رسائل و مسائل


مسئلہ تقدیر

سوال : ایک شخص نے ایک عجیب اعتراض اُٹھایا ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ: ’مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہرشخص کی موت کا وقت معین ہے۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اقوامِ مغرب نے حفظانِ صحت کے اصولوں کی پابندی اور بیماریوں کی روک تھام کرکے اپنی عمروں کی اوسط میں اضافہ اور شرحِ اموات میں کمی کرلی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمر کا بڑھانا گھٹانا اور موت کو ٹالنا ،انسان کے بس میں ہے‘۔ اس بات کو واضح کیجیے کہ ان دونوں باتوں میں سے  کون سی بات درست ہے؟ کیا زندگی کی مدّت اور موت کی گھڑی مقرر ہے یا اس میں  ردّ و بدل انسان کے بس میں ہے؟

جواب :آپ نے جو سوال کیا ہے، وہ دراصل ایک بڑے اور بنیادی سوال کا جزو ہے۔ وہ بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کس حد تک تقدیر اور مشیت الٰہی کے تحت مجبور اور بے بس ہے، اور کس حد تک اُسے ارادہ و عمل کی آزادی دی گئی ہے، اور کوشش سے مطلوب نتائج پیدا کرنا کس حد تک اُس کے امکان میں ہے؟ یہ سوال ایسا نہیں ہے کہ جس کا جواب آسانی اور اختصار کے ساتھ اثبات یا نفی کی صورت میں دیا جاسکے۔ اگر جواب میں یہ کہا جائے کہ انسان اپنی تقدیر کا خالق خود ہے اور کوئی بالاتر طاقت اُس کے افعال اور نتائج ِ افعال پر حاوی و مؤثر نہیں ہے، تو یہ بات بالبداہت غلط ہے۔

انسان جب اپنے آپ کو وجود میں نہیں لاسکتا تو جو اعمال اُس کے وجود سے صادر ہوتے ہیں، اُن کا فاعلِ مختار آخر وہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر اگر یہ کہا جائے کہ انسان مجبورِ محض ہے اور اختیار و آزادی سے قطعی محروم ہے، تو یہ بات بھی صریحاً غلط اور خلافِ عقل و مشاہدہ ہے اور یہ دینِ اسلام کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔

حقیقت ان دونوں انتہائوں کے بین بین ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک خاص پہلو سے اور ایک دائرے کے اندر انسانوں کو ایک حد تک آزادی حاصل ہے اور یہ آزادی انسان اور پوری کائنات کے خالق ہی کی عطا کردہ ہے۔ لیکن اس کے دائرے سے باہر جاکر انسان کی آزادی ختم ہوجاتی ہے اور اُس کے سارے اعمال اور ان کے نتائج آخرکار مشیت ِ الٰہی کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی یا مجبوری کے حدود کو ماپنے کی کوشش کرے یا یہ مسئلہ حل کرنے میں اپنا دماغ لڑائے کہ یہ جبرو اختیار ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتے ہیں؟

انسان جب تک انسانی حدود میں مقیّد ہے اور جب تک وہ مخلوق کے بجاے خالق نہیں بن جاتا، اُس وقت تک وہ اس پیچیدہ مسئلے کی تہہ اور کنہ تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ انسان کا کام یہ ہے کہ جس حد تک اُسے آزادی دی گئی ہے، اُس حد تک اُسے خالق کی رضا اور منشا کے مطابق استعمال کرے اور جن حدود سے آگے اُسے آزادی حاصل نہیں، وہاں وہ آزاد اور خودمختار ہونے کا اِدّعا نہ کرے۔

اِس اصولی بات کو سمجھ لینے کے بعد اب آپ عمر کے گھٹنے اور بڑھنے کے سوال پر خود    غور کریں۔ یہ بات آخر کس کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس شخص کی موت کے لیے کون سا وقت مقرر کیا تھا اور کسی خاص دور یا عہد میں کسی خاص قوم کی عمر کا اوسط اُس نے کیا متعین فرمایا تھا؟ اگر اس کا علم کسی کو نہیں ہے، تو پھر یہ دعویٰ خودبخود بے معنی ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے وقت پر فلاں شخص نہ مرسکا اور اُس نے یا کسی دوسرے نے، اُس کی عمر میں اضافہ کر دیا۔ یہ سب دراصل بے عقلی کی باتیں ہیں جو بہت سے لوگ بے سمجھے بوجھے کرتے رہتے ہیں۔

ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم کو اللہ نے علم اور عقل کی جو طاقتیں دی ہیں، اُنھیں استعما ل کرکے ہم امراض کے علاج اور صحت کی حفاظت کے زیادہ سے زیادہ بہتر ذرائع مہیا کریں اور اُن کے مہیا ہوجانے پر اللہ کا شکر بجا لائیں۔ اِس سے آگے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم نہ کسی کو بیمار پڑنے دیتے اور نہ کسی کو مرنے دیتے ، لیکن مرض یا موت کو بالکل روک دینے پر نہ کبھی قدیم زمانے کا انسان قادر تھا، نہ آج کے زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا معالج یا سائنس دان قادر ہوسکتا ہے۔(جسٹس   ملک     غلام     علی )


عشر، زکوٰۃ اور سرکاری ٹیکس

سوال : ایک صاحب جو جج بھی رہ چکے ہیں نے ایک مجلس میں فرمایا: ’’عشر، زمینی پیداوار کے دسویں حصے پر اور زکوٰۃ جمع شدہ دولت کا صرف ڈھائی فی صد حصہ ہوتی ہے۔ مالیہ و آبیانہ، زمینی پیداوار کے نصف پر تشخیص کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جمع شدہ دولت پر بھاری انکم ٹیکس بھی لگایا جاتا ہے اور چوں کہ یہ رقم ریاستی بیت المال میں داخل ہوکر رفاہِ عامہ کےکاموں کے لیے خرچ ہوتی ہے، اس لیے زکوٰۃ اور عشر دینا لازم نہیں‘‘۔ کیا ان ریاستی ٹیکسوں کی موجودگی میں واقعی زکوٰۃ اورعشر دینا ضروری نہیں ہے؟

جواب :زکوٰۃ کے متعلق پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک عبادت اور رکنِ اسلام ہے، جس طرح نماز، روزہ اور حج ارکانِ اسلام ہیں۔ جس شخص نے کبھی قرآنِ مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہے، وہ دیکھ سکتا ہے کہ قرآن بالعموم نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے اور اسے اُس دین کا ایک رکن قرار دیتا ہے، جو ہر زمانے میں انبیاے کرام علیہم السلام کا دین رہا ہے۔ اس لیے اس کو ٹیکس سمجھنا اور ٹیکس کی طرح اس سے معاملہ کرنا پہلی بنیادی غلطی ہے۔ ایک اسلامی حکومت جس طرح اپنے ملازموں سے دفتری کام اور دوسری خدمات لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب نماز کی ضرورت باقی نہیں ہے کیوں کہ انھوں نے سرکاری ڈیوٹی دے دی ہے، بالکل اسی طرح وہ لوگوں سے ٹیکس لے کر نہیں کہہ سکتی کہ اب زکوٰۃ کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ ٹیکس لے لیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کو اپنے نظام الاوقات لازماً اس طرح مقرر کرنے ہوں گے کہ اُس کے ملازمین نماز وقت پر ادا کرسکیں۔ اسی طرح اُس کو اپنے ٹیکسوں کے نظام میں زکوٰۃ کی جگہ نکالنے کے لیے مناسب ترمیمات کرنی ہوں گی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں میں کوئی ٹیکس اُن مقاصد کے لیے اُس طرح استعمال نہیں ہوتا کہ جن کے لیے قرآن میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اور جس طرح اس کے تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(جسٹس   ملک     غلام     علی )


شادی کی سالگرہ

سوال : گزارش ہے کہ مجھے دین کی روشنی اور قرآن و حدیث کے حوالے سے ایک سوال کا جواب درکار ہے۔ اُمید کرتی ہوں کہ آپ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں گے۔ یومِ پیدایش یا شادی کی سالگرہ رسم کے طور پر منانا کہاں تک جائز ہے؟ اس رسم کو کرنے والا (جو ایک دین دار گھرانہ بھی ہے) صحیح راستے پر ہے یا اس کو پوری قوت سے انکار اور ختم کرنے والا درست راستے پر ہے؟اگر اس رسم پر عمل سے انکار کرنے پر جسمانی یا ذہنی اذیتیں ملتی ہیں اور مل رہی ہیں تو کیا اس کا اجر ہے یا نہیں؟ اس رسم کو  کس قوم نے جاری کیا تھا یا کیا ہے؟

جواب :شادی کی سالگرہ اور یومِ پیدایش (birthday) منانے کا اسلام کے مزاج اور تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام نہ ایسے کاموں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نہ ایسے کاموں میں اپنے پیروئوں کے مال اور قوتوں کو صرف کرنا پسند کرتا ہے۔ بے شک یہ صحیح ہے کہ شادی کی سالگرہ یا یومِ پیدایش منانا کوئی ایسا منکر نہیں ہے کہ جس کے خلاف فتوے دیے جائیں یا اس کو مٹانے کے لیے مومنوں کو جہاد کے لیے منظم کیا جائے۔ لیکن بہرحال یہ سوچنا ضرور چاہیے کہ جس چیز کو اسلام نے کوئی مقام اور اہمیت نہیں دی ہے، جس کا ہماری دینی تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ہے، آخر ایسے کاموں میں اپنی قوتیں اور وسائل کھپانے اور تقریبات کا موضوع بنانے پر اصرار کیوں ہے؟

ہمارا یہ پختہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ روے زمین پر انسانی تاریخ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عظیم ہستی نہ آج تک پیدا ہوئی ہے اور نہ رہتی دُنیا تک پیدا ہوسکتی ہے۔ آپؐ کی عظمت و کمال کا خلاصہ یہ ہے کہ   ع    بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اس بنیادی اور کھلی حقیقت میں جس کسی کو ذرا سا بھی شبہہ ہو، وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔ یومِ پیدایش منانے کی شریعت میں کوئی بھی حیثیت ہوتی تو بلاشبہہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے زیادہ مستحق تھے کہ آپؐ کا یومِ پیدایش منایا جاتا۔ دورِ رسالتؐ میں، دورِ خلافت راشدہؓ میں ایک عظیم تقریب کی حیثیت سے سرکاری طور پر اس کے منانے کی ہدایات اور ثبوت ملتا۔ لیکن  صحابہ کرامؓ تو اس بحث سے اس قدر بے تعلق رہے یا اس درجہ یہ چیز نظرانداز کی گئی کہ ہماری تاریخ متعین طور پر یہ بھی نہیں بتاتی کہ آپؐ کا یومِ پیدایش ۹ربیع الاوّل، ۱۲ ربیع الاوّل یا ۱۷ربیع الاوّل ہے___ اگر دین میں اس کا واقعی کوئی مقام ہوتا، اورملّت میں اس کا تعامل رہتا تو یومِ پیدایش کی تاریخ اسی طرح متعین ہوتی، جس طرح حج کی تاریخیں متعین ہیں اور پورا عالمِ اسلام حج کی تاریخوں پر متفق ہے۔

پھر ہمیں کوئی سند نہیں ملتی کہ اللہ کے آخری رسولؐ نے کبھی شادی کی سالگرہ منائی ہو، جب کہ رسولؐ کی زندگی کو ہمارے لیے قرآن میں اسوئہ حسنہ قرار دیا گیا ہے اور آپؐ کی پوری زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہے۔ مغربی تہذیب سے متاثر بلکہ مرعوب ذہن نہ جانے اپنی روایات کے سلسلے میں اس درجہ احساسِ کم تری کا کیوں شکار ہیں اور کیوں اس خبط میں مبتلا ہیں کہ مغربی تہذیب کی کچھ باتوں کو اپنا کر اور اپنے ’روشن خیال‘ ہونے کا اس طرح ثبوت د ے کر ہی وہ معاشرے میں قابلِ احترام اور قابلِ عظمت ہوسکتے ہیں۔ احساسِ کم تری کے مریض، احساسِ برتری کی نمایش کرکے اپنے مرض کو چھپانے کی بھونڈی اور مضحکہ خیز کوشش کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جو قوم اپنے نظریات، اپنے ورثے اور اپنی روایات اور اقدار کی قدر نہیں کرتی، وہ دنیا میں کبھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھی جاسکتی۔ مرعوب ذہن کے ساتھ دوسروں کی نقالی کرنے والی قوم اپنے زوال کا مرثیہ تو پڑھ سکتی ہے، لیکن اس نقالی کے عمل سے وہ رفعت و عظمت کا کوئی مقام حاصل کرلے؟ یہ سراسر دھوکا اور خود فریبی ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ بعض صوم و صلوٰۃ کے پابند لوگ بھی، جو اپنے دین کی قدروں سے اور اس کے مکمل تصور سے ناآشنا ہوتے ہیں، وہ ان مراسم کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور نماز روزے کی پابندی کرتے ہوئے اس غلط فہمی کا بھی شکار رہتے ہیں کہ ہم دین دار ہیں اور روشن خیال بھی۔ اس سے بڑھ کر وہ ان لوگوں کو تاریک خیال، مُلّا اور رجعت پسند سمجھتے ہیں، جو ان چیزوں کو بے ضرورت قرار دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے یہ بزعمِ خود روشن خیال لوگ، ایسے افراد کو ذہنی طور پر اذیتیں پہنچاتے ہیں اور اپنی زبان اور سلوک سے ان کی تحقیر و تذلیل بھی کرتے ہیں۔

اس معاملے میں تحقیر و تذلیل اور اذیت برداشت کرنے والے لوگوں کے ساتھ اللہ کا معاملہ کیا ہوگا؟ تو اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ان کے طرزِعمل میں حکمت، اخلاص اور نیک نیتی ہے یا محض ضد اور محض اپنے ذوقِ دین داری پر اصرار۔ اصلاح چاہنے والوں کا کام دوسروں کو خطاکار ثابت کرکے مطمئن ہونا نہیں ہے بلکہ سوز و حکمت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرنا ہے۔

اصل بات تو یہ ہے کہ ملّت کے اندر سے اپنے منصب اور خیر اُمہ ہونے کا شعور ختم ہوتا جارہا ہے۔ وہ دوسری خود رو اُمتوں کی طرح ایک قوم بن کر رہ گئی ہے۔ اگر یہ شعور زندہ ہو کہ اللہ نے اس کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی رہنے والی ایک داعی اُمت کی حیثیت سے اُٹھایا ہے، تو اس کی قوتیں اور توانائیاں یقینا اپنے اصل مثبت کام میں لگی رہیں اور    اس طرح غیرضروری بحثوں اور اُمور میں قوتیں کھپانے اور ایسے مظاہرے کرنے کا موقع ہی نہ ملے کہ ایسے سوالات پیدا ہوں۔ ضرورت ہے کہ اس داعی اُمت کو دعوت الی الخیر کے منصبی فریضے پر لگایا جائے اور اس کا جینا اور مرنا اسی کام کے لیے ہو، تو اللہ گواہ ہے کہ دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)


مباح چیزوں کی نذر ماننا

سوال : میں نے نذر مانی تھی کہ میں اپنے بیٹے کی صحت یابی کے بعد ایک شان دار پارٹی دوں گی۔ اس کے بعد میرے ماموں ۱۰سال کے لیے جیل چلے گئے اور میں ۱۰سال تک یہ نذر پوری نہ کرسکی۔ کیا اب میں یہ نذر پوری کروں یا ممکنہ اخراجات کے برابر رقم صدقہ وغیرہ کروں؟

جواب :سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نذر ان چیزوں کی ماننی چاہیے جن میں اللہ کی عبادت، اس کی خوش نودی اور تقرب کا پہلو موجود ہو، مثلاً: نمازیں پڑھنا یا روزے رکھنا وغیرہ۔

پارٹیاں دینے یا اس جیسے کسی دوسرے مباح کام کی اگر نذر مانی ہے، تو اس ضمن میں  علما کی دو طرح کی آرا ہیں: ایک یہ کہ اس نے جو اور جس شکل میں نذر مانی ہے وہی پورے  کرے گا،اور دوسری یہ کہ قسم کا کفّارہ ادا کرے، یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا غلام آزاد کرے۔ ایسا نہیں کرسکتا تو تین دن روزے رکھے۔ علما ے کرام نے ان دونوں صورتوں کا اختیار دیا ہے۔ اب آپ ان میں سے کوئی بھی ایک شکل اختیار کریں۔(علامہ یوسف القرضاوی

سوال : حدیث میں آتا ہے کہ: ’’تین قسم کے آدمی ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں، مگر ان کی فریاد سنی نہیں جاتی۔ ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے حوالے کر دے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بدخلق بیوی پر صبر کرنے کی تلقین کی ہے مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے؟

جواب: اس حوالے سے مختصر گزارش یہ ہے کہ یہ حدیث پہلے المستدرک  میں آئی ہے:  [جس کے الفاظ یہ ہیں:

ثَلَاثَةٌ يَّدْعُوْنَ اللهَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ، رَجُلٌ كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَاَةٌ سَيِّئَةٌ فَلَمْ يُطَلِّقْهَا وَ رَجُلٌ كَانَ لَهٗ مَالٌ فَلَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهِ وَ رَجُلٌ آتٰى سَفِيْهًا مَالَهٗ وَ قَدْ قَالَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ : وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمْ۔ (المستدرک، حدیث ۳۵۵۴)

تین شخص ہیں جو اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں، مگر ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ایک وہ شخص جس کے نکاح میں بُری عورت ہو اور وہ اس کو طلاق نہیں دیتا۔ دوسرا وہ شخص کا [کسی کے ذمے] مال ہو اور وہ [کسی کو] اس پر گواہ نہیں بناتا۔ تیسرا وہ شخص جو بے وقوف کو اس کا مال دے دیتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بے وقوفوں کو ان کے مال نہ دو۔]

امام حاکمؒ نےاس کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

ھٰذَا اِسْنَادٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ وَلَمْ یُخْرِجَاہُ لِتَوْقِیْفِ اَصْحَابِ شُعْبَۃَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَلٰی اَبِیْ مُوْسٰی۔ (المستدرک،۴/ ۱۴۴)

اس حدیث کی سند شیخین (یعنی بخاری و مسلم) کی شرط کے مطابق صحیح ہے، مگر انھوں نے اس کی تخریج نہیں کی ہے،کیوں کہ شعبہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کے شاگردوں نے اس حدیث کو ابوموسیٰ اشعریؓ پر موقوف{ FR 565 }  قرار دیا ہے۔

پھر یہی حدیث ابن جریر طبریؒ اور ابن کثیرؒ نے بھی نقل کی ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے حاکم کا تبصرہ بھی نقل کیا ہے ( تفسیر القرآن العظیم، ۱/۵۹۳)۔ اسی طرح پھر جلال الدین سیوطیؒ نے الجامع الصغیر میں بھی ثبت فرمائی ہے اور الجامع الصغیر کے شارح [عبد الرؤف المناویؒ] نے اس کو تقریباً وہی درجہ دیا ہے، جو مصنف نے دیا تھا۔ (دیکھیے: فیض القدیر، ۲/ ۲۵۶)   اس کے بعد شیخ احمد بن الصدیق غماریؒ اور علامہ ناصر الدین  البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (دیکھیے: الغماری کی کتاب المداوی لعلل المناوی، ۳/۲۳۶، اور البانی کی کتاب السلسلۃ الصحیحۃ، ۴/۴۲۰)۔ ان دونوں نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو مرفوع{ FR 566 } قرار دینے میں معاذ بن معاذ العنبری اکیلے نہیں ہیں، بلکہ عمرو بن حَکاّم اور دائود بن ابراہیم الواسطی بھی اس کے متابع{ FR 567 } ہیں۔ اسی طرح بعض محدثین کے نزدیک عثمان بن عمر بھی اس کے متابع ہیں۔

امام البانیؒ نے اس حدیث کی ایک اور سند کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ فَالسَّنَدُ ظَاھِرُہُ الصِّحَّۃُ (السلسلۃ الصحیحۃ ، ۴/۴۲۰)۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوع نہیں ہے، یعنی یہ نبی علیہ السلام کا فرمان نہیں ہے بلکہ ابوموسیٰ اشعریؓ کا قول ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ جس دائود نے معاذ بن معاذ العنبری کی تائیدکی ہے وہ دائود وہ نہیں ہے جس کی ابو دائود طیالسیؒ نے اپنی مسند [۱/۳۴۹] میں توثیق کی ہے، بلکہ دائود بن ابراہیم ہے جوقزوین کا قاضی تھا اور یہ متروک{ FR 568 } ہے۔ دائود، جس کی طیالسیؒ نے توثیق کی ہے وہ حضرت نعمان بن بشیرؓ کے آزاد کردہ غلام سے روایات کرتے ہیں اور ان کی تائید ناقص ہے۔

پھر ان دونوں راویوں کے متن{ FR 569 } میں بھی اختلاف ہے، جیساکہ شیخ غماریؒ نے لکھا ہے:

اِلَّا اَنَّہٗ خَالَفَ فِیْ مَتْنِہٖ (المداوی ،۳/۲۳۶)

دوسری وجہ یہ ہے کہ ابونعیم کی سند کے یہ الفاظ ہیں:

ثَنَا علیُّ بنُ محمدُ بْنِ اِسماعیلَ واِبراہیمُ بنُ اسحاقَ قالا حدَّثنا ابوبکرِ بنُ خُزَیمۃَ ثَنَا محمدُ بْنُ خَلَفِ الحَدَّادیُّ ثَنَا عثمانُ وعَمْرُو بْنُ حَکَّامٍ قالا حدَّثنا شُعبۃُ فَذَکَرَہٗ وقالَ رَفَعہٗ عَمْرُو بْنُ حَکَّامٍ ثُمَّ ذَکرَ مَتْنَہٗ۔ (المداوی، ۳/۲۳۶)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف عمرو بن حکام نے اس کو ’مرفوع‘ کیا ہے اور عثمان نے اس کو موقوف روایت کیا ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ محمد بن جعفر غندر نے اس کو ’موقوف‘ روایت کیا ہے۔ شعبہ کی روایات میں وہ [غندر] سب سے زیادہ قابلِ اعتماد ہے ۔ امام ذہبیؒ نے لکھا: اَحَدُ الْاَثْبَاتِ الْمُتْقِنِیْنَ  وَلَاسِیَّمًا فِیْ شُعْبَۃَ۔ غندر اثبت [زیادہ قوی] اور متقن [ماہر] لوگوں میں سے ہے، بطورِ خاص شعبہ سے روایت کرنے میں۔ یاد رہے وہ شعبہ کا ۲۰سال شاگرد رہا۔

