سہ ماہی اسلامائزیشن مدیراعلیٰ ظفراقبال خاں اور مدیرمعاون محمد طارق نعیم اسدی کی کاوشوں سے شائع ہونے والا اپنی نوعیت کا ایک منفرد جریدہ ہے‘ جس کا ہر شمارہ اپنی جگہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مرتبین کے نزدیک: ’’عصرِحاضر میں ملّت اسلامیہ کا کوئی ایسا گوشہ باقی نہیں رہا‘ جسے عجمیت نے متاثر نہ کیا ہو‘‘ (۱:۲)۔ کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ کے اصل مفہوم میں عجمی تشریحات اور تاویلات سے اسلام کے چشمۂ صافی میں طرح طرح کے شرک شامل ہوگئے ہیں‘ جنھیں اس سے علیحدہ کرنا توحید کے اثبات کے لیے ضروری ہے۔ یہ چاروں شمارے‘ اسی سعی کا ایک بھرپور اور پُرجوش اظہار ہیں۔
پہلے شمارے میں ظفراقبال خاں نے ’’مقامِ توحید کی اسلامی تعبیر‘‘ کے عنوان سے گویا اس پورے منصوبے کا تعارف کرایا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر خاکوانی نے ’’کلمۂ طیبہ میں لفظ ’اِلٰہ‘ کا عام فہم معنی‘‘ کے عنوان کے تحت قرآن وحدیث میں ’اِلٰہ‘ کی اصطلاح کی تشریح کی ہے: وہ ذات‘ جس کا حکم مانا جائے‘ حکومت میں‘ عدالتی معاملات میں‘ حصولِ رزق اور معاشی اُمور‘ نیز تمام معاشرتی اور سماجی دائروں میں۔ محمد سعود کا مضمون اسلام میں توحید اور عبادت کے تصور پر ہے۔
مجلے کی دوسری جلد کا عنوان ہی ’’مقامِ توحید کی عجمی تعبیر‘‘ ہے۔ یہ پورا شمارہ ہی ظفراقبال خاں کا تحریر کردہ ہے جس میں انھوں نے بنیادی طور پر صوفیا وجودیہ کے قافلہ سالار‘ ہسپانوی مفکر ابن عربی پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعد کے سارے مسلم فلاسفر اور صوفیا نے ’’وحدۃ الوجود‘‘ ہی کو توحید کی اصل تشریح سمجھا ہے‘ لیکن یہ نظریہ ابن عربی سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔ انھوں نے بڑی تفصیل سے قدیم ہندومت‘ بدھ مت‘ جین مت‘ سکھ مت‘ نیز یہودیت اور عیسائیت میں ’’توحید‘‘ (بمعنی شرک) کے شواہد پیش کیے ہیں۔ ان کے خیال میں مسلم فلاسفہ میں یہ ’’توحید‘‘ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی اصطلاحوں کے ذریعے داخل ہوئی۔ اور سبھی صوفیا اس کمند کے اسیرہوگئے۔ ان میں دیوبندی‘ بریلوی اور اہل حدیث کے مسالک کی کوئی قید نہیں۔ مجدد الف ثانی نے اگرچہ ابن عربی کی اس ’’توحید‘‘ (وحدت الوجود) پر سخت تنقید کی مگر ’’وحدۃ الوجود‘‘ اور وحدۃ الشہود کے درمیان صرف لفظی فرق ہے (۲:۱۱)۔ وہ سرسید‘ محمد اقبال اور دوسرے روایتی عصری علما کو بھی اسی فکری مرض میں مبتلا پاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’’خطباتِ مدارس میں اقبال نے واشگاف انداز میں سریان [اللہ تعالیٰ کی ذات ساری کائنات میں جاری و ساری ہے] کی حمایت کی ہے… اقبال اور ابن عربی کی الٰہیات میں کسی قسم کا فرق نہیں‘‘۔ (۲:۲۱۷)
یوں محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مصنف اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کرنے کے جوش میں یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر صاحبِ فکر اپنی سوچ میں مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ شیخ مجدد خود اعتراف کرتے ہیں کہ اُن کا مسلک ابتدا میں ’’وجودی‘‘ تھا مگر وہ جلد ہی اس تنگ کوچے سے نکل آئے۔ ایک مخصوص مرحلے پر مسالک کو یہ ’’محسوس‘‘ ہوتاہے گویا سارا وجود ایک ہی ہے ‘اور خالق و مخلوق میں کوئی دُوئی نہیں‘ مگر یہ حقیقت نہیں ہے‘ محض ایک ’’شہود‘‘ ہے۔ دراصل خالق‘ خالق ہے اور مخلوق‘ مخلوق۔ دونوں میں اس کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہیں۔ اقبال کی فکر کے بھی کئی درجات اور مرحلے ہیں۔ کبھی وہ ہندستان کو ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ اور خود کو اس گلستان کی بلبلوں میں شمار کرتے تھے اور پھر وہ ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کے مدعی ہوئے۔ اگر ان کی ابتدائی نظموں میں ’’وحدت الوجود‘‘ کی جھلک نظر آتی ہے‘ تو دیانت کا تقاضا ہے کہ اُن کی بعد کی فکر کے نمونے بھی دیکھے جاتے۔ سرسیداحمد اور محمد اقبال کی فکر کو بایزید بسطامی کی سطحیات اور فلاطینوس کے ساتھ جوڑنا مناسب نہیں۔
اسلامائزیشن کے تیسرے شمارے کا عنوان ہے: ’’فلسفۂ توحید اور ذرائعِ علم کی عجمی تشکیل‘‘۔ اس میں فکر کے منہاج‘ استخراج‘ استقرا‘ وجدان و سریت‘ علمِ وحی‘ اللہ کی موجودگی کا اثبات جیسے عنوانات سے طویل بحثیں ہیں‘ جہاں کہیں کہیں تضادات بھی محسوس ہوتے ہیں‘ مثلاً شاہ ولی اللہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی علمی تحقیق سے ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی پوری عمارت منہدم ہوجاتی ہے (ص ۱۷۹)۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صوفیا کے خاندان سے وابستگی کی بنا پر وہ اس نظریے کا کلیتاً رد نہ کرسکے۔(ص ۲۲۵)
’’فلسفۂ توحید اور وحدۃ الوجود کا تحقیقی مطالعہ‘‘ یہ عنوان ہے اس مجلے کے چوتھے شمارے کا۔ پہلے طویل باب میں فلسفۂ وحدۃ الوجود کی مختصر تشریح کے بعد فاضل مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلمانوں کے اکثر مکاتبِ فکر میں توحید کے بنیادی عقیدے کا ماخذ ’’حقیقتِ محمدیہ‘‘ ہے‘ جو وحدۃ الوجود کی بنیادی اینٹ ہے (ص ۲)۔ مجدد اور ابن عربی کا اختلاف محض ’’نزاعِ لفظی‘‘ ہے (ص ۳۷)۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی‘ امداد اللہ مہاجر مکی‘ عبدالحی لکھنوی‘ علامہ سعید احمد کاظمی‘ ڈاکٹر طاہرالقادری‘ اشرف علی تھانوی‘ میرولی الدین‘ ثنا اللہ امرتسری‘ وحیدالزماں خان‘ صدیق حسن خاں‘ محدث عبداللہ روپڑی‘ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی‘ سید سلیمان ندوی‘ حفظ الرحمن سیوہاروی‘ ڈاکٹر برنیئیر‘ ڈاکٹر تاراچند‘ عبدالحمید سواتی‘ حسرت موہانی‘ علی عباس جلالپوری‘ خواجہ غلام فرید‘ فریدالدین گنج شکر‘ شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی‘ سلطان باہو‘ مرزا غلام احمد قادیانی اور یونس خان کے خیالات دربارئہ وحدت الوجود (اسی ترتیب سے) کسی کو جاننے کا شوق ہو تو محترم ظفراقبال خاں نے بڑی محنت سے اس کے لیے آسانی پیداکردی ہے۔
اگرچہ اسلامائزیشن کے ان چار شماروں میں اکثر مقامات پر مباحث کی تکرار نظرآتی ہے‘ لوازمے اپنی مقدار کی فراوانی کے باوصف‘ بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ ترتیب کے ساتھ پیش نہیں کیے گئے‘ زبان کی طرف بھی بعض جگہ احتیاط کی جاتی تو اچھا تھا کہ سلف سے اختلاف کے باوجود ان کا ادب بہرحال مستحسن ہے‘ تاہم اُردو زبان میں وحدت الوجود کے مسئلے پر اس فراوانی کے ساتھ گفتگو یقینا ظفراقبال خاں اور محمد طارق نعیم اسدی کا منفرد کارنامہ ہے اور اس عرق ریزی کے لیے وہ یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
برعظیم ہند میں جب تک مسلمانوں کی حکومت رہی یہاں شرعی قوانین نافذالعمل رہے۔ مسلمان حکمرانوں کی عیش پرستی اور نااہلی کے سبب جب برطانوی سامراج نے ہندستان میں قدم جمائے تو اس کے باوجود ۱۸۶۰ء تک یہاں اسلامی قانون ہی کی عمل داری رہی۔ لارڈ میکالے کمیشن کی رپورٹ پر غیرملکی حکمرانوں کے قوانین نافذ ہونے کے بعد بھی مسلمان اسلام ہی کے قانون کو جو صدیوں سے ان کے دل و دماغ پر نقش تھا اور ہے‘ لائق اطاعت سمجھتے رہے ہیں۔ انھوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کر کے ہندوئوں سے علیحدہ اسلامی مملکت اسی لیے قائم کی کہ یہاں اسلام کے عادلانہ قانون کی حکمرانی ہو۔
قرارداد مقاصد منظور ہونے کے بعد اس نوزائیدہ اسلامی ملک کی بیوروکریسی اور فوجی آمریت کی خوے غلامی قوانین شرعیہ کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔ اس کے خلاف پاکستان کے عوام کا مسلسل مطالبہ‘ اسلامی مکاتب فکر کی تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کی جدوجہد اور وکلا کی قانونی جنگ اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی دستورسازی اور اسلامی قانون سازی کریں۔ چنانچہ ۱۹۷۳ء کے آخری آئین کی تشکیل کے بعد ۱۰فروری ۱۹۷۹ء میں قوانین حدود کا نفاذ ہوا جس کی رو سے زنا‘ قذف‘ چوری اور شراب کے جرائم کے ارتکاب پر حد کی مقرر کردہ سزائیں لاگو کردی گئیں۔ ان تمام قوانین کا میاں مسعود احمد بھٹہ ایڈوکیٹ نے زیرتبصرہ تالیف میں بڑی محنت اور کاوش سے احاطہ کیا ہے۔ میں نے کتاب سے متعلقہ متعدد مقامات کو دیکھا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مؤلف موصوف نے قرآن اور سنت کو اس کتاب قوانین الحدود کی بنیاد بنایا ہے۔ قانون کی تعبیر اور تشریح کے لیے بلاتفریق مسلک فقہاے اُمت کی مستند کتابوں میں انھیں جہاں بھی مواد ملا ہے اس کا جابجا حوالہ دیا ہے۔ عصرِحاضر کے ممتاز علما کے متعلقہ قوانین کے بارے میں ریسرچ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے حوالے نہایت ضروری تھے جو انھوں نے کتاب کے حاشیوں میں صحیح طریقے سے درج کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے کتاب کی افادیت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔
اس کتاب کو اُردو میں لکھ کر فاضل مؤلف نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری قومی زبان میں نہ صرف قانون بلکہ اس کے مفہوم اور تشریحات کو بہتر طور پر ادا کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو کو سرکاری اور عدالتی زبان بنانے کے لیے آئین کی دفعہ ۲۵۱ کو نظرانداز کرنے میں حکومت کی سہل انگاری اور عدلیہ کا تغافل شامل ہے جس کی الگ دل خراش داستان ہے جس پر مصنف نے بجاطور پر ماتم کیا ہے۔
نقدونظر کا تقاضا ہے کہ چند ان امور کی بھی نشان دہی کی جائے جو ہمارے خیال میں اصلاح طلب ہیں۔ مولف نے حدسرقہ ساقط ہونے کے بارے میں لکھا ہے: ’’ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ نالش کے ’’فیصلہ‘‘ سے قبل تک مال مسروقہ کی واپسی حد کو باطل قرار دیتی ہے‘‘۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے حدیث صفوانؓ بیان کی ہے جس کی نالش پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سرقہ کے لیے ’’قطع ید‘‘ کا حکم دیا تھا۔ جس پر حضرت صفوانؓ نے کہا کہ وہ مسروقہ چادر سارق کو بطور خیرات دیے دیتے ہیں‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ معاملہ میرے پاس ’’فیصلہ‘‘ آنے سے پہلے کیوں نہ کیا تھا‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بعد اسے اپنے نظریے کے طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ حکم واجب التعمیل فیصلہ بن جاتا ہے۔ یہ سنن نسائی کی حدیث ہے۔ اس کے فن کا پوری طرح جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفوانؓ سے یہ فرمایا کہ انھوں نے خیرات یا معافی کا معاملہ عدالت میں مقدمہ پیش ہونے سے قبل کیوں نہ کرلیا تھا۔ اس کا مطلب ایسا معاملہ فیصلہ کرنے سے قبل کا نہیں بلکہ عدالت کی نوٹس میں لانے سے قبل ہونا چاہیے۔ اصول قانون (science of jurisprodence) سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں امام شافعیؒ کا الرسالہ مستند تحقیقی کام ہے۔ اس علم کا آغاز یورپ میں اٹھارھویں صدی میں ہوا ہے۔
فاضل مؤلف نے شریعت ایکٹ سال ۱۹۹۰ء کا جو حوالہ دیا ہے وہ دراصل غیرشرعی ایکٹ تھا جسے راقم نے فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کر کے سال ۱۹۹۲ء میں قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرایا ہے۔
نفاذِحد کا جائزہ لیتے ہوئے مؤلف موصوف نے سال ۱۹۷۳ء کی دفعہ ۲ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس میں اسلام کے ساتھ لفظ ’’مذہب‘‘ استعمال کرنے سے اسلام کی دینی حیثیت متروک ہوگئی ہے۔ دفعہ (۲) سال ۱۹۷۳ء کے آئین سے پہلے دساتیر میں موجود نہیں تھی۔ سال ۱۹۷۲ء میں راقم نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے آئین ساز اسمبلی کو اور بطور خاص علما حضرات کو اپنی آئینی سفارشات میں یہ تجویز پیش کی تھی جن میں سے یہ ایک ایسی تجویز کو آئین کی دفعہ (۲) بنا دیا گیا ہے۔ Islam shall be the state religion of Pakistan انگریزی میں لفظ "religion"دین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (ملاحظہ ہو المورد قاموس انکلیزی)۔ لغوی معنی سے قطع نظر اصطلاحی طور پر دین اور مذہب ہم معنی لفظ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ریاست جو عدلیہ‘ مقننہ اور انتظامیہ پر مشتمل ہے ان تینوں کا ’’دین‘‘ یا ’’مذہب‘‘ اسلام ہوگا۔ اس لیے یہ تینوں اسلام کے احکام اور قوانین کے پابند ہیں۔
کتاب کے بعض الفاظ سہوِ کتابت معلوم ہوتے ہیں جیسے مستشرقین (Orientalists) کو ’’مستشرکین‘‘ لکھا گیا ہے۔ ثقہ کے لیے سقاہت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ موضوعی کتابیات حروفِ تہجی کے حساب سے ہوتی تو وکلا اور عدلیہ کے لیے باعث سہولت ہوتا۔ (محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ)
فاضل مصنف نے مقدمے میں کہا ہے کہ اگرچہ مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی سچی پیروی کا جذبہ پایا جاتا ہے‘ مگر غفلت‘ بے توجہی اور لاپروائی کی بناپر بہت سے لوگ متعدد کمزوریوں اور تناقضات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پتا نہیں‘ انھیں اس کا احساس بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ (ص ۱۴)
زیرنظر کتاب میں اس ’’احساس‘‘ کو اُجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے عمل کے خواہاں لوگوں کے لیے قرآن و سنت سے اخذ کردہ اس مکمل اور جامع مطالعے کو نو ابواب میں پیش کیا ہے: ۱- مسلمانوں کا تعلق اپنے رب سے‘ ۲- اپنے نفس سے‘ ۳- اپنے والدین سے‘ ۴- اپنی بیوی سے‘ ۵- اپنی اولاد سے‘ ۶- اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے‘ ۷- اپنے پڑوسیوں سے‘ ۸- اپنے بھائیوں اور دوستوں سے‘ ۹- اپنے معاشرے سے۔
مصنف نے اخلاقیات‘ عبادات و معاملات‘ حقوق و فرائض اور تہذیب و تمدن کے متعلق اسلامی تعلیمات کو تفصیل سے یک جا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کے ’’چنگیز سے تاریک تر‘‘ اندروں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
کتاب کا عربی سے اردو ترجمہ ایسے رواں انداز میں کیا گیا ہے کہ اس پر ترجمے کا گماں نہیں ہوتا۔ اپنے موضوع پر یہ منفرد مجموعہ‘ ہر مسلمان کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ بالخصوص داعیانِ دین کی بنیادی ضرورت ہے۔(حمید اللّٰہ خٹک)
آسان طریقے سے عربی سکھانے کا دعویٰ کرنے والی بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن ہر ایک کا اسلوب جداگانہ ہے۔ زیرتبصرہ کتاب اس لحاظ سے نہایت قابلِ قدر ہے کہ اس کے مؤلفین میں مولانا مسعود عالم ندویؒ شامل ہیں۔ مسعود عالم ندویؒ کی عربی زبان و ادب کے لیے خدمات نہایت ہی قابلِ قدر ہیں۔ انھی کے شاگردوں: محمد عاصم الحدادؒ اور مولانا خلیل احمد حامدیؒ نے مولانا مودودیؒ کی فکر کو عربی زبان میں منتقل کیا۔ طویل مدت کے بعد‘ اب دونوں حصوں کو ملا کر خوب صورت اور دیدہ زیب انداز میں شائع کیا گیا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں مولانا مسعود عالم ندویؒ نے ’’عربی زبان اور اس کی تعلیم کا صحیح طریقہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ کسی زبان کو سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے مقدور بھر کسی دوسری زبان کا سہارا نہ لیا جائے‘ اور اہلِ ایمان کی مرتب کردہ ریڈروں سے مدد لی جائے‘‘۔
مقدمے میں مولانا نے عربی ڈکشنری کے حوالے سے لکھی گئی ڈکشنریوں کابے لاگ تجزیہ کر کے بتایا ہے کہ کون سی کتب پر انحصار کیاجاسکتا ہے اور کون سی کتب قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
کتاب میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے جو قاعدہ بیان کیا جائے‘ اسی کی مشق کروائی جائے اور اس سے پہلی مشقوں میں اس سے متعلقہ کوئی جملہ شامل نہ کیا جائے۔ ہر باب میں متعلقہ موضوع کے حوالے سے تمرنیات (مشقیں) شامل کی گئی ہیں جن میں طالب علم اردو میں ترجمہ کرے اور الفاظ و جملوں پر اعراب لگائے تاکہ الفاظ کی صحیح ادایگی ہو اور معانی و مفہوم واضح ہوسکے۔ اسی طرح اُردو سے عربی ترجمہ کرنے کے قابل ہوسکے۔
گویا مولانا مسعود عالم ندویؒ نے عربی زبان کی تدریس کو جدید اور عملی انداز میں پیش کرکے طالب علم اور عربی سیکھنے والے افراد کے لیے نہایت مؤثر‘ عام فہم اورآسان بنا دیا ہے۔ وہ ادارے جو عربی زبان سکھانے کا اہتمام کرتے ہیں‘ یا عربی زبان کی ترویج کرنا چاہتے ہیں بالخصوص مدارس دینیہ اور عربی زبان و ادب کے طلبہ کے لیے یہ کتاب ان شاء اللہ العزیز بہترین زادِ راہ ثابت ہوگی۔ (میاں محمد اکرم)
ایک سیرت نگار کی حیثیت سے‘ شاہ مصباح الدین شکیل کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ اس موضوع پر ربع صدی سے تحقیق و تصنیف میں مصروف ہیں۔ ان کی سیرتِ احمد مجتبٰی ؐکو صدارتی اوارڈ ملا‘ بعدہٗ انھوں نے سیرت النبیؐ البم شائع کیا ‘ اب اسے زیادہ بہتر صورت میں نئے نام نشاناتِ ارضِ قرآن سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب قرآن پاک میں مذکور مختلف انبیاے کرام‘ان کے متعلقہ علاقوں‘ مقامات‘ عمارتوں اور مختلف النوع آثار کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ اسے عکسی تصویروں کے ساتھ ساتھ‘ نقشوں اور دیگر دستاویزات کے ذریعے ایک دل چسپ البم کی شکل دی گئی ہے۔ آغاز حضرت آدم ؑسے ہوتا ہے۔ سری لنکا کے کوہِ آدمؑ کے بعد حضرت ہابیل کے مزار واقع دمشق‘ جدہ میں حضرت حوا کے مزار‘ عرفات اور جبلِ رحمت کے ساتھ ساتھ‘ جدہ کے موجودہ مناظر اور ایک سو یا سوا سو سال پہلے کی مختلف تصاویر‘ مسجدخیف کی تصویر (جہاں ایک روایت کے مطابق تیس سے زائد انبیا مدفون ہیں۔) اسی طرح حضرت ادریس ؑ، حضرت ہود ؑ، حضرت صالحؑ، حضرت ابراہیمؑ اور اس ضمن میں مطاف‘ بابِ کعبہ‘ مقامِ ابراہیم‘ غلافِ کعبہ‘ غسلِ کعبہ اور مسجدحرام سے متعلق نئی پرانی بیسیوں تصاویر شامل ہیں۔ کتاب میں حضرت لوطؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت اسماعیل ؑاور حضرت یعقوبؑ کے آثار و مزارات کی تصویریں اور بیت المقدس کی بہت سی تصویری جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں‘ وعلیٰ ہذا القیاس۔
جناب مصباح الدین شکیل نے نئی پرانی‘ چھوٹی بڑی اور سادہ و رنگین نادر تصاویر کی فراہمی پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ بلکہ موضوع سے متعلق تاریخی حقائق‘ واقعات اور ضروری تفصیلات بھی مہیا کی ہیں۔ اس طرح یہ کتاب قدیم و جدید دور کی ایک بیش بہا تاریخی اور تصویری دستاویز بن گئی ہے جس کی ترتیب میں آیاتِ الٰہی‘ احادیثِ نبویؐ اور جغرافیائی معلومات سے مدد لی گئی ہے۔ ہر صفحے کے نیچے ایک شعر دیا گیا ہے جو صفحے کے نفس مضمون کی رعایت سے ہے۔ اس کا اپنا ایک الگ لطف ہے۔
اس جامع مرقعے کی اہمیت‘ اس لیے بھی ہے کہ اس میں جزیرہ نماے عرب اور فلسطین سے متعلق بیسیوں ایسے آثار کی تصویریں شامل ہیں جو اب معدوم ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں‘ حفیظ تائب اور محمد ابوالخیر کشفی کی تقاریظ شامل ہیں۔ معروف سیرت نگار جناب طالب الہاشمی کہتے ہیں: اس البم کو دیکھ کر آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں اور روح جھوم اُٹھتی ہے۔ شاہ صاحب نے اسے مرتب کرنے میں بڑی ژرف نگاہی اور تحقیق و تفحّص سے کام لیا ہے۔
افسوس ہے کہ اس حسین و جمیل مرقعے پر قیمت درج نہیں۔ لیکن قیمت جو بھی ہو‘ ہر مسلمان گھرانے میں‘ جہاں مطالعے سے کچھ بھی دل چسپی یا رغبت پائی جاتی ہو (اور دین سے وابستگی تو الحمدللہ‘ ہوتی ہی ہے)‘ اگر یہ البم مہیا ہوجائے تو افراد خانہ‘ خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کی معلومات میں بے حد اضافہ ہوگا‘ ان شاء اللہ! عازمین حج و عمرہ‘سفر سے پہلے اسے پڑھ لیں تو وہاں پہنچ کر زیادہ اپنائیت اور موانست محسوس کریں گے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سورۂ یٰسٓ اپنے فضائل اور مضامین کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اسے بجا طور پر قرآن کا دل کہا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کا فہم حاصل کیا جائے تاکہ اس کے حقیقی فیوض و برکات سے استفادہ کیا جا سکے۔
محترم خلیل الرحمن چشتی نے سورۂ یٰسٓ کا ایک منفرد مطالعہ پیش کیا ہے۔ تمام آیات کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے انھیں مختلف عنوانات دیے گئے ہیں۔ یہ حقیقی مفہوم تک پہنچنے میں بہت معاون ہے۔ مختلف آیات کو مرکزی مضمون توحید و آخرت سے مربوط کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے اور علوم القرآن کی مختلف اصناف کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سورہ کے اہم مضامین اور مطالب کو نمایاں کرنے اور فہم کو عام کرنے کے لیے ۸۸ ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔
آیات ۱۳ تا ۳۲ کی روشنی میں سچے حقیقی مومن کی ۱۰ صفات اخذ کی گئی ہیں۔ یہ انداز جہاں اچھوتا ہے وہاں عملی پہلو رکھتا ہے اور مطلوب بھی ہے۔
سورۂ یٰـسٓکا یہ مطالعہ فکرافزا اور ہر اس شخص کے لیے مفید ہے جو قرآن فہمی کا ذوق رکھتا ہو اور اسے مزید جِلا بخشنا چاہتا ہو۔ (ڈاکٹر سید منصورعلی)
مصنف نے قرآن میں مذکور حیوانات کا تعارف‘ ان کی نوعیت اور انسانی زندگی میں ان کی اہمیت و افادیت کو بڑے جامع اور خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کی تالیف میں مولانا عبدالماجد دریابادی کی کتاب حیواناتِ قرآنی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن سے استفادہ کیا ہے۔
قبل ازیں اس موضوع پر مصنف کی تین کتابیں اُردو اور پشتو میں شائع ہوچکی ہیں۔ حیوانات کے اس تذکرے میں مؤلف نے واضح کیا ہے کہ جانور‘ انسان کے لیے عطیّہ خداوندی اور بیش بہا نعمت ہیں مگر ان سے ہمارا سلوک انتہائی نامناسب بلکہ سفّاکانہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم جنگلی حیوانات کو تحفظ فراہم کریں اور ان کے ساتھ بدسلوکی سے باز رہیں تو اُن سے بہتر طور پر مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ اس طرح اپنی عاقبت بھی سنوار سکتے ہیں۔
مصنف کا خیال ہے کہ انسان کے برعکس جانور کبھی قانونِ فطرت کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور وہ اس کی پابندی سے خداے واحد کی عبادت اور تسبیح کرتے ہیں۔ مؤلف نے مختلف مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ جانوروں کا وجود انسان کو دعوتِ غوروفکر دیتا ہے۔ پیشِ نظر کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان اور حیوان کا رشتہ ازل سے قائم ہے۔
مجموعی طور پر کتاب دل چسپ اور لائقِ مطالعہ ہے۔ (اے ڈی جمیل)
شمائل ترمذی ، حدیث کی وہ مشہور کتاب ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا کے بارے میں روایت کی گئی تمام احادیث کو یکجا کر دیا گیا ہے اور ان احادیث میں اتنی تفصیل ہے کہ انسان حیران ہوجاتا ہے اور وہ رسول اکرمؐ کے رفقاے کرام یعنی صحابہؓ کے بارے میں سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ انھوں نے کیمرہ اور فلم نہ ہونے کے باوجود اپنے محبوبؐ کی تصویر اتنی جزئیات کے ساتھ محفوظ کی ہے کہ آج برسوں گزرنے کے بعد بھی ہم آپؐ کو گویا کہ نظروں کے سامنے پاتے ہیں۔ سر کے بالوں سے لے کر قدموں تک‘ کیا چیزہے جو بیان نہیں کی گئی۔ میں نے ایک صفحہ کھولا تو عنوان ملا: انگلیاں‘ پوٹ‘ تلوے اور قدمین مبارک۔ دوسرا صفحہ دیکھا تو عنوان ہے: المسربۃ (حلقوم کے نیچے گڑھا) سے ناف تک بالوں کی باریک لکیر۔ اسی طرح آپؐ کی آنکھوں کے بارے میں‘ ہونٹوں کے بارے میں‘ گردن اور بازوئوں کے بارے میں مشاہدہ کرنے والوںنے ہر تفصیل بیان کردی ہے۔ اسی طرح چال ڈھال اور دیگر معمولات کھانے پینے‘ رفع حاجت کے طریقے تک کی تفصیل نظر آئے گی۔ مجلد خوب صورت پہلی کتاب میں مولانا عبدالقیوم حقانی نے شمائل ترمذی کی ۴۸ احادیث اور دوسری میں ۱۲حدیث کی تشریح کی ہے اور یوں جمال محمدؐ کا دلربا منظر پیش کر کے روئے زیبا کی تابانیاں دکھا دی ہیں ؎
اِذَا نَظَرْتُ اِلٰی اَسِـرَّۃِ وَجْھِہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَھَلَّلِ
جب میں نے اس کے روے تاباں پر نگاہ ڈالی تو اس کی شانِ رخشندگی ایسی تھی جیسے کہ کسی لکۂ ابر میں بجلی کوند رہی ہو۔ (مسلم سجاد)
قارئین میں ابھی کچھ لوگ ایسے ضرور ہوںگے جنھوں نے جناب اے کے بروہی (م: ۱۹۸۷ئ) کو سنا ہوگا۔ ان کی انگریزی تقریر کا لطف سننے والوں کے لیے اب بھی تازہ ہوگا۔ انگریزی میں بیان پر ان کی قدرت‘ ان کا نرم و شیریں لہجہ اور اتارچڑھائو کے ساتھ دریا کے بہائو جیسی روانی‘ اور پھر بلند اور اعلیٰ مضامین! عدالت میں انھیں سننے کا موقع ملا اور دانش وروں کے اجلاس میں بھی۔ انھوں نے ۶اور ۷ مارچ ۱۹۷۶ء کو فیصل آباد (اس وقت کے لائلپور) میں سیرتؐ کے موضوع پر دوتقاریر کیں جن کا موضوع یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے معلم تھے اور آخری نبی تھے۔ اس سادہ سی بات کو جناب بروہی صاحب نے جس طرح پیش کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے اور اس کا لطف حقیقی انگریزی جاننے والے اسے پڑھ کر ہی اٹھا سکتے ہیں۔ یہ خطبات زرعی یونی ورسٹی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد نے رفقا کے تعاون سے شائع کیے ہیں۔ (م - س)
