تحریک ِ اسلامی کے سرگرم کارکن نثار احمد عابد کے ۳۲ مختصر مضامین میں خاصا تنوع ہے۔ دس عنوانات (ایمانیات، کتاب و سنت کی پیروی، اسوئہ رسولؐ، عبادات، قرآنیات، اقامت ِ دین، حقوق العباد وغیرہ) کے تحت مختلف موضوعات پر دو دو، چار چار صفحے کی یہ تحریریں کویت کے اخبار عرب ٹائمز کے اُردو حصے میں شائع ہوتی رہیں۔ مستند اور ٹھوس معلومات پر مبنی مؤثر مضامین ہیں۔ بقول حافظ محمد ادریس: ’’کتاب کا ہرمضمون ایمان افروز اور سبق آموز ہے‘‘۔
دیباچے میں مصنّف کہتے ہیں: ’’اگر کسی ایک مضمون سے بھی کسی ایک فرد کا قبلہ درست ہوگیا اور وہ اسلام کی طرف مائل ہوا تو میں اسے اپنے لیے ایک بہت بڑی سعادت اور توشۂ آخرت سمجھوں گا‘‘۔ طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے (رفیع الدین ہاشمی)۔
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آبادکی شریعہ فیکلٹی میں فقہ اور بین الاقوامی قانون پر گہری نظر رکھنے والے محنتی استاد اور محقق ہیں۔ ان میں قابلِ قدر صلاحیت یہ ہے کہ تحقیق اور اظہارِ بیان میں وہ کسی مصلحت کے اسیر نہیں۔ دینی مآخذ اور فہم کے تحت جو درست سمجھتے ہیں، حاضرو موجود کی پروا کیے بغیر لکھتے اور نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
زیرنظر بظاہر ایک مختصر کتاب ہے ، لیکن امرواقعہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے جملہ پہلوئوں پر بہت پھیلی، گہری اور گھمبیر صورتِ حال کو حددرجہ جامعیت اور اختصار سے مسئلے کی اہمیت کو پیش کیا ہے اور انسانیت کی ذمہ داری کو واشگاف لفظوں میں بیان کیا ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میں مسئلہ فلسطین سے متعلق مغالطوں کا مؤثر تجزیہ کیا ہے۔ دینی حوالے سے بڑی خوبی سے استدلال کیا ہے۔ خاص طور پر پرانے منکرینِ حدیث اور نئے منکرینِ حدیث کی جانب سے صہیونیت نوازی اور فلسطین پر اسرائیل کے نوآبادیاتی قبضے کی تائید میں لکھی گئی داستان سرائی کا مدلل محاکمہ کیا ہے۔ دوسرے حصے میں مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی قانون اور عالمی رائے عام کی روشنی میں پرکھا ہے، اور تیسرے حصے میں فلسطینی جدوجہد آزادی کی تمام سطحوں کا نہایت اعلیٰ درجے پر تجزیہ کرکے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے۔
کتاب کے ناشر اور نوجوان محقق مراد علی علوی نے خوش ذوقی سے اسے شائع کیا ہے، جب کہ ممتاز قانون دان اور دانش وَر جناب آصف محمود نے کتاب کا مؤثر تعارف لکھا ہے۔ یہ کتاب حق رکھتی ہے کہ اسے توجہ سے پڑھا جائے۔(س م خ)
جناب خورشیدرضوی اِس وقت اُردو دُنیا کے تین چار چوٹی کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک بلندپایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے نثرنگار بھی ہیں۔ وہ عربی فارسی، انگریزی اُردو اور پنجابی زبانوں پر اچھی دسترس رکھتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ان کے طویل اور مختصر شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ بقول مصنف: ’’یہ تحریریں چالیس سال کی قلم فرسائی پر مشتمل ہیں‘‘۔جن میں اُردو اور عربی زبان و ادب کے نام وَر ادیب، شاعر اور محقق شامل ہیں جیسے مولانا روحی، اختر شیرانی، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، علّامہ عبدالعزیز میمن، پیرمحمد حسن، انتظار حسین، ناصر کاظمی، مشفق خواجہ، منیرنیازی، محمدکاظم اور انور مسعود ، نیرواسطی___ ان کے ساتھ کچھ نسبتاً غیرمعروف اصحاب کو بھی یاد کیا ہے۔
بعض خاکوں میں دل چسپ باتیں اور واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ معروف مستشرق مارگولیتھ لاہور آیا اور اسلامیہ کالج بھی گیا۔ مولانا روحی کی کلاس میں اس وقت آیا جب مولانا لیکچر دے رہے تھے۔ انھوں نے ڈائس کے اُوپر ہی سے کھڑے کھڑے مارگولیتھ سے ہاتھ ملا لیا۔ بعد میں مولانا نے بتایا: ’’جو ہاتھ میں نے مارگولیتھ سے ملایا تھا، اُسی وقت جا کر دھو لیا تھا‘‘ (ص۲)۔
ایک دلچسپ واقعہ یہ درج ہے کہ مولانا روحی کے فرزند صوفی ضیاء الحق کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا ممتحن کوئی انگریز مستشرق تھا، جس نے زبانی امتحان کے لیے انھیں لندن طلب کیا تھا۔ مولانا روحی نے بیٹے کو لندن جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا اور صوفی صاحب نے والدصاحب کی اجازت کے بغیر سفر کا ارادہ ترک کردیا۔ پھر کچھ خیرخواہوں کی کوششوں سے مولانا روحی نے دوشرائط کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی:
اوّل، ضیاء الحق ہوائی جہاز سے جائے اور انٹرویو کے بعد فی الفور اوّلین ممکنہ پرواز سے واپس آجائے۔ دوم: اپنا کھانا یہیں سے باندھ کر لے جائے اور دیارِ فرنگ سے نہ کچھ کھائے، نہ پیے۔
صوفی صاحب نے کراچی سے کچھ ٹوسٹ وغیرہ لے کر ٹفن میں بند کرلیے اور والد صاحب کی ہدایت کے مطابق ہوائی جہاز سے لندن پہنچتے ہی ہوائی اڈے سے سیدھے ممتحن کے ہاں چلے گئے۔ ممتحن انٹرویو سے بہت مطمئن تھا۔اس نے پوچھا: لندن میں کب تک قیام ہے؟ بتایا کہ آیندہ پرواز سے واپسی ہے تو اُسے سخت حیرت ہوئی۔ ابھی ایک گھنٹے کے لگ بھگ وقت کی گنجایش تھی۔ ممتحن نے پوچھا: یہ وقت کہاں گزاریں گے؟ صوفی صاحب نے کہا: برٹش میوزیم لائبریری میں۔ چنانچہ وہاں گئے اور تھوڑا سا وقت وہاں گزار کرہوائی اڈّے چلے گئے۔ (ص۴۳)
خورشیدرضوی صاحب کا حافظہ بہت اچھا اور یادداشت مضبوط ہے۔ اس لیے انھوں نے دوستوں کے اُردو،انگریزی جملے تک خاکوں میں لکھ دیے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے اسلوب میں تازگی اور شگفتگی نے خاکوں کو دلچسپ بنا دیا ہے۔
ناشر نے کتاب خوب صورت انداز میں چھاپی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ڈاکٹر غلام جیلانی برق [۲۶؍اکتوبر ۱۹۰۱ء- ۱۲مارچ ۱۹۸۵ء] پنجاب کے دُور افتادہ ضلع اٹک کے نواح میں واقع ایک پس ماندہ گائوں کے رہنے والے تھے۔ غریب گھرانا تھا، مگر والدین نے اپنا اثاثہ (زمین، مویشی اور کچھ سامان) بیچ کر بیٹے کو تعلیم دلوائی۔ وہ ایک سکول میں مدرس ہوگئے۔ اسی دوران وہ اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہے۔ آخر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی۔ محکمہ تعلیم کی سرکاری نوکری مل گئی۔ کئی برس ہوشیار پور کے کالج میں پڑھاتے رہے۔ پھر کیمبل پور کالج میں آگئے۔ امام ابن تیمیہ ؒ پر کام کرتے ہوئے انھوں نے مولانا غلام رسول مہر [۱۳؍اپریل ۱۸۹۵ء- ۱۶نومبر ۱۹۷۱ء]سے بذریعہ خط کتابت رابطہ کیا۔ پھر وہ اپنی رہنمائی کے لیے مہرصاحب کو برابر خط لکھتے رہے۔ خطوں کا زمانۂ تحریر ۱۹۳۸ء تا ۱۹۶۸ء ہے۔ مہرصاحب حتی المقدور، برق صاحب کی راہ نمائی اور مدد کرتے رہے۔
برق صاحب کے بیش تر تفصیلی خطوط ان دنوں کے ہیں، جب وہ سرکاری ملازمت میں ترقی کے جائز حق میں مشکلات اور رکاوٹیں پیش آنے پر شدید کرب کا شکار تھے۔وہ بار بار مہرصاحب کو بتاتے ہیں کہ ایک ہی کالج میں یکساں ڈگری رکھنے والے ہندو اساتذہ کو، بہ نسبت مسلمان اساتذہ کے، زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کے گریڈ بھی بہتر ہیں۔ بااثر ہندو اور سکھ ان کی مدد کرتے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر میں ہندو یا سکھ ہوتا تو سندرسنگھ، منوہر لال، چھوٹورام اور مکند لال پوری میرے پشت پناہ ہوتے‘‘ (ص ۹۶)۔
اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’میں ایک غریب و بے نوا والد کے گھر پیدا ہوا کہ جو اَن پڑھ بھی تھا اور ہمارے علم نوازاور قدر شناس وزرا کے ہاں استحقاق کا معیار صرف نسلی تفوّق ہے۔ ٹوانہ خاندان کا میٹرک پاس کم از کم تحصیل دار بھرتی ہوگا۔ سر سکندر خان کے چند لڑکے جو چار چار بار بی اے میں فیل ہوئے تھے، بلامقابلہ EAC (ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر) و تحصیل داری میں لیے گئے۔ میرا سوٹ کیس علمی ڈگریوں سے بھر گیا ہے ‘‘ (ص ۹۵)۔
خطوں کا یہ مجموعہ اُردو خط نگاری کے ذخیرے میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ اُمید ہے علوی صاحب، مہر صاحب کے نام دیگر شخصیات کے مکاتیب بھی اسی انداز میں منظرعام پر لائیں گے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مصنف میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔حالیہ دنوں میں منصورہ ٹیچنگ ہسپتال کے منتظم اعلیٰ (C.E) کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ان کی دلچسپی سیروسیاحت اور وابستگی قلم و قرطاس سے رہی ہے۔ دس بارہ تحقیقی و تجزیاتی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ زیرنظر کتاب موصوف کی ایسی متفرق مطبوعہ و غیرمطبوعہ تحریروں کا منتخب مجموعہ ہے۔
موضوعات متنوع ہیں ، سیاسی (الیکشن کمیشن کا فیصلہ، ۱۹۶۲ءکے انتخابات، ہمارا بلدیاتی نظام وغیرہ)، مذہبیات (کوچۂ سیاست اور مذہبی جماعتیں، دورِحاضر میں علماء کا وقار وغیرہ)، تہذیب و معاشرت (طلبہ و اخلاقی انحطاط کے عوامل اور ان کا علاج، صفائی اور پاکیزگی وغیرہ)، دین و دانش (تصوف اور تاریخ کی حقیقت، اُردو اور ہم، تعلیم کی اہمیت وغیرہ)۔ کتابیں میری نظر میں (اشاریہ تدبرقرآن، سوانح حیات مولانا حسین علی، حیاتِ سیّدنا معاویہؓ کے ناقدین وغیرہ)، پہاڑی کے چراغ (بعض شخصیات، مولانا امین احسن اصلاحی، محبوب سبحانی، محمدعالم مختارحق وغیرہ)۔ متفرقات میں سفرنامے، مکاتیب، صحت ِ عامہ وغیرہ شامل ہیں۔ حصہ انگریزی، چند مضامین اور مراسلوں پر مشتمل ہے۔
