مسلم علوم و فنون میں علم اسماء الرجال ایک منفرد‘ معتبر اور تاریخِ عالم میں ایک نادر فن کی حیثیت رکھتا ہے۔ وفیات نگاری‘ ایک اعتبار سے اسماء الرجال ہی کی ایک شاخ ہے۔ عربی‘ فارسی اور اُردو میں وفیات نگاری کی ایک مستحکم روایت ملتی ہے۔ ابن خلکان کی وفیات الاعیان اس سلسلے کی ایک حیرت انگیز اور بے مثال کتاب ہے جو تیرھویں صدی میں تصنیف کی گئی‘ بعدازاں اس کے بیسیوں تکملے اور ترجمے شائع کیے گئے۔ مسلم ذخیرئہ علوم میں‘ اس کے علاوہ بھی فن وفیات نویسی پر بیسیوں کتابیں تالیف اور شائع کی گئیں۔
اُردو میں بھی اس فن پر معدودے چند کتابیں تیار کی گئی ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے اور اس فن پر اُردو میں موجود و مطبوعہ ۱۴ کتابوں کے مقابلے میں زیادہ تفصیلی‘ جامع اور مُستند ہے۔ بڑی تقطیع کے تقریباً ایک ہزار صفحات پرمشتمل زیرنظر وفیات نامہ ۹۸۰۰ نامورانِ پاکستان کے بارے میں حسب ذیل معلومات پر مشتمل ہے: شخصیت کی حیثیت‘ نمایاں عہدہ یامنصب‘ تصانیف‘ ولادت اور وفات کی تاریخیں‘ مقامِ تدفین اور مآخذ۔ نامورانِ پاکستان میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ علما‘ ادیب‘ شاعر‘ معلم‘ سیاست دان‘ طبیب‘ کھلاڑی‘ وکیل‘ گویّے‘ پیر‘ صنعت کار‘ کارکنانِ تحریک آزادی‘ صحافی‘ خوش نویس‘ مصور‘ مقرر‘ سماجی کارکن وغیرہ وغیرہ۔
(مصنف نے ’نام ور‘ کے معیار کے لیے مختلف پیمانے استعمال کیے ہیں۔) سیاست دانوں میں سے رکن صوبائی اسمبلی سے کم درجے پر فائز لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ مصنف نے دائرہ کار بھی متعین کر دیا ہے۔ قابلِ ذکر پاکستانی شہری دنیا میں جہاں بھی دفن ہوئے‘ کتاب میں مذکور ہیں۔ ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء تک کی مشرقی پاکستان کی شخصیات بھی شامل ہیں (مگر بھاشانی‘ شیخ مجیب الرحمن‘ قاضی نذرالاسلام کی شمولیت مصنف کے اپنے معیار سے مطابقت نہیں رکھتی)۔ ہر شخصیت پر ۴ سے ۲۰سطروں تک معلومات دی گئی ہیں۔ مصنف کے بقول بہت سی نام ور مرحوم شخصیات اس لیے شامل ہونے سے رہ گئیں کہ ان کی مستند تاریخ وفات دستیاب نہ ہوسکی۔ ہمارے خیال میں اگر آخر میں ایسی ایک فہرست دے دی جاتی تومطلوبہ معلومات رفتہ رفتہ جمع ہوسکتی تھیں۔
ابتدا میں دو مضامین ’اسلامی ادب میں وفیات نویسی کی روایت‘ (عارف نوشاہی) اور ’اُردو میں وفیات نگاری‘ (مصنف) شامل ہیں۔ مصنف کا مقالہ ۵۶ صفحات پر پھیلا ہوا ہے‘ جس میں انھوں نے اُردو میں ذخیرئہ وفیات نویسی کا نہایت مہارت اور باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور اس موضوع پر شائع شدہ کتابوں کی مختلف النوع کمیوں‘ کوتاہیوں اور غلطیوں کی بجا طور پر نشان دہی کی ہے۔ یہ جائزہ بجاے خود ایک نہایت عمدہ تحقیقی مقالہ ہے۔
مصنف پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات سے وقت نکال کر اس نوعیت کا کام انجام دینا‘ ایک بہت بڑی مہم سر کرنے کے مترادف ہے۔ اسے دیکھ کر بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے کس قدر خونِ جگر صرف کیا ہوگا۔ بلاشبہہ وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں‘ ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پائو گے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے حالات زندگی مسلمانوں کے لیے ہمیشہ ایک پسندیدہ موضوع رہے ہیں۔ خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کی تربیت میں بطور رول ماڈل ان کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے اس حوالے سے عربی کتب کے تراجم بھی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس کتاب کا بنیادی مواد خالد محمد خالد کی عربی کتاب رجال حول الرسول سے ماخوذ ہے لیکن نظرثانی کرتے ہوئے اصلاح و ترمیم اور اضافہ‘ نیز عبدالرحمن رافت پاشا کی کتاب صور من حیات الصحابہ کی آمیزش کے بعد‘ بقول مؤلف: اب یہ کتاب کا ترجمہ نہیں رہا ہے‘ یعنی ایک نئی کتاب بن گئی ہے۔
اس کتاب میں ۵۵ صحابہ کرامؓ کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ تذکرے نہ صرف تزکیۂ نفس اور تربیت قلوب کاباعث ہیں بلکہ عمل کے راستے پر رواں دواں اور تیزگام کرنے کا باعث ہیں۔ ہر انسان کی عملی زندگی میں بے شمار موڑ آتے ہیں جہاں اسے کسی راہبر کی تلاش ہوتی ہے۔ زمانہ کتنا ہی بدل گیا ہو‘ لیکن انسان کے فیصلے جن بنیادوں پر ہوتے ہیں وہ تبدیل نہیں ہوتے۔ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں ایسے ہی مواقع پر انسان کو رہنمائی دیتی ہیں۔
تحریر کا انداز دل چسپ اور منظرنگاری کا ہے۔ یہ اسلوب قاری کو اپنے میں جذب کرلیتا ہے اور دورانِ مطالعہ آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں۔ کتاب ایک دفعہ ہاتھ میں لی جائے تو آدمی پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ پڑھنے والا کچھ دیر کے لیے اپنے کو دورِ صحابہؓ میں محسوس کرتا ہے۔
تذکرہ تابعین کے بعد نقوشِ صحابہؓ ، اب سیرتِ رسولؐ پر کسی ایسے ہی ’ترجمے‘ کا انتظارہے! (عمران ظہور غازی)
اس کتاب میں مختلف جرائد و رسائل سے نومسلم حضرات و خواتین کے قبولِ اسلام اور رجوع الی القرآن کے واقعات جمع کرکے اُردوقارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کیا گیا ہے۔ ان مضامین کے مطالعے سے کئی اہم نکات اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ اہلِ مغرب کے ہاں بالعموم اسلام کی تصویر نہایت مسخ کر کے پیش کی گئی ہے جو بہت سی غلط فہمیوں کا باعث ہے۔ زیادہ تر نومسلم‘ عیسائیت کی سختی‘ متشددانہ‘ غیرعقلی اور غیرفطری تصورات سے باغی ہوکر‘ اسلام کی طرف راغب ہوئے‘ یا اسلام کی فطری اور عقلی تعلیمات اُن کے لیے باعثِ کشش ثابت ہوئیں۔ قبولِ اسلام کاایک اہم ذریعہ براہِ راست قرآن مجید کا مطالعہ بھی ہے۔ مغرب میں مقیم مسلمانوں کے کردار اور اخلاقی برتری بھی قبولِ اسلام کی ترغیب کا ذریعہ بنتی ہے۔ ایک اہم ذریعہ انٹرنیٹ بھی ہے جہاں سے لوگ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے رجوع کرتے ہیں۔
دونوں کتب میں مرد و خواتین کے بہت سے ایمان افروز واقعات‘ نومسلموں کو درپیش مسائل اور اسلام کے لیے صبرواستقامت کے مظاہروں کا تذکرہ تازگیِ ایمان کا باعث ہے۔ اہلِ مغرب معاشی آسودگی اور پُرتعیش زندگی کے باوجود ایک بے سکونی اور عدمِ اطمینان کا شکار ہیں۔ یہ پیاس انھیں اسلام کو جاننے کی ترغیب کا ذریعہ بھی ہے۔ اُمت مسلمہ بالخصوص دعوت دین سے وابستہ جماعتوں‘ اداروں اور مبلغینِ اسلام کا فریضہ ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ اس ضمن میں انٹرنیٹ ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دعوتی حوالے سے اس پہلو پر خصوصی توجہ دعوت دین کا ایک اہم تقاضا ہے۔
اچھا ہوتا اگر اُن کتب ورسائل کے حوالے بھی دیے جاتے جن سے یہ تاثراتی مضامین لیے گئے ہیں۔ نوجوان طلبا و طالبات‘ اساتذہ کرام اور دعوتی کام کرنے والے حضرات کے لیے ان کتب کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (احمد رضا)
اُردو میں قابلِ ذکر اور معیاری خود نوشتوں کو شمار کرنے لگیںتو تعداد شاید درجن سے آگے نہ بڑھے گی۔ ایک مدت کے بعد ایک قابلِ مطالعہ آپ بیتی ذوقِ پرواز کے نام سے منصہ شہود پر آئی ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی شہاب نامہ ایوانِ صدر سے نیچے کی سمت مشاہدات پر مشتمل تھی تو محمدصدیق کا سفر نشیب سے فراز کی طرف ہے۔ وہ باقاعدہ ادیب نہیں ہیں‘ لیکن ان کی تحریر میں بے ساختگی کا عنصر بہت سے ادیبوں کے مقابلے میں نمایاں ہے۔ خواندنی (readibility) کے اعتبار سے یہ کتاب اعلیٰ سطح کی حامل ہے۔
مصنف کا سفر ایک کلرک کی حیثیت سے شروع ہوتا ہے اور وہ اپنی محنت‘ دیانت اور مستقل مزاجی کے بل بوتے پر زینہ بہ زینہ قدم اٹھاتے ہوئے ڈپٹی کنٹرولر ملٹری اکائونٹس‘ ڈائرکٹر فنانس واپڈا‘ پرنسپل واپڈا اکائونٹس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اور یو ایس ایڈ کنسلٹنسی پراجیکٹ کے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے بہت سے واقعات بڑی ذمہ داری سے بیان کر دیے ہیں۔ پرائمری اسکول کے اساتذہ کا ذکر حددرجہ محبت اور احترام سے کیا گیا ہے۔ اس سے ماضی کی معاشرتی اقدار اور رہن سہن کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔
مصنف کی ساری زندگی اعلیٰ اقدار اور شان دار روایات سے منور ہے۔ ایک دیانت دار اور متقی شخص بھی اولاد کی محبت کے سامنے اکثر اوقات ڈگمگا جاتا ہے۔ مصنف اس آزمایش میں بھی سرخ رُو نکلے ہیں۔ محمد صدیق صاحب حالات کے سامنے سرجھکانے کے بجاے اپنے عزم اور توکل کی قوت سے سربلند رہے ہیں۔ اس کتاب کی دو خصوصیات بے حد متاثر کرتی ہیں: ایک تو والدین کے ادب و احترام کی خوب صورت مثالیں‘ دوسرے: جذباتی زندگی کا احتیاط کے ساتھ بیان‘ ایسا عمدہ اور متوازن بیان شاید ہی کہیں ملے۔
ذوقِ پروازکے مطالعے سے ایک تو ذہنی اُفق وسیع ہوتا ہے دوسرے‘ کردار سازی میں اس کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ معاشرتی انتشار اور پریشان کن مسائل سے بھرپور زندگی میں یہ اُمید کا پیغام اور عمل کے لیے مہمیز ہے۔ (خالد ندیم)
لوگوں میں رجوع الی اللہ کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اسماے حسنیٰ کے ذکر کا اہتمام بڑھ رہا ہے۔ جیبی سائز میں خوب صورت رنگارنگ اور مختصر کتابچے شائع کیے جا رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب اس ضمن میں منفرد کام ہے۔ یہ اسماے حسنیٰ سے معرفت الٰہی کا شعور عام کرنے کی سعی ہے۔ اسماے حسنیٰ کے لغوی و اصطلاحی معنی‘ اسماے حسنیٰ پر مبنی قرآنی آیات‘ احادیث اور ائمۂ کرام کے اقوال کی روشنی میں تشریح کی گئی ہے۔ نیز حوالوں کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ استحضار اور یقین کے لیے اسماے حسنیٰ کی تاثیر پر مبنی واقعات و تجربات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ہر اسم کی خصوصیات سے متعلق مفید اذکار اور دعائیں اور تعلق باللہ بڑھانے کی تدابیر بھی درج ہیں۔ اسماے حسنیٰ پر یہ مفصل و جامع مطالعہ خدا کی حقیقی معرفت اور شعوری ذکر کی ترغیب کا باعث ہے۔ مؤلف اور ان کے رفقا نے جس عرق ریزی سے تحقیق و تخریج کا کام انجام دیا‘ وہ قابلِ تحسین ہے۔ (امجد عباسی)
انجینیرعبدالمجید انصاری نے قرآن و حدیث میں مذکور ایسے مضامین اور باتوں کو جو تین کی تعداد رکھتے ہیں‘ اس کتاب میں یک جا کردیاہے۔ محدثین کی اصطلاح میں اگرچہ ’ثلاثیات‘ سے مراد ایسی احادیث ہیں جو صرف تین واسطوں سے مؤلفین کتب حدیث تک پہنچیں‘ تاہم اس کتاب کے مضمون پر بھی یہ نام خوب صورت محسوس ہوتا ہے۔
اس کتاب کو ان آیات و احادیث کا انسائی کلوپیڈیا کہا جاسکتا ہے جن میں تین امور کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن میں خود حضوؐر نے تین کے الفاظ کی صراحت کے ساتھ تین باتیں بیان کیں لیکن ایک بڑی تعداد ان آیات و احادیث کی ہے جن میں تین کا عدد تو مذکور نہیں لیکن ان میں تین باتیں مذکور ہیں جیسے بسم اللہ میں تین اسما___ اللہ‘ رحمن اور رحیم اور سورہ فاتحہ کی پہلی تین آیات میں تین صفات باری کا ذکر۔ اس طرح مضامین کی ثلاثیات کی تلاش میں مؤلف نے اجتہادی کوشش کی ہے اور ان باتوں کو جمع کیا ہے جن پر عمومی نظر نہیں پڑتی۔ اس اجتہادی کوشش میں بعض مقامات پر تکلف بھی محسوس ہوتا ہے۔ تمام آیات و احادیث کے ساتھ اس کے آسان اور سلیس ترجمے نے اسے استفادے کے لیے عام فہم اور عربی متن اور حوالوں سے مزین آیات و احادیث نے اس کی استنادی حیثیت کو معیاری بنا دیا ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)
سیرت رسول پاکؐ کے دعوتی پہلوئوں پر ۵۰ مختصر تحریروں کا یہ مجموعہ اتباع رسولؐ کے خواہش مند کسی فرد کو عملی زندگی کے متنوع گوشوں کے لیے قیمتی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ صلۂ رحمی‘ ایثار‘ سادگی‘ نظافت طبع‘ دلوں کی نرمی‘ ملازم سے تعلق‘ عورتوں کی حدودِکار‘ دعوت کااسلوب موضوعات میں سے چند ہیں۔ اسلوب سہل‘ دل چسپ اور اس مقصد کے لیے نہایت مناسب ہے۔ اس کتاب سے رسولؐ اللہ کی زندگی کی ایک چلتی پھرتی تصویر نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے اور محبت و عقیدت سے بھرپور اطاعت کے لیے مختلف انسانی حیثیتوں میں آپؐ کا اسوئہ مبارک معلوم ہوجاتاہے۔ (مسلم سجاد)
ایک دردمند پاکستانی منصور علی خاں کے مقالات کا مجموعہ جس میں خواندگی‘ معیشت‘ نظامِ عدل اور معاشرتی حالات کے حوالے سے پاکستانی معاشرے کو درپیش مسائل کا جائزہ لے کر اسلامی نقطۂ نظر سے حل پیش کیا گیا ہے۔ رجوع الی الدین ہی شاہِ کلید ہے جس سے انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ آخری باب میں انھوں نے ۲۴ تجاویز پر مشتمل ایک لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے۔ کتاب کا اُردو ترجمہ پہلے شائع کیا گیا ہے۔ انگریزی میں کتاب ابھی شائع ہونا ہے۔ (م - س)
مولانا اسلم صدیقی کا نام دینی اور تحریکی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں۔ جامعہ پنجاب کے شعبۂ مساجد کے صدر اور خطیب کی حیثیت سے آپ نے سرگرم زندگی گزاری ہے۔ آپ کے خطبات سننے والوں کے ذہن و قلب‘ دین اسلام کی تعلیمات کی پیروی کے لیے راغب ہوتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں انھوں نے قرآن کا سلسلے وار درس شروع کیا جو کیسٹ پر محفوظ کیا گیا اور اب ان دُروس کو لکھ کر کتابی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سورۂ اعراف تک کے درس درج بالا آٹھ کتابوں کی شکل میں شائع ہوچکے ہیں (دروس قرآن‘ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ ‘جلد اوّل پر ترجمان القرآن میں تبصرہ اکتوبر ۲۰۰۵ء میں شائع ہوچکا ہے)۔
مولانا اسلم صدیقی بنیادی طور پر خطیب ہیں اور بہت اچھے خطیب۔ ان کی تقاریر سن کر حاضرین ولولے اور جوش سے بھر جاتے ہیں لیکن وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ تصنیف کے مرد میدان نہیں۔ ان کے جو دروس نقل کیے گئے اور ایک نظر ڈال کر شائع کر دیے گئے‘ اس کام میں انھیں بعض احباب کا تعاون حاصل رہا ہے۔ مرتب کرتے ہوئے اسٹائل تبدیل نہیں کیا گیا۔ اس لیے خطیبانہ رنگ برقرار ہے اور پڑھنے والے پر اثر ڈالتا ہے۔ وہ تفسیری مباحث میں نہیں گئے اور نہ اختلافی مسائل میں الجھے ہیں بلکہ قرآن کے پیغام کو پُرزور استدلال سے پیش کردیا ہے۔ قرآن کا پیغام‘ جو اللہ کی بندگی اور اس کی کامل اطاعت کا پیغام ہے‘ عصرِحاضر کے پس منظر میں کھل کر سامنے آتاہے اور قاری کو عمل پر اُبھارتا ہے۔ یہ سلسلۂ دروس مکمل ہوگا تو تفسیری لٹریچر میں اپنی نوعیت کا ایک اضافہ ہوگا۔ مثبت طرز اختیار کیا گیا ہے۔ قرآن کے لانے والے نے قرآن کو جس طرح پیش کیا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ چنانچہ سیرت کے حوالے جابجا نظر آتے ہیں۔
آج کل دینی کتب بھی بہت اہتمام سے اور خوب صورت شائع کی جارہی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ یہ کتب بھی اس معیار پر طبع ہوں کہ دیکھ کر دل خریدنے اور پڑھنے کو چاہے۔ اس کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ماہر مدیر خطیبانہ رنگ برقرار رکھتے ہوئے اس کی تدوین نو کرے تو اس کے فائدے اور تاثیر میں اضافہ ہو۔(مسلم سجاد)
مصنف علمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ زیرنظر کتاب کی وجۂ تالیف یہ جذبہ ہے کہ سیرت و کردار کی تعمیر اور عہدحاضر کے مسائل کے لیے حقیقی رہنمائی قرآن ہی سے میسرآسکتی ہے۔ فی الواقع قرآن ہردور کے لیے رہنما ہے۔ مصنف نے عقائد‘ عبادات‘ معاملات‘ اخلاقیات‘ معاشرت اور دیگر موضوعات پر قرآن و سنت کی روشنی میں جدید اسلوب میں رہنمائی فراہم کی ہے اور عہدِ جدید پر انطباق کیا گیا ہے۔
عہدحاضر کے حوالے سے جہاد کا تصور‘ جنگ و امن کے قرآنی اصول‘ اسلام کا نظریۂ مال و دولت‘ قرآن اور بین الاقوامی معاملات‘ ناین الیون کا واقعہ اور یہودیت و عیسائیت اور قرآن اور میڈیا کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ خواتین کے حقوق اور دیگر مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔
ہر موضوع پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ حسبِ ضرورت احادیث‘ صحابہ کرامؓ کے واقعات‘ جدید دور کی امثال اور اشعار بھی پیش کیے گئے ہیں۔ زبان شُستہ‘ رواں اور اسلوب عام فہم ہے۔ مصنف نے فکری و عملی زندگی قرآنی اصولوں پر استوار کرنے کی دعوت دی ہے اور قرآن کو حقیقی معنوں میں رہنما بنانے پر زور دیا ہے۔ بنیادی طور پر کتاب خطبات (لیکچرز) کا مجموعہ ہے جسے نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔ (سعید اکرم)
رجوع الی القرآن کے رجحان میں اضافے کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ قرآنی مضامین پر کتب کا سلسلہ جاری ہے اور لکھنے والے علماے کرام کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی محنت اورمطالعے میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں بھی مؤلف نے ہرسورہ کے مختصر تعارف کے بعد‘ ایک ایک یا زیادہ آیات کا مطلب سلیس اُردو میں سلسلہ وار بیان کردیا ہے۔ انھوں نے تفسیر ابن کثیر کو بنیاد بنایا ہے۔ ساتھ ہی اشاریہ بھی ہے جس میں مختلف موضوعات پر الف بائی ترتیب سے آیات کے حوالے دیے ہیں اور اکثر مختصر تشریح بھی دی گئی ہے۔ عربی سے ناواقف لوگوں کے لیے قرآن سے آگاہی کی اچھی اور مفید کوشش ہے لیکن حقیقی مفہوم سے آگاہی کے لیے متن کو برابر زیرمطالعہ رکھنا اور عربی سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش بھی لازمی سمجھنا چاہیے۔ (م - س)
معروف ادیب‘ شاعر اور مصنف جناب گوہر ملسیانی کے پیشِ نظر اس کتاب کا مقصدِتالیف نوجوان نسل (بالخصوص طلبہ و طالبات اور کم تعلیم یافتہ افراد) کو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اطہر سے اس انداز میں روشناس کرانا ہے کہ یہ اُن کی ذہنی اور عملی زندگی کی تہذیب و تشکیل کا وسیلہ بن سکے۔ فاضل مؤلف کااسلوب نگارش نہ صرف شُستہ و رُفتہ اور عام فہم ہے بلکہ اتنا دل کش اور دل نشیں ہے کہ قاری کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ انھوں نے ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے وقائعِ حیات کو احاطۂ تحریر میں لاتے ہوئے اپنی استطاعت کی حد تک کوشش کی ہے کہ ضعیف اور مشکوک روایتیں کتاب میں نہ آنے پائیں اور صرف مستند مصادر و مآخذ ہی سے استفادہ کیا جائے۔ اس کوشش میں وہ خاصے کامیاب نظر آتے ہیں‘ تاہم کتاب میں کمپوزنگ اور سہوقلم کے تسامحات بعض مقامات پر کھٹکتے ہیں‘ مثلاً: ’ابن اُم مکتوم‘ کی جگہ ’ابن مکتوم‘ (ص ۱۴۸‘ ۱۴۹) لکھا گیا۔ کتاب ہمارے دینی ادب میں خوش گوار اضافہ ہے اور اس کا مطالعہ کرنے والے یقینا روح میں تازگی اور بالیدگی محسوس کریں گے۔(طالب الہاشمی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف پہلوئوں سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ زیرنظر کتاب اس موضوع پر انفرادیت کی حامل ہے۔ مصنف نے تعلیم و تربیت کے حوالے سے ۴۵ عنوانات کے تحت تمام ممکنہ پہلوئوں پر احادیث کو جمع کردیا ہے اور حسبِ موقع معروف علما کی شرح بھی دی گئی ہے۔ تعلیم کے لیے وقت اور جگہ کا تعین‘ تعلیم کا دائرہ‘ تعلیم کے ذرائع‘ طلبہ کی نفسیات‘ مخاطب کا رویہ اور مزاج‘ شاگردوں سے تعلق‘ اندازِگفتگو‘ اشاروں‘ لکیروں اور شکلوں کا استعمال‘ طلبہ سے استفسار‘ سوال کرنے پر رہنمائی‘ طلبہ کی صلاحیتوں کا ادراک‘ اپنی موجودگی میں شاگرد کو تعلیم و تدریس کا موقع دینا‘ نظم و ضبط‘ سرزنش اور حوصلہ افزائی‘ اخلاقی تعلیم‘ طلبہ کی ضروریات کا خیال رکھنا‘ تعلیم میں سہولت و ترغیب‘ غرض تعلیم سے متعلق تمام اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔یہ لوازمہ ایک اہم تعلیمی ضرورت پوری کرتا ہے اور جدید تعلیمی نظریات و رجحانات کی روشنی میں ماہرین تعلیم کو دعوتِ تحقیق دیتا ہے۔ (محمد الیاس انصاری)
کبھی کبھی کوئی ایسی کتاب نظرپڑتی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ہمارے معاشرے میں کسی سرکاری سرپرستی یا مالی اعانت کے بغیر کوئی فرد محض اپنے ذاتی شوق سے اتنا بڑا علمی کام کرسکتا ہے۔ غلامی کے موضوع پر میاں محمد اشرف کی ۷۰۰ صفحات کی ایک بھرپور اور جامع کتاب ایسی ایک کاوش ہے۔ وہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہیں‘ لیکن جب انھیں غلامی کے موضوع پر اُردو میں لوازمہ نہ ملا تو انھوں نے اس خلا کو پُر کرنے کا خود ارادہ کیا اور تین چار سال کی محنت شاقہ سے مسئلۂ غلامی کی پوری تاریخ‘ مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں اس کی صورت حال خصوصاً استعماری طاقتوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کی پوری پوری آبادیوں پر جس وحشیانہ انداز میں غلامی مسلط کی‘ اسے اصل مآخذ سے حاصل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آئینے میں ‘ روشن خیال اور مہذب تہذیبوں کی اتنی بھیانک تصویر سامنے آتی ہے کہ انسان کانپ اُٹھتا ہے اور سوچتا رہ جاتا ہے کہ کیا انسان اتنا زیادہ گرسکتا ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کا بدترین استحصال کرے اور انھیں نت نئے طریقوں سے تعذیب دے۔ اس کتاب میں اس کی تمام تفصیلات مطالعے کے لیے موجود ہیں۔
غلامی کے حوالے سے اسلام پر بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ فاضل مصنف نے ایک الگ باب میں اس کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام نے کس تدریج اور حکمت سے اس مسئلے کو حل کیا۔ غلام آزاد کرنے کو بہت بڑی نیکی بتایا۔ انھیں معاشرے میں باعزت مقام دیا۔ ان کے حقوق کا تحفظ کیا‘ یہاں تک کہ مسلم تاریخ میں ایسے حکمران بھی ملتے ہیں جو غلاموں میں سے تھے۔ مصنف نے غلامی کے مسئلے پر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو کچھ لکھا ہے‘ اسے کتاب میں ضمیمے کے طور پرشامل کیا ہے تاکہ اسلام کا موقف کھل کر سامنے آجائے۔
فاضل مصنف نے اس کتاب کے ابواب کو چھے الگ الگ کتابوں کی شکل میں بھی پیش کیا ہے: ۱- یورپ اور غلامی‘ صفحات: ۱۲۷۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ ۲-امریکا اور غلامی ‘ ۹۲/:۲۰۰ روپے۔ ۳-اشتراکیت اور غلامی‘ ۱۲۶/۲۷۵روپے۔ ۴-ہندو معاشرہ اور غلامی‘ ۱۰۵/۳۰۰روپے۔ ۵- اسلام اورغلامی‘ ۱۶۸/۳۵۰روپے۔
جیساکہ عنوانات سے ظاہر ہے‘ مصنف نے ان سب عنوانات کے تحت تحقیقی کاوش کر کے اُردو زبان میں وہ لوازمہ پیش کیا ہے جو اس سے پہلے دستیاب نہ تھا اور اس موضوع پر معلومات کا ایک خزانہ جمع کر دیا ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں حقیقی قدرافزائی کی روایت ہو‘ تو مصنف کو اس کام پر ضرور کوئی اعزاز ملنا چاہیے۔ (م - ا - ا)
