۔ پروف خوانی مزید توجہ چاہتی ہے۔ (ڈاکٹر وقار احمد زبیری)


تفہیم الفرقان، اُردو ترجمہ القرآن الکریم از حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ملنے کا پتا: نعمانی کتب خانہ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۲۰۶۱۹۹-۰۳۰۰۔ صفحات:۶۹۶۔ ہدیہ:۸۰۰ روپے، ۴۰۰ میں دستیاب ہے۔

قرآنِ پاک کا مکمل ترجمہ یقینا ایک نہایت گراں بار ذمہ داری کا نازک کام ہے۔    حافظ عمران ایوب لاہوری نے اس کی ضرورت سمجھ کر ہی اس جواں عمری میں یہ کام انجام دیا ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف، حافظ حسن مدنی، حافظ محمود اختر اور دیگر پانچ معروف اسکالروں کی راے میں: اس کی زبان سادہ، مفہوم کامل اور اسلوب دل نشین ہے۔ مختصر حواشی بھی ہیں جن کے لیے مستند کتب تفسیر جیسے: تفسیر طبری، ابن کثیر، قرطبی، فتح القدیر،جلالین، ایسرالتفاسیر اور تفسیر سعدی وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ایک کالم میں عربی آیات، ہر آیت نئی سطر سے اور سامنے کالم میں اس کا ترجمہ درج ہے۔ خوب صورت معیاری پیش کش ہے۔ (مسلم سجاد)

تعارف کتب

  • قرآن مجید ایک تعارف ، ڈاکٹر محمود احمد غازی۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،اے-۴/۱۷- ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔صفحات:۱۲۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[قرآنِ حکیم کے موضوع پر مصنف کے آٹھ دروس یک جا  اور مربوط انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ نظرثانی، حوالہ جات کے اضافوں اور قرآنی آیات کی تصحیح کا اہتمام سیدعزیزالرحمن صاحب نے کیا ہے۔ یہ آٹھ اہم عنوانات پر مصنف کی عام فہم گفتگو ہے۔ قرآنِ مجید کے  ناموں کی معنویت، موضوعاتِ قرآنی، قرآنِ حکیم تھوڑا تھوڑا کیوں نازل ہوا؟ نزولِ وحی کی کیفیت کیا تھی؟ حفاظت ِ قرآن کیونکر ممکن ہوئی؟ قرآنِ مجید کی ترتیب کس طرح ہوئی؟ اور تدوین قرآن کے مراحل کیا تھے؟ مصنف نے سب کچھ، قرآن اور حدیث کی اسناد کے ساتھ اور اس مختصر و جامع اور عمدہ انداز میں سمجھا یا ہے کہ قاری پوری طرح مطمئن ہوجاتا ہے۔]
  •   آسان لغات القرآن ،جمیل الرحمن۔ ناشر: صوت الایمان، ۶- نورچیمبر، بنگالی گلی، گنپت روڈ، لاہور۔ فون:۴۱۵۷۷۴۵-۰۳۴۴۔ صفحات: ۱۶۰۔ ہدیہ: ۲۰۰ روپے۔ [عام افراد کی قرآن فہمی کے لیے یہ لغت مرتب کی گئی ہے۔ قرآن کے الفاظ ’الف‘ سے ’ی‘ تک پارہ وار درج کیے گئے ہیں۔ قاری کو جب ضرورت ہو الفاظ کے معنی حروفِ تہجی کے مطابق بآسانی معلوم کرسکتا ہے۔ قرآن فہمی کے لیے عام فہم اور مختصرلغت۔]
  •  تحسین القرآن ،تالیف: ابوعبداللہ عارف علوی۔ ملنے کا پتا: طیبہ بک سنٹر، بڑا بازار، صدر راولپنڈی۔ فون:۵۵۶۳۷۰۵-۰۵۱۔صفحات:۷۸۔ ہدیہ: ۵۰ روپے۔[یہ قاعدہ حروفِ تہجی کے مخارج اور ان کی خصوصیات کے ساتھ قرآنِ مجید کی مثالوں کے ذریعے تلفظ کی درستی کی طرف رہنمائی کرتا ہے، تاکہ دورانِ تلاوت لحن جلی، یعنی واضح غلطی سے اجتناب کیا جاسکے۔تجوید کے ضروری قواعد کو اختصار سے مرتب کیا گیا ہے۔ ]
  •  المحصنات ، جامعۃ المحصنات کا شش ماہی نیوزلیٹر، مدیرہ: صائمہ افتخار۔ پتا: جامعۃ المحصنات،۸-R،بلاک۸،  ایف بی ایریا کراچی۔ [نیوزلیٹر بہت دیکھے ہیں لیکن اتنا جاذبِ نظر کم ہی دیکھا ہے۔ عہدے داروں کی تصاویر کی بھرمار بھی نہیں ہے جس سے تحریکی اداروں کے نیوزلیٹر بھی بچے ہوئے نہیں ہیں۔ ادارے کی سرگرمیوں کا متوازن تذکرہ۔ مختلف جامعات کا ذکر آجاتا ہے۔ تدریب المعلمات کی متاثر کرنے والے پروگرام کی رپورٹ، الیکٹرانک نیوزلیٹرکی خبر، غرض ۲۲صفحات میں المحصنات کی سرگرمیوں کا مکمل تعارف۔ تعاون کا جذبہ اُبھارنے والا۔ اداریے کے یہ الفاظ مدیرہ کی پختگی فکر کے آئینہ دار ہیں: ’’ہماری عقلی قوتیں معطل ہیں کیونکہ ہم تقلید کرتے ہیں اجتہاد نہیں کرتے، روایت سے کام لیتے ہیں تجدید نہیں کرتے، نقل کرتے ہیں ایجاد نہیں کرتے، حفظ کرکے رٹّے لگاتے ہیں تفکروتدبر نہیں کرتے، دوسروں کے افکار نافذ کرتے ہیں خود نہیں سوچتے۔ لہٰذا سوچیں، تفکروتدبر کریں۔ اپنے لیے عمل کی راہیں نکالیں، جو اُمت وسط کے لیے نوید انقلاب ہوں اور راہِ نجات بھی!‘‘]

Family Law in Islam: Theory and Application [عائلی قانون اسلام میں: اصول اور اطلاق]، ڈاکٹر محمد طاہر منصوری۔ ناشر: شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔

اسلام میں خاندان، عیال کا تصور بہت وسیع ہے۔ قرآنِ مجید میں جہاں اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے، اس کے بعد ہی والدین کے ساتھ ’احسان‘ کی ہدایت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایک زمانے سے ہمارے ہاں بھی (دوسرے لادینی معاشروں کی طرح) ’خاندان‘ یا ’عیال‘ سے مراد ’شوہر بیوی‘ سے تشکیل پانے والاادارہ ہی لیا جاتا ہے، حالانکہ family کے معنی ’ماں باپ اور اولاد پر مشتمل کنبہ‘ (دیکھیے: قومی انگریزی اُردو لغت،مرتبہ: ڈاکٹرجمیل جالبی) ہیں۔ بہرحال عائلی اور عیال کے اس محدود معنوں میں ڈاکٹر محمد طاہر منصوری کی پیش نظر کتاب اسلامی قوانین کی انگریزی زبان میں تذکیر و تفہیم میں ایک مفید اضافہ ہے۔

پہلے باب میں اسلام میں نکاح اور خاندان کے تصور پر گفتگو کی گئی ہے۔ حیرت انگیز افسوس کہ مسلم فقہا کی بیان کی ہوئی ’نکاح‘ کی تین تعریفوں میں مرد اور عورت کے درمیان ’جنسی تعلق‘ ہی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، مگر مصنّف بجاطور پر کہتے ہیں کہ قرآنی تصورِ نکاح میں زوجین کے درمیان طویل رفاقت، باہمی محبت، ہمدردی اور ذہنی ہم آہنگی اہم ہیں، نہ کہ محض جنسی تعلق۔ تاہم نکاح کے وظائف کے ضمن میں وہ بھی جنسی خواہش کی تسکین ہی کو اوّلیت دے کر پہلے اسی کا تذکرہ کرتے ہیں، اور اس کے بعد نسلِ انسانی کی بقا، ذہنی سکون اور اولاد کی دینی و اخلاقی تربیت کا ذکر کرتے ہیں۔

زوجین کے حقوق و فرائض کے سلسلے میں قرآنی احکام واضح ہیں۔ بیویوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگرچہ مرد کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت ہے، مگر شرط یہ ہے کہ سب کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک ہو۔ معاشی ضروریات کی تکمیل، بڑی حد تک مردوں کے فرائض میں ہے اور اُمورِ خانہ داری کی نگہ داشت عورتوں کا فریضہ ہے۔

عہدِنکاح کے قانونی اور درست طریقوں میں مختلف فقہی مدارس، مالکی، شافعی، حنفی اور حنبلی کا ذکر ہے، اور مختلف مسلم ممالک (تیونس، عراق، شام، ایران اور مراکش) میں جدید قانون سازی کا مختصر جائزہ ہے۔ عہدِ طفلی کے نکاح کو بعض فقہی مدارس درست قرار دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں مروج قانون کے مطابق لڑکی اور لڑکے کی عمر کم از کم ۱۸سال ہونی چاہیے۔ کم سنی کے نکاح کو    فسخ کرنے کا اختیار لڑکی کو دیاگیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں مختلف مسلم ملکوں میں اختلافات ہیں۔ جہاں تک ’مہر‘ کا تعلق ہے، اِسے بہت سے لوگ عورت کی ’قیمت‘ یا ’معاوضے‘ کے طور پر لیتے ہیں، جو درست نہیں۔ مرد کا اپنی بیوی کو مہرادا کرنا دراصل نکاح کی ذمہ داریوں کی ادایگی کا ایک علامتی اظہار اور اس کی طرف سے تعلقِ خاطر کا ایک تحفہ ہے۔

جن رشتوں کے حوالے سے نکاح کی ممانعت ہے، قرآنِ مجید میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی حج، عمرہ یا حالت ِ احرام میں نکاح فاسد ہوگا۔ غیرمسلم خواتین سے نکاح کے بارے میں مختلف فقہا اور مدارسِ فکر کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ تاہم ایک اہم فقہی مسلک (امامیہ/جعفریہ) میں ’موقتی نکاح‘ یا متعہ کی اجازت اور دوسرے مسالک میں اس کی ممانعت کا ذکر نہیں، اگرچہ ایران کے حوالے سے ضمناً اس کا تذکرہ ہے۔ (ص ۵)

بیوی اور مطلقہ کے حقوق کے بارے میں بھی قرآن مجید کی آیات، مختلف علما کی آرا اور مسلم ملکوں کے قوانین کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ طلاق، خلع، ظہار، فسخ (عدالتی حکم پر علیحدگی)، عدت، اولاد کی کفالت کے سلسلے میں بھی فقہا کی آرا اور مختلف مسلم ممالک کے قوانین میں اختلافات ہیں۔ مصنف نے ان سب کا تفصیلی جائزہ تو لیا ہے، جو بلاشبہہ ایک مفید کوشش ہے، تاہم انھوں نے اپنی حتمی راے دینے سے گریز کیا ہے۔ قانون سازوں کو اِن تفصیلات سے یقینا آسانی ہوگی کہ انھیں ایک جگہ مختلف نقطہ ہاے نظر مل جائیں گے، مگر ایک عام قاری کی معلومات میں اس سے اضافہ تو ہوگا، لیکن اس طرح وہ انتشارِ فکری کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس راے میں اُسے سہولت نظر آئے، یا جو اُس کی خواہش کے مطابق ہو وہ اُسے اختیار کرے۔ بہتر ہوتا کہ مصنف، دلائل کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر بھی بیان کردیتے۔

پاکستان میں عائلی قوانین کی طرف ابتدا ہی سے توجہ کی گئی۔ ۵۰ کے عشرے میں حکومت نے ایک مجلس قائم کی، جس کی سفارشات پر مشتمل ۱۹۶۱ء میں حکومت ِ پاکستان نے مسلم فیملی لا آرڈی ننس نافذ کیا۔ اس کی تیاری میں علما، قانون دان اور سماجی رہنما (خواتین و حضرات) شامل تھے۔ تاہم بعض علما نے اس قانون کی بعض شقوں (یتیم پوتے کی وراثت، نکاح کے لیے لازمی رجسٹریشن، نکاحِ ثانی کے لیے خاندانی عدالت کی اجازت وغیرہ) سے اختلاف بھی کیا۔ مصنف نے اس سلسلے میں اپنی تفصیلی راے بھی دی ہے۔

کتاب میں ایک دل چسپ اضافہ The Disolution of Muslim Marriage Act 1939 (مسلم نکاح کی تنسیخ کا قانون ۱۹۳۹ء) ہے۔ یہ مفید قانون انگریزی حکومت کے دور کا ہے ، جو بعض حالات اور شرائط پر ایک خاتون کو نکاح کی تنسیخ کا عدالتی حق دیتا ہے۔

بظاہر کمرئہ جماعت کی تدریس میں تشکیل پانے والی اس مفید کتاب میں ناقص ’اشاریہ‘ (دیکھیے India، Psychological ) اور بعض نامکمل آیاتِ قرآنی کی اغلاط اور ترجمانی (ص ۱۰، ۷۸، ۸۸) کھٹکتی ہیں جو اُمید ہے کہ آیندہ اشاعت میں درست کرلی جائیں گی۔

ڈاکٹر محمد طاہر منصوری، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں شریعہ اور قانون کے پروفیسر ہیں۔ اُمید ہے کہ اُن کی یہ تالیف ہمارے قانون کے طلبہ اور قانون سازوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


۱- قرآنی معلومات، صفحات: ۲۶۰۔ ۲-پیغمبرآخرالزماں حضرت محمدؐ کی شخصیت، صفحات:۱۰۴۔ ۳- Life of Prophet Muhammad، صفحات:۴۷۔  ۴-Inter-Faith Essays and Other Articles، صفحات:۱۴۷۔ تالیف:گروپ کیپٹن (ر)عبدالوحید خان۔ حاصل کرنے کے لیے مصنف سے رابطہ کریں۔ اے/۳۶- سائوتھ سنٹرل ایونیو، فیزII، ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، کراچی-۷۵۵۰۰۔ فون: ۳۵۸۹۴۸۸۶-۰۲۱۔

عبدالوحید خان، پاکستان ایئرفورس سے وابستہ رہے ۔ بین المذاہب موضوعات سے خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں۔ ان کی ۱۱ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اس وقت ان کی چار کتب پیش نظر ہیں۔

۱- قرآنی معلومات:اس کتاب کے ذریعے مسلمان کے دل میں قرآن کی محبت کو بڑھانے اور مقاصدسے آشنا اور ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور اس کے مضامین سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش ہے۔

۲- پیغمبر آخرالزماں حضرت محمدؐکی شخصیت

۳- Life of Prophet Muhammad ، اُردو اور انگریزی میں یہ کتابیں، حضوؐر کی سیرت و شخصیت کا ایک عمدہ خاکہ ہیں۔ سیرت کے اہم واقعات کو سامنے لاکر عمل پر اُبھارا گیا ہے۔ موجودہ دور میں مغرب کی جانب سے حضوؐر کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پروپیگنڈے کا توڑ بھی کیا گیا ہے۔ علمی استدلال پر مبنی یہ تحریریں حضوؐر سے محبت کو دوبالا کرتی اور عظمت ِ رسولؐ اور احترامِ رسولؐ کے جذبات بیدار کرتی ہیں۔

۴- Inter-Faith Essays and Other Articles،بین المذاہب ہم آہنگی اور دوسرے موضوعات پر مبنی ۲۱ مضامین پر مشتمل ہے۔ اس میں معاشرے کے بہت اہم اور حساس موضوعات پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ قرآن و سنت اور حالات کے تناظر میں ان پر بات کی گئی ہے، بالخصوص اہلِ مغرب نے اسلام سے جو ایک نام نہاد جنگ شروع کررکھی ہے اس پر اظہارِخیال کیا گیا ہے۔ مغرب این جی اوز کے ذریعے تعلیم و صحت کے میدان میں کام کر کے عیسائیت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور اسلام کو اپنا حریف سمجھ کر اسلام کے بارے میں نت نئے فتنے اُٹھا رہا ہے، اس کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن تو بس سیدھا راستہ دکھانے والی ایک کتاب ہے۔ مختصر انگریزی مضامین زبان و بیان کے اعتبار سے انتہائی سادہ اور عام فہم ہیں۔ (عمران ظہورغازی)


ظفر علی خان___ خطوط و خیوط، ڈاکٹر زاہد منیرعامر۔ ناشر: مسندظفر علی خان ، پنجاب یونی ورسٹی، نیوکیمپس، لاہور۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سرورق کے مطابق یہ کتاب مولانا ظفر علی خان کے ’غیرمطبوعہ خطوط کی روشنی میں‘ ان کا ایک شخصی مطالعہ ہے۔ زاہد منیرعامر پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج علامہ اقبال (اولڈ) کیمپس میں اُردو زبان و ادب کے پروفیسر ہیں۔ گذشتہ دو برس قبل شیخ الجامعہ نے انھیں نیوکیمپس بلاکر شعبۂ ابلاغ عامہ سے منسلک ’مسندِظفر علی خان‘ پر فائز کیا تھا۔ یہ کتاب مصنف کے زمانۂ مسند نشینی کا حاصل ہے۔

کوئی ۲۵سال پہلے موصوف نے مولانا ظفر علی خان کے مکاتیب کا پہلا (اور تاحال) آخری مجموعہ شائع کیا تھا، اب دوسرا مجموعہ پیش کیا ہے۔ اس دوسرے مجموعے کی نوعیت خطوں کے عمومی اور روایتی مجموعوں سے مختلف ہے، اور شاید اسی لیے انھوں نے کتاب کے نام میں خطوط و خیوط کی ترکیب شامل کی ہے (کاش مصنفِ علّام سرورق پر ایک حاشیہ دے کر ’خیوط‘ کے معنی بھی اس مبصر جیسے کم علم قارئین کو سمجھا دیتے۔ بہرحال ہم لُغت کی مدد سے بتائے دیتے ہیں کہ خیوط ’خیط‘ کی جمع ہے (خبط کی نہیں)، معنی ہیں: ’تاگہ‘)۔ اس لفظ کو کتاب سے مناسبت یہ ہے کہ مؤلف نے ان خطوں کی مدد سے مولانا ظفر علی خان کی زندگی کے کچھ خیوط ، یعنی نقوش یا پہلو دریافت کیے ہیں۔ خطوں کو تاریخ وار یا مکتوب الیہ وار ترتیب دینے کے بجاے چند عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے، مثلاً: ’خانگی زندگی پر کچھ روشنی، (اس حصے کے سارے خطوط مولانا کی بیگم کے نام ہیں)۔ عہدِشباب کے نقوش، پاکستان کا درزی، شہید گنج کا غم، کیا مولانا ظفر علی خان واقعی خط نہیں لکھتے تھے؟ وغیرہ۔ کتاب کے سرورق سے سوالیہ نشان لے کر قاری آگے بڑھتا ہے تو فہرست کے عنوانات دیکھ کر اسے خیال آتا ہے کہ مؤلف نے یہاں پھر کچھ ’گھنڈیاں‘ ڈال دی ہیں، مثلاً: ’پاکستان کا درزی‘  ایک گھنڈی ہے۔ یہ شمس الحسن اسٹیٹ سیکرٹری مسلم لیگ کے نام چند سطری خط ہے اور اس کے ساتھ مولانا ظفر علی خان کی نظم ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ سلطنت پاکستان کی قبا کو پاکستان کا درزی (قائداعظم) کب تک اور کیسے رفو کرے گا۔ اس کے بعد حسب ذیل دو شعر ہیں:

ندا آئی کہ مقصد تک پہنچ سکتی نہیں ملّت
نہ سیکھے گی وہ کرنا آبِ خنجر سے وضو جب تک

نہ آئے گا خدا کی راہ میں جب تک اسے مرنا
بہائے گی نہ اس رستے وہ اپنا لہو جب تک

یہ اشعار بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ مولانا ظفر علی خان کی بصیرت کی داد دینی پڑتی ہے۔ انھوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد مملکت خداداد کی زمامِ کار سنبھالنے والے اکثر و بیش تر ذمہ داران اور اعیانِ حکومت خون دینے والے نہیں، دودھ پینے والے مجنوں ثابت ہوں گے۔ پاکستان کی ۶۵سالہ تاریخ مولانا ظفر علی خان کی خداداد بصیرت کی تصدیق کررہی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیے تو معلوم ہوگا کہ تحریکِ حصولِ پاکستان کے دنوں میں اسی خدشے کا اظہار اور بھی کئی لوگوں نے کیا تھا اور کہا تھا کہ ہماری یہ مسلمان قیادت پاکستان میں اسلام دشمن اور وطن دشمن ثابت ہوگی۔ کیا پاکستان کی ۶۵سالہ تاریخ اس کی گواہی نہیں دے رہی؟

کتاب سے مؤلف کی محنت، مہارت اور سلیقہ مندی کا اظہار ہوتا ہے۔ بعض خطوں کے عکس، چند نایاب تصاویر اور محنت سے لکھے گئے حواشی و تعلیقات نے کتاب کی وقعت بڑھا دی ہے۔مولانا ظفر علی خان کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں زاہد منیر ایسا محقّق ملا ہے ۔ کتاب کے آخر میں کتابیات اور مفصل اشاریہ بھی شامل ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


آداب خود آگاہی، عتیق الرحمن صدیقی۔ ناشر: الخدمت پبلشرز، ۱-کینال روڈ پُل، تاج باغ، ہربنس پورہ، لاہور۔ فون: ۴۱۹۱۸۵۰-۰۳۳۴۔ صفحات: ۲۵۰۔ قیمت: ۲۸۰ روپے۔

تزکیہ و تربیت اور تعمیر سیرت جہاں نبی اکرمؐ کے فرائضِ منصبی کا اہم ترین تقاضا تھا وہاں اُمت مسلمہ کی تشکیل اور اس کے مقصد وجود کے حصول کے لیے ناگزیر ضرورت بھی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے اسی مقصد اور ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس میں جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے، اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور سیرتِ نبویؐ کی اتباع کی بات ہے، وہاں رذائلِ اخلاق سے بچنے اور محاسنِ اخلاق کو اختیار کرنے کی ترغیب بھی پائی جاتی ہے۔ ان مضامین میں قرآنِ مجید، نبی اکرمؐ، اولین وحی، حدیث و سنت، محبت الٰہی کا حقیقی معیار، اُمت مسلمہ، دعوت و تبلیغ، ایمان و عملِ صالح، شیطان کی چالیں، جھوٹ، شراب، لہوالحدیث، سلام، حیا، امانت اور عہدوپیمان، شکر، تفکر، حسنِ نیت،بخل، صدق و سچائی جیسے موضوعات پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ متفرق مضامین کا یہ مجموعہ حقیقت میں اسلامی تعلیمات کا خوب صورت مرقع ہے۔ حوالے، حواشی اور کتابیات کا اہتمام مصنف کی عرق ریزی پر دال ہے۔ زبان و بیان میں ادبی چاشنی، مضامین کی تیاری میں تحقیق کا رنگ اور تالیف و تسوید میں سلیقہ پایا جاتا ہے۔ تزکیہ و تربیت اور تعمیرسیرت کے لیے مفید کتاب۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


اسرائیل آغاز سے انجام کی طرف، میربابر مشتاق۔ ناشر: راحیل پبلی کیشنز،اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۸۷۶۲۲۱۳-۰۳۲۱۔ صفحات:۳۵۰۔ قیمت:۳۹۰ روپے۔

یہ کتاب اسرائیل، امریکا اور اقوام متحدہ کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتی ہے۔ اگرچہ اس کتاب کا جذبۂ محرکہ فریڈم فلوٹیلا کے قافلے پر اسرائیلی فوج کا افسوس ناک اور سفاکانہ حملہ ہے، مگر اسی واقعے کی بنیاد پر اسرائیل کی تاریخ، قیام اور بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی انتہا، امریکا اور اقوامِ متحدہ کی اسرائیل کی بے جا حمایت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کو وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے۔

فلسطین کا جغرافیہ، تاریخ اور سیاسی منظرنامہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی  چھے عشروں کی جدوجہد آزادی اور حماس کی تاسیس و ارتقا اور قربانیوں کی طویل داستان کو سلیس پیرایے میں بیان کیا گیا ہے۔ حماس کے رہنما خالدمشعل کا خصوصی انٹرویو ،فلسطین کی پُرعزم دختر شہیدوفا ادریس کا تذکرہ اور امریکا کی انسانی حقوق کی نمایندہ راشیل کوری کی لازوال قربانی کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ایسے باضمیر یہودیوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو اسرائیل کے غدار ٹھیرے ہیں مگر ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کے لیے نئے نئے انکشافات کر رہے ہیں۔

ترکی واحد ملک ہے جس نے اسرائیلی ناجائز ریاست کے خلاف عالمی سطح پر پُرزور آواز بلند کی ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کی پُرزور مذمت کے واقعات اور ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوگان کا ورلڈ اکانومک فورم میں سابقہ اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کے بارے میں جرأت مندانہ موقف کااظہار اور اُس کی سنسنی خیز تفصیلات بھی موجود ہیں۔

فلسطین پر یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے الفاظ میں ’’یہ کتاب ان شاء اللہ انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے اور مسلمان اُمت کو اس کی ذمہ داریوں کا شعور دلانے کی مفید خدمات انجام دینے کا ذریعہ بنے گی اور مصنف کے لیے دنیا اور آخرت میں اجرعظیم کا وسیلہ بنے گی‘‘۔ اُمت مسلمہ کا درد رکھنے والے ہرمسلمان کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (طاہرآفاقی)