ان کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے مسائل کی نشان دہی اور ان پر تنقید ہی نہیں کی بلکہ تجزیہ بھی کیا اور امکانی حل پیش کیا، یوں ان تحریروں سے قارئین کو راہ نمائی بھی ملتی ہے۔
ڈاکٹر بگوی صاحب سادہ اور رواں دواں نثر لکھتے ہیں۔ علمی و مذہبی موضوعات پر بھی ان کا قلم کہیں اٹکتا نہیں۔ حسب ِ ضرورت انگریزی مترادفات کا استعمال ملتا ہے۔ طبّی اور انتظامی مصروفیات کے باوجود نوشت و خواند اور قلم و قرطاس سے رشتہ قائم رکھنا، ایک قابلِ قدر خوبی ہے۔
قارئین قلم قتلے کو ایک دلچسپ اورمعلومات افزا کتاب پائیںگے۔(رفیع الدین ہاشمی)
کتاب کے مرتب ایک ہائی اسکول میںاستاد رہے ہیں۔ انھوں نے دینی، اخلاقی، سماجی اور تاریخی حوالوں سے تربیت دینے کے لیے، بیسیوں کتب سے جو واقعات اخذ کرکے اپنے طالب علموں کو سنائے اور انھیں مؤثر پایا، یہ کتاب اُنھی اقتباسات پر مشتمل ہے۔ جو ایک قیمتی کتاب کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ (س م خ)
زیرنظر کتاب پروفیسر محمد اکرم طاہر مرحوم (م: ۱۱؍اپریل ۲۰۲۱ء) کی آخری تالیف ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کی کتاب محمدؐ رسول اللہ ، مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ شائع ہوئی تھی۔ زیرنظر اُسی اُردو کتاب کا انگریزی رُوپ ہے۔مرحوم اُردو اور انگریزی ادبیات کے استاد تھے۔
رسولِ اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ صدیوں سے مستشرقین اور مغربی مصنّفین کا موضوعِ بحث و تقریر رہا ہے۔ معدودے چند: مستشرقین کو چھوڑ کر، باقی حضرات سیرتِ طیبہ پر چھینٹیں اُڑانے اور اس سے کیڑے نکالنے میں مشغول رہے۔ سرسیّد احمد خاں سے پروفیسر محمد اکرم طاہر تک بیسیوں مسلم اہلِ قلم نے مغربیوں کے ایسے سوقیانہ لٹریچر کی مدلل تردید میں کتابیں لکھی ہیں۔
کتاب تین حصّوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں عربوں کے جاہلانہ تصورات کے پس منظر میں آں حضوؐر کی بعثت کا تذکرہ ہے۔ دوسرے حصے میں آں حضوؐر کی شخصیت کی چند جھلکیوں کے بعد اسلامی نظامِ زندگی کی تشریح و توضیح کی گئی ہے، جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کے لیے آں حضوؐر نے کیا کیا نشانِ راہ بتائے ہیں۔ غربت اور جرائم کے خاتمے، انصاف کی فراہمی اور خواتین کے حقوق وغیرہ کے بارے میں مغرب ہمیں جو کچھ آج بتا رہا ہے، مصنف نے عمدگی سے واضح کیا ہے کہ آں حضوؐر صدیوں پہلے ان مسائل کا بہترین حل بتا چکے ہیں۔ تیسرے حصے میں چھے نامور مستشرقین (واشنگٹن ارونگ، کارلائل، مائیکل ہارٹ، منٹگمری واٹ، برنارڈلیوس، لیزے بیزل ٹون) کے اعتراضات کا تجزیہ کیا ہے۔
آخر میں حواشی و توضیحات، اُردو، انگریزی اور عربی کتابیات، اشاریۂ اشخاص شامل ہیں۔ کتاب اچھے معیار پر شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سیرتِ پاک پر ہرلمحہ، کوئی نہ کوئی صاحب ِ ایمان اپنی محبت کا نذرانہ سپردِ قلم کر رہا ہوتا ہے۔ مضمون، کتاب یا لغت ، یعنی سبھی اصناف میں اور بیش تر زبانوں میں یہ کارِعظیم انجام دیا جارہا ہے: ورفعنا لک ذکرک۔ اس وقت سیرتِ پاک ؐ کی جس کتاب کا ذکر کیا جارہا ہے، اسے علی اصغر چودھری مرحوم نے گذشتہ صدی کے آخری عشروں میں لکھا۔ کتاب کا اسلوب بیانیہ ہے۔ حتی الوسع کوشش کی گئی ہے کہ تمام باتیں کسی مستند مآخذسے چُنی جائیں۔ مصنف نے حیاتِ طیّبہؐ اور سیرتِ مطہرہؐ کو ایک مربوط رواں دواں بیان کی شکل میں مرتب کیا ہے۔سادہ اور پُراثر نویسی کے باعث یہ کتاب اسکولوں، کالجوں اور بالخصوص عام لوگوں میں بہت مقبول ہوئی ۔
ایک عرصے سے دستیاب نہیں تھی، اب ادارے نے دوبارہ شائع کی ہے۔ یقینا یہ ایک قیمتی تحفہ ہے، سیرت کے مطالعے کے شوق کو اُبھارنے اور سیرت سے سبق لینے کے لیے۔ (س م خ)
مغربی سامراج کو قابلِ قبول بنانے اور اسلام کے تصورِ جہاد کو مسخ کرنے کے لیے انگریز کی سرپرستی میں قادیانیت کا خاردار پودا کاشت کیا گیا، جس کے کانٹوں نے برعظیم پاکستان و ہند کے مسلمانوں میں بے چینی، اضطراب اور صدمے کو گہرائی تک پہنچا دیا۔
اگرچہ انیسویں صدی کے آخری عشرے ہی سے اس ضمن میں اہلِ حق آواز بلند کرتے رہے، تاہم بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اس فتنے کی تردید میں علمی و مجلسی اور عدالتی و صحافتی سطح پر بڑے پیمانے پر کام ہوا۔ مئی ۱۹۷۴ء سے شروع ہونے والی تحریکِ ختم نبوت کے دوران پاکستان کی پارلیمنٹ نے بطورِ عدالت، اس حوالے سے تمام فریقوں کو پارلیمان میں آکر اپنا موقف پیش کرنے کی دعوت دی۔ اس موقعے پر ممتاز عالمِ دین، محترم مولانا عبدالرحیم اشرف صاحب نے بھی ایک مفصل یادداشت، قادیانیت سے متعلق جملہ اُمور کی وضاحت کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کی۔ یہ کتاب اسی تاریخی یادداشت پر مشتمل ہے، جسے محترم ڈاکٹر زاہد اشرف صاحب نے بہت عمدہ انداز میں مرتب و مدّون کرکے، خوب صورت انداز سے شائع کیا ہے۔ (س م خ)
اگر آپ موجودہ زمانے میں اُردو دُنیا کے متبحر عالموں کی ایک فہرست بنائیں تو ڈاکٹر تحسین فراقی کا نام شروع کے دو تین ناموں میں ضرور شامل ہوگا۔ منتخب مصاحبوں [انٹرویو] پر مشتمل، زیرنظر کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فراقی صاحب فقط اُردو ادب کے نام وَر نقّاد اور ادیب ہی نہیں، اور اُردو، پنجابی، انگریزی اور فارسی نوشت و خواند کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، بلکہ عربی اور ہسپانوی زبانوں پر بھی مناسب دسترس رکھتے ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف سے قطع نظر اِنھی مصاحبوں کو دیکھیے، تو ان کے تبحرعلم کی تصدیق ہوتی ہے۔
زیرنظر مصاحبوں سے نہ صرف فراقی صاحب کے احوالِ زندگی بلکہ ادب، تحقیق، تنقید، سیاست، فلسفہ، سائنس، تعلیم، تہذیب اور ثقافت وغیرہ کے بارے میں ان کے نظریات کا اندازہ ہوتا ہے۔ مرتب ’ پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر تحسین فراقی کا شمار ان نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی فکرو دانش سے اُردو زبان و ادب اور اُردو شاعری کو وہ کچھ دیا ہے، جس کی توقع ان ہی سے کی جاسکتی تھی اور اس ’وہ کچھ‘ کی تفصیل اس کتاب میں آپ کو مل جائے گی‘‘۔
بلاشبہہ اس مجموعے سے تحقیق و تنقید کے مختلف موضوعات اور شاعری کی مختلف اصناف پر ان کے نظریات اور ان کی اپنی تخلیقات کا پتا چلتا ہے۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے نام وَر مصنّفوں اور شاعروں کا مطالعہ کیا، ان سے کچھ نہ کچھ اخذ بھی کیا مگر وہ ان سے مرعوب نہیں ہوئے۔ اسی طرح اپنے مطالعے اور مشاہدات کے اظہار میں انھوں نے اعتدال اور توازن ملحوظ رکھا۔
یہ مصاحبے پڑھتے ہوئے ایک تنوع کا احساس ہوتا ہے۔ کہیں تو علمی بحث ہے، کہیں کسی سفر کی رُوداد ہے اور کہیں پاکستانی سیاست کی نیرنگیوں کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے یہ انٹرویو مرتّب کرکے بڑا اہم کام کیا ہے۔ لیکن اگر وہ تدوین کے دوران مکررّات نکال دیتے اور حسب ِ موقع و ضرورت تواریخ و سنین درج کرنے کا اہتمام بھی کرتے تو مجموعہ زیادہ وقیع ہوجاتا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ بہت عرصہ پہلے شیداکاشمیری مرحوم نے فراقی صاحب کا نہایت مفصّل انٹرویو لیا تھا (جو ان کی کسی کتاب میں شامل ہے۔) وہ بھی زیرنظر مجموعے میں شامل کرلیا جاتا تو بہتر تھا۔(رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان میں ایسے سیاست دان کم ہی ہوں گے، جو قلم و قرطاس سےراہ و رسم رکھتے ہیں اور فریداحمد ایسے ہی کم یاب لوگوں میں شامل ہیں۔ ان کی خود نوشت پیشِ نظرہے۔ اسے ایک سیاست دان کی آپ بیتی سمجھیے یا تحریکی کارکن کی یادداشتوں کا مجموعہ۔آغاز خاندان کے تعارف سے ہوتا ہے، جس میں انھوں نے اپنے دُور و نزدیک کے اعزہ (مردو زن) کا تعارف کرایا ہے (اور ۱۶صفحات میں سب کی تصاویر دی ہیں)۔ ان تعارفی سطور میں بسااوقات وہ اس قدر تفصیل میں جاتے ہیں کہ اپنی، دوسری اور تیسری نسل کی عمروں (تاریخ ہائے ولادت)، تعلیم اور مصروفیات تک سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ ابّا جی (مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم) کے حالات نسبتاً مفصل ہیں۔
ذاتی اور شخصی حالات و احوال کے ساتھ، انھوں نے تحریکی افراد کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح ملکی سیاست کے اُتارچڑھائو ، مختلف سیاست دانوں کی خوبیوں اور کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ بظاہر زمانی ترتیب رکھی گئی ہے، مگر داستان در داستان کی طرز پر وہ ایک موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے یادوں کی وادیوں میں دائیں یا بائیں دُور نکل جاتے ہیں اور پھر وہاں سے پلٹتے ہوئے واپس ماضی میں چلے جاتے ہیں۔بایں ہمہ کتاب سے تاریخ کے ایک خاص دور کی جھلکیاں سامنے آتی ہیں۔
اس دل چسپ کتاب میں قومی اور ملّی نشیب و فراز کی تفصیل معلومات افزا بھی ہے اور عبرت انگیز بھی۔تاہم، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کی اس رائے سے اتفاق مشکل ہے کہ یہ ’خودنوشت اُردو ادب میں ہی نہیں، آٹوبائیوگرافی کے عالمی لٹریچر میں بھی ایک گراں قدر اضافہ ہے‘۔(رفیع الدین ہاشمی)
