کتاب نما


برصغیر ہند میںاشاعت ِ اسلام کی تاریخ‘ مفتی محمد مشتاق تجاروی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ دہلی‘بھارت۔ صفحات: ۱۶۴۔ قیمت: ۷۵ بھارتی روپے۔

ہندستان میں اشاعت اسلام کی تاریخ ایک جامع اور وسیع موضوع ہے۔ اس موضوع پر اگرچہ بہت سی مفصل کتب موجود ہیں لیکن ایسی کتاب کی جو مستند مراجع کے ساتھ یک جا اور    قابلِ اعتماد تفصیل فراہم کرسکے کمی تھی۔ مفتی محمدمشتاق تجاروی کی یہ کتاب اسی مقصد کے حصول کی جانب ایک مستحسن کاوش ہے۔

ہندستان میں اشاعتِ اسلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ یہ درحقیقت انفرادی کاوشوں کا ثمرہ ہے (ان میں بھی صوفیہ کا کردار نمایاں ہے) اور قبولِ اسلام بھی زیادہ تر انفرادی سطح پر ہوا ہے۔ ان کاوشوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: صوفیہ‘   علما‘سلاطین اور تجار۔ ’صوفیہ کی تبلیغی خدمات‘ کے تحت اشاعتِ اسلام میں صوفیہ کی گراں قدر خدمات‘ ان کا طریق تبلیغ و حکمت عملی اور اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے‘ نیز معروف صوفیۂ کرام کی خدمات کا مختصر اور جامع تعارف بھی دیا گیا ہے۔ صوفیہ کے بعد علماے کرام کی تبلیغی خدمات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں ایک دل چسپ پہلو یہ اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ مسلم حکومت کے عہد عروج میںتبدیلیِ مذہب کے واقعات کم ہوئے اورعہدزوال میں اسلام کی اشاعت   بڑی تیزی سے ہوئی (ص ۷۸)۔ ۱۹۳۳ء کے پہلے ۵۰ سالوں میں تقریباً ۶۱ لاکھ لوگوں نے اسلام قبول کیا... پروفیسر آرنلڈ کے بقول سالانہ ۶لاکھ تک لوگوں نے اسلام قبول کیا (ص ۹۶)۔ دورِ زوال میں تبلیغی مساعی کا سہرا زیادہ تر علما کے سر جاتا ہے۔ معروف علماے کرام کی خدمات کا مختصر جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

سلاطین کی تبلیغی خدمات کے جائزے میں یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ اشاعتِ اسلام میں سلاطین کانمایاں کردار نہ تھا۔ مسلمان سلاطین پر جبریہ اور جزیے کے ذریعے اشاعت اسلام‘ نیز جنگی قیدیوں کو جبریہ مسلمان کیا گیا جیسے اعتراضات کا ٹھوس دلائل سے رد کیا گیا ہے۔

ایک باب مسلمان تاجروں کی تبلیغی خدمات اور ان کے اثرات پر مبنی ہے۔ ہندستان میں اشاعتِ اسلام کا پہلا تعارف عرب تاجر تھے۔ ان کی معاشرت‘ حسنِ سلوک اور کردار نے   اشاعتِ اسلام میں نمایاں کردار ادا کیا اور ذات پات پر مبنی معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے۔

مصنف نے صوفیہ اور بزرگانِ دین کی تبلیغ اور اصلاح کے علاوہ مسلم معاشرے کے لیے اُن کی بعض سیاسی اور معاشرتی خدمات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً جب مغلوں نے ملتان پر حملہ کیا (۱۲۷۳ء) تو حضرت بہائوالدین زکریاؒ نے ایک لاکھ روپے دے کر شہر کو اُن کی لوٹ مار سے بچایا۔ شیخ جلال الدین سلہٹ نے مسلمان سلطان سکندر آف بنگال نے جب گائے کے ذبیحہ کے مسئلے پر قتل ہونے والے مسلمان بچے کا بدلہ لینے کے لیے حملہ کیا تو شیخ نے ۳۶۰ مریدین کے ہمراہ اُن کے ساتھ جنگ میں شرکت کی۔ (ص ۴۰-۴۱)

اس کتاب کی اشاعت سے جہاں ہندستان میں اشاعتِ اسلام کے موضوع پر ایک مختصر‘ جامع اور مستند مطالعہ سامنے آیا ہے‘ وہاں یہ صوفیہ‘ علما‘ حکمرانوں اور تاجروں کے لیے بھی اشاعتِ اسلام اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے غوروفکر اور تحریک کا باعث ہوگا۔ (عرفان احمد)


مغربی تہذیب کا چیلنج اور اسلام‘ مرتب: پرواز رحمانی۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اسلام اور مغرب کی کش مکش‘ تہذیبوں کا چیلنج‘ بنیاد پرستی‘ دہشت گردی اور تہذیبی اور  ثقافتی یلغار جیسی اصطلاحات زبانِ زدعام ہیں۔ اس سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی واشنگٹن کی قیادت میں ثقافتی‘ عسکری اور سیاسی یلغار کے خلاف یہ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے کہ یہ مغربی تہذیب کا کیا دھرا ہے۔ البتہ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے میں کوئی عار نہیں کہ مغربی تہذیب کے فکری ارتقا‘ بتدریج نشوونما اور طاقت ور قوتِ نافذہ کے بارے میں عالمِ اسلام میں اور بالخصوص اُردو زبان و ادب میں ٹھوس مطالعہ نہیں ہوا‘ اور نہ کسی تحقیقی ادارے نے اس کو باقاعدہ موضوع تحقیق بنایا ہے (وسائل کی کمی نہیں‘ اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے)۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد اس موضوع نے ایک نئی جہت لی ہے اور قرآن‘ پیغمبرؐاسلام‘ غزوات‘ صحابہؓ کے جھگڑے‘ شیعہ سُنّی کی تفریق‘ زکوٰۃ‘ وراثت‘چار شادیوں کا حق‘ جہاد‘ ذِمّیوں کے حقوق جیسے الزامات پس منظر میں چلے گئے ہیں اور اسلام دہشت گردی کا ہم معنی قرار پایا اور پھر مسلمان کو دہشت گردی کی نشوونما میں شریک ٹھیرایا جا رہا ہے۔ اسلام اور مغرب کی اس تہذیبی کش مکش میں شدت آتی جارہی ہے۔ اسلام کو درپیش اس چیلنج کا کیسے سامناکیا جائے___ زیرنظر کتاب اس کا ایک علمی و تحقیقی جواب ہے۔

بنیادی طور پر یہ کتاب سہ روزہ دعوت، دہلی کی اشاعتِ خاص ہے جسے پرواز رحمانی نے مرتب کیا ہے‘ اور ایک اہم علمی ضرورت کو پورا کرنے کے پیش نظر منشورات نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔اس کتاب میں ۲۰ مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ مغرب کے تاریخی کردار‘ تہذیبی چیلنج‘ امریکی زوال‘ دہشت گردی‘ عصری چیلنج‘ احیاے اسلام کی تحریک‘ عقلیت پسندی‘ نظامِ معاشرت‘ یہودیت اوردورِ جدید اور دیگر اہم موضوعات زیربحث لائے گئے ہیں۔

شہناز بیگم کا اٹھایا گیا یہ سوال اہم ہے کہ مختلف مذاہب‘ عقائداور فلسفے نے عورت کو کیا حق دیا؟ اس کا تقابلی مطالعہ کیوں نہیں کیا گیا؟ فضیل الرحمن ہلال عثمانی کا تجزیہ ہے کہ جب آپ مغربی سائنس و ٹکنالوجی استعمال کریں گے تو آپ کو اُن کی اخلاقیات بھی استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علی الرغم راستہ اختیار کرناچاہیے۔ ظفرالاسلام خان نے فرانس فوکویاما اور ہن ٹنگٹن کے پیش کردہ نظریات کا پردہ چاک کیا ہے۔ سیدعبدالباری کا خیال ہے کہ مغرب کے تہذیبی استعمار کی راہ اگر کوئی نظریہ اور تہذیبی تصور روک سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ خرم مراد اور پروفیسر خورشید احمد کے مقالات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔

اس کتاب کے مطالعے سے جہاں کئی اور موضوعات غوروفکر اور تحقیق کے لیے اُبھریں گے وہاں غلبۂ اسلام کی عالم گیر جدوجہد سے وابستہ قیادت اور کارکن بھی کئی نئے موضوعات پر سوچنے کی راہیں پائیں گے۔ (محمد ایوب منیر)


فتاویٰ رسولؐاللہ، استفادہ از امام ابن قیم، تقدیم و نظرثانی: مبشراحمد ربانی۔ تحقیق‘ تدوین و اضافہ: ابویحییٰ محمد زکریا۔ ناشر: حدیبیہ پبلی کیشنز‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردوبازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۲۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

بیروت کے ایک ادارے دارالمعروفہ نے امام ابن قیمؒ کی معروف کتاب اعلام الموقعین کا ایک حصہ فتاویٰ رسولؐ اللّٰہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ زیرنظر کتاب اُس کا ترجمہ ہے لیکن ابویحییٰ محمدزکریا نے اصل مصادر و مراجع سے رجوع کر کے پوری تحقیق کے بعد کتاب مرتب کی ہے۔ پھر ابواب اور فصلوں کی ترتیب میں بھی حسبِ ضرورت ردوبدل کیا گیا ہے۔

کتاب میں ان احادیث کو بلحاظ موضوع جمع کیا گیا ہے جن میں نبی کریمؐ نے وقتاً فوقتاً زندگی کے مختلف امور و مسائل پر صحابہ کرامؓ کے سوالات کے جواب دیے۔ جملہ ذخیرئہ فتاویٰ کو ۲۵ابواب (عقیدہ‘ ایمان اور توحید‘ تفسیرقرآن‘ افضل اعمال‘ نبوت اور وحی‘ طہارت‘ نماز‘      موت اور میت‘ روزہ‘ زکوٰۃ و خیرات‘ حج‘ ذکرِالٰہی‘ نکاح‘ میراث‘ کسبِ معاش اور جہاد وغیرہ) کے تحت ضمنی عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ یہ ترتیب سوال جواب کی شکل میں ہے۔ سوال اُردو اور جواب میں پہلے حدیث کا عربی متن‘ پھر اُردو ترجمہ دیا گیا ہے۔پاورق حواشی میں اسناد اور حوالے درج ہیں۔

بلاشبہہ کتاب بڑی محنت سے مرتب کی گئی ہے۔ کتابت اور آرایش کا انتظام بھی خوب ہے۔ ص ۳۸۸ پر’کبیرہ گناہوں کا بیان‘ کے زیرعنوان ایک سوال (یارسولؐ اللہ! کبیرہ گناہ کیا ہیں؟) کے جواب میں عربی متن حدیث پانچ سطروں میں اور اس کا ترجمہ چھے سطروں میں درج ہے‘ اور یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ یہ ’بہت سی احادیث کا مجموعہ ہے‘۔ بعدازاں اس کی تشریح میں ۱۸۴ کبیرہ گناہوں کی فہرست دی گئی ہے جس کے مطابق ’نمازی کے سامنے سے گزر جانا بھی کبیرہ گناہ‘ ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس مختصر حدیث سے اتنی طویل فہرست کیسے اخذ کی گئی ہے؟ بحیثیت مجموعی کتاب لائقِ مطالعہ اور مفید ہے۔ عام قاری کو قابلِ قدر رہنمائی ملے گی۔(رفیع الدین ہاشمی)


تحفظ ختم .ِنبوت، اہمیت اور فضیلت، محمد متین خالد۔ ناشر: مرکز سراجیہ‘ لاہور۔ ملنے کا پتا:  علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۵۱۔ قیمت (مجلد): ۲۰۰ روپے۔

قادیانیت اور ختم ِنبوت کے موضوع کے حوالے سے محمد متین خالد کا نام محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ اس موضوع پر آپ کی متعدد وقیع کتب سامنے آچکی ہیں۔ اب انھوں نے تحفظ ختم نبوت کی اہمیت و فضیلت پر ایک عمدہ کتاب شائع کی ہے۔

’مقامِ مصطفیؐ ‘باب سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے جو آپؐ کا ایمان افروزاور حبِ رسولؐ سے سرشار تذکرہ ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں‘ جھوٹے مدعیانِ نبوت اور ان کے خلاف صحابہؓ کا جہاد‘ مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت اور ہرزہ سرائیاں جیسے موضوعات بھی زیربحث آئے ہیں۔ حبِ رسولؐ اور عشقِ رسولؐ پر مبنی ایمان افروز واقعات اور عظیم شخصیات کا تذکرہ کتاب کا  جہاں دل چسپ اور اہم حصہ ہے وہاں اجمالاً تاریخ سے آگہی بھی دیتا ہے (چند نام: علامہ محمد اقبال‘  ثناء اللہ امرتسری‘ انورشاہ کشمیری‘ احمد علی لاہوری‘ عطاء اللہ شاہ بخاری‘ظفر علی خاں‘ شورش کاشمیری‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ پیر کرم شاہ ازہری‘ عامر عبدالرحمن چیمہ شہید وغیرہ)۔ گستاخانِ رسولؐ سے مسلمانوں کا رویہ اور ان کے انجام پر بھی ایک باب ہے۔ مصنف نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ قادیانیوں کا مکمل سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیاجائے۔ اس لیے کہ رواداری کی اجازت   صرف ان کافروں کے لیے ہے جو محارب اور موذی نہ ہوں۔ قادیانی اپنی شرانگیزیوں کے باعث اس زمرے میں نہیں آتے(ص ۲۸۰)۔ آخر میں تحفظ ختمِنبوت کی اہمیت کے پیش نظر اسے   فریضہ امربالمعروف ونہی عن المنکر قرار دیتے ہوئے رہنمائی دی گئی ہے کہ کیسے اس فرض کو ادا کیا جائے۔ بلاشبہہ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ (امجد عباسی)


توضیح و تصریح، محمود عالم۔ ناشر: اُردو بک ریویو‘ دہلی‘ بھارت۔صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: ۱۰۰ بھارتی روپے۔

محمودعالم کے سات مضامین اور ۱۹ کتب پر تبصروں کا یہ مجموعہ محمد عارف اقبال نے مرتب کیا ہے۔ محمودعالم مرحوم ہندستان اور سعودی عرب میں مختلف تعلیمی اور علمی اداروں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کتاب کے مضامین پڑھ کراندازہ ہوتا ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کے لیے ایک   دردمند دل رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے سامنے میزان قرآن و حدیث ہی ہے۔ ’اہلِ قلم کی اخلاقی ذمہ داریاں‘ اس مجموعے کا ایک اہم مضمون ہے جس میں انھوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ قلم کو اللہ تعالیٰ نے بطور امانت انسان کے سپرد کیا ہے۔ اس کے ذریعے عدل و انصاف‘ امن و امان اور خیروفلاح مقصود ہونا چاہیے نہ کہ فاسقانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اس کی حُرمت کو پامال کیا جائے۔

محمودعالم کے خیال میں اُمت مسلمہ کے زوال پر ایک افسوس اور نوحہ توکیا جا رہا ہے لیکن اسے زوال سے نکالنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر کوشش نظر نہیں آتی ماسوا چند افراد (شکیب ارسلان‘ علامہ اقبال اور مولانا مودودی) کی اہم کوششوں کے۔ دورِحاضر کے سربراہانِ حکومت اور راہنما اُمت کو پستی سے نکالنے کے بجاے تہذیب مغرب کی غلامی پر رضامند رہنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ ان کے مضامین میں خاصا تنوع ہے (مطالعۂ کتب کیوں اور کیسے؟ اہلِ قلم کی اخلاقی ذمہ داریاں‘ کلامِ حافظ میں اخلاقی اور روحانی تعلیمات‘ تفسیرقرآن: ایک جائزہ‘ انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ)۔

مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے محمودعالم کا موضوع اعلیٰ انسانی اخلاقی اقدار ہیں اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیراہونا ہے۔ زوال اُمت پر فاتحہ خوانی کرنے کے بجاے شکیب ارسلان‘ علامہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کو اپنا کر نئی صبح کی نوید کا پیغام دینا فرضِ اولیں ہے۔(محمد ایوب لِلّٰہ)


حکمت عملی کا تسلسل ، قاضی حسین احمد۔ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘  ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۹۲۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

محترم قاضی حسین احمد نے بطور امیرجماعت اسلامی پاکستان‘ جماعت کی مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں (دسمبر ۱۹۸۷ء تا جنوری ۲۰۰۶ء) میں جو افتتاحی اور اختتامی تقریریں کیں‘ انھیں  حافظ شمس الدین امجد نے مرتب کیا ہے۔ ان تقریروں میں بنیادی طور پر‘ اجلاس سے متصل گزرے ہوئے قومی و ملّی حالات پر تبصرہ ہے۔ چونکہ بڑے مسائل (کشمیر‘ افغاستان‘ فلسطین‘ پاکستان میں آئینی معاملات اور آمریت و جمہوریت کا قضیہ وغیرہ) ایک ہی نوعیت کے رہے ہیں‘ البتہ ان مسائل سے منسلک افراد کے نام بدلتے رہے ہیں‘ اس مناسبت سے مسئلے کے ساتھ متعلقہ افراد کے رویے بھی زیربحث آئے ہیں۔بہ ایں ہمہ ۱۹ برس کے واقعات پر جماعت اسلامی کے موقف کو جاننے کا یہ ایک ماخذ ہے۔ (سلیم منصور خالد)


سانحۂ لال مسجد، مرتب: رضوان ریاض انصاری۔ ناشر: شامل پبلی کیشنز‘ کراچی۔ ملنے کا پتا: ادارہ معارف اسلامی‘ ۳۵-ڈی‘ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ صفحات:۲۵۵+۱۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ سیدہ حفصہؓ کی جاں نثار بیٹیاں، مرتب: عباس اختر اعوان۔ ناشر: مکتبہ خواتین میگزین‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۷۲+۴۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

لال مسجد اور جامعہ حفصہ اسلام آباد پر مسلط کیے جانے والے خونیں آپریشن کا تذکرہ ایک مدت تک ہمارے دینی‘ سیاسی اور اجتماعی مباحث کا حصہ بنا رہے گا۔ زیرنظر کتب کے مرتبین نے اس سانحے کے فوراً بعد قومی اخبارات میں شائع ہونے والے مختلف کالموں اور مضامین کو اس انداز سے مرتب کردیا ہے‘ کہ زمانے کی فصل کے باوجود مستقبل میں قاری یہ دیکھ سکے گا اور محسوس کرسکے گا کہ رنج و الم کی اس فضا میں اہلِ قلم اور خصوصاً کوچۂ صحافت سے وابستہ افراد نے کس انداز سے اسے دیکھا‘ محسوس کیا اور بیان کیا۔ (س-م-خ)


العصر، ارضِ قرآن نمبر، مفتی غلام الرحمن۔ ناشر: ماہ نامہ العصر‘ جامعہ عثمانیہ‘ عثمانیہ کالونی‘ نوتھیہ روڈ‘ پشاور صدر۔ صفحات: ۱۲۷۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

جامعہ عثمانیہ‘ پشاور کے مہتمم مولانا مفتی غلام الرحمن کی مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک شام اور اُردن کی روداد سیروسیاحت جو العصر کی خصوصی اشاعت ’ارض قرآن نمبر‘کے نام سے شائع کی گئی ہے۔دمشق‘ حلب‘ حمص اور ان کے نواحی علاقوں کے آثار‘ مساجد‘ مقابر اسی طرح اُردن کے مختلف علاقوں‘ شہروں‘ عمارتوں کی زیارت کی تفصیل دی گئی ہے۔ شام اور اُردن میں صحابہ کرامؓ کثیرتعداد میں مدفون ہیں۔ مفتی صاحب نے بلال حبشیؓ، امیرمعاویہؓ، خالد بن ولیدؓ، زیدبن حارثہؓ، جعفر بن ابی طالبؓ، عبداللہ بن روادؓ، ابوعبیدہ بن الجراحؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ وغیرہ اور بعض اکابر اُمت (ابن عربی‘ صلاح الدین ایوبی اور امام نووی وغیرہ) کے مقابر و مزارات دیکھیے۔ بعض تاریخی مقامات‘ مثلاً: اصحابِ کہف کا غار‘ پیٹرا کی عمارتیں‘ جنگِ موتہ کا میدان‘ بحرمردار‘ میدانِ یرموک وغیرہ کا مشاہدہ بھی کیا۔ شام کے ایک پُرفضا مقام نبع فیجہ میں ساری رونق خوش ذائقہ پانی کی فراوانی سے ہے۔ بتاتے ہیں کہ سیاحت کے فروغ کے لیے ہوٹلوں میں شراب پیش کی جانے لگی تو چشمے خشک ہونے لگے اور کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ شراب بند کرنے پر دوبارہ پانی کی فراوانی ہوگئی۔ اسلوب واضح‘ دل چسپ اور نیم عالمانہ مگر رواں دواں ہے۔ (ر-ہ)

تعارف کتب

  •  ماہنامہ سوے حرم‘ لاہور‘ دعا نمبر۔ مدیر اعلیٰ: محمد صدیق بخاری‘ ۵۳-وسیم بلاک‘ حسن ٹائون‘ ملتان روڈ‘ لاہور-۵۴۷۸۰۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۲۰ روپے۔ [دعائوں کا ایک دیدہ زیب مجموعہ۔ ۵۰ قرآنی اور احادیث میں منقول ۱۰۰ دعائوں کے علاوہ روز مرہ کی خصوصی مواقع کی تمام ضروری دعائیں ترجمے اور فوائد کے ساتھ۔ نمایاں عربی کمپوزنگ۔ابتدا میں دعا پر ایک جامع مقالہ۔]
  •  برگِ سبز، مولانا عبدالقیوم کلاچوی۔ناشر:  القاسم اکیڈیمی‘جامعہ ابوہریرہ‘ خالق آباد‘ نوشہر۔صفحات: ۹۷۔ قیمت: درج نہیں۔ [مولانا مفتی محمد شفیع سرگودھوی (بانی و مہتمم مدرسہ سراج العلوم سرگودھا) کی سوانحی جھلکیوں پر مشتمل اس کتاب میں ان کے اخلاص اور للہیت‘ تصوف اور سلوک‘ سیاسی عقیدہ‘ طلبہ اور سالکین کی تربیت کا تذکرہ ہے جسے ان کے ایک شاگرد کلاچوی صاحب نے مرتب کیا ہے۔ فضائل و مراتب کا بیان تو بجا‘ مگر یہ پتا نہیں چلتا کہ حضرت سرگودھوی کس زمانے کے بزرگ تھے؟ کب اور کہاں پیداہوئے اور کب اُن کا وصال ہوا؟ یہ کیسی سوانح ہے!]
  •  کامیاب طالب علم، روح اللہ نقش بندی۔ناشر: دارالہدیٰ دفتر نمبر۸‘ پہلی منزل‘ شاہ زیب ٹیرس نزد زم زم پبلشرز‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۱۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [ایک طالب علم کن صفات کو اپنا کر علم میں پختگی‘ عمل میں مضبوطی اور اخلاق میں درستی پیدا کرسکتا ہے۔ طالب علم کے لیے ضروری آداب تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں‘ نیز علم کے متعلق اکابر کے واقعات نے کتاب کو دل چسپ بنادیا ہے۔]

 

تفسیر ابن عباسؓ، مترجم: حافظ سعیداحمد عاطف۔ ناشر: مکی دارالکتب‘ چوک اے جی آفس‘ لاہور۔ صفحات (۳جلد) ۱۵۰۲۔ کل قیمت: ۱۱۰۰ روپے۔

تفسیر قرآن میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے تفسیری اقوال کو جو مقام حاصل ہے‘ خلفاے راشدین کے بعد کسی اور صحابیؓ کے اقوال کو وہ مقام حاصل نہیں۔ آپ کو بارگاہِ نبوت سے ’ترجمان القرآن‘ ، ’حبرالامّہ‘ کے خطاب اور تاویلِ آیات کے علم اور تفقہ فی الدین کی دعا سے نوازا گیا۔ کوئی بھی مفسر خواہ وہ قرآن کی فقہی تفسیر لکھنا چاہے یا لغوی و ادبی‘ تفسیر القرآن بالقرآن کا دعویٰ رکھے یا روایات کی روشنی میں تفسیر بالماثور کااہتمام کرے‘ ابن عباسؓ کے تفسیری اقوال سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ان کا علم تفسیر جامع اور تفسیری آرا ہمہ جہت ہیں۔ وہ ادب جاہلی پر گہری نظر اور عربوں کے محاورے و لہجے کا ادراک رکھتے تھے۔ تفسیری روایات انھیں ازبر تھیں اور عہدخلفاے راشدین میں اسلامی تمدن کی وسعت پذیری کے باعث پیش آمدہ نت نئے مسائل کی گتھیوں کو اپنے ذوقِ قرآنی اور فقہی و اجتہادی بصیرت سے سلجھانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔

حضرت ابن عباسؓ کے تفسیری اقوال صحاح ستہ کے علاوہ مسانید و کتبِ سنن میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور تفسیری مجموعے بھی ان سے مروی ہیں جن میں سے ایک مجموعہ تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس ہے جسے صاحب القاموس ابوطاہر محمد بن یعقوب الفیروز آبادی (۷۴۹ھ- ۸۱۷ھ) نے مرتب کیا‘ اور بقول مترجم اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے (ص۷)۔ اگرچہ اس مجموعے میں موضوع و الحاقی روایات بھی ہیں (ص۷)‘اور تفسیری روایات اور شانِ نزول کا موضوع ہردور کے محدثین و مفسرین کے ہاں مختلف فیہ رہا ہے لیکن حضرت ابن عباسؓ جیسے عظیم مفسر کی تفسیری آرا جاننے کے لیے ہمارے پاس اس سے بہتر کوئی مجموعہ نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ علم ابن عباسؓ سے منسوب تفسیری اقوال و آرا کی پرکھ‘ روایت و درایت کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں کریں۔

قرآنی الفاظ اور آیات کی طویل تشریحات اور مفسر کی ذاتی آرا قرآنی مفاہیم کو قاری پر کھولنے کے بجاے قاری اور قرآن کے درمیان حجاب بن جاتی ہیں۔ اس تفسیر کی یہ خاصیت ہے کہ مفہوم کی سادگی‘ مضمون کے اختصار اور متنِ قرآن سے قریب تر ہونے کے باعث یہ مرادِ الٰہی کے سمجھنے میں معاون ہے۔ تفسیر کا موضوع ذاتی آرا و رجحانات کی دخل اندازی کے حوالے سے جس احتیاط کا متقاضی ہے‘ اس تفسیر میں اس کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

قرآنی مطالب کی تفہیم میں سہولت پیدا کرنے کے لیے عبارات کا تسلسل ضروری ہے اور عربی تفسیر کے ترجمے میں یہ چیز عربی محذوفات کو کھولے بغیر ممکن نہ تھی‘ اس لیے مترجم نے ترجمے کے بجاے ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ اصل تفسیر میں موجود نامکمل واقعات کو مکمل کردیا ہے۔ حسب ضرورت ذیلی عنوانات کے قیام اور پیرابندی کے ذریعے مضامین کی تفہیم میںآسانی پیدا کردی ہے۔ اس طرح قدیم کتابوں کے پڑھنے اور سمجھنے میں عصرِحاضر کے قاری کو جو پیچیدگی اور یبوست محسوس ہوتی ہے اس کا ازالہ احسن طریقے سے کردیا گیا ہے۔

اس تفسیر کی ایک نمایاں خصوصیت آیات اور سورتوں کے شانِ نزول کا بیان ہے۔  اسبابِ نزول سے متعلق امام سیوطی کا ایک رسالہ بھی شاملِ مجموعہ ہے جس سے اسبابِ نزول کے موضوع پر مفسرین کے مختلف نقطۂ ہاے نظر سامنے آگئے ہیں۔ پہلی جلد میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حالات وعلمی مقام‘ علامہ جلال الدین سیوطی اور مؤلف تفسیر محمدبن یعقوب الفیروز آبادی کے تعارف کے باعث تفسیر کی افادیت میںاضافہ ہواہے۔(اختر حسین عزمی)


رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت، حافظ محمد سمیع اللہ فراز۔ ناشر: شیخ زاید اسلامک سنٹر‘ قائداعظم کیمپس‘ جامعہ پنجاب‘ لاہور۔ صفحات:۴۳۶۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

اگرچہ عہدصدیقیؓ میں بھی جمع و تدوین قرآن کی کوشش کی گئی لیکن قرآن مجید کی حتمی اور کامل ترین تدوین عہدِعثمانیؓ میں ہوئی۔ یوں کسی ایک نسخے اور اندازِ قرأت پر اجماعِ اُمت ہوگیا اور اس کا سہراجناب ذوالنورینؓ کے سر ہے۔ زیرنظر کتاب میں عہدعثمانیؓ میں جمع و تدوین قرآن کی کاوش اور خاص طور پر قرآنی رسم الخط کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس وقت تین عربی رسم الخط رائج تھے۔ قرآنی رسم الخط میں تینوں رسوم کی املا موجود ہے‘ تاہم اختلاف کے سبب صحابہ کرامؓ کے مشورے سے ایک نیا رسم الخط ایجاد کرلیا گیا جسے رسمِ عثمانیؓ کا نام دیا گیا۔

رسمِ عثمانی کیا ہے؟ کس طرح لکھا جاتاتھا اور صحابہ کو اس پر کیا اور کیوں اعتراض تھا؟ زیربحث کتاب میں ان سوالات پر مفصل اور مدلل بحث کی گئی ہے۔ بعض صحابہؓ کو اس سے اختلاف تھا لیکن بعد میں انھوں نے بھی اتفاق کرلیا۔ اسی لیے اس کتاب میں اس کی شرعی حیثیت کا بھی تعین کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عثمانی نسخہ‘ مدینہ سے تاشقند کیسے پہنچا؟

یہ کتاب ایم فل کا تحقیقی مقالہ ہے جو بڑی محنت اور تحقیق سے لکھا گیا ہے۔ کتاب حوالوں سے مزین ہے۔ آخر میں اشخاص اور اماکن کا اشاریہ شامل ہے۔ اس پر نفیس الحسینی شاہ کی تقریظ کتاب کی جامعیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ کتاب کے نام سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حضرت عثمانؓ کے دور کی کسی رسم کی شرعی حیثیت متعین کی جارہی ہے۔ عنوان ’عثمانی رسم الخط اور اس کی شرعی حیثیت‘ زیادہ موزوں تھا۔ مجموعی طور پر یہ ایک حوالے کی کتاب ہے جس سے تحقیق کے طلبہ بہت استفادہ کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب دینی و علمی ذخیرے میں ایک عمدہ اور اہم اضافہ ہے جس میں قرآن مجید پر مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل جوابات بھی موجود ہیں۔(قاسم محمود وینس)


اشاریۂ معارف‘ مرتب: محمد سہیل شفیق۔ ناشر: قرطاس‘ کراچی یونی ورسٹی‘ کراچی۔ صفحات:   (بڑی تقطیع) ۶۴۲۔ قیمت: ۵۵۰ روپے۔

اشاریہ سازی کا کام بلاشبہہ دقت طلب‘ صبر آزما اور عرق ریزی کا کام ہے مگر اشاریے محققین کے لیے تازہ ہوا اور صاف پانی کی مانند ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سفیراختر کے نزدیک کتابیات‘ اشاریہ سازی اور ان سے ملتے جلتے کام ’سبیل‘ کی مانند ہیں۔ تپتی دھوپ میں   راہ گیر راستے پر سبیل سے پیاس بجھاتا‘ تازہ دم ہوتا اور دعا دیتا آگے بڑھ جاتا ہے۔

مرتب نے اشاریہ سازی کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوئے اعظم گڑھ سے شائع ہونے والے علمی‘ تحقیقی اور ادبی مجلے معارف کا ایک عمدہ اشاریہ تیار کیا ہے۔معارف کے علمی و تحقیقی مقام و مرتبے کے پیش نظر یہ ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔ زیرمطالعہ اشاریے سے پہلے بھی معارف کے چار جزوی اشاریے مرتب کیے جاچکے ہیں۔ یہ اشاریہ محمد سہیل شفیق نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے طور پر مرتب کیا ہے۔ مرتب نے اس اشاریے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں فقط زمانی اعتبارسے مقالات کی فہرست دی گئی ہے‘ دوسرے حصے میں مقالات کو ۳۶ مختلف موضوعات کے تحت تقسیم کرکے دیاگیاہے۔ موضوعات میں قرآن اور علومِ قرآن‘ حدیث و سنت‘ سیرت نبویؐ‘ فقہ اسلام‘ عقائد و عباداتِ اسلامی‘ اسلام‘ تاریخ‘ مذاہبِ عالم ‘ تہذیب و تمدن‘ اخلاقیات‘ تصوف‘  فلسفہ‘ تعلیم و تربیت‘طب و سائنس‘ سیاسیات‘ خلافت‘ اقتصادیات‘ لسانیات‘ زبان و ادب‘ اقبالیات‘ آثار و مقامات‘ شخصیات‘ آرٹ اور آرکیٹکچر‘ استشراق اور مستشرقین‘ علوم و فنون‘ عالمِ اسلام‘ عرب‘ مسلم اقلیتیں‘ہندستان‘کتب خانے‘ جامعات/تعلیمی ادارے‘ خطبات/ا نجمنیں/ ادارے ‘ تحریکیں‘  قلمی نسخے/مخطوطات‘ کتابیں اور متفرق موضوعات شامل ہیں۔ تیسراحصہ الف بائی ترتیب سے مصنفین کے اشاریے پر مشتمل ہے۔ پھر تبصرہ شدہ کتب کی فہرست دی گئی ہے۔ چھٹے حصے میں وفیات کا الف بائی اندراج ہے۔ساتویں باب میں معارف کے بعض پرچوں میں جلد نمبر‘ مہینہ‘ ہجری سال وغیرہ کے حوالے سے پائے جانے والے چند ایک تسامحات کی تصحیح کی گئی ہے۔ آخری حصے میں اُن کتب خانوں کی فہرست دی گئی ہے جہاں یہ پرچے موجود ہیں‘ پھر مخففات کی وضاحت ہے۔