جناب قاضی حسین احمد گذشتہ ۳۵ برس سے وطنِ عزیز میں دینی و سیاسی سطح پر فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اوائلِ جوانی سے تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہیں اور تقریر وخطابت ان کا خاص میدان ہے۔ حال ہی میں مضامین قاضی حسین احمد منظرعام پر آئی ہے۔ ترجمان القرآن اور دیگر اخبارات و جرائد میں شائع شدہ مضامین‘ نیز جماعتِ اسلامی پاکستان کے اہم اجتماعات میں ان کی تقاریر میں سے چند ایک کو اس مجموعے میں شامل کیا گیا ہے۔جن موضوعات پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے ان میں ’سیرت رسولؐ کا پیغام‘ ، ’امریکا‘ ، ’عالمِ اسلام‘ ، ’اسلامی تحریکات‘ ، ’پاکستان کو درپیش حقیقی خطرات‘ ، ’مختلف ممالک کے دوروں کے تاثرات‘ اور ایک اہم خطاب ’آیئے حالات دُرست کریں‘ شامل ہے۔ بانیِ تحریک سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شاعرِانقلاب علامہ اقبال کے حوالے بکثرت موجود ہیں۔
ان تحریروں کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ صاحبِ تحریر عزم و یقین سے سرشار ہیں اور پوری قوم کو میدانِ جدوجہد میں اُتار کر وطنِ عزیز کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں تجزیہ بھی ہے‘ مستقبل کی روشنی بھی اور حالات کو سُدھارنے کے لیے اسلامی تحریکات کا دست وبازو بننے کی اپیل بھی۔ استعمار‘ اسرائیل‘ امریکی جبروستم اور پاکستان میں انگریزوں کے شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے مجاہد کی سی گھن گرج کے ساتھ جلوئہ نما نظرآتے ہیں‘ جب کہ دنیابھر کے مظلوم طبقات اور پاکستان کے بے بس عوام کا ذکر کرتے ہوئے ایک خاص گداز کی کیفیت سے گزرتے محسوس ہوتے ہیں۔ اُن کی تحریر بتاتی ہے کہ وہ نظامِ فرسودہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔
مضامین کی عنوان وار درجہ بندی کرلی جاتی تو کتاب مزید مؤثر ہوجاتی۔ یہ ذکر بھی مناسب ہوتا کہ یہ تقریر کس مقام پر کی گئی‘ انٹرویو کس رسالے کے لیے لیا گیا اور تحریر کس روزنامے/ ماہنامے میں کب شائع ہوئی۔ (محمدایوب منیر)
اسلام کی ۱۴۰۰ سالہ تاریخ میں ایسی بے شمار تحریکوں کا ذکر ملتا ہے جو ملوکیت کے خلاف اٹھیں‘ اہلِ اقتدار کے خلاف جدوجہد کی اور تاریخ کے صفحات پر اَن مٹ نقوش چھوڑ گئیں۔ زیرنظر کتاب میں ایسی ہی تحریکوںکا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں تحریک علویہ‘ عباسیہ‘ باطنیہ‘ قرامطہ‘ مہدویہ‘ صلاحیہ اور وہابیہ شامل ہیں۔ یہ جائزہ مؤرخانہ دیانت سے پیش کیا گیا ہے اور حالات و واقعات ایک تلاش و جستجو اور تحقیق کے بعد پیش کیے گئے ہیں۔ ایک قاری کو باطنیہ کے بارے میں مؤلف کی آرا عام مؤرخین کی آرا سے مختلف نظر آتی ہیں لیکن مولانا علم الدین سالک کے بقول مؤلف نے جو کچھ لکھا ہے اس سے ’’ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے جو ایک مدت سے دانستہ یا نادانستہ اس فرقے کے خلاف پیدا ہوچکی ہیں‘‘۔
ایک باب ’کاذبیہ‘ میں نبوت کے جھوٹے مدعیوں اسود‘ مسیلمہ‘ سجاح اور طلیحہ کی فتنہ انگیزیوں کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں اس طبع ثانی میں دو ابواب ’یورشِ تاتار‘ اور ’محمدعلی‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ مؤلف کے ایسے مضامین ہیں جو پہلی اشاعت میں شامل نہ تھے۔
کتاب کے مؤلف خدابخش اظہر امرتسری اپنے دور کے نام ور شاعر‘ صحافی اور ادیب تھے جو ۲۰ سال تک روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ۱۹۴۰ء میں پہلی دفعہ یہ کتاب شائع ہوئی اور اب ۶۵ سال بعد اس کی طبعِ جدید منظرعام پر آئی ہے۔ اس کا پیش لفظ مولانا علم الدین سالک اور مصنف کا تعارف شورش کاشمیری نے لکھا‘ جو اس طباعت میں بھی شامل ہیں۔ طبعِ جدید کا تعارف جناب طالب الہاشمی نے تحریر کیا ہے۔ اسلامی تاریخ اور تحریکوں سے دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے نہایت معلومات افزا کتاب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
اسلام کے علمی ذخیرے پر نیش زنی‘ کفار اور مشرکین کا وطیرہ تو تھا‘ لیکن گذشتہ تین صدیوں کے دوران‘بالخصوص مغربی علم الکلام سے متاثرہ ایک گروہ نے اپنی علمی کمزوری کے ہاتھوں مجبور ہوکر‘ خود اسلام ہی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا راستہ منتخب کیا۔ اس گروہ میں ایک نمایاں عنصر منکرین حدیث کا ہے‘ جو اپنی علمی سطح کو بلند کرنے یا ملاحدۂ مغرب کی فکری یاوہ گوئی کا شافی جواب دینے کے بجاے‘ خود دشمن ہی کی بارودی سرنگوں کو اُٹھا اُٹھا کر اسلامیانِ عالم کے سپرد کرنے کو ’فکرِ قرآنی‘ کا مغز پالینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمن کے بعد اسلم جیراج پوری‘ عنایت اللہ مشرقی‘ نیاز فتح پوری اور ایک دور میں اس کے کرتا دھرتا‘ جناب غلام احمد پرویز [م:۱۹۸۵ئ] رہے۔ موصوف نے فتنۂ انکارحدیث کو ایک تحریک کی شکل دینے کے لیے خودساختہ ’مرکز ملت‘ ملک غلام محمد اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی مدد حاصل کی (اکبربادشاہ سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک کو ایسے ابوالفضل‘ فیضی اور شیخ مبارک بہ سہولت ملتے رہے ہیں۔ جنرل مشرف کو آج کل ایسے ہی اساتذہ روشن خیالی اور مداہنت پسندی کا درس دے رہے ہیں)۔
زیر نظر کتاب ’قرآنی لغت کے خودساختہ ماہر‘ پرویز صاحب کی ان فکری قلابازیوں‘ کلامی یاوہ گویوں‘ اتہام بازیوں اور تضاد بیانیوں کا دفتر ہے۔ پرویز ایک جانب فکر اسلامی پر تیشہ زنی کرتے رہے تو دوسری جانب اسلام پر براہ راست حملہ کرنے کی ہمت نہ پاتے ہوئے‘ مولانا مودودی مرحوم کے منہ کو آتے رہے اور علامہ اقبال کے نام کا سہارا لے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے‘ جس کا پورا ریکارڈ‘ طلوعِ اسلام میں موجود ہے۔
ماہ نامہ طلوعِ اسلام کے تمام فائلوں سے فکرِپرویز کا بڑی باریک بینی بلکہ بڑے حوصلے سے مطالعہ کرنے کے بعد‘ جناب پروفیسر محمد دین قاسمی نے تحقیق و تدوین کا یہ مرقع مرتب کیا ہے۔ جس کا ہرصفحہ پرویز صاحب کی قلمی رکاکت و فکری کثافت‘ مولانا مودودی کی بیانیہ شایستگی اور مولف کی تجزیاتی سنجیدگی کا نمونہ ہے۔
جو لوگ فتنۂ انکارحدیث کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں‘ یا جو لوگ اس فتنے کے تاروپود کی کمزوری اور حکمت عملی کے دجل و فریب کو جاننا چاہتے ہیں‘ ان کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسی سنجیدہ تحقیق کاری اور تقابلی تجزیہ کاری کی روایت ہمارے ہاں ناپید ہوتی جارہی ہے‘ لیکن پروفیسر محمد دین قاسمی کی اس پیش کش نے نوجوان محققین کو کارِ تحقیق کا درس بھی دیا ہے اور حوصلہ بھی۔(سلیم منصورخالد)
علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی عالم اسلام کی ایک معروف علمی شخصیت ہیں۔ قرآن‘ حدیث اور فقہ اسلامی پر ان کی گہری نظر ہے۔ دورجدید کے حالات‘ مسائل اور پیچیدگیوں سے وہ بخوبی واقف اور اسلام کی روشنی میں ان کا معقول حل پیش کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ کسی فقہی مکتب فکر کے پابند نہیں بلکہ پورے فقہی ذخیرے سے استفادہ کرتے ہیں جس راے کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ پاتے ہیں‘ برملا اسے ترجیح دیتے ہیں۔ اہل سنت کے معروف فقہی استدلال کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہیں اور انھی کی روشنی میں جہاں ضرورت سمجھتے ہیں‘ خود بھی اجتہادی راے قائم کرتے ہیں۔
زیرنظر کتاب موصوف کے ان فتاویٰ پر مشتمل ہے جو انھوں نے قطر ٹی وی پر ایک پروگرام بعنوان: ’ہدی الاسلام‘ میں سائلین کے جواب میں پیش کیے تھے۔ اس میں عقائد و نظریات‘ حکومت و سیاست‘ اقتصاد و معیشت‘ تمدن و معاشرت‘ تعلیم و تربیت‘ طب و سائنس‘ غرض کہ انسانی زندگی کے تقریباً ہر پہلو پر اسلام کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ زندہ اور روزمرہ درپیش مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں موجود بیش تر فتاویٰ کا تعلق ان موضوعات سے ہے جو عصرحاضر میں دینی و علمی حلقوں میں بالعموم زیربحث رہتے ہیں‘ مثلاً: اسلام کا سیاسی نظام‘ اسلامی ریاست میں سیاسی پارٹیوں کا وجود‘ بنک کا سود‘ بنک کی نوکری‘ کرنسی کی خریدوفروخت‘ اسلام اور جدیدسائنسی تحقیقات‘ رحم مادر کا کرایہ‘ انسانی اعضا کی پیوندکاری‘ عورت کا بغیر محرم سفرحج‘ غیرمسلم خاتون سے شادی‘ عورت اور ملازمت‘ عورت اور سیاست‘ فقہی مسالک میں اتحاد کی ضرورت‘ فقہی مسائل میں تجدید کی ضرورت‘ رویت ہلال اور جدید آلات‘ طیاروں اور مسافروں کا اغوا وغیرہ۔
موصوف نے فتاوٰی میں جوابات کا تفصیلی طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ اختلافی مسائل میں تمام معروف نقطہ ہاے نظر مع دلائل بیان کرتے ہیں اور آخر میں اپنی راے کا اظہار کرتے ہیں۔ مصالح عامہ اور رخصت کے فقہی اصول بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ بیش تر مقامات پر شرعی احکام کی حکمت و معنویت دل نشیں پیراے میں بیان کرتے ہیں۔ اس خوبی کا کریڈٹ کتاب کے فاضل مترجم کو بھی جاتا ہے جنھوں نے مصنف کے استدلال کو بخوبی سمجھا اور شُستہ انداز میں ترجمے کا حق ادا کیا ہے۔
یہ کتاب اگرچہ عالم اسلام کی ایک بڑی دینی شخصیت کے رشحات فکر پر مبنی ہے‘ تاہم اس میں شامل ان کے بعض فتاویٰ سے دلائل کی بنیاد پر یقینا اختلاف کیا جاسکتا ہے (مثلاً: اباحت موسیقی‘ عورتوں سے مصافحہ وغیرہ)۔ لیکن اس اختلاف کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اتنی قیمتی کتاب نظرانداز کردی جائے۔ میری راے میں فقہ اسلامی کے ہر مبتدی و منتہی کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے‘ بالخصوص اصحاب افتا کو اس سے مستغنی نہیں رہنا چاہیے۔ (حافظ مبشر حسین)
کتاب کی نوعیت کا اندازہ‘ ایک تو سرورق کی توضیح: ’تنقید، مقالات، مباحث‘ اور دوسرے‘ فہرست عنوانات سے ہوجاتا ہے۔ یہ مجموعہ مصنف کی مختلف النوع تحقیقی و علمی، تنقیدی، علمی و ادبی، واقعاتی و مشاہداتی اور صحافتی و تجزیاتی تحریروں پر مشتمل ہے۔ موضوعاتی تنوع کے باوجود سبھی تحریریں وقیع اور قابلِ قدر ہیں۔
حضرت آدم ؑ کے جسدِ مبارک اور حضرت حوا ؑکے قدوقامت اور سری لنکا میں قدم گاہِ آدم جیسے موضوعات پر مصنف نے اچھی خاصی تحقیق کی ہے‘ نتیجہ: حضرت آدمؑ اور ان کی اولاد کئی پشتوں تک نہایت طویل القامت تھی اور کوہِ آدم (Adam's Peak) پر آپ ہی کا نقشِ قدم ہے۔ اسی طرح مرقد حوا کے بارے میں اچھی خاصی تفصیل مہیا کرنے کے بعد بتایا ہے کہ ۱۹۲۵ء میں جدہ پرقبضے کے بعد‘ مرقدِ حوا کو ملک عبدالعزیز کے حکم سے مسمار کردیا گیا۔ دو تین مضامین (’اسلامی قومیت اور اس کے عملی مضمرات‘، ’قیامِ پاکستان کے مخالف علما کا جائزہ‘ اور ’آشوبِ ملّت‘ کے زیرعنوان دو تحریریں بھی )اُسی دردمندی اور اضطراب کے آئینہ دار ہیں جو اُمت مسلمہ کی زبوں حالی‘ پس ماندگی ‘ انتشار‘ غلامانہ ذہنیت کو دیکھ دیکھ کر مصنف کو پریشان کیے دیتا ہے۔ بعض تحریروں کو بیرونِ ملک قیام کی یادداشتیں اور سفر کے مشاہدات کہہ سکتے ہیں۔ پھر دنیاے شعروادب کا ذکر اذکار‘ ادیبوں اور شاعروں کی بے اعتدالیاں‘ بعض شعرا کی سوداگرانہ ذہنیت (’بھائی مسلم، ہم یہاں دبئی میں کچھ کمانے کے لیے آئے ہیں‘ ص ۱۷۰) یا ایسے پیشہ ور نعت خوانوں کا ذکر جو معاوضے کے لیے ہی نعت خوانی کرتے ہیں (ص ۱۶۳) وغیرہ۔ اس سے ادیبوں اور شاعروں کی کوئی قابلِ رشک تصویر سامنے نہیں آتی۔ دو تحریریں زبان و بیان کے نکات پر اور ایک خالد اسحاق کی یاد میں___
زبورخیال کے مضامین زندگی کے تنوع اور کثیرالجہتی کے آئینہ دار ہیں۔ لیکن دو باتیں بڑی واضح ہیں‘ اوّل: ہر تحریر پوری توجہ بلکہ ارتکاز اور انہماک کے ساتھ لکھی گئی ہے‘ لکھنے والا اپنی سوچ اور اپنے موقف کے بارے میں یکسو ہے‘ اور اس نے اپنا موقف بڑے عمدہ استدلال اور تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ دوم: یہ ساری تحریریں ایک ایسے قلب مضطر کے قلم سے نکلی ہیں جو اُمت کی محبت سے لبریز ہے (انتساب کی عبارت: ’ملّتِ مظلومہ محکومہ پاکستانیہ کے نام، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ جس نے یہ نعمت عظمیٰ ہمیں بخشی، اسے سلامتیِ دین کے ساتھ قائم رکھے‘)۔ ابتدا میں گوانتاناموبے کے اسیر مجاہدوں کے لیے ایک خوب صورت نظم بھی شامل اشاعت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تقلید کے بارے میں تین مختلف قسم کی آرا اور ان پر مبنی رویے اُمت میں پائے جاتے ہیں۔ ایک رویہ ائمہ مذاہب کی اطاعت کو مقصود بالذات قرار دیتا ہے۔ دوسرا‘ ہر شخص کے براہ راست قرآن و سنت کی پیروی کرنے کا ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ جن مسائل میں ائمہ کے اجتہادات قرآن و سنت کے احکام کے خلاف محسوس نہ ہوتے ہوں ان میں تقلید جائز اور عوام کے لیے ضروری ہوگی۔
مصنف نے تیسرے رویے کو دلائل کے ساتھ شرح و بسط سے بیان کیا ہے۔ اہل علم کے نزدیک کوئی بھی امام مستقل مطاع نہیں ہے۔ ہر ایک کے نزدیک دو اطاعتیں مستقل ہیں اور فقہا کی اطاعت کتاب و سنت کی موافقت کے ساتھ مشروط ہے۔ اسی لیے ہر فقہ میں ہر امام‘ چاہے اس کا تعلق ائمہ اربعہ سے ہو یا اصحاب ظواہر اور اہلِ حدیث سے‘ ہر ایک اپنے قول کے لیے کتاب و سنت سے دلیل پیش کرتا ہے اور ہر ایک کے نزدیک یہ اختلاف فروعی ہے اور اپنی تحقیق کے راجح ہونے اور دوسرے کی تحقیق کے باطل ہونے کی نہیں بلکہ مرجوح ہونے کا قائل ہے۔
مصنف نے تقلیدِ شخصی میں جن کمزوریوں کی نشان دہی کی ہے وہ تقلیدِشخصی کی کمزوریاں نہیں بلکہ عوام کی کم علمی ہے۔ اہلِ علم میں تقلیدِشخصی کا وہی مقام ہے جو جناب سرفراز حسین صدیقی صاحب اُسے دینا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ تجویز مناسب ہے کہ ہرمکتبِ فکرکے محقق‘ علماے کرام کو مل بیٹھ کر مختلف پیش آمدہ مسائل کے حوالے سے مشترک نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ عوام کے لیے قرآن و سنت پر عمل میں آسانی پیدا ہو اور ایک مسئلے میں مختلف آرا کی وجہ سے وہ پریشانی کا شکار نہ ہوں۔
اسی طرح ان کی یہ راے بجا ہے اور علما میں مسلّم ہے کہ تحقیق کی بنیاد پر کسی مسئلے میں ایک فقہی مذہب سے دوسرے فقہی مذہب کی طرف انتقال کے لیے کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے بشرطیکہ یہ انتقال خواہش نفس کی بنیاد پر نہ ہو۔
یہ ایک دردمند مسلمان کی پکار ہے جو اُمت مسلمہ کو اتحادو اتفاق اور اجتہاد کے اسلحے سے لیس دیکھنے کا متمنی ہے چونکہ یہی ہمارے عروج کا راستہ ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل اور عمدہ پیش کش ہے۔ یہ کتاب دین دار جدید تعلیم یافتہ طبقے کے جذبات و احساسات اور سوچ کی نمایندگی کرتی ہے۔ (خالد محمود)
مسلم لیگ کا نام ایک ایسی سیاسی تحریک کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے انگریزوں کے دورِحکومت میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو منظم کیا اور اس برعظیم پاک و ہند کے چند علاقوں میں مسلم اکثریتی حکومت کا تصور کیا‘ جس کے وہ ۶۰۰ برس یکہ و تنہا حکمران رہے تھے۔
مسلم لیگ نے کس طرح آزادیِ وطن کامعرکہ سر کرلیا‘اِس کے مختلف جوابات ہوسکتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمدسلیم احمد‘ دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور میں صدرشعبۂ تاریخ و مطالعہ پاکستان رہے ہیں۔ اِس کتاب میں تاریخی حوالوں کی مدد سے اُس دور کو کھنگالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب مسلم لیگ قائم ہوئی ‘ مختلف صدور کی قیادت میں اُسے کام کرنے کاموقع کیسے ملااور طبقۂ خواص کی نمایندہ جماعت کس طرح مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ یہ کتاب مسلم لیگ کے قیام کے ۱۰۰ برس پورے ہونے کے موقع پر شائع ہوئی ہے۔
اس کتاب کے ۱۳ باب ہیں‘ اس کے پیش لفظ میںوہ تحریر کرتے ہیں کہ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کی خدمات کا ایک نئے پہلو سے جائزہ ہے‘ اُن کے خیال میں اس کتاب کا نمایاں وصف اس کے تاریخی حوالے ہیں جو عموماً سرکاری دستاویزات اورمستند کتابوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔ کتاب کے تعارف میں پروفیسر موصوف اعلان کرتے ہیں کہ مسلم لیگ مذہبی جماعت نہیں تھی‘ سیاسی جماعت تھی جس کا نقطہ نظر عموماً سیکولر رہا۔
مصنف نے بطور تنظیم مسلم لیگ کی خدمات کا جائزہ لیا ہے کہ اس نے کس طرح حقیقی مسائل کی نشان دہی کی اور کس طرح بروقت فیصلے کیے۔ ۱۹۲۰ء میں قائداعظم کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ کو نئی زندگی ملی اور قائداعظم نے نظم و ضبط اور قواعد و قانون کی بالادستی پر خصوصی زور دیا۔محمدعلی جناح جیسی شخصیات ہی تاریخ کا رُخ بدلتی ہیں۔ مصنف کا اصرار ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی اپنی قوتِ بازو کی بدولت تھا‘ وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اصرار کرتے ہیں کہ غیرملکی قوتیں اس میں شریک و دخیل ہیں‘ کتاب کے اختتام پر تفصیلی نوٹ بھی دیئے گئے ہیں۔
پروفیسر موصوف نے تاریخی حوالوں سے ایک اہم تحریر کا جس طرح جائزہ لیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے‘ اُمید ہے سیاسی تحریکات اور اُن کے اثرات کو سمجھنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ بھی ایک مستقل موضوع ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ مفاد پرست طبقات کے ہاتھ کس طرح چڑھی اور ہر سیاسی و فوجی حکومت نے اسے اپنی سواری کے طور پر کیسے استعمال کیا۔ اُمید ہے اس پر بھی کام کیا جائے گا۔ محققین‘ تاریخ کے طلبہ اورسیاسی تحریکات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ غیرمعمولی کتاب ثابت ہوگی۔ (محمدایوب منیر)
مزدور تحریک کے ساتھ سوشلزم کا تصور وابستہ رہا ہے لیکن پاکستان میں اسلامی نظریہ حیات کے علم برداروں نے اس میدان میںبھی مزدوروں کی رہنمائی کی‘ اور نیشنل لیبر فیڈریشن کے قیام کے ذریعے اسلامی مزدور تحریک پروان چڑھی۔ پروفیسر شفیع ملک اس سے روزِ اوّل سے وابستہ رہے ہیں اور مزدور تحریک پر ان کی گہری نظر ہے۔ یہ کتاب سب سے پہلے ۱۹۶۳ء میںشائع ہوئی۔ اب یہ اس کا نظرثانی شدہ اڈیشن ہے جس میں پاکستان میں مزدور تحریک کی تاریخ‘ بین الاقوامی پس منظر‘ سوشلسٹ اور اسلامی مزدور تحریک سب کا اختصار اور جامعیت سے جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے پہلے اڈیشن کا مقدمہ پروفیسر خورشید احمد نے لکھا تھا جو شاملِ اشاعت ہے۔ (مسلم سجاد)
علم حدیث کے مختلف پہلوئوں پر فاضل مصنف کے ۱۲ خطبات کا یہ مجموعہ: حدیث‘ علومِ حدیث‘ اس کی تدوین و تاریخ اور محدثین کی ناقابلِ فراموش خدمات کی تفصیل پیش کرتا ہے۔ ان خطبات کا اہتمام اکتوبر ۲۰۰۳ء میں ادارہ الہدیٰ‘ اسلام آباد نے کیا تھا جس میں خواتین کی کثیرتعداد شریک تھی۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی اس سے پہلے علومِ قرآن اور قرآن حکیم کی تاریخ و تفسیر سے متعلق مختلف موضوعات پر اسی طرح ۱۲ خطبات کا مجموعہ پیش کرچکے ہیں۔
جیساکہ محترم غازی صاحب نے دیباچے میں بتایا ہے‘ زیرنظر خطبات کی اصل مخاطب وہ خواتین اہلِ علم ہیں جو قرآن مجید کے درس و تدریس میں مصروف ہیں۔ چنانچہ فہمِ قرآن‘ درسِ قرآن اور تفسیرقرآن کے سلسلے میں ان خطبات یا مضامین کی حیثیت ایک نہایت مفید علمی و عالمانہ معاون کی ہے۔
خطبات کے عنوانات سے ان کی جامعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پہلا خطبہ حدیث کے تعارف پر ہے۔ مابعد خطبوں میں حدیث کی ضرورت و اہمیت‘ حدیث اور سنت بطور ماخذِ شریعت‘ روایتِ حدیث اور اقسامِ حدیث‘ علمِ اسناد و رجال‘ جرح و تعدیل‘ تدوین حدیث اور کتب و شرح حدیث پر نہایت فاضلانہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخری دو خطبات میں برعظیم پاک و ہند میں علمِ حدیث کے ارتقا‘ معروف محدثین کی خدمات اور پھر دورِ جدید میں علومِ حدیث کا تذکرہ ہے۔ بظاہر یہ ۱۲ لیکچر یا خطبے یا تقاریر ہیں جو غازی صاحب نے مختصر نوٹس کی مدد سے زبانی دیے تھے لیکن حدیث سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہوگا جس کا ذکر ان خطبات میں نہ آیا ہو۔ ایک باب میں ’رحلہ‘ (سفر کرنا) کا ذکر ہے۔ یہاں علمِ حدیث کے لیے صحابہ‘ تابعین اور تبع تابعین کے اسفار کا ذکر ہے‘ ان کے فوائد پر بحث ہے‘ پھر سفر کے طریقوں‘ سفرکے آداب اور رحلہ کے ضمن میں محدثین کی قربانیوں کی روداد ہے۔ آخری باب میں‘ علومِ حدیث کے ضمن میں دورِجدید میں مستشرقین کی خدمات کا ذکر ہے ‘ مثلاً: معروف فرانسیسی مصنف ڈاکٹر مورس بکائی‘ جنھوں نے اپنی تحقیق The Bible, Quran and Scienceکے نام سے پیش کی ہے۔ انھوں نے حدیث پر اپنے اعتراضات ‘ایک لمبی تحقیق کے بعد واپس لے لیے۔ غرض ہر لیکچر کے ذیل میں اس موضوع سے متعلق دل چسپ تفصیل بیان کی گئی ہے۔ گویا یہ فقط محاضرات نہیں ہیں‘ ان کی حیثیت حدیث پر ایک چھوٹے سے دائرہ معارف (انسائی کلوپیڈیا) کی ہے۔
ان خطبات کو صوتی تسجیل (ٹیپ ریکارڈنگ) سے صفحۂ قرطاس پر اتارا گیا۔ غازی صاحب کا حافظہ قوی اور تقریر کا انداز و اسلوب نہایت دل چسپ اور دل نشین ہے۔ ہرخطبے کے آخر میں شامل سوالات و جوابات نے محاضرات کو اور زیادہ بامعنی اور دل کش بنادیاہے۔ کتاب اچھے طباعتی معیار پر شائع کی گئی ہے۔ حدیث اور متعلقاتِ حدیث پرایسی جامع معلومات اُردو زبان میں شاید ہی کہیں اور میسر آسکیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
مسلمانوں کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے اس میں جناب اقبال حسین کی یہ کتاب مسلمان اُمت کے لیے ایک آئینے کی مانند ہے۔
مصنف نے بجاطور پر لکھا ہے کہ زوال کا عمل مسلسل جاری ہے مگر آنکھیں چرانے اور حقیقت کا سامنا نہ کرنے کا رویہ بھی قائم ہے۔ عقیدے اور عمل میں فرق کے باعث ہی مسلمانوں کی سلطنتیں روبہ زوال ہوئیں اور اب بھی اسی فرق نے موجودہ کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ آج کے (بیش تر) مسلمان نہ تو غوروفکر کرتے ہیںاور نہ اپنے پاس دستیاب وسائلِ پیداوار ہی کو مفید مقاصد کے لیے استعمال میں لاتے ہیں‘ نہ قرآن اور تاریخ سے ہی سبق لینے کو تیار ہیں۔ مصنف کے مطابق: جدیدیت (modernism) پر مغرب کا استحقاق نہیں‘ اُمت کو بھی اسے اپنانا ہوگا۔