تعارف کتب

  •  پیارے نبیؐ اور پیارے بچے، پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق کلوٹا۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات:۱۹۹۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[بقول مصنف:’پیارے بچوں کے لیے پیارے رسولؐ کی تعلیمات، اخلاقِ حسنہ، خوب صورت واقعات اور اسوئہ نبویؐ کا حسین گل دستہ پیش کیا ہے‘۔ مصنف نے آں حضوؐر کی زندگی کے بعض واقعات کا ذکر کر کے کسی خاص موقعے پر آپ کے طرزِعمل یا فرمودات کو زیادہ تر احادیث کی روشنی میں یا سیرت کی معروف و مسلمہ کتابوں کے حوالوں سے پیش کیا ہے۔ تقریباً ہرصفحے پر ’پیارے بچو، پیارے بچو‘ غیرضروری تھا۔ نہایت ضروری تو یہ ہے اللہ کا اِملا صحیح(اللہ) لکھا جائے۔]
  •  معارف مجلۂ تحقیق  ، مدیر: پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری۔ پتا: ادارہ معارف اسلامی، ڈی-۳۵، بلاک۵، ایف بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات:۱۸۲+ ۱۰ انگریزی صفحات۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[ادارہ معارف اسلامی کراچی کے علمی، فکری و تحقیقی مجلے معارف مجلۂ تحقیق کا پانچواں شمارہ (جنوری-جون ۲۰۰۳ء) شائع ہوگیا ہے۔ تحقیقی مقالوں میں: ’پاکستان میں زکوٰۃ آرڈی ننس ۱۹۸۰ء کا نفاذ، ایک جائزہ‘ از سعدیہ گلزار، ’حضرت ابوبکرؓ کا اجتہادو احیاے دین‘ از صوفیہ فرناز، فرزانہ جبیں، ’میسنری تنظیم، ایک جائزہ‘ از رضی الدین سید، ’سید قطب:فکروفن کے آئینے میں‘ از عمیررئیس اہم ہیں، جب کہ عورت، مغرب اور اسلام از ثروت جمال اصمعی پر تبصراتی مقالہ اسحاق منصوری کا ہے۔ انگریزی حصے میں پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔]
  • حقوقِ انسانی کی رپورٹ ۲۰۱۲ء، مرتبہ: کمال فاروقی، ہیومن رائٹس نیٹ ورک، سندھ چیپٹر۔ ملنے کا پتا: قبا آڈیٹوریم، بلاک۱۳، فیڈل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۶۴۴۰۷-۰۲۱۔ صفحات: ۱۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔ [حقوقِ انسانی کی جو پامالی آج کل ہے، عالمی سطح پر، قومی سطح پر، شہروں میں، دیہاتوںمیں (اور گھروں میں بھی)، محتاجِ بیان نہیں۔یہ نیٹ ورک آگہی کے معیارکو بلند کرتا ہے اور اُمید کرتا ہے کہ اس جدوجہد کے نتیجے میں صورتِ حال میں بہتری آئے گی۔ ۲۹ عنوانات کے تحت ۲۰۱۲ء کی خبریں اور واقعات پیش کردیے گئے ہیں۔ ’حقوقِ انسانی‘ کی واضح تعریف ہونا چاہیے۔ ہر خبر لازماً حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، مثلاً بجٹ کا پیش کرنا، یہ کس طرح خلاف ورزی ہے؟ (ص ۱۴۳)۔ کچھ سمری ہوتی کہ کتنے قتل، کتنی عصمت دریاں؟]
  •  اے میری بہن! کیا آپ جنت میں جانا چاہتی ہیں؟ تالیف: عبدالقدوس سلفی۔ ناشر: دارسیاف، سیکنڈ فلور، رحمن پلازا بالمقابل جلال دین ہسپتال، مچھلی منڈی، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۶۴۱۲-۰۴۲۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔ [کتاب کا مدعا مسلم عورت میں دین کا ذوق و شوق پیدا کر کے دین کے ساتھ وابستہ کرنے، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے گہرے شعور کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اور واقعات کے ذریعے خواتین کو مناسب لباس اور پردے کی طرف راغب کیا گیا ہے۔ یہ کتاب خواتین اور ان کی نئی نسل کے لیے رہنمائی کا ذریعہ اور جنت میں جانے کا راستہ دکھاتی ہے۔ ]
  •  مجلہ الشباب ،مدیر: عزیرصالح۔ پتا: سیدمودودی انٹرنیشنل اسلامک ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ، وحدت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۶۶۹۴-۰۴۲۔صفحات: ۴۸+۲۴ (انگریزی صفحات)۔ قیمت: درج نہیں۔[الشباب عربی اور انگریزی زبانوں پر مشتمل سید مودودی انٹرنیشنل اسلامک ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کا ترجمان ہے جو ادارے کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شبیراحمد منصوری کی سرپرستی میں نکلتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی غرض و غایت یہ تھی کہ عالمِ اسلام اور دیگرممالک سے آنے والے طلبا کو اسلام کے افکاروتعلیمات جدیدخطوط پر سکھائے جائیں اور پھر وہ اپنے ممالک میں جاکر اسلام کی حقیقی فکر کو پیش کرسکیں۔ مجلے کے مضامین کا تنوع اور دیگر تعلیمی و ہم نصابی سرگرمیاں اسی مقصد کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ انگریزی حصے کے مدیر پروفیسر جمیل اختر ہیں۔ ادارے کی سرگرمیوں کی تصویری جھلکیاں بھی پیش کی گئی ہیں۔]

 ۲-مجلہ صحیفہ، ۵۰ سالہ اشاریہ، مجلس ترقی ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۸۷۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔ ۲-اشاریہ ششماہی علوم القرآن، علی گڑھ (۱۹۸۵ء-۲۰۱۰ء)۔ صفحات:۴۰۔ قیمت: ۶۰ روپے۔  ۳-اشاریہ ماہنامہ الرحیم، سندھ یونی ورسٹی، جام شورو۔ صفحات: ۲۱۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔ ۴-اشاریہ ماہنامہ الحق، دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک۔ صفحات:۴۹۸۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔۵- اشاریہ ماہنامہ القاسم (مئی ۱۹۹۸ء تا دسمبر ۲۰۱۰ء)، جامعہ ابوہریرہ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، ضلع نوشہرہ۔ صفحات:۲۱۸۔ قیمت: درج نہیں۔ ۶-اشاریہ ماہنامہ حق چاریار، متصل جامع مسجدمیاں برکت علی، ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور۔ صفحات:۱۷۹، قیمت:درج نہیں۔

لکھنے پڑھنے والوں کو کسی خاص موضوع پر کتابوں اور مضامین کی تلاش میں بالعموم دقت پیش آتی ہے، مثلاً ترجمان میں پروفیسر نجم الدین اربکان پر پروفیسر خورشیداحمد کا مضمون چھپا تھا؟ کب؟ یا صحیفہ میں ڈاکٹر وحید قریشی کے چند مضامین چھپے تھے؟ کن کن شماروں میں؟ یا قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلے کا ذکر رسالہ الحق میں آیا تھا؟ کس ماہ و سال کی بات ہے؟___ فوری طور پر ایسے سوالات کے صحیح جواب کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ بسااوقات اُن رسائل کے مدیرانِ کرام بھی فوری جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہاں، اگر متعلقہ رسائل کے اشاریے بن چکے ہوں تو صحیح جواب مل سکتا ہے___ کسی خاص تحریر کو تلاش کرنے کے لیے اشاریوں کی یہ افادیت اور اہمیت مسلّمہ ہے اور اسی لیے علمی دنیا میں اشاریہ، ایک بنیادی ذریعۂ تحقیق (tool) کی حیثیت رکھتا ہے۔

ترجمان کے انھی صفحات میں متعدد رسائل و جرائد کے مطبوعہ اشاریوں پر تبصرے شائع ہوتے رہے ہیں۔ محمدشاہدحنیف ہرسال عالمی ترجمان القرآن کے ۱۲مہینوں کا موضوع وار اشاریہ تیار کرتے ہیں جو قارئین کو عندالطلب مہیا کیا جاتا ہے۔

موصوف نے حالیہ برسوں میں متعدد رسائل و جرائد کے چھوٹے بڑے اشاریے تیار کیے ہیں، مثلاً: حکمت قرآن(لاہور)، منہاج(لاہور)، ادبیات(لاہور)، میثاق(لاہور)، لولاک (ملتان)، انشاء(کراچی)، اقبالیات (لاہور)، اقبالیات(سری نگر)، اقبال ریویو (حیدرآباد دکن)۔ بعض رسائل کی اشاریہ سازی میں محمد سمیع الرحمن اور محمد زاہد حنیف نے ان کی معاونت کی ہے۔

ہر اشاریے کے آغاز میں متعلقہ رسالے کا مختصر تعارف شامل ہے اور اشاریے سے استفادہ کرنے کا طریقہ بھی واضح کیا گیا ہے۔ الحق اور صحیفہ کے اشاریے نسبتاً ضخیم ہیں۔ اس ضخامت کی ایک وجہ حوالوں کی تکرار بھی ہے۔ مذکورہ کتابوں میں تین طرح کے اشاریے بنائے گئے ہیں: ۱-شمارہ وار ۲-موضوعاتی اور ۳-مصنف وار۔ ہمارے خیال میں اشاریہ مصنف وار اور موضوع وار ہو تو کافی ہے ۔ اگر موضوع وار ہے تو آخر میں اشاریہ مصنفین (+مترجمین+مبصرین) بنادیا جائے۔

جملہ اشاریوں کے مرتب محمد شاہد حنیف داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑا کام انجام دیا ہے۔ ان کے اشاریہ سازی کے اسلوب اور طریقہ کار پر کہیں کہیں اختلاف ہوسکتا ہے (ہمیں بھی ہے) لیکن ان کی محنت بہرصورت قابلِ داد ہے۔ ان اشاریوں کی افادیت لکھنے پڑھنے والوں اور تحقیق کاروں، یونی ورسٹی کے اساتذہ اور تحقیقی مقالہ نگاروں کے لیے ہے۔ اس لیے ہرلائبریری کو کوشش اور اہتمام کرکے یہ سارے اشاریے اپنے ہاں محفوظ رکھنے چاہییں۔ جن اداروں نے یہ اشاریے تیار کرائے ہیں اگر وہ انھیں انٹرنیٹ پر بھی دے دیں تو خلقِ خدا کو فائدہ اور انھیں ثواب ملے گا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سہ ماہی التفسیر کراچی، (شخصیات نمبر)، مدیراعلیٰ: پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج۔ مجلس التفسیر، بی-۳، اسٹاف ٹائون، یونی ورسٹی کیمپس، جامعہ کراچی، کراچی۔ صفحات:۶۰۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

زیرنظر خاص نمبر، ماضی بعید اور ماضی قریب کی ۳۵مسلم شخصیات کے علمی اور فکری کارناموں پر مشتمل ہے، ہر شخصیت پر ایک مقالہ۔ عالمِ اسلام کی ان مایہ ناز شخصیتوں میں سے، ماسوا امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور علامہ محمد حسین طباطبائی، باقی تمام کا تعلق برعظیم پاک و ہند سے ہے۔ ان مقالات کی تحریک سہ ماہی التفسیر کے مدیراعلیٰ نے کی تھی۔ بیش تر مقالے ان کے متعلّمین کی قلمی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ جو کمی رہ گئی، اسے اَوج صاحب کی فرمایش اور تدبیر سے ان کے حلقۂ علم و دانش کے احباب نے پورا کر دیا۔

مقالات کا مرکزی موضوع اسلامی نشاتِ ثانیہ ہے مگر اس سلسلے میں سیّد جمال الدین افغانی، سیّد قطب، علی شریعتی اور روح اللہ خمینی پر کوئی مقالہ شامل نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ شاید ’صفحات کی تنگ دامنی‘ ہو، تاہم اُمید ہے جلددوم میں مذکورہ شخصیات پر بھی مضامین لکھوا کر شامل کیے جائیں گے۔

چند شخصیات ایسی ہیں جو نسبتاً غیرمعروف ہیں اور ان کے بارے میں زیادہ لوازمہ نہیں ملتا، جیسے قاضی بدر الدولیٰ (۱۷۹۲ء-۱۸۶۳ء) جو جنوبی ہند کے ایک معزز اور مشہور خاندان نوائط سے تعلق رکھتے تھے۔ حدیث، سیرت اور فقہ پر عربی فارسی اور اُردو میں ۵۳کتابیں ان سے یادگار ہیں۔ اسی طرح مولانا عبدالرؤف دانا پوری (۱۸۷۳ء-۱۹۴۸ء) جو اپنی بلندپایہ کتاب الصحّ والسیر کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ یا صوفی عبدالحمید سواتی (۱۹۱۷ء-۲۰۰۸ء) جنھوں نے معالم العرفان فی دروس القرآن کے نام سے ۲۰جلدوں میں تفسیرقرآن شائع کی۔ وہ اپنی تفسیر میں شاہ ولی اللہ اور عبیداللہ سندھی سے متاثر نظر آتے ہیں۔

بعض مقالات نسبتاً زیادہ محنت سے لکھے گئے ہیں، جیسے ڈاکٹر محمد رفیع الدین پر انجینیرنویداحمد کا مقالہ یا سیدابوالاعلیٰ مودودی پر محمد شکیل صدیقی صاحب کا مقالہ، مگر محمد اسد پر سیّدمحمدکاشف کا مقالہ مختصر اور تشنہ محسوس ہوتا ہے۔اسی طرح ڈاکٹر محمد حمیداللہ جیسی نابغۂ روزگارشخصیت پر مضمون بھی بھرپور اور جامع نہیں ہے۔ اس سے ان کے حالات کا تو کچھ اندازہ ہوتا ہے لیکن ان کے علمی کارناموں کا خاطرخواہ تعارف سامنے نہیں آسکا۔

غالباً ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ضابطے کے مطابق، انگریزی میں ہرمضمون کا خلاصہ بھی شامل ہے۔بحیثیت مجموعی زیرنظر نمبر ایک بہت عمدہ، اچھی اور کامیاب پیش کش ہے اور مدیراعلیٰ اور مدیرانِ معاون مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کچھ وقفے کے بعد اور مناسب تیاری کے ساتھ رسالے کا شخصیات نمبر دوم (اور اگر ہوسکے تو حصہ سوم بھی) پیش کیا جائے تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)


افکارِ رمضان، حسن البنا شہید، ترجمہ: ظہیرالدین بھٹی۔ ناشر: البدرپبلی کیشنز، ۲۳-راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۲۵۰۳۰- صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

امام حسن البنا شہیدؒ کے بارے میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ وہ ایک کامیاب داعی اور مردم ساز شخصیت تھے، اس لیے آپ نے کتابیں نہیں لکھیں سواے چند یادداشتوں اور رسالوں کے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام البنا کا علمی ورثہ ہزارہا صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ وہ مضامین ہیں جو رشیدرضا کے رسالے المنار، محب الدین الخطیب کے مجلے الفتح، مجلہ اخوان المسلمون، النذیر، الاعتصام اور الشہاب نامی رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ اس علمی ورثے کو یک جا کرنے، مرتب کرنے اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کر کے پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ جہاں امام البنا کے افکار کو عام کرنے کا ذریعہ ہوگا وہاں اسلامی تحریک کے لیے مفید فکری رہنمائی کا سامان بھی ہوگا۔

افکارِ رمضان رمضان کے موضوع پر امام البنا کے مضامین کا اُردو ترجمہ ہے جنھیں خواطر رمضانیہ کے نام سے مصر میں عربی میں شائع کیا گیا تھا۔ امام البنا کے ان مضامین میں رمضان المبارک کے مختلف پہلوئوں کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ جہاں تزکیۂ نفس کا سامان ہے وہاں قرآن سے حقیقی تعلق اور رمضان کے عملی تقاضوں کے لیے رہنمائی بھی ہے۔  روزہ شکنی کے مرتکب اور ماہِ صیام سے غفلت برتنے والوں کے لیے شفقت بھرا پیغام ہے۔ عصرحاضر کے مسائل اور رمضان اور دیگر متفرق موضوعات زیربحث آئے ہیں۔ ’فقہ صیام‘ کے تحت روزے کے مختلف مسائل اور ان کی حکمتیں بھی بیان کردی گئی ہیں۔ امام البنا نے اُمت کو پوری  دل سوزی سے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ماہِ رمضان کا خیرمقدم رب سے تعلق کو مضبوط کر کے اور  اللہ سے اپنے کیے گئے عہدوپیمان کی تجدید سے کرے۔ یہ جہاں حصولِ تقویٰ کا ذریعہ ہوگا وہاں اُمت کے مصائب کے خاتمے اور سربلندی کا سبب بھی بنے گا۔ البدر پبلی کیشنز اس مفید کاوش پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ (عمران ظہورغازی)

Living in Allah's Presence [اللہ کو حاضرو ناظر مانتے ہوئے زندگی گزارنا]، عبدالرشید صدیقی۔ ناشر: اسلامک فائونڈیشن، لسٹر(برطانیہ)، تقسیم کار: Kube پبلشنگ لمیٹڈ۔       فون: ۲۴۹۲۳۰-۱۵۳۰-۰۰۴۴۔ ای-میل : info@kubepublishing.com

اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے رفیق عبدالرشید صدیقی نے اس سے پہلے Lift up Your Hearts! کے نام سے دو جلدوں میں جمعہ کے ۵۲خطبات پیش کیے ہیں۔ وہ تین عشروں سے، پہلے یونی ورسٹی آف لسٹر کی مسجد میں اور وہاں سے ریٹائر ہوکر اب اسلامک فائونڈیشن لسٹر کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں۔ یہ ۲۵خطبات دوسرے دور کا انتخاب ہیں۔ تزکیۂ نفس کی ذیل میں نیت،اخلاص، تقویٰ، یقین، توکل، تواضع، استقامت اور حکمت جیسے موضوعات لیے گئے ہیں۔ کچھ دوسرے موضوعات: صبر، شکر، دعا، خشوع فی الصلوٰۃ، حسنِ خلق، حیا، امربالمعروف نہی عن المنکر۔خطیب محترم نے خطبہ دینے والوں کو کچھ گُر کی باتیں بھی بتائی ہیں اور کتاب کے آخر میں عربی میں خطبۂ ثانی (مع انگریزی ترجمہ ) اور خطبۂ اوّل کی ابتدا عربی میں (مع انگریزی ترجمہ )، جس کے بعد انگریزی خطبہ پڑھا جائے گا، یا خطیب اس کے نکات اپنی زبان میں ادا کرے گا۔

ہرموضوع کے نظری اور عملی پہلوئوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤثرانداز سے بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ان کی افادیت ان اہم تربیتی موضوعات پر مختصر، مؤثر، مستند تحریروں کی ہے، جو جامعات، کالجوں اور اسکولوں کے مجلات، اخبارات کے مذہبی کالموں اور جمعہ ایڈیشنوں میں کام آسکتے ہیں۔ یہ ان تک پہنچیں کیسے؟ ای میل کو کام میں لائیں۔ (مسلم سجاد)


بہت رُسوا ہوئے ہم تارکِ قرآں ہوکر، تالیف: ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل۔ ناشر: شعیب سنز اینڈ بک سیلرز، جی ٹی روڈ، مینگورہ، سوات۔ فون: ۸۹۲۸۲۳۹-۰۳۰۳۔صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

ڈاکٹر امیرفیاض کی یہ تازہ کتاب ہے۔ اس سے پہلے ان کی نو کتب شائع ہوچکی ہیں جو قرآن کے ساتھ محبت اور تعلق استوار کرنے والی ہیں۔ اس میں ۴۰ موضوعات پر اظہارِخیال کیا گیا ہے۔ گویا یہ ایک گلدستہ ہے جس کی خوشبو سے قرآن سے شیفتگی، ذوق و شوق اور محبت و تعلق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

یہ غیرملکی مشاہیر کے مضامین اور قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہوکر دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کا دل نواز اور خوب صورت تذکرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اور مغربی تہذیب کا مقابلہ قرآن کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ دور میں روشن خیالی کے نام نہاد علَم برداروں کے لیے فکرانگیز واقعات جمع کر کے قرآن کے ساتھ جوڑنے کے لیے یہ اہم کاوش ہے۔ مولانا حالی، ماہرالقادری اور اقبال کے اشعار جابجا نگینے کی طرح جڑے ہیں اور اثرآفرینی میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ قرآن کے ساتھ وابستہ کرنے اور اس کا ذوق و شوق پیدا کرنے میں یہ کتاب بہت معاون ہے۔ قرآن کے حوالے سے کام کرنے والوں کے لیے ایک رہنما کتاب۔ (عمران ظہورغازی)


اذانِ اقبال، پروفیسر خیال آفاقی، مرتب: پروفیسر مقصود پرویز۔ ناشر: مکتبہ المنیرہ، بی-۲۰۲، نویدآرکیڈ، آصف نگر، دستگیر نمبر۹، ایف بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ صفحات:۲۸۸۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفہ اتنا پُرکشش ہے کہ آج تک اس کی تفہیم کا کام جاری ہے۔ نئے نئے زاویوں سے فکراقبال کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ان کے شاعرانہ کمالات، شعری خصوصیات اور ان کے کلام کی فنی باریکیوں پر توجہ دی جارہی ہے۔ دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں کلامِ اقبال کے تراجم ہورہے ہیں۔ ان کی فکری گہرائی اور وسعت پر علمی کانفرنسیںہورہی ہیں۔ اقبال صدی کے موقع پر اور اس کے بعد مختلف جامعات میں اقبال پر متعدد تحقیقی مقالے لکھے گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیرتبصرہ کتاب اذانِ اقبال مصنف کی ۲۹عنوانات پر کراچی میں قائم بزمِ اقبال کے نیازمندوں کے حضور ’اقبال نشستوں‘ میں گفتگوئوں کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے ہرموضوع پر اپنے موقف کی تائید میں اقبال کی نظم اور نثر سے استشہاد کیا ہے۔ مرتب پروفیسر مقصود پرویز نے لکھاہے کہ پروفیسر خیال آفاقی کو اقبال سے ایسا روحانی تعلق ہے جیسا خود اقبال کو مولانا روم سے تھا۔ (ص۶)

مصنف نے جن ۲۰عنوانات پر گفتگو کی ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ’لب پہ آتی ہے دعا‘۔ لفظیاتِ اقبال، اقبال ترانہ، اقبال بت شکن، مشاہدات و مکالماتِ اقبال، آخری انیسواں عنوان ’اقبال کے حضور‘ مصنف کا اقبال کے حضور منظوم خراجِ عقیدت ہے۔ اقبال کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ کے بارے میں مصنف کہتے ہیں کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظم صرف بچوں کے لیے ہے، جب کہ ان کے خیال میں یہ نظم ہرآدمی کے لیے دستور کردار کی حیثیت رکھتی ہے(ص۷)۔ ’اقبال‘ کے عنوان سے نہایت پُرمغز، بصیرت افروز اور حقیقت پسندانہ گفتگو ہے۔ کہتے ہیں کہ اقبال نے اپنی فکر اور شاعری سے اُردو ادب میں ایک ایسا انقلاب پیدا کردیا جس کی نظیر کسی دوسرے ادب میں ملنی مشکل ہے۔ اقبال نے اپنے دور کی شاعری سے قطعی مختلف لب و لہجے میں اس انداز سے بات کی جیسے کوئی صحرا میں اذان دے۔ اقبال کی شاعری اور فکری بلندیوں کو کوئی دوسرا شاعر نہیں پہنچتا۔ آپ روایت پسندوں کی مخالفت کے باوجود اپنی لَے میں نغمہ سرائی کرتے رہے۔ اقبال عمل کے شاعر تھے، انھیں ہر وہ بات ناپسند تھی جس پر عمل نہ کیا جائے۔ (ص۱۷)

مصنف کا اسلوبِ بیان شگفتہ، دل نشین اور مؤثر ہے۔ وہ فکرِاقبال کی گتھیاں سلجھاتے ہیں اور نئی نسل کو اقبال کا پیغامِ عمل عطا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ علامہ اقبال کا فکربلند اور ان کا نورِ بصیرت عام کرنے میں اس کتاب کو کامیابی حاصل ہوگی۔(محمد ظفر حجازی)


نبویؐ دلائل و امثال، محمد جلیل خان۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔ صفحات ۱۷۳۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

عام طور سے احادیث کی تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی، خود ہی واضح ہوتی ہیں۔ ۱۷۳صفحے کی اس کتاب میں ایک ترتیب سے اہم موضوعات پر ۱۰۲ احادیث پیش کی گئی ہیں۔ عربی متن ایک کالم میں، سامنے دوسرے کالم میں ترجمہ، پڑھنے میں، سمجھنے میں آسانی، تشریح بہت مختصر، اکثر نصف صفحے کی۔ صفحے سے زیادہ شاید ہی کوئی ہو۔ احادیث ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے کی بھی ہیں۔ سات ابواب میں سے چند: علم نافع، مآل کار، حلال و حرام، فہم دین۔ وجہِ انتخاب اس کا دلیل یا مثال ہونا ہے۔ محمد جلیل خان نے اس سے پہلے قرآنی دلائل و امثال مرتب کی ہے۔ اب صدیقی دلائل و امثال مرتب کررہے ہیں، اور فاروقی، عثمانی، علوی تک کے ارادے ہیں۔ اللہ مکمل کروائے۔ افتخار بلخی کی جواہر رسالت یاد آئی۔ (مسلم سجاد)


اے میرے لخت ِ جگر! (جلد اوّل)، ابوعثمان ماسٹر عبدالرؤف۔ ناشر: الرشید پبلی کیشنز، مراد پور p/o قریشی والا، (لودھراں)۔ صفحات:۲۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔

کیا کتاب ہے! اشتہار میں کہا گیا: سیکڑوں کتابوں کی درس گاہ، اور سرورق پر لکھا گیا:  ’ہزاروں صفحات کا نچوڑ‘ ایسا غلط بھی نہیں۔ مرتب ابوعثمان نے زندگی بھر جو کچھ بھی پڑھا اس میں سے کام کی باتیں نوٹ کرتے رہے۔ اب مرتب کر کے یہ مفید واقعات، معلومات، اقتباسات پیش کردیے ہیں۔ جلددوم کچھ نئے عنوانات کے ساتھ زیرطباعت ہے۔

کتاب کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ احاطہ مشکل ہے، جھلکیاں ہی دکھائی جاسکتی ہیں۔ سب سے پہلے کتاب پڑھنے کی دعا ہے، پھر والدین کی قدر کیجیے کتاب بہترین ساتھی ہے کچھ کرلو نوجوانو! اُٹھتی جوانیاں ہیںصحت مشاہیر کی نظر میں نو صحت مند عادات ارشاداتِ اکابر اقوالِ زریں آگے بڑھیے،ہر عنوان کے تحت اتنے واقعات، اتنے مؤثر انداز سے کہ لخت ِ جگر کو عمل کرنا ہی کرنا ہے۔

یہ کتاب صرف لخت ِ جگر کے لیے نہیں بلکہ ’جگر‘ (بلکہ نورِ چشم کہیں تو چشم) کے لیے بھی ہے۔ خود بھی سیکھیں، اور بچوں کو مناسب رہنمائی دیں۔ اساتذہ کو بھی بہت مدد مل سکتی ہے۔ نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھانے اور اس پر چلانے کے لیے، اسکول و کالج کے مجلے نکالنے والوں کے لیے لوازمہ ہی لوازمہ ہے۔ اخبارات کے ایڈیشن نکالنے والوں کے لیے بھی۔ غرض جو بھی نئی نسل کا خیرخواہ ہے،اسے کسی ذریعے سے کوئی بات پہنچا سکتا ہے، یہ کتاب اس کے لیے بغیر محنت کے، دوسرے کی برسوں کی محنت کا ثمر پیش کررہی ہے۔ ہرمدیر کے میز کی ناگزیر ضرورت ہے۔(مسلم سجاد)