معارف کے مذکورہ اشاریے کے مطالعے کے بعد مرتب کے علمی اخلاص اور محنت و کاوش کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یقینا یہ اشاریہ اپنی علمی وسعت اور حسنِ ترتیب کی بدولت مسافرانِ علم وادب کو ہرمرحلے پر اپنی اہمیت و افادیت کا احساس دلاتا رہے گا اور محققین و ناقدین مرتب کے لیے جزاے خیر کی دعا کرتے رہیں گے۔(خالد ندیم)


اقبال اور دعوتِ دین ، حیران خٹک۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی‘ فیصل مسجد‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۰۲۔ قیمت: ۱۸۰ روپے

مصنف نے اپنے مقالے کو ’دین، دعوتِ دین اور اقبال‘، ’قرآن اور اقبال‘، ’دعوتی ادب کی تخلیق و ترویج میں اقبال کا کردار‘، ’دعوتی، دینی، تحقیقی انجمنوں اور اداروں کے ساتھ علامہ اقبال کے روابط‘، ’علامہ اقبال کے معاصر علما‘ مشائخ اور اہلِ قلم کے ساتھ دعوتی مقاصد کے لیے روابط‘ اور ’علامہ اقبال کی غیرمسلموں کو دین کی دعوت‘ کے نام سے چھے ابواب میںتقسیم کیا ہے۔ محقق نے جہاں اپنے مقالے کو تحقیقی اعتبار سے بہتر بنانے کی کوشش کی ہے‘ وہیں اس نے اس کے اسلوب کو تحقیقی سے زیادہ تخلیقی بنانے پر توجہ صرف کی ہے ‘چنانچہ قاری مطالعے کے دوران ایک خوش گوار تاثر کے ساتھ آگے بڑھتا چلاجاتاہے۔ محقق کی صحیح نظر کا اندازہ مقالے کے تیسرے باب سے ہوتا ہے‘ جس میں انھوں نے ’قوموں کی زندگی میں ادب کی اہمیت‘، ’عہداقبال کا ادبی منظرنامہ‘، ’معاصر ادب اور تصوف پر علامہ اقبال کی تنقید‘، ’علامہ اقبال کانظریۂ ادب‘، ’اہلِ قلم کو دعوتی ادب تخلیق کرنے کی براہِ راست دعوت‘اور ’علامہ اقبال کاادبی مقام اور ان کے تخلیق کردہ دعوتی ادب کے اثرات‘ کے تحت خوب دادِتحقیق دی ہے۔ اس باب کو حاصلِ مطالعہ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا۔

یہ مقالہ بہت سے نئے موضوعات کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ حیران خٹک نے اس اچھوتے موضوع پر قلم اٹھاکر اقبالیات کی سرحدوں کو مزید توسیع عطا کردی ہے۔ امید ہے کہ یہ مقالہ اقبالیاتی ادب میں تازہ ہوا کاجھونکا ثابت ہوگا۔(خ - ن)


نماز‘ ایک ادارہ‘ ایک تربیت، سکواڈرن لیڈر (ر)ملک عطا محمد۔ناشر اور ملنے کا پتا: ۸۵-رحمت پارک‘ یونی ورسٹی روڈ‘ سرگودھا۔ صفحات (بڑی تقطیع) ۴۸۷۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

نماز پر ایسی جامع عملی کتاب اس سے پہلے نظر سے نہیں گزری۔ اس میں نماز سے متعلق صرف معلومات ہی نہیں دی گئی ہیں‘ بلکہ ایک جذبے کے ساتھ تذکیر کرتے ہوئے استاد اور مربی کے انداز سے رہبری کی گئی ہے۔ نظری بحث بھی ہے‘ اور عملی ہدایات بھی۔ اُمت کے عروج اور فرد کی سیرت کی تعمیر میں اقامت صلوٰۃ کے کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ نماز اور توحید و آخرت‘ نمازاور ارکانِ اسلام کے تعلق پر مفید گفتگو ہے۔ آخری ۱۶ سورتیں مع ترجمہ دی ہیں۔ دعا کے باب میں تمام قرآنی اور مسنون دعائیں جمع کی گئی ہیں۔ ضروری مسائل کا بیان بھی آگیا ہے۔ ریٹائرڈ اسکواڈرن لیڈر کی تصنیف ہے‘ اس لیے ڈسپلن اور پابندی کا عنصر کچھ زیادہ ہے۔ آخر میں جائزے کے لیے چارٹ اور روزمرہ کے ماڈل نظام الاوقات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو ذاتی اصلاح کے لیے نہایت مفید ہے۔ (مسلم سجاد)


چنار کہانی ،محمد صغیر قمر۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۳۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

چنار کہانی ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہزاروں کہانیوں سے اخذکردہ وہ منتخب کہانیاں ہیں جنھیں صغیرقمر نے بڑی توجہ کے ساتھ الفاظ کے پیکر میںڈھالا ہے۔ وہ قارئین کی نفسیات کو سامنے رکھ کر لکھتے ہیںاورایسے الفاظ اور جملے استعمال کرتے ہیں جو براہِ راست قاری کے دل پر اثر کرتے ہیں بلکہ دلوں کے تار اس طرح چھیڑتے ہیں کہ آنکھیں باربار نم ہوجاتی ہیں اور بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔

مصنف کی اوّل و آخر شناخت کشمیر اور جہادکشمیر ہے جس کی وہ آبیاری ایک طویل عرصے سے اپنے قلم سے کر رہے ہیں۔ چنارکہانی میں کشمیر‘ افغانستان‘ فلسطین‘ اور دیگر حوالوں سے جسدِ ملّت کے زخموں اور جدوجہد کا تذکرہ ہے۔ یہ تحریریں اس سے قبل جہادکشمیر اور روزنامہ خبریں میں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ کالم دراصل اپنے دین‘ وطن اور اقدار و رویات کے ساتھ وابستگی کا رنگ گہرا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ایسے میں جب الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا روشن خیالی کے نام پر دین و مذہب سے بے زاری اور نفرت پیدا کر رہا ہے‘ زیرنظر کتاب نہ صرف نوجوان نسل بلکہ ہرطبقۂ فکر کے لیے سوچ بچار اور غوروفکر کی نئی راہیں متعین کرتی ہے۔ (عمران ظہور غازی )

تعارف کتب

  •  تاریخ مسجدالحرام، عبدالرؤف فاروقی۔ ناشر: ادارہ انوارالحرمین‘ سمن آباد لاہور۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۱۹۰ روپے۔ [فاضل مصنف نے مکہ مکرمہ‘ مسجدِحرام‘ بیت اللہ اور اس کے متعلقات پر خاصی کاوش کے بعد ایسی معلومات جمع کی ہیں‘ جو اُن کے بقول ’مستند‘ ہیں اوراُردو زبان میں پہلی دفعہ منتقل ہورہی ہیں۔ ابواب کے عنوانات (بیت اللہ اور اس کے متعلقات‘ بیت اللہ کی تعمیر کی تاریخ‘ مسجدحرام میں توسیعات‘ مسجدِحرام فتنوں کی زد میں‘ مسائلِ حج) سے کتاب کی جامعیت اور وسعتِ موضوع کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ ایک مفید اور لائق مطالعہ کتاب۔]
  •  حکمتِ اقبال، محمد رفیع الدین۔ ناشر: ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ بہ اشتراک: آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس‘ لاہور۔ صفحات: ۵۲۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[مصنف مرحوم فلسفے کے استاد‘خود ایک فلسفی اور بہت فاضل شخصیت تھے۔ اقبال اکادمی پاکستان کے پہلے ڈائرکٹر رہے۔ اقبالیات اور علومِ عمرانیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اس کتاب میں اقبال کے تصورِ خودی‘ ان کے دوسرے تصورات سے علمی اور عقلی ربط قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ’پیش لفظ‘ نگار ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری کے بقول: مصنف پاکستان کے اُن مایہ ناز علما میںسے تھے جنھوں نے دورِجدید میں اسلام کی تعبیروتشریح کے میدان میں     حکیم الامت علامہ اقبال کی فکر کو آگے بڑھایا ہے۔ کتاب ۳۵برس پہلے چھپی تھی‘ اب تیسری بار شائع ہوئی ہے۔]
  •  مکاتیب الکریم، مولانا عبدالقیوم حقانی۔ماہنامہ القاسم‘ جامعہ ابوہریرہ‘ برانچ پوسٹ آفس‘ خالق آباد‘ نوشہرہ‘ صوبہ سرحد۔ صفحات: ۳۱۱۔ قیمت: ندارد۔[مرتب کے استاد شیخ التفسیر مولانا قاضی عبدالکریم کلاچوی کے اس مجموعہ مکاتیب میں موضوعات کا حیرت انگیز تنوع ملتا ہے۔ دینی‘ شرعی اور فقہی مسائل‘ بزرگان دین کا مقام اور مرتبہ‘ روزمرہ مسائل‘ دینی مدارس کے معاملات‘ دل چسپ واقعات‘ پندونصائح وغیرہ۔]
  •  برصغیر میں بچہ مسلم لیگ، ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ ناشر: ادارہ تحقیق و تصنیف‘ بلوچستان۔ ۲۷۲-اے ‘      او بلاک ۳‘ سیٹلائیٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ صفحات: ۹۹۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ [تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں بزرگوں اور نوجوانوں کے ساتھ بچوں نے بھی کام کیااور’بچہ مسلم لیگ‘ بھی قائم ہوئی۔ اس کتاب میں اس کی کچھ تفصیلات اور تصاویر شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ بچہ مسلم لیگ کن کن شہروں میں اور کس طرح قائم ہوئی اور کن کن لوگوں نے کس طرح حصہ لیا وغیرہ۔]
  • مولانا اشرف علی تھانوی کی تعلیمی خدمات‘ ہومیوڈاکٹر رانا محمد اشرف۔ ناشر: ادارہ تالیفات اشرفیہ‘ جامع مسجد تھانے والی ہارون آباد‘ ضلع بہاول نگر۔ صفحات: ۷۷۔ قیمت: درج نہیں۔ [مولانا اشرف علی تھانوی (اللہ ان کی قبر کو نور سے بھردے) کی بے پایاں خدمات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ صرف ان کی تعلیمی خدمات پر  پی ایچ ڈی ہوسکتی ہے۔ اس کتابچے میں تعلیم کے موضوع پر ان کے چند مفید ارشادات جمع کیے گئے ہیں۔]
  • آنحضرتؐ کی تعلیمی پالیسی، پروفیسرڈاکٹر محمدگجر خان غزل کاشمیری۔ ناشر: شعبہ نشرواشاعت‘ اقراء تدریب الاطفال (ٹرسٹ) لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے‘ الحمدمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۸۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [اس پی ایچ ڈی مقالے میں ایک خاص ترتیب سے تعلیم کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور سیرت پاکؐ میں ان کے عملی اظہار کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تعلیمی پالیسی کو تعلیمِ بالغاں‘ تعلیمِ نسواں اور ابتدائی تعلیم کے عنوانات دیے گئے ہیں۔]
  •  مختصر ہدایۃ المستفید‘ ابومحمد بدیع الدین شاہ‘ ترجمہ: عطاء للہ ثاقب۔ ناشر: دائرہ نور القرآن‘ دکان نمبر۸‘ وقاص سنٹر‘ محمد بن قاسم روڈ‘ نزد اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۳۵۵۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[عقیدے اور عمل کی توحید سے مطابقت اور شرک کے شائبے سے پاک کرنے کے لیے ایک مفید کتاب۔ مکمل کتاب (۲ حصے‘ صفحات ۱۶۸۶‘ ۱۹۷۴ء)‘ شاہ فیصل شہیدؒ نے اُردودان طبقے میں تقسیم کروائی تھی۔ اب تلخیص شائع کی گئی ہے مگر یہ بھی موضوع کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔]
  • تحفہ حرم‘ مولانا مرغوب احمد لاجپوری۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ‘ ایس ٹی/۹-ای ‘ بلاک ۸‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: ۲۸۲۔ مجلدقیمت: ۱۴۰ روپے۔[یہ کتاب آٹھ مقالات کا مجموعہ ہے۔ پہلا آبِ زم زم ۱۰۰ صفحات اور آخری عجوہ کھجور ۱۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسرے موضوعات حجراسود‘ رکن یمانی‘ مقامِ ابراہیم اور ملتزم ہیں۔ ان موضوعات پر ضروری اور دل چسپ معلومات سلیقے سے جمع کردی گئی ہیں۔]
  •  نماز کی کتاب، حافظ عمران ایوب لاہوری‘ تحقیق و افادات: علامہ ناصرالدین البانی، ملنے کا پتا: نعمانی کتب خانہ‘ حافظ سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: ۱۳۵ روپے۔ [مفصل اور جامع کتاب۔ نماز سے متعلق بیش تر مسائل (مثلاً ٹیپ ریکارڈر سے اذان) کے بارے میں احادیث کی روشنی میں رہنمائی۔ حدیث کی سند اور تخریج کا اہتمام۔ خواتین کے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ معیاری کتابت و طباعت۔]
  •   زلزلہ ، زخم اور زندگی، ڈاکٹر آصف محمود جاہ۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴-اُردو بازار‘ لاہور۔ص ۱۴۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [دو سال قبل شمالی علاقوں میں زلزلے نے تباہی مچائی۔کسٹم ویلفیئر کلینک کے ڈاکٹر آصف محمود جاہ ایک جذبے سے اپنے ساتھ ہسپتال لے کر علاقے میں پہنچ گئے۔ اس ڈائری میں وہاں کے حالات ہیں اور ڈاکٹر موصوف کی غیرمعمولی خدمات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں متعدد کالم‘ آرا اور ان کے تین انٹرویو مع تصاویر بھی شاملِ اشاعت ہیں۔]
  •  ماہنامہ الاحیاء‘ لاہور‘ مدیر: جواد حیدر‘ زیرنگرانی: حافظ حمزہ مدنی۔ الاحیاء ریسرچ فائونڈیشن‘ ۴۹- جمشید سنٹر‘ ۱۰۰-فیروز پورروڈ‘ لاہور۔ زرسالانہ: ۲۰۰ روپے۔[نئے رسالے کا پہلا شمارہ ہے۔ ’ترقی جدت کومحلِ کراہت میں رکھنا‘یا شوق تجدد میں انبیا کی تعلیمات سے انحراف کو بھی روا رکھنا‘ ان دو انتہائوں کے درمیان آج کی انسانیت کے لیے حقیقی عقیدہ و ایمان کا احیا اس رسالے کا نصب العین ہے۔ کئی اہم موضوعات پر معیاری تحریریں۔ قابلِ ذکر نکاح میسار پر ۳۰ صفحات کی سیرحاصل بحث۔]

 

اسباق النحو، امام حمیدالدین فراہی۔ ترتیب و تدوین: خالدمسعود۔ ناشر:دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ فون: ۷۲۳۱۱۱۹۔ صفحات: ۱۹۰۔ قیمت مجلد: ۱۵۰ روپے۔

کسی زبان کو سیکھنے کے لیے اس کے اصول و قواعد سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے عربی زبان سیکھنے کے لیے علمِ صرف اور علمِ نحو کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ عربی صرف و نحو پراُردو زبان میں بیسیوں کتابیں ملتی ہیں۔ مولانا فراہیؒ نے اسباق النحو کے نام سے قواعدِ نحو کو آسان انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی جس میں بعض پہلوتشنہ رہ گئے تھے۔ خالد مسعود مرحوم نے کتاب کے تشنہ پہلوئوں کو مکمل کیا ہے۔

کتاب کے آغاز میں ’عربی زبان کی ابتدائی باتیں‘ کے عنوان سے فراہم کی گئی معلومات عربی کے مبتدی طالب علموں کے لیے بہت اہم اور مفید ہیں۔ عربی زبان کی عمارت میں کلمے اور کلام کی حیثیت ایک بنیادی اینٹ کی ہے۔ مؤلف نے کلمے کی تین قسموں‘ یعنی اسم‘ فعل اور حرف کو الگ الگ عنوانات کے تحت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس لیے یہ کتاب علمِ نحو کی ایک جامع دستاویز بن گئی ہے۔ کتاب کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ ہرسبق کے آخر میں اس کے مضامین سے متعلق ایک مشق دی گئی ہے جسے اگر اساتذہ اپنی نگرانی میں طلبہ سے حل کرائیں گے تو ساتھ ساتھ اس کا عملی اجرا بھی ہوتا جائے گا۔ کتاب کے آخر میں تمام مشقوں کا حل بھی دیا گیا ہے جو طلبہ کے لیے اپنی مشق کی صحت جانچنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس طرح مولانا امین احسن اصلاحی کے بقول: یہ کتاب طلبۂ فن کے لیے کافی ہے۔ اس سے عربی زبان سیکھنے کا راستہ کھل جائے گا۔ پھر قرآن و حدیث اور ادبِ عربی کی اعلیٰ کتابوں کے مطالعے سے اس زبان کا ذوق پیدا ہوجائے گا (ص ۷)۔ مدارس کے ابتدائی سالوں کے نصاب میں شامل کرنا مفید ہوگا۔ (گل زادہ شیرپاؤ)


امام ابن شہاب زہری: اعتراضات کا تحقیقی جائزہ‘ حافظ محمد عبدالقیوم۔ ناشر:     شیخ زاید اسلامک سنٹر‘ جامعہ پنجاب‘ قائداعظم کیمپس‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۳۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

اسلامی علوم کی روایت کا یہ ایک روشن پہلو ہے کہ اس میں فرد کے محض علم و کلام پر اکتفا نہیں کیاجاتا‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر خود مصنف یا کسی علمی ماخذ کے مددگارفرد کے کردار و افکار تک کے زاویے کوپرکھا جاتا ہے۔ دوسرے پہلو پر توجہ دیتے ہوئے بسااوقات تعصب یا غلط فہمی کی آلودگی ظلم کی داستانوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے اور بے چارا صاحب ِ علم و فن عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ محمد بن مسلم المعروف امام ابن شہاب زہری کے ساتھ پیش آیا۔

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کردہ احادیث (۵۳۷۴) کے بعد سب سے زیادہ احادیث کی روایات‘ تابعی امام فی الحدیث ابن شہاب زہری سے مروی (۲۲۰۰) ہیں (ابتدائیہ)۔ اتنی بڑی تعداد میں احادیث کو محفوظ کرنے والے ابن شہاب خود مسلمانوں کے ایک گروہ اور مستشرقین کی  سخت تنقید کا نشانہ بنے۔مستشرق گولڈزیہر نے ابن شہاب کو بے وزن ثابت کرنے کے لیے   ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ حالانکہ: ’’امام زہری کے ثقہ اور ضابط و عادل ہونے پر اَئمہ محدثین کا اتفاق ہے‘‘ (ص ۱۱)۔ زیرنظر کتاب میں فاضل محقق نے امام زہری پر الزامات کو متعین شکل میں پیش کیا ہے اور ان کا مدلل علمی جواب دیا ہے۔ انھوں نے استشراقی حملوں اور ان کی ہم نوائی پر تلے ہوئے بعض قلم کاروں کے استدلال کاعلمی نظائر سے توڑ پیش کیا ہے‘ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

کتاب کے تمام قارئین عربی دان نہیں ہوتے‘ اس لیے ضروری تھا کہ عربی حوالہ جات/ اتھارٹیز کا اُردو ترجمہ بھی درج کردیا جاتا۔ شیخ زاید اسلامک سنٹر کی فاضل [سابق] ڈائرکٹر    محترمہ جمیلہ شوکت اہلِ علم کے تشکروامتنان کی مستحق ہیں کہ انھوںنے اسلامک سنٹر کو تدریسی مشاغل کے ساتھ ٹھوس علمی سرگرمیوں کی شاہراہ پر گام زن کر دیا۔ (سلیم منصور خالد)


فقہ الاسلام ، شرح بُلوغ المرام، حافظ ابن حجرعسقلانی‘ شارح و ترجمہ: حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ملنے کا پتا: نعمانی کتب خانہ‘ حق سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۸۶۹۔ قیمت: ۳۸۰روپے‘  (اعلیٰ اڈیشن):۵۵۰ روپے۔

احکامِ احادیث پر مشتمل امام ابن حجر عسقلانیؒ کی مشہور کتاب بُلُوغ المَرام دنیا بھر کے اکثروبیش تر مدارس دینیہ کے نصاب کا حصہ ہے۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ ہزار احادیث ہیں اور متعدد زبانوں میں اس کی شروح لکھی جاچکی ہیں‘ لیکن اُردو زبان میں تاحال کوئی ایسی شرح دستیاب نہ تھی کہ جس میں تمام احادیث و آثار کی مکمل تخریج و تحقیق کی گئی ہو‘ قدیم و جدید مسائل اور احکام یک جا کیے گئے ہوں۔ حافظ عمران ایوب نے اس علمی ضرورت کے پیش نظر زیرنظر شرح تیار کی ہے۔

تمام احادیث کی تخریج کی گئی ہے‘ صحت و ضعف کا تعین کیا گیا ہے‘ اور اختلافی مسائل میں برحق موقف کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ائمہ اربعہ کے علاوہ علامہ ناصرالدین البانی‘ شیخ عبداللہ بہام‘ علامہ شوکانی‘ امام نووی‘ امام ابن تیمیہ‘ امام ابن قیم‘ شیخ عبدالعزیز بن باز وغیرہ کی تحقیقات کو پیش نظر رکھا گیا ہے‘ نیز سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی کے اقوال و فتاویٰ بھی نقل کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ شرح جدید و قدیم علوم کے امتزاج کی حامل ہے جو اس کی انفرادیت ہے۔

زندگی کے مختلف شعبوں (مثلاً معاشرت‘ تجارت‘ جرائم‘ حدود‘ جہاد وغیرہ) سے متعلق فقہی رہنمائی میں عام لوگوں کی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسلوب عام فہم ہے۔ عربی متن کے ساتھ مشکل الفاظ کی لغوی توضیح اور پھر معنی و مفہوم اور مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ یہ مفید علمی و تحقیقی کاوش اہلِ علم‘ طلبہ اور عوام الناس کے لیے یکساں مفید ہے۔(امجد عباسی)


جامعہ حفصہ کا سانحہ، حالات و واقعات کا جائزہ، ابوعمار زاہدالراشدی۔ناشر: الشریعہ اکیڈمی‘ کنگنی والا‘ گوجرانوالہ۔فون: ۴۰۰۰۳۹۴-۰۵۵۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۳۰ روپے۔

جامعہ حفصہ اور جامع لال مسجد‘ اسلام آباد کے جس خونیں واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک سنگ دل انسان کا دل بھی موم ہوجاتا ہے‘ یہ کتاب اس تذکرے پر مبنی ہے۔ یہ مولانا زاہد الراشدی کے ۱۱کالموں اور آپریشن سے چند گھنٹے پہلے تک جاری رہنے اور پھر ناکامی سے دوچار ہونے والے مذاکرات کے تفصیلی رپورتاژ پر مشتمل کتاب ہے۔

فاضل مصنف نے اس المیے کے جملہ مراحل کو بڑے شستہ‘ متوازن‘ مدلل اور بصیرت افروز انداز سے قلم بند کیا ہے۔ انھوں نے مسئلے کی نوعیت‘ اس قضیے کے اُتارچڑھائو‘سلجھائو اور الجھائو کی راہوں کو بے نقاب کرکے مؤرخ کے لیے ایسا لوازمہ فراہم کر دیا ہے کہ جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔ مولانا راشدی کے استدلال سے اختلاف کی گنجایش کم ہے۔ انھوں نے نہ صرف علما کے  موقف کو خوبی سے منقش کیا ہے‘ بلکہ مشرف حکومت کے اس پروپیگنڈے کو بھی تارتار کردیا ہے کہ:  ’یہ مذاکرات غیرملکیوں کے لیے تحفظ مانگنے کے سوال پر ٹوٹے تھے‘ (ص ۶۳)۔ اس کتابچے کا عربی اور انگریزی میں ترجمہ مفید رہے گا۔(س - م - خ )


قرآن اور قانونِ جدید، ڈاکٹر محمد وسیم انجم۔ ناشر: انجم پبلشرز‘ کمال آباد-۳‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب میں اسلامی تہذیب‘ اسلامی ریاست‘ قرآن اور عدل پر سیرحاصل گفتگو کے بعد‘ قرآنی قوانین کو ایک منضبط بیان میں پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان میں اس دائرے میں رائج قوانین کے بیان سے تقابلی مطالعہ بھی ہے۔ کتاب میں علمی مزاج اور تحقیقی ذوق کے ساتھ ایک منطقی استدلال بھی ملتا ہے۔ مصنف نے قرآنی قوانین کے مقابلے میں پاکستان میں رائج قوانین کی کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔یہ کتاب  وکلا کے ساتھ‘ عام قاری کے لیے بھی دل چسپی کا سامان رکھتی ہے۔(محمد الیاس انصاری)


بلوچستان میں تذکرۂ اُردو، ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ ناشر: ادارہ تصنیف و تحقیق بلوچستان‘ ۲۷۲‘اے‘ او بلاک ۳‘ سیٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ فون: ۲۴۴۹۷۷۹۔ صفحات: ۴۱۲۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

فاضل گرامی ڈاکٹر انعام الحق کوثر ایک باہمت شخصیت ہیں۔ عرصۂ دراز تک بلوچستان کے دُوردراز علاقوں میں درس و تدریس میں مصروف رہے‘ اور ملازمت سے سبک دوشی کے بعد اب تصنیف و تالیف کو مشغلۂ حیات بنا رکھا ہے۔ کوئی برس نہیں جاتا کہ اُن کی دوچار کتابیں چھپ کر منظرعام پر نہ آتی ہوں۔ علم و ادب کے لیے بلوچستان کی بظاہر سنگلاخ زمین میں انھوں نے کتابوں کے گل و گلزار کھلا .ِ دیے ہیں  ع  ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔

زیرنظر کتاب بلوچستان میں اُردو کا ایک مختصر مگر جامع تذکرہ ہے اور ایک اعتبار سے   اُردو زبان و ادب کے ارتقا کی ایک مختصر تاریخ بھی ہے جسے زیادہ تر اصنافِ ادب کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ قدرتی طور پر شاعری کا ذکرطویل اور ضخیم ہے۔ نئے پرانے مقامی اور غیرمقامی شعرا کا مختصر تعارف اور نمونۂ کلام دیا گیا ہے۔ ترتیب الف بائی ہے۔ اسی طرح دیگر اصنافِ ادب (تحقیق و تنقید‘ افسانہ نگاری‘ ناول نگاری‘ سفرنامہ‘ تذکرہ نویسی و سوانح نگاری‘ یادداشتیں‘طنزومزاح‘ بچوں کا ادب‘ تراجم) کے لحاظ سے بلوچستان کے اُردو ادب‘ ادیبوں‘ قلم کاروں اور اُن کی تصانیف کا تعارف کرایا گیا ہے۔ آخر میں مفصل کتابیات شامل ہے ___ یہ علمی کاوش ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہے۔ اُردو زبان و ادب کے مؤرخین کے لیے یہ ایک معلومات افزا دستاویز ثابت ہوگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)


طالبان کی واپسی، مقدر اقبال۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۶۸۔ قیمت: ۴۰۰ روپے

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحے کو بہانہ بنا کر‘ امریکا نے افغانستان پر جارحانہ حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے صحافی مقدراقبال حالات کے مشاہدے کے لیے افغانستان پہنچ گئے۔ اس کے بعد بھی وہ کئی مرتبہ وہاں گئے۔ زیرنظر کتاب ان کے مشاہدات اور افغانستان پر ان کی تحقیق کاحاصل ہے۔ انھوں نے زمانۂ قبل مسیح سے تاحال افغانستان کی مختصر تاریخ بیان کی ہے اور پھر طالبان کی حکومت سے امریکی حملے تک کے واقعات بھی ایجاز کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔

طالبان کے انتظامِ مملکت کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ جس میں نہ صرف ملّاعمر کی سادگی‘ بلکہ ان کے گورنروں‘ وزیروں‘ سکرٹریوں کی درویشی کا ذکر ہے۔ طالبان کی عمل داری میں غربت‘ پوست کی کاشت اور گداگری کا خاتمہ ہوگیا اور شرعی حدود نافذ ہوئیں۔

مصنف کا اسلوب سادہ‘ عام فہم اور انداز تحقیقی ہے۔ فارسی و اُردو اشعار اور حوالوں سے  اپنی بات کو مؤثر بنایا گیا ہے۔ یہ دل چسپ کتاب خصوصاً نوجوانانِ اُمت کے لیے سبق آموز ہے۔(قاسم محمود وینس)


کالم پناہ ، معین کمالی۔ ناشر: فرید پبلشرز‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ فون: ۲۷۷۰۰۵۷-۰۲۱۔ صفحات: ۲۲۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے

معین کمالی کے کالموں میں شگفتگی‘ طنز اور تلخی کے عناصر نمایاں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے باقاعدہ کالم نویسی کا آغاز ۱۹۶۶ء میں کیا تھا اور مختلف عنوانات (’چھلکے‘، ’قلم برداشتہ‘، ’دوراہے پر‘، ’چٹکیاں‘، ’خبرونظر‘، ’برجستہ‘ وغیرہ) کے تحت لکھتے رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ۳۹ دل چسپ کالم یک جا کیے گئے ہیں‘ مثلاً صفحہ ۴۱ پر ’حبیب و داماں کی خیر ہو یارب‘ کے عنوان سے کراچی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’بہت سے مسلمان جیب کترے… روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ اپنے دھندے کی ابتدا بسم اللہ کوچ سے کریں‘‘۔ معین کمالی نہایت خوب صورتی سے روزمرہ کے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر قارئین کو ایک زمانے کی سیر کرا دیتے ہیں۔یہ مجموعہ ایک محب ِ وطن کے دل کے احساسات کا آئینہ ہے۔(م - ا - ا )