اس کتاب میں ۲۵ عنوانات کے تحت تقریباً تمام اہم موضوعات زیربحث لائے گئے ہیں۔ اسلامی سوچ کا جدیدیت سے کوئی ٹکرائو نہیں ہے بشرطیکہ یہ جدیدیت مذہب مخالف نہ ہو (ص۶۸-۶۹)۔ ایک تصویر میں‘ ایک صحرا میں اُونٹوں کے قافلے رواں دواں ہیں اور نیچے درج ہے: ’’دورِ جدید کے چیلنجز کا مقابلہ اس طرح کے نہایت پرانے ذرائع رسل و رسائل سے کیا جا سکتا ہے؟‘‘ مصنف لکھتا ہے کہ تیرھویں سے انیسویں صدی کے دوران (۱۲۶۶ئ-۱۸۵۰ئ) تعلیمی‘ اقتصادی‘ سماجی اور اخلاقی حوالوں سے مسلمان روبہ زوال تھے۔ ان کی تین عظیم سلطنتیں (عثمانی‘ صفوی اور مغل) ۱۵۵۰ء تا ۱۷۰۷ء کافی پھلی پھولیں (ص ۱۴۸)‘ تاہم مجموعی طور پر تنزل ہوتا رہا۔ بعدازاں مسلمان اصلاح پسندوں کی کاوشیں شروع ہوئیں جن میں جمال الدین افغانی سرفہرست ہیں۔ سرسیداحمد خان اور علامہ اقبال بھی ایسے ہی مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہوئے۔
’قرآن کی طرف رجوع‘، ’فلسفۂ زندگی‘، مسلمان ماتحت‘ ، ’دورِ جدید میں جہاد‘، ’جدیدیت کا مسلم نمونہ‘، ’اسلام، سائنس اور فلسفہ‘ ،’تاریخ سے سبق‘، ’مسلم سلطنتوں کا زوال‘، ’مسلم دنیا کی خامیاں‘، ’دنیا کا زوال‘، ’مرد مومن‘، ’اسلام انسانیت کا مذہب‘،’مسلمانوں کا مغرب سے واسطہ‘ کے عنوانات کے تحت ان ابواب میں مفیدمعلومات کے ساتھ ساتھ اچھا تجزیہ موجود ہے۔
حوالوں اور اشاریے سے مزین یہ کتاب تاریخ اور اُمت کے امور سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک مفید چیز ہے۔ انگریزی زبان نسبتاً ادبی نوعیت کی استعمال کی گئی ہے۔ مجلد‘ خوب صورت سرورق اور اعلیٰ طباعتی معیار۔ (محمد الیاس انصاری)
تفسیر کے عام انداز سے مختلف اس کتاب میں قرآن کے مطالب تک رسائی کے ساتھ ساتھ قرآن سے عملی تعلق اور پوری زندگی کو دین کے رنگ میں رنگنے کی فکر کی گئی ہے۔ ایک پیراگراف کا ترجمہ دے کر‘ ہر آیت کی تشریح مع گرامر دی گئی ہے اور اس میں دیگر مروجہ تفاسیر سے حسب موقع اقتباسات دیے گئے ہیں اور حکمت و بصیرت کے عنوان سے اس کے ضروری نکات درج کیے گئے ہیں۔ توجہ سے اجتماعی مطالعہ کیا جائے تو مطالب اور منشا خوب ذہن نشین بلکہ قلب نشین ہوسکتے ہیں۔ ص ۵۱۰ پر والناس کی حکمت و بصیرت کے نکات کے بعد‘ مزید ۱۲۲ صفحات میں ۲۳ مختلف عنوانات (مثلاً قرآن کے فنی محاسن‘ اسماء القرآن‘ امثال القرآن‘قرآنی محاسن) پر معروف علماے قرآن کی چیدہ چیدہ تحریریں دی گئی ہیں۔کتاب مصنف کی غیرمعمولی محنت و نظر‘ قرآن سے والہانہ تعلق اور پڑھنے والوں کی فوز و فلاح کے لیے ان کے درد دل کی آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں توفیقِ مزید دے۔ یہ کتاب شیخ عمر فاروق کی سابقہ کاوشوں کی طرح (فون پر رابطہ کرکے طریق کار معلوم کر کے) بطور ہدیہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ (مسلم سجاد)
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی زندگی کا آخری دور‘ تاریخ اسلام کا وہ دورِ ابتلا ہے جس میں ایک طرف اقتدار پرستوں اور ہوس کے پجاریوں نے ظلم وستم میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی‘ اور دوسری طرف توحید کے علَم برداروں اور شمع رسالتؐ کے سچے پروانوں نے ایثار و قربانی کی داستان رقم کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس دورِ ابتلا میں فِسق وفجور اور دین حق کے خلاف سازشوں کی وہ آندھی چلی کہ ایک کے بعد ایک عظیم اور روشن چراغ گل ہوتا چلا گیا‘ اپنوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون سے زمین مسلسل سرخ ہوتی رہی اور دین حق کے دشمنوں نے جی بھرکر دشمنی کے جوہر دکھائے۔ حضرت عثمان‘ حضرت علی‘ حضرت امام حسن‘ حضرت امام حسین‘ حضرت مصعب بن زبیر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ کی شہادتوں کے دل دوز واقعات‘ اور جنگِ جمل‘ کوفیوں کی مسلسل بے وفائیاں‘ سانحہ کربلا‘ مکہ معظمہ پر یزیدی فوج کی یلغار‘ واقعہ حَرَّہ‘ مدینہ منورہ میں مسلم بن عقبہ کے ہاتھوں تین دن تک مسلمانوں کا قتلِ عام‘ فتنۂ خوارج‘ مختارثقفی کا عروج اور اس کا انجام‘ اور پھر حجاج کے ہاتھوں مکہ معظمہ پر حملہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ وہ اندوہناک سانحات ہیں جنھوں نے تاریخ اسلام کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور اُمت مسلمہ کو وہ نقصانات پہنچائے کہ جن کی تلافی کبھی ممکن نہ ہوسکی۔
سیرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ ، جناب طالب الہاشمی کی اسی دور سے متعلق ایک گراں قدر تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے دورِخلافت کے بعد پہلی صدی ہجری کی پانچویں‘ چھٹی اور ساتویں دہائی میں مسلمانوں پر گزرنے والے خونیں حادثات کی بالعموم اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی داستانِ شجاعت اور بالآخر ۷۳ ہجری میں حجاج بن یوسف کے ہاتھوں ان کی شہادت‘ اس سفاک کے ہاتھوں ان کی لاش کی بے حُرمتی اور اس دردناک منظر کو دیکھ کر ان کی عظیم ماں حضرت اسمائؓ کے بے مثال صبر‘ جذبۂ ایمانی اور قوتِ استقلال کی کہانی کو بالخصوص اختصار لیکن بڑے جامع انداز میں بیان کردیا ہے۔ انھوں نے اس عظیم صحابی رسولؐ کی سیرت و شجاعت کو جس طرح رقم کیا ہے‘ اس سے ان کی پوری زندگی اور عظیم قربانی کا پورا نقشہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے قاری کو اچھی طرح احساس ہونے لگتا ہے کہ دین حق کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھنے کے لیے نبی کریمؐ کے گھرانے اور صحابہ کرامؓ نے جو قربانیاں دیں ان کی مثال نہیں ملتی ‘اور واقعی ہر کربلا کے بعد اسلام کو ایک نئی زندگی نصیب ہوتی ہے اور کفر ہمیشہ کے لیے ذلیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ کتابیات نے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ (سعید اکرم)
زیرنظر کتاب میں محترم قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی پاکستان کی دینی و سیاسی خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ جائزہ قاضی صاحب کی شخصیت‘ سیاسی جدوجہد و حکمت عملی‘ ملکی و بین الاقوامی سیاست کے مختلف مراحل میں کردار‘ کشمیر‘ افغانستان‘ خلیج اور عراق پر موقف اور عملی جدوجہد‘ عالمی اسلامی تحریک کے احوال اور ’قاضی حسین احمد کے نظریات‘ جیسے عنوانات پر مشتمل ہے۔ قاضی صاحب کے بارے میں ہرمطبوعہ چیز اور ان کی ہر تحریر و بیان کو جمع کردیا گیا ہے۔ اگرچہ اس طرح ان کی شخصیت‘ افکار اور جدوجہد کے بارے میں ایک تصویر اُبھر کر سامنے آجاتی ہے‘ تاہم موضوع کا حق ادا کرنے کے لیے ان سب کا مطالعہ کرکے مقالہ لکھنے کی ضرورت قائم ہے۔ (م - س )
زیرنظر کتاب اسلام کے قدیم علمی ورثے سے اسلام کے نظامِ احتساب پر آٹھویں صدی ہجری (تیرھویں صدی عیسوی) کے سربرآوردہ صوفی عالم امیرکبیر سید علی ہمدانی‘ المعروف شاہِ ہمدان کی تصنیف: ذخیرۃ الملکوک کے ایک باب کا ترجمہ ہے۔چند موضوعات: امربالمعروف ونہی عن المنکر‘ محتسب‘ احتساب کے سات درجات‘ محتسب علیہ (جن کا احتساب کیا جائے)‘ محتسب فیہ (قابلِ احتساب کام)‘ شرائط وغیرہ۔ قرآن و حدیث اور تاریخ و سیرت کے بہت سے اہم حوالے اور عمدہ استدلال ہے۔ ایک اہم نکتہ: احتساب کی شرط عصمت نہیں‘ یہ تعصبات عامہ ہے۔ لہٰذا فاسق کو چاہیے کہ دوسرے فاسق کو فسق سے منع کرے (ص ۲۲)۔ منکراتِ عامہ کے خاتمے کے لیے عملی تجاویز بھی دی گئی ہیں‘ مثلاً عوام کو دین کے تقاضوں سے روشناس کرانے کے لیے ایک معلم وفقیہہ کا ہر بستی کی سطح پر تقرر‘ ہرفرد اپنے دائرے میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔کتاب کے مطالعے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یورپ کے محدود احتسابی عمل کو شخصی آزادیوں اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام کے ہمہ گیر و ہمہ جہت عملِ احتساب سے کوئی نسبت نہیں۔ اسلاف کے علمی ورثے کو نئی نسل تک منتقلی کی ایک اچھی کاوش ہے۔ (امجد عباسی)
دنیا میں انسان کے پاس سب سے قیمتی متاع‘ زندگی ہے مگر زندگی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ منزل کا تعین ہو اور صحیح راستے پر سفر ہو۔ سلیم خان نیازی کے موضوعات‘ زندگی سے قریب تر ہیں اور اس کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ مختصر لکھنے کے لیے زیادہ محنت اور کاوش درکار ہوتی ہے۔ یہ مضامین مختصر ہیں لیکن اس اختصار کے پیچھے برسوں کی ریاضت اور غوروفکر موجود ہے۔ تحریر میں شگفتگی کا عنصر نمایاں ہے جسے پڑھتے ہوئے لطف و مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ بایں ہمہ جگہ جگہ دانش کے موتی بھی نظر آتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: ۱- دکان یا دفتر میں قرآن کی تلاوت کرنا باعثِ برکت و ثواب ہے لیکن یہ مقامات تلاوت کے لیے نہیں بلکہ قرآن پر عمل کرنے کے لیے ہیں۔ ۲- گاڑی تیل سے چلتی ہے اور انسان تھپکی سے‘ اچھے کام پر شاباش نہ دینا پرلے درجے کی کنجوسی ہے۔ ۳- یورپ برہنہ ٹانگیں دیکھ کر مطمئن ہوتا ہے‘ جب کہ اسکارف دیکھ کر ہراساں ہوجاتا ہے۔ ہم مرد کو اِن ڈور گیم‘ جب کہ عورت کو اوپن ایئر تھیٹر بنانا چاہتے ہیں۔
زنبیلکی تحریروں میں فکر اور معانی کی کئی پرتیں موجود ہیں۔ زندگی کیا ہے؟ اس کا حاصل کیا ہے؟ کامیابی اور ناکامی کے اصل معانی کیا ہیں؟ وطن عزیز میں مستقل اور دیرپا پالیسیاں کیوں وضع نہیں ہوتیں؟ مصنف نے ایسے ہی بہت سے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ زنبیل کے سامنے نہ صرف پاکستانی معاشرہ ہے بلکہ اُمت مسلمہ کے لیے بھی درد و تڑپ موجود ہے۔(محمد ایوب للّٰہ)
مسلم کمرشل بنک کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ۱۹۹۶ء سے عرفان الحق صاحب نے جہلم میں ہرجمعرات کو محفل درس کا آغاز کیا جس کے ذریعے مخلوق خدا کو اپنے خالق سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسلام کی تعلیمات کو زندگی سے متعلق کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ یہی ریکارڈ شدہ گفتگو خوب صورت مجلد کتابوں کی شکل میں اعلیٰ معیار پر پیش کی گئی ہے۔ اللّٰہ الصمد میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے۔ وہ شمع اُجالا جس نے کیا سیرت رسولؐ کے مختلف گوشوں اور آپؐ کی اخلاقی تعلیمات پر مبنی ہے۔ منشور حق خطبہ حجۃ الوداع کے مختلف پہلوئوں کو ۲۲ موضوعات کے تحت مفصل بیان کیا گیا ہے۔ ان کے مطالعے سے تذکیر ہوتی ہے اور دین کی تعلیمات صحیح تناظر میں سامنے آتی ہیں۔ (م - س )
برعظیم کی علمی و ادبی تاریخ میں علامہ شبلی نعمانی ؒکو اہم مقام حاصل ہے۔ علوم القرآن پر اگرچہ انھوں نے باقاعدہ کوئی کتاب تو نہیں لکھی لیکن سیرت النبیؐ سے لے کر علمِ کلام تک‘ ہر بحث میں انھوںنے اپنے مؤقف کو قرآنی استدلال سے مزین کیا۔ علامہ شبلی کی قرآنی خدمات کے جائزے کی جو کمی پائی جاتی تھی‘ ڈاکٹر سعودعالم قاسمی نے نہایت خوب صورتی سے اس کا ازالہ کیا ہے۔ چار ابواب پر مشتمل اس کتاب میں علامہ شبلی کی تدریس قرآن‘ علوم القرآن پر ان کی تحریروں کا تجزیہ‘ اسباب نزول سے متعلق ان کی تحقیقات پر تبصرہ اور قرآنی آیات سے ان کے استدلال پر بحث کی گئی ہے۔
مصنف کے مطابق علامہ شبلی اگرچہ ماثور تفاسیر سے استفادہ کرتے تھے لیکن ان کی نظر میں زیادہ اہمیت ان تفاسیر کو حاصل تھی جن میں قرآن کی تفسیر عقلی اور منطقی طریقے پر کی گئی ہو۔ شاید اسی وجہ سے ان پر اعتزال کا الزام بھی لگایا گیا‘ اگرچہ وہ عقیدے اور مسلک دونوں اعتبار سے حنفی تھے (ص۱۸)۔ ان کے نزدیک قرآن کا اصلی اعجاز فصاحت و بلاغت نہیں بلکہ اس کی ہدایت و حکمت ہے (ص ۲۹)۔ علامہ شبلی نظمِ قرآن کے قائل نہ تھے البتہ قرآن کے کسی واقعے کی تشریح و تفسیر میں آیات کے سیاق و سباق کا لحاظ رکھنے کو وہ ضروری سمجھتے تھے (ص ۱۲۲)۔ انھوں نے آیات و احادیث اور تاریخی شہادتوں سے ثابت کیا کہ آیات و سورہ کی ترتیب و تدوین عہدنبویؐ میں ہوچکی تھی۔ (ص ۳۸)
علوم القرآن پر لکھی گئی مختلف مصنفین کی کتابوں کی افادیت ان کی نظر میں تفسیر سے بھی زیادہ ہے۔ انھوں نے ان تصانیف کو چھے قسموں: فقہی‘ ادبی‘ تاریخی‘ نحوی‘ لغوی اور کلامی میں تقسیم کرتے ہوئے ان میں سب سے زیادہ قرآن کے فقہی احکام اور ادبی فصاحت و بلاغت پر لکھی گئی کتابوں کی تحسین کی‘ اور سب سے زیادہ ناقص ‘قرآنی قصص پر لکھی گئیں چیزوں کو قرار دیا۔
علامہ شبلی نے علم کلام کو یونانی فلسفے سے آزادی کا ذریعہ اور مسلمانوں کا عظیم کارنامہ قرار دیا۔ البتہ ان کے نزدیک متکلمین نے قرآن کے منفرد استدلال اور اسلوب سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کے بجاے علمِ کلام کی عمارت منطق و فلسفے پر اٹھائی۔ (ص ۴۷-۴۸)
مولانا شبلی نے غزوئہ بدر کے اسباب‘ اسیرانِ بدر سے فدیہ لینے پر عتاب‘ ماہِ حرام میں دفاعی جنگ‘ حرمتِ شراب کے زمانۂ نزول‘ ایلاء تخییر‘ مظاہرازدواج سے متعلق اسباب و زمانۂ نزول کی روشنی میں جو بحث کی گئی ہے‘ اسے خوب صورت تحقیقی اسلوب میں پیش کیا ہے۔ نیز سنت اللہ کی تفسیر‘ عالم کے قدیم ہونے‘ چہرے کے پردے‘ حضرت ابراہیم کے خواب کے عینی یا تمثیلی ہونے‘ جہاد و نماز میں مشابہت‘ تعدد ازدواج اور غرانیق العلٰی سے متعلق علامہ شبلی نے جو قرآنی استدلال کیا ہے‘ اسے بھی اختصار کے ساتھ کتاب میں سمو دیا گیا ہے۔
آخری حصے میں دارالمصنفین کے ایک رفیق کلیم صفات اصلاحی کے ایک تحقیقی مقالے اور اشاریۂ شخصیات کے اضافے نے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اپنے تحقیقی انداز‘ زبان و بیان کے خوب صورت اسلوب اور مضامین کی منطقی ترتیب کے باعث یہ مختصر کتاب علامہ شبلی نعمانی کی فکرقرآنی کی تفہیم کا بہترین ذریعہ ہے۔ (ڈاکٹر اخترحسین عزمی)
زیرنظر کتاب میں توہینِ رسالتؐ کے مرتکب بدباطن افراد کے لیے سزاے موت کے قانون کو نصوص قرآن و سنت‘ اجماع اُمت‘ تعامل صحابہ کرامؓ اور اقوال و آرا فقہا و ائمہ مجتہدین کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب جمالِ رسولؐ کا دل کش تذکرہ بھی ہے اور قانونِ توہینِ رسالتؐ کا دائرۃ المعارف بھی۔ اس کا اندازہ کتاب کے ابواب سے بخوبی ہوتا ہے: ۱-نام و ناموس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ ۲-قانونِ توہینِ رسالتؐ، ۳-توہین رسالت:جرم وسزا‘ ۴-قانونِ توہینِ رسالتؐ عالمی اور ملکی تناظر میں‘ ۵-مسلم اسپین میں قانونِ توہینِ رسالتؐ اور حقوقِ انسانی‘ ۷-پاک و ہند کے چند شیدایانِ ناموس رسالتؐ،۸- قانون‘ مقدمات اور نظائر(عدالتی فیصلے)۔
قانونِ توہینِ رسالتؐ پر ائمۂ متقدمین میں سے ابوالفضل قاضی عیاض اندلسی کی کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے اہم مباحث کا خلاصہ پیش کرنے کے علاوہ عصرِجدید کے ممتاز علما و مفکرین و محققین مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ مفتی اعظم سعودی عرب عبدالعزیز عبداللہ بن باز‘ آیت اللہ خمینی‘ علامہ محمد اقبال‘ سیدابوالحسن علی ندوی اور دیگر بہت سے علما کی آرا و فتاویٰ کے علاوہ معروف سیرت نگار ڈاکٹر محمدحمیداللہ کی اس موضوع پر تحقیقات کا خلاصہ بھی پیش کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بھارت کے ایک نام نہاد‘ روشن خیال عالم دین مولانا وحیدالدین خان کی تصنیف شتم رسولؐ کا مسئلہ کا بھرپور تنقیدی محاکمہ بھی کیا گیا ہے اور ان کی فکر کی غلطی کو واضح کیا گیا ہے۔
بقول نعیم صدیقی: پاکستان میں ناموس رسولؐ کے تحفظ اور توہینِ رسالتؐ کے لیے سزاے موت کا قانون پاس کرانے میں [آپ نے ] جو کاوش اور تگ و تاز کی ہے ‘ آپ کا اسم گرامی قلمِ مشیت نے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھ دیا ہے… توقع ہے عدالتِ محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی (ص ۱۷)۔بلاشبہہ کتاب اپنے موضوع پر قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہت اہم اور بہت نازک مسئلے پر قرآن و سنت‘ تاریخِ قانون‘ عدالتی فیصلوں کے آئینے میں موضوع کا حق ادا کیا گیا ہے۔ اہل علم کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ ایمان کی روحوں میں سوزعشقِ مصطفیؐ کی تپش تیزکرنے کا ذریعہ بھی بنے گی۔ موضوعاتی اشاریہ کتاب کی جامعیت و افادیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ (محمد ارشد)
سیرت نگاروں کی طویل فہرست میں ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کا نام ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر العمری ۱۹۴۲ء میں موصل (عراق) میں پیدا ہوئے۔ جامعہ بغداد سے تاریخِ اسلام میں ایم اے (۱۹۶۶ئ) اور جامعہ عین الشمس قاہرہ سے ڈاکٹریٹ (۱۹۷۴ئ) کی اسناد حاصل کرنے کے بعد جامعہ بغداد اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تاریخ اسلام اور سیرت کے استادرہے۔ اس دوران میں انھوں نے اپنے طلبہ کو حدیث اور تاریخ کے واقعات میں تطبیق کا ایک ایسا اسلوب سکھایا جس کے باعث سیرت نگاری کے فن کو مغرب کے اصولِ تاریخ کے تقاضوں کے ہم پلّہ کردیا۔
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مدینۃ النبی میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کے مراحل سے بحث ہے اور اس سلسلے میں یہود کے قبائل کی ریشہ دوانیوں اور ان کے فتنے سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کا ذکر ہے۔ دوسرے حصے میں اس اسلامی معاشرے کو درپیش بیرونی اور خارجی خطرات سے نبٹنے کی تفصیلات ہیں۔ اس ضمن میں تمام اہم جہادی معرکوں کی مستند تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ مدنی معاشرے اور ریاست کے بہت سے اہم سیاسی اور دستوری مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ آخری پانچ ابواب میں عام الوفود‘ صدیق اکبرؓ کی قیادت میں حج کی ادایگی‘ حجۃ الوداع‘ لشکرِاسامہؓ کی تیاری اور آپؐ کی وفات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ ان تمام واقعات کی پیش کش میں مصنف نے سیرت نگاری کا ایک ایسا منہج وضع کیا ہے جو محدثین کے کڑے اصولوں کے قریب تر ہے اور جدید مغربی مؤرخین کے اصولِ تاریخ کے تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہے۔
ہمیں مصنف کی اس راے سے کامل اتفاق ہے کہ مغربی دنیا کے مستشرقین اور عالمِ اسلام میں ان کے ہم نوا مصنفین نے جو تاریخی معیار متعین کیا ہے‘ وہ اسلامی تاریخ کے اس اوّلین دور کو صحیح تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ مغربی مؤرخین کا یہ تحقیقی کام مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے متعارض اور علمی معیار کے لحاظ سے غیرمستند ہے۔ ان کے نزدیک غزوات نبویؐ کا محرک تجارتی اور اقتصادی مفادات ہیں‘ جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ جہادی کوششیں اسلامی معاشرے کی تقویت اور اسلامی ریاست میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے کے لیے تھیں۔ اس کے مابعد زمانوں میں بھی اسلامی سپاہ کے پیش نظر یہی مقاصد رہے ہیں۔
ڈاکٹر عمری کا یہ مطالعہ سیرت نگاری کے ایک سائنٹی فک اسلوب کو پیش کرتا ہے جس کی روشنی میں ہم سیرت کے واقعات کی تکمیل میں احادیث سے کماحقہٗ استفادہ کرسکتے ہیں۔ مصنف تاریخ کے وقائع کو بھی محدثانہ جرح و تعدیل کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے صحیح اور حسن احادیث کے ساتھ ضعیف احادیث سے بھی استفادے کی راہ نکالی ہے۔ اس حصے کے دوسرے ابواب میں مواخات‘ مسجد نبویؐ کے انتظام‘ اصحابِ صفہ اور میثاقِ مدینہ کی مفید معلومات ہیں۔ یہود کے تینوں معروف قبائل کی پے درپے عہدشکنی کے ضمن میں بہت سی مفید معلومات سامنے آئی ہیں۔ یہود اور غیریہود کے ساتھ طے پانے والے معاہدات کی تفصیل بھی لائق داد ہے۔
سیرت اور اصولِ سیرت پر اس اہم کتاب کے اُردو ترجمے میں جس مہارت‘ ادبیت اور علمیت کو برقرار رکھا گیا ہے وہ مترجمہ عذرا نسیم فاروقی مرحومہ کی بلندپایہ علمی استعداد‘ اخذِمطالب کی اعلیٰ استعداد اور ابلاغ کے وسائل سے بھرپور استفادے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ادارے نے کتاب کی فنی تدوین کے ضمن میں جس شعور‘ سلیقے اور اہتمام کا اظہار کیا ہے‘ وہ لائق تحسین ہے۔(عبدالجبار شاکر)
اکتوبر ۲۰۰۵ء میں کشمیر و دیگر علاقوں میں ہولناک زلزلے نے جہاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاکر‘ عبرت کا ساماں پیدا کیا وہاں غوروفکر کے بہت سے پہلو بھی سامنے آئے۔ متاثرین زلزلہ جس بڑے پیمانے پر نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوئے اس کا مطالعہ و رہنمائی بھی ایک اہم موضوع ہے۔ زیرنظر کتاب اس موضوع پر منفرد کاوش ہے۔ مصنفین خود متاثرہ علاقوں میں گئے۔ صورت حال کا جائزہ لیا۔ عملی مسائل کا اندازہ کیا اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ جس بڑے پیمانے پر نفسیاتی بحالی کی ضرورت تھی‘ اس کے ازالے اور نفسیاتی رہنمائی کے لیے لٹریچر بھی تیار کیا اور پھیلایا۔ یہ کتاب اسی کا تسلسل ہے۔
زلزلے سے سب سے زیادہ خواتین‘ بچے اور بزرگ متاثر ہوئے ہیں۔ لوگ شدید خوف‘ اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں‘ زلزلے کو دوبارہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ متاثرہ جگہوں پر واپس جانے سے خائف ہیں‘ شہدا کی چیخ و پکار ابھی تک ان کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ مالی نقصانات اور مستقبل کے مسائل سے پریشانی نے اُن کو بے چینی‘ اضطراب اور شدید ڈپریشن میں مبتلا کردیا۔ نیند نہ آنا‘ بھوک نہ لگنا اور مختلف ذہنی و جسمانی عوارض عام ہیں۔ ’’اگر ان لاکھوں ذہنی دبائو کے شکار لوگوں کی ضروری مدد نہ کی گئی تو ان میں اکثر دیوانگی اور دوسرے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجائیں گے‘‘ (ص ۳۴)۔ ایسی صورت میں عوام کی اکثریت خدا پر ایمان کی وجہ سے اس کی رضا پر راضی اور صبروشکر پر قانع ہے۔ اگر یہ حادثہ کسی غیرمسلم آبادی میں رونما ہوتا تو نفسیاتی امراض بہت بڑے پیمانے پر ہوتے۔
زیرتبصرہ کتاب کے مطالعے سے اتنی نفسیاتی مہارت حاصل ہوجاتی ہے کہ ہنگامی سطح پر نفسیاتی مسائل کو حل کیا جا سکے‘ نیز بنیادی تربیت ایک ہفتے میں دی جاسکتی ہے۔ مصنفین نے توجہ دلائی ہے کہ حکومت آزاد کشمیر‘ سرحدحکومت‘ ماہرین نفسیات کی تنظیم (PPA) اور دیگر سماجی و سیاسی تنظیمیں اس پہلو پر توجہ دیں اور تربیت کا اہتمام کریں۔کتاب سے قدرتی آفات کے متاثرین کے علاوہ کسی بھی حادثے یا صدمے (trauma) اور ڈپریشن وغیرہ کے متاثرین کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔ ابتدائی طبی امداد (first aid) اور عمومی نفسیاتی امراض سے متعلق بنیادی معلومات اور علاج کے اضافے سے کتاب کی جامعیت اور افادیت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ سرورق بامعنی اور جاذب نظر۔(امجد عباسی)