پھر عبدالرحمٰن ابن مہدی سے نقل کیا: غُنْدُرُ فِیْ شُعْبَۃَ اَثْبَتُ مِنِّیْ۔  یعنی محمد بن جعفر غندر شعبہ سے روایت کرنے میں مجھ سے زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔

اسی طرح عبداللہ بن المبارک سے بطور اصول یہ بات نقل کی ہے کہ جب لوگوں کے درمیان شعبہ کی روایت کردہ حدیث میں اختلاف ہوجائے تو فیصلہ محمد بن جعفر غندر کی کتاب کا ہی ہوگا: وقال ابنُ المبارکِ اِذَ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ فَکِتَابُ غُنْدُرَ حَکَمٌ بَیْنَھُمْ (میزان الاعتدال ، ۵/۱۵)

اس لیے جب ہم ان اُمور پر غور کرتے ہیں تو یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ یہ حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ پر موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ گویا چار لوگوں نے اس حدیث کو ’موقوف‘ کیا ہے: ۱-غندر ، ۲-یحییٰ بن سعید القطان ، ۳- روح بن عبادہ، ۴- اور عثمان بن عمر بن فارس۔

یہ لوگ ان راویوں سے یاد داشت میں بہت زیادہ پختہ کار ہیں، جنھوں نے اس کو ’مرفوع‘ کہا ہے۔

شیخ ابواسحاق نے تو ذرا سخت بات کی ہے کہ وَھُمُ الَّذِیْنَ یَتَرَجَّحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ رَفَعُوا الْحَدِیْثَ فَھُمْ اَعْلٰی مِنْھُمْ ضَبْطًا وَاِتْقَانًا، خُصُوْصًا فِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ بَلْ لَیْسَ فِیْھِمْ مَّنْ یُّرْفَعُ لَہٗ رَأْسٌ اِلَّا مُعَاذُ الْعَنْبَرِیُّ وَقَدْ خَالَفَہٗ مَنْ ذَکَرْتُ۔  (اسعاف اللبیث فی فتاویٰ الحدیث، ۱/۲۱۶) [ان لوگوں کی راے اُن سے زیادہ وزنی ہے، جنھوں نے اس حدیث کو مرفوع کیا ہے۔ اس لیے کہ یادداشت اور پختگی میں اِن کا مقام اُن سے اونچا ہے، بطورِ خاص شعبہ سے حدیث نقل کرنے میں۔ بلکہ ان میں تو کوئی ایسا شخص بھی نہیں ہے جو قابل التفات ہو، سواے معاذ عنبری کے، اور اس کی مخالفت ان لوگوں نے کی ہے جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔]

 ہمارے نزدیک اگر موقوف کرنے والا فرد صرف محمد بن جعفر غندر ہوتا، تب بھی اس کا قول راجح [وزنی] ہوتا۔ کیوںکہ شعبہ سے روایت کرنے میں اتھارٹی وہ ہیں۔ مگر یہاں تو تین اور متقن [پختہ کار] راوی اس کے ساتھ ہیں۔

[چوتھی وجہ] یہ بھی ہے کہ اس حدیث میں نکارت{ FR 570 } ہے۔ اس کا اعتراف بھی اصحابِ تحقیق نے کیا ہے۔

مناویؒ نے لکھا کہ وَاَقَرَّہُ الذَّھَبِیُّ فِی التَّلْخِیْصِ لٰکِنَّہٗ  فِی الْمُھَذَّبِ  قَالَ: ھُوَ مَعَ نَکَارَتِہٖ اِسْنَادُہٗ نَظِیْفٌ (فیض القدیر، ۴/۲۵۶) [ذہبی نے تلخیص میں تو اس کو برقرار رکھا ہے، مگر مہذب میں کہا ہے کہ باوجود نکارت کے اس کی سند صاف ہے]۔

پھر عبدالرزاق مہدی نے لکھا کہ وَظَاھِرُہُ الصِّحَّۃُ لٰکِنْ اَعَلَّہُ  الْحَاکِمُ  بِاَنَّ اَصْحَابَ شُعْبَۃَ  رَوَوْہُ مَوْقُوْفًا…… ثُمَّ اِنَّ لَفْظَ الْحَدِیْثِ الْاَوَّلِ صَدْرُہٗ مُنْکَرٌ فَاِنَّ الصَّبْرَ عَلَی الْمَرْاَۃِ السَّیِّئَۃِ الْخُلْقِ فِیْہِ ثَوَابٌ عَظِیْمٌ  (تفسیر القرآن العظیم ھامش ، ۱/۵۹۳)

 یعنی [یہ حدیث بظاہر صحیح ہے، مگر امام حاکم نے اس میں یہ علت بیان کی ہے کہ شعبہ کے شاگردوں نے اس کو موقوف روایت کیا ہے] …… اس طرح  پہلی حدیث کا ابتدائی حصہ ’منکر‘ ہے کیوں کہ بدخلق عورت پر صبر کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔

اس کے ’منکر‘ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ سنن ابواؤد، مسنداحمد اور بیہقی میں ایک روایت وارد ہے، جس کا آخری حصہ یہ ہے:

قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللہِ! اِنَّ لِیْ اِمْرَاَۃٌ فِیْ لِسَانِھَا شَیْءٌ (یَعْنِی الْبَذَاءَۃَ) قَالَ: طَلِّقْھَا قُلْتُ: اِنَّ لِیْ مِنْھَا وَلَدًا وَلَھَا صَحْبَۃٌ ، قَالَ فَمُرْھَا (یَقُوْلُ) عِظْھَا فَاِنْ یَّکُ فِیْھَا خَیْرٌ فَسَتَقْبَلُ (البیہقی، ۷/۳۰۳)

 یعنی میں نے کہا:یارسول اللہ! میری بیوی ہے، وہ ذرا بدزبان ہے تو نبی علیہ السلام نے فرمایا: ’اسے چھوڑ دے‘۔ میں نے کہا: ’اس سے میری اولاد بھی ہے۔ پھر اس کے ساتھ رفاقت بھی رہی ہے‘۔ تو نبی علیہ السلام نے فرمایا: ’اسے وعظ و نصیحت کرلیا کرو۔ اگر اس میں کچھ خیر ہوا تو وہ اس کو قبول کرے گی‘۔

شیخ ابواسحاق کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدزبان اور بدخلق عورت کو رکھنا جائز ہے، اِلّا یہ کہ ہم اس حدیث کو بلاضرورت و حاجت پر محمول کریں۔ مگر یہ بعید ہے کیوں کہ بندہ عموماً جب کسی عورت کو نہ چاہتے ہوئے بھی رکھتا ہے تو اس کی کوئی وجہ ہوگی: فَھٰذَا الْحَدِیْثُ یَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ اَنْ یُّمْسِکَ الْمَرْءَۃَ السَّیِّئَۃَ الْخُلْقِ سَلِیْطَۃَ اللِّسَانِ اِلَّا  لَوْ حَمَلْنَا الْحَدِیْثَ عَلٰی غَیْرِ الضَّرُوْرَۃِ اَوِ الْحَاجَۃِ، وَفِیْہِ بُعْدٌ لِّاَنَّ الْمَرْءَ عَادَۃً لَّا یُمْسِکُ الْمَرْءَۃَ وَھُوَ کَارِہٌ اِلَّا لِمَعْنًی۔  واللہ اعلم  (اسعاف اللبیث، ۱/۲۱۷)

مگر ہم تو کہتے ہیں کہ ایسی عورت کو برداشت کرنا، اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا ثواب کا کام ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ درج بالا حدیث نبی علیہ والسلام کا قول نہیں ہے بلکہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ پر موقوف ہے۔ اس لیے زیادہ پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ                                        اتم واحکم۔ (مولانا واصل واسطی)

الجامع الصغیر کی شرح فیض القدیر میں زیربحث حدیث کی جو تشریح کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی بدخو بیوی کو بد دعا دیتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتی، اس لیے کہ اس کو اختیار ہے کہ اسے علیحدہ کردے، چنانچہ اس نے خود ہی اپنے آپ کو عذاب میں ڈالا ہوا ہے۔ [فیض القدیر ، المکتبۃ التجاریۃ، مصر، طبع اول ۱۳۵۶ھ، ۳/۳۳۶)

گویا وہ اپنے اس اختیار کو استعمال کرنے کے بجاے اسے بددعا دیتا ہے تو اسے اس کا حق نہیں پہنچتا۔ اسی طرح کی تشریح باقی دو شخصوں کے بارے میں بھی کی گئی ہے کہ وہ اگر اپنے فریق مخالف کو بد دعا دیتے ہیں تو وہ ان کے حق میں قبول نہیں ہوتی، اس لیے کہ انھوں نے خود ہی کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس تشریح سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصد بددعا کی ممانعت ہے، نہ کہ طلاق کی ترغیب۔ اس صورت میں یہ حدیث چاہے رسولؐ اللہ کا ارشاد ہو یا حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا قول، ہر صورت میں اس کا مفہوم درست ہے۔ واللہ اعلم ![گل زادہ شیرپاؤ ]

_______________

رسائل و مسائل

مسلم سوسائٹی کا انحطاط اور اسلامی تحریک

سوال : قریب ترین تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی راسخ العقیدہ یا مغرب کی اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ لوگوں کی جتنی بھی تحریکیں ہیں، وہ ایک سطح تک اپنی تحریک کو کامیابی تک پہنچاتی ہیں، مگر اس کے بعد مسلم قوم پرست بلکہ صحیح معنوں میں سیکولر گروہ اس پر قابض اور حاوی ہوجاتے ہیں۔ ۲۰ویں صدی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے،  کیا اسلامی تحریکیں ہمیشہ مغرب پسند مسلم قوم پرستوں کے سامنے ایک ثانوی کردار ہی ادا کرتی رہیں گی؟

جواب :یہ ایک بڑا ہی بنیادی سوال ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مختلف وجوہ سے مغربی اقوام کے ہاتھوں معاشرے سیاسی شکست سے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ میری نگاہ میں قومی زوال کا آغاز سیاسی شکست سے منسوب کرنا درست نہیں۔ شکست بلاشبہہ ایک بُری شے ہے، مگر زندگی کے مدوجزر کا ایک لازمی حصہ بھی ہے۔ البتہ شکست کو تسلیم کرکے بیٹھ جانا موت کے مترادف ہے۔

فکری تحریکیں میدانِ جنگ میں نشیب و فراز کے علی الرغم نئی بلندیوں سے ہم کنار ہوسکتی ہیں اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ چیز اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک فکری تحریک کا شیرازہ صرف اس وقت بکھرتاہے، جب شکست اس کی قیادت اور پھر کارکنوں کے دل و دماغ پر غالب آجائے اور وہ اپنی بنیاد اور شناخت کے باب میں تشکیک ، اضمحلال یا ارتداد کا شکار ہوجائے۔ اس لیے یہ جاننا چاہیے کہ سوال میں بیان کردہ شکست کے مختلف ماڈل، مسلم معاشروں کے گوناگوں تضادات کا ایک نتیجہ اور تسلسل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکات ایک بڑا ہی قابلِ قدر، تخلیقی اور ہمہ گیر شعور دینے کے باوجود ابھی تک مسلم معاشروں کو مکمل تبدیلی کی منزل سے ہم کنار نہیں کرسکی ہیں۔ البتہ اس جدوجہد میں وہ پوری لگن کے ساتھ مصروف ہیں۔

اس صبرآزما اور وقت طلب عمل کا سبب یہ ہے کہ اسلامی تحریکات نے بڑے نامساعد حالات میں کام کا آغاز کیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب علمی، فکری، ذہنی اور اخلاقی طور پر مغربی تہذیب نے مسلمانوں پر ہمہ گیر تسلط حاصل کرلیا تھا۔ بگاڑ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ مصر جیسے مسلم ملک میں برطانوی اقتدار کے خلاف جنگ ِ آزادی کے دوران رمضان کے مہینے میں عوام کے سامنے سعدزغلول  نے شراب پینے سے اجتناب نہ کیا،مگر پھر بھی لوگ اس کو زندہ بادکے نعروں سے ہی نوازتے رہے۔ اسی طرح نیاز فتح پوری کو تمام تر ملحدانہ نظریات کے باوجود مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ دلی میں ہیرو سمجھا جاتا رہا۔ انھی حالات کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے کہا:

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اس پس منظر میں تحریک اسلامی نے دنیا بھر میں مختلف قیادتوں کے تحت، مگر ایک واضح فکر کے ساتھ کام شروع کیا۔ ان کا کام دو پہلوئوں پر محیط ہے، اور دونوں نہ صرف برابر کی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان کا اپنا اپنا مستقل کردار ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ یعنی پہلا یہ کہ  فکر کی تشکیل نو اور نظریاتی انقلاب اور دوسرا قیادت کا انقلاب۔ اجتماعی تبدیلی بیسویں صدی کی اسلامی تحریکوں کو بھی ایک عظیم فکری چیلنج سے سابقہ درپیش تھا۔ انھیں باطل نظریات کے طلسم کو توڑنا تھا، تاکہ لوگوں کو اسلام کی حقانیت اور اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا یقین حاصل ہو۔ دوسری فکر ان کو یہ دامن گیر تھی کہ مسلم سوسائٹی کی اعلیٰ قیادت، جس میں دانش ور، اہلِ قلم، اساتذہ اور اہل حل و عقد آتے ہیں اس کو مخاطب کیا جائے۔

لیکن، میرے خیال میں شاید اسلامی تحریکوں کی قیادتیں اس امر کا اندازہ نہ لگاسکیں کہ ملک میںقیادت اور عوام کے درمیان تعلقاتِ کار تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہم ایک تبدیل شدہ صورتِ حال میں ہیں۔ جتنا بھرپور چیلنج درپیش تھا، اس میں بہرحال جان جوکھم ، جدوجہد، ایثار اور قربانی پر اسلامی تحریکوں کو کریڈٹ جاتا ہے کہ جو کام انھوں نے کیا  وہ بڑا بنیادی اور غیرمعمولی نوعیت کا کام تھا۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے بعد پھر وہ کیفیت نہیں پیدا ہوسکی، جس کے نتیجےکے طور پر مقابل کی ساری قوتوں کو قائل کرکے ساتھ چلا جاسکے اور ہمہ گیر اجتماعی تبدیلی واقع ہو۔

یہ مثال اپنی جگہ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ اگر حضرت ابوذر غفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں تو پورا قبیلہ ان کے ساتھ آجاتا ہے۔ اگر طائف کے سردار اسلام قبول کرلیتے ہیں تو پورا طائف محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف مولانا شبیراحمد عثمانیؒ تو بلاشبہہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ آجاتے ہیں، مگر جمعیت العلمائے ہند نہیں آتی۔ اس اعتبار سے سیاسی و سماجی قیادت اور فکری قیادت: اسلامی تحریکات ان دونوں پہلوئوں سے آگے بڑھنے میں فیصلہ کن حد تک کامیاب نہیں رہیں۔ ابھی تک وہ اس کی transformation کو مکمل نہیں کرسکیں۔ یہی چیز ہے ایک دوراہا کہ جس پر ہمارے عوام دل سے اسلام چاہتے ہیں لیکن نہ وہ    یہ جانتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور نہ اخلاقی طور پر اس بات کے لیے تیار ہوسکے ہیں کہ اسلام جو مطالبات ان سے کرتا ہے اور جو تبدیلیاں وہ چاہتا ہے، انھیں یہ اپنی زندگیوں میں جاری وساری کریں۔  اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا اصل بحران یہ ہے کہ بلاشبہہ آج کا مسلمان، اسلام کے لیے جان اور مال کی قربانی دینے کے لیے تیارہے، لیکن اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سود کھانے سے تو نہیں شرماتے، مگر سور کھانے سے ضرور نفرت کرتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے لیے یہ ایک کھلا چیلنج اور گمبھیر سوال ضرور ہے۔

سوال : ہمارے یہاں اسلامی تحریکیں خواص کے دلوں کو اس انقلابی دعوت کی طرف نہیں پھیر سکیں۔ کیا اسلامی تحریکوں کی حکمت عملی میں کوئی خامی رہ گئی ہے؟

جواب :گذشتہ جواب میں اسی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اس وقت ہمارا سوسائٹی کا جو پاور اسٹرکچر ہے اس کو ہم نہ تو اسلام کے حقیقی تصور اور تقاضوں پر عمل درآمد کے لیے قائل کرسکے ہیں اور نہ اسے ہلا سکے ہیں اور نہ اس کی رکاوٹ کو پوری طرح عبور کرسکے ہیں۔ چنانچہ یہ ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے چاہا کہ انتخابی عمل سے ایک ایسی حیثیت اختیار کرلیں، جس میں ہم لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکیں۔ لیکن محسوس ہوا کہ اسلامی قوتوں (اسلامی تحریکوں کا نہیں) کا تقسیم در تقسیم ہونا بلکہ متحارب ہونا، اس راہ کی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم ان تحریکوں اور تلخ حقائق سے سیکھ رہے ہیں۔ اسلامی تحریک کو یہ جمود توڑنے کے لیے مستقبل میں زیادہ Populist (مقبول عام) پالیسی اختیار کرنا پڑے گی، جس کے معنی عوام کو متحرک اور بیدار کرنا ہے۔ اس بھرپور کاوش سے پاور اسٹرکچر کو تبدیل کرنے کا عمل تیز ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس جدوجہد کے ابتدائی مرحلے میں عوامی سطح پر متوقع ابلاغ نہ ہوسکے، لیکن اگر ہدف واضح رہے اور تنظیم میں مضبوطی رہے اور تحریکِ اسلامی کی قیادتیں نعرہ زنی سے بلند ہوکر دین پر عمل میں پختگی، علم و فکر میں گہرائی، ایمان میں راستی، مشاہدے میں وسعت اور کشادہ روی کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں، تو پھر جہد مسلسل کے نتیجے میں ان شاء اللہ   ضرور تبدیلی آئے گی۔محض مقبولِ عام نعرے اور نری تشہیر کبھی پاے دار بنیادیں فراہم نہیں کرسکتے۔(پروفیسر خورشیداحمد)

سوال : ’اسلامی بنیاد پرستی‘ کی جو لہر گذشتہ عشروں سے شدت پکڑتی جارہی ہے، اس پر انڈیا میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی صورت میں بڑا سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ ’’اگر دوسرے مذاہب اپنے سیکڑوں سال پرانے قوانین پر اصرار کرتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہ کریں؟‘‘ اس عمل اور ردعمل کے باعث آج بھارت جیسی ریاست میں ۲۰کروڑ سے زائد مسلمانوں کے مستقبل کی تباہی اور گذشتہ ہزار برس کے تمام مسلم تہذیبی نشانات مٹ جانے کا شدید خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس صورتِ حال میں برعظیم پاک و ہند کے کچھ ’روشن خیال‘ دانش وروں کا خیال ہے کہ برعظیم کے تمام مذاہب کے سرکردہ رہنما مل کر مذہبی بنیادوں پر سیاسی نظام نافذ کرنے پر اصرار کرنے کے بجاے سیکولر کلچر کو رواج دیں، مذہبی حوالے سے پُرامن بقاے باہمی کو عام کریں، اور اسی حوالے سے اپنے مذاہب کی صرف تبلیغ و اشاعت اور محض رفاہِ عامہ کا کام کریں اور بھارت میں یرغمال مسلمانوں کو بچانے اور ان کا مستقبل سنوارنے کا کام کریں؟

جواب:اگر یہی کام کرنا تھا تو پھر پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سوال میں پوشیدہ ’ہمدردانہ مشورہ‘ قیامِ پاکستان کی بنیادی اپروچ ہی سے متصادم ہے۔ یہ بات بھی غلط فہمی پر مبنی ہے کہ بھارت میں جس چیز کو آپ ’ہندو بنیاد پرستی‘ کہہ رہے ہیں، اس کی تاریخ ولادت، شاید قیامِ پاکستان یا پاکستان میں اسلامی نظام کی بات یا پھر اسلامی نشاتِ ثانیہ کی تحریک کے وجود میں آنے سے متعلق ہے۔ مَیں بڑے ادب سے کہوں گا کہ جو حضرات یہ بات کہتے ہیں وہ اس برعظیم کی تاریخ سے واقف نہیں۔ یہاں برعظیم میں ’شدھی‘ کی تحریک انیسویں صدی کے آخر میں دیاندا سرسوتی (م:۱۸۸۳ء) نے شروع کی، جب کہ اس سے قبل ’سنگھٹن‘ وغیرہ کی تحریکیں بھی ’رام راج‘ ہی کی پکار تھیں۔ سیّداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کا توڑ کرنے کے لیے جو برعظیم پاک و ہند میں مغربی استعمار اور ’سکھاشاہی‘ کے لیے مزاحمت کی سب سے بڑی قوت تھی، جو مختلف فتنے جنم دیے گئے ہیں، اِن میں ایک ’قادیانیت‘ کا فتنہ بھی تھا۔ مذہبی فرقہ پرستی کا فتنہ بھی تھا اور اسی تسلسل میں ہندو احیا پرستی کا اقدام بھی تھا۔

انیسویں صدی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے بعد اور خصوصیت سے تحریک ِ مجاہدین کے مقدمات اور ۱۸۸۴ء میں ان کا جو آخری مقدمہ قائم ہوا، اس میں آپ دیکھیں گے کہ برہمنوں کی زیرقیادت ہندو قوم پرستی کا بخار پروان چڑھ چکا تھا۔ ’دھرتی ماتا‘ کی محبت اور دھرم سے شیفتگی کے اس نسل پرستانہ نعرے کی رہنمائی اور آبیاری انگریزوں نے کی تھی۔ اس وقت سے لے کر پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد تک ہندو بنیاد پرستی اور ٹھیٹ ہندو قوم پرستی سے سرشار پُرتشدد تحریک اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں ہندو مسلم فسادات رُونما ہوئے اور ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اسی دوران مسٹرگاندھی کے باطن میں چھپا ہوا برہمن بے نقاب ہوا تھا۔ یاد رہے کہ ۱۹۲۴ء سے پہلے برعظیم کی تاریخ میں مسلمانوں کے ۹۰۰سالہ دورِاقتدار اور انگریز کے سوسالہ دور میں کبھی ہندو مسلم فساد رُونما نہیں ہوئے تھے۔