سماجی بہبود‘ تہذیب و معاشرت کا ایک اہم موضوع ہے۔ مسلمانوں میں بھی سماجی بہبود کی روایت نہایت پختہ رہی ہے لیکن آج ہم اس موضوع کو مغرب میں سماجی بہبود کے تناظر ہی میں دیکھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و احادیث اس ضمن میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس نے زیرنظر تصنیف میں‘ ہمیں یہی سبق یاد دلایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے خاصے تحقیقی انداز میں موضوع کا احاطہ کیا ہے اور ان تمام سماجی سرگرمیوں کی نشان دہی کی ہے جو سماجی بہبود کی ذیل میں آتی ہیں۔ انھوں نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سماجی بہبود کی اہمیت اور رفاہِ عامہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی اقدامات کی نشان دہی کی ہے مثلاً: معاشرے میں فروغِ علم‘ علاج معالجہ اور بیماروں کی عیادت‘ معذور افراد کی مدد‘ حیوانوں کی فلاح و بہبود‘ ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ‘ پانی کا انتظام اور شادی کا انتظام وغیرہ۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ عمل اور قابلِ قدر کتاب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
زیرنظر فہرست جناب ضیاء اللہ کھوکھر کے ذاتی کتب خانے میں موجود ۱۳۰۰ سفرناموں کی فہرست ہے۔ پہلے‘ بہ اعتبارِ اسماے کتب‘ الفبائی ترتیب سے سفرناموں کی مختصر فہرست (نام کتاب‘ نام مصنف‘ مقام اشاعت) دی گئی ہے‘ بعدہٗ دوسری (بہ اعتبارِ مصنفین) فہرست میں مزید کوائف (ناشر‘ سنہ اشاعت‘ ضخامت‘ نام ملک) بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آخری حصے میں ایسی کتابوں کی فہرست ہے جن میں کچھ جزوی سفرنامے ہیں یا سفرناموں سے اقتباسات یا انتخاب یکجا کیے گئے ہیں--- ’’اشاریہ‘‘ زیرنظر کتاب کی اضافی مگر اہم خوبی ہے‘ اس کی مدد سے قاری کسی خاص ملک کے سفرناموں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے‘ مگر یہ اشاریہ قاری کی صرف جزوی رہنمائی کرتا ہے‘ مگر اس ضمن میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ:
اوّل: اشاریہ صرف ۱۹ عنوانات (تراجم‘ مترجم (نامعلوم) مرتبہ‘ منظوم‘ خواتین‘ حرمین شریفین (حج و عمرہ)‘ پاکستان/آزاد کشمیر‘ بھارت‘ امریکا‘ ایران وغیرہ) پر مشتمل ہے۔ باقی بیسیوں ممالک بہت سے علاقوں اور بعض شہروں کے عنوانات اشاریے میں نہیں بنائے گئے۔
دوم: اشاریے میں پہلی فہرست کے بجاے دوسری فہرست (بہ اعتبار اسماے مصنفین) کا حوالہ دینا بہتر تھا۔
سوم: اشاریے میں دو دو عنوانات (حج /عمرہ‘ پاکستان/آزاد کشمیر‘ سوویت یونین/ روس) کے تحت حوالوں کو ملانا مناسب نہ تھا‘ مثلاً: پاکستان/ آزاد کشمیر کے تحت ۱۲۹ حوالے دیے گئے ہیں۔ اگر قاری صرف آزاد کشمیر کے سفرناموں تک رسائی چاہتا ہے تو اُسے یہ سب ۱۲۹ حوالے دیکھنا ہوں گے حالانکہ آزاد کشمیر کے سفرنامے‘ ممکن ہے/مثلاً: صرف ۲۹ یا اس سے بھی کم ہوں۔
اس سے قطع نظر مؤلف نے یہ فہرست بہت محنت و کاوش اور سلیقے سے مرتب کی ہے اور ان کی یہ کاوش ہر لحاظ سے قابلِ داد ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ انھوں نے یہ کام‘ کسی منصبی مجبوری سے یا کسی ڈگری کے لیے نہیں‘ بلکہ ذاتی ذوق و شوق سے انجام دیا ہے--- یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اپنے والد ماجد عبدالحمید کھوکھر مرحوم کی یاد میںقائم کردہ ان کا کتب خانہ ۳۰ ہزار سے زائد کتابوں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ رسائل و جرائد پر مشتمل ہے۔ مادہ پرستی کے اس دور میں کتب اندوزی کا یہ غیرنفع بخش شغف‘ عشق و دیوانگی کی ایک نادر مثال ہے۔
یہ ایک دل چسپ اور قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ سرورق جاذبِ نظر اور طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ متعدد سفرناموں کے رنگین اور سادہ سرورق بھی شامل ہیں۔ (ر-ہ)
اس کتاب میں کشمیر کے مسئلے کی انسانی لاگت پر نہایت پُرمغز‘ مدلل اور حقائق پر مبنی تحقیق کی گئی ہے۔ اس میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے والے کشمیریوں کی قانونی حیثیت کا جائزہ عالمی‘ پاکستانی‘ بھارتی‘ مقبوضہ و آزادکشمیر کے قوانین کی رو سے لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انھیں قانون کی اصطلاح میں refugee یا displaced pesson کہا جانا چاہیے۔
۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۲ء یعنی بارہ برسوں میں ۷۵۰ کلومیٹر طویل کنٹرول لائن کے اطراف میں کم و بیش ہر علاقے سے ہجرت ہوئی ہے۔ مقبوضہ سے آزاد کشمیر کی جانب ہجرت کرکے آنے والوں کی رجسٹرڈ تعداد ۱۹ ہزار سے زائد ہے جو ۳۲۸۱ خاندانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت مختلف مقامات پر قائم ۱۵ کیمپوں میں پناہ گزین ہے‘ جب کہ غیررجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد ۱۷ہزار کے لگ بھگ ہے۔ معلومات اور لٹریچر کی کمی کی وجہ سے مہاجرین کے بارے میں تحقیق کے لیے فیلڈورک خصوصاً انٹرویوز اور مشاہدات پر انحصار کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ مہاجرین ہجرت کے نتیجے میں بھارت کے جسمانی تشدد یا موت کے خوف سے آزاد ہوگئے ہیں مگر وہ اپنی سرزمین (مقبوضہ کشمیر)کے ساتھ پوری طرح وابستہ ہیں اور واپسی کے خواہش مند ہیں۔ یوں ان کی مستقل بحالی کی حقیقی کوشش تو یہی ہوسکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو اور وہ پُرامن ماحول میں اپنے گھروں کو لوٹ سکیں تاہم موجودہ عارضی قیام میں انھیں انسانی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہنچانا‘ حکومت‘ سول سوسائٹی اور عالمی اداروں کی اہم ذمہ داری قرار پاتا ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر اور پاکستان میں بہت سی سہولتوں کے باوجود غیریقینی کیفیت کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں قانونی دستاویزات کی عدم موجودگی اور اس سلسلے میں منفی حکومتی رویہ ان کی بے چینی اور اضطراب میں کئی گنا اضافے کاسبب ہے (ص ۱۷)۔ پاکستانیات اور کشمیر سے دل چسپی رکھنے والوں اورکشمیری مہاجرین کی امداد کے لیے سرگرم اداروں کے ذمہ داروں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ معلوماتی کتاب ہر لائبریری میں ہونا چاہیے۔ (محمد الیاس انصاری)
ڈاکٹر نجمہ محمود علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں انگریزی کی استاد رہ چکی ہیں۔ سید حامد بھارت کی سول سروس میںاہم انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ آج کل ہمدرد یونی ورسٹی نئی دہلی سے بطور چانسلر وابستہ ہیں۔ ان کا نام بطور دانش ور‘ ادیب اور سماجی راہنما کے بہت اہم گردانا جاتا ہے۔ انھوں نے ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے بھی بھرپور کام کیا ہے۔
نجمہ محمود نے زیرِنظر کتاب میں‘ سید حامد کی شخصیت کے تمام پہلوئوں کو بڑی خوب صورتی اور چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ وہ ان کی شخصیت کو خارجی سطح ہی پر نہیں‘ داخلی سطح پر بھی پرکھنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ انھوں نے سید حامد کی ذات میں چھپے ہوئے اس جذبے کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت سید حامد نہ صرف دانش ور اور سماجی راہنما بلکہ ایک سچے اور پُرخلوص مسلمان نظر آتے ہیں۔ سید حامد کی قومی و ملّی خدمات کے علاوہ ان کی ادبی و تنقیدی اور شعری تخلیقات کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ مجموعی اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ نجمہ محمود کا تجسس انھیں دائرے سے سوئے مرکز لے جاتا ہے اور یہ مرکز اور دائرے مکمل اور مربوط ہیں۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
پروفیسر نور وَرْجان ‘ قبل ازیں متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کرچکے ہیں‘ مثلاً مولانا معین الدین خٹک: احوال و آثار (لاہور‘ ۲۰۰۱ئ) اور اسلام اور عصرِحاضرکا چیلنج از مولانا معین الدین خٹک (لاہور‘ ۲۰۰۱ئ) وغیرہ۔ سید مودودی سرحد میں پروفیسر موصوف کی تازہ تحقیقی کتاب ہے جس میں انھوں نے صوبہ سرحد میں جماعت اسلامی کو منظم کرنے اور وہاں دعوتِ دین پہنچانے کے ضمن میں سید مودودی کے کارنامے کی تفصیل بیان کی ہے۔
انھوں نے مختصر مدت میں اخبارات اور جماعت کے جملہ رسائل کا ریکارڈ دیکھا‘ پڑھا اور یہ کتاب مرتب کر دی۔ میری نظر سے ایسی کوئی کاوش ابھی تک نہیں گزری جس میں سید مودودیؒ کے دوروں کو اس طرح مرتب انداز میں پیش کیا گیا ہو۔ میرا اور ارباب عون اللہ مرحوم کا یہ خیال تھاکہ سید مرحوم صوبہ سرحد میں سات مرتبہ تشریف لائے مگر پروفیسر موصوف نے سیدکے ۱۲دورے ثابت کیے ہیں۔
سید مودودی سرحد میں پروفیسر نورورجان کی بہترین کاوش ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے‘ میں زمانۂ ماضی میں کھو گیا۔ دوروں کا چشم دید گواہ ہونے کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامّل نہیں کہ تحقیق قابلِ داد ہے اور پیرایۂ بیان عمدہ ہے۔ محسوس ہوتا ہے‘ قاری سید مودودیؒ کے ساتھ قدم بہ قدم چل رہا ہے۔ دوروں سے متعلق بعض نادر دستاویزات بھی شاملِ کتاب ہیں۔
اسلامیہ کالج پشاور میں مولانا مودودیؒ کی تقریر ’اسلام اور جاہلیت‘ (فروری‘ ۱۹۴۱ئ) سے قبل ایک واقعے کا ذکر دل چسپی سے خالی نہیں۔ ہوا یہ تھا کہ سید مرحوم و مغفور کے دورے سے قبل انگریز کی مرکزی حکومت کی طرف سے مقامی انتظامیہ کو ہدایت موصول ہوئی تھی کہ مولانا مودودی پشاور میں تقریر کے لیے آنے والا ہے۔ یہ خطرناک آدمی ہے‘ اس کی نگرانی کی جائے۔ متعلقہ تھانے کے منشی تاج محمد آف اکبرپورہ نے یہ انگریزی حکم نامہ پڑھ کر اس پر عمل درآمد کیا۔ مگر بعد میں جب تاج محمد نے مولانا مودودیؒ کی کتاب تنقیحات پڑھی تو اس قدر متاثر ہوئے کہ مولانا مودودیؒ کو خط لکھ کر جماعت اسلامی کا رکن بننے کی درخواست کی۔جواب ملا: پولیس اور فوج کے ملازمین کو جماعت اسلامی کا رکن نہیں بنایا جاتا۔ تاج محمد مرحوم نے پولیس کی ملازمت سے استعفا دیا اور جماعت کی رکنیت اختیار کرلی۔
مؤلف نے پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع تک‘ جگہ جگہ سے تحقیق کرکے‘ استفسارات کرکے‘ اور انٹرویو لے کر ۱۹۱ صفحات کی مختصرکتاب میں بیش قیمت اور مفید معلومات یک جا کر دی ہیں یعنی دورے کب کب کیے؟ تقریریں اور ان کے سامعین میں سرکردہ افراد کون تھے اور ان کے تاثرات کیا تھے۔ یہ معلومات بعد میں مرتب ہونے والی مفصل کتابوں کے لیے مفید اور معاون ثابت ہوں گی۔
پروفیسر موصوف‘ سید مودودیؒ کے بیرونی سفروں کی روداد بھی مرتب کردیں تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔ کتاب دیدہ زیب ہے اور قیمت مناسب ہے۔ (سید فضل معبود)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ایک ایسی نہ ختم ہونے والی تصویر ہے جس کے کسی رخ کا کتنا ہی احاطہ کیوں نہ کیا جائے‘ تشنگی کا احساس باقی رہتاہے۔ زیرتبصرہ کتاب کو سیرت پر اوّل انعام ملاہے۔ پیش کش کے لحاظ سے اس خوب صورت کتاب میں ۲ سو سے زیادہ عنوانات کے تحت آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ ایک دفعہ کوئی اسے ہاتھ میں لے لے تو سیرتؐ کی کشش اور خوب صورت پیش کش‘ کتاب کو خود پڑھواتی ہے اور قاری کے سامنے اوّل تا آخر آپؐ کی زندگی کے تمام گوشوں کاکوئی نہ کوئی عکس سامنے آتا ہے۔ اگر ہم کچھ موضوعات کا ذکر کر دیں تو اس سے کتاب کی وسعت متاثر ہوگی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہر واقعے کے ساتھ حدیث کی کتاب کا حوالہ اسی صفحے پر درج کیا گیا ہے جس نے اس کتاب کی قدروقیمت میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔ (مسلم سجاد)
امام عبداللہ الذہبی کا قول ہے کہ جو قوم اپنے اسلاف و اکابر کے صحیح اور سچے حالات سے بے خبر ہے اور اس کو علم نہیں کہ اس کے راہبروں اور بزرگوں نے دین و ملّت کی کیا خدمت انجام دی ہے‘ ان کے اعمال کیسے تھے‘ وہ کیا کرتے تھے اور کیا کہتے تھے‘ وہ قوم تاریکی میں بھٹک رہی ہے‘ اور یہ تاریکی اُس کو گمراہی میں بھی مبتلا کرسکتی ہے۔
جناب طالب الہاشمی ایک خوش بخت انسان ہیں کہ ان کی تمام تر تحریری اور تصنیفی صلاحیتیں بزرگانِ سلف اور اکابرِ دین و ملّت کے قابلِ تقلید نمونوں کو‘ بذریعہ تحریر‘ افرادِ اُمت تک پہنچانے میں صرف ہو رہی ہیں۔ سیرت النبیؐ، تاریخ اسلام اور اکابرِ اُمت ان کے مرغوب موضوعات ہیں۔ یہ تیرے پُراسرار بندے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس سے پہلے یہ کتاب دس گیارہ مرتبہ چھپ چکی ہے۔ زیرنظر اڈیشن میں بہت سے اضافے کیے گئے ہیں۔ اب یہ دل پذیر تذکرہ ۱۲۰ مشاہیرِ اُمت کے ذکر و اذکار پر مشتمل ہے جن میں ۸۰ صحابہ کرام اور ۴۰ دیگر اکابر ہیں۔
جناب طالب الہاشمی مشاہیر کی زندگیوں کے قابلِ رشک اور لائقِ تقلید پہلوئوں کی تصویرکشی سہل زبان اور سادہ اسلوب میں کرتے ہیں۔ تاریخِ اسلام کی یہ قدآور شخصیتیں اسلامی طرزِحیات کا عمدہ نمونہ ہیں۔ احوال وواقعات کے بیان میں مصنف نے صحتِ زبان کے ساتھ ساتھ لوازمے کے استناد کا بھی اہتمام کیا ہے۔
گو یہ کتاب طویل ہے‘ لیکن اس کے اندر ذکرِ اخیار‘ ایسا دل چسپ ہے کہ مطالعہ کرتے ہوئے ‘اُکتاہٹ نہیں ہوتی بلکہ بعض کرداروں سے ایک عجیب قربت اور دل بستگی کا احساس ہوتا ہے۔ پتا چلتا ہے کہ اُمت کی تعمیر و ترقی اور سربلندی میں کس کا اور کتنا خونِ جگر شامل ہے۔ اس کتاب میں بھی فاضل مصنف نے حسبِ سابق صحتِ املا و اعراب اور رموزِ اوقاف کا حتی الوسع پورا اہتمام کیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اسدملتانی (۱۹۰۲ئ-۱۹۵۹ئ) ایک نامور شاعر‘ادیب اور ہمدردِ ملک و ملّت شخص تھے۔ علامہ اقبال نے ’آیندہ پنجاب کی ادبی روایات کو برقرار رکھے جانے کی اُمیدیں‘ جن دو نوجوانوں سے وابستہ کی تھیں‘ اسدملتانی ان میں سے ایک تھے (دوسرے: محمد دین تاثیر تھے)۔ مولانا ماہرالقادری کے نزدیک: ’’وہ ایک مصلح اور صاحبِ پیغام شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں سادگی و سلاست‘ بندش کی چُستی اور صفائی کے ساتھ گہرا خلوص اور فکر کی بلندی پائی جاتی ہے۔ علامہ اقبال سے وہ شدید متاثر تھے‘‘۔
پروفیسر جعفر بلوچ نے مرحوم کا حمدیہ و نعتیہ کلام جمع و مرتب کیا ہے۔ پروفیسر موصوف‘ قبل ازیں اقبالیاتِ اسد ملتانی کے عنوان سے‘ اقبال سے اسدمرحوم کے ربط و ضبط کی تفصیل‘ نیز اسد کی اقبالیاتِ نظم و نثر جمع کر کے شائع کرچکے ہیں۔ زیرنظر مجموعے کے ابتدا میں‘ اسد کی شاعری پر سیرحاصل تبصرہ ہے‘ پھر اس بارے میں متعدد اکابر (حامد علی خاں‘ ضمیر جعفری‘ محمد عبدالرشید فاضل اور منشی عبدالرحمن خاں وغیرہ) کی آرا دی گئی ہیں۔
اسدملتانی کے ہاں فکرونظر اور اظہار و اسلوب میں ایک پختگی‘ ٹھیرائو اور توازن ملتاہے۔ یہ مجموعہ ایک سچے اور کھرے مسلمان شاعر کے جذبات کا آئینہ ہے۔ حمدونعت کے اس مجموعے میں چھوٹے چھوٹے قطعات کی صورت میں‘ سفرِحج کے مختلف مراحل کے منظوم تاثرات بھی شامل ہیں۔ کتابت و طباعت عمدہ اور معیاری ہے۔ (ر- ہ)
دنیا بھر میں یہودیت کے پیروکار تقریباً اڑھائی کروڑ ہوں گے لیکن جس قوم نے ماضی میں حددرجہ ہزیمتیں اٹھائیں مگر دورِ جدید میں مادی اور سیاسی کامیابیاں سب سے زیادہ حاصل کیں‘ وہ یہود ہی ہیں۔
یوسف ظفر مرحوم نے یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کی تفصیلی تاریخ بیان کرنے کے بعد‘ موجودہ دور میں مسلم یہودی مخاصمت کو تاریخ کے پس منظر میں سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے پیش لفظ میں بجا طور پر لکھا ہے کہ اُردو زبان میں یہودیت کے موضوع پر اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد اور وقیع کاوش ہے۔
مصنف نے بتایا ہے کہ بنی اسرائیل‘اوائل ہی میں اخلاقی انحطاط کا شکار ہوگئے تھے۔ وہ ذلت و پستی کے اس درجے پر راضی ہوچکے تھے کہ اپنے بچوں کا قتلِ عام بھی انھیں فراعنۂ مصر کے خلاف بغاوت پر نہ اُکسا سکا اور وہ اپنی بچیوں کی بے حُرمتی کو بھی گوارا کر گئے (ص ۳۵)۔ پھر انبیا کے انکار‘ اور پیرویِ نفس کے نتیجے میں یہودیوں کو مختلف ادوار میں طرح طرح کی ذلتوں اور ہزیمتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ آج بھی یہودی ربی جلاوطنی اور بے آبروئی کے اُس دور کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں اور وہ سامعین کو بھی رُلاتے ہیں‘ تاکہ یہ واقعات اُنھیں اسرائیل کی حفاظت پر چوکنّا رکھیں۔ پھر یوسف ظفر نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودیوں کے طرزِعمل اور اسلامی ریاست کے خلاف ان کی سازشوں کا سرسری جائزہ لیا ہے۔ دورِ جدید میں یہودیوں نے اقتصادیات‘ بنک کاری‘ سفارت کاری‘ اور مختلف علوم و فنون میں مہارت پیدا کر کے اپنی دھاک بٹھالی ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ یہودی ریاست کے قیام کے لیے تھیوڈور ہرزل نے سخت محنت و کاوش کی۔ یہ بھی تاریخ کا ایک دل چسپ باب ہے کہ بہت سے معروف لوگ‘ مثلاً آئن سٹائن‘ بل گیٹس‘ سگمنڈ فرائیڈ اور کارل مارکس یہودی النسل ہیں۔ اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ئ) کی بنیاد پر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل قائم ہوا تو صہیونیوں نے فلسطینی مسلمانوں سے اپنی چار ہزار سالہ بے بسی اور ذلت کا انتقام لینے کی ٹھان لی (حالانکہ مسلمان ان کی ذلت کے ذمہ دار نہ تھے) اور آج فلسطین میں چھے ماہ کے بچوں سے لے کر اسّی سالہ بوڑھے تک اُن کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
یوسف ظفر نے نہایت قیمتی اور چشم کشا معلومات پر مبنی کتاب لکھ کر مسلم اہلِ دانش کو دعوتِ غوروفکر دی ہے۔ ہمیں ایسی جامع‘وقیع اور مبنی برحقائق مزید کتابوں کی ضرورت ہے تاکہ بقول محمد افضل چیمہ: ’’ہرپاکستانی کو یہودیوں کے خبثِ باطن‘ ان کی نفسیات اور شرم ناک تاریخی کردار سے روشناس کرایا جائے‘‘۔ (محمد ایوب منیر)
قانونِ شفعہ بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات‘ بالخصوص قرآن کریم سے ماخوذ ہے۔ ہمارے ہاں یہ قانون ۱۹۱۳ء کے ایکٹ کی شکل میں نافذ العمل رہا۔ تاہم اس دوران میں ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۲ء کے مارشل لا ریگولیشن ۲۵ میں ۱۹۱۳ء کے اس ایکٹ میں ترمیم کر کے شفعہ کے حق داروں کی فہرست(دفعہ ۱۵) میں سب سے بنیادی استحقاق مزارع کو دے دیا۔ یہ چیز سوشلسٹ فکر سے قریب تر اور اسلامی تعلیمات سے بعید تر تھی۔ سلیم محمود چاہل نے اس قانون کے مضمرات پر سیرحاصل بحث کی ہے‘ اور عدل کے ایوانوں میں اٹھنے والے مباحث کو پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس ضمن میں بلاشبہہ شریعت پنج کے جج صاحبان یا فقہا کی آرا سے تشریحی امور پر اختلاف کی گنجایش کو راست‘ متوازن اور عدل پر مبنی اسلوب میں بیان بھی کیا جا سکتا ہے۔
مصنف نے اس موضوع کے حوالے سے حدیث اور سنت کی تغلیط‘ فقہ کی تردید اور دینی روایت کی تحقیر کو اپنا ہدف بنانے کی کوشش کی ہے۔ تشریح و تعبیر میں اختلاف اور بحث کی گنجایش سے ہرگز انکار نہیں لیکن ایک الجھے ہوئے اسلوب میں چند درچند مباحث‘ واقعات اور باتوں کو انھوں نے کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اصل موضوع خبط ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ قانون شفعہ کی بحث کا سہارا لے کر ذخیرۂ حدیث کو یوں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا کہ ادب اور انصاف ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ (سلیم منصور خالد)
یہ کتابچہ ایک لیکچر پر مبنی ہے‘ جس میں قرآن‘ حدیث اور سنّتِ رسولؐ کی روشنی میں‘ عالمِ اسلام کی موجودہ صورتِ حال کا اصولی تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیش تر اسباب و علل اور نتائج تو ظاہر ہیں۔ مجرد اصول بیان کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا‘ اس کے لیے لامحالہ‘ منصوبۂ کار اور دائرۂ کار بھی پیش کیا جائے تو کسی بہتری کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
کتابچے میں جہاں اُمتِ مسلمہ کے سیاسی و اجتماعی مسائل پر اشارے کیے گئے ہیں‘ وہاں ابہام یا تضاد کا تاثر اُبھرتا ہے ‘ اور اُمت کے اجتماعی معاملات کے لیے قاری رہنمائی کا منتظر رہ جاتا ہے۔ دو تین جملے بلاتبصرہ پیش ہیں: ’’خلافت کا نفاذ اسلام کے مجموعی نظام کا ایک حصہ تھا‘ نہ کہ غایت۔ لیکن عصرِحاضر کی جن جن [اسلامی]تحریکوں نے اسے غایت کے طور پر اپنایا‘ انھیں کہیں نہ کہیں شرکیات [شرک] سے صرفِ نظر کرنے یا اس کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر مجبور ہونا پڑا‘‘ (ص۷)۔ ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب کی اصلاحی اور تجدیدی تحریک‘ خالص توحیدِ الٰہی کا بول بالا کرنے اور شرکات کی بیخ کنی کے لیے شروع [ہوئی] تھی‘ دو سو سال گزرنے کے باوجود‘ اس کے بابرکت اثرات سعودی عرب میں دیکھے جا سکتے ہیں‘ جن میں شریعت کا نفاذ سرِفہرست ہے‘‘ (ص ۸)۔ ’’مجلسِ عمل ایک انتہائی خوش آیند کوشش ہے‘ لیکن یہ اتحاد بغضِ معاویہ کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے‘‘ (ص۲۴)۔ یہ اور ایسی ہی دیگر متضاد آرا‘ غوروفکر‘ تبصرے اور تجزیے کا تقاضا کرتی ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طاغوت کا مقابلہ محض چند اصولی باتوں کی تذکیر سے ہوگا؟ یا مثبت طور پر علمی‘ اجتماعی اور سیاسی سطح پر اداروں کی تشکیل سے یہ جواب دیا جائے گا۔ (س- م- خ)
’دریا کو کوزے میں بند‘ کرنے کی مثال غالباً اس کتاب پر صادق آتی ہے جس میں صرف ۱۸۴ صفحات میں ۲۰۰ سے زیادہ عنوانات کے تحت اللہ تعالیٰ‘ انسان اور اللہ تعالیٰ اور انسان کے تعلق کے موضوع پر تین ابواب میں عام فہم لیکن تحقیقی انداز سے تمام متعلقہ مباحث کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور انسان کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ڈارون کے نظریۂ ارتقا پر صرف ۶صفحات میں مکمل ردّ پیش کر دیا گیا ہے۔
پہلے باب میں وجودِ باری تعالیٰ ‘ مختلف مذاہب کا تصورِ الٰہ اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمراہ کن نظریات کی تردید کی گئی ہے۔ اس حوالے سے وحدت الوجود‘ وحدت الشہود اور حلول کے نظریات کا بیان اور ردّ آگیا ہے۔ دوسرے باب میں انسان کی تخلیق‘ مراحلِ تخلیق‘ مقصدِ تخلیق اور نظریۂ ارتقا پر بحث کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں خالق اور مخلوق‘ عابد اور معبود اور محتاج اور غنی کا تعلق بیان ہوا ہے۔ اس ضمن میں زبانی عبادتوں کے حوالے سے انبیا علیہم السلام کی دعائیں‘ دل سے عبادت کے حوالے سے ایمان‘ محبت اور رجا‘ جسمانی عبادت کے حوالے سے نماز‘ حج اور مالی عبادات کے حوالے سے زکوٰۃ‘ صدقہ‘ نذر اور قربانی کا ذکر ہے۔ آخری حصے میں یہ بحث ہے کہ تکلیف اور پریشانی میں انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس ضمن میں عام طور پر جو شرک کی صورتیں اختیار کی جاتی ہیں‘ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درست وسیلے بتائے گئے ہیں‘ مثلاً: صدقہ خیرات‘ اعمالِ صالحہ‘ صبر و نماز اور خدمتِ خلق وغیرہ۔ (مسلم سجاد)
زیرِنظر کتاب جلیل احسن ندوی مرحوم کی مرتب کردہ احادیثِ نبویؐ کی کتاب زادِ راہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہے۔ مترجم کی نظر میں: احادیثِ مبارکہ کے اس مجموعے کے ذریعے‘ اسلام کو جدید دنیا اور بالخصوص امریکی معاشرے میں‘ واحد طرزِ زندگی کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے‘ اور قارئین کو باور کرایا جا سکتا ہے کہ صرف اسلام ہی پریشان اور مصیبت زدہ انسانیت کو عدل و انصاف اور امن و امان مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہی آخرت میں نجات کی ضمانت دلاتا ہے۔
مترجم نے کتاب کے دیباچے میں اسلامی تحریکوں کی کامیابی اور ناکامی پر بحث کی ہے۔ (بظاہر ‘ یہاں اس بحث کا محل نہیں ہے) ان کا خیال ہے کہ اسلامی تحریکوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوبِ دعوت اور طریق کار کو اپنانے میں کوتاہی کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسوۂ حسنہ کی روشنی میں موجودہ اسلامی تحریکات کو بھی جاہلی معاشروں سے اسی سانچے میں ڈھلے ہوئے افراد نکالنے ہوں گے۔ اور یہ کام ان کی ترجیحات میں سرِفہرست ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی مقصد کے پیشِ نظر میں نے زادِ راہ کو منتخب کیا۔یہی جذبہ اسے انگریزی میں منتقل کرنے کا محرّک بنا ہے۔ انھیں امید ہے کہ معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی بلکہ زندگی کے جملہ معاملات پر مشتمل‘ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کا یہ مجموعہ‘ امریکا میں کارکنانِ تحریک کی کردار سازی‘ ان کے اہل و عیال کی زندگیوں میں اسلامی اصولوں کو پروان چڑھانے اورانھیں ذمہ دار شہری بنانے میں مددگار ہوگا۔ نیز یہ مجموعہ دعوتی کام میں گرم جوشی پیدا کرے گا۔