زیرتبصرہ کتاب سعودی عرب کے لاکالج کا ایم اے کی ڈگری کا تحقیقی مقالہ ہے۔ رشوت معاشرے کی بنیادی خرابیوں میں سے ایک ہے لیکن فقہ اسلامی کی کتابوں میں جرم’’رشوت‘‘ پر مستقل عنوان کے تحت بحث نہیں کی گئی۔ مؤلف نے پہلی دفعہ اس موضوع پر فقہ اسلامی میں بکھرے ہوئے مواد کو یک جا کیا ہے اور بڑی خوبی سے پراگندا مسائل کی شیرازہ بندی کی ہے۔
فاضل مؤلف نے مقدمے میں دینی تربیت کے ذریعے جرائم کو روکنے اور اُمت کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ جرم کی تعریف‘ سزا اور شریعتِ اسلامیہ میں سزائوں کی اقسام (تعزیر اور اس کی مقدار) کے تحت تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
باب اول میں رشوت کی تعریف‘ رشوت کی اقسام اور جرمِ رشوت سے متعلقہ امور‘ باب دوم میں رشوت کی حرمت‘ اس جرم کو ثابت کرنے کے طریقے‘ راشی اور مرتشی اور درمیانی شخص کے لیے تعزیریں‘ اور باب سوم میں جرم رشوت کے اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب چہارم میںمؤلف نے حکومتِ سعودیہ عربیہ میں نظامِ انسداد رشوت ستانی کا محاکمہ کیا ہے اور اس نظام کو قرآن و سنت کے مطابق مؤثر بنانے کے لیے تجاویز دی ہیں۔
زیرنظر کتاب میں رشوت بصورتِ ہدیہ و تحفہ پر طویل بحث کی گئی ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سعودی سرزمین پر رشوت کے انداز مختلف ہیں اور ہمارے ہاں کی طرح کی اوپن مارکیٹ نہیں ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ مؤلف نے رشوت کے متعلق قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ تمام مذاہبِ فقہ کے وسیع علمی ذخیرے سے بھی استفادہ کیا ہے اور گروہی عصبیت سے بالاتر ہو کر راجح فیصلے کو دلیل کے ساتھ درج کیا ہے۔ علاوہ ازیں مشکل اور پیچیدہ فقہی مباحث کو آسان اور عام فہم بنانے کی اپنی حد تک کوشش کی ہے۔
کتاب میں عنوانات کے تعین اور ضمنی‘ ذیلی سرخیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ مجموعی لحاظ سے قابلِ قدر کاوش ہے۔ قانون کے طلبہ‘ وکلا‘ علما اور نظامِ حِسبہ کے ذمہ داران اور اہل کاروں کے لیے چراغِ راہ ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
کوئی آرٹسٹ تصویر بناتا ہے تو برش ہاتھ میں لے کر ایک ایک نقش بناتا ہے۔ تاآنکہ جب وہ کام ختم کرتا ہے‘ تو سامنے مکمل تصویر آجاتی ہے۔ قوموں کی ہلاکت پر خلیل الرحمن چشتی کی اس تالیف کی یہی کیفیت ہے۔ ۸اکتوبر کے زلزلے نے بستیوں کی بستیاں ملیامیٹ کرکے ہلاکت اور عذابِ الٰہی کے موضوع کو گرم موضوع بنا دیا۔ فاضل مؤلف اس حوالے سے قرآن کی تمام آیات کو سابقہ اقوام کی ہلاکت‘ ہلاکت کے اصول‘ مقاصد ہلاکت‘ طریقۂ ہلاکت‘ ہم کیا کریں‘ قیادت کیا کرے‘ کے عنوانات کے تحت ایک مربوط انداز سے پیش کیا ہے۔ جب بات ختم ہوتی ہے تو موضوع کا ہر رخ قرآنی آیات کی روشنی میں روشن ہوجاتا ہے۔ قوموں کا عروج و زوال قرآن کا ایک اہم موضوع ہے جو عموماً دروس قرآن میں اوجھل رہ جاتا ہے حالاںکہ اس کا اطلاق کرنے سے عبرت کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔
یہ کتاب ایک طرف قرآن کا حقیقی فہم پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف فاسق و فاجر اور صالح قیادت کو آئینہ دکھاتی ہے۔
یہ بھی کہنے کو دل چاہتا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے مغربی تہذیب کے زوال کی علامات پڑھ پڑھ کر اس کی ہلاکت دیکھنے کے منتظر ہیں لیکن غالباً صدیوں کے فیصلے ایک حین (مدت) حیات میں نہیں ہوتے۔ ویسے بھی ہم جو گنتی کرتے ہیں تو اللہ کے ایک دن میں ہمارے ۵۰ہزار دن آجاتے ہیں۔(مسلم سجاد)
زیرتبصرہ کتاب السیرہ عالمی کے نائب مدیر سید عزیز الرحمن کے اُن سیرت ایوارڈ یافتہ سات مقالات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے وفاقی وزارتِ مذہبی امور حکومت پاکستان کی جانب سے منعقدہ قومی سیرت کانفرنسوں میں بالترتیب ۱۹۹۶ئ‘ ۱۹۹۷ئ‘ ۱۹۹۹ئ‘ ۲۰۰۰ئ‘ ۲۰۰۲ئ‘ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں پیش کیے۔ ان کے عنوانات یہ ہیں: ۱- تعمیرشخصیت و فلاح انسانیت‘ اطاعتِ رسولؐ اور سیرت طیبہ کی روشنی میں‘ ۲-استحکام پاکستان کے لیے بہترین رہنمائی سیرتِ طیبہ سے حاصل ہوسکتی ہے‘ ۳- عدمِ برداشت کا قومی اور بین الاقوامی رجحان اور تعلیماتِ نبویؐ، ۴-بے لاگ احتساب‘ ۵- پاکستان کے لیے مثالی نظامِ تعلیم کی تشکیل اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داریاں‘ ۶-نئے عالمی نظام کی تشکیل اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داریاں‘ ۷-عصرِحاضر میں مذہبی انتہا پسندی کا رجحان اور اس کا خاتمہ۔
’عدم برداشت کا رجحان‘ میں مصنف نے مختلف مذاہب اور اقوام کی تعلیمات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے مخالفین کے سلوک کے متعلق ان مذاہب کی مقدس کتب اور تحریروں سے اقتباسات پیش کیے ہیں‘ مثلاً ہندومت کی تعلیمات کا خلاصہ سوامی دیانند کے الفاظ میں یہ ہے: دھرم کے مخالفوں کو زندہ آگ میں جلا دو‘ دشمنوں کے کھیتوں کو اُجاڑ دو‘ گائے‘ بیل اور لوگوں کو بھوکا مار کر ہلاک کر دو جس طرح بلی چوہے کو تڑپا تڑپا کر مارتی ہے ‘ اسی طرح دشمنوں کو تڑپا تڑپا کر ہلاک کرو۔(ص ۱۸)
ہر موضوع کے تمام ممکنہ پہلوئوں پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ ہرمقالہ اپنی جگہ ایک مختصر کتاب کی مانند ہے۔(محمد الیاس انصاری)
اس مختصر‘ مگر جامع کتاب میں نیاز فتح پوری کی ایک تصنیف من و یزداں کامل کی روشنی میں خدا‘ مذہب‘ عبادات‘ انبیا‘الہامی کتابوں اور تصورِ آخرت کے بارے میں‘ اُن کے افکار و خیالات کا جائزہ زیادہ تر اُنھی کے الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔ اگرچہ نیاز کے یہ افکار و خیالات‘ پون صدی قبل کے ہیں‘ مگر اُن کی کتابوں اور تحریروں کی اشاعت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ اس لیے‘ مصنف کا خیال ہے کہ جس مادّہ پرست اور دہریہ انسان نے زندگی بھر ملحدانہ افکار کی تبلیغ و اشاعت کی ہو اور اسلامی عقائد و تعلیمات کی مخالفت ہی نہیں‘ ان کی تضحیک بھی کی ہو‘ اُس کی تردید کرنا‘ ایک دینی اور علمی فرض ادا کرنے کے مترادف ہے۔
نیاز فتح پوری کے ’کمالاتِ فن‘ کی فہرست طویل ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے‘ ہر نوع کی مذہبی اور اخلاقی اقدار کو ملیامیٹ کرنے اور نوجوانوں کے جنسی جذبات بھڑکانے کے علاوہ شخصی سطح پر بھی بعض نہایت قبیح حرکات کیں‘ مثلاً قمرزمانی بیگم کا روپ دھار کر آگرہ کے ادیب شاہ دل گیر کو عشقیہ خطوط لکھے اور اس طرح انھیں تین سال تک بے وقوف بناتے رہے۔تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے بزرگ دوست ڈاکٹر فرمان فتح پوری جن کا شمار ایک بلندپایہ محقق و نقّاد کے طور پر ہوتا ہے وہ کئی برس سے نگار و نیاز کے سالانہ جشن کے ذریعے نیاز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا علَم اٹھائے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ کتاب نیاز فتح پوری کے اصل چہرے کی فقط ایک جھلک دکھاتی ہے۔ ان کے جملہ ’کارناموں‘ کا تفصیل سے جائزہ لینا باقی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اسلام پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے یا ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ یہ آزادیِ فکروعمل کا مخالف ہے۔ مصنف نے نہایت مدلل انداز میں ایسے تمام اعتراضات کا بھرپور اور دل نشیں جواب دیا ہے۔ زیرنظر کتاب میں عقیدے‘ مذہب‘ عبادت گاہوں کی تعمیرومرمت‘ لباس اور پوشاک‘ غذا اور خوراک‘ تہوار‘ جلسے جلوس‘ تہذیبی تشخص اور تہذیبی انفرادیت‘ تعلیم گاہوں‘ پریس اور میڈیا‘ اظہار راے‘ تبدیلیِ مذہب‘ رہنے سہنے‘ کاروبار اور ملازمت جیسے شعبہ جات میں اسلام کی دی ہوئی آزادیوں کو قرآن و حدیث اور تاریخِ اسلامی کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔
مصنف اسی آزادی کا موازنہ بھارت سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آج دنیا کی ہندستان جیسی مثالی جمہوریت میں بھی یہاں کی مسلمان اقلیت کو غذا اور خوراک کے معاملے میں بھی آزادی اور سہولت میسر نہیں ہے۔ (ص ۶۲-۶۳)
آزادیِ فکروعمل کے حوالے سے پروپیگنڈے کا جواب اس مختصر مگر جامع کتاب میں موجود ہے۔ پاکستان میں بہت سی غیر سرکاری تنظیمات ایسے ہی موضوعات کو اُچھالتی ہیں۔ یہ مختصر کتاب غیرمسلموں سے ربط ضبط رکھنے والوں اور این جی اوز سے مکالمے کے خواہش مند افراد کے لیے ایک خوب صورت تحفہ ہے۔ (م - ا - ا )
حافظ مبشرحسین نے بڑی محنت سے ’ازدواجی زندگی‘ کے تمام مسائل اور پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ ان کی اس تحقیق میں جدت بھی پائی جاتی ہے۔ بالخصوص انھوں نے میاں بیوی کی عائلی زندگی کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے پائے جانے والے بیش تر اشکالات کا علمی اور شرعی دلائل کی روشنی میں حل پیش کیا ہے۔
مصنف نے وسیع تناظر میں تمام مسائل کا احاطہ کیا ہے۔ ولی کی اجازت کا مسئلہ‘ مہر کی مقدار‘ غلط رسومات‘ تقریبات شادی میں غیراسلامی اقدار کا رجحان‘ جہیز کا مسئلہ‘ نکاح حلالہ‘ وٹہ سٹہ‘ تعدد ازدواج اور خاندانی منصوبہ بندی تمام ہی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل کا حل بھی پیش کیا گیا ہے۔ بہت سے دین دار گھرانوں میں اسے مقدس سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ اسلام کا تقاضا نہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ کسی بھی شادی شدہ جوڑے کے لیے مفید ہوگا۔ بلوغ کے مسائل سے دوچار نوجوان بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کتاب کی طباعت معیاری ہے۔ اس میں بہت سی ایسی معلومات ہیں جو عموماً دستیاب نہیں۔ مصنف اس کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (عبدالمالک ہاشمی)
پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر اُردو اور فارسی کے نام ور اور اَن تھک مصنف‘ محقق اور ادیب ہیں۔ ان کی عمر کا زیادہ تر حصہ بلوچستان کے مختلف کالجوں میں تدریسی اور انتظامی مصروفیات میں گزرا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی توجہ تصنیف و تالیف پر مرکوز رہی۔ وہ اب تک تصنیف و تالیف اور تحقیق اور ترجمے کی ۱۰۹ چھوٹی بڑی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ ان کے برادر ِبزرگ پروفیسر محمد انور رومان (پ: ۱۹۲۴ئ) بھی ایک مشّاق مصنف اور مترجم ہیں۔ وہ اب تک اُردو اور انگریزی میں ۵۵کتابیں شائع کرچکے ہیں۔
زیرنظر تینوں کتابیں بلوچستان کی مختلف پہلوئوں: تعلیم‘ علم و ادب‘ شاعری‘ بلوچی زبانوں‘ قبائل‘ بعض نام ور شخصیات اور وہاں کی علمی روایات کے تعارف پر مشتمل ہیں۔ پہلی کتاب میں بلوچستان اور اس کے قبائل کا تعارف‘ اُردو فارسی کی صورتِ حال‘ بلوچستان میں ظفر علی خاں اور لیاقت علی خان جیسے موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ دوسری کتاب چند علمی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں بعض شخصیات (مُلّا محمد حسن براہوی‘ پیرمحمدکاکڑ‘ یوسف عزیز مگسی اور علامہ عبدالعلی اخوندزادہ) پر مضامین شامل ہیں۔ ایک مضمون ’بلوچستان میں ہائیکونگاری‘ ہے۔ تیسری کتاب میں محمد انور رومان نے بلوچستان میں تعلیمی صورت حال سے بحث کی ہے۔ اس میں اعداد و شمار بھی ہیں۔ دیہات میں تعلیم‘کالج‘ اساتذہ‘ طلبہ کے مسائل‘ مکتبی تعلیم‘ یونی ورسٹیوں کا تعارف اور ترقیِ تعلیم کے لیے تجاویز کے ساتھ اعداد و شمار بھی شامل ہیں اور تعلیمی اداروں اور ماہرین تعلیم کی فہرستیں بھی۔ اس طرح یہ بلوچستان میں تعلیم کے موضوع پر ایک جامع مرّقع ہے۔
تینوں کتابیں مل کر بلوچستان کے بارے میں ایک خوش گوار تاثر پیش کرتی ہیں جو اس کی پس ماندگی کے عمومی تاثر سے خاصا مختلف ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں علوم و فنون کی ایک پختہ روایت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ (ر- ہ )
سفرنامہ ایک دل چسپ صنفِ سخن ہے۔ گذشتہ ربع صدی میں لکھے گئے سفرنامے زیادہ تر حج و عمرہ کے ہیں یا پھر ترقی یافتہ ممالک کی معاشرتی تصویریں اور رنگین ساحلوں کے حیاسوز ماحول کی روادادیں۔ زیرنظر سفرنامہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ ایک غریب‘ پس ماندہ اور ترقی پذیر افریقی ملک سوڈان کا سفرنامہ ہے۔ ایک ایسا ملک جس کے حالات اور معاشرت ایک تسلسل اور تیزی سے بدل رہے ہیں اور تبدیلی کا یہ سفر نہایت مثبت سمت میں ہے اور اسلامی قوانین کے عملی نفاذ کے بعد رونما ہونے والی تبدیلی خوش آیند ہے اور نظر بھی آتی ہے۔
سفرنامہ نگار ‘ مدیرہ ماہنامہ بتول کے قلم سے سوڈان پر یہ پہلا بھرپور سفرنامہ ہے۔ بقول ڈاکٹر وحیدقریشی: اس میں سوڈان کی بدلتی ہوئی زندگی کا منظرنامہ پیش کیا گیا ہے… قارئین کے لیے کسی ترقی پذیر ملک کی سرگذشت ایک نئی چیز ہوگی (ص ۱۰)۔ یہ پاکستان کے ان قارئین کے لیے ایک خاصے کی چیز ہے جو پاکستان میں اسلامی نظامِ حیات کی فیوض و برکات کے منتظر ہیں اور یہ آس ایک حسرت بنتی جارہی ہے۔ ثریا اسماء نے شادی بیاہ اور دیگر سماجی محفلوں کے علاوہ‘ وہاں کی سماجی تقاریب میں بھی بنفسِ نفیس شرکت کی‘ اندرونِ ملک سفر کیے اور معاشرے میں گھوم پھر کر دیکھا اور مشاہدات کو بلاکم و کاست مگر تجزیاتی سلیقے سے قلم بند کردیا۔
معاشرے میں مساوات اور برابری ہے۔ گھریلو ملازمتیں اور مالکان‘ چھوٹے ملازمین اور افسران میں کوئی اُونچ نیچ کا نظام نہیں۔ شراب پر پابندی ہے۔ کھاناپینا نہایت سادہ اور ذرائع ابلاغ کا کردار قابلِ رشک ہے۔ ۴۰ سال تک کی عمر کے ہر مرد و زن کے لیے فوجی تربیت لازمی ہے۔
آبادی میں عورتوں کا تناسب زیادہ ہے اور وہ کثیرتعداد میں معاشرے کی تعمیر میں لگی ہیں۔ عورتوں کی باپردہ فوج بھی موجود ہے۔ مصنفہ نے بجاطور پر تنقید کی ہے کہ سوڈانی عورتیں‘ مردوں سے مصافحہ کرنے اور چہرہ کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے وہاں کی خواتین سے بحثیں بھی کیں۔ سوڈان کی معاشیات پر بھارت کے اثرات کو انھوں نے حیرت ناک اور توجہ طلب قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا یہ تبصرہ بجا ہے: یہ معلومات افزا سفرنامہ ہمیں ظاہری لفظوں سے فقط خارج ہی کی سیر نہیں کراتا‘ بلکہ کہیں کہیں دل کے تاروں کو چھیڑتا اور اپنے اندرون میں جھانکنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے (ص ۹)۔ خوب صورت سرورق‘ عمدہ طباعت اور مضبوط جلد‘ دل کشی میں اضافے کا باعث ہے‘ نیز قیمت بھی مناسب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
علامہ طنطاوی مصر کے ایک روشن خیال اور جید عالمِ دین‘ مفسرِقرآن اور ایک ایسے مفکر تھے جو کائنات کی وسعتوں پر قرآن کی روشنی میں غوروفکر اور تدبر کیا کرتے تھے۔
علامہ نے قرآن کی مشہور تفسیر الجواہر لکھی جو ۲۵ اجزا اور ایک ملحق پر مشتمل ہے۔ زیرنظر کتاب اسی ملحق کا اُردو ترجمہ ہے۔ پون صدی قبل لکھی گئی اس تحریر میں اُس وقت دستیاب سائنسی معلومات کو قرآن سے ثابت کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ مغرب کے مادی سیلاب کا راستہ روکنے کے لیے نسلِ نو کو خوابِ غفلت سے جگانا اور سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کے حصول پر زور دینا اس کتاب کا خاصہ ہے۔ علامہ صاحب نے جہاں بھی سائنسی انکشافات اور حقائق بیان کیے ہیں وہاں عام فہم انداز میں تحصیلِ علم اور تحقیق و جستجو کی ترغیب بھی دی ہے۔
اس کتاب میں انسانی جسم کے مختلف اعضا اور نظاموں:دورانِ خون‘ دل کی ساخت‘ شریانوں اور وریدوں کے افعال‘ اور دانتوں کی ساخت پر درست اور تفصیلی بحث موجود ہے۔ اسی طرح حشرات الارض میں سے ہشت پا (آکٹوپس) کی ساخت اور دفاعی نظام پر بھی درست معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں سمندری مخلوق‘ مختلف پودوں اور بیجوں کے متعلق مفید معلومات‘ جس انداز میں پیش کی گئی ہیں اس سے علامہ صاحب کے ذوق‘ وسعت ِمطالعہ اور شوق و جستجو کو داد دینی پڑتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کائنات اور موجودات کے بارے میں بہت سی آیات میں اشارے بیان فرمائے ہیں جو آج کی سائنس کے حوالے سے بہت اہم ہیں لیکن قرآنی آیات کی توضیح و تفسیر سائنسی انکشافات اور صنعتی عجائبات کی روشنی میں اس طرح سے کرنا کہ قرآن سائنس کی ایک کتاب بن کر رہ جائے‘ بے اعتدالی ہے۔ کیونکہ سائنسی انکشافات کا دارومدار مفروضات پر ہوتاہے جو آج کچھ اور کل کچھ اور بھی ہوسکتے ہیں‘ جب کہ قرآن ایک قطعی علم‘ اٹل حقیقت اور لاریب کتاب ہے۔ علامہ صاحب اکثر مقامات پر ایسی ہی بے اعتدالی اور افراط و تفریط کا شکار نظر آتے ہیں۔
حرفِ آغاز میں صحیح کہا گیا ہے کہ آنے والے علما کا کام تھا کہ وہ قرآن کی روشنی میں سائنس کی پوزیشن واضح کرتے اور ان [علامہ طنطاوی] سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو نہ دہراتے بلکہ اصلاح کرتے ہوئے اس کام کوآگے بڑھاتے۔ ترجمے میں بعض عربی الفاظ کو جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے روانی متاثر ہوئی ہے۔ (پروفیسر وقار احمد زبیری)
توحید‘ عقیدہ اسلام کا بنیادی رکن ہے اور شرک عقیدہ توحید کی ضد ہے۔ ہم کو زندگی میں اس مسئلے کے گوناگوں پہلوئوں سے کسی نہ کسی موڑ پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اس کا اظہار سیدھا سیدھا بت پرستی کی سی شکل میں‘ کسی نئے معبود کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی عقیدتوں میں غلو اور مبالغے کی صورت میں شرک راستہ بناتا ہے۔
مولانا عامر عثمانی نے: ’’اس مقصد عظیم کے پیش نظر‘ اپنے پورے ماحول حتیٰ کہ شیوخ اساتذہ تک سے اختلاف و مخالفت میں بھی کوئی تامل و تساہل نہیں برتا‘‘ (ص ۶)۔ بدعت اور طریقت نے عقیدت اور نیکی کی تلاش میں اس نوعیت کی بہت سی بحثوں کو اٹھایا کہ جن کا قرآن و سنت میں کوئی مقام نہ تھا‘ مگر زورِ کلام اور ندرتِ تخیل نے اُمت کی وحدت پر ضرب لگانے کے لیے ایسی موشگافیوں کو خوب غذا فراہم کی۔ یہ کتاب اپنے متن‘ لہجے اور سنجیدہ زبان میں‘ علمی گفتگو کو سلیقے سے پیش کرنے کا ایک نمونہ ہے۔ دلیل کو دلیل سے کاٹنے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو ان کے اصل رنگ اور مزاج و مذاق کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوالات گوناگوں ہیں اور جوابات دلیل و برہان سے بھرپور ہیں۔فاضل مرتب جناب سید علی مطہر نقوی شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے یہ مباحث شائع کیے۔(سلیم منصور خالد)
اس حقیقت سے انکار بہت مشکل ہے کہ مختلف ادوار میں بدطینت‘ دروغ گو لوگوں‘ زندیقوں اور اسلام دشمن عناصر نے دین حنیف میں تحریف اور تشکیک‘ دراندازی اور رخنہ اندازی کے مذموم مقاصد کو پروان چڑھانے کی غرض سے ایسی ایسی روایتیں گھڑیں جس سے دین میں تشکیک کی راہیں کھلیں اور کافی حد تک بے عملی نے رواج پایا۔
اس روش کے سدّباب کے لیے علماے حق میدان میں آئے جنھوں نے کمال محنت اور شب و روز کی عرق ریزی سے وہ احادیث کے ایسے مجموعے منظرعام پر لے آئے جن میں ضعیف اور خودساختہ اور من گھڑت روایات کو چھانٹ کر صحیح روایات سے الگ کرکے رکھ دیا اور صحیح احادیث کو شفاف آئینے کی طرح دنیا کے روبرو پیش کر دیا۔
شیخ احسان بن محمد العتیبی نے جو‘ جناب ناصرالدین البانی صاحب کے شاگرد رشید ہیں ۱۰۰مشہور ضعیف اور خودساختہ احادیث کو ایک ہی جگہ جمع کردیا ہے جنھیں اس معاشرے کے کم علم خطبا اور بے عمل واعظین اپنی تقریروں میں بڑے زوردار انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اس طرح غیرحقیقت‘ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے اور غیرمصدقہ ضعیف اور موضوع روایات عملی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں اور عوام بدعت اور غیربدعت میں امتیاز نہیں کرسکتے۔ اس مشکل کو حل کرنے میں یہ کتاب بڑی معاون اور مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ ہر خاص و عام کے لیے ضعیف روایات کی پہچان‘ معرفت اور بدعات سے تحفظ اوربچائو کا بہت اچھا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ہرمسلمان کو اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ بڑی مفید کتاب ہے۔ مفید اس پہلو سے بھی ہے کہ مترجم نے ابتدا میں ضعیف حدیث کی تعریف‘ ان کی اقسام‘ ان کو گھڑنے کے اسباب‘ ان کو بیان کرنے کے طریقے کے ساتھ ان کتابوں کا بھی ذکر کردیا ہے جن میں ضعیف اور موضوع روایات جمع کی گئی ہیں۔ نیز اصطلاحات احادیث پر بھی خاطرخواہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ (عبدالوکیل علوی)
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے بعد صحابیات طیباتؓ کی سوانح حیات تقدیسِ فکر اور تزکیۂ نفس کے لیے خواتین کے حوالے سے زیادہ مفید اور کارآمد ہے۔ ان ولولہ انگیز واقعات کے مطالعے سے نہ صرف تعلق باللہ اور عشقِ رسول محکم ہوتا ہے بلکہ خواتین کو اپنے اخلاق و کردار کو بہترین ساخت پر ڈھالنے کے لیے ایک سانچہ مہیا ہوجاتا ہے۔ مسلمان خواتین ان نشانات پر اپنا جادۂ حیات طے کرنے کے لیے عزم اور رہنمائی حاصل کرسکتی ہیں۔ صحابہ کرامؓ پر تو ہمیں بہت سی تصانیف ملتی ہیں لیکن صحابیاتِ اسلام کی حیاتِ مقدسہ اور کارہاے نمایاں پر اتنا نہیں لکھا گیا جتنا کہ اس کا حق ہے۔ زیرِتبصرہ کتاب اس صنف میں قابلِ قدر اضافہ ہے جس میں صحابیاتؓ کی پاکیزہ سیرت اور ان کے کارناموں کو خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
مصنف نے ۷۰ صحابیات طیباتؓ کے حالات و واقعات یکجا کر کے ایک ایسا مرقع تیار کیا ہے جس کے مطالعے اور مشاہدے سے ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور عمل کے لیے تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ عہدنبوی کی ان جلیل القدر صحابیات کے سوانحی خاکوں میں عبادات و معاملات کا تذکرہ بھی ملتا ہے‘ حکمت و اخلاق کے موتی بھی اور تعلیم و تربیت کے انداز بھی۔ مصنف نے بالخصوص یہ پہلو بھی مدنظر رکھا ہے کہ ہرصحابیہؓ کے بارے میں رسول اکرمؐ کی خصوصی محبت و شفقت و رافت کے اظہار و واقعات کو حسنِ ترتیب کے ساتھ جمع کردیا جائے۔ اس طرح صحابیہؓ اور حضور اکرمؐ کے مابین محبت و رفاقت کا تعلق واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ ان نفوسِ قدسیہ کے حالاتِ زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شانِ استقامت و عزیمت کیا ہے‘ ایثار و وفا اور عزم و ہمت کسے کہتے ہیں‘ شیوہ تسلیم و رضا کیا ہے‘ قربانی کیسے دی جاتی ہے اور مقام فقروعشق کیا ہے اور خدمتِ دین کیسے کی جاتی ہے!