برہمنی نفرت کے انھی شعلوں کی بنیاد پر ۱۹۲۵ء کو پہلے تو ’راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ ‘ (RSS) قائم ہوا۔ اگرچہ اس کے بانی کیشوو ہیڈگوار [م: ۱۹۴۰ء] تھے مگر پنڈت مدن موہن مالویہ اس کے فکری لیڈروں میں سے تھے، جو پہلے پہل تو ہمارے ہندستانی مسلم قائدین مولانا محمدعلی جوہر، عبدالباری فرنگی محل، قائداعظم اور دوسرے اکابر مسلمانوں کے ممدوح تھے،لیکن مسلمان قائدین کی وسعتِ قلبی اور وسیع المشربی بھی گاندھی جی اور موہن مالویہ جی کے ذہن میں جمے ہوئے برہمنی تعصب اور تنگ نظری کو نہ دھو سکی۔ یہ پارٹی ہندو مذہبی انتہاپرستی اور ہندو قوم پرستی پر مبنی تھی اور اس نے غیرمنقسم ہند میں باقاعدہ مسلح جتھے منظم کررکھے تھے۔ پھر اس پارٹی نے ۱۹۵۱ء میں اپنے سیاسی بازو ’بھارتیہ جن سنگھ‘ کو جنم دیا اور آخرکار ۱۹۸۰ء میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کا رُوپ سامنے آیا۔ اب اگر برہمنی تعصب اور مسلمانوں سے نفرت کے ارتقا کو کچھ لوگ پاکستان میں اسلامی نظام کی تحریک کا ردعمل قرار دیتے ہیں تو یہ ان کی علمی بددیانتی ہے۔ لیکن جو مسلمان ان کی ایسی باتیں سن کر اسلامی احیا کی تحریک کی مذمت کرتے ہیں تو دراصل وہ اپنے مطالعۂ تاریخ کی نفی کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں پورے معاملے کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ بھارت میں ہندو تعصب اور انتقام کی موجودہ لہر کا کوئی تعلق قیامِ پاکستان اور پاکستان کی تحریک نفاذِاسلام کے ردعمل میں نہیں، بلکہ یہ سرتاپا Anti Muslim تحریک ہے، جس کی جڑیں انیسویں صدی میں مضبوط کی گئی تھیں۔ ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے۔ تمام اہم سیاسی تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ ہندو انتہاپسندی کی تازہ لہر کو پروان چڑھانے میں خود اندراگاندھی اور راجیوگاندھی کا غیرمعمولی حصہ ہے۔ ۱۹۸۰ء کے دوران جنوبی بھارت میں مسلمانوں کی دعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں نچلی ذات کے لوگ جب اسلام کی دعوت کی طرف متوجہ ہوئے، تو خود اندراگاندھی اور بھارت کی برہمن اسٹیبلشمنٹ نے تب باقاعدہ ہندو انتہاپسندی کی حوصلہ افزائی کی۔ خصوصیت سے شمالی بھارت کی ہندو پٹی (belt) میں مسلم کش فسادات کی ایک رَو چل پڑی۔ بابری مسجد کا مسئلہ اُٹھایا گیا۔ مسلمانوں کے عائلی قوانین کو متنازع بنایا گیا اور محض سیاسی فائدہ اُٹھانے کے لیے مذہبی تعصب کی فضا پیدا کی گئی، لیکن تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ کانگریس جس نے اس فضا کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وہ اس سے فائدہ نہ اُٹھا سکی اور اصل فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو پہنچا___  فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ ۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہندوئوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ اب ردعمل کے طور پر بھارتی مسلمانوں کا خود اپنے اُوپر اعتماد بڑھ رہا ہے اور وہ اپنے ووٹ کا سیاسی دبائو استعمال کر رہے ہیں۔ خصوصاً بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے ۱۹۷۵ء میں جب ایمرجنسی لگائی۔ اس دوران مسلمانوں کی ’نس بندی‘ کا مسئلہ بھی بنیادی موضوع بنا۔ مسلمانوں نے اس کے خلاف جدوجہد کی اور مسلم ووٹ نے کانگریس کی پہلی شکست اور جنتاپارٹی کی کامیابی میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ دراصل یہی ہے وہ مقام جہاں پر ہندو انتہاپسندی نے خاص سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور اس کی بھی فکری بنیادیں انیسویں صدی سے اُٹھائی جارہی تھیں، اور یہ چیز یکایک نہیں ہوئی۔

اسی طرح میری نگاہ میں یہ بہت طویل عرصے تک رہنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوازم میں اجتماعی معاملات کے لیے کوئی واضح تصورِحیات موجود نہیں ہے۔ معاشرت اور عدل کے بارے میں ان کے ہاں کوئی قابلِ لحاظ رہنمائی نہیں ملتی۔ مجھے مولانا مودودیؒ کی وہ تحریر یاد آرہی ہے جس میں انھوں نے ایک ہندو سے یہ کہا تھا کہ اگر آپ کے پاس حقیقی الہامی مذہبی ہدایت موجود ہو، اور آپ اس کے مطابق معاملات چلانا چاہیں اور واقعی اللہ کی بندگی پر مبنی کوئی راستہ اختیار کرلیں تو اس میں آپ کی خیر ہوگی، لیکن آپ کے پاس ایسی کوئی چیزنہیں ہے تو پھر آپ کو تعصب سے کام نہیں لینا چاہیے، بلکہ جس مذہب کے پاس الہامی ہدایت پر مبنی نظامِ زندگی موجود ہے، اسے اختیار کرنا چاہیے کہ اسی میں انسانیت کی خیر ہے۔ دراصل یہی وہ شعور ہے جس پر پاکستان کی تحریک وجود میں آئی۔

اگر ہمیں خوش نما لفظوں اور مفروضوں پر مبنی سیکولرزم کے سائے تلے کوئی نظام بنانا تھا، تو اس کے لیے پاکستان قائم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر یہ بھی ایک معروضی حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب نے آج انسان، معاشرے، اسٹیٹ اور قوم کے جو تصورات دیے ہیں، وہ ایک ایک کر کے منہدم ہورہے ہیں۔ کمیونزم نے اس کے مقابلے میں جو بند کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی، وہ بھی تنکے کی طرح بہہ گیا۔ ان حالات میں وہ ہدایت، وہ اصول اور وہ نظام جس کی بنیاد پر انسانیت کے مسائل فی الحقیقت حل ہوسکیں ، صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام صرف پاکستانیوں کا دین نہیں ہے، اسلام پر محض نسلی مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں ہے، بلکہ اسلام تو وہ پیغام ہے جو انسانیت کو زندگی، بقا اور تہذیب کا راستہ سکھانے کا نمونہ پیش کرتاہے۔ یہی ہمارا دعویٰ ہے اور یہی پیغام۔

آ پ نے سوال میں ہندو انتہاپسندی کے علاج کے لیے جو دوا تجویز کی ہے، وہ تو دراصل مسلمانوں کے پورے نظام کو دریا برد کرنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے ہم اس نوعیت کی ’ہمدردانہ اور دانش ورانہ‘ تجاویز کو مسترد کرتے ہیں۔ گو آج کے انسان نے فضائوں میں پرندوں کی طرح اُڑنا اور سمندر میں مچھلیوں کی طرح تیرنا سیکھ لیا ہے، لیکن بدقسمتی سے زمین پر انسانوں کی طرح رہنا نہیں سیکھا۔ اسلام ہی دراصل زمین پر انسانوں کی طرح رہنا سکھاتا ہے اور ہم یہی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ قائم ہوجاتا ہے تو پھر ان شاء اللہ اس کے اچھے اثرات ہندو ذات پات کی شکار اقوام پر بھی پڑیں گے اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں اور مقہور ہریجنوں تک بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا جائے گا، کیوں کہ اسلام میں مذہبی رواداری کا ان لوگوں نے ابھی تک نظارہ نہیں کیا، بلکہ اس وقت، جب کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ بھی نہیں ہے، تب بھی پاکستان کا اپنی اقلیتوں کے ساتھ رویّہ کسی بھی دوسرے ایشیائی ملک سے بہتر، بلکہ بہت زیادہ بہتر ہے۔(پروفیسر خورشیداحمد)

جہری اور سرّی نمازوں کی حکمت

سوال : ظہر اورعصر کی نمازوں میں قراء ت خاموشی سے کی جاتی ہے ، جب کہ فجر ، مغرب اورعشاء کی نمازوں میں بلند آواز سے ۔ اس کی کیا حکمت ہے ؟

جواب:نماز ادا کرنے کا اجمالی حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تفصیلی احکام بیان کیے ہیں ۔ آپ ؐ نے نماز اد ا کرنے کا طریقہ بھی تفصیل سے بتایا ہے اورخودبھی نمازپڑھ کر دکھائی ہے ۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا ۔ ہم لوگ ۲۰ دن ٹھیرے اور  آپؐ سے دین سیکھتے رہے۔ جب واپس اپنے گھروں کوجانے لگے تو آپ ؐ نے ہمیں مختلف ہدایات دیں، جن میں یہ بھی فرمایا :

صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِی اُصَلِّی (بخاری:۶۳۱) جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ، اسی طرح نماز پڑھنا۔

نماز فجر میں ، اسی طرح مغرب اورعشا ء کی ابتدائی دو رکعتوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے قراء ت کرتے تھے ۔ صحابہ کرامؓ نے بھی اس پر عمل کیا اور اسی پر اب تک عمل چلا آرہا ہے ۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ احادیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ حضرت ابوہریرہؓ کے کسی شاگرد نے ان سے سوال کیا کہ کیا ہررکعت میں قرآن پڑھا جاتا ہے ؟ اگر ہاں، توبعض رکعتوں میں بلند آواز سے اوربعض میں بغیر آواز کے کیوں تلاوت کی جاتی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا :

فِیْ کُلِّ صَلاَۃٍ یُقْرَاُ ، فَمَا اَسْمَعَنَا رَسُوْلُ اللہِ  اَسْمَعْنَاکُمْ ، وَمَا اَخْفٰی عَنَّا اَخْفَیْنَا عَنْکُمْ (بخاری :۷۷۲ ، مسلم: ۳۹۶)نماز (کی ہر رکعت) میں قراء ت کی جاتی ہے۔ جن رکعتوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بلند آواز سے قراء ت کی کہ لوگ سن لیں، ان میں ہم بھی بلند آواز سے قراء ت کرتے ہیں، اورجن رکعتوں میں بغیر آواز کے قراء ت کی ہے ان میں ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

 بعض  علما نے ظہر وعصر کی نمازوں میں خاموشی سے قراء ت کرنے اوردیگر نمازوں میں جہری قراء ت کرنے کی حکمت بیان کی ہے ۔ شاہ ولی اللہ ؒنے لکھا ہے :

ظہر اور عصر میں خاموشی سے قراء ت کرنے کی حکمت یہ ہے کہ دن میں بازاروں اور گھروں میں شورو شغب رہتا ہے ، جب کہ دیگر نمازوں کے اوقات میں ماحول پُرسکون رہتا ہے۔ اس لیے ان میں جہری قراء ت کا حکم دیا گیا تاکہ قرآن سن کرلوگوں کی تذکیر ہواور  وہ عبرت ونصیحت حاصل کریں ۔ (حجۃ اللہ البالغۃ ، القاہرہ ، ج۲،ص ۱۵،۲۰۰۵ء)

بہر حال نماز کا اجمالی حکم تو قرآن کریم میں موجود ہے ، لیکن اس کے تفصیلی احکام اور طریقۂ ادایگی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔ اس لیے ہمیں ٹھیک اسی طرح نماز ادا کرنی ہے جیسے آپؐ ادا کرتے تھے۔(مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)

اُدھار اور نقد قیمت میں فرق اور ظلم؟

سوال : میں غلہ منڈی میں آڑھت کی دکان کرتا ہوں۔ میرے پاس نقد اور اُدھار کھاد اور کیڑے مار ادویات /اسپرے لینے کے لیے زمین دار آتے ہیں۔ کیا اسلام میں نقد اور اُدھار قیمت میں فرق کا کوئی تصور موجود ہے؟ اگر میں ایک فصل تقریباً چھے ماہ تک کھاد کی بوری کسی کسان کو اُدھار دوں تو اصل قیمت سے کتنی زائد وصول کرسکتا ہوں؟ کیا میرا یہ عمل سود کے زمرے میں تو نہیںآتا؟

جواب :’سود‘ یہ ہے کہ رقم دے کر اس پر اضافہ لیا جائے۔ رقم دے کر چیز خریدنا بیع ہے، اور بیع میں چیز کی قیمت پر اضافہ لینا، یعنی اُدھار کی قیمت زیادہ لی جائے اور نقد کی کم، یہ جائز ہے۔ البتہ اُدھار پر اتنی زیادہ رقم نہ ہو کہ اس گنجایش کو معاشی لُوٹ مار اور بدترین استحصال کا وسیلہ سمجھا جائے اور زمین داروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھایا جائے۔ ظلم کرنے اور دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدے اُٹھانے والوں کو بہرحال اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

ڈرائونے خواب

سوال:  میں نے اپنا گھر فروخت کرکے اپنی لڑکی کا بیاہ کیا تھا۔ اس کے بعد ایک بار ایسا خواب دیکھا کہ مجھے کوئی شخص قتل کے الزام میں پھنسانا چاہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ میں بے قصور ہوں مگر احتیاطاً چھپ کر رہتا ہوں۔ دوسری بار پھر یہ خواب دیکھا کہ میں نے محض معمولی قصور پر کسی کو قتل کر دیا ہے۔ ان دو خوابوں کی وجہ سے میں پریشان ہوں۔مہربانی فرما کر اس کی تعبیر بتایئے تاکہ مجھے سکون حاصل ہو؟

جواب :اس وقت خواب پر کوئی تفصیلی گفتگو مقصود نہیں ہے۔ صرف آپ کے سوال کے پیش نظر چند باتیں عر ض کرتا ہوں:

خواب کی دو بڑی قسمیں ہیں: اچھے خواب اور بُرے خواب۔ اچھے خواب، اللہ کی طرف سے ایک قسم کی بشارت کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ وہ وضو کر رہا ہے، یا نماز پڑھ رہا ہے، یا کعبہ مکرمہ کا طواف کر رہا ہے۔ بُرے خواب عام طور سے دو وجوہ سے آتے ہیں۔ وہ بُرے خیالات جو ذہن و دماغ میں آتے ہیں، وہی خواب میں نظر آجاتے ہیں، یا شیطانی خواب ہوتے ہیں، جو کسی ڈر اور خوف میں مبتلا کرنے کے لیے شیطان دکھاتا ہے۔

بخاری کی کتاب التعبیر میں بعض صحابہؓ کا یہ قول منقول ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں: ۱-حَدِیْثُ النفس، یعنی دل میں جو وسوسے اور بُرے خیالات آتے ہیں وہی خواب میں دکھائی دیتے ہیں۔ ۲- تخویف الشیطان، یعنی شیطان کسی کو ڈر اور خوف میں مبتلا کرنے کے لیے ڈرائونے خواب دکھاتا ہے۔۳-بشریٰ من ا للّٰہ، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بشارت۔

بُرے اور ڈرائونے خوابوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ خواب دیکھنے والے کو بیدار ہونے کے بعد شیطان سے پناہ مانگنی چاہیے، مثلاً اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ یا لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھ کر بائیں طرف تھوک دینا چاہیے، نیز یہ کہ خواب کسی دوسرے سے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح اس بُرے اور ڈرائونے خواب سے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بعض حدیثوں میں یہ بھی ہے کہ بُرا خواب دیکھ کر جب بیدار ہو تو وضو کرکے دو رکعت نفل نماز پڑھ لے۔

مجھے خواب کی تعبیر میں کوئی دخل نہیں ہے لیکن آپ کا خواب یا تو تخویف الشیطان سے تعلق رکھتا ہے یا حدیث النفس سے۔ آیندہ آپ بُرے خواب کسی سے بیان نہ کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کریں۔ اس بات کا جائزہ لے لینا بہتر ہوگا کہ کہیں آ پ مغلوب الغضب اور مشتعل مزاج تو نہیں ہیں، یعنی ایسا تو نہیں کہ معمولی باتوں پر آپ کو بہت غصہ آجاتا اور مشتعل ہوجاتے ہوں۔ اگر خدانخواستہ اس طرح کی کوئی بات ہو تو اپنے غصّے اور اشتعال پر قابو پانے کی پوری کوشش کیجیے۔

آپ نے جو ڈرائونا خواب دیکھا ہے اس کو ذہن سے نکال دیجیے اور مطمئن زندگی بسر کیجیے۔ وضو کر کے دو رکعت نفل پڑھ کر شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگیے اور اللہ سے دُعا کیجیے تو بہتر ہے۔ ایک بات یہ کہ آپ اپنے ذہن کو بُرے خیالات سے خالی رکھنے کی سعی کیجیے۔ اگر ایسے وسوسے اور بُرے خیالات آئیں تو انھیں فوراً ذہن سے نکال کر اللہ کے ذکر میں مشغول ہو جایا کیجیے۔ آخر میں یہ عرض کر دینا بھی مناسب ہے کہ بُرے اور ڈرائونے خوابوں کا ایک سبب معدے کی خرابی بھی ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو کسی اچھے طبیب سے مشورہ کر کے دوا استعمال کرنی چاہیے۔(مولانا سیّد احمد عروج قادری، احکام و مسائل، دوم، ص ۳۰۲-۳۰۴)

قبرستان کی چار دیواری اور قبر کی لپائی

سوال : ہمارے گائوں کا قبرستان آبادی سے دُور جنگل میں واقع ہے۔ قبرستان میں ایک جگہ قدرے بلندی پر چند قبور ہیں، جن کے گرد کچی چار دیواری بنی ہوئی تھی جس کی لوگ لپائی کرتے تھے۔ اب لپائی نہ ہونے کی وجہ سے چار دیواری ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ گائوں کے کچھ لوگوں کا اختلاف ہوگیا کہ دیوار بناناجائز ہے یا نہیں؟ اسی دوران میں کچھ لوگ اپنے مویشیوں اور چوپائیوں کوچرانے کے لیے اس جنگل میں لے جاتے ہیں۔ مویشی اور چوپائے قبرستان میں بھی چرتے پھرتے ہیں، قبروں کو پھلانگتے اور گوبر وغیرہ کرتے ہیں۔ ان اُمور کا شرعی حکم معلوم کرنا مقصود ہے: l مخصوص قبروں کی حفاظتی دیوار تعمیر کرنا lٹوٹ پھوٹ کی شکار حفاظتی دیوار کی ازسرِنو تعمیر کرنا l قبرستان کی حفاظتی دیوار تعمیر کرنا l قبرستان میں مویشیوں کو لانا اور چرانا وغیرہ۔

جواب : قبرستان کی حفاظت کے لیے چار دیواری تعمیر کی جاسکتی ہے۔ فیصل آباد میں حکیم عبدالمجید نابینا جو بہت بڑے عالم تھے۔ ان کے ایک بھائی فوت ہوگئے تو انھیں اُس قبرستان میں دفن کیا جانا تھا جس کی چار دیواری نہ تھی۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اس کی چار دیواری کی جائے۔ اگلے دن وہ خود بھی فوت ہوگئے تو ان کو بھی اسی قبرستان میں دفن کیا گیا، جس کی چار دیواری ان کی زندگی میں کھڑی کر دی گئی تھی۔ مفتی سیّد سیاح الدین کاکاخیلl بھی اس موقعے پر موجود تھے۔ انھوں نے بھی اس کام کی تائید فرمائی۔لہٰذا، جو چار دیواری شکستہ ہوگئی ہے، اسے دوبارہ تعمیر کیا جاسکتا ہے اور قبر کی لپائی بھی کی جاسکتی ہے۔ جانوروں سے بچانے کے لیے لوگوں کو ہدایت کی جائے کہ  قبر پر نہ بیٹھیں؟

احادیث میں قبروں پر بیٹھنے سے بھی منع کیا گیا ہے: عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ نَہَی رَسُوْلُ اللہِ اَنْ یُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَاَنْ یُصَلّٰی عَلَیْہِ  وَاَنْ یُقْعَدَ عَلَیْہِ (مسلم)، حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے سے روکا ہے۔ ان پر نماز پڑھنے اور ان پر بیٹھنے سے بھی منع کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبر پر بیٹھنے سے قبر خراب ہوتی ہے، اس کی بے ادبی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں قبروں کی حفاظت ضروری ہے۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

وراثت کا مسئلہ

سوال :ہمارے ایک عزیز کا ابھی انتقال ہوا ہے ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، صرف بیوہ ہے ۔ اس کے علاوہ حقیقی بھائیوں کی اولاد میں سے دو بھتیجے اورنوبھتیجیاں ہیں، اورباپ شریک سوتیلے بھائیوں کی اولاد میں سے آٹھ بھتیجے اورچار بھتیجیاں ہیں ۔ ان کے درمیان میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟

جواب:اولاد نہ ہو نے کی صورت میں بیوی [بیوہ]کا حصہ چوتھائی (النساء۴:۱)، جب کہ بقیہ حقیقی بھتیجوں کے درمیان تقسیم ہوگا مگر بھتیجیوں کو نہ ملے گا ۔ اسی طرح حقیقی بھتیجوں کی موجودگی میں سوتیلے بھتیجوں کوبھی کچھ نہ ملےگا۔(مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)

خطبۂ جمعہ کے دوران سنت نماز پڑھنا؟

سوال : اگر کوئی شخص سنت جمعہ پڑھ رہا ہو کہ جمعہ کا خطبہ شروع ہوجائے ، کیا خطبہ سننے کے لیے سنت کو چھوڑ دینا چاہیے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چوں خطبہ سننا واجب ہے، لہٰذا اس واجب پر عمل کرنے کے لیے سنت چھوڑنا ضروری ہے۔ صحیح کیا ہے؟