تعارف کتب

  •  قرآنیات ، تالیف: محمودعالم صدیقی۔ ناشر: مدینۃ القرآن، جماعت اسلامی، کراچی۔ فون: ۳۴۹۱۵۳۶۱-۰۲۱۔  صفحات: ۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [قرآنِ مجید کی تلاوت اور فہم کی اہمیت کے پیش نظر ابتدا میں مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت، ’اعجازقرآن‘ کے تحت قرآن کا چیلنج اور اس کی امتیازی خصوصیات، نیز اختلاف قرأت کی نوعیت پر مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے اقتباس دیے گئے ہیں (حوالوں کا اہتمام بھی مفید ہوتا) جو فہم قرآن کے لیے ترغیب کا باعث ہیں۔ اس کے علاوہ آدابِ تلاوتِ قرآن، مقاماتِ احتیاط، نیز قرآنی خصوصیات کے تحت قرآنِ مجید کے بارے میں مختلف معلومات دی گئی ہیں، مثلاً قرآنِ مجید کے اوّلین تراجم کی تاریخ، جملہ کاتبینِ وحی، کل حرکات (اعراب) قرآن، تفصیل حروفِ قرآن وغیرہ۔]
  •  مسلمان بچے: ان کے لیے قرآن و سنت کی روشن ہدایات، شیخ عمرفاروق، جامعہ تدبرقرآن، ۱۵- بی  وحدت کالونی، لاہور- فون: ۳۷۸۱۰۸۴۵-۰۴۲۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: (وقف) [مرتب نے ، جن کی کتابیں مشہورِ زمانہ ہیں، کسی دوست کے کہنے پر بچوں کے لیے آیات و احادیث کا ایک انتخاب مرتب کرکے شائع کردیا ہے۔ آیات و احادیث سب انتہائی مختصر ہیں، آسانی سے یاد کی جاسکتی ہیں۔ عنوانات قائم کر کے ۵۵۸ آیات میں تقریباً سب ضروری ہدایات آگئی ہیں۔ درمیان میں احادیث بھی دی گئی ہیں۔ اس کے بعد ۵۰ آیات اور  پھر ۴۰؍ احادیث ترجمہ اور منظوم ترجمے کے ساتھ دی گئی ہیں۔ ایک بہت مفید مجموعہ معیاری طباعت کے ساتھ دستیاب ہے اور فی سبیل اللہ ہے۔ بس گھر آکر لینے کی شرط ہے۔ بچوں کو یہ مختصر آیات و احادیث یاد کروا دی جائیں تو زندگی بھر کے لیے ان کا سرمایہ ہوں گی اور ان کے اخلاق و کردار پر لازماً اثرات ہوں گے۔ تعمیرکردار و سیرت کے نام پر داخلے دینے والے تعلیمی اداروں اور نیٹ ورکس کے ذمہ دار ہر طالب علم تک ایک نسخہ پہنچانے کی فکر کریں۔]
  •  نمازِ تہجد ، خلیل الرحمن چشتی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ تحریکِ محنت، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔ فون: ۴۵۳۵۳۳۴-۰۵۱۔ صفحات: ۷۸۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[نمازِ تہجد کی کیا اہمیت ہے؟ بقول مؤلف: ایک مسنون عبادت، وسیلۂ تقرب، جذبۂ تشکر، احساسِ عبدیت، نصابِ قیادت، مجلس تفقہ و تدبر اور ایک روحانی تربیت گاہ۔ تہجد کے لیے اصولی ہدایات اور فقہی پہلو، نبی کریمؐ کا تہجد کا معمول اور طریقہ، تہجد سے اسلامی قیادت کی تیاری و تقاضے، ذکراذکار اور دعائیں، تزکیہ و تربیت اور تقربِ الٰہی کے مختلف طریقے اختصار و جامعیت سے بیان کیے گئے ہیں۔ ]
  • طہارت سے نماز تک روحانی اور طبی فوائد، ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل۔ ملنے کا پتا: شعیب سنز پبلشرز، جی ٹی روڈ، مینگورہ، سوات۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[نماز اور اس سے متعلق ساری ضروری اور اہم باتیں خصوصاً طبی فوائد بڑے خوب صورت انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ وضو کے اثرات، مسواک کرنے کے فائدے۔ کیا خوب جملہ نقل کیا ہے: ’’جب سے ہم نے مسواک کو چھوڑا ہے اس دن سے ڈینٹل سرجن کی ابتدا ہوئی ہے‘‘ ۔نماز کے روحانی اور طبی فوائد کے لیے اور اس کے مسنون طریقے جاننے کے لیے یہ نماز کے موضوع پر ایک اچھا اضافہ ہے۔]
  •  سیدہ فاطمۃ الزہراؓ قدم بہ قدم،  مؤلف: عبداللہ فارانی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۶۰۳۷۴-۰۲۱۔ صفحات:۲۳۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [معروف ادیب اشتیاق احمد نے قلمی نام عبداللہ فارانی سے سیرتِ رسولؐ و صحابہؓ کا سلسلہ ’قدم بہ قدم‘ کے عنوان سے شروع کیا ہے۔ سیدہ فاطمہ الزہراؓ کی سیرت پر مبنی یہ کتاب بھی اسی کا تسلسل ہے۔ حضرت فاطمہؓ کی سیرت کے مختلف گوشوں کو واقعاتی انداز میں اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ منظر نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور قاری خود کو ساتھ شریک سمجھتا ہے۔ عام فہم زبان اور حوالوں کا اہتمام کتاب کی خصوصیت ہے۔ تذکرہ سیرتِ فاطمہؓ کے تحت آپؓ کی اولاد کا ذکر کرتے ہوئے امام حسینؓ کی شہادت اور واقعہ کربلا بھی بیان کیا گیا ہے۔ بچیوں اور خواتین کی تربیت کے لیے مفید کتاب۔]
  •  ماہ نامہ ہمدرد نونہال، مدیراعلیٰ:مسعود احمد برکاتی: دفتر ہمدرد نونہال، ہمدرد ڈاک خانہ، ناظم آباد، کراچی۔ فون: ۳۶۶۲۰۴۹-۰۲۱۔صفحات: ۲۷۲۔ قیمت (خاص شمارہ): ۴۵ روپے۔[گذشتہ ۶۱برس سے باقاعدگی سے شائع ہونے والا نونہال اب تک پانچ نسلوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے۔ حکیم سعیدشہید کے مشن کے مطابق بچوں کے لیے دل چسپ، معلوماتی اور اپنی روایات کے ساتھ عصری تقاضوں کا فہم پیدا کررہا ہے۔ جون کے خاص شمارے میں سعدیہ راشد کی کچھ باتیں رشتوں کی، اشتیاق احمد کا نیا سنسنی خیز ناول حملہ، لوئی بریل پر معلومات افزا تحریر اور مزیدار کہانیاں، نظمیں، لطیفے، نونہال اسمبلی اور بہت کچھ۔]
  • ماہنامہ فخرعدالت (اشاعت خاص قاضی حسین احمد)،مدیر: ناصر اقبال مجاہد۔ ملنے کا پتا: ای/۸۷، سیٹلائٹ ٹائون نزد گورنمنٹ بوائز کالج، گوجرانوالہ۔ فون: ۶۴۵۰۲۸۳-۰۳۰۰۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت : ۵۰۰ روپے۔ [امیرجماعت اسلامی سیدمنور حسن کے بقول : اپنے سلف صالحین کی خدمات کو یاد رکھنا، ان کی تذکیر کرنا اور خراجِ تحسین پیش کرنا زندہ قوموں کا شیوہ اور اپنے کارکنان کی تربیت و تزکیہ کا بہترین ذریعہ ہے۔ فخرعدالت کی قاضی حسین احمد مرحوم پر اشاعت خاص اسی کا تسلسل ہے۔ قاضی صاحب کی امارت کے پانچ اَدوار کا جائزہ، احباب، اہلِ خانہ کے تاثرات، منتخب کالم، تعزیتی ریفرنسز، منظوم خراجِ تحسین، تاریخی لمحات___ خوب صورت سرورق، دیدہ زیب پیش کش، اور شایانِ شان اشاعت خاص !]

اُردو تفاسیر (بیسویں صدی میں)، ڈاکٹر سید شاہد علی۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، ڈسٹری بیوٹر: ملک اینڈ کمپنی، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۴۰۲۱۴۱۵-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: درج نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے کلام کی تشریح و تفسیر کا کام حضور اکرمؐ کے زمانے ہی سے شروع ہوگیا تھا۔  مسلمانوں نے اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا تو نئے نئے علاقوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ آخری پیغام پہنچا اور ساتھ ہی اس کے مطالب کی تشریح و تفہیم کا سلسلہ بھی قائم ہوتا گیا۔ زیرتبصرہ کتاب میں قرآنِ مجید کی ان تفاسیر کا جائزہ اور تعارف پیش کیا گیا ہے جو بیسویں صدی عیسوی میں منصہ شہود پر آئیں۔

کتاب میں مصنف نے تفسیری ارتقا کے جائزہ لیا ہے۔ مآخذ تفسیر کے ساتھ ساتھ عہدنبویؐ اور صحابہ کرامؓ کے دور کی تفسیری خصوصیات بھی تحریر کی ہیں۔ پاک و ہند میں لکھی گئی تفاسیر کے اجمالی تذکرے کے بعد بیسویں صدی کے تفسیری ذخیرے کے اوّلین نقوش واضح کیے ہیں۔

کتاب میں ۲۶ مکمل تفسیروں کا تعارف اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ ہرتفسیر کی خصوصیات، سنہ تکمیل اور اہم مباحث کا خلاصہ لکھنے کے ساتھ ساتھ تفسیری نمونے کا شذرہ بھی دیا گیا ہے۔ تفسیر کا مرکزی خیال لکھ کر اس کے مجموعی طرزِفکر اور اسلوبِ بیان کا اظہار بھی کیا ہے۔ حکیم سید محمد حسن نقوی کی تفسیر غایۃ البرہان فی تاویل القرآن کے بارے میں لکھا ہے: حکیم صاحب نے تصوف پر خاطرخواہ روشنی ڈالی ہے، نیز قرآنِ مجید کے فلسفیانہ مباحث کو بھی اختصار سے بیان کیا ہے۔ ثقیل اُردو زبان کا استعمال کیا گیا ہے‘‘ (ص ۱۱-۱۲)۔ دوسرے باب میں ۳۷ جزوی تفاسیر کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں تفسیری حواشی پر مشتمل ان تفاسیر کا ذکر کیا گیا ہے جو ہرچند کہ تفسیر ہی کے زمرے میں آتی ہیں لیکن مصنف کے خیال میں انھیں تفسیری حواشی کہنا مناسب ہے۔ چوتھے باب میں پوری کتاب کے حوالے دیے گئے ہیں۔مصنف نے جملہ تفاسیر کے پہلے ایڈیشن سے لے کر اس کتاب کے سالِ تصنیف تک جتنے ایڈیشن مل سکے، ان سب کے کتابیاتی کوائف بھی درج کیے ہیں۔ اسلوبِ بیان علمی وقار کا حامل ہے۔ مصنف کی تحقیقی و تنقیدی محنت قرآن کے مطالعے کے شائقین کے لیے یقینا ایک نعمت ہے۔(ظفرحجازی)


پیامِ سیرتؐ، عصرحاضر کے پس منظر میں، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔ ناشر: زم زم پبلشر،  شاہ زیب سنٹر ،اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۲۵۶۷۳-۰۲۱۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔

حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ، آپؐ کی احادیث اور آپؐ کی سنت کی توضیح و تشریح کے لیے اہلِ علم ہر دور میں مستعد رہے ہیں۔ اُردو زبان میں بھی سیرت النبیؐ پر بے شمار کتابیں تحریر کی  گئیں اور کتب احادیث کے تراجم و تشریحات پر مبنی متعدد کتب اہلِ علم میں متداول ہیں۔   مولانا خالدسیف اللہ رحمانی کو برعظیم کے علماے دین میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ ان کی اس کتاب میں حضور اکرمؐ کی سیرت کے متعدد پہلوئوں پر ایمان افروز اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں مطالعہ سیرت کے مبادی بیان ہوئے ہیں۔ دوسرے باب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات قلم بند کیے گئے ہیں۔ تیسرے باب میں سیرت النبیؐ کے سبق آموز پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے اور چوتھے باب میں اُمت مسلمہ پر نبیؐ کے حقوق بتائے گئے ہیں۔

مصنف کی یہ کوشش قابلِ تعریف ہے کہ سیرت النبیؐکے واقعات کے بیان میں ان سے حاصل ہونے والے سبق کو اُجاگر کیا گیا ہے تاکہ قارئین اسے آج کی زندگی میں راہنما بنائیں۔   یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کی ہے کہ حضور اکرمؐ پر ہمارے ایمان کا تقاضا کیا ہے۔ ہمیں اپنی  ذمہ داریاں ادا کرتے رہنا چاہیے۔ اسی ضمن میں ختم نبوت کے مباحث پر بھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔

اسلوبِ بیان داعیانہ اور واعظانہ ہے۔ سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوئوں کو علمی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کوشش میں مصنف کا قلم افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوا۔ کتاب ہرچند کہ   متعدد مضامین کا مجموعہ ہے، تاہم ان مضامین میں ایک معنوی ربط موجود ہے۔ سیرت النبیؐ کے  موضوع پر یہ کتاب یقینا اپنے پُراثر بیان کے باعث قارئین کو پسند آئے گی۔(ظفرحجازی)


تربیت ہو تو ایسی، مصطفی محمد طحان،ترجمہ: گل زادہ شیر پائو۔ ناشر مکتبہ المصباح،۱-اے ذیلدار پارک،اچھرہ لاہور۔فون:۳۷۵۸۶۸۴۶-۰۴۲۔ صفحات: ۲۶۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

قصہ کہانی ادب کی وہ قسم ہے جس میں انسان کی دل چسپی بالکل فطری ہے۔اس طرح بات سمجھنا اور ذہن نشین کرانا آسان ہو تا ہے۔انسانی فطرت اور کہانی کی اثر آفرینی کے پیش نظر اسلام نے اس کو تفہیم و ترتیب کا ذریعہ بنایا ہے۔

زیر نظر کتاب معروف مسلم اسکالر مصطفی محمد طحان کی کتاب التربیۃ بالقصۃ  کا اُردو ترجمہ ہے۔فاضل مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے احادیث مبارکہ میں بیان کیے جانے والے سبق آموز واقعات اور آسمان نبوت کے درخشاں ستاروں (صحابہ کرام ؓ) کی ایمان افروز داستانوں سے انتخاب پیش کیا ہے۔ہر قصے کے آخر میں اہم علمی مباحث اور عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔یوں یہ کتاب قرآن و سنت کے حوالوں سے مزین ۴۰ دروس کا خوب صورت گل دستہ ہے۔دل چسپ اور منفرد انداز ِ بیان  کے واقعات ذہن کو متاثر، روح کو معطر اور انسان کو آمادہ بہ عمل کرتے ہیں۔بچوں اور بڑوں کے تزکیہ و تربیت کے لیے یکساں مفید ہے۔

مترجم نے ایسی قیمتی کتاب کو اُردو کے قالب میں ڈال کر اُردو دانوں کی بڑی خدمت کی ہے۔ ترجمہ اس طرح رواں دواں اور شُستہ کہ ترجمے کا گمان نہیں ہوتا۔ یہ کتاب جمعیت طلبہ عربیہ کی رکنیت کے نصاب میں شامل کی گئی ہے۔ یہ ہر لائبریری،ہر گھر بلکہ ہر فرد کی ضرورت ہے(حمید اللّٰہ خٹک)


فروغِ اُردو میں اقبال کی خدمات کا تحقیقی جائزہ، گلشن طارق، ناشر: فکشن ہائوس ، ۳۹-مزنگ روڈ، لاہور۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۴۸۰ روپے۔

علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور فکر و فلسفے کے ذریعے جہاں اُمت ِ مسلمہ کی بیداری جیسا کارنامہ انجام دیا، وہاں ان کی شاعری اُردو زبان و ادب کے فروغ کا باعث بھی بنی۔ علامہ اقبال سے پہلے اردو شاعری میں عام طور پر گل و بلبل، عاشق و معشوق اور ہجر و وصال جیسے مضامین کی کثرت تھی۔ اصلاحی شاعری کی اکا دکا مثالیں (نظیر اکبر آبادی،اکبر الٰہ آبادی اور مولانا حالی وغیرہ) اگرچہ موجود تھیں لیکن یہ علامہ اقبال ہیں جنھوں نے اُردو شاعری کو فلسفیانہ مضامین بیان کرنے کے قابل بنایا۔ انھوں نے فلسفہ و حکمت اور اصلاحِ امت کے لیے اُردو شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا ۔

یہ ایم فل اقبالیات کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جس پر علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی نے مصنفہ کو ڈگری عطا کی۔ اس میں انھوں نے علامہ اقبال سے پہلے اُردو ادب کی صورتِ حال پر نظر ڈالی ہے، بعدازاں اردو ادب کی ترویج و ترقی میں علامہ کے کردارپر بحث کی گئی ہے ۔ علامہ اقبال کے لسانی شعور ، ادبی نظریے اورزبان و بیان کی صحت کے لیے ان کی کاوشوں کو، ان کی اُردو شاعری اور مکاتیب کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ علامہ کے خطوط کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحت ِ زبان کے سلسلے میں نہایت حساس تھے ۔ ان کے خطوط ( بالخصوص بنام سید سلیمان ندوی اور مولوی عبدالحق) میں اصلاحِ زبان سے متعلق بہ کثرت بحثیں اور استفسارات موجود ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اُردو زبان کے مسئلے کو کس قدر اہم سمجھتے تھے۔ اسی طرح علمِ بدیع، علمِ بیان اور علمِ عروض کی اہمیت کے متعلق بھی ہمیں ان کے خطوط سے رہنمائی ملتی ہے۔

علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں ہیئتی تجربات اور اجتہادات بھی کیے جس سے اردو شاعری کو ایک نئی جہت ملی۔ بعد ازاں ان کی تقلید میں کئی ایک شعرا نے شاعری کی ۔ان کے شعری حسن اور فکر و فلسفے کی وسعت اور کثیر الجہتی تصورات کے باعث آج اقبالیات کا ایک مکمل شعبہ وجود میں آ چکا ہے اور اقبال کی فکر و فلسفے کی تفہیم کے لیے ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ان کی انگریزی کتابوں اور خطوط کے متعدد اُردو تراجم کیے گئے ہیں۔اس شعبے میں اُردو زبان میں جتنا بھی کام ہوا ہے وہ بالواسطہ طور پرفروغِ اردو میں علامہ اقبال ہی کی دین (contribution)ہے۔

اس کتاب میں مصنفہ نے اپنے موضوع کو نہایت محنت سے سمیٹا ہے ۔ مقالے سے ان کی لگن ، توجہ اور محنت جھلکتی ہے۔ مقالے کے نگران ڈاکٹر وحیدقریشی مرحوم تھے۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ تحقیقی اور علمی کتاب اور ذخیرئہ اقبالیات میں ایک اچھا اضافہ ہے۔(قاسم محمود احمد )


مقالاتِ دانش (اوّل، دوم)، تالیف: عبداللہ دانش۔ ناشر: محمد جاوید ناصر، مرکز الحرمین الاسلامی، ستیانہ روڈ، فیصل آباد۔ فون: ۳۰۱۰۷۷۷-۰۳۱۴۔ صفحات: ۴۴۵۔ قیمت: درج نہیں۔

عبداللہ دانش ایک عرصے سے نیویارک میں مقیم ہیں، جہاں وہ مسلکی، گروہی کشاکش اور اختلافات سے بالاتر ہوکر اسلام کو قرآن اور صاحب ِ قرآن کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔ مقالاتِ دانش ان کے خطبات اور مضامین کا مجموعہ ہے۔

۳۷موضوعات، اسلام، اُمت کا تصور، علم، مقصد تعلیم، طہارت اور پاکیزگی، نماز، حج، قربانی، شادی، حکمت ، خلق عظیم، عالم کون؟ قرآن، مغربی طریقے، شیطان کے حربے، دل کی زندگی، خرابیاں، تقویٰ اور پرہیزگاری، شہد، دو مکھیوں کا تذکرہ (شہد کی اور عام مکھی) اور دیگر مختلف موضوعات اور روزمرہ مسائل پر تحقیقی اور فکرانگیز تذکرہ عام فہم انداز میں کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ امریکی معاشرت اور اس کے اثرات کا بھی احسن انداز میں جائزہ لیا گیا اور اس کے کمزور پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔  طویل عرصہ امریکا میں قیام کرنے کے بعد مصنف یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی طور پر سپریم پاور، ترقی یافتہ اور مہذب کہلوانے کے باوجود امریکی معاشرے کو اسلام کی ضرورت ہے جو ہرزمانے میں صراطِ مستقیم فراہم کرنے والا دین ہے۔ قرآن، حدیث، سلف کا طرزِعمل، اقبال ، حالی اور اکبر کے اشعار کے علاوہ عربی و فارسی اشعار کا بھی برمحل استعمال کیا گیا ہے۔ کتابیات سے کتاب کی افادیت اور وقعت مزید بڑھ جاتی۔(عمران ظہورغازی)


ڈرون حملے، مرتب: علی عباس۔ ناشر: Narratives، پوسٹ بکس ۲۱۱۰، اسلام آباد۔      فون: ۲۹۹۱۵۸۶-۰۵۱۔ صفحات:۹۷۔ قیمت: ۲۰۰ روپے

بجاطور پر شکایت ہوتی ہے کہ ڈرون حملے جیسے موضوع پر بیانات اور احتجاج ہوتے ہیں لیکن اس کے تمام پہلوئوں کا مطالعہ جیساکہ حق ہے نہیں کیا جا رہا ہے۔ حملے ہمارے ملک میں ہورہے ہیں اور کچھ معلومات ملتی ہیں تو بیرونی ذرائع سے ملتی ہیں۔ کیا جامعہ پشاور میں اس کے مطالعات کا مرکز قائم نہیں کیا جاسکتا؟ Narratives پبلشرز نے ڈرون حملے کے نام سے کتاب شائع کی تو حیرانی ہوئی۔ لیکن جب اندر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اوکسفرڈ تحقیقاتی گروپ نے جو رپورٹیں شائع کی ہیں ان کے تراجم علی عباس نے مرتب کردیے ہیں اور جیساکہ کہا گیا ہے ’’زیرنظر کتاب ڈرون حملوں کے حوالے سے چند اہم حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یوں یہ کتاب ڈرون حملوں پر ایک معتبر دستاویز قرار پاتی ہے‘‘۔

اس مختصر کتاب میں پانچ مختصر مضامین شامل ہیں جن کے مطالعے سے اس مسئلے کے قانونی اور بین الاقوامی پہلو واضح ہوجاتے ہیں اور متعلقہ حقائق اور اعداد و شمار بھی سامنے آجاتے ہیں۔   لکھنے والوں میں پروفیسر سوسان بریو، میری ارون سون، راشیل جوئس، پیٹربرگن، کیتھرین ٹائیڈس، سمیع یوسف زئی ہیں، جو سب اپنے میدان کے معروف نام ہیں، مثلاً پیٹربرگن سی این این کے تجزیہ نگار ’’اسامہ بن لادن جیسا مَیں جانتا ہوں‘‘ (Usama Bin Laden: as I know) کے مصنف، امریکی ادارے Counter Terrorism Initiative کے ڈائرکٹر اور نیوامریکا فائونڈیشن کے سینیر فیلو ہیں۔

سمیع یوسف زئی کے مضمون میں خودکش بم بار حنیف کی کہانی خود اس کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ اس میں یہ دل چسپ بات بھی آئی ہے کہ حنیف نے کسی مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر اس کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہوگیا۔ اس لیے کہ پٹھان معاشرے میں دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہونا، جب کہ جواب کسی خاتون سے متوقع ہو اخلاق باختگی ہے۔ اس پیٹھ کرنے سے ہی اس نے ڈرون حملہ آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھا۔ ڈرون حملوں سے دل چسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے یہ کتاب ایک ناگزیر کتاب ہے۔ اس دستاویز کو ہم بجا طور پر ایک معروضی مطالعہ قرار دے سکتے ہیں، محض جذبات کی کارفرمائی نہیں۔(مسلم سجاد)


یاجوج ماجوج نمبر (اشاعت خاص ماہنامہ حکمت ِ بالغہ)، مدیر: انجینیرمختار فاروقی۔ ملنے کا پتا: قرآن اکیڈمی جھنگ، لالہ زار کالونی نمبر۲، ٹوبہ روڈ، جھنگ صدر- فون: ۷۶۲۸۵۶۱-۰۴۷۔ صفحات:۱۵۲۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

دنیا کا مستقبل کیا ہوگا؟ آنے والے دنوں میں کیا انقلابی تبدیلیاں رُونما ہوں گی؟ حق و باطل کے معرکے اور عالمی اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی جنگ (Armageddon) اور یاجوج ماجوج پر علمی و تحقیقی بحث کی گئی ہے۔ یاجوج ماجوج کے موضوع پر قرآن و حدیث کے علاوہ دیگر مذاہب میں تذکرے، اور جدید تحقیقات ایک مختلف انداز میں سامنے لائی گئی ہیں۔ ’رُوے ارضی پر نسلِ انسانی کا پھیلائو‘ باب کے تحت ۶۰۰ قبل مسیح سے تاحال انسانی تہذیب کا ارتقا اور اہم تاریخی مراحل کا جائزہ اور یاجوج ماجوج کی تباہی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مؤلف کے نزدیک موجودہ مغربی تہذیب یاجوج ماجوج کے لشکروں ہی کا دوسرا نام ہے۔     مغربی تہذیب کا بے لباسی اور عریانیت کی انتہا پر پہنچنا اور انسانیت کا حیوانیت کی سطح تک گر جانا، درحقیقت آخری معرکے اور عالمی اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے مرحلے کا نزدیک آجانا ہے۔ اس اشاعت ِ خاص کا مقصد مستقبل قریب میں آنے والے حالات و واقعات کو سمجھنا ہے تاکہ اسلام کی سربلندی کے لیے جاری جدوجہد ایک نئے عزم اور ولولے سے کی جاسکے۔(امجد عباسی)

تعارف کتب

  •  سہ ماہی مجلہ نظریات  ،لاہور (جنوری-مارچ ۲۰۱۳ء)، مدیر: حافظ طاہر اسلام عسکری۔ ملنے کا پتا: ادارہ   بحث و تحقیق، گلی نمبر۱، سلمان پارک، بنک سٹاپ، ۱۷کلومیٹر فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۴۵۴۸۵۲۹-۰۳۲۱۔ صفحات:۱۰۱۔ قیمت: ۲۵۰ روپے سالانہ ۔[اسلام کے افکار، فلسفہ و حکمت اور علوم و معارف کو اسلوبِ جدید میں پیش کرنے، عصرحاضر میں درپیش عملی مسائل کا حل اور اسلام پر اعتراضات کا علمی محاکمہ، مغربی تہذیب کا ناقدانہ مطالعہ اور اس کی حقیقت کو بے نقاب کرنا، نیز شعروادب اور علم وفن کے عظیم سرمایے سے استفادے اور اُمت کو درپیش حقیقی چیلنجوں کا سامنا کرنے کی غرض سے مجلہ نظریات کا اجرا کیا گیا ہے۔تجدید دین، اُمت کی نشاتِ ثانیہ اور فکری جمود کے خاتمے کے لیے اہلِ علم وفکر سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ پہلے شمارے کے چند اہم مقالے: l انسانی اعضا کی پیوندکاری از حافظ طاہراسلام عسکری l منحرف حکام سے قتال کی بحث از ڈاکٹر محمد خیر ہیکل/گل زادہ شیرپائوl تہذیب جدید کا فکری بحران: اُردو ادب کے آئینہ میں از ڈاکٹر غلام مصطفی خان۔]

صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ڈی-۳۰۷، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر نئی دہلی،بھارت ۔ صفحات: ۳۸۷۔ قیمت:۲۰۰ بھارتی روپے۔

مولانا جلال الدین عمری برعظیم کے علمی حلقوں میں ایک معروف و معتبر شخصیت ہیں۔ اسلام کے مختلف پہلوئوں پر آپ کی نگارشات اُردو اور انگریزی زبانوں میں غیرمعمولی طور پر مقبولیت کی حامل ہیں۔

اس کتاب میں محترم مولانا نے ایک جدید اور اُچھوتے مضمون پر قلم اُٹھایا ہے۔ اسلام، دین کامل ہونے کے سبب، نہ صرف روایتی طور پر جن اُمور کو ’مذہب‘ سے وابستہ کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ ساتھ جن اُمور کو دیگر مذاہب ِ دنیاوی، مادی یا ذاتی قرار دیتے ہیں، ان تمام پہلوئوں کو بھی  ایک شخص کی دینی زندگی میں شامل تصور کرتا ہے۔ چنانچہ وہ نہ صرف عبادات اور عقائد، بلکہ انتہائی ذاتی نوعیت کے معاملات ہوں، یا معاشرتی اور سیاسی ضرورت، ہر ایک پر جہاں ضروری ہو اصولی اور جہاں ضرورت ہو خصوصی ہدایات ، قوانین اور اصول بیان کردیتا ہے۔ ’مذہب‘ کو عموماً روحانی بالیدگی کا ذریعہ کہا جاتا ہے، لیکن اسلام اپنی جامع دینی تعلیمات میں جسم و روح اور ذہن و دماغ کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے متوازن انداز میں مخاطب کرتا ہے۔ گذشتہ دو عشروں میں ایک امریکی مفکر کی کتاب Emotional Intelligence اور اسی مصنف کی دوسری کتاب Social Intelligence علمی حلقوں میں گفتگو کا موضوع رہی ہے۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ مختلف کیس اسٹڈیز یہ بتاتی ہیں کہ انسانی دماغ میں ایک حصہ ہے جو ایک لمحے کے ۱۷۰۰۰/۱ حصے میں بعض پیش آنے والے واقعات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے تحریک پیدا کرتا ہے اور اکثر انسان اتنے کم عرصے میں ایک کام کرگزرتا ہے۔ یہ ایک سُرعت کے ساتھ ہونے والا نفسیاتی عمل ہے جس میں بظاہر عقل کا کوئی دخل نہیں نظر آتا۔ اسلام اس کے برعکس انسان کے ہرہرعمل کو دل و دماغ کی یکسوئی کے لیے حلال و حرام کی اخلاقی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد کرنے کا حکم دیتا ہے اور نفسِ امارہ اور نفسِ لوامہ کو  نفسِ مطمئنہ میں تبدیل کر کے ہرفکر، ہر نظر، ہراحساس اور ہرعمل کو حلال و حرام کے اخلاقی اصول کی روشنی میں کرنے کا عادی بناتا ہے۔

اسلام جہاں ہر معاملے میں توازن اور عدل کا حکم دیتا ہے، وہیں ایسی شخصیت تعمیر کرتا ہے جو بُرائی اور صحت کے لیے نقصان دہ پہلوئوں سے بچائو کو اولیت دیتا ہے۔ شریعت میں سدِذرائع کا اصول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام نے شہروں میں کشادگی اور تازہ فضا کو برقرار رکھنے کے ساتھ یہ تعلیم دی ہے کہ جب ایک شہر ایک حد تک پہنچ جائے تو نیا شہر آباد کیا جائے تاکہ ماحولیاتی آلودگی نہ پیدا ہو جو صحت کی خرابی کا ایک بڑا سبب ہے۔

انسان کی غذا کے حوالے سے پانی کو صاف رکھنا، اس میں آلودگی نہ پیدا ہونے دینا، خصوصاً فضلہ کا دریائوں میں یا نہروں میں نہ ڈالنا دینی تعلیمات کا حصہ ہے۔ آج دنیا کے بے شمار شہروں کے لوگ پینے والے پانی میں کیمیاوی فضلہ کے پھینکے جانے کی بنا پر نت نئی بیماریوں کا شکار ہیں۔   غذا کے استعمال میں یہ حکم کہ کھائو اور پیو لیکن اسراف نہ کرو، صحت کا بنیادی اصول ہے۔

مولانا جلال الدین عمری نے ۲۰ عنوانات کے تحت صحت و توانائی کی اہمیت، طہارت و نظافت سے انسانی جسم و روح پر اثرات، غذا کے اہم پہلو اور صحیح استعمال، آدابِ طعام، کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھونا اور وضو کا اہتمام، پینے کے آداب، جسم کو توانا رکھنے کے لیے سنت نبویؐ کی روشنی میں تیراندازی، گھڑسواری، دوڑنا اور مقابلوں اور ورزشوں کا کرنا، پھر مرض کی صورت میں علاج کی اہمیت اور احتیاطی تدابیر، شرعی طور پر متعدی بیماریوں کے بارے میں سنت اور بعض جدید طبی اخلاقی معاملات، مثلاً ایسے مریض کے بارے میں حکمِ شرعی جو بیماری کے ایسے مرحلے میں ہو جہاں کوئی اُمید نظر نہ آتی ہو۔ ایسے ہی قرآنی آیات سے دَم کرنا اور عیادت کی شرعی اہمیت جیسے بنیادی موضوعات پر مستند اور تحقیقی مواد کی مدد سے انتہائی سہل انداز میں اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے۔

یہ کتاب میڈیکل کالج کے ہر طالب علم اور طالبہ علم کے لیے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ نہ صرف یہ، بلکہ جن جامعات میں عمرانی علوم کی تدریس کی جاتی ہے، وہاں کے اساتذہ اور طلبہ کو بھی اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مصنف محترم کو اس خدمت پر عظیم اجر سے نوازے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


کتاب العروج، تہذیب کے قرآنی سفر کا ایک چشم کشا تذکرہ، ڈاکٹر راشد شاز۔ ناشر:    ملّی پبلی کیشنز، نئی دہلی، بھارت-۲۵۔ صفحات: ۲۴۳۔ قیمت: ۵۰۰ بھارتی روپے۔

راشد شاز صاحب نے علی گڑھ یونی ورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے۔ انھوں نے اسلامی علوم اور خصوصاً تہذیبی ترقی کے عمل کے مطالعے کا نچوڑ کتاب العروج کی شکل میں اُمت مسلمہ کے سامنے پیش کیا ہے۔ ایک عرصے کے بعد ایسی تحریر سامنے آئی ہے جس میں اُردو زبان کی چاشنی اور علمی ایجاز، ہرہرجملے سے جھلکتا ہے۔ مختلف مغربی اور مسلم مصادر کی   مدد سے مسلم تہذیب، خصوصاً سائنسی اور فلسفیانہ اختراعات کا تذکرہ، دو مفصل ابواب جو ۲۰۰ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مثل پیش کردیا گیا ہے۔ آخری باب جو بظاہر کتاب کا اصل مقصد نظر آتا ہے ’ایک نئی یونی ورسٹی کا منصوبہ‘ کے زیرعنوان باندھا گیا ہے۔

مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے مسلمانوں کے علمی اور سائنسی کارناموں کا جائزہ لیاہے اور جابجا علمی تصنیفات اور آلات کی تصاویر سے کتاب کو مزین کیا ہے۔ اپنے ماضی سے غیرآگاہ جدید نسل کے مسلمان نوجوانوں کے لیے اس میں غیرمعمولی اہم لوازمہ ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر اس افسافے کی حقیقت بھی واضح کی ہے کہ یورپ میں جو نشاتِ ثانیہ سولھویں صدی میں واقع ہوئی، اس میں اٹلی کی تہذیب کا بڑا دخل تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اٹلی کی اپنی کوئی تہذیبی روایت نہ تھی بلکہ مسلمانوں سے ارتباط کے نتیجے میں وہاں جو علمی لوازمہ پہنچا، اور مسلمانوں کی ایجادات جو اندلس اور اٹلی کے راستے یورپ میں پہنچیں وہ اس نشاتِ ثانیہ کی اصل بنیاد تھیں۔

مصنف نے اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ مسلمان عظیم سائنسی روایت کے باوجود کیوں زوال کا شکار ہوئے اور اس زوال سے نکلنے کے لیے انھیں کیا کرنا ہوگا؟ مصنف کا کہنا ہے کہ تبدیلی کا انقلابی عمل ایک بہت جرأت مندانہ اقدام کا متقاضی ہے جس میں روایت پرستی سے نکل کر ایک نئے ذہن اور نقطۂ نظر کے ساتھ علم کی تدوین جدید کرنی ہوگی۔ یہ کام علمی پیوندکاری سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مستقبل کے چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی علمی روایت کو قائم کرنا ہوگا۔

یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی یونی ورسٹی وجود میں آئے۔ مصنف کے خیال میں ماضی کی تمام کوششیں، بشمول علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، ندوۃ العلما اور دیگر مدارس کا قیام، وہ کام نہ کرسکیں جو مسلمانوں کو عروج کی طرف لے جاتا۔ مجوزہ یونی ورسٹی کا تصور لازمی طور پر ایک نہایت قابلِ قدر تصور ہے۔ مصنف نئی یونی ورسٹی کے ذریعے ان خامیوں کو دُور کرنا چاہتے ہیں جو موجودہ جامعات میں پائی جاتی ہیں، چاہے وہ دینی ہوں یا راویتی سیکولر جامعات۔

دورِ جدید میں تجدیدی کوششوں کے ضمن میں جہاں دیگر اداروں پر مصنف نے تنقیدی زاویے سے بات کی ہے، وہاں مولانا مودودیؒ کی فکر اور تجدیدی کوششوں کو صرف ایک تعارفی جملے میں بیان کیا ہے جو مولانا کے کام کے ساتھ ناانصافی ہے۔

ایک نئی یونی ورسٹی کی تجویز کا استقبال کرتے ہوئے، اس نوعیت کے علمی سفر سے وابستہ ایک فرد کی حیثیت سے مصنف محترم کی معلومات کے لیے چند نکات کی وضاحت ضروری ہے۔ ۱۹۶۲ء میں ادارہ معارف اسلامی کے قیام کے موقع پر مولانا مودودیؒ نے جو خطاب کیا تھا، اس میں علوم کی نئی تشکیل کا ایک نقشہ پیش کیا تھا۔ وہ شازصاحب کے تصور سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ اسی طرح امریکا میں ۱۹۷۲ء میں مسلم ماہرین علومِ عمرانی کی تنظیم (Association of Muslim Social Scientists-AMSS) کے قیام کا محرک بھی یہی تصور تھا کہ ایک نئی روایت ِ علم کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز علومِ عمرانی کی اسلامی تدوین جدید سے کیا جانا چاہیے۔ اس تنظیم کے بانی، سیکرٹری جنرل اور بعد میں صدر کی حیثیت سے میں نے اور دیگر رفقاے کار خصوصاً پروفیسر اسماعیل راجی الفاروقی شہید نے اپنے خطابات اور مقالات میں جس تصور کو پیش کیا وہ یہی تھا کہ ایک نئی جامعہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ۱۹۸۱ء میں اسی تصور کی بنیاد پر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد اور پھر ۱۹۸۳ء میں ملایشیا میں اسی نام سے ایک آزاد یونی ورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔

راقم الحروف کو دونوں جامعات کے تاسیسی دور میں ان کے نصابات، مقاصد اور تعلیمی حکمت عملی سے براہِ راست وابستگی کا موقع ملا اور کم از کم اس حد تک یقین سے کہا جاسکتا ہے شازصاحب جس تصور کی طرف متوجہ کر رہے ہیں، اس کی شروعات ان دو جامعات میں نظری اور عملی طور پر عمل میں آچکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گذشتہ ۱۰سال کے عرصے میں سیاسی حالات کی بنا پر ان کی قیادت اور تدریسی ترجیحات کو تبدیل کیا گیا ہے۔ اگر ان دونوں جامعات کو آزادانہ  طور پر کام کرنے کا موقع ملے تو وہ کمی پوری ہوسکتی ہے جس کی طرف شازصاحب نے متوجہ کیا ہے۔ یہ بیان تفصیل طلب ہے کہ ان جامعات میں نصاب بناتے وقت کیا تصور سامنے رکھا گیا کیونکہ اس کا محل یہ تبصرہ نہیں، بلکہ ایک الگ مقالہ ہی ہوسکتا ہے۔

کتاب العروج اوّل تا آخر توجہ کے ساتھ مطالعہ چاہتی ہے۔ مصنف نے قرآنی علمی سفر کو ادبی جاذبیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کتاب کو ہرمسلم تعلیمی ادارے کے کتب خانے میں ہونا چاہیے اور علوم اسلامی کے طلبہ کے لیے اس کا مطالعہ لازمی ہونا چاہیے۔ اس کتاب کی پیش کاری جس اعلیٰ درجے کی ہے، بیان نہیں کی جاسکتی۔ دیکھ کر ہی یقین کیا جاسکتا ہے۔ دبیز آرٹ پیپر کے بڑے سائز(۲۰x۳۰/۸) کے ۲۴۴صفحات میں عروج کی داستان آلات، کتب، اور شخصیات کی تصاویر سے مزین پیش کی گئی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


اُردو میں اسلامی ادب کی تحریک، مہراختروہاب۔ ناشر: پورب اکادمی، اسلام آباد۔  فون:۵۸۱۹۴۱۰-۰۵۱۔صفحات:۲۵۱۔ قیمت: ۲۹۵ روپے۔

اُردو زبان و ادب کا مزاج بنیادی طور پر دینی اور اخلاقی ہے (سیکولر نہیں)۔ ۱۹۳۶ء میں چند اشتراکیت پسند ادیبوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے نام سے جو انجمن قائم کی اس کا بنیادی مقصد ’ادب براے زندگی‘ کے بجاے ادب براے ’تبلیغ و ترویجِ اشتراکیت‘ تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین سے پہلے سرسید تحریک اور رومانوی تحریک باقاعدہ انجمنیں یا تنظیمیں نہیں تھیں، جب اشتراکیوں نے باقاعدہ انجمن کی بناڈالی تو چند سال بعد اسلامی، دینی اور اخلاقی فکر کا احساس رکھنے والے ادیبوں نے بھی انجمن قائم کرنے کا فیصلہ کیا، اور یوں چالیس کے عشرے (کے شروع) میں غالباً لکھنؤ میں ’حلقۂ ادب اسلامی‘ قائم ہوا۔ اسلام پسند مصنفین کی کوششوں سے تقسیم ہند کے بعد اسے ’ادارہ ادب اسلامی ہند‘ کا نام دیا گیا جو اب تک قائم ہے اور اپنا نمایندہ ادبی پرچہ ماہنامہ پیش رفت شائع کرتا ہے۔

پاکستان میں حلقۂ ادبِ اسلامی ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ کراچی میں قائم ہوا اور مختلف شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں اور حلقے کے باقاعدہ اجلاس ہونے لگے۔ جہانِ نو کراچی میں   ان اجلاسوں کی رودادیں اور حلقے سے متعلق دیگر خبریں چھپتی تھیں۔

تاحال تحریکِ ادب اسلامی یا حلقۂ ادب اسلامی کی مبسوط تاریخ نہیں لکھی گئی، معدودے چند مضامین ملتے ہیں یا بعض لوگوں کی یادداشتوں میں یا اِکا دّکا ادبی تاریخوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ ۱۹۸۴ء میں شعبہ اُردو اورینٹل کالج لاہور کے استاد جناب تحسین فراقی نے اس موضوع پر   ایم اے کا ایک مقالہ لکھوایا تھا جسے مقالہ نگار نے تقریباً ربع صدی بعد زیرنظر کتاب کی صورت میں شائع کرایا ہے۔ اس کے بعد بھی اس موضوع پر کئی چیزیں سامنے آئی ہیں: مثلاً ادب اسلامی (نظریاتی مقالات) مرتبہ : محمد نجات اللہ صدیقی یا ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالات از صائمہ ناز انصاری (کراچی یونی ورسٹی) جو ہنوز غیرمطبوعہ نہیں۔

تحقیقی مقالے عموماً تین درجوں کے ہوتے ہیں: ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی۔ ایم اے کا مقالہ عموماًابتدائی اور نسبتاً کم تر درجے کا اور تعارفی نوعیت کا سمجھا جاتا ہے لیکن مہراختر وہاب کا     ایم اے کا زیرنظر مقالہ بہت اچھا اور آج کل کے ایم فل کے مقالوں کے درجے کا ضرور ہے۔ انھوں نے اسلامی ادب کی روایت اور تحریک کی نظریاتی بنیادوں پر بات کی ہے۔ پھر اسلامی ادب کے شعری، افسانوی اور تنقیدی سرمایے کا جائزہ لیا ہے جو اگرچہ اجمالی ہے اور متعدد تخلیق کاروں کے نام اس میں نظر نہیں آتے، جیسے شاعری میں ابوالمجاہد زاہد، شبنم سبحانی، انورعزمی اور انور صدیقی وغیرہ۔ افسانے میں ابن فرید، نعیم صدیقی اور تنقید میں ابن فرید کے نام نہیں لیے گئے۔ناول کو انھوں نے سرے سے قابلِ اعتنا ہی نہیں سمجھا۔

دیباچے میں مہراختر وہاب کے بعض بیانات محلِ نظر ہیں۔ اسی طرح محمد حسن عسکری کی پاکستانی ادب کی تحریک اور اسلامی ادب کی تحریک میں خطِ امتیاز نہیں کھینچا گیا۔ مہرصاحب اِن دنوں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے پرنسپل ہیں۔ کتنا اچھا تھا اگر وہ ان ۲۵ برسوں میں اپنے مقالے میں اضافے کرکے اسے تازہ (اَپ ڈیٹ) کر دیتے۔ اس طرح یہ اور زیادہ وقیع اور حوالے کی چیز بن جاتا۔ بحالت ِموجودہ بھی یہ افادیت سے خالی نہیں بلکہ اسلامی ادب کے موضوع پر تو یہ اب بھی ایک اہم حوالہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اشاعتی معیار بہت اچھا ہے۔ کتاب تین برس پہلے (اپریل ۲۰۱۰ء میں) طبع ہوئی، اس لحاظ سے قیمت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


منزلِ مُراد، ضیاء الاسلام انصاری، ترتیب و ادارت: شگفتہ عمر۔ ناشر: مکتبہ راحت الاسلام، مکان ۲۶، سٹریٹ ۴۸، ۴/۸-F، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۶۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

پیکجنگ اور مارکیٹنگ کے اس دور میں کتاب کے مشتملات کے برابر یا زیادہ اہمیت اس کی پیش کاری کو دی جارہی ہے۔ نظروں کو بھلی نہ لگے تو کیسے پڑھی جائے۔ اس کتاب میں سب سے پہلے اس کا آئوٹ سائز ہونا نظر کو کھینچتا ہے۔ چوکور شکل، ۲۱ مربع سینٹی میٹر۔ اندر چاروں طرف سے سرمئی رنگ کا حاشیہ۔ یہ بھی اس طرح کے جیسے کسی موٹی کتاب کے صفحات سامنے کھلے ہوں، اطراف میں ڈھلتے ہوئے۔ ہرمضمون کے ساتھ دل چسپ، مؤثر خاکے، طباعت و کتابت واہ واہ،  بس ہاتھ میں لیں تو نظر پھسلتی جائے اور آپ پڑھتے جائیں۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ضیاء الاسلام انصاری اپنے دور کے نام وَر صحافی تھے۔ اسلامی فکر رکھنے والوں کے سرخیل تھے۔ ان کے بقول : ’’میں صحافتی زندگی میں وطن دشمن، تخریب کار اور غلط نظریات رکھنے والے افراد اور عناصر کے خلاف ربع صدی کی مسلسل محاذآرائی کے حوالے سے ایک انتہائی متنازعہ شخصیت ہوں‘‘۔ کتاب کے دوسرے حصے ’خصوصی گوشہ‘ (ص ۱۰۷، ۱۶۶) میں ان کی شخصیت پر اہلِ خاندان کے تحریروں اور ان کے انتقال پر ان کے بارے میں جو کچھ لکھا اور کہا گیا ___ بیانات، اداریے، تعزیتی اجلاس کے خطابات، سب جمع کر دیا گیا ہے،جنھیں پڑھ کر ان کی شخصیت، خدمات اور مقام سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ ساتھیوں کی تحریریں اس آگہی میں اضافہ کرتی ہیں۔ ساتھی بھی کون؟ مجیب الرحمن شامی، نذیرناجی، شمیم اختر، محبوب سبحانی۔ یہ سب کچھ کُل۵۹ صفحات میں۔

اب آئیں اصل کتاب کی طرف۔ ضیاء الاسلام انصاری نے اسٹیٹ لائف انشورنس آف پاکستان کے زیرتربیت افسران کی ورکشاپ میں دوگھنٹے کا ایک لیکچر دیا۔ برسوں بعد یہ مرتب ہوا، اور مزید برسوں بعد (مسودہ گم ہوجانے کی وجہ سے) یہ اب شائع ہو رہا ہے۔ ہرسبق میں آج کے ہرنوجوان بلکہ کارگاہِ حیات میں اپنا مقام بنانے یعنی ’منزلِ مراد‘ تک پہنچنے (منشورات نے خرم مراد کی تحریروں کے اقتباسات پر مشتمل ایک کتابچہ  منزلِ مراد کے عنوان سے شائع کیا ہوا ہے۔   یہ توارد بھی خوب رہا!)کی کوشش کرنے والے ہر فرد کے لیے نہایت کام کی ضروری بات ہے۔ آدھے، ایک اور ڈیڑھ دو دو صفحات میں ۲۸ عنوانات (ص ۲۵-۱۰۲) کے تحت مثبت اور تعمیری بات آس پاس کی مثالوں سے پیش کی گئی ہے۔ پیش کش بہتر کرنے کے لیے کئی صفحات سادہ ہیں۔ چند عنوانات: ذہن کی طاقت، اَن پڑھ بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، مایوسی اور محرومی پروان نہ چڑھایئے، ناکامی سے کامیابی کی راہ نکلتی ہے،اپنی صلاحیت کو نئے محاذ پر استعمال کیجیے، منفی تبصروں پر کان نہ دھریے، دشمن کو دوست بنا کر مار ڈالیے، جسمانی صحت کی فکر کیجیے۔ احسان دانش، چودھری محمد حسین، مرارجی ڈیسائی، ابراہام لنکن اور ایسی ہی دوسری مثالیں دی گئی ہیں۔ ذاتی تجربات بھی بیان ہوئے ہیں۔

یہ کتاب ہر نوجوان خصوصاً زمانے سے شاکی ہر فرد کے لیے اکسیر ثابت ہوگی، بس پڑھنا شرط ہے۔ طلبہ و طالبات کو مقابلوں میں انعامات کے طور پر ایسی کتابیں دی جانی چاہییں۔ معاشرے میں تعلیمی اداروں کے دسیوں نیٹ ورک ہیں جن سے ہزاروں ادارے وابستہ ہیں۔   یہ داخلے کے وقت لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات دیتے ہیں اور والدین سے اسلامی تعلیم و تربیت کے عنوان سے رقومات وصول کرتے ہیں ، لیکن کسی نیٹ ورک کا یہ نظام نہیں کہ اپنے ملحق اداروں کی لائبریریوں کو اچھی منتخب کتابیں فراہم کریں۔ ۵ہزار روپے سال کی ہی سہی۔ ایسا ہو تو ایسی کتابیں ہزار ہزار نہ چھپیں، ۱۰،۱۰ ہزار چھپیں اور فروخت ہوجائیں۔

مصنفہ، انصاری مرحوم کی بیٹی ہیں جن کی کتاب احکامِ حج و عمرہ پر ترجمان (جولائی۲۰۱۲ء) میں تبصرہ آچکا ہے۔(مسلم سجاد)


مغرب زدہ مسلمانوں کے نام، نثار احمد خان فتحی۔ ناشر: مکتبہ الشیخ، ۳/۴۴۵، بہادرآباد، کراچی نمبر۵، صفحات: ۱۵۳، قیمت: درج نہیں۔

جب انگریز برعظیم میں آیا تو مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے جو نہ صرف دنیا کو بلکہ اپنے دین کو بھی مغرب کی عینک سے دیکھنے لگے۔ انھیں اسلام کی ہر وہ چیز جو مغرب کی تصویر کے مطابق نہ ہو، اسلام سے باہر نظر آنے لگی۔ گذشتہ دو تین صدیوں میں مغرب کے غلبے اور اسلام کی مغلوبیت کی وجہ سے یہ عنصر برابر موجود رہا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا باوجود اہلِ دین کی ہر طرح کی مزاحمت کے، معاشرے میں مؤثر اور غالب رہا ہے۔ نثاراحمد خان فتحی نے اسی طبقے کو مخاطب کرکے ان کی مغرب زدگی کی وجوہات تلاش کرکے، ان کے بارے میں انھیں توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے دین کی طرف واپس آئیں۔ انھوں نے کفروارتدادد کی بحث اُٹھائی ہے۔ عقیدے کی اہمیت واضح کی ہے، عقل کے ناقص ہونے اور وحی کے اصل ذریعۂ علم ہونے پر بات کی ہے۔تعدد ازواج اور رجم بارے میں جو اعتراضات ہیں ان کے جواب دیے ہیں۔ مغربی تہذیب کی جو تصویر افغانستان اور عراق میں پیش کی جارہی ہے، (مثلاً لاشوں پر پیشاب کرنا) اس کے بھی حوالے آگئے ہیں۔

پوری کتاب بہت دردمندی سے اور ایمانی جذبے سے سرشار ہوکر لکھی گئی ہے۔ اس لیے پڑھی جاتی ہے۔ جو جتنا مغرب زدہ ہے آئینے میں اتنی اپنی تصویر دیکھ سکتا ہے۔ آخر میں موضوع سے متعلق مصنف کی کچھ پُرلطف نظمیں بھی ہیں۔(مسلم سجاد)


مجلہ نسٹیئن، مدیر: ممتاز اقبال ملک۔ ناشر۔ نیشنل یونی ورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹکنالوجی، سیکٹر ایچ، ۱۲، اسلام آباد۔ صفحات، اُردو:۲۴۶، انگریزی: ۶۴۔ قیمت:درج نہیں

تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کے سالانہ مجلّوں کی اشاعت ایک دیرینہ روایت ہے ہرادارے کے طالب علموں کو اپنے ادارے کے رسالے سے خاص قسم کی وابستگی ہوتی ہے۔      یہ رسالے طالب علموں کی ذہنی و فکری تربیت اور تخلیقی قوتوں کے اظہار کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے نجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے بیش تر ادارے اپنے تئیں ’روشن خیال‘ ظاہر کرنے کے لیے ایسے رسالے شائع کرتے ہیں جن کے مندرجات اسلامی تہذیب سے بغاوت، تعمیری افکار سے نجات اور خود پاکستان کے وجود کے بارے میں تشکیک و تذبذب کے جرثومے موجود ہوتے ہیں۔