کتاب کا عربی سے اُردو ترجمہ ایسا رواں ہے کہ اس پر ترجمے کا گمان ہی نہیں ہوتا۔ آسان سلیس اور قابلِ فہم زبان‘ دل نشیں اسلوب علمی نکات‘ تلفظ کی احتیاط اور نادر کتب کے حوالے کتاب کی جامعیت میں اضافہ کرتے ہیں۔(ربیعہ رحمٰن)
آج کی گلوبل ویلج کی دعوے دار دنیا میں ہر پانچواں شخص انتہائی غربت کا شکار ہے۔ دنیابھر میں ڈیڑھ ارب لوگ صاف پانی اور ۲ ارب افراد بجلی سے محروم ہیں۔ روزانہ ۳۰ ہزار بچے غربت کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں چند سو امیر لوگوں کی دولت‘ دنیا کے ڈھائی ارب افراد کی دولت کے مساوی ہے۔ یورپ میں لوگ آئس کریم پر ۱۱ ارب ڈالر اور خوشبوئوں پر ۱۲ ارب ڈالر خرچ کرڈالتے ہیں۔ پاکستان جہاں ۹۰ کے عشرے میں ۲۲ فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے‘ اب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۲ فی صد سے زائد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب عالمِ اسلام کے معروف مفکر علامہ یوسف القرضاوی کی کتاب مشکلۃُ الفقرِ وکَیْفَ عَالَیھَا الاسْلَامُ کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں علامہ موصوف نے غربت کے خاتمے کی تدابیر کے سلسلے میں دین اسلام کی حکمت عملی اور طریق کار کو وضاحت سے پیش کیا ہے۔
کتاب نو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں مختلف مذاہب کا غربت کے بارے میں نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے‘ مثلاً: مسیحی موقف‘ جبریہ کا موقف‘ سرمایہ داروں کا موقف‘ کمیونسٹوں کا نظریہ وغیرہ ۔ دوسرے باب میں ان مذاہب کے بالمقابل اسلام کے نقطۂ نظر کی وضاحت کی گئی ہے اور قناعت و توکل اور خیرات کے غلط تصور کی وضاحت کے ساتھ ساتھ صحیح اسلامی تصور کو واضح کیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خیرات و امداد کے بجاے اسلام غربت کا مستقل علاج تجویز کرنے پر زور دیتا ہے جس کے چند پہلوئوں پر تیسرے باب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ چوتھے باب میں ان تدابیر کو پیش کیا گیا ہے جن پر عمل کر کے کسی معاشرے سے غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ پانچویں باب میں زکوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے جدید مسائل اور عملی پہلو پر مفید بحث کی گئی ہے‘جب کہ چھٹے باب میں بیت المال کے اسلامی تصور اور غربت کے خاتمے کے لیے اس کے کردار اور نظامِ احتساب کو واضح کیا گیا ہے۔ ساتویں باب میں اسلام کے ان اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے جن کے نتیجے میں ایک فرد کو اپنی دولت میں دوسروں کو شریک کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ اسی طرح آٹھویں باب میں وقف کے اسلامی تصور اور تعمیرمعاشرہ میں اس کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کا آخری باب اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کے اسی ماحول کو پیش کرتا ہے جو باہمی اخوت اور مؤدت کی بناپر تشکیل پاتا ہے۔ حکمرانی دراصل خدمتِ خلق سے عبارت ہوتی ہے‘ اور کفالتِ عامہ اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی معاشرے سے غربت و افلاس کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے اور لوگ آسودہ حال زندگی گزارنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
معاشیاتِ اسلام پر یہ کتاب ایک مفید علمی اضافہ ہے‘ اور اہلِ علم ‘معاشیات کے اساتذہ وطلبہ‘ علماے کرام اور حکمرانوں کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔ (میاں محمد اکرم)
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی کش مکش کے دور میں ہماری توجہات کا زیادہ مرکز اشتراکیت رہا۔ اس کا خطرہ سر پر نظر آیا تو کتابچوں کے سلسلے بھی نکلے اور رسالوں نے ضخیم نمبر بھی نکالے۔ عالمی منظرنامے سے اشتراکیت رخصت ہوئی تو سرمایہ داری اپنے حقیقی رنگ وروپ میں سامنے آئی۔ یہ ہماری زندگیوں میں خوب دخیل ہے اور ہم خود اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ غالباً اسی لیے اس کی خطرناکی کا شعور گہرا نہیں۔ ادارہ معارف اسلامی لاہور نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور اس کے ریسرچ اسکالر محترم فیض احمد شہابی نے سرمایہ داری کے پھندے سیریز تیار کی۔ مذکورہ بالا عنوانات کے تحت ان تحقیقی مقالوں میں کیا ہے‘ عنوان بتا دیتا ہے۔ ان موضوعات پر نہایت قیمتی تحقیقی مواد جو بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے‘ شائقین کے لیے موجود ہے‘ اور اہم علمی ضرورت پوری کرتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کنواں کھودنا کافی نہیں‘ پانی پہنچانا بھی ہے۔ ضرورت مندوں کو پیاس کا احساس بھی دلانا ہے۔ یہ کام کون کرے؟ (مسلم سجاد)
اس کتاب کے مصنف حکیم محمود احمد برکاتی‘ بقول معین الدین عقیل: ’اس کتاب کے موضوع پر ایک استناد کا درجہ رکھتے ہیں‘۔ کئی سال پہلے ان کی ایک فاضلانہ تصنیف شاہ ولی اللّٰہ اور ان کا خاندان شائع ہوئی تھی۔ کم و بیش اسی موضوع پر حکیم صاحب نے اپنے نئے پرانے مضامین یکجا کردیے ہیں۔ پرانے مضامین ترمیم وتصحیح اور اضافے کے بعد شامل کیے گئے ہیں۔
ابتدا میں شاہ ولی اللہ کا حیات نامہ (سنینِ حیات)‘شاہ صاحب اور ان کے خاندان کے سلسلے میں چند مآخذ (کی فہرست)‘ شاہ صاحب کی ۵۳ تصانیف و تالیفات اور پھر ان کے تلامذہ و مسترشدین کے نام دیے گئے ہیں۔
’شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان کی تحریرات میں تحریفات‘ میں وہ بتاتے ہیں کہ شاہ صاحب کی وفات کے ۴۰ سال بعد ہی ان کی کتابوں میں ترمیم و تحریف و اضافے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس طرح ان کے بیٹوں کی تصانیف بھی تحریف اور غلط انتساب کا ہدف بنیں۔ اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشاہیر کی تحریروں کو الحاقات و اغلاط سے پاک رکھنا اور ان کے متن کی حفاظت کرنا کس قدر ضروری ہے۔
’تحریک ولی اللّہی: کیا وہ کامیاب رہی؟‘ ایک اور اہم تحقیقی و تجزیاتی مضمون ہے۔انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شاہ صاحب کی تحریک قبولِ عام حاصل نہیں کرسکی کیونکہ ان کے اخلاف و تلامذہ میں سے کوئی بھی ان کا پورا پورا ہم زبان اور ہم نوا نہیں (حتیٰ کہ شاہ عبدالعزیز بھی نہیں) ۔ پھر شاہ صاحب احناف کے اصولِ فقہ کو صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا اندازِ فکر غیرجانب دارانہ اور ’غیرفرقہ وارانہ‘، غیر مقلدانہ اور مجتہدانہ تھا۔ اسی طرح وہ توافق و تطبیق کے قائل تھے۔ برکاتی صاحب کہتے ہیں: سو‘اُن جیسے اعتدال پسند‘ تطبیق کوش اور خود فکرِعالم کی تحریک ہم جیسے‘ عہدزوال کی تمام خصوصیات سے بہرہ ور‘ انتہا پسندوں میں کس طرح رسوخ و رواج پا سکتی تھی۔
حکیم محمود احمد برکاتی کے بقول: ’شاہ صاحب کی تالیفات کی طرف جب ان کے حلقے کے علما نے توجہ نہیں کی تو بدیگراں چہ رسد۔دیوبند جیسے ولی اللّٰہی مدرسے میں شاہ صاحب کی کوئی کتاب داخل نہیں کی گئی تو دوسرے مدارس کا کیا تذکرہ؟‘ (ص ۸۷)۔ ’مدرسہ رحیمیہ‘ اور ’مدرسہ رحیمیہ کا نصاب تعلیم‘ بھی عمدہ تحقیقی مضامین ہیں۔ اسی طرح شاہ صاحب کے ابنا و اخلاف کے حالات بھی نہایت کاوش و تدقیق سے مرتب کیے گئے ہیں۔اپنے موضوع پر عالمانہ تحقیق کا یہ ایک بلندپایہ نمونہ ہے جس سے حضرت شاہ ولی ؒاللہ کی شخصیت‘ ان کی تصانیف اور ان کے اصحاب کے بارے میں بہت سی نئی باتوں کا پتا چلتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تاریخ سے مسلمانوں کی دل چسپی ہمیشہ گہری رہی ہے‘ کیوں کہ ہدایت و گمراہی کے حوالے سے قرآن مجید بار بار اقوامِ ماضی کا ذکر کرتا ہے۔ مسلم مؤرخین میں ابن خلدون یوں ممتاز ہیں کہ انھوں نے ماضی کے احوال اور اقوام کی سرگزشت ہی کو اپنی تاریخ کا موضوع نہیں بنایا‘ بلکہ مختلف قوموں کے طبائع‘ عادات اور خصوصیات سے متعلق بھی دل چسپ معلومات فراہم کی ہیں۔
زیرنظر کتاب محمد عبداللہ عنان کی عربی زبان کی تصنیف کا ترجمہ ہے۔ مصنف نے ابن خلدون کی سوانح بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔ ابن خلدون موجودہ تیونس میں پیدا ہوئے اور شمالی افریقہ کی ریاستوں میں مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے اندلس پہنچے۔ شرقِ اوسط اور مصر کے نہ صرف سفر کیے بلکہ وہاں بھی بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ جوڑ توڑ کی سیاست میں انہماک کے ساتھ وسیع پیمانے پر تصنیف و تالیف میں ان کی مشغولیت حیرت انگیز ہے‘ کیوں کہ اسی وقیع کام کی بنیاد پرانھیں بقاے دوام حاصل ہوا۔
عام مؤرخین کے برعکس انھوں نے سیاسی اور غیرسیاسی اداروں کی تشکیل‘ ان کے ارتقا‘ اقتصاد‘ رسوم و رواج‘ صنعت و حرفت‘ علوم و فنون‘ قبائل اور ان کے آداب و اطوار سے متعلق اپنے مشاہدات پر مبنی وسیع معلومات کا ذخیرہ سات جلدوں میں مہیا کیا۔ لیکن ان کی اصل شہرت اور بقاے دوام اس ’مقدمۂ تاریخ‘ کی بنا پر ہے‘ جس میں وہ تاریخ کی حرکیات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس فلسفۂ تاریخ میں انھوں نے سیاسی قوتوںاور اقوام کے عروج و زوال کی وجوہ‘ ان کے کردار کو تشکیل دینے اور متعین کرنے والے عوامل اور عمرانیات کے بنیادی اصول و قوانین سے بحث کی ہے۔یہ وہ میدان ہے‘ جس میں وہ ہیگل‘ مارکس‘ اسپنگلر اور ٹوائن بی کے پیش رو نظر آتے ہیں۔ البتہ ابن خلدون کے اسی اصل کارنامے کے بارے میں اس کتاب میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ کتابیات میں مصنف عنان نے جرمن اور فرانسیسی مصادر کی تفصیلی فہرست دی ہے‘ مگر انگریزی میں ابن خلدون سے متعلق جو وسیع ذخیرئہ معلومات ہے اس سے آگاہی نہیں ہوتی۔ تاہم‘ اُردو کے قارئین کے لیے ابن خلدون کی سوانح پر یہ ایک مفید معلوماتی کتاب ہے۔ (پروفیسرعبدالقدیرسلیم)
اسلام میں ہفتہ وار (جمعۃالمبارک) اور سالانہ (عیدین) تہوار بھی دراصل عبادات کی ایک اجتماعی شکل اور تذکیر کی ایک بازآید (بار بار آنے والی) صورت ہے۔ عید کا ایک لفظی مطلب بار بار لوٹ کر آنے والا دن بھی ہے۔ چنانچہ خطبۂ جمعہ اور خطبات عیدین بھی حالاتِ حاضرہ اور مقامی ثقافتی پس منظر میں عام مسلمانوں کی توجہ عصری مسائل اور سماجی برائیوں کی طرف دلانے کا ایک مناسب موقع ہوسکتا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ناظم دینیات ڈاکٹر محمدمسعود عالم قاسمی کے ۱۹خطبات عید پر مشتمل یہ کتاب عیدین کے فلسفے کے کئی پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ہر خطبہ خواہ وہ عیدالفطر کا یا عیدالاضحی کا‘ ایک اچھوتے موضوع پر محیط ہے۔
یہ خطبات بہت متنوع‘ برعظیم کی مسلم ثقافت کے لحاظ سے برمحل علمی اضافہ بھی ہیں اور ایک عام قاری کے لیے بہت اثرانگیز بھی۔ ان میں حالاتِ حاضرہ کے متعلق خوب صورت اور بلیغ اشارے اس انداز سے موجود ہیں کہ خطبہ‘ خطبہ ہی رہا ہے اور سیاسی تقریر سے بہت خوب صورتی سے پہلو بھی بچایا گیا ہے۔ مسلمانوں کی عام سماجی زندگی‘ اُن کی اقدار‘ تشخص‘ اسلام کا تصورِ اخوت و اجتماعیت‘ خوشی اور غم کا تصور اور عیدین کا پیغام انقلاب ان سب کے متعلق علمی حوالوں سے بات کی گئی ہے۔ غالب رنگ خطیبانہ ہے لیکن عیدین کے روحانی‘ سماجی اور اجتماعی پہلوئوں پر عام ڈگر سے ہٹ کر نئے اور مصدقہ لوازمے کی شمولیت نے اسے عیدین پر ایک اچھی حوالے کی کتاب بھی بنادیا ہے۔ اس کتاب کو خطیب حضرات کے نصابِ تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ (احمد جمیل تُرک)
آج کا مغرب محض ایک جغرافیائی وجود کا نام نہیں ہے‘ بلکہ اس کے دامن میں مشرق کے ہنود اور مسلم دنیا کی صفوں میں موجود مغرب کے ذہنی غلاموں کی بڑی وافر کھیپ بھی شامل ہے۔ سیاسی‘ مادی‘ ابلاغی اور افرادی قوت پر مشتمل ایک فوج بدمست ہاتھی کی طرح عدل‘ راستی‘ انسانیت اور انصاف کے پیمانوں کو توڑتی پھوڑتی نظر آتی ہے۔ مجلہ مغرب اور اسلام میں اسی یلغار کے مختلف پہلو (formations) پیش کیے جاتے ہیں۔ اس اشاعت خاص کا موضوع: ’انتہا پسندی‘ دہشت گردی اور جہاد‘ ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد نے اپنے ادارتی مضمون ’اندیشۂ جہاد‘ میں جہاد کے حوالے سے مغرب کے خدشات اور بہت سارے بنیادی سوالات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ مسئلے کی نوعیت واضح ہوجاتی ہے۔ اس مضمون کے اختتام پر وہ لکھتے ہیں: ’قرآن کریم کا جہاد کے بارے میں غیرمعذرت پسندانہ‘ شفاف‘عقلی اور مصلحانہ تصور ہی انسانیت کو فلاح‘ امن‘ تحفظ‘ نجات‘ عدل و انصاف اور حقوق انسانی کے احترام سے روشناس کرا سکتا ہے‘۔(ص ۱۳)
انتہاپسند اسلام کا شجرۂ نسب‘ ازکوینٹان وکٹروز
آخری مضمون: ’مغرب اور اسلام: تہذیبوں کا تصادم‘ ڈاکٹر عبدالقدیر سلیم کے ایک تجزیے پر مشتمل ہے‘ جس میں انھوں نے ڈاکٹر مراد ہوف مین کے خیالات پر نقد کیا ہے۔ مجلے کی مجلس ادارت کو مبارک باد پیش کی جانی چاہیے کہ اس نے مغرب کی سوچ کو کسی کم و کاست کے بغیر‘ اُردو خواں طبقے کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس طرح کا مجلہ ہر مجلس تحقیق اور ہر تحقیق کار کی ضرورت ہے۔ (سلیم منصور خالد)
زیرتبصرہ کتاب فاضل مصنف کے ان نو لیکچرز کے ابتدائی دو لیکچرز پر مشتمل ہے جو انھوں نے الفوز اکیڈمی کے زیراہتمام معرفت علمِ حدیث کے سلسلے میں دیے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد تعلیم یافتہ افراد کو انتہائی سائنٹی فک طریقے سے نہایت سہل اور آسان انداز میں دین و شریعت کے اہم مآخذ سے متعارف کرانا ہے۔ اس مقصد کے حصول میں چشتی صاحب کامیاب نظر آتے ہیں۔
اس کتاب میں انفرادی اور اجتماعی سنتیں‘ سنت کاقانونی اور آئینی مقام‘ مختصر تاریخ روایت حدیث‘ قرآن وسنت کا باہمی تعلق‘ علم حدیث کی بنیادی اصطلاحات اور آخر میں منکرین حدیث کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ قرآن اور سنت (حدیث) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انھیں ایک دوسرے سے جدا اور الگ نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن وحی جلی ہے اور حدیث وحی خفی۔ قرآن مجید کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے سنت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس ضرورت کو یہ کتاب احسن طریقے سے پورا کرتی ہے۔ توقع ہے کہ یہ کتاب جدید تعلیم یافتہ طبقے میں صحیح اور مستند احادیث پر اعتماد بحال کرنے‘ موضوع اور خودساختہ احادیث سے بچنے میں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ارشادات پر بلاتردد ایمان لانے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ اعراب اور الفاظ کی غلطیوں پر مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود کتاب علمِ حدیث کا خزینہ ہے۔(عبدالوکیل علوی)
مصنف نے اس کتاب میں اسلام کے سیاسی نظام کا تعارفی اور تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ۱۹۷۵ء کے بعد یہ ترمیم شدہ ایڈیشن ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا ہے۔ کل ۱۰ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں اہم ترین موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ آٹھویں باب میں کمیونزم‘ سوشلزم‘ سرمایہ داری‘ سامراجیت‘ فسطائیت‘ نازیت کے اثرات‘ نقائص اور حقائق کو مختصراً پیش کر کے قارئین کو بہترین معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ساتویں باب میں دورحاضر کے سب سے زیادہ زیربحث موضوع جہاد کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی اور جہاد دو مختلف اور متضاد چیزیں ہیں اور کہا ہے کہ مستشرقین کا یہ تصور کہ ’’کلمہ پڑھو ورنہ قتل کردیے جائو گے‘‘ بہت ہی گمراہ کن اور اسلامی تعلیم کے منافی تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف سامنے نہیں آئی۔
اسلام اور مغرب کے سیاسی نظام پر بحث تشنہ ہے‘ جب کہ یہی نکتہ آج سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ امید ہے کہ مصنف اس کمی کو اگلے ایڈیشن میں پورا کردیں گے۔ آخری باب میں مسلمانوں کے ماضی‘ حال اور مستقبل کا خوب صورت‘ مختصر اور جامع خلاصہ موجود ہے جس میں مسلمانوں کو مایوسی کے بجاے روشن مستقبل کی امید دلائی گئی ہے۔ اگرچہ پروف خوانی توجہ طلب ہے‘ تاہم پیش کش عمدہ ہے۔ حوالہ جات کا مناسب اہتمام کتاب کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے جس کا خیال رکھا گیا ہے۔ (محمد الیاس انصاری)
اسلام نے جس قدر تعلیم و تعلم پر زور دیا ہے اس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں ملتی ہے اور نہ کسی دوسری تہذیب میں۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں
استاد کی حیثیت کورس اور نصابات سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے ساتھ نبی کریمؐ کی بعثت اور آپؐ کا اس پیغامِ ربانی کو پہنچانے کا انداز استاد کی کامل اور اکمل ترین صورت ہے۔ زیرنظر کتاب میں مثالی استاد کی خوبیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ استاد کی شخصیت‘ اس کے علم‘ تجربہ‘ اخلاق اور انداز نشست و برخاست‘ غرض ہر چیز میں طلبہ کے لیے عملی نمونہ ہونا چاہیے۔ جس سادہ انداز میں اس کتاب میں قرآن و حدیث اور اکابرین اُمت کی زندگی سے مثالیں دی گئی ہیں وہ نہ صرف قابلِ قدر ہیں بلکہ زندگیوں کے دھارے کو موڑنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
مجموعی طور پر یہ کتاب معاشرے کو سنوارنے اور اس میں تعمیری سوچ کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف طلبہ و اساتذہ کے لیے مفید ہے بلکہ عام آدمی بھی اس سے علم و حکمت کے بیش قیمت جواہر ریزے اکٹھے کر سکتا ہے اور انھیں اپنی زندگی میں اپناکر مثالی انسان بن سکتا ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
جب دنیا مغرب کی اسیر ہوئی تو ہر فن میں مغرب کی سند تسلیم کی جانے لگی۔ اسلام کے بارے میں بھی مستشرقین کی رائے کو عالمی سطح پر اہمیت دی گئی۔ جس کے باعث عیسائی دنیا بدستور تعصب میں مبتلا رہی۔ غیر جانب دار دنیا نے بھی اسلام کو مغرب کی عینک سے دیکھا‘ اسی لیے وہ نہ صرف اسلام کے صحیح خدوخال سے ناآشنا رہی بلکہ بڑی حد تک ان کی غیر جانب داری مغرب کی ہم نوائی میں تبدیل ہونے لگی۔ اسلامی معاشرے میں بھی ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا جس نے اسلام کو مستشرقین کی عینک سے دیکھنا اور پرکھنا شروع کر دیا۔ جس کے زیراثر مغربی تعلیم یافتہ طبقہ اسلام سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔ اس تحقیقی مقالے میں مستشرقین کے اسی طرزعمل کو موضوع بنایا گیا ہے تاکہ شکوک میں مبتلا اہلِ مغرب‘ مرعوبیت کے مارے تعلیم یافتہ مسلمان اور بیچارگی کے شکار مسلمان علما پر مستشرقین کی سوچ‘ ان کے مقصد اور طریق کار کو واضح کیا جا سکے‘ اور یہ بات کھل کر سامنے آئے کہ مستشرقین کی تحریروں میں علم کی پیاس‘ حق کی تلاش اور پیشہ ورانہ دیانت داری کس حد تک عنقا ہے اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کی اصلیت کیا ہے۔
اعلیٰ پائے کی اس تحقیق کی حامل یہ کتاب بنیادی طور پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی نے نومبر ۱۹۸۰ء میں تحریر کیا تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینیرتھے۔کتاب‘ کتابیات اور اشاریے سے مزین ہے۔
مصنف نے عیسائیت کی اپنی ’شکل و صورت‘ کو بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ایسا مذہب جسے دوسرے مذاہب بالخصوص اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرنے اور الزام تراشی کے ساتھ بددیانتی کرنے میں عار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے مغرب کی تاریخ‘ تعصب اور بددیانتی سے بھری پڑی ہے‘ مثلاً دوراوّل میں مغربی علما نے عربی سے تراجم کرکے مسلم تصانیف کو اپنے ناموں سے منسوب کیا۔ بددیانتی‘ جھوٹ اور فریب کی ایک اور مثال یہ ہے کہ مغربی چرچ میں یہ امر تسلیم کیا جاتا تھا کہ مسلمان بت پرست تھے اور اسلام بت پرستی کا مذہب تھا۔ عوامی سطح پر مسلمان بڑے جادوگر سمجھے جاتے تھے۔ اسلام مذہب نہیں‘ اسلام جنگی ٹولے کا مذہب ہے۔ اسلام انفرادی مذہب ہے‘ اسلام عرب جاہلیہ کے ’مروۃ‘ کا بدلہ ہوا نام ہے یا اسلام لُوٹ ہے۔ مصنف نے ان بے اصل اور بے بنیاد اعتراضات کا بھرپور جواب اس کتاب میں فراہم کیا ہے۔
دنیا کی کسی اور عظیم شخصیت کو اس قدر متہم نہیں کیا گیا جتنا مغرب نے سرکارِ دوعالمؐ کو کیا۔ اس صدی میں بھی ایسی تحریروں کی کمی نہیں جن میں اخلاقی الزامات دہرائے گئے ہیں۔ مغرب نے بہروپ یا جعل (imposture) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ انیسویں صدی تک یہ الزام تواتر کے ساتھ ملتا ہے۔ اب اسی پرانے نظریئے کو نئے الفاظ عطا کر کے کہا کہ یہ وحی کوئی بیرونی القا نہیں تھی‘ بلکہ لاشعور کی پیداوار تھی جسے غلط فہمی کی بنا پر ملکوتی پیغام تصور کیا گیا۔ (ص ۳۲۰)
کردار نبویؐ پر ایک اور الزام خوں ریزی کا ہے۔ اس لفظ کو ایسے عامیانہ انداز میں استعمال کیا جاتا ہے جو خونِ ناحق اور خونِ برحق کی تمیز مٹا ڈالتا ہے۔ اس الزام کے ضمن میں معاہدہ شکنی‘ دھوکادہی اور سفاکی جیسی گھنائونی تہمتیں بھی لگائی جاتی ہیں۔ (ص ۳۲۳)