مؤلف نے زادِ راہ کے اردو ترجمے اور تفسیر میں ترجمانی کا اسلوب اپنایا ہے۔ مترجم نے اسے محنت کے ساتھ انگریزی زبان میںمنتقل کرنے کی کوشش کی ہے‘ اگرچہ ترجمے کی زبان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ترجمے میں عربی زبان کی متعدد اصطلاحات کو برقرار رکھاگیا ہے۔ ہمارے خیال میں ان اصطلاحات کے انگریزی مترادفات بھی دینا ضروری تھا۔ یا ان کی وضاحت دیباچے میں ہوجانی چاہیے تھی۔ (S) اور (R) جیسے تخفیفی حروف کی وضاحت کی بھی ضرورت تھی۔ (خدا بخش کلیار)
سلطان نورالدین محمود زنگی (۵۱۱ھ-۵۶۹ھ) بارھویں صدی عیسوی میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا پیش رو تھا۔ وہ ایک درویش منش‘ خدا ترس اور متقی شخص تھا۔ اس نے اپنے دور میں مسلم سلطنت پر صلیبیوں کی یلغار کا کامیاب دفاع کیا۔ عیسائی مؤرخین نے بھی اس کی صدق شعاری‘ عدل وا نصاف اور شجاعت و بہادری کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اس نے بیت المال کو کبھی خوانِ یغما نہیں سمجھا بلکہ وہ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی مالِ غنیمت میں سے اتنا ہی حصہ وصول کرتا جس قدر عام سپاہیوں کو ملتا۔ ایک دفعہ اس کی چہیتی ملکہ نے تنگیِ خرچ کی شکایت کی۔ نورالدین نے جواب دیا: ’’بانو! افسوس ہے تمھاری خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کا خوف بیت المال کی طرف میرا ہاتھ بڑھنے نہیں دیتا‘ یہ مسلمانوں کا مال ہے۔ میں صرف اس کا امین ہوں اور اس میں سے ایک درہم کا بھی مستحق نہیں‘‘۔ (ص ۱۷-۱۸)
سلطان نورالدین وہی خوش بخت ہے جسے خواب میں ۳ بار رسولِ کریمؐ کی زیارت ہوئی اور آپؐ نے ہر مرتبہ دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے شر کا اِستیصال کرو۔ وہ فی الفور مدینہ منورہ پہنچا اور اس نے زہد و تقویٰ کا لباس اوڑھے دو نصرانیوں کو پکڑ لیا جو ایک سُرنگ کھود کر نبی کریمؐ کا جسدِ مبارک وہاں سے نکال لے جانے پرمامور تھے۔ سلطان نے انھیں کیفرِکردار تک پہنچایا۔ پھر روضۂ نبویؐ کے گرد گہری خندق کھدوا کر اُسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا۔
جناب طالب الہاشمی نے صلیبیوں کے خلاف سلطان کے جنگی محاربوں کی تفصیل بھی دی ہے‘ جس سے سلطان کی جنگی مہارت‘ دُور اندیشی اور بصیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ ایک مثالی حکمران تھا۔ اس نے صرف جنگیں ہی نہیں لڑیں‘ مملکت کے نظم و نسق کو بھی بہتر بنیادوں پر استوار کیا۔
کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے سلطان نورالدین کے عہد کا تفصیلی پس منظر بھی (۱۰۰صفحات میں) پیش کردیا ہے۔ اس چوکھٹے میں سلطان کی تصویر زیادہ واضح اور نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ سوانح نگار نے جگہ جگہ نہایت مفید اور معلومات افزا حواشی دیے ہیں۔ بلاشبہہ فاضل مصنف موضوع پر ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں۔ واقعات کی پیش کش‘ اسی طرح آیاتِ قرآنی کی صحت‘ عربی اشعار و عبارات کے تراجم‘ مختلف شخصیات و مقامات اور مشکل الفاظ کی صحت اور اِعراب کے ساتھ ان کے صحیح تلفظ کا اہتمام لائقِ تحسین ہے‘ بلکہ دیگر مصنفین اور اشاعتی اداروں کے لیے بھی دلیلِ راہ اور سبق آموز ہے۔ ایسی ہی محنت و کاوش‘ تحقیق و تدقیق اور اہتمام سے ہمارے علمی سرمائے کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ نئی نسل کو خاص طور پر ایسی کتابیں پڑھانے کی ضرورت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اقامتِ دین کے لیے جدوجہد میں مولانا مودودی کو کئی قسم کے ناقدین کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں اپنے بھی تھے اور پرائے بھی‘ بالکل مخالف بھی تھے اور گئے وقتوں کے دوست بھی۔ اختلاف اور پھر اس میں ہنگامِ جنگ کا سماں کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ جب جنگ کا طبل بجا دیا جائے تو پھر حملہ آوروں کے ہاں سب کچھ مباح سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ ’سب کچھ‘ انصاف کے بھی منافی ہوتا ہے‘ اور اخلاقیات سے بھی کوسوں دُور۔
مولانا مودودی نے اپنے ناقدین کی قلمی نیش زنی کے جواب میں وقت صرف کرنے کے بجاے‘ اپنے اوقاتِ کار کو تعمیری سمت میں لگانے کو ترجیح دی۔ لیکن ایسی صورت میں متعدد احباب نے مولانا مودودی کے ناقدین کی تنقیدات کا جواب دیا۔ ایسے قابلِ قدر فاضلین میں‘ مولانا شبیراحمد عثمانی کے بھتیجے مولانا عامر عثمانی[م: ۱۹۷۴ئ] کا نام سرفہرست ہے۔
زیرِنظر کتاب بنیادی طور پر: مولانا عبدالماجد دریابادی‘ مولانا امین احسن اصلاحی اور کوثر نیازی کی بعض تنقیدوں کا جواب ہے‘ جو انھوں نے ۱۹۶۴ء کے (فاطمہ جناح بمقابلہ ایوب خاں) صدارتی انتخاب کے زمانے میں مولانا مودودی پر کی تھیں۔ ان مضامین میں عامر عثمانی مرحوم کا اسلوب‘ دلیل سے مرصّع ہے۔ کرم فرمائوں کی طنزیات کا جواب انھوں نے خوب خوب دیا ہے۔ یہ قندِمکرّر‘ نہ صرف گئے دنوں کی کش مکش سے روشناس کراتی ہے‘ بلکہ حالات کی نزاکت اور ماحول کے جبر کی بہت سی پرچھائیاں بھی پیش کرتی ہے۔
ممکن ہے کوئی شخص یہ کہے کہ: ’’کیا ضرورت تھی انھیںشائع کرنے کی‘‘ ؟لیکن ایسے ناصح کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ مذکورہ حضراتِ گرامی نے اپنی زندگی میں‘ اور انتقال کے بعد ان کے فکری پس ماندگان نے‘ مولانا مودودی پر اس نوعیت کی تنقیدات کو شائع کرنے کا پے بَہ پے اہتمام کیا ہے۔ جب مولانا مودودی پر سنگ زنی کے یہ مظاہر پڑھنے والوں کو بآسانی دستیاب ہیں تو پھر مولانا مودودی کی پوزیشن واضح کرنے والی کسی تحریر کی اشاعت کا جواز آخر کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ استغاثہ دائر کرنے کو حق و صواب اور تاریخ کا ریکارڈ کہنا‘ جب کہ وضاحت میں پیش کی جانے والی معروضات کو ’’کیا ضرورت تھی انھیں شائع کرنے کی‘‘ کہنا عدل نہیں‘ بے انصافی ہے۔ (سلیم منصور خالد)
انسانوں کی کثیر تعداد ہر روز ‘ دنیاے فانی سے منہ توڑ کر قبر کی تاریک آغوش میں جا سماتی ہے۔ لیکن کچھ خوش نصیب اپنے پیچھے روشنی کی ایسی کرنیں چھوڑ جاتے ہیں‘ جن سے خلقِ خدا تادیر فیض یاب ہوتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر عذرا بتول ایسی ہی حیاتِ جاوداں پانے والی خاتون تھیں۔
پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ‘ تحریک اسلامی کی حد درجہ مخلص کارکن‘ خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار‘ دنیا میں باعمل اور متحرک مگر نظر‘ آخرت پر۔ ۶ستمبر ۲۰۰۳ء کو اوکاڑہ سے لاہور کے لیے روانہ ہوئیں اور بھائی پھیرو کے مقام پر ان کی کار اینٹوں کے ٹرالے سے ٹکرا گئی اور وہ موقع ہی پر جامِ شہادت نوش کر گئیں۔
صحیح معنوں میں ڈاکٹر عذرا بتول کا تعارف ان کی شہادت کے بعد ہی ہوا۔ اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کو سکھ بہم پہنچانے کا رویّہ نفسانفسی کے اس دور میں بہت کم ملتا ہے۔ عذرا بتول نے شادی کے بعد اپنی ذاتی کمائی اپنے سسرال کا مکان بنانے‘ انھیں حج کروانے اور ان کی ہمہ پہلو اعانت میں لگا دی۔ ان کے چھے بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں‘ بحیثیت ماں ان کی اولین خواہش یہی تھی کہ میرے بچے دنیا کے بجاے دین کا علم حاصل کریں۔ کہا کرتی تھیں کہ بے شک میرے بچے موچی بنیں یا نائی یا ریڑھی لگائیں لیکن حلال کی روزی کمائیں اور باعمل انسان بنیں۔
ڈاکٹر عذرا کی زندگی ایک ایسے باعمل انسان اورمسلمان کی زندگی تھی‘ جس کا ایک ایک لمحہ ایمان افروز واقعات سے بھرپور ہوتا ہے‘انھیں دنیاوی آزمایشیں‘ مصائب اور مشکلات پیش آئیں‘ تو ان کے پاس ایک ہی حل تھا: وہ کہتیں: ’’جو اللہ کی مرضی‘‘--- مرحومہ کی پوری زندگی ہمارے لیے ایک مثال ہے اور سبق آموز بھی۔
عباس اختر اعوان صاحب نے مرحومہ کے بارے میں مختلف اصحاب و خواتین کی تحریروں کو یکجا کر کے‘ حیاتِ جاوداں کی ایک عمدہ تصویر بنائی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے خواتین کارکنوں کو ایک نیا حوصلہ اورتازگی ملتی ہے۔(قدسیہ بتول)
اساتذہ‘ طلبہ اور والدین معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار انجام دیتے ہیں۔ یہ تینوں شعبے اگر ایک ساتھ آگے بڑھیں تو قوم اپنے مقاصد کے حصول میں کسی رکاوٹ کی پروا نہیں کرتی اور دنیا کو بڑی آسانی سے اپنے روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔
مصنف نے اپنے ۲۳ پُرمغز مقالات میں تعلیم اور اس کے متعلقات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ موضوعات مستقل نوعیت کے ہیں اور ان میں غوروفکر اور جدید دور کے تقاضوں کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔ استاد‘ بچے کی شخصیت کی تعمیر‘ والدین کا احساسِ ذمہ داری‘ تعلیمی عمل کے معاونات‘ کوالٹی ایجوکیشن کی حقیقت‘ ہم نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں جیسے اہم موضوعات پر سیرحاصل تبصرے کے علاوہ ٹیوشن‘ سزا کا مسئلہ اور نائن الیون کے اثرات وغیرہ جیسے چبھتے مسائل پر بھی مصنف نے بوضاحت و دلائل بحث کی ہے۔ آج کی تعلیمی دنیا جس شدت کے ساتھ اصلاح کا تقاضا کرتی ہے‘ اس کی طرف مصنف نے بڑی دل سوزی سے ہماری توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔
آج کی ہرلحظہ پھیلتی تعلیمی دنیا میں کام کرنے والے ہر شخص کو (خواہ وہ کوئی ادارہ قائم کرنے والا ہو یا اس کا انتظام چلانے والا) یہ کتاب دعوتِ فکر دیتی ہے اور اس کی بھرپور رہنمائی بھی کرتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ یہ احساس بھی پیدا کرتا ہے کہ ہمیں نونہالانِ وطن کو جدید اور تیزی سے ترقی کرتی دنیا کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ (پروفیسر سعید اکرم)
جریدہ کی غیرمعمولی متنوع علمی کارگزاری کا اظہار زیرنظر تین ضخیم کتابوں سے ہوتا ہے۔ ان میں نئی نادر غیرمطبوعہ کتابوں کے ساتھ کئی تازہ طبع زاد تحریریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔
جلد اول میں جدیدیت اور اسلام کی کش مکش کا حال پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے: ’’میں نے یہ جانا کہ گویا کہ یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ خالد جامعی اور عمرحمید ہاشمی کی کتاب: عالم اسلام--- جدیدیت اور روایت کی کش مکش کے بعد‘ اُردو حصے میں ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری نے مغربی فکروفلسفے کا محاکمہ کیا ہے۔’’تاریخ ہندستانی‘ ایک معروضی مطالعہ‘‘ (ڈاکٹر معین الدین عقیل) میں فرانسیسی مستشرق گارسین دتاسی کے کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔عزیز حامد مدنی مرحوم کی ۱۶ غیرمطبوعہ خوب صورت غزلیں اور مائیکل ین کی تحریر ’’جمہوریت اور نسل کشی میں تعلق: ایک تحقیقی جائزہ‘‘ (اُردو ترجمہ اکرم شریف) اور پھر مولانا حسن مثنیٰ ندوی کے قلم سے پاکستان کی حصول آزادی کی ولولہ انگیز داستان پُرلطف انداز میں دو حصوں میں بیان کی گئی ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی انگریزی کتاب Education in Pakistan کے ترجمے (از اکرم شریف) بہ عنوان: ’’پاکستان میں تعلیم‘‘کے بعد اقبال حامد نے ’’بلندوپست‘‘ میں روزنامہ جنگ کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا ہے۔ علی محمد رضوی نے اپنے انگریزی مضمون میں ثابت کیا ہے کہ امام غزالیؒ نے یونانی فلسفے کے غلبے کے تاثر کو ختم کر کے‘ اسلامی تہذیب و فلسفے کے تناظر میں جو کام کیا‘ وہ اسلام کی احیاے نو کا کام تھا اور تاریخ‘ امام غزالی کے اس کام کو فراموش نہیں کرسکتی۔
جلد دوم کے مشمولات: بروشسکی زبان: بعض اہم مباحث۔ ہندستانی تناظر: ’تہذیب اسلامی مطالعات‘۔ ’ہندستان میں مسلم تمدن‘ (ڈاکٹر ریاض الاسلام)۔ ’بیدل عظیم آبادی پر اڑھائی سو صفحات کا سیکشن‘ نام ور اصحاب کے مقالات‘ بیدل کے کلام اور شخصیت کی ایک عمدہ تصویر۔ کلاسیکی مغربی ادب پر عزیزاحمد کے نو مقالات (مرتب: ابوسعادت جلیلی)
جلد سوم میں ڈاکٹر سہیل بخاری مرحوم کی اشتقاقی لغت شامل ہے اور اس پر مشفق خواجہ (م: فروری ۲۰۰۵ئ) کی راے بھی شامل ہے۔ مرتبین کہتے ہیں کہ اگر شعبے کو مشفق خواجہ کے ذخائر تک رسائی ہوگئی تو وہ آیندہ بہت کچھ پیش کریں گے۔
لسانی‘ تہذیبی‘ نظری اور فلسفیانہ پہلوئوں سے متنوع موضوعات پر یہ اہم عالمانہ تحریریں ہیں۔ ان جلدوں کا مطالعہ ہر اس فرد کو کرنا چاہیے جو اس دور میں تہذیبی اور ثقافتی محاذوں پر جاری جنگ کو دیکھنا اور سمجھنا اوراسلام کی علمی سربلندی چاہتا ہے۔تینوں اشاعتوں کی پیش کش خوب صورت ہے‘ سفید کاغذ پر اچھی طباعت قابلِ تحسین بات ہے۔ (مرزا محمد الیاس)
یوں تو مصنف کی شخصیت علمی اعتبار سے ہمہ جہت ہے‘ مگر ان کا خصوصی تعلق علوم الفقہ اور اسلامی قانون سے ہے۔ ان کی زیرتبصرہ کتاب علوم القرآن کے متنوع مضامین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ پیش لفظ (ص ۹) کے مطابق مؤلف موصوف کی مزید کتابیں محاضراتِ حدیث‘ محاضراتِ فقہ اور محاضراتِ سیرت بھی بالترتیب منظرعام پر آنے والی ہیں۔ یہ ان کی متنوع علمی دل چسپیوں کا ثبوت ہے۔
زیرنظر خطبات الہدیٰ انٹرنیشنل‘ اسلام آباد کی ایک ورکشاپ میں شریک ان خواتین کے سامنے پیش کیے گئے جو خود مختلف حلقوں میں بطور مدرّسات‘ دروسِ قرآن کا اہتمام کرتی ہیں۔ مجموعہ کل ۱۲ خطبات پر مشتمل ہے۔ سبھی موضوعات‘ نہایت اہم اور پُرکشش ہیں اور قرآن اور علوم القرآن کے ہر متعلم و معلم کے لیے ان کا مطالعہ ضروری بلکہ ناگزیر ہے‘ مثلاً: تدریسِ قرآن مجید‘ ایک منہاجی جائزہ (ص ۱۱)‘ تاریخ نزولِ قرآن مجید (ص ۸۵)‘ تدریسِ قرآن مجید‘ دورِ جدید کی ضروریات اور تقاضے (ص ۳۷۵)‘ وغیرہ۔
خطبات کا انداز تحریری اور تحقیقی کے بجاے تقریری اور داعیانہ ہے۔ مؤلف کے مطابق ’’اندازِ بیان میں خطیبانہ رنگ کہیں کہیں بہت زیادہ نمایاں ہوگیا ہے‘‘ (ص ۹)۔ لیکن اندازِ بیان واقعتا اتنا دل چسپ‘ اور مشمولات اتنے معلومات افزا ہیں کہ قاری کی دل چسپی کم نہیں ہوتی۔
مجموعی طور پر یہ کتاب مؤلف کی وسعتِ علمی‘ ذخیرئہ معلومات اور علومِ قرآنیہ سے گہری دل چسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مضبوط یادداشت اور داعیانہ تڑپ کی بناپر فاضل مؤلف ایک موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کئی ضمنی موضوعات پر بھی روانی سے معلومات فراہم کرتے چلے جاتے ہیں‘ مثلاً: مفسرین قرآن کے تفسیری مناہج کے ضمن میں ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کے ہاتھ پر مسلمان ہونے والے مشہور فرانسیسی موسیقار ژاک ژیلبر کا دل چسپ واقعہ اور قرآن کے بارے میں اُس کے سوالات (ص ۲۲۷-۲۳۰)۔اسی طرح اعجاز القرآن کے ضمن میں کعبۃ اللہ کے پردوں کی کیفیت کا بیان (ص ۲۶۴)‘ وغیرہ۔ گویا علوم القرآن سے متعلق ان محاضرات میں تاریخِ اسلام کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ مؤلف کی بعض آرا سے علمی اختلاف کی گنجایش کے باوجود‘ کتاب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)
صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ نفوسِ قُدسی ہیں جن کو خاتم الانبیا والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالِ جہاں آرا سے اپنی آنکھیں روشن کرنے‘ آپؐ پر ایمان لانے اورآپؐ سے براہِ راست استفاضے کا شرف حاصل ہوا۔ اِن پاک نفس ہستیوں نے تہذیب و تمدن کی زُلفوں کو سنوارا‘ سیاست و معیشت کے چہرے کو نکھارا‘ جہالت کے اندھیروں اور کفروشرک کی ظلمتوں میں ہدایت کی شمعیں روشن کیں۔ ان کی عظمت اور رفعتِ کردار پر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جابجا مُہرِتصدیق ثبت فرمائی اور ان کی عظیم الشان ’کامیابی‘ کا ذکر اس طرح فرمایا: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o (المائدہ ۵:۱۱۹) [اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے]۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے بعد صحابۂ کرامؓ (بشمول صحابیاتؓ) کے سوانح حیات کے مطالعے سے تعلق باللہ اور عشقِ رسولؐ محکم و متحرک ہوتا ہے۔ زیرِنظر کتاب ۵۵ صحابۂ کرامؓ اور تین صحابیاتؓ کے ایمان افروز سوانح حیات پر مشتمل ہے۔ یہ مصر کے نامور ادیب ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا کی عربی تالیف صُوَرٌ مِنْ حیاۃ الصّحابہؓ کا اُردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ نہ صرف رواں‘ شگفتہ‘ شستہ اور عام فہم ہے بلکہ اس میں ادبیت بھی پائی جاتی ہے۔ فاضل مترجم نے پوری کوشش کی ہے کہ عربی نثر کا زورِ بیان اُردو ترجمے میں منتقل ہوجائے۔ اس کوشش میں وہ خاصے کامیاب نظر آتے ہیں سوائے اس کے کہ انھوں نے کتاب کے عربی الفاظ (بالخصوص صحابہؓ و صحابیاتؓ کے اسما) پر اِعراب لگانے کا التزام نہیں کیا۔ آج کل تلفظ کی غلطیاں عام ہوچکی ہیں‘ اس لیے عربی الفاظ پر اِعراب لگانا ضروری ہے۔
کتاب کے صفحات ۷۳ تا ۷۸ اور ۲۶۸ تا ۲۷۰ پر جحش (ج ح ش) کو جابجا حجش (ح ج ش) کمپوز کیا گیا ہے۔ آیندہ ایڈیشن میں اس غلطی کو درست کر لینا چاہیے۔ صفحہ ۲۷۳ پر ’خوشی سے پھولی نہ سمائیں‘ کی جگہ ’خوشی سے پھولا نہ سمائیں‘ہونا چاہیے کیونکہ محاورے میں تبدیلی درست نہیں۔ بحیثیت مجموعی سیر الصحابہ کے موضوع پر یہ ایک لائقِ مطالعہ کتاب ہے۔ گیٹ اَپ نہایت عمدہ ہے۔ (طالب الہاشمی)
کتاب کا عنوان تو محدود ہے‘ لیکن مندرجات میں بڑی وسعت اور جامعیت ہے۔ مسجد سے متعلق ہر ممکن پہلو زیربحث آگیا ہے۔
مصنف نے لکھا ہے کہ یہ موضوع گذشتہ ۲۰ سال سے ان کے پیشِ نظر رہا اور اب وہ اسے ضابطۂ تحریر میں لائے ہیں۔ آدابِ مسجد اور امام‘ موذن اور مقتدی‘ مسلم معاشرے میں مسجد کی اہمیت‘ تاریخی جائزہ‘ اہم مساجد کے بارے میں ضروری معلومات اور دور جدید میں پیش آمدہ مسائل‘ سب ہی کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ ’’دورحاضر میں مسجد کے حقیقی کردار کی بحالی‘‘ کے زیرعنوان مصنف نے جہاں تاریخی ومذہبی پہلو کو اجاگر کیا ہے‘ وہاں عصرحاضر کے تقاضوں پر بھی بحث کی ہے اور عملی تجاویز پیش کی ہیں۔ چند عنوانات: تعلیم قرآنی ناظرہ اور تعلیم بالغاں‘ کوچنگ کلاسیں یا شام کا اسلامی اسکول‘ مسجد اور خواتین کی تعلیم‘ رفاہی و اصلاحی مرکز‘ دارالمطالعہ‘ مہمان خانہ اور مسافرخانہ‘ قانونی مشورہ‘ فون کی سہولت‘ میت گاڑی‘ شفاخانہ‘ پنچایت کمیٹی‘ سماجی اجتماعات و کانفرنسیں‘ ایک اسلامی سنٹر کا نقشہ‘ عمررسیدہ لوگوں کے لیے دن کا مرکز‘ نوجوانوں کی سرگرمیاں‘ تجہیز وتکفین کی سہولیات وغیرہ۔ ۲۲ سے زائد عنوانات ہیں۔ اس موضوع پر جامعیت کے لحاظ سے اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے۔
تجویز کیا گیا ہے کہ مساجد کونسل قائم کی جائے۔اس کا ایک لائحہ عمل ہو۔تربیت خطبا‘ ائمہ اور مؤذنین نومسلموں اور نوجوانوں کے لیے تربیتی کورس‘ بیرون ملک تربیتی کورس‘ فہم قرآن مراکز‘ افتا و تحقیق کا شعبہ‘ تربیت حجاج پروگرام وغیرہ اس کونسل کے نمایاں فرائض ہوں۔
آخری باب اسلام میں مسجد کی مرکزیت و اہمیت کے پیشِ نظر مسجد کے کردار کے خلاف کی جانے والی کش مکش پر مبنی ہے۔ دورِنبوتؐ سے لے کر تاحال صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں مسجد کو اس کے حقیقی مقام سے ہٹانے کے اسباب کا بھی تذکرہ ہے۔
مصنف کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ۱۰ ہزار نئی مساجد تعمیر ہوتی ہیں اور ۲ لاکھ سے زائد موجود ہیں۔ اگر یہ مساجد صحیح معنوں میں اپنا کردار ادا کریں تو معاشرے میں وہ تبدیلی لائی جاسکتی ہے جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے۔ مسجد کے کردار اور ائمہ مساجد کی تربیت پر یہ ایک گائیڈبک ہے۔ کتاب کی جامعیت کا تقاضا ہے کہ نام میں تبدیلی کی جائے‘ مثلاً مسجد: جامع تصور‘ تہذیبی کردار اور جدید چیلنج۔
کتاب میں مختلف مساجد کی خوب صورت تصاویر بھی شامل ہیں۔ مناسب تھا کہ ہر تصویر کے نیچے ایک وضاحتی جملہ دے دیا جاتا۔ (مسلم سجاد)
دانش پاروں کے اس مجموعے کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر تحریر دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے اور بعید نہیں کہ کوئی پارہ ایسا خیال اوراتنا عمل انگیز ثابت ہو کہ وہ قاری کی زندگی کا رخ بدل دے۔ یہ تحریریں مؤلف کے تجربے‘ مشاہدے اور غوروفکر کا ماحصل ہیں۔ یہ ایسی سچائیوں اور حقائق پر مبنی ہیں جو کائنات‘ انسان اور خالق کائنات کی ذات اور ان کے باہمی تعلق پر غور کرنے سے منکشف ہوتے ہیں۔ ذہانت اور گہرے تفکر کے باوجود‘ اللہ تعالیٰ کی خاص عطا کے بغیر‘ یہ انداز نصیب نہیں ہوتا۔ بات کہنے کا سلیقہ اورخاص انداز اور الفاظ کی ایک خاص ترتیب جو دل پر نقش ہو جاتی ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے ملاحظہ ہو:
دانش پاروں کا یہ اسلوب خلیل جبران کا سا ہے۔ مصر کے ابن عطا اللہ (م: ۱۳۰۹ئ) نے اسی انداز میں لکھا ہے اور ہمارے ہاں واصف علی واصف نے اسی اندازِ بیان کو اپنایا ہے۔ اب ریاض احمد ہرل اس صف میں شامل ہوئے ہیں۔ مقدمہ نگار جناب شہزاد احمد کے نزدیک یہ حکمت کی باتیں ہیں جن میں چند لفظوں میں بہت بڑے خیال کو باندھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نامور ادیبہ بانو قدسیہ نے مصنف اور ان کے اسلوب کی تحسین کی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
مصنف انگریزی زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے مباحثوں اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والے طلبا کی رہنمائی کے لیے اپنی تحریر کردہ‘ انگریزی تقاریر کو یکجا کرکے شائع کر دیاہے۔
مقدمے میں مؤلف نے خطباتِ رسولؐ کے حوالے سے‘ فنِ تقریر و خطابت کے موضوع پر‘
تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس حصے میں مصنف نے آپؐ کے بعض خطبوں کے (ترجموں کے) اقتباسات بھی دیے ہیں جو بڑے مؤثر ہیں۔ ضمیمے میں آپؐ کے اصل عربی خطبوں کے نمونے بھی دیے گئے ہیں۔ بطور نمونہ حضرت عیسٰی ؑ، جعفر بن ابی طالب‘ قائداعظم‘ ابراہام لنکن‘ گاندھی‘ سقراط وغیرہ کی ایک ایک تقریر‘ اور ہٹلر‘ چرچل اور اسٹالن کی تقاریر کے اقتباس دیے گئے ہیں۔ بعدازاں طلبا کے مابین مباحثوں اور تقریری مقابلوں کے لیے موافقت اور مخالفت میں‘ مختلف موضوعات پر ۳۰تقاریر دی گئی ہیں‘ مثلاً:
اس کتاب کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ واقعی کچھ کلمات و خطابات‘ سننے والوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے علمی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ تمام حوالہ جات پیش کر دیے ہیں جن سے اُنھوںنے خوشہ چینی کی ہے۔ طباعت مناسب ہے۔ یہ کتاب طلبا‘ اساتذہ اور اہلِ علم کے لیے یکساں مفید ہے۔ کتاب کے آخر میں Animal Farm ناول کا تعارف شامل ہے۔ ہمارے خیال میں اس کی ضرورت نہ تھی۔(محمد ایوب منیر)
مصنف تقریباً ایک سال تک ایچی سن کالج میں اُردو کی تدریس پر مامور رہے۔ اس کتاب میں انھوں نے کالج کی تاریخ اور تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ تفصیلات اور مشاہدات پیش کیے ہیں۔
ایچی سن کالج برطانوی ہندستان کے راجوں اور نوابوں کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ۱۸۸۶ء میں ۲۱۱۱۲۱ روپے کی خطیر رقم خرچ کر کے تعمیر کیا گیا تھا۔ کالج کے افتتاحی تقریب کے موقع پر‘ اس کے بانی لیفٹیننٹ گورنر سر چارلس امفرسٹن ایچی سن نے کہا تھا: کالج میں حکومت کے وفادار خاندانوں کو باہمی رابطوں کی استواری کا موقع ملے گا‘ جس سے مجموعی طور پر ہمارے مقصد کو تقویت پہنچے گی اور یوں یہ ادارہ برطانوی حکومت کے استحکام کا ایک ذریعہ ثابت ہوگا۔
ایچی سن کالج کے مقاصدِ قیام کے پیشِ نظر کالج کے مؤسسین‘ مذہب اور مذہبی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتے تھے کیوں کہ مذہب اور مذہبی جذبے کی بقا سے انگریز حکمرانوں کے مفادات پر چوٹ پڑتی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ تمام طالب علموں میں ایک ہی رشتہ ہو‘ برطانوی حکومت سے وفاداری کا رشتہ۔
تاہم‘ اب سے ایک ڈیڑھ عشرہ پیش تر اس کالج کے ایک پرنسپل جناب عبدالرحمن قریشی صاحب نے الوداعی تقریر میں تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایچی سن کے طلبا اپنے تہذیبی ورثے سے بیگانہ ہیں‘‘۔
کتاب میں فارسی اشعار اور ذومعنی جملوں سے بھی مصنف نے اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ ایچی سن کالج کے پرشکوہ عمارت کی منظرکشی کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’… اس برآمدے میں سفید پتھر کی سلوں پر سامراج کے لیے جان ہار جانے والوں کے سیاہ نام درج ہیں‘‘۔