تعارف کتب

  •  توحید اور شرک‘ محمد خان منہاس‘خلیل الرحمن چشتی۔ ناشر: الفوز اکیڈمی‘ سٹریٹ۱۵‘ ۴/۱۱-E‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۰۰روپے۔[الفوز اکیڈمی کی خدمات محتاجِ تعارف نہیں۔ ان خدمات کا ایک دائرہ اہم موضوعات پر لٹریچر کی تیاری اور اشاعت ہے۔ اس کتاب میں توحیدِ اظہار‘ توحیدِ ربوبیت‘ توحیدِ صفات‘ توحیدِ علم‘ توحیدِ اختیار‘ توحیدِ تشریع‘ سب پہلوؤں پر قرآنی آیات کے اشارات اور درسی کتاب کی طرح ہر باب کے آخر میں سوالات دیے گئے ہیں۔]
  •   حرفِ حق، مرتب: شہریار صدیقی۔ آگہی پبلی کیشنز‘ رائل ایونیو‘ بلاک‘ سی-۱۳‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات:۱۳۲۔ قیمت: درج نہیں۔ [۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی میں چیف جسٹس کی آمد کے موقع پر جو قتلِ عام ہوا اس پر اخبارات کے کالم نگاروں کی ۲۴ منتخب تحریریں۔ عرفان صدیقی‘ جاوید چودھری‘ ایازمیر‘ ڈاکٹر شاہد مسعود‘ شاہ نواز فاروقی وغیرہ سب نے اپنے اپنے انداز میں حرفِ حق کہا ہے۔۲۴ صفحات پر رنگین تصاویر بھی۔]
  •   ندوہ کا ایک دن ، ڈاکٹر محمد اکرم ندوی۔ناشر:مجلس نشریات اسلام‘ ناظم آباد نمبر۱‘ کراچی۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: درج نہیں۔[مصنف اکسفرڈ سنٹر سے بطور ریسرچ فیلو وابستہ ہیں۔ مصنف نے ندوے کے دورِ طالب علمی کی یادداشتوں کو دل چسپ پیراے میں بیان کیا ہے۔ کلاس روم کے اسباق کے علاوہ طلبہ کی محفلوں اور باہمی علمی نکتہ طرازیوں کا ذکر۔ یادوں کی برات ‘ جوش کے نعتیہ کلام اور کلیم عاجز کی غزل کا ذکر اور سیدمودودی کی خدمات و مقام پر بحث بھی۔]
  •   غازی علم الدین شہید، مرتبہ: خولہ متین۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۲۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔ [فرنگیوں کے دور میں لاہور میں گستاخِ رسولؐ راج پال کو جہنم رسید کرنے پر جان پیش کرنے والے غازی علم الدین شہید کا ایمان افروز مفصل تذکرہ۔نو منظوم خراجِ عقیدت بھی شامل ہیں۔]
  •   تذکرۃ المصنفین، مولانا مفتی ابوالقاسم محمد عثمان۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ خالق آباد‘ ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۵۰۹۔ قیمت:۲۵۰ روپے۔ [درسِ نظامیہ کی مُتداول کتابوں کے مصنفین کا تذکرہ۔ صرف‘ نحو‘ بلاغت‘ کلام‘ فقہ‘ فنِ مناظرہ‘ فلسفہ‘ ہندسہ‘ علم لغت‘ فن تجوید و قرأت وغیرہ کے علما کے حالات۔ ریاضی‘ فلسفے اور سائنس کے مسلم اور غیرمسلم اکابر کا ذکر۔]
  •  سہ ماہی اسلامائزیشن ، ملتان۔ مدیراعلیٰ: ظفراقبال خان۔ اشاعتِ خاص قرآن نمبر۱: سورۃ الفلق کی  علمی تفسیر‘ صفحات: ۹۶۔ اشاعتِ خاص قرآن نمبر۲: سورۃ الناس کی علمی تفسیر‘صفحات: ۱۹۲۔ ادارہ اسلامیہ‘   حویلی بہادرشاہ‘ جھنگ۔ [قرآنی علوم کا بحر بے کراں بھی عجب ہے کہ جو بھی غواصّی کرے‘ ایک سے ایک قیمتی جواہر لے کر آتا ہے۔ ظفراقبال خاں صاحبِ علم شخصیت ہیں۔ انھوں نے ان دونوں سورتوں کے حوالے سے خصوصاً قرآن سے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے قابلِ غور نکات پیش کیے ہیں۔]
  •  سہ ماہی اجتہاد، مدیر مسئول: ڈاکٹر محمد خالد مسعود۔ ناشر: اسلامی نظریاتی کونسل، ۴۶-اتاترک ایونیو‘ جی-۵/۲‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۰ (بڑی تقطیع)۔ قیمت: درج نہیں۔[اسلامی نظریاتی کونسل کے علمی مجلے کا اوّلین شمارہ‘ اپنے نام کے مصداق اجتہاد ہی کے موضوع کے لیے وقف ہے۔ اقبال کے خطبۂ اجتہاد پر اور اس حوالے سے نئی پرانی تحریریں۔ اجتہاد کے مالہٗ وماعلیہ پر علما اور ماہرین کی آرا‘ مراکش کے عائلی قوانین‘ ملایشیا میں حدود کے نفاذ کا مسئلہ‘ یورپ کی مذہبی شناخت اور مسلمان___ آخر میں کونسل کی اہم سفارشات (۲۰۰۴ء-۲۰۰۷ء) کا ذکر اور چند تحقیقی منصوبے اور فہرست مطبوعات وغیرہ ___ مجلس ادارت اور مشاورت میں دانش وروں کے نام شامل ہیں۔]
  •  ماہنامہ مکالمہ بین المذاہب، مدیر: مولانا عبدالرؤف فاروقی۔ اسلامک سنٹر (جامعہ اسلامیہ) کامونکی۔ براے رابطہ: مسجدخضرا‘ سمن آباد‘لاہور۔ فی شمارہ: ۱۵ روپے۔ زرسالانہ: ۱۸۰ روپے۔ [بین المذاہب مکالمے کی ضرورت کے پیش نظر مجلہ مکالمہ بین المذاہب کا اجرا۔ اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے  علمی جواب کے ساتھ ساتھ عیسائیت کے فروغ کے لیے مساعی کا تدارک ایک اہم ترجیح۔]
  •  کلامِ بے لگام، ڈاکٹر منصور احمد باجوہ۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔ [آج کے اقتدار بے لگام کے دور میں مزاحیہ شاعری حسب ِ حال ہے۔ ہرطرح کے سیاسی اور معاشرتی موضوعات پر ’فکرانگیز‘ تبصرہ۔]

 

قرآنِ کریم کا اعجازبیان ‘ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی ٔ۔مترجم: محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: دارالکتاب‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۶۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

نزولِ قرآن کے بعد کوئی صدی ایسی نہیں گزری جس میں قرآن کے اعجاز بیان کے موضوع پر علمی مباحث کی گرم بازاری نہ رہی ہو۔زیرنظر کتاب عالمِ اسلام کی ایک محقق استاذہ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن کی عربی تالیف الاعجاز البیانی للقرآن الکریم کا اُردو ترجمہ ہے۔مصنفہ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمی ناروں میں قرآنی موضوعات پر مقالات پیش کرچکی ہیں اور ان کے زیرنگرانی متعدد پی ایچ ڈی اسکالر قرآنی موضوعات پر ریسرچ کرچکے ہیں۔

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ منکرین‘ قرآن کے ہر چیلنج کے سامنے عاجز آگئے۔ وہ عرب قوم جو اپنی فصاحت و بلاغت اور خطابت و زبان آوری پر فخر کرتی تھی‘ اس کے شاعر و خطیب اس قرآن کی معجزبیانی کے سامنے اپنی بے بسی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آخر وہ قرآن کی مثل ایک سورت بھی لاسکنے سے کیوں عاجز رہے؟ جب کہ عربی ان کی مادری زبان تھی اور وہ  زبان و بیان پر پوری طرح قادر تھے‘ اس سوال کا جواب مصنفہ نے کتاب میں دینے کی بڑی اچھی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک اہلِ عرب نے قرآن کے اعجاز بیان کا ادراک کرلیا تھا جس نے انھیں کسی بھی ایسی کوشش سے مایوس کردیا کہ وہ قرآن کے کسی بھی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ لاسکیں یا کسی آیت کو دوسرے انداز میں پیش کرسکیں۔ (ص ۱۵)

قرآن کا اعجاز کیا تھا؟ اس سوال کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے دلائل اور تذکروں سے تاریخ ادب کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ کتاب کے مقدمے میں مصنفہ نے بڑی عرق ریزی سے علماے سلف کی عبارات کے حوالے سے یہ دل چسپ حقیقت بیان کی ہے کہ ہرزمانے کے محققین نے یہ دعویٰ کیا کہ اعجاز قرآن پر جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں‘ وہ حرف آخر ہے۔  حافظ ابن قتیبہ سے ابوبکرالسجستانی تک‘ رمّانی و قاضی عبدالجبار سے باقلانی تک‘ یحییٰ علوی وابن رشد سے ابن سراقہ و برہان الدین بقاعی تک‘ جرجانی سے رافعی تک‘ انھی دعووں کی بازگشت سنائی     دیتی ہے۔ لیکن ایک صدی بھی نہ گزر پاتی تھی کہ ان کے دعوے پر خط تنسیخ کھینچنے والا نیا دعوے دار اُٹھ کھڑا ہوتا اور قرآن کے اعجازِ بیان کو اپنی عقل و فکر کی محدودیتوں کا پابند کرنے کی کوشش کرتا حالانکہ قرآن کا اعجازبیان ان کی قائم کردہ حدبندیوں سے بالاتر تھا۔

اعجاز اور تحدی (چیلنج) میں فرق کیاہے؟ اس پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ ماہرین بلاغت کی عبارات و اقتباسات کے ذریعے اعجاز قرآن کی بابت ان کا نظریہ بیان کیا ہے۔ مصنفہ نے اپنی تحقیقات کو تین فصول ’’اعجاز قرآن (۱) حروف میں (۲) الفاظ میں (۳) اسالیب میں‘‘ تقسیم کرکے ہر ایک کی وضاحت کے لیے آیات و سورتوں سے مثالیں دی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی بہترین کوشش کی ہے کہ قرآن کا ہر لفظ‘ ہر حرف اور ہر اسلوب اپنی جگہ بھرپور بلاغت رکھتا ہے اور یہی اعجازِ قرآن ہے۔ کسی بھی قرآنی لفظ کے معانی کا تعین یا حرف کی وضاحت ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ کے اصول پر کی گئی ہے۔ کتاب اپنے موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے  ثقیل ہونے کے باوجود مترجم نے جملوں کو بوجھل نہیں ہونے دیا۔ ترجمہ سلیس اور رواں ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)


قائداعظم جناح، برصغیر کا مردِ حریت، شریف فاروق۔ناشر: مکتبہ اتحاد‘ اسلامیہ کلب بلڈنگ‘ خیبربازار‘ پشاور۔ صفحات: ۵۳۲۔ قیمت مجلد: ۹۲۵ روپے۔

قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنی زندگی میں متحدہ ہندی قومیت کے علَم برداروں کی تنقید کا سامنا تھا‘اور انتقال کے بعد پاکستان کے کانگرسی عناصر اور بالخصوص ’روشن خیال اور ماڈریٹ‘ دانش وروں کی مخالفت بلکہ کردار کشی کی مہم کا نشانہ بننا پڑا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دوسری  قسم کے لکھنے والوں کے جارحانہ رویے میں وسعت آئی‘ جب کہ قائداعظم کے بارے میں  حقیقت پسندی اور ہمدردی سے لکھنے والے اہلِ قلم میں ویسا عزم اور ویسی قوت سے نظر نہیں آتی۔ اس فضا میں پاکستان کے معروف صحافی اور دانش ور شریف فاروق کی زیرنظر کتاب متعدد حوالوں سے ایک گراں قدر کاوش ہے۔

مؤلف نے قائداعظم پر ولی خاں کی الزام تراشی کا مسکت جواب دیا ہے (ص ۲۳‘ ۲۸۵)۔ انھوں نے بجاطور پر یہ گلہ کیا ہے کہ: ’’پاکستانی مصنفین نے قائداعظم کے برطانوی سامراج کے خلاف انقلابی رول [کو نمایاں کرنے] کی طرف کوئی توجہ نہیں دی‘‘ (ص ۲۰۵)‘جب کہ اس کتاب میں اس موضوع پر بہت سے چشم کشا حوالے درج ہیں۔ بھارتی اسکالر ڈاکٹر اجیت جاوید کی کتاب سے اس ضمن میں نہایت دل چسپ حقائق پیش کیے ہیں (ص ۳۳۹-۳۷۹)۔ قائداعظم کی اسلامی یا سیکولر سوچ کے موضوع پر بڑی سیرحاصل بحث پیش کی گئی ہے۔ اسی طرح سٹینلے ولپرٹ کی جانب سے قائد کی سوانح پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔

اسلوبِ بیان کسی خشک تحقیقی کتاب کا سا نہیں ہے‘ بلکہ صحافتی اسلوبِ نگارش میں     تحقیقی حقائق کو عام فہم انداز میں ’جوشِ پاکستانی‘ (بروزن جوشِ ایمانی) کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ پروفیسر پریشان خٹک‘ شریف الدین پیرزادہ اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی تقاریظ نے کتاب کے   داخلی حسن کو نمایاں کیا ہے۔ کتاب مختلف اوقات میں مذکورہ بالا موضوع پر لکھے جانے والے مقالات کا مجموعہ ہے۔ ہماری نئی نسل کو اس طرح کی کتابیں پڑھنا چاہییں۔ (سلیم منصور خالد)


Religion and Politics in America [امریکا میں مذہب اور سیاست]‘ ڈاکٹر محمد عارف ذکاء اللہ۔ ناشر: مرکز الزیتونہ براے تحقیق و مشاورت‘ بیروت‘ لبنان۔ صفحات: ۱۷۴۔ قیمت: درج نہیں۔

یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ مذہب و سیاست کی حدود کیا ہیں؟ کیا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ متحرک ہونا چاہیے یا دونوں کے اہداف و دائرہ کار مختلف ہیں‘ اس لیے ایک کو دوسرے کے امور میں دخل نہ دینا چاہیے۔ جدید تہذیب کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ مذہب کو کاروبارِ زندگی سے بالکل الگ تھلگ رکھنا چاہیے۔ اس موضوع پر بحث جاری ہے۔

انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی‘کوالالمپور‘ ملایشیا میں شعبہ اقتصادیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد عارف ذکاء اللہ کی کتاب Religion and Politics in America: The Rise of Christian Evangaelists and Their Impact فروری ۲۰۰۷ء میں منظرعام پر آئی ہے۔ کتاب کا بنیادی خیال امریکا میں مذہب اور سیاست کا باہمی تعامل اور اس کی جہات کا تعین ہے۔ اس کتاب میں مسیحی ایوینجیلیکل (بنیاد پرست) مذہب کے تاریخی پس منظر اور نشوونما کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے دلائل اوراعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں لیکن اس تحقیق کا مقصد کسی ملک یا اس کے عوام کو موردالزام ٹھیرانا نہیں ہے بلکہ بین التہذیبی مکالمے کے لیے فضا ہموار کرنا ہے۔

کتاب کا آغاز مسلم دنیا اور امریکا کے درمیان پائے جانے والے موجودہ حالات کے جائزے سے کیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ۲۰ویں صدی کے پہلے ۱۰برسوں میں دونوں اطراف کے انتہاپسندوں نے کچھ ایسے اقدامات کیے جن کی بدولت غلط فہمی اور بداعتمادی کی خلیج زیادہ گہری ہوگئی۔ مغربی ممالک اور عالمِ اسلام دونوں کی اکثریت امن سے محبت کرنے والی ہے۔ مغرب کے شاطروں نے تہذیبی کش مکش اور اسلامی فوبیا جیسے نظریات پیش کرکے سارا الزام مسلمانوں اور اسلام کے سرمنڈھ دیا ہے۔ دوسری طرف مسلم دنیا کا یہ عالم ہے کہ مسائل کے حل کے لیے جو ماڈل پیش کیے گئے ہیں ان سب میں ہر الزام مغرب پر جاتا ہے یا اسرائیل پر۔ مصنف کا خیال ہے کہ ایک مختلف اپروچ کی شدید ضرورت ہے۔

مسلم دنیا کو اس بات کی قدر کرنا چاہیے کہ مغربی معاشروں میں عوامی راے کو غیرمعمولی قدروقیمت حاصل ہے۔ وہاں صدر‘ وزیراعظم اور کابینہ کی خواہشات کو راے عامہ پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ کتاب میں امریکا میں مسیحیت کے پس منظر کو بیان کیا گیا ہے۔ ذکاء اللہ نے ان اقتصادی و معاشرتی اسباب کا جائزہ بھی لیا ہے جن کی بدولت امریکی معاشرہ ’موجودہ مسیحی بنیاد پرستی‘ کی طرف راغب ہوا اور قدامت پسند اقلیت بن گئے۔یہ ’بنیاد پرست مسیحیت‘ فکری، تعلیمی اور تنظیمی میدانوںمیں سرگرم ہوگئی۔ اس کا زیادہ انحصار ذرائع ابلاغ پر رہا‘ تاہم اس نے ’سیاست میں    عدم شرکت‘ کی پالیسی پر بھرپور عمل کیا‘یہاں تک کہ ۱۹۷۶ء کے صدارتی انتخابات نے مسیحی بنیاد پرستی کا راستہ ہموار کیا اور اسے سیاسی قوت کا راستہ مل گیا۔

آخر میں مصنف کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تعلیمی و فکری حلقوں میں نئی تہذیبی اپروچ اور بیداری کی ضرورت ہے۔ مسلمان دانش وروں‘ ذرائع ابلاغ اور پالیسی سازوں کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنا چاہیے کہ مغرب میں معاشرہ کس طرح کام کرتا ہے۔ انھیں مغرب کی راے عامہ سے تعمیری انداز میں معاملہ کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں تہذیبوں کے درمیان ایک حقیقی‘ بامعنی اور بین التہذیبی مکالمے کا آغازہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے کئی مسائل کے حل کے لیے پرامن اور باہمی طور پر   فائدہ مند فضا پیدا ہوسکتی ہے۔ کتاب کا عربی میں ترجمہ بھی دستیاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


ایک دلِ ناصبور‘ محمود عالم۔ ناشر: اُردو بک ریویو‘ ۳/۱۷۳۹‘ نیو کوہ نور ہوٹل‘ پٹودی ہائوس‘ دریاگنج‘ نئی دہلی-۱۱۰۰۰۲۔صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

محمودعالم (م: ۲۴ مارچ ۲۰۰۷ء) ایک حساس دل کے مالک تھے۔ ان کے زیرنظر مجموعے میں شامل ۱۶کہانیوں کے موضوعات بالکل منفرد ہیں۔ ادگھڑ‘ خواجہ سراڈائسٹی‘ تماشا میرے آگے‘ اب کوئی گلشن نہ اُجڑے‘ صاحب کا کتا‘ برمردار‘ ایک دوست کا مرثیہ‘ سونامی اور اصیل مرغ۔ بعض افسانوں میں کہانی پن تو بہت کم ہے لیکن احساسات و جذبات کا ایک سیلِ رواں ہے۔ ان کے ہاں اُمت مسلمہ کی حالتِ زار اور اس کی وجوہ کی بنیادیں تلاش کرنے کی کامیاب کوشش دکھائی دیتی ہے۔ سپرطاقتوں کے ہاتھ میں بنے کٹھ پتلی مسلم حکمرانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر کس طرح وحدت ملّی کو پارہ پارہ کردیا‘ اپنے پرائے کی پہچان ختم ہوگئی اور یہود و نصاریٰ کے اشاروں پر اپنے ہی بھائی بندوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔

محمودعالم کی ان کہانیوں میں قرآن و حدیث کے حوالے بکثرت ملتے ہیں۔’انوکھا تجربہ‘ میں اخلاق کی تبلیغ خاص طور پر بوڑھوں کے ساتھ برتائو کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خدا کے ہاں اس عمل کا کیا درجہ ہے۔ ’خوشبو‘ اور ’طائران حرم‘ میں سچے اور پاک جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ ’دیدۂ تر‘ ایک معصوم خوب صورت لڑکی کی کہانی ہے جو محبت کے پاکیزہ جذبات رکھتی ہے اور فطرت کی طرح نہایت ہی سادہ و معصوم اور مادیت پرستی سے بے گانہ ہے۔ ’سفید جھوٹ‘ اور ایک ’دل ناصبور‘ میں بھی محبت کے پاکیزہ جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی کہانی ’پشیمانی‘ کے نام سے ہے جو اگرچہ بچوں کے لیے ہے لیکن اس میں ایک بھائی کی محبت کا قصہ ہے خاص طور پر جب انسان کسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے تو عمربھر اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔

محمودعالم کی یہ کہانیاں تصنع اور بناوٹ سے پاک ہیں‘ بلکہ ایک ایسے شخص کی آواز ہیں جو اپنے گھر کو جلتا ہوا دیکھتا ہے اور بے اختیار چلّاتا ہے۔چلّانے کے اس عمل میں اگرچہ فنی تقاضوں کا خیال رکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ ’ازدل خیز دبر دل ریزد‘ یعنی دل سے  یہ جذبات اُٹھتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔(محمد ایوب لِلّٰہ)


بتول (افسانہ نمبر) مدیرہ: ثریا اسماء۔ ادارہ بتول‘ کمرہ ۱۴-ایف‘ سید پلازا‘ ۳۰-فیروزپور روڈ‘ لاہور- فون: ۷۵۸۵۴۴۹۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۵۰ روپے۔

ماہ نامہ بتول گذشتہ ۶۰ سال سے شائع ہو رہا ہے۔ ’اشاعتِ خاص‘ بتول کی روایت رہی ہے۔ زیرنظر ’افسانہ نمبر‘ اسی کا تسلسل ہے۔ اس میں افسانوں اور کہانیوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ادب کی ماہیت و مقاصد اور اسلامی ادب کی بنیادی اقدار کی وضاحت پر سیدامجدالطاف‘ عمادالدین صدیقی اور ماہرالقادری کے خاص مضامین‘ بتول کی قلم کاروں کے بارے میں    فرزانہ چیمہ کا سروے‘ شاہدہ ناز قاضی سے ایک ملاقات‘ سلمیٰ اعوان کے سفرِاستنبول کی ایک جھلک‘طویل اور مختصر افسانے۔ کلاسیکی ادب سے پریم چند کا معروف اضافہ ’حج اکبر‘ اور امریکی افسانہ نگار کیٹ چوپن کا شاہ کار افسانہ ’پچھتاوا‘ جسے خاص نمبر کی بہترین تحریر کہا جاسکتاہے۔

بتولکے نئے پرانے لکھنے والوں کے یہ افسانے‘ اس خاص ذوق اور ذائقے کے آئینہ دار ہیں جو بتولکا نصب العین اور اس کی پہچان ہیں‘ یعنی حسنِ معاشرت کا وہ اسلوب اور وہ طریقہ جس میں حضرت فاطمۃ الزہراؓ ، اسوۂ کامل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان افسانوں میں ایک پاکیزہ اور   صالح زندگی کے نمونے ملتے ہیں اور یوں یہ افسانے ایک مثبت اور تعمیری فکر کی نمایندگی کرتے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)

تعارف کتب

  •  اسلامی تمدن کے ۱۴ اساسی اصول و ضوابط‘ ڈاکٹر ایچ بی خاں۔ ناشر: الحمد اکادمی ‘ ۱/۱۸-جے-۲‘ ناظم آباد کراچی‘ پوسٹ کوڈ ۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔[سورۂ بنی اسرائیل کے تیسرے چوتھے رکوع میں وہ ۱۴ احکامات بیان کیے گئے ہیں جو اللہ کے رسولؐ کو معراج کے موقعے پر دیے گئے تھے۔ کسی اسلامی معاشرے کے یہ بنیادی اصول ہیں جن پر جدید دور میں ایک متمدن معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ایچ بی خان نے انھی ۱۴ اساسی اصولوں کو اس ضخیم کتاب میں سیرت و تاریخ کی روشنی میں بیان کیا ہے جس سے آج کے دور میں عملی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔]
  •  کرۂ ارض کے آخری ایام ‘ محمد ابومتوکل‘ ترجمہ: رضی الدین سید۔ ناشر: دارالاشاعت، اُردو بازار‘ایم اے جناح روڈ‘کراچی۔فون: ۲۲۱۳۷۶۸۔صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [مصنف کی انگریزی کتاب Milestones To Eternity کے تیسرے حصے میں قیامت کی لاتعداد چھوٹی بڑی نشانیوں پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اورتذکیر کے لیے قرآن کی آیات سے استدلال بھی کیا ہے‘ نیز ان نشانیوں کا کئی مقامات پر سائنسی تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ رضی الدین سید نے اس کا عمدہ ترجمہ کیا ہے جو دارالاشاعت نے عمدگی سے شائع کیا ہے۔ قیامت توآج یا کل آنا ہے۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ ہم نے اس کی تیاری کیا کی ہے!]
  •  اسلام کا نظامِ حیات‘ عبدالوہاب ظہوری۔ ناشر: شرکۃ الامتیاز‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۱۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[مصر کے دانش ور محمد احمد جاد مولیٰ کی کتاب المثل الکامل کی بنیاد  پر یہ کتاب تالیف کی گئی ہے۔ اس میں فرد کی اصلاح و تربیت‘ جماعتی تنظیم ‘ اجتماع کے آداب‘ عقائد‘ اخلاق وعادات‘ معاشی ذرائع‘ حکومت الٰہیہ کا قیام‘اسلامی ریاست‘ اقوامِ عالم کی اصلاح جیسے موضوعات پر اسلامی نظامِ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک جامع اور مفید کتاب اچھے معیار پر پیش کی گئی ہے۔]
  •  شریعت یا جہالت‘ تالیف : محمد پالن حقانی گجراتی۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ‘ ST/9E ‘ بلاک ۸‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔صفحات: ۸۵۳۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔[معاشرے میں ایسی بہت سی چیزیں رائج ہیں جنھیں لوگ دینی سمجھ کر کرتے ہیں‘ جب کہ دین میں ان کی کوئی اصل نہیں ہوتی بلکہ وہ دین کے خلاف ہوتی ہیں۔ ۸۵۰ صفحے کی اس کتاب میں اسی شرک اور بدعت سے بچانے کے لیے ۱۴۰ سے زیادہ عنوانات کے تحت قرآن و سنت کی روشنی بہم پہنچائی گئی ہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اور مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے تحسین فرمائی ہے۔]
  •  تحفظ نسواں یا تحفظ عصیاں بل‘ تالیف: سمیحہ راحیل قاضی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی‘ ۳۵-ڈی‘ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘کراچی۔فون: ۶۳۴۹۸۴۰۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[اس مجموعے میں   متعلقہ موضوع پر مؤلفہ کے اپنے مضمون کے علاوہ مفتی محمد تقی عثمانی‘ قاری محمد حنیف جالندھری‘اسداللہ بھٹو‘ مفتی منیب الرحمن اور حافظ حسن مدنی کے مقالات یک جا کردیے گئے ہیں۔]
  • حقیقت معاد‘ محبوب سبحانی۔ناشر: دارالتذکیر۔ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۷۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[آخرت کے لیے معاد کا لفظ عام نہیں۔ امین احسن اصلاحی صاحب کے ہاں ملتا ہے۔ اس کتاب کو مولانا کی حقیقتِ شرک‘ حقیقتِ توحید‘ حقیقتِ نماز اور حقیقتِ تقویٰ کے سلسلے میں سمجھنا چاہیے کہ انھیں حقیقتِ معاد اور حقیقتِ رسالت لکھنے کی ارادے کے باوجود مہلت نہ ملی۔   محبوب سبحانی نے ایک شاگرد کی طرح تدبر قرآن کے ۶ہزار سے زائد صفحات سے معاد کے مضامین کو جمع کردیا ہے۔ اسی لیے یہ ایک تالیف ہے کہ جس میں اصلاحی صاحب کے پیرے کے پیرے نقل کیے گئے ہیں۔ آخرت کے مختلف پہلوئوں پر قرآن کی روشنی میں گفتگو آگئی ہے۔]
  •  تحقیق نامہ (۲۰۰۵ء-۲۰۰۶ء)۔ مدیر: سہیل احمدخان‘ شعبۂ اُردو‘ گورنمنٹ کالج‘ یونی ورسٹی روڈ‘ لاہور۔ پاکستان۔ ص ۴۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔[جی سی یونی ورسٹی کا خصوصی شمارہ‘ جو معاصر نام ور ادیبوں‘ شاعروں اور اکابر ادب کے مکاتیب بنام محمدطفیل مدیرنقوش لاہور پر مشتمل ہے۔ جاویدطفیل نے یونی ورسٹی کو ۵ہزار خطوط کا عطیہ دیا ہے۔ لائبریری میں محفوظ‘ اس ذخیرے سے یہ منتخب خطوط‘ شعبہ اُردو کے استاد محمد سعید نے مختصرحواشی اور ایک مفصل مقدمے کے ساتھ مرتب کیے ہیں۔ ایک دل چسپ ادبی دستاویز۔]
  •  سہ ماہی الٰہیات، جھنگ۔ مدیرہ: آسیہ پروین۔ اسلامائزیشن انسٹی ٹیوٹ‘ حویلی بہادرشاہ جھنگ۔ [حقوقِ نسواں کا علَم بردار سہ ماہی الٰہیات ان معنوں میں ایک منفرد تجربہ ہے کہ اسلامی الٰہیات سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے خواتین کے بارے میں جملہ مسائل کو زیربحث لانے کا اہتمام کر رہا ہے۔ صفحات کا دامن محدود ہے مگر مجلسِ ادارت کا عزم اور تصور بڑا واضح ہے۔ اس زمانے میں‘ جب کہ مسلم خواتین کے نام پر طرح طرح کے فتنے جگائے جارہے ہیں‘ یہ رسالہ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔]
  •  تحفہ حرم‘ مولانا مرغوب احمد لاجپوری۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ‘ ST/9E ‘ بلاک ۸‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: ۲۸۲ مجلد۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔[یہ کتاب آٹھ مقالات کا مجموعہ ہے۔ پہلا آبِ زم زم ۱۰۰ صفحات اور آخری عجوہ کھجور ۱۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسرے موضوعات حجراسود‘ رکن یمانی‘ مقامِ ابراہیم اور ملتزم ہیں۔   ان موضوعات پر ضروری اور دل چسپ معلومات سلیقے سے جمع کردی گئی ہیں۔]
  •  اَساں نیں نبی پاک ؐ اَؤر [ہمارے نبی مکرمؐ] محبت حسین اعوان۔ ناشر: ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان، ۵۰۸ یونی شاپنگ سنٹر‘ عبداللہ ہارون روڈ‘ صدر‘ کراچی۔ صفحات: ۲۲۴۔قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [ڈھونڈی کڑریالی (پہاڑی زبان) میں نبی کریمؐ کی سیرت مبارکہ پر دنیا بھر میں لکھی جانے والی پہلی کتاب۔ یہ زبان دریاے جہلم کے اطراف مری‘ کہوٹہ اورمظفرآباد وغیرہ میں بولی جاتی ہے۔ ڈھونڈی زبان کے ارتقا پر مفصل مقدمہ۔]

اشاعت خاص حسن البنا کا دوسرا حصہ جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے کتاب ہوگی۔ اشاعت کے بارے میں آیندہ شمارے میں اطلاع ملاحظہ فرمایئے۔ (ادارہ)

الاشباہ والنظائر فی القرآن الکریم ، مقاتل بن سلیمان، ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر ابوالنصر محمد خالدی، تقدیم و تعلیق و تصحیح: مولانا عطاء الرحمن قاسمی۔ ناشر: شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ‘ N-80/C ابوالفضل انکلیو‘ اوکھلا‘ نئی دہلی-۲۵‘ بھارت۔ صفحات: ۶۱۲۔ قیمت: ۳۵۰ روپے بھارتی۔

الاشباہ والنظائر قرآنی الفاظ کے مختلف معانی پر مشتمل ایک مفید لغت ہے۔ اسی نام سے حنفی فقہ کی بھی ایک مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک ہی لفظ کے مختلف معانی اور اُن کے قرآنِ مجید میں مختلف استعمالات بتاتی ہے‘ بلکہ مترادفات کی بھی وضاحت کرتی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی  ؒ نے مقاتل بن سلیمان (م: ۱۵۰ھ) کے بارے میں لکھا ہے کہ انھیں تجسیم سے متہم کیا گیا ہے‘ چنانچہ یہ متروک الحدیث تھے۔ علمِ تفسیر میں البتہ ان کا بہت بلند رتبہ تھا۔

حیدرآباد دکن کے مشہور عالمِ دین ابوالنصر ڈاکٹر محمدخالدی نے‘ جو خود عربی ادب کے رمزشناس تھے اور جنھوں نے بدنامِ زمانہ مختار ابن ابی عبیدہ الثقفی پر مقالہ لکھ کر مصر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی‘ اس کتاب کا ترجمہ کیا اور تحقیق سے کام لیا۔ مولانا عطاالرحمن قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ڈاکٹر محمد خالدی (مرحوم) کے مسودے کا جائزہ لیا‘ تصحیح کی اور تعلیقات کے ساتھ اسے کتابی شکل میں شائع کردیا۔

قرآنی لغات کے جو مختلف معانی مقاتل بن سلیمان نے بیان کیے تھے‘ اُن کے شواہد قرآن مجید کے اُردو مترجمین کے کلام سے ڈھونڈے گئے ہیں۔ قاسمی صاحب نے ’توضیح‘ کے عنوان سے مزید قرآنی مثالوں کا اضافہ بھی کیا اور بعض اہم تفسیری نکات کی وضاحت ’انتباہ‘ کے عنوان کے تحت کی۔ قرآنی لغات پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ امام راغب کی مفردات‘ مولانا عبدالرحمن کیلانی کی مترادفات القرآن اور مولانا عبدالرشید نعمانی کی لغات القرآن زیادہ مشہور و معروف ہیں۔ زیرنظر کتاب ان میں ایک خوب صورت اضافہ ہے اور اُردو دان افراد کے لیے ایک نعمت ِ غیرمترقبہ۔ پیش کش کے لحاظ سے کئی جزوی امور توجہ چاہتے ہیں۔ کسی نئی طباعت کے موقع پر ان کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ (خلیل الرحمٰن چشتی)


عہدنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق ،نجمہ راجا یٰسین۔ ناشر: شعبہ نشرواشاعت اُردو‘ مدرسہ اسلامیہ سنگاریڈی ضلع میدک آندھراپردیش‘بھارت۔ صفحات: ۱۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔

ریگ زارِ عرب میں خاتم الانبیا والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک ایسی بارانِ رحمت تھی جس نے خزاں رسیدہ بے برگ و بار شجرِانسانیت کو سرسبز اور شاداب کردیا۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ نے بنی نوعِ انسان کی رہنمائی نہ کی ہو۔ حضوؐر کی سیرت طیبہ پر مجموعی طور پر بھی اور اس کے ہر پہلو پر بھی الگ الگ اب تک بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔

زیرنظر کتاب بھی سیرت نبوی ہی کے ایک پہلو پر ہے جسے محترمہ نجمہ راجا یٰسین نے ’عہدنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق‘ کے زیرعنوان اپنا موضوعِ تحریر بنایا ہے۔ محترمہ تصنیف و تالیف کے میدان میں نووارد ہیں لیکن انھوں نے تاریخ و سیر کی ۳۶مستند کتابوں سے کتاب کا لوازمہ اخذ کرنے میں جو کاوش کی ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ اُن کا اسلوبِ نگارش عام فہم اور دل نشیں ہے۔ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں تمدنِ عرب کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں ظہورِ اسلام سے قبل عرب معاشرے کی حالت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے باب میں عرب معاشرے میں بلدیاتی اداروں کے تصور کی تفصیل دی گئی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ نے جس نظم و نسق کو بلدیاتی کہا ہے‘ وہ عہدرسالت میں اسلامی حکومت کی تاسیس کے بعد اسلام کے سیاسی اور تمدنی نظام کا جزو لازم تھا۔ مصنفہ نے اپنے موضوع کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی‘ تاہم صحابہ کرامؓ کے ناموں کی صحت کے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔ (طالب ہاشمی)


کوہِ صبرواستقامت مُلا عبدالسلام ضعیف‘ مرتب: حافظ محمد ندیم۔ ناشر: دارالکتاب‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ فون: ۷۲۳۵۰۹۴۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