مصنف نے نہایت عرق ریزی اور شدید محنت سے اس کتاب میں مغربی مصنفین کی کتابوں کے جو اقتباسات دیے ہیں اگرچہ انھیں پڑھتے ہوئے کوفت ہوتی ہے مگر موضوع کا تقاضا یہی تھا۔ لہٰذا مصنف نے نہ صرف انھیں جمع کیا بلکہ ان کا مدلل جواب بھی دیا ہے۔ مغرب کی موجودہ سوچ کو جاننے کے لیے اور اسلام کے خلاف جاری جنگ کا صحیح ادراک کرنے میں یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم مصنف کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اس اعلیٰ پایہ کوشش کو قبول فرمائے۔ آمین! (الیاس انصاری)
زیرنظر کتاب ۲۱ دروس حدیث کا ایک نادر مجموعہ ہے۔ یہ ایمانیات‘ عبادات‘ معاملات‘ اخلاقیات اور اُمت مسلمہ کے مسائل پر دیے گئے اُن خطبات کی ایک سیریز ہے‘ جو محترم خرم مراد نے مارچ ۱۹۹۱ء سے دسمبر ۱۹۹۵ء تک کے عرصے میں گارڈن ٹائون‘ لاہور کی مسجدبلال میں نمازِ جمعہ کے مواقع پر پیش کیے تھے۔ موضوعات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
اللہ کی قدرت‘ شرک سے پاک اللہ کی بندگی‘ قرآن کے عجائب‘ نیت اور عمل‘ نیکی اور بدی‘ دنیا کی زندگی کی حقیقت‘ حقیقتِ زہد‘ نماز کیسے بہتر کریں؟ حج اور قربانی‘ حبِ دنیا‘ حسد اور بغض‘دل کی زندگی‘ رزقِ حلال‘ شکر اور صبر‘ امانت داری‘وعدے کی پابندی‘ عدل و انصاف کا قیام‘ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا‘ غلطیوں کو معاف کرنا‘ توبہ کا دروازہ کھلا ہے‘ دین آسان ہے۔
ہر درس میں اسلام کے نظامِ زندگی کا ایک جامع اور مختصر نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ ان تمام دروس میں ایک معنوی ربط اور قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب شخصی تربیت و تزکیہ‘ اجتماعی اصلاح وانقلاب‘ اُخروی فلاح اور جنت کے حصول کے لیے فکرمند اور مضبوط کرنے والے ہیں۔
درس قرآن ہو یا درسِ حدیث‘ تقریر ہو یا تحریر‘ خرم مراد مرحوم کے اسلوب بیان میں ایک منفرد شیرینی اور ایمان و یقین کی بے پناہ دل آویزی پائی جاتی ہے۔ مصنف کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ قرآن و سنت کی روح لوگوں کی زندگی میں رچ بس جائے اور اُن کا منشا و مقصود اللہ کی رضا بن جائے۔ یہی تڑپ‘ اضطراب اور بے تابی زیرنظر دروس میں کارفرما نظر آتی ہے۔ کتاب کے مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ حدیث کی تشریح اس انداز میں ہے کہ دلوں کے تار چھیڑتی ہے (ص۸)۔ اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں۔ بقول اقبال ع دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
ان ۲۱ دروس کو‘ دعوت و تبلیغ میں آسانی کے لیے‘ الگ الگ کتابچوں کی شکل میں بھی پیش کیا گیاہے۔ کتاب کے معنوی حُسن کے عین مطابق‘ درست املا‘ عمدہ کاغذ‘ خوب صورت چھپائی اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ مناسب قیمت منشورات ہی کا طرئہ امتیاز ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا ؎
ہزار خوف ہو لیکن زباںہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
مصنف کی تحریروں سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک بیوروکریٹ ہیں‘ لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قلندر بھی ہیں‘ تاہم زیرنظر کتاب کے ۹۹مختصر ’مضامین‘ پر مشتمل ’حرفِ راز‘ سے اُن کی ’قلندرانہ فکر‘ کا ضرور پتا چلتا ہے۔
موضوعات کا تنوع ۹۹ کے عدد کو کہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ بیرونی امداد (خیرات) کے نتائج‘ ججوں کے (بدنام) مجبوری کے فیصلے‘ عالمِ طبیعیات‘ سائنس دان فرینک ٹیلر کی Omega Point کی تھیوری جو نہ صرف قیامت‘ بلکہ برزخ اور جنت و جہنم کا اثبات کرتی ہے‘ قوت و اقتدار کے نشے میں مدہوش چارلس اوّل (برطانیہ) اور دوسروں کا انجام‘ (’سرِّدلبراں‘کو دوسروں کی حکایت میں بیان کرنااچھا ہوتا ہے!)‘ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو پرواز کرتے ہوئے دو تابوت(کیوں کہ پائلٹ‘ جہازوں کا عملہ اور مسافر تو پہلے ہی مرچکے تھے) کس کے حکم پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون سے ٹکرائے‘ یورپ میں اسلحے کا اور مشرقی ایشیا میں بچوں اور عورتوں کا کاروبار‘ نیا امریکی ثقافتی اور سیاسی استعمار‘ دو قومی نظریے سے یک قومی نظریے کی طرف پسپائی‘ کنٹینر میں موت (افغانستان میں حقوقِ انسانی کے علم برداروں کے ہاتھوں مجاہدین پر کیا گزری)‘ عورت اور انڈسٹری‘ (بھیڑیے جنس اور فحاشی کے کاروبار میں عورتوں اور بچوں پر کس طرح پَل رہے ہیں)‘ امریکا چلو کے نتائج‘ پاکستان کے مقتدر حاکمین کی حفاظت (سیکورٹی) کے لیے ’بلیوبک‘، پاک امریکا تعلقات، ’امریکی سنڈی‘ کس طرح پاکستان کو برباد کر رہی ہے! ماڈریٹ اسلام‘ برطانوی صحافی خاتون رونی ریڈلی: طالبان کی قید میں اسلام کی طرف کیوں راغب ہوئی؟دواساز کمپنیوں کے روپ میں ’موت کے سوداگر‘ کس طرح غریبوں کا خون چوس رہے ہیں___ موضوعات کی وسعت حیران کن ہے ___ وہ سب کچھ جو آج ہمیں جاننا چاہیے‘ ایک مخصوص‘ اخلاقی اور اسلامی زاویے کے ساتھ موجود ہے۔
ایک باخبر‘ مخلص‘ محب وطن‘ دردآشنا‘ تیکھی تحریر کے قلم سے مسلّح شخص جو اعتراف کرتا ہے کہ مالک نے ’مجھے پس ماندگی‘ محرومی اور بے یقینی سے نکال کر ان راہداریوں میں لاکھڑا کیا‘ جہاں طاقت‘ اقتدار اور مذاقِ عاجزی گلے مل کر مسکراتے ہیں… مجھے مشورہ دینے والے بہت ہیں‘ میرے خیرخواہ… میرا دامن روز تھام لیتے ہیں… ان کی نظر میں زندگی کی سانسیں‘ عزت‘ احترام‘ سہولتیں‘ سب اس نوکری اور سرکار کی مرہونِ منت ہیں‘ لیکن جب مَیں رات کی تنہائی میں اپنے رب کے سامنے سربسجود ہوتا ہوں‘ تو اس واحد اور رحیم اور کریم کی چوکھٹ کے آگے یہ سارے مشورے‘ یہ ساری خیرخواہیاں ہیچ لگنے لگتی ہیں…‘‘ اوریا مقبول جان کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے!‘‘ بیوروکریسی اور مقتدرہ کی کانِ نمک جس میں اچھے اچھے انقلابی تحلیل ہوجاتے ہیں‘ خدا کرے اوریا بچ جائیں۔
علم و آگاہی کی فراوانی کے ساتھ خلوص‘ کرب و درد میں ڈوبی ہوئی یہ چیخیں کاش‘ اُن لوگوں تک پہنچیں اور انھیں ہوش میں لے آئیں‘ جو اختیار اور اقتدار کی راہ داریوں پر قابض ہیں۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
عورت آج ہمارے ملک ہی کا نہیں پوری دنیا کا اہم موضوع ہے۔ عورت کے حوالے سے آزادی اور حقوق کی جنگ کے مغربی تصور کو رائج کرنے کے لیے مختلف این جی اوز اور کچھ خفیہ طاقتیں ایک تسلسل کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اس کتاب میں یورپی ممالک کی مسلمان خواتین کے خلاف ایک باقاعدہ اور منظم سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے بہت سے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان خواتین کو مغربی تہذیب کے اثرات سے بچانے کے حوالے سے یہ ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔ ابتدا میں خواتین کے حقوق کے نام پر ہونے والی کانفرنسوں کے اصل مقاصد کو بے نقاب کرنے کے علاوہ مغربی تہذیب و معاشرت کے تلخ حقائق اعداد و شمار کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی اس سارے ایجنڈے کے خلاف مسلم ممالک کی خواتین کے احتجاج اور مظاہروں کی تفصیلات تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتی ہیں۔ مصنف نے اس ساری صورت حال کا ذمہ دار کسی حد تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ٹھیرایا ہے جو مغرب سے متاثر ہے اور دوسرا نقطۂ نظر پیش کرنے میں جانب داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مغرب کا نظریہ مساواتِ مرد و زن‘ اس کے ہولناک نتائج اور مغربی معاشرے میں عورت کی حالت زار کا نہایت حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا گیا ہے۔ اسلام اور مغربی معاشرے میں رشتوں کے حوالے سے عورت کے مقام کا موازنے کے ساتھ ساتھ اسلام میں عورت کا اعلیٰ و ارفع مقام اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کے تفویض کردہ حقوق نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ نومسلم خاتون کا انٹرویو‘ اسلام کی چند نمایاں خواتین کا ایمان افروز تذکرہ‘ جلیل القدر صحابیات کے اخلاقی شہ پارے اور دیگر متفرق تحریریں کتاب کے تنوع میں اضافے کا باعث ہیں۔
کتاب کا لب لباب ’’گزارشات‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ نکات دعوتِ عمل کے ساتھ ذاتی محاسبے کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتے ہیں۔ اندازِ بیان جذباتی اور دردمندانہ ہے جو قاری کے قلب و ذہن کو جھنجھوڑتا ہے۔ کہیں کہیں غیرضروری تفصیل یا اعداد و شمار کی زیادتی تحریر کو بوجھل بناتی ہے۔خواتین کی ذاتی لائبریری کے لیے ایک عمدہ اضافہ ہے‘ قیمت بھی مناسب ہے۔ (ربیعہ رحمٰن)
پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم کے علم کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انسائیکلوپیڈیا تھے۔ علم کی کوئی شاخ نہ تھی جو ان کے لیے آسان نہ ہو۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں لیکن اب کراچی میں پروفیسر سیدمحمدسلیم اکیڈمی قائم کر دی گئی ہے جو ان کے تحقیقی کام کی اشاعت کر رہی ہے۔ سیرت پر اس کتاب میں یہ خوش خبری موجود ہے کہ ان کے تعلیمی مقالات جلد پیش کیے جائیں گے۔
اذکار سیرت‘ سیرت نبویؐ کے متنوع پہلوئوں پر ان کے ۱۴ مقالات کا مجموعہ ہے۔ ہر مقالہ اپنی جگہ خاصے کی چیز ہے۔ اقوامِ عالم کی تشکیل میں عرب کا حصہ‘ صلح حدیبیہ‘ سیاست نبوی کا شاہکار‘ داعی اعظم اور کثرتِ ازواج‘ سیرت طیبہ اور فنون لطیفہ سے موضوعات کے تنوع کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ آخری باب میں غازی علم الدین شہیدؒ جیسے چھے افراد کا تذکرہ ہے جنھوں نے ناموس رسولؐ پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ کتاب کے مرتب نے یہ اہتمام کیا ہے کہ آیات و احادیث کے مکمل حوالہ جات دیے ہیں‘ اگر مصنف نے آیت کا ترجمہ دیا تھا تو مرتب نے متن کا اضافہ کر دیا ہے۔
سیرت پاکؐ کے مختلف پہلوئوں کے مطالعے کے لیے ایک مفید کتاب۔ (مسلم سجاد)
اُردو فارسی شاعری میں نعت گوئی ایک مستقل اور صدیوں پرانی روایت ہے۔جناب نظرلکھنوی کا یہ مجموعۂ نعت کئی حوالوں سے انفرادیت کا حامل ہے۔ پہلی خصوصیت ان کی کہی ہوئی نعتوں کی تعداد ہے کہ میرے مطالعے کی حد تک کسی اور کے ہاں نہیں ملتی۔ عموماً لوگوں نے تبرک کے طور پر ایک آدھ نظم اپنے مجموعہ ہاے کلام میں شامل کر دی ہے۔ یا پھر نیر کاکوردی کی طرح نعتیہ قصیدوں سے کام لیا ہے لیکن جناب نظر نے غزل نما‘ چھوٹی بڑی نعتوں سے کام چلایا ہے۔ اس کے باوجود اُن کا یہ مجموعہ ایسی سیکڑوں نعتوں پر مشتمل ہے‘ جس سے شاعر کا نعت گوئی سے شغف اور غیرمعمولی لگائو کا اندازہ ہوتا ہے۔ دوسری انفرادیت شاعر کا نعت گوئی میں مبالغہ آرائی سے گریز ہے۔ جناب نظر اس دشوار راستے پر بہت سنبھل سنبھل کر چلتے ہیں‘ اور جتنا کچھ قرآن و حدیث سے خدا کے آخری نبیؐ کے اوصاف‘ اختیارات اور اخلاق کا اندازہ ہوتا ہے اس سے آگے یہ نہیں بڑھتے۔ تیسری انفرادیت‘ جس سے نعت گو صاحبان عموماً تہی دامن ہوتے ہیں‘ یہ ہے کہ آنحضوؐر کی حیاتِ طیبہ کے چھوٹے موٹے کاموں سے لے کر بڑے سے بڑے کارناموں تک کا ان نظموں میں ذکر آتا ہے‘ اور اس کے باوجود شعریت کی خوب صورتی اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔چند اشعار بطور نمونہ:
بندھا تھا تارِ نبوت جو‘ اُس پہ ختم ہوا
یہ سلسلہ نہ پھر‘ آگے‘ شہِ شہاں سے چلا
نقوشِ پا سے اُجاگر ہے رہ گزارِ حیات
دیے جلا کے چلا‘ وہ جہاں جہاں سے چلا
کوئی بشر بھی پا نہ سکے گا رہِ حیات
حلقہ بگوشِ سرورؐ عالم ہوئے بغیر
وہ ہے ناراضگیِ رب سے ہمیشہ ترساں
وہ ہمہ وقت ہے خوشنودیِ رب کا خواہاں
لمعاتِ نظر میں ایک خوب صورت جدت یہ بھی ہے کہ ’حصۂ مناقب‘ کے نام سے ایک مستقل عنوان قائم کیا گیا ہے‘ یعنی خلفاے راشدینؓ کی شان میں بھی ایک پوری نظم علیحدہ علیحدہ کہی گئی ہے‘ اور اس طرح ضمناً یہ بتایا گیا ہے کہ ان غیرمعمولی ہستیوں کو بھی درحقیقت رسولِ رحمتؐ ہی کی بدولت وہ اعزاز اور بلند مرتبت عطا ہوئی ہے جو انھیں عالم میں نمایاں کرنے کا موجب ہوئی۔ اور یہ بھی گویا نعت ہی کا حصہ ہے۔ اس کے بعد سانحۂ کربلا کا ذکر بھی‘ گویا‘ ناگزیر تھا۔ اس طرح اس نعتیہ کلام کا خوب صورت خاتمہ کر کے نظم گوئی کے محاسن میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
آخر میں اتنا کہہ دینا نامناسب نہ ہوگا کہ پُرگوئی اور کثرتِ کلام کے باعث جابجا اسقام بھی نظر سے گزرے‘ تاہم وہ اتنے معمولی ہیں کہ ان کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ (آسی ضیائی)
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آزادی سے اب تک حکومتی تعلیمی پالیسیوں میں نظریۂ حیات کے اساسی کردار کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہی ہمارے تعلیمی بحران کی بڑی اور بنیادی وجہ ہے۔ اس کتاب میں اسے اجاگر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین ایک عرصے سے تعلیم کے موضوع پر قلمی جہاد میں مصروف ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’پاکستان میں تعلیم کی ثنویت اور نظریاتی کش مکش کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے اس کے پس منظر اور دیرینہ بیماری کا علاج تجویز کرتی ہے‘‘ (ص ۱۵)
کتاب چھوٹے بڑے ۳۲ سے زائد مضامین و مقالات پر مشتمل ہے جن میں ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل‘ تعلیمی ثنویت کے خاتمے کا طریق کار‘ ایک ماڈل اسلامی اسکول کا خاکہ‘ ایک ماڈل اسلامی یونی ورسٹی کا خاکہ‘ ایک ماڈل اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کا خاکہ اور پاکستان میں تعلیم کی اسلامی تشکیل نو جیسے اہم موضوعات بھی شامل ہیں۔ کچھ مختصر مضامین تعلیم کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایک مضمون ’’دریا بہ حباب اندر‘‘ میں جملہ مضامین کی تلخیص فراہم کی گئی ہے تاکہ اختصار پسند اور مصروف ماہرین کو ایک نظر میں مندرجات کا اندازہ ہوسکے۔ یہ کتاب پالیسی ساز اداروں‘ ماہرین تعلیم اور طلبہ کے لیے مفید ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
انسانی زندگی کا قافلہ‘ روشن دماغوں اور کردار کی دولت سے مالا مال انسانوں ہی کے دم سے انسانیت کی پہچان رکھتا ہے۔ قحط الرجال کے اس عہد میں‘گزرے لمحوں کی عظیم شخصیات سے واقفیت مایوسی کے پردے ہٹاتی اور امید کے دیے روشن کرتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب عصرِحاضر کو زیربحث نہ لانے کے باوجود ۲۰ منتخب شخصیات پر کلام کرتے ہوئے بڑی خوب صورتی سے ماضی کو حال سے جوڑ دیتی ہے۔ پھر عصری بحران سے نکلنے کے متعدد راستے خود بخود نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں۔
قرن اوّل سے لے کر موجودہ عہد تک ۲۰ شخصیات کا انتخاب ایک بڑا مشکل اور نازک کام تھا۔ مصنفہ نے ہر شخصیت کے انتخاب کے لیے مطالعے اور دانش کے منصف سے فیصلہ لیا۔ بڑی وسیع معلومات میں سے بنیادی چیزوں کو اس طرح گوندھ کر ہر مضمون کو تشکیل دیا کہ واقعات حسنِ توازن‘ ہمواری اور معنویت کی شیرازہ بندی کر کے نظروں میں سما جاتے ہیں۔ ایک جانب فقہ‘ حدیث‘ دعوت‘ جہاد جیسے علمی اور عملی کاموں کی تفصیل سامنے آتی ہے تو دوسری طرف تکفیر‘ فرقہ پرستی‘ مفاد پرستی اور شرک کی آکاس بیل سے بچائو کی تدابیر بھی نظرنواز ہوتی ہیں۔
خوب صورت نقشے اور عام فہم اسلوب نے تاریخ اور تجزیے جیسے بھاری موضوع کو ناول سے زیادہ دل چسپ بنا دیا ہے۔ ہر شخصیت اسلامی تاریخ کے کسی نہ کسی بنیادی رنگ سے واقفیت بہم پہنچاتی ہے۔
زیرمطالعہ شخصیت سے ایک خاص نوعیت کی انسیت پیدا ہوتی ہے اور دل میں امنگ پیدا ہوتی ہے کہ خدا کرے ایسی شخصیات دیکھنے کو ملیں‘ طلب اور امید کا یہ سنگم مطالعے کو باثمر بنا دیتا ہے۔ تواریخ کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ’’مسلمانوں کی مختصر سیاسی تاریخ‘‘ ۱۴۰۰ برسوں پر ایک جامع تبصرہ ہے۔ کتاب کے مندرجات سے اکثر جگہ اتفاق کرنے کے باوجود چند مقامات سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ جس میں احیا پسنداشخاص اور تحریکوں کو ’بنیاد پرست‘ گروہ میں شامل تصور کرنا (ص ۴۹۳)‘ یا پھر یہ کہنا: ’’اخوان المسلمون [کو] عالمِ عرب میں بے تحاشا مقبولیت حاصل ہوئی۔ مگر اس نے سیاست میں حکومت سے شدید محاذ آرائی کا رویہ اختیار کر کے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا‘ اور بری طرح مار کھائی‘‘ (ص ۴۹۴)‘ یک رخا تبصرہ ہے۔ پھر یہ کہنا: ’’تمام اصلاحی‘ احیائی اور تجدیدی [تحریکیں] ماضی کی تمام غلط‘ صحیح روایات کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اصلاح کی خواہش اور ذرا سی ترمیم بھی انھیں گوارا نہیں۔ یہ اپنے حال میں خوش اور مطمئن ہیں‘‘ (ص ۴۹۵)‘ بذات خود ناہموار بیانیہ ہے۔ چند جگہ سنین کا بھی مسئلہ ہے‘ لیکن ایسی اِکا دکا مثالیں کتاب کے مجموعی کارنامے کی قدرومنزلت اور پیش کش کے خوش رنگ و وقار میں کمی نہیں پیدا کرتیں۔ مصنفہ اور ناشر دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصورخالد)
مختلف مسالک کی علمی تحقیقات کا یہ بے مثال اور نادر مجموعہ قاضی ابوالولید محمدبن رشدالقرطبی الاندلسی کی تصنیف ہے۔ ان کا خاندان پشت ہاپشت سے علوم و فنون کا گہوارہ چلا آرہا تھا‘ اس طرح اللہ کے فضل سے انھیں تعلیم و تربیت کا بہترین اور سنہری موقع میسرآیا۔ ابن رشد نے قرآن‘حدیث اور فقہ پر پوری دسترس حاصل کرکے فلسفے کی طرف توجہ کی اور اس وقت کے مشہور علماے فلسفہ و طب سے علم فلسفہ و طب کی تکمیل کی۔
ہردور میں نادرِ روزگار شخصیتیں حاسدوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ علامہ ابن رشد بھی حاسدین کی رقابت کا شکار ہوئے۔ آپ کو بے دین اور ملحد قرار دیا گیا۔ جس کی وجہ سے آپ کو جلاوطنی کی سزا بڑی بے بسی اور زبوں حالی سے گزارنی پڑی۔ حقیقت حال کھل جانے پر خلیفہ منصور عباسی نے انھیں رہا کیا۔ رہائی کے ایک سال بعد مراکش میں بیمار ہوکر ۵۹۰ھ میں وفات پائی۔
مختلف علوم‘ مثلاً فلسفہ‘ طب‘ فقہ‘ اصول فقہ‘ علمِ نحو اور علمِ ہیئت پر کم و بیش ۷۰ کتابیں ان کی یادگار ہیں۔ سب سے زیادہ شہرت زیرنظر بدایۃ المجتہد کو ملی کیوں کہ یہ کتاب کسی مسئلے کے بارے میں تمام بڑے بڑے ائمہ کرام اور علماے عظام کی آرا کا انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں آرا کے ساتھ ساتھ ان کے دلائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ کتاب بیک وقت فقہ اور مصادر فقہ کا ایک بہترین اور حسین امتزاج بن گئی ہے۔ علامہ ابن رشد مختلف ائمہ اسلام کی آرا کے اختلاف کی وجہ بھی بتاتے ہیں‘ پھر اپنے نزدیک ترجیحی مسلک کا ذکر کر کے اس کی وجہ بھی بیان کردیتے ہیں۔ آپ اندھی تقلید کے بجاے علمی و تحقیقی تقلید کے قائل ہیں۔ وہ تعصبِ مسلکی کا شکار نہیں‘ علمی ترجیح کو وزن دیتے ہیں۔
اس قدروقیمت کی حامل کتاب اچھے اُردو ترجمے سے محروم تھی۔ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی نے اس شاہ کار کتاب کا اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا بڑا علمی کام ہے اور قابلِ قدر ہے مگر اس کتاب کا ترجمہ کرتے وقت کافی مقامات پر تسامح ہوگیا ہے‘ مثلاً (ص ۹۷ پر) انما ذلک عرق ولیس بالحیضۃ کا ترجمہ موصوف نے کیا ہے:’یہ تو بس پانی ہے حیض نہیں ہے‘ جو صحیح نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے: ’یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں‘۔اس سے استحاضہ اور حیض میں فرق واضح کیا گیا ہے۔ اسی طرح ص ۱۰۹ پر عرق کا معنی ’’رطوبت‘‘ کیا ہے حالاں کہ یہاں بھی وہی ’رگ‘ کا معنی ہے۔ اسی طرح ترجمہ‘ اعراب اور پروف کی اغلاط کافی پائی جاتی ہیں‘ تاہم اغلاط و تسامحات کے باوجود ڈاکٹر صاحب اور ناشرین نے بڑی خدمت انجام دی ہے۔ (عبدالوکیل علوی)
زیرنظر کتاب میں مصنفہ نے جنرل پرویز مشرف صاحب کے مقرر کردہ ویمن کمیشن کا حدود قوانین کے بارے میں اعتراضات کا علمی انداز میں جائزہ لیا ہے۔ یہ دراصل ایک مکتبِ فکر کا جائزہ ہے جو اسلامی روایات اور اقدارِ حیات سے ناآشنا ہے۔ اس سے وابستہ لوگ جن میں خواتین کچھ زیادہ سرگرم نظرآتی ہیں یورپ کی کورانہ تقلید سے اپنا تشخص مسخ کرچکے ہیں۔ اس کتاب میں حدود آرڈی ننس مجریہ ۱۹۷۹ئ‘ جو منتخب اسمبلی کے ۱۹۸۵ء میں منظوری کے بعد ملکی قوانین بن چکے ہیں‘ کمیشن کے مطالبات کا علمی و فکری جائزہ لیا گیا ہے جو بنیادی طور پر نہ صرف غیرآئینی‘ غیرقانونی بلکہ مضحکہ خیز ہیں۔ مصنفہ نے کمیشن کے اعتراضات کا قرآن و سنت‘ الہامی اور غیرالہامی مذاہب کے حوالے سے مضبوط دلائل کے ساتھ جواب دیا ہے۔ ان اسباب اور عوامل کی بھی نشان دہی کی ہے جن کی وجہ سے قوانین حدود کے نفاذ سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ ’’منافی قانون اور الٰہی قانون کا فرق‘‘، ’’اسلامی قانون اور مغربی قانون کا تقابلی جائزہ‘‘، نیز ’’نفاذ حدود کی مختصر تاریخ‘‘ عنوانات کے تحت اہم علمی نکات زیربحث آئے ہیں۔