ذہنی شکست خوردگی اور تہذیبی شکست و ریخت کے اس ماحول میں نسٹیئن کا دوسرا شمارہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور پاکستانی مسلم تشخص کا نمایندہ محسوس ہوتا ہے، اور تعمیرِپاکستان کے ساتھ تخلیق و تہذیب کے باب میں پاکیزگی اور شائستگی کا حوالہ بن کر وطن عزیز کے ایسے مجلّوں کے لیے ایک روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو کسی اچھے ادارے کے معیاری رسالے میں ہونا چاہیے۔ نگارشاتِ نظم و نثر علمی، معلوماتی اور ادبی نوعیت کی ہیں۔ ادب کی جملہ اصناف کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ انگریزی حصے میں بھی وقیع تحریریں شامل ہیں۔ نسٹیئن کی ترتیب و تیاری ممتازاقبال ملک نے کی ہے اور اس عمل میں نسٹ یونی ورسٹی کے ریکٹر انجینیرمحمداصغر کی رہنمائی اس دستاویز کا ذریعہ بنی ہے، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔(سلیم منصور خالد)

تعارف کتب

  •  فریضۂ اقامت دین اور سید مودودیؒ کا جہاد ،محمود عالم صدیقی۔ ناشر: مدینۃ القرآن، ملنے کا پتا:    ادارہ نورحق، ۵۰۳- قائدین کالونی نزد اسلامیہ کالج، کراچی۔ فون:۳۴۹۱۵۳۶۱-۰۲۱۔ صفحات:۴۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ اور احیاے اسلام کی عالمی تحریک کا مختصراً تذکرہ۔ بالخصوص بیسویں صدی میں مولانا مودودیؒ نے جس طرح سے مغربی تہذیب کا سحر توڑا، اسلام کو ایک نظامِ حیات کی حیثیت سے پیش کیا،   اور مغلوب مسلمانوں کو احیاے اسلام اور فریضۂ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے ترغیب دی، ان مساعی کا  اجمالی جائزہ۔ جماعت اسلامی کا قیام، تاریخی جدوجہد کے سنگ ہاے میل اور خدمات کے ساتھ ساتھ سید مودودیؒ کی شخصیت و کردار، افکار و نظریات اور لٹریچر کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ ’سیدمودودیؒ___ ماہ و سال کے آئینے میں‘ کے تحت سوانحی خاکہ اور شجرئہ نسب بھی دیا گیا ہے۔ اگر ان کی کتب کی فہرست بھی دے دی جاتی تو مفید ہوتا۔ اپنے موضوع پر جامع اور مختصر تحریر۔]
  •  سنو پیاری بیٹی! ، رزینہ عالم خان۔ ناشر: عکاس پبلشرز، ملنے کا پتا: ۱-گولف روڈ، راولپنڈی کینٹ، راولپنڈی۔ فون: ۸۵۵۶۷۷۶-۰۳۰۰۔صفحات:۱۹۵۔ قیمت:۴۵۰روپے۔ [ہمارے معاشرے میں گھر ٹوٹنے کے واقعات جس تیزی سے عام ہورہے ہیں، اس کے سدّباب کے لیے خواتین کو ہلکے پھلکے انداز میں مختصر اور بامقصد ہدایات  دل چسپ اور عام فہم انداز میں پیش کی گئی ہیں، مثلاً آرایش و زیبایش، گفتگو، گھرداری، سسرالی رشتوں سے تعلقات، بچوں کی تربیت اور آخرعمر کے تقاضوں کے پیش نظر عملی مشورے، تاہم قیمت کچھ زیادہ ہے، سستا اڈیشن بھی ضروری سمجھا جائے تاکہ عام اہلِ وطن کے ہاتھ میں پہنچے۔]
  • مطالعہ اور امتحان کی تیاری، محمد بشیر جمعہ۔ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب، دکان نمبر۲۶۸، فرسٹ فلور،    انٹرنیشنل سنٹر بالمقابل زینب مارکیٹ، ۲۶۸-آر، اے لائنز، عبداللہ ہارون روڈ، صدر، کراچی- ۷۵۵۳۰۔ فون:۲۹۸۷۶۳۸-۰۳۲۳۔صفحات: ۱۱۷۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[مطالعہ اور امتحان کی تیاری جہاں ضرورت ہے وہاں ایک فن ہے۔ امتحان میں کامیابی جہاں حافظے، ذہانت اور محنت کی مرہونِ منت ہوتی ہے وہیں فطری صلاحیتوں، حالات و واقعات اور توجہ، اعتماد، معلومات کو بہتر طریق اور مؤثر طور پر پیش کرنا امتحان میں کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے۔معروف صلاح کار بشیرجمعہ نے طلبہ میں ذوقِ مطالعہ کی ترغیب، مؤثر مطالعے، نیز امتحان کی تیاری اور پلان کے لیے سائنٹی فک انداز میں رہنمائی دی ہے۔آخر میں دعائیں، اذکار، وظائف اور ۱۰مختلف گوشوارے بھی شامل ہیں۔ اساتذہ اور طلبہ کے لیے یکساں مفید]۔
  •  ماہنامہ شاہراہِ تعلیم (سکول اسمبلی نمبر) ، مدیر: طارق محمود۔ ملنے کا پتا: پوسٹ بکس نمبر ۹۱۵۸، لاہور۔     فون: ۳۵۴۱۷۰۱۱-۰۴۲۔ صفحات:۹۰۔ قیمت (اشاعت خاص): ۶۰ روپے۔[بچوں کی تعلیم و تربیت میں  سکول اسمبلی (صباحی اسمبلی) اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شاہراہِ تعلیم کی اشاعت ِ خاص کے ذریعے اسکول اسمبلی کی اس روایت کو آگے بڑھانے اور مؤثر بنانے کے لیے مفید رہنمائی دی گئی ہے۔ مختلف ممالک میں سکول اسمبلی کی روایت، کلاس روم اسمبلی کا تصور، سکول اسمبلی کے مفید تجربات، معروف شخصیات کے تاثرات اور یادیں، اور اس موضوع پر معاون کتب اور ویب سائٹس کا تعارف بھی شاملِ اشاعت ہے۔ ایک اہم اور منفرد موضوع پر  عمدہ لوازمہ اور خوب صورت پیش کش۔]

 

علامہ اقبال:مسائل ومباحث(ڈاکٹر سید عبداللہ کے مقالات)، مرتب: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: اقبال اکادمی، پاکستان، لاہور۔ صفحات: ۳۷۶۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

ڈاکٹرسیدعبداللہ کا شماراردو زبان وادب کے ممتازنقادوں اور محققین میں ہوتا ہے۔ اقبال کی شاعری اور فکرکی تفہیم وتبلیغ کے لیے اپنی آٹھ کتابوںکی صورت میں اقبالیات پر جو تنقیدی اور توضیحی سرمایہ انھوں نے یادگار چھوڑا ہے ،وہ اس پائے کا ہے کہ بعض معروف اقبال شناس بھی اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے۔ڈاکٹرسیدعبداللہ کی مثال علم کے ایسے سمندر جیسی ہے جو حدود وقیود سے ماورا ہوتاہے اورجس کی موجیں دریابہ دریا،یم بہ یم،جوبہ جو پھیلتی جاتی ہیں۔

سیدمرحوم اورینٹل کالج لاہور میں ایک طویل عرصے تک طلبہ وطالبات کو اقبالیات کا درس دیتے رہے بلکہ اقبال کے فکروفن پر موقع بہ موقع مقالات لکھتے رہے۔ان کی (چندکتابوں کے نام یہ ہیں:مقاصدِ اقبال،مسائل اقبال، شیخ اکبر اور اقبال،مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ) یہ کتب اس لحاظ سے بھی ممتازہیں کہ سید عبداللہ نے اقبال کا سہارا لے کر اپنے شخصی خیالات کااظہار نہیں کیا بلکہ فکر اقبال کی حدود میں رہتے ہوئے ان کے فکروفن کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

ان مستقل کتب کے علاوہ اقبالیات پرسیدصاحب کا بہت ساکام متفرق اخبارات ورسائل میں دفن تھا۔اس خزانے میں سب سے اہم مختصرمضامین کا وہ سلسلہ ہے جو۹؍نومبر۱۹۷۴ء تا۸نومبر۱۹۷۵ء ہفت روزہ چٹان لاہور میں شائع ہوتا رہا۔ ہجری تقویم کی رو سے اقبال کی پیدایش کو ایک سو برس مکمل ہونے پر ڈاکٹر سیدعبداللہ نے’’ ارادہ کیا کہ اس پورے سال کو متبرک سمجھ کر ہرہفتے فکر اقبال اور شخصیت اقبال کے کسی نہ کسی پہلوپرایک مختصر ساشذرہ لکھ کرہدیۂ عقیدت‘‘ پیش کرتے رہیں۔(ص۱۹)

لہٰذااوپردرج کردہ مدّت میں سیدصاحب نے۴۶ مضامین تحریر کیے جو ہفتہ وارچٹان میں شائع ہوتے رہے۔ان مضامین کی تحریرکے دوران سیدصاحب کانقطۂ نظر کیاتھا،انھی کے الفاظ میں:’’ہم لوگوں کااوّلین فریضہ ہے کہ فکر اقبال کو اپنے خیالات کے روپ میں پیش نہ کریں بلکہ اس کوحقیقی شکل میں مرتب کرکے حقیقی اور مکمل اقبال کو سمجھنے کی کوشش کریں…اقبال کو جوکچھ کہ وہ تھے،سمجھیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں…‘‘(ص۲۰)

سیدصاحب کے ان مضامین کے چندنمایاں موضوعات یوںہیں: کلام اقبال میں افرنگ کی حیثیت(اوراس ضمن میں دیگرمباحث، مثلاًفرنگی سیاست، معاشرت، فکروحکمت،اس کے تاریک پہلو،مغرب کے سیاسی فکر پر اقبال کی تنقید وغیرہ)  نظریۂ خودی کی سہل ترین تشریح    (اس موضوع پر سلسلہ وار۱۱ مضامین تحریر کیے گئے ہیں)۔ عجم وعجمیت اقبال کی نظر میں اقبال کے معاشی نظریات۔

ان موضوعات سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ سید عبداللہ نے کس گہرائی اورتفصیل کے ساتھ اقبال کو پڑھا اور سمجھاتھا۔ان مضامین میں سیدصاحب کا اندازِتحریراگرچہ علمی ہے، اس کے باوجود   بوجھل نہیں ہے اور عام قاری بھی ان مضامین کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کیوںکہ سیدصاحب کے نزدیک ان مضامین کی تحریر کا مقصدبھی یہی تھا۔خودفرمایاہے:’’ایک عام قاری کے لیے(جو فلسفی یا عالم یا دانش ورنہیں)،افکاراقبال کاعوام فہم مقصد ومطلب مرتب کررہاہوں۔ میں یہ ذہن نشین کروانا چاہتا ہوں کہ اقبال کی فکری جدوجہد کا سہل خلاصہ،لب ِلباب اور عوام فہم درس کیا ہے؟… (ص۴۹)

ممتازاقبال شناس ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی نے سیدصاحب کے یہ مضامین جمع کرکے،کچھ مزید لوازمے کے ساتھ(سید عبداللہ کے دیگرغیرمدوّن مضامین، مکاتیب، مصاحبے، مقدماتِ کتب وغیرہ) انھیں علامہ اقبال:مسائل ومباحث کے عنوان سے اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سے شائع کرا دیا ہے۔ ہفت روزہ چٹان کے سلسلہ وارمضامین کے علاوہ بھی سیدعبداللہ کے’’غیر مدوّن مضامین بھی کتاب کا حصہ ہیں۔یہ بھی تفہیم اقبال کی ذیل میں عمدہ مضامین ہیں،جن میں متفرق موضوعات پر اظہارخیال کیاگیاہے، مثلاًاقبال فہمی کے بنیادی اصول،اقبال کی اُردو شاعری، اقبال اور رومی،نواے شاعرِفردا، نوجوان اور مطالعۂ اقبال وغیرہ۔اقبال کی اردو شاعری میں سیدصاحب نے اقبال کے فنِ شعرپرخاصی عمدہ بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اقبال محض فکرہی نہیں ،فن کے اعتبار سے بھی بڑے شاعرہیں۔اس ـمضمون میں انھوں نے ’شعراقبال میں بلاغت کے زاویے‘پر بہت عالمانہ نکتہ افروزی کی ہے۔

علامہ اقبال کے عقیدت منداور سیدصاحب کے شیدائی اور طالب علم اس ضمن میں ڈاکٹرہاشمی کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے یہ مضامین جمع اور مرتب کرکے ڈاکٹر سیدعبداللہ اوراقبال سے وابستگی کاایک نیا افق روشن کیا ہے۔اصول ترتیب وتدوین کے مطابق مضامین کاوش و محنت سے مرتب کیے گئے ہیں۔کتاب بہت اچھے معیارپر طبع کی گئی ہے۔قیمت مناسب ہے۔(ساجد نظامی)


عہدِرسالتؐ میں اسلام اور نصرانیت کے تعلقات، مؤلف: ڈاکٹر فاروق حمادہ، مترجم: ابزلفہ محمد آصف نسیم۔ ناشر: بیت الحکمت، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۲۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔

مؤلف رباط (مراکش) کی جامعہ محمدالخامس کے شعبۂ علوم الالسنۃ الاداب وعلوم الالسانیہ کے استاد ہیں۔ اس گراں قدر علمی تالیف کو پروفیسر ڈاکٹر فاروق حماد نے قرآن و حدیث اور دیگر تاریخی ذرائع سے اخذ و اکتساب کر کے تیار کیا ہے اور اس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے باہمی تعلقات کا ایک عکس موجودہ حالات کے تناظر میں ارباب فکرودانش کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کتاب کے چار ابواب میں مکاتیب اور سفرا، وفود، غزوات  و سرایا اور معاہدات اور صلح نامے دیے گئے ہیں۔   وہ مذاہب جن کی ابتدا اور مسکن عالمِ عرب رہا ہے، یعنی اسلام اور نصرانیت (نصرانیت اب زیادہ تر مسیحیت پکاری جاتی ہے) ان کے عہدنبویؐ میں آپس کے تعلقات و روابط کے اثرات و نتائج پر بحث کی گئی ہے۔

تہذیبی تصادم اور کشاکش کے اس دور میں اس کتاب میں بیان کیے گئے واقعات و حالات کی روشنی میں ہمیں اپنا طرزِعمل متعین کرنے کے لیے اصول و ضوابط اخذ کرنا ہوں گے تاکہ اسلام اور مسیحیت کے آپس میں تعلقات کا اِدراک ہوسکے۔ قرآن کریم میں بھی سورئہ مائدہ ، آیات ۸۳-۸۴ میں مومنوں کے ساتھ دوستی میں قریب ترین نصاریٰ کو بتایا گیا ہے اور نصاریٰ کی بعض خصوصیات بیان کی گئی ہیں مگر کیا رسولؐ اللہ کے زمانے کے نصاریٰ میں پائی جانے والی خصوصیات آج کے دور کے نصاریٰ میں بھی پائی جاتی ہیں؟ اور کیا رسولؐ اللہ کے دور کے مسلمانوں اور آج کے دور کے مسلمانوں میں بھی کوئی نسبت ہے؟ ان سوالات کے صحیح تجزیے اور ان کے معقول جواب کے بعد ہی مسلمانوں اور عیسائیوں کے باہمی تعلقات کی کوئی صورت پیداہوسکتی ہے۔ آج کے نصاریٰ جو یورپ، برطانیہ، امریکا اور چند دوسرے ممالک میں کثیرتعداد میں ہیں، اور ان کی حکومتیں ہیں، وہ تو صلیبی جنگوں کے پس منظر میں مسلمانوں اور اسلام سے سخت عناد رکھتے ہیں اور کوئی موقع مسلمانوں اور اسلام کو زک پہنچانے کا ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان حالات میں توقع رکھنا کہ اسلام اور نصرانیت کے اچھے تعلقات قائم ہوسکتے ہیں، عبث ہے۔ یہ تعلقات اسی وقت بہتر طور پر قائم ہونے کا امکان ہے جب اسلام پھر سے ایک عالمی قوت بن جائے اور سارے مسلمان اسلام کے زیرسایہ متحد ہوجائیں۔(پروفیسر شہزادالحسن چشتی)


اخوان المسلمون: تزکیۂ ادب، شہادت، ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی۔ناشر:القلم پبلی کیشنز، ٹرک یارڈ،بارمولہ، کشمیر۔ صفحات: ۳۱۲ مجلد۔ قیمت: ۲۵۰ بھارتی روپے۔

یہ کتا ب اخوان المسلمون کی تاریخ، جدوجہد کے مراحل اور پہلے مرشدعام امام حسن البنا سے موجودہ مرشدعام ڈاکٹر عبدالبدیع تک کے اَدوار کے مطالعے پر مشتمل ہے۔ اخوان جس آزمایش، پریشانی اور مشکل کیفیات سے گزرے، ان سات ابواب میں اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔     یہ سات ابواب: حسن البنا شہید سے ڈاکٹر محمد البدیع تک، تصوف اور سیاست کا اجتماع، تشدد سے گریز، مزاحمت کی تلقین، ادب کی حلاوت بھی ایمان کی حرارت بھی، دانش وروں اور ادیبوں کی کہکشاں، شہادت گہہ اُلفت میں، اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ پاک باز، جیسے عنوانات کے تحت اہم موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اخوان کا دعوت و تحریک کا سفر کیسے طے ہوا، اس کے وابستگان نے کیسی جرأت و پامردی کا مظاہرہ کیا۔ اخوان کے قائدین و کارکنان جس آزمایش سے گزرے اور جس ثابت قدمی، استقلال کے ساتھ مصائب و مشکلات برداشت کیے وہ بہت اندوہناک اور دل دہلا دینے والا ہے۔ اخوان المسلمون: تزکیۂ ادب، شہادت، اخوان کی جدوجہد، دعوت، عزیمت کے ایمان افروز واقعات سے روشناس کراتی ہے۔ کتاب کا مطالعہ جذب و کیف اور ایمان کی حلاوت کو جلا بخشتا ہے۔ ہرباب کے آخر میں مستند حوالہ جات اور حواشی کا اہتمام ہے، جب کہ اشاریے نے اس کی افادیت بڑھا دی ہے۔ کتاب کا مطالعہ اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے زادِراہ فراہم کرنا ہے، جب کہ اخوان سے دل چسپی رکھنے اور تحقیق سے وابستہ طلبہ و اساتذہ کے لیے نہایت اہم اور قیمتی لوازمہ فراہم کرتا ہے۔(عمران ظہور غازی)


زنا کی سنگینی اور اس کے بُرے اثرات، پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۱۱۲۴۔ صفحات: ۳۳۸۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں زبان پر لانے یا لکھنے سے حیا آڑے آتی ہے۔   اسی لیے گالیاں اُردو کے بجاے انگریزی میں دینا ہمارے لیے ’مہذبانہ‘ فعل ہے۔ زنا عملاً اُردو زبان کا لفظ بن گیا، مگر ہے تو عربی۔ اس کے مکمل مفہوم کا اُردو ترجمہ کیوں تلاش کیا جائے۔ عربی (کی تقدیس) کا پردہ پڑا رہے تو اچھا ہے۔ یہ موضوع کبھی غلافوں اور پردوں میں ملفوف رہا ہوگا لیکن اب تو اس کی جزئیات تک کھلے بازار، سرعام بلکہ سرِپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نظرآرہی ہیں، بلکہ دعوتِ عام دے رہی ہیں۔

ان حالات میں اس کتاب میں ایسے موضوع پر جو وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، انتہائی احسن طریقے سے (مطالعے کے دوران انسان خوداحتسابی کے عمل سے گزرسکتا ہے) تعلیم دی گئی ہے۔ مصنف کی اُردو کی ۳۰کتب کے ساتھ ساتھ عربی کی ۳۰کتب کی فہرست بھی دی گئی ہے۔

کتاب میں پہلے چار ابواب میں زنا کے بارے میں یہودیت، عیسائیت، اسلام اور   سلیم الفطرت افراد کا موقف پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں زنا کے بُرے اثرات کے تحت  جنسی امراض، اولاد حرام کی کثرت، عائلی زندگی میں ٹوٹ پھوٹ اور شرح پیدایش میں کمی پر گفتگو کی گئی ہے۔قرآن اور حدیث اور دورِ صحابہؓ کے بعض اہم واقعات میں زنا کے حوالے سے جو کچھ موجود ہے یا مطالعے میں آتا ہے، وہ اس کتاب میں اپنے صحیح مقام پر مناسب ترتیب سے مل جاتا ہے۔ مصنف کا اندازِ تحریر اتنے نازک موضوع پر بحث کرتے ہوئے نہایت باوقار ہے۔ ہربات کے لیے قرآن و حدیث سے سند اور صحت کے ساتھ ان کی طباعت، کتاب کی ایسی صفت ہے جو متوجہ کرتی ہے۔

زنا کے اثرات کے تحت مغربی تہذیب اور مغربی معاشرے کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ مصنف کچھ مسلم معاشروں کے احوال بھی تحقیق کر کے سند کے ساتھ پیش کرتے اور کچھ احوال واقعی اپنے ملک کے بھی سامنے لاتے کہ یہاں کیا خوف ناک منظرنامہ تشکیل پارہا ہے۔فہرست کتب میں ایک زیرطبع کتاب ’زنا سے بچائو کی تدبیریں‘ کی اطلاع بھی ہے۔ یقین ہے کہ یہ اس کتاب کا تکملہ اور اچھی رہنما کتاب ہوگی۔ مراجع و مصادر کے تحت عربی کی ۱۰۸،اُردو کی سات اور انگریزی کی چھے کتب کا حوالہ ہے۔ انگریزی کے جائزوں اور مقالات کی تعداد ۲۴ ہے۔(مسلم سجاد)


یادوں کے آئینے میں، مرتبہ: میاں طیب فاروق۔ناشر: نعمان پبلشنگ کمپنی، غزنی سٹریٹ،  اُردو بازار، لاہور۔فون: ۷۷۹۴۳۰۵-۰۳۰۱۔ صفحات:۲۹۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

پاک فوج کے ایک انجینیرمیجر مسعود طارق بھٹی ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں شہید ہوگئے۔ ان کے دوست طیب فاروق نے ان کی یاد میں یہ کتاب ان کے والد پروفیسر نذیر احمد بھٹی کی مشاورت اور رہنمائی میں مرتب کی ہے۔ صفحہ ۱۱۰-۱۱۱ پر ’شہدا کی قسمیں‘ کے عنوان سے ۳۷قسموں کی فہرست دی گئی ہے۔ گویا شہادت کا مرتبہ حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ انسان میدانِ جہاد میں مقابلہ کرتے ہوئے جان دے۔ شہید کے اپنی والدہ اور دیگر اہلِ خانہ کے نام خطوط، ان کی ڈائری سے ان کی پسند کے اشعار اور اقتباسات اور ان کے بارے میں ان کے افسران نے دوستوں نے جو کچھ لکھا کہا سب شامل کردیا گیا ہے۔

کتاب میں ایک اچھے باشعور مسلمان نوجوان کی زندگی کا چلتا پھرتا نقشہ سامنے آتا ہے جس میں یقینا دوسروں کے لیے رہنمائی ہے لیکن ہمارے لیے سبق کا پہلو یہ ہے ایک نوجوان انجینیر کے دوستوں نے اس کی یادوں کو محفوظ کر دیا لیکن ہمارے کتنے ہی تحریکی رہنما اپنے علاقوں میں اور ملک میں دین کی خدمت کر کے رخصت ہوئے لیکن ہم وقتی طور پر چند مضامین کے علاوہ ان کا کوئی قرض نہیں سمجھتے۔ تحریک کے پاس تو شہدا کے علاوہ بھی سیکڑوں مثالی کارکن ہیں جو یاد رکھے جانے چاہییں۔ ابھی عربی کی ایک پانچ جلدوں کی کتاب: شھداء الحرکۃ الاسلامیۃ نظر سے گزری جس میں حسن البنا اور سیدقطب کے ساتھ سیکڑوں اخوان شہدا کا تذکرہ ہے۔صحابہ کرام اور سلف کے دیگر بڑے لوگوں کے واقعات اپنی جگہ، لیکن ہمارے اپنے دور کے افراد کی قربانیاں اور عزم اور ایمان کی داستانیں بھی اپنا ہی ایک سبق اور تاثیر رکھتی ہیں۔(مسلم سجاد)


پروفیسر عبدالغفور احمد، مرتب: سید عامر۔ ناشر:جسارت پبلی کیشنز، تیسری منزل، سیّدہائوس،   آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔ فون: ۴-۳۲۶۳۰۳۹۱-۰۲۱صفحات:۳۸۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

’’ایک دفعہ مخالفین نے ہمارے گھر کے باہر ہوائی فائرنگ اور نعرے بازی کی۔ وہ نعرہ لگارہے تھے: غفورا ٹھاہ۔ ہم نے اباجی سے کہا: حکومت کے کسی ذمہ دار شخص کو بتائیں یہاں پر لوگ   کیا کر رہے ہیں۔ اباجی نے جواب دیا:بتائو غفور کس کا نام ہے؟ ہم نے کہا: اللہ کا۔ اباجی نے کہا: میں ان لوگوں کی کیا شکایت کروں، یہ اپنا بُرا خود ہی کر رہے ہیں، مَیں تو عبدالغفور ہوں‘‘ (ص ۳۵۲)۔  ان عبدالغفور صاحب پر سیدعامر نے ۴۰۰صفحے کی خوب صورت کتاب اتنی کم مدت میں تیار کر کے پیش کردی کہ یقین نہیں آتا، یعنی صرف اڑھائی ماہ میں۔ اس میں وہ سارے مضامین ، کالم سب جمع کردیے گئے ہیں جو وفات کے بعد شائع ہوئے ۔ اس کے ساتھ ہی جس طرح خبریں آئیں، تعزیتی پروگرام ہوئے وہ سب بھی ایک جگہ مل جاتے ہیں۔ اخبارات کے اداریے، بی بی سی،    وائس آف امریکا اور ڈان اور نیوز کی انگریزی خبریں۔ امیرجماعت اسلامی ہند اور اخوان رہنما کے خطوط اور آخر میں آٹھ صفحات پر تصاویر ۔ جسارت پبلی کیشنز کو تصاویر کی طباعت میں اتنی سادگی نہ دکھانی چاہیے تھی۔ تبصرے کا مقصد پروفیسر عبدالغفور صاحب کی خدمات کا بیان نہیں، صرف اس کتاب کا راستہ دکھانا ہے۔ اگر آپ کے اندر صرف ۴۰۰ روپے میں اس دل کش کتاب کو حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگیاہے ، تو تبصرہ کامیاب ہے! ورنہ کتاب تو کامیاب ہے ہی!!(مسلم سجاد)