فاضل مصنف، عالمِ دین، خطیب، مدرّس اور مربی تھے۔ اسّی کے عشرے میں وہ لاہور کے مختلف مکاتب ِ فکر کے حلقوں میں درس قرآن کے لیے بلائے جاتے تھے اور بعض اوقات تبلیغی دوروں پر بیرونِ لاہور جایا کرتے تھے۔ ۱۹۸۳ء میں انھیں ہا نگ کانگ سے دعوت نامہ آیا۔ ۱۹؍اگست کو گھر سے نکلے ہی تھے کہ نامعلوم افراد نے انھیں اغوا کرلیا ___ اور آج تک اُن کا پتا نہیں چل سکا۔
جناب امجد عباسی نے ان کی ریکارڈ شدہ چھے تقاریر کو اس کتاب میں مرتب کیا ہے۔ موضوعات عمومی نوعیت کے ہیں (حقیقت ِ انسان، نماز،اسوئہ دعوت، آخرت، نجات کی راہ) مگر قاری صاحب کا انداز و اسلوب بہت مؤثر کن ہے۔ قرآن و حدیث اور تاریخ علومِ اسلامیہ کا استحضار قابلِ رشک تھا، جن کے حسب ِ موقع حوالے دیتے ہیں۔ ان کی دھیمی پکار، قاری کے درِ دل پر دستک دیتی اور اُسے قائل کرتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت نے برطانوی مقبوضہ ہند میں مسلمانوں کی رہنمائی کی، اور اخلاص اور بےپناہ محنت سےدو قومی نظریے کو پاکستان کی شکل دی۔
تحریک ِ پاکستان کے دوران مغرب زدہ اور انگریزوں کے مراعات یافتہ طبقے تحریکِ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ لیکن جب ۱۹۴۶ء میں قیامِ پاکستان کے امکانات روشن ہوئے تو اس طبقے کے بہت سے افراد نے بڑی تیزی سے مسلم لیگ میں شرکت کا راستہ اپنایا۔ جب پاکستان بن گیا تو اسی طبقے کے پروردہ عناصر نے پاکستان میں لادینیت،اباحیت پسندی اور صوبائی نسل پرستی کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ اس فکر کی نفی کے لیے جب دینی اور مخلص قومی قائدین نے خبردار کیا کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد، قائداعظم نے اسلامی تہذیب اور اسلامی تشخص کے وعدے کے ساتھ کی تھی، تو مذکورہ شرانگیز عناصر نے یہ کہنا شروع کر دیا: ’’محمدعلی جناح کا اسلام سے کیا لینا دینا، وہ تو ایک مغرب زدہ، آزاد خیال اورسیکولر انسان تھے‘‘۔
حقیقت سے ٹکراتے اس طرزِ فکر اور پروپیگنڈے کی نفی کے لیے وقتاً فوقتاً جو معرکہ آرا مضامین شائع ہوتے رہے،اور جن میں قائداعظم کی دینی غیرت و حمیت، اور پاکستان کے اسلامی وژن کو مدلل انداز میں پیش کیا جاتا رہا، زیرنظر کتاب انھی مضامین کے انتخاب پر مشتمل ایک قیمتی دستاویز ہے۔ اس مقصد کے لیے جناب محمد متین خالد نے بڑی محنت سے یہ نثرپارے اور دردِ دل سے لکھے مضامین ایک جگہ پیش کردیے ہیں۔ مقصدیت کے اعتبار سے یہ ایک بہت قیمتی دستاویز ہے، جو اساتذہ، صحافیوں، سیاست دانوں اور علما کو زیرمطالعہ لانی چاہیے۔(س م خ)
غلام محمد نذر صابری پیشے کے اعتبار سے ایک کتاب دار (لائبریرین) تھے، مگر اپنی خداداد صلاحیتوں کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کے ادیب، تحقیق کار، مدوّن، شاعر اور مخطوطہ شناس تھے۔ زیرنظر کتاب اُن کے نام ۳۶ ممتاز اہلِ قلم کے ۱۷۳ منتخب خطوط کا مجموعہ ہے، جنھیں ڈاکٹر ناشاد صاحب نے بڑی محبت اور محنت سے مکتوب الیہوں کے تعارف اور متونِ خطوط پر حواشی و تعلیقات کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ مکتوب نگاروں میں ڈاکٹر سیّدعبداللہ، ڈاکٹر جمیل جالبی، غلام جیلانی برق، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر محموداحمد غازی، وحید قریشی وغیرہ شامل ہیں۔
خطوط کے موضوعات متنوع ہیں۔ علمی مسائل پر اور کتابوں کے بارے میں استفسارات، تبصرے اور راہ نمائی___ صابری صاحب کی لیاقت اور قابلیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلسفے کے مسائل اور نظریۂ اضافیت اور زمان و مکان جیسے اَدق موضوعات پر بھی وہ مکتوب الیہوں کو راہ نمائی دیتے ہیں۔
ناشاد صاحب نے مجموعہ، بڑی دیدہ ریزی سے مرتب کیا ہے۔ تدوینِ مکاتیب کے لیے اسے ایک نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اقبالیات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر اقبال کی نظم و نثر میں اتنی گہرائی ہے اور ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ لکھنے والے ذخیرئہ اقبالیات میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ مصنف نے چار تحقیقی مقالات پر مشتمل زیرنظر مجموعہ شائع کیا ہے۔ عنوانات: صوفی عبدالمجید پروین رقم، کلامِ اقبال کے ایک خطاط۔ اقبال شکنی کی روایت۔ لفظ پاکستان کا خالق: اقبال۔اقبال کا نقدوآہنگ اور ارمغانِ حجاز۔ زیربحث موضوعات پر ماقبل جو کچھ لکھا گیا، مصنف اس سے باخبر ہیں۔ مباحث کے مختلف پہلوئوں کو ان مضامین میں سمیٹ لیا ہے۔ اقبال شکنی کی روایت ایک سو صفحات پر مشتمل ہے۔ غالباً اس لیے کہ اس موضوع پر ڈاکٹر محمد ایوب صابربھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔
اب تک یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کے خالق چودھری رحمت علی تھے، مگر مصنف نے قرار دیا ہے کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ اقبال ہی کی عطا ہے (ایوب صابر صاحب نے بھی اس موضوع پر تحقیق کی ہے)۔ مصنف نے اپنی محنت کا ثمر بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ذخیرئہ اقبالیات میں یہ ایک عمدہ اضافہ ہے۔ طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مؤلف نے تقریباً ۶۵ چھوٹے بڑے مضامین اور کالموں کو چار عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے: ’’تعارف اسلام، مسلمان، تاریخ اسلام، مسلم معاشرہ‘‘۔ دیباچہ میں وہ کہتے ہیں: ’’تفہیم القرآن کا مستقل طالب علم ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری تفاسیر کا تقابلی مطالعہ بھی کیا۔ قرآن کے مضامین جو میری سمجھ میں آئے، انھیں تحریری شکل دے دی‘‘۔
بلاشبہہ یہ کتاب کم تعلیم یافتہ افراد کے لیے بھی معلومات افزا ہے۔ چند عنوانات: کائنات کی حقیقت، انسان اشرف المخلوقات، زکوٰۃ، ذریعہ، روزے، حج بیت اللہ،جہاد، سود، عیدالفطر، جمعہ، قادیانیت، ختم نبوت، یہودیت، میڈیا، ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔(رفیع الدین ہاشمی)
سرسیّداحمد خاں (م: ۱۸۹۸ء) کا اسمِ گرامی برعظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کے ایک قومی رہنما کی حیثیت سے معروف ہے۔ مزید یہ کہ انھیں مسلمانوں میں جدید تعلیم کے داعی اور رہنما کی حیثیت سے بلند مرتبہ بھی حاصل ہے۔ شاہ نواز فاروقی صاحب نے سرسیّد کی قومی یا ماہر تعلیم کی حیثیت سے خدمات کو جزوی طور پر، لیکن اُن کے فکری ہیکل کو بنیادی طور پر اپنی توجہ اور فکرمندی کا موضوع بنایا ہے۔ ہمارے ہاں سیکولرزم اور فکری و تہذیبی دو رنگی کے جس مرض کی چھوت چھات عام ہے، بقول شاہ نواز صاحب، اس کا سرچشمہ جناب سرسیّد احمد خاں ہی ہیں۔
محترم مصنف نے مذکورہ مقدمے کو پرکھتے ہوئے سرسیّداحمد کے فکری اور تحریری اثاثے کا مطالعہ کیا، بیانات کا تجزیہ کیا اور قائم کردہ مفروضات کی تہہ میں چھپے ہوئے لاوے کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اسی علمی و تجزیاتی مطالعے کو انھوں نے زیرتبصرہ کتاب میں پیش کیا ہے اور نئی نسلوں کو یہ بتایا ہے کہ سرسیّداحمد خاں کو ایک شخصیت کے طور پر دیکھنے کے بجائے انھیں ایک فکر، ایک علامت اور ایک فکری روایت، سیاسی عمل اور تجددّ و تحریف فی الدین کے انجن کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ انھی نکات کی وضاحت کے لیے مدلل انداز سے مباحث کو تحریر کیا گیا ہے۔
آج ہمارے معاشرے کی فکری زندگی میں آزاد روی، بے مقصدیت، لادینیت، دو رنگی اور مداہنت پسندی کے جو پھریرے لہرا رہے ہیں، انھیں سمجھنے کے لیے انکارِ حدیث سے منسوب سرسیّد کی مذہبی سوچ کو یہ کتاب پیش کرتی ہے۔ اگرچہ یہ مضامین کالموں کی صورت میں لکھے گئے تھے، لیکن جتنے بڑے موضوع کو زیربحث لایا گیاہے، وہ کالموں کا موضوع نہیں ہے۔ اگر اس کتاب کو نظرثانی کرکے اور کالموں کی پہچان ختم کرکے، مربوط کتاب بنادیا جائے تو اس کی افادیت کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔ (س م خ )
مصنف نے ابتدا میں لکھا ہے: ’’سقراط کا دیس دیکھنا ایک بڑی تمنا تھی جو سفرِ یونان کی صورت میں پوری ہوئی‘‘۔جس کا سبب یونان میں پاکستان کے سفیر خالد عثمان قیصرصاحب کی جانب سے یونان کے دورے کی دعوت بنی۔ وہ اپنے بیٹے محمد حذیفہ کے ہمراہ یونان پہنچے اور اکتوبر ۲۰۱۸ء میں یونان کی سیاحت کی اور اس کتاب کی صورت میں حالات و خیالات اور تاثرات رقم کیے۔
وہ یونان کے ماضی پر تحقیقی انداز سے نظر ڈالتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ سفرنامہ: یونان اور یونانی اکابر اور فلسفیوںکی مختصر سی تاریخ بھی ہے۔ کہیں کہیں وہ اپنے حالات و خیالات بھی لکھ دیتے ہیں۔ تقریباً نصف آخر کا ایک حصہ ان کی تقریروں پر مشتمل ہے۔آخر میں اُردو دُنیا میں ’سقراط شناسی کا سفر‘‘ اور ’’حالی کا یونان‘‘ کے عنوان سے دو معلومات افزا مضامین شامل ہیں۔
پاکستان میں یونان کے سفیر ایندریاس پاپاس تاورو’پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس کتاب کے ذریعے پاکستانی خود کو یونان اور اہلِ یونان کے قریب محسوس کریں گے‘‘۔ اور جناب خالد عثمان قیصر دیباچے میں کہتے ہیں: ’’یہ رُودادِ سفر جو بہ یک وقت ایک اسکالر، ادیب اور شاعر کا سفرنامہ بھی ہے اور یونان کی قدیم تاریخ اور تہذیب و ثقافت کا آئینہ بھی‘‘۔
کتاب خوب صورت انداز میں شائع کی گئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