اصلاح احوال کے لیے انھوں نے ملّت (اُمّہ) اور مملکت کے سامنے چند تجاویز اور سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ ان میں ایک تجویز فقہ کی تدوینِ جدید بھی ہے۔
ہمارے جدید تعلیم یافتہ اسلامی ذہن رکھنے والے طبقے نے اس معاملے کو ایک مسئلہ بنا دیا ہے‘ جب کہ اسلام میں یہ ایک طے شدہ معاملہ ہے کہ اجتہاد کے دروازے قرآن و سنت اور خاص طور پر حدیث معاذؓ کے حوالے سے ہمیشہ ہر دور کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب محض قرآن و سنت کے قوانین‘ یعنی حدود کو زمانے کے احوال و ظروف کے سانچوں میں ڈھالنا نہیں ہے بلکہ اجتہاد کا مطلب ہر دور کے معاملات جن کا تعلق معاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور ہر شعبۂ زندگی سے ہے‘ ان کو قرآن و سنت کے ابدی احکام سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ جیساکہ ہمارے اس استدلال سے اتفاق کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ نے ۱۹۹۳ء میں اپنے معرکہ آرا فیصلہ ظہیرالدین بنام سٹیٹ میں حتمی طور پر یہ قرار دیا ہے کہ آئین کے بنیادی حقوق (fundamental rights) بھی قرآن و سنت کے تابع ہیں اور جو قانون بھی اس سے متصادم ہو وہ کالعدم ہوگا۔ (محمد اسماعیل قریشی ایڈوکیٹ)
زیرنظر آپ بیتی مصنف (پیدایش: ۱۹۲۲ئ) کی کثیرالجہات‘ متحرک اور جدوجہد سے بھرپور زندگی کے واقعات و حوادث اور فکری و ذہنی رویوں کی ایک دل چسپ داستان ہے۔ اس کے ساتھ یہ اپنے عہد اور ماحول کی معتبر تاریخ بھی ہے۔ یہ اس اعتبار سے بھی قابل توجہ ہے کہ ابوالامتیاز فقط ایک شاعر اور ادیب نہیں اور انھوں نے محض قلم کی جولانیاں ہی نہیں دکھائیں (نظم و نثر کی ۱۵کتابوںکے مصنف ہیں)‘ بلکہ ملک کے اندر اور بیرون ملک کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ سماجی خدمات بھی انجام دیں‘ سرکاری اور غیرسرکاری نوکریاں کیں‘ طرح طرح کے خطرات اور مشکلات سے دوچار ہوئے۔ نہ صرف بچپن بلکہ عملی زندگی میں بھی خوش حالی کے ساتھ مفلوک الحالی کا مزہ چکھا‘ بایں ہمہ انھوں نے زندگی کو ایک مسلسل آزمایش اور پیہم امتحان کی طرح گزارا۔ اپنے سفرحیات میں مسلم صاحب نے جو کچھ دیکھا‘ سنا اور تاثر اخذ کیا ہے لمحہ بہ لمحہ زندگی میں حتی الامکان اس کی سچی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔
پہلے دو ابواب میں آبا و اجداد اور وطن (لوہ گڑھ) جالندھر کا ذکر ہے۔ یہ ابتدائی حصہ پنجاب کی اچھی بری روایات‘ تہذیب و ثقافت اور رسوم و رواج کا ایسا سچا اور بھرپور مرقع ہے کہ شہروں میں پلے بڑھے اور دیہاتی زندگی کے تجربے سے ناآشنا نوجوانوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ اسکول کی تعلیم کے لیے عبدالستار (ع س)کو میلوں روزانہ سفر کر کے آنا جانا پڑتا تھا۔ اس سخت کوشی نے انھیں مابعد زندگی میں بہت فائدہ پہنچایا۔ ان کا بیشتر وقت کراچی اور بیرون ملک گزرا۔ انگریزوں سے الجھے‘ تحریک پاکستان میں بھرپور شرکت کی اور طباعت و اشاعت کا کام بھی کیا۔ پاکستان رائٹر گلڈ کا پہلا انعام یافتہ ناول خدا کی بستی انھوں نے ہی چھاپا مگر اس کے مصنف شوکت صدیقی نے جس دھڑلے سے تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کی‘ جھوٹی قسمیں کھائیں‘ مسلم صاحب کو مغلّظات سنائیں اور الٹا ’’اُوپر‘‘ سے کہہ کہلوا کر انھیں عدالت کے ذریعے سزا دلوانے کی کوشش کی‘ وہ اشتراکیوں اور نام نہاد ترقی پسندوں کے گھنائونے کردار کی افسوس ناک مثال ہے۔
ابوالامتیاز کی مہم جو طبیعت کبھی نچلّا بیٹھ رہنے پر قائع نہیں رہی۔ یوں تو انھوں نے طرح طرح کی انجمنیں بنائیں اور کئی چھوٹے موٹے ادارے قائم کیے‘ مگر ان کا بڑا کارنامہ ۱۹۶۰ء میں ذہنی پسماندگان کے لیے قائم کردہ ادارہ سائنوسا ہے(اس صدقۂ جاریہ کی تفصیل ان کی کتاب پاکستان میں ذہنی پس ماندگی میں دیکھی جاسکتی ہے)۔
لمحہ بہ لمحہ زندگی خاصی متنوع کتاب ہے ذاتی شخصی حالات‘ گھریلو زندگی ’’لون‘ تیل‘ لکڑیاں‘‘ سیلزمینی‘ افسری‘ طرح طرح کی مہم جوئی‘ ادب‘ سیاست‘ ٹریڈ یونین لیکن اس سب کچھ میں ان کی سلیم الطبعی ہمیشہ برقرار رہی۔ اس خودنوشت میں ملک و ملت سے ان کی محبت کا جذبہ اور دین سے ایک گہری وابستگی نمایاں ہیں۔ قابلِ تحسین بات یہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور ہر قسم کی بے اصولی اور بددیانتی سے اجتناب کیا۔ اگر اس خود نوشت کے بعض حصے نصابات میں شامل ہوسکیں تو بہت اچھا ہے۔
کتاب میں ترقی پذیر‘ تنزل پذیر جیسی تراکیب میں ’’پذیر‘‘ کو ہر جگہ ’’پزیر‘‘ لکھا گیا ہے۔ یہ لفظ ذال سے ہونا چاہیے نہ کہ زے سے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اعجاز رحمانی ایک پختہ فکر‘ پُرگو اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔ نعت‘ ان کی سخن گوئی کا خاص میدان ہے۔ ۱۱ شعری مجموعوں میں سے پانچ نعتیہ ہیں۔ ان کی نعتیں رسمی‘ روایتی یا رواجی نہیں بلکہ حب رسولؐ کے جذبے کا ایک بے ساختہ مگر متوازن اظہار ہیں۔ بڑی ہوش مندی سے وہ توحید و رسالت کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان کے ایک تجزیہ نگار انوار عزمی کہتے ہیں کہ میں نے ایک ایک شعر کو ہرہر زاویے سے چھانا پھٹکا ہے کہ اعجاز رحمانی نے بشری تقاضے یا اندھی عقیدت کے تحت توحید کو کہیں مجروح نہ کیا ہو مگر خدا کا شکر ہے کہ مجھے اس طرح کا کوئی قابلِ اعتراض شعر نظر نہیں آیا۔
دوسری اہم بات جس کی طرف خواجہ رضی حیدر نے اشارہ کیا ہے‘ یہ ہے کہ چونکہ اعجاز رحمانی اسلامی انقلاب کے داعی ہیں‘ اس لیے ان کے ہاں اظہار عقیدت کے وفور کے ساتھ‘ دعوت و اصلاح کا شعور بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ (ر - ہ )
یہ کتاب متفرق مضامین‘ مصاحبوں اور تبصروں وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے اکثر بھارت کے مختلف رسائل و جرائد میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ کتاب میں موضوعات کا پھیلائو زیادہ ہے جو بعض صورتوں میں گراں محسوس ہوتا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ ایک مثبت علمی اور فکری کاوش ہے۔
مصنف نے معاصر مسلم دنیا کے مسائل کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور ان کے حل کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ ہمیں فروعی اختلافات اور ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں کو اُچھالنے کے بجاے اپنی توانائیاں اتحاد اُمت کے لیے وقف کرنی چاہییں۔ سیدابوالحسن علی ندوی اور شیخ عبدالبدیع صقر کے مختصر مصاحبے بھی شامل ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی‘ مولانا احمد رضا خاں بریلوی‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شیخ مولانا محمد زکریا وغیرہ کی خدمات کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب کے ایک حصے کا رنگ ادبی اور صحافتی ہے۔ چنانچہ میڈیا اور تعلیم کے مسائل سے لے کر زبان وادب کے مسائل‘ تعارف کتب‘ خطوط بنام مدیرانِ جرائد‘ سوال نامہ اور تبصرۂ معاصرین جیسی متنوع تحریروں کو شامل متن کیا گیا ہے۔ اس سے ربط و ترتیب کی موزونیت متاثر ہوئی ہے۔ اگر مصنف اس کتاب کے مندرجات کو ایک سے زائد الگ الگ حصوں کی زینت بناتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)
علمی و ادبی اور دینی و مذہبی رسائل کی بہت سی فہرستیں مرتب کی گئی ہیں (اور ان کے متعدد اشاریے بھی)‘ مگر بچوں کے رسائل کی یہ پہلی فہرست ہے جو عبدالمجید کھوکھریادگار لائبریری گوجرانوالہ میں ۲۰۰۲ء تک موجود ۲۰۰ سے زائد رسائل کی توضیحی فہرست ہے‘ یعنی اس میں ہر رسالے کا مقامِ اشاعت‘ ایڈیٹر‘ آغاز کا سنہ وغیرہ بھی بتایا گیا ہے۔
اس فہرست کے مطابق بچوں کا سب سے پہلا رسالہ بچوں کا اخبار تھا جو لاہور سے مولوی محبوب عالم نے مئی ۱۹۰۲ء میں جاری کیا تھا۔ ۱۰۰ سال سے زائد عرصے میں‘ بچوں کے سیکڑوں رسالے نکلے اور چند ایک اب بھی نکل رہے ہیں۔ اس اعتبار سے اُردو‘ ایک باثروت زبان ہے۔ بہرحال یہ ایک معلومات افزا فہرست ہے جس میں قدیم و جدید رسائل کے سادہ و رنگین سرورق بھی شامل ہیں۔(ر-ہ)
قرآن‘ اور ایک لحاظ سے اسلام پر لکھی گئی ‘ ایک پاکستانی نژاد کی دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی مصنف کی یہ کتاب‘ جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے "dummies" کے لیے لکھی گئی ہے (ناشر نے ’’کند ذہن‘‘ لوگوں کے لیے اور بھی بہت سی کتابیں شائع کی ہیں‘ بشمول Islam for Dummies ‘مصنفہ:مالکم کلارک)۔ مصنف نے قرآن کو "Q"کے بجاے "K" سے لکھنے کی توجیہہ یوں کی ہے کہ مغربی قاری انھی ہجوں سے مانوس ہے۔
غیرمسلم معاشروں (اور نام نہاد مسلم معاشروں بشمول پاکستان) میں پرورش پانے والی نژادِ نو کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی تحفے سے کم نہیں‘ جو اسلام کی اساسی تعلیمات پر مشتمل اللہ کی آخری کتابِ ہدایت کی تعلیمات کو اس زبان اور انداز میں پیش کرتی ہے‘ جس سے یہ نسل مانوس ہے۔ کتاب چھے اجزا (۲۲ ابواب) پر مشتمل ہے‘ جن میں قرآن کی زبان اور اندازِ بیان کے بارے میں کچھ ابتدائی گفتگو کے بعد اُن اہم امور پر روشنی ڈالی گئی ہے‘ جو قرآن کے بنیادی موضوع ہیں‘ یعنی توحید‘ رسالت‘ کائنات اور انسان (آخرت‘ جزا و سزا کا بیان بہت آخر میں نویں باب میں ہے‘ دُور کی بات جو ٹھیری)۔ غیرمسلموں کے لیے یہ بات باعثِ طمانیت ہوگی کہ قرآن بنیادی طور پر براہیمی روایت کی پیش رفت ہے۔ قرآن کے دورِ جدید کے مفسرین مولانا مودودی‘ سید قطب‘ سید رضا‘ محمد الغزالی (مصری) کے ساتھ کچھ شیعی تفاسیر کا بھی حوالہ ہے۔
’’قرآنی زندگی‘‘ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور آپؐ کے مشن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مسلمان کی زندگی‘ قرآن کے مطابق اس کے اخلاق و آداب اور عادات‘خاندانی نظام‘ معاشرتی اقدار‘ قانون‘ خواتین کی زندگی اور ان کے حقوق و فرائض‘ جہاد اور جدیدیت پر سلیقے سے گفتگو کی گئی ہے۔ آخر میں قرآن کے بارے میں کچھ ’’غلط فہمیوں‘‘ کے ازالے کی کوشش ہے‘ جیسے یہ کہ خدا‘ صرف مسلمانوں کا خدا ہے‘ جہاد کا مطلب ’’مقدس جنگ‘‘ ("Holy War")ہے‘ اور قرآن مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کا مخالف ہے‘ وغیرہ۔
مصنف نے ‘ ہر موضوع سے متعلق اپنی رائے کے مطابق جو قرآنی نقطۂ نظر پیش کیا ہے‘ اس کے لیے قرآن ہی سے حوالے دیے ہیں۔ مگر چونکہ ان کے مخاطب زیادہ تر عیسائی /یہودی یا وہ مسلم نوجوان ہیں‘ جو مغربی روایت میں پرورش پا رہے ہیں‘ اس لیے بعض جگہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام یہودیت/ عیسائیت ہی کا ایک نظرثانی شدہ ایڈیشن ہے‘ جب کہ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ اصل مذہب یہی ہے‘ اور نام نہاد یہودی اور عیسائیوں نے اللہ کی نازل کردہ کتابوں: تورات اور انجیل میں تحریف کرلی ہے۔
بعض مقامات پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قاتل کے لیے سزاے موت کے علاوہ ایک اور سبیل ہے اور وہ ہے ’’دیت‘‘۔ مگر فاضل مصنف نے اسے ’’قصاص‘‘ کہا ہے‘ یعنی یہ کہ اگر وارثین راضی ہوجائیں تو قاتل جرمانہ ادا کر کے چھوٹ سکتا ہے‘ اور قرآن اس دوسری صورت کو پسند کرتا ہے (ص ۲۶۶)۔ اسلام میں بدکاری کی سزا ’’سنت کے مطابق‘‘ ۱۰۰ کوڑے‘ نیز ’’سنگ ساری کے ذریعے موت‘‘ بتائی گئی ہے‘ جو درست نہیں‘ اور کم سواد مسلموں اور غیرمسلموں کو مزید اُلجھن میں ڈالنے کا باعث ہوگی (ص ۲۶۹)۔ تاہم‘ قرآنی اخلاقیات‘ معاشرت کے قرآنی اصول‘ اسلام میں خواتین کی حیثیت پر مباحث‘ متوازن ہیں۔ ’’قرآن اور جدیدیت‘‘ کے تحت بجا طور پر کہا گیا ہے کہ جدیدیت‘ ایک مخصوص ثقافت کو اختیار کرنے کا نام نہیں بلکہ معاشرے کو جدید علوم و فنون کی برکات سے بہرہ مند کرنے‘ اور بلاتفریق مذہب و جنس‘ لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا نام ہے۔
اُمید ہے کہ مغربی معاشروں میں رہنے والے مسلمان بچوں ہی کے لیے نہیں ‘ بلکہ ہمارے مغرب زدہ نوجوانوں‘ نیز غیرمسلموں کے لیے یہ کتاب نہایت معلومات افزا اور دل چسپ ثابت ہوگی۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
کتاب کے نام سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ منتخب حصوں کے دروس کا مجموعہ ہے لیکن درحقیقت یہ سورئہ فاتحہ اور سورئہ بقرہ (آیت ۱ تا ۱۷۶) کی مسلسل تفسیر ہے۔ آیات اور اہم الفاظ کی تشریح کے لیے عنوانات اور ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ الفاظ اور جملوں کی علمی مگر عام فہم تشریح کے ساتھ ساتھ آیات میں مضمر فلسفہ بیان ہوا ہے۔ ایک آیت یا ایک مضمون کی حامل آیات کا عصری حالات پر انطباق کیا گیا ہے۔ عقل و ذہن کی بیداری کے ساتھ ساتھ خطیبانہ آہنگ میں جذبات کو اُبھارنے‘ حق کے قیام کے لیے کھڑا کرنے‘ اور خشیت و انابت الی اللہ کی پرداخت کے لیے تذکیر و نصیحت کا اندازاختیار کیا گیا ہے۔
صاحبِ کتاب پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کی شہرت ایک صاحبِ طرز خطیب کی ہے۔ قرآن ان کا موضوع خاص ہے۔ ان کے درس لوگوں کو جگانے والے ہوتے ہیں۔ غالباً یہی درس اس تفسیر کی مسلسل صورت میں طبع کیے جا رہے ہیں‘ اس لیے کہ تحریر میں خطابت کا انداز قائم ہے۔
وہ اصحاب جو تفہیم القرآن کی جلد اوّل کے اختصار کے باعث تشنگی محسوس کرتے ہیں‘ ان کے لیے یہ مجموعہ کافی حد تک تشفی کا باعث بنے گا۔
تفسیری نکات پر مشتمل زیرنظر مجموعہ جدید اشکالات کے حل‘ خوب صورت انداز بیاں اور خطیبانہ آہنگ کے باعث جدید تعلیم یافتہ افراد اورمدرسین کی تیاری کے لیے مفید اور بیش بہا تحفہ ہے۔(اخترحسین عزمی)
برعظیم کے علمی اُفق پر ماضی قریب میں چند ایسی شخصیات اُبھری ہیں‘ جن کا علم و فضل اور تخلیقات و تحقیقات کی نوعیت قاموسی ہے۔ ان میں سے ایک سید مناظراحسن گیلانی ؒ (یکم اکتوبر ۱۸۹۲ئ-۵ جون ۱۹۵۶ئ) بھی ہیں۔
جامعہ عثمانیہ کی طویل ذمہ داریوں کے علاوہ دارالعلوم دیوبند‘ دارالمصنفین اعظم گڑھ اور ندوۃ المصنفین دہلی کی مجالس مشاورت کے رکن رہے۔ تحریر و تقریر دونوں میں اپنا ایک مخصوص رنگ اور ڈھنگ رکھتے تھے۔ ۲۱ کے قریب مستقل کتابیں اور مختلف رسائل میں بیسیوں مضامین و مقالات لکھے۔ ان کی تصنیفات میں النبی الخاتمؐ، تدوین حدیث ، اسلامی معاشیات، ہندستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ‘ ہزار سال پہلے‘ امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی اور ابوذرغفاری‘ زیادہ معروف ہیں۔
پیش نظر کتاب‘ مقالاتِ گیلانی ان ۱۴ تحقیقی و علمی مقالات کا گراں قدر مجموعہ ہے جو ایک زمانے میں معارف، اعظم گڑھ میں شائع ہوتے رہے۔ یہ مضامین زیادہ تر قرآنیات‘سیاست و معیشت‘ تقابل ادیان‘ علمِ کلام‘ تعلیمات‘ تاریخ وثقافت‘ تزکیہ و تصوف اور سیرت و سوانح پر مشتمل ہیں۔ یہ سب مضامین ان کی وسعتِ مطالعہ کے شاہکار ہیں۔ بعض مواقع پر ان کے استحضار کی داد دینا پڑتی ہے۔
مضامین کی اس زنبیل میں پہلا مضمون ’’قرآن کے صائبین‘‘ سے متعلق ہے۔ گیلانی مرحوم ٹھوس دلائل کی بنا پر باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ صائبین بدھ مت کے ماننے والے تھے۔ مصنف کے نزدیک ’’الصائبہ‘‘جن کا قرآن میں یہود و نصاریٰ جیسی اُمتوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے‘ یہ مہاتما بدھ کے ماننے والوں کی تعبیر ہے۔ اپنے موضوع پر یہ مضمون حتمی نتائج کا حامل نہ ہونے کے باوجود منفرد ہے۔
دوسرے مضمون میں اسلام اور ہندومت کی بعض مشترک تعلیمات کا ذکر کیا ہے‘ جس سے ایک عام قاری کے ذہن میں وحدتِ ادیان کا تصور پیدا ہوسکتا ہے۔ اس مجموعے کا تیسرا مضمون ’’مسئلہ سود مسلم و حربی میں‘‘ ایک اجتہادی کوشش ہے۔ بعض مسائل کی نوعیت یکساں ہونے کے باوجود دارالسلام اور دارالحرب میں تقسیم کے باعث احکام میں مختلف ہو جاتی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ دارالحرب کے حربی سے سود لینے کو جائزسمجھتے تھے۔ مولانا ظفراحمد عثمانی ؒنے اپنے ایک مضمون میں اس رائے پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے امامؒ کے اس فتویٰ کو تنہا مفتی کی رائے قرار دیا ہے (ص۱۲۷)۔ سید مناظر احسن گیلانی نے امامؒ کا دفاع کرتے ہوئے اس مضمون میں دلائل و براہین کا اپنا اسلوب پیش کیا ہے۔
پانچواں مضمون برعظیم کی تقسیم سے دو سال قبل ایک تعلیمی خاکے پر مشتمل ہے جس میں نظریۂ وحدت نظام تعلیم کو پیش کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو لکھے ہوئے چھے عشرے گزر چکے ہیں مگر تعلیم کی ثنویت کا ہنوز وہی عالم ہے۔ چھٹے مضمون میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکومت کو تاریخِ انسانی میں ایک منفرد طرزِ حکمرانی کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ہے۔ ساتواں مضمون اس لحاظ سے دل چسپ ہے کہ اس میں اسلامی حکمرانوں سے مسلم رعایا کی ایک بے جا شکایت پر تبصرہ کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے عہدِحکومت میں غیرمسلم رعایا کو مسلمان کیوں نہیں بنایا۔ آٹھویں مضمون میں مسلمان حکومتوں میں غیرمسلموں کے حقوق کی حفاظت و نگہداشت پر بہت قیمتی لوازمہ پیش کیا گیا ہے۔ نویں مضمون میں مسلمانوں کے اندلس کو خود مسلمانوں کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کے نزدیک اسپین کی تمدنی شان و شوکت کا باعث محض اندلس کے ذرائع نہیں بلکہ مروانی حکمرانوں نے اس کے لیے اردگرد کی ریاستوں سے بہت کچھ حاصل کیا۔دسویں مضمون میں شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی کے نظریۂ علم پر ایک تنقید نما اور تحسین آمیز نگاہ ڈالی گئی ہے۔ گیارھویں مضمون میں بلگرام کے یمنی محدث اور صاحب تاج العروس علامہ سیدمرتضیٰ زبیری پر ایک سوانحی مضمون تحریر کیا گیا ہے جس میں ان کے علمی کارناموں کو متعارف کرایا ہے۔ بارھواں مضمون ہندستان کے ایک مظلوم مولوی حکیم محمد حسن کے بارے میں ہے۔ اس مضمون میں ہند کے قدیم نوشتوں کے حوالے سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی آمدوبعثت کی دل چسپ پیش گوئیوں کا بھی تذکرہ ہے۔
مناظر احسن گیلانی کے مضامین کا یہ مجموعہ متنوع موضوعات پر تاریخی معلومات کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اسلامی تہذیب اور اس کے اکابر کے کارنامے جھلکتے ہیں۔ ہرمضمون کے آخر میں حواشی اور حوالہ جات نے مضامین کی قدروقیمت میں اضافہ کیا ہے۔ (عبدالجبار شاکر)
رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہی نہیں بلکہ نیکیوں کا موسم بہار اور اللہ کی خصوصی عنایات و رحمتوں کا ماہ ہے۔ زیرنظر کتاب میں‘ اس بابرکت مہینے کو قرآن و سنت کے سائے میں گزارنے اور اس کے ہر لمحے کو بامقصد بنانے کے لیے مفید رہنمائی دی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب دروس المسجد فی رمضان کا اُردو ترجمہ ہے جس میںروزے کے مقاصد‘ احکام و مسائل‘ عظیم حکمتیں اور فضیلتیں‘ آداب و اہتمام‘ رمضان میں واقع ہونے والے اہم واقعات و فتوحات کی تفصیل‘ مواعظ کے دل آویز تذکرے‘ توبہ و استغفار اور انابت الی اللہ کے طریقے‘ دعوت و تبلیغ کے حکیمانہ اسلوب اور روزوں کے ثمرات و فوائد تفصیل سے یکجا کیے گئے ہیں۔باب ’رمضان میں رسول کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل‘ بہت اہم‘ ایمان پرور اور عمل پر اُبھارنے والا ہے۔ روزوں کے آداب اور فقہی پہلوئوں کے علاوہ اخلاقی و معاشرتی پہلو‘ مثلاً اہلِ خانہ کی تربیت‘ سنت کو کیسے زندہ کریں‘ وقت کی حفاظت جیسے موضوعات نے کتاب کو منفرد بنا دیا ہے۔ قرآن و حدیث سے مرتب کردہ اس خوب صورت مرقع میں اختصار اور جامعیت کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔
مقدمہ کے زیرِعنوان ‘ رمضان المبارک کی اہمیت و فضلیت پر محترم خرم مرادؒ کا دل کش اور مفید مضمون شامل کیا گیا ہے۔ آیات اور احادیث کی صحت اور اعراب خصوصی اہتمام چاہتے ہیں۔ اگرچہ کتاب میں خطیبانہ رنگ غالب ہے‘ تاہم قارئین کتاب کو دل چسپ اور روح پرور پائیں گے۔ خوب صورت سرورق‘ مضبوط جلد اور قیمت بہت مناسب۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
دین اسلام ہمہ گیر اور عالم گیر نظام ہے جس میں جدید ترین مسائل کا حل موجود ہے۔ حالات میں تغیروتبدل اور تنوع ناگزیر ہے۔ اسی لیے خاتم النبیینؐ کے بعد مسائل کے حل کے لیے اجتہاد سے کام لینا بھی ناگزیر ہے۔نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریباً تین صدیوں تک تحقیق و اجتہاد‘ حریت فکرونظر اور آزادانہ طلبِ حق کی جستجو جاری رہی۔ تقلید کو اس طرح اختیار کیا گیا کہ جمود کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ماضی قریب میں حضرت شاہ ولیؒ اللہ، علامہ اقبالؒ، سید سلیمان ندویؒ اور سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسی ہستیوں نے تدبر‘ تفکر‘ تعمق‘ تفتیش‘ تعدیل‘ تشریح اور تعین کے ہتھیاروں سے جمود پر کاری ضربیں لگاکر اجتہاد کا دروازہ ایک مدت کے بعد کھولا۔
زیرمطالعہ کتاب تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں پانچ اہم ابواب کے تحت بڑی تحقیق و جستجو سے ۱۵۰ مسائل کا حل پیش کیا ہے۔ خصوصاً باب دوم سائنس و طب اور باب سوم معیشت اور اقتصادیات میں تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔
تولید کی جدید ترین اشکال کے بارے میں نہ صرف اسلامی مؤقف کی وضاحت کی ہے بلکہ نفسِ مضمون کو سمجھانے کے لیے ایک ماہر کی طرح عرقِ تولید‘ کلوننگ‘ پیوندکاری کی ٹکنالوجی کے بارے میں بھرپور معلومات بھی فراہم کی ہیں۔ معیشت اور اقتصادیات کے باب میں ملٹی لیول مارکیٹنگ کی تمام اسکیموں کا بڑا عمیق مطالعہ پیش کرکے ان کی فراڈ اور دھوکادہی کو طشت ازبام کیا ہے۔پوسٹ مارٹم اور زکوٰۃ پر بہت مفصل مطالعہ پیش کیا گیا ہے جو بڑا ہی قابلِ قدر کام ہے۔ والدین کے حکم پر بیوی کو طلاق دینے کی شرعی حیثیت پر تحقیقی کام ابھی تشنہ ہے۔ اس موضوع پر تمام احادیث اور ان کی صحت کا محاکمہ پیش کرکے رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
عصرِحاضر کے مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب ہر طالب علم کی ضرورت ہے۔ مصنف نے نفس مسئلہ اور اس کی کنہ و حقیقت کا معروضی مطالعہ پیش کر کے کتاب کی افادیت میں بڑا اضافہ کردیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اکابر علما کی آرا بھی مع حوالہ جات مل جاتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ایسے ہی تحقیقی کام کرنے والے افراد ملت کی رہنمائی کے لیے عطا فرمائے جو مسلکی تعصب سے بالاتر ہوکر مسائل کا حل پیش کریں۔ (پروفیسر خاوربٹ)
سیرت حضرت ابوایوب انصاریؓ ہمارے دور کے معروف ادیب‘ مورخ اور مصنف جناب طالب الہاشمی کی ایمان افروز تحقیقی تصنیف ہے۔ یہ صحابہ کرامؓ کی عظیم المرتبت کہکشاں کے اس درخشندہ و تابندہ ستارے کی سوانح عمری ہے جسے کئی منفرد اعزازات سے قدرتِ حق نے نوازا تھا۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا نام آتے ہی ہرصاحبِ ایمان کا سر عقیدت سے جھک جاتا ہے کہ انھوں نے اس کائنات کے حامل‘ خاتم النبیین رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف پایا تھا۔ پھر اس میزبانی کا جو حق انھوں نے ادا کیا اسے دیکھ کر روح جھوم اُٹھتی ہے کہ خالق ارض و سما نے آنحضوؐر کی اُونٹنی کو وہاں بیٹھنے کا جو حکم دیا وہ کس قدر حکمتوں سے مالا مال تھا۔ اہلِ علم بھی اس عظیم اور معروف صحابی رسولؐ کے اصلی نام کو کم ہی جانتے ہیں۔ یہ نام دورِصحابہ میں بھی حضرت ابوایوبؓ کی کنیت کے بہت زیادہ شہرت پا جانے کی وجہ سے پس منظر میں چلا گیا تھا۔ ان کا خاندانی نام خالد بن زید المالکیؓ تھا۔
حضرت ابوایوبؓ نے قبولِ اسلام سے لے کر آخری سانس تک مسلسل بلندیوں کی جانب سفر جاری رکھا۔ آپؓ انصار مدینہ کے سابقون الاولون میں سے تھے۔ انھوں نے بیعت عقبہ کبریٰ میں اوس و خزرج کے ساتھ حضوؐر سے پیمانِ وفا باندھا‘ میزبانِ رسولؐ بنے‘ ۳۱۳ مجاہدین بدر میں سے ایک تھے‘ ان ۱۴۰۰ اصحاب الشجرہ میں شامل تھے جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر بیعت رضوان کی سعادت حاصل کی‘ تمام غزوات نبویؐ میں حصہ لیا‘ ضعیفی کے عالم میں جہاد میں حصہ لیا اور قسطنطنیہ کے مقام پر ۸۰ برس سے زائد عمر میں شہادت پائی۔ حفظ قرآن اور علم و تفقہ سے بہرہ مند تھے‘ان کے ذریعے متعدد احادیث اُمت کو پہنچیں اور عمربھر حق گوئی کا حق ادا کیا۔ (ص ۱۳‘ ۱۴)
جناب طالب الہاشمی نے حضرت ابوایوب انصاریؓ کی زندگی کے جملہ احوال کو اپنی تصنیفی و تالیفی روایات کے مطابق خوب سجاکر ایک مرقع تیار کیا ہے۔ ہر واقعے کا تذکرہ پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ سیدنا ابوایوبؓ کے ہم رکاب اور ہم نشین ہے اور تاریخ اسلام کے اس دور سے گزر رہا ہے۔حضرت ابوایوبؓ سے مروی روایات کاتذکرہ بھی ہے اور ان کے اہل و عیال کا تعارف بھی کرا دیا گیا ہے۔ کتاب اہلِ علم‘ خطبا اور علما کے علاوہ عام قارئین کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ (حافظ محمد ادریس)
کوئی خاتون پانی کے علاوہ کسی اور چیز کی بھی پیاسی ہو سکتی ہے‘ اسی لیے اس کتاب کا سادہ سرورق جس پر کسی ناشر کا نام بھی نہیں ہے‘ عنوان کی وجہ سے ہرکس و ناکس کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اپنی دنیا میں مگن رہنے والوں نے‘ جن کے لیے ’’پیاسی‘‘ ان کا روز مرہ تھا‘ یہ ضرورت نہیں سمجھی کہ اندرون سرورق پر ہی اس کی وضاحت کر دیتے‘اور یہ عقدہ ۲۸ویں صفحے پر کھلتا ہے کہ ’’پیاسی‘‘ دراصل پی آئی اے کی مزدور یونین‘ PIAC ہے۔ کتاب اس جدوجہد کی داستان ہے جو ملک کی اس اہم لیبر یونین نے مزدور تحریک کو بائیں بازو کے چنگل سے نکالنے کے لیے کی۔ مصنف نے جو خود اس کہانی کا کردار ہے بلاکم و کاست‘بغیر رو رعایت بلکہ بعض اوقات نہایت سادگی سے تفصیلات لکھ دی ہیں۔ یہ دراصل مزدور تحریک میں اسلامی قوتوں کے لڑنے‘ آگے بڑھنے اور ’’سرخوں‘‘ کو باہر نکالنے کی دل چسپ داستان ہے۔ بہت سے معاملات کے بہت سے پہلوئوں پر جدوجہد میں مصروف لوگوں کی نظر نہیں جاتی لیکن جب ۳۰‘ ۴۰ برس بعد پیچھے نظر ڈالی جائے تو سب پہلوئوں کا مطالعہ ہوسکتا ہے۔ تبصرہ نگار کی نظر میں اس کتاب کی اصل وقعت یہ ہے اس میں ایک سیاسی پارٹی‘ یعنی جماعت اسلامی کے ایک مزدور یونین کے لیڈروں اور گروپوں سے تعلقات کو صاف صاف بیان کردیا گیا ہے۔ بہت اچھا اور فرسٹ پرسن مطالعہ ہے‘ جسے دل چسپی ہو وہ ضرور پڑھے۔ (مسلم سجاد)
محمد متین خالد نے پچھلے چند سالوں میں جس خلوص‘ دلی وابستگی اور محنتِ پیہم کے ساتھ کام کیا ہے‘ اس نے انھیں قادیانیت کا متخصّص بنا دیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی بعض کاوشوں پر انھی صفحات پر تبصرہ ہوچکا ہے‘ جیسے: ثبوت حاضر ہیں‘ جو ردِّقادیانیت کے سلسلے میں ایک بے مثل کتاب ہے۔
زیرنظر کتاب‘اس موضوع پر ان کی تازہ کاوش ہے۔ اس میں ایک تو قادیانیت پر علامہ اقبال کی تمام تر اُردو انگریزی نثری تحریریں (انگریزی تحریروں کے تراجم) خطوط اور منظومات و اشعار کو جمع کیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قادیانیوں کے بارے میں‘ اوائل سے آخر تک ان کا مؤقف کیا رہا ہے___ دوسرے: اس موضوع اور اہلِ قلم کی نئی پرانی مختلف النوع تحریروں اور مضامین کا انتخاب دیا گیا ہے۔ بعض تو کتابوں سے مُقتبس ہیں اور چند ایک رسالوں وغیرہ سے ماخوذ ہیں۔ حسبِ ضرورت ہرمضمون کے آخر میں حوالے اور حواشی بھی دیے گئے ہیں___ لکھنے والوں میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘ سید نذیرنیازی‘ مولانا ظفر علی خاں‘ یوسف سلیم چشتی‘ شورش کاشمیری‘ جسٹس (ر) جاوید اقبال‘ مولانا یوسف لدھیانوی‘ ڈاکٹروحید قریشی اور بہت سے دوسرے اصحاب شامل ہیں۔
یہ تو واضح ہے کہ اقبال کے نزدیک قادیانی‘ اُمت مسلمہ کا حصہ یا فرقہ نہیں‘ بلکہ ایک الگ مذہب (قادیانیت) کے پیروکار ہیں اور انھوں نے قادیانیوں کو اسلام اور ہندستان‘ دونوں کا غدار قرار دیا ہے‘ اور اس کے لیے ان کے پاس نقلی و عقلی اور فکری دلائل موجود تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد‘ قادیانیوں کی سرگرمیوں نے‘ اقبال کی رائے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے‘ مثلاً اسرائیل میںقادیانیوں کا مشن (بذاتِ خود یہی بات ان کے غیرمسلم ہونے کے لیے کافی ہے۔ اگر وہ اُمت مسلمہ کا حصہ ہوتے تو یہودی انھیں کبھی اسرائیل میںقدم رکھنے کی اجازت نہ دیتے)۔
زیرنظر مضامین سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قادیانیوں نے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا‘ اور وہ اب بھی اس کے خلاف سازشوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔
کتاب سلیقے سے مرتب اور اچھے معیار پر شائع کی گئی ہے۔ اپنے موضوع پر ایک عمدہ جامع دستاویز ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
محترمہ نیر احسان رشید ایک ممتاز پورٹریٹ مصور اورخطاط ہیں۔ انھوں نے اپنے مخصوص اور منفرد (مصوری+ خطاطی کے) امتزاجی اسلوب میں اللہ پاک کے ۹۹ ناموں کا ایک رنگین مرقع تیار کیا ہے۔ بڑی تقطیع میں اسماء الحسنیٰ کا یہ البم‘ اس کام سے ان کی لگن‘ دلی وابستگی اور مہارت کا عمدہ نمونہ ہے۔
نیراحسان کا آبائی تعلق گلبرگہ (حیدرآباد دکن) سے ہے اور انھوں نے خطاطی کی باقاعدہ تعلیم بچپن میں ایک ماہر خطاط مولوی شمشیر علی صاحب سے حاصل کی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ مولوی صاحب ٹھیک چھے بجے صبح ہمارے گھر تشریف لاتے‘ آیا مجھے وضو کرا کے تیار کراتی اور قرآن پاک کے سبق کے بعد‘ میں تختی پر لکھنے کی مشق میں مشغول ہوجاتی۔ ہر حرف‘ بار بار‘ ہزار بار لکھنے کے بعد ہی صحیح شکل میں لکھنے میں کامیاب ہوتی۔ اس پس منظر میں انھوں نے شبیہ مصوری (portrait painting) میں تخصّص حاصل کیا۔ ۲۰ برس قبل‘ جب وہ اُردن میں تھیں‘ ایک حادثے میں معذور ہوکر انھیں چھے ماہ کے لیے پابند بستر ہونا پڑا۔ اس معذوری نے ان کا اسلوبِ حیات بالکل تبدیل کر دیا۔ مطالعہ و تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے اسماء الحسنیٰ کو برش اور رنگوں کے ذریعے صفحۂ قرطاس پر رقم کرنے کا خیال آیا۔ کام شروع کیا اور رفتہ رفتہ ان کے لیے یہ نیا تخلیقی تجربہ بنتا گیا۔ وہ رات دن اس کام میں منہمک رہتیں۔ اس دوران ان کا درد معجزانہ طور پر کم ہوتا گیا۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے تاثرات بھی ریکارڈ کرتی رہیں۔ شاعرانہ زبان و اسلوب میں‘ ان کے وہی تاثرات‘ اس خوب صورت مرقّعے کے ہر صفحے پر اللہ کے نام کے بالمقابل درج ہیں اور ساتھ ہی عربی ترجمہ بھی دیا گیا۔ یوں انگریزی کے ساتھ عربی قارئین بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ یہ ہے___ الصّبور آخری صفحے پر ہے۔اس کے بالمقابل توضیح ان الفاظ میں ہے:
The final reward shall be mine, Ya Sabur
Your blessing, I patiently wait.
ان کی مصوری پر فنّی رائے تو کوئی ماہر ہی دے سکتا ہے تاہم مصوری کے یہ نمونے بالعموم ہلکے اور خوش گوار رنگوں میں ہیں اور سادگی‘ نرمی اور دھیمے پن کا تاثر دیتے ہیں۔ پس منظر یا گرائونڈ میں ایک جھلملاہٹ سی ہے‘ جیسے بارش کے باریک قطروں کے نشانات ہوں یا ہلکی ہلکی خم کھاتی اور کہیں کہیں دائرہ کرتیں۔
مرقّع بہت اہتمام سے‘ نہایت عمدہ دبیز کاغذ پر اور بہترین طباعت کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرامؓ کو اپنے راضی ہونے کی بشارت دی: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (التوبہ ۹:۱۰۰)۔ لیکن ان میں سے متعدد کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ساقیِ کوثر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام لے کر ان کو جنت کی بشارت دی۔ مولانا محمود احمد غضنفر نے ایسے ہی ۲۴مبشر صحابۂ کرامؓ کی سیرت و سوانح کی جھلکیاں اس کتاب میں ایسے دلآویز پیرائے میں پیش کی ہیں کہ قاری کتاب کے اندر جذب ہوکر رہ جاتا ہے۔ عشرہ مبشرہ وہ صحابہ کرامؓ ہیں جن کو حضوؐر نے ایک ہی نشست میں جنت کی بشارت دی‘ جب کہ ۱۴ وہ ہیں جن کو وقتاً فوقتاً آپ نے یہ بشارت دی۔کتاب کی ابتدا میں قرآن وسنت کی روشنی میں جنت کی جھلک پیش کی گئی ہے۔ ایک انفرادیت ہرصحابیؓ کے تذکرے سے قبل ان کی شان میں تمام فرمودات رسولؐ کو یکجا کرنا ہے‘ اور آخر میں فضائل و خصوصیات کا مختصراً تذکرہ بھی موجود ہے جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوجاتی ہے۔
بہت سی خوبیوں کے ساتھ ’’ہر گُلے را خارے‘‘ کے مصداق اس میں کچھ چیزیں نظرثانی کی محتاج ہیں۔ بالخصوص صحابہ کرامؓ کے ناموں کی صحت کا اہتمام لازم ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے (ص ۱۸۶)‘ یہ صحیح نہیں۔ حضوؐر کی والدہ ماجدہ کا کوئی حقیقی بھائی نہ تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے گھر کا سارا سامان جہاد کے لیے پیش کر دیا (ص۱۹۷)‘ یہ شرف صرف صدیق اکبرؓ کو حاصل ہوا۔ کتاب کے بیشتر الفاظ اِعراب اور علاماتِ اضافت (ہمزہ یا زیر‘ پیش) کے بغیر ہیں۔ ایسی کتابوں میں اِعراب اور علاماتِ اضافت لگانے کا اہتمام کرنا بہت ضروری ہے (بالخصوص اسما پر)۔ امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔ کتاب کی پیش کش شایانِ شان ہے۔ (طالب الہاشمی)
اسی عنوان سے ۳۰ خطبات کے ایک مجموعے کی اشاعت کے بعد‘ عبدالرشید صدیقی صاحب نے یہ ۲۵ خطبات کا مجموعہ پیش کیا ہے۔ کہاجا سکتا ہے کہ اگر پہلا حصہ نماز روزہ جیسے دینی موضوعات سے بحث کرتا تھا تو اس حصے میں دہشت گردی‘ ہم جنس پرستی‘ انفارمیشن ٹکنالوجی‘ انسانی حقوق‘ جانوروں کے حقوق‘ غیرمسلموں سے تعلق وغیرہ جیسے ’’جدید‘‘ موضوعات زیربحث آئے ہیں۔ دراصل یہ تحریریں چھے چھے‘ سات سات صفحات کے خطبات ہیں جو جہاں ضرورت ہو جمعہ کی نماز میں انگریزی زبان میںدیے جا سکتے ہیں۔ پہلے حصے میں ۳۰ موضوعات تھے اور مقدمے میں دعا کی گئی تھی کہ مصنف ۵۲ پورے کر دیں۔ دعا کچھ زیادہ قبول ہوگئی اور اب ہمارے پاس ایک سال کے لیے ۵۵ خطبات ہیں۔
دراصل یہ خطبے اپنے موضوع پر نہایت مختصر‘ جامع‘ مستند اور علمی حیثیت سے اعلیٰ معیار کے مضامین ہیں جن سے ایمان کو طاقت اور توانائی فراہم ہوتی ہے۔ انگریزی تو اب ہر ملک کی زبان ہے۔ خود ہم پاکستان میں اس کی قدر افزائی اور بیچاری اُردو کی ناقدری کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اسلامک فائونڈیشن کا اصل کام اسے چھاپنے سے زیادہ ضرورت مندوں تک پہنچانا ہے۔ یہ کس طرح ہو‘ پانچ پائونڈ میں یہ معمہ بظاہر ناقابلِ حل ہی لگتا ہے۔ (مسلم سجاد)
ماہنامہ آئین لاہور نے مغربی تہذیب کو سمجھنے‘ اس کے اثرات کا احاطہ کرنے اور اس کے عمق کا جائزہ لینے کے لیے اہلِ فکرودانش کی آرا اکٹھی کیں اور دنیا بھر کے اُردو داں طبقے کے لیے تین عظیم خاص نمبر ’’مغربی تہذیب‘‘ کے نام سے پیش کر دیے۔بیش تر مرزا الیاس کی ناقابلِ یقین محنت ہے‘ جس پر وہ بجاطور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
گذشتہ خاص نمبروں کی طرح مغربی تہذیب ’اشاعت خاص سوم‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ایک تحریر اور مرزا محمد الیاس صاحب کے سات تجزیاتی مضامین پر مشتمل ہے۔ اِس خاص نمبر میں ماڈرن ازم کی تعریف متعین کرنے‘ اس کے تاریخی حوالوں سے متعارف کرانے اور اس کے دور رس اثرات کی وسعت کھنگالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ سے اس کے حوالے‘ چرچ پر اس کے اثرات اور اس نظریے کے زوال پر پہلے مضمون میں بحث موجود ہے۔
لبرل ازم‘ جدیدیت کا ایک اور چہرہ ہے۔ اس کے خدوخال ’’جدید معاشروں میں مسائل‘ مشکلات اور بحران‘‘ میں واضح کیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق‘ آج کے دور کا سب سے معروف چلتا ہوا سکّہ ہے‘ خدا کو پیچھے کر دینے اور انسان اور اُس کی خواہشات کو آگے کر دینے کا کام موجودہ دور میں جس طرح ہو رہا ہے اُس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان اور انسانی حقوق کو اتنا مقام دے دیا جائے کہ خد اور اُس کے حقوق ازکارِ رفتہ محسوس ہوں‘ کیتھولک عیسائیت نے پہلے ماڈرن ازم کو پروان چڑھایا اور بعدازاں اسی ماڈرن ازم نے اس کا تمسخر اُڑایا‘ مغرب میں نشاتِ ثانیہ کے عمل کی جو جہتیں رہی ہیں اُن پر بھی سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
مابعد جدیدیت‘ تقسیم و تنسیخ اور جدید معاشرے کے عنوان سے سرمایہ داری نظام اور جدیدیت کے بارے میں مغربی معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خاندان کو ختم کرنے اور انفرادیت کے نام پر انسانیت کو سُولی چڑھانے کی جو کوشش ہو رہی ہے اُس پر بھی تفصیلی تجزیہ موجود ہے۔
’’گلوبل کلچر‘ امکانات‘ خطرات‘‘ میں مرزا صاحب نے سرمایہ داری نظام‘ کلب کلچر‘ اور انگریزی زبان کو اقتدار دلانے کی کوششوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں خاصے کی چیز ’’تہذیبوں کا تصادم___ مقاصد اور محرکات‘‘ ہے۔ عراق پر جس طرح حملہ کیا گیا اور اس سے پہلے عرب دنیا میں جس طرح بادشاہتوں کی سرپرستی کی گئی اور اُس کے جو سنگین اثرات مرتب ہوئے وہ اس باب کا موضوع ہیں۔
یہ عظیم الشان ‘ وقیع اور جان دار تہذیبی محاکمے‘ ہر تعلیمی ادارے‘ ہر فکری مرکز اور دین اسلام سے محبت و تعلق رکھنے والے ہر شخص کی میز پر ہونا چاہییں۔ (محمد ایوب منیر)
محترمہ نگہت سیما صاحبہ نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے آغاز کیا۔ اسکول کے زمانے میں اخبار میں ایک ویت نامی بچے کی تصویر دیکھی جو زمین پر اوندھے منہ گرا ہوا تھا اور ایک امریکن فوجی اسے ٹھوکریں مار رہا تھا۔ وہ بچہ مصنفہ کی عمر کا تھا۔ اسکول کی اس طالبہ نے اس بچے کا دکھ اپنا بنالیا اور کہانی لکھی ’’وانگ ھو کی کہانی‘‘۔ یہاںسے ان کے قلمی سفر کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا۔ ’’مسجداقصیٰ کی کہانی‘‘ ان کی دوسری کہانی تھی۔ نوحہ گری کا یہ سفر فلسطین‘ مشرقی پاکستان‘ افغانستان‘ کشمیر اور بوسنیا سے ہوتا ہوا اب عراق تک آن پہنچا ہے۔
زیرنظر کتاب ان کے پانچ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ’’دانہ و دام کی کہانی‘‘ اس کتاب کا پہلا طویل افسانہ ہے جو ناولٹ کہلانے کا زیادہ حق دار ہے۔ ایک کالم نویس کی کہانی جس کا قلم عراق کی حکایت خونچکاں کے سوا کچھ اور لکھنے سے انکاری ہے۔ اس کا ایڈیٹر شکوہ کرتا ہی رہ جاتاہے۔ ایک بیٹی کی کہانی‘ جس کی ماں کو ایک یہودی این جی او کی سربراہی سے فرصت نہیں‘ جو تنہائی اور سرطان کے مرض کا شکار لمحہ لمحہ موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جب ماں کی آنکھیں کھلتی ہیں تو کرنے کو کچھ نہیں رہا۔ یہ محب اللہ کی کہانی ہے جو سرتاپا محبِّ وطن تھا‘ جو وانا سے آتی تشویش ناک خبروں سے پریشان ہو کر اپنے اخبار سے چھٹی لے کر اپنے عزیزوں کا پتہ کرنے گیا اور گولی کا نشانہ بن گیا۔ اور یہ پاک فوج کے ایک بانکے افسر اسجد کی داستان بھی ہے جو وہاں غیروں کی بھڑکائی آگ کا ایندھن بن گیا۔ اس داستان میں نائن الیون کے بعد کے بہت سے تلخ حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔
فرینڈلی فائر نائن الیون کے بعد ایک امریکی دوست کی طرف سے موصول ہونے والے گالیوں بھرے خط (فرینڈلی فائر) کا جواب ہے‘ جس میں ایک پاکستانی کے المیے کی جھلک ہے جو قلعہ جنگی اور ابوغریب کی تصاویر دیکھ کر روتا بھی ہے لیکن امریکا جاکر ڈالر کما کر لانے کا آرزو مند بھی۔ ’’لاینحل‘‘ ایک ایسے پاکستانی نژاد امریکی کی داستان ہے جو امریکی تہذیب کو اس کی تمام تر آزاد روی سمیت اپنا چکا ہے‘ لیکن جب اس کے بیوی بچے ایک سکھ خاندان سے دوستی کا رشتہ استوار کرتے ہیں تو ہجرت کا وہ سفر جو اس نے اپنی ماں کے ساتھ اس کی انگلی تھام کر ۱۹۴۷ء میں کیا تھا‘ اپنی تمام تر ہولناک یادوں کے ساتھ اس کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔
باقی دو افسانے ذرا مختلف پہلوئوں کو چھوتے ہیں۔ ’’روشن چراغ رکھنا‘‘ خاندانی چپقلشوں‘‘ کی ایک ایسی داستان ہے جو ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر بکھری ہوئی ہے۔ اس مجموعے کی آخری کہانی ’’انتہا پسند‘‘ ایک اہم معاشرتی المیے کو ہمارے سامنے لاتی ہے جہاں ایک خاوند دین کی غلط تعبیر کرتے ہوئے اپنی نوبیاہتا کو اپنے لیے بھی بننے سنورنے سے روک دیتا ہے۔ بیوی جو اپنے آپ کو اس کے رنگ میں رنگنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتی چلی جاتی ہے‘اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اور جب خاوند کو اپنی غلط روش کا احساس ہوتا ہے تو وہ اللہ سے لو لگا کر دنیا کی تمام اُمنگوں اور آرزوئوں سے بے نیاز ہوچکی ہوتی ہے۔یہ تمام افسانے سبق آموز اور چشم کُشا ہیں۔ (خالد محمود)
اس اشاعت خاص میں ۲۰۰ سالہ داستانِ آزادی کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے‘ یعنی: ۱۷۰۷ء تا ۱۸۵۷ئ، ۱۸۵۷ء تا ۱۹۰۶ء اور ۱۹۰۶ء تا ۱۹۴۷ئ۔ ’’آزادی مبارک‘‘ خصوصی کہانی سے اشاعت خاص کا باقاعدہ آغاز دل چسپ انداز میں ہوتا ہے جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قیامِ پاکستان کا عمل کس آگ اور خون کے سمندر سے گزر کر عمل میں آیا اور ہم کسی ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کے قانون کے تحت مغلیہ سلطنت کے زوال کا جائزہ اور پاکستان کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جدوجہد آزادی کے تمام اہم مراحل‘ نمایاں شخصیات‘ قائداعظم اور ان کے رفقا کی خدمات کا تذکرہ دل چسپ پیراے میں پیش کیا گیا ہے۔
علماے کرام کی ناقابلِ فراموش خدمات‘ نوجوانوں کا جذبۂ آزادی‘ خواتین کا تاریخ ساز کردار‘ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی‘ خوابِ غفلت سے بیدار کر دینے والا کلامِ اقبال اور بہت کچھ‘ تاہم دیگر شعرا کرام کے کلام کی تشنگی محسوس ہوئی۔ اقتباسات کا عمدہ انتخاب بھی خاصے کی چیز ہے‘ البتہ حوالوں کی کمی کھٹکتی ہے۔ دیگر عمومی مستقل سلسلے بھی موجود ہیں بالخصوص ڈاکٹر صہیب حسن کا بیت المقدس کا سفر لائقِ مطالعہ ہے۔
اُردو ڈائجسٹ مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے نئی نسل کا قرض بڑی حد تک چکا دیا۔ خوب صورت سرورق‘ مناسب قیمت‘ عمدہ پیش کش متقاضی ہے کہ اس کاوش کی قدردانی ہو۔ (امجدعباسی)