یہ کتاب ایک تحقیق‘ تخلیق اور خوب صورت پیش کش ہے‘ جسے پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے‘ جیسے کسی باغ کی سیر ہو رہی ہے۔ البتہ اس باغ کی سیر کے لیے ٹکٹ (قیمت کتاب) ۶۰۰ روپے پاکستانی سکّہ رائج الوقت ہے۔ (نوراسلم خاں)
زیرنظر کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں مصنف نے جہیز کے تباہ کن اور جاہلانہ رواج کے سبب بڑھتے ہوئے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ انھوں نے جہیز کی قبیح رسم کے معاشرتی‘ اخلاقی اور طبی نقصانات کو دلائل و شواہد کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جہیز کے معاملے میں راہِ راست کیا ہے؟ شریعت کیا کہتی ہے؟ اس سلسلے میں مؤلف نے حضور اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کے فرمودات کو بطور نمونہ اور دلیل پیش کیا ہے۔ آخر میں اس موضوع پر مفتی محمد تقی عثمانی‘ مولانا عبیداللہ رحمانی اور حافظ صلاح الدین یوسف کی تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں۔
یہ کتاب جہیز کے مسئلے پر ایک مختصر مگر خوب صورت کاوش ہے۔ تعجب ہے کہ لفظ ’جہیز‘ کا املا اوّل تا آخر ہر جگہ غلط (جھیز) لکھا گیا ہے۔ (اللّٰہ دتّا جمیل)
زیرتبصرہ کتاب کا موضوع سیرت النبیؐ ہے‘ لیکن مصنف نے ایک انوکھے انداز سے قلم اٹھایا ہے۔ فاضل مصنف نے کتاب کے پہلے حصے میں سیرتؐ کے واقعات کو اختصار کے ساتھ‘ مگر ایک متحرک تجربے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ جب قاری کا تعلق‘ اللہ تعالیٰ کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستیؐ سے جڑ جاتا ہے تو پھر مصنف ۱۴۰۰سال پہلے کی فضا کو‘ اکیسویں صدی کے ظلم‘ بغاوت اور لادینیت پر مبنی فساد کے جدید زمانۂ جاہلیت کے مدِّمقابل لاکھڑا کرتے ہیں۔ اس طرح ایمان کی پختگی اور عصرِحاضر کے چیلنجوں کو آمنے سامنے دیکھنے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
مصنف اگرچہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں‘ تاہم دانشِ برہانی اور عشقِ رسولؐ سے سرشار اور زمانۂ حال کے قلب کی دھڑکنوں سے واقف اور فسادِ دوراں کی رمزوں سے خوب شناسا ہیں۔ قرآن‘ سنت اور ایمان سے وابستگی نے‘ مصنف کو رہنمائی کے لیے دلیل‘ دانش اور ابلاغ کی دولت سے نوازا ہے‘ جس کے نتیجے میں انھوں نے مغربی تہذیب و فکریات کو بڑے عام فہم انداز سے بے نقاب کیا ہے۔ جس میں خصوصاً ڈارون کے نظریۂ ارتقا‘ مارکس کے نظریۂ اشتراکیت اور فرائڈ کے نظریۂ جنس کو اس انداز سے موضوع بحث بنایا ہے‘ کہ تہذیبِ مغرب کے ان سرچشموں کی باطنی کجی اور شرانگیزی بخوبی الم نشرح ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں مغربی فلاسفہ کی اُمہاتِ کتب کے ٹھوس شواہد اور رہنمائوں کے تعامل سے ثبوت لاکر قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کا تجزیہ کیا ہے۔ یوں حیوانیات‘ نفسیات اور معاشیات کے بڑے بنیادی سوالات پر سیرحاصل بحث سامنے آگئی ہے۔
قارئین کی دل چسپی کے لیے ابتدائیے کے چند جملے پیش ہیں: ’’(محمد عربیؐ) کے نام لیوا اب بھی دنیا کے ہر گوشے میں بکثرت پائے جاتے ہیں‘ پڑھایا ہوا سبق بھی خوب صورت جلدوں میں ان کے پاس موجود ہے‘ لیکن ان کے دلوں میں وہ پہلی سی حرارت نہیں رہی۔ ذہن شکوک و شبہات سے لبریز ہیں اور روحِ عمل مفقود ہے--- ان کے تعلیم یافتہ اور ذی اقتدار طبقوں کو یقین ہوچلا ہے کہ افکار اور مسائل کے اقدار اس قدر بدل چکے ہیں کہ [اسلام] کہنہ اور فرسودہ ہوکر رہ گیا ہے۔ قدیم خیال علما اس رجحان کو الحاد اور زندقہ کے نعروں [یا فتووں] سے دبانا چاہتے ہیں‘ لیکن ان کی کوششیں ناکام نظر آتی ہیں۔ خیالات کی کسی نئی کروٹ کو الجھی ہوئی تحریروں اور جذباتی تقریروں سے دبایا نہیں جاسکتا۔… تہذیب مغرب کی نئی روشنیوں: ڈارون‘ فرائڈ اور مارکس کی تعلیم [کا مطالعہ] نہایت سنجیدہ توجہ کا محتاج ہے… ان مغربی نظریات کا تنقیدی جائزہ اور تعلیم‘ اسلام کے ساتھ ان کا ایسا موازنہ جو دانشِ مغرب کو بھی غوروفکر پر مجبور کرے‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ کتاب اسی ضرورت کے مدنظر لکھی گئی ہے‘‘ (ص ۱۱)۔
یہ کتاب‘ جدید تہذیب کے بڑے بنیادی مقدمات پر جامع بحث کرتے ہوئے قاری کا رشتہ سیرتِ رسولؐ سے جوڑتی ہے۔ مصنف نے جدید فکریات کی چمک میں پوشیدہ جہالت کے تاروپود بکھیر دیے ہیں۔ افسوس کہ یہ کتاب گذشتہ ۳۵ برس تک گوشۂ خمول میں پڑی رہی۔ اب یہ تقاضا کرتی ہے کہ خصوصاً اساتذہ اور طلبہ توجہ سے اس کا مطالعہ کریں۔ (سلیم منصور خالد)
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جب بھی اور جہاں بھی تذکرہ ہوگا‘ ناممکن ہے کہ وہاں آپ کے عہدِطفلی کے حوالے سے جناب عبدالمطّلب بن ہاشم کا ذکرِخیر نہ آئے۔ جناب عبدالمطّلب حضوؐر کے شفیق دادا تھے۔ انھوں نے اپنے کم سن ’دُرِیتیم‘ پوتے کی جس بے پناہ محبت اور شفقت کے ساتھ سرپرستی اور کفالت کی‘ اس بنا پر ننھے حضوؐر کو بھی ان سے بے انتہا محبت ہوگئی تھی۔ ابھی حضوؐر آٹھ سال کے نوخیز بچے تھے کہ جناب عبدالمطّلب نے وفات پائی۔ حضوؐر کو ان کی وفات سے انتہائی صدمہ ہوا۔ مستند روایتوں میں ہے کہ آپؐ اُن کی میت کے قریب کھڑے ہوکر روتے رہے اور جب ان کا جنازہ اٹھا تو آپؐ اس کے ساتھ روتے چلے جارہے تھے۔ اس سے جناب عبدالمطّلب سے حضوؐر کے تعلقِ خاطر کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
زیرِنظر کتاب میں جناب عبدالمطّلب کے سوانح حیات بڑی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ فاضل مصنف نے بالکل درست لکھا ہے کہ جناب عبدالمطّلب‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا ہونے کے شرف کی بنا پر ہمارے لیے اور غالباً ساری دنیا کے لیے ایک عظیم ترین شخصیت ہیں‘ مگر وہ اپنی ذات‘ صفات‘ زمان‘ مکان اور مجموعی شخصیت کے اعتبار سے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ فی الحقیقت جناب عبدالمطّلب اپنی فیاضی‘ دانش و حکمت‘ خدمتِ خلق اور دوسرے اوصافِ حمیدہ کی بناپر نہ صرف قریشِ مکہ بلکہ عرب بھر میں ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت کے طور پر مشہور و معروف تھے۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بیش تر کتبِ سیّر میں ان کے بہت تھوڑے حالاتِ زندگی ملتے ہیں۔
پروفیسر محمد یٰسین مظہر‘تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے زیرتبصرہ کتاب لکھ کر یہ کمی پوری کر دی ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کی تصنیف میںقرآن حکیم کے علاوہ حدیث‘ سیرت اور تاریخ کی کم و بیش ڈیڑھ سو کتابوں سے استفادہ کیا ہے اور بڑی محنت اور کاوش کے ساتھ جناب عبدالمطّلب کے تمام حالاتِ زندگی فراہم کیے ہیں۔ پھر ان کو نہایت قرینے سے مرتب کر کے نتائج اخذکیے ہیں اور ان کا اندازِ نگارش بڑا شستہ اور عام فہم ہے۔ بلاشبہہ یہ کتاب پروفیسر محمدیٰسین کا قابلِ ستایش کارنامہ ہے اور ساتھ ہی پوری چھٹی صدی ہجری کی تاریخِ عرب (بالخصوص مکّہ و قریش) بھی بیان کر دی ہے۔ اردو کتب تاریخ و سیرت میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اگر کتاب کے عربی الفاظ و اسما پر اِعراب لگا دیے جاتے تو اس کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔ صفحہ ۵۰ پر امیمہ بنت عبدالمطّلب کے شوہر کا نام حجش (ح ج ش) بیان کیا گیا ہے‘ صحیح نام جحش (ج ح ش) ہے‘ غالباً یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے۔ (طالب الہاشمی)
پروفیسر فتح محمد ملک اُردو ادب کے جیّد نقاد اور معروف دانش ور ہیں۔ شعروادب اور نقدو انتقاد کے مسائل پر تو اُن کا جان دار قلم پہلے بھی رواں رہتا تھا لیکن ادھر کچھ عرصے سے انھوں نے بعض قومی و ملّی مسائل (خصوصاً مسئلہ کشمیر اور پاکستان کی نظریاتی اساس) پر قلم اٹھایا ہے اور پے درپے ایسے مضامین لکھے ہیں جو ایک سچے اور کھرے ادیب اور قلم کار کی پہچان ہیں۔ (اُن کے مجموعۂ مضامین کشمیر کی کہانی پر مفصل تبصرہ دیکھیے: ترجمان القرآن‘اکتوبر ۲۰۰۱ئ)
اُن کے ۳۱مضامین پر مشتمل زیرنظر مجموعے کا انتساب ’’نظریاتی محاذ پر ثابت قدمی کی روشن مثال مجید نظامی کے نام‘‘ ہے۔ یہ سب یا ان میں سے بیش تر مضامین نواے وقت میں چھپ چکے ہیں۔ یہ مضامین پاکستان‘ بھارت اور بعض غیرملکی قلم کاروں کے جواب میں لکھے گئے ہیں۔ زیادہ تر دو قومی نظریے‘ قائداعظم‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت‘ اردو زبان اور مشترکہ نصابِ تعلیم کی تجویز کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔
پروفیسر‘ ملک پاکستان کی نظریاتی اساس کے بارے میں ایک واضح تصور رکھتے ہیں۔ نظریۂ پاکستان سے انحراف اور کشمیر پر پاکستان کے اصولی تاریخی موقف سے روگردانی کو وہ ملتِ اسلامیہ کے لیے خودکشی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں ایک آزاد‘ خودمختار اور ترقی پسند اسلامی معاشرے کی تشکیل اُن کا دیرینہ خواب ہے۔چنانچہ ’’نظریاتی استحکام کی تمنا‘‘ سے سرشار‘ یہ مضامین پاکستان کی نظریاتی اساس کے دفاع کے ضمن میں ایک قلمی جہاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اشتراکی دانش ور طارق علی ہوں یا صحافت کار ایاز امیر‘ بھارتی تجزیہ نگار کلدیپ نیر ہوں یا اسٹاک ہوم یونی ورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسراشتیاق احمد یا ماہرمعاشیات ڈاکٹر اکمل حسین--- اس طبقہ فکر کے دانش ور’علاقائی امن و سلامتی‘کی خاطر ہمیں ’نئے وژن اور نئی حکمت عملی‘ اختیار کرنے اور پاکستان کو ’بچانے‘ کی خاطر کشمیر پر استصوابِ راے کے اصولی موقف سے دست بردار ہونے کی ترغیب دے کر ’سائوتھ ایشین یونین‘ جیسی لغو تجاویز پیش کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ پروفیسر ملک نے ایسے دانش وروں کا فکری اور قلمی سطح پر تعاقب کر کے‘ فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ وہ بجاطور پر سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ اتحاد اور یہ مشترکہ دفاع کس کے خلاف ہوگا؟ دنیاے اسلام کے خلاف اور چین کے خلاف؟--- یقینا‘ جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ’اسلام بے زار یا اسلام مخالف قوتوں کو پاکستان کا آزاد اور خودمختار وجود گوارا نہیں‘۔ چنانچہ ’سائوتھ ایشین یونین کا تصورعام کرنا گویا نواستعماری خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش ہے‘۔ (ص ۵۷)
پروفیسر ملک کا خیال ہے کہ: پاکستانی قوم اس لیے مصائب و مشکلات کا شکار ہے کہ اسے اسلام کے صراطِ مستقیم کے بجاے مُلائیت اور خانقاہیت کی ٹیڑھی میڑھی راہوں پر ڈال دیا گیا ہے (ص ۱۶۰)۔ ان کی یہ تشخیص غلط تو نہیں‘ مگر ہماری رائے میں اس کی ذمہ داری ملّا سے کہیں زیادہ ضمیرفروش اربابِ سیاست‘ جاگیرداروں‘ فوج اور نوکرشاہی پر عائد ہوتی ہے۔ اگر تاریخِ پاکستان کے اوراق اُلٹیں تو معلوم ہوگا کہ اول روز ہی سے اختیار و اقتدار مسلم لیگ‘ جناح لیگ‘ ری پبلکن پارٹی‘ عوامی لیگ‘ کونسل لیگ‘ کنونشن لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ نون لیگ اور ق لیگ کے نام پر متذکرہ بالا چار طبقوں کے پاس رہا ہے اور اب تو یہ سب ایک دوسرے کے پشتی بان بن چکے ہیں۔
پروفیسر ملک کے ان مضامین میں اختلاف کے کچھ پہلو بھی موجود ہیں‘ مثلاً یہ کہنا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مرزا بشیرالدین محمود ہر دو نے جاگیرداری نظام کے شرعی جواز مہیا کرنے میں یکساں داد تحقیق دی ہے‘ بڑی زیادتی ہے۔ جن لوگوں نے سید مودودی کو پڑھا ہے‘ وہ پروفیسر ملک کی بے خبری پر اظہارِ تاسف ہی کریں گے۔ جاگیرداری اس ملک سے کیوں نہ ختم ہوسکی اور ’’پاکستان میں اسلام کے ابدی اصولوں پر مبنی ایک انقلابی معاشی نظام‘‘ کیوں نہ قائم ہوسکا؟ اس لیے کہ پروفیسر ملک کے بقول: ’’قائداعظم کی جیب کے کھوٹے سکّے‘ اس کے برعکس عزائم کے حامل تھے‘‘(ص ۱۵)۔ یقینا سید مودودی کی تحریریں جاگیرداری کے خاتمے میں رکاوٹ نہیں بنیں۔ پروفیسرملک‘ ذوالفقار علی بھٹو کے مداح ہیں‘ اور پاکستان کی آئیڈیالوجی پر بھٹو کے ’غیرمتزلزل ایمان‘ کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخاب میں ’’عوام نے جعلی آئیڈیالوجی کو رد کر کے حقیقی آئیڈیالوجی کو ووٹ دیے‘‘ (ص ۱۴۱)۔ بالیقین اگر ذوالفقار علی بھٹو کے پاس واقعی کوئی آئیڈیالوجی ہوتی یا وہ ’’حقیقی آئیڈیالوجی‘‘ پر (جس کے وہ علم بردار تھے)صدقِ دل سے یقین رکھتے تو جاگیرداری کو ختم کردیتے۔ اصل بات یہ کہ بقول پروفیسر ملک ’’پاکستان کے تمام تر مسائل آئیڈیالوجی سے اس شرم ناک انحراف کا شاخسانہ ہیں‘‘ (ص ۱۳۰)۔ فکروبیان کے جزوی اختلاف کے باوجود‘ مجموعی طور پر یہ ایک قیمتی کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
عسکری امور کے ماہر اور سیاسی و سماجی تجزیہ نگار کی حیثیت سے جناب شمس الحق قاضی کا نام محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ وہ ان معدودے چند فوجی افسروں میں سے ہیں جو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ‘ اپنے علمی اور تاریخی ورثے سے بھی بخوبی آگاہی رکھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ وہ قومی و ملّی شعور اور دینی جذبے سے بھی سرشار ہیں۔ قاضی صاحب موصوف ملک و ملّت کے مسائل پر برابر سوچ بچار کرتے ہیں اور اپنے مطالعے اور نتائجِ فکروتحقیق سے اہلِ ملک و ملّت کو بواسطہ قلم و قرطاس باخبر رکھنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
زیرنظر کتاب اُن کی برسوں کی علمی تحقیق کا حاصل ہے۔ اس میں بارود کی ایجاد سے لے کر جدید زمانے کی توپوں اور میزائلوں تک کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ بارود کا استعمال حربی تاریخ میں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ سب سے پہلے مسلمانوں نے عیسائیوں کے خلاف باقاعدہ توپ خانہ استعمال کیا۔ جدید دور کی راکٹ سازی سلطان حیدر علی والیِ میسور کی مرہونِ منت ہے۔ اس سے پہلے مسلمان منجنیق کا کامیاب تجربہ کرچکے تھے جسے انگریزی میں مشین کا نام دیا گیا۔
مغلوں کے بعد سکھوں نے توپ خانے سے کیسے فائدہ اٹھایا؟ اور چھوٹی بڑی توپوں نے بسااوقات کسی لڑائی میں کیسے پانسا پلٹ دیا؟ قاضی صاحب نے تاریخی حوالوں کے ساتھ زیرِنظر کتاب میں اس کی پوری تفصیل پیش کی ہے۔ تاہم یہ کتاب خشک‘ فنی حقائق یافقط بندوق و بارود کے کوائف پر مشتمل نہیں بلکہ برعظیم کے سیاسی مدوجزر کا ایک روشن آئینہ بھی ہے۔ خصوصاً اس تناظر میں کہ توپ خانے اور جنگی ہتھیاروں نے کس طرح سیاست کے نشیب و فراز کو متاثر کیا۔ مصنف یہ بھی بتاتے ہیں کہ مدمقابل پر غلبے اور اسے شکست دینے کا انحصار محض توپوں اور دیگر جنگی ہتھیاروں پر نہیں ہوتا بلکہ اصل چیز وہ عسکری روح ہے جو کسی فوج کے جسم و جان میں سرایت کرکے اسے فتح سے ہم کنار کرتی ہے۔ انھوں نے مثالیں دے کر بتایا ہے کہ مغلوں کے زوال میں بنیادی کردار فوجی افسروں کی آرام طلبی‘ بزدلی اور غداری کا تھا۔
کتاب میں متعدد تصاویر اور دستاویزات بھی شامل ہیں۔ مصنف موضوع پر قابلِ رشک مہارت اور دسترس رکھتے ہیں۔ انھوں نے عربی اور فارسی مصادر سے بھی استفادہ کرتے ہوئے کتاب کو نادرمعلومات سے مزین کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس اہم علمی تحقیق کو اُردو میں بھی شائع ہونا چاہیے۔ (ر-ہ)
’’ہم نہ موت سے ڈرتے ہیں نہ کسی کے سامنے جھکتے ہیں۔ ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے: عزت کی زندگی یا عزت کی موت! جب اپنا قومی وجود خطرے میں ہو تو ہر مرد‘ ہر عورت‘ ہر بچے اور ہر بوڑھے پر مزاحمت لازم ہوجاتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ظلم ہوتا رہے اور ہم کسی دوسرے سیّارے کی مخلوق بن کر چپ چاپ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں‘‘---شیخ احمد یاسین کے یہ الفاظ ان کی تحریک کا بنیادی منشور اور ان کی فکر کا خلاصہ ہیں۔ شیخ جسمانی طور پر معذور لیکن ذہنی اور فکری اعتبار سے اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے ؎
نگہ بلند‘ سخن دل نواز‘ جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے
ڈاکٹر مفکراحمد نے فلسطین کے اس بطلِ حریت اور پیکرِعزم و وفا کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ کتاب میں شیخ کے حالاتِ زندگی‘ ان کے انٹرویو‘ ان کے خطوط‘ اہلِ قلم کے تاثرات اور اہم شخصیات کے مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔ مصنف نے جملہ نگارشات کو خوش اسلوبی سے ترتیب دیا ہے۔ اس سے شیخ احمد یاسین کی پوری زندگی پوری تفصیل اور توانائی کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے یہودی و عیسائی حکمرانوں کے عزائم بھی بے نقاب ہوتے ہیں‘ نیز یہود و نصاریٰ کے آلہ کار بعض نام نہاد مسلم حکمرانوں کا منافقانہ کردار بھی سامنے آتا ہے۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے‘ قدرتی طور پر ایک مسلمان کا ایمانی ولولہ و جوش تازہ ہوجاتا ہے۔ شیخ کی زندگی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ عزم بلند ہو تو راستے کی مشکلات سدِّراہ نہیں بنتیں۔ اُمت مسلمہ کو ایسے ہی بلند حوصلہ اور جواں عزم رکھنے والے قائدین کی ضرورت ہے جو مادی منفعت اور اقتدار سے بے نیاز ہوکر جذبۂ ایمانی کی حرارت سے مالا مال ہوں۔
کتاب میں شیخ کی چند تصاویر بھی شامل ہیں۔ شہادت کے بعد شیخ کے جسدخاکی کی تصویر یہود کی وحشت و بربریت کی بدترین مثال ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
نواب محمد یوسف علی خان مگسی (۱۹۰۸ئ-۱۹۳۵ئ) بلوچستان کے ایک مخلص‘ اولوا العزم اور روشن خیال خادمِ ملک و ملّت تھے۔ گو انھوں نے صرف ۲۷ برس عمرپائی مگر جب تک جیے‘ اپنے پس ماندہ معاشرے میں انقلابی تبدیلیوں اور اپنی قوم کی بیداری اور تعلیمی ترقی اور غلامانہ ذہنیت سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔ بلوچستان میں تعلیمی بیداری‘ سماجی شعور پیدا کرنے میں ان کی کاوشوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ قبائلی اور سرداری نظام میں پرورش پانے کے باوجود‘ وہ صحیح معنوں میں غریبوں کے ہمدرد اور اُن کے لیے تڑپ رکھنے والے شخص تھے۔ انھیں قیدوبند کی صعوبت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔۱۹۳۴ء میں انھیں علاج کے بہانے جلاوطن کرکے لندن بھیج دیا گیا۔ قائداعظم سے بھی اُن کا رابطہ تھا اور وہ علامہ اقبال کی شاعری سے بھی بہت متاثر تھے۔ خود انھوں نے اُردو اور فارسی میں شعر بھی کہے ہیں۔ انگلستان سے واپسی پر وہ ۳۱ مئی ۱۹۳۵ء کو کوئٹہ کے خوفناک زلزلے میں لقمۂ اجل بن گئے۔
یہ صاحبِ دل نوجوان‘ میرجعفر خان جمالی کے بقول: ’’صحیح معنوں میں اپنی درماندہ قوم کو عزت و آبرو سے سیاسی زندگی بسر کرنے کے لیے عمربھرکوشاں رہا‘‘۔ جناب انعام الحق کوثر نے مرحوم کی سیاسی و سماجی‘ علمی و ادبی اور تعلیمی خدمات کا ایک مختصر تذکرہ مرتب کیا ہے۔ وہ اس موضوع پر اس سے پہلے بھی کچھ کام کر چکے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں یوسف عزیز کے مختصر حالات‘ ان کی گوناگوں خدمات کی جھلکیاں‘ شاعری کے نمونے اور ان کے دست نوشت خطوں اور تحریروں کے عکس شامل ہیں۔ (ر-ہ)
زیرنظر کتاب بچوں کے لیے اختر عباس کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ وہ بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں اور انھیںبچوں کی ذہنی کیفیات کو مختلف کرداروں کے ذریعے اجاگر کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ اسی بنا پر انھوں نے بچوں کے مسائل کو بعض کرداروں کی مدد سے اتنی اپنائیت سے پیش کیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے ہر بچہ ان کا دوست ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ یہ کہانیاں انھیں بچوں کا سچا دوست ثابت کرتی ہیں۔
ہمارے اردگرد ایسے بے شمار کردار ہیں‘ جنھیں ہم درخوراعتنا نہیں سمجھتے‘ اور نظرانداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ’’دیمک‘‘ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جس کے والد کو محض اپنے نفع کی فکر ہے اور وہ بچوں کا ذہنی اور دلی دکھ نہیں جان سکتے۔ ’چھیلا‘ اس باپ کے دل کی بپتا ہے جسے اس کے بیٹے نے کسی قابل ہی نہیں سمجھا تھا۔ ’پیمانہ‘ پڑھ کر یقین کرنا مشکل ہے کہ کیا مائیں ایسی سنگ دل بھی ہوسکتی ہیں جو بیٹوں کی سلامتی کے بجاے ان سے ملنے والی دولت کی خواہش مند ہوں۔ ’کمشن‘، ’دربان‘ اور ’قیمت‘ میں بھی ایسے ہی معاشرتی اور سماجی رویوںکابیان ہے جنھیں ہم عام طور پر قابلِ توجہ نہیں سمجھتے۔ بقول علی سفیان آفاقی: ان کی اکثر کہانیاں دکھوں کی کہانیاں ہیں مگر انھی میں سے خوشیوں کی کرنیں پھوٹیں گی۔
ان کہانیوں میں پلاٹ کی بُنت عمدہ‘ اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ نئی نسل بلکہ والدین اور بزرگوں کے لیے بھی یہ کہانیاں سبق آموز ہیں اور زندگی کے چھوٹے مگر مختلف النوع رویوں کو سمجھنے میںمدد دیتی ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے قاری کے دل میں ہمدردی‘ محبت اور خلوص کے جذبات اُبھرتے ہیں۔
کتاب کی حقیقی افادیت اسی وقت ممکن ہے جب قارئین ان کہانیوں کو صرف پڑھ لینے پر اکتفا نہ کریں بلکہ خود کو وقارعظیم (دیمک) سرمد کی والدہ (اندر کی چٹخنی) اور نعیم راٹھور (چیخ) جیسے کردار بننے سے روکیں‘ اور ایسے کرداروں کی مذمت کریں تاکہ معاشرہ ان کے بد اثرات سے محفوظ رہے۔ (قدسیہ ہاشمی)
مصنف ایک معروف ریسرچ اسکالر ہیں۔ یہ ان کی بارھویں تالیف ہے جس میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت (۲۰ اکتوبر ۱۹۹۳ء تا ۵ نومبر ۱۹۹۶ئ) میں معاصر اخبارات و رسائل کی مدد سے حقوقِ انسانی کی پامالی (ظلم و بربریت‘ قتل و غارت گری‘ بدعنوانیوں اور رشوت ستانی وغیرہ) کا ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے۔ لوٹ مار‘ ڈاکازنی‘ پولیس کی زیادتیاں‘ اغوا براے تاوان‘ ناجائز اسلحے کی برآمدگی‘ گاڑیاں نذرآتش‘ ٹارچرسیل‘ بھتّے کی وصولی‘ ناجائز گرفتاریوں وغیرہ کے ضمن میں جو کچھ عہدِ بے نظیر میں ہوا‘ یہ اس کی تاریخ وار تفصیل ہے۔ اس سب کچھ کی ذمہ داری براہ راست بے نظیر بھٹو پر تو نہیں عائد ہوتی‘ مگر وہ اس سے بالکل بری الذمہ بھی نہیں ہو سکتیں۔
مؤلف نے اپنے مفصل مقدمے میں اس چشم کشا اور عبرت خیز کتاب کی ترتیب کا جواز پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’انسان اقتدار میں ہو یا عدمِ اقتدار میں‘ ان دونوں صورتوں میں بلکہ ہر صورت میں انسان یا انسانوں کو لذت گناہ سے روکنے والی ایک ہی طاقت ہے--- جسے قوتِ قاہرہ یا اللہ رب ذوالجلال کہتے ہیں‘‘ (ص ۶)--- مؤلف نے اختتامیے میں ’بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ اقتدار‘ کا مختصر احوال بھی بیان کر دیا ہے۔
ڈاکٹر ایچ بی خان کی محنت قابلِ داد ہے۔ یہ تاریخی ریکارڈ مرتب کر کے‘ انھوں نے تاریخ و سیاست کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے ایک مفید معاون مرتب کردیا ہے۔ (ر-ہ)
قانون قصاص و دیت ۲۰۰۳ء کے مولف میاں مسعود احمد بھٹّا پاکستان کے قانونی اور دینی حلقوں میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ فاضل ایڈووکیٹ قصاص و دیت آرڈی ننس پر ایک کتاب ۱۹۹۱ء میں بھی لکھ چکے ہیں۔ اب اسی موضوع پر ان کی دوسری کتاب ہے۔ نقش ثانی‘ نقش اول سے بہرصورت بہتر اور جامعیت کی سرحدوں تک پہنچ گیا ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں قصاص و دیت کے قانون کا بنیادی مآخذ قرآن وسنت ہے۔ مصنف نے تمام مذاہب فقہ کے علمی ذخیرے سے بھی استفادہ کیا ہے۔ لیکن انھوں نے فقہی مکاتب فکر کے جزوی اختلافات سے بحث نہیں کی ہے۔ کیونکہ جہاں تک اسلامی قانون کے اصولوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں سب ائمہ فقہ متفق الراے ہیں۔ اسلام میں فطری مساوات اور توازن کا اصول زندگی کے تمام شعبوں میں کارفرما ہے۔ اس لیے جرم و سزا میں بھی اسی قانونِ مساوات کی عمل داری ہے۔
کتاب کا حصہ اول جنایات علی النفس‘ یعنی انسانی جسم پر وارد ہونے والے جرائم سے متعلق ہے۔ حصہ دوم میں ان جرائم کی تعریف اور ان کی سزائوں سے متعلق تمام دفعات ۲۹۹ تا ۳۸۸ درج ہیں۔ دفعات‘ ان کی تعریف‘ ان کی سزائیں اور اس ضمن میں قرآن وسنت اور فقہا کے حوالے سے شرعی فیصلے اور موجودہ اسلامی قانون کی رو سے عدالتی فیصلوں کے اہم نکات‘ پھر ان کی تشریحات (commentary) سے کتاب کی افادیت بڑھ گئی ہے۔ حواشی میں حدیث‘ فقہ اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں مگر موضوعاتی اشاریہ (index) نہ ہونے کی وجہ سے ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے باوجود مؤلف نے اہم اور مستند کتابوں کے وسیع مطالعے کے بعد نہایت محنت اور جانفشانی سے یہ کتاب مرتب کی ہے۔
مولف موصوف نے دیت کے بارے میں فقہا کے نظریات‘ حکومت اور قضا کے اختیارات کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مغربی مفکرین مارس گاڈفرے اور جوزف سکاچ کے خیالات کو بھی نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام کے بارے میں ان کی ریسرچ محض سطحی اور خودغرضی پر مبنی ہے۔ بہتر ہوتا کہ ان کے مخالفانہ نقطۂ نظر کا دلائل کے ساتھ محاکمہ کیا جاتا جس سے حقیقت کھل کر سامنے آجاتی۔