فاضل مؤلف کی اس کتاب کی ماسبق جلدوں پر تبصرہ ترجمان کے انھی صفحات میں شائع ہوچکا ہے۔ اب مؤلف نے جلد۱۰ پیش کی ہے۔ ایک طرح سے یہ قرآنِ حکیم کی تفسیر ہے، جس میں سیرت النبیؐ کے اہم واقعات اور جدوجہد کے مختلف مراحل کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ سرورق کی توضیح کے مطابق یہ ’’نزولِ قرآنِ مجید کے پس منظر میں لکھی گئی حیاتِ طیّبہ کی رُوداد ہے‘‘۔
’پیش لفظ‘ میں ڈاکٹر سیّد زاہد حسین کہتے ہیں: ’’میری نظر میں کاروانِ نبوت صرف سیرت النبیؐ کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ تو اس انقلاب کی رُوداد ہے جو قرآن اور صاحب ِ قرآن کے ذریعے برپا ہوا‘‘۔
مصنف نے ہر باب میں موضوعات کی الگ فہرست دی ہے اور غزوات میں شہدا کے ناموں کا تعین بڑی تحقیق کے بعد مرتب کیا ہے۔ ناشر نے کتاب طباعت کے اعلیٰ معیار پر شائع کی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
قرآن کریم کی روشنی میں روز مرہ زندگی گزارنے کے اصولوں اور دعوت کو دل نشین پیرایے میں بیان کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف عربی کے معروف استاد اور انشا پرداز ہیں۔ یہ کتاب ریڈیو پاکستان سے ان کی نشر ہونے والی مختصر تقریروں پر مشتمل ہے۔ جس میں چار سے پانچ صفحات پر مشتمل اکہتر تقاریر اور ایک مقالۂ خصوصی کو کتاب میں شامل کیا ہے۔
مصنف، قرآن کریم سے آیات کا انتخاب کرتے اور ان کی روشنی میں ہماری زندگی کو ہدایت ِ الٰہی سے منور کرنے والے نکات مرتب کرتے ہیں اور پھر تذکیر، انذار اور تبشیر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے رواں دواں انداز سے قاری کو قرآن اور زندگی سے جوڑتے ہیں۔
کتاب کی پیش کش ، دل کش ہے اور خاص نکتے کی بات یہ ہے کہ ’’جملہ حقوق غیرمحفوظ‘‘ ہیں، جو چاہے جس شکل میں، اس کا فیض عام کرے۔ (سلیم منصور خالد)
یہ کتاب کسی زمانے میں ایف اے کے طلبۂ اسلامیات کے لیے لکھی گئی تھی۔ بقول مصنف: ’’دینی ذوق اور مذہبی رجحان رکھنے والے حضرات کے لیے بھی مفید ہے۔ امتحانی مقابلے میں بیٹھنے والے حضرات بھی آئینہ اسلام کو مفید پائیں گے‘‘۔ مصنف نے آسان اور واضح انداز میں اجزائے ایمان (توحید، ملائکہ، رسولؑ، آسمانی کتابیں، ایمان بالآخرت)، ارکانِ اسلام (کلمۂ طیبہ، نماز، زکوٰۃ، حج بیت اللہ، روزے)، اسلامی اخلاق (امانت، صدق، ایفائے عہد، ایثار، رحم، عفو) کی تشریح کی ہے۔حضرت موسٰی کے حالات میں واقعات کی زمانی ترتیب ملحوظ نہیں رہی۔ اس وجہ سے مطالعہ کرتے ہوئے ربط کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
’عرضِ ناشر‘ میں وہی باتیں دُہرائی گئی ہیں، جو مصنف نے ’حرفِ اوّل‘ میں کہی ہیں۔ ضرورت تو یہ تھی کہ مصنف کا کچھ تعارف ہوتا اور بتایا جاتا کہ وہ کس پائے کے عالم تھے؟ اور یہ کتاب کس زمانے میں لکھی گئی؟ کتاب خوب صورت چھاپی گئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ(۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) کی تصانیف جس طرح علم و معرفت کا مخزن ہوتی ہیں، اسی طرح ان کی مجالس میں بھی حکمت و دانش کے جام لنڈھائے جاتے تھے۔ _ یہ مجالس عموماً لاہور میں مولانا کی رہایش گاہ (۵-اے، ذیلدار پارک ، اچھرہ ) میں ، جو جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی دفتر بھی تھا ، نمازِ عصر کے بعد شروع ہوتی تھیں اور نمازِ مغرب سے کچھ پہلے ختم ہوجاتی تھیں۔ _ نمازِ مغرب وہیں سبزہ زار پر مولانا کی امامت میں ادا کی جاتی تھی _۔
مولانا کی ان عصری مجالس میں ہر عام و خاص بلا جھجک شریک ہوتا اور بے تکلّفی سے ہرقسم کا اور ہر طرح کا سوال پوچھتا اور مولانا اس کا اطمینان بخش جواب دیتے تھے۔ _ بعض حضرات کو وہاں ہونے والی گفتگو اور مولانا مودودی کے فرمودات کی اہمیت کا احساس ہوا ، چنانچہ انھوں نے انھیں ضبطِ تحریر میں لانا شروع کیا ۔ ان حضرات میں ہفت روزہ آئین لاہور کے مدیر جناب مظفر بیگ ، مجلّہ سیارہ کے مدیر جناب حفیظ الرحمٰن احسن اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قابلِ ذکر ہیں۔ _ ہاشمی صاحب ان مجالس میں شرکت کرتے، نوٹس لیتے اور انھیں مرتب کرکے ہفت روزہ آئین میں اشاعت کے لیے فراہم کرتے۔بعدازاں ان مجالس کا انتخاب ہاشمی نے ۵-اے ذیلدار پارک، دوم کے عنوان سے ۱۹۷۹ء میں شائع کیا، اور اب یہی کتاب مزید اضافوں اور نظرثانی کے بعد مجالسِ سیّد مودودی کے نام سے شائع کی گئی ہے۔
اس کتاب کے مشمولات بہت متنوّع ہیں: قرآن ، حدیث ، فقہ ، تاریخ ، تصوّف ، شخصیات، افکار ، کتب ، ادارے ، مقامات ، سیاسیات ، معاشیات ، سماجیات ، جدید مسائل ، غرض ہر موضوع پر علمی لوازمہ اس میں ملتا ہے۔ _ مولانا مودودی سائل کے سوال کا بہت مختصر ، لیکن دو ٹوک جواب دیتے تھے _۔ فاضل مرتّب نے آخر میں موضوعات ، کتب ، اداروں اور مقامات کا مفصل اشاریہ مرتّب کردیا ہے ، جس سے قارئین کے لیے استفادہ میں بہت سہولت ہوگئی ہے _۔ چند عناوین کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا : آسمان و زمین کی تخلیق ، اجتہاد و تقلید کا مسئلہ ، اسرائیلی انٹیلی جنس اور عرب دُنیا، اسلامی انقلاب کے امکانات ، اسلام میں انفرادی ملکیت ، اسلام میں عورت کی حدود ، ظہورِ مہدی ، تقدیر کی حقیقت ، ائمہ میں سے کسی ایک کی پیروی کیوں؟ ، ایصالِ ثواب کا مسئلہ ، ایک مسجد میں متعدد جماعتیں ، بنک کی ملازمت اور سود ، بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل ، پوسٹ مارٹم اور اسلام ، تعویذ کا جواز؟ ، ٹیلی فون پر نکاح ، جمہوریت اور اسلام ، جہیز اور شریعت ، خاندانی منصوبہ بندی، خفیہ سازشیں اور فوجی انقلاب ، خنزیر کیوں حرام ہے؟ ، عورت کی خود اختیاریت کا مسئلہ ، غائبانہ نمازِ جنازہ ، قادیانی فہمِ قرآن ، مسجد میں نمازِ جنازہ، ملوکیت کے نقصانات ، نمازِ جنازہ میں عورتوں کی شرکت ، وغیرہ _۔ اس کتاب سے مولانا مودودی کی شخصیت ، افکار و تصوّرات اور جدّوجہد کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
ہمارے ہاں ایسے اساتذہ اور اہلِ قلم دوچار ہی ہوں گے جنھیں ’پاکستانیات‘ پر عبور حاصل ہو اور وہ پاکستان کے ساتھ تحریک ِ پاکستان اور قائداعظم پر بھی توازن کے ساتھ کچھ لکھ سکیں۔ ایسے عالم میں ڈاکٹر صفدر محمود کا دم غنیمت ہے۔ کچھ عرصہ درس و تدریس کے بعد وہ سول سروس میں چلے گئے۔ اب کئی برسوں سے کالم نگاری کرتے ہیں۔
بالعموم کالموں کی زندگی فقط ایک دن کی ہوتی ہے۔ مگر صفدرمحمود کے زیرنظر مجموعۂ بصیرت میں شامل کالم مستقل نوعیت کے حامل ہیں۔ چند عنوانات: آزمایش، بیٹی: اللہ کی رحمت، امارت اور غربت، محبت اور خدمت، استغفار کیوں؟ حضرتِ ابوذر غفاریؓ، ہوس، منکرینِ تصوف۔
مصنف نے چھوٹے چھوٹے کالموں میں بڑی بڑی باتیں کَہ دی ہیں، مثلاً: ’’سچ یہ ہے کہ استغفار کنجی ہے: بخشش کی، دُنیاوی کامیابیوں اور مشکلات و مسائل کے حل کی۔ اور انسان استغفار کی کنجی سے اللہ پاک کے خزانے کھول کر، جو چاہے لے سکتا ہے۔ جن میں مال و دولت بھی شامل ہے‘‘(ص ۱۲۶)۔ایک جگہ مولانا روم کا حسب ِذیل فرمان نقل کیا ہے: ’’خدا تک پہنچنے کے لیے بہت سے راستے ہیں لیکن مَیں نے آسان ترین اور اللہ پاک کا پسندیدہ ترین راستہ چُنا اور وہ راستہ ہے: اللہ کی مخلوق سے محبت اور اللہ کی مخلوق کی خدمت‘‘۔(ص ۶۹)
بصیرت کے کئی معنی ہیں: دانائی، عقل مندی اور ہوشیاری۔ ایک معنی ’دل کی بینائی‘بھی ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے یہی معنی مراد لیا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کو ’دل کی بینائی‘ مطلوب ہے۔ ان کے الفاظ میں جب انسان:’’من کی دُنیا میں ڈوب جاتا ہے [تو] قلم بخودبخود لکھنا شروع کر دیتا ہے‘‘___ یہ کتاب ایسی ہی تحریروں پر مشتمل ہے، جو’’ قلب سے نکلیں اور صفحۂ قرطاس پرپھیل گئیں‘‘(ص۱۰)۔(رفیع الدین ہاشمی)
ناشر: حامد اینڈ کمپنی، ۳-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۱۲۱۷۳-۰۴۲۔ صفحات: ۷۳۶۔ قیمت: درج نہیں۔
ڈاکٹرخالد علی انصاری دس سال تک کراچی سے ماہنامہ ساحل شائع کرتے رہے۔ پھر کینیڈا منتقل ہوکر شعبۂ طب میں خدمات انجام دینے لگے۔ زیرنظر کتاب مصنف نے اپریل ۲۰۱۵ء میں مسجدنبویؐ میں اصحابِ صفّہ کے چبوترے پر بیٹھ کر لکھنا شروع کی تھی۔
سیرتِ نبویؐ ایسا وسیع اور جامع موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھیں، جتنی بھی تعریف و توصیف کریں، کسی بندئہ بشر کے لیے ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ مصنف نے حسب ذیل عنوانات کے تحت لکھا ہے: قرآن حکیم میں رسولِ اکرمؐ کا ذکر، حدیث میں آپؐ کا تذکرہ (کتب ِ حدیث کی اقسام اور تعارف)، کتب سیرت کی فہارس، رسولِ اکرمؐ پر درود و سلام کے واقعات (بعض غیرمصدقہ واقعات بھی شاملِ اشاعت ہیں)۔ رسولِ اکرمؐ کے اعزہ، خدّام، جنگی ہتھیار اور دیگر اثاثہ۔ رسولِؐ اکرمؐ دُنیا کو اوّلین قانون دینے والے، آپؐ کے معجزے، آپؐ کی عظمت کا اعتراف کرنے والے غیرمسلم دانش وروں کے اعترافات۔ مختلف زبانوں میں سیرت کی کتابیں اور ان کے مصنّفین کا تعارف۔
بقول مصنف: ’’انسانی تاریخ میں جامعیت کے درجۂ کمال کی معراج پر اگر آپ کسی ہستی کو متمکن کرسکتے ہیں تو وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاصفات ہی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔
سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۴۱ء میں تحریک ِاسلامی کا جو پودا لگایا تھا، وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ تحریک نے مسلم معاشروں کو ایسے ایسے افراد مہیا کیے، جن کے بلندپایہ کردار پر انگلی اُٹھانا مشکل ہے۔ مولانا گلزار احمد مظاہریؒ (۱۰فروری ۱۹۲۲ء-۱۰ستمبر ۱۹۸۶ء) انھی حضرات میں سے تھے۔ مولانا مظاہری مرحوم نے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مگر ان کے پایۂ استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ وہ جامعہ قاسم العلوم، سرگودھا اور ’پاکستان جمعیت اتحاد العلما‘ کا قیام عمل میں لائے۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا مظاہری صاحب کو گوناگوں صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہ جب تقریر کرتے تو ایک سماں باندھ دیتے۔ پروفیسر خورشیداحمد لکھتے ہیں کہ ’’مولانا مظاہری کی تقریر اور خطبات میں ایک درجے میں وہی لطف آتا تھا، جو سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی تقریروں اور تلاوتِ قرآن میں ملتا تھا‘‘۔ پھر مظاہری صاحب بہترین کارکن تھے۔ گھر گھر جا کر لوگوں کودعوت ِ اسلامی سے روشناس کرایا۔ انھوں نے اس زمانے میں بعض پس ماندہ اور دُورافتادہ علاقوں میں کئی کلومیٹر پیدل چل کر اور بعض اوقات لائوڈ اسپیکر کندھوں پر اُٹھا کر جلسوں میں تقریریں کرکے دعوت پہنچائی۔
پروفیسر خورشیدرضوی لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر حسین احمد پراچا کا اسلوبِ نگارش رواں اور دل نشیں ہے۔ یہ[کتاب] ایک بیٹے کے قلم سے باپ کی یادنگاری کے علاوہ عمومی فکر انگیزی کا باعث بھی ہوگی‘‘۔
کتاب صوری لحاظ سے بھی خوبصورت اور تصاویر سے مزین ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ناشر: مجلس برائے تحقیق اسلامی تاریخ و ثقافت، فلیٹ نمبر۱۵-اے، گلشن امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ فون: ۹۲۴۵۸۵۳-۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۴۳+ انگریزی ۵۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔
علمی اور تحقیقی ششماہی جریدہ برسوں سے شائع ہورہا ہے۔ بایں ہمہ اس کا قابلِ قدر علمی معیار برقرار ہے۔ زیرنظر شمارے (جولائی، دسمبر ۲۰۲۰ء) میں ’فسطاط کی جامع عمرو بن العاصؓ کا ایک قدیم نسخۂ قرآن‘ پرتحقیقی مضمون ، پروفیسر واسطی کے نام مظہر محمود تہرانی کے خطوط، ڈاکٹر نگار کی معیت میں محمد سہیل شفیق کا سفرنامۂ مصر اور عصمت درانی کا سفرنامۂ ازبکستان، پھر ڈاکٹر منیرواسطی، ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی اور ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی یاد میں وفّیاتی مضامین۔ اسی طرح انگریزی حصے میں بھی چند مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔
مجموعہ التفاسیر (سات جلدیں)،مفسر:مولانا لال محمد۔ مرتبہ: حاجی محمد مبین۔ ناشر: اقراء اکیڈمی، نزد قاسم خان میڈیکل سٹور، زرغون روڈ، کوئٹہ۔ فون: ۳۸۱۸۶۷۲-۰۳۰۰۔
زیرنظر تفسیر اعلیٰ درجے کی تحقیق و تجزیے کی بنیاد پر لکھی گئی ہے جس میں کم و بیش تمام معاصر فتنوںکا بھرپور تعاقب کیا گیا ہے۔ خاص طورپر لادینیت، پرویزیت اور قادیانیت کی تردید کے لیے بہت گہرائی سے نقدوجرح کی گئی ہے۔ اسی طرح قرآنِ عظیم کے پیغام کو بڑے مؤثراورمفصل انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ محترم قاری عبدالمالک کاکڑ نے اسے بڑی محنت اور محبت سے شائع کیا ہے۔ مولانا لال محمد صاحب کے اس علمی کارنامے سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔(مولانا عبدالمالک)
قانونِ تحفظ ناموسِ رسالتؐ، مرتبہ: محمد متین خالد۔ ناشر: علم وعرفان، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون: ۳۷۲۲۳۵۸۴-۰۴۲۔ صفحات: ۴۱۵۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔
پاکستان میں دیگر فتنوں کے ساتھ ساتھ ایک فتنہ توہین رسالتؐ کا بھی ہے۔ جس کاارتکاب بعض اوقات غیرمسلموں اور ملحدوں کے ہاتھوں دانستہ طور پر یابعض اوقات بعض افراد کی جانب سے انجانے میں بھی سامنے آتا ہے۔ یہ چیز جہاں اسلامیانِ پاکستان کےدلوں کو زخمی کرتی ہے، وہیں امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔اس موضوع پر تعزیراتِ پاکستان میں قانون سازی کو نشانہ بنانے اورتبدیل کرنے کے لیے بے دین طبقہ، مغرب زدہ تنظیمیں اور میڈیاپر قابض حضرات آئے دن کوئی نہ کوئی تیر پھینکتے رہتے ہیں۔
جناب متین خالد نے اس مسئلے کے جملہ پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کے لیے پاکستان کے ایوانِ پارلیمنٹ میں برپا مباحث اور اعلیٰ عدلیہ کی مسندوں سے ایوانِ عدل میں تحریر کیے گئے فیصلوں کو بہت راست فکری سے موضوع بنایا ہے۔ مثال کے طورپر جون، جولائی ۱۹۸۶ء میں قومی اسمبلی میںہونےوالی بحث اور پھرسینیٹ میں یکم اکتوبر ۱۹۸۶ء ، جون، جولائی ۱۹۹۲ء اور مئی ۲۰۰۷ء میں قومی اسمبلی کے مباحث کو بلاکم و کاست پیش کردیا گیا ہے۔
دوسرے حصے میں ۹ قیمتی مضامین، زیربحث موضوع کااحاطہ کرتے ہیں۔ یہ کتاب ارکانِ پارلیمنٹ، صحافیوں اور اساتذہ کوبالخصوص پڑھنی چاہیے۔ (س م خ)
قائداعظم اورمسلم اقتصادیات،محمودعلی۔اُردو ترجمہ: اشتیاق الحسن۔ ناشر: نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ، ۱۰۰-شاہراہ قائداعظم، لاہور۔فون: ۹۹۲۰۲۱۳-۰۴۲۔صفحات: ۱۷۸۔ قیمت:درج نہیں۔
قائداعظم کی زندگی اورجدوجہد پر نظر ڈالتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض ایک قانون دان نہ تھے ، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمی تعلقات پر گہری نظررکھنے والے مدبر اورمعاشی مسئلے پرسوچنے والے عملی انسان بھی تھے۔
محمودعلی مرحوم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ عملی سیاست دان کے طور پرانھوں نے تحریک پاکستان اورپھر تعمیر پاکستان میں حصہ لیا۔اس نسبت سے وہ قائداعظم کے ایک نوجوان کارکن بھی تھے۔ مصنف نے اس کتاب میں قائداعظم کے معاشی نقطۂ نظر ، مسلمانوں کی معاشی حالت سدھارنے کے لیے فکرمندی اور پاکستان کی معاشی تنظیم کےلیے ان کی رہنمائی کو یک جا کردیا ہے۔ اس مختصر کتاب سے ہمیں سوچنے کے وہ اُفق دکھائی دیتے ہیں، جنھیں ہماری سیاسی و فوجی قیادتوں نے مجرمانہ حد تک نظرانداز کرکے، ملک کو اقتصادی دیوالیہ پن کی طرف دھکیل دیا ہے۔(س م خ)
نظریۂ پاکستان اور قائداعظم، ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار،لاہور۔ فون: ۷۲۳۷۵۰۰-۰۳۳۳۔صفحات:۱۳۶۔قیمت:۳۰۰ روپے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل اگرچہ اُردو ادب کے استاد ہیں، لیکن ان کے ذوقِ تحقیق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قلم تاریخ کے میدان میں خوب رواں ہے اور تاریخ کے موضوع پر بڑے معرکہ کی تحریریں انھوں نے سپردِقلم کی ہیں۔
اس کتاب میں شامل چھے مقالات ، پاکستان کی نظریاتی جہت کو اُجاگر کرنے کی کامیاب دلیل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے غیرروایتی انداز سے پاکستان کے قیام کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے، سرزد ہونے والی کوتاہی کی نشان دہی کی ہے۔ بھولی بسری یاد ’ریاست حیدر آباد دکن‘ کاتذکرہ تواب شاید پروفیسر عقیل صاحب ہی کا حصہ رہ گیا ہے۔ حیدرآباد دکن کی تحریک ِپاکستان اورمسلمانوں کی بہتری اور ترقی سے نسبت کا حوالہ اس کتاب کا اہم پہلو ہے۔(س م خ)
غمزئہ خوں ریز، محمدفاروق۔ ناشر: شعیب سنز پبلشرز، جی ٹی روڈ، منگورہ ،سوات۔صفحات: ۶۰۰۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔ فون: ۷۲۲۵۱۷- ۰۹۴۶۔
اس کتاب کا بنیادی موضوع بقول مصنف: ’’تصوف اور شریعت‘کا تعلق ہے۔ لیکن دیگر موضوعات (کچھ اولیائے کرام کے حیرت انگیز واقعات، جہادِ افغانستان اورکشمیر، جماعت اسلامی، اُمت مسلمہ وغیرہ) پر بھی بکثرت اوربطوالت قلم اُٹھایا گیا ہے‘‘۔ چھے سو صفحات پرمشتمل یہ کتاب دراصل مصنف کی آپ بیتی اور ذہنی سفر کی داستان ہے۔ مصنف کا آبائی تعلق سوات سے ہے۔ انھیں بچپن ہی سے مطالعے کا شوق تھا، چنانچہ اوائل ہی میں سیّد مودودیؒ کی کتابوں سے ابتدائی شناسائی حاصل کرلی تھی (ص۵۷)۔
شعور کی اگلی منزلوں کی طرف بڑھتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’ہم ایک ایسی دُنیا کے باسی ہیں جس میں چاروں طرف خدا کی ہرنعمت تو موجود ہے، مگرروحانی آسودگی کی دولت ِ عظیم کا فقدان ہے۔ آج کا بدقسمت انسان سکونِ قلب کی اس نعمت ِخداوندی سے محروم ہے‘‘ (ص۲۳)۔ اسی سکونِ قلب کی تلاش اس کتاب کا موضوع ہے۔
مصنّف نے بتایا ہے کہ لکھنے پڑھنے میں میری دل چسپی ختم ہوگئی تھی لیکن اپنے دوست ڈاکٹر فخرالاسلام کی تجویز پر لکھنا شروع کیا۔اس لکھنے میں انھوں نے بہت سے سبق آموز اورفکرانگیز نکات کی طرف قارئین کو توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک، بریگیڈیئر (ر) سعداللہ خان۔ اُردو ترجمہ: منصورامین۔ ناشر: ریڈرز، پہلی منزل، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۴۱۶۷۶۱- ۰۳۰۰۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔
مشرقی پاکستان میں منظم بدامنی پھیلا کر، بھارت کی پشت پناہی سے ۱۹۷۱ء میں بغاوت برپا کی گئی۔ اُس زمانے میں بھارتی فوج کی نگرانی اورتربیت سے تیارکردہ دہشت گردوں نےوہاں بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں کیں۔ ان کارروائیوں کا نشانہ غیربنگالی پاکستانی، ایک پاکستان پریقین و اعتماد رکھنےوالے بنگالی پاکستانی اورپاک فوج کے اہل کار تھے۔