جواب :سنت شروع کرنے کے بعد خطبہ شروع ہو تو صحیح یہی ہے کہ سنت کو پوری کرے، توڑے نہیں۔ مشہور فقیہ علّامہ ابن نجیم مصریؒ نے یہی لکھا ہے کہ سنّت مکمل کرلے: اِذَا شَرَعَ فِی الْاَرْبَعَۃِ قَبْلَ الْجُمُعَۃِ ثُمَّ افْتَتَحَ الْخُطْبَۃَ… تَکَلَّمُوْا فِیْہِ وَالصَّحِیْحُ اَنَّہٗ یَتِمُّ وَلَا یَقْطَعُ (البحرالرائق، ج۲، ص ۲۷۱)۔ (مفتی محمد ظفرعالم ندوی)

کیا خطبۂ جمعہ اور نماز ایک ہی فرد پڑھائے؟

سوال : اگر خطبہ ایک شخص دے اور نماز دوسرا شخص پڑھائے، تو کیا شرع میں اس کی اجازت ہے، اور کیا امام ہی کے لیے خطبہ دینا ضروری ہے؟

جواب :بہتر طریقہ یہی ہے کہ ایک ہی شخص خطبہ بھی دے اور نماز بھی پڑھائے، لیکن اگر دو الگ الگ افراد نے الگ الگ ذمہ داری انجام دی، ایک نے خطبہ دیا اور دوسرے نے   نماز پڑھائی تو یہ بھی درست ہے۔ اس سے نہ خطبہ پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ نماز پر۔ علامہ شامی نے اس کی صراحت کی ہے: فَلَا یَنْبَغِیْ اَنْ یُقِیْمَھَا اِثْنَانِ وَ  اِنْ فَعَلَ جَازَ (رد المختار، ج۳، ص۱۱)۔ (مفتی محمد ظفرعالم   ندوی)

جان کنی کے وقت سورۂ يٰسۗکی تلاوت؟

سوال: سورۂ يٰسۗ کوقرآن کا دل کہا جاتا ہے ، کیا یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے؟

جان کنی کے وقت سورۂ يٰسۗ کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جان نکلنے کے بعد مُردے کے پاس بھی اس کی تلاوت کی جانی چاہیے۔اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیے ۔ کیا یہ باتیں احادیث سے ثابت ہیں؟

جواب: بعض روایات میں یہ باتیں مذکورہیں ، لیکن ناقدینِ حدیث نے انھیں ضعیف اور موضوع قرار دیا ہے۔مثلاً سورۂ يٰسۗ کے قرآن کا دل ہونے کی بات سنن ترمذی اورسنن دارمی کی ایک روایت میں آئی ہے، جوحضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اِنَّ لِکُلِّ شَی ءِ قَلْبًا وَقَلْبُ الْقُرآنِ يٰسۗ ،ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اورقرآن کا دل سورۂ یٰسٓ ہے۔ (ترمذی :۲۸۸۷، دارمی:۲۱۴۹)

امام ترمذی ؒ نے لکھا ہے کہ ’’ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں‘‘۔ اس کی سند میں ایک راوی ہارون ابومحمد ہے ۔ اسے امام ترمذی نے مجہول کہا ہے ۔ ابوحاتم نے فرمایا ہے کہ ’’یہ حدیث باطل ہے ۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ‘‘۔ علامہ البانیؒ فرماتے ہیں کہ’’ اس کی سند میں ایک راوی مقاتل بن سلیمان ہے (نہ کہ مقاتل بن حیّان ) اوروہ کذّاب ہے۔ اس بنا پر یہ حدیث موضوع ہے ‘‘۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموـضوعۃ ، حدیث :۱۶۹)

اسی طرح روایات میں جان کنی کے وقت سورۂ يٰسۗ کی تلاوت کا حکم ملتا ہے۔ حضرت معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اِقْرَءُ وا يٰسۗ عَلٰی مَوْتَاکُمْ ،تم میں سے جن لوگوںکی موت کا وقت آگیا ہو ان پر  سورۂ يٰسۗ پڑھو۔(ابوداؤد،۳۱۲۱، ابن ماجہ :۱۴۴۸)

یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔ اس کی سند میں ایک راوی عثمان ہے ، جس نے اسےاپنے باپ سے روایت کیا ہے ۔ یہ دونوں مجہول ہیں۔ امام دار قطنیؒ نے فرمایا ہےکہ ’’ اس موضوع پر روایت کی جانے والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے ‘‘۔ علامہ البانی ؒ نے بھی اسے ضعیف قراردیا ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، حدیث نمبر :۵۸۶۱)

تاہم، مسند احمد کی ایک روایت میں ، جو حضرت معقل بن یسار ؓ سے مروی ہے ، یہ دونوں باتیں مذکور ہیں ، یعنی اس میں یٰسٓ کو قرآن کا دل کہا گیا ہے اورجان کنی کے وقت اس کی تلاوت کا بھی حکم دیا گیا ہے ۔ لیکن اس کی سند میں عن رجل عن ابیہ (ایک آدمی نے اپنے باپ سے روایت کی) آیا ہے ۔ دونوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے اس روایت کوضعیف قرار دیا گیا ہے ۔

جان نکلنے کے بعد جب تک میت کوغسل نہ دیا جائے، اسے ناپاک قرار دیا گیا ہے ۔ اس لیے غسل سے پہلے میت کے قریب قرآن مجید پڑھنے کو فقہاء نے مکروہ کہا ہے ۔ (کتاب الفتاویٰ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، طبع دیوبند،۳/۱۳۹)۔ (مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)


دوسری تنظیم سے تعاون یا عدم تعاون

سوال : میں جماعت اسلامی کی رکن ہوں اور ابلاغی محاذ (بلاگز، اخبارات، انٹرنیٹ) پر دین اور تحریک کے دفاع کے لیے بسا ط بھر متحرک اور دل و دماغ اور قلم سے حاضر ہوں۔ میرے شوہر کا تعلق ایک رفاہی تنظیم سے ہے۔ میرے شوہر کو جماعت کے نظم سے کوئی شکایت نہیں اور وہ جماعت میں میری سرگرمیوں پر خوش ہیں اور اکثر اوقات مددگار ہوتے ہیں۔ جس سے میرے لیے ان سرگرمیوں میں حصہ لینا آسان اور حوصلہ افزا ہے۔ میں کبھی کبھار کسی پہلو سے شوہر کی وابستگی والی تنظیم کے لیے دوچار سطریں سوشل میڈیا پر لکھ دیتی ہوں، جن کا تعلق ان کی تنظیم کی جانب سے اُٹھائے گئے کسی سماجی مسئلے سےمتعلق ہوتا ہے۔ ان تمہیدی سطور کے بعد عرض یہ ہے کہ:

۱- کیا ایک ہی مقصد رکھنے والوں کو محض مختلف پلیٹ فارم ہونے کے باعث ہرسطح پر الگ سمجھنا درست ہے؟

۲- ابلاغِ دین یا رفاہی کاموں میں میرا اپنے شوہر سے کیا رویہ ہونا چاہیے؟

اس پیش آمدہ تحریکی اور گھریلو پریشانی پر درخواست گزار ہوں کہ رہنمائی فرمائیں۔

جواب : ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ص (المائدہ ۵:۲) ’’نیکی اور تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور معصیت کے کام میں باہمی تعاون نہ کرو‘‘۔ قرآنِ پاک کے اس ارشاد کی روشنی میں ایک شخص یا اشخاص ایک تنظیم میں رہتے ہوئے،کسی دوسری تنظیم سے تعاون کرسکتے ہیں۔ اپنی بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق اگر آپ اس اصول پر چل رہی ہیں تو چاہے آپ کا شوہر جماعت اسلامی میں شامل نہیں، آپ صحیح سمت پر گامزن ہیں اور اسی اصول پر عمل پیرا رہیں۔(مولانا عبدالمالک)


مرحوم و مغفور کے معنی

سوال : بعض مقالات میں فوت ہو جانے والے لوگوں کے لیے ’مرحوم و مغفور‘ لکھا جاتا ہے۔ ’مرحوم‘ کے معنی ہیں ’جس پر رحم کیا گیا ہو‘ اور ’مغفور‘ کے معنی ہیں ’بخشا ہوا‘ یعنی جس کو ’بخش دیا گیا ہو‘۔ یہ لکھنا کس طرح صحیح ہے، جب کہ کسی کے پاس اس کا علم نہیں کہ کون بخشا گیا ہے اور کون نہیں بخشا گیا؟

جواب :یہ دونوں لفظ بطورِ دُعا لکھے جاتے ہیں، جیسے ’رحمہ اللہ‘ اور ’غفرلہٗ‘ لکھا جاتا ہے۔ پہلے جملے کے معنی یہ ہیں کہ ’اللہ ان پر رحم فرمائے‘ اور دوسرے جملے کے معنی یہ ہیں کہ ’اللہ ان کی مغفرت فرمائے‘۔ ’مرحوم‘ رحمہ اللہ کی جگہ اور ’مغفور‘، غفرلہٗ کی جگہ استعمال ہوتاہے۔ (مولانا سیّد احمد عروج قادری، احکام و مسائل، دوم، ص ۱۶۷)

 

مشکوک آمدنی پر قطع تعلقی؟

سوال :مرکز قومی بچت میں رقم لگانا کیسا ہے ؟ طریق کار یہ ہے کہ لوگ اپنے پیسے جمع کراتے ہیں اورایک لاکھ پر ۱۰۰۰؍۱۱۰۰ روپے ماہانہ کے حساب سے منافع وصول کرتے ہیں اور رقم بھی محفوظ رہتی ہے ۔

میرے کئی جاننے والے ہیں جنھوں نے اپنی رقم قومی بچت کے مرکز میں رکھی ہے ۔ اکثر آسودہ حال ہیں ۔ذاتی مکان ہے ، ۵۰ ہزار روپے ماہانہ پنشن بھی ملتی ہے ۔ مکان کا ایک حصہ کرایے پر بھی دیا ہوا ہے ، خرچ براے نام ہے ۔ میں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی ایسے شخص کے گھر سے جس کی رقم مرکز قومی بچت میں لگی ہو اورمجھے پتا چل جائے تومیں اس کے گھر سے پانی پینا بھی اپنے لیے ناجائز سمجھتا ہوں،البتہ گھروالوں کو اس بارے میں منع نہیں کیا ہے اورکہا ہے کہ جومہمان آئے اس کی مناسب خاطر تواضع کی جائے ، البتہ وہ میرے گھر میں کوئی چیز نہ لائے ۔

کیا میرا یہ فیصلہ درست ہے ؟ دین اسلام کی روشنی میں ایسا کرنا کیسا ہے؟ کئی علما جوازکا بھی فتویٰ دیتے ہیں اورکچھ کہتے ہیں کہ جب حکومت دیتی ہے تو ہم کیوںنہ لیں؟ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں؟ میری اُلجھن دور فرمادیں؟

جواب:کسی جمع شدہ رقم پر متعین مقدار میں منافع حاصل کرنا ربا (سود ) ہے، جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن کریم میں سودی لین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ اوراس کے رسولؐ کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔(البقرہ۲: ۲۷۸-۲۷۹)، اورحدیث میں ہے کہ سودی کاروبار کرنے والوں اوراس میں معاونت کرنے والوں ، دونوں پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے (مسلم:۱۵۹۷، ۱۵۹۸)۔ اس لیے اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ سودی کاروبار اور اس میں ملوث افراد کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

البتہ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سود خوری کا ارتکاب کررہا ہوتو کیا اس سے سماجی تعلقات  رکھے جاسکتے ہیں ؟ اس کی تقریبات میں شریک ہوا جاسکتا ہے ؟ اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ؟ اور اگروہ کوئی تحفہ دے تواسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟

اس کا فیصلہ کرتے وقت دین کی مجموعی تعلیمات اور شرعی مصلحت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ ایک طرف اہل خاندان اورسماج میں رہنےوالے دیگر افراد سے تعلقات رکھنے کاحکم دیا گیا ہے اوران سے قطع تعلقی سے روکا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے ۔ آپؐ نے نہ صرف اپنے خاندان والوں، اوردیگر اہل ایمان سے خوش گوار تعلقات رکھے، بلکہ سماج کے دیگر غیر مسلم افراد اور غیر مسلم حکم رانوں سے بھی روابط رکھے، اور ان کے ساتھ تعلقات میں خوش گواری کے لیے انھیں ہدیے بھیجے اوران کے ہدیے قبول کیے ۔ دوسری طرف حرام مال اورحرام مشروبات سے احتراز کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس لیے فقہا نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ اگر کسی شخص کی کل آمدنی یا اس کا زیادہ تر حصہ سود پر مبنی ہوتو اس کی دعوت یا اس سے کوئی تحفہ قبول کرنا جائزنہیں ، لیکن اگرایسا نہ ہو اوراس کی زیادہ تر آمدنی حلال ذرائع سے ہوتو اس کی دعوت یا اس کا تحفہ قبول کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سیکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی (بھارت) نے فتاویٰ عالم گیری کے حوالے سے لکھا ہے:’’اگر معلوم ہوکہ دعوت سودی پیسے سے کی جارہی ہے تب تو دعوت میں شریک ہونا قطعاً جائز نہیں ہے اوراگر دعوت کا حلال پیسےسے ہونا معلوم ہوتو دعوت میں شرکت جائزہے،اور اگر متعین طورپر اس کا علم نہ ہو تو پھر اس بات کا اعتبار ہوگا کہ اس کی آمدنی کا غالب ذریعہ کیا ہے ؟ اگر غالب حصہ حرام ہے تو دعوت میں شرکت درست نہیں اورغالب حصہ حلال ہے تو دعوت میںشرکت جائز ہے‘‘ ۔(کتاب الفتاویٰ ، زمزم پبلشرز ، کراچی ،ج۶، ص ۲۰۱،بہ حوالہ الفتاویٰ الہندیۃ: ج۵، ص ۳۴۳)

علما یہ بھی کہتے ہیں کہ جولوگ سودی کاروبار اور لین دین میں ملوث ہوں ان کی دعوتوں میں شرکت کرنے سے سماج کے سربر آوردہ لوگوں اورخاص طور پر علما کو احتراز کرنا چاہیے ، تاکہ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہواور دو سروں تک درست پیغام جائے ۔

بہر حال اس معاملے میں دینی مصلحت اور شرعی تقاضوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے اوراس کے مطابق جوبات مناسب لگے اس پرعمل کرنا چاہیے۔(مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)


مطلقہ ماں کا حقِ حضانت (پرورش)

سوال : اخبار میں ایک استفسار کے جواب میں درج ہے: ’’شرعاً والد کو یہ حق حاصل ہے، بلکہ اُس کے لیے ضروری ہے کہ اگر طلاق کی نوبت آئے تو اپنی ساری اولاد کو    وہ اپنے پاس رکھے۔ والدہ کو اولاد رکھنے کا کوئی حق نہیں، مگر حدیث پاک میں آیا ہے کہ:

۱- ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے، میرا بطن اس کی جاے قرار تھی۔ میرے سینے سے اس نے دودھ پیا اور میری آغوش نے اِسے پالا ہے۔ اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تک تو نکاح نہ کرے، تو اِس بچے کی زیادہ حق دار ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ ، بلوغ الصغیر وحضانتہ)

۲- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک لڑکے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو باپ کے پاس رہے اور چاہے تو ماں کے پاس۔(ایضاً)

۳- ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ’’میرا خاوند چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو لے جائے ، حالاں کہ وہ [بچہ]مجھے پانی لا دیتا ہے اور میرے کام آتا ہے۔ آپؐ نے اس لڑکے سے فرمایا: ’’یہ تمھارا باپ ہے اور یہ تمھاری ماں ہے، جس کا ہاتھ چاہو پکڑلو‘‘۔ اُس نے ماں کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اُسے لے کرچلی گئی۔ (ایضاً)

۴- حضرت ابوہریرہؓکے پاس ایک فارسی عورت آئی، جس کے ساتھ اُس کا بیٹا تھا، اور جس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی۔ میاں بیوی نے حضرت ابوہریرہؓ کے سامنے اپنے مقدمے کو پیش کیا۔ عورت نے اپنی زبان میں کہا: میرا خاوند، میرے بیٹے کو  لے جانا چاہتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: ’’بچے کے بارے میں قرعہ ڈال لو‘‘۔ خاوند نے آکر کہا: ’’میرے بیٹے کے بارے میں میرے استحقاق میں کون جھگڑا کرسکتا ہے‘‘؟ حضرت ابوہریرہؓ نے جواب دیا: میں یہ بات صرف اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور ایک عورت نے آکر کہا: ’’میرا خاوند میرے بیٹے کو لینا چاہتا ہے، حالاں کہ بچہ میرے کام کرتا ہے اور مجھے پانی لا دیتا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’دونوں میں قرعہ ڈال لو‘‘۔ باپ نے کہا: ’’میرے بیٹے کے بارے میں کون جھگڑا کرسکتا ہے‘‘؟ آپؐ نے بچے سے فرمایا: ’’یہ تمھارا باپ ہے اور یہ تمھاری ماں ہے، جس کا ہاتھ چاہو پکڑلو‘‘۔ اُس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ (ایضاً)

۵- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے والدہ اور اُس کے بیٹے کے درمیان جدائی ڈالی، اللہ تعالیٰ اُس کے اور اُس کے پیاروں کے درمیان قیامت کے روز تفریق کرے گا‘‘۔ (مشکوٰۃ حق الملوک والفضات)


براہ کرم ان احادیث کی روشنی میں متذکرہ بالا بیان کی تصحیح فرما دیں؟

جواب :آپ کی تنبیہہ کا شکریہ۔ سوال و جواب جس شکل میں شائع ہوا ہے، اُس پر آپ کے ذہن میں اشکال کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ سائل نے اپنے حالات بہت تفصیل سے تحریری اور پھر زبانی بیان کیے تھے، اور اُن کا مطالبہ یہ تھا کہ دلائل اور تفصیلات کے بغیر اُنھیں ایک مختصر اور قطعی جواب دیا جائے۔ اس سوال و جواب کی اشاعت قطعاً پیشِ نظر نہ تھی، لیکن کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر اُنھوں نے سوال کا ایک بے ربط سا خلاصہ اور میرا مجمل جواب اخبار میں شائع کرا دیا۔ بہرحال، اب جب شائع ہوچکا ہے اور آپ نے اس پر اعتراض وارد کر دیا ہے تو میں دوبارہ اپنے مدعا کو واضح طور پر بیان کیے دیتا ہوں۔

آپ نے جو پانچ احادیث نقل فرمائی ہیں ،اُن میں سے پانچویں حدیث تو تفریقِ زوجین  اور حضانت ِ صغیر سے متعلق نہیں ہے۔ وہاں والدہ اور وَلد سے مراد لونڈی اور اُس کی اولاد ہے اور تفریق سے مراد بچوں کو ماں سے جدا کر کے باپ کے سپرد کرنا نہیں ہے، بلکہ والدہ اور بچوں کو الگ الگ افراد کے سپرد کرنا ہے، یا اُن کے ہاتھ بیچ دینا ہے۔ مگر متعدد احادیث سے بھی اس فعل کی ممانعت ثابت ہے۔ بقیہ پہلی چار احادیث سے درج ذیل احکام مستنبط ہوتے ہیں:

۱- زوجین کی تفریق اور اولادِ  صِغَار [چھوٹی عمروں]کی موجودگی کی صورت میں اولاد  اگر سنِ تمیز کو نہ پہنچی ہو اور مادرانہ شفقت کی محتاج ہو، تو والدہ اُسے اپنی حضانت (پرورش) میں رکھنے کی زیادہ حق دار ہے، بشرطیکہ وہ نکاحِ ثانی نہ کرے۔

 ۲- اگر اولاد سنِ تمیز کو پہنچ جائے تو ایسی صورت میں یا تو قرعہ اندازی کی جائے گی، یا پھر اگر والدین میں سے کوئی ایک یا، دونوں اس کے لیے رضامند نہ ہوں، تو بچے کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ والدین میں سے جس کے ساتھ رہنا پسند کرے، اُسی کے ساتھ ہوجائے۔

یہ اُصول جو سنت ِ نبویؐ سے ثابت ہیں، اِن سے اختلاف کی کسی مسلمان کو گنجایش نہیں۔ البتہ، ائمۂ سلف نے ان اور اسی قبیل کی دوسری احادیث کے سیاق و محل کا لحاظ رکھتے ہوئے، نیز والدین اور اولاد کے باہم دگر شرعی حقوق اور ذمہ داریوں کو من حیث المجموع نگاہ میں رکھتے ہوئے، والدہ کے حقِ حضانت کے لیے چند مزید شرائط و حدود بیان کیے ہیں، مثلاً: علماے مذاہب اربعہ کا قریب قریب اس پر اتفاق ہے کہ حسب ذیل عُیوب اگر والدہ میں ہوں درآں حالیکہ والد ان سے بری ہو، تو والدہ کا حقِ حضانت ساقط ہوجائے گا:

l ارتداد l فتورِ عقل l ترکِ صوم و صلوٰۃ یا علانیہ فسق و فجور l تربیت ِ اولاد سے قطعی غفلت l اولاد کو لے کر کسی ایسے ماحول میں رہنا، جہاں فسادِ اخلاق کا اندیشہ ہو، یا کسی ایسے دُورافتادہ شہر میں جاکر مقیم ہونا، جہاں والد کے لیے اولاد کی تعلیم و تربیت کی دیکھ بھال دشوار ہو۔ lوالد کے عدمِ استطاعت کے باوجود اُس سے اولاد کے نفقے کا مطالبہ کرنا۔

اسی طرح فقہا کی راے یہ بھی ہے کہ والدہ کے پاس رہنے کی مدتِ حضانت سات یا زیادہ سے زیادہ نو برس ہے۔ اس کے بعد والد کو حق حاصل ہے کہ وہ اولاد کو اپنے چارج میں لے لے۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان شرائط میں سے کوئی شرط بھی مذکورہ احادیث یا عام اصولِ شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اولاد کے نان نفقے، اُن کی مادی و اخلاقی تربیت، اُن کی تعلیم، ہُنرآموزی اور اُن کے شادی بیاہ کی اصل ذمہ داری والد پر ہے، نہ کہ والدہ پر۔ مرد ہی بحیثیت قوامِ خاندان قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا [التحریم ۶۶:۶] کا اوّلین مخاطب ہے۔ ان حالات میں یہ کس طرح قرینِ قیاس ہوسکتا ہے کہ والدہ کو غیرمعین مدت کے لیے علی الاطلاق حقِ حضانت دے دیا جائے، کہ وہ والد کی خواہش کے علی الرغم جس سانچے میں چاہے اولاد کو  ڈھال دے اور پھر اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے اولاد کو والد کے حوالے کردے۔