۴۵ مربع میل پر پھیلا ہوا گوانتاناموبے نامی جزیرہ دنیا کا بدترین عقوبت خانہ ہے جس میں ۴۳ ممالک کے ۶۶۰ باشندے جدید سائنسی تشدد کاشکار ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت بہت سے قیدیوں پر تشدد میں برابر کی ذمہ دار ہے۔

زیرنظر کتاب پاکستان میں سابق افغان سفیر مُلا عبدالسلام ضعیف کی پشتو خودنوشت کا اُردو ترجمہ ہے جس میں امریکی حکومت اور پاکستان کے بعض کارپردازان کے بھیانک چہرے نظرآتے ہیں۔ پہلے حصے میں مُلا عبدالسلام اور گوانتاناموبے کے تعارف کے ساتھ مُلا عبدالسلام کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی ۲۰۰۱ء کی گفتگو (جب وہ پاکستان میں سفیر تھے) اور پھر ۲۰۰۶ء کی وہ گفتگو شامل ہے جو ان کی رہائی کے بعد ہوئی۔ ایک حصہ ان اخباری مضامین پر مشتمل ہے جو مُلا عبدالسلام کی کتاب کے حوالے سے پاکستان کے مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوئے ہیں جن میں    عطاء الحق قاسمی‘ عرفان صدیقی‘ پروفیسر خورشیداحمد‘ عبدالقادرحسن‘ عباس اطہر‘ ایازامیر‘ اوریا مقبول جان‘ حسن عباسی اور شبیراحمد میواتی کی تحریریں شامل ہیں مگر حوالے نہیں دیے گئے۔ آخر میں مُلا عبدالسلام کی آپ بیتی کا تلخیص و ترجمہ ہے جسے پڑھ کر ایک پاکستانی مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ایک مسلمان سفیر کو ایک مسلمان ملک کی سرزمین سے پکڑ کر چند مسلمانوں کے ہاتھوں امریکی حکام کو فروخت کر دیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بردہ فروشی کی تفصیل بھی بیان کر دی ہے کہ پاکستانی حکام نے فی کس ۵ ہزار ڈالر کے عوض بے گناہوں کو امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا۔ گردپوش خوب صورت ہے ‘کتاب دل چسپ ہے۔ (محمدالیاس انصاری)


احمد خلیل، مریم جمیلہ۔ مترجم: پروفیسر محمد اسلم اعوان۔ مکتبہ تعمیر انسانیت‘ اُردو بازار‘ لاہور۔   صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

یہ کتاب احمد خلیل نامی ایک فلسطینی عرب مہاجر کی سوانح حیات ہے۔ واضح رہے کہ ’احمدخلیل‘ حقیقی نہیں بلکہ ایک افسانوی کردار ہے۔ احمد خلیل کا وطن فلسطین ہے۔ بچپن ہی سے وہ   ہم وطنوں کی بے بسی‘ یہودیوں کی چیرہ دستیوں اور بڑھتے ہوئے صہیونی اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا آیا ہے۔ جوانی کے دور تک پہنچتے پہنچتے حالات اسے ہجرت پر مجبور کردیتے ہیں۔ چھوٹے بھائی اورچند عزیزوں کے ساتھ وہ مصر کے راستے سعودی عرب پہنچتا ہے اور فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد مدینے ہی کو اپنا مسکن بنالیتا ہے۔ اس کی زندگی کے باقی ایام یہیں گزرتے ہیں۔

احمدخلیل کا اکلوتا بیٹا اسماعیل آرامکو (سعودی عرب) میں امریکی کمپنی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ وہ ایک مغرب زدہ عیسائی لڑکی سے شادی کرکے‘ بری طرح مغربیت کا اسیر ہوجاتا ہے۔ ایک روز وہ اپنے گھرآتا ہے اور والدین کی ’دقیانوسیت‘ پر ناک بھوں چڑھاتا ہے۔ احمدخلیل اس کی مغرب زدگی پر سخت تنقید کرتا ہے۔ اس کا والد احمدخلیل کئی ماہ سے تپ دق میں مبتلا ہے۔ اب اسماعیل کی باغیانہ روش اسے بالکل ہی نڈھال کردیتی ہے۔ کہانی معنی خیز ہونے کے علاوہ معلومات افزا بھی ہے۔ مصنفہ نے انگریزی میں یہ ناول قبولِ اسلام سے پہلے لکھا تھا‘ بعد میں اس میں حذف و اضافہ کرکے کئی برس پہلے شائع کیا تھا۔ اب پروفیسر اعوان نے اُردو ترجمہ پیش کیا ہے۔

ناول نگاری کی روایت کے مطابق کسی نہ کسی رومانس کو کہانی میں ایک ضروری عنصر کی حیثیت سے شامل کیا جاتا ہے مگر مصنفہ نے اس سے احتراز کیا ہے۔ ان کے کردار انحطاط پذیر عرب معاشرے کے مسلمان کردار ہیں‘ مگر اپنی تمام تر جاہلیت اور اخلاقی انحطاط کے باوجود‘ مذہبی اور دینی فرائض ادا کرنے میں مستعد اور پُرجوش ہیں۔ احمدخلیل کا کردار‘ مثالی مسلمان کا کردار تو نہیں ہے مگر اس کے اقوال و افعال سے اس کی دین پسندی اور ملّی حمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ احمدخلیل بعض مواقع پر قرآن اور احادیث کے حوالے دیتا ہے۔ ناول کا فنی پہلو البتہ کمزور ہے۔ ناول کی حیثیت سے اس کی پہلی خامی اس کا محدود کینوس ہے۔ اس وجہ سے ناول صرف یک کرداری (احمدخلیل) کہانی   بن گیا ہے۔ اُسی کے حالات‘ اُسی کے واقعات‘ بلکہ اُسی کے اردگرد کی دنیا اور معاشرہ ___فلسطین سے احمدخلیل کی ہجرت کے بعد ہم وہاں کے حالات سے بالکل بے خبر رہے ہیں۔ بعد میں صرف چند سطری خط کے ذریعے ایک مجمل سی خبرملتی ہے۔ (آخری حصے میں اس روش میں تبدیلی آگئی ہے)۔ ناول کی یہ صورت ہمیں بار بار‘ اس کتاب کو ’ناول‘ کہنے سے روکتی ہے۔ دراصل ’احمدخلیل‘ نہ تو بیاگرافی ہے اور نہ ایک ناول___بس درمیان میں کوئی چیز ہے۔ مگر جو کچھ بھی ہو‘ یہ ایک دل چسپ کتاب کی حیثیت سے پڑھی جائے گی۔(رفیع الدین ہاشمی)


رئویت ہلال - مسئلہ اور حل، مرتب: خالد اعجاز مفتی۔ ناشر: دارالکتب‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۶۸۔ قیمت: درج نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو‘ یعنی رمضان کا آغاز بھی چاند دیکھ کر اور چاند دیکھ کر ہی عید کرو۔ اُمت مسلمہ ۱۴۰۰ سال سے زیادہ عرصے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی پر عمل پیرا رہی ہے۔ رمضان اور عیدین کے نظام کو درست اور ٹھیک رکھنے کے لیے چاند کا دیکھنا ضروری قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود رئویت ہلال کے کچھ پہلوئوں اور تفصیلات پر فقہاے اُمت کے درمیان اختلاف راے پایا جاتا رہا ہے۔ اب دورجدید میں ذرائع ابلاغ کی بے پناہ سہولت اور آسانی نے رئویت ہلال کے فقہی اور فنی پہلوئوں کو بہت نمایاں اور اُجاگر کردیا ہے۔

اہلِ علم حضرات نے رئویت ہلال کے اختلافی پہلوئوں کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ اتفاق کی فضا پیدا کرنے اور علمی مباحث کو کسی مفید نتیجے تک پہنچانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔

جناب خالد اعجاز مفتی صاحب کی تحقیقی اور علمی سعی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس مسئلے کے ہر پہلو پر مفتی صاحب نے بڑی عرق ریزی‘ جاں فشانی اور محنت سے تحقیق کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ مسئلہ رئویت ہلال کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور جدید کے علماے کرام کاجدید فلکیاتی علوم سے بہت حد تک ناواقف اور نابلد ہونا ہے۔ اختلاف مطالع اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اعلان رئویت ہلال پر فتویٰ دینے کے مجاز وہی ہوسکتے ہیں جودینی علوم پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید فلکیاتی علوم سے بھی آگاہ ہوں۔

دینی علوم اور فلکیاتی علوم کے ماہرین کو مل کر اس کا قابلِ عمل حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (عبدالوکیل علوی)


تربیت ہو تو ایسی، مصطفی محمدطحان، ترجمہ: گل زادہ شیرپائو۔ ناشر: مکتبہ المصباح‘ ۱-اے‘ ذیلدارپارک‘ اچھرہ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

قصہ کہانی ادب کی وہ قسم ہے جس میں انسان کی دل چسپی بالکل فطری ہے۔ اس طرح  بات سمجھانا اور ذہن نشین کرانا آسان ہوتا ہے۔ انسانی فطرت اور کہانی کی اثرآفرینی کے پیش نظر اسلام نے اس کو تفہیم و تربیت کا ذریعہ بنایا ہے۔

زیرنظر کتاب معروف مسلم اسکالر مصطفی محمد طحان کی کتاب التربیۃ بالقصۃ کااُردو ترجمہ ہے۔ فاضل مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے احادیث مبارکہ میں بیان کیے جانے والے سبق آموز واقعات اور آسمان نبوت کے درخشاں ستاروں (صحابہ کرامؓ) کی ایمان افروز داستانوں سے انتخاب پیش کیا ہے۔ ہرقصے کے آخر میں اہم علمی مباحث اور عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔ یوں یہ کتاب قرآن و سنت کے حوالوں سے مزین ۴۰ دروس کا خوب صورت گل دستہ ہے۔ دل چسپ اور منفرد انداز بیان کے یہ واقعات ذہن کو متاثر‘ روح کو معطر اور انسان کو آمادہ بہ عمل کرتے ہیں۔ بچوں اور بڑوں کے تزکیہ و تربیت کے لیے یکساں مفید ہے۔ ترجمہ رواں اور سہل۔ (حمید اللّٰہ خٹک)


اقبال کہانی، ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر۔ ناشر: ادارہ مطبوعات طلبہ‘  ۱-اے‘ ذیلدار پارک‘ اچھرہ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۴۷۔ قیمت: ۶۶ روپے۔

صدارتی ایوارڈ یافتہ اس کتاب میں علامہ اقبال سے نئی نسل کو کہانی ہی کہانی میں روشناس کروانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال کی شخصیت‘ خدمات اور اُمت کے لیے تڑپ کو ان کی زندگی کے مختلف واقعات سے اُجاگر کیا گیا ہے۔

علامہ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں: شاہین کا تصور اور نوجوانوں سے اقبال کی توقعات‘ دین سے لگائو اور عشقِ رسولؐ، رزقِ حلال‘ فیاضی و خودداری‘ شگفتہ مزاجی اور مزاح کا دل چسپ پیراے اور واقعاتی انداز میںتذکرہ کیا گیا ہے۔ اقبال کے حوالے سے عام تصور سے ہٹ کر کئی اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ بسااوقات مکالماتی انداز کی وجہ سے کہانی میں بوجھل پن بھی محسوس ہوتا ہے۔ چند واقعات کا انتخاب بھی غورطلب ہے۔ مصنف نے بجاطور پر توجہ دلائی کہ نئی نسل کو اقبال سے روشناس کرانے کے لیے اقبالیات کو بطور مضمون نصاب میں شامل کیا جائے‘ اور نجی تعلیمی اداروں کو اس سلسلے میں پہل کرنا چاہیے۔ کتابیات سے کتاب کی جامعیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ مطالعے کے لیے بھی تحریک ملتی ہے۔ مصنف اس سے قبل قائدکہانی بھی لکھ چکے ہیں۔(امجدعباسی)

تعارف کتب

  •  حدیث کی اہمیت اور ضرورت، خلیل الرحمن چشتی۔ ناشر: الفوز اکیڈیمی‘ گلی ۱۵‘پولیس فائونڈیشن‘ ۴/۱۱-ای‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[جدید تعلیم یافتہ طبقے کو حدیث کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے جدید اسلوب‘ عام فہم اور جامع انداز میں ایک راہ نما کتاب۔ قرآن و حدیث کا باہمی تعلق‘ سنت کا قانونی و آئینی مقام‘ احادیث موضوعہ (جھوٹی احادیث)‘مختصر تاریخ روایت حدیث (عصرحاضر تک)‘ معروف محدثین کا تعارف‘ علم حدیث اور عصرِحاضر کے تقاضے جیسے موضوعات پر بحث۔ چارٹس کا استعمال۔ زیرنظر چھٹے اڈیشن میں منکرین حدیث کے اعتراضات کا جائزہ بھی پیش کیاگیاہے۔

 

فتنۂ انکارِ حدیث کا منظر و پس منظر، پروفیسر افتخاراحمد بلخی۔ ناشر: المطبوعات‘ ۲۷-آر‘ ڈیسنٹ ٹائون‘ بلاک۷‘ گلستانِ جوہر‘ کراچی۔ صفحات جلد اوّل: ۲۰۸‘ دوم: ۴۰۲‘ سوم: ۵۸۶۔ قیمت: جلد اوّل: ۱۲۵روپے‘ دوم: ۲۱۰ روپے‘ سوم: ۲۶۵ روپے

فتنۂ انکار حدیث کا منظر و پس منظر میں فکر انکار حدیث کا اجمالی تعارف اور برصغیر میں اس کے محرکِ اوّل سرسیداحمدخان کے مجلے تہذیب الاخلاق اور غلام احمد پرویز کے طلوع اسلامکی فکر اور مساعی کا ایک تحقیقی‘ مربوط اور فاضلانہ مربوط محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔  مؤلف کے نزدیک خلافت علی منہاج النبوۃ اس فتنے کا اولین محرک ہے اور علماے سُو ء نے اس فتنے کو نشوونما دی اور اس کی آبیاری کی۔ ان علما کی یہ ’کاوشیں‘ اگرچہ شخصی حکمرانی کو جواز اور استحکام  بخشنے کے لیے تھیں لیکن اس طرح کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو پس پشت ڈالا جا رہا تھا۔ اس روش اور طرزِفکر نے جب حدود سے تجاوز کیا تو قرآنِ مجید ہی میں تشکیک کی جسارتیں ہونے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ قرآن کے مفاہیم اور معانی کو نظرانداز کرکے خالص  عقلی توجیہات کی گئیں جن کا نتیجہ انکارِ حدیث کی صورت میں ظاہر ہوا۔ برصغیر میں سرسیداحمدخان اس فکر کی اولین چنگاری تھے تو غلام احمد پرویز کی فکر کو اس کے عروج کے طور پر پیش کیا گیاہے۔

منکرینِحدیث کی اس فہرست میں مذکورہ دو اصحاب کے علاوہ ان کے فکری نمایندوں اور اس فکر سے وابستہ اہلِ قلم کی تحقیق کے نام سے تحریف دین کا محاکمہ پیش نظر رہا ہے۔ مؤلف کا انداز رواں اور خطیبانہ ہے لیکن تحقیقی اسلوب بھی نمایاں ہے۔

کتاب کی پہلی جلد انکارِ حدیث کے پس منظر پر مشتمل ہے۔ دوسری جلد میں طلوع اسلام کے ان افکار کا محاکمہ ہے جو سیدمودودیؒ اور جماعت اسلامی پر تنقید کرتے ہوئے غلام احمد پرویز اور دیگر کے قلم سے سامنے آئے۔ تیسری جلد میں مذکورہ پرچے کی عمومی فکر کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کے مطالعے سے منکرینِحدیث کی علمی و تحقیقی خیانت پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔ اس فکر کے نمایندوں کی حدیث اور دیگر عربی عبارتوں میں قطع و برید کے ذریعے اپنے موقف کو حق ثابت کرنے کی تحقیقی مساعی کا پول مؤلف نے اصل مآخذ سے تقابل کر کے کھول دیا ہے۔ ان اصحاب کی تحریروں کے بین السطور جو مفہوم قاری کے ذہن میں پختہ کرنا مقصود تھا‘ مصنف نے اس سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔

انکارِ حدیث کی نفسیات کو سمجھنے اور موجودہ دور میں ایسی فکر کے تجزیے اور محاکمے کے لیے اس کتاب سے استفادہ بہت مفید ہوگا۔ کتاب کی کمپوزکاری اور پروف خوانی میں سقم رہ گیا ہے۔ بعض حواشی متن کے اندر ہی دے دیے گئے ہیں جس سے عبارت کی روانی میں خلل آگیا ہے۔ اس اہم کتاب کو پوری احتیاط کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے۔ (ارشاد الرحمٰن)


اسلام کا عائلی نظام، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی‘ کراچی۔ مکتبہ معارفِ اسلامی‘ کراچی۔ ڈی-۳۵‘ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ فون: ۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۱۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

اسلامک ریسرچ اکیڈیمی نے پاکستان میں مولانا جلال الدین عمری کی کتب کی اشاعت شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں یہ ایک تازہ اور اہم کتاب ہے جس میں آج کے اہم ترین مسئلے‘ یعنی عورت کے حوالے سے تقریباً تمام ہی مباحث پر اختصار سے گفتگو کی گئی ہے اور اسلامی نقطۂ نظر کو اجتہادی شان سے پیش کیا گیا ہے۔

اب تو یہ کہنے والے بھی ہیں کہ خاندان کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ فاضل مصنف نے اس کا مبسوط و مدلل جواب دیا ہے اور اسلامی خاندان کے خدوخال بیان کیے ہیں۔صحیح جنسی رویے کے باب میں رہبانیت‘ اباحیت اور نکاح کے رویوں کو زیربحث لایا گیا ہے‘ اور شوہر اور بیوی کے حقوق و ذمہ داریاں‘ باہمی اختلافات حل کرنے کی تدابیر‘ چار نکاح کی اجازت کاعدل سے مشروط ہونا اور عورت کی ظلم سے حفاظت‘ طلاق کا طریقہ وغیرہ بیان کیے گئے ہیں۔

’دورحاضر میں مسلمان عورت کے مسائل‘ کتاب کا اہم باب ہے۔ ’عورت اور معیشت‘ کے عنوان کے تحت فاضل مصنف نے آئی پی ایس اسلام آباد میں ۲۵مارچ ۲۰۰۵ء کے ایک سیمی نار کے اپنے مقالے اور شرکا کے سوالات کے حوالے سے عورت کا ملازمت کے ساتھ نان و نفقہ‘    نان ونفقہ کی نوعیت‘جائز ملازمتیں‘ ناجائز ملازمت کی مجبوری‘ عورت کی ملازمت کے لیے نئے قواعد کی ضرورت‘ چادر اورچاردیواری‘ مرد کی قوامیت‘ طلاق کے بعد نفقہ‘ مطلقہ کا تاحیات نفقہ‘ عورت کے لیے ہی حجاب کی پابندی کیوں؟‘ اختلاطِ مردوزن‘ مساجد میں خواتین کی حاضری‘ مملکت کی سربراہی‘ عورت اور منصب قضا اور خواتین کے لیے کوٹا سسٹم جیسے جدید مسائل پر اسلامی موقف واضح کیا ہے۔ ’بعض فقہی احکام کے تحت‘ مسجد میں عورت کی نماز باجماعت میں شرکت‘ اسلامی ریاست میں عورت کی قیادت‘ نکاح میں ولی کی شرط اور اس کا اختیار‘ غیرمسلم عورت سے نکاح‘ محرم کے بغیر سفرِحج‘ زمانۂ عدت میں ملازمت اور کاروبار میں اولاد کی شرکت جیسے سوالات کے جوابات بھی   اس کتاب میں شامل ہیں۔

خاندان جیسے قدیم ترین سماجی ادارے کو آج جس درجہ خطرات لاحق ہیں اور مسلم معاشروں کو بھی اسی لپیٹ میں لانے کی جو کاوشیں ہو رہی ہیں‘ ان کے نقصانات کو سمجھنے اور اپنی ذمہ داریاں بحیثیت مسلمان ادا کرنے میں یہ کتاب نہایت مفید اور مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ تحقیقی کتاب  جدید اُردو اسلامی کتب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ یوں یہ مختصر ہونے کے باوجود ایک بہت وسیع موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)


شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور وہابی تحریک‘ توراکینہ قاضی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۵۱۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

گذشتہ دو اڑھائی برسوں کے دوران میں مسلم دنیا پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے ایک اہم فرد شیخ محمد بن عبدالوہابؒ (م: ۲۲ جون ۱۷۹۲ء) ہیں۔ نجد کے ایک علمی گھرانے میں   آنکھ کھولنے والی اس شخصیت نے عقیدۂ توحید کی آبیاری کے ساتھ اوہام پرستی‘قبر پرستی اور بدعات کی بیخ کنی کے لیے پختہ کار ساتھیوں کی جمعیت تیار کی‘ جس نے آل سعود سے مل کر سرزمین حجاز پر آخرکار کنٹرول سنبھالا۔

زیرمطالعہ کتاب کی مصنفہ نے ان حالات کو وضاحت سے بیان کیا ہے‘ جن سے شیخ محمدبن عبدالوہابؒ نے کار دعوت و اصلاح کا آغاز کیا‘ اور یہ بتایا ہے کہ کس طرح عزیمت کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے وہ اس تحریک کو سیاست و ریاست کے ایوانوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ (تاہم یہ سوال بحث طلب ہے کہ وجود پذیر ہونے والی حکومت اسلام کی مطلوب حکومت کے معیار پر کس حد تک پوری اترتی ہے)۔

شیخ محمد بن عبدالوہاب مرحوم پر مختلف اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے مصنفہ نے لکھا ہے: ’’اگر ان [شیخ] کے متبعین میں سے کسی نے ناحق کسی کو قتل کیاہے‘ اور زیادتی کی ہے‘ تو اس سے شیخ الاسلام کے دامن پر چھینٹے اڑانا اور ان کی تحریک کی مذمت کرنا ہرگز تقاضاے انصاف نہیں‘ اور تقریباً ہر تحریک میں ایسے شوریدہ سر لوگ ضرورداخل ہوجاتے ہیں‘ جن کی حماقتوں سے تحریک کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے‘‘ (ص ۱۱۹)۔ ’’شیخ الاسلام نے نہ صرف قبروں پر بنے ہوئے مقبرے اور قبے ڈھا دیے‘ بلکہ جو درخت شرک کے اڈے بن چکے تھے‘ انھیں بھی کٹوا دیا‘‘ (ص ۱۲۱)۔ آگے چل کر لکھا ہے: ’’وہابیت کوئی نیا مذہب نہیں‘ اہل سنت والجماعت ہی کا دوسرا نام ہے‘‘۔ (ص ۱۲۰)

اس تحریک کو وہابی تحریک یا وہابیت کہنا کوئی اعزاز یا انصاف کی بات نہیں ہے‘ بلکہ یہ یورپی سامراج کی جانب سے ایک گھناؤنے پروپیگنڈے اور کسی ’نئے اسلام‘ سے منسوب ایک اصطلاح ہے‘ جسے انھوں نے افریقہ‘ وسطی ایشیا‘ قفقاز‘ جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے منطقوں میں ہر اس تحریک پر چسپاں کیا‘ جس نے مسلمانوں میں اصلاح عقائد کے ساتھ ساتھ سامراجی آقاؤں کا راستہ روکنے کے لیے بامعنی کوشش کی۔ آج بھی وہابیت‘ جہادی‘ بنیاد پرستی‘ سیاسی اسلام اور دہشت گرد اسلام کی اصطلاحیں کم و بیش اسی تعصبانہ مفہوم میں برتی اور تھوپی جارہی ہیں۔ شیخ کی تحریک کو      یا معاصر اسلامی تحریکات کو ’وہابی‘ کہہ کر پکارنا نام بگاڑنے اور ایک پھبتی بنا دینے کے ہم معنی ہے۔ اس لیے اس اصطلاح سے اتفاق ممکن نہیں۔ بہرحال یہ کتاب مذکورہ موضوع پر مفید معلومات کا ذخیرہ پیش کرتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


بائبل اور محمد رسولؐ اللہ، حکیم محمد عمران ثاقب۔ مکتبۂ قدوسیہ‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘    اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۸۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تورات‘ زبور اور انجیل میں پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں ویدوں کی گرنتھوں میں خصوصاً رگ وید‘ اتھروید‘ کانڈوید‘ بھوشیہ یوران‘ سنگران یوران وغیرہ میں آج بھی یہ پیش گوئیاں موجود ہیں۔

مصنف نے اناجیل اربعہ کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ اس سے ایک عام غیرمسیحی قاری کو عیسائیت کے بارے میں معلومات ملتی ہیں اور ان میں تناقض بھی سامنے آتا ہے۔ فاضل مصنف نے حضرت عیسٰی ؑ، حضرت موسٰی ؑ اور حضرت محمدؐ کی شخصیت اور شریعت کا تقابل جدولی انداز میں کیا ہے (ص ۱۰۶ تا ۱۰۸)۔ اس کتاب کی ایک اور خصوصیت‘ ہر باب کے آخر میں خلاصۂ کلام ہے۔ ابواب کے عنوان ہیں: ۱-عہد کا رسول ۲- تورات اور محمد رسولؐ اللہ ۳- زبور اورمحمد رسولؐ اللہ ۴-انجیل اور محمد رسولؐ اللہ ۵- انجیل بربناس اور محمد رسولؐ اللہ۔

مکالمۂ ادیان بالخصوص مکالمۂ عیسائیت میں دل چسپی رکھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ کتاب معلومات کے ایک خزانے سے کم نہیں۔ (م - ا- ا)


فتاویٰ نکاح وطلاق‘ تالیف: حافظ عمران ایوب۔ ناشر: نعمانی کتب خانہ‘ حق سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۵۲۔ قیمت: ۳۸۰ روپے۔

جدید تہذیب کے اثرات کے سبب ہر جگہ مسلمان نوجوان مردوں اور خواتین اور خاندانوں کو جو متنوع مسائل درپیش ہیں‘ زیرنظر کتاب میں‘ ان کے جوابات کتاب و سنت کی روشنی میں  عرب علما خصوصاً شیخ محمد بن صالح المنجد‘ شیخ عبداللہ بن باز‘ شیخ ابن عثیمین کی جانب سے تفصیل سے دیے گئے ہیں۔ اسے صنفی امور کے لیے ایک دینی راہنما کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ حافظ عمران ایوب نے عربی رسائل و جرائد اور انٹرنیٹ سے یہ فتاویٰ جمع کرکے انھیں ترتیب دیاہے اور ان کی تخریج کا فریضہ انجام دیا ہے۔ تحقیق و تعلیق ناصرالدین البانی کی ہے۔ یہ کتاب علماے کرام اور مفتیان عظام کے ساتھ ساتھ ہرخاص و عام کے لیے مفید ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت خاندانی نظام کے  کیا مسائل ہیں اور وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تدبر فی القرآن اور تفقہ فی الحدیث کی کتنی ضرورت ہے‘ اور علماے اُمت کا حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا کتنا ضروری ہے۔ تاہم یہ شدت کہ شوہر نماز نہ پڑھتا ہو تو نکاح قائم نہ رہے‘ فی زمانہ قابلِ عمل نہیں۔ (فاروق احمد)


میری آخری منزل، جنرل محمد اکبرخاں۔ ناشر: الفیصل‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۳۸ (بڑی تقطیع)۔ قیمت: ۷۵۰ روپے۔

جنرل محمد اکبرخاں (۱۸۹۵ء-۱۹۸۴ء) کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں متعدد امتیازات حاصل ہوئے۔ وہ برطانوی ہند کی فوج میں پہلے کمیشنڈ افسر بنے۔ انھیں افواجِ پاکستان کے سب سے سینیرافسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ بھی ان کاایک امتیاز ہے کہ ۱۹۴۹ء کے آخر میں جب افواجِ پاکستان کے انگریز سالاراعلیٰ جنرل گریسی اپنی مدتِ ملازمت کے اختتام پر سبک دوش ہونے والے تھے تو اپنے استحقاق کے باوجود‘ جنرل اکبرخاں نے فوج کا سب سے بڑا منصب قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ (جنرل موصوف اور مابعد جرنیلوں کے ذہن‘ سوچ ‘ خواہشات اور طرزعمل میں کس قدر تفاوت ہے۔ تعجب انگیز اور عبرت خیز! پاکستان کن کن المیوں سے دوچار ہوا!)۔

جنرل اکبر کی زیرنظر آپ بیتی فقط پاکستان کے اوّلین جنرل کے شخصی حالات اور اس کی سپاہیانہ زندگی کی تفصیل ہی پیش نہیں کرتی بلکہ اس میں قیامِ پاکستان کے لیے اسلامیانِ ہند کی تاریخی جدوجہد‘ قائداعظم کی پُرخلوص کاوشوں‘ کانگریس اور انگریزوں کے غیرمنصفانہ طرزعمل (زیادہ صحیح الفاظ میں‘ دونوں کے معاندانہ رویوں‘ سازشوں اور مسلم دشمنی کے گوناگوں حربوں) کااندازہ ہوتا ہے۔ پتا چلتا ہے کہ برطانیہ اور بھارت نے پاکستان کی کیا کیا حق تلفیاں کیں۔ جنرل اکبرخاں جو ایک قلم کار بھی ہیں اور حربی فنون و موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ‘ آپ بیتی میں ایک صاف گو اور سیدھے ذہن کے فوجی نظر آتے ہیں‘ تاہم وہ ہندو ذہنیت اور برطانوی ذہن کا بخوبی اِدراک رکھتے تھے۔ طویل فوجی ملازمت میں طرح طرح کی آزمایشوں سے دوچار رہے مگر صبر اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے سازشوں کی زد سے بچ نکلتے رہے۔ تقسیمِ ہند کے موقعے پر نہ صرف گاندھی اور نہرو بلکہ پٹیل نے بھی انھیں بھارت ہی میں ٹھیرنے کی دعوت دی مگر انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ پھر یہاں ہر مخلص اور خیرخواہِ پاکستان پر جو کچھ بیتی‘ وہ ایک دل خراش داستان ہے۔ جنرل اکبر نے قائداعظم کے پہلے اے ڈی سی کے طور پر انھیں قریب سے دیکھا۔ وہ ان کی تعریف میں ایک عقیدت مند کی طرح رطبُ اللسان ہیں مگرباقی بیش تر سیاست دانوں اور نوابوں کے بارے میں ان کا تجربہ ومشاہدہ افسوس ناک ہے (اسی کے نتائج اہلِ پاکستان بھگت رہے ہیں)۔

ایک واقعہ بہت عبرت انگیز ہے۔ نواب جوناگڑھ کی درخواست پر انھیں اور ان کی قیمتی اشیا اور زروجواہر لانے کے لیے حکومت نے دو ہوائی جہاز کراچی سے جوناگڑھ بھیجے۔ جہازوں کی واپس کراچی آمد پر ان سے نواب کے شکاری اور پالتو کتے اور ملازمین برآمد ہوئے۔ دو کتوں پر  کم خواب کی جھولیں پڑی ہوئی تھیں۔ نگران ملازم نے فخریہ کہا: اس کتے اور کتیا کی حال ہی میں شادی رچائی گئی اسی لیے وہ اپنے شادی کے جوڑے پہنے ہوئے ہیں۔ دوسرے پھیرے میں نواب صاحب اپنی تین بیگمات اور ان کے زیورات اور سازوسامان کے ساتھ تشریف لائے۔ قیمتی سامان اور زروجواہر جو حکومت کے لیے کچھ نہ کچھ مالی کشادگی کا ذریعہ ثابت ہوتے‘ وہیں رہ گئے۔ (ص ۱۳۹)

میری آخری منزل ایک دل چسپ اور معلومات افزا آپ بیتی ہے اور جدوجہدِ آزادی‘ قیامِ پاکستان اور نظمِ حکومت کی ایک عبرت خیز تاریخ بھی۔ جنرل اکبر نے یہ داستان سادہ بیانیے میں لکھی ہے‘ تاہم علامہ اقبال‘ غالب‘ حالی‘ اکبرالٰہ آبادی‘ اسد ملتانی اور جوش جیسے نام وَر شعرا کے (اور خود اپنے) اُردو اور فارسی اشعار کا برمحل استعمال ان کے عمدہ ذوقِ شعر کی دلیل ہے۔     یہ وضاحت ضروری ہے کہ راول پنڈی سازش والے جنرل اکبر‘ ایک دوسرے شخص تھے۔

اس کتاب کا سب سے تکلیف دہ پہلو املا‘کمپوزنگ‘ پروف اور متن اشعار کی بلامبالغہ وہ ہزاروں اغلاط ہیں جن سے کتاب کا ہر صفحہ بری طرح داغ دار ہے___ پروف خوانی‘ غالباً بالکل نہیں کی گئی۔ کتاب کی تقطیع کم اور کتابت قدرے خفی ہوتی تو بہتر تھا۔(رفیع الدین ہاشمی)