بریگیڈیئر سعد اللہ خان اُن دنوں دفاعِ پاکستان کی گراں قدرذمہ داریاں ادا کررہے تھے۔ زیرمطالعہ کتاب میں انھوں نے اختصار کے ساتھ ان حالات و واقعات کو بیان کیاہے، جو سیاسی اوردفاعی نقطۂ نظرسےانھیں درپیش تھے۔ منصورامین نے سعداللہ خان صاحب کی کتاب East Pakistan to Bangladesh کا اُردو ترجمہ کرکے اہم خدمت انجام دی ہے۔ (س م خ)
ہر آنے والا دن تعلیم وتحقیق کی دوڑ میںبہترسے بہترین کا تقاضا کرتا ہے، لیکن پاکستان میں آنےوالاہر دن تعلیم کی تباہی کا نوحہ سناتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی ملک میں تعلیم و تحقیق کا مرکز و منبع اس کی یونی ورسٹیاں ہوتی ہیں، جہاں تحقیق و جستجو میں مگن ماہرین اور نوجوان محققین کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی یونی ورسٹیاں اس باب میں ماتم کے مقبرں کی تصویر پیش کرتی ہیں ، خصوصاً ۲۰۰۰ کے بعد نجی شعبے میں یونی ورسٹیوں کا جو سیلاب آیا ہے ، اس نے تو علم و تحقیق کی روایات کو روند کر رکھ دیا ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل پاکستان کے ایک نام وَر محقق ہیں۔ تعلیم کے موضوع پر ان کی فکرمندی میں رچی دردمندی نے اس کتاب کی صورت گری کی ہے۔ مختلف اوقات میں انھوں نے تعلیمی زبوں حالی، یونی ورسٹیوں کے تدریسی ماحول کی پامالی اور تحقیقی ذوق کی روزافزوں بربادی پر قوم کو باربار متوجہ کیا۔ یہ مضامین اس کتاب میں یک جا ملیں گے۔
یہ کتاب یونی ورسٹی اساتذہ اور تعلیمی انتظامیات سے وابستہ اہل حل و عقد کے لیے ایک تازیانہ ہے، جسے ان کے دل و دماغ پر برسنا بھی چاہیے اور ان کی آنکھیںکھلنی بھی چاہییں۔ کتاب جتنی قیمتی ہے، اس کی اشاعت اتنی ہی بے توجہی سے کی گئی ہے۔ (س م خ)
مشرقی پاکستان کا المیہ اس بات کا تقاضاکرتا ہے کہ باریک بینی اور کھلی آنکھوں کے ساتھ اس المیے کی تَہ تک پہنچا جائے اور پھر اپنےموجودہ حالات کا جائزہ لے کر، مستقبل کو محفوظ اور شان دار بنانے کی کوشش کی جائے۔
زیرنظر کتاب، مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے مغربی پاکستان آنے والے ایک بنگلہ نژاد شہری کی تحریر ہے، جنھوں نے سقوطِ مشرقی پاکستان کے ان اسباب کی نشان دہی کی ہے کہ جو پاکستان کو دولخت کرنے کا سبب بنے۔ ان کا خیال ہے کہ ’مجیب صرف پاکستان کا اقتدار حاصل کرنا چاہتا تھا‘ (ص۲۰۵)، یعنی ’توڑنا نہیں چاہتا تھا‘ اور اس مفروضے کی تائید کے لیے وہ آخری زمانۂ جیل میں مجیب کی اس گفتگو کو بنیاد بناتے ہیں، جس کے راوی میانوالی سنٹرل جیل کے جیلر تھے۔ لیکن قرائن و شواہد اس دعوے کی تائید نہیں کرتے ، کیونکہ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد اوررفقا اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم مجیب کی سربراہی میں ۱۹۶۳ء سے پاکستان سے علیحدگی کی سازشوں میں مصروف تھے۔ اس لیے، مجیب کا جیل میں مذکورہ بیان ،ان کے تخریبی عزائم سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ (س م خ)
خلفاے راشدین کے دور میں نظامِ حکومت، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےبناکردہ اصولوں پر استوار رہا، مگر دورِ بنی اُمیہ میں حکومت و سیاست کی بنیادیںہل گئیں۔اگرچہ خلیفہ، بادشاہ بن گیا (تاہم، وہ خود کو خلیفہ ہی سمجھتا تھا)۔ ان کے برعکس سلاطینِ ہند نے اس روش سے اجتناب برتنے کی کوشش کی۔ زیرنظر کتاب میں قطب الدین ایبک (سے لے کرالتمش، فیروز شاہ، ناصرالدین محمود، غیاث الدین، معزالدین کیقباد، جلال الدین خلجی، غیاث الدین تغلق، محمد تغلق، سکندر لودھی وغیرہ تک) کے مذہبی رجحانات کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔فاضل مصنف علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور مصر میں حکومت ِ ہند کے سفیر بھی۔ مگر اصلاً وہ ایک وسیع النظر عالم اور غیر جانب دار مؤرخ تھے۔اپنی وقیع اور بلندپایہ تصانیف کی تحریر و تدوین کے لیے انھوں نے عربی، فارسی اور انگریزی مصادر سے براہِ راست استفادہ کیا۔ ڈاکٹر نظامی بتاتے ہیں کہ: یہ سلاطین عدل و انصاف، عبادات میں انہماک، علما و صوفیا سے عقیدت، اشاعت ِ اسلام اور احترامِ شریعت جیسے قابلِ قدر اوصاف کے ساتھ مخالفین کے قتل، شراب نوشی، رقص و سرود میں دل چسپی میں بھی ملوث نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بعض ذاتی زندگی میں بہت متقی، پرہیزگار اور تہجدگزار بھی تھے۔ ان میں غازی ملک غیاث الدین تغلق جیسا ’مناقب ِ جمہور‘ سے متصف شخص بھی تھا، جس کی مؤرخین نے جی بھر کر تعریف کی ہے۔ محمدشاہ تغلق جیسا نابغہ بھی تھا، مگر نہایت متضاد اوصاف کا مالک اور عجیب و غریب حکمران۔
مؤرخین نے ان میں سے بعض سلاطین پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ نظامی صاحب نے تجزیہ کرکے بہ دلائل ان کی تصدیق یا تردید کی ہے۔ مجموعی طور پر ان بادشاہوں کے ہاں مذہبیت غالب تھی اور ان کے مذہبی رجحانات قوی تھے۔ اس کی ایک وجہ اس دور کے نڈر اور بے باک علما و صوفیا اور باعمل مشائخ بھی تھے۔یہ کتاب بہت پہلے بھارت میں چھپی تھی، مجلس نے اس کا عکسی ایڈیشن شائع کرکے ایک علمی خدمت انجام دی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
۔بھیرہ کا خاندانِ بگویہ اپنی علمی، تبلیغی اور اصلاحی خدمات کی وجہ سے پورے برعظیم میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خاندان میں ایسے متعدد عالم، محدث، فقہی اور صاحب ِ قلم بزرگ گزرے ہیں، جن کی زندگیوں کا مقصد ِ وحید دینِ اسلام کی حفاظت اور فروغ تھا۔ دین کے یہ بے لوث خادم ہمیشہ سرکار، دربار سے گریزاں اور صاحبانِ اقتدار سے فاصلے پر رہے۔ دنیاوی مناصب اور عہدوں سے انھیں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ایک طرف انھوں نے تحریک ِ خلافت، تحریک ِ پاکستان اور تحریک ِ مدحِ صحابہؓ کی تائید کی اور حسب ِ استطاعت ان میں حصہ بھی لیا۔ دوسری طرف معاصر گمراہ کن تحریکوں اور شخصیات کی تردید میں اپنا بھرپور اثرورسوخ استعمال کیا۔ بگویہ علما نے بھیرہ میں مجلس حزب الانصار، دارالعلوم عزیزیہ اور کتب خانہ عزیزیہ قائم کیے، اور شمس الاسلام کے نام سے ایک دینی رسالہ بھی جاری کیا۔
مولانا ظہور احمد بگوی اس خانوادے کے علما میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ان کی ۲۵سال کی تحریروں کو جمع کیا گیا ہے۔ جو مضامین، مقالوں، تجزیو ں اور اداریوں کی صورت میں ماہنامہ شمس الاسلام میں بکھرے ہوئے تھے۔
اس کتاب کے مؤلف ڈاکٹر انوار احمد بگوی ڈاکٹر ہیں اور ایک ہسپتال کے کُل وقتی سربراہ بھی۔ اس ہمہ پہلو مصروفیت کے ساتھ ایسی علمی کتاب کی تدوین، وقت کی تنظیم اور استعمال کے باب میں ان کی سلیقہ مندی کو ظاہر کرتی ہے۔ چار جلدیں وہ قبل ازیں مرتب اور شائع کرچکے ہیں۔ یہ علمی کارنامہ بظاہر تو اپنے ذوق و شوق اور اپنے بزرگوں کے کارناموں کو تاریخ کے اَوراق میں منضبط کرنے کے خیال سے انجام دیا گیا ہے، لیکن درحقیقت ایک قیمتی اثاثے کو آیندہ نسلوں تک منتقل کرنا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اچھا سوچنا ایک اعلیٰ قدر ہے اور اس سوچ کو تعمیری تحریر میں ڈھالنا باعث ِ سعادت۔ ذوالفقار احمد چیمہ معروف اور نیک نام سول افسر رہے ہیں۔ انھوں نے معاشرے کے جملہ تضادات کو باریکی سے دیکھا، پرکھا اور ہمدردانہ دانش سے ان کا علاج تجویز کیا ہے۔
ہم بنیادی طور پر ایک ظاہردار اور تہذیبی اعتبار سے بیمار معاشرہ ہیں۔ اس بیماری کا سب سے بڑا مظہر اپنی قومی زبان اُردو کو دھکے دے کر علمی اور قانون ساز اداروں، سرکاری دفتروں اور عدالتوں سے باہر نکال پھینکے کا جرمِ عظیم ہے۔ جرمِ عظیم کہنا اس لیے درست ہے کہ ہمارا کم و بیش تمام تر تہذیبی، دینی، ادبی اور علمی اثاثہ اُردو میں ہے۔ لیکن یہ زبان دفتر اور عدالت، اسکول اور مارکیٹ، تعلقات اور معاشرے کے دائرے سے باہر اور ایک قابلِ رحم بھکارن کے رُوپ میں دکھائی دیتی ہے۔
جناب ذوالفقار نے اس کتاب کی بیش تر تحریریں اُردو میں لکھیں، لیکن وہ یہ دیکھ کر سخت صدمے سے دوچار ہیں کہ نئی نسل کا ایک قابلِ لحاظ حصہ اپنے ملکِ عزیز میں بھی اُردو سے بیگانہ اور لاتعلق ہے۔ چنانچہ انھوں نے کتاب کے کچھ مباحث کو انگریزی میں ڈھالا، تاکہ آنے والی نسل کے دل و دماغ پر ہتھوڑا بن کر برسنے والے بدیسی، سیکولر، اسلام گریزی اور پاکستان دشمن بیانات و خیالات کے برعکس دوسرا پہلو بھی سامنے آسکے۔
کتاب میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے لے کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے پُرنور گوشے، علامہ اقبال کے پیغامِ زندگی سے لے کر قائداعظم کے وژن اور ۱۱؍اگست کی تقریر کی بحث تک، تاریخ کے اسرار و رُموز سے لے کر انتظامیات کے پیچ و خم پر پھیلے ۴۰موضوعات کو سمیٹا گیا ہے۔ انگریزی زبان رواں، شُستہ اور عام فہم ہے اور تاثیر انگیز۔ (س م خ)
دَربرگِ لالہ وگُل، [کلامِ اقبال میں مطالعۂ نباتات]دوم، ڈاکٹر افضل رضوی۔ ناشر: بقائی یونی ورسٹی پریس، سپر ہائی وے، کراچی۔ فون:۳۴۴۱۰۲۹۳-۰۲۱۔ صفحات: ۳۴۹۔ قیمت (مجلد ): ۹۵۰ روپے ۔
اقبالیات کے ایک نادر موضوع پر زیرنظر کتاب کی پہلی جلد دسمبر ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی تھی، اور اب اس کی دوسری جلد سامنے آئی ہے۔ پہلی جلد میں ۱۸نباتات کا ذکر تھا اور دوسری جلد میں ۲۴نباتات کا تذکرہ ہے۔ مصنف تیسری جلد پر بھی کام کر رہے ہیں۔