اسی بناپر یہ کہنا بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ مدتِ حضانت کو سنِ بلوغ تک لازماً طول دینا چاہیے۔ جب اولاد بالغ اور صاحب ِ اختیار ہوگئی، تو اُس وقت اُس کے والد کی ولایت میں آنے کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔ اُس وقت وہ ایک طرح سے اپنے نفع و ضرّر کی خود مکلف اور   ذمہ دار بن جاتی ہے۔ اس لیے حکمت ِ شریعت عین اس امر کی متقضی ہے کہ ایک طرف تو مدتِ حضانت کی ایک مناسب حد متعین کی جائے، اور دوسری طرف والدہ کے حقِ حضانت پر مناسب قیود عائد کی جائیں۔ والدہ پر عدمِ نکاح اور عدمِ ارتداد کی قید خود احادیث میں آگئی ہے۔ اسی سے مزید پابندی اور تحدید کا جواز نکل سکتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر دوسری شرائط کا ذکر نہیں فرمایا، تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جو مقدمات آپؐ کے سامنے پیش ہوئے اُن میں والدہ کی طرف سے اس طرح کے خدشات کے بارے میں امن و اطمینان تھا ورنہ خاموش نہ رہتے، بلکہ والدہ کی حضانت کی صورت میں متوقع مضرات کو ضرور بیان کرتے اور اپنے آپ کو زیادہ حق دار ثابت کرنے کے لیے صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا نہ کرتے کہ باپ سے بیٹے کے معاملے میں کون جھگڑسکتا ہے، بلکہ ساتھ یہ بھی کہتے کہ والدہ اس کی تربیت خراب کرے گی۔ گویا کہ اِن جھگڑوں میں، والدین میں سے کسی ایک کے صالح اور دوسرے کے غیرصالح ہونے کا سرے سے سوال تھا ہی نہیں، صالحیت کے لحاظ سے والدین مساوی تھے۔

اصل تقابل صرف ماں کی مامتا یا اس کے احتیاج اور پدری محبت کے درمیان تھا۔ ایسی صورت میں ماں کو ترجیح دی گئی ہے، یقینا اب بھی دی جائے گی۔ اس سے یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اگر ماں تربیت ِ اولاد کی عظیم ذمہ داریاں اُٹھانے کے لیے قطعی نااہل ہو، تب بھی اُس کے حقِ حضانت کو مقدم رکھ کر اولاد اُس کے سپرد کر دی جائے گی۔(جسٹس ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ششم، ص ۴۹۶-۵۰۱)

طلب صادق ہو تو دعا رد نہیں ہوتی

سوال: ہر نیکی، بھلائی، بہتری اور عطا کرنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ مذکورہ حسنات کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے درخواست کس طرح کی جائے کہ    وہ منظور ہوجائے؟

جواب:  اللہ تعالیٰ سے بہ صدق دل جو دُعا بھی کی جاتی ہے وہ رد نہیں ہوتی۔ شرط یہ ہے کہ دُعا سچے دل سے ہو اور جذبۂ اطاعت بیدار ہو۔ محض درخواست نہ ہو بلکہ اخلاص اور جذبۂ اطاعت ہردرخواست کی پشت پر موجود ہو۔ البتہ بہت سی دعائیں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں قبول فرما کر انعامات سے نوازتا ہے اور بہت سی دعائیں و ہ قبول تو فرما لیتا ہے، لیکن ان کا اجروانعام وہ آخرت کے لیے محفوظ کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ وہی بہتر جانتا ہے کہ اس بندے کے لیے کون سی چیز بہتر ہے اور    وہ اسے آخرت میں ملنی چاہیے یا اس دنیا میں۔

البتہ یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ زبان سے آپ جو کچھ طلب کر رہے ہیں، آپ کی طلب، آپ کا ذوق، آپ کا عمل و کردار اور آپ کی دوڑ دھوپ بھی آپ کی دعا کی تائید میں ہو، نہ یہ کہ آپ طلب کچھ کر رہے ہیں اور عمل کا رُخ کسی دوسری سمت ہو۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)


جمعہ کی سنتیں

س : حرمین شریفین میں حاضری کے دوران جمعۃ المبارک کو میں نے یہ نوٹ کیا کہ ساڑھے گیارہ بجے سے پہلےاذان ہوئی ہے (جب کہ اگلے دن ظہر کی نماز ساڑھے بارہ پر ہوئی تھی) اور لوگوں نے نماز پڑھنی شروع کر دی اور پھر دوسری اذان زوال کے بعد (۲۶:۱۲) ہوئی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم پہلی اذان پر چار سنت پڑھ لیں، یا جب دوسری اذان شروع ہو تو چارسنت کی نیت باندھ لیں، اور فارغ ہونے کے بعد اذان کا جواب دیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ چار کے بجاے دو رکعت پڑھ سکتے ہیں؟

ج: جمعہ کا وقت چوں کہ زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، لہٰذا وقت شروع ہونے کے بعد ہی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا اس صورت میں زوال سے پہلے اذانِ اوّل کے بعد جمعہ کی پہلی چار سنتیں نہیں پڑھی جاسکتیں۔ اگر زوال کے بعد خطبہ سے پہلے سنتیں پڑھنے کا وقت ملے تو اس وقت پڑھ لیں، البتہ اگر اذانِ ثانی کے فوراً بعد خطبہ شروع ہوجائے تو اس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ زوال کے فوراً بعد یا اذان شروع ہوتے ہی چار رکعت سنت کی نیت باندھ لیں، اور نماز مکمل کرلیں۔ واضح رہے کہ جمعہ کے فرض سے پہلے چار سنتیں ہیں دو نہیں۔(مولانا محمد حسان  اشرف   عثمانی)


جماعت اسلامی کا فقہی مسلک اور اجتہاد

س : جماعت اسلامی کا فقہی مسلک کیا ہے؟ کیا یہ سب مجتہد ہوتے ہیں؟ مجموعی حیثیت سے جماعت کے مسلک کی وضاحت کیجیے؟

ج: جماعت اسلامی اقامت دین کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ کسی خاص فقہی مسلک کی   تبلیغ و تلقین اس کا مسلک نہیں ہے۔ جماعت اسلامی تمام مسلّمہ فقہی مسالک کو حق جانتی ہے اور   ان لوگوں کو بھی برسرِحق سمجھتی ہے جو چاروں ائمہ کی تقلید نہیں کرتے بلکہ براہِ راست حدیثِ نبویؐ سے رہنمائی حاصل کرنے کے مسلک پر کاربند ہیں۔

جماعت اسلامی کے نزدیک دین کا اصل سرچشمہ قرآن و سنت ہے اور کسی بھی شخص کا اجتہاد کتاب و سنت کا قائم مقام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ اجتہاد بڑا نازک کام ہے۔ اس کے لیے پہلے ان مسائل کی نوعیت اور حیثیت کو پوری طرح سمجھنا ہوگا، جن کے بارے میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہو۔ پھر قرآن و سنت میں گہری بصیرت اور اجتہاد و قیاس کے اصول و آداب سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ عربی زبان و ادب میں مہارت اور دین کی اصل روح اور دین کی مزاج شناسی بھی نہایت ضروری ہے۔ پھر ان سارے نصوص سے کامل واقفیت، ان کے الفاظ و معانی پر عبور اور عبارت کی ادبی نزاکتوں کو سمجھنے کی بھی پوری صلاحیت ہونی چاہیے۔ دینی علوم میں ان ماہرانہ اور خداداد صلاحیتوں کے بعد ہی کوئی شخص مجتہد کہا جاسکتا ہے۔ رہا کسی خاص مسلک کی تقلید کرتے ہوئے اگر کوئی شخص خداترسی اور اتباعِ دین کے جذبے کے ساتھ کسی خاص مسئلے میں اپنی صواب دید کے مطابق کوئی راہ اپناتا ہے تو کوئی آخر کس دلیل کی بناپر اسے اس حق سے روک سکتا ہے، جب کہ    وہ قرآن و سنت کے علوم سے بھی آراستہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کے متعلقین کا کوئی الگ سے فقہی مسلک نہیں ہے، نہ ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور، نہ یہ کسی مسئلے میں اجتہاد کو گمراہی تصور کرتے ہیں۔موجودہ دور میں ہمارے نزدیک بہترین صورت یہ ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں اہلِ علم و بصیرت مل جل کر اجتماعی اجتہاد کریں اور اجتماعی کاوشوں سے مسائل کے حل کی سبیل نکالیں۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی)


قرآنی آیات کو ڈیلیٹ کرنا

س :  قرآنی آیات اور احادیث کے ترجمے کو بذریعہ موبائل ایس ایم ایس کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور ان کو ڈیلیٹ (delete) کرنا درست ہے یا نہیں؟ نیز کیا قرآنی آیات اور احادیث کے تراجم کو بذریعہ موبائل ایس ایم ایس بھیجنا باعث ِ ثواب ہے؟

ج:تذکیر و نصیحت کے لیے قرآنِ مجید کی آیت یا حدیث یا اس کا ترجمہ کسی کو مسیج کرنا    فی نفسہٖ جائز ہے اور اس پر ثواب کی اُمید بھی ہے، البتہ اس بارے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حدیث یا قرآن کی آیت تحقیق کے بغیر نہ بھیجی جائے اور ان کا ترجمہ مستند ہو، نیز قرآن کی آیت کو اس کے رسم الخط میں لکھا جائے کسی اور رسم الخط [یعنی رومن وغیرہ] میں لکھنا جائز نہیں۔

قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کو پڑھنے کے بعد یا نصیحت حاصل کرنے کے بعد ڈیلیٹ کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر طبیعت پر بوجھ نہ ہو تو پڑھنے کے بعد انھیں ڈیلیٹ کرنا چاہیے، پڑھنے سے پہلے ڈیلیٹ کرنے میں چونکہ صورۃً اعراض پایا جاتا ہے، اس لیے پڑھنے سے پہلے ڈیلیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ حکم اس صورت میں ہے، جب کہ بھیجے گئے مضمون کے بارے میں علم ہو کہ یہ قرآنِ مجید کی آیت کا صحیح ترجمہ یا مستند حدیث ہے۔ اگر ا س کا صحیح اور مستند ہونا مشکوک ہو تو پڑھے بغیر بھی ڈیلیٹ کیا جاسکتا ہے۔(مولانا محمد   حسان   اشرف   عثمانی)


دینی مدرسے کے لیے زکوٰۃ

س : ایک دینی مدرسے میں طلبہ و طالبات کو قرآن پاک حفظ و ناظرہ کے ساتھ ابتدائی درس نظامی کے ابتدائی درجات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یہ مدرسہ مستحق مسافر طلبہ کے قیام و طعام اور علاج و معالجے کا انتظام بھی کرتا ہے۔ مدرسے کا کوئی مستقل ذریعۂ آمدن نہیں ہے اور ضروریات بھی بہت زیادہ ہیں۔ مجھے ایک دوست نے کہا ہے کہ: ’’مدارسِ دینیہ میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور نہ ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مدرسے میں ہمارے لیے اپنی زکوٰۃ ، عطیات اور فطرانہ وغیرہ دینا شرعاً جائز ہے؟ اور کیا ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟

ج:اگر مدرسے میں مستحقِ زکوٰۃ طلبہ مقیم ہیں اور مدرسے کے منتظمین شرعی اصول کے مطابق زکوٰۃ کی رقم پوری احتیاط کے ساتھ ان طلبہ کے کھانے پینے کی اشیا اور وظائف میں خرچ کرتے ہیں، تو ایسے مدرسے کے مستحق طلبہ کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہے اور اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی۔ لہٰذا، ایسے مدرسے میں زکوٰۃ دینے کو ناجائز کہنا درست نہیں، بلکہ اس طرح کے مدرسے میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ کی ادایگی کے ساتھ اشاعتِ دین کا بھی ثواب ملے گا۔(مولانا محمد   حسان   اشرف   عثمانی)


عقیقے کا شرعی مقام

س : زید کے چھے بچے ہیں اور سب عاقل و بالغ ہیں، ان میں سے کسی کا بھی عقیقہ نہیں کیا گیا۔ اب زید اپنے بچوں کا عقیقہ کرنا چاہتا ہے لیکن اتنی گنجایش نہیں کہ سب کا ایک ساتھ عقیقہ کرے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ ایک کے عقیقہ کے طور پر ایک بکرا ذبح کرے۔ شرعاً اس میں کوئی گنجایش یا سہولت مل سکتی ہے تو بتا دیں؟

ج:عقیقہ کرنا شرعاً ضروری نہیں بلکہ آپ کو اختیار ہے ۔ اگر آپ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ پھر اگر ایک بچے کے عقیقے میں دو بکروں کے بجاے ایک بکرا کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اور بکراکرنے کے بجاے گائے میں بھی حصہ لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سب کا ایک ساتھ عقیقہ کرنا بھی ضروری نہیں اور اگر عقیقہ کرنا آپ کے لیے مشکل ہے تو اس کا ترک کرنا بھی آ پ کے لیے جائز ہے، اس میں شرعاً کوئی گناہ نہیں۔(مولانا  محمد   حسان   اشرف   عثمانی)


خواتین کے لیے زیارتِ قبور

س : ہمارے ہاں کچھ اہلِ علم کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا منع ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایک حدیث کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت کریں۔

ج: خواتین قبروں کی زیارت کے لیے قبرستان جاسکتی ہیں بلکہ قبروں کی زیارت کرنا مستحسن اور مستحب امر ہے، بشرطیکہ شرعی آداب و حدود کو ملحوظ رکھا جائے، یعنی ستروحجاب کی پابندی کی جائے، گریہ و زاری سے گریز کیا جائے۔ اگرچہ پہلے مردوں اور عورتوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا گیا تھا لیکن بعدازاں یہ ممانعت ختم کردی گئی۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب ان کی زیارت کیا کرو‘‘۔ (مسلم، ۲۲۶۰)

ایک حدیث میں اس کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے اور آخرت کی یاد دہانی پیدا ہوتی ہے۔ (ابن ماجہ: ۱۵۷۱)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں زیارتِ قبور سے روکا تھا لیکن اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ ایسا کرنے سے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے، آنکھیں پُرنم ہوتی ہیں اور آخرت کی یاد آتی ہے۔ (مستدرک حاکم: ج۱،ص ۳۷۶)

ان احادیث سے ظاہر ہے کہ جس طرح ممانعت مرد و زن دونوں کے لیے تھی اسی طرح زیارتِ قبور کا حکم بھی دونوں کے لیے ہے۔ علاوہ ازیں رسولؐ اللہ نے زیارتِ قبور کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں خواتین کو بھی ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مردوں کو ہے۔لہٰذا اگر خواتین ان مقاصد کے حصول کے لیے قبرستان جانا چاہیں تو انھیں کیوں کر روکا جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ سیّدہ عائشہؓ نے رسولؐ اللہ سے دریافت کیا کہ قبروں کی زیارت کے وقت کون سی دُعا پڑھیں،    تو آپؐ نے انھیں زیارتِ قبور کی مسنون دُعا سکھائی۔ (مسلم، الجنائز، ۲۲۵۶)

اگر عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا منع ہو تو آپؐ واضح طور پر انھیں دعا سکھانے کے بجاے کہہ دیتے کہ قبروں کی زیارت جائز نہیں۔ اس سے بھی زیارتِ قبور کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ پھر سیّدہ عائشہؓ کا موقف یہی ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح قبروں کی زیارت کرسکتی ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ کی قبر کی زیارت سے واپس آئیں تو کسی نے آپؓ سے کہا کہ عورتوںکے لیے تو قبروں کی زیارت کرنا درست نہیں۔ تو آپؓ نے جواب دیا: رسولؐ اللہ نے ہمیں اس کی اجازت فرما دی تھی۔ (مستدرک الحاکم، ج۱، ص ۳۷۶)

البتہ انھیں خاوند کی اجازت لے کر جانا چاہیے اور باربار جانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم! (مولانا ابو محمد عبدالستار)


کرسی پر سجدہ

س : کرسی پر نماز پڑھنے والے جب سجدہ کرتے ہیں تو کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھتے ہیں۔ بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں سجدہ کے لیے ہاتھ رکھنے کا یہی طریقہ اختیار کرناصحیح ہے یا گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر رکوع کی طرح سجدہ کرنا چاہیے؟

ج: کرسی پر نماز پڑھنے والا شخص جب سامنے میز وغیرہ رکھ کر اس پر سجدہ نہ کرسکتا ہو توو ہ اشارے سے سجدہ کرے اور رکوع سے زیادہ سر کو جھکائے۔ یہ اس کے لیے سجدے کے قائم مقام ہے۔ جہاں تک ہاتھ رکھنے کا تعلق ہے تو چونکہ اس کا وظیفہ صرف سر کو جھکانا ہے اور ایسے مریض سے ہیئات [یعنی مخصوص طریقے سے رکوع اور سجدہ کرنا] ساقط ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اس پر لازم نہیں ہے کہ وہ کہنیاں گھٹنوں پر رکھ کر (حقیقی سجدے کی طرح) ہاتھوں کو پھیلائے بلکہ اس طرح سر کو جھکائے کہ ہاتھ گھٹنوں پر رہیں۔ ہاتھوں کو پھیلانے کی ضرورت نہیں اور اگر پھیلا لے تو کوئی ممانعت نہیں۔(مولانا محمد   حسان   اشرف   عثمانی

طلاق کے بعد بیوی سے ہدیہ واپس لینا

سوال: میرے بیٹے کی شادی اپنے رشتہ داروں میں ہوئی، لیکن بعض گھریلو مسائل کی وجہ سے ناچاقی پیدا ہوگئی۔ میرے بیٹے نے بالآخر اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور والدین نے جہیز میں جو سامان دیا تھا واپس کر دیا۔ صرف ساس نے جو زیور لڑکے کی طرف سے دیا گیا تھا وہ رکھوا لیا۔ ساس کا یہ کہنا تھا کہ ’’سال ڈیڑھ سال میں جو کچھ ا س نے خرچ کیا ہے وہ اس زیور سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔قرآنِ پاک میں ہے: طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کر دیا جائے۔ اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو‘‘ (البقرہ ۲:۲۲۹) ۔اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی نے لکھا ہے: ’’یعنی مہر اور زیور اور کپڑے وغیرہ جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکاہو، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو، جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو، واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت ہی شرم ناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لے جو اس نے اسے کبھی خود دیا تھا۔اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے، اُسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد اوّل، ص ۱۷۵)

حدیث کے مطابق یہ بڑی سخت وعید ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ حدیث میں جو بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق لڑکی کو وہ زیورات جو ساس نے رکھوا لیے تھے واپس دے دینا چاہییں یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ زیورات کی قیمت سنار سے لگوا لی جائے اور یہ رقم یک مشت یا ۱۰ہزار ماہانہ کے حساب سے لڑکی کو دے دی جائے۔ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے یہ رقم واپس کرنا کچھ مہنگا سودا نہیں ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:ازدواجی تعلق کو قرآن کریم نے ’میثاق غلیظ‘ (النساء۴:۲۱) یعنی’ مضبوط معاہدہ‘  سے تعبیر کیاہے۔دو اجنبی مرد و عورت نکاح کے بندھن میں بندھتے ہیں تو ان کے درمیان غایت درجہ کی محبت پیداہوجاتی ہے۔ اس تعلق کے نتیجے میں اگرچہ دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے زندگی گزارتے ہیں، لیکن اسلام نے مالی معاملات کی تمام تر ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے اور عورت کو اس سے مستثنیٰ رکھاہے۔ مرد عورت کو مہر ادا کرتاہے، اسے رہایش فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتاہے، اس کا نفقہ برداشت کرتاہے، اسے خوش رکھنے کے لیے تحفے تحائف دیتاہے،وغیرہ۔

اگر کسی وجہ سے رشتۂ نکاح پایدار نہ رہ سکے اور زوجین کے درمیان تنازع کے سر ابھارنے اور مسلسل جاری رہنے کی بنا پر نوبت علیٰحدگی تک پہنچ جائے تو شریعت کا منشا یہ معلوم ہوتاہے کہ شوہر ازدواجی زندگی کا لطف اٹھاتے ہوئے بیوی کو جو کچھ دے چکا ہو، اسے واپس لینے کی خواہش     نہ رکھے اور اس کی کوشش نہ کرے۔صرف ایک صورت اس سے مستثنیٰ رکھی گئی ہے۔ وہ یہ کہ شوہر کے علاحدگی نہ چاہنے کے باوجود بیوی کسی منافرت کی بنا پر رشتہ منقطع کرنے پر مصر ہو اور خلع چاہے تو شوہر اپنی دی ہوئی چیزیں (مہر وغیرہ)واپس لے سکتاہے۔سورئہ بقرہ، آیت ۲۲۹ ، جس کا ابتدائی حصہ اوپر سوال میں بھی نقل کیاگیاہے ، اس میں اس کی صراحت موجود ہے اور استثنا کا بھی ذکر ہے کہ اس صورت میں’’یہ معاملہ ہوجانے میںکوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ  دے کر علاحدگی حاصل کرلے۔‘‘آیت کا آخری حصہ بہت اہم اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:  تِلْکَ حُدُوْدُ اللّہِ فَلَا تَعْتَدُوْہَا وَمَن یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّہِ فَأُولٰٓـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (البقرہ۲:۲۲۹)’’یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔

مردوں کو عورتوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے، ان کے معاملے میں اپنا حق چھوڑدینے، بلکہ علاحدگی کے وقت بھی انہیں کچھ دے دلا کر رخصت کرنے کی ہدایات قرآن کریم میں دیگر مقامات پر بھی دی گئی ہیں۔مثلاًسورئہ بقرہ (آیت ۲۳۷ )میں ایک مسئلہ یہ بتایاگیاہے کہ ’’اگرتم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی ہو، لیکن مہر مقرر کیا جاچکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد جس کے اختیار میں عقد ِ نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے)۔اِلّا یہ کہ عورت نرمی برتے اور مہر نہ لے، یا مرد نرمی سے کام لے اور پورا مہر دے دے‘‘۔یہ مسئلہ بتادینے کے بعد آگے مردوں کو مخاطب کرکے کہاگیاہے:وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ط وَلَا تَنْسُوَا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ط اِنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ o(البقرۃ۲:۲۳۷)’’اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔ آپس کے معاملات میںفیاضی کو نہ بھولو۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے‘‘۔ سورۂ نساء (۴:۱۹) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ ’’اور نہ یہ حلال ہے کہ انھیں تنگ کرکے اس مہر کا کچھ حصہ اُڑا لینے کی کوشش کروجو تم انھیں دے چکے ہو‘‘۔ اگلی آیت میں تو صریح الفاظ میں ممانعت کی گئی ہے: وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَّوْجٍ وَ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰاہُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا ط اَتَاْخُذُوْنَہُ بُہْتَانًا وَّاِثْـمًا مُّبِیْنًا(النساء۴:۲۰)’’اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔ کیا تم اسے بہتان لگاکر اور صریح ظلم کرکے واپس لوگے؟‘‘

ان آیات کی تفسیر میں عموماً مفسرین نے لکھا ہے کہ جس مال کو واپس نہ لینے کا حکم دیا گیاہے اس سے مراد مہر کی رقم ہے۔ لیکن آیات میں جس طرح کا عمومی انداز اختیار کیاگیاہے، اس سے ان مفسرین کی بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اس میں مہر کے ساتھ شوہر کی جانب سے دی گئی دیگر چیزیں بھی شامل ہیں۔مثلاًزیور، لباس، نقدی اور دیگر تحائف۔

علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:ــ’’اس آیت میں شوہروں سے خطاب ہے۔انھیں منع کیا گیا ہے کہ وہ بیویوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ان سے کچھ طلب کریں۔ یہاں خاص طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ انھوں نے بیویوں کو جو کچھ بھی دیا ہو اسے واپس نہ مانگیں۔ اس لیے کہ لوگوں کا عُرف یہ ہے کہ تنازع اور بگاڑ کے وقت آدمی وہ سب مانگنے لگتا ہے جو اس نے عورت کو دیا تھا، چاہے وہ مہر ہو یا تحائف۔ اسی لیے یہاں خاص طور سے عام انداز اختیار کیا گیا ہے۔‘‘(الجامع لاحکام القرآن، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،۲۰۰۶ء،۴؍۷۳)

بعض اُردو مفسرین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا اقتباس اوپر سوال میں موجود ہے۔مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے لکھا ہے:’’ظاہر ہے کہ اس سے نان نفقہ اور مہر وغیرہ کی قسم کی چیزیں مراد نہیں ہوسکتیں، اس لیے کہ یہ چیزیں تو عورت کا حق ہیں۔ ان کو واپس لینے یا کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اس وجہ سے اس سے لازماً وہ چیزیں مراد ہیں جو بطور تحفہ وغیرہ دی گئی ہوں۔ ان چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ طلاق ہوجانے کے بعد مرد کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ ان کا حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے۔ اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی خسّت اس فتوّت اور بلندحوصلگی کے منافی ہے جو ایک مرد میں ہونی چاہیے۔ چنانچہ عورتوں کے معاملے میں قرآن نے مردوں کو اس  فتوّت کی طرف ایک سے زیادہ مقامات میں توجہ دلائی ہے،خاص طور پر تعلقات کے منقطع ہوجانے کی صورت میں‘‘۔(تدبرقرآن،فاران فاونڈیشن لاہور، ۲۰۰۹ء، ۱/۵۳۵، تفسیر البقرۃ:۲۲۹)

مولانا شمس پیر زادہ نے لکھا ہے:ـ’’طلاق کی صورت میں مرد کو نہ مہر واپس طلب کرنا چاہیے اور نہ وہ تحفے تحائف جو اس نے بیوی کو دیے ہوں،کیوں کہ دی ہوئی چیز کو واپس لینا، جب کہ مرد خود عورت کو چھوڑ رہاہو، اخلاقاً صحیح نہیں ہے اور مہر تو عورت کا حق ہی ہے ،اس لیے اس کو واپس لینے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا‘‘(دعوۃ القرآن،تفسیر البقرۃ:۲۲۹)

بعض فتاویٰ میں کہا گیا ہے:’’ مسئلہ کا دارومدار ’عُرف‘ پر ہے۔عام طور پر ہماری طرف کا جو عُرف ہے وہ یہ ہے کہ خاوند کی طرف سے جو زیورات بیوی کو دیے جاتے ہیں، اس کا مالک شوہر ہی رہتا ہے، عورت اسے عاریۃًا ستعمال کرتی ہے۔ جہاں یہ ’عُرف‘ ہو، وہاں شوہر اپنے زیورات کو واپس لے سکتا ہے۔‘‘(فتاویٰ دار العلوم دیوبند،۸؍۳۶۷، مسائل جہیز) اگر واقعی کسی جگہ کا   یہ’عُرف‘ ہو تو اس کے مطابق طلاق کے بعد شوہراپنے دیے ہوئے زیور کو واپس لے سکتا ہے، لیکن اس معاملے میں شریعت کے مزاج اور قرآن کریم کی صریح ممانعت کو دیکھتے ہوئے بیوی کو دیے گئے زیور کو واپس نہ لینا پسندیدہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں لڑکی کو شوہر کی طرف سے دیے گئے جو زیور طلاق کے بعد اس کے سسرال والوں نے رکھوا لیے ہیں، انھیں لڑکی کو واپس کردینا چاہیے۔اگر اب کسی وجہ سے اس کی واپسی ممکن نہ ہو تو اس کی رقم ادا کردینی چاہیے۔ البتہ رقم کا اعتبار وقت ِ خرید کا نہ ہوگا، بلکہ اِس وقت (presently)  بازار میںاس زیور کی جو قیمت ہو وہ ادا کی جائے گی۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)


قرآنی سپارہ پھینکنے کا گناہ

س : جب میری عمر تقریباً ۱۸، ۲۰ سال تھی۔ تو میں نے غصے کی وجہ سے سپارہ پھینک دیا تھا، جس کی وجہ سے بہت پریشان رہتا ہوں، اور اس گناہ کا ملال مجھے رہتا ہے اور نماز میں بھی توبہ کرتا رہتا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ مجھے اس گناہ اور پریشانیوں سے نجات کا حل بتائیں۔

ج:  قرآنِ مجید کو پھینکنا اور اس کی بے حُرمتی کرنا انتہائی گستاخی اور بہت بڑا گناہ ہے اور بعض صورتوں میں تو اس سے کفر لازم آتا ہے۔ کوئی مسلمان اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن اس کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے کہ: موت سے پہلے پہلے جو شخص بھی اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرلے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دے گا، چاہے وہ گناہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں۔ لہٰذا، اگر آپ نے اللہ تعالیٰ سے صدقِ د ل سے اپنے اس فعل پر معافی مانگ لی اور احتیاطاً تجدید ایمان بھی کرلیاہو، تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سےاُمید رکھیں کہ وہ آپ کو معاف فرما دے گا۔ مزید دل کے اطمینان کے لیے قرآنِ مجید کی کسی خدمت کو اپنا شعار بنا لیں۔ اس سے ان شاء اللہ آپ کو دلی اطمینان ہوگا، اور غلطی کا بھی ازالہ ہوجائے گا۔(مولانا  محمد   حسان   اشرف   عثمانی)

خطبہ میں حضرت فاطمہؓ کا نام ہی کیوں؟

سوال :  جمعہ اور عیدین کے خطبات میں جہاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے نام لیے جاتے ہیں، دوسری صاحب زادیوں کے نام کیوں نہیں لیے جاتے؟ حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحب زادیاں ہیں؟

جواب: جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں حضرت فاطمہؓ اور حسنؓ و حسینؓ پر صلوٰۃ و سلام کا طریقہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور سے شروع ہوا۔ اس کا تاریخی پس منظر، یزید کی حکومت کی طرف سے آلِ رسولؐ کے ساتھ وہ زیادتیاں ہیں، جو تاریخ کا سب سے زیادہ جذباتی، ہیجانی اور المناک مسئلہ ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے دور میں اس کی تلافی کے لیے یہ طریقہ تجویز فرمایا کہ خطبوں میں ان برگزیدہ ہستیوں پر صلوٰۃ و سلام بھیجا جانے لگا، جب کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحب زادیوں یا ان کی اولاد کے ساتھ ایسا کوئی المناک سلوک نہیں ہوا تھا۔ اس لیے یہ سلسلہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد آج تک رائج ہے۔ ورنہ یقینا جس طرح آپؐ کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ ہیں، اسی طرح دوسری بیٹیاں بھی قابلِ احترام ہیں۔ ان میں اگر درجات کا کوئی فرق ہوسکتا ہے یا کیا گیا تو اس کی بنیاد اعمالِ صالحہ اور اخلاص، تقویٰ کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ سب برگزیدہ ہستیاں ہیں اور اللہ کےیہاں سبھی کے بلند درجات ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ خطباتِ جمعہ اور عیدین میں ان پر درود و سلام بھیجنے کی اس کے سوا کوئی اور وجہ میرے علم میں نہیں ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ خطیب، حضرت فاطمہؓ کے بعد وَعَلٰی سَائِرِ بَنَاتِ النَّبِیِّ کہے کہ ہمارے لیے رسولؐ کی ساری بیٹیاں یکساں قابلِ احترام ہیں۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)


عورت اور میراث

س :  قرآنِ کریم کا حکم ہے کہ وراثت میں عورت کا بھی حصہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ اسلام جاننے والے بھی اور نہ جاننے والے بھی اکثروبیش تر اس ظلم میں برابر کے شریک دکھائی دیتے ہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں رہنمائی کیجیے، تاکہ سب کو واقفیت ہوجائے؟

ج: یہ انتہائی افسوس ناک منظر ہے۔ عورت کا حصہ خواہ وہ ماں ہو یا بیٹی یا بیوی یا کوئی بہن، قرآن نے صاف صاف بیان کیا ہے اور اس کا یہ حصہ ادا نہ کرنا صرف بے انصافی اور ظلم ہی نہیں ہے بلکہ قرآن کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔ ایسے لوگ اگر صرف عملاً یہ غلطی کر رہے ہیں تب بھی سخت ترین گناہ میں مبتلا ہیں۔ عورتوں کا جو حصہ وہ کھا رہے ہیں بالکل کھلا حرام کھا رہے ہیں اور  حرام کھانے والے کی کوئی عبادت اور کوئی عمل اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ اور اگر خدانخواستہ وہ ذہنی   طور پر بھی اس گناہ پر مطمئن ہیں اور قرآن کے اس حکم ہی کا انکار کرتے ہیں، تب تو ان کا دین و ایمان بھی محفوظ نہیں ہے۔

ضرورت ہے کہ باشعور اور دردمند، دین سے واقف نوجوان پوری قوت اور جوش و جذبے کے ساتھ مسلمانوں تک اللہ کی کتاب کا یہ حکم پہنچائیں کہ مال کا اصل مالک اللہ ہے۔ اس نے جس کا جو حق رکھا ہے وہ اٹل ہے، کسی بندے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ذرا برابر بھی اس میں دخل دے۔ لڑکیوں کے یہ حقوق صاف صاف قرآن میں لکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ان کو مانے اور ان پر عمل کرے۔

اس سلسلے میں خواتین کو بھی کسی جھجک کے بغیر سنجیدہ اور مؤثر کوشش کرنا چاہیے۔ قرآن و سنت سے میراث کے واضح احکام کھول کھول کر بیان کرنے کا ہرہرموقعے پر اہتمام کرنا چاہیے۔ جو خواتین قلم سے  کام لے سکتی ہوں، وہ میراث کے احکام پر قلم سے کام لیں اور میراث کے قوانین کو واضح کریں۔ میراث سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ نے جو سخت سزائیں اور وعیدیں سنائی ہیں ان کو پورے زورِ بیان کے ساتھ واضح کریں اور خاندانی زندگی میں جم کر اپنے حقوق کے لیے لڑیں، اور وصول کریں۔ اگر انھیں مال کی ضرورت نہ ہو، تب بھی موجودہ حالات میں لازماً اپنے حقوق اور حصے حاصل کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو نافذ کرنے اور اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوششوں ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ وقت کا جہاد ہے، عورت کو صرف دنیوی مال ہی اس کوشش سے میسر نہ آئے گا بلکہ اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس کے قانون کو مسلمان معاشرے میں دوبارہ رائج کرنے کا غیرمعمولی اجروصلہ بھی ملے گا۔ اس طرح ان کی یہ کوشش و کاوش اللہ کی رضا کا باعث ہوگی۔ پھر اگر ان کو مال کی ضرورت نہ ہو تو جس کو چاہیں وہ اپنی خوشی سے دے دیں، لیکن اللہ کے قانون کو رائج کرنے کے لیے اپنا حق اور حصہ ضرور وصول کریں۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)


خلع اور نان نفقہ

س : میری بیوی تقریباً سات ماہ سے اپنے گھر پر ہے اور خلع مانگ رہی ہے۔ سات ہزار ماہانہ خرچ مانگ رہی ہے، جب کہ وہ اپنی مرضی سے گھر پر ہے۔ میں کئی دفعہ لینے گیا لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا۔ کیا ایسی عورت کو ماہانہ خرچ دینا لازم ہے، نیز ایسی عورت جو خود خلع لے رہی ہو، اسے حق مہر دینا چاہیے؟ میں نے اور میرے گھر والوں نے جو زیور (سونا) شادی میں دیا تھا، وہ بھی مجھے بغیر بتائے اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ کیا اسے یہ واپس کرنا چاہیے، جب کہ میں اس کا جہیز اس کو واپس کررہاہوں؟

ج:مذکورہ صورت میں اگربیوی اپنی مرضی سے بغیر کسی شرعی وجہ کے میکے میں بیٹھی ہوئی ہے، اور آپ کے بار بار بلانے کے باوجود واپس نہیں آرہی ہے، تو ایسی صورت میں وہ نان و نفقہ کی حق دار نہیں ہے اور آپ پر اس کی ادایگی لازم نہیں ہے۔

اگر آپ اس سے مہر واپس لے کر خلع دے رہے ہیں یا اگر اس نے اپنا مہر وصول نہیں کیا اور اب وہ اپنا مہر معاف کر کے خلع لے رہی ہے تو اس صورت میں آپ پر مہر کی ادایگی لازم نہیں ہوگی، لیکن اگر آپ اس سے مہر معاف کروائیں یا اس کے مہر وصول کیے بغیر طلاق دیتے ہیں تو آپ پر مہر کی ادایگی لازم ہوگی۔

شوہر اور اس کے والدین کی طرف سے دلہن کو جو زیور دیا جاتا ہے، اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر یہ زیور مہر کا حصہ ہو، یا مہر کے طور پر دیا گیا ہو، یا لڑکی کو ہبہ (تحفہ) کر کے اسے واضح طور پر مالک بنا دیا گیا ہو، یا مالک بنانے پر واضح قرینہ موجود ہو، تو ان تمام صورتوں میں یہ زیور لڑکی کی ملکیت کہلائے گا۔ لڑکے والے اس زیور کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ اگر یہ زیور مہر کا حصہ نہ ہو اور مہر کے طور پر بھی نہ دیا گیا ہو، یا لڑکی کو ہبہ کرکے اسے واضح طور پر مالک بنا کر نہ دیا گیا ہو اور مالک بنانے پر واضح قرینہ بھی موجود نہ ہو تو ان صورتوں میں اس مسئلے کا مدار ’عرف‘ پر ہوگا، یعنی کہ اگر یہ زیور لڑکی کو مالک بنا کر دینے کا عرف اور رواج ہو تو یہ زیور لڑکی کی ملکیت ہوگا، اور اگر لڑکی کو مالک بنا کر دینے کا عرف اور رواج نہ ہو بلکہ صرف استعمال کے لیے دیا جاتا ہو تو لڑکی اس زیور کی مالک نہیں کہلائے گی بلکہ لڑکے والے اس کے مالک کہلائیں گے ، اور وہ اس زیور کی واپسی کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور لڑکی والوں پر یہ زیور واپس کرنا لازم ہے۔(مولانا محمد حسان  اشرف   عثمانی)


معاش کی ذمہ داری کس پر؟

س : اکثر دیہات اور محنت کش طبقوں میں عورتوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں مرد کے ساتھ برابر کام کرتی ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے جب کہ قرآن نے عورت کو گھر کا اندرونی کام کرنے کا حکم دیا ہے؟

ج:اسلام نے معاش کی ذمہ داری اصولاً مرد پر ڈالی ہے اور گھر کی دیکھ بھال کا ذمہ دار عورت کو قرار دیا ہے۔ اگر کسی جگہ کے رواج کے مطابق عورتیں کچھ محنت مزدوری کا کام اپنی خوشی سے کرتی ہیں اور اپنے منصبی فرائض بھی انجام دیتی ہیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن اگر مرد اس کو مجبور کررہا ہے اور منصبی فرائض کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری بھی اس پر عائد کرتا ہے کہ وہ ضرور کماکر بھی لائے اور باہر کے کام بھی وہی کرے، تو ایسا کرنا مرد کے لیے صحیح بھی نہیں ہے اور اس کی مردانگی اور مردانہ حیثیت کے بھی خلاف ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ معاش کی ذمہ داریاں وہ خود سنبھالے اور عورت کو موقع دے کہ وہ پوری تن دہی اور آزادی کے ساتھ اپنے حصے کی ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی انجام دے۔(محمد یوسف اصلاحی)

فقہی اختلاف کی حقیقت

’اسلامی فقہ اکیڈمی مکّہ مکرمہ‘ نے اپنے دسویں اجلاس منعقدہ ۲۴-۲۸صفر ۱۴۲۳ھ بمطابق ۱۷-۲۰ ؍اکتوبر ۱۹۸۷ء میں ایک فیصلہ دیا تھا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر پیش ہے۔(ادارہ)

’’مجلس نے ان مشکلات اور تصورات کا مطالعہ کیا اور جائزہ لیا ہے، جو اختلافِ مذاہب کے سلسلے میں نوخیز ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کی بنیاد اور مفہوم سے واقف نہیں ہوتے۔ یہ تصورات بعض گمراہ کن لوگ ان میں پھیلاتے ہیں۔ مجلس سمجھتی ہے کہ جب اسلامی شریعت واحد ہوگی، اس کے اصول قرآنِ مجید اور سنت ِ ثابتہ سے (یک جا صورت میں) اخذ کیے جائیں گے   تو پھر مذاہب میں اختلاف کیوں پیدا ہوگا؟ پھر کیوں مذاہب متحد نہ ہوں گے کہ مسلمان احکامِ شریعت کے ایک فہم اور ایک مذہب کے ساتھ کھڑے ہوسکیں۔

اسی طرح مجلس نے مذہبی عصبیت اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ خصوصاً عہدحاضر میں بعض نئے زاویہ ہاے نظر کے پیروکاروں کا معاملہ کہ یہ لوگ جدید اجتہادی تصور کی طرف بلاتے ہیں اور قدیم اسلامی اَدوار سے لے کر اب تک اُمت کے قبول کردہ مستقل مذاہب پر طعن کرتے ہیں۔ اس کے ائمہ کو تنقید کا نشانہ بناتے یابعض کو گمراہ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کے درمیان نئے نئے فتنے کھڑے کرتے ہیں۔ مجلس اس موضوع کی مناسبت سے جملہ اُمور اور گمراہی و فساد کی صورت میں نکلنے والے اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد دونوں گروہوں (گمراہی کے فتوے لگانے والوں اور عصبیت میں مبتلا کرنے والوں) کو درج ذیل بیان کے ذریعے تنبیہ کرتی اور توجہ دلاتی ہے:

مسلم ممالک میں مذاہب کے فکری اختلاف کی دو قسمیں ہیں:

  •  اعتقادی مذاہب میں اختلاف l فقہی مذاہب میں اختلاف۔

پہلا اختلاف، یعنی اعتقادی اختلاف واقعتاً ایک عذاب کی سی شکل اختیار کرتے ہوئے مسلم ممالک میں خطرناک حد کو پہنچ گیا ہے۔ جس سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ہے اور یہ سخت قابلِ افسوس صورتِ حال ہے۔ یقینا اُمت کو اہلُ السنۃ والجماعت کے مذہب پر مجتمع ہونا چاہیے، جو مذہب عہد ِ رسالت اور عہد ِ خلافت ِ راشدہ میں صاف و شفاف اسلامی فکر کی صورت میں قابلِ اتباع رہا ہے۔ خلافت راشدہ کے منہج کو قابلِ اِتباع ہونے کا یہ حق اس لیے حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم پر میری سنت اور میرے بعد خلفاے راشدینؓ کی سنت کی پیروی لازم ہے۔ اس پر تمسک اختیار کرو اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو۔(ابوداؤد، ترمذی)

دوسرا اختلاف، یعنی بعض مسائل میں فقہی مذاہب کا اختلاف ہے، تو اس کے علمی اسباب ہیں اور یہ موضوع غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بلیغ حکمت موجود ہے اور یہ بندوں پر اس کی رحمت ہے۔ یہ نصوص [متن]سے احکام اخذ کرنے کے میدان میں وسعت کا ذریعہ ہے۔ یہ قانونی، فقہی دولت نعمت بھی ہے، جو اُمت اسلامیہ کو اس کے دین و شریعت کے معاملے میں وسعت سے ہم کنار کرتی ہے۔ اس کا انحصار محض ایک مسئلے یا معاملے میں شرعی تطبیق ہی پر نہیں محدود رہتا کہ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصود نہ ہو۔ صورتِ واقعہ یہ ہے کہ جب اُمت کسی امام کے مذہب میں تنگی محسوس کرتی ہے تو وہ دوسرے امام کے مذہب میں وسعت، نرمی اور سہولت پاتی ہے، خواہ یہ عبادات کے مسائل ہوں یا معاملات کے، عائلی اُمور ہوں یا فوجداری معاملات، اور یہ وسعت بھی شرعی دلائل کی روشنی ہی میں ملتی ہے۔