موجودہ قانون کی دفعہ ۲۲۳ کی رو سے مرد اور عورت کی دیت میں تفریق نہیں کی گئی۔ لیکن مولف کتاب نے ائمہ مذاہبِ اربعہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ عورت کی نصف دیت کے قائل ہیں۔ لیکن تحقیقی جائزے کی روشنی میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے میں عورت‘ مرد کی طرح پوری دیت کی حق دار ہے۔ چونکہ یہ انسانی جان کا معاملہ ہے جو قانونِ وراثت سے مختلف ہے۔ علماے ازہر نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ قانون دیت و قصاص کے مرتبین کے پیشِ نظر بھی دیت کے بارے میں یہی فقہی مسلک رہا ہے۔
مولف نے اسلامی قانونِ شہادت اور خاص طور پر تزکیہ الشہود پر (جو حقائق کو دریافت کرنے کا موثر ذریعہ ہے اور قانون فوجداری جو قصاص و دیت سے متعلق ہے) سیرحاصل بحث کی ہے‘ جو لائق ستایش ہے۔
ابتدایئے میں لائق مولف نے پاکستان میں نفاذ اسلام کی مختصر تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے قانونِ اسلامی کی تنفیذ کا سارا کریڈٹ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ‘ ہائی کورٹوں‘ فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کو دیا ہے۔ ان کی سعی و کاوش سے انکار نہیں۔ بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ نے اسلامائزیشن کے لیے ازخود نوٹس نہیں لیا۔ ملکِ عزیز میں اسلامی قانون کی تدوین اور نفاذ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کی دینی بصیرت اور عملی اقدام‘ ان کے ہم عصر اور علماے متاخرین کی شعوری کوشش‘ عوام‘ سیاسی مذہبی اور دینی جماعتوں اور اسلامی وکلا کی مساعیِ پیہم ہماری تاریخ کا ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔ قانونِ قصاص و دیت‘ سپریم کورٹ میں ہماری آئینی پٹیشن پر ۱۲ ربیع الاول ۱۴۱۱ ہجری کو نافذ العمل قرار دیا گیا جس میں موجودہ پارلیمنٹ کی منظوری سے چند ترامیم کی گئی ہیں مگر اب بھی کافی سقم اور خامیاں موجود ہیں جنھیں دُور کرنا بھی ازبس ضروری ہے۔
مؤلف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک اہم علمی موضوع پر یہ کتاب قومی زبان اُردو میں اور سلیس و عام فہم انداز میں مرتب کی ہے۔ یہ کاوش مجموعی لحاظ سے قابلِ قدر ہے۔ اس سے اراکینِ عدلیہ‘ قانون کے طلبا‘ علما اور تعلیم یافتہ حضرات براہِ راست استفادہ کرسکیں گے۔(محمد اسماعیل قریشی)
ڈاکٹر محمود احمد غازی (صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد) کی متنوع دل چسپیاں جن علوم و فنون میں ہیں‘ ان میں قرآن حکیم بطور خاص شامل ہے۔ زیرنظر کتاب موصوف کے لیکچر ہیں جو انھوں نے دعوۃ اکیڈمی کے زیر اہتمام فیصل مسجد اسلام آباد کے معتکفین کو دیے۔ بعدازاں ایک صاحب نے انھیں فیتے سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔ کتاب میں قرآن مجید کے متعلق پانچ پہلوئوں پر عام فہم مگر مستند معلومات یکجا کر دی گئی ہیں۔ ان میں قرآن مجید کے ناموں کی معنویت‘ اس کا موضوع‘ کیفیتِ نزول اور ترتیب و تدوین سے متعلق معلومات شامل ہیں۔
آپ نے بھرپور استدلال کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ دن اور رات کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جہاں دنیا کے کسی نہ کسی مقام پر قرآن پاک کی تلاوت‘ تعلیم اور تدریس کا کام نہ ہو رہا ہو۔ (ص ۱۱)
کتاب میں غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم سورہ القدر کی آیت ایک میں انزلنٰہ کی جگہ انزلنا اور سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۸۲ میں وننزل کی جگہ ونزل درج ہوگیا ہے۔ کتاب عوام کے لیے عام فہم اور سہل انداز میں مرتب کی گئی ہے‘ تاہم اہلِ علم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ (ڈاکٹر محمد عبداللّٰہ)
جماعت اسلامی اللہ کی زمین پر نظام عدل رائج کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ سیاسی جماعت کی محدود اصطلاح اور مذہبی جماعت کا لیبل اس کی انقلابی دعوت کی حقیقی عکاسی نہیں کرتے۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ جموں و کشمیر اورسری لنکا میں جماعت آزادانہ لیکن نظریاتی ہم آہنگی کے ساتھ اپنی دعوت پھیلا رہی ہیں۔ تمام تر مخالفتوں اور الزامات و اتہامات کے باوجود جماعت کی دعوت و اثرات کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے‘ خصوصاً پاکستان میں اس کے اثر و نفوذ میں قابلِ ذکر اضافہ ہو رہا ہے۔پارلیمنٹ میں اس کی موجودگی‘ مثبت تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
آغاز (۱۹۴۱ئ) ہی سے جماعت کو اندرونی و بیرونی مخاصمتوں کا سامنا ہے۔ نظریاتی طور پر اس کے پیغام کی تنقیص کی گئی اور سیاسی طور پر اس کے پروگرام کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ امریکا اور یورپ کی کئی جامعات میں جماعت کی نظریاتی پرداخت اور سیاسی طرزعمل پر تحقیقی مقالے لکھے لکھوائے گئے۔ مغربی یورپ اور سکنڈے نیویا کے کئی ریسرچ اسکالر جہاد افغانستان کے حوالے سے اپنا تحقیقی کام مکمل کرچکے ہیں اور اخبارات و رسائل میں وقتاً فوقتاً ایسے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں جن میں جماعت کے جہادی کردار یا سیاسی سرگرمیوں کو زیربحث لایا جاتا رہا ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ’’دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے بھی جماعت کو کہیں نہ کہیں ملوث کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
بھارت پاکستان کا ہمسایہ ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان ابتدا ہی سے جموں و کشمیر کا بنیادی تنازع موجود ہے۔ عوامی سطح پر بھی دونوں ممالک میں مختلف موضوعات پر نظریاتی بحثیں جاری رہتی ہیں۔ پاکستانی عوام دو قومی نظریے پر کامل یقین رکھتے ہیں‘ مگر دو قومی نظریہ بھارت کے بعض عناصر‘ خصوصاً حکمران طبقے کے گلے سے نیچے نہیں اُترسکا ہے۔
جماعت اسلامی کی جدوجہد اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے کردار کے حوالے سے کلیم بہادر‘ اور ولی رضا نصر وغیرہ کے بعد حال ہی میں ڈاکٹر پوجا جوشی کی زیرنظر کتاب منظرعام پر آئی ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان میں مذہبی حکومت کے قیام کے لیے سب سے متحرک پارٹی جماعت اسلامی ہے لیکن اس کو ناقص پالیسیوں کے سبب اسے قبولِ عام نہیں مل سکا۔ ڈاکٹر پوجا نے راجستھان یونی ورسٹی‘ جے پور سے ڈاکٹریٹ کی ہے۔ پاکستان میں حکومت و سیاست کے حوالے سے اُ ن کے تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں اور آج کل وہ انڈین سول سروس میں ہیں۔
کتاب میں پاکستانی رسائل و جرائد کی مدد سے جماعت کے اصل کردار کو سمجھنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ مولفہ کی یہ کوشش بھی رہی ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا جائے اور خاکم بدہن‘ اس کے زوال میں جماعت کا کردار یا کم از کم ہاتھ ضرور ثابت کر دیا جائے۔
ہر کسی تجزیہ نگار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس پہلو سے بھی چاہے جماعت کی جانچ پرکھ کرے اور اس کی پالیسیوں کا تجزیہ کرے لیکن یہ بات علمی دیانت کے خلاف ہے کہ جماعت پر انھی گھسے پٹے اور بے بنیاد الزامات کو پھر سے دُہرایا جائے جن سے جماعت برأت کا بارہا اظہار کرچکی ہے‘ مثلاً: قیامِ پاکستان کی مخالفت‘ قائداعظم کو کافراعظم کہنا‘ پاکستانی نظامِ حکومت کو کافرانہ نظام کہنا‘ امریکا سے ڈالر وصول کرنا‘ احمدیوںاور شیعوں کے خلاف مہم‘ پاکستان میں مذہبی فاشیت کافروغ جیسے الزامات موقع بہ موقع دہرائے گئے ہیں۔ مولفہ کو اندازہ نہیں کہ جماعت اسلامی کا قافلہ ان الزامات کی گرد جھاڑ کر کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔
ڈاکٹر پوجا نے مولانا مودودی کی زندگی‘ اُن کے ذہنی ارتقا اور جماعت پر ان کے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے لیکن مولانا نے نظمِ جماعت کا جو خاکہ مرتب کیا اور جس کی بنیاد پر ایک جماعت کو قائم کر کے منظم کیا اور بالفعل پاکستان کی سب سے فعال اور متحرک پارٹی بنا دیا‘ ڈاکٹر پوجا اسے فاشیت قرار دیتی ہیں۔ یہ بھی اعتراض ہے کہ مولانا نے ’سود سے پاک معیشت‘ کا جو تصور پیش کیا ہے‘ وہ جدید معیشت اور بنک کاری کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔پوجا کااصرارہے کہ جنرل محمد ایوب خان اور اُن کے بعد آنے والے سربراہان کے ذریعے پاکستان‘ سیکولرزم کے راستے پر ٹھیک ٹھیک آگے بڑھ رہا تھا لیکن جماعت نے قرارداد مقاصد‘ اسلامی نظام تحریک‘ تحریک ختمِ نبوت‘ افغان جہاد کی حمایت اور جنرل محمد ضیا الحق سے تعاون کے ذریعے پاکستان کو ایک دوراہے پر ڈال دیا ہے۔ سرمایہ دار ممالک‘ اشتراکی بلاک اور مسلم دنیا‘ تینوں گروہوں کے لیے پاکستان ایک معما ہے جو دو قدم آگے بڑھتا ہے اور چار قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ پوجا کے خیال میں اس کا سبب پاکستان کا مذہبی طبقہ ہے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اسلام پرست‘ مخلص قیادت کے برسرِاقتدار نہ آنے سے وہ دلدل پیدا ہوئی جس کا پوجا دُکھ کے ساتھ ذکر کرتی ہیں۔
ڈاکٹر پوجا نے عالمی معاملات‘ خصوصاً مسلم ایشوز پر رائے دینے کی پالیسی کے سبب بھی جماعت پر تنقید کی ہے‘ مثلاً وہ معترض ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی مسلم افراد کے ساتھ کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے‘ جماعت آگے بڑھ کر اُس کی مذمت کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ بھارتی صحافیوں‘ دانش وروں اور قلم کاروں کی طے شدہ لائن کے مطابق مصنفہ یہ موقف اختیار کرتی ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے‘ فرقہ پرستی عروج پر ہے‘ صوبائی نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں‘بدعنوانی تمام حدود کو پار کرچکی ہے‘ اس لیے جماعت کو داخلی سیاست اور ملکی معاملات کے سدھار پر توجہ دینی چاہیے۔ بیرونی معاملات‘ خصوصاً بھارتی مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے اِکا دکا واقعات کو رائی کا پہاڑ نہیں بنانا چاہیے۔
بلاشبہہ یہ کتاب کی ایک خوبی ہے کہ معروف طریقے کے مطابق مولفہ نے پاکستانی اخبارات کے بہ کثرت حوالے دیے ہیں لیکن کیا یہ علمی اصولوں کی پامالی نہیں کہ انھوں نے جماعت کے اپنے رسائل و جرائد جماعت کے لٹریچر اور مجلسِ شوریٰ کی قراردادوں کا مطالعہ نہیں کیا‘ بعض باتیں تو سنی سنائی اور مضحکہ خیز ہیں‘ مثلاً: اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام میںپروفیسر خورشید احمد کے ساتھ مولانا مفتی محمود نے بھی کردار ادا کیا تھا ‘وغیرہ۔
مجموعی طور پر اس کتاب میں علمی دیانت اور معروضیت کا فقدان اور متعلقہ ناگزیر مآخذ تک مولفہ کی نارسائی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)
ماضی قریب میں متحدہ مسلم تنظیم UMO کا تصورانڈونیشیا اور لیبیا کی طرف سے سامنے آیا‘ مگر یہ تصور یو این کی بے حسی پر ’احتجاج‘ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم OIC اور عرب لیگ جیسی تنظیمیں موجود ہیں مگر ان سے کسی فعال کردار کی توقع کم ہی ہے۔ شاید اسی لیے جناب سحر رضوان نے یونائیٹڈ مسلمز آرگنائزیشن کا تصور پیش کیا ہے۔ ان کی کتاب کا عنوان بھی یہی ہے۔
مصنف نے ’درددل‘ کے عنوان سے دیباچے میں بتایا ہے کہ انھوں نے ۱۹۷۴ء میں یونائیٹڈ مسلمز آرگنائزیشن کے نام سے ایک کتابچہ تحریر کیا تھا۔ بعد کے معروضی حالات میں انھوں نے اس میں اہم اضافے کیے۔ یہ کتاب کسی فہرست کے بغیر چھوٹے چھوٹے عنوانات مثلاً: مسلم امہ کو درپیش مسائل‘ مسلم امہ کے اتحاد میں رکاوٹیں‘ یو این اور مسلم امہ‘ جدید سیکولر صلیبی جنگ‘ آیت اللہ خمینی کا اتحادِ عالم اسلام میں کردار وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا اہم حصہ ’’یو ایم او اوراس کے تنظیمی ڈھانچے‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ گویا سحررضوان صاحب کا مرتب کردہ دستور ہے جسے یوایم او اپنا سکتی ہے۔ مصنف مسلم اُمہ میں بیداری کی ایک لہر اٹھتی محسوس کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مختلف تنظیموں مثلاً ’ایکو‘ مصر شام فری ٹریڈ زون‘ ڈی-۸‘ خلیج تعاون کونسل اور موتمر عالمِ اسلامی کا ذکر پُرامید انداز میں کرتے ہیں۔
محسوس ہوتا ہے کتاب نظرثانی کے بغیر چھپی ہے۔ پروف کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں۔ اسلامی ممالک اور غیر اسلامی ممالک کی فہرستوں میں موجود نام آپس میں گڈمڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔ بلغاریہ‘ تنزانیہ‘ انگولا‘ چلّی اور گھانا کو اسلامی ملک بتایا گیا ہے‘ جب کہ یہ نہ تو مسلم ممالک ہیں اور نہ اسلامی ملکوں کی تنظیموں کے رکن ہیں۔ کتاب میں دو مسلمان ملکوں گنی اور ملائشیا کو مسلم اور غیرمسلم دونوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ایسی غلطیوں سے بچنا چاہیے۔ (فیض احمد شہابی)
عراق اور کشمیر جیسے سلگتے اور دل فگار موضوعات پر بہت سے ناول‘ کہانیاں اور نظمیں‘ غزلیں لکھی جاچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ نگہت سیما کے تین افسانوں کا مجموعہ ہے ۔
افسانہ ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘‘ پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم عراق کی گلیوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔ بغداد کی گلیاں رات کو تو الف لیلوی کرداروں کی کہانیاں سنا رہی تھیں مگر صبح ہونے پر وہاں خون کی ندیاں رواں تھیں۔ معصوم بچوں‘ بے کس مائوں اور بہنوں بیٹیوں کی چیخوں اور آہوں سے بغداد کے الف لیلوی خواب چکناچور ہوگئے مگر اہلِ بغداد جاگ اٹھے ہیں۔ وہ بغداد کے عبدالعزیز یا عبدالماجد ہوں یا پاکستان کا عمرستار‘ ان کے دلوں میں شہادت کی مشعلیں روشن ہیں۔ یہ وہ بغدادی ہیں جنھیں اپنے جسموں پر بم باندھ کر گھومنے میں لطف و سرور ملتا ہے۔ مصنفہ نے اہلِ عراق کے بے کس مسلمانوں کے جذبات کو بہت خوب صورتی سے اجاگر کیا ہے۔
دوسرے اور تیسرے افسانوں (راہ جنوں، نامہ بر بہار کا) میں کشمیر کے سلگتے چناروں اور کشمیریوں کی حرماں نصیبی کا تذکرہ ہے۔ نگہت سیما کے قلم نے حقیقی معنوں میں اہلِ کشمیر کے دلی جذبات واحساسات کی ترجمانی کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت بل پر موئے مبارک کی زیارت کے لیے جان دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور جن کے لیے جھیل ڈل کی خوب صورتی‘ چنار کی سرخ پتوں کی محبت اور کشمیر جنت نظیر جیسی بے مثال دلھن کا سارا حُسن اس وقت تک بے معنی ہے‘ جب تک کہ ان کے وطن میں آزادی کی صبح طلوع نہیں ہوتی۔ جب زعفران کے کھیت تباہ ہو جائیں‘ سبزہ زاروں میں آگ لگ جائے اور دھرتی لہو رنگ ہو جائے تو سید ثقلین شاہ (راہِ جنوں) اور عباس حسن (یہی نامہ بر ہے بہار کا) کے لیے ذاتی خوشی بے معنی ہوجاتی ہے۔ یہ افسانے جہادِ بالقلم کا عمدہ نمونہ ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ کاوش ادبی حلقوں میں سراہی جائے گی۔ (قدسیہ ہاشمی)
زیرنظر کتاب کے مصنف‘ جامعہ احتشامیہ کراچی سے وابستہ ہیں۔ ان کے زیرنظر مقالات ماہ نامہ حق نواے احتشام میں‘ وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ اقوام مغرب کی تاریخ پر بھی خاصا عبور رکھتے ہیں۔
مصنف نے اس کتاب میں ’رموز معراج شریف‘، ’فلسفہ قربانی‘، ’خدمت خلق‘ اور ’صدقہ کے فضائل و برکات‘پر بھی لکھا ہے۔ ایک مضمون ’رجب کے کونڈے‘ پر ہے۔ اس کے علاوہ ’التاریخ والتقویم‘ کے عنوان سے بہت وقیع مقدمہ ہے۔ آپ قمری حساب کے اہتمام اور شمسی حساب سے اجتناب ضروری سمجھتے ہیں لیکن معارف القرآن کے حوالے سے مولانا مفتی محمد شفیعؒ کی اس رائے سے متفق نظر آتے ہیں کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یااستعمال کرنا ناجائز ہے‘ بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور عدت کے معاملے میں تو قمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے مگر اپنے کاروبار‘ تجارت وغیرہ میں شمسی حساب استعمال کرے۔ (ص ۲۹)
مولانا ارکانی نے متعدد مضامین میں پاکستان‘ امریکا‘ انڈونیشیا‘ ترکستان‘تاجکستان‘ چیچنیا‘ افغانستان‘ سوڈان اور صومالیہ و یمن کی تاریخ بیان کی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا ایک حصہ جناب واجد رضا اصفہانی کے مضامین پر مشتمل ہے۔
مولانا واقعاتی معلومات اور اعداد و شمار کے لیے مقامی اخبارات و رسائل کا حوالہ دیتے ہیں‘ اگر وہ جدید و قدیم معروف کتابوں کے حوالے بھی ساتھ ہی دیتے تو بہتر تھا۔ یہ کتاب مذہبی‘ سیاسی اور عالمی معلومات کا ایک مجموعہ ہے۔ چند واقعات پر تبصرے بھی شامل ہیں۔ عالمِ اسلام سے دل چسپی رکھنے والے حضرات اور طلبا اسے اپنے لیے مفید پائیں گے۔ (ف - ا - ش)
صدیقی ٹرسٹ کراچی ایک عرصے سے مختلف النوع دینی‘ تبلیغی اور دعوتی کتابچے شائع کر کے تعلیمات اسلامی کے فروغ میں مفید خدمات انجام دے رہا ہے۔ زیرنظر کتاب میں ٹرسٹ کے بانی اور صدر نشین محمد منظورالزمان صدیقی کے مرتبہ ۵۵ کتابچوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ موضوعات گوناگوں ہیں: قرآن‘ حدیث‘ دعا‘ تقویٰ‘ اخلاق حسنہ‘ حسنِ معاشرت‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ‘ اقتصادی مسائل‘ آدابِ مجلس‘ مسجد کا احترام‘ قتل‘ خودکشی‘ حلال و حرام‘عالم اسلام‘ پاکستان اور صلیبی جنگ‘ مخلوط تعلیم‘ پاکستان کا مطلب کیا؟ عیسائیوں کی تبلیغی سرگرمیاں‘ صحت اور جیب کے دشمن (چائے‘ پان‘ سگریٹ) خواتین کے حقوق‘ پردہ‘ نیل پالش‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں مفکرانہ یا فلسفیانہ انداز کے بجائے سادہ‘ عام فہم اور سلیس اسلوب میں اسلامی تعلیمات کو متوازن انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کتابت ضرورت سے زیادہ جلی ہے اور اس میں پھیلائو بہت ہے۔ فنّی تدوین سے کتاب کا حجم کم ہوسکتا تھا اور قیمت بھی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
موجودہ دور میں اسلامی معاشروں میں رجوع الی القرآن کا روز افزوں رجحان عام مشاہدے میں آتا ہے۔ اس کا ایک اظہار قرآن کے حوالے سے مختلف نوعیت کی کتب کی تحریر و اشاعت میں اضافہ ہے۔ اب لکھنے والوں کا دائرہ علماے دین تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ جدید تعلیم یافتہ افراد بھی علم حاصل کر کے اس میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مصنف نے اسی حوالے سے زیرتبصرہ کتاب‘ مفتی محمد نوراللہ فاضل دیوبند اور محمد حنیف (سی‘ اے) کے تعاون سے مرتب کی ہے۔ اس کتاب کا دوسرا انگریزی چہرہ بائیں طرف ہے جہاں سرورق پر اس کا عنوان Quranic Commandments درج ہے۔
قرآن کے حوالے سے احکام القرآن ایک الگ مبحث ہے۔ اس پر متعدد کتابیں ملتی ہیں‘یہاں مصنف کا مقصد احکامات کی حکمت یا ان پر بحث نہیں ہے بلکہ اس کی ایک فہرست مرتب کرنا اور قاری کے لیے متعلقہ آیت تک رسائی کو سہل بنانا ہے۔ تبصرہ نگار کی رائے میں مصنف اس میں کامیاب ہے۔ مصنف کی سکیم کو سمجھ لیا جائے تو پھر اس سے فائدہ اٹھانا مضمون نگاروں‘ مقرروں اور مطالعہ کرنے والوں کے لیے بہت آسان ہے۔ مصنف کے اپنے الفاظ میں یہ کتاب صرف اور صرف احکاماتِ الٰہی پر مشتمل آیاتِ قرآنی کا مجموعہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو صاحبان مکمل قرآن کریم کے مطالعے کے لیے وقت نہ نکال سکیں تو وہ کم از کم اس کتاب کو پڑھ کر احکاماتِ الٰہی سے واقف ہوجائیں‘ خواہ مسلم ہوں یا غیرمسلم۔
کتاب کے پہلے حصے میں ’’مضامین احکاماتِ الٰہی‘‘ کے عنوان سے آٹھ موضوعات (ایمانیات‘ اخلاقیات‘ عبادات‘ معاملات حدود و تعزیرات‘ حلال و حرام‘ آداب‘ متفرقات) کی فہرست دی گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہر حکم جہاں جہاں قرآن میں آیا ہے‘ اس کا سورہ نمبر اور آیت نمبر درج ہے۔ دوسرے حصے میں ’’فہرست قرآنی احکاماتِ الٰہی‘‘ کے عنوان سے سورۃ فاتحہ سے سورۃ والناس تک ان ۵۵۴ احکامات کو ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے آگے سورۃ اور آیت نمبر‘ اور تیسرے حصے میں جس صفحے پر متعلقہ آیت ہے‘ اسے درج کیا گیا ہے۔ پہلے دونوں حصے اردو اور انگریزی میں اپنی اپنی طرف سے دیے گئے ہیں۔ تیسرے حصے (ص ۹۷ تا ۳۲۰) میں آیات کا متن اور اردو انگریزی ترجمہ تین علیحدہ کالموں میں دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایمانیات کے تحت ۱۹ نمبر پر حکم ہے: طاغوت سے اجتناب کرو جو سورہ نمبر۲ اور آیت نمبر۲۵۶-۲۵۷ ہے۔ دوسرے حصے میں اسی کا صفحہ نمبر ۱۲۸ ملتا ہے۔ تیسرے حصے میں صفحہ ۱۲۸ پر متعلقہ آیت مل جاتی ہے۔ یہ ایک مفید خدمت ہے جسے ہر لائبریری میں ضرور ہونا چاہیے۔ لکھنے پڑھنے والوں کی میز کے لیے بھی ناگزیر ہے۔(مسلم سجاد)
پروفیسر علی محسن صدیقی طویل عرصے تک کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ معارفِ اسلامی و تاریخ اسلام سے وابستہ رہے اور اس حیثیت میں انھوں نے بیش بہا علمی خدمات انجام دی ہیں۔ زیرنظر مجموعہ‘ اسلامی علوم و تاریخ کے موضوع پر ان کے پندرہ گراں قدر تحقیقی مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالات قبل ازیں مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب انھیں یک جا پیش کیا جارہا ہے۔ یہ مقالات مصنف کی نصف صدی کی تحقیق و ریاضت کا نتیجہ ہیں۔
ان مقالات میں خاصا تنوّع ہے۔ (قرآن میں غیر عربی الفاظ کی حقیقت۔ لفظ ’مولیٰ‘ کی اصطلاحی اور لغوی تشریح۔ عرب جاہلیت میں موالی کی حیثیت۔ اسلام کا نظام احتساب وغیرہ) بعض مقالات شخصیات پر ہیں (نظام الملک طوسی کے سیاسی نظریات۔ فاتح صقلیہ قاضی اسد بن فرات۔ امام ابوالفرج ابن الجوزی)۔ دو مقالات بغداد کے تعلیمی اداروں (جامعہ نظامیہ۔ جامعہ مستنصریہ) پر ہیں۔ اس مجموعے کی خاص خوبی یہ ہے کہ مصنف نے حواشی تحریر کرکے مقالات کی اہمیت کو دوچند کر دیا ہے۔ کتاب میں اگرچہ حوالہ جات اور کتابت پر خاص توجہ دی گئی ہے‘ اس کے باوجود چند غلطیوں کی طرف توجہ مبذول کرانا بے جا نہ ہوگا۔ ص ۱۵ پر سورہ النّباء کی آیت درج کی گئی ہے: اِلاَّ جَھِیْمًا وَّغَسَّاقًا، اصل میں اِلاَّ حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًاہے۔ ص ۴۱ پر مولی کا مادہ ’دل ی‘ نہیں بلکہ ’ول ی‘ ہے۔ اسی طرح ص ۵۴ پر مشہور عرب شاعر کا نام ’فرزوق‘ نہیں، ’فرزدق‘ ہے‘ وغیرہ۔
علی محسن صدیقی کی تحقیق میں دِقّت نظری اور باریک بینی نمایاں ہے۔ وہ تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُن کے مقالات خالصتاً علمی تحقیق (اکیڈمک ریسرچ) کا نمونہ ہیں۔ یہ مجموعہ ہماری علمی دنیا میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ (محمد ایوب لِلَّہ)
نسلی صفائی سے ذہن بوسنیا کی طرف جاتا ہے لیکن کتاب اٹھا کر دیکھیں تو یہ قصص القرآن کی کتاب ہے۔ حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ،قومِ عاد و ثمود‘قومِ لوطؑ، حضرت شعیبؑ، حضرت یوسف ؑ، حضرت موسٰی ؑاور بنی اسرائیل کے دیگر انبیا کے حالات ملتے ہیں۔ آغاز میں اللہ کے تصور پر بحث ہے‘ بدھ تصور‘ ہندو تصور وغیرہ‘ ۹۹اسماے حسنہ پر اس کو ختم کیا گیا ہے۔ کتاب میں دوسری آسمانی کتب میں رسولؐ اللہ کا جو ذکر آیا ہے آخر میں اس کا حوالہ ہے۔ قصص کا بیان قرآن پر مبنی ہے اور بیشتر تفہیم القرآن سے لیا گیا ہے ‘مصنف نے اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ اور عیسائی عقائد پر تفصیل ملتی ہے۔ (م - س)
ڈاکٹر رحیم بخش شاہین (۱۹۴۲ئ-۱۹۹۸ئ) اردو زبان و ادب کے معروف معلّم‘ ادیب‘ محقّق اور اقبالیات کے متخصص تھے۔ شخصی اعتبار سے وہ ایک خوددار‘ درویش منش اور قناعت پسند انسان تھے۔ اوائل میں انھوں نے حصولِ علم کے لیے بہت محنت کی‘ پھر وہ وقت آیا جب علمی حلقوں میں وہ ایک مسلّمہ اقبال شناس‘ دانش ور اور ممتاز ادیب تسلیم کیے گئے۔ صدر شعبۂ اقبالیات جامعہ مفتوحہ (اوپن یونی ورسٹی) کے منصب پر فائز ہوئے‘ مگر ان کا عالمانہ انکسار برقرار رہا۔ ان کے اٹھ جانے سے قحط الرّجال کا احساس مزید گہرا ہوا ہے۔
زیرنظر کتاب میں ان کے فکروفن اور شخصیت پر مضامین‘ ان کے مجموعۂ کلام پر آرا و تاثرات‘ منظوم خراج تحسین اور متفرق تاثرات و مکالمات اور دیگر مفید معلومات کو یکجا کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے ان کی شخصیت کا ایک مجموعی مثبت تاثر سامنے آتا ہے۔ یہ نفسانفسی کا دور ہے۔ لوگ قربت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں‘ مگر جانے والوں کو جلد بھلا دیتے ہیں‘ آج مرے کل دوسرا دن۔ لیکن ڈاکٹر شاہین‘ خوش بخت ہیں کہ ان کے ہونہار شاگرد وسیم انجم نے اپنے استاد سے بے لوث محبت کا ثبوت دیتے ہوئے‘ پہلے تو ان کا شعری مجموعہ چھاپا اور اب یہ دوسرا مجموعہ لائے ہیں۔