جیساکہ ہم نے جلداوّل پر تبصرے (ترجمان: اگست ۲۰۱۷ء) میں بتایا تھا: ’’مصنف بنیادی طور پر نباتیاتی سائنس دان ہیں اور آج کل آسٹریلیا کے محکمۂ تعلیم میں خدمات انجام دے رہے ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال نے شاعری کو احیاے ملّت کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ قوم کو اُمیدوارتقا کا پیغام دیا اور جہد ِ مسلسل کی ترغیب دلائی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے عناصرِ فطرت اور برسرِزمین اور زیرِزمین جمادات کے ذکر سے بھی کام لیا۔
زیرنظر جلد کا آغاز ’پھول‘ سے ہوتا ہے اور پھر اسی تسلسل میں: تاک، جھاڑی، چوب، حنظل، حشیش، حنا، خیابان، ریاض، غنچہ، فصل، کلی، گلاب، گلستان،گلزار، مرغزار، نیستان اور نخل وغیرہ کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔افضل رضوی صاحب کا مطالعہ عمیق اور فکر راست ہے۔ ان کی یہ کتاب ایک اعتبار سے اقبال کے فارسی اور اُردو کلام کی نہایت عمدہ شرح بھی ہے۔ اس کتاب کے ایک تقریظ نگار ڈاکٹر عابد خورشید کی نظر میں: ’’یہ غیرمعمولی کارنامہ ہے، جسے افضل رضوی نے بخوبی انجام دیا ہے‘‘۔(رفیع الدین ہاشمی)
سفینۂ حجاج کے دو مسافر، میاں محمد اسلم۔ ناشر: جمال الدین سنز اینڈ کمپنی، ۴۴-عمرمارکیٹ، لنک ریلوے روڈ،لاہور۔ فون: ۳۷۶۵۷۲۵۲-۰۴۲۔ صفحات:۳۵۵ ۔ قیمت(مجلد): ۷۰۰ روپے
سفرِ حج بیت اللہ ، سفرِ شوق ہے اور سفرِسعادت بھی جس کے لیے ہزاروں برسوں سے پروانے لپک لپک کر خانہ کعبہ حاضری کے لیے رواں دواں رہتے ہیں۔
ماضی میں سب سے بڑا اور مشکل مرحلہ خود مکہ مکرمہ پہنچنا تھا اور اس مقصد کے لیے زائرین چھے چھے مہینے پیدل یا قدیمی روایتی سواریوں پر روانہ ہوتے، اور پھر اسی طرح واپس آتے تھے، یا پھر بحری جہازوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔آج حجاج ہوائی جہازوں میں اُڑان بھرتے اور چند گھنٹوں میں جدہ یا مدینہ منورہ پہنچتے اور سُرعت سے فریضۂ حج ادا کرکے دنوں میں واپس آجاتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ۵۵برس پہلے، حج کے ایک سفر کی رُوداد ہے، جب حاجی بحری جہاز سے جدہ جایا کرتے تھے۔ میاں محمداسلم ایڈووکیٹ نے ۱۹۶۸ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ مصنف نے سفر کے دوران مختلف کیفیات اور دل چسپ معلومات کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ ۵۵برس پہلے حرمِ کعبہ کے نواح میں کس طرح کا ماحول تھا اور اُس مشکل دور میں حجاج کی مصروفیات و مشکلات کیا ہوتی تھیں۔ اس رُوداد میں ایمان کی حلاوت ہرصفحے پر ثبت نظر آتی ہے۔ یاد رہے فاضل مصنف اس سے پہلے طفیل قبیلہ لکھ چکے ہیں، جو جماعت اسلامی پاکستان کے دوسرے امیر [۱۹۷۲ء- ۱۹۸۷ء] محترم میاں طفیل محمدؒ کے بارے میں ہے۔ (س م خ)
اسلام کا خاندانی نظام، ایک تقابلی مطالعہ، زہرہ جبین۔ ناشر: مکان نمبر۴، گلی نمبر۹، بلال ٹائون، ایبٹ آباد۔ فون: ۰۹۵۳۸۸۹-۰۳۳۵۔ صفحات:۲۲۲۔ قیمت: درج نہیں۔
مصنفہ قانون کی استاد ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں عائلی نظام سے متعلقہ قوانین کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ فقہ، قانون اور سماجیات کے مطالعے کی بنیاد پر رہنمائی دی ہے کہ اسلام کس طرح کا خانگی نظام قائم کرتا ہے؟ اس میں کن راہوں سے رخنہ اندازی پیدا ہوتی ہے؟ پھر ہمارا قانون کس انداز سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ درحقیقت خواتین کے لیے مددگار کتاب کا درجہ رکھتی ہے، جو یہ معلوم کرسکتی ہیں کہ دیگر تہذیبوں میں خواتین کس انداز سے زندگی گزار رہی ہیں اور ایک مسلمان خاتون کو زندگی کن راہوں پر چلتے ہوئے گزارنی چاہیے؟(س م خ)
مریم جمیلہ، نقاد تہذیب مغرب ، روبینہ مجید۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت (مجلد): ۲۶۵ روپے۔
مریم جمیلہ (سابقہ مارگریٹ مارکوس: ۲۲ مئی ۱۹۳۴ء ، ریاست نیویارک۔ ۳۱/اکتوبر ۲۰۱۲ء، لاہور) ایک خوش نصیب روح تھیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وہ یہودیت ترک کرکے ۲۴مئی ۱۹۶۱ء کو دائرۂ اسلام میں داخل ہوئیں۔ ۲۶برس کی عمر میں ۲۴جون ۱۹۶۲ء کو اپنا وطن امریکا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے پاکستان آگئیں۔ یہاں ۸؍اگست ۱۹۶۳ء کو مولانا مودودی کے رفیق محمدیوسف خان صاحب سے ان کی شادی ہوئی، جو پہلے سے شادی شدہ اور صاحب ِ اولاد تھے۔
محترمہ مریم جمیلہ کی نجی اور علمی زندگی، اسلام سے وابستگی اور اسلام کے لیے زندگی گزارنے کی اُمنگ وہ پہلو ہیں کہ انھیں جتنا جاننا، سمجھنا اور پڑھنا شروع کر یں، اسی قدر ان کی قدرومنزلت بڑھتی اور اپنے دائرۂ اثر میں لیتی جاتی ہے۔ انھوں نے مغرب میں پروان چڑھ کر مغربی تہذیب کی انسانیت کش بنیادوں اور مادی تہذیب کی سفاکیوں کو جس گہری نظر سے دیکھا اور پھر آزادانہ فیصلے سے اسے مسترد کیا، وہ سب ایک روحانی، تہذیبی اور علمی سفر کا دبستان ہے۔
مصنفہ نے بڑی خوبی سے محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کے ان پہلوئوں پر تحقیق اور تجزیات پر مبنی مقالات مرتب کیے ہیں۔ ان میں مرکزی مضامین ’اسلام اور مغربی تہذیب و تمدن‘ اور ’مریم جمیلہ بحیثیت نقاد تہذیب ِ مغرب‘ ہیں۔کتاب میں تقریباً تمام ضروری معلومات ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کتاب پڑھتے ہوئے قاری اس شرمندگی اور کم مائیگی کے احساس کی گرفت محسوس کرتا ہے ع ’پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے‘ ۔ ہم نے مسلم گھرانوں میں پیدا ہوکر وہ کچھ نہ سیکھا اور وہ کچھ نہ کرسکے، جو ہزاروں کلومیٹر دُور سے ہجرت کر کے آنے والی قابلِ رشک خاتون نے کردکھایا۔ (س م خ)
اقبال کا ایوانِ دل، محمد الیاس کھوکھر۔ ناشر: نگارشات، ۲۴ مزنگ روڈ، لاہور۔ فون: ۹۴۱۴۴۴۲-۰۳۲۱۔ صفحات:۵۴۴۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔
اقبال سوتے ہوئوں کو جگانے اور عمل پر اُبھارنے والی شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنے پیغام کو قرآن، سیرتِ نبویؐ اور تاریخِ اسلام کے گہرے مطالعے کے علاوہ عصرِحاضر کے مشاہدے سے اخذ کیا اور بستی بستی اس کو پھیلایا۔ کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس حیات بخش پیغام کو محض مغنیوں کی آوا ز سے سنا، چند نظموں اور کچھ اشعار کو زمانۂ طالب علمی میں درسی جبر کے ساتھ ہی پڑھا، مگر اس مطالعے اور سماعت نے ان کی زندگی اور زندگی کے چلن پر کچھ اثر نہ ڈالا۔
مصنف نے بجاطور پر کلامِ اقبال اور حیاتِ اقبال میں خاص کشش محسوس کی ہے۔ پھر اپنے دل پر گزرنے والی اس فکری اور روحانی واردات کو ۱۸ مضامین کی شکل میں مرتب کرکے، قوم کو متوجہ کیا ہے۔ یہ مضامین گہرے مطالعے، فہم اقبال کی وسعت، اور بے پایاں لگن کے مظہر ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ کتاب کسی محکمانہ ترقی کی ضرورت کے تحت نہیں لکھی گئی بلکہ تعلیم و تربیت کی غرض سے تحریر کی گئی ہے۔ زبان سادہ اور عام فہم ہے۔(س م خ)
خدمات علماءِ سندھ اور جمعیت العلما، مولانا محمد رمضان پھلپوٹو۔ ناشر: جمعیت علماءِ اسلام، کریم پاک ، راوی روڈ، لاہور۔ صفحات:۴۴۸۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔
علماے کرام نے دعوتِ دین کے چراغ روشن کرنے کے لیے، بے پناہ ایثار اور یکسوئی کے ساتھ پوری پوری زندگیاں اللہ کی راہ میں لگادی ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں، وہ عقائد کی دنیا ہو یا عمل کا میدان، افراط و تفریط کا مشاہدہ قدم قدم پر دکھائی دیتا ہے۔ کہیں عصبیت اور کہیں غلو۔ یہ کتاب ان دونوں پہلوئوں پر بحث کرتی ہے۔
زیرنظر کتاب میں فاضل مرتب نے خدماتِ علما کا ریکارڈ مرتب کیا ہے: خطۂ سندھ میں جمعیت علماے اسلام اور دارالعلوم دیوبند کی دینی، تعلیمی اور تربیتی روایت نے کون کون سے کارہاے نمایاں انجام دیے؟ ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’جمعیت علماے اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسری سیاسی یا مذہبی جماعت میں شامل ہونے کو مَیں سیاسی کفر سمجھتا ہوں،کیونکہ موجودہ دور میں جمعیت، قرآن و سنت میں بیان کردہ الجماعۃ کی مصداق ہے‘‘(ص ۲۴۹)۔ بڑے احترام سے عرض ہے کہ اس عقیدے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دینی تعلیم و تربیت کے لیے علماے کرام کی کاوشوں کو برگ و بار اور وسعت عطا فرمائے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب معلومات افزا ہے۔ (س م خ)
آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی، مؤلفین: مولانا محمد حسن، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی [مرتبہ: عمرانور بدخشانی]۔جامعہ علومِ اسلامیہ، علامہ بنوری ٹائون، کراچی۔ فون: ۳۹۰۰۴۴۱-۰۳۳۳۔ جلداوّل، سورۃ الفاتحہ تا توبہ، صفحات:۱۱۲۸؛ جلد دوم، سورئہ یونس تا القصص، صفحات: ۹۸۰؛جلد سوم،سورۃ العنکبوت تا الناس، صفحات: ۱۰۶۴۔سائز مجلاتی۔ قیمت: درج نہیں۔
بیسویں صدی کے دوران قرآنی علوم میں ایک سے بڑھ کر ایک تفسیری خزانہ، اہلِ حق کے لیے معرضِ وجود میں آیا۔ اس ضمن میں اُردو کا دامن غالباً دوسری تمام زبانوں سے زیادہ مالا مال ہوا۔ ’’تفسیر بیان القرآن مولانااشرف علی تھانویؒ کی قرآنی فکر کا شاہ کار ہے، جو ۱۳۲۵ھ میں شائع ہوئی، جب کہ ۱۳۳۶ھ مولانا محمودحسنؒ نے موضح فرقان کے نام سے کام مکمل کیا، اور اس ضمن میں کام کی تکمیل مولانا شبیراحمد عثمانی ؒنے ۱۳۵۰ھ میں کی‘‘۔ (ص۵)