تعارف کتب

  • ۵۲ دروس قرآن ، سید طاہر رسول قادری۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی‘ ۳۵-ڈی‘ بلاک ۵‘    فیڈرل بی ایریا‘ کراچی-۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۲۸۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[اوسطاً ۳‘ ۴ صفحات پرمشتمل ۱۰‘۱۲ منٹ میں پڑھے جاسکنے والے متعین موضوعات پر ایک نصاب کے تحت ۵۲ دروس قرآن جن سے قرآن کی تعلیمات کی ایک جامع تصویر سامنے آجاتی ہے۔ مفصل مقدمہ از قاضی حسین احمد۔ تعلیمی اداروں اور تحریکی حلقوں میں استعمال کرنے کے لیے سیدطاہر رسول قادری کی محنت و کاوش‘ معیاری پیش کش۔ پہلے بھی شائع ہوچکی ہے۔   یہ جنوری ۲۰۰۷ء کا اڈیشن ہے۔]
  •  الفرقان، سورۃ البقرہ، ترتیب و تدوین: شیخ عمر فاروق۔ مقامِ اشاعت: ۱۵-بی‘وحدت کالونی ‘ لاہور- فون:۷۵۸۵۹۶۰-۰۴۲‘ صفحات: ۸۱۶ (اڈیشن‘نومبر ۲۰۰۶ء)۔قیمت: وقف لِلّٰہ ۔[قرآن فہمی کی ایک  قابلِ قدر کوشش ہے۔ ہر آیت کی تفسیر میں اہم الفاظ کے معانی بیان کرنے کے بعد کسی متداول تفسیر سے استفادہ کیا گیا ہے۔ خوب صورت پیش کش ‘ صحت کا اہتمام ۔ بطور ہدیہ حاصل کرنے کے لیے رابطہ کر کے تفصیل معلوم کریں۔]
  •  اقبال ریویو، پروفیسر سید سراج الدین نمبر۔ ناشر: اقبال اکیڈیمی‘ گلشن خلیل‘ ۱/۷-۵‘ ۱۰-تالاب ماں صاحبہ‘ حیدرآباد-۵۰۰۰۲۸‘ آندھرپردیش‘ بھارت۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت:۵۰ روپے۔ [پروفیسر سید سراج الدین عمر (بنیادی طور پر انگریزی کے استاد) اقبال اکیڈیمی‘ حیدرآباد کے صدر‘ اُردو‘ فارسی‘ انگریزی ادب کے ماہر‘ فرانسیسی‘ اطالوی اور جرمن زبانوں سے آشنا‘ ماہراقبالیات (کلامِ اقبال کے مترجم اور نقاد) نام و نمود سے    بے نیاز‘ انکسارپسند شخصیت‘ م: ۱۵جولائی ۲۰۰۶ء___ ان کی یاد میں دوستوں‘ مداحوں اور عقیدت مندوں کے مضامین و تاثرات پر مشتمل خاص نمبر۔]

 

رُوح قرآن، کینتھ کریگ۔ مترجم: نیاز احمد صوفی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور‘ فون: ۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

قرآن جہاں مسلمانوں کے لیے سب سے مقدس اور اہم ترین کتاب ہے وہاں غیرمسلم مفکرین اور مستشرقین نے بھی اس کتاب میں بھرپور دل چسپی لی ہے۔ ستمبر ۱۹۷۲ء میں گون ولے‘ سائیوسی کالج‘ کیمبرج‘ برطانیہ کے جناب کینتھ کریگ کی قرآن کے موضوع پر The Mind of the Quranکے عنوان سے کتاب منصہ شہود پر آئی جس کا اُردو ترجمہ محترم نیازاحمد صوفی نے   کیا ہے۔ یہ کتاب مصنف کی ایک اور کاوش ’وقوعِ قرآن‘ کے ساتھ جوڑ کر پڑھنے کے لیے ہے۔  ان کاکہنا ہے کہ ’’قرآن کے ان گہرے فکری تصورات کو توجہ سے سمجھنے کی کوشش کی جائے جو آج کے جدید دور میں ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں‘‘۔

فاضل مصنف نے نہایت فلسفیانہ انداز میں یہ کتاب تحریر کی ہے اور قرآن کے حوالے سے ایک غیرمسلم کے ذہن میں جو کچھ ہوسکتا ہے وہ سب اس کتاب میں واضح طور پر جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ جس تحقیق اور وسعت ِ مطالعہ کے ساتھ یہ کتاب رقم کی گئی ہے اس سے فاضل مصنف کی   محنت‘ خلوص اور احترام واضح طور پر ایک قاری کے سامنے آتا ہے۔ کتاب کے بہت سے مندرجات سے اختلاف کی واضح گنجایش موجود ہے‘ تاہم ایک غیرمسلم کی ذہنی سطح کی بلندی کا اعتراف بھی ازحد ضروری ہے۔ فاضل مصنف نے جن موضوعات پر بحث کی ہے وہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں‘ مثلاً حفظِ قرآن کے لحاظ سے مفہوم اور اہمیت‘ تجوید کا فن‘ محکمات اور متشابہات پر بحث‘ تفاسیر کی روایت‘ انسان کی پریشانی‘ مغفرت کی گزارش‘ لا الٰہ الا اللہ‘ زمین کی تقدیس‘ خدا کے دیدار کی خواہش‘ ہدایت نامہ اور ہدایت کے عنوانات کے تحت نہایت عالمانہ بحث کی گئی ہے۔ مذہب اور سائنس‘ سیکولرازم‘ قرآن کے ساتھ آج کے مسلمانوں کا رویہ جیسے موضوعات بھی شاملِ کتاب ہیں‘ تاہم فاضل مصنف کا جھکائو صوفی ازم کی طرف محسوس ہوتا ہے۔ شاید اس کا ترجمہ بھی اسی لیے ایک صوفی صاحب نے کیا ہے۔ مجموعی طور پر قرآنیات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک فکرانگیز کتاب ہے‘ نیز بین المذاہب مکالمہ کرنے والوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (محمدالیاس انصاری)


علوم الحدیث ‘ فنی فکری اور تاریخی مطالعہ، مؤلف: ڈاکٹرعبدالرؤف ظفر۔ ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردوبازار‘ لاہور۔ صفحات: ۹۸۹۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

اُردو زبان میں علوم الحدیث پر لکھی جانے والی کتب میں یہ ایک غیرمعمولی جامع کتاب ہے‘ جس میں سند کی اہمیت اور مستشرقین کے اسناد پر اعتراضات کے جائزے‘ علوم الحدیث‘ مطالب حدیث کے آداب‘ مقامِ صحابہؓ اور کتب معرفۃ الصحابہ‘ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ تخریجِ حدیث‘ علم الانساب‘ علم معرفۃ الاسماء والکنیٰ‘ معرفۃ الالقاب‘ علم الطبقات اور نقدِحدیث پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اسی طرح تاریخ حدیث کے تحت علمِ حدیث کے ارتقا‘ ابتدائی دور کے معروف مراکز حدیث اور محدثین کی خدمات کے ساتھ ساتھ برعظیم کے مراکزِ حدیث اور مدارس‘ نیز عصرِحاضر کے مراکزِ حدیث کا ذکر بھی شامل ہے۔

حدیث کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کے نظریات کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے اعتراضات اور شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں فتنہ انکارحدیث‘ برعظیم کے منکرین حدیث اور موجودہ صورت حال کا تذکرہ بھی زیربحث لایا گیاہے۔ تحریک استشراق‘ مستشرقین کے حدیث پر اعتراضات کا جائزہ‘ معروف مستشرقین کے تذکرے سے حدیث پر جدید رجحانات سامنے آتے ہیں۔ آخر میں مولانا امین احسن اصلاحی کا نظریۂ حدیث بھی بیان کیا گیا ہے۔

بحث میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ حوالہ جات‘مصادر اور مراجع کتاب کی جامعیت میں مزید اضافے کا باعث ہیں۔ اسلوب تحریر سلیس ہے۔ مؤلف اس وقیع علمی کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (محمد احمد زبیری)


رسولؐ اللہ کے مقدس آنسو، ظہورالدین بٹ۔ ادارہ ادبِ اطفال‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰ ۔قیمت: ۱۱۰ روپے۔

نبیؐ رحمت للعالمین دنیا کی وہ واحد ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں سب سے زیادہ لکھا اوربولا گیا ہے۔ اُن کی زندگی کا ایک ایک کرشمہ تاریخ کے صفحات پر اس طرح محفوظ ہے کہ ایسی مثال کسی اور شخصیت کے حوالے سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ آپؐ کی ذاتِ گرامی کی اتباع اسی صورت میں ممکن تھی کہ جب آپؐ کی زندگی کا ہر پہلو سب کے سامنے ہوتا۔ سیرت نگاری کی اس عظیم اور اہم روایت کی ایک سعادت اب جناب ظہورالدین بٹ کے حصے میں اس طرح آئی ہے کہ انھوں نے حدیث کے عظیم ذخیرئہ کتب سے آپؐ کی ذاتِ مبارکہ کا ایک پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاضل مصنف نے یقینا نہایت محنت سے ۸۷ ایسی احادیث کو اس کتاب میں الگ الگ عنوان کے تحت جمع کیا ہے جن میں آپؐ کے مقدس آنسوئوں کا ذکر ہے۔ صبر کا پیمانہ کب‘کیسے اور کیوں چھلکا اور کس طرح آپؐ کی مبارک آنکھوں میں مقدس آنسو اُمڈے‘ آپؐ کو اپنی اُمت سے کس قدر پیار تھا جس کے باعث اُمت کی فکر آپؐ  کو ہر وقت دامن گیر رہتی تھی اور اُن کی فلاح و مغفرت کے لیے آپؐ  کس طرح رقت آمیز انداز میں رب کے سامنے رویا کرتے تھے۔ اپنے صحابہؓ سے آپؐ کو    کس قدر اُلفت تھی کہ اُن کے دکھ‘ درد اور غم کو اپنا سمجھ کر آپؐ روتے تھے۔ اُن کی جدائی اور اہلِ خانہ کی یادوں کے منظر آپؐ  کو کس طرح رُلاتے تھے___ یہ ہیں وہ موضوعات جن کے تحت مصنف نے احادیث کو تلاش کیا اور جمع کر کے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ خوب صورت اور مجلد کتاب سیرتؐ کے اس گوشے سے ہمیں بخوبی روشناس کراتی ہے۔ (م - ا - ا )


اسلام اور تہذیب مغرب کی کش مکش ، ایک تجزیہ ، ایک مطالعہ، ڈاکٹر محمدامین۔ ناشر: بیت الحکمت‘  لاہور۔ملنے کا پتا: کتاب سراے‘ فرسٹ فلور‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور‘ فون: ۷۳۲۰۳۱۸۔ فضلی بک ‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ فون: ۲۲۱۲۹۹۱-۰۲۱۔ صفحات: ۲۱۳۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

۶۰ کا عشرہ پاکستان میں نظریاتی کش مکش کا زمانہ تھا کہ جب سوشلزم‘ کمیونزم اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کے ساتھ نبردآزما تھا جس کا مقابلہ اسلام پسندوں نے ڈٹ کر کیا۔ اس وقت جنگ کا ذریعہ کتاب اور رسائل و جرائد تھے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کا زمانہ ایک بار پھر نظریاتی کش مکش کا زمانہ ہے۔ اب جنگ کا ذریعہ کتاب‘ رسائل و جرائد ہی نہیں ریڈیو‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ اسلام پسندوں کے پاس کتاب اور رسائل و جرائد کے ذریعے جواب دینے کے مواقع تو ہیں مگر وہ ریڈیو‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ وغیرہ پر قطعی غیرمؤثر ہیں۔ کیونکہ ٹی وی اور ریڈیو ان کے قبضے میں نہیں ہیں۔ جو نظریاتی کش مکش اسلام اور تہذیبِ مغرب کے درمیان جاری ہے‘ ڈاکٹر محمد امین نے نہایت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ اس کا تجزیہ اور مطالعہ پیش کیا ہے۔

کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل میں ’مغربی تہذیب کے بارے میں مسلمانوں کے ممکنہ رویے‘ کے عنوان کے تحت تین رویوں کو زیربحث لایا گیا ہے‘ یعنی آیا’مغربی تہذیب کو     رد کردیا جائے‘ یا ’مغربی تہذیب کو قبول کرلیاجائے‘ یا پھر یہ کہ ’مغربی تہذیب سے مفاہمت کرلی جائے‘۔ اس کے بعد مصنف نے ہررویے کے مؤیدین کے دلائل پیش کرنے کے بعد اپنا نقطۂ نظر پیش کیاہے کہ ہمیں مغربی تہذیب کو رد کر دینا چاہیے کیونکہ اس کی فکری اساسات اور جہانی تصور (world view) ہماری فکری اساسات اور جہانی تصور کے بالکل متضاد ہے۔ اس دنیا میں ہماری کامیابی اور آخرت میں فلاح کا سائنٹی فک اور مجرب نسخہ یہ ہے کہ ہم اپنے نظریۂ حیات (اسلام) سے محکم طور پر وابستہ ہوجائیں اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔ لیکن مغربی تہذیب کو رد کرنے اور اپنے نظریے پر اصرار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں مغرب سے سیاسی‘ معاشی یا اسلحی جنگ کرنا چاہیے۔ ہرگز نہیں‘ بلکہ ہمیں مغرب کے ساتھ مفاہمت اور مکالمے کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم کسی کش مکش میں الجھے بغیر اپنے نظریۂ حیات کے مطابق تیزرفتار ترقی کرسکیں۔ اس مفاہمت کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر کسی مسلم ملک پر حملہ ہو تواس کی مزاحمت اور مدافعت نہ کی جائے۔

کتاب کا دوسرا حصہ ’مسلم معاشرے پر مغربی تہذیب کے اثرات - پاکستانی تناظر میں‘ کے عنوان سے ہے جس میں تین طرح سے مباحث کو سمیٹا گیا ہے۔ مبحث اوّل: ’مغربی تہذیب کے اثرات: اسباب و مظاہر‘ مبحث دوم: ’مغربی تہذیب کے اثرات مختلف شعبہ ہاے حیات میں‘ مبحث سوم: ’کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟‘

فاضل مصنف نے نہایت عرق ریزی سے اس موضوع کو حوالہ جات سے سجایا ہے۔ اسلامی فکر وتہذیب کا مغربی فکروتہذیب سے جدولی انداز میں سات عنوانات کے تحت خوب صورت انداز میں موازنہ (صفحہ ۲۰‘۲۱) کیا ہے اور اس موضوع پر گہرا اور وسیع مطالعہ کرنے کے خواہش مند حضرات کے لیے صفحہ ۲۳‘ ۲۹ پر اُردو انگریزی کتب کی ایک طویل فہرست بھی درج کر دی ہے جس میں    ۲۳ اُردو ماخذ‘ جب کہ ۴۳ انگریزی کتب و جرائد کے نام درج ہیں۔ صفحہ ۵۲‘ ۵۳ پر مسلم اور مغربی نظریۂ علم کے جدولی موازنے میں پانچ موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے قرآن و سنت سے استدلال کے ساتھ ساتھ کلام اقبال سے بھی خوب استفادہ کیا ہے۔ صفحہ ۷۳ پر دنیاوی ترقی کا اسلامی و مغربی ماڈل ایک جدول کی صورت میں موازنے کے لیے پیش کیا ہے۔

مصنف کے بعض افکار سے اختلاف کے باوجود وہ قابلِ مبارک باد ہیں کہ انھوں نے اس اہم ترین مسئلے کوسادہ اور آسان زبان میں نہایت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ کتابی صورت میں پیش کیا۔ (م - ا - ا )


چھٹی عرب اسرائیل جنگ، نصرت مرزا۔ ناشر: رابطہ پبلی کیشنز‘ ۷۱۰-یونی شاپنگ سنٹر  ‘ صدر‘ کراچی۔ صفحات:۳۶۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

لبنان‘ لبنانی عوام‘ حزب اللہ اور حسن نصراللہ اُمت مسلمہ کی بالخصوص اور پوری دنیا کی بالعموم توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ زیرنظر کتاب ترتیب دے کر مصنف نے حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل کی شکست کا پردہ چاک کیا ہے۔ کتاب کا انتساب حسن نصراللہ کے نام کیا گیا ہے جو حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری ہیں‘ جن کی قیادت میں حزب اللہ اور لبنانی عوام نے اسرائیل کے خلاف ’عوامی جنگ‘ جیتی اور اسرائیل جسے سوپرپاور امریکا کی مکمل آشیرباد حاصل تھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔

مصنف نے اس ۳۳ روزہ عوامی جنگ کے لمحہ بہ لمحہ احوال مرتب کر کے ایک اہم خدمت سرانجام دی ہے جو مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے اس اہم واقعے کے بارے میں جاننے والے شائقین کے لیے گائیڈبک کا درجہ رکھتی ہے۔

کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب لبنان پر اسرائیلی حملہ‘ دوسرا باب مصنف کے تجزیے‘ تیسرا باب دورانِ جنگ‘ چوتھا باب مصنف کے خیالات‘ پانچواں باب نئے  مشرق وسطیٰ کی تقسیم پر مشتمل ہے۔ کتاب پڑھ کر نہ صرف تازہ ترین جنگ سے مکمل آگہی حاصل ہوتی ہے بلکہ اس قضیے کا تاریخی پس منظر بھی سامنے آتا ہے۔ مختلف نقشہ جات‘ تصاویر اور معلومات پر   مبنی چارٹس‘ اقوام متحدہ کی قرارداد کا متن‘ لبنان و اسرائیل کا تعارف‘ صہیونی ریاست کا قیام‘     عرب اسرائیل جنگوں پر ایک نظر‘ اعلان بالفور اور دیگر معلومات نے کتاب کی اہمیت دوچند کر دی ہے۔ زیرنظرکتاب لبنان‘ اسرائیل اور حزب اللہ کے بارے میں تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔(عمران ظہور غازی)


علامہ اقبال اور ان کے ہم عصرمشاہیر، پروفیسر محمدسلیم۔ ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز‘ لوئرمال‘ لاہور۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

علامہ اقبال ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھوں نے نہ صرف اپنے عہد کو متاثر کیا بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی‘ شعروشاعری کا ایسا نمونہ چھوڑ گئے جسے پڑھتے ہوئے‘ نہ صرف برعظیم بلکہ ساری دنیا کے انسان اپنے اندر ایک خاص طرح کی حرکت و حرارت‘ جوش و ولولہ اور ایک مثبت اور تعمیری جذبہ محسوس کرتے ہیں___ ہم جیسے اُن کے لاکھوں عامی مداحوں کے علاوہ‘ ان کے بیسیوں نام ور معاصرین نے بھی اُن کی شخصیت اور شاعری سے گہرا تاثر قبول کیا۔

زیرنظر کتاب میں مصنف نے اقبال اور ان کی ۱۱معاصر شخصیتوں (قائداعظم‘ نواب بھوپال‘ مولانا مودودی‘ خلیفہ عبدالحکیم‘ سلیمان ندوی‘ تاثیر‘ ابوالکلام‘ محمدعلی جوہر‘ راس مسعود‘ مسولینی اور نہرو) کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے بقول: ’’برصغیر کے معاصر مشاہیر نے کلامِ اقبال اور فکراقبال کو نہایت شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور اقبال نے بھی ان شخصیات کے علم و فضل اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے‘‘ (دیباچہ)۔ مشاہیر کا‘ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تو سمجھ میں آتاہے‘ مگر اقبال کیوں کر‘ ان شخصیات کے مدّاح تھے؟ اس لیے کہ اقبال‘ ان کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی خوبی دیکھتے تھے‘ جو نہ صرف مسلم معاشرے کی بھلائی اور اُمت مسلمہ کی خیرخواہی کے نقطۂ نظر سے قابلِ تعریف تھی‘ مثلاً اقبال‘ قائداعظم کو ہندی مسلمانوں کا نہایت پُرخلوص‘ قابل اور دیانت دار لیڈر سمجھتے تھے۔ ’علومِ اسلامیہ کی جوے شیر‘ سید سلیمان ندوی اس لیے اقبال کے نزدیک قابلِ احترام تھے کہ وہ قدیم و جدید علوم کا بے نظیر امتزاج تھے۔ بقول اقبال: اس رئیس المصنفین کا وجود علم و فضل کا دریا ہے جس سے سیکڑوں نہریں نکلی ہیں اور ہزاروں سوکھی کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں۔ علمی معاملات میں علامہ اکثر انھی سے رجوع کرتے تھے۔ اقبال چاہتے تھے کہ سید سلیمان لاہور منتقل ہوجائیں تاکہ اہلِ پنجاب ان کے علم و فضل سے استفادہ کرسکیں۔ محمدعلی جوہر کی بے باکی‘ طبیعت کا سوزوگداز اور اُمت مسلمہ کے لیے ان کی دردمندی اور جوش و جذبہ علامہ کے نزدیک قابلِ تحسین تھا۔ ان کی وفات پر علامہ اقبال نے فارسی میں ایک نہایت دل گداز مرثیہ لکھا تھا جس کا معروف شعر ہے    ؎

خاکِ قدس او را بہ آغوشِ تمنّا درگرفت
سوے گردوں رفت زاں را ہے کہ پیغمبر گذشت

(بیت المقدس کی سرزمین نے اسے اپنی آغوش تمنّا میں لے لیا اوروہ اس راستے سے آسمانوں کی طرف چلا گیا جہاں سے پیغمبر گزرے تھے۔)

بحیثیت مجموعی سبھی مضامین دل چسپ اور معلومات افزا ہیں۔ پروفیسر محمدسلیم اپنی بات کو سادہ مگر دل نشیں اسلوب میں کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ہرمضمون میں متعلقہ کوائف و حقائق مربوط انداز میں یک جا کر دیے ہیں جس سے ان شخصیات کی تصاویر کے ساتھ اقبال سے اُن کے روابط کی نوعیت اور خود اقبال کی وضع داری‘ ملن ساری‘ رکھ رکھائو اور دانش و بینش کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)


اسلام میں خدمت ِ خلق کا تصور، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی‘ کراچی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی‘ ڈی-۳۵‘ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی-۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۱۷۵۔ قیمت: درج نہیں۔

عام طور پر فلاحی معاشرے کے لیے آج مغرب کی طرف نظریں اُٹھتی ہیں اور بطورِ مثال مغرب ہی کو پیش کیا جاتا ہے۔ زیرنظر کتاب میں‘ مولانا سید جلال الدین عمری نے جو علمی حلقوں کی ایک معروف شخصیت ہیں‘ اسلام کے سماجی بہبود اور خدمتِ خلق کے جامع تصور کو پیش کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ دنیا میں صرف اسلام ہی وہ واحد نظریۂ حیات ہے جو بلاامتیاز مذہب و ملّت اور مسلم و غیرمسلم کی تمیز کیے بغیر نوعِ انسانی کی خدمت اور بہبود پر زور دیتا ہے۔ مغرب اپنے تمام تر انسانی حقوق کے دعووں کے علی الرغم سماجی بہبود کے لیے عملاً قومیت اور نسلی تعصب کا شکار ہے‘    نیز انسانی رشتوں کے تقدس اور حرمت کو کھو چکا ہے۔ اسلام اس لحاظ سے بھی برتری رکھتا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ساتھ فرد کو بھی اپنے مجبور و پس ماندہ بھائیوں کی امداد اور حُسنِ سلوک کا پابند ٹھیراتا ہے۔ اس ضمن میں حقوق و فرائض کا باقاعدہ تعین کیا گیاہے اور اسے قانونی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔

کتاب میں خدمت ِ خلق کے مختلف پہلوئوں‘ رفاہی خدمات کے دائرے‘ فرد‘ اداروں اور سماجی تنظیموں کی ذمہ داریوں اور دائرۂ کار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک باب میں خدمتِ خلق کے    غلط تصورات اور پائی جانے والی غلط فہمیوں اور بے اعتدالیوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو اپنی جگہ    بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسلام وقتی امداد کے بجاے مشکلات کے پایدار حل پر زور دیتا ہے‘ نیز خدمتِ خلق کے لیے اخلاص شرطِ لازم ہے۔ یہ شرط سماجی بہبود کے  تصور کو انسانیت کی معراج پر پہنچا دیتی ہے۔ آخر میں حوالہ جاتی کتب کی فہرست کتاب کی جامعیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ بلاشبہہ مصنف نے موضوع کا حق ادا کردیا ہے اور یہ کتاب   اپنے موضوع پر ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ The Concept of Social Services in Islam کے نام سے بھی کیا جاچکا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ خدمتِ خلق کے اس تصور کو عام کیا جائے اور حکومتی و عوامی سطح پر منظم انداز میں عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جائے تاکہ عملاً اسلام کے حقیقی فیوض و برکات کا مشاہدہ کیا جاسکے۔یہ ہمارے معاشرے کے بڑھتے ہوئے بگاڑ کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔(امجد عباسی)

تعارف کتب

  • گلدستہ، کلیم چغتائی‘ نظرثانی: اسحاق جلالپوری‘ ادارت و تدوین: ڈاکٹر محمدافتخار کھوکھر۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت:درج نہیں۔ [دعوہ اکیڈیمی اسلام آباد کا شعبہ بچوں کاادب گلدستہ کے نام سے بچوں کے لیے آڈیو‘ وڈیو‘   ڈاٹ نیٹ اور مجموعۂ مضامین کا اہتمام کرتا ہے۔ اب اس رسالے کی شکل میں میٹرک سے انٹر کی طالبات و طلبہ کے لیے اسلامی خط و کتابت کورس کا آغاز کیا گیا ہے۔ یہ اس کا پہلا یونٹ ہے جس میں قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ‘  معلومات عامہ وغیرہ کے ۱۹ عنوانات کے تحت بے حد مفید متنوع مضامین ہیں۔ ہر یونٹ کے ساتھ جواب لکھنے    کے لیے سوال نامہ ہے۔ یہ یونٹ ایک اچھا معیاری ماہنامہ بھی ہے۔]

 

ابوالاعلیٰ مودودیؒ: علمی و فکری مطالعہ‘ (مرتبین) رفیع الدین ہاشمی‘ سلیم منصورخالد۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔ صفحات: ۶۴۸۔ قیمت: ۵۰۰ روپے‘ اشاعت: ۲۰۰۶ء۔

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، اسلامی تاریخ کی اُن چند نادر شخصیات میں سے ہیں‘ جنھوں نے نہایت نامساعد حالات میں احیاے اسلام اور مسلمانوں کی بیداری کے لیے نہ صرف ایک وسیع علمی اور فکری لٹریچر مہیا کیا‘ بلکہ عملاً ایک ایسی تحریک برپا کی‘ جس کے اثرات پاک و ہند سے آگے عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بقول مرتبین‘ مولانا نے ’’غلبۂ اسلام اور بیداری اُمت کی ایک ایسی شمع روشن کی ہے‘ جس کی روشنی میں قافلۂ اُمت ایک بھرپور ایمان وایقان‘ بلندنگہی‘ عزمِ راسخ اور پورے ثبات و استقامت کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہے‘‘۔ پروفیسر خورشیداحمد نے کتاب کے مقدمے میں بجاطور پر مولانا کی تین صلاحیتوں کی نشان دہی کی ہے: انھوں نے احیاے فکرِاسلامی میں عقل اور سائنس کی بالادستی کے بت کو محکم دلائل کے ساتھ توڑا اور الہامی ہدایت کی بالادستی کا اثبات کیا‘ دوسری طرف مغربی سامراج کی سیاسی بالادستی کو چیلنج کیا اور شکست خوردہ ملّت کو روشن مستقبل کی امید دلائی۔ تیسری طرف انھوں نے عملی طور پر ایک ایسی اسلامی تحریک برپا کی‘ جو ان کی فکر اور اُن کے نقشۂ کار کے مطابق کام کر رہی ہے۔

مقالات کا یہ مجموعہ دو حصوں پر مشتمل ہے: ’سید مودودی: مطالعہ اور تجزیہ‘ اور ’سید مودودی: نقوشِ حیات‘۔

پہلے حصے میں ۱۴ مقالہ نگاروں (ڈاکٹر انیس احمد‘ ڈاکٹر محمد یاسین مظہرصدیقی‘ ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری‘ ڈاکٹر عرفان احمد خاں‘ سیدحامد عبدالرحمن الکاف‘ ڈاکٹر چارلس جے ایڈمز‘   ڈاکٹر محمدعمر چھاپرا‘ ڈاکٹر محموداحمد غازی‘ ڈاکٹر زینت کوثر‘ پروفیسر غلام اعظم‘ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی‘ ڈاکٹرعمرخالدی‘ ڈاکٹر محمد کمال حسن‘ ڈاکٹر فتحی عثمان)‘ اور دوسرے حصے میں ڈاکٹر فضل الٰہی قریشی‘ آبادشاہ پوری‘ رفیع الدین ہاشمی اورسلیم منصور خالد کی تحریریں ہیں۔

ڈاکٹر انیس نے مولانا کے نزدیک ’شریعت کے حرکی تصور‘ پر گفتگو کی ہے۔ مولانا شریعت کو محض چند سزاؤں یا عبادات کی مخصوص صورتوں تک محدود نہیں رکھتے۔ اسلام کا ایک مجموعی مزاج  ہے‘ جو تقسیم ہوکر قائم نہیں رہ سکتا۔ ’علمِ کلام میں مولانا مودودی کے افادات‘ کے عنوان سے ڈاکٹرمحمدعبدالحق انصاری بتاتے ہیں کہ روایتی دینی تعلیم کے بعد مولانا نے مغرب کے عمرانی علوم کی طرف توجہ کی لیکن ان کی فکر کا مرکزِ حوالہ ہمیشہ قرآن مجید ہی رہا: ’’میری اصل محسن بس یہی ایک کتاب ہے‘ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا… ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظرڈالتا ہوں‘ حقیقت اس طرح برملا مجھے دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے…‘‘۔(ص ۱۰۳-۱۰۴)

سید حامد عبدالرحمن الکاف نے تفہیم القرآن اور سیدقطب کی فی ظلال القرآن کا تفصیلی تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا نے مولانا کے ’اسلامی معاشیات‘ پر افکار پیش کیے ہیں۔ معاشرے میں ناہمواری دُور کرنے کے لیے ’’امیر… ابتدائی مسلم معاشرے کا طرزِ زندگی اختیار کریں‘ اور اپنی حقیقی ضروریات پوری کرکے باقی بچ جانے والی آمدنی (نہ کہ پوری دولت) غریبوں میں تقسیم کردیں‘‘۔(ص ۲۱۶-۲۱۷)

’خواتین کی خوداختیاریت اور سید مودودی‘ کے عنوان سے ڈاکٹر زینت کوثر نے سیدمودودی کے تصور خاندان‘ شادی اور خاوند بیوی کے تعلق پر روشنی ڈالی ہے‘ اگرچہ وہ ان کی فکر پر ’روایت پسندی کے اثرات کی نشان دہی بھی ضروری‘ سمجھتی ہیں۔ (ص ۲۸۳)

پروفیسر غلام اعظم‘ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی اور ڈاکٹر عمرخالدی نے سید مودودی کی سیاسی فکر کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ سید مودودی کی حیات و فکر اور عالمِ اسلام میں اس کے اثرات پر کئی وقیع مقالات ہیں۔ ’اسلام میں قانون سازی اور اجتہاد‘ کے عنوان سے سیدمودودی کا ایک اہم مقالہ اور اس سلسلے میں ڈاکٹر کینٹ ول اسمتھ کی مولانا سے خط و کتابت اس مجموعۂ مضامین کا ایک قیمتی حصہ ہے۔

مرتبین (رفیع الدین ہاشمی‘ سلیم منصور خالد) نے سید کی ’حیات و آثار‘ کے عنوان سے ان کی پیدایش (۱۹۰۳ء) سے آخری آرام گاہ کے سفر (۱۹۷۹ء) تک کے واقعات اختصار کے ساتھ جمع کردیے ہیں۔ ان کی دینی تعلیم کی اسناد اورپاکستان میں پہلی اسیری‘ نیو سینٹرل جیل ملتان سے   ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو بیگم کے نام لکھے ہوئے خط کی عکسی نقول اور ان کے فکری اور قلمی آثار کو نہایت سلیقے سے مرتب کر کے شامل کیا ہے۔ یہ کاوش سید مودودیؒ کے طالب علم اور محقق کے لیے یقینا مفید ثابت ہوگی۔(پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


تخلیقِ انسان اور معجزاتِ قرآن، کیتھ مور‘ تلخیص و ترجمہ: ڈاکٹر محمد آصف۔ ناشر:   ادارہ اسلامیات‘ ۱۴- وینا  منشن‘ مال روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔

جدید دور کے سائنسی انکشافات کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ اہلِ علم کے لیے دل چسپی کا موضوع ہے۔ قرآن نے آیاتِ الٰہی کے عنوان سے جو کچھ بیان کیا ہے‘ وہی دراصل سائنس کا میدان ہے۔ بہت سی ایسی باتیں بیان ہوئی ہیں جن کا ۱۴‘ ۱۵ سو سال پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا‘ لیکن اب جدید تحقیقات ان کو سامنے لائی ہیں۔ لیکن اس کو اس انداز سے لینا کہ اس تصدیق سے قرآن کی حقانیت ثابت ہوتی ہے‘ ایک غلط نقطۂ نظر ہے۔ ’سائنسی حقائق‘ تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اٹل اور تاابد درست ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلام آباد میں ایک بڑی عالمی کانفرنس ’قرآن اور سائنس‘ کے موضوع پر ہوئی۔ اس موقع پر ایک قیمتی ضخیم کتاب تقسیم کی گئی تھی جو بڑی محنت اور وسائل صرف کرکے یمن کے محترم عبدالمجید زندانی کے زیراہتمام‘ جو اب وہاں کی جامعہ ایمان کے رئیس ہیں‘  تیار کی گئی تھی۔ اس میں کینیڈا کے ایمبریالوجسٹ ڈاکٹر کیتھ مور اور ان کے رفقا نے رحم مادر میں انسانی جنین کی نمو کے بارے میں قرآن میںجو کچھ بیان ہوا ہے‘ ایمبریالوجی کی ایک درسی کتاب میں برموقع شامل کر کے پڑھنے والوں کو یہ بتایا ہے کہ جو سائنسی انکشافات اب ہوئے ہیں‘ ان کی بنیادیات اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بنا پر پہلے ہی بیان کردی ہیں۔ یہ امر بہت سے لوگوں کے لیے ہدایت اور ایمان کا باعث ہوتا ہے۔