کتاب کی تدوین اور گٹ اَپ میں بہتری کی کافی گنجایش کے باوجود‘ وسیم انجم کی یہ کاوش قابلِ داد اور لائقِ ستایش ہے۔ اس سے ڈاکٹر شاہین کے احوال و آثار کی جامع تصویر سامنے آتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
اس تحقیقی اور تجزیاتی کتاب میں انکارِ حدیث کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ‘ اگرچہ بظاہر موضوع بحث تو چودھری غلام احمد پرویز کے فکروفن کو بنایا گیا ہے‘ لیکن مصنف نے مختلف پہلوئوں سے بحث کی وسعت اور موضوع کے پھیلائو میں ‘مختلف مذہبی تصورات پر بھی ایک جان دار محاکمہ پیش کر دیا ہے۔
پرویز صاحب کے ہاں مسلمہ دینی شعائر سے فرار‘ استدلال کی کمزوری‘ موقف میں تبدیلی‘ یکسوئی کے فقدان اور تضاد فکری کو جس پیرائے اور ربط کے ساتھ پیش کیا گیا ہے‘ وہ خود پرویز صاحب کے مریدوں کے لیے ایک چشم کشا آئینہ ہے۔
جدیدیت کی لہر اور امریکا کی زیرنگرانی تحریف فی الدین کی تحریک کا ہراول دستہ منکرین حدیث یا ان کے آس پاس کے خود ساختہ ’’ماہرین علوم اسلامیہ‘‘ ہیں۔ ان عناصر کے استدلال کی داخلی کمزوری کو سمجھنے میں بھی یہ کتاب مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر کتاب کے اسلوبِ بیان میں آسان نویسی پر توجہ دی جاتی تو اس کا دائرۂ تفہیم وسیع تر ہوجاتا۔ تاہم‘ اب بھی اہلِ شوق اس سے دلیل کی قوت حاصل کر کے معرکۂ حق وباطل میں ایک کمک حاصل کرسکتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے اردو میں مختلف موضوعاتی مجلّوں کے بعد‘ ادارے کے ایک جامع تحقیقی مجلے کا آغاز‘ زیرنظر وقیع پیش کش سے کیا ہے۔ موضوعات کے تنوع اور معیار کے ہر لحاظ سے یہ تحقیقی مجلوں میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ عالمی‘ملّی اور قومی مسائل کے حوالے سے پروفیسر خورشید احمد (عالمی سرمایہ دارانہ نظام)‘ ڈاکٹر انیس احمد (عالمی امن اور انصاف)‘ خالد رحمن (امریکا کی مزاحم قوتیں) اور نواب حیدر نقوی (پاکستانی معیشت) کے مقالات کے علاوہ خارجہ امور میں چین سے تعلقات اور داخلی امور میں شمالی علاقوں نیز خاندان کے ادارے پر انسٹی ٹیوٹ کی مطالعاتی رپورٹیں بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ انگریزی کی وجہ سے اسے پاکستان کے عالی مقام حلقوں میں اور بین الاقوامی تحقیقی دنیا میں بھی جائز مقام ملنا چاہیے‘ یقینا اس طرح مسائل پر درست نقطۂ نظر کے ابلاغ کا راستہ کھلے گا۔ (م - س)
قائداعظم محمد علی جناح کی خواہر محترمہ فاطمہ جناح کا ذکر قائداعظم کی سیاسی سرگرمیوں اور سماجی مصروفیات کے ساتھ ناگزیر ہے۔ وطن عزیز کے قومی حلقوں نے ۲۰۰۳ء کو ’’مادرِ ملت کا سال‘‘ قرار دیتے ہوئے مختلف تقریبات‘ بچوں کے تقریری مقابلوں‘ مطبوعات کی اشاعت‘ مضامین اور کتب نویسی کے انعامی مقابلوں کے ذریعے مرحومہ کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی کہ ممکن ہے اس طرح اس بااصول اور جرأت مند خاتون کی زندگی سے ہم کچھ سبق سیکھ سکیں۔
زیرنظر کتاب فاطمہ جناح کی توضیحی کتابیات ہے۔ پہلے حصے میں اُن کے بارے میں لکھی جانے والی ۹۳ کتابوں کا تفصیلی تعارف ہے۔ دوسرے حصے میں ۲۰۰۳ء کے دوران میں اخبارات و رسائل میں مطبوعہ مضامین کے حوالے یکجا کیے گئے ہیں۔تیسرے حصے میں مختلف شخصیات‘ طلبہ و طالبات اور بعض ایسی عام خواتین و حضرات کے تاثرات ہیں جنھیں محترمہ فاطمہ جناح کو دیکھنے اور ان سے ملنے کا موقع ملا۔ آخری حصے میں کچھ تصاویر اور فاطمہ جناح کے مضامین کی فہرست اور انگریزی کتابیات وغیرہ شامل ہیں۔
اپنے موضوع پر یہ ایک اچھی کتاب ہے جو فاطمہ جناح کا بخوبی تعارف کراتی اور مزید مطالعے کے لیے رہنمائی کرتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی محنت لائق ستایش ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ علمی و ادبی لحاظ سے بلوچستان کے سنگلاخ ماحول میں وہ بڑے استقلال اور لگن سے تصنیف و تالیف کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
محترم عبدالرشید ارشد کی تقریباً ۵۰ تصنیفات و تالیفات کی ایک مشترکہ خوبی یہ ہے کہ ان سب میں اسلام سے گہری جذباتی وابستگی اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک سنجیدہ فکرمندی نظر آتی ہے۔
زیرنظر کتاب میں اسلام اور دیگر ادیان کا مطالعہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسلام بنی نوع انسان کی‘ بلارنگ و نسل بھلائی چاہتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایک طرف تو یہود و نصاریٰ اسے ختم کرنے کے درپے ہیں اور دوسری طرف خود مسلمان بھی اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالے ہوئے ہیں۔ کتاب میں یہود کے عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہود کا مقصد محض ایک ملک حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے دیرینہ خواب (عظیم تر اسرائیل) کی تعبیر کے بعد ساری دنیا کی معیشت پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہودی تعلیمات کو فروغ دینے کے ساتھ وہ دیگر تمام مذاہب کے پیروکاروں خصوصاً مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس طرح فحاشی و بدکاری اور جنسی بے راہ روی کے ذریعے بھی وہ معاشروں میںانتشار پھیلانے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے ذریعے یہود کے عزائم پورے ہوئے‘ کلنٹن کو جنسی اسیکنڈل کے ذریعے پیچھے ہٹاکر جارج بش کی پشت پناہی کی گئی اور عراق و افغانستان میں مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں کو صف آرا کیا گیا۔ کتاب میں خاص طور پر پاکستان کے بارے میں اسرائیلی عزائم کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہماری قیادت کس طرح پکے ہوئے پھل کی طرح یہود و نصاریٰ کی جھولی میں گرپڑی ہے۔ مصنف نے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو بھی طشت ازبام کیا ہے۔ ہربات کے دلائل و شواہد اور حوالے پیش کیے گئے ہیں۔ (محمد ایوب لِلَّہ)
ڈاکٹر سفرالحوالی (پ: ۱۹۵۰ئ) نے خلیج کی جنگ کے زمانے ہی سے تحریر و تقریر کے ذریعے عالمِ اسلام کو خبردار کرتے رہے کہ امریکی افواج کی آمد‘ یہود کی برسوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ الحوالی کی فیتہ بند تقریریں عربوں میں خوب خوب مقبول ہوئیں مگر ۱۹۹۴ء میں حق گوئی کی پاداش میں انھیں قیدوبند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ اور ان کی کیسٹیں بھی ممنوع قرار پائیں۔
سفرالحوالی نے زیرنظر خطبہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو اسپین میں منعقدہ مشرق وسطیٰ امن کانفرنس کے پس منظر میں دیا تھا۔ مذکورہ کانفرنس میں امریکا اور روس کے صدور اور اسرائیل کے وزیراعظم بھی شریک ہوئے تھے اور یہ اسرائیل کو عربوں کے لیے قابلِ قبول بنانے (فلسطینیوں کے بقول ’قدس کی فروخت‘)کی مہم کا نقطۂ آغاز تھا۔
مصنف کے نزدیک مسئلہ فلسطین سیاسی اور نسلی نہیں بلکہ اس کا بنیادی تعلق قبلۂ اول سے ہے اور یہ ایمان کامسئلہ ہے۔ زیرنظرخطبے میں انھوں نے مسلمانوں اور اہلِ کتاب کی عداوت اور نصاریٰ پر یہودی عقائد کے غلبے کی وجوہ پر روشنی ڈالی ہے اور وضاحت کی ہے کہ عیسائی‘ بشمول ریگن و بش عقیدہ ہرمجدون (Armageddon) کے قائل ہیں۔ پوری عیسائی دنیا حضرت مسیحؑ کی آمد کی منتظر ہے جس کے بعد ان کے عقیدے اور توقعات کے مطابق‘ عیسائی ہزار سال تک دنیا پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔
سفرالحوالی نے امریکا میں سرگرم بہت سی یہود نواز شخصیات اور تنظیموں‘ صہیونی منصوبوں اور اس پس منظر میں عالمِ اسلام کے بارے میں مغرب کے اہداف اور مذموم مقاصد کا ذکر کیا ہے‘ مثلاً: فلسطین میں جہاد کا خاتمہ‘ دعوت الی اللہ سے روکنا‘ عربوں کی فوجی قوت کا خاتمہ‘ عسکری لحاظ سے عربوں کو یہودیوں کے تابع کرنا‘ ابلاغ عامہ اور تعلیمی نصاب میں تبدیلی‘ معیشت پر یہودیوں کی پوری گرفت‘ خلیج کے تیل اور پانیوں پر ڈاکازنی‘ اخلاقی پستی اور گراوٹ کا فروغ‘ ارضِ حجازکو یہودیوں کا خطہ بنانا وغیرہ۔ الحوالی نے اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے اور درپیش معرکے کی تیاری کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔
مبشرات (ناظم: محمد صہیب قرنی) نے اپنی پہلی کتاب‘ اہتمام سے شائع کی ہے۔ (ر-ہ)
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن لکھ کر اردو کے دینی ادب میں جو گراں قدر اضافہ کیا‘ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تفہیم سادہ و سلیس ادبی زبان میں فقہی مسائل‘ کلامی مباحث اور اسلام کی تحریکی روح کا وہ مرقع ہے جس سے ہر سطح اور ہر طبقۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
تفہیم کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس کا ترجمہ دنیا کی بہت سی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ اسے پاکستان کی بعض مقامی زبانوں میں بھی منتقل کیا جا چکا ہے۔ اب چھے جلدوں میں اس کا پشتو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے۔ پشتوزبان نہ صرف صوبہ سرحد کے بڑے حصے میں بولی جاتی ہے بلکہ افغانستان کی قومی زبان بھی ہے۔ جہادِ افغانستان کے زمانے میں محترم قیام الدین کشّاف نے مولانا مودودیؒ، سید قطب شہیدؒ اور حسن البنا شہیدؒ کی متعدد کتب کے ساتھ ساتھ تفہیم القرآن کا بھی پشتو میں ترجمہ کیا تھا مگر یہ افغانی پشتو میں تھا۔ افغانی پشتو اور صوبہ سرحد کے اکثر علاقوں میں بولی جانے والی یوسف زئی پشتو میں‘ الفاظ و تراکیب کی مماثلت کے باوجود‘ لہجے کے اعتبار سے‘ اور بعض اوقات لغات کے لحاظ سے بھی خاصا فرق ہے۔ یوسف زئی پشتو نہ صرف صوبہ سرحد کے تمام علاقوں کے لوگ سمجھتے اور بولتے ہیں بلکہ افغانستان کے اہلِ پشتو بھی اس کو بڑی حد تک سمجھتے ہیں۔ جب کہ افغانی پشتو سرحد والوں کے لیے کسی قدر نامانوس ہے‘ چنانچہ تخت بھائی ضلع مردان کے پروفیسر شفیق الرحمن صاحب نے یوسف زئی پشتو میں تفہیم القرآن کا مکمل ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس میں مولانا مودودیؒ کی تحریر کو پشتو کے قالب میں کچھ اس انداز سے ڈھالا گیا ہے کہ اس میں پشتو کی ادبی چاشنی بھی ہے اور تفہیم القرآن کی سلاست اور روانی بھی برقرار ہے۔ اس ترجمے میں بھی ایک کشش ہے جو آدمی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
اس اشاعت کی ایک خوبی یہ ہے کہ تفہیم القرآن کے صفحات کی ترتیب کو بالکل اصل کی طرح برقرار رکھا ہے اور جہاں ترجمے کے صفحات میں اضافہ ہوگیا ہے‘ وہاں ترتیب کو برقرار رکھنے کے لیے حروفِ تہجی کی ترتیب سے اضافی اوراق لگا دیے ہیں۔تفہیم القرآن کے آخر میں جو اشاریہ ہے‘ وہ بھی اسی ترتیب اور اسی انداز سے‘ بہ زبان پشتو‘ شامل کیا گیا ہے۔ (مگر تعجب ہے کہ جلداول‘ دوم اور چہارم میں اشاریہ نہیں دیا گیا؟)
اس مکمل ترجمے کے بعد‘ اسی مترجم کے قلم سے مختصر ترجمۂ قرآن بھی منظرعام پر آیا ہے۔ اس میں مترجم نے ایک طرف مولانا مودودیؒ کے اردو ترجمے کو سلیس پشتو میں ڈھالا ہے اور دوسری طرف بین السطور میں آسان لفظی ترجمہ بھی شامل کردیا ہے۔ مزید یہ کہ مختصرتفسیر میں دوسرے مفسرین سے بھی استفادہ کیاگیا ہے۔اس طرح دو جلدوںمیں یہ ایک مختصر مگر جامع پشتو تفسیر بن گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ پروفیسر شفیق الرحمن کا پشتو بولنے والوں پر احسانِ عظیم ہے۔ اس تفسیر کی مقبولیت کے سبب دو ماہ بعد اس کا دوسرا اڈیشن شائع کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مترجم اور مؤلف دونوں کو اجرعظیم سے نوازے اور اہلِ اسلام کو اس سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (گل زادہ شیرپاؤ)
دنیا کی مختلف زبانوں خصوصاً عربی اور اردو میں آنحضوؐر کی سیرت نگاری کی ایک پختہ روایت موجود ہے البتہ پنجابی زبان میں اس روایت نے قدرے مختلف صورت اختیار کی ہے اور یہ روایت منظوم سیرت نگاری کی ہے۔ زیرنظر کتاب‘ پنجابی زبان میں منظوم سیرت النبیؐ کے اُس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس کا آغاز گلزارِ محمدی (۱۸۶۵ئ) سے ہوا اور اب تک جاری ہے۔
محمد انورمیر کا شمار‘ ہمارے گوشہ نشین مگر پختہ فن شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے قرآن‘ حدیث اور سیرت پاکؐ کے وسیع مطالعے کی بنیاد پر پنجابی زبان میں یہ شہکار تخلیق کیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول: ’’اس کا اساسی آہنگ میاں محمد صاحب کی سیف الملوک کا ہے جو پنجابی میں اخلاقی و روحانی شاعری کا معیاری آہنگ بن چکا ہے‘‘۔ اس کی ہیئت مثنوی کی ہے جو طویل نظم کے لیے موزوں ہے‘ کہیں کہیں قصیدے کی ہیئت بھی اختیار کی ہے اور کچھ حصے آزاد نظم کے اسلوب میں ہیں۔
مصنف بتاتے ہیں کہ اس منظوم سیرت کی تحریک انھیں حفیظ تائب کی ایک نعت سے ہوئی تھی۔ انورمیر صاحب نے اس کے کچھ حصے حلقۂ ادب لاہور کے اجلاس میں بھی پیش کیے جس پر انھیں داد وتحسین ملی اور ان کا حوصلہ بڑھا۔ واقعاتِ سیرت منظوم کرتے ہوئے انھوں نے صحت و استناد کا خاص خیال رکھا ہے۔ کتاب پر پروفیسر تحسین فراقی نے پنجابی میں اور حفیظ الرحمن احسن نے اردو میں مقدمہ لکھا اور ڈاکٹر خورشید رضوی نے تقریظ۔ ان اصحابِ نقد و انتقاد کی تحسین و آفرین بھی اس کی عمدگی پر دال ہے اور اسے شہکار قرار دیے جانے کا جواز بھی۔
مجموعی طور پر یہ منظوم سیرت‘ محمد انورمیر کی راست فکری اور فنی صلابت کا عمدہ نمونہ ہے۔ سب سے اہم تو میرِحجازسے شاعر کی گہری قلبی وابستگی ہے‘ جو اس تخلیق کا محرک بنی اور جس نے اُن سے یہ پُرتاثیر منظوم سیرت لکھوائی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
جناب طالب الہاشمی صحابہ کرامؓ کی سیرت نگاری میں ایک قابلِ رشک تخصّص حاصل کرچکے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی ۱۵ تالیفات شائع ہوچکی ہیں‘ جن میں سات آٹھ سو صحابہ کرامؓ کے سوانحی نقوش منضبط کیے جاچکے ہیں۔ ان میں سے بعض تالیفات (سیرت خلیفۃ الرسول سیدنا صدیق اکبرؓ - سیرت حضرت ابو ایوب انصاریؓ- سیرت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ- سیرت حضرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ اور سیرت حضرت فاطمۃ الزہرائؓ) یک موضوعی تفصیلی مطالعے ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔
جملہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سیدنا حضرت ابوہریرہؓ کا امتیاز و انفرادیت یہ ہے کہ آپ سب سے بڑے راویِ حدیث ہیں‘بقول مؤلف: ’’ان سے ۵۳۷۴ احادیث مروی ہیں‘‘۔ یہ تعداد دوسرے کسی بھی صاحبِ رسولؐ یا صحابیہؓ سے مروی احادیث کی تعداد سے زیادہ ہے۔ اکثر اربابِ سیر نے حضرت ابوہریرہؓ کی جلالتِ قدر کا ذکر ان کی روایتِ حدیث ہی کے حوالے سے کیا ہے‘‘ (ص ۱۵)۔ آپ سفروحضر میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت رسول کریمؐ کی صحبت میں گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔
جناب طالب الہاشمی نے نہایت تحقیق و تدقیق اور تلاش و تفحص کے بعد سیدنا ابوہریرہؓ کے شخصی حالات و سوانح کے ساتھ کچھ اور پہلوئوں (مثلاً: آپ کے معمولاتِ شب و روز‘ جہادی سرگرمیوں‘ اخلاق و عادات‘ علمی زندگی‘ سفرِ آخرت اور آپ کے مقام و مرتبے) کی تفصیل جمع کی ہے۔ آخری حصے میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کردہ تقریباً ڈیڑھ سو ایسی احادیث کا اردو ترجمہ شاملِ کتاب کیا ہے جو زیادہ تر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اور چند ایک دیگر کتبِ حدیث میں ملتی ہیں۔
اپنے موضوع پر یہ مفصل اور مستند سوانح عمری‘ تعلیم و تربیت کے اعتبار سے بھی‘ ایک مفید کتاب ہے۔ کتابت و طباعت اطمینان بخش اور قیمت مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
بھارت اپنے دستور کی رُو سے ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولرازم کے معروف مفہوم کے مطابق بھارت میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور مذہب کی تبلیغ کی مکمل آزادی ہے۔ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ بھارت کی نصف صدی میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا‘ وہ سیکولرازم کا منہ چڑھا رہا ہے۔ ملازمتوں میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا ‘ اُردو زبان کو بتدریج ختم کرنے کی حکمت عملی‘ سیکڑوں خوں ریز فسادات‘ بلادریغ اور بعض اوقات پولیس کی سرپرستی میں قتل و غارت گری اور مکانات و املاک کی آتش زنی‘ پھر اسی تسلسل میں ۶دسمبر۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا۔ زیرنظرکتاب کے مرتب کہتے ہیں کہ اب رام مندر کی تحریک اپنے شباب پر پہنچ چکی ہے اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی زبردست تیاریاں کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف بھارتی مسلمانوں کی نوجوان نسل کو علم نہیں کہ بابری مسجد کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ اور رام مندر کے پسِ پردہ کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس موضوع پر کتابوں‘ اخباروں اور رسائل کو کھنگال کر اور بہت سی رپورٹوںاورقانونی و عدالتی دستاویزات کا مطالعہ کرکے بابری مسجد کے تاریخی پس منظر اور پیش منظر کے بارے میں دو جلدوں میں بڑا ہی اہم اور قیمتی لوازمہ جمع کیا ہے‘ اس کی حیثیت بابری مسجد کے انسائیکلوپیڈیا کی ہوگئی ہے۔ پہلی جلد ’’شہادت سے قبل‘‘ کی صورت حال پر اور دوسری جلد ’’شہادت کے بعد‘‘ کے وقوعات پر لکھے گئے مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے۔
یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابواب کے عنوانات سے اس کی جامعیت اور مباحث کے وسیع دائرے کا اندازہ ہوتا ہے: بابری مسجد کی دینی اور شرعی حیثیت۔ ہندتو: حقیقت‘ تاریخ‘ عزائم۔ بابری مسجد کی تاریخی حیثیت۔ بابری مسجد بنام جنم بھومی۔ شہید بابری مسجد: قانونی پہلو۔ اجودھیا تنازع۔ بابری مسجد‘ شہادت کے بعد۔ اجودھیا تنازع اور وزیراعظم واجپائی کے بیانات۔ متنازعہ مقامات کی کھدائی اور محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ۔ راے بریلی عدالت کا فیصلہ۔ بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں گواہوں کی دل چسپ داستان۔ وشواپریشد کے عزائم۔ بابری مسجد: موجودہ صورت حال۔ موجودہ حالات میں مسلمانانِ ہند کے لیے راہِ عمل‘ دستاویزات۔
ان مباحث میں بہت سی نئی باتیں اور چونکا دینے والے انکشافات ہیں‘ مثلاً: اترپردیش کے وزیر پنڈت لوک پتی ترپاٹھی کا بیان کہ ’’رام جنم بھومی کی تحریک امریکا میں شروع ہوئی اور ہندو مسلم تعلقات کو بگاڑنے کے لیے سی آئی اے اجودھیا میں شرارت کرتی رہی وغیرہ۔ مولانا عبدالحلیم اصلاحی نے ’’پیش لفظ‘‘ میں لکھا ہے کہ بابری مسجد کا مسئلہ ہندستان میں ملّتِ اسلامیہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور مسجد کو ازسرنو تعمیر کرنے کی کوشش مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے۔ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا تو آیندہ بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ذہنی اور فکری طور پر پسپا ہوچکا ہے اور یہ کتاب اسی پسپائی سے نکالنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔
بظاہر یہ متفرق تحریروں کا انتخاب ہے لیکن جو لوگ اخذ و ترتیب اور تدوین و تصنیف کے آداب اور دکھ درد سے واقف ہیں‘ وہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ عارف اقبال صاحب نے کتنے وسیع مطالعے‘ کتنی محنت اور کتنی کاوش و دیدہ ریزی کے بعد یہ کتابیں تیار کی ہیں۔
سارے لوازمے کو نہایت سلیقے اور حسن ترتیب کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے۔ کتابت‘ طباعت‘ سرورق اور جلدبندی سب کچھ عمدہ اور معیاری ہے اور قیمتاً نہایت مناسب ہے۔ مرتب اور ناشر اس کارنامے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (ر - ہ )
آندرے ژید نے ٹرائے کی جنگ کے حوالے سے ایک عجیب و غریب کردار کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب حملہ آوروں نے شہر پر قبضے کے لیے یلغار شروع کی تو شہر کے سبھی لوگ مال و دولت سمیٹے بھاگ رہے تھے‘ لیکن ایک نوجوان لڑکا اپنی پشت پر ایک بوڑھے کو‘ جو محض ہڈیوں کا پنجر تھا‘ لیے چلا جا رہا تھا۔ پوچھا گیا: ’’تم سب کچھ چھوڑ کر اس بڈھے کھوسٹ کو کیوں اٹھائے جا رہے ہو؟‘‘ نوجوان نے کہا:’’دولت تو کوشش کر کے دوبارہ مل جائے گی‘ لیکن ہڈیوں کا یہ پنجر میرے ماضی‘ میری دانش‘ اور میرے مستقبل کا نشانِ راہ ہے‘ یہ چھن گیا تو میرا سب کچھ چھن جائے گا‘‘--- افسوس کہ ہم نے اپنے نشاناتِ راہ کو بھلا دیا‘ گنوا دیا‘ بلکہ بوجھ سمجھ کر واقعی دفن کر دیا ہے۔ حالانکہ جو قومیں قحط الرجال کا شکار ہوں‘ ان کے لیے ماضی کے عظیم انسان لائٹ ٹاور کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔
پروفیسرڈاکٹر محمد سلیم ‘ نہ صرف پاکستان بلکہ ملت اسلامیہ کے ایک مایہ ناز سائنس دان‘ عالمی شہرت کے حامل ماہر طبیعیات (فزکس) اور ایک دردمند قلم کے مالک ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب‘ مصنف کے نومضامین کا مجموعہ ہے‘ جن میں: قائداعظم‘ مولانا محمد علی جوہر‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ حسرت موہانی‘ مولانا سید سلیمان ندوی‘ ظفر علی خان‘ مولانا شبیراحمد عثمانی‘ نواب بہادریار جنگ اور حکیم محمد اجمل شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی فرد کے ساتھ مصنف کو ہم نشینی کی سعادت تو نصیب نہیں ہوئی‘ لیکن اپنے سائنسی اسلوب‘ اختصار اور ’دوجمع دو مساوی چار‘ کے فارمولے پر عمل پیرا ڈاکٹر محمد سلیم صاحب نے مذکورہ بالا شخصیات پر قلم اٹھایا اور خوب لکھا ہے۔ ادب سے گہری مناسبت اور تاریخ کے پختہ ذوق نے ان کے اسلوب کو دل چسپ بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مستند مآخذ کو کشید کرکے‘ اور تنکا تنکا جمع کر کے ان خلدآشیانی حضرات کے شخصی خاکے تحریر کیے ہیں‘ بلکہ یوں سمجھیے کہ چلتی پھرتی تصویروں پر مشتمل ایک فلم پیش کی ہے‘ اس طرح زیربحث شخصیت کا ہر قابلِ ذکر پہلو ذہن پر نقش ہوجاتا ہے‘ اور خود شخصیت چلتی‘ پھرتی‘بولتی اور رہنمائی کرتی دکھائی دیتی ہے۔
ان تحریروں سے مختلف شخصیات کا جوہری پہلو اُبھر کر سامنے آیا ہے‘ اسے دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ اس کتاب کا نام ہوتا: ’’مسلم انڈیا کے نورتن‘‘۔ ہم ان مضامین کو نئی نسل کے مطالعے کے لیے لازم قرار دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مضامین ایک ثقافتی تحرک کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
صوفی محمد ضیاء الحق (۱۹۱۱ئ-۱۹۸۹ئ) مولانا اصغر علی روحی (۱۸۶۷ئ-۱۹۵۴ئ)کے بیٹے اور فارسی و عربی کے فاضلِ اجل تھے۔ نصف صدی کے قریب تدریسی خدمات انجام دیں اورہزاروں تلامذہ میں عربی زبان و ادب کا ذوق پیدا کیا۔ نام و نمود سے گریزاں‘ اور عمربھر گوشہ نشین رہے۔ ان کی بیشتر تصانیف مسودوں کی صورت غیرمطبوعہ پڑی رہ گئی۔ زیرنظر تالیف‘ مرحوم کے دو لائق شاگردوں (ڈاکٹر خورشید رضوی اور ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا) کی توجہ اور کاوش اور ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ کی دل چسپی اور علم دوستی سے منصہ شہود پر آئی ہے۔
بارہ منتخب نعتیہ عربی قصائد کا یہ مجموعہ ہے‘ معروف نعت گووں (حسان بن ثابت‘ امام بوصیری‘ امام برعی‘ شاہ ولی اللہ دہلوی‘ یوسف نبھانی‘ احمد شوقی‘ مولانا روحی اور خطیب مکی) کے دس ایسے قصیدوں پر مشتمل ہے جن کا قافیہ ہمزہ پر ختم ہوتا ہے۔ مجموعے میں دو بائیہ قصیدے (یعنی جن کا قافیہ حرف ’’ب‘‘ پر ختم ہوتا ہے) بھی شامل ہیں۔
انتخابِ قصائد کے ضمن میں مصنف کا معیار کیا رہا؟ اس سلسلے میں انھوں نے بڑی پتے کی بات کہی ہے‘ لکھتے ہیں: ’’نعت لکھنا درحقیقت بہت مشکل اور نازک کام ہے‘ بعض لوگ جادئہ اعتدال سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں اور صحیح نعت وہی ہوگی جس میں خدا کو خدا‘ رسول کو رسول اور اولیاء اللہ کو اولیاء اللہ ہی سمجھا جائے ورنہ یہ دھوکا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تعریف سے کبھی خوش نہیں ہو سکتے جس میں خدا کا درجہ کم کر کے رسولؐ کا رتبہ بڑھا دیا جائے یا جس میں خدا اور رسولؐ میں فرق نہ رکھا جائے ‘‘(ص ۴)۔ گویا نعت گو کے لیے مقامِ رسالت کا صحیح ادراک وشعور لازم ہے۔
مصنف ِ علام نے فقط نعتوں کے انتخاب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر نعت سے پہلے شاعر کے مختصر حالات‘ پھر شعر بہ شعر مشکل الفاظ و اصطلاحات اور اعلام کے معنی و مفہوم بتائے گئے ہیں‘ اس کے بعد اردو ترجمہ‘ پھر تشریح۔ اگر کسی شعر میں سیرت کے کسی خاص پہلو یا واقعے کی طرف اشارہ ہے تو تشریحات میں وہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح بعض اشعار کی تشریحات خاصی بھرپور اور طویل ہوگئی ہیں۔ بعض نعتوں میں مذکور مقامات کا تعارف بھی کرایا گیا ہے (ص ۳۶۷-۳۷۲)۔ یہ تشریحات مصنف کے علم و فضل اور سیرت النبیؐ پر ان کی عمیق نظر کی دلیل ہیں۔