زیرنظر مجموعہ تفاسیر کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں:’’lقرآنی آیات کا ترجمہ مولانا محمودحسنؒ کا ہے lترجمے کے بعد تفسیر مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ہے lتفسیری فوائد مولانا شبیراحمد عثمانی ؒکے تحریر کردہ ہیں‘‘۔ (ص۷، ۸)
استادِ گرامی عمر انور بدخشانی نے سالہا سال کی محنت سے مذکورہ بالا مستند تفسیری سرچشموں کو، نہایت سلیقے، حد درجہ خوب صورتی اور عالمانہ شان کے ساتھ مرتب کرکے، دین کی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہے۔ امرواقعہ ہے کہ اساتذہ اور طلبہ، یہ خبر پانے کے بعد اس تفسیر سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ بیش قیمت کریم رنگ میں کاغذ اور دو رنگوں میں طباعت، فکر اور نظر کو سکون اور شوقِ مطالعہ کو فراوانی عطا کرتی ہیں۔ (س م خ)
بز مِ خردمنداں ، از محمد اسحاق بھٹی۔ ناشر : محمد اسحاق بھٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ ۲۰۵۱۳-جناح سٹریٹ، اسلامیہ کالونی ، ساندہ، لاہور۔ فون: ۴۷۶۸۹۱۸-۰۳۰۱۔ صفحات: ۳۱۲مجلد۔ قیمت: درج نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ نظام خاص ہے کہ اُس کی ذاتِ واحد کے علاوہ سب فانی ہے۔ انسان اس کائنات کی سب سے قیمتی مخلوق ہے۔پھر ان میں جنھوں نے تقویٰ کی زندگی گزاری یا انسانی خدمت اور علم و فضل کے باب میں اضافے کا ذریعہ بنے، ان کی اپنی ہی قدرومنزلت ہے۔
محمد اسحاق بھٹی ایک عالم اور محقق تھے، خوش گوار انسان اور خوش رنگ نثرنگار تھے۔ انھوں نے تحقیق و تالیف کی منزلیں سر کرنے کے علاوہ اپنی طویل زندگی بہت سے قیمتی لوگوں کے ساتھ گزاری۔ یہ کتاب ایسے ہی ممتاز لوگوں کے ساتھ اُن کے شخصی ربط اور یادوں پر مبنی مضامین پہ مشتمل ہے۔ علم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے جن متعدد رجالِ کار کے بارے میں لوگ جاننا چاہتے ہیں، ان میں سے چند خوش خصال نام اس کتاب میں شامل ہیں، جیسے: شیخ محمد اکرام، پروفیسرحمید احمد خان، پروفیسر محمد سعید شیخ، مولانا امتیاز علی عرشی، یوسف سلیم چشتی، سراج منیر، مولانا عبدالستار خان نیازی، عبدالجبار شاکر، علیم ناصری وغیرہ کے علاوہ پندرہ مزید حضراتِ گرامی بھی۔
بھٹی صاحب نے شخصی معلومات کے علاوہ ، دل چسپ واقعات اور گہرے مشاہدات کو ان یادداشتوں کا حصہ بنایا ہے، جن میں سبق بھی ہے اور جذبہ بھی۔(س م خ)
جہات الاسلام، مدیر: ڈاکٹر محمد عبداللہ ۔ ناشر: کلیہ علوم اسلامیہ،پنجاب یونی ورسٹی، قائداعظم کیمپس، لاہور۔ صفحات:۶۸۰+۷۸۔ قیمت: ۸۰۰ روپے، بیرون ملک: ۵۵ڈالر۔
کلیہ علومِ اسلامیہ جامعہ پنجاب کے شش ماہی تحقیقی مجلے جہات الاسلام کا زیرنظر خصوصی شمارہ ’شمائل و خصائل نبویؐ‘کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے، جو آٹھ عربی اور دو انگریزی مقالوں کے علاوہ چالیس اُردو مضامین پر مشتمل ہے۔
سیرت النبیؐ ایک ایسا موضوع جس کی وسعتوں اور پہنائیوں کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ ہلکی سی جھلک اس شمارے میں نظر آتی ہے۔ جملہ مضامین کو چھے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بعض مقالات میں سیرت سے متعلق کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ہندوئوں اور سکھوں کے سیرتی ادب کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ مقالہ نگاروں نے ان پہلوئوں پر بھی قلم اُٹھایا ہے، مثلاً: رسولؐ اللہ کا چہرئہ مبارک، چہرے کی تاثراتی کیفیات، رسولؐ اللہ کے بالوں کی کیفیات، رسولؐ اللہ کے مشروبات اور ان کے آداب وغیرہ۔ مگر ایسے مقالات کا مطالعہ بھی معلومات افزا ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت روح پرور ہے۔ یہ شمارہ ایک یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ مجلس ادارت کی محنت قابلِ داد ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
تعلیمات مجدد الف ثانی، تدوین: سیّد زوار حسین شاہ۔ ناشر:زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے-۴/۱۸، ناظم آباد-۴، کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت:درج نہیں۔
برصغیر ہند پر بادشاہت کا جبر عروج پر تھا ۔ اس حکمرانی اور استبداد کو مضبوط بنانے کے لیے درباری دانش وروں کی رہنمائی میں، مغل بادشاہ اکبر نے ’دین الٰہی‘ کے نام سے بے دینی اور سیکولر موقع پرستی کا ’متبادل بیانیہ‘ پیش کیا۔ اس کے بیٹے جہانگیر نے ایک قدم آگے بڑھ کر دھونس اور جبر کا جھنڈا گاڑھا۔ یوں وہ ہندستان، جو اسلام کی تبلیغ و ترقی کا میدان تھا، خود مسلمانوں ہی کے درمیان کش مکش کا اسٹیج بن گیا۔ اس گھٹاٹوپ عہد ِ جاہلیت میں جو آواز کلمۂ حق بلند کرتی، حُسنِ کردار اور حُسنِ گفتار کی قوت سے اُٹھی، وہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کی ذات سے منسوب تھی۔
اُن کے مواعظ اور حکمت و دانش سے لبریزخطبات تو فضائوں میں گم ہوگئے، لیکن ان کے مکتوبات مستقل تصانیف کی صورت میں باقی رہ گئے: ’’یہ تمام مکتوبات فارسی میں ہیں، چند خطوط عربی میں بھی تحریر کیے گئے۔ یہ مکتوبات تین حصوں میں شائع ہوتے رہے۔ [ان کے اُردو] تراجم میں حضرت مولانا زوار حسین شاہؒ کا ترجمہ بھی ہے‘‘ (ص۱۴)۔ اسی ترجمے کے ایک بڑے حصے کو مکتوبات کے انتخاب کے طور پر فاضل مترجم نے مرتب کیا ہے، جو اس کتاب کی شکل میں دستیاب ہے۔
یہ مکتوبات: دین و حکمت،شریعت اور طریقت اور تاریخ کا ایک جہان لیے ہوئے ہیں۔ مولانا سیّد زوار حسین شاہ صاحب نے دو سو موضوعات پر حضرت مجددؒ کے افکار و خیالات، جدید ترین کتابی ترتیب کے ساتھ مرتب فرمائے ہیں۔ اس پیش کش پر دین و حکمت کے متلاشی مولانا سیّد عزیزالرحمان صاحب کے شکرگزار ہیں۔(س م خ)
طبی لغت، (جلداوّل، دوم)۔ ڈاکٹر سیّدمحمد اسلم۔ناشر: شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، کراچی یونی ورسٹی، کراچی۔صفحات، بڑی تقطیع: ۱۵۲۶۔ قیمت: ۳۰۰۰ روپے۔
اُردو میں سائنسی موضوعات پر کتابوں کی تحریر و اشاعت کا سلسلہ فورٹ ولیم کالج سے شروع ہوا اور دہلی کالج نے اس میں کچھ اضافہ ہوا۔ جامعہ عثمانیہ (قیام: ۱۹۱۷ء) نے ہزاروں سائنسی و غیرسائنسی اصطلاحات کے اُردو تراجم پر مشتمل کتابیں شائع کیں۔ وقت کے ساتھ نئے تراجم کی ضرورت کا احساس قدرتی تھا۔ چنانچہ جامعہ پنجاب، جامعہ کراچی، اُردو سائنس بورڈ لاہور، انجمن ترقی اُردو کراچی، اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے اس سلسلے میں نہایت مفید اضافے کیے۔
مختلف شعبوں کی اصطلاحات کے سلسلے میں انفرادی سطح پر بھی ماہرین نے قابلِ قدر کام کیے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم (۱۹۳۱ء-۲۰۱۸ء) ماہر امراضِ قلب تھے۔ ان کی ساری تعلیم انگریزی میں ہوئی، مگر اُردو کی محبت میں انھوں نے امراضِ قلب اور صحت عامہ سے متعلق اُردو میں نہایت مفید کتابیں شائع کیں، مثلاً: قلب، احتیاط، غذا، تندرستی، شیرازۂ دل، ذیابیطس وغیرہ۔
دو ضخیم جلدوں پر مشتمل زیرنظر طبی لغت ڈاکٹر محمد اسلم مرحوم کا ایک بڑا علمی کارنامہ ہے۔ اس میں طب کے مختلف شعبوں اور مختلف شاخوں کی اصطلاحات کے ساتھ ان کے اُردو تراجم دیے گئے ہیں ۔ اگر اُردو اصطلاح مشکل اور نامانوس ہے تو مترادفات کے ذریعے اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً Asthma کی تشریح ۱۰، ۱۲ سطروں میں کی گئی ہے (ص ۱۸۴)۔ Sadness کی وضاحت چھے سطور (ص۱۱۵۲) اور Salvia کی ۱۴سطور ( ص ۱۱۵۳) میں ’سوزشِ جگر‘ پر ایک مفصل مضمون (ص۵۳۷) شامل ہے۔ انھوں نے سابقہ تراجمِ اصطلاحات کے ذخیروں سے فائدہ اُٹھایا ہے اور ان میں اضافے کیے ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے بجاطور پر اسے اپنی نوعیت اور اپنی صفات کے سبب ایک بے مثال اور لازوال کارنامہ قرار دیا ہے۔ لغت میں طبی علوم وفنون کے علاوہ فزکس، کیمیا، نفسیات، وغیرہ کی اصطلاحیں بھی نظر آتی ہیں۔ادارہ تالیف و تصنیف و ترجمہ بھی مبارک باد کا مستحق ہے، جس نے ایسی ضخیم لغت شائع کی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ردِ قادیانیت کے ۱۰۰ دلائل، پی عبدالرحمان۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی۔ صفحات:۲۱۳۔ قیمت: بھارتی ۱۰۰روپے ۔
قادیانیت، برطانوی سامراج کا ایک سیاسی حربہ تھا، جسے مذہبی لبادے میں برتا گیا۔ پہلی جنگ ِ عظیم سے قبل جب دُور دُور تک برطانوی راج کے جھنڈے لہرا رہے تھے تب مقبوضہ مسلم دنیا میں برطانوی حاکموں کو مسلمانوں کی جانب سے جہاد اور غلامی سے سرتابی کے چیلنجوں کا سامنا تھا۔ ان دونوں چیزوں کے توڑ کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک ’نیا بیانیہ‘ ترتیب دیا اور مسلمانوں سے کہنا شروع کیا: ’جہاد کا خیال چھوڑو اور برطانوی راج کی وفاداری کا دم بھرو‘۔
اگرچہ اس جعلی نبوت اور مذہبی و سیاسی ڈھونگ پر بہت سا لٹریچر موجود ہے، تاہم زیرنظر کتاب میں عبدالرحمان صاحب نے نہایت شائستگی اور سلیقے سے ایک سو دلائل مع ثبوت پیش کیے ہیں کہ کس طرح قادیانیت کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ایک الگ گروہ ہے۔ مرتب نے بڑی تعداد میں، مرزا کی اصل کتب کے عکس پیش کرکے کتاب کو مؤثر دستاویز بنا دیا ہے، تاکہ پڑھنے اور دیکھنے والا دیکھ لے کہ قابلِ اعتراض باتیں سیاق و سباق کے ساتھ کس طرح لکھی اور پیش کی گئی تھیں۔ (س م خ)