Policy Perspectives، مدیر: خالد رحمان۔ ملنے کا پتا: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، گلی نمبر۸، سیکٹر۳/۶-ایف، اسلام آباد۔ فون: ۳-۸۴۳۸۳۹۱-۰۵۱۔ صفحات: ۱۷۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز جو خدمات انجام دے رہا ہے اس میں کتابوں کے    نقد و جائزے پر مشتمل شش ماہی نقطۂ نظر کے علاوہ زیرتبصرہ مجلہ بھی ہے جو گذشتہ ۱۰سال سے ہرچھے ماہ بعد شائع ہوتا ہے اور بہت اہم مسائل پر قابلِ قدر نگارشات پیش کرتا ہے۔ اس سال کے پہلے شمارے میں قوم کے سامنے ۲۰۱۳ء اور بعد کے ایجنڈے پر پانچ عنوانات: دستورِسیاست اور حکومت کاری، خارجہ پالیسی، قومی سلامتی، معیشت، اور توانائی پر پروفیسر خورشیداحمد، شمشاد اے خاں اور دوسروں کے مقالے ہیں۔ اس کے علاوہ چھے مقالات مزید شامل ہیں: ریسرچ کے مغربی فلسفے اور اسلام( پروفیسر خورشید احمد)، عالمی دنیا کے لیے عالمی اخلاقیات (انیس احمد)، انسانی حقوق اور اسلام ( سید محمد انور) ، خواتین پر قانون سازی رجحانات اور نقطۂ نظر ( آئی پی ایس ٹاسک فورس)، شاہراہِ ریشم اور پاک چین تعلقات (خالد رحمن)، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار (طغرل امین) کے عنوانات اور لکھنے والوں کے نام دیکھنے پر مجلے کے انتہائی قیمتی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ کاش! ترجمے کی ایسی مشین آجائے کہ ہم ایک طرف انگریزی ڈالیںدوسری طرف ترجمہ بامحاورہ اُردو میں نکل آئے۔ جو انگریزی پڑھ سکتے ہیں وہ اسے حاصل کرکے پڑھنا ’مس‘ نہ کریں۔ صرف ۴۰۰روپے سالانہ میں اور کیا چاہتے ہیں؟ (مسلم سجاد)

تعارف کتب

  • قرآن و سنت کا دینی تصور اور بنیادی اسلامی عقائد، تالیف: چودھری مشتاق احمد۔ ملنے کا پتا:    البدر کتاب گھر، جلال پور جٹاں روڈ، کچہری چوک، گجرات۔ فون: ۴۶۳۹۸۸۶-۰۳۳۴۔ صفحات: ۳۶۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [مؤلف کے نزدیک اُمت مسلمہ کے زوال و پستی کا بنیادی سبب قرآن و سنت سے رُوگردانی اور اسلام کے اصولی احکام سے کم علمی ہے۔ چنانچہ اُمت کے عروج و زوال کا جائزہ لیتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام کے بنیادی تصور اور متفقہ لائحہ عمل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلام سے گہری وابستگی، تقویٰ کو زندگی کا شعار بناتے ہوئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا وقت کا تقاضا قرار دیا ہے۔]
  •  مسئلہ تعلیم ، مولانا محمد ادریس کاندھلوی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ سیّداحمد شہیدؒ، اُردو بازار، لاہور۔             فون: ۴۱۴۶۵۶۲-۰۳۳۳۔ صفحات: ۴۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [نظامِ تعلیم کے مختلف پہلوئوں کے جائزے پر مبنی تحریر جس میں تعلیم کی اہمیت، نصابِ تعلیم، مدتِ تعلیم، ذریعۂ تعلیم، عربی اور انگریزی کی یک جا تعلیم کے مفاسد،  دینی مدارس کی اقسام، نظام اور نصاب، نیز عصری تعلیمی ادارے اور ان کے تہذیب و تمدن پر اثرات پر بحث کی گئی ہے۔ انگریزی زبان کے بار ے میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ایک تحریر بھی بطور ضمیمہ شامل ہے۔]
  • السلام علیکم، ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحق۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، سلمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۲۳۲۔ قیمت:۱۸۰ روپے۔[السلام علیکم کو موضوع بنا کر چھے فصلوں پر مشتمل ۲۳۲ صفحات کی جامع کتاب، جس میں اس موضوع سے متعلق ہر پہلو اور ہرمسئلہ آگیا ہے۔ مصافحے، معانقے اور بوسے تک کی بھی وضاحت ہے۔ اندازِ بیان سادہ ہے۔]

 

 

نورالقرآن [سات تراجم، نو تفاسیر]، مرتب: محمد صدیق بخاری۔ ناشر: سوے حرم پبلی کیشنز،  ۵۳- وسیم بلاک، حسن ٹائون، ملتان روڈ، لاہور- فون: ۴۰۲۱۷۱۳-۰۳۲۱۔ صفحات: اوّل:۵۲۰۔  دوم:۳۴۴۔ سوم:۳۵۰۔ چہارم:۳۰۴۔ ہدیہ (علی الترتیب):  اوّل: ۵۰۰ روپے، دوم: ۴۰۰ روپے، سوم و چہارم: ۵۰۰ روپے۔

محترم محمد صدیق بخاری نے اُردو کے معتبر تراجم (شاہ عبدالقادر، مولانا اشرف علی  تھانوی، مولانا احمد رضا خان، مولانا جونا گڑھی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، محترم جاوید احمد غامدی)اور معتبر تفاسیر (معارف القرآن، خزائن العرفان، تفہیم القرآن، احسن البیان، ضیاء القرآن، تفسیرماجدی، تدبر قرآن، البیان)کے منتخب نکات نُورالقرآن میں جمع کردیے ہیں۔ یہ ایک بہترین کوشش اور کاوش ہے۔ اُردو تفاسیر کے مطالعے کا خواہش مند طالب علم اور عالم ایک مجموعے میں تمام تفاسیر کا مطالعہ کرلیتا ہے، اور اسے انتخاب کی دقت بھی نہیں اُٹھانا پڑتی۔ مترجمین اور مفسرین اپنے دور کی مشہور اور معروف بلندپایہ علمی شخصیات ہیں جو مرجع خلائق تھے اور ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے پوری عرق ریزی اور محنت سے    قرآنِ پاک کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا اور اہلِ ایمان کو قرآنِ پاک سے وابستہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

آج بھی اہلِ علم ان تفاسیر سے استفادہ کر رہے ہیں۔ مرتب نے استفادہ کرنے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ اس کام کا طریق کار اور مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مرتب کے پیش نظر کسی خاص مکتب ِفکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دینا ہے۔ اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تمام مکاتب فکر کی آرا کا خلاصہ کم و بیش انھی کے الفاظ میں قاری تک پہنچانا پیش نظر ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ تمام آرا کو بیان کرنے کا   یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر، غیربہتر یا صحیح یا غلط کا انتخاب قاری کے ذمے ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نُورالقرآن کے قاری میں جستجو پیدا ہو اور وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے، اہلِ علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے تاکہ دینِ حق سے اس کا شعوری تعلق قائم ہو، نہ کہ وہ تعلق جو محض آباواجداد کی روایات اور سنی سنائی باتوں اور  چند تعصبات اور رسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ معاشرے میں دوسروں کی بات سننے، پڑھنے اور اس پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ وسعت اور برداشت کی روایت جنم لے۔ مسالک اور مکاتب فکر کے درمیان فاصلے کم ہوں، نفرت کی دیواریں کمزور ہونا شروع ہوں اور شخصیات کے بجاے دلیل کی حکمرانی قائم ہو۔ اُمیدواثق ہے کہ اس سلسلے میں نُورالقرآن معاون و مددگار ثابت ہوگا‘‘۔ (نُورالقرآنکا مقصد،ص ۳)

مرتب نے قرآن کے ایک طالب علم کے لیے تفاسیر کا تقابلی مطالعہ بالکل آسان کردیا ہے۔ کسی موضوع پر قرآن کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کے لیے نو مفسرین کی معاونت ایک ہی جگہ حاصل ہوجاتی ہے۔ ہر طالب علم قرآن کے نو مفسروں کی راے بھی جان سکتا ہے۔

نُورالقرآن کے اب تک چار اجزا سورئہ بقرہ، آل عمران، نساء اور مائدہ مرتب ہوکر سامنے آئے ہیں۔تفسیری نکات سے پہلے مذکورہ بالا سورتوں کا پورا متنِ عربی نقل کیا گیا ہے تاکہ قاری تفسیری نکات سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کا شرف بھی حاصل کرسکے اور متن سے اس کا تعلق کمزور نہ ہو۔ اس کارِخیر پر محمد صدیق بخاری ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں۔ اس سلسلے میں ایک خصوصی گزارش یہ ہے کہ اگر وہ جناب جاوید احمد غامدی کے متنازعہ افکار کو اس تفسیر کا حصہ     نہ بناتے تو بہتر ہوتا۔ بے شک ان کے ایسے خیالات جو متنازعہ نہیں ، جو اختلاف کے باوجود گوارا ہوں، انھیں ضرور شامل کرلیں لیکن اجماع اُمت اور اسلامی نظام کے نظریے کو نقصان پہنچانے والے مضامین سے احتراز کریں تو اس مجموعے کی افادیت ہوگی اور تمام مکاتب ِ فکر اس سے کسی تحفظ کے بغیر استفادہ کریں گے اور عوام کو استفادے کی طرف متوجہ کریں گے۔ اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے بھی یہ قیمتی سرمایہ ہوگا۔(مولانا عبدالمالک)


بایبل، قرآن کی روشنی میں، انجینیرگلبدین حکمت یار (اُردو ترجمہ: ساجد افغانی)۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۸۲۸۔ قیمت:۷۵۰ روپے۔

گلبدین حکمت یار، افغانستان میں اسلامی تحریکِ انقلاب کے مشہور قائد کی حیثیت سے معروف ہیں۔ لیکن کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ ایک دانش ور، محقق اور مصنف بھی ہیں۔ پیش نظر کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد دستاویز ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ افغانستان میں اشتراکی روس کی ناکامی کے بعد مغرب کی صلیبی طاقتوں نے یلغار شروع کی۔ خیراتی اداروں اور مشرقِ بعید سے سیاحت اور ’دوسرے کاموں‘ کی آڑ میں ہزاروں مبلغین کی غیرمسلح افواج اور طائفوں کے لشکر نے افغانستان اور ملحقہ ممالک پر حملہ کر دیا۔ ’افغانستان اور عراق پر صلیبی قوتوں کے مشترکہ حملے اور  مسلم ممالک کی حکومتوں کا انھیں برملا مدد اور خفیہ ساتھ دینے سے واضح ہوگیا کہ اُمت اسلامیہ کتنی مظلوم اور اسلام کتنا تنہا ہے۔ (ص۴)

امداد، خدمت اور تبلیغِ مسیحیت کے رُوپ میں مغربی استعمار کی اس یلغار نے گلبدین حکمت یار  کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ بایبل کا مطالعہ کریں، اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عہدنامۂ قدیم اور عہدنامۂ جدید کوئی تحریف شدہ الہامی کتابیں نہیں، بلکہ یہ ساری انسانوں کی تصانیف ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ بایبل کی طرف یہ جاننے کے لیے رجوع کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کیا کہتی ہے، اس کی تعریف کیسے کرتی ہے،اس کی صفات کیا ہیں اور اس کے وجود کے دلائل کیا ہیں، تو آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ نہ صرف یہ کہ آپ خالی ہاتھ اُٹھیں گے، بلکہ دوسرے بہت سے نئے نئے سوالات آپ کے ذہن میں جنم لیں گے۔ بایبل میں آپ اللہ تعالیٰ کو اس طرح پائیں گے، جیسے وہ ایک کمزور انسان کی طرح ہے۔ اس نے انسان کو اپنی شکل میں پیدا کیا ہے،    وہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے، ان کے ساتھ ہے، ان کے ساتھ رہتا ہے، وہ اس کی اپنی قوم ہیں، وہ اس کے بیٹے ہیں۔ کبھی کبھار انسان کے رُوپ میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کے جدِامجد حضرت یعقوب ؑ کے ساتھ اس نے کُشتی بھی لڑی ہے، مگر انھیں پچھاڑنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ (ص۸)

پیش نظر کتاب میں عہدنامۂ قدیم کی ساری ’مقدس کتابوں‘ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اِن میں پیدایش، خروج،، لاوی، گنتی، قضاۃ، سیموئیل، سلاطین، مزامیر اور غزل المغزلات‘ شامل ہیں۔ اِن کتابوں میں سے طویل اقتباسات دے کر مصنف نے ثابت کیا ہے کہ ان میں حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت یونس ؑ تک انبیا ؑاور اقوام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں، اُن سے پڑھنے والے کے ذہن میں اُن کی تقدیس، عظمت اور عزت کے بجاے ان کے بارے میں نہایت منفی تصویریں سامنے آتی ہیں۔

عہدنامۂ جدید، حضرت عیسٰی ؑ کے حواریوں سے منسوب کچھ خطوط اور یادداشتوں پر مشتمل ہے جن میں متیٰ، مرقس اور یوحنا شامل ہیں۔ لوقا تو حضرت عیسٰی ؑکے حواریوں میں سے نہ تھے، مگر اُن کی ’انجیل‘ بھی اناجیل کے مجموعے میں شامل ہے۔ اِن اناجیل میں حضرت عیسٰی ؑ ایک نبی کے بجاے ایک کمزور سے مُصلح دکھائی دیتے ہیں، اپنے مشن میں ناکام ہوکر درجن بھر اصحاب بھی آخر وقت تک اُن کا ساتھ نہ دے سکے۔

بعض انبیاے کرام ؑ کا ذکر اور اُن سے متعلق واقعات قرآنِ مجید اور بایبل دونوں میں آتے ہیں، لیکن ان دونوں کے بیانات کا موازنہ کیا جائے تو الہام اور داستان کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑسبھی نعوذباللہ بشری کمزوریوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسے کردار کے حامل، جو کسی بھی باوقار اور معزز شخص کے ساتھ منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت دائود ؑاور حضرت سلیمان ؑتو معاذاللہ عام سلاطین کی طرح عیش و عشرت کے دل دادہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ ’الہامی کتابیں‘ کسی داستان گو کی کہانیاں نظر آتی ہیں، جس کا مذہب سے لگائو بس واجبی سا ہے۔

بایبل قرآن کی روشنی میں نہایت اہتمام سے طبع ہوئی ہے، تاہم ساجد افغانی  کے اُردو ترجمے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ’’آتی ہے اُردو زبان آتے آتے‘‘۔(ڈاکٹر عبدالقدیر سلیم)


برزخ، ایک خواب، ایک حقیقت (حصہ اوّل)، دوزخ اور اس کے ہولناک مناظر، ملک عطامحمد۔ ملنے کا پتا: ۸۵-رحمت پارک، یونی ورسٹی روڈ، سرگودھا۔ فون: ۳۲۱۴۶۸۵۔ صفحات: ۴۸۰۔    قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔

بڑی تقطیع پر ، عام کتابی سائز کے تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب اس صنفِ ادب سے تعلق رکھتی ہے جس میں ہم موت کے بعد کا منظر، قبر میں کیا ہوگا؟ وغیرہ میں پڑھتے رہے ہیں اور حال ہی میں ابویحییٰ کی جب زندگی دوبارہ شروع ہوگی نے فروخت کے ریکارڈ قائم کردیے۔ زیرتبصرہ کتاب بھی عالمِ برزخ کے حوالے سے دوزخ اور اس کے ہولناک مناظر کو ایسے بیان کرتی ہے جیسے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور سب کیرکٹر خود بول رہے ہیں۔ ملک عطامحمدکے سامنے ملک کے حالات ہیں کہ یہاں کام کرنے والے، تباہی لانے والے، غلط راہوں پر لے جانے والے اپنے لیے جہنم کما رہے ہیں۔ ان لوگوں کے انجام کے بارے میں انھیں قرآن و احادیث میں بیان کی ہوئی ساری تفصیلات کا علم ہے۔ شب معراج میں تو رسولؐ اللہ نے دوچار مناظر دیکھے تھے لیکن یہاں ایک مخصوص انداز سے فاضل مصنف ۵۰۰ صفحات کی داستان سے گزارتے ہیں۔  ان کا جدید دور اور عالمی طاقتوں کا علم بھی تازہ ہے۔ اس جامع پس منظر کے ساتھ جب وہ لکھتے ہیں تو ایک نہایت قابل عبرت دستاویز بنتی ہے جس میں آپ کو پہچاننا مشکل نہیں ہوتا کہ جو فحاشی پھیلاتے ہیں ان کے لیے عذابِ الیم کیا ہے؟ ٹی وی چینل کے مالک پر کیا گزر رہی ہے؟ دہریے، کافر اور مشرک اور منافق کا حشر دیکھیے۔ غیبت کرنے والے کی سزا، ڈپٹی کمشنر دوزخ میں،    مولوی دوزخ میں، ساس بہو جہنم میں، وزیر جہنم میں،اور آخری ہے صدر جہنم میں۔ آئینہ وہ رکھ دیتے ہیں، تصویر آپ کو پہچاننا ہوتی ہے۔

معلوم نہیں علماے کرام اس پر کیا فتویٰ دیں، لیکن اگر کوئی فلم ساز اس پوری کتاب پر ۳،۴ملین ڈالر خرچ کرکے کوئی اڑھائی گھنٹے کی فلم بنائے تو یہ ابلاغِ دین کی دورِحاضر کے لحاظ سے انذار کی ایک مؤثر شکل ہوگی۔ مصنف نے بتایا ہے کہ وہ اس کا دوسرا حصہ جنت کے حوالے سے تیار کر رہے ہیں۔ وہ بھی آجائے تووہ بشارت کے لحاظ سے کوشش ہوگی، اور دونوں ایک متوازن تصویر پیش کریں گے، کہ جو چاہے اہلِ جنت کے نقشِ قدم پر چلے، اور جو چاہے جانتے بوجھتے اہلِ جہنم کے راستے پر چلے اور عبرت نہ پکڑے۔طباعت معیاری بلکہ احسن ہے۔ (مسلم سجاد)


تعارف القرآن، عبدالرشید عراقی۔ ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۴۰۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

قرآنِ کریم دنیا کی واحد کتاب ہے جس کے حوالے سے ہرسال دنیا کی بے شمار زبانوں میں درجنوں کتب تحقیق کے ساتھ طبع ہوتی ہیں اور اس عظیم کتاب کے اسرار و رُموز کو مختلف زاویوں سے پیش کرتی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں قرآن کریم کی سورتوں کے زمانۂ نزول اور ان کے مضامین کے خلاصے کے ساتھ ایک جدول کی مدد سے ترتیب ِ نزولی بھی درج کی گئی ہے۔ کالجوں اور مدارس کے طلبہ کے لیے یہ معلومات افزا کتاب بہت مفید رہے گی ۔ گو اکثر مقامات پر معلومات فراہم کرتے وقت سند کا ذکر بھی آگیا ہے لیکن کتاب کے آغاز میں ص ۲۳ تا ۴۵ جو معلومات درج کی گئی ہیں ان کی سند اور حوالے درج نہیں ہیں۔ اگر اگلی طباعت میں اس کمی کو پورا کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔کتاب سلیس زبان میں ہے اور قرآن کریم کے بارے میں ابتدائی معلومات بہت سلیقے کے ساتھ آگئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مؤلف کو بہترین اجر سے نوازے، آمین!(ڈاکٹر انیس احمد)


لہو پکارے گا آستیں کا، طارق اسماعیل ساگر۔ ناشر: ساگر پبلی کیشنز، ۱۶-ای، ٹمپل روڈ،  مہتہ سٹریٹ، صفانوالہ چوک، لاہور۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت، مجلد: ۲۵۰ روپے۔

بنگلہ دیش کے آج کل کے حالات میں شرمیلا بوس کی کتاب جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی نے Dead Reckoning, Memories of 1971 Bangladesh War کے نام سے شائع  کی ہے، اس کتاب نے برعظیم کی علاقائی سیاست میں اس لحاظ سے کھلبلی مچادی کہ اُن سیکڑوں الزامات کو اس کتاب میں ردکیا گیا ہے جو مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کے دوران ہزاروں بار اُٹھائے گئے۔ ان میں ۳۰لاکھ افراد کے ہلاک کیے جانے، اور ہزاروں بنگلہ عورتوں کی عصمت دری جیسے الزامات شامل ہیں۔ طارق اسماعیل ساگر نے پاکستانی ذرائع ابلاغ پر زبردست تنقید کرتے ہوئے شرمیلا بوس کی کتاب کے کم و بیش مکمل ترجمے کو لہو پکارے گا آستیں کا کے نام سے شائع کردیا ہے۔ شرمیلابوس نے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش کی سرکردہ سیاسی و فوجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان تین ممالک کے علاوہ امریکا و برطانیہ کے تحقیقی اداروں کی لائبریریوں کو کھنگالا اور یہ ثابت کر دیا کہ مجیب الرحمن نے نفرت و دشمنی کا جو ہمالیائی تلاطم کھڑا کیا تھا اُس نے افواہوں اور الزامات کا بحرالکاہل تخلیق کر دیا۔ ’ادھر ہم اُدھر تم‘ کے خالق نے ۹۰ہزار فوجیوں کو جنگی قیدی بننے پر مجبور کر دیا اور بنگلہ دیش کی ریاست الاماشاء اللہ وہی فاش غلطیاں کر رہی ہے جو مشترکہ پاکستان کے سیاست دان اور فوجی جرنیل کرتے رہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جھوٹے الزامات کے ذریعے بی این پی، حساب باک کرنے کی کوشش کررہی ہے، جس سے بنگلہ دیش کسی الم ناک سانحے اور عدمِ استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ بھارتی حکومت کی دیرینہ خواہش یہی ہے۔

اس کتاب کی سطر سطر حقیقی معلومات فراہم کر رہی ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ مَیں نے درجنوں نہیں سیکڑوں بنگلہ دیشی قصبوں اور دیہاتوں کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ مغربی پاکستان کی فوج نے جن ہزاروں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا تھا اُن کی قبریں دیکھ سکے لیکن ایک دو دیہاتوں کے علاوہ کہیں اور اس کا ثبوت نہ مل سکا۔ شرمیلا نے اُن ’ہزاروں لاکھوں‘ عورتوں سے براہِ راست انٹرویو کرنے کی کوشش کی جن کے اعزہ و اقربا اُن کی ’آنکھوں کے سامنے‘ تہِ تیغ کردیے گئے تھے لیکن مصنفہ کو اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ یہی معاملہ آبروریزی کے الزامات کے ساتھ پیش آیا۔

مصنفہ نے انگریزی کتاب میں کھل کر تسلیم کیا ہے کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اُس کے تحقیقی کام کی تحسین نہیں کی گئی، کیونکہ بساطِ سیاست کے کئی چہرے بے نقاب ہورہے تھے۔ اُس نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور یہ ثابت کیا کہ بھارتی دشمنی ، امریکی سرپرستی اور پاکستانی   سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی نے بنگلہ دیش کے قیام کو حتمی شکل دینے میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی جاتی تو شیخ صاحب ایک ماہ میں اپنی ناکامی کا اعلان کرکے دوبارہ انتخاب کا انعقاد کرنے پر مجبور ہوتے۔ افسوس، ایک سیاسی شاطر کی ہوس نے سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

شرمیلا بوس نے غیربنگالیوں کے قتل عام کے حوالے سے بھی تفتیش کی ہے اور بھارت کے گھنائونے کردار کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ لہو پکارے گا آستین کا، کا مطالعہ نہ صرف ماضی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی آیندہ حادثوں سے محفوظ کرنے کی سبیل پیدا کرے گا۔(محمد ایوب منیر)


حاجی گل شہیدؒ، ایک شخصیت، ایک کردار۔ مرتبین: ڈاکٹرمحمداقبال خلیل، نورالواحد جدون۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔ فون : ۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔ صفحات:۱۴۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

حاجی دوست محمد حاجی گل شہیدؒ جماعت اسلامی پشاور کے روحِ رواں تھے۔ سانحۂ قصۂ خوانی میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ جماعتی و سیاسی حلقوں، ہرمکتبۂ فکر کے علماے کرام اور خدمت خلق کے حوالے سے معروف تھے۔ بلدیہ پشاور کے کونسلر منتخب ہونے پر اصلاحِ معاشرہ، منکرات کے خاتمے اور امن و امان کے لیے ’علما کمیٹی براے اصلاحِ معاشرہ‘ قائم کی اور مثالی جدوجہد کے ذریعے شاہی باغ یونین کونسل کو مثالی حلقہ بنا دیا۔ جماعت اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع کے خصوصی اہتمام، محلے و مسجد کی سطح پر کام، دارالمطالعے، ڈسپنسریوں اور خدمت خلق، نیز علماے کرام اور مؤثر لوگوں سے خصوصی رابطہ و تعلق کی بنا پر جماعت کے کام کو وسیع پیمانے پر آگے بڑھایا۔ دینی مدارس کے قیام اور انفاق فی سبیل اللہ سے خصوصی شغف تھا اور بڑے مہمان نواز تھے۔ کتاب میں اہلِ خانہ، دوست احباب اور تحریکی رفقا کے تاثرات بھی دیے گئے ہیں جن سے ان کی شخصیت کے مختلف گوشے سامنے آتے ہیں۔ آخر میں غوث الرحمن شہید، مکرم صافی شہید، ملک حسام الدین شہید، گل نذیر شہید اور غلام سرور شہید کا تذکرہ ہے جو حاجی گل شہید کے ساتھ شہید ہوئے تھے۔ کتاب ایک مثالی کارکن کا تذکرہ ہے جو دوسروں کے لیے تحریک کا باعث ہے۔(امجد عباسی)

تعارف کتب

  •  قرآن کے کثیرالمعانی الفاظ ،  صابر شاہ فاروقی۔ ناشر: مکتبہ تطہیرافکار، مرکز اسلامی ، جی ٹی روڈ، پشاور۔ صفحات: ۵۸۸۔قیمت: ۵۷۰ روپے۔[قرآنِ مجید میں مستعمل اُن مادوں اور الفاظ کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے زیربحث لایا گیا ہے جو کثیرالمعانی ہیں، اور ان کے متفرق اساسی معانی کو مختلف لُغات کی مدد سے اُجاگر کیا گیا ہے، نیز آیاتِ قرآنی دی گئی ہیں جن میں یہ الفاظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ حصہ اوّل ہمزہ سے شین تک کے الفاظ پر مشتمل ہے۔]
  • مجلہ نقطۂ نظر ، (اکتوبر۲۰۱۲ء-مارچ ۲۰۱۳ء)،مدیر: سفیراختر۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، گلی نمبر۸، سیکٹر۳/۶-ایف، اسلام آباد۔ فون: ۱-۸۴۳۸۳۹۰-۰۵۱۔صفحات:۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔ [نقطۂ نظر، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا شش ماہی مجلہ ہے جس میں قرآن، حدیث، سیرت النبیؐ، اسلامی افکار وعقائد،  تصوف، اسلامی تحریکات، مغرب اور اسلام، تاریخ و سوانح، ادب، لسانیات جیسے متنوع موضوعات کے تحت  کتب پر تبصرے شائع کیے جاتے ہیں۔ زیرنظر شمارے میں mاندلس میں علمِ حدیث کا ارتقا از محمد احمد زبیری، mسیرت نگاری: آغاز و ارتقا، از نگار سجاد ظہیر، mعہدِنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق، از نجمہ راجا یٰسین، mبرصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت، از محمد اسحاق بھٹی، mمقالاتِ جاوید از جاوید اقبال پر تبصرے ہیں۔ ’کتاب نامہ‘ کے تحت اندلس کے موضوع پر جامع مطالعہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔]