یہ عربی نعت کا ایک خوب صورت تعارف ہے اور سیرت پاکؐ پر ایک اعلیٰ درجے کی کتاب بھی--- شیخ زاید اسلامی مرکز نے اسے شائع کر کے ایک لائقِ تحسین علمی خدمت انجام دی ہے۔ (ر-ہ)
مصنف نے دیباچے میں بتایا ہے کہ انھوں نے مسیحی فکر کو سمجھنے کا آغاز زمانۂ طالب علمی سے کیا۔ رفتہ رفتہ دل چسپی بڑھتی گئی‘ مطالعہ وسیع تر ہوتا چلا گیا اور انھوں نے اس موضوع پر باقاعدہ تحقیق شروع کی۔ اس کام کے سلسلے میں وہ بہت سے عیسائی اسکالروں سے بھی ملے جہاں جہاں سے جو جو معلومات انھیں دستیاب ہوئیں‘ ان سب کو تحقیق کی چھلنی سے گزار کر انھوں نے یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔ یہی ناشر (اسلامک اسٹڈی فورم) قبل ازیں بہائیت‘ قادیانیت اور فری میسنری پر کتابیں پیش کرچکا ہے۔
کتاب میں بائبل کے ارتقا‘ اس کی تدوین اور تشکیل کے مراحل اور ان تحریفات پر بحث کی گئی ہے جو مختلف ادوار میں کی جاتی رہیں۔ مصنف نے بائبل‘ یہودیت‘ عیسائیت وغیرہ پر مختلف مقالات کو بنیادی مآخذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔
کتاب بنیادی طور پر دو حصوںمیں ہے۔ پہلے حصے میں عیسائیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور عیسائیوں کی اناجیلِ اربعہ اور اس کی زمانی تشکیلات کا بیان ہے‘ نیز بعض عقائد کے سلسلے میں اسلام اور عیسائیت کا اختلاف اور متضاد نقطۂ نظر بھی بتایا گیا ہے۔ پھر عیسائیوں کے ان تبلیغی ہتھکنڈوں اور ان کی خفیہ اور علانیہ چالوں کا تذکرہ ہے جو وہ مسلم ممالک میں عیسائیت کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتاب کا دوسرا حصہ یہودیت اور یہود کی بائبل (عبرانی بائبل‘ اس کے قدیم نسخوں اور اس کے ترجموں) سے بحث کرتا ہے۔ پھر یہود کے عہدنامۂ قدیم کے بارے میں پائے جانے والے ایسے شکوک وشبہات کا ذکر ہے جو یہودیت اور خود عیسائیت کے اندر موجود ہیں۔ اس کے بعد یہودیت کے مختلف فرقوں کا بیان ہے۔ مجموعی اعتبار سے ‘آسمانی مذاہب میں جس قدر یہودیت اور نصرانیت نے تحریف کی ہے‘ اس کا مختصر مگر جامع خاکہ اس کتاب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اسلام کی حقانیت کا صحیح ادراک ہوتا ہے۔ یہ خالصتاً ایک علمی اور تحقیقی مطالعہ ہے۔ اردو اور انگریزی مآخذ کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
٭ رحمن کیانی‘ منتخب کلام۔ ناشر: رحمن کیانی میموریل سوسائٹی۔ بی‘۱۶۰‘ بلاک ۱۰‘ گلشنِ اقبال کراچی‘ فون: ۴۹۶۰۰۲۱۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ ] رحمن کیانی ۲۵ برس تک فضائیہ سے بطور ماسٹر ورانٹ افسر وابستہ رہے۔ ان کی شاعری میں اسلام اور پاکستان سے نظریاتی وابستگی بہت نمایاں ہے۔رزمیہ شاعری کی قومی‘ ملّی اور جہادی ترانے لکھے ؎
میں نقیبِ ملّتِ بیضا ہوں‘ میری شاعری
نغمۂ بربط نہیں‘ تلوار کی جھنکار ہے
ڈاکٹر سید عبداللہ‘ ممتاز حسن‘ نعیم صدیقی اور اشتیاق حسین قریشی ایسے اکابر نے ان کی شاعری کی تحسین کی ہے۔[
صحیح بخاری جس طرح کتبِ حدیث میں اَصحّ الکتب بعد کتاب اللّٰہ شمار ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ بجاطور پر اَدق الکتب بعد کتاب اللہ بھی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کی بے شمار شروح میں سے زیادہ مشہور اورممتاز دو شروح ہوئیں ۔ ایک حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانیؒ (م:۵۸۲ھ) کی فتح الباری اور دوسری علامہ بدرالدین محموداحمد العینیؒ (م: ۸۵۵ھ) کی عمدۃ القاری ہے۔ حال ہی میں علامہ مولانا معین الدین خٹکؒ کی معین القاری شرح صحیح البخاری شائع ہوئی ہے۔ یہ مولانا خٹک مرحوم کی تقاریر کیسٹوں سے اتار کر ان کے شاگردِ رشید حضرت مولانا محمد عارف نائب شیخ الحدیث جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کی زیرنگرانی اور ان کی کاوش سے مرتب کی گئی ہے۔
یہ صحیح بخاری کی مکمل شرح ہے۔ اس میں حدیث کا مکمل متن اور سلیس اُردو ترجمہ ہے‘ اور یہ ذکر بھی کہ صحیح بخاریمیں ایک حدیث کتنی جگہ آئی ہے۔ صحیح بخاریکی مشکلات کا حل اور ترجمۃ الباب کے تحت ذکر کردہ احادیث سے ترجمۃ الباب کا ربط پوری تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ترجمۃ الباب کے مباحث و مضامین‘ مستنبط مسائل اور آیات و احادیث کی جامع اورمفصل تشریح‘رُواۃ (حدیث) کے حالات‘ قدیم اور جدید فرق باطلہ اور ان کے فلسفوں اور نظریات پر سیرحاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ نئے اِزموں: سیکولرزم‘ سوشلزم‘ کمیونزم اور نئے فرقوں: قادیانیوں‘ منکرین حدیث اور ان کے مختلف گروہوں: پرویزیوں اور چکڑالولیوں کا عالمانہ مگر عام فہم تعارف وغیرہ۔
اردو اور عربی میں صحیح بخاری کی بہت سی شروح ملتی ہیں۔لیکن معین القاری‘ صحیح بخاری کی ایسی شرح ہے جسے عصرِحاضر میں دستیاب جملہ شروح میں وہی مقام حاصل ہے جو قرآن پاک کی تفاسیرمیں تفہیم القرآن کو حاصل ہے۔
معین القاری کا اندازِ بیان محض علمی اور تحقیقی ہے‘ مناظرانہ نہیں ہے۔ فقہی اختلافات بیان کرتے ہوئے ‘اپنے زمانے کے مکاتب فکر میں سے کسی پر طعن و تشنیع نہیں کی گئی۔ اس لیے تمام مدارس و مکاتب فکر کے علما و طلبہ اورعامۃ المسلمین بلاتردّد اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
ابتدا میں حضرت مولانا معین الدین خٹکؒ اور ان کے استاذ حضرت مولانا فخرالدینؒ کے سوانح اور مقدمے کے ساتھ بدء الوحی کی احادیث کی تشریح دی گئی ہے۔ مقدمے میں حدیث کی تعریفات اوّلیہ اور حجیتِ حدیث (از مولانا محمدعارف)‘ منکرین حدیث کے اعتراضات کا تجزیہ (از مولانا معین الدین خٹکؒ)‘ حدیث کا معیار‘ روایت و درایت‘ حدیث کی اصطلاحات‘ حدیث معنعن‘ حدیث منقطع‘ حدیث معضل‘ حدیث معلق‘ اصح الکتب کے بعد کتاب اللہ کی توضیح‘ مسالک اربعہ میں فرق اور صحاح ستہ کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ گویا اس شرح کی حیثیت انسائی کلوپیڈیا کی ہے۔ یہ نہ صرف دینی اور اسلامی تحریک کے وابستگان‘ بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقے‘ بلکہ دینی مدارس کے اساتذہ‘ صحیح بخاری کے پڑھانے والے شیوخ اورپڑھنے والے طلبہ کے لیے بھی ایک قیمتی تحفہ اور زادِ راہ ثابت ہوگی۔ (مولانا عبدالمالک)
متلاشی ذہنوں اور مضطرب دلوں کے لیے خالد بیگ کے کالم‘ اب کتابی شکل میں پیش کردیے گئے ہیں۔ وہ یہ کالم First Thing Firstکے عنوان سے دسمبر ۱۹۹۵ء سے Impact لندن میں لکھ رہے ہیں۔ اس کالم میں عصرحاضر سے متعلق اسلامی موضوعات کا ایک وسیع دائرہ زیربحث آتا ہے۔ بہت سے شائقین کے لیے امپیکٹ کا یہ وہ کالم ہے جس کا وہ بے چینی سے انتظار کرتے اور رسالے میں سب سے پہلے اسے پڑھتے ہیں۔
آج اسلامی معاشرے اپنی شناخت اور سند کی تلاش میں ہیں اور مسلمان اپنی انفرادی زندگیوں میں گمبھیر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں‘ یہ کالم اسی پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ خالد بیگ کی حقیقی مہارت ان کی اس صلاحیت میں ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے موجودہ حالات پر اسلام کے ابتدائی مآخذ سے رہنمائی اخذ کر کے مختصر تبصرے کرتے ہیں۔ فصاحت‘ بے ساختگی اور اختصار کے ساتھ وہ بڑی خوب صورتی سے مسائل کو اسلامی تناظر میں بیان کرتے ہیں۔ بیرونی اثرات کی پیدا کردہ الجھنوں کو صاف کرتے اور اپنے پڑھنے والوں کو بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے بیدار اور متحرک کرتے ہیں۔
خالد بیگ کو درست بات جامعیت سے کہنے کا ملکہ حاصل ہے۔ دوسرے مصنف جو بات کئی درجن صفحات میں کہہ پاتے ہیں‘ وہ انھیں دو تین صفحات میں خوب صورتی سے کہہ دیتے ہیں۔ ان کا غیرجانب دارانہ انداز‘ ٹھہرا ہوا سنجیدہ لب و لہجہ‘ سوچ بچار کی بنیاد پر متوازن آرا اور بصیرت افروز تبصرے‘ یقینا اس کتاب کو قاری کے لیے ایک جذب کرنے والا اور مالا مال کرنے والا تجربہ بنا دیتے ہیں۔ ان کالموں کے چند عنوانات : قرآن‘ رسولؐ سے محبت‘ عبادات‘ اسلام ہی حل ہے‘ انتخاب آپ کو کرنا ہے‘ ذاتی اصلاح‘ عورت اور خاندان‘ تعلیم‘ اتحاد‘ بہائو کی مزاحمت‘ تاریخ‘ ایک نظر وغیرہ‘ کل ۸۱ کالم ہیں جن میں سے ۲۰ ذاتی اصلاح کے موضوع پر ہیں۔
مصنف کے بقول یہ کالم لکھنے میں انھوں نے مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا ابوالحسن علی ندویؒ، مولانا منظورنعمانیؒ، مفتی محمد شفیعؒ، مفتی تقی عثمانی اور بعض دوسرے علما کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے۔ بعض کالم تو اردو سے براہ راست تلخیص کیے گئے ہیں۔
یہ کالم بہت مقبول ہوئے ہیں۔ اسپینی‘ ملائی‘ فرانسیسی‘ بوسنی اور اردو زبان میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں بھی انھیں مفید پایا گیا ہے۔(مسلم سجاد)
جس لمحے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کراسلام کی دعوت پیش کی‘ اسلام پر اعتراضات کاسلسلہ اسی وقت سے شروع ہوگیا۔ اعتراضات گوناگوں تھے حتیٰ کہ قرآن پاک اور رسولؐ اللہ کی ذات گرامی بھی اعتراضات کا ہدف بنی۔ حقائق اسلام میں مصنف نے ہر طرح کے اعتراضات کے مختصر شافی جواب دیے ہیں۔ مسلمانوں کے معاشرے میں رہنے والوں کو تو بہت کم ان اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن غیرمسلم معاشروں کے مسلمانوں کو ان اعتراضات سے روزمرہ واسطہ پیش آتا ہے۔
کیا قرآن واقعی اللہ کا پیغام ہے؟ رسول کریمؐ کی ازواج کی تعداد‘ حضرت زینبؓ سے نکاح ‘ حضرت عائشہؓ کی عمر ‘حج میں قربانی دولت کا ضیاع ہے‘ پردہ بے جا پابندی ہے اور بھارت کے خصوصی پس منظر میں گوشت خوری پر اعتراضات اور حیوانات کے حقوق جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ یقینا یہ ایک مفید اور ضروری کتاب ہے۔ مصنف نے ابتدا ہی میں لکھ دیا ہے کہ اعتراضات کا سبب اسلام سے ناواقفیت‘ مسلمانوں کی بے عملی اور جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ تدارک کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اسلام کا سچا نمونہ بنیں‘ غیرمسلموں سے ربط بڑھائیں اور اعتراضات کا جواب دیں۔ (م - س)
رمضان المبارک کے ۳۰ دنوں کے لیے‘ یہ روزانہ کا ایک دستور العمل ہے۔ دراصل یہ نگہت ہاشمی کے لیکچر ہیں جو رمضان کی مختصر تربیتی کلاسوںمیں دیے گئے۔ ان کی افادیت و مقبولیت اور فوائد و ثمرات کے پیشِ نظر ان لیکچروں کی طلب بڑھی‘ اور فوٹوکاپیاں مہیاکرنا مشکل ہوگیا‘ تو اب انھیں مرتب کرکے شائع کر دیا گیا ہے۔ ہر روز کے لیے قرآن کی ایک آیت (یا قرآن کے بارے میں ایک مختصر حدیث)‘ ایک دعا‘ وضو‘ نماز میں خضوع و خشوع اور اخلاق و انفاق کے لیے ہدایت--- آخر میں ’’آج کیا کریں‘‘ کے تحت ۲‘۳ کام کرنے کا عزم--- ہر عنوان کے تحت واضح نکات۔
رمضان میں ان ۳۰ اسباق کا اجتماعی مطالعہ‘ نیز گھروں میں بچوں کے ساتھ مل کر پڑھنا‘ ان ہدایات کی عملی صورتوں کا راستہ نکالنا‘ دعا یاد کرنا وغیرہ باعثِ افادیت ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مصنف طویل عرصے تک درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں اور انھوں نے بطور پرنسپل‘ ڈائرکٹر تعلیمات اور صدر نشین تعلیمی بورڈ ایبٹ آباد بھی خدمات انجام دی ہیں۔ تدریسی اور انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بخاری صاحب نے قرطاس و قلم سے بھی اپنا رشتہ بڑی خوبی سے نبھایا ہے۔ یہ بظاہر تو اخباری کالم ہیں اور فرمایش پر یا اشاعتی تقاضوں کی تعمیل میں لکھے گئے‘ لیکن درحقیقت یہ غوروفکر کی دعوت سے لبریز سندیسے ہیں۔
مصنف نے تاریخ‘ دانش‘ حرکت پذیری اور عبرت آموزی کو پہلو بہ پہلو لاکھڑا کیا ہے۔ ان میں سیاسیاتِ وطن سے لے کر سیاسیاتِ عالم تک کے رنگ ہیں۔ بخاری صاحب نے تواریخ و ادبیات کی پرپیچ وادیوں کی نشان دہی کی ہے۔ ان کے ہاں ہمیں حب الوطنی کی ایک متوازن لہر ملتی ہے۔
اگر مناسب پیراگراف بناتے ہوئے‘ ہرمضمون کے آخر میں تاریخ اشاعت بھی درج کردی جاتی تو مضمون کا پس منظر جاننا آسان ہو جاتا۔ بہرحال یہ چھوٹے چھوٹے مضامین عمدہ اسلوب میں اور دل کش انداز سے کسی اہم نکتے کی طرف توجہ دلاتے اور عمل پر ابھارتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
دیباچہ نگار ڈاکٹر احمد یوسف نے کتاب کو خاکوں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ بلاشبہہ بعض شخصیات کا ذکر اس حسن و خوبی سے کیا گیا ہے (خصوصاً کتاب کے آخری حصے میں) انھیں خوب صورت خاکوں میں شمار کیا جاسکتا ہے‘ لیکن زیادہ تر ایک ایک‘ دو دو صفحاتی شخصی تعارف ہیں۔ بعض تو بالکل ہی مختصر بلکہ سرسری‘ نصف صفحہ یا اس سے بھی کم‘ (ایک صاحب کا ذکر فقط پانچ سطروں میں ہے۔ اس کتاب کو شخصیات کا تذکرہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
ایک لحاظ سے یہ کتاب ’’یاد نگاری‘‘ کا نمونہ ہے۔ مصنف نے جن بزرگوں‘ اساتذہ‘ دوستوں‘ عزیزوں یا ہم کاروں سے کسی مرحلے پر اکتساب و استفادہ کیا‘ ان سے متاثر ہوئے (یا کچھ زیادہ تاثر نہیں بھی لیا) تو بلاکسی ترتیب کے اور بیش تر صورتوں میں کسی تمہید کے بغیر‘ ان کے بارے میں جو بات ذہن میں آئی‘ لکھتے چلے گئے۔ تواریخ (ولادت یا وفات) وغیرہ سے یہ تذکرہ ’’پاک‘‘ ہے۔ کسی شخص کا ذکر اچانک شروع ہوتا ہے اور ختم بھی اچانک ہوتا ہے۔
مصنف نے مجموعی طور پر افراد و اشخاص کی خوبیوں اور نیکیوں کا ذکر کیا ہے۔ انداز و اسلوب بے تکلفانہ اور کہیں بے باکانہ ہے۔ یہ بے باکی بعض اوقات نشترزنی کی حد تک جاپہنچتی ہے اور بعدازاں مصنف اپنی غلطی پر نادم ہوتے ہیں۔
ان خاکوں یا شخصی تذکروں سے سب سے اچھی‘ مفصل اور سچی تصویر خود مصنف کی اپنی بنتی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے کہیں کہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ محمود عالم صاحب کی اپنی یادداشتوں کا مجموعہ ہے۔ اگر کتاب کو خود مصنف ہی مرتب کرتے تو کیا حرج تھا؟ (ر - ہ )
سفرنامہ اب محض رودادِ سفر نہیں رہا‘ بلکہ سفرنگاروں نے جغرافیے کے ساتھ تاریخ اور مختلف معاشروں کے ماحول اور ان کی نفسیات کا ذکر شامل کر کے‘ سفرنامے کو ایک دل چسپ صنفِ ادب بنا دیا ہے۔ زیرنظر سفرنامہ اسی ذیل میں آتا ہے۔ صغیرقمر نے عمیق مشاہدات کو ایک بے ساختہ اسلوب میں پیش کر کے رودادِ سفرکو سفرنامے کا روپ دیا ہے۔
مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر روشناس کرانے کے لیے سردار اعجاز افضل خان‘ پروفیسر نذیراحمد شال اور صغیرقمر پر مشتمل ایک سہ رکنی وفد نے پانچ ملکوں کا دورہ کیا۔ اس دورے میں پاکستانیوں اور کشمیریوں سے خطاب کیا‘ ملاقاتیں کیں اور بعض مقامی دانش وروں اوربااثر افراد سے مل کر ان پر مسئلہ کشمیر کی اہمیت واضح کی۔ یوں یہ کتاب ایک بڑے مقصد کے لیے کیے گئے جرمنی‘ ناروے اور اسپین کے اسفار کی روداد پر مشتمل ہے۔ یہ مقصد ہی اُسے دیگر سفرناموں سے ممتاز کرتا ہے۔ (پیش لفظ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب اور سویڈن بھی گئے تھے۔ پھر ان کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ کم از کم سویڈن کا ذکر تو ناروے کے ساتھ ہی مناسب تھا)۔
صغیر قمر‘ زیرِسیاحت ممالک کے ماحول و معاشرت کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ ان ممالک کی تاریخ پر بھی نظرڈالتے ہیں۔ اس لیے ہر منظر پورے پسِ منظر کے ساتھ مجسم ہوکرسامنے آجاتا ہے۔ اسپین کے احوال میں مصنف کے اپنے مشاہدات کم ہیں اور تاریخی احوال نگاری زیادہ ۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
ہماری جامعات میں تحقیقی جریدوں کی روایت بہت مضبوط نہیں ہے۔ ماضی بعید میں جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ نے ایک رسالہ جریدہ کے نام سے جاری کیا تھا‘ ۱۷سال کے بعد ڈاکٹر معین الدین عقیل کے دورِ نظامت میں دوبارہ جاری ہوا۔ اب خالد جامعی اسے مرتب کر رہے ہیں۔ زیرتبصرہ شمارہ ۲۷ ’’چہ دلاور است‘‘ کے عنوان سے مشرق و مغرب میں سرقہ بازی کی تاریخ کے پُرلطف‘ دل چسپ اور انکشافات سے پُر بیانات پر مشتمل ہے۔ اس سے قبل اسی طرح کے ’’قدیم لسانیات و کتبات نمبر‘‘، ’’ادبیات نمبر‘‘اور ’’فلسفہ لغت نمبر‘‘ شائع ہوئے ہیں۔ ایک خاص شمارہ واحدمسلمان اور پاکستانی ماہرِآثار قدیمہ و تاریخ مولانا ابوالجلال ندوی کے تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔
زیرتبصرہ سرقہ نمبر اردو کے کسی عام قاری کی آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں ماہنامہ مہرنیم روز نے اس سلسلے کا آغاز کیا کہ ہر ماہ کسی ایک سرقے کا انکشاف کرے۔ یہ تاریخی سلسلہ‘ علم و ادب کے صنم خانے میں تکبیر بن کر گونجتا رہا۔ اس سلسلے میں لکھنے والوں میں دو نام نمایاں ہیں: سید حسن مثنیٰ ندوی اور سید ابوالخیر کشفی۔ تمام مضامین میں تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے سرقہ ثابت کیا گیا ہے۔ بہت سے اہم نام ہیں۔ ابوالکلام آزاد‘ عصمت چغتائی‘ مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر میر ولی الدین۔ نیاز فتح پوری نے ہیولاک ایلس کی پوری کتاب ترجمہ کر کے بہ عنوان: ترغیبات جنسی اپنے نام سے شائع کردی۔ نیاز فتح پوری کا‘ اُردو ادب میں بڑا نام ہے‘ مگر دوسروں کی چیزیں اپنے نام سے شائع کرنا انھیں خاصا مرغوب رہا۔ مرتب نے لکھا ہے کہ ۲۰ویں صدی کے سرقوں کی اقسام کو اس شمارے میں شامل نہیں کیا گیا‘ مثلاً دوسرے محققین کے مسودات چوری کر کے اپنے نام سے شائع کرا لینا‘ دوسرے محققین کی عسرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اونے پونے داموں پر مسودات خرید لینا‘ مختلف ناشرین اور اداروں کے پاس طباعت کے لیے آنے والے مسودوں کا مطالعہ کر کے اُسی موضوع پر اصل کتاب کی طباعت سے پہلے‘ ایک نئی کتاب شائع کرالینا‘ طلبا و طالبات کی تحقیق اپنے نام سے شائع کرالینا‘ اس کے علاوہ سرقے کے جدید ترین طریقے وغیرہ۔ جریدہ کے خصوصی نمبروں نے جامعہ کے اس شعبے کو پاکستان کی علمی دنیا میں اہم مقام دلوا دیا ہے۔ یہ شعبہ اپنی کارکردگی کے لحاظ سے دوسرے میدانوں میں بھی نمایاں ہے اور مفید خدمات انجام دے رہا ہے۔ محققین ‘ اساتذہ اور اہل علم ۵۰ فی صد رعایت پر یہ شمارہ حاصل کرسکتے ہیں۔(م - س)
’’رنگ چمن کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے جناب مدیر نے بڑی دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ ہمارے علمی زوال اور تعلیمی پستی پر اظہار رنج و افسوس کیا ہے‘ اور اس کے ساتھ ہی نظام تعلیم کی بے مقصدیت اور ابتری کے مہلک اثرات اور نئی نسل کی بے راہ روی اور اخلاقی شکست و ریخت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ: کیا یہ وقت نہیں کہ ہمارے ادبا اور شعرا اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اپنی قوم کے نوجوانوں کو بے مقصدیت اور بے راہ روی بلکہ کج روی کی تاریکیوں سے نکالنے کا فریضہ سرانجام دیں؟ یہ سوال ایک طرح کی دعوتِ فکر ہے اور اقدام کے لیے ایک نہایت مثبت اور مناسب تجویز بھی۔
سیارہ کے اس سالنامے میں‘ جو کئی مہینوں کے طویل وقفوں کے بعد منظرعام پر آیا ہے‘ ایسی معیاری تخلیقات شامل ہیں جو اس ادبی مجلے کی پہچان ہیں۔ حمدونعت‘ نظمیں‘ مقالات‘ رفتگان کا تذکرہ‘ غزلیں‘ خاکے‘ افسانے اور کتابوں پر تبصرے اور خصوصی مطالعے (مقالات‘ سارے کے سارے شعرا پر ہیں)۔ رئیس احمد نعمانی کا ’’سلام بہ حضور خیرالانامؐ،، اُمت کے حالات پر اچھا تبصرہ ہے۔ بعض تحریریں قندِمکررکے طور پر شامل کی گئی ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ شمارہ ہمیں اپنے دور کے اچھے لکھنے والوں سے اور معاصر ادبی رجحانات سے روشناس کراتا ہے۔(ر-ہ)
اسلام ابتدا ہی سے مستشرقین کے علمی حملوں کی زد میں رہا ہے۔ انھوں نے اسلام کو عیسائیت اور یہودیت کی ایک مسخ شدہ شکل ثابت کرنے کی بڑی کوششیں کی ہیں۔ ابھی تک تو بات حدیث کی صحت اور سند تک تھی‘ اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ قرآن کا متن بھی مستند نہیں ہے اور عہدنامہ قدیم و جدید کی طرح قرآن بھی بعد میں مرتب کیا گیا ہے۔ آرتھر جیفرے اور ایک پورے گروہ نے اپنی دانست میں بڑی ’علمی تحقیقات‘ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن دوسری تیسری صدی کا ایک من گھڑت افسانہ (نعوذ باللہ) ہے۔
زیرتبصرہ کتاب اسی موضوع پر ایک ہندستانی اہلِ علم مصطفی الاعظمی کی تصنیف ہے۔ یہ دیوبند اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل ہیں۔ انھیں شاہ فیصل ایوارڈ بھی ملا ہے (۱۹۸۰ئ)۔ ان کی یہ تصنیف گہری تحقیق پر مبنی ہے جس میں اب تک اسلام پر کیے گئے حملوں کا‘ دستاویزات کی بنیاد پر موثر دفاع کیا گیا ہے۔ مصنف کو کتاب کی تحریک ماہنامہ اٹلانٹک کے مشہور مضمون ’’قرآن کیا ہے؟‘‘ (۱۹۹۹ئ) سے ہوئی۔ مصنف نے اس کتاب میں مغرب کے تعصبات‘ دُہرے معیارات‘ دیدہ دلیری اور بعض اوقات صہیونی اثرات کے بارے میں اپنا مؤقف مضبوطی اور محنت و کاوش سے پیش کرنے کے بعد عہدنامۂ عتیق (ص ۲۱۱ تا ۲۶۱) اور عہدنامہ جدید (ص ۲۶۵ تا ۲۹۸) کے مختلف حصوں کے عکس بھی دیے ہیں اور ان کی تحریف کو ثابت کیا ہے۔ انھوں نے ۶۴صحابہ کرامؓ کی فہرست دی ہے جنھوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کے علاوہ بطور کاتب کام کیا۔ وہ آنکھیں بند کر کے اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ استنبول اور تاشقند کے نسخے وہی ہیں جنھیں حضرت عثمانؓ نے پھیلایا تھا۔
الاعظمی کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ بائبل کا بھی اسی معیار پر جائزہ لیا جائے تو حضرت موسٰی ؑ اور حضرت عیسٰی ؑکے وجود ہی سے انکار کرنا پڑے گا‘ اور یہ عہدنامے گم نام قصے کہانیاں معلوم ہوں گے۔ یہ مذاق کی بات نہیں کہ یہودیت اور عیسائیت کا تقابل قرآن کے اڑھائی لاکھ نسخوں اور عہدرسالتؐ کے لاکھوں حفاظِ کرام سے کیا جائے جو علاقائی لب و لہجے کے اختلاف کے علاوہ ایک ہی متن پڑھتے رہے۔ اس کا موازنہ اس حقیقت سے کیجیے کہ دوبارہ منظرعام پر آنے سے قبل تورات یہودی علمی تاریخ سے آٹھ صدیاں غائب رہی۔ اس کا کوئی مستند متن موجود نہیں اور یہ کہ عہدنامۂ عتیق کا عبرانی زبان میں جو مکمل مسودہ سامنے آیا وہ ۱۰۰۸ عیسوی کا ہے۔
مصنف کو بخوبی علم ہے کہ ہر طرح کے علمی شواہد کے باوجود‘ مستشرقین مسلمانوں کے عقائد کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے رہیں گے اور وہ اپنے اس موہوم خیال کو حقیقت بنا کر پیش کرنا بند نہیں کریں گے کہ قرآن نبی کریمؐ کی وفات کے ۱۵ برس بعدیکجا کیا گیا اور لکھا گیا۔ ان کا یہی مؤقف رہے گا کہ قدیم عربی رسم الخط ناکافی تھا اور قرآن ۱۰۰سال تک زبانی روایت رہا۔
بہرحال الاعظمی کی یہ کتاب اہم ہے اور امید ہے کہ وہ تمام مسلمان کو جو دعوہ سے متعلق ہیں اور علم و تحقیق سے وابستہ ہیں‘ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ (مراد ہوف مَین‘ ترجمہ و تلخیص: عبداللّٰہ شاہ ہاشمی۔ مسلم ورلڈ بک ریویو ۲۰۰۴ء )
راجا عبداللہ نیاز (۱۸۹۵ئ-۱۹۷۱ئ) لیّہ کے رہنے والے تھے۔ ساری عمر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ مطالعے کے رسیا اورشعروسخن کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ متعدد تصانیف نظم ونثر (خدااور اس کے رسول، یہ ہیں کارنامے رسولؐ خدا کے، صبحِ سخن) چھپ چکی ہیں مگر بہت سا تحریری کام غیرمطبوعہ ہے اور کچھ گم یا ضائع بھی ہوگیا۔ زیرنظر کتاب پروفیسر جعفربلوچ کی سعی و کاوش سے شائع ہوئی ہے۔
کتاب کے ایک حصے میں خوارق‘ انبیا بہ شمول اور رسول اکرمؐ کے بعض معجزوں‘ نیز انسانی مشاہدے میں آنے والے عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات‘ مثلاً: مُردے ہم کلام ہوتے ہیں‘ خوابوں میں سچی پیش گوئیوں اور ایسی باتوں کا تذکرہ ہے جن سے قوانینِ فطرت ٹوٹتے اور بدلتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں مصنف نے اخبارات‘ رسائل اور انگریزی کتابوں کے بکثرت حوالے دیے ہیں۔
ایک حصے میں قرآنِ حکیم کے معجزات کا ذکر ہے۔ (حفاظتِ قرآن‘ آیاتِ قرآنی میں شفا کی تاثیر‘ قرآن ایک بے مثال ادب پارہ‘ قرآنی نکات اور جدید سائنسی اکتشافات و ایجادات وغیرہ)۔ اس حصے میں مصنف نے قرآن اور فلسفۂ اخلاقیات‘ اسی طرح اسلامی عبادت کی انفرادیت اور پھر قرآنی پیش گوئیاں جیسے عنوانات کے تحت بھی دل چسپ واقعات بیان کیے ہیں۔
جناب احمد جاوید نے اپنے فاضلانہ دیباچے میں کہا ہے کہ کتاب کا بیشتر حصہ سائنس کے اور دینی مزعومات کے رد پر مشتمل ہے۔ مصنف نے معجزات‘ کرامات اور دیگر خوارق کی تسلیم شدہ مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی سعیِ محمود کی ہے کہ کائنات‘ سائنس کے تصورِ اسباب و علل کی بنیاد پر نہیں بلکہ مشیتِ الٰہیہ پر چل رہی ہے۔
اگرچہ کتاب کی تدوین ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکی لیکن جملہ مباحث بہت دل چسپ اور مصنف کی علمیت اور وسیع مطالعے کے آئینہ دار ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