تبصرے میں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ ڈاکٹر محمد آصف ماہر حیوانیات ہیں اور قرآن کے مطالعے سے شغف رکھتے ہیں‘ انھوں نے اس کتاب کی ایک تلخیص تیار کی ہے جس میںان آیات سے متعلقہ سائنسی معلومات کو وضاحت و تفصیل سے‘ اشکال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔  نطفہ‘ امشاج‘ مضغہ مخلقہ‘ غیرمخلقہ‘ عظٰماً ‘ پھرہڈیوں پر گوشت کا چڑھانا‘ تین پردوں میں نشوونما‘   پھر النشأۃ سب مراحل کا قرآن میں ذکر اور سائنسی تحقیقات کا اس سے تطابق حیران کردیتا ہے۔

ادارہ اسلامیات نے اسے معیاری انداز میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب سائنس خصوصاً میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک ضروری اور مفید کتاب ہے۔ اسے ہرمیڈیکل لائبریری میں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر محمد آصف صاحب اس غیرمعمولی کاوش پر مبارک  باد کے مستحق ہیں۔ (ڈاکٹر شگفتہ نقوی)


دنیاے اسلام میں سائنس اور طب کا عروج‘ پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی۔  ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۵۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔

آج کی علم و سائنس کی دنیا میں مسلمان قائد نہیں‘ اس لیے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ سے شناسا کیا جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ کامیابی اور کامرانی دیانت‘ امانت اور سخت محنت کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔

ہم سب برسوں سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ سائنس اور طب کی دنیا کم و بیش آٹھ صدیوں تک مسلمانوں کے کارناموں ہی سے عبارت رہی۔ پانچ صدیوں تک تو صرف مسلمان ہی نمایاں رہے۔ پروفیسر حفیظ الرحمن نے اپنی کتاب میں اس بارے میں سب تفصیلات کو وضاحت سے یک جا کردیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ معلومات ہیں کہ جب پوری اسلامی دنیا سائنس اور طب کی ایجادات سے جگمگا رہی تھی تو وہ یورپ کا تو تاریک دور تھا ہی‘ دیگر بڑے بڑے ممالک جیسے چین‘ بھارت اور دیگر ممالک میں سائنس دانوں کی تعداد کیا تھی اور ان کے موضوعات کیا تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ فی الوقت مسلمانوں کا جو غیرمطبوعہ علمی سرمایہ ہے وہ لاکھوں مخطوطات کی شکل میں کہاں کہاں ہے۔ انھوںنے پاکستان میں بھی ۸۸ہزار مخطوطات کے موجود ہونے کی خبر دی ہے۔

پروفیسر صاحب نے اس کتاب کو چھے ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں مسلمان سائنس دانوں کی علمی کارگزاریوں کو‘ دوسرے باب میں سائنس اور طب میں مسلمان کی کامرانیوں کو‘ تیسرے باب میں سائنس دانوں اور اطبا کی طبع زاد خدمات کو‘ چوتھے باب میں طب اور اطباے اسلام کے امتیازات اور غیرمسلم اطبا کے ساتھ فراخ دلانہ برتائو کو بیان کیا گیا ہے۔ پانچویں باب میں سائنس اور طب میں دنیاے اسلام اور ہم عصر دنیا کا موازنہ کیا گیا ہے۔ چھٹے باب میں بیان کیا گیا ہے کہ یورپ میں سائنس کی شمع اسلامی دنیا کی شمع ہی سے روشن کی گئی ہے۔

ص ۲۴۰ تا ۲۶۴ ایک جدول دیا گیا ہے جس میں پانچ صدیوں کے نام ور سائنس دانوں کی فہرست حروف تہجی کے اعتبار سے دی گئی ہے۔ ان کے مضامین اور ان کے بارے میں کچھ   اہم تفصیلات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس فہرست پر سرسری نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ  کوئی اہم موضوع ایسا نہ تھا جس پر مسلمانوں نے بھرپور انداز میں کام نہ کیا ہو۔ دوسری جدول  (ص ۳۰۴ تا ۳۱۲) میں مسلمان سائنس دانوں کی ان کتابوں کی فہرست دی گئی ہے جن کے تراجم یورپ کی تمام اہم زبانوں میں کیے گئے۔ یہ فہرست کمیاب ہے‘ اس سے کتاب کی افادیت میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ کتاب ہماری علمی تاریخ میں ایک بیش بہا اضافہ ہے اور مصنف یقینا قابلِ مبارک باد ہیں۔ (ڈاکٹر وقار احمد زبیری)


اسلام کا خاندانی نظام ‘ خصوصی اشاعت ماہ نامہ ذکریٰ، نئی دہلی۔ مدیراعلیٰ: محمد یوسف اصلاحی۔ ۵۱-جوہری فارم‘ جامعہ نگر‘ نئی دہلی‘ بھارت۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۳۵روپے (بھارتی)۔

اسلام کے نظامِ رحمت نے اسلامی معاشرت کا بنیادی قلعہ خاندان کو قرار دیا ہے۔ قرآن‘ سنت اور اسلامی تاریخ کے اوراق اس امر پر متفق ہیں کہ خاندان کے نظام کو توازن‘ احترام اور مشاورت کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے معاشرے کے تمام اجتماعی اور انفرادی عناصر کو فعال کردار  ادا کرنا چاہیے۔ خاندان کا زوال معاشرتی انتشار اور بالآخر قومی زوال پر منتج ہوتا ہے۔ مغرب کا منتشر خاندان اور انتشارِ معاشرہ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ مگر اس سے کوئی عبرت نہیں پکڑی جاتی۔

بدقسمتی سے مختلف معاصر محوری قوتوں نے اسلام کے خاندانی نظام ہی کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے جس نے بالخصوص جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقے کو بلاسبب یا بے خبری کے سبب اپنا مُقتدی بنا رکھا ہے۔ اس بڑے چیلنج کا جواب دینے اور اعتماد و استدلال کی دولت فراہم کرنے کے لیے مولانا محمدیوسف اصلاحی (مصنف: آدابِ زندگی)نے بڑی محنت کے ساتھ یہ جریدہ مرتب کیا ہے‘   جس میں: اسلام کا خاندانی نظام l عورت اور اسلام l نکاح اسلام میں کفو‘ برادری اور جہیز   lتعددِ ازدواج l خاندانی منصوبہ بندی l طلاق‘ خلع اور عدت l نظامِ میراث l تعلیم و تربیت  اور lآزادیِ نسواں کے ابواب میں ۲۶ حضرات کے ۲۹ مضامین پیش کیے گئے ہیں۔

اختصار‘ جامعیت اور مقصدیت کے اعتبار سے یہ ایک قابلِ قدر دستاویز ہے‘ اور بہت سے رسائل کے لیے مثال بھی‘ کہ مختلف چیلنجوں سے نبٹنے کے لیے کیا ادارتی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ زبان آسان اور استدلال مؤثر ہے۔ (سلیم منصور خالد)


مغربی تہذیب کا چیلنج اور اسلام‘ خصوصی اشاعت سہ روزہ دعوت۔ ڈی-۳۱۴‘ ابوالفضل انکلیو‘ جامعہ نگر‘ اوکھلا‘ نئی دہلی ۱۱۰۰۲۵‘ بھارت۔ صفحات: ۳۱۰۔ قیمت: ۳۰ روپے (بھارتی)۔

بھارت کے معروف پرچے دعوت نے وقت کے اہم ترین موضوع پر نہایت محنت سے تیار کی گئی یہ اشاعتِ خاص کتابی سائز میں پیش کی ہے اور حق یہ ہے کہ حق ادا کردیا ہے۔ مغربی فکر‘ عقلیت پسندی‘ اسلام کے بارے میں عزائم‘ تصادم کے اسباب‘ مفاہمت کے امکانات‘ دہشت گردی‘ احیاے اسلام کی تحریکیں اور مغرب‘ حقوق نسواں‘ تہذیبی کش مکش اور دیگر اہم موضوعات پر ۲۱ پُرمغز مقالات میں اہل علم کے قلم سے سب پہلو زیربحث آگئے ہیں۔ خرم مراد (اُمت مسلمہ اور عصری چیلنج)  اور پروفیسر خورشیداحمد (دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ) کے مقالات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ فی الواقع دعوت نے اس اہم موضوع اور اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج کا علمی و فکری انداز میں بھرپور جواب دے کر غوروفکر کا سامان فراہم کیا ہے۔ اپنے موضوع پر ایک مفید علمی اضافہ ۔ (مسلم سجاد)


ماہنامہ آئین‘ لاہور‘ افغان نامہ‘ مدیر: مرزا محمد الیاس۔ فرسٹ فلور‘ اے-۱/۹‘ رائل پارک‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۴۔ قیمت: ۳۲ روپے۔

مظفربیگ مرحوم کا یادگار رسالہ آئین مرزا محمد الیاس کی ادارت میں جاری ہے۔    طالبان کے ازسرنو عروج نے افغانستان کو سرفہرست کردیا ہے۔ زیرنظر شمارہ افغان مسئلے پر ایک خصوصی مطالعہ ہے جس میں سات غیرملکی مصنفین کے مقالات کے ترجمے دیے گئے ہیں۔ ایک مقالہ آپریشن پایدار آزادی (۲۷ صفحات) اور دوسرا خصوصی رپورٹ (۳۰ صفحات) مدیر کے اپنے قلم سے ہیں۔ اس افغان نامہ کا مطالعہ قاری کو افغانستان کے جدید ترین منظرنامے میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کے کردار سے بخوبی آگاہ کرتا ہے۔(م - س )


اُردو کا دینی ادب‘ پروفیسر ہارون الرشید۔ ملنے کا پتا: بدر بک سینٹر‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۳۶۰۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

اس کتاب کے پہلے حصے میں ۱۸۵۷ء تا ۱۹۰۰ء‘ ۱۹۰۱ء تا ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء تا ۲۰۰۰‘ کے تین ادوار قائم کر کے دیوبند‘ ندوہ‘ علی گڑھ سے شروع کرکے اجمالی تاریخی جائزہ لیا گیا ہے اور    تفسیر و سیرت کے میدانوں میں جو کام ہوئے ہیں ان کا تعارف کروایا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اکابر اہلِ قلم‘ ممتاز مصنفین‘ عہدساز مصنفین‘ محققین اور دورحاضر کے معروف اہلِ قلم کے عنوان سے پانچ باب قائم کرکے مختلف اہلِ قلم کی خدمات کے بارے میں تعارفی مضمون لکھے گئے ہیں۔ مصنف نے ایک نہایت وسیع موضوع کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور یوں قاری کو دینی ادب کے وسیع اُفق پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ دینی ادب کو اسلامی ادب کے معنی میں نہیں لیا گیا ہے۔(م - س)

تعارف کتب

  •  معلم القرآن اُردو ترجمہ القرآن الکریم‘ مرتبہ: قاری جاوید انورصدیقی۔ مرکز القادسیہ‘ لیک روڈ‘ چوبرجی‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۳۲۔ ہدیہ:درج نہیں۔ [قرآن پاک کے عربی متن کے نیچے پہلی سطر میں ہر لفظ کا الگ ترجمہ درج کیا گیا ہے لیکن یہ اس طرح ہے کہ آپ پڑھیں تو بامحاورہ محسوس ہوتا ہے‘ یہ اس کی منفرد خوبی ہے۔ تشریح کے لیے جہاں کچھ الفاظ یا جملے دیے گئے ہیں وہ دوسری سطر میں لکھے گئے ہیں۔]
  •  قرآن عظیم‘ اعجاز ‘ تاثیر اور پیغام‘ محمد افضل خان۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز ‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔    صفحات: ۱۹۰۔ قیمت: ۸۰روپے۔ [اعجاز قرآن اور تاثیر قرآن کے حوالے سے نومسلموں کی گواہی بیان کی گئی ہے۔ ایک باب میں قرآن کے حوالے سے احادیث بھی دے دی گئی ہیں۔ ایک معیاری کاوش۔]
  •  حضوؐر بہ حیثیت سپہ سالار‘ محمد فتح اللہ گلن‘ ترجمہ: پروفیسر خالد ندیم۔ ناشر: کتاب سراے‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۶۰۔ قیمت:۱۰۰ روپے۔ [سیرت پاکؐ کے جہادی پہلو پر ایک ترک مصنف کی قابلِ قدر تصنیف کا اُردو ترجمہ جس میں اسلام کے تصور جہاد کا بیان بھی ہے اور غزوات اور جہاد کے ثمرات کا بھی۔]
  •  آب زم زم ‘ دکتور خالد جاد‘ ترجمہ: محمد طیب طاہر۔ نظرثانی: پروفیسر عبدالجبار شاکر۔ ادارہ نشریات‘ ۴۰-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۰۴۔ قیمت: ۵۰ روپے۔ [آب زم زم کے بارے میں نہایت قیمتی‘ مستند اور پُراثر معلومات کے ساتھ ساتھ بے شمار ایمان افروز واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔]
  •  جمالِ نور‘ تالیف: عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ برانچ آفس خالق آبادہ‘ نوشہرہ‘ سرحد۔ صفحات:۲۹۸۔ قیمت:درج نہیں۔ [علامہ انور شاہ کاشمیری (م: ۱۹۳۳ء) کے اس تذکرے میں ان کی سوانح کے ساتھ ساتھ ان کے کارنامے کا بیان واقعات کی زبان میں کیا گیا ہے۔ قاری نہ صرف ان کی شخصیت کی کشش کو محسوس کرتا ہے بلکہ اس دور یعنی ۱۹ویں صدی کے اواخر اور ۲۰ویں صدی کے اوائل سے آگاہ ہوتا ہے۔]
  •  مسلمان کیوں پس ماندہ ہیں؟ ، فضل کریم بھٹی۔ناشر: اصلاح تعلیم سوسائٹی‘ چکلالہ سکیم نمبر۳‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۳۰۳۔قیمت:۲۵۰ روپے۔ [مصنف نے ۲۱ مقالات میں مختلف جہتوں سے اپنے اس مرکزی خیال کو پیش کیا ہے کہ آج مسلمانوں کی اصلاح کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ تعلیمی نظام کی اس طرح اصلاح کی جائے کہ جدید و قدیم کی تفریق ختم ہو۔]
  •  مے یو کا مستقبل‘ ناشر: بین الاقوامی منشورات اتحاد‘ پوسٹ بکس نمبر ۸۶۷‘ چٹاگانگ‘ بنگلہ دیش۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: بلامعاوضہ۔ [مسلمانانِ اراکان (برما) کی جدوجہد آزادی کا ایک باب‘ ایک تاریخی دستاویز۔ ۴جولائی ۱۹۶۱ء کو ماؤنگڈو شہر میں حکومت برما کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت مجاہدین کی ہتھیار ڈالنے کی تقریب کی روداد اور حکومتی وعدوں اوریقین دہانیوں کا تذکرہ۔ مجاہدین اور حکمرانوں کے درمیان معاہدوں کی حقیقت جاننے کے لیے ایک اہم دستاویز۔]

 

Towrads Understanding the Qura'an، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، انگریزی ترجمہ: ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری۔ ناشر: دی اسلامک فائونڈیشن‘ مارک فیلڈ‘ لسٹر‘ برطانیہ‘ اشاعت ۲۰۰۶ئ۔ ملنے کا پتا: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔صفحات:۴۸+ ۱۳۶۰۔ ہدیہ: ۱۸۰۰ روپے

بیسویں صدی میں قرآن مجید کے تراجم اور تفاسیر میں جو پذیرائی‘ شہرت اور مقبولیت مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن (چھے جلدیں)کو حاصل ہوئی‘وہ کسی بھی زبان میں لکھی جانے والی‘ کسی بھی تفسیر کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس کا صرف ترجمہ مع مختصر حواشی ان کی زندگی ہی میں   علیحدہ شائع کیا گیا تھا تاکہ جدید محاورے اور اسلوب کے حامل اس ترجمے اور بعض آیات/ مقامات کی مختصر تشریح سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفیض ہوسکیں۔

ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری‘ مولاناؒ کی مکمل تفسیر کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں‘  جس کی اب تک سات جلدیں طبع ہوچکی ہیں اور بقیہ حصے پر کام جاری ہے۔ پیشِ نظر کتاب مولانا کے ترجمۂ قرآن اور مختصر حواشی کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہے۔ ان حواشی کا اپنا مقام ہے لیکن    یہ تفہیم القرآن کا خلاصہ (abridged version) نہیں ہے جیساکہ اس کتاب کے ٹائٹل پر درج کیا گیا ہے۔

قرآن مجید کے متداول انگریزی ترجموں میں مارما ڈیوک پکتھال‘ اے جے آربیری‘    ٹی بی اروِنگ‘ رچرڈ بیل‘ عبداللہ یوسف علی‘ حافظ غلام سرور اور مولوی محمدعلی کے ترجمے مشہور ہوئے۔   ان میں سے بعض اپنی زبان کی وجہ سے آج کے انگریزی داں طبقے کے لیے نامانوس ہوگئے اور کچھ اظہارِ معانی کے لحاظ سے متنازع (controversial) قرار پائے۔ اس ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے معانی اور مفہوم‘ عصرِحاضر کے ایک مُستند اور قابلِ ذکر عالم کے بیان کردہ ہیں‘ اور اُن کا انگریزی زبان میں اظہار‘ ایک ایسے غیر روایتی عالمِ دین کے قلم سے ہے‘ جس کا تعلق‘ گہرا مذہبی رنگ رکھنے والے ایک جدید علمی خانوادے سے ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے معاشیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ اور پھر علومِ اسلام کی طرف متوجہ ہوگئے اور میک گِل یونی ورسٹی سے علومِ اسلامی میں پی ایچ ڈی کی سند لی۔ بیرونِ ملک متعدد جامعات میں تدریس کے بعد وہ آج کل بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد سے منسلک ہیں۔ عربی اور انگریزی زبانوں پر ان کے یکساں عبور‘ نیز گہری دینی وابستگی نے اس ترجمے کو ایک منفرد حیثیت دے دی ہے۔ اس سے آج کے انگریزی خواں قاری کو قرآن کے مفہوم تک رسائی میں یقینا مدد ملے گی۔ مثلاً وہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)کا ترجمہ Hold fast together the cable of Allahکرتے ہیں‘ جو جدید قاری کے لیے روایتی ’اللہ کی رسّی‘ (rope of Allah) سے زیادہ بامعنی ہے۔   مولانا مودودیؒ نے جس طرح لفظی ترجمے کے بجاے آزادانہ انداز میںقرآن مجید کی ترجمانی کی ہے‘ ڈاکٹر انصاری نے انگریزی میں بھی (بعض مقامات پر) مولانا کے ’ترجمے‘ کی پابندی نہیں کی‘ بلکہ اصل عربی کو پیش نظر رکھا ہے۔ جیسے سورہ قٓ آیت ۳۷ میں اِنَّ فی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی میں   مولاناؒ اِنَّکے لیے ’یقینا‘/ ’بلاشبہ‘ کا لفظ استعمال نہیں کرتے‘ مگر انگریزی میں ڈاکٹر انصاری اِنَّ کا مفہوم verily سے ادا کرتے ہیں‘ جو اگرچہ قدیم انگریزی ہے‘ تاہم اس طرح آیت کی بہتر ترجمانی ہوتی ہے۔ اسی طرح اَلْقَارِعَۃ (القارعہ:۱‘۲)کی ترجمانی ’عظیم حادثہ‘ سے کی گئی ہے‘ جب کہ The calamity (مصیبت ِعظیم) مفہوم سے قریب تر ہے‘ تاہم اس خوب صورت‘ رواں اور آسان ترجمے میں بعض جگہ عام طور پر مستعمل محاورے کے بجاے کچھ غیرمانوس (گو درست)  الفاظ بھی استعمال ہوگئے ہیں‘ جیسے ’کھیتی‘ (زَرْع) کے لیے cultivation کے بجاے tilth (الفتح:۲۹)‘ یا mary worshipکے لیے mariolatory۔

جدید انگریزی طرزِکلام کے مطابق قرآن مجید کا یہ ’ترجمہ‘ بلاشبہہ کلامِ الٰہی کی تفہیم میں ایک قابلِ ذکر اور مفید اضافہ ثابت ہوگا۔ کتاب کا عربی متن‘ انگریزی ٹائپ (فونٹ)‘ کاغذ اور طباعت نہایت نفیس اور خوب صورت ہے۔ اُمید ہے کہ یہ علمی حلقوں اور عام انگریزی خواں طبقے میں یکساں مقبول ہوگا۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم (قرآن کے آئینے میں)، ڈاکٹر عبدالغفور راشد۔ ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۵۹۔ قیمت (مجلد): ۲۰۰ روپے۔

رحمت ِ عالم خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر تمام کمالات و صفات کی جامع اور انسانیت و عبدیت کی منتہاے کمال ہے۔ آپؐ کی سیرتِ طیبہ ایک ایسا پاکیزہ اور ہمہ گیر موضوع ہے جس پر آج تک مختلف زبانوں میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ زیرنظرکتاب اُردو زبان میں لکھی گئی کتابوں میں ایک گراںقدر اضافہ ہے۔ اس میں فاضل مؤلف نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زندگی کے تمام پہلوئوں اور اہم واقعات کو قرآنِ حکیم کی روشنی میں بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ کتاب کے ۱۵ ابواب ہیں۔ ان میں اڑھائی سو سے زائد ضمنی عنوانات کے تحت سیرتِ طیبہ کے تمام اہم واقعات کو قرآنِ حکیم کے حوالے سے جامعیت کے ساتھ احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی بلیغ کی گئی ہے۔ پہلے باب میں بعثت ِ نبویؐ سے قبل کے ادیان و مذاہب اور دوسرے باب میں‘ کتب سماویہ میں حضوؐر کے ظہور کی پیش گوئیوں کی تفصیل ہے۔ باقی ابواب میں حضوؐر کے امتیازات (بشمول اسوئہ حسنہ)‘ معراج‘ ہجرت‘ معجزات‘ غزوات و سرایا‘ ازدواجی زندگی‘ حجۃ الوداع‘ سفرِآخرت وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔

مؤلف کا اسلوبِ نگارش عام فہم اور دل نشین ہے۔ ان کی عرق ریزی نے کتاب کو    علمی حیثیت سے اس قابل بنا دیا ہے کہ یہ ریسرچ اسکالروں کے لیے مآخذ کا کام دے سکے۔ البتہ چند مقامات نظرثانی کے محتاج ہیں‘ مثلاً صفحہ ۱۴۶ پر حضرت عامر بن فہیرہؓ کا ذکر نامناسب انداز میں کیا گیا ہے۔ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے‘ آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کا شمار بڑے جلیل القدر (سابقون اوّلون) صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ سفرِہجرت میں ان کو بھی رسول اکرمؐ کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔

صفحہ ۱۷۴ پر ابوجہل کے قاتلوں (حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ) کو ’ننھے مجاہد‘‘ بتایا گیا ہے یہ صحیح نہیں۔ حضرت معوذؓ ایک جوان بیٹی (حضرت رُبیعؓ) کے والد تھے۔ اس بیٹی کی شادی غزوئہ بدر کے چند دن بعد ہوئی۔ حضرت معاذؓ  عمر میں حضرت معوذؓ سے بڑے تھے اور ۱۱ اور ۱۲ سنِ نبوت (قبل ہجرت) میں عقبہ کی دونوں بیعتوں میں شریک تھے۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف عمر میں    ان دونوں سے کافی بڑے تھے اس لیے اگر انھوں نے ان دونوں کو ’لڑکے‘ کہہ دیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ دونوں ’چھوٹی عمر‘ کے نوجوان (یا ننھے مجاہد) تھے۔ صفحہ ۲۰۵ پر یہ جملہ وضاحت طلب ہے: ’’تاآنکہ آپؐ پر قرآن نازل ہوا جو بعد میں منسوخ ہوگیا‘‘۔ صفحہ ۳۴۱‘ ۳۴۲ پر سورئہ تحریم کی پہلی اور دوسری آیتوں کے نزول کا جو پس منظر بیان کیا گیا ہے‘ اکابر اہلِ علم نے اسے ناقابلِ اعتبار ٹھیرایا ہے (تفہیم القرآن‘ جلد ۶)۔ معتبر روایات کے مطابق حضوؐر نے مغافیر کے شہد کو اپنے اُوپر حرام قرار دیا تھا۔ کتاب میں اِعراب اور علاماتِ اضافت کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ صفحہ ۱۴۴ پر درز کی جگہ دراز اور صفحہ ۳۳۷ پر صُلبی کے بجاے سلبی کمپوز ہوا ہے۔ اسی طرح جحش (ج ح ش) کو ہرجگہ حجش (ح ج ش) کمپوز کیا گیا ہے۔ امید ہے اگلے اڈیشن میں ان گزارشات کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ (طالب ہاشمی)


کعبہ پر پڑی جو پہلی نظر، مرتبہ: محمد اقبال جاوید۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۴۔ قیمت: ۲۲۰ روپے۔

ایک مسلمان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس مقام کی زیارت کرے‘ جس کو اللہ تعالیٰ نے مرکز عبادت قرار دیا ہے اور جو مرکز ملّت ہے‘ اور اللہ تعالیٰ نے اسے ہزاروں برس سے سجدوں کا مرکز قرار دیا ہے۔

انسانی زندگی سفر اور عبادت کی کسی نہ کسی شکل سے عبارت ہے‘ لیکن وہ سفرجو کعبۃ المکرمہ کے لیے کیا جاتا ہے اس کی حلاوت‘ شوق اورقلبی کیفیات کو صرف وہی جان سکتا ہے جو شعور کے ساتھ حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور عبادت کے اس مرکز کی زیارت کرتا ہے۔ ان کیفیات اور جذب دل کی فراوانیوںکو ہزاروں لوگوں نے قلم بند کیا اور اربوں انسانوں نے اپنے دل پر نقش کیا۔ زیرنظر کتاب انھی سعادت مند زائرین کی اُردو نثرونظم میں لکھی ہوئی داستان شوق کا ایک انتخاب ہے۔اس کتاب کی تدوین کے لیے محترم پروفیسر اقبال جاوید  نے حج کے ۳۳۵ سفرناموں کا مطالعہ کیا۔ یہ کتاب ۵۲افراد کی تحریروں کے صرف اس حصے کے   انتخاب پر مشتمل ہے کہ جب زائر کی نظر سب سے پہلے خانہ کعبہ پر پڑی تو اُس کی قلبی کیفیات کیا تھیں۔

طویل  مضامین اور بھرپور حج کے سفرناموں سے یہ منتخب کردہ چند مشک بار سطور نہ صرف اظہارو بیان کی خوب صورتی کا مرقع ہیں‘بلکہ مختلف ادوار میں اور مختلف مزاجوں کے حامل ۵۲ افراد کے قلب و قلم کی وہ گواہیاں ہیں‘ جو اس مقدس سفر پر جانے والوں کو روشنی عطا کرتی ہیں اور جو نہیں جاسکتے اُن کے دل میں شوق کو اُبھارتی ہیں۔ (سلیم منصورخالد)


سفرِسعادت، پروفیسر محمد الطاف طاہر اعوان۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز‘ نزد منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۹۹۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

پروفیسر الطاف طاہر اعوان اُردو زبان و ادب کے استاد ہیں اور اپنی افتادطبع میں بہت فعال‘ متحرک اور مستعد انسان ہیں۔ ایک پاکیزہ اور دردمند دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں خدمتِ خلق کا وافر جذبہ بھی عطا کیا ہے‘ چنانچہ وہ حج بیت اللہ میں اپنی معمول کی سرگرمیوں کے ساتھ‘ حتی الوسع دوسروں کی مدد کرتے‘ ان کے کام آتے اور ان کی خدمت گزاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور سے وہ سب سے پہلی پرواز سے براہِ راست مدینہ پہنچے تھے‘ اس لیے سفرنامے کے ابتدائی ابواب میں مدینۃ الرسول کا والہانہ تذکرہ قدرتی طور پر نسبتاً طویل ہے۔ ان کا شعری ذوق جگہ جگہ خاص طور پر مدینہ طیبہ کے تذکرے میں نسبتاً نمایاں ہے۔ فارسی اور اُردو اشعار‘ زائر کی کیفیاتِ دلی کے اظہار کو پُراثر بنادیتے ہیں۔

کتاب کی ایک خوبی مصنف کی جزئیات نگاری ہے جو گہری قوتِ مشاہدہ اور ایک مضبوط حافظے کے بغیر ممکن نہیں۔ سفرنامے میں کسی نہ کسی حوالے اورحیلے بہانے مصنف کے واقف کاروں اور دُور نزدیک کے عزیزوں اور نئے پرانے دوستوں‘ ان کے دوستوں اور ملنے والوں کا تذکرہ غیرمتعلق لگتا ہے۔ مگر وہ ان سب ’غیرمتعلقات‘ کو‘ اصل موضوع سے جوڑدینے کا فن جانتے ہیں۔ اس سے قاری کو حج بیتی پر آپ بیتی کا گمان ہوتا ہے۔

مصنف نے حجاج کرام کو پیش آنے والے مسائل کے ذکر میں شکوہ و شکایت کے بجاے صبروشکر اور خندہ پیشانی کے ساتھ‘ مشکلات کو برداشت کرکے اپنے اجروثواب میں اضافہ کیا ہے۔ سفرسعادت ایک طرف تو مصنف کے ۴۰ روزہ سفر و مقام کی ’داستانِ جذب و شوق‘ ہے تو  دوسری طرف عازمین عمرہ و حج کے لیے ’ایک جامع اور مکمل راہ نما کتاب‘ بھی۔ طویل ہونے کے باوجود‘ دل چسپ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )


ہدیۃ الوالدین ، ہدیۃ النساء ، حافظ مبشرحسین لاہوری۔ ناشر: مبشراکیڈمی ‘ لاہور۔ تقسیم کار: کتاب سراے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات علی الترتیب: ۲۹۲‘ ۴۵۲۔ قیمت علی الترتیب: ۲۳۰ روپے‘ ۳۳۰ روپے

فاضل مصنف جواں سال ہیں اور تحریر و تالیف میں اس قدر مگن کہ متنوع موضوعات پر  ایک کے بعد ایک کتب شائع ہوکر سامنے آرہی ہیں۔ تبصرہ نگار کے علم میں ان کی کم از کم ۲۲ کتب ہیں جو سب عام فہم ہیں‘ آسان زبان میں ہیں اور سب سے بڑھ کر جدید انداز سے لکھی گئی ہیں۔ ان کی کتب میں اصل ماخذ قرآن و سنت ہیں۔ مصنف کا اندازِ تحریر یا اسلوب سوال جواب کا بھی ہے اور موضوعاتی بھی۔ وہ ہرچیز کو اس انداز میں بیان کرتے ہیںکہ کتاب میں موجود علمی خزانہ موضوعات کی صورت میں قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ کتاب کی فہرست ہی اس قدر جامع اور مفصل ہوتی ہے کہ قاری اپنی پسند یا ضرورت کی چیز بآسانی تلاش کر کے استفادہ کرلیتا ہے۔

ہدیۃ الوالدین وعظ و تلقین کی روایتی کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں والدین اور اولاد کے متنازعہ مسائل کی تفصیلات اور نزاعات کی وجوہات اور ان کے تدارک پرخصوصی روشنی ڈالی ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں ایسا منصفانہ حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ نہ تو والدین کی حق تلفی ہو اور نہ ہی اولاد پر ظلم ہو۔جدید دور میں جو عملی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان سب کا احاطہ ہوگیا ہے‘ بلاشبہہ زیربحث موضوع پر اُردو زبان میں یہ ایک جامع کتاب ہے اور مغربی اثرات کے تحت خاندانی نظام کو پہنچنے والے نقصانات سے بچائو کے لیے اس کتاب کامطالعہ مفید ہے۔

ہدیۃالنساء … ہمارے معاشرے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کو دین کا صحیح فہم حاصل نہیں ہے جس کے نتیجے میں نئی نسل بھی غیراسلامی عقائد کے تحت پرورش پاکر جوان ہوتی ہے۔ فاضل مصنف نے اس پر نہایت تفصیل سے مواد کو یک جا کردیا ہے۔ ابواب کے موضوعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے: ۱- عورت پیدایش و پرورش اور تعلیم و تربیت ۲- عورت کا لباس‘ پردہ اور زیب و زینت ۳-عورت اور عباداتِ اسلام ۴- عورت کی ازدواجی و خانگی زندگی ۵-عورت کا دائرہ عمل اور دورِ جدید کے مسائل ۶- عورت کے بارے میں چند شبہات اور ان کا ازالہ ۷- خاتونِ اسلام اوراخلاقِ فاضلہ ۸- اسوئہ صحابیات۔ کتاب میں مغربی عورت کا حقیقی دنیا میں ایک مسلمان عورت سے موازنہ کیا گیا ہے۔(محمد الیاس انصاری)


ر  ٰبو، زکوٰۃ اور ٹیکس، مولانا ابوالجلال ندوی‘ مرتبہ: یحییٰ بن زکریا صدیقی۔ ناشر: سویدا مطبوعات‘ ایس ون/۲۷۲‘سعودآباد‘ کراچی۔ ملنے کے پتے: ۱- فضلی بک‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ ۲-کتاب سراے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۸۔ قیمت: ۱۲۵ روپے۔