اختلافِ مذاہب کی دوسری قسم، یعنی فقہی اختلاف کوئی نقص نہیں ہے اور نہ یہ دین اسلام کے اندر کسی تناقض کی علامت ہے۔ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے پاس کوئی ایسا کامل قانونی نظام ہو جو اس کے اپنے فہم و اجتہاد سے تشکیل پایا ہو اور اس میں یہ فقہی و اجتہادی اختلاف نہ ہو۔

یہ ممکن ہی نہیں کہ اختلاف نہ ہو، کیوں کہ بیش تر نصوصِ اصلیہ ایک سے زائد صورتوں میں رہنمائی کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ نص تمام امکانات کا احاطہ کرلے۔ اس لیے کہ نصوص تو محدود ہوتی ہیں اور وقائع (واقعات) غیرمحدود ہوتے ہیں جیساکہ علما کی ایک تعداد نے کہا ہے:

’قیاس‘ کی طرف رجوع، احکام کی علّت، شارع کے مقصود، شریعت کے مقاصد عامہ، وقائع میں ان کی احکامی حیثیت ، اور درپیش صورتِ حال میں گہرا غوروخوض ضروری ہے۔ اس کام میں احتمالات کے درمیان علما کی ترجیحات اور ان کے فہم میں اختلاف کا پایا جانا فطری امر ہے،  جس کی وجہ سے ایک ہی موضوع میں علما کے بیان کردہ احکام بھی مختلف ہوجاتے ہیں اور علما میں سے ہر ایک حق تک پہنچنے ہی کی کوشش کرتا ہے۔ جو اس حق کو پالے اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو خطا کرجائے اس کے لیے ایک اجر ہے اور یہیں سے وسعت پیدا ہوتی ہے اور تنگی ختم ہوتی ہے۔ لہٰذا، اس مذہبی اختلاف کے وجود میں کہاں عیب ہے، جب کہ فی الواقع یہ اللہ کی اپنے مومن بندوں پر رحمت اور نعمت ہے اور ساتھ ہی عظیم فقہی دولت اور ایسی خوبی و خصوصیت ہے جس پر اُمت مسلمہ فخر کرسکتی ہے۔ تاہم، اِدھر اُدھر سے کچھ فتنہ انگیز افراد بعض مسلمان نوجوانوں میں اسلام کے حوالے سے پختگی نہ ہونے سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ خصوصاً ایسے نوجوان ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں جو بیرونِ ممالک تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ گمراہی پھیلانے والے ان کے سامنے بعض فقہی اختلافات کو یوں پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ اعتقادی اور بنیادی اختلافات ہیں۔ وہ ان کے ذہنوں میں ظلم و جَور سے یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ یہ اختلاف تو شریعت کے تناقض پر دلالت کرتا ہے۔ وہ ان کے سامنے اختلاف کی دونوں صورتوں کا فرق بیان نہیں کرتے جو ان کے درمیان ہے۔

دوسرا طبقہ جو مذاہب کو ویسے ہی ترک کر دینے کا داعی ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ انھی کی جدیدیت زدہ آزاد روی کو اختیار کریں۔ یہ طبقہ مستقل فقہی مذاہب کو مطعون اور ان کے ائمہ کو  موردِ الزام ٹھیراتا ہے۔ ہم فقہی مذاہب اوران کے وجود اور خوبیوں اور ائمہ کے حوالے سے اپنے اس بیان میں، فتنہ پرور طبقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس شرانگیز اسلوب کو چھوڑ دیں۔    آج ہمیں اُمت مسلمہ کے شیرازے کو متحد کرنے اور دشمنانِ اسلام کے خطرناک چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کی اشد ضرورت ہے‘‘۔(ترجمہ: ارشاد الرحمٰن)


نماز میں سنتوں کے لیے جگہ کی تبدیلی

سوال : نماز باجماعت میں اداے فرض کے بعد اداے سنت کے لیے جگہ کی تبدیلی پر ہمارے ہاں زور دیا جاتا ہے اور یہ چیز ایسی عادت بن گئی ہے کہ اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس کو بُرا سمجھاجاتاہے، گویا یہ بھی ایک ضروری چیزہے۔ اس کی دلیل یہ    دی جاتی ہے کہ ’’قیامت میں وہ جگہ گواہی دے گی جہاں سنتیں ادا کی گئی ہیں‘‘۔   سوال یہ ہے کہ اس پر اتنا زور دینا کیا مقام رکھتا ہے؟ نیز یہ کہ دلیل میں جو بات کہی جاتی ہے وہ حدیث میں ہے یا قرآن میں؟ یہ بھی فرمایئے کہ جگہ کی تبدیلی کے کیا معانی ہیں؟ کیا وہاں سے بالکل ہٹ جانا چاہیے جہاں فرض نماز ادا کی گئی ہے؟

جواب:فرض کے بعد مقتدیوں کے لیے جگہ بدل کر سنتیں ادا کرنا مستحسن ہے، ضروری نہیں، اور جگہ بدلنے کے معنی یہ ہیں کہ مقتدی اپنی جگہ سے ایک قدم آگے یا پیچھے، دائیں بائیں ہٹ جائے۔ اگر اس نے اتنا بھی کرلیا تو جگہ بدل گئی۔ البتہ اس کو ضروری قرار دینا غلط ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ فرض کے لیے جو صف بندی کی گئی تھی وہ فرض ادا ہوجانے کے بعد توڑ دی جائے۔ اگر فرض کے بعد امام اور مقتدی ٹھیک اپنی اپنی جگہ پر سنتیں شروع کر دیں تو نئے آنے والے کو یہ دھوکا ہوسکتا ہے کہ ابھی جماعت کی نماز ہورہی ہے۔ اگر امام اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہو یا دوچار مقتدی بھی صف سے اِدھر اُدھر ہوگئے ہوں اور صف ٹوٹ چکی ہو تو یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ ہرمقتدی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ لازماً وہ اپنی جگہ بدل ہی دے۔

دلیل میں جو بات کہی جاتی ہے وہ اس خاص مسئلے سے متعلق نہیں ہے، کیوں کہ زمین قیامت میں ہر اس عمل کی خبر دے گی جو اس پر کیا گیا ہوگا، چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا۔ اگر ایک ہی جگہ فرض اور سنتیں دونوں ادا کی گئی ہوں، تب بھی وہ اس کی گواہی دے گی۔ زمین کی گواہی جگہ بدلنے پر منحصر نہیں ہے۔ زمین کے خبر دینے کا ذکر سورۃ الزلزال کی آیت یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَاo (جس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی۔۹۹:۴) میں موجود ہے۔ اس آیت کی تشریح میں جو احادیث آتی ہیں، ان میں بھی اس کا ذکر ہے۔ (مولانا   سیّد احمد  عروج   قادری)


نماز میں گھڑی دیکھنا

سوال : نماز کے دوران غیرارادی یا ارادی طور پر گھڑی پروقت دیکھ لینا کیا فاسد ِ صلوٰۃ ہوگا؟

جواب: نماز دراصل اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور مخاطبت کا وقت ہے۔ اس وقت کسی اور طرف توجہ کرنا بالکل اسی طرح ہے کہ ایک شخص کو آپ اپنی طرف متوجہ کریں اور پھر آپ کسی اور کام میں مشغول اور اس کی طرف سے بے توجہ ہوجائیں۔ اسی لیے نماز جیسی عبادت کا صحیح تقاضا تو یہ ہے کہ اس وقت آدمی اپنے آپ کو کلیتاً اللہ تعالیٰ کی طرف یک سو کرلے اور قصداً وقت وغیرہ نہ دیکھے۔

تاہم، اگر کوئی شخص وقت دیکھ ہی لے اور سمجھ لے، البتہ زبان سے اس کا تلفظ ادا نہ کرے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ چنانچہ فتاویٰ عالم گیری میں ہے:

اگر کوئی شخص دورانِ نماز فقہ کی کسی کتاب میں سے کچھ حصہ دیکھ لے اور سمجھ لے تو بالاجماع نماز فاسد نہیں ہوگی۔ فتاویٰ تاتار خانیہ میں ایسا ہی لکھا ہے اور جب  محراب پر قرآن کے علاوہ کوئی دوسری چیزلکھی ہو، نمازی اسے دیکھے، اس پر غور کرے اور پھر سمجھ لے تو امام ابویوسفؒ کی راے ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی اور مشائخ احناف نے اسی راے کو قبول کیا ہے۔(ج۱، ص ۵۳)اور اگر بلاارادہ نظر پڑ گئی تب تو ظاہر ہے کہ کوئی مضائقہ نہیں۔(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)


محراب میں تصاویر یا بزرگوں کے نام لکھنا

سوال : عموماً دیہات کی بعض مساجد کی محرابوں اور سامنے کی دیواروں پر بزرگوں کے نام یا فطرت کے آثار کی تصاویر بنائی دکھائی دیتی ہیں۔ اس ضمن میں ہدایت فرمائیں؟

جواب:محراب میں تصویروں کی نقاشی خواہ وہ کسی بھی ذی روح کی ہو سخت گناہ اور مکروہ ہے۔ ہدایہ میں ہے: ’’سب سے زیادہ کراہت اس تصویر میں ہے جو امام کے سامنے ہو، پھر   اس میں جو اس کے سر کے اُوپر ہو، پھر دائیں، پھر بائیں اور پھر پیچھے کی تصویر‘‘۔اور یہ کہ: ’’مکروہ ہے کہ اس کے سر کے اُوپر چھت میں یا کوئی لٹکی ہوئی تصویر ہو‘‘۔ (ہدایہ، ج۱،ص ۱۲۲)

اس لیے کہ اس میں شرک کا شبہہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے زمانے میں قبرپرستی اور اولیا پرستی کا مرض جس طرح عام ہے ، اس فضا میں نمازی کے سامنے دیواروں پر بزرگوں کے نام لکھنا اور  ان کے کتبے لگانا بھی کراہت سے خالی نہ ہوگا۔ غیرذی روح کی تصاویر کی بعض فقہا نے اجازت دی ہے۔ یہاں تک کہ علامہ شامیؒ نے سورج و چاند اور ستاروں کی تصویروں کا بنانا بھی جائز قرار دیا ہے (ردالمختار، ج۱،ص ۶۰۷)۔ مگر میرے خیال میں یہ راے محل نظر ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں کی بعض مذاہب میں پرستش کی جاتی ہے اور ان کے عبادت خانوں میں ان کی تصویریں بنائی جاتی ہیں ۔ اس لیے ایسی اور اس قسم کی تمام ہی تصویروں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ ابن نجیم مصری نے مطلقاً تصویروں کی نقاشی کو مکروہ قرار دیاہے۔ (البحرالرائق،ج ۵،ص ۲۵۱)۔(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)


قرض پر رقم سے نفع حاصل کرنا حرام

سوال : ہمارے قصبے میں ایک عیدگاہ ہے، وہ مسجد نما ہے۔ اس کے چاروں طرف عیدگاہ کی زمین ہے۔ ایک طرف کی زمین لب ِسڑک ہے۔ متولیان عیدگاہ اس میں دکانیں بنوانا چاہتے ہیں مگر عیدگاہ فنڈ میں مالی وسائل نہیں ہیں اور عیدگاہ کی مرمت اور دیگر ضروریات کے پیش نظر دکانیں بنوانا ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک صاحب ِ ثروت مسلمان سے اس شرط پر معاملہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دکانیں اپنے روپے سے بنوا دیں اور پہلے ہی ان سے دکانوں کا کرایہ طے ہوجائے۔ پھر جب دکانیں بن جائیں تو وہ ان دکانوں کو من مانے کرایے پر اُٹھائیں اور جب تعمیرات میں ان کی لگی ہوئی رقم وصول ہوجائے تو دکانیں عیدگاہ کی ملکیت ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ مثال کے طور پر اس وقت اگر ان سے ۱۰روپے یا ۱۵روپے ماہانہ کرایہ طے ہوتا ہے تو وہ ۲۰ یا ۲۵ یا زائد میں اُٹھائیں گے، جس سے حاصل کردہ زائد کرایہ ان کا نفع ہوگا جس کی خاطر وہ رقم دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس صورت میں شرعی مسئلہ کیا ہے؟یہ جائز معاملہ ہوگا یا ناجائز؟

جواب: ذیل کی چند اصولی باتیں سامنے رکھیے تو اس معاملے کا شرعی حکم معلوم کرنا آسان ہوجائے گا:

۱- معدوم، یعنی جو چیز موجود نہ ہو اس کی بیع ناجائز ہے اور جس طرح بیع ناجائز ہے اسی طرح اس کا اجارہ بھی ناجائز ہے۔

۲- قرض اور بیع یا قرض اور اجارے کو ملا کر معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔

۳- قرض دے کر اس سے کوئی نفع حاصل کرنا حرام ہے۔

ان اصولوں کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے جس معاملے کے بارے میں سوال کیا ہے وہ ان تینوں اصولوں کے خلاف ہے۔ جو دکانیں ابھی موجود نہیں ہیں، ان کو کرایے پر دینے کا معاملہ ایک ایسی شے کا معاملہ ہوگا، جو معدوم ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ متمول مسلمان جو رقم لگائیں گے، اس کی حیثیت قرض ہی کی ہوگی۔ لہٰذا، یہ معاملہ دوسرے اصول کے بھی خلاف ہوگا، قرض کے معاملے میں اجارہ بھی داخل ہوگا جو غلط ہے۔ اور جیساکہ آپ نے لکھا ہے کہ وہ صاحب ِ ثروت مسلمان اس معاملے پر اس لیے تیار ہوں گے کہ متولیوں کو کرایہ کم دیں اور من مانے کرایے پر ان دکانوں کا دوسروں سے معاملہ کر کے اپنی قرض دی ہوئی رقم پر نفع حاصل کریں، لہٰذا یہ معاملہ تیسرے اصول کی رُو سے بھی حرام ہوگا۔ (مولانا  سیّد احمد  عروج   قادری)


غیرمسلموں کے برتن

سوال :  معاشرتی زندگی میں [خصوصاً غیرمسلم ممالک میں] اکثر اوقات غیرمسلموں سے سابقہ پیش آتا ہے اور بہت سے مواقع پر باہم کھانے پینے کی نوبت آتی ہے۔ اس ضمن میں اُن کے برتنوں کے استعمال کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب:برتن کی پاکی اور ناپاکی کے سلسلے میں اصولی طور پر تین باتیں پیش نظر رکھنی چاہییں:

۱- برتن دو وجوہ سے ناپاک ہوتا ہے ۔ یا تو اس لیے کہ اس کو استعمال کرنے والا وہ ہے جس کا جھوٹا ناپاک ہو، مثلاً: کتّا، سؤر وغیرہ،یا اس لیے کہ: اس میں جو چیز رکھی جائے وہ خود ناپاک ہو، مثلاً برتن میں خون یا شراب رکھ دی جائے۔

جہاں تک غیرمسلموں کی بات ہے تو ان کے جھوٹے ناپاک نہیں ہوتے۔ تمام انسانوں کے جھوٹے پاک ہیں اور اس میں مسلم اور کافر کا کوئی فرق نہیں ہے (الدر المختار علی ردّ المختار، ج۱،ص ۲۱۵)۔ اس لیے ظاہر ہے کہ ان کے برتن اس وجہ سے تو ناپاک نہیں ہوسکتے۔

جہاں تک ناپاکی کی دوسری وجہ ہے تو چونکہ مشرکین کے ذبیحے اور اہلِ کتاب کے وہ ذبیحے جن پر حضرت مسیح علیہ السلام کا نا م لیا جائے حرام اور نجس ہیں۔ اس لیے اس کا امکان موجود ہے کہ شاید برتن ان کے لیے استعمال کیے گئے ہوں۔ اسی طرح بعض قوموں میں کتّے، سؤر وغیرہ بھی کھائے جاتے ہیں، ان کے برتنوں کے بارے میں بھی اس شبہے کی گنجایش ہے۔

۲-  عام حالات میں ان ناپاکیوں سے پاکی کے لیے صرف اس قدر کافی ہے کہ ان کو دھو لیا جائے، اور عادتاً ہر قوم میں کھانے کے بعد برتن دھو بھی لیے جاتے ہیں۔ ان برتنوں کے دھونے میں پاکی کی نیت اور ارادہ بھی ضروری نہیں، فقط دھو لینا ہی کافی ہے، چاہے مسلم دھوئے یا غیرمسلم۔

 ۳- ناپاکی کا فیصلہ محض شبہہ کی بنا پر نہیں کیا جاسکتا، تاآنکہ اس کے لیے کافی قوی وجہ نہ ہو اور نہ شریعت ان احکام میں ضرورت سے زیادہ کھوج کرید اور تجسس کو پسند کرتی ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ سفر میں ایک صاحب نے مقامی باشندے سے پانی کے ایک گڑھے کے بارے میں سوال کیا کہ: ’’اس سے درندے تو نہیں پیتے ہیں؟‘‘ حضرت عمرؓ نے اس کا جواب دینے سے منع فرما دیا۔ (موطا امام  مالک)


لہٰذا، جب تک قرائن کی روشنی میں برتن کے ناپاکی کے لیے استعمال کیے جانے کا غالب گمان نہ ہو اور برتن دُھلا ہوا بھی نہ ہو، اس بات کا گمان غالب ہو کہ اس کے لیے ناپاک پانی استعمال کیا گیا ہوگا، اس وقت تک اس کو ناپاک شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں اہلِ ذمّہ پر یہ شرط بھی عائد کی تھی کہ وہ ا ن کی طرف جانے والے مسلمان قافلوں کی ضیافت کریں (موطا امام  مالک)۔ظاہر ہے کہ اس ضیافت کے لیے انھی کے برتن استعمال کیے جاتے تھے۔البتہ، جس جگہ ناپاکی کا احتمال زیادہ ہو، جیسے یورپ وغیرہ میں، جہاں کہ سؤر کی چربی کا مختلف قسم کی غذائوں میں بہ کثرت استعمال ہوا کرتا ہے، وہاں احتیاطاًان کے برتنوں سے بچنا چاہیے۔ (مولانا خالد  سیف اللہ  رحمانی)

 

فجر کی قضا سنتیں، فرض نماز کے بعد

سوال: فجر کی سنتیں فرض نماز کے فوراً بعد پڑھنا صحیح ہے یا صحیح نہیں؟

جواب: شیخ الاسلام بُرہان الدین مرغینالیؒ ھدایہ میں لکھتے ہیں: ’’جب فجر کی سنتیں  فوت ہوجائیں تو سورج نکلنے سے پہلے ان کی قضا نہیں پڑھی جائے گی، اس لیے کہ سنت جب اپنے وقت سے رہ جائیں تو پھر وہ نفل بن جاتے ہیں اور نفل صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک مکروہ ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اور ابویوسفؒ کے نزدیک سورج کے بلند ہونے کے بعد ان کی قضا نہیں ہے مگر امام محمدؒ نے فرمایا ہے کہ مجھے تو یہ پسند ہے کہ سورج کے بلند ہونے کے بعد زوال تک ان کی قضا پڑھ لی جائے‘‘۔

امام محمد بن محمود بابرتیؒ (متوفی ۷۸۶ھ) عنایہ علی الھدایہ میں لکھتے ہیں:’’ بعض فقہا نے کہا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اور ابویوسفؒ کا مقصد یہ ہے کہ: قضا واجب نہیں ہے، لیکن اگر قضا پڑھ لی گئی تو کوئی باک بھی نہیں ہے اور امام محمدؒ کہتے ہیں کہ قضا پڑھنا مجھے زیادہ پسند ہے مگر نہ پڑھنے میں کوئی باک بھی نہیں ہے (یعنی قضا نہ پڑھنے میں ورنہ بغیر عذر کے وقت پر نہ پڑھنے میں تو گناہ ہے)۔ اس اعتبار سے ہمارے ائمہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن بعض علما نے کہا ہے کہ اختلاف تو ہے مگر صرف اتنا کہ اگر کسی نے قضا پڑھ لی تو ابوحنیفہؒ و ابویوسفؒ کے نزدیک یہ نفل شمار ہوں گے اور امام محمدؒ کے نزدیک یہ سنت کی قضا ہوگی۔(رد المحتار، ص ۶۷۲، ج۱، طبع قدیم)

یہی وضاحت ابن عابدین شامیؒ نے درمختار کے حاشیے رد المحتارمیں بھی کی ہے۔ امام محمد بابرتی اور شامی کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ فجر کی سنتیں فرض نماز کے متصل بعد قضا پڑھنا امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ تینوں کے نزدیک مکروہ ہے اور سورج نکلنے کے بعدزوال سے قبل ان کی قضا پڑھنا تینوں کے نزدیک جائز ہے ،مکروہ نہیں ۔ عبادات میں جائز اور غیرمکروہ کام مستحب ہوتا ہے، اس لیے کہ عبادت محضہ کا اجروثواب کے علاوہ اور کوئی مقصد ہوتا نہیں اور ثواب کے کاموں کا ادنیٰ درجہ مستحب ہوتا ہے۔ امام احمدؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک بھی: ’’فجر کی سنتوں کی قضا سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھنی بہتر ہے‘‘۔ البتہ امام احمدؒ کے نزدیک: ’’اگر فجر کی نماز کے بعد پڑھی لی جائیں تو کوئی باک بھی نہیں ہے‘‘۔(المغنی لابن قدامہ، ص ۸۹، ج۲)

ان ائمہ کی دلیل حضرت ابوہریرہؓ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے‘‘۔(سنن ترمذی)

امام شافعی کا قول جدید اور شافعیہ کا متداول مسلک یہ ہے کہ: ’’فجر کی سنتیں فرض کے متصل بعد بھی پڑھی جاسکتی ہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ نماز کے بعد پڑھ لی جائیں‘‘۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ: ’’نفل نماز نہیں ہے بلکہ سنتوں کی قضا ہے اور صبح کی نماز کے بعد قضا نماز پڑھنا جائز ہے‘‘۔  ان کی دوسری دلیل قیس بن قہدؓ کی یہ حدیث ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور اقامت ہوئی تو میں نے (سنتیں چھوڑ کر) آپؐ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ سلام کے بعد جب آپؐ نے نمازیوں کی طرف رُخ کیا اور مجھے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: ’’رُک جائو اے قیس! کیا دونمازیں اکٹھی پڑھ رہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ: ’’میں نے سنتیں نہیں پڑھی تھیں‘‘۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’اذن شافعیہ‘ ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ جب سنتیں پڑھ رہے ہو تو کوئی باک نہیں ہے اور حنفیہ یہ معنی کرتے ہیں کہ جب سنت ہیں تو نہ پڑھو۔(سنن ترمذی)