بقول مصنف ہمیں ’’ایسے فنِ تاریخ نگاری کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنے آپ کو جاننے پہچاننے میں مدد دے‘‘۔ چنانچہ یہ کتاب ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتی ہے۔ اولین طور پر یہ اُردو زبان میں معرکۂ دین و سیاست کے نام سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی تھی۔
مصنف نے خلافتِ عباسیہ کاعمومی جائزہ لیا ہے۔ خلافت کی بادشاہت میں تبدیلی سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ انھوں نے بظاہر ’’خلفا‘‘ مگر اصل میں شاہانِ عباسیہ کے کردار پر سیرحاصل بحث کی ہے۔اس دور میں کیے گئے تشدد اورظلم و زیادتی پر مبنی اقدامات نہ اسلام کی نمایندگی کرتے ہیں نہ مسلمانوں کی‘ یہ بادشاہوں کے اپنے ذاتی فیصلے تھے۔ ’’فوج کی سیاسی مداخلت‘‘ ایک اہم باب ہے جسے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم نسلوں بعد بھی وہی غلطیاں دُہرا رہے ہیں۔ اسلامی خزانے میں ہونے والی خردبرد اور ایسے واقعات کی نشان دہی کی ہے جو اسلامی تاریخ و ثقافت کے چہرے پر دھبے ہیں۔ حکومت کا محکمہ قضا اور عدلیہ بھی دل چسپ واقعات سے پُر ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نامور علما‘ صلحا اور قضات نے جبر اور لالچ کو خاطرمیں لائے بغیر ہمیشہ حق گوئی اور عدل وا نصاف کا علم تھامے رکھا۔ آخری باب میں امام ابوحنیفہؒ کے انقلابی تصورات اور کارناموں کے ضمن میں درباری علما کے فتنۂ خلقِ قرآن اور فتنۂ اعتزال پر بھی سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
ڈاکٹر مقبول الٰہی نے ایک علمی کتاب کو انگریزی میں ڈھالنے میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ مترجم خود بھی ایک فاضل شخصیت اور ادیب ہیں۔ چنانچہ انھوں نے نعیم صاحب کی شستہ اور ادیبانہ زبان اور شاعرانہ جملوں کا مفہوم کامیابی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔
کتاب مجلد ہے اور اچھے کاغذ پر‘ خوب صورت سرورق کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ تاریخ‘ عدلیہ‘ آزادیِ راے اور اسلامی انقلاب کے لیے کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک نادر تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)
اُمت مسلمہ مصائب و آلام اور مظلومیت کی زندگی گزار رہی ہے لیکن اپنے مسائل کی حقیقی نوعیت سے بے خبر ہے اور نہیں جانتی کہ ان کا حل کیسے نکل سکتا ہے۔ زیرنظرکتاب میں اُمت کے ایک بہت اہم اور سلگتے ہوئے مسئلے اور مشرقِ وسطیٰ کے ناسور فلسطین کی نوعیت‘ پس منظر اور پیش منظر کو واضح کیا گیا ہے۔
بقول عبدالرشید ترابی: پاکستان میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لیے ذاکر خان نے بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ وہ دردِ دل رکھنے والے ایک نوجوان قلم کار ہیں۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت‘ حماس اور پی ایل او کی جدوجہد‘ انتفاضہ‘ جہاد فلسطین میں خواتین کے کردار‘ مہاجرکیمپوں اور اسرائیلی جیلوں میں بے گناہ فلسطینیوں پر بے پناہ مظالم اور ان کی حالت زار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ انسانی حقوق اور معاہدات کے حوالے سے مغرب اور امریکا کا کردار کیا ہے اور عالمی صہیونی تحریک اور موساد‘ بھارت کی مدد سے مسلم ممالک کو ختم کرنے کے کیا منصوبے رکھتی ہے؟ کتاب اپنے موضوع پر جامع ہے اور مسئلہ فلسطین پورے سیاق و سباق کے ساتھ اُجاگر ہوجاتا ہے۔ (ع - ش - ہ )
ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا گذشتہ ۳۰ برس سے اسلامی معاشیات اور اسلامی بنک کاری پر گراں قدر کام سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے عرصۂ دراز تک پاکستان کے مختلف اداروں کے علاوہ سعودی عریبین مانٹیری ایجنسی اور اسلامی ترقیاتی بنک کے ادارے اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں بطور مشیر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس دوران میں انھوں نے ۱۲ کتب اور ۸۱مقالے تحریر کیے۔
زیرتبصرہ کتاب مصنف کے تین انگریزی مقالوں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے معاشی زندگی کے بعض سلگتے مسائل پر بحث کی ہے۔ ایک شعوری مسلمان ان سوالات کے مدلل جوابات کا طالب ہوتا ہے‘ مثلاً: کیا اسلام نے واقعی سود کو حرام قرار دیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی کیا وجوہ ہیں؟ حرمت ِ سود کے پیچھے کیا حکمتِ کار فرما ہے؟ مزیدبرآں کیا سود کے بغیر بنک کاری کا نظام ممکن ہے؟
ڈاکٹر محمد عمرچھاپرا نے حرمتِ سود کی حکمتوں اور مصلحتوں پر نئے انداز سے تحقیق کے ذریعے مندرجہ بالا سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ انھوں نے ربا اور سود کے درمیان لفظی خلطِ مبحث کی بنیاد پر بعض لوگوں کی طرف سے پیدا کیے گئے فرق کو قوی دلائل سے رد کیا ہے۔ اسی طرح ربا النسیہ اور ربا الفضل کے بارے میں پیدا کی گئی الجھنوں کا شافی جواب دیا ہے۔
غیر سودی بنک کاری کے بارے میں کچھ لوگ توسنجیدگی سے کچھ سوالات اٹھاتے ہیں مگر بعض لوگ بلاوجہ ہی اشتباہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اخلاقی انحطاط کی وجہ سے اسلامی بنک کاری ممکن نہ ہوگی؟ اس اہم سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے جدید بنک کاری کے تجربات کی بنیاد پر کئی عملی تجاویز دی ہیںجن کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اسلامی بنک کاری کے ضمن میں ہونے والی کامیابیوں کا احوال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی بنک کاری کی راہ میں حائل مشکلات کا حل بھی تجویز کیا گیا ہے۔ مزیدبرآں ہر باب کے اختتام پر حواشی اور مصادر دیے گئے ہیں۔
یہ کتاب اسلامی معاشیات اور اسلامی بنک کاری کے موضوع پر اردو زبان میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)
سفرنامہ محبوبیہ بلاداسلامیہ (ترکی‘ شام‘مصر‘ لبنان‘ اردن‘ دبئی اور حجاز) کے اسفار پر مشتمل ہے۔ مصنف ایک راست فکر دانش ور‘ بلند پایہ انشاپرداز‘ عمدہ شاعر اور صاحبِ اسلوب قلم کار ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور اپنے مشاہدات اور تجربات کی وسعت کے سبب ان کے ہاں ایسی بصیرت ملتی ہے جو دیگر سفرنگاروں میں کم کم پائی جاتی ہے۔
سفرنامے کے مصنف نے ۱۷‘ ۱۸ سال عرب امارات میں بسر کیے اور ان ممالک کے بیسیوں نہیں دو سو بار سفر کیے۔ گردوپیش اور وہاں کے ماحول اور معاشروں میں جذب ہوکر ان کا مطالعہ اور تجزیہ کیا‘ تاریخ کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ تاریخ کو بنتے بگڑتے دیکھا۔ معاشرت کی جھلکیاں بار بار سامنے آتی ہیں۔ مصنف کا ماٹو ہے کہ سفر‘ علم و عمل اور عرفان و آگہی کی عملی درس گاہ ہے۔اس لیے ان کا یہ سفرنامہ فکرونظر کے نئے دریچے کھولتا ہے۔ نامور کالم نگار عرفان صدیقی کے بقول: ’’یہ بالکل ہی منفرد انداز و اسلوب کا سفرنامہ ہے جس میں مسافر یا سیاح محض گردوپیش کے مناظر‘ تہذیب و معاشرت کے رنگ ڈھنگ‘ افراد کے انداز و اطوار‘ قابلِ دید مقامات کی سج دھج… ذاتی تجربات و مشاہدات ہی کا تذکرہ نہیں کرتا بلکہ ٹھوس افکار اور سنجیدہ مباحث کا دبستان کھول دیتا ہے‘‘۔
پیش لفظ ڈاکٹرنگار سجاد ظہیر کے قلم سے ہے۔ کتابت و طباعت عمدہ ہے۔ تصاویر بھی شامل ہیں۔ ص ۳۳ کی پہلی تصویر ایاصوفیا کی ہے‘ نہ کہ مسجد سلیمانیہ کی۔ (ع - ش - ہ )
ایک تاریخ نویس‘ صحابہ کرامؓ کے سوانح نگار اور سیرتِ نبویؐ کے مولّف کی حیثیت سے جناب طالب الہاشمی کا نام نامی محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ سیرتِ طیبہؐ سے متعلق اس سے پہلے سات تالیفات شائع کر چکے ہیں (اخلاقِ پیمبریؐ، معجزاتِ سرورِ کونینؐ، ارشاداتِ داناے کونینؐ، وفودِ عرب، بارگاہِ نبویؐ میں، ہمارے رسول پاکؐ، جنت کے پھول، حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ)۔ ان میں سے بیشتر سیرت نبویؐ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ زیرنظر کتاب اس اعتبارسے ان سب میں ممتاز‘ منفرد اور جامع ہے کہ اس میں سیرتِ پاکؐ کے جملہ پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
رحمتِ دارینؐ کے دیباچہ نگار جناب حفیظ الرحمن احسن نے اس کے بعض امتیازات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایجاز و اطناب میں توازن‘ اختلافی امور میں طویل مباحث سے گریز‘ سیرت کے بعض نادر پہلوئوں کا ذکر‘ مستند اور معتبر روایات سے استناد اور متعلقاتِ سیرت پر مفید حواشی کا ذکر کیا ہے۔ ہمارے خیال میں سیرت النبیؐ کے موضوع پر یہ کتاب فاضل مولّف کی ماہرانہ دسترس کا ثبوت ہے۔ مولّف نے موقع بہ موقع قرآن پاک‘ حدیث نبویؐ اور تواریخِ سیرت سے حوالے دیے ہیں۔ اسی طرح عربی اشعار اور(حالی‘ شبلی وغیرہ کی) بعض اردو نظموں کے ذریعے بیان کو زیادہ واضح اور مؤثر بنایا ہے۔
رحمت ِدارینؐ کی ایک خوبی یہ ہے کہ مولّف نے افراد‘ مقامات اور کتابوں وغیرہ کے ناموں کے صحتِ تلفظ کا اہتمام کیا ہے اور بڑے التزام سے اِعراب لگائے ہیں (ص ۳۸۶ پر عربی شعر پر اعراب نہیں لگ سکے)۔ یہ اہتمام و التزام‘ سیرت پاکؐ کی بہت کم کتابوں میں نظرآتا ہے۔ بعض اختلافی روایات کا ذکر حواشی میں کر دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر جناب طالب الہاشمی نے رحمتِ دارینؐ کی تحریر و تصنیف میں نہایت اہتمام‘ لگن اور دیدہ ریزی سے کام لیا ہے۔ یہ ان کے طویل تصنیفی و تالیفی تجربے‘ سیرت نبویؐ کے برسوں کے مطالعہ و تحقیق اور تین برس کی محنت ِشاقہ کا نتیجہ ہے۔ امید ہے سیرتِ پاکؐ پر ان کی یہ تالیف قبولِ عام حاصل کرے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
الفرقان کے نام سے قرآن پاک کے ابتدائی حصے کے مطالب و مضامین پر دو جلدیں شائع کرنے کے بعد‘ شیخ عمرفاروق نے احادیث کا مجموعہ الحکمہ کے نام سے پیش کیا ہے اور یہ بھی طالبان و شائقین کو ہدیتاً فراہم کیا جا رہا ہے۔
انداز و اسلوب ایسا دل کش کہ پڑھنے کو دل چاہے اور پڑھتے ہی چلے جائیں۔ آیات‘ احادیث‘ اشعار اور عام متن میں صحت کا خصوصی اہتمام‘ موضوعات کے لحاظ سے انسانی زندگی کے تمام دائروں کے بارے میں خصوصاً اخلاقی حوالے سے ہدایات‘ ہر باب کے آخر میں ایک دعا کا التزام‘ اس مجموعے کی خصوصیات کہی جا سکتی ہیں۔ بیشتر احادیث ریاض الصالحین سے لی گئی ہیں اور عبادات و معاملات کے ابواب آگئے ہیں۔ شیخ عمرفاروق کا تشریح و بیان کا اپنا انداز ہے جس میں دوسری متعلقہ احادیث وآیات‘ برمحل اشعار‘ دیگر علما کی کتابوں کے اقتباسات‘ سب جڑتے چلے جاتے ہیں اورایسا مختصر وعظ بن جاتا ہے جو مجلسوں میں پڑھا جائے تو دل چسپی سے سنا جائے۔ اس لیے کہ حالاتِ حاضرہ کے حوالے بھی آجاتے ہیں۔ شیخ صاحب اس عمر میں جو محنت کر رہے ہیں‘ وہ انھی کا حصہ ہے اوریقینا من جانب اللہ ہے۔
شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ باہرجاکر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینا سب پر فرض نہیں ہے‘ یہ تو اہلِ علم کا منصب ہے کہ اہل خانہ کے لیے نان و نفقہ مہیا کر دیا‘ بال بچوں کی حفاظت کا انتظام بھی ہوگیا‘ اب شوق سے دعوت و تبلیغ کے لیے نکلیے (ص ۲۷۳)۔ یہ ایسا لگا کہ سب بچوں کی شادیاں کر کے حج کا سوچا جائے۔
الحکمہ‘ ڈاک سے بھیجنے کا انتظام نہیں‘ مصنف سے بطور ہدیہ دستی وصول کیا جا سکتا ہے (فون: ۷۵۸۵۹۶۰)۔ (مسلم سجاد)
عبادت کے حوالے سے ایک عام تصور نماز‘ روزہ‘زکوٰۃ‘ حج ہی کو کل عبادت سمجھ لینا ہے‘ جب کہ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں میں سید مودودی علیہ الرحمہ نے زندگی کے ہر دائرے میں اللہ کی اطاعت کو ’عبادت‘ قرار دیا جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے‘اور نماز روزہ کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے کے ذرائع قرار دیا۔زیرنظر کتاب اسلام کے اس تصور کو نہایت جامع اور علمی و تحقیقی انداز سے پیش کرتی ہے۔ اس میں‘ مصنف نے علامہ ابن تیمیہؒ، ابن قیمؒ، امام غزالیؒ، مولانا مودودیؒ، سید سلیمان ندویؒ اور دیگر اصحابِ علم سے بھی استفادہ کیا ہے۔
علامہ یوسف قرضاوی نے انسان کے مقصدِحیات سے آغاز کرتے ہوئے عبادت کی حقیقت پر گفتگو کی ہے اور دوسرے مذاہب میں عبادت کے ناقص تصور کے پس منظر میں اسلام کے جامع تصور کو واضح کیا ہے۔ عبادت کی قبولیت کا معیار کیا ہے؟ اس حوالے سے روحِ عبادت‘ عبادت میں اخلاص‘ خشوع و خضوع اور احکامِ شریعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آخر میں (۱۵۰ صفحات) مسنون عبادات ‘یعنی نماز‘ روزہ ‘ حج‘ زکوٰۃ پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ دو عبادات کا اضافہ کیا ہے: امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ۔
فاضل مصنف نے عبادت کے حوالے سے شرک اور بدعت پر بھی گفتگو کی ہے‘ یعنی عبادت صرف اللہ کی کی جائے اور بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کی جائے۔ انھوں نے دین کے آسان ہونے پر ایک الگ باب قائم کیا ہے اور بہت سی مثالیں دے کر‘ دین کو مشکل بنانے والوں پر گرفت کی ہے۔ موزوں پر مسح‘ جمع الصلاتین‘ ننگے سرنماز جیسے مسائل اسی ذیل میں آتے ہیں۔
تبصرہ نگار اس راے کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بہت اچھی اور معلومات افزا مفصل کتاب ہے لیکن ایک تاثر یہ ہوتا ہے کہ جیسے اصل موضوع پر گرفت نہیں ہو رہی اور تمام امور منطقی ربط میں نہیں ہیں۔
خدابخش کلیار صاحب نے بہت خوب ترجمہ کیا ہے‘ تاہم ’اسلام کا تصورِ عبادت‘ بہتر نام ہو سکتا تھا۔ (م - س)
گذشتہ ۳۲ برس سے افغانستان کی سرزمین بارود کی بو اور خون کے سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ظاہرشاہ بیک وقت روسی اور اشتراکی آلہ کار تھا‘ اس کے اقتدار کے خاتمے پر کمیونسٹوں نے ’انقلاب کے لیے خون‘ کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ۱۹۷۸ء میں ملفوف جوابی اشتراکی انقلاب آیا اور ۱۹۷۹ء میں اشتراکی کوچہ گردوں نے کابل کو اپنی آماج گاہ بنانا چاہا۔ ۱۹۹۲ء میں ان کا چراغ گل ہوا تو وہ ایک دوسرے روپ میں جہادی گروپوں کو باہم لڑانے کے لیے امریکی کیمپ کے طرف دار بن گئے۔ بعدازاں اکتوبر ۲۰۰۱ء میں امریکا نے پورے لائولشکر کے ساتھ افغانیوں کے کوہ و دمن کو نشانہ بنایا۔ ایک ملک دو انتہائی ظالم سامراجیوں کا نشانہ بنتا ہے اور اس کے ہمسائے ملک پاکستان میں چند ایک کے سوا کوئی صاحب ِ علم صحافی دکھائی نہیں دیتا جو حالات و واقعات کا صحیح تناظر میں تجزیہ کرسکے۔ مختارحسن کے انتقال (اگست ۱۹۹۵ئ) کے بعد اس فریضے کی ادائی کے لیے امان اللہ شادیزئی ایک صاحب ِ نظر دانش ور اور ہوش مند تجزیہ نگار کی صورت میں سامنے آتے ہیں‘ جو واقعات کو ان کے ظاہر سے زیادہ‘ ان کے پسِ پردہ حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
اس کتاب میں مصنف نے اپنے مضامین میں مسئلہ افغانستان کو سمجھنے اور پاکستان میں اس مسئلے سے پیوستہ جڑوں کو کھوجنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔انھوں نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں آنے والی تباہی کے دیگر محرکات کے ساتھ خود پاکستان کے نام نہادقوم پرستوں نے بھی اس ظلم میں اپنا حصہ ڈالا۔ آج بلوچستان میں پیدا کی جانے والی بے چینی کے محرکات بھی اس کتاب میں ظاہر ہیں اور خود افغانستان میں رونما ہونے والی مزاحمت کے آثار بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ (سلیم منصورخالد)
عامر عثمانی ؒ(امین الرحمن عامر ۱۹۲۰ئ-۱۹۷۵ئ) مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ کے برادر زادے تھے۔ ماہنامہ تجلّی کے مدیر کی حیثیت سے ان کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ ایک بے باک صحافی‘ پختہ قلم نگار اور منفرد طنزنگار کے علاوہ عمدہ شاعر بھی تھے۔
یہ قدم قدم بلائیں ان کی نظموں اور غزلوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے حفیظ جالندھری کے انداز میں ان کی ایک کتاب شاہنامہ اسلام‘ جدید منظرعام پر آچکی ہے۔
یہ مجموعہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں ۴۵ غزلیں اور دوسرے حصے میں ۲۲ نظمیں شامل ہیں۔ آخر میں مختلف موضوعات پر خاصی تعداد میں قطعات بھی موجود ہیں۔ ان کی غزل ہو یا نظم‘ ہر جگہ ان کی دینی سوچ اور پاکیزہ خیالات بولتے سنائی دیتے ہیں۔ ان کے قلم کی روانی کے ہمراہ ان کا منطقی اندازِفکر ہر کہیں جلوہ گر نظرآتا ہے۔ قومی شاعری کے ضمن میں ان کا کلام ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ بعدازمرگ ان کی شاعری کے مجموعے کی یہ اشاعت ان سے مولانا حسن احمد صدیقی کی محبت اور ان کے دیگر نیازمندوں کی عقیدت کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ کتاب کے شروع میں مولانا عامر عثمانی کی وفات پر مولانا ماہر القادری کا لکھا مضمون بھی کتاب میں شامل ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ (سعید اکرم)
بڑی شخصیات اپنے بہت سے مداحوں کے ساتھ‘چند معاندین اور مخالفین بھی پیدا کرتی ہیں۔ بیسویںصدی کے آغاز میں شیخ محمد اقبال نے ایک اردو شاعر کی حیثیت سے‘ دنیاے شعروادب کو چونکا دیا۔ فکر‘خیال‘ فن اور زبان و بیان ہر اعتبار سے وہ ایک منفرد لہجے کے شاعر تھے۔ ان کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں کی طرف سے ان کے کلام پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ معترضین کے بہت سے گروہ تھے۔ یہ اعتراضات زبان و بیان کے مختلف پہلوئوں‘ روز مرہ ‘ محاورہ‘ تذکیرو تانیث‘ تعقید‘ لفظی اسقام‘ نامانوس تراکیب‘ فارسیت‘ معنوی لغزشوں اور عروض و قافیے کے حوالے سے کیے گئے تھے۔ بعض نقادوں نے کلام اقبال کو نقد و انتقاد کی جدید سان پر کسنے کی کوشش کی۔ ایک صاحب فرقہ واریت کی عینک سے اقبال کی شاعری پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب صابر نے زیرنظر تحقیقی جائزے میں اقبال کے اردو کلام پر ہر نوعیت کے اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ شافی و کافی جواب دیے ہیں۔ موصوف کئی برسوں سے ایک لگن کے ساتھ اقبال کی شخصیت اور فکروفن پر اعتراضات پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی دو کتابیں اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ اور تصورِ پاکستان: اقبال پر اعتراضات کا جائزہ شائع ہوچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ذخیرئہ اقبالیات میں‘ اس موضوع پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے‘ فاضل مولّف نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا ہے اور یوں ایک جامع تصنیف پیش کی ہے۔
بحث کے اختتام پر پروفیسر ایوب صابر نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ (ص ۱۴۳)۔ ان کا خیال ہے کہ دانتے‘ شیکسپیئر اور گوئٹے کو محض براعظمی اور قومی تعصبات کے سبب نسلِ انسانی کے سب سے بڑے شعرا قرار دیا جاتا ہے۔ شیکسپیئر کو تو برطانیہ نے اپنی سامراجی قوت کے بل بوتے پر بڑا شاعر منوایا۔ اگر فیصلہ اہلیت و انصاف کی بنیاد پر ہو تو اقبال ہی دنیا کا سب سے بڑا شاعر قرار پائے گا۔
پروفیسر محمد ایوب صابر کی یہ کتاب اقبالیاتی ادب میںوقیع اضافہ ثابت ہوگی۔ کتابت اور اشاعتی معیار اطمینان بخش ہے‘ اشاریہ بھی شامل ہے‘ مگر یہ بات کھٹکتی ہے کہ مباحث کا آغاز مصنف کی کسی تمہید یا دیباچے کے بغیراچانک ہوتا ہے۔ (ر - ہ)
اردو زبان میں جرم و سزا کے موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے اُس کا بیش تر حصہ حقیقت سے زیادہ افسانے پر مشتمل ہے‘ البتہ معروف ادیب عنایت اللہ مرحوم اور کچھ نیک نام پولیس افسران کی بعض نگارشات افسانے سے بھی زیادہ دل چسپ ہیں اور ان میں افادیت کا پہلو غالب ہے۔ زیرِنظر کتاب اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔
چودھری احمد خان چدھڑ نے ملازمت کا آغاز بطور کانسٹیبل کیا اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ترقی کرتے ہوئے ایس پی کے عہدے تک پہنچے۔ اس دوران میں انھوں نے تجربے اور ذہانت سے کام لے کر بڑے بڑے اندھے جرائم کی تفتیش کی اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا۔ گو اس کے لیے انھیں بڑی قربانی دینا پڑی اور ذاتی نقصانات بھی اٹھائے‘ لیکن فرض شناسی کو اہمیت دے کر انھوں نے اپنی عظمت تسلیم کرائی۔
سید شوکت علی شاہ کے بقول یہ کتاب: ’’محکمہ کے اہل کاروں اور افسران کے لیے ایک گائیڈ اور ریفرنس کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔ مصنف کے تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ اسلام جرائم کی بیخ کنی کے لیے ان محرکات کو ختم کرنے پر زور دیتا ہے جن سے دوسروں کے حقوق پر زد پڑتی ہو‘ اس لیے سماجی انصاف اور عدل ضروری ہے۔
کتاب کے حصہ اول میں مصنف نے اپنے حالات بیان کیے ہیں۔ دوسرے حصے میں جرائم اور ان کی بیخ کنی کے لیے جدوجہد کا ذکر کیا ہے ‘ جب کہ تیسرے حصے میں چند اہم واقعات کا مختصر ذکر ہے۔ پوری کتاب کا حاصل یہ بنتا ہے کہ اگر پولیس دیانت داری سے جرائم کی بیخ کنی کا عزم کرلے اور انھیں ’’اُوپر‘‘والوںکی تائید بھی حاصل ہو تو معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن سکتا ہے اور چونکہ ایسا نہیں ہو رہا ہے‘ اس لیے ملک میں فساد اور بدامنی روز افزوں ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
پیش نظر کتاب مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم و مغفور کا تذکرہ ہے‘ جس میں ان کی زندگی کے اہم تر احوال و آثار‘ شخصیت کے مختلف رنگ اور علمی و دینی کارہاے نمایاں قلم بند ہوئے ہیں۔ کتاب کا اندازِ تحریر سادہ اور شگفتہ ہے۔ اقتباسات کے ساتھ حوالے بھی دیے گئے ہیں‘ مگر دو باتیں خاص طور پر کھٹکتی ہیں:
۱- پروف خوانی ٹھیک طرح سے نہیں کی گئی‘ جس کی وجہ سے خاصی تعداد میں غلطیاں موجود ہیں اور کتنے ہی شعر بے وزن ہوگئے ہیں۔ (ملاحظہ ہوںصفحات: ۴۲‘ ۶۲‘ ۶۵‘ ۷۴‘ ۹۶‘ ۱۰۸‘ ۱۰۹‘ ۱۱۰‘ ۱۳۷‘ ۱۴۷‘ ۱۶۳‘ ۱۷۳‘ ۱۷۹‘ ۱۸۰‘ ۲۵۴‘ ۲۵۶‘ ۲۶۴)
۲- ضروری تھا کہ ایسی علمی کتاب میں کتابیات کی ترتیب کا اہتمام محنت اور دقتِ نظر سے انجام پاتا۔ اگر اس نوعیت کے تسامحات سے قطع نظرکرلیا جائے تو یہ کتاب اپنے مندرجات کی ثقاہت کے اعتبار سے بہت اہم اور معلومات افزا ہے۔ (عبدالعزیز ساحر)
پانچ عنوانات (۱- اسلامی ورلڈ ریویو ۲- قرآن ۳- محمدؐ رسول اللہ ۴- عبادات‘ قانون‘ اخلاق ۵- تزکیۂ نفس) کے تحت موجودہ دور کے عالمِ اسلام کے تمام ہی نامور قائدین (حسن البنا‘ سید مودودی‘ ابوالحسن علی ندوی‘ یوسف قرضاوی‘ خرم مراد‘ خورشید احمد‘ محمد الغزالی‘ محمدقطب‘ سید قطب‘ سعید رمضان‘ محمد اسد‘علی عزت بیگووچ‘ اسماعیل فاروقی وغیرہ) کی کل ۳۳ نگارشات کا یہ گلدستہ انگریزی پڑھنے والوں کے لیے اسلام کا ایک حقیقی تعارف ہے۔ تمام پہلو خوب اچھی طرح روشن ہو گئے ہیں۔ جہاں کی زبان انگریزی نہیں‘ (مثلاً پاکستان) وہاں بھی انگریزی پڑھنے والوں کی کمی نہیں‘ لیکن مسئلہ ان کتب کی مقامی شرح پر دستیابی کا ہے جسے حل کیا جانا چاہیے۔ (م - س )
نواے بے نوا محترم عبدالرشید صدیقی کی نظموں اور غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے جس میں آغاز سے اب تک کے تمام کلام کا انتخاب شامل ہے۔ ان کا خوب صورت شعری ذوق اب اس کتاب کے ذریعے کھل کر سامنے آیا ہے۔ یہ کتاب اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ان کی شاعری کے موضوعات عشق و محبت تک محدود نہیں ہیں اور اُن کا دائرہ کار وطن کی محبت اور اس کی خوشبو کے علاوہ مسلم امہ کے احیا اور دین ہدیٰ کی سربلندی اور اس کی سرفرازی کی تمنا تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ بقول پروفیسر خورشید احمد یہ کتاب ’نے نوازی کا ایسا مرقع ہے جس میں قدیم و جدید‘ مشرق و مغرب اور نغمہ و پیغام‘ قوسِ قزح کے مختلف رنگوں کی بہاریں دکھا رہے ہیں اور قلب ونظر دونوں کی تسکین کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔
صدیقی صاحب گوالیار میں پیدا ہوئے۔ ممبئی میں یونی ورسٹی تک تعلیم حاصل کی۔ لندن میں لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ کیا اور پھر لسٹر یونی ورسٹی میں طویل عرصے تک انفارمیشن لائبریرین کے طور پر کام کرتے رہے۔ حال ہی میں اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے اشاعت و فروغِ دین کے مقاصد کے پیشِ نظر انگریزی میں ان کی تین کتابیں شائع کی ہیں۔ وہ برطانیہ میں کئی اسلامی تنظیموں اور اداروں میں آج بھی بھرپور طریقے سے سرگرمِ عمل ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی نفاست ِ طبع کا ایک اور پہلو نمایاں کرتی ہے۔ (سعید اکرم)
٭ معارف الاسماء شرح اسماء اللہ الحسنٰی‘ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری‘ تحقیق و تخریج: محمد سرور عاصم‘ ناشر: مکتبہ اسلامیہ بالمقابل رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۳۔ قیمت: ۱۳۰روپے۔] اللہ تعالیٰ کے ۹۹ناموں کی شرح۔ طبع اول ۱۹۳۰ء کی نئی خوب صورت اشاعت۔ آیات و احادیث کے حوالوں کا اضافہ از محمد سرور عاصم۔ سرورق پر اور پشت سرورق کے فلیپ میں بھی نام کتاب معارف الاسمٰی درست نہیں۔[