 

1 تصوف کیا ہے، ڈاکٹر تابش مہدی۔ ناشر: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند-۲۴۷۵۵۴، یوپی۔ صفحات:۴۰۔ قیمت: ۲۵ روپے ۔  2کیسے کیسے لوگ تھے، ڈاکٹر تابش مہدی۔ ناشر: الفاروق پبلی کیشنز، اے/۵-جی، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: درج نہیں۔ 3طوبیٰ، تابش مہدی۔ ناشر: ادبیات عالیہ اکادمی، اے/۵-جی، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔  4تابش مہدی ایک سفرمسلسل، ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی۔ ناشر: مولانا مبین الدین فاروقی اکادمی، حمزہ کالونی، نیوسرسیّدنگر، علی گڑھ-۲۰۲۰۰۲۔ صفحات: ۳۲۸۔ قیمت: ۳۲۵ روپے۔

ڈاکٹر تابش مہدی (حال نائب مدیر زندگی نو، دہلی) بھارت کی اُردو دنیا میں ایک شاعر، نقاد اور محقق کی حیثیت سے معروف ہیں۔ علی گڑھ کے ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی کے الفاظ میں: ’’انھوں نے اپنی فہم و فراست، لیاقت و ذہانت، دیانت و امانت، محنت اور لگن کی بدولت ادبی حلقوں میں اپنی نمایاں شناخت قائم کرلی ہے‘‘۔ وہ متعدد ادبی اور دینی جرائد سے وابستہ رہے، کالم نگاری بھی کی۔ادبی تحقیق و تنقید کے علاوہ دینی تحقیق پر بھی متعدد کتابیں تحریر کرچکے ہیں۔ انھوں نے چند مضامین مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے دفاع میں بھی لکھے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ’’انھوں نے کتابوں، کتابچوں، مضامین، مقالات اور مقدموں اور تبصروں کا [ایک] بڑا انبار لگا دیا ہے‘‘۔ اس وقت ان کی تین کتابیں پیش نظر ہیں۔

  •  تصوف کیا ہے؟ میں تصوف کے معانی و مفہوم، اس کی اِصطلاحوں اور اس کی تاریخ پر اختصار اور جامعیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے اور نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ ’تصوف بھی کتاب اللہ کی تفسیر اور حدیث ِ رسولؐ کی شرح ہے۔ اس سے الگ یا اس کے بالمقابل کوئی چیز نہیں ہے۔ شریعت اور طریقت میں فرق کرنا گم راہی کی دلیل ہے، جو لوگ شریعت پر عامل نہیں وہ صوفی کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ پس ہمیں تصوف کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے۔
  •  کیسے کیسے لوگ تھے، میں ۳۰صحابہ اور صحابیات کے سبق آموز اور بامعنی واقعات کو مؤثرانداز اور عام فہم اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔مصنف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’اُمت مسلمہ میں عظیم شخصیات کا وجود ہمیشہ سے کسی وقفے کے بغیر جاری رہا ہے اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا‘‘۔ (ص ۱۰)
  •  طوبٰی،تابش صاحب کی شاعری کا مجموعہ ہے جس میں حمدونعت اور مناقب خلفاے راشدین پر تقریباً ۹۰ نظمیں شامل ہیں۔ غالب حصہ نعتوں کا ہے (تعداد ۶۶)۔ مولانا محمد واضح رشید حسنی ندوی تابش صاحب کو ’باکمال‘ شعرا کی صف میں شامل کرتے ہیں جنھیں ایک طرف دین کی قدروں کا  لحاظ ہے تو دوسری طرف وہ فنِ شعر پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ یہ ان کا امتیاز ہے کہ وہ رسولؐ اللہ سے محبت کے اظہار میں حدود سے تجاوز نہیں کرتے۔ مولانا عزیز الحسن صدیقی، حافظ محمدادریس،   مولانا حسن احمد صدیقی، مولانا شاہ ظفراحمد صدیقی جون پوری، مولانا محمد رابع حسنی ندوی اور ڈاکٹر محمود حسن الٰہ آبادی نے بھی تابش مہدی کی شاعری خصوصاً ان کی نعت گوئی کو سراہا اور اس کی تعریف کی ہے۔
  •  تابش مہدی: ایک سفرِمسلسل، ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی کی تصنیف ہے جس میں ان کے سوانح اور شخصیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ، ان کے فکروفن کا تعارف اور تجزیہ شامل ہے۔ تصانیف کے تعارف کے بعد، مضامین اور تبصروں اور ریڈیو سے ان کے نشریوں کی فہارس بھی دی گئی ہیں۔ مختلف شاعروں اور ادیبوں کی تصانیف پر تابش مہدی کے بیسیوں مقدمات اور دیباچوں کی فہرست بھی شامل ہے۔ اسی طرح مختلف علمی اداروں کی طرف سے انھیں ملنے والے انعامات و اعزازات اور اوارڈوں کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ یہ کتاب تابش مہدی کی ہمہ جہت شخصیت کے علمی اور ادبی کارناموں کا ایک جامع اور عمدہ تعارف ہے۔ ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سٹی اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ایک باصلاحیت تخلیق کار کی خدمات کا اعتراف اور تذکرہ تخلیق کار کا دل بڑھاتا ہے۔ اس اعتبار سے فاروقی صاحب نے زیرنظر کتاب مرتب کر کے ایک اہم علمی ضرورت کی تکمیل کی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)

زکوٰۃ، معنی و مفہوم، اہمیت، فضائل و مسائل،  مفتی منیب الرحمن۔ ناشر: مکتبہ نعیمیہ، دارالعلوم نعیمیہ، بلاک ۱۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۱۴۵۰۸-۰۲۱۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: درج نہیں۔

یہ کتاب مرکزی رویت ِہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین و صدر تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان مفتی منیب الرحمن کی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔ مصنف نے ’زکوٰۃ کی حکمت‘ کے عنوان سے کتاب کا آغاز کرتے ہوئے ’عشر‘ اور ’مصارفِ زکوٰۃ‘ کے دو مزید عنوانات کے تحت رواں تبصرے کے انداز میں قدیم و جدیدفقہا و علما کی فقہی آرا کا حوالہ دے کر مسائلِ زکوٰۃ کو نہایت مختصر الفاظ میں قلم بند کردیا ہے۔ کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے جدید معاشی مسائل کے تناظر میں بیش تر مسائلِ زکوٰۃکی وضاحت کی ہے۔ ۴۰صفحات پر زکوٰۃ کی اہمیت و فضیلت کے بیان سے متصل زکوٰۃ کے مسائل کا بیان شروع ہوجاتا ہے۔ صنعت و حرفت، زیورات و زراعت، ملازمت و مزارعت میں زکوٰۃ کے مسائل کی مختلف نوعیتوں کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ مصارفِ زکوٰۃ کا بیان کتاب کے نصف حصے پر مشتمل ہے۔ دینی مدارس ، رفاہی و فلاحی تنظیمیں، کس حد تک زکوٰۃ کے عامل کے طور پر کام کرسکتی ہیں اور صرف و تقسیمِ زکوٰۃ میں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ایسے بیسیوں چھوٹے چھوٹے مسائل کو اختصار کے ساتھ جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ مصنف نے مختلف فقہا کو  حوالے کے طور پر درج کیا ہے لیکن غالب مآخذ اور حوالے حنفی فقہا اور خصوصاً اہلِ سنت، علما اور فقیہان کے درج ہیں۔ ان علما کی متعلقہ عربی عبارتوں کو بھی درج کیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کتاب کی ضخامت مزید سمٹ جاتی اور ۱۸۰ کے بجاے ۱۲۵ صفحات کی کتاب بن جاتی۔

زکوٰۃ مفتی منیب الرحمن صاحب کے دل چسپ اندازِ گفتگو کی آئینہ دار ہے۔ ایک جگہ مصنف رفاہی اداروں کو حکومت کے مقابلے میں زکوٰۃ مستحقین پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں دیتے   (ص ۱۳۵)، اور دوسری جگہ اپنے دینی ادارے کے اخراجات پورا کرنے کے لیے اہلِ خیر سے زکوٰۃ، صدقات، فطرہ، فدیہ، کفارات و نذر کی رقوم و عطیات کا مطالبہ کرتے ہیں (ص ۱۷۷، ۱۷۸)۔ اسی طرح مفتی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: زکوٰۃ وکیل کو دینے سے ادا ہوجاتی ہے (ص ۱۲۳)، اور دوسری جگہ لکھتے ہیں: زکوٰۃ محض وکیل کو دینے سے ادا نہیں ہوتی (ص ۱۴۸)۔ زکوٰۃ کی ادایگی میں تملیک کا مختلف مقامات پر ایسا بیان بھی اُلجھائو پیدا کرتا ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ مصنف بہت کم صفحات پر بہت سے اہم مسائل کو سمونے میں کامیاب رہے ہیں۔ (حافظ محمد ارشد)


رہبر تخریج حدیث، ڈاکٹر محمد اقبال احمد اسحاق۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، تقسیم کار: ملک اینڈ کمپنی، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون : ۳۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۱۵۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو شریعت میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ قرآنِ کریم کی تشریح و تفسیر بھی ہمیں احادیث اور سنت ِ رسولؐ کی روشنی میں ملتی ہے۔ اس بنیادی اہمیت کے  پیش نظر آپؐ کی احادیث کو محفوظ رکھنے کا فریضہ ہر دور میں سرانجام دیا گیا۔ آپؐ کی طرف جھوٹی روایت کی نسبت کرنے والے کو آگ میں اپنا ٹھکانا بنانے کی وعید سنائی گئی۔

تخریجِ حدیث اہلِ علم اور محققین کی ایک معروف اصطلاح ہے جس میں کسی بھی حدیث کو اُمہات الکتب میں اصل متن کے ساتھ پرکھا جاتا ہے اور تخریج و حوالے کے بعد ہی وہ حدیث مستند متصور ہوتی ہے۔ زیرنظر کتاب علمِ حدیث کے اسی اہم گوشہ ’فن تخریجِ حدیث‘ سے متعلق ہے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب میں عام فہم اسلوب استعمال کیا ہے اور احادیث کی تخریج کے لیے   چار طریقے ازروے متن اور چار طریقے ازروے سند احسن انداز میں واضح کردیے ہیں۔ان آٹھ طریقوں کی مثالیں انتہائی آسان انداز میں پیش کردی گئی ہیں۔ مزیدبرآں فنِ حدیث کی کتابوں کی اقسام، جملہ اقسام کی تعریفات اور مشہور کتابوں کا مختصر تعارف بھی شامل کردیا گیا ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب اہمیت کی حامل ہے۔ (حافظ ساجد انور)


اسلامی معاشرے کے لازمی خدوخال، مولانا سمیع الحق۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامع ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد نوشہرہ۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: درج نہیں۔

ہمارے اعلیٰ دینی مدارس میں نصاب کی مختلف درسی کتب پڑھاتے ہوئے یقینا نہایت اعلیٰ معیار پرلیکچر دیے جاتے ہیں۔ اب ریکارڈنگ اور طباعت و اشاعت کی سہولیات عام ہوجانے سے یہ علمی خزانے کلاس روم کی چار دیواری سے باہر بھی دستیاب ہونے لگے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب  مولانا سمیع الحق کے وہ درس ہیں جو انھوں نے امام ترمذی کی جامع السنن کے ابواب البر والصلۃ پڑھاتے ہوئے مدرسے میں دیے اور ان کے شاگرد مفتی عبدالمنعم نے انھیں ریکارڈ کرکے لکھا اور اس کی بنیاد پر یہ ۴۰۰صفحے کی نہایت مفید کتاب تیار کردی۔ ہمیں ہر انسان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے اور حسنِ معاشرت کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کتب میں فضائلِ اخلاق اور رذائل پر وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ والدین اور دیگر رشتہ داروں، پڑوسیوں، یتیموں، بیوائوں، غرض معاشرے کے ہرطبقے سے حُسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ ایک عام سادہ سا بیان نہیں ہے، بلکہ مولانا سمیع الحق صاحب نے جس موضوع کو لیا ہے اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کے مختلف پہلو واضح کیے ہیں۔

مکمل کتاب کا مطالعہ آپ کو اسلام کا ایک نہایت حسین خوش گوار تاثر دیتا ہے۔ کاش! کہ ہم سب مسلمانوں کی زندگیاں اپنے پیارے رسولؐ کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق ہوں۔ (مسلم سجاد)


وادی مہران کی علمی و دعوتی شخصیات، مؤلف: مولانا امیرالدین مہر، نظرثانی:عبدالوحید قریشی۔ ناشر: سندھ اسلامک پبلی کیشنز، حیدرآباد۔ فون: ۷۸۵۳۷۲-۰۲۲۲۔ صفحات: ۴۳۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مولانا امیرالدین مہر سندھ کی ایک معروف علمی و دعوتی شخصیت ہیں اور تقریباً ۲۵ سے زائد اُردو اور سندھی میں علمی اور دعوتی کتب کے مؤلف ہیں۔ وہ باب الاسلام سندھ کی تحریکی و جماعتی (جماعت اسلامی) سرکردہ شخصیات کی سوانح حیات اور ان کی دعوتِ دین کی سرگرمیاں احاطۂ تحریر میں لائے ہیں۔ کتاب میں ۵۰ شخصیات کا تذکرہ ہے۔

شخصیات کے اُٹھ جانے کے بعد اُن کی سوانح اور حالات و واقعات کو صحیح طور پر تحریر میں لانا بڑی جان جوکھوں کا کام ہے اور اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کا اظہار خود مؤلف نے کیا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں تقریباً ۱۰سال صرف کیے۔ لاہور، اسلام آباد اور سندھ کے بیش تر علاقوں کے کئی سفر کیے، جاننے والوں اور مرحومین کے عزیز واقارب سے ملاقاتیں کیں، تب کہیں جاکر یہ کتاب مرتب ہوسکی۔ مؤلف نے مرحومین کی دینی و جماعتی سرگرمیاں، سوانح، دعوت کے کام کرنے کا طریقہ اور جذبہ اور دعوت پھیلانے کی تڑپ بڑی خوب صورت اور پُراثرانداز میں قلم بند کی ہیں جس سے مطالعہ کرنے والے کو مہمیز ملتی ہے، اور بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کے کارکنوں او ر ذمہ داران کا جو تاثر اُبھرتا ہے وہ جماعت کا حقیقی اثاثہ ہے۔ اس کتاب سے قبل بھی اسی طرح کی بعض کتب شائع ہوئی ہیں مگر یہ ایک منفرد کتاب ہے اور تحریکی لٹریچر میں مفید اضافہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو تحریکِ اسلامی کے کارکن اور ذمہ داران اپنی یادداشتیں تحریر میں لائیںتاکہ تحریکی لٹریچر شائع کرنے میں دقتیں کم ہوں، اور بعد میں آنے والے ان کے تجربات سے دعوت کے کام کو آگے بڑھانے میں فائدہ اُٹھا سکیں۔ کتاب خوب صورت اور جاذبِ نظر ہے۔ (شہزاد الحسن چشتی)


دیارِ غیر میں اپنوں کے درمیان، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

یہ حافظ محمد ادریس صاحب کا تیسرا سفرنامہ ہے جس میں انھوں نے اپنے سابقہ اسفارِبرطانیہ کی کچھ جھلکیاں اور واقعات بھی شامل کردیے ہیں (مثلاً: مانچسٹر ہوائی اڈے پر کسی سابقہ سفر میں پیش آمدہ واقعہ جو دل چسپ ہے اور پاکستانیوں سے بُغض رکھنے والے بھارتیوں کی متعصب ذہنیت کی مثال بھی ہے)۔ موصوف نے یہ سفر جولائی اگست ۲۰۱۱ء میں کیاتھا۔ اس کے کچھ حصے ہفت روزہ ایشیا میں شائع ہوتے رہے، اب کچھ ترمیم اور تبدیلیوں کے ساتھ اسے کتابی شکل دی گئی ہے۔ایک ماہ پانچ دن کے اس سفر میں حافظ صاحب نے مانچسٹر،لنکاشائر، لندن، راچڈیل، کیتھلے، بریڈفورڈ، لیڈز، بلیک برن، لوٹن، برنلے، نیلسن، مڈلینڈ، پیٹربرا، وال سال اور برمنگھم میں احباب اور عزیزوں سے ملاقاتیں کیں، خطبے دیے اور تقریریں کیں۔ حافظ صاحب کا مشاہدہ قابلِ داد ہے ۔انھوں معمولی جزئیات تک کا ذکر کردیا ہے۔

جدید ایجادات نے روے زمین کی طنابیں اس طور کھینچ دی ہیں اور انٹرنیٹ نے ہرچیز کو اس قدر طشت ازبام کردیا ہے کہ کوئی بات نئی انوکھی معلوم نہیں ہوستی۔ حافظ صاحب نے اس سفر میں ظاہر کی آنکھ سے بھی تماشا دیکھا اور دل کی آنکھ بھی کھلی رکھی۔ یوں ظاہری و باطنی مشاہدات قلم بند کیے مگر ان کے سفرنامے میں ابن بطوطہ کے بیان کردہ عجائبات قسم کی کوئی چیز نہیں ملے گی جو قاری کو حیران کرے۔ البتہ ان کے مشاہدات قارئین کے لیے معلومات کا سامان ضرور فراہم کرتے ہیں۔ حافظ صاحب یوکے اسلامک مشن کی دعوت پر برطانیہ گئے تھے۔ مختلف شہروں میں مشن کے پروگراموں میں شریک رہے۔ سامعین کو رہنمائی دی۔ ان کے سوالوں کے جواب دے کر انھیں مطمئن کیا۔ اس سفرنامے سے برطانیہ میں مشن کی سرگرمیوں، اجتماعات اور اثرات کا پتا چلتا ہے اور مشن کے ارکان اور مسافرنواز احباب کے محبت آمیز سلوک کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ اس تفصیل میں دعوتوں، عصرانوں اور ضیافتوں کا ذکر بھی آگیا ہے۔

اگر کوئی شخص برطانیہ جا رہا ہو خصوصاً پہلی بار، تو اس کے لیے یہ کتاب ایک اچھا رہنما (گائیڈبک) بھی ہے۔ مسجدابراہیم برنلے کے امام اور خطیب مولانا محمد اقبال کے بقول ’’یہ سفرنامہ محترم حافظ صاحب کی خوب صورت پھولوں سے بھری ایک زنبیل ہے‘‘۔ طباعت اور پیش کش مناسب اور قیمت بہت مناسب ہے۔ لفظ اللہ کا اِملا تصحیح طلب ہے۔ (ر- ہ )


خوشیوں بھری زندگی کیسے؟ ، پروفیسر ارشد جاوید۔ تقسیم کار: علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون: ۳۷۳۵۲۳۳۲-۰۴۲ؒ صفحات:۲۹۵۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔

پروفیسر ارشد جاوید کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ہماری آپ کی زندگیاں بہتر کرنے کے لیے، یعنی بدلنے کے لیے، انھوں نے اب تک ۱۲ نہایت مفید اور عملی کتابیں لکھی ہیں۔ یہ بارھویں زیرتبصرہ ہے۔ اس طرح کے موضوعات پر انگریز ی میں کافی کتب دستیاب ہیں۔ لیکن وہ ان کے اپنے تہذیبی ماحول اور نفسیات سے متعلق ہیں۔ ہمیں زندگی کے ہرمعاملے میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل ہے۔ ارشد جاوید صاحب اس رہنمائی سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اس لیے ان کی باتیں دل کو لگتی ہیں۔ وہ پاکستانی معاشرے کے مسائل کے پس منظر میں لکھتے ہیں، اس لیے کام کی باتیں بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے ۱۳مختلف عنوانات کے تحت خوشیوں کے راستے میں رکاوٹیں اور ان کا حل پیش کیا ہے۔ اس میں ایک مسئلہ ڈپریشن بھی ہے جو ان کی کسی مکمل کتاب کا موضوع بن سکتا ہے۔ پھر انھوں نے ۳۰عنوانات کے تحت خوشیوں کے حصول کے راستے بتائے ہیں۔

آخری نکات سے پہلے لکھتے ہیں:’’ہرفرد اپنی زندگی کو خوش گوار بناسکتا ہے اور ہرفرد بہت حد تک اپنی خوشیوں کا ذمہ دار ہے۔ خوشی خودبخود حاصل نہیں ہوتی، اس کے لیے آپ کو بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔ منصوبہ بندی کرنی ہوگی‘‘۔کتاب میں جگہ جگہ مختلف مقاصد کے حصول کے لیے مشقیں بھی بیان کی گئیں کہ کس طرح لیٹیں، کیا جملے دہرائیں یا کیا سوچیں وغیرہ وغیرہ۔سب کچھ بتانے کے بعد، ان کے علاوہ آخری باب میں جو عملی طریقے بتائے ہیں وہ ۱۴۳ ہیں۔ ان میں سے بعض کے ذیلی عنوانات ۲۰،۲۱ بھی ہیں۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ خوش ہونا کتنا مشکل کام ہے اور اس کے لیے کتنی سخت محنت کرنا پڑے گی۔ میرا جیسا انسان سوچتا ہے کہ اس سے تو مَیں ناخوش ہی بھلا۔(م - س)

تعارف کتب

  •  برصغیر میں مطالعۂ قرآن، محمد رضی الاسلام ندوی۔ ملنے کا پتا: ملک اینڈ کمپنی، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۰۲۱۴۱۵-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔ [ہندستان میں قرآن کریم کی تفسیر و تشریح، فہم اور قرآنی تعلیمات کی اشاعت کے لیے مثالی کام ہوا ہے۔ زیرنظر کتاب اس کے جائزے پر مبنی ہے۔ سرسیّد احمد خاں کی تفسیر اور مابعد تفاسیر کا جائزہ، بیسویں صدی میں عربی میں تفسیروعلومِ قرانی کا تعارف، برعظیم پاک و ہند کے معروف مفسرین قرآن کی تفسیری خدمات، اور آخر میں گذشتہ دو عشروں میں قرآنی موضوعات پر شائع ہونے والی اہم تصانیف کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اپنے موضوع پر جامع کتاب۔ اس سے قبل بھارت سے شائع ہوچکی ہے (تفصیلی تبصرے کے لیے دیکھیے: ترجمان القرآن، فروری ۲۰۱۱ء)۔]
  •  ربیع الاوّل کے واقعات ، پروفیسر عبدالجبار شاکر۔ ناشر: کتاب سراے ، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۴۷۔ قیمت: درج نہیں۔ [یکم ربیع الاوّل پہلی ہجری کو نبی کریمؐ کا غارِ ثور سے مدینہ کی طرف سفرِ ہجرت کا آغاز، اور ۱۲؍ربیع الاوّل ۱۱ہجری کو وصالِ رسولؐ ،اور اس دوران تقویمِ اسلامی کے مختلف سالوں میں ماہِ ربیع الاوّل میں پیش آنے والے دیگر تاریخی واقعات کا مختصر تذکرہ جو پروفیسر عبدالجبار شاکر کی ریڈیائی تقاریر پر مشتمل ہے۔ سیرتِ رسولؐ اور تاریخ اسلام کا منفرد مطالعہ۔]
  •  پیارے نبیؐ کی پیاری مسکراہٹیں ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق کالوٹا۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزدمقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۲۵۶۷۳-۰۲۱۔ صفحات: ۱۶۳۔ قیمت: ۲۶۰ روپے۔ [مزاح، خوش طبعی یا مذاق انسانی شخصیت کا حصہ ہے۔ نبی کریمؐ غلبہ دین کے کٹھن فریضے کی ادایگی کے باوجود صحابہ کرامؓ سے مزاح فرماتے تھے۔ احادیث اور کتب ِ سیرت سے آپؐ کے مزاح کے واقعات کے تذکرے سے آدابِ مزاح اور آپؐ کا اسوہ پیش کرتے ہوئے نسلِ نو کی ذہن سازی اور تربیت کا سامان کیا گیا ہے۔ پیش کش دل کش ہے۔]
  •  پاکستان اور سیکولرازم ، احمد امام شفق ہاشمی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک-۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۹۰ روپے۔ [پاکستان کی نظریاتی اساس اور تہذیبی شناخت کو منہدم کرنے کے لیے مغربی دانش ور اور میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نام نہاد لبرل دانش ور اور  قلم کار بھی سرگرمِ عمل ہیں، اور حقائق اور تاریخ کو مسخ کرکے قوم بالخصوص نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کتاب میں مختصراً تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد اور آزادی کی جدوجہد کی صحیح تصویر کے ساتھ سیکولر عناصر کے اعتراضات کا مدلل جواب فراہم کیا گیا ہے۔ سیکولرازم اور نظریۂ پاکستان کے حوالے سے ایک اہم، مختصر اور جامع کتاب۔]
  •  پاک فضائیہ کا شاہین ، ظہورالدین بٹ۔ ناشر: ادارہ ادب اطفال، رحمن مارکیٹ، اُردوبازار، لاہور ۔فون: ۳۷۸۰۰۷۸۹-۰۴۲۔ صفحات: ۶۶۔ قیمت: ۴۰ روپے۔[نئی نسل کو اس کے ہیروز اور تاریخ سے آگاہی کے لیے مصنف نے ’نشانِ حیدر‘ سیرز کے تحت ناول لکھے ہیں۔ پاک فضائیہ کا شاہین  راشد منہاس شہید کی شخصیت اور کارہاے نمایاں پر مبنی اسی سلسلے کا ایک ناول ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کے لیے معلوماتی اور دل چسپ ناول۔]

 

1  اشاریہ شمس الاسلام مع فہرست مخطوطات، مرتب: ڈاکٹر صاحب زادہ انواراحمد بگوی۔ ناشر:مکتبہ حزب الانصار، جامعہ مسجد بگویہ، بھیرہ، ضلع سرگودھا (لاہور میں الفیصل، اُردوبازار، لاہور سے دستیاب ہے)۔ صفحات:۴۱۱۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔ 2  اشاریہ السیرۃ عالمی، مرتب: محمد سعیدشیخ۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ 3  سیرت ایوارڈ یافتہ اُردو کتب سیرت، مرتبین: حافظ محمد عارف گھانچی،محمد جنید انور۔ کتب خانہ سیرت، کھتری مسجد، ٹھٹھہ بس سٹاپ،لی مارکیٹ، کراچی۔ فون: ۲۸۳۴۲۴۹-۰۳۲۱۔  صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: درج نہیں۔  4 پاکستان میں اُردو سیرت نگاری، ایک تعارفی مطالعہ، سیّد عزیز الرحمن۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے،۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۳۔ قیمت: ۱۵۰روپے۔

علمی تحقیق کے لیے اشاریہ  (index) ایک مفید بلکہ ناگزیر معاون (tool) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اشاریہ کئی قسموں کا ہوتا ہے ۔اُردو میں اشاریہ سازی کی روایت بہت قدیم نہیں ہے۔ اس کی طرف زیادہ توجہ حالیہ برسوں میں ہوئی ہے۔ ایک تو علمی کتابوں میں اشاریے کی ضرورت کا احساس بڑھنے لگاہے۔ دوسرے رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی نے قریبی زمانے میں خاصی پیش رفت کی ہے اور یہ زیادہ تر جامعاتی تحقیق اور امتحانی مقالات کی مرہونِ منت ہے۔فی الوقت چار اشاریے ہمارے پیش نظر ہیں:

  • اول الذکر بھیرہ سے ۹۰سال تک جاری رہنے والے علمی اور دینی رسالے شمس الاسلام کا بہت مہارت اور خوبی سے تیار کردہ اشاریہ ہے، جسے ایک عالم اور محقق ڈاکٹر صاحب زادہ انواراحمد بگوی نے ترتیب دیا ہے (موصوف میڈیکل ڈاکٹر ہیں)۔ اشاریہ سازی کو ہمارے بعض نقاد دوسرے یا تیسرے درجے کی ’غیرتخلیقی‘ کاوش قرار دیتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اشاریہ ساز کے اندر تخلیقی صلاحیت موجود ہو تو اشاریہ بھی ایک ’تخلیق‘ بن جاتا ہے جیساکہ زیرنظر اشاریے سے ظاہر ہورہا ہے۔

زیرنظر اشاریے کے شروع میں بگوی صاحب نے ایک عالمانہ اور مختصر مگر جامع مقدمہ بھی شامل کیا ہے۔ انھوں نے اشاریہ بڑی کاوش، محنت اور توجہ کے ساتھ بلکہ کہناچاہیے کہ ڈوب کر تیار کیا ہے۔ اس کا اندازہ حسب ذیل وضاحت سے ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’انڈیکس کے لیے کسی پروفیشنل (ماہرانڈیکس) کی خدمات کے بجاے راقم نے رسالے کی ہرجلد اور ہرشمارہ خود دیکھا۔ مضامین کو ان کے موضوعات کے مطابق یک جا کیا۔ شذرات عام طور پر بلاعنوان چھپتے رہتے ہیں، ان میں ہرشذرے کو اس کے موضوع کے تحت الگ کیا۔ بعض سادہ اور مختصر سی معلومات جن کا تعلق اہم تحریکوں، نظریوں اور شخصیتوں سے تھا، ان کو اہتمام سے الگ کر کے متعلقہ موضوع کے تحت درج کیا۔ اس میں ہرصفحے اور مضمون کو بغور دیکھا گیا ہے۔ جہاں عنوان ناکافی پایا، وہاں بریکٹ میں اسے واضح کردیا گیا ہے۔ اس دِقّت نظر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب اشاریہ علمی، تحقیقی اور تحریکی کاموں کے لیے ایک نہایت مفید رہنما بن گیا ہے‘‘۔

جون ۱۹۲۵ء میں شمس الاسلام کے اجرا سے قبل بھیرہ ہی سے مئی ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۵ء تک ماہ نامہ ضیاے حقیقت شائع ہوتا رہا۔ اس کے دستیاب (معدودے چند) شماروں کا اشاریہ بھی شامل کردیا گیا ہے۔ ہر اندراج یا ہرحوالہ چار چیزوں پر مشتمل ہے۔ تحریر (نظم یا نثر) کا عنوان، مصنف یا مؤلف کا نام، شمارے کا ماہ سال اور تحریر کا صفحہ اوّل و آخر۔ مجموعی طور پر اشاریہ موضوعاتی ہے مگر اسے رسالے کے اشاعتی اَدوار کو چار پانچ حصوں میں تقسیم کر کے مرتب کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر چاروں اَدوار کایک جا اشاریہ مرتب کیا جاتا تو قاری کواور زیادہ سہولت ہوتی اور وہ ایک ہی موضوع پر حوالوں کو چار مقامات پر دیکھنے کے بجاے ایک ہی جگہ دیکھ لیتا۔ آخری حصے میں اُن مخطوطات اور قدیم قلمی مسودات کی فہرست بھی شامل ہے جو بھیرہ کے کتب خانۂ عزیزیہ بگویہ حزب الانصار میں محفوظ ہیں۔ ہمارے خیال میں زیرنظر اشاریہ تحقیقی اعتبار سے ایک اہم دستاویز ہے اور حوالے کی یہ کتاب مرتب کر کے ڈاکٹر انوار احمد بگوی صاحب نے ایک بڑا علمی کارنامہ انجام دیا ہے۔

  • دوسرا اشاریہ کراچی سے شائع ہونے والے شش ماہی رسالے السیرۃ عالمی کا ہے۔ ۲۵ شماروں کا یہ اشاریہ کئی طرح سے ترتیب دیا گیا ہے: بلحاظِ مصنفین، بلحاظِ مضامین، یا عنوانِ مقالہ اور بلحاظِ موضوعات، حمدونعت کی فہرست کا اشاریہ الگ ہے۔ ’تبصرئہ کتب‘ کے اشاریے تین طرح کے ہیں: بلحاظِ مؤلف کتاب، بلحاظِ عنوانِ کتاب اور بلحاظِ تبصرہ نگار۔ بظاہر یہ بہت سے عنوانات مرعوب کن ہیں اور اس اُلٹ پھیر سے احساس ہوتا ہے کہ شاید اشاریہ بہت جامع ہے مگر اس طریقے سے پھیلائو زیادہ اور ضخامت بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ بایں ہمہ ایک متعین موضوع پر اور ایک ہی رسالے کے حوالے سے اشاریہ سازی کی یہ کاوش مفید ہے جسے ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری، ڈاکٹرصاحب زادہ ساجد الرحمن، پروفیسر محمد اقبال جاوید اور السیرۃ عالمی کے نائب مدیر سیّدعزیز الرحمن نے سراہا ہے۔ ہمارے خیال میں ’بلحاظِ موضوعات‘ والا حصہ نظرثانی کا محتاج ہے۔ ص۷۰ پر عنوان: ’اداریے‘ کوئی ’موضوع‘ نہیں ہے اور اس کے تحت جو ۲۵ حوالے دیے گئے ہیں، ان سب کے موضوعات الگ الگ ہیں۔ اسی طرح عنوان: ’تعلیماتِ نبویؐ، (ص ۷۴) کے تحت تقویٰ، جہاد، دعا اور رواداری جیسے عنوانات کو الگ الگ موضوع بنانا چاہیے تھا وغیرہ۔
  • تیسرا اشاریہ ۱۹۸۰ء سے ۲۰۱۰ء تک سیرت کی ایوارڈ یافتہ اُردو کتابوں کا ہے۔ یہ محض فہرست کتب نہیں بلکہ کتابوں کے مختصر تعارف کے ساتھ ان پر تبصرہ بھی کردیا گیا ہے۔ اسے    توضیحی اشاریہ یا توضیحی فہرست کہہ سکتے ہیں۔ سیرت نگاری کے ایک متخصص اور اُونچے پائے کے عالم ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی نے ’تقدیم‘ میں اس کتاب کی جو تعریف کی ہے، وہ خاصی مبالغہ آمیز ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں کہ اس کتاب کے مرتبین کا کوئی خاص ’منہج تحقیق‘ ہے، یا وہ اپنے تبصروں میں کتاب کے موضوع یا ’’اس کی ندرت و اہمیت آنکتے ہیں‘‘، یا وہ ’’ماخذ مصادرِ اصلی و ثانوی سے بحث کرتے ہیں‘‘۔ یا یہ کہ مبصرین کرام نے ہرکتاب کے تعارف و تبصرے میں زبان و بیان، حوالوں اور کتابیات اور اشاریوں پر بہت ’’خوب صورت جملے لکھے ہیں‘‘۔ تقدیم نگار واجب الاحترام ہیں۔ ہم مرتبین کتاب کے چند جملے پیش کرتے ہیں، (قلّابین میں تبصرہ ہمارا ہے): l’’ہرکتاب پر تبصرے اور اس کے متعلق معلومات کے حصول کے لیے اس کا حصول ممکن بنایا گیا ہے‘‘ (ص ۲۱) [کیا خوب صورت جملہ ہے]۔ l’’آخر میں کتابیات کی فہرست بھی دی گئی ہے‘‘ (ص ۲۵)۔ [کتابیات تو بذاتِ خود ایک فہرست ہوتی ہے]۔ l’’ماخذ کے حوالہ جات میں تحقیق کے مروجہ معیار اور اسلوب کو مدنظر رکھا جاتا تو کتاب کی افادیت اور استنادی حیثیت دوچند ہوجاتی‘‘ (ص۱۰۹)۔ [کیا صرف ’’تحقیق کے مروجہ معیار اور اسلوب‘‘ کی تبدیلی سے کوئی تحریر یا کتاب مستند ہوسکتی ہے؟ استناد کا انحصار تو حوالے کے کامل ہونے یا اس کی صحت و ثقاہت پر ہوتا ہے]۔ مرتبین نے فصاحتِ نبویؐکو ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کے پی ایچ ڈی کا مقالہ بتایا ہے (ص۳۶)۔ یہ غلط ہے، ان    کے مقالے کا عنوان تھا:  کتاب القرط علی الکامل۔ ڈاکٹر نثار احمد کی کتاب خطبۂ حجۃ الوداع پر مرتبین نے خود تبصرہ نہیں کیا بلکہ پروفیسر عبدالجبار شاکر کی تحریر کا ایک حصہ نقل کردیا ہے۔ اسی طرح سیّدمحمد ابوالخیر کشفی کی کتاب حیاتِ محمدؐ قرآنِ حکیم کے آئینے میں پر علی محسن صدیقی اور   شاہ مصباح الدین شکیل کی سیرتِ احمد مجتبٰیؐ پر ڈاکٹر محمدمیاں صدیقی کا تبصرہ نقل کیا گیا ہے۔ ان کمزوریوں کے باوجود، ایسی کتابوں کی ترتیب و اشاعت افادیت کا باعث ہے۔ فقط یہ گزارش ہے کہ تبصروں کو کتابی شکل میں مرتب اور شائع کرتے وقت ان پر نظرثانی کرلینا یا کروا لینا ضروری ہے۔ اشاریہ ساز معیاری اشاریوں کا بغور مطالعہ کرکے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
  • چوتھی کتاب میں (سرورق کی عبارت کے مطابق) پاکستان میں اُردو سیرت نگاری کے آغاز و ارتقا کے تذکرے کے ساتھ ۶۰سالہ دور میں لکھی جانے والی ڈیڑھ سو کے قریب اہم کتابوں اور رسالوں کی خاص اشاعتوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔ دراصل یہ مصنف کی ایک گفتگو ہے جو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد میں ۲۶؍نومبر ۲۰۰۹ء میں منعقدہ ایک تقریب کی گئی تھی جسے انھوں نے ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری کے حکم پر مرتب کرکے شائع کردیا۔ مختلف عنوانات کے تحت اہم کتابوں، موضوعاتی کتابوں، منظوم کتابوں، خواتین کی تحریر کردہ کتابوں ، محاضراتِ سیرت کی کتابوں، دیگر زبانوں خصوصاً عربی سے ترجمہ شدہ کتابوں، بچوں کے لیے کتابوں، ایوارڈ یافتہ کتابوں اور رسائل و جرائد کے سیرت نمبروں کا تعارف شا مل ہے۔ مصنف نے ان کے معیار پر تبصرہ یا تنقید نہیں کی۔

محمدمظفر عالم جاوید صدیقی کے تحقیقی مقالے اُردو میں میلاد النبیؐ کے تعارف میں مؤلف کی ’محنت، کاوش اور تگ و دو‘ اور ان کی تحقیق کے ’اعلیٰ معیار‘ کی تعریف کی گئی ہے (ص ۱۶۸-۱۶۹)۔ غالباً سیّد عزیز الرحمن صاحب کی نظر سے ماہنامہ نعت لاہور کا شمارہ اکتوبر ۲۰۰۰ء نہیں گزرا جس میں ڈاکٹر محمد سلطان شاہ نے بہ دلائل اور بہ ثبوت بتایا تھا کہ یہ مقالہ ’سرقے‘ کی ایک عمدہ مثال ہے۔ مظفرعالم نے جن کتابوں سے جہاں جہاں چوری کی، شاہ صاحب نے نام اور عنوانات اور صفحات کے تعین کے ساتھ ان کی نشان دہی کرنے کے بعد قرار دیا تھا کہ: ’’یہ مقالہ سرقہ و بددیانتی کے ارتکاب کا منہ بولتا ثبوت ہے‘‘ ہے (ص ۶۴) ___ بہرحال یہ معلومات افزا کتاب موضوعاتِ سیرت پر تحقیق کرنے والوں کے لیے بہت معاون ثابت ہوگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)


مقالات سیرتِ طیبہ، مرتبہ: جامعہ سلفیہ بنارس، بھارت۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۴۶۴۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی کی سیرتِ طیبہ کا موضوع ایک ایسا بحربے کراں ہے جس کی کوئی اتھاہ نہیں۔ ۱۴سوسال سے غواص اس کے اندر جاتے ہیں اور اپنی پسند کے سیپ اور موتی نکال کے لاتے ہیں ، جن میں سے یقینا کچھ آنکھوں کو خیرہ کردیتے ہیں۔

۱۴۱۲ہجری میں بنگلور میں جامعہ سلفیہ نے سیرت کانفرنس کا انعقاد کیا جس کے اُردو مقالات (یعنی انگریزی اور عربی کے علاوہ) وہاں سے شائع کیے گئے اور اب کتاب سراے نے پاکستان میں شائع کیے ہیں۔یہ ۳۷ مقالات کا مجموعہ ہے، آخر میں کچھ منظومات بھی ہیں۔ مقالات مختصر اور جامع ہیں اور تدوین کاروں نے بڑی محنت سے ذیلی سرخیاں لگائی ہیں۔

دوسرا پہلو مضامین کی وسعت اور ان کا تنوع ہے۔ میں صرف اشارے کروں گا۔ اتباع اور اطاعت رسولؐ کے موضوع پر چار مقالات ہیں۔ اخلاق نبویؐ پر دو، دعوت پر چار، سیرت کی اہم کتابوں: ابن جوزی کی الوفاباحوال المصطفٰی، سلیمان منصورپوری کی رحمۃ للعالمینؐ، شبلی نعمانی کیسیرت النبیؐ، مصطفی سباعی کی دروس وعبر، علامہ مقریزی کی امتاع الاسماع کے تعارف اور جائزے ہیں۔ سرسیّد، طٰہٰ حسین اور محمد بن عبدالوہاب اور سلف میں سے بعض پر سیرت نگار کی حیثیت سے مضمون ہیں۔ سیرت کے حوالے سے: حقوقِ نسواں، اولاد کی تربیت، طبقاتی کش مکش کا حل، اور حقوقِ انسانی جیسے موضوعات ہیں۔ دو اہم موضوعات بشریت اور علمِ غیب کچھ زیادہ ہی اختصار سے نبٹا دیے گئے ہیں۔ سیرت کے واقعات، یعنی صلح حدیبیہ، معجزات، آپؐ کی تعلیم اور عمل میں تزکیۂ نفس ، تدبیر اور تنظیم، حب ِ رسولؐ، شاید مَیں مکمل احاطہ نہیں کرسکا۔آخر میں شامل چار منظومات میں سے دو نعتیں ہیں اور دو میں کانفرنس کا ذکر ہے۔

ان مقالات کو تعلیمی اداروں کے مجلات ، اخبارات کے خصوصی نمبروں اور رسائل و جرائد میں نقل کیا جاسکتا ہے۔مشتاقانِ سیرت اسے حاصل کریں تو مایوس نہیں ہوں گے۔(مسلم سجاد)


عالمی تہذیب و ثقافت پر اسلام کے اثرات، محمود احمد شرقاوی، ترجمہ: صہیب عالم،  نجم السحر ثاقب۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۴۲۔ قیمت: درج نہیں۔

اسلام جزیرئہ عرب سے نکلا تو اس نے ایک طرف روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا اور دوسری طرف شکوہِ فارس کو پارہ پارہ کردیا۔ سلطنت ِ اسلامی کی سرحدیں بحراوقیانوس سے لے کر چین کے صوبہ سنکیانگ (کاشغر) تک پھیل چکی تھیں۔ اس کے نتیجے میں تمام مفتوحہ علاقوں پر اسلامی تہذیب و ثقافت کے وسیع اثرات مرتب ہوئے۔ زیرنظر کتاب میں محمود علی شرقاوی نے انھی اثرات کا جائزہ لیا ہے۔

ابتدا میں مصنف نے اسلام میں علم کی اہمیت ، مسلمانوں کے طرزِ تعلیم اور مراکز تعلیم (مساجد، مکاتب، مدارس، علما کی مجالس اور کتب خانوں) پر تفصیلی بحث کی ہے۔ بعدازاں مغربی اور عجمی تہذیب و ثقافت کے خدوخال بیان کرکے ان پر اسلامی فتوحات کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور عالمی ثقافت کے فروغ میں مسلم علما کی مساعی کو سراہا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ مسلم علما جس مفتوحہ علاقے میں گئے، وہاں کے علوم و فنون کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اور اس مقصد کے لیے تراجم کو اہمیت دی گئی اور عربی تراجم کے ذریعے مختلف علوم سے کماحقہٗ فائدہ اُٹھایا۔ اسی طرح اسلامی علوم کو بھی دوسری زبانوں میں منتقل کرکے وہاں کے باشندوں کو اسلام کی حقیقی روح سے آگاہ کیاگیا۔

تہذیب و ثقافت کے مختلف عناصر اور شعبوں (ادب، فلسفہ، طب، شفاخانے، علمِ کیمیا،   علمِ طبیعیات، علمِ فلکیات، علمِ ریاضیات، علمِ نباتات، علمِ حیوان، علمِ جغرافیہ، علمِاجتماعیات، ایجادات اور فنون و کاریگر) کی مناسبت سے ذیلی عنوانات قائم کر کے مصنف نے ان علوم کی ترویج و ترقی پر مسلم تہذیب و ثقافت کے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے۔ مسلمانوں کی سائنسی خدمات کا تذکرہ  کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اندلس، سسلی اور مشرق میں علوم کے مراکز قائم کیے جن میں جابر بن حیان، ابن الہیثم اور ابوالقاسم زہراوی جیسے لوگوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اندلس کی یونی ورسٹیوں میں یورپی طلبہ بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔آخری باب میں مصنف نے اسلام کے سیاسی نظام، قوانین، حدود، ریاست، خلافت اور معاشیات پر بحث کی ہے۔

کتاب عربی زبان میں تھی۔ ترجمہ رواں اور اسلوب نہایت عمدہ ہے۔ کہیں ترجمے کا احساس نہیں ہوتا۔ مجموعی طور پر کتاب نہایت معلومات افزا ہے، اور عبرت خیز بھی۔ اس کے مطالعے سے اقبال کا مصرع شدت سے یاد آتا ہے: ع تھے تو آبا وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو۔(قاسم محمود احمد)


Tears for Pakistan [پاکستان کے لیے آنسو]،اقبال سیّد حسین۔ ملنے کا پتا: گلی ۱۴، کرشن نگر، گوجرانوالہ۔ فون: ۷۷۹۲۴۵۲-۰۳۰۰۔ صفحات: ۵۳۶۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔

اقبال سیّد حسین نے اس کتاب میں پاکستان کے حوالے سے اپنے گہرے احساسات قلم بند کیے ہیں۔ اُنھوں نے زندگی کا طویل عرصہ بیرونِ ملک گزارا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اقوامِ عالم میں وہ مقام نہ مل سکا جس کا وہ حق دار ہے۔

۱۹۷۷ء سے اب تک انگریزی زبان میں اُن کی ۱۲ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔  ۵۳۶صفحات پر پھیلے ہوئے ۲۶ مضامین کی اس کتاب میں مصنف کم و بیش ہر اُس پہلو کی نشان دہی کرتا ہے جو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے یا پاکستان کو زوال کی طرف لے جا رہا ہے ۔ اُن کی واضح راے یہ ہے کہ تعلیم سے دُوری نے پاکستانی قوم کے لیے بے انتہا مسائل کھڑے کیے ہیں۔ اُنھوں نے غیرملکی مفکرین دانش وروں اور قائدین کی آرا بھی فراخ دلی سے درج کی ہیں۔

اقبال سیّد حسین نے خلیل جبران سے لے کر ولیم بلیک اور نوم چومسکی اور کیرن آرمسٹرانگ تک، اور قرآن کریم سے لے کر روزمرہ پاکستانی اخبارات تک سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ چند مضامین یا پیراگراف ایسے ہیں کہ جنھیں مصنف نے دیگر دانش وروں کی تحریروں میں اہم سمجھا اور شکریے کے ساتھ اپنی کتاب میں شامل کیا۔ یونانی فلسفہ اور جدید مفکرین کی آرا سے وہ دل کھول کر استفادہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان میں ’رہنمائی‘ موجود ہے۔ مُلّا، آرتھوڈوکسی اور قدامت پرستی پر بھی اپنے نقطۂ نظر سے کھل کر تنقید کی ہے۔

مصنف نے کئی درجن تصاویر بھی شامل کی ہیں۔ ان میں دکھایا گیا ہے کہ کوڑے کے ڈھیر پر سے بچے خوراک تلاش کر رہے ہیں یا وہ عورتیں جن کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا، یا وہ معصوم بچے جو زندگی کی گاڑی دھکیلنے کے عمل میں ۶،۷ سال کی عمر ہی سے شریک ہوچکے ہیں۔

آج پاکستان اور اسلام اور اسلامی تحریکات کے حوالے سے جس قدر ہرزہ سرائی ہورہی ہے، خصوصاً انگریزی زبان میں شائع شدہ کتابیں اور مضامین اور تجزیے جس طرح وطن عزیز کو بدنام کررہے ہیں، ان حالات میں اقبال حسین کے مضامین اور کتابیں کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ قومیت، علاقائیت اور دولت پرستی نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور اُس کے احکامات نہ تسلیم کرنے نے پاکستان کو بے وقعت کیا ہے۔ اُمید ہے پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ کتاب خوب صورت تحفہ ثابت ہوگی۔ (محمد ایوب منیر)

تعارف کتب

  •  رسولِ اکرمؐ کے مثالی اخلاق ،تالیف: مولانا محمد ہارون معاویہ۔ ناشر: قدیمی کتب خانہ، آرام باغ، کراچی۔ فون: ۳۰۹۰۳۹۵-۰۳۳۴۔ صفحات: ۴۸۰۔ قیمت (مجلد): ۴۰۰ روپے۔[بقول مؤلف سیرتِ رسولؐ کی سیکڑوں کتب سے استفادے کے بعد رسول اکرمؐ کے اخلاق کا مجموعہ پیش کیا گیا ہے۔ اخلاق و خصائص نبویؐ کے مفصل تذکرے کے ساتھ آپؐ کی شگفتہ مزاجی، مثالی گھریلو زندگی کے علاوہ رسولِ اکرمؐ کے تفریحی مشاغل پر مفصل مضمون بھی ہے۔ آخر میں مصادرو مآخذ کی مفصل فہرست مزید مطالعہ سیرت کے لیے مفید ہے۔ ]
  •  عزم و ثبات کے کوہِ گراں (صلی اللہ علیہ وسلم) ، مؤلف: ڈاکٹر شیرمحمد زمان چشتی۔ ناشر: ریجنل دعوہ سینٹر (سندھ) ، کراچی، پی ایس-۱/۵، کے ڈی اے اسکیم ۳۳، احسن آباد، نزد گلشن معمار، کراچی۔ فون: ۳۶۸۸۱۸۶۲-۰۲۱۔ صفحات: ۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [دین کے غلبے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے نبی کریمؐ نے جس صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا، اور قربانیاں پیش کیں، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے حقیقی اسلامی معاشرے   کے قیام کے لیے فرد اور معاشرے کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔ مؤلف نے بجا توجہ دلائی ہے کہ ہمارے قومی و انفرادی اخلاق کی گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کے لیے ہمیں اخلاقِ محمدیؐ کی دعوت کو عام کرنا ہوگا۔]
  •  حرفِ حرایاب ، شاعر: یونس رمز۔ ناشر: عبیر پبلی کیشنز، ۲۲-ای، کمرشل ایریا ناظم آباد، کراچی۔ صفحات: ۱۹۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[نعت، رسولِ مقبولؐ کی مدحت و توصیف کا نام ہے۔ یونس رمز کی شاعری دل کی شاعری ہے جس میں جذب و کیف کی کیفیت دل کی دنیا کو معطر کرتی ہے۔ حرفِ حرایاب میں چار حمد، ۱۵۳ نعتیں، اور چار سلام شامل ہیں۔ کلام مشکل ضرور ہے لیکن تنوع اور نیاپن لیے ہوئے ہے۔]
  •  عظیم تر پاکستان (عالمی اخلاقی نظام اور امنِ عالم،)، سیّد مسعود اعجاز بخاری۔ ناشر: مجلس تحقیق فکروفلسفہ پاکستان۔ ۳۲/اے، سیکٹر بی تھری، پارٹ سیکنڈ، میرپورآزاد کشمیر۔ صفحات:۱۷۶۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔[ ملک و ملّت کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنف نے نظریاتی اساس کے استحکام پر زور دیا ہے ۔ اسلام، دوقومی نظریے اور علامہ اقبال اور قائداعظم کے افکار کی روشنی میں مسائل کے حل کے لیے رہنمائی دی ہے۔ ایک محب وطن پاکستانی کے جذبات کی ترجمانی پر مشتمل مضامین کا مجموعہ جو غوروفکر اور عمل کے لیے تحریک دیتا ہے۔]
  •  شبیرحسین - اسلامی مزدور تحریک کا بے تیغ سپاہی ، مرتب: پروفیسر محمد شفیع ملک۔ ناشر: پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ، ایس ٹی ۳/۲، بلاک۵، گلشن اقبال، کراچی-۷۵۳۰۰۔ فون: ۳۷۷۱۸۴۴۹-۰۲۱۔ صفحات:۱۴۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[مزدوردنیا میں قرآن و سنت کی دعوت پیش کرنے کے لیے تحریکِ اسلامی میں شعبہ ’محنت کاراں‘ قائم تھا۔ تاہم اشتراکی نظریات کا مقابلہ کرنے اور وسیع پیمانے پر دعوتِ دین پہنچانے کے لیے نیشنل لیبر فیڈریشن (این ایل ایف) قائم کی گئی۔ شبیرحسین مرحوم اس کے بانی سیکرٹری جنرل تھے۔ زیرنظرکتاب مرحوم کی حیات و خدمات کے تذکرے پر مبنی ہے۔ رفقا و احباب کی تاثراتی تحریروں سے جہاں   ان کی شخصیت، کردار اور خدمات کا پتا چلتا ہے وہاں مزدور دنیا میں اسلامی تحریک کی جدوجہد اور مراحل کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔]
  •  حُسنِ انتخاب ، مؤلف: مولانا عماد الدین محمود۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس، خالق آباد، نوشہر۔ صفحات: ۱۸۲۔ قیمت: درج نہیں۔[صحابہ کرامؓ، تابعین، بزرگانِ دین اور علماے کرام کے ایمان افروز واقعات، دل چسپ حکایات اور سبق آموز قصے کہانیوں پر مشتمل کتاب جو تزکیہ و تربیت اور دین کی اخلاقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے مفید ہے۔]