اس لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے، یعنی اس سے اباحت اور کراہت دونوں ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن دوسری روایات سے اباحت اور جواز کے معنی کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔ یہ حدیث مسنداحمد، ابوداؤد ، ابن ماجہ اورابن خزیمہ میں بھی نقل ہوئی ہے اور آخر میں ’فسکت رسول اللہ‘ کا لفظ آیا ہے اور ابن حبان کی روایت میں ’فلم ینکر‘ کا لفظ آیا ہے۔ (مسنداحمد، ج۵،ص۴۴۷، ابوداؤد، ج۲، ص ۵۱، ابن ماجہ بتحقیق محمد عبدالفوائد، ص۳۶۵)

ظاہر ہے کہ فسکت اور فلم ینکر ،یعنی آپ خاموش رہے اور کوئی اعتراض نہ کیا کہ الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض کے بعد اور طلوعِ شمس سے پہلے بھی فجر کی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں اور جس حدیث میں سورج نکلنے کے بعد پڑھنے کا ذکر ہوا ہے، اس میں پہلے پڑھنے کی ممانعت نہیں کی گئی۔ باقی رہی وہ حدیث جس میں نمازِ فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور نمازِ عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، تو یہ ’نہی‘ [منع کرنا]عام نوافل کے بارے میں ہے، قضا نماز کے بارے میں نہیں ہے اور یہ تو فجر کی سنتوں کی قضا تھی۔

اگرچہ سنتوں کی قضا واجب نہیں ہے لیکن اس کی ممانعت بھی کسی حدیث میں نہیں آئی بلکہ ظہر کی دو رکعت سنتوں کی قضا نمازِ عصر کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے اور فجر کی سنتوں کی قضا سورج نکلنے کے بعد مذکورہ قولی حدیث سے اور نمازِ فجر کے بعد مذکورہ تقریری حدیث سے ثابت ہے۔ مذکورہ بحث کے نتیجے میں بہتر اور افضل تو یہ ہے کہ فجر کی سنتیں رہ جائیں تو سورج طلوع ہونے کے بعد اور زوال سے قبل ان کی قضا پڑھی جائے۔

جمہور فقہا کی راے بھی یہی ہے کہ نمازِ فجر کے فوراً بعد پڑھنا بھی جائز ہے، اس لیے کہ رسولؐ اللہ نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ اگرچہ حنفی فقہ کے ائمہ ثلاثہ، یعنی امام ابوحنیفہؒ،       امام ابویوسف اور امام محمدؒ کے نزدیک نمازِ فجر کے بعد اور طلوعِ شمس سے پہلے پڑھنا مکروہ ہے  لیکن اگر اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے تو اس کی دلیل کو مَیں سمجھ نہیں سکا ہوں۔ اگر مکردہ تنزیہی،یعنی غیراولیٰ مراد ہے تو پھر یہ صحیح ہے مگر فقہ حنفی کی کتابوں میں جب لفظ کردہ مطلقاً ذکر ہو تو اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتی ہے۔ (مولانا گوہر رحمان، تفہیم المسائل، چہارم، ص ۳۶۶-۳۷۰)


بغیرغسل کے میت کی تدفین

س :  ہمارے یہاں ایک صاحب شوگر کے مریض تھے، جس کی وجہ سے ان کا ایک پیر پوری طرح سڑگیا تھا اوراس میں کیڑے پڑگئے تھے ۔ ان کاانتقال ہوا تو ڈاکٹروں نے تاکید کی کہ نہلاتے وقت ان کا پیر نہ کھولا جائے اوراس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ کر غسل دیا جائے۔میت کوغسل دیتے وقت کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ: ’’پورے بدن پر پانی پہنچانا فرض ہے‘‘ ۔ لیکن گھر والوں نے ڈاکٹروں کی بات مانتے ہوئے پیر میں جہاں زخم تھا اس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ دی اوربدن کے بقیہ حصے پر پانی بہایا گیا، جس طرح غسل دیا جاتا ہے ۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میت کے کسی عضومیں زخم ہونے کی وجہ سے اگراس حصے پر پانی نہ بہایا جائے توغسل ہوجائے گا؟

 دوسرا یہ کہ ایک صاحب بُری طرح حادثے کا شکار ہوگئے۔ ان کا سر بالکل کچل گیا اوربدن کے دوسرے حصوں پر بھی شدید چوٹیں آئیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم ہوا ۔ اس کے بعد نعش کو ورثا کے حوالے کیا گیا۔ میت کوغسل دینے میں زحمت محسوس ہورہی تھی ۔  حادثے میں مرنے والے کوشہید مان کراسے بغیر غسل دیے نہیں دفن کیا جاسکتا؟

ج: اصطلاحِ شریعت میں شہیداس شخص کو کہا جاتا ہے جوراہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے مارا جائے۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔ غزو ۂ احد کے موقعے پر جو مسلمان شہید ہوگئے تھے اللہ کے رسولؐ نے ان کے بارے میں ہدایت دی تھی: ’’انھیں بغیر غسل دیے دفن کردو‘‘۔(بخاری)

احادیث میں کچھ دوسرے افراد کے لیے بھی شہید کا لفظ آیاہے ، مثلاً جوشخص پیٹ کے کسی مرض میں وفات پائے، جسے طاعون ہوجائے، یا جوڈوب کر مرے (بخاری:۶۵۳)۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے (بخاری:۲۴۸۰، مسلم: ۱۴۱)۔ ان افراد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ انھیں غسل دیا جائے گا۔

پھر اگر: ’’حادثے میں مرنے والے کسی شخص کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے، نعش مسخ ہوجائے اور کچھ اعضا ضائع ہوجائیں تواس صورت میں غسل کا کیا حکم ہے؟‘‘ احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ: ’’اگر بدن کے اکثر اعضا موجود ہیں توغسل دیا جائے گا، ورنہ نہیں‘‘ ۔ شوافع اورحنابلہ کے نزدیک: ’’جسم کا کچھ بھی حصہ موجود ہوتو اسے غسل دیا جائے گا‘‘۔ اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ: ’’جنگِ جمل کے موقعے پر ایک پرندہ کسی میت کا ایک ہاتھ اڑا لایا تھا اوراسے مکہ میں گرادیا تھا۔ تب اہلِ مکہ نے اسے غسل دیا تھا اوراس موقعے پر انھوں نے نماز جنازہ بھی ادا کی تھی ‘‘۔

بسا اوقات میت کا کوئی عضو سڑجاتا ہے، اسے دھونے سے انفیکشن [سرایتِ مرض] کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگرکسی ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ اس عضو کونہ دھویا جائے تواس پر عمل کرنا چاہیے اور اس عضو کو چھوڑ کر بدن کے بقیہ حصوں پر پانی بہادینا چاہیے ۔ اس طرح غسل ہوجائے گا۔ (مولانا   محمد  رضی الاسلام    ندوی)

ناقابلِ توجیہہ حوادثِ حیات

سوال : انسانی زندگی میں بہت سے واقعات و حوادث ایسے رُونما ہوتے رہتے ہیں کہ  جن میں تخریب و فساد کا پہلو تعمیر واصلاح کے پہلو پر غالب نظر آتا ہے۔ بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی حکمت و مصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر زندگی کا یہ تصور ہو کہ یہ خود بخود کہیں سے وجود میں آگئی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکیم، خبیر اور رحیم طاقت کارفرما نہیں ہے، تب تو زندگی کی ہرپریشانی اور اُلجھن اپنی جگہ صحیح ہے کیوں کہ اس کو پیدا کرنے میں کسی عقلی وجود کو دخل نہیں ہے۔ لیکن مذہب اور خدا کے بنیادی تصورات اور ان واقعات میں کوئی مطابقت نہیں معلوم ہوتی۔

اگر یہ کہا جائے کہ ان مسائل کے حل کرنے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں، تو یہ چیز بھی عجیب ہے کہ ذہنِ انسانی کو ان سوالات کی پیدایش کے قابل تر بنا دیا جائے لیکن ان کا جواب دینے یا سمجھنے کے قابل نہ بنایا جائے، اور سب ضروریات کا خیال رکھا جائے مگر ان ذہنی ضروریات کو نظرانداز کردیا جائے۔ اس طرح تو خالق کی پالیسی میں بظاہر جھول معلوم ہوتا ہے۔(نعوذباللہ)

جواب: آپ جن اُلجھنوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے متعلق میرا اندازہ یہ ہے کہ مَیں ان کو سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ کی فکر کا نقطۂ آغاز صحیح نہیں ہے۔ آپ جن سوالات سے غوروفکر کا آغاز کرتے ہیں وہ بہرحال کُلّی سوالات نہیں ہیں بلکہ کُل کے بعض پہلوئوں سے متعلق ہیں اور بعض سے کُل کے متعلق کوئی صحیح راے قائم نہیں کی جاسکتی۔ آپ پہلے کُل کے متعلق سوچیے کہ آیا یہ بغیر کسی خالق اور ناظم اور مدبر کے موجود ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اگر خلقِ بے خالق اور نظمِ بے ناظم کے وجود پر آپ کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے تو باقی سب سوالات غیرضروری ہیں، کیوں کہ جس طرح سب کچھ الل ٹپ بن گیا اسی طرح سب کچھ الل ٹپ چل بھی رہا ہے۔ اس میں کسی حکمت، مصلحت اور رحمت و ربوبیت کا کیا سوال؟

لیکن اگر اس چیز پر آپ کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو پھر کُل کے جتنے پہلو بھی آپ کے سامنے ہیں ان سب پر بحیثیت مجموعی غور کر کے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان اشیا کی پیدایش، ان کا وجود، ان کے حالات اور ان کے اوصاف میں ان کے خالق و مدبر کی کن صفات کے آثار و شواہد نظر آتے ہیں۔ کیا وہ بے مصلحت اور بے مقصد اندھادھند کام کرنے والا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے رحم اور ظالم اور تخریب پسند ہوسکتا ہے؟ اس کے کام اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ بنانے والا ہے یا اس بات کی کہ وہ بگاڑنے والا ہے؟ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں صلاح اور خیر اور تعمیر کا پہلو غالب ہے یا فساد اور شر اور خرابی کا پہلو؟ ان اُمور پر کسی سے پوچھنے کے بجاے آپ خود ہی غور کیجیے اور خود راے قائم کیجیے۔ اگر بحیثیت مجموعی اپنے مشاہدے میں آنے والے آثار واَحوال کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرلیں کہ وہ حکیم و خبیر ہے، مصلحت کے لیے کام کرنے والا ہے، اور اس کے کام میں اصل تعمیر ہے نہ کہ تخریب، تو آپ کو اس بات کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ اس نظام میں جن جزوی آثار و اَحوال کو دیکھ کر آپ پریشان ہور ہے ہیں وہ یہاں کیوں پائے جاتے ہیں۔ ساری کائنات کو جو حکمت چلارہی ہے اس کے کام میں اگر کہیں تخریب کے پہلو پائے جاتے ہیں تو لامحالہ وہ ناگزیر ہی ہونے چاہییں۔ ہرتخریب تعمیر ہی کے لیے مطلوب ہونی چاہیے۔ یہ جزوی فساد کُلّی صلاح ہی کے لیے مطلوب ہونا چاہیے۔

رہی یہ بات کہ ہم اس کی ساری مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے تو بہرحال یہ واقعہ ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے۔ یہ بات نہ میرے بس میں ہے اور نہ آپ کے بس میں کہ اس امرواقعی کو بدل ڈالیں۔ اب کیا محض اس لیے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے، یا نہیں سمجھ سکتے، ہم پر یہ جھنجھلاہٹ طاری ہوجانی چاہیے کہ ہم حکیم و خبیر کے وجود ہی کا انکار کردیں؟ آپ کا یہ استدلال کہ ’’یا تو ہر جزی حادثے کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے، یا پھر اس کے متعلق کوئی سوال ہمارے ذہن میںپیدا ہی نہ ہو، ورنہ ہم ضرور اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیں گے کیوں کہ اس نے ہمیں سوال کرنے کے قابل تو بناد یا لیکن جواب معلوم کرنے کے ذرائع عطا نہیں کیے‘‘، میرے نزدیک استدلال کی بہ نسبت جھنجھلاہٹ کی شان زیادہ رکھتا ہے۔ گویا آپ خالق کو اس بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کو اپنے ہرسوال کا جواب پالینے کے قابل کیوں نہ بنایا اور وہ سزا یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کا الزام دے دیں گے کہ تیری پالیسی میں جھول ہے۔اچھا، یہ سزا آپ اس کو دے دیں۔ اب مجھے بتایئے کہ اس سے آپ کو کس نوعیت کا اطمینان حاصل ہوا؟ کس مسئلے کو آپ نے حل کرلیا؟ اس جھنجھلاہٹ کو اگر آپ چھوڑ دیں تو بآسانی اپنے استدلال کی کمزوری محسوس کرلیںگے۔

حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت ہے، جواب دینے یا جواب پانے کے لیے وہ قابلیت کافی نہیں ہوتی۔ خالق نے سوچنے کی صلاحیت تو آپ کو اس لیے دی ہے کہ اس نے آپ کو انسان بنایا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو مقام آپ کو دیا گیا ہے اس کے لیے یہ صلاحیت آپ کو عطا کرنا ضروری تھا، مگر اس صلاحیت کی بناپر جتنے سوالات کرنے کی قدرت آپ کو حاصل ہے ان سب کا جواب پانے کی قدرت عطا کرنا اس خدمت کے لیے ضروری نہیں ہے، جو مقام انسانیت پر رہتے ہوئے آپ کو انجام دینی ہے۔ آپ اس مقام پر بیٹھے بیٹھے ہرسوا ل کرسکتے ہیں لیکن بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب آپ اس وقت تک نہیں پاسکتے  جب تک کہ مقامِ انسانیت سے اُٹھ کر مقامِ اُلوہیت پر نہ پہنچ جائیں ، اور یہ مقام بہرحال آپ کو نہیں مل سکتا۔ سوال کرنے کی صلاحیت آپ سے سلب نہیں ہوگی، کیوں کہ آپ انسان بنائے گئے ہیں، پتھر یا درخت یا حیوان نہیں بنائے گئے ہیں۔ مگر ہرسوال کا جواب پانے کے ذرائع آپ کو نہیں ملیں گے، کیوں کہ آپ انسان ہیں، خدا نہیں ہیں۔ اسے اگر آپ خالق کی پالیسی میں ’جھول‘ قرار دینا چاہیں تو دے لیجیے۔(سیّد مودودیؒ، رسائل و مسائل، چہارم، ص ۲۲-۲۵)


بیوی اور والدین کے حقوق

س : میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے، وہاں بحیثیت بیوی کے بعض اُمور میں اس کو حقیر بھی کردیا ہے، مثلاً اس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کردیا ہے، حالاںکہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ و اختیار میں رکھا گیا ہے وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ و اختیار میں کر دیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کرسکتا ہے ۔ ان اُمور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہیں۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں۔

ج:آپ نے دو وجوہ کی بنا پر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ عورت کی پوزیشن خانگی زندگی میں فروتر رکھی گئی ہے۔ ایک یہ کہ مرد کو چار چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔ دوسرے یہ کہ شوہر کو والدین کا تابع رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے بسااوقات وہ اپنی بیوی کے جذبات اور اس کی خواہشات کو والدین کی رضا پرقربان کردیتا ہے۔

ان وجوہ میں سے پہلی وجہ پر اگر آپ غور کریں تو یہ بات بہت آسانی کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ عورت کے لیے تین تین سوکنوں کا برداشت کرنا جتنا تکلیف دہ ہے، اس سے بدرجہا زیادہ تکلیف دہ چیز اس کے لیے یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے شوہر کی کئی کئی محبوبائیں اور داشتائیں ہوں۔ اسلام نے اس کو روکنے کے لیے مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے۔ ایک مرد ناجائز تعلقات میں جتنا بے باک ہوسکتا ہے، شادیاں رچانے میں اتنا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ شادی کی صورت میں مرد کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا ہے اور طرح طرح کی پیچیدگیوں سے اُسے سابقہ پیش آتا ہے۔ یہ دراصل عورتوں ہی کے فائدے کے لیے ایک روک تھام ہے، نہ کہ مردوں کے لیے بے جا رعایت۔

دوسرے طریقے کا تجربہ آج کل کی سوسائٹی کررہی ہے۔ وہاں ایک طرف تو جائز سوکنوں کا سدباب کردیا گیا ہے لیکن دوسری طرف ناجائز سوکنوں سے عورتوں کو بچانے کا کوئی انتظام اس کے سوا نہیں کیا گیا کہ وہ انھیں برداشت نہ کرسکے تو شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے لیے عدالت میں نالش کردے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس سے عورت کی مصیبت کچھ کم ہوگئی ہے؟ چھڑی چھٹانک عورت تو شاید سوکن سے بچنے کے لیے طلاق کو آسان نسخہ سمجھ لے، مگر کیا بچوں والی عورت کے لیے بھی یہ نسخہ آسان ہے؟

دوسری جس شکایت کا اظہار آپ نے کیا ہے اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ غالباً آپ ابھی تک صاحب ِ اولاد نہیں ہیں، یا اگر ہیں تو آپ کے کسی لڑکے کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔ آپ اس خاص معاملے کو ابھی تک صرف بہو کے نقطۂ نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ جب آپ اپنے گھر میں خود بہو لے آئیں گی اور اس معاملے پر ماں کی حیثیت سے غور کریں گی تو یہ مسئلہ اچھی طرح آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ بیوی کے حقوق کتنے ہونے چاہییں اور ماں باپ کے کتنے، بلکہ اُس وقت شاید آپ خود اُنھی حقوق کی طالب ہوں گی جن پر آپ کو اعتراض ہے۔(سیّد مودودیؒ، رسائل و مسائل، چہارم، ص ۳۵-۳۷)


بغیرغسل کے میت کی تدفین

س : ۱-ہمارے یہاں ایک صاحب شوگر کے مریض تھے، جس کی وجہ سے ان کا ایک پیر پوری طرح سڑگیا تھا اوراس میں کیڑے پڑگئے تھے ۔ ان کاانتقال ہوا تو ڈاکٹروں نے تاکید کی کہ نہلاتے وقت ان کا پیر نہ کھولا جائے اوراس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ کر غسل دیا جائے۔جب میت کوغسل دیا جانے لگا تولوگوں میں اختلاف ہوگیا ۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پورے بدن پر پانی پہنچانا فرض ہے ۔ میت پر پانی ڈالنے سے کچھ نقصان ہوگا ۔ لیکن گھر والوں نے ڈاکٹروں کی بات مانتے ہوئے پیر میں جہاں زخم تھا اس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ دی اوربدن کے بقیہ حصے پر پانی بہایا گیا جس طرح غسل دیا جاتا ہے ۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میت کے کسی عضومیں زخم ہونے کی وجہ سے اگراس حصے پر پانی نہ بہایا جائے توغسل ہوجائے گا؟

۲- ایک صاحب کا بری طرح ایکسیڈنٹ ہوگیا ۔ ان کا سر بالکل کچل گیا اوربدن کے دوسرے حصوں پر بھی شدید چوٹیں آئیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم ہوا ۔ اس کے بعد نعش کو ورثا کے حوالے کیا گیا۔ میت کوغسل دینے میں زحمت محسوس ہورہی تھی ۔ کیا بغیر غسل دیے تجہیز وتدفین کی جاسکتی ہے؟ سنا ہے کہ شہدا کوبغیر غسل دیے دفنایا جاسکتا تھا۔ کیا ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کوشہید مان کراسے بغیر غسل دیے نہیں دفن کیا جاسکتا؟

ج: ۱- اصطلاحِ شریعت میں شہیداس شخص کو کہا جاتا ہے جوراہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے مارا جائے۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔ غزو ۂ احد کے موقعے پر جو مسلمان شہید ہوگئے تھے اللہ کے رسولؐ نے ان کے بارے میں ہدایت دی تھی:اُدْفُنُوْہُمْ فِیْ دِمَائِہِمْ ’’انھیں بغیر غسل دیے دفن کردو‘‘۔(بخاری)

احادیث میں کچھ دوسرے افراد کے لیے بھی شہید کا لفظ آیاہے ، مثلاً جوشخص پیٹ کے کسی مرض میں وفات پائے، جسے طاعون ہوجائے، یا جوڈوب کر مرے۔ (بخاری:۶۵۳) ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے (بخاری:۲۴۸۰، مسلم:۱۴۱)۔ ان افراد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ انھیں غسل دیا جائے گا۔

ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کسی شخص کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے، نعش مسخ ہوجائے اور کچھ اعضا ضائع ہوجائیں تواس صورت میں غسل کا کیا حکم ہے؟ احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ اگر بدن کے اکثر اعضا موجود ہیں توغسل دیا جائے گا، ورنہ نہیں ۔ شوافع اورحنابلہ کے نزدیک جسم کا کچھ بھی حصہ موجود ہوتو اسے غسل دیا جائے گا ۔ اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جنگِ جمل کے موقعے پر ایک پرندہ کسی میت کا ایک ہاتھ اڑا لایا تھا اوراسے مکہ میں گرادیا تھا۔ تب اہلِ مکہ نے اسے غسل دیا تھا اوراس موقعے پر انھوں نے نماز جنازہ بھی ادا کی تھی ۔

بسا اوقات میت کا کوئی عضو سڑجاتا ہے، اسے دھونے سے انفیکشن پھیل جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگرکسی ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ اس عضو کونہ دھویا جائے تواس پر عمل کرنا چاہیے اور اس عضو کو چھوڑ کر بدن کے بقیہ حصوں پر پانی بہادینا چاہیے ۔ اس طرح غسل ہوجائے گا ۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت،۱۳؍۶۲-۶۴۔ (تغسیل المیت) ۲۶؍۲۷۷ (شہید)۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)