جب ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں ڈاکٹر فضل الرحمن کو ڈائرکٹر بنایا گیا تو انھوں نے اپنی متجددانہ فکر کے تحت تجارتی سود کے حرام نہ ہونے کا اعلان کیا اور علما کو اس حوالے سے چیلنج کیا۔ مولانا ابوالجلال ندوی معروف و جید عالمِ دین تھے اور جدید و قدیم علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے اس چیلنج کے جواب میں جو مضامین لکھے وہ اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔

کتاب کا پہلا حصہ سات مضامین پر مشتمل ہے‘ اس میں ر  ٰبواور ریبہ‘ لفظ ربا اور ر  ٰبوکی تحقیق اور اس کے معانی و مفاہیم بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روایات‘ ان کے تاریخی و تدریجی نزول پر تحقیق کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔دوسرا حصہ ’غیرمسلم کی راے اور اسلام‘ کے عنوان پر مشتمل ہے۔ یہ مغربی فکر کی روشنی (روشن خیالی) میں دین کی من مانی تشریح کرنے والے تجدد پسندوں کے خیالات اور ان کے محاکمے پر مشتمل ہے۔ تیسرے حصے کا عنوان: ’زکوٰۃ کیا، ٹیکس کیا؟‘ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنے ایک مضمون میں زکوٰۃ کو ٹیکس اور ٹیکس کو زکوٰۃ قرار دیا اور کہا کہ قرآن و سنت زکوٰۃ کو عبادت نہیںکہتا بلکہ فقہا نے اسے عبادت کہا ہے۔ اس حصے میں اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسلام کے معاشی پروگرام میں میراث کا بھی اہم کردار ہے‘ لہٰذا آخر میں ’آئینِ میراث‘ کے عنوان سے ایک ضمیمہ شامل کیا گیا ہے جو چھے مضامین پر مشتمل ہے۔ ’فرہنگ اصطلاحات و مشکل الفاظ‘  بہتر تفہیم اور جامعیت کا باعث ہے۔

زیرنظر کتاب اسلام کے معاشی تصورات کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اسلام پسند اور مغرب کی اندھی تقلید کے علَم برداروں کے درمیان فکری کش مکش سے آگہی‘ نیزدین کے     خلاف سازشیں کرنے والوں کے طریقۂ واردات کی تفہیم اور مقابلے کی حکمت عملی سامنے لاتی ہے۔(میاں محمد اکرم)


صورِسرافیل، منیراحمد۔ ناشر: فاران اکیڈمی‘ الفضل مارکیٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۳۴۴۔ قیمت:۲۰۰ روپے۔

صُورِ سرافیل، ملک کے ایک نمایاں شاعر‘ جناب منیراحمد کے منظوم کلام کا مجموعہ ہے‘ اور اہل فن وفکر کے لیے لائق مطالعہ کتاب۔ ایک صحیح الفکر شاعر کے طور پر حمد‘ نعت‘ منقبت اور   خانۂ کعبہ سے اپنی محبت اور لگائو پر مشتمل نظمیں درج ہیں۔ اس کے بعد اہم اور تاریخی صلحاے اُمت‘ مثلاً قائداعظم‘ علامہ اقبال‘ سیدمودودی‘ وغیرہ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے‘ اور نظموںکے اس مجموعے کا نام ’شخصیات و تحریکات‘ ہے۔ اگلا عنوان ’اسلام اور مسلمان‘ ہے، جو خاصی تعداد کی نظموں پر حاوی ہے۔ اس کے بعد سیاسیات‘ ادبیاتِ حاضرہ‘ الباقیات الصالحات‘ عالمِ اسلام‘ کیفیات اور غزلیات کے عنوانات سے نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔

ان کے اندازِ تحریر میں اصل بات قدرتِ اظہار ہے۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس میں معقولیت اور استدلال ملتا ہے ‘ نہ کہ محض جذباتیت۔یہ مجموعۂ کلام واقعی مسلم ذہنوں کو جھنجھوڑ کر آمادئہ کار بنانے کے لیے اپنے اندر بہت کچھ مواد رکھتا ہے- بجاطور پر اسے صُورِسرافیل کا نام دیا گیا ہے۔(آسی ضیائی)


تعارف کتب

  • حدود آرڈی ننس‘ حقیقت اور فسانہ، مرتبہ: ڈاکٹر سیدعزیز الرحمن۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز‘ اے-۴/۱۷‘ ناظم آباد نمبر۴‘ کراچی۔فون:۶۶۸۴۷۹۰۔ صفحات: ۱۱۱۔ قیمت:۵۵روپے۔[اپنے موضوع پر مختصر‘جامع اور جدید نقطۂ نظر پر مبنی مفید کتاب۔ حدود قوانین پر جاری میڈیامہم عروج پر ہے جو مغرب کے مذموم مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ صحیح صورت حال اور وضاحت کے لیے پیش نظر کتاب مرتب کی گئی ہے۔ چندموضوعات:
  • حدود آرڈی ننس ۱۹۷۰ء
  • حدود آرڈی ننس پر اعتراضات کا جائزہ
  • تحفظ نسواں بل پر  علما کمیٹی کی سفارشات۔]

مطالعات قرآن، ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی۔ ناشر: اپنا ادارہ‘ منظور منزل‘ ۴۲- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

زیرنظر کتاب قرآنیات سے متعلق ۱۰ مقالات اور ایک مقدمے پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے کو موضوعات کے لحاظ سے چار حصوں میںتقسیم کیا جاسکتاہے۔ پہلا حصہ: ’قرآن کے چند خصائص اور ان سے استفادہ‘ ، ’قرآن کریم میں زمین کا ذکر‘ ، ’قرآنی اصطلاح فساد فی الارض کا ایک جائزہ‘ ، ’پانی، قرآن کریم اور سائنس کی رو سے‘ پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں دو مقالے سرسید کی تفسیر سے متعلق ہیں۔ مصنف نے سرسید کی لغوی تحقیق اور کلامِ عرب پر عبور کو سراہا ہے لیکن اس بات پر افسوس کااظہار کیا ہے کہ تفسیر قرآن میں سرسید نے اپنے عمومی رویے کے برعکس متانت اور بردباری کا دامن چھوڑدیا ہے اور مفسرین کو پاگل اور احمق تک کہا ہے۔

تیسرا حصہ ’تفسیر تـدبر قرآن اور تـفسیر مـاجدی کا موازنہ‘ اور ’تـدبر قرآن اور تفہیم القرآن سے چند تراجم آیات کے موازنے‘ پر مشتمل ہے۔ مصنف نے تمام مقالے علمی اور معروضی انداز میں پیش کیے لیکن جہاں تدبر قرآن کی کسی دوسری تفسیر سے موازنے کی بات آئی وہاں فکرِاصلاحی سے تعلق کا غلبہ نمایاں ہے۔ اسی وجہ سے مولانا مودودیؒ کی ترجمانی پر بھی مصنف کو اعتراض ہے۔

چوتھے حصے میں مشہور محقق اور ماہر اسلامیات ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی قرآنی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ عمدہ کاغذ‘ مناسب طباعت کے ساتھ اچھی پیش کش ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


الروح والریحان‘ محمد وقاص۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ راحت مارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔  صفحات: ۲۸۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

سیرت النبیؐ مسلم معاشروں میں ہمیشہ سے ایک سدابہار موضوع رہا ہے۔ اُردو زبان میں بھی کسی ایک موضوع پر اس قدر عظیم الشان ذخیرئہ علمی موجود نہیں ہے۔ لیکن سیرت پر ایسی کتابیں کم ہی سامنے آتی ہیں جو رسمی اور روایتی انداز سے ہٹ کر قاری کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ زیرنظر کتاب انھی کم کتابوں میں شمار ہونی چاہیے۔

بنیادی طور پر یہ مصنف کے لیکچر ہیں جنھیں کتابی صورت میں ڈھالنے اور سامنے لانے میں پانچ برس صرف ہوگئے۔ ’’ایک ایک صفحہ مجھے کئی کئی بار لکھنا پڑا‘‘۔ مصنف نے کس ذہن‘       کن احساسات اور کن کیفیات میں یہ کتاب لکھی: ’’اس کتاب کی تصنیف گویا ایک سفر ہے۔ میں نے اس سیرتؐ کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے رسولؐ اللہ کی پیدایش سے لے کر آپؐ کی رحلت تک کے مراحل کو روحانی طور پر محسوس کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے آپ کو وہاں موجود رکھ کر اپنی حیثیت متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جاننے کی برابر کوشش کی ہے کہ میں فلاں موقع پر موجود ہوتا تو میرا کیا ردِّعمل ہوتا۔ اس طرح گویا میں ایسا مسافر تھا جو تمام وادیوں میں گھومتا رہا‘ محسوس کرتا رہا‘ خوشی کے مقامات پر خوش ہوتا رہا‘ خوف کے مقامات پر خوف کا شکار ہوتا رہا اور غم کے مقامات پر دل کی کیفیت بوجھل رہی۔ دورانِ تصنیف میری کوشش رہی کہ دل رسولؐ اللہ کی محبت سے سرشار رہے‘‘۔(ص ۱۹)

سیرتِ طیبہؐ کے مختلف واقعات و مراحل کے بیان میں‘ مصنف کا انداز بظاہر عالمانہ نہیں‘ مگر صحت‘ استناد اور احتیاط کا بہراعتبار خیال رکھا گیا ہے۔ آیاتِ قرآنی اور حدیث کا متن‘ ترجمہ اور روایات کے حوالے مصنف کی احتیاط کا پتا دیتے ہیں۔ مصنف نے سیرت پاک کو مرحلہ وار عنوان دے کر مختلف ادوار قائم کیے ہیں‘ اور پھر ضمنی سرخیوں کی مدد سے ایک ایک واقعے اور شخصیت کے ایک ایک پہلو کو عام فہم انداز میں بیان کرتے اور نکھارتے چلے گئے ہیں۔ موضوع کی تفصیلات اور جزئیات میں مطالعہ‘ تحقیق اور مشاورت کے بغیر کوئی بات نہیں لکھی۔ کہیں کہیں بعض مفاہیم پر سیرت کی دوسری کتابوں سے بعض مفاہیم اخذ کیے ہیں (یہاں کتابوں کے نام کے ساتھ اڈیشن اور صفحہ نمبر کا حوالہ دینا ضروری تھا)۔ ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے نبی کریمؐ کی شخصیت سے   ایک قربت بھی محسوس ہوگی‘ آپؐ کی دعوت کا اسلوب بھی نکھر کر سامنے آئے گا‘ اور یوں سیرت کا قاری ایک لطف و انبساط اور سر خوشی کی کیفیت سے دوچار ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اقبال اور قادیانیت ، بشیراحمد۔ ناشر: مجلس علم و دانش‘ پوسٹ بکس ۶۳۹‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۲۸۳۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ختم نبوتؐ دین اسلام کا بنیادی ستون ہے۔ مغرب نے اپنے نوآبادیاتی عزائم کی تکمیل کے لیے جہاں مسلم دنیا کے مادی وسائل پر قبضہ جمایا اور ان کی تہذیب و ثقافت کو اپنی مرضی کے مطابق تہہ و بالا کیا‘ وہاں اسلامی عقائد‘ دینی شعائر اور دینی علوم کو بھی اپنے دست شرانگیز کا      نشانہ بنایا۔ اسی روایت کا ایک پہلو‘ برعظیم پاک و ہند میں مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کاذبہ کی تشکیل و تعمیر ہے۔ قادیانیت کا فتنہ محض مذہبی تخریب تک نہیں رکا‘ بلکہ مغربی سامراج کی سیاسی  کاسہ لیسی اور وکالت کے ساتھ‘ مقامی اقوام کی حق تلفی کے لیے بھی پیش پیش رہا ہے۔ علماے کرام نے بجاطور پر‘ مرزاے قادیاں کے عقائد کے تاروپود بکھیر دیے تھے‘ لیکن ان کا یہ استدلال     عوام الناس اور بالخصوص پڑھے لکھے مسلمانوں میں اسی وقت راسخ ہوا‘ جب علامہ اقبال نے دوٹوک الفاظ میں جواہر لعل نہرو کو لکھا:’’میںاس بات میں کوئی شک و شبہہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ احمدی‘ اسلام اور ہندستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔

قادیانیت کے بارے میں پہلے پہل خود اقبال کے ہاں سادگی پر مبنی تاثر اور بعدازاں شفاف حقیقت بیانی کو جناب بشیراحمد نے علمی دیانت‘ باوقار استدلال اور گہری تجزیہ کاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ۱۸۰ مآخذ سے نظائر کو چنا اور سلاست سے پیش کیا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ قادیانیت کسی فرقہ وارانہ مذہبی بحث کا موضوع نہیں ہے‘ بلکہ اہلِ مغرب کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی تکمیل میں یہ ایک سرگرم گماشتہ گروہ بھی ہے۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں‘ جب کہ پاکستان کے ایوان ہاے اقتدار اور فیصلہ ساز اداروں میں اس گروہ کا اثرونفوذ گہرے خطرات کو نمایاں کر رہا ہے‘ بعض دینی عناصر بھی اسے نظرانداز کرنے کی غیردانش مندانہ روش کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔

کتاب پر جناب ڈاکٹر سفیراختر کی تقدیم‘ جناب شکیل عثمانی کے دیباچے اور ڈاکٹر ظفراللہ بیگ کے تعارف نے موضوع کی داخلی پرتوں کو مزید نمایاں کیا ہے۔ سنجیدہ تحقیق اور مقصدی اسلوب نے اس کتاب کو ۲۰۰۶ء میں اقبالیات پر ایک قیمتی اضافے میں ڈھال دیا ہے۔ (سلیم منصورخالد)


پروفیسر محمد منور بطور اقبال شناس، زبیدہ جبین۔ ناشر: اقبال اکادمی‘ ۱۱۶-میکلوڈ روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

یوں تو ہر فرد اپنی قدروقیمت کا ثانی نہیں رکھتا‘ لیکن وہ لوگ جو خیر کے پیامی‘ عمل کے داعی اور اعلیٰ مقصد زندگی کے حامل ہوتے ہیں‘ ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند اور بعض صورتوں میں قابلِ رشک ہوتا ہے۔ پروفیسر محمد منور مرحوم (المعروف پروفیسر مرزا منور) ایسے قیمتی افراد میں سے تھے۔

عام طور پر یونی ورسٹی سطح کے مقالات ایک فارمولے کے اسیر ہوتے ہیں لیکن زیرتبصرہ کتاب اظہاروبیان اور موضوع کے بنیادی عناصر کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر صاحب مرحوم کے غیر متزلزل ایمان‘ حصولِ علم کے لیے سخت محنت اور زندگی بھر خیروصداقت کے لیے سرگرم کار رہنے کی مناسبت سے مطالعے کے لیے ایسی بنیادی معلومات ملتی ہیں کہ رشک اور احترام کے جذبات کے ساتھ دل سے بے ساختہ دعاے مغفرت نکلتی ہے۔

پروفیسر منور عربی‘ فارسی‘ اُردو اور انگریزی میں تحریر و تقریر پر قدرت رکھتے تھے‘ جب کہ مادری زبان پنجابی تھی۔ بحیثیت استاد اُن کے ہونہار شاگرد صدقہ جاریہ ہیں۔ اور حضرت علامہ سے ان کی عقیدت و محبت‘ درحقیقت اسلام سے عقیدت و محبت کا مظہر تھی۔ انھوں نے ادب‘ فلسفہ‘  اسلامی تاریخ‘ بالخصوص ہندو ذہن کا بڑی عرق ریزی سے مطالعہ کیا تھا‘ جب کہ اقبال کے شعری اور نثری اثاثے کو علوم اسلامیہ اور اسلامی تاریخ کے فہم کا ذریعہ بنایا۔

ایم فل اقبالیات کے لیے لکھے گئے اس مقالے میں مصنفہ نے احوال کے تذکرے کے ساتھ‘ پروفیسر محمد منور مرحوم کی خدماتِ اقبالیات کا بھی اختصار مگر جامعیت سے احاطہ کیا ہے۔ تصانیف کا مفصّل تعارف‘ اقبالیاتی دورے اور دیگر کاوشیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے اقبالیات کو ایک تحریک بنا دیا۔ مقالہ بڑے سلیقے سے مرتب کیا گیا ہے۔ (س - م - خ)


Sex and Sexuality in Islam [اسلام میں جنس اور جنسیت]‘ ڈاکٹر محمدآفتاب خان۔ ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۷۷۰۔ قیمت (مجلد): ۶۵۰ روپے۔

قرآن و سنت کا یہ امتیاز ہے کہ وہ بعض ایسے معاملات میں بھی جہاں زبان بات کرتے ہوئے ہچکچاتی ہے‘ ایک ایسا اسلوب اختیار کرتے ہیں کہ خاندان کا ہر فرد اس کا مطالعہ کرسکے اور  معنی و مفہوم کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ یہ بات فرما کر کہ بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ہو‘ ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام معاملات کا احاطہ فرما لیا جن کا تعلق معاشرت‘ ازدواجی تعلق اور قانون و ادب کے ساتھ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ہر وہ انسانی کاوش جو بعض ایسے موضوعات پر اختیار کی جائے گی جو حسّاس سمجھے جاتے ہیں اور میرے خیال میں ان کے حسّاس رہنے میں نہ صرف حرج نہیں بلکہ شاید زیادہ خوبی ہے‘ہمیشہ ایک کوشش ناتمام رہے گی۔

اس انسانی مشکل کے باوجود ڈاکٹر آفتاب خان نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے جو عرصے سے حسّاس رہا ہے۔ گو گذشتہ سات برسوں میں اس ملک عزیز کے نام نہاد آزاد میڈیا نے اپنی مقدوربھر کوشش کرلی ہے کہ وہ شرم و حیا کے تمام پیمانوں کو توڑتے ہوئے ایسی اصطلاحات کو جو بحالتِ مجبوری عدلیہ میں ایک جج ملزم سے جرح کے دوران استعمال کرتا تھا‘ اتنا عام کردے کہ ایک ۱۰سال کی بچی بھی والدین سے پوچھنے پر مجبور ہو کہ یہ ’زنا‘ کیا ہوتا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے!

یہ کتاب ایک علمی کاوش ہے جس میں اس موضوع سے متعلق کثیر معلومات کو یکجا کردیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ بڑی حد تک جو ضمنی اور ذیلی موضوعات اس دائرے میں آتے ہوں ان پر بھی اپنی رائے کا اظہار کردیا جائے۔ اس لحاظ سے یہ ایک جرأت مندانہ کاوش ہے۔

تاہم‘ بعض ایسے پہلو ہیں جن کی وضاحت اگر اتنی مفصل نہ ہوتی تو شاید مناسب ہوتا۔  موجودہ صورت حال میں یہ کتاب ایک بالغ نظر علوم عمران کے طالب علم کے لیے تو مفید ہے   لیکن ایک عام قاری کے لیے بعض معلومات غیرضروری ہیں۔

کتاب سات حصوں اور ۲۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں جنس اور جنسی تعلیم سے بحث کی گئی ہے اور قدیم یورپی تصورات اور اسلام کے تصورات کا موازنہ کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اسلام کا عمومی تعارف ہے۔ اس میں اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ‘ اسلام کا تصورِ حجاب وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ چوتھے حصے میں تعدد ازواج اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس حوالے سے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ پانچویں حصے میں زنا اور قحبہ گری سے بحث کی گئی ہے۔ چھٹے حصے میں جنسی بے راہ روی کا بیان ہے اور آخری حصے میں جنس اور تشدد کے موضوع سے بحث کی گئی ہے۔ مغرب میں مروجہ بعض جنسی طریقوں کے حوالے سے بحث میں دورِ جدید کے بعض فقہا کی آرا اور معروف مسلک سے اختلاف نظر آتا ہے جو شاید کم عمر نوجوانوں اور اسکول کے طلبہ و طالبات کے لیے ضرر کا باعث ہو۔ اگر کتاب کے دوسرے ایڈیشن میںان حسّاس مقامات پر نظرثانی کرلی جائے تو اس ممکنہ ضرر کو دُور کیا جاسکتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


خواب منزل، تحفہ عروسِ نو، ڈاکٹر شگفتہ نقوی۔ ناشر: مکتبہ خواتین میگزین‘ نزدمنصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۱۶۵ روپے۔

ایک نئے خاندان کی داغ بیل ڈالنے اور اس سفر کو شاہراہِ حیات پر خوب صورتی اور کامیابی سے رواں دواں رکھنے کے لیے جس محبت‘ صبر‘ ایثار اور سمجھ داری کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کو ڈاکٹر شگفتہ نقوی نے اپنی نئی تصنیف خواب منزل میں ایک نئے طرز کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ اختصار کتاب کا حُسن ہے‘ اس کے باوجود انھوں نے انتہائی جامعیت کے ساتھ تمام اہم پہلوئوں پر بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ شادی سے پہلے اور بعد میں پیش آنے والے سلگتے مسائل اور پوشیدہ الجھنوں کا نہ صرف احاطہ کیا بلکہ نہایت کھرے اور بے لاگ انداز میں اس کا حل بھی پیش کردیا۔ اگرچہ موضوع کی گہرائی قلم کوبے باک کردیتی ہے جس سے حیا کا تاثر مجروح ہوتا نظر آتا ہے۔

یوں تو کتاب بنیادی طور پر نئے شادی شدہ جوڑوں کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی ہے مگر اس میں صنفِ نازک کے سدھارے سے زیادہ صنفِ مخالف اورسسرالی قبیلے کے سدھار پر مقابلتاً زیادہ توجہ دی گئی ہے۔بہرحال اس کتاب میںمعاشرتی زندگی کے تناظر میں نئے شادی شدہ جوڑے کے لیے اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے گُر‘ ایک مضبوط اور مستحکم خاندان کی بنیاد رکھنے کے اصول‘ اور ایک مثالی اور خوش گوار زندگی سے روشناس کرنے کے لیے فکرانگیز معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ (ربیعہ رحمٰن)


تعارفِ کتب

  •  حج وعمرہ کی کتاب، تالیف و تخریج: حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ملنے کا پتا: نعمانی کتب خانہ‘ حق سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ فون:۷۳۲۱۸۶۵-۰۴۲۔ صفحات: ۳۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [حج و عمرے کے لیے راہنما کتابوں کے سلسلے میں یہ ایک اچھا اور مفید اضافہ ہے۔ حج کے مسنون آداب‘ مناسک اور مسائل مستند روایات اور صحیح احادیث کی روشنی میں ترتیب دیے گئے ہیں۔]
  • Highway to Success ‘ محمدبشیرجمعہ‘ ترجمہ: صبیح محسن۔ ملنے کا پتا: فضلی بک‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ کتاب سرائے‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت (مجلد): ۲۵۰ روپے۔ [مصنف کی مشہور کتاب شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اُردو میں اپنی نوعیت کی منفرد اور جامع کتاب ہے۔ اچھا ہے کہ اب یہ انگریزی جاننے والوں کے لیے بھی فراہم ہوگئی ہے۔ اس لیے بھی کہ   اب پاکستان میں کامیابی کی شاہراہ انگریزی سے ہوکر ہی جاتی ہے‘ بلکہ انگریزی میں مہارت ہی کامیابی کی    شاہِ کلید ہے۔]
  • تذکرہ سوانح حضرت مولانا سیداسعد مدنی‘ اشاعت خاص ماہنامہ القاسم‘ مرتب: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد‘ ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۵۱۲۔ قیمت:درج نہیں۔ [جمعیت علماے ہند کے صدر مولانا سید اسعد مدنی کا انتقال فروری ۲۰۰۶ء میں ہوا۔ چھے ماہ میں ان کے حالاتِ زندگی‘ خدمات اور کارناموں پراتنی ضخیم اشاعت مرتب کرنے پر القاسم اکیڈمی مبارک باد کی مستحق ہے۔ ایک پورا دور نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی تصویر بھی اس آئینے میں موجود ہے۔]
  • فہم ودراسہ (الفاتحہ‘ البقرہ)‘ مرتب: راجا محمد قاضی۔ ناشر: ادارہ ترجمان القرآن‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۷۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [تفہیم القرآن کے مضامین کو طالب علموں کے ذہن نشین کرنے کے لیے   سوالاً جواباً مرتب کیا گیا ہے۔ عربی متن اور ترجمے کے ساتھ اہم الفاظ کے معنی بھی دیے گئے ہیں۔   ایک اچھی اور مفید کاوش۔]
  • مسجد اسلامی معاشرے میں، ڈاکٹر محمد مسعود عالم قاسمی۔ناشر: دفتر ناظم سنّی دینیات‘ مسلم یونی ورسٹی‘   علی گڑھ‘ بھارت۔ صفحات:۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔[۲۵ سے زیادہ عنوانات کے تحت اسلامی معاشرے میں مسجد کا مقام اور کردار بیان کیا گیا ہے۔امام‘ موذن‘ صف بندی‘ خواتین وغیرہ کے ساتھ ساتھ روحانی‘ تعلیمی‘ ثقافتی‘ سماجی اور سیاسی کردار بھی زیربحث آئے ہیں۔]
  • مسلمانوں کی حقیقی تصویر ، مولانا محمد جرجیس کریمی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی‘ڈی-۳۰۷‘ ابوالفضل انکلیو‘ جامعہ نگر‘اوکھلا‘ نئی دہلی‘ بھارت۔ صفحات: ۱۶۴۔ قیمت: ۵۵ روپے۔[مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں‘ اس پس منظر میں‘ مصنف نے مسلمان کی حقیقی تصویر قرآن اور سنت کی روشنی میں پیش کی ہے۔ اگر کہیں عمل نہیں کیا جاتا تو ذمہ داری اسلام کی نہیں‘ مسلمانوں کی ہے‘ مثلاً خواندگی کی کم شرح وغیرہ۔]
  • رحمت ہی رحمت، الشیخ عطاء اللہ بن عبدالغفار فیض کوریجہ۔ ترجمہ: مولانا امیرالدین مہر۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی‘ ڈی-۳۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔[ان تمام روایات کو  جمع کردیا گیا ہے جن سے آپؐ کے رحمت کے پہلو کا اظہار ہوتا ہے۔ ترجمے کے ساتھ قابلِ توجہ امور کو بطور تشریح نکات واردرج کردیا گیا ہے۔ بچوں کے ساتھ‘ خواتین کے ساتھ‘ اہل و عیال کے ساتھ‘ اُمت کے ساتھ‘ غرض ہرلحاظ سے رحمت کے سلوک کے واقعات یک جا ہوگئے ہیں۔]
  • ماہنامہ ہمدرد (خاص نمبر) مدیراعلیٰ: مسعود احمد برکاتی۔ ناشر: ہمدرد فائونڈیشن‘ ناظم آباد نمبر۳‘ کراچی ۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۳۰ روپے۔ [ہمدرد نونہال نے اپنی ۵۴ سالہ زندگی میں ادب‘ نونہالوں اور پاکستان کی بڑی خدمت انجام دی ہے اور کوشش کی ہے کہ عہدحاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئی نسل کے لیے اخلاق اور علم کا پیغام عام کرتارہے۔ زیرنظر خاص نمبر اسی کا تسلسل ہے‘ نیز ایک کہانی بطور تحفہ بھی۔]
  • سیرتؐ کا پیغام ، مرتب: ڈاکٹر ممتاز عمر۔ ملنے کا پتا: ۴۴۵-T‘کورنگی نمبر۲‘ کراچی ۷۴۹۰۰۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت :۶روپے کے ڈاک ٹکٹ۔[حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختصر اور متنوع مضامین کا مجموعہ اور عقیدت سے لبریز اشعار کا گلدستہ۔ علمی سے زیادہ عمل پر اُبھارنے والی مؤثر تحریریں۔]
  • اسلام میںخواتین کے حقوق‘ جدید یا فرسودہ ، ڈاکٹرذاکر نائیک۔ ترجمہ: سید امتیاز احمد۔ ناشر: دارالنوادر‘ الحمدمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۴۔ قیمت: ۵۰ روپے۔[معروف اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا اپنے مخصوص انداز میں عورت کے حقوق پر اظہار خیال۔ موضوع کے حوالے سے جدید ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور شبہات کا مدلل جواب۔ مفید‘ معلوماتی اور مبسوط استدلال۔]

وحی، علم اور سائنس، ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی‘ بھارت۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: ۷۰ بھارتی روپے۔

مذہب‘ انسانی علم و عمل کے لیے ایک ماورائی طریق ہے‘ جب کہ تجربی علم اور سائنس کی بنیاد‘ مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ مذہب‘ انسان کو اس کی اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں جو علم دیتا ہے‘ اور اس کے لیے جو راہِ عمل بتاتا ہے‘ ضروری نہیں کہ انسان کی اپنی فکر اور محسوسات و مشاہدے سے ہم آہنگ ہو۔ مذہب اور عقل‘ مذہب اور سائنس میں ہم آہنگی تلاش کرنے کی کوششیں بہت سے اہلِ مذہب اور سائنس دانوں نے کی ہیں۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے اس طرح کی کوششیں معتزلہ نے کی۔ آج کل قرآن اور سائنس‘ اسلام اور نظریۂ ارتقا اور کائنات کی سائنسی تشریح اور اسلام جیسے موضوعات پر بے شمار مضامین اور کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس سلسلے کی ایک منفرد تصنیف ہے۔ انھوں نے الہامی دعوؤں اور مشاہداتی علم کو خلط ملط کرنے سے اجتناب  کیا ہے۔

مصنف نے پہلے تو اسلامی نقطۂ نظر سے علم کے بنیادی مصدر ’وحی‘ کی تشریح کی ہے۔ اُن کے نزدیک وحی کی دو قسمیں ہیں: وحیِ الٰہی اور جناتی وحی۔ وحی کے حاملین میں ارض و سما‘ حیوانات‘ فرشتے‘ جِن اور انسان شامل ہیں۔ گویا یہ وحی کے وصول کنندہ ہیں۔ تاہم حصولِ علم میں وحیِ الٰہی ہی ایک یقینی ذریعہ علم ہے اور انسان چونکہ اس زمین پر اللہ کا خلیفہ/نائب ہے‘ اس لیے اُس کی ہدایت کے لیے رسولوں کے ایک سلسلے کے ذریعے ہدایت و رہنمائی کا سامان پیدا کیا گیا ہے‘ جس کی آخری‘ حتمی اور غیرمشکوک صورت قرآن مجید ہے جو اللہ کے آخری پیغام بر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام انسانوں کو عطا کیا گیا۔

وحی کی دوسری صورتیں‘ ان کے خیال میں وجدان‘ ضمیر اور جبلّت ہیں‘ جو پیغمبر اور عام لوگوں‘ سب کو حاصل ہیں۔ اس طرح الہام بھی صالحین اور غیرصالحین سب کو ہوسکتا ہے۔یہ جنوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے‘ اوراس صورت میں اِسے وسوسہ کہہ سکتے ہیں۔ وجدان‘ ضمیر‘ جبلّت‘ الہام‘ اِلقا اور وسوسے سے جو علم حاصل ہوتا ہے‘وہ صحیح بھی ہوسکتاہے اور غلط بھی۔ لیکن وحیِ رسالت سے جو علم حاصل ہوتا ہے‘ وہ قطعی اور یقینی ہوتا ہے۔ یہ علم صرف پیغمبر کا نصیب ہے۔

مصنف کہتے ہیں کہ احادیث کے مضامین میں وحیِ رسالت بھی شامل ہوتی ہے‘ اور اس کے علاوہ ان میں پیغمبر کے اپنے مشاہدات‘ تجربات اور غوروفکر کے نتائج اور ظنیات بھی شامل ہوتے ہیں۔ وحیِ رسالت اور اِن مشاہدات و تجربات کے نتائج میں فرق کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں: ’’احادیث کے مضمون پر کسی بھی علمی یا سائنسی تجزیے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مضمونِ حدیث کی نوعیت طے کرلی جائے کہ وہ وحیِ رسالت ہے یا… صرف تجربے اور غوروفکر کا نتیجہ‘‘۔ چونکہ کلام اللہ (قرآن مجید) کے بعد کلامِ رسولؐ (حدیث) ہی سب سے زیادہ یقینی اور اہم ذریعۂ علم ہے‘ اس لیے حدیث کی نوعیت کا تعین نہایت ضروری ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اگر وحی کا استعمال بغیر تجربے کے کیا جائے تو ہمیشہ ناقص معاشرہ وجود میں آئے گا‘ اور اگر تجربے ہی پر بھروسا کیا جائے تو معاشرے میں دوسرے قسم کے نقائص پیدا ہوں گے۔ اس لیے اسلامی معاشرے میں اعمال کا تعین وحی اور تجربے‘ دونوں کی روشنی میں ہونا چاہیے‘‘۔

قرآن اور سائنسی علم کے بارے میں مصنف بجاطور پر کہتے ہیں کہ قرآن کے ’خبریہ جملوں‘ کی صحت جانچنے کے لیے سائنس کو کسوٹی نہیں بنایا جا سکتا۔ مصنف کے نزدیک اسلام اور سائنس کے درمیان ربط کی پانچ بنیادیں ہیں: قرآن‘ محسوسات اور معقولات کو ایک ذریعۂ علم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے‘ وہ وحی کو ایک اچھا ذریعۂ علم قرار دیتا ہے‘ وحی کے بہت سے پیغامات کو محسوسات اور معقولات کی مدد سے مدلل کرتا ہے‘ قرآن اوہام سے پاک ہے‘ چنانچہ علمی عقائد سے اس کا ٹکرائو نہیں‘ اور جہاں قرآن اور سائنس میں ٹکرائو نظر آتا ہے‘ وہ اصل میں سائنس دانوں کے توہمات اور ظنّیات پر جمے رہنے کی ضد کی بنا پر ہے۔

کتاب میں ’نیچری طرزِفکر‘ سے اجتناب برتا گیا ہے۔ ہمارے بعض علما اور مصنفین کی عادت ہے کہ جہاں کوئی نیا سائنسی انکشاف سامنے آیا‘ جھٹ قرآن مجید ے استشہاد کر کے یہ دکھا دیتے ہیں کہ یہ تو ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ ایٹم کا تصور‘ اجرامِ سماوی کی گردش‘ دن رات کی پیدایش وغیرہ۔ یہ کتاب اس معذرت خواہانہ رویّے سے پاک ہے۔ مصنف اس رویّے کو بجا طور پر ’سائنس زدگی‘ قرار دیتے ہیں اور اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن اس کوشش میں کہیں کہیں وہ علماے قدیم سے اس طرح اتفاق کرتے ہیں کہ اس کا دفاع مشکل ہے‘ مثال کے طور پر ’رتق‘ کی  تفسیر میں۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے آسمان اور زمین ’رتق‘ تھے۔ پھر انھیں ’فتق‘ کیا گیا (الانبیاء ۲۱:۳۰)۔ ابن عباس‘ ابن عمر اور بعض دوسرے اس سے یہ مطلب نکالتے ہیں کہ آسمان سے بارش نہ ہوتی تھی‘ اور زمین‘ روئیدگی نہ دیتی تھی۔ پھر اللہ نے انھیں کھول دیا‘ بارش ہونے لگی اور جان دار چیزیں پیدا ہونے لگیں۔ جدید کونیات کہتی ہے کہ یہ وسیع کائنات جو ہرلمحے وسیع تر ہوتی جارہی ہے‘ ابتداً ایک چھوٹے سے ’مادہ توانائی مرکزے‘ پر مشتمل تھی جو ایک بڑے انفجار (big bang) کے نتیجے میں کائنات کے وجود میں آنے کا باعث ہوا (فتق)۔ اگر قرآن مجید کی یہ تفہیم‘ جدید نظریاتِ کائنات سے قریب تر ہے‘ تو اِسے قبول کرنے میں کیا حرج ہے؟ بہرحال وحیِ الٰہی کی تفسیر وتشریح اور مشاہداتی علم میں توافق تلاش کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔

مصنف بنیادی طور پر سائنس دان ہیں۔ وہ نباتیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ کتاب کا مطالعہ عام لوگوں کے علاوہ ہمارے علما کے لیے بھی مفیدہوگا۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


آخری سورتوں کے درس -۲ (سورۃ العصر تا سورۃ الناس)‘ مؤلف: خرم مراد۔ صفحات: ۳۱۶۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

یہ قرآن حکیم کی آخری ۱۲ سورتوں (العصر تا الناس) کے ان دروس پر مشتمل ہے جو خرم مراد مرحوم نے مسجد بلال‘ گارڈن ٹائون لاہور کے خطاب جمعہ میں ایک تواتر سے دیے تھے۔ انھیں کیسٹ سے اتار کر تدوین کے بعد کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ مدرس کے نزدیک ان سورتوں کے انتخاب کی وجہ یہ ہے کہ: ان سورتوں میں اس کائنات میں انسان کے مقام کو واضح کیا گیا ہے‘ دین کی بنیادی تعلیمات اجمالاً بیان کی گئی ہیں‘ نیز اللہ اور انسان کے مابین تعلق جو قرآن کا مرکزی موضوع ہے‘ زیربحث آیا ہے۔ حضوؐر بھی ان سورتوں کو اکثر تلاوت فرماتے تھے اور صحابہؓ کو بھی اس کی تاکید فرماتے۔اگر ان سورتوں کا مفہوم ذہن میںرکھ کر نماز میں پڑھا جائے تو مختصر بولوں میں دین کی بنیادی تعلیمات تازہ ہوتی رہتی ہیں اور ذہن نشین بھی ہوجاتی ہیں۔

دروس کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے اور فقرے‘ سمجھانے کا انداز‘ آیات کے اسباق کا عصری حالات پر انطباق اور آیات و الفاظ کے سیاق و سباق اور سورتوں کے مجموعی نظم کے حوالے سے توضیح‘ ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ سورہ کے آغاز میں اس کا مختصر تعارف اور پھر اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد ایک ایک آیت کی الگ الگ وضاحت‘ اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں اہم الفاظ کی تشریح بھی کی گئی ہے۔ مختلف مفسرین کی آرا بھی بیان کی گئی ہیں۔ آیت کا ماسبق آیت سے اور سورہ کا ماسبق سورہ سے بالعموم ربط بیان کیا گیا ہے۔

مرحوم نے چونکہ مشرق و مغرب کی تہذیبی اقدار کا گہرا مشاہدہ کیا تھا اور قرآن فہمی میں بھی ان کو خصوصی دل چسپی تھی‘ اس لیے ان کے درس قرآن کا انداز جدید تعلیم یافتہ طبقے کی ذہنی اپروچ سے ہم آہنگ ہے۔ قرآن فہمی کے سامان کے ساتھ ساتھ مدرسینِ قرآن کے غوروفکر کے لیے اہم نکات بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کے حصہ اوّل کا انتظار ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)


بلوچستان میں شورش، نصرت مرزا۔ ناشر: رابطہ پبلی کیشن‘ ۷۱۰-یونی شاپنگ سنٹر‘ صدر‘ کراچی۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

بلوچستان آج توجہ کا مرکز ہے۔ اس موقع پر معروف کالم نگار نصرت مرزا نے بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر‘ ایک ہمہ جہتی جامع مطالعہ ’بلوچستان میں شورش، چھاپہ مار جنگ، سرداری نظام‘ کے عنوان سے نہایت بروقت پیش کیا ہے۔ کتاب کیا ہے‘ بلوچستان کے   قدیم و جدید حالات پر جامع انسائی کلوپیڈیا‘ جس میں مختلف مواقع پرطبع ہونے والے کالموں کا انتخاب‘ نواب اکبر بگٹی کے انٹرویو سے لے کر ان کی تحریر: ’بلوچوں کا فسانۂ زندگی‘ سردار اسلم رئیسانی‘   مولانا حسین احمد شرودی‘ سردار یعقوب ناصر‘ میر نصیرمینگل اور ڈاکٹر شعیب سڈل کے انٹرویو شامل ہیں۔ کتاب میں قوم پرستوں کے موقف کے ساتھ ساتھ پاکستان اور حکومت پاکستان کا موقف بھی شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان‘ بلوچستان اور گوادر کے بارے میں بنیادی معلومات کتاب کا حصہ ہیں‘ جب کہ بلوچستان پر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ‘ بلوچستان میں انسانی حقوق اور صوبائی حقوق‘ ڈاکٹر شازیہ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ سے کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔

بحیثیت مجموعی اس کتاب سے بلوچستان کی صورت حال کی صحیح تصویرکشی ہوتی ہے۔ مختلف نقشہ جات‘ تصاویر اور معلومات پر مبنی چارٹس سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ بلوچستان کے تازہ ترین حالات تاریخی پس منظر کے ساتھ جاننے کے خواہش مندوں کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی تحفہ ہے۔ (عمران ظہور غازی)


زلزلہ داستان، بشیر سومرو۔ ناشر: فہم پبلی کیشنز‘ کراچی۔ صفحات: ۱۷۱۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو پاکستان میں آنے والا زلزلہ بلاشبہہ جانی و مالی نقصان کے اعتبار سے معلوم انسانی تاریخ کے عظیم زلزلوں میں سے ایک تھا۔ اہلِ پاکستان و کشمیر کبھی بھی اس زلزلے کی  تباہ کاریوں کو شاید فراموش نہ کرپائیں۔ بشیر سومرو نے کمال یہ کیا ہے کہ ان علاقوں میں ازخود جاکر حالات کا بچشم خود نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ متاثرین سے ملاقاتیں کر کے اَن گنت واقعات میں سے بہت سے واقعات کو مروجہ رپورٹنگ کے بے جان انداز کے بجاے وہ انداز اختیار کیا جس میں یوں لگتا ہے کہ گویا واقعات قارئین کی نظروں کے بالکل سامنے ہیں۔ روزنامہ اُمت کراچی کے رپورٹر کی حیثیت سے انھوں نے متاثرہ علاقوں سے یہ دل گداز اور پُرسوز داستانیں رقم کیں جسے کتابی صورت میں پیش کر کے ایک اہم فریضہ سرانجام دیا ہے۔ کتاب میں بہت سی رنگین تصاویر بھی شامل ہیں جن سے قاری کے ذہن پر ان افراد کے چہرے بھی نقش ہوجاتے ہیںجن کی کہانیاں اس کتاب میں درج ہیں۔ یوں ایک مؤثر زلزلہ داستان ہمارے سامنے ہے۔ بشیر سومرو نے الفاظ کا صحیح استعمال کیا ہے‘ مثلاً ’’شہر جس کا نام بالاکوٹ تھا اور وہ اب تہہ و بالا ہوکر بکھرا پڑا تھا‘‘ (ص ۱۹)۔ ’’پہلے والا مظفرآباد نہ تھا بلکہ یہ تو ’مظفربرباد‘ لگتا تھا‘‘۔ (ص ۲۱)

پھر نہایت جامعیت کے ساتھ لفظوں میں تصویرکشی قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے‘ مثلاً: ’’بالاکوٹ ہو یا مظفرآباد‘ ان شہروں اور قصبوں میں ہر شخص کہانی ہوچکا ہے۔ جس کو کھولو‘ اس کا کلیجہ چھلنی دکھائی دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنے اتنے پیاروں کے صدمے اُٹھا چکے ہیں کہ اب ان کے  دل دکھوں کی ہر سرحد سے گزر چکے ہیں‘‘۔ (ص ۵۰)

مظفرآباد کے حوالے سے فاضل مصنف ص ۵۳ پر رقمطراز ہیںکہ ’’زمین نے اپنی چھاتی کھول کر اس شہر کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے‘‘۔ ’’یہاں زخمی عورتوں پر دہری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے زخموں اور صدموں کا خیال بھی رکھتی ہیں اور بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں‘‘۔ (ص ۵۸)

حکومتی پروپیگنڈا‘ کراچی کی ایک لسانی تنظیم جسے پروپیگنڈے میں کمال حاصل ہے کا   کچا چٹھا اور دینی تنظیموں کا زبردست اور قابلِ تعریف جذبہ و کام‘ سبھی کچھ قاری کو اس کتاب میں ساتھ ساتھ مل جاتا ہے اور یوں یہ کتاب ایک قاری پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ ایک تاریخ ہے جسے محفوظ رکھنا اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے آیندہ کے لیے کسی ایسے ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری رکھنا ضروری ہے۔(محمد الیاس انصاری)

فقہ الحدیث، امام شوکانی‘ ترجمہ و تخریج: حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ناشر: نعمانی کتب خانہ‘  حق سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات (بڑی تقطیع) جلداوّل: ۷۵۲۔ جلددوم: ۸۱۴۔     قیمت: ۴۳۰؍۴۵۰ روپے علی الترتیب۔

امام محمد بن علی الشوکانی (۱۱۷۳ھ- ۱۲۵۰ھ) معروف محدثین میں سے ہیں۔ آپ کی کتاب الدُرر البھیّہ درس نظامی کے نصاب کاحصہ ہے۔ احادیث سے احکام کا استنباط اس کا موضوع ہے۔ اُردو زبان میں اس کی کوئی عام فہم اور جامع شرح موجود نہ تھی۔ اب حافظ عمران ایوب نے فقہ الحدیث کے نام سے یہ مفصل شرح لکھی ہے۔یہ شرح کئی حوالوں سے افادیت کی حامل ہے۔

ابتدا میں ایک مختصر مگر جامع مقدمہ لکھا گیا ہے جس میں فقہ کا معنی و مفہوم‘ اہمیت و ضرورت‘ مآخذ‘ مذاہب اربعہ‘ اور ان کا مختصر تعارف‘ اختلاف کے اسباب اور امام شوکانی اور شیخ البانی کی حیات و خدمات کو بیان کیا گیا ہے۔ الدُرر البھیّہ کے متن کا سلیس ترجمہ دیا گیا ہے اور الفاظ کی لغوی وضاحت اور اصطلاحی و شرعی تعریف کے ساتھ ساتھ تفصیلی حوالہ جات بھی درج کر دیے ہیں۔

کسی بھی مسئلے کے حوالے سے صحابہ کرامؓ، ائمہ و فقہا اور جدید و قدیم علما کے اقوال و فتاویٰ اور بعض مقامات پر اصولی قواعد کوبیان کیا گیا ہے اور پورے اہتمام کے ساتھ ان کے حوالہ جات کو درج کیا گیا ہے۔ راجح مسلک کی وضاحت اور کتاب و سنت کی روشنی میں اس کے دلائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ایک عنوان ’متفرقات‘ ہے۔ کسی مسئلے سے متعلق ائمہ اربعہ نے کوئی بحث نہیں کی یا دورِ جدید میں کوئی مسئلہ زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے تو متفرقات میں اس کو بڑی خوب صورتی سے بیان کردیا گیا ہے۔

کسی بھی فقہی مسئلے پر متنوع مسالک و آرا کو عمدہ پیرایے میں بیان کر کے اور بلاتعصب کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر مسائل و احکام کا استنباط کیا گیا ہے۔ جملہ مسالک و مذاہب کے لوگ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ یوں اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ دکھائی گئی ہے۔ احادیث اوراقوال و فتاویٰ کی تخریج کا کام دقیق اور قابلِ قدر ہے جو نہایت عرق ریزی سے انجام دیا گیا ہے۔

روز مرہ زندگی میں درپیش مسائل کی تفہیم‘ احادیث کی تخریج و تحقیق‘ فقہی مذاہب و اقوال کا بیان‘ راجح مسلک کی وضاحت‘ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ جیسی خصوصیات کی بنا پر زیرتبصرہ کتاب محض ایک شرح ہی نہیں بلکہ اپنے موضوع پر ایک انسائی کلوپیڈیا ہے۔ اساتذہ کرام‘ علوم دینیہ کے طلبہ اور عام لوگوں کی علمی ضرورت پورا کرنے کے ساتھ ساتھ علوم الحدیث و فقہ میں گراں قدر اضافہ ہے۔ فاضل مصنف بجاطور پر اس علمی کاوش پر تحسین کے مستحق ہیں۔ دیدہ زیب سرورق اور عمدہ طباعت کتاب کی دل کشی میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ (فاروق احمد)


جدید فقہی مسائل اور ان کا مجوزہ حل، ترتیب و تدوین: ڈاکٹر عبدالستار ابوغدہ‘ ترجمہ: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: ماڈرن اسلامک فقہ اکیڈمی‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔صفحات: ۴۴۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

اسلام ہر زمانے کے لیے ہے۔ اس لیے پیش آمدہ مسائل کے بارے میں غوروفکر اور ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے ہمیشہ سے اجتہاد کیا جاتا رہا ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) سے یوں تو پوری اُمت کو بجاطور پر شکوے ہیں لیکن تنظیم کا ذیلی ادارہ بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی ہے جو ہربرس کسی مسلم ملک میں سالانہ اجلاس منعقد کرکے تمام رکن ممالک سے اس کی کونسل کے ارکان‘ اسلامی علوم کے ماہرین اور متخصصین کو جمع کرتی ہے اور موجودہ موضوعات اور نئے پیش آمدہ مسائل پر غوروخوض اور بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ پھر اتفاق راے سے جو فیصلے ہوتے ہیں انھیں قراردادوں اور سفارشات کی شکل میں مرتب کرلیا جاتا ہے۔

زیرنظر کتاب مذکورہ اکیڈمی کے ۱۵ سیمی ناروں میں منظور کردہ قراردادوں اور سفارشات پر مبنی ۱۴۲ موضوعات پر سفارشات کا مجموعہ ہے۔ موضوعات نہایت متنوع ہیں‘ یعنی اقتصادیات سے لے کر طبیعیات تک‘ طب سے لے کر سیاسیات تک‘ معاشرتی امور سے لے کر تہذیبی امور تک‘ نیز عقائد اور فقہی امور بھی اس میں شامل ہیں۔ مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے خصوصی مسائل سے متعلقہ جوابات اور حل بھی اس میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹکنالوجی نے جس طرح معاشرتی ڈھانچوں پر شدید اثرات مرتب کیے ہیں اور اس وجہ سے جن الجھنوں کا سامناکرنا پڑتا ہے ان پر بھی اس کتاب میں بحث کی گئی ہے‘ مثلاً برقی بنک کاری نظام بالخصوص کریڈٹ کارڈ وغیرہ کے حوالے سے مسائل کا جواب دیا گیا ہے۔

گلوبلائزیشن پر اکیڈمی کی ۱۰ سفارشات گلوبلائزیشن کے پیچھے کام کرنے والی مغربی طاقتوں کے منفی عزائم سے نبٹنے کے لیے دی گئی ہیں۔ عقائد کے حوالے سے قادیانیت اور بہائیت کی بابت قراردادیں اور سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے‘ انھیں اس ادارے کی تحقیقات اور علمی کام پر ضرور نظر ڈال لینی چاہیے۔ اس کے علاوہ خود عام مسلمانوں میں بھی یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اجتہاد‘ اُمت کی سطح پر مرکزی طور پر بھی جاری و ساری ہے۔ نام نہاد ماڈرن اسلام کی تبلیغ کرنے والوں سے مکالمہ کرنے والوں کے لیے بھی یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ مجموعی طور پر اکیڈمی‘ نیز ناشر لائقِ تحسین ہیں کہ انھوں نے ان قراردادوں اور سفارشات کو جو اُمت کے اجماع کے ساتھ تیار کی گئی ہیں‘ شائع کیا اور اُردو دان طبقے کے لیے پیش کیا۔ اس کتاب کے آخر میں اشاریہ دیا گیا ہے جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)


Islam & The Clash of Civilizations [اسلام اور تہذیبوں کا تصادم]،  ڈاکٹر اقبال ایس حسین۔ ناشر: ہیومینٹی انٹرنیشنل‘ ۱۴- کرشن نگر‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۳۸۰۔ قیمت:  ۶۰۰ روپے؍ ۲۰ امریکی ڈالر۔

عالمِ اسلام اور عالمِ کفر کے درمیان تہذیبی و سیاسی غلبے کی کش مکش پر سیکڑوں کتابیں‘ ہزاروں مقالے اور لاکھوں صفحات پر پھیلے ہوئے مضامین‘ تجزیے اور رپورٹیں یہ ثابت کرنے کے لیے تحریر کیے گئے ہیں کہ اسلام دقیانوسی مذہب ہے‘ عورتوں کو مساوی حقوق نہیں دیتا‘ خوش گوار زندگی کا مخالف ہے‘ انسانوں پر نامعقول قدغنیں عائد کرتا ہے اور دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ جب تک اسلام کے پیروکار دنیا میں موجود ہیں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس خوف ناک بلا سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ چاہے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا پڑے‘ عراق میں شہروں اور دیہاتوں کو ملیامیٹ کرنا پڑے‘ فلسطین میں جمہوری انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرنا پڑے‘ یا تین یہودی فوجیوں کی رہائی کے بہانے لبنان کے ہر ہر قصبے کو خاک وخون میں نہلانا پڑے۔

مغرب اور مغربی ممالک کی جانب سے مسلط کی جانے والی اس تہذیبی و فکری یلغار کا راستہ روکنے کی ایک علمی کوشش حال ہی میں منظرِعام پر آنے والی کتاب: Islam & The Clash of Civilizations  ہے جس میں مغرب کے مفکرین کی فکری خامیوں کی نشان دہی اور اسلام کے خلاف الزامات کا جو طومار باندھا گیا ہے اُسے بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے مغربی افکار کا مفصل جائزہ لیا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آزاد دنیا کی بڑی تعداد نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں‘ اور اسلام کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی اسلام کا پیغام صحیح انداز میں پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔

زیرنظر کتاب میں تہذیبی کش مکش پر ایک نئے انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ مغرب کے فکری اماموں اور موجودہ منظر (تحدیدِاولاد‘ تجرد‘ مادہ پرستی‘ مذہب بیزاری‘ مسلم دشمنی وغیرہ) میں سے ہر ایک کا جائزہ لیا جائے اور بتایا جائے کہ مغربی تہذیب‘ انسانوں کو  پتھر کے دور میں لے جانا چاہتی ہے۔ برقعہ یا نیم لباس‘ غیرت یا مخلوط محفلیں‘ حلال و حرام یا    شباب و شراب‘ بنیاد پرستی یا روشن خیالی‘ جمہوریت یا شاہوں کی غلامی جیسے موضوعات پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ ساینس و ٹکنالوجی کے میدان میں‘ تہذیب و ثقافت کے میدان میں‘ خدمتِ خلق اور حب انسانیت کے میدان میں‘ تبلیغ دین اور تمدنی ارتقا کے میدان میں مسلمان جس طرح روشن مثالیں قائم کرتے رہے ہیں‘ ان کا جائزہ ۲۵ ابواب میں لیا گیا ہے۔ ان کے مطالعے سے نئی روح بیدار ہوتی ہے اور اسلام کا پرچم سربلند کرنے کا عزم بھی۔ اسلام اور مغرب کی تہذیبی کش مکش کے موضوع پر اہم علمی کاوش اور مفید علمی اضافہ۔(محمد ایوب منیر)


قرآن پر عمل، سمیہ رمضان۔ مترجم: ظہیرالدین بھٹی۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

قرآن پر عمل قرآنی آیات کے مطابق عمل اور ان کے معجزاتی اثرات کے بیان پر مشتمل ایک خوب صورت کتاب ہے۔ یہ کتاب محترمہ سمیہ رمضان کے تجربات پر مشتمل ان کے سلسلہ وار مضامین کا مجموعہ ہے۔ مصنفہ ایک عرب معلمہ ہیں۔ انھوں نے مدت سے درسِ قرآن کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے ذریعے بالخصوص خواتین کے ذہنوں میں تبدیلی لانے اور ان کی الجھنوں اور پریشانیوں کا علاج دریافت کرنے میں کوشاں ہیں۔ وہ ہر دفعہ ایک قرآنی آیت کا انتخاب کرتی ہیں اور پھر وہ اور ان کی ساتھی دوسری خواتین اس آیت کے مطابق عمل کرتی ہیں     تو اپنے مسائل حل ہوتے دیکھتی ہیں۔ شرکا تجربے سے سیکھتی ہیں کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے میں کتنے فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔

ترجمہ رواں اور سلیس زبان میں کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں محض قرآن کی تبلیغ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا‘ اس پر عمل کرنے اور زندگی کے ہرمعاملے میں اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ یہ کتاب خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی قرآن فہمی اور اس کے مطابق   عمل کرنے اور زندگی گزارنے کا جذبہ و سلیقہ فراہم کرتی ہے۔ حال ہی میں اس کا اعلیٰ کاغذ پر   خوب صورت اور دل کش نیا اڈیشن سامنے آیا ہے۔(سعید اکرم)


سیرت الامین صلی اللہ علیہ وسلم، محمد رفیق ڈوگر۔ ناشر: دید شنید پبلشرز‘ ۲۳-فضل منزل‘ بیڈن روڈ‘ لاہور۔ صفحات (جلد اول): ۱۷۴‘ (دوم): ۱۵۷‘ (سوم) ۱۸۴۔ قیمت فی جلد: ۱۵۰ روپے۔

تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب انفرادیت کے ساتھ ساتھ بہت سی خوبیوں کی حامل ہے۔ ہرعمر کے بچوں کے لیے لکھی گئی اس کتاب میں اسلوبِ بیان شستہ‘ رواں اور سادہ و عام فہم ہے۔ واقعاتی اور افسانوی انداز قاری کو کھینچ لیتا ہے اور وہ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ تحریر دل نشین‘ مؤثر اور اثرانگیز ہے۔ پہلی جلد نبی کریمؐ کے احوال‘ دین ابراہیمی کی تکمیل کے مشن کے لیے جدوجہد‘   دشمنانِ اسلام سے مقابلہ اور اہلِ مکہ کے مظالم پر مبنی ہے۔ دوسری جلد مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام‘ اسلامی معاشرے کی تشکیل‘ دشمنوں کی سازشوں اور آپؐ کی دفاعی‘ سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ تیسری جلد عرب میں اللہ کے دین کے مکمل غلبے اور نبی کریمؐ کے مشن کی تکمیل اور رفیق اعلیٰ سے ملاقات کی تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس طرح مکمل سیرتِ رسولؐ سامنے آجاتی ہے۔

ہر باب کے آخر میں درسی کتاب کی طرح ’تعاون‘ کے عنوان سے مشکل الفاظ کے معنی دیے گئے ہیں اور ذہنی مشق اور سیرت کے اسباق کو ذہن نشین کرنے کے لیے ’اپنے شاباش کے نمبر لگائیں‘ عنوان کے تحت مختلف سوالات اور ان کے جواب دیے گئے ہیں۔ رنگین تصاویر اور نقشوں سے بھی کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔

دینی مدارس اور اسلامی تربیت کرنے والے اسکول اسے نصاب میں شامل کرسکتے ہیں۔ والدین بچوں کو پڑھوا کر سوالات کرائیں تو ساری زندگی کے لیے سیرت کے واقعات ذہن پر نقش ہوجائیں گے۔ (امجد عباسی)


تاج محل سے زیرو پوائنٹ، چودھری محمد ابراہیم‘ ناشر: بیت الحکمت‘ لاہور۔ ملنے کا پتا:  کتاب سراے‘ اُردو بازار‘ لاہور۔صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۲۲۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب ایک صاحبِ بصیرت اور ملک و قوم کے لیے دردِ دل رکھنے والے زرعی سائنس دان چودھری محمد ابراہیم کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے جس میں انھوں نے بھارت میں اپنے مختصرقیام کے مشاہدات کو قلم بند کیا ہے۔ بقول دیباچہ نگار ’’ایک ہفتے میں انھوں نے بھارت کی تاریخ و ثقافت‘ تہذیب و تمدن‘ مذاہب و ادیان‘ معاشرت و معیشت‘ سیاست و حکمت اور آثار و شواہد کے کتنے ہفت خواںطے کیے‘ اس کا اندازہ سفرنامے کے تفصیلی مطالعے ہی سے ممکن ہے‘‘۔

پروفیسر عبدالجبار شاکر نے پیش لفظ میں سفرناموں کی پوری تاریخ خصوصاً ہندستان کے سفرناموں کو ایجاز و اختصار مگر جامعیت سے پیش کیا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تعارفِ کتب

  • تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزیؒ، ترجمہ: مولانا ابومحمد عبدالحق۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ بالمقابل رحمن مارکیٹ‘  غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۷۴۔ قیمت (اعلیٰ اڈیشن) ۲۸۰ روپے۔ [شیطان روزِ اوّل سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔شیطان جس طرح بھی انسان کو دھوکا دیتا ہے‘ جس جس طرح کے پردوں میں آتا ہے‘ اس کا ممکنہ حد تک تفصیلی بیان علامہ ابن جوزی نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہر شخص دیکھ سکتاہے کہ شیطان اس کے ساتھ کیا کچھ کرسکتاہے اور کرتا ہے۔ اس کا مقصد شیطان کے تلبیس (دھوکے) سے آگاہ کرنا ہے تاکہ لوگ گمراہی سے بچ سکیں۔]
  • کتاب الوسیلہ ، امام ابن تیمیہ‘ ترجمہ: ضیغم الانصاری۔ ناشر: اسلامی اکادمی‘ ۱۷- الفضل مارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۲۲۰ روپے۔[اسلام کی تعلیمات کے مطابق اللہ کے ہر بندے کو اللہ سے راست رسائی حاصل ہے لیکن عموماً لوگ کسی وسیلے کی تلاش کرتے ہیں جس کی وجہ سے لاتعداد مشرکانہ افعال اور بدعات کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس مسئلے پر امام ابن تیمیہ کی جامع کتاب کا یہ سلیس اور عام فہم ترجمہ ہے۔ تمام پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ زندگی میں کسی سے دعا کروانا تو ٹھیک ہے‘ لیکن مرنے کے بعد‘ یا قبر پر جاکر کسی کو وسیلہ بنانا جائزنہیں۔]
  • الجامع الفرید شرح کتاب التوحید، عبداللہ بن جاراللہ‘ ترجمہ: حافظ محمود احمد۔ ناشر: حدیبیہ پبلی کیشنز‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔ [عقیدۂ توحید کو دین کے نظام میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔ یہ درست نہ ہو تو گمراہی کے بے شمار دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس موضوع پر الشیخ محمدبن عبدالوہابؒ کی کتاب کو سوالاً جواباً پیش کیا گیا ہے۔ عقیدۂ توحید کے بارے میں تمام پہلوئوں سے آگاہی کے لیے اس کا مطالعہ مفید ہے۔]
  • توہین رسالتؐ کی شرعی سزا، مولانا محمد علی خاں باز۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۷۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[ان دنوں مغربی اخبارات میں کارٹونوں کی اشاعت کے بعد توہینِ رسالتؐ کا موضوع پر سب کی توجہ ہوگئی۔ یہ کتاب اس جرم کی سزا کے حوالے سے ایک مکمل بیان ہے جس میں صحابہ کرامؓ کے دور کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔]
  • شہید عامر چیمہ، عابد تہامی۔ ناشر: تہامی گروپ پاکستان‘ ۱۶-اے‘ توحید سٹریٹ‘ آؤٹ فال روڈ‘  لاہور۔ صفحات: ۲۱۹۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[عامر چیمہ کی شہادت کے حوالے سے مرحلہ بہ مرحلہ تمام واقعات اور ان پر لکھے جانے والے اخبارات کے مضامین‘ سب کو یک جا کر دیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت ایک دستاویز کی ہے۔]
  • شہیدوفا ، وسیم شاہد اولکھ۔ ناشر: اذان سحر پبلی کیشنز‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ [عامر چیمہ شہید کے حالاتِ زندگی ‘ جنازے کی تفصیلات‘ منظوم تاثرات‘ تصاویر۔]
  •  آپ کے خواب اور ان کی تعبیر، ابومحمد خالد بن علی العنبری، مترجم: ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن یوسف۔ ناشر: مکتبہ ابن تیمیہ‘ لاہور۔ ملنے کا پتا: اسلامی اکادمی‘ ۱۷- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [خوابوں کا دیکھنا‘ ان کی تعبیر معلوم کرنا اور بتانا ماہر ین نفسیات کے لیے ایک دل چسپ موضوع ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے بارے میں جو کچھ آیا ہے اور تعبیر کے حوالے سے جو روایات ہیں ان کو جمع کردیا گیا ہے۔]
  • شاہراہ دعوتِ دین، مصطفی مشہور۔ ناشر: مکتبہ المصباح، ۱-اے ذیلدار پارک‘ اچھرہ‘ لاہور۔ صفحات:۲۰۶۔ قیمت: ۶۵ روپے۔[دورِحاضر میں دعوتِ دین کی راہ پر چلنے والوں کو جو مسائل پیش آتے ہیں ان کے بارے میں عملی نقطۂ نظر سے بہت اچھی مفید بحث اور مؤثر رہنمائی ہے۔ اس راہ کے ہر راہی کو    مصطفی مشہور کی اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔]
  • تزکیہ نفس، خلیل الرحمن چشتی، محمد خان منہاس۔ ناشر: الفوز اکیڈمی‘ ۴/۱۱-ای‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔[تزکیہ نفس کے موضوع پر ایک گائیڈبک نوعیت کی کتاب جس میں ۱۲ تدابیر آیات و احادیث کی روشنی میں نہایت اختصار اور جامعیت سے بیان کی گئی ہیں۔]
  •  نصرتِ الٰہی کے مناظر، ابوبلال حافظ طاہرمنصور۔ ناشر: جہاد میڈیا پبلی کیشنز‘ hotsoup@ maktoob.com۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۰۰روپے۔[دورِ رسالت و صحابہ میں میدان جہاد میں نصرتِ الٰہی کے واقعات نہایت ایمان افروز ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں دورِحاضر کے افغانستان‘ کشمیر‘ فلپائن اور دوسرے جہادوں کے ایسے واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ ان سے یقین آتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی مدد کرنے پر ہرطرح قادر ہے جو اس کی راہ میں جانیں پیش کرتے ہیں۔]
  •  یومِ خندق ، پروفیسر شفیع ملک۔ ناشر: پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ‘ ایس ٹی ۳/۲‘ بلاک ۵‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: ۶۰۔ قیمت: ۵۰ روپے۔[پاکستان میں مزدور تحریک کاایک مطالبہ ہے کہ یکم مئی کے بجاے‘ جو سوشلسٹ پس منظر رکھتا ہے یومِ خندق کو عالمی پیمانے پر یومِ مزدور کے طور پر منایاجائے۔ مصنف نے اس تجویز کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کی ہے۔]
  •  زندگی کی کتاب،قانتہ رابعہ۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۹۔ قیمت: ۷۵ روپے۔[زندگی گزارتے ہوئے روز مرہ پیش آنے والے واقعات پر اخباری کالم کے انداز سے کسی مناسب بات کی تذکیر۔ یہ ایسے ہی ۶۷ ایک ایک دو صفحات کے مختصر مضامین کا مجموعہ ہے۔ مطالعے سے معاشرے کی تصویر بھی سامنے آجاتی ہے۔]